• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

اشتہارات و اعلانات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اشتہارات و اعلانات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ایک تازہ پیشگوئی
۲۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء روز یکشنبہ
الہام الٰہی ۔ ’’ دشمن کا یہی وار نکلا۔
وَتِلْکَ اْلاَیَّامُ نُدَ اوِلُھَابَیْنَ النَّاسِ
یعنی کوئی ایسا امر رنج دہ خدا کی طرف سے ہماری نسبت یا ہماری جماعت کے کسی فرد کی نسبت صادر ہو گا ۔ جس سے دشمن خوش ہو جائے گا اور وہ امر رنج دہ خدا کی طرف سے ہو گا۔ یادشمن کا اس میں کچھ دخل ہو گا اور پھر خدافرماتا ہے کہ یہ دن خوشی اور غم یا فتح اور شکست کی ہم نوبت بہ نوبت لوگوں میں پھیرا کرتے ہیں بعض وقت خوشی اور فتح خداکی جماعت کو ملتی ہے اور دشمن ذلیل اور شرمسار ہو جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بدر کی لڑائی میں ہواکہ کفار کو سخت شکست آئی اور نامی افسر اور سرگردہ ان کی فوج کے اسی لڑائی میں مارے گئے جیسا کہ ابو جہل۔ یہ خوشی تو مومنوں کو پہنچی ۔ پھر دوسری مرتبہ کفار کی خوشی کی نوبت آئی اور احد کی لڑائی میں درد ناک شہادتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیب ہوئیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور ایک تہلکہ برپا ہوا اس وقت بعض ان لوگوں کے دلوں میں جو عادت اللہ سے ناواقف تھے۔ یہ خیال بھی آیا کہ جس حالت میں ہم حق پر ہیں اور ہمارے مخالف باطل پر ہیں تو یہ مصیبت ہم پر کیوںآئی٭۔ تب ان کا جواب اللہ تعالیٰ نے وہ دیا۔ جو قرآن شریف میںمذکور ہے اور وہ یہ ہے اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَ تِلْکَ الاَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۱؎ یعنی اگر تم کو احد کی لڑائی میں دکھ اور تکلیف پہنچی ہے تو بدر کی لڑائی میں بھی تو تمہارے مخالفوںکو ایسی ہی تکلیف پہنچی تھی اور ایسا ہی دکھ اور نقصان پڑا تھا۔ یہاں تک کہ جس کو امیر فوج بنا کر لائے تھے یعنی ابو جہل وہ بھی کہیت رہا اور بڑے بڑے کافرمارے گئے پھر اگر اس کے مقابل امیرحمزہ شہید ہو ئے اور دوسرے بزرگ صحابہ نے شربت شہادت پیا تو اس قدر بالمقابل صدمہ دیکھنا ضروری تھا کیونکہ خداتعالیٰ کا یہی قانون قدرت ہے کہ کبھی کافر فنا کئے جاتے ہیں اور کبھی مومن تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اس دن سے جو خدا نے دنیا پیدا کی یہ قانون چلا آیا ہے کہ کبھی کوئی ایسی تائید اور نصرت ظاہر ہوتی ہے۔ جس سے مومن خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی کوئی ایسا ابتلاء مومنوں کے لئے پیش آ جاتا ہے جو کافر مارے خوشی کے اچھلتے پھرتے پس اللہ تعالیٰ اس اپنی وحی مقد س میں بھی جو آج اس عاجز پر نازل ہوئی فرماتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ کچھ عرصہ سے متواتر خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید رحمت کے نشانوں کے رنگ میںاس عاجز کی نسبت ظاہر ہو رہی ہے۔ جس سے مخالف لوگ ایک مسلسل غم دیکھ رہے ہیں اب ضروری ہے کہ بموجب قانون وَتِلْکَ اْلَایَّامَ نُدَ اوِلُھَابَیْنَ النَّاسِ ان کوبھی کچھ خوشی پہنچائی جاوے۔ سو اس الہام کی بناء پر کوئی امر ہمارے لئے ناگوار اور ان کے لئے موجب خوشی کا ظاہر ہو جائے گا۔ اور جو نشان اس تھوڑے عرصہ
٭ نوٹ۔ اسی کے ہم رنگ واقعہ عبداللہ آتھم اور لیکھرام تھا عبداللہ آتھم عین شرطی پیشگوئی کے موافق مرا مگر ناسمجھی سے مخالفوں نے اس بات پر بہت خوشی ظاہر کی کہ وہ میعاد اندر کے نہیں مرا پس یہ معاملہ ایسا تھا جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑکی نسبت ’’شبہ لہم ‘‘ کا معاملہ تھا خدا کو منظور تھا کہ بموجب اپنی قانون قدرت وَتِلْکَ اْلاَ یَّامَ نُدَ اوِلُھَابَیْنَ النَّاسِ مخالفوں کو خوشی پہنچائی کیونکہ پہلے نشانوں نے ان کو بہت غمگین کر دیا تھا اوریہ خوشی بھی قائم نہ رہی کیونکہ لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی جو منہ بند ہو گئے۔منہ
۱؎ اٰلِ عمران:۱۴۱
میں ہماری تائید میں ظاہر ہوئے جو ہماری خوشی کا موجب اور مخالفوں کے رنج کا موجب تھے وہ بہ تفصیل ذیل ہیں اول سب سے پہلے مسمی کرم دین ساکن بھین ضلع جہلم کے مقدمات میں دو رحمت کے نشان خداتعالیٰ کے ظاہر ہوئے پہلے وہ مقدمہ ہے جو کرم دین مذکور نے جہلم کی عدالت میںبصیغہ فوجداری مجھ پر دائر کیا تھا اس میںخداتعالیٰ نے قبل فیصلہ اس مقدمہ کے مجھے خبر دی کہ کرم دین مذکور ناکام رہے گا اور شکت کھائے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔ چنانچہ ابھی مقدمہ زیر تجویز ہی تھا کہ میں نے اپنی کتاب مواہب الرحمان میں اس پیشگوئی کو چھاپ کر شائع کر دیا اور جب میری طلبی جہلم کی عدالت میں ہوئی تو میں کئی نسخے اس کتاب کے ساتھ لے گیا اور قبل فیصلہ مقدمہ لوگوںمیںتقسیم کر دئیے اور قادیان میںبھی جہلم کے جانے سے پہلے کئی نسخے اس کتاب کے تقسیم کئے اور ایک نسخہ حسب دستور گورنمٹ میںبھی بھیج دیا۔ اور آخر پیشگوئی کے مطابق کرم دین کے مقدمہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت جہلم نے خارج کر دیا۔ یہ پہلا ۱ نشان ہے جو ظاہر ہوا۔ پھر ایک اور مقدمہ کرم دین مذکور نے فوجداری میں میرے پر گورداسپور کی عدالت میںدائر کیا اور اس پر بھی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کی طرف سے ایک فوجداری مقدمہ دائر ہو گیا۔ اب مقدمات کے فیصلہ سے پہلے خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ انجام کار میں کرم دین کے مقدمہ سے بری کیا جائوں گا مگر وہ سزا پا جائے گا چنانچہ وہ پیشگوئی میں نے قبل فیصلہ مقدمہ کے اخبار الحکم اور البدر میں شائع کر ا دی اور ایسا ہی ظہور میں آیا کہ کرم دین سزا پا گیا اور میں انجام کار بری کیا گیا ۔ اور یہ دو ۲ نشان تھے ۔ جو ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوئے۔ اور پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ ایک زلزلہ کا دھکا ظاہر ہو گا جس سے جانوں اور عمارتوں کو نقصان ہو گا یہ خبر بھی میںنے قبل از وقت الحکم اور بدر کے ذریعہ سے شائع کر دی۔ چنانچہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو وہ زلزلہ آیا۔ جس کی نقصان رسانی کی تفصیل بیان کرنے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ چوتھا۴ نشان تھا۔ جو ظاہر ہوا پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ موسم بہار میں ایک اور غیر معمولی زلزلہ آئے گا اور ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا۔ چنانچہ ۲۷؍ فروری ۱۹۰۶ء کا دن گزرنے کے بعد رات کو بوقت ڈیڑھ بجے وہ زلزلہ آیا۔ جس سے بہت سے گھر مسمار ہوئے اور بہت سی جانیںضائع ہوئیں۔ اور یہ پانچواں۵ نشان تھا جو خدا نے میری تائید میں ظاہر کیا پھر ایسا اتفاق ہو گیا کہ ایک شخص چراغ دین نام جموں کا رہنے والا جو ابتداء میں میرا مرید تھا مرتد ہو گیا اور پادریوںکے ساتھ ایک خطرناک اختلاط اس کا ہو گیا اور اس نے پیغمبری کا دعوے بھی کیا ۔ تب میں نے اس کی نسبت بددعا کی اور مجھے خداتعالیٰ سے الہام ہوا کہ خدا اسے فنا کر دے گا اور اس کو غارت کردے گا اور اس پر غضب نازل کرے گا اور اشارہ کیا گیا کہ وہ طاعون سے مرے گا۔ اسی لئے میںنے طاعون کے رسالہ میں ہی (جو طاعون کے بارے میں لکھا تھا) جس کا نام دافع البلاء و معیار اھل الاصطفا ہے۔ یہ پیشگوئی درج کی چنانچہ وہ اپنی کتاب منارۃ المسیح کے ایک برس بعد (جس میں مجھے اس نے دجال قرار دیا ہے) اس قہر میں گرفتار ہوا۔ کہ اول دو لڑکے اور ایک لڑکی اس کی طاعون سے مری اور پھر چار۴ ا پریل ۱۹۰۶ء کو خود طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہان سے گزر گیا۔ اور یہ چھٹا۶ نشان تھا۔ جو خدا نے میری تائید میں ظاہرکیا اور اس کے ساتھ ہی ایک اورنشان ظہور میں آیا کہ اس نے اپنی طرف سے صریح لفظوں میں مباہلہ کیا اور اپنا ذکرکرکے اور میرا نام لے کر خدا سے یہ دعا کی کہ ہم دونوں میںسے جو مفتری اور حق کا دشمن ہے۔ خدا اس کو فنا کر دے اور حق اورباطل میںفیصلہ کر دے اس کی اس دعا پر صرف دو تین روز اس پر گزرے تھے کہ وہ خدا کے مؤاخذہ کے نیچے آ گیا۔ اور ایک درد ناک عذاب کے ساتھ مرا کیونکہ اس سے زیادہ درد ناک کونسا حادثہ ہو گا؟ کہ پہلے اس نے اپنے عزیز دو بیٹے اور ایک بیٹی اپنی آنکھ کے سامنے مرتی دیکھی اور اس پر مصیبت حادثہ کو مشاہدہ کر لیا کہ اب اس کی قطع نسل ہو گئی اور کوئی اس کی نسل میںسے باقی نہیںرہا اور پھر بعد اس کے ایسی طاعون سے بصد حسرت آپ موت کا پیالہ پیا اور ایمانی حالت کا یہ نمونہ دکھا یا کہ دونوں لڑکوں کے مرنے کے بعد اس کلمات یہ تھے کہ اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا۔ ساتواں ۷ نشا ن تھا جو ظہور میںآیا۔ پھر بعد اس کے ایک اور نشان ظاہر ہوا کہ ایک شخص ڈوئی نام کا صیہون نام ایک شہر میں رہتا تھا اور پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور الہام کا بھی مدعی تھا۔ میں نے اس کو مباہلہ کے لئے بلایا۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا اور بہت تکبردکھلایااور میںنے اس کی نسبت انگریزی رسالہ میں شائع کیا کہ وہ سخت عذاب میں مبتلا ہو گا۔ چنانچہ امریکہ کے اخباروں میںبھی یہ مضمون شائع ہو گیا۔ اب وہ کچھ عرصہ سے فالج کے مہلک مرض میں گرفتار ہو گیا اور ساری پیغمبری اس کی دریا برد ہو گئی اور چراغ دین کی طرح اس نے بھی ثابت کر دیا کہ جھوٹا پیغمبر کس طرح جلد پکڑا جاتا ہے۔ اور اب امریکہ سے خبر آئی ہے کہ وہ قریب المرگ ہے۔ یہ آٹھواں۸ نشان ہے کہ جو خداتعالیٰ نے میری تائید میں ظاہر کیا ایسا ہی خدا نے مجھے اپنی پاک وحی سے خبر دے کر فرمایا تھا۔ اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویراںکر دی جس میںیہ اطلاع دی گئی تھی کہ بہت سے دشمن مریں گے اور ان کا گھر ویران ہو جائے گا۔ چنانچہ مجھ کو سیالکوٹ وغیرہ کتنے مقامات سے خط آئے ہیں کہ اس سال میں کئی سخت طبع اور ناپاک دل دشمن جو سخت متعصب تھے معہ عیال و اطفال اس جہان سے گزر گئے جن کی تفصیل کسی مستقل رسالہ میں انشاء اللہ درج کی جائے گی۔ یہ نواں۹ نشان ہے جو خداتعالیٰ نے اس سال میں میری تائید میں ظاہر فرمایا۔ پھر میں نے اپنے متواتر اشتہارات میں بار بار شائع کیا تھا کہ دنیا میںسخت سخت زلزلے آئیں گے اور بعض ان میںسے قیامت کا نمونہ ہوں گے اور بہت موت ہو گی۔ چنانچہ ایسے زلزلے فارمو ساچین اور سان فرانسسکو ملک امریکہ اور اٹلی میں آ گئے اور وہ درحقیقت ایسے خوفناک ہیںکہ جو شخص پہلے میرے اشتہارات کو پڑھے گا اور پھر ان زلزلوں اورعام تباہی کا نظارہ اس کی نظر کے سامنے آجائے گا۔ اس کو بہر حال اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ وہی پیشگوئیاں ہیں کہ جو پہلے میری طرف سے ہو چکی ہیں۔ یہ تین۳ نشان ہیں۔ جن کے ملانے سے باراں۲۱ نشان ہوتے ہیں جو ان دنوں میں ظہور میںآئے اورپانچ اور زلزلوں کا وعدہ ہے۔ جن کی انتظار کرنی چاہئے۔
بعض نادان کہتے ہیںکہ اگر یہ زلزلے امریکہ وغیرہ کے اس شخص یعنی اس عاجز کی تائید اور تصدیق کے لئے آئے ہیں تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ ان ملکوں کے لوگ تو اس کے نام سے بھی بے خبر ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جھوٹ ہے کہ وہ لوگ میرے نام سے بے خبر ہیں۔ امریکہ کے مشہور اور نامی اخباروںمیں کئی دفعہ میرا اور میرے دعوے کاذکر آ چکا ہے۔ بلکہ انہیں اخبار والوں نے لکھا تھا کہ پنجاب سے فلاں شخص ڈوئی کو جو پیغمبری کا دعوے کرتا ہے مباہلہ کے لئے بلاتا ہے اور ڈوئی اس سے بھاگتا ہے۔ اس صورت میںوہ بے خبر کیوں ہو سکتے ہیں۔ ماسوائے اس کے جبکہ تمام دنیا کے زلزلوںکی نسبت ان زلازل سے پہلے جو اب ظہورمیںآئے میری پیشگوئیاں شائع ہو چکی ہیں ۔ اور قبل واقع ہونے ان پیشگوئیوں کے انگریزی میں وہ رسالے میری جماعت کے لوگوں کو جو انگریز ہیں اور امریکہ کے بعض حصوں میں رہتے ہیں۔ پہنچ چکے ہیں۔ اور اس ملک میں عام طور پر بھی وہ رسالہ شائع ہو چکے ہیں تو اس صورت میں امریکہ کے لوگ ان پیشگوئیوں سے بے خبر کیونکر ہو سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے ان ممالک میںمحض قہری طور پر زلزلے آئے ہیں۔ اور چونکہ ان زلازل کی نسبت پیشگوئیاں پہلے ہو چکی ہیں۔ اس لئے وہ لوگ اس نشان سے انکار نہیںکر سکتے۔ ہاں جوموتیں ان میںو اقع ہوئی ہیں۔ وہ ان کے گناہوں اور فسق و فجور کی وجہ سے ہیں اور یہ زلزلے میری طرف سے ان کو رہنمائی کرتے ہیں۔ کیونکہ میں نے ہی قبل از وقت ان کو ان آفات کی خبر دی ہے۔ غرض ہلاک ہونے والے اپنے سابق گناہوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور جنہیں پیشگوئی کی خبر ملے گی۔ ان کے لئے وہ نشان ہوا۔ اگر وہ اس نشان کو ٹال دیں گے۔ تو پھر کوئی اورعذاب آئے گا۔
اب جبکہ یہ دس۱۰ نشان تازہ بتازہ ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہو چکے ہیں اور دشمنوں کو بہت کوفت اور ہم و غم پہنچا ہے۔ تو مذکورہ بالا الہام میںخداتعالیٰ پیشگوئی کے طور پر فرماتا ہے کہ ایک ناگوار امر ظاہر ہوگا۔ جو کسی قدر دشمنوں کو خوشی کا باعث ہو جائے گا۔ معلوم نہیںکہ وہ کیا امر ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ یہ ہماری عادت ہے۔ کہ کبھی ہم دشمن دین کو بھی خوش کر دیا کرتے ہیںجیسا کہ خادمان دین کو خوش کرتے ہیں۔ لیکن انجام پرہیز گاروں کے لئے ہوتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الہدی
المشتھر
خاکسار
مرزا غلام احمد ؐ مسیح موعود





بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
تمام جماعت احمدیہ کے لئے اعلان
چونکہ ڈاکٹر عبدالحکیم اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے جو پہلے اس سلسلہ میںداخل تھانہ صرف یہ کام کیا کہ ہماری تعلیم سے اور ان باتوں سے جو خدا نے ہم پر ظاہر کیں مونہہ پھیر لیا بلکہ اپنے خط میں وہ سختی اور گستاخی دکھلائی اور وہ گندے اور ناپاک الفاظ میری نسبت استعمال کئے کہ بجز ایک سخت دشمن اور سخت کینہ ور کے کسی کی زبان اور قلم سے نکل نہیںسکتے اور صرف اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بیجا تہمتیں لگائیں اور اپنے صریح لفظوں میں مجھ کو ایک حرام خوراور بندئہ نفس اور شکم پرور اور لوگوں کا مال فریب سے کھانے والا قرار دیا اور محض تکبر کی وجہ سے مجھے پیروں کے نیچے پامال کرنا چاہا اور بہت سی ایسی گالیاں دیںجو ایسے مخالف دیا کرتے ہیں جو پورے جوش عداوت سے ہر طرح سے دوسرے کی ذلت اور توہین چاہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ پیشگوئیاں جن پر ناز کیا جاتا ہے کچھ چیزنہیں مجھ کو ہزار ہا ایسے الہام اور خوابیںآتی ہیں جو پوری ہو جاتی ہیں۔ غرض اس شخص نے محض توہین اور تحقیر اور دل آزاری کے ارادہ سے جو کچھ اپنے خط میں لکھاہے اور جس طرح اپنی ناپاک بدگوئی کو انتہا تک پہنچادیا ہے ان تمام تہمتوں اور گالیوں اور عیب گیریوں کے لکھنے کے لئے اس اشتہار میں گنجائش نہیں علاوہ اس کے میری تحقیر کی غرض سے جھوٹ بھی پیٹ بھر کے بولا ہے مگر مجھے ایسے مفتری اور بد گو لوگوں کی کچھ پرواہ نہیں کیونکہ اگر جیسا کہ مجھے اس نے دغا باز حرام خورمکار فریبی اور جھوٹ بولنے والا قرار دیاہے اور طریق اسلام اور دیانت اورپیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر مجھے کرنا چاہا ہے اور میرے وجود کو محض فضول اور اسلام کے لئے مُضر ٹھہرایا ہے۔ بلکہ مجھے محض شکم پرور اور دشمن اسلام قرار دیا ہے۔ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو میں اس کیڑے سے بھی بدتر ہوں جو نجاست سے پیدا ہوتا اور نجاست میں ہی مرتا ہے لیکن اگر یہ باتیں خلاف واقعہ ہیں تو میں اُمید نہیں رکھتا کہ خدا ایسے شخص کو اس دنیا میں بغیر مواخذہ کے چھوڑے گا جو مرید ہو کر اور پھر مرتد ہو کر اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو ذلیل سے ذلیل زندگی بسر کرنے والے جیسے چوہڑے اور چمار جو شکم پرور کہلاتے ہیں اور ُمردار کھانے سے بھی عار نہیں رکھتے ان کی مانند مجھے بھی محض شکم پرست اور بندہ نفس اور حرام خور قرار دیتا ہے۔
اب میں ان باتوں کو زیادہ طول دینا نہیںچاہتا اور خدا کی شہادت کا منتظر ہوں اور اس کے ہاتھ کو دیکھ رہا ہوں اور اس اشارہ پر ختم کرتا ہوں اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثّیِْ وَحُزْنِٓیْ اِلیَ اللّٰہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تْعَلَمُوْنَ۔۱؎
اب چونکہ یہ شخص اس درجہ پر میرا دشمن معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عمرو بن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور جان کا دشمن تھا اس لئے میںاپنی تمام جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس سے بکلی قطع تعلق کر لیں اس کے ساتھ ہرگز واسطہ نہ رکھیں ورنہ ایسا شخص ہرگز میری جماعت میں سے نہیں ہو گا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ۔ ۲؎ آمین آمین آمین۔
المشتــــــــــــــــــــــھر
خاکسار
مرزا غلام احمدؐ مسیح موعود
از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
۱؎ یوسف: ۸۷
۲؎ الاعراف:۹۰


قابل توجہ گورنمنٹ از طرف مہتمم کاروبار تجویز تعطیل جمعہ
میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیر خواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں اور ایک چھپی ہوئی بغاوت کو اپنے دلوں میں رکھ کر اُسی اندرونی بیماری کی وجہ سے فرضیت جمعہ سے منکر ہو کر اس کی تعطیل سے گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لئے تجویز کیا گیا کہ تا اس میں اُن ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں کہ جو ایسے باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں اگرچہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں مسلمانوں میں ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے ہیں جو ایسے مفسدانہ عقیدہ کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھتے ہوں لیکن چونکہ اس امتحان کے وقت بڑی آسانی سے ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں جس کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے بر خلاف ہیں اس لئے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیر خواہی کی نیت سے اِس مبارک تقریب پر یہ چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدہ سے اپنی مفسدانہ حالت کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ جمعہ کی تعطیل کی تقریب پر اُن لوگوں کا شناخت کرنا ایسا آسان ہے کہ اس کی مانند ہمارے ہاتھ میں کوئی بھی ذریعہ نہیں وجہ یہ کہ جو ایک ایسا شخص ہو جو اپنی نادانی اور جہالت سے برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتا ہے وہ جمعہ کی فرضیت سے ضرور منکر ہو گا اور اسی علامت سے شناخت کیا جائے گا کہ وہ درحقیقت اس عقیدہ کا آدمی ہے لیکن ہم گورنمنٹ میں بادب اطلاع کرتے ہیں کہ ایسے نقشے ایک پولیٹیکل راز کی طرح اس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کرے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی اُن نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی اور بالفعل یہ نقشے جن میں ایسے لوگوں کے نام مندرج ہیں گورنمنٹ میں نہیں بھیجے جائیں گے صرف اطلاع دہی کے طور پر ان میں سے ایک سادہ نقشہ چھپا ہوا جس پر کوئی نام درج نہیں فقط یہی مضمون درج ہے ہمراہ درخواست بھیجا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے نام معہ پتہ و نشان یہ ہیں۔
نمبر شمار
نام معہ لقب و عہدہ
سکونت
ضلع
کیفیت



































نمبر شمار
نام معہ لقب وعہدہ
سکونت
ضلع
کیفیت













































نمبر شمار
نام معہ لقب و عہدہ
سکونت
ضلع
کیفیت



































ہدایت۔ اگر اس نقشہ کی دستخطوں سے خانہ پوری ہو چکے تو چاہئے کہ اسی طرح کے اور اسی نمونہ کے اور قلمی نقشے بنا کر اُن پر جہاں تک ممکن ہو دستخط کرائے جائیں مگر یہ یاد رہے کہ ہر ایک صاحب اپنا نام اور پتہ خوشخط لکھیں کہ تا پڑھنے میں دقت نہ ہو اور ہر ایک نقشہ کے آخر پر کل دستخوں کی میزان لکھ دیں۔
(مطبع ضیاء الاسلام قادیان)
اُن وفادار رعایا کے دستخط اور مواہیر جو حسب تفصیل عرضداشت منسلکہ نقشہ ہذا گورنمنٹ عالیہ انگریزی میں اس بات کے لئے ملتجی ہیں کہ آئندہ کل دفاتر و محکمہ جات اور سرکاری مدارس اور کالجوں کے لئے اتوار کی تعطیل کے ساتھ جمعہ کی تعطیل بھی دی جائے ۔
نمبر شمار
نام معہ لقب و عہدہ
سکونت
ضلع
کیفیت





































نمبر شمار
نام معہ لقب و عہدہ
سکونت
ضلع
کیفیت














































ضمیمہ اشتہار ہذا
مورخہ ۶ ؍ جنوری ۱۸۹۹ء
محمد حسین کی فہرست انگریزی مورخہ ۱۴؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء کا عنوان یہ ہے۔
The following is a list of articles in the Ishat us Sunnah wherein the illegality of rebellion against, or opposition to the government and the true nature of Iehad crescetads, is explained:-
Criticism of traditions regarding the Mehdi and agruments showing their incorrectness,
Questioning the authenticity of traditions describing the signs of the Mehdi.


حاشیہ نمبر ۱
چراغ دین کی نسبت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھ کو خدائے عزّوجل کی طرف سے یہ الہام ہوا نزل بہٖ جبیز۔ یعنی اس پر جبیز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یا رؤیا سمجھ لیا۔ جبیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے حلق میں سے اُتر سکے اور مرد بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرو مایگی اور بخل کا حصہ زیادہ ہو اور اس جگہ لفظ جبیز سے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاث الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اور بخل کے آثار موجود ہیں اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ یا تمنا اور آرزو کے وقت القاء شیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہو جاتا ہے اور چونکہ اُن کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الٰہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج توبہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلی ہے ورنہ جبیز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ منہ
حاشیہ نمبر ۲
رات کو عین خسوف قمر کے وقت میں چراغ دین کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا انّی اذیبط ۔ من یریبط۔ میں فنا کر دوں گا میں غارت کروں گا میں غضب نازل کروں گا اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعوے سے توبہ نہ کی۔ اور خدا کے انصار جو سالہا ئے دراز سے خدمت اور نصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں اُن سے عفو تقصیر نہ کرائی کیونکہ اُس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو اُن سب پر مقدم کر لیا حالانکہ خدا نے بار بار براہین احمدیہ میں اُن کی تعریف کی اور ان کو سابقین قرار دیا اور کہا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ ط۔ وَمَآ اَدّرَاکَ مَآ اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ ط۔
اور جبیز اس روٹی خشک کو کہتے ہیں کہ دانت اس کو توڑ نہ سکیں اور وہ دانت کو توڑے اور حلق سے مشکل سے اُترے اور امعا کو پھاڑے اور قولنج پیدا کرے پس اس لفظ سے بتلایا کہ چراغ دین کی یہ رسالت اور یہ الہام محض جبیز اور ا ُس کے لئے مُہلک ہیں۔ مگر دوسرے اصحاب جن کی توہین کرتا ہے اُن پر مائدہ نازل ہو رہا ہے اور ان کو خدا کی رحمت سے بڑا حصہ ہے۔
مائدہ چیزیست دیگر خشک ناں چیزے دگر
خوردنی ہرگز نباشد نان خشک اے بے ہنر
دوستاں را مائدہ بد ہند از مہر و کرم
پارہ ہائے خشک ناں بیگا نگار را نیزہم
نیزہم پیشِ سگُاں آں خشک ناں مے افگنند
مائدہ از لطف ہا پیش عزیزاں مے برند
ترک کن ایں خشک ناں راہوش کن فرزانہ باش
گر خرد مندی پئے آں مائدہ دیوانہ باش
مِنہ




بہ زبان پشتو
بسِمِ اللّٰہ الرحمٰن الرحیمط ۵
الطاعون
حمد خدایٔ لرا اَوسلام دِوِی دھغہ پہ برکزیدہ و بندکانو یہ رونروپہ ھوسیارانو خدایٔ دے پہ دوارہ جھان پہ تاسورحم وکاند پوہ شیٔ چہ طاعون ستاسوپہ سھرونوکسں دیری وا چولے اوستاسو جکرونہ یی توتی توتی کرل اوستاسو دیر دوستان پلاران زامن لونران خزی او ھمسایکان یی درنہ و ستول اوستاسودہ پارہ پہ دے کنبں دَ حکیم اودَ کریم خدایٔ دَ طرف نہ لویٔ ابتلا او امتحان دے او واوریٔ چہ ھرہ یوہ بلاچہ نازلیری دھغی #ž¢Ž سببونہ وی او دابتداد فطرت نہ سنت دَ خدایٔ ھم دغہ شان جاری دی
اوّل ۔ سبَب دادے چہ خلق دَ خدایٔ دَ خوشحالیٔ دلارونہ واوری اوعفّت او عبادت پریردی اودہ ھغہ حقونہ تلف کاندِاوپہ غرور اوتکبّرژ وندون تیروی اود آخرت فکر اودَ فسق او دَ فجور پرواہ او دَ خدایٔ دحدونو لحاظ نہ کوی اودھغہ حکمونہ دَ لپسودَ لاندی مری اودھغہ پہ مخامخ بدکاری او بیباکئی سرہ پہ جرمونو باندا صرارکوی اوھغہ لہ قھر ورولی
دویم سبب دادے چہ خلق دھغہ دَ الوا الامرو نافرمانی کوی چہ دَخدایٔ دَ مصلحت نہ ھغویٔ لہ ور کیری او ھغوی و رعیت دَغلی دَ انبار د پارہ پہ مثال دَ تاپی وی اوچہ رعایا مفسدہ او یاغی شی اوپسی دَ اطاعت دپری نہ اُو باسی او پہ معروفو خبرو اوپہ جائز و امرو نوکبنں دھغویٔ مددنۂ کوی اودھغوی پہ نسبت بدکمانی کوی او پہ جنکونوا پہ مقابلو د ھغویٔ پۂ معاملو کنبس خلل راولی اوپہ شان دَ وفادار انواو دَ سعادتمند ودھغویٔ ادب نۂ کوی او دھغویٔ حکمونہ نہ منی اوغواری پریکول دھغی خیزچہ خدایٔ سازکری دے اوغواری دفع کول دھغہ شی چہ خدایٔ پہ دیرلویٔ حکمت راودی دے
دریم سبب دادی چہ خلق دھغہ امام پہ قبلو لو œ'بخل و کاندِ چہ د صدیٔ پہ سرکس مبعوث شی اوسَرَہ دَ ‰ž¤‹ ونکو د لیلو نو را لیرž¤ شوی وی او دَ قصدَ دَ بخل او د کینی نہ دھغہ دَ نشانونو انکار وکاندِ او دَ ھغہ ایزا دھی او تحقیر او تکفیر وکری او‹غواری چہ ƒ¦ تُرواو پہ بَلو قتل دَھغہ امام وکری او دَ ظلم او د فریب مقدŸ¤ ترحاکما نوورسوی او اصلی خبرہ پتہ کری
‏#ž¢ŽŸ سبب دادی چہ خلق پہ مثال د Ÿ¤Žو او د چنجو د یوبل پہ خوراک راولکی او#§ درحم پہ ھغویٔ œ' پاتی نہ شی اور حم پہ مخلوق باندی کول او دَ لویٔ و رکی د حق رعایت کول پر¤Žدی یاد ولریٔ چہ د دے و رکونکی طاعون ھم د غہ #ž¢Ž سببونہ وی زہ د خدایٔ نہ دعا کوم چہ ھغہ مونر او زمونر خپلوان پہ خپل فضل او کرم د دے بلانہ وساتی اوحٔما ƒ¦ نز‹ ھم دغہ لویی ’‚‚¢ ¦ د¤ او نہ پوھیری پہ دے لیکن چہ ھو ’¤ران وی نو دَ خداے نہ ویرہ وکرئے اوکہ سلامتی غوار ے نود دے ’‚‚¢ ¢ ¦خوتاسو و رباندے خوŽ ونساتہ او مادرتہ لار'¤ž¤ وہ ولی تاسو ہدایت وانہ خست اوما و'¢ لیکن تاسوونہ لید ننحٔماƒ¦ زرہ کس راغلی دی چہ یوحٔل بیادرتہ وصیّت وکرم او دَ حٔا بریّت دَ پارہ حجّت پیداکرم واوریٔ اومخ مہ جارباسیٔ اتقا ونسئی او فسق او فجور پریردیٔ او ودریرئے دَ خدایٔ د پارہ او مہ œ¤' ¤ٔ اواطاعت وکری اوسرœ'¤او خدایٔ یادویٔ او غفلت پر¤Žدیٔ اوتول پہ اتفاق د خدایٔ پری و نسئی اوتفرقہ دَ منز نہ وباسئی اوتزکئی دَ نفسونو وکر ے نہ چہ ضد د دے او طہارت دَ باطن پیداکریٔ نۂ چہ پلیدی او عبادۃ دَخپل خدایٔ پہ اخلاص کویٔ اوشریک ورلہ مہ نسئی او صدقے ورکوئے او بخل پریردی کوشش وکری دَاسمان پہ طرف دَ ختلونہ چہ پہ زمکہ œ' د ننوتلو اوپہ خپلو ضعیفانو باندی Žحم کویٔ چہ پہ تاسو باند ی ھم رحم و کری شی او دَ خدای او دخپلو بادشاھا نوا اطاعت کویٔ او فساد مہ کویٔ او دَ حا کمانوپہ حکمونو اوفیصلو اوپر وانو وغیرہ œ' دَھغوی مخالفت مہ کویٔ او دھغوی دَ رضا نہ برخلاف یو قدم ھم مخکی و رستو مہ اکدی او ھر کلہ چہ ھغوی حکم وکری نو فورًا حاضر شئی او دھغی پہ بللو سستی مہ کویٔ او دَ ھغوی دَ قانون نہ خلاف ورزی مہ کویٔ او دھغوی بد مہ وایئی او ھرکلہ چہ یو خدمت درتہ وسپار لی شی نو دیر زرحکم منئی او دَھغی دَ تعمیل سعی کویٔ ان کہ دَ غرپہ سرختل راشی ہم او دَ جاھلا نوپہ شان عذرونہ مہ جو رویٔ او دَ ناکارہ سرو پہ شان انکار مہ کویٔ او'¦ پوی شئی چہ تولہ سلامتیا پہ قبلولو دَ حکمونو œ' دہ او تولہ ملامتیا پہ نافرمانی او پہ جکر و œ' او زہ دَہ خدایٔ شکر کوم چہ ھغہ مونرلہ زمانہ دَ سلطنت دَ برطانیی را کر ے دہ او دَ ھغی پہ ذریعیی دیر ے دیر ے مہربانیی او فضل یی پہ مونر کری دے مونرد دے سلطنت پہ راتلو دَ قسم قسم نعمتو نہ و موندلہ۔ زمونر قوم علم او تھذیب زدہ کرہ او دَ دنکرو دَ ژوند انہ نہ خلاصی دَ ھغوی نصیب شو۔ او دَ حیوانی جذبونہ و تل اوپہ انسانی کمالات باند رسیدل ھغوی لرا نصیب شو کویا مونر پہ طفیل دَ دی کورنمنت دَ امید او د فکرنہ تیر امن او امان و موند اوس مونر پہ زمکہ باندے د غوائو پہ شان نہ بلکہ دَ بار دارو او'¢ پہ شان پہ دیر وقار او ارام سفر کوو او دَ لوت مارو اودہ بد ذاتو د 'Ÿ  ¢ ہس و یرہ نہ وی او مونر دَ اشپی پہ اول او پہ اخر وقت یوازی بی دَ خوف نہ او دخطر نہ سفر کوو او دَ ریل کاری پہ و تو دَ او' ¢ او دَ قافلو او دَ اسونو ھس ضرورت پاتی نہ شہ اوس مناسب دی چہ خپل نیتونہ درست کر ے او دَ دی سلطنت پد حق œ'پہ صاف زرہ او پاک نیت حاضر شئی او پہ زمکہ باندِے دَ باغیانو پہ شان فساد کرونکی او دَ شریرانو پہ شان ز غلید و نکی مہ کرزی او '¦ پوی شئی چہ دی سلطنت دَ ظالمانو لاسونہ پہ تاسو باندے دَ ظلم کولونہ ترلی دی اوتاسو اودہ وی اودی پاسو لئی او پہ سفر او پہ حضر œ' ** ستاسو پورہ پورہ نکھبانی وکرہ لہ او ھر کلہ چہ تاسو چرتہ دَ کار روزکار دَ کولو اودَ معاش پہ تلاش œ' ووزی اوبیا وطن تہ واپس رازی پہ داورو صورتو نوœ' دَ کورنمنت دَ دی پہ تاسو محافظان مقرŽ دی اوھغی ستا سودَ عزت او دَ مال پورہ پورہ حفاظت او پہ صحت او پہ ناجور تیاœ' ستاسو پالنہ کری دہ اواَمَن یی درتہ ‚Š'ž¤دی چہ دَ ھغی نہ تاسو پہ دولت او پہ مال او پہ کثرت ترقی وکرلہ اودا سلطنت پہ ہر میدان œ'ستاسو دَ مدد دَ پارہ ودرید اوستاسو یارانو دوستانو او دَ کور ونو پہ نسبت پورہ سلوک یی وکرہ اوثابِتہ یی کرہ ستاسو پناہ او دَ امَن حٔائی ہم دَ غہ سلطنت دی اوس پہ تاسو باندی ددے سلطنت دَاحسان حق ثابت دے او ھغی تاسو دَ لو تمار راودَ غلونہ بچ کر ے اوستا سودَ مال اوَدَعیال پہ نسبت دَنکھبانئی حق یی ادا کر او مھربانی دَ ھغی ستاسو دَ عمر ونودَ زیاتی سبب شوہ او دَ ہغی نہ تاسود اسی عافیت بیاموند چہ تباہ کونکی او برباد کونکی نۂ دی اوتاسو تہ دَ حد درجی رفاھیت حاصل شہ اوھغی تاسو دَ غمونو او دَ دردونو دَ خوفناک حٔنکل نہ بچ کر لئی او دَ خپل فضل او دَ کرم پہ حمایت œ' یی واغستلئی اوس دا حال دی چہ ‹َ ‹'Ÿ  ¢‹َ ظلم کاری تاسو پوری رسید لی نہ شی نو مناسب دی چہ دَ کورنمنت دَ شکریہ ادا کو لوœ' چارا اولیونی نکری حٔکہ چہ دَ احسان بدل احسان دی او دَ شکر نہ غفلت کول کفران دی اوزہ پہ قسم سرہ دا خبرہ وایم چہ دا سلطنت ستاسو دَ پارہ دَامَن یو‹یر'¦ تعویذ دی او دَدی پہ موجودکئی œ' مونرلرا دَ خود پوش مددکار ضرورت نشتہ او پہ حقیقت œ' تولہ حمدونہ خدایٔ لرادی چہ ھغہ Ÿ¢ Žž¦ داسی قیصر راکری دی چہ ز مونر دَ حال پہ خبر کیری او پہ غور پرداخت œ' ہس قدر قصور او کوتاہی نہ کوی او کوشش کوی چہ موبز دَ پستئی نہ راوباسی ھغہ ز مونر دین مونرلہ بیاراکر پس لہ دی نہ چہ دَ مذہب جری دَ خپل حٔای نہ خوزیدلی وی اوھغہ قیصرہ دَ ھند او قیصر دَھغہ مدرکار کرلہ نودا دَ رحمان رحمت او دَ منّان منّت دی او کہ چری بندہ دَ نعمت پہ نزو ل دَ خدایٔ شکر وُنہ کاندی نو پہ ھغہ باندی بلا ناز لیری نوپہ دی œ' شک نشتہ چہ ھم دَ دغی کناہو نونہ طاعون ستاسو پہ 'Ž¤¢œ' دیری اچولی دی اوس دیر زر دَ اطاعت دَ پارہ قدمونہ پورتہ کری او حٔان دَ کناھونونہ بچ کری اوکہ تاسو حٔماخبرہ ومنلہ نوزہ امید کوم چہ دادرد و غم بہ تاسونہ لری شی اوارام او خوشحالی بہ ترقی و کاندی اوس و وایئی چہ ستاسو #¦ٔ صلاح دا منئی او کہ انکار کویٔ او دَ طاعون علاج بی لہ پرھیز کاری او دَ ژریدلو اور دَ دعا نہ ھس نشتہ اوتاسو وینئی چہ ھغہ ستاسو دَ ھلاکت دَ پارہ ستا سوپہ سترکو œ' راکوز شوی دی اوستاسو دَ فناکولو دَ پارہ ستاسو دَ کورونو پہ غولوœ'داخل شوی دی او #¦قدرستاسو پلاران او ہلکان دھغہ پہ ’œŽœ' راغلی دی باری اوس پہ دانایٔ اوپہ
ھوŽ '„¤ خپل انجام œ' غو روکری اودیر ستاسو پہ زنبیل œ' وَا چَولی شو اوقضا و قدر دَ ھغہ دَ کبابو نودَ پارہ ھغی وراتہ کرا ۔ تاسو #¦ٔ پوھیریٔ چہ دَھغی دَ تولی کارروایٔ جرہ #¦ٔ دہ باری پوی شئی چہ داتولہ نتیجہ ستاسو دَ فسق او دَ فجوردہ اوس œ'¤ ¤ٔ اوپہ سروسترکو وژاری چہ دا دَ خندلو او دَ خوشحالی وقت نہ دی اوخپل اندرونی معاملات دَ خدایٔ پہ مخ œ' پاک کری او دا وَریزچہ ستاسو پہ سپو کمئی باندی راغلی ‹ہ ھغہ لری کری چہ خدایٔ ھغہ شرمخ اوخوفناک حٔنکل تاسونہ لری کری اوتاسولہ عزت او بزرکی در کری او دَ خپلو کورنو ھریوطرف '¦ پاک اوصاف ساتئی اولاف و کزاف پریردی اوچہ #¦ٔ تیرشوی دی دھغی تلافی وکریٔ اوکہ تاسو منع نۂ شویٔ نوپوی شیء چہ حٔما¢¤ž دَ یوافسانہ کودَ ویلو پہ شان نہ دی وکوری چہ دا زوŽ آور سیلاب #¦ٔ رنک ستاسو پہ ملک œ'داخل شہ نوہرھغہ سری کہ زور دی اوکہ حٔو دی چہ حٔما¢¤ž قبول کری اوھزیان نۂ بلکہ معتبریی وکنری اوتولی جکری پریردیٔ ھغہ بہ کامیاب شی نومناسب دی اوس تاسو دَ حَکَم قاضی پہ طرف راشئی او پہ تیرو کرو باندی پسیمانہ شئی او حٔما ¤¢ٔ ž¢ یٔ احسان وکری ھم پہ دغہ œ' حٔما اوستاسو خوشحالی دَہ اوھریو سر ے چہ حٔماŠ‚Ž§ قبولہ کاندی زہ امید کوم چہ خدایٔ بہ دَ ھغہ دَ زرہ کمزور تیا لری او دَھغہ رنج و غم ورک او دَھغہ احوال درست کاندی یہ خَلقَ ماتہ معلومیر ی اوحٔماšŽ’„ وایٔ چہ دا بلا دَ کناہو نودَ زیاتی نہ راغلی دَہ لکہ چہ پہ و رنبو زمانوœ' بہ راتلہ اوس تاسو دَ خدایٔ دَ خوشحالولو فکر وکری او دَھرقسمَ بدی اوفساد پریردی تاسو بہ ضرور وَ میر و او دَ چنجو پہ شان دَ مرک نہ بچ شئی زہ یریرم چہ دا مرض چرتہ پہ ھر '§Žداخل نۂ شی او پہ ہر حٔنکل ننہ وزی اوبیا دَ ھغہ حٔائی تول درند پرند و نۂ خوری او تول سبزہ زاراو اوبہ ونۂ خوری او ونسکی نو پہ نیکی وہ لریٔ اوصدقی او خیراتونہ وباسئی او محتاجانولہ ور کویٔ حٔما ‹¤ وی پہ خدایٔ چہ ھَغہ بہ ھَغَہ خلق دَ طاعون نہ وساتی چہ #¢œ ومنی نوتاسو دَ عیاشانوجامہ لہ تن نہ لری کری او دَ اودو غافلا نو دَ غفلت نہ بیرتہ شیٔ اوراکعین او قائمین سرہ جمع منزونہ کویٔ اوپہ ذریعہ دَ صبر او دَ صلوۃ او دَ صدقے او دَ خیرات مدد غواری دَ دی نتیجہ بہ دا وی چہ خدایٔ بہ تاسو دَ ھر قسمَ درد او دَ غم نہ محفوظ ساتی او کہ تاسو کمراہی پر'¢‹ž¦ ¢دَ خدایٔ رحیم بہ وہ وینئی اوماتا سو تہ ھم پہ ھغی شان ووے لکہ چہ ملھمان و ایی او تاسو بہ پہ دی پویی شئی۔







بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تمام مریدوں کے لئے عام ہدایت
مجھے معلوم ہوا ہے کہ جناب وائیسرائے گورنر جنرل ہند اس تجویز کو طاعون کے علاج کے لئے پسند فرماتے ہیں کہ جب کسی گائوں یا شہر کے کسی محلہ میں طاعون پیدا ہو تو یہ بہترین علاج ہے کہ اس گائوں یا اس شہر کے اس محلہ کے لوگ جن کا محلہ طاعون سے آلودہ ہے فی الفور بلاتوقف اپنے اپنے مقام کو چھوڑ دیں اور باہر جنگل میں کسی ایسی زمین میں جو اس تاثیر سے پاک ہے رہائش اختیار کریں سو میں دلی یقین سے جانتا ہوں کہ یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں ور نہ وہ
خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے۔ عذاب کی جگہ سے بھاگنا انسان کی عقلمندی میں داخل ہے کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوحات ملک شام کے بعد اُس ملک کو دیکھنے کے لئے گئے تو کسی قدر مسافرت طے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس ملک میں سخت طاعون کا زور ہے تب حضرت عمرؓ نے یہ بات سنتے ہی واپس جانے کا قصد کیا اور آگے جانے کا ارادہ ملتوی کردیا تب بعض لوگوں نے عرض کی کہ یا خلیفۃ اللہ کیوں آپ ارادہ کو ملتوی کرتے ہیں کیا آپ خدا کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں میں ایک تقدیر سے بھاگ کر دوسری تقدیر کی طرف جاتا ہوں سو انسان کو نہیں چاہئے کہ دانستہ ہلاکت کی راہ اختیار کرے۔
خوب یاد رکھو کہ جو کچھ یہ گورنمنٹ عالیہ کر رہی ہے اپنی رعایا کی بہبودی کے لئے کر رہی ہے اور رعایا کی جان کی حفاظت کے لئے اب تک کئی لاکھ روپیہ ضائع ہو چکا ہے۔ اس شخص جیسا کوئی نادان نہیں کہ جو گورنمنٹ کے ان کاموں کو بدظنی سے دیکھتا ہے۔ سو اے میری جماعت! تم اطاعت کرنے میں سب سے پہلے اپنا نمونہ دکھلائو اسی میں تمہاری بہتری ہے تم اب خدا کے فضل سے چار لاکھ کے قریب ہو اور تمہارا نمونہ بہتوں کی جان کو بچائے گا۔ میں تمہیں حکم کرتا ہوں کہ اگر تمہارے کسی شہر میں خدانخواستہ یہ وبا ظاہر ہو جائے تو سب سے پہلے تم اس زمین کو چھوڑ دو جو طاعون سے آلودہ ہے ہاں میں اسی قدر پر کفایت نہیں کروں گا کہ تم اُس زمین کو چھوڑ دو بلکہ اے خدا کے بندو! میں اس بات سے بھی تمہیں اطلاع دیتا ہوں کہ یہ طاعون خودبخود اس ملک میں نہیں آئی بلکہ اُس خدا کے ارادہ اور حکم سے آئی ہے جس کے حکم کے ماتحت ذرّہ ذرّہ زمین اور آسمان کا ہے اور مجھے معلوم کرایا گیا ہے کہ کثرت گناہوں کی وجہ سے وہ تمہارا خدا اہل زمین پر ناراض ہے سو تم توبہ اور استغفار کو لازم حال رکھو اور جیسا کہ تم اس زمین کو چھوڑو گے جو طاعون سے آلودہ ہے ایسا ہی تم اُن خیالات کو بھی چھوڑ دو جو گناہوں سے آلودہ ہیں۔ اے میری جماعت میں ہمیشہ تم میں نہیں رہوں گا یہ میرے کلمات یاد رکھو کہ کوئی حادثہ زمین پر ظاہر نہیں ہوتا جب تک آسمان پر پہلے قرار نہ پالے۔ سو وہ خدا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے اس سے ڈرو اور ایک سچی تبدیلی پیدا کرلو تا تم عذاب سے بچائے جائو اور یاد رکھو کہ یہ طریق شوخی اور شرارت کا طریق ہے کہ جس گورنمنٹ کے ماتحت تم امن سے زندگی بسر کر رہے ہو اور اس کی عنایات کو آزما چکے ہو تم اس پر بدگمانی کرو یا اس کے حکم کے مطابق نہ چلو اور تمہاری یہ بدقسمتی ہو گی کہ اس کے ان احکام سے جو سراسر تمہاری بھلائی کے لئے ہیں مُنہ پھیر لو۔ میں وہی بات کرتا ہوں جو تمہاری بھلائی کے لئے ہے مجھے ضرورت نہیں کہ میں گورنمنٹ کی خوشامد کروں کیونکہ ایک ہی آقا ہے جس کا میں نے دامن پکڑا ہے وہی جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اُس وقت تک کہ میں مروں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہو ں گا مگر اس بات کو کیونکر چھپایا جائے کہ درحقیقت یہ گورنمنٹ ہمارے لئے ایک محسن گورنمنٹ ہے اور بجز اس کے کہ ہم اس گورنمنٹ کے سایہ میں امن سے زندگی بسر کریں۔ ہمارے لئے ایک بالشت بھی ایسی زمین نہیں جو ہمیں پناہ دے سکے سو جس خدا نے ہمارے آرام اور امن کے لئے اس گورنمنٹ کو منتخب کیا ہے اس کے ہم ناشکر گذار ہوں گے اگر اس گورنمنٹ کا شکر نہ کریں۔ اور اگر میں اس رائے میں غلطی کرتا ہوں تو مجھے بتائو کہ اگر ہم اس گورنمنٹ کے ملک سے علیحدہ ہو جائیں تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہے۔ تم سُن چکے ہو کہ ہمارے مخالف مولوی جن کے ہم زبان اس ملک میں اور دوسرے ملکوں میں کروڑ ہا انسان ہیں صد ہا رسالوں اور اشتہاروں اور اخباروں میں ہماری نسبت کفر کے فتوے شائع کر چکے ہیں اور نیز واجب القتل ہونے کی نسبت فتویٰ دے چکے ہیں بلکہ گذشتہ دنوں میں مولوی ابو سعید محمدؐ حسین بٹالوی جو موحدین کا ایڈووکیٹ کہلاتا ہے اور ایک اور صاحب سید محمد نام بھی فتویٰ ہمارے واجب القتل ہونے کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع کر چکے ہیں۔ اب بتلائو کہ اس گورنمنٹ کے سوا تمہارا گذارہ کہاں ہے اور کون سی اسلامی سلطنت تمہیں پناہ دے سکتی ہے۔ سو تم ہوشیار ہو جائو اور سچے دل سے اس گورنمنٹ کی اطاعت کرو اور کسی صلہ کی بھی خواہش نہ کرو کیونکہ یہ صلہ تھوڑا نہیں ہے کہ تمہاری عزت اور جان کا محافظ خدا تعالیٰ نے اسی گورنمنٹ کو ٹھیرایا ہے۔
یہاں اپنی جماعت کی اطلاع کے لئے اس قدر اور بڑھا دینا بھی ضروری ہے کہ گورنمنٹ نے بڑی مہربانی سے یہ ارادہ کیا ہے کہ جو لوگ ان تجاویز پر عمل کریں ان کو ہر طرح سے مدد دے اور ان کی سہولت کے لئے انتظام کرے۔ اس لئے ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ایسے اضلاع میںجیسے مثلاً سرحدی اضلاع ہیں جہاں باہر میدانوں میں نکلنے میں جانوں کا خطرہ ہے اور خصوصاً احمدیوں کو جن پر مولوی لوگ قتل کے فتوے دے چکے ہیں گورنمنٹ اس انتظام کے علاوہ جو دوسری جگہ اس نے مالوں کی محافظت کے لئے کرنے کا ارادہ کیا ہے ایسے مقامات پر لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا بھی انتظام کرے گی۔پس جو لوگ باہر نکلیں انہیں چاہئے کہ گورنمنٹ میں ایسی درخواست کریں کہ گورنمنٹ ان کی جانوں اور مالوں کی محافظت کا کافی انتظام کرے۔
والدَّعا خاکسار میرزا غلام احمد ؐ قادیانی مسیح موعود ؑ

حضرت مسیح موعود کا ایک تازہ اشتہار
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ وَنُصَلّیْ عَلٰی رَسُولہِ الکریم
اے یار ازل بس است روے تو مرا
بہتر ز ہزار خلد کوئے تو مرا
از مصلحتے دگر طرف بینم لیک
ہر لحظہ نگاہست سوئے تو مرا
برعزتِ مَن￿ اگر کسے حملہ کند
صبر است طریق ہمچو خوئے تو مرا
من چیستم وچہ عزتم ہست مگر
جنگ است ز بہر آبروئے تو مرا
ایک صاحب محمد اکرام اللہ نام نے روزانہ پیسہ اخبار مورخہ ۲۲ ؍مئی ۱۹۰۵؁ء میں میرے ان اشتہارات کی نسبت جن میں اوّل دفعہ اور دوئم دفعہ کے زلزلہ کی نسبت پیشگوئیاں ہیں۔ کچھ اعتراض شائع کئے ہیں اور میرے خیال میں وہ اعتراضات صرف تعصب کی وجہ سے نہیں ہیں۔ بلکہ ناسمجھی اور نہایت محدود واقفیت بھی اُن کا موجب ہے۔ قوم کی حالت پر اسی وجہ سے مجھے رونا آتا ہے کہ اعتراض کرنے کے وقت کچھ تدبّر نہیں کرتے۔ اور جنون کی طرح ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ یا خود نمائی کی وجہ سے یہ شوق دامن گیر ہوتا ہے۔ کہ کسی طرح معترض بن کر ہمیں بھی اوّل درجہ کے مخالفوں میں جگہ مل جائے۔ یا کم از کم لائق اور اہل علم متصور ہوں۔ مگر بجائے لائق کہلانے کے خود اپنے ہاتھ سے اپنی پردہ دری کرتے ہیں اب اہل انصاف اعتراضات کو سُنیں۔ اور ان کے جوابات پر غور کر کے دیکھیں کہ کیا ایسے اعتراضات کوئی منصف مزاج جس کو کچھ بھی عقل اور دین سے حصہ ملا ہے۔ کر سکتا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اول خوددھوکا کھاتے ہیں۔ اورپھر لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور اس جا ّلمیت کا سارا باعث وہ جلا ہؤا تعصّب ہے کہ جو جہنم کی آگ اپنے اندر رکھتا ہے۔
خلاصہ اعتراض ۔ اوّل قولہ۔ اب ہم مرزا صاحب کے قول سے ثابت کرتے ہیں کہ زلزلہ کی پیشگوئی کوئی قابل وقعت چیز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں خود لکھتے ہیںکہ زلزلہ کی پیشگوئی قابل وقعت چیز نہیں بلکہ مہمل اور ناقابل التفات ہے۔
الجواب۔ واضح ہو کہ معترض نے اس جگہ وہ میری عبارت پیش کی ہے کہ جو میں نے انجیل متی کی ایک پیشگوئی پر جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ ازالہ اوہام میں لکھی ہے اور اس جگہ کافی ہو گا کہ وہی عبارت زلزلہ کی نسبت جو انجیل متی میں حضرت مسیح کے نام پر مندرج ہے جس کو میں نے ازالہ اوہام میں نقل کیا ہے۔ پبلک کے سامنے پیش کر دی جائے۔ اور پھر وہ عبارتیں جو میری پیشگوئیوں میں دونوں زلزلوں کی نسبت بذریعہ اشتہارات شائع ہو چکی ہیں۔ بالمقابل اس جگہ لکھ دی جائیں۔ تا ناظرین خود سمجھ لیں کہ کیا ان دونوں پیشگوئیوں کی ایک ہی صورت ہے یا ان میں کچھ فرق بھی ہے۔ اور کیا میری پیشگوئی میں بھی زلزلہ کی نسبت صرف معمولی الفاظ ہیں جو ہر ایک زلزلہ پر صادق آ سکتے ہیں۔ جیسا کہ انجیل متی کے الفاظ ہیں۔ یا میری پیشگوئی فوق العادت زلزلہ کی خبر دیتی ہے اور اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا بھی بے موقعہ نہ ہو گا۔ کہ جس سرزمین میں حضرت مسیح تھے۔ یعنی ملک شام میں اس ملک کی قدیم سے ایسی صورت ہے کہ ہمیشہ اس میں زلزلے آیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ کشمیر میں اور ہمیشہ طاعون بھی اس ملک میں آیا کرتی ہے پس اس ملک کے لئے یہ عجوبہ نہیں ہے کہ اس میں زلزلہ آوے۔ یا طاعون پیدا ہو۔ بلکہ کوئی بڑا زلزلہ بھی آنا عجیب بات نہیں ہے۔ حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے اس میں زلزلے آ چکے ہیں۔ اور ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ سخت اور نرم زلزلے آتے ہیں۔ پھر معمولی بات کی نسبت پیشگوئی کیا ہو گی مگر ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ یہ زلزلہ جس کی نسبت پیشگوئی میں نے کی تھی اس ملک کے لئے کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بلکہ ایک ان ہونی اور فوق العادت بات تھی جس کو تمام ملک کے رہنے والوں نے فوق العادت قرار دیا بلکہ نمونہ قیامت سمجھا۔ اور تمام محقق انگریزوں نے بھی یہی گواہی دی۔ اور تاریخ پنجاب بھی یہی شہادت دیتی ہے۔ اور نیز پُرانی عمارتیں جو قریبًا سولہ سو ۱۶۰۰برس سے محفوظ چلی آئیں۔ بزبان حال یہی شہادت دے رہی ہیں مگر سب کو معلوم ہے کہ ملک شام میں تو اس کثرت سے زلزلے آتے ہیں کہ جب وہ پیشگوئی حضرت مسیح کی لکھی گئی۔ تو غالبًا اس وقت بھی کوئی زلزلہ آرہا ہو گا۔
اب ہم ذیل میں وہ پیشگوئی لکھتے ہیں۔ جو زلزلہ آنے کی نسبت انجیل متی میں لکھی گئی ہے۔ جس کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے قوم قوم پر اور بادشاہت پر بادشاہت چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی۔ اور جگہ جگہ بھونچال آویں گے۔ دیکھو انجیل متی باب ۲۴۔ یہی پیشگوئی ہے۔ جس کی نسبت میں نے ازالہ اوہام میں وہ عبارت لکھی ہے جو معترض نے اخبار مذکور کے صفحہ پانچ۵ کالم اوّل سطر چھبیس ۶۲ میں درج کی ہے ۔ اور وہ یہ ہے ۔ کیا یہ بھی کچھ پیشگوئیاں ہیں۔ کہ زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی، لڑائیاں ہوں گی۔ قحط پڑیں گے ۔ معترض صاحب میری اس عبارت کو لکھ کر اس سے بات نکالتے ہیں۔ کہ گویا میں نے یہ اقرار کیا ہے کہ زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کرنا کوئی قابل وقعت چیز نہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اس عبارت سے میرا یہ مدعا نہیں ہے جو معترض نے سمجھا ہے۔ بلکہ غرض یہ ہے کہ معمولی طور پر ایک بات کو پیش کرنا۔ جس میں کوئی اعجوبہ نہیں اور جس میں کوئی فوق العادت امر نہیں۔ پیشگوئی کے مفہوم میں داخل نہیں ہو سکتا مثلاً اگر کوئی پیشگوئی کرے۔ کہ برسات کے دنوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہوں گی تو یہ پیشگوئی نہیں کہلا سکتی۔ کیونکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ برسات کے دنوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہو جایا کرتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی یہ پیشگوئی کرے کہ اب کی دفعہ برسات کے دنوں میں اس قدر بارشیں ہوں گی کہ زمین میں سے چشمے جاری ہو جائیں گے۔ اور کوئیں پُر ہو کر نہروں کی طرح بہنے لگیں گے اور گذشتہ سو برس میں ایسی بارش کی کوئی نظیر نہیں ہوگی۔ تو اس کا نام ضرور ایک امر خارق عادت اور پیشگوئی رکھا جائے گا۔ سو اسی اصول کے لحاظ سے میں نے انجیل متی باب ۲۴ کی پیشگوئی پر اعتراض کیا تھا کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ زلزلے آئیں گے خاص کر اس ملک میں جس میں ہمیشہ زلزلے آیا کرتے ہیں بلکہ سخت زلزلے بھی آتے ہیں یہ کوئی ایسی خبر نہیں ہے جس کا نام پیشگوئی رکھا جائے یا اس کو ایک امر خارق عادت ٹھیرایا جائے اب دیکھنا چاہئے کہ کیا ان ہر سہ اشتہارات میں بھی جو میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کے طور پر ملک میں شائع کئے ایسی ہی معمولی خبر پائی جاتی ہے۔ جس میں کوئی امر خارق عادت نہیں اگر درحقیقت ایسا ہی ہے تو پھر زلزلہ کی نسبت میری پیشگوئی بھی ایک معمولی بات ہو گی زلزلہ کی نسبت میرے اشتہار کے الفاظ یہ ہیں۔ ۳۱مئی۱۹۰۴ء میں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی تھی۔ جس کو میں نے اخبار الحکم اور البدر میں شائع کرا دیا تھا عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا۔ یعنی اس کا ایک حصہ مٹ جائے گا اس کی وہ عمارتیں جو عارضی سکونت کی جگہ ہیں وہ عمارتیںجو مستقل سکونت کی جگہ ہیں دونوں نابود ہو جائیں گی اور اُن کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ الدّیار پر جو الف لام ہے وہ دلالت کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں اس ملک میںسے وہ خاص خاص جگہ ہیں۔ جن پر یہ تباہی آئے گی۔ اور وہ خاص حصّہ ملک کے مکانات ہیں۔ جو زمین سے برابر ہو جائیں گے۔ یہ کس قدر فوق العادت پیشگوئی اور کس شدّ و مد سے ا س میں آئندہ واقعہ کا ذکر ہے۔ جس کی سولہ سو ۰۰۶۱ بر س تک بھی اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی چنانچہ انگریزی اخباروں کے پڑھنے سے معلوم ہو گا۔ کہ بڑے بڑے طبقات الارض کے محقق اس ملک کی نسبت۔ یہ فوق العادت واقعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ کے بڑے بڑے محققوں کی شہادت سے شائع ہو چکا ہے کہ سولہ سو برس تک بھی پنجاب میں اس زلزلہ کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ اور تمام اخباریں اس مضمون سے بھری پڑی ہیں۔ کہ یہ زلزلہ نمونہ قیامت تھا۔ پس جبکہ اس وحی الٰہی میں جو میرے پر ہوئی۔ یہ فوق العادت مضمون ہے کہ اس حادثہ سے عمارتیں نابود ہو جائیں گی۔ اور ایک حصہ اس ملک کا تباہ ہو جائے گا۔تو پھر نہایت افسوس ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کو جو ایک ملک کے تباہ ہونے کی خبر دیتی ہے۔ انجیل کی ایک معمولی خبر کے برابر ٹھہرایا جاوے۔ جو زلزلے آئیں گے اور وہ بھی اس ملک میں جو زلزلوں کا گھر ہے۔ کیا کسی پیشگوئی کے اس سے زیادہ الفاظ ڈرانے والے ہو سکتے ہیں۔ ہر ایک منصف مزاج خود سوچ لے۔ کہ کیا اس ملک پنجاب کے لئے زلزلہ کی پیشگوئی کے الفاظ اس سے زیادہ فوق العادت ہو سکتے ہیں۔ جو وحی ربّانی عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھاَ میں پائے جاتے ہیں۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ ایک حصہ ملک کا ایسا تباہ ہو جائے گا کہ اس کی عمارتیں تمام نابود ہو جائیں گی۔ نہ سرائیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونت کی جگہ اس جگہ ادنیٰ عربی دان بھی الدیار کے الف لام کو ذہن میں رکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ الدیار سے ایک حصّہ اس ملک کا مراد ہے اور عفت کے لفظ سے یہی مطلب ہے۔ کہ اس حصہ ملک کے سب مکانات گر جائیں گے۔ نابود ہو جائیں گے۔ ناپدید ہو جائیں گے۔۱؎ پس کوئی مجھ کو سمجھا وے۔ کہ اس ملک کے لئے ایسا واقعہ پہلے اس سے کب پیش آیا تھا ور نہ ایمان داری سے بعید ہے کہ انسان بے حیا ہو کر جھوٹ بولے اور اس خدا کا خوف نہ کرے جس کا ہاتھ ہر ایک وقت سزا دینے پر قادر ہے اور پھر اشتہار الوصیت میں جو ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء میں زلزلہ سے پہلے شائع کیا گیا تھا یہ عبارت درج ہے ۔اس وقت جو آدھی رات کے بعد چار بج چکے ہیں بطور کشف میں نے دیکھا ہے کہ درد ناک موتوں سے عجیب طور پر شور قیامت برپا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی الہام ہوا کہ موتا موتی لگ رہی ہے۔ اب سوچو کہ کیا ایک آئندہ واقعہ کی ان الفاظ سے پیش گوئی کرنا کہ وہ نمونہ ٔ قیامت ہو گا اور شورِ قیامت اس سے برپا ہو گا۔ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی سے مشابہ ہو سکتی ہے جو معمولی الفاظ میں کہا جائے جو زلزلے آویں گے خاص کر شام جیسے ملک میں، جو اکثر زلزلوں اور طاعون کی جگہ ہے اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے انکار میں اس قدر دلیری یہ میرے پر حملہ نہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ پر حملہ ہے جس کا وہ کلام ہے اور یہ کہنا کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھاَ یہ لبیدبن ربیعہ کے ایک بیت کا پہلا مصرعہ ہے ۔ یہ بھی خدا تعالیٰ پر گستاخانہ حملہ ہے۔ وہ ہر ایک شخص کے قول کا وارث ہے لبید ہو یا کوئی اور ہو اسی کی توفیق سے شعر بھی بنتا ہے۔ پس اگر اس نے ایک شخص کے کلام کو لے کر بطور وحی القا کر دیا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں اور اگر یہ اعتراض ہو سکتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے۔ کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۱؎۔ یہ بھی دراصل ایک انسان کا کلام تھا۔ یعنی عبداللہ بن ابی سرح کا جو ابتداء میں قرآن شریف کی بعض آیات کا کاتب بھی تھا۔ پھر مرتد ہو گیا۔ وہی کلام اس کا بغیر کمی بیشی کے فرقان مجید میں نازل ہو گیا۔ اور یہ وحی الٰہی کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا اس کے حروف قرآن شریف کی آیت موصوفہ کے حروف سے بھی زیادہ نہیں ہیں۔ یعنی فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَاِلِقْینَ ہے بلکہ اس کے اکیس۱۲ حر ف ہیں۔ مگر آیت قرآنی کے بائیس ۲ ۲ حروف ۔ پھر معترض کا اس وحی الٰہی پر یہ کہاوت سنانا کہ ۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ بھانمتی نے کنبہ جوڑا ٭ اس کو ذرا سوچنا چاہئے کہ اس نے درحقیقت قرآن شریف پر حملہ کر کے اپنی عاقبت درست کر لی ہے۔ اور قرآن شریف میں صرف یہی وحی نہیںجو اس بات کا نمونہ ہو۔ جو وہ پہلے انسانی کلام تھا۔ اور پھر اس سے خدا تعالیٰ کی وحی کا توارد ہؤا۔ بلکہ بہت سے ایسے نمونے پیش ہو سکتے ہیں ۔ جہاں انسانی کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہؤا۔ جیسا کہ قرآن شریف کو بہت جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے توارد ہؤا ہے۔ جس سے علماء بے خبر نہیں ہیں۔ اور جن کی نسبت ایک بڑی فہرست پیش ہو سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معترض دراصل قرآن شریف سے منکر ہے ورنہ ایسا گستاخی اور بے ادبی کا کلمہ ہرگز اس کے منہ پر نہ آتا۔ کیا کوئی مومن ایسا اعتراض کسی پر کر سکتا ہے؟ کہ وہ اعتراض بعینہٖ قرآن شریف پر آتا ہو۔ نعوذ باللہ ہرگز نہیں۔
پھر معترض کا پیشگوئی عفت الدیار پر ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ عفت کا لفظ جو ماضی کا صیغہ ہے۔ اس کا ترجمہ مضارع کے معنوںمیں کیا گیا ہے۔حالانکہ اس کا ترجمہ ماضی کے معنوں میں کرنا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے ساتھ معترض نے بہت شوخی دکھلائی ہے۔ گویا مخالفانہ حملہ میں اس کو بھاری
کامیابی ہوئی ہے۔ اب ہم اس کی کس کس دہو کا دہی کو ظاہر کریں۔ جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہو گی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آ جاتی ہے۔ بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو٭۔ مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو۔ اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ ۱؎ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یَا عِیسَے ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰـہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ…الخÒ؎ قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنََ صِدْقُہُمْ Ó؎ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَ نَزَعْناَ مَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰے سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَÔ؎ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَنََادٰٓی اَصْحَابُ الْجَنَّۃِ اَصْحَابَ النَّارِ اَنْ قَدْوَجَدْنَا مَاوَعَدَنَا رَبُّنَاحَقًا فَہَلْ وَجَدْتُّمْ مَّاوَعَدَرَبُّکُمْ حَقَّا قَالُوْا نَعَمْÕ؎۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّط مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَÖ؎ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَے النَّارِ×؎ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَلَوْتَرٰٓی اِذْوُقِفُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ۔ قَالَ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ ۔ قَالُوْا بَلٰے وَ رَبِّنَا۔Ø؎ اب معترض صاحب فرماویں کہ کیا یہ قرآنی آیات ماضی کے صیغے ہیں یا مضارع کے اور اگر ماضی کے صیغے ہیں۔ تو ان کے معنے اس جگہ مضارع کے ہیں۔ یا ماضی کے۔ جھوٹ بولنے کی سزا تو اس قدر کافی ہے۔ کہ آپ کا حملہ صرف میرے پر حملہ نہیں۔ بلکہ یہ تو قرآن شریف پر بھی حملہ ہو گیا۔ گویا وہ صرف و نحو جو آپ کو معلوم ہے۔ خدا کو معلوم نہیں اسی وجہ سے خدا نے جا بجا غلطیاں کھائیں۔ اور مضارع کی جگہ ماضی کو لکھ دیا۔ پھر اس کے ساتھ آپ کا ایک اور اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی یعنی عَفَتِ الدِّیاَرُ مَحِلُّھاَ وَ مَقَامُھَا۔ میں زلزلہ کا لفظ کہاں ہے۔ افسوس اُس معترض کو یہ معلوم نہیں کہ مقصود بالذات تو پیشگوئی کا اسی قدر مفہوم ہے۔ جو الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ غرض تو صرف اتنی ہے۔ کہ ایک حصہ ملک پر بڑی تباہی آئے گی۔ اس جگہ دانا خود سمجھ سکتا ہے کہ مکانات کا تباہ ہونا بذریعہ زلزلہ ہی ہوا کرتا ہے ہاں ممکن ہے کہ عظیم الشان ملک کی تباہی اور شہروں اور مکانات کا نابود ہو جانا کسی اور ذریعہ سے ظہور میں آوے۔ مگر تب بھی بہرحال یہ پیشگوئی سچی ثابت ہو گی۔ اور چونکہ سنت اللہ کے موافق اس تباہی کو زلزلہ پر دلالت التزامی ہے اس لئے اس کا ذکر کرنا ضروری نہ تھا۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ بعض کم فہم جن کی فطرت نادانی اور تعصب کی معجون ہے۔ ایسا اعتراض بھی کریں گے۔ اس لئے اس نے زلزلہ کا لفظ بھی بتصریح لکھ دیا۔ دیکھو پرچہ الحکم مورخہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء اور اگرچہ یہ پیشگوئی زلزلہ کی پیشگوئی سے الگ کر کے جو اس سے پہلے شائع ہو چکی ہے اور سخت تباہی آئے گی اور عمارات نابود ہو جائیں گی اور بستیاں کالعدم ہو جائیں گی اور یہ نہیں بتلاتی کہ کس خاص ذریعہ سے یہ تباہیاں وقوع میںآئیں گی۔ لیکن جو شخص سوچے گا۔ کہ شہر اور بستیاں کس ذریعے سے زمین میں دھنسا کرتی ہیں۔ اور یکدفعہ عمارتیں کیونکر گر جاتی ہیں۔ اور اس پیشگوئی کے ساتھ اس پیشگوئی کو بھی پڑھے گا۔ جو اسی پرچہ میں پانچ ماہ پہلے شائع ہو چکی ہے جس کے یہ لفظ ہیں۔ کہ زلزلہ کا دھکا ۔ وہ ایسا اعتراض کرنے سے حیا کرے گا۔ کہ پیشگوئی میں زلزلہ کا ذکر نہیں۔ ہاں ہم یہ اب بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی اْلاٰخِرَۃِ٭ اَعْمٰی۱؎۔ لہٰذا ممکن تھا کہ زلزلہ سے مراد اور کوئی عظیم الشان آفت ہوتی۔ جو پورے طور پر زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی۔ مگر ظاہر عبارت بہ نسبت تاویل کے زیادہ حق رکھتی ہے۔ پس دراصل اس پیشگوئی کا حلقہ وسیع تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کا مُنہ کالا کرنے کے لئے ظاہر الفاظ کی رو سے بھی اس کو پورا کر دیا۔ اور ممکن ہے کہ بعد اس کے بعض حصے اس پیشگوئی کے کسی اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں لیکن بہرحال وہ امر خارق عادت ہو گا جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے چنانچہ یہی زلزلہ جس نے اس قدر پنجاب میں نقصان پہنچایا اس کی نسبت تحقیقات کی رو سے سول ملٹری گزٹ وغیرہ اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ اور یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ سولہ سو برس تک اس ملک پنجاب میں ایسا کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ پس یہ پیش گوئی بلاشبہ اول درجہ کی خارق عادت امر کی خبر دیتی ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ ایسے حوادث مختلف اسباب طبیعیہ سے ظاہر ہوں جو ایسے تباہیوں کے موجب ہو جائیں جو خارق عادت ہوں پس اگر اس پیشگوئی کے کسی حصہ میں زلزلہ کا ذکر بھی نہ ہوتا۔ تب بھی یہ عظیم الشان نشان تھا کیونکہ مقصود تو اس پیشگوئی میں ایک خارق عادت تباہی اور جگہوں کی ہے جو بے مثل ہے زلزلہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ پس جب کہ یہ شہادت مل چکی کہ سولہ سو برس تک اس تباہی کی ملک پنجاب میں نظیر نہیں پائی جاتی۔ تو یہ پیش گوئی ایک معمولی امر نہ رہا۔ جو صرف انسانی اٹکل سے ہو سکتا ہے۔
اس پیشگوئی کے پہلے حصّہ میں جو ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء میں اُسی اخبار الحکم میں درج ہوئی ہے اور صریح لفظوں میں زلزلہ کا ذکر بھی شائع ہو چکا ہے تو ایسے معترض کی عقل پر ہنسیں یا رو دیں۔ جو کہتا ہے جو زلزلہ کی کوئی پیشگوئی نہیں کی۔
اب یاد رہے کہ وحی الٰہی یعنی عَفَتِ الدِّیَارُ محَلَّھا وَ مُقَامُھاَ ۔ یہ وہ کلام ہے جو آج سے
تیرہ سو برس ۰۰۳۱ پہلے خدا تعالیٰ نے لبیدبن ربیعہ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اُس قصیدہ کا اوّل مصرع ہے جو سبعہ مُعلّقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف با سلام ہو گیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اُس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہو گا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اُس کے مُنہ سے نکلی تھی۔ پس یہ تعجب سخت نادانی ہے
کہ ایک کلام جو مسلمان کے مُنہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الٰہی میں داخل ہوا کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں وہ کلام جو عبداللہ بن ابی سرح کے مُنہ سے نکلا تھا یعنی فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی سرح مرتد ہو کر مکّہ کی طرف بھاگ گیا ٭ پس جبکہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہؤا تو اس سے کیوں تعجب کرنا چاہئے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اُس کے کلام کا توارد ہو جائے خدا تعالیٰ جیسے ہر ایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اسی کی توفیق سے مُنہ سے نکلتا ہے۔ پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارہ میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو اور لبید کے فضائل میں سے ایک یہ بھی تھا جو اُس نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ زمانہ ترقیات اسلام کا خوب دیکھا اور ۴۱ ہجری میں ایک سو ستاون ۱۵۷ برس کی عمر پا کر فوت ہؤا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے بھی کئی مرتبہ قرآن شریف کا توارد ہؤا جیسا کہ اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قال قال عمر وافقت ربی فی اربع یعنی چار باتیں جو میرے مُنہ سے نکلیں وہی خدا تعالیٰ نے فرمائیں اور اگر ہم اس اُمت مرحومہ کے اولیاء کرام کا ذکر کریں کہ کس قدر دوسروں کے کلام بطور الہام ان کے دلوں پر القاء ہوئے اور بعض کو مثنوی رومی کے اشعار بطور الہام منجانب اللہ دل پر ڈالے گئے تو یہ بیان ایک علیحدہ رسالہ کو چاہتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ جس شخص کو ایک ذرا واقفیت بھی اس کوچہ سے ہو گی وہ کبھی اس بات کو مُنہ پر نہیں لائے گا کہ خدا کے کلام کو انسان کے کلام سے توارد نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ایک شخص جو کسی قدر علم شریعت سے حصّہ رکھتا ہے وہ ایسے کلمہ کو موجب کفر سمجھے گا کیونکہ اس عقیدہ سے قرآن شریف سے انکار کرنا لازم آتا ہے اس جگہ ایک اشکال بھی ہے اور ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اُس اشکال کو بھی حل کر دیں وہ یہ ہے کہ اگر یہ جائز ہے کہ کسی انسان کے کلام سے خدا کے کلام کا توارد ہو تو ایسا ہونا قرآن شریف کے معجزہ ہونے میں قدح پیدا کرتا ہے لیکن جیسا کہ صاحب تفسیر کبیر اور دوسرے مفسروں نے لکھا ہے کوئی جائے اشکال نہیں کیونکہ اس قدر قلیل کلام پر اعجاز کی بنا نہیں ورنہ قرآن شریف کے کلمات بھی وہی ہیں جو اور عربوں کے مُنہ سے نکلتے تھے اعجازی صورت کے پیدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کا کلام کم سے کم اس سورۃ کے برابر ہو جو سب سے چھوٹی سورۃ قرآن شریف میں ہے یا کم سے کم دس آئتیں ہوں کیونکہ اسی قدر کو قرآن شریف نے معجزہ ٹھہرایا ہے مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کا کلام خدا کے کلام میںبطور وحی کے داخل ہو جائے تووہ بہرحال اعجاز کا رنگ پکڑ سکتا ہے مثلاً یہی وحی الٰہی یعنی عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھَا جب لبید رضی اللہ عنہ کے منہ سے شعر کے طور پر نکلی تو یہ معجزہ نہ تھی لیکن جب وحی کے طور ظاہر ہوئی تو اب معجزہ ہو گئی کیونکہ لبید ایک واقعہ گذشتہ کے حالات پیش کرتا ہے جس کا بیان کرنا انسانی قدرت کے اندر داخل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ لبید کے کلام سے اپنی وحی کا توارد کر کے ایک واقعہ عظیمہ آئندہ کی خبر دیتا ہے جو انسانی طاقتوں سے باہر ہے۔ پس وہی کلام جب لبید کی طرف منسوب کیا جائے تو معجزہ نہیں ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو بلاشبہ معجز ہ ہے آج سے ایک سال پہلے اس بات کو کون جانتا تھا کہ ایک حصّہ اس ملک کا زلزلہ شدیدہ کے سبب سے تباہ اور ویران ہو جائے گا۔ یہ کس کو خبر تھی کہ اس قدر شہر اور دیہات یکدفعہ زمین میں دھنس کر تمام عمارتیں نابود ہو جائیں گی اور اس زمین کی ایسی صورت ہو جائے گی کہ گویا اس میں کبھی کوئی عمارت نہ تھی پس اس بات کا نام معجزہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آوے جو پہلے اس سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طو ر پر بھی اس کی طرف کسی کا خیال نہ تھا کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں نے اس زلزلہ شدیدہ کو بڑے تعجب کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کو ایک غیر معمولی اور ان ہونی بات اور نمونہ قیامت قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ محققان یورپ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس ملک کی تاریخ پر سولہ سو برس ۰۰۶۱ تک نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ پہلے اس سے ایسا خوفناک اور تباہی ڈالنے والا زلزلہ اس ملک میں کبھی نہیں آیا پس جس وحی نے ایک زمانہ دراز پہلے ایسے غیر معمولی واقعہ کی خبر دی کیا وہ خبر معجزہ نہیں ہے؟ کیا وہ انسانی طاقتوں کے اندر داخل ہے؟ ٭ جس ملک کے لوگوں نے بلکہ ان کے باپ دادوں نے بھی قریباً دو ہزار برس٭ تک ایک واقعہ کو نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور نہ ان کے خیال و گمان میں ہو کہ ایسا واقعہ ہونے والا ہے یا امکان میں ہے پھر اگر کوئی پیشگوئی ایسے واقعہ کی خبر دے اور وہ واقعہ بعینہٖ ظہور میں آ جائے تو وہ خبر نہ صرف معجزہ کہلائے گی بلکہ اوّل درجہ کا معجزہ ہو گا۔
پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ معترض صاحب نے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی عظمت دور کرنے کے لئے اور اس کو تمام لوگوں کی نظر میں خفیف ٹھہرانے کے لئے انجیل کی اُس بے معنی پیشگوئی سے اُس کو مشابہت دی ہے جس میں محض معمولی الفاظ میں لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے لیکن جو شخص ذرا آنکھ کھول کر میرے اشتہارات کی عبارت کو پڑھے گا اس کو افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ناحق معترض نے روز روشن پر پردہ ڈالنا چاہا ہے اور ایک بھاری خیانت سے کام لیا ہے اس نے میرے اشتہارات کو پڑھ لیا ہے اور اس کو خوب علم تھا کہ میری پیشگوئی کے الفاظ جو زلزلہ کی نسبت بیان کئے گئے ہیں وہ انجیل کے الفاظ کی طرح سُست اور معمولی نہیں ہیں تاہم اُس نے دانستہ ہٹ دھرمی کو اختیار کر لیا۔ کس کو معلوم نہیں کہ عربی الہام یعنی عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھَا ایک ایسی چونکا دینے والی خبر پیشگوئی کے طور پر بیان کرتا ہے جس سے بدنوں پر لرزہ پڑ جائے کیا یہ ایک معمولی بات ہے کہ شہر اور دیہات زمین میں دھنس جائیں گے اور اردو میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ زلزلہ کا دھکا ہو گا دیکھو اخبار الحکم صفحہ ۱۵ کالم ۲ مورخہ ۲۴ ؍ دسمبر ۱۹۰۳ء اور پھر ۱۹۰۱ء میں جو رسالہ آمین شائع کیا گیا تھا اس میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہو گا کہ اُس سے قیامت یاد آ جائے گی اورã الحکم ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۴ء میں شائع کیا گیا ہے کہ مکذّبون کو ایک نشان دکھایا جائے گا ۔ اور پھر اشتہار الانذار میں لکھا ہے کہ آنے والا زلزلہ قیامت خیر زلزلہ ہو گا۔ پھر النداء میں لکھا ہے کہ آنے والے زلزلہ سے زمین زیر و زبر ہو جائے گی پھر اسی میں لکھا ہے کہ یہ عظیم الشان حادثہ محشر کے حادثہ کو یاد دلائے گا اور پھر اسی میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلائوں ۔ ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے۔ اور وہ عمارتیں جن کو غافل انسانبناتے ہیں یا آئندہ بنائیں گے گرا دیں گے اور میں وہ نشان ظاہر کروں گا جس سے زمین کانپ اُٹھے گی۔ تب وہ روز دنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہو گا۔ پھر اُس اشتہار میں جس کی سرخی ہے زلزلہ کی خبر بار سوم۔ آنے والے زلزلہ کی نسبت یہ عبارت لکھی ہے کہ درحقیقت یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں گذرا۔ اب ایمانًا کہو کہ انجیل میں زلزلہ کے بارے میں اس قسم کی عبارتیں کہاں ہیںاور اگر ہیں تو وہ پیش کرنی چاہئیں ورنہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے اِس حق پوشی سے باز آنا چاہئے۔
قَوْلُہٗ۔ ترجمہ میں زلزلہ کا لفظ بھی داخل کر دیا تاکہ جاہل لوگ یہ سمجھیں کہ الہام میں زلزلہ کا لفظ بھی موجود ہے۔
اَقُوْلُ۔ اے اندھے صاحب پیشگوئی کے مجموعی الفاظ یہ ہیں۔ زلزلہ کا دھکا۔ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھَا دیکھو اخبار الحکم ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء ان دونوں کے معنے یہ ہوئے کہ ایک زلزلہ کا دھکا لگے گا اور اُس دھکہ سے ایک حصّہ اس ملک کا تباہ ہو جائے گا اور عمارتیں گر جائیں گی اور نابود ہو جائیں گی۔ اب بتلائو کہ کیا ہم نے جاہلوں کو دھوکا دیا ہے۔ ٭ یا آپ جاہلوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور کیا ہم نے جھوٹ بولا ہے یا آپ جھوٹ بولتے ہیں *** اللہ علی الکاذبین۔ اخبار الحکم موجود ہے اس کے دونوں پرچوں کو دیکھ لو اور یہ اخبار زلزلہ موعودہ سے ایک سال پہلے ملک میں شائع ہو چکی ہے گورنمنٹ میں بھی پہنچ چکی ہے۔ اب بتلائو کہ کس تعصب نے آپ کو اس جھوٹ پر آمادہ کیا جو آپ دعویٰ کر بیٹھے جو زلزلہ کا ذکرپیشگوئی میں موجود ہی نہیں ہے۔
قَوْلُہٗ۔ یہ الہام ۳۱؍مئی ۱۹۰۲ء کے الحکم کے صفحہ کالم ۴ پر موجود ہے اور اُس کے سامنے صاف طور پر جلی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ متعلق طاعون۔
اقُوْلُ۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ زلزلہ بھی طاعو کا ایک ضمیمہ ہے او ر اُس سے متعلق ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار فرما دیا ہے کہ زلزلہ اور طاعون دونوں تیری تائید کے لئے ہیں پس زلزلہ درحقیقت طاعون سے ایک تعلّق رکھتا ہے کیونکہ طاعون بھی میرے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے اور ایسا ہی زلزلہ بھی۔ پس اس وجہ سے دونوں کو تعلق ہے اور دونوں ایک ہی امر کے مویّد ہیںاور اگر یہ وہم دل میں پیدا ہو کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون ہی ہے تویہ وہم درحقیقت فاسد ہے کیونکہ جو چیز کسی چیز سے تعلّق رکھتی ہے وہ درحقیقت اُس کا عین نہیں ہوسکتی ماسوا اس کے قرینہ قویہّ اس جگہ موجود ہے کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون نہیں ہے یعنی جبکہ پہلے اس سے یہ الہام موجود ہے کہ زلزلہ کا دھکاّ تو پھر ذرہ انصاف اور عقل کو دخل دے کر خود سوچ لینا چاہئیے کہ عمارتوں کا گرنا اور بستیوں کا معدوم ہونا کیایہ طاعون کی صفات میں سے ہو سکتا ہے بلکہ یہ تو زلزلہ کی صفات میں سے ہے اس قدر مُنہ زوری ایک پرہیزگار انسان میں نہیں ہوسکتی کہ جو معنے ایک عبارت کے الفاظ سے پیدا ہو سکتے ہیں اور جو اس کے سیاق اور سباق سے مترشح ہو رہے ہیں اور جو معنے واقعہ کے ظہور سے کھل گئے ہیں اور انسانی کانشنس نے قبول کر لیا ہے کہ جو کچھ ظاہر ہوا ہے وہ وہی ہے جو عفت الدیار کے الہام سے نکلتا ہے پھر اس کے انکار پر اصرار کرے اگر فرض بھی کر لیں کہ خود ملہم نے اپنے اجتھادکی غلطی سے اس حادثہ کو جو عفت الدیار کے الہام سے ظاہر ہوتا ہے طاعون ہی سمجھ لیا تھا تو اس کی یہ غلطی کہ قبل از وقوع ہے مخالف کے لئے کوئی حجت نہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا نبی یا رسول نہیں گذرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی میں اجتہادی غلطی نہ کی ہو تو کیا وہ پیشگوئی آپ کے نزدیک خدا تعالیٰ کا ایک نشان نہ ہو گا اگر یہی کفر دل میں ہے تو دبی زبان سے کیوں کہتے ہو پورے طور پر اسلام پر کیوں حملہ نہیں کرتے کیا کسی ایک نبی کا نام بھی لے سکتے ہو جس نے کبھی اجتہادی طور پر اپنی کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں غلطی نہیں کھائی۔ تو پھر بتلائو کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ لفظ متعلق کے معنی بعینہٖ طاعون ہے تو کیا یہ حملہ تمام انبیاء پر نہیں۔ عفت الدیار کے الہامی فقرہ پر نظر ڈال کر صاف ظاہر ہے کہ اس فقرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہو گا کہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اس سے گر جائیں گی اور نابود ہو جائیں گی اور ظاہر ہے کہ طاعون کا عمارتوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا پس اگر ایڈیٹر اخبار الحکم نے ایسا لکھ بھی دیا کہ یہ فقرہ طاعون سے متعلق ہے اور تعلّق سے وہ معنے سمجھے جائیں جو معترض نے کئے ہیں تو غایت ما فی الباب یہ کہا جائے گا کہ ایڈیٹر الحکم نے ایسے لکھنے میںغلطی کی اور ایسی غلطی خود انبیاء علیہم السلام سے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں بعض دفعہ ہوتی رہی ہے جیسا کہ ذھب وھلی کی حدیث بخاری میں موجود ہے اور اس کے لفظ یہ ہیں۔ قال ابو موسی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رئیت فی المنام انی اھاجر من مکۃ الٰی ارض بھانخل فذھب و ھلی الٰی انھا الیمامۃ اوھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب (بخاری جلد ثانی باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ الیٰ المدینۃ) یعنی ابو موسیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے مکّہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے جس میں کھجوروں کے درخت ہیں پس میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ زمین یمامہ یا زمین ہجر ہے مگر وہ مدینہ نکلا یعنی یثرب ۔ اب دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی رئویا وحی ہے۔ اور جن کا اجتہاد سب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصح ہے اپنی رویا کی یہ تعبیر کی تھی کہ یمامہ یا ہجر کی طرف ہجرت ہو گی مگر وہ تعبیر صحیح نہ نکلی پس کیا یہ پیشگوئی آپ کے نزدیک پیشگوئی نہیں ہے اور کیا آپ طیار ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک حملہ کر دیں پس جبکہ اجتہادی غلطی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہیں تو پھر آپ کا یہ کیا ایمان ہے کہ تعصب کے جوش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی بھی کچھ پروا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے کچھ شرم نہیں۔ اور پھر سچے مصنف بن کر اور خدا ترسی کا دھیان رکھ کر عفت الدیار کے الفاظ کی طرف دیکھنا چاہئے کہ اس کے الفاظ طاعون پر صادق آتے ہیں یا زلزلہ پر۔ کیا یہ ایمانداری ہے کہ جبکہ واقعہ موعودہ کے ظہور نے عفت الدیار کے معنوں کو خود کھول دیا پھر بھی اس سے مراد طاعون ہی سمجھیں۔ اس پیشگوئی کے الفاظ صاف طور پر پکا ر رہے ہیں۔ کہ وہ ایک حادثہ ہے جس سے عمارتیں گر جائیں گی اور ایک حصّہ ملک کی بستیوں کا نابود ہو جائے گا اگر آپ عربی نہیں جانتے تو کسی عربی دان سے پوچھ لیں کہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلھُّاَ وَ مُقَامُھَا کے کیا معنے ہیں اور اگر کسی پر اعتبار نہ ہو تو اُس مصرع کے معنے جو شارح نے لکھے ہیں وہ دیکھ لیں۔ اور وہ معنے یہ ہیں اندرست دیار الاحباب و المخی ما کان منھا للحول و ماکان لِلْاِقَامَتِ (دیکھو معلقہ چہارم شرح مصرع اول ) یعنی دوستوں کی بستیاں اور ان کے گھر نابود ہو گئے اور وہ عمارتیں نابود ہو گئیں جو چند روزہ اقامت کے لئے تھیں جیسے سرائے یا قوموں کی زیارت گاہیں اور وہ عمارتیں بھی نابود ہو گئیں۔ جو مستقل سکونت کی تھیں اب بتلائو یہ معنے طاعون پر کیونکر صادق آ سکتے ہیں اور طاعون کو عمارتوں کے گرنے سے کیا تعلق ہے۔ ان معنوں میں اور خدا تعالیٰ کی وحی کے معنوں میں صرف ماضی اور مضارع کا فرق ہے یعنی لبید نے اس جگہ ماضی کے معنے ملحوظ رکھے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں اس جگہ استقبال کے معنے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اور بستیاں نابود ہو جائیں گی نہ عارضی سکونتیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونتیں۔ اب بتلائو کہ کیا یہ معنے طاعون پر صادق آ سکتے ہیں اب ہٹ دھرمی کرنا کیا فائدہ ناحق خدا کی ضد دو ہی آدمی کیا کرتے ہیں یا سخت احمق یا سخت بے ایمان اور متعصّب۔ پھر اگر آپ وہی اعتراض پیش کریں جس کا پہلے بھی جواب دیا گیا ہے یعنی یہ ماضی کا صیغہ ہے اور لبید رضی اللہ عنہ نے ماضی کے معنوں پر استعمال کیا ہے۔ تو اس کا جواب پہلے بھی گذر چکا ہے کہ اب یہ کلام لبید کا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ خدا تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں عظیم الشان پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ سے بیان کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّط مَآ اَغْنیٰ عَنْہُ مَالْہٗ وَ مَاکَسَبَ٭۔ ۱؎ اب ذرہ کچھ انصاف کو کام میں لا کر جواب دو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ ماضی کے صیغہ میں ہیں یا مضارع کے صیغہ میں، عقلمند کے لئے تو یہ ایک سخت ندامت کا موقعہ ہے بلکہ ایسی غلطی مرنے کی جگہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ ایک شخص باوجود دعوے علم ۔ باقی آئندہ
اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دُنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ۱؎ہے۔ کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو اُن کے ظہور کی خبر نہ تھی۔ لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہؤا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اُس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اس ملک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی چنانچہ پائیونیر نے (جو الٰہ آباد سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۱؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے (جو لاہور سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلی گراف نے (جو لکھنؤ سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اِس خبر کو شائع کیا ہے۔ پس اِس طرح پر قریباً تمام دُنیا میں یہ خبر شائع کی گئی اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رُو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شاہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا۔ چنانچہ وِبْ نے جو امریکہ میں مسلمان ہو گیا ہے میری طرف اس کے بارہ میں ایک چٹھی لکھی تھی کہ ڈاکٹر ڈئوئی اس ملک میں نہایت معززا نہ اورشاہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ اور باوجود اس عزّت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اُس کو حاصل تھی خُدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اُس کے مقابل پر امریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کر دیا اور تمام امریکہ
اور یورپ میں مشہور کر دیا اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اُس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہو ئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصو ّر نہیں ہو سکتا۔ اُس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اُس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا۔ اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کر کے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اُس کے قبضہ میں تھا اُس کو جواب دیا گیا اور اُس کی بیوی اور اس کا بیٹا اُس کے دشمن ہو گئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے پس اس طرح پر وہ قوم میں ولدالزنا ثابت ہوا اور یہ دعو یٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں۔ یہ تمام لاف و گزاف اُس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلّت اُس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اُس پر فالج گِرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے ا ور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجا نہ رہے اور یہ دعویٰ اُس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتاہوں اور لوگ بڈھے ہو تے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا۔ آخرکار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دُکھ کے ساتھ مر گیا۔
اَب ظاہر ہے کہ اِس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہو گا چونکہ میر ااصل کام کسرِ صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا۔ کیونکہ وہ تما م دنیا سے اول درجہ پر حامئِ صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دُعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی۔ کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا۔ نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔۱؎ اگر مَیں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا اور اگر میں اُس پر بددُعا نہ کرتا اور اُس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اِس کا مرنا اسلام کی ّحقیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھیرتا لیکن چونکہ میں نے صد ہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا۲؎ تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلّت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ اس سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچّا کرتا ہے اور کیا ہو گا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہو گا۔ والسلام علٰی من اتبع الھُدیٰ۔
۱لمشتہر میرزا غلام احمد مسیحِ موعود از مقام قادیان
ضلع گورداسپور پنجاب ۔ ۷ اپریل ۱۹۰۷ء




۱؎ آج نہ صرف میری پیشگوئی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی۔ منہ۔
۲ ؎ حاشیہ ۔ امریکہ کے ایک اخبار نے خوب یہ لطیفہ لکھا ہے کہ ڈوئی مباہلہ کی درخواست کو تو قبول ضرور کرے گا مگر کسی قدر ترمیم کے بعد اور وہ یہ کہ ڈوئی کہے گا کہ میں اس طرح کا مباہلہ تو منظور نہیں کرتا کہ کاذب صادق کے سامنے ہلاک ہو جائے ہاں یہ منظور کرتا ہوں کہ گالیاں دینے میں مقابلہ کیا جائے۔ پھر جو شخص گالیاں دینے میں بڑھ کر نکلے گا اور اوّل درجہ پر رہے گا اُس کو سچّا سمجھا جائے۔ منہ۔
المحمّدی لیری الناس انہ اکمل من المسیح الاسرآئیل فی بعض شیونہ فی ذالک من غیرۃ اللّٰہ التی ھیّجھا النصاریٰ باطراء مسیحھم ۔ ولمّا کان شان المسیح المحمّدی کذٰلک فما اکبر شان نبی ھومن امتہ۔ اللّٰھم صلّ علیہ سلامًا لایغادر برکۃ من برکاتک و سوّد وجوہ اعداء ہ بتائید اتک واٰیاتک ۔ اٰمین۔
الراقم میرزا غلام احمد من مقام القادیان الفنجاب
لخمس وعشرین من اغسطوس ۱۹۰۱ء
مسیح محمدی کے ہاتھ میں دی ہے تا وہ لوگوں کو یہ دکھائے کہ وہ مسیح اسرائیلی سے اپنے بعض کاموں میں زیادہ کامل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی وجہ سے ہوا جسے عیسائیوں نے اپنے مسیح کی زیادہ تعریف کرنے کی وجہ سے بھڑکا دیا تھا۔ اور جب مسیح محمدی کی یہ شان ہے تو اس نبی کی کتنی بڑی شان ہو گی جس کی امت سے وہ ہے۔ اے اللہ تو اس پردرود اور سلام بھیج اس طرح کہ تیری برکات میں سے کوئی برکت باقی نہ رہ جائے اور اپنی تائیدات اور نشانات کے ساتھ اس کے دشمنوں کے چہروں کو سیاہ کر۔ آمین۔
الراقم میرزا غلام احمد از مقام قادیان پنجاب
۲۵؍اگست ۱۹۰۱ء)



Dear Sir,
Bishops Bournes
Lahore.
Aug, 15, 01
The lord Jesus Christ was certianly not a law-giver, in the senses in which Moses was, giving a complete descriptive law about such things as clean and unclean food. That He did not do this must be evident to any one who reads the New Testament with any care or thought whatever. The Mosaic law of moots was given in order to develope in the minds of men who were in a very elementary stage of education and religion, the sense of law, and gradually of Holiness and the reverse. It is, therefore, called in the New-Testament a "Schoolmaster to bring us the christ (Gal iii- 24) for it developed a conscience in man which, whem awakened, could not find rest in any external or purely ceremonial acts but needed an inner righteourmess of heart and life. And it was to bring this that Christ came by his life and death. He both deepened in man's minds the sense of what sin really is and how terrible it is and also showed men how they could be reconciled to God, obtaining forgiveness of sins and also Power by the gift of the Holy Spirit to live a new life in real holiness, and in love to God and man. What the characteristics of that new life are you can see by reading the sermon on the mount St. Mathew chapter XVII.
ترجمہ ۔
از مقام بشپس بورن واقعہ لاہور
مورخہ ۱۵ ؍ اگست ۱۹۰۱ء
جناب۔ خداوند یسوع مسیح ہرگز شارع نہ تھا جن معنوں میں حضرت موسیٰ صاحب شریعت تھا جس نے ایک کامل مفصّل شریعت ایسے امور کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ۔ کوئی شخص انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو جائے گا کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھا۔
موسٰی کی شریعت کھانے وغیرہ امور کے متعلق اس واسطے نازل ہوئی تھی کہ انسان کا دل تربیت پا کر شریعت کے مفہوم کو پا لے اور رفتہ رفتہ مقدس اور غیر مقدس کو سمجھنے لگے کیونکہ انسان اس وقت تعلیم و مذہب کی ابتدائی منزل میں تھا اس لئے انجیل میں کہا گیا ہے کہ موسیٰ کی شریعت ایک استاد تھی۔جو ہمیں مسیح تک لائی۔ کیونکہ اس شریعت نے انسان کے دل میں ایک ایسی فطرت پیدا کر دی جو کہ ترقی پا کر صرف بیرونی اور رسمی اعمال پر قانع نہ ہوئی بلکہ دل اور رُوح کی اندرونی راستی کی تلاش کرنے والی ہوئی۔ اس راستی کے لانے کے واسطے مسیح آیا۔ اپنی زندگی اور موت کے ذریعہ سے اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ سمجھ ڈال دی کہ گناہ کیا ہے اور وہ کیسا خوفناک ہے اور گناہوں کی معافی حاصل کرکے اور روح القدس کے عطیہ سے ہم تقدسّ کی نئی زندگی پا کر اور خدا اور انسان کے درمیان محبت قائم کر کے خدا کو پھر راضی کر سکتے ہیں۔ متی باب ۵ و ۷ میں پہاڑی تعلیم کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس نئی زندگی کا طرز طریق کیا تھا۔
دستخط ۔۔ جے اے لیفرائے بشپ لاہور۔








ہمارا اشتہار
میں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے۔ (۱) ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے۔ اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت اُن سے صادر ہو جاتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہو سکتے جیسا کہ آیت یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً ۱؎ اس کی شاہد ہے۔ (۲) اُن کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَاَیَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَہَّرُوْنَ ۲؎ ا س کی شاہد ہے۔ (۳) اُس کی دعائیں اکثر قبول ہو جاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت اُدْعُوْنْیِ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۳؎ اس کی گواہ ہے۔ سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکالیں اور اس میں سے چالیس آیت یا ساری سورۃ (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو) لے کر فریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اول یہ دعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورۃ کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اسی جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوۃ عطا فرما اور روح القدس سے اس کی مدد کر۔ ٭ اور جو شخص ہم دونوں فریق میں سے تیری مرضی کے مخالف اور تیر سے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائید سے محروم ہے ۱؎ ۔ پھر اس دعا کے بعد فریقین عربی زبان میں اس تفسیر کو لکھنا شروع کریں اور یہ ضروری شرط ہو گی کہ کسی فریق کے پاس کوئی کتاب موجو د نہ ہو اور نہ کوئی مددگار اور ضروری ہو گا کہ ہر ایک فریق چپکے چپکے بغیر آواز سنانے کے اپنے ہاتھ سے لکھے۔ تا اس کی فصیح عبارت اور معارف کے سننے سے دوسرا فریق کسی قسم کا اقتباس یا سرقہ نہ کر سکے۔ اور اس تفسیر کے لکھنے کے لئے ہر ایک فریق کو پورے سات گھنٹے مہلت دی جائے گی اور زانو بہ زانو لکھنا ہو گا نہ کسی پردہ میں۔ ہر ایک فریق کو اختیار ہو گا کہ اپنی تسلّی کے لئے فریق ثانی کی تلاشی کر لے اِس احتیاط سے کہ وہ پوشیدہ طور پر کسی کتاب سے مدد نہ لیتا ہو اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی مگر ایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کو گواہوں کے روبرو ختم کرنا ہو گا۔ اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا سنائی جائیں گی اور اُن ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہو گا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیر اور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے۔ اور ضروری ہو گا کہ اُن تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کا مرید ہو۔ اور مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور مولوی عبداللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کریں جو اُن کے مرید اور پیرو نہ ہوں۔ ۲؎ مگر ضروری ہو گا کہ یہ تینوں مولوی صاحبان حلفاً اپنی رائے ظاہر کریں کہ کس کی تفسیر اور عربی عبارت اعلیٰ درجہ پر اور تائید الٰہی سے ہے۔ لیکن یہ حلف اس حلف سے مشابہ ہونی چاہئے جس کا ذکر قرآن میں فذن محسنات کے باب میں ہے جس میں تین دفعہ قسم کھانا ضروری ہے اور دونوں فریق پر یہ واجب اور لازم ہو گا کہ ایسی تفسیر جس کا ذکر کیا گیا ہے کہ کسی حالت میں بیس ورق سے کم نہ ہو اور ورق سے مراد اس اوسط درجہ کی تقطیع اورقلم کا
ورق ہو گا جس پر پنجاب اور ہندوستان کے صدہا قرآن شریف کے نسخے چھپے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ۱؎ پس اس طرز کے مباحثہ اور اس طرز کے تین مولویوں کی گواہی سے اگر ثابت ہوگیا کہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر اور عربی نویسی میں تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہیں اور مجھ جیسا کام نہ ہو سکا یا مجھ سے بھی ہو سکا مگر انہوں نے میرے مقابلہ پر ایسا ہی کر دیکھایا تو تمام دنیا گواہ رہے کہ میں اقرر کروں گا کہ حق پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہے اور اس صورت میںمیں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اس دعوے کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوں گا میری طرف سے یہی تحریر کافی ہے جس کو میں آج یہ ثبت شہادت بیس گواہان کے اس وقت لکھتا ہوں لیکن اگر میرے خدا نے اِس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور میر علی شاہ صاحب کی زبان بند ہو گئی نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورہ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اِس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں اور لازم ہو گا کہ یہ اقرار صاف صاف لفظوں میں بذریعہ اشتہار دس دن کے عرصہ میں شائع کردیں۔ میں مکرر لکھتا ہوں کہ میرا غالب رہنا اسی صورت میں متصور ہو گا کہ جبکہ مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی لکھ نہ سکیں اور ایسی تحریر کریں جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرین کریں کیونکہ میں نے خدا سے یہی دعا کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے۔ اور میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا اور اگر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں جانتے ہیں کہ وہ مومن اور مستجاب الدعوات ہیں تو وہ بھی ایسی ہی دعا کریں۔اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ اُن کی دعا ہرگز قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ خدا کے مامور اور مرسل کے دشمن ہیں اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں۔
مطبع ضیاء الاسلام قادیان




۱؎ کا ہو گا جو بیس منزل کا اندازہ اُس قرآن کے ساتھ کیاجائے جو ۱۵۰۰ء میں مولوی نذیر احمد خان صاحب نے چھپوایا ہے۔ منہ
پیرمہر علی شاہ صاحب کا جواب
مجھ کو دعوت حاضری جلسہ منعقدہ لاہور مع شرائط مجوزہ مرزا صاحب بسر و چشم منظور ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب بھی میری ایک ہی گذارش کو بسلک شرائط مجوزہ کے منسلک فرماویں گے۔ وہ یہ ہے کہ پہلے مدعی مسیحیت و مہدویت و رسالت لسانی تقریر سے بمشافہ حصار جلسہ اپنے دعوے کو بپایۂ ثبوت پہنچا دے گا۔
بجواب اُس کے نیاز مند کی معروضات عدیدہ کو حضرات حاضرین خیال فرما کر اپنی رائے ظاہر فرماویں گے۔ مجھ کو شہادت و رائے تینوں علماء کرام مجوزہ مرزا صاحب (یعنی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی و مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی و مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی پروفیسر لاہوری) کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہ ہو گا۔ بعد ظہور اس کے کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ کو بپایۂ ثبوت نہیں پہنچا سکے۔ مرزا صاحب کو بیعت توبہ کرنی ہو گی۔ بعد اس کے عقائد معد ودہ مرزا صاحب میں جن میں جناب ساری امت مرحومہ سے منفرد ہیں بحث تقلیدی اور اظہار رائے ہو کر مرزا صاحب کو اجازت مقابلہ تحریری کی دی جاوے گی۔ یہ وہ شرط ہے کہ دعوے جناب اور تحقیق حق کے لئے عند العقلا مقتضے بالطبع ہے۔ ظاہر ہے کہ تیز نویسی اور قافیہ سنجی کو بعد بطلان مضامین کے کچھ بھی وقعت اور عظمت نہیں۔ حقیقت مضامین کا محفوظ رہنا عیّارانِ صداقت کے لئے نہایت مہتم بالشان ہے۔ اظہار ِ حقیّت بغیر اِس طریق کے متصّور ہی نہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب کے حقائق و معارف قرانیہ سے تو اُن کی تصانیف بھری ہوئی ہیں اور وہی جناب کے دعویٰ کو عدم حقیّت کی وجہ سے دھبّہ لگا رہے ہیں۔ علماء کرام کی تحریرات اور اہل دیانت و فہم کامل کی تقریرات اس پر شاہد ہیں۔ تیز نویسی چونکہ بروز عیسوی و بروز محمدی سے بالکل اجنبی و برطرف ہے لہٰذا اس کو موخر رکھا جاوے گا۔ اس شرط کی منظوری سے مع تاریخ مقررہ کے مشرف فرماویں۔ نہایت ممنون ہو کر حاضر ہو جائوں گا قانون فطرت اور کرّات مّرات کا تجربہ مع شہادت (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا)۱؎ کے پیشین گوئی کر رہا ہے کہ آپ کو عین وقت بحث میں الہام سکوتی ہو جاویں آپ فرماویں ۔ اس کا کیا علاج ہو گا۔ اپنے اشتہار میں اس الہام ضروری الوقوع کا مستثنٰے نہ فرمانا صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایسے الہامات عندیہ اوراپنے اختیاری ہیں ورنہ در صورت منجانب اللہ ہونے اُن کے کیونکر زیر لحاظ نہ ہو اور مستثنیٰ نہ کئے جاویں۔ یہ بھی مانا کہ منجانب اللہ ہیں تو پھر اُن پر تعمیل واجب ہو گی۔ مشائخ عظام و علماء کرام کو تشریف آوری سے بغیر از تضیع اوقات و تکلیفِ عبث کیا حاصل ہو گا۔ لہٰذا عرض کرتا ہوں کہ شرق سے غرب تک ان بزرگواروں کو آپ کیوں تکلیف محض دیتے ہیں۔ فقط یہ ایک ہی نیاز منداُن کا حاضر ہو جائے گا۔ بشرط معروض الصدر نامنظوری شرط مذکور یا غیر حاضری جناب کی دلیل ہو گی۔ آپ کے کاذب ہونے پر آپ فرماتے ہیں کہ شمس الہدایت کے صفحہ ۸۱ میں نیاز مند نے علم اور فقر میں لاف زنی کی ہے۔ ناظرین صفحہ مذکورہ کے ملاحظہ فرمانے کے بعد انصاف کر سکتے ہیں کہ آیا لاف زنی ہے اپنے بارہ میں یا تہدید ہے بمقابلہ اُس کے جو ’’اجماع کورانہ ‘‘ ۔ ’’حزب نادان‘‘ ۔ ’’بے شرم‘‘۔ ’’بے حیا‘‘ ۔ ’’علماء یہود‘‘۔ ازالہ۔ ایام الصلح۔ میں دربارہ علماء سلف خلف شکر اللہ سعیہم کے مرزا صاحب نے دیانت اور تہذیب سے لکھا ہے اور تفروفی فہم القرآن کا دعویٰ کیا ہے۔
آپ اس اشتہار کے صفحہ ۳ کے اخیرپر باریک قلم سے لکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنی کتاب میں جہالت کا اقرار کرتے اور فقر کا بھی دم نہ مارتے تو اس دعوت کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔ الخ۔ لاف زنی کی کیفیت تو ناظرین کو ملاحظہ صفحہ مذکورہ سے معلوم ہو جائے گی۔ بھلا آپ یہ تو فرمایئے کہ جب آپ اپنی دعوت میں مامور من اللہ ہیں تو پھر لاف زنی پر اس دعوت کی بنا ٹھرانی قول بالمتناقضین نہیں تو کیا ہے۔
مرزا صاحب نیاز مند کو مع علماکرام کے کسی قسم کا عناد یا حسد جناب کے ساتھ نہیں مگر کتاب اللہ و سنّت رسول صلعم باعث انکار ہے۔ انصاف فرماویں مثل مشہور کا مصداق نہ بنیں (نالے چور تے نالے چترا) ظاہر تو عشق محمدی صلعم اور قرآن کریم سے دم مارنا اور درپردہ کیا بلکہ علانیہ تحریف کتاب و سنت کرنی ۔اور پھر اس کمال پر لمنفی نہ رہنا بلکہ اوروں کو بھی اس کمال کے ساتھ ایمان لانے کی تکلیف دینے بھلا پھر علماء کرام کیسے خاموش بیٹھے رہیں۔ آپ اپنے اشتہار میں جو کچھ بڑے زور و شور سے ارشاد فرما چکے ہیں۔ اگر بلحاظ اس کے کچھ بھی لکھا جاوے۔ تو داخل گستاخی اور مورد عتاب اہل تہذیب نہیں ہو سکتا۔ مگر تاہم لوگوں کی ہنسی سے شرم آتا ہے۔ اس سے زیادہ آپ کی اوقات گرامی کی تصنیع نہیں کرتاہوں۔
الدّعَائُ والتَّامین فی العَرَبیَّۃ
ایّھا الاحبّاء المخلصون۔ والا صدقاء المسترشدون۔ جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء۔ وحفظکم فی الکونین من البلاء۔ انکم قاسیتم متاعب السّفر و شوائبہ۔ و ذُقتم شدائد الحرّ ونوائبہ۔ وجئتمونی مُدّلجین مُکابدین۔ لتشکروا اللّٰہ فی مکانی ھذا مجتمعین۔ وتکثروا الدّعاء لقیصرۃ الھند شاکرین ذاکرین۔ وتدعون دعوۃ المخلصین۔ یاعباد اللّٰہ لا تعجبوا لدعواتنا وشکرنا فی تقریب الجوبلی۔ وتعلمون ماقال سیدّنا امام کل نبیّ وولی وخاتم النبیّین ۔ انہ من لم یشکر الناس فما شکر اللّٰہ و اللّٰہ یحب المحسنین۔ ثمّ تعلمون ان اموالنا واعراضنا ودماء نا قد حفظتھا العنایۃ الالٰھیّۃ بھٰذہ الملکۃ المعظمۃ۔ وجعلھا اللّٰہ مویّدۃ لنا فی المھمّات الدنیویّہ والدّینیّۃ۔ فالشکر واجب علٰی مافعل ربّنا ذوالجلال والعزۃ ومن اعرض فقد کفر بالنعم الرحمانیۃ۔ واللّٰہ یحب الشاکرین۔ ایّھا النّاس ھذا یوم یجب فیہ اظہار الشکر والمسّرۃ مع الدّعاء باخلاص النیّۃ۔ فاردنا اَنْ نقبلہ بمراسم التھانی والتبریک والتھنیّۃ۔ ورفع اکفّ الابتھال والضراعۃ۔ وتذلّل یلیق بحضرۃ الاحدیۃ۔ وانارۃ الماٰذن والمساجد والسکک والبیوت بالمصابیح والشھب النورانیّۃ۔ وانما الاعمال بالنیات المخفیۃ من اعین العامۃ ۔ واللّٰہ یری مافی قلوب العالمین ۔ یاعباد اللّٰہ الرحمان۔ ھل جزاء الاحسان الّا الاحسان۔ فلا تظنواظن السوء ۔ مستعجلین والان ادعوا لقیصرۃ بخلوص النیّۃ۔ فامّنو علٰی دعائی یامعشر الاحبّۃ۔ واتّقوا اللّٰہ ولا تنسوا منّ اللّٰہ و منّ عبادہ من الخواص والعامۃ ۔ ولا تعثوا مفسدین۔
یارب اَحسِنْ الٰی ھٰذہ الملکۃ۔ کما احسنت الینا بانواع العطیّۃ۔ و احفظھا مِن شرّ الظالمین ۔ یاربّ شید واعضد دعائم سریرھا۔ واجعلھا فائزۃ فی مھمّاتھا وصُنھا من نوائب الدنیا وآفاتھا۔ وبارک فی عمرھا و حیاتھا یاارحم الراحمین ۔ یاربّ ادخل الایمان فی جذر قلبھا ونجّھا و ذرا ریھا مِن ان یعبدوا المسیح ویکونوا من المشرکین ۔ یاربّ لا تتوفّھا الا بعد ان تکون من المسلمین ۔ یاربّ انا ندعو لھا بالسنۃ صادقہ وقلوب ملئت اخلاصا وحسن طویّۃ فاستجب یااَحْکم الحاکمین۔
اجد الانام ببھجۃ مستکثـرۃ
عید اتیٰ او جوبلی القیصرۃ
نشر التھانی فی المحافل کلھا
فاری الوجوہ تھللت مُستبشرۃ
انّی اراھا نعمۃً من رَبّنا
فالشکر حق واجب لابربرہ
لاشک ان سرورنا من شکرھا
خیر فمن یعلمہ اخلاصًا یرہ
اَمَرَا النبیُّ لشکر رجل مُحسِن
قُتل العنود المعتدی مااکفرہ
دُعا اور آمین در زبانِ فارسی
اے گروہ دوستان و جماعت مخلصان خدا شمار اجزائے خیرد ہد شما تکالیف گرمی موسم و صعوبت سفر برداشتہ نزدمن در قادیان بدیں غرض رسیدہ اید کہ تا بر تقریب جشن جوبلی باجتماع اخوان خود شکر خدائے عزّو جل بجا آرید و برائے خیر دُنیا و دین ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دعا ہا کنید ۔مے دانم کہ موجب ایں تکالیف و آنچہ برائے انعقاد ایں جلسہ باہم چندہ فراہم کردہ رسوم جلسہ بجا آوردہ اید باعث ایں ہمہ بجز اخلاص و محبّت چیزے دیگر بنودہ۔ پس دعا مے کنم کہ خُدا تعالٰے شمارا پاداش ایں تکالیف دہد کہ محض برائے حصول مرضات او کشیدہ اید۔ اے دوستان مے دانید کہ مادر عہد سعادت مہد قیصرہ ہند چہ آرا مہادیدم و مے بینیم وچہ قدر زندگی خود در امن و عافیت گذرانیدہ ایم و مے گذرانیم۔ پس شرط انصاف ایں است کہ مابرائے ایں ملکہ مبارکہ از تہ دل دُعا کنیم چرا کہ ہر کہ شکر مردم محسن نکند شکر خدا بجا نیا وردہ است۔ پس ایں دعا ہامیکنم شما آمین بگوئید۔ اے قادر توانا بدیں ملکہ تونیکی کُن چنانکہ او بما کرد۔ و از شرّ ظالمان او را محفوظ دار۔ اے قادر توانا ستو نہائے سریر او بلند کُن و در مہمات خود اورا فائز گردان و از حوادث دُنیا و دین اُورا انِگہ دار۔ و در عمر و زندگی او برکت بخش۔ اے قادر توانا اسلام در دِل اُو داخل کُن واُوْرا و اولاد اُو را از پرستش مسیح کہ بندۂ عاجز است نجاست دہ و از مشرکان اورا بیروں آر۔ کہ ہمہ قدرت توداری۔ اے قادر توانا اور ا تا آں وقت وفات مدہ کہ بر راہِ راست اسلام ثابت قدم بودہ باشد۔ اے ربّ جلیل دعا ہائے ما قبول کُن ۔ آمین۔

دُعَا نورْ آمِیْن پْو پَشْتو ژبَہ کِیْ
اَیْ دَمابُلْ دِخُدای دُوستُونْ خُداتا سِتَہ دِ خَیْر جَزا درْ کے تاسِہ خَلْق تکَلیْفَون پُخْپُلْ زَان بَاندِ آخِسْتی دَہْ دِمَا ححہ پوْ قَادِیَان لِپَارہ د دغرضْ رَاغْلِے وہ کِہ دِ َملِکہْ مُعظّمہ اِشْپْے تِیْ کالْ جَشْن اِسْتَاسْو اوْرُوْ رُوْن َسرَہْ دِیْ خُدائے عزَوَجَلّ شُکرَ اَدا وُکروْاَوْر دِے مَلِکَہْ معظمہ قَیْصرہ ھِنْد دُنْیائی خَیْر ِلپَارَہْ دُعا وکُوز پوْئے کمُ کِہ دِدِ تکلیفونَ سَبَبْ چہ جَلسَہْ دِپَارَہْ چِنْدَہ تولہ کَرَ یْ وُہ بُلْ دِجَلسَہ َرسْم بَہَمْ پُوْرَہْ کَرَ یْ وُہ دِ اِخْلاص اَود دِیْ حُجَتْ سِوا بُل شیْ نِدَیْ نورْ ز دُعاکَوُمْ کِہْ خُدا صاحِبْ تاسُتَہ دِدِ تکلیفون اَجر وَرْکِيْ چہ صرْف دِ آغَہْ لِپَارَہْ تاسوْ آخِسْتَیْ دَہ ۔ اَے دوسْتونَ پویُکیْ چہ مُنکہْ دِ مَلِکہ کِے پوْ زمَانِے مِیْن سِرِنْکہْ آرام مُنْکہٌ لِیْدِلَیْ دَہْ اَوُزَہ سِرِنکہٌ دِخپُلْ زِنِدکی سَرَہْ بَسَرْکَرِیَْ ھَمْ دَہْ اَوْر بَسرُبَہ اوکُو ْبَیا اِنْصَافْ دَادَہْ چِہْ مُنکہٌ دِ مَلِکَہْ دِ پارَہْ دُعا وَکُو وَلِے چہ ھَرْچَاچِہ دِ نیک سَرَیْ شُکرنَکیْ اَغَہْ دِ خُدای شُکر سِرِنَکَہ کَوُلیْ شِیْ۔پَسْ زِ دُعَا کَوُمُ تَاسِہْ آمِیْن وَہ وَائی ایْ لوْئے خُدایا دِ مَلِکَہْ سَرَہْ نِیکیْ وُہ کَہْ اَغَہْ سِیْ چہ مُنَکَہٌ سَرِہُ اَغَہُ کَر یْ دِینے اَوْر دِ ظالمون دِشَرَہ اَغَہ اُوسَاتَہ یالوئے خدایادَ اَغہ دِ تخت اِستن تہُ بلند اُوکرہ بِل دَدین اَو دَ دنیا شِرُونَ اَغہ اُوساتہ اَود پوْعُمُر بُلْ پُو اغَہَ زِنْدکی بَرَکَتْ کَرَہْ یا لوئے خُدَایَا اِسْلَامْ پوْ اَغَہ زِرَہْ بْنَہْ کَرہ یا لو یِْ خُدایا مَلِکَہْ بُلْ دِ اَغَہ زو یِْ بُلْ دِ اَغَہَ عَیَال دِیْ مَِسیحْ دیْ پَرسْتش چہ یَوْ عَاجِزْ سَرَ ے دَہ اوسَاتَہ اَودَدِ مُشرِکُونَ کَروَھ نَہ اَغَہ اوباسَہْ چِہ تَہ قُدرَتْ لَرَ یْ اَیْ لوئے خُدایَا تِرْاَغَہ وقْت مَلِکَہ مُرمُکَہُ چِہ مُسْلمَان شِی یالوئے خَدایَا اِمنگ دُعَاتہ قبَول کَرَہ۔
مہارانی قیصرہ ہند دیاں ساریاں مُراداں پوریاں ہونْدی پنجابی وِچہ بینتی
سُنو میریو سچے دوستو تے پکے یارو جس گل واسطے تُسیں سارے پھائی اپنے سارے کم کُسا کے تے کشالہ کر کے میرے کول قادیان وچہ آئے او اوہ اک پھارامتبل ایہ ئے جے اسیں سارے دربار رانی ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دیاں احساناں تے مہربانیاں نوں یاد کر کے اوہدے سٹھ و رھیاندے راج دے پورا ہونے دی اپنے ربّ دے درگاہے شکر کریئے تے ایسدے بے اوڑک کرم داگاون گائیے جس نے آپنیاں فضلاں تے کرماں دے نال ایڈے لمّے زمانّے توڑیں سانوں اجیہی ملکہ معظمہ دے راج دے چھاویں پھاگاں سہاگاں نال رکھیا۔ جس تھیں اساں غریباں مسلماناں دیاں جاناں تے پُتاں تے مال ہتھیاریاں تے انیائیاں دے پنجبیاں تھیں بچ گئے تے اسیں ہُن توڑیں من پھاو ندیاں خوشیاں تے انگنیاں چیناں دے نال اپنی زندگانی پوری کر دے رہے۔ تے دوجا متبل وڈا ایہ جے ہن اسیں اس ویلے جناب ملکہ معظمہ دا شکر پورا کرنے واسطے سچّے رب صاحب دی سچّی درگاہے ترلیاں تے جھیرگیان نال دعا کریئے کہ جس طرح ایس جگت دی رانی تے دھرمی تے لاڈ لڈیا نے والی ماتا دے راج وچہ رہ کے اساں آرام پایا تے اوس دی بادشاہی دی ٹھنڈی تے سنگھنی چھاں وچ ہر انر تھی دے انرتھوں بچکے مٹھیاں نیندراں سُتّے ہاں اوسیّ طرح دھرتی انبردا راجا سچّا ربّ ایسی ملک معظمہ نوں اینہاں پُنّاں داناند ابدلہ دے۔ تے اوہنو ہر اک تھکے تہوڑے تے ساریاں درداں تھیں آپنا ہتھ دے کے بچا رکھے۔ تے اقبال تے وڈیائی تے آساں امیداں دے پورا ہوون وِچہ وادھا بخشے تے ساریاں مُراداں پوریاں کرنے سمیت اوستے ایسا فضل کرے تے اجیہا ترٹّھے جے بندہ پرستی تھیں اوسدے دِل نوں مٹھی نیندروں جگادے تا ایہ ماتا آپنی جائو و اسمیت اک وحدہٗ لاشریک لہٗ جیوندے جاگدے دھرتی انبرتے ایس سارے اڈنبر دے سائیں دی پوجا ول آوے۔ تے و وہاں جگاں دا سدا سرگ پاوے۔ میریو پیاریویارو تسیں خدا دی قدرت تھیں اوپرا جاندے ہو۔ بھلا تسیں ایسی گل نوں اچرج تے انہونی سمجہدے ہو جے ساڈی جگ رانی ملکہ معظمہ دے دین تے دُنیاں تے خدا دا فضل ہوجائے۔ او پیاریو اُس ذات سگت و اندیاں وڈیائیاں تے پُورا ایمان لیائو جس نے ایڈا چوڑا تے اُچّا آسمان بنایا تے دھرتی نوں ساڈے واسطے و چھایا تے دو چمکدے دیوے انملے جگ چمکان والے ساڈیاں اکھیاں اگے رکھے۔ اک چندر ماہ دوجا سورج ماہ سوترلیاں تے ہاڑیاں تے دندیاں لہلکنے نال ربّ صاحب سچّے دی درگاہ وچہ اپنے سَد اُپنّاں داناّں والی ملکہ معظمہ دے دین تے دُنیاں واسطے دُعا منگو۔
میں سچّو سچ کہناہاں جیکر تُسیں کچیاں تے دو۲ گلّیاں نوں سنگوں ہٹا کے تے سچّیاں تے اکولّیاں نوں ساتھ لے کے تے پوری امید نال نہیچہ بنّہ کے دُعا کرو گے تاں جگاں دا سچّا داتا تہاڈی دُعا ضرور سُنے گا۔ سو اسیں دُعا کرنے ہاں تے تسیں آمین آکھو۔ہے سچّیاسگتاں والیا سچیاسائیاں جدتوں اپنی حکمت تے مصلحت نال ایس دیاوان رانی دے راج دے ٹھنڈی چھاویں ساڈے جیونیدا اک لمّا حصّہ پورا کیتائی تے اوس دے سبّبوں ہزاراں آفتاں تے بلاواں تھیں سانوں بچایائی۔ تُوں اُوسنوں بھی آفتاں تھیں بچا جے توں ہر شَے تے سگت تے وسّ رکھنائیں۔ ہے قدرتاں والیاں جس طرح اسیں اوسدے راج وچہ دھکیاں دھوڑیاں تے ٹھینے ڈگنے تھیں بچائے گئے ہاں اوسنوں بھی ساریاں چنتاں تے چھوریاں تھیں بچا جے سچیّ بادشاہی تے پکّی زور آوری تے پوری حکومت تیری ئیے۔ ہے جتنا ں والیا مالکا اسیں تیری بے انت قدرت تے تہان رکھ کے اک ہور دُعا دے واسطے تیری درگاہے دلیری کرنے ہاں جے توں ساڈی اَ ن گنت دَیاوان رانی ملکہ معظمہ نوں بندہ پوجن دی انہیری کوٹھڑی تھیں باہر کڈھ کے اُچّے تے سنہری تے لاٹاں مارنے والے لا الٰہ اِلاّ للّٰہ محمدّ رسول اللّٰہ دے چبوترے تے موجاں ماننے والی کر کے اوسیّ تے اوہدا پورن کر ۔ہے اچرج زورانوالیا۔ ہے ڈوھنگیاں نگاہاں والیا۔ہے پوریاں پہچان والیا۔ ہے بے اوڑک کابواں والیا اینویں کر۔ ہے ربّاں دیا ربّا ایہ ساریاں دُعاواں منظور کر۔ سارے دوست آمین آکھو۔ اے پیاریو سچّے ربّدی درگاہ وَڈِّی قدرتاں تے پہنیاں والی درگاہ ئے دعا دے ویلے اوس تھیں بے امید نہ ہو وو۔ کیوں جے اوس دے دربار دے بے اوڑسدا درتوں کسے سمے کوئی پھکھارا پھکھاتے خالی ہتھ نہیں گیا۔ تے اپنے سربت جیاجنت دے اندر باہر اوہدے اچرج کابوتے قبضے ہین۔ تسیں دو۲ گلیاں تے دو۲ رنگیاں تے کھوٹیاں وانگر دعا نہ کرو۔ سگوں سچیاں چیلیاں تے سوچیاں چیریاں وانگوں اوہدے من دھن تے چت ست تے پت واسطے دھن شاوا کھو تے سدا سُکھ منگو۔ ہیں تسیں سمجھو ے ہو جے سربت راجیاندے دِل اُس مہاراج سرب شکتی مان سدا دیاوان دے کابوئوں باہر نہیں سگوں سارے کم تے انیک تے ان گنی کرتب اُسیدے اوڈائو ہتھ وچہ نے۔ سو تسیں اپنے ان گنت دانانوالی مہارانی ملکہ معظمہ دے دُنیا تے عاقبت واسطے آنندتے آرام منگو جے تسیں وفادار ٹہیلے تے مَن وارنے والے چاکر ہو تاں شامیں تے پھرراتیں تے پچھلی راتیں نیندراں گنوا کے اوبھڑوائی اُٹھ اُٹھ کے بینتیاں کرو تے جہڑے مُنکھ اس گلدے دوتی تے دوکھی ہون اُنہاں ہتھ یاریا ندی پروا ہ نہ کرو۔
لوڑیدائی جے سبھّو گلاّں تہاڈیاں نتریاں ہوئیاں تے سُتھریاں ہون تے کسے گل تھہاڈّی وچہ رلا رول نہ ہووے سُرت تے سچ ملّو پھلا کرن والیاں دا بھلا چاہو تاں تھہانوں تھہاڈا جانی جان سچّا رب صاحب چنگا بدلہ دیوے۔ کیوں جے ہر منکھ بے حیائی کپدائی تے کیتائی پاندائے۔ نریاں گلاں کجھ پھل نہیں دیندیاں۔ تھڑیاں تے تُھڑیاں نوں پکڑنے والیا بَھؤڑیدا ویلائی۔

English Translation of the prayer recited by Mirza Gulam Ahmad Rais of Qadian on the occasion of the Diamond Jubilee.
My friends_ the object which has broght you here is to convene a meeting of thanksgiving on the heppy occasion of the Diamond Jubilee of her Majesty's reign in rememberance if the manifold blessings enjoyed by us during her Majesty's time. We offer our heartfelt thanks to god who out of His special kindness has been pleased to place us under this Sovereign rule, protecting thereby our life, properly and honour from the hands of tyranny and persecution and enabling us to live a life of peace and freedom. We have also to tender our thanks to our gracious empress, and this we do by our prayers for Her Majesty's welfare. May God protect our beneficient sovereign from all evils and hardships as Her Majesty's rule has protected us from the mischief of evil doers. May our blessed ruler be graced with glory and success and be saved at the same time from the evil consequences of believing in the diviniy of a man and his worship. My friends do not wonder at this, nor entertain any doubt as to the wonderful powers of the Almighty, because it is quite possible for Him to confer His choicest blessings upon our Gracious Queen in this world and the next. Hence the strong and firm belief in the omnipotence of the Superrems Being who made this spacious firmament on high and spread the earth beneath our feet illuminating them both with the sun and the moon. Let your sincerse prayer's as to the good of her Majesty in matters spiritual and temporal, reach His Holy Throne. And I assure you that prayers that come from hearts sincere earnest and hopeful are sure to be listened to. Let me pray then and you may say Amen:
Almighty God! As they Wisdom and Providence has been pleased to put us under the rule of our blessed Empress enabling us to lead lives of piece and prosperity, we pray Thee that our ruler may in return be saved from all evils and dangers as thine is the kingdom glory and power. Believing in Thy unlimited powers we earnestly ask Thee all powerful Lord to grant us one more prayer that our benefactoress the empress, before leaving this world. may probe her way out of the darkness of man-worship with the light of "La-ilaha-illallah- muhammad-al-rasul-ulalh." {There is no God but Allah and Muhammad is His Prophet}, Do Almighty God as we desire, and grant us this humble prayer of ours as thy will alone governs all minds Amen!
My Friends! Trust in God and feel not hopeless. Do not even imagine that the minds of wordly potentates and earthly kings are beyond His control. Nay Thy are all subservants to His Holy Will. Let therefore your prayers for the welfare of your empress in this world and the next, come from the bottom of your hearts. If you are loyal subjects remember Her Majesty in your night and morning prayers. Pay no heed to opposition. Let Your words and deeds be true and free from hypocriscy. Lead lives of virtue and righteousness, and pray for the good of your well-wishers, because no virtue goes unrewarded. I conclude with earnest desire that God may grant our prayer. Amen.
Dated 23-6-1897



فہرست
اسمائے حاضرین جلسۂ ڈائمنڈ جوبلی بمقام قادیان ضلع گورداسپورہ بحضور امام ہمام حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود معہ چندہ۔ و بلا چندہ و اسمائے غیر حاضرین جنہوں نے چندہ دیا۔ از ۲۰۔ جون ۱۸۹۷ تا ۲۲۔جون ۱۸۹۷ء
نمبر
نام
سکونت
رقم چندہ
کیفیّت
۱
حضرت اقدس جناب میرزا غلام احمد صاحب مہدی و مسیح موعود رئیس قادیان۔ معہ اہل بیت
قادیان
51/-روپے
۲
حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی
؍؍
5/- روپے
۳
مولوی عبدالکریم صاحب
سیالکوٹ
3/-روپے
۴
مولوی بُرہان الدین صاحب
جہلم
دو پیسے
۵
مولوی محمد احسن صاحب
امروہا ضلع مراد آباد
3/-روپے
بباعث مجبوری حاضر نہ ہوسکے
۶
حکیم فضل الدین صاحب معہ ہردو قبائل
بھیرہ
10/-روپے
۷
خواجہ کمال الدین صاحب بی ۔ اے پروفیسر اسلامیّہ کالج
لاہور
5/- روپے
۸
مفتی محمد صادق صاحب بھیر وی کلرک اکونٹنٹ جنرل
لاہور
2/-روپے
۹
میرزا ایوب بیگ صاحب بی اے کلاس
لاہورکالج معہ قبیلہ خود
کلانور
دو روپے
بارہ آنے
۱۰
خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج
لاہور
4/-روپے
۱۱
حکیم محمد حسین صاحب
؍؍
1/روپیہ
۱۲
خواجہ جمال الدین صاحب بی ۔ اے ربنیر کالج ریاست جموں
؍؍
2/-روپے
۱۳
حکیم فضل الٰہی صاحب
؍؍
5/-روپے
۱۴
منشی مولا بخش صاحب کلرک دفتر ریلوے
؍؍
1/-روپیہ
۱۵
منشی نبی بخش صاحب کلرک دفتر ریلوے
لاہور
3/-روپے
۱۶
منشی محمد علی صاحب ؍؍
؍؍
1/-روپیہ
۱۷
منشی محمد علی صاحب ایم اے پروفیسر اورنیٹل کالج
؍؍
5/-روپے
۱۸
شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر رخت
؍؍
25/-روپے
۱۹
منشی کرم الٰہی صاحب مہتمم مدرسہ نصرت اسلام
؍؍
4آنے
۲۰
میاں محمد عظیم صاحب کلرک دفتر ریلوے
؍؍
8آنے
۲۱
حافظ فضل احمد صاحب معہ فرزند
؍؍
1/-روپیہ
۲۲
حافظ علی احمد صاحب ؍؍
؍؍
1/-روپیہ
۲۳
شیخ عبداللہ صاحب نومسلم منصرم شفاخانہ انجمن حمایت اسلام
؍؍
8آنے
۲۴
علی محمد صاحب طالب علم بی اے کلاس کالج
؍؍
2پیسے
۲۵
منشی عبدالرحمن صاحب کلرک دفتر ریلوے
؍؍
5/-
۲۶
منشی معراج الدین صاحب جنرل ٹھیکدار
لاہور
10روپے
3آنے
۲۷
منشی تاج الدین صاحب کلرک دفتر ریلوے
؍؍
5/-روپے
۲۸
شیخ دین محمد صاحب
؍؍
8آنے
۲۹
حکیم شیخ نور محمد صاحب نو مسلم
؍؍
1/-روپیہ
۳۰
حکیم محمد حسین صاحب پروپرائٹر کارخانہ رفیق الصحت
؍؍
1/-روپیہ
۳۱
تاج الدین صاحب طالب علم مدرسہ اسلامیہ
؍؍
2پیسے
۳۲
عبداللہ صاحب ؍؍
؍؍
2پیسے
۳۳
مولا بخش صاحب پٹولی
؍؍
1/-روپیہ
بباعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے
۳۴
قاضی غلام حسین صاحب بھیروی طالب علم آرٹ سکول
؍؍
8آنے
؍؍
۳۵
حاجی شہاب الدین صاحب
؍؍
4/-روپے
؍؍
۳۶
چراغ الدین صاحب وارث میاں محمد سلطان
لاہور
2/-روپے
بباعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے
۳۷
احمد الدین صاحب ڈوری باف
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۳۸
جمال الدین صاحب کاتب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۳۹
محمد اعظم صاحب کاتب
؍؍
8آنے
؍؍
۴۰
سیف الملوک صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۴۱
میاں سلطان صاحب ٹیلر ماسٹر
؍؍
3/-روپے
؍؍
۴۲
میاں غلام محمد صاحب کلرک چھاپہ خانہ
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۴۳
مظفر الدین صاحب
؍؍
2/-روپے
؍؍
۴۴
خواجہ محی الدین صاحب تاجر پشمینہ
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۴۵
محمد شریف صاحب طالب علم اسلامیہ کالج
؍؍
8آنے
؍؍
۴۶
عبدالحق صاحب۔ اسلامیہ کالج
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۴۷
عبدالمجید صاحب ؍؍
؍؍
8 آنے
؍؍
۴۸
غلام محی الدین صاحب جلد بندسول ملٹری گزٹ
؍؍
7/-روپے
؍؍
۴۹
تاج الدین صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۵۰
بشیر احمد صاحب
؍؍
4آنے
؍؍
۵۱
نذیر احمد صاحب
؍؍
4آنے
؍؍
۵۲
ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۵۳
شیر محمد خان صاحب طالب علم بی اے کلاس
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۵۴
غلام محی الدین صاحب طالب علم بی اے کلاس
؍؍
5/-روپے
؍؍
۵۵
شیرعلی صاحب طالب علم بی اے کلاس
؍؍
1/-روپیہ
۵۶
صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی ابن حضرت شاہ حبیب الرحمن صاحب مرحوم سجادہ نشین
چہارقطب ہانسوی حال وارد قادیان
سرساوہ
2 پیسے
۵۷
قاضی محمد یوسف علی صاحب نعمانی معہ اہل بیت سارجنٹ
پولس ریاست جنید۔ اولاد حضرت امام اعظم صاحب
توسام
ضلع حصار
10/-روپے
۵۸
شیخ فیض اللہ صاحب خالدی القریشی نائب داروغہ
ریاست نابہ
1/-روپیہ
غیر حاضر
۵۹
سیدناصر نواب صاحب دہلوی پنشنر
قادیان
2/-روپے
۶۰
میر محمد اسماعیل صاحب طالب علم اسلامیہ کالج لاہور
؍؍
2/-روپے
۶۱
محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی طالب علم
؍؍
2 پیسے
۶۲
شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم ؍؍
؍؍
2 پیسے
۶۳
شیخ عبدالرحمن صاحب ؍؍ ؍؍
؍؍
2 پیسے
۶۴
شیخ عبدالعزیز صاحب ؍؍ ؍؍
؍؍
2 پیسے
۶۵
خدا یار صاحب ؍؍ ؍؍
؍؍
2 پیسے
۶۶
گلاب الدین صاحب لوئی باف
؍؍
2 پیسے
۶۷
اسمٰعیل بیگ صاحب پریسمین
؍؍
2 پیسے
۶۸
امام الدین صاحب
؍؍
2 پیسے
۶۹
صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی
؍؍
2 پیسے
۷۰
صاحبزادہ منظور محمد صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۷۱
شاہزادہ مظہر قیوم صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۷۲
مولوی عبدالرحمن صاحب
کھیوال ضلع جہلم
2 پیسے
۷۳
سید خصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر
ڈنگہ ضلع گجرات
9/-روپے
۷۴
سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ اوّل
سیالکوٹ
4/-روپے
۷۵
حکیم محمد الدین صاحب نقل نویس صدر
؍؍
1/-روپیہ
۷۶
منشی عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر
؍؍
1/-روپیہ
۷۷
شیخ فضل کریم صاحب عطّار
؍؍
12 آنے
۷۸
غلام محی الدین صاحب تاجر چوب
؍؍
2 پیسے
۷۹
شیخ حسین بخش خیاط
قادیان
2 پیسے
۸۰
عبداللہ صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۸۱
عبدالرحمن صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۸۲
حافظ احمد اللہ خان صاحب
؍؍
2 پیسے
۸۳
کرم داد صاحب
؍؍
2 پیسے
۸۴
سیّد ارشاد علی صاحب طالب علم
سیالکوٹ
2 پیسے
۸۵
مولوی محمد عبداللہ خان صاحب وزیر آبادی مدرس کالج
ریاست پٹیالہ
1روپیہ 8آنے
۸۶
حافظ نور محمد صاحب سارجنٹ پلٹن نمبر ۴
؍؍
1/-روپیہ
۸۷
محمد یوسف صاحب خراطی
؍؍
1/-روپیہ
۸۸
حافظ ملک محمد صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۸۹
عبدالمحید صاحب طالب علم
؍؍
4 آنے
۹۰
محمد اکبر خان صاحب سنوری
؍؍
2 پیسے
۹۱
خلیفہ نور الدین صاحب تاجر کتب
ریاست جمّوں
3/-روپے
۹۲
اللہ دتا صاحب ؍؍
؍؍
2/-روپے
۹۳
مولوی محمد صادق صاحب مدرس
؍؍
2/-روپے
۹۴
میاں نبی بخش صاحب رفوگر
امرتسر
5/-روپے
۹۵
محمد اسمٰعیل صاحب تاجر پشمینہ کٹڑہ اہلووالیہ
؍؍
3/-روپے
۹۶
میاں محمد الدین صاحب اپیل نویس
سیالکوٹ
1/-روپیہ
۹۷
میاں الٰہی بخش صاحب ۔ محلہ ماشکیاں
گجرات
5/-روپے
۹۸
میاں چراغ الدین صاحب کٹڑہ اہلووالیہ
امرتسر
2/-روپے
۹۹
منشی روڑا صاحب نقشہ نویس عدالت
ریاست کپور تھلہ
2/-روپے
۱۰۰
منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس
؍؍
2/-روپے
۱۰۱
منشی رسم علی صاحب کورٹ انسپکٹر
گورداسپور
1/-روپیہ
۱۰۲
نواب خاں صاحب
جمّوں
1/-روپیہ
۱۰۳
میاں عبدالخالق صاحب رفوگر
امرتسر
8آنے
۱۰۴
شیخ عبدالحق صاحب ٹھیکیدار
لدھیانہ
1/-روپیہ
۱۰۵
محمد حسن صاحب عطّار
؍؍
1/-روپیہ
۱۰۶
منشی محمد ابراہیم صاحب تاجر لنگی گبروں
؍؍
1/-روپیہ
۱۰۷
مستری حاجی عصمت اللہ صاحب
؍؍
1/-روپیہ
۱۰۸
قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکیدار شکرم
؍؍
5/-روپے
۱۰۹
مولوی ابو یوسف مبارک علی صاب امام مسجد صدر
سیالکوٹ
1/-روپیہ
۱۱۰
عبدالعزیز خاں طالب علم بن عبدالرحمن خان صاحب
اتالیق سردار ایوب خاں صاحب
راولپنڈی
2 پیسے
۱۱۱
شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند
امرتسر
2 پیسے
۱۱۲
شیخ ظہور احمد صاحب سنگساز مطبع
؍؍
2 پیسے
۱۱۳
میرزا رسول بیگ صاحب
کلانور ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۱۴
حافظ عبدالرحیم صاحب
بٹالہ
1/-روپیہ
۱۱۵
ڈاکٹر فیض قادر صاحب
؍؍
2/-روپے
۱۱۶
شیخ محمد جان صاحب تاجر
وزیر آباد
5/-روپے
۱۱۷
منشی نواب الدین صاحب ماسٹر
دینا نگر
2 پیسے
۱۱۸
خلیفہ اللہ دتا صاحب
؍؍
2 پیسے
۱۱۹
میاں خدا بخش صاحب خیاط
چھوکر ضلع گجرات
2 پیسے
۱۲۰
مولوی حافظ احمد الدین صاحب ۔ چک سکندر
ضلع گجرات
2 پیسے
۱۲۱
میاں احمد الدین صاحب امام مسجد قلعہ دیدار سنگھ
گوجرانوالہ
2 پیسے
۱۲۲
میاں جمال الدین صاحب پشمینہ باف
سیکھواں
ضلع گورداسپور
1/-روپیہ
۱۲۳
محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار
بٹالہ
4/-روپے
۱۲۴
ماسٹر غلام محمد صاحب بی اے مدرس
سیالکوٹ
ایک روپیہ 8آنے
۱۲۵
میاں باغ حسین صاحب
بٹالہ
2 پیسے
۱۲۶
میاں نبی بخش صاحب پاندہ
؍؍
1/-روپیہ
۱۲۷
چودھری منشی نبی بخش صاحب نمبردار
؍؍
5/-روپے
۱۲۸
مولوی خان ملک صاحب کھیوال
ضلع جہلم
2 پیسے
۱۲۹
میاں خیر الدین صاحب پشمینہ باف سیکھواں
ضلع گورداسپور
1/-روپیہ
۱۳۰
حکیم محمد اشرف صاحب
بٹالہ؍؍
1/-روپیہ
۱۳۱
شیخ غلام محمد صاحب طالب علم
ضلع جالندھر
2 پیسے
۱۳۲
حافظ غلام محی الدین صاحب جلد ساز
قادیان
2پیسے
۱۳۳
میاں امام الدین صاحب پشمینہ باف
سیکھواں
1/-روپیہ
۱۳۴
اللہ دین صاحب ۔ہٹھیاں
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۳۵
شیخ عبدالرحیم صاحب ملازم ریاست
کپور تھلہ
2 روپے
۱۳۶
شیخ محمد الدین صاحب بوٹ فروش
جمّوں
2 روپے
۱۳۷
محمد شاہ صاحب ٹھیکہ دار
؍؍
8آنے
۱۳۸
امام الدین صاحب دوکاندارتھ غلام نبی
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۳۹
شہاب الدین صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۴۰
شیخ فقیر علی صاحب زمیندار
؍؍
2 پیسے
۱۴۱
شیخ شیر علی صاحب
؍؍
2 پیسے
۱۴۲
شیخ چراغ علی صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۴۳
شہاب الدین صاحب دوکاندار ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۴۴
منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں
؍؍
2 پیسے
۱۴۵
میاں قطب الدین صاحب خیاط بدہیچہ
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۴۶
میاںسلطان احمد طالب علم
گجرات
2 پیسے
۱۴۷
شیخ امیر بخش۔ تہہ غلام نبی
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۴۸
سید نظام شاہ صاحب بازید چک
؍؍
2 پیسے
۱۴۹
حافظ محمد حسین صاحب ڈنگہ
ضلع گجرات
2 پیسے
۱۵۰
بابو گل حسن صاحب کلرک دفتر ریلوے
لاہور
1/-روپیہ
۱۵۱
حافظ نور محمد صاحب ۔ فیض اللہ چک
ضلع گورداسپورہ
2 پیسے
۱۵۲
حسن خاں صاحب ملازم توپخانہ ریاست
کپور تھلہ
2 پیسے
۱۵۳
مرزا جھنڈا بیگ ۔ پیرو وال
ضلع گورداسپورہ
2 پیسے
۱۵۴
محمد حسین طالب علم ۔ مدہ
ضلع امرتسر
2 پیسے
۱۵۵
میاں محمد امیر۔ گنڈ
تحصیل خوشاب
2 پیسے
۱۵۶
غلام محمد طالب علم
امرتسر
2 پیسے
۱۵۷
محمد اسمٰعیل ۔ تہہ غلام نبی
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۵۸
شیخ قطب الدین صاحب کوٹلہ فقیر
ضلع جہلم
1/-روپیہ
۱۵۹
میاں غلام حسین نانبائی ڈیرہ حضرت اقدس
قادیان
8 آنے
۱۶۰
شیخ مولا بخش صاحب تاجر چرم ۔ ڈنگہ
ضلع گجرات
3/-روپے
۱۶۱
قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ
ضلع گوجرانوالہ
1/-روپیہ
۱۶۲
عبداللہ سوداگر برنج
لاہور
2 پیسے
۱۶۳
مولوی حافظ کرم الدین صاحب پوڑان والہ
ضلع گجرات
1/-روپیہ
۱۶۴
حافظ احمد الدین خیاط ڈنگہ
؍؍
8 آنے
۱۶۵
عبادت علی شاہ سوداگر ڈوڈہ
ضلع گورداسپورہ
2 پیسے
۱۶۶
محمد خان صاحب نمبردار ۔ جستروال
ضلع امرتسر
3/-روپے
۱۶۷
میاں علم الدین صاحب ۔ کالوسائی
ضلع گجرات
2 پیسے
۱۶۸
میاں کرم الدین صاحب
ضلع گجرات
1/-روپیہ
۱۶۹
شیخ احمد الدین صاحب کالوسائی
؍؍
2 پیسے
۱۷۰
میاں احمد الدین صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۷۱
میاں محمد صدیق صاحب پشمینہ باف
سیکھواں
8 آنے
۱۷۲
میاں صادق حسین صاحب
ریاست پٹیالہ
1/-روپیہ
۱۷۳
مولوی فقیر جمال الدین صاحب سیّد والہ
ضلع منٹگمری
2 پیسے
۱۷۴
مولوی عبداللہ صاحب ٹھٹھہ شیرکا
؍؍
2 پیسے
۱۷۵
میاں عبدالعزیز طالب علم
قادیان
2 پیسے
۱۷۶
میاں عبداللہ ۔ تہہ غلام نبی
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۷۷
مہر الدین صاحب خانساماں ۔ لالہ موسٰے
ضلع گجرات
2/-روپے
۱۷۸
کرم الدین صاحب ؍؍
؍؍
2/-روپے
غیر حاضر
۱۷۹
امام الدین صاحب پٹواری۔ نوچب
ضلع گورداسپور
1/-روپیہ
۱۸۰
فضل الٰہی صاحب نمبردار ۔ چک فیض اللہ
؍؍
1/-روپیہ
۱۸۱
غلام نبی صاحب ؍؍
؍؍
1/-روپیہ
۱۸۲
چراغ الدین معمار۔ موضع منڈی کراں
؍؍
2 پیسے
۱۸۳
قاضی نعمت علی صاحب۔ خطیب بٹالہ
؍؍
1/-روپیہ
۱۸۴
احمد علی صاحب نمبردار چک وزیر
؍؍
1/-روپیہ
۱۸۵
امام الدین صاحب ۔ تہہ غلام نبی
؍؍
2 پیسے
۱۸۶
میاں فقیر دری باف۔ چک فیض اللہ
؍؍
2 پیسے
۱۸۷
میاں امیر دری باف ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۸۸
شیخ برکت علی دوکاندار ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۸۹
برکت علی صاحب پٹواری ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۰
میاں امام الدین ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۱
سیّد امیر حسین چک بازید
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۱۹۲
شیخ فیروز الدین صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۳
شیخ شیر علی ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۴
شیخ عطا محمد صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۵
سید محمد شفیع صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۶
عمر چوکیدار ؍؍
؍؍
2 پیسے
۱۹۷
مولوی امیر الدین صاحب ۔ محلہ خوجہ والہ
گجرات
2 پیسے
۱۹۸
مستری محمد عمر
جمّوں
2 پیسے
۱۹۹
سید وزیر حسین صاحب ۔ بازید چک
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۲۰۰
مہر اللہ شاہ دوڈاں
؍؍
2 پیسے
۲۰۱
سلطان بخش بدیچہ
؍؍
2 پیسے
۲۰۲
منشی عبدالعزیز صاحب عرف وزیر خان سب اورسیر
بلب گڈہ
1/-روپیہ
۲۰۳
نور محمد صاحب ۔ دھونی
ضلع منٹگمری
2 پیسے
۲۰۴
عبدالرشید ۔ سیّد والہ
؍؍
2 پیسے
۲۰۵
مولوی احمد الدین صاحب امام مسجد ۔ نامدار
ضلع لاہور
2 پیسے
۲۰۶
حافظ معین الدین صاحب
قادیان
2 پیسے
۲۰۷
عبدالمجید صاحب
کپور تھلہ
2 پیسے
۲۰۸
محمد خان صاحب
؍؍
2/-روپے
بباعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے
۲۰۹
مولوی محمد حسین صاحب۔ بھاگورائین
؍؍
2/-روپے
۲۱۰
نظام الدین ؍؍
؍؍
2 پیسے
۲۱۱
فیض محمد نّجار
سیالکوٹ
2 پیسے
۲۱۲
سیّد گوہر شاہ صاحب پھیرو چجی
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۲۱۳
حکیم دین محمد طالب علم
قادیان
2 پیسے
۲۱۴
شیخ فضل الٰہی صاحب چٹھی رسان
؍؍
2 آنے
۲۱۵
سلطان محمد صاحب۔ بکرالہ
ضلع جہلم
2 پیسے
۲۱۶
اللہ دیا صاحب کمبو
ضلع امرتسر
2 پیسے
۲۱۷
سید عالم شاہ صاحب موضع سید ملو
ضلع جہلم
2 پیسے
۲۱۸
مستری حسن الدین صاحب
سیالکوٹ
2 پیسے
۲۱۹
میراں بخش صاحب چوڑی گر
بٹالہ
2 پیسے
۲۲۰
مہر سانون صاحب سیکھواں
ضلع گورداسپور
1/-روپیہ
۲۲۱
حکیم جمال الدین صاحب تاجر
قادیان
1/-روپیہ
۲۲۲
محمد اسمٰعیل صاحب طالب علم
؍؍
2 پیسے
۲۲۳
محمد اسحق صاحب ؍؍
؍؍
2 پیسے
۲۲۴
عبداللہ خان صاحب ہریانہ
ضلع ہوشیار پور
2/-روپے
۲۲۵
کریم بخش مستری بیل چک
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۲۲۶
مرزا بوٹا بیگ
قادیان
2 پیسے
۲۲۷
مرزا احمد بیگ
؍؍
2 پیسے
۲۲۸
محمد حیات صاحب
بٹالہ
2 پیسے
۲۲۹
نور محمد ملازم ڈاکٹر فیض قادر صاحب
؍؍
2 پیسے
۲۳۰
شیخ غلام محمد صاحب تاجر
امرتسر
2 پیسے
۲۳۱
برکت علی صاحب نیچہ بند
بٹالہ
2 پیسے
۲۳۲
غلام حسین صاحب ککہ زئی
؍؍
2 پیسے
۲۳۳
رحیم بخش صاحب شانہ گر
جہلم
2 پیسے
۲۳۴
شیخ غلام احمد صاحب امام مسجد بھڑیال
ضلع سیالکوٹ
2 پیسے
۲۳۵
شیخ اسمٰعیل امام مسجد بھڑیال
؍؍
2 پیسے
۲۳۶
شیخ کریم بخش صاحب کاہنے چک
ریاست جموں
2 پیسے
۲۳۷
شیخ چراغ الدین صاحب
؍؍
2 پیسے
۲۳۸
میاں کنو تیلی۔ تتلا
ضلع گورداسپور
2 پیسے
۲۳۹
شیخ مولا بخش صاحب تاجر بوٹ
سیالکوٹ
1/-روپیہ
۲۴۰
مرزا نظام الدین
قادیان
2 پیسے
۲۴۱
سید عبدالعزیز صاحب
انبالہ
2 پیسے
۲۴۲
مولوی فضل الدین صاحب ۔ کھاریاں
ضلع گجرات
5/-روپے
بباعث مجبوری حاضر نہ ہو سکے
۲۲۴۳
مولوی فضل الدین صاحب ۔ خوشاب
ضلع شاہپور
10/-روپے
؍؍
۲۴۴
حافظ رحمت اللہ صاحب ۔ کرن پور
ضلع ڈیرہ دون
2/-روپے
؍؍
۲۴۵
نور الدین صاحب نقشہ نویس بارگ ماسٹری
جہلم
2/-روپے
؍؍
۲۴۶
میاں عبداللہ صاحب پٹواری سنوری
ریاست پٹیالہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۴۷
میاں عبدالعزیز صاحب محرر دفتر نہر جمن غربی
دہلی
3/-روپے
؍؍
۲۴۸
ڈاکٹر بوڑے خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن
قصور
20/-روپے
؍؍
۲۴۹
مولوی محمد حسین مدرسہ اسلامیہ
راولپنڈی
1/-روپیہ
؍؍
۲۵۰
مولوی خادم حسین صاحب ۔ اسلامیہ سکول
؍؍
1/-روپیہ
حاضر نہ ہو سکے
۲۵۱
بابو اللہ دین صاحب فائرس محکمہ روشنی
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۵۲
سید عنایت علی شاہ صاحب
لدھیانہ
2روپے 5 آنے
؍؍
۲۵۳
منشی غلام حیدر صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولس
نارووال
10/-روپے
؍؍
۲۵۴
مولوی علم الدین صاحب
؍؍
2/-روپے
؍؍
۲۵۵
منشی محرم علی صاحب محرر سارجنٹ پولس
؍؍
2/-روپے
؍؍
۲۵۶
بابو شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر دینہ
ضلع جہلم
4/-روپے
؍؍
۲۵۷
منشی اللہ دتا صاحب
سیالکوٹ
11/-روپے
حاضر نہ ہو سکے
۲۵۸
منشی فتح محمد صاحب بزدار پوسٹ ماسٹر لیّہ
ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان
1/-روپیہ
؍؍
۲۵۹
شیخ غلام نبی صاحب دوکاندار
راولپنڈی
10/-روپے
؍؍
۲۶۰
منشی مظفر علی صاحب برادر مولوی محمد احسن صاحب امروہی
ڈیرہ دون
1/-روپیہ
؍؍
۲۶۱
میاں احمد حسین صاحب ملازم میاں محمد حنیف سوداگر
ڈیرہ دون
1/-روپیہ
؍؍
۲۶۲
مولوی محمد یعقوب صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۲۶۳
منشی علی گوہر خاں صاحب برانچ پوسٹ ماسٹر
جالندھر
1/-روپیہ
؍؍
۲۶۴
منشی محمد اسمٰعیل صاحب نقشہ نویس کالکار ریلوے
انبالہ چھاونی
5/-روپے
؍؍
۲۶۵
مولوی غلام مصطفیٰ صاحب مالک مطبع شعلہ طور
بٹالہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۶۶
بابو محمد افضل صاحب ملازم ریلوے ممباسہ
ملک افریقہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۶۷
چودھری محمد سلطان صاحب والد مولوی عبدالکریم صاحب
سیالکوٹ
2/-روپے
؍؍
۲۶۸
سید حامد شاہ صاحب قائم مقام سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنر بہادر
؍؍
2/-روپے
؍؍
۲۶۹
سید حکیم حسام الدین صاحب رئیس
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۰
فضل الدین صاحب زرگر
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۱
حکیم احمد الدین صاحب
؍؍
5/-روپے
؍؍
۲۷۲
شیخ نور محمد صاحب کلاہ ساز
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۳
محمد الدین صاحب پٹواری ۔ ترگڑی
ضلع گوجرانوالہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۴
سیدنواب شاہ صاحب مدرس
سیالکوٹ
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۵
سید چراغ شاہ صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۶
چودھری نبی بخش صاحب سارجنٹ پولس
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۷۷
محمد الدین صاحب
؍؍
4 آنے
؍؍
۲۷۸
محمد الدین صاحب جلد ساز
؍؍
8 آنے
؍؍
۲۷۹
اللہ بخش صاحب
؍؍
4 آنے
؍؍
۲۸۰
شادی خاں صاحب سوداگر
سیالکوٹ
1/-روپیہ
حاضر نہ ہو سکے
۲۸۱
چودھری الہ بخش صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۸۲
چودھری فتح دین صاحب
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۲۸۳
اللہ رکھا صاحب شالباف
بٹالہ
1/-روپیہ
۲۸۴
کرم الٰہی صاحب کانسٹبل
لدھیانہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۸۵
پیر بخش صاحب
؍؍
2/-روپے
؍؍
۲۸۶
منشی الہ بخش صاحب
سیالکوٹ
1/-روپیہ
؍؍
۲۲۸۷
کرم الدین صاحب ۔ بھپال والہ
؍؍
4/-روپے
؍؍
۲۸۸
منشی کرم الٰہی صاحب ریکارڈ کلرک
پٹیالہ
5/-روپے
؍؍
۲۸۹
مرزا نیاز بیگ صاحب ضلعدار نہر ۔ رشیدہ
ضلع ملتان
5/-روپے
؍؍
۲۹۰
اللہ دتا صاحب شالباف
بٹالہ
1/-روپیہ
؍؍
۲۹۱
ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب
ریاست پٹیالہ
2/-روپے
؍؍
۲۹۲
عزیز اللہ صاحب سرہندی برانچ پوسٹماسٹر
نادون
1/-روپیہ
؍؍
۲۹۳
نواب خان صاحب تحصیلدار
جہلم
10/-روپے
؍؍
۲۹۴
عبدالصمد صاحب ملازم نواب صاحب خان صاحب موصوف
جہلم
1/-روپیہ
؍؍
۲۹۵
مولوی نور محمد صاحب ۔ موکل
ضلع لاہور
5/-روپے
؍؍
۲۹۶
سید مہدی حسن صاحب پنسال نویس چوکی لوہلہ
؍؍
3/-آنے
؍؍
۲۹۷
مولوی شیر محمد صاحب ۔ ہجن
ضلع ہوشیار پور
8/-آنے
؍؍
۲۹۸
بابو نواب الدین صاحب ہیڈ ماسٹر سکول دینا نگر
ضلع گورداسپور
2/-روپے
۲۹۹
والدہ خیر الدین سیکھواں
؍؍
4آنے
۳۰۰
رحیم بخش صاحب محرر اصطبل
سنگرور
5/-روپے
حاضر نہ ہو سکے
۳۰۱
قاری محمد صاحب امام مسجد
جہلم
2/-روپے
؍؍
۳۰۲
شرف الدین صاحب ۔ کوٹلہ فقیر
ضلع جہلم
1/-روپیہ
؍؍
۳۰۳
علم الدین صاحب کوٹلہ فقیر
ضلع جہلم
1/-روپیہ
غیر حاضر
۳۰۴
مولوی محمد یوسف صاحب سنور
پٹیالہ
1روپیہ
13آنے
1پیسہ
؍؍
۳۰۵
احمد بخش صاحب ؍؍
؍؍
1روپیہ
13آنے
1پیسہ
؍؍
۳۰۶
محمد ابراہیم صاحب ؍؍
؍؍
1روپیہ
13آنے
1پیسہ
؍؍
۳۰۷
امام الدین صاحب ؍؍
حلقہ لوہ چپ
1/-روپیہ
؍؍
۳۰۸
غلام نبی عرف نبی بخش ۔ فیض اللہ چک
ضلع گورداسپور
1/-روپیہ
؍؍
۳۰۹
منشی احمد صاحب محرر باڑہ سرکاری
پٹیالہ
1/-روپیہ
؍؍
۳۱۰
مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس
؍؍
4/-آنے
؍؍
۳۱۱
شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی
؍؍
1/-روپیہ
؍؍
۳۱۲
مستری احمد الدین صاحب
بھیرہ
4/-روپے
؍؍
۳۱۳
مستری اسلام احمد
؍؍
2/-روپے
؍؍
۳۱۴
میاں فیاض علی صاحب
کپور تھلہ
2/-روپے
؍؍
۳۱۵
میاں صاحب دین صاحب کھاریاں
ضلع گجرات
2/-روپے
؍؍
۳۱۶
میاں عالم دین حجام
بھیرہ
4/-آنے
؍؍
۳۱۷
بابو کرم الٰہی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ
پاگل خانہ معرفت شیخ رحمت اللہ صاحب
لاہور

5/-روپے
؍؍
۳۱۸
بابو غلام محمد صاحب
لدھیانہ
4/-روپے
؍؍
بقیّہ اسماء حاضرینِ جلسہ جوبلی
عبدالرحمن نو مسلم جالندہری۔ سید ارشاد علی صاحبزادہ سید خصیلت علی شاہ صاحب ڈنگہ ۔اللہ دتا ولد نور محمد کمبوہ۔ عبداللہ ولد خلیفہ رجب دین لاہور، غلام محمد طالب علم ڈیرہ بابانانک ۔روشن الدین بھیرہ، اللہ ودھایا صاحب پنڈی بھٹیاں۔ شیخ احمد علی چک بازید۔ نور محمد ڈھونی۔ عبدالرشید سیّد والہ۔ غلام قادر قادیان۔ شیخ امیر تہہ غلام نبی۔ غلام غوث قادیاں۔ گلاب ولد محکم احمد آباد ضلع گورداسپور۔ شاہ نواز ڈنگہ ۔ عیدا ولد شادی قادیان۔ دین محمد قادیان۔ صدرالدین قادیان۔ بڈھا قادیان۔ حسینا قادیان۔ امام الدین قادیان۔ خواجہ نور محمد قادیاں۔ حامد علی ارائیں قادیان۔ میراں بخش قادیاں۔ لسّو قادیان۔ فقیر محمد فیض اللہ چک۔ شیخ محمد قادیان ۔خواجہ کھیون قادیان ۔ شرف دین قادیان ۔فتح دین کہارڈلہ۔ عبداللہ قادیاں۔ لبّھو قادیان۔ لبّھا ڈوگر کھارا۔ نتھو قادیان۔ بوٹا قادیان۔
نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے خط کی نقل
بِسْمِ اللّٰہ الرّحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
طبیب رُوحانی مسیح الزمان مکرم معظم سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ۔ حسب الحکم حضور کل حال متعلق جوبلی عرض کرتا ہوں:۔
۲۱ و ۲۲ جون یعنی دو دن جشن جوبلی کے لئے مقرر ہوئے تھے چونکہ گورنمنٹ کا حکم تھا کہ کل رسوم متعلق جوبلی ۲۲ ؍ جون ۱۸۹۷ء کو پوری کی جائیں اس لئے سب کچھ ۲۲ کو کیا جانا قرار پایا۔
ریاست مالیر کوٹلہ میں جیسے رئیس اعظم وفادار رہے ہیں ویسے ہی خوانین بھی وفادار اور عقیدت مند گورنمنٹ کے رہے ہیں اور بہت مواقع میں اس کا ثبوت دیا ہے۔ بلکہ بعض جگہ خود لڑائی میں شریک ہوکر گورنمنٹ کی اعانت کی ہے۔ اب چونکہ لڑائی کا موقع تو جاتا رہا ہے۔ اب بموجب حالت زمانہ ہم لوگ ہر طرح خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ اور ہم ایسا کیوں نہ کریں جبکہ اس گورنمنٹ کا ہم پر خاص احسان ہے۔ وہ یہ کہ سکھّوں کے عروج کے زمانہ میں سکھوں نے اس ریاست کو بہت دق کیا تھا اور اگر وقت پر جنرل اختر لونی صاحب ابر رحمت کی طرح تشریف نہ لے آتے تو یہ ریاست کبھی کی اس خاندان سے نکل کر سکھوں کے ہاتھ میں ہوتی۔ پس ہمارا خاندان تو ہر طرح گورنمنٹ کا مرہون منّت ہے۔ اور اب یہ سلسلہ بہ سبب حضور اور زیادہ مستحکم ہو گیا۔ اور جو احسانات گورنمنٹ کے ہماری جماعت پر ہیں وہ قندمکرر کا لطف دینے لگے تو مجھ کو ضروری ہوا کہ اپنے ہمسروں سے بڑھ کر کچھ کیا جائے۔
اوّل ۔ چراغانہ قریب کی مسجد پر اور اپنے رہایشی مکان پر بہت زور سے کیا گیا۔ بلکہ ایک مکان بیرون شہر جو ایک گائوں سروانی کوٹ نام میں میرا ہے اُس پر بھی کیا گیا کل مکانوں پر اول سفیدی کی گئی۔ اور مختلف طرز پر چراغ نصب کئے لئے اور ایک دیوار پر چراغوں میں یہ عبارت لکھی گئی۔
‏God save our Empress
یعنی خدا تعالیٰ ہماری قیصرہ کو سلامت رکھے۔ قریبًا تمام شہر سے بڑھ کر ہمارے ہاں روشنی کا اہتمام تھا۔ مگر عین وقت پر ہوا کے ہونے سے ۲۲ کو وہ روشنی نہ ہو سکی۔ اس لئے تمام شہر میں ۲۳ کو روشنی ہوئی مگر اُس روز بھی ہوا کے سبب اونچی جگہ روشنی نہ ہو سکی۔
دوم ۔ تین ٹرائفل آرچ۔ ایک برسر کوچہ اور دو اپنے مکان کے سامنے بنائے گئے اور ان پر مندرجہ ذیل عبارات سنہری لکھ کر لگائی گئیں اور اوّل برسر کوچہ ’’جشن ڈائمنڈ جوبلی مبارک باد‘‘ ۔ دوم اپنے رہائشی مکان کے دروازہ پر انگریزی میںWelCome یعنی خوش آمدید لکھا تھا۔ سوم دروازہ کے مقابل تیسری محراب پر لکھا تھا۔ ’’قیصرہ ہند کی عمردراز ۔ اور سروانی کوٹ میں بھی ایک ٹرائفل آرچ بنائی گئی تھی۔
سوم ۔ ۲۲ جون کو شام کے چھ بجے اپنی جماعت کے اصحاب کو جمع کر کے خداوند تعالیٰ سے حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے بقائے دولت اور درازی عمر اور یہ کہ جس طرح حضور ممدوحہ نے ہم پر احسان کیا ہے خداوند تعالیٰ بھی حضور ممدوحہ پر احسان کرے اور الذین آمنوا میں داخل کرے یعنی اسلام کے آفتاب سے وہ بھی فیضیاب ہوں دُعا کی گئی۔
چہارم ۔ میں نے ایک نوٹس اپنی جماعت کے لوگوں کو دے دیا تھا کہ سب صاحب جو کم سے کم مقدرت رکھتے ہوں وہ بھی سو چراغ سے کم نہ جلائیں اور جن کے پاس اتنا خرچ کرنے کو نہ ہو وہ مجھ سے لے لیں۔ چنانچہ پانچ اصحاب کو میں نے خرچ چراغانہ دیا اور باقیوں نے خود چراغانہ کیا۔
پنجم۔ میرے متعلق جو سروانی کوٹ میں معافیدار تھے اُن کو بھی میں نے حکم دیا کہ چراغانہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے بھی کیا اور یہ ایسا امر ہے کہ ریاست کے اور دیہات میں غالبًا ایسا نہیں ہوا۔
ششم ۔ ۲۳ جون کو اس خوشی میں آتشبازی چھوڑی گئی۔
ہفتم ۔ ۲۲ جون کی شام کو معزز احباب کی دعوت کی گئی۔
ہشتم ۔ ۲۳ کو مساکین کو غلّہ اور نقد خیرات کیا گیا۔
نہم۔ ایک یادگار کے قائم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ جب اس کی بابت فیصلہ ہو گا وہ عرض کروں گا۔
راقم محمد علی خان مالیر کوٹلہ ۲۵ جون ۱۸۹۷ء
نوٹ۔ ہم نے اپنی طرف سے سب احباب کے نام کوشش سے درج کرا دیئے ہیں۔ اب اگر ایک دو نام رہ گئے ہوں تو سہو بشریت ہے۔ (من المشتہر)









حاشیہ
حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک سوبیس ۱۲۰ برس کی عمر ہوئی تھی لیکن تمام یہود و نصاریٰ کے اتفاق سے صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جبکہ حضرت ممدوح کی عمر صرف تینتیس برس کی تھی۔ اس دلیل سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب سے بفضلہ تعالیٰ نجات پا کر باقی عمر سیاحت میں گذاری تھی۔ احادیث صحیحہ سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی سیاح تھے۔ پس اگر وہ صلیب کے واقعہ پر مع جسم آسمان پر چلے گئے تھے تو سیاحت کس زمانہ میں کی حالانکہ اہل لغت بھی مسیح کے لفظ کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ مسح سے نکلا ہے اور مسح سیاحت کو کہتے ہیں ماسوا اسکے یہ عقیدہ کہ خدا نے یہودیوں سے بچانے کے لئے حضرت عیسٰی کو دوسرے آسمان پر پہنچا دیا تھا سراسر لغو خیال معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا کے اس فعل سے یہودیوں پر کوئی حجت پوری نہیں ہوتی۔ یہودیوں نے نہ تو آسمان پر چڑھتے دیکھا اور نہ آج تک اترتے دیکھا پھر وہ اس مہمل اور بے ثبوت قصے کو کیونکر مان سکتے ہیں۔ ماسوا سکے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کریم حضرت سید نا محمد ﷺ کو قریش کے حملہ کے وقت جو یہودیوں کی نسبت زیادہ بہادر اور جنگ جو اور کینہ ور تھے صرف اُسی غار کی پناہ میں بچا لیا جو مکہ معظمہ سے تین میل سے زیادہ نہ تھی تو کیا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بزدل یہودیوں کا کچھ ایسا خوف تھا کہ بجز دوسرے آسمان پر پہنچانے کے اس کے دل میں یہودیوں کی دست درازی کا کھٹکا دور نہیں ہو سکتا تھا بلکہ یہ قصہ سراسر افسانہ کے رنگ میں بنایا گیا ہے اور قرآن کریم کے صریح مخالف او ر نہایت زبردست دلائل سے جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت شناخت کرنے کے لئے مرہم عیسیٰ ایک علمی ذریعہ اور اعلیٰ درجہ کا معیار حق شناسی ہے۔ اور اس واقعہ سے پورے طور پر مجھے اس لئے واقفیت ہے کہ میں ایک انسان خاندان طبابت میں سے ہوں اور میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم جو اس ضلع کے ایک معزز رئیس تھے ایک اعلیٰ درجہ کے تجربہ کار طبیب تھے جنھوں نے قریباً ساٹھ سال اپنی عمر کے اس تجربہ میں بسر کئے تھے اور جہاں تک ممکن تھا ایک بڑا ذخیرہ طبی کتابوں کا جمع کیا تھا۔ اور میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور اُن کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا۔ اس لئے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہو گی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے اور اُن میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ کے لئے بنائی گئی تھی۔ ان کتابوں میں سے بعض یہودیوں کی کتابیں ہیں اور بعض عیسائیوں کی اور بعض مجوسیوں کی۔ سو یہ ایک علمی تحقیقات سے ثبوت ملتا ہے کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب سے رہائی پائی تھی۔ اگر انجیل والوں نے اسکے برخلاف لکھا ہے تو اُنکی گواہی ایک ذرہ اعتبار کے لائق نہیں کیونکہ اول تو وہ لوگ واقعہ صلیب کے وقت حاضر نہیں تھے اور اپنے آقا سے طرز بے وفائی اختیار کر کے سب کے سب بھاگ گئے تھے اور دوسرے یہ کہ انجیلوں میں بکثرت اختلاف ہے یہاں تک کہ برنباسؔ کی انجیل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے انکار کیا گیا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ ان ہی انجیلوں میں جو بڑی معتبر سمجھی جاتی ہیں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زخم ان کو دکھلائے۔ پس اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت زخم موجود تھے جن کے لئے مرہم طیار کرنے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا یقینا سمجھا جا تا ہے کہ ایسے موقعہ پر وہ مرہم طیار کی گئی تھی۔اور انجیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس روز اُسی گردو نواح میں بطور مخفی رہے اور جب مرہم کے استعمال سے بکلّی شفا پائی تب آپ نے سیاحت اختیار کی ۔ افسوس کہ ایک ڈاکٹر صاحب نے راولپنڈی سے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں اُن کو اس بات کا انکار ہے کہ مرہم عیسیٰ کا نسخہ مختلف قوموں کی کتابوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اس واقعہ کے سننے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے بلکہ زندہ مگر مجروح ہونے کی حالت میں رہائی پائی بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور خیال کیا کہ اس سے تمام منصوبہ کفارہ کا باطل ہوتا ہے لیکن یہ قابل شرم بات ہے کہ اُن کتابوں کے وجود سے انکار کیا جائے جن میں یہ نسخہ مرہم عیسیٰ موجو دہے ۔ اگر وہ طالب حق ہیں تو ہمارے پاس آکر ان کتابوں کو دیکھ لیں ۔ اور صرف عیسائیوں کے لئے یہی مصیبت نہیں کہ مرہم عیسیٰ کی علمی گواہی اُن عقائد کو رد کرتی ہے اور تمام عمارت کفارہ و تثلیث وغیرہ کی یک دفعہ گر جاتی ہے بلکہ ان دنوں میں اس ثبوت کی تائید میں اور ثبوت بھی نکل آئے ہیں کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیبی واقعہ سے نجات پا کر ضرور ہندوستان کا سفر کیا ہے اور نیپال سے ہوتے ہوئے آخر تبت تک پہنچے اور پھر کشمیر میں ایک مدت تک ٹھہرے اور وہ بنی اسرائیل جو کشمیر میںبابل کے تفرقہ کے وقت میں سکونت پذیر ہوئے تھے اُن کو ہدایت کی اور آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں سری نگر میں انتقال فرمایا اور محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور عوام کی غلط بیانی سے یوز آسف نبی ۱؎کے نام سے مشہور ہو گئے۔ اس واقعہ کی تائید وہ انجیل بھی کرتی ہے جو حال میں تبت سے برآمد ہوئی ہے۔ یہ انجیل بڑی کو شش سے لند ن سے ملی ہے ہمارے مخلص دوست شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر قریباً تین ماہ تک لندن میں رہے اور اس انجیل کو تلاش کرتے رہے ۔آخر ایک جگہ سے میسر آگئی ۔ یہ انجیل بدھ مذہب کی ایک پرانی کتاب کا گویا ایک حصہ ہے بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ شہادت ملتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ملک ہند میں آئے اور ایک مدت تک مختلف قوموں کو وعظ کرتے رہے اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو اُن کے ان ملکوں میں آنے کا ذکر لکھا گیا ہے اُس کا وہ سبب نہیں جو لانبے بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ انہوں نے گوتم بدھ کی تعلیم استفادہ کے طور پر پائی تھی ایسا کہنا ایک شرارت ہے ۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب سے نجات بخشی تو انہوں نے بعد اس کے اس ملک میں رہنا قرین مصلحت نہ سمجھا اور جس طرح قریش کے انتہائی درجہ کے ظلم کے وقت یعنی جبکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا تھا آنحضرت ﷺ نے اپنے ملک سے ہجرت فرمائی تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے انتہائی ظلم کے وقت یعنی قتل کے ارادہ کے وقت ہجرت فرمائی۔ اور چونکہ بنی اسرائیل بخت النصرکے حادثہ میں متفرق ہو کربلاد ِ ہند اور کشمیر اور تبت اور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان ہی ملکوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا۔ اور تواریخ سے اس بات کا بھی پتہ ملتا ہے کہ بعض یہودی اس ملک میں آکر اپنی قدیم عادت کے موافق بدھ مذہب میں بھی داخل ہو گئے تھے ۔چنانچہ حال میں جو ایک مضمون سول ملٹری گزٹ پرچہ تاریخ۲۳ نومبر ۱۸۹۸؁ء میں چھپا ہے اس میں ایک محقق انگریز نے اس بات کا اقرار بھی کیا ہے اور اس بات کو بھی مان لیا ہے کہ بعض جماعتیں یہودیوں کی اس ملک میں آئی تھیں اور اس ملک میں سکونت پذیر ہو گئی تھیں۔اور اسی پرچہ سول میں لکھا ہے کہ "در اصل افغان بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں"غرض جبکہ بعض بنی اسرائیل بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے تو ضرور تھا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام اس ملک میں آکر بدھ مذہب کی رد کی طرف متوجہ ہوتے اور اس مذہب کے پیشوائوں کو ملتے ۔ سو ایسا ہی وقوع میں آیا۔ اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح بدھ مذہب میں لکھے گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس ملک میں بدھ مذہب کا بہت زور تھااور بید کا مذہب مر چکا تھا اور بدھ مذہب بید کا انکار کرتا تھا۔۱؎
خلاصہ یہ کہ ان تما م امور کو جمع کرنے سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے۔ یہ بات یقینی اور پختہ ہے کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں ان کے اس ملک میں آنے کا ذکر ہے اور جو مزار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کشمیر میں ہے جس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قریباًاُنیس سو۱۹۰۰ برس سے ہے یہ اس امر کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے غالباً اُس مزار کے ساتھ کچھ کتبے ہوں گے جو اب مخفی ہیں۔ ان تمام امور کی مزید تحقیقات کے لئے ہماری جماعت میں سے ایک علمی تفتیش کا قافلہ طیار ہو رہا ہے جس کے پیش رو اخویم مولوی حکیم حاجی حرمین نور الدین صاحب سلمہ ربہّ قرار پائے ہیں۔ یہ قافلہ اس کھوج اور تفتیش کے لئے مختلف ملکوں میں پھرے گا ۔ اور ان سر گرم دینداروں کا کام ہو گا کہ پالی زبان کی کتابوں کو بھی دیکھیں کیونکہ یہ بھی پتہ لگا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس نواح میں بھی اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلا ش میں گئے تھے۔لیکن بہرحال کشمیر میں جانا اور پھر تبت میں جاکر بدھ مذہب کی پستکوں سے یہ تمام پتہ لگا نا اس جماعت کا فرض منصبی ہو گا۔ اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور نے ان تمام اخراجات کو اپنے ذمہ قبول کیا ہے ۔ لیکن اگر یہ سفر جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے بنارس اور نیپال اور مدراس اور سوات اور کشمیر اور تبت وغیرہ ممالک تک کیا جائے جہاں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی بودو باش کا پتہ ملتا ہے تو کچھ شک نہیںکہ یہ بڑے اخراجا ت کا کام ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہر حال اللہ تعالیٰ اس کو انجام دیدے گا۔ ہر ایک دانشمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے کہ اس سے یکدفعہ عیسائی مذہب کا تمام تانا بانا ٹوٹتا ہے ۔ اور انیس سو برس کا منصوبہ یکدفعہ کالعدم ہو جاتا ہے ۔ اس بات کا اطمینان ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا اس ملک ہند اور کشمیر وغیرہ میں آنا ایک واقعی امر ہے اور اس کے بارے میں ایسے زبردست ثبوت مل گئے ہیں کہ اب وہ کسی مخالف کے منصوبہ سے چھپ نہیں سکتے ۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان بیہودہ اور غلط عقائد کی اسی زمانہ تک عمر تھی۔ ہمارے سید ومولیٰ خاتم الانبیاء ﷺ کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا ہے صلیب کو توڑے گا اور آسمانی حربہ سے دجال کو قتل کرے گا ۔اس حدیث کے اب یہ معنے کھلے ہیں کہ اس مسیح کے وقت میں زمین و آسمان کا خدا اپنی طرف سے بعض ایسے امور اور واقعات پیدا کر دے گا جن سے صلیب اور تثلیث اور کفارہ کے عقائد خود بخود نابود ہو جائیں گے۔ مسیح کا آسمان سے نازل ہو نا بھی ان ہی معنوں سے ہے کہ اُس وقت آسمان کے خدا کے ارادہ سے کسر صلیب کے لئے بدیہی شہادتیں پیدا ہو جائیں گی۔ سو ایسا ہی ہوا ۔ یہ کس کو معلوم تھا کہ مرہم عیسیٰ کا نسخہ صدہا طبی کتابوں میں لکھا ہو اپیدا ہو جائے گا۔ اس بات کی کس کو خبر تھی کہ بدھ مذہب کی پورانی کتابوں سے یہ ثبوت مل جائے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلادِ شام کے یہودیوں سے نومید ہو کر ہندوستان اور کشمیر اور تبت کی طرف آئے تھے ۱؎۔ یہ بات کون جانتا تھاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کشمیر میں قبر ہے ۔ کیا انسان کی طاقت میں تھا کہ ان تمام باتوں کو اپنے زور سے پیدا کر سکتا۔ اب یہ واقعات اس طرح سے عیسائی مذہب کو مٹاتے ہے جیسا کہ دن چڑھ جانے سے رات مٹ جاتی ہے ۔ اس واقعہ کے ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کو وہ صدمہ پہنچتا ہے جو اُس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام بوجھ ایک شہتیر پر تھا۔ شہتیر ٹوٹا اور چھت گری ۔ پس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے ۔ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ انہی قدرتوں سے وہ پہچانا گیا ہے ۔ دیکھو کیسے عمدہ معنے اس آیت کے ثابت ہوئے کہ وَمَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ ۲؎ یعنی قتل کرنا اور صلیب سے مسیح کا مارنا سب جھوٹ ہے اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو دھوکہ لگا ہے اور مسیح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق صلیب سے بچ کرنکل گیا ۔ اور اگر انجیل کو غور سے دیکھا جائے تو انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے ۔ کیا مسیح کی تمام رات کی دردمندانہ دعا ردّ ہو سکتی تھی ۔ کیا مسیح کا یہ کہناکہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیںکہ وہ مردہ قبر میں رہا۔ کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں تین دن مرا رہا تھا۔ کیا پیلاطوس کی بیوی کے خواب سے خدا کا یہ منشاء معلوم نہیں ہو تا کہ مسیح کو صلیب سے بچا لے۔ ایسا ہی مسیح کا جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھائے جانا اور شام سے پہلے اتارے جانا اور رسم قدیم کے موافق تین دن تک صلیب پر نہ رہنا اور ہڈی نہ توڑے جانا اور خون کا نکلنا کیا یہ تمام وہ امور نہیں ہیں جو بآواز بلند یہ پکار رہے ہیں کہ یہ تمام اسباب مسیح کی جان بچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دعا کرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کے اسباب ظہور میں آئے ۔ بھلا مقبول کی ایسی دعا جو تمام رات رو رو کر کی گئی کب رد ہو سکتی تھی ۔ پھر مسیح کا صلیب کے بعد حواریوں کو ملنا اور زخم دکھلانا کس قدر مضبوط دلیل اس بات پر ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا ۔ اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو بھلا اب مسیح کو پکارو کہ تمہیں آکر مل جائے جیسا کہ حواریوں کو ملا تھا ۔ غرض ہر ایک پہلو سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب سے جان بچائی گئی اور وہ اس ملک ہند میں آئے کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے ان ہی ملکوں میں آ گئے تھے جو آخر کار مسلمان ہو گئے اور پھر اسلام کے بعد بموجب وعدہ توریت کے ان میں کئی بادشاہ بھی ہوئے ۔ اور یہ ایک دلیل صدقِ نبوت آنحضرت ﷺ پر ہے کیونکہ توریت میں وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل نبی موعود کے پیرو ہو کر حکومت او ر سلطنت پائیں گے۔ غرض مسیح ابن مریم کو صلیبی موت سے مارنا یہ ایک ایسا اصل ہے کہ اسی پر مذہب کے تمام اصولوں کفارہ اور تثلیث وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور یہی وہ خیا ل ہے کہ جو نصاریٰ کے چالیس کروڑ انسانوں کے دلوں میں سرائیت کر گیا ہے اور اس کے غلط ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں۔ اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اُٹھے تو جو گروہ چالیس کروڑ انسان کا انیس سو ۰۰۹۱ برس میں تیا رہوا ہے ممکن ہے کہ انیس ماہ کے اندر دست غیب سے ایک پلٹا کھا کر مسلمان ہو جائے کیونکہ صلیبی اعتقاد کے بعد یہ ثابت ہونا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مارے گئے بلکہ دوسرے ملکوں میںپھرتے رہے ۔ یہ ایسا امر ہے کہ یکدفعہ عیسائی عقائد کو دلوں سے اُڑاتا ہے اور عیسائیت کی دنیا میں انقلابِ عظیم ڈالتا ہے ۔
اے عزیزو اب عیسائی مذہب کو چھوڑو کہ خدا نے حقیقت کو دکھا دیا ۔ اسلام کی روشنی میں آئو تانجات پائو ۔ اور خدائے علیم جانتا ہے کہ یہ تمام نصیحت نیک نیتی سے تحقیق کامل کے بعد کی گئی ہے۔منہ
(منقول از کتاب راز حقیقت طبع اوّل صفحہ ۲تا۱۵)




دربار دہلی کے موقعہ پر میموریل کی اشاعت
ظہر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو مولوی محمد علی صاحب ایم -اے نے عرض کی کہ دربار دہلی پر جو میموریل روانہ کرنا ہے وہ طبع ہو کر آگیا ہے حضور نے حکم دیا کہ ’’اسے کثرت سے تقسیم کیا جائے کیونکہ اس سے ہماری جماعت کی عام شہرت ہوتی ہے اور ہمارے اصولوں کی واقفیت اعلیٰ حکام کو ہوتی ہے اور اس کی اشاعت ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلد دوم (۲۷ دسمبر ۱۹۰۲ء) صفحہ ۶۱۰)



تعطیل جمعہ
مندرجہ ذیل میموریل حضرت مسیح موعودؑ نے گورنمنٹ آف انڈیا
کی خدمت میں تعطیل جمعہ کیلئے پیش کیا ہے
چونکہ تاجپوشی کا جلسہ جو دہلی میں ہو گا ہر ایک فرقہ رعایا گورنمنٹ برطانیہ کو اس سے بہت خوشی ہے اور مسلمانوں کو ایک خاص خوشی جو اس جلسہ میں ان کے اسلامی تخت گاہ کے شہر کو عزت دی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس محسن گورنمنٹ کو مسلمانوں پر ایک خاص نظر عنایت ہے اور مسلمانوں کی مدت دراز سے ایک دلی تمنا ہے جس کے پیش کرنے کے لئے اس وقت سے زیادہ مبارک کوئی وقت نہیں کہ ہمارے بادشاہ عالیجاہ قیصر کی تاجپوشی کے جلسہ کا دن قریب ہے اس لئے مجھے تحریک کی گئی کہ میں اس التماس کو ادب سے پیش کروں کیونکہ میں ایک ایسے مسلمانوں کے گروہ کا امام ہوں کہ جو برٹش انڈیا اور دوسرے مقامات میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے اور میں ضروری نہیں سمجھتا کہ میں ان کے نام لکھوں کیونکہ وہ مجھ سے بیعت کرنے والے ہیں یعنی میرے مرید ہیں اور مجھ سے الگ نہیں ہیں یہ وہ فرقہ ہے جو فرقہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور پنجاب اور ہندوستان اور دیگر متفرق مقامات میں پھیلا ہو اہے یہی وہ فرقہ ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے چنانچہ اب تک ساٹھ کے قریب میں نے ایسی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو اور انگریزی میں تالیف کر کے شائع کی ہیں جن کا یہی مقصد ہے کہ یہ غلط خیالات مسلمانوں کے دلوں سے محو ہو جائیں اس قوم میں یہ خرابی اکثر نادان مولویوں نے ڈال رکھی ہے لیکن اگرخدا نے چاہا تو میں امید رکھتا ہوں کہ عنقریب اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا ہونا ضروری ہے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں منقوش ہو جائے کہ یہ سلطنت اسلام کے لئے درحقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈ کرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک پاہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانا اور نیز اپنی طرف سے دہلی کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لال ٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکر گزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنا بھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہو گی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا د ن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جسکا نام سورۃ الجمعہ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کا ہرایک کام بند کر دو اور مسجد وں میں جمع ہو جائو اور نماز جمعہ اس کی تما م شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گاوہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیلمسلمانوں میں چلی آئی ہے اور اس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میںاسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اور اس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو عیسائی مسلمان ۔ ہندوئوں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں جس کی تعطیل عام طور پر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں۔ برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں۔ مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوفنے دلی فیا ضی ا ور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں تو پھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ یہ امر بھی انہیں ہاتھوں سے انجام پذیر ہو گا مسجد تو مثل دسترخوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے۔ تمام مساجد کی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیا ہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دسترخوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں ایسی دعوت تو ناقص ہے اور امید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اور اگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم اُمید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرماوے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ مسلمانوںکے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مرادپا سکیں یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گا اور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا جو عام طور پر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسا احسان ہو گا کہ جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہو گا اور اس کا مسلمانوں کے دلوں پر بڑا اثر پڑے گا بالخصو ص جبکہ عین تاجپوشی کے جلسہ میں جہاں ہزار ہا رئیس اور والیان ملک موجود ہونگے اس احسان کو تاجپوشی کی ایک یادگار ٹھہرا کر سنایا جائے گا تو جو کچھ مسلمانوں کے دلوں میں خوشی سے بھری ہوئی محبت پیدا ہو گی اس کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے ۔ اس دن لو گ تمام شہر میں خوشی کے نعروں کے ساتھ لارڈکرزن کے گیت گائیں گے اور اس کے حق میں دعائیں کریں گے اور اس کارروائی سے اسلام اور عیسائیت میں ایک میلان پیدا ہو جائے گااور تمام تعریف لارڈ کرزن کے عہد کی طرف ہمیشہ کیلئے منسوب رہے گی اور میری دانست میں عا م مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے جو کارنامہ وہ چھوڑ جائیں گے۔ اس سے بہتر کوئی نہ ہوگا مسلمان ایک قوم ہے جو سب سے زیادہ مذہب کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور ہر ایک تالیف قلوب جو مذہبی رنگ میں کی جائے وہ ان کے دلوں کو کھینچ لیتی ہے پس اعلیٰ سے اعلیٰ حکمت عملی مسلمانوں کو مسخر کرنے کی یہی ہے کہ مذہبی رنگ میں ان کو کوئی فائدہ پہنچایا جائے۔ چونکہ تاجپوشی کے جلسہ کا موقعہ ایک ایسا بابرکت موقعہ ہے کہ ہندو، مسلمانوں کی اس طرف آنکھیں لگی ہوئی ہیں کہ اس مبارک رسم کی یادگار میں کیا کچھ سرفرازی ہردوفریق کی کیجاتی ہے پس اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھو ل دے یا اگر نہ ہو سکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دیدے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہو تو اس کو کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اور یہی مسلمانوں کو توقع ہے ۔ جمعہ کے دن کو کچھ مسلمانوں سے ہی خصوصیت نہیں بلکہ یہ دن عیسائی مذہب میں بھی قابل تعظیم ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جمعہ کے روز ہی صلیب دئیے گئے تھے اور عیسائی کے عقیدہ کی رو سے تمام برکات کی جڑ یہی واقعہ ہے یہودیوں کا سبت بھی اس زمانہ تک کہ جب وہ مصر سے نہیں نکلے تھے جمعہ ہی تھا قدیم مصری سلطنت میں بھی جمعہ کی ہی تعطیل ہوتی تھی اور حضرت آدم بھی جمعہ کے دن ہی پیدا ہوئے تھے نوح کی کشتی اراراٹ کے پہاڑ پر جمعہ کے دن ہی لگی تھی۔ پس اس تعطیل سے یہ تمام یادگارین قائم ہو سکتی ہیں اور مسلمان اس بات پر راضی ہیں کہ انکی بعض غیر ضروری تعطیلیں بند کر کے ان کی جگہ جمعہ کی تعطیل دی جائے اور مجھے اس بات کاخیال ہے کہ جمعہ کی تعطیل رعایا اور گورنمنٹ میں ایک حقیقی مصالحت کی بنیاد ڈالے گی اور خیالات پر ایک ایسا اثر ہو گا کہ وہ فوق العادت تصور کیا جائے گا اگرچہ گورنمنٹ بہت دانشمند ہے لیکن عام مسلمانوں کے حالات سے ذاتی واقفیت مجھے اس بات کے اظہار کے لئے مجبور کرتی ہے کہ اس موقعہ پر مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی طریق نہیں اس لئے ایک بڑی جماعت کی تحریک سے یہ میموریل ارسال حضور کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ توجہ سے اس پر غور کی جائے خاص کر میرے لئے جو ہمیشہ اس سعی میں ہوں کہ مسلمان لوگ گورنمنٹ کے ساتھ سچے اخلاص میں ترقی کریں۔ اس تعطیل سے ایک دستاویز ملتی ہے اور گورنمنٹ کی عنایات ثابت کرنے کے لئے اور نئے دلائل حاصل ہوتے ہیں اس لئے میں اس عرض کے لئے جرأت کرتا ہوں کہ اس عرضداشت پر ضرور توجہ فرمائی جائے اور اس کو ایک معمولی عرضی سمجھ کر ٹال نہ دیا جائے اور نہ یہ تصور کیا جائے کہ صرف ایک شخص کی یہ درخواست ہے کیونکہ جیساکہ میں عرض کر چکا ہوں یہ ایک شخص کی درخواست نہیںبلکہ ایک لاکھ معزز مسلمانوں کی درخواست ہے اور چونکہ وہ لوگ مجھ سے بیعت اور مریدی کا تعلق رکھتے ہیں اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ان کے نام لکھے جائیں اور میں ان سب کی طرف سے بطور ایڈووکیٹ ہو کر امید بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ عرضداشت روانہ کرتا ہوں اور دعا پر ختم کرتا ہوں ۔
(منقول از ریویوآف ریلیجنز جلد نمبر۱ نمبر۱۲)








جہاد کے قطعی استیصال کیلئے ایک تجویز پیش کردہ
حضرت مسیح موعودعلیہ الصّلوٰۃ والسّلام
چونکہ تقریب جلسہ تاجپوشی ہمارے شہنشاہ عالی جاہ ایڈورڈ قیصر کے درپیش ہے اور ہر ایک شخص پر جو زیر سایہ اس سلطنت پُر امن کے رہتا ہے واجب ہے کہ اس خوشی سے حصّہ لے۔ اور اس موقع پر اپنی خیر خواہی اور خلوص کا اظہار کرے سو میں جوایک گوشہ گزین انسان ہوںاور قبل اس کے جو واقعہ موت پیش آوے اس پوشیدہ عالم کو دیکھ رہا ہوں جس کو اکثردوسرے لوگ موت کے بعد دیکھیں گے ۔ اس لئے میری معرفت اور حقیقت شناسی نے جو انصاف اور حق پسندی کو چاہتی ہے مجھے تحریک کی ہے کہ نہایت یک رنگی اور دلی جوش سے اپنی مشرب اور طریق کے مطابق اس موقعہ پر وہ باتیں ظاہر کروں جن کے لئے میرا دل جوش مار رہا ہے اور جن کو اپنا فرض سمجھتا ہوں سو سب سے اول میں اپنی طرف سے اور اپنی جماعت کے منتخب لوگوں کی طرف سے جو میرے تخمینہ میں اب وہ برٹش انڈیا کی متفرق بلاد میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہیںحضرت شہنشاہ قیصر کو شکر سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ دعائے خیر کرتا ہوں اور جناب الٓہی سے چاہتا ہوں کے وہ قادر کریم جس کی بے انتہا طاقت نے ذرّہ ذرّہ پر قبضہ کر رکھا ہے اس شہنشاہ کو جس کی سلطنت امن بخش اور ہرایک ظالم سے حفاظت کرتی ہے تمام مکروہات زمانہ سے بچاوے اور فتح وظفر نصیب کرے ۔ اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس بات کی توفیق دے کہ ہم سچے دل سے اس محسن گورنمنٹ کے خیر خواہ رہیں۔ اور دو رنگی سے بچیں۔ پھر بعد اس کے میرے دل میں جلسہ تاجپوشی کی تقریب پر ایک ارادہ دوبارہ جوش زن ہوا ہے جس کو میں آج سے قریباًبائیس۲۲ برس پہلے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں ملک میں مسلمانوں کی توجہ کے لئے شائع کیا تھا اورپھر وقتاًفوقتاًمیں اس ارادہ کو اپنی متفرق کتابوں میں شائع کرتا رہااور غالباًتیس۳۰ مرتبہ کے قریب میں نے اس ارادہ کو ملک میں شائع کیا مگر افسوس کہ اب تک وہ میرا مطلب پورا نہ ہوا ۔اب اس تقریب جلسہ تاجپوشی پر خوب موقعہ نکلا ہے کہ پھر میں یہ بات پیش کروں ۔ اور وہ یہ ہے کہ جس رعیّت کو اپنی گورنمنٹ کے ساتھ دلی اطاعت کا جوش نہ ہو۔ وہ بد قسمت رعیّت ہے جو نفاق کے ساتھ گزارہ کرتی ہے۔ اور اب ہم نے قریباًپچاس سال کی مدّت میں متواتر تجارب سے دیکھ لیا ہے کہ گورنمنٹ در حقیقت مسلمانوں کے لئے ابر رحمت ہے ۔ اس کے سایہ میں ہم امن سے گزارہ کرتے ہیں ۔ اس کے سایہ میں اکثر مسلمان نسبتاًاپنی پہلی حالت بے علمی سے بہت کچھ ترقی کر گئے ہیں ۔ اور یہ گورنمنٹ انکی جانوں اور مالوں اور آبرؤں کی محافظ ہے۔ اور ایسے عمدہ انتظام سے امن قایم کیا گیا ہے کہ اس سے بہتر متصوّر نہیں ۔ تو پھر کیا اس کے علماء کا فرض نہیں ہے کہ وہ پوری توجہ سے سوچیں کہ کیوں آئے دن اس محسن گورنمنٹ کو سرحدی وحشیوں کی لڑائیوں کے مشکلات پیش آتے ہیں کیا اس کا یہ سبب نہیں ہے کہ ان میں ایسے بد ظن مُلاّ موجود ہیں جو ہمیشہ اُن کو یہی سبق دیتے رہتے ہیں ۔ کہ کافروں سے جہاد کرنا دین کا فرض اور بہشت کے حاصل کرنے کی ایک کنجی ہے ۔ پس اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ جن اسباب سے یہ فتنہ ہمیشہ اُٹھتا رہتا ہے۔ اُنہیںاسباب سے یہ فرو بھی ہو گا یعنی علماء کے مقابل پر علماء کی کوشش ضروری ہے۔
پس کیا ہمارے علماء کوئی ایسی تدبیر نہیں کر سکتے کہ اس تدبیر کا اثر ان وحشیوں پر پڑے؟ بیشک کر سکتے ہیں اور اگر زیادہ اثرنہ ہو تو بلاشبہ کسی قدر ضرور اثر ہو گا۔ یہ گورنمنٹ بے شک با ہیبت اور بااقبال ہے اگرچاہے تو ایک کروڑ مفسد اور باغی کی بخوبی سرکوبی کر سکتی ہے ۔ لیکن آخر لڑائیوں میں عزیز جانیں ضائع ہو تی ہیں۔ سو اگر کسی تدبیر سے کام نکلے تو کیوں جانیں ضائع ہوں ۔ پس میرے نزدیک تدبیر یہ ہے کہ ایک کتاب مبسوط مخالفت جہاد میں لکھی جائے جس کا یہ مطلب ہو کہ بموجب آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ اور اصول انصاف کے اس گورنمنٹ سے ہر گز جہاد درست نہیں کیونکہ وہ دادگستری اورحق پسندی اور رعیت پروری اور بہت سے اپنے منصفانہ اصولو ں کے رو سے دین اسلام کی حامی ہے اور علاوہ اس کے مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ ہندوستان کے پہلے بادشاہوں کے زمانہ کی نسبت علمی ترقی اور امن اور آزادی میں گورنمنٹ انگریزی کی رعایا مسلمان آگے بڑھ گئے ہیں بلکہ اگر زیادہ غور کرو تو معلوم ہو گا کہ انگریزی قوانین اسلام کے لئے راستہ صاف کر رہے ہیں۔ ان تمام امور کے لحاظ سے اس محسن گورنمنٹ سے بغاوت یا مقابلہ یا سرکشی سے پیش آنا صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ اسلام سے خارج ہونا ہے جب ایسی کتاب تیار ہو جائے۔ تو تمام سر آمد علماء کے اس پر دستخط ہو جائیں۔ اور پھر وہ کتاب زبان پشتو اور فارسی اور عربی میں ترجمہ کی جائے ۔اور ایسی کتاب کی چالیس ۰۴ ہزار کاپی چھپوائی جائے اور ملک میں اور سرحدی ممالک میں تقسیم کی جائے اگر ایسا ہو تو میںنے منظور کیا ہے کہ دس۰۱ ہزار روپیہ تک اس کی چھپوائی کے اخراجات میں خود دیدوں گا ۔ مگر شرط یہ ہے کہ محض بیہودہ اور مجمل اور منافقانہ بیان نہ ہو بلکہ ہر ایک پہلو سے مکمل ہو۔ میں اس بات کو خوب جانتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ وہ بیان کس قوت کے ہوتے ہیں جو دل کی سچائی سے نکلتے ہیں۔ اور وہ بیان کیسے بودے اور کمزور ہوتے ہیں جو محض منافقانہ ہوتے ہیں۔ منافقانہ بیان ایک مردہ بیان ہوتا ہے اور اسکی ایسی مثال ہے جیسا کہ ایک پھوڑے کے اندر بہت سی پیپ بھری ہو اور بظاہر دکھائی دیتا ہو کہ وہ زخم مل گیا ہے مگر جو بیان دل سے نکلتا ہے وہ آخر دلوں کو جاپکڑتا ہے۔ میں اس بارے میں ایسی تحریروں کو پسند نہیں کرتا جو گول مول ہوں اور صرف دوچار مختصر ورق ہوں۔ بلکہ چاہئے کہ بہت مبسوط کتاب ہو اور اس میں تین قسم کے زبردست دلائل ہوں (۱)اول آیا ت قرآنی سے تمسک ہو(۲) دوسری حدیث سے تمسک ہو(۳) تیسری دلائل عقلیہ سے تمسک ہو اور میں نے سنا ہے کہ بعض والیان ریاست سرحدی نے جہاد پر زوردینے کے لئے ایک کتاب لکھی ہے اس صورت میں اور بھی واجب ہوا کہ اُس کتاب کا اثر دور کر دیا جائے اگر گورنمنٹ یہ عذر پیش کرے کہ ایسی ہدایت گویا ایک جبر کی قسم ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ یہ جبر نہیں ہے جس بات میں لوگوں کی بھلائی اور امن کی ترقی اور عافیت کی امید ہے وہ جبر کیونکر ہو سکتا ہے ایسے خیالات مسلمانوں کو پستی کی طرف لے جارہے ہیں۔ اور درندگی کی قوتیں بڑہتی جاتی ہیں۔ اور اس ملک کے علماء کا کیا حرج ہے کہ ایسی مبسوط کتاب تصنیف کرکے اپنے دستخطوں اور مہروں سے مز ّین کریں ان پر کوئی خرچ نہیں ڈالا جاتا بلکہ اس تمام خرچ کا میں ہی ذمہ اٹھاتا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صفائی اور پوری دیانت سے ایسی کتاب تالیف ہونی چاہئے میں انکی نسبت کوئی بد ظنی نہیں کرتا ۔ مگر میرا کانشنس اس بات کو نہیں مانتا کہ جب تک پوری صفائی اور پورے دل کے جوش سے ایسی کتاب نہ لکھی جائے۔ اور ایسے تمام امور کی جڑ کاٹ نہ دی جائے جو جہادی مسائل کی طرف حرکت دیتے ہیں۔ یا کسی آئندہ جہاد کی امیددیتے ہیں۔ تب تک وہ کتاب موثر ہو سکے اس لئے ہمیں چاہئے کہ اُس جڑ کو اپنے عقائد کے اندر سے بکلی نکال دیں جس کی زہر کسی وقت پھوٹنے کے لئے تیا رہے۔
میرے خیال میں یہ دو عقیدے جہاد کی جڑ ہیں (۱) ایک یہ کہ جو امید کی جاتی ہے کہ اب عنقریب زمانہ میں کوئی ایسا مہدی آنیوالا ہے کہ جو جہاد اور اپنی مذہبی لڑائیوں سے زمین کوخون سے پُر کر دے گا (۲) دوسری یہ کہ مہدی کے ہاتھ بٹانے کے لئے کوئی مسیح آسمان سے آنیوالا ہے جس کاکام بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی سخت دل سپاہیوں کی طرح تلوار سے دین کو پھیلانا چاہے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب ایسے عقیدوں کا زمانہ گذرتا جاتاہے اور وہ جو ایسی بحثوں میں سختی سے پیش آتے تھے اب وہ خود بخود سمجھتے جاتے ہیں اور دل جلد جلد صاف ہو تے جاتے ہیں۔ بعض نادانو ں کا پہلے اس سے ان عقیدوں پر بہت غلو تھا اور اب بھی ایسے لو گ پائے جاتے ہیں جو تہذیب اور انسانیت سے بہت کم حصہ رکھتے ہیں وہ ان بیہودہ عقیدوں پر اب تک قائم ہیں ۔ اگر یہ عقیدے قرآن شریف میں مذکور ہوتے تو ایسے عقیدوں والے پر کچھ افسوس نہ تھا لیکن تعجب تو یہ ہے کہ ان ہر دو عقیدوں کا قرآن شریف میں نام و نشان نہیں ہاں سورۃ فاتحہ اور سورۃ نور اور کئی اور سورتوں میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے نبیوںکا سلسلہ آخر کو ایک ایسے نبی پر ختم ہوا جس نے تلوار نہیں اُٹھائی اور نہ جہاد کیا اور محض اخلاقی تعلیم کی قوت سے دلوں کو اپنی طرف کھینچا ایسا ہی محمدی سلسلہ میں جب وہی زمانہ آئیگا یعنی جبکہ ہجرت سے چودھویں صدی آئیگی جو اُس زمانہ سے بہت مشابہ ہے ۔ جبکہ حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ تب حضرت عیسیٰ مسیح کی مانند اس امت میں بھی ایک شخص پیدا ہو گا۔ جو نہ جہاد کرے گا اور نہ تلوار اُٹھائے گا اور آرام سے اور صلح کاری سے دلوں کو خدا کی طرف پھیر دے گا۔ اور قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری مسیح جو پہلے مسیح کے قدم پر آئے گا۔ آدم کے زمانہ سے چھٹے ہزار کے آخر پر پیدا ہو گا یہ پیشگوئی ہے جو قرآن شریف میں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ اسلا م چودھویں صدی میں اپنی ترقی کا تمام مدار اخلاقی اور عقلی اور اعجازی نمونوں پر رکھے ۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رکھا یہی ہے جو دوسرے لفظوں میں مسیح کا دوبارہ آنا بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ جتلانا منظور ہے کہ پہلے مسیح میں اور دوسرے مسیح میں ایسی مشابہت ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہیں۔ یہی ایک پیشگوئی ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہوتی ہے۔ باقی سب باطل اور جھوٹے قصّے ہیں جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور مہدی کے متعلق جس قدر حدیثیں ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں ہے قرآن نے دو مسیح بالمقابل رکھے ہیں ایک مسیح اسرائیلی اور ایک مسیح محمدؐی اور دونوں کی نسبت بیان ہے کہ وہ محض اخلاقی تعلیم اور آسمانی نشانوں سے دین کو پھیلانے والے ہیں۔پہلے اس سے اسرائیلی سلسلہ میں موسیٰ اوریشوعا وغیرہ نبیوں کی لڑائیوں سے یہ شک کیا گیا تھا کہ شاید مذہب ایسا ہے کہ اس میں بجز تلوار کے اور کچھ نہیں ۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ وہ شک دلوںمیں باقی رہے اس لئے اس نے موسوی سلسلہ کے آخری زمانہ میں یسوع مسیح کو بھیجاتا اپنی اخلاقی تعلیم سے اُس شک کو دور کر دے۔ اسی طرح محمدؐی سلسلہ میں بھی جبکہ پہلے زمانہ میںبطور مدافعت کے لڑائیاں ہوئیں تو لوگوں نے بعد میں یہ اعتراض اسلام پر کیا کہ وہ جبر سے دین کو پھیلاتا رہا ہے۔ حالانکہ وہ لڑائیاں مخالفوں کے حملوں کے دفع کے لئے تھیں نہ دین کے پھیلانے کے لئے جیسا کہ قرآن شریف میں خدا نے صاف فرما یا کہ لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ یعنی دین میں جبر نہیں ہے سو چونکہ یہ اعتراض دلوں میں جم گیا تھا۔ اور جاہل اور وحشی مسلمانوں نے بھی اپنے بد نمونوں سے اس اعتراض کو قوت دی تھی اور دینداری کا شعار غازی کہلانا سمجھا گیا تھا اور دین کے لئے تلوار اٹھانا گویا بہشت کی کنجیاں ٹھہر گئیں تھیں۔اس لئے آنحضرت ﷺ کے بعد چودھویں صد ی میں اسلام پر بھی وہ زمانہ آگیا کہ خدا اس غلطی کو اسلام میں سے نکال دے اسی طرح جیسا کہ موسیٰ سے چودہ سو برس بعد عیسیٰ مسیح کو خدا نے بھیج کر یہودیوں کی غلطی کو نکال دیا ۔سو اصل بات تو صرف اس قدر تھی۔ جس کو بعض نادانوں نے کچھ کا کچھ بنا دیا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اسلام کے عقلمند اور پاک دل لوگ اُس حقیقت کو جلد تر سمجھ جائیں گے۔ میں صرف قیاسی طور پر نہیں کہتا بلکہ وہ نیک دل انسان جو ڈیڑھ لاکھ کے قریب میری اس ہدایت کو قبول کر چکے ہیں وہ ایک زندہ گواہ میرے اس خیال کے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ہر روز اسلام میں سے غلط عقیدے اُٹھتے جاتے اور اُن کے بدلے یہ پاک سلسلہ قائم ہوتا جاتا ہے ۔میرے اس سلسلہ میں اگرچہ ایسے لوگ بھی بکثرت ہیں جو انگریزی خواں اور تعلیم یافتہ اور سرکاری عہدوں پر مقرر ہیں مگر ایک گروہ کثیر ان میں علماء کا بھی ہے مجھے اُن کے ساتھ ان مسائل کے سمجھانے میں کوئی دقت اُٹھانی نہیں پڑی ۔بلکہ وہ ایسی آسانی سے سمجھ گئے گویا کہ وہ پہلے سے ہی طیار تھے سو میں اس سے قیاس کرتا ہوں کہ اس پاک عقیدے کے لئے قریباً کل دانشمند طیار ہیں اور عقلمند لو گ جہادی مسائل سے اندر ہی اندر بیزار ہو رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ درحقیقت قدیم سے خدا کا منشاء یہی ہے کہ وہ اپنے ضعیف بندوں کو نرمی اور رحم سے سمجھا دے۔ اور درحقیت سچ یہی ہے کہ تلواریں محض زمین کو فتح کرتی ہیںمگر اخلاقی تعلیم جو صرف زبانی باتیں نہ ہوں بلکہ عملی طور پر دکھائی جائے ۔وہ دلوں پر فتح یاب ہوتی ہے۔ اُن لوگوں نے خدا کا بڑا گناہ کیا ہے جنہوں نے قرآن کی اخلاقی تعلیم کو جو افراط تفریط سے پاک اور دنیا کی ہر ایک تعلیم سے اعلیٰ تھی اپنے وحشیانہ جنگوں اور ظالمانہ خون ریزیوں کے نیچے چھپا دیا ہے ۔اور چونکہ اس زمانہ میں خدا کے منشاء کے برخلاف یہ کارروائیاں اُن سے ہوئیں اس لئے ان کو ایسے حملوں میں بجز ناکامی اور ذلت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور ہمیشہ شکست اُٹھاتے اور مارے جاتے ہیں۔ لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب وہ اگر ایسا کریں گے تو وہ خد اسے لڑیں گے اور خدا اُن سے لڑے گا کیونکہ اُس کا منشاء یہی ہے کہ دنیا کو یہ معجزہ دکھاوے کہ نرمی سے اور صلح سے اور اخلاق کے کما ل سے اور اعجازی نمونوں سے دلوںمیں پاک تبدیلی پیدا کرے۔ پس جو شخص اُس کے منشاء کے برخلاف دین کے لئے تلوار اُٹھاتا ہے وہ اُس کے معجزہ کو باطل کرنا چاہتا ہے اور اُس کی حکمت کا دشمن ہے اس لئے کبھی اس کے لئے بہتری نہیں ہے اب کے بعد جو لوگ دین کے بہانہ سے تلوار اُٹھائیں گے گو وہ اپنی جہالت یا فریب سے مہدی کہلاویں یا مُلاّ کے نام سے منسوب ہوں وہ بہت ذلیل ہونگے کیونکہ خدا کے قدیم ارادہ کا انہوں نے مقابلہ کیا ہے میں خیال کرتاہوں کہ اس حقیقت کو کئی لاکھ انسانوں نے سمجھ لیا ہے اور کروڑ ہاانسان اس کے سمجھنے کیلئے مستعد ہو رہے ہیں اگر گورنمنٹ عالیہ مجھے اس قدر مدد دے کہ میری اس تقریر کو اپنے طور پر اخباروں میں شائع کر دے اور اس میں لکھ دے کہ جو علماء اور عقلاء اور فتویٰ دینے والے جہاد کے مخالف ہیں اور وہ کتاب مخالفت جہاد پر دستخط کرنے کو طیار ہیں وہ ایک خاص عہد ہ دار کے پاس جس کو گورنمنٹ مقرر ّکرے اپنے عرائض اخیر جون ۱۹۰۳؁ ء تک یا اس مدت تک جو گورنمنٹ مناسب سمجھے بھیج دیں اور اُن کے منتخب عالم جہا دکی مخالفت کے بارے میں اپنی اپنی جگہ ایک ایک کتاب لکھیں۔ جن میں سے ایک یہ راقم بھی ہو گا پھر مناسب ہے کہ اُن تمام کتابوں میں سے جس کتاب کو گورنمنٹ پسند کرے او ر پرزور دیکھے اس پر سب علماء کے دستخط ہو جائیں اور پھروہ فارسی اور پشتو اور عربی میں ترجمہ ہو کر بلاد اسلامیہ میں شائع کی جائے اور گورنمنٹ خسروانہ مہربانی کر کے ایسی کتابوںکی تالیف کے لئے بذریعہ اپنے اشتہار کے اطلاع دے اور مناسب ہوگا کہ تالیف کتاب کے لئے ایک برس مہلت رکھی جائے تاتکمیل کتاب میں کوئی دقیقہ رہ نہ جائے۔ یاد رہے کہ وحشی قوموں کو مہذب بنانے کے لئے جو مُلّائوںکے پنجہ میں ہیں اس سے زیادہ کوئی موزوں تدبیر نہیںہو گی جو علماء کے فتنہ کا علاج علماء کے ساتھ ہی کیا جائے۔ اب یہ زمانہ نیا رنگ پکڑ گیا ہے اور عملی تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ طریق جو میں نے بیان کیا ہے بہت موثر ہے۔ پس ہماری گورنمنٹ کو چاہئے کہ اس سے پورے طور پر فائدہ اُٹھاوے مسلمانوں کے لئے اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ یہ عادل گورنمنٹ ان پر حکمرانی کر رہی ہے اگر یہ گورنمنٹ اس ملک سے دستکش ہو جائے تو چند روز میں قوموں کی باہم کشت وخون سے خون بہنے شروع ہو جائیں اور کیڑوں کی طرح ایک دوسرے کو کھا لیں تب ہاتھ جوڑ کر پھر اس گورنمنٹ کو اپنے ملک میں لاویں گے۔ انسان کے لئے امن اور عافیت کی زندگی اور عادل سلطنت کے زیر سایہ رہنا بڑی چیز ہے گویا اسی دنیا میں بہشت ہے اور جن حکومتوں کے ماتحت جان و مال ہر دم خطرہ میںہیں وہ اگرچہ مسلمان کہلاویں لیکن اُن کا وجود آرام دہ نہیں ہے ہم لوگوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم کو ایسے حکام ملے ہیں جو حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر مذہبی رعایتوں کو طاق پر رکھ دیتے ہیںاور جو تقاضا انصاف اور عدالت کا ہے وہی کرتے ہیں مجھے اس بات کے لکھنے سے خوشی ہے میرے پاس اس دعویٰ پر ایک نظیر بطور ثبوت کے ہے جس پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ انگلش افسروں کی کس قدر نیتیں نیک ہیں اور وہ کس قدر عدالت اور انصاف کے دلدادہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ چند سال ہوئے ہیں کہ ایک مشنری صاحب نے جن کا نام ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ہے ایک جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا میرے پر دائر کیا میرا خیال ہے کہ یہ اُن کا گناہ نہیں تھا بلکہ بعض عیسائیوں نے اُنکو دھوکا دیا تھاپھر وہ مقدمہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں جو حال میںدہلی کے ڈپٹی کمشنرصاحب ہیں تحقیقات ہوتا رہا صاحب موصوف نے اس مقدمہ پر پوری توجہ سے غور کی اورکئی دنوںکی کوشش کے بعد معلوم کر لیا کہ یہ مقدمہ محض دروغ اور سراسر بہتان ہے تب اس کو خارج کیا اور مجھے پوری صفائی سے بری فرمایا۔ اس مقدمہ کے دیکھنے والے ہزارہا آدمی تھے جاہلوں کو یہ خیال تھاکہ ایک مشنری کا مقدمہ اور انگریز کے پاس ہے وہ بہر حال اس مشنری کی رعایت کرے گا ۔ لیکن جس روز وہ مقدمہ خارج کیا گیا اس دن لوگوں کے منہ سے بے اختیا ر نکلتا تھا کہ درحقیقت انگریز ایک ایسی قوم ہے کہ جو انصاف کو مد نظر رکھتے ہیں۔ اور میں چونکہ خوب جانتا تھا کہ یہ محض بے اصل اور قابل شرم بہتان تھا اور میرا صرف خدا پر بھروسہ تھا اس لئے مقدمہ کے راست راست فیصلہ ہونے پر میرا اعتقاد انگریزی سلطنت کے عدل پسند حکام کی نسبت زیادہ بڑھ گیا۔ اورمیں نے سمجھ لیا کہ یہ انگریز حکام صرف عدل پسند ہی نہیں ہیںبلکہ خدا نے ان کو عقل ایسی دی ہے کہ مخفی حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ امر بہت مشکل ہے کہ جب ایک حاکم کے سامنے ایسا مدعی آوے جو اس کیقوم کا بزرگ اور قابل تعظیم اور جنٹلمین ہو اورمقابل میں میرے جیسا ہو دنیا سے الگ جس پر ایک طرف بباعث فرقہ جدیدہ ہو نے کے قوم ناراض ہے اور دوسری طرف ایک فرقہ جدیدہ کا بانی ہونا انتظاماً بھی نگرانی کے لائق ہے پھر پوری پوری عدالت سے کام لیا جائے میںنہیں سمجھ سکتا کہ اسکی نظیر ابھی تک کسی دوسرے فرقہ میں موجودہے اور نہ میں اس کا قائل ہوسکتا ہوں جب تک کہ اس کو دیکھ نہ لوں۔ پس جس قوم میں ایسے عدل پسند حکام ہیں جو فیصلہ کے وقت خدا سے ڈرتے ہیں اور عدالت کو ہر ایک تعارف پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنی قوم کے بزرگوں کی بھی عدالت میں رعایت نہیں کرتے۔ ان کا سچا وفادار نہ ہونا میںنہیں سمجھتا سکتا کہ اُس سے زیادہ کوئی بدبختی اور شقاوت ہے۔ میں نے اس نمونہ کو جو کپتان ڈگلس کی عدالت میں دیکھاضائع نہیں کیا بلکہ ایک کتاب اسکے نام پر تالیف کر کے شائع کر دی اور میں جانتا ہوںکہ صدہا سال تک یہ عادلانہ کارروائی میری جماعت کو یاد رہے گی۔
(ریویو آف ریلیجنز جلدنمبر۲ نمبر۱ صفحہ ۱۸ تا ۲۵)








پانسوروپیہ کا اشتہار
میں اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرکے پنڈت دیانند صاحب سرسوتی کو خصوصاً اور دیگر پنڈتان اور علمائے مسیحی کو عموماً بطور اشتہار وعدہ دیتاہوں کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی صاحب متفرق مقاموں کے قول جو ویدیاانجیل میں بابت تاکید التزامِ حق گوئی اور راست روی اور صدق شعاری کے صریح صریح موجود ہوں۔بقید تعداد تکرار تاکید کے ایک فہرست میں نمبر وار جمع کریں۔یعنی یہ ظاہر کرکے دکھلادیں کہ مثلاًراست گوئی کے بیس مقام وید میں آئے ہیں یا تیس مقام آئے ہیں۔بعد اس کے ایک نقل اس فہرست کی دستخطی اور مہری اپنے ہمارے پاس بھیج دیں۔اور میں اس جگہ سے ایک فہرست مکمل ان آیات اور اقوال کی جو ہم کو خداتعالیٰ نے بابت لازم پکڑنے صدق اور راستی کے کل اقوال اور افعال میں ارشاد فرمایا ہے بعد ثبت دستخط اپنے کے بھیج دوں گا۔
بعد ملاحظہ اور پڑتال صحت کے اگر نمبر مقامات وید یا انجیل نے جو مضمون تاکیدراست گوئی پر بطور تذکیر یا ترغیب یا تبشیریاانذار یا مدح یا ذمِ کذب کے دلالت کرتے ہوں۔ہماری فہرست پیش کردہ سے تعداد میں سے زیادہ نکلیں،اگرچہ ایک نمبر میں زیادتی ہو،یا برابر نکلیں یا ثلث کم نکلیں یا نصف کم نکلیں۔تو میں مبلغ پانچ سو روپیہ اس شخص کو دوں گا جو ایسی فہرست پیش کرکے ثابت کرے اور اگر ادا میں توقف ہوتو شخص غالب کو اختیار ہوگا جو بموجب قانون معاہدہ مجریہ حال اور ایکٹ1877/10ء کے روپیہ عہد نامہ ہذا کا مددسرکار سے وصول کرلے۔لیکن بعد اس اشتہار کے کوئی سر نہ اٹھائے تووہ مغلوب سمجھا جائے گا۔فقط المشتــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم رئیس قادیان عفی عنہ۔
(اخبار منشور محمدی بنگلور۔جلد 6نمبر 25-33ذیقعدہ1294ھ روزدوشنبہ صفحہ2,1)
[منقول ازروزنامہ الفضل قادیان مورخہ 6اپریل1941ء]
اعلان نامہ متعلقہ اشتہار
ہر ایک دانا پر جو طالب حق ہے یہ بات واضح ہے جو بعد توحید جناب باری تعالیٰ کے عمدہ تعلیم سچ بولنے اور سچ پر قائم رہنے کی ہے،کیونکہ یہ ایک ایسی بزرگ نیکی ہے کہ انسان اپنے سب قولوں اور فعلوں اور حرکتوں اور سکونوں اور جملہ معاملات اور موارِدنیک میں بشرطِ نیک نیتی اور اتباع امورِ خیر کے لازم پکڑلے۔تو باقی سب نیکیاں بالعرض حاصل ہوجائیں گی۔اب تمام ارباب صدق ودیانت پرروشن ہو کہ اگرچہ خدا کی سب پاک کتابوں پر ہمارا ایمان ہے۔وَاٰمَنْتُ بِا للّٰہِ وَرُسُلِہٖ ورددل وزبان ہے۔
لیکن ہم عدالت اور حق کے التزام کی تعلیم محمدؐی میں جس کا مخزن قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ ہیں اس قدر تاکید شدید پاتے ہیں کہ بلاشائبہ تکلف ہزارم حصہ اس کا بھی دوسری کتاب میں نظر نہیں آتا۔وجہ یہ معلوم ہوئی ۔ جو ہو خاتم الرسل ہے اس کی تعلیم ان کی مکمل اور متمم دوسری کتابوں کے ہے اور یہ میری بست سالہ تحقیقات کا نتیجہ ہے جو آج میں ظاہر کرتاہوں۔لہذا ایک اشتہار انعامی پانسوروپیہ کا جو ہمراہ اعلان نامہ ہذا ہے۔مشتہر کرکے بخدمت جملہ صاحبان مسیحی ویہودی و مجوسی وآریہ سماج وعامہ پنڈتان ہنودملتمس ہوں کہ اگر کوئی صاحب میری رائے سے متفق نہ ہوں تو حسب شرائط مندرجہ اشتہار کے اپنی اپنی کتاب مخصوص الرسول یا کلام الرسول سے جو اس فرقہ میں مشتہر ہوچکی ہوں۔تعداد مختلف اوقات کے احکام اور مواعظ صدق کا پیش کریں اور ہم بھی انہی شرائط کے پابند رہیں گے۔اور شخص غالب کو حسب شرائط اشتہار اور اعلان نامہ ہذا کے کل روپیہ یکمشت دیاجائے گا اور درحالت مغلوب ہونے کے ہماری طرف سے کچھ تقاضا نہیں ہوگا۔فقط
المشتھر و المعلن:۔ مرزا غلام احمد رئیس قادیان
(اخبار منشور محمدی بنگلور۔ریاست میسور 1294ھ صفحہ2)
(بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان 6اپریل1941ء)
بخدمت جناب محمد شریف صاحب (ایڈٹیر منشورمحمدی) بعد السلام علیکم التماس ہے کہ اس سوال کو مہربانی فرماکر اخبار شریف میں اپنے منطبع فرمائیں۔وھوھذا
اقرارت سوامی جی پنڈت دیانند سورتی٭
پہلا اقرار۔سب جیو یعنی روح انادی ہیں کہ قدیم سے خودبخود موجود ہیں۔خدانے ان کو پیدا نہیں کیا اور نہ اب کوئی نیا روح پیدا کرسکتا ہے۔
دوسرا اقرار۔پر میشر جو سرشتی کو رچتاہے تو اس کا یہ باعث ہے کہ پہلے سرشتی میں کچھ روح بکٹ (مکت) ہوجاتے ہیں اور کچھ پاپ جو باقی رہتے ہیں ان کے پھوک (بھوگ) کرانے اور پھل دینے کے لئے پر میشر سرشٹی رچتا ہے۔
تیسرا اقرار۔مکتی چھ سادھن یعنی چھ عمل سے ہوتی ہے۔جو شخص ان چھ سادھن کو بجالائے ضرور اس کی مکتی ہوجاتی ہے۔
چوتھا اقرار۔جس کی مکتی ہوجاتی ہے وہ سداانند میں رہتا ہے اور پھر جنم مرن وغیرہ دو(بھو )ساگر میں نہیں گرتا۔
پانچواں اقرار۔ بعد گزرنے چار ارب اُنتیس کروڑچالیس لاکھ اوناسی ہزار نو سو چھیانویں برس دورہ آمدورفت کل روحوں کا ختم ہوکر پرلے آجاتی ہے۔
چھٹا اقرار۔یہ سب باتیں ویداور شاستر میں لکھی ہیں۔
تقریر اعتراض
پنڈت صاحب کی تقریر سے تناسخ باطل ٹھہرتا ہے اور دنیا کا بار بار پیدا ہونا غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ
٭اصل لفظ سرسوتی ہے۔کاتب سے سورتی لکھا گیاہے
بموجب پہلے اقرار پنڈت صاحب کے پر میشر کوئی (روح ناقل) بنا نہیں سکتا۔اور بموجب دوسرے اور تیسرے اقرار پنڈت صاحب کے ہمیشہ روح بکٹ (مکت) ہوتے رہتے ہیں۔اور بموجب چوتھے اقرار پنڈت صاحب کے جو روح مکت ہوجاتی ہے پھر واپس نہیں آتی اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ جیسے جیسے روحیں بکٹ(مکت) ہوجائیں گی اس طرف سے کمی ہوتی جائے گی یہاں تک کہ ایک دن خزانہ خالی ہوجائے گا۔پھر اواگون کہاں رہے گا اور سرشتی کا بار بار رچنا کس پر کار سے ٹھیک بیٹھے گا۔اگر کوئی کہے۔کہ روح بے انت ہیں۔تو اول تو یہ وہم بموجب پانچویں اقرار پنڈت صاحب کے باطل ہے کیونکہ اگر روح بے انت ہوتے تو ایک مدت معدودمیں جو چار ارب ہے۔کس طرح ان سب کا دورہ پورا ہوجاتا۔اور علاوہ اس کے ہم کہتے ہیں کہ جو چیز فی الحقیقت کسی قدر خارج میں موجود ہے اور دنیا میں آسکتی ہے اور جاسکتی ہے وہ کبھی بے انت نہیں ہوسکتی۔ جب ایک کو ان میں سے نکالیں گے تو ضرور ایک کی کمی ہوجائے گی اور جب دونکالیں گے تو دو کی کمی ہوجائے گی۔غرض جیسے نکلتے جائیں گے ویسے کم ہوتے جائیں گے اور ایک دن محکمہ بندوبست کی طرح سرشتہ خدائی کا تخفیف میں آجائے گا۔کیونکہ بموجب اصول پنڈت صاحب کے زمانہ غیر متناہی ہے اور یہاں ثابت ہوگیا جوروحیں کسی قدر اندازے میں محدود اورمتناہی ہیں۔اور متناہی غیر متناہی سے کبھی نباہ نہیں کرسکتا۔اس واسطے ضرور کسی دن ٹوٹ(کمی۔ناقل) آجائے گی۔
بعض لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ روح انادی ہے اور جو چیز انادی ہو وہ گنتی سے باہر ہوتی ہے۔اس کا یہ جواب ہے کہ خدا بھی انادی ہے مگر گنتی سے باہر نہیں ایک ہے۔
جو چیز محدود ہوگی وہ کسی نہ کسی گنتی میں ضرور داخل ہوگی۔اور کسی قدر کم کرنے سے ضرور کم ہوجائے گی۔
دیکھو ہمارے جیوجو ہمارے سریر (جسم ۔ناقل )میں داخل ہیں یہ بھی تو بقول تمہارے انادی ہیں۔اگر ہم کسی جگہ چار جیوبیٹھے ہوں اور بعد اس کے ہم میں سے ایک جیو اٹھ کر باہر چلاجاوے توضرور ہم باقی تین جیو رہ جائیں گے۔اور اگر ہم میں سے کوئی نہ اُٹھے گا اور ایک اور جیو آبیٹھے گا تو ہم پانچ جیو ہوجائیں گے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں جو خدا کا حدّ انتہا کچھ نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ روح بے انت ہیں۔اُن حضرات کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ بحث تو اس امر میں ہے جو کوئی چیز موجود ہو کر شمار سے باہر نہیں رہ سکتی خدا کے طول عرض سے اس بحث کو کیا علاقہ ہے اور خدا بھی تو شمار سے باہر نہیں۔اور نہ خدا شمار سے مستثنیٰ ہے۔انہیں حضرات کا یہ بھی وسواس (خیال۔ناقل) ہے کہ خدا بوڑھا نہیں ہوتا،اس کو موت نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ رُوح بے انت ہیں۔
ہماری طرف سے یہ گزارش ہے (کہ) جو ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنی عقلمندوں کاکام نہیں۔بھلا کوئی عاقل خیال کرے کہ موجودات میں کے شمار میں خدا کے بوڑھا جوان ہونے کا کیا دخل ہے۔ ہماری کلام تو صرف شمار میں ہے۔سو ہم بار بار عرض کرتے ہیں جو خدا بھی شمارسے باہر نہیں۔ایک ہے۔اور نہ کوئی اور موجود تعداد سے باہر ہوسکتا ہے۔جیسا ہم نے ثابت کردیا۔
مجیب صاحبوں کے ایسے ایسے عجیب جواب ہیں جو حقیقت میں اس لایق ہیں جو ایک ایک نقل ان کی برٹش انڈیا کے عجائب گھروں میں رکھی جائے۔
المعترض۔مرزاغلام احمد رئیس قادیان
(اخبار منشور محمدی بنگلور۔(ریاست میسور)جلد 6نمبر25_33ذیقعدہ 1294ھ صفحہ 7'6)
(بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان ۱۲؍ اپریل ۱۹۴۱ صفحہ۳)




بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ
اشتہار صداقت آثار٭
میں مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضیٰ ساکن قادیان ضلع گوداسپور اس وقت بذریعہ اس اشتہار کے خاص وعام کو مطلع کرتا ہوں کہ میر ایہ دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاگئے۔جیسا کہ اللہ جلـ شانہٗ فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ؎ ۱ حدیث نبوی اور قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس لفظ اور نیز لفظ اِنّیِ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی وفات دینا ہے نہ اور کچھ۔کیونکہ اس مقام میں اس لفظ کی شرح میں کوئی روایت مخالف مروی نہیں،نہ آنحضرت ﷺ سے نہ کسی صحابی سے۔پس یہ امر متعین ہوگیا۔ کہ نزول مسیح سے مراد نزول بطور بروز ہے یعنی اسی امت میں سے کسی کا مسیح کے رنگ مین ظاہر ہوناہے۔جیسا کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے نزول کی شرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمائی تھی۔جو یہود اور نصاریٰ کے اتفاق سے وہ یہی شرح ہے کہ انہوں نے حضرت یحییٰ کو ایلیا یعنی الیاس آسمان سے اترنے والا قراردیا تھا۔سو خدا تعالیٰ کے الہام سے میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ مسیح جو بروز کے طور پر غلبہ صلیب کے وقت میں کسر صلیب کے لئے اترنے والا تھا وہ میں ہی ہوں۔اسی بناء پر میں مولوی غلام دستگیرصاحب قصوری سے مباہلہ کرتاہوں۔اگر مباہلہ کی میاد کے اندر جو روز مباہلہ سے ایک برس ہوگی، میں کسی سخت اور ناقابل علاج بیماری میں جیسے جذام یا
٭یہ وہ اشتہار ہے جس کا مسودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی حکیم فضل دین صاحب بھیروی کو دے کر مولوی غلام دستگیر قصوری کے پاس بھیجا تھا۔
۱؎ المائدہ:۱۱۸
نابینائی یافالج یا مرگی یا کوئی اسی قسم کی اور بھاری بیماری یا مصیبت میں مبتلا ہوگیا اور یایہ کہ اس میعاد میں مولوی غلام دستگیرصاحب نہ فوت ہوئے نہ مجذوم ہوئے اور نہ نابینا اور نہ کوئی سخت مصیبت انہیں آئی تومیں تمام لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ بغیر عذروحیلہ ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور سمجھوں گا کہ میں جھوٹا تھا۔تبھی خدانے مجھے ذلیل کیا۔اور اگر میں مباہلہ کے اثر سے ایک برس کے اندر مرگیا تومیں اپنی جماعت کو وصیت کرتاہوں کہ اس صورت میں نہ صرف مجھے جھوٹاسمجھیں۔ بلکہ اگرمیں مروں یا ان عذابوں میں سے کسی عذاب میں مبتلا ہوجاؤں تو وہ دنیا کے سب جھوٹوں اور کذّابوں میں سے زیادہ کذاب مجھے یقین کریں اور ان ناپاک اور گندے مفتریوں میں سے مجھے شمار کریں جنہوں نے جھوٹ بول کر اپنی عاقبت کو خراب کیا۔اور اگر میں دس تاریخ شعبان تک بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تب بھی مجھے کاذب قرار دیں۔لیکن ضرور ہے کہ اول مولوی غلام دستگیر صاحب عزم بالجزم کرکے اسی نمونہ کا اپنی طرف سے بقید تاریخ اشتہار دے دیں۔اور اگر وہ اشتہار نہ دیں تو پھر میں لاہور نہیں جاسکتا۔والسلام علی من ا تبع الھدی۔
المشتھر:۔خاکسار مرزا غلام احمد
۱؎ مگرراً یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر اور صاحب بھی علمائے پنجاب یا ہندوستان سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ بھی اسی تاریخ پر بمقام لاہور مباہلہ کے لئے حاضر ہوکر مولوی غلام دستگیر کے ساتھ شریک ہوجائیں۔اور اگر اب حاضر نہیں ہوں گے تو پھر آئندہ ان کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔
(اخبار منشورمحمدی بنگلور ۔ریاست میسور ۱۲۹۴ھ)
(بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان ۲۶ستمبر ۱۹۴۳ء صفحہ۲)


۱؎ حضور علیہ السلام کے اسم مبارک کے بعد کی سطور اصل مسودہ جوحضور علیہ السلام نے پنسل سے لکھی ہوئی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشتھار واجب الاظہار
اس وقت دوعدد خط۱؎ بعض شیعہ صاحبان کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں۔اور اس میں انھوں نے ظاہر کیا ہے کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ موسوم حاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ان دنوں لاہور وارد ہوئے ہیں۔اور اس طرف یعنی مرے ساتھ بحث ومناظرہ کی آرزو رکھتے ہیں۔لیکن یہ کچھ معلوم نہیں ہوا کہ اس بزرگ کو کونسا مانع پیش آیا کہ اس نے بلاواسطہ ہم سے خط وکتابت نہیں کی اور توّسط کے حجاب کو درمیان سے نہیں اٹھایا۔ٹھیک ہے اگر اس نے یہ کام نہیں کیا ہم کرتے ہیں اور مناسب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوکچھ ہمیں پہنچایا ہے ہم بطور تبلیغ ان کو پہنچاتے ہیں۔اگر اس کے بعد انہیں کوئی حجاب یا شک باقی رہے وہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس جگہ آئیں اور طالبان حق کی طرح اپنے وساوس کو دور کریں ۲؎
۱؎ مرسلہ خط میں یہ لفظ طنزیہ اور متکبراّنہ انداز میں ہم پاتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ جو معقول باتوں سے بھی بے بہرہ ہیں اور شیخ الاسلام سے مخاطب ہونے کے لائق نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں کی شان میں ‘‘حضرت شیخ‘‘ کے الفاظ کسرِشان کے برابر ہیں۔مگر الحمدللہ کہ معقول پسندی کیا ہے۔شیخ صاحب کے نزدیک یہ بات ہمیں اس خط سے معلوم ہوئی ہے۔وہ شخص کہ جو کسوف وخسوفِ شمس وقمر کو ایک ساعت واحد میں جمع کرتا ہے اور قرآنی معقولات میں اپنی نظیر نہیں رکھتا یعنی اس آیت کے بارے میں:یہ کہ سورج کے لئے مناسب نہیں کہ وہ چاند کو پاسکے۔خدا نہ کرے کہ وہ معقولات کا حصہ اور حصہ رکھتا ہو۔
۲؎ یاد رہنا چاہیے کہ میں نے انکار کرنے والوں کے لئے اتمام حجت کر دیا ہے۔اب کے بعد کسی مناظرہ کی ضرورت نہ رہے گی۔ہاں ہر حق کے طالب کو اختیار ہے شیخ ہو یا شاب کہ وہ ہمارے پاس صدق دل سے آئے اور اپنے شکوک دور کرے ہم اس جگہ ہزاروں طالبانِ حق کامرجع ہیں۔ ہم حرکت نہیں کرسکتے۔ہر شخص جو طلب حق رکھتا ہے وہ آئے بفضل خداوہ تسلی و تشفّی پائے گا
پس واضح رہے کہ چونکہ ربانی اشاروں سے ظاہر ہے قرآن شریف اور منطوق صحیح بخاری ومسلم وغیرہ اہل اسلام کے نزدیک کتب مسلّمہ اور مقبولہ ہیں اور یہ بات ایک کو معلوم ومفہوم ہے اور اس امر کی حقیقت یہ ہے کہ خداوندکریم و حکیم کی قضاوقدرجس کا اظہار پیش گوئی کے طور پر ہوگا۔اس طور پر گذری تھی کہ جس وقت روئے زمین پر عیسائیت اور عیسیٰ پرستی غلبہ کرے گی اور صلیب کے لئے وہ عزت اور نشان پیدا ہوجائے جو خدا ئے رحیم وغفور سے تلاش کرنا چاہیے وہ اسے صلیب سے تلاش کریں گے اور وہ چاہیں گے کہ توحید روئے زمین سے معدوم ہوجائے اور وہ سخت حملے مسلمانوں پر کریںاس زمانے میں خدائے قادر کسی شخص کو صلیب کو توڑنے اور مسلمانوں کی اعانت کے لیے بھیجے گا۔اور وہ مسیح ابن مریم کی طرح اپنی قوم کی کتاب کا مصدّق ہوگا اور ان کا تائید کرنے والا بھی۔اور قوم یہود کی طرح اس کی مکفرومکذّب ہوجائے گی۔پس قصہّ تکفیرکی مناسبت کی وجہ سے اس کا نام عیسیٰ ہوگا اور جوکہ اُسے کافر کہیں گے اُن کا نام یہود ہوگا۔اور یہ دونوں نام استعارہ کے طور پر ہوں گے نہ کہ حقیقت کے رنگ میں۔اور غلطی اس جگہ ہوئی ہے کہ اگر وہ یہود کے نام کو استعارہ کے طور پر جانتے ہیں۔لیکن وہ عیسیٰ کے نام کو بطور حقیقت خیال کرتے ہیں۔الغرض اس وقت ہنگامہ میں محرفہ انا جیل کے واعظوں کا فتنہ اس حد تک پہنچا کہ سادہ لوح اور شکم پرست لوگ گروہ درگروہ مرتد ہونے شروع ہوگئے اور اسلام پر اس قسم کے حملے کرنے لگے کہ قریب تھا کہ دین متین پر کوئی آفت نازل ہوتی اس آفت میں کوئی دوسری آفت بھی مل جاتی کہ قوم میں سے تقویٰ گم ہوجاتا اور اسلام میں باطل فرقے بڑی کثرت سے پیدا ہوجاتے اور حقیقت شناس کم ہوجاتے۔
پس ان دونوں فتنوں کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے صدی چودھویں کے سرپر مجھے انہوں نے بھیجا اور اندرونی فتنوں کی اصلاح کے لیے میرا نام مہدی موعود انہوں نے رکھا اور بیرونی فتنوں کی اصلاح کے لیے اور یہودسیرت قوم کی اصلاح کے لیے مجھے انہوں نے عیسیٰ بن مریم کے نام سے موسوم کیا۔اوریہ خوشخبری دی کہ اس وقت کسرِصلیب تیرے ہاتھ سے ہوگی اور اس طرح باطل فرقوں پر جو اسلام کے ان ہیں جو اہل سنت کے حق کی مخالفت کرتے ہیں ان کی اصلاح کے لئے میرا نام انہوں نے عیسٰے بن مریم رکھا۔
میرا خدا جو میرے ساتھ ہے اُس نے مجھے غیب کے نشانات کے ساتھ بھیجا ہے۔اور اُس نے انوار وبرکات ظاہر فرمائے ہیں۔وہ نور جو اس نے تمام ائمۂِ اہل بیت کو عطا فرمایا ہے اور اب وہ گم ہو چکا تھا وہی نور اکمل واتم طور پر میرے لئے ظاہر فرمایا ہے۔اور مجھے متواتر ہونے والے الہامات اور تہ بتہ ظاہر ہونے والے نشانات سے یقین بخشتا ہے۔ میں وہی مسیح موعود ، مہدی معہود اور امام آخر زماں ہوں کہ جس کا ذکر احادیث نبویہ اور اسلاف صالحین کی روایات میں آتا ہے۔ اور دعویٰ مسیحیت اور مہدویت ایسا امر نہیں ہے جو بے دلیل ہو اور نہ بیہودہ اور باطل باتیں ہیں جو کوئی اصلیت اور حقیقت نہ رکھتی ہوں۔ بلکہ اپنے دعویٰ کی سچائی پر ہم وہ سب قسم کے دلائل رکھتے ہیں کہ مرسلین اور مبعوثین کے ساتھ اللہ کا جو دستور ظاہر ہو چکا ہے اب اگر کوئی منکر اپنے خیال میں یہ دعویٰ قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف سمجھتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ خود عیٰسے بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے وہ علم قرآن و حدیث سے بے بہرہ ہے۔ ۱؎
اگر کوئی اپنے اصرار کے باوجود باز نہیں آتا تو بارثبوت اس کی گردن پر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث نبویہ سے عیسٰے علیہ السلام کی زندگی ثابت کرے۔ لیکن ہر عقلمند جانتا ہے کہ حیات عیسٰے علیہ السلام کو ثابت کرنا ایک ایسا امر ہے جو محال ہے اور باطل خیال ہے۔ اس لئے کہ قرآن شریف نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ عیسٰے وفات پا چکے ہیں۔ اللہ جلشانہ فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّتْیتَنِيْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْھَم۲؎ اب اے اس آیت کے سننے والے غور سے دیکھ کہ کیا تو طاقت رکھتاہے کہ تو آیت کے وفات کے علاوہ کوئی دیگر معنی اس آیت سے نکال سکے۔ بلکہ ہر منصف اور محقق کہ جو آیت کریمہ پر غور کرے گا وہ (قرآن کے) منطوق و مفہوم میں غور کرے گا وہ ہدایت نظر کے ساتھ عیسٰے علیہ السلام کی وفات ہی سمجھے گا اور قطعی و یقینی طور پر وہ ان کی وفات پر ہی ایمان لائے گا۔ اور اس بصیرت کے موتِ (عیسٰے) کو نہ صرف ضلالت بلکہ الحاد اور زندقیت شمار کرے گا۔ممکن ہے کسی کو اپنی نادانی کے سبب لفظ توفی کے معنی میں تردد پیدا ہو جائے۔ لیکن جب حدیث کی طرف اور صحابہ کی روایات کی طرف رجوع کرے گا تو اس کا یہ سب تردد کالعدم ہو جائے گا۔ اس لئے کہ وہ وہاں اس آیت کی تفسیر میں بجز اماتت یعنی مارنے کے دوسرے معنے نہیں پائے گا۔ کیا تو نہیں دیکھتا صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے مروی ہے ’’ متوفیک :ممیتک‘‘ یعنی متوفیکَٔ کے یہ معنے ہیں :میں تجھے مارنے والا ہوں۔ اور ہم نے ہر چند کہ کتب حدیث کا سیرحاصل مطالعہ کیا ہے اور تمام روایات و اقوال صحابہ ؓ کو دیکھا ہے خود ہم نے پڑھا ہے اور (لوگوں سے) سنا بھی ہے لیکن کسی جگہ نہیں پایا کہ اس کی شرح میں سوائے اماتت کے معنی کے کوئی دوسری چیز کسی حدیث یا کسی روایت یا کسی قول میں آئی ہو اور ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو کچھ صحابہ کرام ؓ اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے توفی کے معنی میں آیت مذکورہ میں ثابت ہے وہ ہی مارنے کے معنے ہیں نہ کہ کوئی اورنہیں کہا جا سکتا کہ مارنا مسلم ہے لیکن وہ موت ابھی واقع نہیں ہوئی بلکہ آئندہ واقع ہو گی۔اس لئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام فلما توفیتنی والی آیت میں فرماتے ہیںکہ ضلالت نصارٰی کا فتنہ میری موت کے بعد وقوع میں آیا ہے نہ کہ میری موت سے پہلے۔ پس اگرچہ یہ فرض کریں کہ وعدئہ موت ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے اور عیسٰے علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں پس ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم یہ بھی قبول کر لیں کہ نصاریٰ ابھی تک صراط مستقیم پر ہیں۔ اور گمراہ نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ مذکورہ آیت عیسائیوں کی گمراہی موت عیسٰے سے وابستہ ہے۔ پس جب تک عیسٰے علیہ السلام مردہ نہیں ہوں گے عیسائیوں کو کس طرح گمراہ کہا جا سکتا ہے علماء کی عقل حیر انی ہے کہ ہماری قوم اس آیت کی طرف توجہ نہیں کرتی اور نصوص صریحہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اوہام کو اپنے مذہب کے طور پر پکڑتے ہیں۔
الغرض عیسٰے علیہ السلام کی وفات نصوص قرآنیہ اور حدیثوں سے ثابت ہے اور کسی شخص کو انکار کی جرأت نہیں ہے سوائے اس صورت کے کہ وہ قرآن و حدیث کو کوئی دوسری چیز سمجھے اور اس آیت کے معنے تفسیر بالرائے کے ساتھ کرلے اور اگرچہ لفظ توفی کے معنوںپر اہل لغت کا اتفاق ہے اور اس قاعدہ مستمرہ کے مطابق ہیں کہ جب کسی عبارت میں اس لفظ کا فاعل خدا ہو اور مفعول کوئی انسان انسانوں میں سے ہو اس صورت میں توفی کے معنے مارنے میں محصورہوں گے۔ اور سوائے مارنے اور قبض روح کے کوئی دیگر معنی اس جگہ نہیںہوں گے۔ لیکن اس جگہ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم عرب کی لغت کی کتب کی طرف رجوع کریں۔ ہم اس جگہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عباس کے قول کو صحیح بخاری میں پاتے ہیں۔ اور یہ دونوں کافی ہیں۔ اور ہم خوب جانتے ہیں جو کوئی قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتا ہے وہ منافق ہو گا نہ کہ مومن۔ پس چونکہ رسول اللہ علیہ وسلم نے لفظ توفیتنی کو مذکورہ آیت ہے اس کا اپنے اوپر اطلاق فرمایا ہے اور معنے وفات کے صریح طور بیان فرمائے ہیں اور ابن عباس نے ان معنوں کو صراحت کے ساتھ مارنے کے معنوں میں ظاہر کیا ہے اور شارح عینی نے جو ابن عباس کے قول کو بہ تمام و کمال بیان فرمایا ہے۔ پس ہمیں اس کی وضاحت کے لئے کسی ثبوت دیگر کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ ہم دوسرے ثبوت بھی رکھتے ہیں۔ عرب کا لغت ہمارے ساتھ ہے۔ انسانی عقل ہمارے ساتھ ہے دیگر قوموں کا اقرار ہمارے ساتھ ہے اسلام کے اکثر ائمہ کا تصور واقرار ہمارے ساتھ ہے اور بلاد شام میں ابھی تک حضرت عیسٰے علیہ السلام کی قبر موجود ہے۔
؎
آ کس کہ بقرآن و خبر زو نرہی

ایں است جوابش کہ جوابش ندہی
لیکن جو کچھ شیخ نجفی کہتے ہیں کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ عیسٰے علیہ السلام مر چکے ہیں۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ خدا دوسری دفعہ زندہ کرکے دنیا میں لے آئے۔ ان کا یہ قول اس وقت تک التفات کے لائق نہیں جب تک کہ وہ اسے قرآن شریف یا حدیث سے ثابت نہیں کرتے کہ فلاں قبر آخری زمانے میںپھاڑی جائے گی اور اس میں سے عیسٰے باہر آئیں گے۔ اس لئے کہ کسی کا خیال جس کے ساتھ ثبوت نہ ہو لائق قبول نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اپنے پاس سے ایسے خیالات تراشنا اور قرآن و حدیث سے اس کی سند پیش نہ کرنا دیانتداری اور پرہیزگاری سے بہت دور ہے۔ اگر یہی مذہب ان کے دل کو پسند ہے۔ پس سند لانی چاہئے اور کوئی حدیث پیش کرنی چاہئے کہ جس سے معلوم ہو جائے کہ فلاں قبر سے مسیح باہر آئیں گے۔ اس قسم کی حدیث کے ثابت ہونے کے بعد یہ سخت بے ایمانی ہو گی کہ کوئی اس حدیث کو قبول نہ کرے۔ مگر یہ بدقسمتی ہمارے مخالفین کی ہے کہ اس یا وہ گوئی کی تائید میں ان کے پاس کوئی حدیث اور آیت نہیں ہے۔ نہ تو قرآن کی شہادت مسیح کی حیات پر لا سکتے ہیں اور نہ وہ حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں فلاں قبر پھاڑی جائے گی اور اس میں عیسٰے باہر آئیں گے۔ اور حیات مسیح اور جسم عنصری کے ساتھ ان کا آسمان پر چڑھنا ایسی چیز ہے کہ قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت لانا محال کام ہے۔ ہاں! بعض حدیثوں میں لفظ ’’ نزول موجود ہے۔ لیکن یہ نادان نہیں جانتے ہیں کہ اس لفظ عیٰسی سے وہی عیسٰے مراد ہے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے پس ’’ نزول‘ کے بجائے ’’ رجوع کا‘‘ لفظ ہونا چاہئے نہ کہ ’’ نزول ‘‘۔ اس لئے کہ جو کوئی واپس آتا ہے اسے ’’نازل ‘‘ نہیں کہتے۔ بلکہ اسے ’’ راجع ‘‘ کہتے ہیں۔ عجیب قوم ہے کہ اس نے تعصب کے جوش سے لغت عرب کے محاورات کو بھلا دیا ہے۔
اب حاصل کلام یہ ہے کہ سرکارشیخ نجفی ۱؎پرلازم ہے کہ مذکورہ بالا دو طریق میں سے کسی طریق کو اختیار کریں۔ تاکہ وہ راستی کا چہرہ دیکھیں۔ اور اپنے اوپر عشو و تکبر کا ضبط روا نہ رکھیں۔ یعنی یاعیسٰے کا آسمان پر چڑھنا ثابت کریں۔ بجسم عنصری قرآن و حدیث سے یا کسی قبر پر انگلی رکھیں کہ اس قبر سے عیسٰے قبر سے بیرون آئیں گے۔
لیکن جوا نہوںنے بیان فرمایا ہے کہ خسوف و کسوف رمضان میں ایک ہی وقت میںہو گا اور مہدیٔ موعود کا یہی نشان ہے۔ اس لئے کہ ان دنوںیہ وقوع میں آیا ہے اس تقریر کے لئے عجیب سے بہتر ہو گااسے وہ عجائب خانہ میں بھجوا دیتے تاکہ غمناک لوگوں کے لئے ہنسی کا ذریعہ ہوتا۔ اور اس میں عجیب بات نہیں ہے کہ کوئی حدیث یا صحیح روایت اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اور دوسرا تعجب یہ ہے کہ ہئیت دانی کے دعوے کے باوجود یہ مذاق کی باتیں اور نادانی ہے۔ اور دوستوں نے ہمیں ملزم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو علم ہئیت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ پس ان کے اس بیان پر کہ ایک ہی وقت خسوف اور کسوف جمع ہوںگے اس امر پر شاید ناطق ہے کہ انہیں شیخ الاسلام کے کمالات اور فن ہئیت میںبھی دستگارہ عظیم حاصل ہے۔ اے خدا بندے یہ ہئیت جدید آپ کہاںسے لائے ہیں نہ تو سقراط کو اس کی خبر تھی اورنہ فیثا غورث کو۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کسوف آفتاب کے ایام :۲۷ ؍ ۲۸ اور ۲۹ قمری مہینے کے ہیں۔ اور خسوف قمر کی راتیں:۱۳؍ ۱۴اور ۱۵؍ قمری مہینے کی ہیں اور یہ وقت قانون قدرت میں مقرر ہے ۔ پس علم ہئیت کے لحاظ سے ایک ہی وقت میں ان کا اجتماع کیسے ممکن ہے۔ غرض آپ کے علم ہئیت کا یہ قاعدہ ایسا عجیب ہے کہ جس پر نہ ہمیں بلکہ کسی دوسرے ہئیت دان کو بھی اطلاع نہیں ہے۔ علم ہئیت کا دعویٰ کرنا خوب اور پھر اس کے خلاف کہنا بھی خوب ہے اور علم ہئیت بھی خوب ہے۔
جاننا چاہئے کہ یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور اس میں یہ خرافات درج نہیں ہیں جو بیان کی گئی ہیں۔ بلکہ اسی قدر ہے کہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات کو گہنایا جائے گا اور آفتاب گرہن اپنے دنوں درمیانے دن میںگہنایا جائے گا۔ اور اس میں دوشرطیں ہوںگی پہلی یہ کہ چاند اور سورج دونوں کا گرہن رمضان میں ہو گا اور دوسری یہ کہ یہ دونوں کسی مدعی و مہدویت کے صدق کے نشان کے طور پر ہوں ۔ یعنی اس وقت یہ دونوںنشان ظہور میںآئیں گے۔ اس لئے کہ مہدی کی تکذیب ہو گی اور یہ ہئیت کذائی کی رمضان میں خسوف و کسوف جمع ہو جائے اور یہ کہ ایک مدعی مہدویت اس وقت موجود ہو گا۔ یہ اتفاق ہے کہ مجھ سے پہلے کسی کو یہ میسر نہیں آیا۔ حضرت آدم سے میرے وقت تک حدیث کے مضمون کے مطابق اسی قدرہے۔ بحمداللہ کہ اس کا مصداق میں ہوں۔ اس کے علاوہ اس پر کسی چیز کا بڑھانا خیانت اور دھوکا ہے۔ ۱؎
والسلام علی من تبع الھُدٰی،
المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی،
(یکم فروری ،، ۱۸۹۷ء)
۱؎ راقم صاحب کی خیانتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آتھم عیسائی کا ڈر اس میں خلاف واقعہ کرتا ہے۔ پیشگوئی کی میعادرگزرنے کے بعد میںنے اسے قسم کھانے پر مجبور کیا تھا۔کہ اگر اس نے حق کی طرف رجوع نہیں کیا ہے۔ تو قسم کھائے اور چار ہزار روپے نقد انعام لے لیکن ہمارے شدید اصرار کے باوجود اس نے قسم نہیںکھائی۔ اور اسی حالت میں وہ مر گیا۔ حالانکہ قسم کا جواز اور وجوب ضرورت کے وقت ہم نے انجیل سے ثابت کر دیا تھا۔
اگر روایت غلط پہنچی تھی تو مومنوں کا کام نہیں کہ ہر قسم کی بے اصل خرافات کو مضبوطی سے پکڑ لیں تاوقتیکہ تحقیق نہ کر لیں۔ الغرض ہم نے لغو باتوں سے پر اس نامے کے میں آتھم عیسائی کے واقعے کو افسوس کے ساتھ پڑھا ہے۔ واضح رہے ایک بار پھر کہ مذکورہ آتھم عیسائی کے واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس کی موت کے بارے میں خدائے عزو جل کے الہام سے یہ پیشگوئی کی تھی کہ اگر وہ اپنی شوخی اور گستاخی پر قائم رہا اور اس نے رجوع الی الحق نہ کیا تو پندرہ ماہ میں مر جائے گا۔ پس آتھم مذکور نے اسی جلسہ میں الفاظ رجوع زبان پر چلائے اور جب اس سے کہا گیا کہ تونے تو حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اپنی کتاب میں دجال رکھا تھا، اس بدکرداری کی سزا ہے۔ اس نے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور زیادہ سے زیادہ عجز و نیاز ظاہر کیا اور اس کا رنگ زرد ہو گیا۔ اور اس کے دل پر خوف غالب آ گیا۔ اور اس وقت رجوع کی علامات اپنی بے باکی حصہ سے اس کے چہرے پر ظاہر اور آشکار ا ہوئیں ۔ چنانچہ قریباً ستر افراد معززین از مسلماناں و نصاریٰ نے اس حالت میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور عجز و نیازی کی اس کی گفتگو سنی۔ اس کے بعد پیشگوئی کے انجام تک سابقہ گستاخیوں میں زبان پر نہ لایا اور کسی شخص نے ثابت نہ کیا کہ کوئی گستاخی کا کلمہ پیشگوئی کی میعاد تک اس کی زبان سے جاری ہوا ہو۔ بلکہ اس نے اپنے خوف کا اقرار بار ہا کیا اور ڈرتے ہوئے اور کاپنتے ہوئے اس نے پیشگوئی کی میعاد کوگزارا۔ یہ اس کا بے باکی سے رجوع تھا کہ اس کی موت میں تاخیر ہو گئی۔ پس جب وہ میعاد گزرنے کے بعد اپنے شیطانوں سے ملا اور دیکھا کہ ایام گزشتہ ورختہ ہیں تو اس نے اپنی حالت کو بدل لیا۔ پس اس تغیر کے بعد ہمارے الہام کے مطابق خدا نے اسے پکڑ ا اور اسے موت اور ہاویہ کا ذائقہ چکھایا اور اپنی پیشگوئی کو مکمل وجوہ کے ساتھ پورا کیا۔ اور پادریوں اور اس کے ہم سخن مولویوں کے چہرے کو سیاہ کر دیا۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی میری کتاب یعنی براہین احمدیہ میں ۱۲ سال قبل آتھم کے اس واقعہ سے سلسلہ الہامات الٰہیہ کے اندر درج ہے۔ پس یہ کام ہے جو انسان کی طاقت سے بڑھ کر ہے اور یہ واقعات حقہ میں سے ہے اور اخفائے حق مومنوں کا کام نہیں ہے۔
نقل اس خط کی جو سفیر نے لاہور سے ہماری ملاقات کی درخواست کے لئے بھیجا تھا۔
(ترجمہ از مرتب) بسم اللہ الرحمن الرحیمجناب مستطاب معلی القاب قدوۃ المحققین قطب العارفین حضرت پیر دستگیرمیرزا غلام احمد صاحب دام کرامتہ چوں اوصاف جمیلہ و اخلاق حمیدہ آں ذات ملکوتی صفات:شہر لاہو رمیں ممنونیت کے کانوں سے کہ آپ کے سعادت مند مریدوں سے ہوں اور آپ کی تصانیف عالیہ جو مبارک مقام ہیں احترام اور ممنونیت کے ہاتھ سے پہنچیں۔ اس لئے زیارت کا جنوں ہوا۔ تاکہ چمکیلے اور بھڑکتے ہوئے انوار کا دیدار کر سکوں اور دل کے...... میں تعریف اور جھرجھریوںکے شوق کا جذبہ پیدا ہوا۔ انشاء اللہ لاہور سے امرتسر کے راستے روحانیت کے گرد آلود پائوں کے ساتھ پہنچونگا اور یہ خصوصی تار حضور کی خدمت میں جو سراسر نور مقدس ہیں بھیجونگا۔
(ترجمہ از مرتب) بحضور سیّدالسادات العظام وفخر النخباء الکرام مولٰنا سید محمدؐ ناظر حسین صاحب ناظم ادام اللہ فیوضہ وظل عاطفتہ۔سیدی ومولائی آپ کی بلند ذات کی خدمت کی طرف سے یہ التفات نامہ عزت و گرامی ہاتھوں سے ہم تک پہنچا۔ الحق اس نے غیر معمولی ممنونیت عظمیٰ بخشی۔ میں آپ پر فدا ہوں کہ آپ نے قادیان اور قادیان کے ارد گرد کے حالات کا ذکر فرمایا ہے اب میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بلند ہمت عالی بیان سے افادہ کرتا ہوںکہ یہ شخص عجیب و غریب ہے اور اسلام کے صراط مستقیم سے برگشتہ قدم ہے اور علیھم الضالین کے دائرہ میں قدم رکھے ہوئے ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جھوٹ کو سامنے رکھے ہوئے اپنے زعم باطل سے باب رسالت کو کھلا ہوا جانتا ہے یہ بات ہزار ہنسی کے لائق ہے کہ وہ نبوت ورسالت کے درمیان فرق کو سمجھتا ہے اور معاذ اللہ یہ کہتا ہے کہ رسول کریم ؐ کو خدا نے قرآن مجید اور فرقان حمید میں خاتم المرسلین کے عنوان سے معنون نہیں کیا ہے صرف خاتم النبیین کا خطاب ہی عطا فرمایا ہے۔ مختصر بات یہ کہ اوّل اپنے آپ کو ولی ملہم کہتا ہے اس کے بعد مسیح موعود ہو گیا۔ آہستہ آہستہ صرف اپنے قول سے مہدویت کے مرتبہ عالی تک پہنچا ہے۔ اور اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اس نے اپنے آپ کو اپنی رائے کے مطابق رسالت کے پائے معلّٰی تک پہنچا دیا ہے۔ اس بات کاگمان کرتے ہوئے ہم اس بات پر پہنچے ہیں کہ پانچویں قدم کی ترقی کرکے وہ شریر شداد، نمرود کے قدم پر چلتے ہوئے الوہیت کا کلاہ اپنے سرکش سر پر کہ جس میں خیالات فاسدہ ہیں اور وہ مالیخولیا کی کان ہے اس میں ہذیان باطلہ ہیں اور کچھ تعجب نہیں کہ اس ضعیف الاعتقاد کے بارے میں شاعر معجز بیان کہا جائے۔ اس سے چند سال پہلے پیشگوئی کے طور پر اشعار کے دیوان میںاس نے کچھ اشعار اپنے تدوین کیے ہیں۔ سال اول میں وہ مطرب بن گیا اور دوسرے میںخواجہ اور قسمت نے یاوری کی تو امسال وہ سیّد ہو گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان باتوں کو معاف کرو اور اُسے شیطان کا بیٹا سمجھو اور ہمیں اس پریشان نویسی سے معاف کرو ، عزیز! ہمارا سلام شریعت مدار مولوی ابو سعید محمدحسین صاحب اور داروغہ عبدالغفور خان صاحب کو پہنچائو اور اپنے پائوں کا ماپ لے کر ہماری طرف روانہ کر یں تاکہ ہم دارالخلافہ استنبول سے مسجد کا ایک جوتا اس کے مطابق میں طلب کروں تاکہ میں آپ کی ذات عالی کو احترام کے طور پر پیش کروں اور طبع عالی کے لئے میں جلدی پیش کر سکوں۔





بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
ایک پاکیزہ خط سابق شاہ کابل کے نام جو شوال ۱۳۱۳؁ھ میں لکھا گیا۔
عاجز مرزا غلام احمد کی طرف سے جو اس اللہ کی پناہ میں آنے والا ہے جو بے نیاز ہے۔ اللہ اسے معاف فرمائے اور اس کی مدد فرمائے۔ بخدمت امیر صاحب جو سبحان خدا کا سایہ اور خدائے یزداں کے احسانا ت و الطاف کا مظہر ہے اور کابل کے علاقوں کا بادشاہ ہے وہ اللہ اسے سلامت رکھے جو عزت والا اور جلال والا ہے۔ سلام، رحمت اور برکت کی دعا کے بعد یہ خط لکھنے کی زحمت اس لئے گوارا کی ہے کہ انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ جب اسے چشمۂ شیریں کی خبر ملتی ہے جو نوع انسان کے چند فائدوں پر مشتمل ہوتا ہے تو اسے اس کی طرف رغبت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ رغبت اس کے دل سے اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے وہ اس چشمے کی طرف دوڑے اور اسے دیکھے اور اس کے آب شریں سے نفع حاصل کرے اور سیراب ہو۔ اسی طرح جب اخلاق فاضلہ کی شہرت اور عادات کریمانہ اور مسلمانوں کے لئے اسلام کی ہمدردی اس نیک خیال بادشاہ کے بارے میں ہندوستان کے علاقے میں جابجا اور متواتر پہنچی اور دولت و سلطنت کے اس مبارک درخت کے پاکیزہ پھل شہروں اور علاقوں میں پھیلتے گئے اور دیکھے گئے تو خاکسار جو اس دور میں قحط الرجال اور اولوالعزم انسانوں اور مجدو کرم والے بادشاہوں کی کمی کی وجہ سے غم و اندوہ میں زندگی گزارتا ہے اسے انتہائی سرور اورر فرحت حاصل ہوئی کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو اس کیفیت کو ادا کرسکیں۔ اس خدائے کریم کا ہزار ہزار شکر و سپاس ہے کہ جس خدا ئے کریم نے اس قسم کا مبارک وجود پیدا فرمایا اور قسم قسم کے بے شمار تباہی کے انداز سے وہ انسانوں کو اپنی حفظ وممائت میں لایا۔ درحقیقت وہ لوگ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ جن کے اندر ایسا بادشاہ موجود ہے جو گیتی پناہ نیک نیت، نیک فطرت اور انصاف و داد کا سرچشمہ ہے۔ اور خوش بخت وہ لوگ ہیں کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ان تمام لوگوں کو اس نے شمار کیا ہے۔ لیکن سب سے بڑی نعمت ان دو طبقوں کا وجود ہے۔
پہلا طبقہ وہ ہے جو راستی اور راست بازی کی طاقت سے بھرپور ہے۔ جو روحانیت حاصل کئے ہوئے ہے اور وہ ظلمت و غفلت میں گرفتار لوگوں کو نور کی طرف کھینچتے ہیں۔ اور جو اندر سے خالی ہیں انہیں معارف کی متاع وافر عطا کرتے ہیں۔ اور اپنی پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ کمزوروں کو دارالابتلاء کی وادی سے سلامتی اور ایمان کے ساتھ گذارتے ہیں۔
اور دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو نہ اپنے اتفاق اور بخت سے بلکہ اپنے جوہر قابل اپنی سعادت کی بلندی، اپنی ہمت کی بلندی اور فطرت کی براقی کی وجہ سے جو ان کو علیم و حکیم (خدا کی) طرف سے عطا ہوتی ہے جو سلطنت کے سزاوار اورر ملک داری کو پاتے ہیں اور ذات الٰہی ان کو اپنی حکمت و مصلحت کی قائمقام بناتی ہوئی ان کے احکام کو اپنی قضاء و قدر کا مظہر قرار دے کر چند ہزار انسانوں کے مال و آبرو ان کے سپرد کرتی ہے لازمی طور پر وہ لوگ شفقت و رحم، دردمندوں کی چارہ سازی اور غریبوں کے حال کی نگرانی اور بے کسوں کی حفاظت اور اسلام کے مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں ایسے حضرت ربُّ العالمین کے ظل سبحانی ہوتے ہیں۔
لیکن اس ناچیز کا حال یوں ہے کہ خدا خرابیوں اور گمراہی کی کثرت کے وقت عوام الناس کی اصلاح کے لئے اپنے خاص بندوں میں سے کسی کو مقرر کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے گمراہوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اندھوں کو بینائی (عطا فرمائے) اور غافلوں کو عمل کی توفیق بخشے اور وہ اس کے ہاتھ سے دین متین کی تجدید اور معارف و براہین کی تعلیم فرمائے اسی خداوند کریم و رحیم نے اس زمانے کو دیکھا کہ فتنوں سے پر ہے اور گمراہی کے فتنے کا اس نے مشاہدہ کیا تو اس ناچیز کو اس چودھویں صدی کے سر پر مخلوق کی اصلاح اور اتمام حجت کے لئے اس نے مامور فرمایا۔ چونکہ اس زمانے کا فتنہ علمائے نصاریٰ تھے اور (اصلاح کا) کا روبار مدارکسرصلیب تھا اس لئے درگاہ الٰہی سے اس بندے کو حضرت مسیح علیہ السلام کے قدم پر بھیجا گیا تاکہ وہ پیشگوئی بروز کے طور پر ظہور میں آئے کہ جو خاص و عام کی زبان پر ہے کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ آئیں گے۔ قرآن شریف صاف صاف ہدایت فرماتا ہے کہ جو دنیا سے گزرگیا سو گزر گیا۔ اس دنیا میں واپس آنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ گزرے ہوؤں کی روحیں بروز کے طور پر واپس آتی ہیں۔ بعض لوگ ان کی طبعی خصلت پر پیدا ہوتے ہیں اس لئے اس شخص کا ظاہر ہونا ان لوگوں کا ظہور میں آنا ہوتاہے۔ اور یہی طریق واپس آنے کا ہے۔ جو متصوفین کی اصطلاح میں بروز نام رکھتا ہے ورنہ اگر گزرے ہوئوں کے لئے واپس آنے کا دروازہ کھلا ہوتا تو ہمارے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجائے حضرت خیرالوریٰ خاتم الانبیاء ﷺ کے دوبارہ آنے کی زیادہ ضروت تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز یہ نہیں فرمایا کہ میں دنیا میں دوبارہ آئوں گا۔ یہ فرمایا ہے کہ ایک شخص آئے گا کہ جس کا نام میرا نام ہو گا یعنی وہ میری طبیعت اور خوبی والا ہو گا۔ پس مسیح ؑکا آنا بھی اسی قسم کا ہے نہ اس طرح کہ دنیا کے اول وآخر میں اس کا نمونہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ ، امام ابن حزم اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے ائمہ نے یہی مذہب اختیار کیا ہے لیکن اکثر عوام الناس نے اپنی خودپسندی کی وجہ سے یہ طریق اختیار کیا ہے (کہ مسیح دوبارہ آئے گا) یہ نکتہ معرفت الٰہی نہیں رکھتا یعنی اس نکتے میں ان کو کوئی معرفت الٰہی حاصل نہیں ہے اور ان کے خیالات میں یہ امر مرقوم ہے کہ جسمانی طور پر مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا اور اس روز عجیب قسم کا تماشہ ہو گا کہ ایک انسان فانوس لئے ہو گا اسے آگ لگائے ہوئے ہو گا اور وہ بلندی سے زمین کی طرف مائل ہوتا ہے اس قسم کا تصور نزول مسیح کے بارے میں ان کے تصور میں ہے کہ وہ پوری شان سے نازل ہوگا اور ہر طرف سے نعرے بلند ہوںگے یہ آرہا ہے یہ آ رہا ہے لیکن یہ سنت اللہ نہیں ہے ۔اگر قدرت کا یہ نظارہ عام ظاہر ہوتا ہے تو پھر ایمان بالغیب باقی نہیں رہے گا ۔ وہ شخص سخت غلط فہمی میں ہے جو یہ نکتہ سمجھتا ہے کہ گویا عیسٰے علیہ السلام ابھی تک آسما ن پر زندہ ہیں ۔ ہر گز ہرگز ایسا نہیں۔ قرآن بار بار وفات مسیح کا ذکر کرتا ہے۔ اور معراج نبویؐ والی حدیث جو بخاری میں پانچ جگہ درج ہوئی ہے آپؐ انہیں وفات یافتہ لوگوں میں نشان دہی فرماتے ہیں۔ پس وہ کیسے زندہ ہوسکتا ہے۔ پس حضرت مسیح کی حیات کا عقیدہ رکھنا قرآن و حدیث کے حکم سے باہر جانے کے برابر ہے۔ اور آیت: فَلَمَّا تَوْفَّیتَنیْ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھمْ ۱؎سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ نے اپنے مذہب کو عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد خراب کیا نہ کہ ان کی زندگی کے ایام میں۔ پس اگر یہ فرض کرلیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک بقیدِحیات میں ہیں تو ہم پر لازم ہے یہ بھی تسلیم کریں کہ نصاریٰ نے اس وقت تک اپنے مذہب کو خراب نہیں کیا۔ اور وہ درست ہیں۔ اور یہ خیال کفر صریح ہے اس لئے جو کوئی نصوص قرآنیہ پر ایمان لاتا ہے اسے چاہئے کہ وہ وفات مسیح پر بھی ایمان رکھے۔ اور ہمارا یہ بیان کچھ ان دلائل کی وجہ سے ہے جو ہم نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جو کوئی اس کی تفصیل چاہتا ہے وہاں سے تلاش کرے۔
مختصر بات یوں ہے کہ ضروری تھا کہ آخری زمانے میں اس امت میں سے کوئی شخص باہر ہوتا (پیدا ہوتا) کہ اس کا آنا بروز کی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے طور پر ہوتا او ر کسر صلیب کی حدیث جو بخاری میں موجود ہے اور وہ بلند آواز سے کہتا کہ اس طرح کے شخص کا آنا نصاریٰ کے غلبے کے وقت ہو گا اور ہر دانشمند جانتا ہے کہ ہمارے زمانے میں اس طرح کا نصاریٰ کا غلبہ روئے زمین پر ہے کہ جس کی مثال پہلے زمانے میں پائی نہیں جاتی ہے اور بعض علمائے نصاریٰ اور ان کی ہر نوع کی کارستانیاں از قسم تلبیس وتزویراس درجہ کمال کو پہنچی ہیں کہ یقین کہتا ہے کہ وہ دجال جو اس عہد سے متعلق ہے انہی تخریب کرنے والوں میں سے ہو گا اور یہ بات کتب مقدسہ کے مخزن میں ہے کہ انہوں نے دو ہزار کے قریب انجیل وتورات کے ہر زبان میں محرفہ نسخے شائع کئے ہیں اور آسمانی کتابو ں کو اپنی خیانتوں سے پر کر دیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایک انسان کو خدا کے بجائے پوجا جائے۔ اب انصاف کرنا چاہیے اور غور سے دیکھنا چاہیے کہ ان سے زیادہ بڑا دجال کون گزرا ہے تاکہ یہ امید رکھی جائے کہ آئندہ کوئی اور دجال اکبر آئے گا لیکن چونکہ بنی آدم کی ابتداء سے اس وقت تک مکرو دجل کی اقسام اور اشاعت کے حیلوں میں ان کی نظیر میں نے نہیں دیکھی۔ پس اس کے بعد آنکھ کے سامنے کون سے آثار( پیش چشم) ہیں کہ ہم پر شک یا یقین کے ساتھ ظاہر ہو کہ ان سے بڑھ کر دجال کسی غار میں چھپا ہوا ہے اور ایک دن سورج گرہن اور چاندگرہن ان دنوں کسی ملک میں ہو گا جو اس امام مہدی کے ظہور کی علامت ہے اور دار قطنی میں امام باقر کی روایت سے (درج ہے) لکھی ہوئی ہے اور نصاریٰ کا فتنہ حد سے گزر چکا ہے اور گندی گالیاں اور سخت توہین آمیز کلمات حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی نسبت نصاریٰ کے علماء اور فلاسفہ کی زبان و قلم سے ظہور میں آرہے ہیں پس اس قدر آسمان میں شور پڑا کہ تب خاکسار کو اتمام حجت کے لئے مامور فرمایا گیا اور یہ سنت اللہ ہے کہ جب اس قسم کا فساد زمین پر غلبہ پا لیتا ہے تو اسی قسم کا مناسب مجدد زمین پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد جس کے پاس آنکھ ہوتی ہے دیکھے کہ اس زمانے میں فساد کی آگ کس قدر زیادہ بھڑک اٹھی ہے اور کون سی قوم ہے جو ہاتھ میں کلہاڑا لے کر اسلام پر حملہ آور ہو رہی ہے اے وہ ائمہ جو اسلام کے لئے غیرت رکھتے ہو سوچو! کیا یہ درست ہے یا غلط؟ کیا یہ ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر جب فتنوں نے بنیاد رکھی ہے ، چودھویں صدی کے سر پر رحمت الٰہی دینِ متین کی تجدید کے لئے متوجہ (نہ) ہوتی۔ اور اس بات سے وہ حیرانی میں ہیں کہ اس خاکسار کو عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے کیوں بھیجا گیا ہے؟ کیونکہ فتنوں کی صورت اس دور میں روحانیت کا تقاضہ کرتی تھی۔
چوں مرا حکم۔از پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمین
ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند
جب مجھے مسیحی قوم کی اصلاح کے لئے فرمان دیا گیا تو مصلحت کے طور پر میرا نام ابن مریم رکھا گیا۔ اب آسمان بھی نشان برساتا اور اس وقت زمین بھی کہتی ہے یعنی یہ دو گواہ (چاند و سورج گرہن) میری تصدیق کے لئے قائم کئے ہیں۔
اور اسی دور کے الہام میں سے یہ بھی تھا کہ خداوند کریم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اور کہا:
’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسد و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم اُفتاد‘‘
یعنی چلو! کہ تیری آمد کا وقت نزدیک آپہنچا اور مسلمانوں کے پاؤں ایک بلند تر منار پر پختہ طور پر پڑ گئے ہیں۔
یہ اس خدا وند کا کلام ہے جو حکیم و علیم ہے مگر لوگوں کی نظر میں یہ عجیب کام ہے۔ ہر وہ شخص جو مجھے بین ظہور سے پہلے مجھے پہنچانتا ہے اس کے لئے اجر اور ثواب ہے اور جو کوئی آسمانی تائیدات کے بعد اورمدد کے بعد قبول کرے گا وہ کچھ نہیں۔ اور اس دنیا کی حکومت اور سلطنت سے مجھے کوئی تعلق نہیں۔ میں غریب آیا ہوں اور غریب ہی جاؤں گا اورمیں اس لئے مامور ہوا ہوں کہ پرآشوب دور میں لوگوں کے سامنے لطف اور نرمی سے حقیقت اسلام کے دلائل لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہر علاقے میں رکھوں۔ اسی طرح مجھے حکومت برطانیہ کی دولت اور حکومت سے بھی کوئی تعلق نہیں کہ جن کے سائے میں میں باامن زندگی گزارتا ہوں۔ بلکہ خدا جانتا ہے میں شرمسار ہوں کہ اس کی نعمت کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا کہ اللہ نے مجھے اس قسم کی پر امن حکومت کے عہد میں خدمت دین کے لئے مامور فرمایا۔ اور اس نعمت کا شکریہ کیسے نہ کروں کہ اس غربت و بے کسی اور قوم کے سفہاء کے شور کے باوجود میں اطمینان کے ساتھ حکومت و دولت انگریزی کے تحت اپنا کام کررہا ہوں۔ اور میں نے اس طرح آرام پایا ہے کہ اگر اس حکومت کا شکریہ ادا نہ کروں تو گویا میں نے اپنے خدا کا شکریہ ادا نہیں کیا ہوگا۔ اور اس کام کو اگر پوشیدہ رکھوں تو میں ظالم ہوں گا۔ اس لئے کہ ملت نصاریٰ کے پادری اپنے مذہب کی اشاعت میں آزادی رکھتے ہیں۔ ہم بھی اسی قسم کی آزادی اور اشاعت اسلام کے لئے عدمِ مزاحمت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ حریت اور آزادی ہمیں زیادہ حاصل ہے کہ اہل اسلام کو اس حریت کے فوائد زیادہ حاصل ہیں۔ اور دوسروں کو اس سے حصہ نہیں ملا ہے اس لئے کہ وہ باطل پر ہیں اور ہم حق پر ہیں۔ اور اہل باطل اس آزادی سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔ بلکہ اس آزادی سے ان کا پردہ پہلے سے زیادہ پھٹتا ہے اور دجل کی اس روشنی میں وہ بخوبی ظاہر ہوئے ہیں۔ پس ہم پر اللہ کا فضل ہے کہ اس نے یہ تقریب ہمارے لئے مہیا کردی ہے اور یہ نعمت ہمارے لئے خصوصاً رکھی ہے۔ البتہ علمائے نصاریٰ کو اپنی قوم کی مدد سے لکھوکھہا روپے اپنی اناجیل کے لئے اور جھوٹی باتوں کے لئے پہنچتا ہے اور ہمیں نہیں مل رہا اور ان کے مددگار اور معاون یورپ کے ممالک میں ہیں جو موروملخ کی طرح بکثرت موجود ہیں اور ہمارے سوائے ہمارے خدا کے کوئی دوسرا نہیں ہے۔ پس اگر ہمارے کاروبار میں غربت کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے تو یہ نقصان دولت برطانیہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ قصور ہماری قوم کا ہے جو اس کے بارے میں بہت غفلت رکھتے ہیں۔ اور اس وقتِ نصرت کو ظنون فاسدہ اور منافقانہ بہانوں سے اپنے سروں سے رفع کررہے ہیں۔ اپنی ننگ و ناموس کے کام میں ایک سرکش گھوڑے کی طرح دوڑتے ہیں۔ نہیں دیکھتے کہ اس زمانے میں اسلام سینکڑوں دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ اور ہر مذہب میدان میں آیا ہوا ہے۔ تاکہ اُسے فتح حاصل ہوجائے۔ پس یہی وقت ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں اور فلسفہ کے اعتراضات کو بیخ دبُن سے اکھاڑ دیں۔ اور قرآن کریم کی سچائی تمام اپنوں اور بیگانوں کو دکھائیں اور دلوں میں رب جلیل کے کلام کی غیرت کو قائم کریں۔ اور کوشش کریں کہ اس جنگ و جدل میں فتح و نصرت کی آواز ہماری ہو اور جان سے کوشش کرو تاکہ نصرانیت کے وسوسوں کے قیدیوں کو ضلالت کے کنویں سے ہم باہر لے آئیں۔ اور فساد اور ارتداد کے لئے تیار ہونے والوں کو ہم ہلاکت سے باز رکھیں۔
یہ کام ہے جو ہمارے ذمہ ہے یورپ اور جاپان ہر دونوں ہمارے منتظر ہیں اور امریکہ بھی ہماری دعوت کے لئے اپنا منہ کھولے ہوئے ہے۔ پس یہ سخت بزدلی ہے کہ ہم غافل بیٹھے ہیں۔ غرض یہی کام ہے جو ہمارے ذمہ ہے اور یہی آرزو ہے جو میں اپنے خدا سے طلب کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا انصار کو پائیدار فرمائے اور منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ سے بادنسیم چلادے کہ اس طرف سے بشارت آتی ہے۔
اے کابل کے بادشاہ اگر آج آپ میری بات سنیں اور ہماری نصرت کے لئے اپنے اموال و دولت لے کر کھڑے ہوں تو ہم دعا کریں گے جو کچھ آپ طلب کریں گے اللہ آپ کو دے گا۔ اور مکروہات سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔ اور آپ کی زندگی میں برکت ڈالے گا۔ اگر کسی کو ہمارے بارے میں یا ہمارے دعوے کے بارے میں تامل ہے تو اسے اسلام کی سچائی کے بارے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔
پس چونکہ یہ کام اسلام کا ہے اور یہ خدمت دین کی ہے اس جہت سے ہمارے وجود کو درمیان میں نہیں سمجھنا چاہئے اور خلوصِ نیت سے اسلام کے لئے تیار ہونا چاہئے اور حضرت سید المرسلین ﷺ کی محبت کے لئے یہ کام کرنا چاہئے۔
خاکسار
الملتمس
عبداللہ الاحدغلام احمد ماہ شوال ۱۳۱۳؁ھ


حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت
کے متعلق
حضرت صوفی منشی احمدؐ جان صاحب مرحوم کی مطبوعہ شہادت
حضرت صوفی منشی احمدؐ جان صاحب مرحوم لدھیانوی کا تعارف کرانے کے لئے اس قدر لکھ دینا کافی ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب ازا لہ اوہام وغیرہ میں آپ کا ذکر خاص دوستوں میں فرمایا ہے۔ آپ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ ماموریت اور سلسلہ بیعت کے شروع ہونے سے پہلے ہی ۱۳۰۳ ہجری میں وفات پا چکے تھے مگر روحانی بصیرت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا مقام خوب پہچانتے تھے۔ اور حضور سے نہایت اخلاص اور محبت رکھتے تھے۔ حضرت صوفی صاحب موصوف حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی دوسری شادی کے خسر تھے۔ اور یہ تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بوجہ صوفی صاحب کی محبت کے خود کرایا تھا۔ آپ نے آج سے قریباً پچاس سا ل پہلے براہین احمدیہ کی اشاعت کے متعلق جو اشتہار شائع فرمایا تھا۔ اور جواب بالکل نایاب ہے، ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
اشتہار واجب الاظہار
بعد حمد و صلوٰۃ کے طالبان حق کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب سے اس عاجز نے کتاب طب روحانی جس سے کل امراض کا علاج بغیر دوا دارو کھلانے پلانے یا لگانے کے صرف خیالی قوت سے بآسانی ہو سکتا ہے۔ اور جس کے تجربہ کرانے کا یہ عاجز ذمہ دارہے۔ اور جس کی قیمت معہ رسالہ ہدایت الطلاب و رسالہ توجہ مجلد معہ محصول ڈاک و رجسٹری دو روپے بارہ آنے ہے۔ تصنیف کرکے مشتہر کی اور اشتہار دیا اور صدہا شایقین نے خرید کرکے تجربہ کر لیا۔ اور نہایت خوش ہوئے۔ اور صد ہا خطوط شکریہ کے بھیجے۔ جو بطور شہادت اس عاجز کے پاس موجود ہیں۔ اور انہیں شائقین اور بعض دیگر اشخاص نے ان کے دونوں دفتر جن کا نام نجات جاودانی اور کمالات انسانی ہے مجھ سے طلب کئے۔ اور نہایت تاکید لکھی۔ جن کے جواب میں لکھا گیا۔ کہ بسبب عدم حصول شرائط جو کہ طب روحانی کے خاتمہ میں مفصل درج ہیں۔ وہ دونوں دفتر نہیں چھپے جب یہ جواب دیا۔ تو بعض شائقین کے خط ایسے حسرت زدہ آئے۔ جن کے دیکھنے سے جی بھر آیا۔ اور نہایت تاسف ہوا اُن کی اور دیگر طالبان حق کی خوش قسمتی سے اب ایسا ایک اچھا نمونہ ظہور میں آیا۔ کہ جو ان دونوں دفتروں سے صدہا درجہ بہتر اوربرتر ہے ؎
زفرق تابقدم ہر کجا کہ مے نگرم
کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست
چنانچہ تفصیل اس کی ذیل میں درج کی جاتی ہے و ہوہذا
عالی جناب فیض رسان عالم معدن جو دو کرم حجۃ الاسلام برگزیدہ خاص و عام حضرت میرزا غلام احمدؐ صاحب دام برکاتہم رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور احاطہ پنجاب نے ایک کتاب مسمی براہین احمدیہ سلیس اردو زبان میں جس کی ضخامت قریب تین سو جزو کے ہے۔ نہایت عمدہ سفید ڈمی کاغذ پر چھپوانی شروع کی ہے۔
سوادِ کلک رشکِ طرئہ حور
¹
بیاض کاغذش نورٌعلے نور
جس کے چاروں دفتر جو کہ تقریباً ۳۵ جزو ہیں۔ نہایت خوشخط چھپ بھی گئے ہیں۔ اور باقی وقتاً فوقتاً چھپتے جائیں گے۔ اور خریداروں کے پاس پہنچتے رہیں گے۔
یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے۔ اور عیسائی ۔ آریہ۔ نیچریہ۔ ہنود۔ اور برہمو سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالف اسلام کو ازروئے تحقیق رد کرتی ہے۔ حضرت مصنف نے دس ۱۰ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے۔ کہ اگر کوئی مخالف یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا خمس تک بھی رد کر دے۔ تو مصنف صاحب اپنی جائداد دس ہزار روپے کی اس کے نام منتقل کر دیں گے۔ چنانچہ یہ اشتہار براہین احمدیہ کے حصہ اول میں مندرج ہے۔ یہ کتاب مشرکین اور مخالفین اسلام کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑتی ہے۔ اور اہل اسلام کے اعتقادات کو ایسی قوت بخشتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایمان اور اسلام کیا نعمت عظمیٰ ہے۔ اور قرآن شریف کیا دولت ہے۔ اور دین محمدؐی کیا صداقت ہے۔ اور آیات قرآن مجید جن کا اس کتاب میں اپنے اپنے موقعوں پر حوالہ دیا گیا ہے۔ ۲۰ سپارہ کے قریب ہیں۔ منکروں کو معتقد اور سست اعتقادوں کو چست اور غافلوں کو آگاہ مومنوں کو عارف کامل بناتی ہے۔ اور اعتقادات قویہ اسلامیہ کی جڑ قائم کرتی ہے۔ اور جو وساوس مخالف پھیلاتے ہیں۔ ان کو نیست و نابود کرتی ہے۔
اس چودھویں صدی کے زمانہ میں کہ ہر ایک مذہب و ملت میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے۔ بقول شخصے
؎
دیر و حرم میں کوئی نہیں اپنی راہ پر
کافر نئے نئے ہیں مسلمان نئے نئے
ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہؐ اور اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانامیرزا غلام احمدؐ صاحب دام فیوضہ ہیں۔ جو ہر طرح سے دعویٔ اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں۔ جناب موصوف عامی علماء اور فقرا میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الٰہی ہیں۔ صدہا سچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رئویاء صالحہ اور امر الٰہی اور اشارات و بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان۔ عربی۔ فارسی۔ اردو وغیرہ میں جو مصنف صاحب کو بہ تشریح تمام ہوئے ہیں۔ ّمشرح و مفصل اس کتاب میں درج ہیں۔ اور بعض الہامات زبان انگریزی میں بھی ہوئے ہیں۔ حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا۔ چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کرکے کتاب میں درج کئے گئے ہیں۔ جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے۔ اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے۔ کہ مصنف صاحب بے شک امر الٰہی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں۔ اور صاف ظاہر ہوتا ہے۔ بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَنْ اَبِّی ھُرَیْــرَۃَ فِیما اَعْلَمُ عَنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّے اللّٰہُ عَلَیْہِ وآلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ اْلاُمَّۃِ عَلٰے رَاٰسِْ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّن یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔ (رواہ ابو دائود)
جس کے معنے یہ ہیں۔ کہ ہرصدی کے شروع میں ایک مجدد منجانب اللہ پیدا ہوتا ہے۔ تو تمام مذاہب باطلہ کے ظلمات کو دور کرتا ہے اور دین محمدؐ ی کو منور اور روشن کرتا ہے۔ ہزار ہا آدمی ہدایت پاتے ہیں۔ اور دین اسلام ترو تازہ ہو جاتا ہے۔ مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدّد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد امت محمدیہ میں سے ہیں۔ اور دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِ یلَ اسی کی تائید میں ہے۔اس موقعہ پر چند اشعار فارسی اسی کتاب کے لکھتا ہوں جس کو پڑھ کر ناظرین خود جناب ممدوح کا مرتبہ دریافت فرما لیں گے۔ اور یقین ہے کہ خلوص دل اور صدق عقیدت سے یہ شعر زبان حال سے فرمائیں گے ۔
سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
نظم مصنفہ جناب میرزا صاحب
ایں ھمہ عاشقانِ آں یکتا
نور یابند از کلامِ خدا
گرچہ ہستند از جہاں پنہاں
باز گہ گہ ہمے شوند عیان
بالخصوص آں زماں کہ بادِ خزاں
باغِ مہر و وفا کند ویراں
دل بہ بند و جہاں بدارِ فنا
لب کشاید بمدحتِ دنیا
عاشق زر شوند و دولت و جاہ
سرد گردد محبت آں شاہ
اندریں روز ہائے چوں شبِ تار
دست گیرد عنایتِ دادار
میفر ستدبہ بخلقِ صاحبِ نور
تاشود تیرگی زنورش دور
نور الہام ہمچو باد صبا
نزدش آردز غیب خوشبو ہا
ہر کہ آید بد و بصدق و صفا
یابد از وے شفا بحکم خدا
گفت پیغمبرِ ستودہ صفات
از خدائے علیم مخفیات
برسر ہر صدی بروں آید
آنکہ ایں کار راہمے شاید
تا شود پاک ِملت از بدعات
تابیا بند خلق زو برکات
ایں مگوکیں گزاف و لغو و خطاست
تو طلب کن ثبوت آں برماست
ہمہ ایں راست سست لافے نیست
امتحاں کن گر اعترافے نیست
وعدئہ کج بطالبان ندہم
کاذبم گر از و نشاں ندہم
من خود از بہر ایں نشان زادم
دیگر از ہر غمے دل آزادم
ایں سعادت چو بود قسمت ما
رفتہ رفتہ رسید نوبت ما
نعرہا مے۔زنم بر آب زلال
ہمچو مادر دواں پئے اطفال
لیک شرط ست عجز و صدق و صفا
آمدن با نیاز و خوف خدا
گر کسے ہم کنوں بتابد سر
گیرو از راہ عدل راہ دگر
نے زما پرسد و نہ خود داند
نے زکیں روئے خود بگرداند
آں نہ انساں کہ کرمک و دونست
راندئہ بارگاہ بیچو ست
حجتِّ مومنان براوست تمام
کارِ ماپختہ عذر اوہمہ خام
حضرت ممدوح نے ایک ہندو بھی روزنامچہ نویس اپنے پاس نوکر رکھا ہوا ہے۔ وقتاً فوقتاً جو الہام یا خواب یا کسی واقعہ آئندہ (پیشن گوئی) کا انکشاف یا کوئی اطلاع جناب باری سے ہوتی ہے۔ اس ہندو سے لکھواتے ہیں ۔ اور مخالفانِ اسلام کی اس پر گواہی کرا لیتے ہیں۔ اور جب وہ اپنے وقت پر پورا ہو جاتا ہے۔ اس وقت بھی مخالف مذہب کو ثبوت دے کر گواہی کرا لیتے ہیں۔ اور پھر کتاب میں درج فرماتے ہیں۔ میں بہت سے الہامات اس کتاب سے لکھ کر اس بات کو ثابت کر سکتا ہوں۔ مگر طوالت سے ڈرتا ہوں ناظرین خود کتاب کو ملاحظہ فرما کر اپنی تسلی و تشفی فرما لیں۔
سن شریف حضرت کا تقریباً۴۰ یا ۴۵ سال ہو گا۔ اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے۔ نہایت خلیق صاحب مروت وحیا۔ جو ان رعنا چہرہ سے محبت الٰہی ٹپکتی ہے۔
اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں۔ کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے واسطے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکران اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں۔یقین جانو۔ کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ آگاہ ہو۔ کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ اور حجت الٰہی قائم ہو چکی ہے۔ اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہے۔ کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات ضلالت سے نکالے۔ اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے۔ تاکہ حق و باطل چھٹ جائے۔ اور خبیث و طیب میں فرق ّبین ظاہر ہو جائے۔ اور کھوٹا کھرا پرکھا جائے۔
میں بآواز بلند پکار رہا ہوں۔ اور خاص و عام کو اشتہار دیتا ہوں کہ اس سے بہتر وقت ہرگز تم کو نہ ملے گا۔ اگر ہو سکے۔ تو خدمت عالی میں پہنچ کر سعادت دینی حاصل کرو۔ یہ بھی نہ ہو سکے۔ تو کتاب خرید کرکے فائدہ اٹھائو۔ اور جہاں تک ہو سکے اس کتاب کے چھپنے اور اشاعت کرنے میں روپیہ پیسہ سے بھی مدد دو۔ کیونکہ ضخامت اس کتاب کی بسبب حاشیہ چڑھانے کے روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ اور خرچ ہزار ہا روپیہ کا درپیش ہے۔ اور کئی طرح کی پیچیدگیاں ہیں۔ جس کی تشریح یوں ہے۔ کہ اول اس کتاب کا تخمینہ جز کا کیا تھا۔ اور پانچ روپیہ اس کی قیمت لکھی گئی تھی۔ چنانچہ بہت سی جلدیں پانچ روپیہ کی قیمت پر شائقین دین اسلام نے خرید فرما لیں۔ بعد ازاں جب کتاب کی ضخامت تین سو جز تک پہنچ گئی۔ تو قیمت میں بھی اضافہ کرنا مصلحت ٹھہرا ۔ چنانچہ مفصلہ ذیل قیمتیں مقرر کی گئیں۔
(۱) ذی قدرت مسلمانوں کے لئے ایک سو روپیہ (۲) اوسط درجہ کے مسلمانوں اور دیگر شائقین اسلام سے عام قیمت (۳) غریب مسلمانوں کے لئے رعایتی ۱۰ مگر ان قیمتوں کے اعلان سے یہ نقصان ہوا۔ کہ اکثر دولت مند مسلمانوں نے کتاب کی قیمت نہ اپنی حیثیت کے موافق دی۔ اور نہ کتاب کی لاگت کے موافق بلکہ دس روپیہ کو ( جو کہ درحقیقت کوئی قیمت نہ تھی۔) ایک عام قیمت تصور کرکے اسی کے مطابق روپیہ بھیجا۔ چونکہ یہ قیمت اتنی بڑی کتاب کی لاگت کے واسطے کسی طرح کافی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا بمجبوری تیسری قیمت کا درجہ جو رعایتی تھا عموماً بند کیا گیا۔ اب روپیہ اور سو روپیہ اپنی اپنی حیثیت کے موافق اس کی قیمت سمجھنی چاہئے۔
ابتداء میں جن صاحبوں نے اس کتاب کو۲۰ یا ۲۵ جز کی کتاب تصور فرما کر پانچ روپیہ کی قیمت پر خریدفرمایا ہے۔ اور جن صاحبوں نے باوجود استطاعت مالی غریبوں کی رعایتی قیمت دی ہے۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے۔ کہ وہ ذرا اس امر میں غور فرمائیں کہ پانچ روپیہ یا دس روپیہ میں تین سو جز کی کتاب (اس خوبی کے ساتھ جس طرح وہ حصہ چہارم تک چھپ چکی ہے۔) کیونکر چھپ سکتی ہے۔ اور بعد غور اس امر کے جیسا کہ ان کا دل اس نیک کام میں تصفیہ کرے۔ اس کے موافق کار بند ہوں۔ یقین ہے۔ کہ ایسے حضرات اگر ذرا بھی اس معاملہ میں توجہ فرمائیں گے۔ توباقی حصص بہت عجلت کے ساتھ حلیہ انطباع سے آراستہ ہو کر دیدہ مشتاقان کو منور کریں گے۔
ان دو خرابیوں مذکورہ بالا کے سوائے تیسرا نقصان یہ ہوا۔کہ جس طرح اس کتاب کے حصص یکے بعد دیگرے چھپ کر تیار ہوتے گئے۔ اسی طرح مختلف مقامات میں جو مسلمان بھائی قابل خریداری اس کتاب کے سمجھے گئے۔ ان کے پاس بذریعہ ڈاک محصول لگا کر وقتاًفوقتاً بھیجے گئے بعض حضرات نے اس کو دلی اشتیاق اور جوش ایمان کے ساتھ خریدا اور بعض نے خریدنا تو درکنار نہ جواب دیا۔ اور نہ کتاب واپس کی اسی طرح بہت سی کتابیں ضائع ہو گئیں۔ جو دوبارہ چھپوانی پڑیں گی۔ اگر ان کل کتابوں کا معہ محصول ڈاک اندازہ کیا جائے۔ تو بہت بڑا نقصان معلوم ہوتا ہے۔
عوام الناس کے شکوک اوراوہام کے رافع کرنے کے لئے اس امر کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس کتاب کی مختلف قیمتیں کیوں ہیں؟ جاننا چاہئے۔ کہ یہ ایک دینی معاملہ ہے۔ جس کا فائدہ جہاں تک ہو سکے۔ امراء اور غربا دونوں کو بطرز مناسب پہنچنا چاہئے یہ کتاب جس کی لاگت کے لئے بیس پچیس ہزار روپے بھی مشکل سے کافی ہو سکتے ہیں۔ ایسی نہیں۔ کہ جس کو کوئی غریب مسلمان بھائی خرید سکے۔ جب تک کہ ان کے واسطے کوئی رعایتی صورت نہ ہو۔ وہ اس سے فیضیاب نہیں ہو سکتے۔ پس اس لحاظ سے اس کی مختلف قیمتیں حسب حیثیت مقرر کی گئیں۔ تاکہ کل مجموعہ قیمت سے کتاب کی لاگت نکل آئے اور غریب مسلمانوں کو بھی کتاب پہنچ جائے چنانچہ اسی اصول پر بہت سی جلدیں فی سبیل اللہ بھی غریبوں کو دی گئیں۔ تاکہ امر حق عام میں پھیلے اور غیر اسلام بھی اس سے مستفید ہوں۔
براہین کتاب کا حصہ چہارم چھپ کر تیار ہو گیا ہے۔ اور پانچویں حصہ کی تیاری ہے جو قریباً پچاس جزو کا ہو گا۔ اور اس میں حضرت مصنف نے مسلمات غیر اسلام کو تحقیق کی کسوٹی پر خوب خوب کسا ہے۔ اور غلطیوں کی کھوٹ نکال کر امر حق کو مثل کندن چمکایا ہے۔ جیسا کہ علم کیمسٹری (کیمیا) سے حقائق الاشیاء معلوم ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی حصہ پنجمی سے اسلام اورغیر اسلام کی مذہبی صداقتیں اظہر من الشمس ہوتی ہیں۔
پس خیال کرنا چاہئے ۔ کہ جس کتاب میں ایسی خوبیاں ہیں وہ کس مشقت اور مصارف سے تیار ہو گی کیونکہ کسی ناظم کا کوئی نظم موزون کر لینا۔ یا کسی مصنف کا اپنے ہی مذہب کی کوئی کتاب تصنیف کرنا اور بات ہے۔ اور جمیع (یا متعدد) مذاہب کے اصولوں کا قلع قمع کرنا۔ اور ان کے واسطے راہ ہدایت نکالنا اور بات ہے۔ یہ امر علاوہ مصنف کے ذاتی علم و فضل اور مشقت کے روپیہ بھی چاہتا ہے۔ چنانچہ جو مصارف اس کتاب میں غیر اسلام کی تحقیق مذہبی میں ان کی کتابوں کے جمع کرنے میں ان کے صحیح ترجمہ کرانے اور ان کے مذہبی مسلمات کے معلوم کرنے میں اب تک صرف میں آ چکے ہیں۔ اور آتے ہیں۔ ان پر عوام الناس کی بہت کم نظر پڑتی ہے۔
نظر بوجوہات بالا سب مسلمان بھائیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس کی اشاعت میں توجہ خاص مبذول فرمائیں اور امور ات مذکورۃ الصدر کو پیش نظر رکھ کر غور فرمائیں کہ کیا کرنا چاہئے۔ کہ جس سے انطباع کتاب کا کام باسلوب تمام انجام ہوا۔ اور کتاب بھی غریب اور امیر کو برابر پہنچ سکے۔ اس کا علاج بجز اس کے کوئی نہیں۔ کہ ذاتی فائدہ کو مدنظر نہ رکھ کر اس کام میں حتی المقدور مدد دیں۔ اور اوروں کو بھی اس سعادت دارین میں شامل کریں۔
اگرچہ بہت سے مسلمان بھائیوں نے اپنے مقدور کے موافق کوشش کی بھی ہے۔ اور کر بھی رہے ہیں یہاں تک کہ ایک شخص نے جالندھر میں اپنی دوکان ہی دے دی ہے۔ کہ اس کازر قیمت براہین احمدیہ میں فی سبیل اللہ لگایا جائے۔ ایک نیک مزدور نے اپنے جوش ایمان سے بارہ تیرہ روپے دئیے ہیں۔ اور کتاب بھی نہیں لی۔ اور بہت سے غریبوں نے چندہ کرکے اس کے واسطے روپیہ بھیجا ہے۔ اور بعض امراء عظام نے بھی براہین احمدیہؑ کی بہت سی جلدیں خرید فرمائی ہیں۔ جیسے جناب وزیراعظم ریاست پٹیالہ ۔ جناب نواب صاحب والی چہتاری وغیرہ مگر جو لوگ اس کام میں سرگرم ہیں۔ وہ استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس کتاب کے چھپنے میں اس قدر دیر ہوئی ہے۔
اس کتاب کی ضخامت اگرچہ تین سو جز تک ہو چکی ہے۔ مگر ہنوز اس کی تصنیف و تالیف جاری ہے اور کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ کہ کہاں تک ختم ہو ۔ کیونکہ اس کتاب کی علت غائی امر حق کا ظاہر کر دینا ہے۔ یہاں تک کہ مخالفین کے لئے کوئی حجت عقلی و نقلی باقی نہ رہے۔
اب تک جس قدر حصص اس کتاب کے یکے بعد دیگرے مشتہر ہوئے۔ ان میں سے خصوصاً حصہ چہارم کے الہام کے مقامات پر غیر اسلام تو یک طرف ہمارے ہی مسلمان بھائیوں نے حضرت مصنف صاحب سے بہت بے موقع کج ادائی کی یعنی یہ کہ جناب ممدوح پر اتہام باندھا ۔ کہ انہوںنے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اور اتنا نہ سمجھے کہ جو شخص اثبات نبوت اور قرآن میں اتنی بڑی کتاب لکھے وہ خود پیغمبری کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے۔ ناحق ان کی تکفیر کے فتویٰ جا بجا دوڑاے جو بے نیل مرام ان کے پاس واپس آئے۔ ان کو چاہئے۔ کہ اخلاق محمدؐی کو ہاتھ سے نہ دیں۔ صبر کو کام میں لائیں۔ تسکین کے منتظر رہیں۔ اور جناب ممدوح سے عقیدت حاصل کریں۔ ؎
من چہ گویم وصف آں عالیجناب
نیست پیغمبر وے دارد کتاب
غیر اسلام کے اعتراض جہاں تک جناب موصوف کواب تک بہم پہنچے ان سب کا حصص براہین احمدیہ میں اپنے اپنے موقعہ پر عمدہ طور پر رد ہو گیا۔ اور اسی طرح آئندہ بھی جو جو اعتراض ہوں گے ان کا بھی ساتھ ہی ساتھ قلع قمع ہو کر کتاب میں درج ہوتا رہے گا۔ امید ہے کہ اس طریقہ سے کتاب کے اختتام تک مخالفوں کی زبان امر حق کے سامنے بندہو جائے گی۔
مسلمانوں کے لئے نہایت غیرت کا مقام ہے۔ کہ وہ اپنے تنزل کو روز بروز دیکھتے ہیں۔ اور اس کا انسداد نہیں کرتے وہ غیر قوموںکو اپنے مذہب کی کوشش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور اپنے مذہب کے لئے سعی معقول نہیں کرتے۔ عیسائی مشن کو دیکھو۔ بائیبل سوسائٹی کو دیکھو۔ کہ جس میں ہر سال نئی تصانیف اور اس کے چھپوانے اور مشتہر کرانے میں لکھو کھا روپیہ صَرف ہوتا ہے۔ اور کتابوں کو مفت تقسیم کرکے اپنے دین کو پھیلاتے ہیں۔ بخلاف اس کے مسلمان اپنے دین کو اپنے سینہ کے صندوق میں بند رکھتے ہیں۔ اور غیروں کو اس سے حصہ لینے نہیں دیتے۔ پس مسلمانوں کو لازم ہے۔ کہ اس کام میں کوشش بلیغ فرمائیں اور مل جل کر اس کا بوجھ اپنے سروںپر اٹھا لیں۔ اور دامے درمے قدمے سخنے جو جس چیز کی لائق ہو۔ اس سے مدد کرکے ثواب کا حصہ لیں۔ براہین احمدیہ کے سلسلہ کو بھی ایسا ہی تصور کرنا چاہئے۔ کہ وہ دین محمدی کا مشن (سفارت) ہے۔ جو مسلمانوں کی طرف سے جاری اور قائم ہے۔ جو غیروں کے حملے توڑتا ہے۔ اور نہایت محبت سے گمراہوں کو اسلام کے (سلامتی کے) مستحکم قلعہ میں نجات کے دروازے سے بلاتا ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے قلعہ کی آپ حفاظت کریں۔ اور اس کے واسطے ہر طرح کی رسداور مضبوطی کے سامان بہم پہنچائیں۔ اور براہین احمدیہ کے لئے نہایت جوش عقیدت اور صفا ء باطنی سے یہ شعر زبان پر لائیں ؎
ہر دو عالم قیمت خود گفتیٔ
نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز
اگر بہ سبب کمی سرمایہ کے تعویق پڑ گئی۔ اور یہ کتاب لاجواب چھپنے سے رہ گئی۔ تو طالبان حق کو سخت صدمہ پہنچے گا اہل اسلام پر واجبات سے ہے۔ کہ اپنی اپنی قدر کے موافق خواہ یکمشت خواہ بطور چندہ ماہواری ضرور ادا فرمائیں۔ تاکہ اس کتاب کے حامی اور تائید کنندگان میں لکھے جائیں۔ اور اس متعدی ثواب کا جو قیامت تک روز افزوں رہے گا۔ حصہ لیں۔ مدد نہ کر سکیں۔ تو کمتر درجہ اپنا اعتقاد تو درست رکھیں۔ جس صاحب کو اس کتاب کی نسبت جو کچھ حال دریافت کرنا ہو۔ وہ مجھ سے دریافت کر لے۔ یا لدھیانہ محلہ صوفیان میں میر عباس علی شاہ صاحب سے۔ یا منشی محمد حسین مہتمم مطبع ریاض ہند امرتسر سے یا قادیان ضلع گورداسپور میںحضرت مصنف جناب میرزا غلام احمدؐصاحب دام فیوضہ سے۔
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
منشی احمد جان۔ مقام لدہیانہ۔ محلہ جدید احاطہ پنجاب
بمشورہ میر عباس علی شاہ صاحب۔ و بالتفاق رائے جماعت معاون براہین احمدیہ




بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذکر المباہلۃ التي دعوتُ ڈوئي إلیہا
مع ذکر الدعاء علیہ۔و تفصیلُ ما صنع اللّہ في ہذاالباس ۔بعد ما أشعناہ في الناس
اعلموا رحمکم اللّہ أنّ من نموذج نصرتہ تعالی و من شہاداتہ علی صدقي اٰیۃ أظہرہا اللّہ تعالی لتائیدي بإہلاک رجل اسمہ ڈوئي۔ و تفصیل ہذہ الاٰیۃ الجلیلۃ و المعجـزۃ العظیمۃ أنّ رجلا مسـمّی بڈوئي کان في أمریکہ من النصاری المتموّلین و القسیسین المتکبّرین ۔و کان معہ زہاء مأیۃ ألف من المریدین و کانوا یُطیعونہ کالعباد والاماء علی منہج الیسوعیین۔و کان کثیر الشہرۃ في قومہ و غیرقومہ حتّٰی طبّق الاٰفاق ذکرہ۔و سخّر فوجاً من النصاری سِحرہٗ و کان یدَّعي الرّسالۃ و النبوّۃ مع إقرار الوہیّۃ ابن مریم و یسبّ و یشتم رسولنا الأکرم و کان یدّعي مقامات فائقۃ و مراتب عالیۃ و یحسب نفسہ من کل نفس أشرف و أعظم۔و کان یزید یوما فیوما في المال والشہرۃ والتابعین۔وکان یعیش کالملوک بعد ما کان کاالشحّاذین۔فالناظر من المسلمین في ترقیاتہ مع افترائہ و تقوّلہ إن کان ضعیفا ضلّ وحار۔و إن کان عَرِیْفًا لَمْ یأمن العثار۔و ذلک أنہ کان عدوّ الإسلام و کان یسبّ نبینا خیر الأنام۔ثم معذلک صعدفي الشہرۃ و التموّل إلی أعلی المقام۔و کان یقول إني سأقتل کلمن کان من المسلمین۔ولاأترک نفسا من الموحِّدین المؤمنین۔و کان من الذین یقولون مالا یفعلون۔و علا في الأرض کفرعون و نسي المنون۔و کان یجعل النہار لنہب أموال الناس و اللّیل للکأس و اجتمع إلیہ جہّال الیسوعیین و سفہاء المسیحیین۔فمازالوا یتعاطون أقداح الضَّلالۃ و یصدّقون من جہلہم دعوی الرّسالۃ۔و کان ہوعبدالدُّنیا لاکحُرّ۔و کصدف بلا دُرٍّ۔و معذلک کان شیطان زمانہ و قرین شیطانہ ولکن اللہ مہّلہ إلی وقت دعوتہ للمباہلۃ و دعوت علیہ في حضـرۃ الـعــزّۃ و کنت أجد فیہ ریح الشیطان و رئیت أنہ صریع الطاغوت و عدوّ عبادالرحمان۔نجّس الأرض و نجس أنفاس أہلہا من أنواع خباثۃ الہذیان۔و مارئیت کمثلہ عمّیتا ولا عفریتاً في ہذاالزمان۔کان مجنون التثلیث و عدوّالتوحید۔ومصرّاً علی الدین الخبیث۔وکان ینظر مضراتہ کحسنۃ و معرّاتہ کأسباب راحۃ و اجتمع الجہال علیہ من الأمراء وأہل الــثروۃ۔ونصروہ بمال لایوجدإلَّافي خزائن الملوک و أرباب السلطنۃ و کان یساق إلیہ قناطیر الدولۃ حتی قیل إنّہٗ ملک و یعیش کالملوک بالشّان و الشوکۃ۔ولمابلغت دولتہ منتہاہا تبع نفسہ الأمارۃ و ما زکّہا وادّعی الرسالۃ والنبوۃ من إغواء الشیطان۔وما تحامی عن الافتراء والکذب و البہتان۔و ظنّ أنّہ أمر لایسئل عنہ و یزجی حیاتہ في التنعّم و الرفاہۃ۔ویزیدفي العظمۃ والنباہۃ بل سلک معہ طریق الکبر والنخوۃ وما خاف عذاب حضرۃ العزۃ۔ولاشک أن المفتري یؤخذفي ماٰ ل أمرہ ویمنع من الصعود و تفترسہ غیرۃ اللّہ کاَ لْاُسود۔و یری یوم الہلاک والدمار الموعود۔في کتاب اللہ العزیز الودود۔انّ الذین یفترون علی اللہ و یتقوّلون لایعیشون إلَّا قلیلاً ثم یؤخذون و تتبعہم لعنۃ اللّہ في ہذہ و في الاٰخرۃ و یذوقون الہوان والخزی ولایکرمون۔ ألم یبلغک ما کان ماٰ ل المفترین في الأولین واِن اللّہ لایخاف عقبی المتقوّلین و یہربہم حسامہ فیجعلہم من الممزّقین۔
و لمّا اقترب یوم ہلاکہ دعوتہ للمباہلۃ۔ وکتبت إلیہ أنَّ دعواک باطلً و لست إلاّ کذَّاباً مفتریا لجیفۃ الدنیا الدنیۃ و لیس عیسی إلَّا نبیًّا ولست إلاّمتقوّلا و من العامۃ والفِرق الضالۃ المضلّۃ فاخش الذي یری کذبک و إني أدعوک إلی الإسلام و الدّین الحقّ والتوبۃ إلی اللہ ذي الجبروت والعزّۃ۔فإن تولّیت و أعرضتَ عن ہذہ الدعوۃ فتعال نباہل و نجعل لعنۃ اللہ علی الّذي ترک الحق و ادّعی الرسالۃ و النبوۃ علی طریق الفریۃ و أن اللہ یفتح بیني و بینک و یہلک الکاذب في زمن حیات الصادق لیعلم الناس من صدق و من کذب و لینقطع النزاع بعد ہذہ الفیصلۃ ۔وو اللّہ إنّي أنا المسیح الموعود الذي وُعد مجیئہ في اٰخر الزمن و أیام شیوع الضلالۃ۔و إنّ عیسی قد مات وإنّ مذہب التثلیث باطل وإنّک تفتري علی اللّہ في دعوی النبوۃ والنبوۃ قد انقطعت بعد نبیِّنا صلی اللّہ علیہ و سلّم ولا کتاب بعد الفرقان الذي ہو خیر الصحف السابقۃ ولا شریعۃ بعد الشریعۃ المحمدیۃ بید أني سُمّیتُ نبیّا علی لسان خیر البریّۃ و ذلک أمر ظلّي من برکات المتابعۃ و ما أری في نفسي خیراً ووجدت کلّما وجدت من ہذہ النفس المقدّسۃ وماعنی اللّہ من نبوتي إلّا کثرۃ المکالمۃ و المخاطبۃ ولعنۃ اللّہ علی من أراد فوق ذلک أو حسب نفسہ شیئًاأو أخرج عنقہ من الربقۃِ النبویَّۃ و إنّ رسولنا خاتم النبیین و علیہ انقطعت سلسلۃ المرسلین فلیس حقّ أحدٍأن یدّعي النبوّۃ بعد رسولنا المصطفی علی الطریقۃ المستقلۃ۔ وما بقي بعدہ إلا کثرۃ المکالمۃ۔ و ہوبشرط الاتباع لابغیر متابعۃ خیر البریۃ۔وواللّہ ما حصل لي ہذاالمقام إلامن أنوار اتباع الأشعّۃ المصطفویۃ۔و سُمّیتُ نبیًّا من اللّہ علی طریق المجاز لاعلٰی وجہ الحقیقۃ فلا تہیج ہٰہُنا غیرۃ اللّہ ولاغـیرۃ رسولہ فإني أرَبّٰی تحت جناح النّبيّ و قدمي ہذہ تحت الأقدام النبویّۃ ثم ما قلت من نفسي شیئًا بل اتبعت ما أُوحي إليّ من ربّي وما أخاف بعد ذٰلک تہدید الخلیقۃ۔ و کل أحدٍ یسئل عن عملہ یوم القیامۃ ولا یخفی علی اللّہ خافیہ۔
وقلتُ لذلک المفتري إنکنتَ لاتباہل بعد ہذہ الدّعْوَۃ ومعذلک لاتتوب مما تفتري علی اللّہ بإدّعاء النبوّۃ۔ فلا تحسب أنّک تنجو بہذہ الحیلۃ۔بل اللّہ یہلکک بِعذاب شدیدٍ مع الذّلّۃ الشدیدۃ و یخزیک و یذیقک جزاء الفریۃ۔و کان یراقب موتی و أراقب موتہ و کنتُ أتوکّل علی اللّہ ناصرالحق و حامي ہذہ الملّۃ۔
ثم أشعتُ ما کتبتُ إلیہ في ممالک أمریکۃ إشاعۃً تامۃً کاملۃً حتی أشیع ماکتبت إلیہ في أکثر جرائدأمریکۃو أظنّ أنّ ألوفا من الجرائد أشاعت ہذاالتبلیغ وبلغت الإشاعۃ إلی عدۃ ما أستطیع أن اُحصیہا و لیس في القرطاس سعۃ أن اُمْلیہا۔وأمّا ما اُرْسِل إليّ من جرائدأمریکۃ التي فیہا ذکر دعوتي و ذکر المباہلۃ و ذکر دعائي علی ڈوئيلطلب الفیصلۃ فرئیت أن أکتب في الحاشیۃ أسماء بعضہا لیعلم الناس أنّ ہذاالأمر ما کان مکتومًا مخفیًّا بل أشیع في مشارق الأرض و مغاربہا و في أقطار الدنیا و أعطافہا کلہا شرقًا و غربًا و شمالًا و جنوبًا و کان سبب ہذہ الإشاعۃ۔ أن ڈوئي کان کالملوک العظام في الشہرۃ و ما کان رجل في أمریکۃ ولا في یورب من الأکابر والأصاغر إلّاکان یعرفہ بالمعرفۃ التامۃ۔وکانت لہ عظمۃ و نباہۃ کالسلاطین في أعین أہل تلک البلاد و مع ذلک کان کثیرالسیاحۃ یصطاد الناس بوعظہ کالصیاد۔فلذلک ما أبٰی أحد من أہل الجراید أن یطبع ما أرسل إلیہ في أمرہ من مسئلۃ المباہلۃ بل ساقہم حرص رویۃ ماٰ ل المصارعۃ إلی الطبع والإشاعۃ۔والجرائدالتي طُبعتْ فیہا مسئلۃ مباہلتي و دعائي علی ڈوئي ہي کثیرۃ من جرائدأمریکۃ ولکنا نذکرعلی طریق النموذج شیئًا منہا في حاشیتنا ہذہ۔۱؎
و خلاصۃ الکلام أنّ ڈوئيکان شرّ الناس و ملعون القلب و مثیل الخنّاس و کان عدوّالإسلام بل أخبث الأعداء و کان یرید أن یُجیح الإسلام حتی لا یبقی اسمہ تحت السماء و قد دعا مراراً في جریدتہ الملعونۃ علی أہل الإسلام والملّۃ الحنیفیۃ و قال الّلہم أہلک المسلمین کلہم ولا تبق منہم فردًا في إقلیم من الأقالیم و أرني زوالہم واستیصالہم و أشع في الأرض کلّہا مذہب التثلیث و عقیدۃ الأقانیم و قال أَرْجُوْ أن أری موت المسلمین کلہم و قلع دین الإسلام و ہذا أعظم مراداتي في حیاتي و لیس لي مراد فوق ہذاالمرام۔ و کل ہذہ الکلمات موجودۃ في جرائدہ التي موجودۃ عندنا في اللسان الإنکلیزیۃ و یعلمہا من قرأہا من غیر الشک و الشبہۃ فکفاک أیّہا الناظر لتخمین خبث ہذاالمفتري ہذہ الکلمات و لذلک سمّاہ النبيّصلی اللّہ علیہ خنزیراً بما ساء ت ہذا الخبیثَ الطیباتُ۔ و سرّتہ نجاسۃ الشرک والمفتریات و قد عرف الناظرون في کلامہ توہین الإسلام فوق کل توہین و شہد الشاہدون علی ملعونیتہ فوق کل لعین حتی إنہ صار مثلًا بین الناس في الشتم والسبّ و ما کان منتہیًا من المنع والذبّ و إذا باہلتہُ و دعوتہ للمباہلۃ لیظہر بموت الکاذب صدق الصادق من حضرۃ العزۃ
فقال قائل من أہل أمریکۃ و طبع کلامہ في جریدتہ و تکلم بلطیفۃ رائقۃ و نکتۃ مضحکۃ في أمر ڈوئي و سیرتہ فکتب أن ڈوئي لن یقبل مسئلۃ المباہلۃ إلَّا بعد تغییر شرائط ہذ ہ المصارعۃ فیقول لا أقبل المباہلۃ ولکن ناضلوني في التشاتم والتساب فمن فاق حریفہ في کثرۃ السبّ و شـدۃ الشتم فہو صادق و حریفہ کاذب من غیر الارتیاب و ہذا قول صاحب جریدۃ کان تقصّٰی اخلاقہ و جرَّب ما یخرج من لسانہ وذاقہ۔و کذلک قال کثیر من أہل الجرائد وانہم من أعزّۃ أہل أمریکۃ من العمائد ثم مع ذلک إنّي جربت أخلاقہ عند مسئلۃ المباہلۃ۔فإذابلغہ مکتوبي غضب غضبًا شدیداً و اشتعل من النخوۃوأری أنیاب ذیاب الأجمۃ وقال ما أری ہذاالرجل إلا کبعوضۃ بل دونہا وما دعتني البعوضۃ بل دعت منونہا و أشاع ہذاالقول في جریدتہ و کفاک ہذالرؤیۃ کبرہ و نخوتہ۔فہذاالکبر ہو الّذي حثّني علی الدعاء والابتہال متوکّلا علی اللّہ ذي العزّۃ والجلال۔
و کان ہذا الرجل صاحب الدولۃ العظیمۃ قبل أن أدعوہ إلی المباہلۃوکنت دعوت علیہ لیُہلکہ اللّہ بالذلّۃ و المتربۃ و الحسرۃ و إنہ کان قبل دعائي ذاالسطوۃ السلطانیۃ والقوۃ والشوکۃ و الشہرۃ الجلیلۃ التي أحاطـت الأرض کالـدائرۃ و کان صاحب الدُّور المنجدۃ والقصور المُشیّدۃ و ما رأی داہیۃ في مُدّۃ عمرہ و راٰی کل یوم زیادۃ زمرہ و کان لہ حاصلاً ما أمکن في الـدنیا من الاٰلاء و النـعماء و کان لا یعلم ما یوم البأساء وما ساعۃ الضرّائِ و کان یلبس الدیباج و یرکب الِہمْلاجَ و کان یظنّ أنہ یرزق عمراً طویلًا غافلاً من سہم المنایا و کان یزجّي النہار کالمسجودین والمعبودین و المعظّمین و یفترش الحشایا بالعشایا و إذا أنزل اللّہ قدرہ لیُصدّق ما قلتُ في ماٰ ل حیاتہ فانقلبت أیام عیشہ و مسراتہ و أراہ اللّہ دائرۃ السوء لُدغ کلّ لَدْغ من حیٰواتہ أعني أفاعي أعمالہ و سیاٰتہ فعاد الِہملاجُقَطُوفًا و انقلب الدیباج صوفًا و ہلمّ جرا إلی أنہ أُخرج من بلدتہ التي بناہا بصرف الخزائن و حُرّم علیہ کلما شَیّدمن المقاصر ببذل الدفاین۔بل ما کفی اللّہ علی ہذا و أنزل علیہ جمیع قضاء ہ و قدرہ و حطّ سائر وجوہ شانہ و قدرہ و انتقل إلی رجل اٰخر کُلّما کان في قبضتہٖ و جمعت غیاہب البُؤْسِ ریاحُ نخوتہ حتّی یئس من ثروتہ الأولی و ارتضع من الدہر ثدي عقیمٍ و رکب من الفقر ظہر بہیم ثم أخذہ بعض الورثاء کالغرماء و راٰی خزیًا کثیرًا من الزوجۃ والأحباب و الأبناء حتی أن أباہ أشاع في بعض جرائد أمریکۃ أنہ زنیم ولد الزنا و لیس من نُطفتہ و کذلک انتسفتہ ریاح الإدبار والانقلاب و کمّل لہ الدہر جمیع أنواع الذلۃ فصار کرمیم في التراب أوکسلیم غرض التباب و صار کنکرۃ لا یعرف بعد ما کان بکل وجاہۃ یوصف وانتشر کل من کان معہ من الأتباع و ما بقي شيء في یدہ من النقد والعقار والضیاع و برز کالبائیس الفقیر والذلیل الحقیر۔غیضت حیاضہ و جفَّت ریاضہ و خلَتْ جفانہ و نحس مکانہ و طُفیء مصباحہ و رفعت صیاحہ و نُزع عنہ البساتین و عیونہا والخیل و متونہا۔وضاق علیہ سہل الأرض و حزونہا و عادتہ الأودیۃ و بطونہا و سُلِبت منہ الخزائن التي ملک مفاتحہا و راٰی حروب العدا و مضائقہا ثم بعد کل خزي و ذلّۃ فُلج من الرأس إلی القدم لیرحلہ الفالج من الحیات الخبیث إلی العدم۔وکان ینقل من مکان إلی مکان فوق رکاب الناس۔ و کان إذا أراد التبرز یحتاج إلی الحقنۃ من أیدي الأناس۔ثم لحق بہ الجنون فغلب علیہ الہذیان في الکلمات والاضطراب في الحرکات و السکنات و کان ذلک اٰخر المخزیات ۔ثم أَدْرکہُ الموت بأنواع الحسرات و کان موتہ فيتاسع من مارچ ۱۹۰۷ء؁ وما کانت لہ نوادب ولا من یبکي علیہ بذکرالحسنات۔*
و أوحی إليّ ربّي قبل أن أسمع خبر موتہ و قال إنّي نَعَیْتُ أن اللّہ مع الصادقین ففہمت أنہ أخبرني بموت عدوّي و عدوّ دیني من المباہلین فکنتُ بعد ہذاالوحي الصریح من المنتظرین و قد طُبع قبل وقوعہ في جریدۃ بدر والحکم لیزید عند ظہورہ إیمان المؤمنین۔فإذا جاء وعد ربنا مات ڈوئيفجئۃً و زہق الباطل و علا الحق فالحمد للہ رب العالمین وواللہ لواُوتیتُ جَبلاً من الذہب أو الدُّررِ والیاقوت ما سرّني قطّ کمثل ما سرّ ني خبر موت ہٰذاالمفسد الکذّاب فہل من مُنصف ینظر إلی ہذا الفتح العظیم من اللّہ الوہّاب ہذا ما نزل علی العدوّ اللئیم من العذاب الألیم و أما أنا فحقّق اللّہ کل مقصدي بعد المباہلۃ وأری اٰیات کثیرۃ لإتمام الحُجّۃ و جذب إليَ فوجًا عظیماً من النفوس البررۃ۔ و ساق إلي القناطیرالمقنطرۃ من الذہب والـفـضّـۃ ورزقـني فـتحاً عظیمًا عـلی کل من باہـلني من المبتدعین والکفرۃ و أنزل لي اٰیاتٍ٭ منیرۃ لا أستطیع أن أحصیہا ولا أقدر أن أملیہا فاسئلواأہل أمریکۃ ما صنع اللہ بڈوئي بعددعائي و تعالوا اُریکم اٰیات ربي و مولائي و اٰخر دعوانا أن الحمد للّہ رب العالمین۔
المشتہر
المیرزا غلام أحمدؐ المسیح الموعود من مقام
قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
۱۵اپریل ۱۹۰۷ء؁
الحاشیۃ المتعلقۃ بصفحۃ ۷۵السطر العاشر
٭إن اللّہ أخبرني بموت ڈوئي مراراً و ہي بشارات کثیرۃ و کلّہا طبع قبل موتہ و قبل نزول الاٰفات علیہ في جریدۃ مسمّی ببدر و جریدۃٍ اُخری مسمی بالحکم فلیرجع الناظر إلیہا فمنہا ما أوحي إليّ في ۲۵دسمبر ۱۹۰۲ء؁حکایۃً عني و ہوہذا۔إني صادق صادق و سیشہد اللہ لي و منہا ما أوحي إلي في ۲فروري ۱۹۰۳ء و ہو ہذا۔سنعلیک سأکرمک إکراماً عجباً سمع الدعاء۔إني مع الأفواج اٰتیک بغتۃ دعاء ک مستجاب۔ و أوحي في ۲۶نوفمبر ۱۹۰۳ء؁لک الفتح ولک الغلبۃ و أوحی في ۱۷دسمبر ۱۹۰۳ء تری نصراً من عند اللّہ اِن اللّہ مع الذین اتقواوالّذین ہم محسنون۔ و أوحيإليّ في ۱۲جون ۱۹۰۴ء کتب اللّہ لأغلبنّ أنا و رسلي۔ کمثلک دُرّ لا یضاع ۔لا یأتي علیک یوم الخسرانِ و أوحی إلي في ۱۷دسمبر ۱۹۰۵ء قال ربّک إنہ نازل من السماء ما یرضیک رحمۃً منّا و کان أمراً مقضیًّا و أوحي إليّ في ۲۰مارچ ۱۹۰۶ء المراد حاصِلٌ و أوحی إليّ في ۹اپریل ۱۹۰۶ء نصر من اللّہ و فتح مبین و لا یرد بأسہ عن قوم یعرضون ۔و أوحی إلي في ۱۲اپریل ۱۹۰۶ء أراد اللّہ أن یبعثک مقامًا محموداً یعني مقام عزّۃ و فتح تحمدفیہ۔و أوحي في الہندیۃ (ترجمۃ )أری ما ینسخ طاقتہ الدیر یعنياُری آیۃ تکسرقوۃ دیر الیسوعیین
و أوحی في الہندیۃ في ۷جون ۹۰۶اء (ترجمۃ )تظہر الاٰیتان۔إني أریک مایرضیک و أوحي في ۲جنوري۱۹۰۶ء و قالوا لست مرسلًا قل کفی باللّہ شہیدا بیني و بینکم و من عندہ علم الکتاب و أوحی في ۱۰جولائي ۱۹۰۶ء ترجمۃالہندي انظر إنّي أمطرلک من السماء و أنبت من الأرض و أما أعداء ک فیؤخذون۔و أوحي في ۲۳اگست ۱۹۰۶ ترجمۃ الہندي ستظہر اٰیتہ في أیام قریبۃ لیقضي اللّہ بیننا۔و أوحی في ۲۷ستمبر ۱۹۰۶ (ترجمۃ الہندي)السّلام علیک أیّہا المظفر سمع دعاء ک بلجت اٰیاتي و بشر الذین اٰمنوا بأن لہم الفتح و أوحي في ۲۰اکتوبر ۱۹۰۶ ترجمۃ الہندي۔اللّہ عدوّ الکاذب و اِنّہ یوصلہ إلی جہنم اُغرقت سفینۃ الأذل۔إن بطش ربک لشدید و أوحی في ۱فروري ۱۹۰۷ء ترجمۃ الہندي الاٰیۃ المنیرۃ و فتحنا ۔و أوحی في ۷فروري ۱۹۰۷ء العید الاٰخر تنال منہ فتحا عظیما۔دعني أقتل من ذاک انّ العذاب مربع و مدوّرٌ۔وان یروا اٰیۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔و أوحی في سابع مارچ ۱۹۰۷ء یأتون بنعشہ ملفوفًا نعیت۔من سابع مارچ إلی اٰخرہ یعنی یُشاع موت ذلک الرجل إلی ہذاالوقت ۔إنّ اللّہ مع الصادقین۔
 
Top