• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

دلائل و مطاعِن شیعہ کا جواب

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلائل و مطاعِن شیعہ کا جواب

شیعہ: ۔ (المائدۃ:۵۶) سے حضرت علیؓ مراد ہیں۔ لہٰذا وہ خلیفہ بلا فصل ہوئے؟

الجواب۱۔کلمہ حصر ہے۔اگر سے مراد حضرت علی ؓ ہوں تو شیعوں کے باقی ائمہ کی امامت باطل ہوئی ۔کیونکہ پھر سوائے اﷲ ،رسول اور علیؓ کے کسی اور کی امامت ممتنع ہوجائے گی۔

۲۔جمع کا صیغہ ہے۔اس سے علی ؓ (واحد) مراد نہیں لیا جاسکتا۔

۳۔اس کے آگے ہے ۔ حضرت علیؓ کا زکوٰۃ دینا ثابت نہیں۔

۴۔سے مراد اگرحضرت علیؓہوں تو اس کے آگے اُن کے ساتھ دوستی کرنے والے گروہ کو غالب قرار دیا گیا ہے مگر بقول شما علیؓ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

۵۔اہل سنت کی تفا سیر میں جہاں سے مراد حضرت علیؓ کو لکھا گیا ہے و ہاں علماء اہل سنت نے شیعوں کا قول نقل کرکے اس کے آگے اس کی تردید کی ہے ۔پس وہ تمہارے لئے دلیل نہیں ہو سکتی (دیکھو الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعۃ مصنفہ امام شوکانی صفحہ۳۶۹۔۳۷۰ مطبع ناشر دار الکتب العربی) ’’فَاِنَّ ذَالِکَ مَوْضُوعٌ بِلَا خَوْفٍ‘‘کہ یہ روایت بلا شبہ وضعی ہیں۔

۶۔ لفظ ’’ولی ‘‘دوست،ناصر اور حاکم کے معنوں میں مشترک ہے اس کے معنے صرف حاکم لینا حجت نہیں ہوسکتا۔جب تک اس کے لئے د لیل نہ دی جائے۔

۷۔اس آیت میں ’’ولی‘‘کے معنے محب و ناصر کے ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہود اور نصاریٰ کی دوستی کا ذکر فرمایا ہے۔ اور اس کے بعد اس آیت میں اﷲ، رسول اور مومنوں کو دوست بنانے کی تلقین کی گئی ہے۔

۸۔یہ آیت اصحاب ثلاثہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ اس آیت سے پہلی آیت میں (المائدۃ:۵۵) ہے کہ اے مسلمانو!اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے تو خدا ایک اور قوم کو لائے گا وغیرہ۔آنحضرت ؐ کی وفات پر ’’ظہور عرب‘‘جو ہوا یعنی تمام عرب والے مرتد ہوگئے ان کو حضرت ابوبکرؓ اور ان کے اصحاب کے سوا اور کون مسلمان بنانے والا ہوا۔

۹۔ سے دوستی رکھنے والوں کو خدا نے غالب گروہ قرار دیا ہے اور وہ اصحاب ثلاثہ اور ان کے اصحاب ہیں۔

شیعہ:۔ ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب علیؓ)

جواب۱۔اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے :۔جو مجھ سے محبت کرے وہ علیؓ سے بھی محبت کرے‘‘۔یا جس سے میں محبت کرتا ہوں علی ؓ بھی اس سے محبت کرتا ہے‘‘۔

’’مولا‘‘ظرف ہے جس کے معنی محل محبت کے ہیں۔

۲۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کے سامنے اعلان کیا تو اس کے دوتین ماہ ہی بعد آنحضرتﷺ کی وفات کے دن وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کہاں گئے تھے؟ان میں سے ایک بھی تو خلافت کے لئے حضرت علیؓ کا نام نہیں لیتا۔

۳۔ حضرت علیؓ بھی اپنی خلافت کے لئے اس حدیث کو پیش نہیں کرتے۔

۴۔ یہاں تک کہ جب حضرت عثمان ؓ کی وفات پر حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو حضرت معاویہ نے انکار کردیا۔حضرت علیؓ نے اپنی خلافت منوانے کے لئے متعدد دلائل دیئے مگر خم غدیر کے واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیالہٰذا ثابت ہوا کہ یہ بعد کی اختراع ہے۔

شیعہ:۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌ بَابُھَا۔‘‘

جواب۱:۔یہ حدیث ضعیف ہے ۔دیکھو (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی)

۲۔ اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :۔

ذَکَرَہُ ابْنُ الْجَوْزِیْ فِیْ الْمَوْضُوْعَاتِ مِنْ عِدَّۃِ طُرُقٍ وَجَزَمَ بِبُطْلَانِ الْکُلِّ۔‘‘ (اللّمعات برحاشیہ مشکوٰۃ مطبوعہ اصح المطابع دہلی صفحہ ۵۶۴) اس حدیث کو ابن جوزی نے متعدد طرق سے روایت کرکے موضوع قراردیا ہے ۔نیز اس کے سب طریقوں کو باطل قرار دیا ہے۔

(نیز دیکھو فوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الکتب العربی ۳۷۳ حدیث ۳۵طبع اولیٰ ۱۹۸۶ء)

۳۔ اس کا ترجمہ ہے ’’میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ بہت بلند ہے؟کہاں ہے ذکر علیؓ؟

۴۔ ایک دروازہ والا بھی شہر ہوا ہے؟ہاں جیل خانے اور کوٹھڑی کا ایک دروازہ ہوتا ہے ۔شہر کے کم از کم چار دروازے ہونے چاہئیں۔ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم علم کا شہر ہیں اور ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اﷲ عنہم اس شہر کے چار دروازے ہیں حضرت علیؓ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ یاد رہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں ایک دروازے کا حصر نہیں۔

۵۔ خود حضرت علیؓ نے حضرت عثمان ؓسے فرمایا۔اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ (نہج البلاغہ جز ثانی ۱۵۹ ومن کلام لہ لما اجتمع الناس لہ) کہ اے عثمان!تو اتنا ہی عالم ہے جتنا میں ۔پس حضرت عثمان ؓ کی حضرت علیؓ سے مساوات علمی ثابت ہے۔اگر وہ علم کا دروازہ ہیں تو عثمانؓ بھی بو جہ مساوات علمی رکھنے کے علم کا دروازہ ہوئے۔

شیعہ:۔حضرت علیؓ کے لئے رِجعت شمس کا معجزہ ظاہر ہوا اور یہ ان کی فضلیت کی دلیل ہے۔

جواب:۔رِجعت شمس والی روایت سراسر جعلی اور موضوع ہے۔

(ملاحظہ ہو موضوعات کبیر ملاّ علی قاری صفحہ ۸۹) نیز الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الکتب العربی صفحہ ۳۷۰-۳۶۹)

شیعہ:۔’’حدیث طیر‘‘سے حضرت علیؓ کی فضیلت ثابت ہے ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا! اس آدمی کو بھیج دے جو تمام انسانوں میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو تاکہ وہ میرے ہمراہ اس پرندے کا گوشت کھائے ۔تو حضرت علیؓ تشریف لے آئے۔

جواب:۔یہ روایت بھی سراسر جعلی ہے۔چنانچہ لکھا ہے :۔

لَہٗ طُرُقٌ کَثِیْرَۃٌ کُلُّھَا ضَعِیْفَۃٌ وَقَدْ ذَکَرَہُ ابْنُ الْجَوْزِیْ فِی الْمَوْضُوْعَاتِ (الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ ۱۲۹) کہ یہ روایت جتنے طریقوں سے مروی ہے وہ سب ضعیف ہیں اور ابن جوزی نے کہا ہے کہ یہ روایت وضعی یعنی جعلی ہے۔

حضرت عثمان ؓ کا جنازہ

اعتراض شیعہ:۔حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا جنازہ نہیں پڑھا۔

جواب:۔غلط ہے حضرت عثمانؓ کے جنازے پر حضرت علیؓ حاضر ہوئے چنانچہ لکھا ہے۔

۱۔وَقِیْلَ شَھِدَ جَنَازَتَہٗ عَلِیٌّ وَ طَلْحَۃُ وَ زَیْدُ ابْنُ ثَابِتٍ وَکَعْبُ مَالِکَ (کامل ابن اثیر جلد ۳ صفحہ ۱۸۰مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ) کہ حضرت عثمانؓ کے جنازہ پر حضرت علیؓ ،طلحہ ؓ ،زید بن ثابت اور کعب بن مالک رضی اﷲ عنہم حاضر ہوئے۔

۲۔اسی طرح شیعوں کی ناسخ التواریخ میں ہے:۔

’’حسن بن علی یا عبداﷲ بن زبیر و ابو جہم بن حذیفہ و چند تن جسد ِ اُو رَا برتختہ پارہ نہادند …… و جشن نام بستان است در آنجا خاک سپردند‘‘۔ (ناسخ التواریخ کتاب دوم جلد ۲ صفحہ ۴۳۸) گویا حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا جنازہ بوساطت امام حسن ؓ کرایا۔یادرہے کہ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے نیز جو امر حضرت علیؓ کو (بقول شما) جنازہ پڑھنے سے مانع تھاوہ حضرت حسنؓ کو کیوں مانع نہ ہوا۔

حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ کا جنگ سے بھاگنا

اعتراض شیعہ:۔حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ جنگ سے بھاگے۔

جواب۱۔غلط ہے ۔طبری میں ہے:۔

وَنُھِضَ نَحْوَ الشِّعْبِ مَعَہ‘ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبِ وَاَبُوْ بَکْرِ ابْنَ اَبِیْ قَحَافَۃَوَعُمَرُ ابْنُ الْخَطَابِ۔ (تاریخ الطبری جلد الثانی صفحہ ۸۶ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان) اورگھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمکے ساتھ حضرت علیؓ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کھڑے (دشمن کے ساتھ) مقابلہ کرتے رہے۔

۲۔عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ اُحْدٍ انْصَرَفَ کُلُّھُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَاہٗ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۵)

حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سے سب لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو سب سے پہلے میں آپ کے پاس پہنچا ۔

۳۔ وَمِمَّنْ ثَبَتَ مَعَہ‘ مِنَ الْمُھَاجِرِ یْنَ اَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ۔

(تاریخ الطبری جلد الثانی ذکر الخبر عن غزوہ رسول اﷲ موازن بحنین صفحہ۱۶۸ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

کہ جنگ حنین میں حضرت ابوبکر و عمر آنحضرت ؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

۴۔ وَثَبَتَ (اَبُوْبَکْرٍ) یَوْمَ اُحْدٍوَیَوْمَ حُنَیْنٍ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۶للامام السیوطی اصح المطابع آرام باغ کراچی) کہ حضرت ابوبکر ؓ جنگ اُحد اور حنین میں ثابت قدم رہے۔

۵۔اسی طرح جنگ خیبر کے متعلق لکھا ہے:۔

وَاِنَّ اَبَابَکْر اَخَذَ رَأیَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ثُمَّ نَھَضَ فَقَاتَلَ قِتَالاًشَدِیْدًاثُمَّ رَجَعَ فَأَخَذَھَا عُمَرُ فَقَاتَلَ قِتَالاًشَدِیْدًا ھُوَ اَشَدُّمِنَ الْقِتَالِ الْاَوَّلِ۔

(تاریخ الطبری جلد الثانی ذکر الاحداث الکائنۃ فی سنۃ سبع من الھجرۃ غزوہ الخیبر صفحہ ۱۳۸ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت )

کہ (جب آنحضرت ؐ بیمار ہوگئے تو) حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ نے یکے بعد دیگرے آنحضرت ؐ کا جھنڈا لے کر ایک دوسرے سے بڑھ کر کفّار سے جنگ کی۔

۶۔ اسی طرح تاریخ الخلفاء میں حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق حضرت علیؓ کی شہادت موجود ہے۔

فَوَاللّٰہِ مَا دَنَا مِنَّا اَحَدٌ اِلَّا اَبُوْبَکْرٍشَاھِرًا بِالْسَّیْفِ عَلیٰ رَأْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَھُوَ اَشْجَعُ النَّاسِ (تاریخ الخلفاء صفحہ۳۷ للامام السیوطی اصح المطابع آرام باغ کراچی) کہ خدا کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کے سوا اور کوئی ہم میں سے آنحضرت ؐ کے قریب نہیں ہوا۔حضرت ابوبکرؓ تلوار سونت کر آنحضرت ؐ کے سر پر پہرہ دے رہے تھے۔پس آپ سب سے زیادہ شجاع تھے۔

پس کتب اہل سنّت سے اصحاب ثلاثہ کا جنگوں کے موقع پر ثابت قدم رہنا ثابت ہے ۔اس لئے اہل سنّت کے بالمقابل یہ طعن کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔باقی رہیں اہل شیعہ کی روایات۔سو وہ حجت نہیں؟
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت عمر ؓ کا اپنے مردہ بیٹے کو کوڑے لگوانا

اعتراض شیعہ:۔حضرت عمرؓ نعوذ باﷲ اسقدر سخت دل تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے ابو شحمہ نامی کو شراب پینے کے جُرم میں کوڑے لگوائے ، اور جب وہ کوڑوں کی مقررہ تعداد پورا ہونے سے پہلے مرگیا تو آپ نے اس کی لاش پر کوڑے لگوانے کا حکم دیا۔

جواب:۔یہ روایت سراسر جعلی اور موضوع ہے:۔

اِنَّ عُمَرَ اَقَامَ الْحَدِّ عَلٰی وَلَدٍ لَہ‘ یُکْنیٰ اَبَا شَحْمَۃَبَعْدَ مَوْتِہِ فِیْ قِصَّۃٍِطَوِیْلَۃٍ مَوْضُوْع۔ (فوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ۔مصنفہ امام شوکانی مطبع دار الکتب العربی صفحہ ۲۲۲) کہ حضرت عمرؓ کے بارہ میں وہ طویل قصّہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کو جس کی کنیت ابوشحمہ تھی اس کے مرجانے کے بعد بھی کوڑے لگوائے۔ وضعی ہے۔

باغ فِدک

اعتراض نمبر۱:۔حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو آنحضرتؐ کے ترکہ سے کچھ نہ دیا۔حالانکہ حضرت ابوبکرؓ کے لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ والی حدیث کے پیش کرنے پر حضرت فاطمہؓ نے قرآن کی آیت پیش کی کہ ’’۔ (النساء:۱۲)

جواب نمبر۱:۔حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ضِد سے ایسا نہیں کیا کیونکہ انہوں نے آنحضرتؐ سے حدیث سنی ہوئی تھی اور قرآن کریم کو آنحضرتؐ ہی زیادہ سمجھتے تھے۔

جواب نمبر۲:۔اگر حضرت فاطمہؓ سے ضد تھی تو دیگر ازواج مطہرات اور خصوصاًاپنی لڑکی حضرت عائشہ ؓ کو وراثت دیتے لیکن انہوں نے اس لیے نہ مانگی کہ ان کو مندرجہ بالا حدیث مانع تھی۔اگر یہ کہیں کہ ان کو اس لئے نہ دی کہ حضرت فاطمہ ؓ دعویٰ نہ کر بیٹھیں تو وہ تو بہت جلد فوت ہوگئیں۔بعد ان کے دے دیتے مگر ایسا نہ کیا۔

جواب نمبر۳:۔لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ (بخاری کتاب الخمس۔کتاب فضائل اصحاب النبی ؐ۔کتاب الفرائض ۔کتاب المغازی۔مسند احمد بن حنبلؒجلد ۲ باب الالف صفحہ ۴۶۳ المکتبۃ الالسلامی بیروت) والی حدیث شیعوں کے نزدیک بھی درست ہے چنانچہ اسی مفہوم کی حدیث شیعوں کی کتاب (الاصول الکافی کتاب فرض العلم باب صفۃ العلم و فضلہِ و فضل العلماء المکتبۃ الاسلامیہ طہران) میں محمد بن یعقوب راوی نے ابی البختری سے وہ ابو عبیداﷲ جعفر بن صادق سے روایت کرتے ہیں:۔

اِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآءِ وَ ذٰلِکَ اِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوْرِثُوْا فِیْ نَسْخَۃٍلَمْ یَرِثُوْا دِرْھَماً وَلَا دِیْنَارًا وَ اَنَّمَا اُوْرِثُوْا اَحَادِیْثَ مِنْ اَحَادِیْثِھِمْ فَمَنْ اَخَذَ بِشَیْءٍ مِنْھَا فَقَدْ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔‘‘کہ علماء نبیوں کے وارث ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ انبیاء نے وراثت نہیں چھوڑی۔اور ایک نسخہ میں ہے ۔’’نہ وارث ہوئے کسی درہم یا دینار کے بلکہ وارث کئے گئے ان کے کلام میں سے کلام کے ۔ اوراگر اس میں سے کسی نے کچھ لیا تو اس نے بہت بڑا حصہ لیا۔ (نیز دیکھیں ’’منار الہدیٰ ‘‘از شیخ علی البحرانی صفحہ ۲۳۴باب منع فاطمۃ المیراث)

جواب نمبر۴:۔اگر حضرت ابوبکر ؓ نے مذکورۃ الصدر حدیث آنحضرت ؐ کے منہ سے نہیں سنی تھی تو ان کو حضرت فاطمہؓ کو ورثہ سے محروم کرنے سے کیا فائدہ تھا۔کیا حضرت ابوبکرؓ نے وہ زمین خود لے لی یا اپنے خاندان کو دے دی۔اگر ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ کا مقصد سوائے شریعت کے حکم کو پورا کرنے کے اور کچھ نہ تھا۔

جواب نمبر۵:۔اگر حضرت فاطمہؓ کو انہوں نے اس حدیث کی و جہ سے محروم کیا تو اس و جہ سے اپنی اور اپنے دوست حضرت عمرؓ کی بیٹی کو بھی محروم کیا۔

جواب نمبر۶:۔جب حضرت علیؓ خود خلیفہ ہوئے توکیو ں انہوں نے حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد (حضرت امام حسنؓ وحسینؓ) کو آنحضرتؐ کا ورثہ نہ دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کے نزدیک بھی آنحضرت ؐ کا ورثہ قابل تقسیم تھا۔اگر حضرت ابوبکر ؓ اس واسطے غاصب ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ ؓ کو فدک کا حصہ نہ دیا تو بعینہٖ حضرت علیؓ بھی ایسے ہی غاصب ہیں ۔

اعتراض نمبر۲:۔آنحضرتؐ نے حضرت فاطمہ ؓ کے واسطے فدک کی وصیت کی مگر حضرت ابوبکرؓ نے بخلاف وصیت حضرت فاطمہ ؓ کو فدک پر تصرف نہ دیا۔حضرت فاطمہؓ سخت ناراض ہوئیں حالانکہ آنحضرت ؐ نے فرمایا ہے۔مَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب مناقب فاطمہ ؓ جُز ۵ مصری صفحہ ۳۶) یعنی جس نے فاطمہ ؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔

جواب:۔شیعہ لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صرف حضرت ابوبکرؓ نے اس وصیت اور ہبہ نامہ کو جاری نہ فرمایا بلکہ حضرت علیؓ نے بھی جاری نہ فرمایا تھا ۔ہم دریافت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے تو اس واسطے اس کا اجرا نہ فرمایا کہ ان کو یہ حدیث معلوم تھی کہ آنحضرت ؐ نے فرمایاجوہم چھوڑیں گے وہ صدقہ ہوگا لیکن پھر حضرت علیؓ نے اپنی چند روزہ خلافت میں کیوں اس کو جاری نہ کیا؟پس معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو بھی یہ روایت پہنچ چکی تھی اور وہ اس کو درست تسلیم کرتے تھے اسی واسطے آپ نے بھی اس کو ویسے ہی رکھا جیسے کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور ابوبکر ، عمر،عثمان رضی اﷲ عنہم کے عہد میں چلی آتی تھی۔

باقی ناراضگی کے متعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ آپ نے اس وقت فرمائے تھے کہ جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی لڑکی سے شادی کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت فاطمہ ؓ حضورؐ کے پاس روتی ہوئی آئیں۔آپ نے اس وقت کھڑے ہوکر خطبہ پڑھا۔جس میں آپ نے فرمایا:۔

اَلَا اِنَّ فَاطِمَۃَ بِضْعَۃُ مِنِّیْ یُوْذِیْنِیْ مَا اَذَا ھَا وَ یُرِیْبُنِیْ مَا اَرَابَھَا فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِی (بخاری کتاب النکاح باب ذَبَّ الرجل ابنتہٗ فی الغیرۃ والا نصاف جز۷ مصری صفحہ ۴۱ و مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل فاطمہ رضی اﷲ عنھا۔ ابوداؤدکتاب النکاح باب الغیرۃ۔ ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء فی فضل فاطمہ رضی اﷲ عنہا) یعنی فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے اگر اسے تکلیف ہوئی تو مجھے بھی ہوئی۔پس جس نے اس کو ناراض کیا اس نے گویامجھے بھی ناراض کیا۔

حدیث میں آپ نے ماضی کا صیغہ استعمال کیا کہ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے گویا مجھے ناراض کیا اور صاف ظاہر ہے کہ اس وقت سے پہلے صرف حضرت علیؓ کی وجہ سے حضرت فاطمہ ؓ کو تکلیف پہنچی تھی کہ جس کے باعث آنحضرت ؐ کو بھی تکلیف پہنچی اور آپ نے اس تکلیف کی شدت میں ایک خطبہ پڑھا جس میں پہلے مورد حضرت علیؓ ہی ہیں،حضرت ابوبکرؓ سے اگر وہ ایک بات پر جو واقعہ میں حق تھی ناراض ہوگئیں تو آپ اس حدیث کے نیچے نہیں آسکتے کیونکہ یہ بعد کا واقعہ ہے اور آپ ؐ نے یہ قانون نہیں باندھا بلکہ ایک خاص واقعہ پر فرمایا تھا کہ فاطمہ ؓ کو جس نے تکلیف دی ہے اس نے مجھے بھی تکلیف دی ہے۔

جواب نمبر۲:۔کتاب نہجۃ البلاغۃ میں شیخ ابن مظہر نے ایک بات کہی جس سے تمام جھگڑے دور ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔

’’اِنَّہ‘ لَمَّا وَ عَظَتْ فَاطِمَۃُ اَبَا بَکْرٍ فِیْ فِدْکٍ کَتَبَ لَھَا کِتَابًاوَ رَدَّ عَلَیْھَا‘‘۔یعنی جب فاطمہ نے ابوبکر کو فدک کے معاملہ میں بہت نصیحت وغیرہ کی تو انہوں نے اس کو نوشتہ لکھ دیا یعنی فدک اس کو دے دیا۔اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت ابوبکرؓ پر طعن کا کوئی موقع ہی نہ رہا ۔

فَاَقْسَمَ عَلَیْھَا لِتَرْضٰی فَرَضِیَتْ (تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۱۹۳ مطبوعہ مصر) کہ حضرت فاطمہ کو راضی ہونے کے لئے قسم دی گئی ،پس وہ راضی ہوگئیں۔

’’فَمَشٰی اِلَیْھَا اَبُوْبَکْرٍ بَعْدَ ذٰلِکَ وَشَفَعَ لِعُمَرَ وَطَلَبَ اِلَیْھَا فَرَضِیَتْ عَنْہ‘‘۔

(شرح نہج البلاغۃ جلد ۱ جزو نمبر۲ صفحہ ۷۶)

کہ حضرت ابوبکرؓ حضرت فاطمہؓ کے ہاں گئے اور حضرت عمر ؓ کی سفارش کی ۔چنانچہ حضرت فاطمہؓ حضرت عمرؓ سے بھی راضی ہوگئیں۔

پھر آیت’’

(الحشر:۸)

ترجمہ:۔جو پہنچایا اﷲ نے اپنے رسول کو ان بستی والوں میں سے پس اﷲ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور فقیروں اور مسافروں کے لئے ہے کہ نہ ہووے ہاتھوں ہاتھ لینا درمیان دولتمند وں کے تم میں سے اور جو کچھ دے تم کو رسول اسے لے لو اور جو منع کرے تم کو باز رہو۔ اور ڈرو اﷲ سے یقینا اﷲ سخت عذاب کرنے والا ہے۔

اس سے ظاہر ہے کہ فدک کے مال میں کتنے حصّہ دار تھے ۔یہ باغ فدک مال فئے میں سے تھا اور مال فئے میں ’’رسول‘‘کا حصہ تو ہے۔مگر’’ محمد ؐ ‘‘کا نہیں۔یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعلق باغِ فدک سے حضورؐ کی ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب رسالت کے باعث تھا۔پھر اس میں وراثت کا کیا سوال؟
 
Top