• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 17 ۔گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 17. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

01

ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ

گورنمنٹ انگریزی

اور

جہاد

۲۲؍مئی۱۹۰۰

مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل الدین صاحب چھپا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

02




Ruhani Khazain Volume 17. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

03


نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

گورنمنٹ انگریزی اور جہاد

جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں۔

جاننا چاہئیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کویُدّہ کہتے ہیں دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّہ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرجیم کویا کے ساتھ بدل دیا گیا اور کچھ تصرف کرکے تشدید کے ساتھ بولا گیا۔

اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضروؔ رت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے۔ سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

04

ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کی آمدنیوں اوروجاہتوں میں فرق آتا ہے۔ اُن کے شاگرد اور مرید اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے اُن عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب اُن کو دیئے گئے تھے جیسے نجم الاُمّۃ اور شمس الاُمّۃ اور شَیخ المَشَائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے۔ سو ان وجوہ سے اہل عقل اُن سے مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء او رمشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے۔ وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوں کی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے۔ اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسااوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کےؔ ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہرکرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے۔ یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

05

بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا۔ لہٰذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبّر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ،مال میں ،کثرت جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے۔ سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیمؔ بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرّ کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

06

ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے :۔33 ۱؂یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے۔ الجزو نمبر۱۷ سورۃ الحج۔ مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے ؔ جاتے تھے۔ لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیااور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت۔ یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اورنہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی۔ اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

07

کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں ۔اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں۔ اورؔ انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناًجانتاہو ں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس و جہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں۔ یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے جواس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

08

موجب ہے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مارکی بڑی بڑی اُمیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرانا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے۔ یہ خیاؔ ل اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے۔ اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مردوں اورعورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گاکیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا اور اُس کی عقدہمت اُس کی تلوار ہوگی وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا۔ ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ یضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا۔ اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے 3 ۱؂ یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آجائے۔ یہی تضع الحرب اوزارھاہے۔ دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح الکتب مانی گئی ہے۔ اس کو غور سے پڑھو۔ اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے خدا کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

09

پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھاآچکا اور اُس ؔ نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کُشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آجاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے مُنہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضبِ الہٰی جانے گا۔

اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دوگواہیاں پاکر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی۔ میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراسے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افتراؤں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے۔ غرض اب جب مسیح موعود آگیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا۔ اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں۔ جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا او رقرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

10

کارؔ بند ہو رہے ہیں۔ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں۔ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تما م نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسااوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی ؔ طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔ بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

11

اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سُنتے ہیں توفی الفوردل میں گذرتا ہے کہ قرآئن اِس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بُزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اُس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدّت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گذشتہ را ستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟

اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پرکیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی اُن کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے۔ غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آگیا۔ اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کرکے ہمیں بتلاؤ۔

حاصلؔ کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قراردے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے۔ کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

12

اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ۔ پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت۔ بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کرکے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے۔ اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں۔ انہوں نے انسانی ہمدرؔ دی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں۔ کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیرثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے۔ افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/13/mode/1up

13

روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے و جہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا۔ یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے۔ لیکن آخر کار را ستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس ؔ زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تووہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے۔ اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گِن سکتا ہے۔ ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا۔ اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا۔ ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا۔ کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا۔ تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے۔ چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہئے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعاؤں کے بعد



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/14/mode/1up

14

سکھوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی رد کر دیں۔

اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں۔ مجھے خدا نے جو مسیح موعود کرکے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سےؔ بھرا ہے۔ سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو۔ تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں۔ خدا کے لئے سب پررحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو۔ آؤمیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُتر تے ہیں۔ مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو ترقی کرو۔ اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں۔ تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھاکر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے۔ یہی انسانی نفس کے سفید ہونے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/15/mode/1up

15

کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:۔ 3 ۱؂ یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا۔ دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے ؔ پاک کرنے کا جہاد باقی ہے۔ اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں۔ زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اسی سے اُن کا دین پھیلے گا اور اِس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسّط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی۔ تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں۔ سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ۔ اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا۔ خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/16/mode/1up

16

مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا ؔ کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اورریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے۔ سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اُس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے۔ اِس لئے ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے۔ اور قرآن بھی کہتا ہے 3 ۱؂ یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ *ہے وہ ہے جب کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی۔ سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں۔ زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیں دیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں۔ چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے۔ ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں

* میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ مسیح موعود اسرئیلی نبی نہیں ہے بلکہ اس کی خو اور طبیعت پر آیا ہے جبکہ توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے تو ضرور تھا کہ موسوی سلسلہ کی مانند محمدی سلسلہ کے اخیر پر بھی ایک مسیح ہو۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/17/mode/1up

17

موجود ہیں۔ اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں۔ پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اسؔ لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں۔ اور وہ یہ ہے33۱؂ یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بند ھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونو ں کے جوہر ظاہر کر دیئے۔*

بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اس اشتہار میں مفصل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اسلامی قوموں میں پرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑناآسانی سے ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اُس کا قصہ بھی تمام کرنا چاہیں ہاں ایک طریق میرے دل میں گذرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل جن کا رعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں

* کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہا نئی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔ پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند رہے۔ آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/18/mode/1up

18

نہیں ملے گی نامی علماء کوجمع کرکے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کراکر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان ملا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقیناًامیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ؔ ملاؤں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان ملاؤں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی و جہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّالوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفارکے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں۔ عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں۔ پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے۔ اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/19/mode/1up

19

امیر صاحب پر یہ الزام لگاویں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ لہٰذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کرکے اس سے بڑھ کر اورؔ کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتدبہ حصہ ہے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دورِ مسیح موعود آگیا ہے۔ اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کردے گاکہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پُر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی۔ اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں۔

ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گذارش کرنا چاہتا ہوں اور گویہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں۔ اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اِس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں دو۲ ہیں (۱) اول وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ؔ ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں۔ آخر دن رات



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/20/mode/1up

20

ایسے وعظوں کو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے۔ اور اگرچہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں۔ اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرّا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے۔ میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب ُ ّ ملا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے َ بری نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا۔ کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کرکے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں۔ کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے (۲) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنامسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے۔ میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اورؔ رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں۔ بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/21/mode/1up

21

اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے۔ پھر جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میں کتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے۔ ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ میں نے غور کرکے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کاذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذرگئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر۲۳ ۶۷ء ؁ سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا۔ یہ قانون سرحد کی چھ ۶ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی۔ غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی و جہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلاؔ نہ طریق ثابت ہو جانے کی و جہ سے اندر ہی اندر دب گئے۔ پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملاؤں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/22/mode/1up

22

کہ انہوں نے ایک خط مسئلہ جہاد کی پیروی کرکے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروں کو سُرخ کیا کریں اور اس طرح ناحق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذا پہنچایا کریں مگر ساتھ ہی یورپ کے ملاؤں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے ناحق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کرکے وحشی مسلمانوں کے دلوں میں یہ جمادیا کہ اُن کے مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے جلد بہشت مل جاتا ہے اگر ان پادری صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہئیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کرکے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کے جوش دلانے کے بڑے محرک اسلامی مولوی ہیں تاہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگیزی میں پادریوں کی وہ تحریریں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمان شا کی نظر آتے ہیں۔ افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کرکے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کو مشکلات پیش آتی ہیں اِن مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہر گز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر نہ کرے ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے اور جب سرحد کے وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم انس اور محبت پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریں گے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کرکے اور پشتو میں ان کا ترجمہ کرا کر سرحدی اقوام میں مشتہر کریں بلا شبہ اُن کا بڑا اثر ہوگا۔ مگر ان تمام باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچے دل اور جوش سے کارروائی کی جائے نہ نفاق سے۔ والسلام علٰی من اتبع الھدٰی۔

المشتھرخاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی اللہ عنہ از قادیاں

المرقوم ۲۲؍مئی ۱۹۰۰ء ؁



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/23/mode/1up

23

ضمیمہؔ رسالہ جہاد

عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت اور جناب

نواب وایسرائے صاحب بالقابہ کی خدمت میں ایک

درخواست

اگرچہ میں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں عیسیٰ مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعویٰ کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سَچ مُچ ان دو بزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں۔ لیکن واقعی امر ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسازمانہ ہوگا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا۔ ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہوگا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت۔ مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خون ریزیاں ہوں گی۔ یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا ؔ وہ ایسی خو ن ریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی چنانچہ وہ زمانہ یہی ہے کیونکہ ایمان اور انصاف



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/24/mode/1up

24

کے رُو سے ہر ایک خدا ترس کو اس زمانہ میں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مثلاً آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کے یا ان کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں۔ یہ کس قدر ظلم صریح اور حقوق عباد کا تلف کرنا ہے۔ کیا اُن کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں رہا جو بانگ نماز پر بھی قتل کرنے کو مستعد ہو جاتے تھے۔ گورنمنٹ انگریزی نے کیا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا اس کے معزز حکام کو دی جاتی ہے۔ اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی۔ اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مارکھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں۔ سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی غلاموں کی طرح زندگی تھی اور اب انگریزی عملداری سے دوبارہ ان کی عزت قائم ہوئی۔ جان اور مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے۔ اسلامی کتب خانوں کے دروازے کھولے گئے تو کیا انگریزی گورنمنٹ نے نیکی کی یا بدی کی؟ سکھوں کے زمانہ میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اُکھیڑی جاتی تھیں۔ سرہند کا واقعہ بھی اب تک کسی کو بھولا نہیں ہوگا۔ لیکن یہ گورنمنٹ ہماری قبروں کی بھی ایسی ہی محافظ ہے جیسا کہ ہمارے زندوں کی۔ کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرہ بھی مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا۔ کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لاوے۔ حج کرے زکوٰۃ دے۔ نماز پڑھے یا خدا کی طرف سے ہو کر یہ ظاہر کرے کہ میں مجدد وقت ہوں یا ولی ہوںؔ یا قطب ہوںیا مسیح ہوں یا مہدی ہوں اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں بجز اس صورت کے کہ وہ خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو۔ پھر باوجود اس کے کہ گورنمنٹ کے یہ سلوک اور احسان ہیں مسلمانوں کی طرف سے اس کا عوض یہ دیا جاتا ہے کہ ناحق بے گناہ بے قصور اُن حکام کو قتل کرتے ہیں جو دن رات انصاف کی پابندی سے ملک کی خدمت میں مشغول ہیں۔ اور اگریہ کہو کہ یہ لوگ تو سرحدی ہیں اس ملک کے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کا کیا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/25/mode/1up

25

گناہ ہے تو اس کا جواب بادب ہم یہ دیتے ہیں کہ ضرور ایک گناہ ہے چاہو قبول کرو یانہ کرو اور وہ یہ کہ جب ہم ایک طرف سرحدی وحشی قوموں میں غازی بننے کا شوق دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے مولویوں میں اپنی گورنمنٹ اور اس کے انگریزی حکام کی سچی ہمدردی کی نسبت وہ حالت ہمیں نظر نہیں آتی اور نہ وہ جوش دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ اس گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں تو کیوں بالاتفاق ایک فتویٰ طیار کرکے سرحدی ملکوں میں شائع نہیں کرتے تا ان نادانوں کا یہ عذر ٹوٹ جائے کہ ہم غازی ہیں اور ہم مرتے ہی بہشت میں جائیں گے۔ میں سمجھ نہیں سکتا کہ مولویوں اور اُن کے پیروؤں کا اس قدر اطاعت کاد عویٰ اور پھر کوئی عمدہ خدمت نہیں دکھلا سکتے۔ بلکہ یہ کلام تو بطریق تنزّل ہے۔ بہت سے مولوی ایسے بھی ہیں جن کی نسبت اس سے بڑھ کر اعتراض ہے۔ خدا ان کے دلوں کی اصلاح کرے۔ غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے۔ جب ایک محسن بادشاہ کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر اوروں کے ساتھ کیا ہوگا۔ پس خدانے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا۔ اس لئے اُس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسیٰ مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ؔ ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجازاًکہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے کیوں کہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چاہو۔ اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گذرا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے۔ اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی اُن سے نہیں کی بلکہ نیکی کی ،اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پاکر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خو اور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے۔ کیا اِس زمانہ میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسیٰ مسیح کا اوتار ہے؟ بیشک ضرورت تھی۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/26/mode/1up

26

جس حالت میں اسلامی قوموں میں سے کروڑہا لوگ روئے زمین پر ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا اُن کا شیوہ ہے بلکہ بعض تو ایک محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رہ کر بھی پوری صفائی سے اُن سے محبت نہیں کر سکتے۔ سچی ہمدردی کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ نفاق اور دورنگی سے بکلی پاک ہو سکتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح کے اوتار کی سخت ضرورت تھی۔ سو میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی رُوحانی شکل اور خو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں۔

اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کاآفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اُس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایاؔ ت کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اُس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے۔ خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو اُن میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنی کے رو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویل کی جاتی ہے۔ کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پاکر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اُس کی نسبت مجازاً بولنا قدیم محاورہ اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اُس میں ظاہر ہوا ہے۔ لیکن اس سے درحقیقت یہ نہیں کھلتا کہ وہی شخص درحقیقت ربّ العالمین ہے۔ اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھسل جاتا ہے اور ہزارہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہی لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/27/mode/1up

27

روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ اُن کی جڑ تک پہنچ نہیں سکتے۔ آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کرکے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سو اسی غلطی میں آج کل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے۔ سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمدؐ اور احمد ؐ تھا خدا کے اُس پر بے شمار سلام ہوں۔ شریعت دو۲ حصوں پر منقسم تھی۔ بڑا حصہ یہ تھا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ یعنی توحید۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ہمدردی نوع انسان کرو اور ان کے لئے وہ چاہو جو اپنے لئے۔ سو ان دو حصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی زورؔ کو چاہتا تھا۔ اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ ہے یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے اس پر حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا۔ پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں۔ اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزارہا بے گناہوں کو وحشیوں نے تہِ تیغ کر دیا تھا۔ اور پھر دوسری طرف حقوقِ خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہئے وہ مسیح ہی ہے اور اس قدر غلو ہو گیا کہ اگرچہ اُن کے نزدیک عقیدہ کے رو سے تین اقنوم ہیں لیکن عملی طور پر دُعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح۔ یہ دونوں پہلو اتلافِ حقوق کے یعنی حق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا پہلو اپنے غلو میں انتہائی درجہ تک جاپہنچا ہے۔ سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/28/mode/1up

28

اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کرکے بھیجا ایسا ہی اُس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا۔ سو میں ان معنوں کرکے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی۔ مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا۔ اور اس کا خلیفہ اور صدق اوررا ستبازی کو اختیار کرنے والا۔ اور مہدی ایک لقب ہے ؔ جو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتًا ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل۔ سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ وبروز محمدؐ۔ غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے۔ عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے۔ آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے* جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اُسی روز سے اُس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعًا حرام ہے کیونکہ مسیح آچکا ۔ خاص کر میری تعلیم

* اگرچہ خاص آدمی جو علم اور فہم سے کافی بہرہ رکھتے ہیں دس ہزار کے قریب ہوں گے مگر ہر ایک قسم کے لوگ جن میں ناخواندہ بھی ہیں تیس ہزار سے کم نہیں ہیں بلکہ شائد زیادہ ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/29/mode/1up

29

کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے اور یہ وہ صلح کاری کا جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے کہ اگر ایک لاکھ مولوی بھی چاہتا کہ وحشیانہ جہادوں کے روکنے کے لئے ایسا پُر تاثیر سلسلہ قائم کرے تو اس کے لئے غیر ممکن تھا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹا رہی ہے کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی اور وحشیانہ جہاد کرنے والے اپنا چولہ بدل لیں گے۔

اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کےؔ ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی۔ سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے۔ وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں۔ میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں اور میرے پر ظاہر کیا گیاکہ جو کچھ مسیح کی نسبت دنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے۔ خدانے اپنے زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اُس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اُس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دُعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/30/mode/1up

30

قبولیت کا علم دیئے جانا یااور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا گووہ مشرقی ہویا مغربی یہ وہ دو نشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں تا ان کے ذریعہ سے ؔ اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو کھینچوں جو درحقیقت ہماری رُوحوں اور جسموں کا خدا ہے جس کی طرف ایک دن ہر ایک کا سفر ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیز نہیں جس میں الٰہی طاقت نہیں۔ تمام نبیوں نے سچے مذہب کی یہی نشانی ٹھہرائی ہے کہ اُس میں الٰہی طاقت ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ دونوں نام جو خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر فرمائے یہ صرف چند روز سے نہیں ہیں بلکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں جس کو شائع کئے قریباً بیس برس گذرگئے یہ دونوں نام خدا تعالیٰ کے الہام میں میری نسبت ذکر فرمائے گئے ہیں یعنی عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی تا میں ان دونوں گروہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو وہ پیغام پہنچا دوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ کاش اگر دلوں میں طلب ہوتی اور آخرت کے دن کا خوف ہوتا تو ہر ایک سچائی کے طالب کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ مجھ سے تسلی پاتا۔ سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو میں اس بات کا گواہ رویت ہوں کہ ایسا مذہب توحید کا مذہب ہے جو اسلام ہے جس میں مخلوق کو خالق کی جگہ نہیں دی گئی۔ اور عیسائی مذہب بھی خدا کی طرف سے تھا مگر افسوس کہ اب وہ اس تعلیم پر قائم نہیں اور اس زمانہ کے مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ وہ شریعت کے اس دوسرے حصہ سے محروم ہو گئے ہیں جو ہمدردئ نوع انسان اور محبت اور خدمت پر موقوف ہے اور وہ توحید کا دعویٰ کرکے پھر ایسے وحشیانہ اخلاق میں مبتلا ہیں جو قابل شرم ہیں۔ میں نے بارہا کوشش کی جو ان کو ان عادات سے چھڑاؤں لیکن افسوس کہ بعض ایسی تحریکیں ان کو پیش آجاتی ہیں کہ جن سے وحشیانہ جذبات ان کے زندہ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ بعض کم سمجھ پادریوں کی تحریرات ہیں جو زہریلا اثر رکھتی ہیں۔ مثلاً پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور صفدر علی کیؔ کتابیں اور امہات المومنین



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/31/mode/1up

31

اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت درجہ کی توہین اورتکذیب سے پُر ہیں۔ یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبر اور حلم سے اعلیٰ درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آجائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کی عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہوگی۔ اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطرناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحب یہ رائے ظاہر کرتے ہیں اور گذشتہ دنوں میں مَیں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدر سخت تھا ۔ان تحریروں سے میرا مدعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش رُک جائے۔ سو اگرچہ ان حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا اور وہ ایسے رنگ کا جواب پاکر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریریں نکلتی رہتی ہیں کہ جو زُود رنج اور تیز طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ نہایت خوفناک کارروائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے گویا وہ ان کو جہاد کی رسم یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اور پھر تیز تحریریں نکال کر اُن میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں نہ معلوم کہ یہ لوگ کیسے سیدھے ہیں کہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان دونوں طریقوں کے ملانے سے ایک خوفناک نتیجہ کا احتمال ہے۔ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف ہر گز جہاد کی تعلیم نہیں دیتا۔ اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میںؔ بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے اُن پر تلوار اُٹھائی اور اُنہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں۔سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/32/mode/1up

32

نہیں تھا اور اسلام اُن بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ وار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں۔ اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کو تحریک دینا چاہتا ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مد نظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے جس کتاب میںیہ آیت اب تک موجود ہے کہ 3 ۱؂ یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔ کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے۔ غرض اس جگہ ہم مولویوں کا کیا شکوہ کریں خود پادری صاحبوں کا ہمیں شکوہ ہے کہ وہ راہ انہوں نے اختیار نہیں کی جو درحقیقت سچی تھی اور گورنمنٹ کے مصالح کے لئے بھی مفید تھی۔ اسی درد دل کی وجہ سے میں نے جناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے۔ لیکن اب تک اُن درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی۔ لہٰذا اب بارسوم ۳ حضور ممدوح میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ کم سے کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائے اور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرے کہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کر دیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتا ہے اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لئے بطور یاد دہانی ہو کر بھو ؔ لے ہوئے جوش اس کو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/33/mode/1up

33

یاد دلا دیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھہرتا ہے۔ سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کر دے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذاہب پر ہر گز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہر ناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوو نما پا رہا ہے جلد تر مفقود ہو جائے گا اور یہ کارروائی گورنمنٹ کی قابل تحسین ٹھہر کر سرحدی لوگوں پر بھی بے شک اثر ڈالے گی اور امن اور صلح کاری کے نتیجے ظاہر ہوں گے۔ آسمان پر بھی یہی منشاء خدا کا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ و جدل کے طریق موقوف ہوں اور صلح کاری کے طریق اور باہمی محبت کی راہیں کھل جائیں۔ اگر کسی مذہب میں کوئی سچائی ہے تو وہ سچائی ظاہر کرنی چاہئے نہ یہ کہ دوسرے مذاہب کی عیب شماری کرتے رہیں۔ یہ تجویز جو میں پیش کرتا ہوں اس پر قدم مارنا یا اس کو منظور کرنا ہر ایک حاکم کا کام نہیں ہے بڑے پُر مغز حکام کا یہ منصب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے عالی جاہ نواب معلی القاب وائسرائے بہادر کرزن صاحب بالقابہ اپنی وسعت اخلاق اور موقع شناسی کی قوت سے ضرور اس درخواست پر توجہ فرمائیں گے اور اپنی شاہانہ ہمت سے اس پیش کردہ تجویز کو جاری فرمائیں گے اور اگر یہ نہیں تو اپنے عہد دولت مہد میں اسی قدر خدا کے لئے کارروائی کرلیں کہ خود بدولت امتحان کے ذریعہ سے آزمالیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے یعنی تمام مسلمانوں آریوں سکھوں سناتن دھرموں* عیسائیوں برہموؤں یہودیوں وغیرہ فرقوں کے نامی علماء کے نام یہ احکام جاری ہوں کہ اگر اُن کے مذہب میں کوئی الٰہی طاقت ہے خواہ وہ پیشگوئی کی قسم سے ہو یا اور قسم سے وہ دکھائیں۔ اور پھر جس مذہب میں وہ زبردست طاقت جو طاقت بالا ہے ثابت ہو جائے ایسے مذہب کو قابل تعظیم اور سچا سمجھا جائے۔ اور چونکہ مجھے آسمان سے اِس

* سہوًا ایسا لکھا گیا ہے درست ’’سناتن دھرمیوں ‘‘ہے۔(ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- گورنمنٹ انگریزی اور جہاد: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/34/mode/1up

34

کام کے لئے رُوح ملی ہے اس لئے میں اپنی تمام جماعت کی طرف سے سب سے پہلے یہ درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لئے دوسرے فریقوں کے مقابل پر مَیں طیار ہوں اور ساتھ ہی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے جس کے زیر سایہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہو کر ایسی درخواستیں خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کریں۔والسلام۔ ۷؍جولائی۱۹۰۰ء ؁

الملتمس خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیاں

مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
 
Top