• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 18 ۔دافع البلاء ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 18. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


تنبیہ

جس پیغام کو ہم اِس وقت اپنے عزیزانِ ملک کے پاس اِس رسالہ کے ذریعہ سے پہنچانا چاہتے ہیں اُس کی نسبت ہمیں انبیاء علیہم السلام کے قدیم تجربہ کے رُو سے یہ ثابت ہے کہ سرِدست اِس ہماری ہمدردی کا قدر یہی ہو گا کہ پھر دوبارہ ہم اسلام کے مولویوں اور عیسائی مذہب کے پادریوں اور ہندو مذہب کے پنڈتوں سے گالیاں سُنیں اور طرح طرح کے رنج دہ خطابوں سے یاد کئے جاویں اور ہمیں پہلے سے خوب معلوم ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ لیکن ہم نے نوع انسان کی ہمدردی کو اِس بات سے مقدم رکھا ہے۔ کہ عام بد زبانی سے ہم ستائے جائیں کیونکہ باوجود اس کے یہ بھی احتمال ہے کہ ان صد ہا اور ہزار ہا گالیاں دینے والوں میں سے بعض ایسے بھی پیدا ہوجائیں کہ ایسے وقت میں کہ جب آسمان پر سے ایک آگ برس رہی ہے بلکہ اگلے جاڑے میں تو اور بھی زیادہ برسنے کی توقع ہے۔ اِس رسالہ کو غور سے پڑھیں اور اِس اپنے ناصح شفیق پر جلد ناراض نہ ہوں۔ اور جس نسخہ کو وہ پیش کرتا ہے اُس کو آزما لیں۔ کیونکہ اس ہمدردی کے صلہ میں کوئی اُجرت یا پاداش اُن سے طلب نہیں کی گئی۔ محض سچے خلوص اور نیک نیتی سے انسانوں کی جان چھوڑانے کے لئے ایک آزمودہ اَور پاک تجویز پیش کی گئی ہے۔ پس جس حالت میں لوگ بیماریوں میں علاج کی غرض سے بعض جانوروں کا پیشاب بھی پی لیتے ہیں اور بہت سی پلید چیزوں کو استعمال کر لیتے ہیں۔ تو اِس صُورت میں اُن کا کیا حرج ہے کہ اپنی جانؔ چھوڑانے کے لئے اِس پاک علاج کو اپنے لئے اختیار کر لیں اَور اگر وہ نہیں کریں گے تب بھی بہر حال اِس مقابلہ کے وقت میں ایک دِن اُن کو معلوم ہو گا کہ ان تمام مذاہب میں سے کون سا ایسا مذہب ہے جس کا شفاعت کرنا اور منجی کے بزرگ لفظ کا مصداق ہونا ثابت ہو سکتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


سچے منجی کو ہر ایک شخص چاہتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے۔ پس بلا شبہ اب دِن آگئے ہیں کہ ثابت ہو کہ سچا منجی کون ہے۔ ہم مسیح ابن مریم کو بے شک ایک راستباز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر * لوگوں سے البتہ اچھا تھا۔ واﷲ اعلم۔ مگر وہ حقیقی منجی نہیں تھا۔ یہ اُس پر تہمت ہے کہ وہ حقیقی منجی تھا۔ حقیقی منجی ہمیشہ اور

* یاد رہے کہ یہ جو ہم نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے بہت لوگوں کی نسبت اچھے تھے۔ یہ ہمارا بیان محض نیک ظنّی کے طور پر ہے ورنہ ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے وقت میں خدا تعالیٰ کی زمین پر بعض راستباز اپنی را ستبازی اور تعلق باﷲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی افضل اور اعلیٰ ہوں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کی نسبت فرمایاؔ ہے 3 ۱؂ جس کے یہ معنی ہیں کہ اُس زمانہ کے مقربوں میں سے یہ بھی ایک تھے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سب مقربوں سے بڑھ کر تھے بلکہ اس بات کا امکان نکلتا ہے کہ بعض مقرب اُن کے زمانہ کے اُن سے بہتر تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آئے تھے اور دُوسرے ملکوں اور قوموں سے اُن کو کچھ تعلق نہ تھا۔ پس ممکن بلکہ قریب قیاس ہے کہ بعض انبیاء جو 33۲؂میں داخل ہیں وہ اُن سے بہتر اور افضل ہوں گے۔ اور جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابل پر آخر ایک انسان نِکل آیا جس کی نسبت خدا نے 3 ۳؂ فرمایا تو پھر حضرت عیسیٰ کی نسبت جو موسیٰ سے کمتر اور اُس کی شریعت کے پَیرو تھے اور خود کوئی کامل شریعت نہ لائے تھے اور ختنہ اور مسائل فقہ اور وراثت اور حرمت خنزیر وغیرہ میں حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع تھے کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ بالاطلاق اپنے وقت کے تمام راستبازوں سے بڑھ کر تھے۔ جن لوگوں نے اُن کو خدا بنایا ہے جیسے عیسائی یا وہ جنہوں نے خواہ نخواہ خدائی صفات اُنہیں دی ہیں جیسا کہ ہمارے مخالف اور خدا کے مخالف نام کے مسلمان وہ اگر اُن کو اُوپر اُٹھاتے اُٹھاتے آسمان پر چڑھا دیں یا عرش پر بٹھا دیں یا خدا کی طرح پرندوں کا پَیدا کرنے والا قرار دیں تو اُن کو اختیار ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


قیامت تک نجات کا پھل کھلانے والا وہ ہے جو زمینِ حجاز میں پیدا ہوا تھا اور تمام دنیا اور تمام زمانوں کی نجات کے لئے آیا تھا اور اب بھی آیا مگر بروز کے طور پر ۔ خدا اُس کی برکتوں سے تمام زمین کو متمتع کرے۔ آمین

خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں

انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے۔ لیکن مسیح کی راستبازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سُنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آ کر اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اُس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حَصُور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصّے اِس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔ اور پھر یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یحییٰ کے ہاتھ پر جس کو عیسائی یوحنّا کہتے ہیں جو پیچھے ایلیا بنایا گیا اپنے گناہوں سے توبہ کی تھی اور اُن کے خاص مُریدوں میں داخل ہوئے تھے۔ اور یہ بات حضرت یحییٰ کی فضیلت کو ببداہت ثابت کرتی ہے کیونکہ بمقابل اس کے یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ یحییٰ نے بھی کسی کے ہاتھ پر توبہ کی تھی۔ پس اُس کا معصوم ہونا بدیہی امر ہے اور مسلمانوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عیسیٰ اور اُس کی ماں مسِ شیطان سے پاک ہیں اس کے معنے نادان لوگ نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ پلیدیہودیوں نے حضرت عیسیٰ اور اُن کی ماں پر سخت ناپاک الزام لگائے تھے اور دونوں کی نسبت نعوذ باﷲ شیطانی کاموں کی تہمت لگاتے تھے۔ سو اِس افترا کا ردّ ضروری تھا۔ پس اس حدیث کے اِس سے زیادہ کوئی معنے نہیں کہ یہ پلید الزام جوحضرت عیسیٰ اور اُن کی ماں پر لگائے گئے ہیں یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ان معنوں کر کے وہ مسِ شیطان سے پاک ہیں اور اس قسم کے پاک ہونے کا واقعہ کسی اور نبی کو کبھی پیش نہیں آیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


3

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

طاعون

چو آمد از خدا طاعوں بہ بیں از چشم اکرا مش


تو خود ملعونی اے فاسق چراملعوں نہی نامش

زمانِ توبہ و وقتِ صلاح و ترک خبث است ایں


کسے کو بر بدی چسپد نہ بینم نیک انجامش


اس ہولناک مرض کے بارے میں جو مُلک میں پھیلتی جاتی ہے لوگوں کی مختلف رائیں ہیں۔ ڈاکٹر لوگ جن کے خیالات فقط جسمانی تدابیرتک محدود ہیں اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمین میں محض قدرتی اسباب سے ایسے کیڑے پَیدا ہو گئے ہیں کہ اوّل چوہوں پر اپنا بد اثر پہنچاتے ہیں*۔ اور پھر انسانوں میں سلسلہ موت کا جاری ہو جاتا ہے۔ اور مذہبی خیالات سے اِس بیماری کو کچھ تعلق نہیں بلکہ چاہیئ کہ اپنے گھروں اور نالیوں کو ہر ایک قسم کی گندگی اور عفونت سے بچاویں اور صاف رکھیں اور فنائل وغیرہ کے ساتھ پاک کرتے رہیں اور مکانوں کو آگ سے گرم رکھیں اور ایسا بناویں جن میں ہوا بھی پہنچ سکے اور روشنی بھی۔ اور کسی مکان میں اس قدر لوگ نہ رہیں کہ اُن کے منہ کی بھاپ اور پاخانہ پیشاب وغیرہ سے کیڑے بکثرت پیدا ہو جائیں۔ اور ردّی غذائیں نہ کھائیں۔ اور سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ ٹیکا کرا لیں۔ اور اگر مکانوں میں چوہے مُردہ پاویں تو اُن مکانوں کو چھوڑ دیں۔ اور بہتر ہے کہ باہر کھلے میدانوں میں رہیں اور میلے کچیلے کپڑوں سے پرہیز کر یں۔ اور اگر کوئی شخص کسی متأثر اور آلودہ مکان سے اُن کے شہریا گاؤں میں آوے تو اُس کو اندر

* حاشیہ ۔ طبابت کے قواعد کے رُو سے طاعون کی بیماری کی شناخت کے لئے ضروری ہے کہ جس بد قسمت گاؤں یا شہر میں یا اُس کے کسی حصہ میں یہ مہلک بیماری پھوٹ پڑے اُس میں کئی روزپہلے اُس سے مَرے ہوئے چوہے پائے جائیں۔ پس اگر مثلاً محض تپ سے کسی گاؤں میں چند موت کی وارداتیں ہو جائیں اور چوہے مرتے نہ دیکھے جائیں تو وہ طاعون نہیں ہے بلکہ محرقہ کی قسم کا ایک مہلک تپ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نہ آ ؔ نے دیں۔ اور اگر کوئی ایسے گاؤں یا شہر کا اس مرض سے بیمار ہو جائے تو اُس کو باہر نکالیں اور اُس کے اختلاط سے پرہیز کریں۔ پس طاعون کا علاج اُن کے نزدیک جو کچھ ہے یہی ہے ۔ یہ تو دانشمند ڈاکٹروں اور طبیبوں کی رائے ہے جس کو ہم نہ تو ایک کافی اور مستقل علاج کے رنگ میں سمجھتے ہیں اور نہ محض بے فائدہ قرار دیتے ہیں۔ کافی اور مستقل علاج اس لئے نہیں سمجھتے کہ تجربہ بتلا رہا ہے کہ بعض لوگ باہر نکلنے سے بھی مَرے ہیں اور بعض صفائی کا التزام رکھتے رکھتے بھی اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور بعض نے بڑی اُمید سے ٹیکا لگوایا اور پھر قبر میں جا پڑے۔ پس کون کہہ سکتا ہے یا کون ہمیں تسلی دے سکتا ہے کہ یہ تمام تدبیریں کافی علاج ہیں بلکہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ گو یہ تمام طریقے کسی حد تک مفید ہیں لیکن یہ ایسی تدبیر نہیں ہے جس کو طاعون کو مُلک سے دفع کرنے کے لئے پوری کامیابی کہہ سکیں۔

اِسی طرح یہ تدبیریں محض بے فائدہ بھی نہیں ہیں کیونکہ جہاں جہاں خدا کی مرضی ہے وہاں وہاں اِس کا فائدہ بھی محسوس ہو رہا ہے مگر وہ فائدہ کچھ بہت خوشی کے لائق نہیں مثلاً گو سچ ہے کہ اگر مثلاً سو آدمی نے ٹیکا لگوایا ہے اور دوسرے اسی قدر لوگوں نے ٹیکا نہیں لگوایا ہے تو جنہوں نے ٹیکا نہیں لگوایا اُن میں موتیں زیادہ پائی گئیں اور ٹیکا والوں میں کم لیکن چونکہ ٹیکے کا اثر غایت کار دو۲ مہینے یا تین مہینے تک ہے، اس لئے ٹیکے والا بھی بار بار خطرہ میں پڑے گا جب تک اِس دُنیا سے رخصت نہ ہو جائے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ جو لوگ ٹیکا نہیں لگواتے وہ ایک ایسے مرکب پر سوار ہیں کہ جو مثلاً چوبیس گھنٹہ تک اُن کو دارالفناء تک پہنچا سکتا ہے۔ اور جو لوگ ٹیکا لگواتے ہیں وہ گویا ایسے آہستہ رو ٹٹوپر چل رہے ہیں کہ جو چوبیس دِن تک اُسی مقام میں پہنچا دے گا۔ بہر ؔ حال یہ تمام طریقے جو ڈاکٹری طور پر اختیار کئے گئے ہیں نہ تو کافی اور پورے تسلی بخش ہیں اور نہ محض نکمّے اور بے فائدہ ہیں اور چونکہ طاعون جلد جلد مُلک کو کھاتی جاتی ہے اِس لئے بنی نوع کی ہمدردی اِسی میں ہے کہ کسی اور طریق کو سوچا جائے جو اِس تباہی سے بچا سکے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور مسلمان لوگ جیسا کہ میاں شمس الدین سکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور کے اشتہار سے سمجھا جاتا ہے جس کو اُنہوں نے ماہ حال یعنی اپریل ۱۹۰۲ء میں شایع کیا ہے اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام فرقے مسلمانوں کے شیعہ سُنّی مقلّد اور غیر مقلّد میدانوں میں جا کر اپنے اپنے طریقہ مذہب میں دُعائیں کریں اور ایک ہی تاریخ میں اکٹھے ہو کر نماز پڑھیں تو بس یہ ایسا نسخہ ہے کہ معاً اس سے طاعون دُور ہو جائے گی مگر اکٹھے کیونکر ہو ں اِس کی کوئی تدبیر نہیں بتلائی گئی۔ظاہر ہے کہ فرقہ وہابیہ کے مذہب کے رُو سے تو بغیر فاتحہ خوانی کے نماز درست ہی نہیں پس اس صورت میں اُن کے ساتھ حنفیوں کی نماز کیونکر ہو سکتی ہے۔ کیا باہم فساد نہیں ہوگا۔ ما سوا اس کے اس اشتہار کے لکھنے والے نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ ہندو اِس مرض کے دفع کے لئے کیا کریں۔ کیا اُن کو اجازت ہے یا نہیں کہ وہ بھی اس وقت اپنے بتوں سے مدد مانگیں ۔اور عیسائی کس طریق کو اختیارکریں۔ اور جو فرقے حضرت حسین یا علی رضی اﷲ عنہ کو قاضی الحاجات سمجھتے ہیں اور محرم * میں تعزیوں پر ہزاروں درخواستیں مرادوں کے لئے گزارا کرتے ہیں اور یا جو مسلمان سیّدعبدالقادر جیلانی کی پوجا کرتے ہیں یا جو شاہ مدار یا سخی سرور کو پوجتے ہیں وہ کیا کریں اور کیا اب یہ تمام فرقے دُعائیں نہیں کرتے بلکہ ہر ایک فرقہ خوفزدہ ہو کر اپنے اپنے معبود کو پکار رہا ہے۔ شیعوں کے محلوں کی سیر کروکوئی ایسا گھر نہیں ہو گا جس کے دروازہ پر یہ شعر چسپاں نہیں ہو گا:۔

لِیْ خَمْسَۃٌ اُطْفِیْ بھَا حَرَّ الْوَبَاءِ الحَاطِمَہ

اَلْمُصْطَفٰی وَالْمُرْتَضٰی وَ ابْنَاھُمَا وَالْفَاطِمَہ

میرؔ ے اُستاد ایک بزرگ شیعہ تھے۔ اُن کا مقولہ تھا کہ وباء کا علاج فقط تَولَّا اور تَبَرّٰی ہے۔

* حاشیہ یہ محرم کا مہینہ بڑا مبارک مہینہ ہے ۔ ترمذی میں اس کی فضیلت کی نسبت آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ حدیث لکھی ہے کہ فیہ یوم تاب اﷲ فیہ علٰی قومٍ ویتوب فیہ علٰی قوم اٰ خرین یعنی محرم میں ایک ایسا دن ہے جس میں خدا نے گزشتہ زمانہ میں ایک قوم کو بلا سے نجات دی تھی اور مقدر ہے کہ ایسا ہی اسی مہینہ میں ایک بلا سے ایک اور قوم کو نجات ملے گی ۔ کیا تعجب کہ اس بلا سے طاعون مراد ہو اور خدا کے مامور کی اطاعت کر کے وہ بلا مُلک سے جاتی رہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یعنی ائمہ اہل بیت کی محبت کو پرستش کی حد تک پہنچا دینا اور صحابہ رضی اﷲ عنہم کو گالیاں دیتے رہنا اس سے بہتر کوئی علاج نہیں اور مَیں نے سُنا ہے کہ بمبئی میں جب طاعون شروع ہوئی ہے تو پہلے لوگوں میں یہی خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام حسین کی کرامت ہے کیونکہ جن ہندوؤں نے شیعہ سے کچھ تکرار کیا تھا اُن میں طاعون شروع ہو گئی تھی۔ پھر جب اسی مرض نے شیعہ میں بھی قدم رنجہ فرمایا تب تو یا حسین کے نعرے کم ہو گئے۔

یہ تو مسلمانوں کے خیالات ہیں جو طاعون کے دُور کرنے کے لئے سوچے گئے ہیں۔ اور عیسائیوں کے خیالات کے اظہار کے لئے ابھی ایک اشتہار پادری وائٹ بریخت صاحب اور اُن کی انجمن کی طرف سے نکلا ہے اور وہ یہ کہ طاعون کے دُور کرنے کے لئے اور کوئی تدبیر کافی نہیں بجز اس کے کہ حضرت مسیح کو خدا مان لیں اور اُن کے کفارہ پر ایمان لے آویں۔

اور ہندوؤں میں سے آریہ دھرم کے لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بلائے طاعون ویدکے ترک کرنے کی وجہ سے ہے۔ تمام فرقوں کو چاہیئ کہ ویدوں کی ستّ وِدّیا پر ایمان لاویں اور تمام نبیوں کو نعوذ باﷲ مُفتری قرار دے دیں تب اِس تدبیر سے طاعون دُور ہو جائے گی۔

اور ہندوؤں میں سے جو سناتن دھرم فرقہ ہے اُس فرقہ میں دفع طاعون کے بارے میں جو رائے ظاہر کی گئی ہے اگر ہم پرچہ اخبار عام نہ پڑھتے تو شاید اس عجیب رائے سے بے خبر رہتے اور وہ رائے یہ ہے کہ یہ بلائے طاعون گائے کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر گورنمنٹ یہ قانون پاس کر دے کہ اِس مُلک میں گائے ہرگز ہر گز ذبح نہ کی جائے تو پھر دیکھئے کہ طاعون کیونکر دفع ہو جاتی ہے۔ بلکہ اسی اخبار میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک شخص نے گائے کو بولتے سُنا کہ وہ کہتی ہے کہ میرؔ ی وجہ سے ہی اِس ملک میں طاعون آیا ہے۔

اب اے ناظرین خود سوچ لو کہ اس قدر متفرق اقوال اور دعاوی سے کس قول کو دُنیا کے آگے صریح اور بدیہی طور پر فروغ ہو سکتا ہے۔ یہ تمام اعتقادی امور ہیں اور اِس نازک وقت میں جب تک کہ دنیا اِن عقائد کا فیصلہ کرے خود دنیا کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس لئے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/225/mode/1up


وہ بات قبول کے لائق ہے جو جلد تر سمجھ میں آ سکتی ہے اور جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت رکھتی ہے سو مَیں وہ بات مع ثبوت پیش کرتا ہوں۔ چار سال ہوئے کہ مَیں نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے اور مَیں نے اِس ملک میں طاعون کے سیاہ درخت دیکھے ہیں جو ہر ایک شہر اور گاؤں میں لگائے گئے ہیں۔ اگر لوگ توبہ کریں تو یہ مرض دو جاڑہ سے بڑھ نہیں سکتی خدا اِس کو رفع کر دے گا۔ مگر بجائے توبہ کے مجھ کو گالیاں دی گئیں اور سخت بد زبانی کے اشتہار شائع کئے گئے جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جو اَب دیکھ رہے ہو۔ خدا کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی۔ اس کی یہ عبارت ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مآ بِاَنْفُسِہِمْ اِنَّہٗ اَوَی الْقَرْیَۃَ۔ یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اِس بلائے طاعون کو ہر گز دُور نہیں کرے گا جب تک لوگ اُن خیالات کو دُور نہ کر لیں جو اُن کے دِلوں میں ہیںیعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دُور نہیں ہو گی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی* سے محفوظ رکھے گا تا تم

* حاشیہ اَوٰیعربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں تباہی اور انتشار سے بچانا اور اپنی پناہ میں لے لینا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طاعون کی قسموں میں سے وہ طاعون سخت بربادی بخش ہے جس کا نام طاعون جارف ہے۔ یعنی جھاڑو دینے والی جس سے لوگ جابجا بھاگتے ہیں اور کتّوں کی طرح مرتے ہیں۔ یہ حالت انسانی برداشت سے بڑھ جاتی ہے۔ پس اس کلام الٰہی میں یہ وعدہ ہے کہ یہ حالت کبھی قادیاں پر وارد نہیں ہو گی۔ اسی کی تشریح یہ دوسرا الہام کرتا ہے کہ لولا الاکرام لھلک المقام۔ یعنی اگرمجھے اس سلسلہ کی عزّت ملحوظ نہ ہوتی تو میں قادیاں کو بھی ہلاک کر دیتا۔ اس الہام سے دو باتیں سمجھی جاتی ہیں (۱) اوّل یہ کہ کچھ حرج نہیں کہ انسانی برداشت کی حد تک کبھی قادیاں میں بھی کوئی واردات شاذو نادر طور پر ہو جائے جو بربادی بخش نہ ہو اور موجب فرار و انتشار نہ ہو کیونکہ شاذو نادر معدوم کا حکم رکھتا ہے۔ (۲)دُوسری یہ کہ یہ امر ضروری ہے کہ جن دیہات اور شہروں میں بمقابلہ قادیان کے سخت سرکش اور شریر اورظالم اور بدچلن اور مفسد اور اس سلسلہ کے خطرناک دشمن رہتے ہیں اُن کے شہروں یا دیہات میں ضرور بردباری بخش طاعون پھوٹ پڑے گی یہاں تک کہ لوگ بے حواس ہو کر ہر طرف بھاگیں گے ہم نے اَوَی کا لفظ جہاں تک وسیع ہے اُس کے مطابق یہ معنے کر دئیے ہیں اور ہم دعوے سے لکھتے ہیں کہ قادیاں میں کبھی طاعون جارف نہیں پڑے گی جو گاؤں کو ویران کرنے والی اور کھا جانے والی ہوتی ہے مگر اس کے مقابل پردُوسرے شہروں اور دیہات میں جو ظالم اور مفسد ہیں ضرور ہولناک صورتیں پیدا ہوں گی۔ تمام دُنیا میں ایک قادیاں ہے جس کے لئے یہ وعدہ ہوا۔ فالحمد ﷲ علٰی ذالک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/226/mode/1up


سمجھو کہ قادیان اِسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔ اَب دیکھو تین برس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ دونوں پہلو پورے ہو گئے یعنی ایک طرف تمام پنجاب میں طاعون پھیل گئی اور دوسری طرف باوجود اس کہ کے قادیاں کے چاروں طرف دو۲ دو ۲ میل کے فاصلہ پر طاعون کا ؔ زور ہو رہا ہے مگر قادیاں طاعون سے پاک ہے بلکہ آج تک جو شخص طاعون زدہ باہر سے قادیاں میں آیا وہ بھی اچھا ہو گیا۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت ہو گا کہ جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں بلکہ طاعون کی خبر آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بھی دی گئی ہے*اور یہ علم غیب بُجز خدا کے کسی اور کی طاقت میں نہیں۔ پس اِس بیماری کے دفع کے لئے وہ پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے وہ

یہی ہے کہ لوگ مجھے سچے دل سے مسیح موعود مان لیں۔ اگر میری طرف سے بھی بغیر کسی دلیل کے صرف دعویٰ ہوتا ۔ جیسا کہ میاں شمس الدین سکریٹری حمایت اسلام لاہور نے اپنے اشتہار میں یا پادری وائٹ بریخت صاحب نے اپنے اشتہار میں کیا ہے تو مَیں بھی ان کی طرح ایک فضول گو ٹھہرتا لیکن میری وہ باتیں ہیں جن کو مَیں نے قبل از وقت بیان کیا اور آج وہ پوری ہو گئیں اور پھر اس کے بعد ان دنوں میں بھی خدا نے مجھے خبر دی۔ چنانچہ وہ عزّ وجلّ فرماتا ہے:۔

ما کان اللّٰہ لیعذّبھم و انت فیھم انہ اوی القریۃ۔ لولا الاکرام لھلک المقام۔

*حاشیہ۔آج سے دس برس پہلے ایک سبز اشتہار میں جو میری طرف سے شائع ہوا تھا طاعون کی خبر دی گئی تھی اور وہ یہ ہے۔ اصنع الفلک باعیننا و وحینا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق ایدیہم یعنی ایک کشتی میرے حکم اور آنکھوں کے رُو برو بنا جو آنے والی مَری سے بچائے گی جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ مجھ سے بیعت کرتے ہیں یہ تیراہاتھ نہیں بلکہ میرا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھوں پر رکھا جاتا ہے اور اسی کلام الہٰی کا ایک فقرہ براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ ہے۔ ولا۔تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون یعنی جو لوگ ظلم اور سر کشی اور بد کاری اور نافرمانی سے باز نہیں آتے میرے آگے اُن کی کچھ شفاعت نہ کر کیونکہ وہ غرق کئے جاویں گے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/227/mode/1up


انی انا الرحمٰن دافع الاذی۔ انی لا یخاف لديّ المرسلون۔ انی حفیظ۔ انی مع الرسول اقوم۔ والوم من یلوم۔ افطر و اصوم۔ غضبت غضبًا شدیدًا۔ الامراض تشاع۔ والنفوس تضاع۔ الا الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولٰئک لھم الا من و ھم مھتدون۔ انّا نأتی الارض ننقصھا من اطرافھا۔ انی اجھزالجیش فاصبحوا فی دارھم جاثمین۔ سنریھم اٰیتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم نصر من اللّٰہ و فتح مبین۔ انی بایعتک بایعنی ربّی۔ انت منّی بمنزلۃ اولادی* انت منّیؔ و انا منک۔ عسٰی ان یبعثک ربّک مقامًا محمودًا۔ الفوق معک والتحت مع اعداء ک فاصبر حتّٰی یأتی اﷲ بأمرہ۔ یأتی علی جھنم زمان لیس فیھا احد۔ ترجمہ۔ خدا ایسا نہیں کہ قادیاں کے لوگوں کو عذاب دے حالانکہ تو اُن میں رہتا ہے۔ وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست برد اور اس کی تباہی سے بچالے گا۔ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مدِّ نظر نہ ہوتا تو میں اِس گاؤں کو ہلاک کر دیتا۔ مَیں رحمان ہوں جو دُکھ کو دُور کرنے والا ہے۔ میرے رسولوں کو میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں مَیں نگہ رکھنے والا ہوں۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اُس کو ملامت کروں گا جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے ۔مَیں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو

* یاد رہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے نہ اُس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کوؔ حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ مَیں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں ۔لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا 3 ۱؂ ایسا ہی بجائے قل یا عباد اللّٰہ کے 3۲؂ بھی کہا اور یہ بھی فرمایا 3 ۳؂ پس اُس خدا کے کلام کو ہشیاری اور احتیاط سے پڑھواور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت حوالہ بخدا کرو اور یقین رکھو کہ خدا ا تخاذ ولدسے پاک ہے تا ہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پیروی کرو اور ہلاک ہو جاؤ۔اور میری نسبت بیّنات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ قل انّما انا بشر مثلکم یُوحٰی اليّ انّما الٰھکم اٰلہ واحد والخیرکلہ فی القراٰن ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/228/mode/1up


میں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصّہ برسؔ کا مَیں روزہ رکھوں گا۔ یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی۔ میرا غضب بھڑک رہا ہے بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہو ں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور ایمان میں کچھ نقص نہیں ہو گا وہ امن میں رہیں گے اور اُن کو مَخلصی کی راہ ملے گی۔ یہ خیال مت کرو کہ جرائم پیشہ بچے ہوئے ہیں ہم اُن کی زمین کے قریب آتے جاتے ہیں۔ میں اندر ہی اندر اپنا لشکر طیار کر رہا ہوں یعنی طاعونی کیڑوں کو پرورش دے رہا ہوں پس وہ اپنے گھروں میں ایسے سو جائیں گے جیسا کہ ایک اُونٹ مر ا رہ جاتا ہے۔ ہم اُن کو اپنے نشان پہلے تو دُور دُور کے لوگوں میں دکھائیں گے اور پھر خود انہی میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے۔ مَیں نے تُجھ سے ایک خرید و فروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تُو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا مَیں مالک بن گیا۔ تُو بھی اس خرید و فروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خُدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد۔ تو مجھ میں سے ہے اور مَیں تجھ میں سے ہوں۔ وہ وقت قریب ہے کہ مَیں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمدو ثنا کرے گی۔ فوق تیرے ساتھ ہے اور تحت تیرے دشمنوں کے ساتھ۔ پس صبر کر جب تک کہ وعدہ کا دِن آ جائے۔ طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہو گا یعنی انجام کار خیرو عافیت ہے۔*

*حاشیہ۔ مدّت ہوئی کہ پہلے اس سے طاعون کے بارے میں حکایتاً عن الغیر خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی یا مسیح الخلق عدوانا۔ مگر آج کہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۲ء ہے اُسی الہام کو پھر اِس طرح فرمایا گیا یا مسیح الخلق عدوانا لن تریٰ من بعد موادنا و فسادنا۔ یعنی اے خدا کے مسیح جو مخلوق کی طرف بھیجا گیاہماری جلد خبر لے اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا تو اس کے بعد ہمارے خبیث مادوں کو نہیں دیکھے گا اور نہ ہمارا فساد کچھ فساد باقی رہے گا یعنی ہم سیدھے ہو جاویں گے اور گندہ دہانی اور بد زبانی چھوڑ دیں گے۔ یہ خدا کا کلام براہین احمدیہ کے اُس الہام کے مطابق ہے کہ آخری دنوں میں ہم لوگوں پر طاعون بھیجیں گے جیساکہ فرمایا کذالک مننّا علٰی یوسف لنصرف عنہالسوء و الفحشآء یعنی ہم طاعون کے ساتھ اس یوسف پر یہ احسان کریں گے کہ بد زبان لوگوں کا مُنہ بند کر دیں گے تا کہ وہ ڈر کر گالیوں سے باز آ جائیں۔ انہی دنوں کے متعلق خدا کا یہ کلام ہے جس میں زمین کی کلام سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/229/mode/1up


اب اس تمام وحی سے تین باتیں ثابت ہوئی ہیں(۱) اوّل یہ کہ طاعون دُنیا میں اس لئے آئی ہے کہ خدا کے مسیح موعود سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اُس کو دُکھ دیا گیا۔ اُس کے قتل کرنے کے لئے منصوبے کئے گئے۔ اُس کا نام کافر اور دجّال رکھا گیا۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑے۔ اس لئے اُسؔ نے آسمان اور زمین دونوں کو اس کی سچائی کا گواہ بنا دیا۔ آسمان نے کسوف خسوف سے گواہی دی جو رمضان میں ہوا۔ اور زمین نے طاعون کے ساتھ گواہی دی تا کہ خدا کا وہ کلام پورا ہو جو براہین احمدیہ میں ہے اور وہ یہ ہے۔ قل عندی شھادۃ من اﷲ فھل انتم تومنون۔ قل عندی شھادۃ من اﷲ فھل انتم تسلمون۔یعنی میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اور پھر مَیں کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں۔ پہلی گواہی سے مُراد آسمان کی گواہی ہے جس میں کوئی جبر نہیں۔ اس لئے اِس میں تؤمنون کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اور دُوسری گواہی زمین کی ہے۔ یعنی طاعون کی جس میں جبر موجود ہے کہ خوف دے کر اِس جماعت میں داخل کرتی ہے۔ اس لئے اس میں تُسلمون کا لفظ استعمال کیا گیا۔ (۲) دوسری بات جو اِس وحی سے ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ یہ طاعون اس حالت میں فرو ہوگی جب کہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے اور کم سے کم یہ کہ شرارت اور ایذا اور بد زبانی سے باز آ جائیں گے۔ کیونکہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں آخری دنوں میں طاعون بھیجوں گا تا کہ میں اُن خبیثوں اور شریروں کا مُنہ بند کر دوں جو میرے رسول کو گالیاں دیتے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ محض انکار اِس بات کا موجب

مجھے اطلاع دی گئی اور وہ یہ ہے یَا وَلِيَّ اﷲِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ یعنی اے خدا کے ولی مَیں اس سے پہلے تجھے نہیں پہچانتی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی اور اُس نے یہ کلام کیا کہ مَیں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تُو ولی الرحمان ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/230/mode/1up


نہیں ہوتا کہ ایک رسول کے انکار سے دُنیا میں کوئی تباہی بھیجی جائے بلکہ اگر لوگ شرافت اور تہذیب سے خدا کے رسولوں کا انکار کریں اور دست درازی اور بد زبانی نہ کریں تو اُن کی سزا قیامت میں مقرر ہے۔ اور جس قدر دنیامیں رسولوں کی حمایت میں مَرِی بھیجی گئی ہے وہ محض انکار سے نہیں بلکہ شرارتوں کی سزا ہے۔ اِسی طرح اب بھی جب لوگ بد زبانی اور ظلم اور تعدّی اور اپنی خباثتوں سے باز آ جائیں گے اور شریفانہ برتاؤ اُن میں پیدا ہو جائے گا۔ تب یہ تنبیہ اُٹھا لی جائے گی مگر اِس تقریب پر بہت سے سعاؔ دت مند خدا کے رسول کو قبول کر لیں گے اور آسمانی برکتوں سے حصّہ لیں گے اور زمین سعادتمندوں سے بھر جائے گی(۳) تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بہر حال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک رہے قادیاں کواس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اُس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لئے نشان ہے۔

اَب اگر خدا تعالیٰ کے اِس رسول اور اس نشان سے کسی کو انکار ہو اور خیال ہو کہ فقط رسمی نمازوں اور دعاؤں سے یا مسیح کی پرستش سے یا گائے کے طفیل سے یا ویدوں کے ایمان سے باوجود مخالفت اور دشمنی اور نا فرمانی اِس رسول کے طاعون دُور ہو سکتی ہے تو یہ خیال بغیر ثبوت کے قابل پذیرائی نہیں ۔ پس جو شخص ان تمام فرقوں میں سے اپنے مذہب کی سچائی کا ثبوت دینا چاہتا ہے تو اب بہت عمدہ موقع ہے۔ گویا خدا کی طرف سے تمام مذاہب کی سچائی یا کذب پہچاننے کے لئے ایک نمایش گاہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور خدا نے سبقت کر کے اپنی طرف سے پہلے قادیاں کا نام لے دیا ہے۔ اب اگر آریہ لوگ وید کو سچا سمجھتے ہیں تو اُن کو چاہیئ کہ بنارس کی نسبت جو وید کے درس کا اصل مقام ہے ایک پیشگوئی کر دیں کہ اُن کا پرمیشر بنارس کو طاعون سے بچا لے گا۔ اور سناتن دھرم والوں کو چاہیئ کہ کسی ایسے شہر کی نسبت جس میں گائیاں بہت ہوں مثلاً امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ گؤ کے طفیل اس میں طاعون نہیں آئے گی اگر اس قدر گؤ اپنا معجزہ دکھاوے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/231/mode/1up


تو کچھ تعجب نہیں کہ اِس معجزہ نما جانور کی گورنمنٹ جان بخشی کر دے۔ اِسی طرح عیسائیوں کو چاہیئ کہ کلکتہ کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ اس میں طاعون نہیں پڑے گی کیونکہ بڑا بشپ برٹش انڈیا کا کلکتہ میں رہتا ہے۔ اِسی طرح میاں شمس الدین اور اُن کی انجمن حمایت اسلام کے ممبروں کو چاہیئ کہ لاہور کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا۔ اور منشی الہٰیؔ بخش اکونٹنٹ جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کے لئے بھی یہی موقع ہے کہ اپنے الہام سے لاہور کی نسبت پیشگوئی کر کے انجمن حمایت اسلام کو مدد دیں۔ اور مناسب ہے کہ عبد الجبار اور عبد الحق شہر امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں اور چونکہ فرقہ وہابیہ کی اصل جڑ دِلّی ہے اس لئے مناسب ہے کہ نذیر حسین اور محمد حسین دِلّی کی نسبت پیشگوئی کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گی۔ پس اس طرح سے گویا تمام پنجاب اِس مُہلک مرض سے محفوظ ہو جائے گا۔ اور گورنمنٹ کو بھی مفت میں سبکدوشی ہو جائے گی۔ اور اگر ان لوگوں نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ سچا خدا وہی خداہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا۔

اور بالآخر یاد رہے کہ اگر یہ تمام لوگ جن میں مسلمانوں کے مُلہم اور آریوں کے پنڈت اور عیسائیوں کے پادری داخل ہیں چُپ رہے تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ سب لوگ جُھوٹے ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جو قادیاں سُورج کی طرح چمک کر دکھلادے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے۔ بالآخر میاں شمس الدین صاحب کو یاد رہے کہ آپ نے جو اپنے اشتہار میں آیت 33 ۱؂ لکھی ہے اور اس سے قبولیّت دُعاکی اُمید کی ہے۔ یہ اُمید صحیح نہیں ہے کیونکہ کلام الہٰی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مُراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے اُن قوموں کو ہلاک کر دیا۔ اور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/232/mode/1up


اگر میاں شمس الدین کہیں کہ پھر ان کے مناسب حال کون سی آیت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت مناسب حال ہے کہ 3 ۱؂۔

اور ؔ چونکہ احتمال ہے کہ بعض غبی الطبع اِس اشتہار کا اصل منشاء سمجھنے میں غلطی کھائیں اس لئے ہم مکررًا اپنے فرض دعوت کا اظہار کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ طاعون جو مُلک میں پھیل رہی ہے کسی اور سبب سے نہیں بلکہ ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ لوگوں نے خدا کے اس موعود کے ماننے سے انکار کیا ہے جو تمام نبیوں کی پیشگوئی کے موافق دنیا کے ساتویں ہزار میں ظاہر ہوا ہے اور لوگوں نے نہ صرف انکار بلکہ خدا کے اِس مسیح کو گالیاں دیں کافر کہا اور قتل کرنا چاہا اور جوکچھ چاہا اُس سے کیا۔ اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ اُن کی اِس شوخی اور بے ادبی پر اُن پر تنبیہ نازل کرے اور خدا نے پہلے پاک نوشتوں میں خبر دی تھی کہ لوگوں کے انکار کی وجہ سے اُن دنوں میں جب مسیح ظاہر ہو گا مُلک میں سخت طاعون پڑے گی۔ سو ضرور تھا کہ طاعون پڑتی۔ اور طاعون کا نام طاعون اس لئے رکھا گیا کہ یہ طعن کرنے والوں کا جواب ہے۔ اور بنی اسرائیل میں ہمیشہ طعن کے وقت میں ہی پڑا کرتی تھی اور طاعون کے لغت عرب میں معنے ہیں بہت طعن کرنے والا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طاعون طعن تشنیع کی ابتدائی حالت میں نہیں پڑتی بلکہ جب خدا کے مامور اور مرسل کو حد سے زیادہ ستایا جاتا ہے اور توہین کی جاتی ہے تو اُس وقت پڑتی ہے۔ سو اے عزیزو اِس کا بجز اس کے کوئی بھی علاج نہیں کہ اِس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کر لیا جاوے۔ یہ تو یقینی علاج ہے اور اس سے کمتر درجہ کا یہ علاج ہے کہ اس کے انکار سے منہ بند کر لیا جائے اور زبان کو بدگوئی سے روکا جائے۔ اور دل میں اس کی عظمت بٹھائی جائے۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے کہ یا مسیح الخلق عدوانا میری طرف دوڑیں گے۔ یہ جو مَیں نے ذِکر کیا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/233/mode/1up


یہ خدا کا کلام ہے اس کے یہ معنے ہیں کہ اے جو خلقت کے لئے مسیح کر کے بھیجا گیاؔ ہے ہماری اس مہلک بیماری کے لئے شفاعت کر۔ تم یقیناسمجھو کہ آج تمہارے لئے بجز اس مسیح کے اور کوئی شفیع نہیں باستثناء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کی شفاعت درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شفاعت ہے۔ اے عیسائی مشنریو! اب ربّنا المَسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے۔ اور اے قوم شیعہ اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہار ا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے کہ اُس حسین سے بڑھ کر ہے۔ اور اگر میں اپنی طرف سے یہ باتیں کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر میں ساتھ اس کے خدا کی گواہی رکھتا ہوں تو تم خدا سے مقابلہ مت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس سے لڑنے والے ٹھہرو۔ اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا۔ لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اس کے پاس نہیں۔ سچا شفیع میں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کا ظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس لئے خدا نے اس وقت اس گناہ کا ایک ہی لفظ کے ساتھ پادریوں سے بدلہ لے لیا کیونکہ عیسائی مشنریوں نے عیسٰی بن مریم کو خدا بنایا اور ہمارے سیّدومولیٰ حقیقی شفیع کو گالیاں دیں اور بدزبانی کی کتابوں سے زمین کو نجس کر دیا اس لئے اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدا رکھا گیا خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمدؐ رکھا۔ تا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو ؔ احمدؐ کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/234/mode/1up


مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے۔ اے عزیزو! یہ بات غصہ کرنے کی نہیں۔ اگر اس احمد کے غلام کو جو مسیح موعود کر کے بھیجا گیا ہے تم اس پہلے مسیح سے بزرگتر نہیں سمجھتے اور اسی کو شفیع اور منجی قرار دیتے ہو تو اب اپنے اس دعویٰ کا ثبوت دو۔ اور جیسا کہ اس احمد کے غلام کی نسبت خد انے فرمایا انہ اوی القریۃ لو لا الاکرام لھلک المقام۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اس شفیع کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس گاؤں قادیاں کو طاعون سے محفوظ رکھا جیسا کہ دیکھتے ہو کہ وہ پانچ چھ برس سے محفوظ چلی آتی ہے اور نیز فرمایا کہ اگر میں اس احمد کے غلام کی بزرگی اور عزت ظاہر نہ کرنا چاہتا تو آج قادیاں میں بھی تباہی ڈال دیتا۔ ایسا ہی آپ بھی اگر مسیح ابن مریم کو درحقیقت سچا شفیع اور منجی قرار دیتے ہیں تو قادیاں کے مقابل پر آپ بھی کسی اور شہر کا پنجاب کے شہروں میں سے *نام لے دیں کہ فلاں شہر ہمارے خداوند مسیح کی برکت اور شفاعت سے طاعون سے پاک رہے گا اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر آپ سوچ لیں کہ جس شخص کی اسی دنیا میں شفاعت ثابت نہیں وہ دوسرے جہان میں کیونکر شفاعت کرے گا۔ اور میاں شمس الدین صاحب یاد رکھیں کہ ان کا اشتہار محض بے سود ہے اور کوئی فائدہ اس پر مرتب نہیں ہو گا۔ اور علاج یہی ہے جو ہم نے لکھا ہے۔ وہ یاد کریں کہ پہلے اس سے انسانی گورنمنٹ میں وہ اور ان کی انجمن میرا مقابلہ کر کے ذلت اٹھا چکی ہے کہ انہوں نے مؤلف اُمّہات الموء منین کی نسبت گورنمنٹ سے سزا طلب کی اور میں نے اس سے منع کیا۔ آخر میری رائے ہی صحیح ہوئی۔ اسی طرح اب بھی جو کچھ انہوں نے آسمانی گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا چاہا ہے وہ بھی محض بے سود اور لغو اور بے اثر ہے جیسا کہ پہلا میموریل تھا۔ سچا میموریل یہی ہے جو میں نے مرتب کیا ہے آخر آپ کو یہی ماننا پڑے گا۔

ہر ؔ چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از کمال رسوائی

* مثلاً نارووال یا بٹالہ کا نام لے دیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/235/mode/1up


اس جگہ مولوی احمدحسن صاحب امروہی کو ہمارے مقابلہ کے لئے خوب موقع مل گیا ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تاکسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچا لیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنادیں بڑی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں اور ان کو بُرا معلوم ہوتا ہے کہ سورہ نور کی منشاء کے موافق اور صحیح بخاری کی حدیث اِمَامکم مِنکم کے مطابق اور مسلم کی حدیث اَمَّکُم مِنکم کے رو سے اسی امت مرحومہ میں سے مسیح موعود پیدا ہو تاموسوی سلسلہ کے مسیح کے مقابل پر محمدی سلسلہ کا مسیح ظاہر ہو کر نبوت محمدیہ کی شان کو دنیا میں چمکا وے بلکہ یہ مولوی صاحب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ وہی ابن مریم جس کو خدا بنا کر قریبًا پچاس کروڑ انسان گمراہی کے دلدل میں ڈوبا ہوا ہے دوبارہ فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترے اور ایک نیا نظارہ خدائی کا دکھلا کر پچاس کروڑ کے ساتھ پچاس کروڑ اور ملا دے کیونکہ آسمان پر چڑھتے ہوئے تو کسی نے نہیں دیکھا تھا وہی مقولہ تھا کہ پیراں نہ مے پرند مریداں مے پرانند۔ مگر اب تو ساری دنیا فرشتوں کے ساتھ اترتے دیکھے گی اور پادری لوگ آ کر مولویوں کا گلا پکڑ لیں گے کہ کیا ہم کہتے تھے یا نہیں کہ یہی خدا ہے۔ اس منحوس دن میں اسلام کا کیا حال ہو گا۔ کیا اسلام دنیا میں ہوگا؟ *** اللّٰہ علی الکاذبین۔ جو شخص کشمیر سری نگر محلہ خان یار میں مدفون ہے اس کو ناحق آسمان پر بٹھایا گیا۔ کس قدر ظلم ہے۔ خداتو بپابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے لیکن ایسے شخص کو کسی طرح دوبارہ دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنے نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ مولوی اسلام کے نادان دوست کیا جانتے ہیں کہ ایسے عقیدوں سے کس قدر عیسائیوں کو مدد پہنچ چکی ہے۔ اب خداتعالیٰ کوئی نئی عظمت ابن مریم کو دینا نہیں چاہتا بلکہ یہاں تک کہ جس قدر پہلے اس سے حضرت مسیح کی نسبت اطراء کیا گیا ہے وہ بھی خدا کو سختؔ ناگوار گزرا ہے اور اسی وجہ سے اس کو کہنا پڑا 33 ۱؂۔ اب آسمان کی طرف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/236/mode/1up


دیکھنا کہ کب آسمان سے ابن مریم اترتا ہے سخت جہالت ہے۔ مگر مجھ سے پہلے جو جو علماء اپنی اجتہادی غلطی سے ایسا خیال کرتے رہے کہ ابن مریم آسمان سے آئے گا وہ خدا کے نزدیک معذور ہیں ان کو بُرا نہیں کہنا چاہئے ان کی نیتوں میں فساد نہیں تھا بوجہ بشریت بھول گئے۔ خدا ان کو معاف کرے کیونکہ ان کو علم نہیں دیا گیا تھا اور ان کی اجتہادی غلطی ایسی تھی جیسا کہ داؤد نے غنم القوم کے مسئلہ میں اجتہادی غلطی کی تھی مگر ان کے بیٹے سلیمان کو خدا نے فہم عطا کر دیا تھا جیسا کہ اس کے بارے میں براہین احمدیہ میں آج سے بائیس برس پہلے یہ الہام ففہمناھا سلیمان کتاب کے آخری صفحہ میں موجود ہے اس کے یہ معنے ہیں جیساکہ براہین کے اوپر کے الہامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا یہ معنے قرآن اور حدیثوں کے جو تم کرتے ہو ہمارے پہلے علماء اورا کابر کو معلوم نہ تھے اور تمہیں معلوم ہو گئے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ ہاں حقیقت میں یہی ہوا مگر ایسا ہونا بعید نہیں ہے۔ تمہارے علماء تو کچھ نبی نہیں تھے مگر داؤد نے نبی ہو کر ایک فیصلہ دینے میں غلطی کی اور خدا نے سلیمان اس کے بیٹے کو سچے فیصلہ کا طریق سمجھا دیا۔ سو یہ سلیمان جو مسیح موعود بنایا گیا ہے اسی طرح تمہارے بزرگوں کے مقابلہ پر حق بجانب ہے جس طرح سلیمان نبی اس فیصلہ میں اپنے باپ داؤد کے مقابل پر حق بجانب تھا۔

اور اگر مولوی احمدحسن صاحب کسی طرح باز نہیں آتے تو اب وقت آ گیا ہے کہ آسمانی فیصلہ سے ان کو پتہ لگ جائے یعنی اگر وہ درحقیقت مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میرے الہامات کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں نہ خدا کا کلام تو سہل طریق یہ ہے کہ جس طرح میں نے خداتعالیٰ سے الہام پا کر کہا ہے انّہ اوی القریۃ لو لا الاکرام لھلک المقام۔ وہ انہ اوی امروھہ۔ لکھ دیں مومنوں کی دعا تو خدا سنتا ہے۔ وہ شخص کیسا مومن ہے کہ ایسے شخص کی دعا اس کے مقابل پر تو سنی جاتی ہے جس کا نام اس نے دجال اور بے ایمان اور مفتری رکھاؔ ہے مگر اس کی اپنی دعا نہیں سنی جاتی۔ پس جس حالت میں میری دعا قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/237/mode/1up


فرما دیا کہ میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصًا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے۔ اسی طرح مولوی احمدحسن صاحب کو چاہئے کہ اپنے خدا سے جس طرح ہو سکے امروہہ کی نسبت دعا قبول کرا لیں کہ وہ طاعون سے پاک رہے گا اور اب تک یہ دعا قریب قیاس بھی ہے کیونکہ ابھی تک امروہہ طاعون سے دو سو کوس کے فاصلہ پر ہے لیکن قادیاں سے طاعون چاروں طرف سے بفاصلہ دو کوس آگ لگا رہی ہے یہ ایک ایسا صاف صاف مقابلہ ہے کہ اس میں لوگوں کی بھلائی بھی ہے اور نیز صدق اور کذب کی شناخت بھی۔ کیونکہ اگر مولوی احمدحسن صاحب *** بازی کا مقابلہ کر کے دنیا سے گزر گئے تو اس سے امروہہ کو کیا فائدہ ہو گا۔ لیکن اگر انہوں نے اپنے فرضی مسیح کی خاطر دعا قبول کرا کر خدا سے یہ بات منوا لی کہ امروہہ میں طاعون نہیں پڑے گی تو اس صورت میں نہ صرف ان کو فتح ہو گی بلکہ تمام امروہہ پر ان کا ایسا احسان ہو گا کہ لوگ اس کا شکر نہیں کر سکیں گے۔ اور مناسب ہے کہ ایسے مباہلہ کا مضمون اس اشتہار کے شائع ہونے سے پندرہ دن تک بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے دنیا میں شائع کر دیں جس کا یہ مضمون ہو کہ میں یہ اشتہار مرزا غلام احمد کے مقابل پر شائع کرتا ہوں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں جو مومن ہوں دعا کی قبولیت پر بھروسہ کر کے یا الہام پا کر یا خواب دیکھ کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ امروہہ ضرور بالضرور طاعون کی دست بُرد سے محفوظ رہے گا لیکن قادیاں میں تباہی پڑے گی کیونکہ مفتری کے رہنے کی جگہ ہے۔ اس اشتہار سے غالباً آئندہ جاڑے تک فیصلہ ہو جائے گا یا حد دوسرے تیسرے جاڑے تک اور گو اب مئی کے مہینہ سے سنت اللہ کے موافق ملک میں طاعون کم ہوتی جائے گی اور خدائی روزہ کے دن آتے جائیں گے مگر امید ہے کہ پھر ابتدا نومبر ۱۹۰۲ء سے خداتعالیٰ اپنا روزہ کھولے گا۔ اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ اس افطار کے وقت کون کون ملک الموت کے قبضہ میں آیا چونکہ مسیح موعود کی رہائش کے قریب تر پنجاب ہے اور مسیح موعود کی نظر کا پہلا محل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/238/mode/1up


پنجابی ہیں اس لئے اول یہ کارروائی پنجاب میں شروع ہوئی لیکن امروہہ بھی مسیح موعود کی محیط ہمت سے دور نہیں ہے۔ اس لئے اس مسیح کا کافر کش دم ضرور امروہہ تک بھی پہنچے گا یہی ہماری طرف سے دعویٰ ہے اگر مولوی احمدحسن اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد جس کو وہ قسم کے ساتھ شائع کرے گا امروہہ کو طاعون سے بچا سکا اور کم سے کم تینؔ جاڑے امن سے گزر گئے تو میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں۔ پس اس سے بڑھ کر اور کیا فیصلہ ہو گا۔ اور میں بھی خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف کسوف ہو گا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں۔ اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی اور یہ امر کچھ مولوی احمدحسن صاحب تک محدود نہیں بلکہ اب تو آسمان سے عام مقابلہ کا وقت آگیا اور جس قدر لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں جیسے شیخ محمدحسین بٹالوی جو مولوی کر کے مشہور ہیں اور پیر مہر علی شاہ گولڑی جس نے بہتوں کو خدا کی راہ سے روکا ہوا ہے اور عبدالجبار اور عبدالحق اور عبدالواحد غزنوی جو مولوی عبداللہ صاحب کی جماعت میں سے ملہم کہلاتے ہیں اور منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ جنہوں نے میرے مخالف الہام کا دعویٰ کر کے مولوی عبداللہ صاحب کو سیّد بنا دیا ہے اور اس قدر صریح جھوٹ سے نفرت نہیں کی اور ایسا ہی نذیر حسین دہلوی جو ظالم طبع اور تکفیر کا بانی ہے۔ان سب کو چاہئے کہ ایسے موقع پر اپنے الہاموں اور اپنے ایمان کی عزت رکھ لیں اور اپنے اپنے مقام کی نسبت اشتہار دے دیں کہ وہ طاعون سے بچایا جائے گا اس میں مخلوق کی سراسر بھلائی اور گورنمنٹ کی خیرخواہی ہے اور ان لوگوں کی عظمت ثابت ہو گی اور ولی سمجھے جائیں گے ورنہ وہ اپنے کاذب اور مفتری ہونے پر مہر لگا دیں گے۔ اور ہم عنقریب انشاء اللہ اس بارے میں ایک مفصل اشتہار شائع کریں گے۔ والسّلام علٰی من اتّبع الھدیٰ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/239/mode/1up


ایکؔ شخص ساکن جموں چراغ دین نام کی نسبت

اپنی تمام جماعت کو ایک عام اطلاع

چونکہ اس شخص نے ہمارے سلسلہ کی تائید کا دعویٰ کر کے اور اس بات کا اظہار کر کے کہ میں فرقہ احمدیہ میں سے ہوں جو بیعت کر چکا ہوں طاعون کے بارے میں شاید ایک یا دو اشتہار شائع کئے ہیں اور میں نے سرسری طور پر کچھ حصہ ان کا سنا تھا اور قابل اعتراض حصہ ابھی سنا نہیں گیا تھا اس لئے میں نے اجازت دی تھی کہ اس کے چھپنے میں کچھ مضائقہ نہیں مگر افسوس کہ بعض خطرناک لفظ اور بیہودہ دعوے جو اس کے حاشیے میں تھے اس کو میں کثرت لوگوں اور دوسرے خیالات کی وجہ سے سن نہ سکا اور محض نیک ظنی سے ان کے چھپنے کے لئے اجازت دی گئی۔ اب جو رات اسی شخص چراغ دین کا ایک اور مضمون پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مضمون بڑا خطرناک اور زہریلا اور اسلام کے لئے مضر ہے اور سر سے پیر تک لغو اور باطل باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ میں رسول ہوں اور رسول بھی اولوالعزم۔ اور اپنا کام یہ لکھا ہے کہ تا عیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کرا وے اور قرآن اور انجیل کا تفرقہ باہمی دور کر دے اور ابن مریم کا ایک حواری بن کر یہ خدمت کرے اور رسول کہلاوے۔ اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ قرآن شریف نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کرے گا بلکہ ان کتابوں کو محرّف مبد ل اور ناقص اور ناتمام قرار دیا ہے اور تاج خاص 3 ۱؂ کا اپنے لئے رکھا ہے۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کتابیں انجیل توریت قرآن شریف کے مقابل پر کچھ بھی نہیں اور ناقص اور محرف اور مبدل ہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے جیسا کہ آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے۔ قل انّما انا بشرمثلکم یوحی الی انّما الھکم الٰہ واحد والخیر کلّہ فی القرآن لا یمسّہ الَّا المطھّرون۔ دیکھو براہین احمدیہ ص ۵۱۱ یعنی ان کو کہہ دے کہ میں تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ پر یہ وحی ہوتی ہے کہ خداؔ ایک ہے اس کا کوئی ثانی نہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے۔ پاک دل لوگ اس کی حقیقت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/240/mode/1up


سمجھتے ہیں۔ پس ہم قرآن کو چھوڑ کر اور کس کتاب کو تلاش کریں اور کیونکر اس کو ناکامل سمجھ لیں۔ خدا نے ہمیں تو یہ بتلایا ہے کہ عیسائی مذہب بالکل مر گیا ہے اور انجیل ایک مُردہ اور ناتمام کلام ہے۔ پھر زندہ کو مُردہ سے کیا جوڑ۔ عیسائی مذہب سے ہماری کوئی صلح نہیں وہ سب کا سب ردّی اورباطل ہے اور آج آسمان کے نیچے بجز فرقان حمید کے اور کوئی کتاب نہیں۔ آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے میری نسبت یہ الہام درج ہے جو اس کے صفحہ ۲۴۱ میں پاؤ گے اور وہ یہ ہے:۔ ولن ترضی عنک الیہود ولاالنصاریٰ وخرقوا لہ بنین و بنات بغیرعلم قل ھو اللّٰہ احد اللّٰہ الصمدلم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ و یمکرون و یمکراللّٰہ واللّٰہ خیرالماکرین۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم و قل رب ادخلنی مدخل صدق۔ یعنی تیرا اور یہود اور نصاریٰ کا کبھی مصالحہ نہیں ہو گا اوروہ کبھی تجھ سے راضی نہیں ہوں گے۔ (نصاریٰ سے مراد پادری اور انجیلوں کے حامی ہیں) اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے ناحق اپنے دل سے خدا کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں اور نہیں جانتے کہ ابن مریم ایک عاجز انسان تھا۔ اگر خدا چاہے تو عیسیٰ ابن مریم کی مانند کوئی اورآدمی پیدا کر دے یا اس سے بھی بہتر جیسا کہ اس نے کیا۔ مگر وہ خدا تو واحد لاشریک ہے جو موت اور تولد سے پاک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عیسائیوں نے شور مچا رکھا تھا کہ مسیح بھی اپنے قرب اور وجاہت کے رو سے واحد لاشریک ہے۔ اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے۔ جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام۔

زندگی بخش جام احمد ہے

کیا پیارا یہ نام احمد ہے

لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا

سب سے بڑھ کر مقام احمدہے

باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا

میرا بستاں کلام احمد ہے

اِبن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے

یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/241/mode/1up


بڑھؔ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔ خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے۔ باقی ترجمہ اس الہام کا یہ ہے کہ عیسائی لوگ ایذا رسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے۔ یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے اور جیسا کہ اب تک میں سمجھتا ہوں اس کے معنے یہ ہیں کہ انجام کار زمین میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور زمین راستی اور سچائی سے چمک اٹھے گی۔ اب سوچ لو کہ ہم میں اور عیسائیوں میں کس قدر بُعد المشرقین ہے۔ جس پاک وجود کو ہم تمام مخلوقات سے بہتر سمجھتے ہیں اس کو یہ مفتری قرار دیتے ہیں۔ صلح تو اس حالت میں ہوتی ہے کہ جب فریقین کچھ کچھ چھوڑنا چاہیں۔ لیکن جس حالت میں ہمارا دین اور ہماری کتاب عیسائی مذہب کو سراپا ناپاک اور نجس سمجھتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہم کس بات پر صلح کریں ۔ اس قدر مذہبی مخالفت کا انجام صلح ہرگز نہیں ہے بلکہ انجام یہ ہے کہ جھوٹا مذہب بالکل فنا ہو جائے گا اور زمین کے کل نیک طینت انسان سچائی کو قبول کریں گے تب اس دنیا کا خاتمہ ہو گا۔ ہمارا عیسائیوں سے مذہبی رنگ میں کچھ بھی ملاپ نہیں بلکہ ہمارا جواب ان لوگوں کو یہی ہے33 ۱؂ پس یہ کیسی ناپاک رسالت ہے جس کا چراغ دین نے دعویٰ کیا ہے۔ جائے غیرت ہے کہ ایک شخص میرا مرید کہلا کر یہ ناپاک کلمات منہ پر لاوے کہ میں مسیح ابن مریم کی طرف سے رسول ہوں تا ان دونوں مذہبوں کا مصالحہ کروں۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکافرین۔ عیسائیت وہ مذہب ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس کی شامت سے زمین پھٹ جائے ۔ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ کیا اس سے صلح؟ پھر باوجود ناتمام عقل اور ناتمام فہم اور ناتمام پاکیزگی کے یہ بھی کہنا کہ میں رسول اللہ ہوں یہ کس قدر خدا کے پاک سلسلہ کی ہتک عزت ہے گویا رسالت اور نبوت بازیچۂ اطفال ہے۔ نادانی سے یہ نہیں سمجھتا کہ گو پہلے زمانوں میں بعض رسولوں کی تائید میں اور رسول بھی ان کے زمانہ میں ہوئے تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ہارون لیکن خاتم الانبیاء اور خاتم الاولیاء اس طریق سے مستثنیٰ ہے



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/242/mode/1up


اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرا کوئی مامور اور رسول نہیں تھا۔ اور تمام صحابہ ایک ہی ہادی کے پیرو تھے۔ اسی طرح اس جگہ ؔ بھی ایک ہی ہادی کے سب پیرو ہیں۔ کسی کو دعویٰ نہیں پہنچتا کہ وہ نعوذباللہ رسول کہلاوے۔

اور ہمارا آنا صرف دو فرشتوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہزاروں فرشتوں کے ساتھ ہے اور خدا کے نزدیک وہ لوگ قابل تعریف ہیں جو سالہائے دراز سے میری نصرت میں مشغول ہیں اور میرے نزدیک اور میرے خدا کے نزدیک ان کی نصرت ثابت ہو چکی ہے۔ مگر چراغ دین نے کونسی نصرت کی اس کا تو وجود اور عدم برابر ہے۔ قریباً تیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے مگر اس نے تو صرف چند ماہ سے پیدائش لی ہے اور میں اس کی شکل بھی اچھی طرح شناخت نہیں کر سکتا کہ وہ کون ہے۔ اور نہ وہ ہماری صحبت میں رہا۔ اور میں نہیں جانتا کہ وہ کس بات میں مجھے مدد دینا چاہتا ہے۔ کیا عربی نویسی کے نشان میں یا معارف قرآنی کے بیان میں میرا مددگار ہو گا یا ان مباحث دقیقہ میں میری اعانت کرے گا جو طبعی اور فلسفہ کے رنگ میں عیسائیوں اور دوسرے فرقوں سے پیش آتے ہیں؟ میں تو جانتا ہوں کہ وہ ان تمام کوچوں سے محروم ہے اور نفس امارہ کی غلطی نے اس کو خودستائی پر آمادہ کیا ہے۔ پس آج کی تاریخ سے وہ ہماری جماعت سے منقطع ہے جب تک کہ مفصل طور پر اپنا توبہ نامہ شائع نہ کرے اور اس ناپاک رسالت کے دعویٰ سے ہمیشہ کے لئے مستعفی نہ ہو جائے۔

افسوس کہ اس نے بے وجہ اپنی تعلّی سے ہمارے سچے انصار کی ہتک کی اور عیسائیوں کے بدبودار مذہب کے مقابل پر اسلام کو ایک برابر درجہ کا مذہب سمجھ لیا۔ سو ہم کو ایسے شخص کی کچھ پروا نہیں۔ ایسے لوگ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسے انسان سے قطعاً پرہیز کریں۔ اس کی تحریروں سے ہمیں پوری واقفیت نہیں تھی اس لئے اجازت طبع دی تھی ۔ اب ایسی تحریروں کو چاک کرنا چاہئے۔ والسّلام علی من اتبع الھدٰی

المشتہر خاکسار میرزا غلام احمد از قادیاں

۲۳؍اپریل۱۹۰۲ء

تعداد اشاعت ۵۰۰۰ مطبع ضیاء الاسلام قادیان



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/243/mode/1up


حاشیہ

نمبر۱

چراغ دین کی نسبت میں یہ مضمون لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھ کو خدائے عزّوجلّ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔ نزل بہٖ جبیز یعنی اس پر جبیز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یا رؤیا سمجھ لیا۔ جبیز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے حلق میں سے اتر سکے اور مرد بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرومایگی اور بخل کا حصہ زیادہ ہو۔ اور اس جگہ لفظ جبیز سے مراد وہ حدیث النفس اور اضغاث الاحلام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اوربخل کے آثار موجود ہیں اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ یا تمنا اور آرزو کے وقت القاء شیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الٰہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جبیز ہے اور علاج توبہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلّی ہے۔ ورنہ جبیز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے۔ خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ منہ

حاشیہ

نمبر۲

رات کو عین خسوف قمر کے وقت میں چراغ دین کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا انّی اذیب من یریب۔ میں فنا کر دوں گا۔ میں غارت کروں گا۔ میں غضب نازل کروں گا اگر اس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعوے سے توبہ نہ کی۔ اور خدا کے انصار



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/244/mode/1up


جو سالہائے دراز سے خدمت اورنصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں ان سے عفو تقصیر نہ کرائی کیونکہ اس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو ان سب پر مقدم کرؔ لیا۔ حالانکہ خدا نے بار بار براہین احمدیہ میں ان کی تعریف کی اور ان کو سابقین قرار دیا اور کہا۔ اصحاب الصفۃ و ما ادراک ما اصحاب الصفۃ۔

اور جبیز اس روٹی خشک کو کہتے ہیں کہ دانت اس کو توڑ نہ سکیں۔ اور وہ دانت کو توڑے اور حلق سے مشکل سے اترے اور امعاء کو پھاڑے اور قولنج پیدا کرے۔ پس اس لفظ سے بتلایا کہ چراغ دین کی یہ رسالت اور یہ الہام محض جبیز اور اس کے لئے مہلک ہیں۔ مگر دوسرے اصحاب جن کی توہین کرتا ہے اُن پر مائدہ نازل ہو رہا ہے اور اُن کو خدا کی رحمت سے بڑا حصہ ہے۔

مائدہ چیزیست دیگر خشک نان چیزے دگر

خوردنی ہرگز نباشد نان خشک اے بے ہنر

دوستاں را مائدہ بدہند از مہر و کرم

پارہ!ہائے خشک نان بیگانگان را نیزہم

نیز ہم پیشِ سگان آں خشک نان مے افگنند

مائدہ از لطف!ہا پیشِ عزیزان مے برند

ترک کن ایں خشک ناں را ہوش کن فرزانہ باش

گر خردمندی پئے آں مائدہ دیوانہ باش

منہ

اس رسالہ کا نام

دَافِعُ البَلَاء وَمِعْیَار اَھْل الْاِصْطِفَاء

رکھا گیا ہے
 
Top