• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 2 ۔سبز اشتہار ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 2۔ سبز اشتہار۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 2. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِؔ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
حقّانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر
واضح ہو کہ اس عاجزکے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء روز یکشنبہ میں پیدا ہوا تھا اور ۴ نومبر ۱۸۸۸ ؁ء کو اُسی روز یکشنبہ میں ہی اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں بوقت نماز صبح اپنے معبود حقیقی کی طرف واپس بُلایا گیا عجیب طور کا شورو غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترا ہے انہوں نے اِس بچے کی وفات پر انواع و اقسام کی افترا گھڑنی شروع کی۔ سو ہر چند ابتدا میں ہمارا ارادہ نہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں اور نہ شائع کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ کوئی ایسا امر درمیان نہ تھا کہ کسی فہیم آدمی کے ٹھوکر کھانے کا موجب ہو سکے۔ لیکن جب یہ شورو غوغا انتہا کو پہنچ گیا اور کچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں پر بھی اس کا مضر اثر پڑتا ہوا نظر آیا تو ہم نے محض لِلّٰہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا۔ اب ناظرین پر منکشف ہو کہ بعض مخالفین پسرِ متوفی کی وفات کا ذکر کر کے اپنے اشتہارات و اخبارات میں طنز سے لکھتے ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ؁ء و ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ ؁ء اور ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ بعض نے اپنی طرف سے افترا * کر کے یہ بھی
یہ مفتری لیکھرام پشاوری ہے جس نے تینوں اشتہار مندرجہ متن اپنے اثبات دعویٰ کی غرض
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اپنےؔ اشتہار میں لکھا کہ اِس بچہ کی نسبت یہ الہام بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بادشاہوں کی بیٹیاں بیاہنے والا ہو گا لیکن ناظرین پر منکشف ہو کہ جن لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی ہے اُنہوں نے بڑا دھوکا کھایا ہے یا دھوکا دینا چاہا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہِ اگست ۱۸۸۷ ؁ء تک جو پسرِ متوفی کی وفات * کا مہینہ ہے جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھپے ہیں جن کا لیکھ رام پشاوری نے و جہ ثبوت کے طور پر اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے۔ اُن میں سے کوئی شخص ایک ایسا حرف بھی پیش نہیں کر سکتا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو۔ کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے بلکہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء کا اشتہار اور نیز ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء کا اشتہار کہ جو ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء کی بنا پر اور اُس کے حوالہ سے بروز تولّد بشیر شائع کیا گیاتھا صاف بتلا رہا ہے کہ ہنوز الہامی طور پر یہ تصفیہ نہیں ہوا کہ آیا یہ لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یاکوئی اور ہے تعجب کہ لیکھرام پشاوری نے جوشِ تعصّب میں آ کر اپنے اُس اشتہار میں جو اُس کی جبلّی خصلت بدگوئی و بدزبانی سے بھرا ہوا ہے اشتہارات مذکورہ کے حوالہ سے اعتراض تو کر دیا مگر آنکھیں کھول کر
سے اپنے اشتہار میں پیش کی ہیں اور سراسر خیانتوں سے کام لیا ہے مثلًا وہ اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء کا ذکر کر کے اُس کی یہ عبارت اپنے اشتہار میں لکھتا ہے کہ اس عاجز پر اس قدر کُھل گیا کہ لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مُدّت حمل تک تجاوز نہیں کر سکتا لیکن اس عبارت کا اگلا فقرہ یعنی یہ فقرہ کہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔ اس فقرہ کو اُس نے عمدًا نہیں لکھا کیونکہ یہ اُس کے مدّعا کو مضر تھا اور اس کے خیال فاسد کو جڑھ سے کاٹتا تھا۔ پھر دوسری خیانت یہ ہے کہ لیکھرام کے اس اشتہار سے پہلے ایک اور اشتہار آریوں کی طرف سے ہمارے تینوں اشتہارات مذکورہ بالا کے جواب میں مطبع چشمہ نور امرتسر میں شائع ہو چکا ہے اس میں انہوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ ان تینوں اشتہارات کے دیکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا جو پیدا ہوا یہ وہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اَور ہے۔ اس اقرار کا لیکھرام نے کہیں ذکرنہیں کیا۔ اب ظاہر ہے کہ آریوں کا پہلا اشتہار لیکھرام کے اس اشتہار کی خود بیخ کنی کرتا ہے۔ دیکھو اُن کا وہ اشتہار جس کا عنوان حسب حال ان کے یہ ہے کہ انّ اللہ لا یحبّ الماکرین منہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اُن ؔ تینوں اشتہاروں کو پڑھ نہ لیا تا جلد بازی کی ندامت سے بچ جاتا۔ نہایت افسوس ہے کہ ایسے دروغ باف لوگوں کو آریوں کے وہ پنڈت کیوں دروغگوئی سے منع نہیں کرتے جو بازاروں میں کھڑے ہو کر اپنا اصول یہ بتلاتے ہیں کہ جھوٹ کو چھوڑنا اور تیاگنا اور سچ کو ماننا اور قبول کرنا آریوں کا دھرم ہے۔ پس عجیب بات ہے کہ یہ دھرم قول کے ذریعہ سے تو ہمیشہ ظاہر کیا جاتا ہے مگر فعل کے وقت ایک مرتبہ بھی کام میں نہیں آتا۔ افسوس ہزار افسوس۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ ہر دو اشتہار ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ ؁ء اور ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء مذکورہ بالا اس ذکر و حکایت سے بالکل خاموش ہیں کہ لڑکا پیدا ہونے والا کیسا اورکِن صفات کا ہے۔ بلکہ یہ دونوں اشتہار صاف شہادت دیتے ہیں کہ ہنوز یہ امر الہام کے رُو سے غیر منفصل اور غیر مصرح ہے * ہاں یہ تعریفیں جو اُوپر گذر چکی ہیں ایک آنے والے لڑکے کی نسبت عام طور پر بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں ضرور بیان کی گئی ہیں لیکن اُس اشتہار میں یہ تو کسی جگہ نہیں لکھا کہ جو ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء کو لڑکا پَیدا ہو گا وہی مصداق ان تعریفوں کا ہے بلکہ اِس اشتہار میں اُس لڑکے کے پَیدا ہونے کی کوئی تاریخ مندرج نہیں کہ کب اور کس وقت ہو گا پس ایسا خیال کرناکہ ان اشتہارات میں مصداق ان تعریفوں کا اِسی پسر متوفی کو ٹھہرایا گیا تھا سراسر
عبارت اشتہار ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ ؁ء یہ ہے کہ ’’ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مُدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جو اَب پَیدا ہو گا یہ وُہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں ۹ برس کے عرصہ میں پَیدا ہو گا ‘‘۔ دیکھو اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء مطبع چشمہ فیض قادری بٹالہ۔ عبارت اشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء یہ ہے۔’’ اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولّد کے لئے میں نے اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء میں پیشگوئی کی تھی وہ ۱۶ ؍ذیقعد مطابق ۷؍ اگست میں پیدا ہو گیا۔ دیکھو اشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ ؁ء مطبوعہ وکٹوریہ پریس لاہور۔ پس کیا اِن تینوں اشتہارات میں جو لیکھرام پشاوری نے جوش میں آ کر پیش کی ہیں بُو تک بھی اس بات کی پائی جاتی ہے کہ ہم نے کبھی پسرمتوفی کو مصلح موعود اور عمرپانے والا قرار دیا ہے۔ فتفکروا فتدبروا۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہٹؔ دھرمی اور بے ایمانی ہے۔ یہ سب اشتہارات ہمارے پاس موجود ہیں اور اکثر ناظرین کے پاس موجود ہوں گے مناسب ہے کہ ان کو غور سے پڑھیں اور پھر آپ ہی انصاف کریں۔ جب یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے پَیدا ہواتھا تو اس کی پَیدائش کے بعد صدہا خطوط اطرافِ مختلفہ سے بدیں استفسار پہنچے تھے کہ کیا یہ وُہی مصلح موعود ہے جس کے ذریعہ سے لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کی طرف یہی جواب لکھا گیا تھا کہ اس بارے میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا ہاں اجتہادی طور پر گمان کیا جاتا تھا کہ کیا تعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پسر متوفی کی بہت سی ذاتی بزرگیاں الہامات میں بیان کی گئی تھیں جو اس کی پاکیزگی رُوح اور بلندی فطرت اور علوّ استعداد اور روشن جوہری اور سعادتِ جبلّی کے متعلق تھیں اور اس کی کاملیّت استعدادی سے علاقہ رکھتی تھیں۔ سو چونکہ وہ استعدادی بزرگیاں ایسی نہیں تھیں جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا اسی باعث سے یقینی طور پر کسی الہام کی بنا پر اِس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیاتھا کہ ضرور یہ لڑکا پختہ عمر تک پہنچے گا اور اسی خیال اورانتظار میں سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی تا جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کُھل جاوے تب اس کا مفصّل اور مبسوط حال لکھا جائے۔ سو تعجب اور نہایت تعجب کہ جس حالت میں ہم اب تک پسر متوفی کی نسبت الہامی طور پر کوئی قطعی رائے ظاہر کرنے سے بکلّی خاموش اور ساکت رہے اور ایک ذرا سا الہام بھی اس بارے میں شائع نہ کیا تو پھر ہمارے مخالفوں کے کانوں میں کس نے پھونک مار دی کہ ایسا اشتہار ہم نے شائع کردیا ہے۔
یہ بھی یادرہے کہ اگر ہم اس خیال کی بنا پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسر متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مُبشر اور بشیر اور نور اللہ صیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اورروشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصّل و مبسُوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اورؔ عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا۔ تب بھی صاحبانِ بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا کیونکہ ان کا منصفانہ خیال اور اُن کی عارفانہ نگاہ فی الفور اِنہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے کیا گیا ہے جو فی حد ذاتہ ٖ صاف اور کُھلے کُھلے نہیں ہیں بلکہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں سو اُن کی نظر میں اگر یہ ایک اجتہادی غلطی بھی متصور ہوتی تو وہ بھی ایک ادنیٰ درجہ کی اور نہایت کم وزن اور خفیف سی اُن کے خیال میں دکھائی دیتی کیونکہ ہر چند ایک غبی اور کور دل انسان کو خداتعالیٰ کا وہ قانون قدرت سمجھانا بہت مشکل ہے جو قدیم سے اُس کے متشابہات وحی اور رویا اور کشوف اور الہامات کے متعلق ہے لیکن جو عارف اور با بصیرت آدمی ہیں وہ خود سمجھے ہوئے ہیں کہ پیش گوئیوں وغیرہ کے بارہ میں اگر کوئی اجتہادی غلطی بھی ہو جائے تو وہ محل نکتہ چینی نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر نبیوں اور اولوالعزم رسولوں کو بھی اپنے مجمل مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص وتعیین میں ایسی ہلکی ہلکی غلطیاں پیش آتی رہی ہیں* اور اُن کے بیدار دِل اور روشن ضمیر پیرو ہرگز اُن
توریت کی بعض عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بعض اپنی پیشگوئیوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی تھی اور وہ اُمیدیں جو بہت جلد اور بلا توقف نجات یاب ہونے کے لئے بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں وہ اس طرح پر ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے خلاف اُن اُمیدوں کے صورت حال دیکھ کر اور دل تنگ ہو کر ایک مرتبہ اپنی کم ظرفی کی وجہ سے جو اُن کی طینت میں تھی کہہ بھی دیا تھا کہ اے موسیٰ و ہارون جیسا تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل تنگی اس کم ظرف قوم میں اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے جو جلد مخلصی پا جانے کا اپنے دلوں میں حسب پیرایہ تقریر موسوی اعتقادکر لیا تھا اس طور پر معرضہ ظہور میں نہیں آیا تھا اور درمیان میں ایسی مشکلات پڑ گئیں تھیں جن کی پہلے سے بنی اسرائیل کو صفائی سے خبر نہیں دی گئی تھی اس کی یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن درمیانی مشقتوں اور اُن کے طول کھینچنے کی ابتدا میں مصفا اور صاف طور پر خبر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
غلطیوؔ ں سے حیرت و سرگردانی میں نہیں پڑے کیونکہ وہ جاتے تھے کہ یہ غلطیاں نفسِ الہامات و مکاشفات میں نہیں ہیں بلکہ تاویل کرنے میں غلطی وقوع میں آ گئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں اجتہادی غلطی علماء ظاہر و باطن کی اُن کی کسرِ شان کا موجب نہیں ہو سکتی اور ہم نے کوئی ایسی اجتہادی غلطی بھی نہیں کی جس کو ہم قطعی و یقینی طور پر کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کرتے تو کیوں بشیر احمدکی وفات پر ہمارے کوتہ اندیش مخالفوں نے اس قدر زہر اُگلا ہے کیا اُن کے پاس اُن تحریرات کا کوئی کافی و قانونی ثبوت بھی ہے یا ناحق بار بار اپنے نفسِ امّارہ کے جذبات لوگوں پر ظاہر کر رہے ہیں اور اس جگہ بعض نادان مسلمانوں کی حالت پر بھی تعجب ہے کہ وہ کس خیال پر
نہیں ملی تھی لہذا اُن کے خیال کا میلان اجتہادی طور پر کسی قدر اس طرف ہو گیا تھا کہ فرعون بے عون کا آیات بیّنات سے جلد تر قصّہ پاک کیا جائے گا۔ سو خداتعالیٰ نے جیسا کہ قدیم سے تمام انبیاء سے اس کی سنّت جاری ہے پہلے ایام میں حضرت موسیٰ کو ابتلا میں ڈالنے کی غرض سے اور رُعب استغنا اُن پر وارد کرنے کے ارادہ سے بعض درمیانی مکارہ اُن سے مخفی رکھے کیونکہ اگر تمام آنے والی باتیں اور وارد ہونے والی صعوبتیں اور شدّتیں پہلے ہی ان کو کھول کر بتلائی جاتیں تو ان کا دل بکلّی قوی اور طمانیت یاب ہو جاتا۔پس اس صورت میں اس ابتلاء کی ہیبت ان کے دل پر سے اٹھ جاتی جس کا وارد کرنا حضرت کلیم اللہ پر اور ان کے پیروؤں پر بمراد ترقی درجات و ثواب آخرت ارادہ الٰہی میں قرار پا چکا تھا۔ ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے جو جو اُمیدیں اور بشارتیں اپنے حواریوں کو اس دنیوی زندگی اور کامیابی اور خوشحالی کے متعلق انجیل میں دی ہیں وہ بھی بظاہر نہایت سہل اور آسان طریقوں سے اور جلد تر حاصل ہونے والی معلوم دیتی تھیں۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مبشرانہ الفاظ سے جو ابتدا میں اُنہوں نے بیان کئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اُسی زمانہ میں ایک زبردست بادشاہی ان کی قائم ہونے والی ہے۔ اسی حکمرانی کے خیال پر حواریوں نے ہتھیار بھی خرید لئے تھے کہ حکومت کے وقت کام آوینگے۔ ایسا ہی حضرت مسیح کا دوبارہ اُترنا بھی جناب ممدوح نے خود اپنی زبان سے ایسے الفاظ میں بیان فرمایا تھا جس سے خود حواری بھی یہی سمجھتے تھے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ فوت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وساوسؔ کے دریا میں ڈوبے جاتے ہیں کیا کوئی اشتہار ہمارا اُن کے پاس ہے کہ جو اُن کو یقین دلاتا ہے کہ ہم اس لڑکے کی نسبت الہامی طور پر قطع کر چکے تھے کہ یہی عمر پانے والا اور مصلح موعود ہے اگر کوئی ایسا اشتہارہے تو کیوں پیش نہیں کیا جاتا۔ ہم اُن کو باور دلاتے ہیں کہ ایسا اشتہار ہم نے کوئی شائع نہیں کیا ہاں خداتعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا نام بارانِ رحمت اور مبشر اور بشیر اور یداللہ بجلال و جمال وغیرہ اسماء بھی ہیں۔ سو جو کچھ خدا تعالیٰ
نہیںؔ ہوں گے اور نہ حواری پیالہ اجل پئیں گے کہ جو حضرت مسیح پھر اپنی جلالت اور عظمت کے ساتھ دُنیا میں تشریف لے آئینگے اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اور رائے اُسی پیرایہ کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا کہ جو انہوں نے حواریوں کے ذہن نشین کیا جو اصل میں صحیح نہیں تھا یعنی کسی قدر اس میں اجتہادی غلطی تھی اور عجیب تر یہ کہ بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی۔ دیکھو سلاطین اوّل باب ۲۲ آیت ۱۹۔ مگر اِس عاجز کی کسی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہونگے دیکھو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ؁ء و اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا اور فوت بھی ہو گیا اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے ۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء ہے پیدا نہیں ہوا۔ مگر خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چُھپا ہوا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نےؔ اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کیں یہ سب اُس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں ۔ اس عاجز کا مدلل اور معقول طور پر یہ دعویٰ ہے کہ جو بنی آدم کے بچّے طرح طرح کی قوّتیں لے کر اِس مسافر خانہ میں آتے ہیں خواہ وہ بڑی عمر تک پہنچ جائیں اور خواہ وہ خورد سالی میں ہی فوت ہو جائیں اپنی فطرتی استعدادات میں ضرور باہم متفاوت ہوتے ہیں اور صاف طور پر امتیاز بیّن ان کی قوّتوں اور خصلتوں اور شکلوں اور ذہنوں میں دکھائی دیتا ہے جیسا کہ کسی مدرسہ میں اکثر لوگوں نے بعض بچے ایسے دیکھے ہوں گے جو نہایت ذہین اور فہیم اور تیز طبع اور زود فہم ہیں اور علم کو ایسی جلدی سے حاصل کرتے ہیں کہ گویا جلدی سے ایک صف لپیٹتے جاتے ہیں لیکن اُن کی عمر وفا نہیں کرتی اور چھوٹی عمر میں ہی مَر جاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ نہایت غبی اور بلید اور انسانیت کا بہت کم حصّہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور مُنہ سے رال ٹپکتی ہے اور وحشی سے ہوتے ہیں اور بہت سے بوڑھے اور پِیر فرتوت ہو کر مَرتے ہیں اور بباعث سخت نالیاقتی فطرت کے جیسے آئے ویسے ہی جاتے ہیں غرض ہمیشہ اس کا نمونہ ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ بعض بچے ایسے کامل الخِلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اور عارفوں کی روشن ضمیری اپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہونہار دکھائی دیتے ہیں مگر اس عالمِ بے ثبات پر رہنا نہیں پاتے اور کئی ایسے بچّے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ اُن کے لچھن اچھے نظر نہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں تو پرلے درجے کے بد ذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں۔ ابراہیم لختِ جگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم جو خورد سالی میں یعنے سولہویں مہینے میں فوت ہو گئے اس کی صفائی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کے رُو سے ثابت ہے ایسا ہی وہ بچہ جو خورد سالی میں حضرت خضر نے قتل کیا تھا اُس کی خباثت جبلّی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر و باہر ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/455/mode/1up
کفارؔ کے بچوں کی نسبت کہ جو خورد سالی میں مرجائیں جو کچھ تعلیم اسلام ہے وہ بھی درحقیقت اسی قاعدہ کی رو سے ہے کہ بوجہ اس کے کہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِا بِیْہِ ان کی استعدادات ناقصہ ہیں غرض بلحاظ صفائی استعداد اور نورانیت اصل جوہر و مناسبت تامہ دینے کے پسر متوفی کے الہام میں وہ نام رکھے گئے تھے جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں۔ اب اگر کوئی تحکم کی راہ سے کھینچ تان کر اُن ناموں کو عمر دراز ہونے کے ساتھ وابستہ کرنا چاہے تو یہ اُس کی سراسر شرارت ہوگی جس کی نسبت کبھی ہم نے کوئی یقینی اور قطعی رائے ظاہر نہیں کیا۔ ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ ان فضائل ذاتیہ کے تصوّر کرنے سے شک کیا جاتا تھا کہ شاید یہی لڑکا مصلح موعود ہوگا۔ مگر وہ شکّی تقریر ہے جو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع نہیں کی گئی ہندوؤں کی حالت پر سخت تعجب ہے کہ وہ باوصف اس کے کہ اپنے نجومیوں اور جوتشیوں کے منہ سے ہزارہا ایسی باتیں سنتے ہیں کہ بالآخر وہ سراسر پوچ اور لغو اور جھوٹ نکلتی ہیں اور پھر اُن پر اعتقاد رکھنے سے باز نہیں آتے اور عذر پیش کردیتے ہیں کہ حساب میں غلطی ہوگئی ہے ورنہ جوتش کے سچا ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ پھر باوصف ایسے اعتقادات سخیفہ اور ردیہ کے الہامی پیشگوئیوں پر بغیر کسی صریح اور صاف غلطی پکڑنے کے متعصبانہ حملہ کرتے ہیں پھر ہندو لوگ اگر ایسی بے اصل باتیں منہ پر لاویں تو کچھ مضائقہ بھی نہیں کیونکہ وہ دشمن دین ہیں اور اسلام کے مقابل پر ہمیشہ سے اُن کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے یعنی جھوٹ و افترا لیکن نہایت تعجب میں ڈالنے والا واقعہ مسلمانوں کی حالت ہے کہ باوجود دعویٰ دینداری و پرہیزگاری اور باوجود عقائد اسلامیہ کے ایسے ہذیانات زبان پر لاتے ہیں اگر ہمارے ایسے اشتہارات ان کی نظر سے گزرے ہوتے جن میں ہم نے قیاسی طور پر پسر متوفی کو مصلح موعود اور عمر پانے والا قرار دیا ہوتا۔ تب بھی ان کی ایمانی سمجھ اور عرفانی واقفیت کا مقتضا یہ ہونا چاہیئے تھا کہ یہ ایک اجتہادی غلطی ہے جو کہ کبھی کبھی علماء ظاہر و باطن دونوں کو پیش آجاتی ہے یہاں تک کہ اولوالعزم رسول بھی اُس سے باہر نہیں ہیں مگر اس جگہ تو کوئی ایسا اشتہار بھی شائع نہیں ہوا تھا محض دریا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/456/mode/1up
ندیدہؔ موزہ از پاکشیدہ پر عمل کیا گیا اور یاد رہے کہ ہم نے یہ چند سطریں جو عام مسلمانوں کی نسبت لکھی ہیں محض سچی ہمدردی کے تقاضا سے تحریر کی گئی ہیں تا وہ اپنے بے بُنیاد وساوس سے باز آجائیں اور ایسا ردی اور فاسد اعتقاد دل میں پیدا نہ کرلیں جس کا کوئی اصل صحیح نہیں ہے بشیر احمد کی وفات پر اُنہیں وساوس اور اوہام میں پڑنا انہیں کی بے سمجھی و نادانی ظاہر کرنا ہے ورنہ کوئی محل آویزش و نُکتہ چینی نہیں ہے ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ہم نے کوئی اشتہار نہیں دیا جس میں ہم نے قطع اور یقین ظاہر کیا ہو کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اور گو ہم اجتہادی طور پر اس کی ظاہری علامات سے کسی قدر اس خیال کی طرف جھک بھی گئے تھے مگر اسی وجہ سے اِس خیال کی کھلے کھلے طور پر بذریعہ اشتہارات اشاعت نہیں کی گئی تھی کہ ہنوز یہ امر اجتہادی ہے اگر یہ اجتہاد صحیح نہ ہوا تو عوام الناس جو دقائق و معارف علم الٰہی سے محض بے خبر ہیں وہ دھوکا میں پڑجائیں گے۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ پھر بھی عوام کالانعام دھوکا کھانے سے باز نہیں آئے اور اپنی طرف سے حاشیئے چڑھا لئے انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں کہ ان کے اعتراضات کی بنا صرف یہ وہم ہے کہ کیوں اجتہادی غلطی وقوع میں آئی۔ ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اول تو کوئی ایسی اجتہادی غلطی ہم سے ظہور میں نہیں آئی جس پر ہم نے قطع اور یقین اور بھروسہ کرکے عام طور پر اس کو شائع کیا ہو پھر بطور تنزل ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر کسی نبی یا ولی سے کسی پیش گوئی کی تشخیص و تعیین میں کوئی غلطی وقوع میں آجائے تو کیا ایسی غلطی اس کے مرتبہ نبوت یا ولایت کو کچھ کم کرسکتی یا گھٹا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ سب خیالات نادانی و ناواقفیت کی وجہ سے بصورت اعتراض پیدا ہوتے ہیں چونکہ اس زمانہ میں جہالت کا انتشار ہے اور علوم دینیہ سے سخت درجہ کی لوگوں کو لاپروائی ہے اس وجہ سے سیدھی بات بھی الٹی دکھائی دیتی ہے ورنہ یہ مسئلہ بالاتفاق مانا گیا اور قبول کیا گیا ہے کہ ہر یک نبی اور ولی سے اپنے ان مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین میں کہ جہاں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/457/mode/1up
خداؔ تعالیٰ کی طرف سے بخوبی تفہیم نہیں ہوئی غلطی واقع ہوسکتی ہے اور اِس غلطی سے اُن انبیاء اور اصفیا کی شان میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ علم وحی بھی منجملہ علوم کے ایک علم ہے اور جو قاعدہ فطرت اور قانون قدرت قُوّتِ نظریہ کے دخل دینے کے وقت تمام علوم و فنون کے متعلق ہے اُس قاعدہ سے یہ علم باہر نہیں رہ سکتا اور جن لوگوں کو انبیا اور اولیا میں سے یہ علم دیا گیا ہے اُن کو مجبوراً اس کے تمام عوارض و لوازم بھی لینے پڑتے ہیں۔ یعنی اُن پر وارد ہوتے ہیں جن میں سے ایک اجتہادی غلطی ہی ہے پس اگر اجتہادی غلطی قابل الزام ہے تو یہ الزام جمیع انبیاء و اولیاء و علماء میں مشترک ہے۔
یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ کسی اجتہادی غلطی سے ربانی پیش گوئیوں کی شان و شوکت میں فرق آجاتا ہے یا وہ نوع انسان کے لئے چنداں مفید نہیں رہتیں یا وہ دین اور دینداروں کے گروہ کو نقصان پہنچاتی ہیں کیونکہ اجتہادی غلطی اگر ہو بھی تو محض درمیانی اوقات میں بطور ابتلاء کے وارد ہوتی ہے اور پھر اس قدر کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں اور تائیدات الٰہیہ اپنے جلوے دکھاتے ہیں کہ گویا ایک دن چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے ان سے انفصال پاجاتے ہیں۔ لیکن اس روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے کہ خدائے تعالیٰ کے فرستادوں پر سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور ان کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ سچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بزدلوں میں فرق کرکے دکھلا دیوے۔
عشق اوّل سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کرکے اُن کو دکھاتا ہے یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحۂ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/458/mode/1up
سچےؔ اور وفادار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پُہنچاوے اور الٰہی معارف کے باریک دقیقے اُن کو سکھاوے۔ یہی سنت اللہ ہے۔ جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرّعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قُدرت کی تصریح کرتے ہیں * اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہرگز
زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے جو انہوں نے ابتلائی حالت میں کیں ایک یہ ہے اے خدا تو مجھ کو بچالے کہ پانی میری جا ن تک پہنچے ہیں۔ میں گہری کیچ میں دھنس چلا جہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں۔ میں چلّاتے چلّاتے تھک گیا۔ میری آنکھیں دھندلا گئیں۔ وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں۔ شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں۔ اے خداوند رب الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں میرے لئے شرمندہ نہ ہوں۔ وہ جو تجھ کو ڈھونڈتے ہیں وہ میرے لئے ندامت نہ اٹھاویں۔ وے پھاٹک پر بیٹھے ہوئے میری بابت بکتے ہیں اور نشے باز میرے حق میں گاتے ہیں۔ تو میری ملامت کشی اور میری رسوائی اور میری بے حرمتی سے آگاہ ہے۔ میں نے تاکا کہ کیا کوئی میرا ہمدرد ہے کوئی نہیں۔ (دیکھو زبور ۶۹) ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتلاء کی رات میں جس قدر تضرّعات کئے وہ انجیل سے ظاہر ہیں تمام رات حضرت مسیح جاگتے رہے اور جیسے کسی کی جان ٹوٹتی ہے غم و اندوہ سے ایسی حالت ان پر طاری تھی وہ ساری رات رو رو کر دعا کرتے رہے کہ تا وہ بلا کا پیالہ کہ جو ان کے لئے مقدر تھا ٹل جائے پر باوجود اس قدر گریہ و زاری کے پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی کیونکہ ابتلاء کے وقت کی دعا منظور نہیں ہوا کرتی۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/459/mode/1up
نہ پاؔ سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے اُنہوں نے پالئے۔ ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچّے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکّاروں اور بے عزّتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربّانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مُدّت تک ُ منہ چھپالیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ اُن کے دشمنوں پر مہربان ہے اور اُن کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدّت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار اُن پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر اُنہیں مشکلات راہ کا خوف
پھرؔ دیکھنا چاہیئے کہ سیدنا و مولانا حضرت فخر الرسل و خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتلاء کی حالت میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں اور ایک دُعا میں مناجات کی کہ اے میرے رب میں اپنی کمزوری کی تیری جناب میں شکایت کرتا ہوں اور اپنی بیچارگی کا تیرے آستانہ پر گلہ گزار ہوں میری ذلّت تیری نظر سے پوشیدہ نہیں جس قدر چاہے سختی کر کہ میں راضی ہوں جب تک تو راضی ہوجائے مجھ میں بجز تیرے کچھ قوت نہیں۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/460/mode/1up
دلاؔ یا گیا اُسی قدر اُن کی ہمت بلند اور ان کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہوگئے اور عزّت اور حُرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہوگئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے غرض انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قُوّت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرسکتے ویسے اس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص اُن محبوبان الٰہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑجاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ ان کے انجام کے منتظر رہیں۔ عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے بلکہ اِس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اُس کے برگ اور بار میں برکت ہو۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربّانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی۔ اور نیز یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ نہایت درجہ کی بدقسمتی و ناسعادتی ہے کہ انسان جلدتر بدظنی کی طرف جھک جائے اور یہ اُصول قرار دے دیوے کہ دنیا میں جس قدر خدائے تعالیٰ کی راہ کے مدعی ہیں وہ سب مکار اور فریبی اور دوکاندار ہی ہیں کیونکہ ایسے ردی اعتقاد سے رفتہ رفتہ وجود ولایت میں شک پڑے گا اور پھر ولایت سے انکاری ہونے کے بعد نبوّت کے منصب میں کچھ کچھ ترددات پیدا ہوجاویں گے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/461/mode/1up
اورؔ پھر نبوت سے منکر ہونے کے پیچھے خدائے تعالیٰ کے وجود میں کچھ دغدغہ اور خلجان پیدا ہوکر یہ دھوکا دل میں شروع ہوجائے گا کہ شاید یہ ساری بات ہی بناوٹی اور بے اصل ہے اور شاید یہ سب اوہام باطلہ ہی ہیں کہ جو لوگوں کے دلوں میں جمتے ہوئے چلے آئے ہیں۔ سو اے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیار کرنے والو! اوراے صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقیناً سمجھو کہ ایمان کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کیلئے ولایت اور اسکے لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے۔ ولایت نبوّت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اقرار وجود باری تعالیٰ کیلئے پناہ۔ پس اولیاء انبیاء کے وجود کیلئے سیخوں کی مانند ہیں اور انبیاء خدا تعالیٰ کا وجود قائم کرنے کیلئے نہایت مستحکم کیلوں کے مشابہ ہیں سو جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت سے بھی بے بہرہ ہے اور ایک دن ضرور ٹھوکر کھائے گا اور سخت ٹھوکر کھائے گا اور مجرد دلائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیں گی۔ اب ہم فائدہ عام کیلئے یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتے ہیں کہ بشیر احمد کی موت ناگہانی طور پر نہیں ہوئی بلکہ اللہ جل شانہٗ نے اُس کی وفات سے پہلے اس عاجز کو اپنے الہامات کے ذریعہ سے پوری پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کرچکا ہے * اور اب فوت ہوجاوے گا بلکہ جو الہامات اُس
خدا ؔ تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں۔
(۱) اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کرکے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اُس نے خود فرمایا ہے
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَۙ‏
الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَؕ‏
اُولٰٓٮِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ‌ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ‏
یعنی ہمارا یہی قانون قُدرت ہے کہ ہم
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/462/mode/1up
پسرؔ متوفی کی پیدائش کے دن میں ہوئے تھے ان سے بھی اجمالی طور پر اُس کی وفات کی نسبت بو آتی تھی اور مترشح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلاء عظیم کا موجب ہوگا جیسا کہ یہ الہام اِنَّا اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعْدٌ وََّ برْقٌ کُلُّ شَیْءٍ تَحْتَ قَدَمَیْہِ یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو اس کی موت سے مراد ہے ظہور میں آجائیں گی۔ سو تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں تھیں جو لوگوں کو اس کی موت سے پیش آئیں اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑگئے جو ظلمات کی طرح تھا اور آیت کریمہ
وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْ
کے مصداق ہوگئے اور الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اُس عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسر متوفی کے قدم اٹھانے کے بعد پہلی
مومنوںؔ پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے تھے اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں۔
(۲) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیّین وائمہ و اولیاء و خلفا ہے۔ تا اُن کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پاجائیں سو خدا ئے تعالیٰ نے چاہا کہ اِس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں۔ پس اول اُس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ کا سامان مومنوں کے لئے طیار کرکے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے سو وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض لِلّٰہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کا شفیع ٹھہر گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا اور یہ بات کھلی کھلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا بلکہ اس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/463/mode/1up
ظلمتؔ آئے گی اور پھر رعد اور برق۔ اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنے پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلا کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی اسی طرح یقیناً جاننا چاہیئے کہ کسی دن و ہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی اور جو جو اعتراضات غافلوں اور ُ مردہ دلوں کے ُ منہ سے نکلے ہیں اُن کو نابود اور ناپدید کردے گی یہ الہام جو ابھی ہم نے لکھا ہے ابتدا سے صدہا لوگوں کو بہ تفصیل سنا دیا گیا تھا چنانچہ منجملہ سامعین کے مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بھی ہیں اور کئی اور جلیل القدر آدمی بھی۔ اب اگر ہمارے موافقین و مخالفین اسی الہام کے مضمون پر غور کریں اور دقتِ نظر سے دیکھیں تو یہی ظاہر کررہا ہے کہ اِس ظلمت کے آنے کا پہلے سے جناب الٰہی میں ارادہ ہوچُکا تھا جو بذریعہ الہام بتلایا گیا اور صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اِس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے اُن کا آنا ضرور ہے سو اے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی بشیر کی موت نے جیسا کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی کہ جو
جنہوںؔ نے محض لِلّٰہ اس کی موت سے غم کیا اور اُس ابتلا کی برداشت کر گئے کہ جو اُس کی موت سے ظہور میں آیا۔ غرض بشیر ہزاروں صابرین و صادقین کے لئے ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا تھا اور اُس پاک آنے والے اور پاک جانے والے کی موت ان سب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہوگی ۔اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے ۱۰۔ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یخلق اللہ ما یشاء اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ ؁ء کی پیش گوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اِس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/464/mode/1up
۲۰۔ؔ فروری کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہوں گے۔
بالآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا ردّ اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کرکے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے بھی ہیں کہ وہ ہمارے اس طریق کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا ہے وہ ان پر ظاہر نہیں اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے وہ انہیں نہیں
كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖؕ
اس محل میں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض اہلِ علم احباب کی ناصحانہ تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی اس عاجز کی یہ کارروائی پسند نہیں کرتے کہ برکات روحانیہ و آیات سماویہ کے سلسلہ کو جو بذریعہ قبولیت ادعیہ و الہامات و مکاشفات تکمیل پذیر ہوتا ہے لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ بعض کی ان میں سے اس بارہ میں یہ بحث ہے کہ یہ باتیں ظنّی و شکّی ہیں اور ان کے ضرر کی امید ان کے فائدہ سے زیادہ تر ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ باتیں تمام بنی آدم میں مُشترک و متساوی ہیں۔ شاید کسی قدر ادنیٰ کم و بیشی ہو بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قریباً یکساں ہی ہیں۔ ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ان امور میں مذہب اور اتّقا اور تعلّق باللہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ یہ فطرتی خواص ہیں جو انسان کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں اور ہریک بشر سے مومن ہو یا کافر صالح ہو یا فاسق کچھ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ صادر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو اُن کی قیل و قال ہے جس سے ان کی موٹی سمجھ اور سطحی خیالات اور مبلغ علم کا اندازہ ہوسکتا ہے مگر فراست صحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت اور حُبِ دُنیا کا کیڑا ان کی ایمانی فراست کو بالکل کھا گیا ہے اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جیسے مجذوم کا جذام انتہا کے درجہ تک پہنچ کر سقوط اعضاء تک نوبت پُہنچاتا ہے اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/465/mode/1up
ہاتھوںؔ پیروں کا گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ان کے روحانی اعضاء جو روحانی قوّتوں سے مراد ہیں بباعث غلو محبّت دنیا کے گلنے سڑنے شروع ہوگئے ہیں اور اُن کا شیوہ فقط ہنسی اور ٹھٹھا اور بدظنّی اور بدگمانی ہے دینی معارف اور حقائق پر غور کرنے سے بکلّی آزادی ہے بلکہ یہ لوگ حقیقت اور معرفت سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ ہم دُنیا میں کیوں آئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے بلکہ جیفہ دُنیا میں دن رات غرق ہورہے ہیں ان میں یہ حس ہی باقی نہیں رہی کہ اپنی حالت کو ٹٹولیں کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور بڑی بدقسمتی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس نہایت خطرناک بیماری کو پوری پوری صحت خیال کرتے ہیں اور جو حقیقی صحت و تندرستی ہے اس کو بہ نظر توہین و استخفاف دیکھتے ہیں اور کمالات ولایت اور قرب الٰہی کی عظمت بالکل ان کے دلوں پر سے اُٹھ گئی ہے اور نومیدی اور حرمان کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے بلکہ اگر یہی حالت رہی تو ان کا نبوّت پر ایمان قائم رہنا بھی کچھ معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے۔
یہ خوفناک اور گری ہوئی حالت جو میں نے بعض علماء کی بیان کی ہے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ ان روحانی روشنیوں کو تجربہ کے رو سے غیرممکن یا شکّی وظنّی خیال کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہنوز بالاستیفا تجربہ کرنے کی طرف توجہ نہیں کی اور کامل اور محیط طور پر نظر ڈال کر رائے ظاہر کرنے کا ابھی تک انہوں نے اپنے لئے کوئی موقعہ پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی کچھ پرواہ ہے صرف ان مفسدانہ نکتہ چینیوں کو دیکھ کر کہ جو مخالفین تعصّب آئین نے اس عاجز کی دو پیشگوئیوں پر کی ہیں * تحقیق و تفتیش شک میں پڑگئے اور ولایت اور قربت الٰہیہ
وہ نکتہ چینیاں یہ ہیں کہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء کے اشتہار میں اس عاجز نے ایک پیش گوئی شائع کی تھی کہ ایک لڑکا اس عاجز کے گھر میں پیدا ہونے والا ہے اور اشتہار مذکور میں بہ تصریح لکھ دیا تھا کہ شاید اسی دفعہ وہ لڑکا پیدا ہو یا اس کے بعد اس کے قریب حمل میں پیدا ہو سو خدا تعالیٰ نے مخالفین کا خبث باطنی اور ناانصافی ظاہر کرنے کے لئے اس دفعہ یعنی پہلے حمل میں لڑکی پیدا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/466/mode/1up
کیؔ روشنیوں کے بارے میں ایک ایسا اعتقاد دل میں جمالیا کہ جو خشک فلسفہ اور کورانہ نیچریت کے قریب قریب ہے انہیں سوچنا چاہیئے تھا کہ مخالفین نے اپنی تکذیب کی تائید میں کون سا ثبوت دیا ہے؟ پھر اگر کوئی ثبوت نہیں اور نری بک بک ہے تو کیا فضول اور بے بنیاد افتراؤں کا اثر اپنے دلوں میں ڈال لینا عقلمندی یا ایمانی وثاقت میں داخل ہے۔ اور اگر فرض محال کے طور پر کوئی اجتہادی غلطی بھی پیشگوئی کے متعلق اس عاجز سے ظہور میں آتی یعنے قطع اور یقین کے طور پر اُس کو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کیا جاتا تب بھی کسی دانا کی نظر میں وہ محل آویزش نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ اجتہادی غلطی ایک ایسا امر ہے جس سے انبیاء بھی باہر نہیں ماسوائے اس کے یہ عاجز اب تک قریب سات ہزار مکاشفات صادقہ اور الہامات صحیحہ سے خدا تعالیٰ
کی ؔ اور اس کے بعد جو حمل ہوا تو اس سے لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی اپنے مفہوم کے مطابق سچی نکلی۔ اور ٹھیک ٹھیک وقوع میں آگئی مگر مخالفین نے جیسا کہ ان کا قدیمی شیوہ ہے محض شرارت کی راہ سے یہ نکتہ چینی کی کہ پہلی دفعہ ہی کیوں لڑکا پیدا نہیں ہوا ان کو جواب دیا گیا کہ اشتہار میں پہلی دفعہ کی کوئی شرط نہیں بلکہ دوسرے حمل تک پیدا ہونے کی شرط تھی جو وقوع میں آگئی اور پیش گوئی نہایت صفائی سے پوری ہوگئی سو ایسی پیش گوئی پر نکتہ چینی کرنا بے ایمانی کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ کوئی منصف اس کو واقعی طور پر نکتہ چینی نہیں کہہ سکتا۔ دوسری نکتہ چینی مخالفوں کی یہ ہے کہ لڑکا جس کے بارہ میں پیشگوئی ۸۔ اپریل ۱۸۸۶ ؁ء کے اشتہار میں کی تھی وہ پیدا ہوکر صغرسنی میں فوت ہوگیا۔ اس کا مفصل جواب اسی تقریر میں مذکور ہے اور خلاصہ جواب یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہوگا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے۔ بلکہ ہمارے اشتہار ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے۔ پس سوچنا چاہیئے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیش گوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی۔ بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کئے اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے چنانچہ ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء ؁کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ یہ مہمان کا لفظ درحقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/467/mode/1up
کیؔ طرف سے مشرف ہوا ہے اور آئندہ عجائبات روحانیہ کا ایسا بے انتہا سلسلہ جاری ہے کہ جو بارش کی طرح شب و روز نازل ہوتے رہتے ہیں۔ پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تئیں بصدق و صفا اِس ربانی کارخانے کے حوالہ کرکے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اور نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے تئیں ان انوار و برکات کے حصول سے لاپروا رکھ کر بے بنیاد نکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے ظاہر کرنا اپنا شیوہ کرلیوے۔ میں ایسے لوگوں کو محض لِلّٰہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جاپڑے ہیں۔ اگران کایہ قول سچ ہو کہ الہامات اور مکاشفات کوئی ایسی عمدہ چیز نہیں ہے جو خاص اور عوام یا کافر اور مومن میں کوئی امتیاز بیّن پیدا کرسکیں توسالکوں
اسؔ کا نام مہمان نہیں ہوسکتا۔ اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رجس سے (یعنی گناہ سے) بکلّی پاک ہے یہ بھی اس کی صغر سنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور یہ دھوکا کھانا نہیں چاہئے کہ جس پیش گوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے۔ کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کُھل گیا ہے کہ یہ عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اُس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیرؔ ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے پیدا ہوکر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الٰہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اول جو فوت ہوگیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔
اب ایک منصف انصافاًسوچ کر دیکھے کہ ہماری ان دونوں پیشگوئیوں میں حقیقی طور پر کون سی غلطی ہے؟ ہاں ہم نے پسر متوفی کے کمالات استعداد یہ الہامات کے ذریعہ سے ظاہر کئے تھے کہ وہ فطرتاً ایسا ہے اور ایسا ہے اور اب بھی ہم یہ کہتے ہیں اور فطرتی استعدادوں کا مختلف طور پر بچوں میں پایا جانا عام اِس سے کہ وہ صغر سنی میں مرجاویں یا زندہ رہیں ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے اور کوئی حکماء اور علماء میں سے اس کا منکر نہیں ہوسکتا۔ پس دانا کے لئے کون سی ٹھوکر کھانے کی وجہ ہے ہاں نادان اور احمق لوگ ہمیشہ سے ٹھوکر کھاتے چلے آئے ہیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/468/mode/1up
کےؔ لئے یہ نہایت دل توڑنے والا واقعہ ہوگا۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہی ایک روحانی اور اعلیٰ درجہ کی اسلام میں خاصیت ہے کہ سچائی سے اس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الٰہیہ سے مشرف ہوجاتے ہیں اور قبولیت کے انوار جن میں ان کا غیر ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ان کے وجود میں پیدا ہوجاتے ہیں یہ ایک واقعی صداقت ہے جو بے شمار راست بازوں پر اپنے ذاتی تجارب سے کھل گئی ہے ان مدارج عالیہ پر وہ لوگ پہنچتے ہیں کہ جو سچی اور حقیقی پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں اور نفسانی وجود سے نکل کر ربّانی وجود کا پیراہن پہن لیتے ہیں یعنی نفسانی جذبات پر موت وارد کرکے ربّانی طاعات کی نئی زندگی اپنے اندر حاصل کرتے ہیں ناقص الحالت مسلمانوں کو ان سے کچھ نسبت نہیں
بنیؔ ؔ اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی پر ٹھوکر کھائی کہ یہ شخص تو کہتا تھا کہ فرعون پر عذاب نازل ہوگا سو اس پر تو کچھ عذاب نازل نہ ہوا وہ عذاب تو ہم پر ہی پڑا کہ اس سے پہلے صرف آدھا دن ہم سے مشقت لی جاتی تھی اور اب سارا دن محنت کرنے کا حکم ہوگیا۔ خوب نجات ہوئی حالانکہ یہ دوہری محنت اور مشقت ابتلاء کے طور پر یہودیوں پر ابتداء میں نازل ہوئی تھی اور انجام کار فرعون کی ہلاکت مقدر تھی مگر ان بیوقوفوں اور شتابکاروں نے ہاتھ پر سرسوں جمتی نہ دیکھ کر اسی وقت حضرت موسیٰ کو جھٹلانا شروع کردیا اور بدظنی میں پڑگئے اور کہا کہ اے موسیٰ اور ہارون جو کچھ تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے۔ پھر یہودا اسکریوتی کی نادانی اور شتاب کاری دیکھنی چاہیئے کہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے سمجھنے میں نہایت سخت ٹھوکر کھائی اور خیال کیا کہ یہ شخص بادشاہ ہوجانے کا دعویٰ کرتا تھا اور ہمیں بڑے بڑے مراتب تک پہنچاتا تھا مگر یہ ساری باتیں جھوٹ نکلیں اور کوئی پیشگوئی اس کی سچی نہ ہوئی بلکہ فقر و فاقہ میں ہم لوگ مر رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس کے دشمنوں سے مل کر پیٹ بھریں۔ سو اس کی جہالت اس کی ہلاکت کا موجب ہوئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیاں اپنے وقتوں میں پوری ہوگئیں سو نبیوں کا ان نادان مکذّبین کی تکذیب سے کیا نقصان ہوا جس کا اب بھی اندیشہ کیا جائے اور اس اندیشہ سے خدائے تعالیٰ کی پاک کارروائی کو بند کیا جائے یقیناً سمجھنا چاہیئے کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اور کلمہ گو ہوکر جلدی سے اپنے دل میں وساوس کا ذخیرہ اکٹھا کرلیتے ہیں۔ وہ انجام کار اسی طرح رسوا اور ذلیل ہونے والے ہیں جس طرح نالائق اور کج فہم یہودی اور یہودا اسکریوتی رسوا اور ذلیل ہوئے۔ فتدبر وایا اولی الالباب۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/469/mode/1up
ہوتیؔ پھر کافر اور فاسق کو ان سے کیا نسبت ہو۔ ان کی یہ کاملیت اُن کی صحبت میں رہنے سے طالب حق پر کھلتی ہے اسی غرض سے میں نے اتمام حجت کے لئے مختلف فرقوں کے سرگروہوں کی طرف اشتہارات بھیجے تھے اور خط لکھے تھے کہ وہ میرے اس دعویٰ کی آزمائش کریں اگر ان کو سچائی کی طلب ہوتی تو وہ صدق قدم سے حاضر ہوتے سو اُن میں سے کوئی ایک بھی بصدق قدم حاضر نہ ہوا بلکہ جب کوئی پیشگوئی ظہور میں آتی رہی اُس پر خاک ڈالنے کے لئے کوشش کرتے رہے اب اگر ہمارے علماء کو اس حقیقت کے قبول کرنے اور ماننے میں کچھ تامل ہے تو غیروں کے بُلانے کی کیا ضرورت پہلے یہی ہمارے احباب جن میں سے بعض فاضل اور عالم بھی ہیں۔ آزمائش کرلیں اور صدق اور صبر سے کُچھ مُدّت میری صحبت میں رہ کر حقیقت حال سے واقف ہوجائیں پھر اگر یہ دعویٰ اس عاجز کا راستی سے معرا نکلے تو انہیں کے ہاتھ پر میں توبہ کروں گا ورنہ امید رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اُن کے دلوں پر توبہ اور رجوع کا دروازہ کھول دے گا اور اگر وہ میری اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد میرے دعاوی کی آزمائش کرکے اپنی رائے کو بہ پایۂ صداقت پہنچاویں تو اُن کی ناصحانہ تحریروں کے کچھ معنے ہوں گے اس وقت تک تو اس کے کچھ بھی معنے نہیں بلکہ اُن کی محجوبانہ حالت قابل رحم ہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل کے عقلی خیالات کے پرزور بخارات نے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ انہیں خیالات ُ پر زور دے رہے ہیں اور تکمیل دین و ایمان کے لئے انہیں کو کافی وافی خیال کرتے ہیں اور ناجائز اور ناگوار پیرائیوں میں روحانی برکات کی تحقیر کررہے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تحقیر تکلف سے نہیں کرتے بلکہ فی الواقع اُن کے دلوں میں ایسا ہی جم گیا ہے اور اُن کی فطرتی کمزوری اس نزلہ کو قبول کر گئی ہے کیونکہ اُن کے اندر حقانی روشنی کی چمک نہایت ہی کم اور خشک لفاظی بہت سی بھری ہوئی ہے اور اپنی رائے کو اِس قدر صائب خیال کرتے اور اس کی تائید میں زور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو روشنی حاصل کرنے والوں کو بھی اُس تاریکی کی طرف کھینچ لاویں۔ ان علماء کو اسلام کی فتح صوری کی طرف تو ضرور خیال
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/470/mode/1up
ےؔ مگر جن باتوں میں اسلام کی فتح حقیقی ہے ان سے بے خبر ہیں۔
اسلام کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہے اسی طرح ہم اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کے حوالہ کردیں اور اپنے نفس اور اس کے جذبات سے بکلی خالی ہوجائیں اور کوئی بُت ہوا اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے اور بکُلی مرضیات الٰہیہ میں محوہوجائیں اور بعد اس فنا کے وہ بقا ہم کو حاصل ہوجائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورانیت عطا کرے اور ہماری محبت میں ایک جدید جوش پیدا کرے اور ہم ایک نئے آدمی ہوجائیں اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی ہمارے لئے ایک نیا خدا ہوجائے یہی فتح حقیقی ہے جس کے کئی شعبوں میں سے ایک شعبہ مکالمات الٰہیہ بھی ہیں اگر یہ فتح اس زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تو مجرد عقلی فتح انہیں کسی منزل تک پہنچا نہیں سکتی۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس فتح کے دن نزدیک ہیں خدا تعالیٰ اپنی طرف سے یہ روشنی پیدا کرے گا اور اپنے ضعیف بندوں کا آمرزگار ہوگا۔
تبلیغ
میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پُہنچا دیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔ اذا عزمت فتوکل علی اللہ واصنع الفلک باعیننا ووحینا۔ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدھم۔ والسلام علٰی من اتبع الھدی۔ المبلّغ خاکسار
مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر (یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء) غلام احمد عفی عنہُ
 
Last edited:
Top