• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

نبوتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ از تحریرات خود

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نبوتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

از تحریرات خود

۱۔ پگٹ جو انگلستان کا ایک جھوٹا مدعی نبوت تھا۔ اس کے خلاف اشتہار لکھا۔ اور اس کے آخرمیں جس جگہ راقمِ مضمون کا نام لکھا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الفاظ لکھے:۔

The Prophet Mirza Ghulam Ahmad

یعنی ’’النبی مرزا غلام احمد‘‘

(ذکر حبیب صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷ از مفتی محمد صادق صاحب)

۲۔ ’’اِس اُمّت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمّتی بھی ہے اور نبی بھی۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ حاشیہ)

۳۔’’آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اُس کا اُنہیں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور اُمّتی بھی ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱)

۴۔’’ سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ )

۵۔’’خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں مَیں شیث ہوں مَیں نوح ہوں مَیں ابراہیم ہوں مَیں اسحٰق ہوں مَیں اسمٰعیل ہوں مَیں یعقوب ہوں مَیں یوسف ہوں مَیں موسیٰ ہوں مَیں داؤد ہوں مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہر اتم ہوں یعنی ظلّی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۶)

۶۔’’ الہام ۔

(ترجمہ از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کریگی کہ کیا اسپر گذرا۔ خدا اس کیلئے اپنے رسول پر وحی نازل کریگا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۵)

۷۔’’خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سے نبی۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹)

۸۔’’اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ وہی مسیح موعود کہلائے گا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۴ حاشیہ)

۹۔’’خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴ حاشیہ)

۱۰۔’’پس اِس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دُنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے۔ یاد رہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۵)

۱۱۔’’اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے۔ اُن کا کیا قصور تھا۔ اُنہوں نے کونسی تکذیب کی تھی۔ سو یاد رہے کہ جب خدا کے کسی مُرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۶)

۱۲۔’’اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کاذب ٹھہروں گا ورنہ قوم پر لازم ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں اور خدا کے مرسل کا مقابلہ کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۱)

۱۳۔ ’’نبی کا نام پانے کے لئے مَیں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اِس نام کے مستحق نہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶، ۴۰۷)

۱۴۔’’ پس خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا۔ اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا …… تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزا دی جاوے ‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۶)

۱۵۔’’میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳)

۱۶۔’’پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے۔‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۰)

۱۷۔’’ …… یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۲)

۱۸۔’’صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴)

۱۹۔’’جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اُس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حَکَم۔ جو کچھ ہے پہلا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۹)

۲۰۔’’میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے نبی اﷲ رکھا ہے ۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۲۷)

۲۱۔’’مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ ‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۸۱ حاشیہ)

۲۲۔’’ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اور اُس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کو تمام انبیاء کے صفات کاملہ کا مظہر ٹھہرایا ہے۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۲۶)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۳۔’’اس فیصلہ کے کرنے کے لئے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز پھونکے گا وہ قرنا کیا ہے؟ وہ اُس کا نبی ہوگا ۔‘‘ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۴)

۲۴۔’’اس طرح پر مَیں خدا کی کتاب میں عیسیٰ بن مریم کہلایا۔ چونکہ مریم ایک اُمّتی فرد ہے اور عیسیٰ ایک نبی ہے۔پس میرا نام مریم اور عیسیٰ رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا کہ مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ ‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۶۱)

۲۵۔’’خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑے …… قادیاں کواس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اُس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘

(دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۹، ۲۳۰)

’’سچا خدا وہی خداہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘

(دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱)

۲۶۔’’ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۶)

۲۷۔’’میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰)

۲۸۔’’اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں ۔‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۱)

۲۹۔ ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں۔‘‘

(آخری خط حضرت اقدسؑ مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۰۔ ’’میں صرف اسی وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والااور بغیر کثرت کے یہ معنے تحقیق نہیں ہو سکتے۔‘‘

(آخری خط حضرت اقدسؑ مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۱۔ ’’ہمارا دعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ دراصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے ’’نبی‘‘ کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔‘‘

(بدر ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء جلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۲ کالم نمبر ۱)

۳۲۔ ’’پس اسی بنا پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانہ میں کثرتِ مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ اور کثرتِ اطلاع بر علومِ غیب صرف مجھے ہی عطاکی گئی ہے۔ ‘‘

(آخری خط حضرت اقدسؑ مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۳۔ ’’جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے۔ تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں، اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘

(آخری خط حضرت اقدسؑ مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۴۔ ’’میں نبی ہوں اور امتی بھی ہوں تا کہ ہمارے سید و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنیوالا مسیح امتی بھی ہو گا اور نبی بھی ہو گا۔ ‘‘

(آخری خط حضرت اقدسؑ مندرجہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۵۔’’یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اورانتشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصّہ لیتی ہے ایسا ہی اُس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس قدر لوگوں کو خوابیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کھلنے کادروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہے مگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۹ حاشیہ)

۳۶۔’’اِس جگہ صُور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے کیونکہ خدا کے نبی اس کی صُور ہوتے ہیں۔‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۸۵)

۳۷۔ ’’ کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے۔ اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے …… پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہو اور مجمل ہو۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۴۵)

۳۸۔’’اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گذر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سو وہ میں ہوں ۔ اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہرہوئے فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اِس وقت موجود ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۷،۱۱۸)

۳۹۔’’ایمان درحقیقت وہی ایمان ہے جو خدا کے رسول کو شناخت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اس ایمان کو زوال نہیں ہوتا اور اس کا انجام بد نہیں ہوتا۔ ہاں جو شخص سر سری طور پر رسول کا تابع ہو گیا اور اُس کو شناخت نہیں کیا اور اُس کے انوار سے مطلع نہیں ہوا اُس کا ایمان بھی کچھ چیز نہیں اور آخر ضرور وہ مُرتد ہوگا جیسا کہ مسیلمہ کذّاب اور عبد اﷲ ابن ابی سرح اور عبیدہ اﷲ بن جحش آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودا اسکریوطی اورپانسو اور عیسائی مرتد حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اور جموں والا چراغدین اور عبدالحکیم خان ہمارے اِس زمانہ میں مُرتد ہوئے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۳)

۴۰۔’’سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھارہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے۔اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہوگیا ہے۔ جس کی تم تکذیب کررہے ہو۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۰،۴۰۱)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پیغامی:۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ کو اﷲ تعالیٰ نبی بنا کر بھیجے اور ایک وقت تک آپ کو پتہ نہ لگے کہ میں نبی ہوں؟

جواب:۔ حضرت اقدسؑ خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اُس وقت مجھے مسیح موعود ٹھہرایا گیا کہ جبکہ مجھے بھی خبر نہیں تھی کہ میں مسیح موعود ہوں ‘‘

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۸۴)

غیر مبایعین کی پیشکردہ عبارتوں کا صحیح مفہوم

۱۔ ’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداؐ سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ

’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘

اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰،۲۱۱)

۲۔ ’’یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا۔ اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کومنسوخ کی طرح قرار دیتاہوں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ سے یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے …… اس (خدا) نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا اور جس حالت میں خدا میر ا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اسپر قائم ہوں اسوقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔ مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں۔ یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے۔‘‘

(حضرت اقدسؑ کا آخری خط محررہ ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء مطبوعہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۳۔’’شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘

(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲)

۴۔’’اِس نکتہ کو یاد رکھو کہ مَیں رسول اور نبی نہیں ہوں۔ یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے۔ اور مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ ‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۸۱ حاشیہ)

نبوت کی تعریف

۱۔’’نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہواور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶)

۲۔ خدا کی اصطلاح:۔

’’خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اُس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں ۔‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱)

(ب)۔’’ اے نادانو …… آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں مَیں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔

(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳)

۳۔ نبیوں کی اصطلاح

’’جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیّت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو۔ اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔ جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے ۔‘‘

(الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۱۱)

۴۔ قرآن شریف کی اصطلاح :۔

’’جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اﷲ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸)

محدث نہیں

ا۔’’خداتعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹)

ب۔’’قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علومِ غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے پس مصفّٰی غیب پانے کیلئے نبی ہونا ضروری ہوا ۔‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ)

ج۔ ’’آیت نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی صرف خدا کے مرسلوں کو دی جاتی ہے۔ ‘‘

(حجۃ اﷲ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۴)

۵۔ اسلا می اصطلاح:۔

ا۔’’ خدا کی طرف سے کلام پا کر جو غیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچا دے خدا اور اسلامی اصطلاح میں نبی کہلاتا ہے۔ ‘‘ (حجۃ اﷲ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ )

ب۔ ’’ایسے لوگوں کو اصطلاحِ اسلام میں نبی اور رسول اور محدّث کہتے ہیں اور وہ خدا کے پاک مکالمات اور مخاطبات سے مشرف ہوتے ہیں اور خوارق اُن کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں اُن کی قبول ہوتی ہیں اور اپنی دعاؤں میں خدا تعالیٰ سے بکثرت جواب پاتے ہیں۔ ‘‘

(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۵)

۶۔ مذاہب سابقہ کی اصطلاح:۔

’’یہ ضرور یاد رکھو کہ اس اُمت کیلئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے ۔ پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ)

۷۔ ہماری اصطلاح۔

’’میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو ۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲)

ب۔’’ ہم خدا کے ان کلمات کو جو نبوت یعنی پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت ے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیشگوئیاں بذریعہ وحی دی جائیں اس کانام نبی رکھتے ہیں۔ ‘‘ (تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ )
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۸۔ اس تعریف کا انکار نادانی ہے ۔

’’ہمارے مخالف مسلمان مکالمہ الٰہیہ کے قائل ہیں۔ لیکن اپنی نادانی سے ایسے مکالمات کو جو بکثرت پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے نام سے موسوم نہیں کرتے ۔‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۸۹)

۹۔’’خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو اُن کی بھی اُن سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے ۔‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۲)

دیگر اصطلاحات کا مفہوم

۱۔ ظلی نبی:۔ ’’ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۳۰ و ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۲۱۲)

’’اس موہبت کیلئے محض بروز اور ظلّیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے۔ ‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ)

۲۔ امتی نبی:۔’’جب تک اس کو امّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت ؐ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۴۰۱ حاشیہ)

۳۔ مستقل نبوت:۔

ا:۔ ’’بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر اُنکی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصبِ نبوت ملا۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۰ حاشیہ)

ب۔ حضرت کا آخری خط مورخہ ۲۳؍ مئی ۱۹۰۸ء مطبوعہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

۴۔ حقیقی نبوت:۔ ا۔ ’’لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے جو ایسا سمجھتا ہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔‘‘

(مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام مولوی محمد علی صاحب ۱۷؍ اگست ۱۸۹۹ء بر صفحہ النبوۃ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ضمیمہ صفحہ ۱۹۶)

ب۔ ’’وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَسَیِّدِنَا اِنِّیْ نَبِیٌّ اَوْ رَسُوْلٌ عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْاِفْتَرَاءِ وَتَرْکِ الْقُرْآنِ وَاَحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ الْغَرَّاءِ فَھُوَ کَافِرٌ کَذَّابٌ۔ غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کرکے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہوکر آپ ہی براہ راست نبی اﷲ بننا چاہتاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا۔ اور عبادت میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کردے گا۔ پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذّاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں۔ ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے۔‘‘

(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۸ حاشیہ)

۵۔ مجازی نبی:۔

’’وَسُمِّیْتُ نَبِیًّا مِنَ اللّٰہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَا عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ۔ فَلَا تَہِیْجُ ہٰہُنَا غَیْرَۃُ اللّٰہِ وَلَا غَیْرَۃُ رَسُوْلِہٖ، فَإِنِّیْ أُرَبّٰی تَحْتَ جَنَاحِ النَّبِیِّ، وَقَدَمِیْ ہٰذِہٖ تَحْتَ الْأَقْدَامِ النَّبْوِیَّۃِ۔ ‘‘

(الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸۹)

یعنی میرا نام اﷲ تعالیٰ نے نبی حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں رکھا ہے۔ پس اس اﷲ اوررسولؐ کی غیر ت جوش میں نہیں آتی۔ کیونکہ میں نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پروں کے نیچے پرورش پائی ہے اور میرا یہ قدم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقدام مبارک کے نیچے ہے۔

پس اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ’’مجازی نبوت‘‘ کا لفظ ’’حقیقی نبوت‘‘ کے بالمقابل بایں معنی استعمال ہوا ہے کہ میں آنحضرت صلعم کے ماتحت اور حضورؐ کے فیض سے نبوت پانے والا ہوں یعنی غیر تشریعی بالواسطہ نبی ہوں۔ گویا ’’مجازی نبوت‘‘ کے معنے ہیں ’’غیر تشریعی بالواسطہ نبوت‘‘۔

ب۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ’’مجازی نبی‘‘ کا لفظ ’’حقیقی نبی‘‘ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ پس اصطلاح میں جو مفہوم ’’حقیقی نبی‘‘ کا ہے اس کے الٹ مفہوم ’’مجازی نبی‘‘ کا سمجھا جا سکتا ہے۔

اوپر ضمن نمبر ۴ میں ’’حقیقی نبی‘‘ کی اصطلاح کا مفہوم حضرت اقدسؑ کی تحریرات سے صاحب شریعت اور براہِ راست نبوت پانے والا ثابت کیا گیا ہے۔ پس ’’مجازی نبی‘‘ کا مفہوم اس کے بالمقابل ’’غیر تشریعی بالواسطہ نبی‘‘ ہی ہو سکتا ہے نہ کہ غیر نبی۔

ج۔ عام اصطلاح میں بھی لفظ ’’مجازی‘‘ کوئی مستقل لفظ نہیں بلکہ ہمیشہ لفظ حقیقی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے اور ہمیشہ ’’حقیقت‘‘ سے ’’مجاز‘‘ کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ نہ کہ مجاز سے حقیقت کا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔ ’’اَمَّا الْحَقِیْقَۃُ فَاِسْمٌ لِکُلِّ لَفْظٍ اُرِیْدَ بِہٖ مَا وُضِعَ لَہٗ …… وَالْمُرَادُ بِالْوَضْعِ تَعْیِیْنُہٗ لِلْمَعْنٰی بِحَیْثُ یَدُلُّ عَلَیْہِ مِنْ غَیْرِ قَرِیْنَۃٍ فَاِنْ کَانَ ذٰلِکَ التَّعْیِیْنُ مِنْ جِھَۃٍ وَاضِعِ اللُّغَۃِ فَوَضْعٌ لُغْوِیٌّ۔ وَاِنْ کَانَ مِنَ الشَّارِعِ فَوَضْعٌ شَرْعِیٌّ۔ وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ مَخْصُوْصٌ فَوَضْعٌ عُرَفِیٌّ خَاصٌ۔ وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ غَیْرُ مُعَیَّنٍ فَوَضْعٌ عُرَفِیٌّ عَامٌ وَالْمُعْتَبَرُ فِی الْحَقِیْقَۃِ ھُوَ الْوَضْعُ لِشَیْءٍ مِنْ اَوْضَاعِ الْمَذْکُوْرَۃِ وَ فِی الْمَجَازِ عَدْمُہٗ۔‘‘ (کتاب نور الانوار باب بحث الحقیقت و المجاز صفحہ ۷۵ شرح المنار) یعنی حقیقت اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے مراد وہی معنے لئے گئے ہوں جن کے لئے وہ مقرر کیا گیا ہو …… اور ’’وضع‘‘ یعنی مقرر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس لفظ سے کسی قرینہ کے بغیر وہ معنے سمجھے جاتے ہوں۔ اب اگر یہ تعیین لغت بنانے والے کی طرف سے ہو ااسے ’’وضع لغوی‘‘ کہتے ہیں اور اگر یہ تعیین شریعت نے کی ہو تو اسے ’’وضع شرعی‘‘ کہیں گے اور اگر یہ تعیین کسی خاص جماعت نے کی ہو تو اسے ’’وضع عرفی خاص‘‘ کہیں گے اور اگر عرفِ عام سے یہ تعیین ہو تو اسے ’’وضع عرفی عام‘‘ کہتے ہیں اور مجاز میں انہی تعیینوں کا عدم مراد ہے۔

اب ظاہر ہے کہ ان چاروں اوضاع (یعنی وضع لغوی، وضعی شرعی، وضع عرفی خاص اور وضع عرفی عام) میں سے حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات میں لفظ ’’حقیقی نبی‘‘۔ ’’وضع عرفی خاص‘‘ کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ حضور ؑ اور حضورؑ کی جماعت کی ایک خاص وضع کردہ اصطلاح ہے۔ جس کا مفہوم حضرت اقدسؑ نے ’’تشریعی براہِ راست نبوت‘‘ بیان فرمایا ہے۔ پس ’’مجازی نبی‘‘ کی اصطلاح بھی اس کے بالمقابل ’’وضع عرفی خاص‘‘ ہونے کی جہت سے ’’غیر تشریعی بالواسطہ نبی‘‘ کے معنوں میں ثابت ہوئی۔

د۔ اس امر کی مزید مثالیں کہ لفظ مجاز ہمیشہ ’’حقیقت‘‘ کا عکس ہوتا ہے۔ درج ذیل ہے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں:۔

وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہوملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا

(بانگ درا۔ پیامِ عشق صفحہ ۱۳۸)

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات

پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں

(بانگ درا۔ شمع اور شاعر صفحہ ۲۲۰)

اشعار بالا میں ڈاکٹر صاحب نے قوم کے وجود کو ’’حقیقی‘‘ قرا ر دیکر ا س کے بالمقابل ’’افراد‘‘ کے وجود کو ’’مجازی‘‘ قرار دیا ہے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ افراد قوم ’’موجود‘‘ ہی نہیں؟ یا ان کا درحقیقت کوئی وجود پایا ہی نہیں جاتا؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں۔ بلکہ آپ نے صرف قوم کے وجود کے بالمقابل افراد کے وجود کو مجازی قرار دیا ہے نہ کہ مطلقاً۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے خود کو مطلقاً ’’مجازی نبی‘‘ قرار نہیں دیا۔ بلکہ ’’حقیقی نبی‘‘ یعنی اپنے آقا و مطاع آنحضرت صلعم کے بالمقابل جو صاحبِ شریعت ہیں اپنے آپ کو مجازی نبی کہا ہے۔ پس چونکہ آپ کی خاص اصطلاح (مندرجہ بالا) میں ’’حقیقی نبی‘‘ سے مراد صاحبِ شریعت براہ راست نبی ہے اس لئے ’’مجازی نبی‘‘ کے معنے آپ کی اصطلاح میں صرف غیر تشریعی بالواسطہ نبی ہوں گے۔

۶۔ نبوت تامہ:۔ ’’اَلْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ النُّبُوَّۃَ التَّامَّۃَ الْحَامِلَۃَ لِوَحْیِ الشَّرِیْعَۃِ قَدِ انْقَطَعَتْ۔

ترجمہ:۔ مذکورہ حدیث بتا رہی ہے کہ نبوت تامہ جو وحی شریعت والی ہوتی ہے منقطع ہے۔

(توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۱)


تمت بالخیر
 
Top