• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ہستی باری تعالیٰ یعنی اللہ کے وجود پر نویں دلیل

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ہستی باری تعالیٰ یعنی اللہ کے وجود پر نویں دلیل

نویں دلیل قرآن شریف سے وجود باری کی ’’الہام‘‘معلوم ہوتی ہے۔یہ دلیل اگرچہ میں نے نویں نمبر پر رکھی ہے لیکن درحقیقت نہایت عظیم الشان دلیل ہے جو خدا تعالےٰ کے وجود کو یقینی طور پر ثابت کر دیتی ہے۔چنانچہ اﷲ تعالےٰ فرماتا ہے کہ:

يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱلۡقَوۡلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِى ٱلۡأَخِرَةِ‌ۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّـٰلِمِينَ‌ۚ وَيَفۡعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ (٢٧) (ابراھیم:۲۸)

یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس دنیا اور اگلی دنیا میں پکّی باتیں سنا سنا کر مضبوط کرتا رہتا ہے ۔پس جبکہ ہر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہمکلام ہوتا رہتا ہے ۔تو پھر اس کا انکار کیونکر درست ہو سکتا ہے اور نہ صرف انبیاء اور رسولوں سے ہی ہمکلام ہوتا ہے بلکہ اولیاء سے بھی بات کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے کسی غریب بندہ پر بھی رحم کرکے اس کی تشفی کے لئے کلام کرتا ہے۔چنانچہ اس عاجز (حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اﷲ)سے بھی اس نے کلام کیا اور اپنے وجود کو دلائل سے ثابت کیا۔پھر یہی نہیں بعض دفعہ نہایت گندہ اور بد باطن آدمیوں سے بھی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے بول لیتا ہے۔چنانچہ بعض دفعہ چوہڑوں ،چماروں،کنچنیوں تک کو خوابیں اور الہام ہو جاتے ہیں۔اور اس بات کا ثبوت کہ وہ کسی زبردست ہستی کی طرف سے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہو کر بتا دیتی ہیں کہ یہ انسانی دماغ کا کام نہ تھا اور نہ کسی بد ہضمی کا نتیجہ تھا اور بعض دفعہ سینکڑوں سال آگے کی خبریں بتائی جاتی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موجودہ واقعات خواب میں سامنے آگئے۔اور وہ اتفاقاًپورے بھی ہوگئے۔چنانچہ توریت اور قرآن شریف میں مسیحیوں کی ان ترقیوں کا جن کو دیکھ کر اب دنیا حیران ہے پہلے سے ذکر موجود تھا اور پھر صریح لفظوں میں تفصیل کے ساتھ بلکہ ان واقعات کا بھی ذکر ہے جو آئندہ پیش آنے والے ہیں۔مثلاً

اوّل:۔ وَإِذَا ٱلۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ (٤) (التکویر:۵)

یعنی ایک وقت آتا ہے کہ اونٹنیاں بے کار ہوجائیں گی۔اور حدیث مسلم میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ وَلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم حاکمًا بشریعۃ نبینا محمدؐ، مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۹۴ مطبوعہ بیروت) یعنی اونٹنیوں سے کام نہ لیا جائے گا۔چنانچہ اس زمانے میں ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ریل کے متعلق نبی کریم ﷺ کے کلام میں ایسے ایسے صاف اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ریل کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ کلام نبوت میں یہی سواری ہے جو حبس ماء سے چلے گی اور اپنے آگے دھوئیں کا ایک پہاڑ رکھے گی اور سواری و باربرداری کے لحاظ سے حِمَارکی جابجا ہو گی۔ اور چلتے وقت ایک آواز کرے گی۔و غیر ذالک۔ ۱؂

دوم:۔ وَإِذَا ٱلصُّحُفُ نُشِرَتۡ (١٠) (التکویر:۱۱)

یعنی کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا۔ آجکل بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت ِاشاعت کتابوں کی ہوئی اس کے بیان کی ضرورت نہیں۔

سوم:۔ وَإِذَا ٱلنُّفُوسُ زُوِّجَتۡ (٧) (التکویر:۸)

نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہوجانا کہ موجودہ زمانے سے بڑھ کر متصور نہیں۔

چہارم:۔ يَوۡمَ تَرۡجُفُ ٱلرَّاجِفَةُ (٦) تَتۡبَعُهَا ٱلرَّادِفَةُ (٧) (النٰزعٰت:۷،۸)

متواتر اور غیر معمولی زلزلوں کا آنا یہانتک کہ زمین کانپنے والی بن جائے۔سو یہ زمانہ اس کے لئے بھی خصوصیت سے مشہور ہے۔

پنجم:۔ وَإِن مِّن قَرۡيَةٍ إِلَّا نَحۡنُ مُهۡلِڪُوهَا قَبۡلَ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ أَوۡ مُعَذِّبُوهَا عَذَابً۬ا شَدِيدً۬ا‌ۚ كَانَ ذَٲلِكَ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ مَسۡطُورً۬ا (٥٨) (بنی اسرائیل:۵۹)

یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے ۔چنانچہ اسی زمانہ میں طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔

پھر اسلام تو ایسا مذہب ہے کہ ہر صدی میں اس کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو الہام الٰہی سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور خارق عادت نشانات سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قادر و توانا مدبّر بالا رادہ عالم الغیب ہستی ہے ۔چنانچہ اس زمانہ کے مامور پر نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے وحی نازل کی کہ

اوّل:۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔۔۔۔۔یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔۔۔۔ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ۔

(دیکھو براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲۶۷۔۲۶۸)

کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ایسی کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القا کریں گے مگر چاہیے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بدخلقی نہ کرے اور چاہیے کہ تو ان کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے۔ایک شخص ایک ایسے گاؤں میں رہنے والا جس کے نام سے بھی مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہیں یہ اعلان کرتا ہے۔پھر باوجود سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ و افریقہ سے لے کر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا کسی آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔پھر ایک مقتدر جماعت اپنے پیارے وطن چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیا میں مشہور ہوجاتا ہے۔کیا یہ چھوٹی سی بات ہے؟اور کیا یہ ایسا نشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟

دوم:۔ عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ۔اور اپنے یہ ناپاک کلمات شائع کئے کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہوجائے ۔اے خدا!تو ایسا ہی کر۔اے خدا!اسلام کو ہلاک کر۔‘‘تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام علیہ السَّلام ہی تھے جنہوں نے اس کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ ’’اے جومدعی نبوّت ہے آاور میرے ساتھ مقابلہ کر۔ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالےٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذّاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو۔‘‘(ٹیلیگراف امریکہ ۵جولائی ۱۹۰۳ء The Sunday Herald Boston June) لیکن اس نے رعونت سے کہا ۔’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھّیوں کا جواب دوں گااگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔‘‘ تھیں ملا(ڈوئی کا پرچہ نیوز آف ہیلنگ دسمبر۱۹۰۳ء) مگر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے اسی اشتہار ۲۳؍اگست ۳ا۱۹۰ء میں شائع کیا تھا ۔کہ ’’اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر آفت آنے و الی ہے ۔اے خدا اور کامل خدا!یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کردے۔‘‘

پھر اس کے بعد سنو کیا ہوا۔وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کیا کرتا تھا ۔جس کے پاس سات کروڑ روپیہ تھا ۔اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہوگئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزنا ہے۔ آخر اس پر فالج گرا۔پھر غموں کے مارے پاگل ہوگیا۔آخر مارچ ۱۹۰۷ء میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے سے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السَّلام نے ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء کے اشتہار میں شائع فرما یا تھا۔’’خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گاجس میں فتح عظیمہ ہوگی۔وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا۔‘‘ہلاک ہو کر خدا کی ہستی پر گواہی دے گیا۔یہ عیسائی دنیاپرانی اور نئی دنیا دونوں پر حضور کی فتح تھی۔

سوم:۔ آریوں کا ایک نامی لیڈر لیکھرام تھا۔رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر۱۳۰۸ھ میں یہ پیشگوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کر کے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہوگا۔اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبی ﷺ کو گالیاں دیتا تھااور بُرے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا۔پھر ۲۲؍فروری۱۸۹۳ء کے اشتہار میں اُس کے مرنے کی صورت بھی بتا دی عِجْلٌ جَسَدٌ لَہ‘ خَوَارٌ لَہ‘نَصَبٌوَعَذَابٌ(اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء مشمولہ آئینہ کمالات اسلام )یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے جو بے جان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں۔اس لئے اس کو عذاب دیا جائے گا جو گوسالہ سامری کو دیا گیا تھا۔ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گوسالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا۔پھر ۲؍اپریل ۱۸۹۳ء کو آپ نے ایک کشف دیکھا (برکات الدعا حاشیہ صفحہ ۴ طبع اوّل )کہ ایک قوی مہیب شکل جو گویا انسان نہیں ملائک شدّاد و غلّاظ سے ہے وہ پوچھتا ہے کہ لیکھرام کہا ں ہے؟پھر کرامات الصادقین(روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۹۶) کے ایک شعر سے دن بھی بتا دیا ؂

وَبَشَّرَنِیْ رَبِّی وَقَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَبٗ

یعنی عید سے دوسرے دن یعنی ہفتہ والے دن اور ؂

اَلا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ ِ بُرّانِ محمدؐ​

پانچ سال پہلے شائع کر کے قتل کی صورت بھی بتا دی۔آخر لیکھرام ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل کیا گیا اور سب نے متفق اللفظ ہو کر بیان کیا کہ یہ پیشگوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر اﷲ کی ہستی کے لئے حجّت ِ ناطقہ ٹھہری۔پس الہام ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خدا کا انکارکرنا انتہائی ہٹ دھرمی ہے۔
 
Top