• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

احراریات ۔ مجلس احرار کا تعارف اور حقیقت

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
احراریات

احراری کیا ہیں؟

۱۔’’ پنجاب میں چند پنجابیوں نے ایک انجم قائم کر رکھی ہے جسے مجلس احرار کہتے ہیں۔ یہ مجلس غالباً دنیا بھر میں سب سے پہلی انجمن ہے جس کا کوئی اصول و عقیدہ نہیں۔ اگر پہلے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو اب سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی احراری شیخ حسام الدین بن کر اسٹیج پر آجائے اور مجلس احرار کی دف بجا بجا کر کانگرس کے گیت گانے لگے تو وہ احرار کا صدر ہوگا۔ اگر کوئی چودھری افضل حق کے نام سے اخباری زبان میں چلا ئے کہ کانگریسی لیڈر سرمایہ دار ہیں اور سرمایہ داری کی تخریب مجلس احرار کے مقصد میں شامل ہے تو وہ متفکر احرار کہلائے گا گویا کانگرس کا ہوا خواہ بھی قائدِ احرار ہے اور کانگرس پر لعنتیں بھیجنے والا بھی زعیمِ احرار ہے۔ اب بتائیے کہ احرار بذات خود کیا ہیں۔‘‘

(روزنامہ ’’زمیندار‘‘ ۳ جولائی ۱۹۴۱ء)

۲۔’’ حر‘‘ بمعنی آزاد عربی زبان کا لفظ ہے ا س کی جمع احرار ہے۔ پنجاب میں ایک جماعت قائم ہوئی تھی ، اس کا صدر مقام لاہور رہا ہے۔ شروع شروع میں یہ نقال جماعت تھی تحریک کشمیر ختم ہوئی تو اس کی عملی سر گرمیاں بھی ختم ہو گئیں۔ مگر دفتر باقاعدہ رہا اور احکام برابر جاری ہوتے رہے لیکن نصب العین کوئی نہ تھا۔ اور نہ کوئی لائحہ عمل ، اس لئے جملہ احکام ہوائی تو پیں ثابت ہوئیں۔ نصب العین پوچھو تو کوئی نہیں۔ صرف لکیر کے فقیر ہیں اور لفظ ’’احرار‘‘ کی مالا جپ رہے ہیں کوئی پوچھے کہ کانگرسی ہو تو کہتے ہیں کانگرسی کیا ہیں؟ کانگرسیوں کے کرتا دھر تا مہاتما گاندھی یہی غنیمت سمجھتے ہیں کہ زیر سایہ بر طانیہ کم از کم سول اتھارٹی ہی مل جائے۔ مگر ہم مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ لیگی ہو توکہتے ہیں نہیں۔ ہم تو سارے ہندوستان پر حکومت الٰہیہ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی سر پھرا کہہ دے کہ کچھ کر کے بھی دکھایئے تو فرماتے ہیں کہ ہندو قوم ساری کانگرس کے ساتھ ہے اور مسلمان قوم تمام کی تمام لیگ سے جاملی ہے ہم کریں تو کیا کریں؟‘‘ (روزنامہ زمیندار ۲۱ فروری ۱۹۴۹ء)

۳۔’’ آٹھ اور آٹھ سولہ دن ہوئے کہ پنجاب میں ایک نئی پارٹی نے جنم لیا ہے قارئین کرام اس چوں چوں کے مربےّ سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس میں کون کون الّو باٹے اکٹھے ہوئے ہیں۔ …… اس کانام ہے ’’مجلس احرار‘‘۔ یہ جماعت معرضِ ظہور میں کیوں آئی اس کا جواب دینا ضروری ہے اس کے شرکاء وہ لوگ ہیں جو کبھی ملی کانگرس کے دامن سے وابستہ تھے اور ان کے باپو گاندھی جی مہاراج کی کرپا سے انہیں بھوجن اورپوشن مل جایا کرتا تھا لیکن جہاں کانگرس کا کام تمام ہوا۔ کانگرس سے انہیں طلاق مل گئی اور ان کا روز ینہ بند ہو گیا۔ کانگرس سے الگ ہو کر ان کے پاس سوائے ازیں کوئی چارہ کار نہ تھا کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کوئی نیا پھندا پھیلائیں۔ لہٰذا انہوں نے ’’مجلس احرا ر اسلام‘‘ کی طرح ڈالی…………عوام حیران ہیں کہ آخر ان احراریوں کو کیا ہو گیا جو یکدم مہاراجہ (کشمیر)کے اشارے پر ناچنے لگ گئے ! کسی نے خوب کہا ہے کہ

اے زرتو خدا نیست و لیکن بخدا ستّار العیوب و قاضی الحاجاتی

ان کی بلا سے قوم جہنم میں جائے یا کسی گھاٹی میں گرے انہیں اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔‘‘ (سیاستؔ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۳)

احراری اور ان کا امیر شریعت:۔

۴۔’’احرار تبلیغ کے وسائل اختیار نہیں کرتے جو اسوہ جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی رو سے اور قرآن الحکیم کی تعلیم کے مطابق ہمیں اختیار کرنا چاہیے بلکہ قادیانوں کو اور نہ صرف ان کو بلکہ ہر اس شخص کو جو دیا نتداری کے ساتھ ان سے اختلاف رکھتا ہے غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے بدترین مجرم وہ شخص ہے جس کو یہ لوگ ’’امیر شریعت‘‘ کہتے ہیں۔ سید عطا ء اﷲ شاہ احراری (ان کو بخاری کہنا ساداتِ بخارا کی توہین ہے)عامیانہ مذاق کا آدمی ہے وہ بازاری گالیاں دینے میں مشاق ہے اسی لئے عام آدمی ان کی تقریر کو گھنٹوں اسی طرح ذوق شوق سے سنتے ہیں۔ جس طرح وہ میراثیوں اور ڈوموں کی گندی کہانیوں کو سنتے رہے ہیں……عطاء اﷲ احراری کا وجود علماء کی جماعت کے لئے رسوا کرنے والا ہے۔ (سیاست ۱۸ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۳)

۵۔ مولوی ظفر علی آف زمیندار بزبان امیر شریعت احرار کہتے ہیں:۔ ؂

اک طفل پری رو کی شریعت فگنی نے کل رات نکالا میرے تقویٰ کا دوالا

میں دین کا پتلا ہوں وہ دنیا کی ہے مورت اس شوخ کے نخرے میں مرا گرم مسالا

(لاہور۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۶ء و چمنستان یعنی مجوعہ کلام مولوی ظفر علی خاں صفحہ ۹۶۔ مطبوعہ پبلشر ز یونا ئٹیڈ لا ہو ر ۱۹۴۴ء بار اوّل)

مجلس احرار انگریز کا خود کاشتہ پودا:۔

۶۔ مولوی ظفر علی خاں لکھتے ہیں:۔

’’آج مسجد شہید گنج کے مسئلہ میں احرار کی غلط روش پر دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض ہونے پر انگریزی حکومت احرار کی سپر بن رہی ہے اور حکومت کے اعلیٰ افسر حکم دیتے ہیں کہ احرار کے جلسوں میں کوئی گڑ بڑ پیدا نہ کی جائے تو کیا اس بدیہی الانتاج منطقی شکل سے یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مجلس احرا ر حکومت کا خود کا شتہ پودا ہے؟ جس کی آبیاری کرنا اور جسے صرصرِ حوادث سے بچانا حکومت اپنے ذمۂ ہمت پر فرض سمجھتی ہے۔‘‘ (روزنامہ زمیندار۔ ۳۱ اگست ۱۹۳۵ء)

۷۔ مولوی ظفر علی صاحب اپنے احباب کی ایک شاعرانہ مجلس کا تذکرہ لکھتے ہیں:۔

’’ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ احرار کے متعلق ایک شعر ضرور ہو نا چاہیے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ احرارکی شریعت کے امیر مولا نا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے امروہہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سؤر ہیں اور سؤرکھانے والے ہیں۔‘‘

اَوْ کَمَا قَالَ۔ پھر میرٹھ میں مولو ی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلس احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے۔ غصے میں آکر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ:۔

’’دس ہزار جیناؔاور شوکتؔ اور ظفرؔ جواہر لعل کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں۔‘‘

اس پر میں نے یاروں کی فرمائش یوں پوری کی ؂

کیا کہوں آپ سے کیا ہیں احرار کو ئی لچا ہے اور کوئی لُقّہ

(’’چمنستان‘‘ مجموعہ منظومات ظفر علی صاحب صفحہ۱۶۵مطبوعہ پبلشرز یونائیٹڈ لاہور ۱۹۴۴ء بار اوّل)

۸۔ گالیاں دے جھوٹ بول احرار کی ٹولی میں مل

نکتہ یوں ہی ہو سکے گا حل سیاسیا ت کا

(ایضاً صفحہ ۹۲)

۹۔ آج اسلام اگر ہند میں ہے خوار وذلیل

تو یہ سب ذلت اسی طبقۂ غدار سے ہے

(ایضاً صفحہ ۴)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۰۔ چمنستان صفحہ ۲۳۲ پر ظفر علی خاں لکھتے ہیں:۔

’’میں نے صدر مجلس احرار سے دریافت کیا کہ بندہ پرور ! آپ خاکساروں کے کیوں مخالف ہیں؟ پٹیل۔ نہرو۔ بوس۔ گاندھی کے خلا ف کیوں یلغار نہیں کرتے۔ اس کے جواب میں صدر مجلس احرار کی زبان سے جن حقائق کا انکشاف فرمایا گیا وہ آج بھی ملت کو تفکر و تدبر کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘

مولانا ظفر علی خان فرماتے ہیں ؂

پل رہے ہیں ان کے چندوں پر مگر احرارِ ہند

پھر ہوں کیوں وہ اپنے ہی پروردگاروں کے خلاف

(ایضاً صفحہ ۲۳۲)

نیز ؂

نرالی وضع کا مومن ہے طبقۂ احرار

کہ سر جھکا ہوا مشرک کے آستاں پرہے

(ایضاً صفحہ ۱۶۸)

۱۱۔’’ تقسیم برا عظم ہندو پاکستا ن کے موقعہ پر مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا اس میں ہمارے خون کا قطرہ قطرہ مجلس احرار اسلام اور اس کے زعماء کی بیدردی اور لا پرواہی کی داستان ہے ہمارے خون کی واحد ذمہ داری مجلس احرار کے سر ہے اور بس۔‘‘ (زمیندا ر ۳۱ جنوری ۱۹۴۸ء)

۱۲۔ خود مفکر احرار چوہدری افضل حق کہتے ہیں:۔

’’باسی کڑھی کے ابال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کے جھاگ کی طرح ہم بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ (زمزمؔ لاہور ۱۵ جو لائی ۱۹۴۱ء)

۱۳۔ ’’مجلس احرار ٹھگوں کی ٹولی اور چوروں کی جمیعت ہے۔‘‘

(اخبار احسان لاہور ۵فروری ۱۹۳۶ء)

۱۴۔ ’’احرا ر‘‘ کے نام سے کسی کو منسوب کرنا ذلت اور تحقیر کے مترادف ہے۔‘‘

(اخبار ’’نوجوان افغان‘‘ ہری پور (ہزارہ)۱۷جولائی ۱۹۳۷ء)

احراری لیڈروں کے اپنے اقوال

ا۔قاعداعظم کی نسبت :۔

’’مسٹر جناح نے ایک بے درد وحشت پسند کی طرح ہمارے درمیا ن ایک بم پھینکا ہے جس سے انتشار اور ابتری پیدا ہوگئی ہے۔ حالانکہ آج متحدہ عمل (یعنی کانگرس اور ہندوؤں کے ساتھ اتحاد۔ ناقل) وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ کٹر قوم پرست جناح اوّل درجہ کا فرقہ پرست بن چکا ہے ہمیں اس سوال پر اچھی طرح سوچ بچار کرنی چاہیے۔مسٹر جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی جو قرارداد منظو ر کی ہے اسے اگر کلیۃً شرانگیز نہیں کہا جا سکتا تو کم از کم اسے مصلحت وقت کے خلاف ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یہ اس امر کا بد یہی ثبوت ہے کہ ہندوستانی سیاست ایک سخت مرض میں مبتلاء ہے۔ جناح ایک ہوشیار سیاست دان ہے اور اس نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں کی چپقلش سے پورا فائدہ اٹھا یا ہے اور زخم پر پھاہا رکھنے کی بجائے خنجر سے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا مناسب سمجھا ہے۔‘‘

(’’پاکستان اور اچھوت‘‘ مصنفہ مفکر احرار چوہدری افضل حق زیر عنوان ’’مسئلہ‘‘ صفحہ۷ شائع کردہ مکتبہ اردو لاہور مرکنٹائن پریس لاہور)

۲۔’’گاندھی جناح سمجھوتانہیں ہو سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاتما گاندھی جتنا جھکتے جائیں گے۔ مسٹر جناح اپنے مطالبات کو زیادہ کرتے جائیں گے۔ مسٹر جناح ان کی مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان۔ ہندوستان کی آزادی کی راہ میں ایک روڑا ہے کانگرس کے اثر اور بڑھتی ہوئی طاقت کو زائل کرنے کے لیے حکومتِ انگریزی نے خو د مسلم لیگ کو طاقت بخشی۔ لیگی وزارتیں مسٹر جناح اور آل انڈیا مسلم لیگ سب انگریز کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ چونکہ انگریز ہندوستان کوکچھ دینا نہیں چاہتا۔اس لیے مسٹر جناح نے ان کے اشارے پر مطالبۂ پاکستان پیش کر دیا۔ در اصل پاکستان حاصل کرنے کے لیے مسٹر جناح نے مطالبۂ پاکستان پیش نہیں کیا یہ صرف ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے اس لیے یہ نا ممکن ہے کہ مسٹر جناح اور گاندھی جی میں صلح ہو جائے۔‘‘

(احراری لیڈروں سے نمائندہ پریس کا انٹر ویوملاپؔ جالندھر۱۲ اگست ۱۹۴۴ء)

۳۔’’احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں۔‘‘

(تقریر دچوہدری افضل حق یکم دسمبر ۱۹۴۱ء صدارتی خطبہ ڈسٹرکٹ احرار کانفرنس قصور۔ منقول از خطبات احرار صفحہ ۸۳ مطبوعہ بار اوّل ۱۹۴۴ء مرتبہ شورش کاشمیری)

۴۔’’ قائد اعظم کو احرار نے ’’کافر اعظم‘‘ اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔‘‘

(’’حیات محمد علی جناح ‘‘ مؤلفہ رئیس احمد جعفری صفحہ۹۱ بمبئی ۱۹۴۶ء اور مسٹر جناح کا اسلام صفحہ۹ شائع کردہ جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام نیز ہفت روزہ چٹان لاہور مورخہ ۵۰۔۱۱۔۶)

۵۔ صد رمجلس احرار نے قیام پاکستان سے پہلے کہا:۔

’’مسلم لیگ نے ہمیشہ آزاد ی کی راہ میں روڑے اٹکا ئے۔ ملک آزاد ہونے پر مسٹر جناح اور دوسرے لیگی لیڈروں پر مقدمہ چلایا جائے گا۔‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی۔ استقلال نمبر ۴۹ء)

۶۔’’ ہندوستا ن کے دس کروڑ مسلمانوں کا نام نہاد رہنما ایک پارسی عورت کو حلقۂ زوجیت میں لینے کے لیے حلفیہ اقرارنامہ کے ذریعہ مسلمان ہونے سے انکار کرتا ہے اور آج تک کلمۂ توحید پڑھ کر مسلمان نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں کا قائد اعظم۔‘‘

(رسالہ مسٹر جناح کا اسلام صفحہ۱ شائع کردہ جنرل سیکرٹری مجلسِ احرار اسلام و ہفت روزہ چٹان لاہور ۶ نومبر۱۹۵۰ء)

۷۔ ’’ہم لیگ کو دامِ فرنگ سمجھ کر دور ہی رہنا چاہتے ہیں۔‘‘

(خطبات احرار صفحہ۲۲از چوہدری افضل حق)

۸۔’’پاکستان ایک خونخوار سانپ ہے جو ۱۹۴۰ء سے مسلمانوں کا خون چوس رہا ہے اور مسلم لیگ ہا ئی کمانڈ ایک سپیرا ہے۔‘‘ (احراری اخبارآزاد کا اداریہ ۹ نومبر ۴۹ء)

۹۔’’ ہمیں پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے دام فریب میں نہ پھنساؤ۔‘‘

(خطبات احرار صفحہ۱۰۱ بار اوّل از چوہدری افضل حق)

۱۰۔’’ قومی بوجھ بجھکڑ ایسے حال میں شمالی ہند کو پاکستا ن بنا رہے ہیں۔ (ایضاً صفحہ ۴۱)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۱۔ سیالکوٹ میں احراری امیر شریعت سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ قادیانیوں کے پیچھے تو لٹھ لیے پھرتے ہیں لیکن کمیو نزم کے خلا ف کیوں کچھ نہیں کہتے حالا نکہ کمیو نزم سراسر دہریت ہے تو اس سوال کا مندرجۂ ذیل جواب احراری امیر شریعت نے دیا :۔

’’کمیو نزم کی ٹکر امپر یلز م سے ہے۔ کفر کفر سے لڑتا ہے اسلام سے اس کا کیا مقابلہ اور مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجود ہو؟ ہم نے اسلام کے نام سے جو کچھ اختیا ر کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے۔ ہمارے دل دین کی سمجھ سے عاری، ہماری آنکھیں بصیرت سے نا آشنا کا ن سچی بات سننے سے گریزاں ؂

بیدلی ہائے تماشا کہ نہ غیرت ہے نہ ذوق بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

میں کمیونزم سے کیوں ٹکراؤں؟وہ کون سا اسلام ہے جس پر کمیونزم ضربیں لگا رہا ہے۔ ہمارااسلام ؂

بتو ں سے تجھ کو تمنا خداسے نومیدی

مجھے بتا تو سہی اور کافر ی کیا ہے؟

یہ اسلا م جو ہم نے اختیا ر کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھلایا تھا۔ کیا ہماری رفتا ر، ہماری گفتار،کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا تھا؟…………میں کہتا ہوں کہ گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہو…………فکر کج، دماغ پریشان،احکام الٰہی سے انکار اور پھر اصرار۔ سکند ر حیات نے کالرہ بل بنوایا کہ جائیداد کا وارث بڑا لڑکا ہے۔ اور لڑکیا ں حصہ دار نہیں۔ قرآن کے ½ّّ1 رکوع کے انکار کے باوجود بھی ہم مسلمان اور پھر اس اسلام کو کمیونزم سے خطرہ؟ (لیکن بقول احراری مزکور اس اسلام کو احمدیت سے ضرور خطرہ ہے؟ خادمؔ)کاش اسلام کا کہیں نظارہ ہوتا کوئی بستی ہوتی جہا ں اسلام بستا۔ ہمارا تو سارا نظام کفر ہے قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے قرآن صرف تعویذ کے لیے قسم کھانے کے لیے ہے۔

(تقریر عطا ء اﷲ شاہ بخاری سیالکوٹ احرار کانفرنس منقول از ’’آزاد‘‘ (احراری اخبار) ۹ دسمبر۱۹۴۹ء)

۱۲۔’’ احراری امیر شریعت نے کہا کہ قائد اعظم سے ملاقات کی درخواست کرتے ہوئے میں نے قائد اعظم کے جوتوں میں اپنی سفید داڑھی رکھی اور کہا کہ میری ٹوپی لے جاکر ان کے قدموں میں رکھ دو۔‘‘ مگر قائد اعظم نے ملاقات کی اجازت نہ دی ۔‘‘(احراری اخبار آزاد لاہورجلد۷ نمبر۵۳ مورخہ ۴۹۔۱۱۔۱۴)

۱۳۔’’ احرار اب تبلیغی جماعت ہے۔ اس کا ملکی الیکشن یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کا بیان یہ ہمارا فرض تھا۔ ہم نے اپنے فرض کو چھوڑ کر سیاست کے کانٹوں کو ہاتھ میں لیا۔ خدا نے ہمیں سزا دی اور الحمد ﷲ اب ہم سیاست سے تائب ہو چکے ہیں اور پھر اپنے اصل مقام پر آتے ہیں ۔‘‘ (تقریر عطا ء اﷲ شاہ بخاری۔ لاہور کانفرنس آزاد ۳۰ اپریل ۵۰ء صفحہ ۵)

۱۴۔ لیکن:۔

’’آج ہمارا ہاتھ اقتدار سے خالی اور ہمارے جیب و دامان اختیا ر سے تہی ہیں……ہم نے ٹھنڈے دل اور پرسکون دماغ سے غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ…………جس طبقہ، جس پارٹی کے ہا تھ میں اقتدار ہے اس سے الجھا نہ جائے…………ہم نے ایک شہری، ایک انسان، ایک مسلمان اور ایک سیا سی گروپ کی حیثیت سے ا پنے فرائض کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کردیا کہ بر سر اقتدار پارٹی کے لیے سنگِ راہ نہ بنیں۔‘‘

’’ہم نے دسمبر ۴۸ء میں حزب مخالف بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے گروپ نے اسے درست نہ سمجھا…………اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کردیاکہ اس رستہ کو ان کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔‘‘ (تقریر احسان احمد شجاع آبادی احراری سیالکوٹ احرار کانفرنس آزادؔ لاہور ۹ دسمبر ۱۹۴۹ء)

۱۵۔ چوہدری افضل حق احراریوں کو یوں مخاطب کرتے ہیں :۔

’’انتہا ء درجہ کے تنگ دل اور معتصب فرقہ پرست تمہیں فرقہ پرست کہیں گے ان کی پرواہ نہ کرو۔ کتوں کو بھونکتا چھوڑو۔ کاروانِ احرار کو اپنی منزل کی طرف چلنے دو احرار کا وطن لیگی سر مایہ دار کا پاکستان نہیں ہے۔‘‘ (خطبا ت احرار صفحہ۹۹ بار اوّل ۱۹۴۴ء)

۱۶۔’’ سر مایہ دار نظام میں گھس کر کامیا ب حملہ کیسا ممکن ہے؟ باوجود اس کے ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھسنے کی کوشش کی تا کہ اس پر قبضہ جمائیں۔ دونوں دفعہ قاعدے اور قانون نئے بنا دیئے گئے تا کہ ہم بیکا ر ہو جائیں۔‘‘ (تقریر چوہدری افضل حق ’’خطبات احرار‘‘ صفحہ ۹۵ بار اوّل ۱۹۴۴ء)

۱۷۔ سید عطاء اﷲ بخاری نے پسرور کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم کو مخاطب کر کے کہا:۔

’’ تم کہتے ہو کہ ہم نے پاکستان بنانا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اب تک کسی ماں نے کوئی ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان بنانا تو کجا پاکستا ن کی ’’پ‘‘ کا ایک نقطہ بھی بنا سکے۔

(روزنامہ جدید نظام لاہور۔ استقلال نمبر ۱۹۵۰ء و رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو صفحہ ۲۷۴)

۱۸۔ مسلم لیگ حکومتِ انگریزی کا خود کاشتہ پودا:۔

’’ــ ہندوستان کے نام نہاد مسلمانوں کی رائے عامہ مدتوں ان لوگوں (مسلم لیگ۔ خادمؔ)کی طرف دار رہی جو بلحا ظ ضمیر مرد ہ تھے اور بلحاظ ضمیر حکومت انگلشیہ کے خود کاشتہ پودے تھے۔‘‘

(احرار آرگن اخبار ’’افضل‘‘ سہارنپور مورخہ ۴۵۔۷۔۱۳)

سچ ہے بقو ل مولوی ظفر علی خان ؂

پنجاب کے احرار اسلام کے غدّار

(زمیندار۔ ۱۰ اگست ۱۹۳۵ء ٹائیٹل پیج)
 
Top