• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

اسوہ انسان کامل ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اسوہ انسان کامل ۔ یونی کوڈ
حضرت محمد مصطفی ؐکا سوانحی خاکہ
کتاب اسوۂ انسان کامل میں سوانح کی ترتیب مہ وسال کی بجائے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ اور اُسوۂ حسنہ پر واقعاتی انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں ایک مختصر سوانحی خاکہ پیش کردیا جائے جو مختلف اہم واقعات سیرت کے لئے انڈیکس کا کام دے سکے۔ ہمارے نبی شاہِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اس تاریخی سال میں ہوئی، جب خانہ کعبہ پریمن کے گورنر ابرہہ نے حملہ کیاتھا۔ محمود پاشا فلکی مصری کی تحقیق کے مطابق یہ سال 571ء تھا اور 20؍اپریل (مطابق 9ربیع الاوّل) تاریخ تھی۔ چالیس سال کی عمر میں حضرت محمدمصطفی ؐ پر وحی قرآنی کا نزول ہوا۔ اس تسلسل میں اہم تاریخی سوانح کا خاکہ یُوں ہے۔
٭
بعثت نبوی کا پہلا سال610ء ۔ نزول قرآن کا آغاز
٭
پانچواں سال614ء ۔ پہلی ہجرت حبشہ
٭
ساتواں سال615ء ۔ محاصرہ شعب ابی طالب،معجزہ شق القمر
٭
دسواں سال619ء
وفات حضرت خدیجہ و ابوطالب،نکاح حضرت عائشہ ؓ و حضرت سودہؓ، سفر طائف
٭
گیارہواں سال620ء ۔ اہل یثرب سے ملاقات
٭
بارھواں سال 621ء ۔ واقعۂ معراج
٭
تیرھواں سال622ء ۔ بیعت عقبہ ثانیہ ، ہجرت مدینہ
٭
ہجرت کاپہلا سال1ھ مطابق622 ء مدینہ آمد،مسجد قباء اور مسجد نبوی کی بنیاد، ابتدائے اذان،مؤاخات انصار و مہاجرین، معاہدہ یہود
٭
2ھ بمطابق 623ء تحویل قبلہ ،فرضیت رمضان،عیدالفطر،جنگ بدر،حضرت عائشہ ؓ سے شادی
٭
3ھ مطابق624ء غزوۂ قینقاع،پہلی عیدالاضحی،حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓسے نکاح، حضرت عثمانؓ سے اُمّ کلثوم کی شادی، رسول اللہؐ کی حضرت حفصہؓ سے شادی،غزوہ ٔاحد
٭
4ھ مطابق625ء واقعہ رجیع و بئر معونہ،یہودی قبیلہ بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج، رسول اللہؐ کی حضرت امّ سلمہ ؓ سے شادی، غزوۂ بدر الموعد
٭
5ھ مطابق 626ء غزوۂ دومۃ الجندل،مدینہ میں چاندگرھن اور نماز خسوف، غزوۂ بنو مصطلق اور واقعہ افک غزوۂ خندق، غزوۂ بنوقریظہ۔
٭
6ھ مطابق627-28ء غزوۂ بنو لحیان، ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ کا قبول اسلام، حضرت ابوالعاص داماد رسول کا قبول اسلام، صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان
٭
7ھ مطابق628-29ء
شاہان مملکت کو تبلیغی خطوط، غزوۂ ذی قرد، غزوۂ خیبر،حضرت صفیہؓ سے شادی، اہل فدک سے مصالحت،آنحضرتؐ کو زہر دینے کی سازش، مہاجرین حبشہ کی واپسی، حضرت ابوھریرہؓ کا قبول اسلام،غزوۂ ذات الرقاع اور صلوۃ الخوف،عمرۃ القضاء
٭
8ھ مطابق629ء غزوۂ مُوتہ ، غزوۂ فتح مکّہ، غزوہ حنین، غزوۂ طائف،مدینہ میںقبائل عرب کے وفودکی آمد کا آغاز
٭
9ھ مطابق630ء
غزوۂ تبوک، وفود عرب کی کثرت سے آمد، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کی موت، اہل طائف کا قبول اسلام، حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا حج،
٭
10ھ مطابق631ء
حضرت عدی بن حاتم الطائی کا قبول اسلام، حضرت ابوموسیٰ ؓو حضرت معاذ ؓ کو یمن بھجوانا، حجۃ الوداع
٭
11ھ مطابق632ء
آخری وفد کی آمد، حضورؐ کی آخری بیماری، سریہّ اسامہ بن زید، وفات رسولؐ

شمائل نبویؐ کی ایک جھلک
’’شمائل نبوی‘‘ میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پاکیزہ عادات و اطوارکاایک نقشہ پیش کرنا مقصودہے جن کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ گواہی ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ یعنی آپؐ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے۔ (سورۃ القلم:6)اس آسمانی شہادت سے بہتر آپؐ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کرسکتا ہے؟
رسول اللہؐ کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضاکے تابع آپؐ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو،آپؐ اس سے دور رہتے تھے۔(حکیم ترمذی)1
یزید بن بابنوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر فرمانے لگیں تمہیں سورۃ المؤمنون یا د ہے تو سنائو۔ انہوں نے اس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قَدْاَفْلَحَ المُوْمِنُوْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔وہ لغو چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے کہ ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اور جو اس کے علاوہ چاہے وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔حضرت عائشہؓ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ۔ (حاکم)2
الغرضحضرت عائشہؓ کیچشم دیدشہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔جس کا یہ مطلب ہے کہ اوّل۔قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔ چنانچہ قرآن کی اخلاقی تعلیم پر عمل کر کے آپؐ نے ایسا حسین عملی نمونہ پیش کیا جسے قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ قرار دیاہے۔(سورۃ الاحزاب:22)
دوم۔قرآن نے جو حکم دیئے وہ سب آپؐ نے پورے کر دکھائے۔گویا آپؐ چلتے پھرتے اور مجسم قرآن تھے۔
آیئے ان دونوں پہلوئوں سے شمائل نبوی پرایک نظر ڈالتے ہیں۔
قرآن شریف میں رسول کریم ؐ کی شخصیت ،آپؐ کے لباس، حقوق العبادکی نازک ذمہ داریوں،بے پناہ روز مرہ مصروفیات ،انقطاع الی اللہ ،عبادات، ذکرالہٰی، تبلیغ اورپاکیزہ اخلاق، سچائی، راستبازی، استقامت،رافت و رحمت،عفووکرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں ان اخلاق فاضلہ کی تفاصیل موجود ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر کشش شخصیت کا عکس آپؐ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ سے خوب نمایاں تھا ،جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے۔
بلاشبہ آپؐ کا بھرا بھرا ،کھلتے ہوئے سفید رنگ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوتا تھا،شرافت و عظمت کا نور اس پر برستاتھااور بشاشت و مسکراہٹ اس پاکیزہ چہرہ کی رونق تھی۔
آپؐ کاسر بڑا تھا او ر بال گھنے ۔ ریش مبارک گھنی تھی،ناک پتلی کھڑی ہوئی،کالی خوبصورت آنکھیں اور رخسار نرم و ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ دانت فاصلے دار اور سفید موتیوں کی طرح چمکدار تھے۔گردن لمبی ، سینہ فراخ ،بدن چھریرا اور پیٹ سینہ کے برابر تھا۔قد درمیانہ اور متناسب تھا۔پُشت مبارک پر کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر سُرخ رنگ کا گوشت کا ایک ٹکڑا اُبھراہوا تھاجو مہر نبوت سے موسوم تھا اورجس کا ذکر قدیم نوشتوں میں رسول اللہؐ کی شناخت کی ایک جسمانی نشانی کے طور پر موجود تھا۔(ترمذی)3
روز مرہ معمولات
کہتے ہیں کسریٰ شاہ ایران نے اپنے ایام کی تقسیم اس طرح کررکھی تھی کہ جس دن بادِ بہار چلے وہ سونے اور آرام کے لئے مقررہوتا تھا، ابرآلودموسم شکار کیلئے مختص تھا، برسات کے دن رنگ و طرب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں۔ جب مطلع صاف اور دن روشن ہوتا تو دربار شاہی لگایا جاتا اور عوام و خواص کو اذن باریابی ہوتا۔ظاہر ہے یہ ان اہل دنیا کا حال ہے جو آخرت سے غافل ہیں۔
مگر ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ہر حال میں عسرہویایُسر اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔دن کا ایک حصہ عبادت الہٰی کیلئے،ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقررتھا۔پھر اپنی ذات کیلئے مقرر وقت میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نوع اِنسان کی خدمت میں صرف ہوتا تھا۔(عیاض)4
دعویٰ نبوت کے بعدرسول کریم ؐ کی ۳ ۲ سالہ زندگی میں سے ۱۳ سالہ مکی دور نزول قرآن، تبلیغی جدوجہد،اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت اور ابتلاء و مصائب کا ایک ہنگامی دور تھا۔اس کے معمولات کی تفصیلات اس طرح نہیں ملتیں جس طرح دس سالہ مدنی دور کے معمولات روز و شب کی تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور جن سے مکی دور کی بھرپورمصروفیات کا ایک اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
احادیث کے مطابق آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ اچھی طرح صاف کرتے۔نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت کرتے، اتنی لمبی کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پائوں پرورم ہوجاتے۔ نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لئے حضرت بلال ؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراًنہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔کبھی نماز تہجّد بیماری وغیرہ کے باعث رہ جاتی تو دن کے وقت نوافل ادا کرتے ۔(بخاری)5
نمازفجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے ۔ذکرِ الٰہی سے فارغ ہوکرصحابہ سے احوال پرسی فرماتے ،زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی ہوتیں۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنائے ۔اچھی خواب پسند فرماتے اوراس کی تعبیر بیان کرتے۔کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنادیتے۔ (بخاری،مسلم)6
رسول کریم ؐ صبح ہی اپنے دن کا پروگرام مرتب فرمالیتے۔اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے ۔شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو جاتے۔ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔(کنز)7
رسول کریمؐ کی مجالس صحابہ سے ملاقات اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک نہایت عمدہ موقع ہوتی تھیں۔ صبح صبح مدینہ کے بچے حصول تبرّک کے لئے برتنوں میں پانی وغیرہ لے کر آجاتے تھے۔ آپؐ برتن میں انگلیاں ڈال کر تبرّک عطا فرماتے۔ (مسلم)8
قومی کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ گھر تشریف لے جاتے۔ اہل خانہ سے پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے۔ مل جاتا تو کھا لیتے اور اگر کچھ موجود نہ ہوتا تو فرماتے اچھا آج ہم روزہ ہی رکھ لیتے ہیں۔(ترمذی)9
بادشاہ اور بڑے لوگ اپنے کام وزراء اور دوسروں کے سپرد کر کے خود عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنجوقتہ نمازیں،جمعہ،عیدوغیرہ خود پڑھاتے تھے۔ پھرگھر میں جو وقت گزرتا کام کاج میں اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے، کپڑے خود سی لیتے، پیوندبھی لگائے ،ضرورت پرجوتا بھی ٹانک لیا،جھاڑو بھی دیا، حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اورچارہ بھی ڈال دیتے، دودھ دوھ لیاکرتے۔خادم تھک جاتے تو ان کی مدد فرماتے۔(احمد10)بیت المال کے جانوروں کو نشان لگانے کی خاطر خود داغ دیتے۔
آپؐاپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے ،ان کی بکریوں کادودھ اُن کو دوہ کردیتے۔ (احمد)11
رسول کریمؐ کی ایک بہت اہم اور نازک ذمہ داری نزول قرآن اور اس کی حفاظت کی تھی۔اس کے لئے اپنے اوقات کا بڑا حصہ آپؐکووقف کرنا پڑتا تھا۔ گھر یا مجلس میں جہاں اورجب بھی وحی الہٰی کا نزول ہوتا اس کے بوجھ سے ایک خاص کیفیت آپؐ پر طاری ہوتی۔ جسم پسینہ سے شرابور ہوجاتا جس کے فوراً بعد کاتب کو بلواکر وحی الہٰی لکھوالیتے۔ (بخاری)12
وحی قرآن کے یاد رکھنے اورنمازوںمیں تلاوت کے لئے گھر پراس کااعادہ اورغورو تدّبرایک الگ محنت طلب کام تھا۔
ذکر الہٰی و دعا
نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔(ہیثمی13) فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’’دست درکارودل بایار‘‘ کے حقیقی مصداق تھے۔
ہر موقع اور محل کے لئے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی۔گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعدمیں،بیت الخلاء جاتے آتے،بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے سہارا بناکر دعا کرتے۔مجلس میں بیٹھے ستّر مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ (بخاری)14
دعائوں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت یَاحَیُّ یَا قُیُّوْمُ کی صفات الہیہ (یعنی اے زندہ اے قائم رکھنے والے) پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْمُ پڑھتے۔یعنی پاک ہے اللہ بڑی عظمت والا۔مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔(بخاری)15
صحابہ سے عام ملاقاتیں ، وعظ و نصیحت اور سوال و جواب کی مجالس کے پروگرام نمازوں کے اوقات میں ہو جاتے تھے۔اکثراپنے اصحاب خصوصاً انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔(احمد16)حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ کے گھر بھی تشریف لے گئے، کبھی ان کے باغ میں جاکر وقت گزارتے۔(بخاری)17
نماز عصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات کے گھر جایا کرتے تھے۔ (احمد18) یہ گھر ایک حویلی میں مختلف کمروں کی صورت میں پاس پاس ہی تھے۔ مغرب کے بعد سب بیویا ں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مد دحاصل کیا کرو۔ (طبرانی)19
عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھاتاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اورعشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں اور گپ شپ پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپؐ ؐنے حضرت ابو بکرؓ اور عمر ؓ سے عشاء کے بعد بھی مشورے فرمائے۔ (احمد20) دن کے کاموں کا اختتام نماز عشاء سے پہلے پہلے کر کے عشاء کے بعد آرام کرنا پسند کرتے تاکہ تہجد کیلئے بروقت بیدارہوسکیں۔(بخاری)21
پھر آدھی رات کے قریب جب آنکھ کھلتی اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں محو ہوجاتے۔ آپؐ نے رات کے ہر حصہ میں نماز تہجّد ادا کی ہے۔مگر اکثر رات کی آخری تہائی میں عبادت کرتے تھے۔(بخاری)22
خوراک و غذا
نبی کریمؐ کھانے سے پہلے اوربعدہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے۔(ہیثمی23) نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیںہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے۔(بخاری24) آپؐ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی۔ بسااوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارا ہوتا تھا۔(بخاری25) مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پرختم کرتے۔(ہیثمی)26
جو ملی گندم کے اَن چَھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں۔یوں توحضورؐکو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جو میّسر آتاکھا کر حمدوشکر بجالاتے۔ سبزیوں میں کدّو پسند تھا۔ سِر کہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا ’’یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے۔‘‘(بخاری)27
عربی کھانا ثَرِید(جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے) مرغوب تھا۔ اسی نوع کا ایک اور کھاناہریسہ بھی استعمال فرمایا ۔سنگترہ کھجور کے ساتھ ملاکر کھانے کالطف بھی اٹھایا۔ اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے۔(بخاری)28
پھلوں میں تربوز بہت پسند تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھجور اوربائیں سے تربوز لے کر کھاتے اور فرماتے ہم کھجور کی گرمی کا علاج تربوز کی ٹھنڈک سے کرتے ہیں۔ (حاکم29)میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیر پسند تھی۔(احمد)30
آپؐ ٹیک لگاکرکھانا نہیں کھاتے تھے۔سخت گرم کھانا کھانے سے پرہیزکرتے تھے۔ (حاکم )31
طہارت و صفائی
ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی رکھنے والوں کوپسند کرتاہے۔ (سورۃ البقرہ:23)یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ نے باطنی طہارت کیلئے ظاہری طہارت کو ضروری قراردیا اور اس کے تفصیلی آداب سکھائے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا۔جسم کی صفائی کیلئے ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ نہانے کی ہدایت فرماتے۔کم از کم ایک صاع(یعنی قریباً تین لٹر) پانی سے نہالیتے تھے۔غسل کی عادت زیادہ تھی۔(ترمذی32) آنکھوں کی حفاظت کے لئے رات کوآپؐ سرمہ لگاتے تھے۔(ترمذی)33
دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے ،فرماتے تھے۔’’اگر اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ( دن میں پانچ مرتبہ) مسواک کا حکم دیتا۔‘‘اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے۔مسواک دانتوں کے آڑے رُخ یعنی نیچے سے اوپر کرتے تھے۔ تاکہ درزیں خوب صاف ہوں۔ (مسلم34) بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو حضرت عائشہؓ نے نرم کرکے استعمال کروائی۔(بخاری)35
آپؐ عمدہ خوشبوپسند کرتے تھے۔ اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے پسینے سے جو خوشبو آتی تھی وہ مشک سے بھی بڑھ کر ہوتی تھی۔ (دارمی36) سر کے بال کانوں کی لَو سے بڑھ کر کندھوں پر آجاتے تو کٹوادیتے۔ داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے ترشواتے تھے۔جو مشت بھر رہتی تھی۔بالوں پر مہندی لگاتے تھے۔(ترمذی)37
لباس
قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھاجو آپؐ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آستین والا کُرتہ زیادہ پسند تھا۔ بغیرآستین بھی پہنا۔(ابن ماجہ38)سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے ۔آپؐ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے۔حسب موقع وضو کے بعدپونچھنے کیلئے تولیہ بھی استعمال فرماتے۔
آپ ؐنے ٹوپی بھی استعمال فرمائی۔ جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے۔جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پرعمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا زیب تن فرماتے۔ایک چاند رات میں سرخ قبا پہنی ہوئی تھی۔دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس رات آپؐ چاند سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔سفید کپڑے زیادہ پسند تھے۔مگر سرخ، سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرمائے۔نیا کپڑا پہننے پر دو رکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضو ان پر مسح فرماتے۔چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والے (ہوائی چپل ، سلیپر نما) استعمال فرماتے۔ (ترمذی) 39
آپؐ کی چاندی کی انگشتری پر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ؐ کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لئے بنوائی تھی۔ (بخاری40)ایک عرصہ تک یہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے رہے پھر بائیں ہاتھ میں بھی پہنی۔بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے۔وضو کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے۔ہاتھ میں بالعموم کھجور کی شاخ کی چھڑی رکھتے تھے۔
جنگ میں آپؐ نے خود اور زرہ بھی پہنی ہے۔غزوۂ احد میں تو دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔ایک زرہ کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں دھنس گئی تھیں۔(بخاری)41
چال ڈھال اور گفتگو
نبی کریم ؐچال ڈھال میں نہایت کو ہ وقارانسان تھے۔چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔حضرت ابوھریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپؐ کے لئے لپٹتی جارہی ہے۔ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضورؐ پرتھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔آپؐ گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔(ترمذی)42
حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ آگے کو جھک کر چلتے تھے یوں لگتاتھا جیسے گھاٹی سے اتر رہے ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپؐ کے بعد ایسی رفتار والا شخص نہیں دیکھا۔(ترمذی)43
حضرت حسن بن علیؓ اپنے ماموں ھندؓ بن ابی ھالہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ لمبے لمبے اور تیز قدم اُٹھاتے تھے۔نظر یں نیچی رکھتے تھے مگر جب دیکھتے تو نظریں بھرکر پوری توجہ فرماتے ،چلتے ہوئے اپنے صحابہ سے آگے نکل جاتے تھے، اور جو بھی راستہ میں ملتا اسے سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔(ابن سعد)44
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ چلتے ہوئے اِدھر اُدھرتوجہ نہیں فرماتے تھے۔بسااوقات آپؐ کی چادر کسی درخت یا کانٹوں وغیرہ سے الجھ جاتی تو بھی توجہ نہ فرماتے اور صحابہ اس وجہ سے بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے ہنستے اور سمجھتے تھے کہ حضورؐ کا دھیان ادھر نہیں۔(ابن سعد)45
حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپؐ کو نرم کر دیا ہے۔(سورۃآل عمران:107) آپؐ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپؐ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی۔تین دفعہ بات دہراتے تھے۔ (احمد)46
کوئی بھی عزم کرلینے کے بعدآپؐ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے ۔جب آپؐ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی پلٹا نہیں سکتا تھا۔(احمد47)لیکن آپؐ کبھی صحابہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے۔(احمد)48
آنحضورؐبغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے ۔خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے ۔آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اوربہت واضح ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا توپھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پرآپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔غصے میںمنہ پھیر لیتے تھے۔خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔(ابن سعد) 49
حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔ (ابودائود50) امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔(حاکم)51
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)52
زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔مسکرانا توآپؐ کی عادت تھی۔صحابہ کہتے ہیں ’’ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘(احمد)53
آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوٹا۔فرماتے ’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘ (طبرانی)54
ایک صحابی نے ایک دفعہ سواری کیلئے آپؐ سے اونٹ مانگا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دے سکتا ہوں۔وہ سراسیمہ ہوکر بولے حضورؐ اونٹنی کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا؟مجھے تو سواری چاہئے فرمایا ’’بھئی! اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)55
صحابہ کو وعظ و نصیحت کرنے میں ناغہ کرتے تاکہ وہ اکتا نہ جائیں۔آپؐ کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ دلکش اور جوش سے بھر ی ہوئی ہوتی تھی۔بعض دفعہ خطبہ میں یہ جوش و جلال بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سرخ ہیں اور آواز بلند۔ جیسے کسی حملہ آور لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح یا شام حملہ آور ہونے والا ہے۔ایک دفعہ صفات الہٰیہ کے بیان کے وقت منبر آپؐ کے جوش کے باعث لرزرہا تھا۔(مسلم56)رسول کریم ؐ کے خطبہ ونماز میں میانہ روی اور اعتدال ہوتا تھا۔ (مسلم)57
حالت جنگ میں آپؐ عجب مجاہدانہ شان کے ساتھ کمان حمائل کئے ایک سپہ سالار کے طور پر صحابہ سے مخاطب ہوتے۔ عام حالات میں جمعہ وغیرہ کے موقع پر عصا ہاتھ میں ہوتا۔ (ابن ماجہ58) بعد میں منبر بن گیا تو اس پر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔
آپؐ جو کہتے تھے وہ کر کے بھی دکھاتے تھے۔ گفتگو میں الفاظ کے چنائو میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے ،عرب میں غلام اپنے آقائوں کو ’’رب‘‘ کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا۔اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ آقا کو سید کہا کرو۔یعنی سردار۔آقا اپنے غلام کو ’عبد‘ کہتے تھے یعنی نوکر۔ فرمایا فتٰی کہہ کر مخاطب کرو۔یعنی نوجوان یا بچے تاکہ ان کی عزت نفس قائم رہے۔(بخاری59) نبی کریمؐ کو زبان وادب کا عمدہ ذوق تھا۔آپؐ موزوں کلام اورعمدہ شعر پسند فرماتے اور داد دیتے تھے۔حضرت شریدؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول کریمؐ کے ساتھ آپؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھا۔آپؐ نے فرمایا تمہیں مشہور شاعر امیہ بن الصلت کے کوئی شعریاد ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے کچھ شعر سنانے کی خواہش کی۔ میں نے ایک شعر سنایا تو فرمایا’’ہاں اور سنائو‘‘ پھر ایک شعر سنایا تو فرمایا اور سنائو۔ یہاں تک کہ میں نے سوشعر سنائے۔ (مسلم60)رسول کریم اشعار کی محض ظاہری فصاحت پر خوش نہ ہوتے بلکہ ان کے مضامین کی گہرائی اور لطافت پر نظرہوتی اور کہیں کوئی بات کھٹکتی تو دریافت فرمالیتے۔
مشہور شاعر نابغہ ابولیلیٰ نے حاضر خدمت ہوکر جب اپنا کلام سنایا اور یہ شعر پڑھا۔
عَلَوْنَاالعِبَادََعِفَّۃً وَتَکَرُّمًا وَاِنَّالَنَرْجُوافَوقَ ذٰلِکَ مَظْھَرا
یعنی اسلام قبول کر کے ہم تمام دنیا سے عفت اور عزت میں بلند ہوگئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ’’مظہر‘‘ کی اُمید رکھتے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہماری اور عزت وکرامت ظاہرفرمائے گا۔ رسول کریمؐ نے فوراً پوچھا ’’مظہر‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ نابغہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ جنت مراد ہے۔ فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو ضرور یہ نعمت بھی عطاہوگی۔ اور جب نابغہ کلام سنا چکے تورسول کریمؐ نے فرمایا تم نے بہت خوب کہا اور پھر ان کو دعا بھی دی۔(ہیثمی)61
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی کریمؐ کبھی شعر وغیرہ بھی گنگناتے تھے تو فرمانے لگیں کہ ہاں! اپنے صحابی شاعر عبداللہؓ بن رواحہ کے شعر گنگناتے تھے۔مثلاً یہ مصرع
وَیَاتِیْکَ بِالَاخْبَارِمَالَمْ تُزَوِّ دٖ
کہ تیرے پاس ایسی ایسی خبریں آئیں گی جو پہلے تمہیں حاصل نہیں۔ (ترمذی)62
حضرت جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریمؐ پیدل جارہے تھے۔ پتھر کی ٹھوکرسے ایک انگلی زخمی ہوگئی آپؐ نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا
ھَلْ اَنْتِ اِلاَّ اُصبْعٌ دُمِیتٖ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتٖ
توایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوئی اور خدا کی راہ میں یہ تکلیف اُٹھائی۔(بخاری)63
آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جوا مع الکلم عطا کئے گئے تھے یعنی مختصر کلام میں ایسے گہرے مضمون بیان فرماتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیتے تھے۔نہایت لطیف خوبصورت محاورات میں کلام فرماتے تھے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں وفدنہد آیا تو رسول اللہؐ نے ان کی درخواست پر ان کے حق میں دعا کی اور پھر انہیں ایک معاہدہ لکھ کرد یا کہ جو نماز قائم کرے مومن ہے،جو زکوۃ ادا کرے مسلمان ہے جو کلمہ شہادت لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِپڑھ لے وہ غافل نہیں لکھا جائے گاوغیرہ۔حضرت علیؓ کہتے ہیں اس معاہدہ کی فصیح و بلیغ عبارت دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! ہم ایک باپ کے بیٹے۔ ایک شہرکی گلیوں میں بڑھے پلے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ وفود عرب سے آپؐ ایسی زبان میں کلام کرتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں۔فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور بہت بہترین سکھایا ہے اور میں بنی سعد میں پروان چڑھا ہوں۔(عیاض)64
حضرت بُریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ بعض دفعہ رسول کریم ؐ ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ خود اس کے معنے بیان فرماتے تھے۔(ابن جوزی)65
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح وبلیغ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیل ؑ کی زبان سکھائی۔(کنز)66
رسول کریمؐ کواچھے نام پسند تھے جیسے عبداللہ،عبدالرحمن وغیرہ۔کسی نام کے اچھے معنے نہ ہوتے تو اسے بدل دیتے۔ایک شخص کانام حُزن تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپؐ نے اس کا نام سہل رکھ دیا جو آسانی کے معنی دیتا ہے۔ ایک عورت کانام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت۔(بخاری)67
معاشرت
رسول کریمؐ کی معاشرت اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرام کے ساتھ رافت و رحمت کی آئینہ دار تھی۔فرمایا’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو۔ اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘(ابن ماجہ)68
گھر میں بے تکلفی سے خوش خوش رہتے ۔کبھی بیویوں کو کہانیا ں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔(بخاری)69
گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنیئے۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میںمحو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپ ؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اچھا! ابوکبیر کے وہ شعرتو سنائو۔میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا۔ فَاِذَا نظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّ ۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ العَارِضِ المُتَھَلِّلٖ
کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔شایدتم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔جتنا مزامجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔ (بیہقی)70
اپنے صحابہ کی ضروریات اور جذبات کا بے حد احساس تھا ۔ان کے حالات سے باخبر رہتے مگر کسی کے خلاف یکطرفہ کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے۔ فرماتے تھے کہ اپنے اصحاب کیلئے میراسینہ صاف رہنے دو۔(ابودائود)71
صحابہ کو فاقہ کی تکلیف ہوتی تو اپنے گھر لے جاکر تواضع فرماتے یا پھر صحابہ کو تحریک کردیتے۔وہ بیمار ہوتے تو اُن کی عیادت کرتے ۔اپنے یہودی خادم کا حال پوچھنے اس کے گھر گئے۔بوقت عیادت مریض پر ہاتھ پھیرتے اور شفا کی دعا کرتے۔(بخاری)72
اپنے ساتھیوں پرخاص توجہ فرماتے۔ کوئی ساتھی راستہ میں مل جاتا تو رک کر اس سے ملتے اور کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ خوداجازت لیتا۔کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ نہ چھوڑے۔(ترمذی)73
اپنے ساتھیوں سے تحائف قدردانی کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ خوشبو اور دودھ کا تحفہ کبھی رد نہ فرماتے اور بدلہ میں بہتر تحفہ عطا فرماتے تھے۔(احمد)74
تحفہ میں زمزم کا پانی دینا پسند فرماتے تھے۔صدقہ کا مال اپنی ذات کے لئے نہ لیتے تھے۔انصار کے گھروں میں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔(احمد75)ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ۔پیار دیتے اور دعا کرتے۔بعض بچوں کی پیدائش پر کھجور کی گھٹی بھی دی۔(بخاری)76
گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے، ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔(احمد77)مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔(احمد78) سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان کے بچے اور اہل مدینہ آپؐ کا استقبال مدینہ سے باہر جا کر کرتے۔(بخاری)79
آپؐ عام مسلمانوں کی دعوت طعام بلا تفریق قبول فرماتے۔(بخاری80) اپنے صحابہ کے جنازہ اور تدفین میں شامل ہوتے تھے۔سوائے اس کے کہ کوئی شخص مقروض ہو تو اس کے بارہ میں فرماتے تھے کہ اس کا جنازہ خود پڑھ لو۔(بخاری)81
صحابہ کے ساتھ قومی کاموں میں برابر کے شریک ہوتے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں ان کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھائیں تو غزوئہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی باہر نکالی۔(بخاری)82
آپؐ خادموں سے بہت حسن سلوک فرماتے تھے۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے کبھی آپؐ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایا کبھی کسی بات پر نہیں ٹوکا۔(بخاری)83
حضرت علیؓ نے امام حسینؓ کے اس سوال پر کہ رسول کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہوتا تھا ۔حضور ؐکی معاشرت کا دلآویز نقشہ یوں کھینچا کہ:۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ مسکراتے تھے۔عمدہ اخلاق والے اور نرم خوُ تھے۔تُرش رو تھے نہ تند خو،نہ کوئی فحش زبان پر لانے والے نہ چیخ کر بولنے والے۔عیب چیں تھے نہ بخیل۔جو بات ناگوار ہوتی اس کی طرف توجہ ہی نہ فرماتے نہ ہی اس کے بارے میںکوئی جواب دیتے۔آپؐ نے اپنے آپؐ کو تین باتوں سے کلیتہً آزاد کرلیا ہواتھا۔ جھگڑے ،تکبر اور لا یعنی و فضول باتوں سے اور تین باتوں میں لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھا تھا یعنی آپؐ کسی کی مذمت نہ کرتے تھے، کسی کی غیبت نہ کرتے تھے اور کسی کی پردہ دری نہ چاہتے تھے۔آپؐ صرف اس امر کے بارے میں گفتگو کرتے جس میں ثواب کی اُمید ہو ۔جب آپؐ خاموش ہوجاتے تو لوگ بات کرلیتے تھے مگر آپؐ کے سامنے ایک دوسرے سے باتیں نہ کرتے اور جب آپؐ کے سامنے کوئی ایک بات کر رہا ہوتا تو باقی لوگ اس کی بات خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ بات پوری کرلے۔آپؐ اپنے صحابہ کی باتوں میں دلچسپی لیتے۔ان کی مذاق کی باتوں میں ان کا ساتھ دیتے اور تعجب کا موقع ہوتا تو تعجب فرماتے ۔کبھی کوئی اجنبی مسافر آجاتا تو اس کی گفتگو یا سوال نہایت توجہ سے سماعت فرماتے۔(عیاض)84
صحابہ مہمانوں کو حضورؐ کی خدمت میں بڑے شوق سے لایا کرتے تھے۔ وہ خود ازراہ ادب آپؐ سے اکثر سوال نہ کرتے تھے بلکہ اس انتظار میں رہتے کہ کوئی بدّو آکر مسئلہ پوچھے تو ہم بھی سنیں ۔(بخاری)85
آپؐ کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورت منددیکھو تواسے کچھ دے دو ورنہ اس کی مدد کے لئے تحریک کردیا کرو۔ فرماتے تھے کہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔مبالغہ آمیز تعریف و ستائش آپؐ کو قطعاً پسند نہ تھی۔سوائے اس کے کہ جائز حدود کے اندر ہو۔(بخاری)86
آپؐ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے۔ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خود اس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
متفرق معمولات
آپؐ ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سواری پر مسجد قبا جایا کرتے تھے جو بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں مدینہ سے چند میل دور تھی۔یوں ہفتہ وار تفریح بھی ہوجاتی اوراس محلہ کے صحابہ سے ملاقات بھی۔(احمد87)حضورؐ کو سبزے اور جاری پانی کو دیکھنابہت پسند تھا۔
جمعہ کا دن تو جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیات میں گزرتا ۔کوئی مہم بھجوانا ہوتی تو بالعموم جمعرات کو دن کے پہلے حصہ میں بھجواتے۔(احمد88)اور تین یا اس سے زائد افراد پر امیر مقرر فرماتے۔(بخاری)89
نبی کریمؐ عیدین کے موقع پر قربانیوں اور عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرنا پسند کرتے تھے۔ حضرت واثلہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کو عید کے دن ملا۔ اور عرض کیا کہ اللہ ہم سے اور آپؐ سے (عبادات وغیرہ) قبول فرمائے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہاں! تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا ومِنْکَ یعنی اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔(بیہقی)90
ہر کام میں دائیں پہلو کو ترجیح دیتے۔جوتا پہننے،کنگھی کرنے،وضو کرنے،نہانے وغیرہ میں یہی معمول تھا۔دایاں ہاتھ کھانے پینے،مصافحہ کرنے کے لئے استعمال فرماتے۔ (بخاری)91
دیگر طہارت وغیرہ کے کام بائیں ہاتھ سے کرتے۔دائیں پہلو پر سوتے۔ جوتا پہننے میں پہلے دایاں پائوں پہنتے اور اتارتے وقت پہلے بایاں اتارتے۔ (مسلم)92
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھتے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پائوں باہر رکھتے۔کسی کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو نام لئے بغیر(بعض لوگ کہہ کر)مجلس میں سر زنش یا تنبیہہ فرماتے۔(بخاری)93
کسی کا نام بھول جاتا تو یا بن عبداللہ کہہ کر پکارتے یعنی اے اللہ کے بندے کے بیٹے! کوئی کام یاد رکھنے کیلئے انگلی پر دھا گہ باندھ لیتے۔
سفر پر جاتے تو مدینہ میں امیر مقرر فرماتے۔ موسم گرما کی سخت گرمیوں کے بعدجب موسم سرما کی آمد آمد ہوتی توخوش ہو کر اسے مرحبا کہتے۔بادل یا آندھی کے آثار دیکھ کر فکر مند ہو جاتے اور چہرہ متغیّر ہوجاتا کہ یہ طوفان بادوباراں کہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو اور پھر دعائے خیر میں لگ جاتے۔(بخاری)94
مگر موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے۔ ’’میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے‘‘(احمد)95
خوش ہوتے تو چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا۔ناراض ہوتے تو چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتااور چہرے پر اس کے آثارظاہرہوجاتے۔(احمد)96
کوئی غم پہنچتا توفرماتے بندوں کی بجائے میرا رب میرے لئے کافی ہے۔اور نماز کی طرف توجہ فرماتے۔(احمد)97
کسی کو سرزنش کرتے تو اتنا فرماتے۔’’اللہ اس کا بھلا کر ے اسے کیا ہوا؟‘‘ زیادہ سوالات اور قِیل وقال سے منع فرماتے تھے۔(بخاری)98
مسائل میں الجھنیں اور مشکلات پیدا کرنے سے بھی روکتے اور فرماتے’’آسانی پیدا کرو مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘
مجلس میں چھینک آتی تو منہ پر ہاتھ یارومال رکھ لیتے۔جمائی آتی تو ہاتھ منہ پر رکھ لیتے۔تھوک پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیتے ۔(بخاری)99
کبھی آپؐ کو درد شقیقہ کی تکلیف بھی ہوجاتی تھی جو ایک یا دو دن رہتی تھی۔ایسی صورت میں گھر میں آرام فرماتے۔
اخلاق فاضلہ
وہ ہستی جس کے بارے میں عرش کے خدا نے گواہی دی کہ اے نبی تو عظیم اخلاق پر فائز ہے۔وہ اخلاق کیسے شاندار ہونگے۔
حضورؐ کے عام اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ ؓ کی پندرہ سالہ رفاقت کے بعد وہ گواہی کیسی زبردست ہے کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ بانٹنے والے،گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور راہ حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں اس لئے آپؐ جیسے انسان کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)100
پھر حضرت عائشہ ؓ کا آپؐ کے اخلاق کے بارہ میں بیان ہے کہ آپؐ کبھی فحش کلامی نہ فرماتے تھے۔نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنا آپؐ کا شیوہ تھا۔ آپؐ بدی کابدلہ بدی سے نہیں لیتے تھے بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیتے تھے۔(بخاری)101
صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سب لوگوںکے محبوب ترین انسان آپؐ تھے۔ (احمد)102 جب کبھی آپؐ کو دو معاملات میں اختیار دیا جاتا تو آسان امر کو اختیار کرتے۔ آپؐ سے زیادہ اپنے نفس پر ضبط کرنیوالا کوئی نہ تھا۔(بخاری)103
٭ حیاء ایسی تھی کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔(احمد)104
٭ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب سے بڑھ کر سخی تھے۔(مسلم)105
٭ جب بھی آپؐ سے سوال کیا گیا آپؐ نے عطا فرمایا۔(احمد)106
مال فئی(غنیمت) جس روز آتا اسی روز تقسیم فرمادیتے تھے۔توکل ایسا تھا کہ کبھی کل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے۔(بخاری)107
آپؐ تمام لوگوں سے بڑھ کر زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے(احمد108)اپنے آپؐ کو دنیا میں ایک مسافر سمجھتے تھے جو سستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کیلئے کچھ دیررکتا اور پھر آگے روانہ ہوجاتاہے۔(ترمذی)109
شجاعت ایسی تھی کہ جنگوں میں تن تنہا بھی مردمیدان بن کرلڑے اور کبھی قدم پیچھے نہ ہٹایا۔اشجع الناس اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔(مسلم)110
آپؐ کا عفو ایسا کہ جانی دشمنوںاور قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔ (بخاری)111
الغرض رسول کریمؐ جامع اخلاق فاضلہ تھے۔آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہراتم تھے۔ آپؐ خلق عظیم پر فائز تھے اور بنی نوع انسان کے لئے ایک خوبصورت اور کامل نمونہ تھے۔ ایسانمونہ جس کی پیروی کی برکت سے آج بھی خدا مل سکتا ہے اور آج بھی وہ ہمارا خالق و مالک یہ پاکیزہ اخلاق نبوی اپنے بندوں میں دیکھ کر ان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔سچ ہے
محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام



حوالہ جات
1
نوادرالاصول فی احادیث الرسول حکیم ترمذی جلد 4ص215دارالجیل بیروت
2
مستدرک حاکم جلد2ص392 و مسلم
3
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐ
4
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص174دارالکتاب العربی
5
بخاری کتاب التہجد
6
بخاری کتاب التعبیر الرؤیاء ،ابوداؤ کتاب الادب :4847
مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی الصلوۃ:286
7
کنزالعمال جلد7ص153
8
مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبی علیہ السلام من الناس:742
9
ترمذی کتاب الصوم
10
مسند احمد جلد6ص121،اسد الغابہ جلد1ص29
11
مسند احمد جلد5ص111
12
بخاری بدء الوحی و فضائل القرآن
13
مجمع الزوائد لہیثمی جلد2ص188
14
بخاری وترمذی کتاب الدعوات
15
بخاری کتاب الادب
16
مسند احمد جلد6ص398
17
بخاری کتاب الصلوۃ و کتاب التفسیر سورۃ ال عمران لن تنالوالبرّ
18
مسنداحمد جلد6ص59
19
المعجم الکبیرللطبرانی جلد11ص245
20
مسند احمد1ص26
21
بخاری و ترمذی کتاب الصلوۃ
22
بخاری کتاب التہجد
23
مجمع الزوائدلہیثمی جلد5ص23
24
بخاری کتاب الاطعمہ
25
بخاری کتاب الرقاق
26
مجمع الزوائدلھیثمی جلد5ص81
27
بخاری کتاب الاطعمہ
28
بخاری و ترمذی کتاب الاطعمۃ
29
مستدرک حاکم جلد4ص121
30
مسند احمد6ص59
31
مستدرک حاکم جلد4ص118وابوداؤد کتاب الاطعمہ
32
ترمذی کتاب الطہارۃ
33
شمائل الترمذی باب ماجاء فی کحل رسول اللہؐ
34
مسلم کتاب الطھارۃ باب السواک :370
35
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ
36
سنن الدارمی جلد1ص31
37
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐؐ
38
ابن ماجہ کتاب اللباس
39
ترمذی کتاب الادب وکتاب اللباس
40
بخاری کتاب العلم
41
بخاری کتاب المغازی
42
شمائل ترمذی باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہؐؐ
43
ترمذی کتاب المناقب باب فی صفۃ النبی ؐ :3637
44
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص379,422
45
مسند احمد3ص213وبخاری کتاب العلم
46
مسند احمد جلد3ص423
47
مسند احمد6ص56
48
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص202،طبقات ابن سعد جلد1ص422
49
ابودائود کتاب الادب :4838
50
مستدرک حاکم جلد3ص9
51
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
52
مسنداحمد جلد4ص358
53
المعجم الکبیرلطبرانی جلد12ص391
54
شمائل الترمذی باب ماجاء فی مزاح رسول اللہؐؐ
55
مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوۃ و الخطبہ:1435
56
مسلم کتاب الجمعہ باب الصلوۃ
57
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعہ:1107
58
بخاری کتاب الادب
59
مسلم کتاب الشعر حدیث1
60
مجمع الزوائدلھیثمی جلد 8ص126
61
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی انشادالشعر:28487
62
بخاری کتاب الادب باب مایجوز من الشعر
63
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص9
64
الوفاء باحوال المصطفے ابن جوزی ص459 بیروت
65
کنزالعمال جلد7ص219
66
بخاری کتاب الادب
67
ابن ماجہ کتاب النکاح
68
بخاری کتاب النکاح
69
سنن البیھقی جلد7ص422 دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن
70
ابوداؤد کتاب الادب باب فی رفع الحدیث من المجلس:4218
71
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحجرات
72
بخاری کتاب المرضیٰ
73
ترمذی کتاب صفۃ القیامہ باب46
74
مسند احمد جلد6ص90
75
مسند احمد جلد4ص398
76
بخاری کتاب الادب
77
مسند احمد جلد6ص117
78
مسند احمدجلد3ص455
79
بخاری کتاب المغازی
80
بخاری کتاب الاطعمۃ
81
بخاری کتاب الحوالات
82
بخاری کتاب المغازی
83
بخاری کتاب المناقب
84
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض جلد3ص206دارالکتاب العربی
85
بخاری کتاب العلم
86
بخاری کتاب الادب
87
مسند احمد جلد2ص4
88
مسند احمد جلد4ص484
89
بخاری و مسلم کتاب الجہاد و مسند احمد جلد5ص358
90
سنن الکبری للبیھقی جلد3ص319
91
بخاری کتاب الصلوۃ باب التیّمن
92
مسلم کتاب القدر:4816
93
بخاری کتاب الادب
94
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف
95
مسند احمد جلد6ص41,90,129
96
مسند احمد جلد3ص459و مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص287
97
مسند احمد جلد5ص388
98
بخاری کتاب الاستقراض
99
بخاری کتاب الادب وکتاب الصلوۃ
100
بخاری بدء الوحی
101
بخاری کتاب الادب
102
مسند احمد جلد3ص402
103
بخاری کتاب المناقب:3296
104
مسند احمد جلد3ص71
105
مسلم کتاب الفضائل
106
مسند احمد جلد3ص190
107
بخاری کتاب الرقاق
108
مسند احمد جلد4ص198
109
ترمذی کتاب الزھد
110
مسلم کتاب الفضائل
111
بخاری کتاب المغازی

{توحید پرستوں کا بادشاہ}
رسول اللہ ؐکی محبت الہٰی وغیرت توحید
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرک وبت پرستی کے تاریک دور میں قیام توحید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپؐ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اوراپنی خاص مشیٔت سے آپؐ کو ہرقسم کے شرک سے محفوظ رکھا ۔
شرک سے نفرت
رسول اللہؐ کی کھلائی ام ایمنؓ بیان کرتی تھیںکہ ’’ بُوانہ‘‘ وہ بت تھا جس کی قریش بہت تعظیم کرتے تھے۔ اُ س کے پاس حاضر ی دے کرقربانیاں گزارتے اور سال میں ایک دن وہاں اعتکاف کرتے تھے ۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں جاتے اور رسول اللہؐ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے مگر آپؐ انکار کر دیتے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات حضورؐ کی پھوپھیاں اورابو طالب آپؐسے سخت ناراض ہوتے اور کہتے کہ بتوں سے آپؐ کی بیزاری کے باعث ہمیں آپؐ کے بارے میں ڈر ہی رہتا ہے۔
ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپؐ وہاں چلے توگئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہا کہ میں نے وہاںایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ پھوپھیوں نے کہا کہ اتنے نیک انسان پر شیطان اثر نہیں کر سکتا اور پوچھاآپؐ نے کیا دیکھا ہے؟آپؐ نے بتایا کہ جونہی میں بت کے قریب جانے لگتا تھاتو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلّا کر کہتا تھا کہ اے محمدؐ ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوؤ۔ بعد میںپھوپھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لئے یہ اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا ۔(بیہقی)1
بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران عیسائی راھب بُحیرٰی سے ملاقات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک سوال پر فرمایا تھا کہ مجھ سے لات، اور عزیٰ بتوںکے بارہ میں مت پوچھو، خدا کی قسم ! ان سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز سے نفرت نہیں۔(بیہقی)2
نبی کریم ؐ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر جب ملک شام گئے تو سودا فروخت کیا۔ کسی شخص نے اس دوران آپؐ سے لات اورعُزّٰی کی قسم لینا چاہی۔آپؐ نے فرمایا میں نے کبھی آج تک ان بتوں کے نام کی قسم نہیں کھائی اورنہ کبھی ان کی طرف توجہ کی ہے ۔(ابن سعد)3
عبادت الہٰی کی محبت
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بچپن سے ہی اپنے خالق ومالک کی محبت بھر دی گئی تھی۔عبادت اور ذکر الہٰی سے آپؐ کو خاص شغف تھا، خلوت پسند تھی۔ عین عنفوانِ شباب میں آپؐ کو نیک اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔(بخاری)4
جوانی میں آنحضورؐ ہر سال غار حرا میں ایک مہینہ کے لئے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔ جاہلیت میں قریش کی عبادت کا یہ ایک طریق تھا ۔جب آپؐ کا یہ اعتکاف ختم ہو تا توواپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔ جب حضورؐ کو پہلی وحی ہوئی تویہ رمضان کاہی مہینہ تھا جس میں آپؐ غار حرا میں اعتکاف فرما رہے تھے۔ (ابن ھشام)5
اس زمانہ میں مکہ میں گنتی کے چند لوگ توحید پرست باقی رہ گئے تھے جو دین ابراہیمی پر قائم تھے ۔ان میں ایک قابل ذکر شخص زید بن عمرو تھے ۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات مکے کے قریب بلدح بستی میں ہوئی ۔ مشرکین کی طرف سے آنحضرتؐ کے سامنے کچھ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کر دیا ۔پھر زید کو کھانا پیش کیا گیا تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر کھانے سے انکار کیا کہ تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہو اس لئے میں ہر گزتمہارا کھانا نہ کھاؤں گا ، سوائے اس کھانے کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔ زید بن عمرو قریش کا ذبیحہ حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری پیدا کرنے والاتو خدا ہے۔ اس کے لئے گھاس اُگانے والا بھی وہی ہے۔ پھر تم اسے غیر اللہ کے نام پر کیوں ذبح کرتے ہو؟(بخاری)6
نبی کریم ؐکی پہلی وحی کا آغاز ہی بنیادی طور پر توحید کے پیغام سے ہوا۔ پہلے محض اِقْرَأ کے الفاظ پر آپؐ رکتے رہے مگر جب کہا گیا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ یعنی اپنے اس پیدا کرنے والے پروردگار کے نام سے پڑھییٔ جس نے پیدا کیا، توبے اختیار آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے کیونکہ آپؐ تو پہلے ہی اپنے خالق ومالک پر فدا تھے۔
محبت الہٰی کی تمنَّا
حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت الہٰی کے نظارے دیکھ کر مکے کے لوگ سچ ہی تو کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ‘ کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے۔(غزالی)7
اوراس میں کیا شک ہے کہ آپؐ اپنے رب کے سچے عاشق تھے۔ آپؐ کی محبت کا اظہار نمازوں، عبادات، دعائوں اور ذکر الہٰی سے خوب عیاں ہے۔ رسول اللہؐ کی محبت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤد ؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعائوں میں شامل کرتے تھے ۔
َاَللّٰھُمَّ اِنِّی￿ اَس￿اَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن￿ یُّحِبُّکَ وَال￿عَمَلَ الَّذِی￿ یُبَلِّغُنِی￿ حُبَّکَ ، اَللّٰھُمَّ اج￿عَل￿ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن￿ نَف￿سِی￿ وَمَالِی￿ وَاَھ￿لِی￿ وَمِنَ ال￿مَائِ ال￿بَارِدِ۔
’’اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو ۔‘‘ (ترمذی)8
مگر محبت الہٰی کی جو دعا آپؐ نے سکھائی وہ حضرت داؤد ؑکی دعا سے کہیں جامع اور بلیغ ہے ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے :۔
اَللّٰھُمَّ ار￿زُق￿نِی￿ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن￿ یَّن￿فَعُنِی￿ حُبُّہٗ عِن￿دَکَ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَق￿تَنِی￿ مِمَّا اُحِبُّ فَاج￿عَل￿ہُ قُوَّۃًلِّی￿ فِی￿مَا تُحِبُّ،وَمَازَوَی￿تَ عَنِّی￿ مِمَّا اُحِبُّ فَاج￿عَل￿ہُ فَرَاغًا لِّی￿ فِی￿مَا تُحِبُّ۔
’’ اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیز وں کے حصول کے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے ۔اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرما دے۔(ترمذی)9
جس سے محبت ہو اس کی ہر چیزسے بھی پیار ہوجاتا ہے، جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہؐ اسے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آتی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے۔(کنز)10
رسول کریمؐ کی عبادات اور اعمال پر توحید کی گہری چھاپ تھی۔آپؐنماز کا آغاز ہی اس دعا سے کرتے تھے ’’ وَجَّھْتُ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اَناَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔(الانعام:80) میںنے موحّد ہوکر اپنی تمام توجہ اس ذات کی طرف پھیر دی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(نسائی)11
چنانچہ رسول کریمؐ نے شرک کی مختلف شکلوں اور باریک راہوں سے بھی روکا۔ آپؐ نے ریاکاری کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جوشخص نماز میں ریا کرتا ہے وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔(احمد)12
حضرت شدادؓ بن اوس کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ آپؐ کی امت بھی آپؐ کے بعد شرک کرے گی؟ فرمایا ہاں وہ سورج، چاند ،پتھر یا بت کی پرستش تو نہیں کریں گے مگر اپنے اعمال میں دکھاوا کریں گے۔(احمد)13
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میں شرک کرنے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ جو شخص کسی بھی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔(مسلم)14
حضرت عمرؓ ایک دفعہ مسجد سے نکلے تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو رسول کریم ؐکے مزار کے پاس روتے ہوئے پایا۔حضرت عمرؓ نے رونے کا سبب پوچھا۔ تو وہ کہنے لگے ایک حدیث (یادآگئی جو) میں نے رسول اللہ ؐ سے سنی تھی آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’معمولی ریاء بھی شرک ہے‘‘(حاکم15)رسول کریمؐ بدشگونی کو بھی شرک سے تعبیر فرماتے تھے۔(احمد)16
ایک دفعہ رسول اللہؐ خطبہ ارشاد فرمانے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! جھوٹی گواہی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔
حُنَفَآئَ الِلّٰہِ غَیْرَمُشْرِکِیْنَ بِہٖ ط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَاخَرَّمِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُاَوْتَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔(سورۃ حج:31)
ترجمہ:ہمیشہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اُس کا شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اور جو بھی اللہ کا شریک ٹھہرائے گا۔تو گویا وہ آسمان سے گرگیا۔پس یا تو اُسے پرندے اُچک لیں گے یا ہوا اُسے کسی دُورجگہ جاپھینکے گی۔(ترمذی)17
حضرت فروہ ؓ رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں رات سوتے ہوئے پڑھاکروں فرمایا سورۃ الکافرون پڑھاکرو۔ یہ شرک سے آزاد کرنے والی (سورت) ہے۔(احمد)18
.968حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرک سے بچو یہ چیونٹی کے نقش پا سے بھی باریک تر ہے ۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیسے بچیں؟فرمایا یہ دُعا پڑھا کرو :-اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُو￿ذُبِکَ مِن￿ اَن￿ نُّش￿رِکَ بِکَ شَی￿أنَّع￿لَمُہٗ وَنَس￿تَغ￿فِرُکَ لِمَا لَا نَع￿لَمُ۔ (احمد)19
.968 .968ترجمہ:۔ اے اﷲ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو شریک ٹھہرائیںاورلا علمی میں ایسا کرنے سے ہم تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں ۔
رسول اللہ ؐ کی عبادات محض اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وقف اور خالص تھیں اورآپؐ کے دل پر توحید کی گہری چھاپ کی وجہ سے وہ ہر قسم کے ریاء سے پاک تھیں۔ جس پر عرش کے خدا نے بھی یہ گواہی دی کہ اے نبی تو کہہ دے میری نماز ،میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں اُس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔(سورۃالانعام:163,164)
فرض نمازوں کے علاوہ بالخصوص رات کے وقت آپؐ اللہ تعالیٰ کی گہری محبت سے سرشار ہوکر نہایت خشوع و خضوع سے بہت لمبی اور خوبصور ت نماز پڑھا کرتے تھے۔اپنے رب کی عبادت آپؐ کو ہر دوسری چیز سے زیادہ پیاری تھی۔آپؐ کے پاس بیک وقت نوبیویاں رہیںاپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ ؓکے ہاں آپؐ کی نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد اُن سے فرمانے لگے کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار لوں۔انہوں نے بخوشی اجازت دے دی اور آپؐ نے وہ ساری رات عبادت میں بسر کی اورروتے روتے سجدہ گاہ تر کردی۔ (سیوطی)20
توحید کے اقرار کا بھی آپؐ کو بہت لحاظ تھا ۔ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمّہ ایک مسلمان لونڈی آزادکرناہے۔ یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپؐ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں ۔آنحضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟اس نے کہا ہاں۔فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسے آزادکر دو۔یہ مومن عورت ہے۔‘‘(احمد)21
قیام توحید
رسول اللہ ؐ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ تھا۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔آپؐ کا اوڑھنا بچھونا توحید ہی تھا ۔صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے۔دن چڑھتا توآپؐ کے لبوںپریہ دعاہوتی۔ ’’ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمۂ اخلاص (یعنی توحید) پر اور اپنے نبی محمدؐ کے دین اور اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر صبح کی جو موحّد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘(احمد)22
شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی ۔اَم￿سَی￿نَا وَاَم￿سَی ال￿مُل￿کُ لِلّٰہِ’’ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے ۔تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘ (مسلم)23
کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو یہ دعا کرتے ۔لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ ال￿عَظِی￿مُ ال￿حَلِی￿م ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عظمت والا اور بردبار ہے۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان اور زمین کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ (بخاری)24
حضرت محمد ؐ مصطفٰے ہی تھے جنہوں نے شرک وبت پرستی کے ماحول میں نعرۂ تو حید بلند کیا ۔ پھر عمر بھریہ علمِ تو حید بلند کیے رکھااور کبھی اس پر آنچ نہ آنے دی ۔ اس کلمۂ توحید کی خاطر ہر طرح کے دکھ اٹھائے ،اذیتیں برداشت کیں ،اپنے جانی دوستوں کی قربانی بھی دی اور خود اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ ہمیشہ قیام توحید کے لئے کوہ استقامت بن کر تمام ابتلاؤں کا مقابلہ کیا۔ آپؐ نے توحید کو ہی ذریعہ نجات قرار دیا اور فرمایا کہ جس نے صدق دل سے تو حید باری کا اقرار کیا وہ جنّتی ہے ۔(احمد) 25
اپنی امت کو ہمیشہ توحید کے ترانے اور نغمے الاپنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے دن میں سو مرتبہ خدا کی توحید کا یوں اقرار کیا لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ لَہُُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِ یْرٌ۔’’کہ خدا کہ سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ،بادشاہت اُسی کی ہے ۔ تمام تعریفوں کا بھی وہ مستحق ہے اور وہ ہر شے ٔپر قادر ہے ۔‘‘ایسے شخص کو دس غلاموں کی آزادی کے برابر ثواب ہو گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں مٹائی جائیں گی۔ توحید باری پر مشتمل یہ ذکر اُس دن شام تک کے لئے شیطان سے اُس کی پناہ کا ذریعہ بن جائے گا اور کوئی شخص اُس سے بہتر عمل والا قرار نہیں پائے گا سوائے اُس شخص کے جو یہ ذکر اِس سے زیادہ کثرت سے کرے۔(بخاری)26
رسول اللہ ؐ نے توحید کی حفاظت کی خاطر وطن کی قربانی بھی دی اور مدینہ ہجرت کر لی۔جب وہاں بھی دشمن تعاقب کر کے حملہ آور ہوا تو مجبوراًدفاع کے لئے تلوار اٹھائی مگر ان دفاعی جنگوں کی غرض بھی یہی تھی کہ خدا کا نام بلند ہو۔
ایک دفعہ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کوئی شخص حمیت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شجاعت کے لئے تو کوئی مال غنیمت کی خاطر۔ان میں سے خدا کی خاطر جہاد کرنے والا کون شمار ہو گا؟آپؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہواور توحید کی عظمت قائم ہو ، فی الحقیقت وہی خدا کی راہ میں لڑنے والا شمار ہو گا ۔‘‘(بخاری)27
رسول اللہؐ نے توحید کا یہ احترام بھی قائم کیا کہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے اور ظلم کرنے والے جانی دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ اب بھی اگر یہ کلمۂ توحید پڑھ لیں تو ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں ۔(بخاری28)گویاہماری تلواریں جو اپنے دفاع کے لئے اٹھی تھیں ،کلمہ کے احترام میں پھر میانوں میں واپس چلی جائیں گی ۔چنانچہ آنحضورؐ نے کلمہ توحید کا اقرار کرنے پر جانی دشمن کو امان دینے کا حکم دیا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ جس بستی سے اذان کی آواز آتی ہو (جو توحید اور رسالت کے اقرار پر مشتمل ہے) اس پر حملہ نہیں کرنا۔(بخاری)29
حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو ، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔فرمایا’’ نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہ!اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔‘‘(بخاری)30
حضرت اسامہؓ نے جب ایک جنگ میں مدّ مقابل دشمن پرحملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔اسامہ نے پھربھی اسے ہلاک کر دیاتو رسول اللہؐ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ توحید کا اقرار کرنے والے ایک شخص کو کیوں قتل کیا ؟ قیامت کے روز جب کلمہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا تو کیا جواب دو گے ؟ اور جب اسامہؓ نے کہا کہ وہ سچے دل سے کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو فرمایا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا؟‘‘ (مسلم)31
رسول کریمؐ توحید کے بارے میں اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپؐ کی مجلس میں آکر ذکرکیا کہ اے محمدؐ! آپؐ بہت اچھے لوگ ہیں بشرطیکہ آپ ؐ شرک نہ کرو۔ رسول کریمؐنے کمال عاجزی سے فرمایا اللہ پاک ہے۔وہ شرک کیا ہے؟ وہ کہنے لگاآپ ’’وَالکَعْبَتِہ‘‘ کہہ کر کعبہ کی قسم کھاتے ہو۔ حالانکہ مسلمان کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے پھربھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توقف کے بعد موقع ظن سے بچنے اور احتیاط کی خاطر مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اب اس شخص نے ایک بات کہہ دی ہے اس لئے آئندہ حلف کے وقت کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کہہ کر قسم کھایا کرو۔
پھر وہ یہودی عالم کہنے لگا آپؐ بہت اچھی قوم ہیں۔ بشرطیکہ آپؐ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ ہم کونسا شریک ٹھہراتے ہیں؟ اس نے کہا آپؐ لوگ کہتے ہیں اللہ نے چاہا اور تم نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے پھر توقّف کیا اور فرمایا اس نے ایک بات کردی ہے۔ پس آئندہ جو شخص کہے کہ( ماشاء اللہ)اللہ نے چاہا تو اس کے بعد وقفہ ڈال کرکہہ سکتا ہے کہ تم نے چاہا۔(اکٹھے یہ جملے کہنے میں احتیاط کی جائے)۔(احمد)32
چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے کہا ماشاء اللہ وشئتَ کہ جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔نبی کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے اللہ کے برابر ٹھہرایا بلکہ اصل وہ ہے جو صرف خدائے واحد نے چاہا۔(احمد)33
حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھارہے تھے۔ رسول اللہؐ نے ان کو پکار کر فرمایا سنو! اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری)34
غیرت توحید
زندگی کے بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی جب خود رسول اللہ ؐاورآپؐ کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں آپؐ غیرت توحید کی حفاظت سے غافل نہیں ہوئے بلکہ آپؐ کی محبت توحید کمال شان کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ غزوۂ بدر کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ حرۃ الوبرہ مقام پر ایک مشرک شخص حاضر خدمت ہوا۔جرأت و شجاعت میں اس کی بہت شہرت تھی۔ صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ایک سو رما حالت جنگ میں میسرّ آیا ہے۔ اس نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس شرط پر آپؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصّہ دیا جائے۔آپؐ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایاپھر تم جاسکتے ہو۔ میں کسی مشرک سے مدد لینا نہیں چاہتا۔سبحان اللہ! توحید کی کیسی غیرت ہے کہ حالتِ جنگ میں ہوتے ہوئے بھی ایک بہادر سور ماکی مدد اس لئے قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ مشرک ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر حاضر ہوکر یہی درخواست کی تو آپؐ نے وہی جواب دیا۔ وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی شریک لشکر کرلیں۔آپ ؐ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو؟اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا’’ ٹھیک ہے پھر ہمارے ساتھ چلو۔‘‘(مسلم)35
عظمت توحید
غزوۂ احد میں کفار مکہ کے درۂ اُحد سے دوبارہ حملہ کے بعد مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس دوران ستر مسلمان شہید ہوئے تھے۔ خود حضورؐ کی شہادت کی خبریں پھیل گئیں ۔دشمن کو اس پر خوش ہونے کا موقع میسر آگیا۔ ابوسفیان فخر میں آکر اپنی فتح جتلانے لگا ۔اس نازک حالت میں (جب مسلمان خود حفاظتی کی خاطر ایک پہاڑی دامن میں پناہ گزیں تھے ) ابو سفیان مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ۔’’کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں؟‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازراہ مصلحت ارشاد فرمایا کہ ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی خاموشی دیکھ کر ابو سفیان کا حوصلہ بڑھا۔ کہنے لگا کیا تم میں ابو قحافہ کا بیٹا (ابو بکرؓ ) ہے ؟ حضور ؐ نے پھر ارشاد فرمایا کہ جواب نہ دو ۔ اس پر ابو سفیان پھر بولا کیا تم میں خطاب کا بیٹا (عمرؓ) ہے ؟ مسلمانوں کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ابوسفیان نے فتح وکامرانی کا نعرہ لگایا اور کہا اُعْلُ ھُبُل ْ۔ ہبل بت زندہ باد۔یہ سن کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرتِ توحید نے جوش مارا اور آپؐنے فوراًجواب دینے کا ارشادفرمایا۔ صحابہ نے پوچھا کیاجواب دیں ؟فر مایا کہواَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللہ سب سے بلند اور اعلیٰ شان والا ہے ۔ابو سفیان نے پھرکہا ہمارا تو عزیٰ بت ہے۔ تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب میں کہو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ (بخاری)36
فتح مکہ کے موقع پربھی غیرت توحیدکی عجب شان دیکھنے میں آئی۔خدائے واحد کا گھر ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے ان دعائوں کے ساتھ تعمیر کیا تھاکہ خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا۔ (سورۃابراھیم:36) رسول اللہ ؐ کی بعثت کے وقت اس خانہ خدا کو ۳۶۰ جھوٹے خدائوں نے گھیر رکھا تھا۔لیکن ابراہیمی دعائوں کی بدولت اب رسول اللہ ؐ کے ذریعہ اس ظلم اور جھوٹ کے مٹنے کا وقت آگیا تھاچنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے خانہ کعبہ تشریف لاکر خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا۔
مکے میں داخلے کے وقت دنیا نے کمال انکسار کا یہ منظردیکھاتھا کہ جب اپنی ذات کا معاملہ تھا تو اس فخر انسانیتؐ نے اپنا وجود کتنا مٹا دیا اور اپناسر کتنا جھکا دیا تھا کہ سواری کے پالان کو چھونے لگا لیکن جب رب جلیل کی عظمت و وحدانیت اور غیرت کے اظہار کا وقت آیا تونبیوں کے اس سردار ؐ نے ایک ایک بت کے پاس جاکر پوری قوت سے اُس پر اپنی کمان ماری۔ یکے بعد دیگرے انکو گراتے چلے گئے ۔ آپؐ بڑے جلال سے یہ آیتتلاوت کر رہے تھے ۔
جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (سورۃ بنی اسرائیل:82)
کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور وہ ہے ہی مٹنے والا۔(بخاری)37
فتح پر خدائے واحد کی عظمت کے نعرے
چند لمحوں میں ضرب مصطفوی ؐسے تمام بت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ عزیٰ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوگیا اور ہبل پاش پاش ہوکر بکھر گیا۔(ابن ہشام)38
تعمیر بیت اللہ کا یہ مقصد پورا ہوا کہ اس میں صرف اورصرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے۔یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادوں اور تمنائوں کے پورا ہونے کا دن تھا۔یہ خدا کی بڑائی ظاہر کرنے اور عظمت قائم کرنے کا دن تھا۔اس روز رسولِ خداؐ کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی پہنچی کہ توحید کا بول بالا ہوا تھا۔اس کیفیت میں جب رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائے اور حجرا سود کا بوسہ لیا تو وفور جذبات سے آپؐ نے بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔
صحابہ ؓ نے بھی جواب میں اللہ اکبر ، اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اس زور سے لگائے کہ سر زمین مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ مگر نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے صحابہ ؓ کو خاموش کرایا۔(زرقانی)39
پس فتح مکہ کا دن بھی دراصل توحید کی عظمت اور قیام کا دن تھا ۔اس روز رسول اللہؐ نے اپنی فتح کا کوئی نقارہ نہیں بجایا ۔ہاں! اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے شادیانے ضرور بجائے گئے۔ یہ کہتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہ‘ وَصَدَقَ وَعْدَہ‘ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس نے اپنے لشکر کی عزت افزائی کی اوراپنے بندے کی مدد کی اور اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ تنہا اسی نے تمام لشکروں کو پسپا کر دیا۔ (بخاری40)یہ تھا اپنی زندگی کی عظیم فتح پر ہمارے آقا ومولیٰ کا نعرہ ٔتوحید۔
توحید پر گہرے ایمان کی وجہ سے رسول اللہؐ کو کبھی کسی کا خوف پیدا نہیں ہوا۔ غزوۂ حنین میں تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے آپؐ خچر پرسوار مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بآوازِ بلند فرمارہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں ۔جھوٹا نہیںہوں۔میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔(بخاری)41
آپؐ کا تن تنہا ایک لشکر کے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا جہاں توحید ِ کامل پر ایما ن کا نتیجہ تھا وہاں آپؐ کی صداقت کا محیرالعقول معجزہ بھی تھا ۔
یہاں آپؐ کی غیرت ِ توحید ایک اورر نگ میں ظاہر ہوئی۔ خدشہ تھا کہ آپؐ کو مافوق البشر مخلوق نہ خیال کرلیاجائے اس لئے اپنی صداقت کی گواہی کے ساتھ یہ وضاحت فرمادی کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور ایک انسان ہوں۔یہ رعب بھی خداداد ہے اور یہ حفاظت خدا تعالیٰ کی عطاکردہ۔
رسول اللہ ؐ کوقیام توحید اوراحکام الہٰی کی بڑی غیرت تھی۔طائف سے ثقیف قبیلہ کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے بعض احکام میں رخصت کی شرط پر اسلام قبول کرنے کی حامی بھری اور عرض کیا کہ نماز معاف اور زنا،شراب اور سود حلال کردیا جائے۔ رسول کریمؐ نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا’’وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہیں‘‘
اسی طرح اہل طائف نے اپنے بت’’لات‘‘ کے بارہ میں جسے وہ ’’ربّہ‘‘ یعنی دیوی کہتے تھے عرض کیا کہ تین سال تک اسے توڑا نہ جائے۔رسول اللہ ؐ کی غیرت توحید نے یہ مداہنت بھی قبول نہیں فرمائی۔اہل طائف نے عرض کیا کہ ایک سال تک ہی اسے نہ گرائیں۔رسول اللہؐ نے پھر بھی انکار کیا ۔انہوں نے کہا چلیں ایک ماہ تک اسے نہ گرانے کی اجازت دے دیں تاکہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں اوربے وقوف لوگ اور عورتیں اسے گرانے کی وجہ سے اسلام سے دور نہ ہوں، لیکن رسول اللہؐ نے اس کی بھی رخصت نہیں دی اور حضرت ابو سفیانؓ اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھجواکر اس بت کو گروادیا۔(الحلبیہ)42
رسول کریمؐ کی توہر بات کی تان توحیدالہٰی اور عظمت باری پرجاکرٹوٹتی تھی۔آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی۔ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا۔صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریمؐ نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لازم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے۔(ابودائود)43
نبی کریمؐ کی پشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا۔ابورمثہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے نبی کریمؐ کو کہا کہ یہ جو آپؐ کی پشت میں اُبھارسا ہے ذرا مجھے دکھائیں کیونکہ میں طبیب آدمی ہوں۔اُس کا مطلب تھا کہ میں اس کا علاج کر کے ٹھیک کردوں گا۔نبی کریمؐ نے کس غیرت سے فرمایا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے آپؐ ایک دوست اور ساتھی ہو۔ اس کا طبیب وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا۔(ابودائود)44
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اللہ فرماتا ہے،کبریاء یعنی بڑائی میرا لبا س ہے،عظمت میرا اوڑھنا ہے جوکوئی ان دونوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا۔(ابودائود)45
نبی کریمؐ نے نجران کے عیسائی وفد کے سامنے توحید باری کا مضمون خوب بیان کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپؐ اپنے رب کے بارے میں ہمیں بتائیں وہ زَبرُ جد ہے؟ یا قوت ہے؟ سونا ہے یا چاندی؟رسول کریمؐ نے فرمایا میرا رب ایسی کسی مادی چیز میں سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ خود ان اشیاء کا خالق ہے۔ اس زمانہ میں سورۃ الاخلاص نازل ہوچکی تھی نبی کریمؐ نے انہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔ پڑھ کر سنائی کہ خدا ایک ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ایک ہے آپؐ بھی ایک ہیں۔ فرق کیا ہوا؟ رسول کریمؐ نے یہ آیت پڑھی’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ئٌ ‘‘ اس جیسی اور کوئی چیز نہیں نہ کوئی مثیل ہے نہ ثانی۔ نصاریٰ نجران نے کہا آپؐ ہمیں اس خدا کی کوئی اور صفات بتائیں۔
آپؐ نے سورۃ الاخلاص کی اگلی آیت پڑھی کہ اللہ بے نیاز ہے اور کسی کا محتا ج نہیں۔ انہوں نے کہا ’’صَمَدْ‘‘کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا مخلوق اپنی ضروریات کے لئے جس ہستی کا سہارا لے وہ ذاتصَمَدْ کہلاتی ہے۔ انہوں نے اللہ کی اور کوئی صفت رسول اللہؐ سے پوچھی۔ رسول اللہؐ نے پڑھا لَمْ یَلِدْ یعنی نہ اس نے کسی کو جنا جیسے مریم کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ وَلَمْ یُوْلَدْ اور نہ وہ جنا گیا جیسے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً اَحَد اور نہ کوئی مخلوق میں اس کی برابری کرنے والا ہے۔ (ترمذی)46
توحید کی یہی محبت آپؐ نے اپنے صحابہ میں بھی پیدا فرمائی۔ چنانچہ ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے کہ وہ مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور جہری قراء ت والی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد پہلے سورۃ الاخلاص قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھ کر پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت تلاوت کرتے تھے۔ نمازیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ سورت اخلاص ہی پر اکتفا کرلیا کریں اس کے ساتھ الگ سورۃ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے نماز پڑھوانی ہے تو میں ایسے ہی پڑھائوں گا ورنہ بیشک کسی اور کو امام بنالو۔ چونکہ وہ ان میں سے صاحب فضیلت تھے اس لئے انہوں نے امام تو نہ بدلا البتہ رسول اللہؐ کی خدمت میں ان کی شکایت کردی۔ آپ ؐنے اُس صحابی کو بلا کر ہر رکعت میں سورت اخلاص پڑھنے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا یہ سورت خدائے رحمان کی صفات پر مشتمل ہے۔ مجھے اس کی تلاوت بہت پیاری لگتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایااس سورت سے محبت تمہارے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے گی۔ (ترمذی)47
بلاشبہ سورۃ الاخلاص میں توحید کامضمون نہایت اختصار اور کمال شان سے بیان ہوا ہے۔
رسول کریمؐ کو خداکے آخری کلام اور اس کے احکام کی بھی بہت غیرت تھی۔حضرت عمر بن الخطابؓ ایک دفعہ تورات کا ایک نسخہ اٹھالائے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے۔ رسول اللہؐ خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت عمرؓ اس میں سے پڑھنے لگے تو رسول اللہؐ کے چہرے کا رنگ متغیرّ ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمرؓ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آنحضورؐ یہ پسند نہیں فرمارہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے معذرت کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ ؑتم میں ظاہر ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی اختیار کرتے تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتے اور اگر وہ خود بھی زندہ ہونے کی حالت میں میرا زمانۂ نبوت پالیتے تو ضرور میری پیروی کرتے۔(دارمی)48
فتح مکہ کے موقع پر ایک قریشی عورت کے چوری کرنے پر جب اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کا فیصلہ ہوا اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین فرد اسامہ بن زید ؓسے معافی کی سفارش کروائی تو آپؐ جوش میں آکر فرمانے لگے ’’اے اسامہ کیا تم اللہ کے احکام میں سے ایک حکم کے بارہ میں سفارش کی جرأت کرتے ہو ؟‘‘(بخاری)49
احکام الہٰی کی تعمیل کی غیرت کا ایک اور واقعہ ابو سعید بن معلّٰی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے جواب نہیں دیا اور نماز پڑھتا رہا۔ نماز سے فارغ ہوکر عرض کیا یارسول اللہؐ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تم کو پکارے تاکہ تمہیں زندہ کرے۔(بخاری50)حضورؐ کا اشارہ سورۂ انفال آیت25کی طرف تھا۔
حضرت ابوبکر ؓ تہجد کی نماز میں بہت آہستہ آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حضرت عمر ؓ ذرا اونچی آواز میں پڑھتے تھے۔رسول اللہؐ نے دونوں سے اس کی وجہ پوچھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے رب سے سرگوشی میں بات کرتا ہوں۔وہ میری حاجت کو جانتا ہی ہے۔حضرت عمر ؓ نے کہا میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوئے ہوئے کو جگاتا ہوں۔جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری کہ نماز میں بہت اونچی تلاوت نہ کرو، نہ ہی بہت ہلکی آواز سے پڑھواور درمیانی راہ اختیار کرو۔(بنی اسرائیل: 111 ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں پڑھا کریںاور حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ آپ ذرا ہلکی آواز میں پڑھا کریںتاکہ قرآنی حکم کی تعمیل ہو۔(سیوطی)51
نبی کریمؐکو احکام الہٰی کی پابندی کی غیرت کے بارہ میںحضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ذات کے بارہ میں کبھی کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کو توڑا جاتا تو پھر آپؐ ضرور غیرت دکھاتے اور سزادیتے تھے۔(بخاری)52
رسول اللہؐ کی آخری بیماری میں کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ(یعنی حضرت مریم ؑ) کے نام سے موسوم تھا۔آپؐ اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی خاموش نہ رہ سکے۔جوش غیرتِ توحید میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ’’ براہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوںاور بزرگوں کے مزاروں کو معابد بنالیا۔‘‘گویا بالفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپؐ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو میرے بعد توحید پر قائم رہنا اور میری قبر پر سجدہ نہ ہونے دینا۔(بخاری)53
گویا یہ آپؐ کی توحید کے قیام کے لئے آخری کوشش بھی تھی اور خواہش بھی۔تبھی توآپؐ یہ دعا کیا کرتے تھے اللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْناً اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا۔(احمد)54
پھردیکھوخدانے اپنے اس موحّدبندے کی غیرت توحید کی کیسے لاج رکھی کہ توحید پرستوں کے بادشاہ کا روضۂ مبارک ہرقسم کے شرک کی آلائش اوربت پرستی سے پاک ہے۔خدا کے ایک موحّد بندے کی توحید خالص کا نشان۔لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔
خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلاَم

حوالہ جات
1
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 1 ص 58 مطبوعہ بیروت
2
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 ص 26 تا29 مطبوعہ بیرت
3
طبقات الکبریٰ ابن سعد جلد1ص311مطبوعہ بیروت
4
بخاری باب بدء الوحی
5
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1 ص 250,251 مکتبہ مصطفی البابی الحلبی
6
بخاری بنیان الکعبہ باب حدیث زید بن عمرو
7
المنقذمن الضلال للغزالی ص151پھئۃ الاوقاف پنجاب لاہور طبع اول1971
8
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح :3412
9
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح:3413
10
کنزالعمال حدیث نمبر4939
11
نسائی کتاب الصلوۃ باب افتتاح الصلوۃ
12
مسنداحمدجلد4ص126
13
مسنداحمدجلد4ص124
14
مسلم کتاب الزہدباب من الشرک فی عملہ غیراللہ
15
مستدرک حاکم جلد1ص4
16
مسنداحمد جلد5ص253
17
ترمذی کتاب الفرائض باب ماجاء فی میراث الجدّ
18
مسنداحمدجلد5ص456
19
مسنداحمدجلد4ص403مطبوعہ بیروت
20
الدّرالمنثورفی التفسیر الماثور للسیوطی جلد 6ص27مطبوعہ بیروت
21
مسند احمد جلد 3 ص 452مطبوعہ بیروت
22
مسند احمد جلد3ص406 مطبوعہ بیروت
23
مسلم کتاب الذکر باب التعوْذ من شرماعمل:4901
24
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالکرب:5869
25
مسند احمدجلد4صفحہ411مطبوعہ بیروت
26
بخاری کتاب بد ء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ
27
بخاری کتاب الجہاد باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا:2599
28
بخاری کتاب الایمان باب فان تابو واقا موا الصلوۃ:24
29
بخاری کتاب الجہاد
30
بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدر اً
31
مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ :140
32
مسنداحمد بن حنبل جز6ص372:25845
33
مسنداحمد بن حنبل جزاول ص354 احیاء التراث العربی طبع جدیدہ بیروت لبنان
34
بخاری کتاب الادب باب من لم یر اکفار من قال متاولاًاوجاھلاً
35
مسلم کتاب الجہاد والسیر باب کراھۃ الاستعانہ فی الغزو بکافر
36
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد
37
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ
38
السیرۃ النبویّہ لابن ہشام جز 4ص59مطبوعہ مصر
39
شرح مواھب اللدنیہ لزرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۳۴مطبوعہ بیروت
40
بخاری کتاب الجہاد باب مایقول اذارجع من الغزو:2854
41
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین
42
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص217بیروت
43
ابوداؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ الرفعۃ فی الامور
44
ابوداؤدکتاب الترجْل باب فی الخضاب
45
ابوداؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی الکبر
46
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ الاخلاص:3287
47
ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص:2826
48
سنن دارمی مقدمہ باب مایتقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ
49
بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار:3216
50
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحۃ
51
الدرالمنثورزیر آیت سورۃ بنی اسرائیل جلد5ص350مطبوعہ بیروت
52
بخاری کتاب الادب باب یسرواو لا تعسروا:5661
53
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی البیعۃ
54
مسند احمد جلد2ص246مطبوعہ بیروت

حق بندگی ادا کرنے والا…عبدکامل
صحرائے عرب کی تاریک اور پرسکوت رات میں ہُو کا عالم طاری تھا۔ہر طرف ایک سناّٹا تھا۔خانہ کعبہ کے پڑوسی اور وادی بطحا کے مکین رنگ رلیاں مناکر اور شراب کی محفلیں سجانے کے بعد خواب نوشیں میں مست پڑے سورہے تھے....عین اِس وقت مکہ سے چند میل دور جنگل کے ایک پہاڑی غار میں ایک معصوم اور عابد و زاہد عربی نوجوان عبادت میں مصروف تھا ۔وہ اپنے رب ِکریم کے آستانہ پر سجدہ ریز ہوکر گریہ وزاری کر رہا تھا اور نہایت سوز وگداز کے ساتھ اس کے حضور میں التجا کرتا تھا ’’اے ہادی!اس جاہل قوم کو ہدایت دے!‘‘ عہد شباب میں ہی اس سعید نوجوان کو دنیا سے بے رغبتی ہوچکی تھی اوردنیا کی رعنائیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں ۔
خلوت میں یادالہٰی
اس سعادت مند نوجوان کو عبادت الہٰی سے انتہائی لگائو تھا۔تنہائی کی دعائوں میںوہ ایک خاص لطف اٹھاتا ۔دنیا سے الگ تھلگ ہوکر خشوع وخضوع کے ساتھ خدا کو یاد کرنے میں وہ ایک خاص سرورو لذت محسوس کرتا۔ وہ تن تنہا کچھ زادِ راہ ساتھ لے کر مکہ سے چند میل دور حرا نامی پہاڑی غار میں جاکر،معتکف ہوکر عبادت کیا کرتا ۔مہینوں وہ مکہ کی طرب خیز زندگی سے کنارہ کش رہتا۔پھر جب زادِ راہ ختم ہوجاتی تو واپس آکر اور زاد ساتھ لے لیتا اور تنہائی میں جاکر مراقبہ کرتا۔ اللہ کو یاد کرتا۔(بخاری1)یہ پاک طینت اور نیک خصلت انسان درگاہِ الہٰی میں بار پاگیا۔
حرا سے اُتر کر سوئے قوم آنے والا یہ فخر عرب نوجوان ہادیٔ برحق،سیدالمعصومین حضرت مصطفیٰ ﷺ کا وجود باجود ہے جسے رب العزت نے خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔
عین عنفوان شباب میں جبکہ آرزوئیں اور تمنائیں جو بن پر ہوتی ہیں اور خواہشات کے ہجوم کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔محمد ﷺ دنیاسے بے رغبت ہوکر آبادی مکہ سے کوسوں دور ایک ویران پہاڑی غار حرا میں چلے جاتے ۔ وہاں تنہائی میں کائنات پرغورو فکر کرتے ۔اللہ کو یاد کرتے۔
شہر مکہ کے طرب خیزاور پُر رونق ماحول کو چھوڑ کر ایک نوجوان کی اللہ کی یاد میں ایسی محویت، استغراق اور خلوت پسندی ایک غیرمعمولی واقعہ تھاجسے مکہ والوں اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں نے تعجب اور حیرت کی نظر سے دیکھا۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے جو دنیا کی دلچسپیوں سے بیزارہے۔ عالمِ جوانی میں بھی بیوی بچوں اورگھریلو زندگی پر ویرانوں کو ترجیح دیتا ہے۔
عین عالم جوانی میں حضرت محمد ؐ دین ابراہیمی اور عربوں کے دستور کے مطابق سال میں ایک ماہ اعتکاف فرماتے تھے۔عمر کے چالیسویں سال میں آپؐ رمضان کے مہینہ میں غار حرا میں اعتکاف فرمارہے تھے کہ پہلی وحی ہوئی۔(ابن ہشام)2
نماز کی عبادت
جبریل ؑ نے ابتدائی وحی کے بعد نبی کریم ﷺ کو وضو کر کے دکھایا اور اس کا طریق سکھاکر آپؐ کو نماز پڑھائی۔آنحضورؐ نے حضرت خدیجہ ؓکو وضو کا طریق سکھاکر نماز پڑھائی جس طرح جبریل ؑ نے آپؐ کو سکھایا تھا۔(ابن ہشام)3
الغرض مکی دور کے آغاز میں ہی حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ کو پانچ نمازوں کی امامت کرواکے نماز کا طریق اور اوقات سمجھادیئے تھے۔(ترمذی)4
رسول کریمؐ کو منصب نبوت عطا ہوا تو عبادت کی ذمہ داری اور بڑھ گئی۔ارشاد ہوا۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ o وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (سورۃالانشراح:8,9)
کہ جب تو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا ہوجا اور اس کی محبت سے تسکین دل پایا کر۔
حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مطابق آغاز میں نماز دو دو رکعت ہوتی تھی۔مدینہ ہجرت کے بعد چار رکعت ہوگئی۔(بخاری)5
فرضیت نماز کے روزاول سے لے کر تا دم واپسیں آپ نے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّلیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجَرِ(سورۃ بنی اسرائیل:79) میں پنج وقت نمازوں کی ادائیگی کے حکم کی تعمیل کاحق ایساا دا کر کے دکھایا کہ خود خدا نے گواہی دی کہ آپؐ کی نمازیں، عبادتیں اور مرنا اور جینا محض اللہ کی خاطر ہوچکا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔(سورۃالاعراف:163)
رسول اللہؐ پرآغازرسالت میں ابھی حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ ہی ایمان لائے تھے کہ آپؐنے ان کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع فرمادیا۔پھر عمر بھر سفر و حضر، بیماری و صحت ، امن وجنگ غرض کہ ہر حالتِ عسرو یسر میں اس فریضہ کی بجا آوری میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ابتدا ً آپؐکفار کے فتنہ کے اندیشہ سے چھپ کربھی نماز ادا کرتے رہے۔ کبھی گھر میں پڑھ لیتے تو کبھی کسی پہاڑی گھاٹی میں ۔البتہ چاشت کی نمازعلی الاعلان کعبہ میں ادا کرتے ۔(بخاری)6
دعویٰ نبوت کے بعدکفار مکہ نبی کریمؐ کو عبادت سے روکتے اورتکالیف دیتے۔ ظالموں نے ایک دن حالت سجدہ میں اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بھاری بھر کم بچہ دانی رسول اللہؐ کی پشت پر ڈال دی۔(بخاری)7
ایک بدبخت نے ایک دن حضور ؐ کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑنا شروع کیااور گردن دبوچنے لگا۔ دم گھٹنے کو تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے دھکا دیکر ہٹایا اور کہا’’ کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہوکہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔‘‘ مگر آپؐ عبادت سے کب باز آسکتے تھے۔ (بخاری)8
اہتمام نماز
نماز تو رسول کریمؐ کاروزانہ و شبانہ کا وہ معمول تھا جس میں آپؐ کی روح کی غذا تھی۔ ہرچند کہ امّت کی سہولت کی خاطررسول اللہؐ نے یہ رخصت دی کہ کھانا چنا جا چکا ہوتو کھانے سے فارغ ہوکرپھر نماز ادا کرلو۔مگر اپنا یہ حال تھا کھانا کھاتے ہوئے بلالؓ کی آواز سنی کہ نماز کا وقت ہوگیا تو صرف اتنا کہا’’ اسے کیا ہوا اللہ اُسکا بھلا کرے۔‘‘(یعنی کھانا تو کھا لینے دیا ہوتا) مگر اگلے ہی لمحے وہ چھری جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ رہے تھے وہیں پھینک دی اور سیدھے نماز کیلئے تشریف لے گئے۔(ابودائود)9
حضرت عائشہ ؓ آپؐ کا معمول یہ بیان فرماتی تھیں کہ نماز کیلئے بلالؓ کی اطلاعی آواز پر آپؐ بلا توقّف مستعد ہوکر اٹھتے اور نمازکے لئے تشریف لے جاتے۔(بخاری)10
بیماری میں بھی نماز ضائع نہ ہونے دیتے۔ایک دفعہ گھوڑے سے گرجانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدیدزخمی ہوگیا۔ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ فرماسکتے تھے۔ بیٹھ کرنمازپڑھائی مگر باجماعت نمازمیںناغہ پسندنہ فرمایا۔(بخاری)11
سفر میں بھی نماز کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔روایات حدیث کے مطابق زندگی بھرمیں صرف دو مواقع ایسے آئے کہ جن میں بعض صحابہ کورسول کریمؐ کی غیرموجودگی میں نماز پڑھانے کی نوبت آئی۔
ایک موقعہ وہ تھا جب آنحضرتؐ بنی عمرو بن عوف میں مصالحت کے لئے تشریف لے گئے۔اور جیسا کہ ہدایت فرماگئے تھے تاخیر کی صورت میں کچھ انتظار کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے بلالؓ کی درخواست پر نماز پڑھانی شرو ع کی۔اتنے میں آپؐ تشریف لے آئے۔حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے اور آپؐ نے خود امامت کروائی۔(ابوداؤد)12
دوسرا موقع وہ ہے جب ایک سفر میں آپؐ قافلے سے پیچھے رہ گئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓنے نماز فجر قضا ہونے کے اندیشہ سے شروع کروائی اور آپؐ پیچھے سے آکر شامل ہوگئے۔آپؐ نے بروقت نماز ادا کرنے پر صحابہ ؓ سے اظہار خوشنودی فرمایا۔(مسلم)13
نبی کریم ؐ نے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پرمدینہ سے یہود بنی قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوتے ہوئے صحابہ کو یہ ہدف دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ جاکر ادا کی جائے۔(بخاری)14
یوں آپؐ نے حالت سفر میں بھی نماز کی حفاظت کا پیشگی انتظام فرمادیا۔
رسول کریمؐسفر میں جدھر سواری کا رخ ہوتا اسی طرف منہ کر کے نفل نماز سواری پر ادا فرمالیتے تھے۔(ابوداؤد15)تاہم فرض نمازیں ہمیشہ قافلہ روک کر باجماعت قصر اور جمع کر کے ادا کرتے۔ (بخاری16) بارش کی صورت میں بعض دفعہ سواری کے اوپر بھی فرض نماز ادا کی ہے۔ (ترمذی)17
ایک سفر میں رات کے آخری حصہ میں پڑائو کرتے ہوئے بلالؓ کی ڈیوٹی فجر کی نماز میں جگانے پر لگائی گئی مگر ان پر نیند غالب آگئی۔دن چڑھے سب کی آنکھ کھلی۔ فجر کی نماز میں تاخیر ہوچکی تھی۔ پریشانی کے عالم میں رسول اللہؐ نے اس جگہ مزید رکنا بھی پسند نہیں فرمایا جہاں نماز ضائع ہوئی اور آگے جاکر نماز ادا کی۔(بخاری)18
رسول کریمؐجنگ کے ہنگامی حالات میں بھی نماز کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔غزوہ بدرسے پہلے اپنی جھونپڑی میں نماز کی حالت میں گریہ و زاری کررہے تھے اورتین سو تیرہ عبادت گزاروں کا واسطہ دے کر دراصل آپؐ نے دعائوں کے ذریعہ اس کوٹھری میں ہی یہ جنگ جیت لی تھی۔
غزوۂ احد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاںدائیں رخسار میں ٹوٹ جانے سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔آپؐ زخموں سے نڈھال تھے اور ستر صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا۔اس روز بھی آپ بلالؓ کی نداء پر نماز کیلئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوںمیں تشریف لاتے تھے اور دنیا نے قیام عبادت کا ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔(واقدی)19
غزوۂ احزاب میں دشمن کے مسلسل حملہ کے باعث ظہر و عصر کی نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔وہی رسول خدا جو طائف میں دشمن کے ہاتھوں سے لہولہان ہوکر بھی ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔نماز کے ضائع ہونے پر بے قرار ہوکر فرماتے تھے۔خدا ان کو غارت کرے انہوں نے ہمیں نماز سے روک دیا۔ پھرحضورؐ نے اصحاب کو اکٹھا کیا اور نمازیں ادا کروائیں۔ (بخاری)20
نماز باجماعت کا اہتمام اس قدر تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر شہر کے ایک جانب مسجد الحرام سے کافی فاصلے پرآپؐ کا قیام تھا۔مگر باقاعدہ تمام نماز وں کی ادائیگی کے لئے حرم تشریف لاتے رہے۔
جنگوں کے دوران خطرے اور خوف کی حالت میں بھی آپؐ نے نماز نہیں چھوڑی بلکہ اس حال میں صحابہ کواس طرح نماز پڑھائی کہ ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا اور دوسرے نے آپؐ کے ساتھ نصف نماز ادا کی۔ پھر پہلے گروہ نے آکر نماز پڑھی۔ یوں آپؐ نے سبق دیا کہ موت کے بڑے سے بڑے خطرے میں بھی نماز ترک نہیںکی جا سکتی یہ رخصت دے دی کہ سواری پر یا پیدل یا چلتے ہوئے بھی اشارے سے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔(بخاری)21
آخری بیماری میں رسول کریمؐتپ محرقہ کے باعث شدید بخار میں مبتلا تھے مگر فکرتھی تو نماز کی۔ گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے ،کیا نماز کا وقت ہوگیا؟بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں۔بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایاکہ میرے اُوپر پانی کے مشکیز ے ڈالو۔ تعمیل ارشادہوئی مگر پھر غشی طاری ہوگئی۔ ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہوگئی؟ جب پتہ چلا کہ صحابہ انتظار میں ہیں تو فرمایا’’ مجھ پر پانی ڈالو‘‘ جس کی تعمیل کی گئی۔غسل سے بخار کچھ کم ہوا تو تیسری مرتبہ نماز پر جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اورآپ مسجد تشریف نہ لے جاسکے۔(بخاری)22
بخار میں پھر جب ذرا افاقہ ہوا تو اسی بیماری اور نقاہت کے عالم میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر، اُنکا سہارا لے کر رسول اللہؐنماز پڑھنے مسجد گئے۔ حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پائوں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے۔حضر ت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپؐ نے اُن کے بائیں پہلو میں امام کی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اوریوں آخر دم تک خدا کی عبادت کا حق ادا کر کے دکھادیا۔(بخاری)23
دنیا میں آپؐ کی آخری خوشی بھی نماز کی خوشی تھی جب آپؐ نے سوموار کے دن ( جس روز دنیا سے کوچ فرمایا) فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھاکر دیکھا تو صحابہ محو عبادت تھے۔ اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپؐ کا دل سرور سے بھر گیا۔خوشی سے چہرے پر تبسم کھیلنے لگا۔(بخاری)24
آپؐ نے سچ ہی تو فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ایسے اہتمام سے ادا کی جانیوالی نمازیں محبت الہٰی اور خشوع وخضوع سے کیسی بھری ہوئی ہوتی ہونگی(اس کا تفصیلی نقشہ رسول اللہ ؐ کی خشیٔت کے زیر عنوان بیان ہو گا)۔
نماز تہجد
نبی کریم ﷺ کی فرض نمازیں نسبتاً مختصر ہوتی تھیں تاکہ کمزور، بیمار، بچے، بوڑھے اور مسافر کیلئے بوجھ نہ ہو لیکن تنہائی میں آپؐ کی نفل نمازوں کی شان توبہت نرالی تھی۔ فرماتے تھے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ بدستور اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ پائوں اور آنکھیں ہوجاتا ہے۔بلاشبہ محبت الہٰی اورفنافی اللہ کا یہ مقام آپؐ نے حاصل کر کے ہمیں خوبصورت نمونہ دیا۔
تہجد کی نماز رسول اللہؐ کی روح کی غذا تھی۔فرماتے تھے کہ اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے۔ (طبرانی)25
ابتدا میں آپؐ رات کے وقت تیرہ یا گیارہ رکعتیں (بمعہ وتر)ادا فرماتے اور آخری عمر میں کمزوری کے باعث نو رکعتیں پڑھتے رہے۔ اگر کبھی رات کو اتفاقاً آنکھ نہ کھلتی تو دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا کر کے اس کی تلافی فرماتے۔حضرت اُبی ّ بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر چکی ہوتی تو آپؐ بآواز بلند فرماتے ’’لوگو!خدا کو یاد کرو زلزلہ قیامت آنے والاہے۔اس کے پیچھے آنے والی گھڑی سر پر ہے ۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔‘‘(ترمذی)26
رات کے وقت آپؐ کی نماز بہت لمبی ہوتی۔نسبتاًلمبی سورتیں تلاوت کرنا پسند فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ؓکی نماز(تہجد )کی کیفیت پوچھی گئی۔ آپ ؓ نے فرمایا۔ حضورؐ رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔مگر وہ اتنی لمبی پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو! ’’یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپؐ کی اس خوبصورت عبا دت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ (بخاری)27
نوجوان صحابہؓ کو حضور ؐ کی عبادت دیکھنے کا بہت شوق تھا۔رسول اللہ ؐ کے عم زاد اور حضرت میمونہ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں۔ ’’میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے گھر ٹھہرا۔ نصف رات یا اس سے کچھ پہلے آپؐ بیدار ہوئے۔چہرے سے نیند زائل کی۔آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر گھر میں لٹکے ہوئے مشکیزہ سے نہایت عمدہ طریق پر وضوء کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔میں جاکر بائیں پہلومیں کھڑا ہوگیا۔آپؐ نے مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کردیا۔آپؐ نے تیرہ رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘ (بخاری)28
نبی کریمؐ نے اپنے اس عمل سے ایک نوجوان کی عملی تربیت بھی فرمادی کہ اکیلا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح ،دعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران پڑھی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابوداؤد)29
حضرت حذیفہ بن یمانؓ (رسول اللہؐ کے راز دان صحابی) فرماتے ہیں کہ انہوں نے رمضان میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔جب نماز شروع کی تو آپؐ نے کہا
’’اَللّٰہُ اَکْبَرْذُ وْالمَلَکُوْتِ وَالْجَبْرُوْتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالعَظْمَۃِ۔‘‘یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے۔پھرآپؐ نے سورۃ بقرہ (مکمل )پڑھی ،پھر رکوع فرمایا،جو قیام کے برابر تھا،پھر رکوع کے برابر وقت کھڑے ہوئے،پھر سجدہ کیا جو قیام کے برابر تھا۔پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِیْ۔رَبِّ اغْفِرْلِیْمیرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا۔دوسری رکعتوں میں آپؐنے آل عمران، نسائ، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد)30
ام المٔومنین حضرت سودہؓ نہایت سادہ اور نیک مزاج تھیں،ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضورؐ کے ساتھ جاکر نماز میں شامل ہوئیں،نامعلوم کتنی نماز ساتھ ادا کر پائیں۔مگراپنی سادگی میں دن کو رسول کریم ؐ کے سامنے اس لمبی نماز پر جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے۔کہنے لگیں ’’یا رسول اللہ ! رات آپؐ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جھکے جھکے کہیں میری نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے۔‘‘ حضور ؐ (جن کی ہر رات کی نماز ہی ایسی لمبی ہوتی تھی) یہ تبصرہ سن کر خوب مسکرائے۔(ابن حجر)31
بسا اوقات آپؐ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔آپؐ اتنی دیر (نمازمیں) کھڑے رہے کہ میں نے ایک بُری بات کا ارادہ کرلیا۔پوچھا گیا کہ کیا ارادہ تھا؟ فرمایا’’میں نے سوچا کہ رسو ل اللہ ؐ کو چھوڑ کر بیٹھ جائوں۔‘‘ (بخاری)32
حضرت ابو ذرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ساری رات ایک ہی آیت قیام،رکوع اور سجود میں پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ابوذرؓ سے پوچھا گیاکہ وہ کون سی آیت تھی۔ فرمایا’’یہ آیت:اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (المائدۃ:199)
خدایا! اگر تو انہیں عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخشنا چاہے تو تو بہت غالب اور بڑی حکمتوں والا خدا ہے۔(نسائی)33
سبحان اللہ! خدا اور اس کے رسول ؐ کے دشمن آرام کی نیند سورہے ہیں اور خدا کا پیارا رسول ؐ بے قرار ہوکر گڑ گڑا کر بارگاہ ایزدی میں ان کی مغفرت کاملتجی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آخری عمر میں جب حضو رؐکے بدن میں کچھ موٹاپے کے آثار ظاہر ہوئے۔تو بیٹھ کر تہجد ادا کرتے اور اس میں لمبی تلاوت فرماتے۔ جب سورت کی آخری تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوکر تلاوت کرتے پھر سجدے میں جاتے۔(بخاری)34
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں۔آپؐ کچھ دیر سوتے پھر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے پھر سوجاتے پھر اُٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے۔غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔ (بخاری)35
حمدباری
یہ نمازیں بھی یاد الہٰی اور اللہ کی حمد سے خوب لبریز ہوتی تھیں اور اس پہلو سے اللہ کی حمد کرنے میں آپ ؐکی ایک اور سبقت کی شان بھی کھل کر سامنے آتی ہے،جیسا کہ آپؐ کا نام ’’احمد‘‘ بھی تھا واقعی آپؐ اسم بامسمّٰی تھے۔ اللہ کی حمد و ستائش روئے زمین پر اس شان سے کب ہوئی ہوگی جو آپؐ نے کردکھائی۔
آپؐ اپنی نفل نماز کا آغاز تسبیح و حمد سے کرتے اور اس کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب فرماتے کہ جن کو سوچ کر آج بھی روح وجد میں آجاتی ہے۔تسبیح وتحمید کے یہ نغمے اور ترانے جو کبھی حرا کی تنہائیوں میں الاپے اور کبھی مکہ اور مدینہ کی خلوتوں میں آپؐ نے اپنے محبوب حقیقی سے سوز و گداز میں ڈوبی کیا کیا سرگوشیاں کیں۔یہ تواحادیث کا ایک طویل باب ہیں۔آپؐ نماز تہجد کاآغاز ہی’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ‘‘ سے کرتے کہ سب تعریف تیرے لئے ہے (بخاری)36
پھر رکوع سے کھڑے ہوتے تو عرض کرتے ’’اے اللہ تیری اتنی تعریفیں کہ جن سے آسمان بھرجائے…اور اتنی تعریفیں کہ زمین بھی ان سے بھر جائے…اور اتنی حمد کہ آسمان و زمین کے بعد جو توُ چاہے وہ بھی بھر جائے…اے تعریف اور بزرگی کے لائق۔(مسلم37) کوئی ہے جو اس ایک حمد سے ہی بڑھ کر کوئی حمد پیش کر سکے؟
نماز میں خشوع
کبھی گھر کے لوگ سوجاتے تو آپؐ چپ چاپ بستر سے اٹھتے اور دعا و مناجات الہٰی میں مصروف ہوجاتے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو آپؐ کو بستر پر نہ پایا ۔میںسمجھی کہ آپؐ کسی اور بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں ۔اندھیرے میں ادھر ادھر ٹٹولا تو دیکھا کہ پیشانی مبارک خاک پر ہے اور آپؐ سربسجود مصروفِ دعا ہیں۔سُبْحَانَکَ وَ بِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ۔اے اللہ!تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرماتی ہیں ’’یہ دیکھ کر مجھے اپنے شبہ پر ندامت ہوئی اور دل میں کہا۔سبحان اللہ! میں کس خیال میںہوں اور خدا کا رسول ؐ کس عالم میں ہے۔‘‘(نسائی)38
رات کے وقت جب سارا عالم محو خواب ہوتا لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے۔ آپؐ چپکے سے بستر چھوڑ کربعض دفعہ سنسان قبرستان میں چلے جاتے اورہاتھ اُٹھاکر دعا میں مصروف ہوجاتے۔ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ تجسّس کیلئے پیچھے گئیں تو آپؐ جنت البقیع میں کھڑے دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے رب سے محوراز و نیاز تھے۔حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں سوچا کہ خدا کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔(یعنی تمہاری باری میں کہیں اورکیسے جاسکتا تھا )پھرفرمایا مجھے جبریل ؑ ؑنے آکر تحریک کی کہ اہل بقیع کی بخشش کی دعا کروں اور میں نے خیال کیا تم سوگئی ہو اس لئے جگانا نامناسب سمجھا۔(نسائی)39
حضرت عائشہ ؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے ۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَلَکَ سَوَادِیْ وَ خِیَالِیْ وَ آمَنَ لَکَ فُؤَادِیْ رَبِّ ھٰذِہٖ یَدَایَ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ یَا عَظِیمًا یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِالذَّنْبَ الْعَظِیْم۔(ھیثمی)40
(اے اللہ)تیرے لئے میرے جسم و جاں سجدے میں ہیں۔میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔اے میرے رب! یہ میرے دونوںہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم! جس سے ہر عظیم بات کی اُمیدکی جاتی ہے۔عظیم گناہوں کو تو بخش دے۔ پھر فرمایا’’ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کیلئے کہا ہے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو۔جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔‘‘
عبادت سے محبت
رسول کریمؐ کواپنے رب کی عبادت ہر دوسری چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ اپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہؓ کے ہاں نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد ان سے فرماتے ہیں کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپؐ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کردیتے ہیں۔(سیوطی)41
نماز میںرسول کریمؐ کی خشوع و خضوع کا یہ عالم ہوتا تھا کہ روتے ہوئے سینے سے ہنڈیا اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی۔(احمد)42
راتوں کی عبادت کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بجا طور پر آپؐ کی یہ تعریف کی کہ
یَبِیْتُ یُجَافِیْ جَنْبَہ‘ عَنْ فِرَاشِہٖ
اِذَا سْتَثْقَلَتْ بِالْمُشَرِکِیْنَ المَضَاجِع‘
کہ آپؐ اس وقت بستر سے الگ ہوکر رات گزار دیتے ہیںجب مشرکوں پر بستر کو چھوڑنا نیند کی وجہ سے بہت بوجھل ہوتا ہے۔(بخاری)43
رمضان المبارک میں عبادت کا اہتمام
عبادات اور دعائیںتوآپؐ کا عام معمول تھا۔رمضان کے مہینہ میں آپؐ کی عبادات میں بہت اضافہ ہوجاتا ۔خصوصاً رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں توبہت زیادہ عبادت کرتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپؐ کمر ہمت کس لیتے ۔ بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے ،خود بھی عبادت کرتے ،اہل بیت کو بھی جگاتے۔اس آخری عشرہ میں آپ ؐاعتکاف بھی فرماتے۔‘‘(بخاری)44
آنحضورؐ سارا وقت خدا کے گھر میں بیٹھ کر یادالہٰی اور عبادت میں مصروف رہتے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ؐ کچھ بیمار تھے۔صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! آج کچھ بیماری کا اثر آپؐ پر نمایاں ہے۔فرمانے لگے ’’اس کمزوری‘‘ کے باوجود آج رات میں نے طویل سورتیں نماز تہجد میں پڑھی ہیں۔(ابن الجوزی)45
صحابہ کرام رسول اللہ ؐ کی کثرت عبادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے اور اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے پائوں سوج جاتے۔آپ ؐ سے عرض کی گئی کہ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی بخشش کا اعلان فرماکر آپؐ کو معصوم و بے گناہ قرار دے چکا ہے تو آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ! کیا میں (اس نعمت پر) عبادت گزار اور شکرگزار انسان نہ بنوں؟(بخاری)46
عبادت الہٰی کی خاطر آرام طلبی ہر گز پسند نہ تھی۔ ایک رات حضرت حفصہ ؓ نے آپؐ کے بستر کی چارتہیں کردیں ۔صبح آپؐ نے فرمایا’’ رات تم نے کیا بچھایا تھا۔اسے اکہرا کردو اس نے مجھے نماز سے روک دیا ہے۔‘‘(ترمذی)47
قرآن کی تلاوت اور ذکرالہٰی بھی ایک عبادت ہے۔نبی کریمؐ کو تلاوت کلام پاک سے بھی خاص شغف تھا۔روزانہ سورتوں کی مقررہ تعداد عشاء کے وقت تلاوت فرماتے ،پچھلی رات بیدار ہوتے تو کلام الہٰی زبان پر جاری ہوتا۔(عموماً آلِ عمران کا آخری رکوع تلاوت فرمایا کرتے) رات کے وقت نماز میں نہایت وجداور ذوق و شوق سے ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’کبھی پوری رات آپ قیام فرماتے ۔سورہ بقرہ،آل عمران اور سورہ نساء تلاوت کرتے۔ جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو خدا سے پناہ طلب کرتے اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو اس کے لئے دعا کرتے۔‘‘(نسائی)48
مزیدتفصیل ملاحظہ ہوزیرعنوان قرآن کریم سے عشق اورحمدوشکروذکرالہٰی۔
روزہ کی عبادت
روزے رکھنا سنّت انبیاء ہے۔ نبی کریمؐ بھی روزہ کی عبادت کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ نبوت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے۔ نبوت کے بعد بھی مکہ میں آپؐ کئی مہینوں تک یہ روزہ رکھتے رہے۔مدینہ آکربھی روزہ رکھا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔رمضان کے علاوہ مدینہ میں آپؐ شعبان کا اکثر مہینہ روزے رکھتے تھے۔(بخاری49)سال کے باقی مہینوں میں یہ کیفیت رہتی کہ روزہ رکھنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ؐکبھی روزہ نہ چھوڑیں گے۔پھر روزے رکھنے چھوڑ دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پھر نہیں رکھیں گے۔ (بخاری)50
ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ ،چودہ ، پندرہ تاریخ کا روزہ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔(نسائی)51
مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے رکھتے اور مہینہ میں تین دن معمولاً روزہ رکھتے۔بالعموم مہینہ کے پہلے سوموار اور اگلے دونوں جمعرات کے دن۔(مسلم)52
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال (خدا کے حضور) پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔(ترمذی)53
اس کے علاوہ آپؐ نویں ذوالحجہ کا روزہ بھی رکھتے تھے۔(مسلم)54
عام حالات میں آپؐ کبھی گھر تشریف لاتے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے۔جواب ملتا کچھ نہیں۔ فرماتے تو میں آج روزہ رکھ لیتا ہوں ۔(ترمذی)55
کبھی کبھی ’’صوم و صال‘‘ بھی رکھتے یعنی متواتر کئی دن تک روزے، درمیان میں افطار نہ کرتے تھے لیکن صحابہ ؓ کو آپؐ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے۔(بخاری)56
رمضان کی ایک اور اہم عبادت اعتکاف ہے۔ دعویٰ نبوت سے قبل بھی رسول کریمؐ کو تنہائی میں جاکر اللہ کو یاد کرنے کا شوق تھا۔ چنانچہ غارحرا میں جاکر اعتکاف فرماتے بعد کے زمانے میں رمضان کی فرضیت کے بعدپہلے درمیانی عشرہ اور آخری عشرہ تک اعتکاف فرماتے رہے۔ (بخاری57) جس میں آپؐ غیرمعمولی عبادت کی توفیق پاتے تھے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریم ؐ اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے۔اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الہٰی میں گزارتے تھے۔ اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لئے تحریک فرماتے تھے۔ اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔(مسلم)58
رسول کریمؐ کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پربھی دیکھا گیا جب آپؐ محض جانوروں کی قربانی ہی خدا کی راہ میں نہیں گزارتے تھے۔کفن کے لباس کی طرح محض دوچادروں کا لباس اوڑھ کرننگے سردیوانہ وار اپنے رب کریم کے پاک گھر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کے جسم کے ساتھ آپؐ کی روح بھی اس طواف میں برابر کی شریک ہوتی تھی اور عبادت کا نقطۂ معراج حاصل ہوتا۔ اگرچہ آپؐ کی ساری زندگی ہی ہمہ تن عبادت تھی۔
حوالہ جات
1
بخاری بدء الوحی
2
السیرۃ النبویۃلابن ہشام جلد1ص261,260,251مطبوعہ مصر
3
السیرۃ النبویۃلاہشام جز1ص252مطبوعہ مصر
4
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی مواقیت الصلوۃ:138
5
بخاری کتاب المناقب باب التاریخ من أین أرخوالتاریخ:3642
6
بخاری کتاب الوضوء باب اذا القی علی ظھرا المصلی قذر:233
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب المرأۃ تطرح عن المصلی شیئًا من الأذی:490
8
بخاری کتاب التفسیرسورۃ المؤمن4441
9
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی ترک الوضؤ ممامست النار:160
10
بخاری کتاب الجمعہ باب من نام اول اللیل:1078
11
بخاری کتاب المرضیٰ باب اذا عاد مریضاً:5226
12
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب التصفیق فی الصلوۃ
13
مسلم کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ :640
14
بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیؐ من الاحزاب:3810
15
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ردّالسلام
16
بخاری ابواب تقصیر الصلوۃ
17
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی الصلوۃ علی الدابہ فی الطین
18
بخاری کتاب المواقیت الصلوۃ باب الاذان بعد ذھاب الوقت:5609
19
فتوح العرب فی شروع الحرب ص387 ازواقدی
20
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃالاحزاب ـ:3802
21
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قولہ عزوجل فان خفتم فرجالا :4171
22
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ:4088
23
بخاری کتاب الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ :624
24
بخاری کتاب الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالا مامۃ:639
25
المعجم اللکبیرلطبرانی جلد 12ص84
26
ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب منہ:2381
27
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبی بلیل فی رمضان
28
بخاری کتاب الوضوء باب قراء ۃ القرآن بعد الحدث
29
ابوداؤد کتاب الصلوۃباب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
30
ابوداؤدکتاب الصلوۃ باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ:740
31
الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ابن حجرجلد 7ص721
32
بخاری کتاب الجمعہ باب طول القیام فی صلاۃ اللیل:1067
33
نسائی کتاب الافتتاح باب تردید الا یۃ:1000
34
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذا صلی قاعدا:1051
35
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ:4460
36
بخاری کتاب الدعوات
37
مسلم کتاب الصلوۃ
38
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغیرۃ
39
نسائی عشرۃ النساء باب الغیرۃ
40
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 2ص128مطبوعہ بیروت
41
الدرالمنشور فی تفسیر الماثورجلد 6ص27مطبوعہ بیروت
42
مسند احمد جلد 4ص26مطبوعہ مصر
43
بخاری کتاب الجمعہ باب فضل من تعار من الیل:1087
44
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشر الاواخرمن رمضان:1884
45
الوفاء باحوال المصطفیٰ ابن الجوزی ص511بیروت
46
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفر لک اللہ ماتقدم:4459
47
الشمائل النبویہ الترمذی باب ماجاء فی فرا ش رسول اللہ
48
نسائی کتاب الافتتاح باب مسأ لۃ القاری اذا مرّبآیۃ رحمۃ:999
49
بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان:1834
50
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبیؐ باللیل من نومہ:1073
51
نسائی کتاب الصیام باب صوم النبیؐ
52
مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثۃ ایاّم من کل شہر:1972
53
ترمذی کتاب الصیام باب فی صوم یوم الاثنین
54
مسلم کتاب الاعتکاف باب صوم عشر ذی الحجہ
55
ترمذی کتاب الصوم
56
بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحورمن غیر ایجاب:1788
57
بخاری کتاب الاعتکاف فی العشر الاواخر
58
مسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی اللہ

نبی کریمؐ کی خشیٔت اور خوف الہٰی
قرآن شریف نے جس خالق کائنات اور قادر مطلق ہستی کا ہمیں پتہ دیا ہے، وہ بادشاہ بھی ہے، غنی بھی، جبار قہاراور متکبر بھی…اس عظیم ہستی کے سامنے انسان وہ عاجز مخلوق ہے۔ جوہر لحظہ اس کا محتاج ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے’’ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘ یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیااور اس کی پیدائش کا مقصد عبودیّت ٹھہرایا۔اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل شامل حال نہ ہو تو انسان فطرت صحیحہ کو چھوڑ کر شیطانی راہوں میں بھٹک جاتا اور اَسْفَلُ السَّا فِلِیْن یعنی ذلّت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرجاتاہے۔یہ وہ خوف ہے جوایک ذی شعور انسان کو بے چین کر دینے کے لئے کافی ہے۔خدا کی ذات پر ایمان کے نتیجہ میں یہ خوف زائل ہوتا اور امید ورجاء کا بندھن مضبوط ہوتا ہے اس لئے ایمان وہی قابل تعریف قراردیا گیا ہے جو خوف و رجاء کے درمیان ہو۔انسان کے لئے اس کے سو اکوئی چارہ نہیں کہ وہ ہمیشہ درِ مولیٰ سے چمٹا رہے اور لرزاں و ترسا ں اسی کے حضور جھکارہے اوراس کی ناراضگی کے خوف سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاردے اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی میں انسان کی نجات ہے۔
رسول کریمؐ نے فرمایا دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کی خشیٔت میں روئے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں حفاظت کرتے ہوئے بیدار رہے۔(ترمذی)1
حقیقی خشیئت یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور کامل توحید کا بھی یہی مطلب ہے ۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے صحابہ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ وہ کیسے؟آپؐ نے فرمایا اس طرح کہ کسی دینی بات یا للّٰہی کام میں وہ کوئی خامی یا خرابی محسوس کرتا ہے مگر اس پر وہ خاموش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پوچھے گا تم نے کیوں اپنی رائے کا اظہار نہ کیا وہ کہے گا لوگوں کے ڈر سے ایسا نہ کیا۔ اللہ فرمائے گا لوگوں کی نسبت میں اس بات کا زیادہ مستحق تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے۔(ابن ماجہ)2
رسول کریمؐ نے اپنے صحابہ میں خشیئت الہٰی کی صفت پیدا کرنے کے لئے ایک دفعہ انہیں یہ کہانی سنائی کہ ایک شخص نے بوقت موت اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ میری وفات کے بعد لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا جب میں جل کر راکھ ہوجائوں تو خاک سمند ر میں ڈال دینا۔ اولاد نے اس کی وصیت پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاک جمع کی او راس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس نے عرض کیا اے میرے ربّ!تیرے ڈر اور خوف سے ایسا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب سن کر اسے بخش دیا۔(بخاری)3
سب سے بڑھ کر خدا ترس
ہمارے نبی ﷺ اوّل المؤمنین تھے اس لئے سب سے بڑھ کر اپنے مولیٰ کی خشیٔت آپؐ میں تھی جس کی وجہ سے آپؐ ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ہرچند کہ پہلی وحی خدا کی طرف سے آپؐ پر ایک عظیم روحانی انعام تھا۔مگر آپؐ کے لئے یہ بھی مقام خوف تھا اس لئے حضرت خدیجہؓ سے آکر کہا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ (بخاری4) مجھے تو اتنا ڈر پیدا ہواہے کہ اپنی جان کے لالے پڑگئے ہیں۔یہ ذمہ داری کا احساس بھی تھا اور انتہائی خشیٔت کا اظہار بھی۔
ایک دفعہ بعض صحابہ نے دنیا سے بے رغبتی کے اظہار کے طور پر عمر بھر شادی نہ کرنے، ساری ساری رات عبادت کرنے اورہمیشہ روزہ رکھنے کے عہد کئے۔ رسول کریمؐ نے انہیں اس بات سے روکا اور اپنے نمونہ پر چلنے کی طرف توجہ دلائی نیزفرمایا دیکھو میں نے شادی بھی کی ہے، رات سوتا بھی ہوں ،عبادت بھی کرتا ہوں،روزے رکھتابھی ہوں اوراس میں ناغہ بھی کرتاہوں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ کی کیا بات آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ان کا مطلب تھاہم کمزور اور گناہگار ہیں ہمیں زیادہ نیکیوں کی ضرورت ہے۔تب آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ اِنَّاَتْقَاکُمْ وَاَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا۔(بخاری5)کہ تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا اور اللہ کی معرفت رکھنے والا میں ہوں۔گویاسب سے زیادہ عمل کی مجھے ضرورت ہے اور نجات کے لئے میرے نمونہ کی پیروی تم پر لازم ہے اوریہی امر واقعہ ہے کہ ہمارے نبیؐہی سب سے زیادہ خدا ترس انسان تھے۔
نبی کریمؐ اکثر اپنی دعائوں میں یہ دعامانگا کرتے تھے کہ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمادے اور مضبوط کر دے۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ بھی یہ دعا کرتے ہیں حالانکہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں (اورہمیں ہدایت دینے والے) فرمایا ہاں! دل تو رحمان خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے وہ جیسے چاہے اس کو پھیردے۔(ترمذی)6
آنحضورؐؐ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو کھول کرسنا دیا کہ تمہارے عمل ہی تمہارے کام آئیں گے، میں یا میرے ساتھ تمہارارشتہ کچھ کام نہیں آئے گا۔(بخاری7) آپؐ فرماتے تھے کہ اللہ کی رحمت اورفضل نہ ہوتو میںبھی اپنی بخشش کے بارہ میں قطعیت سے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔(بخاری)8
اللہ تعالیٰ کے غناء سے ہمیشہ آپ ؐ کو یہ خوف بھی دامنگیر رہتا تھا کہ نیک اعمال خدا کے حضور قبولیت کے لائق بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟جیساکہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے رب کی خشیئت کے باعث ڈرتے رہتے ہیںاور اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیںاوریہ لوگ جب دیتے ہیں جو بھی وہ (خداکی راہ میں) دیں تو ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(المؤمنون : 58تا61)
حضرت عائشہؓ کے دل میں ان آیات کے بارہ میں ایک سوال پیدا ہوا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ،چوری (وغیرہ گناہ) کرتے اور پھر اللہ سے ڈرتے ہیں۔نبی کریم ﷺتوقرآن کی عملی تفسیر تھے۔آپؐ سے بڑھ کر کون اِن آیات کی حقیقت بیان کرسکتاتھا ۔آپ ؐنے کیا خوب فرمایا’’ اے صدّیق کی بیٹی! یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اور صدقات دیتے ہیں مگر پھربھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نیکیاں غیر مقبول ہوکر ردّ ہوجائیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘(ترمذی)9
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے جہنم کی آگ کا خیال آیاتومیں روپڑی۔ رسول کریمؐ نے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ جہنم کی آگ کو یادکرکے روپڑی تھی پھرمعلوم ہوتاہے۔ اسی وقت حضرت عائشہؓ کو رسول اللہؐ اور آپؐ کی شفاعت کا خیال آیا۔ تو آپؐ سے پوچھنے لگیں کیا آپؐ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یادکریںگے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تین جگہوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ ایک تو حساب کے وقت جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ اس کا پلڑا ہلکا ہے یا بھاری؟ دوسرے اعمال نامہ دیئے جانے کے وقت۔جب تک یہ علم نہ ہوجائے وہ دائیں ہاتھ میں دیا جاتاہے یابائیں یا پیچھے سے اور تیسرے پُل صراط کے پاس جو جہنم کے سامنے ہوگی۔(احمد)10
خدا تعالیٰ کی ناراضگی اورپکڑ کا خوف
آنحضورؐ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں آپؐ کا رحیم و کریم خدا آپؐ سے ناراض نہ ہوجائے۔ایک دفعہ حضور ؐ بیمار ہوگئے اور دو یا تین راتیں نماز تہجد کیلئے نہ اُٹھ سکے۔حضرت خدیجہؓ نے عرض کیایارسول اللہؐمیرے خیال میں آپؐ کے ساتھی(یعنی جبرائیل ؑ)کے نزول میں کچھ تاخیر ہوگئی ہے۔حضورؐ کو بھی طبعاً فکر ہوئی ہوگی۔چنانچہ سورۃ والضُّحٰے نازل ہوئی جس میں حضورؐ کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشاد ہے مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلیٰکہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ تجھ سے ناراض ہوا۔(بخاری)11
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپؐ کا چہرہ متغیّر ہوجاتا۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی۔مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپؐ بادل دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ ! کیا پتہ اس آندھی میں کوئی ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہوگئی تھی اور ایک قوم (عاد)ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو بادل ہے۔ برس کر چھٹ جائے گا۔ مگر وہی بادل اُن پردردناک عذاب بن کربرسا۔(بخاری)12
قرآن شریف کی جن سورتوں میںعذاب الہٰی کے نتیجہ میں بعض گزشتہ قوموں کی تباہی کا ذکرہے۔اُن کے مضامین کا حضورؐ کی طبیعت پر بہت گہرا اثر تھا۔ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ آپ کے بالوں میں کچھ سفیدی سی جھلکنے لگی ہے۔آپؐ نے فرمایا ہاں سورۃہود، سورۃ الواقعہ، سورۃ المرسلات، سورۃ النبااور سورۃ التکویر وغیرہ نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔(ترمذی)13
ایک دفعہ نبی کریمؐ ایک نوجوان کے پا س تشریف لائے جو جان کنی کے عالم میں تھا۔ آپؐ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؐ ! میں اللہ سے نیک اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دونوں باتیں خوف ورجاء جس مومن بندے کے دل میں آخری وقت میںاس طرح اکٹھی پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ اُسے اس کی اُمید کے مطابق ضرور عطاکرے گااور اس کے خوف سے اس کو امن عطافرمائے گا۔(ترمذی)14
احکام الہٰی کی بجاآوری
نبی کریم ؐ کے تقویٰ کا ایک اظہار اللہ کے احکام کی بجا آوری سے خوب ہوتا تھا جو رسول کریمؐ ایسی مستعدی سے کرتے تھے جسکی مثال نہیں ملتی۔چنانچہ جب سورۃ النصرمیں افواج کے اسلام میں داخلہ پر استقبال کی خاطر اللہ کی تسبیح وحمد اور استغفار کا حکم ہوا تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد رسول اللہؐ کی کوئی نمازخالی نہ جاتی تھی جس میں آپؐ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔اے اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ مجھے بخش دے۔(بخاری)15
رسول کریم ؐ احکام الہٰی کی پیروی میں تقویٰ کی انتہائی باریک راہوں کا خیال رکھتے تھے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐسے سنا،حلال اور حرام واضح ہیں اور ان کے درمیان شبہ والی چیز یں ہیں جن کو اکثر لوگ جانتے نہیں، جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچتا ہے اس نے اپنا دین اور عزت بچالی، جو اِن شبہات میں پڑگیا وہ اُس چروا ہے کی طرح ہے جو ایک رَکھ( محفوظ چرا گاہ) کے اِرد گرد بکریاں چراتا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی بکریاں اس چراگاہ کے اندر چلی جائیں گی۔ سنو ہر بادشاہ کی ایک رَکھ محفوظ جگہ ہوتی ہے اور اللہ کی رَکھ اس کی زمین میں اُس کی منع کردہ چیزیںہیں۔پھر سنو! جسم میں ایک ایسا عضو ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سب جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے گا۔ اور یاد رکھو یہ دل ہے۔(بخاری)16
تقویٰ کی باریک راہوں کے اختیار کرنے اور شبہات سے بچنے کی چند مثالیں قابل ذکرہیں۔حضرت عقبہؓ بن حارث سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ابواِھاب کی بیٹی سے شادی کی۔ ایک عورت نے آکر کہہ دیا کہ اس نے مجھے اورمیری بیوی کو دودھ پلایا ہے۔عقبہؓ نے کہا مجھے تو تم نے دودھ نہیں پلایا اور نہ ہی بتایا ہے۔ عقبہؓ حضورؐ کے پاس مکہ سے مدینہ یہ مسئلہ پوچھنے آئے۔ حضورؐ نے فرمایا اب جب یہ کہا جاچکا ہے اور شک پڑچکا ہے۔ پھر کیسے تم میاں بیوی رہ سکتے ہو؟ پھر حضورؐ نے ان کو جدا کردیا۔ عقبہ ؓ نے اور شادی کرلی۔(بخاری)17
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر حدیبیہ کے لئے نکلا آپؐ اوردیگر صحابہ تواحرام میں تھے مگر میںنے احرام نہیں باندھاتھا۔ دوران سفر میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھااور حملہ کر کے اُسے شکار کرلیا اور حضورؐ کے پاس آکر عرض کیاکہ حضور! میں احرام سے نہیں تھا اس لئے آپؐ کی خاطریہ شکار کرلیا۔چونکہ مُحرم کا خودشکارکرنا یا اس کی خاطر کسی کا شکار مارنا بھی جائز نہیں۔حضورؐ نے میرے اس فقرہ کی وجہ سے کہ’’ میں نے آپؐ کی خاطر یہ شکار کیا ہے‘‘ اُس میں سے کچھ کھانا پسند نہ کیا البتہ اپنے صحابہ کو اس گوشت سے کھانے کی اجازت دے دی۔(ابن ماجہ)18
اللہ کے نام کی عظمت اور احترام
ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آکر رسول کریمؐ پراعتراض کیا کہ آپ لوگ کعبہ کی قسم کھاکرشرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ مسلمان خانہ کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ تصورنہیں رکھتے۔ پھر بھی رسول کریمؐ نے ازراہِ احتیاط یہی ارشاد فرمایا کہ آئندہ سے قسم کی نوبت آنے پر کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کی قسم کھائی جائے۔(احمد)19
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ’’مَاشَآئَ اللّٰہُ وَشِئْتَ‘‘کہ وہی ہوا یا ہوگا جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے خدا کے برابر ٹھہرادیا۔ گویاصرف ماشاء اللہ کہو کہ یہی کامل توحیدہے۔ (احمد)20
آنحضرت ﷺ تو خدا کا نام درمیان آجانے سے ڈر جاتے تھے۔اُمیمہ بنت شراحیل وہ معزز خاتون ہیں جو قبیلہ بنو الجون نے آنحضورؐ سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لئے آپؐ کی خدمت میںبھجوائی ۔آپؐ کاارادہ اُن کو اپنے عقد میں شامل کرنے کاتھا۔(اُس کی ملازمہ یاکسی نے اس بی بی کو کہہ دیا کہ پہلے دن ہی رسول اللہؐ پررعب جمالینا)۔ آنحضرتﷺ نے ایک باغ میں ان کے لئے خیمہ لگوایا ۔ جب آپؐان کے پاس خیمہ میں تشریف لے گئے توفرمایااپنے آپ کومیرے لئے ہبہ کردو۔ وہ بولی کیاکوئی شہزادی بھی ایک عام شخص کو اپنی ذات ہبہ کرتی ہے۔ حضورؐ نے اُسے مانوس کرنے کے لئے اُس کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا تواُس نے کہا میں آپؐ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔آپؐ نے فرمایا تم نے بہت عظیم الشان ہستی کی پناہ مانگی ہے۔ پھرآپؐ نے طلاق دے کر اُسے آزاد کردیااور مال و متاع دیکرواپس اُس کے قبیلہ میں بھجوادیا۔ (بخاری)21
تقویٰ کی باریک راہیں
آنحضرتؐہر لحظہ اپنے رب سے ڈرتے رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مَیںبسااوقات گھر میں ایک کھجوربستر پر پڑی پاتا ہوں ۔اٹھا کر کھانے لگتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی نہ ہو اور جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دیتا ہوں۔(بخاری)22
رسول اللہؐ نے اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی اور ان کے دل میں بھی بچپن سے خوف خدا پیدا کیا۔ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ یا حسینؓ نے گھر میں کھجور کاایک ڈھیر دیکھا اور صدقہ کی ان کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی۔نبی کریم ؐ نے دیکھ لیا۔انگلی بچے کے منہ میں ڈالی، کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا بچے! ہم آل رسولؐ ہیں۔ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔(بخاری)23
ایک دفعہ آنحضرتؐ نماز کے بعد خلاف معمول بڑی تیزی سے صحابہ کی صفیں چیرتے ہوئے گھر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے تو ہاتھ میں سونے کی ایک ڈلی تھی۔ فرمایا کچھ سونا آیا تھا وہ مستحقین میں تقسیم ہوگیا۔ یہ سونے کی ڈلی تقسیم ہونے سے رہ گئی تھی۔ نماز میں مجھے خیال آیا تو اسے میں جلدی سے لے آیا ہوں تاکہ قومی مال میں سے کچھ ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔ طہارت نفس اور خوف ِ الہٰی کی یہ کیسی بے نظیر مثال ہے۔(بخاری)24
آنحضرتؐہر دم اللہ تعالیٰ کے غنا اور عظمت سے خائف رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بسا اوقات ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوںاو ر اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔(بخاری)25
قرآن شریف میں انبیاء علیھم السلام کے قبولیت دعا کے تجارب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک مشترک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ ہم سے چاہت اور خوف سے دعاکرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے جھکنے والے اور خشوع اختیار کرنے والے تھے۔ (سورۃ الانبیائ:91)سیدالانبیاء ﷺکی دعائوں میں بھی یہ کیفیّت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
دعائوں میںگریہ وبکا
نبی کریم ؐخوف الہٰی سے اکثر گریہ و زاری کرتے دیکھے جاتے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب آپؐ کے تین سو تیرہ نہتے ساتھیوں کا مقابلہ ایک ہزار کے مسلح جنگجو لشکر سے تھا ،آپؐ میدان بدر میں اپنے جھونپڑے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر رو رو کر دعائیں کر رہے تھے،حالانکہ اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کے وعدے موجودتھے مگر آپؐ کی نگاہ اپنے مولیٰ کے غنا پر بھی تھی اسلئے سجدہ میں پڑے گریہ و زاری کررہے تھے۔بدن پر لرزہ طاری تھا۔کپکپاہٹ سے کندھوں پر سے چادر سرک کر گررہی تھی اور آپؐ اپنے مولیٰ سے یہ التجا کررہے تھے۔ اے اللہ!اگر آج اس مختصر سی جماعت کوتونے ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔(مسلم)26
حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں آپؐ نے خشوع و خضوع خشیٔت اور ابتہال سے بھری ہوئی جو دعا کی، وہ آپؐ کے خوف و ابتہال اور خشیٔت کا بہترین شاہکار ہے۔آپؐ اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں۔
’’اے اﷲ تو میری باتوں کوسنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے ۔میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے۔مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں ،تیری مدد اور پناہ کا طالب ،سہما اور ڈرا ہؤا،اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس (چلا آیا) ہوں مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں (ہاں!) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں ۔ایک اندھے نابینے کی طرح (ٹھوکروں سے)خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں ۔میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے ۔اے اﷲ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔اے وہ! جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا ۔‘‘(طبرانی)27
قرآن شریف میں ان مومنوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کی نماز خشوع کا بہترین نمونہ ہوتی تھی۔چنانچہ رکوع میں آپؐ یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
’’میرے اﷲ ! تیری خاطر مَیں نے رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں ۔اور تجھی پر میرا توکّل ہے ۔تو ہی میرا پروردگار ہے۔ میرے کان اور میری آنکھیں ، میرا گوشت اور خون، میری ہڈیاں اور میرا دماغ اور میرے اعصاب اس اﷲ کی اطاعت میں جُھکے ہوئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔‘‘
گریہ و زاری اور خشوع و خضوع کی یہ کیفیت آپؐ کی تنہائی کی نمازوں میں خاص طور پرپائی جاتی تھی۔صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ خدا کے حضوراس طرح گڑ گڑاتے تھے کہ آپؐ کے سینے سے اس کی آواز سنی جاسکتی تھی جو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے مشابہ ہوتی تھی۔ (نسائی)28
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضورؐ کو بستر سے غائب پایا تلاش کیا تو مسجد میں تھے۔(اندھیرے میں)میرا ہاتھ آپؐ کے پائوں کے تلوے کو چھوگیا ۔آپؐ کے پائوں زمین پرگڑے ہوئے تھے اورسجد ے کی حالت میں مولیٰ کے حضورآپؐ یہ زاری کررہے تھے۔
’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ میںخالص تیری پناہ چاہتا ہوں۔میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا بے شک تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خوداپنی تعریف آپ کی ہے۔‘‘(ابن ماجہ)29
حضرت مطّرفؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیںکہ میں نے رسول خداؐ کو نماز پڑھتے دیکھا۔گریہ وزاری اور بکاء سے یوں ہچکیاں بندھ گئی تھیں گویا چکی چل رہی ہے اور ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز کی طرح آپؐ کے سینہ سے گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی تھی ۔(ابودائود)30
حضرت عبداللہؓبن عمر حجۃ الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے حجر اسود کی طرف منہ کیا۔پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے۔پھر اچانک توجہ فرمائی توحضرت عمر بن الخطابؓ کو (پہلو میں کھڑے) روتے دیکھا اور فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں (اللہ کی محبت اور خوف سے) آنسو بہائے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ)31
حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ کی کوئی بہت پیاری اور خوبصورت سی بات سنائیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ان کی تو ہر ادا ہی پیاری تھی۔ایک رات میرے ہاں باری تھی۔ آپؐ تشریف لائے اور میرے ساتھ بستر میں داخل ہوئے۔ آپؐ کا بدن میرے بدن سے چھونے لگا۔پھر فرمانے لگے اے عائشہؓ ! کیا آج کی رات مجھے اپنے رب کی عبادت میں گزارنے کی اجازت دو گی۔میں نے کہا مجھے توآپؐ کی خواہش عزیز ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں پھر آپؐ اٹھے ، مشکیزہ سے وضو کیا، اورنماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنے لگے۔پھر رونے لگے یہاں تک آپؐ کے آنسوئوں سے دامن تر ہوگیا ۔پھر آپؐ نے دائیں پہلو سے ٹیک لگائی۔ دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر کچھ توقّف کیا۔ پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے آنسوئوں سے زمین بھیگ گئی۔صبح بلالؓ نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپؐ کو روتے پایا اور عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ!آپؐ بھی روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ نے آپؐ کو بخش دیا۔فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
پھر فرمانے لگے میں کیوں نہ روئوں جبکہ آج رات مجھ پر یہ آیات اتری ہیں اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ َوالْارْضِ وَ اخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔آپؐ نے آل عمران کے آخری رکوع کی یہ آیات پڑھیں اور فرمایا ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے یہ آیات پڑھیں اور ان پر غور نہ کیا۔ (سیوطی)32
عہد نبوی ؐ میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا۔رسول اللہ ؐ نماز کسوف پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے۔بڑے لمبے رکوع اور سجدے کئے ۔آپؐ اس قدر روتے جاتے تھے کہ ہچکی بندھ گئی ۔اس حال میںرو رو کر یہ دعا کر رہے تھے۔
’’میرے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک میں ان لوگوںمیں ہوں تو انہیں عذاب نہ دے گا۔کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے تو ان پر عذاب نازل نہ کرے گا۔پس ہم استغفار کرتے ہیں۔‘‘(توہمیںمعاف فرما)۔(سیوطی)33
رسول کریمؐ اس وقت تک یہ دعا کرتے رہے جب تک سورج گرہن ختم نہ ہوگیا۔
خشیئت کی اس کیفیت کے باوجود رسول کریم ﷺ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مولیٰ کے حضور مناجات میں اس کا تقویٰ اور خشیئت مانگا کرتے۔ کبھی کہتے ’’اے اللہ میرے نفس کو اپنا خوف اور تقویٰ نصیب کردے اور اسے پاک کردے۔ تجھ سے بڑھ کر کون اسے پاک کرسکتا ہے؟ توہی اس کا دوست اور آقا ہے۔‘‘(مسلم)34
کبھی یہ دعا کرتے ’’اے اللہ اپنی وہ خشئیت ہمیں عطاکر جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے۔‘‘(ترمذی)35
تلاوت قرآن اور خشیٔت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
کلام الہٰی سن کر آپؐ پر رِقّت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایا قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (النسائ:42) تو آپ ؐ تاب نہ لا سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)36
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب (سورۂ نجم کی آخری) آیت اتری۔ اَفَمِنْ ھٰذَاالْحَدِیْثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ ۔ یعنی کیا تم اس بات (یاکلام) سے تعجب کرتے ہو۔ اور ہنستے ہو روتے نہیں تو رسول اللہؐ کے وہ غریب صحابہ جن کا مسجد نبوی کے چبوترے پر بسیرا ہوتا تھااوراصحاب صُفّہ کہلاتے تھے، بہت روئے۔ یہاں تک کہ ان کے آنسو سے رخسار بھیگ گئے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آہ وزاری سنی تو ان کے ساتھ مل کررونے لگے۔ ابوھریرہؓ کہتے ہیں ہم حضورؐ کو روتا دیکھ کر اور رونے لگے۔ تب آپؐ نے فرمایا جو شخص اللہ کی خشیٔت سے رویا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا۔(بیہقی وقرطبی)37
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن الجوزی)38
کبھی آپؐ روتے روتے خدا کے حضورعرض کرتے۔’’اے اللہ مجھے آنسو بہانے والی آنکھیں عطاکر جوتیری خشیئت میں آنسوئوں کے بہنے سے دل کوٹھنڈا کردیں، پہلے اس سے کہ آنسو خون اور پتھر انگارے بن جائیں۔‘‘(طبرانی)39
قصہ مختصر اس فانی فی اللہ کی خشیئت اور خوف الہٰی سے لبریزاندھیری راتوں کی یہی دلدوز چیخ و پکار اور دعائیں ہی توتھیں جنہوں نے عرش الہٰی کو ہلا کر رکھ دیا اوریک دفعہ سرزمین عرب میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہوا کہ پہلے اس سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سُنا۔





حوالہ جات
1
ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب ماجاء فی فضل الحرس فی سبیل اللہ:1639
2
ابن ماجہ کتاب الفتن باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر
3
بخاری کتاب الا نبیاء باب مایذکرعن بنی اسرائیل
4
بخاری باب کیف کان بدء الوحی
5
بخاری کتاب الایمان باب قول النبی ؐ انا اعلمکم باللہ :19
6
ترمذی کتاب القدر باب ماجاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان:2006
7
بخاری کتاب الوصایا باب ھل یدخل النساء والولدفی الاقارب:2548
8
بخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت:5241
9
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ المؤمنون :3099
10
مسند احمد جلد1ص101
11
بخاری کتاب التفسیر سورۃ والضحیٰ
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف باب قولہ فلما رأوہ عارضا مستقبل اودیتھم
13
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب من سورۃ الواقعہ:3219
14
ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء ان المؤمن یموت بعرق الجبین:905
15
بخاری کتاب الاذان باب الدعاء فی الرکوع:752
16
بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدینہ
17
بخاری کتاب العلم باب الرحلۃ فی المسٔلۃ النازلۃ
18
ابن ماجہ کتاب المناسک باب الرخصۃ فی ذلک ان لم یصدلہ :3084
19
مسنداحمدجلد6ص372
20
مسنداحمدجزاول ص354طبع جدیدہ داراحیاء التراث العربی بیروت
21
بخاری کتاب الطلاق باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرا تہ بالطلاق:4853
22
بخاری کتاب اللقطۃ باب اذا وجدتمرۃ فی الطریق:2252
23
بخاری کتاب الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
24
بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
25
بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ :5832
26
مسلم کتاب الجہاد باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر:3309
27
المعجم الکبیرلطبرانی جلد11ص174بیروت
28
نسائی کتاب السہو باب البکاء فی الصلوۃ
29
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی القنوت:1169
30
ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب البکاء فی الصلوۃ: 157
31
ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجر:2945
32
الدرالمنثورللسیوطی جلد27:6جز 4ص409دارالفکر بیروت
33
الدرالمنثورللسیوطی جز9ص59دارالفکر بیروت
34
مسلم کتاب الذکر باب التعوذ من شر ماعمل:4899
35
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح
36
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
37
بیھقی شعب الایمان جلد1ص479،جامع الاحکام القرطبی جلد17ص86
38
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
39
کتاب الدعاء جلد3ص1480از علامہ طبرانی مطبوعہ بیروت

ذکر الہٰی اور حمد و شکر میں اسوۂ رسولؐ
کہتے ہیں کہ انسان جس چیز سے محبت کرتا ہے وہ اس کا بہت ذکر کرتا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی تو پہلی اور آخری محبت اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔عین عالم جوانی میں آپؐ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غارحرا کی تنہائیوں میں جاکر اس محبوب حقیقی کو ہی تو یاد کرتے تھے۔ اسی میں آپؐ کی زندگی کاسارا لطف تھا۔آپؐ کی یہ وارفتگی دیکھ کر اہل مکّہ بھی کہتے تھے کہ محمدؐ تو اپنے رب پر عاشق ہوگیا ہے۔
مگر امر واقعہ یہ ہے آپؐ فنافی اللہ کے اس مقام پر تھے جہاں انسان اپنا وجود بھی فراموش کر بیٹھتا ہے اور محویت کے اس عالم میں صرف اللہ کی یاد باقی رہ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم ؐہر لحظہ و ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے۔(مسلم)1
یادالہٰی میں شغف
دن ہو یا رات ،خلوت ہویا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپؐاپنے ربّ کی یاد نہیں بھولے۔فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بعض دفعہ ستّر سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(ابودائود)2
صوفیاء نے ’’دست درکار و دل بایار‘‘ کے محاورہ میں عشق کے جس مقام کا ذکر کیا ہے کہ ہاتھ کام میں لگے ہوںمگر دل یار کے ساتھ ہو۔ظاہر ہے اُس کا تعلق بیداری کی حالت سے ہی ہے۔ مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے تھا کہ سوتے ہوئے بھی آپؐ کا دل یاد الہٰی سے معمور ہوتا تھا۔فرماتے تھے میری آنکھیں جب سوجاتی ہیں تو بھی دل نہیں سوتا۔(بخاری)3
گویا ذکر الہٰی آپؐ کے دل کی غذا تھا۔جیسے جسم کاانحصار دوران خون اور عمل تنفس پر ہے۔ آپؐ کی روح کا دارومدار ذکر الہٰی پر تھا۔ دن بھر میں قضائے حاجت کے ہی چند لمحے ہوں گے جن میں اللہ کے ذکر کی عظمت اور احترام کے باعث آپؐ اس سے رُک جاتے ہوں، شاید اِسی لئے قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آتے تو غُفْرَانَکَ کی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تیری بخشش کا طلبگار ہوں۔ (ترمذی4) اس میں بھی یہ راز تھاکہ چند لمحے بھی کیوں یادالہٰی میں روک بنیں۔
انسانی زندگی کاایک لمحہ بھی اپنے خالق و مالک کی توفیق اور احسان کے بغیر ممکن نہیں بلکہ محتاج محض ہے جبکہ صفت رحمانیت کے تحت بغیر کسی تقاضا کے اللہ تعالیٰ کے فیضان عام اور عنایات کے لا محدود سلسلہ نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔پھر صفت رحیمیت کے طفیل انسان کی محنت کے اجر کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی جاری وساری ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں اور احسانات نے اس طرح انسان کو گھیر رکھا ہے کہ بے اختیار انسان کو اس قرآنی آیت کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کرسکو گے۔(سورۃ ابراھیم:15) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں پر افسو س بھی کیا ہے کہ ان میں سے بہت کم شکر ادا کرنے والے ہوتے ہیںوہاں حقِ شکر ادا کرنیوالوں کا تعریف کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔
شکرِنعمت
حضرت نوح ؑکی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ وہ عبدِشکور تھے۔(سورۃ الاسرائ:171)یعنی اللہ تعالیٰ کے بہت شکر گزار بندے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔(سورۃ النمل:122) پھر آنحضرتؐ کوارشاد ہوتا ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور شکر کرنے والے بندوں میں شامل ہوجائیں۔(سورۃ الزمر:40)
اللہ تعالیٰ کا اپنے شکر گزار بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے واقعی حقِ شکر ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات سے حصہ پایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپؐ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔(سورۃ النسائ:114)
رسول اللہؐ کی یاد الہٰی کی اصل معراج آپؐ کی نمازتھی۔ جس میں آپؐ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی۔(نسائی)5
عام لوگوں کا دل نماز میں نہیں لگتا اورنماز کے دوران بھی خیالات کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نبی کریمؐ کا دل نماز کے علاوہ اوقات میں بھی نماز میںہی اٹکا ہوتا تھا۔اللہ کو اتنا یاد کرنے کے بعدبھی آپؐ اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے تھے کہ رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَاکِرًا لَکَ شَاکِرًا۔(ابودائود)6
یعنی’’ اے میرے رب مجھے اپنا ذکر کرنیوالا اور اپنا شکر کرنیوالا بنائیو۔‘‘ کیونکہ شکر بھی دراصل ذکر الہٰی اور محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اسلوب ہے۔اور ذکر کی ایک بہترین شکل حمدوثنا ہے۔
آپؐ کی نماز مجسم شکر انہ ہوتی تھی جو الحمدللہ کہہ کر اللہ کی حمد سے شروع ہوتی۔ اس کا وسط بھی سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہہ کر حمد کثیر پر مشتمل ہوتا تو اس کی انتہاء اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ کی جامع حمد پر ہی ہوتی تھی۔آپ ؐکے رکوع و سجود بھی اسی حمد الہٰی سے لبریز ہوتے تھے جن میں آپؐ عرض کرتے ’’اے اللہ تو پاک ہے اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ۔‘‘(بخاری)7
رکوع سے اٹھ کر پھر یہ حمد باری یوں ٹھاٹھیں مارتی جیسے بے قرار سمندر۔آپؐ عرض کرتے اے اللہ ہمارے رب! سب تعریفیں تجھی کو حاصل ہیں۔یہ حمد کر کے بھی آپؐ کاجی سیر نہ ہوتا تو کہتے تیری اتنی تعریفیں کہ جس سے سارے آسمان اور زمین بھر جائیں اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھی بھر جائے۔(مگر تیری حمد ختم نہ ہو)۔اے تعریف اور بزرگی کے لائق ہستی! بندہ جتنی تیری تعریف کرے تو اس کا مستحق ہے اور ہم سب تیرے بندے ہی تو ہیں۔(مسلم)8
فرض نمازوں کے علاوہ نوافل میں آپؐ کے شکرانے کا یہ عالم تھا کہ پوری پوری رات خدا کے حضور عبادت میں گزارردیتے یہاں تک کہ پائوں سوُج جاتے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں تو کیا خوب جواب دیا اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًاکہ میں عبدشکور یعنی خدا کا انتہائی شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(بخاری)9
محبت الہٰی اورذکر و شکر سے بھری اس نماز سے فارغ ہوکر آپؐ یاد خدا کو بھولتے نہیں تھے بلکہ یہ دعا کرتے تھے۔اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔(ابودائود)10
اے اللہ! مجھے اپنے ذکر،اپنے شکر اور خوبصورت عبادت کی توفیق عطا فرما۔اس دعا کی قبولیت عملی زندگی میں لمحہ بہ لمحہ آپؐ کے ہمر کاب نظر آتی ہے۔ رات کا کچھ حصّہ آرام کر کے اٹھتے تو پہلا کلمہ جو آپؐ کی زبان پر جاری ہوتا وہ اللہ کی حمد اور شکر کا کلمہ ہوتا ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور اقرار کرتے کہ تمام تعریف اس خدا کی ذات کیلئے ہے جس نے نیند جیسی موت کے بعد ہمیں پھر سے زندگی دی اور بالآخر تو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(بخاری)11
روکھی سوکھی پر گزارا کرتے ہوئے بھی کھانے کے بعدرسول اللہؐ کے شکر گزار دل سے بے اختیار حمد اور تشکر کے جذبات نکلتے تھے۔فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت راضی اور خوش ہوتا ہے۔ جو ایک لقمہ بھی کھاتا ہے تو اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہے۔ پانی پیتا ہے تو اس پر بھی اللہ کی حمد کرتا ہے۔چنانچہ کھانے کے بعد آپؐ دعا کرتے اس خدا کی تمام تعریف ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور ہمیں اپنا فرما نبردار بندہ بنایا۔(ترمذی)12
یعنی شکر کی یہ توفیق دی گویا توفیق شکر ملنے پر بھی ایک شکرانہ ادا کرتے تھے۔الغرض ذکر الہٰی آپؐ کے وجود کا جزو لاینفکّ تھا۔
قضائے حاجت سے فارغ ہوجانے پر بھی اللہ کا شکر ہی بجالاتے اور عرض کرتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کردی مجھے تندرستی عطا کی اور غذا کے نفع بخش مادے میرے جسم میں باقی رکھ لئے۔(ابن ماجہ)13
رات کو بستر پر جاتے ہوئے دن بھر میں ہونیوالی اللہ کی نعمتوں کا شکر یوں ادا کرتے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر اپنا احسان اور فضل کیا اور مجھے عطا کیا اور بہت دیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی حمد و ثناہے۔ (ابودائود))14
رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ کہتا ہے اے اللہ تیری جو نعمت اس وقت مجھے حاصل ہے وہ محض تیری طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ وہ شخص اس دن کا شکر ادا کرتا ہے اور جو شام کو یہ کلمات کہتا ہے اس نے اپنی رات کا شکر ادا کیا۔(ابودائود)15
رسول کریمؐ جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اللہ کی حمد بجالاتے۔(ترمذی)16
موسم گرما میںجب کبھی عرصہ کے بعد بارش ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر شکر سے خدا کے حضور جھک جاتا، آپؐ اپنے سر سے کپڑا وغیرہ ہٹادیتے اور ننگے سر پر بارش لیتے اور فرماتے یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے۔( احمد)17
جب آپؐ کی دعا بارگاہ الہٰی میں قبولیت کا درجہ پاتی یا کوئی نیک کام انجام کو پہنچتا تو کسی فخر کی بجائے اللہ کی حمد بجالاتے اور کہتے تمام تعریف اس خدا کی ہے جس کے جلال و عظمت سے ہی نیک کام انجام کو پہنچتے ہیں۔(حاکم)18
اپنے یہودی غلام کی عیادت کو گئے اس کا آخری وقت دیکھ کر اسے کلمہ پڑھنے کو کہا اور جب اس نے پڑھ لیا تو بے اختیار آپ کی زبان پر یوں حمد باری جاری ہوئی کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ایک روح کو آگ سے بچا لیا۔(بخاری)19
سجداتِ شکر
کوئی خوشی کی خبر آتی تورسول کریمؐ فوراً خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکّر بجالاتے۔(خطیب وابودائود)20
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔جب ہم عزوراء مقام پر پہنچے وہاں حضورؐ اترے۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی۔پھرحضورؐ سجدے میں گر گئے۔لمبی دیر سجدے میں رہے۔پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔پھر سجدے میں گر گئے۔آپؐ نے تین دفعہ ایسے کیا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھاکر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزیدایک تہائی اپنی امت کی شفاعت کیلئے اجازت مرحمت فرمائی۔میں پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا۔ پھر سر اُٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطافرما دی اور میں اپنے رب کے حضورسجدۂ شکر بجالانے کے لئے گر گیا۔(ابودائود)21
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوا ٓپ ؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔(احمد)22
اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مکہ کی فتح کے موقع پر آپؐ اپنی اونٹنی پر بیٹھے تھے اور سر جھک کر پالان کو چھُو رہا تھا ۔آپ ؐ سجدۂ تشکر بجالاتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ اے اللہ تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ۔اے اللہ مجھے بخش دے۔(ابن ہشام)23
شکرکے نئے گوشے
نبی کریم ﷺ کے شکراداکرنے کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ آپؐ شکر کے نئے گوشے تلاش کرتے تھے۔محض نعمتوں اور احسانوں اور کامیابیوں پر ہی آپ اللہ کا شکر نہیں کرتے تھے بلکہ گردش زمانہ اور مصائب سے محفوظ رہنے پر بھی اللہ کی حمد بجالاتے تھے۔ ہر مصیبت زدہ آپؐ کو اس شکر کی یاد دلاتا تھا۔چنانچہ کسی معذور یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر جہاں انسانیت کے ناطہ سے آپ کے دل میں اس کے لئے درد پیدا ہوتا تھا وہاں آپؐ اللہ کا شکر بھی کرتے تھے کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اس مصیبت سے بچاکر صحت وتندرستی عطا کی اور اپنی بیشتر مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی۔(ترمذی)24
رسول کریمؐ حمد باری کے نئے او رنرالے انداز ڈھونڈنکالنے کا ایک واقعہ اُمّ المؤمنین حضرت جُویریہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضورؐ میرے پاس سے گئے تو میں اپنے مصلّے پر تھی۔ دن چڑھے واپس لوٹے تو بھی مجھے مصلّے پر پایا اور پوچھا کہ تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی ہو؟ میں نے کہاجی ہاں۔آپؐ نے فرمایا میں نے اس کے بعد صرف چار کلمات تین مرتبہ دہرائے ہیں۔ اگر ان کا موازنہ تمہارے اس سارے وقت کے ذکرو تسبیح سے کیا جائے تو وہ کلمے بھاری ہوں اور وہ یہ کلمے ہیں۔
سُب￿حَانَ اﷲِ عَدَدَ خَل￿قِہٖ سُب￿حَانَ اﷲِ رِضَا نَف￿سِہٖ سُب￿حَانَ اﷲِ زِنَۃَ عَر￿شِہٖ سُب￿حَانَ اﷲِ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ ۔
.968اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی مخلوق ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدرجس قدر اُس کے عرش کا وزن ہے (یعنی بے انتہا) ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کے کلمات کی سیاہی ہے۔(مسلم )25
اپنی ایک مناجات میںآپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں ۔
’’تیرانور کامل ہے تو نے ہی ہدایت فرمائی سب تعریف تیرے لئے ہے، تیرا حلم عظیم ہے۔ تو نے ہی بخشش عطاکی پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔تیرے ہاتھ فراخ ہیں۔ تو نے ہی سب عطا کیا پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔اے ہمارے رب تیرا چہرہ سب چہروں سے زیادہ قابل عزت ہے اور تیری وجاہت تمام وجاہتوں سے بڑھ کر ہے۔تیری عطا تمام عطائوں سے افضل اورشیریں ہے۔ اے ہمارے رب! جب تیری اطاعت کی جاتی ہے تو تُو قدردانی کرتا ہے اور تیری نافرمانی ہو تو بھی تیری بخشش میں فرق نہیں آتا۔ تو ہی ہے جو مجبور اور لاچار کی دعا سنتا اور تکلیف دور کرتا ہے، بیمار کو صحت عطافرماتا، گناہ بخشتا اور توبہ قبول کرتا ہے۔ کوئی نہیں جو تیری نعمتوں کا بدلہ اتار سکے اور تیری تعریف تک کسی مدحت گر کی زبان رسائی نہیں پاسکتی۔ (شوکانی) 26
اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ ؐ کی حمد و ستائش کے اداکئے ہوئے یہ نغمے ایسے پسند آئے کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہوگاتو رسول اللہؐ کو’’مقام محمود ‘‘یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا۔(ترمذی)27
آپؐ کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہوگی کہ آپؐ پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اورخدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے۔
پھرآپؐ سجدہ ریز ہوکر وہ حمدباری بجالائیں گے جسکے جواب میں آپؐ کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمدؐ! آج جو مانگیں گے آپؐ کو عطا کیا جائیگا۔تب آپؐ اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے۔ اور یہ حمد الہٰی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپؐ کو نصیب ہوگی۔(بخاری)28
حمد باری کے حریص
رسول اللہ ؐتواپنے رب کی حمد کے حریص تھے۔ اللہ کی حمد اور شکرکے ایسے اعلیٰ ذوق اور توفیق کے بعد پھربھی اگر کسی کو حمد باری کرتے ہوئے سن لیتے تو اس پر رشک کرتے۔(احمد)29
مشرک شاعر امیہ بن صلت کا حمد باری پر مشتمل ایک شعر جب آپؐ نے سنا تو دل پھڑک اٹھا۔فرمانے لگے امیہ کا شعر تو ایمان لے آیا مگر خود اسکو ایمان کی توفیق نہ ملی۔دل کافر ہی رہا۔شعر یہ تھا:۔
َلَکَ الْحَمْدُ وَالْنَّعْمَائُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا
فََلاشَیْیَٔ اَعْلیٰ مِنْکَ حَمْدًا وَّاَمْجَدًا
یعنی اے ہمارے رب! سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ،احسان اور فضل بھی تیرے ہیں کوئی چیز حمد اور بزرگی سے تجھ سے بڑھ کر نہیں۔(کنز)30
لبیدعرب کا مشہو ر شاعر تھاجس کا بلند پایہ کلام خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا ۔مگر رسول اللہؐ کو اس کے سارے کلام سے جو شعر پسند آیاوہ اللہ کی عظمت کے بارہ میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو لبید نے کہی وہ اسکے شعر کا یہ مصرع ہے۔
اَلَا کُلُّ شَی ئٍ مَّاخَلَا اللّٰہَ بَاطِل‘
کہ سنو! اللہ کے سوا ہر چیز بالآخر فنا ہونیوالی ہے۔(بخاری)31
پس سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہؐ سے بڑھ کر آج تک اللہ کی کوئی حمد کرنیوالا پیدا نہیں ہوا۔اسی لئے تو الہٰی نوشتوں میں آپ ؐکا نام ’’احمد‘‘ رکھا گیا تھا کہ سب سے بڑھ کر خدا کی حمد کرنیوالا ۔ اسی حمد باری کے صدقے آپؐ محمدؐ کہلائے اور آپؐ کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی۔
جذبۂ شکر اور قدردانی
دراصل شکر ایک جذبہ ہے جو احسان کے نتیجہ میں ایک قدردان دل کے اندر پیدا ہوتا ہے۔انسان میں اس جذبہ کا ہونا اللہ کی سچی حمداور شکراداکرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ جو لوگوں کے احسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔(ترمذی32)کیونکہ اسے شکر کی نیک عادت ہی نہیں یا یہ جذبہ سرد پڑچکا ہے۔
آنحضرت ﷺنے شکریہ ادا کرنے کا طریق بھی اپنی امت کو سمجھایا۔ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہؐ نے فرمایا کہ جس شخص سے کوئی نیکی کی جائے تو وہ اس نیکی کرنے والے سے یہ کہے جَزَاکَ اللّٰہ ُخَیْراً کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس شخص نے تعریف کا حق ادا کردیا۔(ترمذی)33
آپؐ فرماتے تھے کہ جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کا بدلہ دو اور اس کی طاقت نہیں تو اس کے لئے دعا کیا کرو اتنی دعا کہ تم جان لو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے۔(ابودائود)34
انسانوں کا شکر
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ تو بدی کا بدلہ بھی نیکی سے دینے کے عادی تھے ۔
آپؐ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی تحفہ دیا جائے تو چاہیے کہ اس کا بدلہ دے اگر اس کی توفیق نہ ہو تو اس کی تعریف ہی کرے جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکر کیا۔ اور جس نے شکرانے کا اظہار نہ کیا اس نے ناقدری کی۔(ابودائود)35
جہاں تک نیکی کے بدلہ کا تعلق ہے رسول کریمؐ قرآن شریف کی اس آیت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھیمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراًیَّرَہ‘۔(سورۃ زلزال:8) یعنی جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی پائے گا۔بلکہ بعض دفعہ بظاہر معمولی نیکی کاغیر معمولی بدلہ عطا فرماتے۔ ایک دفعہ آپؐ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو آپؐ کے کم سن چچازاد بھائی عبداللہ بن عباسؓ نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا۔آپؐ نے آکر پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے اور پھر معلوم ہونے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے لئے یہ دعا کی کہ اے اللہ ان کوقرآن اور حکمت سکھا۔ (بخاری۔36) اوران کو دین کی گہری سمجھ عطا کر۔اس دعا نے حضرت عبداللہؓ بن عباس کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔(بخاری)37
نبی کریم ؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نے خدمات کی سعادت پائی۔بعض نے کھجور کے درخت پیش کردیئے۔اسکے بعد جب بنو قریظہ اوربنو نضیر کے اموال غنیمت آئے تو آپ ؐان قربانی کرنیوالے انصار کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے تحائف کا بدلہ بہترین رنگ میں اُنہیں واپس دینے کی کوشش فرماتے تھے۔(بخاری)38
فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریمؐ نے انصار کی تالیف قلبی اور احساسات و جذبات کا خاص خیال رکھااور فرمایا اب میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ کو ہی اپناوطن ثانی قرار دیئے رکھا۔انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ فرماتے تھے انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری)39
کعب بن زُھیر مشہور عرب شاعر تھاجورسول اللہ ؐ کے خلاف گندے اشعار کہنے کی وجہ سے لائق گرفت تھا۔جب وہ معافی کا خواستگار ہو کر حاضر خدمت ہوا تو حضورؐ کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس میں مہاجرین کی تعریف کی اور انصار کا ذکر نہیں کیا۔رسول کریمؐ کو انصارکی اتنی دلداری مقصود ہوتی تھی، فرمانے لگے کہ تم نے انصار کی شان میں کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی مدح کے مستحق ہیں۔تو اس نے انصار کے لئے یہ شعر کہا
مَنْ سَرَّہ‘ کَرَمَ الْحَیَاۃِ فَلاَیَزَلْ
فِیْ مِقْنَبٍ مِنْ صَالِحِی الْاَنْصَارِ
جس شخص کو باعزت زندگی پسند ہے وہ ہمیشہ نیک انصار کے شہ سواروں کے دستہ میں شامل رہے گا۔(حلبیہ)40
الغرض نبی کریم ﷺ کے ساتھ جس کسی نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی آپ ؐنے کبھی فراموش نہیں کیا۔حتٰی کہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ ؐ کے چچا حضرت عباس کو عندالضرورت جو قمیص مہیا کیا تھا اسے بھی یاد رکھا اور عبد اللہ کی وفات پر اپنا قمیص اس کے کفن کے لئے عطا فرمایا ۔(بخاری)41
نبی کریمؐ حضرت خدیجہؓ کی خدمات کو بھی ہمیشہ یادرکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ اس بارہ میں ازراہ غیرت کچھ عرض کیا تو فرمایا’’جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ ؓنے قبول کیا۔ جب لوگوں نے انکار کیا تو وہ ایمان لائیں۔جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطافرمائی۔(مسند احمد )42
نبی کریم ؐ جب اہل مکہ کے رویّہ سے مایوس ہوکر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تو واپسی پر مکہ میں داخلہ سے قبل حسب دستورکسی سردار کی امان لینی ضروری تھی۔آپ نے مختلف سرداروں کو پیغام بھجوائے مگر کسی نے حامی نہ بھری سوائے مطعم بن عدی کے جس نے اپنے بیٹوں کو بھجوایا کہ حضور کو اپنی حفاظت میں شہر میں لے آئیں۔نبی کریمؐ نے مُطْعَم کا یہ احسان ہمیشہ یادرکھا۔وہ بدر سے پہلے وفات پاچکے تھے مگر نبی کریمؐ نے بدر کی فتح کے بعد جب ستّرکفار مکہ کو قیدی بنایا تو فرمایا اگر آج ان کا سردار مُطْعَم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھے ان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔(بخاری)43
رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب نے زندگی بھر آپ ؐسے وفا کی، ہمیشہ آپؐ کا ساتھ دیا اور آپ ؐکی خاطر شعب ابی طالب میں محصور رہے۔وہ بیمار ہوئے تو آپ ؐان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے دعا کی درخواست کی کہ اپنے رب سے دعا کرو۔اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور پھر آپؐ کی دعا سے وہ صحت یاب ہوئے۔(حاکم44)اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب آپؐ کو دل سے سچا مانتے تھے مگر کھل کر اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔آخری بیماری میں بھی حضورؐ انہیںاعلانیہ اظہار اسلام کی تحریک کرتے رہے مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔اس کے باوجود نبی کریمؐ نے آخر دم تک ان سے حسن سلوک کیا۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو جب اپنے والد ابوطالب کی وفات کی اطلاع کی تو آپ روپڑے اور فرمایا جائو ان کو غسل دو اور کفن کا انتظام کرو۔نیز آپؐ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحم کرے۔(ابن سعد)45
جب ابو طالب کا جنازہ اُٹھا تو اپنے محسن کے سفر آخرت کو دیکھ کر بے اختیار رسول اللہؐ کوان کی صلہ رحمی اور احسان یاد آئے تو یہ دعا کی کہ صلہ رحمی کا بدلہ آپ ؐکو عطا ہو اور اے چچا اللہ آپؐ کو بہترین جزاعطاکرے۔ آمین۔ (ابن اثیر)46
رسول کریمؐ چاہتے تھے کہ آپ ؐکے ساتھی اور آپؐ سے محبت کا دم بھرنے والے بھی شکر کا اعلیٰ وصف اپنے اندر پیدا کریں۔ ایک دفعہ حضرت ابوھریرہؓ کو یہ نصیحت فرمائی!اے ابوھریرہ! بہت زیادہ ڈرتے رہو تو آپ سب لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہوجائوگے اور قناعت کرنے والے بن جائو ۔سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہوجائو گے۔(ابن ماجہ)47
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا کی پیروی میں حقیقی حمد وشکر کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
1
مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ و غیر ھا:558
2
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب فی الاستغفار:1294
3
بخاری کتاب المناقب باب کان النبی تنام عینہ ولا ینام قلبہ:3304
4
ترمذی کتاب الطہارۃ باب مایقول اذاخرج من الخلاء :7
5
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء :3879
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب مایقول الرجل اذاسلم:1391
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب مایقول الامام ومن خلفہ اذا رفع رأسہ من الرکوع
8
مسلم کتاب الصلوۃ باب مایقول اذا رفع رأ سہ من الرکوع
9
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک:4460
10
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب فی الاستغفار:1301
11
بخاری کتاب الدعوات باب مایقول اذانام:5837
12
ترمذی کتاب الدعوات باب مایقول اذا فرغ من الطعام:3379
13
ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب مایقول اذا خرج من الخلائ:297
14
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقال عندالنوم
15
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اصبح:4411
16
ترمذی کتاب اللباس باب مایقول اذا لبس ثوباجدیدا:1689
17
مسند احمد جلد3ص267مطبوعہ بیروت
18
مستدرک حاکم جلد1ص730مطبوعہ بیروت
19
بخاری کتاب الجنائزباب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ
20
تاریخ الخطیب للبغدادی جلد4ص157،ابوداؤد :2774
21
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر:2394
22
مسند احمد جلد1ص191مطبوعہ بیروت
23
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص91مطبوعہ بیروت
24
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی مایقول اذا رأی مبتلیً
25
مسلم کتاب الذکر ولدعاء والتوبۃ والاستغفار باب التسبیح اول النھار وعندالنوم:4905
26
تحفۃ الذاکر ین از علامہ شوکانی ص290 مطبوعہ بیروت
27
ترمذی کتاب المناقب باب فی فضل النبیؐ:3543
28
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قول اللہ وعلم ادم الاسماء کلھا
29
مسند احمد جلد2ص470مطبوعہ بیروت و مسلم کتاب الشعر
30
کنز العمال15241وفتح الباری جلد7ص154
31
بخاری کتاب المناقب باب ایام الجاھلیۃ:3553
32
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک:1877
33
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الثناء بالمعروف:1958
34
ابوداؤد کتاب الزکاۃ باب عطیۃ من سأل باللہ:1424
35
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف:4179
36
بخاری کتاب العلم باب قول النبی اللھم علّمہ الکتاب :73
37
بخاری کتاب الوضوء باب وضع المائِ عندالخلائ:140
38
بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی النضیر
39
بخاری کتاب الایمان باب حبّ الانصار من الایمان
40
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص215مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التوبۃ باب قولہ استغفرلھم وشرح بخاری قسطلانی
42
مسنداحمد بن حنبل جلد6ص117مطبوعہ بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
44
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
45
الطبقات الکبری لابن سعد جلد1ص27مطبوعہ بیروت
46
البدایہ والنھایہ لابن اثیر جلد3ص125مطبوعہ بیروت
47
سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الودع والتقویٰ:4207

رسول کریمؐ کی قرآن کریم سے گہری محبت اورعشق
قرآن اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور وہ آخری مکمل ترین شریعت ہے جو قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کی گئی۔ فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے نفس مضمون کی وسعت و گہرائی حقائق ودقائق، دلائل وفضائل اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ایسابے مثل ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا چند آیات کی مثال لانے پر بھی آج تک کوئی قادر نہ ہوسکا۔قرآن عظیم کا اپنے جیسی نظیر پیش کرنے کا لاجواب چیلنج آج تک اس کی عظمت اور فتح کا نقارہ بجارہا ہے۔
یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہو رقادرالکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہواکہ شعر کہنے چھوڑ دیئے۔چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا میں نے جب سے کلام اللہ کی یہ آیت سنی ہے الٓمّ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہ۔ میں نے شعرکہنے چھوڑ دیئے۔(قرطبی)1
حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام بھی قرآنی تائید کا اعجاز تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ رسول اللہؐ کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرکے گھرسے نکلے تھے۔مگرراستے میں اپنی بہن کے ہاںسورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی بے اختیارکہہ اُٹھے۔ یہ کتنا خوبصورت عزت والا کلام ہے اوربالآخر اسلام قبول کرلیا۔ (قرطبی) 2
مشہور سردار قریش عتبہ قریش کانمائندہ بن کر رسول کریمؐ کو سمجھانے کی غرض سے آیا تو آپؐ نے اسے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی ابتدائی آیات سنائیں۔ جب حضورؐ سجدہ والی آیت پر پہنچے تووہ بے اختیار حضورؐ کے ساتھ سجدے میں شامل ہوا اور کہہ اُٹھا کہ خدا کی قسم! یہ نہ تو شعر ہے نہ کسی کاھن کا کلام ہے اور نہ جادو ہے۔ خدا کی قسم میں نے محمدؐ سے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک کبھی ایسا کلام نہیں سنا۔(حاکم)3
اس پاک کلام کی اصل شان اس وقت ظاہر ہوتی تھی جب خودخدا کا رسولؐ اس کی تلاوت کرکے سناتا تھاجیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
رَسُولٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:3 )
یعنی اللہ کا رسول مطہرّ صحیفے پڑھتا تھا۔ اُن میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔رسول اللہ ؐجب اس دلکش کلام کی آیات پڑھ کر سناتے تھے تو عرش کے خدا کو بھی اس پر پیار آتا تھاچنانچہ فرمایا وَمَاتَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًااِذْتُفِیْضُوْنَ فِیْہِ (یونس:62)
یعنی (اے رسول)تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا۔اسی طرح تم (اے مومنو!) کوئی(اچھا) عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں۔ جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کو محمدؐ کی تلاوت قرآن پراس لئے بھی پیارآتا تھا کہ وہ ایک عجب جذب، سوزوگداز اور عشق ومحبت کے ساتھ اس پاک کلام کی تلاوت کرتے تھے۔آپؐ کی تلاوت کی وہی عظمت اور شان تھی جو قرآن میں یوںبیان ہوئی اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْ نَہ‘ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُوْلٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ(البقرہ:122)
یعنیجن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اس کتاب پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔
رسول کریمؐ اس حکم الہٰی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہوجاتا تھا۔حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ رسول کریمؐ کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپؐ لمبی تلاوت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر سنائی۔ اسے لمبا کیا پھر الرحمان کو لمبا کرکے پڑھا پھر الرحیم کو۔(احمد)4
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریمؐ کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے۔ جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآوازبلنداس کی تلاوت کرتے ہیں۔(احمد)5
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے آیت پر وقف کرتے تھے۔ فاتحہ میں ہرآیت پر رُکتے رب العالمین پر پھرالرحمان الرحیم پررُک رُک کرتلاوت کرتے تھے۔(احمد)6
رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے ایک ایک لفظ واضح اور جداکرکے پڑھتے۔ سوزوگداز میں ڈوبی ہوئی یہ آواز کبھی بلندہوجاتی اور کبھی دھیمی۔ کسی نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ بہترین تلاوت کونسی ہے؟ فرمایا جس کو سن کر آپؐ کو احساس ہو کہ یہ شخص اللہ سے ڈرتا ہے۔ یعنی خشیٔت الہٰی سے لبریزتلاوت اور یہ تلاوت آپؐ کی ہی ہوتی تھی۔
رسول کریمؐ کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن تھا۔ دن بھر گاہے بگاہے اور خصوصاًنمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کے تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا۔عموماً رات کوبھی زبان پر قرآن ہی ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں۔ کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی آیات جاری ہوتیں۔ وَمَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّاللّٰہُ الوَاحِدُ القَھَّارُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَ رْضِ وَمَابَیْنَھُمَا العَزِیْزُ الْغَفَّارُ (صٓ:67)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ صاحب جبروت ہے نیز آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے اور غالب اور بخشنے والا ہے۔(حاکم)7
آپؐرات کو تیسرے پہر تہجدّ کے لئے بیدار ہوتے تو اُٹھتے ہی سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرماتے۔ان آیات کا مضمون خالق کائنات کی تخلیق ارض و سماء اور اس میںموجود نشانات پر غوروفکر سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے بعد انسان کے دل میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی عبادت کا شوق اور جوش ولولہ بیدار ہوتا ہے۔(بخاری)8
اسی طرح رات کو بستر پر جاتے ہوئے بھی قرآن کے مختلف حصوں کی تلاوت رسول کریمؐ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریمؐ آخری تین سورتوں کی تلاوت کر کے ہاتھوں میں پھونکتے اور اپنے جسم پر پھیر کر سوجاتے۔(بخاری)9
حضرت جابر ؓ کے بیان کے مطابق سونے سے قبل آنحضرت ؐسورہ الٓم السجدہ اور سورۂ ملک کی تلاوت کرتے تھے۔(ترمذی)10
حضرت عائشہ ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ سونے سے قبل رسول اللہؐسورۂ زمر اور بنی اسرائیل کی بھی تلاوت کرتے تھے۔(احمد)11
حضرت عرباضؓ بن ساریہ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ بستر پرجاتے ہوئے وہ سورتیں پڑھتے تھے جو اللہ کی تسبیح کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں(یعنی الحدید الحشر، الصف، الجمعہ، التغابن اور الاعلیٰ) اور فرماتے تھے ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوںسے بہتر ہے۔(احمد)12
حضرت خباب ؓ کا بیان ہے کہ رسول کریم ؐبستر پر جانے سے قبل سورۂ کافرون سے لے کر آخر تک تمام سورتیں (اللھب،النصر،الاخلاص،الفلق، الناس)پڑھ کر سوتے تھے۔ (ھیثمی)13
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر نماز میںقیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھراسی قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح اوردعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران کی تلاوت کی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابودائود)14
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اس میں قرآن شریف کی تلاوت اورتدبّرکا شغف اپنی معراجپرہوتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نیکیوں میں سب لوگوں سے سبقت لے جانے والے تھے اور سب سے زیادہ آپؐ کی یہ شان رمضان میں دیکھی جاتی ہے۔ جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اور یہ ملاقات رمضان کی ہر رات کو ہوتی تھی۔ جس میں وہ رسول کریمؐ سے قرآن کریم کا دورکرتے تھے یعنی آپؐ سے قرآن سنتے بھی تھے اورسناتے بھی تھے۔اس زمانے میں رسول اللہؐ کی نیکیوں کا عجب عالم ہوتاتھا۔ آپؐ تیزآندھی سے بھی بڑھ کر سخاوت فرماتے تھے۔(بخاری)15
دوسری روایت میں ذکرہے کہ جبریل ؑ رسول کریمؐ کے ساتھ ہرسال رمضان میں ایک بارقرآن کریم کادورمکمل کرتے تھے۔ مگرحضورؐ کی وفات کے آخری سال انہوں نے دودفعہ قرآن کریم کا دورآپؐ کے ساتھ مکمل کیا۔(بخاری16) اور یہ آپؐ کی آخری سنت تھی۔
تلاوت قرآن اور خشیت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
نبی کریم ؐ قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپؐ کی طبیعت پرہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! آپؐکے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی ہے فرمایا ہاں! مجھے سورۂ ھود، الواقعہ، المرسلات،النبا اور التکویر نے بوڑھا کردیا۔(ترمذی)17
(ان سورتوں میں گزشتہ قوموں کا ذکر ہے جن پر احکام خداوندی اور اس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے عذاب آیا اوروہ ہلاک ہوئیں)رسول کریمؐ نے بعض مواقع پر صحابہ کو سوز وگداز سے بھری آواز میںقرآن کریم کی تلاوت سُنائی۔
ذراتصور کریںوہ کیا عجب سماں ہوگا اور کیسی بابرکت محفل ہوگی جس میں اس پاک وجود نے جس کے دل پر قرآن اترا۔ سورہ رحمان جِسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب آپؐ نے دیا خود صحابہ کو خوش الحانی سے سنائی۔ یقینا اس وقت آسمان کے فرشتے بھی ہمہ تن گوش ہوںگے اور خدائے ذوالعرش کی بھی محبت کی نظریں آپ ؐپر پڑتی ہوںگی۔
اس دلکش واقعہ کا ذکر حضرت جابر ؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک دفعہ انہیں سورہ رحمان تلاوت کر کے سنائی۔صحابہ محوحیرت ہوکر خاموشی سے سنتے رہے۔ رسول کریمؐ نے سورت کی تلاوت مکمل ہونے پر اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک قوم جنّ کو جب یہ سورت سنائی تو انہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایا۔ جب بھی میں نے فَبِاَیِّ اٰلٓائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے تو وہ قوم جواب میں کہتی تھی۔ لَا بِشَیْ ئٍ مِنْ نِعمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔
یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں او ر سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔(ترمذی)18
قیس بن عاصمؓ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اس میں سے کچھ سنائیں نبی کریمؐ نے سورۃ الرحمان سنائی وہ کہنے لگا دوبارہ سنائیں۔ آپؐ نے پھر سنائی اس نے تیسری بار پھر درخواست کی تو آپؐ نے تیسری مرتبہ سنائی جس پر وہ کہہ اُٹھا خدا کی قسم اس کلام میں روانی اورایک شیرینی ہے اس کلام کا نچلا حصہ زرخیز ہے تو اُوپر کا حصہ پھلدار ہے۔ اور یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔(قرطبی)19
حضرت زیدؓ بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابی ّ ؓبن کعب نے رسول کریمؐ کی موجودگی میں صحابہ کو قرآن کی تلاوت سنائی تو سب پر رقّت طاری ہوگئی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا رقت کے وقت دعا کو غنیمت جانو کیونکہ رقّت بھی رحمت ہے۔(قرطبی)20
کلام الہٰی سن کررسول کریمؐ پررقت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایاکچھ قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (سورۃ النسائ:42)تو آپ ؐ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)21
آپؐ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۂ مزّمل کی اس آیت کی تلاوت کررہا تھا ۔اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَجَحِیْمًا (یعنی ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے)تو نبی کریم ؐمدہوش ہوکر گرپڑے۔(کنز)22
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن جوزی)23
کندہ قبیلہ کا وفدرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے آپؐسے کوئی نشانِ صداقت طلب کیا۔ آپؐ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایسا کلام ہے جس پر کبھی بھی باطل اثر انداز نہیں ہوسکتانہ آگے سے نہ پیچھے سے۔ پھر آپؐ نے سورۂ صافات کی ابتدائی چھ آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی۔وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًاo فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًاo اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ oرَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِo (الصّٰفّٰت:1تا6)
ترجمہ:قطاردرقطارصف بندی کرنے والی (فوجوں) کی قسم پھر اُن کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں۔ پھر ذکربلند کرنے والیوں کی۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔آسمانوں کا بھی ربّ ہے اور زمین کا بھی اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا ربّ ہے۔
یہاں تک تلاوت کر کے حضورؐ رُک گئے کیونکہ آواز بھراکر گلوگیر ہوگئی تھی۔ آپؐ ساکت و صامت اور بے حس و حرکت بیٹھے تھے ۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے جو ٹپ ٹپ داڑھی پر گر رہے تھے۔ کندہ قبیلہ کے لوگ یہ عجیب ماجرا دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ کہنے لگے کیا آپؐ اپنے بھیجنے والے کے خوف سے روتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا ہاں اسی کا خوف مجھے رُلاتا ہے جس نے مجھے صراطِ مستقیم پر مبعوث فرمایاہے۔مجھے تلوار کی دھار کی طرح سیدھا اُس راہ پر چلنا ہے اگر ذرا بھی میں نے اس سے انحراف کیا تو ہلاک ہوجائوں گا۔(حلبیہ)24
نمازوں میں مسنون تلاوت
قرآن کریم توسارے کا سارا ہی بہت پیارا ہے۔ مگر رسول کریمؐ سے مختلف اوقات میں حسب حال مضمون قرآنی کی مناسبت سے نمازوں میں بعض خاص سورتوں کی تلاوت ثابت ہے۔
آپؐ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب وعشاء وفجر میں فاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصۂ قرآن کی بآواز بلند تلاوت ہوتی تھی۔
نمازظہر کی پہلی دورکعتیں آخری دورکعتوں سے تلاوت کے لحاظ سے دوگنی لمبی ہوتی تھیں۔ پہلی دورکعتوں میں سے ہررکعت میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا اندازہ قریباً تیس آیات کے برابر تلاوت کا ہے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کے مطابق ظہر وعصر میں سورۃ اللیل کی تلاوت ہوتی تھی۔(جس کی 21چھوٹی آیات ہیںدوسری روایت میں سورۂ اعلیٰ کی تلاوت کابھی ذکرہے) اور فجر کی نماز میں نسبتاًاس سے لمبی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم)25
حضرت جابرؓ کے نزدیک نبی کریمؐ فجر میں سورۃ ق ٓ کی تلاوت کرتے تھے بعد میں یہ تلاوت اس سے بھی نسبتاً مختصر ہوگئی۔ حضرت ابوبرزہؓ اسلمی کا اندازہ ہے کہ فجر کی ہر رکعت میں 60 سے 100 آیات کی تلاوت ہوتی تھی۔حضرت عمروؓ بن حُریث کا بیان ہے کہ انہوں نے فجر میں رسول کریمؐ کو سورۃ تکویر کی تلاوت کرتے سنا۔(مسلم)26
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم السجدہ اور سورۂ دھر کی تلاوت فرماتے تھے۔(بخاری)27
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ام الفضلؓ نے انہیں مغرب کی نماز میں سورۃ المرسلات پڑھتے سنا تو کہنے لگیں میرے بیٹے! تم نے نماز مغرب میں یہ سورت تلاوت کرکے مجھے وہ زمانہ یاد کروادیا، جب میں نے نبی کریم ؐ کونماز مغرب میں سورۂ المرسلات پڑھتے سنا۔(احمد)28
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریمؐ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طُور پڑھتے سنا۔اور ایسی خوبصورت اور دلکش آواز میں کہ قریب تھا کہ میرا دل اُڑ جائے۔ (احمد29) یعنی میں مکمل طور پر اس تلاوت کے سننے میں محو ہوگیا اور اپنی کوئی ہوش نہ رہی۔
حضرت جابربن سمرہؓ نے نمازمغرب میں سورۃ کافرون اور سورۃاخلاص پڑھنے کی سنت رسول ؐروایت کی ہے۔(بغوی)30
حضرت برائؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کو نماز عشاء میں سورۂ التین کی تلاوت کرتے سنا۔ اور خدا کی قسم میں نے آپؐ سے زیادہ خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے والا کوئی نہیں سنا۔(بخاری)31
حضرت معاذ ؓ بن جبل کو رسول کریمؐ نے عشاء میں نسبتاً مختصر قرأت کی خاطر سورۃ شمس، والضُّحٰی،واللیل اورسورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کی ہدایت فرمائی۔(احمد)32
نبی کریمؐ جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے۔(سیوطی)33
اسی طرح جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون کی تلاوت کی روایت بھی آئی ہے۔(سیوطی)34
الغرض رسول کریمؐ کے عشق قرآن کا اظہار قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت سے بھی خوب ہوتا تھا۔ قرآن آپؐ کی روح کی غذاتھا۔ اور آپؐ کی قلبی کیفیت یہی تھی۔
دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چُوموں
قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے

حوالہ جات
1
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 15ص51دارالکتاب العربی
2
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 11ص150دارالکتاب العربی
3
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 2ص253
4
مسنداحمدجلد3ص119
5
مسنداحمدجلد2ص450
6
مسنداحمدجلد6ص302
7
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد1ص540
8
بخاری کتاب الوضوء باب قرا ء ۃ القرآن بعد الحدث
9
بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ والقرا ء ۃ عندالمنام
10
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فیمن یقرا ٔالقرآن عندالمنام۔۔:3402
11
مسند احمد جلد6ص68
12
مسند احمد جلد4ص128
13
مجمع الزوائد ھیثمی جلد10ص121
14
ابوداؤد کتاب الصلوۃ۔باب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
15
بخاری کتاب الصوم
16
بخاری کتاب الفضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ﷺ
17
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب تفسیر سورۃ الواقعہ:3297
18
ترمذی ابواب التفسیر سورۂ رحمان :3291
19
تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی سورۃ الرحمان ص133مطبوعہ دارالکتاب العربی
20
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جلد15ص219دارالکتاب العربی
21
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
22
کنزالعمال جلد7ص206
23
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
24
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص227بیروت
25
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الظھروالعصر والفجر
26
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الفجر
27
بخاری کتاب الجمعہ باب مایقرأفی صلوۃ الفجر
28
مسنداحمدجلد6ص340
29
مسنداحمدجلد4ص84
30
شرح السنہ للبغوی جلد3ص81
31
بخاری کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی المغرب والعشاء
32
مسنداحمدجلد6ص340
33
تفسیر الدر المنثور سورۃ الاعلیٰ جلد8ص480دارالفکر
34
تفسیر الدرالمنثورسورۃ المنافقون جلد8ص170دارالفکر

رسول اللہؐ کی قبولیت دعا کے راز
آداب دعا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبولیت دعا کے راز اپنے تجربے سے خودمشاہدہ کئے پھر ہمیں بھی وہ آداب سکھائے۔آپؐ نے ان حالات، مقامات،اوقات، مواقع اور کیفیات کی نشاندہی فرمائی جن میں دعائیں بطور خاص قبول ہوتی ہیں۔ان تمام کیفیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ حالتیں انسان میں جوش اضطراب اور دعا کی تحریک میں ممدّومعاون ہوتی ہیں۔اس لئے ایسے حالات ،اوقات کی دعائیں خاص قبولیت کا اثر رکھتی ہیں۔ ان بابرکت اوقات کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا۔
٭
نماز تہجد کی دعائیں (بالخصوص رات کے آخری حصہ میں)
٭
اذان کے وقت نیز اذان و اقامت کے درمیان کی دعا
٭
آمین کی کیفیت میں ملائکہ سے موافقت یعنی نماز میں توجہ سے دعا
٭
حالتِ سجدہ کی دعائیں ٭ نماز جمعہ میں قبولیت دعا کی گھڑی
٭
مسلمانوں کے اجتماع اور پاکیزہ مجالس ذکر کی دعائیں
٭
روزہ دار کی افطاری کے وقت کی دعا
٭
رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی دعائیں
٭
ختم قرآن کے وقت کی دعا ٭ بارش کے وقت کی دعا
٭
حالتِ مظلومیت کی دعائیں ٭ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا۔
٭
ایک شخص کی دوسرے غیرموجود بھائی کے حق میںدعائیں
بعض تعلقات کی وجہ سے بھی دعا میں اضطراب اور جوش پیدا ہوتا ہے۔مثلاً
٭
والدین کی اولاد کے بارے میں اور نیک اولاد کی والدین کے حق میں دعا
٭
امام عادل کی دعا نیز صالح اور نیک لوگوں کی دعائیں
بعض مقامات بھی قبولیت دعا کے لئے خاص جوش اورتاثیر پیداکرتے ہیں۔
٭
مکّہ مکرمہ میں بیت اللہ کو دیکھ کر دعا ٭ مقام ابراہیم پرنیزحجراسود کے پاس دعا
٭
صفا مروہ پر دعا ٭ مشعرالحرام اور میدان عرفات میں دعا
٭
مسجد نبوی اور بیت المقدس میں دعا
اس جگہ قبولیت دعا کے ان جملہ مواقع اوقات و حالات اور تعلقات کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کے بعض ارشادات بیان کرنے مناسب ہوں گے۔
۱۔ نماز تہجدکا وقت خاص قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں کہ ہمارا رب ہر رات کو جب آخری تہائی شب باقی رہ جائے، نچلے آسمان پر اترآتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں۔کون ہے جو مجھ سے مانگے اور مَیں اس کو عطاکروں۔کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اورمَیں اسے بخش دوں۔(بخاری)1
بعض روایات میں آدھی رات گزر جانے کے بعد اور بعض میں ایک تہائی رات کے بعد اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر اُتر آنے کا ذکر ہے۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ رات کے درمیانی حصہ میں سب سے زیادہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔اس کے بعد فرض نمازوں کے معاً بعد کے اوقات بھی خاص قبولیت کے ہیں۔(ترمذی)2
۲۔ اذان کے وقت کی دعا کے بارے میں حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’دو ایسے اوقات ہیں جن میں دعا ردّ نہیں کی جاتی ایک اذان کے وقت،دوسرے جنگ میں جب دشمن سے سخت مقابلہ جاری ہو۔‘‘(ابودائود)3
حضرت انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا کبھی ردّ نہیں کی جاتی۔کسی نے پوچھا اس وقت کون سی دعا کرنی چاہیے۔فرمایا’’دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو‘‘۔(ترمذی)4
۳۔ ختم قرآن کا وقت بھی خاص قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے تو اس وقت ساٹھ ہزار فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ نیز اس موقع پر قبر کی وحشت سے مانوسیت اورحصول رحمت باری کی دعا رسول اللہؐ نے سکھلائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ختم قرآن کا وقت نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے۔ (شوکانی)5
۴۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو جمعہ کی ایک خاص گھڑی کا بتایا جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔اس گھڑی کا وقت خطبہ جمعہ سے لے کر جمعہ کے دن کے ختم ہونے تک بیان کیا گیا ہے۔خاص طور پر خطبہ جمعہ اور نماز کے دوران اس گھڑی کی توقع کی جاسکتی ہے۔(ابوداؤد)6
۵۔ رمضان المبارک دعائوں کا مہینہ ہے۔بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں آنحضرتؐ کی سنت سے خاص مجاہدے کے ساتھ دعائیں کرنا ثابت ہے۔(بخاری)7
رسول اللہ ؐ نے فرمایاروزہ دار کے لئے افطاری کا وقت قبولیت دعا کا ایک خاص موقع ہوتا ہے۔ جس وقت اس کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔(ترمذی)8
۶۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی رات خاص طور پر قبولیت دعا کے اوقات میں سے ہے۔(ترمذی)9
۷۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیرلیتے ہیں اور ان پر رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے اور ان کو مغفرت عطاہوتی ہے۔(بخاری)10
۸۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بارانِ رحمت کے نزول کا وقت بھی قبولیت دعا کا خاص وقت ہوتا ہے۔(ابن ماجہ)11
۹۔ جن کیفیات میں دعا بطور خاص قبول ہوتی ہے ۔ان میں ایک وہ حالت ہے جب نماز میں توجہ اور خشوع حاصل ہو۔حدیث میں آتا ہے جب سورۃ فاتحہ کی دعا کے بعد ملائکہ کی آمین سے کسی کی آمین کی موافقت ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔(بخاری)12
۱۰۔ سجدے میں دعائوں کا خاص موقع ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان حالت سجدہ میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے۔پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔(مسلم)13
۱۱۔ مظلوم کی دعا بھی خاص قبولیت کے لائق ہے۔آنحضرت ﷺ نے جن تین دعائوں کی خاص قبولیت کا ذکر فرمایا ان میں ایک مظلوم کی دعا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قبولیت میں کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔(بخاری)14
۱۲۔ ایسے شخص کے لئے خاص توجہ اور جوش سے دعا کرنا جو پاس موجود نہ ہو خاص قبولیت کا موقع ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ قبول ہونے والی دعا اس شخص کی دعا ہے جو اپنے کسی غیر حاضر بھائی کے لئے دعا کرتا ہے۔(مسلم)15
۱۳۔ دعا کرنے والے کی حالت بھی قبولیت دعا میں ممدّومعاون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے اللہ سے اس کے حضور،ہتھیلیاں پھیلاکر سوالی بن کر دعا مانگا کرو اور جب دعا سے فارغ ہوجائو تو ہاتھ منہ پر پھیرلو۔اسی طرح فرمایا کہ تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیادار ہے۔جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے تو اس کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی واپس لوٹا دے۔(ترمذی)16
بعض رشتے اور تعلقات بھی قبولیت دعا کے لئے محرّک ہوتے ہیں۔ چنانچہ والد کی دعا کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر والد اولاد کے خلاف دعا کرے تو اس کی قبولیت میں شک نہیں ہوتا۔ (ترمذی17)اسی طرح والدین کی اولاد کے حق میںاور نیک اولاد کی اپنے والدین کے لئے دعا بھی خاص طور پر قبولیت کا رنگ رکھتی ہے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺ نے امام عادل یعنی مسلمانوں کے نیک اور بزرگ ائمہ کی دعا کے متعلق فرمایا کہ وہ ردّ نہیں کی جاتی اسی طرح نیک اور صالح لوگوں کی دعائیں بھی قبولیت کا خاص مرتبہ رکھتی ہیں۔(ترمذی)18
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعائیں خاص قبول ہوتی ہیں۔
۱۶ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو حصول اولاد کے لئے جب جوش دعا پیدا ہوا تو وہ اپنے محراب(عبادت کی خاص جگہ) میں دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ٹلے نہیں جب تک دُعا قبول نہیں ہوئی۔ اسی جگہ ان کو دعا قبول ہوجانے کی خوشخبری بھی عطا کی گئی۔(سورۃآل عمران:39,40)
۱۷ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بیت اللہ کے ماحول میں مقام ابراہیم پر خاص طورسے عبادات اور دعائیں کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (البقرہ)پس یہ دعائیں بھی خاص تاثیر رکھتی ہیں۔
۱۸ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔
۱۹ اسی طرح بیت اللہ میں حجر اسود کے پاس دعا کا خاص موقع ہوتا ہے جہاں رسول کریمؐ نے بہت رو رو کر دعائیں کیں۔(شوکانی)19
۲۰ صفا مروہ اور مشعر الحرام کے پاس بھی رسول اللہؐ نے دعائیں کیں۔اس جگہ بھی دعا کی قبولیت کا ذکرملتاہے۔(نسائی)20
۲۱ میدان عرفات کی دعا کورسول اللہؐ نے بہترین دعاقراردیا۔ (ترمذی) 21
۲۲ رسول اللہ ؐ نے بیت اللہ کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ میں سے بطور خاص مدینہ کی مسجد نبویؐ اور بیت المقدس کی طرف خاص اہتمام سے سفر کرنے کی اجازت فرمائی۔ ان مقامات میں بھی انسان قبولیت دعا کے خاص مواقع حاصل کرسکتا ہے۔(بخاری)22
آداب دعا اور چند جامع دعائیں
آدابِ دعامیں یہ شامل ہے کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کرنی چاہئے۔سورۃ فاتحہ کے بعد درود شریف پڑھ کر دعاکرنی زیادہ مناسب اور مقبول ہے۔
رسول کریمؐ نے صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھائے۔ ایک دفعہ آپؐ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ جو چُوزے کی طرح کمزور ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے وہ کہنے لگا ہاں میں دعاکرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے۔آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے لے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’اللہ پاک ہے تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے تھی!اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّن￿یَا حَسَنَۃً وَ فِی الاخِرَۃِ حَسَنَۃً ،وَقِنَا عَذَابَ النَّار۔
اے اﷲ! ہمیں دنیا میںبھی نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی ۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔پھررسول کریمؐ نے اس شخص کے لئے دعا کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے شفا عطافرمائی۔(مسلم)23
.968حضرت عبد اﷲؓ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺروزانہ صبح اور شام کچھ دُعائیہ کلمات ضرور پڑھتے تھے ۔اُن میں سے ایک دُعا یہ ہے :-
اَللّٰھُمَّ اِنِّی￿ اَس￿اَلُکَ ال￿عَافِیَۃَ فِی الدُّن￿یَا وَالآخِرَۃِ اَللّٰھُمَّ اِنِّی￿ اَس￿اَلُکَ ال￿عَف￿وَ وَال￿عَافِیَۃَ فِی￿ دِی￿نِی￿ وَدُن￿یَایَ،وَاَھ￿لِی￿ وَمَالِی￿ ،اَللّٰھُمَّ اس￿تُر￿ عَو￿رَاتِی￿،وَآمِن￿ رَو￿عَاتِی￿ ،اَللّٰھُمَّ اح￿فَظ￿نِی￿ مِن￿ بَی￿نِ یَدَیَّ وَمِن￿ خَل￿فِی￿ وَعَن￿ یَمِی￿نِی￿ وَعَن￿ شِمَالِی￿ وَمِن￿ فَو￿قِی￿، وَاَعُو￿ذُ بِعَظ￿مَتِکَ اَن￿ اُغ￿تَالَ مِن￿ تَح￿تِی￿۔ (ابو داؤد )24
اے اﷲ! مَیں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں۔مولیٰ !مَیں تجھ سے دین و دنیا،مال و گھر بار میںعفو اور عافیت کا خواستگار ہوں۔اے اﷲ !میری کمزوریاںڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے ۔اے اﷲ ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما اور مَیں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ مَیں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپؐنے ڈھیر ساری دُعائیں کی ہیںجو ہمیں یاد ہی نہیں رہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ میںتمہیں ایک جامع دُعا سکھاتا ہوں تم یہ یاد کر لو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَس￿اَلُکَ مِن￿ خَی￿رِ مَا سَئَلَکَ مِن￿ہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدصَلَّی اللّٰہُ عَلَی￿ہِ وَسَلَّمَ ،وَنَعُو￿ذُبِکَ مِن￿ شَرِّمَااس￿تَعَاذَ مِن￿ہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاَن￿تَ ال￿مُس￿تَعَانُ ،وَعَلَی￿کَ ال￿بَلَاغُ۔ (ترمذی )25
اے اللہ !ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی ۔تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے ۔پس تیرے تک دُعا کا پہنچانا لازم ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ایک دفعہ فجر کی نماز میں اتنی تاخیرسے تشریف لائے کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیا۔ آپؐ نے مختصر نماز پڑھا کر فرمایا کہ تم لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا میں تمہیں آج فجر کی نماز پر دیرسے آنے کی وجہ بتادوں۔ میں رات کو تہجد کے لئے اُٹھااورجتنی توفیق تھی نماز پڑھی۔ نماز میں ہی مجھے اونگھ آگئی۔ آنکھ کھلی تو اپنے رب کو نہایت خوبصورت شکل میں دیکھا۔ اللہ نے فرمایا اے محمد معلوم ہے فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہی پوچھا تو میں نے یہی جواب دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے کندھے پر رکھی یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور ہر چیز میرے پر روشن ہوگئی۔پھر اللہ نے پوچھا اے محمد فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا ’’کفّارات‘‘ کے بارہ میں۔ اللہ نے فرمایاکفّارات کیا ہیں؟(یعنی وہ چیزیں جن سے گناہ دورہوتے ہیں)۔میں نے کہا نماز باجماعت کے لئے چل کر مسجدجانا اور نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکرالہٰی کرنا اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر اللہ نے پوچھا اور ’’درجات‘‘ کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا اور نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوں۔ تب اللہ نے فرمایا اب مانگو جو مانگتے ہو۔ تب میں نے یہ دعا کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دعا برحق ہے اسے خود بھی یادکرو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔دعا یہ ہے۔اَللّٰھُمّ اِنّیِ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ المَسَاکِیْنِ، وَأن تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَمَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُکَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ ، وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ
اے اللہ! میں تجھ سے نیک کام کرنے اور بری باتیں چھوڑنے کی توفیق چاہتا ہوں۔ مجھے مساکین کی محبت عطاکر۔اور مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر۔ اور جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے موت دے دینا۔میں تجھ سے تیری محبت چاہتا ہوں اوراس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کردے۔آمین۔(احمد)26
سیرت النبی ؐ… قبولیت دعا کے واقعات
خدا ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو پیدا کیا اور اپنی ذات و صفات کا عرفان اسے بخشا ۔ان صفات میں سے ایک نہایت اہم صفت جو ہستی باری تعالیٰ پرزبردست گواہ ہے خدا تعالیٰ کا مجیب الدعوات ہونا ہے۔ وہ خود اپنی ہستی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ کون ہے جو لاچار کی دعائیں سنتا اور اس کی مصیبت دور کرتا ہے کیا خدا کے سوا کوئی اور معبودہے؟(سورۃ النمل:63)
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہوں جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں، شرط یہ ہے کہ یہ دعائیں کرنے والے کامل ایمان کے ساتھ میرے حکم قبول کریں۔(سورۃ البقرہ:187)
دراصل قبولیت دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنا کوئی خدا کی باتیں مانتا ہے اسی قدر اس کی سنی اور مانی جاتی ہے ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزارنبیوں کی زندگی گواہ ہے کہ ان کا ایک ایک لمحہ دعا کے سہارے گزرااور تبھی وہ کامیاب وکامران ہوئے۔
انبیاء کرام کے اس عظیم گروہ میں ایک وہ مرد میدان بھی ہے جس نے اپنے رب کریم کی اطاعت میں اپنا وجود ایسا مٹایا کہ خدا کی رضا اس کی رضا بن گئی۔ وہی فخرانسانیت جس نے یہ نعرہ بلند کیا کہ’’ میری نمازیں اورقربانیاں اور میرا مرنا اورجینا سب اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ تب خدا بھی اس پر خوب مہربان ہوا اور اس دنیا میں اس کی سب مرادیں پوری کیں۔ اگلے جہاں میں بھی جب تمام انبیا ء کی خدمت میں خدا کے دربار میں شفاعت کرنے کی التماس ہو گی تو سب انبیاء کے عذر کے بعد آپؐ ہی وہ جری اللہ ہیں جو آگے بڑھیں گے اور اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور گڑگڑا کر اپنے امتیوں کے لئے شفاعت کی اجازت چاہیں گے تب آپؐ کو یہ مثردہ سنایا جائے گا کہ ’’ سَلْ تُعْطَہْ‘‘ آج آپ ؐجو مانگیں گے عطا کیا جائے گا۔ اور پھر کتنے ہی ایسے امتیوںکے حق میں آپؐ کی شفاعت قبول ہو گی جن کے اعمال صالحہ میں کچھ کمزوریاں بھی رہ گئی تھیں اور وہ سب بخشے جائیں گے ۔یقیناً یہی وہ عظیم الشان مقبول دعا ہو گی جس کے بارے میں ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو ایک خاص دعا کی قبولیت کا وعدہ ہوتا ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے جو روز قیامت اپنے رب سے مانگوں گا۔ ہزاروں ہزار درود ہوں اس محسن اعظم ؐ پر جنہیں اپنی امت کا اس قدر درد تھا۔ (بخاری)27
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںدعا کا عرفان اور اس پرسچا ایمان ہمارے سیدومولیٰ محمد مصطفیٰؐ نے پیدا کیا ،آپؐ نے ہمیں سکھایا کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اپنے رب سے مانگو ۔ آپؐ کا تو لمحہ لمحہ دعا تھا اور آپؐ کی پاکیزہ سیرت قبولیت دعا کے سینکڑوں خوبصورت نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ جن میںسے چند واقعات کا تذکرہ اس جگہ کیا جا رہا ہے تاکہ قبولیت دعا پر ایمان اور یقین بڑھے اور دعا کے لئے جوش اور جذبے اس طرح پروان چڑھیں جیسے حضرت مریم ؑ کے ہاں بے موسم پھل دیکھ کر حضرت زکریاؑ میں دعا کا جوش پیدا ہوا تھا جو بالآخر اُن کی قبولیت کا باعث ٹھہرا۔ ہم بھر پور یقین اور عزم کے ساتھ اپنے اس مولیٰ سے مانگیں جو اپنے بندوں کے ساتھ گمان کے مطابق ہی سلوک کرتاہے ۔سیرت رسولؐ سے ایسی مقبول دعاؤں کے چند نمونے یہاں پیش ہیں۔
ہدایت کیلئے دعائیں
(1) ہمارے آقا ومولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپؐ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپ ؐ کے کام انجام کو پہنچتے تھے ۔مکہ میں جب آپؐ نے دعوت اسلام کا آغاز فرمایا اور مخالفت شروع ہوئی تو سردار ان قریش میں عمرو بن ہشام (ابو جہل )اور عمر بن خطاب جیسے شدید معاندین پیش پیش تھے ۔ رسول کریم ؐ کے دل میں ان شدید دشمنان اسلام کے حق میں محبت اور رحم کے جذبات ہی پیدا ہوئے اورآپؐ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی ۔
’’اے اللہ ! ان دو اشخاص عمرو بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ (جو تجھے پسند ہو ) اسلام کو عزت اور قوت نصیب فرما۔‘‘ (ترمذی)28
پھردنیا نے دیکھا کہ ہادیٔ برحق کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا ایسے حیرت انگیز معجزانہ رنگ میں قبول ہوئی کہ وہی عمر جو گھر سے تلوار لے کر رسولؐ خدا کو قتل کرنے نکلے تھے اسلام کی محبت اور دعا کی تلوار سے گھائل ہو گئے ۔
(2) جب قریش نافرمانیوں میں حد سے بڑھ گئے اور ان کے ایمان لانے کی صورت نظر نہ آئی ۔تب بھی اس رحمۃ للعالمینؐ نے ان کی ہلاکت نہیں مانگی بلکہ بارگاہ الٰہی میں ایک التجا کی (جو شاید بظاہر تو بد دعا معلوم ہو لیکن فی الواقع وہ ان کو کسی بڑی سزا اور تباہی سے بچانے کے لئے ایک نہایت حکیمانہ دعا تھی )آپ ؐ نے عرض کیا !’’اے میرے مولیٰ! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرماجس طرح حضرت یوسف ؑ کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی۔‘‘
اس دعا میں رحمت وشفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھاکہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخراُن پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاںاور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ’’اے محمدؐ! آپ ؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ ؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ ؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرما ئے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ ؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی‘‘۔
رسول کریم ؐ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو ۔مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ ؐ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے ۔مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے ۔(بخاری)29
حضور ؐ کی دعا سے جب بارشوں کا کثرت سے نزول شروع ہوا تو مسلسل کئی روز تک بارش ہوتی چلی گئی ۔مشرکین نے پھر آکر بارش تھم جانے کے لئے درخواست دعا کی اور رسولؐ اللہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں بارش تھم گئی۔ (سیوطی30)مگر حیف صد حیف کہ اس نشان کے باوجود قریش انکار ومخالفت سے باز نہ آئے۔
(3) مکی دور میں مشرکین مکہ کی مخالفت اور انکار بالاصر ار سے تنگ آکر جب ہمارے آقا ومولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی ارشاد کے مطابق طائف کا قصد فرمایا تو آپؐ کو زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور اذیّت وہاں اٹھانی پڑی ۔حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ آپ ؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ !جنگ اُحد (جس میں آپ ؐ شدید زخمی ہوئے اور تکلیف اٹھائی ) سے زیادہ بھی کبھی آپؐ کو تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے؟ رسولؐاللہ نے فرمایا اے عائشہ ؓ میںنے تیری قوم سے بہت تکلیفیں برداشت کیں ۔مگر میری تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب میں طائف کے سردار عبدیالیل کے پاس گیا اور (پیغام حق پہنچانے کے لئے) اس سے اعانت اور امان چاہی مگر اس نے انکار کر دیا (بلکہ شہر کے اوباش آپؐ کے پیچھے لگا دئے جو آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں سے خون بہنے لگا)۔ تب میں افسردہ ہوکر وہاں سے لوٹا۔
اس موقع پر ہمارے آقا ومولیٰ ؐنے دردوکرب میں ڈوبی ہوئی دعا کی اس سے آپؐ کی اس جسمانی تکلیف اور اذیت کابھی اندازہ ہوتا ہے جو اس موقع پر آپؐ نے برداشت کی۔دعا سے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور طائف والوں کے انکار اور ظلم کے مقابل پر اپنی بے بسی اور بے کسی کا عالم دیکھ کر اس اولوالعزم رسولؐ سید المعصومین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ۔آپؐ نے اپنے مولیٰ کی غیرت کو یوں جوش دلایا کہ:۔
’’اے خداوند ! میں اپنے ضعف وناتوانی، مصیبت اور پریشانی کاحال تیرے سوا کس سے کہوں؟ مجھ میںصبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے۔ مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔میں سب لوگوں میں ذلیل ورسوا ہو گیا ہوں ۔تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما ! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا جو مجھے تباہ وبرباد کردے ۔خیر! جو چاہے کر پر توُ مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ بس پھر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘(طبرانی)31
پھر جب آپؐ قرن الثعالب مقام پر پہنچے تو کچھ اوسان بحال ہوئے۔ آسمان کی طرف نگاہ کی تو جبریل ؑ کی آواز آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا کا جواب بھیجا ہے۔ تب ملک الجبال نے آپؐ کوسلام کیا اور کہا کہ اے محمد! آپؐ کیا چاہتے ہیں ؟اگر آپؐ چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو اس وادی پر گرا کر تباہ کر دوں ۔
اپنے جانی دشمنوں کی ہلاکت کے جملہ اسباب جمع ہو جانے پر بھی آپؐ نے ان کی تباہی نہیں چاہی۔ آپؐ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا مت کرو ۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (بخاری)32
صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے اپنی قوم کی ہلاکت نہیں چاہی بلکہ نہایت درد کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت نصیب کر کہ یہ نادان ہیں ۔(خضری)33
بے کسی اور بے بسی کے زمانے کایہ عجیب اور حیرت انگیز ماجرا ہے کہ وہ قوم جس سے ہمارے آقا ومولیٰؐ کو زندگی کا سب سے بڑا دکھ پہنچتا ہے۔اُن کے لئے بھی آپ ؐ کے دل کی گہرائیوں سے رحمت وہدایت کی دعا کے سوا کچھ نہیں نکلتا پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور آپ ؐ کو اتنی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ چاہیں تو طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اس وقت بھی آپؐ اہل طائف کے لئے اپنے مولیٰ سے رحمت کی بھیک مانگتے ہی نظر آتے ہیں۔ اسلامی لشکر جب طائف کا رخ کرتا ہے تو اہل طائف محصور ہو کر مقابلہ کی ٹھان لیتے ہیں اور قلعہ بند ہو کر کھلے میدان میں پڑے مسلمان محاصرین پر خوب تیر اندازی کرتے ہیں تب صحابہؓ سے رہا نہیں جاتا اور وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ثقیف قبیلہ کے تیروں کی بارش نے ہمیں بھون کر رکھ دیا ہے آپؐ ان ظالموں کے خلاف کوئی بد دعا کریں۔ ایک ظالم قوم کا مسلسل ظلم اورانکار دیکھ کراورطاقت پاکر بھی ہمارے آقا ومولیٰؐ کی رحمت ودعا پھرجوش میں ہے آپؐ جواباً فرماتے ہیں !
اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفاً۔اے اللہ !وادی طائف کی قوم ثقیف کو ہدایت عطا فرما ۔دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی یہ دعا بھی قبولیت کا شرف پا گئی اور 9ھ میں قوم ثقیف نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کر لیا ۔(بخاری)34
(4) یمن کے قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو نے قبول اسلام کے بعد نبی کریم ؐ سے درخواست کی کہ میں اپنے قبیلہ کا سردار ہوں اور انہیں جاکر اسلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں ۔آپؐ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے کوئی تائیدی نشان عطا فرمائے۔نبی کریمؐ نے اُسی وقت دعا کی کہ اے اللہ! طفیلؓ بن عمرو کو کوئی نشان عطاکر۔یہ دعا عجیب رنگ میں قبول ہوئی جس نے حضرت طفیلؓ کو بھی مستجاب الدعوات بنادیا۔
حضرت طفیلؓ کہتے ہیں میں اپنی قوم کی طرف لوٹا تواپنے شہر میں داخل ہوتے وقت میری پیشانی پر روشنی کا ایک نشان ظاہر ہوا۔میں نے دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اپنا دین تبدیل کرنے کی وجہ سے میرا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔اس لئے یہ نشان کہیںاورظاہر فرمادے۔چنانچہ میری چابُک کے سرے پر وہ روشنی ظاہر ہوگئی اور جب میں شہر میں داخل ہوا تو لوگ میری چابُک کے سرے پر ایک روشن چراغ کا نظارہ کرنے لگے۔طفیل کے والد اور بیوی وغیرہ رشتہ داروں نے تو ان کی حکمت عملی سے نیز یہ نشان دیکھ کر حق قبول کرلیامگر قوم پھر بھی نہ مانی۔
تب حضرت طفیلؓ نے دوبارہ مکہ آکر رسول اللہؐ سے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی درخواست کی۔نبی کریمؐ نے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ دوس قبیلہ کو ہدایت عطافرمااور ان کو یہاں لے کر آ۔اور طفیل کو یہ نصیحت فرمائی کہ آپ واپس جاکر نہایت حکمت، نرمی اور محبت سے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں۔اس نصیحت پر عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اوردوس قبیلہ مسلمان ہونے لگا۔غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حضرت طفیل اپنی قوم میں سے مسلمان ہونے والوں کو لیکر آئے اور جلد ہی مدینہ میں دوس کے سترّ اسّی گھرانے آباد ہوگئے۔یہ بلاشبہ رسول اللہؐ کی دعا کا معجزنمانشان تھا۔(بیہقی)35
(5) دوس قبیلہ کے ابوہریرہؓ اور ان کی مشرک والدہ بھی اسی دعا کا پھل تھے ۔ ایک روز حضرت ابوہریرہؓ نے مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے رسولؐ اللہ کی شان میں گستاخی کی۔ابوہریرہؓ بڑے کرب کے ساتھ دربارنبوی میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے یہ دعا نکلی۔’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ اُمَّ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘‘اے اللہ!ابوہریرہؓ کی ماں کو ہدایت دے۔یہ دعا عجیب معجزانہ طور پر قبول ہوئی۔ابوہریرہؓ گھر واپس آئے تو ان کی والدہ میں ایک عجیب تغیرّ اور انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔وہ بآواز بلند ’’اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھ کر اپنے قبول اسلام کا اعلان کررہی تھیں۔
ابوہریرہؓ پھولے نہ سمائے اور خوشی کے آنسو لئے اسی وقت پھر رسولؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔سارا واقعہ آپؐ سے عرض کیا۔ دعا پر ان کا ایمان اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ عرض کیا اے خدا کے رسولؐ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں پیدا کردے اور رسول اللہؐ نے ان کے حق میں یہ دعا بھی کردی۔(ابن حجر)36
(6) ایک دفعہ ایک یہودی نبی کریمؐ کے پاس بیٹھا تھا۔حضورؐ کو چھینک آئی تو یہودی نے یَرْحَمْکَ اللّٰہُ کہا کہ اللہ آپؐ پر رحم کرے۔نبی کریم ؐ نے اسے جواباً یہ دعا دی کہ اللہ تمہیں ہدایت دے۔چنانچہ اس یہودی کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطاہوئی۔(سیوطی)37
ہمارے آقا و مولیٰ کی یہ دعائیں ہی تھیں جنہوں نے سر زمین عرب کی کایا پلٹ دی تھی۔ یہ تو ان دعائوں کا ذکر تھا جو قوم کی ہدایت کے لئے گاہے بگاہے آپؐ نے کیں مگر آپؐ کا وجود تو مجسم دعا تھا۔چلتا پھرتا دعائوں کا ایک پیکر۔ایسے لگتا ہے کہ مَایَعْبَؤُابِکُمْ َربِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ (الفرقان:78)( کہ اگر تم دعا نہ کرو تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے) کا ارشاد ہر دم آپؐ کے مدنظر رہتا تھا ۔
غزوات میں دعائیں
رسول اللہؐ کی زندگی کی تمام تر فتوحات بھی دراصل آپؐ کی دعائوں کی ہی مرہون منت تھیں۔ ہر مشکل مرحلے پر آپؐ ہمیشہ خدا کو یاد کرتے اور نصرت الہٰی طلب کرتے نظر آتے ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ دعا آپ ؐ کی زندگی اور آپؐ کی جملہ مہمات دینیہ کی ایک کلید تھی۔جسے آپؐ ہر ضرورت کے وقت استعمال فرماتے تھے۔ ہمیشہ یہ کلید آپؐ کے لئے فتوحات کے دروازے کھولتی ہوئی نظر آتی ہے۔
(7) بدر کی فتح کو اگر کوئی 313نہتے مسلمانوں کی فتح قرار دیتا ہے تودے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ دراصل میرے آقا و مولیٰ کی ان بے قرار دعائوں کی فتح تھی جو بدر کی جھونپڑی میں نہایت عاجزی اور اضطراب سے آپؐ نے مانگیں۔اس روزآپؐ نے اپنے مولیٰ کونامعلوم کیا کیا واسطے دیئے۔ یہاں تک کہ اسے اس کی توحید کا واسطہ دے کرکہااے مولیٰ! آج تو نے اس چھوٹی سی موحّد جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کریگا۔ (بخاری)38
کس قدر خدائی غیرت کو جوش دلانے والی ہے یہ دعا۔گویا باالفاظ دیگر آپؐ اپنے مولیٰ سے یوں مخاطب تھے کہ ان مٹھی بھر جانوں کی تو پرواہ نہیں،مجھے تو تجھ سے اور تیری توحید سے غرض ہے اور سالہا سال کی محنت کے بعدچند موحّد عبادت گزاروں کی یہ مٹھی بھر جماعت میں نے اکٹھی کی ہے۔اگر اس جماعت کو بھی تو نے ہلاک کردیا تو مجھے یہ فکر ہے کہ تیرے نام لیوا کہاں سے آئیں گے؟ بدر کے جھونپڑے میں کی جانے والی یہ دعا ہی تھی کہ بارگاہ الوہیت میں جب مقبول ہوئی تو اس نے کنکروں کی ایک مٹھی کو طوفان بادوباراں میں بدل کے رکھ دیااورتین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کو مشرکین کے ایک ہزار مسلح لشکر جرار پر فتح عطا فرمائی۔(بخاری)39
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیںکہ بدر کے موقع پر رسول اللہؐ ساری رات دعا کرتے رہے۔عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر محمدؐ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔آپؐ نے بدر میںبڑے الحاح کے ساتھ دعا کر کے جب سراُٹھایا تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا آج شام دشمن قوم کے لوگ جس جگہ ہلاک ہوکر گریں گے ان کی جگہ میں دیکھ رہا ہوں۔(ہیثمی)40
(8) غزوۂ احزاب کی فتح بھی دراصل دعائوں کی فتح تھی۔جب مدینہ کی چھوٹی سے بستی پر چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں مسلح لشکر چڑھ آئے اور محصور مسلمان سخت سردی کے ایام میں،ناکافی غذائی ضروریات کے باعث سخت پریشان تھے۔صحابہؓ رسول نے بھوک کا مقابلہ کرنے کیلئے پیٹوں پر پتھر باندھ لئے اور خود رسول خداؐ کے پیٹ پر دو پتھر تھے۔وہ جنگ صرف ایک اعصاب شکن جنگ ہی نہ تھی بلکہ مسلمانوں کی زندگی پر ہولناک ابتلا تھاجس کا سچا نقشہ اور صاف تصویر قرآن شریف نے یوں کھینچی ہے۔
’’جب دشمن اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور نیچے سے بھی اور آنکھیں پتھرا گئیں اور دل مارے خوف کے اچھل کر گلوں تک آرہے تھے اور مومنوں کو خدا کے وعدوں پر طرح طرح کے گمان آنے لگے۔جہاں مومن خوب آزمائے گئے اتنے کہ ان کی زندگیوں پر ایک شدیداور خوفناک زلزلہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ ہلائے گئے بلکہ جھنجھوڑ کر رکھ دئے گئے۔‘‘(سورۃالاحزاب11,12)
ان نازک حالات میں جب شہر مدینہ زندگی اور موت کی کش مکش میںتھا۔ مدینہ میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو اپنے مولیٰ پر کمال یقین اور توکل کے ساتھ ان دعائوں میں مصروف تھا۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِ مْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔ اے میرے مولیٰ ! اپنی پاک کتاب کو نازل کرنے والے اور جلد حساب لینے والے! عرب کے ان تمام لشکروں کو پسپا کردے ان کو شکست فاش دے اور ہلا کر رکھ دے۔
اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ایک خوفناک آندھی نمودار ہوئی جس نے عربوں کی آگیں بجھادیں۔ وہ محاصرہ چھوڑ کر سخت افراتفری کے عالم میںبھاگے اور ایسے بھاگے کہ سر پیر کا ہوش نہ رہا۔لشکر کفار کا سردار ابو سفیان اپنے اونٹ کا گھٹنا تک کھولنا بھول گیا اور بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہوکر اسے بھگانا چاہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر دعائوں کی قبولیت کے معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے بے اختیار یہ کہہ اٹھے۔
لَااِلٰہَ اِ لَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہ‘ وَ نَصَرَ عَبْدَہ‘ وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘ فَلَا شَییَٔ بَعْدَہ ‘ (بخاری)41
کہ اس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے اپنے گروہ کو عزت دی۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور خود ہی تمام لشکروں پہ غالب آیا۔ سب کچھ وہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
(9) غزوہ خیبر کا عظیم معرکہ بھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دعائوں کا ثمرہ تھا۔جب مسلسل کئی روز مختلف جرنیلوں کی سرکردگی میں ترتیب دئیے گئے لشکر خیبر کے قلعوں کو فتح نہ کرسکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعائوں میں لگ گئے،تب واقعہ یہ ہوا کہ خیبر کے محاصرہ کی ساتویں رات حضرت عمرؓ کے حفاظتی دستے نے ایک یہودی جاسوس کو اسلامی لشکر کے قریب گھومتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ اسے رسول کریمؐ کی خدمت میں لے آئے۔ اس وقت بھی حضور ؐ خدا کے حضور سر بسجود دعائوں میں مصروف تھے۔مگر آپؐ کی دعائیں رنگ لاچکی تھیں، یہودی جاسوس نے جان کی امان طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو خیبر کے قلعوں کے اہم جنگی راز بتادیئے۔ اس نے اہل خیبر کے خوف و ہراس اور مایوسی کے نتیجہ میں ایک قلعہ خالی کردینے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فتح ہونے پر وہ راشن اور اسلحہ کے ذخیرے بھی بتائے گا۔(الحلبیہ)42
دعائوں کے نتیجہ میں خیبر کی فتح کی کلید حاصل ہوچکی تھی رسول کریم ؐ نے اس وقت اعلان فرمایا کہ صبح آپؐ اُس شخص کو لشکرِ اسلامی کا عَلم عطا کریں گے جس کے ہاتھ پر خدا مسلمانوںکو فتح دینے والا ہے، اور پھر آپ ؐ نے حضر ت علیؓ کو بلا کر عَلم اسلام عطا کیا۔ ان کی دکھتی آنکھیں آپؐ کی دعا کے فوری اثر سے شفا یاب ہوئیں اور دعائوں کے ساتھ آپؐ نے حضرت علیؓ کو رخصت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر خیبر فتح فرمایا۔(بخاری)43
(10) مکہ کی عظیم الشان فتح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائوں کا تابندہ نشان تھا، رحمت دو عالم صدق دل سے چاہتے تھے کہ معاہدہ شکن دشمن پر اس طرح اچانک چڑھائی کریں کہ اسے کانوں کان خبر نہ ہوا ور اس کے نتیجہ میں دشمن جانی نقصان سے بھی بچ جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر تدابیر کے علاوہ آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور دعائوں میں لگ گئے کہ اے اللہ! قریش کے جاسوس ہم سے روک رکھنا اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچنے پائیں۔(حلبیہ)44
یہ دعائیں ایسی مقبول ہوئیں کہ جب رسولؐ خدا نہایت رازداری کے ساتھ دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں اہل مکہ کے سر پر آن پہنچے تو بھی ابوسفیان کو یقین نہ آتا تھا کہ مسلمان اتنے بڑے لشکر کے ساتھ اتنی تیزی سے مکہ پر چڑھ آئے ہیں۔آپؐ نے انہیں یوں حیران و ششدر اور مبہوت کر چھوڑا کہ وہ رسول اللہ ؐ کے مقابلہ کا موقع نہ پاسکے اور مکہ بغیرکسی کشت و خون کے فتح ہوگیا۔
(11) غزوات میں قدم قدم پر جو مشکلات رسول کریمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آتیں، آپؐ اسی وقت خداتعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوکر ان کا ازالہ کرتے۔ایک جنگ میں زادراہ اور راشن کی بہت قلت ہوگئی،صحابہ ؓ کرام پریشان ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کیلئے اپنے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔پہلے تو آپؐ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے اجازت دے دی، مگر بعد میں حضرت عمرؓ کے اس سوال پر کہ سواری کے اونٹ بھی نہ رہے تو سفر کیسے طے ہوگا؟ آپؐ کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا۔ اسی وقت آپؐ نے اعلان کروایا کہ جو بچی کھچی زاد راہ قافلہ کے پاس ہے وہ اکٹھی کی جائے۔ پھرآپؐ نے اس معمولی سے جمع شدہ زاد راہ پر برکت کی دعا کی ۔اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہی خوراک اتنی بڑھ گئی کہ قافلہ کے سب لوگ اپنے اپنے برتن بھر کر لے گئے۔قبولیت دعا کا یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر رسول خدا ؐبے اختیار کہہ اٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔(بخاری)45
(12) ایک سفر میں حضور ﷺ کی اونٹنی بدک کر بھاگ نکلی۔آپؐ نے دعا کی تو اچانک آندھی کا ایک بگولا نمودار ہوا جو اس اونٹنی کو دھکیل کر آپؐ کے پاس واپس لے آیا۔(عیاض)46
اہل مدینہ کیلئے دعائیں
(13) جب رسول اللہؐ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب تشریف لائے تو یہ ایک وبائی علاقہ تھا جس کی وجہ سے کئی صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت بلالؓ ،اور حضرت عائشہ ؓ وغیرہ بیمار پڑ گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت خدا کے حضور دعا کی کہ اے مولیٰ! اس وبائی علاقہ کی وباء دو ر کردے اور اس شہر کے رزق میں برکت عطا فرما۔(بخاری47)یہ دعا جس طرح قبول ہوئی خود شہر مدینہ کی آبادی و شادابی اس پر شاہد ناطق ہے۔
(14) ایک دفعہ مدینہ میں سخت قحط پڑگیا،ایک شخص نے خطبہ جمعہ میں کھڑے ہوکر نہایت لجاجت سے باران رحمت کے لئے یوں درخواست دعا کی کہ اے اللہ کے رسولؐ ! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہوگئے اور راستے ٹوٹ گئے۔ آپؐ دعا کریں کہ خدا بارش دے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! ہماری خشک سالی دور کر اور ہم پہ بارش برسا۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں آسمان پر کوئی بادل نظر نہیں آتا تھا اور مطلع بالکل صاف تھا۔ اچانک سلع کی پہاڑیوں کے پیچھے سے چھوٹی سی ایک بدلی اٹھی جو وسط آسمان میں آکر پھیلی ،پھروہ برسی اور خوب برسی یہاں تک کہ ایک ہفتہ تک ہم نے سورج کی شکل نہ دیکھی۔ اگلے خطبہ جمعہ کے دوران پھر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اب تو بارش کی کثرت سے مال مویشی مرنے لگے ہیں اور سیلاب سے رستے بہ رہے ہیں۔ دعا کریں کہ اب بارش تھم جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ان بادلوں کو ہمارے ارد گرد لے جا۔ ہم پہ نہ برسا۔ان کوپہاڑوں،ٹیلوں، وادیوںاور درختوں پر لے جا۔ تب اسی وقت معجزانہ رنگ میںبارش تھم گئی اور ہم جمعہ کے بعد باہر نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔(بخاری)48
رزق اور مال میں برکت کی دعائیں
رسول کریم ؐ کی معجزانہ دعائوں کے اثرات اور برکات مال اور رزق میں خارق عادت برکت کے رنگ میں بھی ظاہر ہوئے۔
(15) حضرت انس ؓ بن مالک انصاری دس برس کے تھے کہ والدین نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ذاتی خادم کے طور پر پیش کر دیا۔ ایک دفعہ حضرت انس ؓ کی والدہ حضرت ام سُلیم ؓنے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ ! یہ انسؓ آپ کا خادم ہے، اس کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ آپؐنے اسی وقت انسؓ کو دعا دی کہ اے اللہ! انس کے مال واولاد میں برکت دینا اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈالنا ۔(بخاری)49
حضرت انسؓ خود بیان کرتے تھے کہ خدا نے یہ دعا میرے حق میںخوب قبول فرمائی۔ میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے اور میری زندگی میں میری اولاد بیٹے، بیٹیاں،پوتے نواسے ،نواسیاں سب ملا کر اسّی سے بھی زائد ہیں۔ حضرت انسؓ نے 103 سے 110سال عمر پائی۔(ابن اثیر)50
(16) حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہ ؓ اُحد میں شہید ہوگئے تھے اور ان کے ذمہ یہودی ساہو کاروں کا کچھ قرض تھاجس کا وہ حضرت جابر ؓ سے سختی سے مطالبہ کررہے تھے۔یہاں تک کہ حضرت جابرؓ نے ان کو قرض کے عوض یہ پیشکش کردی کہ اس سال ان کے کھجوروں کے باغ کا سارا پھل قرض خواہ لے کر قرض سے بری الذمہ قرار دیدیں۔ مگر یہودی بنیئے نے رسول اللہؐ کی سفارش کے باوجود بھی ایساکرنے سے انکار کیا تو رسول کریم ؐ نے باغ میں تشریف لاکر دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے کھجور کا اتنا پھل ہوا کہ قرض ادا کر کے بھی نصف کے قریب کھجوربچ رہی۔جب حضرت ابوبکرؓ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ رسول اللہؐ نے جب باغ میں جاکر دعا کی تھی اس وقت ہی ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے پھل میں خارق عادت برکت دے گا۔(بخاری)51
(17) حضرت مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہوگئی۔
مقدادؓ اپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سر ڈھانپتا تو پائوں ننگے ہوجاتے اور پائوں ڈھانکتا تو سر ننگا رہتا تھا ۔ہم نے محتاجی کے اس عالم میں صحابہؓ رسولؐ سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بناکر پاس نہ رکھ سکا۔ بالآخر ہم رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضورؐ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ آپؐ کے گھر میں تین بکریاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو۔ ہم چاروںپی لیا کریں گے چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا۔ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے۔ آپؐ رات کو تشریف لاتے ۔پہلے ہلکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے۔پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپؐ کے لئے دودھ رکھا ہوتا تھا۔آپؐ خود دودھ لے کر نوش فرماتے۔ ایک رات شیطان نے میرے دل میں کیا خیال ڈالا کہ اپنے حصہ کا دُودھ پی کر میں سوچنے لگاکہ یہ جو حضور ؐ کے لئے تھوڑا سا دودھ پڑا ہے اس کی آپؐ کو ضرورت ہی کیا ہے ۔آپؐ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیںاور آپؐ اس سے کھا پی لیتے ہوں گے۔یہ سوچ کر میں نے حضورؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا۔ جب اس سے خوب پیٹ بھر چکا توفکرہونے لگی کہ اب رسول کریم ؐ کیلئے کوئی دودھ باقی نہیں رہا اور اپنے کئے پر سخت ندامت سے اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میرا برا ہومیں نے یہ کیا کیاکہ رسول کریم ﷺ کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا۔اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور میرے خلاف کوئی بد دعا کریں گے اور میری دنیاو آخرت تباہ ہوجائے گی۔اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی ،جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سورہے تھے کیونکہ وہ میری اس حرکت میں شامل نہیں تھے۔
اسی اثنا ء میں رسول اللہ ؐ تشریف لائے۔ آپؐ نے حسب عادت سلام کیا۔پہلے اپنی جائے نماز پر جاکر نماز پڑھتے رہے۔ پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس گئے ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا۔اُدھر آپ ؐ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لو اب میرے خلاف بددعا ہوئی اور میں مارا گیا۔ مگر آپؐ نے جو دعا کی وہ یہ تھی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا۔۔۔اس دعا کا سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوڑھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضورؐ کو کھلا کر آپؐ کی دعا کا وارث بنوں۔ جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے،حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا پھر جب باقی بکریوں پر نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا۔ چنانچہ میں نے بکری ذبح کر نے کا ارادہ ترک کر کے حضورؐ کے گھر سے دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کراسے بھر لیا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے جب تازہ دودھ دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیاہوگا۔فرمانے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا۔ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ حضورؐ !بس آپؐ پئیں۔ حضورؐ نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو۔ میں نے کہا کہ آپؐ اور پئیں۔ حضورؐ نے اور پیا اور پھر مجھے دے دیا۔اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہ ؐبھوکے نہیں رہے خوب سیر ہوچکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپؐ کی یہ دعا کہ ’’اے اللہ! جو مجھے پلائے تو اسے بھی پلا‘‘ میرے حق میں قبول ہوچکی ہے۔تب حضورؐ کے دودھ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت یاد کر کے مجھے بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی، اتنی ہنسی کہ میں لوٹ پوٹ ہوکر زمین پر گر پڑا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مقداد ! تجھے اپنی کونسی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہو ۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ اس طرح آپؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا اپنے حق میں آپؐ سے دعا بھی کروالی اور دوبارہ دودھ بھی پی لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے(قبولیت دعا کے نتیجہ میں) خاص رحمت کا نزول تھا ۔تم نے اپنے ساتھی کو جگا کراور اس دودھ میں سے پلا کر کیوں نہ ان کے حق میں بھی یہ دعا پوری کروائی میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ مجھے اس برکت سے حصہ مل گیاتومیں اس بات سے بے پرواہ ہوگیا کہ کوئی اور اس میں شریک ہوتا ہے کہ نہیں۔(مسلم)52
(18) اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے۔ فاطمہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک نہیں پہنچی۔(سیوطی)53
(19) حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کی تجارت میں برکت کے لئے حضورؐ نے دعا کی۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ کوئی چیز خریدتے تو اس میںنفع پاتے۔(سیوطی)54
(20) حضرت عرُوہؓ کے لئے آپؐ نے برکت کی دعاکی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے بازار جاکر سودا لگایا اور بسا اوقات چالیس ہزار تک منافع لے کر واپس لوٹا۔ امام بخاری نے لکھا ہے کہ عروہؓ مٹی بھی خریدتے تھے تو اس میں منافع پاتے تھے۔(سیوطی)55
شفاء کی دعائیں
(21) رسول کریمؐنے مختلف مواقع پر بعض بیماروں کیلئے معجزانہ شفا کی دعا مانگی۔خدا تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت کے فوری اثرات ظاہر فرمائے، غزوہ خیبر میں رسول اکرمؐ نے اعلان فرمایا کہ کل میں جس شخص کو جھنڈا دوں گا اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ فتح عطافرمائے گا۔ صحابہ نے اس امید میں رات بسر کی کہ شاید یہ قرعۂ فال ان کے نام پڑے۔ حضرت علیؓ کو آشوب چشم کی تکلیف تھی، آنکھیں اتنی شدید دکھتی تھیں کہ صحابہؓ کا اس طرف خیال ہی نہیں گیا کہ یہ عظیم فاتح حضرت علیؓ بھی ہوسکتے ہیں۔اگلی صبح جب حضورؐ نے حضرت علیؓ کو یاد فرمایا تو صحابہ ؓ نے ان کی بیماری کی وجہ سے معذرت پیش کرنا چاہی ،مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؐ کو بلا کر آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا کی۔ خدا نے حضرت علیؓ کو معجزانہ طور پر اسی وقت شفا عطافرمائی اور شفا بھی ایسی کہ یوں لگتا تھا جیسے پہلے کبھی آپؓ کی آنکھیں خراب ہی نہ ہوئی تھیں۔ (بخاری)56
(22) ایک اور موقع پررسول کریم ؐ نے حضرت علیؓ کے حق میں گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہنے کی دعا کی چنانچہ وہ گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہتے تھے۔ (ابن ماجہ)57
(23) حضرت یعلی بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔راستہ میں ایک عورت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس بچے کو نیند کی حالت میں نامعلوم کتنی مرتبہ دورہ پڑتا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ بچہ مجھے پکڑائو۔میں نے بچہ حضورؐ کو دیا۔ آپؐ نے اسے اپنے پالان پر بٹھایا اور اس کا منہ کھول کر اس میں تین پھونکیں ماریں اور اسے اپنا لعاب دھن دیا اور فرمایا’’اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ کے بندے۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا‘‘ پھر حضورؐ نے وہ بچہ واپس پکڑا دیا اور اس عورت سے فرمایا کہ واپسی سفر میں اسی جگہ آکر ملنا اور بچے کا حال بتانا۔
سفر سے واپسی پر وہ عورت وہاں موجود تھی۔اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں۔ رسول کریمؐ نے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم اس گھڑی تک اُسے کوئی دورہ نہیں پڑا۔پھر اس نے تین بکریاں حضورؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں نبی کریمؐ نے مجھے فرمایا کہ نیچے اترو اور ایک بکری لے کر باقی واپس کردو۔(احمد)58
(24) حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور عرض کیا کہ اسے کھانے کے وقت جنون کا دورہ ہوتا ہے۔رسول کریمؐنے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی۔اچانک اسے کھل کر قے ہوئی اور اس کے پیٹ سے سیاہ رنگ کا چھوٹا سا سانپ نکل کر بھاگ گیا۔(احمد)59
(25) حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری خالہ رسول کریمؐ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ حضورؐ یہ میرا بھانجا سائب بیمار ہوگیا ہے۔آپؐ اس کیلئے دعا کریں۔ حضورؐ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں برکت کی دعا کی۔حضورؐ نے وضو فرمایا تو میں نے آپؐ کے وضوء کا بچا ہوا پانی بطور تبرک پی لیا۔(بخاری)60
سائبؓ سن 2 ھ میں پیدا ہوئے تھے یہ واقعہ پانچ چھ برس کی عمر کا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سائبؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے نہ صرف شفا دی بلکہ لمبی عمر عطا فرمائی اور سن 80ھ میں بعمر78برس ان کا انتقال ہوا۔(خطیب)61
(26) یزید بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہؓ کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا۔زخم اتنا بڑا تھا کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ سلمہؓ زخمی ہوگیا ہے۔مجھے اٹھاکر نبی کریم ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپؐ(نے دعا کر کے) تین پھونکیں مجھ پہ ماریں۔تواسی وقت وہ زخم اچھا ہوگیا۔ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی زخم آیا ہی نہیں۔(صرف نشان باقی رہ گیا)۔اس کے بعد پھر کبھی اس میں تکلیف نہیں ہوئی۔(بخاری)62
(27) عمرو بن اخطب ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرا اور میرے حق میں صحت اور خوبصورتی کی دعا کی۔اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ َعمرو کو صحت والی لمبی زندگی اور اولاد عطا فرمائی۔ ایک سو بیس سال کی عمر میں بھی ان کی ایسی صحت تھی کہ سر میں صرف چند سفید بال تھے۔(ترمذی)63
(28) حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب بیمار ہوئے۔ آپؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے کہا بھتیجے! اپنے اس رب سے جس نے تجھے مبعوث کیا ہے دعا کر کہ وہ مجھے اچھا کردے۔ نبی کریمؐ نے اسی وقت دعا کی ’’اے اللہ میرے چچا کو شفا دے۔‘‘ یہ دعا حیرت انگیز رنگ میں فی الفور قبول ہوئی۔ ابو طالب اسی وقت اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے ان کے بندھن کھول دیئے گئے ہوں۔اور کہنے لگے اے محمدؐ! واقعی تیرے رب نے تجھے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے۔آنحضورؐ نے فرمایا اے چچا اگر آپؐ بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں مانیں تو وہ ضرور آپؐ کی بھی سنے گا اور مانے گا۔(حاکم)64
(29) حضرت ابو قتادہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ان کو کامیاب و کامران کر اور ان کے بالوں اور چہرہ کو برکت دے،چنانچہ ابوقتادہؓ نے صحت والی لمبی عمر پائی۔روایت ہے کہ ستر برس کی عمر میں بھی وہ پندرہ سالہ صحت مند جوان نظر آتے تھے۔(عیاض)65
(30) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خدمت کرنے والے صحابہ کے لئے رسول کریمؐ بہت دعائیں کیا کرتے تھے۔ مخلص خدّام کیلئے بسااوقات آپؐ کے دل سے ایسی دعا نکلتی تھی کہ معجزانہ رنگ میں اس کی قبولیت کے اثرات ظاہر ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عتیکؓ انصاری ایک مہم پر بھجوائے گئے۔واپسی پرایک حادثہ میں انکی ٹانگ کوشدید ضرب آئی اور پنڈلی ٹوٹ گئی ۔وہ کہتے ہیں میں ایک ٹانگ پر کودتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچا۔ پھر رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپؐ نے فرمایا اپنا پائوں پھیلائو۔میں نے پائوں حضورؐ کے سامنے رکھ دیا۔ آپؐ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو ایسے لگا جیسے کبھی مجھے یہ تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔(بخاری)66
قبولیت دعا کی پیشگی خبر
رسول کریمؐ کی دعاؤں کی ایک شان یہ بھی تھی کہ آپؐبعض دعائوں کی قبولیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے علم پاکرقبل از وقت اطلاع فرما دیا کرتے تھے۔
(31) ایک مرتبہ نبی کریمؐحضرت انس ؓ بن مالک کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں کچھ دیر آرام فرمایا ،دریں اثناء آپؐ کی آنکھ لگ گئی۔ بیدار ہوئے تو مسکرارہے تھے۔ انسؓ کی خالہ ام حرامؓ نے وجہ پوچھی۔ آپؐ نے فرمایا مجھے سمندر پر سفر کرنے والے بعض اسلامی لشکر وں کا نظارہ کروایا گیا ہے جو تختوں پر بیٹھے ہوئے گویابادشاہوں کی طرح سفر کر رہے ہیں۔ حضرت ام حرامؓ کو کیا سوجھی۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ دعا کریں میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائوں۔ آپؐ نے اپنی اس مخلص اور خدمت گزارخاتون کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ان کے حق میں دعاکی کہ اے اللہ ! ان کو بھی اسلامی لشکر کے اس بحری سفر میں شریک کردے،دوبارہ حضورؐ پر غنودگی طاری ہوئی اور آپؐ نے ایک دوسرے نظارے کاذکر کیا تو ام حرامؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لئے ان لوگوں میں بھی شامل ہونے کی دعا کریں ۔رسول خداﷺ نے فرمایا کہ تم پہلے گروہ میں شامل ہوچکیں، (جس کے بارے میں چند لمحے قبل حضورؐ نے دعا کی تھی) یہ دعا غیر معمولی اور حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ ام حرامؓ کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر دی اور اس زمانے تک زندہ رکھا جب اسلامی لشکر حضرت معاویہؓ کے زمانے میں قبرص کے بحری سفر پر روانہ ہوا۔ ام حرامؓ بھی اپنے خاوندحضرت عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوئیں۔ سفر سے واپسی پر شام میں ساحل سمندر پر اترتے ہوئے سواری سے گر کر فوت ہو گئیں ۔(بخاری)67
(32) خدا تعالیٰ سے علم پا کر دعا کی قبولیت کی اسی وقت اطلاع دینے کا ایک اور واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے تعلق رکھتا ہے جو ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپؐ نے مکہ سے ہجرت کر لی تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں بیمار ہو ئے تو فکر لاحق ہوئی کہ اگر مکہ میں وفات ہوئی تو انجام کے لحاظ سے ہجرت کا ثواب ضائع نہ ہو جائے۔ رسول کریم ؐ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے اس خدشہ کے اظہارکے ساتھ دعا کی خصوصی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضورؐ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے مکہ میںوفات نہ دے جہاں سے میں ہجرت کرچکا ہوں۔اس وقت ان کی حالت ایسی نازک تھی کہ انہوں نے اپنے ورثہ وغیرہ کے بارے میں آخری وصیت بھی کردی ۔آنحضورؐ نے دعا کی کہ
’’اے اللہ! میرے صحابہؓ کی ہجرت ان کے لئے جاری کردے۔ ‘‘ پھر حضرت سعدؓ کو اس دعا کی قبولیت کی بشارت بھی دے دی اور فرمایا اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہیں لمبی عمر عطا کرے گا اور بہت سے لوگ تجھ سے فائدہ اٹھائیں گے اور کئی لوگ نقصان اٹھائیں گے۔(بخاری)68
چنانچہ حضرت سعدؓ کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔وہ اُن دس صحابہ میں سے تھے جن کو رسول اللہؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی۔ سن 55ھ میں بعمر ستّرسال آپ کا انتقال ہوا۔آپ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ایران جیسی عظیم الشان مملکت کی فتح کی بنیاد رکھوائی۔(ابن حجر)69
(33) ایک دفعہ نبی کریمؐ قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس وقت کم سن بچے تھے۔دس گیارہ برس کی عمر ہوگی۔انہوں نے حضور ؐ کے لئے پانی کا لوٹا بھر کے رکھ دیا۔حضورؐ تشریف لائے توپوچھا ’’ یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا عبداللہ بن عباس ؓ نے! آپؐ کے دل میں اس بچہ کیلئے تشکّرکا ایسا جذبہ پیدا ہواکہ اسے محبت سے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور دعا کی ’’اے اللہ! اس بچہ کو دین کی سمجھ عطا کر،اے اللہ! اس بچہ کو کتاب اور حکمت کا علم عطا فرما۔‘‘(بخاری70)یہ دعا پایۂ قبولیت کو پہنچی اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ امت کے عظیم الشان اور زبردست فقیہ اور عالم ٹھہرے اور ’’حِبْرُ الْامَّۃْ‘‘یعنی امت کے متبحر عالم کے طور پر مشہور ہوئے۔
(34) رسول کریم ؐنے ایک صحابی حضرت جریرؓ بن عبداللہؓ کو ذُوالخلصہ کا بت خانہ منہدم کرنے کیلئے بھجوایا۔ یہ معبد بیت اللہ کے مقابل پر کعبہ یمانی کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا۔حضرت جریرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ! میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ۔رسول ؐ اللہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی اے اللہ! اس کو مضبوط اور ثابت کردے اور اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔ حضرت جریرؓ بیان کرتے تھے کہ اس دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں۔(بخاری)71
(35) عبدالحمید بن سلمہؓ اپنے د ادا کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور یوں ان میں علیٰحدگی ہوگئی۔وہ اپنے نابالغ بچے کی حضانت(سُپرداری) کا مسئلہ حضورؐ کی خدمت میں فیصلہ کیلئے لائے۔حضورؐنے فرمایا کہ بچے کو اختیار دے دیتے ہیں ۔کم سن بچوں کا رجحان طبعاً والدہ کی طرف ہوتا ہے۔ حضورؐ کی نورانی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ بچے کی کفالت والد کے پاس بہتر طور پر ہوسکے گی۔بچے کو جب اختیار دیا گیا تو وہ والدہ کی طرف جانے لگا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی بہبود کے طبعی جوش سے اس کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! اس بچے کوباپ کی طرف رہنمائی کردے۔ وہی بچہ جو تھوڑی دیر پہلے ماں کی طرف دوڑا جارہا تھا،لپک کر باپ سے لپٹ گیا اور یوں حضورؐ کی دعاکی فوری قبولیت کا نظارہ بچے کے والدین نے دیکھا۔(احمد)72
(36) حضرت ابوہریرہؓ نے یمن سے آکر 7ھ میں اسلام قبول کیا، انہوں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپؐ سے جو باتیں سنتاہوں بھول جاتا ہوں۔ میرے لئے دعا کریں،آپؐ نے فرمایا ابوہریرہؓ چادر پھیلائو۔ابوہریرہؓ نے چادر پھیلائی آپؐ نے دعا کی اور پھر وہ چادر ابوہریرہؓ کو اوڑھا دی۔ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کوئی حدیث نہیں بھولی۔یہی وجہ ہے کہ بہت بعد میں آنے کے باوجود حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات ابتدائی دور کے صحابہ سے بھی زیادہ ہیں۔(ترمذی)73
(37) ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔ پانی میسّر نہ تھا۔حضرت عمرؓ نے رسول کریمؐ سے دعا کی درخواست کی۔آپؐ نے دعا کی۔ اچانک ایک بادل اٹھا اور اتنا برسا کہ مسلمانوں کی ضرورت پوری ہوگئی اور پھر وہ بادل چھٹ گیا۔(عیاض)74
(38) اپنے اصحاب کے لئے دلی جوش سے دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوعامرؓ کے متعلق ہے جو جنگ اوطاس میں امیر مقرر کر کے بھجوائے گئے تھے۔ ابوموسیؓ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا! ابو عامرؓ کو جنگ کے دوران گھٹنے میں تیر لگا۔جب میں نے وہ تیر نکالا تو گھٹنے سے پانی نکلا۔ زخم بہت کاری تھا جان لیوا ثابت ہوا۔ آخری لمحات میں ابو عامرؓ نے ابو موسیٰ ؓسے کہا اے بھتیجے! نبی کریمؐ کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے دعائے مغفرت کی خاص درخواست کرنا۔یہ کہا اور جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ابو موسیٰ ؓیہ پیغام لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور عرض کیا کہ ابو عامرؓ نے دعائے مغفرت کی درخواست کی تھی،تو رسول اللہؐ اپنے عاشق کی آخری خواہش سن کر بے قرار سے ہوگئے۔فوراً پانی منگوا کر وضو کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔’’اے اللہ اپنے بندے ابو عامرؓ کو بخش دے۔‘‘مگر آپؐ نے اس فدائی کے لئے صرف بخشش کی دعا ہی نہیں مانگی ان کی بلندی درجات کی بھی دعا کی کہ’’ اے اللہ ! قیامت کے دن ابوعامرؓ کو اپنی بہت ساری مخلوق سے بلند مقام اور مرتبہ عطا کرنا۔‘‘ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں میں نے جو دعا کی یہ مقبول گھڑی دیکھی تو عرض کیا۔ حضورؐ! میرے حق میں بھی دعا کردیں۔ آپؐ نے دعا کی ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیسؓ (ابوموسیٰ اشعری) کے گناہ بھی معاف کرنا اور قیامت کے دن اس کو معزز مقام میں داخل کرنا۔‘‘(بخاری)75
(39) بے لوث خدمت کے نتیجہ میں دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوایوب ؓ انصاری کا ہے۔غزوۂ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ ؐ نے یہودی سردارحُیی بن اخطب کی بیٹی صفیہؓ سے شادی کی حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے ذہن میں جذبۂ عشقِ رسولؐ اور حفاظتِ رسولؐ کے خیال سے کچھ اندیشے اور وسوسے پیدا ہوئے اور آپؐ ساری رات حضورؐ کے خیمۂ عروسی کے گرد پہرہ دیتے رہے۔ صبح رسول اللہؐ نے دیکھ کر پوچھا تو دل کا حال عرض کیا کہ آپؐ کی حفاظت کے لئے از خودساری رات پہرہ پرکھڑارہا۔رسول اللہؐ نے اسی وقت دعا کی کہ’’ اے اللہ! ابو ایوب ؓ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں‘‘۔یہ دعا بھی قبول ہوئی۔حضرت ابو ایوب ؓ نے بہت لمبی عمر پائی اور قسطنطنیہ میں آپؓ کا مزار آج بھی محفوظ ہے اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(حلبیہ)76
(40) رسول کریم ؐنے اپنے صحابی سعدؓ کے لئے دعا کی تھی کہ اے اللہ! سعدؓ کی دعائیں قبول کرنا۔ اس دعا نے حضرت سعدؓ کو مستجاب الدعوات بزرگ بنادیاتھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں آپ کُوفہ کے گورنر تھے۔ ایک شخص ابوسعدہ نے ان پر بے انصافی اور خیانت کاالزام لگایا۔ حضرت سعد ؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کو لمبی عمر اور دائمی غربت دے۔ اس کی بینائی چھین لے اور اسے فتنوں کا نشانہ بنادے۔اُسے حضرت سعدؓ کی یہ دعا ایسے لگی کہ آخری عمر میں اندھا اور فقیر ہوکر مارا مارا پھرتا تھا اور گلیوں میں بچے بھی اسے چھیڑتے تھے۔چنانچہ جب تک سعدؓ زندہ رہے ان کے دعائیہ نشان کی وجہ سے لوگ ان کی بددعا سے ڈرتے تھے اور ان سے دعائے خیر کی تمنا رکھتے تھے۔(سیوطی)77
(41) حویرثؓ بیان کرتے ہیں9ھ میں وفدِ تَجیب رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے اور انعام واکرام عطاکرنے کے بعد پوچھا کہ کیا وفد میں سے کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہمارے خیمہ گاہ پر حفاظت کی خاطر رہ گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا اسے بھی میرے پاس بھجوائو۔وہ جواں سال لڑکا آکرکہنے لگا کہ میں اسی قافلہ کا فرد ہوں جو ابھی آپؐسے انعام و اکرام لے کر رخصت ہوا۔جس طرح آپؐ نے ان کی حاجات پوری فرمائی ہیںمیری حاجت بھی پوری کریں۔آپؐ نے فرمایا حاجت بتائو؟ سعادت مند نوجوان نے عرض کیا بس یہی کہ آپؐ میرے حق میں بخشش اور رحمت کی دعا کریں کہ مولیٰ کریم میرے دل میں غنا پیدا کردے پھر حضورؐ نے اُسے باقی ساتھیوں جیسا انعام بھی عطا فرمایا۔ اگلے سال حج کے موقع پراس قبیلہ کے لوگ رسول کریم ؐسے ملے تو آپؐ نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟انہوں نے بتایاکہ ہم نے اس جیسا کوئی اور نہیں دیکھا، نہ ہی اس سے بڑھ کرکوئی قناعت پسندپایا۔(ابن الجوزی)78
قہری دعائوںکے نشان
دعائوں کی یہ عظیم الشان برکات پانے والے سعادت مندوں کے بالمقابل کچھ ایسے بدبخت بھی تھے جو اپنی شقاوت ازلی کے نتیجہ میں رسول اللہؐ کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی قہری تجلّی کے مورد بنے۔
(42) نبی کریم ؐ نے ہمیشہ دشمن کی بھی خیر خواہی فرمائی۔ طائف میں آپؐ کو لہولہان کرنیوالے ہوں یا اُحد کے میدان میں خون آلودکرنے والے۔ آپؐ نے ان کی ہدایت کی ہی دعا کی۔مگر کبھی ایسا بھی ہوا کہ جب جانی دشمن حد سے بڑھ گئے اور رسولؐ خدا کو عبادت الہٰی سے روکنے لگے تو آپ ؐ نے عذاب الہٰی کا نشان مانگا۔ خدا تعالیٰ نے خوب آپؐ کی نصرت فرمائی ۔
ایک دفعہ رسول کریمؐ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ان سرداروں میں کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جواونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جاکر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے۔ ان میں سے ایک بدبخت عُقبہ بن ابی مُعیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہاجونہی بنی کریم ؐ سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپ ؐ کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے کہ میںیہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی رسولؐ خدا کی کچھ مدد نہ کرسکتا تھا۔بس کفِ افسوس ملتا رہ گیاکہ اے کاش ان دشمنان رسولؐ کے مقابل پر مجھے اتنی توفیق ہوتی کہ آپؐ سے یہ بوجھ دور کرسکتا۔اُدھر ان مشرک سرداروں کا یہ عالم تھا کہ رسولؐ اللہ کو اذیت میں دیکھ کر استہزا کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں پڑے تھے، بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھاسکتے تھے۔یہاں تک کہ آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں اور آپؓ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا۔تب آپؓ نے سجدے سے سراٹھایا ۔ عبادت الہٰی سے روکنے اور استہزا کرنے والے ان جانی دشمنوں کے حق میں رسول اللہؐ نے یہ فریاد کی’’ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ‘‘۔ اے اللہ!ان قریش کو تو خود سنبھال ۔یہ دعا بھی قبول ہوئی اور خدائی گرفت ان دشمنان رسول پر بدر کے دن آئی اور رسول اللہؐ نے ان کا یہ عبرت ناک انجام بچشم خود دیکھاکہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ تمازتِ آفتاب سے ان کے حلیے بگڑ چکے تھے۔(بخاری79) یہ تھا دشمنان رسولؐ کا عبرتناک انجام جو رسول ؐاللہ کی دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا۔
(43) رسول اللہؐ نے کسریٰ شاہ ایران کوتبلیغ کے لئے خط لکھا تو اس نے وہ پھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔آپؐ نے دعا کی کہ’’ اے اللہ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے‘‘۔(بخاری)80
تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارہ میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسریٰ کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل برپا ہوا کہ شاہان کسریٰ اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہوکر رہ گئی۔
عُتبہ بن ابی لہب جب اپنی فتنہ پردازیوں اور شر انگیزیوں سے بازنہ آیا توآپؐنے دعاکی کہ’’ اے اللہ اس پر کوئی کتا مسلّط کردے‘‘۔ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیاخود کہتا تھا کہ مجھے محمدؐ کی بددعا سے ڈرلگتا ہے۔ساتھیوں نے تسلی دی اور رات اس کا پہرہ دے کر حفاظت کرتے رہے۔مگر اچانک ایک بھیڑیا آیا، اسے اُٹھا کرلے گیا اور اسے ہڑپ کرگیا۔(ابن حجر)81
(44) ایک اور معاند اسلام حکم بن ابی العاص سر کی جنبش اور آنکھ کے اشاروں سے آنحضرتؐ کا تمسخر اُڑاتا تھا۔آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا’’ خدا کرے اسی طرح ہوجائو۔‘‘اس پر ایسا رعشہ طاری ہوا کہ آخری سانس تک رہا اور وہ اس حال میں مرا کہ آنکھوں کو حرکت دیتے دیکھا گیا۔ (عیاض)82
(45) رسول خدا کی قبولیت دعا کایہ جلالی نشان بھی قابل ذکر ہے۔ بنونَجار سے ایک عیسائی شخص مسلمان ہوا اس نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران بھی یاد کرلی(لکھنا پڑھنا جانتا تھا) نبی کریمؐ کی وحی بھی لکھنے لگا مگر کچھ عرصہ بعد مرتدّ ہوکر پھر عیسائی ہوگیا اور یہود سے جاملا۔ وہ اس سے بہت خوش ہوئے۔ وہاں جاکر یہ شخص دعوے کرنے لگا کہ محمد ﷺ کو تو کچھ نہیں آتا میں ہی لکھ کر دیا کرتا تھا۔اس پر یہود نے اسے اور عزت دی۔معلوم ہوتا تھا کہ یہ عیسائی کسی خاص سازش کیلئے بھیجا گیا تھا اور مقصدطائفہ یہود کی طرح یہ تھا کہ صبح مسلمان ہوکر شام کو انکار کردو تاکہ مسلمان بھی بد ظن ہوکر پھر جائیں۔ چونکہ اب وہ شخص وحی الہٰی کو اپنی طرف منسوب کررہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق و باطل کے لئے خدا تعالیٰ سے خاص نشان طلب کیا اور دعا کی کہ ’’اے اللہ ! اس شخص کو عبرت کا نشان بنا ۔ یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘۔ چنانچہ اسے دفن کردیا گیا مگر خداتعالیٰ نے اسے عبرت ناک نشان بنانا تھا۔ صبح ہوئی تو دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ زمین نے اسے قبر سے نکال باہر پھینک دیاہے ۔عیسائی کہنے لگے کہ یہ کام محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کا ہے کہ اس شخص کے مرتد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی قبر کھود کر نعش نکال باہر پھینکی ہے۔چنانچہ انہوں نے اسے دوبارہ دفن کردیا اور اس دفعہ قبر اتنی گہری کھودی جتنا وہ کھود سکتے تھے لیکن اگلی صبح پھر یہ عجیب ماجرا دیکھنے میں آیاکہ نعش زمین سے باہر پڑی تھی۔عیسائیوں نے پھر وہی الزام دہرایا کہ یہ مسلمانوں کا کام ہے ۔ اس دفعہ انہوں نے انتہائی گہرا گڑھا کھودا مگر زمین نے تیسری مرتبہ بھی اسے قبول نہ کیا۔ اب عیسائیوں کو عقل آئی کہ یہ انسان کے ہاتھوں کا کام نہیں ہوسکتا۔چنانچہ انہوں نے اس کی نعش کو دو چٹانوں کے درمیان رکھ کر اوپر پتھر پھینک دئیے۔(مسلم)83
اُمّت کے لئے دعائیں
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدؐ کی دعائوں کی وسعت کا یہ عالم تھاجس سے کوئی زمانہ محروم نہیں رہااور قیامت تک آنے والے متبعین امت کیلئے آپؐ نے دعائیں کردی ہیں۔
آپؐ نے اپنے روحانی خلفاء کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! میرے ان خلفاء کے ساتھ خاص رحم اور فضل کا سلوک فرمانا جو میرے زمانے کے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور سنت لوگوں تک پہنچائیں گے۔ خودبھی اس پر عمل کریں گے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں گے۔(سیوطی)84
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کو مہمات پر بھجواتے ہوئے بھی ان کے لئے دعا کرتے تھے۔ اکثر مہمات علی الصبح روانہ فرماتے اور اس موقع پر خاص طور پر یہ دعا کرتے۔ ’’اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْ اُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھِمْ ‘‘(احمد)85
اے اللہ ! میری امت کے صبح کے سفروں میں خاص برکت عطا فرما۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کا اتنا خیال رکھا کہ اس کے حق میں یہ دعا کی اے اللہ ! جو شخص بھی میری امت کا والی یا حاکم ہو اور اُن پر سختی یا زیادتی کرے توتُو خود اس سے بدلہ لینا اور اُس سے ایسا ہی سلوک کرنا اور جووالی یا حاکم میری امت سے نرمی کا سلوک کرے تو تُوبھی اس کے ساتھ نرمی کا سلوک فرمانا۔(احمد)86
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اظہار آپؐ نے اپنی شبانہ روز دعائوں سے بھی کیا۔جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے تو اس وقت کئی کمزور مسلمان ایسے تھے جو مکہ میں رہ گئے۔ وہ مختلف وجوہ سے ہجرت نہ کرسکتے تھے اور مکہ میں اذیتیں برداشت کررہے تھے۔ آپؐ کے دل میں اپنے ان کمزور بھائیوں کیلئے جو درد تھا اس کا اندازہ آپؐ کی دعائوں سے کیا جاسکتا ہے ،ایک زمانہ تک آپؐ اپنے ان مظلوم مریدوں کے نام لے لے کر عشاء کی نماز میں دعا کرتے۔
’’ اے اللہ! عیاشؓ بن ابی ربیعہ(ابوجہل کے بھائی) کو کفار مکہ سے نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولیدؓ کو ان سے رہائی دے،اے اللہ سلمہ ؓبن ہشام کو مشرکوں کے ظلم سے بچا،اے اللہ ! سب کمزور مسلمانوں (مومنوں) کی نجات کے سامان فرما‘‘پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دشمن سے نجات دی۔(بخاری)87
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے سورۃ ابراہیم کی آیات 36,37کی تلاوت کی جن میں اپنی اولاد کے شرک سے بچنے اور ساری قوم کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ قرآنی دعا اپنی قوم کی بخشش کے بارہ میں پڑھی کہ اے اللہ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگران کو بخش دے تو تُو غالب اور حکمت والا ہے۔(سورۃمائدہ:119)
پھر آپؐ کے دل میں اپنی امت کے لئے دعا کا جوش پیدا ہوا تو ہاتھ اُٹھائے اور یوں دعا کی اے اللہ میری امت کو بھی بخش دے۔میری امت پر رحم کیجیئو اور یہ کہتے کہتے آپؐ رونے لگے تب اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ سے فرمایا کہ محمدؐ سے جاکر پوچھو(حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی حالت کو خوب جانتاتھا کہ ان کے رونے کا کیا سبب ہے؟) جبریل ؑ نے آکر پوچھا تو رسول اللہؐ نے اپنی امت کے بارہ میں رحم کی بھیک مانگی۔ تب خدا کی رحمت بھی جوش میں آئی اور جبریل ؑ سے کہا کہ جاکر محمدؐ سے کہہ دو کہ ہم آپؐ کو آپؐ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور ناخوش نہیں کریں گے۔(مسلم)88
الغرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو قبولیت دُعا کے ہر قسم کے نشان عطافرمائے اور اس کثرت سے آپؐ کی دعائیں بنی نوع انسان کے حق میں قبول ہوئیں کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ رسول کریمؐ کے پاکیزہ اسوہ پر عمل کے نتیجہ میں آج بھی ہر صاحب ایمان یہ برکات حاصل کرسکتا ہے۔





حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب الدعاء فی الصلاۃ من اخر اللیل:107
2
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید:3421
3
ابوداؤد باب الصلاۃ باب ماجاء فی الدعاء بین الاذان والاقامۃ:437
4
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفووالعافیۃ:3518
5
تحفۃ الذاکرین للشوکانی ص42,43دارالکتاب العربی بیروت
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الاجابۃ أیۃ الساعۃ:885
7
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشرالأ واخر:1884
8
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفو والعافیۃ:3522
9
ترمذی کتاب الدعوات باب منہ:3435
10
بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ:5929
11
ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مایدعو بہ الرجل اذارأی السحاب:3879
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحہ باب غیرالمغضوب علیھم ولاالضَّآلین
13
مسلم کتاب الصلوٰۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود:744
14
بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذرمن دعوۃ المظلوم
15
مسلم کتاب الذکر باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب:4914
16
ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ :3479
17
ترمذی کتاب الدعوات باب ماذکر فی دعوۃ المسافر:3370
18
ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ:2449
19
تحفہ الذاکرین للشوکانی ص44,45 دارالکتاب العربی مطبوعہ بیروت
20
نسائی کتاب مناسک الحج باب التھلیل علی الصفا:2924
21
ترمذی کتاب الدعوات باب فی الدعاء یوم عرفۃ:3509
22
بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدنیۃ
23
مسلم کتاب الذکروالدعاء والتوبہ والاستغفارباب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ
24
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اِذا أصبح
25
ترمذی کتاب الدعوات
26
مسنداحمد جلد5ص243
27
بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل باب ذریۃ من حملنا مع نوح:41
28
ترمذی کتاب المناقب باب عمر بن الخطاب
29
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان
30
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی صفحہ163مطبوعہ بیروت
31
المعجم الکبیر لطبرانی جلد11ص174بیروت
32
بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ
33
نور الیقین فی سیرۃ خاتم النبین ڈاکٹرخضری بک واقعہ سفر طائف مطبوعہ مصر
34
بخاری کتاب المغازی وتر مذی ابواب المناقب باب مناقب ثقیف
35
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص361،مسند احمد جلد2ص243مطبوعہ بیروت
36
الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ زیر لفظ ابوھریرہؓ جلد 4ص204مطبوعہ مصر
37
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167مطبوعہ بیروت
38
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
39
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
40
مجمع الزوائدللھیثمی جلد6ص82مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب:3805
42
سیرت الحلبیہ جلد3ص35بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر:3888
44
السیرۃالحلبیہ جلد3ص74بیروت
45
بخاری کتاب الجہاد باب حمل الزاد فی الغزو
46
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد459
47
بخاری کتاب المناقب باب مقدم النبی واصحابہ المدینہ:3633
48
بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء علی المنبر:959
49
بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی لخادمہ
50
الاسد الغابہ لابن اثیر جلد1ص128مطبوعہ بیروت
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد و کتاب الاستقراض
52
مسلم کتاب الاشر بہ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ
53
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص71
54
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص170بحوالہ بیھقی دارالکتاب العربی
55
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص169بیروت بحوالہ بیھقی وابونعیم
56
بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبیؐ الناس الی الاسلام:2724
57
ابن ماجہ کتاب المقدمۃ باب فضل علی بن ابی طالب:114
58
مسند احمد بن حنبل جلد4ص170مطبوعہ بیروت
59
مسند احمد بن حنبل جلد1ص254بیروت
60
بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوۃ
61
الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب زیر لفظ سائب
62
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
63
ترمذی کتاب المناقب باب فی آیات اثبات نبوۃ النبیؐ:3562
64
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
65
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص458بیروت
66
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
67
بخاری کتاب الجہاد باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ
68
بخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر:2537
69
الاصابہ فی تمییز الصحابہ زیر لفظ سعد
70
بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عندالخلائ:140
71
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذی الخلصہ
72
مسند احمدبن حنبل جلد5ص446-447 و
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167بیروت
73
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی ھریرۃ:3769
74
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص457بحوالہ بیھقی
75
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ أوطاس:3979
76
السیرۃ الحلبیہ جلد 3ص44مطبوعہ بیروت
77
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص165بیروت
78
الوفاء باحوال المصطفی ص764ازابن الجوزی بیروت
79
بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ:2717
80
بخاری کتاب المغازی باب کتاب النبیؐالی کسریٰ
81
فتح الباری لابن حجرجلد4ص39 دارالکتب الاسلامیہ لاہور
82
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص46بحوالہ بیھقی
83
مسلم کتاب المنافقین باب 1:4986
84
جامع الصغیر للسیوطی جز1ص60بیروت
85
مسند احمدبن حنبل جلد3ص416بیروت
86
مسند احمد بن حنبل جلد6ص93بیروت
87
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین
88
مسلم کتاب الایمان باب دعاء النبی لامتہ :346

مخبر صادقؐکے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں
خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جائزہ لینے کے لئے آپ ؐکے رؤیا وکشوف کا مضمون بھی بہت اہم ہے ۔دوسرے رؤیا وکشوف کے ذریعہ خوش خبریوں کا عطا ہونا اور خدا کا بندے سے کلام کرنا محبت الٰہی کی نشانی ہے۔
تیسرے جن رؤیا وکشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہو ان کاکثرت سے ہوبہو پورا ہو جاناصاحب کشف والہام انسان کی سچائی کا نشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے۔ ’’وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتابجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔‘‘(سورۃ الجن:27) اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی والہام اور رؤیا وکشوف ہی ہیں۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا’’اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یاکوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔یقینا وہ بہت بلند شان (اور)حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:52)
رؤیا وکشوف کے بارہ میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پیش گوئیاں انبیاء کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض وفات کے بعد ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اگرہم تجھے اُن انذاری وعدوں میں سے کچھ دکھادیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو(ہرصورت) تیرا کام صرف کھول کھول کر ُپہنچادینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔‘‘(سورۃ الرعد:41)
سید الانبیا ء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بشیر ونذیر ‘‘کے لقب سے بھی نوازاگیا ہے ۔ آپؐ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اور امت محمدیہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں۔ ایک دفعہ نمازِ کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا ’’مجھے ابھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ‘‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپؐ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے ۔(بخاری)1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے۔
۱۔نبی کریمؐ کی زندگی میں ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رؤیا
پہلی قسم اُن رؤیاء و کشوف اور پیش گوئیوں کی ہے، جو نبی کریمؐکی حیات مبارکہ میں ہی واضح طور پر اپنے ظاہری رنگ میں منّ وعَنْ پوری ہو گئیں۔
حضرت عائشہ ؓسے شادی کی رؤیا
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی تصویر دکھا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ آپ ؐکی بیوی ہے۔ظاہری حالات میں یہ بات ناممکن نظر آتی تھی کیونکہ حضرت عائشہؓ کی منگنی دوسری جگہ طے ہوچکی تھی اور یوں بھی نبی کریمؐ اور حضرت عائشہؓ کی عمروں کا فرق ہی چالیس سال سے زائد تھا۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضورؐ نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیاکا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرماوے گا۔ (بخاری)2
پھر بظاہر نا موافق حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ بات غیرمعمولی رنگ میںپوری کردکھائی اورجُبیر بن مطعم سے منگنی ختم ہونے کے بعد کم سن حضرت عائشہؓ رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں اور اُمّ المؤمنین کا اعزازان کو عطاہوا۔
مکی دور میں فتح بدرکی پیش گوئی
ان پیشگوئیوں میں سے ایک غزوۂ بدر کی فتح کی پیش گوئی بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکّہ ہی میں تھے اور مسلمان انتہائی کمزور اور مظلوم ومقہور ہو چکے تھے ۔ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لئے انشراحِ صدر اور مضبوطیٔ ایمان کا موجب ہوتے تھے۔جیسے شقِّ قمر کا معجزہ وغیرہ۔ چاند جو عربوں کی حکومت کا نشان تھا۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور انکی وحدت ملی پارہ پارہ ہوکر رہے گی۔سورۃ قمر (جس میں واقعہ شق قمر کا ذکر ہے ) میں واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کے مقابل پر کفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے۔فرمایا سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(القمر:46)یعنی( اس روز قریش کی) جمعیت پسپا ہوگی اور یہ (اوران کے لشکر) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہونگے۔
کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑکہہ سکتے تھے اور اسی لئے ساحرومجنون کے الزام لگاتے تھے۔پھراللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پورا فرمایا اس پر اہل مکّہ بھی انگشت بدنداں ہوکررہ گئے۔
چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدۂ فتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا۔ وَاِذْیَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھَالَکُمْ(سورۃالانفال:8) کہ اس وقت کو یادکرو جب اللہ تمہیں دو گروہوں (یعنی لشکرکفار اور قافلہ) میں ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ اس پر تم کو فتح ہوگی۔
پھر بھی جب میدان بدر میں رسول اللہؐ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ایک مسلح لشکر جرارسامنے ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے تو طبعاً آپؐ کوفکر دامنگیرہوئی۔ تب خداتعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہؐ نے دعائوں کی حد کردی۔ آپؐ بدر کے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کر اتنے الحاح سے د عا کررہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر گر جاتی تھی۔
آپؐ اپنے مولیٰ سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔اے اللہ تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ! (تو ہمیں کامیاب کر) اے اللہ اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو کون تیری عبادت کرے گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اب بس کریں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے۔ آپؐ یہ آیت تلاوت کررہے تھے ۔سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(سورۃالقمر:46)کہ لشکر ضرور پسپا ہوں گے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (بخاری3)گویا خدا کاپیشگی وعدہ فتح یاد کرکے مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے۔ چنانچہ بظاہر نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطافرمائی اور رسول اللہؐ کیکنکریوں کی ایک مٹھی کفار پرآندھی و طوفان بن کرٹوٹی اور انہیں پسپا کرنے کا موجب بن گئی۔
سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی
نبی کریم ؐ کو بدر میں صنادید قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا۔اس بارہ میں حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ ہم مکّہ و مدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ معرکۂ بدر سے ایک روز قبل رسول کریمؐ نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا’’یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہوگا۔‘‘حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ وہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسول خداؐ نے بتایاتھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ ؐنے ان کے گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں، ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی۔(مسلم)4
غزوۂ بدر میں قریش کے چوبیس سردار ہلاک ہوئے۔انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا۔ تیسرے دن بدرسے کُوچ کے وقت رسو ل کریمؐاس گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر ان سرداروں اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے ۔آپؐ فرماتے تھے ’’اے فلاں کے بیٹے کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی؟‘‘ہم نے تو اپنے ربّ کے وعدوں کو سچاپالیا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ !آپؐ ان بے جان جسموں سے کلام کررہے ہیں ‘‘آپ ؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ انکو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (یعنی اپنے ظلموں کی جزاپاکر)۔(بخاری)5
مکی دور میں ہجرتِ مدینہ اور مکّہ واپسی کی پیشگوئی
قرآن شریف میں سورۂ قَصص (جو مکی سورۃ ہے) کے آغاز میں حضرت موسیٰ ؑکے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے۔ آخرمیں مثیل موسیٰ نبی کریمؐ کے مکّہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکّہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَ آدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط(سورۃ القصص :86)یعنی وہ جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے ،ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔
یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی، ان میں مکّہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی تھی۔فتح مکّہ سے چندروز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہؐ اس شان سے مکّہ میں داخل ہوں گے۔مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ سال کے عرصہ میں کس شان سے پوری ہوئی۔
کسرٰی شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی
رسول اللہؐ نے کسرٰی شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا ۔اس نے نہایت بے ادبی سے وہ خط پھاڑ دیا۔رسول کریمؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے کسریٰ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا کی۔پھر نہایت معجزانہ رنگ میں اس زمانہ کی یہ طاقتور حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اورا س کا جابرو ظالم حاکم بھی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اوررسول خداکی سچائی کا نشان بنا۔
تفصیل اس کی یوں ہے کہ نبی کریمؐ کے تبلیغی خط کو کسریٰ نے اپنی ہتک سمجھااور یمن کے حاکم باذان کو حکم بھجوایا کہ اس شخص کو جو حجاز میں ہے دو مضبوط آدمی بھجوائو جوگرفتار کر کے اُسے میرے پاس لے آئیں۔باذان نے ایک افسربابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنے خط میںآنحضرت ؐکو لکھا کہ آپؐ ان دونوں کے ساتھ شاہ ایران کے پاس حاضر ہوں ۔ بابویہ کو اس نے کہا اس دعویدار نبوت سے جاکرخود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھے مطلع کرو۔ یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرت ؐ کے بارہ میں پوچھا ۔انہوں نے کہا وہ تو مدینہ میں ہیں۔ طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسرٰی شاہ ایران اس شخص کے پیچھے پڑگیا ہے۔ وہ اس کے لئے کافی ہے۔دونوں قاصدمدینہ پہنچے۔ بابویہ نے رسول اللہؐ سے بات چیت کی اور آپؐ کو بتایا کہ شہنشاہ کسرٰی نے شاہ یمن باذان کو حکم بھجوایا ہے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے اور مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپؐ میرے ساتھ چلیں۔ اگر آپ ؐمیرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں شنہشاہ کسریٰ کے نام ایسا خط دوں گاکہ وہ آپؐ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔ اگر آپؐ میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپؐ خود جانتے ہیں کہ اس میں آپؐ کی بلکہ پوری قوم کی ہلاکت اور ملک کی تباہی وبربادی ہے ۔ آپؐ نے ان دونوں نمائندوں سے فرمایا کہ اس وقت تم دونوں جاؤ صبح آنا۔ رسول اللہ ؐ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شنہشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیاگیاہے۔ اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کردیا ہے۔
اگلی صبح جب وہ دونوں رسو ل اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا کہ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلّط کر کے اسے قتل کیا ہے ۔ وہ دونوں کہنے لگے آپؐ کو پتہ ہے کہ آپؐ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم اس سے معمولی بات پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں ۔کیا ہم آپؐ کی بات شہنشاہ کو لکھ کر بھیج دیں۔ آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ۔ہاں ! میری طرف سے اسے یہ اطلاع کردو اور اسے جا کر یہ پیغام دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقیناً تمہارے ملک ایران پر بھی ہو گااور اس کو کہہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔یہ دونوں شخص جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے ۔ جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر تو یہ سچ نکلا تو یقیناًیہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ کریں گے ۔تھوڑے ہی عرصے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا۔ میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطرکسریٰ کوقتل کیا ہے کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتا اور ان کو قید کرتا تھا ۔اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور کسریٰ نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا کالعدم سمجھو یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے ۔ کسریٰ کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے۔چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے مسلمان ہو گئے ۔(طبری)6
اسود عنسی کے قتل کی خبر
حضرت عبداللہؓ بن عمربیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت ) کے قتل کی خبر دی ۔آپؐ نے ہمیں علی الصبح اطلاع فرمائی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے ۔پوچھا گیا وہ کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا نام فیروز بان فیروز ہے ۔(کنز)7
-2تعبیر طلب رؤیا اور ان کا پورا ہونا
دوسری قسم کی رؤیا یا پیشگوئیاں وہ ہیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں پوری نہیں ہوتیں بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ رسول کریمؐ کو ان کی تعبیر کے بارہ میں بھی قبل از وقت علم عطا فرمایا گیا اور آپؐ نے وقت سے پہلے کھول کر بتا دیا کہ اس رؤیا کے مطابق یوں واقعہ ہوگا۔ اور پھر اسی طرح ظہور میں آکر وہ واقعات آپؐ کی سچائی کے گواہ بنے۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی پیشگوئی
حجۃ الوداع کے بعد نبی کریم ؐ نے دو جھوٹے مدّعیان نبوت کے بارہ میں اپنی یہ رؤیابیان فرمائی کہ میں سویا ہوا تھا۔ زمین کے خزانے مجھے دیئے گئے ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے۔ میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری۔ سونے کے یہ کنگن میرے لئے باعث پریشانی ہوئے۔تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماریں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے۔ میں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے دعویدارہیں جن کے درمیان میںہوں۔ایک تو صنعاء کا باشندہ(اسود عنسی) دوسرا یمامہ کا رہنے والا (مسیلمہ کذاب)۔ (بخاری)8
یہ رؤیا بھی حضورؐ کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوںمدّعیان نے رسول اللہؐ کی زندگی میں نبوت کے دعوے کئے ۔اسود عنسی آپؐ کی زندگی میں اور مسیلمہ بعد میں ہلاک ہوا۔
خلافت ابو بکرؓ وعمرؓ کے متعلق رؤیا
خدا تعالیٰ کے ہرمامور کی طرح نبی کریم ؐ کو اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اُس رؤیا کے ذریعے دور فرمادی جس میں حضرت ابو بکرؓ کے مختصر زمانہ خلافت او ر حضرت عمرؓکے فتوحات سے بھرپور پُر شوکت عہد کی طرف اشارہ تھا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں سیاہ رنگ کی بکریوں کے لئے کنوئیں سے پانی کھینچ رہا ہوں جن میں کچھ گندمی رنگ کی بکریا ں بھی ہیں۔ اتنے میں ابو بکرؓ آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی پھر عمرؓ آئے اور انہوں نے ڈول لیا تو وہ اسے بھرا ہوا کھینچ لائے۔ اُنہوں نے تمام لوگوں کو پانی سے سیراب کیا اور تمام بکریوں نے پانی پی لیا۔ میں نے آج تک ایسا کوئی باکمال وباہمت جواں مردنہیں دیکھا جو حضرت عمرؓ جیسی طاقت رکھتا ہو۔‘‘(بخاری)9
چنانچہ یہ رؤیا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیاد رکھ دی گئی اور بڑی بڑی فتوحات ہوئیں۔
فتح ایران اورسراقہ بن مالک کے بارہ میں پیشگوئی
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالکؓ کے حق میں بھی رسول اللہؐ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔
حضرت ابوبکرؓ ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمارا تعاقب کرنیوالوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ ہمیں پکڑنے کیلئے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریم ؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری طرف سے توُ خود اسکے لئے کافی ہو۔تب اچانک اسکے گھوڑے کے اگلے دو پائوں زمین میں دھنس گئے۔اس پر سراقہ کہنے لگا مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپؐ کی دعا کا نتیجہ ہے۔اب آپؐ دعا کریں اللہ مجھے اس سے نجات دے۔ خدا کی قسم اپنے پیچھے آنیوالوں کو میں آپؐ کے بارہ میں نہیں بتائوں گا ۔ آپؐ میرے تِیر بطور نشانی لے لیں۔ فلاں جگہ جب میرے اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپؐ گزریں تو اپنی ضرورت کے مطابق جوچیز چاہیں لے لیں۔حضور ؐ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔پھر آپؐ نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پائوں باہر نکل آئے۔(احمد)10
سراقہ کی درخواست پر رسول کریمؐ نے اسے ایک تحریر امان لکھواکر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپؐ نے فرمایا اے سراقہ !اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسرٰی کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟ سراقہ نے حیرانی سے کہا کسریٰ بن ہرُمز(شہنشاہ ایران)؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں کسریٰ بن ہرُمز کے کنگن۔‘‘
اپنے جانی دشمنوں سے جان بچاکر ہجرت کرنے والے بظاہر ایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی شان اور عظمت پر غورتو کریں جس میں سُراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان پیشگوئی یہ تھی کہ ایران فتح ہوگا اور کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے۔پھر نامساعد حالات میں کی گئی یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔
سراقہ نے فتح مکّہ کے بعدجِعّرانہ میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسرٰی کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پیش ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا’’ ہاتھ آگے کرو ‘‘۔ پھر آپ نے اُسے سونے کے کنگن پہنادیئے اور فرمایا اے سراقہ ! کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ان کنگنوں کو کسریٰ کے ہاتھ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنادیا۔ وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں۔(الحلبیہ)11
اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی
ایک اور عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب بری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اورفتوحات کی خبر دی گئی ۔
حضرت ام حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ ہمارے گھر محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ:۔
’’ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ !آپ ؐدعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنادے۔چنانچہ رسول کریمؐ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کردے۔‘‘پھر آپؐ کو اونگھ آگئی اور آنکھ کھلی توآپؐ مسکرارہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپؐ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے۔ ام حرام ؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں۔آپؐ نے فرمایا’’ تم گروہ اولین میں شامل ہو، گروہ آخرین میں شریک نہیں۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھریہی حضرت ام حرامؓ سمندری سفر میں شامل ہوئیںاور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی۔(بخاری)12
اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو جب وہ شام کے گورنر تھے پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی۔حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیاجو اسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا۔جس کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی وہ بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کی دنیائوں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے۔(کنز)13
یہ پیش گوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا۔ عبداللہ بن سعدؓ بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیٹرے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگادیئے۔چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہمات میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود و احمر کے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ روس صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔تیسری طرف طارق بن زیاد فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرا لٹر پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلادیئے تو چوتھی طرف محمدبن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدۂ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اورکیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے اَن مٹ نقوش ثبت کئے جو رہتی دنیا تک یادرہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیرہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان جو پانیوں سے ڈرتے تھے سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا وکشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے۔
-3تعبیر طلب رؤیا کاکسی اور رنگ میں پورا ہونا
رؤیا اور کشوف کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ رؤیا کے وقت کی گئی تعبیر کے مطابق من و عن ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ الہٰی مشیٔت وتقدیرکے مطابق کسی اور بہتر رنگ میں ظاہر ہوتی ہیںجیسے واقعہ صلح حدیبیہ۔
مدنی دور میں جب مسلمان اہل مکّہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج و عمرہ پر پابندی تھی۔اس وقت رسول اللہؐ نے رؤیا میں اپنے آپؐ کو صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا اور ظاہری تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت ہمراہ لے کر عمرہ کرنے تشریف بھی لے گئے۔مگر گہری مخفی الہٰی حکمتوں اور منشاء الہٰی کے تابع آپؐ اس سال عمرہ نہ کرسکے اور معاہدۂ صلح حدیبیہ کے مطابق اگلے سال عمرہ کیا۔لیکن اس معاہدۂ حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر کی فتح بھی عطا فرمائی اور مکّہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا۔اب اگر یہ تعبیر ظاہری رنگ میں پوری ہوجاتی کہ اُسی سال مسلمان طواف کر بھی لیتے تووہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں عطا ہوئی ہیں اور جسے قرآن شریف میں’’فتح مبین‘‘ قراردیا گیا۔(بخاری)14
ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی جس کی درست تعبیر بعد میں ظاہر ہوئی۔نبی کریم ؐ کواپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے۔ آپؐ نے اُس سے یمامہ یا حجر کی سرزمین مراد لی۔مگر بعد میں کھلا کہ اس سے یثرب یعنی ’’مدینۃ الرّسول‘‘ مراد تھا۔(بخاری)15
رؤیا میںدارالہجرت کے نام کے اخفاء میں یقینا گہری حکمت پوشیدہ تھی کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک یا خطرہ حائل نہ ہو۔
-4رؤیاپوری ہونے پر اُس کی تعبیرکا کھلنا
بعض رؤیا ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تعبیر رؤیا کے وقت واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رؤیا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اُس واقعہ یاحادثہ کے ظہور کے بعد رؤیا میں مضمر منشاء الہٰی معلوم کرکے انسان کو اطمینان حاصل ہو۔جیسے غزوۂ احد سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؐ کچھ گائیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔اسی طرح دیکھا کہ آپؐاپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتاہے۔ رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی، مگر بعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں سترّ مسلمانوں کی شہادت کی عظیم قربانی،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہو گئی اس وقت کُھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا۔(بخاری)16
-5پیش گوئی کا جانشین یا اولاد کے حق میں پورا ہونا
بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں مثلاً نبیوں کے خلفاء ،اُن کے ماننے والوں یا صاحبِ رؤیا کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ احزاب کے اس ہولناک ابتلاء میں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکّہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے۔ دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جیساکہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصرو ف تھے۔مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے خودآنحضرتؐ نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔(بخاری)17
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہوگیا اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گرا۔ آپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔پھر آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہوکر ٹوٹا اور رسول کریمؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں مدائن اور اس کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے اللہ کا نام لیکر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ آپؐ نے تیسری بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا! ’’ یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئی ہیں اور خدا کی قسم !میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کررہا ہوں۔(احمد)18
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں۔ الہٰی وعدوں پر کیساپختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہوکر رہیں گی۔
پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت سے ان فتوحات کا آغاز ہوجاتا ہے۔حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہوجاتی ہے اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیاکی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فتوحات کے روشن نظارے اس تفصیل کے ساتھ کرائے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خُریم بن اوسؓ کے بیان کے مطابق حیرہ کی فتح کے بارہ میں رسول کریم ؐ کا کشف جس شان کے ساتھ پورا ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’ حیرہ کے سفید محلّات میرے سامنے لائے گئے اور میں نے دیکھا کہ اس کی (شہزادی) شیماء بنت نفیلہ ازدیہ ایک سرخ خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی سے نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ خُریم ؓ نے غالباً اس پیشگوئی کی مزید پختگی کی خاطر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اگر ہم حیرہ میں یوں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کی شہزادی شیماء کو ایسا ہی پایا جیسا کہ حضورؐ نے بیان فرمایا ہے تو کیا وہ شہزادی میری ملکیت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ہوئی۔ اب دیکھیں اس پیشگوئی میں حیرہ کی فتح کے ساتھ شیماء اور خریم کے زندہ رہنے کی پیشگوئی بھی شامل ہے۔ خریم کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ہم نے حیرہ فتح کیا تو بعینہٖ وہی نظارہ ہم نے دیکھا جو رسول اللہؐ نے بیان فرمایا تھا کہ شیماء خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی کا نقاب کئے آرہی تھی۔میںاس کی خچر سے چمٹ گیا اور کہا کہ رسول اللہؐ نے یہ مجھے ھبہ فرمادی تھی۔ سالار فوج خالدؓ بن ولید نے مجھے بلوایا اور میرے دعویٰ کی دلیل طلب کی۔ میں نے محمد بن مسلمہؓ اور محمد بن بشیر انصاری ؓکو بطور گواہ پیش کیا اور شیماء میرے حوالے کردی گئی۔ اس کا بھائی عبدالمسیح صلح کی غرض سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اسے میرے پاس فروخت کرد و میں نے کہا میں دس سو درہم سے کم نہیں لونگا۔ اس نے فوراً مجھے ایک ہزار درہم دیئے اور میں نے شیماء اس کے حوالے کردی۔ مجھے لوگ کہنے لگے اگر تم دس ہزار درہم بھی کہتے تو وہ ادا کردیتا۔ یہ تم نے ایک ہزار مانگ کرکیا کیا؟ میں نے کہا دس سو سے زیادہ مجھے بھی گنتی نہیں آتی تھی۔(ابونعیم)19
فاقہ کش ابوہریرہؓ جنہوں نے اِن رؤیاکی تعبیراپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی،وہ یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں‘‘۔پھرکہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے۔ اب تم ان خزانوں کوحاصل کررہے ہو۔(بخاری) 20
پس رسول اللہؐ کے رؤیا ،کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الہٰی منشاء اور حکمت کے مطابق بہرحال پوری ہوئیںاورآج ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم سے کئے گئے ۔
چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ؑبن مریم کے ساتھ ہوگی۔(نسائی)21
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعے سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغازہوا۔ اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کووہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا ۔پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ کر دکھایا،یہاں تک کہ اُس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی میرے سامنے تھے۔ اور مجھے کہا گیا تھا کہ میری اُمت کی حکومت زمین کے اُن تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے دو خزانے دیئے گئے ایک سرخ خزانہ(یعنی سونے کا) اور ایک سفید خزانہ( یعنی چاندی کا)‘‘ (مسلم)22
اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کر دے گا۔ان الہٰی وعدوں پر ہر مومن کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کیونکہ
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے


حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذافتلت الدابۃ فی الصلاۃ:1134
2
بخاری کتاب النکاح باب الابکار :4688
3
بخاری کتاب التفسیر باب سیھزم الجمع ویولون الدبر
4
مسلم کتاب الجنہ وصفۃ نعیمھا باب عرض مقعد المیت من الجنۃ:5120
5
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل:3679
6
تاریخ الامم والملوک لطبری جز3ص248دارالفکربیروت
7
کنزالعمال حدیث نمبر 37472
8
بخاری کتاب تعبیر الرؤیاباب النفخ فی المنام :6515
9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر
10
مسند احمد جلد 1ص2مطبوعہ مصر
11
السیرۃ الحلبیہ جلد 2ص45 مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الجہادباب الدعاء بالجہادوالشہادۃ للرجال والنسائ:2580
13
کنزالعمال جلد 10 ص 212 مطبوعہ حلب
14
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح
15
بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی الی المدینۃ
16
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
17
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب :3792
18
مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 303 دارالفکر بیروت
19
دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد2ص692
20
بخاری کتاب التعبیر باب رؤیا اللیل:6483
21
نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الھند
22
مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض:5144

صداقت شعاری میں رسول اللہؐ کا بلند مقام
انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے اہم وصف صدق لہجہ، سچائی اور راست گفتاری ہے۔ دراصل انسان کی باطنی سچائی ہی ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی زبان سے بلکہ سیر ت و کردار حتّٰی کہ اس کی پیشانی سے بھی جھلکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموروں اور فرستادوں کی سچائی کا نشان یہی صداقت شعاری کا خلق ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ؐ کے ذریعہ اہل مکّہ کو یہ خطاب ہوا کہ ’’ان کو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں یہ( قرآن ) تم کو پڑھ کرنہ سناتا اور نہ اس سے تمہیں آگاہ کرتا۔ اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصّہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (سورۃیونس آیت 17)
اس آیت میں آنحضرت ﷺکی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بحیثیت مدّعیٔ نبوت راست گفتاری میں بطور مثال کے پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑھاپے کے قریب خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ بلاشبہ مدّعی ٔ نبوت کی صداقت کے لئے یہ ایک بنیادی اور اہم دلیل ہے۔اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھا جائے تو آپؐ کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے۔
آپؐ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے سبھی امانت دار مانتے تھے۔ آپؐ کا نام ہی صدوق پڑگیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعویٔ نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپؐنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اس جگہ ہم رسول کریمؐ کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے۔
میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے۔(سورۃ البقرۃ:188)پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارہ میں اس سے بہتررائے دے سکے؟
ازواج مطہرات ؓکی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی صداقت کی زبردست گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میںحضرت عائشہؓ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپؐ کے اخلاق تو قرآن تھے اوراسلام وقرآن کا بنیادی خلق تو سچائی ہی ہے۔
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)2
رشتہ داروں کی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچائیں تو کوہِ صفا پر آپؐ نے قبائل قریش کونام لے کر بلایا۔جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھاکہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟’’ انہوں نے بلاتامّل کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپؐ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‘‘مگر جب آپؐ نے انہیں کلمۂ توحید کی دعوت دی توآپؐ کا چچا ابو لہب کہنے لگا’’ تیرا برا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘(بخاری )3
سورۂ یونس میں نبی کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو بطور دلیل پیش کرنے میں یہی حکمت ہے کہ بعد میں تو مخالف بھی پیدا ہوجاتے ہیں مگر دعویٰ سے پہلے سب اس کی راستبازی پر متفق ہوتے ہیں۔
ابو طالب کی گواہی
ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت لے کر رسول اللہؐ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلواکر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آئو پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں ۔اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خد ا کی قسم ! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا۔یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا۔میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔(بیہقی)4
ابو طالب کی دوسری گواہی شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے۔جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا۔بے شک تم جاکر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا۔چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ابن جوزی)5
خزیمہ بن حکیم سلمی کی گواہی
خزیمہ حضرت خدیجہ ؓ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریمؐ تجارت کے لئے حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔ خزیمہؓ بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی د ی کہ
’’اے محمدؐ میں آپؐ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہرہوناتھا اور میں آپؐ پر ابھی ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے وعدہ کیاتھا کہ جب مجھے آپؐ کے دعویٰ کی خبر ملی میں ضرور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔ مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا’’پہلے مہاجر کو خوش آمدید‘‘۔(ابن حجر)6
دوست کی گواہی
حضرت ابوبکرؓ رسول اللہؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔(بیہقی)7
پس رسول اللہؐ کا کردار بھی آپ ؐکی سچائی کا گواہ تھا اور آپؐ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکرؓ نے پہچان لیا۔
اولین معاند ابوجہل کی شہادت
حق یہ ہے کہ سچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبو رہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔(ترمذی )8
دشمن اسلام ابوسفیان کی گواہی
رسول اللہؐ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا۔ ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ توکبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔(بخاری )9
جانی دشمن نضربن حارث کی شہادت
رسول اللہؐ کا ایک اور جانی دشمن نضربن حارث تھا جودارالندوہ میں آپؐکے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمدؐکے بارے میں یہ مشہور کردینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہانہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو محمدؐ تمہارے درمیان جوان ہوا،اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچااور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے ۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ہرگزجھوٹا نہیں ہے۔(ابن ہشام) 10
دشمن اسلام اُمیّہ بن خلف کی گواہی
دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہؐ کی پیشگوئی سن کربے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جب بھی بات کرتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔(بخاری)11
امیہ کی بیوی کی گواہی
حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری نے جب سردارقریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہوگا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھی! خداکی قسم محمد جھوٹ نہیں بولتے۔ چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا ’’تمہیں یاد نہیں تمہارے یثربی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا۔‘‘امیہ اس وجہ سے رُک گیا مگر ابوجہل باصرار اسے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔(بخاری )12
سردار قریش عتبہ کی گواہی
قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟آپؐ کی جوبھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐنے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں ،جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں توعتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمدؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کرخاموش ہوگئے۔(حلبیہ13) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ ؐ صادق وراستبازہیں ۔
یہودی عالم کی گواہی
عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میںپہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔(ابن ماجہ)14
ایچ جی ویلز نے رسول اللہؐ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا:۔
’’یہ محمد(ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ، اُن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔‘‘(ویلز)15
پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں، دوستوںاور دشمنوں سب کا اتفاق کرلینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی ؐ کی راستبازی اور سچائی کی زبردست اور روشن دلیل ہے۔

حوالہ جات
1
بخاری کتاب التعبیرباب اول مابدیٔ بہ رسول اللہؐ
2
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
3
بخاری کتاب التفسیر سورۃ اللہب
4
دلائل النبوۃ بیھقی جلد2ص187دارالکتبہ العلمیہ بیروت
5
الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص198بیروت
6
الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن الحجرجز 2ص112دارالکتاب العلمیہ بیروت
7
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2ص164دارالکتب العلمیہ بیروت
8
ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانعام زیرآیت قَدْنَعْلَمُ اِنَّہ‘ لَیَحْزُنکَ الَّذِی یَقُوْلُوْنَ
9
بخاری بدء الوحی
10
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص320مصر
11
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
12
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
13
السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برھان الدین جلد1ص303مطبوعہ بیروت
14
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اطعام الطعام
15
ایچ جی ویلز ، زکریا ہاشم زکریاص270بحوالہ نقوش رسول نمبر ص550

’ ’ رسولِ امین ؐ ‘‘کی امانت و دیانت
’’اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروںکو اداکرو۔‘‘(النسائ:59) یہ ہے رسول اللہؐ کی شریعت میں قیام امانت کی بنیادی تعلیم۔ دنیامیں سب سے زیادہ امانت دار خداکے نبی اور رسول ہوتے ہیں جو خدا کا پیغام بلا کم وکاست اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی انبیاء کا یہ دعویٰ مذکور ہے کہ ’’میں ایک امانت دار رسول ہوکر آیا ہوں۔‘‘ مگر ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ارفع یہ ہے کہ عرش کے خدانے آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی گواہی دی۔فرمایا مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔(التکویر:22) کہ یہ نبی ایسا ہے جس کی پیروی کی جائے اور امانت دار ہے۔آپؐ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اُٹھایا جو آسمان وزمین اورپہاڑبھی نہ اُٹھاسکے۔(الاحزاب:73)
آسمان بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
پس رسول کریمؐ ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حق ادا کردکھائے۔آپؐ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ ’’وہ مومن فلاح پاگئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ (المؤمنون:9) رسول کریمؐ نے فرمایا جس کی امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(طبرانی)1
امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی دلی سچائی اور راستبازی ہے۔رسول کریمؐ میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھا۔ آپؐ اہل مکہ میں اس خوبی میں ایسے ممتاز تھے کہ سب آپؐ کو ’’صدوق وامین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے۔
ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے رسول کریمؐ کی تعلیم کاخاصہ بھی یہی تھا چنانچہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ مدعی نبوت تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تو ابوسفیان نے بھی گواہی دی کہ وہ نماز،سچائی،پاکدامنی، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس پرہرقل بے اختیار کہہ اُٹھا یہ تو نبی کی صفات ہیں۔(مسلم)2
نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرطیارؓ نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے دین کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ
’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کے پجاری تھے۔ مردار کھاتے اور بدکاری کے مرتکب ہوتے تھے۔ قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا اور ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ طاقتورکمزور کا حق کھا جاتا تھا تب خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی سچائی امانت اور پاکدامنی کے ہم گواہ ہیں۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور بت پرستی سے بچایا اور سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کی تعلیم دی۔‘‘ (احمد)3
قریش مکہ نبی کریمؐ کے خون کے پیاسے اورآپؐ کے قتل کے درپے تھے۔مگرحضورؐ کوہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی واپسی کی فکر تھی۔ چنانچہ مکہ چھوڑتے ہوئے اپنے عم زاد حضرت علیؓ کو ان خطرناک حالات کے باوجود پیچھے چھوڑ اکہ وہ امانتیں ادا کر کے مدینہ آئیں۔(ہشام)4
رسول کریمؐ کے دل میں امانت کا جس قدر گہرااحساس تھااس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ اگر کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو۔ وہ کہنے لگا اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کا کیا کریں ؟ نبی کریمؐ بہت ناراض ہوئے۔ چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمانے لگے تمہیں اس سے کیا؟ اس اونٹ کے پائوں ساتھ ہیں وہ درخت چرکر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتاہے۔تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خود اس کا مالک اُسے پالے۔(بخاری)5
حفاظتِ امانت میںنبی کریمؐ کا اپنا یہ حال تھا کہ فرماتے تھے میں بسااوقات اپنے گھر میں بستر پر کوئی کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں۔کھانے کی خواہش بھی ہوتی ہے اور میں وہ کھجور اُٹھا کر کھانا چاہتا ہوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تب اسے وہیں رکھ چھوڑ تا ہوں۔(بخاری)6
ایک دفعہ گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے کم سن حضرت امام حسین ؓیا حسنؓ نے ایک کھجور لے کر مُنہ میں ڈال لی۔ نبی کریمؐ نے فوراً وہ کھجور بچے کے مُنہ سے اگلوادی۔ کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا۔ اور مسلمانوں کی امانت تھی۔ آپؐ نے بچے سے فرمایا کہ ہم آلِ رسول صدقہ نہیں کھاتے اور بچے نے تھوکرکے وہ کھجور پھینک دی۔(بخاری)7
غزوۂ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطاہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دن سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھادیا۔ نبی کریمؐ کو خبرہوئی تو رسول کریمؐ نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصّرف کیوں کیا گیااور اسے آپ ؐنے خیانت پر محمول فرمایا ۔ آپؐنے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوادیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔دوسری روایت میں ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ اموال پر زبردستی قبضہ جائزنہیں۔(احمد)8
ایک دفعہ رسول کریمؐ نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے اورفرمایا کہ کچھ سونا آیاتھا سب تقسیم ہوگیا یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی۔ میں جلدی سے اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔(بخاری)9
حضرت سائب بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان ؓ اور زبیرؓمجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے۔ رسول کریمؐ نے انہیں فرمایا !آپؐ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتائو۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے۔ سائبؓ کہنے لگے ہاں یا رسول اللہؐ! آپؐ کتنے اچھے ساتھی تھے۔آپؐ نے فرمایاہاں اے سائبؓ دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے۔ اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا۔مثلاً مہمان نوازی،یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا۔
دوسری روایت میں ہے کہ سائبؓ آنحضرت ؐ کے ساتھ تجارت میں شریک رہے۔فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا۔(احمد)10
غزوۂ خیبر کے محاصرہ کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کاایک کڑا امتحان ہوا۔ہوایوں کہ یہود کے ایک حبشی چراوہے نے اسلام قبول کرلیا اور سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے۔ نبی کریمؐ نے ہر حال میںامانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔آپؐ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دے دی مگرکیامجال کہ آپؐ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرہ میں تو مہینوں کی خوراک بن سکتی تھیں۔مگرآپؐ نے کس شان استغناء سے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو۔خداتعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیںجہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔سبحان اللہ! رسول اللہﷺ جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھاجاتا ہے کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے۔(ابن ھشام)11
لڑنے والوں کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں۔ کیا آج کل کے مہذب زمانہ میں کبھی ایسا واقعہ ہو اہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانوراور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کردیا گیا ہو۔نہیں نہیں! آج کی دنیا میں عام حالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو درکنار،اسے لوٹنا جائز سمجھا جاتا ہے۔مگر قربان جائیں دیانتداروں کے اس سردار پر کہ دشمن کا وہ مال جوایک طرف فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذابن سکتاتھا ،دوسری طرف دشمن اس سے اپنا محاصرہ لمبا کھینچ کر مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کرسکتا تھا۔ان سب باتوںکی کوئی پرواہ نہ کی اور امانت مالکوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
نبی کریمؐ نے بھی صرف انسانوں کی امانت کے حق ہی ادا نہیں کئے بلکہ اپنے مولیٰ کی امانتوں کے تمام حق اد اکردکھائے۔ ایک دفعہ یمن سے سونا آیا اور رسول اللہؐ نے تالیف قلبی کی خاطرعرب کے چار سرداروں میں تقسیم فرمادیا ایک شخص نے کہا ہم اس کے زیادہ حق دار تھے۔ رسول کریمؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کیااللہ تعالیٰ تومجھے اہل زمین پرامین مقررکرے اور تم لوگ مجھے امین نہ سمجھو۔دوسری روایت میں ہے تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں (وحی الہٰی) آتی ہیں۔(گویا وحی آسمانی کا امین ہوں)۔ (بخاری واحمد)12
خداکی امانتوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قرآنی وحی کی تبلیغ شامل ہے۔ جس کا حق اداکرنے کی تفصیل عبادت اور داعی الی اللہ کے عناوین میں مذکور ہے۔
پس رسول کریمؐ نے بندوں اور خدا کی تمام امانتوں کے حق ادا کر کے دکھائے۔

حوالہ جات
1
المعجم الکبیرلطبرانی جلد8ص296
2
مسلم کتاب الجہاد والسیرکتاب النبی الی ہرقل یدعوہ الی الاسلام:3322
3
مسند احمدجلد1 ص203
4
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 2ص98
5
بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ
6
بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق:2252
7
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
8
مسند احمد جلد4ص89،مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد2ص134
9
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
10
مسند احمد جلد 3ص425بیروت
11
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص42
12
بخاری کتاب الانبیاء باب واِلٰی عادٍاخاھم ھودًاومسنداحمدجلد3ص4

رسول اللہ ؐ کا ایفائے عہد
قرآن شریف میں عہد پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے فرمایا’’عہد پورا کرو کہ عہد کے بارہ میں پرسش ہوگی۔‘‘ (سورۃ الاسرائ:35)رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔(ابودائود1) نیزفرمایا جس کا عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(احمد)2
نبی کریمؐ آغازسے ہی امانت و دیانت اورایفائے عہدکا بہت خیال رکھتے تھے۔آپؐ نے پابندیٔ عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔
بعثت سے قبل
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زمانۂ بعثت سے قبل نبی کریمؐ سے ایک سودا کیا۔ ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا۔میں نے آپؐ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکرمیں آپؐ کو ادائیگی کروں گامگر میں واپس جاکر وعدہ بھول گیا۔ تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریمؐ اسجگہ موجود تھے۔ آپؐ فرمانے لگے نوجوان! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا۔ میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کرتا رہاہوں۔(ابودائود)3
مکی دور میں بعثت سے قبل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرورمدد کروں گا۔(ابن ہشام)4
بعثت نبویؐ کے بعد
دعویٔ نبوت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی ’’الاراشی‘‘ کا حق سردار مکّہ ابوجہل نے دبا لیا۔ اُس شخص نے آنحضرتؐ سے آکر مدد مانگی۔ حضور ؐ اُس کے ساتھ ہولئے اور معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت معاند ابوجہل کے دروازے پر جاکر اُس مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضاکیا۔ پھروہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اُس کا حق اُسے دلوانہیں دیا۔ (ابن ہشام)5
حضرت حُذیفہ بن الیمّانؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر میں شامل ہونے میں یہ روک ہوئی کہ میں اور ابوسہلؓ بدر کے موقع پرگھرسے نکلے۔راستہ میں ہمیں کفارِ قریش نے پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ہم نے کہا نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں۔انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم جاکر رسول اللہؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہونگے بلکہ سیدھے مدینہ چلے جائیں گے۔ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا واقعہ عرض کردیا۔آپؐ نے فرمایا جائو اور اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔(مسلم)6
شہنشاہ ِروم قل نے رسول اللہؐ کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلاکر جب بغرض تحقیق کچھ سوالات کئے تو یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا اس مدّعیٔ رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی بھی کی ہے؟ابوسفیان رسول اللہؐ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ہرقل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ ’’آج تک اُنہوں نے ہم سے کوئی بدعہدی نہیں کی۔البتہ آجکل ہمارا اس سے ایک معاہدہ (حدیبیہ) چل رہا ہے دیکھیں وہ کیا کرتا ہے۔‘‘ابوسفیان کہتا تھاکہ میں ہرقل کے سامنے اس سے زیادہ اپنی طرف سے کوئی بات اپنی گفتگو میں حضورؐ کے خلاف داخل نہ کرسکاتھا۔(بخاری)7
مشرکین سے ایفائے عہد
خدا کی تقدیر دیکھئے کہ رسول کریمؐ نے معاہدۂ حدیبیہ کی ایک ایک شق پر عمل کر کے دکھایا۔معاہدہ توڑنے کے مرتکب بھی پہلے قریش ہی ہوئے اور پھر عہدشکنی کا انجام بھی ان کو بھگتنا پڑا۔ جب کہ رسول کریمؐ نے ایفائے عہد کی برکات سے حصہ پایا اورسب سے بڑی برکت فتح مکہ کی صورت میں آپؐ کو عطاہوئی ۔
معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کردیں گے۔ چنانچہ اگلے سال جب نبی کریمؐ عمرہ قضا کے لئے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کردیا۔حویطب بن عزیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمرو مکہ میں رہے تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہؐ کو یاد کروایاکہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا۔ آنحضورؐنے اسی وقت بلال ؓکو حکم فرمایا کہ اعلان کردیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی۔(حاکم)8
معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اسے واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر دکھایااور نمائندہ قریش کے مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمان بیٹے ابو جندلؓ کو دوبارہ اس کے باپ سہیل بن عمروکے سپرد کردیا گیا جس نے اسے پھر اذیت ناک قید میں ڈال دیا۔
معاہدہ کے بعد بھی بعض مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے تورسول کریمؐ نے معاہدہ کے مطابق انہیں مکّہ واپس بھجوادیا۔ مگر یہ شرط خود مکّہ والوں کے لئے وبالِ جان بن گئی کیونکہ معاہدہ کے بعد مکّہ سے مدینہ آنے والے ایک بہادر مسلمان ابو بصیر کو جو مشرک گرفتارکرکے مدینہ سے دوبارہ مکّہ لے جارہے تھے،راستہ میںوہ ان کو قتل کر کے، رہائی پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر ابو بصیرؓ نے واپس مدینہ آنے کی بجائے ساحل سمندر کے قریب اپنا اڈا بنالیا جہاں دیگر مسلمان بھی مکّہ سے آکر اکٹھے ہونے لگے اور ایک جمعیت بن کر اہل مکہ کے لئے خطرہ بن گئے۔جس پر مکہ والے خود یہ شرط چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
صلح حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا، جس کے مطابق بنوبکرقریش کے حلیف بنے تھے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے۔نیزیہ کہ کسی کے حلیف پر حملہ خود اس پر حملہ تصور کیاجائے گا۔
حلیف سے ایفاء اور امداد
صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدۂ امن توڑنا چاہا اور قریش مکہ کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی ان کے تیئس آدمی نہایت بے دردی سے قتل کردیئے گئے۔خود سردار قریش ابوسفیان کوپتہ چلا تو اس نے اس واقعہ کواپنے آدمیوں کی شرانگیزی قراردیا اور کہااب محمد ؐ ہم پر ضرور حملہ کریں گے۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کردی ۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ بتا کرفرمایا کہ منشاالہٰی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بدعہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پھر تین روز بعد قبیلہ بنوخزاعہ کا چالیس شترسواروں کا ایک وفدرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بدعہدی کرتے ہوئے شب خون مار کرہمارا قتل عام کیا ہے۔ اب معاہدۂ حدیبیہ کی رو سے آپؐ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں۔بنوخزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیکر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا
یَا رَبِ ّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حَلْفَ اَبِیْنَا وَ اَ بِیْہِ الْاَ تْلَدَا
یعنی اے میرے رب!مَیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگارہوں۔
خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین ﷺ کا دل بھر آیا۔آپؐ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ آپؐ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہوکر فرمایا۔ اے بنو خزاعہ!یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی۔اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔ تم محمد ﷺ کوعہد پورا کرنے والا اور با وفا پائو گے۔ تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوںاسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا۔(ابن ہشام)9
ادھر ابوسفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمدﷺ کو اس بدعہدی کی خبر نہ ہوگی۔اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ میں در اصل صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔آپؐ میرے ساتھ اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کرلیں۔ آنحضرتؐ نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ ابوسفیان گھبراکر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ رسول کریمؐ نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں۔چنانچہ نبی کریمؐ نے بنو خزاعہ کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزار قدوسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی۔(الحلبیہ)10
سراقہ سے ایفاء عہد
ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریمؐ کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھاکر گرجاتا رہا تب میں نے آواز دے کر حضورؐ کو بلایا اور حضورؐ کے ارشاد پر ابوبکرؓ نے مجھ سے پوچھا آپؐ ہم سے کیا چاہتے ہو؟میں نے کہاآپؐ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریرلکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا۔فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ جنگ حنین سے فارغ ہوکر جعّرانہ میں تھے۔ میں حضورؐ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا،حضورؐ انصار کے ایک گھوڑ سوار دستے کے حفاظتی حصار میں تھے،وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ تمہیں کیا کام ہے؟ حضور ؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ،میں نے اپنا ہاتھ بلند کرکے وہی تحریر رسول اللہؐ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپؐ کی تحریر امن ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے اور احسان کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا سراقہ کو میرے پاس لایا جائے۔ میں آپؐ کے قریب ہوا اور بالآخر آپ ؐ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کرلیا۔(ابن ھشام)11
رسول کریمؐ نے مسلمان عورت کے عہدکا بھی پاس کیا ہے۔امّ ہانی ؓ بنت ابی طالب نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے اپنے سسرال کے بعض مشرک لوگوں کو پناہ دی ہے۔حالانکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف تھے۔رسول کریمؐ نے فرمایا اے ام ہانی ؓ! جسے تم نے امان دیدی اسے ہم نے امان دی۔(ابودائود)12
ابو رافع قبطیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں سفیر بناکر بھجوایا۔رسول کریمؐکو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔آپؐ اس وقت بہر حال واپس جائوپھر اگربعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جاکر واپس آجانا۔چنانچہ یہ قریش کے پا س لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔(ابودائود)13
یہودمدینہ سے ایفائے عہد
نبی کریمؐ نے مکہ سے یثرب ہجرت فرمائی تواہل مدینہ کے جن گروہوں سے معاہدہ ہوا اس میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع،بنوقریظہ اور بنو نضیرشامل تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق یہود اور مسلمان امت واحدہ کے طور پر ریاست مدینہ کے باسی تھے۔ نبی کریمؐ نے ہمیشہ اس معاہدہ کا نہ صرف ایفاء اور احترام فرمایا۔ یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے۔یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی اور بعض مسلمانوں نے جب ان کے بانی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رسول کریمؐ کی فضیلت و برتری ظاہرکی جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کی تھی تو بھی آپؐ نے معاہدقوم کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ازراہِ انکساروایثار یہی فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؐ پر فضیلت مت دو تاکہ اس کے نتیجہ میں مدینہ کی امن کی فضاخراب نہ ہو۔ (بخاری)14
نبی کریمؐ نے یہودی جنازوں کا بھی احترام کیااور ان کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا۔(بخاری)15
اس کے برعکس یہاں تک مسلسل عہد شکنی کے نتیجہ میں بالآخران کومدینہ بدرکرناپڑا۔ لیکن رسول اللہؐ پر کبھی کسی یہودی کو عہدشکنی کا الزام تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی۔(بخاری)16
عیسائیوں سے ایفائے عہد
فتح مکہ کے بعدجن مختلف قبائل عرب نے مدینہ آکرصلح وامن کے معاہدے کئے ان میں نجران اور یمن کے عیسائی بھی تھے۔ نجران کے عیسائیوں نے معاہدۂ صلح کے بعد رسول کریمؐ سے درخواست کی کہ اس معاہدہ کے ایفاء کے لئے آپؐ اپنا کوئی ایسانمائندہ مقررکریں جو دیانتداری سے معاہدہ کی شقوں پر عمل کروائے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو امین الامت کا خطاب دیتے ہوئے اور تکمیل معاہدہ کے لئے نگران مقررفرمایا اور انہوں نے ایفائے عہد کاحق ادا کردکھایا۔(بخاری)17
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندیٔ عہد میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب الدعاء فی الصلاۃ من اخر اللیل:107
2
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید:3421
3
ابوداؤد باب الصلاۃ باب ماجاء فی الدعاء بین الاذان والاقامۃ:437
4
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفووالعافیۃ:3518
5
تحفۃ الذاکرین للشوکانی ص42,43دارالکتاب العربی بیروت
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الاجابۃ أیۃ الساعۃ:885
7
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشرالأ واخر:1884
8
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفو والعافیۃ:3522
9
ترمذی کتاب الدعوات باب منہ:3435
10
بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ:5929
11
ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مایدعو بہ الرجل اذارأی السحاب:3879
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحہ باب غیرالمغضوب علیھم ولاالضَّآلین
13
مسلم کتاب الصلوٰۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود:744
14
بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذرمن دعوۃ المظلوم
15
مسلم کتاب الذکر باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب:4914
16
ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ :3479
17
ترمذی کتاب الدعوات باب ماذکر فی دعوۃ المسافر:3370
18
ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ:2449
19
تحفہ الذاکرین للشوکانی ص44,45 دارالکتاب العربی مطبوعہ بیروت
20
نسائی کتاب مناسک الحج باب التھلیل علی الصفا:2924
21
ترمذی کتاب الدعوات باب فی الدعاء یوم عرفۃ:3509
22
بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدنیۃ
23
مسلم کتاب الذکروالدعاء والتوبہ والاستغفارباب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ
24
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اِذا أصبح
25
ترمذی کتاب الدعوات
26
مسنداحمد جلد5ص243
27
بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل باب ذریۃ من حملنا مع نوح:41
28
ترمذی کتاب المناقب باب عمر بن الخطاب
29
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان
30
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی صفحہ163مطبوعہ بیروت
31
المعجم الکبیر لطبرانی جلد11ص174بیروت
32
بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ
33
نور الیقین فی سیرۃ خاتم النبین ڈاکٹرخضری بک واقعہ سفر طائف مطبوعہ مصر
34
بخاری کتاب المغازی وتر مذی ابواب المناقب باب مناقب ثقیف
35
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص361،مسند احمد جلد2ص243مطبوعہ بیروت
36
الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ زیر لفظ ابوھریرہؓ جلد 4ص204مطبوعہ مصر
37
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167مطبوعہ بیروت
38
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
39
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
40
مجمع الزوائدللھیثمی جلد6ص82مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب:3805
42
سیرت الحلبیہ جلد3ص35بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر:3888
44
السیرۃالحلبیہ جلد3ص74بیروت
45
بخاری کتاب الجہاد باب حمل الزاد فی الغزو
46
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد459
47
بخاری کتاب المناقب باب مقدم النبی واصحابہ المدینہ:3633
48
بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء علی المنبر:959
49
بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی لخادمہ
50
الاسد الغابہ لابن اثیر جلد1ص128مطبوعہ بیروت
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد و کتاب الاستقراض
52
مسلم کتاب الاشر بہ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ
53
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص71
54
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص170بحوالہ بیھقی دارالکتاب العربی
55
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص169بیروت بحوالہ بیھقی وابونعیم
56
بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبیؐ الناس الی الاسلام:2724
57
ابن ماجہ کتاب المقدمۃ باب فضل علی بن ابی طالب:114
58
مسند احمد بن حنبل جلد4ص170مطبوعہ بیروت
59
مسند احمد بن حنبل جلد1ص254بیروت
60
بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوۃ
61
الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب زیر لفظ سائب
62
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
63
ترمذی کتاب المناقب باب فی آیات اثبات نبوۃ النبیؐ:3562
64
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
65
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص458بیروت
66
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
67
بخاری کتاب الجہاد باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ
68
بخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر:2537
69
الاصابہ فی تمییز الصحابہ زیر لفظ سعد
70
بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عندالخلائ:140
71
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذی الخلصہ
72
مسند احمدبن حنبل جلد5ص446-447 و
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167بیروت
73
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی ھریرۃ:3769
74
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص457بحوالہ بیھقی
75
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ أوطاس:3979
76
السیرۃ الحلبیہ جلد 3ص44مطبوعہ بیروت
77
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص165بیروت
78
الوفاء باحوال المصطفی ص764ازابن الجوزی بیروت
79
بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ:2717
80
بخاری کتاب المغازی باب کتاب النبیؐالی کسریٰ
81
فتح الباری لابن حجرجلد4ص39 دارالکتب الاسلامیہ لاہور
82
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص46بحوالہ بیھقی
83
مسلم کتاب المنافقین باب 1:4986
84
جامع الصغیر للسیوطی جز1ص60بیروت
85
مسند احمدبن حنبل جلد3ص416بیروت
86
مسند احمد بن حنبل جلد6ص93بیروت
87
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین
88
مسلم کتاب الایمان باب دعاء النبی لامتہ :346

مخبر صادقؐکے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں
خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جائزہ لینے کے لئے آپ ؐکے رؤیا وکشوف کا مضمون بھی بہت اہم ہے ۔دوسرے رؤیا وکشوف کے ذریعہ خوش خبریوں کا عطا ہونا اور خدا کا بندے سے کلام کرنا محبت الٰہی کی نشانی ہے۔
تیسرے جن رؤیا وکشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہو ان کاکثرت سے ہوبہو پورا ہو جاناصاحب کشف والہام انسان کی سچائی کا نشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے۔ ’’وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتابجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔‘‘(سورۃ الجن:27) اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی والہام اور رؤیا وکشوف ہی ہیں۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا’’اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یاکوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔یقینا وہ بہت بلند شان (اور)حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:52)
رؤیا وکشوف کے بارہ میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پیش گوئیاں انبیاء کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض وفات کے بعد ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اگرہم تجھے اُن انذاری وعدوں میں سے کچھ دکھادیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو(ہرصورت) تیرا کام صرف کھول کھول کر ُپہنچادینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔‘‘(سورۃ الرعد:41)
سید الانبیا ء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بشیر ونذیر ‘‘کے لقب سے بھی نوازاگیا ہے ۔ آپؐ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اور امت محمدیہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں۔ ایک دفعہ نمازِ کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا ’’مجھے ابھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ‘‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپؐ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے ۔(بخاری)1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے۔
۱۔نبی کریمؐ کی زندگی میں ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رؤیا
پہلی قسم اُن رؤیاء و کشوف اور پیش گوئیوں کی ہے، جو نبی کریمؐکی حیات مبارکہ میں ہی واضح طور پر اپنے ظاہری رنگ میں منّ وعَنْ پوری ہو گئیں۔
حضرت عائشہ ؓسے شادی کی رؤیا
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی تصویر دکھا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ آپ ؐکی بیوی ہے۔ظاہری حالات میں یہ بات ناممکن نظر آتی تھی کیونکہ حضرت عائشہؓ کی منگنی دوسری جگہ طے ہوچکی تھی اور یوں بھی نبی کریمؐ اور حضرت عائشہؓ کی عمروں کا فرق ہی چالیس سال سے زائد تھا۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضورؐ نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیاکا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرماوے گا۔ (بخاری)2
پھر بظاہر نا موافق حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ بات غیرمعمولی رنگ میںپوری کردکھائی اورجُبیر بن مطعم سے منگنی ختم ہونے کے بعد کم سن حضرت عائشہؓ رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں اور اُمّ المؤمنین کا اعزازان کو عطاہوا۔
مکی دور میں فتح بدرکی پیش گوئی
ان پیشگوئیوں میں سے ایک غزوۂ بدر کی فتح کی پیش گوئی بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکّہ ہی میں تھے اور مسلمان انتہائی کمزور اور مظلوم ومقہور ہو چکے تھے ۔ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لئے انشراحِ صدر اور مضبوطیٔ ایمان کا موجب ہوتے تھے۔جیسے شقِّ قمر کا معجزہ وغیرہ۔ چاند جو عربوں کی حکومت کا نشان تھا۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور انکی وحدت ملی پارہ پارہ ہوکر رہے گی۔سورۃ قمر (جس میں واقعہ شق قمر کا ذکر ہے ) میں واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کے مقابل پر کفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے۔فرمایا سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(القمر:46)یعنی( اس روز قریش کی) جمعیت پسپا ہوگی اور یہ (اوران کے لشکر) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہونگے۔
کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑکہہ سکتے تھے اور اسی لئے ساحرومجنون کے الزام لگاتے تھے۔پھراللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پورا فرمایا اس پر اہل مکّہ بھی انگشت بدنداں ہوکررہ گئے۔
چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدۂ فتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا۔ وَاِذْیَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھَالَکُمْ(سورۃالانفال:8) کہ اس وقت کو یادکرو جب اللہ تمہیں دو گروہوں (یعنی لشکرکفار اور قافلہ) میں ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ اس پر تم کو فتح ہوگی۔
پھر بھی جب میدان بدر میں رسول اللہؐ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ایک مسلح لشکر جرارسامنے ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے تو طبعاً آپؐ کوفکر دامنگیرہوئی۔ تب خداتعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہؐ نے دعائوں کی حد کردی۔ آپؐ بدر کے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کر اتنے الحاح سے د عا کررہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر گر جاتی تھی۔
آپؐ اپنے مولیٰ سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔اے اللہ تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ! (تو ہمیں کامیاب کر) اے اللہ اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو کون تیری عبادت کرے گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اب بس کریں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے۔ آپؐ یہ آیت تلاوت کررہے تھے ۔سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(سورۃالقمر:46)کہ لشکر ضرور پسپا ہوں گے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (بخاری3)گویا خدا کاپیشگی وعدہ فتح یاد کرکے مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے۔ چنانچہ بظاہر نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطافرمائی اور رسول اللہؐ کیکنکریوں کی ایک مٹھی کفار پرآندھی و طوفان بن کرٹوٹی اور انہیں پسپا کرنے کا موجب بن گئی۔
سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی
نبی کریم ؐ کو بدر میں صنادید قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا۔اس بارہ میں حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ ہم مکّہ و مدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ معرکۂ بدر سے ایک روز قبل رسول کریمؐ نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا’’یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہوگا۔‘‘حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ وہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسول خداؐ نے بتایاتھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ ؐنے ان کے گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں، ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی۔(مسلم)4
غزوۂ بدر میں قریش کے چوبیس سردار ہلاک ہوئے۔انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا۔ تیسرے دن بدرسے کُوچ کے وقت رسو ل کریمؐاس گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر ان سرداروں اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے ۔آپؐ فرماتے تھے ’’اے فلاں کے بیٹے کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی؟‘‘ہم نے تو اپنے ربّ کے وعدوں کو سچاپالیا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ !آپؐ ان بے جان جسموں سے کلام کررہے ہیں ‘‘آپ ؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ انکو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (یعنی اپنے ظلموں کی جزاپاکر)۔(بخاری)5
مکی دور میں ہجرتِ مدینہ اور مکّہ واپسی کی پیشگوئی
قرآن شریف میں سورۂ قَصص (جو مکی سورۃ ہے) کے آغاز میں حضرت موسیٰ ؑکے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے۔ آخرمیں مثیل موسیٰ نبی کریمؐ کے مکّہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکّہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَ آدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط(سورۃ القصص :86)یعنی وہ جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے ،ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔
یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی، ان میں مکّہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی تھی۔فتح مکّہ سے چندروز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہؐ اس شان سے مکّہ میں داخل ہوں گے۔مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ سال کے عرصہ میں کس شان سے پوری ہوئی۔
کسرٰی شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی
رسول اللہؐ نے کسرٰی شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا ۔اس نے نہایت بے ادبی سے وہ خط پھاڑ دیا۔رسول کریمؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے کسریٰ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا کی۔پھر نہایت معجزانہ رنگ میں اس زمانہ کی یہ طاقتور حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اورا س کا جابرو ظالم حاکم بھی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اوررسول خداکی سچائی کا نشان بنا۔
تفصیل اس کی یوں ہے کہ نبی کریمؐ کے تبلیغی خط کو کسریٰ نے اپنی ہتک سمجھااور یمن کے حاکم باذان کو حکم بھجوایا کہ اس شخص کو جو حجاز میں ہے دو مضبوط آدمی بھجوائو جوگرفتار کر کے اُسے میرے پاس لے آئیں۔باذان نے ایک افسربابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنے خط میںآنحضرت ؐکو لکھا کہ آپؐ ان دونوں کے ساتھ شاہ ایران کے پاس حاضر ہوں ۔ بابویہ کو اس نے کہا اس دعویدار نبوت سے جاکرخود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھے مطلع کرو۔ یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرت ؐ کے بارہ میں پوچھا ۔انہوں نے کہا وہ تو مدینہ میں ہیں۔ طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسرٰی شاہ ایران اس شخص کے پیچھے پڑگیا ہے۔ وہ اس کے لئے کافی ہے۔دونوں قاصدمدینہ پہنچے۔ بابویہ نے رسول اللہؐ سے بات چیت کی اور آپؐ کو بتایا کہ شہنشاہ کسرٰی نے شاہ یمن باذان کو حکم بھجوایا ہے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے اور مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپؐ میرے ساتھ چلیں۔ اگر آپ ؐمیرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں شنہشاہ کسریٰ کے نام ایسا خط دوں گاکہ وہ آپؐ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔ اگر آپؐ میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپؐ خود جانتے ہیں کہ اس میں آپؐ کی بلکہ پوری قوم کی ہلاکت اور ملک کی تباہی وبربادی ہے ۔ آپؐ نے ان دونوں نمائندوں سے فرمایا کہ اس وقت تم دونوں جاؤ صبح آنا۔ رسول اللہ ؐ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شنہشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیاگیاہے۔ اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کردیا ہے۔
اگلی صبح جب وہ دونوں رسو ل اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا کہ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلّط کر کے اسے قتل کیا ہے ۔ وہ دونوں کہنے لگے آپؐ کو پتہ ہے کہ آپؐ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم اس سے معمولی بات پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں ۔کیا ہم آپؐ کی بات شہنشاہ کو لکھ کر بھیج دیں۔ آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ۔ہاں ! میری طرف سے اسے یہ اطلاع کردو اور اسے جا کر یہ پیغام دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقیناً تمہارے ملک ایران پر بھی ہو گااور اس کو کہہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔یہ دونوں شخص جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے ۔ جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر تو یہ سچ نکلا تو یقیناًیہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ کریں گے ۔تھوڑے ہی عرصے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا۔ میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطرکسریٰ کوقتل کیا ہے کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتا اور ان کو قید کرتا تھا ۔اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور کسریٰ نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا کالعدم سمجھو یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے ۔ کسریٰ کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے۔چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے مسلمان ہو گئے ۔(طبری)6
اسود عنسی کے قتل کی خبر
حضرت عبداللہؓ بن عمربیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت ) کے قتل کی خبر دی ۔آپؐ نے ہمیں علی الصبح اطلاع فرمائی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے ۔پوچھا گیا وہ کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا نام فیروز بان فیروز ہے ۔(کنز)7
-2تعبیر طلب رؤیا اور ان کا پورا ہونا
دوسری قسم کی رؤیا یا پیشگوئیاں وہ ہیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں پوری نہیں ہوتیں بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ رسول کریمؐ کو ان کی تعبیر کے بارہ میں بھی قبل از وقت علم عطا فرمایا گیا اور آپؐ نے وقت سے پہلے کھول کر بتا دیا کہ اس رؤیا کے مطابق یوں واقعہ ہوگا۔ اور پھر اسی طرح ظہور میں آکر وہ واقعات آپؐ کی سچائی کے گواہ بنے۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی پیشگوئی
حجۃ الوداع کے بعد نبی کریم ؐ نے دو جھوٹے مدّعیان نبوت کے بارہ میں اپنی یہ رؤیابیان فرمائی کہ میں سویا ہوا تھا۔ زمین کے خزانے مجھے دیئے گئے ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے۔ میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری۔ سونے کے یہ کنگن میرے لئے باعث پریشانی ہوئے۔تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماریں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے۔ میں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے دعویدارہیں جن کے درمیان میںہوں۔ایک تو صنعاء کا باشندہ(اسود عنسی) دوسرا یمامہ کا رہنے والا (مسیلمہ کذاب)۔ (بخاری)8
یہ رؤیا بھی حضورؐ کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوںمدّعیان نے رسول اللہؐ کی زندگی میں نبوت کے دعوے کئے ۔اسود عنسی آپؐ کی زندگی میں اور مسیلمہ بعد میں ہلاک ہوا۔
خلافت ابو بکرؓ وعمرؓ کے متعلق رؤیا
خدا تعالیٰ کے ہرمامور کی طرح نبی کریم ؐ کو اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اُس رؤیا کے ذریعے دور فرمادی جس میں حضرت ابو بکرؓ کے مختصر زمانہ خلافت او ر حضرت عمرؓکے فتوحات سے بھرپور پُر شوکت عہد کی طرف اشارہ تھا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں سیاہ رنگ کی بکریوں کے لئے کنوئیں سے پانی کھینچ رہا ہوں جن میں کچھ گندمی رنگ کی بکریا ں بھی ہیں۔ اتنے میں ابو بکرؓ آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی پھر عمرؓ آئے اور انہوں نے ڈول لیا تو وہ اسے بھرا ہوا کھینچ لائے۔ اُنہوں نے تمام لوگوں کو پانی سے سیراب کیا اور تمام بکریوں نے پانی پی لیا۔ میں نے آج تک ایسا کوئی باکمال وباہمت جواں مردنہیں دیکھا جو حضرت عمرؓ جیسی طاقت رکھتا ہو۔‘‘(بخاری)9
چنانچہ یہ رؤیا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیاد رکھ دی گئی اور بڑی بڑی فتوحات ہوئیں۔
فتح ایران اورسراقہ بن مالک کے بارہ میں پیشگوئی
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالکؓ کے حق میں بھی رسول اللہؐ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔
حضرت ابوبکرؓ ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمارا تعاقب کرنیوالوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ ہمیں پکڑنے کیلئے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریم ؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری طرف سے توُ خود اسکے لئے کافی ہو۔تب اچانک اسکے گھوڑے کے اگلے دو پائوں زمین میں دھنس گئے۔اس پر سراقہ کہنے لگا مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپؐ کی دعا کا نتیجہ ہے۔اب آپؐ دعا کریں اللہ مجھے اس سے نجات دے۔ خدا کی قسم اپنے پیچھے آنیوالوں کو میں آپؐ کے بارہ میں نہیں بتائوں گا ۔ آپؐ میرے تِیر بطور نشانی لے لیں۔ فلاں جگہ جب میرے اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپؐ گزریں تو اپنی ضرورت کے مطابق جوچیز چاہیں لے لیں۔حضور ؐ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔پھر آپؐ نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پائوں باہر نکل آئے۔(احمد)10
سراقہ کی درخواست پر رسول کریمؐ نے اسے ایک تحریر امان لکھواکر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپؐ نے فرمایا اے سراقہ !اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسرٰی کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟ سراقہ نے حیرانی سے کہا کسریٰ بن ہرُمز(شہنشاہ ایران)؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں کسریٰ بن ہرُمز کے کنگن۔‘‘
اپنے جانی دشمنوں سے جان بچاکر ہجرت کرنے والے بظاہر ایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی شان اور عظمت پر غورتو کریں جس میں سُراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان پیشگوئی یہ تھی کہ ایران فتح ہوگا اور کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے۔پھر نامساعد حالات میں کی گئی یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔
سراقہ نے فتح مکّہ کے بعدجِعّرانہ میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسرٰی کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پیش ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا’’ ہاتھ آگے کرو ‘‘۔ پھر آپ نے اُسے سونے کے کنگن پہنادیئے اور فرمایا اے سراقہ ! کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ان کنگنوں کو کسریٰ کے ہاتھ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنادیا۔ وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں۔(الحلبیہ)11
اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی
ایک اور عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب بری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اورفتوحات کی خبر دی گئی ۔
حضرت ام حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ ہمارے گھر محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ:۔
’’ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ !آپ ؐدعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنادے۔چنانچہ رسول کریمؐ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کردے۔‘‘پھر آپؐ کو اونگھ آگئی اور آنکھ کھلی توآپؐ مسکرارہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپؐ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے۔ ام حرام ؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں۔آپؐ نے فرمایا’’ تم گروہ اولین میں شامل ہو، گروہ آخرین میں شریک نہیں۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھریہی حضرت ام حرامؓ سمندری سفر میں شامل ہوئیںاور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی۔(بخاری)12
اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو جب وہ شام کے گورنر تھے پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی۔حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیاجو اسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا۔جس کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی وہ بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کی دنیائوں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے۔(کنز)13
یہ پیش گوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا۔ عبداللہ بن سعدؓ بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیٹرے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگادیئے۔چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہمات میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود و احمر کے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ روس صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔تیسری طرف طارق بن زیاد فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرا لٹر پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلادیئے تو چوتھی طرف محمدبن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدۂ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اورکیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے اَن مٹ نقوش ثبت کئے جو رہتی دنیا تک یادرہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیرہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان جو پانیوں سے ڈرتے تھے سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا وکشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے۔
-3تعبیر طلب رؤیا کاکسی اور رنگ میں پورا ہونا
رؤیا اور کشوف کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ رؤیا کے وقت کی گئی تعبیر کے مطابق من و عن ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ الہٰی مشیٔت وتقدیرکے مطابق کسی اور بہتر رنگ میں ظاہر ہوتی ہیںجیسے واقعہ صلح حدیبیہ۔
مدنی دور میں جب مسلمان اہل مکّہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج و عمرہ پر پابندی تھی۔اس وقت رسول اللہؐ نے رؤیا میں اپنے آپؐ کو صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا اور ظاہری تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت ہمراہ لے کر عمرہ کرنے تشریف بھی لے گئے۔مگر گہری مخفی الہٰی حکمتوں اور منشاء الہٰی کے تابع آپؐ اس سال عمرہ نہ کرسکے اور معاہدۂ صلح حدیبیہ کے مطابق اگلے سال عمرہ کیا۔لیکن اس معاہدۂ حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر کی فتح بھی عطا فرمائی اور مکّہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا۔اب اگر یہ تعبیر ظاہری رنگ میں پوری ہوجاتی کہ اُسی سال مسلمان طواف کر بھی لیتے تووہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں عطا ہوئی ہیں اور جسے قرآن شریف میں’’فتح مبین‘‘ قراردیا گیا۔(بخاری)14
ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی جس کی درست تعبیر بعد میں ظاہر ہوئی۔نبی کریم ؐ کواپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے۔ آپؐ نے اُس سے یمامہ یا حجر کی سرزمین مراد لی۔مگر بعد میں کھلا کہ اس سے یثرب یعنی ’’مدینۃ الرّسول‘‘ مراد تھا۔(بخاری)15
رؤیا میںدارالہجرت کے نام کے اخفاء میں یقینا گہری حکمت پوشیدہ تھی کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک یا خطرہ حائل نہ ہو۔
-4رؤیاپوری ہونے پر اُس کی تعبیرکا کھلنا
بعض رؤیا ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تعبیر رؤیا کے وقت واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رؤیا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اُس واقعہ یاحادثہ کے ظہور کے بعد رؤیا میں مضمر منشاء الہٰی معلوم کرکے انسان کو اطمینان حاصل ہو۔جیسے غزوۂ احد سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؐ کچھ گائیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔اسی طرح دیکھا کہ آپؐاپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتاہے۔ رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی، مگر بعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں سترّ مسلمانوں کی شہادت کی عظیم قربانی،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہو گئی اس وقت کُھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا۔(بخاری)16
-5پیش گوئی کا جانشین یا اولاد کے حق میں پورا ہونا
بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں مثلاً نبیوں کے خلفاء ،اُن کے ماننے والوں یا صاحبِ رؤیا کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ احزاب کے اس ہولناک ابتلاء میں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکّہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے۔ دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جیساکہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصرو ف تھے۔مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے خودآنحضرتؐ نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔(بخاری)17
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہوگیا اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گرا۔ آپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔پھر آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہوکر ٹوٹا اور رسول کریمؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں مدائن اور اس کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے اللہ کا نام لیکر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ آپؐ نے تیسری بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا! ’’ یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئی ہیں اور خدا کی قسم !میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کررہا ہوں۔(احمد)18
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں۔ الہٰی وعدوں پر کیساپختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہوکر رہیں گی۔
پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت سے ان فتوحات کا آغاز ہوجاتا ہے۔حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہوجاتی ہے اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیاکی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فتوحات کے روشن نظارے اس تفصیل کے ساتھ کرائے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خُریم بن اوسؓ کے بیان کے مطابق حیرہ کی فتح کے بارہ میں رسول کریم ؐ کا کشف جس شان کے ساتھ پورا ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’ حیرہ کے سفید محلّات میرے سامنے لائے گئے اور میں نے دیکھا کہ اس کی (شہزادی) شیماء بنت نفیلہ ازدیہ ایک سرخ خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی سے نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ خُریم ؓ نے غالباً اس پیشگوئی کی مزید پختگی کی خاطر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اگر ہم حیرہ میں یوں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کی شہزادی شیماء کو ایسا ہی پایا جیسا کہ حضورؐ نے بیان فرمایا ہے تو کیا وہ شہزادی میری ملکیت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ہوئی۔ اب دیکھیں اس پیشگوئی میں حیرہ کی فتح کے ساتھ شیماء اور خریم کے زندہ رہنے کی پیشگوئی بھی شامل ہے۔ خریم کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ہم نے حیرہ فتح کیا تو بعینہٖ وہی نظارہ ہم نے دیکھا جو رسول اللہؐ نے بیان فرمایا تھا کہ شیماء خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی کا نقاب کئے آرہی تھی۔میںاس کی خچر سے چمٹ گیا اور کہا کہ رسول اللہؐ نے یہ مجھے ھبہ فرمادی تھی۔ سالار فوج خالدؓ بن ولید نے مجھے بلوایا اور میرے دعویٰ کی دلیل طلب کی۔ میں نے محمد بن مسلمہؓ اور محمد بن بشیر انصاری ؓکو بطور گواہ پیش کیا اور شیماء میرے حوالے کردی گئی۔ اس کا بھائی عبدالمسیح صلح کی غرض سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اسے میرے پاس فروخت کرد و میں نے کہا میں دس سو درہم سے کم نہیں لونگا۔ اس نے فوراً مجھے ایک ہزار درہم دیئے اور میں نے شیماء اس کے حوالے کردی۔ مجھے لوگ کہنے لگے اگر تم دس ہزار درہم بھی کہتے تو وہ ادا کردیتا۔ یہ تم نے ایک ہزار مانگ کرکیا کیا؟ میں نے کہا دس سو سے زیادہ مجھے بھی گنتی نہیں آتی تھی۔(ابونعیم)19
فاقہ کش ابوہریرہؓ جنہوں نے اِن رؤیاکی تعبیراپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی،وہ یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں‘‘۔پھرکہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے۔ اب تم ان خزانوں کوحاصل کررہے ہو۔(بخاری) 20
پس رسول اللہؐ کے رؤیا ،کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الہٰی منشاء اور حکمت کے مطابق بہرحال پوری ہوئیںاورآج ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم سے کئے گئے ۔
چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ؑبن مریم کے ساتھ ہوگی۔(نسائی)21
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعے سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغازہوا۔ اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کووہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا ۔پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ کر دکھایا،یہاں تک کہ اُس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی میرے سامنے تھے۔ اور مجھے کہا گیا تھا کہ میری اُمت کی حکومت زمین کے اُن تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے دو خزانے دیئے گئے ایک سرخ خزانہ(یعنی سونے کا) اور ایک سفید خزانہ( یعنی چاندی کا)‘‘ (مسلم)22
اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کر دے گا۔ان الہٰی وعدوں پر ہر مومن کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کیونکہ
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے


حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذافتلت الدابۃ فی الصلاۃ:1134
2
بخاری کتاب النکاح باب الابکار :4688
3
بخاری کتاب التفسیر باب سیھزم الجمع ویولون الدبر
4
مسلم کتاب الجنہ وصفۃ نعیمھا باب عرض مقعد المیت من الجنۃ:5120
5
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل:3679
6
تاریخ الامم والملوک لطبری جز3ص248دارالفکربیروت
7
کنزالعمال حدیث نمبر 37472
8
بخاری کتاب تعبیر الرؤیاباب النفخ فی المنام :6515
9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر
10
مسند احمد جلد 1ص2مطبوعہ مصر
11
السیرۃ الحلبیہ جلد 2ص45 مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الجہادباب الدعاء بالجہادوالشہادۃ للرجال والنسائ:2580
13
کنزالعمال جلد 10 ص 212 مطبوعہ حلب
14
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح
15
بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی الی المدینۃ
16
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
17
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب :3792
18
مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 303 دارالفکر بیروت
19
دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد2ص692
20
بخاری کتاب التعبیر باب رؤیا اللیل:6483
21
نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الھند
22
مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض:5144

صداقت شعاری میں رسول اللہؐ کا بلند مقام
انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے اہم وصف صدق لہجہ، سچائی اور راست گفتاری ہے۔ دراصل انسان کی باطنی سچائی ہی ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی زبان سے بلکہ سیر ت و کردار حتّٰی کہ اس کی پیشانی سے بھی جھلکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموروں اور فرستادوں کی سچائی کا نشان یہی صداقت شعاری کا خلق ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ؐ کے ذریعہ اہل مکّہ کو یہ خطاب ہوا کہ ’’ان کو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں یہ( قرآن ) تم کو پڑھ کرنہ سناتا اور نہ اس سے تمہیں آگاہ کرتا۔ اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصّہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (سورۃیونس آیت 17)
اس آیت میں آنحضرت ﷺکی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بحیثیت مدّعیٔ نبوت راست گفتاری میں بطور مثال کے پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑھاپے کے قریب خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ بلاشبہ مدّعی ٔ نبوت کی صداقت کے لئے یہ ایک بنیادی اور اہم دلیل ہے۔اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھا جائے تو آپؐ کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے۔
آپؐ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے سبھی امانت دار مانتے تھے۔ آپؐ کا نام ہی صدوق پڑگیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعویٔ نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپؐنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اس جگہ ہم رسول کریمؐ کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے۔
میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے۔(سورۃ البقرۃ:188)پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارہ میں اس سے بہتررائے دے سکے؟
ازواج مطہرات ؓکی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی صداقت کی زبردست گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میںحضرت عائشہؓ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپؐ کے اخلاق تو قرآن تھے اوراسلام وقرآن کا بنیادی خلق تو سچائی ہی ہے۔
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)2
رشتہ داروں کی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچائیں تو کوہِ صفا پر آپؐ نے قبائل قریش کونام لے کر بلایا۔جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھاکہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟’’ انہوں نے بلاتامّل کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپؐ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‘‘مگر جب آپؐ نے انہیں کلمۂ توحید کی دعوت دی توآپؐ کا چچا ابو لہب کہنے لگا’’ تیرا برا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘(بخاری )3
سورۂ یونس میں نبی کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو بطور دلیل پیش کرنے میں یہی حکمت ہے کہ بعد میں تو مخالف بھی پیدا ہوجاتے ہیں مگر دعویٰ سے پہلے سب اس کی راستبازی پر متفق ہوتے ہیں۔
ابو طالب کی گواہی
ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت لے کر رسول اللہؐ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلواکر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آئو پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں ۔اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خد ا کی قسم ! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا۔یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا۔میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔(بیہقی)4
ابو طالب کی دوسری گواہی شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے۔جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا۔بے شک تم جاکر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا۔چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ابن جوزی)5
خزیمہ بن حکیم سلمی کی گواہی
خزیمہ حضرت خدیجہ ؓ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریمؐ تجارت کے لئے حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔ خزیمہؓ بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی د ی کہ
’’اے محمدؐ میں آپؐ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہرہوناتھا اور میں آپؐ پر ابھی ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے وعدہ کیاتھا کہ جب مجھے آپؐ کے دعویٰ کی خبر ملی میں ضرور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔ مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا’’پہلے مہاجر کو خوش آمدید‘‘۔(ابن حجر)6
دوست کی گواہی
حضرت ابوبکرؓ رسول اللہؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔(بیہقی)7
پس رسول اللہؐ کا کردار بھی آپ ؐکی سچائی کا گواہ تھا اور آپؐ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکرؓ نے پہچان لیا۔
اولین معاند ابوجہل کی شہادت
حق یہ ہے کہ سچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبو رہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔(ترمذی )8
دشمن اسلام ابوسفیان کی گواہی
رسول اللہؐ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا۔ ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ توکبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔(بخاری )9
جانی دشمن نضربن حارث کی شہادت
رسول اللہؐ کا ایک اور جانی دشمن نضربن حارث تھا جودارالندوہ میں آپؐکے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمدؐکے بارے میں یہ مشہور کردینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہانہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو محمدؐ تمہارے درمیان جوان ہوا،اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچااور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے ۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ہرگزجھوٹا نہیں ہے۔(ابن ہشام) 10
دشمن اسلام اُمیّہ بن خلف کی گواہی
دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہؐ کی پیشگوئی سن کربے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جب بھی بات کرتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔(بخاری)11
امیہ کی بیوی کی گواہی
حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری نے جب سردارقریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہوگا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھی! خداکی قسم محمد جھوٹ نہیں بولتے۔ چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا ’’تمہیں یاد نہیں تمہارے یثربی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا۔‘‘امیہ اس وجہ سے رُک گیا مگر ابوجہل باصرار اسے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔(بخاری )12
سردار قریش عتبہ کی گواہی
قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟آپؐ کی جوبھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐنے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں ،جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں توعتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمدؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کرخاموش ہوگئے۔(حلبیہ13) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ ؐ صادق وراستبازہیں ۔
یہودی عالم کی گواہی
عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میںپہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔(ابن ماجہ)14
ایچ جی ویلز نے رسول اللہؐ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا:۔
’’یہ محمد(ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ، اُن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔‘‘(ویلز)15
پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں، دوستوںاور دشمنوں سب کا اتفاق کرلینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی ؐ کی راستبازی اور سچائی کی زبردست اور روشن دلیل ہے۔

حوالہ جات
1
بخاری کتاب التعبیرباب اول مابدیٔ بہ رسول اللہؐ
2
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
3
بخاری کتاب التفسیر سورۃ اللہب
4
دلائل النبوۃ بیھقی جلد2ص187دارالکتبہ العلمیہ بیروت
5
الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص198بیروت
6
الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن الحجرجز 2ص112دارالکتاب العلمیہ بیروت
7
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2ص164دارالکتب العلمیہ بیروت
8
ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانعام زیرآیت قَدْنَعْلَمُ اِنَّہ‘ لَیَحْزُنکَ الَّذِی یَقُوْلُوْنَ
9
بخاری بدء الوحی
10
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص320مصر
11
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
12
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
13
السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برھان الدین جلد1ص303مطبوعہ بیروت
14
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اطعام الطعام
15
ایچ جی ویلز ، زکریا ہاشم زکریاص270بحوالہ نقوش رسول نمبر ص550

’ ’ رسولِ امین ؐ ‘‘کی امانت و دیانت
’’اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروںکو اداکرو۔‘‘(النسائ:59) یہ ہے رسول اللہؐ کی شریعت میں قیام امانت کی بنیادی تعلیم۔ دنیامیں سب سے زیادہ امانت دار خداکے نبی اور رسول ہوتے ہیں جو خدا کا پیغام بلا کم وکاست اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی انبیاء کا یہ دعویٰ مذکور ہے کہ ’’میں ایک امانت دار رسول ہوکر آیا ہوں۔‘‘ مگر ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ارفع یہ ہے کہ عرش کے خدانے آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی گواہی دی۔فرمایا مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔(التکویر:22) کہ یہ نبی ایسا ہے جس کی پیروی کی جائے اور امانت دار ہے۔آپؐ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اُٹھایا جو آسمان وزمین اورپہاڑبھی نہ اُٹھاسکے۔(الاحزاب:73)
آسمان بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
پس رسول کریمؐ ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حق ادا کردکھائے۔آپؐ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ ’’وہ مومن فلاح پاگئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ (المؤمنون:9) رسول کریمؐ نے فرمایا جس کی امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(طبرانی)1
امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی دلی سچائی اور راستبازی ہے۔رسول کریمؐ میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھا۔ آپؐ اہل مکہ میں اس خوبی میں ایسے ممتاز تھے کہ سب آپؐ کو ’’صدوق وامین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے۔
ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے رسول کریمؐ کی تعلیم کاخاصہ بھی یہی تھا چنانچہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ مدعی نبوت تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تو ابوسفیان نے بھی گواہی دی کہ وہ نماز،سچائی،پاکدامنی، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس پرہرقل بے اختیار کہہ اُٹھا یہ تو نبی کی صفات ہیں۔(مسلم)2
نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرطیارؓ نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے دین کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ
’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کے پجاری تھے۔ مردار کھاتے اور بدکاری کے مرتکب ہوتے تھے۔ قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا اور ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ طاقتورکمزور کا حق کھا جاتا تھا تب خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی سچائی امانت اور پاکدامنی کے ہم گواہ ہیں۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور بت پرستی سے بچایا اور سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کی تعلیم دی۔‘‘ (احمد)3
قریش مکہ نبی کریمؐ کے خون کے پیاسے اورآپؐ کے قتل کے درپے تھے۔مگرحضورؐ کوہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی واپسی کی فکر تھی۔ چنانچہ مکہ چھوڑتے ہوئے اپنے عم زاد حضرت علیؓ کو ان خطرناک حالات کے باوجود پیچھے چھوڑ اکہ وہ امانتیں ادا کر کے مدینہ آئیں۔(ہشام)4
رسول کریمؐ کے دل میں امانت کا جس قدر گہرااحساس تھااس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ اگر کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو۔ وہ کہنے لگا اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کا کیا کریں ؟ نبی کریمؐ بہت ناراض ہوئے۔ چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمانے لگے تمہیں اس سے کیا؟ اس اونٹ کے پائوں ساتھ ہیں وہ درخت چرکر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتاہے۔تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خود اس کا مالک اُسے پالے۔(بخاری)5
حفاظتِ امانت میںنبی کریمؐ کا اپنا یہ حال تھا کہ فرماتے تھے میں بسااوقات اپنے گھر میں بستر پر کوئی کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں۔کھانے کی خواہش بھی ہوتی ہے اور میں وہ کھجور اُٹھا کر کھانا چاہتا ہوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تب اسے وہیں رکھ چھوڑ تا ہوں۔(بخاری)6
ایک دفعہ گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے کم سن حضرت امام حسین ؓیا حسنؓ نے ایک کھجور لے کر مُنہ میں ڈال لی۔ نبی کریمؐ نے فوراً وہ کھجور بچے کے مُنہ سے اگلوادی۔ کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا۔ اور مسلمانوں کی امانت تھی۔ آپؐ نے بچے سے فرمایا کہ ہم آلِ رسول صدقہ نہیں کھاتے اور بچے نے تھوکرکے وہ کھجور پھینک دی۔(بخاری)7
غزوۂ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطاہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دن سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھادیا۔ نبی کریمؐ کو خبرہوئی تو رسول کریمؐ نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصّرف کیوں کیا گیااور اسے آپ ؐنے خیانت پر محمول فرمایا ۔ آپؐنے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوادیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔دوسری روایت میں ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ اموال پر زبردستی قبضہ جائزنہیں۔(احمد)8
ایک دفعہ رسول کریمؐ نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے اورفرمایا کہ کچھ سونا آیاتھا سب تقسیم ہوگیا یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی۔ میں جلدی سے اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔(بخاری)9
حضرت سائب بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان ؓ اور زبیرؓمجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے۔ رسول کریمؐ نے انہیں فرمایا !آپؐ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتائو۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے۔ سائبؓ کہنے لگے ہاں یا رسول اللہؐ! آپؐ کتنے اچھے ساتھی تھے۔آپؐ نے فرمایاہاں اے سائبؓ دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے۔ اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا۔مثلاً مہمان نوازی،یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا۔
دوسری روایت میں ہے کہ سائبؓ آنحضرت ؐ کے ساتھ تجارت میں شریک رہے۔فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا۔(احمد)10
غزوۂ خیبر کے محاصرہ کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کاایک کڑا امتحان ہوا۔ہوایوں کہ یہود کے ایک حبشی چراوہے نے اسلام قبول کرلیا اور سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے۔ نبی کریمؐ نے ہر حال میںامانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔آپؐ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دے دی مگرکیامجال کہ آپؐ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرہ میں تو مہینوں کی خوراک بن سکتی تھیں۔مگرآپؐ نے کس شان استغناء سے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو۔خداتعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیںجہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔سبحان اللہ! رسول اللہﷺ جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھاجاتا ہے کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے۔(ابن ھشام)11
لڑنے والوں کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں۔ کیا آج کل کے مہذب زمانہ میں کبھی ایسا واقعہ ہو اہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانوراور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کردیا گیا ہو۔نہیں نہیں! آج کی دنیا میں عام حالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو درکنار،اسے لوٹنا جائز سمجھا جاتا ہے۔مگر قربان جائیں دیانتداروں کے اس سردار پر کہ دشمن کا وہ مال جوایک طرف فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذابن سکتاتھا ،دوسری طرف دشمن اس سے اپنا محاصرہ لمبا کھینچ کر مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کرسکتا تھا۔ان سب باتوںکی کوئی پرواہ نہ کی اور امانت مالکوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
نبی کریمؐ نے بھی صرف انسانوں کی امانت کے حق ہی ادا نہیں کئے بلکہ اپنے مولیٰ کی امانتوں کے تمام حق اد اکردکھائے۔ ایک دفعہ یمن سے سونا آیا اور رسول اللہؐ نے تالیف قلبی کی خاطرعرب کے چار سرداروں میں تقسیم فرمادیا ایک شخص نے کہا ہم اس کے زیادہ حق دار تھے۔ رسول کریمؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کیااللہ تعالیٰ تومجھے اہل زمین پرامین مقررکرے اور تم لوگ مجھے امین نہ سمجھو۔دوسری روایت میں ہے تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں (وحی الہٰی) آتی ہیں۔(گویا وحی آسمانی کا امین ہوں)۔ (بخاری واحمد)12
خداکی امانتوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قرآنی وحی کی تبلیغ شامل ہے۔ جس کا حق اداکرنے کی تفصیل عبادت اور داعی الی اللہ کے عناوین میں مذکور ہے۔
پس رسول کریمؐ نے بندوں اور خدا کی تمام امانتوں کے حق ادا کر کے دکھائے۔

حوالہ جات
1
المعجم الکبیرلطبرانی جلد8ص296
2
مسلم کتاب الجہاد والسیرکتاب النبی الی ہرقل یدعوہ الی الاسلام:3322
3
مسند احمدجلد1 ص203
4
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 2ص98
5
بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ
6
بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق:2252
7
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
8
مسند احمد جلد4ص89،مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد2ص134
9
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
10
مسند احمد جلد 3ص425بیروت
11
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص42
12
بخاری کتاب الانبیاء باب واِلٰی عادٍاخاھم ھودًاومسنداحمدجلد3ص4

رسول اللہ ؐ کا ایفائے عہد
قرآن شریف میں عہد پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے فرمایا’’عہد پورا کرو کہ عہد کے بارہ میں پرسش ہوگی۔‘‘ (سورۃ الاسرائ:35)رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔(ابودائود1) نیزفرمایا جس کا عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(احمد)2
نبی کریمؐ آغازسے ہی امانت و دیانت اورایفائے عہدکا بہت خیال رکھتے تھے۔آپؐ نے پابندیٔ عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔
بعثت سے قبل
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زمانۂ بعثت سے قبل نبی کریمؐ سے ایک سودا کیا۔ ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا۔میں نے آپؐ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکرمیں آپؐ کو ادائیگی کروں گامگر میں واپس جاکر وعدہ بھول گیا۔ تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریمؐ اسجگہ موجود تھے۔ آپؐ فرمانے لگے نوجوان! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا۔ میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کرتا رہاہوں۔(ابودائود)3
مکی دور میں بعثت سے قبل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرورمدد کروں گا۔(ابن ہشام)4
بعثت نبویؐ کے بعد
دعویٔ نبوت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی ’’الاراشی‘‘ کا حق سردار مکّہ ابوجہل نے دبا لیا۔ اُس شخص نے آنحضرتؐ سے آکر مدد مانگی۔ حضور ؐ اُس کے ساتھ ہولئے اور معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت معاند ابوجہل کے دروازے پر جاکر اُس مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضاکیا۔ پھروہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اُس کا حق اُسے دلوانہیں دیا۔ (ابن ہشام)5
حضرت حُذیفہ بن الیمّانؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر میں شامل ہونے میں یہ روک ہوئی کہ میں اور ابوسہلؓ بدر کے موقع پرگھرسے نکلے۔راستہ میں ہمیں کفارِ قریش نے پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ہم نے کہا نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں۔انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم جاکر رسول اللہؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہونگے بلکہ سیدھے مدینہ چلے جائیں گے۔ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا واقعہ عرض کردیا۔آپؐ نے فرمایا جائو اور اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔(مسلم)6
شہنشاہ ِروم قل نے رسول اللہؐ کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلاکر جب بغرض تحقیق کچھ سوالات کئے تو یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا اس مدّعیٔ رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی بھی کی ہے؟ابوسفیان رسول اللہؐ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ہرقل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ ’’آج تک اُنہوں نے ہم سے کوئی بدعہدی نہیں کی۔البتہ آجکل ہمارا اس سے ایک معاہدہ (حدیبیہ) چل رہا ہے دیکھیں وہ کیا کرتا ہے۔‘‘ابوسفیان کہتا تھاکہ میں ہرقل کے سامنے اس سے زیادہ اپنی طرف سے کوئی بات اپنی گفتگو میں حضورؐ کے خلاف داخل نہ کرسکاتھا۔(بخاری)7
مشرکین سے ایفائے عہد
خدا کی تقدیر دیکھئے کہ رسول کریمؐ نے معاہدۂ حدیبیہ کی ایک ایک شق پر عمل کر کے دکھایا۔معاہدہ توڑنے کے مرتکب بھی پہلے قریش ہی ہوئے اور پھر عہدشکنی کا انجام بھی ان کو بھگتنا پڑا۔ جب کہ رسول کریمؐ نے ایفائے عہد کی برکات سے حصہ پایا اورسب سے بڑی برکت فتح مکہ کی صورت میں آپؐ کو عطاہوئی ۔
معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کردیں گے۔ چنانچہ اگلے سال جب نبی کریمؐ عمرہ قضا کے لئے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کردیا۔حویطب بن عزیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمرو مکہ میں رہے تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہؐ کو یاد کروایاکہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا۔ آنحضورؐنے اسی وقت بلال ؓکو حکم فرمایا کہ اعلان کردیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی۔(حاکم)8
معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اسے واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر دکھایااور نمائندہ قریش کے مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمان بیٹے ابو جندلؓ کو دوبارہ اس کے باپ سہیل بن عمروکے سپرد کردیا گیا جس نے اسے پھر اذیت ناک قید میں ڈال دیا۔
معاہدہ کے بعد بھی بعض مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے تورسول کریمؐ نے معاہدہ کے مطابق انہیں مکّہ واپس بھجوادیا۔ مگر یہ شرط خود مکّہ والوں کے لئے وبالِ جان بن گئی کیونکہ معاہدہ کے بعد مکّہ سے مدینہ آنے والے ایک بہادر مسلمان ابو بصیر کو جو مشرک گرفتارکرکے مدینہ سے دوبارہ مکّہ لے جارہے تھے،راستہ میںوہ ان کو قتل کر کے، رہائی پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر ابو بصیرؓ نے واپس مدینہ آنے کی بجائے ساحل سمندر کے قریب اپنا اڈا بنالیا جہاں دیگر مسلمان بھی مکّہ سے آکر اکٹھے ہونے لگے اور ایک جمعیت بن کر اہل مکہ کے لئے خطرہ بن گئے۔جس پر مکہ والے خود یہ شرط چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
صلح حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا، جس کے مطابق بنوبکرقریش کے حلیف بنے تھے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے۔نیزیہ کہ کسی کے حلیف پر حملہ خود اس پر حملہ تصور کیاجائے گا۔
حلیف سے ایفاء اور امداد
صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدۂ امن توڑنا چاہا اور قریش مکہ کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی ان کے تیئس آدمی نہایت بے دردی سے قتل کردیئے گئے۔خود سردار قریش ابوسفیان کوپتہ چلا تو اس نے اس واقعہ کواپنے آدمیوں کی شرانگیزی قراردیا اور کہااب محمد ؐ ہم پر ضرور حملہ کریں گے۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کردی ۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ بتا کرفرمایا کہ منشاالہٰی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بدعہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پھر تین روز بعد قبیلہ بنوخزاعہ کا چالیس شترسواروں کا ایک وفدرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بدعہدی کرتے ہوئے شب خون مار کرہمارا قتل عام کیا ہے۔ اب معاہدۂ حدیبیہ کی رو سے آپؐ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں۔بنوخزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیکر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا
یَا رَبِ ّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حَلْفَ اَبِیْنَا وَ اَ بِیْہِ الْاَ تْلَدَا
یعنی اے میرے رب!مَیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگارہوں۔
خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین ﷺ کا دل بھر آیا۔آپؐ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ آپؐ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہوکر فرمایا۔ اے بنو خزاعہ!یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی۔اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔ تم محمد ﷺ کوعہد پورا کرنے والا اور با وفا پائو گے۔ تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوںاسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا۔(ابن ہشام)9
ادھر ابوسفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمدﷺ کو اس بدعہدی کی خبر نہ ہوگی۔اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ میں در اصل صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔آپؐ میرے ساتھ اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کرلیں۔ آنحضرتؐ نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ ابوسفیان گھبراکر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ رسول کریمؐ نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں۔چنانچہ نبی کریمؐ نے بنو خزاعہ کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزار قدوسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی۔(الحلبیہ)10
سراقہ سے ایفاء عہد
ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریمؐ کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھاکر گرجاتا رہا تب میں نے آواز دے کر حضورؐ کو بلایا اور حضورؐ کے ارشاد پر ابوبکرؓ نے مجھ سے پوچھا آپؐ ہم سے کیا چاہتے ہو؟میں نے کہاآپؐ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریرلکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا۔فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ جنگ حنین سے فارغ ہوکر جعّرانہ میں تھے۔ میں حضورؐ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا،حضورؐ انصار کے ایک گھوڑ سوار دستے کے حفاظتی حصار میں تھے،وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ تمہیں کیا کام ہے؟ حضور ؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ،میں نے اپنا ہاتھ بلند کرکے وہی تحریر رسول اللہؐ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپؐ کی تحریر امن ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے اور احسان کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا سراقہ کو میرے پاس لایا جائے۔ میں آپؐ کے قریب ہوا اور بالآخر آپ ؐ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کرلیا۔(ابن ھشام)11
رسول کریمؐ نے مسلمان عورت کے عہدکا بھی پاس کیا ہے۔امّ ہانی ؓ بنت ابی طالب نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے اپنے سسرال کے بعض مشرک لوگوں کو پناہ دی ہے۔حالانکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف تھے۔رسول کریمؐ نے فرمایا اے ام ہانی ؓ! جسے تم نے امان دیدی اسے ہم نے امان دی۔(ابودائود)12
ابو رافع قبطیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں سفیر بناکر بھجوایا۔رسول کریمؐکو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔آپؐ اس وقت بہر حال واپس جائوپھر اگربعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جاکر واپس آجانا۔چنانچہ یہ قریش کے پا س لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔(ابودائود)13
یہودمدینہ سے ایفائے عہد
نبی کریمؐ نے مکہ سے یثرب ہجرت فرمائی تواہل مدینہ کے جن گروہوں سے معاہدہ ہوا اس میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع،بنوقریظہ اور بنو نضیرشامل تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق یہود اور مسلمان امت واحدہ کے طور پر ریاست مدینہ کے باسی تھے۔ نبی کریمؐ نے ہمیشہ اس معاہدہ کا نہ صرف ایفاء اور احترام فرمایا۔ یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے۔یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی اور بعض مسلمانوں نے جب ان کے بانی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رسول کریمؐ کی فضیلت و برتری ظاہرکی جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کی تھی تو بھی آپؐ نے معاہدقوم کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ازراہِ انکساروایثار یہی فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؐ پر فضیلت مت دو تاکہ اس کے نتیجہ میں مدینہ کی امن کی فضاخراب نہ ہو۔ (بخاری)14
نبی کریمؐ نے یہودی جنازوں کا بھی احترام کیااور ان کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا۔(بخاری)15
اس کے برعکس یہاں تک مسلسل عہد شکنی کے نتیجہ میں بالآخران کومدینہ بدرکرناپڑا۔ لیکن رسول اللہؐ پر کبھی کسی یہودی کو عہدشکنی کا الزام تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی۔(بخاری)16
عیسائیوں سے ایفائے عہد
فتح مکہ کے بعدجن مختلف قبائل عرب نے مدینہ آکرصلح وامن کے معاہدے کئے ان میں نجران اور یمن کے عیسائی بھی تھے۔ نجران کے عیسائیوں نے معاہدۂ صلح کے بعد رسول کریمؐ سے درخواست کی کہ اس معاہدہ کے ایفاء کے لئے آپؐ اپنا کوئی ایسانمائندہ مقررکریں جو دیانتداری سے معاہدہ کی شقوں پر عمل کروائے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو امین الامت کا خطاب دیتے ہوئے اور تکمیل معاہدہ کے لئے نگران مقررفرمایا اور انہوں نے ایفائے عہد کاحق ادا کردکھایا۔(بخاری)17
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندیٔ عہد میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے۔





حوالہ جات
1
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الوفاء بالعھد
2
مسنداحمدجلد3ص135
3
ابوداؤد کتاب الادب باب فی العدۃ:4344
4
السیرۃ النبویہ لابن ھشام جز1ص141-142مصطفی البابی الحلبی مصر
5
السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد2ص123-124 دارالفکربیروت
6
مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد
7
بخاری بدء الوحی
8
مستدرک حاکم جلد 3ص492
9
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص86مطبوعہ بیروت
10
السیرۃ الحلبیۃ جز 3ص83تا 85 مکتبہ داراحیاء التراث العربی بیروت
11
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جز2ص34,35 مکتبہ المصطفی البابی الحلبی
12
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی امان المرء ۃ
13
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الامام یستجن بہ فی العھود
14
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف باب ولمّا جاء موسیٰ لمیقاتناوکلّمہ‘ ربّہُ۔۔۔الخ
15
بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ یھودی
16
بخاری کتاب الجہاد وکتاب المغازی
17
بخاری کتاب المغازی باب وفد نجران

صلہ رحمی میںرسول کریمؐ کا شاندار نمونہ
صلہ رحمی یعنی خونی رشتہ داروں سے حسن سلوک بھی ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے۔ کہتے ہیں اوّل خویش بعد درویش۔اگر قریبی عزیزوں سے ہی انسان کا احسان کا تعلق نہیں تو ایسے شخص سے عام بنی نوع انسان سے حسن سلوک کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کی تعلیم قرآن شریف نے دی ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُبِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل :91) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ دوسری جگہ صلہ رحمی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے انتہائی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے نام کے ساتھ تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواور رحمی رشتوں کے حق بھی ادا کرو۔‘‘ (سورۃالنسائ:2)
رسول کریمؐ کی بعثت کا ایک بڑا مقصد رشتوں کے تقدّس اور انسانیت کے حقوق کا قیام بھی تھا۔ حضرت عمروؓ بن عنبسہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں ابتدائی زمانہ اسلام میں حاضر ہوا۔ جب آپؐ مخفی طور اسلام کا پیغام پہنچارہے تھے۔میں نے پوچھا آپؐ کا کیادعویٰ ہے۔ آپؐ نے فرمایا میں نبی ہوں۔ میں نے کہا نبی کیا ہوتا ہے۔آپؐ نے فرمایااللہ کا رسول ہوتا ہے میں نے عرض کیا کس تعلیم کے ساتھ آپؐ کو بھیجا گیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا اس تعلیم کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت ہو اور رحمی رشتوں کو نیکی اور احسان کے ساتھ استوار کیا جائے۔(حاکم)1
رحمی رشتہ داروں میں سے قرآن شریف میں سب سے مقدم والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم ہے۔ پھر دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ درجہ بدرجہ حسن سلوک کا حکم ہے۔ جن میں اولاد ، بیوی،بھائی، بہن ، چچا ، پھوپھی ،ماموں، خالہ وغیرہ شامل ہیں۔ظاہر ہے وہ رحمی رشتہ دار جو احکام ورثہ میں اللہ تعالیٰ نے مقدم رکھے ہیں۔ حسن معاملہ میں بھی وہ دوسروں کی نسبت اولیٰ اورمقدّم ہیں۔
نبی کریمؐ نے بھی صلہ رحمی کی بہت تاکیدکی۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’رِحم‘ کا لفظ جس سے رحمی رشتے وجود میں آتے ہیں دراصل اللہ کی صفت ’’رحمان‘‘ سے نکلا ہے۔ اگر کوئی شخص ان رشتوں کا خیال نہیں رکھتا اور قطع رحمی کا مرتکب ہوتا ہے تو رحمان خدا اس سے اپنا تعلق کاٹ لیتا ہے، جو ان رشتوں کے حق ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔(بخاری)2
اس ارشاد نبویؐ میں یہ خوبصورت پیغام مضمرہے کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھنے والوں کے حق میں خدا کی صفت رحمانیت (بن مانگے عطا کرنا) پوری شان سے جلوہ گرہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والوں کے مال اور عمر میں برکت عطاکی جاتی ہے۔نیز فرمایا کہ رحمی رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری)3
نبی کریمؐ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پھر یہی سوال دوہرایا آپ ؐنے فرمایا تیری ماں تیسری مرتبہ بھی آپؐ نے اسے یہی جواب دیا چوتھی مرتبہ اس کے سوال پر فرمایا تیرا باپ ۔(بخاری)4
والدین کا تو اتنا حق ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ رسول کریم ؐ سے کسی نے پوچھا کہ والدین کی موت کے بعد بھی ان کی صلہ رحمی کا کوئی حق باقی رہ جاتاہے۔آپؐ نے فرمایا ہاںوالدین کے لئے دعائیں کرنا۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے رہنا، ان کے عہدپورے کرنا،ان کے دوستوں کی عزت کرنا، اور ان کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک جن کے ساتھ صرف والدین کی طرف سے کوئی رشتہ ہو۔(ابودائود)5
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ جب کوئی جانور ذبح کرواتے تو فرماتے تھے خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھی بھجوائو۔ ایک دفعہ میںنے ناراض ہوکر پوچھاتو فرمایا کہ مجھے خدیجہؓ کی محبت عطا کی گئی ہے۔(مسلم)6
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ مسکین کو صدقہ دینا ایک نیکی ہے اور مستحق رحمی رشتہ دار کو صدقہ دینا دوہری نیکی ہے۔ (ترمذی)7
ایک دفعہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ ؓ نے ایک لونڈی آزاد کی۔ رسول کریمؐ کو جب اس بارہ میں بتایا تو آپؐ نے فرمایا اگر تم اپنے ننہال کو (جو مستحق تھے) یہ لونڈی دے دیتیں تو تیرے لئے بہت زیادہ اجر کا موجب ہوتا۔(ابودائود)8
ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے عرض کیاکہ مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوا ہے۔ کیا میری توبہ کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ آپؐنے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے اس نے کہا نہیں فرمایا تمہاری خالہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایاپھر اس سے حسن سلوک کرو۔ یہی عمل تمہارے لئے گناہوں سے معافی کا ذریعہ بن جائے گا۔(ترمذی)9
رسول کریمؐ نے صلہ رحمی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا’’ صلہ رحمی یہ نہیں کہ رشتہ داروں کے حسن سلوک کا بدلہ دیاجائے۔ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ توڑنے والے سے جوڑنے کی کوشش کرے۔‘‘(بخاری )10
ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں۔ میں احسان کرتا ہوں وہ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی ا ور جہالت سے دیتے ہیں۔نبی کریمؐ نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہویعنی یہ ان پر احسان کر کے انہیں ایسا شرمسار کر کے رکھ دینے کے مترادف ہے اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس وقت تک مقرر رہے گا جب تک تم اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہوگے۔(احمد)11
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ میری مشرک والدہ میرے لئے اداس ہوکر محبت سے ملنے مدینہ آئیں ۔میں نے نبی کریمؐسے پوچھا کہ کیا میں ان کے مشرک ہونے کے باوجودان سے حسن سلوک کروں۔نبی کریمؐ نے فرمایا کیوں نہیں آخروہ تمہاری ماں ہے۔ضرور ان سے حسن سلوک سے پیش آئو۔(بخاری)12
صلہ رحمی میںرسول کریمؐ کااپنا نمونہ یہی تھا۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے پہلی وحی کے موقع پر یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کوہرگز ضائع نہیںکرے گا۔ آپؐ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔(بخاری)13
ایک شخص رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس کی توفیق نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا والدہ ہے۔رسول اللہؐ نے فرمایا والدہ سے حسن سلوک کرو اگر تم یہ کرلو تو حج،عمرہ اور جہاد کرنے والے ٹھہرو گے(اور اس کا ثواب پائوگے) اور اگر والدہ تم سے راضی ہے تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے حسن سلوک کرو۔(ھیثمی)14
رسول کریمؐ کے حقیقی والدین تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ بعد میں ان کے لئے محبت اور دعا کا جوش دل میں موجود رہا۔ آپؐ بطور خاص اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں جاکر ان کی یاد میںآپؐ روئے اور اتنا روئے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی رُلادیا۔(مسلم)15
رضاعی رشتوں کا بھی نبی کریمؐ نے ہمیشہ احترام کیا۔ ابو الطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو جنگ حنین سے واپسی پر جعرانہ مقام پر گوشت تقسیم کرتے دیکھا میں اس وقت نوجوان لڑکا تھا۔ ایک عورت آئی رسول اللہؐ نے اسے دیکھا تو اس کے لئے اپنی چادر بچھادی۔ وہ عورت اس پر بیٹھ گئی میں نے پوچھا یہ کون ہے تو لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہؐ کی رضاعی والدہ ہیں۔(ابودائود)16
ابولہب کی لونڈی ثُویْبہ نے رسول کریمؐ کو دودھ پلایا تھا۔آنحضورؐاپنی اس رضاعی والدہ سے صلہ رحمی کی خاطر اسے پوشاک بھجوایا کرتے اور اس کی وفات کے بعدبھی اس کے اقارب سے اس کا حال پچھواتے۔
مسطح بن اثاثہ حضرت ابوبکرؓ کا بھانجا تھا۔وہ بھی غلط فہمی میں حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والوں میں شامل ہوگیا۔حضر ت ابوبکر ؓ نے اس کا امدادی وظیفہ روک دیا،جس پر قرآن کی یہ آیت اُتری کہ تم میں سے اہل فضل اور وسعت رکھنے والوں کو ہرگز قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ رشتہ داروں کو کچھ نہیں دیں گے بلکہ انہیں عفو اور درگذرسے کام لینا چاہئے۔(ترمذی)17
رسول کریمؐ کے اکثر رحمی رشتہ داروں نے دعویٔ نبوت پر آپؐ کی مخالفت کی، مگر آپؐ فرماتے تھے کہ بے شک قریش کی فلاں شاخ میرے دوست نہیں رہے، دشمن ہوگئے ہیں مگر آخر میرا اُن سے ایک خونی رشتہ ہے، میں اس رحمی تعلق کے حقوق بہر حال ادا کرتا رہوں گا۔ (بخاری)18
چنانچہ جب بھی اہل مکہ کو رسول اللہؐ کی مدد کی ضرورت ہوئی۔ آپؐ نے ان سے احسان کا سلوک فرمایا۔مکّہ میں قحط پڑا اور وہ رحمی رشتہ کا واسطہ لے کر آئے تو آپؐنے نہ صرف بارش کے لئے دعا کی جس سے قحط دور ہوگیا۔(بخاری19)بلکہ مدینہ سے فوری امداد بھی بھجوائی۔
فتح مکہ کے سفر میں جحفہ مقام پر رسول کریمؐ کا چچا(ابو سفیان) ابن حارث عفو کا طالب ہوکر آیا۔یہ حضورؐ کے بچپن کا ہم عمر ساتھی تھامگر دعویٰ نبوت کے بعد آپؐ کا سخت دشمن ہوگیا۔آپؐ کو بہت اذیتیں دیں اور کہا کہ میں تو اس وقت ایمان لائوں گاجب میرے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر جائو اور فرشتوں کے جلو میں کوئی صحیفہ اتار لائوجو اس پر گواہ ہوں۔اسی پر بس نہیںیہ شخص آنحضورؐ کے خلاف بیس برس تک گندے اشعار بھی کہتا رہا۔ سفرفتح مکّہ میںحضرت ام سلمہؓ نے رسول اکرمؐ کی خدمت میں ان کی معافی کی سفارش کی۔ پہلے تو حضورؐنے اعراض کیا مگر جب ابن الحارث کا یہ پیغام پہنچا کہ معافی نہ ملنے کی صورت میں وہ بھوکا پیاسا رہ کر اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا تو رسول کریمؐ کا دل بھر آیا۔آپؐنے اُسے ملاقات کی اجازت دی اور معاف فرمادیا۔ اس موقع پر ابو سفیان بن حارث نے کچھ اشعار کہے جن میں ایک شعر یہ بھی تھا کہ
ھَدَانِیْ ھَادٍ غَیْرُ نَفْسِیْ وَنَالَنِیْ
مَعَ اللّٰہِ مَنْ طَرَدْتُّ کُلَّ مُطَرَّدٍ
یعنی اللہ نے مجھے اس پاک وجود کے ذریعہ ہدایت نصیب فرمائی جسے میں نے دھتکار کر رد کردیا تھا اور دشمنی میں اس کا پیچھا کیا تھا۔
رسول کریمؐ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور بڑے درد سے فرمایا’’تم نے ہی مجھے دھتکارا تھا نا! اور بچپن کی دوستی کا بھی خیال نہیں کیا تھا۔‘‘(ابن ہشام)20
سردار مکہ ابوسفیان(جس کانسب چوتھی پشت میں جاکررسول اللہؐ سے ملتا ہے، ساری عمررسول اللہؐ سے جنگیں کرتارہا۔ابوسفیان کو حضرت عباسؓ فتح مکہ کے موقع پر پکڑ لائے تو حضرت عمرؓ نے ان کے قتل کی اجازت چاہی۔حضرت عباسؓ نے عرض کیا میں نے اسے پناہ دی ہے۔حضورؐ نے فرمایا عباسؓ اسے ساتھ لے جائو صبح لے آنا ۔صبح حضورؐ نے ابوسفیان سے پوچھاکیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کہو۔ ابوسفیان نے کہا میرے ماںباپ آپؐ پر قربان۔آپ ؐ کتنے کریم اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔اگر کوئی اور معبودہوتا تو آج ہمارے کام نہ آتا۔پھر کہا البتہ رسالت کے بارے میں کچھ شبہ ہے مگر رسول اللہؐ نے نہ صرف ابوسفیانؓ کی معافی کا اعلان کیا بلکہ اس کے گھر میں داخل ہوجانے والے کیلئے بھی معافی کا اعلان عام کروادیا۔
مکّہ کے دوسرے سردار عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی ام حکیمؓ مسلمان ہوگئی۔ خودعکرمہ توبھاگ گیالیکن اس کی بیوی رسول اللہؐ سے پروانہ امان لے کر عکرمہ کو واپس لائی۔عکرمہ نے حضورؐ کے دربار میں حاضر ہوکر تصدیق چاہی اور جب رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہیں اپنے دین پر رہتے ہوئے امان دی ہے تو عکرمہ بے اختیار کہہ اُٹھا کہ یار سول اللہؐ! آپؐ کتنے کریم اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔( الحلبیہ)21
اہل عرب بھی رسول اللہؐ کی وفا اور حسن معاشرت کے قائل تھے۔ جنگ حنین میں ہوازن قبیلہ کے لوگ قید ہوئے تو ان کا وفد حضورؐ کی خدمت میں قیدی چھڑوانے کے لئے حاضر ہوا۔ ان کے نمائندے نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ نے بنو ہوازن میں بچپن میں رضاعت کا زمانہ گزارا ہے۔ ان قیدیوں میں کئی آپؐ کی رضاعی پھوپھیاں خالائیں او روہ بیبیاں ہیں جنہوں نے آپؐ کو کھلایا اور آپ ؐکی کفالت کی ہے۔ آپؐ تو سب سے بہترین کفالت کرنے والے ہیں۔ رسول کریمؐ نے ان سے کمال وفا اور احسان کا سلوک کرتے ہوئے فرمایا میں تمہارے تمام وہ قیدی آزاد کرتا ہوں جو میرے یا بنی عبدالمطلب کے حصے میں آئے ہیں۔(ابن ہشام)22
یہ تھا رسول کریمؐ کا صلہ رحمی میں شاندار نمونہ جس کے حق میںاپنوں اورپرایوں نے بھی گواہی دی۔
حوالہ جات
1
مستدرک حاکم جلد4ص149
2
بخاری کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللہ
3
بخاری کتاب الادب باب اثم القاطع
4
بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ
5
ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین
6
مسلم کتاب الفضائل باب فضل خدیجۃ ؓ
7
ترمذی کتاب الزکاۃ باب ماجاء فی الصدقۃ الی ذی القرابۃ
8
ابوداؤد کتاب الزکاۃ باب فی صلۃ الرحم
9
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی برالخلالۃ :1827
10
بخاری کتاب الادب باب لیس الواصل بالمکافیٔ
11
مسند احمد جلد2ص300مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الادب باب صلۃ الوالد المشرک
13
بخاری بدء الوحی
14
مجمع الزوائد لھیثمی جلد8ص138
15
مسلم کتاب الجنائز باب استئذان النبی ربہ عزوجل فی زیارۃ قبرامہ
16
ابوداؤد کتاب الادب باب فی برالوالدین:4478
17
ترمذی کتاب التفسیر باب من سورۃ النور
18
بخاری کتاب الادب باب تبل الرحم ببلالھا
19
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان
20
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص88,89
21
السیرۃ الحلبیۃ جلد4ص92بیروت
22
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص128

رسول کریمؐ کی ہمدردیٔ خلق
قرآن شریف میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں کا سردار اور آپؐ کی امت کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے۔اس بلند مقام اور منصب کا سب سے بڑا تقاضا خدمت ہے۔ چنانچہ فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(سورۃآل عمران:111) کہ اے مسلمانو!تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے۔گویا خدمت خلق کے نتیجہ میں مسلمان واقعی طور پراپنا بہترین ہونا ثابت کرسکتے ہیں۔تبھی تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْکہ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔اور عمر بھر اس اصول کی ایسی لاج رکھی کہ بنی نو ع کی خدمت کرکے کل عالم کا سردار ہونا ثابت کردکھایا۔
آنحضورؐ فرماتے تھے کہ دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔آپؐ سے پوچھا گیا کِس چیز کی خیر خواہی؟ آپؐ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب ،اس کے رسول ،مسلمان ائمہ اور ان کے عوام الناس کی خیر خواہی۔(مسلم1)آپؐ نے اپنی جامع خوبصورت تعلیم کے ذریعہ بنی نوع انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ ہرانسان کی جان،مال اور عزت کی حرمت قائم فرمادی۔(بخاری)2
آپؐ فرماتے تھے مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری3)اور مومن وہ ہے جن سے دوسرے تمام انسان امن میں رہیں۔(احمد)4
حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ کون لوگ اللہ کو سب سے پیارے ہیں؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ محبوب ہیں؟ رسول کریمؐ نے فرمایا اللہ کو سب سے پیارے وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اللہ کو سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرے یا اس کی تکلیف دورکرے یا اس کا قرض ادا کردے یا اس کی بھُوک دورکرے۔ اور پھر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اگر میں خود ایک مسلمان بھائی کے ساتھ مل کر اس کی ضرورت پوری کروں تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس بات کے کہ میں مدینہ کی اس مسجد میں ایک ماہ تک اعتکاف کروں اور جو شخص اپنے غصہ کوروکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور جو شخص اپنے غصہ کو دبالیتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو وہ اپنی من مانی کرسکتا تھا۔ اللہ اس شخص کا دل قیامت کے دن اُمید سے بھردے گا اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ ضرورت پوری کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کا کام کرکے دم لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے ثابت قدم رکھے گا۔ جس دن کہ تمام قدم ڈگمگارہے ہوںگے۔(طبرانی)5
عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ فرائض کے بعد سب سے پسندیدہ عمل ایک مسلمان بھائی کو خوش کرنا ہے۔اسی طرح حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ جو شخص مسلمان بھائی سے اس لئے ملتا ہے کہ وہ اسے خوش کرے تو اللہ قیامت کے دن اسے خوش کرے گا۔(الترغیب)6
آپؐ ہمیشہ کمزوروں اور حاجت مندوں کے کام آتے اور فرماتے تھے کہ جب بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اورجو کسی مسلمان بھائی کی کوئی تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کے روزکی تکلیف دور کرے گا۔اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی ستر پوشی فرمائے گا۔(بخاری)7
رسول کریمؐ آغاز سے ہی مخلوق خدا سے محبت رکھتے اور لوگوں کی ضرورتیں پوری کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔مکی دور میں بعثت سے قبل آپؐ معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دیکر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور مدد کروں گا۔(ابن ھشام)8
حضرت خدیجہؓ نے پہلی وحی پر رسول کریمؐ کے اخلاق پر جو گواہی دی وہ آپؐ کی ہمدردی خلق سے عبارت ہے۔وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری)9
خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا آپؐ تو رشتہ داروں کے حق ادا کرتے ہیں،غریبوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں،دنیا سے ناپید اخلاق اور نیکیاں قائم کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے اور حقیقی مصائب میں مدد کرتے ہیں۔
ابوجہل کے خلاف مظلوم کی امداد
رسول کریمؐ جابر دشمن کے مقابل پر بھی مظلوم کی مدد کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ایک اجنبی ’’الاراشی‘‘سے ابوجہل نے اونٹ خریدا اور قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرنے لگا۔اراشی قریش کے مجمع میں آکر مدد کا طالب ہوا اور کہا کہ میں اجنبی مسافر ہوں ۔کوئی ہے جو ابوجہل سے مجھے میرا حق دلائے؟وہ میرے مال پر قابض ہے۔سردارانِ قریش نے ازراہ تمسخر رسول کریمؐ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص تمہیں ابوجہل سے حق دلا سکتا ہے۔اراشی رسول اللہؐ کے پاس جاکر دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگا کہ آپؐ ابوجہل کے خلاف میری مدد کریں۔رسول کریمؐ اس کے ساتھ چل پڑے۔سردارانِ قریش نے اپنا ایک آدمی پیچھے بھجوایا تا کہ دیکھے ابوجہل کیا جواب دیتا ہے۔رسول کریمؐ نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اس نے پوچھا کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا میں محمدؐ ہوں۔ باہر آئو۔ آپؐ کو دیکھ کر ابوجہل کا رنگ فق ہوگیا آپؐ نے فرمایا! اس شخص کا حق اسے دیدو۔ ابوجہل نے کہا اچھا۔آپؐ نے فرمایا! میں یہاںسے واپس نہیں جائوں گاجب تک اس کا حق ادا نہ ہوجائے۔ابوجہل اندر گیا اور اس شخص کی رقم لاکر اسے دے دی۔تب آپؐ واپس تشریف لائے۔ ادھر اراشی نے واپس آکر سردارانِ قریش کی مجلس میں کہا کہ اللہ محمدؐ کو جزائے خیر دے اس نے مجھے میرا مال دلوادیا ہے۔اتنے میں قریش کا بھجوایا ہوا آدمی بھی آگیا اور کہنے لگاآج میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے کہ ادھر محمدؐ نے ابوجہل کو اراشی کا حق دینے کو کہا اور ادھر اُس نے فوراً رقم لا کر اداکردی۔تھوڑی دیر میں ابوجہل بھی آگیا۔ سب اس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہوگیا تھا؟ابوجہل نے کہا کہ جونہی میں نے محمدؐ کی آواز سنی، مجھ پر سخت رعب طاری ہو گیا۔جب باہر آیاتھا تو دیکھا کہ محمدؐ کے سر کے پاس خونخوار اُونٹ ہے۔اگر میں انکار کرتا تو وہ اُونٹ مجھے چیرپھاڑکررکھ دیتا۔(ابن ہشام)10
امت کے لئے درد
رسول کریمؐ کے دل میںاپنی اُمت کے لئے بہت درد تھا۔عباس بن مرداس السلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عرفات کی شام اپنی اُمت کے لئے بخشش کی دعا کی ۔آپؐ کو جواب ملا کہ میں نے تیری امت کو بخش دیا سوائے ظالم کے۔ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائیگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا اے میرے رب! اگر تو چاہے تو (یہ بھی تو کر سکتا ہے کہ) مظلوم کو (مظلومیت کے بدلہ میں) جنت دیدے۔ ظالم کو (اس کا ظلم) بخش دے۔اس شام تو آپؐ کو اس دعا کا کوئی جواب نہ ملا مگر مزدلفہ میں صبح کے وقت آپؐ نے پھر یہ دعا کی تو آپؐ کی دعا شرف قبول پاگئی۔اس پر رسول اللہؐ (خوش ہوکر) مسکرانے لگے ۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوںآپؐ کس بات پر مسکرائے ہیں؟اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہمیشہ (خوش و خرم) ہنستا مسکراتا ہی رکھے۔ آپ ؐنے فرمایا کہ اللہ کے دشمن ابلیس کو جب یہ پتہ چلا کہ اللہ نے میری دعاسن لی ہے اور میری امت کو بخش دیا ہے تووہ مٹی لے کر اپنے سر میں ڈالنے لگا اور اپنی ہلاکت و تباہی کی دعائیں کرنے لگا۔ اس کی گھبراہٹ کا یہ عالم دیکھ کر مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہوسکی۔(ابن ماجہ)11
رسول کریمؐ کوہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنی اُمت کی تکلیف کا احساس رہتا تھا۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم ؐ میرے پاس سے گئے تومزاج خوشگوارتھا، واپس آئے تو غمگین تھے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ، آپؐ میرے پاس سے گئے تو ہشاش بشاش تھے واپس آئے تو غمگین ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں کعبہ کے اندر گیا تھا ۔مگر اب افسوس ہورہا ہے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنے بعد اپنی امت کو (اس فعل کے ذریعہ سے) مشقت میں نہ ڈال دیا ہو۔یعنی اگر سب امتی بھی کعبہ کے اندر جانے کی خواہش کریں گے تو اُن کی کثرت کے باعث یہ خواہش پوری ہونی مشکل ہوجائے گی۔(ابن ماجہ)12
اسی طرح رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اگر امت پر گراں خیال نہ کرتا تو انہیں نماز عشاء تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیتا۔(بخاری13) ایک اور موقع پر فرمایا کہ اگر امت پر گراں خیال نہ کرتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔(مسلم14)آپؐ فرماتے تھے کہ میں نماز میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوںتو نماز مختصر کردیتا ہوں کہ اس کی ماں کے لئے باعث تکلیف و پریشانی نہ ہو۔(بخاری)15
آپؐ کواُمت کے غربا کا اتنا خیال تھا کہ قربانی کی عید پر دو موٹے تازے مینڈھے خریدتے۔ ایک اپنی اُمت کے ہر اُس فرد کی طرف سے ذبح کرتے جو توحید اوررسالت کی گواہی دیتا ہے، دوسرا مینڈھا اپنے اہل خاندان کی طرف سے ذبح فرماتے۔(بخاری)16
عام انسانوں سے ہمدردی
آنحضرت ﷺکسی مدد یا خدمت خلق کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ بے کس خواہ کسی ملک اور قوم کا ہو اس کی مظلومیت کا حال سن کر آپؐ بے چین ہوجاتے تھے۔
مہاجرین حبشہ جب مدینہ واپس لوٹے تو نبی کریمؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ملک حبشہ میں تم نے کیا کچھ دیکھا۔وہاں کی کوئی دلچسپ بات توسنائو۔ ایک نوجوان نے یہ قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ہم حبشہ میں بیٹھے تھے۔ ایک بڑھیا کا ہمارے پاس سے گزرہوا۔اس کے سر پر پانی کا ایک مٹکا تھا۔وہ ایک بچے کے پاس سے گزری تو اس نے اسے دھکا دیا اور وہ گھٹنوں کے بل آگری۔ مٹکا ٹوٹ گیا۔ بڑھیا اُٹھی اور اُس بچے کو کہنے لگی اے دھوکے باز بدبخت! تجھے جلد اپنے کئے کا انجام معلوم ہوجائے گاجب اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوگا اورفیصلہ کے دن پہلوں اور پچھلوں سب کو جمع کرے گا۔ ہاتھ اور پائوں جو کچھ کرتے تھے خودگواہی دیں گے۔ تب تمہیں میرے اور اپنے معاملے کا صحیح علم ہوگا۔ رسول اللہؐ نے جوشِ ہمدردی سے فرمایا اس بڑھیا نے سچ کہا اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے برکت بخشے اور پاک کرے گا جس کے کمزوروں کو طاقتوروں سے اُن کے حق دلائے نہیں جاتے۔(ابن ماجہ)17
جب کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو رسول کریمؐ فرمایا کرتے کہ میرے تک مستحقین کی سفارش پہنچادیا کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا۔باقی اللہ جو چاہے گا اپنے رسول کی زبان پر اس ضرورت مند کے بارہ میں فیصلہ فرمائے گا۔(بخاری)18
خدمت خلق کی تحریک
رسول کریمؐغربا ء کی مدد کے لئے تحریک بھی کرتے تھے اور فرماتے مستحق لوگوں کی ضروریات مجھ تک پہنچاتے رہا کرو۔ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک غریب مسجدمیں آیا۔ رسول اللہؐ نے صدقہ کی تحریک فرمائی کہ لوگ کچھ کپڑے صدقہ کریں۔ لوگوں نے کپڑے پیش کردیئے۔ حضورؐ نے دوچادریں اس غریب کو دے دیں۔اس کے بعد آپؐ نے پھرصدقہ کی تحریک فرمائی تو وہی غریب اٹھا اوردو میں سے ایک چادر صدقہ میں پیش کردی۔رسول اللہؐ نے اسے بآواز بلند فرمایا کہ اپنا کپڑا واپس لے لو۔(ابودائود)19
رسول اللہؐ کے زمانے میں ایک شخص نے پھلوں کے کاروبار میں بہت نقصان اُٹھایا۔ قرض بہت زیادہ ہوگیا۔نبی کریمؐ نے اُس کے لئے صدقہ کی تحریک فرمائی۔لوگوں نے صدقہ دیا مگر جتنا قرض تھا اتنی رقم اکٹھی نہ ہو سکی۔رسول اللہؐ نے قرض خواہوں کو فرمایاکہ جو ملتا ہے لے لو،باقی چھوڑ دواور معاف کردو۔(احمد)20
حضرت معاویہؓ بن حکم کی ایک لونڈی تھی جو اُن کی بکریاں چراتی تھی۔ ایک دن بھیڑیا اُس کے ریوڑ پر حملہ کرکے ایک بکری اُٹھا کر لے گیا۔معاویہؓ نے غصے میں آکر اس لونڈی کو ایک تھپڑ رسید کردیا۔اور پھر رسول اللہؐ کی خدمت میں اس واقعہ کا ذکر کیا۔حضورؐ پر یہ بات بہت گراں گزری۔معاویہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میں اُسے آزاد نہ کردوں؟آپؐ نے فرمایا اُسے میرے پاس لے آئو۔جب وہ آئی توآپؐ نے پوچھا اللہ کہاں ہے؟اُس نے کہا آسمان میں۔ آپؐ نے فرمایامیں کون ہوں؟اُس نے کہا آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔رسول اللہؐ نے فرمایا یہ مومن عورت ہے اسے آزاد کردو۔(مسلم)21
حضرت عبداللہؓ بن عمرؓرسول اللہؐ کی خدمت خلق کے سلسلہ کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ کے پاس کہیں سے دس درہم آئے۔اتنے میں ایک سودا گر آگیا، رسول کریم ؐ نے اس سے چاردرہم میں ایک قمیص خریدلیا ۔اسے پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک انصاری نے عرض کیا حضورؐ آپؐ یہ مجھے عطاکردیں اللہ آپؐ کو جنت کے لباس عطافرمائے۔ آپؐ نے وہ قمیص اسے دیدیا۔ پھر آپؐ دوکاندار کے پاس گئے اور اس سے چار درہم میں ایک اور قمیص خریدا۔ اب آپؐ کے پاس دو درہم بچ رہے تھے۔راستہ میں آپؐ کو ایک لونڈی ملی جو رورہی تھی۔آپؐ نے سبب پوچھا تو وہ بولی کہ گھر والوں نے مجھے دو درہم کا آٹا خریدنے بھیجا تھا وہ درہم گم ہوگئے ہیں۔رسول کریم ؐ نے فوراً اپنے دو درہم اسکو دے دیئے۔جانے لگے تو وہ پھر رو پڑی۔آپؐ نے پوچھا کہ اب کیوں روتی ہو؟ وہ کہنے لگی مجھے ڈر ہے کہ گھر والے مجھے تاخیرہوجانے کے سبب ماریں گے۔رسول کریم ؐ اس کے ساتھ ہولئے اور اسکے مالکوں کو جاکر کہا کہ اس لونڈی کو ڈر تھا کہ تم لوگ اسے مارو گے۔ اس کا مالک کہنے لگا یا رسول اللہؐ! آپؐ کے قدم رنجہ فرمانے کی وجہ سے میں آج اسے آزاد کرتا ہوں۔ رسول کریم ؐ نے اُسے نیک انجام کی بشارت دی اور فرمایا’’اللہ نے ہمارے دس درہموں میں کتنی برکت ڈالی کہ ایک قمیص انصاری کو ملا۔ایک قمیص خدا کے نبیؐ کو عطا ہوا اور ایک غلام بھی اس میں آزاد ہوگیا۔ میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ سب کچھ عطا فرمایا۔‘‘(ہیثمی)22
ایک غریب شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میں تو مارا گیا۔رمضان کے روزے میں بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کربیٹھا ہوں۔آپؐ نے فرمایا ایک گردن آزادکردو۔کہنے لگا،مجھے اس کی کہاں توفیق؟فرمایا پھر مسلسل دو مہینے کے روزے رکھو۔ کہنے لگا مجھے اس کی بھی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادو۔اس نے کہا یہ سب میری استطاعت سے باہر ہے۔دریں اثناء کھجوروں کی ایک ٹوکری رسول اللہؐؐ کی خدمت میں پیش کی گئی۔آپؐ نے اس مفلوک الحال سائل کو بلوایا اور وہ ٹوکری اس کے حوالے کر کے فرمایا یہ صدقہ کردو۔وہ بولا مدینہ کی بستی میں ہم سے غریب اور کون ہے جس پر یہ صدقہ کروں۔ رسول کریمؐ اس کے اس جواب پر خوب مسکرائے اور فرمایا اچھا پھر یہ کھجوریں خود ہی لے لو۔(بخاری)23
منذر بن جریرؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہؐ کے پاس تھے،دن کا پہلا پہر تھا۔حضورؐ کی خدمت میں ایک غریب قوم کے کچھ لوگ آئے جو ننگے پائوں اور ننگے بدن تھے۔انہوں نے تلواریں سونتی ہوئی تھیںاور ان کا تعلق مضر قبیلہ سے تھا۔ان کی بھوک اور افلاس کی حالت دیکھ کر رسول اللہؐ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔حضورؐ گھر تشریف لے گئے پھر باہر آکر بلالؓ سے کہا کہ ظہرکی اذان دو۔ آپؐ نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایااور ان کیلئے صدقہ کی تحریک فرمائی۔ لوگوں نے دینار، درھم ،کپڑے ، جواورکھجور وغیرہ صدقہ کیایہاں تک کہ غلے کے دو ڈھیر جمع ہوگئے۔ میں نے دیکھا رسولؐ اللہ کا چہرہ خوشی سے ایسے دمک اُٹھا جیسے سونے کی ڈلیا ہو۔ (احمد)24
نبی کریمؐ غرباء کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہر کمزور اور ضعیف آدمی جنتی ہے۔(بخاری25)آپؐ غربا ء کو کھانے وغیرہ کی دعوتوں میں بلانے کی تحریک کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ دعوت بہت بری ہے جس میں صرف امراء کو بلایا جائے اور غربا ء کو شامل نہ کیا جائے۔ (بخاری)26
خدمت خلق کے مواقع کی تلاش
رسول کریمؐ مخلوق خدا کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ ابوسعیدخدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام کے پاس سے گزرے جو ایک بکری کی کھال اتاررہا تھا۔حضورؐ نے اسے فرمایا تم ایک طرف ہوجائو میں تمہیں کھال اُتارنے کا طریقہ بتاتا ہوں ۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بازو جلد اور گوشت کے درمیان داخل کیا اور اسکو دبایا یہاں تک کہ بازو کندھے تک کھال کے اندر چلا گیا۔پھر آپؐ نے اس غلام سے فرمایا کہ اے بچے!کھال اس طرح اتارتے ہیں۔تم بھی ایسے ہی کرو۔ پھر آپؐ تشریف لے گئے اور لوگوں کو جاکر نماز پڑھائی اور دوبارہ وضو ء نہیں کیا۔(ماجہ)27
غرباء کے رشتہ ناطہ میں تعاون
آنحضورؐہر طبقہ کے لوگوں کی ضرورت پر نظر رکھتے اور حاجت روائی کی کوشش فرماتے۔غرباء کی شادی وغیرہ کا بندوبست ذاتی دلچسپی سے کروادیتے تھے۔
حضرت ربیعۃ الاسلمیؓ کہتے ہیں میں رسولؐ اللہ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ ربیعہؓ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! خدا کی قسم میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ایک تو مجھے بیوی کے نان و نفقہ کی توفیق نہیں اور دوسرے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اورمصروفیت مجھے آپؐ کی خدمت سے محروم کردے۔ اس وقت آپؐ خاموش ہوگئے ۔میں آپؐ کی خدمت کی توفیق پاتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد پھر فرمانے لگے ربیعہؓ! شادی کیوں نہیں کرلیتے۔میں نے وہی پہلے والا جواب دیا مگر اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا اور آخرت کے مصالح مجھ سے بہتر جانتے ہیں اس لئے اب اگرآئندہ مجھ سے شادی کے بارہ میں پوچھا تو میں کہہ دوں گا کہ حضور کا حکم سر آنکھو ں پر۔ اگلی مرتبہ جب حضورؐ نے شادی کے بارہ میں تحریک فرمائی تو میں نے کہہ دیا کہ جیسے حضورؐ کا حکم ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم انصار کے فلاں قبیلہ کے پاس جائو اور انہیں کہو کہ رسول اللہ ؐنے مجھے آپؐ کے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فلاں لڑکی کی مجھ سے شادی کردیں۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ؐ اور آپؐ کے نمائندے کو خوش آمدید! خدا کی قسم رسول خداؐ کا نمائندہ اپنی حاجت پوری کئے بغیر واپس نہیں لوٹے گا۔ انہوں نے میری شادی کردی اور بڑی محبت سے پیش آئے۔ کوئی تصدیق وغیرہ طلب نہ کی کہ واقعی تمہیں رسول اللہؐنے ہی بھیجا ہے۔ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں واپس لوٹا تو غمزدہ سا تھا۔آپؐ نے فرمایا ربیعہؓ تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہؐ میں ایک معزز قوم کے پا س گیا ۔انہوں نے میری شادی کی۔ عزت افزائی اور محبت کا سلوک کیا اور مجھ سے کوئی ثبوت تک نہ مانگا۔اِدھر حال یہ ہے کہ میرے پاس تو مہر ادا کرنے کو بھی پیسے نہیں۔آنحضورؐ نے بُریدہؓ اسلمی کو حکم دیا کہ حق مہر کے لئے گٹھلی برابرسونا جمع کرو۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی۔ آنحضورؐ نے فرمایا اب ان لوگوں کے پاس جاکر یہ مہر ادا کردو۔میں نے ایسا ہی کیا ۔ انہوں نے بہت خوشی سے اسے قبول کیا اور کہا کہ یہ رقم بہت خوب ہے۔ میں پھر رسولؐ اللہ کی خدمت میں پریشان ہوکر لوٹا۔ آپؐ نے فرمایا ربیعہؓ اب کیوں پریشان ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس خاندان جیسے معزز لوگ میں نے نہیں دیکھے۔میں نے انہیں جو مہر دیا انہوں نے خوشی سے قبول کیا اور مجھ سے احسان کا سلوک کیا مگر میرے پاس اب ولیمے کی توفیق نہیں۔ آپؐ نے پھر بریدہؓ سے فرمایا اس کے لئے بکری کا انتظام کرو۔انہوں نے میرے لئے ایک بڑے صحت مند مینڈھے کا انتظام کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت عائشہ ؓ کے پاس جائو اورانہیں کہو کہ غلے کا ٹوکرا دے دیں۔میں نے حسبِ ارشاد جاکر عرض کردیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ ٹوکرا ہے جس میں (نو صاع تقریباً 30کلو)جو ہیں۔خدا کی قسم! ہمارے گھر میں فی الوقت اس کے علاوہ اور کوئی غلہ نہیں،بس لے جائو۔میں یہ لے کر رسو ل اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عائشہؓ نے جو کہا تھا وہ بھی عرض کردیا۔آپؐ نے فرمایا اب یہ غلہ اپنے سسرال لے جائو اور انہیں کہو کہ کل اس سے روٹی وغیرہ بنائیں۔میں غلہ اور مینڈھا لیکر گیا اور میرے ساتھ اسلم قبیلے کے کچھ لوگ بھی تھے۔ ہم نے انہیں کھانا تیار کرنے کے لئے کہا۔ وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کروا دیں گے، جانور آپ لوگ ذبح کرلیں۔چنانچہ ہم نے گوشت تیار کر کے پکایا اور اگلی صبح میں نے گوشت روٹی سے ولیمہ کیا اور رسول اللہؐ کو بھی دعوت دی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضورؐ نے مجھے کچھ زمین عطا فرمادی۔ کچھ زمین حضرت ابوبکر صدیق ؓنے دے دی اور فراخی ہوگئی۔ (احمد)28
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غریب صحابی جلبیبؓ کے رشتہ کا پیغام ایک انصاری لڑکی کے والد کوبھجوایا۔ وہ کہنے لگے میں اس کی ماں سے مشورہ کروںگا۔ اس آدمی نے جب بیوی سے مشورہ کیا تو وہ کہنے لگی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم جلبیبؓ جیسے غریب آدمی کو رشتہ دے دیںحالانکہ اس سے پہلے ہم اس سے بہتر رشتے ردّکر چکے ہیں۔ لڑکی پردے میں سن رہی تھی۔ کہنے لگی کیا تم رسول اللہؐ کے حکم کو موڑو گے، اگر حضور راضی ہیں تو نکاح کردو۔چنانچہ اس کے والد نے جاکر رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ بچی راضی ہے اس لئے ہم بھی راضی ہیں۔ یوں آپؐ نے جلبیبؓ کی شادی کروادی۔یہ جلبیبؓ بعد میں ایک مہم میں شہید ہوگئے۔(احمد)29
شادی پر تحفہ
نبی کریمؐ کبھی کسی سائل کو ردّ نہ فرماتے اور حسبِ توفیق وموقع جو میّسرہوتاعطافرماتے۔
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! کہ میں اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپؐ مجھے کچھ عطا فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سردست تو میرے پاس کچھ نہیں البتہ کل ایک کشادہ منہ والی شیشی اور ایک درخت کی شاخ بھی لے آنا اور تمہارے میرے درمیان ملاقات کے وقت کی نشانی یہ ہے کہ جب میرے دروازے کا ایک کواڑ کھلا ہو اس وقت آجانا۔
اگلے روز وہ شخص یہ دونوں چیزیں لے کرآیا۔ نبی کریمؐ اپنے بازئوں سے پسینہ جمع کر کے اس شیشی میں اکٹھا کرنے لگے یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ یہ لے جائو اور اپنی بیٹی سے کہنا کہ جب خوشبو لگانا چاہے تو یہ شاخ شیشی میں ڈال کر اس سے خوشبو استعمال کرلے۔ چنانچہ وہ گھرانہ جب یہ خوشبو استعمال کرتا تو اہل مدینہ اسے بہترین خوشبو قراردیتے۔ یہاں تک کہ اس گھرانے کا نام ہی بہترین خوشبووالوں کا گھر پڑگیا۔(ھیثمی)30
عیادت مریض
رسول کریمؐ نے ایک دفعہ ایک حدیث قدسی بیان فرمائی جس سے خلقِ خدا سے ہمدردی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ فرمایا’’اللہ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا اے میرے رب میںکیسے تیری عیادت کرتا توتو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ اللہ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمارتھا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس موجود پاتے۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ کہے گا اے میرے ربّ میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا اور تو تو ربّ العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ دیا۔ بندہ کہے گا میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو ربّ العالمین ہے۔ اللہ فرمائے گا تجھ سے میرے ایک بندے نے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا۔(مسلم)31
رسول کریمؐ اپنے بیمار صحابہ کی خود عیادت فرماتے تھے اور ان کے لئے دعا کے علاوہ بسااوقات مناسب دوا بھی تجویز فرماتے تھے۔(ابن ماجہ)32
آپ ؐ فرماتے تھے کہ ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے۔بعض بیماریوں کا علاج ِروحانی دعا وغیرہ سے فرماتے تھے۔ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور میری طرف توجہ فرمائی تو فرمایا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟عرض کیا ہاں۔فرمایا نماز پڑھو۔اس میں شفاء ہے۔ (ابن ماجہ)33
اسی طرح آپؐ دم اور دعا سے بھی علاج فرماتے تھے۔اپنی بیماری کے دنوںمیں قرآن کی آخری دو سورتیں(معوّذتین) پڑھتے تھے۔اس طرح فاتحہ کی دعا سے بھی بسااوقات علاج فرمایا۔(بخاری)34
رسول کریمؐ خدمت خلق کے کاموں میں اپنے اصحاب کا جائزہ لیتے رہتے تھے تاکہ اُن میں یہ جذبہ بڑھے۔ایک روز آپؐ نے صحابہ سے پوچھا آج تم میں سے کسی نے روزہ رکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اثبات میں جواب دیا۔آپؐ نے فرمایا آج تم میں سے مریض کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے۔ آپؐ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کے جنازہ میں کسی نے شرکت کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں نے۔ رسول کریمؐ نے پوچھا آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا انہیں یہ سعادت بھی ملی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا یہ سب باتیں جس نے ایک دن میں جمع کرلیں وہ جنت میں داخل ہوا۔(مسلم)35
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ کسی مریض کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ ؐکے پاس لایا جاتا تو آپؐ یہ دعا پڑھتے’’اَذْھِبِ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اِشْفِ وَاَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَائَ اِلَّا شِفَائُ کَ ، شِفَائً کَامِلًا لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا۔
ترجمہ:اے لوگوں کے رب! بیماری دورفرمادے۔ تو ہی شفا عطاکرنے والاہے۔ شفاء دے دے تیری شفاء کے سوا کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفاء عطاکر جو کوئی بیماری باقی نہ چھوڑے۔(بخاری)36
حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کوئی بھی مسلمان کسی ایسے مریض کی عیادت کرے(جس کی موت کا وقت نہ آیا ہو) وہ سات مرتبہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے شفادے دے گا۔اَسْأَلُ اللّٰہَ العَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ العَظِیِمِ اَنْ یَشْفِیَکَ۔(ابودائود37)سب سے بڑا اللہ ہے دعاکرتا ہوں جو عظیم عرش کا رب ہے کہ وہ آپ کو شفاء عطاکرے۔
رسول کریمؐ اپنے صحابہ کوبھی تلقین فرماتے تھے کہ بیمار کی عیادت کو جایا کرو یہ ایک مسلمان بھائی کا حق ہے۔ آپؐ نے صرف انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ یاحضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے بزرگ صحابہ کی ہی عیادت نہیں فرمائی بلکہ نوجوانوں، بچوں، بدّوؤں کی عیادت کیلئے بھی بنفس نفیس تشریف لے جاتے رہے۔ اپنے چچا ابو طالب اور یہودی غلام کی بھی عیادت فرمائی۔جابر بن عبداللہؓ ایک نوجوان صحابی تھے جن کے والد اُحدمیں شہید ہوگئے تھے۔انہیں یہ بات ہمیشہ یاد رہی کہ’’ ایک دفعہ میں بیمار ہوا۔ غشی کی حالت تھی۔ رسول اللہؐ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ پیدل میری عیادت کے لئے تشریف لائے تھے۔‘‘(بخاری)38
رسول کریم ؐبیمار کی تکلیف کا خاص خیال رکھتے اور علاج تجویز فرماتے تھے۔حضرت کعب بن عُجرہ ؓسفر حج میں آپؐ کے ساتھ شریک تھے۔ ان کے بال لمبے تھے اور سر میں جوئیں بہت پڑگئی تھیں۔حالت احرام میں سربھی نہیں منڈواسکتے تھے۔نبی کریمؐ ان کے پاس سے گزرے تو ان کی تکلیف دیکھ کر فرمایا کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟میں نے عرض کیا جی ہاں۔آپؐ نے اسی وقت حجام کو بلایا جس نے عُجرہؓ کے سرکے بال مونڈ دیئے۔ پھر فرمایا’’اب احرام میں بال مونڈوانے کا کفارہ ادا کردو۔‘‘(بخاری)39
رسول کریمؐ شہد پسند کرتے اوربطور دوابھی تجویز فرماتے تھے۔ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے بھائی کے پیٹ کی کسی بیماری کاذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا شہدپلائو۔ اس نے پلایا اور آکر بتایا کہ پیٹ تو مزید خراب ہوگیا ہے۔آپؐ نے فرمایا اور شہد پلائو۔اس نے پھر پلایا اور بتایا کہ تکلیف بڑھ گئی ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ اور پلائو تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے (اور خدا کا کلام سچا ہے کہ شہد میں شفا ہے)۔چنانچہ اس کے بعد اسی شہد سے اس کو افاقہ ہوگیا۔(بخاری)40
رسول کریمؐ نے اونٹ کے دو دھ سے بھی بعض بیماریوں کا علاج فرمایا۔ کلونجی کے بارہ میں فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج اس میں ہے سوائے موت کے۔(بخاری)41
اس طرح فرمایاہر روز صبح سات کھجوریں ناشتہ میں استعمال کرنے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔(بخاری)42
آپؐ تیز بخاروغیرہ کا فوری علاج پانی سے بدن ٹھنڈا کرکے فرماتے اورفرماتے تھے کہ بخار بھی جہنم کی آگ کی طرح ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کرو۔(بخاری)43
ایک دفعہ رسول کریم ؐایک مریض کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ اس سے پوچھا تمہیں کچھ کھانے کی خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ گندم کی روٹی کو دل کرتا ہے۔آپؐ نے اسی وقت ارشاد فرمایا کہ جس کسی کے گھر گندم کی روٹی ہو وہ اپنے اس بیمار بھائی کے لئے بھیج دے۔پھر حضورؐ نے فرمایا جب تمہارا مریض کسی چیز کا تقاضا کرے تووہ اسے کھلایا کرو۔
ایک اور مریض نے حضورؐ کے استفسار پرعرض کیا کہ مجھے دودھ شکر اور آٹے سے پکی ہوئی روٹی چاہئے۔حضورؐ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے ۔چنانچہ اسے ایسی روٹی مہیاکی گئی۔(ابن ماجہ)44
آنحضورؐ مریض کی مناسب تیمارداری اوراُسے اچھی خوراک مہیا کرنے کی ہدایت فرماتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ بیماری کے دنوں میں ایک قسم کا دلیہ جس میں گوشت ملا ہوتا تھا کھانے کی ہدایت کرتے اور فرماتے تھے کہ اس سے طاقت بحال ہوتی ہے۔ (بخاری45)اسی طرح آپؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا تو آپؐ کے حکم سے مریض کے دلیہ گوشت کے لئے مستقل ایک ہنڈیا چولہے پرچڑھی رہتی یہاں تک کہ وہ آدمی اچھا ہوجائے۔(ابن ماجہ)46
الغرض نبی کریمؐ نے ہمدردیٔ خلق میں بہترین عملی نمونہ قائم کرکے دکھایا۔اَللّّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الاُمَّۃِ ط
حوالہ جات
1
مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدین النصیحۃ
2
بخاری کتاب العلم باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب
3
بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون
4
مسند احمد جلد2ص215مطبوعہ بیروت
5
المعجم الکبیرلطبرانی جلد12ص453مطبع الوطن العربی
6
الترغیب والترھیب للمنذری جلد3ص394احیاء التراث بیروت
7
بخاری کتاب المظالم باب لایظلم المسلم المسلم :2262
8
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جز1ص141-142مصطفی البابی الحلبی
9
بخاری بدء الوحی
10
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد2ص123-124 دارالفکربیروت
11
ابن ماجہ کتاب المناسک باب الدعاء بعرفۃ:3004
12
ابن ماجہ کتا ب المناسک باب دخول الکعبہ
13
بخاری کتاب الصلوۃ باب النوم قبل العشاء
14
مسلم کتاب الطہارۃ باب السواک:370
15
بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوٰۃ عند بکاء الصبی
16
بخاری کتاب الاضاحی باب ضحیۃ النبی ﷺ بکبشین
17
سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر
18
بخاری کتاب الادب باب تعاون المؤمنین
19
ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب الرجل یخرج من مالہ
20
مسند احمد بن حنبل جلد3ص58مطبوعہ بیروت
21
مسلم کتاب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلاۃ:836
22
مجمع الزوائدلھیثمی جلد ۹ص14مطبوعہ بیروت
23
بخاری کتاب الادب باب التبسمّ والضحک
24
مسند احمد جلد4ص359مطبوعہ بیروت
25
بخاری کتاب الادب باب الکبر
26
بخاری کتاب النکاح باب من ترک الدعوۃ فقد عصی:4779
27
ابن ماجہ کتاب الذبائح باب السلخ
28
مسند احمد جلد 4ص58مطبوعہ مصر
29
مسند احمد جلد 3ص136مطبوعہ بیروت
30
مجمع الزوائد للھیثمی جلد8ص283 بیروت
31
مسلم کتاب البروالصلۃ والآداب باب فضل عیادۃ المریض:4661
32
ابن ماجہ کتاب الطب باب الصلوۃ شفاء
33
ابن ماجہ کتاب الطب باب الصلوۃ شفاء
34
بخاری کتاب المرضیٰ باب الرقیٰ بالقرآن و المعوّذتین
35
مسلم کتاب الفضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکرؓ
36
بخاری کتاب المرضی باب دعائِ العائدللمریض
37
ابوداؤد کتاب الجنائزباب دعاء للمریض عندالعیادۃ
38
بخاری کتاب المرضیٰ باب عیادۃ المغمیٰ علیہ
39
بخاری کتاب المرضیٰ باب قول المریض انی وجع
40
بخاری کتاب الطب باب دوا ء المبطون
41
بخاری کتاب المرضیٰ باب الحبۃ السوداء
42
بخاری کتاب المرضیٰ و الطب باب الدواء بالعجوۃ
43
بخاری کتاب المرضیٰ باب الحمیّٰ من فیح جھنم
44
ابن ماجہ کتاب الطب باب المریض یشتھی الشیٔ
45
بخاری کتاب المرضیٰ باب التلبینۃ
46
ابن ماجہ کتاب الطب باب التلبینۃ

رسول کریم ؐکی رأفت و شفقت
قرآن شریف میں نبی کریم ؐ کے پاکیزہ اخلاق کا نقشہ یہ پیش کیا گیا ہے۔ لَقَدْجَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(سورۃ التوبہ 128)
یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر گراں گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا بے حد خواہش مند ہے اور مومنوں کے ساتھ انتہائی نرمی و رأفت سے پیش آنے والا اور محبت و پیار کا سلوک کرنے والا ہے۔
اس آیت میں رسول کریمؐ کو بطور خاص اللہ تعالیٰ کی دو صفات رؤف اوررحیم کا مظہر قراردیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ انتہائی رافت اور نرمی کا سلوک کرنے والے اور مخلوق خدا سے بے حد محبت اور پیار کرنے والے۔ چنانچہ آپؐ ہمیشہ نرمی ،آسانی اور پیار کی تعلیم دیتے تھے۔
نبی کریمؐ کی رأفت و رحمت اپنی مثال آپ تھی۔دراصل آپؐ کی محبت یا نفرت خدا کی خاطرہوا کرتی تھی اور خدا کا حکم آپؐ کو یہ تھاوہ لوگ جو صبح و شام اللہ کو یاد کرتے ہیں ان کو مت دھتکارنا۔وہ خدا کی رضا چاہتے ہیں۔(سورۃالانعام:53)
غریب صحابہ سے شفقت
رسول کریم ؐ ہمیشہ دین میں سختی کو ناپسندفرماتے تھے۔سفر اور بیماری وغیرہ میں جو رخصتیں نماز اور روزے کی عبادات میں ہیں، ان سے بعض لوگ دین پر شدّت سے قائم ہونے کے خیال سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے، مگر نبی کریمؐ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ کو یہ بات اسی طرح بہت پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے جس طرح اسے ناپسند ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے۔(احمد)1
ایک دفعہ حمزہ بن عمرو اسلمی ؓنے عرض کیاکہ یا رسول اللہ ؐمجھے سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت ہے میرے لئے کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ اللہ کی رخصت ہے جو شخص اسے اختیار کرے تو یہ بہت عمدہ ہے۔لیکن اگر کوئی روزہ رکھنا پسندکرے تو اس پر گناہ نہیں ہے۔(مسلم)2
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میںغریب مہاجرین کی ایک جماعت میں بیٹھاتھاجن پرتَن کے پورے کپڑے بھی نہیںتھے۔ ایک قاری ہمیں قرآن سنا رہا تھا۔اتنے میں رسول اللہ ؐ تشریف لائے۔آپؐ ہمارے پاس کھڑے ہوئے تو قاری خاموش ہوگیا۔آپؐ نے ہمیں سلا م کیا اور فرمایا تم کیا کر رہے ہو؟ہم نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! یہ قاری ہمیں قرآن شریف سنا رہے تھے۔حضورؐ نے فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پید اکئے کہ جن کے ساتھ مجھے مل بیٹھنے اور حسن معاشرت کا حکم دیا گیا ہے۔پھر آپؐ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے اور فرمانے لگے حلقہ بنا لوتاکہ سب کے چہرے سامنے ہوں۔ ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں میرا خیال ہے حضورؐ نے میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا ۔آپؐ فرمانے لگے اے مہاجرین میں سے مفلسوں کی جماعت! تمہیں قیامت کے دن کامل نور کی بشارت ہو۔تم جنت میں امراء سے آدھا دن پہلے داخل ہوگے اور یہ آدھا دن بھی پانچ سوسال کے برابر ہے۔(ابوداؤد)3
حضرت انس بن مالک ؓ خادم رسولؐ نے ایک مجنون عورت کے ساتھ رسول کریمؐ کی شفقت و محبت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے کہ مدینہ میں ایک پگلی سی عورت رہتی تھی۔ جس کا نام اُم زُفر تھا، حضرت خدیجہؓ کی خادمہ خاص رہ چکی تھی( بعد میں عقل میں کچھ فتور پڑگیاتھا)۔ وہ ایک روز حضورؐ کے پاس آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپؐ سے ایک ضروری کام ہے ۔علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ ؐنے کس وسعت حوصلہ سے اس کمزور اور دیوانی عورت کو یہ جواب دیا کہ اے فلاں کی ماں ! مدینہ کے جس راستہ یا گلی میں کہو بیٹھ جائو اور میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر بات سنوں گا اور تمہارا کام کردونگا۔چنانچہ وہ عورت ایک جگہ جاکر بیٹھ گئی ۔حضورؐ بھی اس کے ساتھ بیٹھ رہے۔ اس عورت نے اپنی حاجت بیان کی اور آپؐ اس وقت تک اٹھے نہیں جب تک اس عورت کی تسلی نہیں ہوگئی۔(ابن ماجہ)4
غلاموں، لونڈیوں کا جو حال اُس زمانہ میں تھا تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اسے خوب جانتے ہیں۔ اُن سے جانوروں کا سا سلوک ہوتا تھا۔ ایک حبشی لونڈی مدینہ میں رہتی تھی اسے مرگی کا دورہ پڑتا تھا۔ایک روز بے چاری اپنی بیماری کی شکایت لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ حضورؐ مجھے جب مرگی کادورہ پڑتاہے تو میں بے پرد ہوجاتی ہوں۔آپؐ میرے لئے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس تکلیف اور بے پردگی سے بچائے۔آپؐ نے اس حبشی خاتون کی بہت دلداری فرمائی۔ کچھ دیر تسلی کی باتیں اس سے کرتے رہے پھرفرمانے لگے اگر تم چاہو اور صبر کرسکو توتمہیں اس کے بدلہ جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ معجزانہ طور پر تمہیں اس بیماری سے شفا دیدے۔وہ کہنے لگی حضورؐ! میں صبر کرتی ہوںلیکن آپؐ یہ دعا ضرور کریں کہ میں مرگی کی حالت میں بے پرد گی سے بچ جائوں۔حضرت ابن عباسؓ لوگوں کو یہ لونڈی دکھا کر کہتے تھے کیا میں تمہیںاہل جنت میں سے ایک عورت نہ دکھائوں۔ (عیاض) 5
غریبوں سے دوستی
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کا نام زاہرؓ تھا وہ نبی کریمؐ کو دیہات کی چیزیں تحفہ میں لاکر دیا کرتا تھااور نبی کریمؐ اسے انعام و اکرام سے نوازتے اور فرمایا کرتے تھے کہ زاہرؓ ہمارا دیہاتی اور ہم اس کے شہری ہیں ۔ حضورؐ اس سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے۔وہ شخص بہت سادہ بھدّی شکل کا تھا۔ایک دفعہ حضور ؐ نے اس کو دیکھا کہ وہ بازار میں اپنا سودا بیچ رہا ہے۔ آپؐ نے پیچھے سے جاکر باہیں اس کی گردن میں ڈال دیں۔وہ آپؐ کو دیکھ نہ سکا۔کہنے لگا اے شخص ! مجھے چھوڑ دو۔پھر جواس نے مڑ کر دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ حضورؐ ہیں تو وہ خوشی سے اپنی پُشت حضورؐ کے جسم مبارک سے رگڑنے لگا۔حضورؐ فرمانے لگے میرا یہ غلام کون خرید یگا وہ بولا اے اللہ کے رسولؐ !پھر تو آپؐ مجھے بہت ہی بے کار سودا پائیںگے۔نبی کریم ؐ نے فرمایا لیکن اللہ کے نزدیک تو تم گھاٹے کا سودا نہیںہو۔ تمہاری بڑی قدرو قیمت ہے۔(احمد)6
بدوؤں سے سلوک
یہ تو غرباء اور فقراء صحابہ کے ساتھ آنحضورؐکا شفقت و رأفت کا تعلق تھا۔ مدینہ کے اردگرد رہنے والے اجڈبدوئوں اور درشت رُو اعراب سے بھی آپؐ ہمیشہ رأفت کا سلوک فرماتے جن کے اخلاق و عادات کے بارہ میں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’با دیہ نشین کفر اور منافقت میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور زیادہ رجحان رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا اس کی حدود کو نہ پہچانیں اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ التوبہ:97)
اکثر و بیشترجنگلی بدو آکر عجیب وغریب سوال آپؐ کی مجلس میں کرتے ہیں اور آپؐ ہیں کہ نرمی سے جواب دیتے چلے جارہے ہیں۔آپؐ صحابہ سے محوگفتگو ہیں۔ ایک بدو آکر مخل ہوتاہے اور درمیان میں ٹوک کر سوال کرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ اب جسے علم دین کی سوجھ بوجھ ہی نہیں اسے انسان اسکا کیا جواب دے اور کیسے سمجھائے۔حضورؐ اپنی بات جاری رکھتے ہیںاور اصحاب رسول چہ میگوئیاں کررہے ہیں کہ شاید حضورؐ نے اس کا سوال سناہی نہیں اس لئے جواباً خاموش ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حضورؐ نے اس کا سوال ہی پسند نہیں فرمایا اس لئے جواب نہیں دے رہے۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد حضورؐ کو اس بدّو سائل کا خیال آتا ہے پوچھتے ہیں قیامت کی بابت پوچھنے والا کہاں ہے؟وہ عرض کرتا ہے اے خدا کے رسولؐ! میں یہ بیٹھا ہوں۔آپؐ نے فرمایا! جب امانت ضائع ہوجائے گی تو اس وقت قیامت کا انتظار کرنا۔ وہ بدّو یہ جواب پاکر اور سوال کردیتا ہے کہ جناب! امانت کے ضائع ہونے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔آپ ؐازراہ شفقت پھر اسے سمجھانے لگ جاتے ہیں کہ امانت کے ضائع ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حکومت نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائے تو سمجھنا کہ یہ قیامت کی علامت ہے۔(بخاری)7
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ ایک بدو آیااور آپؐ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا میرا چھوٹا سا کام ہے ایسا نہ ہوکہ میں بھول جائوں آپؐ میرے ساتھ مسجد سے باہر تشریف لاکر پہلے میرا کام کردیں۔آپؐ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور اس کا کام انجام دے کرتشریف لائے اور نماز پڑھائی۔(ابودائود)8
نبی کریم ﷺ دینی مصروفیات کے باوجود باہر سے مدینہ میں آئے ہوئے بدّوؤں کی تالیف قلبی کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے۔ایک دفعہ ایک اعرابی بیمارہوگیا۔ آپؐ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اُسے تسلّی دلاتے ہوئے دعائیہ انداز میں فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو جلد بیماری دور ہوجائے گی اور ظاہری و باطنی صفائی ہوجائے گی۔اس نے مایوسی سے کہا آپؐ یہ کہتے ہیں مجھے تو ایسا بخار لگتا ہے جو ایک بڈھے میں جوش مار رہا ہے اور اسے قبر کی طرف لے جارہا ہے۔رسول کریم ؐ نے فرمایا اگر تمہارا یہی خیال ہے تو پھر یہی سہی۔(بخاری)9
حضورؐ کی شفقت تو یہ تھی کہ اعرابی کی عیادت کے لئے بنفس نفیس تشریف لے گئے پھر اُسے تسلّی دلائی اور اُس کے حق میںدعا کی، مگر اس نے ان تمام باتوں کے باوجود ادب رسولؐ کا لحاظ نہ کیا۔ پھر بھی آپؐ نے ایک بیمار اور بوڑھے سے تکرار مناسب نہیں سمجھی اور اس کی کہی بات کا لحاظ کرتے ہوئے اس پر خاموشی فرمائی ۔
ایک دفعہ نبی کریمؐ توہم پرستی کوردّ کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ دراصل کوئی بیماری اپنی ذات میں متعدی نہیں ہوتی۔اس پر ایک اعرابی بول پڑا کہ میرے اونٹ جو ہرن کی طرح صحت مندہوتے ہیں کسی خارش زدہ اونٹ کے قریب آ نے سے انہیں کیوںخارش ہوجاتی ہے؟ نبی کریم ؐ نے کیسے پیار اور حکمت سے اسے سمجھایا کہ اگر تمہاری بات ہی درست ہے تو پھر یہ بتائو کہ سب سے پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی تھی؟(بخاری10)اور یوں ایک بدّو کو بھی دوران گفتگو سوال کرنے پر آپؐ نے جھڑکا نہیں حقیر نہیں سمجھابلکہ معقولیّت سے قائل کرکے خاموش کیا۔
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک بدّو نے رسول اللہؐ کو ایک اونٹنی تحفہ دی۔ حضور ؐ نے اس کے عوض اس کوچھ اونٹنیاں دیںمگر وہ پھر بھی ناراض تھا کہ مجھے کم دیا ہے۔ اس پر آنحضرتؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک اونٹنی تحفہ دی ہے اور جیسے میں اپنے گھر کے لوگوں کوپہچانتا ہوں اُسی طرح خوب پہچانتا ہوں کہ یہ میری ہی اونٹنی ہے ۔یہ اونٹنی فلاں دن مجھ سے گم ہوئی تھی جو اَب اس نے مجھے تحفہ دی ہے۔میں نے اس کے بدلے اس کو چھ اونٹنیاں دی ہیں اور یہ ابھی بھی ناراض ہے۔آئندہ سے میں اعلان کرتاہوں کہ میں کسی کا ایسا تحفہ قبول نہیں کرونگا۔ہاں قریش،انصار،بنو ثقیف یادوس قبیلہ کے مخلصین کا تحفہ ردّ نہیں کرونگا۔ (احمد)11
حبشی کی دلداری
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک حبشی رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کرنے لگا۔حضورؐ نے اسے فرمایا کہ سوال کرکے مسائل سمجھ لو۔وہ کہنے لگاکہ اے اللہ کے رسولؐ آپؐ نے سفید لوگوں کو ہم کالے لوگوں پر شکل و صورت اور رنگ کے لحاظ سے بھی فضیلت دی ہے اور نبوت کے لحاظ سے بھی۔اگر میں آپؐ کی طرح ان چیزوں پر ایمان لائوں جن پر آپؐ ایمان لائے ہیں اور جس طرح آپؐ عمل کرتے ہیں میں بھی عمل کروں تو کیا مجھے بھی جنت میں آپؐ کا ساتھ نصیب ہوسکتا ہے؟آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔پھر نبی کریمؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت میں ایک سیاہ حبشی کے نور کی سفیدی ایک ہزار سال کی مسافت سے بھی نظر آئے گی۔پھر فرمایا جس شخص نے کلمہ لَااِلٰہَ الِاَّ اللّٰہُ پڑھ لیا اللہ کے ہاں اسکے لئے اس کلمے کی وجہ سے ایک عہدلکھا جاتا ہے۔جو سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ پڑھتا ہے اس کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔وہ شخص کہنے لگا یا رسول اللہؐ ان باتوں کے باوجود پھر ہم کیسے ہلاک ہوجائیں گے؟رسول کریمؐ نے فرمایاایک شخص قیامت کے دن ایک عمل پیش کرے گا کہ اگر اسے ایک پہاڑ پر بھی رکھا جائے تو پہاڑ کو اسے اٹھانا بوجھل معلوم ہو ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتوںمیں سے ایک نعمت اس عمل پر بھاری ہوگی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا دامن پھیلاکر اسے زیادہ اجر عطافرمادے۔ پھر حضورؐ نے سورۃالدھرکی ابتدائی اکیس آیات کی تلاوت فرمائی۔ جن میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہے۔اس پر وہ حبشی کہنے لگا یارسولؐ اللہ! کیا میری آنکھیں بھی جنت کی نعمتوں کو اسی طرح دیکھیں گی جس طرح آپؐ کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔نبی کریم ؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔ اس پر وہ حبشی بے اختیار رونے لگااوراتنا رویا کہ اس کی روح پروا ز کرگئی۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا کہ اس حبشی کی تدفین کے وقت نبی کریم ؐ اسے خود اپنے ہاتھوں سے قبرمیں رکھ رہے تھے۔(ہیثمی)12
رسول کریم ﷺ احکام شریعت کے نفاذ کی سخت پابندی فرماتے تھے۔ لیکن نفاذ شریعت میں حسب حالات حتی الوسع نرمی اور سہولت کو مدنظررکھتے تھے کیونکہ شریعت کا یہی منشا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ العُسْرَ(البقرہ:186)کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ دین آسانی کا نام ہے۔ اس لئے آسانی پید اکیا کرو مشکل پیدا نہ کرو۔اسی طرح امت کو ہدایت فرمائی کہ جس حد تک ممکن ہومسلمانوں کو جرائم کی سزا سے بچائو اگر کسی کے لئے اس سزا سے بچنے کی کوئی صورت ہو تو اسے چھوڑ دو کیونکہ امام کا معافی دینے میں غلطی کرنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے۔(ترمذی)13
چنانچہ آپؐ معمولی شبہ کی صورت میں بھی حد کے نفاذ سے منع فرماتے تے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر زناکا اعتراف کیا۔ پہلے تو آپ نے اس سے اعراض فرمایا جب اس نے چار مرتبہ اقرارکرتے ہوئے کہا کہ میں نے بدکاری کی ہے توآپؐ نے فرمایا کہ تمہیں جنون تو نہیں؟ اس نے کہا نہیں چنانچہ وہ شخص رجم کیا گیا ۔جب اسے پتھر پڑے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اسے پکڑ رجم کیاگیا ۔ نبی کریمؐ نے اس کے بارہ میں رحمدلانہ جذبات کا اظہار فرمایا۔(بخاری14) زنا بالجبر کے ایک مجرم میں جسے رجم کیا گیا نبی کریمؐ نے اس مجرم کے بارے میں فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو ان سب کی توبہ قبول کی جائے۔(ترمذی)15
دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا جب وہ بھاگ نکلا توتم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔(ترمذی)16
ایسے انفرادی گناہ جن کی باضابطہ سزا مقررنہیں۔ اگران کا ارتکاب کے بعد کوئی شخص توبہ کرنے کے لئے حاضرخدمت ہوتا تو نبی کریمؐ اس سے عفو کا سلوک فرماتے۔
ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے تعلق قائم کربیٹھا اور رسولؐ اللہ سے فتویٰ کا طالب ہوا آپ نے فرمایا تم غلام آزاد کرسکتے ہو اس نے کہا نہیں۔ فرمایا کیا دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلادو۔ اس نے کہا میری تویہ بھی توفیق نہیں ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص گدھے پر کچھ کھانے کا سامان لایاآپ نے پوچھا کہ وہ شخص کہاں گیا پھر اسے فرمایا کہ یہ لے جائو اور صدقہ کردو۔ اس نے کہا کیا اپنے سے زیادہ محتاج لوگوں پر صدقہ کروں۔ میرے اپنے گھر میںکھانے کو کچھ نہیں فرمایا جائو خود کھالو۔(بخاری)17
رسولؐ اللہ کے زمانہ میں ایک انصاری بہت بیمار رہ کر لاغر ہوگیا۔ کسی کی لونڈی اس کے گھر گئی وہ اس کے ساتھ زناکا مرتکب ہوا۔ لوگ عیادت کو آئے تو بتایا کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ میرے لیے رسول اللہ ؐ سے فتویٰ پوچھو۔ صحابہ نے رسول ؐ اللہ کوبتایا کہ فلاں شخص سخت بیمار اور کمزور ہے بس ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ سو تنکے اکٹھے کر کے ایک دفعہ مار دو اور(اسی طرح) حدپوری کردو۔(ابودائود)۔18
رسول کریمؐ کی رأفت و رحمت کی بے شمار مثالوں میں سے یہ چند نمونے ہیں۔ اس قسم کے دیگر کئی دلچسپ واقعات کے لئے ملاحظہ ہوں کتاب ہذا کے عناوین صلہ رحمی،ہمدردی خلق،حلم،صحابہ سے محبت،عفووکرم اور مربی اعظم۔
حوالہ جات
1
مسند احمد جلد2ص108
2
مسلم کتاب الصیام باب التخییرفی الصوم والفطر فی السفر:1889
3
ابوداؤد کتاب العلم باب القصص
4
ابن ماجہ کتاب الزہد باب البراء ۃ من الکبر:4167
5
الشفا للقاضی عیاض جز 2 ص111
6
مسند احمد جلد3ص161مطبوعہ بیروت
7
بخاری کتاب العلم باب من سئل علماً
8
ابو داؤد کتاب الادب
9
بخاری کتاب المرضی باب عیادۃ الاعراب
10
بخاری کتاب الطب باب لاعدوی
11
مسند احمد جلد۲ص292مطبوعہ بیروت
12
مجمع الزوائدلھیثمی جلد10ص420مطبوعہ بیروت
13
ترمذی کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود
14
بخاری کتاب الحدود
15
ترمذی کتاب الحدود باب فی المرأۃ اذا استکرھت
16
ترمذی کتاب الحدود باب المعترف اذا رجع
17
بخاری کتاب الحدود باب من اصاب ذنبادون الحدّ
18
ابوداؤد کتاب الحدود باب اقامۃ الحد علی المریض

آنحضرت ؐ کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسولؐ
محبت دووجہ سے پیدا ہوتی ہے، حسن سے یا احسان سے۔ حسن طبعاً اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے، ایک حسین وجودہر صاحب ذوق کادل اپنی طرف کھینچ کر کہتا ہے کہ نظارہ حسن تو یہاں ہے۔پھر ہمارے نبی کریم ﷺ تو حسن ظاہری و باطنی کا بہترین نمونہ تھے، ایک شاعر نے آپؐ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَأَ نَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائ‘
اے پاک نبیؐ آپؐ ہر عیب سے اس طرح پاک و صاف پیدا کئے گئے گویا جس طرح آپؐ چاہتے تھے اس طرح ہی بنائے گئے۔
ماہتاب و آفتاب سے بھی بڑھ کر حسین اس پیکر حسنِ روحانی نے مطلع عالم پر طلوع ہوکرکیا قیامت ڈھائی اُس کا ایک نظارہ عاشقِ صادق براء بن عازبؓ کی نظر سے کیجئے۔ ان کا بیان ہے چودہویں کی رات تھی،چاند اپنے پورے جوبن پرتھا۔ ہمارے محبوب رسولؐ نے سرخ جوڑا پہنا ہوا تھا۔ میں ایک نظر چودہویں کے چاند پر اورایک اپنے پیارے محبوب کے روشن چہرے پر ڈالتا تھا اور خدا کی قسم اس رات مجھے نبی کریم ؐ کا چہرہ چودہویں کے چاند سے کہیں زیادہ حسین معلوم ہوتا تھا۔(ترمذی)1
بے شک اس چاند چہرے کی کشش بھی نرالی تھی۔مگر حسن ظاہری سے کہیں بڑھ کر آپؐ کے حسن باطنی کو کمال حاصل تھا۔آپؐ خود فرمایا کرتے تھے کہ یہ دلوں کی فطرت ہے کہ وہ احسان کرنے والوں کی طرف مائل اور ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ (ابن عدی)2
رسول کریمؐ نے تو بلا شبہ محبت اور احسان کر کے اپنے صحابہ کے دل جیتے۔ آنحضرت ؐ کی محبتوں کا ہی کرشمہ تھاجس نے نئی محبتوں کو جنم دیااور اس محسن انسانیت کے ہزاروں عاشق پیداہوئے۔ یہ آپؐ کی بے لوث محبت کی برکت تھی۔ صحابہ آپؐ کو دل و جان سے چاہتے تھے اور آپؐ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کو تیار ہوتے تھے۔پس رسول اللہؐ کی شفقتوں کے جواب میں صحابہ کے رسول اللہؐ سے عشق و فدائیت کے نظارے بھی دراصل سیرت رسولؐ کا ایک اہم باب ہے۔ محبتوں کے یہ قصے دل کو بہت ہی لبھانے والے ہیں۔
ع دامانِ نگہ تنگ وگلِ حسن توبسیار
حضرت ابوبکرؓ سے محبت اور اُن کا عشق
یوں تو نبی کریم ﷺ کو اپنے تمام اصحاب ہی بہت پیارے تھے مگر سب سے قریبی اور قدیمی با وفا دوست حضرت ابو بکر ؓ کا اورہی مقام تھا جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر وفا کر دکھائی۔
ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے رسول ؐخدا سے گھریلو بے تکلف گفتگو کے دوران پوچھا کہ آپؐ کو اپنے اصحاب میں سے سب سے پیارے کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ابو بکر ؓ، انہوںنے پوچھا پھر کون؟ فرمایا عمرؓ، حضرت عائشہؓ نے پوچھاپھر کون؟ فرمایاابو عبیدہ بن الجراح ؓ ۔(ابن حجر)3
حضرت ابوبکر ؓ کو بھی عشق کی حد تک اپنے آقا سے پیار تھا۔اُن کے ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے، ابھی مسلمان چالیس افراد سے بھی کم تھے کہ انہوںنے آنحضرت ؐسے بڑے اصرار کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ عبادت کرنے کی درخواست کی اور مجبور کر کے خانہ کعبہ لے گئے۔کفار نے خانہ کعبہ میں عبادت کرتے دیکھ کر حضرت ابو بکر ؓ کو خوب پیٹا یہاں تک کہ آپ ؐکو اٹھاکر گھر پہنچایا گیا۔جب ذرا آرام آیا تو پہلا سوال یہ پوچھا میرے آقاؐ کا کیا حال ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی؟(الحلبیہ)4
اس کے بعد بھی ہمیشہ ہی حضرت ابوبکرؓ آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے آپ ؐ کے آگے پیچھے کمر بستہ رہے اورہمیشہ آنحضرت ﷺ سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر پیار کیا۔اہل مکہ کے مظالم دیکھ کرحضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت ﷺ سے مدینہ ہجرت کی اجازت طلب کی تو حضورؐ نے فرمایا’’ابو بکر انتظار کرو شاید اللہ تمہارا کوئی اور ساتھی پیدا کردے۔‘‘ یہ بھی دلی پیار کا ایک عجیب اظہار تھا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعدجب کفار مکہ نے دارالنّدْوہ میںآنحضرت ؐ کے قتل کا مشورہ کیا تو آپؐ کو ہجرت کی اجازت ہوئی۔ آپؐ سب سے پہلے ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابو بکرؓ پہلے ہی تیار تھے فوراً بولے۔ الصُّحْبَۃُ یَارَسُوْلَ اللّٰہ کہ اے اللہ کے رسولؐ مجھے بھی ہمراہ لے چلیں۔آپ کی بیٹی اسماء ؓکہتی ہیں کہ ابو بکر ؓ نے ہجرت کے لئے کچھ رقم بچا کر رکھی ہوئی تھی، و ہ ساتھ لے گئے۔باقی پہلے ہی راہ خدا میں خرچ کر چکے تھے۔
ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابو بکر صدیق ؓنے جس وفاداری اور جاں نثاری کا نمونہ دکھایااس کی مثال نہیں ملتی۔اپنی دو اونٹنیاں جو پہلے سے سفر ہجرت کیلئے تیار کررکھی تھیںان میں سے ایک اونٹنی آنحضرتؐ کی خدمت میں بلامعاوضہ پیش کردی مگرنبی کریمؐ نے وہ قیمتاً قبول فرمائی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے پانچ ہزار درہم بھی بطور زادِ راہ ساتھ لئے۔پھر غار ثور میں رسول خدا ؐکی مصاحبت کی توفیق پائی جس کا ذکر قرآن شریف میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا۔ فرمایا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَافِی الْغَارِاِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (سورۃ التوبہ:40) یعنی دومیں سے دوسرا جب وہ دونوں غار میں تھے۔جب وہ اپنے ساتھی سے کہتا تھا کہ غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
سفر ہجرت میں تاجدار عرب کا یہ بے کس سپاہی آپؐ کی حفاظت کی خاطر کبھی آگے آتا تو کبھی پیچھے کبھی دائیں تو کبھی بائیںاور اس طرح اپنے آقا کو بحفاظت یثرب پہنچایا۔(حلبیہ)5
اسی سفر ہجرت کا واقعہ ہے جب حضرت ابوبکرؓ نے ایک مشرک سراقہ کو تعاقب میں آتے دیکھا تو رو پڑے۔ رسول اللہ ؐ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا۔ ’’اپنی جان کے خوف سے نہیں آپؐ کی وجہ سے روتا ہوں کہ میرے آقا ؐ کو کوئی گزند نہ پہنچے۔‘‘(احمد)6
حضرت ابو بکر ؓ کی مزاج شناسی ٔ رسول اور گہری محبت کا عجب عالم تھا۔ جب سورۂ نصر نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کے آنے اور فوج در فوج لوگوں کے دین اسلام میں داخل ہونے کا ذکر تھاتورسول کریمؐ نے صحابہ کی مجلس میں یہ آیات سنائیں۔حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے۔ صحابہ ؓ حیران تھے کہ فتح کی خوشخبری پر رونا کیسا؟ مگر حضرت ابو بکرؓ کی بصیرت نے ان آیات سے جو مضمون اخذ کیا وہ دوسرے نہ سمجھ سکے۔ حضرت ابوبکرؓ کی فراست بھانپ گئی کہ یہ آیات جن میں رسول اللہ ؐ کے مشن کی تکمیل کا ذکر ہے آپؐ کی وفات کی خبر دے رہی ہیں۔ اس لئے اپنے محبوب کی جدائی کے غم سے بے اختیار ہوکر رو پڑے اور اس عاشق صادق کاخوف بجا تھا۔آنحضورؐ اس کے بعد صرف دو سال زندہ رہے۔(بخاری)7
رسو ل اللہ ؐنے حضرت ابو بکر ؓ کے بعد حضرت عمر ؓ سے اپنی محبت کا ذکر فرمایاہے۔ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام ہی آنحضورؐ کی دعا کا صدقہ تھا۔رسول کریمؐ حضرت عمر ؓ کی خدا داد استعدادوں کے باعث بھی اُن سے محبت فرماتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ایک دفعہ فرمایاکہ بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوتے تھے جن سے خدا کلام کرتاتھا مگر وہ نبی نہیں تھے۔میری اُمت میں بھی ایک ایسا فرد عمرؓہے۔(بخاری)8
حضرت عمرؓ بھی رسول اللہؐ کے سچے عاشق تھے۔زُہرہ بن معبدؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ نے حضرت عمر ؓ کا ہاتھ پکڑ ا ہوا تھا۔وہ فرطِ محبت میں کہنے لگے۔ ’’اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیںسوائے میری جان کے۔نبی کریم ؐ نے فرمایا۔’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔’’ اچھا تو خدا کی قسم آج سے آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ اے عمرؓ کیا آج سے؟‘‘ گویا حضور سمجھتے تھے کہ عمرؓ فی الواقعہ دلی طور پر اس اظہار سے پہلے ہی آپؐ کو جان سے عزیز ترجانتے تھے۔ (احمد)9
حضرت عمرؓ اس محسن رسول کے ایسے دیوانے تھے کہ رسول اللہؐ کی وفات پر فرطِ غم سے یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ رسول اللہؐ واقعی داغ مفارقت دے گئے ہیں۔دیوانہ وار یہ اعلان کر رہے تھے کہ جس نے کہا رسول اللہؐ فوت ہوگئے ہیں میں اس کا سر تن سے جدا کردونگا ۔یہ کیفیت دراصل حضرت عمر ؓ کے رسول اللہؐ سے سچے عشق اور جذباتی تعلق کی آئینہ دار ہے۔(بخاری)10
حضرت عثمانؓ اور علیؓ سے رسول اللہ ﷺکی محبت بھی اپنی مثال آپؐ تھی۔ حضرت عثمانؓ کو یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں بیاہ دیں اور فرمایا کہ اگر تیسری بیٹی بھی ہوتی تووہ بھی عثمانؓ کو بیاہ دیتا۔(ابن اثیر )11
حضرت علی ؓ کے بارہ میں فرمایا۔علیؓ کا میرے ساتھ تعلق ایسے ہے جیسے ہارون ؑ کا موسیٰ ؑ سے۔(بخاری12) نیزفرمایاجسے میرے ساتھ محبت کا تعلق ہے اُسے علیؓ سے بھی محبت کا تعلق رکھنا ہوگا۔(ترمذی)13
حضرت عثمانؓ اور علیؓ نے بھی ہمیشہ رسول اللہؐکی خاطر فدائیت کے نمونے دکھائے۔ حضرت عثمانؓ نے ایک طرف اپنے اموال خدا کی راہ میں بے دریغ خرچ کرکے ’’غنی‘‘ کا خطاب پایا۔ تودوسری طرف حدیبیہ میں رسول کریم ؐ نے اپنے نمائندہ صلح حضرت عثمان ؓ کی خاطر صحابہ سے موت پر بیعت لی اور اپناایک ہاتھ دوسرے پر رکھ کرفرمایا یہ عثمان ؓ کا ہاتھ ہے۔
حضرت علیؓ نے تو روز اوّل سے ہی رسول اللہؐ کی تائید و نصرت کی حامی بھری تھی، جب رسول اللہؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنے خاندان کے لوگوں سے دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا تھا،اُس وقت سب اہل خاندان نے انکار کیاسوائے اُس کمسن بچے علیؓکے جس نے کمزوری کے باوجود مددکا وعدہ کیا اور پھر زندگی بھر اُسے خوب نبھایا۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت علیؓ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر رسول اللہؐ کی جگہ آپؐ کے گھر میںٹھہرنا صدق دل سے قبول کیا۔(احمد)14
امین الامت حضرت ابو عبیدہؓ بھی انہی وفا شعار عشاق میںسے تھے۔جن کے بارے میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ و عمرؓ کے بعد ابو عبیدہؓ مجھے سب سے پیارے ہیں۔
حضرت ابوعبیدہ ؓکے عشق رسول کا کڑا امتحان یوں ہوا کہ جنگ اُحد میں مدمقابل لشکر کفار میں آپؓ کا بوڑھا والد عامر بھی برسر پیکار تھا،ابو عبیدہؓ ایک بہادر سپاہی کی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کارزار میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے کہ والد سے سامنا ہوگیا جو کئی بارتاک کر آپؓ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا تھا، ذرا سوچئے تو وہ کتنا کٹھن اور جذباتی مرحلہ ہوگا کہ ایک طرف باپ ہے اور دوسری طرف خدا اور اس کا رسولؐ ہیںجن کے خلاف باپ تلوار سونت کر نکلا ہے، مگر دنیا نے دیکھا کہ ابو عبیدہؓ جیسے قوی اور امین کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ خدا کی خاطراُن کی سونتی ہوئی شمشیر برہنہ نہیں رکے گی جب تک دشمنان رسول کا قلع قمع نہ کر لے خواہ مدّمقابل باپ ہی کیوں نہ ہو ۔ اگلے لمحے میدان بدر میں ابوعبیدہ ؓ کا مشرک والد عامر اپنے موحد بیٹے کے ہاتھوں ڈھیر ہوچکا تھا۔آفرین تجھ پر اے امین الامت آفریں ! تو نے کیسی شان سے حقِ امانت ادا کیا کہ باپ کا مقدس رشتہ بھی اس میں حائل نہ ہوسکا۔ اسی تاریخی موقع پر سورۂ مجادلہ کی آیت۲۳ اتری جس میں اللہ تعالیٰ ایسے کامل الایمان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو خدا کی خاطر اپنی رشتہ داریاں بھی قربان کردیتے ہیں۔(ابن حجر)15
غزوۂ احد میں حضرت ابو عبیدہؓ کی محبت رسولؐ کا ایک واقعہ حضرت ابو بکرؓ یوں بیان کرتے ہیںکہ اُحد میں سنگباری کے نتیجہ میں آنحضورؐ کے خود کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر جب آپؐ کے رخساروں میں دھنس گئیں تو میں رسول کریمؐ کی مدد کے لئے آپؐ کی طرف لپکا۔میں نے دیکھا کہ سامنے کی طرف سے بھی ایک شخص دوڑا چلا آرہا ہے۔میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نازک وقت میں یہ شخص میری مدد اور نصرت کا موجب ہو۔دیکھا تو وہ ابوعبیدہؓ تھے جو مجھ سے پہلے حضورؐ تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لے کر کمال فدائیت کے جذبہ سے مجھے خدا کا واسطہ دیکر کہا کہ حضورؐ کے رخساروں سے یہ لوہے کی شکستہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں۔پھر انہوں نے پہلے ایک کڑی کو دانتوں سے پکڑا اور پوری قوت سے کھینچا تو باہر نکل آئی، مگر ابو عبیدہ ؓ خود پیٹھ کے بل پیچھے جا گرے ساتھ ہی اُن کا اگلا دانت بھی باہر آرہا۔پھر انہوں نے دوسرے رخسار سے لوہے کی کڑی اسی طرح پوری ہمت سے کھینچی تو اس کے نکلنے کے ساتھ آپؐ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا اور آپؐ دوبارہ گرے۔ مگر آنحضرتؐ کوایک سخت اذیت سے نجات دینے میں کامیاب ہوئے او رآپؐ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں ہونے دیا۔(ابن سعد)16
رسول اللہؐ کے ایک اور عاشق صادق حضرت جعفرؓ تھے۔ایک موقع پر حضرت محمد ﷺ کے بہت ہی پیاروں حضرت زیدؓ، حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓ کے مابین یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوا کہ حضورؐ کو زیادہ پیار کس سے ہے؟ حضورؐ سے پوچھا گیا تو آپؐ نے انتہائی کمال شفقت سے سب پیاروں سے کمال دلداری فرمائی کہ سب ہی آپؐ کو محبوب تھے۔ حضرت جعفرؓ سے فرمایا ’’اے جعفر توُ تو خَلق و خُلق اور صورت و سیرت میں میرے سب سے زیادہ مشابہ اور قریب ہے۔‘‘ (احمد) 17
رسول اللہؐ کا یہ اظہار محبت سن کر بے محابا حضرت جعفرؓ پر پیار آتا ہے۔ حضرت جعفرؓنے غزوۂ مَوتہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی بیوی اسمائؓ کا بیان ہے کہ حضور ؐ اس موقع پر ہمارے گھر تشریف لے گئے اورفرمایا جعفرؓ کے بچوں کو میرے پاس لائو ان کو گلے لگایا، پیار کیا، آپؐ کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے۔میں نے عرض کیا ’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ کیوں روتے ہیں؟ کیا جعفرؓ کے بارہ میں کوئی خبر ہے؟ فرمایا’’ ہاں وہ راہ مولیٰ میں شہید ہوگئے ہیں۔‘‘ اب شہید راہ حق حضرت جعفرؓ رسول اللہؐکو اورزیادہ محبوب ہوگئے تھے۔ آپؐ نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت فرمائی کہ جعفرؓ کے گھر والوں کا خیال رکھیں۔ انہیں کھانا وغیرہ بھجوائیں۔‘‘(احمد)18
بعض صحابہ سے عشق رسول کے ایسے مناظر بھی دیکھے گئے کہ دوسرے صحابہ کو ان پر رشک آتا تھا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے کہ میں نے بدر کے موقع پر مقداد بن الا سودؓ سے ایک ایسا نظارہ دیکھا کہ(میرا دل کرتا ہے کہ)کاش ان کی جگہ میں ہوتااور یہ سعادت مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب لگتی ہے۔ وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ بدر کے موقع پرمشرکوں کے خلاف مسلمانوں کو تحریک جنگ فرمارہے تھے تو مقداد ؓنے کہا یارسولؐ اللہ!ہم قوم موسیٰ کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب جاکر لڑو بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں آپؐ کی جان ہے اگرآپؐ سواریوں کو برک الغماد مقام تک بھی لے جائیں تو ہم آپؐ کی پیروی کریں گے۔(بخاری)19
عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ مقدادؓ کی تقریر سن کر رسول اللہؐ کا چہرہ کھِل کر چمک اٹھا اور اس بات نے حضورؐ کو بہت خوش کیا۔
حضرت ابو طلحہؓ بھی ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہؐ کی محبت سے حصہ پایا۔رسول اللہ ؐ بے تکلفی سے ان کے گھر اور کبھی باغ میں بھی تشریف لے جاتے۔ان کے بچوں سے محبت کا سلوک فرماتے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے رسول اللہؐ کے تبرکات کچھ بال اور ایک پیالہ بڑی محبت سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو رسول اللہ ؐ سے والہانہ عشق تھا۔(ابن سعد)20
غزوۂ اُحد میں جب کفار نے دوبارہ حملہ کیا توجن صحابہ نے رسول اللہ ؐکو اپنے حصار میں لے کر جان کی بازی لگا کر آپؐ کی حفاظت کی ہے، ان میں ابو طلحہؓ کا نمایاں مقام ہے۔ وہ رسول اللہ ؐ کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔رسول اللہ ؐ آپ کو تیر پکڑاتے اور سر اٹھاکردیکھناچاہتے کہ کہاں پڑا ہے۔ابو طلحہؓ عرض کرتے۔ ’’یا رسول اللہؐ آپؐ سر اٹھا کرنہ جھانکیئے کہیں آپؐ کو کوئی تیر نہ لگ جائے میرا سینہ آپؐ کے سینہ کے آگے سپر ہے۔‘‘(بخاری) 21
رسول اللہؐ کے ایک اور عاشق صادق حضرت مصعب بن عمیر ؓ تھے۔ جو ایک امیر کبیر گھرانے کے فرد تھے مگر انہوں نے قبول اسلام کے بعد شہزادگی چھوڑکر درویشی اختیار کرلی تھی۔ ایک دن رسول اللہ ؐ نے دیکھا مصعب بن عمیر ؓ اس حال زار میں آپ ؐکی مجلس میں آئے ہیں کہ پیوند شدہ کپڑوں میں ٹاکیاں بھی چمڑے کی لگی ہیں۔صحابہ ؓ نے دیکھا تو سرجھکالئے کیونکہ وہ بھی مصعب ؓ کی کوئی مدد کرنے سے معذور تھے۔مصعبؓ نے آکر سلام کیا ۔آنحضرت ؐ نے دلی محبت سے وعلیکم السلام کہا اور اس صاحب ثروت نوجوان کی آسائش کا زمانہ یاد کر کے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر مصعب ؓ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔الحمدللہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔میں نے مصعب ؓ کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر صاحبِ ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔مگر خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے۔(ابن سعد)22
اسلام کے پہلے مبلغ مصعبؓ ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہؐ سے ملنے مکہ آئے تو ان کی محبت رسول ؐ کا ایک عجب نمونہ دیکھنے میں آیا۔ آپؐ مکہ پہنچتے ہی اپنی والدہ(جو اَب اسلام کی مخالفت چھوڑ چکی تھیں) کے گھرجانے کی بجائے سیدھے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے۔حضور ؐ کی خدمت میں وہاں کے حالات عرض کئے۔ مدینہ میں سرعت کے ساتھ اسلام پھیلنے کی تفصیلی رپورٹ دی۔ حضور ؐ ان کی خوشکن مساعی کی تفاصیل سن کر بہت خوش ہوئے۔
ادھر مصعب ؓ کی والدہ کو پتہ چلا کہ مصعب ؓ مکہ آئے ہیں اور پہلے ان کے پاس آکر ملنے کے بجائے رسول اللہ ؐ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ او بے وفا! تو میرے شہر میں آکر پہلے مجھے نہیں ملا۔عاشق رسول ؐ مصعب ؓ کا جواب بھی کیسا خوبصورت تھا کہ اے میری ماں! میں مکہ میں نبی کریمؐ سے پہلے کسی کو ملنا گوارا نہیں کرسکتا۔(ابن سعد)23
اُحد کے میدان میں مصعب ؓنے جان کی قربانی دیکر اپنے عشق رسولؐ پر مہر ثبت کردی۔ مصعبؓ اسلامی جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ جب ان کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ چہرے کے بل گرے پڑے تھے ۔گویا دم واپسیں بھی اپنے مولیٰ کی رضا پرراضی اور سجدہ ریز۔حضورؐ نے ان کی نعش کے پاس کھڑے ہوکر یہ آیت تلاوت فرمائی۔فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ‘ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً(سورۃالاحزاب:24)
یعنی ان مومنوں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کردیا۔ (لڑتے لڑتے مارے گئے) اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی انتظار کررہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیں آنے دیا۔
اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے اس عاشق صادق کو مخاطب کر کے فرمایا’’ اے مصعبؓ ! خدا کا رسول تم پر گواہ ہے کہ واقعی تم اس آیت کے مصداق اور اُن مردانِ وفا میں سے ہوجنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے۔ روزِقیامت تم دوسروں پر گواہ بنائے جائو گے۔‘‘ پھر آپؐ نے اسلامی جھنڈے کے محافظ حضرت مصعب ؓ کو اس آخری ملاقات میں ایک اور اعزاز بھی بخشا۔آپؐ نے صحابہ ؓکو مخاطب کر کے فرمایا کہ’’اے میرے صحابہؓ !مصعب ؓ کی نعش کے پاس آکراس کی زیارت کرلو اور اس پر سلام بھیجو ۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔‘‘(ابن اثیر)24
حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ ان کے چچا انس بن نضرؓ بدر میں شامل نہیں تھے۔ اسلام کی پہلی جنگ سے غیر حاضری کی وجہ سے اُن کوبے حد افسوس تھا۔انہوں نے رسول اللہؐ کے سامنے عہد کیاکہ اگر آئندہ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے ساتھ کسی غزوہ میں شامل ہونے کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا میں کیا کر دکھاتا ہوں۔ چنانچہ اُحد کے دن وہ خوب لڑے مگر جب درّہ چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح کے بعد پسپائی ہوئی تو انہوں نے جوش غیرت میں کہااے اللہ! ان مسلمانوں میں سے جو درّہ چھوڑ گئے اس کے لئے میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور مشرکوں کے فعل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔پھروہ تلوار لے کر آگے بڑھے۔راستے میں سعد بن معاذ ؓملے تو اُن سے کہنے لگے اے سعدؓ! کہاں جاتے ہو؟ مجھے تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبوآرہی ہے۔چنانچہ میدان اُحد میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے مگر ایسی بے جگری اور بہادری سے لڑے کہ جسم پر اسّی سے اوپر تلواروں ، نیزوں اور تیروں کے زخم تھے جن کی وجہ سے نعش پہچانی نہ جاتی تھی۔ان کی بہن نے آکرانگلی کے پورے پر ایک نشان سے ان کی لاش پہچانی۔(بخاری)25
ایک اور عاشق صادق انصاری سردار سعد بن ربیع ؓتھے۔میدان اُحد میں ستر مسلمان شہداء کی لاشوں کے پُشتے لگے پڑے تھے۔رسول اللہؐ کو باری باری اپنے وفاشعار غلام یاد آرہے تھے۔ اچانک آپؐ فرمانے لگے ’’ کوئی ہے جو جاکر دیکھے کہ انصاری سردار سعدبن ربیع ؓ پر کیاگزری۔ میں نے اُسے لڑائی کے دوران بے شمار نیزوں کے زد میں گھرے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘ ابی بن کعبؓ، محمد بن مسلمہ ؓ اور زید بن حارثہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم حاضر ہیں۔ رسول اللہؐ نے محمد بن مسلمہؓ کو بھجوایا اور فرمایا کہ سعد بن ربیع ؓسے ملاقات ہوتو انہیں میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ رسول اللہؐ تمہارا حال پوچھتے تھے۔انہوں نے جاکر میدان اُحد میں بکھری لاشوں کے درمیان انہیں تلاش کیا۔ انہیں آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔ تب انہوں نے بآواز بلند کہا کہ اے سعد بن ربیع ؓ ! رسول اللہؐ نے مجھے تمہاری خبر لینے بھیجا ہے۔اچانک لاشوں میں جنبش ہوئی اور ایک نحیف سی آواز آئی۔وہاں پہنچے تو سعدؓ کو سخت زخمی حالت میں پایا۔ان سے کہا کہ رسول اللہؐ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں پتہ کروں کہ کس حال میں ہو؟اور حضورؐ کا سلام آپ کو پہنچائوں۔ انہوں نے کہا میں تو موت کے کنارے پر ہوں، مجھے بارہ تلواروں کے زخم آئے ہیں اور ایسے کاری زخم ہیں کہ ان سے جان بر ہونا مشکل ہے۔ اس لئے میری طرف سے بھی رسول اللہؐ کو سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ سعد بن ربیع ؓ آپؐ کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ پہلے نبیوں کو اپنی امت کی طرف سے جو جزا ملی ہے،اللہ تعالیٰ آپؐ کواُن سب سے بہترین جزا عطا کرے اور میری قوم کو بھی میری طرف سے سلام پہنچانا اور یہ پیغام دینا کہ سعد بن ربیع ؓکہتے تھے کہ تم نے عقبہ کی گھاٹی میں جو عہد رسول اللہؐ سے کیا تھا اُسے ہمیشہ یادرکھنا۔ہم نے آخری سانس تک یہ عہد نبھایا۔ اب یہ امانت تمہارے سپرد ہے۔جب تک تمہارے اندر ایک بھی جھپکنے والی آنکھ ہے اگر نبی کریمؐ پر کوئی آنچ آگئی تو تمہارا کوئی عذر خدا کے حضور قبول نہ ہوگا۔محمد بن مسلمہ ؓنے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ سارا واقعہ عرض کردیا۔ جس سے یقینا آپؐ کا دل ٹھنڈا ہوا۔(الحلبیہ)26
ایک اور عاشق رسول زید بن دثنہؓ تھے، جوایک اسلامی مہم کے دوران قید ہوئے۔ مشرک سردار صفوان بن امیہ نے اُن کو خریدا تاکہ اپنے مقتولین بدرکے انتقام میں انہیں قتل کرے۔جب صفوانؓ اپنے غلام کے ساتھ انہیں قتل کرنے کے لئے حرم سے باہر لے کر گیا تو کہنے لگا اے زید میں تجھے خدا کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کیا تو پسند کرتا ہے کہ محمدؐ اس وقت تمہاری جگہ مقتل میں ہو اور تم آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے ہو۔
زیدؓ نے کہا خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میرے قتل سے بچ جانے کے عوض رسول اللہؐ کوکوئی کانٹا بھی چبھ جائے۔ ابوسفیان نے یہ سنا تو کہنے لگا خدا کی قسم! میں نے دنیامیں کسی کوکسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محبت محمدؐ کے ساتھی اس سے کرتے ہیں۔(الحلبیہ)27
ایک دفعہ نبی کریمؐ نے بعض قبائل کی درخواست پرستّرحفاظ کرام کو دعوت الی اللہ کے لئے بھجوایا ۔جنہیں بنی سُلیم وغیرہ قبائل نے بدعہدی سے بئر معونہ مقام پر شہید کردیا۔ دشمن نے جب مسلمانوں کے قافلہ کے امیرحرام بن ملحان ؓ کو قتل کر کے انہیں گھیر لیا۔اُس وقت سب نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! اس وقت ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ رسول اللہؐ کو اطلاع کرنے کا نہیں، کسی طرح اپنے رسولؐ کو ہمارا آخری سلام پہنچا دے اور ہماری شہادتوں کی خبر دے کر یہ اطلاع کردے کہ ہم اپنے رب سے راضی ہیں اور ہمارا رب ہم سے راضی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو جبریل ؑ کے ذریعے اطلاع فرمائی۔حضورؐ اس وقت مدینے میں اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرماتھے۔آپؐ نے اچانک فرمایا وَعَلَیْھِمُ السَّلامُ اور ان پر بھی سلامتی ہو۔ پھر آپؐ نے خطبہ ارشادفرمایا اور صحابہ کو اطلاع دی کہ تمہارے بھائیوں کا مشرکوں سے مقابلہ ہوا اور وہ سب شہید ہوگئے۔ بوقت شہادت انہوں نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کا سلام اور راضی برضائے الہٰی ہونے کا پیغام ہم تک پہنچادے۔
رسول اللہؐ کو اپنے ان ستر اصحاب کی شہادت کا بہت غم تھا۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ کو کبھی کسی کی موت کا اتنا صدمہ نہیں ہوا جتنا صدمہ بئرمعونہ میں شہید ہونے والے ستّر اصحاب کا ہوا۔آپؐ تیس دن تک نماز کی آخری رکعت میں ہاتھ اُٹھا کرمددونصرت کی دعائیں پڑھتے رہے۔(الحلبیہ)28
صحابۂ رسول کو اپنے آقاؐ کی حفاظت کی جو فکر ہوتی تھی اور رسول اللہؐ صحابہ کا جس طرح خیال رکھتے تھے اس کا کچھ اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہؐ کے ساتھ شریک سفر تھے رات کو ہم نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ رات کے کسی حصے میں مجھے رسول اللہؐ کاخیال آیا اور مَیں آپؐ کا پتہ کرنے اس جگہ گیا جہاں آپؐ نے ڈیرہ لگایا تھا۔ وہاں موجود نہ پاکرمیں ادھر اُدھر آپؐ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اچانک کیا دیکھتاہوں کہ رسول اللہؐ کا ایک اور صحابی بھی میری طرح دیوانہ وار آپؐ کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ہم اسی حال میں تھے کہ نبی کریمؐ کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ہم نے کہااے اللہ کے رسولؐ! آپؐ دشمن کی سرزمین اور جنگ کے علاقہ میں ہیں۔ ہم آپؐ کی ذات کے بارہ میں خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ خدا را آپؐ کو جب کوئی حاجت ہو تو آپؐ اپنے بعض صحابہ کو حکم فرمائیں تاکہ وہ آپؐ کے ساتھ جائیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ دراصل میرے رب کی طرف سے ایک فرشتہ آیا۔ اس نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت کا آدھا حصہ جنت میں داخل کرے یا مجھے شفاعت کا حق چاہئے۔میں نے شفاعت کا حق مانگا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری امت کے لئے زیادہ وسیع مغفرت کا موجب ہے۔پھر مجھے دوتہائی امت کو جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا گیا، پھر بھی میں نے شفاعت کو اختیار کیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ شفاعت میں امت کے لئے زیادہ بخشش کی گنجائش ہے۔ان دونوں صحابہ نے آپؐ سے دعا کی درخواست کی کہ ان کے حق میں بھی آپؐ کی شفاعت قبول ہو۔رسول اللہؐ نے دعا کی۔پھران دونوں نے دیگر صحابہ کو جاکربتایا تووہ بھی اہل شفاعت میں سے ہونے کی دعا کروانے آنے لگے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا میری شفاعت ہر کلمہ گو کیلئے ہوگی۔(احمد)29
غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ؓ(سردار طائف) سفیر قریش بن کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ایک صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بغرض حفاظت تلوار لئے رسول اللہؐ کے پاس کھڑے تھے۔ عروہ عرب دستور کے مطابق بات کرتے ہوئے ازراہِ منت اپنا ہاتھ نبی کریمؐ کی داڑھی کی طرف بڑھاتاتھا۔عاشقِ رسول ؐ مغیرہؓ کو یہ بھی گوارا نہ تھاکہ ایک مشرک کا ہاتھ رسول اللہؐ کی ریش مبارک کو چھوئے۔وہ اپنی تلوار کی نوک سے سفیرِ قریش کا ہاتھ پرے ہٹا دیتے اور کہتے ’’رسول اللہؐ کی داڑھی سے اپنا ہاتھ پرے ہٹالو‘‘(بخاری30)عروہ نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون نوجوان ہے۔جب اُسے پتہ چلا کہ یہ مغیرہؓ ہیں تو وہ اُن سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تم جانتے ہو جاہلیت میں میں تمہارا معاون و مددگار رہا ہوں،اس کا یہ بدلہ تم مجھے دے رہے ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رسول ؐ کو اپنے آقا و مولیٰ سب دوستوں اور عزیزوں سے بڑھ کر پیارے تھے۔میدان حدیبیہ میں ہی کفار کے سفیر عروہ نے صحابہ کے عشق کاایک اور نظارہ بھی دیکھا کہ وہ حضورؐ کے وضوکا مستعمل پانی حتّٰی کہ آپؐ کا تھوک بھی نیچے گرنے نہ دیتے بلکہ بطور تبّرک اپنے ہاتھوں میں لیتے تھے۔وہ آپؐ کے حکم کی والہانہ تعمیل کرتے تھے۔ اس نے جاکر قریش کے سامنے اس کا یوں اظہار کیا کہ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار بھی دیکھے ہیں اور قیصروکسریٰ اور نجاشی کے محلّات بھی۔خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی وہ تعظیم کرتے نہیں دیکھا جو محمدؐ کے ساتھی اس کی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! رسولؐ اللہ کوئی تھوک بھی نہیں پھینکتے مگر ان کا کوئی ساتھی اُسے اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے جسم پر مل لیتا ہے اور جب وہ انہیں کوئی بات کہتے ہیں تو وہ لبیک کہتے اور فوراً اس پر عمل کرتے ہیں۔ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو اس کے پانی کاایک قطرہ بھی وہ نیچے گرنے نہیں دیتے ا ور لگتا ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے کیلئے جیسے وہ لڑ پڑیں گے۔ پھر جب وہ بات کرتا ہے تو وہ خاموشی سے سنتے ہیں۔اس کی تعظیم کی خاطر اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اس کے سامنے نیچی آواز میں بات کرتے ہیں۔ الغرض صحابہ کے عشق و محبت کا یہ وہ نظارہ تھا جس نے مشرک سردارعروہ کو بھی حیران و ششدر کردیا۔(بخاری)31
رسول کریم ؐ کے ایک اور عاشق صادق حضرت ابو ایوبؓ انصاری تھے۔ ہجرت مدینہ کے معاًبعدرسول اللہؐ آپؐ کے مکان میں آکررہائش پذیر ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے ابو ایوب ؓ کی محبت کاعجب عالم تھا۔چھ یا سات ماہ کا عرصہ جو آنحضرت ﷺ ان کے ہاں فروکش رہے، انہوں نے مہمانی کا حق خوب ادا کیا۔ سارا عرصہ رسول اللہ ﷺ کا کھانا باقاعدگی سے تیار کر کے بھجواتے رہے۔ جب کھانا بچ کر آتا تو اس پر رسولؐ خدا کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور وہاں سے کھانا تناول کرتے۔ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے کھانا تناول نہ فرمایا۔ ابو ایوب ؓ جو رسو لؐ خدا کا بچا ہوا تبّرک کھانے کے عادی تھے دوبارہ حاضر ہوئے۔ عرض کی حضورؐ نے آج کھانا تناول نہیں فرمایا۔ حضور ؐ نے فرمایا آج کھانے میں پیاز لہسن تھا اور میں اسے پسند نہیں کرتا۔ابو ایوب ؓ نے عرض کی ’’حضورؐ جسے آپؐ ناپسند فرماتے ہیں آئندہ سے میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ (ابن حجر32) (معلوم ہوتا ہے کچاّ پیاز لہسن ہوگا جسے پسند نہیں فرمایا)۔
انہیں عشاقِ رسول ؐمیں سے زید بن حارثہؓ بھی تھے جنہیں انکے قبیلہ پر حملہ کے دوران پکڑ کر بیچ دیا گیاتھا۔یہ حضرت خدیجہ ؓ کے غلام تھے۔انہوں نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تو آپؐ نے آزاد کر کے زیدؓ کو منہ بولا بیٹا بنالیا۔زیدؓ رسول اللہ ؐ کی شفقتوں کے مورد بنے اور’’حِبّ رسول‘‘ یعنی رسول اللہؐ کے پیارے کہلائے۔زیدؓ بھی رسول اللہؐ کی محبت کے اسیر ہوکر رہ گئے۔
زیدؓکا والد اُن کی تلاش میں رسول اللہ ؐ کے پاس پہنچا اور اُنہیں آزاد کرنے کی درخواست کی۔رسول اللہؐ نے زید کو بلاکے فرمایا کہ اے زیدؓ تجھے اختیار ہے چاہو تو میرے پاس رہو، چاہو تو اپنے والدین کے ساتھ وطن واپس چلے جائو۔ زید کا یہ جواب عشق و محبت کی دنیا میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ ’’میرے آقا!میں آپؐ کی بجائے کسی دوسرے کے ساتھ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اب آپؐ ہی میرے مائی باپ ہیں۔‘‘(ابن سعد) 33
رسول کریمؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ایک خادم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حضرت ام سُلیمؓ اور ابو طلحہؓ نے اپنے بیٹے کولا کر پیش کردیاکہ حضورؐ ! یہ بچہ انسؓ آپؐ کی خدمت کرے گا۔ (بخاری34)والدین کی طرح لاڈ اور پیار کی خاطر حضورؐ انس ؓ کو ’’بیٹا ‘‘ اور ’’اُنَیس‘‘ کہہ کر پکارتے۔ کبھی ازراہ مذاق ’’یاذَالاُذنین‘‘ یعنی دوکانوں والا کہہ کر یاد فرماتے۔(ترمذی)35
رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی تھی کہ ’’اے خدا انس ؓ کے مال و اولاد میں برکت دے اور اسے جنت میں داخل کرنا!‘‘(بخاری)36
حضرت انسؓ خادم رسولؐ کے مبارک لقب سے یاد کئے جانے لگے۔وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے، کیوں نہ کرتے درنبویؐ کی گدائی سے بڑھ کر فخر کا کیا مقام ہوگا۔حضرت انسؓ نے اس تعلق کی بدولت دینی و دنیاوی برکات حاصل کیں۔
حضرت انسؓ کو آنحضرت ﷺ سے غایت درجہ عشق اور محبت تھی۔آپؐ کے پاس رسول اللہؐ کے تبرکات میں سے ایک موئے مبارک تھا۔بوقت وفات وصیت کی کہ میرے آقا کا یہ بال میری زبان کے نیچے رکھ دینا ۔رسول اللہؐ کی یادگار ایک چھڑی بھی آپؐ کے پاس تھی۔ آپؐ کی وصیت کے مطابق یہ بھی آپؐ کے پہلو میں دفن کی گئی۔سبحان اللہ! محبوب کی جو شَے بھی میسّر تھی اس سے بوقت وفات بھی جدائی گوارانہ تھی تو رسول اللہ ؐ کی جدائی ان پر کیسی شاق گزری ہوگی۔ وفات رسول ؐ کے بعد آپ اکثر دیوانہ و بے خود ہوجاتے اور کیوں نہ ہوتے اگر حسّان ؓکی آنکھوں کی پتلی نہ رہی تھی تو انسؓ کا نور نظر بھی تو جاتا رہا تھا۔اسی حد درجہ محبت کا نتیجہ تھا کہ اکثر خواب میں ’’خادم رسولؐ ‘‘ اپنے آقا سے ملاقات کیا کرتا ۔آقاؐ کی باتیں سناتے تو الفاظ میں نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے۔ حضرت انسؓ کے اس خادمانہ تعلق کو صرف وفات رسولؐ ہی جدا کرسکی۔
حضرت اسامہ ؓبھی رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلام زیدؓ کے بیٹے تھے اور ’’حِبّ رسول‘‘ یعنی رسول اللہؐ کے محبوب کہلاتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’اسامہؓ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے سوائے (میری بیٹی) فاطمہؓ کے۔ خود اسامہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ انہیں اور حضرت حسینؓ کو دونوں رانوں پر بٹھالیتے اور فرماتے۔ ’’اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔‘‘(بخاری37)رسول اللہؐ نے آخری بیماری میں رومیوں کے خلاف جو لشکر تیار کیا اس کی کمان کم سن اسامہؓ کے سپر دفرمائی۔(بخاری)38
اسامہؓ حضورؐ کی آخری بیماری میں آپؐ سے الوداعی ملاقات کرنے آئے وہ بیان کرتے ہیں۔ ’’جب میں حاضر ہوا تو حضورؐ نے دونوں ہاتھ مجھ پرر کھے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھائے۔ میں جانتا ہوں کہ حضور ؐ میرے لئے دعاکررہے تھے۔‘‘
سبحان اللہ آقا کی غلام پر شفقت کا عجیب عالم ہے کہ مرض الموت میں بھی اس یتیم بچہ کے لئے دعا گو ہیں گویا اسے خدا کے حوالے کررہے ہیں دراصل یہ آپ ؐ کی طبعی محبت کا اظہار تھا۔
غزوۂ موتہ میں اسامہؓ کے والد حضرت زیدؓ کی شہادت پررسول اللہؐ نے اسامہؓ کی بہن کو روتے دیکھا تو آپؐ بھی رو پڑے۔سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کی حضورؐ یہ کیا! فرمایا یہ جذبہ محبت ہے۔
رسول اللہؐ کے باوفا غلاموں میں ثوبانؓ بن مالک بھی تھے۔ایک دفعہ روتے ہوئے حاضر ہوئے۔رسول اللہ ؐ نے حال پوچھا تو کہنے لگے یا رسول اللہؐ ! اس دنیا میں تو جب جی کرتا ہے آکر آپؐ کی زیارت کر لیتے ہیں۔ اگلے جہاں میں تو آپؐ بلند مقامات پر ہوں گے تب آپؐ تک رسائی کیسے ہوگی؟ یہ خیال بے چین کردیتا ہے۔رسول کریم ؐ نے ثوبان ؓکو خوشخبری دی کہ آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس کے ساتھ اسے محبت ہو۔(بخاری)39
ربیعہؓ اسلمی رسول اللہؐ کے ایک اور خادم تھے۔ایک دن نبی کریم ؐ نے ان کی خدمتوں سے خوش ہوکر انعام سے نوازنا چاہا ۔فرمایا ربیعہؓ مانگو کیا مانگتے ہو؟ کچھ سوچ کر ربیعہؓ نے کہا یا رسولؐ اللہ جنت میں آپؐ کی رفاقت چاہیے۔فرمایا کچھ اور مانگ لو۔ عرض کیابس یہی کافی ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا پھر ڈھیر سارے سجدوں، دعائوں اور نمازوںسے میری مدد کرنا۔(مسلم)40
حضرت جابرؓ اپنے والد عبداللہؓ بن حرام کے بارہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے حلوا تیار کروایا پھر مجھے کہنے لگے کہ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں تحفہ پہنچا کر آؤ۔ میں لے کر گیا،حضورؐ فرمانے لگے ’’جابرؓ ! گوشت لائے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا’’ نہیں اے اللہ کے رسولؐ ! میرے والد نے یہ حلوا آپؐ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بھجوایا ہے ‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘اوراُسے قبول فرمایا ۔میں جب واپس گیا تو والدنے پوچھا کہ رسول اللہ ؐ نے تمہیں کیا فرمایا تھا ۔میں نے عر ض کر دیا کہ حضورؐ نے پوچھا تھا کہ گوشت لائے ہو؟میرے والد کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ میرے آقا رسول اللہ ؐکو گوشت کی خواہش ہوگی ۔چنانچہ والد صاحب نے اسی وقت اپنی ایک دودھ دینے والی بکری ذبح کردی۔ پھر گوشت بھو ننے کا حکم دیا اور مجھے حضورؐ کی خدمت میں بھنا ہوا گوشت دے کر بھجوایا ۔حضورؐ نے بہت محبت سے دلی شکریہ ادا کرتے ہوئے قبول کیااورفرمایا ’’انصار کو اللہ تعالیٰ بہت جزا عطا فرمائے خاص طور پر عمر و ؓبن حرام کے قبیلے کو۔‘‘(ھیثمی)41
جابرؓ کے والد حضرت عبداللہ ؓاُحد میں شہید ہوگئے اور اپنے پیچھے جابر ؓ کے علاوہ سات بیٹیاں چھوڑیں۔رسول اللہؐ حضرت جابرؓ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ کی وفات کے بعد یہودی ساہوکاروں کا ایک بھاری قرض حضرت جابرؓ پر تھا۔ رسول اللہؐ کی دعا کی برکت سے وہ ادا ہوا۔(بخاری)42
ایک سفر میں جابرؓ کااونٹ تھک کر اڑ گیا تو رسول اللہؐ نے اس کے لئے دعا کی اور وہ بھاگنے لگا۔(بخاری)43
جابرؓ کو بھی رسول اللہؐ کی شفقتیں دیکھ کر آپؐ سے ایک والہانہ عشق ہوگیا تھا اور رسول اللہؐ کی کوئی تکلیف ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے موقع پرخندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کو فاقہ تھا ۔رسول اللہؐ نے بھی اس وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے اور مسلسل تین روزسے ہم نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہؐ سے اجازت لے کر گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے رسول کریم ؐکو ایسے حال میں دیکھا ہے جس پر صبر کرنا نا ممکن ہے ۔تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے ؟پھر میں نے ایک بکر وٹہ ذبح کیا، میری بیوی نے جو پیس لئے، گوشت جب ہنڈیا میں رکھ دیا تو میں رسول کریم ؐ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ میرے گھر تھوڑا سا کھانا ہے آپؐ تشریف لائیں اور اپنے ساتھ ایک دو افراد کو بھی لے لیں‘‘ آپؐ نے پوچھا کہ کھانا ہے کتنا ؟ میں نے تفصیل عرض کر دی، آپؐ نے فرمایا کہ بہت کافی ہے ۔پھر مجھے فرمایا کہ جائو اور بیوی سے کہو کہ ہنڈیا چولہے سے نہ اُتارے اور روٹیاں تنور میں لگانی شروع نہ کرے یہاں تک کہ میں آجائوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ چلوجابرؓ نے ہماری دعوت کی ہے۔ چنانچہ مہاجرین اور انصار حضورؐ کے ساتھ چل پڑے۔ جابرؓ کہتے ہیں کہ میں بیوی کے پاس گیا تو وہ بولی تیرا بھلا ہو رسول اللہ ؐ تو سب مہاجرین وانصار کو ہمراہ لے آئے ہیں ۔کیاحضورؐ نے تم سے کھانے کی مقدار کا پوچھ لیا تھا۔ میں نے کہا’’ہاں‘‘۔ حضورؐ نے صحابہ کو خاموشی سے جابرؓ کے گھر داخل ہونے کی تلقین فرمائی اور روٹی توڑتوڑ کر اس پر گوشت رکھتے گئے ۔ہنڈیا اور تنور کو آپؐ نے ڈھانپ کر رکھا ہوا تھا۔ کھانا لے کر پھر ڈھانپ دیتے تھے اور اپنے صحابہ کو دیتے جا تے تھے۔ اس طرح حضورؐ صحابہ کو کھانا کھلاتے رہے یہاں تک کہ سب نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور پھر بھی کھانا بچ رہا ۔تب آپؐ نے جابرؓ کی بیوی سے فرمایا کہ خود بھی کھائو اور لوگوں کو تحفہ کے طور پر بھجوائو کیونکہ آجکل لوگ سخت بھوک اور فاقہ کہ حالت میں ہیں۔(بخاری)44
حضرت کعبؓ بن عُجرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر دیکھا میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں؟ حضورؐ کے مزاج تو بخیر ہیں۔آپؐ نے کمال بے تکلفی سے فرمایا کہ میں نے تین روز سے کھانا نہیں کھایا۔ کعبؓ کہتے ہیں میں اسی وقت کھانے کی تلاش میں باہرنکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک یہودی اپنے اونٹوں کو پانی پلارہا تھا۔ میں نے اس کے اونٹوں کو پانی پلانے کے لئے ایک ڈول پانی کے عوض ایک کھجور لینے کی حامی بھرلی۔ پھر وہ کھجوریں اکٹھی کر کے نبی کریمؐ کی خدمت میں جاکر پیش کردیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کعبؓ ! یہ کہاں سے لائے؟ میں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا اے کعبؓ کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان مجھے آپؐ سے عشق ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے۔فقروفاقہ اس کی طرف بہت تیزی سے آتا ہے اور تجھے بھی آزمایا جائے گا۔ اس لئے اس کے مقابلہ کے لئے تیاری کرلو۔ اس کے بعد ایک دفعہ کعبؓ بیمار ہوگئے۔ رسول کریمؐ نے اپنے اس عاشق کا حال پوچھا کہ وہ کہاں ہیں نظر نہیں آئے۔ ان کی بیماری کا پتہ چلا تو بنفس نفیس احوال پُرسی کے لئے تشریف لے آئے اور کعب کو تسلّی اوربشارت دی۔(ھیثمی)45
حضرت سعد بن خیثمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں تبوک میں رسول اللہؐ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اپنے کھجور کے باغ میں گیا تو دیکھا کہ چھپر میں چھڑکا ئو کر کے بیٹھنے کی ٹھنڈی جگہ بنائی گئی ہے۔ میری بیوی موجودتھی۔میں نے کہا یہ انصاف نہیں۔ خدا کا رسول سخت گرمی کے موسم میں ہواور میں سائے اور پھلوں میں ہوں۔ میں نے اسی وقت سواری لی اور کچھ کھجوریں بطور زادِ راہ لے کر چل پڑا۔ میری بیوی کہنے لگی کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا رسول اللہؐ کے ساتھ شریک جہاد ہونے کے لئے۔جب میں لشکر کے قریب پہنچا تو رسول اللہؐ نے دور سے غبار اُٹھتی دیکھ کر فرمایا خدا کرے یہ ابو خیثمہؓ ہو۔میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ؐ میں توپیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہلاک ہونے کو تھا اور پھراپنا قصہ کہہ سنایا۔ رسول اللہؐ نے میرے لئے دعائے خیرکی۔(ہیثمی)46
عشق رسول تو ایمان کی علامت ہے۔اس لئے صحابیات رسولؐ بھی اس میدان میں مردوں سے پیچھے نہ تھیں۔وہ رسول اللہؐ کے حالات اور ضروریات پر نظر رکھتیں اور ان کو پورا کر کے ثواب اور تسکین دل حاصل کرنا چاہتیں۔
رسول اللہؐ کی ازواج میں حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر کون رسول اللہؐ کا عاشق ہوگا۔ مسروق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عائشہ ؓ مجھ سے باتیں کرتے کرتے روپڑیں میں نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں میں کبھی بھی سیر ہوکر کھانا نہیں کھاتی مگر چاہتی ہوں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ؐکی تنگی اورسختی کا زمانہ یادکر کے رولوں۔(ابن سعد)47
حضرت زیدؓ مدنی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے امّ المؤمنین سلام ہو۔ انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر رونا شروع کردیا ہم نے کہا ام ّ المؤمنین! رونے کا سبب کیا ہے؟ حضرت عائشہؓ فرمانے لگیں مجھے پتہ چلا ہے کہ تم لوگ قِسما قسم کے کھانے کھاتے ہو۔ یہاں تک کہ پھر اسے ہضم کرنے کے لئے دوا تلاش کرتے پھرتے ہو۔ مجھے تمہارے نبی کے فاقہ کا زمانہ یادآگیا اس لئے روتی ہوں۔ آپؐ دنیا سے رخصت ہوئے تو حال یہ تھا کہ کسی ایک دن میں آپؐ نے دو کھانوں سے پیٹ نہیں بھرا۔ جب پیٹ بھر کر کھجور کھالی تو روٹی سیر ہوکر نہیں کھائی اورر وٹی پیٹ بھر کر کھائی تو کھجورسے سیر نہیں ہوئے۔ اس تکلیف دہ یاد نے مجھے بے اختیار رُلادیا۔(ابن سعد)48
ایک صحابیہ نے ایک دفعہ رسول اللہؐ کے لئے لباس کی ضرورت محسوس کی تو ایک خوبصورت چادر ہاتھ سے کڑھائی کر کے لے آئیں اور حضورؐ کی خدمت میں نذرکرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میری خواہش ہے کہ آپؐ یہ چادر خودزیب تن فرمائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ضرورت کایہ انتظام ہونے پر شکریہ کے ساتھ اسے قبول کیا اور وہ چادر پہن کر مسجد میں تشریف لائے۔ ایک شخص نے دیکھ کر کہا اے اللہ کے رسولؐ! یہ کتنی خوبصورت چادر ہے؟آپؐ مجھے ہی عطا فرمادیں۔آپؐ نے فرمایا’’اچھا یہ آپ کی ہوئی‘‘ نبی کریمؐ جب مجلس سے اُٹھ کر تشریف لے گئے تو صحابہ نے اس شخص سے کہا کہ آپ نے حضورؐ سے چادر مانگ کر اچھا نہیں کیا، خصوصاً جب کہ حضورؐ کو اس کی ضرورت بھی تھی اور آپ کو پتہ ہے کہ رسول اللہؐ سے کچھ مانگا جائے تو آپؐ کبھی انکار نہیں فرماتے۔وہ صحابی کہنے لگے سچ پوچھو تو میں نے بھی برکت کی خاطر یہ پہنی ہوئی چادر مانگی ہے۔میری خواہش ہے کہ مرنے کے بعد میرا کفن اسی چادر سے ہو جو رسول اللہؐ کے بدن سے مَس ہوئی۔(بخاری)49
حضرت امّ سلیمؓ بسا اوقات کھانابنواکے رسول اللہؐ کے گھر بھجوادیتی تھیں۔ حضرت زینب ؓکی شادی کے موقع پر بھی حضرت ام سلیمؓ نے کافی سارا کھانا بنواکے بھجوادیاجس سے رسول اللہؐ نے دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایا۔(بخاری)50
ایک انصاری خاتون مینا ئؓ نامی تھیں۔ان کا غلام بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہؐ کے مجلس میں بیٹھنے کے لئے کوئی لکڑی کی اچھی چیز بنواکر دیں۔ چنانچہ رسول اللہؐ سے انہوں نے عرض کیا میں آپؐ کے بیٹھنے کے لئے کوئی چیز بنوانا چاہتی ہوں۔ حضور نے خوشی سے اجازت دیدی تو انہوں نے وہ منبر بنوایا جس پر رسول اللہؐ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔(بخاری)51
اُحد کے دن مدینہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ رسول اللہؐ شہید ہوگئے ہیں۔ مدینہ میں عورتیں رونے اور چلانے لگیں۔ ایک عورت کہنے لگی تم رونے میں جلدی نہ کرو میں پہلے پتہ کرکے آتی ہوں، وہ گئی تو پتہ چلا کہ اس کے سارے عزیز شہید ہوچکے تھے۔ اس نے ایک جنازہ دیکھا ،پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے۔ بتایا گیا کہ یہ تمہارے باپ کا جنازہ ہے۔ اس کے پیچھے تمہارے بھائی ،خاوند اور بیٹے کا جنازہ بھی آرہا ہے۔ وہ کہنے لگی مجھے یہ بتائو رسول اللہؐ کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا نبی کریمؐ وہ سامنے تشریف لارہے ہیں۔ وہ رسول اللہؐ کی طرف لپکی اور آپؐ کے کرتے کا دامن پکڑ کر کہنے لگی میرے ماں باپ آپؐ پرقربان اے اللہ کے رسولؐ! جب آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔(ہیثمی)52
الغرض کیا مرد اور کیا عورتیںاور کیا بچے سب ہی اس پاک رسولؐ کے دیوانے اور اس کے منہ کے بھوکے تھے اور یہ کمال آنحضورؐ کے اخلاق فاضلہ کا تھا جن سے دنیا آپؐ کی گرویدہ تھی اور آج تک ہے اوررہے گی۔


حوالہ جات
1
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی الرخصۃ فی لبس الحمرۃ للرجال:2735
2
کامل لابن عدی جلد2ص701
3
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجرجز 4ص102بیروت
4
السیرۃ الحلبیۃ جلد1ص295بیروت
5
السیرۃ الحلبیۃ جلد 2ص43بیروت
6
مسند احمد جلد1ص3مطبوعہ بیروت
7
بخاری کتاب التفسیر سورۃ النصر
8
بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمرؓ
9
مسند احمد جلد4ص336مطبوعہ بیروت
10
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ و وفاتہ:4097
11
اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیرجزء 3ص376 دارالاحیاء التراث العربی
12
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک وھی غزوۃ العسرۃ:4063
13
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب ؓ :3664
14
مسند احمدجلد3ص348مطبوعہ بیروت
15
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجرجز 4ص11مطبوعہ بیروت
16
الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد3ص410بیروت
17
مسند احمد بن حنبل جلد5ص204مطبوعہ مصر
18
مسند احمد جلد6ص372مطبوعہ بیروت
19
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ اذتستغیثون:3658
20
الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد3ص505مطبوعہ بیروت
21
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
22
الطبقات الکبریٰ ابن سعدجلد3ص117مطبوعہ بیروت
23
الطبقات الکبریٰ ابن سعدجلد3ص118مطبوعہ بیروت
24
اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیرجلد4ص370بیروت
25
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ احد
26
السیرۃ الحلبیۃ جلد2ص245 دارا حیاء التراث العربی بیروت
27
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص170مطبوعہ بیروت
28
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص171,172بیروت
29
مسند احمد جلد4ص415مطبوعہ مصر
30
بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد
31
بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد
32
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجرجلد 1ص90دارالکتب العلمیہ بیروت
33
الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد3ص45مطبوعہ بیروت
34
بخاری کتاب الدعوات باب قول اللہ تعالیٰ وصل علیھم :5859
35
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی المزاح:1915
36
بخاری کتاب الدعوات باب قول اللہ تعالیٰ وصل علیھم:5859
37
بخاری کتاب المناقب باب ذکر اسامۃ بن زید:3455
38
بخاری کتاب المناقب باب مناقب زید:3451
39
بخاری کتاب الادب باب علامۃ حب اللہ:5702
40
مسلم کتاب الصلاۃ باب فضل السجود والحث علیہ:754
41
مجمع الزوائد لھیثمی جلد9ص317 بحوالہ البزار
42
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد و کتاب الاستقراض
43
بخاری کتاب الجہاد باب استیذان الرجل الامام
44
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الاحزاب
45
مجمع الزوائد لھیثمی جلد10ص312
46
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص193مطبوعہ بیروت
47
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص400
48
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص406
49
بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق و السخاء
50
بخاری کتاب النکاح باب الھدیۃ للعروس
51
بخاری کتاب الصلوۃ باب الاستعانۃ بالنجار:429
52
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص115 بیروت بحوالہ طبرانی

رسول اللہ ؐ بحیثیت داعی الی اللہ
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم منصب بطور نبی اور رسول کے یہ تھا کہ آپؐ اللہ کے حکم کے مطابق بنی نوع انسان کو خدا کی طرف بلائیں۔ قرآن شریف میں آپؐ کا یہ مقام ’’دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ‘‘ (الاحزاب :47) بیان کیا گیا ہے۔
آپؐ ہی کائنات کے وہ بہترین وجود تھے جنہوں نے محض دنیا کو خدا کی طرف بلایا ہی نہیں بلکہ خدا کے حکموں پر خود عمل کر کے بھی دکھادیااور ثابت کیا کہ آپؐ ہی سب سے بڑھ کر خدا کے فرمانبردار ہیں۔
آپؐ ہی تھے جنہوں نے’’ بَلِّغْ ‘‘(یعنی پیغام پہنچادو)کے حکم کی تعمیل میں حق تبلیغ ادا کر کے دکھایا۔ آپؐ نے مخفی طور پر بھی دعوت الی اللہ کی اور اعلانیہ بھی۔دن کے وقت بھی دنیا کو خدا کی طرف بلایا اور رات کو بھی۔بنی نوع انسان کا گہرا درد آپؐ کے سینہ میں موجزن تھا جس کی بناء پر آپؐ ہر کس و ناکس کو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔آپؐ نے غرباء اور فقراء کو بھی پیغام پہنچایا، بادشاہوں اور امراء کو بھی دعوت حق دی۔ان کی طاقت و سطوت شاہانہ سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔ ہمیشہ قرآنی تعلیم کی تبلیغ حکمت اور استقلال کے ساتھ فرماتے رہے۔
یہی آپؐ کا وہ عظیم الشان منصب تھا۔ جس کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ’’میں تو صرف ایک مبلغ بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ ہدایت اللہ ہی دیتا ہے۔ پس تم میں سے جس شخص کو مجھ سے کوئی چیز حسنِ رغبت اور حسین ہدایت کے ساتھ پہنچے تو اس میں یقینا اس کے لئے برکت رکھی جائے گی۔‘‘ (احمد)1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں دعوت الی اللہ کا جو دردتھااور دنیا کی ہدایت کی جو فکر تھی اس کا اندازہ آپؐ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ ’’لوگو! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (روشنی کی خاطر) آگ جلائی۔ پروانے اورکیڑے مکوڑے اس پرآآکر گرنے لگے۔ وہ انہیں پرے ہٹاتا ہے مگر وہ باز نہیں آتے اور اس میں گرتے چلے جاتے ہیں۔میںبھی تمہاری کمرسے پکڑ پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں او ر تم ہو کہ دیوانہ وار اس آگ کی طرف بھاگے چلے جاتے ہو۔(بخاری)2
خدا کا پیغام پہنچانے کی خاطررسول اللہؐ نے حکمت کی تمام راہیں اختیار کیں۔ہمیشہ نرم زبان استعمال کی۔عمدہ نصیحت کے ذریعہ دنیا کو اسلام کے حسین پیغام کی طرف بلایا۔بشارتیں اور خوشخبریاں دے کر بھی دعوت دی اور عذاب الہٰی سے ہوشیار کر کے اور ڈرا کر بھی دنیا کو متنبہّ کیامگر ہمیشہ تواضع اور عاجزی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اتمام حجت کیا۔
آپؐ کی ایک حکمت عملی یہ تھی کہ مشترک قدروں سے بات کا آغاز فرماتے۔ ہمیشہ توحید کا پیغام مقدم رکھتے تھے۔جہاں ضروری ہوتاتالیف قلب کے ذریعہ بھی تبلیغ کا حق ادا کرتے۔ اس راہ میں آپ ؐنے دکھ بھی سہے ،تکالیف بھی برداشت کیں۔ مارے پیٹے بھی گئے اور گالیاں بھی سنیں مگر ہمیشہ صبر کیااور کمال استقامت کے ساتھ اپنی بعثت کے دن سے لے کر اس دن تک کہ دنیا سے کوچ فرمایاخدا کا پیغام پہنچانے میں کبھی سست ہوئے نہ ماندہ۔
آپؐ حسب حکم الٰہی سخت معاند مشرکوں اور جاہلوں سے اعراض فرماتے تھے۔ حتی الوسع بحث و جدال کی مجالس سے بچتے تھے۔اگر مباحثہ کی نوبت آہی جائے تو نہایت عمدگی اور حکمت سے احسن طریق پربحث کی تعلیم دیتے تھے۔ سوائے اس کے کہ مدمقابل زیادتی پر اترآئے،سخت جواب سے پرہیز کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پیغام پہنچا کر اتمام حجت کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ کبھی پیچھے پڑ کربات منوانے کی کوشش نہیں فرمائی۔ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلّغ (یعنی پیغام پہنچانے والا) بناکر بھیجا ہے۔سختی کرنے والا نہیں بنایا۔(مسلم)3
اپنے زیر دعوت لوگوں کے لئے بھی دعا کرتے تھے اور اپنی مدد و نصرت کیلئے معاون ونصیر تیارہونے کی دعا ئیںبھی۔ ایسے داعیان جو آپؐ کی صحبت وتربیت سے فیض یاب ہونے کے بعد آگے جاکر دعوت اسلام بھی کریں اور مزید داعی الی اللہ بھی بنائیں۔
مخفی اور انفرادی تبلیغ
دعوت الی اللہ کا ایک بنیادی اصول حکمت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیمانہ رنگ میں دعوت الی اللہ کا بہترین نمونہ ہمیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر آپؐ کی رہنمائی فرمائی اور دعوت الی اللہ کیلئے اعلیٰ حکمتیں تعلیم فرمائیں اور آپؐ نے ان پر عمل کر کے دکھادیا ۔آپؐ کے اخلاق و کردار عین قرآن کے مطابق تھے۔چنانچہ ابتدائی زمانہ میں پیغام حق پہنچانے میں جو حکمتیں بطور خاص ملحوظ رکھی گئیںان میں اولین حکمت مخفی انفرادی تبلیغ ہے۔یعنی دعویٔ نبوت کے ابتدائی تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عملی نمونہ سے نیز مخفی اور انفرادی طور پر تبلیغ فرماتے رہے جس کے نتیجہ میں آپؐ کے افراد خانہ حضرت خدیجہؓ ،حضرت علیؓ اور قریبی تعلق والوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زیدؓ نے اسلام قبول کرلیا۔
اس زمانہ کا کچھ حال اسماعیلؓ بن ایاس اپنے دادا عفیفؓ سے یوں بیان کرتے ہیں کہ میں تاجر آدمی تھا حج کے زمانہ میں منٰی آیا۔ عباس بن مطلب بھی تاجر تھے۔ ان کے پاس کچھ خرید وفروخت کے لئے آیا۔میرے وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے خیمہ سے نکل کر خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کردی۔پھر ایک عورت اور ایک بچہ بھی اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ میں نے عباسؓ سے پوچھا کہ یہ کون سا دین ہے۔ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ محمدؐ بن عبداللہ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے ان کو بھیجا ہے اور یہ کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے ہاتھ پر فتح ہو ں گے۔ ساتھ ان کی بیوی خدیجہؓ بنت خویلد ہیںجو آپؐ پر ایمان لے آئی ہیں۔یہ لڑکا ان کا چچا زاد علیؓ بن ابی طالب ہے جو آپؐ پر ایمان لایا ہے۔عفیفؓ کہا کرتے تھے کاش اس وقت میں ایمان لے آتا تو میرا تیسرا نمبر ہوتا۔(بیہقی4)مگریہ سعادت حضرت ابوبکر ؓ کو عطا ہونی تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کے حق میں خود تائید ونصرت کی ہوائیں چلاتا اور ان کی تنہائی کے زمانہ کی دعائیں قبول فرماتے ہوئے انہیں مضبوط معاون و مددگار عطا فرماتا ہے۔ اسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکرؓ جیسی سعید روح کے دل میں اسلام کی جستجو پیدا کردی اور انہوں نے خود آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعویٰ کی نسبت پوچھا تو آپؐ نے قریبی دوستی کے تعلق کے حوالہ سے ان پر معاملہ کھول دیا۔
دعوت الی اللہ کا پہلا شیریں پھل
ابن اسحاق ؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو پوچھا کہ اے محمدؐ! قریش کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیا اوران کو بے وقوف ٹھہرا کر ان کے باپ دادا کو کافر قرارد یا۔کیا یہ درست ہے؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہاں میں اللہ کا رسول اور اس کا نبی ہوں۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچائوں اور اللہ کی طرف حق کے ساتھ دعوت دوں اور خدا کی قسم یہی حق ہے۔اے ابوبکرؓ! میں آپ کو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اس خدا کی اطاعت کی خاطر ہماری دوستی ہونی چاہئے۔پھر حضور ؐ نے کچھ قرآن بھی ابوبکرؓ کو سنایا۔ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرلیا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کر کے اُنکاانکارکیا ۔ یوں ابوبکرؓ اسلام قبول کر کے لوٹے۔
حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ ؐ سے آپؐ کے دعویٰ کے لئے کوئی دلیل نہیں لی۔اسی لئے نبی کریم ؐ فرماتے تھے کہ جسے بھی میں نے اسلام کی طرف دعوت دی، اسے ایک دھچکا سا لگا ۔ اسلام قبول کرنے میں تردّد ہوا اور وہ سوچ میں پڑگیا سوائے ابو بکرؓ کے کہ انہوں نے فوراً میری دعوت قبول کرلی اور ذرہ برابر بھی تردّد نہیں کیا۔(بیہقی5)مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے
لیک آں صدیق حق معجز نخواست
گفت ایں رو خود نہ گوید غیرراست
یعنی صدیق اکبرؓ نے رسول اللہؐ سے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا یہی کہا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں۔
اس دوران رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بھی اپنے آقاومولیٰ کا دین قبول کرچکے تھے۔ اب قافلۂ اسلام میں چارافراد ہوچکے تھے۔ اعلانیہ تبلیغ کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
تبلیغ میں تدریج
عمرو بن عنبسہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہؐ کی بعثت کے ابتدائی زمانہ میں مکّہ آیا۔ اس وقت رسول اللہ ؐ نے ابھی رسالت کا اعلان عام نہیں فرمایاتھا ۔میں نے آپؐ سے پوچھا کہ آپؐ کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں نبی ہوں۔میں نے پوچھا کہ نبی کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا اللہ نے آپؐ کو بھیجا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ میں نے کہا کیا تعلیم دے کر بھیجا؟آپؐ نے فرمایا یہ کہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ بتوں کو چھوڑا جائے اور رحمی رشتوں کے حق ادا کئے جائیں۔میں نے کہا یہ تو بہت اچھی تعلیم ہے۔اسے کتنے لوگوں نے قبول کیا ہے۔آپؐ نے فرمایا ایک آزاد اور ایک غلام (یعنی ابوبکرؓ اور زیدؓ۔اس جگہ حضورؐ نے صرف گھر سے باہر کے مردوں کا ذکر کیا ہے) گھر کی عورت خدیجہؓ اور بچے علیؓ کا ذکر نہیں فرمایا۔عمروؓ نے اسلام قبول کرلیا ۔وہ کہتے تھے کہ میں گویامَردوں میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والا تھا۔پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ کیا میں یہاں رہ کر آپؐ کی پیروی کروں؟ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں تم اپنی قوم میں جاکر اس تعلیم پر عمل کرو۔ البتہ جب تمہیں میرے خروج یعنی ہجرت کا پتہ چلے پھر آکر میری پیروی کرنا۔‘‘(بیہقی)6
حضرت عمرو بن عنبسہؓ نے نبی کریمؐ کی اس نصیحت پر خوب عمل کیا ۔اپنے علاقہ میں رہ کر اسلام پر قائم رہے۔ہجرت مدینہ کے بعد کے زمانہ میں وہ مدینہ آگئے اور رسول اللہؐ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔
ابتدائی زمانے کی تبلیغ میں تدریج کاپہلو نمایاں نظرآتا ہے۔حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی تھیں کہ اول رسول اللہؐ پر وہ سورتیں اتریں جو مفصّل (نسبتاً لمبی سورتیں)کہلاتی ہیں اور جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ پھر جب کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تو حلال و حرام کے احکام اترے۔ اگر رسول اللہؐ آغازمیں یہ حکم دیتے کہ زنانہ کرو،شراب نہ پیو ،چوری نہ کرو تو لوگ کہتے ہم شراب بھی نہیں چھوڑیں گے، ہم زنابھی نہیں چھوڑیں گے۔(بخاری)7
آغاز میں صرف اقرار توحید و رسالت کروایا گیا۔ پھر جوں جوں احکام الہٰی اترتے گئے تدریجاً ان کی طرف دعوت دی گئی۔پس نئے لوگوں کو اسلام کی طرف لانے میں تدریج کا اصول کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
مخفی تبلیغ
آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخفی طور پر انفرادی تبلیغ فرماتے رہے، حضرت ابوبکرؓ نے بھی قبول اسلام کے بعد اپنی قوم کے قابل اعتماد افراد تک پیغامِ حق پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ پھر چراغ سے چراغ روشن ہونے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ قریش کے چند نوعمر نوجوان ایمان لے آئے۔ان اسلام قبول کرنے والوں پر آپؓ کی سیرت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت سعدؓبن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ بن العوام اور حضرت طلحہؓ بن عبداللہ شامل ہیں۔جن کو رسول اللہؐ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی۔ان کے علاوہ حضرت بلالؓ اور کچھ اور غلام بھی اس عرصہ میں ایمان لائے۔
رشتہ داروں سے تبلیغ عام کاآغاز
تین سال بعد ارشاد ہوا۔ فَاصْدَعْ بِمَاتُؤْ مَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ (سورۃ الحجر :95) کہ جو حکم آپؐ کو دیا جاتا ہے اسے کھول کر سنادیںاور مشرکوں سے اعراض کریں۔ساتھ ہی یہ حکیمانہ ارشادہوا کہ اس کا آغاز اپنے قریبی رشتہ داروں سے کیا جائے۔فرمایاوَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤْمِنِیْنَ (سورۃالشعرائ:215,216)
ترجمہ:اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کراور ان مومنوں کے لئے اپنا پہلو جھکا دے جنہوں نے تیری پیروی کی ہے۔
رشتہ داروں کو تبلیغ اور پیغام حق قبول کرنے والوں سے حسن سلوک کا حکم گہری حکمت رکھتا ہے جو ایک پاکیزہ جماعت کے قیام کے لئے نہایت ضروری ہے۔اس حکم کی لفظاً تعمیل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ اپنے رشتہ داروں کا مجمع عام کوہ صفا پر جمع کرنے کی انوکھی ترکیب یہ سوچی کہ علی الصبح صفا پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کریں۔عرب دستور کے مطابق کسی اچانک مصیبت پر مدد کے لئے اکٹھا کرنے کا یہی طریق تھا۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل قریش کے نام لیکر انہیں آواز دی کہ اے عبدالمطلب کی اولاد! اے عبدمناف کی اولاد! اے قصی کی اولاد! پھر چھوٹے قبیلوں کے نام لے کر بلایا۔پہلے تو لوگوں نے دیکھا کہ بظاہر کوئی خطرہ نہیں مگر جب دیکھا کہ محمدؐ بلارہے ہیں تو آپؐ کی آواز پر کوہ صفا پر اکٹھے ہوگئے۔جولوگ خود نہیں آسکتے تھے انہوں نے قاصد بھجوایا کہ دیکھیں کیا بات ہے۔نبی کریمؐ نے کوہ صفا سے انہیں یوں مخاطب فرمایا:۔’’میں ایک ہوشیار کرنے والا ہوں۔میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک حملہ آور دشمن کو دیکھا ہو اور اپنے خاندان کو ہوشیار کرنے جائے مگر اسے ڈر بھی ہوکہ وہ اس کی بات نہیں مانیں گے اور وہ چلّا چلّا کر سب کو مدد کے لئے پکارنا شروع کردے۔‘‘
اس موقع پرنبی کریمؐ نے اپنے بارے میں عزیزواقارب کی رائے بھی حاصل کی اور فرمایا اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے دامن سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے کو ہے تو کیا میری تصدیق کروگے؟انہوں نے کہا’’ کیوں نہیں !آپؐ کی بات ضرور مانیں گے کیوں کہ ہمیں آج تک آپؐ سے کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا۔ہم نے ہمیشہ آپؐ کو سچا پایا ہے۔‘‘ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور اس کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔‘‘
آپؐنے یہ بھی فرمایاکہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ پیغام پہنچائوں۔ پس یاد رکھو کہ میں نہ تو تمہارے لئے دنیا کے کسی فائدہ پر اختیار رکھتا ہوں نہ آخرت میںسے کوئی حصہ دلاسکتا ہوں،سوائے اس کے کہ تم کلمہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرلو۔اس موقع پر ابولہب ناراض ہوکر گالیاں دیتا اُٹھ کھڑا ہوا اور مجمع بکھر گیا۔(بخاری)8
دعوت طعام کے ذریعہ تبلیغ
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ جب رشتہ داروں کو انذار کے بارہ میں ارشاد ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے دل میں ڈر پیدا ہوا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں جب بھی اہل خاندان کو تبلیغ شروع کروں گا تو ان کی طرف سے اچھا رد عمل ظاہر نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ تومیں خاموش رہا اس پر جبریل ؑ نے مجھے آکر کہا کہ اگر آپؐ نے حکم الہٰی کی تعمیل نہ کی تو آپؐ کا رب آپؐ پر بھی گرفت کرے گا۔تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ ایک دعوت طعام کا انتظام کریں جس میں بکری کے پائے کا شوربہ روٹی کے ساتھ پیش کیا جائے اور خاندان بنی مطّلب کے تمام افراد بلائے جائیں تا کہ انہیں پیغام حق پہنچایا جائے۔
حضرت علی ؓ نے حسب ارشاد یہ انتظام کیا اور خاندان کے کم و بیش چالیس افراد کو دعوت دی جن میں آپؐ کے سارے چچا ابوطالب، حمزہؓ،عباسؓ اور ابولہب بھی شامل تھے۔ حضورؐ نے خود سالن ایک کشادہ برتن میں ڈال کر فرمایا اللہ کا نام لے کر کھائیں ۔اللہ تعالیٰ نے کھانے میں خوب برکت ڈالی اور سب نے سیر ہوکر کھایا۔پھر دودھ پیش کیا گیا اور اس میں بھی اتنی برکت پڑی کہ سب نے سیر ہوکر پیا۔جب رسول کریم ؐبات شروع کرنے لگے تو آپؐ کا چچا ابو لہب پہلے بول پڑا اور کہنے لگا تمہارے ساتھی نے تم پر جادو کردیا ہے۔ اس پر لوگ منتشر ہوگئے۔رسول کریم ؐ اس روز اپنا پیغام پہنچا نہ سکے۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس دفعہ تو یہ شخص (ابولہب) بات کرنے میں مجھ سے پہل کر گیا ہے۔اب دوبارہ ایک دعوت طعام کا انتظام کرو جس میں چیدہ چیدہ چالیس افراد خاندان ہوں۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں میں نے دوبارہ دعوت کا انتظام کیا۔ جب سب نے کھانا کھالیاتو رسول کریمؐ نے خطاب میں فرمایا’’ اے عبدالمطلب کی اولاد! خدا کی قسم ! کوئی عرب نوجوان اپنی قوم کے لئے اس سے اعلیٰ اور شاندار پیغام نہیں لایا جو میں تمہارے پاس لایا ہوں۔میں تمہارے پاس دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلائوں۔پس تم میں سے کون اس معاملہ میں میرا مددگار ہوگااور دینی اخوت کا رشتہ میرے ساتھ جوڑے گا؟‘‘سب خاموش تھے۔ایک کم سن حضرت علیؓ اٹھے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ میں حاضر ہوں۔مگر باقی لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے گئے۔(طبری)9
دعوت عام کے حکم کے باوجود مشرکوں سے اعراض کے حکم میں بھی ایک گہری حکمت تھی۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ شرک پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ابتداء ً انہیں نظر انداز کرنا قرین مصلحت ہے۔دوسری حکمت یہ بھی ہوگی کہ مخالفت کا لاوا یکلخت نہ پھوٹے۔ تیسرے اس ارشادمیں یہ پیغام بھی مخفی تھا کہ جن نیک طبائع کوپہلے ہی توحید کی طرف میلان اور شرک سے نفرت ہے پہلے ان سے رابطے کئے جائیں۔
اسلام کا پہلا دارالتبلیغ دارارقم
حضرت ارقم ؓبن ارقم نے گیارہویں نمبرپر اسلام قبول کیا۔ ان کا مکان مکہ میں صفا کی پہاڑی پر تھا۔مکہ میں آغاز اسلام میں مسلمانوں کیلئے کسی مرکزی ٹھکانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حضرت ارقم ؓ نے اپنا یہ گھر پیش کردیاجسے مسلمانوں کا پہلا مرکز بننے کی سعادت ملی۔یہاں نبی کریمؐ ایک عرصہ تک قریش سے مخفی طور پر لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا تو اعلانیہ تبلیغ اور عبادت کا سلسلہ شروع ہوا۔(ابن ہشام)10
جب عام لوگوں کو دعوت حق دینی شروع کی گئی تو کچھ نو عمر اور کمزور لوگ اس پیغام کو قبول کرنے لگے اور یہ تعدادرفتہ رفتہ بڑھنے لگی۔ابتدائی تبلیغ میں مثبت پیغام حق کی حکمت عملی کے پیش نظر اقرارِ توحید اور اللہ کی عبادت کے ساتھ رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تعلیم کی طرف بلایا جاتا تھا۔اس لئے اس پر عام قریش کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت نہ ہوتی تھی اور متحدہ مخالفت کا ابھی آغاز نہیں ہوا تھا۔البتہ جب نبی کریمؐ قریش کی مجالس کے پاس سے گزرتے تو وہ آپؐ کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ عبدالمطلب کے اس بیٹے پر آسمان سے کلام آتا ہے۔
اس کے بعد وہ دَور شروع ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی تبلیغ کے ساتھ بت پرستی سے منع فرمایا اور جن معبودوں کی وہ پرستش کرتے تھے، ان کے نقائص اور عیوب کھول کر بیان کرنے شروع کئے تو مشرکین نے رسول اللہؐ کی مخالفت شروع کردی۔اس مخالفت کی دوسری بڑی وجہ سرداروں کو اپنی ریاست کا خطرہ اور قبائل قریش کی باہمی رقابت بھی تھی۔ چنانچہ مکہ کے دانشور ابوجہل نے رسول اللہؐ کے دعویٰ کو حق جاننے کے باوجود صرف اس لئے قبول نہ کیا کہ اس طرح بنو ہاشم بنواُمیّہ سے سبقت لے جائیں گے۔
سردار مکّہ ابوجہل کو دعوت
قریبی رشتہ داروں کو دعوت اسلام کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْ مَرُ کے حکم کے تابع تبلیغ عام بھی شروع فرمائی۔الہٰی احکامات کے نتیجہ میں آپؐ کا دل بہت مضبوط تھا اور بڑی دلیری اور بہادری سے آپؐ نے یہ فریضہ انجام دیااور بڑے بڑے سرداروں پر بھی اتمام حجت کر کے چھوڑا۔ ابوجہل کو انفرادی طور پر بھی تبلیغ کی کوشش کی۔
مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میری پہلی ملاقات رسول اللہ ؐ سے اس دن ہوئی جب میں ابوجہل کے ساتھ مکہ کی ایک گلی میں آرہا تھا کہ ہمارا سامنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا۔ رسول اللہؐ نے ابوجہل سے کہا’’اے ابوالحکم! اللہ اور اس کے رسول کی طرف آجائو ۔میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘ ابوجہل کہنے لگا ’’اے محمدؐ! کیا توہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے باز آئے گا یا نہیں؟اگر توتم یہ چاہتے ہو کہ ہم گواہی دے دیں کہ تو نے پیغام ہم تک پہنچادیا ہے تو ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ تونے پیغام پہنچادیا۔ ورنہ خدا کی قسم! اگر مجھے پتہ چل جائے کہ جودعوی تم کرتے ہو وہ برحق ہے تو پھر بھی میں تمہاری پیروی ہرگز نہ کروں گا۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ ؐ تو تشریف لے گئے۔پھرابوجہل مغیرہ کو مخاطب ہوکر کہنے لگا۔خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ یہ اپنی بات میں سچا ہے لیکن اس کے جدامجدقُصیّ کی اولاد نے کہا کہ خانہ کعبہ کے غلاف کا انتظام ہمارے پاس ہے تو ہم نے تسلیم کیا۔پھر انہوں نے کہا کہ ندوہ (جرگہ) یعنی مجلس شوریٰ کے انتظام پر بھی ہمارا اختیار ہے توہم کچھ بول نہ سکے۔پھر انہوں نے ہمارے مدمقابل یہ دعویٰ کیاکہ عرب کے جھنڈے کے بھی ہم علمبردار ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑا،انہوں نے کہا کہ حاجیوں کوپانی پلانے کی خدمات ہمارے سپرد ہیں تو ہم چپ ہوگئے۔ پھر مقابلہ آگے بڑھا تو کھلانے پلانے اور سخاوت کے میدان میں ہم نے خوب ان کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ ہم دونوں قبیلوں کے قافلے باہم مشابہ ہوگئے یعنی ہم ان کی برابر کی ٹکر ہوگئے تو انہوں نے دعویٰ کردیا کہ ہم میں سے نبی ہے۔خدا کی قسم! میں یہ ہرگز نہ ہونے دونگا۔(بیہقی)11
قریش کی متحدہ مخالفت کا آغاز
رسول کریمؐ نے جب کھل کر تبلیغ شروع کی اور بت پرستی سے منع کیا اور آپؐ کے ساتھ ایک جماعت اکٹھی ہونی شروع ہوگئی تو قریش کو اپنی سرداری خطرے میں نظر آنے لگی۔ وہ مشورے کرنے لگے کہ کس طرح اس نئے سلسلہ کو روکا جائے۔
ایک دن ابو جہل نے سردارانِ قریش کی مجلس میں کہا محمدؐ کا معاملہ کچھ بڑھتاہی جارہا ہے۔ تم لوگ کسی ایسے شخص کو تلاش کرو جو جادو، کہانت اور شعر کا علم رکھتا ہو اور وہ ہماری طرف سے جاکر اس سے بات کرکے ہمیں اس کا ردّ عمل بتائے۔اس پر ایک سردار عُتبہ کہنے لگا کہ میں جادو، کہانت اور شعر سب کے بارہ میں کچھ علم رکھتا ہوں اگراس سے متعلق کوئی بات ہے تو میں کافی ہوں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمدؐ! تم بہتر ہو یا ہاشم ، عبدالمطلب اور عبداللہ ؟(جوتمہارے آباء واجداد اور بزرگ تھے)۔ رسول اللہؐ خاموش رہے۔ اس نے پھر کہا آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا کہتے اور ہمارے آبائو اجداد کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟اگر آپؐ سرداری کے خواہاں ہیں تو ہم آپؐ کو سردار مان لیتے ہیں۔ اگر کہیں شادی کا ارادہ ہے توقریش کے جس گھر انہ سے کہو دس عورتیں بیاہ کردینے کو تیار ہیں۔ اگر مال چاہئے تو اتنا مال جمع کر کے دیتے ہیںکہ آپؐ اور آپؐ کی اولاد بھی ہمیشہ کے لئے محتاجی سے محفوظ ہوجائے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوکر اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐ نے سورئہحٰم فُصِّلَتْکی تلاوت فرمائی جس کے آغاز میں ذکر ہے کہ یہ رحمن و رحیم خدا کی طرف سے اترنے والا کلام ہے۔جب آپؐ اس آیت پر پہنچے اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ (حمٰ السجدہ:14)کہ میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عذاب عاد وثمود کی قوم پر آیا تھا۔ عتبہ نے آپؐ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا رحمان خدا کا واسطہ ہے آپؐ مجھے اور نہ ڈرائیں۔ عتبہ اس کلام کی فصاحت و بلاغت سے ایسا مرعوب اور خوفزدہ ہوا کہ وہ واپس سرداروں کے پاس نہیں گیا۔ دیر ہونے پر ابوجہل کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ عتبہ (ﷺ) کی طرف مائل ہوگیا ہے۔ بعد میں جب ابوجہل نے اس سے اسبارہ میں پوچھا تو عتبہ نے اسے سارا واقعہ سناکر کہا تمہیں پتہ ہے محمدؐ جب کوئی بات کہہ دے تو وہ کبھی جھوٹی نہیں ہوتی۔میںڈرتا ہوں کہ وہ عذاب جس سے وہ ڈراتا ہے تم پر آہی نہ جائے۔ (ابن ہشام) 12
مخالفت کے ذریعہ تبلیغ
الہٰی سلسلوں کی مخالفت کی حیثیت بھی ایسی ہے جیسی کھیتی کے لئے کھاد۔ مشرکین مکہ کی مخالفت کے ذریعہ بھی مکہ کے گرد و نواح میں اسلام کی تبلیغ پہنچنا شروع ہوئی۔اس سلسلہ میں دو واقعات بہت اہم اور دلچسپ ہیں۔
پہلا واقعہ قبیلہ ازد شنو ٔہ کے سردارضمّاد کا ہے جو بیماروں کا علاج جھاڑ پھونک اور دم سے کیا کرتا تھا۔ جب وہ مکہ آیا تو اس نے بعض مخالفین اسلام کو کہتے سنا کہ محمدؐ تو دیوانہ اور مجنون ہے۔ضمّاد نیک طبع انسان تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ میں اس شخص سے ملتا ہوں۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پر ہی اسے جنون کی بیماری سے شفا عطا فرمادے۔ضمادؓخود بیان کرتے ہیں کہ میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمدؐ! میں دم سے بیماروں کا علاج کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پر جسے چاہے شفا عطا فرماتا ہے۔ کیا آپؐ مجھ سے علاج کرانا پسند کریں گے؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ارشاد فرمانے سے قبل حسب عادت مسنون خطبہ کے تمہید ی کلمات ہی پڑھے تھے(یہ عربی خطبہ، جمعہ وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے) کہ انہی کلمات نے ضمادؓ کے دل پر گہرا اثر کیا۔ اس نے کہا آپؐ دوبارہ یہ کلمات مجھے سنائیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پڑھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ‘ وَ نَسْتَعِیْنُہ‘ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَاھَادِیَ لَہ‘ وَاَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَاشَرِیْکَ لَہ‘ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ ہم اس کی حمد کرتے اور اس سے مدد کے طالب ہیں ۔جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضمادؓ کی خواہش پر تین باریہ کلمات اُسے سنائے۔
ضمّادؓ بظاہر ایک بدوی تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے فراست عطا کی تھی۔ جس پیغام کو مکہ کے دانشور ’’ابو الحکم‘‘ نے تکبر کی راہ سے ردّ کر دیا خدا ترس ضمّادؓ نے وہ پاکیزہ کلمات سنتے ہی بے ساختہ عرض کیا’’ میں نے بڑے بڑے کاہنوں جادوگروں اور شاعروں کی مجالس دیکھی اور سنی ہیںمگر آج تک ایسے خوبصورت کلمات کہیں نہیں سنے جن کا اثر سمندرکی گہرائی تک ہے۔آپؐ ہاتھ بڑھائیں میں اسلام پر آپؐ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘ وہ ضمّادؓ جو حکیم اور معالج بن کر آیا تھا اسے رسول اللہؐ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے روحانی شفا عطافرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا بااثر اور سمجھدار سردار ہے۔ آپؐ نے اس کی بیعت لیتے ہوئے فرمایا کہ کیاتم اپنی قوم کی طرف سے بھی ان کی نمائندگی میں بیعت کرتے ہو کہ انہیں بھی اسلام کی تعلیم پر کاربند کرو گے؟ ضمّادؓنے کمال اعتماد سے اپنی قوم کی نیابت میں عہد بیعت باندھا۔اس غائبانہ عہدبیعت کا بھی مسلمانوں نے اتنا لحاظ کیا کہ بعد کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی مہم پر بھجوائے ہوئے اسلامی دستہ کا گزر ضمّادؓ کی قوم کے پاس سے ہوااورامیر دستہ کا جب اس قوم سے تعارف ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھاکہ ان لوگوں سے کوئی چیز زبردستی تو نہیں لی گئی؟پھر یہ معلوم ہونے پرکہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ سامان لیا گیا ہے امیر لشکر نے فرمایا’’یہ فوراً واپس کردیا جائے کیونکہ یہ ضمّادؓ کی قوم ہے جس کی طرف سے ان کے سردار نے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا ہوا ہے۔‘‘ (مسلم)13
مکہ کے نواحی قبائل میں اسلام
رسول اللہؐ کے دعویٰ کی خبرمخالفت کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ مکہ کے اردگرد کے قبائل میں پہنچنے لگی۔ شریف اور سعادت مند لوگ آپؐ کی دعوت پر توجہ دینے لگے۔ انہیں میں سے ایک سردار اکثم بن صیفی تھے جنہوں نے دعوے کی اطلاع سن کرخود حضورؐ کی خدمت میںحاضر ہونا چاہا مگر ان کی قوم نے اسے روک دیا۔تب انہوں نے اپنے نمائندے حضورؐ کی خدمت میں بھجوائے جنہوں نے آکر آپؐ کے دعویٰ کی بابت پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔پھر انہیں آیت اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (سورۃالنحل:91) پڑھ کر سنائی۔جو اسلام کی پاکیزہ تعلیم عدل واحسان پر مشتمل ہے۔ انہوںنے بار بارسن کر یہ آیات یاد کرلیں۔ واپس جاکراکثم کو آپؐ کی خاندانی شرافت اور پاکیزہ تعلیم کے بارہ میں بتایا جسے سن کر اکثم کہنے لگا ’’اے میری قوم ! یہ شخص تو نہایت اعلیٰ درجے کے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور برُی باتوں سے روکتا ہے۔پس تم اسے ماننے میں پہل کرلو۔کہیں پیچھے نہ رہ جائو۔ ‘‘چنانچہ اپنے قبیلہ کے ایک سو افراد ساتھ لے کر وہ حضورؐ سے ملاقات کیلئے روانہ ہوا۔ راستہ میں اس کی وفات ہوگئی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو رسول اللہؐ پرایمان لانے کی وصیت کی اور انہیں گواہ ٹھہرایا کہ وہ مسلمان ہوچکا ہے۔(ابن الجوزی14) یوں اسلام کا پیغام مکہ کے نواحی قبائل میں نفوذ کرنے لگا۔
اردگرد کے قبائل میں مخالفت کے ذریعہ پیغام حق
قبیلہ بنو غفارکے ابو ذرؓ کو بھی اسی طرح اسلام کی اُڑتی ہوئی مخالفانہ خبریں پہنچیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیق کے لئے بھجوایااور کہا کہ جاکر اس دعویدار نبوت کا کلام سنو جس کے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں۔بھائی نے واپس آکر بتایا کہ وہ نبیؐ نہایت عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اس کا کلام شاعر ی سے مختلف ہے۔ابوذرؓ کی پھر بھی تسلی نہیں ہوئی اور وہ خود کچھ زادراہ لے کر تحقیق کے لئے مکہ آئے۔ پہلے تو بیت اللہ میں آکر رسول اللہؐ کو ڈھونڈتے پھرے، کسی سے پوچھنا پسند نہ کیا۔ رات کو بیت اللہ میں ہی لیٹ گئے۔حضرت علیؓ نے انہیں دیکھ کر بھانپ لیا کہ یہ کوئی اجنبی مسافرہے اور انہیں اپنے ساتھ گھر لے جاکر رات بسر کرنے کا انتظام کردیا۔پھراُن کا یہی معمول ٹھہرگیا کہ دن کو خانہ کعبہ آجاتے اور رات حضرت علیؓ کے گھر بسر کرتے۔ تیسرے دن حضرت علیؓنے پوچھ ہی لیا کہ یہاں کیسے آنا ہوا؟ ابوذرؓ نے صحیح راہنمائی کرنے کا پختہ عہد لے کر اپنا مقصد ظاہر کیا۔ حضرت علی ؓنے انہیں بتایا کہ محمدؐ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ صبح حضرت علی ؓ نے انہیںنہایت خاموشی اور اخفاء کے ساتھ رسول اللہؐ کے پاس پہنچا دیا۔ ابو ذرؓ نے رسول اللہؐ کی گفتگو سن کر اسلام قبول کرلیا۔ نبی کریمؐ نے ان سے فرمایا کہ اپنی قوم کی طرف واپس جائو اور انہیں تبلیغ کرویہاں تک کہ میرا اگلا حکم آپ کو پہنچے۔ ابو ذرؓ کہنے لگے پہلے تو میں مشرکین مکہ کے سامنے قبول اسلام کا اعلان کرونگا۔ چنانچہ بیت اللہ جاکر انہوں نے بآواز بلندپڑھا۔
اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ واَشْھَدَُاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر کفار مشتعل ہوکر انہیں مارنے کو دوڑے اور مار مار کر ادھ مؤا کردیا۔ اتنے میں حضرت عباس ؓ آگئے۔ انہوں نے قریش سے کہا۔ تمہیں پتہ ہے کہ یہ غفار قبیلہ کا آدمی ہے جو تمہارے شام کے تجارتی رستہ پر آباد ہے۔ اس طرح انہوں نے ابو ذرؓ کو کفار کے چُنگل سے چھڑایا۔مگر اگلے دن پھر ابوذرؓ نے اسی طرح کلمہ توحید و رسالت کی منادی کی اور پھر مار کھائی اور حضرت عباسؓ نے چھڑایا۔(بخاری)15
سردار قبیلہ دوس کا قبول اسلام
دوسراقابل ذکر واقعہ قبیلہ دوس کے سردار طفیلؓ بن عمرو کا ہے جنہوں نے رسول اللہؐ کی بالواسطہ تبلیغ کی بجائے قریش کی مخالفت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔طفیلؓ بن عمرو ایک معزز انسان اور عقل مند شاعر تھے جب وہ مکہ میں آئے تو قریش کے بعض لوگوں نے ان سے کہا ’’آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اس شخص(محمدؐ) نے عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے۔اس نے ہماری جمعیت کو منتشر کردیا ہے۔وہ بڑا جادو بیان ہے۔باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان اس نے جدائی ڈال دی ہے۔ ہمارے ساتھ جوبِیت رہی ہے، وہی خطرہ ہمیں تمہاری قوم کے بارہ میں بھی ہے۔پس ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اس شخص سے ہوشیار رہنا اور اس کا کلام تک نہ سننا۔‘‘طفیلؓ کہتے ہیں کہ کفار مکہّ نے مجھے اتنی تاکید کی کہ میں نے عزم کرلیا کہ اس شخص کی کوئی بات سنو ںگا نہ اس سے کلام کروں گا ۔یہاں تک کہ بیت اللہ جاتے ہوئے میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی تاکہ غیر ارادی طور پر بھی اس شخص کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں ان کے قریب جاکر کھڑ اہوگیا۔آپؐ کی تلاوت کے چند الفاظ کے سوا میں کچھ بھی نہ سن سکا۔مگر جو سنا وہ مجھے اچھا کلام محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا’’ میرا برُ ا ہو۔میں ایک دانا شاعر ہوں۔ بُرے بھلے کو خوب جانتا ہوں،آخر اس شخص کی کوئی بات سننے میں حرج کیا ہے؟ اگر تو اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کرلوں گا اور بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔‘‘
کچھ دیر انتظارکے بعد جب رسول اللہؐ گھر تشریف لے گئے تو میں آپؐ کے پیچھے ہو لیا۔میں نے کہا ’’اے محمدؐ! آپؐ کی قوم نے مجھے آپؐ کے بارے میں یہ یہ کہا ہے۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھے آپؐ کے بارے میں اتنا ڈرایا کہ میں نے روئی اپنے کانوں میں ٹھونس لی تاکہ آپؐ کی بات نہ سن سکوں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؐ کا کچھ کلام سنا دیا اور جومیں نے سنا وہ عمدہ کلام ہے۔آپؐ خود مجھے اپنے دعویٰ کے بارہ میں کچھ بتائیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کے بارہ میں بتایا اور قرآن شریف بھی پڑھ کر سنایا۔خدا کی قسم! میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی۔ چنانچہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی گواہی دی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں۔ میرا ارادہ واپس جاکر اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلانے کا ہے۔ آپؐ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے مقابل کوئی تائیدی نشان عطا کرے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ! اسے کوئی نشان عطاکر۔پھر میں اپنی قوم کی طرف لوٹا۔ جب میں اس گھاٹی پر پہنچا جہاں سے آبادی کا آغاز ہوتا ہے تو میری آنکھوں کے درمیان پیشانی پر ایک چراغ جیسی روشنی محسوس ہونے لگی۔میں نے دعا کی کہ اے اللہ یہ نشان میرے چہرے کے علاوہ کہیں اور ظاہر فرما دے۔ کہیں الٹایہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ اپنے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے اس کا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔چنانچہ روشنی کا نشان میری چابُک کے سرے پر ظاہر ہوگیا۔ جب میں گھاٹی سے اتر رہا تھا لوگ میری اس روشنی کو میری چابُک پر ایک لٹکتے چراغ کی طرح دیکھ رہے تھے۔
اگلے دن میرے بوڑھے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے کہا اباّجان! آج سے میراآپ کاتعلق ختم۔ والد نے سبب پوچھا ۔میں نے بتایا کہ میں تو اسلام قبول کر کے محمدؐ کی بیعت کرچکا ہوں۔ والد کہنے لگے پھر میرا بھی وہی دین ہے جو تمہارا ہے۔ میں نے کہا ۔ آپ جاکر غسل کر کے صاف کپڑے پہن کر تشریف لائیں تاکہ میں آپ کو اسلامی تعلیم کے بارہ میں کچھ بتائوں۔ انہوں نے ایساہی کیا۔میں نے انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
پھر میری بیوی میرے پاس آئی اسے بھی میں نے کہا کہ آپ مجھ سے جدا رہو۔ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔وہ کہنے لگی میرے ماں باپ تم پر قربان یہ کیوں؟ میں نے کہا تمہارے اور میرے درمیان اسلام نے فرق ڈال دیا ہے۔ چنانچہ اس نے بھی اسلام قبول کرلیا۔اس کے بعد میں نے اپنے قبیلہ دوس کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے میری دعوت پر توجہ نہ کی۔ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ؐدوس قبیلہ کے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے آپؐ ان کے خلاف بددعا کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! دوس قبیلہ کو ہدایت عطافرما اوراے اللہ ان کو ہدایت دے او ران کو لے کر آ۔میں نے عرض کیایارسولؐ اللہ میرا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ ان کے حق میں دعا کریں۔ رسول کریمؐ نے کیا پُرحکمت جواب دیا فرمایا اس قوم میں تمہارے جیسے کئی لوگ موجود ہیں۔ اس طرح طفیل ؓکو سمجھایا کہ جس طرح خود آپ کو آغاز میں سخت تعصب کے باوجود بالآخر طبعی سعادت اور حق سے رغبت اسلام کی طرف کھینچ لائی۔ اس طرح کئی ایسے لوگ ہیں جن تک پہنچ کر حکمت اور نرمی سے پیغام حق پہنچانا اور اتمام حجت کرنا ضروری ہے۔
امرواقعہ بھی یہی ہے کہ حضرت طفیلؓ نے جس طرح اپنے والد اور بیوی کو جدائی اور علیحدگی کی دھمکی دے کر بالآخراسلام کی طر ف مائل کرلیا تھا آپؐ کی قوم محض اپنے سردا رکے لحاظ میں بت پرستی کا ظلم وفساد بدکرداری اور سود خوری وغیرہ ترک کرنے کے لئے فوراً تیار نہ ہوئی۔ تبھی نبی کریمؐ نے حضرت طفیلؓ کو توجہ دلائی کہ آپ واپس جاکر نرمی اور محبت سے پیغام حق پہنچائیں۔
چنانچہ جب طفیلؓ بن عمروؓنے جاکر اس نصیحت کے مطابق مسلسل دعوت الی اللہ کی توکئی لوگوںکو قبول حق کی توفیق ملی۔ ان میں جندبؓ بن عمر بھی تھے جو جاہلیت میں ہی کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مخلوق کا کوئی خالق تو ضرور ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے۔ جندبؓ نے جب اسلام کا پیغام سنا تو پچھتر75افراد کو لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب نے اسلام قبول کیا۔(ابن حجر)16
خود حضرت طفیل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی نصیحت کے مطابق میں نے اپنے قبیلہ میں جاکر مسلسل دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کیا اور سات سال کے قلیل عرصہ میں میرے ذریعہ دوس کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہوکر مدینہ آبسے۔(ابن سعد)17
رئویا کے ذریعہ قبول حق
مخالفت شروع ہونے پر رسول اللہؐ کی اللہ تعالیٰ کے دربار میں آہ و زاری اور نصرت طلب کرنا طبعی امر تھا۔ آپؐ دن رات خدا کے حضور اپنی قوم کی ہدایت کی دعائیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سعید روحوں کے دلوں میں الہام کرکے آپؐ کے حق میں تحریک پیدا کی اور انہیں اسلام کی حقانیت کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ خالدؓ بن سعیدکا قبول اسلام اس کی مثال ہے۔جو ایک رؤیاکے ذریعہ اپنے بھائیوں میں سے سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔
خالدؓ نے خواب میں دیکھا کہ انہیںآگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑا کیا گیا ہے جو بہت وسیع ہے اور اس کا والد ان کو اس میں دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرتا ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کمر کے پٹکے سے پکڑ کر پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ وہ اپنے اس خواب سے بہت ڈر گئے اور کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سچی خواب ہے۔ وہ ابوبکر ؓ سے ملے تو ان سے اس خواب کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ تو بہت نیک اور مبارک خواب ہے۔ تعبیر یہ ہے کہ تم رسول اللہؐ کی پیروی کرتے ہوئے اسلام قبول کرلوگے، تمہاری خواب سے لگتا ہے کہ تم ضرور ایسا کروگے۔ اسلام تمہیںآگ کے گڑھے سے بچالے گا مگر تمہارا باپ اسی گڑھے میں جا پڑے گا۔پھر خالدؓ اجیا د مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپؐ سے پوچھا کہ آپؐ کس بات کی طرف بلاتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کی توحید کی طرف بلاتا ہوں کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور محمدؐ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔ نیزیہ کہ تم پتھر کے بتوں کی پرستش سے باز آئو جو سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع ، نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ کون ان کی پرستش کرتا ہے اور کون نہیں کرتا؟خالدؓ یہ سن کر کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر رسول اللہؐ کو بہت خوشی ہوئی ۔ خالدؓ اس کے بعد اپنے عزیز واقارب سے رُو پوش ہوگئے۔ ان کے والد کو ان کے قبول اسلام کا پتہ چلا تو بعض لوگوں کو ان کی تلاش میں بھیجاجو انہیں پکڑ کرباپ کے پاس لے آئے۔ باپ نے پہلے تو ڈانٹا ڈپٹا، پھر ایک سونٹے سے اتنا ماراکہ سونٹا ٹوٹ گیا مگر خالد ؓ کی استقامت میں فرق نہ آیا۔تب والد نے خدا کی قسم کھاکر کہا میں تمہارانان ونفقہ بند کردوں گا۔ خالدؓ نے کہابے شک آپ میرا خرچ بند کردیں اللہ مجھے رزق دے گا۔ پھرخالدؓ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کے سچے غلاموںمیں شامل ہوگئے۔(احمد) 18
قریش کا پہلا وفد
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلانیہ تبلیغ کے مثبت اثرات دیکھ کر قریش کے بعض شرفأ اور سردار ابوطالب سے ملے اور کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے دین کو قابلِ اعتراض ،ہمیں بے عقل اور ہمارے آباء واجداد کو گمراہ قرارد یتا ہے۔ یا تو اسے ان باتوں سے روکیں یا اس کا ساتھ چھوڑ دیں تاکہ ہم خود اس سے نبٹ لیں۔ابو طالب نے ان سے نرمی سے بات کی اور انہیں سمجھابجھا کر واپس کردیا۔
دوسرا وفد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کام جاری رکھایہاں تک کہ قریش میں آپؐ کا زیادہ چرچا ہونے لگا تو قریش کا دوسرا وفدابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ ہمارے بزرگ ہیں اور قدرو منزلت رکھتے ہیں۔ ہم نے آپ سے اپنے بھتیجے کو روکنے کے لئے کہا مگر آپ نے ہماری بات نہیں مانی اب ہم اس حالت پر صبر نہیں کرسکتے۔آپ یا تواسے اپنے دین کی تبلیغ اور ہمارے معبودوںکی مخالفت سے روکیں یاپھر ہم آپؐ کے ساتھ اُس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ ایک فریق ہلاک ہوجائے۔
ابوطالب کے لئے اب نہایت نازک موقع تھا۔ وہ سخت ڈرگئے۔ اُسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ۔جب آپؐ آئے تو اُن سے کہا کہ’’اے میرے بھتیجے! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کردیںاور ساتھ ہی مجھے بھی۔ تو نے ان کے عقلمندوں کوسفیہ(کم عقل) قرار دیا۔اُن کے بزرگوں کو شَرُّ الْبَرِیَّۃ کہا۔ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور ’’وقودالنّار‘‘ رکھا اور خود انہیں رجس اور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے اپنی زبان کو تھام لو اور اس کام سے بازآجائو، ورنہ میں تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب ابو طالب کا پائے ثبات بھی لغزش میں ہے اور دنیاوی اسباب میں سے سب سے بڑا سہارا مخالفت کے بوجھ کے نیچے دب کر ٹوٹا چاہتا ہے مگر آپؐ کے ماتھے پر بل تک نہ تھا۔نہایت اطمینان سے فرمایا۔
’’چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کی خرابیاں اُن پر ظاہر کر کے اُنہیں سیدھے رستے کی طرف بلائوں اور اگر اس راہ میں مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں۔میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رُک نہیں سکتا اور اے چچا! اگرآپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بیشک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہوجائیںمگر میں احکام الہٰی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رُکوں گااور خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لاکر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گاحتّٰی کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہوجائوں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر فرمارہے تھے اور آپؐ کے چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں تھی اور جب آپؐ تقریر ختم کرچکے تو آپؐ یکلخت چل پڑے اور وہاں سے رخصت ہونا چاہا مگر ابو طالب نے پیچھے سے آواز دی۔جب آپؐ لوٹے تو آپؐ نے دیکھا کہ ابو طالب کے آنسو جاری تھے۔ اُس وقت ابوطالب نے بڑی رقت کی آواز میں آپؐ سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’اے بھتیجے جا اور اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دُوں گا۔‘‘(ابن ہشام)19
تکالیف کی انتہاء
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کی راہ میں بہت دکھ اور اذیتیں اٹھائیں۔ ایک دفعہ آپؐ گھر سے نکلے ۔راستہ میں جو بھی آپؐ کو ملا خواہ وہ کوئی آزاد تھا یا غلام اس نے آپؐ کی تکذیب کی اور جھٹلایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس لوٹ آئے اور جو تکلیف آپؐ کو پہنچی تھی اس کی وجہ سے کمبل اوڑھ کر بیٹھ رہے (قوم سے ناامید ہوکر سوچتے ہوں گے کیا کریں) کہ وحی الہٰی ہوئی اے کمبل اوڑھے ہوئے! کھڑے ہوجائو اور انذار کرتے چلے جائو۔ (ابن ہشام)20
ممالک بیرون میں دعوت الی اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ عام کے بعد سے آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کے خلاف مکہ میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوچکاتھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر ابو طالب کی وجہ سے بھی کسی قدر امن حاصل تھامگر دیگر عام مسلمانوں کی قبول اسلام کے باعث سخت تکالیف دیکھ کر اور ان کی مدد کی طاقت نہ پاکر نبی کریم ؐسخت مغموم ہوتے تھے۔ سوچ بچار کے بعد آپؐ نے صحابہؓ کو مشورہ دیا کہ وہ پڑوسی ملک حبشہ جاکر پناہ لیںجہاںعیسائی بادشاہ بہت عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا۔ چنانچہ مسلمانوں کے مردوزن پرمشتمل دو وفودپہلے بارہ اور پھر اسّی اصحاب حبشہ ہجرت کر گئے۔قریش نے وہاں بھی مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا اورنجاشی اور اس کے سرداروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔عادل نجاشی نے اپنے دربار میں مسلمانوں کو بلا کر ان کا موقف سنا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر سورۃ مریم کی تلاوت کر کے اسلام کی تعلیم پیش کی۔بادشاہ پر اس کابہت گہرا اثر ہوا اور وہ بھی بالآخر مسلمان ہوگیا۔(احمد)21
مظلومیت کا پھل…حمزہؓ
خدا کی راہ میں ان تکالیف اور اذیتوں کے نتیجہ میں شرفاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہمدردی اور نرم گوشہ پیدا ہونا ایک طبعی بات تھی۔ حضرت حمزہؓ کا قبول اسلام بھی تومظلومیت پر صبر کا میٹھا پھل تھا۔واقعہ یوں ہوا کہ ابوجہل کو ہ صفا کے قریب رسول اللہؐ کے پاس سے گزرا تو آپؐ کو اذیت پہنچائی گالیاں بکیں، آپؐ کے دین پر نامناسب اور مکروہ حملے کئے اور کمزوری کے طعنے دیئے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت صبر اورخاموشی سے سنتے رہے۔
عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی اپنے گھر میں یہ سب کچھ سن رہی تھی۔ابو جہل وہاں سے خانہ کعبہ جاکر سردارانِ قریش کی مجلس میں بیٹھ گیا۔ادھر حمزہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس لوٹے۔ ان کا دستور تھا کہ شکار سے واپس آکر گھر جانے سے قبل پہلے طواف کرتے تھے۔ اس دوران سردارانِ قریش سے دعا سلام کرنا بھی ان کا معمول تھا۔وہ خود معزز سرداروں میں سے تھے۔ جب آپ اس لونڈی کے پاس سے گزرے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر تشریف لے جاچکے تھے۔لونڈی کے دل پرآنحضرتؐ کی مظلومیت کا گہرا اثر تھا جس کا اظہار اس نے سردار حمزہ سے یہ کہہ کرکیا کہ اے ابو عمارہ! آپ کے بھتیجے کو ابھی تھوڑی دیر پہلے ابوالحکم نے جو اذیت پہنچائی ہے کاش آپ وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں بیٹھے دیکھا تو آپؐ کو سخت دکھ دیاا ور گالیاں دیتے ہوئے بری اور ناپسندیدہ باتیں کہیں مگر محمدؐ خاموشی سے چلے گئے اور آگے سے کوئی جواب تک نہیں دیا۔
سردار حمزہؓ کی طبعی غیرت نے جوش مارا۔وہ طیش میں آکر خانہ کعبہ کی مجلس میں گئے جہاں ابوجہل بیٹھا تھا اور اس کے سر پر زور سے کمان دے ماری۔ اس کا سربری طرح زخمی کردیا اور جوش میںآکر کہا کہ کیا تم میرے بھتیجے کو گالیاں دیتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے کہ میں بھی اس کے دین پر ہوں۔ اگر طاقت ہے تو آئو اور میرے ساتھ مقابلہ کرو۔تب ابوجہل کے قبیلہ مخزوم کے کچھ لوگ اس کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے مگر ابوجہل نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی میں نے اس کے بھتیجے کو سخت بری گالیاں دی تھیںتم لوگ اسے کچھ نہ کہو۔
ادھر حضرت حمزہ ؓ نے رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کے بعد قریش نے محسوس کیا کہ اب رسول اللہؐ کا معاملہ مضبوط ہوگیا ہے اور حمزہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت کریں گے۔ چنانچہ قریش کی ایذار سانیوں میں کچھ کمی واقع ہوگئی۔(ابن ہشام)22
معاندین اسلام کے لئے دعا
دعوت الی اللہ کا پہلا اور آخری حربہ تو دعا ہی ہے۔آغاز اسلام میں سرداران قریش کی سخت مخالفت دیکھ کررسول کریمؐ کو کمال حکمت اور دانشمندی سے مکہ کے دو طاقتور اور بہادر سرداروں کے قبول اسلام کے لئے بطور خاص دعا کی طرف توجہ ہوئی تاکہ ان کے قبول اسلام سے کفر کی طاقت ٹوٹے اور اسلام مضبوط ہو۔ آپؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان دواشخاص عمرو بن ہشام اور عمر ؓبن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ جو تجھے زیادہ پسند ہو اسلام کو عزت اور قوت نصیب فرما۔(ترمذی23)اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بہت جلد قبول کی اور حضرت عمرؓ کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی۔ حضرت عمرؓ کا قبول اسلام بھی مسلمانوں کی مظلومیت کی برکت تھی۔ہجرت حبشہ مسلمانوں کے لئے شرفاء اہل مکہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کا باعث ہوئی تھی۔ عمرؓبن خطاب اگرچہ آغاز میں اسلام کے ان شدید معاندین میں سے تھے جو مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے تھے لیکن ایک قریشی گھرانے کو ہجرت حبشہ کے لئے رخت سفرباندھے دیکھ کر ان کا دل بھی بھر آیا تھا۔ حضرت عمرؓ کی اپنی ایک روایت کے مطابق قبول اسلام سے پہلے ایک اور موقع پر انہوں نے رات کے وقت رسول اللہؐ کو خانہ کعبہ میں نماز میں قرآن پڑھتے سنا تو دل پسیج گیا۔ یہ سب عوامل دراصل عمرؓ کے حق میںرسول اللہؐ کی دعا کا نتیجہ تھے۔
عمرؓ سے پہلے ان کی بہن فاطمہؓ اور بہنوئی سعیدؓ بن زید اسلام قبول کرچکے تھے مگر عمرؓ کی جابرانہ طبع کے باعث ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا۔ایک دن عمرؓبن خطاب گھر سے تلوار سونتے نکلے ،راستہ میں اپنی قوم کے ایک شخص نُعیم سے ملے جو مخفی طور پر اسلام قبول کرچکا تھا۔ عمرؓ نے اسے بتایا کہ وہ محمدؐ کے قتل کے ارادہ سے نکلے ہیں تاکہ اس نئے دین کے فتنہ کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے۔نعیم نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تم محمدؐ کو قتل کردوگے تو اس کا قبیلہ تمہیں چھوڑ دے گا؟ دوسرے پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمہارا بہنوئی اور بہن مسلمان ہوچکے ہیں۔ عمرؓ سیدھے بہن کے گھر پہنچے توقرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ حضرت خبابؓ وہاں قرآن پڑھ رہے تھے جو عمرؓ کو دیکھ کر چھپ گئے۔ عمرؓنے پوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ پھر کہا مجھے پتہ چلا ہے تم لوگ مسلمان ہوچکے ہو۔ یہ کہہ کر انہوں نے سعیدؓ بن زیدکو پکڑلیا۔بہن اپنے شوہر کو چھڑانے کے لئے اٹھیں تو عمرؓ نے ان کو بھی مارا اور ان کا سر پھٹ گیا۔تب دونوں نے حضرت عمرؓ سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیںآپ جو چاہیںکرلیں۔عمرؓ پہلے ہی بہن کو خون آلود دیکھ کر نادم ہورہے تھے۔کہنے لگے اچھا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے دکھائو تو سہی۔ بہن نے کہا یہ پاک کلام ہے آپ پہلے نہاکرپاک صاف ہوجائیں۔اس میں حکمت یہ تھی کہ ان کا جوش ٹھنڈا ہوجائے۔ عمرؓ نے غسل کے بعد سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھیں تو بے اختیار کہہ اٹھے۔کتنا خوبصورت اور قابل عزت یہ کلام ہے۔ حضرت خباب ؓیہ سن کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے کہ اے عمرؓ! مجھے لگتا ہے کہ خدا نے آپ کو اپنے نبی کی دعا کے لئے خاص کرلیا ہے ۔کل ہی میں نے حضورؐ کو دعا کرتے سنا ہے کہ اے اللہ! اسلام کی تائید عمروؓبن ہشام یا عمرؓ بن الخطاب کے ذریعہ فرما۔پس اے عمرؓ اللہ سے ڈرو۔عمرؓ نے کہا کہ مجھے محمدؐ کا پتہ دو تاکہ میں اسلام قبول کروں۔ خبابؓ نے بتایا کہ حضورؐ صفا میں ہیں۔عمرؓ وہی تلوار لئے سیدھے دارِارقم پہنچے اور جادروازہ کھٹکھٹایا۔ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ سے حضرت عمرؓ کو تلوار سے مسلّح دیکھا اور گھبرا کر رسول اللہؐ کو اطلاع کی۔ حضرت حمزہؓ نے کہا ’’آنے دو۔اگر اس کا ارادہ نیک ہے تو ٹھیک ورنہ اسی کی تلوار سے اسے ٹھکانے لگادیں گے۔‘‘
رسول اللہؐ نے عمرؓکو دامن سے پکڑ کر جھٹکا دیااور فرمایا۔ عمرؓکیسے آئے ہو؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ اس پر رسول اللہؐ نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔(ابن ہشام وبخاری)24
کُشتی کے اکھاڑے میںدعوت الی اللہ
رسول کریمؐ نے ہر کس و ناکس کو پیغام حق پہنچایا،ان میں مکہ کا پہلوان رکانہ بھی تھا۔آپ ؐنے اُسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ’’کیا تم اللہ سے نہیں ڈرو گے اور جس پیغام کی طرف بلاتا ہوں اُسے قبول نہیں کرو گے۔‘‘ اُس نے کہا’’اگر مجھے یقین ہوجائے کہ آپ ؐ کا دعویٰ سچا ہے تو میں آپؐ پر ایمان لے آئوں گا۔آپ ؐنے فرمایا’’اگر میں کشتی میں تمہیں پچھاڑ دوں تو میرے دعوی کی سچائی کا یقین کرلو گے۔‘‘اُس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے اُسے کشتی میں مقابلہ کی دعوت دے دی ۔اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔نبی کریمؐ نے اس بہادر پہلوان کو پچھاڑ دیا۔اس نے دوبارہ اور سہ بارہ مقابلہ کی خواہش کی ہر دفعہ نبی کریمؐ نے اسے پچھاڑ دیا۔وہ کہنے لگا کہ میں حیران ہوں کہ آپؐنے مجھے کیسے گرالیا ہے؟ یہی واقعہ رکانہؓ کے قبول اسلام کا موجب بن گیا۔(مصطفی البابی،بخاری)25
تبلیغ کی راہ میں مصائب
مکہ میں تبلیغ عام کے زمانہ میں نبی کریمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کوجو تکالیف اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں وہ ایک درد ناک اور المناک باب ہے۔اس دور کے صحابہؓ بلکہ خود نبی کریمؐ نے بھی وہ کربناک یادیں بہت کم بیان کی ہیں۔(ان مصائب کا تفصیلی ذکر صبرو استقامت کے زیر عنوان الگ آچکا ہے)
نبی کریمؐ خود فرماتے تھے خدا کی راہ میں مجھے اتنی ایذاء پہنچائی گئی کہ کبھی کسی کواتنی ایذاء نہیں دی گئی اور مجھے اللہ کی راہ میں اتنا ڈرایا گیاکہ کبھی کسی شخص کو اتنا خوفزدہ نہیں کیا گیا۔میرے پر تین تین دن اور راتیں ایسی آئیں کہ میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے کھانے کی کوئی ایسی چیز موجود نہ ہوتی تھی جسے کوئی ذی روح کھاسکے سوائے اس معمولی کھانے یا کھجوروں کے جو بلال اپنی بغل میں دبائے پھرتا تھا۔(احمد)26
شعبِ ابی طالب کے زمانۂ قیدوبند میں تبلیغی ِحکمت عملی
ہجرت حبشہ کے بعد جب قریش نے دیکھا کہ مسلمانوں کے پائوں حبشہ میں جم گئے ہیں اور شاہ حبشہ نے انہیں پناہ دی ہے اور اِدھر مکہ میں عمرؓ اور حمزہؓ جیسے جرأت مند سردار اسلام کے آغوش میں آچکے ہیں۔ اسلام پھیل رہا ہے اور ابوطالب اور ان کا قبیلہ بھی محمدؐ کا حامی ہے۔تب انہوں نے متحدہ مخالفت کاآغاز کیااور محرم ۷ سالِ نبوت میں مسلمانوں کے خلاف مکمل بائیکاٹ کرنے کا معاہدہ کرکے انہیں ایک گھاٹی میں محصور کردیا۔مسلمانوں کے حامی بنو ہاشم اور بنومطلب کے اکثر افراد خواہ مسلمان تھے یا کافروہ بھی ساتھ محصور ہوگئے۔
قریش نے فیصلہ کیا کہ جب تک محمدؐ کو ہمارے حوالہ نہ کیا جائے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ شادی بیاہ ہوگا نہ خرید و فروخت۔ حتّٰی کہ ان کے ساتھ لین دین اور میل ملاپ بھی بند کر کے مکمل بائیکاٹ کردیا گیا۔بغرض توثیق مزیدیہ معاہدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کردیاگیا۔(ابن ہشام)27
شعب ابی طالب کے زمانہ میں مسلمانوں کے روابط محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ان کا ایک رابطہ توبنو ہاشم اور بنو مطلب کے ان افراد سے تھا جو قبائلی حمیت و غیرت کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ گھاٹی میں محصور ہوئے۔جبکہ ابو لہب وغیرہ بعض معاندین ِ اسلام نے محصور ہونے کی بجائے کفار کا ساتھ دینا پسند کیا تھا۔ بنوہاشم کے غیر مسلم مگر مسلمانوں کے ہمدرد اوربہی خواہ محصور افراد پرمسلمانوں کے حسن سلوک کانیک اثر ہونا ایک طبعی بات تھی۔ مزید برآں مظلومیت کے اس زمانہ میں مسلمانوں کی صحبت و معیت میں رہ کر ان غیر مسلموں کا مسلمانوں کی عبادات اور اخلاق و کردار سے متاثر ہونا بھی لازمی امر تھا۔جس کے نتیجہ میں ان کی قبائلی وحدت کے دینی حمیّت میں تبدیل ہونے کے سامان ہوئے۔ اگرچہ اس دور کے تفصیلی تبلیغی حالات بہت کم ملتے ہیںتاہم اس دور میں مذکورہ تبلیغی عوامل کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔
شعب ابی طالب کے زمانہ میں مسلمانوں کے رابطے کا دوسراموقع مکہ کے اُن شرفاء سے تھا جو مخفی طور پر مسلمانوں کی مدد کرتے اور اُنہیں کچھ اجناس پہنچاتے رہتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی مظلومیت کے باعث ہمدردی کے علاوہ ان کی نیکی و شرافت اور حسن کردار کی وجہ سے ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔
اسیری کے ان ایام میں رابطے کا تیسراذریعہ بیرونی تجارتی قافلے تھے جو اہل مکہ کی پابندی سے آزاد تھے۔ مسلمان ان سے کچھ ضرورت کی چیزیں خرید لیا کرتے تھے۔ یوں ان سے بھی رابطہ تبلیغ کا ذریعہ بنتاتھا۔ بعض مشرک سردار ان قافلوں کو تجارت سے تو منع نہ کرسکتے تھے البتہ ان کے دام بڑھانے کی کوشش ضرور کرتے تھے تاکہ مہنگائی کے نتیجہ میں مسلمان مزید مشکل میں پڑیں۔ چنانچہ ابولہب تاجروں کوکہتا تھا کہ محمدؐ کے ساتھیوں کے لئے چیزیں اتنی مہنگی کردوکہ وہ تمہاری کوئی چیز بھی خریدنہ سکیں اس پر وہ قیمتیں کئی گنا بڑھادیتے تھے اور ابولہب انہیں زیادہ منافع دے کر ان کا سارامال خودخریدلیتاتھا۔(ابونعیم)28
محصوری کے زمانہ میں مسلمانوں کے لئے رابطہ کاچوتھا موقع حج کا تھا۔ عربوں کے رواج کے مطابق حج سے کسی کو روکا نہیں جاتا تھااس لئے حج کے موسم میں مسلمان آزادانہ گھاٹی سے باہر نکلتے ۔رسومات حج ادا کرتے۔باہر سے آنے والوں سے رابطے بھی کرتے جنہیں مسلمانوں کی مظلومیت کا حال سن کر لازماً ہمدردری پیدا ہوتی۔اس لحاظ سے شعب ابی طالب کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے نتیجہ میں دشمنانِ اسلام کے نت نئے مظالم سے مسلمانوں کی حفاظت اور بچائو کے ساتھ ان کی تبلیغی کاوشوں کومخصوص کرنے نیزتربیت پر اُن کی توجہات مرکوز کرنے کا زمانہ بن گیا۔پختہ مسلمانوں کے صبر واستقامت کابھی امتحان ہوااور وہ اس میں کامیاب ٹھہرے۔
حج کے موقع پر پیغام حق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین مخاطب تو ساری عرب قوم تھی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مکہ کی بستی میں مبعوث فرمایاجو امّ القریٰ یعنی تمام بستیوں کا مرکز تھی۔جہاں سارے عرب سے دینِ ابراہیمی سے نسبت رکھنے والے لوگ حج و عمرہ کے لئے آتے تھے۔ رسول اللہؐ ان قبائل کے لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور انہیں پیغام حق پہنچا کر سوال کرتے کہ کوئی ہے جو میرا مددگار ہو؟کوئی ہے جو میرا ساتھ دے اور مجھے اپنے ہاں پناہ دے تاکہ میں اُن کے قبیلے میں جاکراپنے رب کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کرسکوں۔جوایساکرے میں اسے جنت کا وعدہ دیتا ہوں۔(ترمذی)29
ایک دفعہ ہمدان قبیلہ کے ایک شخص نے حامی بھری کہ وہ آپؐ کو ساتھ لے جائے گا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ اس کا قوم میں کیا مقام ہے؟ بعد میں وہ ڈرگیا کہ کہیں اس کی قوم خلاف ہی نہ ہوجائے۔ وہ اگلے سال آنے کا وعدہ کر کے چلاگیا۔(بیہقی)30
مگر ان قبائل کا عمومی ردّ عمل یہی ہوتا تھا کہ ایک شخص کی قوم اس کے بارہ میں زیادہ بہتر جانتی ہے۔ وہ شخص ہماری اصلاح کیسے کرسکتا ہے جس نے اپنی قوم میں فساد برپاکررکھاہے اور خود اس کی قوم نے اسے دھتکاردیاہے؟(بیہقی)31
میلوں پر تبلیغ
ایام حج کے بعد مکہ کے نواح میں عکاظ، ذوالمجاز اور مجنہّ مقام پر میلے لگا کرتے تھے جہاں تجارت اور خرید وفروخت کے ساتھ رنگ و طرب کی محفلیں بھی سجائی جاتیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی دھن سوار تھی کہ شاید کوئی سعید روح یہاں مل جائے اور پیغام خدا وندی پہنچانے کے لئے کوئی راہ نکلے۔چنانچہ آپؐ ان میلوں پر پیغام پہنچاتے۔ ہر چند کہ اس راہ میں روکیں پیدا کی جاتیں اور آپؐ کو اذیتیں دی جاتیں مگر آپؐ یہ فریضہ ادا کرنے سے کبھی تھکے نہ ماندہ ہوئے۔
ربیعہؓ بن عباد بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کوذوالمجاز کے میلے میں دیکھا۔ آپؐ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ فرماتے تھے کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو نجات پاجائو گے۔اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ آپؐ بازار کی گلی گلی میں جاکر منادی کرتے۔ لوگ آپؐ پر ٹوٹ پڑتے تھے مگر کوئی مثبت جواب نہ دیتا تھالیکن آپؐ کمال استقامت کے ساتھ مسلسل اپنی بات دہراتے جاتے تھے۔ آپؐ کے پیچھے لمبے بالوں والا سفید رنگ کا ایک شخص تھا جس کی آنکھ بھینگی تھی۔وہ کہتا تھا’’ اے لوگویہ شخص تم سے لات و عزّیٰ کو چھڑوانا چاہتا ہے۔ یہ صابی (بے دین) اور جھوٹا ہے۔‘‘ربیعہؓ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے بتایا کہ آگے محمدؐ بن عبداللہ ہیں جو نبوت کے دعویدار ہیں اور ان کے پیچھے ان کا چچا ابو لہب ہے۔(احمد)32
ذوالمجاز کے میلے کا ایک اور نظارہ ابوطارق ؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو ذوالمجاز میں دیکھا۔آپؐ سرخ قبا پہنے توحید کی منادی کررہے تھے۔ ایک شخص آپؐ کے پیچھے پیچھے پتھر برساتا جاتاتھا جس سے آپؐ کی پنڈلیاں اور ٹخنے زخمی ہورہے تھے۔ وہ کہتا تھا اے لوگو! اس کی بات کبھی نہ ماننا۔(الحلبیہ)33
تیسرا دردناک نظارہ اشعث بن سلیمؓ نے کنانہ کے ایک شخص سے روایت کیا ہے کہ ذوالمجاز کے میلے میں اس نے رسول اللہؐ کی تبلیغ حق کے دوران ابو جہل کو آپؐ کا پیچھا کرتے دیکھا۔ وہ آپؐ پر خاک اڑاتاجاتااور کہتا تھا اے لوگو! کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے بہکانہ دے ۔ یہ تو چاہتا ہے کہ تم لات و عزیٰ کادین ترک کردو۔(احمد)34
تبلیغ حق کے دوران رسول کریمؐ کو دی گئی تکالیف میں سے طائف کے اس اذیت ناک دن کے ذکر کے بغیرتبلیغی مہمات کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا۔وہی دن جسے خود رسول خداؐ نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن قراردیا۔
سفر طائف
10سالِ نبوت میںشعب ابی طالب کی قید کا زمانہ ختم ہوا۔ اُس کی سختیوں کی تاب نہ لاکر یکے بعد دیگرے ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوگئی جس کے بعد اہل مکہ کی مخالفت نے زور پکڑ لیا۔ان کے انکار بالاصرار سے تنگ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال شوال کے مہینہ میں تبلیغ کی خاطر طائف کا سفر اختیار فرمایا۔زیدؓ بن حارثہ اس سفر میں آپؐکے ساتھ شریک تھے۔نبی کریم ؐ نے قریباً دس روز وہاں قیام فرمایا اور طائف کے امراء و شرفاء تک پہنچ کر حق پہنچانے کی سعی فرمائی۔(ابن سعد)35
طائف مکہ سے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پر ایک پرُ فضا پہاڑی مقام ہے جو امراء ورؤساء کی آما جگاہ تھا۔طائف میں دیگر امراء کے علاوہ قبیلہ ثقیف کے تین سردارخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔یہ تینوں بھائی کنانہ عبدیالیل ،مسعود اور حبیب تھے جن سے رسول اللہؐ کا ننھالی رشتہ بھی تھا۔ نبی کریمؐ نے ان کے پاس جاکر انہیں بھی دعوت اسلام دی اور قریش مکہ کی مخالفت کا ذکر کرکے ان سے مدد چاہی۔یہ سن کران میں سے ایک سردارکہنے لگا ’’اگر تجھے خدا نے رسول بناکر بھیجا ہے تو وہ کعبہ کا پردہ چاک کررہا ہے۔ ‘‘دوسرا بولا’’ کیا تمہارے سوا اللہ کوکوئی رسول نہیں ملاتھا جسے وہ مبعوث کرتا۔‘‘
تیسرے نے کہا ’’خدا کی قسم! میں تو تم سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں ہوں۔ اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو تیری بات ردّ کرنا خطرے سے خالی نہیں اور اگر تو اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے تو میرے لئے تم سے گفتگو جائز نہیں۔‘‘بعد کے زمانہ میںاِس تیسرے نے اسلام قبول کرلیاتھا مگر صحابیت کا شرف حاصل ہونے کے بارہ میں صراحت نہیں۔(ابن ہشام)36
نبی کریم ؐنے دیگراہل طائف کو پیغام حق پہنچا نا چاہا تو اس پر بھی سردارانِ ثقیف کو اعتراض ہوا اور انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں ہمارے نوجوان بہک نہ جائیں۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم ؐ کو طائف سے نکل جانے کا حکم سنایا۔آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم میری دعوت قبول نہیں کرتے تو میں خاموشی سے چلا جاتا ہوںتم اس کا اعلان نہ کرو۔مگر ان بدبختوں نے اپنے حکم کی تعمیل کے لئے بعض غلاموں،لونڈوں اور بے وقوف بازاری لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جوگالیاںبکنے اورآپؐ پر آوازے کسنے لگے۔ ایک بڑا مجمع آپؐ کے خلاف اکٹھا ہوگیا ۔یہ لوگ راستہ میں دو قطاروں میں کھڑے ہوکر آپ ؐپر پتھر برسانے لگے۔ پتھروں کی اس بارش کی تاب نہ لاکرکبھی آپؐ بیٹھنے لگتے تو وہ ظالم بازوئوں سے پکڑ کر آپؐ کو کھڑا کردیتے اور پھر پتھر مارتے اور ہنسی اڑاتے۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ رسول اللہؐ کے آگے ڈھال بن کرآپؐ کو پتھروںسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے مگر ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے بے چارے تنہا زیدؓ کر بھی کیا سکتے تھے۔مسلسل کئی میل تک اس ہجوم نے آپؐ کا تعاقب کر کے پتھرائو کیاجس سے رسول اللہؐ کی پنڈلیاں لہولہان ہوگئیں اور جوتے خون سے لالہ رنگ ہوگئے اور زیدؓ کے سر میں شدید زخم آئے۔(الحلبیہ)37
ہجوم تب واپس لوٹا جب آپؐ نے عتبہ اور شیبہ سرداران مکہ کے انگوروں کے باغ میں پناہ لی۔بدبخت قوم ثقیف سے زخمی اورخون آلود ہوکر بھی ہمارے آقا و مولیٰ کے صبرورضا کی شان دیکھنے والی تھی۔ آپؐ نے انگوروں کی بیلوں کے سایہ میں آکر دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے ربّ سے کچھ مناجات اور آہ و زاری کی، اس دعاسے جہاںآپؐ کے کرب کی انتہا کا پتہ چلتا ہے وہاں راہ مولیٰ میں آپؐ کے صبراور برداشت کی معراج کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔آپؐ نے خدا کے حضورکس مُپرسی کی حالت زار میں یوںعرض کیا:۔
’’ اے میرے مولیٰ! میں اپنی ضعف و ناتوانی اور قلّت تدبیر کا حال تیرے سوا کس سے کہوں؟اے سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے! مجھے لوگوں میں رسوا کرنے کی ہر کوشش کی گئی ہے۔تو جو کمزوروں کا رب ہے میرا بھی تو رب ہے۔ تو مجھے کس کے سپرد کرنے لگا ہے؟ کیا مجھے دور درازکے لوگوں کے حوالے کردے گا؟ جو مجھے تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں یا ایسے دشمن کے سپرد کرے گا جن کو تومیرے سب معاملہ پر مکمل قدرت عطاکردے؟
(میرے مولیٰ!) اگر تو ناراض ہوکر میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کررہا تو پھر مجھے تیری راہ میں ان مصیبتوں کی کوئی بھی پرواہ نہیںلیکن میں تیری عافیت کا کہیں زیادہ محتاج ہوں کہ وہ اپنی تمام وسعتوں سے مجھے ڈھانپ لے۔میں تیرے پاک چہرے کے نور کا واسطہ دے کر پناہ کا طلبگار ہوں جس نے تاریکیوں کو روشن کیا ہے ، جس نے دنیا اور آخرت کے معاملات کودرست کررکھا ہے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو او رتو مجھ سے ناراض ہوجائے۔میرے مولیٰ! میں تیری رضا تلاش کرتا رہوں گایہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے اور سوائے تیرے کوئی طاقت اور قدرت کسی کو حاصل نہیں۔‘‘(احمد38)اس دعا کی فوری قبولیت تو اسی وقت ظاہر ہوئی کہ رسول اللہؐ کے لئے ظاہری اور روحانی دونوں قسم کے پھلوں کاانتظام کردیاگیا۔
سردارانِ قریش عتبہ اور شیبہ کو نبی کریم ؐ کی دردناک حالت دیکھ کر آپؐ پرترس آیا۔انہوںنے اپنا عیسائی غلام آپؐ کی خدمت میں بھجوایا جس نے انگوروں کے تازہ خوشے پیش کئے۔رسول کریمؐ بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانے لگے۔ نصرانی عداس نے تعجب سے آپؐ کا منہ دیکھا اور کہا خدا کی قسم ! اس شہر کے لوگ تو اس طرح کی کوئی دعا نہیں پڑھتے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم کس شہر کے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نے کہا میں نینوا کا باشندہ ہوں اور عیسائی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا’’اچھا!تم خدا کے نیک بندے اور نبی حضرت یونس ؑ بن متّٰی کی بستی سے ہو۔‘‘اور یوں رسول کریمؐ نے مصیبت کے وقت بھی ایک غلام کو جو غیر قوم اور غیر مذہب کا تھاپیغام حق پہنچانے کی راہ نکال لی اور اسے حقیر نہیں جانا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا دل نرم کردیا۔ وہ یونس بن متّٰی کا ذکر سن کر کہنے لگا کہ آپؐ کو اس کاکیسے علم ہے؟آپؐ نے فرمایا’’ وہ میرا بھائی اور نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں۔‘‘ عدّاس اسی وقت رسول اللہؐ کے سامنے جھک گیا اور آپؐ کی پیشانی،ہاتھ اور پائوں چومنے لگا۔ عتبہ اور شیبہ جویہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ لو تمہارا غلام تو اس نے خراب کردیا ہے۔ عداس سے اس کے مالکوں نے سرزنش کی اور پوچھا کہ تم نے جھک کر محمدؐ کا ادب کیوں کیا تو اس نے کہا آج روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو سوائے نبی کے کوئی نہیں بتا سکتا۔(ابن ہشام)39
الغرض طائف کا دن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی سخت دن تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ نبی کریمؐ سے پوچھا کہ اُحدکے دن (جس میں آپؐ کے دانت شہید ہوئے اور چہرے پر بھی زخم آئے)سے زیادہ کوئی سخت دن بھی آپؐ پر آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا’’ عائشہؓ!میں نے تمہاری قوم سے بہت تکالیف اٹھائیں مگر سب سے شدید تکلیف وہ تھی جو عقبہ کے دن(سفر طائف میں)اٹھائی۔اس روز میں نے بنی عبد کلال (سرداران طائف) کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر پیغام حق پہنچانے دیںمگر انہوں نے میری بات نہیں مانی۔تب میں وہاں سے چل پڑا۔ اس وقت میں سخت مغموم ہونے کی حالت میں سرجھکائے چلا جاتا تھا۔قرن الثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ میں نے محسوس کیا اورخدائی مدد کیلئے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل نے مجھے سایہ میں لے رکھا ہے۔ پھر جبریل ؑاس میں نظر آئے۔ انہوں نے مجھے بلاکر کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کاسلوک دیکھا ہے جو انہوں نے آپؐ سے روا رکھا ہے۔ اس نے آپؐ کی طرف پہاڑوں کے فرشتہ کو بھجوایا ہے تاکہ آپؐ جو چاہیں اسے حکم دیں۔تب پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے ندا دی۔مجھے سلام کر کے کہا اللہ نے آپؐ کی قوم کا جواب سن لیا ہے۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ مجھے آپؐ کے رب نے آپؐ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپؐ جو حکم دیں میں بجالائوں اے محمدؐ! آپؐ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپؐ چاہیں تو میں(اس وادی کے) یہ دونوں پہاڑ ان پر گرادوں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا’’ نہیں ایسا نہ کرو ۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدا ئے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘(بخاری)40
ولیم میور کی شہادت
مستشرق سرولیم میور جیسا معاند اسلام بھی رسول اللہ ؐکے اس تبلیغی سفر سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔وہ لکھتا ہے:۔
"There is something lofty and heroic in this journey of Mohomet to Tayif; a solitary man, despised and rejected by his own people, going boldly forth in the name of God, Like Jonah to Nineveh, and summoning an idolatrous city to repent and to support his mission. It sheds a strong light on the intensity of his belief in the divine origin of his calling."
’’محمدؐ کے طائف کے سفر میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ایک تنہا شخص جس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور ردّ کردیا، وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متّٰی نینو ا کو گیا اسی طرح وہ ایک بت پرست شہر میں جاکر ان کو توحید کی طرف بلاتا اور توبہ کا وعظ کرتا ہے۔اس واقعہ سے یقینا اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ محمدؐ کو اپنے صدق دعویٰ پر کس درجہ ایمان تھا۔(میور)41
دعوت الی اللہ کے مواقع کی تلاش
تبلیغ عام کے حکم کے بعد نبی کریمؐ پر عرب کے مختلف قبائل میں دعوت الی اللہ کی دُھن سوار رہتی تھی جس کی خا طرآپ ؐ کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے۔ایک دفعہ اوس قبیلہ کے لوگ خزرج کے خلاف مدد مانگنے قریش مکہ کے پاس آئے۔ رسول اللہؐ نے اس وفد کے پاس جاکر انہیں بھی پیغام حق پہنچایا۔یہ نوجوان قبیلہ اوس کی شاخ عبدالا شہل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے سردار ابو الجلیس کی سرکردگی میں مکہ آئے۔ان کا مقصد قریش سے خزرج کے خلاف مدد کے لئے معاہدہ کرنا تھا۔ رسول اللہؐنے اُن کی مجلس میں تشریف لے جاکر فرمایاکہ جس مقصد کے لئے تم آئے ہوکیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتائوں؟۔انہوں نے کہا ’’وہ کیاہے؟‘‘ آپؐنے فرمایا’’ میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے تا وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اس نے مجھ پر کتاب بھی نازل فرمائی ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے اسلامی تعلیم کا ذکر کیا اور انہیں قرآن شریف سنایا۔ یہ سن کر ایک نو عمر نوجوان ایاس بن معاذ کہنے لگا’’ اے میری قوم! تم جس مقصد کے لئے آئے ہویہ پیغام اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اس پر ان کے سردار ابو جلیس نے کنکروں کی ایک مٹھی بھر کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور وہ مدینہ واپس لوٹ گئے جس کے بعد اوس و خزرج میں بعاث کی جنگ ہوئی۔ (بیہقی)42
تبلیغ یثرب
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ مسلسل دس سال تک مکہ میں حج کے موقع پر حاجیوں کے خیموں میں جاکرتبلیغ کرتے رہے۔ اسی طرح آپؐ مجنہ اور عکاظ کے میلوں پر اور منیٰ میں حاجیوں کے خیموں میں تشریف لے جاکر فرماتے تھے کہ کون ہے جو میری مدد کرنے اور پناہ دینے کی حامی بھرتا ہے کہ جہاں جاکر میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ ایسے شخص کو میں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔کوئی بھی آپؐ کی مدود نصرت کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔لوگ یمن اور دوسرے علاقوں سے جب سفر حج پر آتے تو اپنی قوم کو یہ نصیحت کرتے کہ قریش کے اس نوجوان سے ہوشیار رہنا وہ تمہیں گمراہ نہ کردے۔
نبی کریمؐ حاجیوں کے خیموں میں جاکر اللہ کی طرف بلاتے تھے۔لوگ انگلیوں سے آپؐ کی طرف اشارے کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کو یثرب سے بھیجا۔ آپؐ کے پاس ایک ایک آدمی آکر ایمان لاتا اور قرآن سیکھتا تھااور اپنے اہل خانہ کی طرف واپس یثرب جاتا تو وہ بھی اسلام قبول کرلیتے یہاں تک کہ مدینے کا کوئی محلہ باقی نہ رہا جہاں مسلمانوں کا ایک گروہ پیدا نہ ہوگیا جس سے اسلام کو طاقت اور قوت ملی۔ پھر ستر افراد کا ایک وفد مکہ گیا اور حج کے موقع پر شعب ابی طالب میں انہوں نے بیعت کی۔(احمد)43
اس طرح یثرب میں مسلمانوں کے لئے پناہ گاہ کا اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمادیا۔ رسول اللہؐ نے ان میں وحدت اور مرکز یت پیدا کرنے کے لئے مصعبؓ بن عمیر کو اسلام کا پہلا مبلغ بناکر وہاں بھجوایا۔کچھ عرصہ میں مدینہ میں بھی جمعہ کی ادائیگی شروع ہوگئی۔
سفر ہجرت میں تبلیغ
مدینہ کے بریدہ انصاری اپنے خاندان بنی سہم کے ستر سوار لے کر سفر میںتھے کہ نبی کریمؐسے سفرہجرت میں ملاقات ہوگئی۔ ہرچند کہ ہجرت کا سفر خطرات سے خالی نہ تھا پھر بھی رسول کریمؐ نے اسی گروہ سے تعارف حاصل کیا اورانہیں پیغام حق پہنچایا۔ بُریدہ کے ساتھ حضورؐ نے ایسی پر حکمت اور شیریں گفتگو فرمائی کہ انہوں نے خاندان سمیت اسلام قبول کرلیا۔رسول اللہؐ نے پوچھا۔آپ کون ہو؟ ’بُریدہ‘ نے اپنا نام بتایا۔(جس کے معنے ٹھنڈک کے ہیں)۔رسول اللہؐ نے اس نام کے معنے’ ٹھنڈک‘ سے نیک تفائو ل لیااور ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا’’ابوبکرؓ! سمجھو کہ ہمارے تعاقب کا معاملہ اب ٹھنڈا پڑگیا۔‘‘ پھر رسول اللہؐنے پوچھا۔’’آپ کس قبیلہ سے ہو؟‘‘بُریدہ نے کہا ’’اسلم قبیلہ سے‘‘۔( اسلم کے معنی سلامتی کے ہیں)۔ رسول اللہؐ نے ابوبکرؓ سے نیک تفائول کے طور پر فرمایا’’ ہمیں سلامتی عطاہوئی۔‘‘
پھررسول اللہؐ نے پوچھا ’’کس قبیلہ سے ہو؟‘‘ بُریدہؓنے کہا۔’’بنی سہم سے‘‘ (سہم کے معنے ہیں غنیمت کا حصہ)۔ رسول اللہ ؐ تیسری مرتبہ نیک تفائول کے طور پر ابوبکرؓ سے فرمانے لگے کہ’’ تمہارے مال غنیمت کا حصہ تمہیں مل گیا۔‘‘بریدہؓ نے پوچھا ’’آپؐ کون ہیں؟‘‘فرمایا ’’میں محمدؐ بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول۔‘‘بریدہؓنے کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘بریدہؓ اور ان کے تمام ساتھیوں نے وہیں اسلام قبول کرلیا۔اگلی صبح بریدہؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں مشورہ عرض کیا کہ مدینہ میں اپنے لوائ(جھنڈا) کے ساتھ داخل ہوں۔چنانچہ انہوں نے اپنا عمامہ کھول کرنیزے پر باندھا اور آگے آگے چلنے لگے اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میرے گھر قیام فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا میری اونٹنی اللہ کی طرف سے حکم کے مطابق بیٹھے گی۔(ابن الجوزی)44
دعوت الی اللہ کا مدنی دوراور تبلیغِ عام
کفار مکہ کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت ہوئی۔ وہاں امن کے ماحول میں دعوت اسلام کا سلسلہ تیز تر ہوگیا۔مدینہ آنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے پہلے مبلغ اسلام مصعبؓ بن عمیر کے علاوہ داعیان الی اللہ کی ایک کثیر تعداد دعوت الی اللہ کے میدان میں اتر چکی تھی۔ پھر بھی آپؐ نے اپنی ذمہ داری کا حق ہمیشہ ادا کیا اور مدینہ کی کھلی مجالس میں جاکر بھی تبلیغ کی ۔
اسامہؓ بن زیدؓ غزوہ بدر سے پہلے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصاری سردار سعدؓ بن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپؐ ایک گدھے پر سوارتھے۔ انصار کی ایک مجلس کے پاس سے آپؐ کا گزر ہوا جس میں عبداللہ بن ابی بھی تھا جوابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ مجلس میں مسلمانوں کے علاوہ مشرکین، بتوں کے پجاری اور یہود بھی موجود تھے۔ جب رسول کریمؐ کی سواری کے آنے پر کچھ غبار اُڑی تو عبداللہ بن ابی نے (جو خزرج کے سرداروں میں سے تھا) ناک بھوں چڑھائی اور اپنا منہ چادر سے ڈھانپ کر کہنے لگا۔ ہمارے اوپر مٹی مت اُڑائو۔نبی کریم ؐ نے آکر سلام کیا اور وہاں رک کر ان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن شریف بھی سنایا۔عبداللہ بن ابی چیں بجبیں ہوکر کہنے لگا’’ اے شخص! اگریہ درست بھی ہوکہ تیری تعلیم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیںپھر بھی تم ہماری مجالس میں آکر ہمیں ایذاء نہ دیا کرو اور اپنے ڈیرے پر رہوجو تمہارے پاس آئے اسے یہ باتیں بتائو۔‘‘
اس پرمجلس میں موجود ایک مخلص صحابی عبداللہؓ بن رواحہ انصاری کو غیرت آئی۔ انہوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! آپؐ بے شک ہماری مجالس میں تشریف لایاکریں ہمیں یہ بات بہت پسند ہے۔‘‘ اس پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہود کے مابین کچھ تکرار ہوگئی۔نبی کریم ؐ وہاں ٹھہرے رہے یہاںتک کہ لوگ خاموش ہوگئے تو آپؐ آگے تشریف لے گئے۔(بخاری)45
رسول اللہؐ نے کبھی تبلیغ کیلئے کسی کو حقیر نہیں جانا خواہ وہ کوئی بدحال غریب ہو یا مفلوک الحال یہودی غلام۔ خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی لڑکا تھا جو آپؐ کی خدمت کرتا تھا۔وہ بیمار ہوگیا تو نبی کریم ؐ اس کا حال پوچھنے تشریف لے گئے۔ آپؐ اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ اسلام قبول کرلو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو پاس ہی تھا۔باپ حضور کی شفقت اور احسان دیکھ کر کہنے لگا ’’بچے ابوالقاسم جو کہتے ہیں ان کی بات مان لو۔‘‘چنانچہ وہ بچہ (کلمہ پڑھ کر) مسلمان ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو یہ فرمارہے تھے ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے آگ سے بچالیاہے۔‘‘ (بخاری46)دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریم ؐ جب باہر تشریف لائے تو اس بچے نے جان دیدی آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا اٹھو اور اپنے بھائی کی نماز جنازہ ادا کرو۔(احمد)47
مدنی دور میںتبلیغ کی راہ میں قربانیاں
نبی کریمؐکے لئے تنہاسارے عر ب میں پیغام پہنچانا ممکن نہیں تھا۔لازماً اس کے لئے انصار و اعوان اورداعیان کی ضرورت تھی۔مختلف قبائل سے تبلیغ اسلام کے لئے معلمین و مبلغین کے مطالبے بھی ہونے لگے تھے۔چنانچہ عضل و قارہ قبائل کے مطالبہ پر رسول کریمؐنے دس صحابہ کو عاصمؓ بن ثابت انصاری کی سرکردگی میں بھجوایا۔ یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کوچھپ کر رہتے تھے۔ قریش مکہ سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔جب یہ رجیع مقام پر پہنچے تو ان کے دشمن قبیلہ ہذیل کو ان کی خبر ہوگئی۔انہوں نے سوتیر اندازوں کا ایک دستہ ان کے تعاقب میں بھیجا۔جب مسلمانوں کو پتہ لگا تو وہ قریب ہی ایک پہاڑی پر چڑھ گئے۔دشمنوں نے انہیں گھیر لیا اور کہا اگر تم لوگ گرفتاری دے دو ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے۔اسلامی دستے کے امیر عاصمؓ نے کہا کہ مجھے تو کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں۔چنانچہ وہ دشمن کے مقابلے میں تیر برساتے رہے اور ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔
اَلْمَوْتُ حَقٌ والْحَیَاۃُ بَاطِل‘
وَکُلُّ مَاقَضٰی الْالٰہُ نَازِل‘
یعنی موت برحق ہے اور زندگی بے کار ہے جو خدا کا فیصلہ ہو وہی برحق ہے۔
جب عاصمؓ کے تیر ختم ہوگئے تو وہ نیزے سے لڑنے لگے۔ نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار نکال لی اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔ آخری لمحات میں اُن کی زبان پر یہ دعا جاری تھی۔’’ اے اللہ میں نے آخر دم تک تیرے دین کی حفاظت کی ہے۔ اب میری نعش کی حفاظت تو خود کرنا۔‘‘ان کی دعاا للہ تعالیٰ نے اس معجزانہ رنگ میںقبول فرمائی کہ جب دشمن بے حرمتی کرنے کے لئے ان کی نعش اٹھانے لگتے تا اس کا مثلہ کریں تو بھڑوں کا ایک غول ان پر حملہ آور ہوجاتا اور اُن کی نعش کی حفاظت کرتا۔یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ بارشوں سے سیلاب آیا اور عاصمؓ کی نعش کو بہاکر لے گیا۔( الحلبیہ)48
یہ واقعہ رجیع کے نام سے معروف ہے جس میں امیر دستہ عاصمؓ بن ثابت اور ان کے چھ اور ساتھی شہید ہوچکے تو ان کے باقی تین ساتھیوں خبیبؓ، زیدؓ اور عبداللہؓ بن طارق نے دشمن کا عہد قبول کرتے ہوئے گرفتاری دے دی۔ جب دشمن ان کو رسیوں سے باندھ رہے تھے تو عبداللہؓ کہنے لگے یہ پہلی بدعہدی ہے۔ مجھے یہ قید قبول نہیں اور انہوں نے وہیں لڑتے ہوئے جان دے دی۔ خبیبؓ اور زیدؓ کو اہل مکہ نے خرید لیا کہ وہ اپنے مقتولین بدر کے عوض انہیں قتل کر کے اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کریں گے۔جس روز انہیں قتل گاہ لے گئے تو خبیبؓ نے کہا کہ مجھے دورکعت نماز پڑھ لینے دو۔وہ جلد نماز سے فارغ ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم سمجھو گے کہ میں موت سے ڈرتا ہوں تو آج میںلمبی نماز پڑھتا۔ اس قتل ناحق کاتماشہ دیکھنے کے لئے شہر کی عورتیں ، بچے اور غلام باہر نکل کر جمع ہوگئے تھے۔ان سب کو قتل کاعبرتناک منظر دکھانے کے لئے ایک لمبی لکڑی پر خبیبؓ کو لٹکایا گیا۔ پھر کہا کہ ابھی بھی اسلام سے توبہ کرلو تو تجھے آزاد کردیتے ہیں ورنہ قتل کردیں گے۔خبیبؓنے کہا خدا کی راہ میں میری جان کی یہ قربانی ایک حقیر نذرانہ ہی تو ہے۔پھرخبیبؓ نے دعا کی کہ اے اللہ یہاں کوئی ایسا شخص نہیں جو تیرے رسول کو میرا سلام پہنچائے۔پس تو ہی میری طرف سے اپنے رسول کو میرا سلام پہنچا دے اور جو سلوک یہ میرے ساتھ کررہے ہیں اس کی اطلاع بھی فرمادے۔
دوسری طرف تین سو میل کے فاصلے پر مدینہ میںخدا کے رسولؐ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مجلس میں تشریف فرماتھے ،عین اس وقت اچانک آپؐ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔اسامہؓ بن زیدؓ کا بیان ہے ہم نے آپؐ کو ’’وعلیہ السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ُ ‘‘کہتے سُنا۔جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ ابھی جبریل ؑ آئے تھے وہ مجھے خبیبؓ کی طرف سے سلام پہنچارہے تھے جنہیں قریش نے شہید کردیا ہے۔
قریش نے اپنے چوبیس سرداروں کی اولاد کو(جوبدر میں ہلاک ہوئے تھے) خبیبؓ کے قتل پر اکٹھا کیا تھااور نیزے ان کے ہاتھ میں تھماکر کہا تھا کہ وہ سب اس شخص کو نیزے مار کر قتل کریں اور آتش انتقام سرد کریں ۔چنانچہ ان سب نے خبیبؓ کو شہید کیا۔(الحلبیہ)49
مبلغین کی شہادت کا دوسراواقعہ بئرمعونہ کا ہے۔جس میں ستر صحابہؓ شہید ہوئے۔ واقعہ یوں ہوا کہ قبیلہ بنی عامر کا سردار عامر بن طفیل حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔خود تواسلام قبول نہیں کیا مگر کہا کہ مجھے یہ پیغام اچھا لگا ہے اگر آپؐ اپنے کچھ لوگ ہمارے علاقہ میں بھجوادیں تو شاید وہ لوگ اسلام قبول کرلیں۔حضورؐ نے فرمایا مجھے اہل نجد سے خطرہ ہے۔ابو عامر نے کہا کہ یہ میرا ذمّہ۔ چنانچہ اس نے جاکر اہل نجد کو بتادیا کہ محمدؐ کے ساتھیوں کو میں نے پناہ دی ہے۔یہ ستر حفاظِ قرآن تھے جو دن کو قرآن اور نمازیں پڑھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے۔ان کے امیر حرامؓ بن ملحان نے جب بنی سلیم کو پیغام حق پہنچایا اور رسول اللہؐ کا خط دیتے ہوئے کہا کہ اے اہل بئر معونہ!میں تمہاری طرف رسول اللہؐ کا نمائندہ ہو کر آیا ہوں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائو۔اس دوران ایک شخص نے پیچھے سے آکر ان کو نیزہ مارا۔اُن کی گردن سے خون کا فوارہ نکلا۔اس بہادر داعی الی اللہ نے اَللّٰہُ اَکْبَرُفُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ کا نعرہ لگایا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔پھر اپنے خون کو ہاتھوں میں لیا اور چہرے اور سرپرچھینٹامارا۔بعدازاں اُن کے ساتھیوںپربھی حملہ کردیاگیااور اس میدان میں ستر داعیان الی اللہ نے جام شہادت نوش کیا۔(بخاری)50
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ساتھیوں کی وفا اور راضی برضا رہنے کا یہ عالم تھاکہ بوقت شہادت انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے حال کی خبر اپنے رسولؐ کو کردے اور ان کو ہمارا سلام اور یہ پیغام پہنچا کہ ہم اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں۔ رسول اللہ ؐ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہوگئی اور آپؐ نے صحابہؓ کو اس سے مطلع فرمایا۔ان شہادتوں کا حضورؐ کو اتنا صدمہ اور غم تھا کہ کبھی کسی اورکی وفات پراتنا غم نہیں ہوا۔ ایک ماہ تک حضورؐ روروکر نمازوں میں خداتعالیٰ سے مددونصرت کی دعائیں کرتے رہے۔(بخاری)51
سردارطائف عروہؓ کی شہادت
فتح مکہ کے بعد آنحضرت ؐ نے چند روز تک طائف کا محاصرہ کیاتھامگر جلد ہی محاصرہ اُٹھا کرمدینہ واپس لوٹے تھے۔ مدینہ واپسی پر راستہ میں ہی ثقیف قبیلہ کے ایک سردار عروہؓ بن مسعود نے آکر اسلام قبول کرلیااور پوچھا کہ واپس اپنی قوم میں جاکر اسلام کا اعلان کرنا چاہتاہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ثقیف تمہیں قتل کردیں گے۔عروہؓ نے کہا کہ وہ مجھ سے اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ عروہؓ واپس طائف پہنچے۔ قوم کے لوگ ملنے آئے تو عروہ ؓنے اسلام کی طرف دعوت دی، انہوں نے انکار کردیااور بُرا بھلا کہنے لگے۔اگلی صبح عروہؓ اپنے گھر میں کمرہ سے باہر نکلے اور کلمہ شہادت پڑھا تو ثقیف قبیلہ کے ایک تیر انداز نے تیر مار کر شہید کردیا۔آخری لمحات میں ان سے پوچھا گیا اپنے خون کے بدلہ کے بار ہ میں کیا کہتے ہو،کہنے لگے ’’یہ تو ایک عزت ہے جو خدا نے مجھے بخشی اور شہادت کا رتبہ عطافرمایا۔‘‘
رسول کریمؐ نے ان کی شہادت پر فرمایا کہ عروہؓ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کا ذکرسورہ یٰسٓں میں ہے کہ اُس نے اپنی قوم کو رسول کی پیروی کی طرف بلایا تھا۔( الحلبیہ)52
میدان جہاد میں دعوت الی اللہ
ہجرت مدینہ کے بعد امن میسر آتے ہی دعوت اسلام کا کام تیز تر ہوگیا لیکن کفار مکہ نے وہاں بھی امن کا سانس نہ لینے دیا اور مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تب امن کے بادشاہ حضرت محمد مصطفی ؐکو اپنے دفاع کے لئے مجبوراً تلوار اٹھانی پڑی۔ اس زمانہ میں بھی آپؐنے دعوت الی اللہ کا فریضہ ہمیشہ مقدم رکھا۔ یہود خیبر کی مدینہ پر حملہ کی دھمکیوں اور خطرہ کے پیش نظر اسلامی لشکر محاصرہ خیبر پر مجبور ہوا تو اس دوران ایک حبشی غلام یہود خیبر کی بکریاں چراتا ہوا ادھر آنکلا۔جنگ کی حالت تھی،محاصرہ جاری تھا۔وہ غلام جنگل سے بکریاں لے کر شہر کی طرف آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ باہر مسلمانوں کی فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس موقع پر ہمارے سیدو مولیٰ کا شوق تبلیغ دیکھنے کے لائق تھا۔آپؐ تبلیغ کے لئے کسی کو حقیر نہ جانتے تھے۔چنانچہ اس حبشی چرواہے کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اس نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہوجائوں تو مجھے کیا ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا جنت۔ بشرطیکہ اسلام پر ثابت قدم رہو۔ اس پر وہ مسلمان ہوگیا۔( الحلبیہ)53
حضرت علیؓ کونصیحت
آنحضرتؐ جنگ میں دعوت الی اللہ کا یہ پاکیزہ نمونہ دکھانے کے بعد حضرت علیؓ کو سالار لشکر بناکر اس نوید کے ساتھ قلعہ خیبر فتح کرنے بھیجا کہ تمہارے ہاتھ پر فتح ہوگی۔ انہیں یہ تلقین فرمائی کہ یہود( جن کی طرف سے اعلان جنگ ہواتھا)پر حملہ سے قبل ایک دفعہ پھر انہیں دعوت اسلام دینا۔چنانچہ فرمایا اے علیؓ ! جب تم ان کے میدان میں اترو تو پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتائو کہ قبول اسلام کی صورت میں ان کی کیا ذمہ داریاں ہونگی اور یادرکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو تیرے لئے کئی سرخ اُونٹوں کی دولت سے زیادہ بہتر ہے۔(بخاری)54
غزوات میں دشمن پر احسان اور تبلیغ
رسول اللہؐ نجد کی طرف ایک مہم پر تشریف لے گئے جسے غزوۂ ذات الرقاع بھی کہتے ہیں۔ واپسی پر دوپہر کے وقت آرام کے لئے ایک سایہ دار درختوں کی وادی میں حضورؐ نے قیام فرمایا۔ لوگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ رسول کریمؐ بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے لیٹ گئے اور تلوار اس کے اوپر لٹکا دی۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں ابھی ہم کچھ دیرہی سوئے تھے کہ اچانک رسول اللہؐ کو ہم نے بلاتے سنا۔ حاضر خدمت ہوئے تو ایک بدّو وہاں بیٹھا تھا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اس شخص نے میرے سوتے ہوئے میری تلوار سونت لی اور مجھے جگا کر پوچھا کہ اب آپؐ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟میں نے کہا’’اللہ‘‘۔ جس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی تب میںنے تلوار ہاتھ میں لے کر اس سے پوچھا اب تم بتائو تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا سوائے آپؐ کے کوئی نہیں۔آپؐ سے اچھے سلوک کی توقع ہے۔ دشمن قبیلہ کایہ شخص غورث بن حارث دراصل آپؐ کے تعاقب میں تھا۔ آنحضورؐ نے صحابہ ؓ کو بلایاتو وہ اسے ڈرانے دھمکانے لگے ۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس نے کہا نہیں لیکن میں آپؐ کے خلاف کبھی لڑائی میں شریک نہ ہوں گا۔(بخاری)55
نبی کریمؐ نے اس جانی دشمن کو بھی معاف کردیا۔وہ آپؐ کے شفقت بھرے سلوک سے اتنامتاثر ہوا کہ نہ صرف اس نے بلکہ اس کی قوم کے بہت سے لوگوں نے رسول اللہؐ کی حفاظت کا یہ معجزانہ نشان دیکھ کر اس کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی۔(زرقانی)56
داعیان کی تیاری
مدینہ کے نواحی قبائل اور قوموں سے لوگ آکر آنحضورؐ کی صحبت میں رہتے،تربیت پاکر واپس جاتے اور اپنے علاقے میں دعوت اسلام کی خدمات بجالاتے تھے۔مالکؓ بن حویرث ایک دفعہ بیس ساتھیوں کے ساتھ آکرمدینہ میں کئی روز ٹھہرے اور دین اسلام سیکھ کر واپس گئے۔(بخاری)57
اصحاب صفہ کی تعلیم قرآن و سنت کا مسجد نبوی میں مستقل انتظام تھا۔ رسول کریمؐکی دعوت اور تربیت کا بہترین طریق حسنِ عمل اور کردار تھا جو ہمیشہ ہی کامیاب ثابت ہوا۔آغاز اسلام میں حضرت خدیجہؓؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ آپؐ پر ایمان لائے تو اس کا بنیادی سبب بھی رسول اللہؐ کا حسنِ کردار ہی تھا۔پھر ان کی تبلیغ اور نمونہ سے اور لوگ مسلمان ہوئے۔
تالیف قلب اوراحسان
نبی کریمؐ نے ایک گھڑ سواردستہ نجد کی طرف بھجوایا۔ وہ بنی حنیفہ کے ایک سردارثُمامہ بن اُثال کو گرفتا رکر لائے جسے مسجدنبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔نبی کریمؐ مسجدمیں تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی تمہیں کس سلوک کی توقع ہے؟ اس نے کہا میری رائے اچھی ہے کیونکہ آپؐ ہمیشہ احسان کرنے والے ہیں۔اگر مجھے قتل کریں گے تو میرا قبیلہ اس کا بدلہ لے گا اور اگر آپؐ احسان کا سلوک کریں گے تو ایک شکر گزار انسان پر احسان کریں گے اور اگر آپؐ میری آزادی کے عوض کوئی مال وغیرہ چاہتے ہیں تو جو مانگنا چاہتے ہیں مانگیں۔ حضور ؐ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ (مقصود یہ ہوگا کہ وہ مسجدنبوی میں مسلمانوں کی عبادت وغیرہ کے احوال دیکھ لے) اگلے روز پھر نبی کریمؐ نے اس سے وہی سوال دوہرایا۔ وہ بولا کہ میرا وہی جواب ہے جو پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اگر آپؐ مجھ پر احسان کریں گے تو یہ ایک شکر گزار بندے پر احسان ہوگا۔ دوسرے روز بھی حضورؐ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر تیسرے روز اس سے وہی سوال پوچھا وہ کہنے لگا کہ میں پہلے ہی جواب عرض کرچکا ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ثمامہ کو آزاد کردو۔ ثمامہ رسول اللہؐ کے حسن سلوک، مسلمانوں کی پنجوقتہ عبادت، اطاعت اور وحدت کے نظارے سے اس قدر متاثر ہوچکا تھا کہ آزاد ہوتے ہی قریب کے نخلستان میں جاکر غسل کیا۔ مسجدنبوی میں آکر کلمہ شہادت پڑھااور اسلام قبول کرلیا۔ پھر کہا ’’اے محمدؐ! آپؐ کا چہرہ روئے زمین پر میرے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت تھا مگر آج آپؐ مجھے دنیا میں سب سے پیارے ہیں۔خدا کی قسم کوئی مذہب مجھے آپؐ کے مذہب سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا مگر آج آپؐ کا دین اسلام مجھے تمام دینوں سے زیادہ پیارا ہوچکا ہے۔ خدا کی قسم کوئی شہرآپؐکے شہر سے زیادہ میرے لئے قابل نفرت نہ تھا۔آج آپؐ کا شہر مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوچکا ہے۔ آپؐ کے دستہ نے جب مجھے گرفتار کیاتو میں عمرہ کے ارادہ سے جارہا تھا۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ ‘‘نبی کریمؐ نے اس کے یہ تاثرات سن کر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ثمامہؓ کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی بشارت دی اور عمرہ کرنے کی اجازت عطافرمائی۔ وہ مکہ میںعمرہ کرنے گئے تو کسی نے کہہ دیا تم بھی صابی ہوگئے ہو یعنی نیا دین اختیار کرلیا ہے۔ اس نے کہا نہیں میں مسلمان ہوکر محمد رسول اللہؐ پر ایمان لایا ہوں اورکان کھول کر سن لو! خدا کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت عطانہ فرمائیں۔(بخاری)58
فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول اللہؐ کی تالیف قلبی اور احسان کو دیکھ کر مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام قبول کرلیا تھاجس کی تفصیل غزوات میں خلق عظیم اور انفاق فی سبیل اللہ کے زیر عنوان موجود ہے۔
یہودمدینہ کو تبلیغ
رسول اللہؐ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت یہود کے تین بڑے قبائل موجود تھے جو مسلمانوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے معاہدہ امن میں شریک تھے مگر اپنی بدعہدی کی وجہ سے باری باری مدینہ سے انکا اخراج ہوتا رہا۔
ہرچند کہ یہود مدینہ پر اتمام حجت ہوچکی تھی۔ ان کے کئی سرداروں پر آپؐ کی سچائی کھل چکی تھی،ایک خدا ترس یہودی عالم عبداللہؓ بن سلام کوتو قبول اسلام کی توفیق مل گئی لیکن باقی یہود کا رویہّ اپنے سرداروں کی وجہ سے معاندانہ رہا کیونکہ باقی سردار اپنی انااورہٹ دھرمی کے باعث اپنی سرداری چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔اسی لئے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اگر مجھ پر دس یہودی سردار بھی ایمان لے آتے تو سارے یہودی ایمان لے آتے۔(بخاری)59
یہود رسول اللہؐ کی مجالس میں حاضر ہوکرمختلف اعتراض بھی کرتے اور سوالات بھی اور تسلی بخش جواب بھی پاتے مگر ہدایت کی توفیق نہ ملی۔ رسول اللہؐ آخر دم تک ان پر اتمام حجت فرماتے رہے اور یہود اپنے وطیرہ کے مطابق انکار پر مصررہے۔
نبی کریم ؐ مدینہ میں یہود کی علمی درسگاہ بیت مدراس بھی تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک روز مسجد نبوی میں موجود تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا’’ چلو آج یہود کی طرف چلتے ہیں۔‘‘ چنانچہ ہم یہود کی تعلیمی درسگاہ بیت مدراس گئے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یہود ی علماء سے گفتگو کے دوران انہیں دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ اے یہود کی جماعت! تم اسلام قبول کرلوامن میں آجائو گے۔(بخاری)60
نصاریٰ کو تبلیغ
سرزمینِ عرب میں موجود کوئی مذہب ایسا نہ تھا جس پر آنحضرت ؐ نے اتمام حجت نہ فرمائی ہو۔نجران کے عیسائیوں کو بھی آپؐ نے تبلیغ کی۔آغاز اسلام میں نجران میں چھوٹی سی خود مختار عیسائی ریاست قائم تھی جسے قیصر روم کی سرپرستی حاصل تھی۔ اہل نجران کو رسول اللہؐ کے دعویٰ کی اطلاع مکّی دور میں مہاجرین حبشہ کے ذریعہ ہوچکی تھی۔چنانچہ ان کا چوبیس افرد پر مشتمل پہلا وفد 10نبوی میں مکے آیا۔انہوں نے رسول اللہؐ کی تبلیغ سن کر اسلام قبول کرلیا۔(کرامت)61
مدینہ آکر اہل نجران سے رابطہ رسول اللہؐ کے اس خط کے ذریعہ بحال ہوا جو آپؐ نے اُن کے مذہبی راہنما لارڈ بشپ کے نام لکھاجس میںآپؐ نے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے بعض مشترک قدروں کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت اسحاق ؑاورحضرت یعقوب ؑکے ادب واحترام کرنے کا ذکر کیا۔ پھر خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلاتے ہوئے دعوت دی کہ مسلمان ہوجائیںیا جزیہ دینا قبول کرلیں۔اس خط کے نتیجہ میں2ھ میں نجران کا ایک سہ رکنی وفد مدینے آیا جسے معاہدہ صلح کیلئے ایک عبارت تجویز کر کے دی گئی۔بعد میں9ھ کے زمانہ میں ساٹھ رکنی وفد نجران آیاجس میں ان کے مذہبی اور سیاسی رہنمابھی موجود تھے۔اسی موقع پر بحث و تمحیص کے بعد اہل نجران کو مباہلہ کا چیلنج دیاگیاجو انہوں نے قبول نہیں کیابلکہ معاہدہ صلح کی توثیق کردی۔(بیہقی)62
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نجران کے عیسائی رہنمائوںسے جو مدلل تبلیغی گفتگو رسول اللہ ؐنے فرمائی اس کامختصر ذکر کردیا جائے۔رسول کریمؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے ’’ہم تو پہلے سے مسلمان ہیں۔ یعنی دین حق پر قائم ہیں اور اللہ کے حکم ماننے والے ہیں۔‘‘ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ تم غلط کہتے ہو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے ،صلیب کی پرستش اور خنزیر کھانے جیسی خرابیوں میں پڑجانے کے بعد تم اپنے آپ کو مسلمان اور دین حق پر قائم کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ یہ باتیں حضرت مسیح کی تعلیم نہیں۔‘‘انہوں نے بحث کا پہلو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عیسیٰ ؑ خدا کا بیٹا نہیں تو آپؐ بتائیں اس کا باپ کون ہے؟اس سوال پر انہوں نے خوب بحث کی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ یہ تو تم جانتے ہو کہ کوئی بیٹا ایسا نہیں ہوتا جوباپ کے مشابہ نہ ہو۔انہوں نے کہا’’ ٹھیک ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ کیا تمہیں پتہ ہے ہمارا رب زندہ ہے۔اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اور یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تمہارے عقیدہ کے مطابق بھی ایک دفعہ موت آچکی ہے کیونکہ انہوں نے تمہارے نزدیک تمہارے گناہوں کے کفارہ کے لئے موت کا پیالہ پیا؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں یہ بھی درست ہے۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا’’ تمہیں پتہ ہے ہمارا رب ہر شے کا نگران ہے۔وہ ہر ایک کی حفاظت کرتا ہے اور اسے رزق بہم پہنچاتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا ’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘آپؐ نے فرمایا ’’اچھا اب یہ بتائو کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو ان باتوں میں سے کس پر قدرت حاصل ہے؟‘‘(کہ اسے خدا کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس کا بیٹا قراردیا جائے)۔انہوں نے کہا ’’اُن میں سے کوئی بات حضرت مسیحؑ میں ہم نہیں جانتے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’’ہمارے رب نے حضرت عیسیٰ ؑکو رحم مادر میں جیسے چاہا شکل عطافرمائی۔پھر ہمارا رب نہ توکھاتا ہے نہ پیشاب پاخانہ کرتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا ’’یہ درست ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ کیا تمہیں پتہ ہے کہ عیسیٰ ؑ کی والدہ اسی طرح حاملہ ہوئیںجیسے ایک عام عورت حاملہ ہوتی ہے؟پھر اسی طرح عیسیٰ کی ولادت ہوئی جس طرح ایک عام عورت بچہ جنتی ہے۔پھر حضرت عیسیٰ ؑبچے کی طرح غذا بھی لیتا تھااور کھاتا پیتا اور پیشاب بھی کرتا تھا۔ــ‘‘انہوں نے کہا’’ ہاں‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ پھر تمہارا یہ دعویٰ کہ وہ خدا کا بیٹا ہے کیسے درست ہوسکتا ہے؟‘‘ اس پر وہ لاجواب اور خاموش ہوکر رہ گئے۔(واحدی)63
شاہان مملکت کو خطوط
شاہان مملکت کو خطوط بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشّان تبلیغی شاہکار اور بہادرانہ کارنامہ ہے۔ہجرت مدینہ کے بعدمسلمانان مدینہ کو سب سے بڑا خطرہ جنوب میں قریش مکہ سے تھاجن کے ساتھ 6ھ میں حدیبیہ مقام پر ایک صلح نامہ ہوگیا۔ ہرچند کہ ابھی شمال کی طرف سے یہود خیبر کا خطرہ موجودتھامگر بڑے خطرہ کے ٹل جانے سے مدینہ کے حالات معمول پر آنے لگے اور مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ امن کو تبلیغ کی وسعت کے لئے غنیمت جانا اور عرب کے چاروں اطراف میں شاہان مملکت کو تبلیغی خط لکھے۔اس زمانہ میں ایران اور روم کی حکومتیں دنیا کی عظیم ترین سلطنتیں تھیں۔عرب ریاستیں ان کی باجگزار اور تابع مہمل سمجھی جاتی تھیں۔اندریں حالات ایک عرب کا ان حکومتوں کو خطاب اور اپنی اطاعت کی طرف بلانا اعلان جنگ کے مترادف تھا۔کوئی عام انسان ایسی جرأت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔یہ تبلیغی خطوط رسول اللہؐ کا اپنے مشن پر یقین خدا کی ذات پر کامل ایمان و توکل اور غیر معمولی شجاعت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
کسریٰ شاہ ایران کو خط
نبی کریم ﷺنے عبداللہؓ بن حذافہ بن قیسکو اپنا خط دے کر کسریٰ بن ہرمز شہنشاہ ایران کے پاس بھجوایا۔ اس خط کی عبارت تبلیغی مکاتیب کیلئے راہنما ہے۔آپؐ نے لکھا:۔
’’اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمان اور رحیم ہے۔ اللہ کے رسول محمدؐ کی طرف سے یہ خط فارس کے شہنشاہ کسریٰ کے نام ہے۔ جو بھی ہدایت کی پیروی کرے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اس پر سلامتی ہو۔ میں آپ کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تاکہ ہر زندہ شخص کو ہوشیار کروں اور انکار کرنے والوں پر فرد جرم لگ جائے۔آپ اسلام قبول کرلیجئے سلامتی آپ کا خیر مقدم کرے گی اور اگر آپ انکار کریں گے تو قوم مجوس کا گناہ بھی آپ پر ہوگا۔‘‘(بخاری)64
کسریٰ شاہ ایران نے یہ خط پڑھ کر پھاڑ ڈالاتھا۔رسول اللہؐ نے فرمایا تھا کہ اس کی حکومت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔اُس نے گو رنریمن باذان کو رسول اللہؐ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس کے قاصد جب رسول اللہؐ کے پاس گرفتار کرنے کیلئے آئے تو آپ ؐنے فرمایا کہ آج رات میرے خد انے تمہارے خدا کو قتل کردیا ہے۔ رسول اللہؐ کی یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ اسی رات کسریٰ کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا۔چھ ماہ بعد وہ خودبھی زہرپینے سے ہلاک ہوگیا اور اس کی بہن حکمران ہوئی اور یوں حکومت ایران پارہ پارہ ہوکر رہ گئی۔
قیصر شہنشاہِ روم کو خط
رسول اللہ ؐ کے صحابی حضرت دحیہ الکلبیؓ کے ذریعہ حسب دستور حاکم بصریٰ کے توسط سے یہ خط قیصر روم کو روانہ کیا گیا۔اس خط کو اللہ کے نام سے شروع کرتے ہوئے حضور ؐنے شاہی آداب کے موافق قیصر کو ’’عظیم الّروم‘‘ کے لقب سے خطاب فرمایا اور اسلام اور عیسائیت کی مشترک قدر توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے نیز ہدایت قبول کرنے والے کیلئے دعائوں کے ساتھ خط کا آغاز فرمایا اور اسلام قبول کرنے کی صورت میں دوہرے اجر کی بشارت دی۔ پہلا اجر حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کا اور دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی صورت میں۔پھر اس تبشیر کے ساتھ انذار بھی فرمایا کہ انکار کی صورت میں رعایا کاگناہ بھی تم پر ہوگا۔
شاہ ِروم ہرقل کی سعادت مندی تھی کہ اس نے رسول اللہؐ کا یہ خط بہت سنجیدہ نظر سے دیکھا۔ عزت کے ساتھ سونے کی ایک ڈبیہ میں اُسے محفوظ کر کے رکھا۔ مزید تحقیق کے لئے عربوںکے ایک وفد سے معلومات حاصل کیں جو ابوسفیان کی سرکردگی میں تجارت کے لئے شام گیا ہوا تھا۔پھر ابو سفیان سے کہا کہ تم نے میرے سوالوں کے جواب میں جوکچھ کہا ہے اگر وہ واقعی درست ہے تو وہ شخص ضرور میرے ملک پر غالب آئے گا۔ اگر میرے لئے ممکن ہوتا تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اس کے پائوں دھوتا۔مگر بعد میں جب ہرقل نے اپنی قوم کے سرداروں کے سامنے بڑی حکمت سے منصوبہ بندی کر کے آنحضرت ؐ کا دعویٰ پیش کیا تو انہوں نے سختی سے انکار کردیا۔اس پر ہرقل ڈرگیا اور اسلام قبول کرنے کی جرأت نہ کی۔(بخاری)65
رومی حاکم فروہؓ بن عمرو جزامی کا قبول اسلام
ایمان کی توفیق بھی انسان کی طبعی سعادت اور خدا کے فضل پر موقوف ہوتی ہے۔جہاں ہرقل نے ایک عظیم الشان حکومت کا شہنشاہ ہوتے ہوئے دنیا کو مقدم کیا اور ڈرگیا وہاں اس کے ایک عامل فروہؓ کو جب اسلام کا پیغام پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا۔فروہؓ عرب علاقوں کے لئے رومی حکومت کی طرف سے گورنر مقرر تھا۔ رسول کریم ؐ نے اُس کی طرف بھی تبلیغی خط لکھا۔اس نے اپنا نمائندہ رسول اللہؐ کی خدمت میں بھجواکر اپنے قبول اسلام کی اطلاع کی اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سواریاںخچر، گھوڑا وغیرہ اور کچھ قیمتی پوشاکیں(جن پر سونے کا کام تھا) تحفہ بھجوائیں ۔
جب شاہ روم کو پتہ چلا کہ فروہ ؓنے اسلام قبول کرلیا ہے تو اسے پکڑکر قید کردیااور مسلسل دھمکیاں دیتا رہا کہ اس دین سے لوٹ آئو تو حکومت واپس مل جائے گی۔استقامت کے شہزادے فروہؓ نے کمال بہادری سے جواب دیا کہ میں محمد مصطفی ؐکے دین کو نہیں چھوڑ سکتا اور تم بھی جانتے ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑنے اس نبی کی خبر دی تھی مگر تم اپنی حکومت کے چھن جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کرتے ہو۔شاہِ روم نے اُسے صلیب دے کر شہید کردیا۔( الحلبیہ)66
نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط
رسول اللہؐ نے عمرو ؓبن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبشہ کی طرف خط دیکر بھجوایا۔جس میں بسم اللہ کے بعدتحریر فرمایا:۔
’’یہ خط اللہ کے رسول محمدؐ کی طرف سے شاہ حبشہ نجاشی کے نام ہے۔ میں تمہارے پاس اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوںجس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلامتی والا اورامن دینے والا ہے، حفاظت کرنے والاہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ ؑبن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے پاکباز مریم بتول کو عطا کیا اور وہ عیسیٰ ؑکے ساتھ حاملہ ہوئیں۔ میں آپ کو اس خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ دعوت دیتا ہوں کہ آپ میری پیروی کریں اور اس کلام پر ایمان لائیں جو میرے پاس آیا ہے ۔میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں نے آپ کے پاس اپنے چچا کے بیٹے جعفرؓاور ان کے ساتھ مسلمانوں کی ایک جماعت کو بھجوایا ہے۔ سلام ہو اس پر جوہدایت کی پیروی کرے۔‘‘
نجاشیؓ نے یہ خط پاکر آنکھوں سے لگایا اور تخت شاہی سے نیچے اترآیا اور انکساری سے زمین پر بیٹھ رہا۔پھر اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا اور کہا ’’اگر مجھے طاقت ہوتو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔‘‘
شاہ مصر کو خط
مقوقس شاہ مصر کو تبلیغی خط حاطبؓ بن ابی بلتعہ کے ذریعہ حدیبیہ سے واپسی پر بھجوایا گیا۔مقوقس مذھباً عیسائی تھا۔اس خط کا مضمون بھی قیصر روم کے خط سے ملتا ہے۔
مقوقس نے قاصد نبوی سے کچھ سوال و جواب کے بعد سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔مکتوب نبوی ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھا اور رسول اللہؐ کی خدمت میں جواباً تحریر کیا کہ میں نے آپؐ کے خط کا مضمون سمجھ لیا ہے۔ مجھے ایک نبی کے ظہور کا اندازہ تھا مگر خیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہوگا۔اُس نے آپؐ کے قاصد کا اکرام کیا چنانچہ اسے سودیناراورپانچ پوشاکیں دیں اور رسول اللہؐ کی خدمت میں بیس پوشاکیں اورمعزز خاندان کی دولڑکیاں بھجوائیں۔ان میں سے ایک خاتون ماریہ رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں۔مقوقس نے قاصد رسولؐ سے کہا تھا کہ میرے درباریوں کو تمہارے ساتھ ہونے والی گفتگو کا پتہ نہ چلے۔ میں حکومت چھن جانے کے ڈر سے اپنی قوم سے اسلام کے بارہ میں بات نہیں کرتا،ورنہ میں جانتا ہوں کہ یہ نبیؐ ایک دن ہما ری سرزمین پر غالب آئے گا اور اس کے ساتھی یہاں اتریں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور17ھ میں مصر فتح ہوگیا۔(الحلبیہ)67
غسانی سردارکے نام خط
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاع ؓبن وھب الاسدی کو حارث بن ابی شمر کی طرف دعوت اسلام کے لئے اپنا خط دے کر بھجوایااور لکھا کہ اسلام قبول کرلو تو تمہاری حکومت بھی قائم و دائم رہے گی۔ اس نے خط پڑھ کر پھینک دیا اور کہا ’’کون ہے جو میرا ملک مجھ سے چھین سکے؟ میں اس کے خلاف لشکر کشی کرونگا۔‘‘ اور قاصد سے کہا کہ اپنے آقا کو جاکر یہ بتادو۔
پھر اس نے قیصر شاہ روم کو مکتوب نبوی کی اطلاع دی۔ قیصرنے جواباً لکھا کہ تمہیں اس نبی کے خلاف لشکر کشی کی ضرورت نہیں اور مجھے ایلیاء مقام پر آکر ملو۔ یہ جواب آنے پر اس نے رسول اللہؐ کے قاصد کو بلوابھیجا اور سو دینار اور پوشاک انعام دی اور کہا کہ رسول اللہؐ کو میرا سلام کہنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قاصد سے اس کے احوال سنے تو فرمایا کہ اس کی حکومت تباہ و برباد ہوگی۔ فتح مکہ کے سال حارث بن ابی شمر کی وفات ہوگئی۔(الحلبیہ)68
حاکم یمامہ کے نام خط
رسول اللہ ؐ نے سُلیطؓ بن عمرو عامری کواپنا خط دے کر ھوذہ بن علی حنفی حاکم یمامہ کے پاس دعوت اسلام کے لئے بھجوایا اور لکھا کہ میرا دین عنقریب غالب آئے گا۔تم اسلام قبول کرلو امن میں آجائو گے اور تمہاری حکومت تمہارے ہی سپرد رہے گی۔ اس نے وہ خط پڑھ کر جواباً لکھا۔ آپؐ کا پیغام نہایت عمدہ اورخوبصورت ہے۔میں اپنی قوم کا شاعر اور خطیب ہوں۔ عرب لوگ میرے مرتبہ سے ڈرتے ہیں۔ آپؐ اپنی حکومت میں سے میرا بھی کچھ حصہ مقررکریںتو میں آپؐ کی پیروی کرلونگا۔ نبی کریمؐ نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا اگر وہ زمین کاٹکڑابھی مانگتا تو میں اسے نہ دیتا ۔فتح مکہ سے واپسی پر جبریل ؑنے رسول اللہؐ کو ھوذہ کی وفات کی خبردی۔(الحلبیہ)69
شاہِ غسان کے نام خط
جبلہ بن ایہم شاہ غسان کو بھی رسول اللہؐ نے خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک مسلمان رہا۔(الحلبیہ)70
سردار طائف کے نام خط
ذی القلاع حمیری شاہان طائف میں سے تھا۔ اس نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ رسول اللہؐ نے اس کے نام تبلیغی خط لکھا اور جریرؓ بن عبداللہ کے ہاتھ بھجوایا۔جریر کی واپسی سے قبل رسولؐ اللہ کی وفات ہوگئی۔
سردارانِ عمان کو خطوط
نبی کریمؐ نے عمان کے دو سرداروں جیفر اور عبد کوعمروؓ بن عاص کے ہاتھ خطوط بھجوائے۔ بڑے بھائی جیفر نے کہا میں کل سوچ کر جواب دونگا۔ اگلے روزاس نے کچھ تردّد کے بعد اسلام قبول کرلیااور عمر وؓ بن العاص کو اجازت دی کہ وہ اسلام قبول کرنے والوں سے زکوٰۃ وصول کرسکتے ہیں۔چنانچہ انہوں نے امراء سے زکوٰۃ وصول کر کے وہاں کے غرباء میں تقسیم کردی۔ (ابن الجوزی)71
رئیس بحرین کو خط
رسول کریمؐ نے علاء بن حضرمی کے ذریعہ منذربن ساویٰ العبدی رئیس بحرین کو خط بھجوایا۔منذر نے جواب میں آپؐ کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔رسول کریمؐ نے اس کی امارت قائم رکھی اورفرمایا کہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی کا حق ملنا چاہئے اور یہود و مجوس سے جزیہ وصول کیا جائے۔(الحلبیہ)72
شاہان حمیر کے حضور کے نام خطوط
تبوک پر رومی فوجوں کے اجتماع کی اطلاع پاکر رسول اللہؐ نے سفرتبوک اختیار کیا تو کئی قبائل پر ہیبت طاری ہوئی ۔اس سفر سے واپسی پر شاہان حمیر نے آنحضوؐر کی خدمت میں اپنے قبول اسلام کا خط بھجوایا۔آنحضورؐ نے جوابی مراسلہ میں تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت عطافرمائی ہے تم اصلاح کرو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور نمازاور زکوٰۃ اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرو۔ میرے نمائندوں سے حسن سلوک کروجن کے امیر معاذ بن جبل ہیںاور قوم حمیر سے بھی حسن سلوک کرنا کہ رسول اللہؐ تمہارے امراء و فقراء سب کے ولی ہیں۔(الحلبیہ)73
عام الوفود
غیرجانبدار قبائل عرب مکّہ و مدینہ کی جنگ کے دوران طبعاً اس انتظار میں تھے کہ غالب آنے والے فریق کا ساتھ دیں گے ۔وہ مسلمانوں کے غلبہ کی اُمید پر اپنے قبول اسلام کے لئے فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے۔چنانچہ فتح مکہ کے بعد9ھ میں اس کثرت سے قبائل عرب مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا کہ یہ سال عام الوفود کے نام سے مشہورہوگیاجس میں ستر کے قریب وفود آئے۔رسول کریمؐ کی ہدایت پر صحابہ کرام نے ان وفود کی خوب مہمان نوازی اور خاطر تواضع کی۔رسول اللہؐ ان وفود کوتالیف قلبی کی خاطر انعام واکرام سے بھی نوازتے اوروہ اسلام کے قریب ہوجاتے۔ان وفود میں سے چندایک کاذکر حضورؐ کی پرُ حکمت تبلیغی گفتگو کے حوالے سے کیا جارہا ہے۔
۱۔وفد سعد بن بکر
حضرت انسؓ اس وفد کی آمد کاواقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شتر سوار آیا۔ اس نے اپنا اونٹ باندھ کر پوچھا تم میں سے محمدؐ کون ہے؟ نبی کریم ؐ درمیان میں تشریف فرماتھے۔ ہم نے کہایہ جو گورے رنگ کے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ اس شخص نے ندادی۔ اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی کریمؐ نے کمال تحمل سے جواب دیا۔ میں حاضر ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ میں آپؐ سے ذرا سختی سے کچھ سوال کروں گا آپؐ برا نہ ماننا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو۔اس نے آپؐ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا اللہ نے آپؐ کو رسول بناکر بھیجا ہے اور پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے؟ پھر اس نے قسم دے کر روزوں کی فرضیت، زکوٰۃ کی ادائیگی وغیرہ کے بارے میں سوال کیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ہاںمیں اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے اور ان باتوں کا حکم دیا ہے۔ا س پر وہ شخص کہنے لگا میں اس تعلیم میں ایمان لاتاہوں جو آپؐلے کر آئے ہیں۔ میرا نام ضمامؓ بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ سعد بن بکر کا نمائندہ ہوں۔(بخاری74)ضمامؓ بن ثعلبہ نے جو اپنی قوم کا سرداربھی تھا واپس جاکر یہ پیغام اپنی قوم کو بھی پہنچایا۔
۲۔عدی بن حاتم طائی کی آمد
حاتم طائی کانام اپنی سخاوت کیو جہ سے عربوں میں ضرب المثل ہے۔ حاتم رسول اللہؐ کے زمانے سے پہلے ہی وفات پاچکا تھا۔اس کے بیٹے عدی اپنے قبول اسلام کا دلچسپ واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کا سردار تھا اور عرب رواج کے مطابق مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کرتاتھا۔جب میں نے رسول اللہؐ کی بعثت کے بارے میں سُنا تو مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اپنے ایک غلام کو جو میری بکریاں چراتا تھا اس کام سے فارغ کر کے یہ ذمہ داری سونپی کہ جب تمہیں اس علاقے میں محمدؐ کے لشکروں کے آنے کا پتہ چلے تو مجھے اس کی اطلاع کرنا ۔ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا کہ محمدؐ کے حملے کے وقت جو حفاظتی تدبیرتم نے کرنی ہے کرلو محمدؐ کے لشکرسر پر ہیں۔عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ منگوائے۔ اپنے بیوی بچوں کو ان پر سوار کیا اورملک شام میں اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے پاس جاکر پناہ لی ۔ اپنی ایک بہن اوردیگر رشتہ داروں کو پیچھے چھوڑ آیا۔ اس بیچاری پر یہ مصیبت گزری کہ وہ جنگ حنین میں قید ہوگئی۔جب قیدی رسول اللہؐ کے پاس آئے اور حضورؐ کو پتہ چلا کہ میں ملک شام کو بھاگ گیا ہوں تو آپؐنے میری بہن کے ساتھ بہت احسان کا سلوک کیا۔اسے پوشاک، سواری اور اخراجات کے لئے رقم عنایت فرمائی ۔وہ مجھے ڈھونڈتی ہوئی ملک شام آنکلی۔مجھے کوسنے لگی کہ تم بہت ظالم اور قطع رحمی کرنے والے ہو۔میں نے نادم ہوکر معذرت کی۔ وہ بہت دانا خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس شخص (محمدؐ) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا کہ میری مانوتو جتنا جلدی ممکن ہے ان سے جاکر ملاقات کرو۔اگر تو وہ نبی ہیں تو تمہارا ان کے پاس جلد جانا باعث فضیلت ہے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو بھی تمہیں ان کا قرب ہی نصیب ہوگا۔ میں نے سوچا کہ یہ مشورہ تو بہت عمدہ ہے۔اس طرح عدی کی بہن نے اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کئے بغیرحکمت عملی سے انہیں حضورؐ کی خدمت میں حاضرہونے کے لئے آمادہ کرلیا۔ عدی کہتے ہیں میں مدینے پہنچا اور اپنا تعارف کروایا تو حضورؐ مجھے اپنے گھر لے کر جانے لگے۔ راستے میں ایک بوڑھی عورت آپؐ سے ملی ،اس نے آپؐ کو روک لیا۔آپؐ دیر تک کھڑے اس کی بات سنتے رہے۔ میں نے دل میں کہا یہ شخص بادشاہ تو نہیں لگتا۔پھر جب حضورؐ کے گھرپہنچا تو وہاں ایک گدیلا پڑا تھا جس کے اندر کھجور کی شاخیں بھری تھیں۔ حضورؐ نے اپنے دست مبارک سے اُسے بچھا کر مجھے بیٹھنے کیلئے فرمایا۔میں نے عرض کیا کہ آپؐ اس پر تشریف رکھیں۔حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں اس پرتوآپ ہی بیٹھو گے اور رسول اللہؐ خودزمین پر بیٹھ رہے۔ میں نے دل میں کہا کہ خدا کی قسم یہ تو بادشاہوں والی باتیں نہیں۔پھر حضور ؐ مجھے بار بار یہی فرماتے رہے کہ عدی تم اسلام قبول کرلو امن میں آجائو گے۔ میں نے عرض کیا کہ میں پہلے سے ایک دین پر قائم ہوں۔آپ ؐنے فرمایا مجھے تمہارے دین کا تم سے زیادہ پتہ ہے۔میں نے تعجب سے پوچھا مجھ سے زیادہ؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم فلاںعیسائی فرقہ سے ہونا! میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا تم عرب سرداروں کے قدیم دستور کے مطابق مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ بھی وصول کرتے ہو۔میں نے عرض کیا جی ہاں۔آپؐ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے تمہارے دین کے مطابق یہ طریق جائز نہیں ہے۔میں نے عرض کیاجی حضور۔
یہ سن کر میں نے دل میں کہا کہ خدا کی قسم یہ تو اللہ کی طرف سے بھیجا گیا نبی معلوم ہوتا ہے جو ایسا علم رکھتا ہے۔پھر رسول اللہؐ نے فرمایا اے عدی ! تمہیں اس دین میں داخل ہونے میں یہی روک ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ اس کی پیروی کمزور اور غریب لوگوں نے کی ہے جنہیں سارے عرب نے دھتکاردیا ہے۔خدا کی قسم !ان لوگوں میں مال کی بھی بڑی کثرت ہوگی یہاں تک کہ مال لینے والاکوئی نہیں رہے گا۔پھر فرمایاتمہارے اس مذہب کے قبول کرنے میں دوسری روک یہ ہوسکتی ہے کہ ہماری تعداد کم ہے اور دشمن زیادہ تو سنو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ دین غالب آئے گا اور ایک شتر سوار عورت تنہا عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بے خوف و خطر سفرکرے گی اور بیت اللہ آکر طواف کرے گی۔پھر فرمایاتمہارے اسلام قبول کرنے میں تیسری روک یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے پاس بادشاہت نہیں ۔خدا کی قسم بڑے بڑے محلات مسلمانوںکے لئے فتح کئے جائیں گے۔اسلام کی شوکت اور فتح کا یہ زمانہ بہت قریب ہے۔یہ مؤثر تبلیغ سن کر عدی نے اسلام قبول کرلیا۔(الحلبیہ)75
۳۔وفدِ فروہ کی آمد
فروہ قبیلے کا سردار شاہان کندہ سے بغاوت کرتے ہوئے اپنا وفدلے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اسلام کے ظہور سے پہلے ان کی جنگ قبیلہ ہمدان سے ہوئی تھی جس میں انکا بہت جانی نقصان ہوا اور وہ جنگ ’’یوم الردم‘‘ یعنی ہلاکت کے دن کے طور پر مشہور ہوگئی۔رسول کریمؐ نے اس جنگ کے حوالے سے اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنگ تم لوگوں کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوئی ہوگی۔اس نے کہا کہ یارسول اللہؐ جس قوم کو ایسی ہلاکت اور مصیبت پہنچے تو تکلیف اور رنج تو ہوتا ہے۔حضورؐ نے کیا عمدہ تبصرہ فرمایا کہ اس جنگ کا ایک فائدہ بھی توہو اکہ اس واقعہ کے نتیجے میں تمہاری قوم کو اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی۔رسول کریمؐ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اپنے قبیلہ کاامیر مقرر فرمادیا۔(الحلبیہ)76
۴۔وفد کندہ کی آمد
کندہ قبیلے کا ساٹھ افراد پر مشتمل وفد اپنے سردار اشعث بن قیس کی سرکردگی میں حاضر خدمت ہوا۔ انہوں نے یمن کے ریشمی جبّے پہن رکھے تھے۔ انہوں نے کہاسنا ہے آپؐ *** ملامت سے منع کرتے ہیں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا میں بادشاہ نہیں ہوں، محمدؐ ابن عبداللہ ہوں۔ انہوں نے کہا ہم آپؐ کا نام لیکر نہیں پکاریں گے۔آپؐ نے فرمایا تم ابوالقاسم کہہ لو۔ انہوں نے کہا اے ابوالقاسمؐ !ہم نے اپنے دل میں ایک بات رکھی ہے۔ آپؐ بوجھ کر بتائو کہ وہ کیا ہے ؟ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ پاک ہے یہ کام تو کاہنوں کا ہے اور کہانت کرنے والا جہنمی ہے۔انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں کیسے پتہ لگے کہ آپؐ رسول ہیں۔آپؐ نے فرمایا اللہ نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مجھ پر ایسی عظیم الشان کتاب اتاری ہے کہ جھوٹ نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے ۔انہوں نے کہا کہ آپؐ ہمیں اس میں سے کچھ سُنائیے۔رسول اللہؐ نے سورۃ صافات کی تلاوت شروع کی۔جب آپؐ اس کی چھٹی آیت رَبُّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ تک پہنچے تو خاموش ہوگئے اور بے حس و حرکت ہوکر رک گئے آنسوئوں کی لڑی آپؐ کی آنکھوں سے داڑھی پر برس رہی تھی۔
وہ کہنے لگے کیا آپؐ اپنے بھیجنے والے کے ڈر سے روتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا ہاں۔مجھے اسی کا خوف رلاتا ہے جس نے مجھے صراط مستقیم پر بھیجا ہے جو تلوار کی دھار کی طرح سیدھی ہے۔اگر میں اس سے بھٹک گیا تو ہلاک ہوجائوں گا۔پھر حضورؐ نے اُن سے فرمایا کیا تم مسلمان نہیں ہوگے؟ انہوں نے کہا ضرور ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا پھر یہ ریشمی جُبّے کیسے ہیں؟چنانچہ انہوں نے وہ جبے اتار پھینکے۔ (الحلبیہ)77
۵۔وفد ہمدان
فروہ اور ہمدان قبائل کے درمیان جنگ ہوچکی تھی۔فروہ قبیلہ نے قبول اسلام میں پہل کی تو ہمدان کو طبعاً وقتی روک پیدا ہوئی۔رسول اللہؐ نے خالدؓ بن ولید کو فتح مکہ کے بعد دعوت اسلام کے لئے قبیلہ ہمدان کی طرف بھجوایا۔ چھ ماہ کی کوششوں کے باوجود جب یہ اسلام نہیں لائے تو رسول اللہؐ نے بجائے حملہ کی اجازت کے حضرت علی ؓکو بھجوایا کہ انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دیں۔حضرت علی ؓ نے جاکر دعوت اسلام دی،انہیں قرآن سنایااور سارے قبیلہ نے اسلام قبول کرلیا۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں ان کے قبول اسلام کی اطلاع کی۔ رسول اللہؐ کا شوق تبلیغ ملاحظہ ہو آپؐ خط پڑھتے ہی فوراً سجدے میں گر گئے اور دو دفعہ فرمایا ہمدان قبیلے پر سلامتی ہو۔ پھر آپؐ نے اس قبیلہ کی تعریف اور حوصلہ افزائی فرمائی۔(الحلبیہ)78
۶۔وفدتَجیب
تیرہ افراد پر مشتمل یہ وفد اپنے ساتھ اموال زکوٰۃ بھی لے کر آیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ یہ مال اپنے غرباء میں تقسیم کردینا۔انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر تقسیم کے بعد ہم بچاہوا مال لے کر آئے ہیں۔رسول اللہؐ اس قبیلہ کی آمد پر بہت خوش تھے کہ کسی طمع سے نہیں دلی شوق سے مالی قربانی کرتے ہوئے اسلام قبول کررہے ہیں۔آپؐ نے انہیں بڑی محبت سے اسلام کی تعلیم دی ۔ جب انہوں نے واپس جانے کا ارادہ کیاتو حضورؐ نے فرمایا جانے کی کیا جلدی ہے کچھ دن اور قیام کریں۔انہوں نے عرض کیا کہ واپس جاکر ہم اپنی قوم کو بھی اسلام کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔حضورؐ نے اس وفد کو بھی انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔( الحلبیہ)79
۷۔وفد سعد بن ہُزیم
بنی سعد ہُزیم کا وفد نعمان کی سرکردگی میں آیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آئے تو حضورؐ ایک جنازہ پڑھارہے تھے جس میں ہم شامل نہیں ہوئے۔ آپؐ نے ہمارے تعارف کے بعد پوچھا تم مسلمان ہو؟ ہم نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ پھر تم اپنے بھائی کی نماز جنازہ میں کیوں شامل نہ ہوئے ؟انہوں نے کہا کہ بیعت سے پہلے ہم نے اسے جائز نہیں سمجھا۔آپؐ نے فرمایاجس وقت تم نے دل سے اسلام قبول کرلیا اس وقت سے مسلمان ہوگئے۔اس کے بعد رسول اللہؐ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی سعادت حاصل کی۔
اس وفد کے لوگ بیان کرتے تھے جب ہم اپنے خیموں میں آئے تو جس لڑکے کو وہاں بغرض حفاظت چھوڑ کر آئے تھے اسے حضورؐ نے بلوا بھیجا۔ہم نے عرض کیا کہ یہ ہم میں سے کم عمر اور ہمار اخادم ہے۔آپؐ نے فرمایا قوم کا سرداربھی ان کا خادم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے برکت دے ۔اس طرح اس خادم میں صلاحیت دیکھ کر اس کی عزت افزائی کی ۔نعمانؓ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہؐ نے اس بچے کو ہم پر امیر مقرر کیا اور وہ ہمیں نمازیں پڑھاتا تھا۔(الحلبیہ)80
۸۔وفد بلیّ
قُضاعہ قبیلہ کایہ وفد حضورؐ کی خدمت میں آیااور اسلام کا اقرار کیا۔ان کے بوڑھے سردار نے پوچھا کہ مجھے مہمان نوازی سے شغف ہے کیا اس کا اجر ہوگا۔آپؐ نے فرمایا ہر نیکی کا اجر ہے خواہ امیر سے کی جائے یاغریب سے۔ مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے۔اس وفد نے تین روزقیام کیا ۔اسلام کی تعلیمات سیکھیں اور واپس اپنے قبائل میں جاکر پیغام پہنچانے لگے۔(الحلبیہ)81
۹۔وفد بنی عذرہ کی آمد
قبیلہ بنی عذرہ کا وفد یمن سے آیا۔انہوں نے کہا کہ ہم آپؐ کے ننھالی رشتہ دارہوتے ہیںکیونکہ ہم قصی بن کلاب کے بھائی کی اولاد ہیں۔ ہمارا آپؐ سے رحمی رشتہ ہے۔رسول اللہؐ نے انہیں بہت مسرت سے خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ پریشانی کی بات نہیں تم لوگ اپنے گھر کی طرح یہاں رہو۔آنحضورؐ نے انہیں اسلام کی تعلیم دی۔ کہانت سے روکااور فرمایا کہ کاھنوں سے غیب کی باتیں وغیرہ مت پوچھا کرو۔ اسی طرح انہیں بتوں پر قربانیاں کرنے سے بھی منع فرمایا اور وہ مسلمان ہوکر لوٹے۔(الحلبیہ)82
ان قبائل کی آمد اور قبول حق سے عرب میں اسلام کا نام بلند ہوااور رسول اللہؐ کی تبلیغی کاوشوں کے نتیجہ میں اس بت پرست جزیرہ میں توحید کی منادی برسرعام ہونے لگی۔
رسول اللہؐ کی آخری وصیت
عمر بھر حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد نبی کریمؐ نے اپنی زندگی کے آخری حج کے موقع پر اپنی انقلاب انگیز تعلیم امن کا خلاصہ بطور اعادہ اُمت کے ہزاروں نمائندوں تک پہنچایا۔ انہیں آخری وصیت بھی تبلیغ ہی کے بارے میں فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام ضرور پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں،کیونکہ بسااوقات ایک غیر حاضرآدمی موجود شخص سے زیادہ بات کو یاد رکھنے والا اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا ہوتا ہے۔(بخاری)83
پھر آپؐ نے موجود ہزاروں مسلمانوں سے یہ گواہی لی کہ کیا میں نے پیغام پہنچادیا، سب نے بیک زبان ہوکر کہا کہ آپؐ نے بلاشبہ پیغام پہنچانے کا حق ادا کردیا۔ تب آپؐ نے آسمان کی طرف انگلی کر کے خدا کو گواہ ٹھہرایا اور کہا اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔اے اللہ تو بھی گواہ رہنا۔ (بخاری)84
اے ہمارے آقا!بے شک تیرا رب اور اس کے فرشتے بھی گواہ ہیں کہ تو نے پیغام پہنچانے کا حق خوب ادا کردیا اور جس طرح تیرے دور کے ہزاروں اصحاب نے اپنی چشم دید گواہی دی تھی کہ آپؐ نے حق تبلیغ میں کوئی کسر اُٹھانہیں رکھی۔ آج چودہ سو سال بعد ہم تیر ے اُمتی اورغلام بھی صدق دل سے گواہی دیتے ہیںکہ آپؐ نے اس شان سے حق تبلیغ ادا کیا کہ اس کی مثال روئے زمین پر اس سے پہلے نہیں ملتی۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍطوَبَارِکْ وَسَلّم اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ

حوالہ جات
1
مسنداحمدبن حنبل جلد4
2
بخاری کتاب الرقاق باب النھی عن المعاصی
3
مسلم کتاب الطلاق باب فی الایلاء واعتزال النساء
4
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد 2ص162مطبوعہ بیروت
5
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص164مطبوعہ بیروت
6
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 ص168دارالکتب العلمیہ مطبوعہ بیروت
7
بخاری کتاب فضائل القرآن باب تالیف القرآن
8
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء و لہب و تفسیر ابن جریر الطبری سورۃ الشعراء زیر آیت و انذر عشیرتک الاقربین
9
تفسیرطبری سورۃ الشعراء زیر آیت وانذرعشیرتک الاقربین
10
حاشیہ السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1ص270مطبوعہ مصر
11
دلائل النبوۃ بیھقی جلد2ص207مطبوعہ بیروت
12
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جز1ص314مصر،السیرۃ الحلبیۃ جلد1ص3030بیروت
13
مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوۃ و الخطبہ
14
الوفاء باحوال المصطفٰے ابن جوزی ص193بیروت
15
بخاری بنیان الکعبہ باب اسلام ابی ذر
16
الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجرجلد2ص287
17
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد4ص239
18
مسند احمد جلد ۱ص379 مطبوعہ بیروت و دلائل النبوۃ اللبیھقی جلد2 172,173
19
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جلد1ص278مطبوعہ مصر
20
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص310مطبوعہ مصر
21
مسند احمد بن حنبل جلد5ص229مطبوعہ بیروت
22
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد2ص34مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت
23
ترمذی ابواب المناقب مناقب عمر
24
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جلد1ص367تا372مطبوعہ بیروت
25
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جز2ص31مصطفی البابی الحلبی مصر،بخاری کتاب اللباس باب العمائم
26
مسند احمد جلد 3ص120مطبوعہ بیروت
27
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص386
28
دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد1ص359
29
ترمذی کتاب فضائل القرآن باب الارجل یحملنی الی قومہ لابلّغ کلام ربی
30
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص413بیروت
31
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص414بیروت
32
مسند احمد جلد3ص492بیروت
33
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص2بیروت
34
مسند احمد بن حنبل جلد5ص371بیروت
35
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص212بیروت
36
السیرۃ النبویہ ابن ہشام جلد2ص60تا62،السیرۃ الحلبیۃ جلد1ص354
37
السیرۃ الحلبیۃ ازعلامہ علی بن برھان جلد1ص354مطبوعہ بیروت
38
مسند احمدبن حنبل جلد4ص335مطبوعہ بیروت
39
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص62مطبوعہ مصر
40
بخاری بدء الخلق باب7
41
‏Life of Mahomet from original sources by Sir William Muir Pg:117 new edition 1877
42
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص421بیروت
43
مسند احمد جلد3ص339بیروت
44
الوفا ء باحوال المصطفیٰ از علامہ ابن جوزی ص249
45
بخاری کتاب التفسیرسورۃ آل عمران باب ولتسمعن من الذین اوتواالکتاب
46
بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی
47
مسند احمد جلد3ص260مطبوعہ بیروت
48
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص168تا171بیروت
49
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص170مطبوعہ بیروت
50
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع ،السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص171بیروت
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع،السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص171بیروت
52
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص215بیروت
53
السیرۃ الحلبیۃ جلد2ص39 داراحیاء التراث العربی بیروت
54
بخاری کتاب الجہاد و السیر باب فضل من اسلم علی یدیہ
55
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ نبی المصطلق
56
شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ القسطلانی جلد2ص90بیروت
57
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم
58
بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال
59
بخاری بنیان الکعبۃ باب اتیان الیہود النبیؐ
60
بخاری کتاب الجہاد باب اخراج الیھود عن جزیرۃ العرب
61
السیرۃ المحمدیۃ از مولوی کرامت علی دہلوی باب وفد نجران
62
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص382تا385بیروت
63
اسباب النزول از علامہ واحدی ص61دارالفکر بیروت
64
بخاری کتاب المغازی ،تاریخ طبری جلد2
65
بخاری بدء الوحی
66
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص229بیروت
67
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص252,251مطبوعہ بیروت
68
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص255بیروت
69
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص254بیروت
70
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص255,256بیروت
71
الوفاء باحوال المصطفیٰ از علامہ ابن جوزی :756مطبوعہ بیروت
72
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص252بیروت
73
السیرہ الحلبیۃ جلد3ص229 بیروت و
الوفاباحوال المصطفیٰ از علامہ ابن حوزی :756مطبوعہ بیروت
74
بخاری کتاب العلم، باب القراء ۃ ولعرض علی المحدث
75
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص226,225بیروت
76
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص226مطبوعہ بیروت
77
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص228مطبوعہ بیروت
78
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص230مطبوعہ بیروت
79
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص230,31بیروت
80
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص232مطبوعہ بیروت
81
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص236بیروت
82
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص235بیروت
83
بخاری کتاب العلم باب قول النبی رُبّ مبلغ اوعی من سامع
84
بخاری کتاب الحج باب الخطبۃ ایام منی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم ومربی ّ اعظم
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی ایسی اَن پڑھ قوم میں مبعوث کئے گئے جو گمراہی میں اپنی مثال نہ رکھتی تھی۔ آپؐ نے اپنے حسنِ اخلاق ،محبت و شفقت اور دعائوں سے ان بدّوئوں کی ایسے اعلیٰ درجے کی تربیت فرمائی اور ان کے سینہ ودل کو ایسامنوّر کیا کہ وہ آسمانِ روحانیت کے روشن ستارے بن گئے۔
یہ کرامت دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ کردار اورپاکیزہ عملی نمونہ کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ ’’اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور عمل صالح بجالائے اور کہے کہ میں کامل فرمانبردار ہوں۔‘‘(سورۃ حمٰ السجدہ :34) اس ارشاد ربّانی کے اوّل مصداق ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ ہی کی ذات ہے جسے جماعت مومنین کے لئے بہترین نمونہ قرار دیاگیا۔(سورۃالاحزاب:22)
تربیت کیلئے قرآن شریف کا بنیادی اُصول یہ ہے قُوْااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (سورۃ التحریم:7)یعنی اپنے نفس اور اپنے گھروالوں کو آگ سے بچائو۔نبی کریمؐ نے اس ارشاد کی کی تعمیل میں گھر کی اکائی(Unit) سے تربیّت کا سلسلہ شروع کیا اوراپنا عملی نمونہ پیش کر کے اپنے اہل خانہ کی تربیت فرمائی۔قرآن شریف کے بیان کے مطابق رسول اللہؐ ازواج مطہّرات کو یہ نصیحت فرماتے تھے۔’’ اے نبی کی بیویو! تم ہرگز عام عورتوں جیسی نہیں ہوبشرطِیکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔پس بات لجا کر نہ کیا کرو۔ ورنہ وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے طمع کرنے لگے گا اور اچھی بات کہا کرو اور اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔اے اہل بیت! یقینا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کردے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے اور اللہ کی آیات اور حکمت کو جنکی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھو۔ یقینا اللہ بہت باریک بِین اور باخبر ہے۔‘‘(سورۃالاحزاب:33تا35)
اہل خانہ کی تربیت
نبی کریمؐ نے گھر میں نماز تہجد میں باقاعدگی اور دوام کا خوبصورت نمونہ قائم فرمایا پھر ازواج مطہّرات کوبھی بیدار کر کے نوافل ادا کرنے کی تلقین فرماتے۔ ایک دفعہ انہیں کیسی درد انگیز تحریک کرتے ہوئے فرمایا’’ سبحان اللہ! آج رات کتنے ہی فتنوں کی خبریں نازل کی گئی ہیں اور کتنے ہی خزانے اُتارے گئے ہیں۔ ان حُجروں میں سونے والی بیبیوں کو جگائو اور بتائو کہ کتنی ہی عورتیں دنیا میں بظاہر خوش پوش ہیں مگر قیامت کے دن وہ حقیقی لباس سے عاری ہونگی (جو تقویٰ کا لباس ہے۔)‘‘(بخاری)1
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھے اور فاطمہؓ کو تہجد کے لئے بیدار کیا۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے۔اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتاہوا اُٹھا اور بُڑبڑاتے ہوئے کہہ بیٹھا ’’خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھادے۔‘‘رسول کریمؐ واپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی ’’وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْ ئٍ جَدَلًا‘‘کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے۔(احمد)2
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ چھ ماہ تک فجر کی نما زکے وقت حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے۔’’اے اہل بیت! نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘ اور پھرسورۂ احزاب کی آیت:33 پڑھتے کہ’’ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘(ترمذی)3
رسول کریمؐ نے اپنے تمام اعزّہ و اقارب کو اورخاص طور پراپنی بیٹی فاطمہؓ کو آپؐ نے کھول کرسنادیا تھا کہ اللہ کے مقابل پر میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا ۔تمہارے عمل ہی کام آئیں گے۔(بخاری)4
رسول کریمؐ نے اپنی اولاد کی تربیت کی بنیاد محبت الہٰی پرر کھی تاکہ وہ اللہ کی محبت میں پروان چڑھیں اور یہ محبت ان کے دل میں ایسی گھر کرجائے کہ وہ غیراللہ سے آزاد ہوجائیں۔ چنانچہ نبی کریمؐ حضرت حسن ؓو حسینؓ کو گود میں لے کر دعاکرتے تھے کہ ’’اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘(احمد)5
آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کی شادی پرکمال سادگی سے انہیں ضرورت کی چند چیزیں عطافرمائیں۔ بعد میں انہوں نے خادم کا مطالبہ کیا تو ذکرالہٰی کی طرف توجہ دلا کر سمجھایا کہ خدا کی محبت میں ترقی کرو ۔اللہ خود تمہاری ضرورتیں پوری فرمائے گا۔تم خداکو نہ بھولو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو ان کی شادی پرایک کمبل، چمڑے کا ایک تکیہ( جس میں کھجور کے پتے تھے)۔ایک آٹاپیسنے کی چکی، ایک مشکیزہ اور دو گھڑے دیئے تھے۔ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے توسینے میں درد ہونے لگا ہے۔ آپ کے اباّ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جاکر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطاہو۔ فاطمہؓ کہنے لگیں خدا کی قسم! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گَٹّے پڑگئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں۔پھر انہیں حضورؐ سے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیاکرکے آئی ہو؟وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کرسکی۔تب وہ دونوں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورؐ کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی۔رسول کریمؐ نے فرمایا خدا کی قسم ! میں تمہیں دے دوں اوراہل صُفّہ (غریب صحابہ) کو چھوڑدوں؟جو فاقہ سے بے حال ہیں اور ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں۔ان قیدیوں کو فروخت کر کے میں ان کی رقم اہل صفّہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے۔ رات کو نبی کریمؐ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ اپنے کمبل میں لیٹے ہوئے تھے۔ رسول اللہؐ کو دیکھ کر وہ اُٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔اپنی جگہ لیٹے رہو۔پھر فرمایا جو تم نے مجھ سے مانگاکیا میںاس سے بہتر چیز تمہیںنہ بتائوں؟انہوں نے کہا ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل ؑنے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔ جب رات بستر پر جائو توتینتیس مرتبہ سبحان اللہ ،تینتیس مرتبہ الحمدللہ اورچونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھاکرو۔
حضرت علیؓ فرماتے تھے جب سے رسول اللہ ؐ نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا۔کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہٰی کرنامیں نے یادرکھا تھا۔
نبی کریمؐ نے ایک اور صحابی کو یہی تسبیحات سو کی تعداد میں پڑھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اس تسبیح کی برکت تمہارے لئے سو غلاموں سے بڑھ کر ہے۔(احمد)6
نصیحت اور یاددہانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تربیت کے سلسلہ میں قرآنی اسلوب ہمیشہ یادرکھتے تھے اور ’’فَذَکِّرْ‘‘ (یعنی نصیحت کرتے رہنے)کے حکم کے تابع بعض اہم مضامین یا نصائح کا تکرار پسند فرماتے تھے ،بالخصوص تقویٰ کی نصیحت کی یاددہانی کرواتے تھے۔نکاح وغیرہ کے موقع پر خطبۃ الحاجۃ میں تقویٰ کے مضمون پر مشتمل آیات تلاوت فرماتے تھے۔عام وعظ میں بھی اِتَّقُوْااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْنَفْسٌ مَّاقَدَّمَتْ لِغَدٍ (سورۃ الحشر:19)کی کثرت سے تلاوت کرنے کا ذکر روایات میںہے۔جس میں تقویٰ کے ساتھ محاسبۂ نفس اور مسابقت فی الخیرات کے مضمون کی طرف بھی اشارہ پایاجاتاہے۔(احمد)7
محاسبۂ نفس
تربیت کا ایک نہایت عمدہ طریق محاسبۂ نفس اور مسابقت فی الخیرات ہے۔ نبی کریمؐ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔حضرت عبدالرحمان بن ابی بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک روز صحابہ سے پوچھا کہ آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! میں مسجد میں آیا تو ایک محتاج کو دیکھا۔ میں نے اپنے بچے عبدالرحمانؓ کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا لے کر اس مسکین کو دے دیا۔ (ابوداؤد)8
اسی طرح آپؐ نے پوچھا آج اپنے کسی بھائی کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنے بھائی عبدالرحمان بن عوفؓ کی بیماری کی اطلاع ملی تھی۔ آج نماز پرآتے ہوئے میں ان کے گھر سے ہوکر ان کا حال پوچھتے ہوئے آیا ہوں۔آپؐ نے پوچھا آج(نفلی) روزہ کس نے رکھا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا کہ وہ روزے سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ سب نیکیاں ایک دن میں جمع کیں اس پر جنت واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو روح مسابقت نے جوش مارا اور کہنے لگے کہ خوشانصیب وہ جو جنت کو پاگئے۔تب نبی کریمؐ نے ایک ایسا دعائیہ جملہ عمرؓ کے حق میں بھی فرمایا کہ عمرؓ کا دل اس سے راضی ہوگیا۔ آپؐ نے دعا کی، اللہ عمرؓ پر بھی رحم کرے۔ اللہ عمرؓ پر رحم کرے۔ جب بھی وہ کسی نیکی کاارادہ کرتا ہے ابوبکرؓ اس سے سبقت لے جاتاہے۔(ہیثمی)9
بیعت توبہ
نبی کریم ؐ حسب حکم الہٰی صحابہ کی تربیت اور روحانی ترقی کی خاطر بیعت کے وقت ان سے نیک باتوں میں اطاعت اور برُی باتوں سے بچنے کا عہد لیتے اور پھر اس کی پابندی کرواتے تھے۔
حضرتعُبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ان باتوں پر بیعت لیتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو گے، چوری نہ کرو گے، زنانہ کرو گے، اپنی اولادوں کو قتل نہ کروگے اور ایسے بہتان نہ تراشوگے جو اپنے سامنے گھڑلواور معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرو گے۔پس جو کوئی تم میں سے اس عہد بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے۔(بخاری)10
خلوص نیت
رسول کریم ؐ نے تربیت کے لئے بنیادی سبق خلوص نیت کا دیا اور فرمایا ہے کہ تمام نیک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے۔(بخاری11)نیزفرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے جسم و مال اور شکل و صورت پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوتی ہے اور انسان کے تقویٰ کے مطابق خداتعالیٰ کا اس سے معاملہ ہوتا ہے۔(مسلم)12
رسول کریمؐ نے اس کی مثال یہ بیان فرمائی کہ ایک انسان بظاہر لوگوں کی نظر میں نیکی کرتا چلاجاتا ہے مگر وہ فی الحقیقت اہل نار میں سے ہوتا ہے۔ایک انسان بدی کررہا ہوتا ہے مگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔(بخاری13)فرمایا وہ کسی موڑ پر اچانک نیکی کی طرف رجوع کرتا اور اہل جنت میں سے قرار پاتا ہے۔اس طرح حسنِ نیت کے مطابق ہی نیکیاں انجام کو پہنچتی ہیں۔ اس لئے انفرادی یا اجتماعی تربیتی کوششوں کے ساتھ دعا بہت ضروری ہے۔نبی کریمؐ اپنے بارہ میں یہ دعا کرتے تھے ’’اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا ‘‘اس کا سبب پوچھاگیا تو فرمایا دل رحمان خدا کی انگلیوں میں ہوتا ہے وہ جب چاہے پلٹ دے۔ (ترمذی)14
رسول کریمؐحوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعریف میں مبالغہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک دفعہ کسی کی ایسی تعریف سن کر فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی کیونکہ ایسی تعریف سے اندیشہ ہوتاہے کہ انسان کہیں کبر کا شکار نہ ہوجائے۔تاہم حوصلہ افزائی کی خاطر جائز تعریف سے منع بھی نہیں فرمایا۔ چنانچہ ہدایت فرمائی کہ کسی کی تعریف کرنی مقصود ہوتو محتاط الفاظ میں اس شخص کی خوبی کا ذکر کرکے کہنا چاہئے کہ ’’میرے خیال میں فلاں شخص ایساہے باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔‘‘(بخاری)15
حضرت امّ المؤمنین حفصہؓ نے ایک دفعہ اپنے بھائی عبداللہ بن عمرؓ کی ایک خواب نبی کریمؐ کے سامنے بیان کی۔ آپؐ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا عمدہ نصیحت فرمادی کہ عبداللہؓ نیک نوجوان ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ رات کو تہجد کی نماز ادا کرنے کی عادت ڈالے۔(بخاری)16
رسول اللہؐ کی دلی خواہش اور حوصلہ افزائی کے اس ایک جملے نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا اور وہ عابد و زاہد انسان بن گئے۔
سچائی میں عمدہ نمونہ
تربیت میں سچائی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ایک گناہ گار شخص نے رسول کریمؐ کے ہاتھ پرتوبہ کی بیعت اور اپنی کمزوری کا اقرار کرتے ہوئے عرض کیا کہ سارے گناہ ایک ساتھ چھوڑنے مشکل ہیںکوئی ایک گناہ جو آپؐ فرمائیں چھوڑسکتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو۔ پھر سچائی کی برکت سے اس سعادت مند کو رفتہ رفتہ سارے گناہوں سے نجات مل جائے گی۔
نبی کریمؐ اولاد کے لئے اپنے اصحاب کو بھی عمدہ نمونہ پیش کرنے کیلئے ہدایت فرماتے تھے۔ مثلاً یہ کہ خود سچائی پر قائم ہوکر بچوں کو اس کا نمونہ دیا جائے اورتکلّف سے یا مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔
عبداللہ ؓبن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول ِکریم ؐ ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔میں کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہؓ اِدھر آئو میں تمہیں چیز دونگی۔رسول اللہؐ نے فرمایا آپ اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہاہاں کھجوردونگی۔ آپؐ نے فرمایا اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا(اور صرف بچے کو بلانے کی خاطر ایسا کہا ہوتا )تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا۔(احمد)17
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے دینی حالات پر نظر رکھتے تھے۔ تربیت کایہ بھی ایک انداز تھا کہ آپؐ صحابہ میں نیکیوں کا مقابلہ کرواکے ان کی روحانی ترقی کے سامان فرماتے تھے۔انہیںمناسب رنگ میں توجہ دلاتے رہتے تھے۔ حضرت ثابت بن قیسؓ کو آپؐ نے کچھ روز نماز سے غیر حاضر پاکر ان کے بارے میں پتہ کروایا ۔انہیں کہلا بھیجا کہ وہ سورۃ حجرات کی تیسری آیت کے نزول کے بعدسے نا دم و پریشان ہوکر گھر بیٹھ رہے ہیں۔اس آیت میں نبی کی آواز سے اونچی آواز کرنے والوں کے اعمال ضائع ہونے کا ذکر تھااورثابتؓ کی آواز بلند تھی۔نبی کریم ؐ نے پیغام بھجوایا کہ ثابتؓ کو جاکر بشارت دو کہ تمہارے جیسا آدمی اہل نار میں سے نہیں ہوسکتا تم تو اہل جنت میں سے ہو۔(بخاری)18
دلی محبت کے ساتھ تربیت
نبی کریم ؐ کا تربیت کرنے کابڑا گُر یہ تھا کہ آپؐ نے دنیا کے دل محبت اور احسان کے ساتھ جیتے۔حضرت طلحہؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ اہل نجد میںسے ایک شخص آیا جس کے سر کے بال پر اگندہ تھے۔اس نے دور سے ہی بولنا شروع کردیا۔ اس کی آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی مگر گفتگو سمجھ نہیں آرہی تھی یہاں تک کہ وہ قریب آیا اور اسلام کے بارہ میں آنحضور ؐ سے سوال کرنے لگا۔حضورؐ نے کمال تحمل اور نرمی سے جواب دیئے اور اسے بتایا کہ ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا کیا اسکے علاوہ بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟آپؐ نے فرمایا نہیں سوائے اسکے کہ تو از خود بطور نفل کچھ عبادت کرنا چاہے۔ پھر حضورؐ نے اُسکے دوسرے سوال پر بتایا کہ رمضان کے روزے اس پر فرض ہیں تو وہ پوچھنے لگاکیا میرے ذمہ اسکے علاوہ بھی کچھ روزے ہیں۔آپؐ نے فرمایا نہیں سوائے نفلی روزوں کے جو تم خود خوشی سے رکھنا چاہو۔پھراس کے سوال پر حضورؐ نے زکوٰۃ کی فرضیت بیان کی تو اس نے وہی سوال دہرایا کہ کیا فرض زکوٰۃ کے علاوہ بھی میرے ذمہ کچھ ہے۔آپؐ نے فرمایا نہیں۔ سوائے اس کے کہ تم از خود خوشی سے کوئی صدقہ دینا چاہو۔اس پر وہ شخص چلا گیا اور یہ کہتا جارہا تھا خدا کی قسم! میں نہ تو اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ کم۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ کامیاب ہوگیا۔(بخاری)19
معاویہ بن حکمؓ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ مجھے نبی کریم ؐ کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔اس دوران ایک آدمی کو چھینک آگئی۔ میں نے نماز میں ہی کہہ دیا’’ اللہ آپ پر رحم کرے۔‘‘ لوگ کنکھیوں سے مجھے دیکھنے اور تعجب سے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے خاموش کرانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ میں خاموش ہوگیا،نماز کے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپؐ پرقربان ہوں میں نے آپؐ سے بہتر تعلیم دینے والا کوئی انسان نہیں دیکھا۔ آپؐ نے مجھے مارا نہ برا بھلا کہاصرف اتنا فرمایا ۔’’نماز کے دوران کوئی اور بات کرنا جائز نہیں ہے۔نماز تو ذکر الہٰی ،اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے۔‘‘(مسلم)20
ایک دفعہ ایک اعرابی آیا۔ اس نے اپنی سواری کا اونٹ صحن مسجد کے ایک حصّے میںبٹھایا۔پھروہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔صحابہ نے اُسے ڈانٹا ’’ٹھہرو ٹھہرو‘‘ ۔نبی کریمؐ نے صحابہ کو منع کرتے ہوئے فرمایا ’’اس بے چارے کا پیشاب تو نہ روکو،اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔‘‘ جب وہ شخص پیشاب کرکے فارغ ہوا تو رسول کریمؐ نے اسے بلا کر سمجھایا کہ’’ مساجد میں پیشاب کرنا اورگندگی ڈالنا مناسب نہیں یہ تو اللہ کے ذکر،نماز اور قرآن کی تلاوت کے لئے ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ اسکے پیشاب پر پانی بہاد ے۔نیز صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم آسانی کیلئے پیدا کئے گئے ہونہ کہ تنگی کے لئے۔(بخاری)21
حضرت ابوہریرہؓ کابیان ہے کہ بعد میں وہ بدّو رسول اللہؐ کے اخلاق کریمہ کا ہمیشہ تذکرہ کیاکرتا اور کہتا تھا کہ رسول کریمؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپؐ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا۔ مجھے کوئی گالی نہیں دی، سرزنش نہیں کی،مارا پیٹا نہیں۔(احمد)22
ایک دفعہ رسول اللہؐ صحابہ کے ساتھ نماز کیلئے کھڑے ہوئے ۔ ایک اعرابی نما ز میں دعا کرتے ہوئے کہنے لگا۔اے اللہ! مجھ پر اور محمدؐ پر رحم کرنا اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا۔ نماز کے بعدرسول کریمؐ نے اعرابی کو سمجھایا کہ دعا تو ایک بہت وسیع چیز ہے ۔ تم نے اس کے آگے منڈیر کھڑی کردی ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت کے آگے بند باندھنا ہر گز مناسب نہیں۔(بخاری)23
رسول کریمؐبسااوقات نادانستہ غلطی سے چشم پوشی فرماکر حوصلہ افزائی کے ذریعہ صحابہ کے دل جیت لیتے اور انہیں اعلیٰ نیکیوں کے عزم کی توفیق مل جاتی۔
حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ہمیں ایک مہم پر بھجوایا۔ اچانک لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔مجھے بھی اس کی لپیٹ میں آکرپیچھے ہٹنا پڑا۔جب ہم واپس آئے تو سخت پشیمان تھے کہ میدان جنگ سے بھاگ کر خدا کی ناراضگی کے مورد بن گئے۔ ہم نے کہا کہ مدینہ داخل ہوتے وقت ہم چپکے سے جائیں گے تاکہ ہمیں کوئی دیکھ نہ لے۔ پھر مدینہ پہنچ کر ہم نے سوچا کہ رسول کریمؐ کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کرکے پوچھیں کہ اگر تو ہماری توبہ قبول ہوسکتی ہے تو ہم یہاں ٹھہریں ورنہ ہم واپس میدان جنگ میں لوٹ جائیں۔ ہم فجر کی نماز سے پہلے رسول اللہؐ کے انتظار میں تھے کہ آپؐ تشریف لائے۔ ہم نے کھڑے ہوکر عرض کیا ہم میدان جنگ کے بھگوڑے ہیں۔آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تو پلٹ کر حملہ کرنے والے ہوہم نے وفورمحبت سے آپؐکے ہاتھ چُومے اور عرض کیا کہ ہم تو فرمانبرداروں کی جماعت ہیں۔ (احمد)24
اجتماعی تربیت کا مرکزی نظام
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی ارشاد کے تابع یہ نظام تربیت بھی جاری فرما رکھا تھا کہ مختلف علاقوں سے لوگ مرکزمیںآکر اورآپؐ کی صحبت میں رہ کر دین کا گہرا فہم حاصل کریں اور واپس جاکر اپنی قوم کی تربیت کریں۔(سورۃ التوبۃ:122)چنانچہ اصحاب صفّہ کا ایک گروہ ہمیشہ مسجد نبوی کے قرب میں رسول اللہؐ کے زیرتعلیم و تربیت رہتا تھاجن کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست بھی آپؐ فرماتے تھے۔
حضرت مالک بن حُویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ بہت رحیم و کریم اور نرم خو تھے۔ ہم نے آپؐ کی صحبت میں بیس دن قیام کیا۔ اس دوران آپؐ نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کے لئے اداس ہوگئے ہیں۔ آپؐ ہم سے ہمارے اہل خاندان کے بارے میںتفصیل پوچھنے لگے۔ ہم نے ان کے بارے میں بتایا۔ مالکؓ کہتے ہیں حضورؐ بہت نرم دل اور پیار کرنے والے تھے۔ آپؐ نے ہمیں اپنے گھروں میں واپس بھجواتے ہوئے فرمایا ان کو جاکربھی یہ باتیں سکھائواور جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اس طرح نماز پڑھنا۔ نماز سے پہلے تم میں سے کوئی اذان کہہ دے اور جو بڑا ہووہ امامت کروادے۔ (بخاری)25
مخاطب کو نصیحت سے قائل کرنا
نبی کریمؐ تربیتی نصائح میں دلیل سے قائل کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور زیر تربیت لوگوں کے لئے دعا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک نوجوان نے عجیب سوال کر ڈالا کہ یارسول اللہؐ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ لوگوں نے اسے *** ملامت کی کہ کیسی نامناسب بات کردی اور اسے سوال کرنے سے روکنے لگے۔ نبی کریمؐ سمجھ گئے کہ اس نوجوان نے گناہ کا ارتکاب کرنے کی بجائے جو اجازت مانگی ہے تو اس میں سعادت کاکوئی شائبہ ضرور باقی ہے۔ آپؐ نے کمال شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا پہلے یہ بتائو کہ کیا تمہیں اپنی ماں کے لئے زنا پسند ہے؟ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم! ہرگز نہیں۔آپ ؐنے فرمایا اسی طرح باقی لوگ بھی اپنی مائوں کے لئے زنا پسند نہیں کرتے۔آپؐ نے دوسراسوال یہ فرمایا کہ کیا تم اپنی بیٹی کے لئے بدکاری پسند کروگے؟اس نے کہا خدا کی قسم! ہرگز نہیں۔ آپؐ نے فرمایا لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کیا تم اپنی بہن سے بدکاری پسند کرتے ہو؟اس نے پھر اسی شدت سے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایالوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔پھر آپؐ نے بدکاری کی شناعت خوب کھولنے کیلئے فرمایا کہ تم پھوپھی اور خالہ سے زنا پسند کرو گے؟اس نے کہا خدا کی قسم ہرگز نہیں۔ آپؐ نے فرمایا لوگ بھی اپنی پھوپھیوں اور خالائوں کے لئے بدکاری پسند نہیں کرتے۔مقصود یہ تھا کہ جو بات تمہیں اپنے عزیز ترین رشتوں میں گوارا نہیں۔ وہ دوسرے لوگ کیسے گوارا کریں گے اور کوئی اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟پھر نبی کریم ؐ نے اس نوجوان پر دست شفقت رکھ کر دعا کی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْذَنْبَہ‘ وَطَھِّرْ قَلْبَہ‘ وَ حَصِّنْ فَرْجَہ‘ اے اللہ اس نوجوان کی غلطی معاف کر۔ اس کے دل کو پاک کردے۔اسے باعصمت بنادے۔ اس نوجوان پرآپؐ کی اس عمدہ نصیحت کے ساتھ دعا کا اتنا گہرا اثر ہواکہ اس نے بدکاری کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور پھر کبھی اس طرف اُس کا دھیان نہیں گیا۔(احمد26) سبحان اللہ! کیسا پیار کرنے والا مربی اعظم انسانیت کو عطاہواتھا۔
ایک بدّو نے آکر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسرّ تھا عطا کردیا ۔وہ اس پر سخت چیں بجبیں ہوا اور رسول کریمؐ کی شان میں بھی بے ادبی کے کچھ کلمات کہہ گیا۔ صحابہ کرام نے سرزنش کرنا چاہی مگر رسول اللہؐ نے منع فرما دیا۔آپؐ اُس بدّو کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ اُسے کھانا کھلایا اور مزید انعام واکرام سے نوازا۔ پھر پوچھا کہ اب راضی ہو؟ وہ خوش ہوکر بولا میں کیا میرے قبیلے والے بھی آپؐسے راضی اور خوش ہیں۔ رسول کریم ؐ نے اُسے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے بھی جاکر یہ اظہار کردینا کیونکہ تم نے ان کے سامنے سخت کلامی کر کے ان کی دلآزاری کی تھی ۔چنانچہ اُس نے صحابہ کے سامنے بھی اپنی خوشی کا اظہار کردیا۔ تو نبی کریمؐ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا میری اور اس بدّو کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کی ایک اونٹنی ہو وہ بدک کر بھاگ کھڑی ہو۔ لوگ پیچھے پکڑنے کو دوڑیں مگر وہ کسی کے قابو نہ آئے۔ اتنے میں اونٹنی کا مالک آجائے اور کہے میری اونٹنی کو چھوڑ دو۔ میں تم سب سے زیادہ اس سے نرمی کا سلوک کرنیوالا ہوں۔پھر وہ اپنی اونٹنی کی طرف متوجہ ہوکر کچھ گھاس لے کراسے پچکارے تو وہ اس کی طرف چلی آئے اور اس کے پاس آکر بیٹھ جائے اور وہ اس پر اپنا پالان ڈال کر اسے قابو کرلے۔ پھرآپؐ نے فرمایاجب اس بدّو نے کچھ سخت بات کی تھی اس وقت میں تمہیں اس پر سختی کرنے دیتا تو یہ ہلاک ہوجاتا۔(ہیثمی)27
پاکیزہ علمی مجالس
نبی کریم ؐکی پاکیزہ صحبت اور بابرکت مجالس تربیت کا بہترین موقع ہوتی تھیں۔ اس لئے قرآن شریف میں صادقوں اور راستبازوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم ہے۔ (سورۃ التوبۃ:119) قرآن شریف میں دوسری جگہ نبی کی صحبت کو روحانی لحاظ سے زندگی بخش قرار دیا گیا ہے۔ (سورۃالانفال:25)ایسی پاکیزہ مجالس میں شرکت سے دل میں نرمی پیدا ہوتی اور نصیحت کا اثر ہونے لگتاہے۔لیکن ان مجالس سے پہلو تہی کے نتیجہ میں دل سخت ہوجاتاہے۔اسی لئے فرمایا کہ نماز جمعہ اور خطبہ سے ایک ناغہ کرنے سے دل پر ایک نقطہ لگ جاتا ہے پھر مسلسل ایسا کرنے سے دل سیاہ ہوجاتا ہے اور نصیحت قبول کرنے کا مادہ کم ہوجاتا ہے۔(ابن ماجہ)28
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی نیک مجالس میںشرکت کی تحریک فرماتے تھے۔ایک دفعہ فرمایا کہ ایک مجلس میں تین آدمی آئے۔ان میں سے ایک تو مجلس میں آگے خالی جگہ دیکھ کر توجہ سے بات سننے کے لئے آگے بڑھا دوسرے کو جہاں جگہ ملی پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر واپس چلاگیا۔ان لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ ان کے رویّے کے مطابق خدا نے اُن سے سلوک کیا۔جو آگے بڑھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا۔ دوسرا جو حیا کرتے ہوئے پیچھے ہی بیٹھ گیا۔اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے حیاء و مغفرت کا معاملہ کیا۔ جو منہ پھیر کر چلاگیا اللہ نے بھی اس سے منہ پھیرلیا۔(بخاری)29
عمدہ مثالوں سے نصیحت
اپنی مجالس میں نبی کریمؐ کاسادہ مثالوں اور کہانیوں کے ذریعہ نصیحت کرنے اور بات ذہن نشین کرانے کا ملکہ بہت اعلیٰ درجہ کا تھا۔مثلاً اصلاح معاشرہ کے حوالے سے نیکی کی تحریک کرنے اور برائی سے نہ روکنے کی مثال یوں دی کہ کچھ لوگ کشتی میں سفر کررہے ہوں۔ ان میں سے ایک آدمی کشتی میں سوراخ کرنے لگے اور دوسرے اسے نہ روکیں تو بالآخر کشتی ڈوب کررہے گی اور سب ہلاک ہوں گے۔(بخاری)30
یہی حال اس معاشرہ کا ہوتا ہے جہاں بدی سے روکنے اور نیکی کی تحریک کا اہتمام نہیں ہوتا۔اس طرح آپؐنے پنجوقتہ نمازوں کی مثال ایک نہر سے دی جس میں پانچ وقت انسان نہائے تو جسم پر میل باقی نہیں رہتی۔ فرمایایہی حال نماز کا ہے جس سے انسان کی بخشش ومغفرت کے سامان ہوتے رہتے ہیں۔(بخاری)31
نبی کریمؐ نے انسان کی ہمدردی و خدمت کے حوالہ سے مومن کامل کی مثال کھجور کے درخت سے دی اور ایسے دلچسپ انداز میں پیش فرمائی کہ مجلس کے ہرشخص کے ذہن میں بیٹھ گئی۔ پہلے تو پوچھاکہ درختوں میں سے وہ درخت کون سا ہے جس کی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز کارآمد ہے۔صحابہ نے جنگل کے سارے درختوں کے نام گنوادیئے مگر یہ پہیلی بوجھ نہ سکے۔حضورؐ نے فرمایا یہ کھجور کا درخت ہے۔جس کی مثال مومن کے وجود سے دی جاسکتی ہے۔(بخاری)32
یعنی جس طرح کھجور کا درخت تن تنہا میدان یا صحراء میں کھڑا آندھیوں طوفانوں کے تھپیڑے برداشت کرتاہے۔ اس کاپودا کچھ تقاضا نہیں کرتامگر دھوپ میں سایہ دیتا ہے،پھل بھی دیتا ہے،اس کے پتے بھی کام آتے ہیں اور تنا بھی۔ اسی طرح مومن کا وجود بھی نافع الناس ہوتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بابرکت مجالس اور صحبت بھی تربیت کا بہترین ذریعہ تھے۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میںدو آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ایک کو چھینک آئی حضور ؐ نے اس کو’’ یَرْحَمُکَ اللّٰہ‘‘ کہہ کر دعادی۔دوسرے کو چھینک آئی تو آپؐ نے اُسے دعا نہیں دی۔اس نے کہا کہ فلاں کو چھینک آئی تو آپؐ نے اُسے یہ دعا دی کہ اللہ تجھ پر رحم کرے اور مجھے چھینک آئی تو آپؐ نے مجھے یہ دعا نہیں دی۔آپؐ نے فرمایا اس نے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہا تھا تو میں نے جواباً’’ یَرْحَمْکَ اللّٰہُ ‘‘کہا اور تم نے’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ نہیں کہا اس لئے میں نے بھی جواب نہیں دیا۔(مسلم)33
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مربی تو اللہ تعالیٰ تھا۔قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ رؤیا وکشوف اور وحی کے ذریعہ آداب تربیت کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔چنانچہ ایک دفعہ نبی کریمؐ نے ذکرفرمایا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ مسواک کررہاہوں۔میرے پاس دو آدمی آئے ایک بڑا تھا،دوسرا چھوٹا۔ میں ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے لگا تو مجھے کہا گیا کہ بڑے کا خیال کریں۔ چنانچہ میں نے بڑے کو مسواک دی۔(بخاری34)یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ ہمیشہ بڑوں کے احترام کی تلقین فرماتے تھے۔
کھانے پینے کے آداب
رسول کریم ؐ کی خدمت میں ایک دفعہ پانی پیش کیا گیا ۔آپ ؐنے پانی پیا۔ دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں طرف بزرگ۔آپؐ نے اس بچے سے کہا کہ کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں پانی پہلے بزرگ کو دے دوں وہ بچہ کہنے لگا نہیں خدا کی قسم! میں آپؐکے تبرّک پر کسی اور کو ترجیح نہیں دونگا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانی پہلے اس بچے کے ہاتھ میں تھمادیا۔(مسلم)35
ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ایک بدّو آیااور دو لقموں میں ہی سارا کھانا چٹ کرگیا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا اگر وہ ’’ بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ کہتا تو تم سب کیلئے یہ کھانا کافی ہوتا۔ پس کھانے سے پہلے اور آخر میں اللہ کا نام ضرور لیا کرو۔ (ابن ماجہ)36
گھر میں داخل ہونے کا ادب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تربیت کی خاطر بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ حضور ؐ نے اپنے صحابہ ؓ کو کسی کے گھر جانے کیلئے اجازت لینے کا طریقہ بھی سمجھایا۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو ا، دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے فرمایا کون ہے؟ میں نے کہا مَیں۔آپؐ نے فرمایا ’’میں ‘‘ کیا مطلب ہوا یعنی حضورؐ نے اس کو ناپسند کیا اور یہ چاہا کہ نام لیا جائے۔چنانچہ پھر بعدمیں صحابہ نام لے کرآپؐ سے اجازت لیاکرتے تھے۔(بخاری)37
نماز پڑھنے کا طریق
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خوبصورت نماز کا نمونہ دے کر اپنے اصحاب کو نماز کا سلیقہ سکھاتے اور ان کی نمازوں کا جائزہ لے کر بھی انہیں مناسب توجہ دلاتے۔
ایک دفعہ حضور ؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے آکر نماز پڑھی مگررکوع و سجود مکمل نہیں کئے پھراُس نے رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ آپ ؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جائو پھرنماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے جاکرپھر نماز پڑھی اوردوبارہ واپس آکرآنحضورؐ کو سلام عرض کیا۔ آپؐ نے تیسری دفعہ اسے فرمایا کہ پھر جائو اور نماز پڑھو۔ تم نے نماز نہیں پڑھی۔اس پر اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐمیں تو اس سے بہترنماز نہیں پڑھ سکتا آپؐ ہی مجھے سکھادیں۔رسول اللہؐ نے فرمایا تکبیر کہہ کے نماز کے لئے کھڑے ہو پھرجتنا حصّہ قرآن کا سہولت سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر اطمینان سے رکوع کرو پھر سیدھے کھڑے ہوجائو۔ پھر اطمینان سے سجدہ کرو۔اس طرح ساری نماز سکون سے پڑھاکرو۔(بخاری)38
ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کو کھانے پر بلایا اور درخواست کی کہ آپؐ چار مہمان ساتھ لے آئیں۔ ایک اور شخص بھی آپؐ کے ساتھ ہولیا۔ میزبان کے دروازے پر پہنچے تو آ پؐ نے فرمایایہ پانچواں آدمی بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔ اگر تم چاہوتو اسے اجازت دے دو اور چاہو تو یہ واپس چلا جاتاہے۔اس نے کہا یارسول اللہؐ میں اسے بخوشی اجازت دیتا ہوں۔(مسلم)39
کھانے کے آداب کی تعلیم
حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارا دستور یہ تھا کہ جب تک آنحضرت ؐکھانا شروع نہ کریں، ہم کھانے میں ہاتھ نہیں ڈالتے تھے۔ایک دفعہ جب ہم کھانے کے لئے اکٹھے تھے ایک لونڈی آئی اورجلدی سے کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگی۔حضورؐ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔پھر ایک بدّوآیا۔ وہ بھی کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگا۔ رسول کریم ؐ نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔آپؐنے فرمایا کہ شیطان کھانے کو حلال کرلیتاہے اگر اس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے۔یہ عورت شیطان کے لئے کھانے کو حلال کرنے آئی تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔اسی طرح یہ بدّو بھی ’’بِسْمِ اللّٰہِ ‘‘پڑھے بغیر شیطان کے لئے کھانا حلال کرناچاہتا تھا۔میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اب ان دونوں کے ہاتھ میرے ہاتھ کے ساتھ کھانے میںاکٹھے جائیںگے۔ یعنی ہم اکٹھے کھانا شروع کریں گے اور اس میں شریک ہونگے۔پھر آپؐ نے اللہ کانام لے کرکھانا شروع فرمایا۔(مسلم)40
بعض دفعہ نیکی کے رستہ سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر بھی گہری نظر ہوتی تھی اور موقع محل کے مطابق نیکی کی تحریک و تلقین فرماتے تھے۔ اگر کسی نے بوڑھے والدین کی خدمت چھوڑ کر جہاد پر جانے کا ارادہ کیا تو آپؐ نے روک دیا اور فرمایا ماں باپ کی خدمت ہی تمہارا جہاد ہے۔جہاں نماز میں کمزوری دیکھی وہاں سمجھایا کہ افضل عمل وقت پر نماز کی ادائیگی ہے۔
رسول کریمؐجہاںبھی نیکی میں ریاء یا تکلف کا شائبہ بھی محسوس کرتے اس سے منع فرمادیتے۔ ایک بدوی مدینے آیا۔ (بدوی عام طور پر شہروںمیں ٹھہرا نہیں کرتے بلکہ سوائے ضرورت کے شہروں میں داخل ہی نہیں ہوتے) اس بدوی نے فتح مکہ کے پہلے زمانہ میں ہی سن رکھا ہوگا کہ رسول اللہ ؐ ہجرت پر بیعت لیتے ہیں۔ اس نے ہجرت پر بیعت کرنے کے بارہ میںآنحضورؐ سے درخواست کی کہ میں مدینہ ٹھہروں گا ۔حضورؐ نے اُس پر شفقت کرتے ہوئے فرمایا۔ تیرا بھلا ہوہجرت بڑا کٹھن کام ہے۔(آپؐ بھانپ گئے کہ یہ شخص اپنی بدویانہ طبع کے باعث ہجرت پر قائم نہ رہ سکے گا۔)پھر آپؐ نے فرمایا یہ بتائو کیا تمہارے اونٹ ہیں جن کی زکوٰۃ تم ادا کرسکو اس نے کہا جی ہاں ! آپؐ نے فرمایا پھر بے شک پہاڑوں کے پیچھے رہ کربھی کام کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔(بخاری)41
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ کسی شخص کی شکایت آپؐ کو پہنچتی توآپؐ نصیحت کے لئے کمر بستہ ہوجاتے تھے خواہ وہ کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، مگر اس کے لئے ہمیشہ مناسب موقع محل اور ماحول کا لحاظ رکھتے تھے۔حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے ایک دفعہ شراب کے نشہ میں بعض لوگ حضرت علی ؓ کی ایک اونٹنی کو نقصان پہنچا بیٹھے۔ ان میں آپؐ کے عزیز چچا حضر ت حمزہؓ بھی تھے۔ نبی کریم ؐ کو اس کی خبر ہوئی تو فوراً موقع پر پہنچے ۔مگر جب دیکھا کہ ابھی ان کا نشہ اترا نہیں تو آپؐ نے اس موقع پر نصیحت کرنی مناسب نہیں سمجھی اورفوراً الٹے پائوں واپس تشریف لے آئے۔(بخاری)42
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں پڑائو پر ایک جگہ ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جارہا تھا۔آپؐ نے استفسار فرمایا کیا بات ہے؟ بتایا گیا کہ روزے دار ہیں۔ آپؐ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔(بخاری)43
حجۃ الوداع میں عرفات سے منٰی آتے ہوئے بعض لوگ اپنی سواریاں بھگارہے تھے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا لوگواطمینان سے آئو۔سواریوں کو تیز بھگاکر لانا نیکی نہیںاس لئے درمیانی رفتار پر چلو۔(بخاری)44
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ۔میں حضورؐ کا خیمہ تیار کرتی تھی۔حضرت حفصہؓ نے بھی مجھ سے پوچھ کر اپنا خیمہ لگالیا۔ان کی دیکھا دیکھی ام المؤمنین حضرت زینبؓ بنت جحش نے خیمہ لگوالیا۔ صبح رسول اللہؐ نے کئی خیمے دیکھے تو پوچھا کہ کس کے خیمے ہیں۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ ازواج کے خیمے ہیں تو آپؐ ان سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ یہ (رِیس کرنے کو) نیکی سمجھتے ہو۔پھر اس سال آپؐ نے اعتکاف رمضان نہیں فرمایابلکہ شوال کے دس دن اعتکاف میں گزارے۔(بخاری)45
اس طرح آپؐ نے یہ تربیتی سبق دیا کہ ہمیشہ رضائے الہٰی مدنظر رکھنی چاہئے اور نیکی میں حسد نہیں رشک کا جذبہ پروان چڑھنا چاہئے۔
رسول کریمؐ دین میں سختی اور تشدّد بھی پسند نہ فرماتے تھے تاکہ لوگ دین سے دور نہ ہوں۔فرماتے تھے کہ ہمیشہ آسانی پید اکرو۔مشکل پیدا نہ کرو۔
ابومسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں باجماعت نماز اس لئے ادا نہیں کرتا کہ ہمارا امام بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نصیحت کے وقت رسول اللہؐ کو اس قدر غصے میں نہیں دیکھا جتنا غصہ اس بات پر آپؐ کو آیا۔آپ ؐ فرمانے لگے لوگو! تم دین سے نفرت دلاتے ہو جو شخص بھی نماز میں امام ہو وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ نماز میں بیمار ،کمزور اور کام والے بھی ہوتے ہیں۔(بخاری)46
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ خوشی اور بشارت کی باتیں بتایا کرو۔ نفرت پیدا کرنے والی باتیں نہ کیا کرو۔ اس حکمت کے تحت آپؐ وعظ و نصیحت میں ناغہ کرنا پسند کرتے تھے تاکہ لوگ اکتانہ جائیں۔(بخاری)47
تربیت کے لئے آغاز میں چھوٹی سی نیکی کی عادت ڈالنا اور انگلی سے پکڑ کر چلانا پڑتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وہ نیکی پسند فرماتے تھے جو عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی جائے۔ فرماتے تھے کہ بہترین عمل وہ ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ایک عورت کے بارہ میں پتہ چلا کہ بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے۔ اسے نصیحت فرمائی کہ اتنی عبادت کرو جتنی طاقت ہے کیونکہ اللہ تو نہیں اکتاتا۔لیکن بندہ تھک ہارکر نیکی چھوڑ بیٹھتا ہے۔ (بخاری)48
بعض نوجوانوں کے ہمیشہ عبادت کرنے روزے رکھنے اور ترک دنیا کے ارادوں کا علم ہوا توانہیں ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمادیا۔انہوں نے عرض کیاہم آپؐ کی طرح نہیں ہیںاللہ نے تو آپؐ کوبخش دیا ہے۔حضورؐ ناراض ہوئے اور فرمایا میں تم میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کا تقویٰ رکھتا ہوں۔ میری سنت پر چلو۔میں سوتا بھی ہوں،روزے سے ناغہ بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کی ہے۔(بخاری)49
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے مزاج کو سمجھتے تھے اور دراصل محبت کے ذریعہ ان کی تربیت فرماتے تھے۔بسااوقات زبانی نصیحت کی بجائے محض آپؐ کاکوئی اشارہ یا اظہار ناپسندیدگی بہترین اور مؤثر نصیحت ہوتا تھا۔
رسول اللہ ؐ کی مجلس میںایک دفعہ کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے تکرار شروع کردی اور انہیں بُرا بھلا کہنے لگا ۔حضرت ابوبکرؓ پہلے تو خاموشی اورصبر سے سنتے رہے مگر جب اس نے تیسری مرتبہ زیادتی کی توآخر تنگ آکرابوبکرؓنے اسے جواب دیا۔ رسول کریمؐ مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ!کیاآپؐ مجھ سے ناراض ہوکر جارہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ آسمان سے آکرتمہاری طرف سے اس شخص کو جواب دے رہا تھا۔جب آپ خود بدلہ لینے پر اتر آئے تووہ فرشتہ چلاگیا اور شیطان آگیا۔اب میں ایسی مجلس میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔(ابوداؤد)50
برمحل اظہار ناراضگی
کسی بات پر برمحل ناپسندیدگی کا اظہار نبی کریمؐ کے چہرے سے عیاں ہوجاتا تھا۔ایک دفعہ نجران سے ایک شخص آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ رسول اللہؐ نے اس کی طرف کوئی تو جہ فرمائی نہ اس سے کوئی بات چیت کی۔ اس نے گھر جاکر اپنی بیوی سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بیوی نے کہا یقینا تمہاری اس بڑائی اورتکبّرکے اظہار کے باعث حضورؐ نے توجہ نہیں فرمائی۔ اس لئے اب دوبارہ آنحضورؐ کی خدمت میں ادب سے حاضری دو ۔اس نے اپنی سونے کی انگوٹھی اور قیمتی چوغہ اُتارااور دوبارہ جاکرملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے خوشی سے اجازت عطافرمائی اور اس کے سلام کا جواب دیا۔اس نے عرض کیا یارسول اللہؐ میں پہلے حاضر ہوا تھا تو آپ ؐنے التفات نہیں فرمایا۔حضورؐ نے فرمایا پہلے جب تم آئے تو تمہارے ہاتھ میں سونے کا انگارہ تھا۔ وہ شخص جو نجران سے اس قسم کے سونے کے زیورات لیکر آیاتھاکہنے لگا حضورؐ پھر تو میں بہت سارے انگارے ساتھ لایا ہوں۔آنحضورؐ نے کس شانِ بے نیازی سے فرمایا کہ بے شک یہ دنیوی مقام اور فائدے کا سامان ضرور ہے۔ مگر ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔تب اس صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی موجودگی میں میرے ساتھ بے رخی برتی۔ اب آپؐ صحابہ کے سامنے میری معذرت قبول فرماکر معافی کا اعلان بھی فرمادیںتاکہ ان کو یہ خیال نہ رہے کہ آپؐ مجھ سے ناراض ہیں۔ اس پر حضورؐ وہیں کھڑے ہوگئے اور اس شخص کی معذرت قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا بے رخی کا رویّہ اس شخص کی سونے کی انگوٹھی پہننے کی وجہ سے تھا۔(اس کی توبہ اوراصلاح کے بعد مجھے اس سے اب کوئی ناراضگی نہیں رہی)۔(احمد)51
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہودی ایّام مخصوصہ میں عورتوں سے معاشرت نہیںکرتے تھے۔جب آیت فَاعْتَزِ لُوْا النِّسَآئَ فِیْ الْمَحِیْضِ (سورۃ البقرہ :223)کا حکم اترا یعنی ایام حیض میں عورتوں سے الگ رہو تونبی کریم ؐ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔فرمایا کہ سوائے میاں بیوی کے تعلقات کے باقی ہر طرح سے میل جول جائز ہے۔اس پر یہودی کہنے لگے یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرتا ہے۔ عباد بن بشرؓ اوراُسید حضیرؓنے آکر ذکر کیایا رسول اللہؐ! یہودی اس طرح کہتے ہیں کیا ہم ایّام مخصوصہ میں بھی میاں بیوی کے تعلقات استوار کرلیں۔ حضورؐ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور ہم نے خیال کیا کہ حضورؐ ان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ وہ حضورؐ کے پاس سے چلے گئے۔ راستے میں انہوں نے حضورؐ کی طرف دودھ کا تحفہ جاتے ہوئے دیکھا۔حضورؐ نے یہ دودھ انہی دونوں صحابہ کیلئے بھجوادیا۔ وہ دونوں کہتے تھے تب ہمیں اس بات کی زیادہ خوشی ہوئی کہ حضورؐ ہم سے ناراض نہیں ہیں۔(احمد)52
مگر بعض بدوئوں پرا س ناراضگی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ تب آپؐ صحابہ کے لئے نصیحت کاموقع نکال لیتے تھے۔
ایک دفعہ ایک بدّو آیا اس نے ایک نہایت اعلیٰ درجے کا جبّہ پہنا ہوا تھا جس پر ریشم کا کام ہو اتھا۔ وہ کہنے لگا تمہارا یہ صاحب( یعنی نبی کریمؐ ) ہر چرواہے کے بیٹے کو تو عزت دیتا ہے اور ہرخاندانی شہ سوار کے بہادر فرزند کوذلیل کرتا ہے۔نبی کریم ؐ اس پر بہت ناراض ہوئے اور اس کے جبّہ کو (جو اظہار بڑائی کے لئے اس نے پہن رکھا تھا) کھینچ کر فرمایا تم نے تو عقل مندوں والا لباس بھی نہیں پہنا ہوا ۔پھر آپؐ مجلس میں تشریف فرما ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ جب نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت آیاتو انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلاکر کہا کہ میں تمہیں ایک مختصر نصیحت کرتا ہوں۔ دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں۔ ایک تو شرک اور تکبر سے روکتا ہوں اور لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ یعنی توحید کا حکم دیتا ہوں کیونکہ آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے اگر وہ ترازو کے ایک پلڑے میں اور کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہوگا۔دوسرے میں تمہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِ ہٖ کا حکم دیتاہوں یہ ہر چیز کی دعا ہے۔اور اس کی برکت سے ہر چیز عطا ہوتی ہے۔(احمد)53
تنبیہ و تادیب
تربیت کی خاطر بعض دفعہ تنبیہ یا تادیب بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔نبی کریمؐ کو بھی بعض مواقع پر تعزیری کاروائی کرنی پڑی مگر اس سزا میں بھی نفرت یا غصہ نہیں بلکہ شفقت و رحمت کا رنگ غالب ہوتا تھا جس کے نتیجہ میں عظیم الشان اصلاحی تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں۔حضرت کعب بن مالکؓ اور ان کے دوساتھی بغیر کسی عذر کے غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔رسول اللہؐ کی واپسی پر انہوں نے اپنی اس غلطی کا اقرار کرلیا تو رسول کریمؐ نے ان تینوں سے تمام صحابہ کا بول چال بند کردیا۔کعب ؓکہتے ہیں کہ ہم بازاروں میں پھرتے تھے مگر کوئی ہم سے کلام نہ کرتاتھا۔رسول کریمؐ کی مجلس میں حاضر ہوکر آپؐ کو سلام کہتا تھااوردیکھتا تھا کہ آپؐ کے ہونٹوں میں سلام کے جواب کے لئے جنبش ہوئی کہ نہیں۔پھر آپؐ کے قریب ہوکر نماز ادا کرتا اور چوری آنکھ سے آپ ؐکو دیکھتا رہتا۔جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا رسول کریمؐ میری طرف دیکھتے رہتے اور جب میں آپؐ کی طرف توجہ کرتا تو آپؐ رُخ پھیر لیتے۔بعد میں ان تینوں اصحاب کا اُن کی بیویوں سے بھی مقاطعہ کردیاگیا۔ پچاس دن انہوں اس حالت میں کاٹے۔ پھر جب ان کی معافی ہوئی تو انہوں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ رسول کریمؐ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا اے کعبؓ! تمہیں بشارت ہو آج تمہارے لئے ایسا دن آیا ہے کہ جب سے تم پید ا ہوئے آج تک ایسا دن تم پر طلوع نہیں ہوا۔ کعب ؓنے پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ خوشخبری آپؐ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے ۔ فرمایا اللہ کی طرف سے ہے۔
کعبؓ پر اس پُر شفقت سزا کا یہ اثر تھا کہ انہوں نے رسول اللہؐ کے پاس سے اٹھنے سے قبل یہ عہد کیا کہ جس سچ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا ہے میں آئندہ اس کا دامن کبھی نہ چھوڑ وں گا۔ اور جھوٹ سے ہمیشہ مجتنب رہوں گا۔دوسرے میںاپنا سارا مال خدا کی راہ میں بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔رسول کریمؐ نے کچھ حصہ صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔(بخاری)54
تربیتی حکمت عملی ومؤثر کاروائی
تربیتی و اخلاقی معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح بہت گہری اور پر حکمت ہیں۔جہاں آپؐ نے معاشرہ کی اہم فردعورت کے مقام اور مرتبہ کا ذکر کر کے اسے محبت کی نظر سے دیکھاوہاں بعض ممکنہ خدشات اورفتنوں کا بھی ذکر کیا جو راہ راست سے ہٹ جانے کے نتیجہ میں معاشرہ میں پیدا ہوسکتے ہیں۔چنانچہ فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر جس سب سے بڑے فتنہ کا ڈر ہے وہ عورتوں کا فتنہ ہے۔آپؐ نے ان عورتوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا جو لباس پہنے ہوئے بھی لباس سے عاری ہوںگی اور اپنی طرف مردوں کو مائل کرنے والی اور بہت جلد انکی طرف مائل ہونگی۔(مسلم)55
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تربیتی لحاظ سے معاشرہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور برائی کے آغاز سے پہلے اسے دبانے یا اس کے تدارک کی فکر فرماتے تھے۔نوجوانوں کی تربیت پر آپؐ کی خاص نظر ہوتی تھی اور انہیں انفرادی طور پر دلنشیں پیرائے میں مؤثر نصیحت فرماتے تھے اور مناسب عمر میں بروقت ان کی شادی ہوجانا پسند فرماتے تھے کہ اس طرح نوجوان کئی قباحتوں سے بچ جاتے ہیں۔
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی خدمت میں عکاّفؓ بن بشر تمیمی آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکہ کیا تمہاری بیوی ہے۔انہوں نے نفی میں جواب دیا، فرمایا کیا کوئی لونڈی ہے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اور تم صاحب دولت و ثروت بھی ہو۔ اس نے کہا جی حضور میں خدا کے فضل سے صاحب حیثیت ہوں ۔آپؐ نے فرمایا تو پھر تم شیطان کے بھائی ہو اور اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راہبوں میں سے ہوتے۔ ہماری سنت تو نکاح ہے۔تم میں سے بدترین لوگ وہ ہیںجو شادی نہیں کرتے اوراگر اسی حال میں ان پرموت آجائے تو بحالت موت بھی وہ بدترین ہیں۔ شیطان کے لئے نیک لوگوں کے خلاف کوئی ہتھیار عورتوں سے زیادہ مؤثر نہیں۔ البتہ شادی شدہ لوگ اس سے محفوظ ہیں۔ یہی ہیں جو پاک اور فحش گوئی سے برَی ہیں۔اے عکافؓ! تیرا بھلا ہو یہ عورتیں ایوب ،دائود ، یوسف علیہم السلام اور کرسف ؑکو مشکل میں ڈالنے والی تھیں۔کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہؐ! کُرسف کون تھا آپؐنے فرمایا ایک عابد شخص تھا جو ساحل سمند رکے پاس تین سو سال تک عبادت کرتا رہا وہ دن کو روزے رکھتا اور رات کو قیام کرتا ۔ پھر اس نے خدائے عظیم و برتر کا انکار ایک عورت کے سبب سے کردیا جس کے عشق میں وہ مبتلا ہوگیا اور عبادت کو ترک کردیا۔پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی کی وجہ سے اسے ضائع ہونے سے بچالیااور اسے توبہ کی توفیق مل گئی۔اے عکافؓ تم شادی کرلوورنہ تمہاری حالت بھی شک و شبہ والی ہے۔اس نے کہا یا رسول اللہؐ آپؐ ہی میری شادی کرادیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا میں کریمہ بنت کلثوم حمیریؓ سے تمہاری شادی تجویز کرتا ہوں۔(احمد)56
امربالمعروف و نہی عن المنکر
رسول کریمؐ کوئی نامناسب بات دیکھتے تو حتّی الوسع اُسے روکنے کی سعی فرماتے تھے اور جیسا کہ آپؐ کا ارشاد تھا کہ اگر برائی کو ہاتھ سے روک سکتے ہو تو روکو۔اس کی توفیق نہ ہو تو پھر زبان سے نصیحت کرو ورنہ کم سے کم دل سے روکو یعنی خود بھی اسے برا سمجھو اور اس کے لئے دعا کرو۔(ترمذی)57
حجۃ الوداع کے موقع پررسول اللہؐ کے چچا زاد حضرت فضلؓ بن عباس رسول اللہؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھے تھے۔ خثعم قبیلہ کی ایک عورت کوئی مسئلہ دریافت کرنے آئی۔فضلؓ اس کی طرف اور وہ عورت فضلؓ کی طرف دیکھنے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضلؓ کی گردن پکڑ کر ان کے چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔(بخاری58)لیکن جہاں ہاتھ سے روکنا پسندیدہ نہ ہو وہاں رسول کریمؐ نصیحت فرماکر فرض تبلیغ سے سکبدوش ہوجاتے تھے۔
وفات وغیرہ کے موقع پر نبی کریمؐ بین یاواویلا کرنے سے منع فرماتے تھے لیکن چونکہ غم کی حالت میں جذبات پر انسان بعض دفعہ بے اختیار اور مغلوب ہوجاتاہے اسلئے اس پہلو سے شفقت کا دامن جھکاکے رکھتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ کی غزوہ موتہ میں شہادت کے موقع پر خود رسول اللہؐ کو سخت صدمہ تھا۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ مسجد میں تشریف فرماتھے اور چہرہ سے غم کے آثار صاف عیاں تھے۔میں دروازے کی درز سے دیکھ رہی تھی۔ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفرؓ کی عورتیں رورہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا انہیں منع کرو۔ وہ گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آکر کہنے لگا کہ وہ میری بات تو نہیں مانتیں۔ آپؐ نے فرمایا دوبارہ انہیں جاکر منع کرو۔تیسری دفعہ اس نے آکر پھر کہا کہ وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیںیعنی کہنا نہیں مانتیں۔آپؐ نے فرمایا ان کے مونہوں پر مٹی پھینکویعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے دل میں کہا اللہ تمہیں رسوا کرے رسول اللہؐ نے تمہیں جو حکم دیا ہے وہ تو تم کر نہیں سکے پھر رسول اللہؐ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتے ہو۔(بخاری)59
ایک د فعہ آپؐ کے علم میں یہ بات آئی کہ بعض لوگ خواتین کو رات کے وقت نماز باجماعت کے لئے مسجد آنے سے روکتے ہیں تو آپؐ نے مردوں کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی لونڈیوں کو خدا کے گھروں میں آنے سے مت روکو۔(ابوداؤد)60
اسی طرح بعض مردوں کی یہ شکایت ملی کہ کہ وہ’’ فَاضْرِ بُوْھُنَّ ‘‘(یعنی ان کو مارو)کی قرآنی رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کو ناواجب زدو کوب کرتے ہیں تو آپؐ نے مردوں کو سمجھایا اور فرمایا کہ جو لوگ بیویوں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ (ابوداؤد)61
خانگی امور کی اصلاح
میاں بیوی کے خانگی تنازعات بھی رسول کریمؐ کے پاس آتے رہتے تھے۔رسول کریمؐ ذاتی دلچسپی لے کر خانگی تنازعات میں مؤثر رنگ میں نصیحت فرماتے اور اصلاحی کاروائی کرتے تھے۔
صفوان بن معطل ؓکی بیوی نبی کریمؐ کے پاس آئی اور کہنے گی کہ میں روزہ رکھتی ہوںتو صفوانؓ مجھے اس سے منع کرتا ہے۔نماز پڑھتی ہوں تو مارتا ہے اور خود فجر کی نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھتا ہے۔حضورؐ نے اُسے بلواکر پوچھاتو اُس نے کہا کہ روزے رکھنے سے منع کرنے کی بات تو درست ہے۔میں نوجوان آدمی ہوں اور یہ روزہ رکھ کے بیٹھ جاتی ہے۔(جس میں ازدواجی تعلقات ممنوع ہوتے ہیں) باقی رہی مارنے کی شکایت تو مطلق نماز پڑھنے کی وجہ سے میں اسے نہیں مارتا بلکہ اصل وجہ اور ہے یہ نماز کی ہر رکعت میں دو دو سورتیں پڑھ کر اسے لمبا کردیتی ہے۔رہی سورج نکلنے کے بعد فجر کی نماز پڑھنے کی بات تو میں سردرد کا دائمی مریض ہوں اور یہ ہماری خاندانی بیماری ہے۔نبی کریم ؐ نے فریقین کی بات سن کریہ فیصلہ صادر فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیرروزہ نہ رکھے اور جہاں تک ہر دورکعت میں دو سورتیں پڑھنے کا تعلق ہے تو ایک سورت پڑھنے سے بھی نماز ہوجاتی ہے، بوجہ بیماری نماز تاخیر سے پڑھنے کے بارہ میں صفوان ؓسے فرمایا کہ جب تمہاری آنکھ کھلے نماز ضرور پڑھ لیا کرو۔ (احمد)62
ایک دفعہ حضرت علیؓ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓسے ناراض ہوگئے اور مسجد میں جاکرزمین پر لیٹ رہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو ان کے پیچھے مسجدآئے تو دیکھا کہ دیوار کے ساتھ لیٹے ہیں اور پشت پر مٹی لگی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے کمال شفقت سے ان کی پشت سے مٹی جھاڑی اور اسی مناسبت سے ابوتراب کہہ کر انہیں پکارا جس کے معنے ہیں’’مٹی کاباپ‘‘ اور فرمایا اٹھو۔گھر چلو یوں محبت سے ان کی ناراضگی دور کروانے کے سامان کئے۔(بخاری)63
خوشی غمی کے مواقع پر تربیتی ہدایات
شادی بیاہ یا موت فوت کے مواقع بھی جذباتی اظہار کے مواقع ہوتے ہیں اور خدشہ ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر بدرسوم رواج پاجائیں ۔نبی کریمؐ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ شادیوں میں اسراف نہ کرنے اور سادگی اختیار کرنے کے لئے آپؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کی شادی پر بھی یہی نمونہ دیا اور اپنی متعدد شادیوں کے موقع پر حسب حالات و موقع نہایت سادگی سے ولیمہ کی تقاریب کیں۔ حضرت صفیہؓ کا ولیمہ سفر خیبر سے واپسی پر ہوا جو کھجور اور پنیر پر مشتمل تھا۔حضرت زینب ؓکا مثالی ولیمہ جسے لوگوں نے یاد رکھا اس میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سادہ گوشت روٹی کھلائی تھی۔ (بخاری 64)
موت فوت اور غم کے مواقع پر بھی حضورؐ نے صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا۔ بالخصوص اپنے بیٹے صاحبزادہ ابراہیمؓ کی وفات، اپنے چچا حمزہؓ اور چچا زاد بھائی حضرت جعفرؓ کی شہادت پرصبر کے بے نظیر نمونے پیش فرمائے۔عورتوں کو بھی صدمہ کے موقع پر صبرکی نصیحت فرماتے تھے۔
خواتین کی تربیت کے لئے ان کے مطالبہ پر ہفتہ میں ایک دن ان کے لئے مقرر تھا۔(بخاری65)عیدین پرتمام خواتین کی حاضری رسول کریمؐ نے ضروری قراردی۔اور فرمایا جن عورتوں نے بوجہ عذرشرعی نماز نہیں پڑھنی وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوجائیں۔اس موقع پر حضورؐ مردوں میں خطبہ کے بعد عورتوں کی طرف بھی تشریف لے جاتے اور انہیں وعظ فرماتے تھے۔(بخاری)66
اس طرح رسول کریمؐ خواتین کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔اس میں تربیت کا یہ راز مضمر تھا کہ اچھی تربیت یافتہ مائیں تربیت یافتہ نسلیں مہیا کریں اور دین و تقویٰ میں اپنی اولاد کے لئے بہترین نمونہ بنیں۔
چنانچہ حضرت زینبؓ بن ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریمؐ کی بیوی حضرت ام حبیبہؓ کے پا س حاضر ہوئی۔ وہ فرمانے لگیں کہ میں نے نبی کریمؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہے یہ جائز نہیں کہ وہ وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ سوائے اپنے خاوند کے کہ جس کے لئے وہ چار ماہ دس دن (عدت کے مطابق) سوگ کرے گی۔(یعنی آرائش اور بناؤ سنگھار سے پرہیز کرے گی۔) پھر میں زینب بنت جحش ؓ کے پاس آئی جب ان کا بھائی فوت ہوا۔انہوں نے تیسرے دن کے بعد کچھ خوشبو منگواکر لگائی۔پھر فرمایا کہ مجھے اس خوشبووغیرہ کی کوئی حاجت یا ضرورت نہ تھیمگر میں نے نبی کریمؐ سے منبر پر سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر وہ چا ر ماہ دس دن سوگ کرے۔(بخاری)67
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت کرنے کا ایک عمدہ پہلو یہ تھا کہ کسی امر کے بارہ میں شکایت ملتی تو غائب کے صیغے میں نام لئے بغیر عمومی نصیحت فرمادیتے۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے فلاں فلاں آدمی ہمارے دین اسلام کی تعلیم کوصحیح طرح سے نہیں سمجھتے۔ یہ منافق لوگ تھے جن کا ذکر فرمایا۔(بخاری)68
ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ایک لونڈی کو خرید کر آزاد کیا۔لونڈی کے مالکوں نے یہ ناواجب شرط رکھ دی کہ اس لونڈی کی وفات پر اس کے ورثہ پر ان کا حق ہوگا۔ نبی کریمؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے خطبہ ارشاد کیا اور فرمایا کہ کیا ہوگیا ہے ان لوگوں کو جو اللہ کے فیصلہ کے خلاف شرطیں لگاتے ہیں۔ایسی شرطوں کی کوئی حیثیت نہیں۔غلام یا لونڈی کا ورثہ آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔ (اگر اس کی اپنی اولاد نہ ہو)۔(بخاری)69
موقع ظن سے بچنا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے لئے ایک اصول یہ سکھایا کہ تہمت کے موقع سے بچنا چاہئے۔ حضورؐکا اپنا دستور بھی یہی تھا ۔ایک رمضان میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے۔ حضرت صفیہؓ آپؐ سے ملنے آئیں۔واپس جاتے وقت حضورؐ ان کے ساتھ ہولئے تاکہ گھر تک چھوڑ آئیں۔ راستہ میں دو انصاری صحابہ ملے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک کر فرمایا یہ میری بیوی صفیہؓ بنت حییّ میرے ساتھ ہیں۔انہوں نے نہایت تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم بھلا آپؐ کے بارہ میں کوئی غلط گمان کرسکتے ہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بات نہ ڈال دے۔(بخاری)70
رسول کریمؐ کی تربیت کا انداز بہت پیارا تھا۔آپؐ نے کبھی ڈانٹ ڈپٹ میں کسی کو بُرا بھلا نہیں کہا۔ایسے موقع پر بس اتنا فرماتے اس کی پیشانی خاک آلودہواُسے کیا ہوگیا ہے۔ (بخاری)71
یہ کلمہ بددعا نہیں بلکہ ایک دعا کے رنگ میں ہوتا تھا کہ اسے توفیق اطاعت عطا ہو۔نماز پڑھے۔ اللہ کے حضور سجدوں میں اس کی پیشانی خاک آلودہ ہو۔
اندازِ نصیحت
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا۔ایک آدمی غصے سے دیوانہ ہوا جارہاتھا۔اس کا چہرہ پھول کر رنگ متغیر ہوگیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خود اسے بلا کر یا مخاطب کر کے نصیحت نہیں فرمائی بلکہ علم النفس کا ایک گہرا نفسیاتی نکتہ سمجھاتے ہوئے تعجب انگیز انداز میں فرمایا مجھے ایک ایسی دعا کا پتہ ہے کہ اگرکوئی شخص یہ پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ایک شخص نے جو یہ سُنا تو اس آدمی کو جاکر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ‘‘ پڑھ لو۔یعنی میں راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوںتو غصہ دور ہوجائے گامگر وہ کوئی گنوار بدّو تھا۔ بدبخت نے یہ نسخہ استعمال نہ کیا اور کہا میں کوئی دیوانہ ہوں۔(بخاری)72
کاش! وہ شخص اس نسخہ کو آزماتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم النفس کا حیرت انگیز معجزہ اس کی ذات میں بھی ظاہر ہوتالیکن اگر اس بدبخت بدّو نے تواس سے فائدہ نہیں اٹھایا ہم کیوں نہ یہ نسخہ آزمائیں۔
؎ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفیر امن تھے۔لڑائی جھگڑا سخت ناپسند اور آپؐ کی طبیعت پر بہت گراں ہوتا تھاجس کا احساس آپؐ اپنے زیر تربیت صحابہ میں بھی اجاگر کرنا چاہتے تھے۔
ایک دفعہ رمضان کے آخری بابرکت ایام میں بذریعہ رؤیا آپؐ کو لیلۃ القدر کی طاق رات کا علم دیا گیا کہ وہ کونسی رات ہے۔ آپؐ صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے آئے تو دیکھا کہ دومسلمان آپس میں جھگڑرہے ہیں۔آپؐ کی توجہ اُن کی طرف ہوگئی اور اس رؤیا کا مضمون ذہن میں نہ رہا۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ رات تمہارے جھگڑے کے باعث مجھے بھلا دی گئی ہے اور شاید اس میں بھی حکمت ہو کہ تم لوگ اس کی تلاش میں زیادہ راتیں خدا کی عبادت میں گزارسکو۔اس لئے اب اسے طاق راتوں میں تلاش کرو۔(بخاری)73
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درشت طبع لوگوں کی تربیت بھی نرمی سے کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص ملنے آیا جو رشتہ داروں سے بدسلوکی اور قطع رحمی کرتا تھا۔ آپؐ اس سے بہت نرمی سے پیش آئے۔ حضرت عائشہؓ نے وجہ پوچھی تو فرمایا بدترین لوگ وہ ہیں جن کی بدزبانی سے بچنے کے لئے لوگ ان سے جان بچائیں۔(بخاری)74
حضرت ابورافع ؓ بن عمرو غفاری بیان کرتے ہیں کہ جب میںبچہ تھا انصار کے کھجور کے درختوں سے (کھجورگرانے کے لئے) پتھر مارا کرتا تھا۔انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم ؐ کی خدمت میں لے گئے حضورؐ نے پوچھا (رافع!) تم کھجور کے درخت پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے کہا بھوک کے مارے کھجور کھانے کے لئے ایسا کرتاہوں۔ آپؐ نے مجھے سمجھایا کہ پتھر نہ ماراکرو۔ البتہ جو کھجوریں درختوں کے نیچے گری ہوں وہ اُٹھا کر کھالیا کرو۔پھر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعادی الَلّٰھُمَّ اَشْبِعْ بَطْنَہُ اے اللہ اس کے پیٹ کوبھردے۔(ابودائود)75
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں توحید کی تعلیم دی وہاں اپنے صحابہ کی تربیت میں بھی یک رنگی پیدا کرنے کی طرف توجہ فرمائی۔آپؐ کو دوغلی طبیعت کے اوردوہرے چہرے رکھنے والے لوگ سخت ناپسند تھے جو موقع محل کے مطابق اپنا چہرہ بدل لیں۔(بخاری)76
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا مطمح نظریہ تھا کہ سب مسلمان بھائی بھائی بن جائیں اور ایک پرامن معاشرہ قائم ہو۔آپؐ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے کہ آپس میں بغض وحسد نہ رکھو اور نہ ہی کسی کی پیٹھ پیچھے بات کرو۔اللہ کے بندے اور بھائی بھائی ہوجائو۔کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے قطع تعلق رکھے۔ نیز فرماتے تھے کہ ایسانہیں ہونا چاہئے کہ دو بھائی ملیں تو ایک دوسرے سے رخ پھیر لیں۔اگر کوئی ناراضگی ہو بھی تو بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کر کے ناراضگی دور کرے۔(بخاری)77
نبی کریمؐ کی اس پاکیزہ تعلیم اور تربیت کے مجرّب اصولوں کی روشنی میں عظیم تربیتی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ اسوۂ رسول ؐ مشعل راہ ہو۔
کہتے ہیں یورپ کے ناداں
پربناناآدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
وحشیوں میں دین کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا
معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حوالہ جات
1
بخاری کتاب العلم باب العلم و العظۃ باللیل
2
مسند احمد جلد1ص91مطبوعہ بیروت
3
ترمذی کتاب التفسیر باب سورۃ الاحزاب
4
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذرعشیرتک الاقربین
5
مسند احمد جلد2ص446 مطبوعہ بیروت
6
مسند احمد جلد6ص344 مطبوعہ بیروت
7
مسند احمد بن حنبل جلد4ص359مطبوعہ بیروت
8
ابوداؤدکتاب الزکٰوۃ باب المسئلۃ فی المساجد:1670
9
مجمع الزوائدلھیثمی جلد3ص164مطبوعہ بیروت
10
بخاری کتاب الایمان باب 9
11
بخاری بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہِ ؐ
12
مسلم کتاب البرو الصلۃ باب تحریم ظلم المسلم
13
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
14
ترمذی کتاب الدعوات باب منہ :3444
15
بخاری کتاب الادب باب مایکرہ من التمادح
16
بخاری کتاب تعبیر الرؤیاء
17
مسند احمد جلد 3ص447مطبوعہ بیروت
18
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحجرات
19
بخاری کتاب الایمان باب الزکوٰ ۃ من الاسلام
20
مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ:836
21
بخاری کتاب الوضو ء باب صب الماء
22
مسند احمد جلد2ص503بیروت
23
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس
24
مسند احمدجلد2ص70بیروت
25
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم
26
مسند احمدبن حنبل جلد5ص256مطبوعہ بیروت
27
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9ص15مطبوعہ بیروت
28
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فیمن ترک الجمعہ
29
بخاری کتاب العلم باب من قعد حیث ینتھی بہ المجلس
30
بخاری کتاب الشرکۃ باب ھل یقرع فی القسمہ:2313
31
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوات الخمس کفارۃ
32
بخاری کتاب العلم باب الحیاء فی العلم
33
مسلم کتاب الزھد باب تشمیت العاطس :2991
34
بخاری کتاب الوضؤ باب دفع السواک الی الاکبر
35
مسلم کتاب الشربہ باب ادارۃ الماء واللبن عن یمین:2030
36
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب التسمیہ عندالطعام
37
بخاری کتاب الادب باب اذا قال من ذافقال انا
38
بخاری کتاب الصلوۃ باب حد اتمام الرکوع
39
مسلم کتاب الاشربۃ باب مایفعل الضیف اذا تبعہ غیر من دعاہ:2036
40
مسلم کتاب الاشربۃ باب آداب الطعام والشراب واحکامھا:2017
41
بخاری کتاب الزکوٰۃباب زکوٰۃ الابل
42
بخاری کتاب المغازی باب سجود الملائکۃ بدرا
43
بخاری کتاب الصوم باب قول النبی من ظلّل علیہ
44
بخاری کتاب المناسک باب امر النبی بالسکینۃ عندالافاضۃ
45
بخاری کتاب الصوم باب الاعتکاف فی شوال
46
بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ
47
بخاری کتاب العلم باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ
48
بخاری کتاب الایمان باب ا حب الدین الیہ ادومہ
49
بخاری کتاب الایمان باب قول النبی انا اعلمکم با للہ
50
ابوداؤد کتاب الادب باب فی الانتصار
51
مسند احمد بن حنبل جلد3ص14بیروت
52
مسند احمد جلد3ص246بیروت
53
مسند احمدجلد 2،ص225بیروت
54
بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک
55
مسلم کتاب اللباس باب النساء الکاسیات العاریات :3971
56
مسند احمد بن حنبل جلد5ص163بیروت
57
ترمذی کتاب الفتن باب فی تغییر المنکر بالید
58
بخاری کتاب المناسک باب حج المرأۃ عن الرجل
59
بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عندالمصیبۃ یعرف فیہ الحزن
60
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد
61
ابوداؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء
62
مسند احمد جلد3ص85مطبوعہ بیروت
63
بخاری کتاب الادب باب التکنی بابی تراب
64
بخاری کتاب النکاح باب من اولم علی بعض نسائہ اکثرمن بعض
65
بخاری کتاب العلم باب من جعل لاھل العلم ایامامعلومۃ
66
بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید
67
بخاری کتاب الجنائز باب احداد المرٔۃ علی غیر زوجھا
68
بخاری کتاب الادب مایکون فی الظن
69
بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الولاء
70
بخاری کتاب الادب باب التکبیر والتسبیح عندالتعجب
71
بخاری کتاب الادب باب ماینھی عن السباب
72
بخاری کتاب ا لادب باب ماینھی عن السباب واللعن
73
بخاری کتاب الادب باب ماینھی عن السباب
74
بخاری کتاب الادب باب مایجوز من اغتباب
75
ابوداؤد کتاب الجھاد باب من قال انہ یاکل مما سقط و ابن ماجہ کتاب التجارات و
ترمذی کتاب البیوع
76
بخاری کتاب الادب باب واجتنبو ا قول الزور
77
بخاری کتاب الادب باب الھجرۃ

نبی کریم ؐکا انفاق فی سبیل اللہ اور جودوسخا
انفاق کی قرآنی تعلیم
مذہب اور دین کی بنیادی غرض دو ہی امر ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی۔ انفاق کے معنے خرچ کرنے اورلُٹانے کے ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق زیادہ تر حقوق انسانی کی ادائیگی سے ہے- تاہم فقراء و مساکین کی ضروریات کے علاوہ تعلیم و تربیت اور اشاعت اسلام کے خرچ نیز ملک و قوم کے دفاع کی خاطر جہاد بالسیف کی تیاری اور اس کے اخراجات بھی اللہ کی راہ میں مالی جہاد کے قرآنی حکم کی ذیل میں آتے ہیں- اس پہلو سے انفاق کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہو جاتا ہے-
اسلامی تعلیم میں زکوٰۃ اور صدقات پر بہت زور دیا گیا ہے- قرآن شریف میں مومنوں کی بنیادی صفت ہی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں(البقرۃ4:) نیز فرمایا کہ اے مومنو ! تم وہ قوم ہو جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے گئے ہو مگر تم میں سے بعض بخل سے کام لیتے ہیں… پھر ان بخل کرنے والوںکو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم پھر جائو تو اللہ تمہاری جگہ ایک اور قوم لے آئے گا جو تمہاری طرح نہ ہوں گے-(سورۃمحمد 39:)
انفاق فی سبیل اللہ کے بارہ میں قرآن شریف کی خوبصورت تفصیلی اور جامع تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی اور مالک ہے- اس کے پاس بے شمار خزانے ہیں- اسے اموال کی کوئی ضرورت نہیں- انسان اس کے مقابل پر فقیر اور محتاج ہیں- اللہ تعالیٰ مومنوں کے فائدے کے لئے انہیںخرچ کرنے کی تحریک فرماتا ہے گویا ایک قسم کا قرض ہے جو بطور تجارت ان سے مانگا جاتا ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک اوراس سے بھی زیادہ بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔ (سورۃالبقرۃ:262) اور خدا کی رضا مندی اس کے علاوہ ہے- جبکہ استطاعت کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا اللہ کو ناراض کرنے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے-(سورۃمحمد:39)
قرآن شریف میں انفاق فی سبیل اللہ کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں چنانچہ فرمایا کہ اپنے پاکیزہ اموال اور بہترین کمائی میں سے خدا کی محبت کی خاطر وہ خرچ کرو جو تمہیں بہت پسند ہو- (سورۃ آل عمران:93)پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کے حقوق احسان کے ساتھ ادا کرو یعنی والدین اولاد بیوی بچوںبھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروںسے صلہ رحمی کا سلوک کرتے ہوئے خرچ کرو- یتامیٰ اور مساکین کے حقوق ادا کرو-(سورۃ البقرۃ:216) خاموشی اور راز داری سے اور غرباء کی عزت نفس قائم رکھتے ہوئے انہیں دو- جہاں ضرورت ہو دوسروں کو تحریک کے لئے اعلانیہ بھی خرچ کرو-(سورۃ البقرہ:275) خدا کی راہ میں کسی کو دے کر اور احسان جتا کر اپنی مالی قربانی برباد نہ کر دو- (سورۃ البقرہ:265)
سنت رسول اور ارشادات نبوی ؐ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ نے اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ اپنے اموال خرچ کرنے کا بہترین نمونہ دیا ہے ۔ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مطابق عین قرآن شریف کے مطابق تھے اور بلاشبہ آپؐ کی پاکیزہ سیرت انفاق فی سبیل اللہ کے بارہ میں قرآنی تعلیم کی بہترین عکاسی کرتی ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگی اور فراخی کے دونوں زمانے دیکھے جن میں آپ ؐکے اخلاق کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔ دونوںزمانوں میں ہی ہمیشہ آپؐ کی کیفیت ایسے مسافر کی سی رہی جو کچھ دیر کسی درخت کے نیچے آرام کرنے اور سستانے کے لئے ٹھہرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتا ہے- عارضی دنیا اور اس کے اموال سے آپؐ کو چنداں رغبت نہ تھی-(بخاری) 1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ اور صحابہ کی بھی اسی انداز میں تربیت فرماتے تھے- ایک دفعہ صحابہ ؓ کی مجلس میں ان سے مخاطب ہو کر فرمایا تم میںکوئی ایسا بھی ہے جسے (اپنے بعد میں ہونے والے ) وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز اور پیارا ہو- صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو- آپؐ نے فرمایا تو پھر یاد رکھو تمہارا اصل مال وہی ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کرکے آگے بھجوا چکے ہو جو پیچھے باقی رہ گیا وہ وارثوںکا مال ہے-(بخاری)2
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کروائی اور اس کا گوشت غرباء میں تقسیم کروایا اور بعد میں پوچھا کہ کیا اس گوشت میں سے کچھ باقی بچا ہے- گھر والوں نے جواب دیا کہ سارا تقسیم کر دیا گیاہے- اپنے لئے تھوڑا سا بچا ہے- فرمایا جو تقسیم کر دیا دراصل وہ بچ گیا ہے (کہ اس کا اجرمحفوظ ہو گیا) اور جوبچ گیا ہے سمجھو کہ یہ ضائع ہو گیا-(ترمذی)3
مدینہ میں رسول اللہ ؐ کے پاس بحرین سے مال آیا تو فجر کی نماز میں کثرت سے لوگ آئے۔فرمایا میں تمہارے بارے میں فقروغربت سے خائف نہیں ہوں بلکہ مجھے اندیشہ یہ ہے کہ دنیا تم پرفراخ کردی جائے گی پھر تم کہیں پہلی قوموں کی طرح آپس میں مقابلے کرنے نہ لگ جائو اور اُن کی طرح تمہارا انجام نہ ہو۔ (بخاری)4
مال سے بے رغبتی کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رجحان اور قلبی کیفیت کا اندازہ اس بیان سے ہو سکتاہے فرمایا -:
’’ اگر میرے پاس اُحد کے برابر بھی سونا آ جائے تو مجھے خوشی اس میں ہو گی کہ اس پر تیسرا دن چڑھنے سے پیشتر اللہ کی راہ میں اسے خرچ کر دوںاور ضرورت سے زائد ایک دینار بھی بچا کے نہ رکھوں اور سارا مال خدا کی راہ میں دل کھول کر یوں خرچ کر دوں اور لٹا دوں- آپؐ نے دائیںبائیں اور آگے پیچھے ہاتھوں کے اشارے کرکے بتایا۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ زیادہ مالدار ہیں قیامت کے دن وہ گھاٹے میں ہوںگے- سوائے ان کے جو اس طرح دائیں بائیں آگے اور پیچھے خدا کی راہ میںخرچ کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں-(بخاری) 5
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بھی یہی روح پیدا فرمانا چاہتے تھے۔ آپ ؐ فرماتے تھے کہ قابل رشک ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور پھر اس کے بر محل خرچ کرنے کی غیرمعمولی توفیق اور ہمت بخشی-(بخاری)6
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین صدقہ کی یہ تعریف فرمائی کہ وہ صدقہ جو صحت کی حالت میں ذاتی ضرورت کے باوجود ایسے وقت میں دیا جائے جب افلاس کا اندیشہ ہو اور غنا کی امید- ایسا صدقہ اجر میں سب سے بڑھ کر ہے-پھر آپ ؐ نے یہ نصیحت فرمائی کہ کہیں ایسا نہ ہو خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کے لئے زندگی کے آخری لمحات کا انتظار کرتے رہو- جب جان کنی کا وقت آجائے تو یہ فیصلے کرنے بیٹھو کہ اچھا اب اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو- آخری لمحوں کی اس دریا دلی کا کیا ثواب ؟ جبکہ وہ مال پہلے ہی کسی اور کی ملکیت ہونے والا ہے-(بخاری)7
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث قدسی بھی سنایا کرتے تھے کہ اللہ فرماتا ہے اے ابن آدم ! خرچ کرتا رہ - میں تجھے عطا کرتارہوں گا-(بخاری8)نیز فرماتے تھے کہ غنا یا امارت دولت کی کثرت کا نام نہیں بلکہ اصل امارت تو دل کا غنا ہے-(بخاری) 9
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء ؓ بنت ابوبکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو- ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا- اپنی روپوئوں کی تھیلی کا منہ (بخل سے) بند کرکے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا (یعنی اگر کوئی روپیہ اس سے نکلے گا نہیںتو آئے گا کہاں سے؟) جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو-(بخاری) 10
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خوشی اور انشراح صدر کا جو عالم تھا وہ اس بات سے خوب عیاں ہے جو آپؐ نے بخیل اور اللہ کی راہ میںخرچ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی بیان فرمائی جنہوں نے لوہے کے دو جبے سینے سے گلے تک پہن رکھے ہوں ٗ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا جوں جوں خرچ کرتا جاتا ہے اس کا جبہ مزید کھلتا اور فراخ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے تمام جسم حتیٰ کہ انگلیوں کے پوروںتک کو ڈھانک لیتا ہے- (اور اس کا نشان تک مٹ جاتا ہے) اور بخیل ہر دفعہ جب کچھ خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لوہے کے جبہ کے حلقے تنگ پڑتے جاتے ہیں وہ ان کو کشادہ کرنا چاہتا ہے- مگرکر نہیں پاتا-(یعنی سخت تنگی اور گھٹن کی کیفیت میں ہوتا ہے)-(بخاری)11
رسول کریمؐ نے اپنے اصحاب کو سمجھایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے مال میں کس طرح برکت عطاکی جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایک شخص جنگل میں جارہا تھا اس نے ایک بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو جاکر سیراب کرو۔ وہ بادل ایک طرف ہٹ کر ایک میدان پر برسا جہاں سے ایک نالے میں بہنے لگا وہ شخص اس نالے کے ساتھ چلتا ہوا اس باغ تک جا پہنچا جہاں ایک شخص باغ میں کھیتوں کو پانی لگا رہا تھا۔ اس نے اس کا نام پوچھا تو یہ وہی نام تھاجو اس نے بادل سے سنا تھا پھر اس نے پوچھا اے اللہ کے بندے! تو مجھ سے نام کیوں پوچھتا ہے؟وہ بولا میں نے بادل میں یہ آواز سنی تھی۔ کہ فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ اب آپ بتائو کہ اس باغ سے کیا کیاکرتے ہو؟ وہ کہنے لگا اب تم نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنو اس کی پیداوار سے میں تیسرا حصہ صدقہ کردیتا ہوں۔ تیسراحصہ اپنے اور اہل وعیال کے لئے رکھتا ہوں اورتیسرا پھر اسی کھیت کے بیج وغیرہ کے لئے رکھ چھوڑتا ہوں۔(مسلم)12
آداب انفاق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کے آداب بھی اپنے صحابہ کو سکھائے- آپ ؐ فرماتے تھے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت دکھاوے یار یاء سے کام نہیں لینا چاہئے۔ جوشخص ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا یعنی اسے شہرت اور مقبولیت تو حاصل ہو جائے گی مگر اجر سے محروم ہو گا اور خدا کی رضا نہ پا سکے گا-(بخاری)13
راز داری سے صدقہ دینے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز جب خدا کی پناہ اور سائے کے سوا کسی کی پناہ کوئی کام نہ دے گی تو وہ صدقہ دینے والا خدا کی پناہ میںہو گا، جس نے اتنی رازداری سے دائیں ہاتھ سے صدقہ دیا کہ بائیںہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی- (یعنی اس نے مکمل راز داری سے کام لیا)-(بخاری)14
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترجیحات بھی بیان فرمائیں ۔ اسی کے مطابق آپؐ خود بھی خرچ فرماتے تھے- چنانچہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بہترین مال وہ ہے جو ایک شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے ،پھروہ مال جسے وہ اللہ کی راہ میں اپنی سواری پر خرچ کرے ،پھر وہ مال جسے وہ اللہ کی راہ میںاپنے ساتھیوں پر خرچ کرے-(مسلم)15
آپ ؐ نے فرمایا کہ ایک مسلمان جب اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ بھی اس کے حق میں صدقہ (یعنی مالی قربانی) شمار ہوتا ہے- یہاںتک کہ اگر وہ ایک لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے تو وہ بھی اس کے حق میں نیکی شمار ہوتی ہے-(بخاری) 16
اسی طرح فرماتے تھے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو صدقہ دینے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے بلکہ دوہرا ثواب ہوتا ہے۔صدقہ کاثواب الگ اور قرابت داری کا حق ادا کرنے کااجر الگ۔ چنانچہ آپؐ نے بیوی کو خاوند پر صدقہ کرنے اور باپ کو بیٹے پر صدقہ کی تحریک فرمائی۔ (بخاری)17
انفاق کی خاطر قناعت کی قربانی
انفاق فی سبیل اللہ کی اس پاکیزہ تعلیم پر ہر پہلو سے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ؐ نے عمل کرکے دکھایا- رحمان خدا کے اس عظیم بندے میں سب سے بڑھ کر یہ شان جھلکتی تھی کہ نہ اسراف کی طرف میلان تھا نہ بخل کی طرف رجحان ،بلکہ ایک کمال شانِ اعتدال تھی- چنانچہ گھریلو زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب حال سادگی اور قناعت کا طریق اختیار فرماتے تھے- یہ بھی انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ایک قسم کی تیاری ہوتی تھی کہ خود تکلیف اٹھا کر اور قربانی کرکے بھی دینی ضروریات مقدم رکھی جائیں-
حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ تشریف لائے آپؐ کے خاندان نے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی نہیں کھائی،یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہوئی- نیز انہوں نے بیان کیا کہ ہمارا پورا پورا مہینہ ا س حال میں گزر جاتا تھا کہ جس میںہم آگ نہیں جلاتے تھے- کھجور اور پانی پر گزر بسر ہوتی تھی سوائے اس کے کہ کچھ گوشت (بطور تحفہ) کہیںسے آجائے-(بخاری)18
انسانوں میں سب سے بڑا سخی
جہاں تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا سوال ہے- آپؐ سے بڑھ کر کوئی شاہ دل اور سخی نہ تھا- حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سب سخیوں سے بڑے سخی کے بارہ میں نہ بتائوں؟اللہ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا ہے- پھرمیں تمام انسانوں میں سے سب سے بڑا سخی ہوں-(ہیثمی)19
یہ محض آپؐ کا دعویٰ نہیں تھابلکہ جس نے بھی آپؐ کی سخاوتوں اور فیاضیوں کے جلوے دیکھے وہ یہی رائے دینے پر مجبور ہوا- آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ (جنہیں بہت قریب سے آپؐ کے احوال مشاہدہ کرنے کا موقع ملا) نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپؐ کی سخاوت رمضان کے مہینہ میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی، جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقاتیں کرتے تھے اس وقت آپؐ کی سخاوت اپنی شدت میںتیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی-(بخاری)20
رمضان وہ برکتوں والا مہینہ ہے جس میں نیکی کا ثواب عام دنوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہے۔دوسرے اس ماہ میںجبریل ؑکی ملاقاتوں کی وجہ سے رسول اللہؐکی روحانی و علمی ترقیات میں اضافہ ہوتا تھا اور آپؐ زیادہ سے زیادہ صدقہ کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاق فی سبیل اللہ اور سخاوت کے انداز بھی بے شمار تھے- ہر چند کہ آپؐ دینی و قومی ضروریات کو مقدّم رکھتے تھے۔ تاہم ابتدائی زمانہ میںکثرت سے کمزور اور غریب لوگوں کے قبول اسلام کے باعث ان کی امداد اور حاجت روائی بھی ایک نہایت ضروری شعبہ تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی اور جماعتی دونوں لحاظ سے بہت توجہ دیتے تھے اور ایک بہت بڑا حصہ اموال کا اس پر خرچ ہوتا تھا-
اس زمانہ میں مہمان نوازی کے لئے کوئی علیحدہ مرکزی انتظام نہیں تھا اس لئے آنے والے مہمانوں کی اولین ذمہ داری آپؐ کے اہل خانہ پر ہی ہوتی تھی- گھریلو اخراجات کا ایک بہت بڑا حصہ آپؐ اس پر صرف فرما دیتے تھے- آپؐ ہمیشہ ضرورت مند کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے- لوگوں کی ضرورتوں کا خود خیال رکھتے- سوال سے پہلے از خود مدد کرنے کی سعی فرماتے تھے- جب بھی کوئی سوالی آپؐ کے در پر آتا تو کبھی خالی ہاتھ واپس نہ جاتا- آپؐ بطور ھبہ بھی عطا فرماتے اور بطور صدقہ بھی- گویا امیر و غریب آپؐ کی عطا سے فیضیاب ہوتے-احباب کو ازخود بھی تحائف بھجواتے اوراُن کے تحائف کا بہتر بدلہ بھی عطا فرماتے تھے۔اس کے علاوہ اور مختلف حیلوں سے بھی دیتے تھے۔ کبھی قرضہ لیا تو بوقت ادائیگی زیادہ دے دیا- کبھی کسی سے کوئی چیز خریدی تو قیمت زیادہ عطا فرما دی اور کبھی چیز اور قیمت دونوں ہی بخش دیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے کی یہ کیفیت آغاز جوانی سے ہی تھی- آپ ؐ خود حالت یتیمی سے گزرے اور کمزوری کا زمانہ دیکھا تھا ،اس لئے جونہی اپنے پائوںپر کھڑے ہوئے آپؐ نے حسب توفیق غرباء کی مدد اور ہمدردی کا ایک سلسلہ شروع فرما دیا- مکہ کے ابتدائی دور میں دعویٰ نبوت سے پہلے کفار قریش کے ساتھ آپؐ معاہدہ حِلف الفضول کے اسی لئے رکن بنے تھے تا غرباء کی حق تلفیوں کے ازالے میں معاون ہوسکیں-
مکی دور میں مالی جہاد اور حضرت خدیجہ ؓ کی گواہی
شادی سے قبل حضرت خدیجہ ؓکے اموال تجارت سے جو منافع پایا اس سے بھی کوئی جائیداد نہیں بنائی ،نہ اپنی تجارت بڑھائی بلکہ اللہ کی راہ میں غرباء پر خرچ کر دیا- پھر حضرت خدیجہ ؓ سے شادی ہوئی انہوں نے اپنے تمام اموال اور غلام آپ ؐ کے سپرد کر دئیے- آپ ؐ نے اپنے غلام زید ؓ بن حارثہ کو آزاد کر دیااور اموال خدا کی راہ میں بے دریغ خرچ کئے- چنانچہ جب پہلی وحی کے نئے تجربے پر آپؐ کو طبعا ً گھبراہٹ ہوئی تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے جو کلمات کہے ان سے نہ صرف اس زمانہ میں آپؐ کے انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ظاہر ہوتی ہے بلکہ خدا کی راہ میں آپؐ کے خرچ کے طریقے بھی کھل کر سامنے آتے ہیں-
حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق پر یہ بے لاگ تبصرہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا-آپؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ٗ غریبوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ٗ جو نیکیاں مٹ چکی ہیں وہ آپ ؐ قائم کرتے ہیں، آپؐ مہمان نوازی کرتے اور حقیقی مصائب میں لوگوں کی امداد کرتے ہیں-(بخاری)21
بعض روایات میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے بھی پہلی وحی کا حال سن کر یہی گواہی دی تھی- اس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے آپ ؐ کن کن راہوں میں خرچ کرتے تھے- ہجرت کے بعد آپ ؐ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آ گئے تھے- آپؐ کا کوئی ذاتی ذریعہ آمد نہیں تھا- اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی جملہ ضروریات معاش کا ذمہ خود اٹھایا ہوا تھا- جیسے فرمایا کہ تمہارے رزق کا انتظام ہم خود کریں گے۔(سورۃ طٰہٰ :133)
مدنی دور اور انفاق فی سبیل اللہ
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نہایت اخلاص اور ایثار سے ہدایا اور تحائف پیش کرتے رہے- کسی نے دودھ دینے والے جانور پیش کئے تو بعض نے کھجور کے درخت آپؐ کے لئے وقف کر دیئے- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حسب ضرورت اپنے استعمال میں بھی لاتے اور ضرورت مند صحابہ کی حاجت روائی بھی فرماتے رہے-
بعد میں جب 4ہجری میںیہود بنی نضیر اپنی بد عہدی کے باعث مدینہ سے جلا وطن ہوئے تو ان کے کھجوروں کے باغات بطور خمس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں آئے- آپ ؐ ان کے پھلوں کو فروخت کرکے اہل خانہ کے سال بھر کے اخراجات خوراک اور غلہ وغیرہ کا انتظام فرما لیتے تھے اور باقی مال جو ضرورت سے زائد ہوتا اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتے تھے-(بخاری)22
ہر چند کہ خمس یعنی اموال غنیمت کا پانچواں حصہ مکمل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صوابدیدی اختیار پر تھاکہ اسے جیسے چاہیں دینی مقاصد کے لئے اپنی ذات اور اہل و عیال پر نیز رشتہ داروں ٗ یتامیٰ ،مساکین اور مسافروں پرخرچ کریں- مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال احتیاط سے اپنے لئے صرف ضروری سامان معاش پر ہی اکتفا کیا اور جو ضرورت سے بچ جاتا تھا خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے حتیٰ کہ اگلے دن کے لئے بھی بچا کے نہیںرکھتے تھے- (ترمذی)23
الغرض آپؐ نے اپنے لئے قناعت کا طریق ہی پسند فرمایا- اور فراخی کے زمانہ میں جب ازواج مطہرات نے بعض مطالبات کئے تو انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اختیار دیا کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت کی خواہاں ہیں اور آپ ؐ کی طرح سادگی اور قناعت اختیار نہیں کر سکتیں تو بے شک مال و متاع لے کر آپ ؐ سے الگ ہو جائیں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کو مقدم رکھنا ہے تو ایسی نیک عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہترین اجر تیار کر رکھا ہے- (سورۃالاحزاب:29)
بے شک ازواج النبی ؐ نے اپنے مقام کے مطابق اللہ اوراُس کے رسولؐ کو ہی ترجیح دی، مگر اس تنبیہ سے یہ مقصد کھل کر سامنے آگیا کہ اموال کی کثرت کے نتیجہ میں اسراف نہ ہونے پائے- بعد میں ازواج مطہرات کے معقول وظائف بھی مقرر ہوئے اور انہوں نے بھی اسوۂ رسول ؐ کی روشنی میں اپنے اموال بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کئے- الغرض نبی کریمؐ نے ہر حال عسر و یسر میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام مدّات میں دل کھول کر خرچ کرکے دکھا یا-
حاجت مندوں کا خود خیال رکھنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت مندوں کی ضروریات کا خود خیال رکھتے تھے- جیسا کہ قرآن شریف میں بیان ہے آپ ؐ چہرہ کے آثار سے ہی ایسے لوگوں کو بھانپ لیتے تھے۔ (البقرۃ:274) پھر ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ازخود ان کی ضروریات ایثار کرکے بھی پوری فرماتے تھے- اصحاب صُفّہ اکثر آپؐ کے احسان و تلطّف سے مستفیض ہوتے تھے- ان اصحاب اور حضرت ابوھریرہ ؓ کی مہمان نوازی کی وہ مثال کیسی ایمان افروز ہے جب فاقہ مست ابوھریرہ ؓ بھوک سے بد حال ایک قرآنی آیت کی تفسیر ابو بکر ؓ و عمر ؓ سے دریافت کرتے ہیں۔ مقصود یہ تھا کہ شاید وہ ان کے لئے اس آیت کی عملی تفسیر کے طور پر کچھ کھانے پینے کا سامان کر دیں- اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ابوھریرہ ؓ کو دیکھ کر مسکرائے اور چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ ابو ھریرہ ؓ فاقہ سے ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ابو ہریرہ ؓ بھوک لگی ہے؟ چلو میرے ساتھ چلو۔ ابوہریرہ ؓ ساتھ ہو لئے۔ آپ ؐ دودھ کا ایک پیالہ لائے اور فرمایا کہ جا کر اہل صُفّہ کو بھی بلالائو-یہ وہ مستحق اور غریب لوگ تھے جو مسجد نبوی میںاقامت پذیر ہو کر قرآن و سنت کی تعلیم میں مصروف رہتے تھے۔ رسول اللہؐ اکثر ان کے لئے صدقات بھجوا دیتے اور تحائف میں بھی انہیںشریک کرتے- اس موقع پر بھی آپ ؐ ان اصحاب صفہ کو نہیںبھولے- پہلے انہیں دودھ پیش کیا پھر ابوہریرہ ؓ کو خوب سیر کرکے آخر میں خود نوش فرمایا-(بخاری)24
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو کبھی نہیں دیکھا کہ صدقہ دینے کا کام کسی اور کے سپرد فرماتے ہوں بلکہ آپؐ خود سائل کے ہاتھ میں صدقہ رکھتے تھے۔ (ابن سعد)25
معذوروںکا خیال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی راہ میں اموال کی تقسیم کے وقت معذور محتاجوں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے- ایک دفعہ کہیں سے کچھ کپڑے آئے جو آپ ؐ نے تقسیم فرمائے- مدینہ میں ایک نابینا ضرورت مند صحابی حضرت مخرمہ ؓ بھی ہوتے تھے- انہیں خبر ہوئی تو سخت ناراضگی کے عالم میں آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے باہر سے ہی پکارنے لگے کہ میرا حصہ کہاں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخرمہ ؓکی آواز سنتے ہی پہچان گئے ۔ گھر سے ایک قمیص اٹھائے باہر تشریف لائے۔ فرمایا اے مخرمہ ؓ ! ہم نے تو پہلے ہی آپ کے لئے یہ قمیص سنبھال کر رکھ لیاتھا۔(بخاری)26
مختلف حیلوں سے امداد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازراہ شفقت اپنے صحابہ کی ضروریات پر خود نظر رکھتے تھے- امدا دکرتے ہوئے اس بات کاخاص خیال رکھتے کہ ان کا احساس خود داری بھی مجروح نہ ہونے پائے اور دست سوال دراز کرنے کی بھی نوبت نہ آئے-
ایک جاں نثار صحابی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے ساتھ بھی ایسا ہی محبت بھرا معاملہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا- جابر ؓ کے والد عبداللہ ؓ اُحد میں شہید ہوئے توسات بہنوں کی پرورش کا بوجھ ان کے سر پر تھا- دوسری طرف والد کے ذمہ یہود مدینہ کا خاصا قرضہ بھی واجب الادا تھا- اسی دوران امور خانہ داری سنبھالنے کے لئے جابر ؓ کو اپنی شادی کا فیصلہ بھی جلدکرنا پڑا- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان جملہ حالات پر نظر تھی - آپؐ ان کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے مگر یہ بھی جانتے تھے کہ جابر غیور اور خوددار نوجوان ہے- جلد ہی ایک غزوہ سے واپسی پر آپؐ نے اس کا موقع پیدا کرلیا- جابر ؓکا اونٹ اچانک اَڑکر رک گیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر ؓ سے فورا ً اس اونٹ کا سودا طے کر لیا- مدینہ آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خزانچی حضرت بلال ؓ کو اونٹ کی قیمت ادا کرنے کا ارشاد فرمایا- جب جابر ؓ وہ قیمت وصول کرکے جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاکر فرمایا کہ قیمت کے ساتھ اپنا اونٹ بھی واپس لیتے جائو- اس طرح اپنے ایک پیارے صحابی کی ضرورت کے وقت امداد بھی فرما دی اور اس کی عزت نفس بھی قائم رکھی-(بخاری)27
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت مند کی حاجت دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے اور جب تک حاجت روائی نہ فرما لیتے چین نہ آتا-مضر قبیلے کا وفد آیا تو انہیں ننگے پائوں ،جانوروں کی کھالیں اوڑھے دیکھ کر اور ان کے چہروں پر فاقہ کے آثار محسوس کرکے آپ ؐ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا- آپ ؐ بے چینی میں اندر تشریف لے گئے، پھر باہر آئے اور بلال ؓ کو حکم دیا کہ لوگوںکو جمع کریں- بلال ؓ کی منادی پر لوگ اکٹھے ہو گئے- آپ ؐ نے نہایت مؤثر وعظ فرمایا اور اس وفد کی امداد کی تحریک کی- صحابہؓ کرام نے مالی قربانی کی اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور حسب توفیق ہر قسم کی ضرورت کا سامان حاضر کر دیا-رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دل کی مراد پورے ہوتے دیکھی تومسرّت سے آپؐ کا چہرہ تمتمانے لگا- (مسلم)28
ابو اسید ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ؐ سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی آپ ؐ نے کبھی انکار نہیں فرمایا- حضرت علی ؓ اس کی مزید وضاحت فرماتے تھے کہ جب آپؐ کسی سائل کا سوال پورا کرنے کا ارادہ فرماتے تو جواب میں ہاں فرماتے اوراگرآپؐ کا جواب نفی میںہوتا تو خاموش رہتے- چنانچہ کبھی کسی کے لئے ’’نہ‘‘ کا کلمہ آپؐ کی زبان پر جاری نہیں ہوا-(ہیثمی)29
کبھی کوئی ضرورت مند آتا جس کی آپ ؐ مدد کرنا چاہتے اور پاس کچھ موجود نہ ہوتا تو اسے فرماتے کہ میرے وعدے پر اتنا قرض لے لو، جب ہمارے پاس مال آئے گا تو ہم ادا کر دیں گے- ایک دفعہ کسی ایسے موقع پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ ! اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو اس بات کا حکم تو نہیں دیا جس کی آپ ؐ کو طاقت نہیں ہے- آپ ؐ نے حضرت عمر ؓ کی یہ بات پسند نہیں فرمائی- وہاںموجود ایک انصاری صحابی کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ؐ !آپ ؐ دل کھول کر خرچ کریں اورافلاس سے نہ ڈریں- رسول اللہ ؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے-(ترمذی)30
فراخدلی
رسول کریم ؐ ہمیشہ فراخدلی سے عطا کرتے تھے۔ ضرورت مند بعض دفعہ آپؐ سے اپنا حق سمجھ کر مانگتے تھے مگر آپ ؐ کبھی برا نہ مناتے- ایک دفعہ ایک بدّو نے آپ ؐ سے دست سوال دراز کرتے ہوئے عجیب گستاخانہ طریق اختیار کیا- جو چادر آپ ؐ نے اوپر لی ہوئی تھی اسے اس نے اتنے زور سے کھینچا کہ آپ ؐ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا مجھے اللہ کے اس مال میں سے عطا کریںجو آپ ؐ کے پاس (امانت ) ہے- آپ ؐ نے اس گنوّار دیہاتی کے اس رویہ پر نہ صرف صبر و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ نہایت فراخدلی سے مسکراتے ہوئے اس کی امداد کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا-(بخاری)31
حضرت ابوسعیدؓسے روایت ہے کہ دو آدمی رسول کریمؐ کی خدمت میں آئے اور اونٹ خریدنے کے لئے آپؐ سے مدد چاہی۔آپؐ نے انہیںدودینار عطافرمائے۔ واپسی پر ان کی ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی اور انہوں نے رسول کریمؐ کے اس احسان کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا۔حضرت عمرؓ نے جاکر رسول کریمؐ کو سارا ماجرا عرض کیا آپؐ نے فرمایا فلاں کو میں نے سودینار تک دیئے مگر اس نے تو ایسا شکریہ ادا نہیں کیا۔ ایسے لوگوں میں سے ایک شخص جب مجھ سے سوال کرنے آتا ہے تو جواب میں جولے جاتا ہے وہ سوائے آگ کے کچھ نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ پھر آپؐ ان کو وہ آگ کیوں دیتے ہیں؟ رسول کریمؐ نے فرمایا وہ لوگ سوال کرنے سے باز نہیں آتے اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بخل منع فرمادیا ہے۔(تاریخ دمشق32) یعنی ’’وہ اپنی خُو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟‘‘
بدی کے بدلہ میںنیکی
ایک دفعہ ایک دیہاتی نے جب آپ ؐ کے گلے کا پٹکا کھینچ کر آپؐ کو تکلیف پہنچائی اوراس طرح سخت کلامی کرتے ہوئے مانگا اور کہاکہ یہ مال نہ آپ ؐ کا ہے نہ آپ ؐ کے باپ دادا کا-اللہ کے اس مال میں جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں دیں- آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن اے اعرابی ! تم نے جو چادر کھینچ کر مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تو تم سے لیا جائے گا- وہ بے اختیار بول اٹھا، ہرگز نہیں- آپ ؐ نے فرمایا آخر کیوں تم سے بدلہ نہ لیا جائے؟ اس نے کیسی صاف گوئی اور سادگی سے کہا- بدلہ نہیںہو گا اس لئے کہ آپ ؐ ہمیشہ بدی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اسے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر جو اور ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر کھجوریں عطافرما کر رخصت کیا-(عیاض)33
ایک دفعہ ایک بدّو نے آکر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسر تھا عطا فرما دیا- وہ اس پر سخت چِیں بجبیں ہوا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی بے ادبی کے کچھ کلمات کہہ گیا۔ صحابہ کرام نے سرزنش کرنا چاہی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ۔آپ ؐ اس بدو کو اپنے ساتھ گھر لے گئے، اسے کھانا کھلایا اور مزید انعام و اکرام سے نوازا۔پھر پوچھاکیا اب راضی ہو؟ وہ خوش ہو کر بولا اب تو میںکیا میرے قبیلے والے بھی آپ ؐ سے راضی اور خوش ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے بھی جا کر یہ اظہار کر دینا کیونکہ تم نے ان کے سامنے میرے ساتھ سخت کلامی کرکے ان کی دلآزاری کی تھی- جب اس نے صحابہ کے سامنے بھی اسی طرح اظہار کیا تو آپ ؐ نے فرمایا! میری مثال اس اونٹ کے مالک کی طرح ہے جو اپنے اڑیل اونٹ کو بھی قابو کر لیتا ہے- میںبھی سخت مزاج لوگوںکو محبت سے سدھا لیتا ہوں- (ہیثمی)34
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح حنین کے بعد بے شمار غنائم تقسیم فرما کر واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک جگہ بدّوئوں نے گھیر لیا اور آپ ؐ سے اصرار کرکے مانگنے لگے-ان کے ہجوم کے باعث پیچھے ہٹتے ہٹتے آپؐ کی چادر کانٹوں میں الجھ کر رہ گئی- آپ ؐکمال معصومیت سے ان سے اپنی چادر واپس طلب فرما رہے تھے، پھر فرمایا اگر مویشیوں سے بھری ہوئی یہ وادی بھی میرے پاس ہوتی تو میں تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا اور تم مجھے ہرگز بزدل اور بخیل نہ پاتے-(بخاری)35
اپنی ضروریات پر دوسرے کو ترجیح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انفاق فی سبیل اللہ میںہمیشہ ضرورت مند کی خاطر اپنی ضرورت قربان کر(کے بھی خدا کی راہ میں) دیتے تھے-ایک دفعہ آپ ؐ کے لئے لباس کی ضرورت دیکھ کر ایک صحابیہ نے ایک خوبصورت چادر کڑھائی کر کے آپؐ کی خدمت میں نذر کی جو آپ ؐ کو بہت پسند آئی- چونکہ ضرورت بھی تھی، آپ ؐ اندر گئے اور وہ چادر زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے- ایک صحابی نے اس چادر کی بہت تعریف کی کہ آپ ؐکوخوب سجتی ہے اور بہت خوبصورت لگ رہی ہے- آپ ؐ نے اسی وقت پھر پرانی چادر پہن لی اور نئی اس صحابی کو عطا فرما دی-کسی نے اس شخص سے کہا کہ تم نے کیوں مانگ لی۔ حضورؐ کو ضرورت تھی اُس نے کہامیں نے بھی اپنے کفن کیلئے مانگی ہے۔ (بخاری)36
اس ایثار اور انفاق فی سبیل اللہ کے نتیجہ میں آپ ؐ کے اموال میںبرکت بھی بہت عطا ہوتی تھی جس کے نتیجہ میں مزید مالی قربانی کی توفیق ملتی تھی- آپ ؐ اموال کی تقسیم میں اہل خانہ پر بھی دوسروںکو ترجیح دیتے تھے- ایک دفعہ کچھ قیدی آئے- حضرت فاطمہ ؓ کو پتہ چلا تو ایک خادم مانگنے حاضر ہوئیں اور رسول اللہ ؐ کو موجود نہ پا کرحضرت عائشہ ؓ کو اپنی ضرورت بتا کرگھر چلی گئیں- رسول اللہ ؐ تشریف لائے حضرت عائشہ ؓنے آپ ؐ کی لخت جگر کا پیغام دیا کہ چکی پیس کر ان کے ہاتھ میں گٹے پڑ گئے ہیں انہیں ایک خادم کی ضرورت ہے- آپ ؐ اسی وقت صاحبزادی فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ قیدی تو ضرورت مندوں میں تقسیم ہو چکے- آپؐ لوگ اللہ کی نعمتوںپر خدا کی تسبیح اور حمد کرو- سبحان اللہ ٗ الحمد للہ ٗ اللہ اکبر پڑھا کرو- یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے- (بخاری37)اس میں پیغام تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وشکراور دعا کے نتیجہ میں تمہاری یہ ضرورت پوری ہوگی۔
ایثار او رانفاق کی برکت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ یہ ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمؐ کے پاس دس درہم تھے۔کپڑے کا تاجر آیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدا ٗ وہ چلا گیا تو آپ ؐنے وہ قمیص زیب تن فرما لیا- اچانک ایک حاجت مند آیا۔ اس نے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ! آپ ؐمجھے کوئی قمیص عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کو جنت کے لباس میںسے کپڑے پہنائے- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نیا قمیص اتار کر اسے دے دیا- پھر آپ ؐ دوکاندار کے پاس گئے اور اس سے ایک اور قمیص چار درہم میں خرید لیا- آپ ؐ کے پاس ابھی دو درہم باقی تھے- راستہ میں اچانک آپ ؐ کی نظر ایک لونڈی پر پڑی جو بیٹھی رو رہی تھی- آپ ؐ نے پوچھا کیوں روتی ہو ؟ کہنے لگی یا رسول اللہؐ ! مجھے اپنے مالکوںنے دو درہم دے کر آٹا خریدنے بھیجا تھا ٗ درہم گم ہو گئے ہیں- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو درہم اسے دے دئیے مگر وہ پھر بھی روتی جا رہی تھی - آپ ؐ نے اسے بلا کر پوچھا کہ اب کیوں روتی ہو؟ وہ کہنے لگی اس خوف سے کہ گھر والے (تاخیر ہو جانے کے سبب) سزا دیںگے- آپ ؐ اس بچی کے ساتھ ہو لئے اور اس کے گھر تشریف لے گئے۔ گھر والے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے- کہنے لگے ہمارے ماں باپ آپ ؐ پر قربان آپ ؐنے کیسے قدم رنجہ فرمایا؟ آپؐنے(تفصیل بتا کر ) فرمایا یہ آپ کی لونڈی ڈرتی تھی کہ آپ لوگ اسے سزا دو گے- اس کی مالکہ بولی کہ خدا کی خاطر اور آپ ؐ کے ہمارے گھر چل کر آنے کے سبب میں اسے آزاد کرتی ہوں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے جنت کی بشارت دی اور فرمانے لگے دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہمارے دس درہموں میں کیسی برکت ڈالی ؟ ان درہموں میں اپنے نبی ؐ کو قمیص بھی عطا کر دی ٗ ایک انصاری کے لئے بھی قمیص کا انتظام کیا اور ایک لونڈی کی گردن بھی آزاد کر دی- میں اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ عطا فرمایا-(ہیثمی) 38
جودو سخا کے حیرت انگیز نظارے
فتوحات کے زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت کثرت سے اموال آئے مگر جیسا کہ آپ ؐ کی دلی خواہش تھی آپ ؐ نے دونوں ہاتھوں سے وہ مال خدا کی راہ میںلٹائے اورایک درہم بھی اپنی ذات کے لئے بچاکر رکھنا پسند نہ فرمایا- اللہ تعالیٰ پر آپ ؐ کا کامل توکل تھا اور وہی ہر ضرورت میں آپ ؐ کا متکفل ہوتا تھا- ایک دفعہ آپ ؐ عصر کی نماز پڑھا کر خلاف معمول تیزی سے گھر تشریف لے گئے- واپس آئے تو ہاتھ میں سونے کی ایک ڈلی تھی فرمانے لگے مجھے نماز میںخیال آیا کہ سونے کا ایک ٹکڑا تقسیم ہونے سے رہ گیا ہے- میں جلدی سے وہ تقسیم کرنے کے لئے آیا ہوں- مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ وہ ایک دن کے لئے بھی ہمارے گھرمیں پڑا رہ جاتا-(بخاری)39
اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے آپ ؐ کامل ایمان رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیںہوتی۔ وہ خرچ کرنے پر عطا کرتا اور مال کو اور بڑھاتا ہے-
ایک دفعہ آپ ؐ اپنے خادم اور خزانچی بلال ؓ کے پاس تشریف لائے اور کھجور کا ایک ڈھیر دیکھ کر استفسار فرمایا بلال ؓ ! یہ کھجوریں کیسی ہیں؟ بلال ؓ نے عرض کیا کہ آئندہ کے لئے ذخیرہ کرنے کا ارادہ ہے - آپ ؐنے فرمایا کیا تم اس بات سے نہیںڈرتے کہ اس ذخیرہ سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی؟پھر آپ ؐ نے بلالؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے بلال ؓ خدا کی راہ میں خرچ کرتے چلے جائو اور افلاس سے مت ڈرو-(طبرانی)40
حضرت موسیٰ بن انس ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کسی چیزکا مطالبہ نہیں کیا گیا مگر آپ ؐنے وہ عطا فرما دی-(مسلم)41
حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے کچھ لوگوں کو مال عطاکیا اور ایک شخص کو چھوڑدیاجومجھے بہت پیارا تھا۔میں نے حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ نے فلاں شخص کو مال نہیں دیا، میرے خیال میں تو وہ مومن ہے۔حضورؐ نے فرمایا (مومن) یا مسلمان؟آخر میں سعدؓ کے اصرار پر فرمایا اے سعد! میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرا شخص (جسے میں نہیں دیتا ) مجھے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔مگر میں اس اندیشہ سے دیتا ہوں کہ نہ دینے سے کہیں اُس کو ایسی ٹھوکر نہ لگے جس کے نتیجہ میں اللہ اُسے آگ میں گرادے۔(بخاری)42
ایک دفعہ آپ ؐ کے پاس ایک شخص آیا، آپ ؐ نے بکریوں سے بھری ایک وادی اسے عطا فرما دی-(مسلم43)اس نو مسلم عرب سردار نے آپ ؐ سے وادی کے درمیان زمین کا بھی مطالبہ کیا تھا- آپ ؐ نے زمین کی چراگاہیں اور بکریوں کے ریوڑ سمیت سب کچھ اسے ھبہ کر دیا - یہ واقعہ اس کے لئے معجزے سے کم نہ تھا-وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا تو اس حیرت انگیز تاثر کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکاکہ اے میری قوم!تم سب مسلمان ہو جائو- محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا دیتے ہیںکہ فقر و فاقہ سے بھی نہیںڈرتے-(ہیثمی)44
فتح مکہ اور فتح حنین کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جودو کرم کے حیرت انگیز نظارے مفتوح قوم نے بھی دیکھے- یہ انعام و اکرام تالیف قلب کی خاطر تھا- ابن شہاب زہری ؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حنین کے معرکہ میں مسلمانوںکو فتح ہوئی- اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فرمائے ٗ پھر سو اونٹ دئیے، پھر سو اونٹ دئیے- (گویا تین صد اونٹ عطا فرمائے) صفوان خود کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب یہ عظیم الشان انعام عطا فرمایا اس سے پہلے آپ ؐ میری نظر میں سب دنیا سے زیادہ قابل نفرت وجود تھے لیکن جوںجوں آپ ؐ مجھے عطا فرماتے چلے گئے، آپ ؐ مجھے محبوب ہوتے چلے گئے یہاںتک کہ آپ ؐ مجھے سب دنیا سے زیادہ پیارے ہو گئے-(مسلم)45
اسی طرح سردار مکہ ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ اور ایک اور قریشی سردار حارث بن ھشام کو بھی آپ ؐ نے سو سو اونٹ عطا فرمائے- بعض روایات کے مطابق یہ کل ساٹھ افراد تھے جن کو آپ ؐ نے تالیف قلب کی خاطر انعام واکرام سے نوازا-(عیاض)46
غزوہ حنین میںبنو ہوازن کے چھ ہزار لوگ قیدی ہوئے تھے- اہل حنین یہ درخواست لے کر آئے کہ ان کو آزاد کر دیا جائے- یہ غلام تقسیم ہو چکے تھے- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور انہیںتحریک فرمائی کہ ان غلاموں کو آزاد کر دیا جائے اور وعدہ فرمایا کہ جوشخص اپنے غلام کے عوض آئندہ اپنا حق لینا چاہے وہ اسے ادا کر دیا جائے گا- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر تمام مسلمانوں نے بخوشی ان چھ ہزار غلاموں کو آزاد کر دیا- (بخاری47) غلاموں کی آزادی کا وہ نظارہ بھی کیا عجیب ہوگا- جب وہ آزاد ہو کر گلیوںمیں دوڑتے پھرتے ہوں گے-
حاتم طائی کی سخاوت عرب میں ضرب المثل تھی۔ مگر ہمارے سیدومولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب کے اس سب سے بڑے سخی پر بھی احسان ہے۔فتح حنین کے بعد جب حاتم کے قبیلہ کے قیدی رسول کریمؐ کی خدمت میں پیش ہوئے تو ان میں ایک بہت حسین وجمیل اور خوبصورت دوشیزہ بھی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ اسے دیکھتے ہی انسان اس پر فریفتہ ہوتا تھا میں نے دل میں سوچا کہ رسول کریمؐ سے عرض کرونگا کہ یہ مجھے عطافرمادیں مگر جب اس لڑکی نے رسول کریم ؐ سے گفتگو کی تو حسن وجمال سے کہیں بڑھ کر اس کی فصاحت وبلاغت دیکھ کرمیں دنگ رہ گیا۔ اس نے کہا اے محمدؐ! آپؐ ہمیں آزاد کردیں تا قید کی ذلت ہمارے دشمن قبائل کے لئے موجب شماتت نہ ہو۔خودمیرا باپ دوسروں کی پناہ کا بہت احترام کرتا تھا۔قیدیوں کو آزاد کرتاتھا۔بھوکے کو کھانا کھلاتا تھا۔ ننگے کو لباس مہیاکرتاتھا،مہمان کی مہمان نوازی کرتا اور کھاناکھلاتاتھا۔ سلام کو عام کرتا تھا اور کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا تھا۔ میرے اس عظیم باپ کا نام حاتم طائی تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا اے لڑکی! یہ تمام خوبیاں جو تم نے بیان کیں ایک سچے مومن میں پائی جاتی ہیں۔کاش تمہاراباپ ہمارا زمانہ پاکر اسلام قبول کرنے کی توفیق پاتا۔ ہم اس سے محبت والفت سے پیش آتے اور اس پر بہت لطف وکرم کرتے پھر آپ ؐ نے فرمایا اس لڑکی کو آزاد کردو۔ یہ اس باپ کی بیٹی ہے جواعلیٰ اخلاق پسند کرتا تھا اور خدا کو بھی عمدہ اخلاق بہت پسند ہیں۔ ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! کیا خدا بھی اعلیٰ اخلاق پسند کرتا ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت بھی حسن خلق سے ملتی ہے۔(بیہقی)48
عرب قبائل کے قبول اسلام میں ایک روک مکہ ومدینہ کے درمیان جنگ تھی۔ وہ انتظار میں تھے کہ دیکھیں فتح کس کو ہوتی ہے؟ فتح مکہ کے بعد یہ قبائل دھڑا دھڑ وفود کی صورت میں مدینہ آکر اسلام قبول کرنے لگے۔اس لئے 9ھ کا سال عام الوفود بن گیا۔ یہ وفود بھی نبی کریم ﷺ کے جودوسخا اور انعام و اکرام سے فیضیاب ہوتے رہے۔
9ھ وفد تَجیب مدینے آیا یہ تیرہ افراد تھے جو مال زکوٰۃ بھی ساتھ لائے تھے۔رسول کریمؐ ان کی آمد سے بہت خوش ہوئے۔آپؐ نے انکوخوش آمدید کہا اور باعزت رہائش کی جگہ انہیں مہیّا فرمائی اور بلالؓ کو حکم دیا کہ ان کے لئے ضیافت اور تحائف کا بہترین انتظام کرے۔اور ان لوگوں کو آپؐ نے اس سے کہیں زیادہ عطافرمایاجو آپ ؐبالعموم وفود کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔اس کے بعد پوچھا آپ میں سے کوئی انعام لینے سے محروم تو نہیں رہ گیا۔ انہوں نے کہا ہمارا ایک کم سن بچہ پیچھے خیمہ میں ہے۔فرمایا اُسے بھی لائو۔وہ آیا تو کہنے لگا کہ میں بنی ابزیٰ سے ہوں اور میرے قبیلے کے لوگوں کی مرادیں آپؐنے پوری فرمائی ہیں میری حاجت بھی پوری کریں۔رسول اللہؐ نے فرمایا۔حاجت بیان کرو۔کہنے لگا۔اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور میرے دل میں غنا پیداکردے۔ آپؐ نے اسی وقت یہ دعاکی ’’اے اللہ اسے بخش دے، اس پر رحم کر اور اسکے دل میں غنا پیداکردے۔‘‘ پھر وہ لوگ واپس چلے گئے اور حج کے موقع پر 10ھ میں دوبارہ آئے ۔نبی کریم ؐ نے ان سے اس بچے کے بارے میں پوچھا۔ ان سب نے گواہی دی کہ ہم نے اس جیسا خوش نصیب اور اس سے زیادہ قانع آج تک نہیں دیکھا۔اللہ تعالیٰ کے اس پر بے شمار فضل ہیں۔(ابن سعد)49
فروہ بن مسیک مرادی شاہان کندہ کی اطاعت چھوڑ کر رسول کریمؐ کی اطاعت قبول کرتے ہوئے آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔رسول کریمؐ نے اسے بارہ اوقیہ سونا ،ایک عمدہ قسم کا اونٹ اور ملک عمان کی بنی ہوئی پوشاک انعام عطافرمائی۔اور اسے مراد قبیلہ پرامیر مقررفرمایا۔(ابن سعد)50
10ھ حجۃ الوداع کے سال میں وفد محارب آیا اور اسلام قبول کیا۔مکی دور میں اُن سے بڑھ کر کسی نے رسول اللہؐ سے درشتی اور سخت زبانی نہیں کی تھی مگر ان سے بھی رسول اللہؐ نے حسن سلوک فرمایا اور دیگر وفود کی طرح انہیں انعام و اکرام سے نوازا۔(ابن سعد)51
فتح مکہ کے بعد نبی کریم ؐ کی خدمت میں مختلف قبائل عرب کے وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر چند کہ یہ لوگ اسلام کی شان وشوکت پر متاثر ہوکر اپنے قبائل اور علاقوں کی نمائندگی میں مزید جستجو وتحقیق حق کے لئے مدینہ حاضر ہوتے تھے مگر نبی کریمؐ کے اخلاق فاضلہ آپؐ کے حسن واحسان اور لطف و کرم کے نتیجہ سے ایسے گرویدہ ہوتے کہ اکثر اسلام قبول کرلیتے۔ یہ وفود عرب بھی اپنے قبائلی رواج کے مطابق مختلف تحائف اور علاقائی سوغاتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے تھے۔ نبی کریمؐ قرآنی حکم کے مطابق ان کو جواباً بہترین تحائف بھی عطافرماتے تھے۔
وفدداریّین کی آمد پر بھی یہی ہوا انہوں نے کچھ تحائف پیش کئے جن میں سے بعض تو آپؐ نے رکھ لئے بعض واپس فرمائے۔ان تحائف میں ایک ریشمی قباء بھی تھی جس پر سونے کے بٹن تھے۔ وہ رسول کریمؐ نے اپنے چچا حضرت عباس ؓ کو دیدی۔ جو حضرت عباسؓ نے ایک یہودی کو آٹھ ہزار درہم میں بیچی۔
وفد کے ایک نمائندے تمیم نے عرض کیا کہ ہمارے پڑوس میں رومی سلطنت ہے وہاں کے دو شہر حبریٰ اور بیت عینون ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ آپؐ کو ملک شام کی فتح عطافرمائے تو یہ بستیاں ہمیں عطافرمائیں۔نبی کریمؐ نے کمال یقین اور دریادلی سے فرمایا یہ تمہاری ہوئیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانۂ خلافت میں جب یہ علاقے فتح ہوئے تو انہوں نے تمیم کو یہ بستیاں عطا کیں اور انہیں ایک تحریر بھی لکھ کردی۔یہ وفد رسول کریمؐ کی وفات تک مدینہ میں رہا۔ آپؐ نے ان کو ایک سووسق کھجور قریباً(دوصدپچیس من) دینے کی ہدایت فرمائی تھی۔ (ابن سعد)52
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ستر ہزار درہم آئے۔ یہ سب سے زیادہ مال تھا جو کبھی آپ ؐ کے پاس آیا- یہ درہم آپ ؐ نے ایک چٹائی پر رکھوائے- پھرآپؐ وہ بانٹنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو تقسیم کرکے دم لیا- اس دوران جو سوالی بھی آیا ،اُسے آپ ؐ نے عطا کیا- یہاںتک کہ وہ چٹائی صاف ہو گئی- (ابن الجوزی53)دوسری روایت میں نوے ہزار درہم تقسیم کرنے کا ذکر ہے-اس روزہرسائل کو عطاکیا۔ (ابن سید )54
عبداللہ ھوزنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا کہ حضرت نبی کریم ؐ کے اخراجات کیسے پورے ہوتے تھے؟ بلال ؓ نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو مبعوث کیا اس وقت آپ ؐ کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔ میں وفات تک آپ ؐ کے ساتھ رہا۔ آپ ؐ کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو مجھے حکم دیتے۔ میں اس کے لئے قرض لے کر کپڑے وغیرہ خرید دیتا اور کھانا وغیرہ کھلاتا-ایک دفعہ ایک مشرک نے کہا کہ کسی اور کی بجائے مجھ سے ہی قرض لے لیا کرو۔ جب اس کا قرض زیادہ ہوا تو وہ بہت سختی سے تقاضا کرنے لگا- یہاں تک کہ میں نے شہر چھوڑکربھاگ جانے کی تیاری کرلی۔ مگر اگلے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے علی الصبح بلاوا آگیا- حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں کہ میںحاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چار اونٹ سامان طعام اور لباس سے لدے ہوئے ہیں جو فدک کے سردار نے آپ ؐ کو بھجوائے تھے- حضور ؐنے فرمایا اے بلال ؓ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ادائیگی کا انتظام کر دیا- اب قرض ادا کر دو- چنانچہ قرض ادا ہوا اورکچھ بچ بھی رہا- آپ ؐ نے فرمایا میں گھر نہیںجائوں گاجب تک کہ تم یہ مال بھی تقسیم نہ کردو-جب رات تک کوئی سائل نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رات مسجد میں گزاری- اگلے دن جب بلال ؓ نے بتایا کہ اب مال تقسیم ہو چکا ہے تو آپ ؐ اطمینان سے اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لے گئے-(ابودائود)55
بخشش و عطا کے مواقع کی تلاش
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی تعلیم کے مطابق تحفہ قبول کرکے جواب میں( حسب حال) بہتر تحفہ دینے کی کوشش فرماتے تھے-ربیعہ بنت معوّذ ؓ بیان کرتی ہیںکہ میرے والد نے مجھے تازہ کھجوروں کا ایک طشت اور کچھ ککڑیاں دے کر حضور ؐ کی خدمت میں(تحفہ) پیش کرنے کے لئے بھجوایا- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹی ککڑیاںبہت پسند تھیں- اس زمانہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کے علاقے سے کچھ زیورات آئے ہوئے تھے آپ ؐ نے مٹھی بھر زیور ربیعہؓ کو عطا فرمایا- دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بھرکر سونے کا زیور ربیعہؓ کو دیا اور فرمایا یہ زیور پہن لو- (ہیثمی)56
حسن ادائیگی
ایک دفعہ نبی کریم ؐ نے ایک اونٹ کسی سے بطور قرض لیا ،واپس کرتے وقت اس سے اچھا اونٹ لوٹایا اور فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ادائیگی میں بہتر طریق اختیار کرتے ہیں-(ترمذی57)اسی طرح حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور ؐنے مجھ سے قرض لیا اور واپس کرتے ہوئے بڑھا کر عطا فرمایا-(بخاری)58
ایک دفعہ ایک یہودی نے واپسی قرض کا تقاضا ذرا سختی اور گستاخی سے کیا ۔حضرت عمر ؓ نے جوابا ً اُسے کچھ سخت سست کہا تو آپ ؐ نے منع فرما دیااور انہیں حکم دیا کہ اسے قرض بھی ادا کریں اور کچھ زیادہ بھی دے دیں- آپؐ کا یہ حلم دیکھ کر اس شخص نے اسلام قبول کرلیا۔(حاکم)59
عطاء نبوی ؐ کی نرالی شان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطااور بخشش کی ایک نرالی شان جو اور کہیںنظر نہیں آتی یہ ہے کہ آپ ؐ کی عطا کے سلسلے آپؐ کی وفات کے بعد بھی جاری رہے جس کی ایک مثال جابر ؓ بن عبداللہ ؓ کا یہ واقعہ ہے- وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین سے مال آیا تو میں آپ کو ایسے ایسے اور ایسے دوں گا (یعنی بہت دوں گا)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحرین کا مال آنے سے پہلے ہی وفات پا گئے- حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں وہ مال آیا توانہوںنے اعلان کروایا کہ کسی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرض یا وعدہ ہو تو وہ آ کر لے لے- حضرت جابرؓ نے عرض کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال بحرین آنے پر اس اس طرح دینے کا وعدہ فرمایا تھا- حضرت ابو بکر ؓ نے دونوں ہاتھ بھرکر مجھے درہم عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ اب ان کو شمار کرو، وہ پانچ سو درہم نکلے - آپؐ نے فرمایا اس سے دگنے (یعنی ایک ہزار ) مزید لے لو،تاکہ رسول اللہ ؐ کا وعدہ تین مرتبہ دینے کا پورا ہو جائے- (مسلم)60
آخری پونجی بھی صدقہ کردی
حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے سات دینار حضرت عائشہؓ کے پاس رکھوائے ہوئے تھے۔آخری بیماری میں فرمایا کہ اے عائشہ ؓ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟عرض کیا میرے پاس ہے۔ فرمایاصدقہ کردو۔پھر آپؐ پر غشی طاری ہوگئی اور حضرت عائشہؓ آپؐ کے ساتھ مصروف ہوگئیں۔جب ہوش آئی،پوچھا کہ کیا وہ سونا صدقہ کردیا؟عرض کی،ابھی نہیں کیا۔ چنانچہ آپؐ نے وہ دینار منگواکر ہاتھ پر رکھ کر گنے اور فرمایا محمدؐ کا اپنے ربّ پر کیا توکل ہوا اگر خداسے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں۔پھر وہ دینار صدقہ کردیئے اور اسی روز آپؐ کی وفات ہوگئی۔ (ہیثمی) 61
الغرض رسول اللہؐ کے جودوسخاپرمولانا روم کا وہی شعر صادق آتا ہے کہ
بہرایں خاتم شداست اُوکہ بجود مثل اُو نے بُودنے خواہندبود
کہ رسول اللہؐ اس لئے خاتم ٹھہرے کہ مثلاً سخاوت میں نہ آپ ؐ جیسا کوئی ہوا ،نہ ہوگا۔

حوالہ جات
1
بخاری کتاب الرقاق باب قول النبیؐ کن فی الدنیا کأنک غریب
2
بخاری کتاب الرقاق باب ماقدم من مالہ فھولہ:5964
3
ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب منہ:2394
4
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد:3736
5
بخاری کتاب الرقاق باب قول النبی مااحب أن لی مثل أحد:5964
6
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب انفاق المال فی حقہ:1320
7
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح:1339
8
بخاری کتاب النفقات باب فضل النفقۃ علی الأ ھل :4933
9
بخاری کتاب الرقاق باب الغنی غنی النفس
10
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب التحریض علی الصدقۃ
11
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب مثل البخیل
12
مسلم کتاب الزھد والرقائق باب الصدقۃ فی المساکین:5299
13
بخاری کتاب الرقاق باب الریاء والسمعۃ:6018
14
بخاری کتاب الزکوٰۃباب صدقۃ السر
15
مسلم کتاب الزکوٰۃ باب فضل النفقۃ علی العیال
16
بخاری کتاب النفقات باب فضل النفقۃ
17
بخاری کتاب النفقات باب فضل النفقۃ
18
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐ
19
مجمع الزوائد و منبع الفوائد از علامہ ھیثمی جلد 9صفحہ 13بیروت
20
بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی ؐ یکون فی رمضان
21
بخاری بدء الوحی
22
بخاری کتاب النفقات باب حبس نفقۃ الرجل قوت سنتہ:4939
23
ترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی معیشۃ النبیؐ واھلہ
24
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ؐ
25
طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص370 بیروت
26
بخاری کتاب اللباس باب القبا
27
بخاری کتاب الجہادباب من ضرب دابۃ غیرہ فی الغزو:2649
28
مسلم کتاب الزکوٰۃباب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ:1691
29
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 9ص 13 بیروت
30
شمائل للترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐ
31
بخاری کتاب الفرض الخمس باب ماکان النبیؐ یعطی المؤلفۃ قلوبھم:2916
32
مختصر تاریخ دمشق جلد2ص210
33
الشفاء بتعریف حقوق المصطفی قاضی عیاض ص140بحوالہ بیھقی بیروت
34
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 9ص 15 بیروت
35
بخاری کتاب الجہاد باب الشجاعۃ فی الحرب
36
بخاری کتاب الجنائزباب من استعد الکفن فی زمن النبیؐ:1198
37
بخاری کتاب النفقات باب عمل المرأۃ فی بیت زوجھا:4942
38
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 9ص 14 بیروت
39
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ
40
المعجم الکبیر لطبرانی جلد 1ص 325 بیروت
41
مسلم کتاب الفضائل باب ماسئل رسول اللہ۔۔۔:427
42
بخاری کتاب الایمان باب اذالم یکن الاسلام علی الحقیقۃ:26
43
مسلم کتاب الفضائل باب ماسئل رسول اللہؐ شیئا قط فقال لا:4245
44
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 9ص 13بیروت
45
مسلم کتاب الفضائل باب ماسئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا: 4277
46
الشفاء للقاضی عیاض ج 1ص 145مطبوعہ بیروت
47
بخاری کتاب المغازی باب یوم حنین … الخ
48
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص341
49
الطبقات الکبری لابن سعد جلد1ص323دارالفکربیروت
50
الطبقات الکبری لابن سعد جلد1ص327دارالفکربیروت
51
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص299دارالفکربیروت
52
ا لطبقات الکبریٰ لابن سعد ج7ص407
53
الوفاء باحوال المصطفٰی ص447 ابن الجوزی بیروت
54
عیون الاثر لابن سیدالناس جلد2ص329
55
سنن ابی داؤد کتاب الخراج باب فی الامام یقبل ھدایاالمشرکین
56
مجمع الزوائد للھیثمی ج 9صفحہ 13 بیروت
57
ترمذی ابواب البیوع باب استقراض البعیر
58
بخاری کتاب الاستقراض باب حسن القضاء
59
مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر اسلام زید بن سعنہ
60
مسلم کتاب الفضائل باب ماسئل رسول اللہ شیئا قط فقال لا:4278
61
مجمع الزوائد للھیثمی جلد3ص124مطبوعہ بیروت

نبی کریمؐ کا خُلق، مہمان نوازی
ٓٓٓاسلام میں مہمان نوازی کی حسین تعلیم
اسلام کی تعلیم میں ’’مہمان نوازی ‘‘کو ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دیگر مذاہب عالم کے بالمقابل مہمان نوازی کی اسلامی تعلیم بھی اپنی تفاصیل کے ساتھ نہایت اعلیٰ اور ارفع ہے۔قرآن شریف میں اجنبی مسافر سے بھی احسان کی تعلیم دی گئی ہے۔ آنحضرتؐ نے بھی اکرامِ ضیف کا تاکیدی ارشاد فرمایا کہ مہمان کی عزت اور اس کا حقیقی احترام کیا جائے۔ کھانا پیش کرناتومہمان نوازی کاایک پہلو ہے۔اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے بندوبست کے ساتھ اس کے جذبات کا خیال رکھنے ،اس کی ادنیٰ ادنیٰ ضروریات کی دیکھ بھال، اس کی بے لوث خدمت اور خاطر تواضع، اس کے لئے ایثار اور قربانی کے جذبہ کی تعلیم دی ہے۔ نیزخود بھوکا رہ کر مہمان کو سیر کر کے خوش ہونے نیز بلا تکلّف اور بغیر کسی طمع ، صلہ اور ستائش کی تمناکے مہمان کی ضروریات خوش دلی اور خندہ پیشانی سے پوری کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ہمار ے آقا اور سیدومولیٰ ؐنے مہمان نوازی کوایمان کی علامت ٹھہرایا ہے اور حق یہ ہے سب سے بڑھ کر یہ خلق آپؐ کے اندر پایا جاتا تھا کہ اوّل المؤمنین جو تھے۔آپؐ نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب بھی سکھائے۔ فرمایاتین دن تک مہمان نوازی مہمان کاحق ہے۔(ابن ماجہ1)آپؐ مہمان کے ساتھ آخرتک کھانے میں شریک رہنے کی تلقین فرماتے تھے تاکہ اسے کسی قسم کی خجالت وندامت نہ ہو کہ وہ اکیلا کھا رہا ہے ۔(ابن ماجہ2)آپؐ نے مہمان کو الوداع کرتے ہوئے مہمان کی عزت کی خاطر اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک تشریف لے جاکر ایک اعلیٰ نمونہ قائم فرمایا۔(ابن ماجہ)3
الغرض آنحضرت ﷺ کی سیرت اکرام ضیف اور مہمان نوازی کے لحاظ سے نہایت خوبصورت نمونے پیش کرتی ہے۔ ابتدا ہی سے یہ اعلیٰ وصف آپؐ کے اخلاق حمیدہ کالازمی جزو تھا۔ چنانچہ پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو حوصلہ دلاتے ہوئے بے ساختہ جن تاثرات کا اظہار آپؐ کے بارے میں کیا اس میں یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا آپؐ تو مہمان نوازی کرتے ہیں اور حقیقی مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔(بخاری) 4
مہمان نوازی کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کا یہ پہلوبھی نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حکماً آپؐ سے کہلوایا قُلْ مَآاَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَآ اَنَامِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ(سورۃصٓ:87)کہ تو کہہ دے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلّف کرنے والوں میں سے ہوں۔ پس نہ آپؐ مہمان بن کرتکلّف کرتے تھے ،نہ میزبان ہو کرکبھی آپؐ نے تکلّف سے کام لیا۔ اسی طرح مہمان نوازی کے عوض آپؐ کوئی صلہ نہیں چاہتے تھے جیسا کہ قرآن شریف میں مومنوں کی یہ شان بیان ہوئی ہے جن کے آپؐ سردار تھے کہ وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی رضا کی خاطر ایسا کرتے ہیں ہمیں کسی بدلے بلکہ شکریہ تک کی حاجت نہیں ۔(سورۃالدھر:10)
مہمان نوازی اور دعوت الی اللہ
نبی کریمؐنے دین اسلام کی دعوت کا آغاز ہی بے لوث مہمان نوازی اور جذبۂ خدمت خلق کے تحت فرمایا ۔ جب آپؐ نے کوہ صفا پر رشتہ داروں کو پیغام حق پہنچایا اور وہ انکار کر کے چلے گئے تو آپؐ نے مہمان نوازی کے ذریعہ انہیں اکٹھا کرنا چاہا۔ حضرت علیؓ کو کھانے کی دعوت کا انتظام کرنے کی ہدایت فرمائی جس میں بکری کے پائے تیار کروائے۔ آپؐ کے عزیزواقارب میں سے چالیس مہمان آئے اور سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر انہیں دودھ پلایا گیا۔ کھانے کے بعد رسول کریم ﷺ نے گفتگو کرناچاہی تو ابو لہب یہ کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا کہ تمہارے ساتھی نے تم پر جادو کر رکھا ہے اس پرلوگ بھی اُٹھ کر چلے گئے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز رسول کریمؐ نے ایک اور دعوت کا اہتمام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ دعوت میں حضورؐ نے خاندان بنی مطلب کو خطاب فرمایا کہ میں تمہارے پاس دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں کون میرا مدد گار ہو گا؟ اس پر حضرت علی ؓنے مدد کی حامی بھری۔ یہ پہلاپھل تھا جو اس مہمان نوازی اور دعوت کے بعد آپؐ کو نصیب ہوا ۔(طبری)5
اکرام ضیف کا خلق تالیف قلب اور دعوت الی اللہ کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو بسا اوقات انسان کی ہدایت کا موجب بن جاتاہے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک کافر مہمان ٹھہرا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ دودھ پلاکر اس کی خاطر تواضع کی جائے، دودھ پیش کیا گیا۔ اس نے ایک بکری کا دودھ پی لیا۔ پھر دوسری کا دودھ دہو کر اسے پلایا گیا وہ بھی پی گیاپھر تیسری اور چوتھی بکری کا۔ یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اسے پلایا گیا تب کہیں اس کا پیٹ بھرا۔ وہ آنحضرت ﷺ کی اس بے تکلف مہمان نوازی اور حسن سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ اگلے دن اس نے اسلام قبول کر لیا۔ حضورؐ نے دوسرے روز پھر اس کیلئے دودھ لانے کا حکم دیا۔اس روز ایک بکری کا دودھ تو اُس نے پی لیا لیکن دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکابلکہ اس میں سے کچھ بچ رہا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔ (ترمذی) 6
مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مسلمان کو ایمان کی دولت کے ساتھ صبرو حوصلہ اور قناعت کی دولت بھی عطا فرماتا ہے۔
مہمان کی خدمت
فتح خیبر کے موقع پر حبشہ کے مہاجرین حضرت جعفر طیار ؓکی سرکردگی میں واپس لوٹے۔ ان میں نجاشی کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا۔حضورؐ خود ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خدمت کی سعی فرماتے۔آپؐ کے صحابہ نے عرض کی کہ حضورؐ ہم خدام جو خدمت کیلئے حاضر ہیںآپؐ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایاان لوگوں نے ہمارے صحابہ کی عزت کی تھی میں پسند کرتا ہوں کہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کی مہمان نوازی کروں کہ ان کے احسان کا یہی بدلہ ہے۔ (الحلبیہ)7
نبی کریم ﷺ مہمان کے لئے حسب حال کھانے کااچھا اہتمام فرماتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا پیش کرکے خوش ہوتے۔حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ حضورﷺ کے ہاں مہمانی کا شرف حاصل ہوا۔ آپؐ نے ران بھوننے کا حکم دیا اور پھر چھری لے کر گوشت کاٹ کاٹ کرمجھے عطافرمانے لگے۔ دریں اثناء بلالؓ نے نماز کے لئے بلالیا توفوراً نماز کیلئے تشریف لے گئے۔(ابودائود)8
نبی کریمؐ کا دستورتھا کہ اگر کوئی ملاقاتی کھانے کے وقت آجائے تو اسے بلا تکلف کھانے میں شامل فرمالیتے تھے۔حضرت عبداللہ بن اُنیسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بائیس رمضان کو لیلۃ القدر کے بارہ میں دریافت کرنے کیلئے حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپؐ کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد میں آپؐ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔آپؐ نے فرمایا اندر آجائو۔ آپؐ شام کا کھانا لے آئے اور محسوس کیا کہ میں کھانے کے کم ہونے کے باعث ہاتھ کھینچ رہا ہوںتوفرمایا لگتا ہے آپ کسی خاص کام سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے بنی سلمہ نے آپؐ سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھنے بھجوایا ہے۔آپؐ نے فرمایا آج کیا تاریخ ہے؟میں نے کہا بائیس رمضان ۔فرمایا کل یعنی تیئس کی رات کو لیلۃ القدرکی تلاش کرنا۔(ابودائود)9
ایک دفعہ ایک یہودی آپؐ کے پاس مہمان ٹھہرا ۔ رات پیٹ کی خرابی کے باعث اس نے حضورؐ کے بستر پر پاخانہ کر کے اُسے خراب کردیا۔ علی الصبح شرم کے مارے بغیر بتائے چپکے سے چلاگیا۔ جلدی میں اپنی تلوار بھول گیا۔جب آگے جاکر اُسے یاد آیا تو تلوار لینے واپس لوٹا۔ کیا دیکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بنفس نفیس اس کا گند بھرا بستر خود دھورہے تھے۔(رومی )10
مہمان کی جملہ ضرورتوںکا خیال
ابو عبداللہ بن طہفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب مہمان زیادہ ہوجاتے آپؐ نماز کے بعد صحابہ کو مسجد میں فرمادیتے تھے کہ جو آدمی اپنے ساتھ مہمان لے کر جاسکتا ہے لے جائے،لیکن ایک رات مہمان اتنے زیادہ تھے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہر آدمی اپنے ساتھ ایک مہمان کو لے جائے۔ تعمیل ارشاد ہوئی،اس کے باوجودپانچ مہمان بچ رہے۔پانچواں میں تھا۔آنحضرتؐ ہمیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کے گھر لے گئے۔ آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ حضورؐ آپ کے روزہ افطار کرنے کے لئے کچھ کھانا تیار کیا ہے ۔ حضرت عائشہؓ وہ کھانا ایک پلیٹ میں لے آئیں۔ آنحضورؐ نے اس میں سے تھوڑا سا لیااور باقی ہم پانچوںکو دیا اور فرمایا کہ بسم اللہ کر کے کھائو۔ حضرت عائشہ ؓ اور کھانا لائیں وہ بھی ہم نے کھا لیا،پھر آنحضورؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ کچھ پینے کو ہے۔ انہوں نے عرض کی تھوڑا سا دودھ آپؐ کے لئے رکھا تھا۔آپؐ نے فرمایا لے آئو۔حضرت عائشہ ؓ نے وہ پیش کیا۔ حضور ؐنے اس میں سے تھوڑا سا پیاباقی تبرک ہمیں دیکر فرمایا کہ بسم اللہ کر کے پیو۔ ہم نے وہ بھی پی لیا اور ختم کردیا۔اس کے بعد حضورؐ نے فرمایا اگر چاہو تویہیں سوجائو۔ چاہو تو مسجد چلے جائو۔ ہم نے کہا مسجد جائیں گے۔چنانچہ ہم مسجد جاکر سوگئے۔ صبح نماز سے قبل حضور تشریف لائے اور ہمیں نمازکے لئے جگانے لگے اوریہ آپؐ کا طریق تھا کہ جب گھر سے نماز کیلئے تشریف لاتے تو ’’نماز‘‘ ’’نماز‘‘ کہہ کر سونیوالوں کو جگا دیتے تھے۔میں مسجد میں پیٹ کے بل سویا پڑا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ کوئی آدمی پائوں سے مجھے ہلارہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس طرح سونا اچھا نہیں،میں نے دیکھا تو وہ آنحضرت ﷺ تھے۔(احمد)11
فاقہ کشوں کی مہمان نوازی
حضرت ابو ھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاقہ کے باوجودحضورؐ کی باتیں سننے کی خاطر درِ رسولؐ پر حاضر رہتے تھے۔ایک دفعہ بھوک کی حالت میں ایک آیت کے معنی حضرت ابوبکرؓ وعمرؓسے پوچھے جس میں مسکین کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے۔وہ معنی بتا کر چلے گئے۔ پھر رسول اللہؐ تشریف لائے۔ آپؐ نے ابو ھریرہؓ کا چہرہ دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ فاقہ سے ہے۔ پوچھا ابو ھریرہؓ کیا بھوک لگی ہے؟ پھرمجھے ساتھ گھر لے گئے جہاں دودھ کا ایک پیالہ میسّرآ گیا۔رسول کریمؐ کو اصحاب صُفّہ کے دیگرمساکین بھی بہت عزیز تھے۔ابو ھریرہؓ سے کہا کہ ان کو بلالائو۔اب ابو ھریرہؓ کو یہ دھڑکا کہ دودھ کا پیالہ کہیںختم نہ ہوجائے۔ اس پر طرّہ یہ کہ جب وہ مسکین صحابہ آگئے تو حضورؐ نے دودھ کا پیالہ ابو ھریرہؓ کو دیکر کہا کہ ان کو پلائو۔ سب سیر ہوچکے تو ابوھریرہ ؓسے فرمایا اب خودپیو،وہ پی چکے تو فرمایااور پیو اور پیو یہاں تک کہ ابوھریرہؓ سیر ہوگئے اور عرض کیا کہ اب تو میری انگلیوں کے پوروں سے بھی دودھ نکلنے کو ہے۔تب رسول خداؐ نے دودھ کا پیالہ ابوھریرہؓ سے لے کراپنے منہ سے لگایا اور بقیہ دودھ پیااور یوں اپنے صحابہ کو مہمان نوازی کا خوبصورت نمونہ دیا۔(بخاری)12
حضرت مقداد ؓ ایک غریب اور مفلوک الحال صحابی ٔ رسولؐ تھے،انہوں نے رسول کریمؐ کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس کی تفصیل دعائوں کی قبولیت کے مضمون میں آچکی ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہوگئی،محتاجی کے اس عالم میں ہم نے اصحاب ِ رسول سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بناکر نہ لے جاسکا۔ بالآخر رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر ہم نے اپنی بدحالی کا ذکر کیا۔ آپؐ نے کمال کشادہ دلی سے ہمیں اپنا مستقل مہمان رکھ لیا۔ آپؐ ہمیں گھر لے گئے۔وہاں تین بکریاں موجود تھیں۔آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو۔ہم چاروں پی لیا کریں گے چنانچہ خوب گزر بسر ہونے لگی ۔ایک رات مقدادؓ سارا دودھ خود ہی پی گئے رسول کریمؐ کی برکت سے بکریوں کو پھر دودھ اُتر آیا اور انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؐ نے پہلے ان کو دیا پھر ان کی درخواست پر خود پی کر باقی انہیں کو پلایا۔مقدادؓ بعد میں بڑی محبت سے حضورؐ کی دلنوازی کا یہ واقعہ سنایا کرتے تھے۔(مسلم)13
ایثار اور مہمان نوازی
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک غریب مفلوک الحال شخص آیا اور عرض کی کہ میں فاقہ سے ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے گھر سے پوچھوا بھیجا کہ کھانے کو کچھ ہوتوبھجوایا جائے۔وہ زمانہ سخت تنگی اور قحط کا تھا سب بیویوں کی طرف سے جواب آیا کہ صرف پانی گھر میں ہے کھانے کو کچھ نہیں۔رسول اللہؐنے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جوآج رات اس شخص کی مہمان نوازی کرے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پائے۔ایثار پیشہ ابو طلحہ ؓ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے خد اکے رسول ! میں اس مہمان کی ضیافت کیلئے حاضر ہوں۔ چنانچہ اس مہمان کو وہ اپنے گھر لے گئے۔ اپنی بیوی حضرت اُم سُلیمؓ (جو نہایت زیرک ایثار پیشہ اور فدائی خاتون تھیں) سے کہا یہ رسول خدا ﷺ کا مہمان ہے۔ اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اور اس کا پورا پورا اکرام کرنا۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم آج تو صرف بچوں کا کھانا ہے ہمارے اپنے کھانے کو بھی کچھ نہیں ۔حضرت ابو طلحہ ؓ نے کہا کوئی بات نہیں آج بچوں کو بھوکا رکھ لیں گے۔ جب وہ کھانا مانگیں تو انہیں بہلا پھسلا کر سلا دو اور مہمان کیلئے کھانا تیار رکھو۔اورساتھ ہدایت کی کہ جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو حکمت عملی سے دیا بجھادینا تاکہ خداکے رسول کا مہمان سیر ہوکر کھا سکے ہم بھوکے گزارا کرلیں گے۔ مہمان کی عزت کے لئے اسکا ساتھ دینے کے لیے ہم خالی منہ ہلاتے رہیںگے۔ پردہ کے حکم سے پہلے عربوں میں اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھانے کو اکرام ضیف کا حصہ سمجھا جاتا تھا ۔چنانچہ میاں بیوی مہمان کے ساتھ بیٹھ تو گئے کہ اس پہلو سے بھی مہمان کے اکرام میں فرق نہ آئے مگر کھانا ایک آدمی کا تھا۔ حضرت امّ سُلیمؓ کھانا رکھ کرچراغ ٹھیک کرنے کے بہانے اُٹھیں اور اسے بجھا دیا۔ پھر دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ خالی منہ ہلا کر یہ ظاہر کرتے رہے کہ کھانا کھارہے ہیں مہمان کو خدا اور اس کے رسول کی خاطر پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور خود بھوکے پیٹ رات بسر کی۔ایثار و قربانی او ر اخلاص و فدائیت کا یہ عظیم الشان نمونہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی اتنا خوش ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو اس واقعہ کی خبر کردی۔صبح ہوئی اور ابو طلحہؓ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا آج رات عرش کا خدا تم دونوں میاں بیوی کے اخلاص و ایثار اور محبت کا یہ نمونہ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔اسی قسم کے مضمون کا ذکر اس آیت قرآنی میں ہے۔ وَیُؤْثِروْنَ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ( الحشر: 10)کہ صحابۂ رسولؐ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے اور خود ایثار کرتے ہیں خواہ خود خالی پیٹ بھوکے ہی کیوں نہ ہوں۔ (بخاری)14
مہمانوں کی کثرت اور الہٰی برکت
غزوہ خندق کے زمانہ میں بھی مسلمانوں پر تنگی اور قحط کے سخت دن تھے۔ حضرت جابرؓ اس کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہم خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت چٹان کھدائی میں حائل ہوگئی۔ صحابہ نے آکر آنحضرتؐ سے عرض کی تو حضورؐ نے فرمایا کہ میں خود آتا ہوں۔ پھر آپؐ تشریف لائے۔ آپؐ کے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے دو پتھر بندھے تھے۔مسلسل تین دن سے ہم نے کچھ کھایا پیا نہ تھا۔ آنحضرتؐ نے کدال ہاتھ میں لی اور (تین ضربوں میں) چٹان پاش پاش کردی۔
حضر ت جابر ؓ سے رسول اللہ ؐ کی بھوک اور فاقہ کی حالت دیکھی نہ گئی۔ وہ حضورؐ سے اجازت لے کر اپنے گھر گئے۔اپنی بیوی سے کہا میں نے فاقہ سے آنحضرت ؐ کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر صبر نہیں ہوسکتا، تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا ہاں کچھ جو ہیں اور گھر میں ایک بکری کا بچہ بھی پالا ہو ا ہے۔ حضرت جابرؓ نے جلدی سے بکروٹا ذبح کردیا۔ بیوی نے جوَ پیس لئے اور گوشت ہنڈیا میں پکنے کیلئے رکھدیا ۔ حضرت جابر ؓ رسول اللہؐ کو کھانے پر بلانے جانے لگے۔ بیوی نے کہا مجھے رسول اللہؐ کے سامنے رسوا نہ کرنا اور زیادہ لوگ ساتھ نہ لے آنا تاکہ کھانا کم نہ ہوجائے۔ادھر حضرت جابرؓ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس دوران بیوی نے آٹا وغیرہ گوندھا اور ہنڈیا قریباً تیار ہوگئی۔ حضرت جابر ؓ نے جاکر راز داری سے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میرے گھر تھوڑا سا کھانے کا انتظام ہے آپؐ اور چند صحابہ تشریف لے آئیں۔رسول اللہؐ اپنے صحابہ کو بھوکا چھوڑ کر کیسے چلے جاتے۔ آپؐ نے پوچھا کھانا کتنا ہے؟ حضرت جابرؓ نے بتا دیا کہ ایک بکروٹہ اور کچھ جوَ ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! بہت ہے اور خوب ہے۔تم اپنی بیوی سے جاکر کہو کہ وہ میرے آنے تک نہ تو ہنڈیا اُتارے نہ تنور سے روٹی پکانی شروع کرے ۔ پھر آپؐ نے اپنے موجود تمام صحابہ سے فرمایا کہ اے اہل خندق! جابرؓ نے تمہارے لئے دعوت کا انتظام کیا ہے چلو اس کے گھر چلیں۔حضرت جابر ؓ پہلے گھر آگئے ان کی بیوی کو معلوم ہو اکہ حضورؐ خندق میں کام کرنے والے قریباً ایک ہزار صحابہ کو ہمراہ لارہے ہیں تو جابرؓسیخفا ہونے لگیں۔ حضرت جابرؓ نے کہا میں نے تمہارے کہنے کے مطابق آنحضرتؐ کی خدمت میں رازداری سے ہی دعوت پیش کی تھی۔آگے حضورؐ کی مرضی! خیر اتنی دیر میں آنحضرتؐ تشریف لائے۔ آپؐ نے آٹے پربرکت کی دعا پڑھ کر دم کیا،پھر ہنڈیا میں پھونک ماری اور برکت کی دعا کی۔پھر فرمایا اب روٹیاں پکانے والی کو بلائووہ روٹی پکائے اور ہنڈیا چولھے سے نہ اُتارنا۔آنحضرت ﷺ خود کچھ روٹی توڑتے اس پر ہنڈیا میں سے گوشت نکال کر رکھتے اور اپنے صحابہ کو دیتے پھر تنور اور ہنڈیا کو ڈھانک دیتے۔اس طرح تمام آئے ہوئے مہمان سیر ہوگئے اور کھانا بچ بھی گیا۔آنحضرتؐ نے حضرت جابرؓ کی بیوی سے فرمایا کہ اب جو کھانا بچ گیا ہے خود بھی کھائو اور تحفتہً دوسرے لوگوں کو بھی بھجوائو کیونکہ لوگ فاقہ اور بھوک کا شکار ہیں۔(بخاری)15
بیرونی وفود کی مہمان نوازی
فتح مکہ کے بعد 9ھ کا سال ’’عام الوفود‘‘ کہلا تا ہے اس سال کثرت سے مختلف علاقوں سے وفود مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ان تمام وفود کے ساتھ نبی کریم ؐ اعزاز و اکرام سے پیش آتے اور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام فرماتے۔چنانچہ وفد تَجیب کو آپ ؐنے خودخوش آمدید کہا۔باعزت رہائش کی جگہ مہیا فرمائی اور بلالؓ کو حکم دیا کہ ان کے لئے ضیافت اور تحائف کا بہترین انتظام کرے۔(ابن الجوزی)16
ایک مشہور وفد بحرین سے آیاتھا جسے وفد عبدالقیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ربیعہ قبیلہ کے لوگ تھے ۔ربیعہ رسول اللہ ؐ کے جدا مجد مضر کا بھائی تھا۔ آپس میں لڑائی کے باعث ربیعہ ہجرت کر کے بحرین چلے گئے تھے۔نبی کریمؐ کی مہمان نوازی کی عجب شان ہے کہ دشمن قبائل بھی اس سے محروم نہیں رہے۔ آپؐ نے کمال تپاک سے ان کا استقبال کیا۔ اس وفد کے ارکان بیان کیا کرتے تھے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐاور صحابہ کرام کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔جب ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچے تو ہمارے لئے جگہ فراخ کردی گئی۔
ہمیں رسول اللہ ؐ نے مرحبا اور خوش آمدید کہا۔ پھر حضورؐ نے ہم سے پوچھا تمہارا سردار کون ہے؟ ہم نے منذر بن عائذ کی طرف اشارہ کیا۔ آپؐ نے ہمارے سردار کو اپنے قرب میں جگہ دی ۔ اس سے بہت محبت اورلطف کا سلوک فرمایا۔ حضورؐ نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے ان بھائیوں کا پورا اکرام کرنا کیونکہ مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان کو اہل مدینہ سے ایک مناسبت اور مشابہت ہے کہ یہ لوگ خوشی سے از خود مسلمان ہوئے ہیں۔ جب صبح وفد کے لوگ حضورؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا تمہارے بھائیوں نے تمہارے اکرام اور ضیافت میں کوئی کسر اُٹھا تو نہیں رکھی۔وفد کے سب لوگوں نے بیک زبان یہی جواب دیا کہ یہ ہمارے بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے نرم بستر بچھائے او ر نہایت عمدہ کھانے کا انتظام کیا اور صبح ہوئی تو ہمیں قرآن شریف اور سنتِ رسولؐ کی باتیں بھی سکھانے لگے۔ آنحضرت ﷺ کو انصار کا یہ سلوک بہت پسند آیا اور آپؐ نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا پھر آپؐ نے وفد کے ہرفرد سے جو جو دینی باتیں اس نے اپنے میزبان سے یاد کی تھیں خود سنیں اور خود بھی ان کو کئی باتیں سکھائیں۔(احمد)17
اہل بیت رسول کی مہمان نوازی
لقیط بن صبرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کے ساتھ رسول اللہؐ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا ۔جب ہم نے حضورؐ کے گھر اپنے آنے کی اطلاع کی تو آپؐ گھر میں موجود نہیں تھے۔حضرت ام المٔومنین عائشہؓ کو ہماری آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے ازخودہمارے لئے کھانے کا انتظام کروایا۔ گوشت اور موٹے آٹے کا ایک عرب کھانا پیش کیا گیا۔ پھر ایک طشتری کھجور کی ہمیں بھجوائی گئی۔اتنے میں رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور آتے ہی پہلے پوچھاکچھ کھایا پیا بھی ہے؟ ہم نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسولؐ! اسی دوران حضورؐ کا چرواہا آگیا۔اس کے پاس ایک بکری کا بچہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا سنائو بکری نے کیا جنا ہے؟ اس نے کہابکروٹی۔فرمایا اسکی جگہ ایک بکری ہمارے لئے ذبح کردو۔پھر بے تکلفی سے فرمایا آپؐ لوگ یہ نہ سمجھو کہ آپ کی وجہ سے جانور ذبح کروارہا ہوں۔ دراصل ہمار ی سو بکریاں ہیں اور ہم یہ تعداد اس سے زیادہ نہیں کرنا چاہتے۔جب کوئی بکری بچہ دیتی ہے تو اسکی بجائے ہم ایک بکری ذبح کر لیتے ہیں۔(ابودائود)18
میزبان سے جو سلوک مہمان کو کرنا چاہئے اس کا ذکر بھی احادیث میں ملتاہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ جب انصار میں سے کسی کے ہاں مہمان جاتے تو آپؐ کا معمول تھا کہ آپؐ کھانا وغیرہ تناول فرماکر واپس جانے سے پہلے وہاں دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یا موقع کی مناسبت سے دُعا ہی کروادیتے۔اہل خانہ کے لئے اور ان کے رزق میں برکت کیلئے خاص طور پر دعا کرتے۔(بخاری)19
مہمان سے بے تکلّفی
نبی کریم ﷺ کے سامنے کھجور اور روٹی موجود تھی کہ حضرت صہیبؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا آگے ہوکر کھائو۔وہ کھجور کھانے لگے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے۔(زیادہ کھجور کھانے میں احتیاط کرو) صہیبؓ نے بے تکلّفی سے عرض کیا میں دوسری آنکھ سے کھاتا ہوں۔(احمد)20
نبی کریم ﷺ اپنے میزبان سے بھی بے تکلّفی سے پیش آتے تھے۔ایک فارسی نو مسلم حضورؐ کا ہمسایہ بناجو سالن بہت عمدہ تیار کیا کرتا تھا۔ اس نے حضورؐ کے لئے سالن تیار کیا اور حضور ؐ کو دعوت دینے آیا تو آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ کے بارہ میں پوچھا کہ ان کو بھی ساتھ بُلایا ہے نا؟ وہ بولا نہیں حضورؐ نے فرمایا پھر ہم بھی نہیں آتے۔دوسری دفعہ وہ پھر دعوت دینے آیا توآپؐ نے پھر وہی سوال کیا ۔تیسری مرتبہ اس نے حامی بھری۔تب حضورؐ اور حضرت عائشہؓ اس کے گھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے۔(مسند احمد)21
رسول کریمؐ کو خود مہمان ہوتے ہوئے بھی بے تکلفی ہی مرغوب خاطر تھی۔ایک د فعہ ابوشعیب انصاری ؓنے رسول اللہؐ کی دعوت کی اور عرض کیا کہ چار افراد اپنی مرضی سے ساتھ لے آئیں۔ دعوت پر جاتے ہوئے ایک اور شخص بھی ساتھ تھا۔رسول کریمؐ نے میزبان کو بے تکلفی سے فرمایا کہ آپ نے تو پانچ افراد کی دعوت کی تھی۔ایک زائد آدمی ہمارے ساتھ آگیا ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو یہ آجائیں ورنہ یہ واپس چلے جاتے ہیں۔میزبان نے بہت خوشی سے اجازت دے دی۔(بخاری)22
اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں مہمان نوازی کے اسلوب اور سلیقے سیکھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


حوالہ جات
1
ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الضیف:3665
2
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب النہی ان یقام عن الطعام:3285
3
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب الضیافۃ :3349
4
بخاری کتاب بدء الوحی
5
تفسیر طبری جلد19ص75 سورۃ الشعراء زیر آیت وانذرعشیرتک
6
ترمذی کتاب الاطعمۃ باب ماجاء ان المؤمن یاکل فی معی واحد:1741
7
سیرت الحلبیہ جلد3ص49بیروت
8
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی ترک الوضؤ من مسّت النار:160
9
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب فی قیام لیلۃ القدر
10
مثنوی مولانا روم مترجم دفتر پنجم ص20ترجمہ قاضی سجاد حسین
11
مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص426 مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐ
13
مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف
14
بخاری کتاب المناقب باب قول اللہ ویؤ ثرون علی انفسھم:3514
15
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الاحزاب
16
الوفاء باحوال المصطفیٰ ص764ابن جوزی مطبوعہ بیروت
17
مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص433بیروت
18
ابو داؤد کتاب ا لطہارت باب الاستنثار
19
بخاری کتاب الادب باب الزیارۃ و من زار قوماً فطعم عندھم
20
مسند احمد جلد4ص61مطبوعہ بیروت
21
مسند احمد بن حنبل جلد3ص123بیروت
22
بخاری کتاب الاطعمہ باب الرجل یتکلّف الطعام لاخوانہ

رسول اللہؐکی حبّ الوطنی
وطن سے محبت انسان کا ایک طبعی خاصہ ہے۔انسان جہاں پیدا ہوتا ہے،جس ماحول میں آنکھیں کھولتا ہے،جس سرزمین کی مٹی سے کھیلتا ہے اور جس دھرتی سے غذا حاصل کرتا ہے وہ اس کے لئے بمنزلہ ماں کے ہوجاتی ہے اور اس کی محبت انسان کے رگ و ریشہ میں رچ بس جاتی ہے۔ حبّ وطن قومی اور دینی فریضہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین کی خاطرترک وطن کرنے اور خدا کی راہ میں ہجرت کا بہت ثواب بیان ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں وطن چھوڑتا ہے، وہ زمین میں بہت جگہ اور وسعت پائے گا اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی خاطر ہجرت کر کے نکلتا ہے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔(سورۃ النساء :101)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ یعنی وطن کی محبت جزو ایمان ہے۔(سخاوی1)دینی فریضہ ہونے کے اعتبار سے وطن کی محبت انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے ،جن کا پورا کرنا ہر مومن کا فرض اولین ہے۔
حبّ الوطنی کا سچا تصور
آج کی دنیا میں حبّ الوطنی کے نام پر رنگ و نسل اور قوم و ملک کی غیرت وحمیت کو ہوا دی جاتی ہے ۔اس مقدس نام پرکمزوروں کے حقوق پامال کر لئے جاتے ہیں۔ اپنے وطن کی محبت کے مقابل پرغیروں اور ان کے وطن سے نفرت کی جاتی ہے۔ انہیں اپنے وطن سے محبت کا حق نہیں دیا جاتا۔قوموں اور ملکوں میں ترجیح و تفریق کا یہ رویّہ آج کے دور کی پیداوار تو ہوسکتی ہے۔ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآنی تعلیم کا صحیح اورسچا نمونہ ہمارے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ کی سیرت پر نظر ڈالیں تو حب الوطنی کے دینی مفہوم میں وسعت نظر آنے لگتی ہے جس کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ بانی ٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کیلئے رحمت ہیں۔آپؐ آفاقی نبی ہیں اور ساری زمین آپؐ کا وطن ہے۔آپؐ کی ہی یہ خصوصیت ہے کہ تمام روئے زمین آپؐ کے لئے پاک اور سجدہ گاہ بننے کے لائق قراردی گئی ہے۔اس لئے آپؐ روئے زمین کے ہر خطہ اور اس کے انسانوں سے بلا امتیاز رنگ و نسل محبت کرنے والے تھے۔آپؐ نے ہی قومی تفریق مٹانے کا یہ سبق دیا کہ سب انسان برابر ہیں اور رنگ و نسل یا عصبیت کی بناء پر کسی کوکسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔
پھر آپؐ نے ہر فرد کا اپنے وطن سے محبت کا جائز حق اور مکمل آزادی کاحق قائم فرمایا۔ پس وہ خطہ عرب جہاں ہمارے نبیؐ پیدا ہوئے اور وہ شہر جس کے گلی کوچوں میں آپؐ کا بچپن گزرا، وہ گھر اور وہ مکان جہاں آپؐ کے شب و روز بسر ہوئے، بلا شبہ آپؐ کی طبعی محبت کے زیادہ حقدار تھے اوریہ محبت اپنے موقع و محل پر خوب ظاہر ہوئی۔
دفاع وطن
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ حبّ وطن میں کمال توازن اوراعتدال پایا جاتا ہے۔آپؐ ہمیشہ حب الوطنی کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جب کبھی وطن یا اہل وطن پر کوئی مصیبت آئی، آپؐ نے آگے بڑھ کر اہل وطن کا ساتھ دیا۔آ پؐ کی عمر ابھی بیس سال تھی کہ آپؐ کی قوم اور قبیلہ قیس عیلان کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں بنو کنانہ اور قریش ایک طرف تھے اور قیس عیلان اور ہوا زن دوسری طرف۔ وطن پر اس مصیبت اور نازک صورت حال میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک عام سپاہی کی طرح فوج میںشامل ہوکر اپنے چچائوں کو تیر پکڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔(ابن ہشام)2
اہل وطن سے ہمدردی
نبی کریمؐ کی اہل وطن کے ساتھ محبت کا یہ عالم ہے کہ جب حقوق انسانی کے قیام،اور ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے حِلف الفضول کا معاہدہ ہوتا ہے۔تو آپؐ اس میں شریک ہوتے ہیں۔ دعویٰ نبوت کے بعد بھی آپؐ فرمایاکرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اس معاہدہ حِلف الفضول میں شریک ہوا تھا۔ اس بات کی مجھے اتنی خوشی ہے کہ اگر سرخ اونٹ بھی مجھے مل جائیں تو اتنی خوشی نہ ہواور اگر اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے اُس معاہدہ کی طرف بلایا جائے تو اس پرضرور عمل کروں گا۔(ابن ہشام)3
وطن اور اہل وطن کی جو محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جاگزیں تھی۔زمانہ نبوت سے قبل اس کے ا ظہار کا ایک اور منظر اس وقت سامنے آتا ہے جب عربوںکوظلم کا نشانہ بنانے والے ایرانیوں کے ساتھ رومیوں کی جنگ ہوئی تو عربوں نے رومیوں کی خوب مدد کی یہاں تک کہ رومی بالآخر فتح یاب ہوئے گویا عربوں کو ایرانیوں کے ظلم سے نجات ہوئی، اس روز اہل وطن کے چَین اور سکھ کا خیال کر کے خوش ہو کر ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ‘‘ کہ آج وہ دن ہے کہ جس میں عربوں نے اپنا حق آزادی حاصل کر لیا ہے‘‘(ابن سعد)4
خون کے آنسو
آج کے دورآزادی میں ذرا اس انسان کی مظلومیت کا تصور توکریں جسے اس کے شہر کے باسی اپنے وطن میں ہی رہنے نہ دیں بلکہ اس کے جان لیوا دشمن بن کر شہر سے نکلنے پر مجبور کریں،بلاشبہ آج ایسے شخص کو دنیا کا مظلوم ترین انسان کہا جائے گا۔مگر ہمارے پیارے رسولؐ نے تو خد اکی راہ میں یہ ظلم بھی راضی برضا ہوکربرداشت کیا۔
پہلی وحی کے بعدجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ ؓ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر آئیں تو انہوں نے وحی کی ساری کیفیت سن کر کہا تھا یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسٰی ؑپر اترا تھا۔ کاش! میں اس وقت جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے اس شہر سے نکال دے گی۔ذرا سوچواس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی کیا حالت ہوگی۔ جب آپؐ کے لئے اپنے دیس اپنے پیارے وطن سے نکالے جانے کاتصور ہی تکلیف دہ تھا جس کا کچھ اندازہ آپؐ کے اس تعجب آمیز جواب سے ملتا ہے جو آپ ؐنے فرمایا کہ ’’اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ‘‘ کیا میری قوم مجھے اپنے وطن سے نکال باہر کرے گی یعنی میرے جیسے بے ضرر بلکہ نفع رساں وجود کو جو اِن کے لئے ہر وقت فکر مند اور دعا گو ہے دیس سے نکال دیا جائیگا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟مگر ورقہ نے بھی ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ پہلے جس کسی نے بھی ایسا دعویٰ کیا اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا آیا ہے۔آپؐ کے ساتھ بھی یہی ہوگا۔(بخاری5)اورپھر وہی ہوا کہ وہ شاہ دوعالم جس کی خاطر یہ ساری کائنات پیدا کی گئی ۔ان کوایک دن اپنے وطن سے بے وطن کردیا گیا۔
ذرا سوچیں تو سہی وہ دن شاہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنا بھاری ہوگا، جب آپؐ اپنے آبائی وطن مکہ کے ان گلی کوچوں سے نکل جانے پر مجبور کردیئے گئے ۔ جس روز آپؐ مکہ سے نکلے ہیں اس روز آپؐ کادل اپنے وطن مکہ کی محبت میں خون کے آنسو رو رہا تھا ۔جب آپؐ شہر سے باہر آئے تو اس موڑ پر جہاں مکہ آپؐ کی نظروں سے اوجھل ہورہاتھا آپؐ ایک پتھر پر کھڑے ہوگئے اور مکہ کی طرف منہ کر کے اسے مخاطب ہو کر فرمایا ۔’’اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیار اوطن تھا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں ہر گز نہ نکلتا۔‘‘(احمد)6
مکہ کو یوں حسرت سے الوداع کہتے ہوئے آپؐ سفر ہجرت پر روانہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی بھی اپنے محبوب نبیؐ کے دلی جذبات پر نظر تھی اس لئے اسے پہلے ہی ترک وطن کی قربانی کیلئے تیار کر رکھا تھا اور قبل از وقت یہ دعا سکھادی تھی جس میں مکہ سے نکلنے کا ذکر بعد میں اور اس میں دوبارہ داخل ہونے کا ذکر پہلے کر کے تسلی دے دی تا دل کا بوجھ ہلکا ہو۔فرمایا:۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰناً نَّصِیْرً ا(بنی اسرائیل:81)یعنی اے نبی تو یہ دعا کرکہ’’ اے میرے رب مجھے نیک طور پر دوبارہ مکہ میں داخل کر اورنیک ذکر چھوڑنے والے طریق پر مکہ سے نکال اور اپنے پاس سے میر اکوئی مدد گار مقرر کر۔‘‘دراصل یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حب وطن کا جذبہ ہی تھا جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دلی تسلی کے لئے یہ آیت اتاری۔ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ(القصص:86)کہ وہ خدا جس نے آپؐ پر قرآن فرض کیا ہے وہ آپؐ کووطن میں ضرور واپس لائے گا۔سورۂ بلد میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے حبیب رسولؐ کے شہر کی قسم کھا کر آپؐ کو دلاسا اور تسلی دلاتے ہوئے پیشگوئی فرماتا ہے کہ آپؐ ایک روز اس شہر مکہ میں ضرور بر ضرور داخل ہوں گے۔(سورۃ البلد: 2)
اہل وطن کے لئے دعائیں
ہجرت مدینہ کے بعد بھی اپنے اہل وطن کی یاد اور محبت آپؐ کے دل میں باقی رہی آپؐ مسلسل ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ساری رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوکر یہ دعائیہ آیت پڑھتے رہے ’’ کہ اے اللہ ! اگر تو ان کفار کو عذاب دے تو آخر یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش د ے تو توُ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ (نسائی) 7
گویاآپؐ حکیمانہ تدبیروں سے کفار اور اہل وطن پر غلبہ کے خواہشمند تھے بربادی اور ہلاکت کی راہ سے نہیں ۔ایک دفعہ آپؐ نے دعاکی کہ اے اللہ ! ان کفار کے خلاف میری اس طرح مدد کر جس طرح یوسف ؑ کی ان کے بھائیوں کے خلاف قحط سے مدد کی تھی۔(جب وہ مطیع ہوکر دربار یوسف میں حاضر ہوگئے تھے) یہ دعا مقبول ہوئی اور مکہ میں اتنا سخت قحط پڑا کہ لوگ مردہ جانوروں کی ہڈیاں تک کھانے لگے۔ بھوک کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے دھواں ہی دھواں چھا جاتا تھا ۔کفار مکہ اس قحط سالی سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق جس طرح خد اکے ساتھ ہے مخلوق کے ساتھ بھی ہے ۔وہ محب وطن بھی بہت ہیں۔چنانچہ ابوسفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ آپؐ سے اہل وطن کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہے۔اے محمدؐ! آپؐ کی قوم ہلاک ہورہی ہے آپؐ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ بارشیں ہوں اور قحط سالی دور ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تو ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے فرماتے ہیں تم بڑے دلیر ہو کہ میرے انکار کے نتیجہ میں ہی تو یہ عذاب آیا ہے اوراس خدائے واحد پر ایمان لانے کی بجائے تم عذاب ٹلوانے کی درخواست دعا کرتے ہو۔مگر پھر آپؐ کے دل میں اہل وطن کی محبت کاکچھ ایسا خیال آیا کہ آپؐ نے قحط سالی کے دور ہونے اور بارش کے لئے دعا کی اور یہ دعا مقبول ہوئی۔بارشیں ہوئیں اور قحط دور ہوگیا۔مگر اہل مکہ پر جب خوشحالی کا دور آیا تو شرک ،بت پرستی اور مخالفت میںپھر مصروف ہوگئے۔یہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ (بخاری)8
اس قحط کے دوران حضورؐ نے مدینہ سے چندہ اکٹھاکر کے پانچ سو دینار بھی اہل مکہ کی امداد کے لئے بھجوائے تھے۔(السرخسی)9
یاد وطن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن مکہ سے جو گہری محبت تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے کہ جب غفار قبیلہ کا ایک شخص ہجرت کے بعد کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ آیا(یہ احکام نزول پردہ سے پہلے کا واقعہ ہے ) تو حضرت عائشہ ؓ نے اس سے پوچھا کہ مکہ کا کیا حال تھا اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے یہ جواب دیا کہ
’’سر زمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے اس کے چٹیل میدان میں سفید اِذْخَر گھاس خوب جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سنا تو آپؐ کو مکہ کی یادآئی اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔فرمایا’’ بس کرو اور مکہ کے مزید احوال بتا کر ہمیں غمگین نہ کرو۔دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا تو نے دلوں کو ٹھنڈا کردیا۔‘‘(سخاوی)10
امن کا سفیر
حدیبیہ کے موقعہ پر بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت شرائط کے مقابل پر نرمی اورصلح کی راہ اختیار کی تو اس کی ایک وجہ یہی تھی کہ جنگ و جدل کے نتیجہ میں اہل وطن کا جانی نقصان نہ ہو۔(بخاری)11
فتح حدیبیہ سے اگلے سال جب معاہدہ کے مطابق آپؐ عمرۃ القضاء کے لئے تشریف لائے تو مکہ میں صرف تین دن ٹھہرنے کی اجازت تھی۔ اس موقع پر حضرت میمونہ ؓ کی شادی آپؐ کے ساتھ ہوئی اور آپؐ کی خواہش تھی کہ مکہّ میں دعوت ولیمہ ہوجائے اور اہلِ وطن بھی اس میں شامل ہوں۔ آپؐ نے مکہ والوں کویہ پیغام بھی بھیجا کہ ایک دو روز اورمکہ میں رہ لینے دو اور دعوت میں تم سب لوگ شریک ہوجائو ۔انہوں نے اجازت نہ دی۔(بخاری12)مگر پھر بھی آپؐ کی اہل وطن سے محبت سرد نہ ہوئی۔
فتح مکہ کے موقعہ پر آپؐ کی ساری حکمت عملی اس کوشش کے لئے وقف تھی کہ مکہ والوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ آپؐ نہایت تیز رفتاری سے دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ پہنچے اور آپؐ کی یہ دلی آرزو پوری ہوئی۔ جس روزوہ شہر مکہ فتح ہواجہاںآپ ؐکو سخت اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ آپؐ کی طرف سے پورے شہرکیلئے امان اور معافی کا اعلان ہی سننے میں آیا۔ اہل مکہ کے ایک دستہ نے بدبختی سے ازخود حملہ میں پہل کر کے اپنے دو آدمی مروالئے۔(بخاری)13
مکّہ سے وفا
فتح مکہ پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن سے محبت کا اظہارکھل کر ہوا۔جب مکّہ میں آپ ؐکے قیام کا سوال ہوا کہ کہاں ٹھہریں گے۔؟ کیا اپنے پرانے گھروں میں ؟تو فرمایا ہمارے جدّی رشتہ داروں عقیل وغیرہ نے وہ گھر کہاں چھوڑے ؟بیچ بچا دیئے۔گویا فتح پاکر بھی اپنے ہی گھروں کوواپس قبضہ میں نہ لے کر اہل وطن کی لاج رکھ لی۔(بخاری)14
فتح مکہ کے موقعہ پر نبی کریم ؐ کے دل میں حبّ وطن کا جوشِ تلاطم جس طرح ٹھا ٹھیں مار رہا تھا ۔اس کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ میں ’’حَزُوْرَۃ‘‘ مقام پر کھڑے ہوئے (یہ جگہ مکہ کے بازار میں باب الحنّاطین کے پاس ہے) آپ ؐ اپنے پیارے وطن مکہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے۔’’اے مکہ !خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو اللہ کی سب سے بہتر اور پیاری زمین ہے اگر تیرے اہل مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں ہر گز نہ نکلتا۔‘‘(احمد)15
معلوم ہوتا ہے یہ بات انصار مدینہ تک بھی پہنچی ۔انہوں نے آپس میں سرگوشیاں کیں کہ رسول اللہؐ پر وطن کی محبت غالب آگئی ہے۔فتح کے بعد شاید رسول اللہؐ اپنے وطن میں ہی ٹھہرجائیں۔نبی کریمؐ کو اس کی اطلاع ہوئی آپؐ نے انصار کو کوہ صفا پر اکٹھا کر کے فرمایا ۔کیا تم نے ایسی بات کہی ہے ؟انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ؐسے محبت کے جذبہ کے تحت ایسا کہا ہے۔رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔(مسلم16)پھر آپؐنے فرمایا کہ اے انصارر مدینہ! اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہوچکا ہے۔(ابن ہشام)17
آخری بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے۔اس مرتبہ پھر وطن کی یادیں عود کر آئیں ۔عبدالرحمان بن حارثؓ کہتے ہیںمیں نے آپؐ کو اپنی سواری پر بیٹھے یہ کہتے سنا کہ’’ اے مکہ خد اکی قسم تو بہترین وطن اور اللہ کی پیاری زمین ہے۔اگر میں تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہر گز نہ نکلتا۔‘‘ عبدالرحمان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے کاش ! اب ہم ایسا کرسکیں اور آپؐ مکہ لوٹ آئیں یہ آپؐ کی پیدائش کا مقام اور پروان چڑھنے کی جگہ ہے۔ رسول اللہؐنے فرمایا’’ میں نے اپنے ربّ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنی پیاری سرزمین سے نکالا ہے تو اپنی کسی اور محبوب سر زمین میں ٹھکانہ عطا کر۔ اب خدانے مجھے مدینہ میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔‘‘(حاکم)18
مدینہ وطن ثانی
پھر جب خدا کی تقدیر نے مدینہ کو آپؐ کا وطن ثانی بنادیا تو اس سے بھی محبت اور وفا کا حق ادا کر دکھایا۔اہل مدینہ کی سعادت کہ خدا کے نبی کوخوش آمدید کہا تو ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مدینہ اور وہاں کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن ثانی بننے کے بعداس سے بڑھ کر ملاجواُن کاحق تھا۔مدینہ کو پہلے یثرب نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔جس میں سرزنش کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد یہ شہر مدینۃ الرسول یعنی شہر رسولؐ کہلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بڑے پیارسے فرمایا کرتے تھے کہ لوگ تو اسے یثرب کہتے ہیں مگر یہ تو مدینہ ہے جو اس طرح لوگوں کو صاف کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی میل کو صاف کردیتی ہے یعنی مدینہ کا پاکیزہ ماحول اور نیک صحبتیں اثر انگیز ہیں۔آپؐنے شہر مدینہ کی حرمت قائم کی اور فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑنے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں یعنی اس میں جنگ و جدل اور خون خرابہ جائز نہیں۔(بخاری)19
مدینہ کے لئے دعائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے توشروع میں یہاں کی آب و ہوا صحابہ کو موافق نہ آئی اور ان کو بخار آنے لگا۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے۔
’’اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ایسی ڈال دے جیسے مکہ ہمیں محبوب ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مدینہ کو محبوب کردے۔اے اللہ! مدینہ اور اس کے اہل کے رزق میں فراوانی عطا کر اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے صحیح کردے۔ اس کے وبائی بخار کو کہیں دور لے جا اور مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکات رکھ دے۔‘‘(بخاری)20
پھر اس وطن ثانی سے رسول اللہؐ اور آپؐ کے صحابہ کو ایسی محبت ہوئی کہ مدینہ سے جدائی طبیعت پر گراں گزرتی تھی۔صحابہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ؐکسی سفر سے تشریف لاتے اور مدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو مدینہ کی محبت کے باعث اپنی سواری کو ایٹر لگا کر تیز کردیتے۔ (بخاری)21
آخری سالوں میں آپؐ تبوک کی مہم کے سلسلہ میں ایک ماہ کے قریب مدینہ سے باہر رہے تھے۔واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ کے ارد گرد کے ٹیلوں کے قریب پہنچے،جونہی مدینہ پر نظر پڑی عجب وارفتگی کے عالم میںبے اختیار فرمانے لگے۔’’ھٰذِہٖ طَابَۃُ ‘‘ لو ہمارا پاک شہر مدینہ آگیا۔مدینہ آگیا۔(بخاری22)آپؐ مدینہ کو طابہ یا طَیبہ بھی کہتے تھے جس کے معنی پاک اور پاک کرنے والے کے ہیں۔
اسی طرح رسول کریمؐ جب غزوۂ خیبر میں فتح حاصل کرنے کے بعدمدینہ تشریف لارہے تھے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر فرط مسَرت میں سواری کو ایڑ لگائی اور تیز کر لیا۔ جب دور سے پہاڑ احد پر نظر پڑی تو بے اختیار وادی مدینہ کی محبت میں سر شار ہوکر کہہ اٹھے وادی اُحد یعنی مدینہ کو ہم سے محبت ہے اور یہ ہمیں بہت پیاری ہے۔(بخاری)23
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدینہ سے محبت دیکھ کر حضرت عمر ؓ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے موت آئے تو تیرے پاک رسول ؐ کے شہر مدینہ میں آئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رسول کریمؐ کی پاک سیرت کے نمونوں کی روشنی میں وہ ہمیں اپنے وطن کی ایسی سچی محبت عطا کرے، جو ہم وطن کی خاطر خدمت اور قربانی کے سب حق پورے کرنے والے ہوں اور اپنی کسی حق تلفی کے نتیجہ میں اپنے وطن یا اہل وطن کی حق تلفی کرنے والے نہ ہوں۔ اگر ہم اور کچھ نہیںکرسکتے تو اپنے وطن کے لئے درد دل سے دعائیں ہی کریں کہ اللہ تعالیٰ خود اس کا محافظ ہو اور جس نام پر یہ سر زمین حاصل کی گئی تھی خدا کرے کہ وہ مقصد حقیقی طور پر پورا ہو۔





حوالہ جات
1
المقاصد الحسنۃ از علامہ عبدالرحمن سخاوی دارالکتب العربیۃ
2
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص198مطبوعہ مصر
3
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص142مطبو عہ مصر
4
الطبقات الکبری ابن سعد جلد7ص77بیروت
5
بخاری بدء الوحی
6
مسند احمد جلد4ص305بروت
7
نسائی کتاب الافتتاح باب تردیدا لآیۃ
8
بخاری کتاب التفسیر سورۃ دخان
9
المبسوط للسرخسی جلد10ص92
10
المقاصد الحسنہ از سخاوی ص298بیروت
11
بخاری کتاب المغازی باب صلح حدیبیہ
12
بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء
13
بخاری کتاب المغازی باب این رکض النبیؐ الرایۃ
14
بخاری کتاب الحج باب توریث دورمکۃ
15
مسنداحمد بن حنبل جلد4ص305بیروت
16
مسلم کتاب المغازی باب فتح مکہ
17
السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد2ص95بیروت
18
مستدرک حاکم علی الصحیحین جلد3ص278بیروت
19
بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب حرم المدینۃ والمدینۃ تنفی الخبث
20
بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب12
21
بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب10
22
بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب المدینۃ طابۃ
23
بخاری کتاب المغٓازی باب احد یحبناو نحبہ

رسول اللہؐ کا استقلال اور استقامت
خداتعالیٰ کے مامور اور فرستا دے دنیا کے معزز اور شریف ترین انسان ہوتے ہیں ،جن کی سچائی امانت و دیانت اور شرافت کا ایک زمانہ گواہ ہوتا ہے۔مگر جب وہ گمراہ معاشرے کو خدا کی طرف سے پیغام حق پہنچاتے اور نیکی و سچائی کی تعلیم دیتے ہیں تو بدی کے پرستار اور بدخو اہل دنیا ان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں،ان کا تمسخر اُڑاتے اور اذیتیں دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے رویّے پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے:۔
’’وائے افسوس بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔‘‘(یٰسٓں:31)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔اللہ تعالیٰ آپؐ کو تسلی کے رنگ میں فرماتا ہے۔’’تجھے صرف وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھیں‘‘(حٰمٓ السجدۃ:44)
یعنی اُن کے ساتھ بھی اسی طرح کا تمسخروا ستہزاء اور اسی قسم کے اعتراض کئے جاتے تھے۔مگر ان تمام اذیتوں پر آپؐ کو صبر اور استقامت کی تلقین کی گئی چنانچہ فرمایا۔’’تو اسی دین کی طرف لوگوں کو پکار اور استقلال سے قائم رہ جیسا تجھے کہا گیا ہے۔ اور انکی خواہشوں کی پیروی نہ کر۔‘‘(سورۃالشوریٰ:16)
نیز فرمایا’’پس اے نبی ! تو بھی اسی طرح صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسول تجھ سے پہلے صبر کر چکے ہیں۔‘‘(سورۃالاحقاف:36)
اسی طرح فرمایا’’تمہیں اپنی جانوں اور مالوں کے بارہ میں ضرور آزمایا جائے گا۔اور تم ضروران لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یقینا یہ ہمت والے کاموں میں سے ہے۔‘‘
(سورۃ آل عمران:187)
سلسلہ انبیاء میں ہمارے آقا و مولا محمد مصطفٰےؐ سب سے زیادہ آزمائے گئے۔ آپؐ نے زبانی اذیتیں بھی سن کر برداشت کیں اور جسمانی دکھ بھی سہے۔ اور یہ تمام مصائب خدا کی راہ میں خوشی سے جھیلے۔کبھی ماتھے پر کوئی شکن یا زبان پرکوئی شکوہ نہیں لائے بلکہ بڑی شان اور وقار کے ساتھ اس راہ پرگامزن رہے اور اعلیٰ درجے کی استقامت کا نمونہ دکھلادیا۔
ہمارے آقاؐ کیسے کوہ و قاروہ انسا ن ہیں جن کو معاذ اللہ شاعر، دیوانہ، جادوگراور کذّاب کہہ کر ہر گندی گالی دی جاتی ہے،مگروہ نہ صرف یہ دشنام دہی برداشت کرتے ہیں بلکہ ان دشمنانِ دین کے لئے دعا گو ہیں کہ اے اللہ میری قوم کو بخش دے یہ جانتے نہیں۔(بخاری)1
شدائدو آلام کے اس زمانے میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کو تلقین صبر، تائید و نصرت کی یقین دہانی اور حفاظت کے وعدے نہ ہوتے تو مشکلات کے وہ پہاڑ کیسے عبور ہوتے اللہ تعالیٰ آپؐ کو قدم قدم پر تسلی دیتا تھا۔ کبھی استہزاء کرنے والوں کے بارہ میں یہ فرماکر کہ ’’ہم خوداُن تمسخر کرنے والوں کے لئے کافی ہیں۔‘‘(سورۃالحجر:96)یعنی ان سے نپٹ لیں گے اور تجھے ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔ تو کبھی یہ کہہ کر اطمینان دلایا جاتا کہ’’ اللہ تعالیٰ تجھے ان کے حملوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘(سورۃالمائدۃ:68)
وہ استہزاء کرنے والے جب آپؐ کے پاک نام محمدؐ کو (جس کے معنے ہیں تعریف کیا گیا) بگاڑ کر مذممّ (یعنی قابل مذمت) کہا کرتے تو آپؐ فرماتے۔دیکھو اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح ان کی گالیوں اور دشنام دہی سے بچا لیتا ہے۔یہ کسی مذممّ کو گالیاں دیتے ہیںجبکہ میر انام خدا نے محمدؐ رکھا ہے۔ (بخاری)2
کفار مکہ نے رسول اللہؐ کو اذیت دینے کے لئے جو مختلف طریق آزمائے وہ نہایت ظالمانہ ،شرمناک اور انسانیت سوز تھے۔ مگر یہ تمام حربے رسول اللہؐ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کرسکے۔ ایک ہتھکنڈا دشمن نے یہ آزمانا چاہا کہ رسول اللہؐ کی بیٹیوں کو جن کے نکاح قریش میں ہوچکے تھے طلاق دلوائی جائے۔چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے عتبہ بن ابولہب کو اس پر آمادہ کیا۔ جس نے رسول اللہؐ کی بیٹی حضرت رقیہؓ کوطلاق دے دی۔(ابن ہشام)3
ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کا نکاح رسول اللہ ؐ کی بیٹی ام کلثوم ؓسے ہواتھا۔ابولہب نے اس پر بھی دبائو ڈال کر طلاق دلوادی۔ (ابن سعد)4
رسول کریمؐ کو آزادانہ نماز پڑھنے کی بھی آزادی نہ تھی۔ چنانچہ نماز عصر کے وقت آپؐ مختلف گھاٹیوں میں جاکر اکیلے یا دو دوکی صورت میں چھپ کر نماز اداکرتے۔(حاکم)5
ان مظالم میں ابوجہل پیش پیش تھا۔ جو اپنی ریاست کے بل بوتے پر نومسلموں کو ذلیل و رسوا کرتا اور طرح طرح کی دھمکیاں دیتا۔ اگر وہ نومسلم تاجر ہوتا تو اسے بائیکاٹ کی دھمکی دی جاتی اگر بے چارہ کسی کمزور قبیلہ سے ہوتا تو اسے مارتے پیٹتے۔(ابن ہشام)6
شروع میں تو حضرت ابوبکر، طلحہؓ، عثمانؓ اور زبیرؓ مصعبؓ بن عمیر جیسے شرفاء بھی ان اذیتوں کا نشانہ بنے۔ جن سے مشرکین مکہ بالآخر مایوس ہوئے۔مگر جو مظالم حضرت بلالؓ، خاندانِ یاسر اورحضرت خبابؓ پر توڑے گئے ان کو سن کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حضرت بلال ؓ امیہ کے غلام تھے۔ وہ آپ کو تپتی ہوئی زمین پر پشت کے بل لٹا دیتا پھر ایک بھاری بھرکم پتھر اس معصوم کے سینے پر رکھا جاتا اور کہتا محمدؐ کا انکارکرو اور لات و عزّیٰ بتوں کی عبادت کرو۔ورنہ اسی حال میں مرجائو گے۔مگر استقامت کے اس شہزادے کی زبان پر اس حال میں بھی اَحد اَحد کے الفاظ جاری رہتے تھے کہ خدا ایک ہے خدا ایک ہے۔ رسول اللہ ؐ سے اپنے صادق اور راست باز غلام کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی ایک روز اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ہم بلالؓ کوآزاد کراسکتے۔ حضرت ابوبکرؓ کو یہ سعادت عطا ہوئی کہ آپ نے انہیں آزاد کروایا۔(ابن سعد)7
حضرت یاسرؓ ان کی بیوی سمیہؓ اوربیٹا عمارؓ قریش کے قبیلہ بنومخزوم کے غلام تھے ان کو بھی مکے کے تپتے ہوئے میدان میں سخت گرم دوپہر میں لے جاکر اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ حضورؐ انہیں صبر کی تلقین کرتے اور فرماتے اے خاندان یاسرصبرکرو۔ میں تمہیں جنت کا وعدہ دیتا ہوں۔ حضرت عثمان ؓ فرماتے تھے ایک دفعہ میں رسول اللہ ؐکے ساتھ مکہ کے پتھریلے میدان سے گزرا تو عمار اس کے والد اور والدہ کو ان لوگوں نے عذاب میںمبتلا کررکھاتھا۔ رسول اللہؐ کو دیکھ کر یاسرؓ نے صرف اتنا کہا یارسول اللہؐ اب زندگی اسی طرح ہی گزارنی ہوگی۔ نبی کریمؐ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا صبر کرو اے یاسر صبر کرو۔ پھرآپؐ نے دعا کی اے اللہ! یاسر کے خاندان کو بخش دے اور تو ان کو بخش ہی چکا ہے۔(احمد8)بالآخر ابوجہل نے نیزہ سے حضرت سمیہؓ کو شہید کرڈالا تھا۔(ابن سعد9)یہی حال خبابؓ، صہیبؓ،عامرؓ،ابوفکیہہؓ کا تھا۔
خبابؓ کو آگ جلا کر اس میں ڈالاگیا۔دہکتے کوئلوں کو ان کی پشت کی چربی نے ٹھندا کیا ورنہ وہ ظالم تو سینے پر پائوں رکھ کر کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ پشت پر جلنے کے نشان ہمیشہ کے لئے باقی رہ گئے۔(ابن سعد)10
حضرت خباب ؓ بیان کرتے ہیں کہ بالآخر ہم نے ایک دن رسول اللہؐ سے جاکر ان مظالم کی شکایت کی کہ کیا آپؐ ہماری مدد نہیں کریں گے اور ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو گڑھے کھود کر ان میں دفن کردیا جاتا تھا اور سر پر آری چلاکر دو ٹکڑے کردیا جاتا تھا مگر یہ چیز انہیں اپنے دین سے نہ ہٹا سکی۔ لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت ہڈیوں سے نوچ لئے گئے مگر یہ بات بھی انہیں دین سے جدا نہ کرسکی۔ خدا کی قسم! اللہ اپنے اس دین کو غلبہ بخشے گا اور صفاء سے حضر موت تک کسی مسافرسوار کے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ مگر تم جلدی کرتے ہو۔(بخاری)11
رسول اللہؐ کی ذات بابرکات بھی ان ظالموں کے تمسخر اور استہزاء سے محفوظ نہ تھی۔ ابولہب کی بیوی ام جمیل آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھادیتی۔ ہاتھ میں پتھر لے کر رسول اللہؐ پر حملہ کرنا چاہتی مگر اللہ تعالیٰ آپؐ کی حفاظت فرماتا تھا۔ (ابن ہشام)12
رسول اللہؐ کو گھر میں چین نہ لینے دیتے ۔آپ ؐ کی ھنڈیا پک رہی ہوتی تو اُس میں غلاظت پھینک دیتے۔نماز پڑھتے ہوئے دشمن کے امکانی حملے سے بچنے کے لئے رسول اللہؐ ایک چٹان کو ڈھال بناکر کھڑے ہوتے۔(ابن ہشام)13
اُم جمیل رسول اللہؐ کوگالیاںبکتی اور کہتی تھی ہم نے مذمم کا انکارکردیا ہے۔ اس کے دین سے ہم بیزار ہیں اور اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔(حاکم)14
اُمیہ بن خلف رسول اللہ ؐ کواعلانیہ بھی گالیاں دیتا اور اشاروں میں بھی ایسی حرکات کرکے آپؐ کو تمسخر کا نشانہ بناتا۔
ابی بن خلف گلی سڑی ہڈی اٹھا کر لایا اسے ہاتھ سے مسل کر حضورؐ کی طرف پھونک مارکر کہنے لگا اے محمدؐ تم کہتے ہو اس طرح گل سڑ جانے اور مٹی ہوجانے کے بعد ہم پھر اُٹھائے جائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ تم سب کو اُٹھائے گا اور پھر آگ میں داخل کرے گا۔(ابن ہشام)15
عاص بن وائل رسول اللہ ؐ کو بے اولاد ہونے کے طعنے دیتا۔ ولید بن مغیرہ کہتا ہے اگر فرشتہ اترنا ہی تھا تو ہمارے جیسے شہر کے کسی بڑے سردار پر اترتا۔(ابن ہشام)16
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد تو رسول اللہؐ کو ایذا دہی کا سلسلہ بہت تیز ہوگیا۔ یہاں تک کہ آپؐ کی ذات پر حملے ہونے لگے ایک بدبخت نے آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی۔ رسول کریمؐ اس حالت میں گھر تشریف لائے آپ کی لخت جگر مٹی بھرا سردھوتی تھیں اور ساتھ روتی جاتی تھیں اور رسول اللہؐ اسے تسلی دیتے ہوئے فرماتے تھے بیٹی! رونا نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے۔ پھرفرمایا قریش نے میرے ساتھ ابوطالب کی وفات کے بعد بدسلوکی کی حدکردی ہے۔(ابن ہشام)17
الغرض ابوطالب کی وفات کے بعد قریش رسول اللہؐ کو دکھ پہنچانے کا کوئی حیلہ یا بہانہ ضائع نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہؐ نے ایک دفعہ ابوطالب کی کمی محسوس کرتے ہوئے فرمایااے میرے چچا! آپ ؐ کی جدائی مجھے کس قدر یادآتی ہے۔(ھیثمی)18
ایک روز تو قریش نے رسول کریمؐ پر مظالم کی حد کردی ۔ آپؐ گھرسے باہر نکلے تو جو بھی ملا وہ آزاد تھا یا غلام اس نے آپؐ کی تکذیب کی اور ایذار سانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ رسول اللہ ؐ مغموم ہوکر واپس لوٹے اور چادر اوڑھ کر لیٹ رہے تب حکم ہوا کہ اے چادر اوڑھے ہوئے اُٹھ اور لوگوں کو انذارکرو۔(ابن ہشام)19
امر واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدائد و آلام کا حال اصحاب رسول نے بہت کم بیان کیا ،کیونکہ ایک طرف یہ مضمون سخت تکلیف دہ اور اذّیت ناک تھا تو دوسری طرف ادب رسولؐ کا بھی تقاضا تھا کہ یہ تذکرے عام نہ ہوں۔خود نبی کریم ؐ کمال صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے کبھی بھی از خود ان شدائد و آلام کے قصّے نہیں سناتے تھے۔گھریلو ماحول میں کبھی بات ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ کوایک دفعہ اتنا بتایا،’’میں (مکہ میں ) دو بدترین ہمسایوں ابو لہب اور عقبہ بن ابی مُعیط کے درمیان رہتا تھا یہ دونوں گو براُٹھا کے لاتے اور میرے دروازے پر پھینک دیتے، حتّٰی کہ اپنے گھروں کی غلاظت بھی میرے دروازے پر ڈال جاتے۔ ‘‘آپ ؐ باہر نکلتے توصرف اتنا فرماتے اے عبدمناف کی اولاد!’’ یہ کیسا حق ہمسائیگی تم ادا کرتے ہو؟‘‘پھر آپؐ اس گند کوخود راستہ سے ہٹا دیتے۔(حلبیہ)20
رسول اللہؐ کو طواف کعبہ سے بھی روکا جاتا تھا۔کبھی بیت اللہ میں داخل ہوکر دو رکعت نمازپڑھنا چاہی تو اس سے بھی منع کردیئے گئے۔عروہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ قریش نے آنحضرت ؐ کو جو سب سے بڑا دکھ پہنچایا اور آپ نے دیکھا ہو وہ سنائیں۔عبداللہ بن عمروؓ نے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ خانہ کعبہ میں قریش کے سردار جمع تھے اور میں بھی موجود تھا۔ وہ کہنے لگے اس شخص کو جتنا ہم نے برداشت کیا ہے آج تک کسی اور کو نہیں کیا۔ اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے باپ دادا کو برا بھلا کہا، ہمارے دین کو خراب قرار دیا ، ہماری جمعیت میں تفرقہ ڈال دیا اور ہمارے معبودوں کو گالیاں دیں،ہم نے اس کی باتوں پرحد درجہ صبر کیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپؐ نے آکر حجرا سود کو بوسہ دیا پھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے۔ اس دوران اُن سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دعوے کا ذکر کر کے آپؐ پر اعتراض کے رنگ میں آنکھ سے اشارہ کیا، جس کا اثر میں نے آپ ؐ کے چہرے پر دیکھا۔پھر جب آپ ؐ دوسری دفعہ گزرے تو انھوں نے اسی طرح طعن کیا اور میں نے رسول اللہؐ کے چہر ے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے طواف کے تیسرے چکر میں بھی سردارانِ قریش نے یہی حرکت کی۔آپؐ نے بڑے جلال سے انھیں مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’اے قریش کی جماعت سُن لو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔میں تمھیں ہلاکت کی خبر دیتا ہوں۔ ‘‘میں نے دیکھاکہ اس بات کا لوگوں پر اتنا اثر ہوا جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ یہاں تک کہ ان میںسے سختی کی تحریک کرنے والابھی نرمی سے کہنے لگا کہ’’ اے ابو القاسمؐ آپؐ تشریف لے جائیں۔ خدا کی قسم آپؐ جاہل نہیں ہیں۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔اگلے دن سردارانِ قریش خانہ کعبہ میں پھر جمع ہوئے اور میں ان کے ساتھ تھا۔وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کل جو واقعہ گزرا ہے اس کے جواب میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا اس کے باوجود تم نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ رسول اللہؐ تشریف لائے۔ سب آپؐ کی طرف لپکے۔ آپؐ کو گھیر لیا اور کہنے لگے آپ ہمیں یہ یہ کہتے ہو۔ہمارے معبودوں کو اور ہمارے دین کو خراب قرار دیتے ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہربات کا جواب دیتے جارہے تھے۔اتنے میں ایک شخص نے آپؐ کی چادر کو پکڑا اور اس کو بل دے کر آپؐ کا گلاگھونٹنے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ آڑے آئے اوراس شخص کو پیچھے ہٹایااور روتے ہوئے کہا ’’ تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔‘‘ یہ واقعہ سناکر عبداللہؓ بن عمرو کہنے لگے یہ ایک سخت ترین اذیت ہے جو میں نے رسول اللہؐ کو قریش سے پہنچتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔(احمد )21
ایک روز سردارانِ قریش خانہ کعبہ کے پاس مقامِ حجر میں جمع ہوئے۔ لات و منات اور عزیٰ کی قسمیں کھاکر کہاکہ آج کے بعد اگر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا تو ایک شخص کی طرح سب مل کر حملہ آور ہوں گے اور دم نہ لیں گے جب تک کہ ان کو قتل نہ کردیں۔
حضرت فاطمہؓ کو پتہ چلا تو آپ روتی ہوئی اپنے بزرگ باپؐ کے پاس تشریف لائیں۔ عرض کیا کہ آپؐ کی قوم کے سرداروں نے ایسی قسمیں کھائی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص آپؐ کے خون کا پیاسا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اے میری بیٹی مجھے ذرا وضو کا پانی دینا۔‘‘پھرآپؐ وضو کر کے بیت اللہ تشریف لے گئے، جہاں وہ سب سردار براجمان تھے۔ آپؐ کو دیکھتے ہی وہ سب بیک زبان ہوکر بولے ’’لو وہ آگیا‘‘۔مگر کسی کو کھڑا ہوکر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔سب کی آنکھیں جھک گئیں اور کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا، حتّٰی کہ آپؐ کی طرف آنکھ تک اٹھانے کی جرأت کسی کو نہ ہوسکی۔تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جاکر ان کے پاس کھڑے ہوگئے،عین ان کے سروں کے اوپر۔ آپ ؐنے مٹی کی ایک مٹھی بھرکر اُن کی طرف پھینکی اور بآواز بلند فرمایا’’شَاھَتِ الوُجُوْہُ‘‘ (یعنی رسواہوگئے چہرے)ابن عباسؓ کہتے ہیں ’’ان سردارانِ قریش میں سے جس تک بھی وہ خاک پہنچی وہ بدر کے روز قتل ہوکر ہلاک ہوا۔‘‘(بیہقی )22
ایک دفعہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں تو آپؐ کی گردن دبوچ کے رکھ دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجب جلال کے ساتھ فرمایا اگر وہ ایسا کرے گاتو فوراً فرشتے آکر اس پر گرفت کریں گے۔(بخاری)23
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آزادی سے خدا کی عبادت کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ آپؐ عبادت کرتے ہوئے بھی اذیتوں کا نشانہ بنائے گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے۔ان میں ایک دوسرے سے کہنے لگا تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے میں ذبح ہونے والی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پشت پر اس وقت رکھ دے جب وہ سجدہ کرے۔تب لوگوں میں سے بدبخت انسان عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہا جب نبی کریمؐ نے سجدہ کیا تو اس نے وہ گند بھری بچہ دانی آپؐ کے کندھوں پر رکھ دی۔ عبداللہ بن مسعودؓ (جو ایک کمزور قبیلہ کے فرد تھے)کہتے ہیں، میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان سرداروں کی موجودگی میںرسول اللہؐ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔اے کاش! مجھے بھی طاقت حاصل ہوتی اور میں آپؐ کے لئے کچھ کرسکتا۔
ادھر سردارانِ قریش رسول اللہؐ کی یہ حالت زار دیکھ کر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ رسول اللہؐ سجدہ کی حالت میں پڑے ہوئے سر نہ اٹھا سکتے تھے۔یہاں تک کہ حضرت فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے آپؐ کی پشت سے وہ گند ہٹایا تو آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا’’اے اللہ ! تو قریش پر گرفت کر۔‘‘(بخاری )24
ایذا رسانی پر صبر و استقامت
عَمرو حضرت عثمان ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش سے پہنچنے والی اذیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ قریش نے رسول اللہؐ کو بہت ہی ایذائیں دیں۔عمرو ؓکہتے ہیں کہ یہ کہہ کروہ تکالیف یاد کر کے حضرت عثمان ؓ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ پھر کچھ سنبھل کر اپناچشم دیدواقعہ بیان کرنے لگے کہ’’ ایک دفعہ رسول کریمؐ خانہ کعبہ کا طواف فرمارہے تھے۔ آپؐ کا ہاتھ ابوبکر ؓ کے ہاتھ میں تھا اور صحن کعبہ میں قریش کے تین سردار عقبہ بن ابی مُعَیط، ابوجہل اور امیہ بن خلف بیٹھے تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ جس کا ناگوار اثر میں نے حضورؐ کے چہرے پر محسوس کیا۔چنانچہ میں حضورؐ کے اور قریب ہوگیا۔حضورؐ میرے اور ابوبکرؓ کے درمیان آگئے۔ آپ ؐ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ میں ڈال لیں۔ ہم نے اکٹھے طواف کیا۔ جب اگلے چکر میں ہم ان کے پاس سے گزرے۔ابو جہل کہنے لگا ’’ہماری تم سے مصالحت قطعی ناممکن ہے۔تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو۔ جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ ہاں میری یہی تعلیم ہے۔‘‘
طواف کے تیسرے چکر میں جب حضورؐ ان کے پاس سے گزرے تو پھر انہوں نے ایسی ہی نازیبا حرکات کیں۔چوتھے چکر میں وہ تینوں اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ پہلے ابو جہل لپکا وہ رسول اللہؐ کو گلے سے پکڑ کر دبوچنا چاہتا تھا۔ میں نے اُسے سامنے سے روک کر دھکا دیا۔ وہ پشت کے بل پیچھے جاگرا۔ حضرت ابوبکرؓ نے امیہ بن خلف کو پیچھے دھکیلا اور خود رسول اللہ ؐنے عقبہ بن ابی معیط کو ۔ اسکے بعد وہ وہاں سے چلے گئے۔ رسول اللہؐ وہاں کھڑے فرمارہے تھے ’’خدا کی قسم ! تم باز نہیں آئو گے یہاں تک کہ بہت جلد تم پر اللہ کی سزا اور گرفت اترے گی۔‘‘
حضرت عثمانؓ فرماتے تھے کہ خدا کی قسم میں نے دیکھا ان میں سے ہر ایک خوف سے کانپ رہا تھا اور رسول اللہؐ فرمارہے تھے’’ تم اپنے نبی کی کتنی بری قوم ثابت ہوئے ہو‘‘۔ پھر حضورؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور دروازہ میں داخل ہونے کے بعد کھڑکی سے ہماری طرف رخ کر کے فرمایا’’تمہیں بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب اور اپنی بات پوری کر کے چھوڑے گا اور اپنے نبی کی مدد کرے گا۔اور یہ لوگ جن کو تم دیکھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں بہت جلد تمارے ہاتھوں سے ہلاک کرے گا۔‘‘
پھر ہم اپنے گھروں کو چلے گئے۔حضرت عثمانؓکہتے تھے پھر میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا نے ان لوگوںکو ہمارے ہاتھوں سے ہلاک کیا۔(فتح )25
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جبریل ؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپؐ مکہ سے باہر نکل رہے تھے۔اہل مکہّ نے آپؐ کو لہولہان کردیا ہوا تھا۔ جبریل ؑنے پوچھا ’’ آپؐ کو کیا ہوا؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ ان لوگوں نے مجھے خون آلود کر کے چھوڑا ہے اور یہ یہ بدسلوکی میرے ساتھ کی ہے۔‘‘ جبریل ؑنے کہا کہ آپؐ چاہتے ہیں کہ میں ان کو ایک نشان دکھائوں آپؐ نے فرمایا ہاں! جبریل ؑ نے کہا اس درخت کو بلائیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا وہ زمین پر نشان چھوڑتا ہوا آپؐ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ جبریل ؑنے کہا ’’اب اسے واپس پلٹ جانے کا حکم دیجئے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واپس اپنی جگہ پر لوٹ جائو تو وہ واپس ہوگیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس میرے لئے کافی ہے۔(بیھقی)26
یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتداری نشان بھی ہوسکتا ہے جس طرح پانی یا کھانا بڑھنے کے معجزات آپؐ سے ثابت ہیں۔یا پھریہ ایک لطیف کشفی نظارہ ہوسکتا ہے۔ جس میں تمثیلی زبان میں یہ پیغام تھا کہ اگر خدا چاہے تو اہل مکہ کو اس طرح مجبور کرکے آپؐ کے آگے جھکادے جس طرح یہ درخت آپؐ کے بلانے پر چلا آیا ہے۔مگر خدا تعالیٰ دین میں جبر و اکراہ روا نہیں رکھتا۔البتہ جن طبائع میں نرمی اور لچک ہے وہ ایک دن ضرور آپؐ کی آواز پر لبیک کہیں گی۔اس نظارے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دلی طور پرایسی تسلی ہوئی کہ فرمایا بس میرے لئے یہ کافی ہے۔
اسیرراہِ مولیٰ
قریش مکہ کی طرف سے مظالم کے تمام حربے آزمالینے کے باوجود رسول اللہ ؐ کی استقامت ان کے لئے ایک حیران کن امر تھا۔ چنانچہ انہوں نے اجتماعی طورپر رسول اللہ ؐ کے قتل کا فیصلہ کیا اور اس سے اختلاف کی صورت میں رسول اللہؐ کا ساتھ دینے والے آپؐ کے سارے خاندان کے ساتھ بائیکاٹ طے کیا گیا۔ کہ ان کے ساتھ شادی بیاہ، خرید وفروخت اور میل جول سب بند کردیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہؐ کو قتل کرنے کے لئے ان کے حوالے نہ کردیں۔(ابن سعد)27
جب قریش نے دیکھا کہ بنوہاشم کے تمام لوگ مسلمان اور کافر رسول اللہ کاساتھ دینے پر آمادہ ہیں تو انہوں نے اپنے بازار ان پر بند کردیئے۔
ادھر ابو طالب اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے انہیں غلہ اور کھانے پینے کے سامان کی خرید وفروخت سے کلی طور پر روک دیا۔ ہر قسم کا سامان تجارت وہ ان سے پہلے جاکر خریدلیتے مقصد یہ تھا کہ وہ رسول اللہؐ کو ان کے سپرد کردیں ورنہ یہ ان کو فاقوں اور بھوک سے ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔
شعب ابی طالب میں اس تین سالہ محصوری کے زمانہ میں بعض لوگ رقم لے کر غلہ خریدنے بازار جاتے اور کوئی انہیں سودا دینے پر راضی نہ ہوتا اوروہ خالی ہاتھ لوٹ آتے یہاں تک کہ بعض لوگ فاقوں سے وفات پاگئے۔(ابو نعیم)28
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیںایک رات میں پیشاب کرنے کے لئے اُٹھا۔ پیشاب کے نیچے کسی چیز کی آواز آئی دیکھاتو اونٹ کی خشک کھال کا ایک ٹکڑا تھا۔ جسے اُٹھاکر میں نے دھویا، اسے جلایا پھر پتھر پر رکھ کر اسے باریک کیا اور پانی کے ساتھ نگل لیااور تین روزتک اس کھانے پر گزارا کیا۔
جب مکہ میں قافلے غلہ لے کر آتے اور کوئی مسلمان غلہ خریدنے جاتا تو ابولہب انہیں کہتا محمدؐ کے ساتھیوں کے لئے قیمت بڑھادو۔چنانچہ وہ کئی گنا قیمت بڑھادیتے اور مسلمان خالی ہاتھ گھروں کولوٹتے ان کے بچے گھروں میں بھوک سے بلک رہے تھے مگر وہ انہیں کوئی کھانے کی چیز مہیا نہ کرپاتے تھے۔ اگلے دن ابولہب ان تاجروں سے مہنگے داموںغلہ اور کپڑے خریدلیتا اور یوں مسلمان اس عرصہ میں بھوکے ننگے رہ کر نہایت دردناک حالت کو پہنچ گئے۔(الروض)29
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ شعب ابی طالب کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاقے سے تھے رات کے اندھیرے میں اُن کے پائوں کے نیچے کوئی نرم چیز آئی جسے اُٹھا کر وہ کھاگئے اور انہیں پتہ تک نہ چلا کہ وہ کیا چیز تھی۔(ابن ھشام)30
علاوہ ازیں مسلمان اس دور میں سخت خطرے کی حالت میں تھے۔ رسول کریمؐ اور مسلمانوںکی حفاظت اپنی ذات میں ایک اہم مسئلہ تھا۔مسلسل تین سال تک یہ زمانہ خوف کے سایہ میں بسر ہوا۔ ابوطالب ہر شب رسول اللہؐ کو اپنے سامنے بستر پر سونے کیلئے بلاتے اور سلادیتے تاکہ اگر کوئی شخص بدارادہ رکھتا ہے یا رات کو چپکے سے حملہ کرناچاہتا ہے تو وہ آپؐ کو اس جگہ سوتے دیکھ لے،جب سب لوگ سوجاتے تو ابو طالب اپنے کسی بھائی ،بیٹے یا چچازاد کو رسول اللہؐ کی جگہ سونے کا حکم دیتے اور رسول اللہؐ کی سونے کی جگہ بدل کر کسی اور مخفی جگہ آپؐ کو سلادیتے۔ حفاظت کا یہ پر حکمت طریق مسلسل جاری رہا۔(زرقانی31)مگر اس سے اس دور کے حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈیون پورٹ رسول اللہؐ کے استقلال کے بارہ میں لکھتا ہے۔
’’محمد(ﷺ) کو بلاشک وشبہ اپنے مشن کی سچائی پریقین تھا۔ وہ اس پرمطمئن تھے کہ اللہ کے فرستادہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ملک کی تعمیر واصلاح کی ہے۔ ان کا اپنا مشن نہ تو بے بنیاد تھا اور نہ فریب دہی، جھوٹ و افترا پر مبنی تھابلکہ اپنے مشن کی تعلیم و تبلیغ کرنے میں نہ کسی لالچ یا دھمکی کا اثرقبول کیا اور نہ زخموں اور تکالیف کی شدتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں۔ وہ سچائی کی تبلیغ مسلسل کرتے رہے۔‘‘(پورٹ)32


حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجہاد باب غزوۃ احد
2
بخاری کتاب المناقب باب فی اسماء رسول اللہؐ
3
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد2ص296
4
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد8ص37
5
مستدرک حاکم جلد4ص52
6
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص342
7
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3ص232
8
مسند احمد جلد1ص62
9
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد8ص265
10
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3ص165
11
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
12
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص376
13
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد2ص25
14
مستدرک حاکم جلد2ص361بیروت
15
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص385
16
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد1ص384-85
17
السیرہ النبویۃ لابن ہشام جلد2ص26
18
مجمع الزوائد لھیثمی جلد6ص15
19
السیرہ النبویہ لابن ہشام جلد1ص311
20
السیرۃ الحلبیۃ جلد1ص295بیروت
21
مسند احمد جلد2ص218مطبوعہ بیروت
22
دلائل النبوہ للبیھقی جلد2ص277،مستدرک حاکم جلد1ص163
23
بخاری کتاب التفسیر سورۃ العلق باب قولہ کلا لئن لم ینتہ
24
بخاری کتاب الوضوء باب اذا القی علی ظھر المصلی
25
فتح الباری جلد 7ص167
26
دلائل النبوۃ جلد2ص154و مجمع الزوائد جلد9ص10مطبوعہ بیروت
27
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص208، دلائل ابی نعیم جلد1ص358
28
دلائل ابی نعیم جلد1ص359
29
الروض الانف جلد2ص127مکتبہ المصطفی البابی الحلبی
30
حاشیۃ السیرۃ ابن ھشام جلد2ص17مکتبہ المصطفی البابی الحلبی
31
شرح العلامہ زرقانی علی المواھب اللدنیہ للقسطلانی جلد1ص279
32
Devenport, John, Apology for Mohammad and the Quran London(1889) Reprint Lahore 1975 Chap.3 p.133-34
بحوالہ نقوش رسول نمبرص547

نبی کریم ؐ کا مصائب پرصبر
صبر کے لغوی معنے روکنے کے ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ درجے کا جامع خلق ہے۔ اس کے بنیادی معنی میں ضبط نفس،شدت اور سختی برداشت کرنے اور بغیر کسی شکوہ کے ہوش و حواس برقرار رکھنا شامل ہے۔ان صفات کے ساتھ یہ خلق’’ صبر جمیل‘‘ ہو جاتا ہے۔
صفات الہٰیہ میں سے ایک اہم صفت ا لصبور اور ’’صبّار‘‘ ہے۔ جو مبالغہ کے صیغے ہیں اور جس کا مطلب بہت زیادہ صبر سے کام لینے والا۔ اللہ تعالیٰ کا صبر یہ ہے کہ وہ نافرمانوں کو جلد سزا نہیں دیتا۔چنانچہ روایت ہے کہ کوئی انسان اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے۔ لوگ اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور وہ ان سے درگزر کرتے ہوئے انہیں رزق بہم پہنچاتا ہے۔(بخاری)1
صفات الہٰیہ اختیار کرنا ہی انسان کے لئے جہاد بالنفس کی بہترین صورت ہے چنانچہ انسان یہی صفت صبراختیار کرتا ہے تو اس میں کئی خلق جمع ہوجاتے ہیں۔
انسان کا مصیبت کے وقت ضبط نفس اور برداشت سے کام لینا صبر ہے تو میدان جنگ میں تلواروں اور تیروں کے سامنے اپنے آپ کو روک رکھنا شجاعت ہے۔عیش و عشرت اور اسراف سے رُک جانا زہد ہے تو شرمگاہ کی حفاظت عفت ہے۔ کھانے سے اپنے آپ کو روک رکھنا وقار ہے تو غصہ کے اسباب سے رُکنا حلم ہے۔
اس جگہ نبی کریمؐ کے مصائب پر صبرکا ذکر مقصودہے۔آنحضرت ؐ فرماتے ہیںکہ جب کسی مسلمان کو مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ پڑھ کر پھر یہ دعا کرتاہے اَللّٰھُمَّ أجُرْنِی فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْراً مِنْھَا کہ اے اللہ مجھے اس مصیبت کا اجر عطا کر اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطاکرتو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے۔(مسلم)2
حضرت ابوھریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ جب میں مومن بندے کی دنیا سے کوئی قیمتی اور محبوب چیز لیتاہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی جزا سوائے جنت کے اور کچھ نہیں۔ (بخاری)3
ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے جو خیر ہی خیر ہے اور یہ شان صرف مومن کی ہے کہ اگر اسے تنگی ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لئے خیروبرکت کا موجب ہوجاتا ہے اور اگر وہ تکلیف پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے خیروبرکت کا موجب ہوتا ہے۔(مسلم)4
ایک شخص کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کے دین میں مضبوطی ہوتواس پر مصیبت بھی سخت آتی ہے۔ اور اگر دین میں کچھ کمزوری ہو تو اس کے مطابق وہ آزمایا جاتا ہے۔اور جب ایک انسان مصیبت پر صبر کے ساتھ اس سے سرخرو ہوکر نکلتاہے تو اس کے گناہ اس طرح بخشے جاتے ہیں کہ کوئی بدی بھی باقی نہیں رہتی۔(ترمذی)5
نبی کریم ؐ عملی زندگی میں چھوٹی بڑی تکالیف پر غیر معمولی صبر کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا آپؐ سخت بخار میں مبتلا تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپؐ کو تو سخت بخار کی تکلیف ہے آپؐ نے فرمایا ہاں مجھے بہت شدید تکلیف ہے ایک عام آدمی کو بخار میں جتنی تکلیف ہوتی ہے اس سے دوگنا تکلیف ہے۔(مگر حضورؐ نہایت صبر سے اسے برداشت کررہے تھے) میں نے عرض کیا آپؐ کو اجر بھی تو دگنا ملے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کسی مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچے حتی کہ کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح دور کردیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرجاتے ہیں۔(بخاری)6
حضرت جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں رسول کریمؐ کی انگلی زخمی ہوگئی آپؐ اسے مخاطب کرکے فرماتے ہیں۔
ھَلْ اَنْتِ اِلَّااُصْبُعٌ دُمِیْتٖ وِفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتٖ
اے انگلی ! تو صرف ایک انگلی ہی تو ہے جو زخمی ہوئی ہے تو کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں یہ تکلیف تجھے پہنچی ہے۔(بخاری)7
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے اخلاص و وفا کو آزمانے کیلئے کبھی خوف،بھوک مصیبت سے اور کبھی جان و مال کی قربانی لے کر انکا امتحان کرتا ہے۔جو لوگ اس امتحان میں پورے اتریں اور کسی جزع فزع اور بے صبری کے اظہار کی بجائے کمال صبرو وفا سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ(یعنی ہم بھی اللہ کی ہی امانت ہیں اور ہم نے اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔)کہہ کر اپنے مالک کی مرضی پر راضی ہوجائیں تو اللہ ان پر راضی ہوتا ہے اور اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا اور ان کو ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے۔ (سورۃ البقرۃ:156تا158)
نبی کریمؐ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہؐ! سب سے زیادہ ابتلا ء اور مصائب کن لوگوں پر آتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا نبیوں پر۔پھر ان پر جواُن سے قریب ہو ں پھر ان سے قریب تر لوگوں پر۔(احمد)8
جسمانی بیماری پرصبر
نبی کریمؐ طبعاًبہت صابر وشاکر طبیعت رکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کی آخری بیماری میں آپؐ کی تکلیف سے زیادہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھی۔(بخاری)9
حضرت عبداللہؓ بن مسعودبیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں آپؐ کی آخری بیماری میں حاضرہوا۔آپؐ سخت تکلیف میں تھے۔ میں نے آپؐ کو ہاتھ لگاکرعرض کیا کہ آپؐ تو بخار سے تپ رہے ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ مجھ اکیلے کو تمہارے دوآدمیوں کے برابرسخت بخارکی تکلیف ہے۔ میں نے عرض کیا پھر آپؐ کو اجر بھی دہراملے گا۔فرمایا ہاں پھر فرمانے لگے کہ ایک مسلمان کو جب تکلیف یا بیماری پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں اس طرح معاف کردیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں۔(بخاری)10
ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ؐ کا جتنا بڑا مقام تھا اسی مناسبت سے آپؐ پر ابتلا ء بھی آئے۔دین کی راہ میں کفار اور مشرکین کے دکھ بھی آپ ؐنے سہے۔ عزیزوں،پیاروں کی موت فوت کے صدمے بھی کمال صبر سے برداشت کئے۔ اپنے سچے غلاموں کو بھی اسی صبر جمیل کی تعلیم دی۔
چنانچہ نو مسلم خواتین سے عہدبیعت لیتے ہوئے آپؐ یہ الفاظ بھی دوہراتے تھے کہ وہ مصیبت یا صدمہ کے وقت اپنا چہرہ نہیں نوچیں گی،نہ ہی ہلاکت کی بددعا اور واویلا کریں گی۔نہ گریبان پھاڑیں گی۔اور نہ ہی بال بکھیر کر بین کریں گی۔(ابودائود)11
اسی طرح آپ ؐنے فرمایا جب کسی کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ؟وہ کہتے ہیں ہاں۔ اللہ فرماتا ہے تم نے اس کے دل کا ٹکڑا چھین لیا؟ وہ کہتے ہیں ہاں۔ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تیری حمد کرتا تھا اور اِنَّالِلّٰہِ کہہ کر تیری رضا پر راضی تھا۔اللہ فرماتا ہے۔میرے بندے کیلئے جنت میں گھر بنائو اور اسکا نام ’’بیت الحمد ‘‘رکھو۔(ترمذی)12
نبی کریمؐ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میر ی امت کو مصیبت کے وقت اِنَّالِلّٰہِ کہہ کر اللہ کی رضا پر راضی ہونے کے اظہار کا جو سلیقہ دیا گیا ہے یہ مقام اور کسی امت کو اس سے پہلے نہیں دیا گیا۔(ہیثمی)13
حضرت ام المؤمینن ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب میرے شوہر ابو سلمہؓ فوت ہوئے تو میں نے ارادہ کیا کہ پرانے رواج کے مطابق انکا ایسا ماتم کرونگی کہ دنیا یاد رکھے گی۔ میں اس کے لئے تیا رہوکر بیٹھ گئی۔ ایک اور عورت بھی ماتم اور بین میں میری مدد کیلئے آگئی۔ اتنے میں نبی کریم ؐ تشریف لائے اور فرمایا کہ تم اُس گھر میں شیطان کو داخل کرنا چاہتی ہو جس سے اللہ نے شیطان نکال دیا۔ اُم سلمہؓ پر اس نصیحت کا ایساگہرا اثر ہوا کہ وہ کہتی ہیں کہ میرا رونا بند ہوگیا اور میں روہی نہیں سکی۔(مسلم)14
ام سلمہؓ کہتی ہیں مجھے رسو ل اللہؐ نے فرمایا تھا کہ تم دعا کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اس مصیبت کا بہتر بدلہ دے۔ میں سوچتی تھی کہ ابو سلمہؓ سے بہتر کون ہوگا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ سے عقد کروادیا تو مجھے اس دعا کی قبولیت سمجھ آئی۔(مسلم)15
ایک دفعہ نبی کریمؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے ،جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے اسے نصیحت کی کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ اس نے آپؐ کو پہچانا نہیں اور کہا پیچھے ہٹو تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ اسے جب بتایا گیا کہ یہ تو نبی کریم ؐ تھے تو آپؐ کے گھر حاضر ہوئی اور معذرت کی کہ میں نے آپؐ کو پہچانا نہیں تھا۔(گویا اب میں صبر کرتی ہوں)آپؐ نے فرمایا اصل صبرتو صدمہ کے آغاز میں ہوتا ہے۔(بعد میں رفتہ رفتہ آہی جاتا ہے)۔(بخاری)16
اس عورت کا رسول اللہؐ کے پاس آکر معذرت کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ جانتی تھی کہ نبی کریمؐ نے اس سے بڑے مصائب پر صبر کیا۔ماں کی وفات پر اپنے پیارے دادا اور چچا کی وفات پر۔اپنی عزیز بیوی خدیجہؓ کی جدائی پر ۔اپنے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کی وفات پر جن کی تعداد گیارہ تک بیان کی گئی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کی نرینہ اولاد قاسمؓ ،طاہرؓ ،طیبؓ کم سنی میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور آپؐ نے صبر کیا۔ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے آخری عمر کی اولاد ابراھیمؓ پیدا ہوئے۔جو آپؐ کو بہت پیارے تھے ابو سیفؓ کے گھرمیںرضاعت کے لئے صاحبزادہ ابراھیم ؓکورکھا گیا تھا، آپؐ وہاں اپنے اس لخت جگر سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐابراھیمؓ کو اٹھا کر سینے سے لگاتے اور پیار کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے علم پاکر آپؐ نے اس بیٹے کی صلاحیتوں کے بارہ میںفرمایا تھا کہ اگر صاحبزادہ ابراھیم ؓزندہ رہتے تو ضرور سچے نبی ہوتے۔(ابن ماجہ)17
جب ابراہیمؓ کی وفات کا وقت آیاتو رسول کریم ؐ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔اپنے خدا کی رضاکے آگے ،جو آپؐ کو ابراھیمؓ سے کہیں زیادہ پیارا تھا،یہ کہتے ہوئے سرجھکا دیا کہ اَلْعَیْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ یَحْزُنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلَّا بِمَایَرْضَی بِہٖ رَبُّنَا وَاِنَّا عَلٰی فِرَاقِکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ
آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کلمہ زبان پر نہیں لائیں گے اور اے ابراھیم ! ہم تیری جدائی پر سخت غمگین ہیں۔(بخاری)18
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریمؐ کی صاحبزادی اُم کلثومؓ کا جنازہ قبر میں رکھا گیا تو آپؐ نے یہ آیت پڑھی مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُ کُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی (سورۃطٰہٰ:56)کہ اس زمین سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا ۔اس میں دوبارہ داخل کریں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے۔
پھر جب ان کی لحد تیار ہوگئی تونبی کریمؐخود مٹی کے ڈھیلے اٹھاکر دینے لگے اور فرمایا کہ اینٹوں کے درمیان سوراخ ان سے بند کردو۔پھر فرمایا کہ ایساکرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں مگر زندوں کا دل اس سے مطمئن ہوتا ہے۔(ہیثمی)19
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم ؐ کی دو بیٹیوں کے جنازہ میں شریک ہونے کا موقع ملا۔رسول اللہؐ قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کی صاحبزادی رقیہؓ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں۔ حضرت عمرؓ کوڑے سے انہیں مارنے لگے تو نبی کریم ؐ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیچھے ہٹایا، فرمایا اے عمرؓ! رہنے دو۔پھر آپؐ نے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ تم شیطانی آوازوں (یعنی چیخ و پکار) سے اجتناب کرو۔ پھر فرمایا کہ بے شک ایسے صدمے میں آنکھ کا اشکبار ہوجانا اور دل کا غمگین ہونا تو اللہ کی طرف سے ہے،جودل کی نرمی اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے۔ہاتھ اور زبان سے ماتم شیطانی فعل ہے۔(احمد)20
حضرت اسامہ بن زیدؓ حضرت زینب ؓکے ایک صاحبزادے کی وفات کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیںکہ ایک صاحبزادی نے آپؐ کو پیغام بھجوایا کہ میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں آخری سانس لیتا نظر آتا ہے۔آپؐ تشریف لے آئیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ان کو جا کر سلام کہو اور یہ پیغام دو یہ اللہ کا ہی مال تھا ،اس نے واپس لے لیا، اسی نے عطا کیا تھا۔اور ہر شخص کی اللہ کے پاس میعاد مقرر ہے۔اس لئے میری بیٹی صبر کرے اور اللہ سے اس کے اجر کی امید رکھے۔اس پر آپؐ کی صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھجوایا اور قسم دے کر کہلا بھیجا کہ آپؐ ضرور تشریف لائیں۔ آپؐ تشریف لے گئے،سعد بن عبادہؓ ،معاذ بن جبلؓ ،ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور کچھ اور اصحاب آپؐ کے ساتھ تھے۔وہ بچہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کی جان نکل رہی تھی۔رسول اللہؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔حضرت سعدؓ نے تعجب سے کہا یا رسول اللہؐ یہ کیا؟ آپؐ نے فرمایا یہ محبت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے۔(بخاری)21
حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کی ایک کم سن بیٹی آخری دموں پرتھی۔ رسول کریمؐ نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اس کی روح پرواز کرگئی۔بچی کی میّت رسول اللہؐ کے سامنے تھی۔ رسول اللہ ؐکی رضاعی والد ہ اُم ایمن رو پڑیں۔ رسول کریمؐ نے اسے فرمایا اے ام ایمن ! رسول اللہؐ کی موجودگی میں تم روتی ہو وہ بولیں جب خدا کا رسول بھی رورہا ہے تو میں کیوں نہ روئوں۔ رسول کریمؐ نے فرمایامیں روتا نہیں ہوں۔ یہ تو محبت کے آنسو ہیں پھرآپؐ نے فرمایا مومن کا ہر حال ہی خیر اور بھلا ہوتاہے۔ اس کے جسم سے جان قبض کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی حمد کررہا ہوتا ہے۔(نسائی)22
نبی کریمؐ کے بہت پیارے چچا حضرت حمزہؓ جو مکہ میں مصائب کے زمانہ میں آپؐ کی پناہ بنے تھے۔احد میں شہید ہوئے ان کی نعش کا مثلہ کر کے کان ناک کاٹے گئے اور کلیجہ چبا کر پھینکا گیا اور بے حرمتی کی گئی۔نبی کریمؐ اپنے پیارے چچا کی نعش پر تشریف لائے ، نعش کی حالت دیکھی اور فرمایا کہ اگر مجھے اپنی پھوپھی صفیہ کے غم کا خیال نہ ہوتا تو حمزہؓ کی نعش کو اسی حال میں چھوڑ دیتا کہ درندے اسے کھا جاتے اور قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اس کا حشر ہوتا۔پھر آپؐ نے ایک چادر کا کفن دے کر انہیں دفن کردیا۔
رسول اللہؐ نے دوستوں کی موت کے صدمے بھی دیکھے۔احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے مگرآنحضرتؐ کمال صبر سے راضی برضا رہے۔غزوۂ موتہ میں آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ ،حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ شہید ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو وحی کے ذریعہ اطلاع فرمائی۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ مجلس میں تشریف فرما تھے اور چہرہ سے حزن و ملال کے آثار صاف ظاہر تھے۔ کسی نے آکر عورتوں کے بین کرنے کا ذکر کیا تو آپ ؐنے اُن کو سمجھانے کی ہدایت فرمائی۔(مسلم)23
نبی کریمؐ کی اس پاکیزہ تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ام المؤمنین حضرت زینبؓ بنت جحش نے اپنے سگے بھائی کی وفات کے تیسرے دن آرائش کا سامان منگواکر چہرے کی تزئین کی۔اور فرمایا کہ بے شک مجھے اس عمر میں اس آرائش کی ضرورت نہیں، مگر میں نے رسول کریم ؐ سے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ خاوند کے سوا کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔خاوند کی موت پر چار ماہ دس دن سوگ کرنا ضروری ہے۔یہی حال دیگر ازواج مطہرات کا تھا۔(بخاری)24
نبی کریمؐ نے اپنے ساتھیوں کے عزیزوں کی موت کے صدمے میں بھی شریک ہوئے اوراُنہیں صبر کا نمونہ دکھانے کی نصیحت فرمائی۔نوجوان صحابی حضرت معاذ ؓ بن جبل کا بیٹا فوت ہوگیا۔نبی کریمؐ نے ان کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہوئے جوتعزیتی خط تحریر فرمایاوہ آپؐ کے صبرورضاکا ایک شاہکار ہے۔آپؐ نے’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘کے بعد تحریرفرمایا:۔
’’ یہ خط محمد رسول اللہ ؐکی طرف سے معاذ بن جبلؓ کی طرف ہے۔آپ پر سلام ہومیں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اس کے بعد تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم اجر عطاکرے اور آپ کو صبر الہام کرے اور ہمیں اور آپ کو شکر کی توفیق دے۔(یاد رکھو) ہماری جانیں اور ہمارے مال اور ہماے اہل و عیال سب اللہ کی عطا ہیں۔ یہ امانتیں ہیں جو اس نے ہمارے سپرد فرمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس بچے کے عوض سچی خوشی نصیب کرے اور اس کی موت کے بدلے تمہیں بہت سا اجر برکتوں اور رحمتوں اور ہدایت کا عطا کرے۔اگر تم ثواب کی نیت رکھتے ہو تو صبر کرو اور واویلا کر کے اپنا اجر ضائع نہ کربیٹھو کہ بعد میں تمہیں ندامت ہو اور جان لو کہ واویلا کرنے سے مردہ واپس نہیںآجاتا۔نہ ہی جزع فزع اور بے صبری غم کو دور کرتی ہے اور جو مصیبت انسان کے مقدر میں ہے وہ تو آنی ہی ہوتی ہے۔ والسلام‘‘ (ہیثمی)25
پرکاش دیوی رسول اللہؐ اورآپؐ کے صحابہ کے مظالم پرصبرواستقامت کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’حضرتؐ کے اُوپر جو ظلم ہوتا تھا اُسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے۔ مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر اُن کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا اور بیتاب ہو جاتا تھااُن غریب مومنوں پرظلم وستم کاپہاڑ ٹوٹ پڑاتھا۔ لوگ اُن غریبوں کو پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور برہنہ کرکے جلتی تپتی ریت میں لٹادیتے اور اُن کی چھاتیوں پرپتھر کی سلیں رکھ دیتے وہ گرمی کی آگ سے تڑپتے۔ مارے بوجھ کے زبان باہر نکل پڑتی۔ بہتیروں کی جانیں اس عذاب سے نکل گئیں۔
انہیں مظلوموں میں سے ایک شخص عمارؓتھا جسے اس حوصلہ و صبر کی وجہ سے جو اُس نے ظلموں کے برداشت میں ظاہر کیا حضرت عمارؓ کہنا چاہئے اُن کی مشکیں باندھ کراُسی پتھریلی زمین پرلٹاتے تھے اور اُن کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے تھے۔ اور حکم دیتے تھے کہ محمدؐ کو گالیاں دو اور یہی حال اُن کے بڈھے باپ کا کیا گیا۔اُن کی مظلوم بی بی سے جس کا نام سمیہؓ تھا یہ ظلم نہ دیکھاگیا اور وہ عاجزانہ فریاد زبان پر لائی اس پر وہ بے گناہ ایماندار عورت جس کی آنکھوں کے رُوبرو اس کے شوہر اور جوان بچے پر ظلم کیا جاتا تھابرہنہ کی گئی اور اُسے سخت بے حیائی سے ایسی تکلیف دی گئی جس کا بیان کرنا بھی داخل شرم ہے۔ آخر اس عذاب شدید میں تڑپ تڑپ کر اس ایمانداربی بی کی جان نکل گئی۔‘‘(پرکاش)26
مشہوراطالوی مستشرق ڈاکٹر وگلیری نے رسول اللہؐ کے صبرواستقامت کا ذکرکرتے ہوئے لکھاہے:۔
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں اسلام صرف توحید کا داعی تھا۔ لیکن جب آپؐ اور آپؐ کے ساتھی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو اسلام ایک زبردست سیاسی طاقت بن گیا۔ محمدؐ نے قریش کے مطاعن اور مظالم کو صبر سے برداشت کیا اور بالآخر آپؐ کو اذنِ الہٰی ملا کہ آپؐ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔پس مجبورہوکر آپؐ نے تلوار کو بے نیام کیا۔۔۔محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے الہامات میں یہ تعلیم ہوتی تھی کہ مظالم کو صبرسے برداشت کرناچاہئے۔(وگلیری)27
مشہورمؤرخ گبن رسول اللہؐ کے صبرواستقامت کی داد یوں دیتا ہے:۔
’’اُن سے پہلے کوئی پیغمبراتنے سخت امتحان سے نہ گزراتھا جیسا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کیونکہ منصب نبوت پر سرفراز ہوتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو سب سے پہلے اُن لوگوں کے سامنے پیش کیا جو انہیں سب سے زیادہ جانتے تھے۔ اور جو ان کی بشری کمزوریوں سے بھی سب سے زیادہ واقف ہوسکتے تھے۔ لیکن دوسرے پیغمبروں کا معاملہ برعکس رہا کہ وہ سب جگہ، سب کے نزدیک معززو محترم ٹھہرے الّا یہ کہ جو انہیں اچھی طرح جانتے تھے۔‘‘ (گبن)28


حوالہ جات
1
بخاری کتاب الادب باب الصبرفی الأذی
2
مسلم کتاب الجنائزباب مایقال عندالمصیبۃ جلد2ص631
3
بخاری کتاب الرقاق باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللہ جلد11
4
مسلم کتاب الزھد والرقائق باب المومن امرہ کلہ خیر
5
ترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی الصبرعلی البلاء
6
بخاری کتاب المرضیٰ باب أشدُّ الناسِ بلائً الانبیاء ثم الامثل
7
بخاری کتاب الادب باب ما یجوزمن الشعر والرجز والحداء وما یکرہ منہ
8
مسنداحمدبن حنبل جلد6ص369
9
بخاری کتاب الطب باب شدۃ المرض
10
بخاری کتاب المرضیٰ باب وضع الیدعلی المریض
11
ابوداؤد کتاب الجنائز باب فی النوح
12
ترمذی کتاب الجنائز باب فضل المصیبۃ
13
مجمع الزوائدلھیثمی کتاب الجنائز باب الاستر جاع بحوالہ طبرانی کبیر
14
مسلم کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت:1530
15
مسلم کتاب الجنائز باب مایقال عندالمریض والمیت:1528
16
بخاری کتاب الجنائز باب الصبر عندالصدمۃ الاولیٰ
17
ابن ماجہ کتاب الجنائزباب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اللہؐ:1499)
18
بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی انا بک لمحزونون
19
مجمع الزوائد لھیثمیکتاب الجنائزباب مایقول اذا ادخل القبر
20
مسند احمد جلد1ص335بیروت
21
مسلم کتاب الجنائزباب البکاء علی المیت:1531
22
نسائی کتاب الجنائز باب فی البکاء علی المیت
23
بخاری کتاب الجنائزباب من جلس عندالمصیبۃ یعرف فیہ الحزن
24
بخاری کتاب الجنائز باب احداد المرأۃ علی غیرزوجھا
25
مجمع الزوائدلھیثمی جلد3ص3بیروت
26
سوانح عمری حضرت محمدؐ صاحب :25
27
اسلام پر ایک نظر ص10-12ترجمہ An interpretation of Islamمطبوعہ 1957
ازمترجم شیخ محمد احمد مظہر
28
گبن،زوال سلطنت روما ص108بحوالہ نقوش رسول نمبر جلد11ص548

غزوات النبی ؐ میں خلق عظیم
اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے اور جنگ وجدال سے منع کرتا ہے، تاہم دشمن حملہ آور ہوکر آجائے تو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے۔ بانی ٔ اسلام کو بھی ایسی دفاعی جنگوں کا سامناکرناپڑا۔
نبی کریمؐ نے ایک سپاہی کے طور پربھی غزوات میں حصہ لیااوردفاعی جنگوں میں بطور جرنیل اپنے لشکر کی کمان کر کے بھی کامل نمونہ پیش کیا۔جنگوں میں اکثر فتح پائی اور کبھی ساتھیوں کے پائوں اکھڑبھی گئے۔مگرہمیشہ اور ہر حال میں آپؐ کے پاکیزہ اخلاق نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔
ہمارے سید و مولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق کی یہی عظمت ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے نئے حسین جلوے دکھاتے نظر آتے ہیں۔حالت امن ہو یا جنگ، مشکلات کے پہاڑ اور مصائب کے طوفان اس کوہ استقامت کو ہلا نہیں سکتے۔ فتوحات اور کامرانیوں کے نظارے اس کوہ وقار میں ذرہ برابر جنبش پیدا نہیں کرسکتے۔تکلف اور تصنع سے پاک ایسے کامل اور سچے اخلاق میں بلا شبہ خدائی شان جلوہ گر نظر آتی ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اے آقا تیرے روشن و تاباں چہرے میں ایسی شان اور عظمت ہے جو انسانی شمائل اور اخلاق سے کہیں بڑھ کرہے۔
رسول اللہؐ کے خلق عظیم کا طرّۂ امتیاز ہمیشہ یہ رہا کہ آپؐ ہر امکانی حد تک فساد سے بچتے اور ہمیشہ امن کی راہیں اختیار کرتے تھے۔مکے کا تیرہ سالہ دور ابتلا گواہ ہے کہ آپ ؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے سخت اذیتیں اور تکالیف اٹھائیں لیکن صبر پر صبر کیا۔جانی اور مالی نقصان ہوئے پر برداشت کئے اور مقابلہ نہ کیا۔اپنے مظلوم ساتھیوں سے بھی یہی کہا کہ اِنّیْ اُمِرْتُ بِا لعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا کہ مجھے عفو کا حکم ہو اہے۔اس لئے تم لڑائی سے بچو۔(نسائی)1
پھر جب دشمن نے شہر مکہ میں جینا دُوبھر کردیا۔آپؐکے قتل کے منصوبے بنائے تو آپ ؐ اورآپؐکے ساتھیوں نے عزیز واقارب اور مال و جائیداد کی قربانیاں دے کر دکھی دل کے ساتھ وطن کو بھی خیر باد کہہ دیا اور مدینے میںپناہ لی۔ دشمن نے وہاں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا ۔
اہل مکہ مسلمانانِ مدینہ پر حملہ آور ہونے لگے۔تب ہجرت مدینہ کے ایک سال بعد اِذن جہاد کی وہ آیت اُتری جس میں مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مذہبی آزادی کی خاطر تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اُذِ نَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِآنَّھُمْ ظُلِمُوٓا۔ وَاِنَّ اللّٰہ علے نصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ۔(سورۃ الحج:40) وہ لوگ جن سے(بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے اُن کو بھی(جنگ) کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔اس آیت اور اس سے اگلی آیات سے اسلامی جنگوں کی غرض و غایت ظاہر و باہر ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ جنگ کی ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی۔دوسرے یہ کہ مسلمان دین کی وجہ سے مظلوم ہوکر رہ گئے تھے۔تیسرے کفار کا مقصد دین اسلام کو نابود کرنا تھا۔ چوتھے مسلمانوں کو محض خود حفاظتی اور اپنے دفاع کی خاطر تلوار اُٹھانی پڑی۔
سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں جہاد کے اسلامی تصور کا ذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
"The Jihad is not one of the five pillars of Islam. It is not the central prop of the religion, despite the common Western view. But it was and remains a duty for Muslims to commit themselves to a struggle on all fronts-moral, spiritual and political. to create a just and decent society, where the poor and vulnerable are not exploited, in the way that God had intended man to live. Fighting and warfare might sometimes be necessary, but it was only a minor part of the whole jihad or struggle. A well-known traditor (hadith) jihad to the greater jihad, the difficult and crucial effort to conquer the forces of evil in oneself and in one's own society in all the details of daily life."(page 168(
’’جہاد اسلام کے پانچ ارکان میں شامل نہیں اور اہل مغرب میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف یہ مذہب (اسلام)کا مرکزی نقطہ بھی نہیں لیکن مسلمانوں پر یہ فرض تھا اور رہے گا کہ وہ اخلاقی ،روحانی اور سیاسی ہرمحاذ پر ایک مسلسل جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف عمل رکھیں۔ تاکہ انسان کے لئے خدا کی منشاء کے مطابق انصاف اور ایک شائستہ معاشرہ کاقیام ہو۔جہاں غریب اور کمزور کا استحصال نہ ہو۔ جنگ اور لڑائی بھی بعض اوقات ناگزیرہوجاتی ہے۔ لیکن یہ اس بڑے جہاد یعنی کوشش کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ سے واپسی پر فرماتے ہیںکہ ہم ایک بڑے جہاد سے چھوٹے جہاد کی طرف لوٹ کرآتے ہیںیعنی اس مشکل اوراہم مجاہدہ یا جہاد زندگانی کی طرف جہاں ایک فردکواپنی ذات اور اپنے معاشرے میں روز مرہ زندگی کی تمام تر تفاصیل میں برائی کی قوتوں پرغالب آنا ہے۔(آرمسٹرانگ)1a
اسلامی جنگوں میں ضابطۂ اخلاق
اسلامی جنگوں میں ضابطۂ اخلاق کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر مذاہب میں جنگوں کے ضابطہ کا بھی ذکرکیا جائے۔یہودونصاریٰ کو اپنے دشمنوں سے یہ سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی۔
’’جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پرقبضہ کرنے کے لئے تو جارہاہے پہنچادے اور تیرے آگے سے اُن بہت سی قوموں کو یعنی حِتّیوں اورجِرجاسیوں اوراُموریوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حوِیوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بـڑی اور زور آورہیں نکال دے اور جب خداوند تیراخداان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مارلے تو تو ان کو بالکل نابود کرڈالنا، تو ان سے کوئی عہدنہ باندھنا، اور نہ ان پر رحم کرنا، تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا، نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا نہ اپنے بیٹوں کے لئے ان کی بیٹیاں لینا، کیوں کہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں یوں خداوند کا غضب تم پربھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کردے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرناکہ ان کے مذبحوں کو ڈھادینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا، اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلادینا۔‘‘ (استثناء باب7آیت1تا6)
قرآن شریف نبی کریمؐ کے زمانہ کی مستند ترین مسلمہ دستاویز ہے،اس میں اسلامی جہادکے آداب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ:191)یعنی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔اسی طرح فرمایا کہ وَھُمْ بَدَ ء ُ وْ کُمْ اَوَّل مَرَّۃٍ (التوبہ:13) کہ جنگ میں پہل کفار مکہ کی طرف سے ہوئی تھی۔
اس کے باوجود مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ اگر دشمن اب بھی صلح کی خواہش کرے تو مصالحت کرلو۔فرمایا وَاِنْ جَنَحُوْ ا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَے اللّٰہِ ط اِنَّہ‘ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (الانفال:62) کہ اگر وہ(دشمن) صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کے لئے جھک جائو۔
نبی کریمؐ ان اصولی اسلامی احکام کی روشنی میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو یہ تعلیم دیتے رہے کہ دشمن سے مقابلہ کی خواہش کبھی نہ کریں۔ خداسے ہمیشہ عافیت اور امن و امان کے طالب ہوں۔ ہاں جب دشمن حملہ آور ہو اور اس سے مقابلہ ہوجائے تو پھر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔(بخاری)2
حضرت بُریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ جب کسی دستہ پرکوئی امیر مقرر فرماتے یا کوئی مہم بھجواتے تو اسے سب سے اہم ہدایت یہ فرماتے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا۔ پھر فرماتے خدا کا نام لے کر اللہ کی راہ میں نکلا کرو۔ ان سے جنگ کرو جو اللہ کے منکر ہیں۔ جہاد کرو اور کسی قسم کی خیانت کے مرتکب نہ ہونا۔بد عہدی نہ کرنا۔دشمن کی نعشوں کا مثلہ نہ کرنا(یعنی کان ناک وغیرہ اعضاء کاٹ کر بے حرمتی نہ کرنا)۔بچوں کو قتل نہ کرنا۔
وہ مشرک جو فتح مکہ کے بعد بھی مسلمانوں کے ساتھ نبردآزما اور حالت جنگ میں تھے ان کے متعلق فرمایا جب مشرکوں میں سے اپنے کسی دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کو تین باتوں میں سے کسی ایک کی طرف بلائو۔ ان میں سے کسی ایک بات کو بھی وہ قبول کرلیں تو ان پر حملے سے رُک جائو اول انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ قبو ل کرلیں تو ان پر حملہ کرنے سے گریز کرو۔پھر ان کو اپنے وطن سے مسلمانوں کے دارالہجرت کی دعوت دیں اگر وہ اسے قبول کریں تو جو حقوق اور فرائض مہاجرین کے ہیں وہ ان کے ذمہ ہوں گے۔اگر وہ ہجرت پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں بتائو کہ خانہ بدوش مسلمانوں کی طرح ان کے حقوق ہونگے۔ مومنوں پر جو احکام لاگو ہیں وہی ان پر بھی ہونگے۔اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر جہاد کریں گے تو مال غنیمت وغیرہ سے حصہ پانے کے حقدار ہونگے۔ اگر اس بات سے بھی انکار کریں تو ان سے اپنے مذہب پر قائم رہ کر اسلامی حکومت کی اطاعت کرتے ہوئے جزیہ کا مطالبہ کرو اگر وہ قبول کرلیں توتم بھی اسے قبول کرکے حملہ سے رُک جانا لیکن اگر وہ ان تمام شرائط صلح سے انکاری ہوں تو پھر اللہ کا نام لے کر ان سے جنگ کرو۔(مسلم)3
رسول کریمؐنے یہاں تک تفصیلی ہدایات دیں کہ سفر جہاد پر جاتے ہوئے راستے میں کسی کو تکلیف نہ پہنچنے پائے۔چنانچہ جابرؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’اگر رات کو تم پر کوئی شب خون مارے تو اذان کہہ کر اپنے اسلام کا اعلان کرو اور راستے کے درمیان میں نماز نہ پڑھو۔ نہ ہی اس پر پڑائو کرو۔‘‘(احمد)4
عبدالرحمن ؓبن عائذ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عام طور پر لوگوں سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو۔ اور اس وقت تک ان پر حملہ نہ کرو جب تک تم ان کو صلح کی دعوت نہ دے لو۔
پھر فرمایااگر تم اہل زمین کو مطیع کر کے اور مسلمان بناکر میرے پاس لے آئو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنائو اور مردوں کو قتل کرو۔(کنز)5
رسول کریمؐ صحابہ کو صبح و شام جنگ میں سورۂ مومنون کی آیت 116پڑھنے کا ارشاد فرماتے تھے جس میں ارشاد باری ہے ’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ تمہیں بے مقصد پیدا کیا گیاہے اور تمہیں ہماری طرف لوٹا کر نہیں لایا جائے گا؟‘‘اس کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان اصحاب پر خوف خدا طاری رہے اور کسی پر زیادتی کا ارتکاب نہ کریں۔ وہ اپنے اصل مقصد عبودیت و رضاالہیٰ پر نظر رکھیں۔
رسول کریمؐنے اپنے صحابہ کو جنگ کے آداب اور مستقل ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ جنگ کے دوران کسی عمر رسیدہ بوڑھے کو،کم سن بچے کواورعورت کو قتل نہ کرو۔خیانت کرتے ہوئے مال غنیمت پر قبضہ نہ کرو۔حتی الوسع اصلاح اور احسان کا معاملہ کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(ابودائود)6
اسی طرح حکم دیا کہ دشمن پر رات سوتے میں حملہ نہ کرنا اور شب خون نہ مارنا۔ (بخاری)7
رسول کریمؐ کے بیان فرمودہ ان آداب جنگ کی تعمیل حضور ؐ کے زمانے میں سختی سے کی گئی اور آپؐ کے بعد بھی خلفاء راشدین نے اس ضابطۂ اخلاق کا بے حد خیال رکھا۔بلکہ اس پاکیزہ تعلیم کی روح مد نظر رکھتے ہوئے،حسبِ حال مزید ہدایات جاری فرمائیں۔جو آج بھی اسلامی ضابطۂ جنگ کا حصہ ہیںکیونکہ مسلمانوں کو رسول اللہؐ کے ساتھ خلفاء راشدین کی پیروی کا بھی حکم ہے۔حضرت ابوبکرؓ نے یہ ہدایات دیںکہ جن لوگوں نے اپنی خدمات کسی بھی مذہب کے لئے وقف کی ہوں،اُن سے میدان جنگ میں تعرض نہ کیا جائے۔اُن کے مذہب کی مقدس چیزوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے۔نہ ہی کسی آبادی کو ویران کیا جائے۔اورکسی جانورکو ذبح بھی نہ کریں سوائے اس کے جسے کھانا مقصودہو۔کسی کو آگ سے نہ جلائیں۔(مؤطا)8
الغرض رسول کریمؐ کودشمن کے حملے سے مجبور ہوکر اپنا دفاع کرنے کے لئے جب تلوار اُٹھانا پڑی تو جنگ کی حالت میں جہاں دنیا سب کچھ جائز سمجھتی ہے، آپؐ نے پہلی دفعہ دنیا کو جنگ کے آداب سے روشناس کرایا۔اس ضابطۂ اخلاق کے ساتھ جب آپؐ جنگ کے لئے نکلتے توپھر آپ ؐ کا تمام تر توکل اور بھروسہ خدا کی ذات پرہوتا تھا۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں رسول کریمؐ جب کسی غزوہ کے لئے نکلتے تو یہ دعا کرتے اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَضُدِیْ وَاَنْتَ نَصِیْرِیْ وَبِکَ اُقََاتِلُ (احمد)9
اے اللہ تو ہی میرا سہارا ،تو ہی میرا مددگار ہے۔اور تیرے بھروسہ پر ہی میں لڑتا ہوں۔
غزوۂ بدر میں خلق عظیم
ایک بہترین جرنیل کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل گرفت اپنے سپاہیوں پر ہوتی تھی۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب آپؐ اور آپؐ کے صحابہ نے میدان بدر میں مشرکین سے پہلے پہنچ کر ڈیرے ڈالے تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ کوئی شخص از خود کسی بات میں پہل نہ کرے جب تک میں اجازت نہ دوں۔ پھر جب تک دشمن کی طرف سے حملہ نہیں ہوا، آپؐ نے مقابلہ کے لئے صحابہ کو دعوت نہیں دی۔ جب دشمن سامنے صف آرا ہوئے توصحابہ کو فرمایا کہ اب اُس جنت کے حصول کے لئے اُٹھ کھڑے ہو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ پھر صحابہ نے اپنی جانیں خدا کی راہ میں خوب فداکیں۔(احمد)10
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں اپنے ساتھی سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ رفاعہؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے سفر میں ہم نے اچانک محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ نہیں ہیں۔اصحاب رسولؐ نے ایک دوسرے کو آواز دے کر پوچھا کہ تمہیں رسول اللہؐ کا کچھ پتہ ہے یا تمہارے ساتھ ہیں؟ جب کچھ پتہ نہ چلا تو سب رُک گئے اور اتنی دیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم تو آپؐ کو موجود نہ پاکر پریشان ہوگئے تھے۔آپؐ نے فرمایا کہ علیؓ کے پیٹ میں اچانک تکلیف ہوگئی اور میں اس کی تیمارداری کے لئے رک گیاتھا۔(ھیثمی)11
نبی کریمؐ کسی سواری پربیک وقت تین آدمیوںکاسوارہوناپسند نہیں فرماتے تھے کہ یہ بھی جانور پرزیادتی ہے۔بدر میں رسول اللہؐ کے صحابہ کے پاس چنداونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ ایک اونٹ کی سوار ی میں تین تین اصحاب شریک تھے، جو باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔حضرت علیؓ اورحضرت ابولبابہؓ یا ابومرثدؓ غنوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری میں شریک تھے۔جب رسول اللہؐ کی باری ہوتی تو یہ دونوں کہتے ہم آپؐ کی خاطر پیدل چلیں گے آپؐ سوار رہیں۔ رسول کریمؐ فرماتے ’’تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ورنہیں ہو اور نہ میں تم دونوں کی نسبت اجر سے بے نیاز ہوں۔‘‘مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اجر کی ضرورت ہے۔(احمد)12
سپاہیوںکی حوصلہ افزائی
ایک بہترین سپہ سالار کی طرح رسول اللہؐ کی نظر اپنے سپاہیوں کی کارکردگی پر رہتی تھی۔ اور اپنے ساتھیوں کی مناسب رنگ میں حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے۔
حضرت علیؓنے غزوہ احد سے واپسی پر اپنی تلوار حضرت فاطمہؓ کے سپرد کی کہ اسے سنبھال رکھیں کہ آج یہ جنگ میںخوب کام آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا ہاں! اے علیؓ! آج آپ نے بھی خوب تلوار زنی کی ہے،مگرعاصم بن ثابتؓ، سہل بن حُنیف ؓ، حارث بن صمّہؓ اور ابودجانہؓ نے بھی کمال کر دکھایا ہے۔(ھیثمی)13
صحابہ کی دلداری
رسول اللہؐ جنگ میں بھی جہاں اپنے صحابہ کی دلداری کا خیال رکھتے تھے، وہاں راہِ خدا میں جان کی قربانی پیش کرنیوالوں کا بہت اعزاز فرماتے تاکہ آئندہ قربانی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ غزوہ خیبر میں جب ایک صحابی عامر سردار یہود مرحب کے مقابل پر اپنی تلوار کے کاری زخم سے جانبر نہ ہوسکے تو بعض لوگوں نے عامر ؓ کی شہادت کو خود کشی گمان کیا۔ عامرؓ کے بھتیجے حضرت سلمہ بن الاکوع ؓ یہ سنکر بہت غمگین ہوئے۔ وہ بیان کرتے ہیں میںاس حال میں تھا، اچانک کیا دیکھتا ہوں۔میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر سہلارہے ہیں اور فرماتے ہیں تمہیں کیا ہوا ہے؟میں نے عامر ؓ کے بارہ میں لوگوں کے خیال کا ذکر کیا۔ صادق و مصدوق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی یہ کہا غلط کہا ہے۔پھر آپؐ نے اپنی دوانگلیاں ملا کر فرمایا عامر ؓ کیلئے دوہرا اجر ہے۔ وہ تو جہاد کرنیوالا ایک عظیم الشان مجاہد تھا۔(بخاری)14
خدام سے شفقت
ابوموسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے مجھے ابوعامرؓ کے ساتھ غزوۂ اوطاس بھجوایا۔ ان کے گھٹنے میں تیر لگا۔جس سے ایک کاری جان لیوا زخم ہوا۔میں نے تیر کھینچا تو پانی نکلا۔مجھے ابوعامرؓ کہنے لگے بھتیجے رسول اللہؐ کو میرا سلام عرض کرنا اور درخواست کرنا کہ میرے لئے بخشش کی دعا کریں۔پھر تھوڑی دیر بعد ان کی روح پرواز کرگئی۔ میں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوکر سارا ماجرا عرض کردیا اور ابوعامرؓ کا پیغام سلام و دعا بھی پہنچایا۔رسول کریمؐ نے پانی منگواکر وضو کیا۔ پھر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ! اپنے بندے ابوعامرؓ کو بخش دے، اے اللہ! اسے قیامت کے دن اپنی مخلوق میں سے بہت لوگوں کے اوپر فوقیت عطا کرنا۔ میں نے عرض کیا یاحضرت! میرے لئے بھی کچھ دعاکردیں۔ آپؐ نے دعاکی کہ اے اللہ! ابوموسیٰ ؓ کے گناہ بخش دے اور قیامت کے دن اسے معزز مقام میں داخل کرنا۔(بخاری)15
دعائوں پر بھروسہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام فتوحات دراصل دعائوں کا نتیجہ تھیں (جیسا کہ قبولیت دعا کے مضمون میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے)۔ بدر کی دعامیں غیرمعمولی شغف اور توجہ کا ذکر حضرت علی ؓ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بدر میں کچھ دیر لڑنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ دیکھوں رسول اللہؐ کا کیا حال ہے آکر دیکھا تو آپؐ سجدے میں پڑے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور مسلسل گریۂ وزاری کررہے تھے ۔ یاحی یا قیوم۔یعنی اے زندہ ہستی خود قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے!
آپؐ یہی پڑھتے جاتے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے تھے۔ میں پھرجا کر لڑائی میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر حضورؐ کا خیال آیا اور آپؐ کا پتہ کرنے لوٹا تو آپؐ اسی حالت میں سجدہ میں پڑے خدا کو اس کی صفت حی ّوقیوم کے واسطے دے رہے تھے۔ میں پھر میدان کارزار میںچلاگیا اور تیسری بارواپس لوٹا تو بھی آپؐ کو اسی حالت میں دعا کرتے پایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعائوں کے طفیل ہمیں فتح عطافرمائی۔(ھیثمی)16
کامیابی پر حمد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جنگ میں کامیابی حاصل ہوتی تو بھی کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے خدا کی حمد بجالاتے۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعودبیان کرتے ہیں کہ ابوجہل کو قتل کرنے اور اس پر آخری وار کرنے کے بعد میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر اطلاع کی کہ ابوجہل ہلاک ہوچکا ہے۔ آپؐنے اس وقت بھی نعرہ توحید بلند کیا اور فرمایا کیا اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں؟میں نے اثبات میں جواب دیا کہ بے شک اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کی نعش کے پاس جاکر کھڑے ہوئے توفرمایا اس خدا کی سب تعریف ہے جس نے اے اللہ کے دشمن! تجھے ذلیل کیا۔پھر فرمایا کہ’’ یہ اس امت کا فرعون تھا‘‘(طبرانی)17
نبی کریمؐفتح کے موقع پر کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے شکر بجالاتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور عجزوانکسار سے جھک جاتے۔بدر کی فتح مسلمانوں کے لئے پہلی بہت بڑی فتح تھی۔جس نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان کے ستر آدمی ہلاک ہوئے ،جن میں چوبیس سرداران قریش تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نعشیں بھی کھلے میدان میں پڑی رہنی پسند نہیں فرمائیں بلکہ دفن کے لئے ایک پُرانے گڑھے میںڈلوادیں۔رسول اللہؐ نے بدرکی فتح پر کوئی جشن نہیں منایا بلکہ اپنے رب کی عظمت اور حقانیت کے نعرے ہی بلند کئے۔ اپنے ساتھیوں کو بھی یاد کروایا کہ فتح سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بدر کا دن خدا کے وعدے پورے ہونے کا دن ہے۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گڑھے پر تشریف لے گئے جس میںسرداران قریش کی لاشیں تھی توان کایہ عبرتناک انجام دیکھ کر افسوس اور حسرت کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا’’ کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی یا اپنا یہ انجام پسند ہے۔ ہم نے تو اپنے رب کے وعدوں کو سچا پالیا۔ تم نے بھی خدا کے وعدے کو سچا پایا یانہیں؟‘‘ (بخاری)18
احسان کا پاس
غزوات میں رسول اللہؐ کا احسان اور وفا کاخلق بھی بڑی شان سے ظاہر ہوا۔ایک واقعہ قریش کے مشرک سردار مطعم بن عدی کا ہے، جو بنو نوفل کا سردار اورقریش کی سربرآوردہ شخصیات میں سے تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کے قبیلہ بنو ہاشم اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے بائیکاٹ کرنے کا جو معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا، اس کو ختم کرانے کی مہم میں مطعم نے نمایاں خدمت انجام دی تھی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ والوں سے مایوس ہوکر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تھے تو عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کو مکہ میں واپس آنے سے پیشتر کسی سردار کی پناہ میں آنا ضرور ی تھا،جسے جوار یعنی پناہ کہتے تھے۔ رسول اللہؐ نے کئی سرداروں کو پناہ لینے کے لئے پیغام بھیجا، سب نے انکار کیا، مطعم بن عدی وہ شریف النفس سردارتھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں دوبارہ داخلہ کے لئے اپنی پناہ دی۔اس کے چاروں بیٹے تلواروں کے سایہ میں رسول اللہؐ کو مکہ لائے اور آپؐ کو امان دینے کا اعلان کیا۔افسوس کہ اس منصف مزاج سردار کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نہ ملی اور بدر سے پہلے ہی سو سال کے لگ بھگ عمر پاکر وفات پاگیا۔
بدرکی فتح کے بعد جب ستر مشرکین مکہ بطور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے تو نبی کریمؐ اُس وقت بھی مطعم بن عدی کا احسان نہیں بھولے اور فرمایا ’’اگر آج مطعم زندہ ہوتا اوران قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے مجھے سفارش کرتا تو میں ان تمام قیدیوں کو اُس کی خاطر آزادکردیتا۔‘‘(عینی)19
سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں مسلمانوں کے اسیرانِ بدر کے ساتھ سلوک کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
"In pursuance of Mahomet's commands, the citizens of Medina, and such of the refugees as already had houses of their own, received the prisuers, and treated them with much consideration. 'Blessings be on the men of Medina!'said one of these prisoners in later days:'they made us ride, while they themselves walked: they gave us wheaten bread to eat when there was little of it, contenting themselves with dates.' It is not surprising that when, sometime afterwards, their friends came to ransom them, several of the prisoners who had been thus received declared themselves adherents of Islam; and the such the Prophet granted liberty without ransom."
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایت پرعمل کرتے ہوئے اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنالئے تھے کے پاس جب (بدر کے) قیدی آئے تو انہوںنے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا۔ بعد میں خود ایک قیدی کہاکرتا تھا کہ ’’اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر۔ وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خودپیدل چلتے تھے۔ ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانہ میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پرگزاراکرتے تھے۔اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے۔ ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہؐ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کردیا۔‘‘(میور)20
غزوۂ احدمیں دوراندیشی
غزوات النبیؐ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کھل کر سامنے آئے، وہاں آپؐ کی قائدانہ صلاحیتوں، حکمت عملی اوردور اندیشی کا بھی کھل کر اظہار ہوا۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب آپؐ نے شہر مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کا ارادہ فرمایا تو شہر کو دشمن سے حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا ایک طرف سے احد پہاڑ کی آڑ لیکراُسے ڈھال بنایا۔ اسی دوران حضورؐ کی نظر اس پہاڑی درے پر پڑی جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوسکتاتھا۔ آپ ؐنے وہاں پچاس تیر انداز عبداللہؓ بن جُبیر کی سرکردگی میں مقرر فرمائے اور انہیں جو ہدایات دیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بہترین جرنیل ہوتے ہوئے درّے کی نزاکت کا کتنا احساس تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ’’ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو اچک رہے ہیں پھر بھی تم نے درّہ نہیں چھوڑنا سوائے اس کے کہ میرا پیغام تمہیں پہنچے۔‘‘(بخاری )21
صحابہ کی تربیت
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب لوگ پسپا ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(چندساتھیوں کے ساتھ) رہ گئے تو ابو طلحہؓ حضور کے سامنے اپنی ڈھال لے کر کھڑے ہوگئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سراٹھا کر دشمن کی طرف دیکھنا چاہتے تو ابو طلحہؓ عرض کرتے میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ اس طرح سے دشمن کی طرف نہ جھانکیٔے کہیں دشمن کا کوئی تیر آپؐ کو لگ نہ جائے۔ (آقا!) آج میرا سینہ آپؐکے سینہ کے آگے سپر ہے۔مجھے تیر لگتا ہے تو لگے آپؐ محفوظ رہیں۔(بخاری)22
ابو طلحہؓ بڑے جی دار اور بہادر تھے،زبردست تیر انداز ۔طاقتور ایسے کہ کمان کو زور سے کھینچتے تو ٹوٹ کر رہ جاتی۔ احد میں آپؐ نے دو یاتین کمانیں توڑ ڈالیں۔ ایسی تیزی سے آپؐ تیر اندازی کررہے تھے کہ تیر بانٹنے والا جب اپنا ترکش لے کر حضورؐ کے پاس سے گذرتا تو آپؐ فرماتے ارے !ابو طلحہ کے لئے تیرپھیلادو۔(بخاری)23
جنگ میں سپاہیوں کی مدداور تالیف قلب
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓبیان فرماتے ہیں کہ احد کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ترکش میرے لئے پھیلا دیا تھا۔آپؐ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے) فرماتے تھے کہ ’’اے سعدؓ! تیر چلائو۔میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔‘‘(بخاری)24
غزوۂ احد میں جب مشرکین پسپا ہورہے تھے تو(ان میں سے) کسی شیطان نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے آواز بدل کر یہ نعرہ لگایا اے اللہ کے بندو! پیچھے پلٹو۔یعنی پیچھے سے تم پر حملہ ہوگیا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کا اگلا دستہ پیچھے کو پلٹ کر حملہ آور ہوا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے ایسا الجھ کر رہ گیا کہ اپنے پرائے کی تمیز اور ہوش نہ رہی۔حضرت حُذیفہؓ نے اچانک دیکھا تو ان کے والد یمّانؓ(جومخلص صحابی تھے) خود مسلمانوں کے نرغے میں، ان کی تلواروں کی زد میںتھے۔ وہ بے چارے چّلاتے رہے کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرا باپ ہے،یہ میرا باپ ہے اس کو بچانا۔ ان کی آواز شور میں دب کر رہ گئی اور حذیفہؓ کے والد یمّان ؓمسلمانوں کے ہاتھوں ہی احد میں شہید ہوگئے۔ (بخاری) 25
رسول کریمؐ نے اپنے اس صحابی کی تالیف قلب فرمائی اور ان کے والد کی دیت انہیں دلوائی۔ محمود بن لبیدؓ انصاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت یمانؓ وہ مخلص صحابی تھے جو باوجود بڑھاپے کے غزوۂ احد میں شامل ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو اور ایک اور بوڑھے صحابی ثابتؓ کو حفاظت کے لئے عورتوں کے پاس مدینہ میں رہنے کیلئے چھوڑاتھا۔مگر انہیں شہادت کا جوش آیا تو وہ دونوں مسلمانوں کے قدم اکھڑنے کے بعدمیدان احد میں آکر ملے۔ ثابتؓ تو مشرکوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یمانؓ غلط فہمی سے مسلمانوں کے جھرمٹ میں عبداللہ بن مسعودؓ کے بھائی عُتبہ بن مسعود ؓکے ہاتھوںمارے گئے۔ حذیفہؓ نے صرف اتنا کہاتم نے میرے باپ کو قتل کردیا۔جواب ملا کہ ہم انہیں شناخت نہ کرسکے۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔ یہاں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل گرفتہ صحابی حضرت حذیفہ ؓکا اتنا خیال رکھاان کے والد کی دیت سو اونٹ بیت المال سے ادافرمائی۔ حضرت حذیفہؓ نے وہ سارے کا سار امال مستحق مسلمانوں میں بطور صدقہ تقسیم کردیا۔یوں اخلاص و ایثار میں ان کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اوربھی بڑھ گیا۔(عینی)26
اُحَد میں جنگی حکمت عملی
اُحد کے موقع پر خالی درّہ سے دشمن کے حملہ کے نتیجہ میں کئی مسلمان شہید ہوچکے تھے اور دشمن کے حملہ کاسارا زور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگ اصحاب پر تھا۔ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کی حکمت عملی اختیار فرمائی تاکہ اسلامی قیادت کی حفاظت کی جاسکے۔حضرت کعب ؓ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے رسول اللہؐ کو (درّہ میں خودپہنے) پہچان کرکہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نبی کریمؐنے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھرازراہِ مصلحت اپنی زرہ مجھے پہنائی اور میری زرہ خود پہن لی۔مجھ پر حملہ کرنے والا یہی سمجھتا تھا کہ وہ رسول اللہؐ پر حملہ کررہا ہے۔ مجھے اس روزبیس زخم آئے۔ (ھیثمی27)اُس وقت اسلامی قیادت کی حفاظت کا معاملہ انتہائی اہم تھا۔جس کے لئے حضورؐ نے یہ پُرحکمت طریق اختیار فرمایا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو احد میں سخت تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ آپؐ کی زندگی کے صدموں میں بڑابھاری صدمہ تھا۔ایک دکھ تو یہ تھا کہ درہ پرمقرر تیر اندازوں نے آپؐ کے ارشاد کی تعمیل نہ کی جس کا خمیازہ پوری مسلمان قوم کو بھگتنا پڑا،دوسرا بڑاغم مسلمانوں کی ستر قیمتی جانوں کے نقصان کا تھا۔ تیسرے آپؐ خود اس جنگ میں برُی طرح زخمی ہوئے تھے۔ مگر اس وقت بھی آپؐ نے کمال وقارکے ساتھ نہایت صبر وحوصلہ کا نمونہ دکھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت شہید ہوگئے تھے۔ چہرہ زخمی تھااوراس سے خون بہ رہا تھا۔حضورؐخون پونچھتے جاتے اور فرماتے،’’ یہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جنہوں نے اپنے نبی کے چہرے کو خون آلودہ کیا ہے حالانکہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ (مسلم)28
حضورؐ کی یہ تکلیف صحابہ کیلئے بہت گراں تھی۔انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ آپؐ مشرکین مکہ کے خلاف بددعا کردیں۔آپؐ نے فرمایا مجھے *** کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا۔ مجھے تو اسلام کی طرف دعوت دینے والا اور رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔پھر آپؐنے دعا کی ’’اے اللہ! میری قوم کومعاف کر دے یہ لوگ جانتے نہیں۔‘‘(مسلم )29
ابودجانہؓ انصاری احد کے دن سر پہ سرخ پٹی باندھے دو صفوں کے درمیان اکڑ کر چل رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چال خدا کو پسند نہیں مگر آج اس جگہ دشمن کے مقابلہ میں پسند ہے۔(ھیثمی)30
اُحد میں ہزیمت کے بعد استقامت اور راضی برضا
احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ شہید ہوئے اور خود بھی زخموں سے لہولہان ہوگئے۔آپؐ کا دل صحابہ کی جدائی پر غمگین تھا مگر خدا کے وعدوں پر کامل یقین تھا۔ آپؐ کے ایمان اور استقامت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں آیا جس کا اندازہ آپؐ کی اس دعا سے ہوتاہے جو آپؐ نے مشرکین مکہ کے واپس لوٹ جانے کے بعد کی، جو آپؐ کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے۔آپؐ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ صف بستہ ہوجائو تاکہ ہم سب اپنے رب کی حمدوثنا کرسکیں۔خوشی اور فتح کے موقع پر تو دنیا کوخوشی مناتے اور شکر کرتے دیکھا ہے لیکن آئو آج ابتلا اور مصیبت میں بھی خدا کے اس عظیم بندے کو اپنے رب کی حمد و ستائش کرتے دیکھیں جنہوں نے ہر حال میں راضی برضاء الہٰی رہناسیکھا تھا۔ میدانِ اُحد میں رسول اللہؐ نے اپنے صحابہ کی حلقہ بندی کر کے اُن کی صفیں بنوائیں اوراُن کے ساتھ مل کر یوں دعا کی۔
’’اے اللہ! سب حمد اور تعریف تجھے حاصل ہے۔جسے تو فراخی عطاکرے اسے کوئی تنگی نہیں دے سکتا اور جسے تو تنگی دے اسے کوئی کشائش عطا نہیں کرسکتا۔جسے تو گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔جسے تو نہ دے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا اور جسے تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔جسے تو دور کرے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دوررکرنے والا نہیں۔اے اللہ! ہم پر اپنی برکات، رحمتوں، فضلوں اور رزق کے دروازے کھول دے۔اے اللہ! میں تجھ سے ایسی دائمی نعمتیں مانگتا ہوں جو کبھی زائل ہوں نہ ختم ہوں۔اے اللہ میں تجھ سے غربت و افلاس کے زمانہ کے لئے نعمتوں کا تقاضا کرتا ہوں اور خوف کے وقت امن کا طالب ہوں۔اے اللہ! جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا اس کے شرّ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور جو تو نے نہیں دیا اس کے شرّ سے بھی۔ اے اللہ! ایمان ہمیں محبوب کردے، اور اسے ہمارے دلوں میں خوبصورت بنا دے، کفر،بدعملی اور نافرمانی کی کراہت ہمارے دلوں میں پیدا کردے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنا۔ اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے، مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور صالحین میں شامل کردے۔ ہمیں رسوانہ کرنا، نہ ہی کسی فتنہ میںڈالنا۔اے اللہ! ان کافروں کو خود ہلاک کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیری راہ سے روکتے ہیں ان پر سختی اور عذاب نازل کر۔ اے اللہ! ان کافروں کو بھی ہلاک کر جن کو کتاب دی گئی کہ یہ رسول برحق ہے۔(احمد)31
شجاعت
احد میں مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوئے اور مشرکین فتح کی خوشی مناتے واپس لوٹے تو روحا ء مقام پر جاکر ابوسفیان مشرکین مکہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہنے لگا کہ نہ تو تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا،نہ عورتوں کو قید کیا۔پھراحد کے معرکہ کو فتح کیسے قرار دے سکتے ہو؟ (ھیثمی)32
چنانچہ مشرکین مکہ نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔رسول کریمؐ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کہ ہم اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیں گے، بلکہ آگے جاکر دشمن کا تعاقب کریں گے۔ اُحد کی شہادتوں اور وقتی ہزیمت کے بعد یہ فیصلہ اتنا کٹھن تھا کہ اسے سن کر صحابہ ایک دفعہ تو سنّاٹے میں آگئے۔وہ سوچتے ہونگے کہ زخموں اور غم سے نڈھال ہونے کی حالت میں دشمن کا مقابلہ کیسے کریں گے، تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت، مردانگی، پختہ عزم توکل علی اللہ اور قائدانہ صلاحیت کا عجیب نظارہ صحابہ نے دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں دشمن کو مدینہ پر دوبارہ حملہ کا موقع دینا نہیں چاہتااس لئے اُن کے تعاقب کا فیصلہ کرلیا ہے۔اگر ایک آدمی بھی میرا ساتھ نہ دے تو میں بہر حال دشمن کے پیچھے جائوں گا اور اس راہ میں اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے توکر گزروں گا۔ صحابہ نے اپنے سپہ سالار اعظم کا یہ حوصلہ دیکھا تو والہانہ لبیک کہتے ہوئے آپؐ کے ہمرکاب ہوکر چل پڑے۔کئی صحابہ زخموں سے چوُر تھے کہ انہیں اُٹھا کر حمراء الاسد لے جایا گیا۔ کفار کو مسلمانوں کی اس پیش رفت کا پتہ چلا تو وہ مکہ واپس لوٹ گئے۔
یہود مدینہ کی عہد شکنی اور آنحضرت ؐ کے احسانات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے تین قبائل بنوقینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ امن و صلح سے رہنے کا معاہدہ کیا۔یہود کے یہ تینوں قبیلے مدینہ کے جنوب مشرق میں چار پانچ میل کے اندر پھیلے ہوئے تھے۔2ھ میں بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد یہود کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مدینہ کے مشرکین اور منافقین سے مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کردیں۔ یہود بنو قینقاع اس میں پیش پیش تھے۔جب اس معاہدہ شکنی، فساد اور بے حیائی کی ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ قلعہ بند ہوکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ اس کی سزا اُن کی شریعت کے مطابق تو یہ تھی کہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے۔(استثناء 20/13)لیکن یہ رسول کریمؐکا احسان ، شفقت اور وسعت حوصلہ تھا کہ آپؐ نے ان کی جان بخشی فرمادی۔ لیکن چونکہ مدینہ میں ان کا رہنا خطر ناک تھا اس لئے آپؐ نے بنو قینقاع کو بدعہدی پرمدینہ سے چلے جانے کا حکم دیا۔
3ھ میں یہود کے سب سے بڑے قبیلے بنو نضیر کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف اہل مکہ سے ساز باز رکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے منصوبہ کی صورت میں بدعہدی ظاہر ہوئی۔(بخاری33)جب ان سے مؤاخذہ کیا گیا تو وہ بھی قلعہ بند ہوکر مسلمانوں سے برسر پیکار ہوگئے اور پندرہ دن بعد انہوں نے مال و اسباب سمیت مدینہ سے نکل جانے کی شرط پر قلعوں کے دروازے کھول دیئے۔(ابن ھشام)34
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد چونکہ ان کی شرارتوں کا سدِّباب تھا۔ اس لئے آپؐ نے یہود پر احسان کرتے ہوئے یہ شرط مان لی اور 4ھ میں بنو نضیر کے یہودی اپنے اہل و عیال ، تمام ترمال و اسباب اور سونے چاندی کے قیمتی زیورات وغیرہ ساتھ لے کر ڈھول باجے بجاتے اور قومی گیت گاتے ہوئے بڑی شان اور طمطراق کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ (زرقانی)35
یہود کے سردار سلام بن ابی الحقیق نے اپنا قیمتی خزانہ مسلمانوں کو دکھاتے ہوئے کہا ایسے نازک حالات کیلئے ہم نے یہ مال جمع کر رکھا تھا۔یہودی جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ عہد کے پابندہیں۔ وہ ہمارے مال واسباب سے تعرض نہیں کریں گے اور ہمارے مال محفوظ ہیں۔اس لئے اپنے مال اعلانیہ دکھاتے ہوئے گئے۔بنو نضیر کے سرداروں میں سے حیی بن اخطب، کنانہ بن ربیع اور سلام بن ابی الحُقیق اپنے خاندان سمیت خیبر کے قلعہ بند شہر میں جاکر آباد ہوگئے اور ایک قلعہ کی سرداری حاصل کرلی۔
مدینہ سے یہود کے اخراج کے بارہ میں منٹگمری واٹ جیسا معاند اسلام بھی تسلیم کرتا ہے کہ’’یہود کو ان کے مخالفانہ طرز عمل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے مدینہ سے نکالا گیا۔‘‘(واٹ)36
قبیلہ بنونضیر اپنی اس جلاوطنی کی وجہ سے اسلام کا پہلے سے کہیں بڑھ کر دشمن ہوچکا تھا۔اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا اس قبیلہ کاسردار حیی بن اخطب مسلسل قبائل عرب اور اہل مکہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف اکساتا رہتا تھا۔ حیی بن اخطب کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں ہی جنگ احزاب میں سارا عرب متحد ہوکرمدینہ پر حملہ آور ہوا۔تو مسلمانوں نے شہر کے گرد خندق کھود کر اپنا دفاع کیا تھا۔ حیی بن اخطب نے مدینہ کے نواح میں بسنے والے آخری یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکساکر غداری پر آمادہ کرلیا۔ جس سے مسلمانان مدینہ کی جانوں کی حفاظت کا بہت بڑا خطرہ پیدا ہوگیا، کیونکہ انہوں نے بنو قریظہ سے معاہدہ کی وجہ سے ان کی سمت کو محفوظ خیال کرتے ہوئے اس طرف خندق نہیں کھودی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لشکروں کو تو پسپا کرنے کے سامان کردیئے، لیکن اس طرح اس موقع پر یہود خیبر کی کھلم کھلا عداوت اور بنوقریظہ کی غداری اور بغاوت کھل کر سامنے آگئی۔(ابن ھشام)37
جنگ احزاب کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کو ان کی غداری اور محاربت پر گرفت کرنے نکلے تو وہ بھی قلعہ بند ہوگئے۔ بالآخر انہوں نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت سعدؓ بن معاذ انصاری کو (جو اسلام سے قبل ان کے حلیف رہ چکے تھے) فیصلہ کرنے کیلئے اپناثالث مانا۔ حضرت سعدؓ نے یہودی شریعت کے مطابق بنو قریظہ کے لڑنے والے مردوں کو قتل اور عورتوں کو قیدی بنانے کا فیصلہ دیا۔(بخاری)38
غزوۂ ذیِ قرد
مسلمانوں کے خلاف پہلی جنگی کاروائی کا آغاز یہود کے حلیف قبائل غطفان کے ایک قبیلہ بنو فزارہ نے سنہ ۷ ھ میں کردیاتھا۔انہوں نے ذی قرد کی چراگاہ پر، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مویشی اونٹ وغیرہ چرایا کرتے تھے حملہ کردیا اور چند اونٹنیاں لُوٹ کرلے گئے۔ ایک بہادر نوجوان صحابی سلمہؓ بن الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور عین اس وقت جب وہ پانی کے ایک چشمہ پر محواستراحت تھے،تیروں کی بوچھاڑ کر کے ان کو بھگادیا اوراونٹنیاں واپس لے آئے۔ نبی کریمؐ کو اس اچانک حملہ کی خبر ہوئی تو آپؐ صحابہ کے ساتھ تشریف لائے۔بہادر سلمہؓ بن الاکوع نے آنحضرتؐ کی خدمت میں دشمن کا مزید تعاقب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ میں نے انہیں چشمہ کا پانی نہیں پینے دیا تھا وہ سخت پیاسے ہیں اور آگے چشمہ پر ضرور مل جائیں گے۔ہمارے سیدومولا رحمۃ للعالمینؐ نے اس کا کیا خوبصورت جواب دیا۔ایک فقرہ کہہ کر گویا دریا کوزے میں بند کردیا۔نہیں نہیں بلکہ رحمتوں کا سمندرایک فقرے میں سمودیا۔ فرمایااے سلمہؓ اِذَا مَلَکْتَ فَاسْجَحْ کہ جب دشمن پر قدرت حاصل ہوجائے تو پھر عفو سے کام لیا کرتے ہیں۔(مسلم)39
اے رحمت مجسم ؐ! تجھ پر سلامتی ہو تجھ پر ہزاروں رحمتیں! ہم نے عفو کی تعلیم کے چرچے تو دنیا میں بہت سنے لیکن عفو و رحمت کے نمونے تیرے وجود باجود ہی سے دیکھے۔ ہاں ہاں تیرے ہی دم قدم سے عفوو کرم کے ایسے چشمے پھوٹے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس سے فیضیاب ہوئے۔
غزوۂ احزاب میں خلقِ عظیم
جنگ احد کے بعد جنگ احزاب مسلمانانِ مدینہ کا ایک بہت سخت اور کڑا امتحان تھا۔ جس میں مدینہ سے نکالے گئے یہودنبی نَضیر کے اُکسانے پر قبائل عرب بنو غطفان، بنوسُلیم وغیرہ نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر اجتماعی حملہ کا خوفناک منصوبہ بنایا۔ اس کے لئے چار ہزار کا لشکر ابتداء میں ہی جمع ہوگیا۔ جس میں تین صد گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوارتھے۔ ابو سفیان کی سرکردگی میں یہ لشکر مکے سے نکلا تو دیگر قبائل بنواسد ،فزارہ ، اشجع ، بنو مرہ وغیرہ اسمیں شامل ہوتے چلے گئے اور مدینہ پہنچنے تک قبائل عرب کی متحدہ فوجوں کا یہ لشکر دس ہزار تک پہنچ گیا۔اس کے مقابل مسلمان صرف تین ہزارتھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی اطلاع پاکر صحابہ سے مشورہ کیا اور سلمان فارسیؓ کی رائے قبول کرتے ہوئے مدینہ کی حفاظت کے لئے اس کے گرد ایک خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مدبرانہ فیصلہ سے مسلمانوں کے جان و مال تمام متحدہ قبائل عرب سے محفوظ رہے، ورنہ وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مسلمانوں کو اچک لینے کے ارادے لے کر آئے تھے۔
اس نہایت نازک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں،ہر چندکہ یہ موقع مسلمانوں کی زندگی کے سب سے بڑے خطرے کا تھا۔قرآن شریف کے بیان کے مطابق ان کی زندگیوں پر ایک زلزلہ طاری تھا اور جانیں حلق تک پہنچی ہوئی تھیں۔مگر رسولِ خداؐ تھے کہ سب کے لئے ڈھارس، حوصلے اور سہارے کا موجب تھے۔
پہلے توآپؐ صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کی کھدائی میں مصروف نظرآتے ہیں۔ کبھی کوئی سخت چٹان حائل ہوجاتی ہے، جو کسی سے نہیں ٹوٹتی تو خود خدا کا رسول وہاں پہنچتا ہے۔ حال یہ ہے کہ فاقہ سے دو پتھر پیٹ پر باندھ رکھے ہیں مگر کدال لیکر تین ضربوں سے پتھر کو ریزہ ریزہ کر چھوڑتے ہیں۔اس نازک موقع پر بھی خدا کے وعدوں پر ایمان و یقین کا یہ عالم ہے کہ وحی الہٰی کی روشنی میں صحابہ کے حوصلے بڑھاتے اور انہیں بتاتے ہیں کہ ہرضرب پر جو اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا گیا تو شام و ایران اور صنعاء و یمن کے محلات مجھے دکھائے گئے اور ان کی چابیاں مجھے عطا کی گئیں۔ (احمد40) یہ سن کر ان فاقہ کشوں کے حوصلے کتنے بلند ہوئے ہونگے ۔جنہیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
بعد کے حالات نے یہ بھی ثابت کیا کہ خندق کے ذریعہ محصورہو کر مسلمانوں کے دفاع کا فیصلہ کتنا مدبرانہ اور دانشمندانہ تھا۔ بلاشبہ وہ خندق نہتے مسلمانوں، معصوم بچوں اور عورتوں کیلئے متحدہ قبائل عرب کے خونخوار اوربپھرے ہوئے لشکروں سے پناہ کا ذریعہ بن گئی جو مدینہ کو لوٹنے اور مسلمان مردوں کو غلام اورعورتوں کو لونڈیاں بناکر ساتھ لے جانے کے ارادے سے نکلے تھے۔ مگر ایک طرف طویل محاصرہ نے ان کے حوصلے پست کئے تو دوسری طرف الہٰی نصرت مسلمانوں کے شامل حال ہوئی اورسخت سردی کے اُن ایام میں اچانک طوفانی آندھی سے سب لشکر پسپاہوگئے۔اُس وقت بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی عظمت کا نعرہ ہی بلند کیااورفرمایالَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ نَصَرَعَبْدَہ‘ وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘ کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جس نے اپنے لشکر کی مدد کی اورتنہا تمام لشکروں کو پسپاکردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کی عجیب شان بھی اس موقع پر ظاہر ہوئی آپؐ نے فرمایا کہ آئندہ کبھی اس طرح محصور ہوکرہم حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیں گے بلکہ آگے بڑھ کر دفاع کریں گے۔(بخاری)41
بحیثیت سالار فوج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس ذمہ داری بھی غیر معمولی تھا۔ غزوہ خندق کے مخدوش حالات میں حفاظتی حکمت عملی بہت ضروری تھی۔جس میں اسلامی قیادت کی حفاظت سرِ فہرست تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخفی مقام پر رہائش رکھتے تھے اور صحابہ کے ایک خاص دستہ کے علاوہ عام لوگوںکو اُس جگہ کی خبر نہ ہوتی تھی۔حضورؐ کے ساتھ ڈیوٹی پر مامورصحابہ میں طلحہؓ ، زبیرؓ، علیؓ، سعدؓ، اور انصار میں سے ابودجانہؓ اور حارث ؓبن الصمہ تھے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔جنگ احزاب کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نازک جگہ کی بڑی فکر رہتی تھی جہاں سے حملے کا خطرہ ہوسکتاتھا۔آپؐ اس پرہمہ وقت نظررکھتے تھے، جب بھی آکر سونے لگتے اور ذرا سی آہٹ پاتے تو اُٹھ کھڑے ہوتے۔ ایک دفعہ جو اسلحہ کی جھنکار سنی تو پوچھا کون ہے؟ یہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ اس نازک مقام پر پہرہ دیں۔اس رات رسول اللہؐ تسلی سے سوئے۔ (ھیثمی)42
غزوۂ حدیبیہ میں اخلاقِ فاضلہ
حدیبیہ کا واقعہ بھی مسلمانوں کیلئے ایک اور امتحان بن کر آیا۔مگر اس موقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔
ہرچند کہ حدیبیہ کا سفر کسی غزوہ یاجہاد کی غرض سے نہیں تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رؤیا کی تکمیل کی خاطر طواف بیت اللہ کی ایک کوشش تھی۔ رؤیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ آپؐ اپنے صحابہ کی معیت میں امن کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوکرطواف کررہے ہیں۔اس رؤیا کو طواف بیت اللہ کیلئے ایک الہٰی اشارہ سمجھتے ہوئے ذوالقعدہ 6ھ میں آپؐ نے اپنے چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ کیلئے رختِ سفر باندھا۔طوائف الملوکی کے اس دور میں تلوار عرب مسافروں کے لباس کا لازمی حصہ تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا کے مطابق امن کی علامت کے طور پر مسلمانوں کو تلواریں بھی نیام میں رکھنے کا حکم دیا۔ان کے علاوہ کوئی جنگی ہتھیار ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی، مسلمانوں نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ لئے تھے اور طواف کے بعد قربانی کرنے کیلئے جانور اپنے ساتھ رکھ لئے تھے۔ادھراہل مکہ کو پتہ چلا تو انہوں نے مسلمانوں کو طواف بیت اللہ سے روکنے کا فیصلہ کیا اور اس غرض سے ایک لشکر جس میں دوسو گھڑ سوار تھے۔ مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے تیا رکیا۔ مکہ کے قریب حدیبیہ مقام پر رسول اللہؐ کی اونٹنی رُک گئی وہ کسی طرح بھی آگے نہ بڑھتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہر حال میں راضی برضا رہنا سیکھا تھا۔ فرمانے لگے یہ اونٹنی خود نہیں رُکی الہٰی منشا یہی معلوم ہوتا ہے۔جس خدا نے ہاتھیوں کو خانہ کعبہ پر حملہ سے روکا تھا، اُسی خدا نے آج اسے بھی روکا ہے،تابیت اللہ کا امن خراب نہ ہو۔پھر آپؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بھی ایسا مطالبہ جو قریش مکہ مجھ سے کریںجس سے اللہ کی قابل احترام چیزوں کی حرمت قائم ہوتی ہو، میں لازماً اسے قبول کرونگا۔
عرب سردار بُدیل بن ورقاء قریش کی طرف سے پہلی سفارت کے طور پر مسلمانوں کو طواف کعبہ سے روکنے کاپیغام لے کر آیا۔ اس نے خوب ڈرانے کی کوشش کی اور کہا کہ اہل مکہ نے ارد گرد سے کئی جنگجواکٹھے کرلئے ہیں اور وہ خدا کی قسمیں کھارہے ہیں کہ آپؐ کو امن سے طواف بیت اللہ نہیں کرنے دیں گے۔رسول اللہؐ نے کس شان اورو قارسے جواب دیا کہ ہمارا مقصد جنگ و قتال نہیں۔ ہم تو محض طواف بیت اللہ کی غرض سے آئے ہیں۔ پھر آپؐ نے اپنے اس مضبوط موقف کے اظہار کیلئے کھل کر فرمایا کہ’’ اس مقصد میں جوروک بنے گا اس سے مجبوراً ہمیں جنگ بھی کرنی پڑی تو کریں گے، سوائے اس کے کہ قریش ہم سے کسی خاص مدت تک معاہدۂ صلح کرلیں۔‘‘
رسول اللہؐ کا یہ عزم بالجزم دیکھ کر اہل مکہ کے موقف میں نرمی آئی اور عروہ بن مسعود ان کی طرف سے یہ پیغام لایا کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کرلیں۔ یہ محض ضد اور ہٹ دھرمی تھی مگر رسول اللہؐ تو قدم قدم پر امن کے متلاشی تھے۔آپؐ نے حضرت عثمانؓ بن عفان کو مکے بھجوایا تاکہ وہ اپنے اثرورسوخ سے سردارانِ قریش میں کوئی نرم گوشہ تلاش کریں۔ان کے مذاکرات اس قدرطویل ہوگئے کہ مشہور ہوگیا عثمانؓ شہید کردیئے گئے۔ یہ بھی دراصل مشیئت الہٰی تھی ،کیونکہ یہ خبر سن کر عثمانؓ کا بدلہ لینے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے موت پر بیعت لی اور مٹھی بھر صحابہ کے جذبوں کو ایساجوان کردیا کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ اب وہ ہر حال میں مرنے مارنے پر تیار تھے اور کسی طرح طواف کئے بغیر ٹلنے والے نہ تھے،لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور تعظیم حرم بیت اللہ کی خاطر قدم قدم پر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے صحابہ کے جذبات کی قربانی بھی پیش کی۔
نمائندہ قریش سہیل بن عمروؓ کے ساتھ معاہدۂ صلح تحریر کرتے ہوئے رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ لکھو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْم تو سہیل نے کہا میں رحمان کو نہیں جانتا ہاں یہ لکھو تیرے نام کے ساتھ اے اللہ!اس پرمسلمان کہنے لگے خدا کی قسم ہم توبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْم ہی لکھیں گے، لیکن رسول اللہؐ نے فرمایا چلویہی لکھ لو کہ اللہ کا نام ہی ہے غیر اللہ کا تونہیں۔
پھر جب آپؐ لکھوانے لگے کہ یہ معاہدہ محمدرسول اللہؐ کا قریش کے ساتھ ہے،تو سہیل پھر اَڑ گیا کہ اگر ہم آپؐ کو اللہ کارسول مانتے تو بیت اللہ سے کیوں روکتے اس لئے محمد بن عبداللہ لکھو۔بلاشبہ مسلمانوں کیلئے یہ بھی تکلیف دہ بات تھی،مگررسول اللہ ؐ نے فرمایا خدا کی قسم میں تو اللہ کا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب کرو۔لیکن صلح کی خاطر میں اس پر بھی راضی ہوں کہ محمد بن عبداللہ ہی لکھ لو۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا کہ یہ صلح اس شرط پر ہے کہ تم ہمیں امن سے طواف کرنے دو گے۔سہیل نے کہاسارے عرب کیا کہیں گے کہ ہم نے اتنی جلدی شکست قبول کرلی، اس لئے اس سال نہیں ہاں اگلے سال آپ لوگ طواف کرسکوگے۔ چنانچہ یہی لکھا گیا۔
پھر سہیل نے یہ شرط لکھوائی کہ ہماری طرف سے کوئی آدمی مسلمان ہوکر اور بھاگ کر مدینہ جائے گا تو آپؐ اسے مکہ واپس لوٹائیںگے۔مسلمان اس پرسخت جذباتی ہوکر کہنے لگے کہ مظلوم مسلمانوں کو ہم کیسے مشرکوں کے حوالے کردیں گے؟ابھی یہ شرط طے نہیں پائی تھی اور بحث جاری تھی کہ سہیل کا مظلوم بیٹا ابوجندلؓ (جو مسلمان تھا او ر اسے سہیل نے قید کر رکھا تھا) پابجو لاں ، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں اُٹھائے آیا اوررحم کی بھیک مانگتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا۔سہیل کہنے لگا اب میری پہلی شرط یہ ہوگی کہ ابوجندلؓ ہمیں واپس لوٹا دو۔رسول اللہؐ نے فرمایا ابھی اس شرط کافیصلہ نہیں ہوااور معاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی ،ابوجندلؓ کو لوٹانے کا کیا سوال ہے۔مگر سہیل نے کہا کہ خدا کی قسم! پھر میںمعاہدہ نہیں کرونگا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اچھا تمہاری شرط مان لیتے ہیں، اب تم میری خاطر ہی ابوجندل کو چھوڑ دو۔ سہیل نے کہا میںاسے آپؐ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا۔آپؐ نے پھر اصرار کیا ۔مگر سہیل راضی نہ ہوا۔
ابوجندلؓنے اپنی قسمت کا فیصلہ خلاف ہوتے دیکھا تودُہائی دینے لگا کہ اے مسلمانو! کیا میں اس حالت مظلومیت میں مشرکوں کی طرف واپس لوٹا یا جائوں گا حالانکہ میں مسلمان ہوکر آیا ہوں۔تم دیکھتے نہیں انہوں نے مجھے اذیتیں دے کر میرا کیاحال کررکھا ہے؟اُس وقت مسلمانوں کے ہوش وحواس جواب دے چکے تھے۔حضرت عمرؓ جیسے جری کے حوصلے بھی اس ابتلا میں پست ہوگئے۔ وہ رسول اللہ ؐسے مخاطب ہوئے کہ کیا آپؐ اللہ کے نبی برحق نہیں؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال اعتماد سے جواب دیاکیوں نہیں۔عمرؓ نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟رسو ل کریمؐ نے فرمایا کیوں نہیں۔عمرؓ نے کہا پھر اپنے دین کے بارے میں ہم ذلت کیوں قبول کررہے ہیں؟ رسول اللہؐ نے کمال صبروحوصلہ سے جواب دیا۔میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہی میرا مددگار ہے۔عمر ؓنے کہا۔کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایاتھا کہ ہم امن سے خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟رسول اللہؐ نے فرمایا ہاں۔مگر کیا میں نے یہ کہا تھا ہم اسی سال طواف کریں گے؟ عمرؓ نے کہا نہیں۔آپؐ نے فرمایا تو پھر اگلے سال آکرآپؐ طواف کروگے۔
قریباًایسے ہی جذبات دیگر صحابہ کے تھے۔ جن کو حضرت عمرؓ نے زبان دی تھی۔مگر ایک رسول اللہؐ تھے کہ کوہِ استقامت بنے ہوئے تھے۔ یا پھر صدیق اکبرؓ انشراح صدر کے ساتھ آپؐ کی رکاب سے چمٹے ہوئے حضرت عمرؓ کو بھی یہی وعظ کررہے تھے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ان کی رکاب تھامے رکھنا خدا کی قسم ! یہ حق پر ہیں۔حضرت عمرؓ بعد میں کہا کرتے تھے کہ حدیبیہ پر جو ابتلا مجھے پیش آیا۔میں نے اس کی تلافی کے لئے بہت نیک اعمال کئے کہ اللہ تعالیٰ وہ لغزش معاف کردے۔
معاہدہ طے ہوجانے کے بعد رسول اللہؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ اب اپنی قربانیاں یہیں میدان حدیبیہ میں ذبح کرڈالو۔ صحابہ غم سے نڈھال اور صدمہ سے مدہوش تھے۔ وہ بے حس و حرکت اور ساکت و جامد کھڑے تھے۔رسولِ خداؐ نے تین مرتبہ اپنا حکم دہرایا کہ اپنی قربانیاں ذبح کردو مگرکسی کو ہمت نہ ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کے خیمہ میں تشریف لے گئے اور افسوس کے رنگ میں ان سے یہ ذکر کیا کہ صحابہ میری ہدایت کے مطابق قربانیاں ذبح کرنے میں متردّد ہیں۔ ام سلمہ ؓنے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! اگر آپؐ قربانیاں کرواناچاہتے ہیں تو کسی سے بات کئے بغیر خود جاکر میدان حدیبیہ میں اپنی قربانی ذبح کردیں۔ام سلمہؓ کا مشورہ کتنا صائب تھا۔واقعی غم کے وہ بت نمونہ چاہتے تھے۔ رسول اللہ ؐ کی اپنی قربانی ذبح کرنے کی دیر تھی کہ صحابہ اس طرح دھڑا دھڑ قربانیاں ذبح کرنے لگے کہ میدان حدیبیہ حرم بن گیا۔اُن کے غم کا یہ حال تھا کہ قربانی کے بعد وہ کانپتے بدن اور لرزتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے سر مونڈرہے تھے اورخطرہ تھاکہ لرزتے ہاتھوں سے کہیں وہ ایک دوسرے کی گردنیں ہی نہ کاٹ ڈالیں۔(بخاری)43
فتح خیبر میں خلقِ عظیم
مسلمانانِ مدینہ کو جنوب کی سمت سے اہل مکہ کے حملہ کا خطرہ رہتا تھاتو شمال سے یہودِخیبرکا۔ صلح حدیبیہ اس طرح فتح خیبر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کہ مسلمان اس معاہدہ صلح کے باعث اہل مکہ کے خطرہ سے امن میں آگئے۔اب اُن کے لئے یہودِ خیبر کے شمالی خطرے سے نبٹناآسان تھا۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعدتین ماہ کی قلیل مدت میں ہی خیبر ۷ھ ؁ میں فتح ہوگیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کی تیاری کا حکم دیا تو یہ اعلان فرمایا کہ’’ کوئی شخص جہاد کے علاوہ کسی غنیمت وغیرہ کے ارادہ سے ہمارے ساتھ نہ نکلے۔‘‘(الحلبیہ)44
پھرآپؐ نے اس ہدایت کی تعمیل کیلئے عملی کاروائی یہ فرمائی کہ حدیبیہ میں شامل افراد ہی کو خیبر کی تیاری کا حکم فرمایا، جو خلوص نیت سے حج اور عمرہ کے ارادہ سے نکلے تھے اوررسول اللہؐ کے ہاتھ پرموت پر بیعت کر کے ہر حال میں آپؐ کی فرمانبرداری کا عہد تازہ کیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان مومنوں کے پاکیزہ ارادوں پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے انہیں ایک فتح قریب کی بشارت بھی عطافرمائی تھی۔(سورۃالفتح :19)
خیبر میں دس ہزار مسلح قلعہ بند یہودیوں کے مقابل پر اپنے لشکر کو محض حدیبیہ کے چودہ سواصحاب میں محدود کردیناجنگی نقطہ نگاہ سے بظاہر مناسب نظر نہیں آتالیکن آنحضرت ؐ کے پیش نظریہ ضابطۂ اخلاق تھاکہ محض مالِ غنیمت کی نیت سے کوئی شخص ہمارے لشکر میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔(الحلبیہ45)یہ پاکیزہ نمونہ بڑی شان کے ساتھ ہمیشہ اس الزام کی نفی کرتا رہے گا کہ اسلامی جنگوں کا مقصد محض لوٹ مار اور حصول غنیمت تھا۔
یہودِ خیبر سے مصالحت کی کوشش
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہودی سازشوں کا اطلاع ہوئی تو آپؐ نے پہلے مصالحت سے اس فتنہ کو دبانے کی کوشش کی۔آپؐ نے یہود کو ایک خط میں لکھا کہ یہ خط موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور ان کی تعلیم کی تصدیق کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہودِ خیبر کے نام ہے۔اے یہود کے گروہ! تمہاری کتاب تورات میں مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ(الفتح:30)کی پیشگوئی موجود ہے۔میں تمہیں اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تم پر تورات اتاری،جس نے تمہارے آبائو اجداد کو مَنّ و سلویٰ عطا کیا اورسمندر خشک کر کے فرعون سے نجات بخشی۔سچ سچ بتائو کہ کیا تمہاری کتاب میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور یاد رکھو ہدایت و گمراہی کھل چکی ہے میں تمہیں اللہ اور رسول کی طرف بلاتا ہوں۔(ابن ھشام)46
کیسا واضح اور خوبصورت اس خط کا مضمون ہے جو اظہار محبت و تبشیر اور انذار و تنبیہ کے حسین امتزاج کا مرقع ہے۔امن کی ان تمام کوششوں کا یہود نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
غزوہ ٔ خیبر میںمحمود بن سلمہؓ کی شہادت کے بعد جب ان کے بھائی محمد بن مسلمہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میرے بھائی محمود ؓ کو یہودیوں نے زیادتی سے قتل کیا ہے میں اس کا انتقام لے کر رہوں گا۔ کوئی اورجرنیل ہوتا تو دشمن کے خلاف اپنے سپاہی کی اس جوش و غیرت کو سراہتا مگر اس موقع پر بھی صبرو استقامت کے اس علمبردار نے اعتدال کا کیسا عمدہ سبق دیافرمایا’’دشمن سے مقابلہ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے اور خدا سے عافیت مانگو۔ ہاں! جب دشمن سے مٹھ بھیڑ ہوجائے تو پھر دعا اور تدبیر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو اور یہ دعا کرو ۔اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبُّنَا وَنَوَاصِیْنَا وَنَوَاصِیْھِمْ بِیَدِکَ وَاِنَّمَا تَقْتُلُھُمْ اَنْتَ(الحلبیہ47)یعنیاے اللہ تو ہی ہمارا رب ہے ہم اور ہمارے دشمن سب تیرے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اب تو ہی ان کو مارے تو مارے۔
حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم رات کے وقت خیبر پہنچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ کسی دشمن پر شب خون نہ مارتے تھے۔ خیبر میں بھی آپؐ نے رات کے اندھیرے میںدشمن کے غافل ہونے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔(بخاری)48
صنفِ نازک کی عزت افزائی
اس زمانہ میں رواج تھا کہ جنگ میں مردوں کا حوصلہ بڑھانے، رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور دل بہلانے کیلئے عورتیں بھی شریک جنگ ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کاجو تقدس اور احترام قائم فرمایا اس لحاظ سے آپؐ کو یہ طریق سخت ناپسند تھا۔خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص کچھ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی، تیمارداری اور دیکھ بھال کیلئے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاکیزہ خیال کو ایک فرانسیسی عیسائی سوانح نگاریوں بیان کرتا ہے کہ
’’شاید تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی لشکر کے ساتھ عورتیں نرسنگ کی خدمات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے شامل ہوئیں، ورنہ اس سے پہلے جنگ میں عورت سے تحریضِ جنگ اور حظِّ نفس کے سواکوئی کام نہیں لیا جاتا تھا ۔عورت سے درست اور جائز خدمات لینے کے بارہ میں اب تک کسی نے نہ سوچا تھا کہ میدان جنگ میں تیمارداری اور بیماروں کی دیکھ بھال کی بہترین خدمت عورت انجام دے سکتی ہے۔‘‘(حیات محمد)49
خاموش حکمتِ عملی
قریباً ڈیڑھ سو میل کافاصلہ تین راتوں کے مسلسل تھکا دینے والے سفر میں بعجلت طے کر کے آنحضرتؐ خیبر پہنچ گئے۔علی الصبح جب وادی خرص سے میدان خیبر میں داخل ہونے لگے تو صحابہ کرامؓ نے بخیر و عافیت اپنی منزل پالینے کی خوشی میں کے نعرے بلند کرنے شروع کئے۔ اس خاموش پیش قدمی میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ اور لاَاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہکے نعروں کا یہ شور خلاف مصلحت تھا، کیونکہ آنحضرت ؐ تو یہود خیبر کے پاس اچانک پہنچ کر انہیں حیران و ششدر اور مبہوت کرنا چاہتے تھے۔آپؐ نے صحابہ کو ان نازک لمحات میں موقع محل کی مناسبت سے کام کرنیکی نصیحت کرتے ہوئے فرمایااِرْبَعُوْا عَلیٰ اَنْفُسِکُمْ اِنَّکُمْ لَاتَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَاغَائِبَ اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا قَرِیْبًا وَھُوَمَعَکُمْ(بخاری50)یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ اور لاَاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تو ذکر الہٰی کے کلمے ہیں۔تم لوگ اپنے نفسوں پر رحم کرو اور آہستہ ذکر الہٰی کرو۔ جسے تم پکارتے ہو وہ نہ بہرہ ہے نہ غائب بلکہ وہ خوب سنتا ہے۔وہ تمہارے قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے۔
حضرت محمدمصطفی ؐ کی فصاحت و بلاغت کا کمال دیکھئے کہ اپنے دل کی بات ایسے خوبصورت انداز اور جامع الفاظ میں بیان فرمائی کہ مبادا کوئی کہے دشمن کے خوف سے خدا کا نام بلند کرنے سے روک دیا گیا۔فرمایاہمارا خدا تو آہستہ ذکر بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح بلند۔ مصلحت وقت کا تقاضا آہستہ ذکر کا ہے اور اس وقت یہی عمل صالح ہے۔ بلند بانگ نعرے خلافِ حکمت اورہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔
خیبرمیں پڑائو کرتے ہوئے دوسری حکمت عملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اختیار فرمائی کہ لشکر کو پانچ حصوں(مقدمہ، میمنہ،میسرہ،قلب اور ساقہ) میں تقسیم کر کے قلعہ ہائے خیبر کے سامنے میدان میں اس طرح پھیلادیا کہ سرسری نگاہ میں وہ ایک لشکر جرار نظر آتا تھا اور اس حکمت عملی میں جودراصل دشمن کو اچانک حیران و ششدر کر دینے اوربوکھلاہٹ(Surprize) دینے کا حصہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی۔
واقعہ یہ ہوا کہ صبح جب قلعوںکے دروازے کھلے اور یہودی اطمینان سے کھیتی باڑی اور کام کاج کیلئے کسیاں ،کدال ، ٹوکریاں لے کر باہر نکلنے لگے تو اچانک مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے۔مدینہ سے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے تو انکو اطلاع دی تھی کہ مٹھی بھر مسلمان خیبر پر حملہ کرنے آرہے ہیں۔ اب ایسا لشکر دیکھ کر وہ حیران و ششدر یہ کہتے ہوئے واپس قلعوں کی طرف دوڑے مُحَمَّدْ وَالْخَمِیْس وَاللّٰہِ مُحَمَّدْ وَالْخَمِیْس۔(بخاری)51
یعنی محمدؐ اور اس کا پانچ دستوں والا لشکر ۔خدا کی قسم محمدؐ اور پانچ دستوں والا لشکر(آن پہنچا)۔ رسول اللہؐ زبردست حیرانی اور سرپرائز (Surprise) دے کر ایک اور فتح حاصل کر چکے تھے۔
عارفانہ نعرے
اب نعرے لگانے اور خدا کا نام بلند کرنے کا وقت تھا اور اس عارفانہ نعرہ کے پہلے حقدار میرے آقائے نامدار نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔سو آپؐ نے خیبر کی وادیوں میںبآواز بلند یہ نعرہ لگایا۔اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ خرِبَتْ خَیْبَرُ۔اِنَّا اِذَانَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْن۔(بخاری52)یعنیاللہ سب سے بڑا ہے۔خیبر ویران ہوگیا اور ہم جب کسی قوم کو تنبیہہ اور ہوشیار کردینے کے بعداس کے میدان میں اترتے ہیںتو اس کی صبح نامبارک صبح ہوا کرتی ہے۔
رسول اللہ ؐ کے اس واشگاف اعلان سے آپؐ کی یہ امتیازی شان ظاہر ہے کہ آپؐ دشمن پر بغیر مناسب انتباہ وانذار(وارنننگ اورالٹی میٹم) کے حملہ نہ کرتے تھے ۔بے شک آپؐ دشمن کو حالت جنگ میں جنگی حکمت عملی کے طور پر اچانک حملہ آور ہوکر حیران و ششدر توکر دیتے تھے، لیکن شب خون سے منع فرماتے تھے۔ آپؐ کا یہ خلق عظیم حیرت انگیز ہے کہ دشمن کے سر پر پہنچ کر بھی دن کی روشنی کا انتظار کرتے ہیں۔
حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک تھے۔والیٔ خیبر درشت رو اور بے لحاظ انسان تھا۔(فتح کے بعد) اس نے رسول اللہؐ کے پاس آکر کہا اے محمدؐ! کیا تم لوگوں کو حق پہنچتاہے کہ ہمارے جانور ذبح کرو،ہمارے پھل کھائو اور ہماری عورتوں کو مارو۔ نبی کریمؐ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور عبدالرحمان بن عوفؓ سے فرمایا کہ آپؐ گھوڑے پر سوار ہوکر یہ اعلان کریں کہ جنت میںصرف مومن ہی داخل ہونگے نیز لوگوں کو نماز کے لئے جمع کیاجائے۔ جب وہ اکٹھے ہوگئے تو آپؐ نے صحابہ سے خطاب فرمایا کیا تم میں کوئی تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے سوائے اس کے جو قرآن میں ہے،کوئی چیز حرام نہیں کی۔سنو میں نے بھی کچھ احکام دیئے ہیں اور بعض باتوں سے روکا ہے وہ بھی قرآن کی طرح ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں رکھا کہ تم اہل کتاب کے گھر وں میںبلا اجازت داخل ہو۔ نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے کی اجازت دی ہے اورنہ ان کے پھل کھانے کی۔ جب (معاہدہ کے مطابق )وہ تمہیں وہ کچھ دے رہے ہوں جو ان کے ذمہ ہے یعنی جزیہ۔ (ابودائود)53
جرنیل… سپاہیوں کے ساتھ
فتح خیبر سے واپسی پرپڑائو خیبر سے تین میل اِدہر صہباء مقام پر ہوا۔ یہاں نماز عصر کے بعد حضورؐ نے کھانا طلب فرمایا اور اپنے سپاہیوں سے فرمایا کہ جس کے پاس جو زاد راہ ہے وہ لے آئے۔ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے۔ دسترخوان بچھائے گئے اور کھانا چنا گیا۔ہمارے آقا کا وہ کھانا کیا تھا ؟جو کے ستو اور کچھ کھجوریں جو آپؐ نے اپنے خدام کے ساتھ مل کر تناول فرمائیں۔(بخاری54)یہ نظارہ کتنا دلکش ہے جس میں آقا پنے غلاموں کے ساتھ کمال سادگی، انکساری اور بے تکلفی سے ستو اور کھجور کا ماحضر تناول کرتا نظر آتاہے۔
فتح مکہ میں ظاہر ہونے والے خلقِ عظیم
قریش مکہ کے لشکر بدر اوراحدمیں مدینے کے گنتی کے چندمجبور اور نہتّے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے ۔پھر جنگ احزاب میں تو سارا عرب مسلمانان مدینہ پر چڑھ آیا اور اہل مدینہ نے شہر کے گرد خندق کھود کر اور اس میں محصور ہوکر جانیں بچائیں۔آپؐ ہمیشہ دفاع ہی کرتے رہے۔ خانہ کعبہ کے حقیقی متولی مسلمانوں کو یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ خدا کے گھر کا طواف ہی کرسکیں۔ چنانچہ 6ھ میں چودہ سو مسلمانوں کو جو طواف بیت اللہ کی غرض سے مکہ جارہے تھے حدیبیہ سے واپس لوٹادیا گیا۔اسی موقع پر معاہدہ صلح کی شرائط طے ہوئیں۔
صلح کا شہزادہ
فتح مکہ کے موقع پر ایک دفعہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلق عظیم پر فائز ہونے کی بے نظیر شان دنیانے دیکھی۔ہر چند کہ قریش مکہ نے صلح حدیبیہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ پر شب خون مار کر معاہدہ توڑدیا۔پھربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے صلح کی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں۔چنانچہ آپؐ نے معاہدہ شکنی کرنے والوں کی طرف اپنا سفیر تین شرائط میں سے کسی ایک شرط پر صلح کی پیشکش کے ساتھ بھیجا کہ ہمارے حلیف خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہاادا کردو یا بنو بکر کی طرف داری سے الگ ہوجائو یا حدیبیہ کی صلح توڑنے کا اعلان کردو۔ مسلمانوں کے اس سفیر کو جواب ملا کہ ہم حدیبیہ کی صلح توڑتے ہیں۔(زرقانی)55
سفر مکہ میںرازداری کے لئے تدبیراوردُعا
راز داری کی حکمت عملی کا مقصد قریش مکہ کو تیاری کا موقع نہ دیکر ازراہ احسان انہیںکشت وخون سے بچانا تھا۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے نواح مدینہ میں یہ پیغام بھجوایا کہ اس دفعہ کا رمضان مدینہ میں گزاریں اور اہل مدینہ کو سفر کی تیاری کی ہدایت فرمائی۔لیکن یہ ظاہر نہ فرمایا کہ کہاں کا قصد ہے۔
ایک لشکر جرار کی تیاری او ر نقل و حرکت رازداری میں رکھنا بظاہر ایک ناممکن امر تھا۔لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہر کٹھن مرحلہ کیلئے دعا اور تدبیر کو کام میں لاتے تھے۔آپؐ نے اپنے رب کے حضور ؐ دعا کی اَللّٰھُمَّ خُذِالْعُیُوْنَ وَالْاَخْبَارَ عَنْ قُرَیْشٍ کہ اے اللہ قریش کے جاسوسوں کو روک رکھ اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچیں اور تدبیر یہ فرمائی کہ مدینے سے مکے جانے والے تمام رستوں پرپہرے بٹھادیئے۔(الحلبیہ)56
افشائے راز کا خطرہ
لشکر اسلام کی اس خاموش تیاری کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے مکے پرچڑھائی کا راز کھل جانے کا سخت خطرہ پیداہوگیا۔ہوا یوں کہ ایک صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے مکّہ جانیوالی ایک عورت کے ذریعے قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھجوادی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر تیار ہے۔ یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچائو کرلو۔ میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخبری کی اطلاع کردی۔ آپ ؐ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی ؓ کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجاجو یہ خط واپس لے آئے۔رسول کریمؐ نے حاطب ؓ کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیاکیا؟ حاطب ؓ نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول اللہؐمیں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مکے میں میرے گھر بار کی حفاظت کریں۔حضرت عمر ؓ اس مجلس میں موجود ہیں وہ کہنے لگے۔ یارسول اللہ ؐ !مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔مگر جانتے ہو وہ رحیم و کریم رسولؐ کیا خوب جواب دیتے ہیںکہ نہیں نہیں حاطب سچ کہتا ہے اسے کچھ نہ کہو۔حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐاس نے مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے اس کی گردن مارنے دیجئے۔
شفقت بے پایاں
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف عمرؓ کی سختی پر تحمل سے کام لیا تو دوسری طرف حاطبؓ کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا عمر ؓ! تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہوا تھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور ان کے حق میں فرماتا ہے اِعْمَلُوْ امَاشِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ کہ جو چاہو کرو تمہارے لئے جنت واجب ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالارادہ ان سے کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔(بخاری)57
اس رئوف و رحیم رسول ؐکی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کرحضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے ۔ان کی حیرانی بجاتھی کہ اپنی زندگی کے اہم نازک ترین اور تاریخ ساز موڑ پر توکوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی روک کو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتا۔ ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کیلئے کم ازکم احتیاط یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کو زیر حراست رکھا جائے، لیکن دیکھو اس دربار عفو و کرم کی شان دیکھو جس سے حاطبؓ کے لئے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا۔
حیرت ناک حکمت عملی
مرالظہران کے وسیع میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداداد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت عملی کا ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا۔ آپؐ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور ہر شخص آگ کا ایک الائو روشن کرے۔اس طرح اس رات دس ہزار آگیں روشن ہوکر مرالظہران کے ٹیلوں پر ایک پر شکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگیں۔ (بخاری)58
عربوں کے دستور کے مطابق لشکر کے دس آدمیوں کی ایک ٹولی اپنی آگ روشن کرتی تھی۔اب یہاں دس ہزار لشکر کے اتنے ہی آگ کے الائو مسلمانوں کے لشکر کی اصل تعداد کوکہیں زیادہ ظاہر کررہے تھے۔
ابو سفیان کو معافی
اُدھر ابو سفیان اور اس کے ساتھی سردار رات کو شہر مکہ کی گشت پر نکلے تو یہ ان گنت روشنیاں دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گئے۔ابو سفیان کہنے لگا خدا کی قسم میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر اور آگیں نہیں دیکھیں۔وہ ابھی یہ اندازے ہی لگا رہے تھے کہ اتنا بڑا لشکر کس قبیلے کا ہوسکتا ہے؟ کہ حضرت عمرؓ کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے ان کو پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔اس موقع پرحضرت عمرؓ نے دشمن اسلام ابو سفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرتؐ تو اس کے لئے پہلے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابو سفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے ۔یہ گویا آپؐ کی طرف سے ابو سفیان کی ان مصالحانہ کوششوں کا احترام تھا جو اس نے معاہدہ شکنی کے خوف سے مدینے آکر چالاکی سے کی تھیں اور ان کی کوئی قیمت نہ تھی،لیکن آپؐ کی رحمت بھی تو بہانے ڈھونڈتی تھی۔(ابن ھشام)59
چنانچہ حضرت عباسؓنے ابو سفیان کو پناہ دی۔صبح جب ابو سفیان دوبارہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا۔’’ابو سفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘تب ابو سفیان نے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نہایت حلیم ، شریف اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتاوہ ضرور ہماری مدد کرتا البتہ آپؐ کی رسالت کے قبول کرنے میں ابھی کچھ تامّل ہے۔ (ابن ھشام)60
حضرت عباسؓ کوارشاد ِرسولؐ ہوا کہ جب اسلامی لشکرمکّہ کی جانب روانہ ہو تو ابو سفیان کو کسی بلندجگہ سے لشکر کی شان و شوکت کا نظارہ کرایا جائے، شایدیہ دنیا دار شخص اس سے مرعوب ہوکر حق قبول کر لے۔ دس ہزار قدوسیوں کا لشکر چلا، ہر امیرِ فوج جھنڈا بلند کئے دستہ کے آگے تھا۔انصاری سردار سعد بن عبادہؓ اپنادستہ لیکر ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو جوش میں آکرکہہ گئے۔ اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃْ اَلْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃَ
آج جنگ و جدال کا دن ہے آج کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے۔(بخاری)61
نبی کریم ﷺ نے اپنے اس کمانڈر کوجو ایک طاقتورقبائلی سردارتھا معزول کردیا کہ اس نے حرمت کعبہ کے بارے میں ایک ناحق بات کیوںکہہ دی اور ابو سفیان کا دل بھی دُکھایا۔ہاں ! اس دشمن اسلام ابو سفیان کا جو مفتوح ہو کر بھی ابھی آپؐ کی رسالت قبول کرنے میں متامل تھا۔ اے دنیا والو! دیکھو اس عظیم رسولؐ کے حوصلے تو دیکھو، عین حالت جنگ میں جرنیلوں کی معزولی کے تمام خطروں سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ سعد سے اسلامی جھنڈا واپس لے لیا جائے۔(ابن ھشام)62
مگر ہاں اس محسن اعظم کے احسان پر بھی تو نظر کرو کہ غیرت اسلام کے جوش میں سر شار ایسا نعرہ بلند کرنے والے جرنیل سعدؓ کا بھی آپؐ کس قدر لحاظ رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی دوسرا حکم یہ صادر فرماتے ہیں کہ سعدؓ کی بجائے سالارِ فوج ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کو مقرر کیا جاتا ہے۔ (الحلبیہ)63
کیا جنگوں کی ہنگامہ خیزیوں میں بھی کبھی اپنے خدام کے جذبات کا ایسا خیال رکھا گیا ہے؟ نہیں نہیں یہ صرف اس رحمۃ للعالمین کا ہی خلقِ عظیم تھا جو سزا میں بھی رحمت و شفقت اور احسان کا پہلو نکال لیتے تھے۔
فتح مکہ۔عظمتِ اخلاق کا بلند ترین مینار
فاتحین عالم کے اس دستور سے کون ناواقف ہوگا کہ شہروں میں داخلے کے وقت آبادیوں کو ویران اور ان کے معزز مکینوں کوبے عزت اور ذلیل کردیا جاتا ہے، لیکن رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی عظیم ترین فتح کو بھی تو دیکھو جہاں آپؐ کی عظمتِ اخلاق کا سب سے بلند اور روشن ترین مینار ایستادہ ہے۔
جب دس ہزار قدوسیوں کا لشکر مکہ کے چاروں اطراف سے شہر میں داخل ہوا تو قتل و غارت کا بازار گرم ہوا نہ قتل عام کی گرم بازاری بلکہ امن و سلامتی کے شہنشاہ کی طرف سے یہ فرمان شاہی جاری ہوا کہ ’’آج مسجد حرام میں داخل ہونیوالے ہر شخص کو امان دی جاتی ہے ۔امان دی جاتی ہے ہر اس شخص کو جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اپنے ہتھیار پھینک دے اپنا دروازہ بند کر لے اور ہاں جو شخص بلال حبشیؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے اسے بھی امان دی جاتی ہے۔(الحلبیہ)64
اس اعلان کے ذریعہ جہاں خانہ کعبہ کی حرمت قائم کی گئی وہاں دشمن اسلام ابو سفیان کی دلداری کا بھی کیسا خیال رکھا گیا یہی وہ اعلیٰ اخلاق تھے جس سے بالاخرابو سفیان کا دل اسلام کے لئے جیت لیا گیا اور اسے اس تالیف قلب کے ذریعہ نبی کریمؐ کی رسالت پر ایمان نصیب ہوا۔
بلال کے جذبات کا خیال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلال ؓ کے جھنڈے کو امن کا نشان قرار دینا بھی علم النفس کے لحاظ سے آپؐ کے اخلاق فاضلہ کی زبردست مثال ہے، کوئی وقت تھا جب مکے کے لوگ بلالؓ کو سخت اذیتیں دیا کرتے تھے اور مکے کی گلیاں بلالؓ کے لئے ظلم و تشدد کی آما جگاہ تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا آج بلال ؓکا دل انتقام کی طرف مائل ہوتا ہوگا ،اس وفا دار ساتھی کا انتقام لینا بھی ضروری ہے۔لیکن ہمار انتقام بھی اسلام کی شان کے مطابق ہونا چاہئے پس آپؐ نے گردنیں کاٹ کر بلال ؓ کا انتقام نہیں لیا بلکہ بلال ؓ جو کبھی مکّہ کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا۔آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اہل مکہ کے لئے امن کی علامت بنا دیا۔بلال کے دشمنوں کو بھی معاف کردیا اور بلال ؓ کے جذبات کا بھی خیال رکھا۔
میں سوچتا ہوں وہ کیا عجیب منظر ہوگا جب بلال ؓ یہ منادی کرتا ہوگا کہ اے مکہ والو! بلالی جھنڈے کے نیچے آجائو تمہیں امن دیا جائے گا اور یہ کتنا بڑا فخرہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بخشا کہ اس پر ظلم کرنیوالے اس کی پناہ میں آنے سے بخشے جائیں گے۔ یہ پاک نمونہ بلا شبہ شرفِ انسانی کے قیام کی زبردست علمی شہادت ہے۔
خون خرابہ سے بچنے کی کوشش
رسول کریم ؐنے مکّہ میں داخل ہوتے وقت اپنے جرنیلوں کو بھی حکم دیا کہ کسی پر حملے میں پہل نہیں کرنی اور اس وقت تک جنگ شروع نہیں کرنی جب تک لڑائی تم پرمسلط نہ کردی جائے۔ آپؐ خود مکّہ کی بالائی جانب اس مقام سے شہر میں داخل ہوئے جہاں ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی قبریں ہیں اور یوں فتح کے موقع پر بھی مصیبت کے زمانہ کے مددگاروں کو یاد رکھا۔
نبی کریمؐ نے اپنے کہنہ مشق جرنیل خالدؓ بن ولید کو مکّہ کی زیریں شمالی جانب سے داخلے کا ارشاد فرمایا جہاں عکرمہ بن ابی جہل اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا اس مزاحمت میں مسلمانوں کے دو آدمی شہید ہوگئے۔(بخاری)65
قریش کے جو آدمی مارے گئے ان کی تعداد دس سے اٹھائیس تک بیان کی جاتی ہے۔ اگر کفار کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ خون بھی نہ بہتا۔(الحلبیہ)66
سرولیم میور نے بھی لکھاہے کہ محمد نے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم دیا اور سختی سے ہدایت کی کہ سوائے انتہائی مجبوری اور خود حفاظتی کے جنگ نہیں کرنی۔ (میور67)اسی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر چند گنتی کے مشرک مارے گئے۔ مگر اتنی بڑی فتح پر اتنے کم جانی نقصان ہوجانے کا بھی آنحضرتﷺکو سخت افسوس تھا۔(ابن ہشام)68
آپؐ نے اپنے جرنیل خالد ؓ بن ولید کو بلا کر اس کی جواب طلبی فرمائی کہ حتی الامکان از خود حملہ نہ کرنے کی ہدایت کے باوجود پھر یہ خون کیوں ہوا اور جب آپ ؐکو حقیقت حال کا علم ہواتو ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر راضی برضا ہوئے کہ منشا الہٰی یہی تھا۔(الحلبیہ)69
فتح مکّہ پر عجزو انکسار کا عجیب منظر
ہمارے سیدو مولا کے شہر میں داخل ہونے کا منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا۔شہر کا شہر اس عظیم فاتح کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب اورمنتظرتھا۔ اہل شہر سوچتے ہونگے کہ فاتح مکہ آج فخر سے سر اونچا کئے شہر میں داخل ہوگا لیکن جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شاہی سواری آئی تو وہاں کچھ اور ہی منظر تھا۔ربِّ جلیل کایہ پہلوان حفاظتی خود کے اوپرسیاہ رنگ کا عمامہ پہنے اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھا اور سرخ رنگ کی یمنی چادر پہلو پر تھی۔سواری پر پیچھے اپنے وفادار غلام زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ کو بٹھایا ہوا تھا۔دائیں جانب ایک وفادار ساتھی حضرت ابو بکر ؓ تھے اور بائیں جانب حضرت بلال ؓ اور اُسید بن حضیرؓانصاری سردار تھے۔(بخاری)70
فتح مکہ کے دن امن کے اعلان عام کی خاطررسولِ خدا ؐ نے سفید جھنڈا لہرایا جب کہ بالعموم آپؐ کا جھنڈا سیاہ رنگ کا ہوا کرتا تھا۔مکّہ میں داخلہ کے وقت رسول اللہ ؐ سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرمارہے تھے اور آپؐ کی سواری شہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔پھروہ موڑ آیا جس سے مکّہ میں داخل ہوتے ہیں وہی موڑ، جہاں آٹھ سال پہلے مکّہ سے نکلتے ہوئے آپ ؐ نے وطن عزیز پر آخری نگاہ کرتے ہوئے اسے اس طرح الوداع کہا تھا کہ’’اے مکہ! تو میرا پیارا وطن تھا اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا‘‘
سرولیم میور لکھتا ہے کہ’’خدشہ تھا کہ شاید اس جگہ نبی کریم کو مکہ میں داخلہ سے روکنے کیلئے مزاحمت ہومگر اللہ کی شان کہ خدا کا رسول آج نہایت امن سے اپنے شہر میں داخل ہورہا تھا‘‘(میور)71
اس موقع پر مفتوح قوم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی فتح کے دن غرور اور تکبر کے کسی اظہار کی بجائے خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر اس عظیم فاتح کا سر عجزوانکسار اور شکر کے ساتھ جھک رہا تھا حتی کہ جھکتے جھکتے وہ اونٹنی کے پالان کو چھونے لگا دراصل آپؐ سجدۂ شکر بجالا رہے تھے اور یہ فقرہ زبان پر تھا ۔اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّاعَیْشَ الْآخِرَۃَ کہ اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔دنیا کی فتوحات کی کیا حقیقت ہے۔(ابن ھشام)72
اللہ اللہ! محمد مصطفی ﷺکی استقامت کتنی حیرت انگیز ہے اور آپؐ کی بے نفسی کا بھی کیا عجیب عالم ہے اپنی زندگی کے سب سے بڑے ابتلا پر جنگ احزاب میں بھی آپؐ یہی فقرہ دہراتے تھے۔اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّاعَیْشَ الْآخِرَۃکہ یہ دکھ تو عارضی ہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اپنی زندگی کی عظیم ترین فتح کے موقع پر بھی آپؐ کمال شانِ استقامت سے وہی نعرہ بلند کرتے ہیں۔سبحان اللہ! کیسا کوہِ وقار انسان ہے کہ ابتلاء ہو یا فتح تنگی ہو یا آسائش اس کے قدمِ صدق میں کوئی لغزش نہیں آتی۔
آئیے! اس فقرہ کی سچائی جاننے کیلئے ذرا اس عظیم فاتح کے جشنِ فتح کا نظارہ کریں۔
سادگی وقناعت
دوپہرہواچاہتی ہے۔کھانے کا وقت ہے فاتحین عالم کے جشن کے نظاروںکاتصور کرتے ہوئے آئو دیکھیں کہ یہ عظیم فاتح آج کیا جشن مناتا ہے؟ اور کیا لذیذ کھانے اڑائے جاتے ہیں؟ وہ مقدس وجود جس کی خاطر یہ کائنات بنائی گئی جس کے طفیل ہم ادنی غلام بھی قسما قسم کی نعمتوں سے حصہ پاتے ہیں آئو اس کی عظیم ترین فتح کے دن دیکھیں تو سہی کہ کتنے جانوروں کے کاٹنے کا حکم ہوتا ہے؟ اور کیا پکوان پکائے جاتے ہیں؟
اَللّٰھُمَّ لَاعَیْشَ اِلَّاعَیْشَ الْآخِرَۃکہنے والے کے جشن فتح کا نظارہ کچھ اس طرح ہے۔آپؐ اپنی چچا زاد بہن ام ہانی ؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور فرماتے ہیں بہن کچھ کھانے کو ہے؟ بہن شرمندہ ہے کہ گھر میں فی الفور اس شہہ دو عالم کیلئے روٹی کے چند خشک ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں وہ ٹکڑے ہی لے آئو پھر آپؐ پانی منگوا کر وہ خشک ٹکڑے بھگولیتے ہیں۔ تھوڑا سا نمک اوپر ڈالتے ہیں اور پوچھتے ہیں کچھ سالن ہے؟ ام ہانی ؓ عرض کرتی ہیں سالن تو نہیں سر کے کی کچھ تلچھٹ پڑی ہے اوررسول اللہؐوہ بچا کھچا سرکہ ان گیلے نمکین ٹکڑوں پر ڈال کر مزے مزے سے کھانے لگتے ہیں اور ساتھ الحمدللہ ،الحمدللہ کہتے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں ام ہانی ؓ! سرکہ بھی کتنا اچھا سالن ہے۔یہ ہمارے آقا کا اپنی عظیم فتح کے دن کا کھانا ہے۔(ھیثمی)73
بے قرار سجدے
فتح کے موقع پر نعرہ ہائے تکبیر یا اونٹنی کے پالان پر سجدہ تشکر تو دراصل رسول اللہؐ کے قلبی جذبات کا ایک ادنی سا علامتی اظہار تھا کہ توحید الہٰی اور اپنے مولیٰ کی کبریائی کی کتنی غیرت اور جوش آپ ؐ کے دل میں موجزن ہے۔مگر کسے معلوم کہ ابھی تو کتنے ہی بے پناہ ان گنت بے قرار سجدے آپؐ کی پیشانی میں تڑپ رہے تھے جو بیت اللہ کی زینت بننے والے تھے۔دراصل انہی سجدوں سے آج بیت اللہ سجنے والا تھا۔ وہی پاکیزہ پر خلوص اور عاجزی سے بھرے ہوئے سجدے اس گھر کی زینت بننے والے تھے جن کی خاطر یہ پہلا گھر بنایا گیا اور جن کی بیت اللہ کو بھی انتظار ہوگی۔ اب ان سجدوں کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں آکر پہلا کام یہی کیا کہ اس کے اندر تشریف لے گئے اور بطور شکرانہ ٔفتح نفل نماز ادا کی۔اس وقت حضرت اسامہ ؓ اور حضر ت بلال ؓ آپؐ کے ساتھ تھے اور کافی دیر خانہ کعبہ میں عبادت کرتے رہے۔ (بخاری)74
پہلے آپؐ نے دوستونوں کے درمیان دو نفل ادا فرمائے پھر باہر تشریف لا کر بیت اللہ کے اندر کے دروازے اور حجرا سود کے درمیان دو نفل ادا کئے پھر اندر تشریف لے گئے اور کافی دیر کھڑے دعا کرتے رہے حتّٰی کہ خانہ کعبہ کے ہر کونے میں کھڑے ہوکر آپؐنے دعا کی۔ (الحلبیہ)75
بدسلوکی کے بدلے احسان
طواف کے بعد آنحضرت ﷺ نے کلید بردارِ کعبہ عثمان بن طلحہ ؓسے بیت اللہ کی چابیاں منگوائیں۔جب حضورؐ مکّہ میں تھے تو سوموار اور جمعرات کے دن خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ اندر جاتے تھے۔ایک دفعہ آنحضرتؐ اندر جانے لگے تو اسی عثمان نے اس پاک رسول کو خدا کے اس گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔جس کے لئے یہ گھر بنایا گیا تھا ۔رسول خداﷺ نے اس وقت عثمان کو کہاتھاکہ اس خانہ خدا کی چابیاں ایک دن میرے پاس آئیں گی اور پھر جسے میں چاہوں گا دوں گا۔ آج وہ دن آچکا تھا اور عثمان بن طلحہؓ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چابیاں خدا کے رسول کو پیش کر رہا تھا۔ (ابن ھشام)76
اب دنیا منتظر تھی کہ عثمان بن طلحہ سے بطور انتقام چابیاں واپس لے لی جائیں گی اور کسی اور کے سپر د ہونگی۔ حضرت علیؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض بھی کر چکے تھے کہ آ ج سے دربانی کعبہ کی خدمت بنو ہاشم کو عطا کی جائے۔ اُدھر رسول خدا ﷺ بیت اللہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے اور عثمان بن طلحہ سے ایک عجیب تاریخ ساز انتقام لیا۔آپؐ نے چابیاں اس کے حوالے کردیں اور فرمایا’’ آج کا دن احسان اور وفا کا دن ہے اور اے عثمان ؓ میں یہ چابیاں ہمیشہ کیلئے تمہیں اور تمہارے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور کوئی بھی تم سے یہ چابیاں واپس نہیں لے گا۔ سوائے ظالم کے۔‘‘یہ احسان دیکھ کر عثمان بن طلحہ کا سرجھک گیا اور اس کا دل محمد مصطفی ؐکے قدموں میں تھا اس نے ایک دفعہ پھر صدق دل سے اعلان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمدؐ اس کا رسول ہے۔(الحلبیہ)77
یہ تھا انتقام حضرت محمدمصطفی ﷺ کا اور کتنا حسین ہے یہ انتقام ! کوئی ہے جو اس کی نظیر پیش کرے ؟
فتح مکہ میںجانی دشمنوں سے عفو
حضورؐطواف سے فارغ ہوکر جب باب کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپؐ کے تمام جانی دشمن آپؐ کے سامنے تھے۔آپؐ نے اس جگہ وہ عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنے خونی دشمنوں کے لئے معافی کا اعلان تھا،مساوات انسانی کا اعلان تھا، کسی غرور کی بجائے فخرو مباہات کالعدم کرنیکا اعلان تھا۔ یہ معرکہ آراء خطبہ بھی دراصل آپؐ کے خلق عظیم کا زبردست شاہکار ہے۔آپؐ نے فرمایالاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَاشَرِیْکَ لَہ‘ نَصَرَ عَبْدَہ‘ وَ ھَزَمَ اْلَاحْزَابَ وَحْدَہ‘
’’اے لوگو !خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔اس نے فتح کے جو وعدے اس عاجز بندے سے کئے تھے وہ آج پورے کر دکھائے ہیں۔اس خدائے وحدہ لاشریک نے اپنے اس کمزور بندے کی مدد کر کے اس کے مقابل پر تمام جتھوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔آج تمام گذشتہ ترجیحات اور مفاخر اور تمام انتقام اور خون بہا میرے قدموں کے نیچے ہیں۔میں ان سب کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔اے قوم قریش ! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کا غرور اور نام و نسب کی بڑائی ختم کردی ہے۔تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا تھا۔‘‘پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14)کہ ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپؐ اس میں ایک دوسرے کی پہچان کرو۔یقینا خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘(ابن ہشام)78
پھر آپؐ نے فرمایا۔’’اے مکّہ والو! اب تم خود ہی بتائو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں‘‘؟یہاں ذرا ٹھہریئے اور دیکھئے رسول کریمؐ کن لوگوں سے مخاطب تھے؟ ان خون کے پیاسوں سے جن کے ہاتھ گزشتہ بیس سال سے مسلمانوں کے خون سے لالہ رنگ تھے۔ہاں! مسلمان غلاموں کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹنے والے، مسلمان عورتوں کو بیدردی سے ہلاک کرنے والے، مسلمانوںکو انکے گھروں سے نکالنے والے اور خود ہمارے آقا و مولا کو تین سال تک ایک گھاٹی میں قید کر کے اذیتیں دینے والے، مسلمانوںپر حملہ آور ہوکر ان کی نعشوں کا مثلہ کرنے والے، آپؐ کے چچا حمزہ کا کلیجہ چبانے والے،آپؐ کی صاحبزادی زینب پر حملہ کر کے حمل ساقط کرنے والے، لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہیں کس سلوک کی توقع ہے تو کہتے ہیں۔ ’’آپؐ جوچاہیں کرسکتے ہیں مگر آپؐ جیسے کریم انسان سے ہمیں نیک سلوک کی ہی امید ہے اس سلوک کی جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔‘‘
سچا عفو
لوگ مکہ میں رسول اللہؐ کے داخلہ کو فتح قرار دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی ؐکی حقیقی فتح توآپؐ کے خلق عظیم کی فتح تھی جس کا دشمن بھی اعتراف کررہا تھا کہ اب تک جس وجود سے صرف اور صرف رحمت ہی ظاہر ہوئی آج بھی اس سے رحمت کی امید کیوں نہ رکھیں؟
مگررحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے توان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان سے حسن سلوک کیا۔آپؐ نے فرمایا اِذْ ھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَائُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ کہ جائو تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لئے عفو کا طلب گار ہوں۔(ابن ھشام)79
یہ وہ سچا عفو تھا جس کے چشمے میرے آقا کے دل سے پھوٹے اور مبارک ہونٹوں سے جاری ہوئے ۔اس رحمت عام اور عفو تام کو دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے۔ مستشرقین بھی اس حیرت انگیز معافی کو دیکھ کر اپنا سرجھکا لیتے ہیں اور اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
چنانچہ مسٹرآرتھرنے فتح مکہ میں آنحضورؐ کی رحمت وشفقت کے نظارہ پریوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
’’فتح مکہ کے اس موقع پر یہ بات ان کے حق میں جائے گی اور وہ قابلِ تعریف ٹھہریں گے کہ اُس وقت جب کہ اہل مکہ کے ، ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر انہیں جتنا بھی طیش آتا، کم تھا اور ان کی آتشِ انتقام کو بھڑکانے کے لئے کافی تھا۔ مگر انہوں نے اپنے لشکروسپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روکا، اور اپنے اللہ کے سامنے انتہائی بندگی وعبدیت کا مظاہرہ کیا اور شکرانہ بجالائے۔ صرف دس بارہ آدمی ایسے تھے، جنھیں پہلے سے ہی، ان کے وحشیانہ رویہ کی وجہ سے جلا وطن کردیا گیا تھا اور ان میں سے بھی صرف چارکو قتل کیاگیا۔لیکن دوسرے فاتحوں کے وحشیانہ افعال وحرکات کے مقابلہ میں، اسے بہرحال انتہا درجہ کی شرافت و انسانیت سے تعبیر کیاجائے گا(مثال کے طورپر صلیبیوں کے مظالم، کہ 1099ء میں فتح یروشلم کے موقع پر انہوں نے سترہزار سے زائدمسلمان مرد ، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا، یا وہ انگریز فوج جس نے صلیب کے زیر سایہ لڑتے ہوئے 1874ء میں افریقہ کے سنہری ساحل پر ایک شہر کو نذرآتش کرڈالا) محمد(ﷺ) کی فتح درحقیقت دین کی فتح تھی، سیاست کی فتح تھی، انہوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو پسِ پشت ڈالا اور کروفرِشاہی کے ہر نشان کو مسترد کردیا اور جب قریش کے مغرورو متکبرسرداران کے سامنے سرنگوں ہوکر آئے تو محمد(ﷺ) نے اُن سے پوچھا کہ ’’ تمہیں مجھ سے کیا توقع ہے؟‘‘ وہ بولے ’’رحم، اے سخی وفیاض برادر! رحم‘‘ انہوں نے فرمایا’’جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔(آرتھر)80
نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن
مشہور مستشرق سٹین لے پول لکھتا ہے’’اب وقت تھا کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم) خونخوار فطرت کا اظہار کرتے۔آپؐ کے قدیم ایذاء دہندے آپؐ کے قدموں میں آن پڑے ہیں۔کیا آپؐ اس وقت بے رحمی اور بیدردی سے ان کو پامال کریں گے۔سخت عذاب میں گرفتار کریں گے یا ان سے انتقام لیں گے۔؟ یہ وقت اس شخص کے اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونے کا ہے۔اس وقت ہم ایسے مظالم کے پیش آنے کی توقع کرسکتے ہیں جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں اور جن کا خیال کر کے اگر ہم پہلے سے نفرین و ملامت کا شور مچائیں تو بجا ہے مگر یہ کیا ماجرا ہے کیا بازاروں میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی؟ہزاروں مقتولوں کی لاشیں کہاں ہیں؟ واقعات سخت بیدرد ہوتے ہیں، کسی کی رعایت نہیں کرتے اور یہ ایک واقعی بات ہے کہ جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپؐ کی اپنے نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن تھا۔قریش نے سال ہا سال تک جوکچھ رنج اور صدمے دیئے تھے اور بے رحمانہ تحقیر و تذلیل کی مصیبت آپؐ پر ڈالی تھی۔آپؐ نے کشادہ دلی کے ساتھ ان تمام باتوں سے در گذر کی اور مکہ کے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا۔‘‘ (انتخاب قرآن)81
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام
بے داغ فتح
اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بادشاہ ہیں سر زمین مکہ کا سب کچھ آپؐ کی ملکیت اور قبضہ و اقتدار میں آچکا ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ ؐ قیام کرناکہاں پسند فرمائیں گے؟ حضرت اسامہؓ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ ؐ اپنے آبائی گھر میں ٹھہریں گے(جہاں بچپن اور جوانی کی یادیں وابستہ ہیں) توفرمانے لگے ہمارے چچا زاد عقیل بن ابی طالب نے وہ گھر ہمارے لئے کہاں باقی چھوڑے ہیں،وہ تو کب کے فروخت کر کے کھا چکے ہیں۔(بخاری)82
فتح مکّہ پرجانی دشمنوں اور جنگی مجرموں پر احسانات
فاتحین عالم کی فتوحات کی یادیں ان کی ہلاکت خیزیوں اور کھوپڑیوں سے تعمیر کئے جانیوالے میناروں سے وابستہ ہوتی ہیں مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکہ کی فتح تو آپؐ کے عفو عام اور رحمت تام کا وہ روشن مینار ہے جس کی کل عالم میں کوئی نظیر نہیں،سوائے چند مجرموں کے جو اپنے جرائم کی بنا پر واجب القتل تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار سے عام معافی کا اعلان ہوا۔ دراصل یہی آپؐ کی وہ اخلاقی فتح تھی۔جس نے آپؐ کے اہل وطن کے دل جیت لئے۔ان دس واجب القتل مجرموں میں سے بھی صرف تین اپنے جرائم پر اصرار کرنے اور معافی نہ مانگنے کی وجہ سے مارے گئے۔ ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا عدل و انصاف کا تقاضا بھی تھا اور معاشرہ پر احسان بھی کیونکہ وہ اپنے جرم پر مصر تھے ورنہ اس دربار سے تو عفو کا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ لوٹا نہ معافی سے محروم ہوا۔
پہلا مجرم
ان بدبخت مجرموں میںسے ایک عبداللہ بن خطل تھا۔جس کا اصل نام عبدالعزّٰی تھا۔ مسلمان ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور اسے زکوۃ وصول کرنے پر مامور فرمایا اور ایک انصاری کو بطور خدمت گار ساتھ روانہ کیا۔ ایک منزل پر قیام کے دوران محض بروقت کھانا تیار نہ کرنے پر اس نے انصاری نوجوان کو قتل کر ڈالا۔ اس قتل ناحق کے باعث بطور قصاص وہ سزائے موت کا مستحق تو قرار پاہی چکا تھا، لیکن اس پر مستزاد یہ کہ اس قتل کے بعدمرتد ہوکر مشرکین مکہ سے جاملا اور اسلام اور بانی اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول لیا۔ یہ خود شاعر تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف گندے اور فحش اشعار کہتا اورمجالس میں ترنم سے پڑھواتا تھا۔
فتح مکہ کے موقع پر بھی ابن خطل معافی کا خواستگار ہونے کے بجائے مسلح اورزرہ بند ہوکر گھوڑے پر سوار ہوا اور قسمیں کھا کھا کر یہ اعلان کرتا پھرا کہ محمدؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔پھر جب حضور ؐمکہ میں داخل ہوگئے تو بھی بجائے آپؐ کے دربار عفو میں حاضر ہونے کے خانہ کعبہ کے پردوں سے جاکر لپٹ گیا تا اس حیلہ سے جان بچا لے۔چنانچہ حسب فیصلہ یہ قتل ہوکر کیفر کردار کو پہنچا۔اے کاش ! ابن خطل بھی رسول اللہؐ کے دربار رسالت سے عفو کا طالب ہوتا تو اپنے جیسے دیگر مجرموں کی طرح وہ بھی آپؐ کی رحمت و عفو سے حصّہ پاتا۔(حلبیہ)83
دوسری مجرم
ابن خطل مذکور کی دو مغنّیہ (گانے والی عورتیں)بھی تھیں۔جو اعلانیہ اس کی کہی ہوئی ہجو گایا کرتیں اور اشاعت فاحشہ کی مرتکب ہوتیں۔اس لئے اس کے ساتھ اس کی دونوں مغنّیات بھی سزائے موت کی سزا وار قرار پائیں۔ان دونوں میں سے ایک تو قتل ہوگئی۔ دوسری سارہ نامی کہیں بھاگ گئی اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس کے لئے معافی و امان طلب کی گئی تو آپؐ نے اسے بھی معاف فرمادیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔(الحلبیہ)84
تیسرا مجرم
تیسرا مجرم حُویرث بن نقیذ بن وہب تھا۔جو نبی کریم کا جانی دشمن تھا۔مکّہ میں آپؐ کو سخت ایذائیں دیتا، آپؐ کے خلاف سخت بکواس کرتا اور ہجو کہتا تھا۔مگر اس کا اصل جرم جس کی بناء پر یہ واجب القتل ٹھہرا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی پر قاتلانہ حملہ تھا۔ چنانچہ ہجرت مدینہ کے بعدجب آپؐ کے چچا حضر ت عباسؓ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت اُم کلثوم ؓ کو مکہ سے مدینہ بھجوانے کیلئے اونٹ پر سوار کرواکے روانہ کیا۔ اس بدبخت نے چھپ کر قاتلانہ حملہ کیا اور ان کو اونٹ سے گرادیا۔ حضرت علی ؓ نے اسے فتح مکہ کے موقع پر حسب فیصلہ اس کے جرائم کی پاداش میں قتل کیا۔(الحلبیہ)85
چوتھا مجرم
چوتھا شخص مِقْیَسْ بن ضُبابہ تھا، اسے اس لئے واجب القتل قرار دیا گیا تھا کہ اس نے مدینہ میں ایک انصاری کو قتل کیا تھا جس کے بعد وہ مرتد ہوکر قریش سے جاملا۔(ابن ھشام)86
دراصل مقیس مسلمان ہوا اور اپنے بھائی ہشام بن ضبابہ کی دیت کا تقاضا کیا جسے ایک انصاری نے غزوہ قرد میں دشمن کا آدمی سمجھ کر غلطی سے قتل کر دیا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے بھائی کی دیت اسے ادا فرمائی۔دیت وصول کر لینے کے بعد اس نے پھر اس انصاری کو انتقاماً قتل کیا اور مرتد ہوکر اہل مکہ سے جاملا۔اسے بھی انصاری کے قتل کے قصاص میں فتح مکہ کے موقع پر قتل کیا گیا۔(الحلبیہ)87
ان تین مجرموں کے علاوہ باقی تمام وہ مجرم جو واجب القتل قرار دیئے گئے جب معافی کے طالب ہوئے اور امان چاہی تورحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں معاف فرمادیا۔
چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہؐ کے عفو عام کے اس اعلان کے بعد مرتد عبداللہ بن سعد کاتب وحی کو بھی معافی مل گئی،رسول اللہؐ کی صاحبزادی زینبؓ پر حملہ کر کے حمل ساقط کرنے والاہبار بھی بخشا گیا۔سردارانِ مکہ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ اور صفوان بن امیہ کو حالت شرک میں رہتے ہوئے امان نامہ عطا ہوا۔ حمزہؓ کاکلیجہ چبانے والی ھند کے لئے بھی عفو کا حکم صادر ہوا۔ حارث اور زہیر جو اپنے جرائم کی پاداش میں واجب القتل ٹھہرائے گئے تھے،ایک مسلمان عورت کی امان دینے پر معاف کئے گئے۔(ان سب کی تفصیل عفو وکرم کے مضمون میں بیان ہے)
الغرض فتح مکہ کے موقع پر صرف چار مجرموں کو سزائے موت دیکر باقی سب کو معاف کردینا تاریخ عالم کا منفرد واقعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان بے نظیر احسانات کا نظارہ دیکھ کر مشہور مستشرق سرولیم میور بھی انگشت بدنداں ہے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے:۔
’’اشتہاریان قتل تعداد میں تھوڑے ہی تھے اور شاید وہ سارے ہی اپنے جرائم کی وجہ سے انصاف کے مطابق قتل کے لائق تھے(سوائے ایک مغنیہ کے قتل کے باقی سب کا قتل سیاسی عناد کی بجائے ان کے جرائم کی بنیاد پر تھا)محمدؐ کا یہ حیرت انگیز کردار بے مثال فیاضی اور اعتدال کا نمونہ تھا ۔لیکن محمدؐ نے جلد ہی اس کا انعام بھی لے لیا اور وہ یوں کہ آپؐ کے وطن کی ساری آبادی صدق دل سے آپؐ کے ساتھ ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چند ہفتوں میںدو ہزار مکہ کے باسیوں کو مسلمانوں کی طرف سے (حنین میں)لڑائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔‘‘ (میور)88
جس ایک مغنّیہ کے قتل کا ذکر سرولیم میور نے کیا ہے، روایات سیرت میں اس کی معافی کا بھی ذکر موجود ہے۔(ابن ھشام)89
پس فتح مکہ کا دن رسول اکرمؐکی ذات سے ہر تشدّد کے الزام دور کرنے کا دن تھا۔ جب مکہ کو پیغمبر اسلام کی شوکت و جلال نے ڈھانپ لیا تھا۔ جب مسلمان فاتحین کے خوف سے عرب سرداروں کے جسم لرزاں تھے اور سینوں میں دل دھڑک رہے تھے۔جب مکہ کی بستی ایک دھڑکتا ہوا دل بن گئی تھی تو یہ وقت تھا کہ تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بنایا جاتا اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جاتا، لیکن یہ دن گواہ ہے کہ کہیں ایسا نہیں ہوا اور فتح مکہ کا یہ دن ابدالا باد تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے جبرو تشدد کے الزام کی نفی کرتا رہے گا۔
اطالوی مستشرقہ پروفیسرڈاکٹروگلیری نے بحیثیت سپہ سالار نبی کریمؐ کے کردار پرتبصرہ اور اسلام سے جبروتشدد کے الزام کی نفی کرتے ہوئے کیا خوب لکھاہے :۔
’’قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریمؐ کا کردار دونوں گواہی دیتے ہیں کہ یہ الزام سراسرجھوٹا ہے۔ آپؐ نے جنگ کی لیکن یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں ایک فریق پیکرصبرتھا اور دوسرا فریق پیکر تکبر۔ یا یہ ایسی جنگ تھی جس میں ایک شخص لڑنا نہ چاہتا ہومگر مجبوراً اسے ایسے دشمنوں کے خلاف لڑنا پڑے جو طاقت کے بل بوتے پر اسے نیست ونابود کرنے پر تلے ہوں…پیغمبر اسلام کی تمام جنگیں سچے مذہب کو بچانے اور برقرار رکھنے کی غرض سے تھیں۔یہ جنگیں مقصود بالذات نہ تھیں اور بہرحال مدافعانہ تھیں نہ کہ جارحانہ۔ قرآن شریف صاف فرماتا ہے اور اللہ کے راستے میں لڑو اُن سے جو تمہارے خلاف لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو۔(بقرہ:191)اگر ہم محمدﷺ کی پیشگوئیوں پرغور کریں یا مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کو دیکھیں تو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ الزام کہ اسلام بزور شمشیر منوایا گیا اور اسلام جلدی سے پھیل جانا تلوار کی وجہ سے تھا سراسر لغو اور بے ہودہ ہے۔‘‘(وگلیری)90
حوالہ جات
1
نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد
‏1.a
‏Muhammad a Biography of Prophet page:168 by K.Armstrong
2
بخاری کتاب الجہاد باب کان النبیؐ اذالم یقاتل:2744
3
مسلم کتاب الجہاد باب تامیرالامام الامراء علی البعوت
4
مسند احمد جلد3ص305
5
کنز العمال جلد4ص469
6
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین:2247
7
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
8
مؤطاامام مالک کتاب الجہاد باب النھی عن قتل النساء والولدان فی الغزو
9
مسند احمد جلد3ص184مطبوعہ بیروت
10
مسنداحمد بن حنبل جلد3ص137بیروت
11
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص69 بیروت بحوالہ طبرانی
12
مسند احمد جلد1ص411بیروت
13
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص123بیروت بحوالہ طبرانی
14
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
15
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اوطاس
16
مجمع الزوائدلھیثمی جلد10ص147
17
معجم الکبیر للطبرانی جلد9ص81 بیروت
18
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل
19
عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی 17ص119
20
‏The life of Mahamet By Sir William Muir Vol.1 Page:242
21
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
22
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
23
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
24
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
25
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃاحد
26
عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی جلد17ص152
27
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص112بیروت
28
مسلم کتاب الجہادباب غزوۃ احد
29
مسلم کتاب البروالصلۃ باب النھی عن لعن الاداب
30
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص109بیروت بحوالہ طبرانی
31
مسند احمد جلد3ص424مطبوعہ بیروت
32
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص121مطبوعہ بیروت
33
بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی النضیر
34
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد3ص241,240
35
شرح المواھب اللدنیۃ لزرقانی جلد 2ص8،حیات محمد ص263
36
محمدایٹ مدینہ صفحہ216انگریزی ترجمہ
37
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد3ص261
38
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق
39
مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ ذی قِرد
40
مسند احمد جلد4ص303بیروت
41
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق
42
مجمع الزوائدلھیثمی جلد6ص135بیروت
43
بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ
44
السیرۃ الحلبیۃ جز 3ص36مطبوعہ بیروت
45
السیرۃ الحلبیۃ جلد 3ص 38 مطبوعہ بیروت
46
السیرۃ النبویۃ لاابن ہشام جلد ۲ ص ۲۷۱مطبوعہ مصر
47
السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳ ص ۴۰مطبوعہ بیروت
48
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
49
حیات محمد تالیف امیل درمنغم ص250-251
50
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
52
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
53
ابوداؤد کتاب الخراج باب تعشیر اھل الذ مۃ
54
بخاری کتاب المغازی، تاریخ الخمیس جلد 2ص43
55
المواھب اللدنیۃ للزرقانی جلد ۲ص۲۹۲مطبوعہ بیرت
56
السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 ص74,75 مطبوعہ بیروت
57
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح
58
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح
59
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4ص 90 مطبوعہ بیروت
60
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص46مطبوعۃ مکتبۃ المصطفی البابی الحلبی مصر
61
بخاری کتاب المغازی فتح المکّہ
62
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4 ص 9مطبوعہ بیروت
63
سیرت الحلبیۃ جلد 3ص 95-90
64
السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 ص 97 مطبوعہ بیروت،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4 ص 90,91
65
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ
66
السیرۃ الحلبیۃ جلد 4 ص 97,98مطبوعہ بیروت
67
لائف آف محمد از سرولیم میور فتح مکہ ص424
68
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4 صفحہ 92مطبوعہ مصر
69
السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 97مطبوعہ بیروت
70
بخاری کتاب المغازی باب دخول النبی من اعلی مکۃ
71
لائف آف محمد صفحہ 426ازسرولیم میور
72
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4 صفحہ 91 مطبوعہ بیروت
73
مجمع الزوائدلھیثمیجلد 8 صفحہ 172
74
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح
75
سیرت الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 101
76
السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد4ص55مکتبہ المصطفی البابی الحلبی
77
سیرۃ الحلبیۃ ،مجمع الزوائدلھیثمی جلد 6ص 177،ابن ہشام جلد 4 ص 94-92
78
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص31
79
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4ص94مطبوعہ مصر
80
‏Arther Giman. The Saraceus, London 1887 p.184-5بحوالہ نقوش رسول نمبر545
81
انتخاب قرآن مقدمہ ص67
82
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکۃ
83
سیرۃ الحلبیۃ جلد 3 ص105 و بخاری کتاب المغازی
84
سیرت الحلبیۃ جلد 3 ص 107
85
سیرت الحلبیۃ جلد 3 ص105
86
ابن ہشام جز 4 ص 92
87
سیرت الحلبیۃ جلد 3 ص 105-106
88
لائف آف محمد ص42انگریزی ایڈیشن
89
ابن ھشام جلد4ص92مطبوعۃ بیروت والسیرۃ الحلبیۃ جلد3ص107
90
اسلام پر نظرص13ترجمہAn interpretation of Islam ازشیخ محمد احمد مظہر

رسول کریمؐ بحیثیت منصف اعظم
ہمارے نبی حضرت محمدؐ کو قرآن کریم کی صورت میں ایک کامل دائمی آخری شریعت عطاکی گئی۔ آپؐ نے یہ قانون الہٰی نافذ کر نے کا نمونہ بھی دکھانا تھااس لئے آپؐ کو حکومت بھی عطاکی گئی۔
بعثت نبوت کے ساتھ ہی مسلمانوں کے واجب الاطاعت امام اور لیڈر کی حیثیت آپؐ کو حاصل ہوگئی تھی۔ اس لحاظ سے مختلف النوع فیصلوں کی اہم ذمہ داری بھی آپؐ پر عائد ہوتی تھی، قرآنی شریعت میں کامل عدل کی وہ جامع تعلیم آپؐ کو عطاکی گئی، جس پر آئندہ عالمی امن کی عمارت تعمیرہونے والی تھی۔مگر الہٰی تقدیر کے مطابق اس کا آغاز سرزمین عرب سے کیا گیا،جہاں ہر قسم کی بے اعتدالی اور ظلم و تعدّی دستور بن چکے تھے۔ آپؐ ہی وہ منصف مزاج وجود ہیں جنہوں نے ظلم و ستم سے بھرے اس جزیرے کو عدل و انصاف کاگہوارہ بناکر دنیاکو ایک نمونہ دیا۔ رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت ہر کمزور طبقہ ظلم کی چکی میں پس رہا تھا۔ آپؐ نے آکر عورتوں کو بھی اس ظلم سے رہائی دلائی اور مقہور غلاموں کوبھی ان کے حقوق دلائے۔معاشرے کی ناہمواری دُور کی اور معاشی اور معاشرتی طور پر بھی عدل قائم کر کے دکھایاکیونکہ یہی آپؐ کی بعثت کا بنیادی مقصد تھا۔آپؐ کے ذریعہ یہ اعلان کروایا گیا کہ میں قیام عدل کی خاطر مامور کیا گیا ہوں۔ (سورۃالشوریٰ:16)
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ کا فیصلہ آخری اور اسے بخوشی قبول کرنا ہر مومن کے لئے واجب التسلیم ہے۔(سورۃ النسائ:66)آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ’’ اللہ توعدل سے بھی آگے یہ حکم دیتا ہے کہ احسان اور زائد نیکی کرنے والے بنوبلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس نیکی کا درجہ حاصل کرو جو خونی رشتہ داروں سے کی جاتی ہے۔‘‘(سورۃ النحل:91)
اسلامی تعلیم عدل
قرآن شریف نے مذہبی معاشرتی اور معاشی ہر پہلو سے عدل کے قیام کی تفصیلی تعلیم دی ہے ۔اس مضمون میں بے پناہ وسعت کے پیش نظر اس جگہ اہم نکات کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
۱۔
خدائے واحد کے ساتھ شریک ٹھہراناخلاف عدل ہے اور یہ عدل کا مذہبی و دینی پہلو ہے۔
۲۔
معاشرتی عدل کا تقاضا ہے کہ والدین کے احسانات کے جواب میں کم از کم ان سے احسان کا سلوک کیا جائے۔(سورۃ الاعراف:152)
۳۔
اولاد کے حقوق بھی عدل کے ساتھ ادا کئے جائیں۔بالغ ہونے تک انکے ذمہ دار والدین ہیں۔
۴۔
اہلی زندگی میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی فحشاء سے بچیں۔ (سورۃ الاعراف:152)
۵۔
روئے زمین پر زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کا نبی نوع انسان کے ساتھ عدل یہ ہے کہ ہرفرد کے کم از کم زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا جائے۔اور ناحق کسی کو قتل نہ کیا جائے۔
۶۔
معاشی عدل کا تقاضا کمزور طبقات اور یتامیٰ کے اموال کی حفاظت ہے نیز ماپ تول پورا ہو اور اس میں انصاف سے کام لیا جائے۔(سورۃ الاعراف:152)
۷۔
گفتگو میں بھی عدل کا حکم ہے۔ یعنی اس میں سچائی ہو خواہ وہ سچ قریبی رشتوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔گفتگو میںبے اعتدالی نہ ہو۔برمحل ہو اوراس میں کسی پر زیادتی نہ ہو۔(سورۃالاعراف:152,153)
۸۔
تحریری معاہدات میں بھی عدل کی تعلیم دی گئی ہے۔(سورۃالبقرۃ:283)
۹۔
دشمنوں کے ساتھ بھی عدل کا حکم دیا گیا۔(سورۃالمائدۃ:9)
۱۰۔
حاکموں کورعایا سے عدل کا حکم ہے۔(سورۃالنسائ:59)
۱۱۔
بین الاقوامی امن کے قیام کے لئے بھی عدل کو بروئے کار لایا جائے۔اور تمام قومیںظالم قوم پر دبائو ڈال کر بین الاقوامی امن کے قیام کی سعی کریں۔
الغرض رسول اللہؐ کی پاکیزہ بے نظیر تعلیم عدل کے ذریعہ تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھردیا گیا۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ آپؐ کا سینہ و دل بھی عدل سے لبریز ہوں، اور بلاشبہ بچپن سے ہی آپؐ کی طبیعت اورمزاج ہی عادلانہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آغاز سے اپنی خاص قدرت سے آپؐ کو کمال عدل پر قائم رکھا۔
فطری عدل
رسول اللہؓ کی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ بیان کرتی تھیں کہ جب محمدؐ کو دودھ پلانے کے لئے میں نے گود میں بٹھالیا تو دائیں پہلو سے آپؐ دودھ پی لیتے بائیں پہلو سے نہ پیتے۔ آپؐ کے ساتھ حلیمہ کے بیٹے اور رضاعی بھائی بھی دودھ پیتے تھے اور وہ دوسرے پہلو سے دودھ نہ پیتے تھے۔(الحلبیہ)1
ہرچند کہ بے شعوری کے اس دور میں آپؐ کا یہ فعل ارادتًا نہ بھی ہو مگر اس کے پیچھے ایک مقتدر بالارادہ ہستی کی قدرت نظر آتی ہے،وہی قدرت جس نے نوزائیدہ حضرت موسیٰ ؑکو (جب فرعون کی بیوی نے انہیںسمندر سے اٹھایا) کسی بھی دودھ پلانے والی کا دودھ نہیں پینے دیاسوائے آپ کی ماں کے۔
حضرت سائب بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی تو وہ اس میں شامل تھے اس دوران جب حجر اسود رکھنے کا موقع آیا تو قریش کے قبائل آپس میں جھگڑ پڑے کہ ہم یہ پتھر اپنی جگہ پر رکھیں گے۔ بالآخر ثالثی فیصلے پر اتفاقِ رائے ہوا اور انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جو صبح آئے گا وہ ثالث ہوگا۔صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سب لوگوں نے کہا کہ امین آگیا۔ اور آپؐ کے سامنے معاملہ پیش کیا گیا۔آپؐ نے پتھر کو ایک کپڑے میں رکھ دیا اور قریش کے مختلف قبائل کے سرداروں کے نمائندوں کو بلایا۔ انہوں نے اس کپڑے کو تمام اطراف سے پکڑا اور اس کی جگہ پرلے گئے۔پھر حضور ؐ نے وہ پتھراُٹھا کر اس کے اصل مقام پر رکھ دیا۔(احمد)2
آدابِ قضا
حضرت ابوبکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ کوئی منصف غصہ کی حالت میں دو فریق کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔ (بخاری)3
حضرت علیؓ ابن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے مجھے یمن میں قاضی بناکر بھیجا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپؐ مجھے یہ اہم ذمہ داری دے رہے ہیں اور میں تو نوعمر نوجوان ہوں جسے قضا کا کوئی تجربہ نہیںآپؐ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تیرے دل کو خود رہنمائی فرمائے گا اور تیری زبان کو سچائی پر درستی سے قائم کردے گا۔ جب تمہارے سامنے فریقین مقدمہ بیٹھیں تو ان کے مقدمہ کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرنا جب تک دونوں فریق سے پوری بات نہ سن لو جس طرح پہلے فریق سے سنی۔ یہ طریق زیادہ مناسب ہے جس کے نتیجہ میں تیرے لئے فیصلہ تیرے پر کھل جائے گا۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں اس کے بعد میں قاضی رہا لیکن کسی فیصلہ کے بارہ میں کبھی شک نہیں ہوا۔ (ابودائود)4
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس جھگڑا لے کر آتے ہو اور تم میں سے ایک فریق اپنا معاملہ اور دلیل بیان کرنے میں زیادہ طاقت رکھتا ہے اور میں اس کے بیان کے مطابق فیصلہ کردیتاہوں۔ ایسا شخص جسے اپنے بھائی کا حق ناجائز طور پر فیصلہ میں مل جائے وہ اسے ہرگز نہ لے کیونکہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے۔(بخاری)5
اولاد میں عدل
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مجھے نبی کریمؐ کے پا س لے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ میں نے نعمان ؓ کو اپنا فلاں مال ھبہ کیا ہے آپؐ اس پر گواہ ہوجائیں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو ہی ایسا ہی مال دیا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔آپؐ نے فرمایا پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو نیز فرمایا کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تمہاری اولاد تم سے حسن سلوک میں برابرہوں۔ میرے والد نے کہا ہاں۔ آپ ؐنے فرمایا پھر ان کو مال دینے میں بھی عدم مساوات مناسب نہیں۔(بخاری)6
قیدیوں کے ساتھ عدل
جنگ بدر کے مشرکین مکہ کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس ؓ بھی تھے۔ قیدیوں کی نگرانی جب حضرت عمر ؓ کے سپرد ہوئی تو انہوں نے حضرت عباس ؓ سمیت قیدیوں کی مشکیں اچھی طرح کس دیں۔جو مسجد نبوی کے احاطہ میں ہی تھے۔ جس سے عباس ؓ کراہنے لگے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ کے کراہنے کی آواز سنی تو آپؐ کو چچا کی تکلیف کی وجہ سے بے چینی سے نیند نہ آتی تھی۔ انصار کو کسی طرح اس کا علم ہوگیا تو انہوں نے عباسؓ کی مشکیں ڈھیلی کردیں۔حضورؐ کو علم ہوا تو فرمایا کہ سب کی مشکیں ڈھیلی کردو۔
انصار نے رسول اللہؐ کی عباس ؓ کے بارہ میں محبت کو دیکھ کر حضورؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر عرض کیا حضورؐ ہم عباس کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ان کو قید سے آزاد کردیا جائے مگر رسول کریمؐ نے اُن کی یہ پیش کش قبول نہ فرمائی اور حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ اپنا اور اپنے بھائی عقیل ،نوفل نیز اپنے حلیف عتبہ کا بھی فدیہ دیں کیونکہ آپ مالدار ہیں ۔حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ حضورؐ میں تومسلمان تھامگر مشرک مجھے مجبور کر کے بدر میں لے آئے ۔حضور ؐنے فرمایا یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اگر یہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزا دے گا۔لیکن جب آپ بظاہر دیگر قیدیوں کی طرح ہمارے خلاف ہوکر آئے تھے اس لئے فدیہ دینا ہوگا۔چنانچہ انہوں نے چالیس اوقیہ فدیہ ادا کیا۔(عینی)7
یہودِ مدینہ کے عادلانہ فیصلے
یہود کے قبائل بنو نضیراور بنو قریظہ میں سے بنو نضیر زیادہ معزز سمجھے جاتے تھے۔چنانچہ جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کرتا تو قصاص میں قتل کیا جاتا اور جب بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کوقتل کرتا تو اس کی دیت سو وسق کھجور ادا کردی جاتی۔نبی کریمؐ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد ایک نضیری نے قُرظی کو قتل کردیاتو بنو قریظہ نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اپنا ثالث رسول کریمؐ کو مقرر کیا اور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؐ نے جاہلیت کے طریق کے برخلاف اس قرآنی ارشادپر عمل فرمایا کہ وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ(سورۃ المائدۃ:43)یعنی’’ جب تو ان یہود کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر۔‘‘چنانچہ آپؐ نے جان کے بدلے جان کا فیصلہ فرمایا۔(ابودائود)8
ایک دفعہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے قمیتی زیور دیکھ کر اسکا سر پتھر کے ساتھ کچل کر قتل کردیا۔ مقتولہ کو نبی کریم ؐ کے پاس لایا گیا ۔اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپؐ نے اس سے ایک شخص کا نام لے کر پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیا ہے اس نے سر کے اشارہ سے کہا نہیں، پھر آپؐ نے دوسرے کا نام لیا تو اس نے نفی میں جواب دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے یہودی شخص کا نام لیا تو اس نے سرہلاکر اثبات میں جواب دیا۔آپؐنے اس یہودی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قتل کا اعتراف کرلیا۔چنانچہ اس شخص کو قصاص میں قتل کیاگیا۔(بخاری)9
یہودی کے حق میں ڈگری
عبداللہ بن ابی حدرد الاسلمی ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی۔ اس یہودی نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمے میرے چار درہم ہیں اور یہ مجھے ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہؐ نے عبداللہؓ سے کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو۔ عبداللہؓ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا ’’اس کا حق اسے لوٹا دو۔‘‘ عبداللہؓ نے پھر وہی عذرکیا اور کہا کہ میں نے اسے بتادیا ہے کہ آپؐ ہمیں خیبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے تو واپس آکر میں اس کا قرض چکا دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا ’’ابھی اس کا حق ادا کرو۔‘‘ نبی کریم ؐ جب کوئی بات تین دفعہ فرمادیتے تھے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھاجاتا تھا۔چنانچہ عبداللہؓ اسی وقت وہاں سے بازار گئے۔انہوں نے ایک چادر بطور تہہ بند کے باندھ رکھی تھی۔ سر کا کپڑا اتار کر تہہ بند کی جگہ باندھااورچادر چار درہم میں بیچ کر قرض اداکردیا۔ اتنے میں وہاں سے ایک بڑھیا گذری۔وہ کہنے لگی ’’اے رسول اللہؐ کے صحابی آپ کو کیا ہوا؟‘‘ عبداللہؓ نے سارا قصہ سُنایا تو اس نے اسی وقت اپنی چادر جو اوڑھ رکھی تھی ان کو دے دی اور یوں رسول اللہؐ کے عادلانہ فیصلے کی برکت سے دونوں فریق کابھلا ہوگیا۔(احمد)10
ایک دفعہ ایک یہودی بازار میں سودا بیچ رہا تھا،اُسے ایک مسلمان نے کسی چیز کی تھوڑی قیمت بتائی، جواُسے ناگوار گزری۔اُس نے کہا کہ اُس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑکو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے۔اس بات پر مسلمان نے اُس کوتھپڑ رسید کردیااور کہا کہ نبی کریمؐ پر بھی موسیٰ کو فضیلت دیتے ہو۔وہ یہودی رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے ابوالقاسمؐ ہم آپؐ کی ذمہ داری اور امان میں ہیں اور آپؐ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مار کر زیادتی کی ہے۔نبی کریمؐ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایامجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ دیا کرو۔(بخاری)11
اس میں کیا شک ہے کہ نبی کریمؐ کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے لیکن آپؐ نے ایثار اور انکسار کو کام میں لاتے ہوئے یہی فیصلہ فرمایاکہ ایسی باتوں سے ماحول میں فتنہ و فساد پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کعب بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ؓبن ابی حدرد سے مسجد میں اپنے قرض کا مطالبہ کرلیا۔اس دوران تکرار میں ہماری آوازیں کچھ اونچی ہوگئیں۔رسول اللہ ؐ نے گھر میں سن لیا۔ آپؐ تشریف لائے اور مجھے بلایا اور فرمایا اپنا نصف قرض چھوڑ دو۔پھرعبداللہؓ سے کہا کہ اب آپ یہ نصف قرض ادا کردو۔(بخاری12)یہ واقعہ اگرحرمتِ سُود سے پہلے کاہوتوحضورؐ نے سود والا حصہ چھڑوایاہوگا۔
اپنے آپ سے منصفانہ بدلہ کی پیشکش
انصار کے ایک بزرگ سردارحضرت اُسید بن حضیرؓ کے بارہ میںروایت ہے کہ ان کی طبیعت میں مزاح بہت تھا۔وہ ایک دفعہ لوگوں کو باتیں سنارہے تھے۔ ان کی کسی مزاحیہ بات پر جس سے وہ لوگوں کو ہنسارہے تھے، حضورؐ نے ان کے پہلو میں اپنی چھڑی چبھوئی۔وہ خوب جانتے تھے کہ رسول خداؐ کبھی عدل وانصاف کو نہیں چھوڑتے۔چنانچہ وہ آپؐ سے کہنے لگے مجھے بدلہ دیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا بے شک لے لو۔ انہوں نے کہا آپ ؐنے قمیص پہنا ہے، میں نے تو قمیص نہیں پہنا ہوا، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قمیص اوپر اٹھایا۔ اُسید بن حضیرؓ آپ ؐسے چمٹ گئے ۔اور آپؐ کے جسم کے بوسے لینے لگے اور کہا یا رسول اللہ میرا تو یہ مقصدتھا یعنی برکت حاصل کرنے کیلئے یہ تدبیر میں نے سوچی تھی۔(ابودائود)13
ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے۔ایک شخص آیا اور وہ مال کے اوپر جھک کر کھڑا ہوگیا۔رسول کریمؐ نے کھجور کی ایک شاخ سے اس کو پیچھے ہٹایا تو اس کے منہ پر کچھ زخم سا آگیا۔حضورؐ نے فرمایا آئو بدلہ لے لو۔اس نے کہا نہیں یارسول اللہؐ میں نے معاف کیا۔(ابودائود)14
سورۃ نصر کے نزول کے بعد(جس میں رسول اللہؐ کی وفات کی طرف اشارہ ہے) رسول اللہؐ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جسے سن کر لوگ بہت روئے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کسی نے مجھ سے کوئی حق یا بدلہ لینا ہو تو قیامت سے پہلے آج یہیں لے سکتا ہے۔ ایک بوڑھا شخص عکاشہؓ نامی کھڑ اہوا۔اور کہنے لگا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ اگر آپؐ باربار اللہ کی قسم دے کر یہ نہ فرماتے کہ بدلہ لے لو تو میں ہرگز آگے نہ بڑھتا۔ میں فلاں غزوہ میں آپؐ کے ساتھ تھا۔میری اونٹنی حضورؐ کی اونٹنی کے قریب آئی تو میں سواری سے اتر آیا تاکہ حضورؐ کے قدم چوم لوں۔ حضورؐ نے چھڑی اٹھا کر جو ماری تو میرے پہلو میں لگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حضورؐ نے ارادتًا مجھے ماری تھی یا اونٹنی کو؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’اللہ کے جلال کی قسم! خدا کا رسول جان بوجھ کر تجھے نہیں مارسکتا۔‘‘پھر حضور ؐنے بلالؓ سے فرمایا کہ حضورؐ کی وہی چھڑی گھر سے لے کر آئے۔
حضرت بلال ؓ جاکر حضرت فاطمہؓ سے وہ چھڑی لے آئے۔رسول اللہؐ نے وہ چھڑی عکاشہؓ کو دی اور فرمایا کہ اپنا بدلہ لے لو۔اس پر حضرت ابوبکرؓ اور عمر ؓ کھڑے ہوگئے اورانہوں نے عکاشہؓ سے کہا کہ آپ رسول اللہؐ کی بجائے ہم سے بدلہ لے لو۔ حضورؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کوبٹھادیا۔پھرحضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہؐ کی بجائے مجھ سے بدلہ لے لو۔ نبی کریمؐ نے انہیں بھی روک دیا۔پھر حضرت حسنؓ اور حسینؓ اٹھے۔انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ؐکے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینا بھی رسول اللہؐ سے بدلہ لینے کی طرح ہے۔ نبی کریمؐ نے انہیں بھی منع کردیا اور عکاشہؓ سے کہا کہ تم بدلہ لے لو۔ عکاشہؓ نے عرض کیا ۔یارسول اللہؐ جب آپؐ کی چھڑی مجھے لگی تو میرے بدن پر کپڑا نہ تھا۔حضورؐ نے جسم سے کپڑا اُٹھایا تو مسلمان دیوانہ وار رونے لگے۔ وہ دل میں کہتے تھے کہ کیا عکاشہؓ ہمارے پیارے آقاؐ کوچھڑی مارے گا؟ عکاشہؓ نے حضورؐ کے جسم کو دیکھا تو لپک کر آگے بڑھا اور آپؐ کو چومنے لگا اور ساتھ کہتا جاتا تھا ’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں آپؐ سے بدلہ لینے کو کس کا دل گوارہ کر سکتا ہے۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا’’ یا تو تمہیں بدلہ لینا ہوگا یا پھر معاف کرنا ہوگا۔‘‘ عکاشہؓ نے عرض کیا’’ یا رسول اللہؐ میں نے معاف کیا۔اس اُمید پر کہ اللہ بھی قیامت کے دن مجھے معاف کرے۔‘‘ نبی کریمؐ نے فرمایا’’جو آدمی جنت میں میرے ساتھی کو دیکھنا پسند کرے وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔‘‘ پھر تو مسلمان عکاشہؓکے ماتھے کو چومنے لگے اوراسے مبارکباد دے کر کہنے لگے کہ تم نے بہت بلند درجہ حاصل کرلیا۔(ھیثمی)15
تمام بدلے دنیا میں چکا دینے کے بعدبھی رسو ل اللہ ؐ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ میرے کسی ساتھی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہوتو اسے اس شخص کے لئے رحمت و مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ میں تجھ سے ایک پختہ وعدہ چاہتا ہوں۔میری التجا ہے کہ کبھی اس وعدہ کے خلاف نہ کرنا۔میں ایک انسان ہوں پس مومنوں میں سے جس کسی کو میں نے کوئی اذیت دی یا برا بھلا کہا یا کوئی کوڑا مارا تو اسے قیامت کے دن اس شخص کیلئے دعا،برکت اور قربت کا ذریعہ بنا دینا۔(احمد)16
حرم بیت اللہ کی حرمت اور عدل و انصاف کا قیام
احکام الہٰی کی حرمت کے ساتھ نبی کریم ؐ نے فتح مکہ کے موقع پر حرم کا احترام و تقدس بھی بحال کیا،جو آپؐ کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا۔فتح مکہ کے دوسرے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک شخص کو حرم میں قتل کردیا۔آپؐ اس پر سخت ناراض ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! یاد رکھو اس حرم کی عزت کو کسی انسان نے نہیں خدا نے قائم کیا ہے۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا نے اصحاب الفیل کے حملہ سے اپنے اس گھر کو بچایا تھا اور مسلمانوں کو اس پر مسلط کردیا ہے۔ کسی شخص کیلئے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس میں خونریزی وغیرہ کرے۔یہ حرم مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔میرے لئے صرف اسی وقت اور اسی لمحے لوگوں پر خدا کے غضب کے سبب حلال ہوا ہے اور اب پھر اس کی حرمت بدستور برقرار رہے گی۔تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر حاضر لوگوں تک یہ بات پہنچادیں۔ جو شخص تم سے کہے کہ اللہ کے رسول نے مکہ میں جنگ کی ہے تو یاد رکھو اللہ نے اسے اپنے رسول کے لئے حلال کردیا تھا لیکن (اے بنی خزاعہ) تمہارے لئے حلال نہیں کیااور مجھے بھی صرف ایک گھڑی کیلئے یہ اجازت دی گئی تھی۔‘‘(بخاری)17
اسلامی حکومت کے قیام کے بعد رسول کریمؐ نے عدل کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں۔
ایک دفعہ ایک مسلمان سے ایک ذمّی قتل ہوگیا۔ نبی کریمؐ نے قصاص کے طور پر مسلمان کوقتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں جو اس غیرمسلم کا حق دلوائوں اور اس کا عہد پورا کرکے دکھائوں۔(ھدایہ18)اس کے بعدآپؐ نے بنو خزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا۔
فتح مکہ کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیور وغیرہ چرالئے۔اسلامی تعلیم کے مطابق چور کی سزااس کے ہاتھ کاٹنا ہے۔عورت چونکہ معزز قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی اس لئے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسول اللہؐ کے بہت پیارے اور عزیز ترین فرد اسامہ بن زیدؓ سے حضورؐ کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس عورت کو معاف کردیا جائے ۔اسامہؓ نے جب رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا توآپؐ کے چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ شام کو نبی کریم ؐ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا’’تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔(بخاری)19
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ ایک شخص کی غلطی کے بدلے دوسرے کو سزادینا ناجائز ہے۔ایک دفعہ باپ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی پر کسی کی وجہ سے زیادتی نہ ہو اور پھر یہ آیت پڑھی لاَتَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْرٰی کہ کوئی جان دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔(ابودائود)20
بیویوں میں عدل
نبی کریم ؐ اپنی بیویوں میں کمال عدل اور مساوات کا سلوک فرماتے تھے۔ خود حضرت عائشہ ؓ کی شہادت ہے کہ رسول کریمؐ دنوں کی تقسیم میں کسی بیوی کو دوسری پر فضیلت نہ دیتے تھے۔ قریباً ہر روز آپؐ ہمیں ملنے تشریف لاتے اور ہم سے احوال پوچھتے۔(ابودائود)21
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ اپنی ایک بیوی کے ہاں تھے وہاں کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ میں کچھ کھانا بھجوایا جس بیوی کی باری تھی اسے غیرت آئی اور اس نے پیالے پر ہاتھ مار کر اسے توڑ دیا نبی کریم ؐ نے اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کیا اور فرمایا کھائو۔ آپؐ نے کھانا لانے والے کو روک لیا کھانے سے فارغ ہوئے تو ٹوٹا ہوا پیالہ پاس رکھ لیا اور اس کی بجائے درست پیالہ توڑنے والی بیوی سے لے کر واپس بھجوادیا۔(بخاری)22
دوسری روایت میں خود حضرت عائشہؓ نے تفصیل بیان کی ہے کہ میں نے کھانا پکانے میں حضرت صفیہ ؓسے بہتر کوئی نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ خودانہوں نے میری باری میں کھانا بناکر بھیج دیا۔ مجھے غیرت آگئی اور ان کا برتن توڑدیا۔ بعد میں ندامت کے ساتھ رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہؐ میری اس غلطی کا کفارہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا برتن کے بدلے برتن اور کھانے کے بدلے کھانا۔(ابودائود)23
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر رکھ لیا جس سے پیالہ ٹوٹا تھا اور ان کے گھر سے درست پیالہ لے کر اس بیوی کو بھجوادیا جن کے ہاں سے کھانا آیا تھا۔ (بخاری)24
عوام میں عدل
حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضرؓؓ نے ایک لونڈی کا دانت توڑدیا۔ لونڈی کے مالکوں نے اس کامعاوضہ مانگا۔(جودس اونٹ ہے) ربیع ؓ کے خاندان نے معافی طلب کی مگر لونڈی کے ورثاء نہ مانے۔ ربیع ؓ کے بھائی انسؓ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہماری بہن ربیع ؓکے دانت توڑے جائیں گے۔ نہیں! اس خدا کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے دانت ہرگز نہیں توڑے جائیں گے۔ نبی کریمؐ نے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے انسؓ ! اللہ کا فیصلہ قصاص ہے۔اس طرح آپؐ نے اس مخلص انصاری خاندان سے اپنے گہرے تعلق کے باوجود عدل کا دامن نہیں چھوڑا۔ اگرچہ بعد میں یہ معاملہ باہم فریقین کی صلح کے نتیجہ میں انجام پایا۔(بخاری)25
رسول کریمؐ اپنی ازواج مطہرات میں کمال عدل کا سلوک فرمانے کے بعد خداتعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے تھے۔’’ اے اللہ ! نان و نفقہ اور مال کی تقسیم میںجس میں مجھے اختیارہے۔ پورے عدل سے کام لیتا ہوں مگر جس میں میرا اختیار نہیں یعنی قلبی میلان محبت اس میں مجھے معاف فرما دینا۔‘‘(ابودائود)26
اسی طرح اپنے اصحاب کے درمیان کمال عدل کے ساتھ آپؐ فیصلے فرماتے تھے،مگر ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرماتے تھے کہ میں بھی انسان ہوں اور ممکن ہے کہ کوئی چرب زبان مجھ سے کوئی غلط فیصلے کروالے مگر وہ یاد رکھے کہ جو چیز وہ ناحق لے گا وہ آگ کا ٹکڑا لے کر جائے گا۔چاہے تو لے لے چاہے تو اسے چھوڑ دے۔(بخاری)27
رسول اللہ نے عدل وانصاف کے معاملہ میں کبھی جنبہ داری سے کام نہیں لیا۔خواہ اپنے اہل و عیال کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو۔ واقعہ افک میں آپؐ کی زوجہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگا تو باوجودیکہ آپؐ کوحضرت عائشہؓ کی پاکدامنی پر کامل بھروسہ تھا، پھر بھی عدل کے تقاضا کے تحت فرمایا کہ اے عائشہ ؓ! یہ بات مجھ تک پہنچی ہے اگرتم اس سے بری ہوتواللہ تعالیٰ تمہاری برأت ظاہر کردے گا اور اگر کسی بشری کمزوری سے گناہ کر بیٹھی ہو تو اللہ سے بخشش مانگو۔ بندہ جب گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔(بخاری)28
قیام عدل واحسان کے عجیب نظارے غزوۂ حنین میںبھی ظاہر ہوئے۔
رسول اللہؐ نے حنین سے واپسی پر اموال غنیمت تقسیم کئے اور بعض عرب سرداروں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے بطور تالیف قلبی کے انعام و اکرام سے نوازا تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیاگیا۔ رسول اللہ ؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا’’ اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کریگا۔‘‘اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پررحم کرے ان پر اس سے بڑا الزام لگایا گیا مگر انہوں نے صبرکیا۔(بخاری)29
دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ کیا میں عدل نہیں کروں گا حالانکہ آسمان و زمین کے خدا نے مجھے اپنی وحی کا امین ٹھہرایا ہے۔دراصل رسول اللہؐ نے اموال خمس میں سے بعض سردارانِ عرب کو اسلام سے قریب کرنے کے لئے جو انعام و اکرام فرمایاتھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف وہ خود مسلمان ہوئے بلکہ ان کے قبائل بھی مسلمان ہوگئے۔نبی کریمؐ کو اپنے ان اموال پر مکمل اختیار تھالیکن تقسیم میں جو عدل پیش نظر تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو اموال دے رہا ہوں اس کی وجہ ان کی ایمانی کمزوری اور حرص ہے اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور غنا رکھی ہے،انہیں میں نہیں دیتا۔(بخاری)30
ایک اورموقع پر حضورؐ نے یوں وضاحت فرمائی کہ میں بعض لوگوں کو تالیف قلبی کی خاطر دیتا ہوں جبکہ ان کے علاوہ بعض دوسرے لوگ مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔مگر انہیں اسلام کے قریب کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں۔(بخاری)31
چنانچہ ایک دفعہ کچھ قیدی آئے۔حضرت فاطمہ ؓنے بھی ایک خادم گھریلو ضرورت کے لئے طلب کیاتو رسول کریمؐ نے فرمایا خدا کی قسم! میں تمہیں عطا کر کے اہل صفہ یعنی غریب صحابہ کو محروم نہیں رکھ سکتا۔جو فاقوں سے بے حال ہیں اور جن کے نان ونفقہ کے لئے اخراجات میسر نہیں۔ میں قیدی فروخت کر کے اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔(احمد)32
چنانچہ اس موقع پر اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ پر بھی غرباء صحابہ کو ترجیح دی گئی جو عدل کی بہترین مثال ہے۔الغرض عدل گستری بھی حضرت محمدؐ پر ختم ہے۔
حوالہ جات
1
السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ ص90مطبوعہ بیروت
2
مسند احمد جلد3ص425مطبوعہ بیروت
3
بخاری کتاب الاحکام باب ھل یقضی القاضی اویفتی وھوغضبان
4
ابوداؤدکتاب الاقضیۃ باب کیف القضاء جلد3ص292
5
بخاری کتاب الشھادات باب من اقام البینۃ بعد الیمین
6
بخاری کتاب الشھادات باب لایشھدُ علی شھادۃ جورِ اذا أشھد
7
عمدۃ القار ی شرح بخاری لعینی جلد18ص116
8
ابوداؤد کتاب الدیات باب النفس بالنفس
9
بخاری کتاب الدیات باب من اقاد بحجر
10
مسند احمد جلد3ص422 بیروت
11
بخاری کتاب الانبیاء باب وان یونس لمن المرسلین
12
بخاری کتاب الصلوۃ باب التقاضی والملا زمۃ فی المسجد:457
13
ابوداؤد کتاب الادب باب فی قبلۃ الجسم
14
ابوداؤد کتاب الدیات باب القود من الضربہ
15
مجمع الزوائد لھیثمی جلد۹ص289 دارالکتاب العربی بیروت
16
مسند احمد جلد2ص390بیروت
17
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الفتح
18
نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ جلد4ص336
19
بخاری کتاب المغازی باب مقام النبی زمن الفتح
20
ابوداؤد کتاب الدیات باب لایوخذ احد بجریرۃ احد
21
ابوداؤدکتاب النکاح باب فی القسم بین النساء جلد 1
22
بخاری کتاب المظالم باب اذاکسرقصعۃ اوشیأ لغیرۃ
23
ابوداؤد کتاب الاجارۃ باب فی من شیأً یغرم مثلہ
24
بخاری کتاب النکاح باب الغیرۃ
25
بخاری کتاب الصلح باب الصلح فی الدیّۃ
26
ابوداؤدکتاب النکاح باب فی القسم بین النساء
27
بخاری کتاب المظالم باب اثم من خاصم فی باطل
28
بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک
29
بخاری کتاب الجہاد باب ماکان النبی یعطی المؤلفۃ قلوبھم
30
بخاری کتاب الجہاد باب ماکان النبی یعطی المؤلفۃ
31
بخاری کتا ب الایمان باب اذالم یکن الاسلام علی الحقیقۃ
32
مسند احمد جلد1ص107بیروت

رسول کریمؐ کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت
رسول کریمؐ کی بعثت جاہلیت کے اس دور میں ہوئی جب ہر قسم کے انسانی حقوق پامال کئے جارہے تھے۔ اولاداور بچوں کے حقوق کا بھی یہ حال تھا۔ اگرکچھ بچے افلاس کی وجہ سے پیدائش سے قبل ہی قتل کردیئے جاتے تھے۔ تو بعض قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔رسول کریمؐنے آکر اولاد کے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق قائم کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ’’ اپنی اولاد کی بھی عزت کیا کرو۔ اور ان کی عمدہ تربیت کرو۔‘‘(ابن ماجہ)1
اسی طرح فرمایا کہ والدکا اولاد کے لئے حسنِ تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا۔(احمد)2
پھر رسول کریمؐ نے حسنِ تربیت کے لئے یہ پرُحکمت تعلیم فرمائی کہ پیدائش کے بعد اس کے کانوں میں اذان اور تکبیرکہی جائے۔اس ارشاد کے ذریعہ دراصل آپؐ نے یہ پیغام دیا ہے کہ آغاز سے ہی بچوں کے کان میں اللہ رسول کی باتیں پڑنی چاہئیں اور آغاز سے ہی تربیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہئے۔پھرآپؐ نے ہدایت فرمائی کہ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کیلئے کہا کرو۔اس وعظ و نصیحت کے لئے تین سال کا عرصہ دیا اور فرمایا کہ اگردس سال کی عمرمیں بچّے نماز نہ پڑھیں تو سزا بھی دے سکتے ہو۔(ابودائود)3
رسول کریمؐ کا اپنا نمونہ یہ تھا کبھی تربیت کی خاطر بچوں کو سزا نہیں دی۔ بلکہ محبت اور دعا کے ذریعہ ہی ان کی تربیت کی۔ہمیشہ اولادبلکہ زیر تربیت بچوںکے لئے بھی دعا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘(بخاری)4
سچی پدرانہ شفقت کا تقاضا ہے کہ ہر بچیسے اپنے بچے کی طرحمحبت اور پیار کا سلوک کیاجائے۔
ایک دفعہ کسی نے رسول کریمؐ سے سخت دلی کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا اگر نرم دلی چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلائو اور یتیم کے سرپر ہاتھ پھیراکرو۔ (احمد)5
حضرت ابوھریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریمؐ کے پاس کوئی بھی پہلا پھل آتا تو پھلوں میں برکت کی دعاکرتے اور پھرپہلے وہ پھل مجلس میں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطافرماتے۔(مسلم)6
حضرت عبداللہ بن حارث ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ حضرت عباسؓ کے بچوں عبداللہ ؓ اور عبیداللہ اور دیگربچوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کی دوڑ شروع کرواتے اور فرماتے جو سب سے پہلے دوڑ کر مجھ تک پہنچے گا اسے یہ انعام دونگا۔پھر بچے دوڑ کر آپؐ تک پہنچتے۔ کوئی آپؐ کی پیٹھ پر چڑھتا تو کوئی سینے پر۔آپؐ ان کو چومتے ان کواپنے ساتھ چمٹا لیتے۔(احمد)7
نبی کریمؐ ماں کی مامتا کا بہت خیال فرماتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا جو شخص ماں اور اس کی اولاد میں جدائی ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے پیاروں سے جدا کردیگا۔
ایک دفعہ بحرین سے قیدی آئے ان کو قطارمیں کھڑا کیا گیا تو رسول کریمؐ نے دیکھا ایک عورت رورہی تھی آپؐ نے سبب پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ میرا کم سن بچہ عبس قبیلہ کو فروخت کردیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابواسید سے فرمایا تم سواری لو اور جاکر وہ بچہ قیمت ادا کرکے واپس لائو۔ ابواسید جاکر وہ بچہ واپس لے آئے۔(بیہقی)8
حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐکے پاس جب کسی ایک جگہ کے قیدی لائے جاتے تو ایک گھرانے کے سپرد کرتے تاکہ ان کے بچے ان سے جدا نہ ہوں۔ (ابن ماجہ)9
رسول کریم ؐقرآنی ہدایت کے مطابق اولاد کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی دعا بھی کرتے تھے اور دلی محبت کے جوش سے ان کی تربیت فرماتے تھے۔
حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ؐ سے بڑھ کر بچوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا۔(بیہقی)10
ایک دفعہ آپؐ اپنے بچوں کو پیارسے چوم رہے تھے کہ ایک بدوی سردار نے کہا آپ بچوں کوچوُمتے بھی ہیں۔میرے دس بچے ہیں میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما۔ آپؐ نے فرمایا اللہ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(بخاری11)دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس سردار سے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
بچوں کے ساتھ حضورؐ کی شفقت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ بسااوقات ان کی تکلیف دیکھ کر نماز مختصر کردیتے اور فرماتے تھے کہ میں نمازکے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور نماز لمبی کرنا چاہتا ہوں مگراچانک کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں اور نماز مختصر کردیتا ہوں کہ اس بچے کارونا اس کی ماں پر بہت گراں ہوگا۔(بخاری)12
ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو کوئی قیمتی تحفہ دیا اور اپنی بیوی کی خواہش پر رسول کریمؐ کو اس پر گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا سب بچوں کوایساہی ھبہ کیا ہے۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا پھر ظلم کی اس بات پرمیں گواہ نہیں بن سکتا۔(بخاری13)یوں آپؐ نے اولاد میں بھی عدل کرنے کا سبق دیا۔
رسول کریمؐ نے تربیت اولاد کے لئے اپنا بہترین نمونہ پیش فرمایا۔ اولاد سے حسن سلوک کے کچھ واقعات بطور نمونہ پیش ہیں۔
حضرت ابو قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے ، بلالؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں نماز کی اطلاع کی۔ آپؐ تشریف لائے، آپؐ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپؐ کے کاندھے پر تھی۔رسول اللہؐ اپنے مصّلے پر کھڑے ہوئے ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضورؐ کے کندھے پر ہی تھی۔
حضورؐ کے تکبیر کہنے کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی۔رکوع میں جاتے وقت حضورؐ نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھا دیا۔رکوع اور سجدہ سے فارغ ہوکر دوبارہ اٹھا کراسے کندھے پر بٹھالیا۔نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے۔(ابودائود)14
رسول کریمؐ کی زندہ رہنے والی اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چار بیٹیاں تھیں۔جو بالترتیب حضرت زینبؓ،حضرت رقیہؓ ، حضر ت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہ الزھرائؓ ہیں۔حضرت خدیجہ ؓسے بیٹے بھی ہوئے جن کے نام قاسمؓ،طاہرؓ ،طیبؓ، عبداللہؓ مشہور ہیں ۔صاحبزادہ قاسمؓ کی نسبت سے آپؐ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے صاحبزادہ ابراہیم ؓہوئے جو 9ھ میں16ماہ کی عمر میں وفات پا گئے تھے ۔رسول کریمؐ نے تمام اولاد سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا۔ان کی پرورش اور اعلیٰ تربیت کے حق ادا کئے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت زینبؓ اوردیگربیٹیوںنے اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔(ابن سعد)15
صاحبزادی زینب سے حسن سلوک
حضرت زینبؓ کی شادی مکہ ہی میں حضورؐ کے دعوے سے قبل حضرت خدیجہؓ کی تجویز پر ان کے بھانجے ابو العاص ابن ربیع سے ہو گئی تھی۔ اس لئے حضرت زینب ؓمدینہ ہجرت نہ کر سکیں۔ غزوۂ بدر میں حضرت زینبؓ کے شوہر ابوالعاص کفار مکہ کی طرف سے شامل ہو کر قید ہوئے تو حضرت زینبؓ نے حضرت خدیجہؓ کی طرف سے اپنی شادی پر تحفے میں ملنے والا ہار،ان کے فدیہ کے طور پر بھجوایاجسے دیکھ کر نبی کریمؐ کا دل بھر آیا اور آپؐ کی خواہش پر ابو العاص کو فدیہ لئے بغیر قید سے آزاد کر دیا گیااس معاہدہ کے ساتھ کہ وہ حضرت زینبؓ کو جو مسلمان تھیں مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دیں گے ۔(ابودائود)16
آنحضرتؐ کی اس شفقت اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ ابو العاص نے یہ وعدہ خوب نبھایا اور مکے جا کر حضرت زینبؓ کو مدینے جانے کی اجازت دے دی کفار مکہ کو پتہ چلا تو انہوں نے تعاقب کیا۔ایک مشرک ھبار بن اسود نے حضرت زینب ؓکی اونٹنی پر حملہ آور ہو کر انہیں اونٹ سے گرا دیاجس سے انکاحمل ساقط ہو گیا ۔(بخاری)17
ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم ؐ نے صاحبزادی ام کلثومؓ کو مدینے بلوانے کے لئے حضرت زید بن حارثہؓ اور ابو رافع ؓکو دو اونٹ اور پانچ صد درہم دے کر مکے بھجوا یاتاکہ وہ حضورؐ کی صاحبزادیوں کو آپؐ کے پاس مدینہ لے آئیں۔ (ابن سعد)18
رسول اللہؐ اپنی بڑی صاحبزادی حضرت زینب ؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد کمزوری اور مظلومیت کے عالم میں رہنے پر بے چین تھے ۔وعدہ کے مطابق اُن کے شوہر ابو العاص کی انہیں مدینہ بھجوانے کی کوشش نا کام ہو چکی تھی۔ رسول کریم ﷺنے مزید تکلیف دہ انتظار کی بجائے حضرت زیدؓ کو اپنی ایک خاص انگو ٹھی نشانی کے طور پر دے کر مکے بھجوایا کہ کسی طرح حضرت زینبؓ کو مدینے لے آئیں۔ حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ اور ابو العاص کے چرواہے کے ذریعے وہ انگوٹھی حضرت زینب ؓتک پہنچا دی اسی رات حضرت زینبؓ حضرت زید ؓکی معیت میں اونٹ پر سوار ہو کر مدینے آئیں ۔ان کے مدینے پہنچنے پر رسول کریمﷺنے فرمایا میری اس بیٹی نے میری وجہ سے بہت دکھ اٹھائے ہیں یہ باقی بیٹیوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں۔ (بخاری)19
حضرت رقیہؓ نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ حبشہ ہجرت کی تھی ۔جب کچھ عرصہ ان کی کوئی خبر نہ آئی تو رسول کریمؐ حبشہ سے آنے والے لوگوں سے فکر مندی کے ساتھ اپنی صاحبزادی اور داماد کا حال دریافت فرماتے تھے ۔ایک قریشی عورت نے آکر بتایا کہ اُس نے حضرت عثمانؓ کے ساتھ حضرت رقیہؓ کو خچر پر سوار جاتے دیکھا تھا ۔رسول اللہ ؐ نے دعا کی کہ اللہ ان دونوں کا حامی وناصر ہو۔(ابن اثیر)20
نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے داماد ابو العاص کے حسن سلوک کی تعریف فرماتے تھے کہ اس نے وعدہ کے مطابق میری بیٹی کو میرے پاس مدینے بھجوادیا ۔(بخاری)21
اسی زمانے میں ایک دفعہ جب شام سے واپسی پر ابوالعاص کے تجارتی قافلہ پر مسلمانوں کے دستے نے حملہ کر کے ان کے مال پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے مدینے آکر حضرت زینب ؓسے پناہ چاہی ۔ہر چند کہ ابوالعاص کے حالت شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے حضرت زینبؓ سے جدائی ہو چکی تھی لیکن ان کے احسانات کے عو ض انسانی ہمدردی کے طور پر حضرت زینب ؓنے ان کی امان کا اعلان کر دیا۔ رسول کریمؐ نے( جنہوں نے کبھی کسی مسلمان عورت کی امان رد نہیں فرمائی) حضرت زینب ؓ کی امان نہ صرف قبول فرمائی بلکہ ابو العاص کا سارا مال بھی انہیں واپس کر دیا۔ اس احسان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو العاص نے مکہ جا کرقریش کی امانتیں واپس کیں اور مسلمان ہونے کا اعلان کر کے مدینے آگئے۔(ابن ھشام)22
نبی کریم ؐنے ا بوالعاص بن ربیع کے اسلام قبول کرنے پرحضرت زینبؓ کو چھ سال بعد سابقہ نکاح پر ہی اُن کے عقد میں دے دیا۔(ابودائود)23
حضرت زینب ؓ کی وفات8 ھ میں ہوئی ۔نبی کریمؐ نے ان کے غسل اور تجہیز وتکفین کے لئے خود ہدایات فرمائیں ۔حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور ؐ تشریف لائے اور ہمیں فرمایا کہ زینبؓ کو تین یا پانچ مرتبہ بیری کے پتے والے پانی سے غسل دو۔ اگر تم ضروری سمجھو تو پانچ سے بھی زیادہ مرتبہ نہلا سکتی ہو۔ آخر پر کافور بھی استعمال کرنا۔ جب فارغ ہو جائو تو مجھے اطلاع دینا۔ وہ کہتی ہیں جب ہم فارغ ہوئے تو حضورؐ کو اطلاع دی ۔ حضورؐ نے اپنا تہہ بند ہمیں دیا اور فرمایا کہ یہ چادر اُن کو بطور زیر جامہ پہنائو ۔ایک روایت میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اس کے بالو ں کی تین مینڈھیاں بنانا ۔(بخاری24)نیز فرمایا کہ اسے دائیں پہلو سے اور وضو کی جگہوں سے غسل شروع کرنا۔(بخاری)25
حضرت زینبؓ کی وفات پر حضورؐ ان کی قبر میں اُترے آپؐ غم زدہ تھے۔ جب حضورؐ قبر سے باہر نکلے تو غم کا بوجھ کچھ ہلکا تھا ۔فرمایا میں نے زینبؓ کی کمزوری کو یاد کر کے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کر دے، تو اللہ نے میری دعا قبول کر لی اور اس کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے ۔
حضرت زینبؓ کی تدفین کے موقع پرآنحضور ﷺنے ان کومخاطب کر کے فرمایا! ہمارے آگے بھیجے ہوئے بہترین انسان عثمان بن مظعونؓکے ساتھ جنت میں جا کر اکٹھے ہو جائو۔ یہ سن کر عورتیں رو پڑیں ،حضرت عمرؓ انہیں روکنے لگے۔ حضورؐ نے فرمایا رونا منع نہیں مگر شیطانی آوازیں نکالنے یعنی بین کرنے سے بچو ۔ پھر آ پؐ نے فرمایا’’ وہ دکھ جو آنکھ اور دل سے ظاہر ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک پیدا شدہ جذبہ ہے اور رحمت اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ظاہر ہو وہ شیطانی فعل ہے۔‘‘(احمد)26
حضرت رقیہ سے حسن سلوک
دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح نبی کریمؐ نے اپنے بہت عزیز صحابی حضرت عثمان بن عفان ؓسے فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ عثمانؓ کا خاص خیال رکھنا وہ اپنے اخلاق میںدیگر اصحاب کی نسبت زیادہ میرے مشابہ ہیں۔چنانچہ ایک دفعہ حضورؐ صاحبزاد ی رقیہؓ کے ہاں گئے تو وہ حضرت عثمانؓ کا سرد ھو رہی تھیں۔ (کنز)27
غزوہ بدر کے موقعہ پر رقیہ ؓ بیمار ہوگئیں اور نبی کریمؐ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنی صاحبزادی کی تیمار داری کے لئے مدینہ رہنے کی ہدایت فرمائی اور بدر میں فتح کے بعد مال غنیمت سے اُن کا حصہ بھی نکالا۔(بخاری)28
نبی کریمؐ کی ایک لونڈی ام عیاش تھی۔ جو حضورؐ کو وضو وغیرہ کر واتی تھیں۔حضورؐ نے بطور خادمہ یہ لونڈی حضرت رقیہؓ کی شادی کے وقت گھریلو کام کاج میں اُن کی مدد کے لئے ساتھ بھجوائی تھی۔ (ابن ماجہ)29
حضرت رقیہؓ کی وفات 2ھ ؁ میں ہوئی۔حضورؐ کو ان کی وفات کا بہت صدمہ تھا حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضرت رقیہ ؓکے جنازے میں رسول کریمؐ ان کی قبر کے پاس بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔(بخاری)30
رسول کریمؐ اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کو لے کر حضرت رقیہؓ کی قبر پر آئے تو فاطمہؓ قبر کے پاس رسول کریمؐ کے پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں ۔ رسول اللہ ؐ دلاسا دیتے ہوئے اپنے دامن سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔(بیھقی)31
حضرت ام کلثوم سے شفقت
صاحبزادی رقیہ ؓ کی وفات کے بعد رسول اللہؐ نے اپنی بیٹی ام کلثومؓ بھی حضرت عثمانؓ سے بیاہ دی اس موقع پر آپؐ نے اپنی خادمہ اُمّ ایمن ؓسے فرمایا کہ میری بیٹی کو تیار کرو اور اسے دلہن بنا کر عثمان ؓ کے پاس لے جائو۔ اور اس کے آگے دف بجاتی جانا،چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ نبی کریمؐ تیسرے دن اُم کلثومؓ کے پاس آئے اور استفسار فرمایا کہ آپؐ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟ عرض کیا بہترین شوہر ۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا ! امر واقعہ یہ ہے کہ تمہارے شوہر لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے جد امجد ابراہیم ؑ اور تمہارے باپ محمد ؐ سے مماثلت رکھتے ہیں ۔(ابن عدی)32
حضرت ام کلثوم ؓ 9ھ میں فوت ہوئیں حضور ؐ نے ان کا جنازہ خود پڑھایا اور قبر کے کنارے تشریف فرما ہو کراپنی موجودگی میں تدفین کر وائی ۔ رسول کریم ؐنے اپنی صاحبزادی اُم کلثومؓ کی وفات پر تجہیز وتکفین کا انتظام اپنی نگرانی میں کروایا۔
حضرت لیلیٰ الثقفیہ روایت کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثومؓ کو ان کی وفات پر غسل دیا۔ رسول کریمؐ نے تہ بند کے لئے کپڑا دیا پھر قمیص، اوڑھنی اوراُوپر کا کپڑا۔اس کے بعد ان کو ایک اور کپڑے میں لپیٹ دیاگیا ۔وہ بتاتی تھیں کہ غسل کے وقت رسول کریمؐ دروازے کے پاس کھڑے تھے ۔حضور ؐ کے پاس سارے کپڑے تھے اور آپؐ باری باری ہمیں پکڑا رہے تھے۔
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ؐ کی بیٹی ام کلثومؓ قبر میں رکھی گئی تو رسولؐ خدا نے یہ آیت تلا وت کی مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی (سورۃطٰہٰ:56)یعنی اس سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں دوبارہ لو ٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری دفعہ نکالیں گے ۔پھر جب آپ ؓ کی لحد تیار ہو گئی تو نبی کریم ؐ قبر بنانے والوں کو مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دیتے تھے اور فرماتے تھے ان سے اینٹوں کی درمیانی درزیں بند کرو پھر فرمانے لگے کہ مرُدے کے لئے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں لیکن اس سے زندہ لو گوں کے دل کو ایک اطمینان ضرور حاصل ہو جاتا ہے ۔ (احمد) 33
حضرت فاطمہؓ سے محبت و شفقت
نبی کریم ؐ اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزھرائؓ سے بھی شفقت کا سلوک فرماتے تھے ۔نبی کریمؐ کی محبت بھری تربیت کا اثر تھا کہ حضرت فاطمہؓ میں بھی وہی رنگ جھلکتا نظرآتا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال، طور اطوار اور گفتگو میں حضرت فاطمہ ؓ سے بڑھ کر آنحضرتؐ کے مشابہہ کوئی نہیں دیکھا۔فاطمہؓ جب حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو حضورؐ کھڑے ہو جاتے تھے محبت سے انکا ہاتھ تھام لیتے تھے اور اسے بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب آنحضورؐ حضرت فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی احترام میں کھڑی ہو جاتیںآپؐ کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضورؐ کو بٹھاتیں۔ (ابودائود)34
نبی کریمؐ فرماتے تھے کہ فاطمہ ؓ میرے بدن کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ غلام آئے ۔حضرت فاطمہؓ گھر کی ضرورت کے لئے خادم مانگنے آئیں نبی کریم ؐ گھر پر نہیں تھے۔ جب تشریف لائے اور انہیں پتہ چلا کہ فاطمہؓ آئی تھیں تو سردی کے موسم میں اسی وقت حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم بستر میں جا چکے تھے۔ حضورؐ میرے پاس تشریف فرما ہوئے۔ میں نے آپؐ کے پاؤں کی ٹھنڈک محسوس کی ۔آپؐ فرمانے لگے خادم تو زیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ پھرحضرت فاطمہؓ اورحضرت علیؓ کو تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو خادم کا مطالبہ کیا تھاکیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟تم لوگ جب سونے لگو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ الحمداللہ کا ورد کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے جو تم نے مانگا ہے۔(بخاری)35
اولا دسے حقیقی پیار اور اعلیٰ تربیت
نبی کریمؐ کو اپنی اولاد کی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ تہجد کے وقت حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کو سوتے پایا تو جگا کرتنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ہو۔ حضرت علیؓ نے نیند کے غالب آنے کا عذر کیا تو آنحضور ؐ تعجب کرتے ہوئے واپس تشریف لائے اور سورۃ کہف کی وہ آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے۔(بخاری)36
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ؐ چھ ماہ تک با قاعدہ حضرت فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں صبح نماز کے لئے جگاتے اور فرماتے تھے کہ اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ تمہیں مکمل طور پر پاک وصاف کرنا چاہتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ ( حضورؐ کی بیماری میں) آئیں نبی کریم ؐ نے فاطمہؓ کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں طرف یا شاید بائیں طرف بٹھایا ۔حضرت فاطمہؓ کو بھی رسول کریم ؐسے بہت محبت تھی ۔رسول اللہؐ کی وفات پر حضرت فاطمہؓ کی زبان سے جو جذباتی فقرے نکلے،ان سے بھی آپؐ کی گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے، آپؐ نے حضرت انسؓ سے کہا کہ وائے افسوس میرے اباؐ! ہم آپؐ کی موت کا افسوس کس سے کریں ؟ کیاجبریل ؑ سے؟ وائے افسوس ! ہمارے اباؐ ! آپؐ اپنے رب کے کتنے قریب تھے ! ہائے افسوس ! ہمارے اباؐ ہمیں داغ جدائی دے کر جنہوں نے جنت الفردوس میں گھر بنا لیا۔ ہائے افسوس! میرے اباؐ ! جنہوں نے اپنے رب کے بلانے پر لبیک کہا ۔اور اس کے حضور حاضر ہوگئے۔ (ابن ماجہ)37
بیٹیوں کی اولاد سے شفقت
حضرت ابولیلیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر تھے۔کم سن حضرت حسن ؓ یا حسینؓ میں سے کوئی آپؐ کی گود میںچڑھا ہواتھااچانک بچے نے پیشاب کردیااور میں نے حضورؐ کے پیٹ پر پیشاب کے نشان دیکھے۔ہم لپک کر بچے کی طرف آگے بڑھے تاکہ اسے اُٹھالیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا میرے بیٹے کو میرے پاس رہنے دو اور اسے ڈرائو نہیں پھر آپؐ نے پانی منگواکراس پر انڈیل دیا۔(احمد)38
حضرت یعلیٰ عامری ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہؐ کے ساتھ ایک دعوت پر جارہے تھے کہ سامنے سے کم سن حسینؓ دیگربچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ رسول اللہؐ نے کھیل کھیل میںان کو پکڑنا چاہا تووہ ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ رسول کریمؐ اس طرح ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑلیا۔ پھر آپؐ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اورا پنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر انہیں چومنے لگے اور فرمایا حسینؓ مجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں(یعنی میرا ان سے گہرادلی تعلق ہے) جو شخص حسینؓ سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔حسین ؓ ہماری نسل ہے۔(حاکم)39
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا آپؐ کی پشت پر حسن ؓ اور حسینؓ سوارتھے اور آپؐ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کے بل چل رہے تھے اور ان بچوں سے باتیں کررہے تھے کہ تمہارا اونٹ کتنا اچھا ہے اورتم دونوں سوار بھی کیسے خوب ہو۔(ھیثمی)40
حضرت زینبؓ کے بچوں سے بھی حضورؐ کو بہت محبت تھی۔حضرت زینبؓ ؓکے ایک بیٹے کم سنی میں وفات پا گئے ان کی حالت نزع کے وقت حضرت زینبؓ نے حضور ؐ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرے بیٹے کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ آپ ؐ تشریف لے آئیں ۔نبی کریمؐ نے ہر قسم کے مشرکا نہ خیال سے بچنے کے لئے یہ پیغام بھیجا کہ زینبؓ کو میرا سلام پہنچادو اور کہو جو کچھ اللہ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو وہ عطا کرے اس کا بھی وہی مالک ہے اور ہر شخص کے لئے اللہ کے پاس ایک میعاد مقرر ہے اس لئے صبر کرو اور اپنے خیالات خدا کی خاطر پاک کر لو۔(بخاری)41
حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے۔بلالؓ نے رسول اللہؐ کو نماز کی اطلاع کی آپؐ تشریف لائے۔ آپؐ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپؐ کے کاندھے پر تھی۔رسول اللہؐ اپنے مصلے پر کھڑے ہوئے ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضورؐ کے کندھے پر ہی تھی۔
حضورؐ کی تکبیر کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی۔رکوع میں جاتے وقت حضورؐ نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھادیا رکوع اور سجدے سے فارغ ہوکر پھر اسے اُٹھا کر کندھے پر بٹھالیا۔نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا۔یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے۔(ابودائود)42
ایک دفعہ نجاشی شاہِ حبشہ کی طرف سے کچھ زیورات بطور تحفہ آئے، ان میں ایک انگوٹھی تھی جس کا نگینہ ملک حبشہ کا تھا ۔آپ ؐ نے عدم دلچسپی ظاہر فرماتے ہوئے اسے لکڑی یا انگلی سے پرے کیا ۔پھر امامہؓ کو بلایا اور فرمایا ’’بیٹی! یہ تم پہن لو ۔‘‘ (ابودائود)43
حضرت رقیہ ؓکے اکلوتے بیٹے عبداللہؓ دو سال کی عمر میں چہرے پر مرغ کے چونچ مارنے سے زخمی ہو کر وفات پا گئے تھے نبی کریمؐنے عبداللہ کا جنازہ خود پڑھایا ۔ (ابن سعد)44
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے رسول اللہؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں ان کے صاحبزادے حسن ؓ وحسینؓ ہمراہ تھے ۔حضرت فاطمہؓ ہنڈیا میں کچھ کھانا حضور ؐ کے لئے لائی تھیں، وہ آپؐ کے سامنے رکھا۔آپؐ نے پوچھا ابوالحسن ؓ یعنی حضرت علیؓ کہاں ہیں حضرت فاطمہ ؓ نے عرض کیا کہ گھر میں ہیں۔ حضورؐ نے ان کو بلا بھیجا اور پھر سب اہل بیت بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔حضرت اُم سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے کھانے سے فارغ ہوکر ان اہل بیت کے حق میں یہ دعا کی ’’اے اللہ! جوان اہل بیت کا دشمن ہو توُ اس کا دشمن ہو جا اور جوا نہیں دوست رکھے تو اسے دوست رکھنا‘‘(ھیثمی)45
حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے بھی نبی کریم ؐ کو بہت محبت تھی۔حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ میںنے نبی کریمؐ کو دیکھاحضرت حسنؓ آپؐ کے کندھے پر تھے اور فرمارہے تھے اے اللہ! اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔(بخاری)46
ایک دفعہ رسول کریم ؐ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنؓ اور حسینؓ آگئے انہوں نے سرخ قمیص پہنے تھے اور چلتے ہوئے ٹھوکریں کھارہے تھے رسول کریمؐ منبر سے اتر آئے اور انکو اٹھا لیا ، اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے۔ میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھاتو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنی بات روک کر ان کو اُٹھا لایا۔(ترمذی)47
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں لیٹا ہوا تھا۔ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ نے پینے کیلئے کچھ مانگا۔حضورؐ اٹھے، ہمارے گھر میں ایک بکری تھی جس کا دودھ دوہا جا چکا تھا۔ آپ ؐ اس کا دودھ دوہنے لگے تو دوبارہ بکری کو دودھ اتر آیا۔حسن ؓ حضورؐ کے پاس آئے تو حضور ؐنے اُن کو پیچھے ہٹا دیا اور اُن کی بجائے حسین ؓکو دودھ دیا۔ حضرت فاطمہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ یہ آپ کو زیادہ پیارا ہے ۔آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ پہلے اس نے مانگا ہے۔(ھیثمی)48
دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حسنؓ نے پہلے مانگا اور حسین ؓپہلے لینے کی ضد کرتے ہوئے رونے لگے تو نبی کریم ؐ نے پہلے حسن ؓکو دیا اور حضرت فاطمہؓ کے سوال پر کہ یہ آپؐ کو زیادہ پیارا ہے۔فرمایا دونوں میرے لئے برابر ہیں۔(ھیثمی)49
حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نماز پڑھتے ہوئے جب سجدہ میں جاتے تھے تو بعض دفعہ حضرت حسنؓ آپؐ کی پشت یا گردن پرچڑھ جاتے۔ حضورؐ بہت نرمی سے ان کو پکڑ کر اُتارتے تاکہ گریں نہیں۔صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ حضرت حسن ؓ کے ساتھ آپؐ جس طرح محبت سے پیش آتے ہیں ایسا سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے۔فرمایایہ دنیا سے میری خوشبو ہے۔ میرا یہ بیٹا سردار ہے جو دوگروہوں میں صلح کروائے گا۔ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ؐ سجدے کی حالت میں تھے کہ حسن ؓ پشت پر آکر بیٹھ گئے آپؐ نے اُن کو نہیں اتارا اور سجدے میں رہے یہاں تک کہ وہ خود اُترے۔(احمد)50
حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ کو فرزند عطا فرمایا۔اس کا نام آپؐ نے ابراہیمؓ اپنے جد امجد کے نام پررکھا۔ حضور ؐکے نواسوں حسن و حسین سے بھی کم سن تھے۔ آخری عمر کی اس اولاد سے آپؐ بے حد محبت فرماتے تھے۔
اس بچے کو پرورش کیلئے ام سیف کے سپرد کیا گیا۔نبی کریمؐ ان کے گھر گاہے بگاہے بچے سے ملاقات کرنے اورحال دریافت کرنے تشریف لے جاتے تھے۔ ابراہیمؓ کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتے۔اُسے چومتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے ۔(بخاری)51
کم سنی میں اس بچے میں اعلیٰ صلاحیتوں کے جو ہر دیکھ کر آپؐ خوش ہوتے تھے۔ رسول اللہؐ کا یہ جگر گوشہ16ماہ کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اس کی وفات پر اس کی خداداد صلاحیتوں کے بارہ میں فرمایاکہ’’ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔‘‘(ابن ماجہ)52
اس پیارے بیٹے کی جدائی پر آپؐ نے کمال شان صبر دکھائی۔ابراہیمؓ کا جنازہ دیکھ کر آپؐ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ایک صحابی نے عرض کیا حضورؐ آپ بھی روتے ہیں۔فرمایا یہ تو اولاد سے محبت کا جذبہ ہے کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے مگر ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہواور اے ابراہیم سچی بات تو یہ ہے کہ تیری جدائی پر ہم بہت غمگین ہیں۔(بخاری)53
اتفاق سے صاحبزادہ ابراہیمؓ کی وفات پر سورج گرہن بھی ہوا۔لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ رسول اللہؐ کے اتنے عظیم الشان بیٹے کی وفات پر سورج بھی گہنا گیا ہے۔ رسول کریمؐ سے بڑھ کر صاحبزادہ ابراہیمؓ سے کسے محبت ہوسکتی تھی مگر آپؐ نے یہ حق بات کھول کر بیان فرمادی کہ چانداور سورج اللہ کے نشانات میں سے ہیں۔ کسی کی موت یاپیدائش پر ان کو گرہن نہیں لگا کرتا۔ البتہ اس نشان کو دیکھ کراللہ سے ڈرتے ہوئے صدقہ وغیرہ دینا چاہئے۔(بخاری)54
الغرض نبی کریمؐ نے بحیثیت باپ اولاد سے حسن سلوک اور حسنِ تربیت کے لئے بہترین اور خوبصورت نمونہ پیش کیاہے، جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حوالہ جات
1
ابن ماجہ کتاب الادب باب برالو الد
2
مسنداحمدبن حنبل جلد4ص77
3
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ:418
4
بخاری کتاب المناقب باب ذکر اسامۃ بن زید
5
مسند احمدجلد2ص263 بیروت
6
مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ حدیث 474
7
مسند احمد بن حنبل جلد1ص214 بیروت
8
سنن البیھقی جلد9ص126 طبعہ اولیٰ 1326ھ
9
ابن ماجہ کتاب التجارات باب النھی عن التفریق ۔۔۔۔
10
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد1ص330
11
بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ
12
بخاری کتاب الصلوۃ باب من اخفّ الصلاۃ عندالبکاء الصبی
13
بخاری کتاب الھبۃ باب الاشھاد فی الھبۃ:2398
14
ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب العمل فی الصلوۃ
15
الطبقات الکبری لابن سعدجلد 8ص 36 مطبوعہ بیروت
16
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی فداء الاسیر بالمال
17
تاریخ الصیغرامام بخاری زیر لفظ زینبؓ
18
الطبقات الکبریٰ لابن سعدجلد 8ص 165مطبوعہ بیروت
19
تاریخ الصغیر از امام بخاری زیر لفظ زینبؓ
20
البدایۃ والنھایۃ لابن اثیرجز 3ص66مکتبۃ المعارف بیروت
21
بخاری کتاب النکاح باب شروط النکاح
22
السیرہ النبویۃ لابن ہشام جز2ص312مطبوعہ بیروت
23
ابو داؤد کتاب الطلاق باب الی متی ترد علیہ امراتہ اذا اسلم بعد ھا
24
بخاری کتاب الجنائز باب یجعل الکا فور فی الاخیرہ
25
بخاری کتاب الوضوء باب التیمن
26
مسند احمد جلد1ص335بیروت
27
کنزالعمال جلد 6ص24,42مطبوعہ بیروت
28
بخاری کتاب المغازی باب تسمیۃ من سمی اھل بدر
29
ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب الرجل یستعین علی وضوئہ:383
30
بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی بعد المیت بکا ء اھلہ
31
سنن الکبریٰ للبیھقی کتاب الجنا ئر باب سیاق اخبارعلی جواز البکاء بعد الموت
32
کامل لابن عدی جلد5ص134
33
مسند احمد جلد 5ص 254مطبوعہ مصر:21163
34
ابو داؤد کتاب الادب باب ماجاء فی القیام:4540
35
بخاری کتاب الجہاد باب الدلیل علی ان الخمس لنوائب رسول اللہؐ
36
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الکہف
37
ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ذکر وفاتہ و دفنہ:1620
38
مسند احمد بن حنبل جلد4ص348دارالفکر بیروت
39
مستدرک حاکم جلد3ص177طبعہ اولیٰ1978بیروت
40
مجمع الزوائد لھیثمی جلد9ص182 بیروت
41
بخاری کتاب الجنائزباب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ :1204
42
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب العمل فی الصلوۃ
43
ابو داؤد کتاب الخاتم باب ماجا ء فی الذھب للنساء
44
الطبقات الکبریٰ ابن سعد جلد8ص36بیروت
45
مجمع الزوائدلھیثمی جلد 9ص166مطبوعہ بیروت
46
بخاری کتاب المناقب باب مناقب الحسن
47
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین
48
مجمع الزوائد لھیثمی جلد9ص169بیروت بحوالہ مسند احمد
49
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9صفحہ 171بیروت
50
مسند احمد بن حنبل جلد5ص37,38
51
بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیؐ ان بک لمحزونون
52
ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اللہ
53
بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیؐ ان بک لمحزونون
54
بخاری کتاب الکسوف باب الصدقۃ فی الکسوف

اہلی زندگی میں رسول کریمؐ کابہترین نمونہ
مردوں اور عورتوں کے حقوق کا نزاع بہت پُرانا ہے۔ بانی ٔ اسلام حضرت محمدؐ نے نہ صرف اس پہلو سے کمال اعتدال اور انصاف پر مبنی تعلیم پیش فرمائی بلکہ عملی رنگ میں اُس کا بہترین نمونہ پیش کر کے دکھادیا اور فرمایا’’ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘(ترمذی)1
اسلام کی پاکیزہ تعلیم میں عورتوں کے حقوق کے ساتھ اُن کے فرائض کا ذکر بھی بیان کردیاگیاہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عورتوں کے کچھ حقوق مقرر ہیں اسی طرح اُن کی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں( لیکن گھر کا نظام قائم رکھنے کیلئے )مردوں کو اُن پرایک فوقیت دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ (سورہ البقرۃ:229)
دراصل مردوں اور عورتوں میں جسمانی وضع میں بھی فرق ہے۔ عورت کے قوُیٰ اور صلاحیتیں بچوں کی پیدائش،پرورش اور اُن کی تربیت کے لحاظ سے تخلیق ہوئے ہیں مقابلۃً مرد کو مضبوط قوُٰی دیے ہیںاور اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ترگھر سے باہرکے معمولات سے متعلق ہیں اور نان ونفقہ کا انتظام اور گھر سنبھالنے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لحاظ ہی سے اس کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں۔ آنحضورؐ نے بھی یہ فرمایا کہ’’ تم میں سے ہر ایک اپنے دائرہ عمل میںنگران بنایا گیا ہے اور اُس سے اس کی نگرانی اور رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایک مرد اپنے گھرانے میںاور اپنے خاندان کے لوگوں کے اُوپر نگران ہوتا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنی اولاد کی تربیت کی نگران ہوتی ہے ۔ اور تم سے ہر ایک سے اُس کی نگرانی کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔‘‘
اب دیکھو کس طرح اسلام نے عورت کوملکہ بنا کر گھر میں ایک تخت پربٹھا دیا ہے اورکہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والی، اپنے بچوں کو سنبھالنے والی، اپنے خاوند کے گھر اور خاندان کی ایک مکمل اوربااختیار نگران ہے لیکن نظام کسی منتظم کے بغیر چل نہیں سکتا اس لئے مرد کا یہ فرض اور ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ گھر کے اخراجات اور باہر کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتا رہے اور کمزور صنف کی تربیت کیلئے اسے نگران بھی مقرر کیااور فرمایا کہ اس پہلو سے ہم نے مردوں کو عورتوں پر نگران فرمایا ہے۔(سورۃ النسائ:35)
آج کل مرد عورت کے مساوی حقوق کے علم بردار بھی عملی طورپرمجبوراً عورتوں کی کھیلیں عورتوں کے ساتھ اور مردوں کے مقابلے مردوں کے ساتھ کرواتے ہیں اور کبھی میدان جنگ میں مردوں کی بجائے عورتوں کو نہیں بھجواتے۔ اس فرق کے باوجود مردعورت کی برابر ی کاسوال اُٹھانا محض افراط و تفریط کی راہ ہے ۔
آنحضور ﷺنے عورت میں ناز و نخرے کی طبعی اور جبلّی کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایاکہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی یعنی اُس کی طبیعت اورمزاج میں ایک کجی اورنزاکت ہے جو طبعاً پائی جاتی ہے۔اگر تم اس کو ایک طریق پرسیدھا چلانا چاہو تو یہ ممکن نہیں۔لیکن اگر تم اُس کی کجی کی کیفیت نازو ادا کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو یقینا بہت زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔لیکن اگر اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے۔جس کا آخر ی انجام طلاق کے سوا کچھ نہیں۔(مسلم)2
آنحضور ﷺنے میاں بیوی کو ایثار کا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم سے کسی کو دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا اُس کی کوئی ادا ناپسند ہے تو کئی باتیں اسکی پسند بھی ہونگی جو اچھی بھی لگیں گی، اُن کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔(مسلم)3
حضرت محمد مصطفیٰؐ کے اخلاق قرآن شریف کی اس پاکیزہ تعلیم کے عین مطابق تھے اورآپؐ کی بعثت کا بڑا مقصد ہی ان اعلیٰ اخلاق کا قیام تھا۔ (احمد) 4
نان و نفقہ کی ذمہ داری
آنحضورؐ کا نمونہ گھریلو زندگی میں ہر لحاظ سے مثالی اور بہترین تھا۔آپؐ اپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے۔ہر چند کہ آپؐ کے گھر میں وہ دن بھی آئے جب دودو ماہ تک چولہے میں آگ نہ جلی اور صرف پانی اور کھجور پر گزارا رہا۔(بخاری)5
رسول کریمؐ اپنے اہل خانہ کو حتّی المقدور قوُت لا یموت نہ صرف مہیا فرماتے تھے بلکہ اپنی ذات سے زیادہ اہل خانہ کا فکر فرمایا کرتے تھے۔ خود بسا اوقات کھانا نہ ہونے کی صورت میں روزہ کی نیت فرمالیتے تھے۔ایسے دن بھی آپؐ پرآئے جب سخت فاقے سے نڈھال ہوکر بھوک کی شدت روکنے کے لئے پیٹ پر سلیں باندھنی پڑیں لیکن اہل خانہ کا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھتے اور بوقت وفات بھی اپنی بیویوں کے نان و نفقہ کے بارے میں تاکیدی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا خرچہ ان کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے۔(بخاری)6
آپؐ اکثر یہ دعا کرتے ’’اے اللہ میرے اہل کو دنیا میں قوُت لا یموت ضرور عطا فرمانا۔‘‘ یعنی کم ازکم اتنی غذاضرور دینا کہ فاقوں نہ مریں۔(احمد)7
نرم خو،نرم زبان
جہاں تک اہل خانہ سے آپؐ کے حسن ِ سلوک کا تعلق ہے آپؐ نے کبھی گھروالوں کوبرا بھلا نہیں کہا، گالی نہیں دی۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کا بڑے دکھ کے ساتھ ذکر فرمارہے تھے ۔ اتنے میں وہ شخص ملنے آگیا۔آپؐ اس کے ساتھ بہت نرمی اور ملا طفت سے پیش آئے۔میںنے پوچھا کہ ابھی تو آپؐ اس کی بدسلوکی کا تذکرہ فرمارہے تھے۔پھر اس کے ساتھ اس قدر نرم کلامی کیوں اختیار کی۔آپؐ نے ایک جملہ میں نہ صرف حضرت عائشہ ؓ کی حیرت کا جواب دے دیا بلکہ خوش گفتاری کی اپنی دائمی صفت پر خود حضرت عائشہ ؓ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے کیا خوب فرمایا ’’ یَا عَائشَۃُ مَتٰی عَاھَدْتَّنِیْ فَحَّاشًا‘‘ اے عائشہ ؓ اس سے پہلے میں نے کب کسی سے بدکلامی کی ہے جو آج کرتا۔حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے۔(بخاری)8
حضرت عائشہؓ کی شہادت گھریلوزندگی کے بارہ میں یہ ہے کہ نبی کریمؐ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے۔ آپؐ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔نیز آپ ؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میںآنحضرت ﷺ نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔(ترمذی)9
حضرت خدیجہ ؓ پرآپؐ کے اخلاق کریمہ کا اثر
آنحضرت ﷺ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ ؓوہ عظیم خاتون تھیں جنھوں نے رسول کریم ﷺ کے اخلاق عالیہ سے ہی متأثر ہوکرآپؐ کو شادی کا پیغام بھیجا تھا۔ شادی کے بعد بھی آپؐ کے اخلاق کریمہ کا ہی اثر تھا کہ حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال او رسب غلام آنحضرت ﷺ کی نذر کردیئے اورنبی کریمؐ نے ان سب غلاموں کو آزاد کردیا۔(ابن ھشام)10
حضرت خدیجہ ؓ کی فدائیت کا یہ عا لم تھا کہ وہ کبھی اپنے مال کی اس بے دریغ تقسیم پرکوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لائیں۔ آپؐ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان ہی رہیں اور جب تک زندہ رہیں مکہ کے شدید دور ابتلا میں آپؐ کی سپر اور پناہ بن کر رہیں۔
رسول کریم ﷺ کے ساتھ قریباً پندرہ برس کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد پہلی وحی کے موقع پر انہوں نے حضور ﷺ کے حسنِ معاشرت کے بارے میں جو گواہی دی وہ یہ تھی ۔ ’’خدا تعالیٰ کبھی آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے،رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں اور مہمان نواز ہیں۔(بخاری)11
حضرت خدیجہؓ کی قدردانی
ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کی اہلی زندگی میں ایک نمایاں خلق یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپؐ بیویوں کے نیک اوصاف کی بہت قدر فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت خدیجہ ؓکے ایثار وفدائیت اور وفا کی ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ پاسداری کی۔اور وفات کے بعد بھی کئی سال تک آپؐ نے دوسری بیوی نہیں کی۔ ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا۔آپؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے تھی اس کی تربیت و پرورش کاآپؐ نے خوب لحاظ رکھا۔ نہ صرف ان کے حقوق ادا کئے بلکہ حضرت خدیجہ ؓ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی۔آپؐحضرت خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہوکر فرماتے خدیجہؓ کی بہن ہالہ آئی ہیں ۔گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ ؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے۔(مسلم)12
الغرض آپؐ حضرت خدیجہ ؓ کی وفائوں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’مجھے نبی کریمؐ کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ ؓسے ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔‘‘(بخاری13) فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یارسول اللہؐ۔خد انے آ پؐ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔ آپؐ فرماتے نہیں نہیں ۔خدیجہؓ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا وہ اس وقت میری سپر بنی جب میں بے یارو مدد گار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فداہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔(احمد)14
حضرت سودہؓ سے شادی
حضرت خدیجہؓ جیسی وفا شعار ساتھی مشیراور وزیر کی وفات سے نبی ﷺ کو سخت صدمہ پہنچاتھا۔ اسی سال آپؐ کے چچا ابو طا لب کی بھی وفات ہوئی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میںیہ سال عام الحزن کے نام سے مشہور ہے ۔یہ دونوں با برکت وجود ہمارے آ قا ومولاؐ کیلئے ظاہر ی تسکین اور ڈھارس کا موجب ہوتے تھے ان کی جدائی سے پیدا ہو نیوالے خلاء کے نیتجے میں آپ ؐکی تنہائی اور اداسی ایک طبعی امر تھا جسے آپؐ کیقریبی ساتھی بشدّت محسوس کر تے تھے۔ اس خلاء کا پر کیا جانا مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے بہت اہم تھا۔اللہ تعالیٰ حضرت خولہؓ بنت حکیم کو جزا عطافرماتا رہے۔جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندہ بن کر رسول اللہ ؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ بہت تنہا اداس ہو گئے ہیں آ پؐ نے فرمایا ہاں آخر وہ میر ے بچو ں کی ماں تھیں اور گھر کی مالکہ۔(زرقانی15)اس پر حضرت امّ حکیم ؓنے شادی کی تحریک کرتے ہو ئے بعض رشتے بھی تجویز کئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسبتاً ایک معمر بیوہ خاتون حضرت سودہؓ کی تجویز پسند کرتے ہوئے انہیں عقد میں لینا قبول فرمایا، تاکہ وہ حضورؐ کے گھریلو ا نتظا م اور آپؐ کی نوعمر صاحبزا دیوں کی کفالت کے اہتما م میں ممد ومعاون ہوں۔
حضرت سودہؓ سے حسن سلوک
حضر ت سودہ ؓبہت سادہ طبیعت کی تھیں۔ وہ دین العجا ئز یعنی بوڑھیوں والا مسلک رکھتی تھیں یعنی نیکی اور بھلائی کی جو با ت سنی اسپر مضبوطی سے جم گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرما یا تھا کہ یہ آخری حج ہے اس کے بعد شائد ملاقات نہ ہو ۔ ظا ہر ہے حضورؐ کا اشارہ اپنی ذات سے تھا مگر حضرت سودہؓ اس کی ایسی لفظی پابندی فرماتی تھیں کہ نبی کریمؐ کی وفات کے بعد اس ارشا دکی وجہ سے حج پر تشریف نہیں لے گئیں۔(زرقانی)16
سادگی کایہ عا لم تھا کہ جن دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں خبریں بیان فرما ئیں ، امت کو اس سے ڈ رایااور ابن صیّاد کے بارہ میں دجال کا شبہ ظاہر فر مایا تو حضرت سودہؓ دجال کی با تیں سن کر اس سے سخت خوفزدہ ہوتی تھیں۔ ایک دن جو یہ ذ کر ہوا کہ دجال ظاہر ہوگیا ہے تو وہ فوراً چارپائی کے نیچے جا چھپیں۔وہ اپنی سادہ لوحی کی ایسی باتوں سے نبی کر یمؐ کو بعض دفعہ خوب ہنساتی تھیں ۔
ایک دفعہ ان کو رات کے وقت نبی کریمؐ کے ساتھ عبادت کر نے کا جو شوق ہوا تو حضورؐ کے سا تھ نماز تہجد میں کھڑی ہو گئیں حضورؐ نے اپنے معمول کے مطابق لمبی نماز پڑھی۔ حضرت سودہؓ حضور ؐکے ساتھ بمشکل ایک رکعت ہی ادا کرسکیں کیو نکہ جسم خا صہ بھاری تھا۔ بعد میں نبی کریمؐ کی خد مت میںنہا یت سادگی سے عرض کیا کہ رات میں نے آپؐ کے پیچھے تہجد کی نما زشروع کی۔ بس ایک رکعت ہی پڑھ سکی باقی تھک ہا ر کر چھوڑ دی کیونکہ مجھے تو نکسیر پھوٹ پڑنے کا خوف دامنگیر ہو چلا تھا۔(زرقانی)17
ایک دفعہ حضر ت عا ئشہؓ نے کھیر یا حلو ا بنا یا جو حضرت سودہؓ کو پسندنہیں آیا حضرت عائشہؓ نے کھا نے کے لئے اصر ار کیا مگر وہ نہ ما نیں۔ حضرت عائشہؓ کو کیا سو جھی کہ وہ ما لید ہ حضر ت سودہؓ کے منہ پر لیپ کرد یا ۔ نبی کریمؐ دیکھ کر محظوظ بھی ہو ئے مگریہ عادلانہ فیصلہ فر ما یا کہ حضرت سودہؓ کو بدلہ لینے کا پورا حق ہے اور یہ چاہیں تو حضرت عا ئشہ ؓکے منہ پر وہی مالیدہ مل سکتی ہیں ۔حضرت سودہؓ نے بدلہ لیتے ہوئے مالیدہ حضرت عائشہؓ کے منہ پر مل دیا اور رسول اللہؐ دیکھ کر مسکراتے رہے۔ (ھیثمی)18
حضرت عا ئشہ ؓکو حضرت سودہؓ کی مرنجاں مرنج سادہ اور صا ف دل طبیعت بہت پسند تھی فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام لوگوں سے بڑ ھکر حضر ت سو دہؓ کی بھولی ادائیں ایسی بھلی معلوم ہوتی ہیں کہ بعض دفعہ انہیں اپنانے کو جی چا ہتا ہے۔ البتہ حضرت سودہؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی بھی تھی مگر غصہ بہت جلد دور ہو جاتا تھا۔(زرقانی)19
شا د ی کے کچھ عر صہ بعد حضرت سودہؓ نے اپنے بڑ ھا پے کے با عث محسوس کیا کہ گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی ان پر بوجھ ہے ۔اور ازوواجی تعلق کی انہیں حا جت نہیں رہی مگر یہ د لی تمنا ضرور تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بابرکت عقد تا دم حیا ت قا ئم رہے۔ انہوں نے از خود نبی کریمؐ کی خدمت میں درخواست کی کہ مجھے دیگر ازواج سے مقا بلہ کی کوئی تمنا نہیں صر ف اتنی خواہش ہے کہ قیا مت کے روز آپؐ کی بیویوں میں میراحشر ہو ۔ آپؐ سے علیحدگی نہیں چا ہتی تاہم اپنے حقوق حضر ت عا ئشہؓ کے حق میں چھوڑتی ہو ں بے شک میر ی باری ان کو دے دی جائے۔نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی یہ تجو یز قبول فر ما لی، مگر ان کے جملہ اخراجات حسب سابق ادا ہوتے رہے۔(زرقانی)20
مدنی دور میں آنحضرت ﷺ کو تربیتی وقومی ضروریات کی بنا پر متعدد شادیاں کرنی پڑیں اور بیک وقت نو بیویاں تک آپؐ کے گھر میں رہیں مگر کبھی ان کی ذمہ داریوں سے گھبرائے نہیں بلکہ نہایت حسن انتظام اور کمال اعتدال اور عدل و انصاف کے ساتھ سب کے حقوق ادا کئے اور سب کا خیال رکھا۔آپؐ نماز عصر کے بعد سب بیویوں کو اس بیوی کے گھر میں اکٹھا کر لیتے جہاں آپؐ کی باری ہوتی تھی۔ یوں سب سے روزانہ اجتماعی ملاقات ہوجاتی تھی۔
ہر چند کہ آٹھ دن کے بعد ایک بیوی کی باری آتی تھی۔مگر آنحضرتؐ کی محبت و شفقت ایسی غالب تھی کہ ہر بیوی کو آپ ؐکی رفاقت پر ناز تھا۔ وہ ہر حال میں رسول خداؐ کے ساتھ راضی اور خوش رہتی تھیں۔ ان نو بیویوں میں سے کبھی کسی بیوی نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ کبھی کوئی ناراض ہوکرآپؐ سے عارضی طورپر بھی جدانہیں ہوئی۔ فتوحات و غنائم کے دور میں بیویوں کے بعض دنیوی مطالبات کے جواب میں جب سورۃ احزاب کی آیت تخییر اُتری جس میں بیویوں کو مال و دولت اور اپنے حقوق لے کر رسول کریم ﷺ سے علیحدہ ہوجانے کا اختیار دیا گیا اور ارشاد ہوا کہ یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَافَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَراَحاً جَمِیْلًا(الاحزاب 29) یعنی اے ازواج!اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی خواہاں ہو تو آئو میں تمہیں دنیوی متاع دیکر جدا کر کے عمدگی سے رخصت کر دیتا ہوں۔ اور اگر اللہ اس کے رسول کو اختیار کرنا چا ہتی ہوتو ایسی نیک عورتوں کے لیے اللہ نے بڑا اجر مقرر کر چھوڑاہے۔
اس حکم کے نازل ہونے پر رسول کریم ﷺ نے باری باری سب بیویوں سے ان کی مرضی پوچھی کہ وہ حضورؐ کے ساتھ فقر و غربت میں گذارہ کرنا پسند کرتی ہیں یا جدائی چاہتی ہیں توسب بیویوں نے بلا توقّف یہی مرضی ظاہر کی کہ وہ کسی حال میں بھی رسول خدا ؐ کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتیں۔ سب سے پہلے جب آنحضرتؐ نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ اختیار دے کر ان کی رائے لینا چاہی تو اس خیال سے کہ نوعمر ہیںکہیں عجلت سے کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اے عائشہؓ ایک نہایت اہم اور نازک معاملے میں تمہیں حسب حکم الہٰی جو اختیار دینے والا ہوں اس کے بارے میں فیصلہ سوچ سمجھ کر اور والدین سے مشورہ کے بعد کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خود بے شک نو عمر تھیں مگر ان کا جواب کیسا کہنہ مشق اور کیا خوب تھا کہ ’’یارسول اللہؐ میں کس بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ کروںگی ؟کیا خدا کے رسول سے جدائی اختیار کرنے کے بارے میںصلاح کروں گی؟حضرت عائشہ ؓ بڑے ناز سے فرمایا کرتی تھیں کہ شاید رسول اللہؐ نے مجھے ماں باپ سے مشورہ کرنے کو اس لئے کہاتھا کہ آپؐ جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے ہر گز رسول خدا ؐسے جدا ہونے کا مشورہ نہ دیں گے۔(بخاری)21
خانگی امور کی بجا آوری
بیویوں کی اس فدائیت کی وجہ دراصل آنحضرت ﷺ کا ان کے ساتھ بے تکلف رہن سہن اور حسن سلوک ہی تھا،باوجود یکہ تمام دنیا کی ہدایت اور ایک عا لم تک پیغام حق پہنچانے کی کٹھن ذمہ داری آپؐ کے نازک کندھوں پر تھی۔ بندوں کے حق ادا کرنے کے علاوہ آپؐ کواپنے مولیٰ کی عبادت کا حق بھی پورا کرنا ہوتا تھا، لیکن حیرت ہے گھر کے کام کاج میں دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے کوئی کمی واقع نہیں ہونے دیتے تھے۔آپؐ گھریلو کام کاج کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے تھے جیساکہ دوسری ذمہ داریوں کو ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جتنا و قت آپؐ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپؐ کو نماز کا بلاوا آتا اور آ پؐ مسجد تشریف لے جاتے۔(بخاری)22
کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ گھرمیں کیا کیا کرتے تھے۔ فرمانے لگیں آپؐ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے بکر ی خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے۔(احمد23)اسی طرح انہوں نے بیان کیا کہ آپؐ اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے، جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کرلیتے تھے۔ (احمد24)رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دئیے یا جگائے بغیر کھانا یادودھ خود تناول فرمالیتے۔(مسلم)25
بیویوں میں عدل
رسول کریمؐکوشش فرماتے کہ تمام بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں سر ُمو فرق نہ آئے۔ جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے۔(بخاری)26
ہر چند کہ آیت’’تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ مِنْھُنَّ وَتُؤِْیْ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآئُ‘‘ (سورۃ الاحزاب:52)
کے مطابق آپؐ کو اختیار تھا کہ بیویوں میں سے آپؐ جس کو چاہیں اس کی باری مؤخر کر دیں اور جسے چاہیں اپنے ہاں جگہ دے دیں۔پھر بھی زندگی میں ایک دفعہ بھی آپ ؐنے یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا کہ بلاوجہ معمول کی باریوں میں کوئی تفریق کی ہو۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے خاص انداز محبت میں عرض کیا کرتی تھیں کہ اگر یہ اختیار مجھے ہوتا تو میں تو صرف آپؐ کے حق میں ہی استعمال کرتی۔(بخاری)27
بیویوں کے درمیان آنحضرت ﷺ کے انصاف کا یہ عالم تھا کہ آخری بیماری میں بھی جب ازدواجی حقوق کی ادائیگی کی بجائے آپؐ کی تیمارداری کا سوال کہیں زیادہ اہم تھا۔ اس وقت بھی آپ ؐنے اس دلی خواہش کے باوجود کہ حضر ت عائشہ ؓ جیسی مزاج شناس بیوی آپؐ کی تیمارداری کرے آپؐ نے باری کی تقسیم مقدم رکھی۔ البتہ حضرت عائشہ ؓ کی باری کی تمنا کرتے ہوئے بار بار پوچھتے ضرور رہے کہ کل میری باری کہاں ہے؟ یہاں تک کہ بیویوں نے خود ہی عائشہؓ کے گھر میں آپؐ کو تیمارداری کی اجازت دی۔(بخاری)28
الغرض ہمارے آقا و مولیٰﷺ جو تقویٰ کے بلند اور روشن مینار پر فائز تھے۔ بسااوقات اس خیال سے کہ دل کے جذبوں اور طبعی میلان پر تو کوئی اختیار نہیں اس لئے اگر سب بیویوں کے برابر حقوق ادا کرنے کے بعد بھی میلان طبع کسی بیوی کی جانب ہوگیا تو کہیں میرا مولیٰ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔اتنے مخلصانہ عدل اور منصفانہ تقسیم کے بعد بھی آپؐ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تو جانتا ہے اور دیکھتاہے کہ انسانی حد تک جو برابر منصفانہ تقسیم ہوسکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں۔میرے مولیٰ اب دل پر تو میرا اختیار نہیں اگر قلبی میلان کسی کی خوبی اور جوہر قابل کی طرف ہے تو تو مجھے معاف فرمانا۔(ابودائود )29
محبت والفت کی ادائیں
اسلا م سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتاتھا ۔خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔(مسلم)30
آنحضرت ﷺ نے اس معاشرتی برائی کو دور کیا اور آپؐ کی شر یعت میںیہ حکم اترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہرگز منع نہیں۔(سورۃ البقرہ:223)چنانچہ آنحضورؐ بیویوں کے مخصوص ایام میںان کا اور زیادہ لحاظ فرماتے ۔ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایام مخصوصہ میں بھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ میرے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے حضورؐ گوشت کی ہڈی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت کے ساتھ اس جگہ منہ رکھ کر کھاتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا۔میں کئی دفعہ پانی پی کر برتن حضورؐ کو پکڑا دیتی تھی۔ حضور ؐ وہ جگہ ڈھونڈ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے تھے۔(ابودائود31)اور یہ آپؐ کے پیار کا ایک انوکھا اور ادنیٰ سا اظہار ہوتا تھا۔
بیماری میں اہل خانہ کا خیال
بیویوں میں سے کوئی بیمار پڑجاتی تو آپؐ بذات خود اس کی تیمارداری فرماتے۔ تیمارداری کا یہ سلوک کس قدر نمایاں اور ناقابلِ فراموش ہوتا تھا اس کا اندازہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت سے ہوتا ہے۔آپؓ فرماتی ہیں کہ واقعہ اِفک میں الزام لگنے کے زمانہ میں، اتفاق سے مَیںبیمار پڑ گئی۔ تو اس وقت تک مجھے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی کوئی خبر نہ تھی، البتہ ایک بات مجھے ضرور کھٹکتی تھی کہ ان دنوںمیں مَیںآنحضرت ﷺکی طرف سے محبت اور شفقت بھرا تیمارداری کا وہ کریمانہ سلوک محسو س نہیں کرتی تھی جو اس سے پہلے کبھی بیمار ی میں آپؐ فرمایا کرتے تھے۔ واقعہ افک کے زمانہ میںتو بس اتنا تھا کہ آپؐ میرے پاس آتے سلام کرتے اور یہ کہہ کر کہ کیسی ہو؟ واپس تشریف لے جاتے۔اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ پہلے تو بیماری میں بڑے ناز اٹھاتے تھے اب ان کو کیا ہوگیا ہے؟(بخاری)32
حضرت عائشہ کی دلداریاں
یوں تو آپؐ سب بیویوں کی دلداری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔مگر حضرت عائشہ ؓ کم سنی کے علاوہ زیر کی، ذہانت اور مزاج شناس ہونے کی وجہ سے آپؐ کی شفقت کاخاص مورد ہوتی تھیں۔فرمایا کرتے تھے کہ عائشہ ؓکی فضیلت باقی بیویوں پر ایسے ہے جیسے ثرید یعنی گوشت والے کھانے کو دوسرے کھانے پر۔ بعض دفعہ بیویوں نے اس پر احتجاج کیا تو فرما یا کہ بیویوں میںسے صرف عائشہ ؓ ہی ہے جن کے بستر میں بھی مجھے وحی ہوجاتی ہے۔یعنی اس کے ساتھ خدا کا سلوک بھی نرالا ہے ۔(بخاری)33
حضرت عائشہ ؓ کی نو عمری کی وجہ سے بھی ان کے ساتھ حسن سلوک تھا، حضرت عائشہ ؓ خود بیان فرماتی ہیں کہ’’ شادی کے بعدبھی میں آنحضرتؐ کے گھر میں گڑیاں کھیلا کرتی تھی۔ میری کچھ سہیلیاں میرے ساتھ کھیلنے آتی تھیں۔حضورؐ گھر میں تشریف لاتے تو وہ حضورؐ کے رعب سے بھاگ جاتیں۔ حضورؐ میری خاطر ان کو اکٹھا کر کے واپس گھر لے آتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتیں۔(بخاری)34
پروں والا گھوڑا
رسول کریمؐ بیویوں کے ساتھ ان کی دلچسپی اور ان کے معیار کے مطابق باتیں کرنا پسند فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم کمرے میں تھے ہوا کا جھونکا آیا تو الماری کا وہ پردہ ہٹ گیا جس کے پیچھے میری کھیلنے کی گڑیا ں رکھی تھیں۔ رسول کریم ﷺ دیکھ کر فرمانے لگے۔ عائشہؓ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضور میری گڑیاں ہیں۔ حضورؐ اس توجہ سے یہ سب کچھ ملا حظہ فرمارہے تھے کہ گڑیوں کے درمیان میں چمڑے کے دو پروں والا جو ایک گھوڑا آپؐ نے دیکھا اس کے بارے میں پوچھا کہ عائشہؓ ان گڑیوں کے درمیان میں کیا رکھا ہے۔میںنے کہا گھوڑا ہے۔آپؐ پروں کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے۔اس کے اوپر کیا لگا ہے میں نے کہا اس گھوڑے کے دو پر ہیں۔ تعجب سے فرمانے لگے گھوڑے کے دو پرَ ؟ میں نے کہا آپؐ نے سنا نہیں کہ سلیمان ؑ کے گھوڑوں کے پر ہوتے تھے ۔اس پر آنحضرت ﷺ ہنسے اتنا ہنسے کہ مجھے آپؐ کے دانت نظر آنے لگے۔(ابودائود)35
ہار کی گمشدگی
سفر میں جو بیوی بھی ہمراہ ہوتی رسول کریمؐ اس کے آرام اور دلداری کا خاص خیال رکھتے۔ روایات میں حضرت عائشہ ؓ کا ہار ایک سے زیادہ مرتبہ گم ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ایک ایسے ہی موقعے پر آنحضرت ؐنے کمال شفقت سے حضرت عائشہ ؓ کے ہار کی تلاش میں کچھ لوگ بھجوائے۔ اسلامی لشکر کو اس جگہ پڑائو کرنا پڑا جہاں پینے کے لئے پانی میسر تھا نہ وضو کے لئے۔ ایسی صورت میں حضرت عائشہ ؓ کے والد حضرت ابو بکر ؓ بھی ان سے ناراض ہوگئے اور سختی سے فرمانے لگے۔’’عائشہ ؓ! تم ہر سفر میں ہی مصیبت اور تکلیف کے سامان پیدا کرتی ہو۔‘‘(الحلبیہ 36) مگر آنحضرت ﷺنے کبھی ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو جھڑکا تک نہیں خواہ ان کی وجہ سے آپؐ کو پورے لشکرکے کُو چ کا پروگرام بدلنا پڑااور تکلیف بھی اٹھانی پڑی۔گھر میں تو دلداری کے ایسے نظارے اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتے تھے۔
عید کی رو نق
عید کا دن ہے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بُعاث کے نغمے گا رہی ہیں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ تشریف لاتے ہیں اور اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ کو ڈانٹتے ہیں کہ رسول ﷺکے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا ؟ آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ ؓ کی طرفداری کرتے ہوئے فرماتے ہیں اے ابوبکرؓ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے آج مسلمانوں کی عید ہے ان بچیوں کو خوشی کر لینے دو۔(بخاری)37
ایک اور عید کے موقع پر اہل حبشہ مسجد نبوی کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کرو گی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کھڑا کر لیتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں دیر تک آپؐ کے پیچھے کھڑی رہی اور آپؐ کے کندھے پر ٹھو ڑی رکھے آپ ؐکے رخسا ر کے ساتھ رخسار ملا کے یہ کھیل دیکھتی رہی آپؐ میرا بوجھ سہارے کھڑے رہے ۔یہاں تک کہ میں خود تھک گئی۔آپؐ فرمانے لگے اچھا کافی ہے تو پھر اب گھر چلی جائو۔(بخاری)38
حضرت عائشہ ؓ یہ واقعہ سنا کر فر ما یاکرتی تھیں کہ نو عمر لڑکیوں کوکھیل تماشا کا شوق ہوتا ہے۔ دیکھو آنحضرت ﷺ ان کے جذبات کا کتنا لحاظ رکھتے تھے اور ان کی ہر جائز خواہش پورا کرنے میں کوئی تامل نہیں فرماتے تھے۔ ہر چند کہ عائشہؓ سے شادی کے وقت عمروں کا تفا وت چالیس برس سے بھی زائد تھا جو بہت سنجیدگی اور تکلف پیدا کرسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ کی دل لگی اور ناز برداری کے لئے کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ گھر میں تشریف فرماتھے کہ اچانک ہم نے باہر کچھ شوراور بچوں کی آوازیں سنیں۔ رسول کریمؐ نے جاکردیکھا تو ایک حبشی عورت رقص کررہی تھی۔ اور بچے اس کے گرد تھے۔ رسول کریمؐ نے مجھے فرمایا عائشہؓ! تم بھی آکر دیکھ لو۔ میں آکراپنی ٹھوڑی رسول اللہؐ کے کندھے پر رکھی اور دیکھنے لگی۔ کچھ دیربعد حضورؐ پوچھتے اب دیکھ چکی ہو؟ بس کافی ہے؟ میں کہہ دیتی نہیں ابھی اور دیکھوں گی۔اور میرے دل میں تھا کہ دیکھوں تو سہی یہ کتنا میرے ناز اُٹھاتے ہیں۔ اتنے میں حضرت عمرؓ آگئے تو بچے بالے ان کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ رسول کریمؐ فرمانے لگے لگتا ہے انسانوں اور جنوں میں سے تمام شیطان عمرؓ کے خوف سے بھاگتے ہیں۔(ترمذی)39
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں جب کبھی غصہ میں آجاتی ۔ رسول کریمؐ اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کر دعا کرتے۔اَللّٰھُمَّ اِغْفِرْلَھَا ذَنْبَھَا وَاَذْھِبْ غَیْظَ قَلْبِھَا وَاَعِذْھَا مِنَ الْفِتَنِ۔اے اللہ! عائشہؓ کے گناہ بخش دے اور اس کے دل کا غصہ دور کردے اور اسے فتنوں سے بچالے۔دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غصے ہونے پر حضورؐ ان کی ناک پکڑ کرفرماتے اے عُویش(چھوٹی سی عائشہؓ ) یہ دعاکرو۔اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّبِیِّ مُحَمَدٍّاِغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ وَاَذْھِبْ غَیْظَ قَلْبِیْ وَاَجِرْنِیْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِکہ اے اللہ! نبی محمدؐ کے رب! میرے گناہ مجھے بخش دے اور میرے دل کا غصہ دور کردے اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے۔ (ابن جوزی)40
کہانیوں کی بے تکلف مجلس
رسول کریمؐ عائشہؓ کا دل بہلانے کے لئے ہمیں کہانیاں سناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ آپؐ نے حضرت عائشہ ؓ کو تیرہ عورتوں کی کہانی بھی سنائی،جنہوں نے ایک دوسرے کو اپنے خاوندوں کے کچے چٹھے خوب کھول کر سنائے ،مگر ایک عورت ام زرعہ جسے کہانی کے مطابق اس کے خاوند ابو زرعہ نے بعدمیں طلاق دے کر اور شادی کر لی تھی۔ اس نے اپنے خاوند کی جی بھر کر تعریف کی کہ اس نے مجھے ہرقسم کا آرام پہنچایا اور کھانے کے لئے وافر دیا اور کہا خود بھی کھائو اور اپنے والدین کو بھی بھجوائو۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں پھر رسول کریمؐ نے فرمایاکہ میری اور عائشہؓ کی مثا ل ابو زرعہؓ کی سی ہے۔ تم میری ام زرعہ ہو اور میں تمھارا بو زرعہ ہوں۔ (بخاری)41
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ اپنے باپ حضرت ابوبکرؓ کے جاہلیت کے مال ودولت پرفخرکرتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس کئی لاکھ درہم تھے۔ رسول کریمؐ فرمانے لگے۔ اے عائشہ ؓ! رہنے بھی دو۔ میں تمہارے لئے ایسے ہوں جیسے کہانی میں ابوزرعہ اُمّ زرعہ کے لئے تھا۔ اس پر حضرت عائشہ ؓنے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ؐ آپؐ میرے لئے ابوزرعہ سے کہیں بہتر ہیں۔(ھیثمی)42
ایک رات حضورؐ نے بیویوں کو کوئی بات سنائی۔ تو ایک بیوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب محاورہ کے مطابق عرض کیا ایسے لگتا ہے کہ یہ خُرافہ والی بات ہے یعنی بے سروپا کہانی۔ اس پر رسول کریمؐ نے ایک کہانی سنائی۔ فرمایا’’ تمہیں پتہ ہے خرافہ کون تھا؟ خرافہ ایک آدمی تھا جسے جاہلیت میں کسی جنّ قوم نے قید کرلیا اور وہ ان میںایک زمانے تک رہا۔ پھر انہوں نے اسے اس کے لوگوں کے علاقہ کی طرف واپس لوٹا دیا۔ خرافہ واپس آکر اپنی اسیری کے زمانے کے قصّے اورعجیب وغریب باتیں سنایاکرتا تھا۔ اس سے ہرعجیب وغریب بات کے لئے حدیث خرافہ کا محاورہ مشہورہوگیا۔‘‘(احمد)43
دعوت طعام میں بیوی کی معیت
رسول کریمؐ کو عائشہ ؓ کے جذبات و احسا سا ت کا جس قدر خیال ہوتا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایرانی باشندہ رسول کریمؐ کا ہمسایہ تھا، جو سالن بہت عمدہ پکاتا تھا ۔اس نے ایک دن رسول کریم ؐکے لئے کھانا تیا ر کیا اور آپؐ کو دعو ت دینے آیا ۔آنحضور ؐکی باری عائشہؓ کے ہاں تھی۔ وہ اس وقت پاس ہی تھیں آپؐ نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ کیا یہ بھی ساتھ آجائیں۔ اُس نے غالباً تکلف اور زیادہ اہتمام کرنے کے اندیشے سے نفی میں جواب دیا آپؐ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا۔تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بلانے آیا تو آپؐ نے پھرفرمایا میری بیوی بھی ساتھ آئے گی؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو آپ ؐنے دعوت میں جانے سے معذرت کر دی۔وہ چلا گیا، تھوڑی دیر بعد پھر آکر گھر آنے کی دعوت دی تو آپؐ نے پھراپنا وہی سوال دہرایا کہ عائشہؓ بھی آجائیں تو اس مرتبہ اس نے حضرت عائشہ ؓ کوہمراہ لانے کی حامی بھرلی۔اس پر آپؐ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں اس ایرانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر کھانا تناول فرمایا۔(مسلم)44
حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ فاطمہؓ اور میں فاقہ سے تھے۔ میں گھر آیا تو دیکھا کہ فاطمہؓ مغموم بیٹھی ہیں میں نے سبب پوچھا تو بولیں کہ نہ ہم نے رات کھانا کھایا نہ صبح اور نہ ہی آج شام کھانے کے لئے گھر میں کچھ ہے۔ میں باہر نکلا اور جاکر محنت مزدوری کر کے ایک درہم کا غلہ اور گوشت خرید لایا۔فاطمہؓ نے پکایا اور کہنے لگیں آپ جاکر میرے ابا کو بھی بلالائیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھالیں۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں گیا تو رسول کریمؐ مسجد میں لیٹے ہوئے یہ دعا کررہے تھے ’’اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الْجُوعِ ضَجِیْعاً‘‘ میں بھوک اور فاقہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔اے اللہ کے رسول! ہمارے گھر کھانا ہے آپؐ تشریف لائیں۔آپؐ نے میرا سہارا لیا یہاں تک کہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ ھنڈیا ابل رہی تھی۔ آپؐ نے فاطمہؓ سے فرمایا پہلے تھوڑا سا عائشہؓ کے لئے ڈال دو۔ انہوں نے ایک پیالے میں ڈال دیا پھر فرمایا اب حفصہؓ کے لئے کچھ ڈال دو۔انہوں نے دوسرے پیالے میں ڈالا۔ یہاں تک کہ حضورؐ نے نوبیویوں کے لئے کھانا ڈلوایا۔ پھر فرمایا اب اپنے والد اورمیاں کے لئے بھی ڈال دو۔ جب وہ ڈال چکیں تو فرمایا اب خود ڈال کر کھائو۔پھر انہوں نے ھنڈیا اُتار ی تو وہ بھری کی بھری تھی۔ حضرت علی ؓکہتے ہیں جب تک خدا نے چاہا ہم نے (اُس سے) کھایا۔ (ابن سعد)45
آنحضرتؐ کی ایک بیوی حضرت صفیہؓ تھیں،جو رسول اللہؐ کے شدیدمعاند اور یہودی قبیلہ بنی نضیر کے مشہور سردار حیی بن ا خطب کی بیٹی تھیں۔جنگ خیبر میں حضر ت صفیہ ؓ کا باپ اور ان کا خاوند مسلمانوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، مگر آنحضر ت ﷺ نے پھر بھی یہود خیبر پر احسان فرماتے ہوئے حضر ت صفیہؓ بنت حیُییّ کو اپنے عقد میں لینا پسند فرمایا۔ اپنے جانی دشمن کی بیٹی صفیہؓ کو بیوی بناکر اپنی شفقتوں اور احسانوں سے جس طرح انہیں اپنا گرویدہ کیا اور ان کا دل آپؐ نے جیتا وہ بلاشبہ انقلاب آفرین ہے ۔جنگ خیبر سے واپسی کا وقت آیا تو صحابہ کرامؓ نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ آنحضرت ؐ اونٹ پر حضرت صفیہ ؓ کے لئے خود جگہ بنارہے ہیں۔ وہ عبا جو آپؐ نے زیب تن کر رکھی تھی اتاری اوراسے تہہ کر کے حضرت صفیہ ؓ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھادیا۔ پھر ان کو سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا اس پر پائوں رکھ کے اونٹ پر سوار ہوجائو۔ (بخاری)46
خود حضرت صفیہ ؓ کا بیان ہے کہ چونکہ جنگ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں آپؐ کے لئے انتہائی نفرت تھی مگر آپؐ نے میرے ساتھ ایسا حسن سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورت جاتی رہی۔حضرت صفیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپ ؐنے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیامجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جا ٹکرایا ۔حضورؐ نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے۔اے لڑکی۔اے حیی کی بیٹی ذرا احتیاط ذرا اپنا خیال رکھو۔پھررات کو جب ایک جگہ پڑائو کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں۔فرمانے لگے دیکھو تمھارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی اور یہ سلوک ہم سے روا رکھا تھا جس کی بنا پر مجبوراًتیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس پر میں بہت معذرت خواہ ہوں۔مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبوراً اور جواباً کرنا پڑا ہے۔حضرت صفیہ ؓ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریمؐ کے پاس سے اٹھی تو آپؐ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا۔(ھیثمی)47
اہل خانہ کی تربیت
ـ’’قوام ‘‘ اور ’’راعی‘‘ یعنی سر پرست اور نگران ہونے کے ناطے بیویوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے اپنی تمام تر دلداریوں اور شفقتوں کے ساتھ تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے کا حق ہمارے آقا و مولی ﷺ نے خوب ادا فرمایا۔حسب ارشاد خدا وندی جب بیویوں نے آیت تخییرکے بعد آپؐ کے پاس رہنا ہی پسند فرمایا تو آپؐ کا ازواجِ مطہّرات کو یہی درس ہوتا ہے کہ آپؐ دنیا کی عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔اس لئے تقویٰ اختیار کریں ۔اور لوچ دار آواز سے بات نہ کریں کہ منافق کوئی بد خیال دل میں لائے اور زیادہ وقت گھروں میں ہی ٹھہری رہا کریں ۔اور جاہلیت کے طریق کے مطابق زینت و آرائش کے اظہار سے باز رہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمر بستہ رہیں۔جب کسی غیر مرد سے بات کرنی ہو تو برعایت پردہ ایسا کریں اور جب باہر نکلیں تو اوڑھنیاں اس طرح لیا کریں کہ پہچانی نہ جائیں‘‘۔یہ سب احکام وہ تھے جن پر عمل درآمد کے نتیجہ میں اہل بیت اور ازواج مطہرات نے مدینہ میں ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کردیا۔
رسول اللہؐ کے گھرمیں قیام عبادت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی ۔آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ بہت خوش قسمت ہیں وہ میاں بیوی جو ایک دوسرے کو نماز اور عبادت کے لئے بیدار کرتے ہوں اور اگر ایک نہ جاگے تو دوسرا اس پر پانی کے چھینٹے پھینک کر اسے جگائے۔(ابن ماجہ)48
اپنے اہل خانہ کے ساتھ آپؐ کا یہی سلوک تھا ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبا دت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دو رکعت ادا کرلو۔(بخاری)49
اسی طرح آپ فرماتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں تو بطور خاص آپؐ خود بھی کمر ہمت کس لیتے اور بیویوں کو بھی اہتمام کے ساتھ عبادت کے لئے جگاتے تھے۔(بخاری)50
ایک رات کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز تہجدکے لئے اٹھے ہوئے تھے وحی الہٰی کے ذریعہ سے آپؐ کو آئندہ کے احوال اور فتنوں کے کچھ خبریں بتائی گئی ہیں جس کے بعد ایک پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں آپؐ بیویوں کو نماز اور دعا کے لئے جگانے لگے اور فرمایا ان حجروں میں سونے والیوں کو جگائو۔اور پھر اس نصیحت کو مزید اثر انگیز بنانے کے لئے ایک عجیب پر حکمت جملہ فرمایا جو پوری زندگی میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ فرمایا :۔
’’دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہیں جو ظاہری لباسوں کے لحاظ سے بہت خوش پوش ہیں مگر قیامت کے دن جب یہ لباس کام نہ آئیں گے اور صرف تقویٰ کی ضرورت ہوگی تو وہ اس لباس سے عاری ہوں گی۔‘‘(بخاری)51
باجماعت نماز
ایک دفعہ حضرت ام سلمہ ؓ کے گھرمیں کچھ عورتیں جمع تھیں۔ رسول کریمؐ نے دیکھا کہ سب اکیلی اکیلی نماز پڑھ رہی ہیں۔ اُم سلمہؓ کو فرمایا تم نے ان کو نماز باجماعت کیوں نہ پڑھا دی؟ام سلمہ ؓ نے پوچھا کیا یہ جائز ہے؟ آپ ؐنے فرمایا ہاں جب تم زیادہ عورتیں ہو تو ایک درمیان میں کھڑی ہوکر امامت کروالیا کرے۔ اس طرح آپؐ نے نماز باجماعت اور عبادت الہٰی کا شوق ان میں پیدا کیا۔(مجموع)52
محبت الٰہی کے نرالے انداز
اللہ کی یاد اور اس کی صفات کا تذکرہ تو اکثر ہی گھر میں رہتا تھا۔عَجب ڈھنگ اور نرالے انداز سے ا ٓپؐ اہل خانہ کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کا شوق پیدا فرماتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے۔مجھے اللہ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے۔حضرت عائشہ ؓ نے وفور شوق سے عرض کیا حضورؐ پھر مجھے بھی وہ صفت بتائیے نا۔آنحضورؐ نے فرمایا میرے خیال میں تمہیں بتانا مناسب نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ جیسے روٹھ کر ایک طرف جا بیٹھیں کہ خود ہی بتائیں گے مگر جب آنحضرت ﷺ نے کچھ دیر تک نہ بتایا تو عجب شوق کے عالم میں خود اٹھیں رسول کریم ؐ کے پاس آکر کھڑی ہوگئیں۔ آپؐ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ یاررسول اللہؐ بس مجھے ضرور وہ صفت بتائیں۔آنحضرتؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ بات دراصل یہ ہے کہ اس صفت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی چیز مانگنا درست نہیں اس لئے میں بتانا نہیں چاہتا ۔تب حضرت عائشہ ؓ پھر رُوٹھ کر الگ ہوجاتی ہیں کہ اچھا نہ تو نہ سہی۔ پھر آپ وضوکرکے مصلیٰ بچھاتی ہیں اور حضورؐ کو سنا سنا کر بآواز بلند یہ دعا کرتی ہیں کہ اے میرے مولیٰ! تجھے اپنے سارے ناموں اور صفتوں کا واسطہ۔ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جو میں نہیں جانتی کہ تو اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا سلوک فرما۔
آنحضرت ؐ پاس بیٹھے دیکھتے جاتے اور مسکراتے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے عائشہؓ بے شک وہ صفت انہی صفات میں سے ہے جو تم نے شمار کر ڈالیں۔(ابن ماجہ)53
قیام توحید
بیویوں کے دل میں توحید باری کی عظمت کے قیا م کا خیال آپؐ کو بوقت وفات بھی تھا۔آپؐ کی آخری بیماری میں جب کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ (حضرت مریم ؑ) کے نام سے موسوم تھا تو اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی آپؐ نے بیویوں کی توجہ توحید باری کی طرف مبذول کراتے ہوئے فوراً گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا اورفرمایا’’برا ہو ان یہودیوں اور عیسائیوںکا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو سجد ہ گاہیں بنا لیا۔‘‘ (بخاری)54
گویا باالفاظِ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپؐ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھوتم لوگ میری قبر کو شرک گاہ نہ بنا د ینامیرے بعد توحید پر قائم رہنا۔
تحمل و ایثار
جہاں ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو جذبہ غیرت کا پید اہوجانا ایک طبعی امر ہے۔ آنحضرتؐ کے لئے ایک اہم اور نازک مسئلہ یہی ہوسکتاتھا ،مگر آپؐ اکثر و بیشتر اس کا مداوا اور حل خود تکلیف اٹھا کر اور اپنی ذاتی قربانی کے ذریعہ سے تلاش کرلیا کرتے ۔ایک دفعہ آپؐ کی باری حضرت عائشہ ؓ کے ہاں تھی۔ کسی اور بیوی نے کچھ کھانا تحفتہً وہاں بھجوادیا۔حضرت عائشہ ؓ کی رسول اللہؐ سے محبت اورطبعی غیرت نے یہ گوارانہ کیا کہ ان کی باری میں کوئی اور بیوی حضورؐ کی خدمت کا شرف پائے۔انہوں نے غصے میں وہ کھانے سے بھرا پیالہ زمین پر دے مارا۔ کھانا گرگیا، پیالہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔کھانا لانے والا خادم پاس حیران کھڑا ہے۔رسول کریمؐ بھی یہ سب تماشا کمال تحمل سے دیکھ رہے ہیں۔مگر حضرت عائشہ ؓ پر کوئی سختی نہیں فرماتے چپکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے زمین پر گرا ہوا کھانا جمع کرنا شروع کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کے لئے تو یہی کافی تھا حضورؐ کے اس رد عمل سے یقینا ان کو سخت ندامت ہوئی ۔ چنانچہ جب رسول کریمؐ نے ان کو فرمایا کہ اے عائشہؓ جو پیالہ توڑا ہے۔ اس کے بدلے میں اب اپنا کوئی پیالہ واپس کردو توحضرت عائشہ ؓ نے بخوشی اس خادم کو اپنا پیالہ دے کر رخصت کیا۔(نسائی)55
.4حضرت میمونہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول کریم ؐ کی میرے ہاں باری تھی۔آپؐ باہر تشریف لے گئے۔میں نے دروازہ بند کردیا۔آپ ؐنے واپس آکر دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔آپؐ نے فرمایا تمہیں قسم ہے کہ تم ضرور دروازہ کھولو گی۔میں نے کہا آپؐ میری باری میں کسی اور بیوی کے ہاں کیوں گئے تھے۔آپ ؐنے فرمایا میں نے ایسا نہیں کیا۔مجھے تو پیشاب کی شدید حاجت محسوس ہوئی اس کے لئے باہر نکلا تھا۔(ابن سعد)56
اہل خانہ کیلئے ایثار
آپؐ جائز حد تک اپنی بیویوں کی خاطر اپنے نفس کی قربانی میں کوئی تامل نہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک بیوی کے ہاں ٹھہر کر شہد کا شربت پیا ،وہاں معمول سے کچھ زیادہ آپؐ کا وقت لگ گیا تو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے ازراہ غیرت شہد ترک کروانے کی خا طرحضورؐ سے شہد کی خاص بو کی شکایت اس انداز میں کی کہ لگتا ہے حضورؐ نے فلاں بد بو دار بوٹی کا رس چوسنے والی مکھی کا شہد پیا ہے۔حضورؐ کے لئے یہ اشارہ کافی تھا۔آپؐ نے دونوں بیویوں کے جذبات کی خاطر شہد ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کا عزم کر لیا اورفرمایا کہ اب میں کبھی شہد کا شربت نہ پیئوں گا۔(بخاری(57یہاں تک کہ قرآن شریف میں آپؐ کو ارشاد ہوا کہ اے نبی محض اپنی بیویوں کی رضا مندی کی خاطر اللہ کی حلال چیزوں کو کیوں حرام کرتے ہو۔(سورۃ التحریم:2)
آپؐ بیویوں کی باتیں جس حد تک سنتے اور برداشت فرماتے تھے اس پر ازواج مطہرات کے عزیز و اقارب کو تو تعجب ہوتا تھا ،مگر آنحضرتؐ نے کبھی اس کا برُا نہیں منایا اور اپنی نرم خوئی میںکبھی سختی اور درشتی نہیں آنے دی۔
کمال عفو
ایک دن حضرت عائشہ ؓ گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے۔یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرت ؐ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکر ؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ ؓکو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکر ؓ چلے گئے تورسول کریمؐ حضرت عائشہؓ سے ازراہ تفنن فرمانے لگے ۔دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر ؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓکہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔(ابودائود)58
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کے ساتھ ایک دفعہ کچھ تکرار ہوگئی آپؐ فرمانے لگے کہ تم کسی کو ثالث بنالو۔کیا عمر بن الخطابؓ ثالث منظور ہیں؟ حضرت عائشہ ؓنے کہا نہیں وہ سخت اور درشت ہیں۔آپ ؐنے فرمایا اچھا اپنے والد کو ثالث بنالو۔ کہنے لگیں ٹھیک ہے تب رسول اللہؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو بلوا بھیجا اور بات شروع کی کہ عائشہؓ کی یہ بات یوں ہوئی۔ میں نے کہا آپؐ اللہ سے ڈریں اور سوائے سچ کے کچھ نہ کہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے زور سے مجھے تھپڑ رسید کیااور فرمانے لگے تمہاری ماں تمہیں کھوئے۔ تم اور تمہارا باپ سچ بولتے ہو اور خدا کا رسول حق نہیں کہتااس تھپڑ کے نتیجہ میںمجھے نکسیر پھوٹ پڑی۔رسول کریم ﷺ فرمانے لگے اے ابوبکرؓ!ہم نے تجھے اس لئے تو نہیں بلایا تھا۔حضرت ابوبکرؓ نے ایک کھجور کی چھڑی لی اور مجھے مارنے کو دوڑے۔ میں آگے آگے بھاگی اور جاکررسول اللہؐ سے چمٹ گئی۔رسول کریمؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا میں آپؐ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اب آپؐچلے جائیں۔ ہم نے آپؐ کو اس لئے نہیں بلایا تھا۔جب وہ چلے گئے تو میں رسول اللہؐ سے الگ ہوکر ایک طرف جابیٹھی۔آپؐ فرمانے لگے عائشہؓ میرے قریب آجائو۔میں نہیں گئی تو آپؐ مسکراکر فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم نے میری کمر کو زور سے پکڑ رکھا تھااورخوب مجھ سے چمٹی ہوئی تھیں۔(السمط)59
اندازِ الفت
حضرت عائشہ ؓ کے تو آپؐ بہت ہی ناز اٹھاتے تھے ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہؓ میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتاہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رَبِّ مُحَمَّدٍؐ کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم ؑکہہ کر بات کرتی ہو۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہؐ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں(دل سے توآپؐ کی محبت نہیں جاسکتی) (بخاری )60
حضورؐ کی بیوی حفصہؓ بنت عمر ؓ کچھ تیز طبیعت تھیں۔ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی بیوی نے ان کو کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپؐ سخت خفاہوئے کہ مردوں کے معاملات میں عورتوں کی مداخلت کے کیا معنی؟تب آپ کی بیوی کہنے لگیں کہ آپ کی اپنی بیٹی حفصہ تو رسول اللہؐ کے آگے بولتی ہے اور ان کو جواب دیتی ہے۔یہاں تک کہ بعض دفعہ رسول کریم ﷺ سارا سارا دن ان سے ناراض رہتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ فوراًاپنی بیٹی کے گھر پہنچے اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ تمہارے آگے سے بولنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ بعض دفعہ سار ا دن ناراض رہتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے۔آپؐ نے فرمایا یاد رکھو عائشہؓ کی ریس کرتے ہوئے تم کسی دن اپنا نقصان نہ کر لینا۔ پھر یہی نصیحت حضورؐ کی ایک اور بیوی حضرت ام سلمہ ؓ کو بھی کرنے گئے۔ وہ بھی آخر حضرت عمر ؓ کی رشتہ دار تھیں فرمانے لگیں۔اے عمرؓ اب رسول اللہؐ کے گھریلو معاملات میںبھی تم مداخلت کرنے لگے۔کیا اس کے لئے خود رسول اللہؐ کافی نہیں ہیں۔حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں میں خاموش ہوکر واپس لوٹا یہ واقعہ جب آنحضرت کو سنایا تو آپؐ خوب محظوظ ہوئے۔(بخاری)61
جائز سر زنش
ان شفقتوں کے باوجود اگر کبھی بیویوں کی طرف سے عدل سے ہٹی ہوئی کوئی بات سرزد ہوتی تو آپؐ سختی سے اس کا نوٹس بھی لیتے اور مناسب فیصلہ بھی فرماتے۔ہر چند کہ حضرت عائشہ ؓ آپؐ کو بہت محبوب تھیں ایک دفعہ انہوں نے حضرت صفیہ ؓ کو اپنی چھنگلی دکھا کر ان کے پست قد کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے ٹھگنی (چھوٹے قد والی ) کا طعنہ دے دیا۔ آنحضرتؐ کو پتہ چل گیا تو آپؐ نے بہت سر زنش کی۔ فرمایا یہ ایسا سخت کلمہ تم نے کہا کہ تلخ سمندر کے پانی میں بھی اس کو ملادیا جائے تو وہ اور کڑوا ہو جائے۔(ابودائود62)گویا آپؐ نے ’’لَا تَنَابَزُوْ ابِالْاَلْقَابِ‘‘ (سورۃ الحجرات :12)کے قرآنی حکم کی سختی سے پابندی کروائی۔
بلا امتیاز عادلانہ فیصلوں کا یہ اصول تادمِ واپسی برقرار رہا۔آخری بیماری میں جب حضورؐ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امامتِ نماز کا ارشاد فرمایا تو حضرت عائشہ ؓ نے اس خیال سے کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی تو لوگ ابو بکر ؓ کے مصلے پر آنے کی بدشگونی نہ لیں یہ مشورہ دیا کہ حضرت عمر ؓ کو نماز پڑھانے کے لئے کہہ دیا جائے ۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ نے مل کر اس پر اصرار بھی کیا۔مگر آپؐ نے سختی کے ساتھ امامتِ ابوبکر ؓ کا فیصلہ ہی نافذ کیا اور فرمایا۔’’تم یوسف ؑ کو راہ راست سے بہکانے والی عورتوں کی طرح مجھے کیوں راہ حق سے ہٹانا چاہتی ہو‘‘۔(بخاری)63
الغرض ہمارے آقا ومولیٰ نے کمال عدل اور احسان اور مروت کے ساتھ اہلی زندگی میں اپنے حقوق ادا کئے۔
ازواج مطہرات کی چاہت
آنحضرت ﷺ کی ان کمال ذرہ نوازیوں کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کی تمام بیویاں آپؐ پر جان چھڑکتی تھیں۔ زمانہ قرب وفات میں جب آنحضرتؐ نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ’’ تم میں سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی مجھے سب سے پہلے دوسرے جہان میں آملے گی‘‘ توبیویوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ عجب عالم شوق میں انہوں نے باہم ہاتھ ماپنے شروع کردیئے کہ وہ کون خوش نصیب بیوی ہے جو اس دار فانی سے کوچ کر کے اس دائمی گھرمیں اپنے آقا کے قدموں میں سب سے پہلے پہنچتی ہے۔بیویوں کی آپؐ سے اس درجہ کی محبت اور عشق آپؐ کے حسن واحسان پرگواہ ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ ﷺکے حسن و احسان کے ان جلووں نے بلاشبہ آپؐ کی اہلی زندگی کو جنت نظیر بناد یا تھا تبھی تو دوسرے جہان کی جنت کے لئے بھی آپؐ کی بیویاں آپؐ سے ملنے کے لئے اتنی بے قرار نظر آتی ہیں۔
ایک سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے تعدّد ازدواج پراہل مغرب کا جنس پرستی کا اعتراض ردّ کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’محمدؐ ‘‘میںلکھا۔
"But, seen in context, polygamy was not designed to improved the sex life of the boys. it was a piece of social legislation. The problem of orphans had exercised Muhammad since the beginning of his career and it had been exacerbated by the deaths at Uhud. The men who had died had left no only widows but daughters, sisters and other relatives who needed a new protector. Their new guardians might not be scrupulous about administering the property of these orphans: some might even keep these women unmarried so that they could hold on to their property. It was not unsusual for a man to marry his women wards as a way of absorbing their property into his own estate."(Armstrong)64
’’اگرتعدّد ازدواج کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ہرگز لڑکوں کی تسکین جنس کے سامان کے طور پر ایجادنہیں کی گئی تھی۔ بلکہ یہ معاشرتی قانون سازی کا ایک حصّہ تھا۔ یتیم لڑکیوں کا مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آغاز سے ہی درپیش تھا لیکن جنگ احد میں کئی مسلمانوں کی شہادت نے اس میں اضافہ کردیا تھا۔ شہید ہونے والوں نے محض بیوگان ہی پیچھے نہیں چھوڑیں بلکہ بیٹیاں بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی تھے جو نئے سہاروں کے متقاضی تھے۔کیونکہ ان کے نئے نگران ان یتامیٰ کی جائدادوں کی انتظام و انصرام کے قابل نہ تھے۔ بعض جائداد روکنے کی خاطران لڑکیوں کی شادی اس لئے نہ کرتے تھے اورایک مرد کے لئے اپنے زیر کفالت عورتوں سے شادی کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی جس کے ذریعہ وہ ان کی جائداد بھی اپنے قبضہ میں کرلیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے کہ ہم صحیح معنوںمیں اپنی اہلی زندگیوں کو رسول اللہﷺ کے پاک اسوہ اور خلقِ عظیم کے رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں اور وہ پاکیزہ معاشرہ استوار کریں جس کے قیام کے لئے ہمارے سید و مولیٰ اس دنیا میں تشریف لائے۔



حوالہ جات
1
ترمذی کتاب المناقب
2
مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنسائ۲۶۷۰
3
مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنسائ۲۶۷۲
4
مسند احمد بحوالہ مجمع الزوائدلھیثمی جلد 9 ص5
5
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ؐ
6
بخاری کتاب الوصایا باب نفقۃ القیم للوقت
7
مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ص ۲۳۲بیرت
8
بخاری کتاب الادب
9
شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ؐ
10
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جلد ۱ ص۲۰۴
11
بخاری بدء الوحی
12
صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ ؓ
13
بخاری کتاب الادب باب حسن العہد من الایمان
14
مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۱۱۸ مطبوعہ بیروت
15
شر ح المواھب اللدنیۃ از علامہ زرقانی جلد۳ص۷۲۲
16
شرح المواھب اللدنیۃ از علامہ زرقانی جلد ۳ ص ۹۲۲
17
شرح المواھب اللدنیۃ لزرقانی جلد ۳ ص۹۲۲
18
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص316بیروت
19
شر ح المواھب اللدنیۃ از علامہ زر قانی جلد ص ۹۲۲
20
شرح المواھب اللدنیۃ از علامہ زرقانی ج ۳ ص۹۲۲
21
بخاری کتاب التفسیر سورۃ احزاب
22
بخاری کتاب الادب باب کیف یکون الرجل فی اھلہ
23
مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص397,242
24
مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ص285
25
مسلم کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف
26
بخاری کتا ب الجہاد باب حمل الرجل امرأئہ‘ فی الغزو
27
بخاری کتاب التفسیر سورۃالاحزاب
28
بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہؓ
29
ابوداؤدکتاب النکاح باب فی القسم بین النساء
30
صیحح مسلم کتاب الحیض باب جوازغسل الحاائض رأس زوجھاوترجیلہ
31
ابو داؤد کتاب الطہارۃ باب فی مواکلۃ الحائض
32
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بنی المصطلق
33
بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہؓ
34
بخاری کتاب الادب باب الانبساط الی الناس
35
ابو داؤد کتاب الادب باب فی اللعب بالبنات
36
السیرۃ الحلبیۃ جلد2ص307احیاء التراث العربی
37
بخاری کتاب العیدین باب سنۃ العیدین
38
بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق
39
ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر
40
الوفا باحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص 674وحاشیہ دارالکتب العلمیہ بیروت
41
بخاری کتاب النکاح باب حسن المعاشرۃ مع الاھل:4790
42
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص317
43
مسنداحمدجلد6ص157بیروت
44
مسلم کتاب الاطعمۃ باب مایفعل الضیف اذاتبعہ غیر من دعاہ صاحب الطعام
45
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص186
46
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر
47
مجمع الزوائد لھیثمی جلد ۹ ص15 بحوالہ طبرانی فی الاوسط
48
ابن ماجہ اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فیمن ایقظ اھلہ من اللیل
49
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ خلف القائم
50
بخاری کتاب الصوم
51
بخاری کتاب الفتن باب لا یاتی زمان الا الذی بعدہ شر منہ
52
مجموع الفقہ بروایت زید بن علی ص43
53
ابن ماجہ کتاب الدعاء باب اسم اللہ الاعظم
54
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی البیعۃ
55
سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغیرۃ
56
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 1ص365مطبوعہ بیروت
57
بخاری کتاب التفسیر سورۃ التحریم
58
ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح
59
ازواج النبی از محمد بن یوسف الصالحی مطبوعہ بیروت بحوالہ السمط الثمین ص50
60
بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن
61
بخاری کتاب التفسیر سورۃ التحریم
62
ابوداؤد کتاب الادب
63
بخاری کتاب الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالامۃ:638
64
‏Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong page 180

نبی کریم ؐ کاحسنِ معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی
انسانی معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے۔جو میل جول اور باہمی تعلقات کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اگر ہر انسان اپنے قریبی ماحول میں بسنے والے لوگوں کے معاشرتی حق ادا کرنے کا سلیقہ سیکھ لے تو کوئی فتنہ اور فساد پیدا نہ ہو اور دنیاامن کا گہوارہ بن جائے۔
رسول کریمؐ نے ایک مسلمان بھائی اور دوست کا کم از کم حق یہ بیان فرمایا کہ مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگ امن میں رہیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(حاکم)1
پھرآپ ؐ نے فرمایا کہ باہمی محبت و اُلفت ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے۔ جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔(احمد2)اسی طرح فرمایا اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا۔ جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسندنہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔(احمد)3
پھر آپؐ نے تمام مومنوں کو دوستی سے مضبوط تر تعلق اسلامی اخوت کے دائرہ میں شامل کیا اورفرمایا کہ تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لائو اور مومن نہیں ہوسکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔(مسلم)4
آپؐ نے ایک مومن بھائی کے دوسرے مسلمان پر کچھ حق قائم کئے اورفرمایا۔’’ مومن کے مومن پر کچھ حق ہیں جب وہ بیمار ہوتو اس کی عیادت کرے۔ جب فوت ہوتو جنازہ میں شامل ہو۔ وہ بلائے تو اسے جواب دے جب اس سے ملے تو سلام کرے جب اسے چھینک آئے تو اسے دعا دے۔ اوراس کی غیرموجودگی میں اس کی خیرخواہی کرے۔‘‘(نسائی)5
نبی کریم ؐ نے اس لئے قیامِ امن کا سبق پہلے ایک فرد سے اور پھر گھر سے شروع کیا۔ ایک فرد کے ساتھ تعلق میں دوستی کے حقوق ایک دوسرے پر قائم ہوتے ہیں اور ایک گھر کے تعلق میں ہمسائیگی کا حق قائم ہوتا ہے۔ رسول کریمؐ کے جب اور جہاں بھی یہ تعلق قائم ہوئے آپؐ نے خوب نبھائے اور ان کا حق ادا کرکے دکھایا۔
آپؐ کی دوستی کمزوراور غریب لوگوں سے زیادہ ہوتی۔ فرماتے تھے مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کیا کرو اور یادرکھو تمہیں تمہارے کمزور محنت کش لوگوں کی وجہ سے ہی رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔(ترمذی)6
آپؐ اکثر یہ دعا کرتے تھے اے اللہ مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے روز بھی مجھے مساکین کی جماعت سے اُٹھانا۔(ترمذی)7
حضرت عثمان ؓ نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں بیان فرمایا کہ خدا کی قسم ہم رسول کریمؐ کی صحبت میں رہے سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔ آپؐ ہمارے مریضوں کی عیادت فرماتے ، ہمارے جنازوں میں شامل ہوتے اور ہمارے ساتھ جہاد میں خود شامل ہوتے تھے نیز کم یازیادہ سے ہماری غمخواری اور مددفرماتے تھے۔(احمد)8
رسول کریمؐ نے اخوت اور دوستی کے بھی نئے آداب سکھائے آپؐ نے فرمایا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ وہ دونوں دوست باہم ملیں تو ایک ادھر منہ پھیرلے اور دوسرا اُس طرف رُخ کرلے ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔(بخاری)9
رسول کریمؐ ساتھیوں کے جذبات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ فرماتے تھے جب تین ساتھی اکٹھے ہوں تو ان میں سے دو تیسرے کو چھوڑ کر الگ سرگوشی میں بات نہ کریں کیونکہ اس سے تیسرے ساتھی کی دلآزاری ہوگی۔(بخاری)10
رسول کریمؐ نے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ان کے حق کا خیال رکھنے کی بھی تلقین فرمائی۔ چنانچہ کھجور کھاتے ہوئے دو دو کھجوریں اکٹھی کھانے سے منع فرمایا۔(بخاری)11
وفا ایک قیمتی جوہر ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جو خدا کے بندوں کے احسانات کی قدر دانی نہیں کرتاوہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے وہ لوگ جو اپنے مولیٰ کے ساتھ وفا کے بے نظیر نمونے قائم کر کے دکھاتے ہیںانسانوں کے ساتھ تعلق اور دوستی میں ان سے بڑھ کر کوئی باوفا نہیں دیکھاگیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق جس سے بھی قائم ہوا آپؐ نے ہمیشہ اس کا لحاظ رکھا۔ حقِ ہمسائیگی کا بھی آپؐ ہمیشہ خیال رکھتے۔ فرماتے تھے کہ جبریل ؑ نے مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اس قدر تلقین کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو شاید حق وراثت میں بھی شامل کرنے کی ہدایت کریں گے۔(بخاری)12
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ کسی کے حسن و قبح کا معیار اس کا ہمسایوں سے سلوک ہے۔ اگر تمہارے ہمسائے یہ کہیں کہ تم اچھے ہو تو واقعی تم اچھے ہو اور اگر ہمسائے کہیں کہ تم برے ہو تو واقعی تم برُے ہو۔(ابن ماجہ)13
نبی کریمؐ نے بحیثیت دوست بھی اعلیٰ درجے کا نمونۂ وفا دکھایا۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے ابتدائی زمانہ کے ساتھی تھے۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کی تکرار ہوگئی۔نبی کریمؐ کو پتہ چلا تو حضرت عمرؓ سے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے یا نہیں؟ ابوبکرؓ وہ ہے جس نے اس وقت میری مدد کی جب سب نے انکارکیا۔(بخاری)14
حضرت ابوبکرؓ سے اظہار محبت اور دوستی کا ایک اور واقعہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتؐ اور آپؐ کے ساتھی ایک چھوٹے تالاب میں تیررہے تھے تو آپؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص تَیر کر اپنے ساتھی کی طرف جائے(یعنی ایک اِس کنارے سے تیر تاجائے اور دوسرا اُس کنارے سے تَیرتا ہوا آئے) چنانچہ ہرشخص اپنے اپنے ساتھی کی طرف تَیرکرچلا(یعنی سب کو ایک ایک ساتھی مل گیا) صرف آنحضرتؐ اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ رہ گئے۔ چنانچہ رسول اللہ ؐ حضرت ابوبکرؓ کی طرف تَیرے یہاں تک کہ آپ ؐ نے (ان کے پاس پہنچ کر) انہیں گلے لگا لیا اور فرمایا’’ میں اور میرا ساتھی‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’میں اپنے ساتھی کی طرف ،میں اپنے ساتھی کی طرف‘‘۔(حلبیہ)15
بلال ؓاور زید بن حارثہ ؓجومکی دور ابتلاء کے ساتھی تھے اور حضرت ابوبکرؓ جو سفر ہجرت کے آڑے وقت میں ہمسفر تھے، فتح مکہ کی عظیم الشان فتح کے وقت ان ساتھیوںکورسول کریمؐ نے فراموش نہیں کیا۔اس روزآپؐ کی شاہی سواری کے دائیں ابوبکرؓ تھے تو بائیں بلالؓ اور زیدؓ اگر چہ فوت ہوچکے تھے مگر اس کے بیٹے اسامہؓ کو آپؐ نے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔اس طرح وفائوں کے جلومیں یہ قافلہ مکے میں داخل ہوا۔(بخاری)16
غزوہ ٔاحزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی ہورہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے انصاراور مہاجرین دوستوں کے ساتھ مل کر یہ دعائیہ نغمے پڑھ رہے تھے۔
اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَاِلَّا خَیْرَالآخِرَہْ
فَاغْفِرِالاَ نْصَارَ وَالمُھَاجِرَہْ
اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے۔پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
رسول کریمؐ انصار مدینہ کی قربانیوں کی بہت قدر فرماتے تھے۔ایک دفعہ مدینہ میں انصار کی عورتیں اور بچے کسی شادی کی تقریب سے واپس لوٹ رہے تھے کہ رسول کریمؐ نے دیکھ لیا۔ آپؐ ان کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے اور دودفعہ وفورجذبات میں فرمایا’’خدا کی قسم ! تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہو۔‘‘(بخاری)17
رسول کریمؐ کو اپنے خدام سے خاص محبت تھی۔ اور ان کی خدمات کا خاص احترام آپؐ کے دل میں ہوتا تھا۔اس سلسلہ میںشہدائے احد کی مثال قابل ذکرہے۔جن سے حضورؐ کوگہری دلی محبت تھی۔چنانچہ اپنی زندگی کی شاندار فتح غزوۂ خیبر سے واپس آتے ہوئے جب احد مقام پر پہنچے تو وادیٔ احد کے شہید آپؐ کو یاد آئے۔ جن کے خون سے یہ وادی لالہ رنگ ہوئی تھی۔ اور جن کو ان کے خونوں سمیت احد کے دامن میں دفن کیا گیاتھا۔ آپؐ وادی احد سے گزرتے ہوئے فرمانے لگے۔احد کو ہم سے محبت ہے اور ہمیں احد سے۔مراد اہل احد سے تھی۔ان مسکینوں سے جو دامن احد میں زیر خاک تھے اور ان زندوں سے جو وادیٔ مدینہ میں آباد تھے۔(بخاری)18
ایک دفعہ رسول کریمؐ نے شہدائے احد کے بارہ میں فرمایاکہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہی دونگا ۔حضرت ابوبکرصدیق ؓنے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم ان کے بھائی نہیں؟ جیسے انہوں نے اسلام قبول کیا ہم نے کیا۔ جیسے انہوں نے جہاد کیا ہم نے کیا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہاں! لیکن مجھے کیا معلوم تم لوگ میرے بعد کیا کروگے؟ اس پر حضرت ابوبکرؓ روئے اور بہت روئے۔ پھر کہنے لگے کیا ہم آپ ؐکے بعدتنہا رہ جائیں گے؟(مؤطّا)19
حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ شہدائے احد کی شہادت کے آٹھ سال بعد (یعنی11ھ میںاپنی وفات کے سال) رسول کریمؐنے احد کے شہیدوں پر جاکر دعا کی۔صحابہؓ کہتے ہیں ایسے لگتا تھا جیسے آپؐ زندوں کے ساتھ مردوں کو بھی الوداع کہہ رہے ہیں۔
دوستوں کے لئے غیرت
فتح مکہ کے سفر میں مرا لظہران میں پڑائو کے دوران حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود اپنے چھریرے بدن اور پتلی ٹانگوں کی وجہ سے پھرتی سے درختوں پر چڑھ جاتے اورکالی کالی پیلو اتارکر لاتے ۔بعض صحابہ ؓ ان کی دبلی پتلی ٹانگوں کا مذاق اڑانے لگے۔آپؐ نے دیکھاکہ مذاق استہزاء کا رنگ اختیارنہ کرجائے ۔تب اپنے اس صحابی کے لئے آپؐ کو غیرت آئی۔ فرمایا اس کی سوکھی ہوئی ٹانگوں کو حقارت سے مت دیکھو ۔اللہ کے نزدیک یہ بہت وزنی ہیں۔(ابن سعد)20
دیرینہ ساتھی کے والد کا لحاظ
فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنے بوڑھے باپ ابو قحافہ کو ہمراہ لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رفقاء سے حسن سلوک اور کمال عجزو انکسار ملا حظہ ہو۔ اپنے دیرینہ جانی رفیق حضرت ابوبکر ؓ کے والد جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کو دیکھ کر فرمانے لگے۔ ’’اپنے بزرگ اور بوڑھے باپ کو آپ گھر میں ہی رہنے دیتے او رمجھے موقع دیتے کہ میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ اس شفقت پر وارے جاتے ہیں کمال ادب سے عرض کیا اے خدا کے رسولؐ ! ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ چل کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوں بجائے اس کے کہ حضور ؐ بنفس نفیس تشریف لے جاتے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے سامنے بٹھا کر ابو قحافہ کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے کہ اب اسلام قبول کر لیجئے ۔ان کا دل تومحبت بھر ی باتوںسے رسول اللہؐ پہلے ہی جیت چکے تھے۔ابو قحافہ کو انکا رکا یا را کہاں تھا انہوں نے فوراً سر تسلیم خم کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان سے دل لگی کی باتیں کرنے لگے ان کے بالوں میں سفیدی دیکھی تو فرمایا کہ خضاب وغیرہ لگا کر ان کے بالوں کا رنگ تو بدلو۔(ابن ھشام)21
رسول کریمؐ کو قدیم دوستانہ تعلقات کا بہت پاس ہوتا تھا۔ اور ایک عجب و فا اور پاسِ عہد کے ساتھ ان کو زندہ رکھتے تھے۔ آپؐ کسی کی نیکی فراموش نہ کرتے تھے۔
نجاشی شاہ حبشہ کا وفد آیاتو آنحضرتؐ ان کی خدمت کے لئے خود کمربستہ ہوگئے۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آپؐ کی طرف سے نمائندگی کردیں گے۔ آپؐ نے فرمایا انہوں نے ہمارے دوستوں کی عزت کی تھی اور میرا دل کرتاہے کہ خود ان کی خدمت کرکے ان کا بدلہ چکائوں۔ (بیہقی)22
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیوں کو تحائف بھجواکر انہیں یادرکھتے۔ (بخاری)23
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ ایک بڑھیا نبی کریمؐ کے پاس آئی۔حضورؐ کی باری میرے ہاں تھی۔آپؐ نے اس کا تعارف پوچھا وہ کہنے لگی۔ میں جثامہ ہوں مزنی قبیلہ سے میرا تعلق ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں تم تو مزنی قبیلہ کی بہت اچھی عورت ہو۔ تم کیسی ہو؟ احوال کیا ہیں؟ ہمارے مدینہ آجانے کے بعد تم پر کیا گزری؟ وہ کہنے لگی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اے اللہ کے رسولؐ! ہم خیریت سے ہیں۔ حضورؐ اس سے نہایت شفقت سے باتیں کرتے رہے۔ جب وہ چلی گئی تو میں نے تعجب سے کہا یارسول اللہؐ! ایک بڑھیا کے لئے اتنا تپاک اور التفات ؟ فرمانے لگے ہاں! یہ عورت خدیجہ ؓ کی زندگی میں ہمارے گھر آتی تھی اورتعلق نبھانا بھی ایمان کا حصہ ہے۔(حاکم)24
فتح حنین کے بعد ایک لڑکی نے آکر عرض کیا یارسول اللہؐ! میں آپؐ کی رضاعی بہن شیماء ہوں۔ رسول کریمؐ نے کمال محبت سے اپنی چادر اس کے لئے بچھادی اور فرمایا جو چاہے مانگو اور جس کی سفارش کروقبول کی جائے گی۔(بیہقی)25
حضرت سائبؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمانؓ مجھے ہمراہ لے کر رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تعارف میں کچھ تعریفی کلمات کہنے لگے تو آپؐ نے فرمایا سائب ؓ کے بارے میں تم بے شک مجھے کچھ زیادہ نہ بتائو۔ میں اسے زمانۂ جاہلیت سے جانتا ہوں کہ یہ میرا دوست رہا ہے۔(احمد)26
فتح مکہ اورانصار مدینہ سے وفا
جب مکہ کی عظیم الشان فتح سے خدا کا رسولؐ اور جماعت مومنین خوش ہورہے تھے عین اس وقت ایک عجیب جذباتی نظارہ دیکھنے میں آیا۔ہوا یوں کہ کچھ عشاقِ رسول ؐ انصارِ مدینہ کے دلوں میں یہ وسوسے جنم لے رہے تھے۔ ان کے دل اس وہم سے بیٹھے جارہے تھے کہ ہمارے آقاؐ مکہ کی فتح کے بعد کہیں اپنے اس وطن مالوف میں ہی مستقل قیام نہ فرمالیں۔ یہ وساوس قلب و دماغ سے نکل کر زبانوں پر آنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے جس محبت و رأفت کا سلوک فرمایا ہے اس سے وطن کے ساتھ آپؐ کی محبت بھی ظاہر ہے۔ اگر یہ محبت غالب آگئی اور آپؐ یہیںرہ گئے تو ہمارا کیا ٹھکانہ ہوگا۔کہتے ہیں عشق است ہزار بد گمانی۔دراصل یہ وسوسے انصار مدینہ کے عشقِ صادق کے آئینہ دار تھے۔کمزوری اور مظلومی کے زمانہ کے ان ساتھیوں کے ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بھی ضروری تھی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی انصار کی ان قلبی کیفیات سے اطلاع فرمائی ۔آپؐ نے انصار مدینہ کا ایک الگ اجتماع کوہ صفا پر طلب فرمایا اور ان سے مخاطب ہوئے کہ کیا تم لوگ یہ باتیں کررہے ہو کہ محمدؐ پر اپنے وطن اور قبیلے کی محبت غالب آگئی ہے؟ انصار نے سچ سچ اپنے خدشات بلاکم و کاست عرض کردیئے۔تب خدا کے رسولؐ نے اطمینان دلاتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا کہ اگر میں ایسا کروں تو دنیا مجھے کیا نام دے گی؟ میں پوچھتا ہوں مجھے بتائو تو سہی کہ بھلا دنیا مجھے کسی اچھے نام سے یاد کرے گی؟ اور میرا نام تو محمدؐ ہے یعنی ہمیشہ کیلئے تعریف کیا گیا۔تم مجھے کبھی بے وفا نہیں پائو گے۔بے شک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔وہ وطن جو میں نے خدا کی خاطر چھوڑا تھا اب میں لوٹ کر کبھی اس میں واپس نہیں آسکتا ہوں۔اب میں تمہارا جیون مرن کا ساتھی بن چکا ہوں۔میرے مکہ میں رہ جانے کا کیا سوال ؟ اب تو سوائے موت کے مجھے کوئی اور چیز تم جیسے وفاداروں اور پیاروں سے جدا نہیں کرسکتی۔
انصار مدینہ جو جذباتِ عشق سے مغلوب ہو کر ان وساوس میں مبتلا ہوئے تھے سخت نادم اور افسردہ ہوئے کہ ہم نے ناحق اپنے آقا کا دل دکھایا۔ پھر کیا تھا وہ ڈھائیں مار مار کر رونے لگے۔ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! ہم نے جو یہ بات کی تو محض خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ پیار کی وجہ سی کی تھی کہ اس سے جدائی ہمیں گوارا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان وفادار ساتھیوں کو دلاسا دیا اور فرمایا اللہ اور رسول تمہارے اس عذر کو قبول کرتے ہیں۔اور تمہیں مخلص اور سچا قرار دیتے ہیں۔(مسلم)27
جس طرح فرد کے فرد کے ساتھ خوشگوار تعلقات معاشرہ کے امن و استحکام کی ضمانت ہیں۔ اسی طرح ایک گھرانے کے گھرانے سے محبت بھرے تعلقات کے نتیجہ میں بھی ماحول میں وحدت پیدا ہوتی ہے۔ رسول کریمؐ نے اس پہلو سے ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم دے کر اس مضمون کو بہت وسیع کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا چالیس گھروں تک ہمسایہ کا حق ہوتا ہے۔
تمام دنیا جو محمد مصطفی ؐ سے منسوب ہوتی ہے۔ آپؐ سے محض حق ہمسائیگی ادا کرنا ہی سیکھ لے اور اس بارہ میں آپؐ کی تعلیم پر عمل پیرا ہوتو ایک فرد اپنے ساتھی کا خیال رکھے، ہرگھرانہ اپنے ہمسایہ گھرانے کا خیال رکھے پھرایک محلہ ہمسایہ محلے کا،ایک شہر ہمسایہ شہرکا اورایک ملک ہمسایہ ملک کے حقوق ہمسائیگی کا خیال رکھے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ الغرض حق ہمسائیگی کے بارہ میں نبی کریمؐ کی تعلیم بے نظیر ہے۔
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اللہ کے نزدیک اچھے دوست وہ ہیں جو اپنے دوست کے لئے بہتر ہیں۔ اور بہترین ہمسائے اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے ہمسائے کے لئے بہتر ہیں۔ (ترمذی)28
آپؐ نے فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے اپنے ہمسایوں میں محبوب بنا دیتا ہے۔(احمد)29
حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریمؐ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ جب سالن کاشوربہ بنائو تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو۔ اپنے ہمسایوں میں سے کسی کو تحفہ بھجوادو۔(مسلم)30
رسول کریمؐ نے بڑی تفصیل سے ہمسائے کے حقوق بیان کئے اور فرمایا جو شخص اپنا دروازہ اپنے ہمسائے پر بند رکھتا ہے کہ اس کے اہل یا مال کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو وہ مومن نہیں ہے اور وہ بھی مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہیں۔جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ جب پڑوسی کوئی مددطلب کرے تو اس کی مدد کرو۔ جب وہ قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ جب اسے کوئی حاجت ہو تو وہ پوری کرو۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔ جب اسے کوئی خوشی پہنچے تو مبارک باد دو۔ جب اسے کوئی رنج پہنچے تو اس سے تعزیت کرو۔ جب اس کی وفات ہو تو جنازہ میں شامل ہو ۔اپنے مکان کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسائے کی ہوا رُک جائے ۔ ہاں اس کی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہو۔ اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے اس کا دل نہ دکھائو بلکہ اسے بھی کچھ سالن بھجوادو۔ اگر پھل خریدوتو اس میں سے بھی تحفہ بھجوائو۔ نہیں دے سکتے تو پھر گھر میں خاموشی سے وہ پھل لے جائو۔ تمہارے بچے وہ پھل لے کر باہرنہ جائیں مبادا اس کے بچوں کی دلآزاری ہو۔(منذری)31
رسول کریمؐ نے اپنے نمونہ سے ہمیں یہ سبق دیا کہ اگر کوئی شخص ہمسائے کا حق ادا نہیں کرتا تو پورے معاشرہ کو اس مظلوم کے حق میں جہادکرنا چاہئے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریمؐ کی خدمت میں اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر حاضر ہواپہلے توآپؐ نے فرمایا صبرکرو۔ وہ دوسری دفعہ آیا تو بھی آپؐ نے صبر کی تلقین فرمائی۔تیسری مرتبہ اس کا پیمانہ صبر لبریز دیکھ کر رسول کریمؐ نے اس کے ہمسائے کی اصلاح کا عمدہ طریق تجویز کیا۔ آپؐ نے اس مظلوم ہمسائے کو فرمایا کہ اپنے گھر کا سامان نکال کر باہررکھ دو۔ اس نے ایساہی کیا۔لوگوں کے پوچھنے پروہ انہیںبتاتا کہ ہمسایہ زیادتی کرتا ہے۔تمام لوگ اس ظالم ہمسائے کو *** ملامت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ تنگ آکر رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ لوگوں نے مجھ پر *** ملامت کی حد کردی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ اس سے پہلے تم پر *** کرچکا ہے۔ وہ معافی کا طلبگار ہواکہ اب ہمسائے کو تنگ نہیں کرونگا۔ ہمسائے سے بھی عہدکیا اورکہاکہ آئندہ تمہیں مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو گی۔ اس پر رسول کریمؐ نے بھی دوسرے ہمسائے سے فرمایا ٹھیک ہے اب سامان اندر رکھ لو۔ اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔آپؐ فرماتے تھے کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود تو سیر ہوکر کھالیتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکارہتا ہے۔(منذری)32
رسول کریمؐ اپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپؐ کے ہمسایوں میں مسجد نبوی کے وہ فاقہ کش درویش بھی تھے۔ جو مسجد کے ایک چبوترے پر بسیرا رکھتے اور اصحاب صُفّہ کہلاتے تھے۔ حضرت ابوھریرہ ؓ بھی ان میں سے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے میرے چہرہ سے بھوک کے آثار محسوس کئے۔ مجھے اپنے ہمراہ گھر لے گئے۔ آپؐ کو دودھ کا ایک پیالہ مل گیا۔ مجھے فرمایا کہ جائو اصحاب صفہ کو بلالائو۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنا کوئی گھر بار نہ تھا۔ رسول کریمؐ کے پاس جب بھی صدقہ آتا تو انہیں عطا فرماتے یا کوئی تحفہ آتا تو انہیں ضرور اس میں شریک کرتے۔ یہ گویا مسلمانوں کے مستقل مہمان تھے۔(ھیثمی33)ابوہریرہؓ کو ان سب کوبلاتے ہوئے یہ فکردامنگیر تھی کہ دودھ کا ایک پیالہ ان سب کو کیسے کفایت کرے گا؟ مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ سب نے سیر ہوکر پیا بلکہ بچ بھی گیا۔(بخاری)34
اصحابِ صُفّہ کے ایک اور فاقہ کش درویش ابوعبداللہ بن طہفہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مہمان زیادہ تھے۔ انصارمدینہ ان سب کو گھروں میں لے گئے۔ صرف ہم پانچ آدمی بچ رہے جن کو رسول کریمؐ اپنے گھر لے گئے اور جو تھوڑا سا کھانا آپؐ کی افطاری کے لئے تیارتھا اس میں ہم پانچوںمہمانوں کو شریک فرمایا۔ (احمد)35
انہی درویشوں میں مقدادؓ بن اسود اور ان کے دو ساتھی بھی تھے۔ جن کو رسول کریمؐ نے اپنے پڑوس میں رہنے کے باعث مستقل مہمان رکھ لیا تھا۔ اور ایک عرصہ تک وہ حضور ؐکی تین بکریوں کے دودھ میں آپؐ کے ساتھ شریک ہوکر حق ہمسائیگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ (مسلم)36
رسول کریمؐ مسلمان خواتین کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ کوئی پڑوسن کسی دوسری کو معمولی تحفہ خواہ بکری کے پائے کا ہو دینے میں دریغ نہ کرے۔(بخاری)37
اس تعلیم پر سب سے پہلے خود رسول اللہؐ اور آپؐ کے اہل خانہ عمل کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ استفسار کیا کہ یا رسول اللہ ؐ میرے دو ہمسائے ہیں۔ دونوں میں سے ایک کو تحفہ دینا ہوتو کسے دوں؟ فرمایا جو تمہارے دروازے کے زیادہ قریب ہے۔(بخاری)38
ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک بلا امتیاز مذہب و ملت لازم ہے۔صحابہ رسولؐ نے سنت نبویؐ کے یہ پاکیزہ نمونے خوب اپنائے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر کے بارہ میں روایت ہے کہ جب وہ کوئی جانور یا بکری وغیرہ ذبح کرواتے تو پوچھتے کہ ہمارے یہودی ہمسائے کو بھی گوشت کا تحفہ بھجوایا کہ نہیں؟ نیز فرماتے رسول اللہؐ نے ہمسائے کا بڑا حق قائم فرمایا ہے۔(ابودائود)39
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہؐ! ایک عورت ہے یوں تو اس کی نیکی نماز روزہ اور صدقہ وغیرہ کا بہت چرچا ہے بس اس میںایک خامی ہے۔ وہ اپنے ہمسائے کو ایذا پہنچاتی ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ’’وہ آگ میں ہے‘‘ پھر اس نے ذکر کیا کہ یارسول اللہؐ! ایک اور عورت ہے وہ نماز ،روزہ اور صدقہ میں تو کمزور ہے مگر وہ پنیروغیرہ صدقہ کرتی رہتی ہے اور ہمسایوں کا خیال رکھتی ہے انہیں برا بھلا نہیں کہتی۔ رسول کریمؐ نے فرمایاوہ جنت میں ہے۔(احمد)40
یہ وہ پاکیزہ معاشرہ ہے جو نبی کریمؐ انفرادی یا گھریلوسطح پرقائم فرماناچاہتے تھے۔ اور اسی معاشرہ کا قیام ہم سب کا مطمح نظرہوناچاہئے۔
حوالہ جات
1
مستدرک حاکم جلد1ص11
2
مسند احمد جلد4ص298
3
مسند احمد جلد3ص251
4
مسلم کتاب الایمان باب بیان انہ لایدخل الجنۃ الاالمؤمنون وان محبۃ المؤمنین من الایمان
5
سنن نسائی کتاب الجنائزباب النھی عن سب الاموات
6
سنن ترمذی کتاب الجہاد باب ماجاء فی الاستفتاح بصعالیک المسلمین
7
ترمذی کتاب الدعوات
8
مسند احمد جلد1ص70
9
بخاری کتاب الادب باب الھجرۃ
10
بخاری فتح کتاب الاستئذان باب لایتناجی اثنان دون الثالث
11
بخاری کتاب الاطعمۃ باب القران فی التمر
12
بخاری کتاب الادب باب الوصاۃ بالجار
13
ابن ماجہ کتاب الزہد باب الثناء الحسن 4223
14
بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی بکرؓ
15
سیرت الحلبیہ اُردو جلد اول ص172
16
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ
17
بخاری کتاب المناقب باب مناقب الانصار
18
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃاحد
19
مؤطاامام مالک کتاب الجھاد باب الشھداء فی سبیل اللہ
20
الطبقات الکبری لابن سعد جز ۳ ص۱۵۵
21
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۹۱
22
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2ص307
23
بخاری کتاب المناقب باب تزویج النبی خدیجہ
24
مستدرک حاکم جلد1ص16
25
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص200
26
مسند احمد جلد 3ص425
27
مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ
28
سنن ترمذی کتاب البر والصلہ باب ماجاء فی حق الجوار
29
مسند احمد جلد4ص200
30
مسلم کتاب البرو الصلۃ والادب باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ
31
الترغیب والترھیب للمنذری جلد3ص357،358
32
مستدرک حاکم والترغیب والترھیب للمنذری جلد3ص355
33
مجمع الزوائد لھیثمی جلد8ص167، مستدرک حاکم جلد4ص167
34
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐ
35
مسند احمد جلد5ص426دارالفکرالعربی
36
مسلم کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف
37
صحیح بخاری کتاب الادب باب لاتحقرن جارۃ لجارتھا
38
صحیح بخاری کتاب الشفعۃ باب ای الجوار اقرب
39
سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی حق الجوار
40
مسند احمد جلد1ص440

رسول اللہؐ کا غلاموں سے حسن سلوک
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر طبقہ کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔ جس زمانہ میں آپؐ مبعوث ہوئے اس میں نہ مذہبی آزادی میسّر تھی نہ حریّت ضمیر۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول کتنا سچا ہے کہ مائوں نے تو سب انسانوں کو آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنالیا؟مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں انسانوں کی غلامی کا رواج تھا۔طاقتور قو میں یا قبائل حملہ آور ہو کر جسے چاہتے قید کر کے غلام بنالیتے تھے۔
محسنِ انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو جن طوقوں سے نجات دلائی ان میں ایک غلامی کا طوق بھی ہے آپؐ کے ذریعہ غلامی کے خاتمہ کا یہ اعلان کیا گیاکہ:۔
سوائے اس کے کہ خونریز جنگ ہو اور مدمقابل دشمن تمہارے آدمی قید کرے بلاوجہ کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ (سورۃالانفال:69)
ایسی مجبوری میں جولوگ قید ہوکر غلام بن جائیں۔انہیں غلامی سے نجات دلانے کیلئے رسول کریمؐنے کئی طریق اعلان فرمائے۔ ایک یہ کہ فدیہ تاوان جنگ دے کر جنگی قیدی آزاد ہوسکتا ہے۔اگر یکمشت ادائیگی نہیں کرسکتا تو اس کو مکاتبت کا حق ہے یعنی ایک قیمت مقرر کروا کے بالاقساط ادائیگی کے ذریعہ وہ آزاد ہوسکتاہے۔
جنگ بدر میںستّرکفار مکہ قیدی ہوئے۔ ان لوگوں اور ان کے اقارب نے مسلمانوں پر مکہ میں سخت مظالم ڈھائے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اوروہ مدینہ آکر آباد ہوئے مگر مدینہ میں بھی ان ظالموں نے مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن نبی کریمؐ نے کفارقریش کے ان قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی۔
رسول کریمؐ نے مختلف گھرانوں میں بدرکے قیدی تقسم کرتے ہوئے فرمایا ’’دیکھو ان قیدیوں کا خیال رکھنا۔‘‘ ابو عزیز بن عمیر(جوحضرت مصعبؓ بن عمیر کے بھائی تھے) بھی ان قیدیوں میں تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے ایک گھرانے میں قیدتھا۔جب وہ صبح یا شام کا کھانا کھاتے تو مجھے خاص طور پر روٹی مہیا کرتے اور خود کھجورپر گزارا کرلیتے کیونکہ رسول اللہ نے ان کو قیدیوں کے بارے میں حسن سلوک کی ہدایت فرمائی تھی۔ ان کے خاندانوں کے کسی فرد کے ہاتھ میں روٹی کا کوئی ٹکڑا آجاتا تو وہ مجھے پیش کردیتا۔ میں شرم کے مارے واپس کرتا مگر وہ مجھے ہی لوٹا دیتے۔(ابن ہشام وھیثمی)1
انہی قیدیوں میں سے حضرت عباسؓ کے جسم پر کوئی قمیص نہ تھا۔رسول کریمؐ کو ان کے لئے قمیص تلاش کرواناپڑا کیونکہ وہ لمبے قد کے تھے بالآخر عبداللہ بن ابی کا قمیص انکو پورا آیا جو ان کو مہیا کیا گیا۔(بخاری)2
بدر کے قیدیوں کی آزادی
اس زمانے کے دستور کے مطابق بدر کے جنگی قیدیوں کی سزا موت تھی۔ جیساکہ استثناء میں یہود و نصاری کوبھی یہی تعلیم ہے کہ جس قوم پر فتح پائو مردوں کو قتل کردو اور عورتوں بچوں کوقیدی بنالو۔ مگر نبی کریمؐ نے اپنے ان جانی دشمنوں کے ساتھ نہایت احسان کا سلوک کرتے ہوئے ان کی جان بخشی فرمائی باوجودیکہ حضرت عمرؓ یہ رائے پیش کرچکے تھے کہ یہ سردارانِ کفر اور قریش کے سرکردہ لوگ ہیں اور اس لائق ہیں کہ سب قتل کئے جائیں مگر رسول کریمؐ باربار ان کے لئے رحم کے جذبات اُبھارتے اور فرماتے ’’اب اللہ نے تم لوگو ںکو ان پر قبضہ اور اختیار دیدیا ہے اور یہ کل تک تمہارے بھائی تھے۔‘‘ تب حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہؐ آپؐ ان کو معاف کر کے فدیہ قبول فرمائیں۔ رسول کریمؐ یہ مشورہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بالآخریہی فیصلہ فرمایا اور قیدیوں سے فدیہ قبول فرمالیا۔(احمد)3
ہرقیدی کافدیہ اس کی استطاعت کے مطابق ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا۔ مگر وہ قیدی جو غریب اور نادار تھے اور فدیہ دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے رسول کریمؐ نے انہیں بغیر فدیہ کے آزاد فرمادیا۔ جیسے ابو عزہ عمرو بن عبداللہ ۔(ابن ہشام)4
بعض اور قیدیوں کو جو فدیہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے مگر لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں اختیاردیاگیاکہ اگر وہ انصار کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیںتوآزادہونگے چنانچہ جب بچے لکھنے پڑھنے کے قابل ہوجاتے انہیں آزاد کردیا جاتا۔(ابن سعد)5
مسلمانوں کے قیدیوں کے ساتھ اس حسن ِ سلوک کا نتیجہ یہ ہو اکہ قیدیوں میں سے کئی مسلمان ہوگئے جن کی تعداد سولہ کے قریب ہے۔ ان میں عقیل بن ابی طالب ، نوفل بن حارث، ابوالعاص بن ربیع، ابوعزیز بن عمیر، خالد بن ہشام،سھیل بن عمرووغیرہ شامل ہیں۔
نبی کریمؐ نے عام طور پر بھی غلاموں کی آزادی کی تحریک فرمائی اور اسے بہت نیکی اور ثواب کا کام قرار دیا۔ آپؐ نے کئی قسم کی خطائوں کا کفّارہ غلام آزاد کرنا مقرر فرمایا مثلاً قتل خطا کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہنے سے اپنے اوپر حرام قرار دے کر میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے کا کفارہ بھی غلام آزادکرنا ہے،پختہ قسم کھاکر توڑنے کا کفارہ بھی غلام کی آزادی ہے۔
رسول اللہ ؐاور آپؐ کے صحابہ کا اپنے جانی دشمنوں اور ان کے ساتھ جنگ میں شکست کھاکر قیدہونے والوں سے سلوک بھی ایسا شاندار تھا کہ مستشرقین بھی اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔
سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں مسلمانوں کے اسیرانِ بدر کے ساتھ سلوک کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
"In pursuance of Mahomet's commands, the citizens of Medina, and such of the refugees as already had houses of their own, received the prisuers, and treated them with much consideration. 'Blessings be on the men of Medina!'said one of these prisoners in later days:'they made us ride, while they themselves walked: they gave us wheaten bread to eat when there was little of it, contenting them selves with dates.' It is not surprising that when, some time afterwards, their friends came to ransom them, several of the prisoners who had been thus received declared themselves adherents of Islam; and the such the Prophet granted liberty without ransom."
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی حکومت میں اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنالئے تھے کے پاس جب (بدر کے) قیدی آئے تو انہوںنے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا۔ بعد میں خود ایک قیدی کہاکرتا تھا کہ ’’اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر۔ وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خودپیدل چلتے تھے۔ ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانہ میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پرگزاراکرتے تھے۔اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے۔ ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہؐ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کردیا۔‘‘(میور)6
اسی طرح سابق عیسائی راہبہ پروفیسرکیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ’’محمدؐ‘‘ میںلکھا:۔
"Some of the prisoners were so imprssed by life in the umma that they converted to Islam. Perhaps the most dramatic of these conversions was that of Umayr ibn Wahb (who had tried to persuade the Quraysh not to fight at Badr). Ummayah persuaded him to go back to Medina and assassinate Muhammad. He did go back but Muhammad caught him out and Umayr became a Muslim instead."
’’بعض قیدی مسلمانوں میں زندگی گزارنے کے بعد اتنے متأثرتھے کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ ان اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے زیادہ حیران کن واقعہ عُمیربن وھب کا تھا(جس نے قریش کو بدر میں لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا) جب وہ مکّہ واپس لوٹا تو اس کے قبیلہ کے سردار اور دوست صفوان بن اُمیہ نے محمدؐ کو قتل کرنے کے لئے اسے واپس مدینہ بھجوایا۔ یہ چلا گیا مگر محمدؐ نے اسے پکڑلیا اور عمیرنے بالآخراسلام قبول کرلیا۔‘‘(آرمسٹرانگ)7
غلاموں کی تدریجی آزادی کا یہ طریق نہایت مفید اور کارآمد رہاورنہ اگر ایک روز ہی تمام غلاموں کی آزادی کا اعلان کردیا جاتا جس طرح امریکہ میں کیا گیا تو ان مقہور غلاموں کی رہائش اور معاش کے بے شمار ناقابل حل مسائل اٹھ کھڑے ہوتے۔اور یہ غلاموں پر احسان کی بجائے ظلم ہوتا کہ ایک ہی دن میں کئی عورتیں اور بچے بے خانماں اور بے آسرا ہوجاتے۔ ان کے منہ کے لقمے بھی ان سے چھن جاتے۔ تاہم جب اورجہاں کثیرغلاموں کو آزادکرنا ممکن ہوا وہاں رسول کریمؐنے یہ بھی کر کے دکھایاچنانچہ غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے چھ ہزارافراد قیدی ہوئے اور جب ان کے عزیز و رشتہ دار نبی کریمؐ سے آزادی کے طالب ہوکر آئے تو آپؐ نے سب کو ایک دن میں بغیر کسی معاوضہ کے احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا،جو دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔(بخاری)8
غلامی سے آزادی کی ان تمام تدبیروں کے باوجود جو غلام باقی رہ گئے تھے ان سے آپؐ نے کمال شفقت اور احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم دی ۔وہ معاشرہ جہاں غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا،وہاں آپؐنے غلاموں کو آقا کے برابرلاکھڑا کیااور انہیں اخوت کے مقدس اورمضبوط رشتہ میں باندھ دیا۔عرب لوگ غلاموں کو جانوروں کی طرح مارتے تھے۔رسول کریمؐ نے اس بات سے سختی سے منع کیا۔فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنے خادموں کے لئے بہتر ہیں۔(ہیثمی9)ایک دفعہ ابو مسعود بدریؓ اپنے غلام کو کسی بات پر مار رہے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا اسے آزاد کرو۔اور انہوں نے وہ غلام آزاد کردیا۔(مسلم)10
نبی کریمؐ فرماتے تھے کہ خادم کے مالک پر تین حق ہیں۔اول یہ کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے جلدی نہ ڈالے۔دوسرے کھانا کھاتے ہوئے اسے کھانے سے نہ اُٹھائے اور تیسرے اسے بھوکا نہ رکھے بلکہ سیر کرکے کھانا کھلائے۔(ہیثمی)11
نبی کریمؐ نے حضرت ابوذرؓ کو ایک غلام دیا اور فرمایا اس کا خاص خیال رکھنا۔ابوذرؓ نے اسے آزاد کردیا۔بعد میں حضور ؐ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے غلام کا کیا حال ہے؟انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ آپؐ نے جو ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے حسن سلوک کرنا، میں نے اسے آزاد کردیا ہے۔
رسول کریمؐ نے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ کو ایک غلام دیا اور فرمایا میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تم لوگ اس سے اچھا سلوک کرنا۔(ہیثمی)12
ایک شخص نے آنحضرتؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا خادم بہت غلطیاں کرتا ہے اور زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے کیا میں اسے سزادے لیا کروں؟ حضورؐ نے فرمایا کہ اپنے خادم سے دن میں ستر دفعہ تک عفو کا معاملہ کرو۔(ہیثمی)13
معرور بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو ذر ؓسے ربذہ مقام پر ملا۔انہوں نے بھی ایک پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی اور ان کے غلام نے بھی ویسی ہی پوشاک پہنی تھی۔(آقا و غلام میں مساوات کا یہ عالم دیکھ کر تعجب سے) میں نے اس بارہ میں سوال کیا۔تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو گالی دی تھی(جو اغلباً غلام تھا) حضورؐ نے سن کر فرمایا اے ابوذرؓ! کیا تم نے اسے ماں کی گالی دی ہے۔بلاشبہ یہ تم نے جاہلیت کی بات کی ہے(یادرکھو) تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے۔جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو وہ اُسے اس میں سے کھلائے جس میں سے وہ خود کھاتا ہے۔ اور ویسا ہی لباس پہنائے جیسا خود پہنتا ہے۔اور ان کو ایسے کام کرنے کے لئے نہ کہو جو ان کی طاقت سے باہر ہو۔اور اگر کوئی ایسامشکل کام کہہ دو تو پھر خود ان کی مدد کرو۔(بخاری)14
دوسری روایت میں تصریح ہے ابوذرؓ اور انکے غلام کی چادر ایک جیسی تھی(تہبند دونوں کے مختلف تھے) معرور نے ان سے کہا کہ اے ابو ذرؓ اگر آپ اپنے غلام کی چادرلے کر اپنا تہبند بناتے تو آپ کی پوری پوشاک بن جاتی اور غلام کو آپ کوئی اور کپڑا دے دیتے ۔ابو ذر ؓنے کہا میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو (جو غلام تھا) جس کی ماں عجمی تھی ماں (کی عجمیت ) کا طعنہ دیا تو اُس نے حضورؐ کے پاس میری شکایت کردی۔ آپؐنے فرمایا یہ بھی تمہارے بھائی ہیں جن پر اللہ نے تمہیں فضیلت دی ہے۔پس جس کو اس کا غلام موافق نہ ہو اسے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔(ابودائود)15
ایک اور موقع پر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ خادم یا غلام جب کھانا لائے اُسے بھی ساتھ بٹھا کر اس میں سے کھلائو اگر وہ نہ مانے تو کچھ کھانا ہی دیدو کہ اس نے کھانا تیار کرتے ہوئے گرمی اور دھواں کھایا ہے۔(ابن ماجہ16)پھرفرمایاتم ان غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح عزت کرو اور جو خود کھاتے ہو اس میں سے ان کو کھلائو۔(بخاری)17
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کی عزت نفس قائم کرنے کیلئے ایک انسان ہونے کے ناطہ سے ان کی تکریم کی ہدایت کی اور فرمایا کہ انہیں میرا غلام یا میری لونڈی کہہ کر نہ پکارا کرو۔بلکہ نوجوان یا لڑکی کہہ کر بلایا کرو۔(تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو)۔(بخاری)18
نبی کریمؐ نے غلاموں کے حقوق کا بھی تحفظ فرمایا۔اسلام سے پہلے غلام کو طلاق کا اختیار نہیں ہوتا، آپؐ نے غلام کا یہ حق بھی قائم فرمایا۔(ابن ماجہ)19
حضرت زید بن حارثہؓ حضر ت ام المؤ منین خدیجہؓ کے غلام تھے، جو انہوں نے نبی کریمؐ کی خدمت کیلئے پیش کردئیے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اور اس قدرشفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کہ جب زیدؓ کے حقیقی والدین ان کو لینے کیلئے آئے تو باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو اختیار دے دیا کہ آپ والدین کے ساتھ واپس وطن جانے کیلئے آزاد ہومگر زیدؓ نے ان کے ساتھ جانے سے ا نکار کردیا۔اور بزبان حال ثابت کیا کہ ہزا ر آزادی رسول اللہؐ کی غلامی پر قربان ہے۔ نبی کریمؐ نے عربوں کے دستور کے خلاف معزز قبیلہ قریش کی خاتون اپنی پھوپھی زاد بہن زینبؓ کی شادی اس آزادکردہ غلام سے کر کے ثابت کردیا کہ آپؐ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ تھا۔اگرچہ اختلافِ مزاج کے باعث یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی تو آپؐ نے حضرت امّ ایمن ؓسے زیدؓ کی شادی کروائی۔جن سے اسامہؓ پیدا ہوئے۔(ابن سعد)20
رسول اللہؐ کو حضرت اسامہؓ سے بھی بہت محبت تھی ۔گھر میں بسااوقات ایسا ہوا کہ اسامہؓ کی ناک بہہ رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی ناک صاف کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔حضرت عائشہؓ دیکھ کر عرض کرتی ہیں۔حضورؐ میں جو حاضر ہوں آپؐ رہنے دیں میں اس کی ناک صاف کردیتی ہوں۔آپؐ فرماتے نہیں اور پھر خود اسامہؓ کی ناک صاف کرتے۔ اپنے نواسے امام حسینؐ اور غلام زادے اسامہؓ کو گود میں لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔(بخاری21) آپؐ کمال محبت سے فرمایا کرتے اسامہؓ لڑکی ہوتی تو میں اسے زیور پہناتا۔ عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا۔(ابن ماجہ)22
رسول اللہؐ کے ایک خادم حضرت انس بن مالکؓ تھے انکا بیان ہے کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے آپؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں فرمایا کسی کام کے لئے جو میں نے کیا آپؐ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کسی کام کے لئے جو میں نے نہ کیا ہو اور چھوڑ دیا ہو آپؐ نے یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔(بخاری)23
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول کریمؐ کی خدمت کی ہے مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ آپؐ کو کونسی بات پسند ہے اور کونسی ناپسند۔ آپؐ تو ہر حال میں راضی برضائے الہٰی رہتے تھے۔ اگر آپؐ کی بیویوں سے کوئی مجھے یہ فرماتیں کہ اگر تم یُوں کرلیتے تو اچھا ہوتا آپ ؐ فرماتے اسے کچھ نہ کہو کیونکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔(ہیثمی)24
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں میں سے خوبصورت اور بہترین اخلاق رکھتے تھے۔ ظاہری و باطنی ہر لحاظ سے لطافت آپؐ کے اندر ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ریشم بھی آپؐ کی ہتھیلی کے مقابلہ میں کیا نرم ہوگا۔ آپؐ خوشبو استعمال فرماتے تھے ۔ آپؐ کے پسینہ سے اٹھنے والی خوشبو کا مشک بھی کیا مقابلہ کریگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے آپؐ کے خادم حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میری ماں ام سلیم ؓ نے ایک ٹوکری میں کھجور یں دے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں بھیجا۔ حضورؐ گھر پر نہیں تھے۔بلکہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی دعوت پر اس کے ہاں تشریف لے گئے تھے جس نے حضورؐ کا کھانا کیا ہوا تھا۔میں وہاں پہنچا تو حضورؐ کھانا تناول فرمارہے تھے آپ ؐنے مجھے بھی کھانے میں شریک ہونے کے لیے فرمایا۔ کھانے میں گوشت اور کدو کا ثرید تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضورؐ کو کدو بہت پسند ہیں چنانچہ میں کدو کے ٹکڑے اکٹھے کر کے حضور ؐکے قریب کرنے لگا (اور آپؐ تناول فرماتے رہے) ہم کھانا کھا چکے تو حضور ؐواپس اپنے گھر تشریف لائے۔ میں نے کھجور کی ٹوکری حضور ؐکے سامنے رکھ دی۔آپؐ اس میں سے کھاتے بھی جاتے اور تقسیم بھی فرماتے جاتے تھے۔جب وہ ٹوکری آپؐ نے بانٹ دی۔تب وہاں سے اُٹھے۔(ابن ماجہ)25
رسول اللہ ؐکے خادم اور غلام تو آپؐ کے ایسے عاشق تھے کہ یہ دنیا تو کیا اگلے جہاں میں بھی آپؐ کی غلامی کے لئے ترستے تھے۔آپ ؐکے آزاد کردہ غلام ثوبان کو ایک روز یہی خیال آیا تو روتا ہوا آیا کہ اگلے جہاں میں جب آپؐ بلند درجوں پر ہونگے آپؐ کے دیدار کیسے ہوسکیں گے؟ فرمایا انسان کو جس سے محبت ہواس کی معیت بھی عطاکی جاتی ہے۔(سیوطی )26
ایک اور خادم ربیعہ اسلمی ؓکی خدمتوں سے خوش ہوکر نبی کریم ؓ نے کچھ انعام اس کی مرضی کے مطابق دینا چاہا اور فرمایا مانگ لو جو مانگنا ہے۔اس خوش نصیب نے بھی یہی کہا کہ یارسول اللہؐ جنت میں آپؐ کی رفاقت چاہئیے۔ فرمایا کچھ اور مانگ لواس نے کہا یہی کافی ہے آپؐ نے فرمایا پھر سجدوں، نمازوں اور دعائوں میں میری مدد کرنا۔(مسلم)27
مشہوراطالوی مستشرقپروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے لکھا ہے:۔
’’غلامی کا رواج اسی وقت سے موجود ہے جب سے انسانی معاشرے نے جنم لیا اور اب تک بھی باقی ہے۔مسلمان خانہ بدوش ہوں یا متمدن ان کے اندر غلاموں کی حالت دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر پائی جاتی ہے۔یہ ناانصافی ہوگی کہ مشرقی ملکوں میں غلامی کا مقابلہ امریکہ میں آج سے ایک سوسال پہلے کی غلامی سے کیا جائے۔حدیث نبویؐ کے اندر کس قدر انسانی ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں’’یہ مت کہو کہ وہ میرا غلام ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میرالڑکا ہے اور یہ نہ کہو کہ وہ میری لونڈی ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میری لڑکی ہے۔
اگر تاریخی لحاظ سے ان واقعات پرغور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں بھی عظیم الشان اصلاحیں کی ہیں۔ اسلام سے پہلے قرضہ نہ ادا ہونے کی صورت میں بھی ایک آزاد آدمی کی آزادی کے چھن جانے کا امکان تھا لیکن اسلام کے آنے کے بعد کوئی مسلمان کسی دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہیں بناسکتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کومحدود ہی نہیں کیا بلکہ آپؐ نے اس بارے میں اوامرونواہی جاری کئے اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ قدم بڑھاتے رہیں حتی کہ وہ وقت آجائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزاد ہوجائیں۔‘‘(وگلیری)28
حوالہ جات
1
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد2ص288 و مجمع الزوائد ھیثمی جلد6ص86
2
بخاری کتاب الجہاد باب الکسوۃ للاساریٰ
3
مسند احمد بن حنبل جلد1ص383
4
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد2ص304
5
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2ص22
6
‏The life of Mahamet By Sir William Muir Vol.1 Page:242
7
‏Muhammad A Biography of Prophat by Karen Armstrong page 180
8
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ حنین
9
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص237
10
مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک:3136
11
مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص163
12
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص238,237
13
مجمع الزوائدلھیثمی جلد4ص238
14
بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امرالجا ھلیتہ
15
ابوداؤدکتاب الادب باب فی حق الملوک:4490
16
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب اذا اتاہ خادمہ لطعامہ
17
بخاری کتاب العتق باب العبد اذا احسن عبادۃ ربہ:2366
18
بخاری کتاب الادب باب الاحسان الی الممالیک
19
ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق العبد:2972
20
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3ص42دارالفکر بیروت
21
بخاری کتاب المناقب ذکر اسامۃ بن زید:3455
22
ابن ماجہ کتاب النکاح باب الشفاعۃ فی الترویج:1966
23
بخاری کتاب الادب باب39ومسلم کتاب الفضائل باب 13
24
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9ص16
25
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب الدباء
26
الدرالمنثورللسیوطی سورۃ النساء زیر آیت ومن یطع اللہ والرسول
27
مسلم کتاب الصلوۃ باب فضل السجود:754
28
اسلام پر نظرص41 اُردو ترجمہ An Interpretation of Islam مترجم شیخ محمداحمدمظہر

مذہبی رواداری اورآزادیٔ ضمیر کے علمبردار
بانی ٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم،بربریت اور تعصبات کی دنیا میں مبعوث ہوکر عدل واحسان ، مذہبی رواداری اور حریتِ ضمیر ومذھب کی ایسی اعلیٰ تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
اسلامی تعلیم کے حسن کا اندازہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ بہت مفیدہوگا۔یہودونصاریٰ کو توریت میں غیرقوموں کے ساتھ سلوک کے لئے یہ تعلیم دی گئی۔
’’جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پرقبضہ کرنے کے لئے تو جارہاہے پہنچادے اور تیرے آگے سے اُن بہت سی قوموں کو یعنی حِتّیوں اورجِرجاسیوں اوراُموریوں اور کنعانیوں اور فرِزّیوں اور حوِیوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بـڑی اور زور آورہیں نکال دے اور جب خداوند تیراخداان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مارلے تو تو ان کو بالکل نابود کرڈالنا، تو ان سے کوئی عہدنہ باندھنا، اور نہ ان پر رحم کرنا، تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا، نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اورنہ اپنے بیٹوں کے لئے ان کی بیٹیاں لینا، کیوں کہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کردیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں یوں خداوند کا غضب تم پربھڑکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کردے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرناکہ ان کے مذبحوں کو ڈھادینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا، اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلادینا۔(استثنا)1
اس کے مقابل پربانی ٔاسلام نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور اعلان کیاکہ’’ دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘(سورۃالبقرۃ:257)
نیزفرمایا’’جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔‘‘ (سورۃالکہف:30)
پھراسلام کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس نے دیگر مذاہب و اقوام کے ساتھ عدل و انصاف کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ بانیٔ اسلام اور ان کے سچے پیروؤںنے اس پرعمل کرکے غیرمذاہب کے ساتھ رواداری اوراحسان کے بہترین نمونے پیش کئے۔ بے شک اسلامی تعلیم میں قیام عدل کی خاطرظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے لیکن عفوکوزیادہ پسند کیا گیا ہے اور فرمایا کہ اس کا اجر خدا نے خود اپنے ذمّہ لیا ہے۔(سورۃالشوریٰ :41)
غیرقوموں اور مذاہب کی مذہبی زیادتیوں کے جواب میں کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع کرتے ہوئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے:۔
’’ایسی قوم جس نے تمہیں بیت اللہ سے روکا، اس کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُکسائے کہ تم زیادتی کر بیٹھو بلکہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘(سورۃ المائدۃ:2)
دوسری جگہ فرمایا اور’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘(سورۃالمائدۃ:9)
اسلام نے صرف یہ اصولی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ تفصیل میں جاکر مشرکین کے برابر کے حق قائم فرمائے۔ چنانچہ زمانۂ جنگ میں اگر مومن عورتیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرکے آجائیں تو انہیں واپس کرنے کی بجائے ان کی مشرک قوم میں ان عورتوں کے ولی کو وہ اخراجات ادا کرنے کا حکم ہے جو انہوں نے ان مومن عورتوں پر کئے۔ اور کافر عورتوں سے زبردستی نکاح کرنے اور انہیں اپنے پاس روک رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں واپس مشرکین کے پاس لوٹاتے ہوئے مسلمانوں کو ان اخراجات کے مطالبہ کا حق دیا جس طرح کفار کو یہ حق حاصل ہے۔(سورۃالممتحنۃ:11)
اسلام نے دشمن قوم حتّٰی کہ مشرکین کا امن کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ فرمایا۔
’’اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الہٰی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچادے یہ (رعایت) اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔(سورۃالتوبۃ:6)
رسول کریمؐ کے ذریعہ رواداری کی یہ اعلیٰ تعلیم دی گئی کہ غیر مذہب یا قوم میں بھی جو خوبی یا نیکی پائی جاتی ہواس کی قدردانی کرنی چاہئے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’سارے اہل کتاب برابر نہیں ہیں ان میں سے ایک جماعت (نیکی پر) قائم ہے۔جو راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے اور عبادت کرتے ہیں‘‘۔(سورۃ آل عمران:114)
اسی طرح بعض یہودونصاریٰ کی دیانت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی بطور امانت رکھ دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے مگر بعض ایسے بھی ہیں جو ایک دیناربھی واپس نہیں لوٹائیں گے۔‘‘ (سورۃ آل عمران:76)
بعض نیک فطرت خداترس عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والا کلام سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھوں میں آنسو بہتے دیکھتے ہیں،اس وجہ سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا،وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے،پس تو ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔‘‘(سورۃ المائدہ:84)
بانی ٔ اسلام نے رواداری کی یہ تعلیم بھی دی ہے کہ مذہبی بحثوں کے دوران جوش میں آکر دوسرے مذہب کی قابل احترام ہستیوں کو برا بھلا نہ کہو۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اور تم ان کو گالیاں نہ دو۔جن کووہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ورنہ وہ بھی اللہ کو دشمنی کی راہ سے نادانی میں گالی دیں گے۔‘‘(سورۃ الانعام:109)
رسول کریمؐ نے اس بنیادی حقیقت سے پردہ اُٹھاکربانیان مذاہب کے احترام کی تعلیم دی کہ ہر قوم میں نبی آئے اور آغاز میںہر مذہب سچائی پر قائم تھا مگر بعد میں اپنے نبی کی تعلیم سے انحراف کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا۔ تاہم اب بھی ہر مذہب میں کچھ حصہ ہدایت کا موجود ہے۔(سورۃ النحل:64)
آپؐ نے یہ تعلیم بھی دی کہ سب اقوام کے نبی مقدس اور برگزیدہ تھے،اس لئے وہ منافرت دور کرنی چاہئے جو دائرہ ہدایت کومحدود کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور باوجود مذہبی اختلاف کے دیگر اقوام و مذاہب سے اتحاد رکھنا چاہئے اور انسانیت کے ناطے ان کے ساتھ محبت وپیار کا سلوک کرناچاہئے۔
اسلام دیگر مذاہب کے پیروئوں کے احساسات کا بھی احترام سکھاتا ہے کہ خواہ وہ حق پر نہ ہوں۔مگرچونکہ وہ سچ سمجھ کر اس مذہب کو مان رہے ہیںانہیں اپنے مسلک پر قائم رہنے کا حق ہے۔
مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول اللہؐ اور حضرت موسیٰ ؑ کی فضیلت کا تنازعہ کھڑا ہوا تو رسول کریمؐنے فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؑپر فضیلت مت دو۔(بخاری)2
بانی ٔ اسلام نے محض مذہبی اختلاف کی بنا ء پر دوسری قوم پر حملہ کرنے کی تعلیم نہیں دی۔صرف ان اقوام سے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پہل کریں۔چنانچہ فرمایا ’’ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں لڑائی کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں۔اور زیادتی نہ کرو۔اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ البقرہ:191)
پھر رسول کریمؐ نے غیرمذاہب اور اقوام سے معاہدات کرنے اور ان کو پورا کرنے کی تعلیم دی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اگر کوئی غیر قوم مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کی مرتکب ہو اور وہ مسلمان تم سے مدد کے طالب ہوں اور تمہارا اس قوم کے ساتھ پہلے سے کوئی معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے اور مظلوم مسلمانوں کی خاطر بھی اس عہدشکنی کی اجازت نہیں۔‘‘(سورۃالانفال:73)
البتہ اگر وہ لوگ عہد شکنی کریں تومسلمانوں کوجوابی کا روائی کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا خدشہ ہو تو ان سے ویسا ہی کرو جیساکہ انہوں نے کیا ہے۔ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ الانفال:59)
پھر اسلام نے محض عدل کی ہی تعلیم نہیں دی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔(سورۃ النحل:91)اسلام غیرقومو ں سے تمدنی تعلقات قائم کرنے، انصاف اور نیکی کا سلوک کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ یہودی مذہب کی طرح یہ نہیں کہتاکہ صرف یہود سے سود نہ لو۔ (استثنائ3) بلکہ قرآن شریف نے سود کو حرام کر کے سب کے لئے منع کردیا اور یہ اعلیٰ درجہ کی تمدنی تعلیم دی:۔
’’جن لوگوں نے دین کے بارہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا۔ ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے اور منصفانہ برتائو کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا۔‘‘(الممتحنۃ:8)
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓکی (مشرک )والدہ اداس ہوکرانہیں ملنے مدینہ آئیں۔ اسمائؓ نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ کیا مجھے ان کی خدمت کرنے اور ان سے حسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں اسی بارہ میں یہ آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارہ میں جنگ نہیں کی۔(بخاری)4
اسلامی حکومت میں مسلمانوں پر ذمہ داریاں زیادہ اور غیرمسلموں پر نسبتاً کم ہیں۔ مسلمانوں پر جہاد فرض ہے اور لڑائی کی صورت میں بہر حال اس میں شامل ہونا ان کے لئے ضروری ہوتا ہے۔جبکہ غیرمسلموں کے لئے یہ لازم نہیں۔مسلمانوں پر پیداوار کا دسواں حصہ بطور عشر حکومت کو دینا واجب ہے۔ غیرمسلموں پر یہ ذمہ داری نہیں۔اسی طرح مسلمانوں کوہر سال اپنی آمدنی کا اڑھائی فیصد زکوٰۃ اورعُشریعنی زرعی پیداوار کا دسواں حصہ دینا لازم ہے۔ جبکہ غیرمسلموں پر جزیہ کی صورت میں معمولی ٹیکس مقررہوتا ہے۔
غیرمسلموں کی آزادی میں بھی اسلام نے مسلم غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں رکھی بلکہ اصولی طور پر غلاموں کی آزادی کی تعلیم دی۔ نبی کریمﷺ نے غزوۂ حنین کے موقع پر ہزاروں غیرمسلم غلاموں کو آزاد کر کے اس کا عملی نمونہ عطافرمایا۔
مشرکین مکہ سے حسن سلوک
مشرکین مکہ نے آنحضرت ؐ کو مکہ سے جلاوطن کیا تھااورمدینہ میں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا مگر آنحضرتؐ نے موقع آنے پر ہمیشہ اُن سے احسان کا سلوک ہی روا رکھا۔اہل مکہ کوہجرت مدینہ کے بعد ایک شدید قحط نے آگھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاںاور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ’’اے محمدؐ! آپ ؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ ؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ ؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرما ئے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ ؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی ‘‘۔
رسول اللہ ؐ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو ۔مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ ؐ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے ۔مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے ۔(بخاری5)آنحضرتؐ نے اہل مکہ کی امداد کے لئے کچھ رقم کا بھی انتظام کیا اور وہ قحط زدگان کے لئے مکہ بھجوائی۔(السرخسی)6
مسلمانوں کے دشمن قبیلہ بنو حنیفہ کا سردار ثُمامہ بن اُثال گرفتارہوکر پیش ہوا تو رسول کریمؐ نے ازراہ احسان اسے آزاد کردیا۔رسول اللہ ؐکے حسن سلوک سے متاثر ہوکرانہوںنے اسلام قبول کرلیا۔اس کے بعدوہ حضورؐ کی اجازت سے عمرہ کرنے مکّہ گئے تو مسلمانوں کے طریق پر لَبَّیْکْ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ کہنا شروع کیا۔قریش نے انہیںپکڑ لیا اور کہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ مسلمان ہوکر عمرہ کرنے آئے ہو۔ثمامہ نے کہا خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلے کاایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔جب تک رسول اللہؐ اجازت نہ فرمائیں۔
قریش ثمامہؓ کو قتل کرنے لگے مگربعض سرداروں کی سفارش پر کہ یمامہ سے تمہیں غلہ وغیرہ کی ضرورت ہے۔ان سے دشمنی مول نہ لو۔چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ثمامہؓ نے یمامہ جاکر واقعی اہل مکّہ کا غلہ روک دیا۔یہاں تک کہ وہاں قحط پڑگیا۔تب قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں لکھا کہ آپؐ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں اور صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں۔مگر ہمارا تو غلہ تک رکوادیا۔رسول کریمؐ نے ثمامہؓ کو لکھا کہ قریش کے غلہ کے قافلے مکہ جانے دیں۔ چنانچہ انہوں نے تعمیل ارشاد کی، اس طرح اپنی دشمن قوم قریش پریہ آپؐ نے ایک گراں قدراور عظیم احسان فرمایا۔(الحلبیہ)7
مشرکین کے بچوں کے قتل پر ناراضگی
مشرکین مکہ نے غزوۂ احد کے موقع پر مسلمان شہدا کی نعشوں کی بے حرمتی کی تھی اور اُن کے ناک ،کان وغیرہ کاٹے گئے تھے۔حضرت حمزہؓ کا کلیجہ تک چبایاگیا۔مگر آنحضرت ﷺ نے کبھی اس کا بدلہ لینے کا نہیں سوچابلکہ ہمیشہ اُن کے ساتھ حسن سلوک ہی کیا۔
حسن بن اسودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر مقتولین میں کچھ بچوں کی نعشیں بھی پائی گئیں۔حضورؐ کو جب پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا یہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے جنگجو مردوں کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قتل کرڈالا۔ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہؐ وہ مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔نبی کریمؐ نے فرمایا، آج تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ بھی کل مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔یادرکھو کہ کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو نیک فطرت پر پیدا ہوتاہے ۔ اس کی یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بولنا سیکھتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں۔(احمد)8
رسول کریمؐ سے پوچھا گیا مشرکوں کے بچوں کا حساب کتاب کیسے ہوگا؟ فرمایاوہ اپنے والدین کے مذہب پر شمار ہوں گے۔عرض کیاگیا پھرتو وہ بغیر کسی عمل کے پکڑے گئے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے وہ کیا کرنے والے تھے۔(ابودائود)9
ہجرت مدینہ کے وقت قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ کو گرفتا رکرکے لانے والے کیلئے سو اونٹ کا انعام مقرر کیا تھا۔جس کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے اپنے تیز رفتار گھوڑے پر رسول اللہؐ کا تعاقب کیا۔مگر جب آپ کے قریب پہنچا تو اس کے گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے۔جب تین مرتبہ ایسا ہوا تو وہ توبہ کر کے معافی اور امان کا طالب ہوا۔رسول کریمؐ نے اسے امان عطا کرتے ہوئے بطور انعام کسریٰ کے کنگنوں کی بشارت دی۔فتح مکہ پر وہ مسلمان ہوا اور رسول اللہؐ کے دامن رحمت سے حصہ پایا۔بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کسریٰ کے کنگن بھی اُسے عطا کئے گئے۔یوں آپؐ کا تعاقب کرنے والا بدخواہ بھی آپؐ کے انعام و اکرام کا ہی مورد ٹھہرا۔(بخاری)10
مفتوح قوم کے مشرک سرداروں سے حسن سلوک
ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھررسول اللہؐ سے جنگیں کرتا رہا۔فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریمؐ کے اعلان عفو ،امان کے باوجود ایک دستے پر حملہ آور ہوکر حرم میں خونریزی کا باعث بنا۔اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہراتھا۔ فتح مکہ کے بعد جان بچانے کے لئے وہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔اس کی بیوی رسول اللہؐ سے اس کے لئے معافی کی طالب ہوئی تو آپؐنے کمال شفقت سے معاف فرمادیا۔وہ اپنے شوہر کو واپس لانے کے لئے گئی تو خود عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہ آتا تھا۔چنانچہ اس نے دربار نبوی میں حاضرہوکر اس کی تصدیق چاہی۔اس کی آمد پررسول اللہؐ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا۔ پہلے تو آپؐ دشمن قوم کے اس سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہوگئے پھر عکرمہ کے پوچھنے پر بتایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔(مالک)11
عکرمہ نے پوچھا کہ کیا اپنے دین (حالت شرک) پر رہتے ہوئے آپؐ نے مجھے بخش دیا ہے آپؐنے فرمایا ہاں۔اس پر مشرک عکرمہ کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھا اے محمدؐ آپؐ واقعی بے حد حلیم وکریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔رسول اللہؐ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کرعکرمہ مسلمان ہوگیا۔(الحلبیہ)12
مشرکین کا ایک اورسردار صفوان بن اُمیّہ تھا جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں پرحملہ کرنے والوں میں شامل تھا ۔یہ بھی عمر بھر رسو ل اللہؐ سے جنگیں لڑتا رہا۔اپنے جرائم سے نادم ہوکر فتح مکہ کے بعد بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے چچا عمیر بن وہبؓ نے رسول اللہؐ سے اس کے لئے امان چاہی۔ آپؐ نے اپنا سیاہ عمامہ بطورِ علامتِ امان اُسیعطافرمایا۔صفوان بن عمیر کو واپس مکہ لایا۔اس نے پہلے تو رسول اللہؐ سے اپنی امان کی تصدیق چاہی پھراپنے دین پر رہتے ہوئے دو ماہ کیلئے مکہ میں رہنے کی مہلت چاہی آپؐنے چار ماہ کی مہلت عطافرمائی۔
محاصرہ طائف سے واپسی پر رسول اللہؐ نے تالیف قلب کی خاطر اسے پہلے سو اونٹ کا انعام دیا۔ پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ گویا کل تین صد اونٹ عطافرمائے۔صفوان بے اختیار کہہ اُٹھا اتنی بڑی عطا ایسی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں دے سکتا ۔چنانچہ وہ بھی مسلمان ہوگیا۔(الحلبیہ)13
فتح مکہ کے بعد بنو ثقیف کا وفد طائف سے آیا،تو نبی کریمؐ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضع کا اہتمام کروایا۔بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن شریف میں مشرکین کونجس یعنی ناپاک قراردیا ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے،جسموں کی ظاہری گندگی مرادنہیں۔(جصاص)14
وفد ثقیف کے بعض لوگ تو مدینہ میں اپنے حلیفوں کے پاس ٹھہرے۔ بنی مالک کے لئے نبی کریم ؐ نے خود خیمہ لگا کر انتظام کروایا اور آپؐ روزانہ نماز عشاء کے بعد جاکر ان سے مجلس فرماتے تھے۔(ابودائود)15
حضرت مغیرہ ؓبن شعبہ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ وفد ثقیف کو اپنا مہمان رکھنا چاہتے ہیں رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ان کے اکرام وعزت سے نہیں روکتا، مگر ان کی رہائش وہیں ہونی چاہئے جہاں وہ قرآن سن سکیں۔ چنانچہ حضورؐ نے سب کے لئے مسجد میں خیمے لگوادیئے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھیں اورقرآن سنیں۔(بیہقی)16
رسول کریمؐ نے غیرحربی مشرکین سے ہمیشہ حسن معاملہ کا طریق اختیار فرمایا۔ ایک دفعہ مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کی اور اسے سات بکریوں کا دودھ پلایا۔(ترمذی)17
ایک دفعہ ریشم کا لباس تحفہ آیا تورسول کریمؐ نے حضرت عمرؓ کو دیا انہوں نے پوچھا کہ ریشم تومردوں کے لئے منع ہے وہ اسے کیا کریں گے؟ فرمایا کسی اور کو دے دیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے مشرک بھائی کو بطورتحفہ دے دیا۔(بخاری)18
ایک شریف النفس مشرک سردار مطعم بن عدی(جو غزوۂ بدر کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے) کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگرآج وہ زندہ ہوتے اور بدر کے قیدیوں کی آزادی کے لئے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر تمام قیدیوں کو (بلامعاوضہ) آزاد کردیتا۔ (بخاری)19
یہود مدینہ سے سلوک
نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔یہ معاہدہ آزادی مذہب اور حرّیت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ اس معاہدہ کی مذہبی آزادی سے متعلق شقوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا۔
اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوںگی۔
معاہدہ کی دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدہ کی رو سے ’’اُمّتِ واحدہ ‘‘ہونگے۔ظاہر ہے مذہبی آزادی اور اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے بعد امت واحدہ سے مراد وحدت اور امت کا سیاسی تصور ہی ہے۔
معاہدہ کی تیسری بنیادی شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔
معاہدہ کی چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کے مدینہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔مسلمان اپنے اخراجات کے ذمّہ دار اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہونگے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔
فریقین ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔(ابن ہشام)20
ہر چند کہ مدینہ کے یہودی مسلسل معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوتے رہے لیکن نبی کریمؐ نے ہمیشہ ایفائے عہد کے ساتھ حسن سلوک کا خیال رکھا۔یہودی نبی کریم ؐ کی مجالس میں حاضر ہوتے تو آپؐ ان سے حسن معاملہ فرماتے تھے چنانچہ کسی یہودی کو حضورؐ کی مجلس میں چھینک آجاتی تو آپؐ اسے یہ دعا دیتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال اچھا کردے۔(سیوطی)21
اس کے برعکس یہود کاسلوک اپنے حسداور کینہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ گستاخانہ رہا۔وہ طرح طرح کے سوالات کے ذریعہ آپؐ کی آزمائش کرتے آپؐ کی مجالس میں آتے توتحریف کی عادت سے مجبور حضورؐ کی مجلس میں بھی الفاظ بگاڑ کرتمسخر کرتے، اپنی طرف توجہ پھیرنے کے لئے رَاعِنَایعنی ہماری رعایت کرکی بجائے رَاعِیْنَا کہتے جس کے معنے ہمارے چرواہے یا نوکر کے ہیں۔ یہودآپؐ کی مجلس میں آکر سلام کرنے کے بجائے السّام علیکم کہتے جس کے معنے ہیں معاذ اللہ آپؐ پر *** اور ہلاکت ہو۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ یہودی آئے۔انہوں نے السام علیک کہہ کر نبی کریمؐ کو طعن کیا۔ میں سمجھ گئی اور بول پڑی کہ اے یہودیو!تم پر *** اور ہلاکت ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو کچھ کہنے کی بجائے مجھے سمجھایا اور فرمایا ٹھہرو اے عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر بات میں نرمی پسندکرتا ہے۔میں نے عرض کیا یارسول اللہؓ آپ نے سنا نہیں انہوں نے آپؐ کو کیا کہا ہے؟ آ پؐ نے فرمایا میں نے بھی تو وعلیکم کہہ دیا تھاکہ تم پر۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے برا بھلا کہنے پر نبی کریمؐ نے ان کو روکا سمجھایا اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ فحش بات پسند نہیں کرتا۔(بخاری22)اسی سلسلہ میں یہ آیت بھی اتری کہ وَاِذَا جَائُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَالَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ (المجادلۃ:9) یعنی جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو وہ تجھے ان الفاظ میں سلام کرتے ہیں جن میں تجھے اللہ نے سلام نہیں کیا۔اوراپنے دلوں میں سوچتے ہیں کہ ہم جو (اس رسولؐ کو)بُرابھلاکہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ ان کے لئے جہنم کافی ہے وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔(احمد)23
نبی کریم ؐ سے کسی صحابی نے سوال کیا کہ اہل کتاب ہمیں سلام کرتے ہیں ہم انہیں کیسے جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا علیکم کہہ کر جواب دے دیا کرویعنی تم پر بھی۔(بخاری)24
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں مسلمانوں کے علاوہ یہودی اورمشرک بھی تھے۔آپؐ نے انہیں السلام علیکم کہا۔(بخاری)25
فتح خیبر کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں یہود نے شکایت کی کہ مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل توڑے ہیں۔ نبی کریمؐ نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیراجازت کسی کے گھر گھس جائواور پھل وغیرہ توڑو۔(ابودائود)26
خیبرکی فتح کے موقع پرایک یہودیہ کی طرف سے دعوتِ طعام میں رسول کریمؐ کی خدمت میں بھنی ہوئی بکر ی پیش کی گئی جس میں زہر ملایا گیا تھا۔حضورؐ نے منہ میں لقمہ ڈالا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اُگل دیا۔پھر آپؐ نے یہود کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں ایک بات پوچھوں گا کیا سچ سچ بتائو گے؟انہوں نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟انہوں نے کہا ہاں۔آپؐ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا، ہم نے سوچا اگر آپؐ جھوٹے ہیں تو آپؐ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ کو یہ زہر کچھ نقصان نہ دے گا۔(بخاری)27
رسول کریمؐ نے قاتلانہ حملہ کی مرتکب اس یہودیہ کو بھی معاف فرمادیا اوریہود کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود مدینہ کے یہود سے احسان کا ہی سلوک فرمایا۔ایک دفعہ یہودی کا جنازہ آرہا تھا۔ نبی کریمؐ جنازہ کے احترام کے لئے کھڑے ہوگئے۔کسی نے عرض کیا کہ حضورؐ! یہ یہودی کا جنازہ ہے۔آپؐ نے فرمایا کیا اس میں جان نہیں تھی۔کیا وہ انسان نہیں تھا؟ (بخاری28) گویاآپؐ نے یہود کے جنازے کا بھی احترام فرماکر شرف انسانی کو قائم کیا۔
حضرت یعلیٰ ؓ بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کئے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے۔(حاکم)29
چنانچہ بدر میں ہلاک ہونے والے24مشرک سرداروں کو بھی آپؐ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا تھا۔جسے قلیب بدر کہتے ہیں۔(بخاری)30
الغرض نبی کریمؐ نے بحیثیت انسان غیرمسلموں کے حقوق قائم کرکے دکھلائے۔ ان کے ُمردوں تک کا احترام کیا۔حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہے مگر آپؐ نے انتقام لینا کبھی پسندنہ کیا۔
غزوہ احزاب میں مشرکین کا ایک سردار نوفل بن عبداللہ مخزومی میدان میں آیا اور نعرہ لگایا کہ کوئی ہے جو مقابلہ میں آئے؟ حضرت زبیرؓ بن العوام مقابلہ میں نکلے اور اسے زیر کرلیا۔ دریں اثناء حضرت علیؓ نے بھی نیزہ مارا اور وہ دشمن رسولؐ خندق میں گرکر ہلاک ہوگیا۔ مشرکین مکہ اُحد میں رسول اللہؐ کے چچاحمزہ ؓ کے ناک کان کاٹ کر ان کی نعش کا مُثلہ کرچکے تھے۔ وہ طبعاً خائف تھے کہ ان کے سردار سے بھی ایسا بدلہ نہ لیاجائے۔انہوں نے رسول اللہؐ کو پیغام بھجوایاکہ دس ہزاردرہم لے لیں اور نوفل کی نعش واپس کردیں،رسول کریمؐ نے فرمایا ہم مُردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔ تم اپنی نعش واپس لے جائو۔(بیہقی)31
دوسری روایت میں ہے کہ نوفل خندق عبورکرنا چاہ رہاتھا کہ اس میں گر پڑا مسلمان اس پر پتھر برسانے لگے تو مشرکین نے کہا کہ مسلمانو! اس اذیت ناک طریقے سے مارنے سے بہتر ہے کہ اسے قتل کردو۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خندق میں اتر کر اسے قتل کردیا۔ اب اس کی نعش مسلمانوں کے قبضہ میں تھی۔ مشرکین نے اسے باعزت دفن کرنے کے لئے نعش کی واپسی کا مطالبہ کیااور بارہ ہزاردرہم تک پیشکش کی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا نہ تو ہمیں اس کے جسم کی ضرورت ہے نہ قیمت کی۔ ان کا مردہ انہیں واپس لوٹادو تاکہ وہ اسے حسب منشا دفن کرسکیں۔ مردے کو فروخت کرنا کوئی قابل عزت بات نہیں پھر آپؐ نے کوئی رقم لئے بغیر وہ نعش دشمنوں کو واپس لوٹادی۔ (ابن ہشام واحمدوبیہقی)32
فتح خیبر کے بعد یہود سے مسلمانوں کی مصالحت ہوگئی اور وہاں کی زمین نصف پیداوار کی شرط پر ان کو بٹائی پر دی گئی۔ ایک مسلمان عبداللہؓ بن سہل اپنے ساتھی محیّصہؓ کے ساتھ خیبر گئے۔ عبداللہؓ یہودی علاقہ میں قتل کردیئے گئے۔ رسول کریمؐ کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا۔آپؐ نے مقتول کے مسلمان مدعیان سے فرمایا کہ تمہیں اپنے دعویٰ کا ثبوت بصورت شہادت دینا ہوگا یا پھرقاتل کے خلاف قسم تاکہ اس کا قصاص لیاجائے۔ جب مدعیان نے کوئی عینی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے معذوری ظاہر کی تو نبی کریمؐ نے فرمایا کہ پھر یہود پچاس قسمیں دے کر بری ٔالذمّہ ہوسکتے ہیں ۔ مسلمانوں نے عرض کیا کہ کافروں کی قسم کا ہم کیسے اعتبارکرلیں؟ چنانچہ نبی کریمؐ نے ثبوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کی طرف سے اس مسلمان کی دیت ادا کردی۔ اور یہود پر کوئی گرفت نہ فرمائی۔(بخاری)33
رسول کریم ؐ نے ہمیشہ غیر مذاہب کے لوگوں سے خوشگوار تعلقات رکھے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ میں ایک یہودی لڑکے کو اپنی گھریلوخدمت کے لئے ملازم رکھا ہواتھا۔ جب وہ بیمار ہوا تواس کی عیادت کو خود تشریف لے گئے۔(احمد)34
آپؐ بلا امتیاز رنگ و نسل ومذہب وملت دعوت قبول فرماتے تھے ۔ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس میں اس نے جوَ اور چربی پیش کئے۔(ابن سعد)35
یہود مدینہ سے آخروقت تک نبی کریمؐ کا لین دین اور معاملہ رہا۔ بوقت وفات بھی آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں تیس صاع غلّے کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔(بخاری)36
عیسائی قوم سے حسن سلوک
قرآن شریف میں عیسائیوں کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ ’’تم غیرقوموںمیں سے عیسائیوں کو نسبتاً اپنے زیادہ قریب اور محبت کرنے والا پائوگے۔‘‘(سورۃ المائدۃ:83 )
نجران کے عیسائیوں کاوفد رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ بحث ومباحثہ کے دوران ان کی عبادت کا وقت آگیا۔نبی کریمؐ نے انہیں مسجد نبوی میں ہی ان کے مذہب کے مطابق مشرق کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت فرمائی۔(ابن سعد)37
اہل نجران سے جو معاہدہ ہوا اس میں انہیں مذہبی آزادی کے مکمل حقوق عطاکئے گئے۔
معاہدہ یہ ہوا کہ وہ دو ہزار چادریں سالانہ مسلمانوں کو بطور جزیہ دیں گے نیز یمن میں خطرے کی صور ت میں تیس گھوڑے ،تیس اونٹ، تیس ہتھیار ہر قسم کے یعنی تلوار،تیر،نیزے عاریتاً مسلمانوں کو دیں گے۔ جو مسلمان بعد استعمال واپس کردیں گے۔مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ان کے تمام مالکانہ حقوق مسلّم ہونگے۔ان کا کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا، نہ ہی کسی اسقف یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گااور نہ ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہوگی، نہ ہی اُن کی حکومت اور ملکیت میں۔ نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا جب تک وہ معاہدہ کے پابند رہیں گے۔ان شرائط کی پابندی کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوگی۔‘‘(ابودائود)38
علامہ بیہقی نے اس معاہدہ کے حوالہ سے بعض اور شقوں کی صراحت کی ہے۔مثلاً یہ کہ اہل نجران کے تمام پادریوں کا ہنوں ،راہبوں ،عبادت گاہوں اور ان کے اندر رہنے والوں اور ان کے مذہب و ملت پر قائم تمام لوگوں کو محمد رسول اللہؐ کی طرف سے اللہ اوررسول کی مکمل امان حاصل ہوگی۔کسی پادری کواس کے عہدہ سے یا کسی راہب کو اس کی عبادت سے ہٹایا نہ جائے گا۔ ان حقوق کے عوض اہل نجران معمولی سالانہ ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔(بیہقی)39
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نجران کے عیسائیوں سے مصالحت جزیہ پر نہیں بلکہ عام حکومتی ٹیکس پر تھی جس میں انہیں مکمل مذہبی آزادی عطاکی گئی۔یہی وجہ ہے کہ معاہدہ نجران کے متن میں کہیں بھی ’’جزیہ‘‘ کا لفظ موجود نہیں ہے۔
چنانچہ فقہاء نے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ نجران پر جو عائد کیا گیا وہ عام ٹیکس تھا یا جزیہ؟ امام ابو یوسف(۱۸۲ھ) نے اہل نجران کے ٹیکس کے لئے ’’فدیہ‘‘کا نام تجویز کیا ہے، اور لکھا ہے کہ بے شک جزیہ تمام اہل ذمہ اہل حیرہ اور دیگر علاقوں کے یہود و نصاریٰ پر واجب ہے سوائے بنو تغلب اور اہل نجران کے جو خاص طور پر اس سے مستثنیٰ ہیں۔(ابویوسف)40
جزیہ کے متعلق یہ امر تو وضاحت کا محتاج نہیں کہ اس کی بناء ہی اسلام قبول نہ کرنا اور اپنے مذہب پر قائم رہنا ہے۔ گویا اپنی ذات میں جزیہ اسلام کی مذہبی آزادی کی شاندار علامت ہے۔
ابتدائی اسلامی دور میں جزیہ کو دستور کے مطابق صاحبِ استطاعت مَردوں سے 48درھم سالانہ، اوسط درجہ کے افراد سے24درہم اور غریب مزدور طبقہ سے12درھم سالانہ وصول کیا جاتا تھا۔(ابویوسف41)جبکہ اہل نجران کی کئی لاکھ کی آبادی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہزار پوشاکیں سالانہ اور دو ہزار اوقیہ ٹیکس مقررفرمایا تھا جو جزیہ کے مقابل پر بہت معمولی مالیت ہے۔ کیونکہ نجران کی آبادی میں اندازً ایک لاکھ جنگجو پراوسط درجے کے جزیہ کا ہی فی کس حساب لگایاجائے تو یہ کم درجے کا اندازہ بھی 24لاکھ درہم بن جاتا ہے۔ پھر جزیہ کے ساتھ کوئی اور ذمے داریاں بھی اہل نجران پر عائد کی جاتیں۔ مگر اہل نجران کے ساتھ صلح میں یمن کو جنگوں میں حسب ضرورت اسلحہ کی عاریۃً امداد اور اسلامی دستوں کی مہمان نوازی کی شرائط صاف بتارہی ہیں کہ اہل نجران سے مخصوص شرائط اور معمولی سالانہ ٹیکس پر مصالحت طے پائی تھی۔ اور امام ابویوسف کا یہ موقف بجاطور پردرست ہے کہ اہل نجران سے جزیہ وصول نہیں کیا گیا بلکہ عام ٹیکس یا فدیہ مقررکیا گیا۔
یوں بھی نجران کا پہلا وفد جب ۲ھ میں مدینہ آیا اس وقت ابھی جزیہ کے احکام نہیں اترے تھے اس لئے جو نمائندہ وفدمعاہدہ کی مجوزہ شرائط نجران کے حکومتی ارکان سے مشورہ کی خاطر ساتھ لے کر گیا اس میں جزیہ کا ذکر نہیں ہوسکتا تھا۔
عرب میں نجران کے عیسائیوں کے علاوہ دوسرا بڑا عیسائی کٹر قبیلہ تغلب تھا۔ جن پر ٹیکس کی ادائیگی پر صلح ہوئی۔ رسول کریم ؐ نے تغلب کا وفد مدینہ آنے پر ان سے جو معاہدہ صلح کیا اس میں مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت موجود ہے اور یہ ذکر ہے کہ انہیں اپنے دین پر قائم رہنے کا اختیار ہے مگر یہ آزادی ان کی اولادوں کے لئے بھی ہے کہ وہ ان کو جبراً عیسائی نہیں بنائیں گے۔ (ابودائود)42
نبی کریمؐ نے یمن کے عیسائی قبیلہ حارث بن کعب کی طرف عمرو بن حزم کو دعوت اسلام کے لئے بھجوایا اور ان کے نام مکتوب میںتحریری امان لکھ کر بھجوائی جس میں اسلامی احکام کی وضاحت کے بعد تحریر فرمایا کہ یہود و نصاریٰ میں سے جو مسلمان ہوگا اسے مسلمانوں جیسے حقوق و فرائض ہونگے اور جو عیسائیت یا یہودیت پر قائم رہے گا تو اسے اس کے مذاہب سے لوٹایا نہیں جائے گا۔( یعنی مکمل مذہبی آزادی ہوگی) ہاں ان کے ذمہ جزیہ ہوگا اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہوں گے۔(ابن ہشام)43
اہل ایلہ کے عیسائیوں کو امان نامہ عطاکرتے ہوئے رسول کریمؐ نے تحریر فرمایا :۔
’’ــتم کو مکمل امان ہو جنگ کی بجائے تمہیں یہ تحریر دے رہا ہوں کہ مسلمان ہوجائو یا جزیہ ادا کرو اور جو معاہدہ صلح تم میرے نمائندوں سے کروگے مجھے منظور ہے۔ اس صورت میں تم اللہ اور رسول کی پناہ میں ہوگے۔(ابن سعد)44
شاہان حمیر کو رسول کریمؐ نے تحریری امان نامہ عطاکرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:۔
’’جو شخص یہود یا عیسائیوں میں سے اسلامی احکام کی پابندی کرے گا اسے مسلمانوں کے حقوق حاصل ہوں گے اور بطو رمسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوںگی اور جو شخص اپنی یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہے گا اسے اس کے مذہب سے ہٹایا نہیں جائے گاالبتہ ان کے ہربالغ پر جزیہ واجب ہوگا۔ ایسے لوگ اللہ اور رسول کی امان میں ہوں گے۔(ابن ہشام)45
اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔چنانچہ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تویہاں رواج تھا کہ انصار کی جن عورتوں کے بچے کم سنی میں فوت ہوجاتے وہ منّت مانتیں کہ اگلا بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی مذہب پرقائم کریں گی۔ جب یہودی قبیلہ بنونضیرکو اس کی عہد شکنی کی وجہ سے مدینہ بدرکیاگیاتو انصار کے ایسے کئی بچے یہودی مذہب پر تھے۔ انصار میں سے مسلمان ہونے والوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کویہود کے دین پر نہیں چھوڑیں گے۔ دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے کہا کہ یہ منّتیں اس وقت مانی گئی تھیں جب ہم سمجھتے تھے کہ یہود کا دین ہمارے دین سے بہترہے۔ اب اسلام کے آنے کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو زبردستی اسلام پر قائم کرنا ہوگا۔ اس پر یہ آیت اُتری۔ لَااِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔(ابودائود)46
منافقین مدینہ سے حسن سلوک
ہجرت مدینہ کے بعد جن مخالف گروہوں سے رسول اللہؐ کا واسطہ پڑا ،ان میں منافقین کا گروہ بھی تھا۔ ان کی ریشہ دوانیوں کے سدّباب کیلئے حسب حکم الہٰی رسول اللہؐ اقدام فرماتے تھے، مگر بالعموم ان سے نرمی اور احسان کا سلوک ہی رہا۔
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقوں کاسردارتھا۔ہجرت مدینہ کے بعد وہ مسلسل نبی کریمؐ کے خلاف سازشیں کرتا رہا اورکبھی اہانت و گستاخی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا،حتّٰی کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہؓ پر جھوٹا الزام لگانے کی جسارت کی۔رسول کریمؐ نے اس دشمن کے ساتھ بھی ہمیشہ عفو ورحم کا معاملہ فرمایا،اس کی وفات پر رسول کریمؐ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ نے اس کی زیادتیاں یادکرواکر روکنا چاہا۔رسول کریمؐ نہ مانے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ قرآن شریف میں ان منافقوں کے بارہ میں ذکر ہے کہ آپؐ ستر مرتبہ بھی استغفار کریں تو وہ بخشے نہ جائیں گے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا عمرؓ پیچھے ہٹو مجھے اس میں اختیار ہے اورمیں ستر مرتبہ سے زائد اس کی بخشش کی دعاکرلوں گا۔(بخاری)47
چنانچہ آپؐ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ ادا کی اگرچہ بعد میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانے کی ممانعت قرآن میں نازل ہوئی۔ لیکن اس شفقت اور احسان کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ میں نفاق کا خاتمہ ہوگیا۔الغرض رسول کریمؐ ہی آزادیٔ ضمیرومذہب کے عظیم علمبردارتھے۔
اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
’’قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں …محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اورتوحید پرست مذاہب کے سات خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے۔آپؐ کفار کے مقابلہ میں صبراختیار کرتے تھے …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ کسی یہودی کو اس کے مذہب کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے۔ آپؐ کے خلفاء بھی اپنے سپہ سالاروںکو یہ تلقین کرتے تھے کہ دوران جنگ میں ان کی افواج انہی ہدایات پر کاربندہوں۔ ان فتح مند سپہ سالاروں نے مفتوح اقوام کے ساتھ معاہدات کرنے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی پیروی کی۔ انہی معاہدات کی وجہ سے مفتوحین کو اپنے اپنے مذہب پرچلنے کی آزادی ملی۔ صرف شرط یہ تھی کہ جو لوگ اسلام قبول نہ کریں ایک معمولی سا ٹیکس یعنی جزیہ اداکریں یہ ٹیکس ان ٹیکسوں سے بہت ہلکا تھا جو خود مسلمانوں پر حکومت اسلامی کی طرف سے عائد ہوتے تھے۔جزیے کے بدلے میں رعایا یعنی ذمّی لوگ ایسے ہی مامون و مصٔون ہوجاتے تھے جیسا کہ خود مسلمان۔
پھر پیغمبراسلام اور خلفاء کے طریق کو قانون کا درجہ حاصل ہوگیا اور ہم حتماً بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے مذہبی رواداری کی تلقین پر ہی اکتفا نہیںکی بلکہ رواداری کو مذہبی قانون کا لازمی حصہ بنادیا۔مفتوحین کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں نے ان کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیا اور نہ تبدیلی مذہب کے لئے کوئی سختی کی۔‘‘(وگلیری)48
ایڈیٹرست اُپدیشن لکھتے ہیں:۔
’’لوگ کہتے یں کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا مگرہم اُن کی اس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ زبردستی سے جو چیز پھیلائی جاتی ہے وہ جلدی ظالم سے واپس لے لی جاتی ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت ظلم کے ذریعہ ہوئی ہوتی تو آج اسلام کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔ لیکن نہیں۔ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی پر ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ بانی اسلام(ﷺ) کے اندرونی روحانی شکتی تھی۔ منش ماتر(بنی نوع انسان) کے لئے پریم تھا۔ اُس کے اندرمحبت اور رحم کاپاک جذبہ کام کررہا تھا۔ نیک خیالات اُس کی رہنمائی کرتے تھے۔‘‘(اُپدیشن)49
حوالہ جات
1
استثناء باب7آیت1تا6
2
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف
3
استثنائ:23/19
4
بخاری کتاب الادب باب صلۃ الو الدالمشرک
5
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم لدخان
6
المبسوط للسرخسی جلد10ص92
7
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص175بیروت
8
مسند احمد بن حنبل جلد4ص24بیروت
9
ابوداؤد کتاب السنّہ باب فی ذراری المشرکین
10
بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب ھجرۃ النبیؐ
11
مؤطا امام مالک کتاب النکاح باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ‘
12
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص92دار ااحیاء التراث العربی بیروت
13
السیرہ الحلبیہ جلد3ص109بیروت
14
احکام القرآن للجصاص جلد3ص109
15
ابوداؤد کتاب الصلوۃ ابواب قرأ ۃ القرآن باب تحزیب القرآن
16
دلائل النبوۃ للبیھقی 57
17
ترمذی کتاب الاطعمہ
18
بخاری کتاب اللباس باب الحریرللنساء
19
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بدر
20
السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد2ص147تا150
21
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167مطبوعہ بیروت
22
بخاری کتاب الادب باب الرفق فی الامرکلہ
23
مسنداحمدجلد2ص221 مطبوعہ مصر
24
بخاری کتاب الاستیذان باب کیف الرد علی اھل الذمۃ السلام
25
بخاری کتاب التفسیر سورۃ آل عمران ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم
26
ابوداؤد کتاب الجہاد
27
بخاری کتاب الجہاد باب اذا غدر المشرکون بالمسلمین
28
بخاری کتاب الجنائزباب من قام لجنازۃ یھودی
29
مستدرک حاکم جلد 1ص371
30
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ بدر
31
دلائل النبوہ للبیہقی جلد3ص437,438
32
ابن ہشام جلد3ص273،طبری جلد2ص574
مسند احمد جلد1ص248وجلد 1ص256،بیہقی جلد9ص133
33
بخاری کتاب الجہاد باب الموادعہ والمصالحۃ مع المشرکین
34
مسند احمد بن حنبل جلد3ص175
35
طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص407-370
36
بخاری کتاب المغازی
37
ابن سعد جلد1ص357دارالفکربیروت
38
ابوداؤد کتاب الخراج باب اخذ الجزیہ والطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص266
39
دلائل النبوۃ للبیھقی جلدص388
40
کتاب الخراج ص72...ازامام ابویوسف
41
کتاب الخراج ص132ازامام ابویوسف
42
ابوداؤد کتاب الخراج باب فی اخذ الجزیہ ابن سعد جلد1ص316
43
ابن ہشام جلد1ص269 مطبوعہ مصر
44
ابن سعد جلد1ص277 دارالفکربیروت
45
ابن ہشام جلد4ص258 مطبوعہ مصر
46
ابوداؤد کتاب الجہاد باب الاسیر یکرہ علی الاسلام
47
بخاری کتاب الجنائزباب مایکرہ من الصلوۃ علی المنافقین
48
اسلام پر نظرص14 ترجمہ An Interpretation of Islam مترجم شیخ محمداحمدمظہر
49
ازقلم ایڈیٹر’’ست اُپدیشن‘‘لاہورمورخہ7؍جولائی1915ء

رسول کریم ؐکاعدیم المثال عفوو کرم
بانی ٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صفات الہٰیہ کواخلاق فاضلہ کی بنیاد قرار دیتے اور حسبِ استطاعت یہ صفات اختیار کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت’’عَفْوّ‘‘ ہے یعنی وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔ انسان کے لئے بھی یہ خُلق اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں رنگین ہوکروہ ایک کامل انسان بن سکے۔
اسلام سے پہلے توریت میں قصاص اور برابر کے بدلہ کی تعلیم بھی عدل وانصاف پر مبنی تھی۔ اسلام نے عدل ایک قدم آگے بڑھ کر احسان کی تعلیم دیتے ہوئے ’’عَفْو‘‘ کی طرف توجہ دلائی، مگر ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ ’’عَفْو‘‘ کا خلق اس وقت قابل تعریف ہے،جب برمحل ہو۔ اگر کمزوری اور بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے معاف کیا جائے تو یہ عفو قابل تعریف نہیں۔ عفو وہ قابل تعریف ہے،جس کے نتیجہ میں اصلاح ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:41)
چنانچہ اللہ نے جو ’’حدود‘‘ یعنی بعض گناہوں کی سزائیں مقرر فرمادی ہیں ان میں انسان کو عفو کا حق نہیں دیااسی لئے رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ لوگوں کو ان کی لغزشیں معاف کردیا کرو سوائے حدود کے (جیسے قتل، زنا،چوری کی سزا)۔(ابودائود)1
رسول کریمؐ کو بطور خاص عفو کا خُلق و دیعت کیا گیاتھا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ’’اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو اُن کیلئے نرم ہوگیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے۔ پس ان سے عفو اور درگذر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر‘‘۔(سورۃ آل عمران:160)
دوسری جگہ رسول کریمؐ کو عفو سے اگلے مقام ’’صفح‘‘ کی تعلیم دی ہے۔ جس کے معنے ایسی معافی کے ہیں کہ دل میں بھی کوئی خلش یا تلخ یادباقی نہ رہے اور صدق دل سے مکمل بخش دیاجائے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ ان کو معاف کراوردرگذرکر۔اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ :14)پھر فرمایا کہ درگذر کرو خوبصورت درگذر۔(سورۃ الحجر:87)
چنانچہ رسول کریمؐ نے غصّہ دبانے اورمعاف کرنے کے لئے بہت اعلیٰ تعلیم پیش فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا خداتعالیٰ کی رضاء کی خاطر غصّے کا ایک گھونٹ پی لینے کا جتنا اجر ہے وہ دوسرے کسی بھی گھونٹ کا نہیں۔(احمد)2
ایک دفعہ رسول کریمؐ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے وہ آپس میں کشتی کا مقابلہ کررہے تھے۔حضورؐ نے پوچھا کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص ایسا پہلوان ہے کہ جسے کوئی بھی کشتی میں پچھاڑ نہ سکے وہ اسے گرادیتا ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بڑے پہلوان کے بارہ میں نہ بتائوں؟ وہ شخص بڑا بہادر ہے کہ جو دوسرے آدمی کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپناغصہ دبالیتا ہے اور اپنے اوپر اور اپنے شیطان پر بھی غالب آتا ہے اوراپنے مدمقابل کے شیطان پر بھی غالب آتا ہے۔(ابن حجر)3
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہؐ مجھے کوئی خاص نصیحت فرمائیں۔ حضورؐ نے فرمایا کبھی غصے میں مت آنا اور یہ جملہ آپؐنے کئی مرتبہ دُہرایا کہ غصّے میںمت آئو۔غصّہ میں مت آئو۔(بخاری)4
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عفوکرنے کے بے نظیر نمونے نہ صرف دوستوں بلکہ دشمنوں کے حق میں بھی ظاہر ہوئے اور دنیاپر ثابت ہوا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’عَفُوّ‘‘ کے بہترین مظہرتھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے رسول اللہؐ کی توریت میں بیان فرمودہ علامت پوچھی گئی تو انہوں نے بیان کیا’’کہ وہ نبی تند خو اور سخت دل نہ ہوگا،نہ بازاروں میں شور کرنے والا، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو اور بخشش سے کام لے گا‘‘۔(بخاری)5
دراصل یہ اشارہ توریت کی اس پیشگوئی کی طرف تھا۔جس میں لکھا ہے۔ ’’وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔ وہ نہ چلّائے گا نہ شور کرے گا نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی۔ وہ مسلے ہوئے سر کنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا‘‘۔(یسعیاہ)6
رسول کریمؐ نے ایک دفعہ یہ قصّہ سنایا کہ ایک تاجرکا لوگوں سے لین دین کا معاملہ تھا۔ وہ اپنے کارکنوں سے کہتا کہ تنگدست سے درگزر کرنا اوراسے مہلت دینا شاید اس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے بھی درگزر کرے۔ پھرواقعی اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزرکا سلوک فرمایا ۔(بخاری)7
حضرت عائشہؓ نبی کریمؐ کے عفو وکرم کے بارہ میں یہ گواہی دیتی تھیں کہ نبی کریمؐ نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔(مسلم)8
حضرت خدیجہؓ کے صاحبزادے ہند کو رسول اللہؐ کے زیر تربیت رہنے کی سعادت عطا ہوئی تھی۔ان کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ دنیا اور اس کے اغراض کی خاطر کبھی غصے نہیں ہوتے تھے۔اسی طرح اپنی ذات کی خاطر نہ کبھی آپ ؐغصے ہوئے نہ بدلہ لیا۔(ترمذی)9
ایک دفعہ ایک شخص نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم کتنی دفعہ خادم کو معاف کریں۔ حضورؐ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا۔ حضورؐ پھر خاموش رہے۔ جب تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال دوہرایا تو آپؐ نے فرمایا میں تو دن میں سترّ مرتبہ اسے معاف کرتا ہوں۔(ابودائود)10
مدینہ میں آنے کے بعدایک دفعہ نبی کریم ؐانصاری سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ راستے میں یہود، مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مجلس میں منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی ّ بھی موجود تھا۔رسول اللہؐ کی سواری کے آنے سے گرد اُٹھی تو اس نے منہ ڈھانپ لیا اور رسول اللہؐ کو برا بھلا کہنے لگا۔نبی کریمؐ جب سعد بن عبادہؓ کے گھر پہنچے اور ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مدینہ کے مخصوص حالات میں عبداللہ بن ابی ّسے درگذر کرنے کی درخواست کی۔اور رسول کریمؐ نے اسے معاف کردیا۔(بخاری)11
دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریمؐ سردار منافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس سے گزرے وہ ٹیلوں کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا، ناک بھوں چڑھاکر حقارت سے نبی کریمؐ کو ابن ابی کبشہ کے نام سے پکارکر کہنے لگا کہ اس نے اپنی ساری غبار ہم پر ڈالی ہے۔ اس کے بیٹے عبداللہ ؓ نے جوایک مخلص صحابی اور عاشق رسول تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو عزت عطافرمائی ہے۔ اگر آپؐ ارشاد فرمائیں تو میں اس کا سرقلم کرکے آئوں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا نہیں وہ تمہارا باپ ہے اس سے نیکی اور احسان کا سلوک کرو۔(ہیثمی)12
رسول کریمؐ نے اس معاند دشمن کو ایسا صدق دل سے معاف کیا کہ اس کی تمام ترگستاخیوںاور شرارتوںکے باوجود اس کی وفات پراس کا جنازہ پڑھایاحالانکہ حضرت عمر ؓنے باصرار اس کا جنازہ پڑھانے سے روکتے ہوئے رسول اللہؐ کو عبداللہ بن ابی کی سب زیادتیاں اور دشمنیاں یادکرائیں۔مگر رسول کریمؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا اے عمرؓ! پیچھے ہٹ جائو۔مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ ’’تم ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو(برابر ہے)اگر تم ستّر مرتبہ بھی استغفار کرو تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا۔‘‘پھر فرمایا اگر مجھے پتہ ہو کہ میرے ستر سے زائد مرتبہ استغفار سے یہ بخشے جائیں گے تو میں ستر سے زائد بار استغفار کروں گا۔پھر آپؐ نے اس کا جنازہ پڑھایاجنازہ کے ساتھ قبر تک تشریف لے گئے اور تدفین تک وہاں رہے۔(بخاری)13
غزوۂ ذات الرقاع میں تعاقب کرکے ارادۂ قتل کے لئے آنے والے غورث بن حارث کو بھی آپؐ نے معاف فرمادیا۔جس نے حضورؐ کے سوتے ہوئے قتل کے ارادہ سے آپ ؐ کی تلوار پر قبضہ کرلیاتھا۔مگر آپؐ کے الہٰی رعب و ہیبت سے قتل پرقادر نہ ہوسکا۔اس جانی دشمن کو بھی آپؐ نے معاف فرمادیا۔(بخاری)14
زہر دینے والی یہودیہ سے عفو
غزوہ خیبر کے بعد مشہور یہودی جرنیل مرحب کی بہن نے بکری کے گوشت میں زہر ملا کر اس کا بھُنا ہوا گوشت آنحضرتؐ کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجا۔رسول کریمؐ دستی کا گوشت کھانے لگے اور دیگر صحابہ نے بھی کھایا۔اچانک رسول اللہؐ نے فرمایا کہ کھانے سے ہاتھ روک لو۔پھر حضورؐ نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا کیا تم نے اس کھانے میں زہر ڈالا تھا؟اس نے کہا ہاں مگر آپؐ کو کیسے پتہ چلا؟حضورؐ نے اپنے ہاتھ میں دستی کے گوشت کی طرف اشارہ کر کے کہاکہ اس نے بتایا۔حضورؐ نے پوچھا کہ تمہارا مقصد کیا تھا؟کہنے لگی میں نے سوچا اگر آپ ؐنبی ہیں تو یہ زہر آپؐ کو کوئی نقصان نہیں دے گا۔اگر نہیں ہیں تو آپؐ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔آنحضورؐ نے اس عورت کو معاف کردیا اور اسے کوئی سزا نہیں دی۔رسول کریمؐ کے ایک صحابی، جنہوں نے یہ گوشت کھایا تھا، کچھ عرصہ بعدزہر کے اثر سے فوت بھی ہوگئے اور رسول اللہؐ پر اس زہر کا اثرعمربھررہا۔ آخری بیماری میں بھی آپؐ اپنے گلے میں اس کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتے تھے۔ (ابودائود)15
فتح مکہ کے موقع پربھی رسول کریمؐ نے عفو کے شاندار اور بے نظیر نمونے قائم فرمائے اور اس روز آپؐ محض مکہ کی بستی اور مکان ہی فتح نہیں کئے تھے بلکہ دراصل مکینوں کے دل بھی جیت لئے۔
مرتد کی معافی
عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو رسول کریمؐ کا کاتب وحی تھا۔اس نے کلام الہٰی میں تحریف اور خیانت کے جرم کا ارتکاب کیا۔جب اس کی یہ چوری پکڑی گئی تو بغاوت اور ارتداد اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے حریف قریش مکہ سے جاملا۔وہاں جاکر اس جھوٹے الزام کی کھلم کھلا اشاعت کی کہ جو میں کہتا تھا اس کے مطابق وحی بنا کر لکھ لی جاتی تھی۔اسکی محاربانہ سرگرمیوں کے باعث اسے واجب القتل قرار دیا گیا۔ بعض مسلمانوں نے نذر مانی کہ وہ اس دشمن خدا و رسول کو قتل کریں گے۔مگر عبداللہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان ؓ غنی کی پناہ میں آکر معافی کا طالب ہوا۔رسول کریمؐ نے معمولی تردّد کے بعد حضرت عثمان ؓ کی بار بار درخواست پر کہ میں اسے امان دے چکا ہوں۔ اسے معاف کردیا اور اس کی بیعت قبول فرمالی۔ بعد میںرسول کریمؐنے اپنے صحابہ سے( جن میں عبداللہ کے قتل کی نذر ماننے والے صحابی بھی شامل تھے) پوچھا کہ جب تک میں نے اس کی معافی اور بیعت منظور نہیں کی تھی اس دوران عبداللہ کو قتل کر کے اپنی نذر پوری نہ کرلینے کی کیا وجہ ہوئی؟کیونکہ نذر پوری کرنا اللہ کا حق ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا آپؐ کا ادب مانع تھا۔حضورؐ ہمیںادنیٰ سا اشارہ ہی فرمادیتے کہ نذر پوری کرنے میں کوئی روک نہیں۔نبی کریمؐنے کیا خوبصورت جواب ارشاد فرمایا کہ آنکھ کے مخفی اشارے کی خیانت بھی نبی کی شان سے بعید ہے۔اس طرح کلام پاک میں خیانت کے مرتکب اس مجرم کے ساتھ بھی نبی کریمؐ نے یہ سلوک روا رکھنا گوارا نہ فرمایا کہ اسے خاموشی سے قتل کروا دیا جائے۔ غالباً صحابہ کو یہی سبق دینے کیلئے آپؐ نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا۔ ورنہ اس رسولِ امین کافیصلہ تو یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت نے بھی جسے امان دی وہ ہماری امان شمار ہوگی ۔پھر حضرت عثمان ؓ جیسے جلیل القدر صحابی کی امان کے باوجود نبی کریم ؐ کی موجودگی میں کوئی کیسے جرأت کرسکتاتھا کہ حضورؐ کے کسی واضح فیصلہ سے قبل ایسا اقدام کرے۔
بیعت کی قبولیت کے بعد عبداللہ اپنے جرائم کے باعث حیاء کی وجہ سے نبی کریمؐ کے سامنے آنے سے کتراتا تھا۔اس رحیم و کریم اور عالی ظرف رسولؐ نے اسے محبت بھرا پیغام بھجوایا کہ اسلام قبول کرنا پہلے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔(حلبیہ)16
مرتدّین کی معافی
رسول کریمؐ کے دامنِ عفو سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتدّہوکرمشرکوں سے جاملا۔ پھر ندامت ہوئی تو اپنی قوم کو پیغام بھجوایا کہ رسول اللہؐ سے پوچھو کیا میری توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے؟ اس کی قوم کے لوگوں نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ فلاں شخص اب نادم ہوکر توبہ کا طالب ہے۔ اس پر یہ آیات اُتریں اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُ ھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لاَ یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ۔اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا۔فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(آل عمران:90)
ان آیات میں ارتداد کے بعد توبہ اور اصلاح کی صورت میں اللہ کی بخشش کا ذکر ہے۔ رسول کریمؐ نے اس شخص کو معافی کا پیغام بھجوایا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔(مسلم)17
چند واجبُ القتل مجرموں میں ایک شخص ہبار بن الاسود بھی تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ پر مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیااور وہ اونٹ پر سے ایک پتھریلی چٹان پر گرگئیں۔اس حادثہ کے نتیجہ میں ان کا حمل ضائع ہوگیا اور بالآخر یہی چوٹ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔اس جرم کی بناء پر حضورؐ نے اس کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر تو یہ بھاگ کر کہیں چلا گیا۔بعدمیں جب نبی کریمؐ واپس مدینہ تشریف لائے تو ہبار حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے تو میں آپؐ کے ڈر سے فرار ہوگیا تھا مگر پھر آپؐ کے عفو و رحم کا خیال مجھے آپؐ کے پاس واپس لایا ہے۔ اے خدا کے نبیؐ ! ہم جاہلیت اور شرک میں تھے۔ خدا نے ہمیں آپ ؐکے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔پس میری جہالت سے صرف نظر فرمائیں بے شک میں اپنے قصوروں اور زیادتیوں کا اقراری اورمعترف ہوں ۔عفوو کرم کے اس پیکر نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کوبھی بخش دیا اور فرمایا ’’جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف کیا۔ اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی۔‘‘پھر رحمتہ للعالمینؐہبار کوبھی محبت بھری تسلیاں دیتے ہیں کہ اسلام قبول کرناسابقہ گناہوں کا ازالہ کردیتا ہے۔(حلبیہ)18
ابو جہل کے بیٹے سے عفو
واجب القتل مجرموں میں دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا اور مشرکین مکہ کا سردار عکرمہ بھی تھا جس نے ساری عمر اسلام کی مخالفت اور عداوت میں گزاردی۔ مسلمانوں اور بانیٔ اسلام کو وطن سے بے وطن کیا، پھر مدینے میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ان پر جنگیں مسلط کیں اور ان کے خلاف لشکر کھینچ کر لے آیا ۔حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمر ہ کرنے سے روکا اور پھر اس موقع پر جو معاہدہ کیا اسے توڑنے اور پامال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ فتح مکہ کے موقع پر امن کے اعلان عام کے باوجود ہتھیار نہ ڈالے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خالد بن ولید کے دستے کی مدد سے مسلمانوں پر حملہ کر کے حرم میں خونریزی کا موجب بنا۔ اپنے ان گھناؤنے جرائم کی معافی کی کوئی صورت نہ دیکھ کر فتح مکہ کے بعد عکرمہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کی بیوی اُمّ حکیمؓ مسلمان ہوگئی تھی۔ وہ رسول کریمؐکے دربار عفو سے اپنے خاوند کی معافی اور امن کی طالب ہوئی۔ سبحان اللہ! حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس جانی دشمن کے لئے بھی امان نامہ عطا فرمایا۔ اس کی بیوی تلاش میں اس کے پیچھے گئی، اوربالآخراسے جالیا اور کہا ’’میں اس عظیم انسان کے پاس سے آئی ہوں جو بہت ہی صلہ رحمی کرنیوالا ہے۔ تم اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ میں تمہارے لئے پروانۂ امان لے کر آئی ہوں۔‘‘عکرمہ کو اپنے جرائم کے خیال سے معافی کا یقین تو نہ آتا تھا مگر اپنی بیوی پر اعتماد کرتے ہوئے واپس لوٹ آیا۔ جب رسول اللہ ؐ کے دربار میں حاضر ہوا تو رسول کریمؐ نے اسے بھی معاف کردیا۔(الحلبیہ)19
عکرمہ پر لطف وکرم
رسول کریمؐ نے عکرمہ کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کے ساتھ کمال شفقت و محبت کا سلوک کیا۔پہلے تو اپنے اس جانی دشمن کو خوش آمدید کہا اور دشمن قوم کے اس سردار کے اعزاز کیلئے کھڑے ہوگئے۔(مالک20)اپنی چادر اس کی طرف پھینک دی جو امان عطا کرنے کے علاوہ احسان کا اظہار بھی تھا۔ پھرفرطِ مسرّت سے اس کی طرف آگے بڑھے ۔عکرمہ نے عرض کیا میری بیوی کہتی ہے آپؐ نے مجھے معاف فرمادیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں یہ درست کہتی ہے۔عکرمہ کا سینہ کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھا۔ اے محمد ؐ! واقعی آپؐ تو بہت ہی صلہ رحمی کرنیوالے اور بے حد حلیم اور بہت ہی کریم ہیں ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐاللہ کے رسول ہیں۔ تب ہمارے آقا کی خوشی دیکھنے والی تھی، مشرکین کے لشکر کا سالار مسلمان ہورہا تھا، آج رسول اللہؐ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ، آپؐ کے خوابوں کی تعبیریں پوری ہورہی تھیں۔آپؐ نے ایک رؤیا میں ابو جہل کے ہاتھ میں جنتی پھل انگور کے خوشے دیکھے تھے، آج ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کے قبول اسلام سے اس کی تعبیر ظاہر ہوئی۔رسول اللہؐ خوشی سے مسکرارہے تھے۔ صحابہ ؓ نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میں خدا کی شان اور قدرت پر حیران ہوکر خوشی سے مسکراتا ہوں کہ بدر میں عکرمہ نے جس مسلمان صحابی کو قتل کیا تھا وہ شہید صحابی اور عکرمہ دونوں جنت میں ایک ہی درجے میں ہوں گے۔بعد میں جنگ یرموک میں عکرمہ کی شہادت سے یہ بات مزید کھل کر ظاہر ہوگئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عکرمہؓ کے اسلام سے خوش ہوکر فرمایا کہ اے عکرمہؓ! آج جو مانگنا ہے مجھ سے مانگ لو میں اپنی توفیق و استطاعت کے مطابق تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔یہ موقع تھا کہ سردار مکہ کا بیٹا شہنشاہ عرب سے منہ مانگا انعام لے سکتا تھا،مگر اب وہ دنیا دار عکرمہ یکسر بدل چکا تھا۔ توحید و رسالت کا صدق دل سے اقرار کر کے اور رسول اللہ ؐ کے حسنِ اخلاق سے متأثر ہوکر اس کی ہستی میں ایک انقلاب رونما ہوچکاتھا۔ اس نے عرض کیا اے خدا کے رسولؐ !میرے لئے اپنے مولیٰ سے بخشش کی دعا کیجئے کہ جو دشمنی میں نے آج تک آپؐ سے کی وہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت دعا کیلئے خدا کے حضور ہاتھ پھیلادیئے اور عرض کرنے لگے ۔’’مولیٰ اے میرے مولیٰ!عکرمہ کی سب عداوتیں اور قصور معاف فرمادے‘‘اور خود آپؐ نے بھی صدق دل سے عکرمہؓ کو ایسامعاف کیا کہ مسلمانوں کو تاکید کی کہ دیکھو عکرمہؓ کے سامنے اس کے باپ ابو جہل کو برا بھلا نہ کہنا۔ اس سے میرے ساتھی عکرمہؓ کی دلآزاری ہوگی اور اسے تکلیف پہنچے گی۔دشمن کے ساتھ حسن سلوک کے لحاظ سے نبی کریمؐ کا کتنا عظیم خلق ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔عکرمہ ؓنے عرض کیا یارسول اللہؐ! میں نے آج تک آپؐ کی مخالفت میں اپنا جتنا مال خرچ کیا ہے۔اب میں اللہ کی راہ میں بھی اتنا مال خرچ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔(ابن اثیر)21
ہند سے حسن سلوک
ان مجرموں میں ابو سفیان کی بیوی ھند بنت عتبہ بھی تھی۔اس نے اسلام کے خلاف جنگوں کے دوران کفار قریش کو اکسانے اوربھڑکانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا۔وہ رجزیہ اشعار پڑھ کر اپنے مردوں کو انگیخت کیاکرتی تھی کہ اگرتم فتح مند ہو کر لوٹو گے تو ہم تمہارا استقبال کریں گی،ورنہ ہمشیہ کیلئے جدائی اختیار کرلیں گی۔(ابن ہشام)22
جنگ اُحد میں اسی ہند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ؓ کی نعش کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا تھا۔ ان کے ناک کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑا اور ان کا کلیجہ چباکر آتش انتقام سرد کی تھی۔ فتح مکہ کے بعدجب رسول اللہؐ نے عورتوں کی بیعت لی تو یہ ھند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی کیونکہ اس کے جرائم کی وجہ سے اسے بھی واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔ بیعت کے دوران اس نے بعض شرائط بیعت کے بارہ میں استفسار کیا تو نبی کریمؐ پہچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ہند ہی کرسکتی ہے۔آپؐ نے پوچھا ’’کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’یارسول اللہؐ !اب تو میں دل سے مسلمان ہوچکی ہوں۔ جو کچھ پہلے گذرچکا آپؐ بھی اس سے درگذر فرمائیں۔اللہ تعالیٰ آپؐ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا۔‘‘
نفرت کو محبت سے بدلنے کا انقلاب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظرف دیکھو کہ اپنے محبوب چچا کا کلیجہ چبانے والی ھند کو بھی معاف فرما کر ہمیشہ کیلئے اس کا دل جیت لیا۔ ہند پر آپؐ کے عفو و کرم کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اس نے اپنا دل بھی شرک و بت پرستی سے پاک کیا اور گھر میں موجود تمام بت توڑ کر نکال باہر کئے۔اسی شام ہند نے رسول اللہ ﷺ کے لئے ضیافت کے اہتمام کی خاطر دو بکرے ذبح کروائے اور بُھون کر حضورؐ کی خدمت میں بھجوائے ۔ خادمہ کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ ہند بہت معذرت کرتی ہیں کہ آج کل جانور کم ہیں اس لئے جو حقیر سا تحفہ پیش کرنے کی توفیق پارہی ہوں یہی قبول فرمالیں۔
ہمارے محسن آقا ومولا نے جو کسی کے احسان کا بوجھ اپنے اوپر نہ رکھتے تھے ۔اسی وقت دعاکی کہ ’’اے اللہ ہند کے بکریوں کے ریوڑ میںبہت برکت ڈال دے ۔‘‘یہ دعا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ ہند کی بکریو ں میں ایسی برکت پڑی کہ سنبھالی نہ جاتی تھیں۔پھر تو ہند رسولِ خدا کی دیوانی ہوگئیں ،خود کہا کرتی تھیں کہ یا رسول اللہ ؐ ایک وقت تھا جب آپؐ کا گھر میری نظر میں دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر تھا، مگر اب یہ حال ہے کہ روئے زمین پر تمام گھرانوں سے معزز اور عزیز مجھے آپؐ کا گھر ہے۔(حلبیہ)23
وہ لوگ جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی اشاعت تلوار کے زورسے ہوئی ۔ذرا وہ بتائیں تو سہی کہ وہ کونسی تلوار تھی جس نے عکرمہ ؓ اور ہندؓ کا دل فتح کیا تھا، بلا شبہ وہ رسول اللہؐ کی بے پایاں رحمت ہی تھی۔
دشمن اسلام صفوان پر احسان
صفوان بن اُمیّہ مشرکین مکہ کے ان سرداروں میں سے تھا،جو عمر بھر مسلمانوں سے نبردآزما رہے۔ صفوان فتح مکہ کے موقع پر عکرمہؓ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اعلان امن کے باوجود خالد بن ولیدؓ کے اسلامی دستے پر حملہ آور ہوئے تھے۔ پھر بھی نبی کریم ؐ نے صفوان کے لئے بطور خاص کسی سزا کا اعلان نہیں فرمایا،مکہ فتح ہونے کے بعد یہ خود سخت نادم اور شرمندہ ہوکر یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، کیونکہ اپنے جرائم سے خوب واقف تھا اور اپنے خیال میں ان کی معافی کی کوئی صورت نہ پاتا تھا،اس کے چچا حضرت عمیر بن وہبؓ نے نبی کریمؐکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ ؐ نے تو ہر اسود و احمر کو امان دے دی ہے۔ اپنے چچا زاد کا بھی خیال کیجیئے اور اسے معاف فرمائیے۔ نبی کریمؐ نے صفوان کو بھی معاف فرمادیا۔حضرت عمیرؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنی امان کا کوئی نشان بھی عطا فرمائیں۔حضورؐنے اپنا وہ سیاہ عمامہ معافی کی علامت کے طور پر اتار کر دے دیا جو فتح مکہ کے روز آپ ؐ نے پہنا ہوا تھا۔عمیرؓ نے جاکر صفوان کو معافی کی خبردی تو اسے یقین نہ آتا تھا کہ اسے بھی معافی ہوسکتی ہے،اس نے عمیرؓ سے کہا ’’تو جھوٹا ہے۔ میری نظروں سے دور ہو جا، میرے جیسے انسان کو کیسے معافی مل سکتی ہے؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘ حضرت عمیر ؓ نے اسے سمجھایا کہ نبی کریمؐتمہارے تصور سے بھی کہیں زیادہ بہت احسان کرنے والے اور حلیم و کریم ہیں، ان کی عزت تمہاری عزت اور ان کی حکومت تمہاری حکومت ہے۔اس یقین دہانی پر صفوان نبی کریمؐکی خدمت میں حاضر ہوا اورآتے ہی پہلا سوال یہی دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے مجھے امان دی ہے؟رسول خداؐنے فرمایا ہاں میںنے تمہیں امان دی ہے۔ صفوان نے عرض کیا کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دے دیںکہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں ٹھہروں، نبی کریمؐ نے چار ماہ کی مہلت عطا فرمائی، یوں اپنے بدترین دشمن سے بھی اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک کر کے خلق عظیم کی شاندار مثال قائم فرمادی۔(مالک)24
بالآخر چند ہی دنوں میں آپؐنے صفوان کا دل اپنے جودو سخا سے جیت لیا۔محاصرہ طائف سے واپسی پر حضورؐ ایک وادی کے پاس سے گزرے۔ جہاں نبی کریمؐکے مال خمس و فیئی کے جانوروں کے ریوڑ چررہے تھے۔صفوان حیران ہوکر طمع بھری آنکھوں سے ان کو دیکھنے لگا، حضورؐ صفوان کو دیکھ رہے تھے، فرمانے لگے ’’اے صفوان !کیا یہ جانور تجھے بہت اچھے لگ رہے ہیں؟ ’’اس نے کہاہاں!‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جائو یہ سب جانور میں نے تمہیں بخش دیئے۔‘‘ صفوان بے اختیار یہ کہہ اٹھا کہ خدا کی قسم ! اتنی بڑی عطا اورایسی دریا دلی اتنی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں کرسکتا یہ کہہ کروہیں رسول اللہ ؐ کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا اوراسلام قبول کرلیا۔ (ابن ھشام)25
وحشی قاتلِ حمزہ ؓ سے درگذر
ان واجب القتل مجرموں میں وحشی بن حرب بھی تھا۔ جس نے اپنی غلامی سے آزادی کے لالچ میں غزوۂ احد میں سامنے آکر مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کر اسلامی علمبردار حضرت حمزہؓ پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا ۔فتح مکہ کے بعد وحشی طائف کی طرف بھاگ گیا۔ بعد میں مختلف علاقوں سے سفارتی وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ وحشی کو کسی نے مشورہ دیا کہ نبی کریمؐ سفارتی نمائندوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ بجائے چھپ چھپ کر زندگی گزارنے کے تم بھی کسی وفد کے ساتھ دربار نبوی ؐ میں حاضر ہوکر عفو کی بھیک مانگ لو۔چنانچہ وہ طائف کے سفارتی وفد کے ساتھ آیا۔ حضورؐ سے آپؐ کے چچا کے قتل کی معافی چاہی۔ آپؐ نے دیکھ کر فرمایا تم وحشی ہو۔؟ اس نے کہا ’’جی حضورؐ!اب میں اسلام قبول کرتاہوں۔‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’حمزہ ؓ کو تم نے قتل کیا تھا؟‘‘اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپؐ نے اس واقعہ کی تفصیل پوچھی۔اس نے بتایا کہ کس طرح تاک کر اور چھپ کر ان کو نیزا مارا اور شہید کیاتھا۔یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کی اپنے محبوب چچا کی شہادت کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی۔صحابہ ؓ نے دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ شاید اس وقت آپ ؐ کو حضرت حمزہؓ کے احسانات بھی یاد آئے ہوں گے۔ وہ ابوجہل کی ایذائوں کے مقابل پر آپ ؐ کی سپر بن کر اسلام کی کمزوری کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور آخر دم تک نبی کریمؐکے دست و بازو بنے رہے۔یہ سب کچھ دیکھ کراور قدرت وطاقت پاکرجذبات انتقام میں کسی قدر تلاطم برپا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ اہل دل ہی کرسکتے ہیں۔مگر دوسری طرف وحشی قبول اسلام کا اعلان کر کے عفو کا طالب ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے کمال شفقت اور حوصلہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ جائو اے وحشی ! میں تمہیں معاف کرتاہوں۔ کیا تم اتنا کرسکتے ہو کہ میری نظروں کے سامنے نہ آیاکرو؟تاکہ اپنے پیارے چچا کی المناک شہادت کی دکھ بھری یاد مجھے باربار ستاتی نہ رہے۔وحشی نے رسول اللہ ؐ کا یہ حیرت انگیز احسان دیکھا تو آپؐ کے حسن خلق کا معترف ہوکر صدق دل سے مسلمان ہوا اور حضرت حمزہ ؓ کے قتل کا کفارہ ادا کرنے کی سوچ میں پڑگیا۔پھر اس نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ اب میں اسلام کے کسی بڑے دشمن کوہلاک کر کے حضرت حمزہ ؓ کے قتل کا بدلہ چکائوں گا۔حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں مسیلمہ کذّاب کو قتل کر کے کیفر کردار تک پہنچانے والا یہی وحشی ؓ تھا جس کا دل محمد مصطفی ؐنے محبت سے جیت لیا تھا۔(الحلبیہ)26
حارث اور زھیر کی معافی
حارث بن ہشام اورزہیر بن امیہ بھی عکرمہ اور صفوان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امان قبول کرنیکی بجائے مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ فتح مکہ کے بعد پشیمان تھے کہ نامعلوم اب ان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔چنانچہ انہوں نے نبی کریمؐ کی چچا زاد بہن اُمّ ہانی ؓسے معافی کیلئے سفارش چاہی۔ یہ دونوں ان کے سسرالی عزیز تھے۔ حضرت ام ہانی ؓ نے انہیں امان دے کر اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ پہلے اپنے بھائی حضرت علی ؓ سے ان کی معافی کیلئے بات کی۔حضرت علی ؓ نے صاف جواب دیا کہ ایسے معاندین اسلام کوتو میں خود اپنے ہاتھ سے قتل کروںگا ۔تب ام ہانی ؓنبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ ذرا سوچئے دو ظالم دشمنان اسلام کیلئے ایک عورت کی امان کیا حیثیت رکھتی ہے ؟مگر اُمّ ہانی ؓنے نبی کریمؐ کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ میرا بھائی علیؓ کہتا ہے کہ وہ اس شخص کو جسے میں نے امان دی ہے قتل کرے گا۔آنحضرت ؐ کی وسعت حوصلہ دیکھوآپؐ نے فرمایا ۔’’اے اُمّ ہانی ؓ! جسے تم نے امان دی اسے ہم نے امان دی۔‘‘چنانچہ ان دونوں دشمنان اسلام کو بھی معاف کردیا گیا۔(ابن ہشام)27
حارثؓ بن ہشام کو جو قریش کے سرداروں میں سے تھے۔نبی کریمؐنے صرف معاف ہی نہیں فرمایا،سو اونٹوں کا تحفہ بھی عطاکیا۔بعدمیں یہ غزوہ یرموک میں شامل ہوئے اور اس میں شہید ہوئے۔یہ وہی حارثؓ ہیں جنہوں نے اپنے دو زخمی مسلمان بھائیوں عکرمہ ؓاور سہیلؓ کو پیاسا دیکھ کر خود پانی پینے کی بجائے انہیں پلانے کا اشارہ کیا اور یوں ایثار کرتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی تھی۔(ابن اثیر)28
حارثؓ بن ہشام کا اپنا بیان ہے کہ جب اُمّ ہانی ؓنے مجھے اطلاع دی کہ رسول اللہؐ نے ان کی پناہ قبول فرمالی ہے تو کوئی بھی مجھ سے تعرّض نہیں کرتا تھا۔البتہ مجھے حضرت عمر ؓ کا ڈر تھا لیکن وہ بھی ایک دفعہ میرے پاس سے گزرے میں بیٹھا ہوا تھا مگر انہوں نے بھی کوئی تعرّض نہ کیا۔اب مجھے صرف اس بات کی شرم تھی کہ میں رسو ل اللہؐ کو کیا منہ دکھائوں گا کیونکہ حضورؐ کو دیکھنے سے مجھے وہ تمام باتیں اور اپنی وہ دشمنیاں یاد آجائیں گی جو میں ہر موقعے پرآپؐ کے خلاف مشرکوں کے ساتھ مل کر کرتا رہا تھا، لیکن جب میں آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملا، اس وقت وہ مسجد میں داخل ہورہے تھے۔آپؐ کمال شفقت سے میری خاطر رک گئے۔ نہایت خندہ پیشانی اور بشاشت سے میرے ساتھ ملاقات فرمائی۔تب میں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور حق کی گواہی دے دی۔حضورؐنے اس موقع پر فرمایا کہ سب حمد اس اللہ کی ہے جس نے تمہیں ہدایت دی۔تمہارے جیسا عقلمند انسان اسلام سے کس طرح لا علم اوردور رہ سکتا تھا۔ (حلبیہ)29
دلوں کی فتح
رحمتہ للعالمینؐ اہل مکہ کیلئے امان کا اعلان کرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچتے ہیں اور بعض بدبخت یہ منصوبے بنا رہے ہیں کہ اگر آج اس عظیم فاتح کو قتل کردیا جائے تومسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی جاسکتی ہے۔طواف کے وقت ایک شخص فضالہ بن عمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپؐ کے قریب آیا ۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس کے ناپاک منصوبے کی اطلاع کردی۔آپؐ نے نام لے کر بلایا تو وہ گھبرا گیا ۔آپؐ نے پوچھا۔ ’’کس ارادہ سے آئے ہو؟‘‘ تو وہ جھوٹ بول گیا۔آپؐ مسکرائے اور اسے اپنے قریب کر کے پیار سے اُ س کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔فضالہ بعدمیں کہا کرتا کہ جب آنحضرتؐنے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میری تمام نفرت دور ہوگئی اور مجھے ایسے لگا کہ دنیا میں سب سے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔فضالہ نے اس حسن سلوک سے متاثر ہوکر اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔یہ تھی دلوں کی فتح جو ہمارے آقا و مولا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حاصل ہوئی۔(ابن ھشام)30
حضرت جعدہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص کو پکڑ کر لایاگیا اور عرض کیا گیا کہ یارسول اللہؐ! یہ آدمی آپؐ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا۔ نبی کریمؐ اسے فرمانے لگے گھبرائونہیں اورڈرو مت اگر تم نے میرے قتل کا ارادہ کیا بھی تھا تو بھی اللہ تجھے میرے قتل پر مسلّط نہ کرتا اور اس کی توفیق نہ دیتا۔(ابونعیم)31
حضرت عبیدبن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول کریمؐ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپؐکے پاس کوئی بھی معاملہ پیش ہوا جس میں اللہ کے کسی ایسے حکم کو نہ توڑا گیا ہو جس کے نتیجہ میں حدلازم آتی ہے۔(جیسے زنا ،قتل وغیرہ) تو آپؐ نے ہمیشہ عفو سے کام لیا۔(ابن سعد)32
دشمن پر احسان
محاصرۂ طائف سے واپسی پر مشہور شاعر کعب بن زہیر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دراصل ان کے والد زہیر نے اہل کتاب کی مجالس میں ایک نبی کی آمد کا ذکر سن رکھاتھا اور اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ اسے قبول کریں۔ رسول اللہؐ کی بعثت پر ان کے ایک بیٹے بُجیرؓ نے تو اسلام قبول کرلیا۔جب کہ کعب رسول اللہؐ اور مسلمان خواتین کی عزت پر حملہ کرتے ہوئے گندے اشعار کہتاتھا اور اس بناء پر رسول اللہؐ نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا۔
کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہوچکا ہے اس لئے تم آکر رسول اللہؐ سے معافی مانگ لو۔چنانچہ اس نے رسول اللہؐ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا جو’’بَانَتْ سُعَادُ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔وہ مدینہ آکر اپنے ایک جاننے والے کے پاس ٹھہرا۔ اہل مدینہ میں اسے کوئی پہچانتا نہ تھا۔اس نے فجر کی نماز نبی کریمؐ کے ساتھ مسجد نبوی میں جاکر ادا کی اور رسول اللہؐ کی خدمت میں اپنا تعارف کرائے بغیر کہنے لگا کہ یا رسول اللہؐ! کعب بن زہیر تائب ہوکر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے اگر اجازت ہو تو اسے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا جائے؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں‘‘ تو کہنے لگا’’میں ہی کعب بن زہیر ہوں‘‘ یہ سنتے ہی ایک انصاری حضورؐ کے سابقہ حکم کے مطابق اسے قتل کرنے کے لئے اُٹھے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا نہیں اب اسے چھوڑدو، یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے۔پھر اس نے اپنا قصیدہ حضورؐکی شان میں پیش کیا جس میںیہ شعر بھی پڑھا۔
اِنَّ الرَّسُوْلَ لَسَیْفٌ یُّسْتَضَائُ بِہٖ
مُھَنَّدٌ مِنْ سَیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْل‘
کہ یہ رسولؐ ایک ایسی تلوار ہے جس کی چمک سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ زبردست سونتی ہوئی ہندی تلوارہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ہے۔ رسول اللہؐ یہ قصیدہ سن کر بہت خوش ہوئے اوراپنی چادر دست مبارک سے بطور انعام اس کے اوپر ڈال دی۔ یوں یہ دشمنِ رسول بھی آپؐ کے دربار سے معافی کے ساتھ انعام بھی لے کر لوٹا۔(الحلبیہ)33
الغرض رسول اللہؐ کا دامنِ عفو اتنا وسیع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عَفُوّ کی شانِ جمال اس میں جھلکتی نظرآتی ہے اور آپؐ اس صفت کے بھی کامل مظہرثابت ہوتے ہیں۔

حوالہ جات
1
ابوداؤد کتاب الحدود باب فی الحد یشفع فیہ جلد4
2
مسنداحمدجلد3ص128
3
فتح الباری شرح بخاری جلد10ص519مطبوعہ دارالنشرالکتب الاسلامیہ شارع شیش محل۔لاہور
4
صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب
5
بخاری کتاب البیوع باب کراھیۃ الشغب فی السوق
6
یسعیاہ:42/2-4
7
بخاری کتاب البیوع باب من أنظرمعسرا:1936
8
مسلم کتاب الفضائل باب20ص79
9
شمائل ترمذی باب ماجاء فی کلام رسول اللہؐ
10
ابوداؤدکتاب الادب باب فی حق المملوک:4496
11
بخاری کتاب الاستیذان باب2
12
مجمع الزوائدلھیثمی جلد3ص318
13
بخاری کتاب الجنائز باب84
14
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع
15
ابوداؤد کتاب الدیات باب فیمن سقی رجلاسما اواطعمہ
16
السیرہ الحلبیۃ جلد3ص102-104مطبوعہ بیروت
17
مسلم فضائل الصحابۃ باب من فضائل اھل بدر وقصۃ حاطب بن ابی بلتعۃ:4550
18
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص106مطبوعہ بیروت
19
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص92داراحیاء التراث العربی بیروت
20
مؤطا امام مالک کتاب النکاح باب المشرک اذا اسلمت زوجتہ
21
اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیرجلد4ص5مطبوعہ بیروت
22
السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جلد3ص151مطبوعہ دالمعرفہ بیروت
23
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص118مطبوعہ بیروت
24
مؤطا امام مالک کتاب النکاح باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ12
25
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص60 مکتبہ المصطفی البابی الحلبی
26
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص118مطبوعہ بیروت
27
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص92مطبوعہ بیروت
28
اسدالغابۃ جلد1ص351,352داراحیاء التراث العربی بیروت
29
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص117مطبوعہ بیروت
30
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص59مکتبہ المصطفیٰ البابی الحلبی
31
دلائل النبوۃ ابی نعیم جلد1ص233
32
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص368
33
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص214,215

نبی کریمؐ کاشاندار حلم
حلم کے معنی عقل اور سمجھ کے ہیں۔مدّمقابل کی نادانی اور زیادتی دیکھ کر عجلت میں گرفت کرنے کی بجائے ڈھیل دینا ، طبیعت کا دھیما پن اور زبان کی نرمی حلم کے دائرہ میں داخل ہے،جو دراصل عفو کی ہی قسم ہے۔
حلیم اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا وہ بلا تمیز اپنی تمام مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اپنے خلاف تکلیف دہ بات سن کر اس پر صبرکرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ کچھ لوگ ایک انسان کو اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ مگر وہ ان کو بھی معاف کرتا ہے اور رزق بہم پہنچاتا ہے۔(بخاری1)رسول کریمؐ اللہ تعالیٰ کی صفتِ حلم کا بھی بہترین نمونہ تھے۔ اورآپؐ کایہ حلم اپنے محل اور موقع پرشان دکھاتا تھا اوریہی قابل تعریف خُلق ہے۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے کبھی کسی خادم یا بیوی کو نہیں مارا ،نہ کبھی کسی پر ہاتھ اٹھایا،سوائے جہاد فی سبیل اللہ میں تلوار اُٹھانے کے۔ کبھی آپؐنے کسی برا بھلا کہنے والے سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی اللہ کا حکم توڑتا تو اسے ضرور سزا دیتے تھے۔(مسلم)2
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا دھیما پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلدی شیطان کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی زیادہ عذر پر نظر کرنے والا نہیں۔(یعنی اس کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے) اور کوئی بھی چیز حلم سے زیادہ اللہ کو پیاری نہیں۔(ہیثمی)3
رسول کریمؐ فرماتے تھے ’’علم سکھائو اور آسانی پیدا کرو، تنگی پیدا نہ کرو، اور جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہوجائو۔ جب غصّہ آئے تو خاموش ہوجائو۔جب غصّہ آئے تو خاموش ہوجائو۔ ‘‘(احمد)4
دراصل رسول کریمؐ کی طبیعت اورمزاج میں ہی نرمی اور آسانی رکھی گئی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ رسول کریمؐ کو جب بھی دو معاملات میں اختیار ہوتا توآپؐ ہمیشہ آسان راستہ اختیارفرماتے تھے۔ اسامہؓ بن شریک بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کرکے بیٹھ گیا بدّو لوگ آکر آپؐ سے سوال کرنے لگے کسی نے کہا اے اللہ کے رسول ؐ! ہم علاج معالجہ کرتے ہیںکیا یہ ٹھیک ہے ؟آپؐ نے فرمایا ضرور علاج کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں پیدا کی مگر اس کی دوا بنائی ہے سوائے بڑھاپے کے کہ اس کی کوئی دوا نہیں۔ کسی اور بدّو نے پوچھا کہ فلاں فلاں بات میں کوئی حرج ہے؟نبی کریمؐ نے فرمایا اے خدا کے بندو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے حرج اُٹھادیا ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی کسی مسلمان بھائی پر ظلم کرے تو اس میں حرج ہے بلکہ ہلاکت ہے۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہؐ! لوگوں کو جو کچھ عطاکیا گیا ہے اس میں سے سب سے بہتر کیا ہے؟ آپ ؐنے فرمایا’’اچھے اخلاق‘‘ سب سے بہتر عطیہ الہٰی ہیں۔(ابن ماجہ)5
رسول اللہؐ نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا ،ایک کی آنکھیں سرخ اور رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا۔ مجھے ایک کلمے کا پتہ ہے اگر یہ شخص پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے گا اور وہ ہے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔یعنی میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے۔(بخاری)6
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ہمیں فرمایا کرتے تھے جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جایا کرے اگر غصّہ دور ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے۔(ابودائود7)اسی طرح فرمایا کہ نرم روی اور دھیما پن ہرکام میں ہونا چاہئے، سوائے آخرت کے نیک کام کے کہ وہ جلدی کرلینا چاہئے۔(حاکم)8
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک شخص بول بول کر رسول اللہؐ کا کان کھاگیا ہو اور رسول اللہ ؐنے اس سے رُخ پھیرا ہو۔ وہ شخص ہی آخرتھک ہار کر اپنا منہ پرے ہٹاتا تھا اور یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ کسی شخص نے رسول اللہؐ کا ہاتھ پکڑا ہو اور آپؐ نے ازخود اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو یہاں تک کہ وہ شخص خود آپؐ کا ہاتھ چھوڑ دے۔(ابودائود)9
حلم کا خُلق رسول اللہﷺکی خاص شان تھا۔ رسول اللہؐکے نواسے حضرت امام حسینؓ اپنے ماموں ہندبن ابی ہالہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ دنیا کی کسی بات کی وجہ سے کبھی غصہ میں نہ آتے تھے۔البتہ ناحق ظلم کی کوئی بات ہوتی تو پھر آپؓ کے غصہ کے آگے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی اور اس کی سزا آپؓ ضرور دیتے تھے لیکن اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ آیا نہ کبھی بدلہ لینا پسند کیا۔(ترمذی)10
رسول اللہؐ کی نبوت کی نشانی
حلم رسول اللہؐ کی وہ خاص علامت تھی۔ جس کے بارہ میں تورات میںپہلے سے پیشگوئی موجود تھی۔چنانچہ ایک یہودی زید بن سعنہ آپؐ کا حلم آزمانے کے بعد آپؐ پر ایمان لے آیا اور حلم کے معنے عملی رنگ میں کھل کر دنیا کے سامنے آئے۔یہ واقعہ بہت دلچسپ ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓایک یہودی عالم تھے جن کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زید بن سعنہ کو ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو زید نے کہا۔ میں نے نبوت کی تمام علامات رسول کریمؐ کے چہرے میں پہچان لی ہیں سوائے دو علامتوں کے جو ابھی تک خود آزما کر نہیں دیکھیں۔ایک یہ کہ اس نبی کا حلم ہرجاہل کی جہالت پر غالب آئے گا دوسرے جہالت کی شدت اسے حلم میں اور بڑھائے گی۔زیدآپؐ کے حلم کے امتحان کی خاطر اکثر جاکر آپؐ کی مجالس میں بیٹھتا۔ ایک روزرسول اللہؐ علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ باہر نکلے۔ ایک بدّو نے آکر بتایا کہ فلاں بستی کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اور میں نے انہیں کہا کہ مسلمان ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہیں وافر رزق دے گا۔مگر ان پرتو قحط کی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ ترک اسلام نہ کردیں۔ اگر آپؐ پسند فرمائیں تو کوئی چیز ان کی امداد کے واسطے بھجوائیں۔ اس یہودی زیدنے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا میں اتنے من غلہ بطور قرض خرید کر دیتا ہوںاورپھر اَسّی دینار کا غلہ خرید کر دے دیا۔ آپؐ نے اس شخص کو فرمایا کہ جلدی جاکر ان لوگوں کی حاجت پوری کرو۔قرض کی میعاد پوری ہونے سے دوتین دن قبل رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جنازہ کے لئے نکلے۔زیدؓ نے آپؐ کی چادر زور سے کھینچی یہاں تک کہ وہ آپؐ کے کندھے سے گر گئی۔زید نے غصے والا منہ بناکر سختی سے پوچھا کہ اے محمدؐ! تم میرا قرض ادا کرو گے یا نہیں؟ خدا کی قسم! مجھے پتہ ہے کہ تم بنی مطلّب کی اولاد بہت ٹال مٹول سے کام لیتے ہو۔اس پر عمربن خطابؓ غصہ سے کانپ اُٹھے اورزیدؓ کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھ کر کہا اے اللہ کے دشمن کیاتو میرے سامنے خدا کے رسول کی اس طرح گستاخی کرنے کی جرأت کرتا ہے۔اگر مجھے رسول اللہؐ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا۔
رسول اللہؐ نے نہایت وقار اور سکون سے یہ سب ملاحظہ فرماتے رہے اور پھر عمرؓ سے مسکراتے ہوئے یوں مخاطب ہوئے اے عمرؓ! ہم دونوں کو تم سے اس کے علاوہ کی چیز کی ضرورت تھی۔تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے قرض عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے قرض مانگنے کا سلیقہ سمجھاتے۔عمرؓ! اب آپ ہی جاکر اس کا قرض ادا کردو اور کچھ کھجور زائد بھی دے دینا۔جب عمرؓ نے میر اقرضہ بے باک کرکے زائد کھجور بطور انعام دی۔ تو میں نے ان سے پوچھایہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جو زبانی کلامی سختی میں نے تم سے کی تھی اس کے عوض یہ کھجور زائد ہے۔تب زیدؓ نے اپنا تعارف کروایا اور کہاکہ وہ زید بن سعنہ یہود کے عالم ہیں۔ عمر ؓنے رسول اللہؐ سے بدسلوکی کی وجہ پوچھی؟ زیدؓنے صاف صاف بتایا کہ دراصل میں نے رسول اللہؐ کی نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ایک حلم کا امتحان باقی تھا، سو اب وہ بھی آزمالیا ہے۔ پس اے عمرؓ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ میرا نصف مال خدا کی خاطر وقف ہے۔اور میرا مال بہت ہے جو میں امت محمدیہ پر صدقہ کرتا ہوں۔پھر عمرؓ زید کو لے کر رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زید نے کلمہ توحید و رسالت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔پھر اس کا سارا خاندان بھی مسلمان ہوگیا۔ زیدؓبن سعنہ ایمان لانے کے بعد کئی غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہوئے۔(حاکم)11
اسی طرح کا دوسراواقعہ ایک اور کچھ یہودی کاہے۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی جس کا نام جریجرہ تھا۔ اس نے رسول اللہؐ سے دینارقرض لینے تھے ان کا تقاضاکیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا کہ میرے پاس اس وقت دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا اے محمدؐ! میں بھی آپؐ کو چھوڑوں گانہیں جب تک آپؐ مجھے یہ قرض ادا نہ کردیں۔ رسول اللہؐ فرمانے لگے اچھا میں تمہارے ساتھ ہی بیٹھتا ہوں۔ پھر نبی کریمؐ اس کے ساتھ بیٹھ رہے۔آپؐ نے اسی جگہ ظہروعصر ، مغرب وعشاء اور فجر کی نماز پڑھی۔ رسول کریمؐ کے صحابہ اسے ڈرانے لگے حضورؐ کو پتہ چل گیا آپؐ نے فرمایا تم اسے کیوں ڈرارہے ہو؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہؐ ایک یہودی نے آپؐ کو روک رکھا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا میرے ربّ نے مجھے منع فرمایا ہے کہ میں کسی ایسے شخص سے جس سے ہمارا معاہدہ ہے یا کسی اور پر ظلم کروں۔ جب دن چڑھا تو اس یہودی نے کلمہ پڑھ کر گواہی دی کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمحمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ پھروہ کہنے لگا میں مال دار آدمی ہوں اورمیرا آدھا مال اللہ کی راہ میں پیش ہے۔ میں نے آپؐ کے ساتھ جو سلوک کیا توریت میں آپؐ کے متعلق بیان کردہ صفات جانچنے کے لئے کیا ہے۔جودرست ثابت ہوئی ہیں۔(حاکم)12
نبی کریمؐ سخت باتیں سن کر نہ صرف عفو سے کام لیتے بلکہ بسااوقات احسان کا سلوک فرماتے۔بہزؓبن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ان کا بھائی نبی کریمؐ کے پاس آیا۔اس کے ہمسائے کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے ماخوذ تھے۔ اس نے اپنے ہمسایوں کی سفارش کی کہ اس کی ضمانت پر ان کو چھوڑ دیا جائے۔ نبی کریمؐ نے پہلے اس کی بات پر توجہ نہیں فرمائی۔دریں اثناء وہ آپؐ پر کھلم کھلا اعتراض کرنے لگا کہ سنا ہے۔ آپؐ لوگوں کو تو زیادتی سے روکتے ہیں مگر خود اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا اگر میں ایسا کرو ں اس کی پُرسش مجھ سے ہوگی تم سے نہیں ہوگی۔پھر فرمایا کہ اس کے ہمسایوں کو رہا کردو۔(ابن الجوزی)13
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ یہودی نبی کریمؐ کے پاس حاضر ہوتے اور سلام کی بجائے کہتے السام علیکم یعنی تم پر *** اور ہلاکت کی مار ہو۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کوجواب دیا تکرار سے کہا تم پر اللہ کی *** اور غضب ہو۔نبی کریمؐ نے فرمایا اے عائشہؓ! نرمی اختیار کرو۔ سختی اور درشت گوئی سے بچو۔ حضر ت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ نے سنا نہیں ان یہود نے کن الفاظ سے آپؐ کو سلام کیا ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایااور کیا تم نے میرا جواب نہیں سناتھا۔ میں نے بھی صرف ’’علیکم‘‘ ہی کہا تھا کہ جو تم نے کہا وہی تم پرہو اور میری دعا تو ان کے بارہ میں قبول ہوگی مگر ان کی دعا میرے خلاف کبھی قبول نہ ہوگی۔(بخاری)14
پھر رسول کریمؐ نے حضرت عائشہ ؓ کو اپنے پاکیزہ نمونہ کے موافق نرمی اور حلم کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عائشہ! نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے اسے زینت عطاکردیتی ہے اور جس بات میں نرمی نہ رہے اس میں سختی بدصورتی اور عیب پیداکردیتی ہے۔نیزفرمایاکہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی پسند فرماتا ہے۔(احمد)15
مملکت مدینہ کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی رسول کریمؐ نے یہود مدینہ کی گستاخیوں کے باوجود ہمیشہ ان سے رواداری اور حلم کا سلوک کیا۔حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس کھڑا تھا کہ ایک یہودی عالم آیا اور کہنے لگا اے محمد! آپؐ پر سلام ہو۔ میں نے اسے زور سے پیچھے دھکا دیا ۔قریب تھا کہ وہ گِرجائے۔ اس نے کہا تم نے مجھے دھکا کیوں دیا؟ میں نے کہا تم اللہ کا رسول کہہ کر حضورؐ کو مخاطب نہیں کرسکتے؟ یہودی عالم کہنے لگا ہم تو اُسے اسی نام سے پکاریں گے جو اس کے گھر والوں نے اس کا رکھا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے۔ میرے گھر والوں نے میرا نام محمدؐہی رکھا ہے۔ اس کے بعد اس یہودی نے کچھ سوالات کئے۔ اس کے جانے کے بعد نبی کریمؐ نے فرمایا ابھی اس نے جو سوالات کئے تھے مجھے ان کا کوئی علم نہ تھا مگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا علم عطافرمایا۔ (ابن کثیر)16
نبی کریمؐ سے توگھریلو خادم بھی روز مرہ معاملات میں یہی حلم کا نمونہ دیکھتے تھے۔آپؐ دن میں ستّرسے بھی زائد مرتبہ خادم سے عفو کا سلوک کرتے تھے۔خادم رسولؐ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہؐ کی خدمت کی۔کبھی آپؐ نے مجھے برا بھلا نہیں کہا کبھی مارا نہیں نہ ہی ڈانٹا اور نہ کبھی منہ پر تیوری چڑھائی نہ کبھی کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے پر سرزنش فرمائی۔ بلکہ اگر اہل خانہ میں بھی کوئی مجھے ڈانٹنے لگتا تو آپؐ فرماتے جانے بھی دو جو چیز مقدر ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔(مسلم)17
رسول کریمؐ سے عرب کے نادان بدوئوں کی درشتی کے مقابل پر بھی ہمیشہ حلم ہی ظاہر ہوا۔
ایک دفعہ ایک بدو نے آپؐ کی خدمت میںدست سوال دراز کرتے ہوئے عجیب گستاخانہ طریق اختیار کیا۔آپؐ کی چادر کواس نے اتنے زور سے کھینچا کہ آپؐ کی گردن مبارک پر نشان پڑگئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا مجھے اللہ کے اس مال میں سے عطا کریں جو آپؐ کے پاس (امانت ) ہے۔آپؐ نے اس دیہاتی کے اس رویّہ پر نہ صرف صبر و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ نہایت فراخدلی سے مسکراتے ہوئے اس کی امداد کرنے کا حکم دیا۔(بخاری)18
ایک دفعہ رسول کریمؐ نے ایک بدّو سے ایک وسق خشک کھجور (قریبا سوا دو من) کے عوض اونٹ خریدا۔ گھر تشریف لاکر دیکھا تو کھجور ختم ہوچکی تھی۔ آپؐ نے کمال سادگی اور سچائی سے جاکر بدّوسے صاف صاف کہا کہ اے خدا کے بندے ! ہم نے آپؐ سے خشک کھجور کے عوض اونٹ خریدا تھا اور ہمیں خیال تھا کہ اسقدر کھجور ہمارے پاس ہوگی، مگر گھر آکر پتہ چلا ہے کہ اتنی کھجور موجود نہیں۔ وہ بدّو کہنے لگا اے دھوکے باز۔ لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے کہ رسول اللہؐ کو اس طرح کہتے ہو۔مگر رسول کریمؐ نے فرمایا اسے جانے دو۔(احمد)19
مخالفین کے غلط الزامات اور نامناسب اعتراضات پر بھی رسول کریمؐ کبھی طیش میں نہیں آئے بلکہ ہمیشہ حلم دکھایا۔غزوۂ حنین کے موقع پر آپؐنے بعض سردارانِ قریش کو اسلام سے قریب کرنے کیلئے ازراہِ تالیف قلب انعام و اکرام سے نوازا اور سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ اس پر ایک عام شخص نے اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیںلیا گیا۔(اس کا مطلب ہوگا کہ اسے تو سو اونٹ نہیں ملے) نبی کریمؐ نے فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ان پر اس سے زیادہ نکتہ چینی کر کے ایذاء دی گئی۔ مگر انہوں نے صبر کیا۔گویا میں بھی صبر سے کام لیتاہوں۔ پھرآپؐ نے اسے معاف کردیا۔(بخاری)20
رسول کریم ؐ نے اپنی قوم سے مسلسل انکار اور تکذیب دیکھ کر حلم اور صبر سے کام لیا اور بددعا میں جلدی نہیں کی۔ حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ نے نبی کریمؐ سے مطالبہ کیا کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں یا مکہ سے پہاڑ ہٹاکر اسے میدانی علاقہ میں تبدیل کردیں تاکہ وہ بآسانی کھیتی باڑی کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریمؐ سے پوچھا گیا کہ اگر آپؐ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان منکرین کو مہلت دے اور اگر چاہیں تو ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے۔ مگر پھر نشان دیکھ کر بھی جو انکار کرے گا تو میں اسے ہلاک کر کے چھوڑوں گا۔نبی کریمؐ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرنا ۔میں چاہتا ہوں کہ ان کو مہلت ملے۔(احمد)21
دوس قبیلہ کے سردار طفیل بن عمروؓ نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان کا انکار دیکھ کر رسول اللہؐ سے ان کے خلاف بددعا کروانا چاہی تو رسول کریمؐ نے ہاتھ اُٹھائے اور اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا اے اللہ! دوس قبیلہ کو ہدایت دے اور انہیں میرے پاس لے کر آ۔(احمد)22
الغرض حلم کاخُلق رسول اللہؐ کی صداقت نبوت کا حیرت انگیز نشان تھا۔
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الادب باب الصبر فی الاذی
2
مسلم کتاب فضائل باب20
3
مجمع الزوائد لھیثمی جلد8ص19مطبوعہ بیروت
4
مسند احمد جلد1ص239، 283
5
ابن ماجہ کتاب الطب باب ماانزل اللہ داء الانزل لہ شفاء
6
بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب دارالکتب العلمیۃ بیروت
7
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقال عندالغضب :4151
8
مستدرک حاکم جلد4ص306
9
ابوداؤدکتاب الادب باب فی الحیاء
10
شمائل ترمذی باب کیف کان کلام رسول اللہؐ
11
مستدرک حاکم کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر اسلام زید بن سعنہ جلد3ص605
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص88
12
مستدرک حاکم جلد2ص622
13
الوفاء باحوال المصطفیٰ ص428بیروت
14
بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی ؐ فاحشا
15
مسنداحمد بن حنبل جلد3ص241،بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین
16
تفسیرابن کثیر جلد2ص544
17
مسلم کتاب الفضائل باب 13و دلائل النبوۃ بیھقی جلد1ص412بیروت
18
بخاری کتاب النفقات و کتاب اللباس باب البرد
19
مسند احمد جلد6ص268بیروت
20
بخاری کتاب اللباس باب 7,18
21
مسند احمد جلد1ص258
22
مسند احمد جلد2ص243بیروت

نبی کریم ؐکی شانِ توکل علی اللہ
توکل کے لفظی معنی سپرد کرنے کے ہیں۔ اللہ پر توکل کرنے سے مراد اپنے آپ کو خدا کے بنائے ہوئے اسباب وقوانین کے سپرد کرنا ہے، اس اعتدال کے ساتھ کہ نہ تو محض ان اسباب پر کلّی بھروسہ کیا جائے، نہ ہی ترک اسباب ہو۔بلکہ خدا نے جو طاقت اور صلاحیت عطا کی ہے،اسے بروئے کار لانے کے بعد انسانی کوشش میں جو کمی رہ جائے، اسے خدا کے سپرد کیا جائے کہ وہ خوداسے پورا کرے گا۔
توکل کے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک تو علمی اور ذہنی توکل ہے کہ ظاہری اسباب موجود نہ ہوں تو بھی خدا کی ذات پر بھروسہ ہو اور اسباب میسّر آجائیں تو بھی کسی گھمنڈ کی بجائے یہ خیال رہے کہ اس میں بھی کوئی رخنہ باقی ہے،جسے خدا پورا کرے گا۔یہ ہے خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ اور عملی توکل یہ ہے کسی کام کے لئے سارے اسباب مہیا ہوجانے اور ساری تدبیروں اور کوششوں کے باوجود بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی ذات پر ہو۔ یہ اصل توکل ہے جو کمزوری کے وقت نہیں طاقت کے وقت کیاجائے۔یہی توکل ہے جس کا عرفان ہمیں نبی کریمؐ کی پاکیزہ سیرت سے عطا ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کو اپنی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ جب مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے تو وہ اس پر راضی ہوجانے کو توکل سمجھتے ہیں توکل کا یہ مفہوم درست نہیں۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ فرمایا جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا وہ جاتے ہوئے کہنے لگا حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل میرا اللہ میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایااس شخص کو واپس میرے پاس لے کرآئو۔ پھرآپؐ نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے یہی دعائیہ جملہ پھر دوہرایا آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سستی غفلت اور کم ہمتی ہر گزپسند نہیں بلکہ وہ اس پر ملامت فرماتا ہے۔ اس لئے انسان کو ہوشمندی اور مستعدی سے پہلے مکمل تدبیر کرنی چاہئے۔ پھر اگر کہیں مشکل پیش آجائے تو بے شک یہ کہو’’حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘ کہ میر االلہ میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔(احمد)1
بغیراسباب ،تدبیر اور کوشش کے کسی کام کو شروع کرنابھی توکل نہیں کہلاسکتا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ؓ بن عباس نے بعض اہل یمن کے بارے میں بیان کیا کہ وہ حج پر آتے تھے اور زادِ راہ ساتھ نہیں رکھتے تھے۔ مگردعویٰ یہ کرتے تھے ہم متوکل لوگ ہیں۔ پھر مکہ میں آکرلوگوں سے مانگتے پھرتے تھے۔ اس سلسلہ میں یہ آیت قرآنی اتری۔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِالتَّقْویٰ کہ زادراہ ساتھ رکھا کرو۔ اور یادرکھوسب سے بہترین زادراہ تقویٰ ہے۔(بخاری)2
نبی کریمؐ نے توکل کے یہی معنی اپنی اُمّت کو سمجھائے۔ایک دفعہ ایک بدّوآیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اونٹ کوچھوڑدوںاور خدا پر توکل کروں۔رسول کریمؐ نے فرمایاپہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔(ترمذی)3
دراصل توکل کا اعلیٰ خلق رسول کریمؐ کی وہ اعلیٰ شان ہے۔ جس کے بارہ میں گزشتہ الہٰی نوشتوں میں بھی خبر دی گئی تھی کہ وہ رسول خدا پر توکل کرنے والا ہوگا۔ چنانچہ عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے تھے کہ نبی کریمؐ کے بارہ میں توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ ’’تو میرا بندہ اور رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے‘‘(بخاری)4
دراصل یہ اس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو یسعیاہ میں لکھا ہے’’دیکھو میرا خادم جسے میں سنبھالتا ہوں، میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے میں نے اپنی روح اس پر ڈالی‘‘ (1/42) پھر لکھاہے ’’وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک عدالت کو زمین پر قائم نہ کرے۔‘‘ (4/42) پھرلکھا ہے’’میں نے تجھے صداقت سے بلایا،میں ہی تیرا ہاتھ پکڑونگا اور تیری حفاظت کرونگا‘‘(6/42)
چنانچہ رسول کریمؐ کا مکمل بھروسہ اور کامل توکل خدا کی ذات پر ہوتا تھا اور ہر لحظہ و ہر آن اسی توکل کا واسطہ دے کر اس سے دعا کرتے تھے ، آپؐ کی نماز تہجد کا آغاز اس دعا سے ہوتا تھا کہ میں نے تجھ پر توکل کیا۔ گھر سے نکلتے تو یہ دعا کرتے بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، لَاحَوْلَ وَلَاقُوّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ۔ اللہ کے نام کے ساتھ۔ میں نے اللہ پرتوکل کیا۔ اللہ کے سوا کسی کو کوئی قوت اور طاقت حاصل نہیں۔ نیز فرماتے تھے کہ یہ دعا کرکے جب انسان گھرسے نکلتا ہے تو اسے جواب میں کہا جاتا ہے تمہیں ہدایت دی گئی، تمہارے لئے یہ دعا کافی ہوگی اور تم بچائے جائو گے۔ چنانچہ شیطان اس سے دورہٹ جاتا ہے اور دوسرا شیطان اسے کہتا ہے اس شخص پر تمہارا کیا اختیار ہوسکتا ہے جسے ہدایت وکفایت مل گئی اور جو بچایا گیا۔(احمد)5
رات کو سونے لگتے تو کامل توکل کی یہ دعا کرتے اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تعلیم فرماتے۔حضرت حذیفہ ؓ بن الیمّان بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ سوتے یا بستر پر جاتے تو یہ دُعا کرتے:۔ اَللّٰھُمَّ بِاس￿مِکَ اَمُو￿تُ وَ اَح￿یَا۔(بخاری6)اے اﷲ ! تیرے نام کے ساتھ مَیں مرتا ہوں ۔اور تیرے نام سے ہی زندہ ہوتا ہوں ۔
جنگوں میں رسول اللہؐ کو کامل توکل اور بھروسہ خدا کی ذات پر ہوتا تھا۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب کسی غزوہ کے لئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کرتے۔
اَللّٰھُمَّ اَن￿تَ عَضُدِی￿ وَ نَصِی￿رِی￿ بِکَ اَحُو￿لُ وَبِکَ اَصُو￿لُ وَبِکَ اُقَاتِلُ۔ (ترمذی)7
اے اﷲ! تو میرا سہارا اور مددگار ہے ۔تیری مدد سے ہی مَیں تدبیر کرتا ہوں اور تیری تائید سے ہی مَیں حملہ آور ہوتا ہوں اور تیرے نام سے ہی لڑتا ہوں۔
آخری زمانہ میں دجّالی فتنوں سے بچنے کے لئے بھی رسول کریمؐ نے خدا پرتوکل کی تعلیم دی اور فرمایا کہ جو شخص دجّال سے متأثر ہوکر اسے اپنا ربّ تسلیم کربیٹھے گا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگا اورجو اس کی ربوبیت کا انکار کردے گا اور کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے اسی پرمیرا توکل ہے تو اسے دجّالی فتنہ کوئی ضرر نہ پہنچاسکے گا۔(احمد)8
رسول اللہؐاپنی دعائوں کے بعد خد اپرکامل بھروسہ کا اظہار کرتے ہوئے یہ التجا کرتے۔
اللّٰھُمَّ ھٰذَاالدُّعَائُ وَاِلَیْکَ الِاجَابَۃُ ، اللّٰھُمَّ ھٰذَا الجُھْدُ وَعَلَیْکَ التَّکِلَانُ (ترمذی)9
اے اللہ! (ہماری)تو بس یہ دعا ہے۔اب اس کی قبولیت تیرے سپرد۔ اے اللہ ! یہ ہے ہماری کوشش اب بھروسہ اور توکل تجھ پر ہے۔
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ بدشگونی شرک ہے، آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی اور پھرفرمایا ہم بدشگونی تو نہیں لیتے لیکن اگر کبھی ایسا خیال آبھی جائے تو اللہ تعالیٰ توکل کے ذریعہ اسے دور فرمادیتا ہے۔(ابودائود)10
بعض لوگ متعدی مریض سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ رسول کریمؐ کا توکل اس حوالے سے بھی غیرمعمولی تھا۔ ایک دفعہ ایک جذام کا مریض مجلس میں موجود تھا۔کھانے کا وقت ہوا تو نبی کریمؐ نے اپنے پیالے میں اسے کھانا کھلایا اور فرمایا اللہ پربھروسہ اور اس پرتوکل کرتے ہوئے کھاناکھائو۔(ابودائود)11
رسول کریمؐ نے اپنی امت کے ستّر ہزار لوگوں کے بے حساب جنت میں داخل ہونے کا ذکرکیا اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہونگے جو دم کرنے کروانے پر بھروسہ نہیں کرتے نہ ہی بدشگونی لیتے ہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے ہیں۔(مسلم12) ظاہر ہے ان سب متوکلین کے سردار حضرت محمدؐ مصطفی تھے۔
رسول کریمؐ نے خاص طور پر رزق کے بارہ میں اپنی امت کو اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی۔ آپؐ نے فرمایا’’اگرتم اللہ پر اس طرح توکل کرو جیسے اس کے توکل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو رزق ملتا ہے۔ جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں‘‘۔(احمد13)نیزفرمایاکہ’’ جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دل جیسے ہونگے‘‘۔(مسلم)14
رسول کریمؐ کے زمانہ میں دوبھائی تھے۔ ایک آنحضرت ؐ کی مجلس میں حاضرہوتا تھا اور دوسرا بھائی ہاتھ سے محنت کرکے کماتاتھا۔ ایک دن اس نے رسول کریمؐ سے اپنے اس بھائی کے بے کار رہنے کی شکایت کی تو رسول کریمؐ نے فرمایا’’ کیا پتہ تمہیں بھی اس کی وجہ سے رزق عطا کیا جاتا ہو؟‘‘(ترمذی)15
رسول اللہؐ اپنے باوفا غلاموں کو راہ مولا میں اذیّتیں پاتے دیکھ کر اسی توکل کی تعلیم فرماتے تھے۔حضرت یاسرؓکاخاندان کفار مکہ کی اذیتوں کا نشانہ بنتاتھا۔ رسول کریمؐ ان کو خدا پربھروسہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے۔اے آل یاسرؓ صبرکرو۔ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ جب مکہ میں مسلمانوں پرمظالم کی انتہاہوگئی اور بعض صحابہ نے آکر دفاع اور مقابلہ کی اجازت چاہی تو رسول کریمؐ نے انتقام لینے کی بجائے انہیں صبر اور توکل کی ہی نصیحت فرمائی۔ اورفرمایا تم سے پہلی قوموں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیرا گیا اورلوہے کی گرم کنگھیوں سے ان کا گوشت ہڈیوں سے نوچا گیا مگر یہ مظالم انہیں اپنے دین سے نہ ہٹا سکے۔اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ اسلام کو ترقی اور عظمت اور غلبہ عطاکرے گا۔ یہاں تک کہ ایک مسافر(عرب کے ایک سرے) صنعاء سے (دوسرے سرے) حضرموت تک تنہا سفر کرے گا اور خدا کے سو ااسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔(بخاری)16
خودرسول کریمؐ نے مصائب وآلام برداشت کرتے ہوئے اپنے اصحاب کو ہمیشہ خدا پر بھروسہ کرنے کاشاندارنمونہ دیا۔آپؐ کی زندگی کا ایک بہت بڑا ابتلا ء شعب ابی طالب میں آپؐ کے خاندان اور اصحاب کی محصوری کا سہ سالہ دور ہے۔ جس میں آپؐ کے ساتھ لین دین، خریدوفروخت، شادی بیاہ وغیرہ کے سب تعلقات منقطع کردیئے گئے اور تمام اسباب معدوم ہوکر رہ گئے۔ ہرلحظہ و ہر آن آپؐ کی ذات کو خطرہ لاحق ہوتا تھا مگر یہ زمانہ بھی آپؐ نے خدا کی ذات پر کامل توکل کرتے ہوئے گزارا۔ پھر خداتعالیٰ نے بھی کس طرح غیب سے آپؐ کی نصرت فرمائی اور بائیکاٹ کے معاہدہ کو دیمک کھاگئی۔ شعب ابی طالب سے باہر آئے تو اہل مکہ سے مایوس ہوکر طائف کا رُخ کیا۔ اس سفر میں بھی دنیا نے آپؐ سے ایک عجیب شانِ توکل کا نظارہ دیکھا۔ خداکا نبی تن تنہا کس مردانگی اور شجاعت سے ایک اجنبی دیس میں جاکر سردارانِ طائف کو مخاطب کرتا اور بے دھڑک خداکا پیغام پہنچاتا ہے۔ نہ اپنی جان کا خوف ہے نہ کسی اور خطرے کی پرواہ۔ بس ایک ہی لَو لگی ہے کہ کس طرح حقِ تبلیغ ادا ہوجائے۔ بھروسہ ہے تو ایک اللہ کی ذات پر۔
سفر طائف سے واپسی پربھی رسول اللہؐ کے توکل کا عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ رسول اللہؐ نے کچھ روزنخلہ میں قیام فرمایا۔زید بن حارثہؓ نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! اب آپؐ مکہ میں کیسے داخل ہونگے جب کہ وہ آپؐ کو نکال چکے ہیں۔ رسول اللہؐ نے کس شان توکل سے جواب دیا کہ’’ اے زیدؓ! تم دیکھو گے اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مدد گار ہے،وہ اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا۔‘‘چنانچہ نبی کریمؐ نے سردارانِ قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپؐ کو اپنی پناہ میں لے کر مکّہ داخلہ کا انتظام کریں۔کئی سرداروں کے انکار کے بعد بالآخر مکہ کے ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپؐ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا۔(ابن سعد)17
توکل میں دعا کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو بذریعہ وحی ہجرت مدینہ کے وقت بعض تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جبریل ؑنے رسول کریمؐ کو ہجرت کی رات آکر پیغام دیا کہ آپ ؐ جس بستر پر سوتے ہیں آج رات اس پر نہ سوئیں جب رات کا اندھیرا ہو اتو مشرکین آکر انتظار کرنے لگے کہ جونہی رسول اللہ ؐ اپنے بستر پر سوئیں وہ حملہ کردیں گے۔ رسول کریمؐ نے ان کو دیکھ کر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ آپؐ کے بستر پر سوجائیں اور آپؐ کی سبز چادر اوپر اوڑھ لیں۔ انشاء اللہ انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا۔(ابن ہشام18)اورپھرایسا ہی ہوا۔
ہجرت مدینہ میں قدم قدم پررسول اللہ ؐکے توکل الہٰی کے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں۔
ہرچند کہ حضرت ابوطالب اور خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد مکہ میں رسول اللہؐ کے لئے گزر بسر بہت مشکل ہوگئی تھی۔ تبلیغ حق کی خاطر طائف کا قصد کیا تو وہاں بھی کامیابی نہ ہوئی۔ اب آپؐ مکہ میں خطرناک دشمنوں کے درمیان رہ رہے تھے۔ مسلمانوں کا ایک حصہ پہلے ہی حبشہ ہجرت کرچکا تھا۔ اور رسول اللہ ؐکی اس خواب کی بناء پر کہ کھجوروں والی سرزمین پر ہماری ہجرت ہوئی ہے۔باقی ماندہ مسلمانوں نے یثرب (مدینہ) ہجرت کرنی شروع کی۔ یہاں تک کہ حضورؐ کے مشیرانِ خاص اور دست راست بھی ہجرت کرگئے حضر ت عمرؓنے بھی ہجرت کرلی اور حضرت ابوبکرؓ عبادت الہٰی اور تلاوت قرآن کریم میں مشرکین کی آئے دن کی روکاوٹیں دیکھ کرمکّہ چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ مگر قارہ قبیلہ کے رئیس ابن الدغنہ آپ کو اپنی امان میں واپس لے آئے۔ رسول کریمؐ ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے منتظر تھے۔ جس کی تاخیر میں یہ حکمت بھی ہوگی کہ مظلوم مسلمان مکے سے محفوظ طور پرنئے دارالہجرت کی طرف نکل جائیں۔ چنانچہ اس زمانہ میں جب حضرت ابوبکر ؓ نے دوبارہ ہجرت کا قصد کیا تو رسول کریمؐ نے انہیں فرمایا کہ ابھی آپ ٹھہریں اُمید ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت ہوجائے گی۔ پھر اذن ہجرت ہونے پر رسول اللہؐ حضرت ابوبکرؓ کی معیت میں نہایت خوفناک حالات میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے مکہ سے نکلے۔ (بخاری)19
اس سفر میں رسول اللہؐ کے توکل کی عجیب شان ظاہر ہوئی۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے بیان کیا کہ جب ہم غار ثور میں پناہ گزیں تھے تو میں نے نبی کریمؐ سے کہا اگر مشرکین میں کوئی اپنے پائوں کی جگہ پر جھک کرنظرڈالے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے۔آپؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ تمہارا ان دو اشخاص کے بارہ میں کیا گمان ہے۔جن کے ساتھ تیسراخدا ہے۔(بخاری)20
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکرؓ کی تو ایک رات اور ایک دن ہی عمرؓ اور اس کی تمام اولاد سے بہتر ہیں۔ اس کی ایک رات وہ تھی جب وہ رسول اللہؐ کے ساتھ غار ثور میں پناہ گزیں تھے۔ غار میں بچھوؤں اور سانپوں کے کئی سوراخ اور بل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کو اندیشہ ہو اکہ کوئی موذی کیڑا حضورؐ کو نقصان نہ پہنچائے۔ انہوں نے اپنے پائوں ان سوراخوں پر رکھ کر ان کو بند کردیا۔کسی کیڑے نے آپ کو کاٹ لیاتو تکلیف سے آنسو گرنے لگے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ ! غم نہ کر اورپریشان نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکینت عطافرمائی۔(بیہقی)21
حضرت ابوبکرؓ کی اپنی روایت ہے کہ سفرہجرت کے دوران جب سراقہ گھوڑے پر سوار تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب پہنچ گیا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! اب تو پکڑنے والے بالکل سر پہ آپہنچے اور میں اپنے لئے نہیں بلکہ آپؐ کی خاطر فکر مند ہوں۔آپؐ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔چنانچہ اسی وقت آپؐ کی دعا سے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔اور وہ آپؐ کی خدمت میں امان کا طالب ہوا۔(الحلبیہ22)اس وقت کس شان توکل سے آپ ؐنے سراقہ کے حق میں یہ عظیم الشان پیشگوئی کی کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہونگے۔رسول اللہؐ کو جس طرح مکہ سے نکلتے ہوئے اپنے مولیٰ پرکامل بھروسہ تھا۔
اسی طرح مدینہ میں داخل ہوتے وقت بھی ایک اورشانِ توکل نظرآئی۔ انصار مدینہ میں سے ہرفدائی اور عاشق صادق کی خواہش تھی کہ رسول اللہؐ ان کے ہاںمہمان ٹھہریں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑدو یہ خدا کے حکم سے جہاں بیٹھے گی وہیں میں قیام کرونگا۔چنانچہ یہ اونٹنی ایک جگہ آکر بیٹھ گئی۔ رسول اللہؐ ابھی اُترے نہیں تھے کہ اونٹنی ایک دفعہ پھرکھڑی ہوگئی اور تھوڑی دور تک گئی۔ رسول کریمؐنے اس کی باگ کھلی چھوڑ رکھی تھی۔ آپؐ کے موڑے بغیر وہ دوبارہ اسی جگہ آکر بیٹھ گئی ۔ رسول کریمؐ اتر کر اس جگہ سے قریب ترین گھر میںتشریف لے گئے جو حضرت ابوایوب انصاری ؓ کا تھا۔(ابن ہشام وبیہقی)23
جب اسباب بالکل معدوم نظرآتے تھے۔ اس وقت بھی رسول کریمؐ مایوس نہیں ہوتے تھے اورہمیشہ خدا پر بھروسہ کرتے تھے ۔غزوہ بدر میں سخت کمزوری کا عالم تھا کہ 313نہتوں کا ایک لشکر جرّار سے مقابلہ تھا اور ایک ایک سپاہی کی بڑی قیمت تھی۔ اس خطرناک حالت میں بھی رسول کریمؐ کی شانِ توکل پر کوئی مایوسی کاسایہ نہیں پڑا۔ اس سفر میں ایک بہت بہادر مشرک پہلوان حاضرخدمت ہوا اور کہا کہ مجھے بھی جنگ کے مال غنیمت سے حصہ دیں تو میں آ پؐکے ساتھ لڑائی میں شامل ہوتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ؐنے اسے واپس لوٹا دیا وہ دوسری مرتبہ آیا اور مدد کی حامی بھری مگر آپ ؐنے پسند نہ فرمایا کہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک مشرک کی مدد لی جائے۔ تیسری مرتبہ اس نے کلمۂ شہادت کا اقرار کرکے جنگ میں شامل ہونے کی درخواست کی تو آپ ؐنے قبول فرمالی۔(مسلم)24
اس جنگ میں شرکت کے ارادہ سے دو صحابہ حضرت حذیفہؓ اور ابوسہلؓ گھر سے نکلے۔ راستہ میں ان کو کفار قریش نے پکڑلیا اور زبردستی ان سے عہد لیا کہ جنگ میں رسول اللہؐ کی مدد نہیں کریں گے۔ انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں جب سارا ماجرہ بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا جائو تم اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔(مسلم)25
غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریمؐنے دشمن کے ممکنہ مقابلہ کے لئے پہلے اپنے ۳۱۳ نہتے صحابہ کی صفیں ترتیب دیں۔اس تدبیر سے فارغ ہوکرآپؐ دعائوں میں لگ گئے،یہ ہے کامل توکل کی مثال ۔
الغرض خدا کی ذات پر کامل بھروسہ کے نمونے جس طرح نبی کریمؐ کی ذات میں نظر آتے ہیں اور کہیں ملنے محال ہیں۔ مدینہ میں ایک رات اچانک شور اُٹھا ۔ جنگ کا زمانہ تھا خطرہ ہوا کہ کسی دشمن نے حملہ نہ کردیا ہو۔ لوگ جمع ہونے لگے کہ مشورہ کرکے کوئی کاروائی کریں۔ اُدھر خدا کا متوکل نبی تن تنہا حقیقت حال معلوم کرنے گھوڑے کی ننگی پشت پر نکل کھڑا ہوا۔ تلوار گردن میں لٹکی ہوئی تھی۔ جب تک لوگ باہر نکلے آپؐ سب خبر معلوم کرکے واپس بھی آچکے تھے اور لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمارہے تھے۔ خوف کی کوئی بات نہیں۔میں چکرلگاکر دیکھ آیاہوں اور اس گھوڑے کو تو میں نے سمندر کی طرح تیزرفتار پایا ہے۔(بخاری)26
حضرت عبداللہ ؓبن عباس بیان کرتے تھے کہ رسول کریمؐ کے عظیم الشّان توکل کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں ہے۔اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْالَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَ ھُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْ حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔(آل عمران:174)یعنی وہ لوگ جن کوکہاکہ دشمن تمہارے خلاف جمع ہوگئے ہیں۔ پس ان سے ڈر جائو۔ تو اس بات نے ان کو ایمان میں اوربڑھادیا۔ اور انہوں نے کہا’’حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘ اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اور وہ بہترین کارساز ہے۔
دراصل اس آیت میں غزوۂ حمراء الاسد کی طرف اشارہ ہے۔ اُحد سے واپسی پر سردارِ قریش ابوسفیان نے دوبارہ پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے اورمسلمانوں کو لوٹنے کا قصد کیا۔ رسول اللہؐ اور آپ ؐکے اصحاب کو اس کی خبر ہوئی تو بجائے کسی خوف کے آپ ؐنے ابوسفیان کے لشکرکاتعاقب کرنے کا ارادہ فرمایا اور صحابہ نے والہانہ لبیک کہتے ہوئے آپ ؐکو ساتھ دیا اور بیک زبان ہوکر کہاکہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔(بخاری)27
اُدھرابوسفیان نے جب پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ تو مدینہ کی طرف جانے والے عبدالقیس کے ایک قافلے کے ذریعہ یہ پیغام بھجوایا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو کہہ دینا کہ ہم اُن کی جڑ اکھیڑنے اور قلع قمع کرنے کے لئے پھر آرہے ہیں۔ وہ قافلہ رسول اللہؐ کو حمراء الاسد مقام پر ملا اور ابوسفیان کا پیغام دیا۔جس پر رسول کریمؐ نے کسمپرسی کے اس عالم میں ایک شکست خوردہ زخمی لشکر کی ہمراہی میں کس شان سے اس موقع پر جواب دیا۔ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہت بہترین کا رساز ہے۔
ادھر بنوخزاعہ کا ایک مشرک سردار جو حمراء الاسد میں رسول اللہؐ کو دیکھ کر آیا تھا اس نے ابوسفیان کو مشورہ دیا کہ مسلمان شکست کا بدلہ لینے کے لئے لڑنے مرنے پر تیار ہیں۔سردارِ قریش صفوان بن امیہ نے بھی ابوسفیان کو واپس لوٹنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ گئے۔(ابن ہشام)28
الغرض رسول کریمؐ کا توکل زندگی بھراپنی شان میں مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا۔رسول کریمؐ ایک جنگ سے واپسی پر آرام فرما رہے تھے،ایک دشمن تاک میں تھا۔وہ تلوار سونت کر کہنے لگا، اب آپؐ کو مجھ سے کون بچائے گا؟نبی کریمؐ نے ظاہری اسباب کے معدوم ہونے کے باوجود کمال یقین اور شانِ توکل سے فرمایا میرااللہ! اور تلوار دشمن کے ہاتھ سے گر گئی۔(بخاری)29
رسول کریمؐ کا اپنے دور کی دو عظیم حکومتوں کو دعوت اسلام دینا بھی آپؐ کے عظیم توکل کوظاہر کرتا ہے۔ عرب ریاستیں ایرانی اور رومن حکومت کی باجگزار اورتابع تھیں اور ان کو اپنی اطاعت کی دعوت دینا گویااعلان جنگ کے مترادف تھا۔ مگر رسول کریمؐ نے خد اکے حکم کے مطابق انہیں بھی پیغام پہنچایا۔ شہنشاہ کسریٰ نے اس پرسخت ردّعمل کا اظہارکرتے ہوئے آپؐ کو گرفتار کرنے کا پروانہ بھجوایا۔ اہل معرفت نے خوب کہاہے کہ’’ مترس از بلائے کہ شب درمیان است‘‘ اس مصیبت سے نہ ڈرو جس کے درمیان ابھی رات باقی ہو۔ رسول اللہؐ نے بھی اس رات خدا پربھروسہ کے ساتھ خوب دعائیں کیں۔ایسی مقبول دعائیں کہ اسی رات اللہ تعالیٰ نے جواب بھی دے دیا اور آپ ؐنے کمال بے نیازی سے وہ جواب قاصدانِ شاہ روم کو دیا کہ جائو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کردیا ہے۔ اور پھرواقعہ میں ایسا ہی رونما ہوا۔(طبری)30
غزوۂ حنین میں بھی صحابہ کے پسپا ہوجانے کے بعد رسول اللہؐ کمال شان توکل سے تنہا آگے بڑھے تھے اور بالآخر فتح پائی تھی۔الغرض رسول اللہؐ کی ساری زندگی دراصل خداپر توکل کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ آپؐ کی دعا ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اے خدا میں نے ہرآن تجھ پر توکل کیا اور ہمیشہ اللہ کی ذات ہی آپؐ کا پہلا اور آخری سہارارہی۔
پس اے متوکلّوںکے سردار! تجھ پر سلام کہ تیرے توکل کا واسطہ دے کر آج بھی اہل اللہ خدا کی غیبی تائید ونصرت کے نشان دیکھتے ہیں۔

حوالہ جات
1
مسند احمدجلد6ص24,25
2
بخاری کتاب الحج باب قول اللہ وتزودوافان خیرالزاد التقویٰ
3
ترمذی کتاب صفۃ القیامہ باب منہ:2441
4
بخاری کتاب البیوع باب کراھیۃ الشغب فی السوق
5
مسنداحمدجلد6ص306
6
بخاری کتاب الدعوات
7
ترمذی کتاب الدعوات واحمد مسند انس ؓ
8
مسند احمد جلد4ص20
9
ترمذی کتاب الدعوات
10
ابوداؤدکتاب الطب باب فی الطیرۃ
11
ابوداؤدکتاب الطب باب الطیرہ
12
مسلم کتاب الایمان باب الالیل علی دخول الطوائف من المسلیمن
13
مسند احمدجلد1ص30
14
مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب یدخل الجنۃ اقوام افئدتھم مثل افئدۃ الطیر
15
ترمذی کتاب الزہد باب فی التوکل علی اللہ
16
بخاری کتاب المناقب باب ذکر مالقی النبی واصحابہ من المشرکین
17
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص212
18
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد2ص124
19
بخاری کتاب المناقب باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینہ
20
بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب مناقب الانصار
21
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص476بیروت
22
السیرۃ الحلبیہ جلد2ص43داراحیاء التراث العربی
23
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد2ص113 ودلائل النبوہ بیہقی جلد2ص509
24
مسلم کتاب الجہاد والسیر باب کراھۃ الاستعانۃ بالمشرک
25
مسلم کتاب الجہاد باب الوفا ء بالعہد
26
بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الحمائل وتعلیق السیف بالعنق
27
بخاری کتاب التفسیرسورۃ آل عمران باب الذین قال لھم الناس
28
الیسرۃ النبویہ لابن ہشام جلد2ص113، دلائل النبوۃ للبیھقی جلد2ص509
29
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع
30
تاریخ الامم والملوک لطبری جز3ص248دارالفکر بیروت

رسول اللہؐکی بے نظیرشجاعت
شجاعت کی جڑ توحید خالص پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور بھروسہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے نبی اور مامور جوساری دنیا کو پیغام پہنچانے اور زمانے کے دھارے کا رخ بدلنے اور دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے کے لئے آتے ہیں۔انہیں ایک خداداد ہمت ،مردانگی اور شجاعت عطا کی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’وہ لوگ جو اللہ کا پیغا م پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے‘‘(سورۃ الاحزاب:40)
نبی کریمﷺ بھی کامل موحّد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر تھے۔رسول کریمؐ نے اپنی خداداد شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’مجھے سخاوت اور شجاعت کے اخلاق میں لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے۔حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمؐ سب لوگوں سے بڑھ کر شجاع اور بہادر تھے۔(ہیثمی)1
حضرت برائؓ بن عازب کہا کرتے تھے کہ جب میدانِ جنگ میں بلا کا رَن پڑتا تو خدا کی قسم! ایسے میں ہم رسول کریمؐ کو ڈھال بناکر لڑتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو رسول کریمؐ کے پہلو میں ہوکر جم کر لڑے۔(مسلم)2
حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ جب میدان کا رزار گرم ہوتا اور مخالف فوجیں باہم ٹکراجاتیں ہم رسول کریمؐ کی اوٹ میں ہوکر لڑتے تھے۔ اور ہم میں سے حضور ؐ سے زیادہ دشمن سے قریب اور کوئی نہ ہوتا تھا۔(حاکم3)نیزآپؓ فرماتے تھے کہ رسول کریمؐ تمام لوگوں سے زیادہ جرأت مند اور بہادر تھے۔(کنز)4
حضرت عمرانؓ بن حصین کا بیان ہے کہ رسول کریم ؐ کاکبھی کسی لشکر سے مقابلہ نہیں ہوا مگر آپؐ سب سے پہلے تلوار کے ساتھ حملہ آور ہوتے تھے۔(ابن سیّد)5
مکّہ میں تیرہ سالہ مظالم کا اذیت ناک دور نبی کریمؐ نے جس شجاعت اور مردانگی سے گزارا ہے وہ آپؐ ہی کا حصہ ہے۔ہر چند کہ اہل مکّہ سے آپؐ کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا تھا مگر آپؐ ان کے درمیان چلتے پھرتے،صحن کعبہ میں جاتے، اعلانیہ عبادت کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے۔دشمن نے بارہاآپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے مگر ناکام ہوئے۔
ایک دن ابوجہل نے کہا کہ اب اگر میں نے محمدؐ کو صحن کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا توآکر اس کی گردن ماردونگا۔نبی کریمؐ نے کمال بہادری سے فرمایا اگر وہ ایسا کرے گا تو فرشتے اسی وقت اس پر گرفت کریں گے۔(بخاری)6
قریش کے پہلوان سے کشتی کا مقابلہ
رُکانہ بن عبدیزید خاندان قریش کا ایک بہادر سُورما تھا۔ یہ رسول اللہ ؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ایک دن مکّہ کی گھاٹیوں میں رسول اللہؐ کی اس سے ملاقات ہوگئی۔آپؐ نے اسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’کیا تم اللہ سے نہیں ڈرو گے اور جس پیغام کی طرف میں بلاتا ہوں اسے قبول نہیں کروگے۔ ‘‘وہ کہنے لگا ’’اگر مجھے یقین ہوجائے کہ آپؐ کا دعویٰ برحق ہے تو ضرورآپؐ کی پیروی کروں گا۔‘‘رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اگر میں کُشتی میں تمہیں پچھاڑ دوں تو تمہیں یقین ہوجائے گا کہ میرا دعویٰ برحق ہے۔‘‘اس نے کہاہاں، آپؐ نے فرمایا پھر آئو کشتی کرلو۔رُکانہ آپؐ سے کشتی کرنے لگا رسول اللہؐ نے اسے پکڑ کر گرادیا اور وہ کچھ بھی نہ کرسکا،اس نے خیال کیا کہ اتفاق سے ایسا ہوا ہے،چنانچہ دوسری کُشتی کی دعوت دی، رسول اللہؐ نے اسے دوبارہ بھی گرادیا۔ اسے اپنی پہلوانی پر بہت گھمنڈ تھا، کہنے لگا مجھے تعجب ہے کہ آپؐ نے مجھے گرالیا،آپؐ ؐنے فرمایا کہ اس سے بھی عجیب تر نشان میں تجھے دکھا سکتا ہوں،بشرطیکہ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری پیروی کرو۔رُکانہ اپنی قوم میں جاکر کہنے لگا کہ اے عبدمناف!تم محمدؐ کے ذریعہ سب دنیا پر جادو کرسکتے ہو،میں نے اس سے بڑ اجادو گر نہیں دیکھا۔پھر اس نے سارا قصہ سنایا اور یوں یہ واقعہ رکانہ کے قبول اسلام کا موجب بن گیا۔(بخاری وابن ہشام)7
قیام مکّہ کے زمانہ میں شعب ابی طالب میںاسیری کے ایّام بھی رسول کریمؐنے کمال شجاعت سے گزارے۔اس زمانہ میں آپؐ کی زندگی کو قدم قدم پر خطرات درپیش تھے یہاں تک کہ ابو طالب ہر رات آپؐ کے سونے کی جگہ بدل دیا کرتے تھے۔
طائف کے تبلیغی سفر میں جب تن تنہارسو ل کریمؐ نے طائف کے سرداروں اور سرکشوں کونڈر اور بے خوف ہوکرپیغام توحید پہنچایا اور اہل طائف کی سنگ باری سے لہولہان ہوگئے یہاں تک کہ مشہور عیسائی مستشرق سرولیم میور کو بھی تسلیم کرناپڑا کہ ’’محمدؐ کے طائف کے سفر میں ایک عجیب شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے۔‘‘
پھر سفرہجرت میں بھی رسول اللہؐ کی غیرمعمولی شجاعت ظاہر ہوئی۔ غار ثور میں پناہ کے دوران دشمن سر کے اوپر ہے۔مگر خدا کا موحّد نبی کمال ثابت قدمی سے اپنے ساتھی ابوبکرؓ کو بھی تسلی اور دلاسے دے رہا ہے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔دوران سفر سراقہ تعاقب کرتے ہوئے پاس پہنچ جاتا ہے اور آپؐ کو پرواہ نہیں۔ وہی سراقہ اپنے گھوڑے کے دھنس جانے کے بعدواپس جاتے ہوئے آپؐ کا امان نامہ لے کر واپس لوٹتا ہے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی جب دشمن نے پیچھا نہ چھوڑا اور مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے تلوار اٹھانی پڑی تو رسول اللہؐ شمشیربرہنہ کی طرح ہر مہم سر کرنے کیلئے ہمہ وقت ایسے تیارو آمادہ ہوتے تھے کہ زندگی بھرکبھی موت کا خوف نہ ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر امت پرگراں نہ ہوتا تو ہر مہم پر بھجوائے جانے والے دستہ میں میں خود شریک ہوتا اور میری تو دلی تمنا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جائوں پھر زندہ کیا جائوں پھر مارا جائوں۔(بخاری)8
ایک رات مدینہ کے نواح میں اچانک کچھ شور بلند ہوا ۔شمال اور مغرب کی سمت سے مدینہ پر دشمن کے اچانک حملے کے خطرے تو رہتے ہی تھے۔لوگ اکٹھے ہوکر،جتھا بناکر آواز کی سمت جانے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار چلاآتا ہے۔گردن میں تلوار لٹک رہی ہے۔لوگ حیران تھے کہ کون بہادر شہ سوار رات کی تاریکی میں اتنی تیزی میں تنہاچلاآتا ہے۔ قریب جاکر معلوم ہوا کہ رسول اللہؐ ہیں۔آپؐ شور سنتے ہی ابو طلحہؓ کا گھوڑا لے کر صورتحال کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے تھے اور جلدی میں گھوڑے پر زین ڈالنے کا وقت بھی ضائع کرنا مناسب نہیں جانابلکہ گھوڑے کی ننگی پشت پرہی سوار ہوکر مدینہ کے باہرچکر لگا کر آگئے اور معلوم کرلیا کہ کوئی خطرہ درپیش نہیں(معلوم ہوتا ہے کوئی قافلہ گزرا جس کا شور تھا) آپؐ لوگوں کو تسلّی دیتے ہوئے فرمارہے تھے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔پھر ابوطلحہؓ کے گھوڑے کے بارے میں فرمانے لگے کہ میں نے تو آج اس گھوڑے کو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارنے والا پایا ہے۔ (بخاری9)اور اسی سے اس شہ سوار کی شجاعت کا اندازہ خودکرلیں۔
غزوہ ٔاُحد کے بعد ابوسفیان جب جانب مکّہ روانہ ہوا تو راستہ میں اُسے کچھ لوگ ملے اور پوچھا کہ مسلمانوں کے کتنے قیدی بنائے کیا مال غنیمت ہاتھ آیا تو ابوسفیان نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔ حضورؐ نے ابوسفیان کا تعاقب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا، ستّرمسلمان شہید ہوچکے تھے،ان کے عزیز رشتہ دارگہرے دلی صدمہ سے دوچار تھے ، باقی مسلمان اکثر زخمی تھے۔ یہ موقع بظاہر جیتے ہوئے لشکر کے اوپر حملے کا ارادہ اور غینم کا تعاقب ایک بھاری امتحان تھا۔چنانچہ حضورؐ کی پہلی تحریک پر لوگ متذبذب تھے۔ تب حضورؐ نے واشگاف اور دوٹوک الفاظ میں اپنے عزم کا یوں اظہار فرمایا کہ اگردشمن کے تعاقب کے لئے میرے ساتھ ایک شخص بھی نہ آیا تو میں تن تنہا لشکر ابوسفیان کے تعاقب میں جائوں گااور ضرور جائوں گا۔
یہ عزم اور شجاعت دیکھ کرتمام زخمی صحابہ بھی والہانہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے ان میں ابوبکر ؓ بھی تھے اور زبیرؓ بھی عمر ؓاور عثمانؓ بھی علی ؓاور عمارؓ بن یاسر بھی طلحہؓ و سعدؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ بھی الغرض یہ ستّر صحابہ تھے ۔جن کو سخت زخم پہنچے تھے۔انہوں نے رسول اللہ ؐکی آواز پر لبیک کہا جس پرعرش کے خدا نے بھی ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے زخمی ہونے کے باوجود رسول کی آواز پر لبیک کہا ان میں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے بہت بڑا اجرہے۔(بخاری)10
غزوہ ذات الرقاع میںایک جانی دشمن رسول اللہؐ کے تعاقب میں چلاآیا۔ رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے ساتھ دوپہرکوسایہ دار درختوں کے نیچے آرام فرمارہے تھے۔ دریں اثنا اس شخص نے سوتے ہوئے ، آپؐ کی تلوار سونت لی اور پوچھا، اب آپؐ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول اللہؐپر ذراخوف نہیں، انتہائی یقین اور خدا دادرعب سے فرمایا’’میرا اللہ‘‘ اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔(بخاری)11
یہی شان شجاعت غزوۂ حدیبیہ میں بھی نظر آئی جب رسول کریمﷺ ہجرت کے چھٹے سال اپنے ایک رؤیا کی بنا پر چودہ سو صحابہ کو ہمراہ لے کر پر امن طور پر طواف بیت اللہ کا قصد لئے نکلے،مگراہل مکّہ نے حدیبیہ مقام پرروک لیا اور اس شرط پر مصالحت ہونے لگی کہ مسلمان اگلے سال آکرعمرہ کرلیں۔ قصدبیت اللہ سے کسی کو روکنے کاشاید یہ پہلا موقع تھا،جوطواف بیت اللہ کے لئے بے چین مسلمانوں کے لئے ایک بھاری صدمہ سے کم نہیں تھا۔ وہ چاہتے تو بزور شمشیر بھی مکّہ میں داخل ہوکر طواف کرسکتے تھے،مگر امن کے شہزادے کی موجودگی میں یہ ممکن نہ تھا، یہی وجہ تھی کہ جب رسول اللہؐ نے شرائط صلح حدیبیہ قبول فرماتے ہوئے مسلمانوں کو حدیبیہ میں ہی اپنے جانور قربان کردینے کا ارشاد فرمایا،اس وقت آپؐ کے جاں نثاروں کو اس دکھ اور صدمہ کی حالت میں کچھ ہوش نہ رہا۔ ابوبکر ؓ و عمر ؓ ،عثمان ؓ و علی ؓ جیسے بزرگ صحابہ سمیت کسی کو بھی یہ جرأت اور حوصلہ نہ ہوا کہ آگے بڑھ کر اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے اپنی قربانی ذبح کردیں،وہ ساکت و جامد اور مبہوت کھڑے دیکھتے تھے ۔شاید وہ طواف بیت اللہ کی امید کی آخری کرن کے منتظر تھے۔
اس صدمہ کی حالت میں سب بہادروں کاایک بہادر خدا کا یہ رسولؐ تھا جو اپنے ان صحابہ کے آگے بھی لڑرہا تھا ور پیچھے بھی، دائیں بھی لڑرہا تھا اور بائیں بھی۔اس وقت آپؐ کو ہی یہ ہمت اور حوصلہ نصیب ہو اکہ اللہ کے حکم کے مطابق پہل کرتے ہوئے اپنی قربانی میدان حدیبیہ میں ذبح کرڈالی ۔پھر کیا تھا آپؐکے غلام دیوانہ وار اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور دھڑا دھڑ میدان حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کرنے اور سرمنڈوانے لگے۔اس نظارے نے حدیبیہ کی سرزمین کو حرم بنادیا۔یوں رسول اللہؐ کے عالی حو صلہ نے اپنے صحابہ کی ہمتیں جمع کر کے حوصلے بڑھا دیئے اور یہ آپؐ کی شان اوّل المسلمین ہے جو ہر اہم موڑ اور نازک مرحلے پر پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر اور روشن نظرآتی ہے۔(بخاری)12
غزوۂ حنین کے موقع پر بنو ہوازن نے اچانک حملہ کردیا، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ صرف چند لوگ رسول اللہؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ رسول اللہؐ کے چچازاد ابوسفیان بن حارث ؓاور حضرت عباسؓ آپؐ کے ساتھ رہ گئے۔عباسؓ کہتے ہیں کہ میں آپؐ کے خچر کی لگام پکڑ کر اسے دشمن کی طرف بڑھنے سے روک رہاتھا، مگر رسول خداؐ تھے کہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے کیلئے بے تاب خچر کو مسلسل ایٹر لگا رہے تھے۔ دوسرے چچا زادابوسفیان ؓبن حارث نے آپؐ کی خچر کی رکاب پکڑ رکھی تھی۔چاروں طرف سے تیروں کی بارش تھی مگر رسول اللہ محّیرالعقول بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے اور یہ نعرہ زبان پرتھا۔
اَناالنبیُّ لاکذب
انا بن عبدالمطلب
میں نبی ہوں۔ یہ جھوٹ نہیںہے اورمیں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا اے عباسؓ!انصار و مہاجرین کو بلائو، اور حدیبیہ میں موت پر بیعت کرنے والے ’’اصحاب شجرہ‘‘ کو بھی آواز دو۔مسلمان اس آواز پرمردانہ وار لپک کر میدان میں واپس لوٹے۔جن کی سواریاں بدکی ہوئیں تھیں،انہوں نے سواریوں سے چھلانگیں لگادیں اور پیدل تلواریں لے کر میدان کی طرف بھاگے۔ایسابلا کا رَن پڑا کہ رسول اللہؐ نے بھی فرمایا اب میدان جنگ خوب گرم ہوا ہے، اس وقت آپؐ نے کفار کی طرف کنکروں کی ایک مٹھی پھینکی اور فرمایا ربّ کعبہ کی قسم ! اب دشمن پسپا ہوگئے۔اور واقعی پھر دشمن کو پسپا ہوتے اور رسول اللہؐ کو ان کے تعاقب میں خچر دوڑاتے دیکھاگیا۔(ابن الجوزی13)یہ تھے ہمارے بہادروں کے بہادر اور شجاعوں کے شجاع موحّدرسولؐ جن کوزندگی بھر خدا کے سوا کبھی کسی سے خوف نہیں ہوا۔
حوالہ جات
1
مجمع الزوائد جلد8ص269بیروت
2
مسلم کتاب الجہاد باب فی غزوۃ حنین747
3
مستدرک حاکم جلد2ص143بیروت
4
کنز العمال جلد7ص214
5
عیون الاثرابن سیدالناس جلد2ص330
6
بخاری کتاب التفسیر سورۃ العلق
7
بخاری کتاب اللباس فی العمائم و السیرۃ النبویہ لابن ھشام جز2ص31مطبوعہ مصر
8
بخاری کتاب الایمان باب الجہاد من الایمان
9
بخاری کتاب الجہادباب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق
10
بخاری کتاب المغازی باب الذین استجابوللہ وعمدۃ القاری شرح بخاری جلد17ص162
11
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع
12
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ
13
الوفاء باحوال المصطفیٰ ص 722وبخاری کتاب المغازی باب غزوۃ حنین

رسول اللہؐ کی حیرت انگیزتواضع
تواضع اور انکساری تکبّر کی متضاد صفات ہیں۔عام طورپر تواضع اور انکسار سے یہ مفہوم لیاجاتاہے کہ ایک صاحب عزت انسان اپنے آپ کو تکلّف کی راہ سے کم تر یا حقیر خیال کرے، حالانکہ ایسی خلافِ حقیقت بات کو عمدہ خُلق قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ تواضع و انکسار ایک اعلیٰ درجے کا خُلق ہے۔
انکسار دراصل ایثار کی ایک قسم ہے جو تھوڑی سی تبدیلی سے انکسار کانام پاتی ہے ۔ منکسر المزاج وہ نہیں جونالائق ہو اور پھر اپنی نالائقی کا اعلان کرے، بلکہ فی الحقیقت منکسر المزاج اور متواضع وہ انسان ہوتاہے جو صاحب فضیلت ہوکر دوسروں کی خوبیوں کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیاقت و فضیلت فراموش کر بیٹھے۔ اس خُلق میں خوبی او ر حسن یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور تو یہ صحیح ادب کا طریق ہے اور انسانوں کے ساتھ ایسا خُلق اختیار کرنے سے امن قائم ہوتا ہے اور فساد مٹ جاتے ہیں۔ اکثر جھگڑے اس لئے ہوتے ہیں، جب طرفین میں سے ہرفریق اپنے حق پر اَڑا رہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک اپنے حق کو ترک کردے تو جھگڑے ختم ہو جائیں۔ پس انکسار دنیا کے امن و امان کے بڑھانے میں زبر دست آلہ ہے ، جو ایثار کے ساتھ مل کر تمام فساد جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تکبّر پسند نہیںکرتااور فرماتاہے ’’ اور لوگوں کے ساتھ گال پھلا کر بات نہ کرو۔اور نہ ہی زمین میں اکڑ کر چلو۔اللہ تعالیٰ ہر اِترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا‘‘(سورۃبنی اسرائیل:38) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ جس کے دل میں ایک دانہ کے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(احمد)1
پس امن کی راہ انکساری میں ہے جو حضرت کبریاء کو بہت پیاری ہے۔ سچا منکسر المزاج وہ شخص ہے،جو کام کی اہلیت رکھتا ہو مگر خدا کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا اقراری ہو، لیکن جب کام اس کے سپرد ہوجائے تو پھر پوری ہمت کے ساتھ وہ کام کرے جیسا کہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺپہلی وحی پر یہ عذر کرتے رہے کہ ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘ مگر جب ذمہ داری سپرد ہوگئی تو اسے اس طرح ادا کیا کہ ایک دنیا کوحیران کردیا۔
رسول کریمؐنے فرمایااللہ تعالیٰ نے مجھے وحی فرمائی کہ تم تواضع اختیار کرو۔ یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پرفخرنہ کرے اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے۔(مسلم)2
اسی طرح آپؐ نے فرمایا جو شخص خدا کی خاطر تواضع کرتے ہوئے لباس (فاخرہ) ترک کرتا ہے حالانکہ وہ اس کی توفیق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن سب مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ لباسِ ایمان میں سے جو چاہے اختیار کرے۔(احمد)3
رسول کریمؐ نے ایک متکبّراور دولت کے غلام شخص کے بالمقابل ایک منکسر المزاج مجاہد راہِ مولیٰ کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ فرمایا’’دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور خوبصورت لباس کا بندہ ہلاک ہوگیا۔ جسے کچھ دے دیا جائے تو راضی۔ نہ دیاجائے تو ناراض۔ایسا شخص ہلاک ہو کر سرکے بل گرا۔ اسے کانٹا بھی چبھے تووہ اسے نکالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔مبارک ہو ایک ایسے منکسر المزاج کو جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے بال پراگندہ ہیں اور پائوں غبار آلود۔ اگر حفاظت میں اس کی ڈیوٹی لگادو تو وہ اس میں ہی لگا رہے گا۔ اگر اُسے لشکر کے پیچھے کہیںڈیوٹی دے دو تو وہاں رہے گا اور غیر معروف ایسا کہ وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اجازت نہ ملے اور کہیں سفارش کرے تو سفارش قبول نہ ہو۔‘‘(بخاری)4
رسول کریم ؐ کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ عروہ بن زبیرؓ کے بیان کے مطابق جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور قبا پہنچے تو مسلمان آپؐ کے استقبال کے لئے حاضر ہوئے حضرت ابوبکرؓ لوگوں کے سامنے کھڑے تھے اور رسول کریمؐ تشریف فرماتھے انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہؐ کو نہیں دیکھا تھا،حضرت ابوبکر ؓ کو آکر سلام عرض کرنے لگے۔ یہاں تک کہ تھوڑی دیر کے بعد جب رسول اللہ ؐ پر دھوپ پڑنے لگی اور حضرت ابوبکرؓ نے اپنی چادر سے آپؐ پر سایہ کیا تو لوگوں کو رسول اللہؐ کا تعارف ہوا۔(بخاری)5
دنیا کے لوگ ترقی کر کے اپنا ماضی کتنا جلدی فراموش کربیٹھتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عجیب شان تھی ایک دن فرمایا کہ اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے بکریاں چرائی ہیں۔ صحابہ نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپؐنے بھی؟ فرمایا ہاں میں بھی اہل مکّہ کی بکریاں چند قیراط کے معاوضہ پر چراتا رہا ہوں۔(بخاری)6
الغرض نزول وحی کا پہلا واقعہ ہی نبی کریم ؐ کی منکسرانہ طبیعت پر نہایت عمدہ روشنی ڈالتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ انکسار سے آپؐ کا دل معمور تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد اصلاح خُلق کا کام کیا جانے لگا اور حضرت جبریل ؑ نے کہا ’’اِقْرَأ‘‘ (آپ پڑھیٔے) تو خدا کے جلال پر نظر کرتے ہوئے، اپنی لیاقت بھول کر، آپؐ نے انکساری سے فرمایا ’’مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ‘‘ کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔نبوت ملنے سے بھی پہلے اپنی کمزوری کا یہ اقرار دراصل وہ اعلیٰ درجہ کا انکسار تھا جو آپؐ کے مزاج کا حصّہ اور فطرتِ ثانیہ تھا بجائے اس کے کہ آپؐ خوشی سے اچھل کر چل پڑتے اور لوگوں میں فخریہ بیان کرتے پھرتے کہ یہ عظیم الشان کام میرے سپرد ہوا ہے ۔آپؐ نے انکسار کاوہ رنگ اختیار کیا جو کبھی کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ یہ انکسار دیکھ کر حامل وحی فرشتہ کا دل اُس کامل منکسرالمزاج انسان کی محبت کے جوش سے بھر گیا اور اُس نے بے اختیار آپؐ کو گلے لگا کر اپنے ساتھ چمٹا لیا۔
تین دفعہ فرشتہ نے ’’اِقْرَأ‘‘ کہہ کر پڑھنے کے لئے کہا اور ہر دفعہ وہی کمال انکساری کا جواب پاکر محبت کی آگ اس کے دل میں ایسی شعلہ زن رہی کہ وہ بے اختیار ہوکر آپؐ سے چمٹ جاتا، حتّٰی کہ فرشتہ نے باصرار خدا کی امانت آپؐ کے سپرد کردی۔مگر آپؐ کا انکسار دیکھو کہ( پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور) گھبرائے ہوئے حضرت خدیجہؓ کے پاس جاتے اور فرماتے ہیں۔مجھے اپنی جان اور زندگی کے بارہ میں خوف ہے۔
اے نبیوں کے سردار!اے تمام کمالات انسانی کے جامع! اے بنی نوع انسان کے لئے ایک ہی رہنما اور ھادی! میری جان آپؐ پر قربان ہو آپؐ اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کرتے اور یہی خیال کرتے ہیں کہ میں اس قابل کہاں کہ اس خدائے واحد لاشریک کے کام کا بوجھ اٹھانے والا بنوں۔
دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ بھی کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں تواضع کے عالی مقام پر فائز ہونے کا ثبوت ہے۔چنانچہ پہلے الہام سے آپؐ کی گھبراہٹ اس لئے تھی کہ کہیں یہ کلام مجھ پر آزمائش بن کر نہ اترا ہو۔اس لئے اپنا خوف حضرت خدیجہؓ کے آگے بیان فرمایا۔
حضرت خدیجہ ؓ نے جو آپؐ کو تسلّی دلائی وہ بھی آپؐ کی اعلیٰ درجہ کی انکساری کی گواہی دیتی ہے۔اس کا حاصل یہ تھا کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان ضائع نہیں ہوسکتا کیونکہ آپؐ تو رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں،اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو اخلاق فاضلہ دنیا سے اُٹھ گئے ہیں وہ آپؐ قائم کرتے ہیں۔ مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کرتے ہیں ۔ مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔یہ سب کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ درجہ کا انکسار ظاہر کرتے ہیںاور ان کے بیان سے حضرت خدیجہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ پر یہ الہام بطور آزمائش نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر ہے۔(بخاری)7
علامہ قاضی عیاض نے اپنی سیرت کی مشہور کتاب الشفاء میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع سب لوگوں سے بڑھ کر اورکبر سب سے کم تھا۔بعض علماء نے اس پرتنقید کرتے ہوئے اس خیال کااظہار کیا کہ حضورؐ میں کبر تھاہی نہیں۔ ایک پہلو سے یہ بھی درست ہے اور دوسرے پہلو سے علامہ عیاض کی بات بھی قابل فہم نظر آتی ہے، جب اس سے مراد یہ لی جائے کہ آنحضور ؐ نے اپنے مقام و منصب کی عظمت کا اظہار کیا بھی ہے تو ارشادد ربّانی کی تعمیل میں ایسا کیا،ورنہ آپؐ اپنی خوبی یا نیکی کا اظہار پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ بسااوقات غائب کے صیغہ میں اُس کا ذکر فرمادیتے تھے۔تالوگوں کو نیکی کی تحریک ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل کبریائی تو خدا ئے وحدہ‘ لا شریک کوہی زیباہے، لیکن اس کے بعد جن وجودوں پر اس کی عظمت کا پر تو پڑتا ہے ، ان کو حکم ملتا ہے کہ اپنے مقام کا اظہار کرو۔ ان کو اپنے خداداد مقام ومرتبہ کا اظہاردنیا پر اتمام حجت کے لئے کرنا پڑتا ہے۔ یہ تواضع حقیقی کے خلاف نہیں ہوتا۔دراصل تواضع کے موقع پر تواضع کا اظہارہی اصل خُلق ہے۔چنانچہ ہمارے آقا و مولا شہنشاہ دوعالمؐ کو حسب حکم الہٰی دنیا کو دیگر انبیاء کے مقابل پر اپنا امتیازی مقام بتانا پڑا۔ چنانچہ فرمایا
-1ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا مجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف بھیجا گیا ہے۔
-2مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملا۔
-3مجھے خاتم النبینؐ بنایا گیا ہے۔ (بخاری)8
مگر اتنے عظیم مقام اور مراتب بیان کرتے ہوئے بھی کبھی فخر اور غرور پیدا نہیں ہوا۔ بنی نوع انسان کو خطاب کرتے ہوئے تمام مفاخر کا خلاصہ آپؐ کا یہ خوبصورت اعلان تھا ۔اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ کہ میں تمام بنی آدم کا سردارہوں مگر اس پرکوئی فخر نہیں کرتا۔(احمد9)بلکہ حکم الہٰی کی تعمیل میں اظہار حقیقت کے لئے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے۔یہ تھی رسول اللہ کی تواضع اور انکساری کی دلی کیفیت!
رسول اللہؐکے قلب مطہر سے بھی اسی پاکیزہ تعلیم کے چشمے پھوٹے اور آپؐ نے خدا سے علم و عرفان پاکر اپنے تجربہ سے یہ حقیقت آشکار فرمائی۔مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ الاَّرَفَعَہُ اللّٰہُ کہ بندہ جب خدا کے لئے انکساری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اُس کو رفعت عطاکرتا ہے۔(مسلم)10
رسول اللہؐ کی اپنے مولیٰ کے حضور تضرّع و ابتہال اور عجز ونیاز کا کچھ اندازہ آپ ؐکی اس عاجزانہ مناجات سے بھی ہوسکتا ہے۔جو آپؐ نے حجۃ الوداع میں عرفات کی شام میں کی۔
’’اے اﷲ تو میری باتوں کوسنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے ۔میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے۔مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں ،تیری مدد اور پناہ کا طالب ،سہما اور ڈرا ہؤا،اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس (چلا آیا) ہوں مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں (ہاں!) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں ۔ایک اندھے نابینے کی طرح (ٹھوکروں سے)خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں ۔میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے ۔اے اﷲ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔اے وہ! جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے ۔(میری دعا قبول کر لینا)۔‘‘(ہیثمی)11
رسول کریمؐ کو جو بلند مقام عطا ہوا اُس میں تواضع اور انکسارکو بھی بہت دخل تھا ۔ چنانچہ حضرت ابو ھریرہؓ اور حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ اسرافیل ؑ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اس تواضع کی بدولت جو آپؐ نے اس کے لئے اختیار کی یہ انعام عطا کیا ہے کہ آپؐ قیامت کے روز تمام بنی آدم کے سردار ہونگے۔ سب سے اول حشر بھی آپؐ کا ہوگا۔ سب سے پہلے شفیع بھی آپؐ ہونگے ،جو ایک عالم کو اپنی شفاعت کے ذریعہ عذاب الہٰی سے نجات دلائیں گے۔(عیاض)12
عقل محو حیرت ہے کہ ان تمام بلند مقامات کے حامل انسان کی انکساری کا یہ عالم کہ اپنے اہل خاندان کو مخاطب کر کے فرمایا اے میری پھوپھی صفیہؓ بنت عبدالمطلب اور اے میری لخت جگر فاطمہ ؓمیں تم کو اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچا سکتا۔اپنی جانوں کی خود فکر کرلو۔(بخاری)13
اسی طرح نہایت درجہ انکسار کے ساتھ آپؐ اپنے صحابہ کو یہ سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں لیکر نہیں جائیں گے۔صحابہ نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا آپ کے عمل بھی؟آپؐ نے فرمایا ہاں!مجھے بھی اگر خدا کی رحمت اور فضل ڈھانپ نہ لیں تو میں بھی جنت میں نہیں جاسکتا۔(مسلم)14
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی تجہیز وتکفین کے موقع پر جب ایک انصار یہ اُمّ العلاء ؓنے ان کے بارے میں جذباتی رنگ میں یہ کلمات کہے کہ اے عثمانؓ تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا اکرام کیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فوراً انہیں ٹوکا اور فرمایا تمہیں کیسے پتہ کہ اللہ نے اس کی عزت کی؟ امّ العلاء ؓنے عرض کیایا رسول اللہؐ اگر ایسے نیک انسان کااعزاز و اکرام نہیں تو پھر کس کا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا بس رہنے دو،کسی وفات یافتہ کے لئے محض یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس کے لئے خیرو بھلائی کی امید رکھتا ہوں۔ اور خدا کی قسم! میں (باوجودیکہ) اللہ کا رسول ہوں مگر مجھے بھی علم نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟(بخاری)15
آئیں اب رسول اللہؐ کی روزمرّہ زندگی میں عجزوانکساری کی خوبصورت جھلکیاں دیکھیں۔
نبی کریمؐ فرماتے تھے کہ میں تو عام مزدور سا آدمی ہوں۔ عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ آپؐ کی گھریلو زندگی بھی اس پر گواہ تھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے۔ آپؐ کپڑے خود دھولیتے تھے، گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے ،خود اونٹ کو باندھتے تھے، اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے،بکری خود دوھتے، اپنے ذاتی کام خود کرلیتے تھے۔خادم کے ساتھ اس کی مدد بھی کرتے،اُس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے،بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔(احمد)16
اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین اخلاق والا نہیں تھا۔ آپؐ کے صحابہ میں سے یا اہل خانہ میں سے جب بھی کسی نے آپؐ کو بلایا تو ہمیشہ آپؐ کا جواب یہ ہوتا تھا کہ میں حاضر ہوں۔تب ہی تو قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ آپؐ عظیم خلق پر قائم ہیں۔(ابن الجوزی)17
حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ بیوگان اور مساکین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کے ساتھ چل کر جانے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔(دارمی)18
حضرت انسؓ بن مالک خادم رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ اپنی سواری کے پیچھے سوار کرالیتے تھے اور زمین پر رکھ کر کھانا کھالیتے تھے، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سواری کرلیتے تھے۔(حاکم)19
ابوموسیٰ ؓکی روایت کے مطابق آپؐ موٹے اونی کپڑے پہن لیتے،اپنی بکری باندھ لیتے اور مہمان کا خود خیال رکھتے اور خدمت کرتے تھے۔(حاکم)20
حمزہؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ میں ایسی خوبیاں تھیں جو متکبر اور سرکش لوگوں میں نہیں ہوتیں۔آپؐ بلا امتیاز رنگ و نسل لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے اور گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہوجاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس نے جو اور چربی پیش کی۔(ابن سعد)21
حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ کو تین مرتبہ بلایا،ہردفعہ آپؐ نے لبیک کہہ کر جواب دیا کہ میں حاضر ہوں۔(ہیثمی)22
عبداللہؓ بن جبیر خزاعی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمؐ اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ آپؐ کے لئے کپڑے کا سایہ کیا گیا۔جب آپؐ نے سایہ دیکھ کر سر اوپر اُٹھایا تو دیکھا کہ آپؐ کو کپڑے سے سایہ کیا جارہا ہے آپؐ نے فرمایا رہنے دو اور کپڑا لے کر رکھ دیا اور فرمانے لگے میں بھی تمہاری طرح کاانسان ہوں۔(ہیثمی)23
حضرت عامر ؓ بن ربیعہ کی روایت ہے کہ میں رسول کریمؐ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، اس دوران حضورؐ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ میں حضورؐ کا جوتا لے کر اسے ٹھیک کرنے لگا آپ ؐ نے میرے ہاتھ سے وہ جوتا واپس لے لیا اور فرمایا یہ ترجیحی سلوک ہے اور مجھے اپنے لئے ترجیح پسند نہیں۔(ہیثمی)24
حضرت انس ؓبن مالک بیان کرتے ہیںکہ میں ایک دن علی الصبح آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔تو کیا دیکھتاہوں کہ آپؐ خود اپنے بیت المال کے اونٹوں کوداغ رہے ہیں۔ (ابودائود)25
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ میں ایک د فعہ رسول کریمؐ کے ساتھ بازار گیا، آپؐ کپڑے کی دکان میں گئے اور وہاں سے چاردرھم کے کچھ پاجامے خریدے۔ رائج الوقت طریق کے مطابق حضور ؐ سے یہ رقم وصول کرنے کے لئے جب وزن کرنے والا چاندی کے سکے تولنے لگا تو آپؐ نے فرمایا کہ پلڑے کو جھکنے دو۔مقصد یہ تھا دوکاندار کو کچھ زیادہ مل جائے۔ دوکاندار حیران وششدر تھا کیونکہ پہلی دفعہ کسی گاہک نے اس کے فائدہ کی بات کی تھی۔ وہ لپک کرحضورؐ کے ہاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھا۔ آپؐ نے اپناہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں۔ میں تو تم میں سے ہی ایک فرد ہوں۔ پھررسول اللہؐ نے پاجامے خودہی اٹھالئے ۔ابوھریرہؓ کہتے ہیں کہ میں اٹھانے لگا تو آپؐ نے انکساری کی کیسی خوبصورت تعلیم فرمائی کہ جس کی چیز ہو ،وہ اسکو اٹھانے کا زیادہ حقدار ہوتا ہے، البتہ اگر وہ کمزور و ناتواں ہو اوراپنی چیز اٹھانے سے عاجز ہوتو پھر اس کا مسلمان بھائی اسکی مدد کرے۔(ہیثمی)26
نبی کریم ؐکو صحابہ کے ساتھ مل جل کر کام کرنا پسند تھا۔مسجد نبوی کی تعمیر میں خود پتھر ڈھوتے رہے۔ غزوہ ٔخندق میں خود کھدائی کرنے اور مٹی اٹھانے میں شامل ہوئے۔ (بخاری) 27
ایک دفعہ صحابہ آنحضورؐکے ساتھ سفرمیںتھے، ایک جگہ پرپڑائو ہوا۔ آنحضور ؐ نے فرمایا سب صحابہ میں کام تقسیم کئے جائیں۔تعمیل ارشاد ہوئی ۔ خیمہ لگانے ،کھانا پکانے ،پانی لانے وغیرہ کے سب کام تقسیم ہوچکے۔ آپؐ نے فرمایا میرے ذمہ کیا کام ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضورؐ ہم آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں ۔آپؐ تشریف رکھیں۔آپؐ نے فرمایا نہیں میں بھی کام کرونگا۔پھر خود ہی فرمایا آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنے کا کام ابھی تک کسی کے سپرد نہیں ہوا۔ میںیہ کام اپنے ذمّہ لیتا ہوں(میں لکڑیاں جمع کرونگا) اور پھر آپؐ اس مقصد کے لئے جنگل میں چلے گئے۔(زرقانی)28
نبی کریمؐ کا کھانا پینا اور خوراک ولباس اتنے سادہ تھے کہ اسراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔نبی کریمؐ نے عام دینوی سرداروں کی طرح اپنی سواری کے جانور کوبھی کبھی فخرو مباہات کا ذریعہ نہیں بنایا۔آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی۔ سب اونٹنیوں سے آگے نکل جاتی تھی۔ ایک دفعہ پیچھے رہ گئی تو صحابہ کو اس کا بہت افسوس ہوا۔ آپؐ ان کو تسلی دیتے اور فرماتے تھے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز جب بلند ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نیچا دکھاتا ہے۔(بخاری)29
رسول کریمؐلباس کے استعمال میں بھی احتیاط فرماتے کہ عُجب و فخر کاذریعہ نہ ہو۔ صحابہ کو بھی نصیحت فرماتے کہ کپڑے لٹکاکر چلنا کبر کی نشانی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔جمعہ عید اور مہمانوں یا وفود کی آمد پر شایانِ شان مناسب لباس بھی پہنتے تھے مگر کبھی بڑائی کا اظہار مقصود نہ ہوا۔
آپؐ صرف ضرورت کے وقت لباس خریدتے تھے۔ غرباء کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے تھے۔ بسااوقات ایسا ہوا کہ اپنی ضرورت کے کپڑے بھی مستحقین کو دے دیئے۔
ایک دفعہ ایک کم سن لونڈی کو بازار میں روتے دیکھا جو گھر کے مالکوں کا آٹا خریدنے نکلی تھی مگر درہم گم کر بیٹھی ۔آپؐ نے اُسے درہم بھی مہیّا کئے اور اُس کے مالکوں کے گھر جاکر سفارش بھی کی ۔جنہوں نے حضورؐ کی آمد پر خوش ہوکر اسے آزاد کردیا۔(ہیثمی)30
غزوۂ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ایک سواری میں کئی اصحاب شریک تھے۔ رسول اللہؐ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں دوساتھی اورشامل تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضورؐ اونٹ پر سوار ہوجائیں ہم پیدل چلیں گے۔آپؐ فرماتے نہیں ہم باری باری سوار ہونگے نہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو کہ تم پیدل چلو اورمیں سوار ہوںاورنہ تمہیں ثواب اور اجر کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے کہ تم چل کر ثواب حاصل کرواور میں اس سے محروم رہوں۔(احمد)31
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثراپنے اصحاب کی عیادت کیلئے خود تشریف لے جاتے تھے۔اپنے یہودی غلام کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔ آپ ؐ غریب اور مسکین لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور مجلس کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ایک غریب حبشی لونڈی جو مسجد میں جھاڑو دیتی تھی،فوت ہوگئی۔صحابہ نے شایداُسے حقیر جانتے ہوئے رات کے وقت حضورؐ کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اسے دفن کردیا۔ حضور ﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا مجھے کیوں اطلاع نہ کی؟ پھرآپؐ نے خوداس عورت کی قبر پر جاکر دعائے مغفرت کی۔(مسلم)32
رسول کریمؐاکثر یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنااسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مسکینوں کی جماعت میں سے اٹھانا۔(ترمذی)33
آنحضورؐ صحابہ کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتے تھے ۔ اس انکسار کی وجہ سے بعض دفعہ کوئی اجنبی یا مسافر آپکو پہچان نہ سکتا تھا کہ آپؐ مجلس میں کہاں تشریف فرما ہیں۔صحابہ نے درخواست کر کے مٹی کا ایک چبوترہ آپؐ کے لئے بنادیا تاکہ آنیوالے مہمان آپؐ کو نمایاں طور پر پہچان لیں۔ آپؐ کبھی اس چبوترے کے اوپر بیٹھ جاتے تھے اور کبھی انکسارسے اس کے پہلو میں ہی بیٹھ جاتے۔
ایک دفعہ آنحضورؐ مجلسمیں صحابہ کے درمیان ٹیک لگائے تشریف فرما تھے۔ ایک شترسوار بدو آیا،اس نے مسجدکے ملحقہ حصے میں اونٹ بٹھایا ، اس کا گھٹنا باندھ کر، سادگی سے پوچھنے لگا بھئی!تم میںمحمدؐ کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا،یہ سفید رنگ کے جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیںمحمدؐ ہیں۔ وہ بدّو آپؐ کی خاندانی نسبت سے بلا کر یوں مخاطب ہوتا اور کہتاہے! اے عبدالمطلب کے بیٹے! ہمارے آقاکمال تواضع اور انکسار سے جواب دیتے ہیں’’میں حاضر ہوں۔‘‘
وہ بدّو( اس جواب سے اور حوصلہ پاکر) کہنے لگا۔ میں آپؐ سے کچھ سوال کرتا ہوںاور سوال میں ذرا سختی کرونگا۔آپؐ مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ اندازہ کیجئے کہ بدّوکی ایسی درشتی کیسی ہوگی؟ جس کا اُسے خود بھی احساس ہوکہ وہ ناراض کرسکتی ہے۔ آنحضورؐ کمال حوصلہ اور تحمل سے فرماتے ہیں کہ جو چاہو پوچھو تب وہ بدو آپؐ کو ربّ کی قسم دے کر سوال پوچھتا ہے اور حضورؐ اسے نہایت انکسار سے جواب دیتے چلے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ اس کی تسلی ہوگئی۔(بخاری)34
آپؐ تواضع اور انکساری کے باعث اپنی تعریف پسند نہیں فرماتے تھے۔حدسے زیادہ تعریف کرنے والے کو ٹوک دیتے۔ صحابہ اور امت مسلمہ کو بھی یہی تعلیم دی کہ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ سے کام نہ لینا۔ جس طرح عیسائیوں نے مسیح ابن مریم کی ناجائز تعریف کر کے مبالغہ کیا۔ فرماتے تھے کہ دیکھو!میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں۔پس مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو، یہی کافی ہے۔(بخاری)35
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایااے محمدؐ!ہم میں سب سے بہترین اور اے ہم میں سے سب سے بہترین لوگوں کی اولاد! اے ہمارے سردار اور اے ہمارے سرداروں کی اولاد! آپؐ نے سنا تو فرمایا کہ دیکھو تم اپنی اصلی بات کہو اور کہیں شیطان تمہاری پناہ نہ لے۔میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھاچڑھا کر بتائو ،جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔(احمد) 36
حضرت حسین بن علیؓ سے فرماتے تھے کہ ہم سے بے شک محبت کرو مگر محض اسلامی محبت۔(یعنی اس میں غلو نہ ہو)کیونکہ نبی کریمؐ فرماتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش نہ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا ہے اور رسول بعد میں۔(ہیثمی)37
ربیع بنت معوذ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ میری شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے ۔لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر گانے گارہی تھیں۔ جن میں شہید ہونے والے میرے آباء و اجدادکا قصیدہ بھی تھا۔ اچانک ان میں سے ایک لڑکی نے حضورؐ کو دیکھ کر فی البدیہہ یہ مصرع کہہ دیا۔ وَفِیْناَ نَبِیٌ یَعْلَمُ مَافِیْ غَدٍ یعنی ہمارے اندر ایسا نبی موجود ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہونے والاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فوراً ٹوک دیا اور فرمایا یہ رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔ (بخاری)38
اس میں کیا شک ہے کہ نبی کریمؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکرآئندہ کے بارہ میں بے شمار سچی پیشگوئیاں فرمائیں ہیں،جو اپنے وقت پر پوری بھی ہوئیں مگر جب ایک بچی نے ایساکہنا چاہاتومبالغہ کے ڈر سے اسے روک دیا۔
رسول کریمؐ نے اپنا مقام ایک ’’بشر‘‘ انسان کے طور پرہمیشہ پیش فرمایا، جسے خداتعالیٰ نے اپنی وحی سے سرفراز فرماکر نبوت کا مقام عطاکیا۔جتنا علم آپؐ کو اللہ کی طرف سے ہوتا، آپؐ اس کا اظہار فرمادیتے تھے۔کوئی کمزوری ہوتی تو اسے اپنی بشریت کی طرف منسوب فرماتے۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجورکے درختوں کا ’’بُور‘‘ (ذرات) مادہ پر بکھیر کر جفتی کا عمل (Polination)کرتے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کہ یہ کیا کرتے ہو؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا دستور پراناہے۔آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ اس پر انہوں نے یہ عمل ترک کردیا جس کے نتیجہ میں اس سال کھجور کا پھل کم پڑا۔ صحابہ نے نبی کریمؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا میں بھی ایک انسان ہوں۔میں دین کی جس بات کا حکم دوں اسے اختیار کرو اور اپنی رائے سے کوئی بات کہوںتو میری رائے ایک عام انسان جیسی سمجھو نیز فرمایا کہ دنیا کے معاملات تم بہتر جانتے ہو۔(مسلم)39
بعض دفعہ آپؐ نماز میں رکعتوں کی تعدادبھول گئیاورچار کی بجائے دو پڑھادیں پھر فرمایا میں بھی تمہاری طرح انسان ہی ہوں۔جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول سکتا ہوں۔(ابودائود)40
رسول کریمؐ عاجزی سے بھری ہوئی یہ دعائیں بھی کرتے تھے اے اللہ میں ایک انسان ہوں جس طرح ایک عام آدمی کو غصّہ آجاتا ہے۔مجھے بھی غصہ آتا ہے۔پس اگر کسی مومن بندے کے خلاف میں کوئی بددعا کروں تو اس بددعا کو اس شخص کے حق میں پاکیزگی برکت کا ذریعہ بنادینا۔(احمد41)اے اللہ! میں ایک انسان ہی ہوں۔اگر میں نے کسی مومن کو کوئی ایذادی ہویا بُرا بھلا کہا ہو تو اس بارہ میں مجھ سے بدلہ نہ لینا اور معاف فرمادینا۔(احمد)42
حضرت ابو امامہؓ باہلی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ؐ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ اپنی چھڑی کوٹیکتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ہم نے آپؐ کودیکھا تو احترام کی خاطر کھڑے ہوگئے۔آپؐ نے فرمایا جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح میری خاطر کھڑے نہ ہوا کرو۔ (ابودائود)43
دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جابر بادشاہوں کی طرز پرجبراً رعایا سے اپنی تعظیم کروانی پسند نہیں فرمائی، جو تعظیم نہ کرنیوالوں کو عبرتناک سزائیں دیتے تھے۔گویا آپؐ نے عقیدت و احترام کی خاطر کھڑے ہونا صحابہ کے لئے اختیاری امر قرار دیا،جیسے رسول اللہؐ خود حضرت فاطمہؓ کے آنے پر ازراہ محبت کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
چنانچہ غزوہ بنو قریظہ میں جب حضرت سعدؓ اپنی خچرپر سوار ہوکرثالثی فیصلہ کرنے آئے تو آپؐ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کے اعزاز کی خاطر کھڑے ہو جائو۔گویا عزّت کے لئے کھڑے ہونا منع نہیں۔اس کے باوجود یہ آپؐ کی کمال درجہ کی خاکسار ی تھی کہ بادشاہ ہوکر بھی اپنی ذات کے لئے شاہانہ انداز پسند نہ فرماتے تھے۔
حضرت ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ؐکے پاس ایک شخص آیا آپؐ اس سے گفتگو فرما رہے تھے۔دریں اثنا اس پرآپؐ کے رعب وہیبت سے کپکپی طاری ہوگئی۔ آپؐ اسے فرمانے لگے۔
’’اطمینان اور حوصلہ رکھو۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیںمیں کوئی (جابر) بادشاہ تھوڑا ہوں۔میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔(ابن ماجہ44)الغرض آپؐ کی طبیعت جابرانہ نہیں منکسرانہ تھی۔اللہ کی رحمت خاص نے آپؐ کا دل نرم کردیا تھا۔
حضرت مسور بن مخرمہؓ اپنے والد مخرمہؓ (جو آنکھوں سے معذور تھے) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ کہنے لگے مجھے پتہ چلا ہے کہ نبی کریمؐ کے پاس کچھ قمیصیں آئی ہیں آئو ہم بھی لینے جائیں۔ہم گئے تو نبی کریمؐ گھر میں تھے مجھے ابا نے کہا کہ بیٹے حضورؐ کو آواز دو۔مجھے یہ بات عجیب لگی کہ رسول اللہؐ کوباہر سے آواز دیکر بلائوں۔والد کہنے لگے بیٹے! نبی کریمؐ ہر گز سخت گیر نہیں ہیں تم بے شک آواز دے کر بلائو۔ میں نے بلایا تو آپؐ تشریف لائے۔ ایک ریشمی قمیص آپؐ کے پاس تھا۔ جس پر سونے کے بٹن تھے، آپؐ فرمانے لگے مخرمہؓ! ہم نے پہلے ہی یہ قمیص تمہارے لئے بچا کر رکھ لیا تھا۔(بخاری) 45
آنحضورؐ محتاجوں اور معذوروں کے ساتھ ان کی سطح پر اتر کر محبت اور نرمی سے پیش آتے۔ مدینہ کی دیوانی اور مجنون عورت بھی اسی طرح آپؐ کی شفقت کی مورد ہوتی جس طرح کوئی اور۔ وہ آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے جاکر آپؐ کو اپنی بات سنانا چاہتی ہے اور حضورؐ بخوشی اس کی خواہش پوری کرتے ہیں۔(بخاری)46
رسول کریمؐ غرباء کی ضروریات توجہ سے سنتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ ایک حبشی لونڈی مرگی کے دوروں کا شکا رتھی ۔ آپؐ کی دعا کا آسرا ڈھونڈھ کر آئی اور درخواست دعا کی۔ آپؐ نے اُسے بھی حقیر نہیں جانا اوراُسے تسلی دی اور اس کے لئے دعا کی۔(عیاض)47
ایک نابینا حاضر خدمت ہوا اور عرض کی کہ حضورؐ میرے لئے دعا کریں کہ میری بصارت لوٹ آئے ۔آپؐ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں دعا کردیتا ہوں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور میرے خیال میں یہ تمہارے لئے زیادہ بہترہے۔جب نابینا نے دعا پر ہی زور دیا تو آپؐ نے اُسے ایک دعا سکھائی۔(ترمذی)48
کسی ضرورت مند کو دیکھ کررسول اللہؐ کا دل اس کی مدد کیلئے رحم سے بھر جاتا ہے۔ایک دفعہ نماز پر جاتے ہوئے ایک ناتجربہ کار بچے کو جانور کی کھال اتارتے دیکھتے ہیں۔آپ ؐ اس کا درست طریق خود کھال اُتار کراسے سمجھاتے ہیں اور پھر آگے نماز پر تشریف لے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ)49
اپنے کم سن غلام زادے اسامہؓ کی ناک بہتی دیکھتے ہیں تو خود صاف کرنے کو آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہرسول اللہؐ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کھانے پیالے میں ڈالا۔ اپنے ساتھ اُسے کھانا کھلایا اور فرمایا اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے کھائو۔(ترمذی)50
حضرت عمرؓ نے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو اجازت دیدی اورکمال انکسار سے فرمایا۔اے بھیا!ہمیں بھی اپنی دعائوں میں نہ بھولنا۔حضرت عمرؓ کہتے ہیں مجھے اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔(ابودائود)51
تواضع و انکسارکا یہی عملی سبق نبی کریمؐ نے اپنے صحابہ کو دیا۔قرآن شریف نے بھی ان غلامانِ محمدؐکی تعریف کی اور فرمایا کہ ان کی عاجزی کے اصل جوہر تب کھلتے ہیں،جب بارگاہ الوہیت میں ان کی گردنیں خم ہوتی اور جبینیں اس کی چوکھٹ پرسربسجود ہوتی ہیں۔انکسار کے ان پتلوں کی یہ کیفیت دراصل رضائے باری کے حصول کی خاطر ہوتی ہے، جہاں خدا کی مرضی شدت و صلابت کے اظہار کی ہو وہاںطاقت و شوکت ظاہر کرتے اور جہاں تواضع کا اظہار مقصود ہو انکساری دکھاتے ہیں۔گویا ان میں اپنے محل اور موقع پرتواضع دکھانے کا خلق پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
یہی سبق رسول اللہؐ نے اپنے صحابہ کو دیا تھا۔جب حدیبیہ کے اگلے سال کے موقع پر صحابہ مکہ میں عمرہ کرنے آئے۔ کفار مکہ کی ایک گھاٹی سے مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ مکہ میں مشہور ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور اور انکی کمروں کو خم کردیا ہے۔نبی کریمؐ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں سے مشرک مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھ رہے تھے وہاں وہ دوڑ کر طواف کریں اور باقی چکر میں بے شک پیدل چلیں۔(بخاری)52
ایک صحابی اس موقع پر طواف کرتے ہوئے جب کفار کے سامنے سے گزرے تو ان کے مقابل پر مضبوطی کے اظہار کے لئے اکڑ کر چلتے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ عام حالات میںتو اکڑ کر چلنے کا یہ انداز خدا کو پسندیدہ نہیں۔ مگر آج تمہارا یہ انداز خدا کو بہت بھلا اور پیارا لگا۔کیونکہ آج تم دشمنانِ اسلام کے مقابل پر مسلمانوں کی شدت کا اظہار کرنے کے لئے ایسا کررہے ہو۔(ہیثمی)53
دنیا میں بڑائی کے اظہار کے ذریعے طاقت و حکومت مال و دولت ، علم و فضل اور عزت و وجاہت مانے جاتے ہیں۔نبی کریمؐ نے یہ تمام نعمتیں پائیں مگر تکبر کو پاس تک نہیں پھٹکنے دیا۔ ہمیشہ تقویٰ اور خدا خوفی کوعزت و تکریم کا حقیقی معیار قرار دیا۔
آپؐ کے پاس مال آیا تو اُسے بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کیا۔کوئی پیسہ جمع نہیں کیا۔ کوئی محل نہیں بنوایا۔ کوئی دربار نہیں سجایا۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی یہی نعرہ بلند کیاکہ اِ نَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ الْمُعْطِیْ ’’یہ سب خدا کی عطا ہے۔ میں تو محض تقسیم کرنیوالا ہوں۔‘‘(بخاری)54
آپؐ کو خدائے علّام الغیوب نے علم عطا فرمایا کہ دریا بہادیئے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے خدا نے وہ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اس لحاظ سے اللہ کا آپؐ پربہت بڑا فضل ہے۔(سورۃ النسائ:114)
رسول اللہؐ کو علم و معرفت کی اس فراوانی کے باوجود کبھی علم کے تکبر کا سوال ہی پیدا نہیںہوا،بلکہ جتنا علم بڑھتا گیا خدا کے حضورؐاتنے ہی جھکتے چلے گئے۔ مدینہ کے یہودی جو علمی لحاظ سے بھی آپؐ کے بڑے حریف تھے۔جن کو صبح و شام یہ قرآنی چیلنج دیئے جاتے تھے کہ قرآن کے مقابل ایک آیت ہی پیش کر دکھائو۔ وہ بسا اوقات آکر اپنی طرف سے مشکل سے مشکل سوال کرتے۔ رسول کریمؐ قرآنی اخلاق کے مطابق لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ( بنی اسرائیل:37) پر عمل کر کے دکھاتے یعنی جس بات کاتجھے علم نہیں اس موقف کو اختیار نہ کر۔خود فرماتے تھے کہ یہ بھی انسان کے علم کی نشانی ہے کہ جس بات کاپتہ نہ ہو صاف کہہ دے کہ مجھے اس کاعلم نہیں۔ (بخاری)55
ایک دفعہ آپؐ مدینہ کے ایک ویرانے سے گزررہے تھے۔ یہودکی ایک جماعت کابھی ادھر سے گذرہوا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے متعلق سوال پوچھو۔ بعض نے کہا مت پوچھو کیونکہ ایسا سخت جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا۔ بعض نے پوچھنے پر اصرار کیا۔چنانچہ ایک شخص نے روح کے بارہ میں سوال پوچھا تو حضور ؐ خاموش ہوگئے۔عبداللہؓ بن مسعود کہتے ہیں میں نے سوچا کہ آپؐ کی طرف وحی ہورہی ہے۔جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپؐنے(بنی اسرائیل:86)کی تلاوت فرمائی۔جس میں اس سوال کاجواب ہے۔ (بخاری56) گویا جب تک خدا کی طرف سے جواب عطا نہ ہوا آپؐ نے خاموشی کو عار نہیں سمجھا۔
انسان کو سب سے بڑا تکبر حکومت و طاقت کے بل بوتے پرہوتا ہے۔ مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عجیب شان ہے کہ سب سے زیادہ انکساراس موقع پر دکھایا۔ جب زندگی کی سب سے بڑی فتح اپنے سب سے بڑے دشمن مشرکین مکہ پر حاصل ہوئی۔
مکہ آپؐ کا پیارا وطن تھا جہاں سے بزور شمشیر آپؐ کو نکالا گیا۔مگر خداکی شان کہ جلاوطنی کے صرف آٹھ سال بعد اُس شہر میں جب آپ فاتحانہ شان سے داخل ہوئے تو دس ہزار صحابہ کا لشکر آپؐ کے جلومیںتھا۔ آپؐ چاہتے تو ایسی ظاہری شان و شوکت اور ہیبت سے مکہ میں داخل ہوتے کہ اہل مکہ کے دل بیٹھ جاتے۔ مگر خدا کایہ متواضع بندہ کس شان انکسارسے شہر مکہ میں داخل ہوا۔ مفتوح قوم کے لوگ جوق درجوق فاتح شہر کو دیکھنے نکلے تو وہاں عجیب نظارہ تھا۔رسول اللہؐ کسی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے پر نہیں بلکہ ایک اونٹ پر سوار تھے اور کسی فخر یا تکبر کا تو کیا ذکر تواضع اور انکسار کی وجہ سے آپ ؐکی گردن جھکی ہوئی تھی اورجھکتی چلی جارہی تھی۔یہاں تک کہ آپؐ کی پیشانی اونٹ کے پالان کی لکڑی کو چھونے لگی۔(ابن ھشام57)آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالارہے تھے۔ آپؐ کی زبان اس وقت خداکی عظمت کے گیت گارہی تھی۔ سچ پوچھو تو اس وقت آپؐ کی پیشانی کا جھکنا تو انکسار کی محض ایک ظاہری علامت تھی۔ فی الحقیقت اس وقت آپؐ کے جسم کا رئواں رئواں خدا کے حضور سجدہ شکربجالارہا تھا۔
یہ تھا دنیا کا عظیم فاتح،دنیاکا شہنشاہ مگر بیک وقت متواضع اور منکسر المزاج انسان۔یہ تو آپؐ کی فتح کا موقع تھا۔آپؐ کا تو دستور تھا کہ ہر سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے بھی اَللّٰہُ اَکْبَرْ پڑھتے جس میں یہ پیغام ہوتا تھا۔ اللہ سب سے بڑا ہے سب بلندیاں اصل میں اسی کو زیبا ہیں۔(بخاری)58
یہ ہے تواضع اور انکسار میں شاہ دو جہاں کااسوۂ حسنہ جو آپؐ نے عرب کے اس دور میں دکھایا جسے فخر ومباہات اور اظہار کبروغرور کا دور کہا جاسکتا ہے، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے جملہ اوصاف و اخلاق تفاخر کے گرد گھومتے تھے، وہ جنگ کرتے تھے تو نام پیدا کرنے کے لئے، مہمان نوازی کرتے تھے تو شہرت کی خاطر،سخاوت کرتے تھے تو نمود کے لئے،وہ اپنی ناک رکھنے اور جھوٹی عزّت کی خاطر جان کی بازی لگادینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے، اسی ذاتی وجاہت اور خاندانی عزت کے جھوٹے کبر کا نتیجہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں ادنیٰ سی بات پر شروع ہونے والی جنگیں سالہا سال چلیں۔ نبی کریمؐ نے اس معاشرہ کو خاکساری کا درس اور عملی نمونہ دیا تھا۔
آپؐ سردار انبیاء ٹھہرائے گئے مگر تواضع ایسی کہ ہمیشہ دیگر انبیاء کی شان بیان کرتے نظرآتے ہیں۔کبھی فرماتے ہیں نَحْنُ اَحَقُّ بِالْشَّکِ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ کہ ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حضور اطمینان قلب کے لئے احیاء موتی کا جو نشان مانگا تھا اگر وہ شک تھا تو پھر ہم اس شک کے زیادہ حقدار ہیں۔(بخاری)59
ایک دفعہ کسی نے آپؐ کو یَاخَیْرَ الْبَرِیَّہِّ کہہ کر پکارا۔ یعنی اے مخلوق کے بہترین وجود! آپ ؐنے فرمایا وہ تو ابراہیم علیہ السلام تھے۔(احمد)60
کبھی حضرت لوط علیہ السلام کا ذکرکرتے ہوئے آپ ؐ فرماتے ہیں اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، کیسے مشکل اور کٹھن حالات سے گزرے ہونگے کہ اللہ کی مضبوط پناہ کو تلاش کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے اَوْآوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ یعنی یا میں کسی مضبوط پناہ کی تلاش کروں۔(بخاری)61
کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اگر ہم یوسف ؑ کی جگہ قید میں رہے ہوتے تو شاہی قاصد کا قید سے آزادی کا پیغام سن کر فوراً اس کے ساتھ چل پڑتے۔مگر یوسف علیہ السلام نے الزام تراش عورتوں سے اپنی برا ء ت آنے تک انتظار کیا۔ (بخاری)62
اس زمانہ میں نینوا کی بستی میں حضرت یونس ؑ کے ماننے والے موجود تھے۔ سفر طائف میں رسول اللہ ؐکو نینوا کا ایک باشندہ ملا، جو آپؐ سے حضرت یونس علیہ السلام کا نام سن کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔ قرآن شریف میں حضرت یونس علیہ السلام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لَوْلَآاَنْ تَدٰرَکَہ‘ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَھُوَ مَذْمُوْمٌ(سورۃالقلم:50)
یعنی اگر اس (یونس)کے رب کی ایک خاص نعمت اسے بچا نہ لیتی تو وہ چٹیل میدان میں اِس طرح پھینک دیا جاتا کہ وہ سخت ملامت زدہ ہوتا۔ اس بیان سے کسی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لئے نبی کریمؐ نے حضرت یونس ؑ کی عزت اور مقام کا بھی لحاظ کیا اور ازراہ تواضع فرمایا مجھے یونس بن متّٰی پر بھی فضیلت نہ دو۔(بخاری)63
یہی ہدایت آپؐ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں دی اور ایک ایسے موقع پر دی جب ایک یہودی کا مسلمان سے تنازعہ ہوگیا۔ جس میں یہودی کی بظاہر سراسر زیادتی تھی کہ سربازار سودا فروخت کرتے ہوئے ایک مسلمان کو چڑاتے ہوئے کہا کہ اس خدا کی قسم جس نے موسیٰ کو دیگرانبیاء پر فضیلت دی، مسلمان نے کہا کہ کیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر بھی؟ اس نے کہا ہاں، مسلمان نے اُسے تھپڑ رسید کردیا، یہودی مقدمہ لے کر رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ و فساد فرو کرنے کے لئے ایثار کرتے ہوئے ،کمال انکساری سے فرمایا اور لاََ تُفَضِّلُوْ نِیْ عَلٰی مُوْسٰی۔مجھے موسیٰ ؑپر فضیلت نہ دو۔(بخاری)64
الغرض ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم امن و آشتی کے وہ پیامبر ہیں جنہوں نے فتنہ دور کرنے اور قیام امن کی خاطر اپنی ذات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔ آپؐ نے تواضع سے اپنا وجودایسامٹا کر دکھادیا کہ آپؐ کا رفع ساتویں آسمان سے بھی آگے سدرۃ المنتھٰی تک ہوا۔
بلاشبہ آج کی مادیّت پرست دنیا میں قیام امن کا ایک راز یہی انکسار ہے اور کبر و نخوت کے عفریت سے رہائی کا ایک بڑا ذریعہ بھی یہی بھاری خلق ہے۔جس میں اسوۂ رسولؐ کو مشعل راہ بناکر انسان بلنددینوی وروحانی ترقیات حاصل کرسکتا ہے۔
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
حوالہ جات
1
مسند احمد بن حنبل جلد1ص399بیروت
2
مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا۔۔۔باب الصفات التی یعرف بھا۔۔۔
3
مسند احمد جلد3ص439
4
بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الحراسۃ فی الغزو۔۔۔
5
بخاری کتاب المناقب الانصار باب ھجرۃ النبی ؐ واصحابہ
6
بخاری کتاب الاجارہ باب رعی الغنم علی قرا ریط
7
بخاری بدء الوحی
8
بخاری کتاب التمیم باب قول اللہ فلم تجدوا ماء فتیمموا سعیدا طیبا:323
9
مسند احمد جلد2ص435,540
10
مسلم کتاب البرّوالصلۃ باب استحباب العفووالتواضع:4689
11
مجمع الزوائد ہیثمی مطبوعہ بیروت جلد ۳ صفحہ ۲۵۲ و طبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۱۷۴ بیروت
12
الشفاء قاضی عیاض جلد1 ص168مطبوعہ بیروت
13
بخاری کتاب التفسیر سورہ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین
14
مسلم کتاب صفۃ القیامہ والجنۃ والنارباب لن یدخل أحد الجنۃ بعملہ:5038
15
بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی میت بعدالموت:1166
16
مسند احمد جلد6ص49و121بیروت، اسد الغابہ جلد1ص29 ومشکوۃ ص520
17
الوفاء باحوال المصطفیٰ از علامہ ابن جوزی ص421 مطبوعہ بیروت
18
سنن الدارمی جلد1ص35 مطبوعہ دمشق:1349
19
مستدرک حاکم جلد4ص119بیروت
20
مستدرک حاکم جلد1ص61بیروت
21
طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص407-370 مطبوعہ بیروت
22
مجمع الزوائد لہیثمی جلد9ص20 بیروت
23
مجمع الزوائد لھیثمی جلد9ص21 بیروت
24
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9ص21 بیروت
25
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی وسم الدواب:2200
26
مجمع الزوائد جلد5ص122 بیروت
27
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الاحزاب
28
شرح المواھب اللدنیہ للزرقانی جلد4ص265دارالمعرفہ بیروت1933
29
بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
30
مجمع الزوائد از علامہ ھیثمی جلد 9ص14مطبوعہ بیروت
31
مسند احمد جلد1ص422بیروت
32
مسلم کتاب الجنائز باب الصلوۃ علی القبر:1588
33
ترمذی کتاب الزھدباب ماجاء ان فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ:2275
34
بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث
35
بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ واذکرفی الکتاب مریم
36
مسنداحمدجلد3ص249مطبوعہ مصر
37
مجمع الزوائد ہیثمی جلد9ص21
38
بخاری کتاب النکاح باب ضرب الدف فی النکاح والولیمۃ:4750
39
مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال امرہ
40
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب اذا صلی خمساً
41
مسند احمد جلد6ص52مطبوعہ بیروت
42
مسند احمد جلد6ص258مطبوعہ بیروت
43
ابوداؤد کتاب الادب باب فی قیام الرجل للرجل
44
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب القد ید
45
بخاری کتا ب اللباس باب المزرر بالذھب
46
بخاری کتاب الادب باب الکبر:5610
47
الشفا للقاضی عیاض جز ثانی ص111
48
ترمذی کتاب الدعوات
49
ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب السلخ
50
ترمذی کتاب الاطعمہ باب ماجاء فی الاکل مع المجذوم:1739
51
ابوداؤد کتا ب الصلوۃ باب الدعاء
52
بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء
53
مجمع الزوائد جلد6ص109بیروت
54
بخاری کتاب الفرض الخمس باب قول اللّٰہ فان اللہ خمسہ وللرسول:2884
55
بخاری کتاب العلم
56
بخاری کتاب التفسیر باب قول اللہ وما اوتیم من العلم
57
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 4 صفحہ 91 مطبوعہ بیروت
58
بخاری کتاب الدعوات باب الدعا ء اذا ارادسفرا ۔۔:5906
59
بخاری کتاب التفسیر سورۃ البقرہ باب واذقال ابراھیم رب ارنی:4173
60
مسند احمد جلد 3ص178
61
بخاری کتاب التفسیر سورۃ یوسف فلما جاء ہ الرسول قال ارجع الی ربک
62
بخاری کتاب التفسیر سورۃ یوسف فلما جاء ہ الرسول قال ارجع الی ربک
63
بخاری کتاب الانبیاء ؑ باب قول اللہ وان یونس لمن المرسلین
64
بخاری کتاب الانبیاء باب وفاۃ موسیٰ و باب ان یونس

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت
ہمارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ قرآن شریف کی پاکیزہ تعلیم کے عین مطابق تھے۔اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کی زبان سے یہ کہلوایا کہ اے نبی ! تو کہہ دے کہ میں تکلّف کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں۔(صٓ:87)یہ خود خدائے عالم الغیب کی گواہی ہے جو نبی کریم ؐ کے تکلف اور تصنّع سے پاک سچے اخلاق کی تصدیق کررہی ہے۔اس سے بڑھ کرکوئی گواہی نہیں ہوسکتی۔نبی کریمؐ کی اپنی گواہی بھی یہی ہے۔ فرماتے تھے ’’میں تو ایک سادہ سا انسان ہوں۔ عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں۔‘‘
آپؐ کی زوجہ محترمہ امّ المؤمنین حضرت عائشہؓ نے بھی یہی گواہی دی۔ جب پوچھا گیا کہ آنحضورؐ گھر میں کیسے رہتے تھے ؟فرمانے لگیں ’’عام انسانوں کی طرح رہتے تھے اور گھریلو کاموں میں اہل خانہ کی مدد فرماتے تھے۔اپنے کام خود کرلیتے تھے ۔‘‘(بخاری1)زکوٰۃ کے اونٹوں پر نشان لگانے کے لئے خود انہیں داغ لیتے تھے۔(بخاری)2
نبی کریمؐ کی سادگی کا اصل راز آپؐ کی قناعت میں مضمر تھا۔جس کی قرآن شریف میں آپؐ کو تعلیم دی گئی کہ’’ اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دینوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا اور بہت زیادہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘)سورۃ طٰہٰ :132)آپؐ کامسلک تھاکہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔(سیوطی)3
اسی طرح اپنے صحابہ کو بھی یہ تلقین فرماتے تھے کہ ہمیشہ اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کرسکو۔(احمد)4
آپؐ فرماتے تھے کہ جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے۔اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور ساری نعمتیں اسے مل گئیں۔(ترمذی)5
آپؐ کا اپناکھانا پینا، لباس بستر وغیرہ سب سادہ تھے۔ زمین پر بچھونا ڈال کر سوجاتے تھے۔ بستر یا گدا چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجورکے پتے اور ان کے ریشے بھرے ہوئے تھے۔(بخاری)6
ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے بستر کے بچھونے کی دو تہوں کی بجائے چارتہیں لگادیں آپؐ نے پوچھا کہ آج رات کیا بچھایا تھا؟ جب بتایا گیا زیادہ آرام کے لئے کپڑے کی چار تہیں لگاکر بچھایاتھا۔ فرمایا پہلے جیسا ہی بچھایا کرو وہی ٹھیک ہے۔ آج رات تو اس کے آرام نے مجھے تہجدکی نماز سے روک دیا۔(شمائل)7
نبی کریمؐ سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے اور حسب ضرورت اس میں پیوند وغیرہ لگا کر پہننے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک نیا قمیص پہن کر نماز پڑھی۔جس میں نقش و نگار تھے۔حضورؐ نے دورانِ نماز اس کے نقش و نگار پر ایک نظر فرمائی۔جب سلام پھیرا تو فرمایا میری یہ قمیص ابوجہم (تاجر) کو واپس کردو اور میرے لئے انبجان بستی کی بنی ہوئی سادہ سی چادر منگوادو۔اس چادر کے نقش ونگار کہیں نماز میں خلل انداز نہ ہوں۔(بخاری)8
آپؐنے فراخی اور بادشاہی کا زمانہ بھی دیکھا مگر اپنی سادگی میں کوئی تغیّر نہ آیا۔ کوئی بارگاہ نہیں بنوائی۔ کوئی شاہانہ لباس تیار نہ کروایااور اسی حال میں خدا کے حضور حاضرہوگئے۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ حضرت ابوبردہؓ کو کھدر کی موٹی چادر اور تہ بند نکال کر دکھائی اور بتایا کہ حضورؐ نے بوقت وفات یہ کپڑے پہن رکھے تھے۔(بخاری)9
حضر ت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے جب ازواج مطہّرات سے ایک ماہ کیلئے علیحدگی اختیار فرمائی اور بالا خانے میں قیام فرمایا تو میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔کیا دیکھتا ہوں آپؐ ایک خالی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔جس پر کوئی چادر یا گدیلا وغیرہ نہیں۔ اور چٹائی کے اثر سے آپؐ کے بدن مبارک پر بدھیاں پڑ چکی تھیں۔آپؐ ایک تکیے سے سہارا لئے ہوئے تھے۔ جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے تھے۔ کمرے کے باقی ماحول پر نظر کی تو خدا کی قسم! وہاں چمڑے کی تین خشک کھالوں کے سوا کچھ نہ تھا۔میں نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول! آپؐ دعا کریں اللہ آپؐ کی اُمت کو فراخی عطا کرے، ایرانیوں اور رومیوں کو دنیا کی کتنی فراخی عطا ہے حالانکہ وہ خدا کی عبادت بھی نہیں کرتے۔‘‘ نبی کریم ؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا’’ اے عمرؓ! تم بھی ان خیالوں میں ہو۔ان لوگوں کو عمدہ چیزیں اسی دنیا میں پہلے عطاکردی گئی ہیں۔مومنوں کو آئندہ ملیں گی۔‘‘(بخاری)10
دوسری روایت میں تفصیل ہے کہ چٹائی پرلیٹنے کے نشان رسول اللہ ؐ کے جسم پر دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ رونے لگے اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا یارسول اللہ آپؐ اللہ کے معزز ترین انسان ہیں آپؐ کا یہ حال ہے جب کہ قیصروکسریٰ ریشم کے بچھونے رکھتے ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کو دنیا مل جائے اور ہمارے لئے آخرت ہو۔نیز فرمایا قیصروکسریٰ کا انجام توآگ ہے۔ اور میری اس کھردری چارپائی کا ٹھکانہ جنت ہے‘‘۔(احمد)11
کھانے میں سادگی اورقناعت کا یہ عالم تھا فرماتے تھے کہ دل کرتا ہے ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن سیر ہوکر کھالوں۔جس دن بھوکا ہوں اپنے ربّ سے تضرّع اور دعا کروں اور سیر ہوکراللہ کا شکر بجا لائوں۔(ترمذی)12
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی زمانہ میں تو خاص طور پرآپؐ کی خوراک اور غذا بہت سادہ تھی۔بہت قناعت سے گزارا ہوتا تھا۔ دو دو ماہ گزر جاتے اورچولہے میں آگ نہ جلتی تھی۔کسی نے پوچھا کہ اُم المؤمنین! آپؐ لوگ کھاتے کیا تھے؟ فرمانے لگیں کہ کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا تھا یا پھر دودھ پر کہ بعض صحابہ حضورؐ کو کوئی جانور کچھ عرصہ کے لئے عاریتاً دے دیتے تھے تاکہ آپؐ اس کا دودھ استعمال کرسکیں۔(بخاری)13
کھانے میں حضور ؐکی سادگی کا اندازہ آپؐ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ انسان کے لئے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں۔آدمی کے لئے اتنے لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی کردیں۔اگر آدمی کی خواہش اس سے زیادہ کی ہوتو پھر پیٹ میںایک حصہ کھانے کے لئے رکھے ایک پینے کے لئے اور ایک سانس کے لئے۔ (ابن ماجہ)14
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایااور اپنے گھر میں کبھی کھانا خود سے نہیں مانگتے تھے نہ ہی اس کی خواہش کرتے تھے۔اگر گھر والے کھانا دے دیتے تو آپؐ تناول فرمالیتے اور جو کھانے پینے کی چیز پیش کی جاتی قبول فرمالیتے۔(ابن ماجہ)15
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ کبھی شام کا کھانا بچاکر صبح کے لئے اور صبح کا رات کے لئے نہیں رکھتے تھے۔ اور کبھی آپؐ نے دو چیزیں ایک ساتھ اپنے ذاتی استعمال کے لئے نہیں رکھیں۔ یعنی دو قمیص، دو چادریں یا دو تہ بند اور ددجوتے کبھی نہیں رکھے۔ اور کبھی آپؐ گھر میں فارغ نہیں دیکھے گئے یا تو کسی مسکین کے لئے جوتا سی رہے ہوتے یا بیوائوں کے لئے کپڑا سی رہے ہوتے۔(ابن الجوزی)16
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے اپنی وفات تک ایک دن میں دو مرتبہ سیر ہوکر روٹی اور تیل زیتون استعمال نہیں کیا۔(مسلم)17
حضرت انس بن مالک ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ نے رسول کریمؐ کو جوکی روٹی کا ایک ٹکڑا پیش کیا۔ آپؐ نے فرمایا تین دن کے بعد تیرے باپ نے یہ پہلا لقمہ کھایا ہے۔(احمد)18
حضرت ابوطلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمؐ کی خدمت میں بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنے پیٹوں سے کپڑا اُٹھا کر دکھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھا تھا۔ رسول کریمؐ نے پیٹ سے کپڑا اُٹھایا تو اس پر دو پتھر تھے۔(ترمذی)19
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ کے پاس ایک روزکھانا لایا گیا۔آپؐ نے کھانا تناول فرمایا اور پھر دعا کی کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ میرے پیٹ میں کوئی ٹھوس کھانا اتنے عرصہ سے نہیں پڑا۔(ابن ماجہ)20
آپؐجو کی روٹی استعمال کرتے تھے۔ایک دفعہ گھر کا کام کاج کرنے والی امّ ایمنؓ نے آٹا چھان کر روٹی بنائی۔؟ پوچھا یہ کیا ؟ انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے ملک حبشہ میں چھنے ہوئے آٹے کی ایسی روٹی بنائی جاتی ہے جو میں نے خاص حضورؐ کے لئے تیار کی ہے۔فرمایا چھان کو آٹے میں ملا کر گوندھواور اس کی روٹی بنایا کرو۔(ابن ماجہ)21
امّ سعدؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے۔ میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی حضورؐ نے پوچھا کہ ناشتہ کے لئے کچھ ہے حضرت عائشہؓ نے کہا! ہمارے پاس روٹی کھجور اور سرکہ ہے۔رسول کریم ؐ نے فرمایا! ’’سرکہ کتنا عمدہ سالن ہے !‘‘پھر دعا کی۔’’ اے اللہ سرکہ میں برکت ڈال یہ میرے سے پہلے نبیوں کا بھی کھانا تھا۔جس گھر میں سرکہ ہے وہ محتاج نہیں ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)22
حضرت عبداللہؓ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ؐکو دیکھا آپؐنے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرمارہے تھے یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے۔(ابودائود)23
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شادی یا غمی کے موقع پر بھی ہمیشہ سادگی اختیار فرمائی چنانچہ حضرت علیؓ بیان فرماتے تھے کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پر نبی کریمؐ نے ان کو (بنیادی ضرورت کا) حسب ذیل سامان دیا تھا۔ ۱۔ خمیلہ (ریشمی چادر) ۲۔چمڑے کا گدیلا جس میں کھجور کے ریشے تھے۔ ۳۔ آٹا پیسنے کی چکی ۴۔مشکیزہ ۵۔دوگھڑے (احمد)24
حضرت عبداللہ بن سبیلؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت بڑا برتن تھا جو کھانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔جسے چارآدمی اُٹھاتے تھے۔ عید کے موقع پرقربانی کے گوشت کا کھانا ثرید اس میں تیار ہوتا تھا۔ پھر سارے لوگ اکٹھے ہوکر اس میںسے کھاتے تھے۔جب لوگ زیادہ ہوگئے تو مجبوراً اس موقع پر رسول اللہ ؐ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔اس طرح کہ پائوں آپؐ کے زمین کے اوپر تھے اور بوجھ آپؐ کے گھٹنوں کے اوپر تھا۔ ایک بدّو وہاں آبیٹھا ہوا تھا۔وہ کہنے لگا کہ یہ بیٹھنے کا کون سا طریق ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک معزز بندہ بنایا ہے۔جباراور سرکش دشمن نہیں بنایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کھانا کناروں سے کھائو اور درمیان کے حصہ کو چھوڑ دو تاکہ اس میں برکت پڑتی رہے۔(ابودائود)25
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ اُون کے موٹے کپڑے پہنتے، چمڑے کے سادہ جوتے استعمال کرتے اور جو کا دلیہ کھاتے تھے۔جوپانی کے بغیر حلق سے نہ اُترتا تھا۔(ابن ماجہ)26
آنحضرتؐ اپنے صحابہ کے ساتھ بے تکلف تھے ۔عبداللہؓ بن حارث کہتے ہیں ہم چھ سات افراد حضورؐ کے ساتھ موجود تھے۔بلالؓ نے نماز کے لئے بلایا تو ہم چل پڑے راستہ میں ایک شخص کے پاس سے گزرے اس کی ھنڈیا چولہے پر تھی۔رسول اللہؐ نے فرمایا ’’کیا تمہاری ھنڈیاپک چکی ہے؟‘‘ اس نے کہا’’ ہاں‘‘۔آپؐ نے اس میں سے ایک بوٹی لے لی اور کھاتے ہوئے نماز پر تشریف لے گئے۔(ابودائود27) رسول کریمؐ غلاموں اور خادموں کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔(ابن ماجہ)28
رسول کریمؐکی سواری بھی سادہ ہوتی تھی۔آپؐ گدھے یا خچر پر سوار ہونے میں کوئی عیب نہ سمجھتے تھے بلکہ خود یہ جانور پالے ہوئے تھے۔ایک گدھے کا نام عفیر اور دوسرے کا یعفور تھا۔ آپؐ ان جانوروں پر حسب ضرورت سواری بھی فرماتے تھے۔ سواری کے پیچھے کسی کو بٹھانے میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ یہ آپؐ کی کمال سادگی تھی۔ شہر مدینہ کے لوگوں نے بہت دفعہ یہ نظارہ اپنی آنکھو ں سے دیکھا کہ رسولؐ خدا خچر یا اونٹ پر سوار ہیں اور کبھی بزرگ صحابہ میں سے حضرت ابو بکرؓ آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہیں تو کبھی حضرت عثمانؓ کبھی حضرت علیؓ تو کبھی زید بن حارثہؓ بچوں میں سے حسن ؓو حسینؓ ، اسامہؓ بن زید اور انسؓ بن مالک بڑوں میں سے ابو دائودؓ،ابو طلحہؓ، ابوھریرہ ؓ۔ نوجوان صحابہ میں سے معاذ بن جبلؓ اور جابرؓ بن عبداللہ عورتوں میں سے کبھی ازواج مطہرات اونٹنی پر ساتھ سوار ہیں۔
ایک دفعہ آپؐ خزرج کے سردار سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے انہوں نے ازراہ ادب واپسی پر اپنی سواری دی اور اپنے بیٹے قیس کو ساتھ کردیا کہ حضورؐ کو چھوڑ آئو۔حضورؐ نے قیس ؓسے فرمایا کہ اپنی سواری کے آگے تم بیٹھو ۔انہوں نے ازراہ ادب کچھ پس و پیش کی تو حضورؐ نے بے تکلفی سے فرمایا کہ یا تو سواری کے آگے بیٹھو یا پھر واپس چلے جائو۔(ابودائود)29
آپؐ کی سواری کا پالان اور گدیلا بھی نہایت سادہ ہوتا تھا۔حجۃ الوداع آپؐ کی زندگی کا آخری حج تھا۔ا س سے پہلے خیبر،مکہ ،حنین وغیرہ کی زبردست فتوحات آپؐ حاصل کرچکے تھے۔ آپؐ چاہتے تو بہتر سے بہتر چیز استعمال میں لاسکتے تھے۔مگر اس وقت دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھاکہ آپؐ ایک اونٹ پر سوار تھے۔ جس کا پالان بوسیدہ ہو چلا تھا۔حج کے موقع پر نہایت انکساری سے آپؐ یہ دعا کر رہے تھے۔’’اے اللہ!یہ حج قبول کرنا،اسے ایسا مقبول حج بنانا جس میں ریا ہونہ شہرت کی کوئی غرض۔‘‘(ابن ماجہ)30
حج کے دوران اپنے لئے کوئی امتیازی سلوک پسند نہ فرمایا۔آپؐ کے لئے منیٰ میں آرام کی خاطر الگ خیمہ لگانے کی خواہش کی گئی تو فرمایا کہ منٰی میں جو پہلے پہنچ جائے پڑائو کا پہلا حق اسی کا ہے۔(ابن ماجہ)31
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں سے بھی بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کے ایرانی ہمسائے نے دعوت پر بلایا۔ آپؐ نے بلا تکلف فرمایا کہ کیا میری اہلیہ عائشہؓ کو بھی ساتھ دعوت ہے؟اس نے کہا ’’نہیں‘‘ آپؐ نے فرمایا’ ’پھر میں بھی نہیں آتا۔‘‘دو تین دفعہ کے تکرار کے بعد ایرانی نے آکر کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عائشہ ؓ بھی آجائیں۔تب نبی کریم ؐ اور حضرت عائشہؓ خوش خوش اس کے گھر کی طرف چلے۔(احمد)32
آنحضور ؐ اپنی پسند کا بلا تکلف اظہار فرمادیتے تھے۔جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے آنحضورؐ ایک انصاری شخص کے ہاں تشریف لے گئے وہ اپنے باغ میں پانی لے جا رہا تھا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ اگر رات سے مشکیزہ میں پڑا ٹھنڈا پانی ہوتو لے آئو ورنہ ہم اسی مشکیزہ سے پانی پی لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ حضورؐ ہمارے پاس رات کے مشکیزے کا (ٹھنڈا ) پانی موجود ہے۔‘‘پھر ہم ان کے ڈیرے کی طرف چل پڑے جہاںاس انصاری نے بکری کا دودھ اس مشکیزے کے ٹھنڈے پانی میں ملاکرپیش کیا اور حضورؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو پلایا۔(ابن ماجہ)33
نبی کریم ؐاپنے نوجوان صحابہ سے بھی بے تکلفی کے ماحول میں بات کرلیا کرتے تھے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میںتھا۔ چند روز قبل میری شادی ہوئی تھی۔ مجھے فرمانے لگے اے جابرؓ!سنائو پھر شادی کرلی؟میں نے کہا ’’جی کرلی ہے‘‘۔ فرمانے لگے ’’کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟‘‘عرض کیا حضورؐ بیوہ سے فرمایا ’’ارے! کنواری لڑکی سے کیوںشادی نہ کی کہ ہم عمر سے بے تکلفی کا لطف بھی اٹھاتے ؟‘‘جابرؓ نے عرض کیا ’’حضورؐ آپ کو تومعلوم ہے میرے والد اُحد میں شہید ہوگئے اور پیچھے نو بیٹیاں چھوڑگئے۔اب مجھے نو بہنوں کو سنبھالنا تھا میں نے نا پسند کیا کہ ان جیسی ایک اور بے سمجھ لڑکی لے آئوںاس لئے میں نے ایک ایسی بیوہ عورت سے شادی کی جو ان کی کنگھی پٹی کردے اور ان کا خیال رکھے۔‘‘ (بخاری)34
تکلّف سے کام لینا آپؐ کو پسند نہ تھا۔اسمائؓ بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںکھانا پیش کیا گیا۔ حضورؐ کی طرف سے ہمیں بھی کھانے کے لئے کہا گیا تو ہم نے تکلّفاً کہا کہ ہمیں تو بھوک نہیں ہے۔آپؐ نے فرمایا ’’دو باتیں جمع نہ کر لو ایک بھوک دوسرے جھوٹ۔‘‘(ابن ماجہ)35
حضرت اسماء ؓنے پوچھا ’’یا رسول اللہؐ ! کیا اس طرح سے تکلّف کی بات بھی جھوٹ شمار ہوتی ہے ؟‘‘فرمایا ’’ہاں اگرکوئی چھوٹی سی بات غلط کہی جائے تو وہ چھوٹا جھوٹ ہوتاہے اور کوئی بڑی بات خلاف واقعہ ہو تو وہ بڑا جھوٹ شمار ہوگا۔‘‘(احمد)36
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں بے تکلفی پسندتھی اور مَااَناَ مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن کا سچا نعرہ آپؐ کا ہی تھا۔ مہمان نوازی آپؐ کا پسندیدہ مشغلہ تھا مگر اس میں بھی تکلّف روانہ رکھتے۔ جو حاضر ہوتا پیش فرمادیتے۔
جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ کوکچھ شہد بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ حضورؐ نے صحابہ کو فرمایا کہ ایک ایک لقمہ شہد لے کر کھالیں۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں میں نے اپنے حصہ کا ایک لقمہ تو کھا لیا۔ پھر حضور ؐسے عرض کیا کہ حضورؐ میں ایک اورلقمہ بھی لے لوں۔آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہاں۔‘‘(ابن ماجہ)37
ایک دفعہ رسول کریمؐ کے پاس ایک مہمان آیا۔آپؐ نے اس کے کھانے کے لئے گھر میں دیکھا توسوائے روٹی کے ایک ٹکڑے کے کچھ نہ پایا۔ آپؐ نے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے اور وہ لے کر آگئے اور فرمایا’’ اللہ کا نام لے کر کھالو۔‘‘اس نے کھایا اور کچھ بچ رہا۔ وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا آپؐ بہت نیک انسان ہیں۔(الوفائ)38
معلوم ہوتا ہے وہ شخص بھی فاقہ سے تھاکہ سیرہوکرصدق دل سے شکریہ ادا کیا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور بے تکلفی کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ بے اختیار آپؐ کی تعریف کرنے لگا۔الغرض غیروں نے بھی آپؐ کی سادگی پر رشک کیا ہے۔
سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے نبی کریمؐ کی سادگی کا ذکرکرتے ہوئے لکھا:۔
"Muhammad himself always lived a simple and frugal life, even when he became the most powerful sayyid in Arabia. He hated luxury and there was often nothing to eat in his household. He never had more than one set of clothes at a time and when some of his Companions urged him to wear a richer cermonial dress, he always refused, preferring the thick, coarse cloth worn by most of the people. When he received gifts or booty, he gave it away to the poor and, like Jesus, he used to tell the Muslims that the poor would enter the Kingdom of Heaven before the rich."
’’محمدؐ نے اپنی ذات میں ایک نہایت سادہ اور قناعت والی زندگی گزاری۔ اس وقت بھی جب آپؐ عرب کے طاقتور سردار بن گئے۔ آپؐ آسائش پسند نہ تھے۔ اکثر آپؐ کے گھر میں کھانے کوکچھ نہ ہوتا تھا۔ پہننے کے لئے آپؐ کے پاس بیک وقت کپڑوں کا ایک جوڑا ہوتاتھا اور جب آپؐ کے اصحاب نے کوئی امیرانہ لباس پہننے کی درخواست کی تو آپؐ نے قبول نہیں فرمائی بلکہ موٹے کھردرے کپڑے جو عام لوگ پہنتے تھے پسند فرمائے۔ جب آپؐ کے پاس تحائف یا مال غنیمت آتا تو آپؐ اسے غربا میں تقسیم فرمادیتے اور مسیح ؑ کی طرح آپؐ مسلمانوں کو بتایاکرتے کہ غریب امیر سے پہلے آسمان کی حکومت میں داخل ہوں گے۔‘‘(آرمسٹرانگ)39
قناعت کے اس خوبصورت نمونہ کے باوجود رسول کریمؐیہ دعا کیاکرتے تھے۔
’’اے اﷲ! جو تو نے مجھے عطا کیا ہے اُس پر مجھے قانع کر دے اور اس میں میرے لئے برکت ڈال دے اور جو چیز مجھے حاصل نہیں اُس میں میرے لئے بہتر قائمقامی فرما۔‘‘(حاکم)40
لین پول رسول اللہؐ کی سادگی کے بارہ میں یہ شہادت دیتا ہے۔
’’اخلاق وعادات میں وہ حددرجہ سادہ تھے۔ البتہ اپنے معمولات میں وہ بہت محتاط تھے۔ ان کا کھانا پینا، ان کا لباس اورفرنیچر وغیرہ وہی معمولی درجہ کا تھا اور ہمیشہ وہی رہا جب کہ وہ اپنی طاقت وحکومت کی معراج تک پہنچے…وہ بیماروں کی عیادت کرتے، کوئی جنازہ ملتا تو پیچھے چلتے، غلام کی دعوت کو بھی قبول کرلیتے، اپنے کپڑوں کی مرمت خودکرلیتے، بکریوں کا دودھ خودد وہ لیتے اور دوسروں کا ہمہ تن انتظار کرلیتے…وہ اپنی ازواج کے ساتھ ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے معمولی مکانوں میںرہتے تھے…وہ آگ خود جلالیتے، فرش کی جھاڑودے لیتے۔ تھوڑا بہت کھانا جو کچھ بھی گھر میں موجود ہوتا، اس میں وہ لوگ ہمیشہ شریک ہوتے جو وہاں موجود ہوتے، ان کے گھر کے باہر ایک چھپر(صُفّہ) تھا جہاں ایسے متعدد غریب افراد موجود رہتے جن کی گزربسر کا تمام ترانحصار انہی کی فیاضی پرمنحصرتھا۔‘‘(پول)41
ڈیون پورٹ رسول اللہؐ کی سادگی کے متعلق لکھتا ہے:۔
’’یہ بات ان کی زندگی کے ہر واقعہ سے ثابت ہے کہ ان کی زندگی اغراض ومفاد پرستی سے کلیتہً خالی تھی۔ مزید یہ کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے دین کے مکمل قیام و استحکام اور لامحدود اختیارات حاصل ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی ذات اور انا کی تسکین کا کوئی سامان بہم نہیں پہنچایا بلکہ آخر وقت تک اُسی سادہ طرز و انداز کو برقرار رکھا جو اول دن سے اُن کے بودوباش سے نمایاں تھا۔‘‘(پورٹ) 42

حوالہ جات
1
بخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلیہ:635
2
بخاری کتاب الزکاۃ باب وسم الامام ابل الصدقۃ:1406
3
الدرالمنثور للسیوطی جلد1ص361
4
مسند احمد جلد2ص254بیروت
5
ترمذی کتاب الزھد باب فی الزھادۃ فی الدنیا
6
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺ
7
الشمائل المحمدیہ ص171
8
بخاری کتاب الصلوۃ باب اذا صلّٰی فی ثوب لھااعلام
9
بخاری کتاب اللباس باب الاکسیۃ
10
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التحریم باب تبتغی مرضاۃ ازواجک:4532
11
مسنداحمد جلد3ص139و مجمع الزوائدلھیثمی جلد10ص237
12
ترمذی کتاب الزہد باب ماجاء فی الکفاف:2270
13
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺ
14
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب الاقتصاد فی الاکل:3340
15
ابن ماجہ کتاب الاقتصاد باب فی الاکل وکراھۃ الشبع:3340
16
الوفالابن جوزی جلد2ص476
17
مسلم کتاب الزہد والرقاق:297
18
مسند احمد بن حنبل جلد3ص213
19
ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشۃٰ صحاب النبیؐ
20
ابن ماجہ کتاب الزھد باب معیشۃ آل محمدؐ
21
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الحواریٰ
22
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب الائتدام بالخل:3309
23
ابو داؤد کتاب الایمان باب الرجل یحلف ان لا یتأدم:2837
24
مسنداحمد جلد1ص107مطبوعہ بیروت
25
ابوداؤد کتاب الاطعمہ باب ماجاء فی الاکل من اعلیٰ الصفحۃ:3773
26
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب خبزالشعیر
27
ابوداؤدکتاب الطھارۃ باب فی ترک الوضوء ممامست النار
28
ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب اذا اتاہ خادمہ بطعامہ
29
ابوداؤد کتاب الادب باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الستیذان
30
ابن ماجہ کتاب المناسک باب الحج علی الرجل:2881
31
ابن ماجہ کتاب المناسک باب النزول بمنی:2998
32
مسند احمد جلد3ص123مطبوعہ بیروت
33
ابن ماجہ کتاب الاشربہ باب الشرب بالا کف
34
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
35
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب عرض الطعام
36
مسنداحمدجلد6ص458,338
37
ابن ماجہ کتاب الطب باب العسل
38
الوفاء باحوال المصطفے لابن الجوزی ص282مطبوعہ بیروت
39
‏Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong page 93
40
مستدرک حاکم جلد 2 صفحہ 356
41
Lane Poole, Stainley. The speaches and Table talk of the Prophet Muhammad. London 1882 p.27-29, 546بحوالہ نقوش رسول نمبرص
42
Devenport, John, Apology for Mohammad and the Quran London(1889) Repprint Lahore 1975 Chap.3 p.133-34
بحوالہ نقوش رسول نمبرص547

طبقۂ نسواں پر رسول کریمؐ کے احسانات
عورت… اسلام سے قبل
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ؐ وہ پہلے مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے نہ صرف آوازبلند کی بلکہ ان کے حقوق قائم کرکے دکھائے۔ عورتوں پر آپؐ کے بے پایاں احسانات کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں اس دور میں جانا ہوگا۔ جس میں رسول کریمؐ کے زمانہ کی خواتین بود و باش رکھتی تھیں۔ اس معاشرہ میں عورت کی حیثیت کا اندازہ اس قرآ نی بیان سے بخوبی ہوتاہے کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور سخت غمگین ہوجاتا ہے۔وہ لوگوں سے اس بُری خبر کی وجہ سے چھپتا پھرتا ہے کہ آیا وہ اس ذلت کو قبول کرلے یا اسے مٹی میں دبا دے۔کتنا بُرا ہے وہ جوفیصلہ کرتے ہیں۔ (سورۃالنحل:60)
عرب کے بعض قبائل میں غیرت و حمیت کے باعث لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا ظالمانہ رواج تھا۔ایک دفعہ نبی کریمؐ کے سامنے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو گڑھے میں گاڑ دینے کا دردناک واقعہ سنایا۔کہ یارسول اللہؐ! ہم جاہلیت کے زمانہ میں بس رہے تھے بتوں کی پرستش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی۔ جب وہ میری بات سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوئی تو میرے بلانے پر بھاگی بھاگی آتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے ساتھ چل پڑی۔ مَیں اپنے خاندان کے ایک کنوئیں کے پاس پہنچا اور اس معصوم بچّی کو پکڑکراُس میں پھینک دیا۔مجھے اتنا یاد ہے کہ مَیں نے اس کی دلدوزچیخیں سنیں وہ مجھے پکارتی رہی ہائے میرے ابّا، ہائے میرے ابّا…رسول کریمؐ نے یہ سنا تو بے اختیار آبدیدہ ہوگئے آپؐ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اس دوران مجلس میں سے حضورؐ کے ایک صحابی اُس شخص سے مخاطب ہوئے کہ تم نے اللہ کے رسول کو غمگین کردیا ہے۔ رسول کریمؐ نے اس صحابی کو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ یہ بے چارہ تو اپنے اس گناہ کی تلافی کی بابت پوچھنا چاہتا ہے۔ پھر اس شخص سے فرمایا کہ دوبارہ اپنی ساری بات سُنائو۔ اس نے پھر یہ دلدوز کہانی سُنائی تو رسول کریمؐ روپڑے اور آنسو کی برسات سے آپؐ کی ریش مبارک بھی گیلی ہوگئی۔ پھر آپؐ نے اس سائل سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے زمانے کے گناہ معاف کردیئے ہیں۔اب اسلام میں اپنے نئے نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرو۔(دارمی)1
رسول کریمؐ نے یہ تعلیم دی کہ جس شخص کے گھر بیٹی ہو او روہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اسے ذلیل کرے اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(احمد)2
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی ان کو حقدار بنا دیا۔ایک دن میں اپنے کسی معاملہ میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی بولی اگر آپ اس طرح کرلیتے تو ٹھیک ہوتا۔مَیں نے کہا تمہیں میرے معاملہ میںدخل اندازی کی جرأت کیوں ہوئی؟وہ کہنے لگی تم چاہتے ہو کہ تمہارے آگے کوئی نہ بولے اور تمہاری بیٹی رسول اللہؐ کے آگے بولتی ہے۔(بخاری)3
عربوں کے دستور کے مطابق جاہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی۔مرد کے قریبی رشتہ دار(مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے۔اگروہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کرلیتے۔خود نہ کرنا چاہتے تو ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ۔ عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔(بخاری)4
نبی کریمؐ نے بیوہ عورت کونکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔(بخاری)5
اس زمانہ میںیتیم بچیوں کے حقوق کی کوئی ضمانت نہ تھی۔بعض دفعہ ایسی مالدار یتیم لڑکیوں کے ولی ان کے مال پر قبضہ کرنے کے لئے خود ان سے شادی کرلیتے تھے اور حق مہر بھی اپنی مرضی کے مطابق معمولی رکھتے تھے۔قرآن شریف میں ان بدرسوم سے بھی روکا گیا۔اور ارشاد ہوا کہ یتیم بچیوں سے انصاف کا معاملہ کرو۔(بخاری)6
اسلا م سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتاتھا ۔خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔(مسلم7)آنحضرت ﷺنے اس معاشرتی برائی کو دور کیا اور آپؐ کی شر یعت میںیہ حکم اترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہرگز منع نہیں۔(سورۃ البقرہ:223)چنانچہ آنحضورؐ بیویوں کے مخصوص ایّام میںان کا اور زیادہ لحاظ فرماتے ۔ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔ بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ (ابودائود)8
خاوند کی وفات کے بعد عرب میں عورت کا حال بہت رسواکن اور بدتر ہوتا تھا۔اسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدت گزارنے کے لئے رکھا جاتا۔سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کتے پر بکری کی مینگنی پھینک کر اس قید خانہ سے باہر آتی تھی۔(بخاری)9
اس دورجاہلیت میں عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت اور رسول اللہؐ کے پیداکردہ انقلاب کی نہایت سچی تصویر سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خوب کھینچی ہے۔آپ عورتوں سے مخاطب ہیں:۔
رکھ پیشِ نظر وُہ وقت بہن! جب زِندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دِیواریں روتی تھیں جب دُنیا میں تُوآتی تھی
جب باپ کی جُھوٹی غیرت کا خُوں جوش میں آنے لگتا تھا
جِس طرح جناہے سانپ کوئی یُوں ماں تیری گھبراتی تھی
یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خُون بہاتے تھے
جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پرغالب آتی تھی
کیا تیری قدروقمیت تھی؟ کُچھ سوچ! تِری کیا عزت تھی؟
تھا موت سے بدتروُہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی
عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تُجھ پر سارے جبرروا
یہ جُرم نہ بخشا جاتا تھا تامرگ سزائیں پاتی تھی
گویا تُوکنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے
توہین وُہ اپنی یاد تو کر!ترکہ میں بانٹی جاتی تھی
وہ رحمتِ عالمؐ آتا ہے تیرا حامی ہوجاتا ہے
تُوبھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
ان ظُلموں سے چُھڑواتا ہے
بھیج دُرود اُس محسن پر تُودِن میں سوسوبار
پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار
عورتوں کا احترام
اس دور جہالت میں عورت کے ساتھ نفرت اور حقارت کے جذبات زائل کرنے کے لئے ہمارے آقا و مولا نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں۔پھر اچھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الہٰی میں ہی ہے۔(نسائی)10
ایک موقع پر نبی کریمؐ نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورت مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعدادیں رکھتی ہیں کہ مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔
نبی کریمؐ نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک الگ دن مقرر فرمایا تھا جس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔(بخاری)11
نبی کریمؐ نے عورتوں کو معاشرتی دھارے میں برابر شریک کیا۔عیدین کے موقع پر تمام مردوں عورتوں بالغ بچیوں تک کو ان اسلامی تہواروں میں شریک کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس پردہ کیلئے چادر نہ ہوتووہ اپنی بہن سے مانگ لے اسی طرح وہ عورتیں بھی جنہوں نے ایام مخصوصہ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھنی اجتماع عید میں ضرورشامل ہوں تاکہ دعا میں شریک ہوجائیں۔(بخاری )12
نبی کریمؐ ماں بیٹی اور بہن اور بیوی کے طور پر عورت کی ایسی عزت اور احترام قائم کیا کہ تاریخ میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔آپؐ نے فرمایا کہ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ (نسائی)13 بیٹیاں زندہ درگور کرنے والوں کو آپؐ نے ان کی پرورش کرنے پر جنت کی بشارت دی۔آپؐ کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں تو آپؐ احترام میں کھڑے ہوجاتے۔بیوی کی عزت اور احترام بھی آپؐ نے قائم کیا اور اسے گھر کی ملکہ بنایا۔فرماتے تھے کہ ’’سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور میں تم میں عورتوں س سلوک میں سب سے بہترہوں۔‘‘
عورتوں کے احترام اور ان کی نزاکت کا آپؐ کو بہت خیال تھا۔ایک سفر میں آپؐ کی بیویا ں اونٹوں پر سوار تھیں کہ حدی خواں انجشہ نامی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کردیا۔ آنحضرتﷺ فرمانے لگے’’ اے انجشہؓ۔تیرا بھلا ہو اذراآہستہ! دیکھتے نہیں یہ نازک شیشے ہمرا ہ ہیں۔ ان آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچے۔ یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں اونٹوں کو آہستہ ہانکو۔‘‘اس واقعہ کے ایک راوی ابو قلابہؓ بیان کیاکرتے تھے کہ دیکھو رسول کریمﷺنے عورتوں کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو شیشے کہا۔ یہ محاورہ اگر کوئی اور استعمال کرتا تو تم لوگ عورتوں کے ایسے خیر خواہ کو کب جینے دیتے ضرور اسے ملامت کرتے۔(مسلم)14
بلا شبہ رسول کریم ﷺ کا ہی حوصلہ تھا کہ اس صنف نازک کے حق میںآپ ؐنے اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مرد ہوکر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کی منفرد مثال صرف اور صرف ہمارے نبی ﷺ کی ہے جو ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔
وہ معاشرہ جس میں عورت کا کوئی حق نہیں سمجھاجاتا تھا اور ان سے گھر کی خادمائوں اورلونڈیوں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا۔نبی کریمؐ نے اسے گھر کی ملکہ بنادیا اور فرمایاعورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے۔اور اس سے اس ذمہ داری کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔آپؐ نے عورت کے حقوق کھول کر بیان فرمائے۔
حضرت معاویہؓ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے؟رسول کریمؐ نے فرمایاکہ تم کھانا کھائوتو اسے بھی کھلائو،خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہنائو ۔یعنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جو تمہارا اپنا معیار زندگی ہے۔ بیوی کے حقوق ادا کرو ۔ اُسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی بُرا بھلا نہ کہو اُ سے گالی گلوچ نہ کرو۔اور اُس سے کبھی جدائی اختیار نہ کرو،ہاںضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔(ابودائود)15
جہاں تک مجبوری کی صورت میں عورت کو سزادینے کا ذکر ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے مرد کو جو گھر کاسربراہ اعلیٰ ہوتا ہے، صرف بے حیائی سے روکنے کیلئے اس کی اجازت دی ہے،جیسا کہ خطبہ حجۃ الوداع میں ذکر آئیگا۔ مگر آنحضرتﷺ نے جب دیکھا کہ اس رخصت کا غلط استعمال ہورہا ہے تو آپؐ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایالَا تَضْرِبُوْا اِمَآئَ اللّٰہِ۔ عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پر دست درازی نہ کیا کرو۔ ایک اور موقع پر بعض لوگوں کے بارے میں جب یہ پتہ چلا کہ وہ عورتوں سے سختی کرتے ہیں آپؐ نے فرمایاکہ لَیْسَ اُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ ۔یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔(ابودائود)16
آنحضرت ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطاب فرمایا ہے وہ ایک نہایت ہی جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں آپؐ نے عورتوں کے حقوق کے متعلق خاص طور پر تاکیدکی اور فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بیچاریاں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہی تو ہوتی ہیں۔تمہیں ان پرسخت روی کا صرف اسی صورت میں اختیار ہے کہ اگر وہ کسی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو تم اپنے بستروں میں اُن سے جدائی اختیار کرسکتے ہو یا اس سے اگلے قدم کے طور پر انہیں کچھ سرزنش کرتے ہوئے سزا بھی دے سکتے ہو، مگر سزا بھی ایسی جسکا جسم کے اوپر کوئی نشان یا اثر نہ پیدا ہو۔اگروہ اطاعت کرلیں تو پھر اُن کیلئے کوئی اور طریق اختیار کرنا مناسب نہیں۔یادرکھوجس طرح تمہارے عورتوں کے اوپرکچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حق ہیں جو تم پر عائد ہوتے ہیں۔ تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے لئے اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں اورتمہاری مرضی کے سوا کسی کو تمہارے گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں ۔اور اُن کاحق تم پر یہ ہے کہ تم اُن کے ساتھ لباس میں، پوشاک میں اور کھانے پینے میں احسان کا سلوک کرنے والے ہو اور جس حد تک توفیق اور استطاعت ہے ، اُن سے حسن سلوک کرو۔(ترمذی)17
اطالوی مستشرقہ پروفیسرڈاکٹروگلیری نے اسلام میں عورت کے تحفّظ حقوق اور مثالی مقام کا ذکرکرتے ہوئے لکھاہے:۔
’’اسلامی شریعت کے آنے سے پہلے تعدّد ازدواج پرکوئی قید نہ تھی اور اسلامی قانون نے بہت سی پابندیاں لگا کر مسلمانوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کو جائز رکھا۔ اسلام نے ان مشروط اور عارضی نکاحوں کو ناجائزقرار دیا جو دراصل حرامکاری کو جائزبنانے کے مختلف بہانے تھے مزید برآں اسلام نے عورتوں کو ایسے حقوق عطاکئے جو انہیں پہلے کبھی حاصل نہ تھے…گوسماجی اعتبار سے یورپ میں عورت کو بڑا درجہ حاصل ہے لیکن اگر ہم چند سال پیچھے جائیں اور یورپ کی عورت کی خودمختاری کا موازنہ دنیائے اسلام کی عورت کی خودمختاری سے کریں تومعلوم ہوگا کہ یورپ میں عورت کی حیثیت کم از کم قانونی لحاظ سے بہت ادنیٰ رہی ہے اور بعض ملکوں میں اب تک یہی صورت باقی ہے۔
ایک مسلمان عورت کو حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ورثہ میں شریک ہو۔ (گونسبتاً اس کا حصہ کم ہے) اوراس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے اور شوہر اس سے بدسلوکی نہ کرے۔ علاوہ بریں اسے یہ بھی حق ہے کہ شوہر سے اپنا مہر وصول کرے اور نان ونفقہ میں خواہ وہ عورت پیدائشی مال دار ہو اور اگر وہ عورت قانونی لحاظ سے اس قابل ہو تو اسے یہ بھی حق ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی ذاتی جائداد کا انتظام کرے۔‘‘ (وگلیری)18
پی ایئرکریبائٹس لکھتے ہیں:۔
"Muhammad, thirteen hundred years ago, assured to the mothers, wives and daughters of Islam a rank and dignity not yet generally assured to women by the laws of the West."
’’محمدﷺ نے تیرہ سوسال قبل اسلام میں مائوں، بیویوں اوربیٹیوں کے لئے وہ مقام اور وقار یقینی بنادیا جو ابھی تک مغرب کے قوانین میں عورت کو نہیں مل سکا۔‘‘(پورٹ)19
سچ ہے ؎
وہ رحمتِ عالم آتا ہے تیرا حامی ہوجاتا ہے
توبھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
حوالہ جات
1
سنن الدارمی جلد1ص3
2
مسنداحمد جلد1ص223
3
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التحریم باب تبتغی مرضات ازواجک
4
بخاری کتاب التفسیر سورۃ النساء باب الایحل لکم ان ترثوا النساء
5
بخاری کتاب النکاح باب الایم احق بنکاحھا
6
بخاری کتاب التفسیر سورۃ النساء باب قولہ وان خفتم ان لا تقسطو افی الیتامیٰ
7
صیحح مسلم کتاب الحیض باب جوازغسل الحائض رأسں زوجھاوترجیلہ
8
ابو داؤد کتاب الطہارہ باب فی مواکلۃ الحائض
9
بخاری کتاب الطلاق باب الکحل للحادۃ:4916
10
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء
11
بخاری کتاب العلم باب من جعل لاھل العلم ایامامعدودۃ
12
بخاری کتاب العیدین باب اذالم یکن لھاجلباب بیوم العید
13
نسائی کتاب الجہاد باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃُ
14
مسلم کتاب الفضائل باب فی رحمۃ النبی ﷺ
15
سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا۔1830
16
سنن ابی داؤدکتاب النکاح باب فی ضرب النسائ1834
17
سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ماجا ء فی حق المرأۃ علی زوجھا۔1083
18
‏An Interpretation of Islamکا اُردوترجمہ اسلام پرنظرص41,37
مترجم شیخ محمداحمدمظہرایڈووکیٹ
19
‏Muhammad and Teaching of Quran by John Davenport p.126

رحمۃللعالمینؐ …جانوروں کیلئے رحمت
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃللعالمین کاعظیم خطاب دے کر بھیجا گیا۔بلاشبہ آپؐ تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت تھے۔آپؐ اس وحشی قوم میں مبعوث ہوئے جو جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ مگر آپؐ نے انہیں ایسا باخدا انسان بنادیاکہ وہ انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی رحمت اور شفقت سے پیش آنے لگے ۔یہ نتیجہ تھا نبی کریم ؐکے فیض صحبت اور تربیت کا۔آپؐ نے ان کے دلوں میں انسانوں کی محبت کا جذبہ بھی پیدا کیا اور حیوانوں سے پیار کرنا بھی سکھایا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کو یہ قصہ سنایا کہ ایک شخص پیدل جارہا تھا۔ اسے سخت پیاس محسوس ہوئی۔اس نے پانی کا کنواں دیکھا اوراس سے پانی پیا۔وہاں پر ایک کتا پیاس سے بے تاب گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی میری طرح شدید پیاس ہوگی۔ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر، اسے اپنے منہ سے پکڑ کر باہر آیا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کی قدر کی اوراسے بخش دیا۔صحابہ نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں کی وجہ سے بھی اجرملے گا۔آپؐ نے فرمایا’’ہاں ہر ذی روح اور جاندار چیز کے ساتھ نیکی اور احسان کا اجر ملتا ہے۔‘‘ (ابودائود)1
دوسری روایت میں ایک کنچنی کا ذکر ہے جس نے شدت پیاس سے بدحال ایک کتا دیکھاجو کنوئیں کے گرد چکر لگارہاتھا، وہ اپنا موزہ اتار کر کنوئیں میں اتری اور اس میں پانی لاکر کتے کو پلایا۔اس کی اس نیکی کے باعث اللہ نے اسے بخش دیا۔ (مسلم)2
حضرت عمران بن حُصین ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہم سفر تھے۔ ایک انصاری عورت کی اونٹنی کچھ اَڑ گئی اور رکنے لگی تو اُس نے بددعا دیتے ہوئے اونٹنی پر *** ڈالی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب سامان وغیرہ اس اونٹنی سے اتار لو اور اسے خالی چھوڑ دو۔ کیونکہ اب یہ *** والی اونٹنی ہوگئی ہے۔ اب یہ ہمارے قافلہ کے ساتھ نہ چلے، چنانچہ اس اونٹنی کو چھوڑ دیا گیا۔اس طرح آپؐ نے کس مؤثراورپرحکمت انداز میں جانوروں کو گالی دینے سے بھی منع فرمادیا۔(مسلم)3
عرب لو گ اپنے جانوروں پر نشان لگانے کیلئے ان کے جسم گرم لوہے سے داغا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺنے مختلف مواقع پر اونٹ، گدھے وغیرہ کو دیکھا جن کے چہرے یا ناک وغیرہ کو داغا گیا تھا۔آپؐ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ کاش! یہ لوگ ان جانوروں کو آگ کی اذیت سے بچاتے اور منہ اور گوشت والے حصہ پر گرم لوہے سے نہ داغتے۔ کیا انہیں احساس ہے کہ اس اذیت کا ان سے بدلہ لیا جائے گا؟پھر آپؐ نے سمجھایا کہ اگر ضرور داغنا ہی پڑے تو دُم کے قریب پیٹھ کی ہڈی پر نشان لگایا جاسکتا ہے۔تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔(ہیثمی)4
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاںشرف انسانیت کی خاطر کسی کے چہرے پر مارنے سے منع کیاوہاں جانوروں پر بھی رحم کرتے ہوئے اور ان کے چہرے کی عزت قائم کرتے ہوئے فرمایاکہ جانوروں کے چہرے پر نہ ماراکرو کیونکہ ہر چیز منہ سے تسبیح کرتی ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنی سواریوں پرسوار اُن کو روکے ہوئے کھڑے تھے۔نبی کریمﷺنے ان کو فرمایا کہ سواریوں پر مناسب طریق سے سواری کرو اور اس کے بعداچھے طریق سے ان کو چھوڑ دیا کرو۔بازاروں اور راستوںمیں باتیں کرنے کیلئے ان کو کرسیاں بناکر کھڑے نہ ہو جایا کرو۔بعض سواریاں اپنے سوار سے بھی بہتر ہوتی اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کرنے والی ہوتی ہیں۔(ہیثمی)5
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر رحم کی خاطر تین آدمیوں کے سواری پر اکٹھے سوار ہونے سے منع فرماتے تھے۔ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جو لاغر ہوچکا تھا۔ آپؐنے فرمایا ’’ان بے زبان جانوروں پر اس حال میں سواری کرو جب یہ صحت مند ہوں اور ان کو صحت کی حالت میں ذبح کر کے کھائو۔‘‘(ہیثمی)6
عبداللہ بن جعفرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا اور ایک انصاری کے باغ میں لے گئے۔ وہاں پرایک اونٹ نبی کریم ؐکو دیکھ کر بلبلانے لگااور اس کی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا۔حضورؐ اس کے پاس آئے اور اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا۔نبی کریمؐ نے پوچھا ’’یہ کس کا اونٹ ہے ؟‘‘ ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور کہا کہ میرا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس جانور کے بارے میں تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ جس کا خدا نے تجھے مالک بنایا ہے۔اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو۔(احمد)7
حضرت عبدالرحمنؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک سفر میں پڑائو کیا۔ ایک شخص نے جاکر ایک چڑیاکے گھونسلے سے انڈے نکال لئے۔ وہ چڑیاآکر حضورؐاورآپؐ کے صحابہ کے سر پر منڈلانے لگی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس پر پڑی تو آپؐ نے فرمایا کہ اس پرندہ کو کس نے دُکھ پہنچایا ہے؟ ایک شخص نے کہا ’’میں نے اس کے انڈے اُٹھائے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جائو اس کے انڈے واپس گھونسلے میں رکھ دو۔‘‘(احمد)8
دوسری روایت میں چڑیا کے دو بچے اُٹھا لینے کا ذکرہے ۔آپؐ نے چڑیا کو سروں پر پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’اس چڑیا کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے دکھ پہنچایا ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کردو۔‘‘
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کا بِل دیکھا ،جسے آگ لگائی گئی تھی۔آپؐ نے فرمایا’’ اسے کس نے جلایا؟‘‘ صحابہ نے بیان کیا کہ ہم نے ایسا کیا ہے ۔فرمایا ’’کسی کو اللہ کا عذاب دینا مناسب نہیں۔‘‘(ابودائود)9
نبی کریم ﷺنے جانوروں کو باندھ کر نشانہ بنانے سے بھی منع کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے،جو ایک پرندہ کوباندھ کر اس کے نشانے لے رہے تھے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھ کر وہ ادھر اُدھر منتشر ہوگئے۔ آپؐ نے پوچھا ’’کس نے پرندے کوباندھ کر نشانے بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے۔‘‘ اور پھر کہا کہ آنحضرت ﷺنے ان لوگوں پر *** بھیجی ہے جو جانداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔(مسلم)10
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے شکاری پرندے نیز چیونٹی ، شہد کی مکھی اور ھد ھد کو مارنے سے منع کیا۔(ابن ماجہ11)مقصد یہ ہے کہ بے فائدہ کسی جانورکی جان نہ لی جائے۔ بعض پرندے دیکھنے کو خوبصورت ہوتے ہیں ان کو مارنا مناسب نہیں۔
نبی کریم ؐجانوروں کو باندھ کر مارنے یا ان کامثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔(ابن ماجہ)12
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ بکری کو اس کے کان سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا’’ اس کا کان چھوڑ دو اور گردن سے پکڑ لو۔‘‘(گویا جانور کی تکلیف بھی آپؐ پر گراں گزری)۔(ابن ماجہ)13
شدادؓ بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان فرض کیاہے۔(یعنی ہر ذی روح پر احسان کرنا انسان کے لئے لازم ہے۔) پس جب تم کسی کو بطور قصاص کے قتل کروتو قتل میں بھی احسان کا پہلو اختیار کرواور جب تم کوئی جانور ذبح کرو تو احسان کا دامن نہ چھوڑو۔ (ذبح کرنے میں احسان یہ ہے کہ) چھری تیز کرلو اورذبح ہونے والے جانور کو اس کے ذریعے آرام پہنچائو۔‘‘یعنی کند چھری کی وجہ سے جانور کی جان دیر سے نکلے گی اور اُسے تکلیف ہوگی۔اس سے بچو۔(ابن ماجہ)14
ابولبابہ ؓبدری کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سفید رنگ کے چھوٹے بے ضررسانپوں کو مارنے سے منع فرمایا۔(بخاری)15
رسول اللہؐنے جانوروں کو اذیّت پہنچانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے ڈرایا ہے۔ایک دفعہ فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس نے اس کو قید کردیا تھا۔نہ خود اسے کچھ کھانے پینے کودیااور نہ ہی اُسے آزاد چھوڑا کہ وہ زمین سے ہی کوئی چیز کھالیتی۔اس وجہ سے وہ عورت آگ میں ڈالی گئی۔(مسلم)16
سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے نبی کریمؐ کی جانوروں سے محبت کے ذکر میںلکھا:۔
"Over the centuries in the west, we have tended to think of Muhammad as a grim figure, cruel warrior and a callous politician. But he was a man of great kindness and sensibility. He loved animals, for example, and if he saw a cat asleep on his cloak he would not dream of disturbing it. It has been said that one of the tests of a society is its a attitude towards animals. All religions encourage an attitude of love and respect for the natural word, and Muhammad was trying to teach Muslims this. During the Jahiliyah the Arabs had treated animals very cruelly: they used to cut off lumps of flesh to eat while the beasts were still alive and put painful rings round the necks of camels. Muhammad forbade any painful branding or organised animal fights."
ترجمہ’’ مغرب میں صدیوں تک ہم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو ناپسندیدہ شخصیت خیال کرتے رہے ہیں۔ ایک ظالم جنگجو اور ایک بے رحم سیاستدان۔ لیکن آپؐ ایک عظیم ہمدردی اور دوسروں کا احساس رکھنے والے انسان تھے۔آپؐ جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر آپؐ نے ایک بلی کو اپنے کپڑے پر سوئے ہوئے پایا تو اسے وہاں سے اُٹھانا پسند نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کا ایک امتحان جانوروں کے ساتھ لوگوں کا رویہ ہوتا ہے۔ تمام مذاہب محبت کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتے اور عالم قدرت کی عزت کرتے ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو یہی سبق دینا چاہتے تھے۔ جاہلیت میں عرب جانوروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے۔ وہ زندہ جانوروں سے کھانے کے لئے گوشت کاٹ لینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ وہ اونٹوں کی گردنوں میں تکلیف دہ حلقے ڈال دیتے تھے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کوداغنے کے ظالمانہ طریق اور جانوروں کی لڑائیوں سے روک دیا۔‘‘(آرمسٹرانگ)17
حوالہ جات
1
ابوداؤد کتاب الجہاد باب مایؤمر بہ من القیام علی الدواب
2
مسلم کتاب السلام باب فضل سعی البھائم:4162
3
مسلم کتاب البرو الصلۃ باب النھی عن لعن الدواب
4
مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص110 بیروت
5
مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص107,105
6
مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص109بیروت
7
مسنداحمد جلد1ص204بیروت
8
مسند احمد جلد1ص404بیروت
9
ابوداؤد کتاب الجہاد باب کراھیۃ حرق العلم وبالنار
10
مسلم کتاب الصید باب النھی عند صبرالبھائم
11
ابن ماجہ کتاب الصید باب ماینھی عن قتلہ
12
ابن ماجہ کتاب الذبائج باب النھی عن صبر البھائم
13
ابن ماجہ کتاب الذبائح باب اذاذبحتم فاحسنو االذبح
14
ابن ماجہ کتاب الذبائح باب اذاذبحتم فاحسنوا الذبح
15
بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکہ بدراً
16
مسلم کتاب قتل الحیات وغیرھا باب تحریم قتل الھرۃ:4120
17
‏Muhammad A Biography of Prophat by Karen Armstrong page 231

ہمارے مطہرّرسولؐ کی طہارت و پاکیزگی
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ (البقرہ:223) اللہ تعالیٰ توبہ کرنیوالوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قراردیا۔(مسلم)1
ایمان جس طرح باطنی طہارت اور تقویٰ کا متقاضی ہے اسی طرح ظاہری پاکیزگی اور صفائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔چنانچہ نماز کے لئے وضو کو ضروری قرار دیاجس سے قریباً آدھا غسل ہوجاتاہے اور فرمایا کہ اسکے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔(ترمذی2) وضو کی برکت سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔پس جس طرح چھلکا کسی پھل کے مغز کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی طرح ظاہری صفائی باطنی طہارت کی حفاظت کے لے ضروری ہے۔
ظاہری جسمانی حالتوں کا روح پر بہت اثر ہوتا ہے۔ وضو کے نتیجہ میں پیداہونیوالی نشاط نماز کی توجہ اور خشوع و خضوع کے لئے نہایت مفید ہے۔اس لئے ہر نماز کے وقت باوضو ہونے کے باوجود دوبارہ وضو تازہ کرنے کو باعث ثواب قرار دیاگیا بلکہ نُورٌعَلیٰ نُورٍ کہاگیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت کے آداب بھی سکھائے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کو ایک دفعہ کسی یہودی نے ازراہ استہزاء طعنہ دیاکہ تمہارا نبی کیسا ہے؟ تمہیں پیشاب پاخانہ کے آداب سکھاتا پھرتا ہے۔حضرت سلمانؓ نے اسی بات کوایک دوسرے انداز میں فخریہ طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہاں رسول اللہؐ نے ہمیں یہ سب آداب سکھائے ہیں کہ ہم قضائے حاجت کے وقت دایاں ہاتھ صفائی کے لئے استعمال نہ کریں، ہڈی یا گوبر سے استنجانہ کریں اور صفائی کیلئے کم از کم تین ڈھیلے استعمال کریں۔ (ترمذی)3
صفائی کے لئے نبی کریمؐپانی استعمال کرنا زیادہ پسند فرماتے۔آپ ؐنے پاکیزگی اور طہارت کے آداب سکھاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ پیشاب کرتے ہوئے اس کے چھینٹوں وغیرہ سے بچنا چاہیے اور اس کے لئے بہت سخت تنبیہ فرمائی۔ ایک دفعہ قبرستان سے گزرتے ہوئے فرمایا کہ فلاں قبر والے کو اس لئے عذاب دیا جارہا ہے کہ وہ پیشاب کرتے وقت کپڑے چھینٹوں وغیرہ سے نہیں بچاتا تھا۔(بخاری)4
حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ رسول کریمؐ استنجاء کے وقت تین مرتبہ پانی استعمال فرماتے تھے۔استنجاء سے فارغ ہوکر رسول کریمؐ ہاتھ اچھی طرح صاف کرتے اور مٹی یا زمین میں رگڑ کر دھوتے تھے۔(ماجہ)5
اہل قبا جو پانی سے استنجاء کرتے تھے ان کی تعریف میں وہ آیت اُتری جس میں یہ ذکر ہے کہ ان لوگوں سے خدا محبت کرتا ہے جو پاک صاف رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (سورۃالتوبہ:108)
رسول اللہﷺنے اس آیت کے نازل ہونے پر اہل قبا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف کی اور تمہارے لئے اپنی رضا اور محبت کا ذکر کیا ہے۔ بتائو تو سہی تمہاری طہارت کا طریق کیا ہے ؟انہوں نے بتایا کہ ہم رفع حاجت کے بعد صفائی کے لئے محض ڈھیلے یا پتھرپر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پانی ضرور استعمال کرتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی تعریف کی ہے۔‘‘(ترمذی)6
پانی صفائی کے لئے بہترین چیز ہے اسلام نے دن میں پانچ نمازوں کے لئے وضو اور بعض صورتوں میں غسل کے احکام دے کر بہترین صفائی کی بنیا درکھ دی ہے۔نبی کریم ؐ جس طرح وضوفرماتے تھے اگر آج بھی اس کی مکمل پیروی کی جائے تو علاوہ برکت و ثواب اور طہارت و صفائی کے حصول کے انسان کئی بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔رسول کریمؐ کے وضوء کا طریق یہ تھا کہ پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے پھر تین مرتبہ کلی کرتے۔ تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرتے۔ پہلے دایاں ہاتھ کہنیوں تک دھوتے پھر بایاں پھر سر پر مسح فرماتے پہلے دایاں پائوں دھوتے اور پھر بایاں۔ (بخاری7)اس طرح کے مکمل وضوء سے نصف غسل تو خود بخود ہوجاتا ہے۔
وضو کرتے ہوئے نبی کریمؐ ریش مبارک کو بھی پانی سے دھوتے اور اندرانگلیاں پھیر کر خلال فرمالیتے تھے تاکہ مٹی وغیرہ سے صفائی ہوجائے۔ اسی طرح انگلیوں کے اندر جوڑوں اور فاصلوں کی صفائی کرتے۔ کانوں کی اند راورباہر سے صفائی فرماتے۔(ابودائود)8
رسول کریمؐ نہاتے ہوئے پہلے استنجاء کرتے پھر وضوء کرتے۔پھر تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے پہلے دائیں پھربائیں اورپھر سارے جسم پر۔ اس طرح خوب اچھی طرح جسم صاف کرتے تھے۔(بخاری)9
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔رسول کریم ؐ کو (ہراچھا ) کام دائیں طرف سے شروع کرنا پسند تھا۔ جوتا پہلے دایاں پہنتے،کنگھی دائیں طرف سے کرتے،وضوء بھی دائیں سے شروع کرتے۔غرض کہ ہر کام میں دائیں کو ترجیح دیتے۔(اسی طرح نہانے ،بال منڈوانے وغیرہ امورمیں)۔(بخاری10) صفائی کے لئے آپؐ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے۔
نبی کریمؐکا یہ دستور تھا کہ جن باتوں کی تلقین فرماتے۔ سب سے پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھاتے۔چنانچہ اکثر باوضوء رہنے کی کوشش کرتے۔غسل کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔جمعہ کے دن خاص طور پر غسل کرتے اور اس کی تلقین فرماتے۔خوشبو بھی استعمال کرتے۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں یا یہ اسراف میں داخل نہیں کہ عام کام کاج اور محنت مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے لئے دو صاف ستھرے کپڑے بنالے۔(ابودائود)11
رسول اللہؐ نے فرمایاکہ دین کی بناء صفائی پر ہے۔آپؐ خوداعلیٰ درجہ کی خوشبو استعمال فرماتے تھے۔حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ میں نے کبھی مشک وغیرہ یا کسی اور چیز کی ایسی خوشبو نہیں سونگھی جو رسول اللہؐ کی خوشبو سے بہترہو۔حضرت جابربن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک دفعہ میرے گال پر ہاتھ پھیرا توآپؐ کے ہاتھ سے میں نے ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو محسوس کی۔جیسے وہ ابھی عطارکی صندوقچی سے باہر نکلا ہو۔(مسلم)12
نبی کریم ؐ کے پسینہ سے بھی خوشبو کی مہک آتی تھی۔آپؐ ایک دفعہ حضرت انسؓ بن مالک کے گھر سوگئے۔تو انسؓ کی والدہ ام سلیمؓ(جو آپؐ کی رضاعی خالہ تھیں) ایک شیشی لے کر آئیں اور اس میں حضورؐ کا پسینہ جمع کرنے لگیں۔ رسول اللہؐ نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگیں کہ ہم یہ پسینہ کے قطرے اپنی خوشبو میں ملا دیں گے تو وہ بہترین خوشبو بن جائے گی۔(مسلم)13
حضرت جابرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ جس راستہ سے گزر جاتے تھے۔ اگر کوئی پیچھے جاتا تو حضورؐ رات کو اپنی مخصوص خوشبو کی وجہ سے پہنچانے جاتے تھے اورپتہ چل جاتا تھا کہ ابھی حضورؓ یہاں سے گزرکرگئے ہیں۔(دارمی)14
نبی کریمؐگھر کی عورتوں کو بھی صاف ستھرا رہنے کی تلقین فرماتے۔ایّام مخصوصہ کے بعد نہانے کا حکم دیتے ۔اسی طرح میاں بیوی کے تعلقات کے بعد نہانے کا ارشاد فرماتے اور بڑی پابندی سے اس پر عمل فرماتے۔ذاتی جسمانی صفائی پر بھی زور دیتے اور اس کا خاص خیال رکھتے بالخصوص بغل کے بال صاف کرنے،مونچھیں کاٹنے اورناخن کٹوانے کی ہدایت فرماتے۔(بخاری)15
آپؐ فرماتے تھے ’’ناخنوں کی میل دیکھ کر مجھے وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے۔فرماتے کہ اگرمیں اُمت پر گراں خیال نہ کرتا تو ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔(بخاری16) خودکئی مرتبہ دن میں مسواک کرتے تھے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ گھر داخل ہوتے ہوئے بھی مسواک کرتے اورباہر جاتے ہوئے بھی۔(مسلم17)فرمایا کرتے تھے کہ مسوا ک منہ کو صاف رکھنے کا آلہ اور اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے۔(بخاری18)اپنی آخری بیماری میں حضرت عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمانؓ کو مسواک کرتے دیکھا تو اُسے لینے کے لئے خواہش کے ساتھ دیکھاجسے حضرت عائشہؓ سمجھ گئیں۔ انہوں نے بھائی سے مسواک لے کر حضورؐ کو چبا کردی جوآپؐنے استعمال فرمائی۔(بخاری)19
رسول کریمؐکھانے پینے میں بھی صفائی کا خیال رکھنے کی ہدایت فرماتے۔ارشاد فرماتے کہ ہاتھ صاف کر کے دائیں ہاتھ سے کھانا کھایا جائے۔(بخاری20)برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو سات مرتبہ دھونے کی ہدایت فرماتے۔(مسلم)21
طبیعت میں نفاست بہت تھی۔گندے رہنے والے جانور کا گوشت پسند نہ تھا۔گوہ کا گوشت شاید اسی لئے ناگوار ہوابلکہ گوہ کے چمڑے میں ،رکھا ہوا گھی بھی اس کی مخصوص بُو کی وجہ سے پسند نہ فرمایا۔(ابن ماجہ)22
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ایک دفعہ مسجد کے سامنے کی دیوار پر تھوک پڑا دیکھا ۔آپؐ نے خود اپنے ہاتھوں سے صاف کردیا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ناراضگی کا اظہار کیا اورفرمایا کہ نماز میں انسان قبلہ رخ ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے کھڑا ہوتا ہے۔ایسے میں سامنے کی طرف ہرگز تھوک نہیں پھینکنا چاہیے۔(احمد)23
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں رسول کریمؐ ہمارے پاس تشریف لائے آپؐ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔آپؐ نے فرمایا کیا اس شخص کو اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ اپنے بال ہی درست کرلیتا۔پھر آپؐ نے ایک اور شخص دیکھا جس نے میلے کچیلے غلیظ کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس شخص کو کہیں پانی بھی نہیں ملا جس سے یہ کپڑے صاف کرلیتا۔(ابودائود)24
ابوقُرصافہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی۔ واپسی پر میری والدہ اور امی کہنے لگیں کہ ایسا نفیس انسان ہم نے آج تک نہیں دیکھا جس کا چہرہ اتنا حسین ،لباس اتنا صاف اور اتنی نرم گفتگو کرنے والا ہو۔ اس کے منہ سے تو جیسے نور پھوٹتا ہے۔(ہیثمی)25
یہ تھی ہمارے پاک اور مطہّر رسولؐ کی نظافت ونفاست کی اعلیٰ شان!



حوالہ جات
1
مسلم کتاب الطہارت باب فضل الوضوئ:328
2
ترمذی کتاب الطہارت باب ماجاء لاتقبل صلاۃ بغیر طہور:1
3
ترمذی کتاب الطہارت باب الاستنجاء بالرو
4
بخاری کتاب الادب باب النمیمۃ
5
ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب الاستنجاء بالماء باب من لک یدہ بالارض
6
ترمذی ابواب تفسیر القرآن سورۃ الالفال
7
بخاری کتاب الصوم باب سواک الرطب والیابس للصائم
8
ابوداؤد کتاب الطہارت وابن ماجہ کتاب الطہارت ، مستدرک جلد1ص150
9
بخاری کتاب الغسل باب الوضوء قبل الغسل
10
بخاری کتاب الوضوء باب التیمن فی الوضوء
11
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب اللبس الجمعۃ جلد1
12
مسلم کتاب الفضائل باب طیب رائحۃ النبیؐ:4297
13
مسلم کتاب الفضائل باب طیب عرق النبیؐ و التبرک بہ:4300
14
سنن الدرامی جلد1ص32
15
بخاری کتاب الا ستیذان باب قص الشارب:5939
16
بخاری کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعۃ:838
17
مسلم کتاب الطہارۃ باب السواک:371
18
بخاری کتاب الصوم باب سواک الرطب والیابس للصائم
19
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ:4095
20
بخاری کتاب الاطعمۃ باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین:4957
21
مسلم کتاب الطہارۃ باب حکم ولوغ الکلب:418
22
ابن ماجہ کتاب الصید باب الضب:3230
23
مسند احمد جلد 2ص141مطبوعہ مصر
24
ابوداؤد کتاب اللباس باب فی غسل الثوب وفی الخلقان جلد4
25
مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص279

رسول کریم ؐ کی حیاداری
حیاء کے معنی ملامت کے ڈر سے برائیوں سے بچنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ ہرقسم کے عیب سے منزّہ ہے۔اس لئے خداتعالیٰ کیلئے صفتِ حیاء کا مطلب یہ ہوگا کہ قبائح سے پاک اور محاسن کا فاعل۔حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیادار اور کریم ہے جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہے تو اسے خالی واپس لوٹاتے وہ شرم محسوس کرتاہے جب تک وہ اسے کوئی خیر یا بھلائی عطا نہ کردے۔(ترمذی)1
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیاء کرو جو حیاء کا حق ہے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! ہم حیاء کرتے ہیں اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔آپؐ نے فرمایا محض اللہ کی حمد کرنا حیاء نہیں ہے۔ اصل حیاء یہ ہے کہ اپنے سر اور اس کے جملہ اعضا یعنی آنکھوں اور کانوں کی حفاظت کرواور پیٹ اور اس پر مشتمل اعضاء کی مکمل حفاظت کرو اور موت کو ہمیشہ یادرکھو اور جو آخرت چاہتا ہے وہ دنیا کی زینت چھوڑ دیتاہے جو شخص ایساکرے اس نے اللہ سے حیاء کا حق ادا کیا۔(ترمذی)2
ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے کوئی خاص نصیحت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ سے کم از کم اس طرح حیاء کرو جس طرح اپنی قوم کے کسی نیک آدمی سے حیاء کرتے ہو۔ (ہیثمی3)رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ہر دین کے کوئی اخلاق ہوتے ہیں۔ اسلام کا خلق حیاء ہے۔(ابن ماجہ)4
حضرت حکم اپنے باپ سے اور وہ دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریمؐ سے سوال کیا کہ جسم کے کتنے حصہ کا پردہ ضروری ہے۔آپؐ نے فرمایا اپنی شرمگاہ کی حفاظت اور پردہ کرو۔ سوائے اس کے جائز محل یعنی بیوی کے۔ میرے دادا نے پوچھا کہ کیا ایک شخص اپنے ساتھی مرد سے بھی یہ پردہ کرے؟فرمایاہاں اگر ممکن ہوتویہی مناسب ہے کہ شرمگاہ کو کوئی دوسرا نہ دیکھے۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ جب آدمی اکیلا ہو تو پھر بھی یہ پردہ ضروری ہے فرمایا ہاں اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے۔(ترمذی)5
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ بے حیائی جس چیز میں ہو اُسے بدزیب بنادیتی ہے اور حیاء جس چیز میں ہو اسے حسین اور خوبصورت کردیتا ہے۔(ترمذی)6
حیاء کی غیرمعمولی صفت بچپن سے ہی رسول اللہؐ کو غیرمعمولی طور پر ودیعت تھی اور اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ آپؐ کی خاص حفاظت فرماتارہا۔ رسول کریمؐ اپنے بچپن کا یہ واقعہ خود بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم بچے کھیلتے ہوئے پتھر اُٹھارہے تھے ہر ایک اپنا تہبند اتارکر کندھے پر رکھ کر پتھر ڈھورہا تھا۔ میں نے بھی ایسا کیا تو کسی نے مجھے پیچھے سے ہاتھ مارکرکہا کہ اپنا تہبند باندھ لو۔ چنانچہ میں نے چادر پہن لی اورکندھے پر پتھر اُٹھاتا رہا۔ میرے ساتھیوں میں سے صرف میں نے تہ بندباندھ رکھاتھا۔(ابن ہشام)7
حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابوطالب نے زمزم کی مرمّت کی تو نبی کریمؐ کم سن تھے۔ آپؐ بھی مدد کے لئے آئے اور اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھ لی اور پتھر اُٹھاکرلانے لگے کہ اچانک آپؐ پر غشی طاری ہوگئی کسی نے ابوطالب کو خبر کی انہوں نے آکرپوچھا توآپؐ نے بتایا ایک سفید کپڑوں والاشخص آیا اور اس نے مجھے کہا کہ اپناسترڈھانکو۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے تھے یہ رسول اللہؐ کا پہلا الہام تھا کہ شرمگاہ کا پردہ کریں ۔ اس کے بعد کبھی آپؐ کو بغیر کپڑے پہنے نہیں دیکھاگیا۔(حاکم)8
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کی جڑ تو صفاتِ الہٰیہ میں ہی تھی اور اللہ تعالیٰ کی صفت حیاء بھی آپؐ کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ قرآن شریف میں آپؐ کی صفت حیاء کا ذکر ایک پاکیزہ خلق کے طور پر کیا گیاہے۔اللہ تعالیٰ خودمومنوں کو نبی سے ملاقات کے وہ آداب تعلیم فرماتا ہے جن کو سکھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحیاء اور لحاظ مانع ہوتاتھا، مگر اللہ کے حکم سے آپؐ کو یہ کہنا پڑا کہ’’ اے مومنو! نبی کے گھر میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے وغیرہ کے لئے بلایا جائے۔ تم کھانے کے انتظار میں زیادہ دیر نہ ٹھہرے رہا کرو بلکہ جب تم کو بلایا جائے تو آجائو، اور جب کھانا کھالو تو پھر منتشر ہوجائواور لمبی باتیں شروع نہ کردیا کرو۔یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے مگر وہ (خود) تم سے حیاء (کرتے ہوئے اظہار نہیں) کرتا۔مگر اللہ تو حق بیان کرنے سے رکتا نہیں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:54)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاء کی بہت برکات بیان کی ہیں۔ایک دفعہ آپؐ نے آداب مجلس بیان کرتے ہوئے ذکرفرمایا کہ تین آدمی ایک مجلس میں آئے اوررسول اللہؐ کی باتیں سننے لگے، ایک تو واپس چلا گیا۔باقی دو میں سے ایک آگے جابیٹھا، دوسرے نے مجلس میںجہاں خالی جگہ پائی بیٹھ گیا۔اسے حیاء آئی کہ لوگوں کوپھلانگتاہوا آگے بڑھے۔خداتعالیٰ نے بھی اس سے حیاء کا سلوک کیااوراسے بخش دیا۔(بخاری)9
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گزشتہ نبیوں کے کلام میں سے یہ بھی ہے کہ جب تمہیں حیاء نہیں توپھر جوچاہو کرو۔(بخاری10)نیز آپؐفرماتے تھے کہ حیاء کا نتیجہ لازماً خیرو بھلائی ہی ہوتا ہے۔ خودآپؐ میں اتنی حیاء تھی کہ کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادار تھے۔کوئی چیز آپؐ کو ناپسند ہوتی تو چہرے کے تغیرّ سے اس کا پتہ چل جاتا تھا۔(مسلم)11
حضرت بلال بن حارث ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریمؐ جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو بہت دور نکل جاتے تھے۔(ماجہ12)اسی طرح قضائے حاجت کے وقت نبی کریمؐ اپنا تہ بند اس وقت تک اوپر نہیں اٹھاتے تھے جب تک زمین کے قریب نہ ہوجائیں۔(ترمذی)13
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ اپنے حجروں کے اندر پردے میں اس طرح غسل فرماتے تھے کہ کبھی کسی نے آپؐکو ننگے بد ن نہیں دیکھا۔ (ہیثمی)14
میاں بیوی کے انتہائی قربت کے تعلقات کے باوجود حضرت عائشہؓ کی اس روایت سے رسول کریمؐ کے حیاء کی شان معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول کریمؐ کی شرمگاہ نہیں دیکھی۔(ماجہ)15
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو اس کے شرمیلے پن کی وجہ سے سرزنش کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم تو اتنا شرماتے ہو کہ اس میں اپنا نقصان کر بیٹھتے ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا اسے کچھ نہ کہو۔حیاء سے منع نہ کرو کیونکہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری)16
تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حصولِ علم دین اور شرع کی باتوں میں یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ حیاء کی وجہ سے کوئی روک پیدا ہو۔حضرت عائشہؓ مدینہ کی مسلمان خواتین کی تعریف فرماتی تھیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں۔حیاء انہیں مسائل دین سیکھنے میں مانع نہیں ہوتا۔(بخاری)17
ایک دفعہ رسول اللہؐ نے اپنی مجلس میں سوا ل کیا کہ وہ کون سا درخت ہے جس سے مومن کی مثال دی جاسکتی ہے اس درخت کی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ صحابہ مختلف درختوں کے نام لینے لگے۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے مگر شرم سے نہیں بولا۔ حضرت عمرؓ نے بعد میںکہا اگر تم بتادیتے تو مجھے دنیا اور اس میں موجود تمام دولتوں کے مل جانے سے بڑھ کر خوشی ہوتی۔(بخاری18)اس حدیث سے ظاہر ہے کہ علم اور حق باتوں میں حیاء مناسب نہیں۔
حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ بہت حیادار تھے۔جب بھی آپؐ سے کوئی سوال کیا جاتا آپؐ کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرماتے تھے۔(حاکم)19
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ کو جب کسی شخص کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو آپؐ کبھی اسے مخاطب کر کے یہ نہیں فرماتے تھے تم نے یہ یہ کہا ہے۔(ابودائود)20
نبی کریمؐ اپنے حیاء کی وجہ سے کسی کی طرف ٹکٹکی باندھ کرنہیں دیکھتے تھے اور مجبوراً کسی کی کوئی ناپسندیدہ بات بیان کرنی پڑے تو اشارہ کنایہ میں بیان کردیتے تھے۔(ابن سید)21
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ایک آدمی پر زرد رنگ کے نشان دیکھے تو اسے ناپسند کیامگر خود حیاء کے باعث منع نہ کیا۔صحابہؓ سے فرمایا آپ لوگ اسے سمجھا دو کہ ہاتھوں سے رنگ دھوکر صاف کردے تو مناسب ہے۔(ابودائود)22
الغرض رسول کریمؐ انتہائی باحیاء انسان تھے اور اس حیاء نے آپؐ کے اخلاق عالیہ میں ایک بے نظیرحسن پیداکردیا تھا۔
حوالہ جات
1
ترمذی کتاب الدعوات
2
ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ والرقاق والورع باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض
3
مجمع الزوائدلھیثمی جلد10ص284
4
ابن ماجہ کتاب الزھد باب الحیاء جلد2
5
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی حفظ العورۃ ج5
6
ترمذی کاب البرو الصلۃ باب ماجاء فی الفحش والتفحش جلد4
7
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1ص197
8
مستدرک حاکم جلد4ص179
9
بخاری کتاب العلم باب من قعد حیث ینتھی بہ المجلس
10
بخاری کتاب الادب باب اذا لم تستحی
11
مسلم کتاب الفضائل باب 16
12
ابن ماجہ کتاب الطہارت باب التباعد للبر: 336
13
ترمذی ابواب الطہارت باب ماجاء فی الست۔۔عندالحاجۃ142
14
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9ص17بیروت
15
ابن ماجہ کتاب الطہارت باب النھی ان یری عرۃ اخیرح662
16
بخاری کتاب الادب باب الحیاء
17
بخاری کتاب العلم باب الحیاء من الایمان
18
بخاری کتاب العلم باب طرح الامام المسئلۃ علی الصحابہ
19
مستدرک حاکم جلد4ص16,17
20
ابوداؤد کتاب الادب باب حسن العشرۃ
21
عیون الاثر جلد2ص331
22
ابوداؤد کتاب الترجل باب فی الخلوق للرجال

نبی کریم ؐ کاحُسنِ مزاح اوربے تکلفی
انسان کی سچی خوشی اور خوشحالی اپنے خالق و مالک کے ساتھ ربط و تعلق اور راضی برضاء الہٰی رہنے میں ہے۔خداسے کامل تعلق پیدا کرنے والوں کو’ ’نفس مطمئنّہ‘ ‘کا مقام عطاہوتا ہے۔ ایمانی و عملی استقامت کے نتیجہ میں ایسے لوگ ملائکہ کی یہ تسکین آمیز آواز سنتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور خوف نہ کھائو بلکہ اُس جنت کی بشارت پائوجس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔(سورۃ حم السجدہ:21)
اِن مومنوں کی یہی دنیا جنت بن جاتی ہے اور الہٰی بشارتوں اور خوشخبریوںکا ایک سلسلہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔جس پر انہیں کامل ایمان ہوتا ہے۔(سورۃ یونس:64-63)
اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور رحم پر وہ بجا طور پر خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے۔(سورۃ یونس:59)
رسول کریمؐ فرمایا کرتے تھے کہ مومن کا حال بھی عجیب ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بخوشی صبر کرتا اور خدا سے اجر پاتا ہے۔اورجب اسے انعام ملے تو شکر کرتا ہے اور اس کابھی اجرپاتا ہے ۔گویا مومن ہر حال میں خوش اور راضی برضاہوتا ہے۔اس لحاظ سے سچی خوشی اور خوش طبعی نہ صرف انسان کے صحت مندجسم و ذہن اوراعلیٰ ذوق کی علامت ہے بلکہ اس کے ایمان کی نشانی بھی بن جاتی ہے۔
ہمارے نبی کریمؐ سے بڑھ کر کون ہے جسے مقام رضا نصیب ہوا ہو۔ آپؐ ہمیشہ خوش رہتے، مسکرانا آپؐ کی عادت تھی۔اپنے صحابہ کو بھی تلقین فرماتے تھے کہ کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے پیش آنے کی نیکی ہو۔(مسلم)1
صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب لوگوں سے بڑھ کر مسکرانے والے اور سب سے زیادہ عمدہ طبیعت کے تھے۔حضرت جابر ؓکی روایت ہے کہ رسول کریمؐ پر جب وحی آتی یا جب آپؐ وعظ فرماتے تو آپؐ ایک ایسی قوم کے ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب آنے والا ہو مگر آپؐ کی عمومی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ سب سے زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپؐ کا ہوتاتھا۔(ہیثمی)2
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے۔(زرقانی)3
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حسّ مزاح بہت لطیف تھی۔آپؐ صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے۔فرماتے تھے کہ میں مذاق میں بھی جھوٹ نہیں کہتا۔(ترمذی)4
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ بہت مزاح کرتے تھے۔اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچے مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔(سیوطی)5
صحابہ رسول ؐبیان کرتے تھے کہ نبی کریمؐہماری مجلس میں آکر بیٹھ جاتے تھے، کبھی ایسانہیںہوا کہ ہم ہنسی خوشی بیٹھے ہوں اورآپؐ نے کوئی مایوسی یا غم والی بات کردی ہو۔ آپؐہمارے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے اور خوش ہوتے تھے ،لطیفے وغیرہ سنتے اور سناتے تھے۔(مسلم)6
حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے ساتھ سو سے زیادہ مجالس میں فیض صحبت پایا۔آپؐ کے اصحاب آپؐ کے سامنے اعلیٰ اشعار اور جاہلیت کی دیگر متفرق باتیں بیان کرتے ۔رسول اللہؐ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے اور بسااوقات آپؐ بھی تبسّم فرماتے۔(ترمذی)7
حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہؐ کی مجالس میں جب ہم دنیاداری کی باتوں کا ذکر کرتے تو آپؐ ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوتے۔جب ہم کھانے وغیرہ کی باتیں کرتے تو اس میں بھی حصّہ لیتے۔(بیھقی)8
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہؐ کیسا مذاق کرتے تھے؟ انہوں نے مثال دی کہ مثلاً ایک دفعہ ایک زوجہ محترمہ کو ایک کپڑا اوڑھاکرفرمایا اللہ کی حمدوثناء کرو اور دلہنوں کی طرح اپنا دامن گھسیٹ کر چلو۔(کنز)9
رسول کریمؐ کے مزاح کا ایک اچھوتا اسلوب یہ تھا کہ کسی روز مرہ بات کو ایسے ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے کہ مزاح کی کیفیت پیدا ہوجاتی ۔مثلاً ہرشخص کے دوکان ہی تو ہوتے ہیں۔ رسول اللہؐ کا پیار سے اپنے خادم انسؓ کو یوں پکارنا کہ اے دوکانوں والے ذرا ادھر تو آنا۔کیسا مزاح پیداکردیتا ہے۔ (ترمذی10) اس مزاح میں یہ لطیف فلسفہ بھی تھا کہ اطاعت شعار انسؓ رسول اللہؐ کے ارشاد پر کان لگائے رکھتے تھے۔اسی طرح ایک مرتبہ لمبے قد کے آدمی کو ’’ذوالیدین‘‘ یعنی لمبے ہاتھوں والا کہہ کر یاد فرمایا۔
ایک دفعہ ایک صحابی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مجھے سواری کے لئے اونٹنی کی ضرورت ہے۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس تو اونٹ کا بچہ ہے۔اُس شخص نے عرض کیا۔ حضورؐ میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟فرمایا اونٹ بھی تو اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ پھر ایک اونٹ اس کے حوالے کردیا۔(ابودائود)11
حضرت انس بن مالکؓ خادم رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاح اور بے تکلفی کی باتیں کرتے تھے۔(بیہقی)12
حضرت سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں شریک تھے، جب بھی ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپناسامان تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتایہاں تک کہ میرے پاس بہت ساسامان جمع ہوگیا۔نبی کریمؐ نے جو یہ سب دیکھ رہے تھے فرمایا تم واقعی سفینہ(یعنی کشتی) ہو۔(احمد13)جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے۔
ایک دفعہ ایک بڑھیا عورت ملنے آئی۔ آپؐ نے فرمایا بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہ ہوں گی وہ رونے لگی ۔آپؐ نے فرمایا بی بی آپ جوان ہوکر جنت میں جائوگی،یعنی وہاں بڑھاپا نہیں ہوگا۔اس پر وہ خوش ہوگئی۔آپؐ نے اپنی بات کی تائید میں سورۃ الواقعہ کی آیت بھی تلاوت فرمائی کہ ہم نے جنت کی عورتوں کو نو عمر اور کنواریاں بنایاہے۔(ترمذی)14
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عام گفتگو میں بھی توجہ اور سرعت فہم کے نتیجہ میں مزاح کا نکتہ پیداکرلیا کرتے تھے۔ابو رمشہ ؓ اپنے والد کے ساتھ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ حضورؐ نے ازراہ تعارف ان کے والد سے پوچھا یہ تمہارا بیٹا ہے؟حضورؐ کا زور ’’یہ‘‘ پر تھا انہوں نے اپنی سادگی میں سمجھا کہ پوچھ رہے ہیں واقعی تمہاراہی بیٹا ہے۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے۔رب کعبہ کی قسم یہ میرا ہی بیٹا ہے۔حضورؐ معاملہ سمجھ گئے مگر ان کے اصرار پر ازراہ تفنن فرمایا واقعی پکی بات ہے؟ وہ اس پر اور سنجیدہ ہوکر کہنے لگے حضورؐ! میں پختہ قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ رسول کریمؐ یہ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور ہنستے مسکراتے رہے۔ خصوصاً ابو رمشہؓ کے باپ کی قسمیں کھانے کی وجہ سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے،کیونکہ بچے کی شباہت والد سے اتنی ملتی تھی کہ اس کے نسب میں کسی شبہ کا احتمال نہ ہوسکتاتھا۔(ابودائود)15
رسول کریمؐ بچوں سے بھی ازراہ شفقت مذاق کرتے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس رکھتے تھے۔ اپنے ایک خادم انسؓ کے ہاں گئے،ان کے چھوٹے بھائی کو اداس دیکھ کر سبب پوچھاتوپتہ چلا کہ اس کی پالتو مینا مرگئی ہے۔آپؐ اس کے گھر جاتے تو اُسے محبت سے چھیڑتے اورکنیت سے یاد فرماکرکہتے۔ اے ابو عمیر( عمیر کے ابا) تمہاری مینا کا کیا ہوا؟اس طرح بچوں سے پیار بھرے مزاح سے باتیں کرتے تھے۔
حضرت محمود بن ربیع ؓنے کم سنی میں حضور ؐکے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یادرکھی ۔ وہ فرماتے تھے کہ میری عمرپانچ سال تھی حضورؐ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے۔ ہمارے کنوئیں سے پانی پیا اور بے تکلفی سے میرے ساتھ کھیلتے ہوئے ڈول سے پانی کی کلی میرے اوپر پھینکی۔(بخاری)16
ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا کہ میرے والد مجھے رسول اللہؐ کے پاس لے کر آئے۔ حضورؐ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ابھرا ہواایک ٹکڑا ،کبوتری کے انڈے کے برابر تھا۔پرانی کتابوں میں اس نشان کومہر نبوت کا نام دیا گیا تھا،جو آنحضورؐ کی شناخت کی ایک جسمانی علامت تھی۔ میں نے قمیص میں سے وہ گوشت کا ٹکڑا دیکھا تو اُس سے کھیلنے لگ گیا۔والد نے مجھے ڈانٹ دیا۔نبی کریمؐ نے فرمایا بچہ ہے اسے کچھ نہ کہو، کھیلنے دو۔
اپنے صحابہ میں بھی حضورؐ نے حس مزاح بیدارکردی تھی۔صحابہ جانتے تھے کہ اگر وہ مزاح کے رنگ میں حضورؐ سے بات کریں گے تو حضور خوش ہوں گے ،ناراض نہ ہونگے۔
عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمے میں تھے، میں نے سلام عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا اندر آجائو۔ میں نے خیمہ کے چھوٹے سائز پر طنز کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا سارے کا سارا ہی آجائوں۔آپؐ نے فرمایا ہاں سارے کے سارے ہی آجائو۔(ابودائود)17
ایک دفعہ حضرت صہیب ؓرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضورؐ کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی۔آپؐ نے صہیبؓ کو بھی دعوت دی کہ شریک طعام ہوں۔صہیبؓ روٹی کی بجائے کھجور زیادہ شوق سے کھانے لگے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے۔اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہیے۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہؐ میںصحت مند آنکھ والی طرف سے کھارہا ہوں۔نبی کریم ﷺ اس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے اور اس صحابی کی حاضر جوابی پر تبسّم فرمانے لگے۔(احمد)18
آنحضور ﷺ ہلکے پھلکے انداز میں مذاق کے رنگ میں تربیتی امور کی طرف توجہ دلا کر نصیحت فرمادیتے تھے۔حضرت خوات بن جُبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں میں نے رسول کریمؐ کے ساتھ مرالظہران میں پڑائو کیا۔اپنے خیمہ سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ عورتیں ایک طرف بیٹھی باتیں کررہی ہیں۔میں خیمہ میں واپس آیا اور اپنی ریشمی پوشاک پہن کر ان عورتوں کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ دریں اثناء رسول اللہؐ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھا تو فرمانے لگے اے ابوعبد اللہؓ! تم ان عورتوں کے قریب آکر کیوں بیٹھے ہو؟میں نے رسول اللہؐ کے رعب سے ڈر کر جلدی میں یہ عذر گھڑلیاکہ اے اللہ کے رسولؐ! میرا اونٹ آوارہ سا ہے،اسے باندھنے کو رسی ڈھونڈتا ہوں۔رسول کریمؐ نے اپنی چادر اوپر لی اور درختوں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ وضوء فرماکر واپس آئے تو مجھے چھیڑتے ہوئے فرمانے لگے۔ابوعبداللہؓ! تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟ خوّات دل ہی دل میں سخت نادم تھے۔وہ کہتے ہیں ہم نے وہاں سے کوچ کیا رسول کریمؐ ہر پڑائو پر مجھے دیکھتے ہی فرماتے۔’’السلام علیکم۔اے ابو عبداللہؓ تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟‘‘ خیر خداخداکر کے مدینہ پہنچے ۔اب میں رسول کریمؐ سے آنکھیں بچانے لگا اور رسول اللہؐ کی مجالس سے بھی کنی کتراجاتا۔ جب کچھ عرصہ گزرگیا تو ایک روز میں نے مسجد میں تنہائی کا ایک وقت تلاش کرلیا اور نماز پڑھنے لگا۔اتنے میں رسول کریمؐ اپنے گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور آکر نماز پڑھنے لگے۔آپؐ نے دو رکعت نماز مختصر سی پڑھی اور انتظار میں بیٹھ رہے۔ میں نے نماز لمبی کردی کہ شایدحضورؐ گھر تشریف لے جائیں۔آپؐ نے یہ بھانپ کر فرمایا۔ اے ا بوعبداللہؓ! نماز جتنی مرضی لمبی کرلو۔میں بھی آج تمہارے سلام پھیرنے سے پہلے نہیں اٹھونگا۔میں نے دل میں سوچا کہ خدا کی قسم! اب تو مجھے رسول اللہؐ سے معذرت کر کے بہرحال آپؐ کو راضی کرنا ہوگا۔جونہی میں نے سلام پھیرا۔رسول اللہؐ نے فرمایا۔ السلام علیکم اے ابوعبداللہ تمہارے اونٹ کی آوارگی اب کیسی ہے؟میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔جب سے میں مسلمان ہوا ہوںمیر ااونٹ کبھی نہیں بھاگا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے۔آپؐ نے دو یا تین مرتبہ یہ دعا دی۔ اس کے بعد آپؐ نے میرے ساتھ کبھی یہ مذاق نہیں فرمایا۔(طبرانی)19
رسول اللہؐ کی خوش مزاجی کے بارہ میں ایک دلچسپ روایت جریربن عبداللہؓ البجلیکی ہے۔جو بجیلہ قبیلہ کاوفدلے کر آخری زمانہ 10ھ میں مدینہ آئے اوراسلام قبول کیاتھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہؐ نے مجھے دیکھا ہو اور مسکرائے نہ ہوں۔ انہوں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا۔ رسول اللہؐ نے ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی۔ جس کے بعد جریرؓ کبھی گھوڑے سے نہیں گرے۔(بخاری)20
جریرؓکو دیکھ کر ہمیشہ مسکرانے کی روایت سے طبعاً سوال پیدا ہوتا تھا کہ حضرت جریرؓ کے ساتھ اس امتیازی سلوک کا کیا سبب ہوگا؟ ہیثمی کی ایک تفصیلی روایت نے یہ مسئلہ حل کردیا۔برائؓ بن عازب بیان کرتے ہیں کہ میں نے (ایک روز) رسول کریمؐ کو فرماتے سنا کہ ’’تمہارے پاس اس رستہ سے یمن کا ایک بہترین شخص آئے گا اس کے چہرہ پر سرداری کے آثار ہیں۔‘‘اس شخص نے آکر رسول اللہؐ کو سلام کیا اور ہجرت پر آپؐ کی بیعت کی۔آپؐ نے اس سے تعارف پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ جریرؓ بن عبداللہ البجلی ہیں۔ رسول اللہؐ نے( ان کی درخواست دعا پر جیسا کہ بخاری میں ہے)ان کے لئے دعا کرتے ہوئے برکت کے لئے ان پر ہاتھ پھیرنا چاہا اور ان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر پہلے سر اور چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پھر سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ جریرؓ اجنبی تھے وہ صورتحال سمجھ نہ پائے۔روایت کے مطابق ’’حَتَّی انْحَنٰی جَرِیرٌحَیَائً اَنْ یُدْخِلَ یَدَہ‘ تَحْتَ اِزَارِہٖ ‘‘ جریرؓ سمجھے کہ رسول اللہ ؐ شایدبرکت دینے کے لئے ان کے تہ بند میں بھی ہاتھ ڈالیں گے اور وہ شرم کے مارے سمٹ کر کبڑے ہوگئے۔(ہیثمی)21
بیھقی کی روایت میں خود جریرؓ اپنی آمد کا قصّہ بیان کرکے کہتے تھے کہ اس کے بعد جب بھی رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑتی آپؐ مسکراپڑتے تھے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے مجھے اپنی چادر بچھاکر اس پر بٹھایا تھا۔ اور صحابہ سے فرمایاتھا کہ جب کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کی عزت کیا کرو۔(بیھقی)22
آخر میں ایک ایسے دلچسپ مزاح کا ذکر جسے رسول اللہؐ کی مجلس میں ایک سال تک سنا کرصحابہ محظوظ ہوتے رہے۔حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہؐ کی وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لئے بصریٰ گئے۔آپؐ کے ساتھ نُعیمان ؓاور ُسویبطؓ بھی تھے۔ان دونوں کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ نعیمان ؓکی ڈیوٹی کھانے وغیرہ پر مقرر تھی۔ سویبط ؓ بہت مزاحیہ طبیعت کے (ذہین) انسان تھے۔دوران سفر انہوں نے نعیمانؓ سے کھانا طلب کیا تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ کام سے واپس آجائیں تو پھر دوںگا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔سویبطؓ ان کو کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک غلام خریدوگے۔انہوں نے کہا ضرور خریدیں گے۔یہ کہنے لگے بس ایک خامی اس غلام میں ہے کہ وہ تمہیں یہی کہے گا کہ میں آزاد ہوں۔غلام نہیں ہوں۔ اگر تم نے اس کی یہ بات سن کر مجھے واپس کردینا ہو تو پھر میں اسے نہیں بیچتا۔تم میرا غلام خراب کر کے مجھے نہ لوٹانا۔انہوں نے ہر طرح سے تسلّی دلائی کہ وہ ضرور یہ غلام خریدیں گے اور دس اونٹوں کے عوض انہوں نے نعیمانؓ کا سودا کردیا۔جب قافلہ کے لوگ نُعیمانؓ کو لینے آئے اور اس کے گلے میں پٹکا ڈالا کہ چلو ہمارے ساتھ تو وہ کہنے لگے۔ یہ تم سے مذاق کررہا ہے میں تو آزاد ہوں غلام نہیں ہوں۔
قافلہ والوں نے کہایہ تو ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ تم یہ کہو گے چنانچہ وہ اسے پکڑ کر لے گئے۔ (اب سُویبط ؓنے آرام سے کھانا وغیرہ کھالیا )۔ حضرت ابوبکرؓ کام سے واپس تشریف لائے تو ان کو اس قصہ کا پتہ چلا ،وہ اس قافلہ کے پیچھے گئے اور انہیں دس اونٹ واپس کر کے نعیمان ؓ کو چھڑاکر لے آئے۔
سفر سے واپس نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ؐ کو یہ قصہ سنایا تو حضورؐ بہت محظوظ ہوئے اور آپؐ کے صحابہ ایک سال تک یہ واقعہ یاد کر کے ہنستے رہے۔ (ابن ماجہ)23
تفریح کے مواقع
معمول کی زندگی میں تفریح کا اہم کردار ہے۔اس کے گہرے اثرات انسانی زندگی پر پڑتے ہیں اور انسان تازہ دم ہوکر پھر مصروف عمل ہوجاتاہے۔ نبی کریمؐ کی باقاعدہ زندگی میں تفریح کا عنصر بھی نمایاں تھا۔رسول کریمؐ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ پیدل مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے۔گاہے بگاہے اپنے صحابہ کے ساتھ پکنک منانے کا بھی شغل رہتا تھا۔
حضرت ابو طلحہؓ کا ایک باغ بیرحاء نامی (مسجد نبوی کے سامنے تھا) حضورؐ وہاں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے۔تازہ کھجوریں نوش فرماتے۔ اس کے چشمہ کا ٹھنڈا پانی پیتے اور کچھ وقت وہاں گزار کرخوش ہوتے۔(بخاری)24
عید وغیرہ کے موقع پر بھی تفریح کے مواقع پیدا کئے جاتے۔گھر میں بچیاں نغمے وغیرہ گاتی اور خوشی مناتی تھیں۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقع پررسول اللہؐ گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ دولڑکیاں جنگ بعاث کے نغمے گارہی ہیں۔آپ ؐبستر پر لیٹ گئے اور رخ دوسری طرف کرلیا۔حضرت ابوبکرؓ نے آکر مجھے ڈانٹا اور کہا رسول اللہؐ کے گھر میں یہ شیطان کا باجا؟ رسول اللہؐ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان کو خوشی کرلینے دو۔ہر قوم کا ایک عید کا دن ہوتا ہے۔اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری)25
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ عید کے موقع پر اہل حبشہ نے مسجد نبوی میں کرتب دکھائے۔رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تم بھی دیکھنا چاہو گی؟ چنانچہ میں آپ ؐکے پیچھے کھڑی ہوکر دیر تک ان کے کرتب دیکھتی رہی۔(بخاری)26
حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیںکہ نبی کریمؐ کے مدینہ میں ابتدائی زمانے کے ایک سفر کا ذکر ہے، میں لڑکی سی تھی،ابھی موٹا پا نہیں آیا تھا۔نبی کریمؐ نے قافلہ کے لوگوں سے فرمایا تم آگے چلے جائو۔پھر مجھے فرمانے لگے آئو میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرلو۔میں نے آپؐ سے دوڑ لگائی تو آگے نکل گئی۔حضورؐ خاموش رہے(معلوم ہوتا ہے آنحضورؐ نے حضرت عائشہؓ کی خوشی کی خاطر انہیںآگے نکلنے دیا تبھی کوئی تبصرہ نہیں فرمایا اور خاموشی اختیار کی)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بعد میں جب میرا جسم کچھ فربہ ہوگیا اور وزن بڑھ گیا ہم ایک اور سفر کے لئے نکلے۔ رسول اللہؐ نے پھر قافلہ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے نکل جائیں۔پھر مجھے فرمایا آئو آج پھر دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ہم نے دوڑ لگائی اس دفعہ رسول کریمؐ آگے نکل گئے۔آپؐ مسکراتے ہوئے فرمانے لگے لو پہلی دفعہ تمہارے جیتنے کا بدلہ آج اُترگیا۔(احمد)27
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت کی شادی ایک انصاری شخص سے ہوئی۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا۔اے عائشہؓ! تمہارے پاس کوئی رونق وغیرہ کا سامان نہیں ہے۔ انصار کو(ایسے موقع پر) رونق پسند ہے۔(بخاری)28
ایک دفعہ ایک عورت نبی کریم ؐکے پاس آئی۔حضورؐ نے فرمایا عائشہؓ تمہیں پتہ ہے ،یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں ،اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ نے فرمایا۔یہ فلاں قبیلے کی مغنّیہ ہے۔کیا تم اس سے کوئی گانا سننا چاہتی ہو؟ عائشہؓ نے عرض کیا، کیوں نہیں،پھر حضرت عائشہؓ نے اس کو ایک طشتری دی، جسے بجا کر اس نے گانا گایا۔جب وہ گاچکی تو نبی کریمؐ نے اس پر تبصرہ فرمایا۔اس کے نتھنو ں میں شیطان پھونکتا ہے۔(احمد)29
اس طرح آپؐ نے اس کے فن کی داد بھی دے دی اور گانے بجانے سے اپنی طبعی بے رغبتی کا اظہار بھی فرمادیا۔
الغرض رسول کریمؐ کو غیرمعمولی لطیف حِس مزاح عطاہوئی تھی۔ اور اس سچے اور پاکیزہ مزاح سے آپؐ نے اپنی، اپنے اہل خانہ اور صحابہ کی مشکل زندگی کو بھی پُرلطف بنادیا تھا۔ اللھم صل علی محمدوآل محمد۔
حوالہ جات
1
مسلم کتاب الاداب باب استحباب طلاقۃ الوجہ
2
مجمع الزوائد جلد9ص17
3
شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد4ص253
4
ترمذی کتاب البرو الصلۃ باب ماجاء المزاح
5
جامع الکبیر للسیوطی ص142
6
مسلم کتاب الفضائل باب تبسمہ
7
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی انشادالشعر
8
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد1ص324 مطبوعہ بیروت
9
کنزالعمال جلد4ص43مطبوعہ بیروت
10
شمائل الترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللہؐ
11
ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح:4998
12
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد1ص331 بیروت
13
مسند احمد بن حنبل جلد5ص221
14
شمائل ترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللہؐ
15
ابوداؤد کتاب الدیات باب لایوخذاحد بجریرۃ احد
16
بخاری کتاب العلم باب متی یصح سماع الصغیر
17
ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح
18
مسند احمد جلد4ص61دارالکتاب العربی بیروت
19
معجم الکبیر للطبرانی جلد4ص243
20
بخاری کتاب الادب باب التبسم والضحک
21
مجمع الزوائدلھیثمی جلد9ص372
22
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص347
23
ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح
24
بخاری کتاب التفسیرسورۃ آل عمران باب لن تنالو البرحتی تنفقوا
25
بخاری کتاب العیدین باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام
26
بخاری کتاب الصلوۃ باب اصحاب الحراب فی المسجد:454
27
مسند احمد بن حنبل جلد6ص264مطبوعہ بیروت
28
بخاری کتاب النکاح باب النسوۃ اللتی یھد ین المرأۃ
29
مسند احمد جلد 3ص449بیروت

{ بعدازخدابزرگ توئی قصّہ مختصر}
نبیوں میں سب سے بزرگ اورکامیاب نبیؐ
حضرت محمد عربی خاتم النبیین ﷺ کی عظمت کے ترانے اس وقت سے بھی پہلے گائے جارہے تھے جب آدم ؑ کا خمیر ابھی مٹی سے اٹھایا جا رہا تھا۔ آپؐ تخلیق عالم کی علت غائی تھے ۔ آپؐ انبیاء کے سرتاج تھے اس لئے وہ آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس مبارک وجود کے لئے دعائیں کیں۔ حضرت موسیٰ ؑنے اپنے مثیل ایک نبی کے برپا ہونے کا مثردہ سنایا کہ وہ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہو گا۔ حضرت سلیمان ؑ کی زبان مبارک سے ایک محبوب سرخ و سفید کی خوشخبری دی گئی اور آپؐ کا نام تک بتا دیا گیا کہ وہ ’’محمدیم‘‘ ہے۔ جس کاترجمہ سراپا عشق انگیز کیا جاتا ہے حالانکہ اس لفظ میں نام کے ساتھ یہ اشارہ بھی تھا اس کی مدح و ستائش کی جائے گی۔ یسعیاہؑ نے ایک ابدی سلامتی کے شہزادے کی نوید مسرت سنائی تو دانیال ؑ نبی نے آسمانی ابدی سلطنت کی پیش از وقت اطلاع دی اور حضرت یسوع مسیح ؑنے اپنے بعد ’’احمد رسول ‘‘کی بشارت دی۔
الغرض ازل سے تمام افلاک اور سارا عالم اپنے اس مقصود حقیقی کی تلاش میں سرگرداں اس کی شان کے قصیدے گاتا ہوا رواں دواں تھا ٗکائنات اپنے مقصود کے لئے گردش لیل و نہار میں تھی ۔قومیں اس عظیم ہستی کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھیںکہ اس مبارک صد مبارک ہستی کاورود ارض حجاز سے ہوا۔ قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز اٹھے اور عرش یوں نغمہ سرا ہوا:
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہ‘ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا - (سورہ الاحزاب :57)
کہ اللہ یقینا اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی یقینا اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ اے مومنو! تم بھی اس پر درود بھیجتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور خوب جوش و خروش سے ان کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو۔کیونکہ آپؐ ہی خدائی فرمان لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَ کَ کامصداق ہیں کہ اگر تونہ ہوتا تو میں کائنات کو پیدانہ کرتا۔
یہ حضرت آمنہ کے مبارک خواب کی تعبیر تھی کہ نور عالم ان کے وجود سے ظاہر ہوا اور پھر چہار سو پھیل گیا اور اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا کا نظارہ دنیا نے دیکھا۔حضرت آمنہ نے آپؐ کا نام الٰہی اشارہ کے مطابق ’’محمدؐ ‘ ‘ رکھا۔ اس نام پر عربوں کا تعجب دیکھ کر عبدالمطلب نے سچ ہی تو کہا ’’بلا شبہ میرا یہ بیٹا عظیم ہو گا۔ اس کی بہت تعریف ہو گی۔ ‘‘
اورپھر ایسا ہی ہوا ملائک کو ارشاد ہوا کہ آسمانوں کو اس عظیم وجود کی تعریف سے بھر دو اور زمین میں اس کی مقبولیت پھیلا دو، بندگان خدا کو حکم ہوا کہ اس ہستی پر سلام و درود بھیجو اوربار گاہ رب العزت سے یہ فیصلہ صادر ہوا کہ ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ (الانشراح:5)کہ اے محمدؐ عربی ہم نے تیرے ذکر کو بہت بلند کیا ہے۔
گویا تو عظمت و رفعت کا ایک مینار ہے اور یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہؐ پر آج تک جس قدر سلام و درود بھیجا گیا ساری دنیا کے انسانوں کے لئے بھی اتنی دعائیں نہ کی گئی نہ ہوں گی۔ جس قدر تعریف اور ذکر آپؐ کا ہوا اس کی نظیر لاحاصل ہے۔
قرآن شریف میں آنحضرت ؐ کے ’’مقام محمود‘‘ پر فائز کئے جانے کا بھی ذکر ہے۔ جو ایسی عظیم الشان تعریف کا مقام ہے جس پر پہلے اور پچھلے سب رشک کریں گے اور بروز قیامت اس کا اظہار یوں ہوگا کہ رسول کریمؐ کوایک سبز پوشاک پہنائی جائے گی۔آپؐ خدا کی حمد کے ترانے گائیں گے پھر آپؐ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی اورآپؐ اپنی امت کی شفاعت کریں گے۔(احمد1)ظاہرہے اس مقام محمود کا تعلق صرف آخرت سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی ہے کہ آپؐ سے بڑھ کر تعریف کا مقام کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’مجھے جبریل ؑ نے کہا میں نے زمین کے مشرق اور مغرب کو پلٹ کردیکھا تو میں نے محمدؐ سے افضل کوئی شخص نہیں پایا۔‘‘(بیہقی)2
حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا :۔
’’میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا مگر اس پر مجھے کوئی فخر نہیں اور کوئی بھی نبی آدم ؑ اور اس کے سوا ایسا نہیں۔ مگر وہ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا۔ نیزفرمایا قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور شفاعت کرنے والا ہونگا۔ مگر بغیرکسی فخر کے۔‘‘(ترمذی)3
محمّدؐ ہی نام اور محمّدؐ ہی کام
عَلیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلیْکَ السَّلَام
آپؐ کی صداقت و دیانت سے متاثر ہو کر قوم نے آپؐ کوصدوق و امین کا خطاب دیا اورکوہِ صفا پر آپؐ کی پوری قوم نے بالاتفاق شہادت دی۔ ہم نے آپؐ کو ہمیشہ سچاپایا ہے۔بلاشبہ آپؐ مکارم اخلاق اور خلق عظیم کے مالک تھے۔ اسی لئے قرآن کریم میں آپؐ کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔
آپؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہؓ حضرت عائشہؓ کی شہادت نیز آپؐ کے دیگر عزیزواقارب، دوستوں اور دشمنوں تک کی گواہیاں بیان ہو چکی ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ رسول کریم ؐ اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم تھے۔بچپن سے جوانی تک ساتھ دینے والے آپؐ کے چچا ابوطالب نے بھی کہا تھا:
وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الغَمَامُ بِوَجْھِہٖ
ثِمَالُ الیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِّلاَرَامِلِ
کہ محمد ؐکے روشن چہرے کا واسطہ دے کر بارش مانگی جائے تو بادل برس پڑتے ہیں آپؐ یتیموں کے والی اور بیوائوں کے محافظ ہیں…آپؐ کے دشمن ابوسفیان نے شہنشاہ روم کے سامنے آپؐ کے اعلیٰ اخلاق اور صدق وامانت کی گواہی دی توآپؐ کے چچا زاد بھائی جعفر طیارؓ نے شاہ حبشہ کے سامنے کہاتھا کہ’’خدا نے ہمارے درمیان ایسا شخص کھڑا کیا ہے جس کی سچائی ٗ دیانت اور اخلاص ہم آزما چکے ہیں۔ ‘‘
دنیا کی ہر زبان میں مختلف اقوام کے مشاہیر نے آپؐ کی سوانح عمریاں لکھیں اور آپؐ کے حالات زندگی پر بحث کی اوریہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور رہے گا۔ان غیر جانبدار اشخاص کی بے لوث تحریروں سے بھی آپؐ کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسٹرمائیکل ہارٹ کی کتاب ’’ دی ہنڈرڈ‘‘ (The Hundred) میںپہلے نمبرپرشائع ہونے والے مضمون’’ محمد ۔ دنیا کا سب سے بڑا مؤثر انسان ‘‘ کا بہت چرچا ہوا ہے۔ جس میںفاضل مصنف نے اربوں انسانوں (ایک اندازہ کے مطابق بیس ملین) میں سے جو روئے زمین پر اب تک پیدا ہو چکے ہیں۔ حضورؐ سرور پاک کو سب سے مؤثر ترین انسان قرار دیتے ہوئے سوعظیم شخصیتوں کی فہرست میں نمبر1شخصیت قراردیا ہے۔ جس نے تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ اور دیرپا اثر چھوڑا ہے، ایسا اثر جس نے لوگوں کی زندگیوں کو خاص رنگ میں رنگین کیا اور دنیا کو بھی ایک خاص رنگ میں ڈھال دیا۔مصنف لکھتا ہے:۔
"My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religions, and became immensely effective political leader. Today, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.
The majority of the persons in this book had the advantage of being born and raised in centers of civilization, highly cultured or politically pivotal nations. Muhammad, however, was born in the year 570, in the city of Mecca, in southern Arabia, at that time a backward area of the world, far from the centers of trade, art, and learning. Orphaned at the age of six, he was reared in modest surroundings. Islamic tradition tells us that he was illiterate…....Most Arabs at the time were pagans, who believed in many gods…...The Bedouin tribesmen of Arabia had a reputation as fierce warriors. But their number was small and plagued by disunity and internecine warfare, they had been no match for the larger armies of the kingdoms in the settled agricultural areas to the north. However, unified by Muhammad for the first time in history, and inspired by their fervent belief in the one true God, these small Arab armies now embarked upon one of the most astonishing series of conquests in human history …...Numerically, the Arabs were no match for their opponents…..However...…in a scant century of fighting, these Bedouin tribesmen, inspired by the word of the Prophet, had carved out an empire stretching from the borders of India to the Atlantic Ocean the largest empire that the world had yet seen...…How, then, is one to assess the ever all impact of Muhammad on human history. Like all religions, Islam exerts an enormous influence upon the lives of its followers. It is for this reason that the founders of the world's great religions all figure prominently in this book. Since there are roughly twice as many Christians as Muslems in the world, it may initially seem strange that Muhammad has been ranked higher than Jesus. There are two principal reasons for that decision. First, Muhammad played a far more important role in the development of Islam than Jesus did in the development of Christianity ...…Furthermore, Muhammad (unlike Jesus) was a secular as well as a religious leader. In fact, as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most influential political leader of all time.......Of many important historical events, one might say that they were inevitable and would have occurred even without the particular political leader who guided them........But this can not be said of the Arab conquests. Nothing similar had occurred before Muhammad, and there is no reason to believe that the conquests would have been achieved without him."
ترجمہ:’’میرامحمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دُنیا کی انتہائی مؤثرشخصیات کی فہرست میں سب سے اُوپررکھنا شاید بعض لوگوں کے لئے حیرت ناک اور بعض کے لئے قابلِ اعتراض ہو لیکن آپؐ ہی تاریخ انسانی کی ایسی منفردشخصیت ہیں جو دینی ودنیوی دونوں اعتبار سے انتہائی کامیاب ثابت ہوئے…محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک کمزور حیثیت سے زندگی کا آغازکرتے ہوئے دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اوراسے زندگیوں میں نافذ کیا اور پھر ایک انتہائی مؤثر کن سیاسی رہنما بن کر اُبھرے۔ آج ان کی وفات کے تیرہ صدیاں بعد بھی آپؐ کا اثر غیرمعمولی طاقت اور نفوذ رکھتا ہے…اس کتاب میں زیادہ تر جن مشاہیر کا تذکرہ ہے ان کو عظیم اقوام کے بڑے مراکز میں پیدا ہونے کی برتری حاصل ہے جو اس زمانہ کی تہذیب اور سیاست میں ترقی کے اعلیٰ مقام پرتھے۔تاہم برخلاف اس کے محمدؐ570ء میں جنوبی عرب کے شہرمکہ میں پیداہوئے۔ جو اس وقت کی دنیا میں خانہ جنگی کا شکار ایک غیرمہذب علاقہ تھا۔ جو تجارتی مراکز اور علم وفن سے کہیں دور تھا…احادیث کے مطابق آپؐ چھ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے اور اس طرح آپؐ کی پرورش سادہ اور غریبانہ ماحول میں ہوئی۔ محمد خود اُمی تھے۔ عرب بت پرست تھے اور متعدد خدائوں کو مانتے تھے۔ عرب کے خانہ بدوش قبائل جنگجو مشہورتھے مگر وہ اختلافات کے باعث باہم برسرپیکار رہتے تھے۔ اس لئے وہ شمال کے سرسبزعلاقے پرقابض طاقتور سلطنتوں کا مقابلہ کرنے سے قاصرتھے۔ لیکن تاریخ میںپہلی مرتبہ محمدؐ کے ماتحت متحدہوکر اور ایک سچے خداپرکامل ایمان سے سرشارہوکر عرب کے یہ چھوٹے دستے انسانی تاریخ کی عظیم الشان فتوحات کے سلسلے برپا کرنے نکلے…تعداد کے لحاظ سے اپنے مدمقابل سے ان کی کوئی نسبت نہ تھی…پھربھی ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ان خانہ بدوش قبائل نے محمدؐ کے پیغام سے سرشار ہوکر ایک حیرت انگیز اور عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جس کی حدود ہندوستان سے لے کر بحراوقیانوس تک تھیں اور جو اس وقت تک دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی…اب ہم (کسطرح) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا مجموعی طورپر انسانی تاریخ پر گہرے نقوش ثبت کرنے کا جائزہ لے سکتے ہیں! دیگرتمام مذاہب کی طرح اسلام اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرااثرڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دُنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے بانیوں کو اس کتاب میںنمایاں جگہ دی گئی ہے۔بلاشبہ دُنیا میں مسلمانوں کی نسبت عیسائیوں کی تعداد تقریباً دوگناہے۔ابتداء ً یہ تعجب انگیز خیال آسکتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو عیسیٰ (علیہ السلام) سے ارفع مقام دیاگیا ہے۔ اس فیصلہ (انتخاب) کی دوبڑی وجوہات ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کام عیسائیت کی ترقی کے لئے کیا اُس کی نسبت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام کی ترویج واشاعت کا کام کہیں زیادہ اور مؤثرہے …مزید برآں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) عیسیٰ (علیہ السلام) کے برعکس دینی و دُنیاوی دونوں قسم کے رہنماتھے۔ دراصل عرب فتوحات کے پیچھے آپؐ کی قوتِ متحرکہ ہی تھی جس کی بناء پر آپؐ دُنیا کے عظیم ترین اور مؤثرترین سیاسی رہنماکی مسلّمہ حیثیت کے حامل بن گئے…دنیا کے اہم واقعات کے بارہ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی خاص سیاسی رہنما کے بغیر بھی ہوکر رہتے ہی تھے… لیکن عرب کی فتوحات کے بارہ میں یہ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ محمدؐ نے جو کچھ کردکھایا اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور کوئی وجہ نہیں کہ یقین کیا جائے کہ یہ فتوحات آپؐ کے بغیربھی حاصل ہوسکتی تھیں۔‘‘(مائیکل ہارٹ)4
مسٹر پرنگل کنیڈی (Pringle Kennedy) نے اپنی انگریزی کتاب ’’عربین سوسائٹی ایٹ دی ٹائم آف محمد‘‘ میں یوں تحریر کیا :۔
"Muhammad was, to use a striking expression, the man of the hour. In order to understand his wonderful success, one must study the conditions of his times. Five and half centuries and more had elapsed when he was born since Jesus had come into the world. At that time, the old religions of Greece and Rome, and of the hundred and one states along the Mediterranean, had lost their vitality. In their place, Caesarism had come as a living cult. The worship of the state as personified by the reigning Caesar, such was the religion of the Roman Empire. Other religions might exist, it was true; but they had to permit this new cult by the side of them and predominant over them. But Caesarism failed to satisfy. The Eastern religions and superstitions (Egyptian, Syrian, Persian) appealed to many in the Roman world and found numerous votaries. The fatal fault of many of these creeds was that in many respects they were so ignoble…When Christianity conquered Caesarism at the commencement of the fourth century, it, in its turn, became Casarised. No longer was it the pure creed which had been taught some three centuries before. It had become largely de-spiritualized, ritualized, materialized….
How, in a few years all this was changed, how , by 650AD a great part of this world become a different world from what it had been before, is one of the most remarkable chapters in human history…This wonderful change followed, if it was not mainly caused by, the life of one man, the Prophet of Mecca…Whatever the opinion one may have of this extraordinary man….There can be no difference as to the immensity of the effect which his life has had on the history of the world. To those of us, to whom the man is everything, the milieu but little, he is the supreme instance of what can be done by one man. "
’’کھلے لفظوں میں(کہاجائے تو)محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) زمانہ کے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی حیران کن کامیابی کے لئے ہمیں لازماً ان کے حالات زمانہ کوسمجھنا چاہئے۔حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کے ساڑھے پانچ سوسال بعد آپؐ اس دنیا میں تشریف لائے ۔ اس زمانہ میں یونان ، روم اور بحیرۂ عرب کی ایک سو ایک ریاستوں کے تمام قدیم مذاہب اپنی افادیت کھو چکے تھے۔ اس کی جگہ رومن حکومت کا دبدبہ ایک زندہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ اور شنہشاہ قیصر روم کے مطابق حکومتِ وقت کی پرستش اور اطاعت گویا رومی حکومت کا مذہب بن چکا تھا۔ یہ بجاکہ دیگر مذاہب بھی موجود تھے۔ مگر وہ اپنے مذہب کے باوجود اس نئے عوامی روش کے پابند ہوچکے تھے۔ لیکن شہنشاہیت روما دنیا کو سکون نہ دے سکی۔ چنانچہ مشرقی مذاہب اور مصر، شام اور ایران کی توہم پرستی نے رومی سلطنت میں نفوذ شروع کیا اور مذہبی لوگوں کی اکثریت کو زیر اثر کرلیا۔ ان تمام مذاہب کی مہلک خرابی یہ تھی کہ وہ کئی پہلوئوں سے قابل شرم حد تک گرچکے تھے۔ عیسائیت جس نے چوتھی صدی میں سلطنت روما کو فتح کیا تھا، رومن اقدار اپنا چکی تھی۔ اب عیسائیت وہ خالص فرقہ نہ رہا تھا جس کی تعلیم اسے تین صدیاں قبل دی گئی تھی۔ وہ سراسر غیر روحانی تمول پسند اور مادیت زدہ ہوچکی تھی۔ پھر کیسے چند ہی سالوں میں اس حالت میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا؟ ہاں یہ کیسے ہوأ کہ650ء (محمد ؐ کی بعثت کے بعد) میں دنیا کا ایک بہت بڑا خطہ پہلے کے مقابل پر ایک مختلف دنیا میں تبدیل ہوگیا۔بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا ایک انتہائی شاندارباب ہے۔پھر یہ انقلاب آگے بڑھا…انتہا پرست عیسائیوں اور مستشرقین کی مخالفانہ رائے کے باوجود ان گہرے اثرات میں کوئی کمی نہیں آسکتی جو آپؐ کی زندگی نے تاریخ عالم پر ثبت کئے۔ ماننا پڑتا ہے کہ آپؐ(رسول اللہؐ) انسان کے برپا کردہ انقلاب کی اعلیٰ ترین مثال ہیں‘‘۔ (کنیڈی)5
ایس پی سکاٹ (S.P.Scott) اپنی انگریزی کتاب ’’ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ‘‘ میںنبی کریمؐ کی زندگی کاحاصل یوں بیان کرتے ہیں:۔
"If the object of religion be the inculcation of morals, the diminution of evil, the promotion of human happiness, the expansion of the human intellect, if the performance of good works will avail in the great day when mankind shall be summoned to its final reckoning, it is neither irreverent nor unreasonable to admit that Muhammad was indeed an apostle of God."
’’اگر مذہب کا مقصد اخلاق کی ترویج ، برائی کا خاتمہ انسانی خوشی و خوشحالی کی ترقی اورانسان کی ذہنی صلاحیتوں کا جلاء ہے اور اگر نیک اعمال کی جزا اس بڑے دن ملنی ہے جب تمام بنی نوع انسان قیامت کو خداکے حضورپیش کئے جائیں گے تو پھر یہ تسلیم کرنا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بلاشبہ خداکے رسول تھے۔ ہرگزبے بنیاد اور بے دلیل (دعویٰ) نہیں ہے۔(سکاٹ)6
لیمرٹین اپنی کتاب’’ ہسٹری آف ترکی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:۔
"Philosopher, orator, apostle, legislator, warrior, conqueror of ideas, restorer of rational dogmas; the founder of twenty terrestrial empires and of one spiritual empire, that is Muhammad. As regards all standards by which human greatness may be measured, we may ask, is there any man greater than he?"
’’فلاسفر،مقرر،رسول،قانون دان،جنگجو ،ذہنوں کو فتح کرنے والا،حکمت کے اُصول قائم کرنے والا،بیس دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کا بانی یہ سب کچھ تھا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)۔ وہ تمام معیارجن سے انسانی عظمت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، ان کے لحاظ سے ہم بجاطور پریہ سوال کرسکتے ہیں کیا اس (محمدؐ) سے عظیم تر کوئی انسان (دنیا میں) ہے؟‘‘ (لیمرٹین)7
بسورتھ اسمتھ اپنی کتاب محمداینڈ محمڈن ازم میں لکھتے ہیں:۔
"We know indeed some fragments of a fragment of Christ's life; but who can lift the veil of the thirty years that prepared the way for the three? What we do know indeed has renovated a third of the world, and may yet renovate much more' an ideal of life at once remote and near' possible and impossible' but how much we do not know! What do we know of his mother, of his home life, of his early friends, and his relation to them, of the gradual dawning, or, it may be, the sudden revelation, of his divine mission? How many questions about him occur to each of us that must always remain questions!
But in Mohammedanism every thing is different' here, instead of the shadowy and the mysterious, we have his story. We know as much of Mohammed as we do even of Luther and Milton. The mythical, the legendary, the supernatural is almost wanting in the original Arab authorities, or at all events can easily be distinguished from what is historical. Nobody here is the dupe of himself or of others; there is the full light of day upon all that that light can ever reach at all. "The abysmal depths of personality" indeed are, and must always remain, beyond the reach of any line and plummet of ours. But we know every thing of the external history of Mohammed his youth, his appearance, his relation, his habits; the first idea and the gradual growth, intermittent though it was, of his great revelation; while for his internal history, after his mission had been proclaimed, we have a book absolutely unique in its origin."
’’یہ صحیح ہے کہ تاریخ کی روشنی میں ہم مسیح ؑکی زندگی کے کچھ واقعات دیکھ سکتے ہیں لیکن اُن تیس سالوں سے کون پردہ اٹھا سکتا ہے جو انہوں نے (نبوت سے پہلے) گزارے جو کچھ ہم جانتے ہیں، اس نے اگر چہ دنیا کی معلومات میں کسی حدتک اضافہ کردیا ہے۔ اور آئندہ مزید انکشافات متوقع ہیں، تاہم ایک مثالی زندگی ، کون جانے، کتنی قریب ہے کتنی دور! کتنی ممکن ہے اور کتنی ناممکن ! ہم ابھی بہت کچھ نہیں جانتے۔ ہم اُن کی ماں کے بارے میں، ان کی گھریلوزندگی کے بارے میں، ان کے ابتدائی دوست احباب اور ان کے تعلقات باہم کے بارے میں اورا س سلسلہ میں بھلا کیا جانتے ہیں کہ مسندنبوت پروہ بتدریج فائز ہوئے یا وحی پاکر یکدم خدائی مشن کے حامل بن گئے؟ بہرحال کتنے ہی سوال ایسے ہیں جو ہم میں سے اکثرکے ذہنوں سے ٹکراتے ہیں، مگروہ بس سوالات ہیں، جواب کے بغیر! البتہ محمد(ﷺ) کے معاملہ میں صورت یکسرمختلف ہے۔ یہاں ہمارے پاس اندھیروں کے بجائے تاریخ کی روشنی ہے۔ ہم محمد(ﷺ) کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ لوتھراور ملٹن کے بارے میں۔ یہاں واقعات کا دامن ، خیال محض، قیاس ، تخمین وظنّ، ماورائے فطرت روایات اور فسانہ وفسوں سے آلودہ ہونے کے بجائے، حقائق سے آراستہ ہے۔ اور ہم بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ یہاں کوئی شخص نہ خود اپنے آپ کو دجل و فریب میں مبتلا کرسکتا ہے نہ دوسروں کو۔ یہاں ہر چیز دن کی پوری روشنی میں جگمگارہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اُن کی شخصیت کے بہت سے پَرَتْ ہیں اور ان میں سے ہر ایک تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے تاہم محمد(ﷺ) کی زندگی کے متعلق ہم ہر چیز جانتے ہیں۔ اُن کی جوانی، اُن کی اُٹھان،اُن کے تعلقات،اُن کی عادتیں، ابتدائی حالات اور پہلی وحی کے نازل ہونے تک کا لمحہ، ذہنی سفر اور ارتقاء وغیرہ۔ نیز ان کی داخلی، باطنی زندگی کے متعلق بھی ، اور یہ کہ جب اعلانِ نبوت کرچکے تو پھر ہم ایک ایسی مکمل کتاب پاتے ہیں جو اپنی ابتداء اپنی حفاظت اور متن وغیرہ کے کئی پہلوئوں کے لحاظ سے بالکل ممتاز و منفرد ہے۔ ‘‘ (اسمتھ)8
سرولیم میوراپنی کتاب لائف آف محمد میں لکھتے ہیں:۔
"The condition of the world at the time of the advent of Muhammad has been summed up in the Holy Quran as: 'Corruption has appeared on land and sea in consequence of people's misdeeds' (30:42). This is amply borne out by the testimony that we have cited above. Thus, it is clear that the state of the world, at the time of the advent of the Holy Prophet, called loudly for universal and comprehensive divine guidance, to be set forth in God's words, and to be illustrated by a messenger whose life would be multi-faceted and who would serve as an exemplar for mankind. Such was Muhammad. Another very striking factor in his support is that no one else even remotely approaching his stature and his qualities appeared to guide mankind at the time of its greatest need. The conclusion is irresistible that he was beyond doubt the pre-determined instrument of God for the revival of mankind."
’’محمد(ﷺ) کی بعثت کے وقت دنیا کی حالت زار کا نقشہ قرآن میں یوں پیش کیاگیا ہے کہ ’’لوگوں کے بداعمال کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہوچکا ہے(30:42) اس سے ہماری بیان کردہ شہادت کی تائید ہوتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت دنیا کی حالت بآواز بلند اس عالمی اور کامل الہٰی ہدایت کو پکار رہی تھی جو خدا کے الہامی الفاظ میں ایک ایسے رسول کے ذریعہ بیان کی جائے جس کی زندگی مختلف پہلوئوں اور جہات پر حاوی ہو اور جو بنی نوع انسان کے لئے ایک نمونہ اور اسوہ ہو، ایسے انسان محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہی تھے۔ آپؐ کی تائید میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ آپؐ کے مقام اور صلاحیتوں سے کم تر کوئی انسان بھی اس زمانہ میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے نہیں آیا۔ جب کہ دنیا کو اس کی انتہائی ضرورت تھی۔ جس کا ناقابل تردید نتیجہ یہی ہے کہ بلاشبہ آپؐ کا وجود انسان کی رشد و ہدایت کے لئے خدا کے ہتھیار کے طور پر پہلے سے مقدر تھا۔‘‘(میور)9
ڈبلیو منٹگمری واٹ اپنی کتاب’’محمد ایٹ مدینہ‘‘ میں رقمطراز ہے:۔
"The more one reflects on the history of Muhammad and of early Islam, the more one is amazed at the vastness of his achievement. Circumstances presented him with an apportunity such as few men have had, but the man was fully matched with the hour. Had it not been for his gifts as seer, statesman, and administrator and, behind these his trust in God and firm belief that God had sent him, a notable chapter in the history of mankind would have remained unwritten."
’’جتنا ایک انسان محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ابتدائی اسلام کی تاریخ پر غورکرتا ہے اتنا ہی وہ آپؐ کی وسیع کامیابیوں کو دیکھ کر محوحیرت ہوجاتا ہے۔حالات نے آپؐ کو وہ موقع دیا جو بہت کم ہی کسی کو میسر آیا ہوگا تاہم آپؐ کی ذات زمانے کے جملہ تقاضوں پرپوری اُترتی تھی، غیب پر اطلاع پانے ،مدّبراور منتظم ہونے کے علاوہ اگر آپؐ کا اس بات پرمحکم ایمان نہ ہوتا کہ خدانے آپؐ کو بھیجا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک قابل ذکر باب ضبط تحریر میں آنے سے رہ جاتا‘‘ (واٹ)10
ڈریپرلکھتے ہیں:۔
’’جسٹینین کی وفات کے چار سال بعد569ء میں مکہ میں وہ آدمی پیدا ہوا جس نے انسانیت پر تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ اثرڈالا۔‘‘(ڈریپر)11
مضمون نگارانسائیکلوپیڈیابرٹینکالکھتا ہے:۔
"Muhammad is the most successful of all Prophets and religious personalities."
’’محمدؐ مذہبی شخصیات میں سے تمام نبیوں میں سب سے زیادہ کامیاب رہے۔‘‘(برٹینکا)12
ڈاکٹر گستاوویل آنحضرتؐ کی پاکیزہ سیرت کے متعلق یوں گویا ہیں کہ:۔
"Muhammad set a shining example to his people. His character was pure and stainless. His house, his dress, his food. they were characterized by a rare simplicity. So unpretentious was he that he would receive from his companions no special mark of reverence, nor would he accept any service from his slave which he could do himself. Often and often was he seen in the market purchasing provisions; Often and often was he seen mending his clothes in his room, or milking a goat in his courtyard. He was accessible to all and at all times. He visited the sick and was full of sympathy for all. unlimited was his benevolence and generosity, as also was his anxious care for the welfare of the community. Despite innumerable presents which from all quarters unceasingly poured in for him, he left very little behind, and even that he regarded as state property."
’’ محمدؐ نے اپنے لوگوں کے لئے ایک روشن نمونہ قائم کیا آپؐ کے اخلاق پاک اور بے عیب ہیں۔آپؐ کا گھرآپؐ کا لباس اور آپؐ کی خوراک سادگی کا بے نظیرنمونہ تھی۔سادگی اوربے تکلفی کایہ عالم تھا کہ کبھی صحابہ سے اپنے لئے خصوصی عزت وتوقیرکا تقاضانہ کرتے اور نہ ہی اپنے غلام سے وہ کام لیتے جو آپؐ اپنے ہاتھ سے کرسکتے۔ اکثروبیشتر آپؐ بازار میں بذات خود سوداسلف خریدتے ہوئے دکھائی دیتے۔اسی طرح اپنے کمرہ میں کپڑوں کی مرمت کرتے ہوئے یا صحن میں دودھ دوہتے ہوئے نظرآتے۔آپؐ کے دروازے ہرکس وناکس کے لئے ہروقت کھلے رہتے۔آپؐ بیماروں کی تیمارداری کرتے اور اُن سے ہمدردی کا اظہار کرتے آپؐ کی شفقت اور فیاضی بے پناہ تھی۔معاشرہ کی فلاح وبہبود کا فکر بھی ہر وقت آپؐ کو دامنگیررہتا۔باوجودبے شمارتحائف جو آپؐ کو مختلف اطرف سے مسلسل پیش ہوتے رہتے تھے آپؐ گھر میں بہت کم رکھتے ۔کیونکہ ان کو بھی آپؐ عوام کاہی حصہ سمجھتے تھے۔‘‘(گستاویل)13
انگریزی زبان کے مشہور انشاپردازادیب اور مصنف تھامس کارلائل (اعزازی لارڈ ریکٹرایڈنبرایونیورسٹی) نے اپنے لیکچرزہیروزاینڈہیروورشپ میں پیغمبروں اور بانیان مذاہب میں صرف محمدعربی (ﷺ) ہی کے وجود کو اس لائق سمجھا کہ وہ آپؐ کو نبیوں کا ہیروقراردے۔ وہ آپؐ کی عظمت کو یوں سلام پیش کرتا ہے:۔
Mahomet himself, after all that can be said about him, was not a sensual man. We shall err widely if we consider this man as a common voluptuary, intent mainly on base enjoyments,...nay on enjoyments of any kind. His household was of the frugallest; his common diet barley bread and water: sometimes for months there was not a fire once lighted on his hearth. They record with just pride that he would mend his own shoes, patch his own cloak..... No emperor with his tiaras was obeyed as this man in a cloak of his own clouting.During three-and-twenty years of rough actual trail. I find something of a veritable Hero necessary for that, of itself.(T.Carlyle)14
’’بہرحال حضرت محمدؐ کے بارہ میں کچھ بھی کہا جائے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کبھی بھی تعیش کی طرف مائل تھے۔ یہ ایک بڑی سخت غلطی ہوگی اگریہ تصور کیا جائے کہ آپؐ نفس پرست تھے۔ آپ کسی قسم کے بھی آرام وعیش کو پسند نہ فرماتے تھے۔ آپؐ کاگھریلواسباب بہت ہی معمولی تھا۔ آپؐ کی غذا جو کی روٹی تھی۔ بسااوقات مہینوں آپؐ کے گھر چولہے میں آگ نہ جلتی تھی۔ مسلمانوں کو بجاطورپرفخر ہے کہ آپؐ اپنے جوتے کی خود مرمت فرمالیاکرتے تھے۔ اپنے کپڑوں میں خودپیوند لگالیتے تھے۔آپؐ نے زندگی محنت پسندی اور عسرت میں بسر فرمائی۔اگر محمدؐ کا کردار بلند نہ ہوتا تو ان کی قوم کو ان کو اس طرح دل نہ چاہتی ۔ دنیا میں کسی شہنشاہ کے احکام کی کبھی ایسی اطاعت نہیں کی گئی جیسی گدڑی میں لپٹی اس عظیم ہستی کی گئی۔ان کا تیئس سالہ دور نبوت ایک ہیرو کی تمام صفات اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔‘‘(محمد)15
رسول اللہؐ کے پیداکردہ انقلاب کا ذکرکرتے ہوئے مسٹرکارلائل مزیدکہتے ہیں:۔
.6To the Arab Nation it was as a birth from darkness into light; Arabia first became alive by means of it..6 .6 A poor shepherd people, roaming unnoticed in its deserts since the creation of the world: a Hero Prophet was sent down to them with a word they could believe: see, the unnoticed becomes world notable, the small has grown world-great; within one century afterwards, Arabia is at Grenada on this hand, at Delhi on that; glancing in valour and splendour and the light of genius, Arabia shines through long ages over a great section of the world Belief is great, life-giving. The history of a Nation becomes fruitful, soul-elevating, great, so soon as it believes. These Arabs, the man Mahomet, and that one century, is it not as if a spark had fallen, one spark, on a world of what seemed black unnoticeable sand; but lo, the sand proves explosive powder, blazes heaven-high from Delhi to Grenada.I said, the Great Man was always as lightning out of Heaven; the rest of men waited for him like fuel, and then they too would flame.(T..6Carlyle.6(16
’’اہل عرب کے لئے یہ انقلاب ایک نئی زندگی تھی جو انہیں تاریکی سے نور کی طرف لے آئی تھی۔ عرب اس کے ذریعے سے پہلی دفعہ زندہ ہوا۔ ایک ایسی قوم جو ابتدائے افرینش سے گمنامی کے عالم میں ریوڑ چراتی پھرتی تھی۔ان کی طرف ایک رسول آیا جو اپنے ساتھ ایک ایسا پیغام لایا جس پر وہ قوم ایمان لے آئی، وہ دیکھو! وہی گمنام چروا ہے دنیا کی ممتاز ترین قوم بن گئے۔ وہ حقیر قوم ایک عظیم الشان ملت میں تبدیل ہوگئی۔ ایک صدی کے اندر اندر عرب ایک طرف غرناطہ اور دوسری طرف دہلی تک چھاگئے۔ اس کے بعد سینکڑوں برس ہوچکے ہیں یہ اسی شان وشوکت اوردرخشندگی وتابندگی سے کرہ ارض کے ایک عظیم حصے پرمسلط ہیں۔میں نے کہا کہ عظیم انسان ہمیشہ آسمان سے شعلۂ نوربن کر اُترتاہے۔نوع انسانی خشک نیستاں کی طرح اس شرارہ کے انتظار میں تھی۔ وہ شرارہ اس بطل جلیل کی صورت میں آسمان سے آیا اور تمام نوع انسانی کو شعلہ صفت بنادیا۔‘‘(محمد)17
مسٹربرنارڈشا نے بانی ٔ اسلام اور آپ ؐکے مذہب کی برتری کا ذکرکرتے ہوئے لکھا:۔
"If any religion has the chance of ruling over England, nay, Europe, within the next hundred years, it can only be Islam."
"I have always held the religion of Muhammad in high estimation because of its wonderful vitality. it is the only religion which appears to me to possess the assimilating capability to the changing phase of existence, which can make its appeal to every age. I believe that if a man like Muhammad were to assume the dictatorship of the modern world he would succeed in solving its problems in a way that would bring it much needed peace and happiness."
’’اگلے سوسال میں اگرکسی مذہب کو انگلستان بلکہ یورپ پرغلبہ حاصل کرنا ممکن ہے تو وہ صرف اسلام ہے…میں نے ہمیشہ محمدؐ کے مذہب کو اسکی حیران کن جاذبیت کی وجہ سے انتہائی معززجانا ہے۔یہ وہ منفرد مذہب ہے جومیری رائے میں دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنے اندرجذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہرزمانہ کو متأثرکرسکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ محمدﷺ جیسا انسان آج کی جدید دنیا کو مطلق العنان حکمران کے طور پر مل جاتا تو وہ دنیا کے مسائل اس طرح حل کرنے میں ضرورکامیاب ہوتا کہ انسانیت کو مطلوب امن اور خوشحالی کی دولت نصیب ہوجاتی۔‘‘(پورٹ)18
1991ء میں سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کے بعد سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ(جو اسلام اور دیگر مذاہب ،عیسائیت،یہودیت پر کئی کتب کی مصنفہ بھی ہیں) نے رسول اللہؐ کی سوانح پر کتاب’’محمد‘‘ لکھی ہے۔ جس میں بالعموم اہل مغرب کی طرف سے بانی اسلام کی سیرت پر ہونے والے ناپاک حملوں اور اعتراضات کے متعلق جارحانہ کی بجائے انصاف کے ساتھ مدافعانہ پہلواختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مغرب میں سلمان رشدی کی بانی ٔ اسلام کے خلاف یکطرفہ غلط کہانی کے مقابل پر اس کتاب کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا:۔
"It seemed important that the true story of the prophet should also be available, because he was one of the most remarkable human beings who ever lived".
’’یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا تھا کہ رسول اللہ ؐکی سچی کہانی بھی دستیاب ہو کیونکہ آپؐ دنیا کے وہ عظیم ترین انسان ہیں جو کبھی اس دنیا میں تشریف لائے۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں:۔
"Muhammad has been seen as the antithesis of the religious spirit and as the enemy of decent civilization. Instead, perhaps, we should try to see him as a man of the spirit, who managed to bring peace and civilisation to his people."
’’اہل مغرب نے محمدؐ کو مذہبی روح کے مخالف اور شائستہ تہذیب کے دشمن کے طور پر دیکھا ہے اس کی بجائے شاید ہمیں ان کو ایک روحانی انسان کے طور پر دیکھنا چاہئے جنہوں نے اپنے لوگوں کو امن اور تہذیب کا گہوارہ بنایا۔‘‘ (آرمسٹرانگ)19
شہنشاہ فرانس نپولین بوناپارٹ نے رسول اللہؐ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:۔
’’محمدﷺ کی ذات ایک مرکز ثقل تھی جس کی طرف لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ ان کی تعلیمات نے لوگوں کو اپنا مطیع و گرویدہ بنالیا اور ایک گروہ پیداہوگیا جس نے چند ہی سال میں اسلام کا غلغلہ نصف (معلومہ) دنیا میں بلند کردیا۔ اسلام کے ان پیروئوں نے دنیا کو جھوٹے خدائوں سے چھڑالیا۔ انہوں نے بت سرنگوں کردیئے۔ موسیٰ وعیسیٰ کے پیروئوں نے 15سوسال میں کفر کی نشانیاں اتنی منہدم نہ کی تھیں جتنی ان متبعینِ اسلام نے صرف پندہ سال میں کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محمدؐ کی ہستی بہت ہی بڑی تھی۔‘‘(بوناپارٹ)20
کونسٹن درجبل جارجیو (وزیرخارجہ رومانیہ) نے اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں رسول اللہؐ کے انقلاب کو دنیا کا عظیم ترین انقلاب قراردیتے ہوئے لکھا:۔
’’عربستان میں جو انقلاب حضرت محمدؐ پرباکرنا چاہتے تھے وہ انقلاب فرانس سے کہیں بڑا تھا۔۔۔انقلاب فرانس فرانسیسیوں کے درمیان مساوات پیدانہ کرسکا مگر پیغمبراسلام کے لائے ہوئے انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کردی اور ہر قسم کے خاندانی طبقاتی اور مادی امتیازات کو مٹادیا‘‘(کونسٹن)21
رسول اللہؐ کے پیداکردہ انقلاب کا ذکرکرتے ہوئے لامارٹن لکھتے ہیں:۔
’’اگرمقصد کی عظمت، وسائل کی قلت اور حیرت انگیز نتائج ! ان تین باتوں کو انسانی تعقل و تفکر کا معیار بلند مانا جائے تو کون ہے جو تاریخ کی کسی قدیم یا جدید شخصیت کو محمد(ﷺ) کے مقابل لانے کی ہمت کرسکے۔ لوگوں کی شہرت ہوئی کہ انہوں نے فوجیں بناڈالیں، قوانین وضع کرائے اور سلطنتیں قائم کرڈالیں۔ لیکن غورطلب یہ ہے کہ انہوں نے حاصل کیا کیا؟ صرف مادی قوتوں کی جمع پونجی؟ وہ تو ان کی آنکھوں کے سامنے لٹ گئی۔ بس صرف یہی ایک آدمی ایسا ہے جس نے یہی نہیں کہ فوجوں کو مرتب کیا، قوانین وضع کئے اور مملکتیں، سلطنتیں قائم کیں بلکہ اس کی نظر کیمیا اثر نے لاکھوں متنفس ایسے پیدا کردیئے، جو اس وقت کی معلوم دنیا کی ایک تہائی آبادی پر مشتمل تھے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر، انہوں نے قربان گاہوں کو، خدائوں کو، دین و مذہب کے پیروکاروں کو خیالات و افکار کو ، عقایدونظریات کو ،بلکہ روحوں کو بدل ڈالا۔ پھر صرف ایک کتاب کی بنیادپر،جس کا لکھا ہوا ہر لفظ قانون تھا، ایک ایسی روحانی اُمت کی تشکیل کردی گئی جس میں ہرزمانے، وطن، قومیت کا حامل فرد موجود تھا۔ وہ ہمارے سامنے مسلم قومیت کی ایک ناقابل فراموش خصوصیت یہ چھوڑ گئے کہ صرف ایک ان دیکھے ، خدا سے محبت، اور ہر معبود باطل سے نفرت… عالم الہٰیات ، فصاحت و بلاغت میں یکتائے روز گار، رسول (بانیِ مذہب) ، آئین وقانون ساز)شارع، سپہ سالار، فاتح اصول و نظریات، معقول، عقاید کو جلا بخشنے والے ، بلاتصویرمذہب کے مبلغ، بیسیوں علاقائی سلطنتوں کے معمار، دینی روحانی حکومت کے موسس، یہ ہیں محمد رسول اللہ…(جن کے سامنے پوری انسانیت کی عظمتیں ہیچ ہیں) اور انسانی عظمت کے ہر پیمانے کو سامنے رکھ کر ہم پوچھ سکتے ہیں ، ہے کوئی جو اُن سے زیادہ بڑا، اُن سے بڑھ کر عظیم ہو؟ …کسی انسان نے اتنے قلیل ترین وسائل کے ساتھ، اتنا جلیل ترین کارنامہ انجام نہیں دیا، جو انسانی ہمت و طاقت سے اس قدر ماوراتھا۔ محمد(ﷺ) اپنی فکر کے ہر دائرے اور اپنے عمل کے ہر نقشہ میں، جس بڑے منصوبہ کو رُوبہ عمل لائے، اُس کی صورت گری بجز اُن کے ، کسی کی مرہون منت نہ تھی، اور مُٹھی بھر صحرائیوں کے سوان کا کوئی معاون و مددگار نہ تھا۔ اور آخر کار ایک اتنے بڑے مگر دیرپاانقلاب کوبرپا کردیا،جواس دنیا میں کسی انسان سے ممکن نہ ہوسکا۔ کیونکہ اپنے ظہور سے لے کر اگلی دوصدیوں سے بھی کم عرصہ میں اسلام ، فکرو عقیدہ اور طاقت و اسلحہ دونوں اعتبار سے سارے عرب پر ، اور پھر ایک اللہ کا پرچم بلند کرتے ہوئے، فارس ، خراسان، ماوراء النہر، مغربی ہند، شام ، مصر،حبشہ،شمالی افریقہ کے تمام معلوم علاقوں پر بحر متوسط کے جزیروں پراور اندلس کے ایک حصہ پر بھی چھاگیا۔‘‘(لامارٹن)22
اطالوی مستشرقہ ڈاکٹر وگلیری صاحبہ (جونیلیزیونیورسٹی میں عربی کی پروفیسر تھیں) نے1935ء میں اپنی زبان (Italian)میں "An Interpretation of Islam"لکھی جس کا انگریزی ترجمہ فاضل اور مشہور ادیب ڈاکٹر آلڈو کسیلی نے کیا اور اردو جامہ بعنوان’’اسلام پر نظر ‘‘ جناب شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ لائلپور نے پہنایا۔ اس کتاب میں مصنفہ نے بانیٔ اسلام کے پیدا کردہ انقلاب کی عظمت کو یوں سلام پیش کیا۔
’’تہذیب و تمدن کی شاہراہوں سے دُور بیابان میں ایک جاہل قوم بستی تھی۔ جس کے اندر خالص اور شفاف پانی کا ایک چشمہ نمودار ہوا۔ جس کا نام اسلام ہے…اسلام آیا اور اس نے ان خون خرابوں کو مٹاکردلوں کے اندر اپنی تاثیرپھونک دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب اخلاق اورمقاصد میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔ باہمی اخوت کے جذبات موجزن ہونے لگے۔ اسلامی چشمہ ایک ناقابل مزاحمت دریا بن گیا۔ اور اس کے خالص اور پرزور دھارے نے زبردست سلطنتوں کو گھیر لیا۔ جو نئی یا پرانی تہذیب کی حامل تھیں…یہ وہ شورتھا جس نے سوتوں کو جگادیا یہ وہ روح تھی جس نے پراگندہ اقوام کو بالآخروحدت کی لڑی میں پرودیا۔
تاریخ عالم میں ایسا انقلاب کبھی نہ آیا تھا جس سرعت سے اسلامی فتوحات عمل میں آئیں اور جتنی جلدی چند مخلص اشخاص کے مذہب نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں گھر کرلیا…انسانی دماغ کے لئے یہ بات معمہّ ہے کہ آخر وہ کونسی مخفی طاقت تھی جس کی بدولت چند آزمودہ کار لوگوں نے ان قوموں کو مغلوب کرلیا۔ جو تہذیب دولت تجربے اور فنون جنگ میں ان سے بدرجہا افضل تھیں…انہوں نے اپنے ساتھیوں کے دلوں میں اپنے نصب العین کے حصول کے لئے ایک ایساحیرت انگیز ولولہ اور مستقل تڑپ پیدا کردی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہزار سال بعد تک بھی کوئی دوسرا مذہب اس ولولے اور تڑپ کا ہمسر نہ ہوگا۔‘‘
موصوفہ نے مزید لکھا:۔
’’فی الحقیقت اس مصلح کا کام نہایت اعلیٰ اور شاندار تھا۔ ہاں! یہی وہ مصلح تھا جس نے ایک بت پرست اور وحشی قوم کو کیچڑسے نکال کر ایک متحداور موحد جماعت بنادیا۔ اور ان میں اعلیٰ اخلاق کی روح پھونک دی۔(اسلام پر نظر)23
مشہورآریہ مصنف پرکاش دیوی لکھتے ہیں:۔
’’فی الواقع آنحضرت ؐ کی ذات سے جو جو فیض دنیا کو پہنچے اُن کے لئے نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کو اُن کا شکر گذار ہونا مناسب ہے۔ کون کونسی تکلیفیں ہیں جو اس بزرگ نے نسل انسان کے لئے اپنے اُوپر برداشت نہیں کیں او رکیا کیا مصیبتیں ہیں جو اُن کو اس راہ میں اُٹھانی نہیں پڑیں۔ عرب جیسے ایک وحشی اور کندۂ ناتراش ملک کو توحید کی راہ دکھانا اور اُن بدیوں سے روکنا جو عادت میں داخل ہوگئی تھیں کچھ سہل کام نہ تھا۔ تنگ دل اور متعصب لوگ ایسے بزرگ کی نسبت کچھ ہی کہیں لیکن جو لوگ انصاف پسند اور کشادہ دل ہیں وہ کبھی محمدؐ صاحب کی ان بے بہا خدمات کو جو وہ نسل انسان کے لئے بجالائے بُھلاکراحسان فراموش نہیں ہوسکتے وہ اپنی فضیلت کا ایسا جھنڈا کھڑا کرگئے ہیں جس کے نیچے اب تیرہ چودہ کروڑ دنیا کے آدمی پناہ گزین ہیں اور اُن کے نام پر جان دینے کے لئے مستعد کھڑے ہیں۔‘‘(پرکاش)24
بیروت کے مسیحی اخبارالوطن نے 1911ء میں لاکھوں عرب عیسائیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟اس کے جواب میںایک عیسائی عالم (داورمجاعص) نے لکھا:۔
’’دنیا کا سب سے بڑا انسان وہ ہے جس نے دس برس کے مختصر زمانہ میں ایک نئے مذہب ایک نئے فلسفہ، ایک نئی شریعت اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی، جنگ کا قانون بدل دیا، اور ایک نئی قوم پیدا اور ایک نئی طویل العمر سلطنت قائم کردی ہے۔ ان تمام کارناموں کے باوجودوہ امی اور ناخواندہ تھا، وہ کون؟محمدبن عبداللہ قریشی، عرب اور اسلام کا پیغمبر ،اس پیغمبرنے اپنی عظیم تحریک کی ہر ضرورت کو خود ہی پورا کردیا۔ اور اپنی قوم اور اپنے پیروئوں کے لئے اوراس سلطنت کے لئے جس کو اس نے قائم کیا،ترقی اوردوام کے اسباب بھی خود مہیاکردیئے۔ (مجاعص)25
حضرت بانی جماعت احمدیہؑ حضرت محمدمصطفیٰ ؐ کی شان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
٭ ’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وُہ زمین کے سمندروں اور دریائوں میں بھی نہیںتھا۔ وہ لعل اوریاقوت اور زمردّ اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اورسماوی میں نہیں تھا۔صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اوراعلیٰ اورارفع فرد ہمارے سیدومولیٰ سیدالانبیاء سیدالاحیاء محمدمصطفی ﷺ ہیں۔‘‘(آئینہ)26
٭ ’’ میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار دُرود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیرقدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحیدجودنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کوعطاکیاگیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی)27
٭ ’’ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہٰی رنگ پکڑگئے اورآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہٰی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔‘‘اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ بِعَدَدِھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَرَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ۔‘‘(برکات)28
٭ ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوان مرد نبیؐ اورزندہ نبیؐ اورخداکااعلیٰ درجہ کا پیارا نبی ؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخرتمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمدمصطفی واحمد مجتبیٰ ﷺ ہے۔ جس کے زیرسایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔‘‘(سراج منیر)29
٭ ’’میرامذہب یہ ہے کہ اگررسول اللہﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذرچکے تھے۔ سب کے سب اکٹھے ہوکر وہ کام اور وہ اصلاح کرناچاہتے۔ جو رسول اللہﷺ نے کی ہرگزنہ کرسکتے۔ ان میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبیؐ کو ملی تھی ……ہمارے نبی کریم ﷺنے وہ کام کیاہے، جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کرکسی سے ہوسکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔‘‘(ملفوظات)30
٭ ’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اوراپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پرزوردریاسے کمال تام کا نمونہ علماًو عملاً و صدقاً وثباتاً دکھلایا اورا نسانِ کامل کہلایا۔…وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اورحشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اِس پیارے نبی پروہ رحمت اوردرود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پرنہ بھیجا ہو۔‘‘(اتمام الحجہ)31
حسینانِ عالم ہوئے شرمگیں
پھر اُس پر وہ اخلاق اکمل تریں
زہے خُلقِ کامل زہے حُسنِ تام
جو دیکھا وہ حسن اور وہ نورِ جبیں
کہ دشمن بھی کہنے لگے آفرین
عَلیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلیْکَ السَّلَام
یَارَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا
فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَاوَبَعْثٍ ثَانِیْ
حوالہ جات
1
مسند احمدجلد3ص456، جلد2ص398،جلد1ص398
2
دلائل النبوہ للبیھقی جلد1ص176
3
ترمذی کتاب المناقب باب فضل النبی ؐ
4
A Ranking of the most influential persons of History, 1987 NY
5
Arabian Society at the time of Muhammad page 8-10,18-21
6
S.P. Scott, History of the Moorish Empire in Europe, Page:126
7
Lamartine, History of Turky, Page:276
8
Smith, R.Bosworth, Muhammad and Mohammadanism Page 40,41 London...1876 (Secon Ed)
9
Sir William Mur,Life of Muhammad
10
W.Montgomery Watt, Muhammad at Medina, page:336
11
ڈریپر، جون ولیم، اے ہسٹری آف دی انٹلیکچوئل ڈیویلپمنٹ آف یورپ لنڈن1875ء جلد1ص329
12
Encyclopaedia Britannica (11th edition, article "Koran")
13
Gustav Weil , Muhmmad and Teachigs of Quran by Johan Davenport, Shaikh Muhammad Ashraf, Kashmiri Bazar Lahore, West Pakistan page 119-120
14
.On Heroes Hero-Worship and the Heroic in History by T.Carlyle p.87
15
محمد ﷺ کے غیرمسلم مدّاح اورثناخواں ص62
16
.On Heroes Hero-Worship and the Heroic in History by T.Carlyle p.87
17
محمد ﷺ کے غیرمسلم مدّاح اورثناخواںص 57
18
Muhammad and Teachings of Quran by Johan Davenport 127
19
Karen Armstrong ,Muhammad A Biography of the Prophet page 11,12,44
20
بونا پارٹ اور اسلام از شیفلر(پیرس)
بحوالہ پیغمبر اسلام غیرمسلموں کی نظرمیں ص79
21
پیغمبراسلام غیرمسلموں کی نظر میں ص153
22
276,277ص 2 جلد Lamartine, Histoire deca Turquie Pairis 1854
بحوالہ نقوش رسول نمبر11ص540-542
23
اسلام پر نظر ص9,16مترجم جناب شیخ محمد احمدمظہرایڈووکیٹ لائلپورمطبوعہ1957ء
24
پرکاش دیوی،سوانح عمری حضرت محمدصاحب ص25
25
سیرت النبی ؐجلد4ص400تالیف علامہ سیدسلیمان ندوی
26
آئینہ کمالاتِ اسلام ایڈیشن اول ص161-160
27
حقیقۃ الوحی ایڈیشن اول ص119-118
28
برکات الدعا صفحہ13 روحانی خزائن جلد6صفحہ9تا11
29
سراج منیر۔روحانی خزائن جلد12ص82
30
ملفوظات جلداول ص420نیاایڈیشن
31
اتمام الحجہ۔روحانی خزائن جلد8ص308

اے خداوندم، بنامِ مُصطفٰےؐ
کش شُدی، درہرمقامے ناصِرے
دستِ من گِیر،ازرہِ لُطف وکرم
درمُہمَّمْ باش یار و یاورے
تکیہ برزورِ توُدارم، گرچہ من
ہمچوُ خاکم ،بلکہ زاں ہم کمترے
اے میرے خدا!مصطفٰیؐ کے نام کا واسطہ! جس کا تو ہر جگہ مددگار رہاہے۔اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑ لے اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا۔مَیں محض تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگر چہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر۔

المراجع والمصادر
-1القرآن الحکیم
المعجم المفہرس الالفاظ للقرآن الکریم
محمدفؤادعبدالباقی۔ دارالمعرفۃبیروت
-2تفسیر القرآن
الجامع لاحکام القرآن
ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی۔
داراحیاء التراث العربی بیروت۔ دارالکتاب العربی (۶۷۱ئ)
تفسیرالقرآن العظیم
امام ابوالفداء حافظ ابن کثیرالدمشقی(774ھ)
احکام القرآن
ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص دارالکتاب العربی بیروت م ۳۷۰ ھ
الدرالمنثورفی التفسیر الماثور
جلال الدین سیوطی م(911ھ)دارالفکربیروت
اسباب النزول
علامہ واحدی۔دارالفکربیروت
تفسیرکبیر
حضرت مرزابشیرالدین محموداحمد
-3کتب حدیث
جامع صحیح بخاری
امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری متوفی(۲۵۴ھ)
صحیح مسلم
امام ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری م(۲۶۱ھ)
سنن الترمذی
ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی (۲۷۹ھ)
سنن ابودائود
ابودائود سلیمان ابن اشعث( ۲۷۵ھ)
سنن النسائی
احمدبن شعیب النسائی (۳۰۳ھ)
سنن ابن ماجہ
امام ابوعبداللہ بن یزید بن ماجہ( ۲۷۳ھ)
مؤطا امام مالک
امام مالک بن انس متوفی(۱۷۹ھ)
مسنداحمد بن حنبل
امام احمد بن حنبل م (۲۴۱ ھ) المکتبہ السلامی دارالفکر بیروت
التاج الجامع الاصول فی احادیث الرسول
الشیخ منصور علی ناصف داراحیاء التراث بیروت
سنن دارمی
ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمان الدارمی (م255)
المعجم الکبیر
للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی( م360) مطبوعہ مصر
المعجم الصغیر
للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمدالطبرانی دارالفکربیروت
کتاب الدعاء
للحافظ ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی
مستدرک علی الصحیحین
امام ابوعبداللہ حاکم نیشا پوری دارالکتاب العلمیہ بیروت
مجمع الزوائد و منبع الفوائد
حافظ نورالدین علی بن ابی بکرالھیثمی(م807ھ)دارالکتاب العلمیہ بیروت
سنن الکبریٰ
حافظ ابوبکر احمد بن حسین البیھقی( م ۴۵۸ ھ)
مطبعۃ مجلس دائرالمعارف مصر
الترغیب والترھیب من الحدیث الشریف
امام حافظ عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری (م 656ھ )
دارالکتب العلمیہ بیروت
عمدۃ القاری شرح بخاری
علامہ بدرالدین عینی (م ۷۵۵ ھ) ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بمصر
فتح الباری شرح بخاری
علامہ احمدعلی ابن حجرعسقلانی (م ۸۵۴ ھ) دارالنشرالکتب الاسلامیۃ
شارع شیش محل ۔لاہور
تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی
عبداللہ المبارک پوری دارالکتب العلمیہ بیروت
تاریخ الصغیر
امام بخاری المکتبۃ الاثریۃ ۔ سانگلہ ہل جامع اہل حدیث باغ والی ضلع شیخوپورہ
الجامع الصغیر فی احادیث البشیر والنذیر
علامہ جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ) طبع بمطبعۃ المیمنیۃ بمصر
کنزالعمال فی سنن الاقوال والاعمال
علی بن حسام الدین ھندی (م ۹۷۵ھ) مکتبۃ التراث الاسلامی حلب
مشکوٰۃ المصابیح
محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی (م ۷۴۳ ھ)
تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین
من کلام سیدالمرسلین
تالیف محمد بن علی بن محمدشوکانی (م1250ھ)
دارالکتاب العربی
المقاصدالحسنہ
علامہ عبدالرحمن سخاوی دارالکتب العربیہ ( م ۹۰۲ ھ) مکتبہ الخانجی مصر
المبسوط
علامہ شمس الدین السرخسی مطبعۃ السعادۃ بجوار محافظہ مصر
موسوعۃ اطراف الحدیث النبوی شریف
دارالکتب العلمیۃ بیروت
المعجم المفہرس للحدیث
الدکتورای ونسک (م1936)مکتبۃ بریل فی مدینۃ
نوادرالاصول فی معرفۃ اخبار الرسول
محمد بن علی الحکیم الترمذی قاھرہ
-4کتب سیرت وتاریخ
السیرۃ النبویہ لابن ھشام
مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر(مطبوعہ1936 م ۲۱۳ ھ)
الطبقات الکبریٰ
محمد بن سعد داراحیاء التراث العربی بیروت
شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ
للقسطلانی( م ۹۴۳ ھ) دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
عیون الاثرفی فنون المغازی و شمائل والسیر
محمد بن محمد بن سیدالناس
زادالمعادفی ھدی خیرالعباد
الامام عبداللہ محمد بن ابی بکر مؤستہ الرسالہ
السیرۃ الحلبیۃ من انسان العیون فی سیرۃ الامین والمامون۔السیرۃ المحمدیہ
علامہ علی بن برھان الدین الحلبی الشافعی (م 1044ھ)دارالمعرفۃ بیروت
سیرۃ حلبیہ(اُردو)
ازعلامہ علی ابن برہان الدین حلبی مترجم مولانا محمداسلم قاسمی فاضل دیوبند۔اُردوبازار۔ایم اے جناح روڈ۔کراچی
الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام
ابوعبدالرحمن السھیلی دارالفرقہ للطباع والنشر بیروت لبنان (م ۵۸۱ ھ)
دلائل النبوہ ومعرفۃ احوال اصحاب الشریفہ
ابوبکر احمد بن الحسین البیھقی داراحیاء التراث العربی بیروت
الوفاباحوال المصطفٰے
تالیف ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی (م597ھ)
دارالکتب العلمیہ بیروت
الجامع فی السیرۃ النبویہ
سمیرۃ الزایدالمطبعۃ العلمیہ
مختصر سیرۃ الرسول
محمد بن عبدالوہاب
وفاء الوفاء باخباردارالمصطفیٰ
نورالدین علی بن احمدالسمہووی (م ۹۱۱ھ) داراحیاء التراث العربی بیروت
الشفابتعریف حقوق المصطفیٰ
ابوالفضل عیاض موسیٰ (م 544ھ) مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی مصر
نسیم الریاض شرح شفا للقاضی عیاض
احمدشہاب الدین الخفاجی
موسوعہ نضرۃ النعیم فی مکارم اخلاق
الرسول الکریم
دارالکتاب العربی صالح بن عبداللہ عبدالرحمن بن محمد دارالوسیلہ وحمامہ جدہ سعودیہ
فقہ السیرۃ
دکتورمحمدسعید رمضان السیوطی دارالفکربیروت
نہایۃ الایجاز فی ساکن سیرۃ الحجاز
رفاعہ رافع الطھطاوی
الاخلاق النبیؐ
حافظ ابومحمدجعفر بن حیان الاصبہانی۔ دارالکتاب العربی
الخصائص الکبری
جلال الدین سیوطی دارالکتاب العربی۔بیروت (۹۱۱ھ)
نورالیقین فی سیرۃ سیدالمرسلین
شیخ محمد الخضری دارالاحیاء التراث العربی بیروت
الرحیق المختوم
الشیخ صفی الرحمان مبارک پوری
السیرۃ المحمدیہ
مولوی کرامت علی دہلوی
اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ
علامہ ابن الاثیر داراحیاء التراث العربی بیروت (م ۶۳۰ ھ)
الاصابہ فی تمییز الصحابہ
امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی (م ۴۶۳ ھ)
داراحیاء التراث العربی بیروت
الاکمال فی اسماء الرجال
ولی الدین ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ الخطیب مترجم مولانا اشتیاق احمد ، مولانا معراج الحق،نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی
الکامل فی ضعفا ء الرجال
حافظ ابی احمدعبداللہ بن عدی الجرجانی (م ۳۶۵ ھ)
دارالکتب العلمیۃ بیروت
رحمۃ للعالمین(اُردو)
محمدسلیمان منصورپوری
سیرۃ خاتم النبین(اُردو)
مرزابشیراحمدصاحب ایم ۔اے
سیرۃ النبی ؐ(اُردو)
ازعلامہ شبلی نعمانی دارالاشاعت اُردوبازارکراچی
سوانح عمری حضرت محمدصاحب(اُردو)
شرد ہ پرکاش دیوجی پرچارک برامحودھرم پبلشرنرائن دت سہگل اینڈ سنز بک سیلراندرون لوہاری گیٹ لاہور۔ پنجاب آرٹ پریس ۔لاہور
نقوش رسول ؐ نمبرجلددہم شمارہ نمبر130
محمدطفیل۔ادارہ فروغ اُردو۔لاہور
محمد ﷺ کے غیرمسلم مدّاح اورثناخواں
عنصری صابری،محمداحسن تہامی۔دارالتذکیر
پیغمبر اسلام غیرمسلموں کی نظرمیں
مؤلف محمدیحیٰی پیام پبلشرزلاہور
فتوح البلدان(اُردو)نفیس اکیڈمی کراچی
ابوالحسن احمد بن یحیی بن جابر البغدادی بالبلاذری مطبعۃ م ۲۷۹ ھ
کتاب المغازی (فتوح العرب) اُردوترجمہ شروع الحرب
ازمحمدبن عمربن واقدی متوفی(207ھ) مترجم ممتازبیگ ذی شان
تاریخ الرسل والملوک
ابوجعفرمحمدابن جریرالطبری (م ۳۱۰ ھ) مکتبۃ خیاط بیروت
الکامل فی التاریخ
علی بن ابی الکرم ابن الاثیر دارصادربیروت مطبوعہ( 1965ئ)
البدایہ والنہایہ
الامام عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر (م ۷۷۴ ھ)
مکتبۃ المعارف بیروت ومکتبۃ النصرالریاض
کتاب الخراج
القاضی ابویوسف۔بیروت مطبعۃ المنیریۃ مصر
تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس
شیخ حسین بن محمد الدیارالبکری (م ۱۵۸۲ئ) مؤسہ شعبان بیروت
تاریخ الخلفاء
جلال الدین سیوطی (م ۹۱۱ھ) نورمحمد اصح المطابع کارخانہ تجارت
کتب آرام باغ کراچی
تاریخ البغداد
حافظ ابی بکراحمد بن علی الخطیب البغدادی
معجم البلدان
یاقوت الحموی۔بیروت دارصادر بیروت (م ۶۲۶ ھ)
-5متفرق اُردو کتب
اتمام الحجہ
حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ
ازالۂ اوہام
//
آئینہ کمالات اسلام
//
برکات الدعا
//
چشمۂ معرفت
//
سراج منیر
//
فرھنگ آصفیہ
سیداحمددہلوی۔اُردوسائنس بورڈ
-6انگریزی کتب
An Interpretation of ISLAM
Laura Veccia Vaglieri
Arabian Society at the time of Muhammad
Pringle Kennedy
History of Turky
Lamartine
History of the Moorish Empire in Europe
S.P. Scott
Life of Muhammad
Sir William Mur
Muhammad a Biography of Prophet
Karen Armstrong
Muhammad and Mohammadanism Lodon...1876
Smith, R.Bosworth
Muhammad and Teaching of Quran,
Shaikh Muhammad Ashraf, Kamhmiri Bazar Lahore, West Pakistan
Johan Davenport
Muhammad at Medina
W.Montgomery Watt
The 100 , A ranking of the most influential persons in History
Michael H.Hart
Heroes and Hero Worship
London, George G. Harrap, Co. LTD
39-41 Parker Street Kingsway Calcutta and Sydney.
Thomas Carlyle

اسماء
محمد ﷺ 5،13، 27،29،33،37، 38،77، 91، 92،108،109، 112، 116، 117، 125، 139،143، 159،163، 169، 183،185، 211،216، 218، 228 ، 230، 231، 234،238، 239، 240، 242،243،244،246، 250، 251،253،254،256،259، 260،261، 262، 267،268، 271،277، 281،282، 284، 292، 300، 325، 329، 342، 347،367،375، 376، 378، 380،381،385،386، 390، 395، 396، 396، 398،399، 400،405،408،409،414، 415،421، 426،427، 434، 435،438،440،441، 442، 443،444،451،458، 461، 471،480،481،482، 495، 505،515،516،523،524،535، 545،548،558،563،565، 571، 572، 573،579،584، 588، 589، 594،603، 607، 609،611،615،623،626، 629، 633، 634،638، 661، 662،663،664، 665، 666، 667،668، 669،670،671، 672،673،674، 675، 676، 677،678، 679،681، 682
ا بوالعاص بن ربیع2،469،523
ابراہیم 78،273،317،371، 392، 477،476، 467، 471، 661، 610
ابرہہ 1
ابلیس 186
ابن ابی کبشہ554
ابن اسحاق231
ابن الحارث 180
ابن الدغنہ581
ابن آدم193
ابن خطاب571
ابن خطل 443
ابن سعد565،581
ابن شہاب زہری ؓ341
ابن صیّاد486
ابن عباس ؓ 22،68،201،124، 381، 511، 556، 597، 637، 647
ابن عمر649
ابن عیینہ 535
ابو اسید336
ابو الجلیس261
ابو الحکم240
ابو الطفیلؓ 178
ابو العاص ابن ربیع 467،468
ابو القاسمؐ380،467
ابو امامہؓ باہلی 102،107،392، 471، 605
ابو ایوب ؓ 218،219
ابو بصیر170
ابو بکر ؓ 8،37، 42، 48،49،51،66، 95، 120، 142،146،147، 152، 159،172، 179،186، 192، 194، 195، 207،208، 209، 210،211، 230،231، 233، 246، 262،270، 296، 310، 434،345، 347،355، 376، 380،382،403، 422،452، 456،493، 495،502،503، 505، 511، 512، 513،522، 563،581، 582،589، 590، 591، 594،595، 617، 620، 657، 658
ابو جندل170
ابو جہل 131، 159، 238،256، 381، 382، 557، 558،559
ابو خیثمہ223
ابو دائود620
ابو ذرؓ 54،241،314،367،526
ابو رافع ؓ467،173
ابو رمشہ ؓ 653،654
ابو زرعہ495
ابو سعید بن معلیّٰ42
ابو سعید خدری ؓ 97،188،190، 200، 337، 456، 637،663
ابو سفیان ابن حارث180
ابو سفیان 37،40، 111،117،118، 160، 164،169،171، 172، 181، 216،276، 342، 367، 414،417،431، 432، 535، 559، 560،584، 590، 591، 663
ابو سلمہؓ391
ابو سیفؓ 392
ابو طا لب27،28،88، 125،158، 195، 248، 257، 384، 485، 662
ابو طلحہ انصاری ؓ 8،212،357،410، 219، 356، 589، 620، 658
ابو عامر267
ابو عبداللہ بن طہفہ 354
ابو عبیدہ بن الجراح ؓ 152،174،207، 210،211
ابو عزہ عمرو بن عبداللہ523
ابو عزیز بن عمیر522
ابو عمارہ249
ابو عمیر654
ابو قتادہ ؓ 67،125،466
ابو قحافہ37،513 ،514
ابو قلابہؓ630
ابو مسعود بدریؓ525، 605
ابو موسیٰ اشعریؓ 31
ابواسید 465
ابوالحسن ؓ 475
ابوالحکم 249
ابوایوبؓ انصاری 129،583
ابواِھاب67
ابوبردہؓ 616
ابوبرزہؓ اسلمی98
ابوتراب 317
ابوجندلؓ 169،185،237،239، 249، 250،376، 377،382، 407، 421،422، 444، 538، 588
ابودائود620
ابودجانہؓ 405،418،412
ابوذرؓ 516،242،525،569
ابورمثہ40
ابوسعدہ 130
ابوسہل169،583
ابوشعیب انصاری ؓ361
ابوطارق ؓ256
ابوطالب 1،235،246،247،253، 378، 385،581،647
ابوطلحہؓ590،618
ابوعامرؓ406،129
ابوعبد اللہؓ655،656
ابوعبداللہ بن طہفہ518
ابوقتادہؓ 474
ابوقُرصافہ644
ابوکبیر16
ابولبابہ ؓبدری637
ابولبابہ404
ابولہب 157،179،234،235، 253،254 ، 256،352،377، 385
ابولیلیٰ 473
ابومرثدؓ غنوی 404
ابومسعود انصاریؓ 309
ابوموسیٰ ؓ اشعری 2،217،406،129، 599
ابوہریرہ ؓ 2،11،73،74،88، 92، 96، 98،103،114،128، 53، 193،194،203،272،300، 334، 355،356،369،389، 457، 465،518،519،552، 597، 600، 601،618،620
ابی بن خلف378
ابی بن کعبؓؓ393،215،96
احمد55، 661
ارقم ؓبن ارقم 236
اسامہ بن زید 2، 42،35،220، 264، 266، 393،434، 437، 442،458،512،527، 528، 569، 606،620
اسحاق ؑ273
اسرافیل597
اسماعیلؓ بن ایاس230
اسماء بنت ابوبکر535،178،327
اسمائؓ بنت یزید621
اسمائ212،208، 622
اسود عنسی145,146
اشجع 417
اشعث بن سلیم256
اشعث بن قیس284
اکثم بن صیفی241
الاراشی169،185
آمنہ662
ام الفضل98
ام ایمنؓ 618،27،527
ام جمیل377،378
ام حرامؓ بنت ملحان148,149،126
ام حکیمؓ 557،181
ام زرعہ495
ام سعدؓ 618
ام سلمہ ؓ 2،54،93،180،391، 452، 475، 499،657
ام سلیم ؓ 120،219،528،642، 225، 357،356
ام سیف 476
ام عطیہؓ469
ام عیاش470
ام قاسمؓ467
ام کلثوم ؓ376،467،470،471
ام ہانی ؓ 435، 563،436،173
امام ابو یوسف545،545
امام بخاری 123
امام حسن69
امام حسینؓ18،165
امامہ بنت ابی العاص 466،474
امیہ بن الصلت 14،84,85
امیہ بن خلف 160,161،382،376، 378
امّ حکیم486
امّ معبد12
انجشہ630
انس بن مالکؓؓ 10،18،57،92، 103،119، 120،125، 126، 184،200، 201، 214، 216، 219،220، 281، 311، 330، 383،393، 403،410، 425، 459، 460،465،470، 473، 528،569،573،578، 582، 587،599،603،618، 619، 620، 649، 653،654،642
انس بن نضرؓ 214
ایاس بن معاذ261
ایس پی سکاٹ 669
ایوب314
اُبی ّ بن کعب52
اُسید بن حضیرؓ455،434،311
اُم العلاء 598
اُم زُفر200
اُم کلثوم2،392،443
اُمیمہ بنت شراحیل68
آدم 661،663
آرمسٹرانگ524
آلڈو کسیلی678
باذان275
براء بن عازبؓ98،151، 206،475، 587، 656
بسورتھ اسمتھ670
بلال بن حارث ؓ 48،49،50،119، 190، 233، 253،335، 340، 341، 343،345،346،354، 359، 376، 432،434،437، 456،466،474، 512،591، 619، 648
بیھقی545،657
بُجیر565
بُحیرٰی راھب28
بُدیل بن ورقائ420
بُریدہؓ اسلمی 15،191،192،262، 263، 263،401
بُوانہ27
پرٹینکا674
پرکاش دیوی679
پرنگل کنیڈی 667
پی ایئرکریبائٹس 632
ثابت بن قیسؓ 298،299،411
ثمامہ بن اثال2،270،271،536
ثوبان ؓ221، 529، 220،573
ثُویْبہ179
جابربن سمرہؓ 98،642،652
جابرؓ بن عبداللہ 12،94،95،98، 120، 151، 195،221،222، 262، 269، 306،335،346، 347،357، 358، 402،474، 607، 620، 621،622، 643، 644،652
جبریل ؑ 47،56،82،135،216، 235، 260،266، 279، 295، 330، 383،473،511،581، 595، 662
جبلہ بن ایہم شاہ غسان279
جبیرؓ بن مطعم 98
جثامہ514
جریجرہ 571
جریربن عبداللہ البجلی656،657
جسٹینین674
جعدہ565
جعفر طیار ؓ 164،211،212،249، 277، 315، 7 31، 353، 394، 663
جلبیبؓ 192
جمیلہ16
جندب 15، 389
جیفر 280،279
جُویریہ 83
حاتم طائی 343
حارث بن ابی شمر 279،278
حارث بن صمّہؓ 405،418
حارث بن ھشام342،563
حارث 444، 563،564
حاطبؓ بن ابی بلتعہ278،430
حبیب 257
حبیبہؓ318
حذیفہ بن یمان53،578
حرام بن ملحان ؓ 216،267
حسن بن اسودؓ537
حسن بن علیؓ 11، 165،294،456، 473، 474، 475، 476، 603، 620
حسین 69،220،294، 456،473، 474،475، 528، 570، 620
حسّان 220
حفصہؓ بنت عمرؓ 2،298،309،497، 502، 504، 505،58
حکم بن ابی العاص132
حکم646
حلیمہ سعدیہ 451
حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ200
حمزہ ؓ 235،249،250،250،252، 253، 308،317، 394،439، 444،537، 543،559، 562، 563
حمزہؓ بن عبداللہ599
حویرثؓ 130
حویطب بن عزی 170
حیی بن ا خطب 415،416، 497، 129
حُزن16
حُویرث بن نقیذ بن وہب 443
خالد بن سعید ؓ245
خالد بن ولید 153،285،434،434، 557،561
خالد ؓبن ہشام523
خالد246
خبابؓ 94،251،376،377،
خبیبؓ266
خدیجہؓ بنت خویلد 1، 21،28،47، 48، 65، 87، 219، 157،159، 177، 178، 184، 200،230، 232،257، 265، 270،331، 332،352، 392، 434، 466، 467،483، 484، 485،514، 527، 553،581، 595، 596، 663
خرافہ495،496
خزرج261،264
خزیمہ 159
خوات بن جُبیرؓ 655
خُریم بن اوسؓ 153,152
دانیال 661
داؤد ؑ 29،30،314
دحیہ الکلبیؓ275
ڈبلیو منٹگمری واٹ673
ڈریپر674
ڈیون پورٹ623
ذی القلاع حمیری 279
رافع ؓ بن خدیج 604
رب العالمین 193،194
ربیع بنت معوذ 604
ربیع بنت نضرؓؓ460
ربیعہ اسلمی 529،256
ربیعہ بنت معوذ ؓ 346
ربیعہؓ اسلمی جابرؓ 221
ربیعہ191،192،359
رفاعہؓ404
رقیہؓ 376،393،467،468، 469، 470،474
رکانہؓ252
رُکانہ بن عبدیزید 588
زاہرؓ201، 563
زبیرؓ بن العوام 165،233،376، 418، 543، 590
زکریاؑ109
زید 211،220،230،266،434
زید بن ثابتؓ 393،652
زید بن حارثہ ؓ 215، 219،257، 258،231،332، 394 ، 467، 512، 527، 580، 620
زید بن دثنہؓ 216
زید بن سعنہ570،571
زید مدنی ؓ224
زیدؓ بن اسلم96
زینب ؓ 393،225،317،439، 444، 467،468،469،474، 527،556
زینبؓ بن ابی سلمہ318
زینبؓ بنت جحش 309،318،394
زید بن عمرو 28، 29
زُھرہ بن معبدؓ 209
ساقہ426
سائب بن عبداللہؓ 124،165، 451، 515
ست اُپدیشن549
سٹین لے پول 441
سراقہ بن مالک 147,148،172، 208
سعد بن ابی وقاص ؓ 81،126,127، 152، ,153،195،385،410
سعد بن بکر281
سعد بن خیثمہؓ 223
سعد بن ربیع ؓ215
سعد بن عبادہؓ 393،195،620، 220، 264،432،553
سعد بن معاذ ؓ انصاری160، 214، 416
سعد بن ھُزیم285
سعدؓ 130،418، 590،605
سعید بن زیدؓ251
سفینہ ؓ653
سلام بن ابی الحقیق 415
سلمان رشدی 675،676
سلمان فارسیؓ 417،640
سلمہ بن الاکوع ؓ 124،405، 416، 417
سلیمان ؑ 493،661
سمیہؓ 377،376،396
سودہؓ 1، 53، 485،486،487
سویبطؓ657
سہل بن حُنیف ؓ405
سہل بن سعدؓ 347،649
سہل ؓ 16،103، 422،564
سہیل بن عمروؓ170،421
سہیل بن عمر523
سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ628
سُلیطؓ بن عمرو عامری279
شجاع ؓبن وھب الاسدی 278
شدادؓ بن اوس 30،637
شریدؓ 14
شہنشاہ ِروم ھرقل 169
شیبہ258،259
شیخ محمد احمد مظہر 678
شیرویہ 144275،145
شیماء بنت نفیلہ514،152
صفوان بن امیہ 216،341،444، 524 ، 538، 561، 584
صفوان 342، 539،562،563
صفیہ ؓ 2،129،317،319،459، 497،498، 504
صفیہؓ بنت عبدالمطلب597
صہیب ؓ 360، 361، 377،655
ضماد240
ضمام بن ثعلبہ281
ضمّاد 239
طارق ؓ بن زیاد149
طاہر392،467
طفیلؓ بن عمرو 113، 114،242، 243، 244، 245،574
طلحہؓ بن عبداللہ 299،233
طلحہؓ 376،418، 590
طیبؓ 392
طیب467
عاص بن وائل378
عاصم بن ثابت 265، 266،405
عاصیہ16
عامر بن طفیل267
عامر ؓ بن ربیعہ600
عامرؓ 210،211،377،405
عائشہؓ 1،3،4،10،13،14،16، 17، 21، 32،36،42،47،49، 52، 54، 56، 57، 58،59، 64، 65، 66،71، 72،77،80،87،93، 93، 94، 111، 119،140،157،171، 177،179، 186،192،194، 196، 207، 224، 232، 260، 309،315،318، 320، 325، 329،334،339،347،354، 355،360،361،368،379،390، 394،418،459،460،471،472، 473، 482، 483،485، 487، 488، 490،491،492،493، 494،495، 496،497،499، 500،501، 502، 503، 505، 514،518،541،547، 553، 568،569، 572،599،615، 616،617،618،619،621،641، 642،643،648،649،652،658، 660،662،663
عباد بن بشرؓ 311
عباس بن مرداس السلمیؓ186
عباس بن مطلب ؓ 87،230،235، 181،195،465، 522، 591، 242، 344،432،443، 453
عبد اللہ بن ابی بن سلول 2، 7،264، 426،522،547،548، 553، 554
عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح555
عبد اﷲؓ بن عمرؓ106
عبدالحمید بن سلمہ128
عبدالرحمان بن ابی بکر296،643
عبدالرحمان بن حارث370،465
عبدالرحمان بن عوف ؓ 49،82،233، 296، 427 ، 590
عبدالرحمن ؓبن عائذ 402
عبدالرحمنؓ بن عبداللہ636
عبدالرحمن15
عبدالعزّٰی442
عبدالقیس 359،584
عبداللہ 15، 120،238، 335، 454،455،465،467، 474، 556، 619
عبداللہ بن ابی الحمساء ؓ 168
عبداللہ بن ابی اوفی ؓ599
عبداللہ بن ابی حدرد الاسلمی 454
عبداللہ بن اُنیس354
عبداللہ بن جدعان 249،365
عبداللہ بن جعفرؓ 123،636
عبداللہ بن حارث619
عبداللہ بن حذافہ بن قیس275
عبداللہ بن خطل 442
عبداللہ بن رواحہ57،264
عبداللہ بن سبیلؓ619'
عبداللہ بن سعدؓ بن ابی سرح 149
عبداللہ بن سعد444
عبداللہ بن عباس ؓ 53،86،98،127، 184 ، 330،393،574،577، 584، 648،652
عبداللہ بن عتیکؓ انصاری125
عبداللہ بن عمر ؓ71،96 ،145،188، 189، 301،339،519،577
عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ 134،183، 204، 205، 298،379 380، 552، 636،644
عبداللہ بن قیسؓ (ابوموسیٰ اشعری) 129
عبداللہ بن مسعود ؓ 54،96،116، 131، 212،381،389، 390، 407،411، 465،513، 608، 646
عبداللہ ھوزنی345
عبداللہ ؓبن سلام 161،272،570
عبداللہ ؓبن عامر298
عبداللہؓ بن جبیر خزاعی600
عبداللہؓ بن جُبیر409
عبداللہؓ بن حرام221
عبداللہؓ بن رواحہ 14،394
عبداللہؓ بن سہل 543
عبداللہؓ بن طارق266
عبدالمسیح153
عبدالمطلب 39،234،235،237، 238، 281، 592،603
عبدمناف 234، 379
عبدیالیل257
عبدیالیل 111
عبیداللہ465
عبیدبن عمر565
عتبہ بن ابولہب132،376
عتیبہ91،161،239،258،259،453
عثمان بن طلحہ437
عثمان بن مظعونؓ 469،598
عثمانؓ بن عفان 2،149،165،209، 210، 233، 376، 377،382، 383،420،421،438، 468، 470، 515،555،556، 590، 591، 598،620
عدی بن حاتم طائی2،281،282،283
عدّاس259
عرباض بن ساریہؓ94،427
عروہ بن زبیرؓ 594
عروہ بن مسعود 123،217،218، 267، 268،379،420
عروہ267
عزیٰ 28،37، 38
عفیفؓ 230
عقبہ بن ابی مُعیط 379،381،382
عقبہ بن عامر513
عقبہؓ بن حارث 67
عقیل بن ابی طالب 442،453،523
عکاشہؓ 456،457
عکاظ262
عکاّف بن بشر314
عکرمہ بن ابی جہل181،434، 444، 538، 557،558،559، 560، 561، 563،564
علامہ قاضی عیاض596
علاء بن حضرمی 280
علی بن ابی طالبؓ 2،11،15،18،48، 88، 116، 118، 123، 164،173، 209،210،211،230،230، 232، 235،236،241، 242، 269،285، 293،294،295، 295،308، 316، 336،352، 353، 404،405،406، 418، 430، 38، 443،452، 452، 456،461،472،475،496، 497، 526، 543،563، 570، 571، 581، 587،590،591، 619، 620
عمارؓ بن یاسر 376،377،395،590
عمر بن الخطابؓ 8،15،31،36،41، 42،71،91،110،117، 118، 128،142، 143،146،147، 181،181، 186،195، 207، 209،210، 236، 250، 251، 252،253، 279،296، 334، 336،337،346،355،372، 393،422،430،431،453،456، 469،494،503،504،505،511، 521،522،537،539،547، 548،554، 564، 581، 582، 582،590،591، 600، 607، 616،617،626، 649
عمر و بن العاص 279،280
عمر و بن حرام 221
عمران بن حُصین 587،634
عمرو بن اخطب ؓ 125
عمرو بن امیہ ضمریؓ277
عمرو بن حزم546
عمرو بن سالم171
عمرو بن عنبسہؓ 176،232
عمرو بن ہشام (ابو جہل )110، 250،251
عمروؓ بن حریث 98
عمرو232،382
عمیر بن وھب524،538،561
عوف بن مالک اشجعی53،94،655
عیاشؓ بن ابی ربیعہ134
عیسیٰ ؑ134،273،274،276، 277، 666، 667، 668
عُبادہ بن صامتؓ 296
عُتبہ بن مسعود238،411
عُجرہؓ 195
عُقبہ بن ابی مُعَیط131
غسانی278
غورث بن حارث269،554
فاطمہ الزھرائؓ 2،18،122،123، 131، 220،251،293،294، 316، 317،339، 380،382، 405، 443،456،458، 461، 467، 470، 471،472،473، 475، 476، 496،497، 526، 598، 605، 618، 619،630
فرعون 451،407،424
فروہ بن عمرو276
فروہ بن مّسیک مرادی344
فروہ 31،277
فضالہ بن عمیر 564
فضلؓ بن عباس 315
قاسم392
قیس بن سعد432
قیس بن عاصمؓ 95
قیس 620
قیصر 147،230،218،275، 276، 617،661
کارلائل679
کرسف314
کریمہ بنت کلثوم حمیریؓ314
کسریٰ بن ھرمز 147
کسریٰ شاہ ایران 5،132، 143، 144، 147،275،537، 582، 585
کسریٰ 230،218،617،661
کعب بن زُھیر 87،565
کعب بن عُجرہؓ 195،222
کعب بن مالکؓ 312،455
کنانہ بن ربیع 415
کیرن آرمسٹرانگ 399،505،524، 622، 638،676
گبن 396
گستاوویل 674
لات39
لامارٹن676
لبید85،91
لقیط بن صبرہ360
لوتھر671
لوط ؑ 610
لیمرٹین 670
لیلیٰ الثقفیہ471
ماریہ قبطیہؓ 278،392،467،476، 500
مالکؓ بن حویرث270
مائیکل ہارٹ 664
محمد بن بشیر انصاری ؓ153
محمد بن مسلمہؓ 153،215،424
محمدبن عبداللہ680
محمدبن قاسم149
محمود بن ربیع ؓ654
محمود بن سلمہ424
محمود بن لبیدؓ انصاری 411
محمود پاشا فلکی مصری1
محمود424
محیصّہؓ543
مخرمہ 334،605،606
مرحب 405،554
مریم ؑ 43،109، 277،500
مسٹربرنارڈشا 675
مسروق224
مسطح بن اثاثہ179
مسعود 257
مسور بن مخرمہؓ 605
مسیح ابن مریم ؑ 273،274،603، 623، 671
مسیلمہ کذاب 146،563
مصعب بن عمیر ؓ 213،263، 376، 522
مصعبؓ 214
مطعم بن عدی 88،408، 581
مطعم بن عدی539
مطّرفؓ 71
معاذ ؓ بن جبل 2،31،98،393، 107، 280، 395،620
معاویہ بن حکم 149،188،299،342
معاویہؓ بن حیدہ631
معرور526
مغیرہ بن شعبہؓ 40،217،218،237، 354، 539
مقداد بن الا سودؓ212
مقداد بن عمرو کندی34،212، 356
مقوقس (شاہ مصر)278
ملٹن 671
ملک الجبال 112
منذر بن جریرؓ 189
منذر بن عائذ 359
منذربن ساویٰ العبدی 280
موسیٰ ؑ 143،210،365،424، 451، 455،461،534، 574، 611،661
موسیٰ بن انس ؓ341
مولانا روم 231،347
میسرہ426
میمونہ ؓ 53،177،369،501
مِقْیَسْ بن ضُبابہ444
نابغہ ابولیلیٰ 14
نجاشی شاہ حبشہ 164،218،249، 277، 353،474،514
نضربن حارث 160
نعمان بن بشیرؓ 67،452،286
نعیمان 658
نوح ؑ 78،312
نوفل بن حارث 523
نوفل بن عبداللہ مخزومی542
نوفل 453، 543
نُعیم 251
نُعیمان ؓ657
واثلہؓ 20
وحشی بن حرب562،563
ورقہ بن نوفل 332، 365، 366
وگلیری 396،445،529، 548، 632، 678
ولید بن مغیرہ378
ولید بن ولید134
ولیم میور 260،408،434،444، 445،523،589،672
ہارون210
ہاشم 238
ہبل37
ہر قل شاہ روم 160،164،276
ہیثمی656
ھبار بن اسود467،557
ھندبن ابی ھالہ 11،553،559، 560، 570
ھوذہ بن علی حنفی279
یاسر376،377،579
یزید بن بابنوس3
یزید بن عبداللہ124
یسعیاہ577،611
یسوع مسیح 661
یعقوب ؑ 273
یعلی بن مرہؓ 123،542
یعلیٰ عامری473
یمّانؓ411
یوسف ؑ 110، 314، 367،439، 505، 610
یونس بن متّٰی ؑ261،259، 610، 611



قبائل
ازد شنو ٔہ239
اسد 417
اسد417
اسلم 262
اشجع417
اعوان265
الجون68
امیہ 237
انصار 191، 195،221 218 ، 225، 222، 265 ، 370، 594، 660، 204،262، 264،356، 359، 360، 522
اوس 261،261
اہل نجد267
اُموریوں 400
بجیلہ656
بکر 429
بکر170,171
بلیّ286
بنی ابزیٰ 343
بنی اسرائیل209
بنی حنیفہ270
بنی سلمہ 354
بنی سلیم 267
بنی سہم262،263
بنی عامر267
بنی عبد کلال260
بنی عبدالمطلب181
بنی عذرہ 286
بنی عمرو بن عوف19،49
بنی عوف540
بنی قریظہ49
بنی مطلب353
بنی مطلّب 571
بنی منتفق360
بنی نضیر497
تَجیب 343,130
ثقیف39،113،204 ،258، 267، 268، 257،539
ثمود239،161
جرجاسیوں400
حارث بن کعب546
حتّیوں 400
حنیفہ536
خثعم 315
خزاعہ171,170 ،429،458،457
خزاعہ172,171,170،584
خزرج 620
داریّین344
دوس 113،114،204،244،242
ر حوِیوں 400
سُلیم417
عاد239،161
عبدالا شہل261
عبس 465
عضل 265
غطفان416،417
غفار241،242
فرزینیوں 400
فروہ285
فزارہ416،417
قارہ265،581
قریش 27،29،142،170، 171، 173، 180،217،218،234، 236، 238 ، 242، 246، 247، 249، 250، 257، 259،261، 262، 265، 266، 274، 364، 376، 378، 379،381، 382، 408،417 ،420، 439، 444 451،521، 527 ، 563، 580، 584،588، 204،231، 253، 331، 380، 384، 407،421، 428، 429، 434، 441،522، 537، 555، 559، 574، 636، 468، 536
قریظہ414,173،86،416،453
قصی بن کلاب 234،286
قوم موسیٰ212
قیس عیلان364
قینقاع 173،415
قینقاع414
قُضاعہ286
کنانہ 364،254
کندہ 74، 96
کنعانیوں 400
مجوس280
مخزوم 250، 458
مخزوم 376
مرہ417
مزنی 514
مضر190،335
مطلب253
نصاریٰ272
نضیر2،86 ،173،332،414، 415، 453،547
نوفل408
نَجار132
ہاشم 408,158،237،253،438، 384
ہذیل265
ہذیل457
ہمدان255،283،285
ہوازن181،342،364،525،591
یبوسیوں400
یہود خیبر268،274
یہود 540،41، 542، 544، 264، 269 ، 547، 608
غزوات
احد 2،11،50،151،120،195، 210، 211،212، 213، 214، 215، 225، 335، 394، 405، 408،409، 410 ،411،414، 417،428 ،430، 453،506 ، 590، 512،522، 536، 542، 558،559، 562 ،583، 584،
بدر 50، 87،88، 169،211، 212، 214،216،264، 266، 404،406، 407،141،142، 467، 470،602،657
بئر معونہ2
تبوک 2، 223، 312،280،371، 655
جنگ احزاب 18،50، 116،151، 416، 417، 418،428، 435، 512 ، 542
جنگ بعاث658
جنگ حنین 179،181،172،535
حمراء الاسد584
حنین 2،282،،338،341، 342،461، 514،525،574، 585، 591
خندق 2،357،418،512،601
خیبر 2،114،117،124،129، 165، 166، 371،497، 554، 512
ذات الرقاع 269، 554،590
صفین 295
صلح حدیبیہ150،169،172،217، 419، 420،590
غزوہ بنو قریظہ605،49
غزوہ ذیِ قرد416
غزوۂ بدر الموعد2
غزوۂ بنو لحیان2
غزوۂ بنو مصطلق2
غزوۂ بنوقریظہ2
غزوۂ دومۃ الجندل2
غزوۂ ذات الرقاع2
غزوۂ ذی قرد2
غزوۂ طائف2
غزوۂ قینقاع2
غزوۂ موتہ 2،212،220،315،394
فتح مکہ 2،37،38،42، 50،87، 159، 166، 169، 173، 174، 180،181، 341،344،359
قرد444
واقعہ رجیع2
یوم الردم283
ؐ عمرہ قضا 170





مقامات
اجیاد246
احد 131،260،326،372، 412، 413،543، 409،411،621
امریکہ 529
اندلس678
انگلستان675،679
ایران 127،148،274،417، 275،668
ایلہ546
ایلیائ278
بحر اوقیانوس 149،666
بحر متوسط678
بحر ہند 149
بحرین 346، 347، 359، 465، 280،326
بحیرہ روم 149
بحیرہ عرب149
بدر 70،141،414،678
برک الغماد212
بصریٰ 275،657
بلدح 28
بئر معونہ216،267
بیت اللہ 437، 419، 420، 421، 428
بیت المقدس 102،105
بیت عینون 345
بیت مدراس272
بیروت580
جبرا لٹر149
جحفہ180
جزیرہ روس صقلیہ 149
جزیرہ قبرص149
جعرانہ172،179
جنت البقیع 56
حبریٰ345
حبشہ 2، 43،187، 249، 250، 251، 253، 273، 277، 468، 474، 581، 618، 658، 663، 678
حجاز 144
حجر اسود 102،105، 451،437
حجر 380
حدیبیہ 2، 7،210،218،369، 422، 423، 424،428، 429 557، 591، 592، 607،
حرا46
حرم 216،423
حرۃ الوبرہ 36
حمراء الاسد414
حنین620
حیرہ 152
حَزُوْرَۃ369
خانہ کعبہ 1،37،46،207،238، 420، 422، 428،437، 443، 451، 564
خراسان677
خیبر117،353،415،416،423،424، 425، 426،427، 542،620
دارارقم236،252
دارالندوہ160، 208
ذوالحلیفہ 420
ذوالمجاز 255،256
ذُوالخلصہ127
رجیع 265،266
روم 274،276،277،278، 585، 663 ، 668
رومیوں 365
سپین 149
سلع 119
سندھ 154
شام149،242،276،282،345، 417، 468،678، 668
شام278
شعب ابی طالب 262
شعب ابی طالب1،88،158،253، 254، 257، 262، 384،385، 408، 580،588
شمالی افریقہ 678
صفا 102،105،236،251
صفہ333،295،355
صنعاء 146،417
صہبا428
طابہ یا طَیبہ371
طائف 1،39،50،87،111، 112، 113، 144، 256،257، 259،267، 279، 408،538، 539،562، 565، 580،581، 589،610
عرب181،208،217،235،238، 255، 265، 272،274،279، 280، 281،283،341، 342، 343،344، 364،408، 415، 416،417، 419، 428،444، 449،461،495، 498، 525، 546،559،573،580 ، 585، 609،623،626،628،635،638، 666،667،668،679،680،681،365
عرفات70، 102،105، 186، 308 597
عزورائ81
عقبہ 260
عکاظ255
عمان 279،344
غار ثور208، 582،589
غار حرا 28،47، 77
غسان279
فاران661
فارس275،677
فتح خیبر 541،543
فدک2
قبا 594، 658،641
قرن الثعالب 260
قرن الثعالب112
قریش 253،420
قسطنطنیہ 129،149
قلعہ خیبر269
کعبہ یمانی 128
کعبہ 186، 267
کو ہ صفا 234،249،370،515
لائلپور678
ماوراء النہر677
مجنہّ255
مدینہ 1،2،19،20،47،49،55، 58،81، 105 ،116، 119، 142، 144،150،169،172،174،180،183 189،193،200،207،208،210 213،216،218 ،219، 232، 245،261 ،262،263، 266، 267،268، 269 ، 272،273، 274،280،301، 308، 326 329،332،334،343، 345 ، 359،367،368،370،371، 372،396، 399،409، 414، 415،416، 417،418، 421، 423، 428، 429، 443،444 467،470،453، 468، 498،512، 514 ،515،516، 518،521، 524، 535، 537، 539،540،541،542، 544، 546،547، 553،556، 557، 565،573،581، 582، 584، 589، 594، 604، 606، 608، 617،620،649، 655،656، 660
مرالظہران 431،655
مروہ102،105
مسجد الحرام 50
مسجد قباء 1، 19
مسجد نبوی 1،18،73،102،105، 270، 271، 272،453، 518، 539، 544
مشعر الحرام102، 105
مصر278،668،678
مکہ 47، 81،102،112،118، 142، 143،170،180، 181، 207، 208 ، 213،236، 237، 239، 240، 242، 243، 244، 252، 254،255، 257، 258، 261، 262، 263، 265، 267، 268، 268،271، 274، 279، 280،285، 308، 331، 342، 343، 366، 367، 369، 370، 371، 375، 376، 383، 384، 385، 394، 399، 401، 408، 412، 413، 414، 415، 417، 420،423،428، 429، 429، 430، 431،432،433، 438، 439، 440، 441،442، 443، 444،457،458، 467، 674، 512، 513، 515، 521، 524، 535، 536، 537، 538، 539، 543،555،556،557، 559، 561، 562، 563، 564، 565، 574، 579، 580، 581، 582، 588،590، 591، 595، 607، 609،620
منیٰ262،308،620،621
نجد269،270،299
نجران 40،174، 272، 273، 311، 544،545،546،548
نینوا 610
وادی بطحا 46
ہجر 150
ہندوستان666
ہند678
یثرب 1،119،150،173،208، 262، 262،370،371،581
یروشلم440
یمامہ2،146،150،271،279،536
یمن 1،113،128،152، 166، 174، 262 ،275، 284، 286، 417،538، 544،546،561، 577، 656
یورپ 632، 675،669
یونان668

کتاب اُسوۂ انسانِ کامل کے بارہ میں چندآراء
مکرم چوہدری محمدعلی صاحب ایم۔اے وکیل تصنیف تحریک جدید
(سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ)
محترم حافظ مظفراحمدصاحب جیّد عالم اور علوم اسلامیہ خصوصاً علم حدیث کے فاضل استاذ ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’اسوۂ انسان ؐ کامل‘‘ میں انسانِ کامل سید ولد آدم، خاتم النبیین، امام المرسلین اور ہم سب کے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی کچھ جھلکیاں پیش کی ہیں۔ اور خوشبودار اور زندہ وتابندہ پھولوں کا گلدستہ سجایا ہے۔ اور ہمارے دل ودماغ کو معطّر کرنے، روح کو بالیدگی اور ایمان کو تروتازگی بخشنے والے ایک عظیم خزانے کے دروازے کھولے ہیں۔
یوں تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ ، کیا خلوت اور کیا جلوت، قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔ لیکن حسن واحسان کے اس ناپیداکنار سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے۔
شانِ احمدؐ راکہ داندجز خداوندِ کریم
اس پس منظرمیں محترم حافظ صاحب کی عاشقانہ مساعی کی قدروقیمت اوربھی بڑھ جاتی ہے۔ آپ نے جس محبت او رلگن سے یہ پھول چنے ہیں اور جس عرق ریزی سے ایک ایک اندراج کے مستند حوالہ جات دیئے ہیں۔ وہ قابل داد ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کی مساعی کوقبول فرمائے۔آمین۔جی چاہتا ہے کہ یہ کتاب اور اس کے تراجم ہر گھر میں موجود ہوں اور سکولوں اور کالجوں میں یہ کتاب نصاب کے طورپرشامل ہو۔ماشاء اللہ۔ چشم بددور۔اللّٰہم بارک وزد۔
مکرم راجہ غالب احمد صاحب لاہور (چیئرمین (ر) پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ)
مکرم ومحترم حافظ مظفراحمد کی تصنیف’’اسوۂ انسانِ کامل‘‘ کے یوں تو بہت سے درخشاں پہلو ہیں۔ خاکسار کی نظر میں سب سے اہم پہلو نفسِ مضمون اور اندازِ تحریر کے اعتبار سے اس کتاب کی عظیم الشان صحت بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہوا ہے کہ حافظ صاحب نے کمال سادگی اور پُرکاری سے اس سیرت مبارکہ کی کتاب میں حضرت رحمۃ العالمینؐ کے اُن تمام اوصافِ حمیدہ کی نہ صرف احسن رنگ میں نشان دہی کردی ہے بلکہ ہر ممکن طور پراُن اوصاف سے منسلک اہم واقعات اور اُن سے متعلق حوالہ جات کو اپنی کتاب میں ہر باب کے آخر میں نہایت مناسب رنگ میں جگہ دیدی ہے۔ اور اِ س طرح سے اِس کتاب کو قاری کے لئے ایک خزانہ بنادیا ہے۔ جسے وہ ایک ’’ریفرنس بُک‘‘ کے طور پر بھی استعمال کرسکتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی سیرت پر بلا شبہ یہ ایک منفرد تصنیف قرار پائے گی۔ اس کا ایک ایک خاص مقام ہمیشہ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ اِس مصنفِ محترم کو ہر رنگ میں جزائے خیر عطافرمائے۔آمین
مکرم مجیب الرحمن صاحب (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان۔راولپنڈی)
مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے اپنی کتاب ’’ اُسوۂِ انسان کامل‘‘ میں واقعات و سوانح تاریخی ترتیب سے بیان نہیں کئے۔ مگر انسانی زندگی کے نشیب و فراز میں آنحضرتؐ کے حسین اسوہ کا ایک دلآویز گلدستہ ترتیب دیا ہے اورآنحضرت ﷺ کی تسبیح روزوشب کی ایک خوبصورت مالاپروئی ہے۔ مختلف عناوین کے تحت ہر موضوع پر مستند روایات یکجا کر دی ہیں جو ایک اہم علمی کام ہے۔ فاضل مصنف نے حضوؐر کی حیاتِ مبارکہ میںسے خدا اور بندے کے مابین رازو نیاز ، مالک سے ما نگنے کے اسلوب، دعوت الی اﷲ کے سلیقے، اپنے عشاق و خدام کی وفائوں کی قدر دانی، اور الطاف کریمانہ ، عائلی زندگی میںحضورؐ کا اسوہ اور رزم و بزم میں حضورؐ کی شخصیت کے روح پرور نمونے دکھائے ہیں۔
انداز بیان نہایت سادہ اور سلیس ہے جس کی وجہ سے ہر شخص یکساں طور پر اس کتاب سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس مجموعہ میں ہر اس شخص کے لئے جو اپنی زندگی میں اسوۂ رسولؐ پر عمل کرنا چاہتا ہے، روشنی اور راہنمائی کا وافر سامان ہے ۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بھی مفید ہے جو اپنے کسی بھی فرض منصبی کی وجہ سے رشدوارشاد سے وابستہ ہوں اور جنہیں مختلف مواقع پر مستند روایات کی تلاش رہتی ہو۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب ہرطبقہ کے لوگوں کے لئے مفید اور با برکت مجموعہ ثابت ہو گی۔ ایسا مجموعہ تیار کرنے کے لئے جس ذوق و شوق اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے وہ محض خدا کے فضل اور کسی مرشد کے پیار کی نظر سے ہی میسر آسکتی ہے۔
ـ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست
خدا تعالیٰ حافظ صاحب کو جزا ئے خیر دے۔ ان کے مطالعہ اور علم میں مزید وسعتیں عطا فرمائے اور زیر نظر کتاب کو نافع الناس بنائے۔ آمین۔
مکرم لیفٹیننٹ جنرل (ر)ڈاکٹر محمود الحسن صاحب راولپنڈی
اُردُو زبان میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں حضورؑ کی سوانح عمریاں لکھی گئیں جن میں سیرۃ خاتم النبین ،سیرۃ النبی،ضیاء النبی،رحمۃ اللعلمین،سیرت طیبہ،انسان کامل، ہادیٔ عالم، الرحیق المختوم خاص طور پرقابلِ ذکر ہیں۔
حال ہی میں مشہور ومعروف سکالراور عاشق رسول ؐ حافظ مظفراحمدکی بڑی جامع اور مبسُوط کتاب ’’اُسوۂ انسانِ کامل‘‘ شائع ہوئی ہے جو اپنی افادیت کے لحاظ سے حضورؐ اقدس کی شان میں لکھی جانی والی کتابوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے جس کی تکمیل اور اِشاعت پرمُصنف حافظ مظفراحمد کی کاوشوں کی جتنی بھی داددی جائے کم ہے۔انہوں نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دے کر اپنی بخشش کا سامان کرلیا ہے اور اُن کی یہ سعی بارگاہِ نبوی میں ضرور شرفِ قبولیت حاصل کرے گی۔ ایں کارازتوایدومرداں چنیں کنند
’’انسانِ کامل‘‘ اتنی جامع،مُفصل اور عُمدہ پیرائے میں تحریر کی گئی ہے کہ حضورؐ کی سیرتِ طیبہ کی جامع اور مکمل تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے اور سیرۃ نبویؐ کاکوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔
’’اُسوۂ انسان کامل‘‘ اُردو کے ’’سیرتی سوانحی ادب ‘‘ میں ایک خوبصورت اور گراںپایہ اضافہ ہے۔ جس کے لئے مکرمی حافظ مظفراحمد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیردے۔ آمین۔
محترم رشیدقیصرانی صاحب(ر) ونگ کمانڈر۔ڈیرہ غازی خان
یوں تو حضور ؐ کی سیرت طیبہ پربے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں اور بے شمار کتابیں لکھی جائیں گی لیکن جس منفردانداز میں مکرم حافظ صاحب نے یہ بابرکت فریضہ سرانجام دیا ہے وہ منفرد بھی ہے اور قابلِ ستائش بھی۔ انسانی زندگی کی ہر رہگذرپرجہاں جہاں اُس ہادیِٔ اعظم ﷺ کے نقوش پاموجود ہیں انہیں حافظ صاحب نے ایک ضخیم کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کو بیالیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب میں حضور ﷺ کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو مستند احادیث کے حوالہ جات کے ذریعے اُجاگرکیا گیا ہے۔ کتاب میں ایسے ایک ہزار سے زائد حوالے درج ہیں جو سیرتِ نبوی ﷺ پر تحقیق کرنے والوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہونگے۔
اس خاکسار نے کتاب کے مطالعے کے وقت جو بات بطورخاص محسوس کی وہ اس کا انداز تحریر ہے جس سے مجھے بارہا یوں محسوس ہوا جیسے میں بھی اُس بابرکت محفل میں موجود ہوں جہاں وہ صاحب خلق عظیم ﷺ جلوہ فرماہیں اور محو گفتگو یا مصروف عمل ہیں زیرنظرکتاب میں اُس پیکرعفووعنایات کے انداز دلربائی کا بیان ہی کچھ ایسا ہے کہ دورانِ مطالعہ بارہامیری زبان نے درود وسلام اور میری آنکھوں نے آنسوؤں کا نذرانہ اُس شاہ دلرُباﷺ کے حضور پیش کیا اور مکرم حافظ صاحب کے لئے بے ساختہ دعائیہ الفاظ زبان پر آتے رہے۔ خداوندکریم ورحیم انہیں مزید خدمت دین کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
 
Top