• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

اشتہارات و اعلانات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اشتہارات و اعلانات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط نحمدہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکریْم ط
و علی عبدہ المسیح الموعود
پیش لفظ
الشرکۃ الاسلامیہ گذشتہ سالوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جملہ تصانیف اور ملفوظات کو سیٹ کی صورت میں شائع کرنے کے بعد احباب کی خدمت میں حضور کے شائع کردہ جملہ اشتہارات ترتیب وار سیٹ کی صورت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے-
۱۸۶۸ء سے لے کر حضور سے وصال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بے شمار اشتہارات شائع فرمائے تھے- ان کا مطالعہ انتہائی افروز ہے-
اسلام کی حقانیت اور آنحضرتؐ کی صداقت کے اثبات میں ان اشہارات کی بڑی قیمت ہے- حضور نے اپنے معاندین کو جتنے چیلنج اتمام حجت کے لئے دیئے اکثر وہ اشتہارات میں ہی درج ہیں- اہم پیشگوئیوں کے پس منظر اور تفصیلات کو تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب ان اشتہارات کا ترتیب وار مطالعہ کیا جائے- حضور کے یہ اشتہارات حجج قاطعہ و براہین احمدیہ نیّرہ اور زندہ خدا کاسے پر کلام ہیں- اور اس روحانی اسلحہ کا ایک اہم حصہ ہیںجو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو دشمنانِ اسلام پر غلبہ کے لئے عطا فر مائے تھے- حضور نے اپنی کتاب ’’ فتح اسلام‘ ‘ میں تائید حق اور اشاعتِ اسلام کے لئے جب پانچ شاخوں کا ذکر بایمائے الہٰی فرمایا ہے- ان میں ایک اہم شاخ اشتہارات کی ہے- حضور فرماتے ہیں-
’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا - لیکن خدا اُسے قبول کرے گا- اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا- یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور ربّ جلیل کا کلام ہے- اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اُ ن حملوں کے دن نزدیک ہیں مگر یہ حملے تیغ و تبر نہیں ہوں گے- اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی- بلکہ روحانی اسلحہ……… کے ساتھ اُترے گی………… اور ہر ایم حق پوش و جّال - دُنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا- حجت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گا- اور سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن کائے گا- جو پہلے وقتوں میں آ چکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا- جیسا کہ چڑھ چکا ہے- لیکن ابھی ایسا نہیں - ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں- اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں- اور اعزازِ اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں- اسلام کا زندہ ہونا سے ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے - وہ کیا ہے؟ ہماراا اسی راہ میں مرنا- یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی- مسلمانون کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے-اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے- اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے رو براہ کرنے کے لئے عظیم الشان کارخانہ جو ہرایک پہلو سے موثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا- سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھنچنے کے لئے کئی شاخوں پر امرتائید حق اور اشاعتِ اسلام کو منقسم کر دیا……‘‘
دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہار جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم ِ الٰہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے - اور اب تک بیس ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورتوں کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے-‘‘ ( فتح اسلام)
الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ کی مجلس مشاورت منعقدہ اواخر مارچ ۱۹۷۱ء کے مبارک موقعہ پر الشرکۃ اشتہارات کی پہلی جلد احباب کی خدمت میں پیش کر رہی ہے- یہ مجموعہ تین جلدوں میں ہو گا- دوسری جلد بھی عنقریب شائع کی جائے گی-
مجموعہ اشتہارات کو پہلے حضرت میر قاسم علی صاحبؓ نے تبلیغ رسالت کے سام سے شائع فرمایا تھا- اب مزید اشہارات کی تلاش کر کے مکرم محترم عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے اس مجموعہ میں اضافہ کیا ہے- اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو قبول فرمائے اور اس کی انہیں جزاء خیر عطا فرمائے-
والسلام
ظہور احمد باجوہ
مینجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ




بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط
نحمدہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکریْم ط
(۱)
اشتہار پانچ سو روپیہ
اشتہار ہذا اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ ۷ دسمبر ۱۹۷۷ء کے وکیل ہندوستان وغیرہ اخبار میں بعض لائق ذائق آریہ سماج والوں نے بابت روحوں کے اصول اپنایہ شائع کیا ہے کہ ارادح موجودہ بے انت ہیں- اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میشر کو بھی ان کی تعدادمعلوم نہیں- اسی واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے ادا پاتے رہیںگے- مگر سب ہی ختم نہیں ہو دیں گے- تردید اس کی ہم نے ۹ فروری سے ۹ مارچ تک سفیرہند کے پرچوں میں بخوبی ثابت کر دیا ہے- کہ اُصول مذکور سراسر غلط ہے- اب بطور اتمام حجت کے کہ اشتہار تعدد پانچ سو روپیہ معہ جواب الجنواب باوانرائن صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرت سر کے تحریر کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب آریہ سماج والوں میں سے پا بندی اصول مسلمہ اپنے کل دلائل مندرجہ ذیل سفیر و دلائل مرقوعہ جواب الجواب مشمولہ اشتہار کے توڑ کر یہ ثابت کر دے کہ ارواح موجودہ جو سوا چار ارب کی مدت میں کل دورہ اپنا پورا کرتے ہیں- بے انت ہیں اور ایشور کو تعداد ان کا نامعلوم رہا ہوا ہے تو میں اس کو مبلغ پانچ سو روپیہ بطور انعام کے دوں گا- اور درصورت توقف کے شخص مثبت کو اختیار ہو گا اور بمدعدالت وصول کرے گا- لیکن واضح رہے کہ اگر کوئی صاحب سماج مذکور میں سے اس اصول سے منکر ہو تو صرف انکار طبع کراتا کافی نہ ہو گا بلکہ اس صورت میں بتصریح لکھنا چاہیے کہ پھر اُصول کیا ہوا؟ آیا یہ بات ہے کہ ارواح ضرور کسی دن ختم ہو جائیں گے- اور تناسخ اور دنیا کا ہمیشہ کے واسطے خاتمہ ہو گا- یا یہ اُصول ہے کہ خدا اور روحوں کو پیدا کرسکتا ہے یا یہ کہ بعد مکتی پانے سب روھون کے پھر ایشرانہیں مکتی یافتہ روحوں کو کیڑے مکوڑے وغیرہ مخلوقات بنا کر بھیج دے گا- یا یہ کہ اگرچہ ارواح بے انت نہیں اور تعداد ان کا کسی حدود معین میں ضرور محصور ہے مگر پھر بھی بعد نکالے جانے کے باقی ماندہ رُوح اتنے کے اتنے ہی نہیں رہتے ہیں- نہ مکتی والوں کی جماعت جن میں یہ تازہ مکتی جا ملتے ہیں- اس بالائی آمدن سے پہلے سے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں اور نہ یہ جماعت جس سے کمی قدر ارواح نکل گئے بعد اس خرچ کے کچھ کم ہوتے - غرض جو اُصول ہو- یہ تفصیل مذکور مفصل لکھنا چاہییے-
(المشتہر مرزا غلام احمد - رئیس قادیان عفی انہ ۲مارچ ۱۸۷۸ء
(منقول انما الکحم نمبر ۱۸ جلد ۹ صفحہ ۱ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء کالم ۲ دحیاۃ النبی جلد اول نمبر دوم صفحہ ۲۱۸ مطبوعہ ۱۴ دسمبر ۱۹۱۵ء مرتبہ الحکم و بدر سلسلۃ الجدید جلد نمبر ۸ صفحہ ۸ کالم ۱
(۲)
باوا صاحب کی شرائط مطلوبہ پرچہ سفیر ہند ۲۳ فروری ۱۸۷۸ء کا ایفاء اور نیز چند امور واجب العرض بہ تفصیل
(۱) اوّل ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل
میں جو حسب ذیل درخواست ہمارے معّزز دوست باوا سنگہ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے- لفظ جرمانہ کے جو بجائے لفظ انعام کے مثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے- ورنہ ظاہر ہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہر گز نہیں ہے کیونکہ یہ زرموعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں - تا اس نام جرمانہ رکھا جاوے- بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے لطیب نفس و رضائے خاطر بلا اکرہ غیرے کسی مجیب مصیب کو بپاداش اس کے جواب ماصواب کے د نیا مقرر کیا ہے- اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم درحقیقت بصلصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں- جر مانہ نہیں ہے اور نہ ازروئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدق نیت کچھ رائے دیان داغل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہو سکے- غرض اس موقعہ پر یہ ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مہمل اور بے محل ہے- لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدام الذکر مین بزمرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیںکہ بجائے انعام کے لفظ جرمانہ کا لکھا جاوے تب ہم جواب دینگے- سو خیر میں وہی لکھ دیتا ہوں- کاش ! باوا صاحب کسی طرح جواب اس سوال اشتہاری کا دیں- ہر چند میں جانتا ہوں جو باوا صاحب اس جرح قانونی میں بھی غلطی پر ہیں- اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے-
(۲) شرط دویم- باوا صاحب کی اس طرح پر پوری کر دی گئی ہے- جو ایک خط بقلم تحریر کر کے با اقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک ماوا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے- باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اوّل تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو باضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانوناً تاثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے بلکہ وہ بلحاظ تعداد نقوں کے گویا صد ہا تمسک ہیں- علاوہ ازیں چٹھیاں خانگیبھی جو کسی معاملہ متنازعہ فہیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں، ایک قومی دستاویز ہیں- اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں- سو چھٹی کاص بھی بھیجی گئی - ماسوائے اس کے جبکہ اس معاملہ میں شہادت زبانی ثالثوں کے بھی باوجود ہو گی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی- لیکن چونکہ مجھ کو اتمام حجت مطلوب ہے- اس لئے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کر ینگے- تو فورا اقرار نامہ مطلوبہ ان کا معرفت مطبع سفیر کے یا جیسا مناسب ہو خدمت میں ان کی بھیجا جاوے گا- لیکن باوا صاحب پر لازم ہو گا کہ دہ صورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام واپس کریں-
(۳) شرط سوئم میں باوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں- سو واضح ہو کہ اگر باوا صاحب کا اس فکر سے دل ڈھرکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہو تو کس جائیداد سے وصول ہوگا- تو اس میں عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں تو صاحب موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں- صرف اس قدر نشان دہی کافی ہے کہ درصورت تردّد کے ای معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیجدیں- اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قبصہ مذکور میں قیمتی چھ سات ہزار کے موجود اور واقعہ ہیں- ان کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلّی کر لیں اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرو جواب دینے والے کا مطالبہ روپیہ ادا نہیں ہوسکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے- بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہو گا کہ جب کل آرائے تحریریک ثالثاں اہل انصاف کے جب کے اسمائے مبارکہ کی تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا- سفیر ہند میں بشرائط مشروط پرچہ ہذا کے طبع ہو کر شائع ہو جائیںگی-
(۴) شرط چہارم باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کے منصفان تنقید جواب اقرار دیا ہے - مولوی سید احمد خاں صاحب منشی کہیالال صاحب منشی اندر من صاحب - مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب مین کسی نہج کا عذر نہیں بکہ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو انہوں نے تجویز تقرر ثالثان میں مولوی سیّد احمد خاں صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں- درج کر دیا- اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں ، بااعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ ان کی کے داخل کرتا ہوں جن کے نام نامی یہ ہیں- سوامی پنڈت دیانند سرسوتی - حکیم محمد شریف صاحب امرتسری مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب لاہوری - لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے فریقین کے ہم مذہب ہیں- دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے لئے قرار پانے چاہییں- سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابورلیارام صاحب جو علاوہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی شوریٰ میں داخل ہونا منظور کر لیں- اور آپ کو بھی اس میں کلام نہ ہو، بہتر اور انسب ہیں- ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہو گی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک میں طے کروں گا-
اور قصفیہ اس طرح پر ہوگا کہ بعد طبع ہونے جواب آپ کے ان صاحبوں کو جس حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں- بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ دار ہو گا کہ اپنے منصفین مجوزہ کو آپ اطلاع دے - تب صاحبا ن منصفین اوّل ہمارے سوال نمبر کو دیکھیںگے کہ آپ نے باثبات دونوں امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں- لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں ہوگا کہ صرف قدرورائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میںیہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی عیسائی رائے ظاہر کر ے تو یہ سمجھا جائے گا- کہ گوراہ اس نے کوئی رائے ظاہر نہیں کی- غرض کوئی رائے میں نہیں لیا جائے گا- جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے بتقریر مدال ظاہر کرے کہ کسی طور سے یہ وجووہات ٹوٹ گئیں- یا بحال رہیں- اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آراے سے سفیر ہند میں درج ہوںگے- نہ کسی اور پرچہ میں بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیںگے- باشتثنا بابو ایہام صاحب کے اگر وہ اس شوریٰ تنقید جواب میں داخل ہوئے تو اُن کو رائے اپنے پر چہ میں طبع کرنا ہوگا- اور جبکہ یہ سب آرائے یقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی تواس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہو گا اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہو تو باوا صاحب کو ڈگری ملے گی- ورنہ آنجناب مغلوب رہیں گے-
اشتہار مبلغ پانچ سو روپیہ
۱۸۷۸ء میںراقم کا جو آریہ سماج کی نسبت پرچہ فروری اور بعد اس کے سفیر ہند میں بدفعات درج ہوچکا ہے اقراار صحیح قانونی اورعہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی صاحب منجلہ آریہ سماج کے جو اُن سے متفق الرائے ہوں- ہماری ان وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز ان دلائلی کے تردید جو تبصرہ مشمولہ اشتہار ہذا میں مبین ہے پورا پورا ادا کر کے بد لائل حقہ یقینیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پر میشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچ سو روپیہ نقد اس کو بطور جرمانہ دوںگا- اور درصورت نہ ادا ہونے کے مجیب مثبت کو اختیار ہوگاکہ امداد عدالت سے وصول کرے تنقید جواب کی اُس طرح عمل میں آوے گی جیسے تنقیح شرائط میں اوپر لکھا گیا ہے- اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہماری مطبوع ہوگا-
(المشتہر مرزا غلام احمد رئیس قادیان )
(منقول ازحیاۃ النبی جلد اول نمبر دوم صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ ۱۴ دسمبر ۱۸۹۵ء)



(۳)
اعلان
سوامی دیا نند سرسوتی صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کے بے انتہا ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا کا ثابت کیا تھا- معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگرچہ ارواح حقیقت میں بے انتہا نہیں ہیں- لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضروت مکتی سے باہر نکالی جاتی ہیں- اب سوامی صاحب فرماتے ہیں اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک و شبہ ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہیے- چنانچہ اسی بارے میں سوامی صاحب کا ایک خط بھی آیا- اس خط میں بھی بحث کا شوق ظاہر کرتے ہیں- اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے عرض کیا جاتا ہے- کہ بحث بالمواجہ ہم کو بسر و چشم منظور ہے- کاش! سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام ثالث بالخیر کا واسطے انعقاداس جلسہ کے تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے تاریخ و مقام کو مشتہر کر دیں- لیکن اس جلسہ میں شرط یہ دہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ تین صاحبان میں سے ممبران برہموسماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہوں گے- قرار پائے گا- اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہو گا- کیونکہ ہم معترض ہیں- پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط تہذیب جو چاہیں گے جواب دیں گے- پھر اس کا جواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہو گا اور بحث ختم ہو جائے گی - ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے ہیں- ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سخت اعتراض کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے- اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو بس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے توابعین کے آنسو پونچھتے تھے اور مکت یابوں کی واپسی میں جو مفاسد ہیں- مضمون مشمولہ متعلقہ اس اعلان میں درج ہیں ناظرین پڑھیں اور انصاف فرمادیں-
(میرزا غلام احمد رئیس قادیان ۱۰ جون ۱۸۷۸ء )
(منقول از رسالہ اور ہند لاہور بابت جولائی ۱۸۷۸ء و حیاۃ النبی جلد اول نمبر دوم صفحہ ۱۱۷)
(بدر سلسلہ حدید جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۶ کالم ۲ مورخہ ۸ جون ۱۹۰۵ء)
(۴)
اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ ویدوفرقان مع اشتہار پانچ سو روپیہ جو پہلے بھی بمباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا
ناظرین انصاف آئین خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج سر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے- چنانچہ حسب خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ دید اور قرآن گفتگو کرنا قرار پایا- برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہو گا- ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائل اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی کہ جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو- اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا- تا کہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثبات تناسخ مین دید کی شرتیاں پیش کریں- اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پاجائے- اور دید قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے- کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے- اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل دید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں ر گوید سے پیش کیں کہ جن میں ان کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہمری ردّ نہ سکے- حالانکہ ان پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل قرآنی کے اپنے دید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلاتے - اس دعو نے کو جو پنڈت دیانندصاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ دید سر چشمہ تمام علوم فنون کا ہے، ثابت کرتے ، لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول کے ادردم بخودرہ گئے اور عاجز اور لاچار ہو کر اپنے گائوں کی طرف سدھار گئے- گائوں میں جاکر پھر ایک مضمون بھیجا- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بحث کرنے کا شوق باقی ہے- اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ دید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار کے چاہتے ہیں- سو بہت خوب ہم پہلے ہی طیار ہیں- مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسہ گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں-وہ تمام مضمون دلائل اور براہین قرآن مجید سے لکھا گیا ہے- اور جا بجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے- پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا جو دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو ، پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریہ درپن میں طبع کرادیں-
پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے- اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت دید اور قرآن میں دوشریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو مساج سے جو فریقین کے مذاہب سے بے تعلق ہیں، مقرر کئے جائیں- سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شونرائن اصلب جو برہمو سماج میں اہل علم اور صاحب نظر و قیق ہیں- فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ حکم بننے کے لئے بہت ادنی اور انسب ہیں- اس طور پر بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں - اوّل یہ کہ بحث تناضع کی بہ تحقیق تمام فیصلہ پاجائیگی
دوم- اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان دید اور قرآن کا بخوبی فیصل متصور ہوگا-
سوم- یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ، دید اور قرآن سے بکلّی اطلاع ہو جائے گی-
چہارم- یہ فائدہ کہ یہ بحث تناضع کی کسی ایک شخص کی رائے کا خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محّول بکتاب ہو کر اور معتادطریق سے انجام پا کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کے لئے تن تنہا محنت اُٹھائیں - بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ منجملہ صاحبان مندرجہ عنوان ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہو گا کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب دیں ہوں- اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے- اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ دید سے پیش نہیں کریں گے- یا درصورت عاری ہونے دید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی- اور نیز دعویٰ دید کا کہ گویا وہ تمام فنون پر متضمن ہے- محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گذارش ہے کہ میں نے قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک ٭اشتہار تعدادی پانچ سو روپیہ باطل مسئلہ تناسخ دیا تھا-وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہ متعلق ہے- اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہماے تمام دلائل کو نمبر وار جواب دلائل مندرجہ دین سے دے کر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلا شبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے
اور بالخصوص بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہپمارے تما م دلائل کو نمبر وار جواب مندرجہ دید سے دے کر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلاشعبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں- یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اس استعداد علمی کو روبروئے فضلائے نامدار ملت مسیحی اور بر ہمو سماج کے دکھلادیں- اور جو جو کمالات ان کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں- منصہ ظہور میں لادیں- ورنہ عوام کا لانعام کے سامنے دم زنی کرناصرف ایک لاف گزاف ہے اس سے زیادہ نہیں-
(الرقم مرزا غلام احمد - رئیس قادیان )
(منقول از حضرت اقدس کی پرانی تحریریں حصہ اول صفحہ ۱ تا ۴ مطبوعہ ۳۰ مئی ۱۸۹۹ء مرتبہ ایڈیٹر الحکم )
(۵)
اشتہار بغرض استعانت و واستظہاراز انصار دین محمد مختار صلے اللہ علیہ و علیٰ آلہ الابرار
اخوان دیندار مو منین غیرت شعار و حامیان دین اسلام و متبعین سنت خیر الانام پر روشن ہو کہ اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن حقانیت قرآن و صداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجرقبولیت اسلام اور کچھ بن نہ پڑے - اور اس کے جواب میں قلم اُٹھانے کی کسی کو جرات نہ ہو سکے - اس کتا کے ساتھ اس مضمون کاایک اشتہار دیا جادے گا کہ جو شخص اس کتاب کے دلائل کو توڑ دے و مع ذلک اس کے مقابلہ میں اسی قدر دلائل یا ان کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس سے اپنی کتاب کا ( جس کو وہ الہامی کتاب سمجھتا ہے) حق ہونا یا اپنے دین کا بہتر ہونا ثابت کر دکھائے- اور اس کے کلام یا جواب کو میری شرائط مذکورہ کے موافق تین منصف (جن کو مذہب فریقین سے تعلق نہ ہو)مان لیکں تو میں اپنی جائیداد تعداد دس ہزار روپیہ سے ( جو میرے قبضہ و تصرف میں )دستبردار ہو جائوںگا- اور سب کچھ اس کے حوالہ کر دوں گا- اس باب میں جس طرح کوئی چار اپنی اطیمنان کر لے- مجھ سے تمسک لے یا رجسڑی کرالے اور میری جائیداد وغیرہ منقولہ کو آکر بچشم خود دیکھ لے-
باعث تصنیف اس کتاب کے پنڈت دیانند صاحب اور ان کے اتباع ہیں جو اپنی اُمت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں- اور بُجز اپنے دید کے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ مسیح اور حضرت محمد مصطفٰے ؐ کی تکذیب کرتے ہیں- اور نعوذ باللہ توریت زبور، انجیل - فرقان مجید کو محض افتراء سمجھتے ہیں اور ان نبیوں کے حق میں ایسے توہین کے کلمات بولتیکہ ہم سن نہیں سکتے- ایک صاحب نے ان میں سے اخبار سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی دفعہ ہمارے نام اشتہار بھی جاری کیا ہے- اب ہم نے اس کتاب میں ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور صداقت قرآن و نبوت کو بخوبی ثابت کیا- پہلے ہم نے اپنی کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا- بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نو حصے زیادہ کر دیئے- جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑ ھ سو جزا ہو گئی- ہر ایک حصہ اس کے ایک ایک ہزار نسخہ چھپے ، تو چورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں- پس کل حصص کتاب نوسوچالس روپے سے کم میں چھپ نہیںسکتے-
ازنجاکہ ایسی بڑی کتاب کا چھپ کر شائع ہونا بجز معاونت مسلمان بھائیوں کے بڑا مشکل امر ہے- اور ایسے کام میں اعانت کرنے میںقدر ثواب ہے وہ ادنیٰ اہل اسلام پر بھی مخفی نہیں - لہذا اخوان مومنین سے درخواست ہے کہ اس کارخیر میں شریک ہوں- اور اس کے مصارف طبع میں معاونت کریں- اغنیاء لوگ اگر اپنے مطبخ کے ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرمائیںگے - تو یہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی- ورنہ یہ درخشاں چھپا رہے گا- یا یوں کریں کہ ہر ایک اہل وسعت یہ نیت خریداری کتاب پانچ پانچ روپیہ معہ اپنی درخواستوں کے راقم کے پاس بھیج دیں- جیسی جیسی کتاب چھپتی جائے گی ان کی خدمت میں ارسال ہوتی رہے گی-
غرض انصار اللہ بن کر اس نہایت ضروری کام کو جلد تر بسر انجام پہنچائیں- اور نام اس کتاب کا ’’ البراہین احمدیہ علیٰ حقیتہ کتاب اللہ القرآن و النبوۃ المحمدیہ‘‘ رکھا گیا ہے- خدا اس کو مبارک کرے اور گمراہوں کو اس کے ذریعہ سے اپنے سیدھے راہ پر چلا دے آمین ،
(المشتہر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنچاب)
(منقول از ضمیمہ اشاعتہ السنتہ نمبر ۴ جلد دوئم صفحہ ۳-۴)
مصنفہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی
اعلان
کتاب براہین احمدیہ کی قیمت و تاریخ طبع
(1) جناب نواب شاہ جہان بیگم صاحبہ بالقابہ عالیہ بھوپال
(2) جناب مولوی محمد چراغ صاحب نائب معتمد مدارالہام دولت آصفیہ حیدر آباد
(3) جناب غلام قادر خان صاحب وزیر ریاست نالہ گڈھ پنجاب
(4) جناب نواب مکرم الد ولہ بہادر حیدر آباد
(5) جناب نواب نظیر الدولہ بہادر بھوپال
(6) جناب نواب سلطان الدولہ بہادر بھوپال
(7) جناب نواب علی محمد خانصاب بہادر لودھیانہ پنجاب
(8) جناب نواب غلام محبوب سبحانی خانصاب بہادر رئیس اعظم لاہور
(9) جناب نواب غلام محمد فیروز الدین خان صاحب بہادر وزیر اعظم ریاست بہاولپور
(10) جناب سردار غلام محمد خان صاحب رئیس واہ
( 11) جناب مرزا سعید الدین احمد خان صاحب بہادر کسٹر اسٹنٹ فیروز پور
واضح ہو کہ اصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اور حسن اور لطافت ذاتی اس کے اور نز بنظر اس پاکیزگی خط اور تحریر اور عمدگی کاغذ وغیرہ لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھپائی جائے گی- بیس روپیہ کم نہ تھی- مگر ہم نے محض اس امید اور نظر سے جو بعض امراء اسلام جوذی ہمت اور اولوالعزم ہیں- اس کتا ب کی اعانت میں توجہ کامل فرمادیں گے اور اس طور سے جبر اُس نقصان کا ہو جاوے گا جو کمی قیمت کے باعث سے عاید حال ہو گا- صرف پانچ روپیہ قیمت مقرر کی تھی- مگر اب تک ایسا ظہور میں نہ آیا اور ہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے- البتہ کئی ایک صاحبان عالی ہمت یعنی جناب نواب صاحب بہادر فرمانروائے ریاست لوہار اور علاوہ ان کے جناب خلیفہ سید محمد حسن خان بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ نے جو ہمیشہ اشاعت علمی اور ہمدردی قومی اور دینی خیر خواہی بندگان الہٰی میں بدل و جان مصروف ہو رہے ہیں- اس کام میں بھی جس کی علّت غائی اشاعت دلائل حقیقت دینی اور اظہار شان و شوکت اور راستی اور صداقت حضرت خاتم الانبیاء ؐ ہے خریداری کتب اور فراہمی خریداروں میں کماحقہ مدد فرمائی کہ جس تفصیل انشاء اللہ اور عنوان کتاب براہین احمدیہ پر درج کی جائے گی- اور جناب نواب صاحب بہادر ممدوح نے علاوہ خریداری کتب کے کسی قدر روپیہ اعانت کتاب کے عطا فرمانا بھی وعدہ فرمایا-
لیکن بباعث اس کے جو قیمت کتا ب نہایت ہی کم تھی- اور جبر نقصان اس کے کا بہت سی اعانتوں پر موقوف تھا جو محض فی سبیل اللہ ہر طرف سے کی جاتیں ، طبع کتاب میں بڑی توقف ظہور مین آئی - مگر اب کہاں تک توقف کی جائے- ناچار بصد اضطراریہ تجویر سوچی گئی جو قیمت کتاب کی جو نظر حیثیت کتاب کے بغایت درجہ قلیل اور ناچیز ہے چو چند کی جائے- لہذا بذریعہ اعلان ہذا کے ظاہر کیا جاتا ہے- جو من بعد جمعہ صاحبین باسثنا ان صاحبوں کے جو قیمت ادا کر چکے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ ہو چکا ہے- قیمت اس کتاب کی بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ تصور فرما دیں- مگر واضح رہے کہ بعد معلوم کرنے قرو منزلت کتاب کے کوئی امیر عالی ہمت محض فی سبیل اللہ اس قدر اعانت فرما دیں گے کہ جو کسر کمی قیمت کی ہے اس سے پوری ہو جائے گی- تو پھر بہ تجدید اعلان وہی پہلی قیمت کہ جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہے- قرار پاجائے گی اور ثواب اس کا اس محسن کو ملتا رہے گا- اور یہ وہ خیال ہے کہ جس سے ابھی میں نا اُمید نہیں اور اغلب ہے کہ شائع ہونے کتاب اور معلوم ہونے فوائد اس کے ایسا ہی ہو اور انشاء اللہ یہ کتاب جنوری ۱۹۸۰ء میں زیر طبع ہو کر اس کی اجراء اسی مہینہ یا فروری میں شائع اور تقسیم ہونی شروع ہوجائے گی- مکر یہ کہ میں اس اعلان مین مندرجہ ذیل حاشیہ صاحبان کا بدل کر مشکور ہوں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کتاب کی اعانت کے لئے بنیاد ڈالی اور خریداری کتب کا وعدہ فرمایا- مورخہ ۳ دسمبر۱۸۷۹ء
مرزا غلام احمد رئیس قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
(منقول از اخبار سفیر ہند نمبر ۱۵مطبوعہ۲۰دسمبر ۱۸۷۹ء صفحہ ۸۴۶)
(۷)
لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان
آج میں نے اتفاقاً آپ کے اخبار مطبوعہ ۹ فروری کے ابتدائی صفحہ میں ایک ٭اشتہار منجانب مرزا غلام احمد رئیس قادیان دیکھا- لہذا ان کی نسبت چند سطور ارسال خدمت ہیں- امید کہ درج اخبار فرما کر مشکور فرمائیے گا- راقم اشتہار نے لکھا ہے کہ جو صاحب منجلہ توابع سوامی دیا نند سرسوتی صاحب سوال ہذا کا جواب دے کرے ثابت کرے کہ روح بے انت ہیں اور پر میشور کو ان کی تعدا معلوم نہیں تو مین اس کو مبلغ پانچ سو روپیہ انعام کے دُوں گا- اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لفظ ابع سے صاحب راقم کا کیا مطلب ہے- اگر آریہ سمارج والوں سے مراد ہے تو معلوم رہے کہ وے لوگ سوامی دیانند کے توابعین سے نہیں ہیں- یعنی سے عام طور پر پابند خیالات سوامی دیانند کے نہیں- ہان ان کے خیالات میں جو بات جس کو معقول ہوتی ہے وہ اس کو مانتا ہے- اور یہ کچھ آریہ سماج والوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہرامر معقول کو پسند رکرتا ہے- اب رہیبات کہ رُوح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں ہے- اگر کوئی ممبر سماج کا اس دعویدار ہو تا اس سے سوال کرنا چاہیے- اور اسی کو جواب دینا لازم ہے چونکہ اس اشتہار سے لوگوں کو یہ مغالطہ پیدا ہوتا تھا کہ آریہ سماج والے سوامی دیانند صاحب کے پیرو اور تابع ہیں- حالانکہ یہ بات نہیں - اس لئے بغرض اشتہار اور مغالطہ مذکور کے یہ تحریر عمل میں آئی
راقم جیونداس سیکرٹری آریہ سماج لاہور
(منقول از حیاۃ النبی جلد اول نمبر دوم صفحہ۱۱۳مطبوعہ ۴دسمبر ۱۹۱۵ء مرتبہ ایڈیٹر الحکم)
(۸)
خط
مکرمی جناب پنڈت صاحب!
آپ کا مہربانی نامہ عین اس وقت میں پہنچا کہ جب میں بعض ضروری مقدمات کے لیے امرتسر کی طرف جانے کو تھا- چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں- اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا- اور انشاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آجائوں گا- اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا- آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہوں- مگر میری صلاح یہ ہے کہ ان مغامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو- تب اندراج پادیں- مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لا دیں- نا چار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل گرامی صاحب تالیف تعلیف کا براہم سماج کے فضلا میں سے منتخب کر کے مجھے اطلاع دیں- جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو - اور ایک انگریز کہ جن کی قوم کی زیر کی بکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں- انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں- تو اغلب ہے کہ میں ان دنوں کو منظور کروں گا- اور میں نے بطور سر سری سنا ہے کہ آپ کے برہمو سماج میں ایک صاحب کیشپ چندر لئیق اور دانا آدمی ہیں- اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں- ان کے ساتھ ایک انگریز کو دیجئے- مگر منصفوں کویہ اختیار نہ ہو گا- کہ صرف اتنا ہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بہال رکھنا ہو گا- دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج کیا جائے- کہ اس میں مصنف کو دوسرے نمبروں کا مدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں- اور ان پر دونوں منصفوں کی مفصل رائے درج ہو- اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ وقت طلب ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرت سر سے واپس آ کر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیجدوں گا تو آپ بھی اس پر کچھ مختصر تحریریں یک دفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروں کے خیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر اپنا اپنا موجہ رائے تحریر فرما دیں- اور پھر جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں مفت بھیجی جائیں- آئندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں- اور جلد اطلاع بخشیں- اور میں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط ڈالا ہے - کمی بیشی الفاظ سے معاف فرما دیں-
راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ ۱۷جون ۱۸۷۹ء
(منقول از حضرت اقدس کی پرانی تحریریں صفحہ ۳۰مطبوعہ ۲۷مئی ۱۸۹۹ء مرتبہ ایڈیٹر الحکم)
اشتہار
تصنیف کتاب براہین احمدیہ بجہت اطلاع جمیع عاشقان صدق و انتظام سرمایہ طبع کتاب
ایک کتاب جامع دلائل معقولہ دربارہ اثبات حقانیت قرآن شریف صدق نبوت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم جس میں ثبوت کامل منجانب کلام اللہ ہونے قرآن شریف اورسچا ہونے حضرت خاتم انبیاء کا اس قطعی فیصلہ سے گیا ہے - کہ ساتھ اس کتا کے ایک اشہتار بھی بوعدہ انعام دس ہزار پرروپیہ کے اس مراد سے منسلک ہے کہ اگر کوئی صاحب جو حقانیت اور افضلیت فرقان شریف سے منکر ہے ، براہین مندرجہ اس کتاب کو توڑ دے یا اپنی الہامی کتاب میں اسی قدر دلائل یا نصف اس سے یا ثلث اس سے یا ربع اس سے یا خمس اس سے ثابت کر کے دکھلادے جس کو تین منصف مقبولہ فریقین تسلیم کر لیں تو مشتہر اس کو بلا عدد اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دیگا- بوجہ منکر اصرا پنڈت دیانند صاحب اور ان کے بعض سیکرٹریوں ہوئی ہے اور نام اس کتاب کا مندرجہ حاشیہ میں رکھا گیا ہے-
براہین احمدیہ علی
لیکن بوجہ ضخامت چھپنا اس کتاب کا خریداروں کی مدد پر موقوف ہے- لہذا یہ اشتہار بحہت اطلاع جملہ اخوان مومنین و برادران موحدین و طالبان راہ حق و یقین شائع کیا جاتا ہے کہ بہ نیت معاونیت اور نصرت دین متین کے اس کتاب کے چندہ میں بحسبِ توفیق شریک ہوں یا یوں مدد کریں کہ بہ نسبت خریداری اس کتاب کے مبلغ آٹھ روپیہ جو اصل قیمت اس کتاب کی قرار پائی ہے بطور پیشگی بھیجدیں تا سرمایہ طبع اس کتاب کا اکٹھا ہو کر بہت جلد چھپنی شروع ہوجائے- اور جیسے جیسے چھپتی جائے گی بخدمت جملہ صاحبین جو نہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں گے مرسل ہوتی رہے گی- لیکن واضح رہے کہ جو صاحب بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں اور اپنی درخواست میں بقلم خوشخط اسم مبارک و مفصل پتہ و نشان مسکن ضلع وغیرہ کا کہ کہ جس سے ملا ہرج امبزاء کتاب کے وقتاً فوقتاً ان کی خدمت گرامی میں پہنچتے رہیں ارقام فرما دیں-
اراشد
مرزا غلام احمد رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب
مکرر بڑی شکر گذاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی خان صاحب معتمد مدارالمہام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنے کرم ذاتی وہمت اور مصمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے- (مطبوعہ سفیر ہند امرتسر)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
بعد ماد جب گزارش یہ ہے کہ عاجز مولف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلشانہ‘ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروشی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لیے کوشش کرے- اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیںصراط مستقیم ( جس پر چلنے اور مجبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیںدکھاوے- اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے کس کی ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا مین مندرج ہے- لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفصل بغرض ا تمام حجت یہ خط (جس کی ۲۴۰ کاپی چھپوائی گئی ہے- ) معہ اشتہار (انگریزی) جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے شائع کیا جائے اس ایک ایک کاپی بخدمت معز پادری صاحبان پنجاب و ہندوستان و انگلستان وغیرہ بلادجہاں تک ارسال خط ممکن ہو) جو اپنی قوم مٰں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں - اور بخدمت معزز برہموں صاحبان و آریہ صواحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجود و کرامات سے منکر ہیں اور اس وجہسے عاجز پر بد ظن ہیں) ارسال کی جاوے
یہ تجویز ہے اپنے کرو اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب ( جو خط پہنچے پر رجوع بحق نہ کریں گے- ) ملزم لا جواب و مغلوب ہو جائیں گے- بنا بز علیہ یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میںمعزز اور مقتدا ہیں) ارسال کیا جاتا ہے- اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبۃ للہ اس حطہ کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے- اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہو گی- اور اس کاروائی کی ( کہ آـپ کو رجسڑی شدہ خط ملا- پھر آپ نے اس کی طرف توجہ مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جائے گی- اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں- ی ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوراق پیشین گوئیوں ) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صاحق اس خاکسار (مولف براہین احمدیہ ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعاینہ تصدیق کر سکتا ہے- آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لادیں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں و لیکن اس شرط نیت سے ( جو طلب صادق کی نشانی ہے) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ (قادیان میں) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے- اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے- اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں - اب آپ تشریف نہ لائیں تو آپ پر خدا کا مواخذ رہا- اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتا ب ہوگا- اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا- اس دو سو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری عدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لایق قرار دیں گے ہم اس بشرط استطاعت قبول کر لیں گے- طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو حرجانہ نہ جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں- اگر آپ بذاتِ خودتشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آہ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما ویں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے اظہار اسلام یا (تصدیق ٭خوارق میں ) توقف نہ فرمائیں- آپ اپنے شرط اظہار اسلام یا (تصدیق خوارق ( ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کو متعدد اردو انگریزی اخباروں میں شائع کیا جائے گا- ہم سے اپنی شرط دو سوروپیہ ماہوار جرمانہ یا حرجانہ ( یا جو آپ پسند کریں اور ہم اس کی ادائیگی کی طاقت بھی رکھیں ) عدالت میں رجسٹری کرالیں- اوراس کے ساتھ ایک حصہ جائیداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرالیں- بالآخر یہ عاجز حضرت خداوند کریم جلّشانہ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر ان کی اشاعت کے لئے ایک آزاد سلطنت کی حماعت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی- اس گورنمنٹ کا بھی حق شناہی کی رد سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے- والسلام علیٰ من اتبع الھدی
خاکسار غلام احمداز قادیان ضلع گورداسپور
ملک پنجاب
مطبوعہ مرتضائی پریس لاہور
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اللھم صلّ علٰے محمد و اٰل محمدٍ افضل الرسل و خاتم النبین
اشتھار
کتاب براھین احمدیہ جسکو خدا یتعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملھم اور مامور ہو کر بغرض و تجدیددین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزا روپیہ کا اشتھار ہے- جس کا خلاصہ مطلب یئہ ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذھب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالٰی کوھر تک عیب اور نقص سے بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں دلی یقین اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں اٰفتاب کی طرح چمک رہی ہیں- اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذاہب ایسے بدیھی البطلاں ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے اُن کے اصول صحیح اور درست ثابتہوتے ہیں اور ورنہ ان پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الھی مل سکتی ہے بلکہ ان کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کوباطن اور سیاہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقارت پر اسی جہان میں نشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں-ا س کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دوطرح پر ثابت کیا گیا ہے (۱) اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان (شوکت و قدرومنزلت اس سے ظاہر ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلّی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے- (۲) دوم ان آسمانی نشانوں سے کو سچے دین کامل سچائی ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں‘ اس امر دویم میںمؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے - تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں- اول وہ نشان کہ جو آنحضرت صلے االلہ و علیہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور انجناب کی دعا اور توجہ سے اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جس کو مولف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے- دوم وہ نشان جو خود قرآن شریف کی ذات با برکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائی جاتی ہیں-جس کو راقم نے بیان شافی اور کافی پر ایک خاص و عام پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذ کسی کے لئے باقی نہیں رکھا- سوم وہ نشان کہ جو کتابِ اللہ کی پیروی اور متابعت اور رسول بر حق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں- جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اوراخبار غیبیہ اور اسرار لدنیہ و کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کو جو خود اس خادم دین سے صادر ہوئی ہیں- اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے ) بشہادت رویت گواہ ہیں- کتاب موصوف میں درج کئے ہیں- اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے- کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں- اور ایک دوسرے سے بشارت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء درسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلے اللہ و علیہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے- کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلتا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد و فرمان ہے- یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے فریب37جزو چھپ چکی ہے، ظاہر ہوتے ہیں - اور طالب حق کے لیے خود مصنف پوری پوری تسلّی اورتشفی کرنے کو پر وقت مستعد اور حاضر ہے- و ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ولا فخر والسلام علے من اتبع الھدیٰ اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے-اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے-کہ اے خدا تعالیٰ کے روبرو اس کو جواب دینا پڑے گا- بالآخر اس اشتہار کو اس دعاپر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے رو برو اس کو جواب دینا پڑے - بالآخراس اشتہار کو اس دعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کرم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفیٰ صلے اللہ وعلیہ وسلم اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لادیں- اور اس کے حکمون پر چلیں تا کہ ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانون میں ملتی ہیں اور اس جاہ دانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہون کہ جو نہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں - اور بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صدات سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی- اور جس کی شایشتہاور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم نے اپنے احسانات اور دوستانہ معاونت سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشاء ہے جہ ہم اُن کے دنیاو دین کے لئے دلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں- تا کہ ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منّور ہوں-
فنسئل اﷲ تعالیٰ خیر فی الدینا و الاٰخرۃ اللّٰھم اھد ھم بروح منک واجعل لھم خطاً کثیرا فی دینک واجد بھم بحولک و قوتک لیومنوبکتابک و رسولک وید خلو فی دین اﷲ افواجا اٰمین و الحمد ﷲربّ العالمین -
المشتھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گوردسپور ملک پنجاب
مطبوعہ ریاض ھند پریس امرتسر (بیس ہزار اشتہار چھاپے گئے)
(۱۲)
اعلان
کتاب براہین احمدیہ کی قیمت اور دیگر ضروری گذارش
بعالی خدمت تمام معزز اور بزرگ خریداران کتاب براہین احمدیہ کے گذارش کی جاتی ہے کہ کتاب ہذا بسوط کتا ب ہے یہاں تک کہ جس کی ضمامت سو جز سے کچھ زیادہ ہو گی- اور تا اختتام وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی- او ایسی عمدگی کاغز اور پاکیزگی خط اور دیگر لوازم حسن اور لطافت اور موزدیت سے چھپ رہی ہے کہ جس کے مصارف کا حساب جو لگایا گیا تو معلوم ہوا- کہ اصل قیمت اس کی فی جلد پچیس روپیہ ہے مگر ابتداء میں پانچ روپیہ قیمت اس کی اس غرض سے مقرر ہوئی تھی اور یہ تجویز اُٹھائی گئی تھی جو کسی طرح سے مسلمانوں میں یہ کتاب عام طور پر پھیل جائے- اور اس کا خریدنا کسی مسلمان پر گراں نہ ہو- اور یہ امید کی گئی تھی کہ امراء اسلام جوذی ہمت اور اولعزم ہیں- ایسی ضروری کتاب کی اعانت میں دلی ارادت سے مدد کرینگے تب جبر اس نقصان کا ہو جائے گا- پر اتفاق ہے کہ اب تک وہ امید پوری نہیں ہوئی- بلکہ بجز عالی جناب خلیفہ سید محمد حسن خاں صاحب بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ پنجاب کہ جنہوں نے مسکین طالب علموں کو تقسیم کرنے لئے پچاس جلدیں اس کتاب کی خریدیں اور جو قیمت بذریعہ اشتہار شائع ہو چکی تھی وہ سب بھیج دی- اور نیز فراہمی خریداروں میں بڑی مدد فرمائی- اور کئی طرح سے اور بھی مدد دینے کاوعدہ فرمایا (خدا ان کو اس فعل خیر کا ثواب دے اور اجر عظیم بخشے)اور اکثر صانے ایک نسخے سے زیادہ نہیں خریدا- اب حال یہ ہے کہ ہم نے بموجب اشتہار مشتہرہ سیوم دسمبر 1879ء بجائے روپے کے دس روپیہ قیمت کتاب کی مقرر کر دی -مگر تب بھی وہ قیمت اصل قیمت سے ڈیڑھ حصہ کم ہے علاوہ اس کے اس قیمت ثانی سے وہ سب متثنیٰ ہیں جو اس اشتہار سے پہلے قیمت ادا کر چکے- لہذا بذریعہ اس اعلان کی بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور دیگر ذی ہمت امراء کے جو حمایت دین اسلام میں مصروف ہور ہے ہیں- عرض کی جاتی ہے کہ وہ ایسے ثواب میں کہ جس سے اعلائے کلمہ ہوتا ہے اور جس کا نفح ……… صرف اپنے ہی نفس میں محدود نہیں بلکہ ہزار ہا بندگان خدا کو
(1) جناب نواب شاہجان بیگم بالقابہ فرمان روئے بھوپال
(2) جناب نواب علائوالدین بہادر والئے لوہارو
(3) جناب محمد چراغ علی خاں صاحب نائب معتمد الہام دولت آصفہ حید رآباد دکن
(4) جناب غلام قادر خان صاحب وزیر ریاست نالہ گڈھ پنجاب (5) جناب نواب مکر م الدولہ بہادر بھوپال
(6) جناب نواب نظیر الدولہ بہادر بھوپال
(7) جناب نواب سلطان الدولہ بہادر بھوپال
(8) جناب نواب علی محمد خاں صاحب بہادر لودھانہ پنجاب
(9) جناب نواب غلام محبو ب سبحانی خان صاحب بہادر اعظم لاہور
(10) جناب سردار غلام محمد خان صاحب رئیس واہ
(11) جناب مرزا سعید الدین احمد خانصاحب بہادر اکسٹر اسٹنٹ کمشنر فیروز پور
ہمیشہ پہنچتا رہے گا- اعانت سے دریخ نہ فرما ویں کہ بموجب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ و علیہ و سلم کے اس سے کوئی اور بڑا عمل صالح نہیں کہ انسان اپنی طاقتوں کو ان کاموں پر خرچ کرے کہ جن عباد الہٰی کو سعادت اخروی حاصل ہو- اگر حضرت ممدوچین اس طرف متوجہ ہوں گے تو یہ کام کہ جس کا انجام بہت روپیہ کو چاہتا ہے اور جس کی حالت موجودہ پر نظر کر کے کئی طرح کی-
اگر آپ لوگوں کی نیت میں کچھ خلوص اور دل میں کچھ انصاف ہوتا تو آپ لوگ یوں اعلان دیتے کہ اگر دلائل کتاب کی واقعی میں صحیح او ر سچی ہوں گی- تو ہم بسروچشم ان کو قبول کر یں گے- ورنہ اظہار حق کی غرض سے ان کی ردّ لکھیں گے- اگر آپ ایسا کرتے تو بے شک منصفوں کے نزدیک مصنف ٹھہرتے اور صاف باطن کہلاتے- لیکن خدا نہ کرے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں انصاف ہو جو خدا کے ساتھ بھی بے انصافی کرتے ہوئے نہیں ڈرتے- اور بعض نے اس کو خالق ہونے سے ہی جواب دے رکھا ہے- اور بعض ایک کے تین بنائے بیٹھے ہیں- اور کسی نے اس کو ناصرہ میں لا ڈالا ہے اور کوئی اس کو اجو دھیا کی طرف کھینچ لا یا ہے-
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں- افاطون بن جاویں- بیکن اور اوتالہ دھاریں- ارسطو کی نظر اور فکر لا دیں- اپنے مصنوعی خدائوں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں- پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہ باطلہ - اور جب تک اس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کا انعام کے سامنے اسلام کی تکذیب کرنا یا ہنود کے مندروں میں بیٹھ کر ایک دید کو ایشر کرت اور ست ودّیا اور باقی سب پیغمبروں کو مفتری بیان کرنا صفت حیا اور شرم سے دور سمجھیں-
یارو خودی سے باز بھی آئو گے یا نہیں
خود اپنی پاک و صاف بنائو گے یا نہیں
باطل سے میل دل کی ہٹائو گے یا نہیں
حق کی طرف رجوع بھی لائو گے یا نہیں
کب تک رہو گے ضدّ و تعصب میں ڈوبتے
آخرقدم بصدق اُٹھائو گے یا نہیں
سچ سچ کہوں اگر نہ بنا تم سے کچھ جواب
پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھائو گے یا نہیں
اشتہار ضروری
کتاب براہین احمدی کی قیمت جو بالفعل دس روپیہ قرار پائی ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے درجہ تخفیف اور رعایت ہے کہ جن کو بشرط وسعت اور طاقت مالی کے اعانت دین متعین میں کسی نوع کا دریغ نہیں- لیکن جو صاحب کسی اور مذہب یا ملت کے پابند ہو کر اس کتاب کو خریدنا چاہیں تو چونکہ اعانت کی ان سے کچھ توقع نہیں لہذا اس سے وہ پوری پوری قیمت لی جائے گی جو حصہ اول کے اعلان میں شایع ہو چکی ہے -
المشتہر
مو لف براہین احمدیہ
اشتہار ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد دوم ۱۸۸۰ء مطوبہ سفیر ہند پریس لاہور
(14)
یا اللہ
مسلمانوں کی حالت اور اسلام کی غربت اور نیز بعض ضروری امور سے اطلاع
آج کل غربت اسلام کی علامتیں اور دین متین محمدی پر مصبتیں ایسی ظاہر ہو رہی ہیں کجہ جہاں تک زمانہ بعث حضرت بنوی کے بعد ہم دیکھتے ہیں کسی قرن میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی- اس سے زیادہ تر اور کیا میصبت ہو گی کہ مسلماں لوگ دینی غمخواری میں بغایت درجہ سست اور مخالف لوگ اپنے اعتقا دوں کی تردیج اور اشاعت میں چاروں طرف سے کمر بستہ اور چست نظر آتے ہیںجس سے دن بدن ارتد اور بد عقیدگی کا دروازہ کھلتا جاتا ہے اور لوگ فوج در فوج مرتد ہو کر ناپاک عقائد اختیار کر تے جاتے ہیں- کسی قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے مخالف جن کے عقائد فادہ بد یہی البطان ہیں دن رات اپنے اپنے دین کی حمایت میں سرگرم ہیں - بحدیکہ یورپ و امریکہ میں عیسائی دین کے پھیلانے کے لئے بیوہ عورتیں بھی چندہ دیتی ہیں اور اکثر لوگ مرتے ہوئے وصیت کر جاتے ہیں کہ قدر ترکہ ہماری خالص مسیحی مذہب کے رواج دینے میں خرچ ہو- مگر مسلمانوں کا حال کیا کہیں- کہ ان کی غفلت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ نہ وہ آپ دین کی کچھ غمخواری کر تے ہیں اور نہ کسی غمخوار کو نیک نگاہ سے دیکھتے ہیں- خیال کرنا چاہیے کہ غمخواری دینی کا کیسا موقعہ تھا اور خدمت گذاری کا کیا ضروری محل تھا کہ کتاب براہین احمدیہ کی جس میں تین سو مضبوط دلیل سے حقیقت اسلام ثابت کی گئی ہے اور ہر ایک مخالف کے عقائد باطلہ کا ایسا استیصال کیا گیا ہے کہ گویا اس مذہب کو ذبح کیا گیا کہ پھر زندہ نہیں ہوگا- اس کتاب کے بارے میں بجز چند عالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دو حصے اور کچھ تیسرا حصہ چھپ گیا ہے- جو کچھ اور لوگوں نے اعانت کی وہ ایس ہے کہ بجائے تصریح کے صرف اسی پر قناعت کریںانّا ﷲ و انّا الیہ راجعون تو مناسب ہے ایھا تشتاوالا خوان المومنون- مالکم لا تتو جھون شوقنا کم فلم تشتا تقا و نبھنا کم فلم تتلبھو اسمعو عبادﷲ اسمعوا انصروا! توجروا- وفی انصار تبعثو و فی الدین ترحموا و فی مقعد صدق تقعدوا رحمنا اﷲ و ایا کم - ھو مو لا نعم المو لیٰ و نعم النصیرط
اور اگرکوئی اب بھی متوجہ نہ ہو تو خیر- ہم بھی ارحم الراحمین کہتے ہیں اور اس کے پاک وعدے ہم غریبوں کو تسلّی بخش ہیں اور اس جگہ یہ امر بھی واجب الاطلاع ہے کہ پہلے یہ کتاب صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جز تک بڑھا دی گئی اور دس روپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپیہ دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئی- مگر اب یہ کتاب بوجہ احاطہ جمیع ضروریات تحقیق و تدقیق اور اتمام حجت کے تین سو جزو تک پہنچ گئی ہے جس کے مصدف پر نظر کر کے یہ واجب معلوم ہوتاتھا کہ آئیندہ قیمت کتاب سو روپیہ مقرر سابقہ کہ گویا کچھ نہیں ایک دوامی قیمت قرار پاوے اور لوگوں کو ان کے حوصلہ سے زیادہ تکلیف د ے کر پریشان خاطر نہ کیا جائے - لیکن خریداروں کو یہ استحقاق نہیں ہو گا کہ جو بطور حق واجب کے اس قدر اجزاء کا مطالبہ کریں بلکہ جو اجزاء زائد از حق واجب ان کو پہنچیں گی وہ محض اللہ فی اللہ ہوں گی اور ان کا ثواب ان لوگوں کو پہنچے گا جو خالصاً للّٰلہ اس کام کے انجام کے لئے مدد کریں گے- اور واضح رہے کہ اب یہ کام صرف ان لوگوں کی ہمت سے انجام نہیں ہو سکتا کہ جو مجرد خریدار ہونے کی وجہ سے ایک عارضی جوش رکھتے ہیں- بلکہ اس وقت کئی ایک ایسے حال ہمتوں کی توجہات کی حاجت ہے کہ جن کے دلوں میں ایمانی غیوری کے باعث سے حقیقی اور واقعی جوش ہے اور جن کا بے بہا ایمان صرف خرید و فروخت کے تنگ ظرف میں سما نہیں سکتا بلکہ اپنے مالوں کے عوض میں بہشت جادوانی خریدنا چاہتے ہیں - و ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
بالآ خر ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرے ہیں کہ خداوند کریم تو اپنے خالص بندوں کو اس طرف کامل توجہ بخش- اے رحمن و رحیم تو ان کو یاد دلا- اے قادر توانا- تو ان کے دلوں میں آپ الہام کر- آمین ثم آمین - و نتوکل علیٰ ربّ السموات والاض ربّ العالمین -
المشتہر
خاکسار غلام احمد عفی عنہ
اشتہار ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد سوم ۱۸۸۲ء مطبوعہ سفیر ہند پریس امرتسر
(۱۵)
گزارش ضروری
چونکہ کتاب ان تین سو جز تک بڑھ گئی ہے لہذا اُن خریداروں کی خدمت میں جنہوں نے اب تک کچھ قیمت نہیں بھیجی- التماس ہے کہ اگر کچھ نہیں تو صرف اتنی مہربانی کریں کہ بقیہ قیمت بلا توقف بھیجدیں- کیونکہ جس حالت میں اب اسلی قیمت کتاب کی سو روپیہ ہے اور اس کے عوض دس یا پچیس روپیہ قیمت قرار پائی - پس اگر یہ ناچیز قیمت بھی مسلمان لوگ بطور پیشگی ادا نہ کریں تو پھر گویا وہ کام کے انجام سے آپ مانع ہوں گے- اور اس قدر ہم نے برعایت ظاہر لکھا ہے - ورنہ اگر کوئی مدد نہیں کرے گا یا کم توجہی سے پیش آئے گا- حقیقت میں وہ آپ ہی ایک سعادت عظمیٰ سے محروم رہے گا- اور خدا کے کام رُک نہیں سکتے اور نہ کبھی رُکے جن باتوں کو قادر مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں- والسّلا م علیٰ من اتبع الھدی
خاکسار مرزا غلام احمد
اشتہار مندرجہ ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد سوم ۱۸۸۲ء مطبوعہ سفیر پریس امرتسر
(۱۶)
عرض ضروری بحالت مجبوری
انسان کی کمزوریاںجو ہمیشہ اس کی فطرت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیشہ اس کو تمدن اور تعاون کا محتاج رکھتی ہیں- اور یہ حاجت تمدین اور تعاون کی ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس میں کسی عاقل کا کلام نہیں خود ہمارے وجود کی ہی ترکیب ایسی ہے کہ جو تعاون کی ضرورت پر اول ثبوت ہے ہمارے ہاتھ پائوں اور کان نام اور آنکھ و غیرہ اعضاء اور ہماری سب اندرونی و بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں کہ جب تک وہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں- تب تک افعال ہمارے وجود کے علیٰ مجری الصحت ہر گز جاری نہیں ہو سکتے اور انسانیت کی کل ہی معطل پڑی رہتی ہے - جو کام وہ ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہیے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہو سکتا اور جس راہ کو دوپائوں مل کر طے کرتے ہیں وفقط ایک ہی پائوں سے طے نہیں ہو سکتا اور جس راہ کو دو پائوں سے طے نہیں ہو سکتا- اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے ہرگز نہیں- کوئی کام دینی ہو یا دینوی بغیر معاونت باہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہو سکے- بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علّت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے- وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پزیر ہی نہیں ہو سکتے- اور صرف ایک شخص ان کا متحمل ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا- انبیاء علیم السلام جو توکل اور تفویض اوت تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں- ان کو بھی یہ رعایت اسباب ظاہری من انصاری الی اللہ کہنا پڑا- خدا نے اپنے قانون تشریحی میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تعاونوا علے البّرو التقویٰ کا حکم فرمایا-
مگر افسوس جو مسلمانوں میں سے بہتوں نے اس اصول متبرک کو فراموش کر دیا ہے اور ایسی اصل عظیم کو کہ جس پر ترقی اور اقبال دین کا سالا مدار تھا بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسری قومیں کہ جن کی الہامی کتابوں میں اس بارے میں کچھ تاکید بھی نہیں تھی وہ اپنی دلی تدبیر سے اپنے دین کی اشاعت کے شوق سے مضمون تعاونُوا پر عمل کرتی جاتی ہیں - اور خیالات مذہبی ان کے بباعث قومی تعاون کے روز بروز زیادہ زیادہ پھیلتے چلے جاتے ہیں- آجکل عیسائیوں کی قوم کو ہی دیکھو جو اپنے دین کے پھیلانے میں کس قدر دلی جوش رکھتے ہیں اور کیا کچھ محنت اور جانفشانی کر رہے ہیں- لا کہا روپیہ بلکہ کڑور ہا ان کی صرف تالیفات جدیدہ کے چھپوانے اور شایع کرنے کی غرض سے جمع رہتا ہے - ایک متوسط دولت مند یا امریکہ کا اشاعت تعلیم انجیل کے لئے اس قدر روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کر دیتا ہے جو اہل اسلام کے اعلیٰ سے اعلیٰ دولت مند من حیث المجوع بھی اس کی برابری نہیں کر سکتے- یوں تو مسلمانوں کا اس ملک ہندوستان میں ایک بڑا گروہ ہے اور بعض متمول اور صاحب توفیق بھی ہیں مگر امور خیر کی بجا آوری میں باسشناء ایک جماعت قلیل امراء وزراء اور عہدوں کے) اکثر لوگ نہایت درجہ کے پست ہمت اور منقبض الخاطر اور تنگ دل ہیں کہ جن کے خیالات محض نفسانی خواہشوں میں محدود ہیں اور جن کے دماغ استغناء کے مواد رویہ سے متعفن ہو رہے ہیں- یہ لوگ دین اور ضروریات دین کو تو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے- ہاں ننگ و نام کے موقعہ پر سارا گھر بار لٹانے کو بھی حاضر ہیں- خالصاً دین کے لئے عالی ہمت مسلمان ( جیسے ایک سیدنا و محذو مناحضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہاور وزیر اعظم پٹیالہ) اس قدر تھوڑے ہیں کہ جب کو انگلیوں پر بھی بے شمار کرنے کی حاجت نہیں - ماسوا اس کے بعض لوگ اگر کچھ تھوڑا بہت دین کے معاملہ میں خرچ کرتے ہیں تو ایک رسم کے پیرا یہ میں نہ واقعی ضروریات کے انجام دینے کی نیت سے جیسے ایک کو مسجد بنواتے دیکھ کر دوسرا بھی جو اس کا حریف ہے خواہ مخواہ اس کے مقابلہ پر مسجد بنواتا ہے اور خواہ واقعی ضرورت ہو یا نہ ہو- مگر ہزار ہا روپیہ خرچ کر ڈالتا ہے کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا- جو اس زمانہ میں سب سے مقدم اشاعت علم دین ہے اور نہیں سمجھتے کہ اگر لوگ دیندار ہی نہیں رہیں گے- تو پھر ان مسجدوں میں کون نماز پڑہیگا-صرف پتھروں کے مضبوط اور بلند میناروں سے دین کی مضبوطی اور بلندی چاہتے ہیں- اور فقط سنگ مرمر کے خوبصورتی کو قرآن پیش کرتا ہے اور جو اصلہاثابت و فرعھانی السماء کا مصداق ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اس شجرہ طیبہ کے ظل ظیل دکھلانے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور یہود کی طرح صرف ظہواہر پرست بن رہے ہیں نہ دینی فرائض کو اپنے محل پہ ادا کرتے ہیںاور نہ ادا کرنا جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کچھ پرواہ رکھتے ہیں-
اگرچہ یہ بات قابل تسلیم ہے جو ہر سال ہماری قوم کے ہاتھ سے بے شمار روپیہ بنام نہاد خیرات و صدقات کے نکل جاتا ہے - مگر افسوس جو اکثر لوگ ان میں سے نہیں جانتے کہ حقیقی نیکی کیا چیز ہے اور بذل اموال میں صلح اور انسب طریقوں کو مدنظر نہیں رکھتے - اور آنکھ بند کر کے بے موقعہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں- اور پھر جب سارا شوق دلی اسی بے موقعہ خرچ کرنے میں تمام ہو جاتا ہے تو موقعہ پر آ کر اصلی فرض ادا کرنے سے بالکل قاصر رہ جاتے ہیں اور اپنے پہلے اسراف اور افراط کا تدارک بطور تقریط اور ترک ماوجب کے کرنا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کی سیرت ہے کہ جن میں روح کی سچائی سے قوت فیاضی اور نفح رسانی کی جوش نہیں مارتی- بلکہ صرف اپنی ہی طمع خاص سے مثلاًبوڑھے ہو کر پیرانہ سالی کے وقت میں آخرت کی تن آسانی کا ایک حیلہ سوچ کر مسجد بنوانے اور بہشت میں بنا بنایا گھر لینے کا لالچ پید اہو جاتا ہے اور حقیقی نیکی پر ان کی ہمدردی کا یہ حال ہے کہ اگر کشتی دین کی ان کی نظر کے سامنے ساری کی ساری ڈوب جائے یا تمام دین ایک دفعہ ہی تباہ ہو جائے- تب بھی ان کے دل کو ذرہ لرزا نہیں آتا اور دین کے رہنے یا جانے کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے- اگر درد ہے تو دنیا کا اگر فکر ہے کو دنیا کا- اگر عشق ہے تو دنیا کا- اگر سودا ہے تو دنیا کا اور پھر دنیا بھی جیسا کہ دوسری قوموں کو حاصل ہے حاصل نہیں- ہر ایک شخص جو قوم کی اصلاح کے لئے کوشش کر رہا ہے- وہ ان لوگوں کی لا پروائی سے نالاں اور گریاں ہی نظر آتا ہے ہر اک طرف سے یا حسر تا علی القوم کی ہی آواز آتی ہے اوروں کی کیا کہیں ہم آپ ہی سناتے ہیں-
ہم نے صد ہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر براہین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقت اسلان کونی الحقیقت آفتا ب سے بھی زیادہ روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم مؤمنین کے دل و جان متوجہ ہوجائیں گے مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لا دیں- اﷲ المتعان واﷲ خیروابقی -
بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت سے ہم کو سخت تفکر و تردد میں ڈال دیا ہے- ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا- اس میں قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑ ے بڑے امیروںاور دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امراء حالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر کتاب جو ایک ادنیٰ رقم ہے بطور پیشگی بھیجدیں گے- اور ان کو اس طور کی اعانت سے دینی کام باآسانی پورا ہو جائے گا- اور ہزار ہا بندگان ِ خدا کو فائدہ پہنچے گا- اسی امید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا- مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب طرف سے خاموشی رہی- نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں- مصارف ڈاک تو سب ضایع ہو ئے- لیکن اگر خدا نخواستہ کتابیں بھی واپس نہ آئیں تو سخت دقت پیش آئے گی- اور بڑا نقصان اُٹھانا پڑے گا-
افسوس جو ہم کو معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی- اگر یہی حمایت اسلام ہے تو کار دین تمام ہے- ہم بکمال عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیجدیں- ہم اسی کو عطیہ عظیمہ سمجھیں گے اور احسال عظیم خیال کریں گے- ورنہ ہمارا بڑا حرج ہوگا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا کیونکہ یہ پرچہ اخبار نہیں کہ جس کے ضایع ہونے میں کچھ مضائقہ نہ ہو - ہر ایک حصہ کتاب کا ایسا ضروری ہے کہ جس کے تلف ہونے سے ساری کتاب ناقص رہ جاتی ہے برائے خدا ہمارے معزز اخوان سرد مہری اور لا پرواہی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغا کو دین میں استعمال نہ کریں اور ہماری اس مشکل کو سوچ لیں کہ اگر ہمارے پاس اجزاء کتاب کے ہی نہیں ہوں گے تو ہم خریداروں کو کیا دیں گے- اور ان سے پیشگی روپیہ کہ جس کا چھپنا کتاب کا موقوف ہے کیونکر لیں گے- کام ابتر پڑ جائے گا- اور دین کے امر میں سب کا مشترک ہے ناحق کی دقت پیش آ جائے گی-
امید وار بود آدمی نجیر کسان
مرا نجیر تو امید نیست بد مرساں
ایک اور بڑی تکلیف ہے جو بعض نافہم لوگوں کی زبان سے ہم کو پہنچ رہی ہے اور وہ یہ ہے جو بعض صاحب کہ جن کی رائے بباعث کم توجہی کے دینی معاملات میں صحیح نہیں ہے- وہ اس حقیقت حال پر اطلاع پا کر جو کتاب براہین احمدیہ کی طیاری پر نو ہزار روپیہ خرچ آتا ہے بجائے اس کو جو غم خواری سے کسی نوع کی اعانت کی طرف متوجہ ہوتے جو زیر باریاں بوجہ کمی قیمت کتاب و کثرت مصارف طبع کے عائد حال ہیں ا کے جبر نقصان کے لئے کچھ لِلّٰہ فی اللہ ہمت دکھلاتے منافقانہ باتیں کرنے سے ہمارے کام میں خلل انداز ہو رہے ہیں اور لوگوں کو یہ وعظ سناتے ہیں جو کیا پہلی کتابیں کچھ تھوڑی ہیں جو اب اس کی حاجت ہے- اگرچہ ہم کو لوگوں کے اعتراضوں پر کچھ نظر اور خیال نہیں- اور ہم جانتے ہیں جو دنیا پرستو کی ہر ایک بات میں کوئی خاص غرض ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ اسی طرح شرعی فرائض کو اپنے سر پر سے ٹالتے رہتے ہیں کہ تا کسی دینی کاروائی کی ضرورت کو تسلیم کر کے کوئی ہاتھ سے نہ چھوڑنی پڑے- لیکن چونکہ وہ ہماری اس جہد بلیغ کی تحقیر کر کے لوگوں کو اس کے فوائد عظیمہ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں- اور با و صفیکہ ہم نے پہلے حصہ کے پرچہ منصفہ میں وجوہ ضرورت کتاب موصوف بیان کر دی تھیں- پھر بھی بقضائے فطرتی خاصیت اپنی کے نیش زنی کر رہے ہیں- ناچار اس اندیشہ سے کہ مبادا کوئی شخص ان کی واہیات باتو سے دھوکا نہ کھاوے- پھر کھول کر بیان کیا جاتا ہے- کہ کتاب براہین احمدیہ بغیر اشد ضرورت کے نہیں لکھی گئی- جس کا مقصد اور مطلب کے انجام دینے کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کتا ہے اور اگر وہ مقصد کسی پہلی کتاب سے حاصل ہو سکتا تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے اور اسی کی اشاعت کے لئے بدل و جال مصروف ہو جاتے اور کچھ ضرور نہ تھا جو ہم سالہا سال اپنی جان کو محنت شدید میں ڈال کر اور اپنی عمر عزیز کا ایک حسہ خرچ کر کے پھر آخر کار ایسا کام کرتے جو محض تحصیل حاصل تھا لیکن جہاں تک ہم نے نظر کی ہم کو کوئی ایسی کتاب نہ ملی جو جامع ان تمام دلائل اور براہین کی ہوتی کہ جن کو ہم نے اس کتاب میں جمع کیا ہے اور جن کا شائع کرنا بغرض اثبات حقیقت دین اسلام کے اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے تو ناچار واجب دیکھ کر ہم نے یہ تالیف کی اگر کسی کو ہمارے اس بیان مین شعبہ ہو تو ایسی کتاب کہیں نکال کر ہم دکھاوے تا ہم بھی جانیں- ورنہ بیہودہ بکواس کرنا اور ناحق بندگان خدا کو ایک چشمئہ فیض روکنا بڑا عیب ہے مگر یاد رہے جو اس مقولہ سے کسی نوع کی خود ستائی ہمارا مطلب نہیں جو تحقیقات ہم نے کی اور پہلے عالیشان فضلانے نہ کی- یا جو دلائل ہم نے لکھیں اور انہوں نے نہ لکھیں - یہ ایک ایسا امر ہے جو زمانے کے حالات سے متعلق ہے- نہ ہماری ناچیز حیثیت بڑھتی ہے اور نہ ان کی بلند شان میں کچھ فرق آتا ہے- انہوں نے ایسا زمانہ پایا نہ جس میں خیالات فاسدہ کم پھیلیاور صرف غفلت کے طور پر باپ دادوں کی تقلیہ کا بازار گرم تھا- سو اُن بزرگوں نے اپنی تالیفات میں روش اختیار کی جو اُن کے زمانے کی اصلاح کے لئے کافی تھی- ہم نے ایسا زمانہ پایا کہ جس میں بباعث زور خیالات فاسدہ کے وہ پہلی روش کافی نہ رہی- بلکہ ایک پر زور تحقیقات کی حاجت پڑی جو اس وقت کی شدت فساد کی پوری پوری اصلاح کرے- یہ بات یاد رکھنی چاہیے جو کیوں از منہ مختلفہ مین تالیفات جد یدہ کی حاجت پڑتی ہے- اس کا باعث یہی ہے جو ہم نے اوپور بیان کیا- یعنی کسی زمانہ میں مفاسد کم اور کسی میں زیادہ ہو جاتے ہیں- اور کسی وقت کسی رنگ میں اور کسی وقت کسی رنگ میں پھیلتے ہیں-اب مؤلف کسی کتاب کا جوان خیالات کو مٹانا چاہتا ہے اس کو ضرور ہوتاہے جو وہ طبیب حاذق کی طرح مزاج اور طبیعت اور مقدار فساد اور قسم فساد پر نظر کر کے اپنی تدبیر ٍکو علیٰ قدر ما ینبغی و علیٰ نحو ما ینبغی عمل میں لا دے اور جس قدر یا جس نوع کا بگاڑ ہو گیا ہے اسی طور پر اس کی اصلاح کا بندوبست کرے اور وہی طریق اختیار کرے کہ جس سے احسن اور سہل طور پر اس مرض کا ازالہ ہوتا ہو- کیونکہ اگر کسی تالیف میں مخالفین کے مناسب حال تدارک نہ کیا جائے تو وہ تالیف نہایت نکمی اور غیر مفید اور بے سود ہوتی ہے- اور ایسی تالیف کے بیانات میں یہ زور ہر گز نہیں ہوتا -
جو منکر کی طبیعت کے پورے گہرائو تک غوطہ لگا کر اس کے دلی خلجان کوبکلی متاصل کرے پس ہمارے معترضین اگر ذرا غور کر کے سوچیں گے تو ان پر یقین کامل واضح ہوجائے کہ جن انواع و اقسام کے مفاسد نے آجل دامن پھیلا رکھا ہے- ان کی صورت پہلے فسادوں کی صورت سے بالکل مختلف ہے وہ زمانہ جو کچھ پہلے گزر گیا ہے وہ جاہلانہ تقیلد کا زمانہ تھا اور نہ زمانہ کہ جس کی ہم زیارت کر رہے ہیں یہ عقل کی بد استیالی کا زمانہ ہے - پہلے اس سے اکثر لوگوں کو نامعقول تقلید نے خراب کر رکھا تھا- اور اب فکر اور نظر کی غلطی نے بہتوں کی مٹی پلید کر دی ہے- یہی وجہ ہے کہ جن دلائل عمیقہ اور براہین قاطعہ لکھنے کی ہمیں ضرورتیں پیش آئیں- وہ ان نیک اور بزرگ عالموں کو جنہوں نے صرف جاہلانہ تقلید کا غلبہ دیکھ کر کتابیں لکھی تھیں- پیش نہیں آئی تھیں ہمارے زمانہ کی نئی روشنی ( کہ خاک بر فرق ایںروشنی) نو آموزوں کی روحانی قوتوں کو افسردہ کر رہی ہے- ان کے دلوں میں بجائے خدا کی تعظیم سما گئی ہے اور بجائے خدا کی ہدایت آپ ہی ہاوی بن بیٹھے ہیں- اگرچہ آجکل تقریباً تما م نو آموزوں کا قدرتی میلان و جوہات عقیہ کی طرف ہو گیا ہے- لیکن افسوس کہ یہی میلان بباعث عقل نا تمام اور علم خام کی بجائے رھبر ہونے کے رھزن ہوتا جاتا ہے- اور مختلف رایوں اور گونا گوں خیالات کے شایع ہونے کے باعث سے کم فہم لوگوں کے لئے بڑی بری دقتیں پیش آگئی ہیں- سو فسطائی تقریروں نے نو آموزوں کے طبائع میں طرح طرح کی پیچیدگیاں کر دی ہیں- جو امور نہایت معقولیت میں تھے وہ ان کی آنکھوں سے چھپ گئے ہیں- جو باتیں بغایت درجہ نا معقول ہیں ان کو وہ اعلیٰ دجہ کی صداقتیں سمجھ رہے ہیں- وہ حرکات جو نشاء انسانیت سے مغائر ہیں ان کو وہ تہذیب خیال کئے بیٹھے ہیں- اور جو حقیقی تہذیب ہے اس کو وہ نظر استخفاف و استحقار سے دیکھتے ہیں - پس ایسے وقت میںاور ان لگون کے علاج کے لئے جو اپنے ہی گھر میں محقق بن بیـٹھے ہیں اورا پنے ہی منہ سے میاں مٹھو کہلاتے ہیں- ہم نے کتاب براہین احمدیہ کو جو تین سو براہین قطعیہ وعقلیہ پر مشتمل ہے بغرض اثبات حقانیت قرآن شریف جس سے یہ لوگ بکمال نکوت منہ پھیر رہے ہیں تالیف کیا ہے-کیونکہ یہ بات اجلی بد یہات ہے جو سرگشتہ عقل کو عقل ہی سے تسلی ہو سکتی ہے- اور جو عقل کا رہزوہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آ سکتا ہے-
اب ہر ایک مومن کے لئے خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس کتاب کے ذریعہ سے تین سو دلائل عقلی حقیقت قرآن شریف پر شائع ہو گئیں- اور تمام مخالفین کے شبہات کو دفع اور دور کای جائے گا- وہ کتاب کیا کچھ بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچائے گی اور کیسا فروغ اور جاہ و جلال اسلام کا اس کی اشاعت سے چمکے گا- ایسے ضروری امر کی اعانت سے وہی لوگ لاپرواہ رہتے ہیں جو حالت موجودہ زمانے پر نظر نہیں ڈالتے اور مفاسد منتشرہ کو نہیں دیکھتے اور عواقب امور کو نہیں سوچتے یا وہ لوگ کہ جن کو دین سے کچھ غرض نہیں اور خدا اور رسول سے کچھ محبت ہی نہیں-
اے عزیزو!اس پُر آشوب زمانہ مین دین اسی سے برپارہ سکتا ہے جو بمقابلہ زور طوفان گمراہی کے دین سچائی کا زور بھی دکھایا جائے اور ان بیرونی حملوں کی جو چاروں طرف سے ہورہے ہیں- حقانیت کی قوی طاقت سے مدافعت کی جائے- یہ سخت تاریکی جو چہرہ زمانہ پر چھا گئی ہے - یہ تب ہی دور ہو گی کہ جب دین کی حقیقت کے براہین دنیا میں بکثرت چمکیں- اور اس کی صداقت کی شعاعیں چاروں طرف سے چھوٹتی نظر آویں- اس پر اگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمیعت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق عمیق کے اصل ماہیت کے بارک وقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو- اور اس حقیقت کے اصل قرار گاہ تک پہنچاتی ہو کہ جس کے جاننے پر دلوں کی تشفی موقوف ہے-
اے بزرگو!!اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ جو شخص بغیر اعلیٰ درجہ کے عقلی ثبوتوں کے اپنے دین کی خیر منانی چاہے- تو یہ خیال محال اور طمع خام ہے- تم آپ ہی نظر اُٹھا کر دیکھو- جو کیسی طبیعتیں خود آرائی اختیار کرتی جاتی ہیں- اور کیسے خیالات بگڑتے جاتے ہیں- اس زمانہ کی ترقی علوم عقلیہ نے بھی الٹا اثر پیدا کیا ہے- حال کے تعلیم یافتہ لوگوں کے طبائع میں ایک عجب طرح کی آزاد منشی بڑھتی جاتی ہے- اور وہ سعادت جو سادگی اور غربت اور صفاباطنی میں ہے وہ ان کے مغررور دلوں سے بالکل جاتی رہی ہے- اور جن جن خیالات کو وہ سیکھتے ہیں- وہ اکثر ایسے ہیں کہ جن سے ایک لا مذہبی کے وساوس پیدا کرنے والا ان کے دلوں پر اثر پڑتا جاتا ہے اور اکثرلوگ قبل اس کے جوان کو کوئی مرتبہ تحقیق کامل کا حاصل ہو صرف جہل مرکب کے غلبہ سے فلسفی طبیعت کے آدمی بنتے جاتے ہیں- اوراپنی اولاد اور اپنی قوم اور اپنے ہموطنوں پر رحم کرو- اور قبل اس کے جووہ باطل کی طرف کھینچے جائیں ان کو حق اور راستی کی طرح کھینچ لاؤسب ادیان بے حقیقت محض ہیں دنیا میں خدا کا قانون قدت یہی ہے جوکوشش اور سعی اکثر حصول مطلب کا ذریعہ ہو جاتی ہے- اور جو شخص ہاتھ پائوں توڑ کر اور غافل ہو کر بیٹھ جاتا ہے وہ اکثر محروم اور بے نصیب رہتا ہے- سو آپ لوگ اگر دین اسلام کی حقیقت کے پھیلانے کے لئے جو فی الواقع حق ہے کوشش کریں گے تو خدا اس کی سعی کو ضایع نہیں کرے گا- خدا نے ہم کو صد ہا براہین قاطعہ حقیقت اسلام پر عنایت کیں اور ہمارے مخالفین کو ان میں سے ایک بھی نصیب نہیں- اور خدا نے ہم کو حق محض عطا فرمایا اور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور جو راستبازوں کے دلوں میں جلال احدّیت کے ظاہر کرنے کے لئے سچا جوش ہوتا ہے- اس کی ہمارے مخالفوں کو بو بھی نہیں پہنچی- لیکن تب بھی دن رات کی کوشش ایک ایسی موثر چیز ہے کہ باطل پرست لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور چوروں کی طرھ کہیں نہ کہیں ان کی نقب بھی لگتی ہے- دیکھو - عیسائیوں کا دین کہ جس کا اصول ہی اول الدون دُرد ہے- پادریوں کی ہمیشہ کوششوں سے کیسا ترقی پر ہے اور کیسے ہر سسال ان کی طرف سے فخریہ تحریریں چھپتی رہتی ہیں کہ اس برس چار ہزار عیسائی ہوا- اور اس سال 8ہزار پر خداوند مسیح کا فضل ہو گیا- ابھی کلکتہ میں جو پادری ھیکر صاحب نے اندازہ کرسٹان شدہ آدمیوں کا بیان کیا ہے- اس سے نہایت قابل افسوس خبر ظاہر ہوتی ہے- پادری صاحب فرماتے ہیں-ل جو پچاس سال پہلے ہندوستان میںکرسٹان شدہ لوگون کی تعداد صرف ستائیس ہذار تھی اس پچاس سال مین یہ کاروائی ہوئی جو ستائیس ہزار سے پانچ لاکھرتک شمار عیسائیوں گا پہنچ گیا ہے- انا ﷲ و انا الیہ راجعون ! اے بزرگو! اس سے زیادہ تر اور کونسا وقت انتشار گمراہی کا ہے کہ جس کے آنے کی آپ کوگ راہ دیکھتے ہیں ایک وہ زمانہ تھا جو دین اسلام ید خلون فی دین اللہ افواجا کا مصداق تھا- اور اب زمانہ !! کیا آپ لوگوں کا دل اس مصیبت کو سنکر نہیں جلتا؟ کیا اس وباء عظیم کو دیکھ کر آپ کی ہمدردی جوش نہیں مارتی؟ اے صاحبان عقل و فراست اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جو فساد دین کی بے خبری سے پھیلا ہے- اس کی اصلاح اشاعت علم دین پر ہی موقوف ہے- سو اسی مطلب کو پورا کرنے کے لئے میں نے کتاب براہین احمدیہ کو تالیف کیا ہے- اور اس کتاب میں ایسی دھوم دھام سے حقانیت اسلام کا ثبوت دکھلایا ہے کہ جس سے ہمیشہ کے مجادلات کا خاتمہ فتح عظیم کے ساتھ ہو جائے گا- اس کتاب کی اعانت طبع کے لئے جس قدر ہم نے لکھا ہے وہ محض مسلمان کی ہمدردی سے لکھا ہے کیونکہ ایسی کتاب کے مصارف جو ہزار ہا روپیہ کا معاملہ ہے اور جس کی قیمت ہی بہ نیت عام فائدہ مسلمانوں کے نصف سے بھی کم کر دی گئی ہے یعنی ۲۵ روپے میں سے صرف دس روپیہ رکھے گئے ہیں- وہ کیونکر بغیر اعانت عالی ہمت مسلمانوں انجام پذیر ہو-
بعض صاحبوں کی سمجھ پر رونا آتا ہے جو درخواست اعانت کے یہ جواب دیتے ہیںکہ ہم کتاب کو بعد تیاری کے خرید لیں گے پہلے نہیں- ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں- اور مؤلف کر بُجرتائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں - اعانت کا وقت تو یہی ہے کہ جب طبع کتاب میں مشکلات پیش آ رہی ہیں- ورنہ چھپ چکنے کے اعانت کرنا ! ایسا ہے کہ جیسے بعد تندرستی کے دوا دینا - پس ایسی لا حاصل اعانت سے کس ثاب کی توقع ہو گی- خدا نے لوگوں کے دلوں سے دینی محبت کیسی مٹا دی- جو اپنے ننگ و ناموں کے کامو ں میں ہزار ہا روپیہ آنکھ بند کر کے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں- لیکن دینی کاموں کے بارے میں جو اس حیات فانی کا مقصد اصلی ہیں لنبے لنبے تاطوں میں پڑ جاتے ہیں- زبان سے تو کہتے ہیں جو ہم خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں پر حقیقت میں ان کو نہ خدا پر ایمان ہے نہ آخرت پر - اگر ساعت اپنے بذل اموال کی کیفیت پر نظر کریں جو خدا داد نعمتوں کو اپنے نفس امارہ کے فربہ کرنے کے لئے ایک برس میں کس قدر خرچ کر دیتے ہیں اور پھر سوچیں جو خلق اللہ کی بھلائی اور بہبودی کیلئے ساری عمر میں خالصاًللہ کتنے کام کئے ہیں- تو اپنے خیانت پیشہ ہونے پر آپ ہی رودیں- پر ان باتوں کو کون سوچے اور وہ پردے جو دل پر ہیں کیونکر دور ہوں- و من یضلل اللہ فمالہ‘ من ھادو - ان لوگوں کی پست ہمتی اور دنیا پرستی پر خیال کر کے بعض ہمارے معزز دوستوں نے جو دین کی محبت میں مثل عاشقِ زار پائے جاتے ہیں، بقضائے بشریت کے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ جس صورت میں لوگوں کا یہ حال ہے تو اتنی بڑی کتاب تالیف کرنا کہ کس کی چھپوائی پر ہزار ہا روپیہ خرچ آتاہے بے موقعہ تھا سو اب کی خدمت والا میں یہ عرض ہے کہ اگر ان صوہا و قایق اور حقایق کو نہ لکھتے کہ جو درحقیقت کتاب کے حجم بڑھ جانے کا موجب ہیں تو پھر خود کتاب کی تالیف ہی غیر مفید ہوئی- رہا یہ فکر کہ اس قدر روپیہ کیونکر میّسر آئے گا- سو اس سے تو ہمارے دوست ہم کو مت ڈراویں اور یقین کر کے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور اپنے مولا کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسہ ہے جو ممسک اور خسیں لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسا ہوتا ہے کہ ج کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے - سو وہی قادر توانا اپنے دین اور اپنی وحدانیت اور اپنے بندہ کی حمایت کے لئے مدد کرے گا- الم تعلم ان اللہ علیٰ کل شی قدیر
پنا ہم آں تو انا ئیست ہر آن زبخل نا توانا نم مترسان
(اشتہار مندرجہ کتاب براہین احمدیہ جلد دوم صفحہ ا تا ق 1980ء )
مطبوعہ سفیر ہند پریس امرتسر)
(17)
مسلمانوں کی نازک حالت
اور
انگریزی گورنمنٹ
ترسم کہ بکعبہ چوں ردی اے اعرابی
کیں راہ کہ تومے روی بتر کستان لست
آج کل ہمارے دینی بھائیوں مسلمانوں نے دینی فرائض کے ادا کرنے اور اخوت اسلامی کے بجالانے اور ہمدردی قومی کے پورا کرنے میں اس قدر سستی اور لا پروائی اور غفلت کر رکھی ہے- کہ کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی - بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان مٰن ہمدردی قومی اور دینی کا مادہ ہی نہیں رہا- اندرونی فسادوں اور عنادوں اوراختلافوں نے قریب قریب ہلاکت کے اُن کو پہنچا دیا ہے- اور افراط تفریط کے بیجا حرکات نے اصل مقصود ے ان کو بہت دور ڈال دیا ہے جس نفسانی طرز سے ان کی باہمی خصوصیتیں برپا ہو رہی ہیں- اس سے نہ ـصرف یہی اندیشہ ہے کہ ان کا بے اصل کینہ دن بدن ترقی کرتا جائے گا- اور کیڑوں کی طرح بعض کو بعض کھائیںگے- اور اپنے ہاتھ سے اپنے استیصال کے موجب ہوں گے- بلکہ یہ بھی یقینا خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی دن ایسا ہی ان کا حال رہا تو ان کے ہاتھ سخت ضرو؎ر اسلام کو پہنچے گا- اور ان کے ذریعہ سے بیرونی مفسد مخالف بہت سا موقعہ نکتہ چینی اور فساد انگریزی کا پائیں گے- آج کل کے بعض علماء پر ایک یہ بھی افسوس ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر اعتراض کرنے میں بڑی عجلت کرتے ہیں- اور قبل اس کے جو اپنے پاس علم صحیح قطعی موجود ہو- اپنے بھائی پر حملہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں- اور کیونکر تیار نہ ہوں - بباعث غلبہ نفسانیت یہ بھی تو مدنظر ہوتا ہے کہ کسی طرح ایک مسلمان کو کہ جو مقابل پر نظر آ رہا ہے ، نابود کای جائے- اور اس کو شکست اور ذلّت اور رسوائی پہنچے اور ہماری فتح اور فضیلت ثابت ہو- یہی وجہ ہے کہ بات بات میں ان کو فضول جھگڑے کرنے پڑتے ہیں- خدا نے یکلخت اُن سے عجز اور فروتنی ظن اور محبت برادرانہ کو اُٹھا لیا- انّا اللہ و انّا الیہ راجعون-
تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ بعض صاحبوں نے مسلمانوں میں سے اس مضمون کی بابت کہ جو حصہ سوم کے ساتھ گورنمنٹ انگریزی کے شکر کے بارے میں شامل ہے اعتراض کیا اور بعض نے سخت اور درشت لفظ بھی لکھے کہ انگریزی عملداری کو دوسری عملداریوںپر کیوں ترجیع دی- لیکن ظاہر ہے کہ جس سلطنت کو اپنی شائستگی اور حسنِ انتظام کی رُو سے ترجیع ہو- اس کو کیونکر چھپا سکتے ہیں- خوبی بااعتبار اپنی ذاتی کیفیت کے خوبی ہی ہے گو وہ گورنمنٹ میں پائی جائے الحکمۃ ضالۃ المومن الخہ اور یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کر اس کا احسان اٹھاوے- اس کی ظل حمایت میں بامن و آسایش رہ کر اپنا رزق مقسوم کھاوے - اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے- پھر اسی پر عقراب کی طرح نیش چلاوے اور اس کے سلوک اور مروت کا ایک ذرہ شکر بجا لاوے- بلکہ ہم کو ہمارے خدا وند کریم نے اپنے رسول مقبول کے ذریعے یہی تعلیم دی ہے کہ ہم نیکی کا معاوضہ بہت زیادہ نیکی کے ساتھ کریں اور منعم کا شکر بجا لادیں اور جب کبھی ہم کو موقعہ ملے تو ایسی گورنمنٹ سے صدق کمال ہمدردی سے پیش آویں اور بہ طیب خاطر معروف اور واجب طورپر اطاعت کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف و احایث نبوی کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا ہے- سو ہمارے نا سمجھ بھائیوں کی یہ افراط ہے جس کو وہ اپنی کو تاہ اندیشی اور بخل فطرتی سے اسلام کا جزسمجھ بیٹھے ہیں-
اے جفاکیش نہ عذراست طریق عشاق
ہر زہ بدنام کنی چند نکو نامے را
اور جیسا کہ ہم نے ابھی اپنے بھائیوں کی افراط کا ذکر کیا ہے ایسا ہی بعض ان میں تفریط کی مرض میں بھی مبتلا ہیں اور دین سے کچھ غرض واسطہ ان کا نہیں رہا بلکہ ان کے خیالات کا تمام زور دنیا کی طرف لگ رہا ہے- مگر افسوس کہ دنیا بھی ان کو نہیں ملتی- خسر الدنیا و العاقبۃ بن رہے ہیں- اور کیونکر ملے- دین تو ہاتھ سے گیا اور دنیا کمانے کے لیے جو لیاقتیں ہونی چاہیں وہ حاصل نہیں کیں- صرف شیخ چلی کی طرح دنیا کے خیالات دل میں بھرے ہیں- اور جس لکیر پر چلنے سے دنیا ملتی ہے اس پر قدم نہ رکھا اور اس کے مناسب حال اپنے تیئں نہ بنایا- سو اب ان کا یہ حال ہے کہ نہ ادھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے- انگریز جو انہیں نیم وحشی کہتے ہیں- یہ بھی ان کا احسان ہی سمجھئے ونہ اکثر مسلمان وحشیوں سے بھی بدتر نظر آتے ہیں- نہ عقل رہی نہ ہمت رہی- نہ غیرت رہی نہ محبت رہی- فی الحقیقت یہ سچ ہے کہ جس قدر ان کے ہمسائیوں آریوں کی نظر میں ایک ادنیٰ حیوان گائے کی عزت اور توقیر ہے- ان کے دلوں میں اپنی قوم اوراپنے بھائیوں اور اپنے سچے دین کی مہمات کی اس قدر بھی عزت نہیں-کیونکہ ہم ہمیشہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اولوالعزم قوم آریہ گائے کی عزت قائم رکھنے کے لئے اس قدر کوششیں کر کے لکھو ہا روپیہ جمع کر لیتے ہیں کہ مسلمان لوگ اللہ اور رسول کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس کا ہزار م حصہ بھی جمع نہیں کر سکتے- بلکہ جہاں کہیں اعانت دینے کا ذکر آیا تو وہیں عورتوںکی طرح منہ چھپالیتے ہیں اور آریہ قوم کی اولوالعزمی غور کرنے سے اور بھی زیادہ ثابت ہوتی ہے- کیونکہ گائے کی جان بچانے کی لئے کوشش کرنا حقیقت میں ان کے مذہب کی رُو سے ایک ادنیٰ کام ہے کہ جو مذہبی کتب سے ثابت نہیں بلکہ ان محقق پنڈتوں کو خوب معلوم ہے کہ کسی دید میں گائے کا حرام ہونا نہیں پایا جاتا-
بلکہ رگوید کے پہلے حصہ سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ دید کے زمانے میں گائے کا گوشت عام طور پر بازاروں میں بکتا تھا - اور آریہ لوگ بخوشی اس کو کھاتے تھے- اور حال میں جو ایک بڑے محقق یعنی آنریبل مونٹ اسٹورٹ الفنسٹن صاحب بہادر سابق گورنر بمبئی نے واقعات آریہ قوم میں ہنددئوں کی متند پستکوں کی رو سے ایک کتاب بنائی ہے جس کام نام تاریخ ہندوستان ہے - اس کے صفحہ نواسی میں منو کے مجموعہ کی نسبت صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس میں بڑے بڑے تیوہاروں میں بیل کے گوشت کھانے کے لئے برہمنوں کو تاکید کی گئی ہے- یعنی اگر نہ کھایں گے گہنگار ہوں - اور ایسے ہی ایک اور کتاب انہیں دنوں میں ایک پنڈت صاحب نے بمقام کلکتہ چھپوائی ہے جس میں لکھا ہے کہ دید کے زمانے میں گائے کا کھانا ہندئوں کے لیے دینی فرائض میں سے تھا- اور بڑے بڑے اور عمدہ عمدہ ٹکرے برہمنوں کو کھانے کے لئے ملتے تھے اور علیٰ بذالقیاس مہا بھارت کے پرب تیرھویں میں صاف تصریح ہے کہ گوشت گائے کا نہ صرف حلال اور طیب بلکہ اس کا پانے پتروں کے لیے برہمنوں کا کھلانا تمام جانوروںمیں سے اولیٰ اور بہتر ہے اور اس کے کھلانے سے پتردس تک سیر رہتے ہیں- غرض دید کے تمام رشیوں اور منوجی اور بیاس جی نے گوشت گائے کا استعمال کرنا فرائض دینی میں داخل کتا ہے اور موجب ثواب سمجھا ہے - اور اس جگہ ہمارا بیان بعض کی نظر میں ناقص رہ جاتا- اگر ہم پنڈت دیانند صاحب کو کہ جو ۲۰ اکتوبر 1883 ء میں اس جہاں کو چھوڑ گئے ، رائے متفقہ بالا سے باہر رکھ لیتے سو غور سے دیکھنا چاہیے کہ پنڈت صاحب موصوف نے بھی کسی گائے کا حرام اور پلید ہونا نہیں لکھا اور نہ وید کی رو سے اس کی حرمت اور ممانت ذبح کو ثابت کیا- بلکہ نظر ارزانی دودھ اور گھی کے اس رواج کی بنیاد بیان کی- اور بعض ضرورت کے موقعوں میں گائو کشی کو مناسب بھی سمجھا جیسا کہ ان کی ستیارتھ کاش اور دید بھاش سے ظاہر ہے-
اب اس تمام تقریر سے ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ آریہ لوگ اپنے وید مقدس او ر اپنے بزرگ رشیوں اور بیاس جی اور منوجی کے قابل تعظیم فرمان اور اپنے محقق اور فاضل پنڈتوں کے قول سے کیوں خلاف ورزی ار انحراف کرتے ہیں لکہ اس جگہ صرف یہ غرض ہے کہ آریہ قوم کیسی اولوالعزم اور باہمت اور اتفاق کرنے والی قوم ہے کہ ایک ادنیٰ بات پر بھی کہ جس کی مذہب کے رو سے کچھ بھی اصلیت نہیں پائی جاتی وہ اتفاق کر لیتے ہیں- اور ہزار ہا روپیہ چندہ ہاتھوں ہاتھ جمع ہوجاتا ہے-جس قوم کا ناکارہ خیالات پر یہ اتفاق اور جوش ہے ، اس قوم کی عالی ہمتی اور دلی جوش کا مہمات عظیمہ پر خود اندازہ کر لینا چاہیے- پست ہمت مسلمانوں کو لازم ہے کہ جیتے ہی مر جائیں - اگر محبت خدا ور رسول کی نہیں تو اسلام کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں- کیا خباثت کے کاموں میں نفس امارہ کی پیروی میں اور ناک کے بڑھانے کی نیت سے بے اندازہ مال ضائع کرنا اور اللہ رسول کی محبت میں اور ہمدردی کی راہ میں ایک دانہ ہاتھ سے نہ چھوڑنا یہی اسلام ہے؟ نہیں- یہ ہر گز اسلام نہیں- یہ ایک باطنی جذام ہے یہی ادبار ہے کہ مسلمانوں پر عاید ہر رہا ہے - اکثر مسلمان امیروں نے مذہب کو ایک ایسی چیز سمجھ رکھا ہیح کہ جس کی ہمدردی غریبوں پ رہی لازم ہے اور دولتمند اس سے مستثنیٰ ہیں- جنہیں اس بوجھ کو ہاتھ لگانا بھی منع ہیح- اس عاجز کو اس تجربہ کا اسی کتاب کے چھپنے کے اثناء میں خوب موقعہ ملا- حالانکہ بخوبی مشتہر کیا تیا تھا کہ اب بباعث بڑھ جانے ضخامت کے اصل قیمت کتاب کی سو روپیہ ہی مناسب ہے کہ زعی مقدرت لوگ اس کی رعایت رکھیں- کیونکہ غریبوں کو یہ صرف دس روپیہ میں دی جاتی ہے- سو جبر نقصان کا واجباب سے ہے- مگر بجز آٹھ آدمی کے سب غیروں میں داخل ہو گئے - خوب جبر کیا - ہم نے جب کیس منی آرڈر کی تفتیش کی کہ یہ پانچ روپیہ بوجہ قیمت کیح کس کے آئے ہیں- یا یہ دس روپیہ کتاب کے مول کس نے بھیجے ہیں- تو اکثر یہی معلوم ہوا کہ فلاں نواب صاحب نے یا فلاں رئیس اعظم- ہاں!نواب اقبال ادولہ صاحب حیدر آباد نے اور ایک اور رئیس نے ضلع بلند شہر سے جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے کہ ایک نسخہ کی قیمت میں سو سو روپیہ بھیجا ہے- اور ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے ایک سو دس اور نواب صاحب کوٹلہ مالیر نے تین نسخہ کی قیمت میں سو روپیہ بھیجا - اور سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جو ایک ہندورئیس ہیں- اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت بھیجے ہیں- سرادر صاحب موصوف نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی- یخیل اور ممسک مسلمانوں کو جو بڑے بڑے ہندو تھبوں اور ناموں سے بلائے جاتے ہیں اور قارون کی طرح بہت سا روپیہ دبائے بیٹھے ہیں- اس جگہ اپنی حالت کو سردار صاحب کے مقابلہ پر دیکھ لینا چاہیے- جس حالت میں آریوں میں ایسے لوگ بھی پائے گئے ہیں کہ جو دوسری قوم کی بھی ہمدردی کرتے ہیں- اور مسلمانوں مین ایسے لوگ بھی کم ہیں جو اپنی ہی قوم سے ہمدردی کر سکیں تو پھر کہو کہ اس قوم کی ترقی ہو-، ان اللہ لا یغیر مابقر محتی یغیرو اما بانفسھم دینی ہمدردی پھر مسلمانوں کے ہرایک قوم کے امراء میںپائی جاتی ہے- ہاں اسلامی امیروں میں لوگ بہت ہی کم پائے جائیں گے کہ جن کو اپنے سچے دین کا ایک ذرہ خیال ہو- کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ خاکسار نے ایک ٭نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اورقال المہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے لکھا تھا- سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ افسوس نہ تھا مگر صاحب موصوف نے پہلے تو نہ لکھا کہ پندرہ بیس کتاب ضرور خریدیں گے- اور پھر دوبارہ یا دوہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد خلاف منشائے گورنمنٹ انگریزی ہے- ا س لئے اس ریاست سے خرد و غیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں- سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے - بلکہ امید گاہ اخداوند کریم ہی ہے درد وہی کافی ہے (خداکرے گورنمنٹ نواب صاحب پر بہت راضی رہے) لیکن ہم بادب تمام عرض کرتے ہیں کہ ایسے ایسے خیالات مین گورنمنٹ کی ہجو ملیح ہے - گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے سے روکے یا دینی کتابوں کی اعانت کرنے سے منع کرے- ہاں اگر کوئی مضمون مخل امن یا مخالف انتظام سلطنت ہو تو اس میں گورنمنٹ مداخلت کرے گی- ورنہ اپنے اپنے مذہب کی ترقی کے لئے وسائل جائزہ کو استعمال میں لانا ہر ایک قوم کو گورنمنٹ کو طرف سے اجازت ہے- پھر جس قوم کا مذہب حقیقت میں سچا ہے اور نہایت کامل اور مضبوط دلائل سے اس کی حقیقت ثابت ہے وہ قومک اگر نیک نیتی اور تواضع اور فروتنی سے خلق اللہ کو نفح پہنچانے کے لئے اپنے وسائل حصہ شائع کرے تو عادل گورنمنٹ کیوں اس پر ناراض ہوگی- ہمارے اسلامی امراء کو اس بات سے بہت کم خبر ہے کہ گورنمنٹ کی عادلانہ مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ دلی انشراح سے آزادی کو قائم رکھے- اور خود ہم نے بچشم خود ایسے لائق اور نیک فطرت انگریز کئی دیکھے ہیں- کہ جو مداہنہ اور منافقانہ سیرت کو پسند نہیں کرتے اور تقویٰ اور خدا کی ترسی اور یک رنگی کو اچھا سمجھتے ہیں- اور حقیقت میں تمام برکتیں یک رنگی اور خدا ترسی میں ہی ہیں- جن کا عکس کبھی نہ کبھی خویش اور بیگانہ پر پڑجاتا ہے- اور جس پر خدا راضی ہے آخر اس پر خلق اللہ بھی راضی ہو جاتی ہے- غرض نیک نیتی اور صالحانہ قدم سے دینی اور قومی ہمدردی میں مشغول ہونا اور فی الحقیقت دنیا اور دین میں دلی جوش سے خلق اللہ کا خیر خواہ بننا ایک ایسی نیک صفت ہے کہ اس قسم کے کئی لوگ کسی گورنمنٹ میں پائے جانا اس گورنمنٹ کا فخر ہے- اور اس زمین پر آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں جس میں ایسے لوگ پائے جائیں- لیکن سخت بد نصیب وہ گورنمنٹ ہے جس کی ماتحت سب منافق ہی ہوں کہ جو گھر میں کچھ اور روبرو کچھ کہیں- سو یقینا سمجھنا چاہیے کہ لوگوں کا یکرنگی میں ترقی کرے جانا اور گورنمنٹ کو ایک محسن دوست سمجھ کر بے تکلف اس کے ساتھ پیش آنا - یہی خوش قسمتی گورنمنٹ انگریزی کی ہے- اور یہی وجہ ہیکہ ہماری مربیّ حکام نہ صرف قول سے آزادی کا سبق ہم کو دیتے ہیں بلکہ دینی امور میں خود آزادانہ افعال بجالا کر اپنی فعلی نصیحت سیح ہم کو آزادی پر قائم کرنا چاہتے ہیں- اور بطور نظیر کے یہی کافی ہے کہ شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے- کہ جب ہمرے ملک کے نواب لفٹنٹ گورنر پنجاب سرجارلس ہیچسین صاحب بہادر بٹالہ ضلع گورداسپور میں تشریف لائے تو انہوں نے گرجا گھر کی بنیاد رکھنے کے وقت نہایت سادگی اور بے تکلفی سے عیسائی مذہب سے اپنی ہمدردی ظاہر کر کے فرمایا کہ مجھ کو امید تھی کہ چند روز میں یہ ملک دینداری اور راستبازی میں بخوبی ترقی پائیگا- لیکن تجربہ اور مشاہدے سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی کم ترقی ہوئی (یعنے ابھی لوگ بکثرت عیسائی نہیں ہوئے اور پاک گردہ کرسچنوں کا ہنوز قلیل المقدار ہے) تو بھی ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے - کیونکہ پادری صاحبان کا کام بے فائدہ نہیں اور ان کی محنت پر گز ضائع نہیں ہو گی- بلکہ خمیر کے موافق دلوں میں اثر کرتی ہے- اور باطن میں بہت سے لوگوں کے دل تیار ہوتے جاتے ہیں مثلاً ایک مہینے سے کم گذرا ہو گا ایک معزز رئیس میرے پاس آیا اور مجھ سے ایک گھنٹہ تک دینی گفتگو کی - معلوم ہوتا تھا- کہ اس کا دل کچھ تیاری چاہتا ہے- اس نے کہا کہ میں نے دینی کتابیں بہت دیکھیں لیکن میرے گناہوں کا بوجھ ٹلانہیں - اور میں خوب جانتا ہوں کہ نیک کام نہیں کر سکتا - مجھے بہت بے چینی ہے- میں نے جواب میں اپنی ٹوٹی پھوٹی اُردو زبان مین اس کو اس لہوبابت سمجھایا جو سارے گناہوں سے پاک و صاف کرتا ہے اور اس راستبازی کی بابت سمجھایا کہ جو اعمال سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ مفت ملتی ہے- اس نے کہا کہ میں نے سنسکرت میں انجیل دیکھی ہے اور ایک دو دفعہ یسوع مسیح سے دعا مانگی ہے اور اب میں خوب انجیل کو دیکھوں گا اور زور زور سے عیسیٰ مسیح سے دعا مانگوں گا (یعنی مجھ کو آپ کے وعظ سے بڑی تاثیر ہوئی اور عیسائی مذہب کی کامل رغبت پیداہو گئی) اب دیکھنا چاہیے کہ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے کس محنت سے ہندو رئیس کو اپنے مذہب کی طرف مائل کیا- اور اگرچہ ایسے ایسے رئیس اپنے مطلب نکالنے کے لئے حکام کے روبرو ایسی ایسی منافقانہ باتیں کیا کرتے ہیں- حکام ان پر خوش ہو جائیں اور ان کو اپنا دینی بھائی بھی خیال کر لیں- لیکن اس تقریر سے مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ صاحب موصوف کی اس گفتگو سے گورنمنٹ انگریزی کی آزادی کو سمجھ لینا چاہیے- کیونکہ جب خود نواب لفٹنٹ گورنر بہادر اپنے خوش عقیدہ کا ہندوستان میںپھیلانا بدلی رغبت چاہتے ہیں- بلکہ اس کے لیے کبھی کبھی موقعہ پا کر تحریک بھی کرتے ہیں- تو پھر وہ دوسروں پر اپنے اپنے دین کی ہمدردی کرنے میں کیوں ناراض ہوں گے- اور حقیقت میں یہ کرنے سے ہمدردی بجا لانا ایک نیک صفت ہے جس پر نفاق کی سیرت کی قربان کرنا چاہیے- اسی یک رنگی کے جوش سے بمبئی سابق گورنر سر رچرڈ ٹیمپل صاحب نے مسلمانوں کی بابت ایک مضمون لکھا ہے- چنانچہ وہ ولایت کے ایک اخبار’’ ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ نامی میں چھپ کر اردو اخباروں میں بھی شایع ہوگیاہے- صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ افسو س ہے کہ مسلمان لوگ عیسائی نہیں ہوتے- اور وجہ یہ ہے کہ ان کا مذہب ان نا ممکن باتوں سے لبریز نہیں میں ہندو مذہب ڈوبا ہوا ہے- ہندو مذہب اور بدھ مذہب کے قائل کرنے کے لئے ممکن ہے کہ ہنسی ہنسی میں عام دلائل سے قائل کر کے ان کو مذہب سے گرایا جائے - لیکن اسلامی مذہب عقل کا مقابلہ بخوبی کرتا ہے اور دلائل سے نہیںٹوٹ سکتا ہے- عیسائی لوگ آسانی سے دوسرے مذہبوں کے نا ممکنات ظاہر کر کے ان کے پیروئوں کو مذہب سے ہٹا سکتے ہیں- مگر محمدیوں کے ساتھ ایسا کرنا ان کے لیے ٹیڑھی لکیر ہے- سو یہ یک رنگی مسلمان امیروں میں نہیں پائی جاتی- چاہیے کہ وہ اس مضمون پر غور کریں۔
خاکسار غلام احمد
(اشتہار مندرجہ براہین احمدیہ جلد چہارم ۱۸۸۴ء صفحہ الف تا د)
مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
(۱۸)
ہم اور ہماری کِتاب
ابتدا میں یہ کتاب تالیف کی گئی تھی، اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی- پھر بعد اس کے قدرت الہٰیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی- یعنی یہ عاجز بھی حضرت اب عمران کی طرح اپنے خیالات کی سبِ شریک میں سفر کر رہا تھا- ایک دفعہ پر دہ غیب سے اِنّی اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جب تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی- سو اب اس کتاب کا متوفی اور مہتم ظاہر روباطنا حضرت رب العاملین ہے وہ کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اُنے جلد چہارم تک انوار حقیقت اسلام کے ظاہر کئے ہیں- یہ بھی اتمام حجت کے لئے کام ہیں- اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلی دور نہ کرے- اپنی تائیدات غیبہ سے مدد گار رہے گا- اگرچہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں- لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حیّ و قیوم کو جو فنا اور موت پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دینِ اسلام کی نصرت میں ہے- اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ و علیہ و سلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی پر نہیں ہوا- اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے - خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا اُنہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہر ایک وقیقہ کوشش کے بجا لانے میں زور لگایا خداوند کریم ایسا ہی ان پر فضل کرے- بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید و فروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے- اور بعض کے سینوں کو خدا کے کھول دیا - اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قایم کر دیا ہے- لیکن موخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اوّل اوّل ضعفاإ اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں- اگر حضرت احدیث کا رادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لے کھول دے گا-
وَاﷲُ عَلیٰ کُلِّّ شَي قَدِیر
اشتہار ٹائیٹل پیج صفحہ آخری براہین احمدیہ جلد چہارم ۱۸۸۴ء
مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
(۱۹)
اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس ٭ مطبوعہ خط جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤسارو مقتدائوں کے نام خاکسار نے روانہ کئے تھے- جس کے جواب میںپہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھا کہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور زرموعودہ اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو- وغیرہ وغیرہ- ا س کے جواب میں خاکسار نے رقیمہ ذیل دو ہزار چار سو روپیہ نقد ایک جماعت اہل اسلام کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں روانہ لاہور کیا- جب وہ منشی صاحب کے مکان موعود پر پہنچی تو منشی صاحب کو نہ پایا- وہاں سے اون کو معلوم ہوا کہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں- باوجویکہ اس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریری لکھا تھا- یہ امر نہایت تعجب اور تردد کا موجب ہوا- لہذایہ قرار پایا کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہارکیا جاوے اور اس کی کاپی منشی صاحب کے نام حسب نشان مکان ٭ موجودہ بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے- وہ یہ ہے-
مشفقی اندر من صاحب!
میرے اس خط کا جواب نہیں دیا - ایک نئی بات لکھی ہے جس کی تعمیل مجھ پر اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے- میرے طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آئوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا- جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو - آپ اس کے جواب میں اذل تو مجھے اپنے پاس (نابھہ میں پھر لاہورمیں) بلاتے اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں- تو مباحثہ کے لئے وہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے- اس پر طرفہ یہ ہے کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا مین نے پہلے وعدہ نہیں دیا - اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک تفاوت رکھتا ہے-
بہ بیس تفاوت راہ کجاست تابہ کجا
لہذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کے رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں- اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سو روپیہ دوں گا- اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر اصرارہو تو مجھے اس سے بھی دریغ و عذر نہیں- بلکہ آپ کے اطمینان کے لئے سردست چوبیس سو روپیہ نقد ہمراہ قیمہ ہذا ارسال خدمت ہے - مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زاہد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس زائد کے مقابلہ میں کچھ شرط ایسی کروں جب کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے-
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زر موعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل اور آسان نہیں-
(۲) اگر مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دونوں امر سے ایک ضرور ہے
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتداء جانتے ہوں یا آپ کے حامی و مُربی ہیں اپنا عجز ا ور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں اور وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں- پھر اس پر اپنے دستخط کریں-
(ب) دوصورت تخلف وعدہ جانب ثانی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی او آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کے حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہ وہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے( ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قابو ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے- اور اگر آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے - صرف مباحثہ کے لئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر کے لئے میری خصوصیت نہیں- خدا تعالیٰ کے فضل سے اس امت محمدیہ میں علماء اور فضلاء اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو طیار ہیں- مین جس امرمیں مامور ہو چکا ہوں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں- یہ مباحثہ کی صورت عمدہ ہے- اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے اور بجائے چوبیس سو کے دس ہزار روپیہ
20مئی 1885ء
(مطبوعہ صدیقی پریس لاہور)
(منقول از اخبار الحکم جلد 5نمبر 34مورخہ 17ستمبر 1901ء صفحہ 13کالم 2 )
(۲۰)
اعلان
مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ کے اشتہار مورخہ 30مئی 1885ے مطبوعہ صدیقی پریس لاہور کے جواب میں منشی اندر من مراد آبادی نے ایک اشتہار مطبوعہ مفید عام پریس لاہور مشتہر کیاتھا- جس کے جواب میں مرزا صاحب نے نامہ ذیل تحریر فرما کر بذریعہ رجسٹری منشی اندر من کے نام ارسال فرمایا ہے کہ اس کو ہم پبلک سے انصاف چاہنے کی امید پر مشتہر کرتے ہیں-
(الراقم فقیر عبد للہ سنوری )
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
مشفقی اندر من صاحب!
بعد ماوجب آپ برا نہ مانیں آپ کے اشتہار کے پڑھنے سے عجب طرح کی کارستانی آپ کی معلوم ہوئی- آپ اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ پہلے انہوں نے ( یعنی اس عاجز نے) مجھ سے بحث کرنے کا وعدہ کیا جب میں ایس نیت سے مشقت سفراٹھا کر لاہور آیا- تو پھر میری نظرطرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے اور مجھ کو ناحق تکلیف دی- اب دیکھئے کہ آپ اپنی عہد شکنی اور کنارہ کشی کے چھپانے کے لئے کسی قدر حق پوشی اختیار کی اور بات کواپنی اصلیت سے بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا- آپ خود ہی انصاف فرما ویں کہ جس حالت میں آپ ہی سے یہ بے جا حرکت وقو ع میں آئی کہ آپ نے اوّل لاہور پہنچ کر اس خاکسار کی طرف اس مضمون کا ٭خط لکھا کہ میں آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے ایک سال تک قادیان میں ٹھہرنا منظور کرتا ہوں مگر اس شرط سے پہلے چوبیس سو روپیہ نقد میرے بنک سرکاری میں جمع کرایا جائے- اور اب میں لاہور میں مقیم ہوں- اور سات دن تک اس خط کے جواب کا انتظار کروں گا- پھر جب حسب تحریر آپ کے اندر میعاد سات دن کے دہ روپیہ لاہور میں آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ میعاد کے گذرنے سے پہلے ہی فرید کوٹ کی طرف تشریف لے گئے- تو اب وعدہ خلافی اور کنارہ کشی اور عہد شکنی اور رو پوشی آپ سے ظہور میں آئی یا مجھ سے - اور جبکہ میں نے بمجرو طلب کرنے آپ کے اس قدر رقم کثیر جو چوبیس سو روپیہ ہے - بنک سرکاری میں جمع کرانے کے لئے پیش کر دی- یا بحالت مغلوب ہونے میرے کے وہ سب روپیہ آپ فرما نویں کہ آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس حالت میں آپ کو رجسٹری شدہ خط بھیجا گیا تھا اور لکھا گیا تھا کہاگر آپ ایک سال تک قادیان میں ٹھریں تو ضرور خداوند کریم اثبات حقیقت اسلام میں کوئی آسمانی نشان آپ کو دکھائے گا اور اگر اس عرصہ تک کوئی نشان ظاہر نہ ہو تو چوبیس سو روپیہ نقد بطور جرمانہ یا حرجانہ آپ کو دیا جائے گا- اور اگر عرصہ مذکورہ میں کوئی نشان دیکھ لیں تو اسی جگہ قادیان میں مسلمان ہو جائیں- چنانچہ ہم نے آپ کی تسلّی کے لئے چوبیس سو روپیہ نقد بھی بھیج دیا- اور جو ہم پر فرض تھا اس کو پورا کر دکھایا- تو آپ نے ہماری اس حجت کے اُٹھانے کے لئے جو آپ پر واد ہو چکی تھی کیا کوشش کی- اگر ہم آپ کے خیال میں جھوٹے تھے- تو کیوں آپ نے ہمارے مقابلہ سے منہ پھیر لیا- آپ پر واجب تھ کہ قادیان میں ایک سال تک رہ کر اس خاکسار کا جھوٹ ثابت کرتے کونکہ اس میںآپ کا کچھ خرچ نہ تھا- آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد ملتا تھا- مگر آپ نے اس طرف تو رخ بھی نہ کیا-اور یوں ہی لاف ( گراف کے طور پر اپنے اشتہار میں لکھ دیا کہ جو آسمانی نشانوں کا دعوے ہے یہ بے اصل محض ہے - منشی صاحب آپ انصافاً فرما دیں کہ آپ کو ایسی تحریر سے کیا فائدہ ہوا- کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ ہم درحقیقت اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں آپ نے یہ خیال نہ کیا کہ ایک شخص کو اپنی تائید دعوے میں اس قدر اپنا صدق دکھلا رہا ہے کہ کوئی اس کی آزمایش دعوے سے تو کنارہ کش مگر یوں ہی اپنے منہ سے کہے جاتے ہیں کہ یہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے- یہ کس قدر دور دراز انصاف و ایمانداری ہے- آپ نے کچھ سوچا ہوتا کہ منصف لوگ آپ کو کیا کہیں گے-
رہا یہ الزام آپ کا کہ گویا اول ہم نے اپنے خط میں بحث کو منظور کیا اور پھر دوسرے خط میں نا منظوری ظاہر کی- یہ بات بھی سرا سر آپ ہی کا ایجاد ہے- اس عاجز کے بیان میں جس کو آہ نے کھینچ تان کر کچھ کا کچھ بیان بنا لیا ہے- کسی نوع کا اختلاف یا تناقض نہیں کیونکہ میں نے اپنے آخری خط میں جو مطبع صدیقی میں چھپا ہے جس کا حوالہ دیتے ہیں- کسی ایسی بحث سے ہر گز انکار نہیں کیا- جس کی نسبت اپنے پہلے خط میں رضا مندی ظاہر کی تھی- بلکہ اس ظاہر خط مین صرف یہ لکھا ہے کہ اگر آپ آسمانی نشانوں کے مشاہدہ کے لیے نہیں بلکہ صرف مباحثہ کے لئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں- مجرو بحثوں کے لئے اور علماء و فضلا بہت ہیں تو اس تقریر سے انکار کہاں سمجھا جاتا ہے- اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارا اصل کام اسلامی انوار و برکات کا دکھلانا ہے اور ایسے مطلب کے لئے رجسڑی شدہ خط بھیجے گئے تھے- سو یہ ہمیں ہر گز منظور نہیں کہ اس اصل کام کو ملتوی اور موقوف کر کے اپنی خدمات دینی کو صرف مباحثات و مناظرات تک محدود رکھیں- ہاں جو شخص اسلامی آیات کا دیکھنا منظور کر کے ساتھ اس کے عقلی طور پر اپنے شبہات اور وساوس کو دور کرانا چاہیے تو اس قسم کی بحث تو ہمیں بدل و جان منظور ہے بشرطیکہ تہذیب اور شائشتگی سے تحریری طور پر بحث ہو- جس میں عجلت اور شتاب کاری اور نفسانیت اور ہار جیت کے خیال کا کچھ دخل نہ ہو-بلکہ ایک شخص طالب صادق بن کر محض جوئی راست بازی کی وضح پر اپنی عقدہ کشائی چاہے اور دوستانہ طور پر ایک سال تک آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے ٹھیر کر ساتھ اس کے نہایت معقولیت سے سلسلہ بحث کا بھی جاری رکھے- لیکن افسوس کہ آپ کی تحریر سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ ایسے مہذبانہ بحث کے بھی خواہاں نہیں کیونکہ آپ نے اپنے آخری خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ بحث کرنے سے پہلے میری حفاظت کے لئے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرنا چاہیے- یا ایسے صدر مقام حکام میں بحث ہونی چاہیے- جس میں سرکاری رُعب اور داب کا خوف ہو- سو آپ کے ان کلمات سے صاف مترشح ہو رہا ہے کہ آپ اس قسم کی بحث کے ہرگز خواہاں نہیں ہیں- جو وہ شریف آدمیوں میں محض اظہار حق کی غرض سے ہو سکتی ہے جس میں نہ کسی کا مچلکہ ( جو ایک معزز آدمی کے لئے موجب ہتک عزت ہے) داخل سرکار کرانے کی حاجت ہے اور نہ ایسے صدرمقام کی ضرورت ہے جس میں عند الفساد جھٹ پٹ سرکاری فوجیں پہنچ سکیں- شاید آپ ایسی بحثوں کے عادی ہوں گے- لیکن کوئی پاک خیال آدمی اس قسم کی بد بو دار بحثوں کو جو عجلت اور سو ظن اور ریا کاری اور نفسانیت سے پر ہیں ہر گز نہیں کرے گا اور اسی اصول پر مجھ کو بھی پسند نہیں- اور اگر آپ عہد شکنی کر کے فرید کوٹ کی طرف نہ بھاگتے تو یہ باتیں آپ کو زبانی بھی سمجھائی جاتیں- ہر ایک منصف اور پاک دل آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جب مباحث میں پہلے ہی ایسے ایسے سنگین تدارکات کی ضرورت ہے- ان میں انجام بخیر ہونے کی کب توقع ہے- سو آپ پر واضح رہے کہ اس عاجز نے نہ کسی اپنے خط میں صرف مجرو بحث کو منظور کیا اور نہ ایسی دور از تہذیب بحث پر رضا مندی ظاہر کی جس میں پہلے ہی مجرموں کی طرح مچلکہ داخل کرنے کے لئے انگریزی عدالتوں میں حاضر ہونا پڑے- اور پھر ہم میں اور آپ میں بیڑوں اور مرغوں کی طرح لڑائی ہونا شروع ہو اور لوگ ارد گرد سے جمع ہو کر اس کا تماشہ دیکھیں اور ایک ساعت یا دو ساعت کے عرصہ میں کسی فریق کے صدق یا کذب کا سب فیصلہ ہو کر دوسرا فریق فتح کا نقارہ بجاوے- نعوذ باﷲ من ذٰلک ایس پر فتنہ اور پر خطر بحثیں جن میں فساد کا اندیشہ زیادہ اور احقاق حق کی امید کیم ہے کب کسی شریف اور نصف مزاج کو پسند آ سکتی ہیں اور ایسی پر عجلت بحثوں سے حق کے طالب کیا نفع اُٹھا سکتے ہیں- اور منصفوں کو رایے ظاہر کرنے کا کیونکر موقعہ مل سکتا ہے - اگر آپ کی نیت بخیر ہوتی تو آپ اس طرز کی بحثوں سے خود گریز کرتے اور ایک سال تک ٹھیر کر معقولیت اور شائشتگی اور تہذیب اور شریفانہ بحث کا سلسلہ تحریری طور پر جاری رکھتے- اور مہذب اور شریف اور ہر ایک قوم کے عالم فاضل جو اکثر س جگہ آتے رہتے ہیں ان پر بھی آپ کی بحثوں کی حقیقت کھلتی رہتی مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہیں کیا- بلکہ قادیان میں آنے کے لئے ( کہ جو آپ کی نظر میں گویا ایک یا غستان ہے) جس میں بزعم آپ کے ہندو بھائی آپ کے بکثرت نہیں رہتے)اوّل یہ شرط لگائی کہ یہ عاجز آپ کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرے- ایسی شرط سے ظاہر ہتا ہے کہ آپ اپنی بحث میں ایسی دور از تہذیب گفتگو کرنا چاہتے ہیں جس کی نسبت آپ کو پہلے ہی خطرہ ہے کہ فریق ثانی کے اشتعال طبع کا ضرور ہو گی- تب ہی آپ یہ فکر پڑی کہ پہلے فریق ثانی کا مچلکہ سرکار میں داخل ہونا چاہیے- تا آپ کو ہر ایک طور کی تحقیر اور توہین کرنے کے لئے وسیع گنجائش رہے- اب قصہ یہ کہ یہ عاجز اس قسم کی بحثوں سے سخت بیزار ہے اور جس طور کی بحث کو یہ عاجز منظور کرتا ہے- وہ وہی ہے جو اس سے اوپر ذکر کی گئی- اگر آپ طالب صادق ہیں تو آپ کو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کوتاہی نہ کریں- آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آ کر ایک سال تک ٹھہریں اور اس عرصہ میں کچھ وسادس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طور پر رافع کراتے جائیں- پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد مل جائے گا- اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی حاصل کریں گے لیکن اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ قادیان میں مشرف با سلام ہونا پڑے گا- اور اس بات کا فیصلہ کہ کون غالب یا کون مغلوب رہا بذریعہ ایسے ثالثوں کے ہو جائے گا- کہ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں - اگر آپ قادیان میں ایک سال تک ٹھیرنے کی نیت سے آویں تو ہم مراد آباد سے قادیان تک کل کرایہ آپ کا آپ کی خدمت میں بھیج دیں گے اور آپ کے لئے چوبیس سو روپیہ کسی بنک سرکاری میں داخل کیا جائے گا- مگر اس شرط سے کہ آپ بھی ہمیں اس بات کی پوری پوری تسلی دے دیں کہ آپ بحالت مغلوبیت ضرور مسلمان ہو جائیں گے- اور اگر اب بھی آپ بپابندی شرائط مذکورہ بالا آنے سے انکار کیا تو کیا خوب یاد رکھیں کہ یہ داغ ایسا نہیں کرے ہے کہ جو پھر کسی حیلہ یا تدبیر سے دھویا جائے - مگر ہمیں امید نہیں کہ آپ آئیں کیونکہ حقانیت اسلام کا آپ کے دل پر بڑا سخت رعب ہے- اور اگر آپ آ گئے تو خدا تعالیٰ آپ کو مغلوب اور رسوا کر دے گا- اور اپنے دین کی مدد اور اپنے بندہ کی سچائی ظاہر کر دے گا-
اخیر پر آپ کو واضح رہے کہ آج یہ رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجاجاتا ہے- اگر بیس دن تک آپ کا کوئی جواب نہ آیا تو آپ کی کنارہ کشی کا حال چند اخباروں میں شایع کرایا جائے گا-
والسّلام علیٰ من اتبع الھدی
الــــــــــــــــــــــــــــــــراقم
خاکسار آپ کا خیر خواہ غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب

(۲۱)
کس شخص کے پاس یہ اشتہار پہنچے اس پر فرض ہے کہ گھر جا کر اپنے کنبے کو عورتوں کو تمام مضمون اور اشتہار کا اچھی طرح سمجھا کر سنا وے- اور ذہن نشین کر دے اور جو عورت خواندہ ہو اس پر بھی لازم ہے کہ ایسا ہی کرے-
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشتہار بغرض تبلیغ و انداز
چونکہ قرآن شریف و احادیث صیحہ بنویہ سے ظاہر و ثابت ہے کہ ہر ایک شخص اپنے کنبہ کی عورتوں وغیرہ کی نسبت جن پر کسی اختیار رکھتا ہے سوال کیا جائے گا کہ آیا بے راہ چلنے کی حالت میں اس نے ان کو سمجھایا- اور براہ راست کی ہدایت کی یا نہیں‘ اس لئے میںنے قیامت کی باز پرس سے ڈر کر مناسب سمجھا کہ ان مستورات و دیگر متعلفین کو جو ہمارے رشتہ دار و اقارب وواسطہ دار ہیں) اں کے بے راہیوں ( بدعتوں پر بذریعہ اشتہار کے انہیں خبر دار کروں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے- گلے کا رہا ہو رہی ہیں- اور اُن بری رسموں اور خلاف شرع کا موں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دینداری کے کاموں سے کرنا چاہیے- ہر چند سمجھایا گیا، کچھ سنتے نہیں- ہر چند ڈرایا گیا - کچھ ڈرتے نہیں اب چونکہ موت کا کچھ اعتبارنہیں اور خدا تعالیٰ کے عذاب کے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں- اس لئے ہمان لوگوں کے برا ماننے اور برا کہنے اور ستانے اور دکھ دینے سے بالکل لا پروا ہو کر محض ہمدردی کی راہ سے حق نصیحت پورا کرنے کے لئے بذریعہ اس اشتہار کے ان سب کو اور دوسری مسلمان بہنوں کو خبر دار کرنا چاہا تاہماری گردن پرکوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے- اور قیامت کو کوئی نہ کہہ سکے نہ ہم کو کسی نے نہیں سمجھایا- اور سیدھا راہ نہیں بتایا- سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے- اور جو کچھ اللہ جلشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اوراس کے رسولؐ نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں- اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں- اور اس کے بر خلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں- لیکن ہمارے گھروں میں جو بد رسمیں پڑ گئیں ہیں اگر چہ وہ بہت ہیں- مگر چند موٹی موٹی رسمیں بیان کی جاتی ہیں- تا نیک بخت عورتیں خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان کو چھوڑ دیں- اور وہ یہ ہیں-
(۱) ماتم کی حالت میں جزع فزع یعنی سیاپا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور طے صبری کے کلمات منہ پر لانا- یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے- اور یہ سب رسمیں ہندوئوں سے لی گئی ہیں- جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوئوں کی رسمیں پکڑ لیں- کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں حکم ہے کہ ا ِ نَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیِْ رَاجِعُوْنَ کہیں یعنی ہم خد اکا مال اور ملک ہیں اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے- اور اگر رنا ہو تو آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے- اور جو اس سے زیادہ ہے وہ شیطان سے ہے-
(۲) دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا- اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیاپا کرنا اور اہم عورتوں کا سر ٹکڑا کر چلّا کر رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا- اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے ہمارے گھر یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے- یہ سب ناپاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں- جن سے پرہیز کرنا چاہیے-
(۳) سوم سیاپا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں- حرا مخور عورتیں، شیطان کی بہنیں جو جو دُور دُورسے سیاپا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکر اور فریب سے مونھ کو ڈھانک کر اور بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں- ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں- اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صد ہا روپیہ کا پلائو اور زردہ پکا کر برادری میں تقسیم کیا جاتا ہے- اس غرض سے کہ تا لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی- اچھا نام پیدا کیا- سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے توبہ کرنا لازم ہے-
(۴) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو- دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے- اور تمام عمر بیوہ یا رانڈوہ رہ کر یہ خیال کرتی ہیں کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں- حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے- ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے- جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے- ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود *** اور شیطان کی چیلیاں ہیں - جن کے ذریعہ شیطان اپنا کام چلاتا ہے- جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے- اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے- اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے-
(۵) یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں- اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں- ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک *** ہیں- ان کا نمازروزہ اور کوئی عمل منظور نہیں - اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لا ئے- اور پسِ پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو- اور پیغمبر خداؐ نے فرمایا ہے کہ عورتوںپر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں- ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں- اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائزہ ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں- اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ *** ہے- خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں- عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال چرا ویں اور نا محرم سے اپنے تیئں بچا ویں- اور یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جب کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں اُن سے پروہ کرنا ضروری ہے- جو عورتیں نا محرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے- عورتوں پر یہ سبھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع اور بد اطوار عورتوں کو اپنے گھر میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں- کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو-
( 6) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لئے کوئی دوسرا نکاح کرناچاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں- ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں- کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس صدہا مصالحہ ہیں- مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں- پھر جو شخص اللہ رسول کے حکم کے مطابق نکاح کرتا ہے تو اس کو برا کیوں کہا جائے- ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں- نہایت مردود شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے ربّ کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں- اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بد ذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے-
(۷) بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں- پس اگر پہلی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے- سو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مدد گار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں سو ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے-
(8) ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کی لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتیٰ الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے- یہ سرا سر تکبر کا طریق ہے جو سر اسر احکا شریعت کے بر خلاف ہے - نبی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں- رشتہ ناطہ مٰن صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے کہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا نہیں جو موجب فتنہ ہو- اور یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں- صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انّ اکرمکم عند اللہ اتقٰکم- یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے-
(9) ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے- سو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخی اوربڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا دونوں باتیں عند الشرح حرام ہیں اور آتشبازی چلوانا اور کنجروں اور ڈوموں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے- ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے- گناہ سر پر چڑھتا ہے- صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کر ے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلادیوے-
(10) ہمارے گھر میں شریعت کی پابندی کی بہت سستی ہے- بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق اور بہت زیور اُن کے پاس ہے- وہ زکوۃ نہیں دیتیں- بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی رکھتی ہیں- بعض شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں- جیسے چیچک کی پوجا- بعض فرضی بیویوں کی پوجا کرتی ہیں- بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھا ویں کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے بعض جمعرات کو چوکی پھرتی ہیں- مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہے- ہم صرف خالص اللہ کے لیے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ آئو خدا تعالیٰ سے ڈرو- ورنہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الہٰی میں مبتلا ہو جائو گے- جس کا انتہاء نہیں-
والسلام علیٰ من تبع الھدیٰ
خاکسار:- مرزا غلام احمد از قادیان
(منقول از لحکم جلد نمبر 6مورخہ 10جولائی 1902ء صفحہ 6کالم 2)



(22)
اشتہار
انعامی دس ہزار روپیہ10000اُن سب لوگوں کے لئے جو مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان دلائل اور براہین احمدیہ حقانیہ میں جو فرقان مجید سے ہم نے لکھی اس میں ثابت کر دکھائیں- یا اگر کتاب الہامی ان کی ان دلائل کے پیش کرنے سے قطعاً عاجز ہو تو اس عاجز ہونے کا اپنی کتاب میں قرار کر کے ہماری دلائل کو نمبر وا ر توڑ دیں-
میں ٭ جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہار اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب ار ملّت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفیٰ ؐ سے منکر ہیں اتماماًللحّجۃ شیائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان سب براہین اور دلائل جو ہم نے درباہ حقیقت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ و علیہ و سلم اسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر ٭کیں- اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کر ے یا بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑے- تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین
بالا اتفاق یہ رائے ظاہر کردیں کہ ایفائے شرط جیسا کہ چاہیے تھا ظہور میں آ گیا - میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے دحیلتے اپنی جائیداد قیمیتی دس ہزار روپیہ پر قبض دخل دے دوں گا- مگر واضح روہے کہ اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصر رہیں یا برطق شرط اشتہار کی خمس تک پیش نہ کر سکیں تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہو گا - جو بوجہ نا کامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور ہے اور اگر دلائل پیش کریں تو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہم نے خمس تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے - اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے جو اس تمام مجموعہ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثلث یا رُبع یا خمس پیش کر دیا جائے بلکہ یہ شرط ہر ایک صنفِ کی دلائل سے متعلق ہے اور صنف کے بر اہین میں نصف یا ثلث یا رُبع یا خمس پیش کرنا ہو گا- شاید کسی صاحب کا فہم اس بات کے سمجھنے سے قاصر رہے جو عبادر مذکوہ میں صنفِ دلائل سے کیامراد ہے- پس بغرض تشریح اس فقرہ کے لکھا جاتا ہے جو دلائل اور براہین فرقان مجید کی جن سے حقیقت اس کلام پاک کی اور صدق رسالت آنحضرت صلی اللہ و علیہ و سلم کا ثابت ہوتا ہیح- دو قسم پر ہیں- اوّل وہ دلائل جو اس پاک کتاب اور آنحضرتؐ کی صداقت پر اندرونی اور ذاتی شہادتیں ہیں- یعنی ایسی دلائل جو اُسی مقدس کتاب کے کمالات ذاتیہ اور خود آنحضرتؐ کی ہی خصال قدسیہ اور اخلاق مرضیہ اور ضفات کاملہ سے حاصل ہوتی ہیں- دوسری وہ دلائل جو بیرونی طور پر قرآن شریف اور آنحضرت کی سچائی پر شواہد قاطعہ ہیں- یعنی ایسی دلائل جو خارجی اور حادثاتِ متواترہ مثبتہ سے لی گئی ہیں-
اور پھرہر یک ان دونوں قسموں کی دلائل سے دو قسم پر ہے - دلیل بسیط اور دلیل مرکب:-
دلیل بسیط وہ دلیل ہے جو اثبات حقیقت قرآن شریف اور صدق رسالت آنحضرتؐ کے لئے کسی اور امر کے الحاق اور انضمام کی محتاج نہیں- اور دلیل مرکب وہ دلیل ہے جو اُس کے تحقق دلالت کے لئے ایک ایسے کل مجموعے کی ضرورت ہے کہ اگر من حیث ُالاجتماع اس پر نظر ڈالی جائے - یعنی نظر یکجائی سے اُس کے تمام افراد کو دیکھا جائے تو وہ کُل مجموعی ایسی عالی حالت میں ہو جو تحقق اس حالت کا تحقق حقیقت فُرقان مجید اور صِدق رسالت آنحضرتؐ کو مستلزم ہو- اور جب اجزاء اس کے الگ الگ دیکھے جائیں تو یہ مرتبہ برہانیت کا جیسا کہ ان کو چاہیے حاصل نہ ہو- اور وجہ اس تفاوت کی یہ ہے جو کُلِ واحد ہمیشہ متخالف فی احکام ہوتے ہیں- جیسے ایک بوجھ کو دس آدمی اکٹھے ہو کر اُٹھا سکتے ہیں- اور اگر وہی دس آدمی ایک ایک ہو کر اُٹھانا چاہیں تو یہ امر محال ہو جاتا ہے- اور ہر واحد ان دونوں قسم کی دلائل بسیطہ اور مُرکبہ سے جب اپنی خاص خاص صورتوں اور ہیئتوں اور وضعوں کے لحاظ سے تصور کئے جائیں تو ان کا نام اس کتاب میں اصناف دلائل ہے - اور یہ اصناف ہیں کہ جن کے التزام کے لیے ہم نے صد اشتہار ہذا میں یہ قید لگا دی ہے جو ہر صنف کے براہین میں سے شخص متصدی مقابلہ فرقان مجید کا نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کرے - یعنی اس صورت میں کہ جب ان کُل دلائل کے پیش کونے سے عاجز ہو ایک صنف کے تحت میں داخل ہیں-
اور نیز اس جگہ یہ امر زیادہ تر قابل انکشاف ہے کہ جو صاحب کسی دلیل مرکب کا کہ جس کی تعریف ابھی ہم بیان کر چکے ہیں، اپنی کتاب میں سے نمونہ دکھلانا چاہیں تو اُن پر واجب ہو گا اگر وہ دلیل مُرکب ایسے مجموعہ اجزاء سے مُرکب ہو- جو ہر ایک جُزو اُس کا بجائے خود کسی امر پر دلیل ہو تو ان سب جزوی دلائل کا بھی کم سے کم ایک ایک نمونہ پیش کرنا ہوگا-
چونکہ سمجھنا اس شرط کا محتاج تمثیل ہے اس لئے ہم بطور تمثیل کے اس جگہ اسی قسم کی ایک دلیل دلائل مرکبہ مثبتہ حقیقت فرقان مجید سے تحریر کرتے ہیںل- اور وہ یہ ہے جو :-
تعلیم اصولی فرقان مجید کی دلائل حکمیہ پر مبنی اور مشتمل ہے یعنی فرقان مجید ہر ایک اصول اعتقادی کو جو مدار نجات کا ہے محققانہ طور پر ثابت کرتا ہے اور قوی اور مضبوط فلسفی دلیلوں سے بپانہ صداقت پہنچاتا ہے- جیسے وجود٭صانع عالم کا ثابت کرنا- ٭توحید کو بپانہ ثبوت پہنچانا- ضرورت الہام پر دلائلِ قاطعہ لکھنا اور کسی احقاق حق اور ابطال باطل سے قاصر نہ رہنا پس یہ امر فرقان مجید کے منجانب اللہ ہونے پر بڑی بزرگ دلیل ہے جس سے یہ حقیقت اور افضلیت اس کی بوجہ کمال ثابت ہوتی ہے کیونکہ دنیا کے تمام عقائد فاسدہ کو ہر تک نوع اور ہر صنف کی غلطیوں سے بد دلائل واضحہ پاک کرنا اور ہر قسم کے شکوک اور شبہات کو جو لوگوں کے دلوں میں دخل کر گئے ہوں ، براہین قاطعہ سے مٹا دینا اور ایسا مجموعہ اصول مد للّہ محققہ مثبتہ کا اپنی کتاب میں درج کرنا کہ نہ پہلے اس سے وہ مجموعہ کسی الہامی کتاب میں درج اور نہ کسی ایسے حکیم اور فیلیسوف کا پتہ مل سکتا ہو کہ جو کبھی کسی زمانہ میں اپنی نظر اور فکر اور عقل اور قیاس اور فہم اور ادراک کے زور سے اس مجموعہ کی حقیقی سچائی کا دریافت کرنے والا ہو چکا ہو- اور نہ کبھی کسی بھلے مانس نے ایک ذرہ اس بات کا ثبوت دیا ہو جو آنحضرت صلی اللہ و علیہ و سلم کبھی کوئی آدھ دن کسی مدرسہ یا مکتب میں پڑھنے بیٹھے تھے یا کسی کچھ معقول یا منقول سیکھا تھا- یا کبھی کسی فلسفی اور منطقی سے اُن کی صحبت اور مخالفت رہی تھی کہ جس کے اثر سے انہوں نے ہر ایک اُصول حقہ پر دلائل فلسفہ قا ئم کر کے تمام عقائد مدارنجات کی حقیقی سچائی کو ایسا کھول دیا کہ جس کی نظیر صفحہ روزگار میں کہیں نہیں پائی جاتی- یہ ایسا کام ہے کہ بجز تائیداسلام الٰہی اور الہام ربانی کے ہر گز کسی سے انجام پذیر نہیں ہو سکتا - پس ناچار عقل اس بات ہر قطع واجب کرتی ہے جو قرآن شریف اس خدائے واحد لا شریک کی کلام ہے کہ جس سے علم کے ساتھ کسی انسان کا علم برابر نہیں- یہ دلیل ہے جو ہم نے بطور نمونہ کے ان دلائل مرکبہ میں سے لکھی ہے کہ جن کا مجموعہ اجزا تمام ایسی جزوں سے مرکب ہے وہ جزیں دلائل ہی ہیں چنانچہ اس دلیل کے اجزا سب کے سب وہ دلائل ہیں جو عقائد حقہ پر قائم کی گئی ہیں اور چونکہ یہ دلیل بھی اصناف دلائل میں سے ایک صنف ہے اس لئے ٭اس دلیل کابھی پیش کرنا فرض مگر اس دلیل سے اس دلیل کی تالیف اور ترکیب ہے اور جن کی ہیئت اجتماعی سے اس کا وجود تیار ہوتا ہے - جیسی دلیل اثبات وجود صانع- دلیل اثبات توحید- دلیل اثبات خالقیت باری تعالیٰ وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہی ٭دلائل کی اجزاء ہیں اور وجود کل کا بغیر وجود اجزا کے ممکن نہیں اور نہ تحصّل کسی ماہیت کا بدُوں اُس کی جُزوں کے ہو سکتا ہے- پس مخاصم پر لازم ہے جو اُن جزوی دلائل کو پیش کرے- ہاں یہ اختیار ہے کہ جہاں ہم نے کسی مثلاً کسی اصول کے اثبات پر پانچ دلیلیں لکھی ہوں- مخاصم صاحب اس کے اثبات پر یا اُس کے ابطال پر یعنی جیسا کہ رائے اور اعتقاد ہو- صرف ایک ہی دلیل بپابندی انہیں شرائط اور انہیں حدود کے جو اشتہارہذا میں ہم ذکر کر چکے ہیں اپنی الہامی کتا ب سے نکال کر دکھلائیں -
الــــــــــــــمـــــــشــــــــــــتــــــھر
خاکسار میرزا غلام احمدؐ مقام قادیان
ضلع گورداسپور پنجاب
(منقول از براہین احمدیہ جلد اول ۱۸۸۰ء سیفر ہند پریس امرتسر از صفحہ ۱۷ تا ۸۲


(۲۳)
التماس ضروری از مولف کتاب
اس خداوند عالم کا کیا شکر ادا کیا جائے کہ جس نے مجھ نا چیز کو محض اپنے فضل اور کرم سے عنایت غیبی سے اس کتاب کی تالیف کے تصنیف کی توفیق بخشی- اور پھر اس تصنیف کے شائع کرنے اور پھیلانے اور چھپوانے کے لئے اسلام کے عمائد اور بزرگوں اور اکابر اور امیروں اور دیگر بھائیوں مومنوں اور مسلمانوں کو شائق اور راغب اور متوجہ کر دیا- پس اس جگہ ان تمام حضرات معاونین کا شکر کرنا بھی واجبات سے ہے کہ جب کی کریمانہ توجہات سے میرے مقاصد دینی ضیائع ہونے سے سلامت رہے اور میری محنتیں برباد جانے سے بچ رہیں- میں ان صاحبوں کی اعانتوں سے ایسا ممنوں ہوں کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں ان کا شکر ادا کر سکوں- بالخصوص جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض صاحبوں نے اس کارخیر میں تائید میں بڑھ بڑھ کے قدم رکھے ہیں- اور بعض نے زائد اعانتوں کے لئے اور بھی مواعید فرمائے ہیں تو یہ میری ممنونی اور احسان مندی اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے-
میں اسی تقریر کے ذیل مین اسماء مبارک ان تمام مردانِ اہل ہمت اور اولی العزم کے کہ جنہوں نے خریداری اور اعانت طبع اس کتا ب میں کچھ کچھ عنایت فرمایا، معہ رقوم عنایت شدہان کے زیت تحریر کئے ہیں- اور ایسا آئندہ بھی تا اختتام طبع کتاب عمل درآمد رہے گا- کہ تا جب تک صفحہ روزگار میں نقش افادہ اور افاضہ اس کتاب کا باقی رہے- ہر یک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے وقت خوش ہو- مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یاد کرے-
اور اس جگہ تذکرہ اس بات کا ظاہر کرنابھی ضروری ہے کہ اس کارخیر میں آج تک سب سے زیادہ حضرت خلیفہ سید محمد حسن خاں صاحب بہادر وزیر اعظم وستو معظم ریاست پٹیالہ سے اعانت ظہور میں آئی- یعنی حضرت ممدوح نے اپنی عالی ہمتی اور کمال محبت دینی سے مبلغ دو سو پچاس روپیہ اپنی جیب خاص سے اور پچھتر روپیہ اپنے اور دوستوں سے فراہم کر کے تیس سو پچیس روپیہ بوجہ خریداری کتابوں کے عطا فرمایا- عالیجناب سیدنا وزیر صاحب ممدوح اولاصاف نے اپنے والا نامہ میں یہ بھی وعدہ فرمایا ہے کہ تا اختتام کتاب فراہمی چندہ اور بہم رسانی خریداروں میں اوربھی سعی فرماتے رہیں گے- اور نیز اسی طرح حضرت فخر الدولہ نواب میرزا محمد علائوالدین احمد خان بہادر فرماں روائے ریاست لوہارو نے مبلغ چالیس روپیہ کہ جب میں سے بیس روپیہ محض بطور اعانت کتاب کے ہیں، مرحمت فرمائے اور آئندہ اس بارہ میں مدد کرنے کا اور بھی فرمایا اور علیٰ ہذالقیاس توجہ خاص جناب نواب شاہجاں بیگم صاحبہ کرون آف انڈیا دلاور اعظم طبقہ اعلائے ستارہ ہند و رئیسہ بھوپال دام اقبالہا کی بھی قابل بے انتہا شکر گزاری کے ہے کہ جنہوں نے عادات فاضلہ ہمدردی مخلوق اللہ کے تقاضا سے خریداری کتب کا وعدہ فرمایا اور مجھ کو بہت توقع ہے کہ حضرت مفتحر الیہا تائید اس کام بزرگ میں کہ جس سے صداقت اور شان و شوکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ وعلیہ و سلم کی ظاہر ہوتی ہے- اور دلائل حقیقت اسلام کی مثل روز روشن کے جلوہ گر ہوتی ہیں اور بندگان الہٰی کو غایت درجہ کا فائدہ پہنچتا ہے، کامل توجہ فرماویں گی-
اب میں اس جگہ بخدمت عالی دیگر امرائے اور اکابر کے بھی کہ جن کو اب تک اس کتاب سے کچھ اطلاع نہیں- اس قدر گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اگر اشاعت اس کتاب کی غرض سے کچھ مدد فرماویں گے تو ان کی ادنیٰ توجہ سے پھیلنا اور شائع ہونا اس کتاب کا جو دلی مقصد اور قلبی تمنا ہے نہایت آسانی سے ظہور میں آ جائے گا- اے بزرگان و چراغان اسلام آب سب صاحب خوب جانتے ہوں گے کہ آجکل اشاعت دلائل حقیقت اسلام نہایت ضرورت ہے- اور تعلیم دینا اور سکھانا براہین ثبوت اس دین متین کا اپنی اولاد اور عزیزوں کو ایسا فرض اور واجب ہو گیا ہے- اور ایسا واضح الواجوب ہے کہ جس میں کسی قدر ایماء کی بھی حاجت نہیں جس قدر ان دنوں میں لوگوں کے عقائد میں برہمی درہمی ہو رہی ہے - اور خیالات اکثر طبائع کے حالت خرابی اور ابتری میں پڑے ہوئے ہیں کسی پر پوشیدہ نہ ہو گا- کیا کیا رائیں ہیں جو نکل رہی ہیں- کیا کیا ہوائیں- جو چل رہی ہیں- کیا کیا بخارات میں جو اُٹھ رہے ہیں- پس جب جب صاحبوں کو ان اندھیروں سے جو بڑے بڑے درختوں کو جڑھ سے اُکھیرتی جاتی ہیں کچھ نہ خبر ہے وہ خوب سمجھتے ہوں گے- جو تالیف اس کتاب کی بلا خاص ضرورت کے نہیں- ہر زمانہ کے باطل اعتقادات اور فاسد خیالات الگ رنگوں اور وضعوں میں ظہور پکڑتے ہیں- اورخدا نے ان کے ابطال اور ازالہ کے لئے یہی علاج رکھا ہوا ہے جو اسی زمانہ میں ایسی تالیفات مہیا کر دیتا ہے- جو اس کی پاک کلام سے روشنی پکڑ کر پوری طاقت سے ان خیالات کی مدافعت کے لئے کھڑی ہو جاتی ہیں- اور معاندین کو اپنی لاجواب براہین سے ساکت اور ملزم کرتی ہیں- پس ایسے انتظام سے پودہ اسلام کا ہمیشہ سر سبز اور تروتازہ اور شاداب رہتا ہے-
اے معززبزرگان اسلام!مجھے اس بات پر یقین کلّی ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک درد انگیز قصہ ہے- بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقعہ ہو رہے ہیں- اور جس طرح پر لوگ بباعث اغوا اور اضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑتے جاتے ہیں- آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا- پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقیقت اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے بھی ہیں تو ایسے مکاتب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادارک فہم اور تفکر اور تدبر کا اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہے- اور کوچہ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں- پس اگر ان کو دلائل حقیقت اسلام سے جلد تر با خبرنہ کیا جائے تو آخر کار ایسے لوگ تو محض دنیا کے کیڑے ہوت جاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ پروا نہیں رہتی- اور یا الحاد اور ارتد کا لباس پہن لیتے ہیں- یہ قول میرا محض قیاسی بات نہیں- بڑے بڑے شُرفا کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہیں- اگر فضل پرردگار کا ناصر اور حامی اسلام کا نہ ہوتا اور وہ بذریعہ پُرزور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تھوڑا زمانہ نہ گزرنا پاتا جو دنیا پرست لوگوں کو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو- ہمارے نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کسی ملک میں پیدا ہوئے تھے- بالخصوص اس پُر آشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے- اگر محلقان دین اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہر یک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کر رہے ہیں، اپنی خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدت میں اس قدر اشعاراسلام کا ناپدید ہو جائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈ بائی اور گڈمارننگ کی آواز سُنی اپنی ہی اولاداور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے- کیونکہ جب وبّا کے ایام میں زہر ناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہر یک کو خطرہ ہوتا ہے-
شاید بعض صاحبوں کے دل میں ایک اس کتاب کی نسبت یہ وسوسہ گذرے کہ جو اب تک کتابیں مناظرات مذہبی میں تصنیف ہو چکی ہیں کیا وہ الزام اور افحام مخاصین کے لئے نہیں ہیں کہ اس حاجت ہے- لہذا میں اس بات کو بخوبی منقوش خاطر کر دینا چاہتا ہوں- جو اس کتاب اور ان کتابوں کے فوائد میں بڑا فرق ہے- وہ کتابیں خاص خاص فرقوں کے مقابلہ پر بنائی گئی ہیں- اور ان کی وجوہات اور دلائل تک ہی محدود ہیں تو اس فرقوں کے محدودہیں جو اس فرقہ خاص کے ملزم کرنے کے لئے کفایت کرتی ہیں- اور گو وہ کتابیں کیسی ہی عمدہ اور لطیف ہوں- مگر ان سے وہی خاص قوم فائدہ اُٹھا سکتی ہے کہ جن کے مقابلہ پر وہ تالیف پائی ہیں- لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیقت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے- اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بپایہ ثبوت پہنچاتی ہے- اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور وقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں، خاص مباحثات میں انکشاف اُن کا پر گز ممکن نہیں-کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے - اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں- کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے- ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے بلکہ خاص مباحثات میں اکثر الزامی جوابات سے کام نکالا جاتا ہے- اور دلائل معقولہ کی طرف نہایت ہی کم توجہ ہوتی ہے- اور خاص بحثوں کا کچھ مقتضاہی ایسا ہوتا ہے جو فلسفی طور پر تحقیقات کرنے کی حاجت نہیں پڑتی- اور پوری دلائل کا تو ذکر ہی کیا ہے- بس تم حصہ دلائل عقلیہ کا بھی اندراج نہیں پاتا- مثلاً جب ہم ایسے شخص سے بحث کرتے ہیں -جو وجود صانع عالم کا قائل ہے- الہام کا مقر ہے خالقیت باری تعالیٰ کو مانتا ہے تو پھر ہم کو کیا ضور ہو گا- جو دلائل عقلیہ سے اس کے روبرد اثباتِ وجود صانع کریں یا ضرورت الہام کی وجود دکھلادیں- یا خالقیت باری تعالیٰ پر دلائل لکھیں- بلکہ بالکل بہیودہ ہو گا- کہ جس بات کا کچھ تنازع ہی نہیں اس کا جھگڑے بیٹھیں- مگر جس شخص کو مختلف عقائد مختلف عندیات مختلف عذرات ، مختلف شبہات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے- اس کی تحقیقاتوں میں کسی کی فرد گذاشت باقی نہیں رہتی-
علاوہ اس کے جو خاص قوم کے مقابلہ پر کچھ لکھا جاتا ہے- وہ اکثر اس قسم کی دلائل ہوتی ہیں جو دوسری قوم پر جحت نہیں ہو سکتیں- مثلاً جب ہم بائبل شریف سے چند پیشین گوئی نکال کر صدق نبوت حضرت خاتم انبیاء صلی اللہ وعلیہ و سلم بذریعہ ان کے ثابت کریں تو گو ہم اس ثبوت سے عیسائیوں اور یہودیوں کو ملزم کر دیں- مگر جب ہم وہ ثبوت کسی ہندو یا مجوسی یا فلسفی یا سماجی کے روبرو پیش کریں گے تو وہ بھی جواب دیں گے پس بہر حال ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی کہ جو ہر ایک فرقہ کے مقابلہ پر سچائی درحقیقت اسلام کی دلائل عقلیہ سے ثابت کر ے کہ جن کے ماننے سے کسی انسان کو چارہ نہیں- سو الحمد اللہ کہ ان تمام مقاصد کے پورا کرنے لئے یہ آفتاب طیار ہوئی- دوسری اس کتاب میں یہ خوبی ہے جو اس میں معاندین کے بے جا عذارت دفع کرنے کے لئے اپنی محبت ان پر پوری کرنے کے لیے خوب بندوبست کیا گیا ہے یعنی ایک اشتہار تعداد دس ہزار روپیہ کا اسی غرض سے اس میں داخل کیا گیا ہے کہ تا منکرین کو کوئی عذرف اور حیلہ باتی نہ رہے- اور یہ اشتہار مخالفین پر ایک ایسا بڑا بوجھ ہے جہ جس سے سبکدوشی حاصل کرنا قیامت تک ان کو نصیب نہیں ہو سکتا اور نیز یہ ان کہ منکرانہ زندگی کو ایسا تلخ کرنا ہے- جو انہیں جانتا ہوگا- غرض یہ کتاب نہایت ہی ضروری اور حق کے طالبوں کے لئے نہایت ہی مبارک ہے کہ جس سے حقیقت اسلام کی مشعل آفتاب کے واضح اور نمایاں اور روشن ہوتی ہے- اور اور شوکت اس مقدس کتاب کی کھلتی ہے کہ جس کے ساتھ عزت اور عظمت اور صداقت اسلام کی وابستہ ہے-
فہرست معاونین کہ جنہوں نے ہمدردی دینی سے اشاعت کتاب براہین احمدیہ میں اعانت کی اور خریداری کتابوں سے ممنون اور مشکور فرمایا:-
نمبر نام معاونین صاحب کا کہ جنہوں نے کتاب سے یا یوں ہی اعانت فرمائی تعداد ازاعانت کیفیت
الف:-مولوی حکیم صاحب ………… صد بابت خریداری
معرفت جناب ممدوح
ب:-خدابخش خان صاحب ماسٹر صد ایضاً
ج:-سیدمحمد علی صاحب منصرم تعمیر چھائونی صد ایضاً
د:-مولوی احمد حسن صاحب خلف مولوی علی احمد صاحب صد ایضاً
ھ:-غلام نبی خان صاحب محرر نظامت کرم گڑھ صد ایضاً
د:-کالے خاں صاحب ناظم کرم گڑھ صد ایضاً
ح:-شیخ کریم اللہ صاحب ڈاکٹر ناظم حفظان صحت صد ایضاً
ط:-شیخ فخر الدین صاحب سول جج صد ایضاً
ی:-سید عنایت علی صاحب جرنیل صد ایضاً
ک:-بلوخاں صاحب جمعدار جیلخانہ صد ایضاً
ل:-میر ہدایت حسین صاحب ساکن بستی نظامت سر ہند صد ایضاً
م:-سید نیاز علی صاحب ناظم نہر صد ایضاً
ن:-سید نثار علی صاحب وکیل کمشنری انبالہ صد ایضاً
(۲)حضرت فخر الدولہ صاحب مرزا محمد علائو الدین احمد خاں صد بابت خریداری
صاحب بہادر فرما نروائے ریاست لوہارو-
(۳) جناب مولوی محمد چراغ علی خاں صاحب بہادر نائب معتمد صد بابت خریداری
مدارالمہام- حیدر آباد
(۴) جناب غلام محبوب سبحانی صاحب بہادر رئیس اعظم لاہور صد بابت خریداری
(۵)محمد عبد اللہ صاحب بہادری رئیس کلکتہ
(۶)جناب نواب غلام محبوب سبحانی صاحب المہام مالگذاری صد بابت خریداری
سرکار حیدر آباد
(۷)جناب نواب مکرم الدّولہ صاحب بہادرسابق رئیس جھجر صد بابت خریداری
(۸)وزیر غلام قادر صاحب بہادر ریاست نالہ گڑھ صد بابت خریداری
(۹)ملک یار خاں صاحب تھانہ دار بٹالہ صد بابت خریداری
(۱۰)عظیم اللہ خان صاحب رسائیدار ترپ پنجم رجمنٹ اوّل صد بابت خریداری
چھائونی مومن آباد
(۱۱)مولوی عبد الحمید صاحب قاضی جلال آباد ضلع فیروز پور صد بشرح صدر؎
(۱۲)میاں جان محمد صاحب قادیان صد بطور اعانت
(۱۳)میاں غلام قادر صا حب قادیان بابت خریداری بطور اعانت
(۱۴)جناب نواب احمد علی خاں صاحب بہادر بھوپال صد بابت خریداری
(۱۵)مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تحصیل مظفر گڑھ صد بشرح صدر
(۱۶)میاں کریم بخش صاحب نائب منصر تحصیل مظفر گڑھ صد بشرح صدر
(۱۷)میاں جلال الدین صاحب تاریخ نویس مظفر گڑھ صد بشرح صدر
(۱۸)قاضی محفوظ حسین صاحب منصرم تحصیل مظفر گڑھ صد بشرح صدر
(۱۹)شیخ عبد الکریم صاحب محرر جوڈیشنل مظفر گڑھ صد بشرح صدر
(۲۰)میاں اکبر ساکن بلہو وال ضلع گورداسپور صد بطور اعانت
(منقول از براہین احمدیہ ؐحصہ اوّل ملحق ؑٹائٹل از صفحہ حرف ا تا د )
(مطبوعہ سفیر ہند پریس امرتسر ۱۸۸۰ء)
(۲۴)
عُذر
یہ کتاب اب تک قریب نصف کے چھپ چکتی- مگر بباعث مہتمم صاحب سفیر ہند امرتسر کے جن کے مطبع میں یہ کتاب چھپ رہی ہے اور نیز کئی اور طرح کی مجبوریوں سے جو اتفاقاً ان کو پیش آگئیں- سات آٹھ مہینے کی دیر ہو گئی- اب انشاء اللہ آئندہ کبھی اس توقف نہیں ہو گی-
غلام احمد
(منقول از براہین احمدیہ حصہ اوّل ٹائیٹل صفحہ ۳)
(۲۵)
اعلام
اب کی دفعہ ان صاحبوں کے نام جنہوں نیح کتاب کو خرید فرما کی قیمت پیشگی یا محض للہ اعانت کی بوجہ عدم گنجائش نہیں لکھے گئے- اور بعض صاحبوں کی رائے ہے کہ لکھنا ضرورت نہیں-بہر حال حصہ چہارم میں جو کچھ اکثر صاحبوں کی نظر میں قرین مصلحت ہوگا- اس پر عمل کیا جائے گا-
خاکسار مرزا غلام احمد
(منقول از حصہ سول ٹائیٹل صفحہ ۲ حاشیہ)
عُذر
اب کی دفعہ کہ جو حصہ سوم نکلنے میں قریب دو برس کے توقف ہو گئی غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے- لیکن واضح رہے کہ یہ تمام مہتمم صاحب سفیر ہند کی بعض مجبوریوں سے جب کے مطبع میں کتاب چھپنی سے ظہور آئی ہے-
خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ
(منقول از براہین احمدیہ حصہ دوم ٹائیٹل صفحہ ۳ مطبوعہ ۱۸۸۰ء سفیر ہند پریس امرتسر)
اعلان
چونکہ مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ اور ساہو کاران اور شرفاء ار ذی عزت ہنود قصبہ قادیان میں جو طالب صادق ہونے کے مدعی ہیں- آسمانی نشانوں اور پیشگوئیوں اور دیگر خوارقک کے مشاہدہ کے بارے میں (جن کے دکھلانے کا سب وعدہ اپنے پروردگار کے مرزا صاحب کو دعوے ہے- ) خط و کتابت بطور باہمی اقرار و عہد پیمان کے ہو کر ہندوصاحبوں کی طرف سے یہ اقرار و عہد ہوا ہے کہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۶ء یعنی برابر ایک سال تک نشانوں کے دیکھنے کے لئے مرزا صاحب کے پاس آمدو رفت رکھیں گے اور ان کے کاغذ اور روز نامہ الہامی پیشگوئیوں پر بطور گواہ کے دستخط کرتے رہیں گے اور بعد پوری ہونے کسی الہامی پیشگوئی کے اس پیشگوئی کی سچائی کی نسبت اپنی شہادت چند اخباروں میں شائع کرادیں گے اور مرزا صاحب کی طرف سے یہ عہد ہوا ہے کہ وہ تاریخ مقررہ سے ایک سال تک ضروری کوئی نشان دکھلائیں گے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ وہ دونوں تحریریں جو بطور عہدو اقرار کے باہم ہندو صاحبان و مرزا صاحب کے ہوئی ہیں شایع کی جائیں- سو ہم بہ نیت اشاعت عام و اطلاع یابی ہر ایک طالب حق کے وہ دونوں تحریریں دونوں صاحبوں سے لے کرشائع کر تے ہیں- اور بشرط زندگی یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خود گواہ رویت بن کر اس سالانہ کاروائی سے خبر گیراں رہیں گے- اور بعد گزرنے پورے ایک سال کے یا سال کے اندر ہی جیسی صورت ہو جو نتیجہ ظہور میں آئے گا اسی طرح وہ بھی اپنی ذاتی واقفیت کی مدد سے شایع کریں گے سچے طالب اس سے نفح اُٹھائیں- اور پبلک کے لئے منصفاد رائے ظاہر کرنے کا موقع ملے اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہو،
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
ساہوکاران و دیگر ہندو صاحبان کا قادیان
کا خط
بنام مرزا صاحب
مرزا صاحب مخدوم و مکرم مرزا غلام احمد صاحب سلمہ‘
بعد ما وجب بکمال ادب عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیںکہ جو طالب صادق ہو اور اور ایک سال تک ہمارے پاس آ کر قادیان میں ٹھہرے تو خدائتعالے اس کو ایسے نشان دربارئہ اثبات حقیقت اسلام ضرور دکھائے گا- کہ جو طاقت انسانی سے بالاتر ہوں سو ہم لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہرہیں لند ن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں - اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں کسی قسم کا شر اور عناد جو بمقضائے نفسانیت یا مناترت مذہب نا اہلوں کے دلوں میں ہوتا ہے وہ ہمارے دلوں میں ہرگز نہیں ہے- اور نہ ہم بعض نا منصف مخالفوں کی طرح آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم صرف ایسے نشانوں کو قبول کریں گے کہ جو اس قسم کے ہوں کہ ستارے اور سورج اور چاند پارہ پارہ ہو کر زمین پر گرجائیں یا ایک سورج کہ جگہ تین اور ایک چاند کی جگہ دو چاند ہو جائیںیا زمین کے ٹکڑے ٹکٹرے ہو کر آسمان سے جا لگے- یہ باتیں بلاشبہ ضدیت اور تعصب سے ہیں نہ حق جوئی کی راہ سے - لیکن ہم لو گ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیںجن میں زمین و آسمان کے زیر و زبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت - ہاں ایسے نشان ضرور چاہیئں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راست بازی دینی کے عین مطابق اور کرپا کی راہ سے آپ کی دعائوں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے- یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے- اوربطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے- یا ایسے عجیب طور پر آپ کی حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے بر گزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے- سو آپ سوچ لیں کہ ہماری اس درخواست میں کچھ ہٹ دھری اور ضد نہیں ہے - اور اس جگہ ایک اور بات واجب العرض ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ مشاہدہ کنندہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرے - سو اس قدر تو ہم مانتے ہیں کہ سچ کے کھلنے کے بعد جھوٹھہ پر قائم رہنا دھرم نہیں ہے - اور نہ ایسا کام کسی بھلے منش اور سعید الفطرت سے ہو سکتا ہے - لیکن مرزا صاحب آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ سچ کے کھلنے کہ ہدایت پا جانا خود انسان کے اختیار میں نہیں ہے جب تک توفیق ایزدی اس کے شامل حال نہ ہو- کسی دل کو ہدایت کے لئے کھولل دینا ایک ایسا امر ہے - جو صرف پر میشر کے ہاتھ میں ہے- سو ہم لوگ جو صد ہا زنجیروں کو توڑ کر اور اپنے سخت دل کو آپ ہی نرم کر کے آپ ہی دروازئہ ہدایت اپنے نفس پر کھول دیں گے- اور جو پر میشر سرب شکتیمان کا خاص کا م ہے وہ آپ ہی کر دکھائیں گے بلکہ یہ بات سعادت ازلی پر موقوف ہے - جس کے حصہ میں وہ سعادت مقدر ہے اس کے لئے شرائط کی کیا حاجت ہے - اس کو تو خود ازلی کشاں کشاں چشمئہ ہدایت تک لے آئے گی ایسا کہ آپ بھی اس کو روک نہیں سکتے - اور آپ ہم سے ایسی شرطیں موقوف رکھیں- اگر ہم لوگ کوئی آپ کا نشان دیکھ لیں گے تو اگر ہدایت پانے کے لئے توفیق ایزدی ہمارے شامل حال ہوئی تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور پر میشر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس قدر تو ہم ضرور کریں گے کہ آپ کے اُن نشانوں کو جو ہم بچشم خود مشاہدہ کرلیں گے- چند اخباروں کے ذریعہ سے بطور گواہ رویت شائع کرا دیں گے اور آپ کے منکرین کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے - اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے- اوربلاشبہ ہم ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہوکر ہر ایک قسم کی پیشگوئی وغیرہ پر دستخط بقید تاریخ و روز کر دیا کریں گے- اور کوئی بد عہدی اور کسی قسم کی نا منصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی- ہم سراسر سچائی اور راستی سے اپنے پر میشر کو حاضر ناظر جان کر یہ اقرار کرتے نامہ لکھتے ہیں اور ایس سے اپنی نیک نیتی کا قیام کرنا چاہتے ہیں- اور سال جو نشانوں کے دکھانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر۱۸۸۵ء سے شمار کیا جاوے گا- جس کا اختتام ستمبر ۱۸۸۶ء کے اخیر تک ہو جائے گا-
العـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبد
لمچھن رام بقلم خود جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے-
پنڈت پھارا مل بقلم خود- بشنداس ولد رعدا ساہو کار بقلم خود
منشی چند ، پنڈت ہر کرن پنڈت بیچنا تھ چودھری بازار قادیان بقلم بقلم خود لشنداس ولد ہیرا نند بر ہمن
(۲۷)
نامہ مرزا غلام احمد ساصاحب
بجواب خط
ساہو کاران قادیان
عنایت فرمای من پنڈت نہال چند صاحب و پنڈپھارا مل صاحب لچھمی رام صاحب و لالہ بشنداس صاحب و منشی تارا چند صاحب و یگر صاحب ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوراق
بعد ما وجب ! آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے- مجھے ملا- چونکہ یہ خط سراسر انصاف و حق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالب حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اس کو لکھا ہے اس لئے کہ اگر صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جلشانہ کی تائیدو نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسانشان آپ کو دکھلایا جائے گا- جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو - اور اس سے بھی زیادہ تر اس روز خوش ہو گا کہ جب آپ بعد دیکھنے کسی نشان کے اپنے وعدے کے ایفاء کے لئے جس کو آپ صاحبوں نے اپنے حلفوں اور قسموں سے کھول دیا ہے- اپنی شہادت رویت کا بیان چند اخباروں میں مشتہر کر کے متصب مخالفوں کو ملزم و لاجواب کرتے رہیں گے- اور اس جگہ یہ بھی بخوشی دل آپ صاحبوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ایک سال تک کوئی نشان نہ دیکھیں یا کسی نشان کو جھوٹا پاویں تو بے شک اس کو مشتہر کر دیں اور اخباروں میں چھپوا دیں- یہ امر کسی نوع سے موجب ناراضگی نہ ہو گا- اورنہ آپ کے دوستانہ تعلقات میں کچھ فرق آئے گا- بلکہ یہ وہ بات ہے جس میں خدا بھی راضی اور ہم بھی- اور ہر ایک منصف بھی - اور چونکہ آپ لوگ شرط کے طور پر کچھ روپیہ نہیں مانگتے- صرف دلی سچائی سے نشانوں کا دیکھنا چاہتے ہیںَ اس لئے اس طرف سے بھی قبول اسلام کے لئے شرط کے طور پر آپ سے کچھ گرفت نہیں- بلکہ یہ بات بقول آپ لوگوں کے توفیق ایزدی پر چھوڑ دی گئی ہے- اور اخیر پر دلی جوش سے یہ دُعا ہے کہ خداوند قادر کریم بعد دکھلانے کسی نشان کے آپ لوگوں کو غیب سے قوت ہدایت پانے کی بخشے- تا آپ لوگ مائدہ رحمت الہٰی پر حاضر ہو کر پھر محروم نہ رہیں- اے قادر کریم و رحیم ہم میں اور ان میں فیصلہ کر اور توہی بہترفیصلہ کرنے والا ہے - اور کوئی نہیں کہ بجز تیرے فیصلہ کر سکے- آمین ثم آمین
و اٰخر د عوانا ان الحمد اللہ ربّ العالمین
خاکســــــــــــــــــــــــــــــــار
احقر گواہانِ حاضر الوقت
ہم لوگ جن کے نام نیچے درج ہیں- اس معاہدہ فریقین کے گواہ ہیں- ہمارے رو برو ساہوکاران قادیانی نے جن کے نام اوپر درج ہیں - اپنے خط کے مضمون کو حلفاً تصدیق کیا اور اسی طرح مرزا غلام احمد صاحب نے بھی-
گواہ شد گواہ شد
میر عباس علی لودھیانوی فقیر عبد اللہ سنوری
گواہ شد شہاب الدین تھہ غلام نی والا
مطبوعہ ریاض ہند امرت سر
(۲۸)
ضمیمہ اخبار ریاض ہند مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جان و لم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آلِ محمد است
ویدم بعین قلب شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکاںندائے جلال محمد است
ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدادہم
یک قطرہ ز بحر کمال محمد است
یہ رسالہ اس احقہ مؤلف براہین احمدیہ نے اس غرض سے تالیف کرنا چاہا ہے کہ تا منکرین حقیقت اسلام اور مکذبین رسالت حضرت خیر الا نام علیہ و آلہ الف الف آنکھوں کے آگے ایک ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہر ایک سمت سے گوہر آبدار کی طرح روشنی نکل ہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع نہیں آئیں مشتمل ہے- چنانچہ خود خداوند کریم جلشانہ‘ اسمہ نے جس کو پوشیدہ بھیدوں کی خبر ہے- اس ناکارہ کو بعض اسار مخفیہ ر اخبار غیبہ پر مطلع کرکے بار عظیم سے سبکدوش فرمایا- حقیقت میں اسی کا فضل ہے اور اسی کا کام جس نے چار طرفہ کشاکش مخالفوں و موافقوں سے اس ناچیز کو مخلصی بخشی-
قصہ کو تاہ کرد ورنہ درد سر بسیار بود
اب یہ رسالہ قریب الا ختتام ہے اور انشاء اللہ القدر جو صرف چند ہفتوں کا ٭کام ہے -اور اس رسالہ میں تین قسم کی پیش گوئیاں ہیں- اوّل وہ پیشگوئیاں جو خود اس احقر کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں- یعنی جو کچھ راحت یا رنج یا حیات یا وفات اس ناچیز سے متعلق ہے یا جو کچھ تفضلات یا انعامات الہیٰہ کا وعدہ اس نا چیز کو دیا گیا ہے- وہ ان پیشگوئیوں میں مندرج ہے- دوسری وہ پیشگوئیاں جو بعض احباب یا عام طور پر کسی ایک شخص یا نبی نوع سے متعلق ہیں- اور ان میں سے ابھی کچھ کام باقی ہے- اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو وہ بقیہ بھی ملے ہو جائے گا- تیسری وہ پیشگوئیاں جو مذہب غیر کے پیشوائوں یا واعظوں یا ممبران سے تعلق رکھتی ہیں- اور اس قسم میں ہم نے صرف بطور نمونہ چند آدمی آریہ صاحبوں اور چند قادیان کے ہنددئوں کو لیا ہے- جن کی نسبت مختلف قسم کی پیشگوئیاں ہیں- کیونکہ انہیں میں آج کل نئی نئی تیزی اور انکار اشد پایا جاتا ہے- اور ہمیں اس تقریب پر یہ بھی خیال ہے کہ خداوند کریم ہماری محسن گورنمنٹ انگلشیہ کو جس کے احسانات سے ہم کو بہ تمامتر فراغت و آزادی گوشہ خلوت میسر و کنج امن و آسایش حاصل ہے ظالموں کے ہارھ سے اپنی حفظ و حمایت رکھے اور روس منحوس کو اپنی سرگردانیوں میں محبوس و معکوس مبتلا کر کے ہماری گورنمنٹ کو فتح و نصرت نصیب کرے- تاہم وہ بشارتیں بھی ( اگر مل جائیں ) اس عمدہ موقع پر درج کر دیں- انشاء اللہ تعالیٰ اور چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے- تا ہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں- اس لئے ہم انکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع (جیسے خبر موت فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پا دیں تو اس بندہ ناچیز کو معذور تصور فرماویں- بالخصوص وہ صاحب جو بباعث مخالفت و مغائرت مذہب اور بوجہ نامحرم اسرار ہونے کے حسن ظن کی طرف بمشکل رجوع کر سکتے ہیں- جیسے منشی اندر من صاحب مراد آبادی (پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضاء و قدر کے متعلق غالباً اس رسالے میں بقید و قت و تاریخ کچھ تحریر ہو گا- اُن صاحبوں کی خدمت میں دلی صدق سے ہم گزارش کرتے ہیں- کہ ہمیں فی الحقیقت کسی کی بد خواہی دل میں نہیں- بلکہ ہمارا خداوند کریم خوب جانتا ہے- کہ ہم سب کی بھلائی چاہتے ہیں- اور بدی کی جگہ نیکی کرنے کو مستعد ہیں- اور نبی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے- اور سب کے لئے ہم راحت و عافیت کے درخواستگار ہیں- لیکن جو بات کسی موافق یا مخالف کی نسبت یا خود ہماری نسبت کچھ رنجدہ ہو - تو ہم اس میں بکلی مجبور معذور ہیں- ہاں ایسی بات کے دردغ نکلنے کے بعد جو کسی دل کے دُکھنے کا موجب ٹھہرے ہم سخت لعن و طعن کے لایق بلکہ سزا کے مستوجب ٹھہرینگے- ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور عالم الغیب کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ سراسر نیک نیتی سے بھرا ہوا ہے- اور ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں- اور گو کوئی بد ظنی کی راہ سے کیسی ہی بد حوئی و بد زبانی کی مشق کر رہا ہے - اور ناخداترسی سے ہمیں آزاد دے رہا ہے- ہم پھر بھی اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر و توانا- اس کو سمجھ بخش- اور اس کو اس کے ناپاک خیال اور نا گفتی باتوں میں معذور سمجھتے ہیں- کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی اس کا مادہ ایسا ہے اور ہنوز اس کی سمجھ اور نظر اسی قدر ہے جو حقایق عالمیہ تک نہیں پہنچ سکتی-
زاہد ظاہر پرست از حال ماآگاہ نیست
در حقِ ماہر چہ گوید جائے ہیج اکراہ نیست
اور باوجود اس رحمت کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر ہمارے وجود میں رکھی ہے- اگر کسی کی نسبت کوئی بات نا ملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے بعض دوستوں کی نسبت اپنے جدی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے(…… ؟) قومی بھائیوںکی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نو وار پنجابی الاصل بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں- جو انشاء اللہ القدیر بعد تصنفیہ لکھی جائیں گی- منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں- اور ہر ایک کے لئے ہم دُعا کرتے ہیں- کیونکہ ہم جانتے ہیں- کہ اگر تقدیر معلق ہو تو دُعائوں سے بففلہ تعالیٰ ٹل سکتی ہے- اسی لئے رجوع کرنے والی مصیبتوں کے وقت مقبولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں- اور شوخیوں اور بے راہیوں سے باز آجاتے ہیں- (………؟) اگر کسی صاحب پر کوئی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شایع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں- اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دل آزادی سمجھ کر کسی اس پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے-
اُن ہر سہ قسم کی پیش گوئیوں سے جو انشاء اللہ رسالے میں بہ بسط تمام درج ہوں گی پہلی پیشگوئی جو خود اس احقرے متعلق ہے- آج ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے- برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونے کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں مندرج ہو گی- انشا ء اللہ تعالیٰ
پہلی پیشگوئی
باالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز وجل خدائے رحیم و کریم بزرگ جو ہر چیز پر قادر ہے اجل شانہ ‘ و عزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں- اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا- سو میں نے تضرعات کو سنا اور تیری دعائوں کواپنی رحمت سے بہ پایہ قبولیت جگہ دی- اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے )تیرے لئے مبارک کر دیا- سو قدرت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے- اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے- اے مظفر پر اسلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں- اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں- باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں- جو چاہتا ہون سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرمون کی راہ ظاہر ہو جائے- سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجہیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا- ایک زکی(غلام) تجھے ملیگا- وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا- خوبصورت پاک لٹرکا تمہارا مہمان آتاہے- اس کا نام عنوائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے- اس وہ رجس سے پاک ہے- اور وہ نور اللہ ہے - مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے- اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا- وہ صاحب شکوہ اورعظمت اور دولت ہو گا- وہ دنیا میں آئے گا- وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے- وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا- اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا-(اس کے معنی سمجھ نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک و شنبہ- فرزند لبند گرامی ارجمند مظہر الاوّل و الآخر - مظہر الحق ولعلاء کانّ اللہ نزل من السماء- جس کا نزول بہت مبارک اور جلاس الہٰی کے ظہور کو موجب ہو گا- نُور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوع کیا- ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا- وہ جلد جلد بڑھے گا- اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا- اور قومیں اس سے برکت پائیں گی- تب اپنے نفس نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا- وکان امرا مقضیا
پھر خدائے کریم جلّشانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھر دے گا- اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا- اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا- تیری نسل بہت ہو گی- اور میں تیری ذریت کو بڑھائوں گا- اور برکت دوں گا- مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے- اور تیری نسل کثرت سے ملکوںپھیل جائے گی- اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد وہ کر ختم ہو جائے گی- اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا٭- یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے- اُن کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے- اور اُن کی دیواون پر غضب نازل ہو گا- لیکن اگر وہ رجوع کریں گے- تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا- اور ایک ڈرائونا گھر برکتوں سے بھر دے گا- تیری ذریت منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا- اور تیری دعوت کودنیا کناروں تک پہنچادے گا- میں تجھے اُٹھائوں گا اور اپنی طرف بلائوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا- اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے- لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا- اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا- میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوںگا- اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دون گا اور ان میں کثرت بخشونگا- اور وہ مسلمانون کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے- جو حاسدوں اور معاندوں گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولیگا- اور فراموش نہیںکرے اور وہ علیٰ حسب الا خلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے- تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء نبی اسرعیل ( یعنی ظلی٭ طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیرون کے دل میں تیری محبت ڈالے گا- یہانتک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے- اور اے منکرو اور حق کے مخالفو!اگر تم میرے بندے پر کیا تو اس نشان رحمتک کی مانند رحمت تم بھی اپنی نسبت کوئی سچائی پیش کرو- اگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو- تو اس آگ سے ڈرو کو نا فرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے- فقط
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار غلام احمد مرزا مؤلف براہین احمدیہ
ہوشیار پور طویلہ شیخ مہر علی ـصاحب رئیس
۲۰ فروری ۱۸۸۶ء
(مطبوعہ بار دوم ریاض ہند پریس ۱۸۸۹۳ء قادیان)
اسلامی انجمنوں کی خدمت میں التماس ضروری
ایک خط انجمن اسلامیہ لاہور کے سیکرٹری صاحب کی طرف سے اور ایسا ہی ایک تحریر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کی طرف سے کہ جو انجمن ہمدردی اسلامی لاہور کے سیکرٹری ہیں موصول ہو کر اس عاجز کے ملاحظہ سے گزری جس سے یہ مطلب تھا کہ ان عرضد اشتوں پر معزز برداران اہل اسلام و منصفین اہل ہنود کے دستخط کرائے جائیں کہ جو مسلمان کہ جو مسلمان کی ترقی و تعلیم و ملازمت و نیز مدارس کی تعلیم میں اُردو زبان قایم رکھنے کے لیے گورنمنٹ میں پیش کرنے کے لئے طیار کی گئی ہیں- مگر افسوس کہ میں اول بوجہ علالت اپنی طبیعت کے اور پھر بوجہ قیام ضروری امرتسر کے اس خدمت کو اد انہیں کر سکا- لیکن بحکم الدین النصحۃ اس قدر عرض کرنا اپنے بھائیوںکے دین اور دنیا کی بہبودی کا سمجھتا ہوں- کہ اگرچہ گورنمنٹ کی رحیمانہ نظر میں مسلمانوں کی شکستہ حالت بہرحال قابل رحم ٹھہرے گی جس گورنمنٹ کی رحیمانہ نظر میں شکستہ حالت بہرحال قابل رحم ٹھہرے گی جس گورنمنٹ نے اپنے قوانین میں مویشی اور چارپایوں سے ہمددری ظاہر کی ہے وہ کیونکر اور ایک غربت اور مصیبت کی حالت میں پڑے ہیں غا مل وہ سکتی ہے- لیکن ہمارے معزز بھائیوں پر صرف یہ ہی واجب نہیں کہ وہ مسلمانوں کو افلاس اور تنزل اور نا تربیت یافتہ ہونے کی حالت میں دیکھ کر ہمیشہ اسی بات پر زور مارا کریں کہ کوئی طیار کر کے اور بہت دستخط کروا کر گورنمنٹ میں بھیجا جائے- ہر ایک کام دینی ہو یا دنیوی اس میں استمداد سے پہلے اپنی خدا داد طاقت اور ہمت کا خرچ کرنا ضروری ہے اور پھر اس فعل کی تکمیل کے لئے مدد طلب کرنا- خدا نے ہم کو ہماری ہر روزہ عبادت میں یہی تعلیم دی ہے اور ارشاد فرمایا کہ ہم ایاک نعبد و ایاک نستعین کہیں- نہ یہ کہ ایاک نستعین و ایاک نعبد مسلمان پر جن امور کا اپنی اصلاح حال کے لئے اپنی ہمت اور کوشش سے انجام دینا لازم ہے وہ انہیں فکر اور غور کے وقت آپ کو ہی معلوم ہو جائیں گے- حاجت بیان و تشریح نہیں- مگر اس جگہ ان امروں میں سے یہ امر قابل تذکرہ ہے جس پر گورنمنٹ انگلشیہ کی عنایت اور توجہات موقوف ہین کہ گورنمنٹ ممدوحہ کے دل پر اچھی طرح یہ امر مرکوز کرنا چاہیے- کہ مسلمانانِ ہند ایک و نادر رعیت ہے- کیونکہ ڈاکٹر ھنٹر صاحب نے جو کمیشن تعلیم کے اب پریسڈنٹ ہیں- اپنی ایک مشہورتصنیف میں اس دعوے پر بہت اصرار کیا ہے کہ مسلمان لوگ سرکار انگریزی کے دلی خیر خواہ نہیں ہیں- اور انگریزوں سے جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں- گو یہ خیال ڈاکٹر صاحب شریعت اسلام پر نظر کرنے بعد ہر ایک شخص پر محض بے اصل اور خلاف واقعہ ثابت ہو گا- لیکن افسوس کہ بعض کوہستانی اور بے تمیز سفہاکی نالایق حرکتیں اس خیال کی تائید کرتی ہیں اور شاید انہیں اتفاقی مشاہدات سے ڈاکٹر صاحب کا وہم بھی مستحکم ہو گیا ہے- کیونکہ کبھی کبھی حاصل لوگوں کی طرف سے اس قسم کے اسلامی تدین سے دور مہحور ہیں- اور ایسے ہی مسلمان ہیں جیسے مکلین عیسائی تھا- پس ظاہر پر ان ہزار ہا مسلمانوں کو دیکھنا چاہیے کہ جو ہمیشہ جان نثاری سے خیر خواہی دولت انگلشیہ کی کرتے رہے ہیں- ۱۸۸۷ء میں جو فساد ہوا - اس میں بجز جہلا اور بد چلن لوگوں کے اور کوئی شائستہ اور نیک بخت مسلمان جو باعلم اور با تمیز تھا- ہر گز مفسدہ میں شامل نہیں ہوا- بلکہ پنجاب میں بھی غریب غریب مسلمانوں سے سرکار انگریزی کی اپنی طاقت سے زیادہ مدد دی- چنانچہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی با وصف کم استطاعتی کے اپنے اخلاص اور جوش خیر خواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر کے اور پچاس مضبوط ار لایق سپاہی بہم پہنچاکر سرکار میں بطور مدد کے نذر کی- انہوں نے تو بڑے بڑے خدمات نمایاں ادا کئے- اب پھر ہم اس تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ گو مسلمانون کی طرف سے اخلاص نمایاں اد ا کئے- اب پھر ہم اس تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں- کہ گو مسلمانوں کی طرف سے اخلاص اور وفاداری کے بڑے بڑے نمونہ ظاہر ہو چکے ہیں- مگر ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوںکی بد نصیبی کی وجہ سے ان تمام وفادایوں کو نظر انداز کر دیا- اور نتیجہ نکالنے کے وقت کان مخلصانہ خدمات کو نہ اپنے قیاس کے صغریٰ میں جگہ دی اور نہ کبریٰ میں- بہرحال ہمارے بھائی مسلمانوں پر لازم ہے کہ گورنمنٹ پر اُن کے دھوکوں سے متاثر ہونے سے پہلے مجد د طور پر اپنی خیر خواہی ظاہر کریں - جس حالت میں شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مددگار ہو، قطعی حرام ہے تو پھر بڑے افسوس کی بات ہے کہ علمائے اسلام اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شایع نہ کر کے نا واقف لوگوں کی زبانم اور قلم سے موردِ اعتراض ہوتے رہیں جن اعتراضوں سے ان کے دین کی سستی پائی جائے اور ان کی دنیا کو ناحق کا ضررپہنچے- سو اس عاجز کی دانست میں قرین مصلحت یہ ہے کہ انجمن اسلامیہ لاہور کلکتہ و بمبئی وغیرہ یہ بندوبست کریں کہ چند نامی مولوی صاحبان کی فضیلت اور علم اور زہد اور تقویٰ اکثر لوگوں کی نظر میں مسلم الثبوت ہو اس امر کے لئے چن لئے جائیں اکناف کے اہل علم کہ جو اپنے مسکن کے گردونواح میں کسی قدر شہرت رکھتے ہوں- اپنی اپنی عالمانہ تحریریں جن میں بر طبق شریعت حقہ سلطنت انگلشیہ سے جو مسلمانانِ ہند کی مربیّ و محسن ہے جہاد کرنے کی صاف ممانعت ہو ان علماء کی خدمت میں بہ ثبوت مواہیر بھیجدیں کہ جو بموجب قرار داد بالا اس خدمت کے لئے منتخب کئے گئے- ہیں اور جب سب خطوط جمع ہو جائیں تو یہ مجموعہ خطوط کہ جو مکتوبات علماء ہند سے موسوم ہو سکتا ہے کسی خوشخط مطبع میں بہ صحت تمام چھاپا جائے اور پھر دس بیس نسخہ اس کے گورنمنٹ میں باقی نسخہ جات متفرق مواضع پنجاب و ہندوستان خاص کر سرحدی ملکوں میں تقسیم کئے جائیں یہ سچ ہے کہ بعض غم خوار مسلمانون نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب خیالات کا ردّ لکھا ہے- مگر یہ دو چار مسلمان کا ردّ جمہوری ردّ کا ہر گز قائم مقام نہیں ہو سکتا- بلا شبہ جمہوری ردّ کا اثر ایسا قوی اور پرزور ہو گا جس سے ڈاکٹر صاحب کے تمام غلط تحریریں خاک سے مل جائیں گی- اور بعض نا واقف مسلمان بھی اپنے سچے اور پاک اصول سے بخوبی مطلع ہو جائیں گے- اور گورنمنٹ انگلشیہ پر بھی صاف باطنی مسلمانوں کی خیر خواہی اور رعیت کی کماحقہ کھل جائے گی- اوربعض کوہستانی جہلاء کے خیالات کی اصلاح بھی بذریعہ اسی کتاب کی وعظ اور نصیحت کے ہوتی رہے گی- بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیںکہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظران احسانات کے جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامہ خلائق پر وارد ہیں- سلطنت ممدوحہ کو خداند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الہٰی کے اس کا شکر بھی ادا کریں- لیکن پنجاب کے مسلما ن بڑے نا شکر گزار ہونگے- اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے نعمتِ عظمیٰ یقین نہ کیسے امن و امان میں آ گئے- پس فی الحقیقت یہ سلطنتان کے لئے ایک آسمانی بر کت کا حکم رکھتی ہے جس کے آنے سے سب تکلیفیں اُن کی دور ہوئیں- ہر یک قسم کے ظلم اور تعدی سے نجات حاصل ہوئی- اور ہر ایک جائز روک مزاحمت سے آزادی میسر آئی- کوئی ایسا مانع نہیں کہ جو نیک کام کرنے سے روک سکے یا ہماری آسایش میں خلل ڈال سکے- پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے ایک باران رحمت بھیجاہے جس کے پودہ اسلام اس ملک پنجاب میں سر سبز ہو تا جاتاہ ہے- اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کا اقرار ہے- یہی سلطنت ہے جس کی آزادی ایسی بدیہی اور مسلم الثبوت ہے کہ بعض دوسرے ملکوں سے مظلوم مسلمان ہجرت کر کے اس ملک میں آنا بدل و جان پسند کرتے ہیں - جس صفائی سے اس سلطنت کے ظلّ حمایت میں مسلمانوں کی اصلاح کے لئے اور ان کی بد عات مخلوطہ دُور کرنے کے لئے وعظہ ہو سکتا ہے- اور حن تقریبات سے علماء اسلام کو ترویج دین کے لئے اس گورنمنٹ میں جوش پیدا ہوتے ہیں- اور فکر اور نظر سے اعلیٰ درجہ کا کام لینا پڑتا ہے- اورعمیق تحقیقاتوں سے تائید دین متین اور تالیفات ہو کر حجت اسلام مخالفین پر پوری کی جاتی ہے- وہ میری دانست میں آجکل کسی اور ملک میں ممکن نہیں- یہی سلطنت ہے جہ جس عادلانہ حمایت سے علماء کو مدتوں کے بعد گویا صد ہا سال کے بعد یہ موقعہ کہ بے ڈھرک بد عات کی آلودگیوں سے شرک کی خرابیوں سے اور مخلوق پرستی کے فسادوں سے نادان لوگوں کو مطلع کریں اور اپنے رسول مقبول کا صراط مستقیم کھول کر ان کو بتلا دیں - کیا ایسی سلطنت کی بد خواہی جس کے زیر سایہ تمام مسلمان ہیں آزادی سے بسر کرے ہیں اور فرائض دین کو کما حقہ بجالاتے ہیں اور ترویج دین مین سب ملکوں سے زیادہ مشغول ہیں ، جائز ہو سکتی ہے حاشاد کلا ہر گز جائز نہیں- اور نہ کوئی نیک اور دیندار آدمی ایسا بد خیال دل میں لا سکتا ہے ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ دنیامیں آج ایک سلطنت ہے جس کے سایہ عاطفت میں بعض بعض اسلامی مقاصد ایسے حاصل ہوتے ہیں کہ جو دوسرے ممالک میں ہر گز ممکن الحصول نہیں- شیعوں کے ملک میں شیعہ اپنی رائے ظاہر کرنے سے خائف ہیں- ایسا ہی مقلدین موحدین کے شہروں میں اور موجدین مقلدین کی بلاد میں دم نہیں مار سکتے- اور گو کسی بد عت کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں مونھ سے بات نکا لنے کا موقعہ نہیں رکھتے- آخر یہی سلطنت ہے جس کی پناہ میں ہر یک فرقہ امن آرام سے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے- اور یہ بات اہل حق کے لئے نہایت ہی مفید ہے- کیونکہ جس ملک میں بات کی گنجائش ہی نہیں- نصیحت دینے کا حوصلہ ہی نہیں - اس ملک میں کیونکر راستی پھیل سکتی ہے- راستی پھیلانے کے لئے وہ ملک مناسب ہے جس میں آزادی سے اہل حق وعظ کر سکتے ہیں- یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ دینی جہادوں سے اصلی غرض آزادی کا قائم کرنا اور ظلم کا دُور کرنا تھا اور دینی جہاد انہیں ملکوں کے مقابلہ پر ہوئے تھے جن میں واعظین کے اپنے وعظ کے وقت جان کا اندیشہ تھا اور جن میں امن کے ساتھ وعظ ہونا قطی محال تھااور کوئی شخص طریقہ حقہ کو اختیار کر کے اپنی قوم کے ظلم سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا - لیکن سلطنت انگلشیہ کی آزادی نہ صرف ان خرابیوں سے خالی ہے بلکہ اسلامی ترقی کی بدر جہ غایت ناصر اور مؤید ہے- مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس خداداد نعمت کا قدر کریںکہ اس مربیّ سلطنت کی شکر گزاری کے لئے یہ بھی پر ضرور ہے کہ جیسا ان کی دولت ظاہری کہ خیر خواہی کی جائے ایسا ہی اپنے وعظ اور معقول بیان اور عمدہ تالیفات سے یہ کوشش کی جائے کہ کسی طرح دین اسلام کی بر کتیں بھی اس قوم کے حصہ میں آ جائیں اور یہ امر بجر رفق اور مدارات اور محبت اور حلم کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا- خدا کے بندوں پر رحم کرنا اور عرب اور انگلستان وغیرہ ممالک کا ایک ہی خالق سمجھنا اور اس کی عاجز مخلوق کی دل و جان سے غم خواری کرنا اصل دین و ایمان کا ہے- پس سب اوّل بعض اُن نا واقف انگریزوں کے اس وہم کو دُور کرنا چاہیے کہ جو بوجہ نا واقفیت یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا قوم مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ جو نیکی کرنے والوں سے بد کرتی ہے اور اپنے محسنوں سے ایذاء کے ساتھ پیش آتی ہے اور اپنی مربیّ گورنمنٹ کی بد خواہ ہے - حالانکہ اپنے محسن کے ساتھ با حسان پیش آتی ہے اوراپنی مربیّ گورنمنٹ کی بد خواہ ہے- حالانکہ اپنے محسن کے ساتھ نام و نشان پایا جاتا- و قال اللہ تعالیٰ- انّ اللہ یا مر العدل والا حسان و ایتآ ء ذی القربیٰ- و قال رسول اللہ صلے اللہ علیہ من اصطع الیکم معر وفاً فجازوہ فان عجز تم مجاز ا تہ فاد عوالہ حتی یعلم نکم قد شکر تم فان اللّٰہ شاکر ایجب الشاکرین -
اللمقس :- خاکسار غلام احمد عفی
(منقول از براہین احمدیہ ملحقہ صفحہ الف و ب مطبوعہ ۱۸۸۲ء پر یس امرتسر)
(۳۰)
عذر اطلّاع
٭ اب کی دفعہ جو کہ حصہ سوم کے نکلنے میں حد توقف ہو گئی- غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت حیران ہوں گے- اور کچھ تعجب نہیں لوگ طرح طرح کے شکوک و شبہات بھی کرتے ہوں- مگر واضح رہے کہ یہ توقف ہماری طرف سے ظہور نہیں آئی بلکہ اتفاق یہ ہو گیا- کہ جب مئی ۱۸۸۱ء کے مہینہ میں کچھ سرمایہ جمع ہونے بعد مطبع سفیرہند امرت سر میں اجزاء کتا ب چھپنے کے لئے دیئے گئے- اور امید تھی کہ غائت کا رو ماہ میں حصہ سوم چھپ کر شایع ہو جائے گا- لیکن تقدیری اتفاق سے جن میں انسان ضعیف النبیان کی کچھ پیش نہیں جا سکتی- مہتم صاحب مطبع سفیر ہند طرح طرح کی نا گہانی آفات اور مجبوریوں میں مبتلا ہو گئے- جن مجبوریوں کی وجہ سے ایک مدت دراز تک مطبع بند رہا- چونکہ یہ توقف ان کے اختیار سے باہر تھی- اس لئے ان کی قائمی جمیعت تک برداشت سے انتظار ہو گئے- اور اب کچھ تھوڑے عرصہ سے حصّہ سوم کا چھپنا شروع ہو گیا- لیکن چونکہ اس حصہ کے چھپنے میں بوجہ موانع مذکورہ بالا ایک زمانہ دراز گزر گیا- اس لئے ہم نے بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کو قرین مصلحت سمجھا کہ اس حصہ کے مکمل طور پر چھپنے کا انتظار نہ کیا جائے- اور جس قدر اب تک چھپ چکا ہے- وہی خریداروں کی خدمت میں بھیجا جاوے تا ان کی تسلّی و تشفی کا موجب ہو اور جو کچھ اس حصّہ میں سے باقی رہ گیا ہے- اور انشاء اللہ القدیر چہارم حصہ کے ساتھ جو ایک بڑا حصہ ہے چھپوایا دیا جائے گا-
شاید ہم بعض دوستوں کی نظر میں اس وجہ سے قابل اعتراض ٹھہریں کہ ایسے مطبع میں جس میں ہر دفعہ لمبی لمبی توقف پڑتی ہے کیوں کتاب کا چھپوانا تجویز کیا گیا- سو اس اعتراض کا جواب ابھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ مہتمم مطبع کی طرف سے لا چاری توقف ہے اختیاری اور وہ ہمارے نزدیک ان مجبوریوں کی حالت میں قابل رحم ہیں نہ قابل رحم وقابل الزام- ما سوائے اس کے مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں- اور اپنی خدمت کو عر قر یایزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں- یہ پادری صاحب ہیں مگر با وجود اختلاف مذہب کے خدا نے ان کی کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی و قیقہ باقی نہیں چھوڑتے- ان کو اس بات کا ایک سوداہے کہ کام عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے- انہیں و جود کی نظر سے باوجود اس بات کے کہ دوسرے مطابع کی نسبت ہم کو اس مطبع میں بہت زیادہ حق الطبع دینا پڑتا ہے- تب بھی انہیں کا مطبع پسند کیا گیا اور آئندہ امید قوی ہے کہ ان کی طرف سے حصہ چہارم کے چھپنے میں کوئی توقف نہ ہو- صرف اس قدر توقف ہو گی کہ جب تک سرمایہ کے انتظار میں مضطرب اور متردد نہوں- جب بھی کہ وہ حصہ چھپے گا خواہ وہ جلدی اور خواہ کچھ دیر سے جیسا خدا چاہے گا فی الفور تمام خریداروں کی خدمت میں بھیجا جائے گا- اور اس جگہ اُن تمام صاحبوں کی توجہ اور اعانت کا شکر کرتا ہوں جنہوں نے خالصاً للہ حصہ سوم کے چھپنے کے لئے مدد دی- اور یہ عاجز خاکسار اَبْ کی دفعہ ان عالی ہمت نے صاحبوں کے اسماء مبارکہ لکھنے سے اور نیز دوسرے خریداروں کے اندارجِ نام سے بوجہ عدم گنجائش اور بباعث بعض مجبوریوں کے مقصرہے- لیکن بعد اس کے اگر خدا چاہے گا اور نیت درست ہو گی تو کسی آئندہ حصہ میں بہ تفصیل تمام درج کئے جائیں گے-
اور نیز اس جگہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حصہ سوم میں تمام وہ تمھیدی اُمور لکھے گئے ہیں- جن کا غور سے پڑھنا اور یاد رکھنا کتاب کے آئندہ مطالب سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے اور اس کے پڑھنے سے یہ بھی واضح ہو گاکہ خدا نے دین اسلام میں وہ عزت اور عظمت اور برکت اور صداقت رکھی ہے جس کا مقابلہ کسی زمانہ میں کسی غیر قوم سے کبھی نہیں ہوسکا اور نہ اب ہو سکتا ہے- اور اس امر کو مدلل طور پر بیان کر کے تمام مخالفین پر اتمام حجت کیا گیا ہے اور ہر یک طالب حق کے لئے ثبوت کامل پانے کا دروازہ کھول دیا گیاہے- تا حق کے طالب اپنے مطلب اور مراد کو پہنچ جاویں اور تام تمام مخالف سچائی کے کامل نوروں کو دیکھ کر شرمندہ اور لاجواب ہوں اور وہ لوگ بھی نادم اور منفعل ہوں- جنہوں نے یورپ کی جھوٹی روشنی کو اپنا دیوتا بنا رکھا ہے اور آسمانی برکتوں کے قائلوں کو جاہل اور وحشی اور نا تربیت یا فتہ سمجھتے ہوئے اور سماوی نشانوں کے ماننے والوں کے نام احمق اورسادہ لوح اور نادان رکھتے ہیں جب کا یہ گمان ہے کہ یورپ کے علم کی نئی روشنی اسلام کی روحانی برکتوں کو مٹا دے گی- اور مخلوق کا مکر خالق کے نوروں پر غالب آ جائے گا- سو اب ہر یک منصف دیکھیگا- کہ کون غالب آیا اور کون لا جواب اور عاجز رہا اور کون صادق اور دانشمند ہے- اور کون کاذب اور نادان واللہ المستعان و علیہ التکلان
خاکسار:- غلام احمد عفی اللہ عنہ
(منقول از براہین احمدیہ حصہ سوم بار دوم صفحہ ۲،۳ ملحقہ ٹائیٹل جنوری ۱۹۰۵)
(مطبوعہ ضیاء الا سلام پریس قادیان )


(۳۱)
اشتہار واجب الاظہار
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
چونکہ اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو بہ صفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا- وہ شخص سکنہ قادیان یعنی حافظ سلطان کشمیری و صابر علی نے رو بروئے مرزانواب بیگ و میاں شمس الدین و مرزا غلام علی ساکنان قادیان یہ دروغ بے فروغ برپا کیا ہے کہ ہماری دانست میں عرصہ ڈیڑھ ماہ سے صاحب مشتہر کے گھر لڑکا پیدا ہو گیا ہے- حالانکہ یہ قول نا مبرد گان سراسر افتراء اور دردغ و بمقضائے کینہ و حسد و عناد جبلی ہے جس سے وہ صرف مجھ پر بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں- اس لئے ہم ان کے اس قول دردغ کا درّ واجب سمجھ کر عام اشتہار دیتے ہیں کہ ابھی تک جو ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء ہے- ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دو لڑکوں کے جن کی عمر ۲۰،۲۲ سال سے زیادہ ہے پید انہیں ہوا- لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب کے اندر پیدا ہو جائے گا- اور یہ اتہام کہ گویا ڈیڑھ ماہ سے پیدا ہو گیا ہے- سراسر درد غ ہے ہم اس دروغ کے ظاہر کرنے کے لئے لکھتے ہیں- کہ آج کل ہمارے گھر کے لوگ بمقام چھائونی انبالہ صد بازار اپنے والدین کے پاس یعنے والد میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر کے پاس بودوباش رکھتے ہیں اور ان کے گھر متصل منشی مولا بخش صاحب ملازم ڈاک ریلوے اور بابو محمد صاحب کلرک دفتر نہر رہتے ہیں- معترضین یا جس شخص کو شبہ ہو اس پر واجب ہے کہ اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے وہاں چلا جاوے اور اس جگہ ارد گرد سے خوب دریافت کر لے- اگر کرایہ آمد ورفت موجود نہ ہو کو ہم اس کو دے دیں گے- لیکن اگر ابھی کاج کر دریافت نہ کرے - اور نہ دروغ گوئی سے باز آوے تو بجز اس کے کہ ہمارے اور تمام حق پسندوں کی نظر میں لعنات اللہ علی الکاذبین کا لقب پاوے اور نیز زیر عتاب حضرت احکم الحاکمین کے آوے اور کیا ثمرہ اس یا وہ گوئی کا ہو گا- خدا تعالیٰ ایسے شخصوں کو ہدایت دیوے کہ جو جوش حسد میں آ کر اسلام کی کچھ پر واہ نہیں رکھتے اور اس دردغ گوئی کے مال کو بھی نہیں سوچتے- اس جگہ اس وہم کو دور کرنا بھی قرین مصلحت ہے کہ جو بمقام ہوشیار پور ایک آریہ صاحب نے اس پیشگوئی پر بصورت اعتراض پیش کتا تھا کہ لڑکا لڑکی کے پیدا ہونے کی شناخت دائیوں کو بھی ہو تی ہے- یعنی دائیاں بھی معلوم کر سکتی ہیں کہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی- واضح رہے کہ ایسا اعتراض کرنا معترض صاحب کی سراسر جیلہ سازی و حق پوشی ہے - کیونکہ اول تو کوئی دائی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایک حاذق طبیب بھی ایسا دعوے ہر گز نہیں کر سکتا کہ اس امر میں میری رائے قطعی اور یقینی ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں- صرف ایک اٹکل ہوتی ہے کہ جو بار ہا خطا جاتی ہے- علاوہ اس کے یہ پیشگوئی آج کی تاریخ میں دو برس پہلے کئی آریوں اور مسلمانوں و بعض مولویوں و حافظوں کو بھی بتلائی گئی تھی- چنانچہ آریوں میں سے ایک شخص ملاوامل نام جو سخت مخالف اور نیز شرمپت ساکنان قصبہ قادیان میں اس کے ایک نادان بھی سمجھ سکتا ہے- کہ مفہوم پیشگوئی کا اگر بنظر یکجائی دیکھا جاوے تو ایسا بشریٰ طاقتوں سے بالا تر ہے جس کے نشان الہٰی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہ سکتا اگر شک ہو تو ایس قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو پیش کرے- اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے- کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّشانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد صلی اللہ و علیہ و سلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے ظاہر فرمایا اور در حقیقت یہ نشاں ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولی و اکمل و افضل و اتم ہے کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہٰی میں دعا کر کے ایک رُوح واپس منگوایا جاوے- اور ایسا مُردہ زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی نسبت بائیبل میں لکھا گیا ہے- جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے- اور پھر وصف ان سب لقلی اور نقلی جرح و قدح کے یہ بھی منقول ہے کہ ایسا مردہ صرف چند منٹ کے لئے زندہ رہتاتھا اور پھر دوبارہ اپنے عزیزوں کو دوہرے ماتم میںڈال کر اس جہاں سے رخصت ہو جاتا جس کے دنیا میں آنے سے بہ دنیا کو کچھ فائدہ پہنچتا تھا نہ خود اس کو آرام ملتا تھا- اور نہ اس کے عزیزوں کو کوئی سچی خوشی حاصل ہوتی تھی سو اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا سے بھی گوئی رُوح دنیا میں آئی تو در حقیقت اس کاآنا نہ آنا برابر تھا- اوربغرض محال اگر ایسی رُوح کگئی سال جسم میں باقی رہتی تب بھی ایک ناقص رُوح کسی رذیل یا دنیا پرست کی جو احسہ من الناس ہے دنیا کو کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی- مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الا نبیاء صلی اللہ ول علیہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی با برکت رُوح بھیجنے کا وعد فرمایا جس کی ظاہری وباطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی- اور اگرچہ بظاہر یہ نشان احیاء موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہو گاکہ یہ نشان احیاء موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے- مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ نشان اس جگہ بھی دعا سے ایک رُوح ہی منگائی گئی ہے مگر اُن روحون اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں و ہ آنحضرت صلی اللہ و علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ کیوں ہوا-
اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے- وہ درحقیت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم ہے حملہ کرنا چاہتا ہے مگر اس کو یادرکھنا چاہیے کہ وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا- بلکہ وہی خاک اس کے سر پر آنکھوں پر اس کے منہ پر گر اس کو ذلیل اور رُسوا کرے گی- اور ہمارے نبی کریم کی شان و شوکت اس کی عادت اور اس کے بخل سے کم نہیں ہو گی- بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا- کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو- ایسے ہی تم آنحضرت صلی اللہ و علیہ وسلم کے آفتاب صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے خدا تعالیٰ تمہارے کینوں اور بخلوں کو دور کرے-
والسلام علیٰ من اتبع الھدی
راقـــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ
از قادیان ضلع گورداسپور ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء روز دو شنبہ
مطبوعہ چشمہ فیضل قادر بٹالہ شریف
(یہ اشتہار ۸/۲۰-۲۲ کے دو صفحوں کا ۲۵ مسطر پر چھپا ہوا ہے )
(۳۲)
٭اشتہار صداقت اٰثار
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
واضح ہو کہ اس خاکسار کے اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء پر بعض صاحبوں نے جیسے منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے یہ نکتہ چینی کی ہے کہ نو برس کی حد جو پسر موعود کے لئے بیان کی گئی ہے- یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے- ایسی لنبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پید اہو سکتا ہے- سو اوّل اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لنبی میعاد سے گو برس سے بھی برس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا- بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے- کہ ایسے عالی درجہ کی خبر ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے، انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے اور دُعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے- ماسوا اس کے اب بعد اشاعت اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس کے انکشاف کے نئے جناب الہٰی میں توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جلشانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا٭ اس سے ظاہر نہیں کیا گیا جو اب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا- اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انہوںنے کہا کہ آنیوالا یہی ہے اوسی ظاہر کرتا ہے جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا ہے- آیندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہو گا وہ بھی شایع کیا جاوے گا- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
الـــــــــــــــــــــــــــــــمشـــــھر
خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۸ اپریل ۱۸۸۶ء مطابق دوم رجب ۱۳۰۳ء
(۳۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
٭اشتہار صداقت انوار
بغرض دعوت مقابلہ چہل روزہ
گرچہ ہر کس زرہ بیا نے ادارہ
صادق آنست کہ از صدق نشانے دارد
ہمارے اشتہارات گزشتہ کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز صاحب یا پادری مخالف اسلام ہیں- اگر ان میں سے کو ئی صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب مخالف اسلام ہیں- اگران میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تو درصورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے چوبیس سو روپیہ ٭انعام پائے گا- سو پر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان و آری صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسڑی کرا کر بھیجے مگر کوئی صاحب قادیان تشریف نہ لائے- ملکہ منشی اندر من صاحب کے لئے تو مبلغ چوبیس ہزار روپیہ نقد لاہور بھیجا تیا تو وہ کنارہ کر کے فرید کوٹ کی طرف چلے آئے- ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان ضرور آئے اور اُن کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق نلکہ اس تنخواہ سے دو چند پشاور اور اخیر پر بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہرو تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا اور اخلاف واقعہ سر اسر دردغ بے فروغ اشتہارات چھپوائے- سو اُن کے لیے تو رسالہ سُرمہ چشم ٭آریہ میں دوبارہ بھی چالیس دن تک اس جگہ رہنے کا پیغام تحرر کیا گیا ہے- ناظرین اس کو پڑھ لیں- لیکن یہ اشتہار تمام حجت کی غرض بمقابل منشی جیون داس صاحب جو سب آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلید صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار عبد اللہ آتھم اکسٹر اسٹنٹ کمشنر رئیس امر تسر جو حضرات عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں اور پادری عماد الدین لا ہزصاحب امرتسرری اور پادری ٹھا کرو اس صاحب مؤلف کتاب اظہار عیسوی شائع کیا جاتا ہے کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرائط سے مقرر کرتے ہیںکہ جو صاحب آزمایش و مقابلہ کرنا چاہیں- وہ برابر چالیس دن تک ہمارے پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہو رہیں- اور برابر حاضر رہیں- پس اس عرصہ میں اگر ہم کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہوروہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہو مگر اسی طرح طرح صاحب ممتحن اس کا مقابلہ کر کے دکھلا ویں تو مبلغ پانسو روپیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اسی وقت بلا توقف اُن کو دیا جائے گا- لیکن اگر وہ پیشگوئی وغیرہ بپایہ صداقت پہنچ گئی- تو صاحب مقابل کی بشرف اسلام مشرف ہونا پڑے گا- اور یہ بات نہایت ضروری یاد داشت ہے کہ پیشگوئیوں میں صرف زبانی طور پر نکتہ چینی کرنا یا اپنی طرف سے شرائط لگا نا ناجائز اورغیر مسلم ہو گا- بلکہ سیدھا راہ شناخت پیشگوئی کا یہی قرار دیا جائے گا- کہ اگر وہ پیشگوئی ناجائز اور غیر مسلم ہوگا- بلکہ سیدھا راہ شناخت پیشگوئی کا یہی قراردیا جائے گا- کہ اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا اُن کی نظر میں قیافہ وغیرہ سے مشابہ تو اسی عرصہ چالیس زاور میں بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت ظاہر کر کے دکھلادیں- اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت ان پر تما م ہو گی اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہرحال انہیں مسلما ن ہونا پڑے گا- اور یہ تحریریںپہلے سے جانبین میں تحریر ہو کر انعقادپا جائیں گی - چنانچہ اس رسالہ کے شایع ہونے کے وقت سے یعنے ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان کو دی جاتی ہے اگر اس عرصہ میں ان کی طرف سے اس مقابلہ کے لئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا- کہ وہ گزیز کر گئے والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمشتھر
خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گوردارسپور
(منقول از سُرمہ چشم آریہ مطبوعہ اوّل - ریاض ہند پریس امرتسر- ستمبر ۱۸۸۶ء صفحہ ۲۵۶- ۲۶۰)
(۳۴)
اشتہار مفید الاخیار
جاگو جاگو آریو نیند نہ کرو پیدا
چونکہ آج کل اکثر ہندوئوں اور آریوں کی یہ عادت ہو رہی ہے کہ وہ کچھ کچھ کتابیں عیسائیوں کی جو اسلام کی نکمہ چینی میں لکھی گئی ہیں- دیکھ کر اور ان پر پورا پورا اطمینان کر کے اپنے دل میں یہ خیال کر لیتے ہیں- کہ حقیقت میں یہ اعتراضات درست اور واقعی ہیں- اس لئے قرین مصلحت سمجھ کر اس عام اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دی جاتی ہے کہ اول تو عیسائیوں کی کتابوں پر اعتماد کرلینا اور براہ راست کسی فاضل اہل اسلام سے اپنی عقدہ کشانی نہ کرانا اور اپنے اوہام فاسدہ کا محقیقن اسلام سے علاج طلب کرنا اور خائنین عناد پیشہ کو سمجھ بیٹھنا سراسر بے راہی ہے جس سے طالب حق کو پرہیز کرنا چاہیے- دانشمند لوگ خوب جانتے ہیں- کہ یہ جو پادری صاحبان پنجاب اور ہندوستان میں آ کر اپنے مذاہب کی تائید میں دن رات ہزار ہا منصوبے باندھ رہے ہیں یہ ان کے ایمانی جوش کا تقاضا نہیں بلکہ انواع اقسام کی اغراض نفسانی ان کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتے ہیں- اگروہ انتظام مذہبی جس کے باعث سے یہ لوگ ہزار ہا روپیہ تنخواہیں پاتے ہیں، درمیان سے اُٹھایا جاوے- تو پھردیکھنا چاہیئے کہ ان کا جوش و خرش کہاں ہے ماسوا اس کے ان لوگوں کی ذاتی علمیت اور دماغی روشنی بھی بہت کم ہوتی ہے اور یورپ کے ملکوں میں جو واقعی دانا اور فلاسفر اور دقیق النظر ہیں- وہ پادری کہلانے سے کراہت اور عار رکھتے ہیں اور ان کو ان کے بیہودہ خیالات پر اعتقاد بھی نہیں- بلکہ یورپ کے عالی حکماء کی نگاہوں میں پادری کا لفظ ایسا خفیف اور دور از فضیلت سمجھا جاتا ہے کہ گویا اس لفظ سے یہ مفہوم لازم پڑا ہوا ہے کہ جب کسی پادری کر کے پکارا جاوے تو ساتح ہی دل میں یہ بھی گذر جاتاہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کی علمی تحصیلوں اور لیاقتوں اور باریک خیالات سے بے نصیب ہے - اور جس قدر ان پادری صاحبان نے اہل اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات کر کے اور بار بار ٹھوکریں کھا کر اپنے خیالات میں پلٹے کھائے- ہیں اور طرح طرح کی مذامتیں اُٹھا کر پھر اپنے اقوال سے رجوع کیا ہے- یہ بات اس شخص کو بخوبی معلوم ہو جائے گی جو اُن کے فضلاء اسلام کے باہمی مباحثات کی کتابوں پر ایک محیط نظر ڈالے- ان کے اعتراضات تین قسم سے باہر نہیں- یا تو ایسے ہیں کہ جو سراسر افتراء اور بہتان ہیں- جن کی اصیلت کسی جگہ پائی نہیں جاتی اور یا ایسے ہیں کہ فی الحقیقت وہ باتیں ثایت تو ہیں لیکن محل اعتراض نہیں محض سادہ لوحی اور کور باطنی اور قلت مدبر کی وجہ سے اُن کو جائے اعتراضات نہیں ہو سکے- اور باقی سب بہتان اور افتراء ہیں جو ان کے ساتھ ملائے گئے ہیں- اب افسوس تو یہ ہے کہ آریوں نے اپنے گھر کی عقل کو بالکل استغفار دے کر ان کی تمام دور از صداقت کاروائیوں کو سچ مچ صحیح اور درست سمجھ لیا- اوربعض آریہ ایسے بھی ہیں کہ وہ قرآن شریف کا ترجمعہ کسی جگہ سے ادھورا سا دیکھ کر یا کوئی قصہ بے سرو کسی جاہل یا مخالف سے سنکر جھٹ پٹ اوس کو بناء کر اعتراض قرار دیتے ہیں- سچ تو یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا- اس کی عقل بھی بباعث تعصب اور عناد کی زہروں کے نہایت ضعیف اور مُردہ کی طرح ہو جاتی ہے - اور جو بات عین حکمت اور معرفت کی ہو اس کی نظر سعتیم اور سراسر عیب دکھائی دیتی ہے-سو اسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے- اورظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اُصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں- اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مواخذہ کے لایق نہیں- اورچونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد ہا جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتاہے- اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر اُن کو اُصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اوّل بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے-یعنی ان کے سب اعتراضوںسے ان کی نظر میں اقوی و اشد و انتہائی درجہ کے ہوں جن پر اُ ن کی نکتہ چینی کی پر روز نگاہیں ختم ہو گئی ہوں- اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جا ٹھہری ہوں-سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہیے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا- کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق ناچیز نکلے تو پھر چھوٹے اعترا ض ساتھ ہیں ناطود ہو جائیں گے- اور اگر ہم ان کافی و شافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوںاور تعلیموں کو فریق مخالف بے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ ذیل اور ناقص اور دوراز صداقت خیالات ہیں- تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دی جائے گا- لیکن اگر فریق مخالف انجام کار جھوٹا نکلا- اور وہ تمام خوبیاں جو اہم اپنے اُن اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کر کے دکھلا ویں بمقابل اُن کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کر سکا- تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ اُسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا- اور اسلام لانے کے لئے اوّل حلف اُٹھا کر اسی عہد کا اقرار کرنا ہوگا- اور پھر بعد میں ہم اس کے اعتراضات کا جواب ایک رسالہ متقلہ میں شایع کرا دیں گے- اور جو اس کے بالمقابل اُصولوں پر ہماری طرف سے حملہ ہو گا- اس حملہ کی مدافعت میں اس پر لازم ہو گا- کہ وہ بھی ایک مستقل رسالہ شایع کر ے- اور پھر دونوں رسالوں کے چھپنے کے بعد کسی ثالث کی رائے پر یا خود فریق مخالف کے حلف اُٹھانے پر فیصلہ ہوگا- جس طرح دو راضی ہوجائے- لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو- اور مذہب کی کتاب میں مادہ علمی بھی رکھتا ہو- اور بمقابل ہمارے حوالہ اور بیان کے اپنا بیان بھی بحوالہ اپنی کتاب کے تحریر کر سکتا ہو تا ناحق ہمارے اوقات کو ضائع نہ کرے اور اگر اب بھی کوئی نامنصف ہمارے اس صاف صاف منصفانہ طریق سے گریز اور کنارہ کر جائے- اور بد گوئی اور دشنام دہی اور توہین اسلام سے بھی باز نہ آوے تو اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ وہ کسی حالت میں اس *** کے طویق کو اپنے گلے سے اوتارنا نہیں چاہتا کہ جو خدا تعالیٰ کی عدالت اور انصاف نے جھوٹوں اور بے ایمانوں اور بد زبانوں اور بخیلوں اور متعصبوں کی گردن کا ہار رکھا ہے- والسلام علیٰ من اتبع الھدی
بالآخر واضح رہے کہ اس اشتہار کے جواب میں ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے تین ماہ تک کسی پنڈت یا پادری جواب دہندہ کا انتظار کیا جائے گا- اور اگر اس عرصہ علماء آریہ وغیرہ خاموش رہے انہیں خاموشی ان پر حجت ہو گی-
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمشتھر
خاکسار غلام احمد مؤلف رسالہ سر مہ چشم آریہ
(منقول از سرمہ چشم آریہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل ستمبر ۱۸۸۶ء )
جو صفحہ ۲۶۰ کے آگے چسپاں ہے اور چارصفحہ کا اشتہار ہے - صفحہ ۱ تا ۴
(المرتب)
(۳۵)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشتہار محک اخیار و اشرار
ہم نے الفت میں تری بار اٹھایا کیا کیا- تجھکو دکھلاکے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا
ہر ایک مومن اور پاک باطن اپنے ذاتی تجربہ سے اس بات کا گواہ ہے کہ جو صدق دل سے اپنے مولیٰ کریم جلّ شانہ، سے کامل وفاداری اختیار کرتے ہیں - وہ اپنے ایمان اور صبر کے اندازہ پر مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں- اور سخت سخت آزمایشوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو بد طن لوگوں سے بہت کچھ رنجدہ باتیں سننی پڑتی ہیں- اور انواع اقسام کی مصائب و شدائد کو اُٹھانا پڑتا ہے اور نا اہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگا رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھے ہیں اور اُن کے نابود کرنے فکر میں لگے رہتے ہیں یہی عادت اللہ اُن لوگوں سے جاری ہے جن پر اس کی نظر عنایت ہے - غرض جو اس کی نگاہ میں راست باز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اُٹھائے چلے آئے ہیں- سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ اُٹھائیں تو ہمیں شکر بجا لانا چاہیے -اور خوش ہونا چاہیے- کہ اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لایق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ دُکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں- کہ بعض دشمنان دیں اپنی افتراء پردازی سے صرف ہماری ایذارسانی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ بے تمیز اور بے خبر لوگوں کو فتنہ ڈالتے ہیں تو صورت میں ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ حتیٰ الوسع اُن لوگوں کو فتنہ سے بچا ویں-
سو واضح ہو کہ بعض نا خدا ترس جن کے دلوں کے زنگ تعصب و بخل نے سیاہ کر رکھا ہے- ہمارے اشتہارمطبوعہ ۸ اپریل ۱۸۸۶ء کویہودیوں کی طرح محرف و مبدّل کر کے اور کچھ کے کچھ معنے بنا کر سادہ لوح کو سناتے ہیں اور نیز اپنی طرح سے اشتہارات شایع کرتے ہیں- تا دھوکا دے کر اُن کے یہ ذہن نشین کریں کہ جو لڑکا پیدا ہنے کی پیشگوئی تھی اس کا وقت گزر گیا اور وہ غلط نکلی-ہم اس کے جواب میں صرف *** اللہ علیٰ الکاذبین کہنا کا فی سمجھتے ہیں- لیکن ساتھ ہی ہم افسوس بھی کرتے ہیں کہ ان بے عزتوں اور دیوتوں کو بباعث سخت درجہ کے کینہ اور بخل اور تعصب کے اب کسی *** ملامت کا بھی خوف اور اندیشہ نہیں رہا اور جو شرم اور حیاء اور خدا ترسی لازمہ انسانیت ہے وہ سب نیک خصلتیں ایسی ان کی سرشت سے اُٹھ گئی ہیں کہ گویا خد ا تعالیٰنے ان میں پیدا ہی نہیں کیں اور جیسے ایک بیمار اپنی صحت یابی سے نو اُمید ہو کر اور صرف چند روز زندگی سمجھ کر سب پر ہیزیں توڑ دیتا ہے اور جو چاہتا ہے کھا پی لیتا ہے- اسی طرح انہوں نے بھی اپنی مرض کینہ اور تعصب اور دشمنی کو ایک آزاد لا علاج خیال کر کے دل کھول کر بد پر ہیزیاں اور بے راہیاں شروع کی ہیں- جن کا انجام بخیر نہیں- تعصب اور کینہ کے سخت جنون نے کیسی انکی عقل مار دی ہے نہیں دیکھتے کہ اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء میں صاف صاف میں کسی برس یا مہینے کا ذکر نہیں اور نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جو نو برس کی میعاد رکھی گئی اب وہ منسوغ ہو گئی ہے- ہاں اس اشتہار میں ایک یہ فقرہ ذوالوجود درج ہے کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا- مگر کیا اسی قدر فقر ہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ مدت حمل سے ایام باقیماندہ حمل موجودہ مراد ہیں کوئی اورمدت مراد نہیں اگر اس فقرہ کے سر پر اس کا لفظ ہوتا تو بھی اعتراض کرنے کے لئے کچھ گنجایش نکل سکتی مگر جب الہامی عبارت کے سر پر اِس کا لفظ (جو مخصص وقت ہو سکتا ہے) وارہ نہیں تو پھر خواہ نخواہ اس فقرہ سے وہ معنے نکالنا جو اس صورت میں نکالے جاتے جو اس کا لفظ فقرہ مذکورہ کے سر پرہوتا ، اگر بے ایمانی اوربد دیانتی نہیں تو اور کیا ہے - دانشمند آدمی جس کی عقل اور فہم میں کچھ آفت نہیں اور جس کیسی تعصب یا شرارت کا حجاب نہیں وہ سمجھ سکتا ہے کہ کسی ذوالوجوہ فقرہ کے معنے کرنے کے وقت وہ سب اجتماعات مد نظر رکھنے چاہیں جو اس فقرہ سے پیداہو سکتے ہیں- سو فقرہ مذکورہ بالا یعنے یہ کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا- ایک ذولوجوہ فقرہ جس کی ٹھیک ٹھیک وہی تشریح ہے جو میر عباس علی شاہ صاحب لدھیانوی نے اپنے ٭اشتہار آٹھ جون ۱۸۸۶ء میں کی ہے یعنی یہ کہ مدت موجودہ حمل سے ( جو نو برس ہے)یا مدت معبوہ حمل سے ( جو طبیبوں کے نزدیک اڑھائی برس یا کچھ زیادہ ہے ) تجاوز نہیں کر سکتا- اگر حمل موجود میں حصر رکھنا مخصوص ہوتا تو عبارت یوں چاہیے تھی کہ اس باقیماندہ ایام حمل سے ہر گز تجاوز نہیں کرے گا- اور اسی طرح ہم نے اُس اشتہار میں اشارہ بھی کر دیاتھا کہ وہ فقرہ مذکورہ بالا حمل موجودہ سے مخصوص نہیںہے مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ آنکھوں کے اندھے بھی جاتے ہیں-
بالآخر ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک بڑی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس نے اب کی دفعہ عطاء نہیں کیا- کیونکہ اگر وہ اب کی دفعہ پید اہوتا تو ایسے لوگوں پر کیا اثر پر سکتا - جو پہلے ہی سے یہ کہتے تھے کہ قواعد طبی کی رو سے حمل موجودہ کی علامات سے ایک حکیم آدمی بتلا سکتا ہے کہ کیا پیدا ہو گا- اور پنڈت لیکھرام پشاوری اور بعض دیگر مخالف اس عاجز پر یہی الزام رکھتے تھے کہ ان کو فن طباعت میں مہارت ہے- انہوں نے طبّ کے ذریعہ معلوم کر لیا ہوگا- کہ لڑکا پیدا ہونے والا ہے - اسی طرح ایک صاحب محمد رمضان نام نے پنجابی اخبار ۲۰ مارچ ۱۸۸۶ء میں چھپوایا کہ لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دنیا منجانب اللہ ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتا- جس نے ارسطو کا ورکس دیکھا ہو گا- حاملہ عورت کا قادرورہ دیکھ کر لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا ٹھیک ٹھیک بتلاسکتا ہے اور بعض مخالف مسلمان یہ بھی کہتے تھے کہ اصل میں ڈیڑھ ماہ سے یعنی پیشگوئی بیان کرنے سے پہلے لڑکا پیدا ہو چکا ہے جس کو فریب کے طور پر چھپا رکھا ہے اور عنقریب مشہور کیا جائے گا کہ پیدا ہو گیا - سو یہ اچھا ہوا کہ خدا یتعالیٰ نے تولد فرزند مسعود موعود کو دوسرے وقت پر ڈال دیا- ورنہ اگر اب کی دفعہ پیدا ہو جاتا تو ان مفتربات مذکورہ بالا کا کون فیصلہ کرتا- لیکن اب تولد فرزند موصوف کی بشارت غیب محض ہے -نہ کوئی حمل موجود ہے تا ارسطو کے ورکس یا جالینوس کے قواعد حمل دانی بالمعاوضہ پیش ہو سکیں- اور نہ اب رہنے کوئی بچہ چھپا ہوا ہے تا وہ مدت کے بعد نکالا جائے - بلکہ نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا حال معلوم نہیں- اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ مخواہ پیدا ہو گی چہ جائیکہ لڑکا پیداہونے پر کسی اٹل سے قطع اور یقین کیا جائے- اخیر پر ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں-کہ اخبار مذکوربالا میں مشنی محمد رمضان صاحب نے تہذیب سے گفتگو نہیں کہ بلکہ دینی مخالفوں کی طرح جا بجا مشہور افتراء پروازوں سے اس عاجز کو نسبت دی ہے- اور ایک جگہ پر جہاں اس عاجز نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا یتعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی- کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض با برکت عورتیں اس اشتہارکے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہو گی - اس پیشگوئی پر منشی صاحب فرماتے ہیں کہ الہام کئی قسم کا ہوتا ہے نیکوں کی نیک باتوں کا اور زانیوں کو عورتوں کا- ہم اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے- ناظرین منشی صاحب کی تہذیب کا آپ اندازہ کر لیں- پھر ایک اور صاحب ملازم وفتر ایگزیمز صاحب ریلوے لاہور کے جو اپنا نام ٭نبی بخش ظاہر کرتے ہیں اپنے خط مرسلہ ۱۳ جون ۱۸۸۶ء میں اس عاجز کو لکھتے ہیں کہ تمہاری پیشگوئی جھوٹی نکلی اور دختر پید اہوئی- اورتم حقیقت میں بڑے فریبی اور مکار اور دردغ گو آدمی ہو- ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا قادر مطلق- یہ لوگ اندھے ہیں ان کو آنکھیں بخش- یہ نادان ہیں ان کو سمجھ عطا کر- یہ شرارتوں سے بھرے ہوئے ہیں ان کو نیکی کی توفیق دے- بھلا کوئی اس بزرگ سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ لڑکا اسی حمل میں پیدا ہو گا- اس سے ہر گز تخلف نہیں کرے گا- اگر میں نے کسی جگہ ایسا لکھا ہے - تو میاں بخش صاحب پر واجب ہے کہ اس کو کسی اخبار میں چھپا دیں- اس عاجز کے اشتہارات پر اگر کوئی منصف آنکھ کھول کر نظر ڈالے تو اسے
معلوم ہو گا-کہ ان میں کوئی بھی ایسی پیشگوئی درج نہیں جس میں ایک ذرہ غلطی کی بھی گرفت ہو سکے- بلکہ وہ سب سچی ہیں- اور عنقریب اپنے اپنے وقت پر ظہور پکڑ کر مخالفین کی دلّت اور رسوائی کا موجب ہوں گی- دیکھو ہم نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو جب کہ اس ابتلاء کا کوئی نشان ظاہر نہ تھا- بالآخر اس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت حرج ور تکلیف اور سبکی اور خجالت اُٹھانی پڑی اور اپنے مدعا سے محروم رہا- سو دیکھو اس پیشگوئی کی صداقت کیسی کھل گئی- اسی طرح سے اپنے اپنے رقت پر سب پیشگوئیوں کی سچائی ظاہر ہو گی- اور دشمن رو سیاہ نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ رسوا ہوں گے- یہ خدا یتعالیٰ کا فعل ہے جو ابھی تک انہیں اندھا کر رکھا ہے - ان کے دلوں کو سخت کر دیا - اور ہمارے دل میں درد اور خیر خواہی کا طوفان مچا دیا سو اس مشکل کے حل کے لئے اسی جناب میں تضرع کرتے ہیں-
اے خدا نور وہ ایں تیرہ دردنانے را
یا بد درد وگر، ہیج خداوانے را
والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــمشھر
خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر )
(منقو ل از سرمہ چشم آریہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اول ستمبر ۱۸۸۶ء جو کتاب ہذا کے آخر میں صفحہ ۱ تا ۴ ہے- )



(۳۶)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشتہارواجب الاظہار
یہ رسالہ کحل الجواہر سرمہ چشم آریہ نہایت صفائی سے چھپ کر ایک روپیہ بارہ آنہ اس کی قیمت عام لوگوں کے لیے قرار پائی ہے - اور خواص اور ذی استطاعت لوگ جو کچھ بطور امداد دیں ان کے لئے موجب ثواب ہے کیونکہ سراج منیر اور براہین کے لئے اسی قیمت سے سرمانہ جمع ہو گا- اور اس کے بعد رسالہ سراج منیر انشاء اللہ القدین چھپے گا- پھر اس کے بعد پنچم حصہ کتاب براہین احمدیہ چھپنا شروع ہو گا- جو بعض لوگ توقف طبع کتاب براہین سے مضطرب ہو رہے ہیں- ان کو معلوم نہیں کہ زمانہ توقف میں کیا کیا کاروائیاں بطور تمہید کتاب کے لئے عمل میں آئی ہیں- ۲۳ ہزار روپیہ کے قریب اشتہار تقسیم کیا گیا- اور صد ہا جگہ ایشیا ء یورپ امریکہ میں خطوط دعوت اسلام اردو- انگریزی میں چھپوا کر اور رجسٹری کر اکر بھیجے گئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ پنجم حصہ میں آئے گا- اانما الا عمال بالنیات- یا یں ہمہ اگر بعض صاحب اس توقف سے ناراض ہو ں تو ہم ان کو فسخ بیع اجازت دیتے ہیں- وہ ہم کو اپنی خاص تحریر سے اطلاع دیں- تو ہم بدیں شرط کہ جس وقت ہم کو ان کی قیمت مرسلہ میسر آوے اس وقت باخذ کتاب واپس کر دیں گے- بلکہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ایسے صاحبوں کی ایک فہرست طیار کی جائے-اور ایک ہی دفعہ سب کا رفیصلہ کیا جائے- اوریہ بھی گذشتہ اشتہارمیں لکھ چکے ہیں- اور اب بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ تالیف کتاب بوجہ الہامات الٰہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے- اور اب ہماری طرف سے کوئی ایسی شرط نہیں کہ کتاب تین سو جز تک ضرور پہنچے- بلکہ جس طور پر خدایتعالیٰ مناسب سمجھے گا- کم یا زیادہ بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا- یہ سب کام اسی ہاتھ میں اور اسی امر سے ہے- واجب تھا ظاہر کیا گیا- والسلام علیٰ من اتبع الھدی
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــمشھر
خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
(منقول از اندررونی صفحہ ٹائٹل آریہ مطبوعہ بار اوّل - ر ریاض ہند پریس امرتسر)

(۳۶)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشتہارانعامی پانسو روپیہ
دربارہ کتاب لا جواب کحل الجواہر سُرمہ چشم آریہ جو آریوں کے
دید اور ان کے عقاید اور اصول کو باطل اور دوراز صدق ثابت کرتی ہے-
سرمہ چشم پر درد پر زگوہرست بیں ز سرجستجو سال ازیں ظاہر ٭ست
یہ کتاب یعنی رسالہ سرمامہ چشم آریہ مباحثہ لالہ مرلید ھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیارپور جو عقاید باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے - اس دعویٰ اور یقین سے لکھی گئی ہے- کہ کوئی آریہ اس کتاب کا ردّ نہیں کر سکتا کیونکہ سچ کے مقابل اور یقین سے لکھی گئی ہے- کہ کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں ردّ کئے گئے ہیں- سچ سمجھتا ہے اور اب بھی دید اور اس کے ایسے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں ردّ کئے گئے ہیں- سچ سمجھتا ہے اور اب بھی ود اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشرکرت ہی خیال کرتا ہے- تو اس کو اسی ایشور کی قسم ہے کہ اس کتاب مین ردّ لکھ کر دکھائے اور پانسو روپیہ انعام پاوے- یہ پانسو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو پادری برہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا- اور ہمیں یہاں تک منظور ہے کہ اگر منشی جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور جو اس گردونواح کے آریہ صاحبوں کی نسبت سلیم الطبع اور معزز اور شریف آدمی ہیں- بعد ردّ چھپ جانے اور عام طور پر شایع ہو جانے کے مجمع عام علماء مسلمانوں اور آریوں اور معزز عیسائیوں وغیرہ میں معہ اپنے عزیز فرزندوں کے حاضر ہوں اور پھر اُٹھ کر قسم کھا لیں کہ ہاں میرے دل نے بہ یقین کامل قبول کر لیا ہے کہ سب اعتراضات رسالہ سُرچشم آریہ جن کو میں نے اوّل سے آخر تک بغور دیکھ لیا ہے اور خوب توجہ کر کے سمجھ لیا ہے -٭ اس تحریر سے ردّ ہو گئے ہیں- اور اگر میں دلی اطمینان اور پوری سچائی سے یہ بات نہیں کہتا تو اس کا ضرر اور وبال اسی دنیا میں مجھ پر اور میری اسی اولاد پر جو ا س وقت حاضر ہے ،پڑے تو بعد ایسی قسم کھالینے کے صرف منشی صاحب موصوف کی شہادت سے پانسو روپیہ نقد ردّ کنندہ کو اسی مجمع میں بطور انعام دیا جائے گا- اور اگر منشی صاحب موصوف عرصہ ایک سال تک ایسی قسم کے بعد اثر سے محفوظ رہے تو آریوں کے لئے بلا شبہ یہ حجت ہو گی کہ صاحب موصوف نے اپنی دلی صداقت سے اپنے علم کے مطابق قسم کھائی تھی- والسلام من اتبع الھدیٰ
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــمشھر
خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
(منقول از ٹائٹل سرمہ چشم آریہ مطبوعہ بار اول ریاض ہند پریس امرتسر)
ستمبر ۱۸۸۶ء جو ٹائیٹل کے آخری صفحات پر ہے-
(۳۸)
اشتھار
چونکہ رسالہ سراج منیر جو پیشگوئیوں پر مشتمل ہو گا- چودہ سو روپیہ کی لاگت سے چھپے گا- اس لئے چھپنے سے پہلے خریداروں کی درخوستیں آنا ضروری ہے- تا بعد میں دقتیں پیدا ہوں- قیمت اس رسالہ کی ایک روپیہ علاوہ محصول ہو گی- لہذا اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب پختہ ارادہ سے سراج منیر کو خریدنا چاہتے ہیں اوراپنی درخواست معہ پتہ سکونت وغیرہ کے ارسال فرمائیں- جب ایک حصہ کافی درخواستیں کا آ جائے گا- تو فی الفور کتاب کا طبع ہونا شروع ہو جائے گا- والسلام علیٰ من اتبع الھدی
خاکسار غلام احمدؐ از قادیان
جن صاحبوں کو اس رسالہ کی ضرورت ہو اپنا نام معہ پتہ و نشان نقشہ ذیل میں لکھ دیں-
نمبر شمار
نام
پتہ و نشان
العبد
۱

۲

۳

۴

۵

۶

۷

۸

۹

۱۰

اطلاع ضروری :-ایک کتاب لا جواب شحنہ حق جس میں ویدک فلاسفی اور آریہ مذہب کی حقیقت صاف صااور کافی طور سے کھول دی گئی ہے چھپ کر تیار ہو چکی ہے- قیمت اس کتاب کی ۱۲ علاوہ محصول ڈاک مقرر ہوئی ہے- جس صاحب کو منظور ہو بار سال قیمت نقد یا ویلیو پے ایبل پارسل طلب کر لے-
(یہ اشتہار بلا تاریخ و بغیر نام مطبع ۸/۲۰/۲۸ کے ایک صفحہ کا ہے- )

(۳۹)
اعلان
ہم نے سُرمہ چشم آریہ میں چہل روزہ اشتہار بھی جاری کر کے دیکھ لیا- کسی ہندہ
نے کان تک نہیں ہلایا - خیال کرنا چاہیے کہ جو شخص تمام دنیا میں اپنے الہامی دعوے کے اشتہار بھیج کر سب قسم کے مخالفوں کے آزمایش کے لئے بلاتاہے - اس کی یہ جرات اور شجاعت کسی ایسی بناء پر ہو سکتی ہے جو نرا فریب ہے- کیا جس کی دعوت اسلام وہ عویٰ الہام
کے خطوں نے ٭امریکہ اور یورپ کے دور دور ملکوں تک ہلچل مچا دی ہے کیا ایسی استقامت کی بنیاد صرف لاف و گزاف کا خس و خاشاک ہے- کیا تمام جہاں کے مقابل پرایسادعویٰ وہ مکار بھی کر سکتا ہے- کہ جو اپنے دل میں جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں اور خدامیرے ساتھ نہیں - افسوس آریوں کی عقل کو تعصب نے لے لیا- بغض اور کینہ کے غبارے سے ان کی آنکھیں جاتی رہیں- اب اس روشنی کے زمانہ میں دید کو خدا کا کلام بنانا چاہتے ہیں، نہیں جانتے کہ اندر اور اگنی کا مدت سے زمانہ گزر گیا کہ کوئی کتاب بغیرخدائی نشانوں کے خدا تعالیٰ کا کلام کب بن سکتی ہے- اور اگر ایسا ہی ہو تو ہر یک شخص بغیر اُٹھ کر
کتاب بنا دے اور اس کا نام خدا تعالیٰ کا کلام کب بن سکتی ہے- اور اگر ایسا ہی ہو تو ہر یک شخص اُٹھ کر کتاب بنا دے اور اس کانام خدا تعالیٰ کا کلام رکھ رلیوے- اللہ جلشانہ کا وہی کلام ہے جو الہٰی طاقتیں اوربرکتیں اور خاصیتیں اپنے اندر رکھتا ہے- سو آئو جس نے دیکھنا ہو، دیکھ لے- وہ قرآن شریف ہے- جس کی صد ہا روحانی خاصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سچے پیرو اس کے ظلّی طور پر الہام پاتے ہیں- اور تا دم لوگ رحمت اور برکت ان کی شامل ہوتی ہے- سو یہ خاکسار اسی آفتاب حقیقت سے فیض یافتہ اور اسی دریائے معرفت سے قطرہ بردار ہے- اب یہ ہندو روشن چشم ہو اس الہٰی کاروبار کا نام فریب رکھ رہا ہے- اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہر چند روشن چشم جو اس الہٰی کاروبار کا نام فریب رکھ رہا ہے- اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ ہر چند ہمیں فرصت نہیں کہ بالمواجہ آزمایش کے لئے ہر روز نئے نئے اشتہار جاری کریں اور خود رسالہ سراج منیر نے ان متفرق کاروائیوں سے ہمیں مستغنی کر دیا ہے- لیکن چونکہ اس دزد منش کی روبہ بازیوں کا تدارک از بس ضروری ہے جو مدت سے برقع میں اپنا منہ چھپا کر کبھی اپنے اشتہاروں میں ہمیں گالیاں دیتا ہے- کبھی ہم پر تہمتیں لگاتا ہے- اور فریبوں کی طرف نسبت دیتا ہے- اور کبھی ہمیں مفلس بے زر قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ کس کے پاس مقابلہ کے لئے جاویں- وہ تو کچھ جائداد نہیں رکھتا- ہمیں کیا دے گا- کبھی ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتاہے- اور اپنے اشتہاروں میں ۲۷ جولائی ۱۸۸۶ء سے تین برس تک ہماری زندگی کا خاتمہ بتلاتا ہے- ایسا ہی ایک بیرنگ خط میں بھی جو کسی انجان کے ہاتھ لکھایا گیا ہے جان سے مار دینے کے لئے ہمیں ڈراتا ہے - لہذا ہم بعد اس دُعا کے یا الہٰی تا اس کا اور ہمارا فیصلہ کر- اس کے نام یہ اعلان جاری کرتے ہیں- اور خاص اسی کو اس آزمایش کے لئے بلاتے ہیں- کہ اب برُقع سے منہ نکال کر ہمارے سامنے آوے- اور اپنا نشان بتلادے- اور پہلے چند اخباروں میں شرائط متذکرہ ذیل پر اپنا آزمایش کے لئے ہمارے پاس آنا شائع کرے- اور پھر تحریری اقرارداد چالیس سن تک امتحان کے لئے ہماری صحبت میں رہے- اگر اس مدت تک کوئی ایسی پیشگوئی ظورہ میں آ گئی جس کے مقابلہ سے وہ عاجز رہ جائے تو اسی جگہ اپنی لمبی چوٹی کٹا کر اور رشتہ بے سود زنار کو توڑ کر پاک جماعت میں داخل ہو جائے جو لا الٰہ الّا اللہ کی توحید اور محمد رسول اللہ کی کامل رہبری سے گم گشتگان بادیہ شرک اور بدعت کو صراط مستقیم کی شاہراہ پر لاتے جاتے ہیں- پھر دیکھے کہ بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کے مالک نے کیسے دم میں اندرونی آلایشوں سے اسے صاف کر دیا ہے- اور کیونکر نجاست کا بھرا ہوا لتہ ایک صاف اور پاک پیرایہ کی صورت میں آ گیا ہے- لیکن اگر کوئی پیشگوئی اس چالیس دن کے عرصہ سرکار انگریزی میں پا چکا ہو- اس کا دو چند ہم سے لے لے- اور پھرایک وجہ معقول کے ساتھ تمام جہان میں ہماری نسبت منادی کرا دے- کہ آزمایش کے بعدمیں نے اس کو فریبی اور جھوٹا پایا- یکم اپیریل ۱۸۸۷ء سے اخیر مئی ۱۸۸۷ء تک سے مہلت ہے- اور یہ وبھی واضح رہے کہ اس اطمینان کے لئے روپیہ کسی برہمو صاحب کے پاس رکھا جائے گا- جو دونو فریق کے لئے بطور ثالث ہیں- اور وہ برہمو صاحب ہمارے جھوٹا نکلنے کی حالت میں خود اپنے اختیار سے جو پہلے بذریعہ تحریر خاص ان کو دیا جائے گا- اس آریہ فتحیاب کے حوالہ کریں گے- اور اگراب بھی روپیہ لینے میں ڈھرکا ہو تو اس عمدہ تدبیر پر کہ خود آریہ صاحب چوچیں ، عمل کیا جائے گا- لہذا ہم تاکیدًا اس آریہ صاحب جو جس نے ہمارا نام فریبی رکھا- الہامات ربّانی کو سراسر فریب قرار دیا- پرانے وحشی آریوں کی طرح ہمیں گندی گالیاں دیں- جان سے مارنے کی دھمکیاں سنائیں- بآواز ہدایت کرتے ہیں- کہ ہماری نسبت تو اس نے دشنام دہی میںجہاں تک گنداس کی سرشت میں بھرا ہوا تھا- سب نکالا- لیکن اگر وہ حلال زادہ ہے تو اب امتحان کے لیے سپابندی شرائط متذکربالا سیدھا ہمارے سامنے آجائے- تا ہم بھی دیکھ لیں کہ اس فرشتہ خوشتہ زبان کی شکل کیسی ہے- اور اگر اخیر مئی ۱۸۸۷ء تک مقابل نہ آیا- اور نہ اپنی مادری خصلت سے باز رہا- تو دیکھو میں بعد شاہد حقیقی کے زمین و آسمان اور تمام ناظرین اس رسالہ کو گواہ رکھ کر ایسے یا وہ گو ارور جنگ جو کو مندرجہ ذیل انعام جو فی الحقیقت نیش زنی اور ظالم منشی کی حالت میں اسی کے لائق ہے- دیتا ہوں تا میں دیکھوں کہ اب وہ سوراخ سے نکل کر باہر آتا ہے- یا اسے نیچے لکھے ہوئے انعام کو بھی نگل جاتا ہے- اور وہ انعام بحالت اس کے نہ آنے اور بھاگ جانے کے یہ ہے:-
(۱) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۲) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۳) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۴) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۵) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۶) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۷) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۸) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۹) لعنــــــــــــــــــــــــــت
(۱۰) لعنــــــــــــــــــــــــــت
تللک عشرہ کاملۃ
(منقول از شحنہ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت تسر سربار دوم صفحہ ۳۶ تا ۳۹)


(۴۰)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
محمد عربی کابروئے دوسراست کسے کہ خاک درش نیست خاک درش نیست خاک بر سرا
جآ ئَ الْحَقُ وَزَھَقَ الْبَاطِلَ اِنَّ کَانَ نَر ھُوْ قاً
آیا حق اور بھاگ گیا باطل تحقیق باطل ہے بھاگنے والا
خوشخبری
اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے اشتہار ۸ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھُلے کھلے بیان میںلکھا تھا اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوگا تودوسرے حمل میں جو قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا- آج ۱۶- ذیقعدہ ۱۳۰۴ء ۷ اگست ۱۸۸۷ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہو گیا- فالحمد للہ علی ذلک
اب دیکھنا چاہیے کہ یہ کس قدر بزرگ پیشگوئی ہے جو ظہور میں آئی ہے- آریہ لوگ بات بات میں یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم وہ پیش گوئی منظور کریں گے کہ جس کا وقت بتلایا جائے - سو اب یہ پیشگوئی انہیں منظور کرتی پڑی- کیونکہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ حمل دوم بالکل خالی نہیں جائے گا- ضرور لڑکا پیدا ہو گا- اور وہ حمل بھی کچھ دور نہیں- بلکہ قریب ہے- یہ مطلب اگرچہ اصل الہام میں مجمل تھا- لیکن میں نے اسی اشتہار میں لڑکا پیدا ہونے سے ایک برس چار مہینہ پہلے پہلے رُوح القدس سے قوت پا کر مفصل طورپر مضمون مذکورہ بالا لکھ دیا یعنے یہ کہ اگر لڑکا اس حمل میں پیدا نہ ہو گا تو دوسرے حمل میں ضرور ہو گا- حمل موجودہ سے خاص تھا جس سے لڑکی ہوئی میں نے ہر ایک مجلس اور ہر ایک تحریر و تقریر میں انہیں جواب دیا کہ حجت تمہاری فضول ہے- کیونکہ کسی الہام کے وہ معنے ٹھیک ہوتے ہیں کہ ملہم آپ بیان کرے- اور ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہر گز فوقیت نہیں رکھتی ہے- کیونکہ ملہم اپنے الہام سے اندرونی واقفیت رکھتا ہے- اور خدا تعالیٰ سے خاص طاقت پا کر اس کے معنے کرتا ہے- پس جس حالت میں لڑکی پیدا ہونے سے کئی- دن پہلے عام طور پر کئی سو اشتہار چھپوا کر میں نے شایع کر دیئے- اور بڑے بڑے آریوں کی خدمت میں بھی بھیجدے- تو الہامی عبارت کے دہ معنے قبول نہ کرنا جو خود ایک خفی بڑے آریوں کی خدمت میں بھی بھیجدیئے- تو الہامی عبارت کے وہ معنے قبول نہ کرنا اور خفی الہام نے میرے پر ظاہر کئے- اور پیش از ظہور مخالفین تک پہنچا دیئے گئے کیا ہٹ دھرمی ہے تا نہیں- کیا ملہم کااپنے الہام کے مسانی بیان کرنا یا مصنف کا اپنی تصنیف کے کسی عقیدہ کو ظاہر کرنا تمام دوسرے لوگوں کے بیانات سے عند العقلی زیادہ معتبر نہیں ہے- بلکہ خود سوچ لینا چاہیے کہ مصنف جو کچھ پیش از وقوع کوئی امر غیب بیان کرتا ہے- اور صاف طور پر ایک بات کی نسبت دعویٰ کرلیتاہے- تو وہ اپنے الہام اور تشریح کا آپ ذمہ دار ہوتا ہے اور اس کی باتوں میں دخل بے جا دیناایسا ہے جیسے کوئی کسی مصنف کو کہے کہ تیری تصنیف کے یہ معنے نہیں- بلکہ یہ ہیں جو میں نے سوچے- اب ہم اصل اشتہار ۸ اپریل ۱۸۸۶ء ناظرین کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھتے ہیں- تا ان کو اطلاع ہو کہ ہم نے پیش از وقوع اپنی پیشگوئی کی نسبت کیا دعویٰ کیا تھا اور پھر وہ کیسا اپنے وقت پر پورا ہوا-
الـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمشتھر
خاکسارغلام احمد مرزا از ا قادیان ضلع گورداسپور
۷ اگست ۱۸۸۷ء مؤلف وکٹوریہ پریس لاہور یکی دروازہ
یہ اشتہار ۸/۲۰*۲۶ کے دو صفات پر ہے-
(۴۱)
اعلان
قدرت اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے مثال نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کروں میں یہ ضرور
تلٹی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
قادیان کے آریوں کا دھرم پرکھنے کے لئے اگر کسی کو زیادہ فرصت نہ ہو تو ہمارے اسی اشتہار کے ذریعہ سے ساری کیفیت ان کی معلوم ہو سکتی ہے کہ کہاں تک وہ ایسی سچائی کے قبول کرنے کے لیے مستعد ہیں جس کا اقرار کرنے سے وہ کسی طرح بھاگ نہیں سکتے- اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس سال اس عاجز نے قادیان کے ہندوئوں کے ساتھ ایک تحریری ٭معاہدہ کر کے بعض الہامی پیشین گوئیوں کے بتلانے کا وعدہ کیا تھا انہیں دنوں یہ پیشگوئی جو اس اشتہار کے اخیر میں درج ہے بخوبی ان کو سُنا کر اور قلمبند کر کے ان میں چار آدمیوں کے دستخط اس پر کرا دیئے تھے- اور پیشگوئی کے ظہور کی میعاد اکتیس ماہ تک تھی- اب جو فروری ۱۸۸۸ء کا مہینہ آیا جو حساب کی رو سے اکتیسواں مہینہ تھا تو ان بھلے مانسوں کے زہر ناک تعصب نے نے انہیںاس قدر صبر کرنے نہ دیا کہ مہینہ کے اخیر تک انتظار کرتے بلکہ ابھی وہ آخری مہینہ چڑھا ہی تھا کہ انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا- کہ پیشگوئی غلط نکلی- یعنے اب کیا صرف چند روز باقی ہیں- لیکن اس قادر کی قدرت دیکھئے کہ کیسے اخیر پر اس نے ان کو اُلٹا کر مارا- اور کیسے ذلیل اور رُسوا کیا- کہ ابھی پندرہ دن اکتیسواں مہینے کے پورے ہونے میں باقی تھے کہ پیشگوئی پوری ہو گئی- افسو س یہ دل کے اندھے نہیں
دیکھتے- کہ ہر ایک پیشگوئی ہماری خدا تعالیٰ کیسی پوری کرتا جاتا ہے- سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کچھ پروا ہی نہیں-اب جاننا چاہیے کہ وہ پیشگوئی جس کی اکتیس ماہ کی میعاد اور جس پر ہنددئوں کی گواہیاں ثبت کرا ئی گئی تھیں- وہ ہمارے ’’ چچا زاد بھائی مرزا امام دین و نظام الدین کے اہل و عیال کی نسبت تھی اور خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے الہام کے اس عاجزپر یہ ظاہر کیا تھا کہ مرزا امام الدین و نظام الدین کے عیال میں سے اکیتسویں ماہ پورے ہونے تک کوئی شخص فوت ہو جائے گا- چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی- اور آریوں کا شور و غوغا وہیں سرد ہو گیا- یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں کہ ہمیشہ سچ کی حمایت کرتا ہے اور صادق کی پناہ ہوتا ہے- اب ہم اس جگہ الہامی پیشگوئی کی وہ عبارت لکھ دیتے ہیں- جس پر قادیان کے ہندوئوں کے دستخط ہیں اور وہ یہ ہے:-
مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک ان پر ایک سخت مصیبت پڑے گی- ان کی اہل و عیال و اولاد میں سے کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا- جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا- آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تیئس ساون ۱۹۴۲ مطابق۵ اگست ۱۸۸۵ء یہ واقعہ ظہور میں آئے گا-
مرقوم ۵ اگست ۱۸۸۵ء
گواہ شد گواہ شد
پنڈت بھارا مل ساکن قادیان بقلم خود پنڈت بیجنا تھ بقلم خود
گواہ شد گواہ شد
بشنداس برہمن بقلم خود بشنداس کھتری بقلم خود
بالا خر ہم امرت سر اور لاہور کے نامی آریہ صاحبوں کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ان بھلے مانسوں سے دریافت تو کریں- کہ ہمارا سچ ہے یا نہیں اور اگر سچ ہے تو پھر اسلام کی سچائی اور برکت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی میں داخل ہے- یا وہ بھی دید کی ہدایت کے رو سے دھرم کی ہی بات ہے- والسلام علیٰ من اتبع الھدی
المعــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلن
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور- ۲۰ مارچ ۱۹۸۸ء
(مطبوعہ ریاض ہند امرتسر پنجاب)
( یہ اشتہار تفطیع کلاں کے ایک صفحہ ۴/۱۰*۲۶ پر ہے)
(۴۲)
ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اعلان٭
۱۸ مئی ۱۸۸۸ء روز جمعہ میں ایک صاحب فتح مسیح نام عیسائی واعظ نے بمقام بٹالہ اس عاجز کے مکان نشست گاہ پر آ کر عام جلسہ میں جس میںپچاس سے کچھ زیادہ آدمی مسلمان اور ہندو بھی تھے مجھ سے مخاطب ہو کر یہ دعویٰ کیاکہ جیسے آپ اس بات کی مدعی ہیں کہ میری اکثر دعائیں جناب الہٰی میں بپایہ قبولیت پہونچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ جلّشانہ بذریعہ الہام خاص کے اطلاع دے دیتا ہے- اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کر تا ہے- یہی مرتبہ ملہم ہونے کا مجھ کو بھی حاصل ہے- اور خدایعتعالیٰ مجھ سے بھی ہم کلام ہو کر اور میری دعائیں قبول کر کے
پیش از ظہور مجھ کو اطلاع دے دیتا ہے- اس لئے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں- جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیں عام جلسہ میں آپ تحریر کر کے پیش کریں گے- اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے میں بھی پیش کروں گا اورفریقین کی پیشگوئیاں اخبار نورافشاں میں چھپوا دوں گا-
چنانچہ میاں فتح مسیح نے یہ دعویٰ کر کے بالمقابل پیشگوئیوں کے پیش کرنے کے لئے ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء روز دو شنبہ د ن مقرر کیا اور وعدہ کیا کہ تاریخ اور روز مقررہ پر ضرور حاضر ہو کر بمقابل تمہارے یعنی اس عاجز کے الہامی پیشگوئیوں پیش کرونگا- اب چونکہ ہم یقینا جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسیات برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے اور سارا گزارہ لاف و گزاف اور یا وہ گوئی پر ہے- اور تمام برکتیں ؒاس ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف ظاہر کرنے کے لئے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لئے کہ کہان تک عیسائیوں میں دردغ گوئی اور بے پاکی نے رواج پکڑ لیا ہے- اس بالمقابل کرامت نمائی کے لئے اجازت دی جائے - تا سیر روئے شود ہر کہ دردغش شود-
سو آج ہماری طرف سے بھی اس قسم کا مناظرہ قبول ہو عام اطلاع روح القدوس کا فیض دکھلانے اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلانے کے لئے ہمارے مکان پر جر نبی بخش ذیلدار کا طویلہ ہے آئی گے- جیسا کہ انہون نے قریباً پچاس آدمی کے رو برو یہ وعدہ کر لیا ہے- پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بعید تاریخ پیش کریں گے- اور پھر اس کے مقابل پر ان کا ذمہ ہو گا- کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں- پس جو صاحب اس جلسہ کودیکھنا چاہتے ہوں- انہیں اختیار ہے کہ دس بجے تک بروز پیر ہمارے مکان بٹالہ میں حاضر ہو جاویں- پھر اگر میاں فتح مسیح برطبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آ موجود ہوئے ہوں اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی کے گم ہو چکی ہے- تازہ طور پر دکھلائیں- اور اُن پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آ جائے تو بلا شبہ عیسائیوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہو گی- کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانون کی نہ کی- اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو نہ دی- لیکن اگر ہمارکی پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اس میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے- اور اگر میاں فتح مسیح تاریخ مقرر پر نہ آئے اور اس مقابلہ سے ڈر کر بھاگ گئے تو جو کاذبوں کی نسبت کہا جاتا ہے ان سب الفاظ کے وہ مستحق ٹھہر یں گے- اور تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے والے عیسائی چلن سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے- اور نیز گزیز ان کی حقیقت فتح اسلام متصور ہو گی- والسلام علیٰ من اتبع الہدی
المعلــــــــــــــــــــــــــــــن
خاکسار غلام احمدؐ از بٹالہ طویلہ نبی بخش ذیلدار ۱۸ مئی ۱۸۸۸ء
بروز جمعہ (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)
(یہ اشتہار ۸/ ۲۰*۲۶ کے دو صفحوں پر ہے)




(۴۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اکیس مئی ۱۸۸۸ء کے جلسہ مذہبی کی کیفیت اور پادری بریخت صاحب پر
اتمام حجت
جن صاحبوں نے ہمارا اعلان مجریہ ۱۸۸۸ء دیکھا ہے- انہیں معلوم ہو گا- کہ فتح مسح عیسائی و اعظ نے دعویٰ کیا تھا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے- اور میں بھی پیش از وقوع الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلا سکتا ہوں چنانچہ اس دعویٰ کے پرکھنے کے لئے ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء بروز دو شنبہ اس عاجز کے مکان فردو گاہ پر ایک بھارا جلسہ ہوا- اور بہت سے مسلمان ہندو معزز رئیس شہر کے رونق افروز جلسہ ہوئے اور سب کو دیکھنے کا شوق تحا کہ کونسی پیشگوئیاں بالمقابل کی جاتی ہیں- آخر دس بجے کے بعد میاں فتح مسیح معہ چند دوسرے عیسائیوں کے جلسہ میں تشریف لائے- اور بجائے اس کے کہ پیشگوئیاں پیش کرتے اور اور باتیں کہ جو سراسر روایات کے اور خارج از مقصد تھیں شروع کر دیں- آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہندو صاحب نے انہیں کہا کہ یہ جلسہ صرف پیشگوئیاں کے پیش کرنے کے لئے انعقاد پایا ہے- اور یہی آپ کا اقرار بھی ہے- اور ایسے شوق سے سب لوگ اکٹھے ہو ئے - سو اس وقت الہامی پیشگوئیاں پیش کرنی چاہیں- اس کے جواب میں فتح مسیح نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرف طرف سے دعویٰ الہام نہیں ہے- اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یوں ہی فریق ثانی کے دعوے کے مقابل پر ایک دعویٰ کر دیا تھا- کیونکہ میں جانتا ہون کہ اُن کا جھوٹا دعویٰ ہے- سو ایسا ہی میں نے بھی ایک دعویٰ کر دیا- اس پر بہت لوگوں نے انہیں ملزم کیا اور درد غگوئی نیک چلنی کے برطلاف تم سے وقوع میں آئی- اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے- تو پھر خلاف واقعہ ملہم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا- بغرض حاضرین کی طرف سے میاں فتح مسیح کو اس کی دروغگوئی پر سخت عقاب ہو کر جلسہ برخواست ہوا- اور ویسی عیسائیوں کے حلف کا نمونہ عا م لوگوں پر کھل گیا اور ہمیں سخت افسوس ہوا- کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کو سچائی اور دیانت کی کچھ پروا نہیں کیوں اپنا وقت عزیز ضائع کیا اگر کوئی معزز درجہ کا یورپین عیسائی ہوتا تو البتہ ایسے ناش دروغ اور قابل مذمت جھوٹ سے پرہیز کرتا-
اب اس اشتہار کے جاری کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی معززیورپین عیسائی صاحب ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں تو انہیں بصد رغبت ہماری طرف سے اجازت ہے کہ بمقام بٹالہ جہاں آخر رمضان تک انشاء اللہ ہم رہیں گے کوئی جلسہ مقرر کر کے ہمارے مقابل پر اپنی الہامی پیشگوئیاں پیش کریں- فتح مسیح کی طرح دردغگوئی کا اقرار کر کے میدان مقابلہ سے بھاگنا نہ چاہیں- اور نیز اس اشتہار میں پادری وائٹ بریخت صاحب کہ جو اس علاقہ کے ایک معزز پادری ہیں- ہمارے بالتخصیص مخاطب ہیں- اور ہم پادری صاحب کو یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں- کہ یہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے تو ہم ان سے کوئی پیشگوئی بالمقابل طلب نہیں کریں گے- بلکہ حسب درخواست ان کی ایک جلسہ مقرر کر کے فقط اپنی طرف سے ایسی الہامی پیشگوئیاں پیش از وقوع کریں گے جن کی نسبت اون کا کسی طور کا شک و شبہ کرنے کی گنجایش نہیں ہو ئی- کہ جو عام ہندوئوں اور مسلمان اور عیسائیوں کی نظر میں انسانی طاقتوں سے بلا تر مقصود ہو تو ہم اُسی جلسہ میں دو سو روپیہ نقد پادری صاحب موصوف کو بطور ہر جانہ یا تاوان تکلیف دہی کے دے دیں گے- چاہیں تو وہ دو سو روپیہ کسی معزز ہندو صاحب کے پاس پہلے ہی جمع کرالیں- لیکن اگر پادری صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ حقیقت میں یہ پیشگوئی انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے تو پھران پر واجب و لازم ہو گا کہ اس کا جھوٹ یا سچ پرکھنے کے لیے سیدھے کھڑے ہو جائیں- اور اخبار نور افشاں میں جو ان کی مذہبی اخبار ہے اس پیشگوئی کو درج کرا کر انسانی طاقتوں سے بالاتر قبول کر لیا اسی وجہ سے تسلیم کر لیا ہے - کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو بلا شبہ قبولیت اور محبوبیت الہٰی کے چشمہ سے نکلی ہے نہ کسی اور گندے چشمہ سے جو اٹکل و اندازہ وغیرہ ہے اور اگر بالآخر اس پیشگوئی کا مضمون صحیح اور سچ نکلا تو میں بلا توقف مسلمان ہو جائوں گا- کیونکہ جو پیشگوئی کے چشمہ سے نکلی ہے وہ اس دین کی سچائی کو ثابت کرنے والی ہے- جس دین کی پیروی سے یہ مرتبہ محبوبیت کا ملتا ہے- اوریہ بھی ظاہر ہے کہ محبوبیت کو نجات یافتہ ہونا ایک امر لازمی ہے-
اور اگر پیشگوئی کا مضمون صحیح نہ نکلا یعنی جھوٹی نکلے تو دو سو روپیہ جو جمع کر دیا گیا ہے- پادری صاحب کو دیا جائے گا- لیکن اگر روز انعقاد جلسہ سے ایک ہفتہ تک پادری صاحب نے مضمون پیشگوئی کو معہ اپنے اقرار مشرف اسلام ہونے کے جس پر بیس بچیس معز ز مسلمانون اور ہندوئوں کی گواہی ثبت ہو گی اخبار نورافشاں میں درج نہ کرایا- پہلے ہی سے ایسے علمہ میں آنے سے انکار کیا تو پبلک کو سمجھ لینا چاہیے کہ پادری صاحبوں کو حق اطاعت منظور نہیں بلکہ صرف تنخواہ پانے کا حق اد ا کر رہے ہیں-
اور یہ بھی واضح رہے کہ اگر پادری صاحب بعد وصول اس اشتہار کے پابندی ان شرائط کے اپنے نفس پر قبول کر لیں تو یہ کچھ ضرور نہیں کہ وہ ہمارے مکان پر ہی آویں بلکہ ہم خود ان کے مکان پر اس شرط سے جا سکتے ہیں کہ وہ معزز عہدہ دار سرکاری بھی یعنے ایک تھانیدار اور ایک تحصیلدار اس جگہ حاضر ہوں اس جگہ پہلے بلا لینا پادری صاحب کے ہی ذمہ ہو گا- والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
خاکسار غلام احمد از بٹالہ ۲۴ مئی ۱۸۸۵ء
(شمس الہند گورداسپور)
(یہ اشتہار ۴/ ۱۷*۲۱ کے دو صفحوں پر ہے-)
(۴۴)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اعلان
پادری وائٹ بریخت صاحب پر اتمام حجت اور میان فتح مسیح کی دروغوگوئی کی کیفیت
ہم اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ء میں جو مطبع شمس الہند گورداسپور میں چھپا تھا- اس بات کو بتصریح بیان کر چکے ہیں- کہ میاں فتح مسیح صاحب واعظ عیسائی نے ملہم ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے پھر ۲۱ مئی ۱۸۸۸ ء کے جلسہ حاضرین کے رو برو جن میں معزز ہندو بٹالہ کے آریہ بھی تھے اپنی دودغگوئی کا صاف اقرار کر دیا- اور بالمقابل الہامی پیشگوئیوں کے پیش کرنے سے بھاگ گیا مگر افسوس کہ اسی عیسائی صاحب نے ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو نور افشاں میں اپنی دردغگوئی کے چھپانے کے لئے ظاہر کیاہے کہ میں نے الہام کا دعوے نہیں کیا تھا مقام تعجب ہے کہ ان دیسی عیسائیوں کو جھوٹ بولنے سے ذرا بھی شرم نہیں آتی- بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ نے ملہم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا تو پھر کیوں ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کے رجلسہ میں رائے بشبمر داس صاحب رئیس بٹالہ اور بابو گوردات سنگھ صاحب مختار عدالت نے آپ کی ملامت کی کہ ایسا جھوٹ کیوں بولا اور کیوں ناحق لوگوں کو تکلیف دی اور کیوں منشی مہربخش صاحب مختار عدالت نے اُسی جلسہ مین شہادتاً بیان کیا کہ فتح مسیح انکار دعویٰ کیا ہے- اس نے میرے رو برو ایک مجمع کثیر میں اپنے ملہم ہونے کا دعویٰ کیا ہے- بھلا یہ بھی جانے دو- خود پادری وائٹ بریخٹ سے حلفاً دریافت کیا جائے کہ کیا ۱۸ مئی ۱۸۸۸ء میں فتح میسح نے پادری صاحب کے نام چٹھی نہیں لکھی تھی کہ میں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے-
اب انصافاً سوچنا چاہیے کہ جس شخص کے مادہ میں اس قدر جھوٹ بھرا ہوا ہے- کہ وہ اس منصب کے لائق ہے کہ عیسائی کلیسیا کی طرف سے دوسروں کے لئے واعظ ٹھہرے پادری وائٹ بریخٹ صاحب اس شخص کی دروغگوئی کو خوب جانتے ہیں اور حلفاً بیان کر سکتے ہیں- - اسی وجہ سے ہم نے اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ ء میں صاف لکھ دیا کہ آئیندہ ہم ایسے دروغ گوئی کو مخاطب بنانا نہیں چاہیتے-ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے- اور پھر ہم سے کوئی الہامی پیشگوئی پیش از وقوع طلب کرنا چاہیں تو ہم بد یں شرط جلسہ عام میں پیش کر یں گے- کہ اگر ہماری پیشگوئی پیش کردہ بنظر حاضرین جلسہ صرف اٹکل اور اندازہ ہو انسانی طاقتوں سے بالاتر نہ ہو بالآ خر جھوٹی نکلے تو دو سو روپیہ ہر جانہ پادری صاحب کو دیا جائے گا- ورنہ بصورت دیگر پادری صاحب کو مسلمان ہونا پڑے گا- لیکن پادری صاحب نے ایک جلسہ میں آنا پڑے قبول نہ کیا -اور صاف گریز کر گئے اور کوہ شملہ پر چلے گئے- حالانکہ ہم اُنہیں کے لئے ایک ماہ تک برابر بٹالہ میں ٹھہرے غرض انہوں نے تو ہمارے مقابل پر دم بھی نہ مارا- لیکن اُسے میاں فتح مسیح نے ۷ جون ۱۸۸۸ء کے اخبار نور افشاں میں چھپوا دیا ہے- کہ اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دیدیںگے وہ ہمیں الہاماً بتلائے جائیں - اس کے جواب میں اوّل تو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ء میں لکھ چکے ہیں فتح مسیح جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہر گز مخاطب ہونے کے لائق نہیں- اور اس کو مخاطب بنانا اوراس کے مقابل پر جلسہ کرنا ہر ایک راست باز کے لئے عار ننگ ہے- ہاں اگر پادری وائٹ بر یخٹ صاحب ایسی درخواست کریں کہ جو نور افشاں ۷ جون ۱۸۸۸ء کے صفحہ ۷ میں درج ہے تو ہمیں بسروچشم منظور ہے- ہمارے ساتھ وہ خدائے قادر علیم ہے جس سے عیسائی لوگ ناواقف ہیں- وہ پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے- جو اس کے خالص بندے ہیں- لیکن لہو و لعب کے طور پر اپنا نام لینا پسند نہیں کرتا- پس اگر پادری وائٹ بر یخٹ صاحب ایک عام جلسہ بٹالہ میں منعقد کر کے اس جلسہ میں حلفاً اقرار کریں کہ اگر مضمون کسی بند لفافہ کا جو میری طرف سے پیش ہو، دس ہفتہ تک مجھ کو بتلایا جاوے- تو ہزار روپیہ جو پہلے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرا دوں گا- بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جاوے گا- اس تحریری اقرار کے پیش ہونے کے اور نیز نور افشاں میں چھپنے کے بعد اگر دس ہفتہ ترک ہم نے لفافہ ہند کا مضمون بتلا دیا تو ایفاء شرط کا پادری صاحب پر لازم ہو گا- ورنہ اُن کے روپیہ کی ضبطی ہوگی- اور اگر ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیںگے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لیے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اُٹھا لیں گے- فقط
المعـــــــــــــــــــــــــــــــــــلن
خاکسار غلام احمد قادیانی ۹ جون ۱۸۸۸ء
( یہ اشتہار ۴/۲۰*۲۶) پر دو صفحہ کا ہے ) (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)




(۴۵)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
یا معین بر حمتک نستعین
ایک پیشگوئی پیش از وقوع کا اشتہار
پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا قدرت حق ایک تماشا ہو گا
جھوٹ اور سچ میں جو ہے فر ق وہ پیدا ہو گا کوئی پا جائیگا عزت کوئی رُسوا ہو گا
اخبار نور افشان دس مئی ۱۸۸۸ء میں جو اس راقم کا ایک کط متضمن درخواست نکاح پہنچا یا گیا- اس خط کو صاحب اخبار نے اپنے پرچہ میں درج کر کے عجیب طرح کی زبان درازی کی ہے اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا ہے -یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوںکے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک وقت میں رکھی ہیں- وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں- بلکہ اس فعل کو زناء اور حرامکاری خیال کرتے ہیں- کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی جزو سلسلہ میںیہ دقت آ پڑتی ہے کہ جورد عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے- اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ در اصل نبی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے قائم و دائم چلی آتی ہے- اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی - تحقیق سے ظاہر ہو گا- اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی نسل کی کہاں تک حفاظت کی ہے- اور کیسے اس نے اُجڑے ہوئے گھروں کو بیک وفعہ آباد کر دیا ہے- اور انسان کے تقویٰ کے لئے یہ فعل کی زبردست عمدہ معین ہے- خاوندوں کی حاجت برآری کے بارے میں جو کچھ عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے- جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں، یہ طریق بابرکت تدارک اس نقصان کا کرتا ہے- اورجس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کے رُو سے کر سکتا ہے وہ اُسے بخشتا ہے- ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیویک کرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے- مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بد شکل ہو جائے - لیکن مرد بد شکل ہو- تو عورت کا کچھ حرج نہیں - کیونکہ کاروائی کی کَل مرد کو دی گئی ہے- اور عورت کو تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے- ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کی رُو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہہے- اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے- کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتون کی ذمہ دار کار برآر نہیں ہو سکتی- اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لئے قائم رہتا ہے جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پار سا طبع ہیں ان کے لئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے- بعض اسلام کے مخالف اپنے نفس امارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں- مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جو اُن میں پھیل رہی ہے- ان کو اس پاک طریق کی کچھ پروا اورحاجت نہیں- اس مقام میں میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلم الثبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں- شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑ اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے- جس کی حضرت دائود(مسیح کے باپ)نے نہ دو نہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرنا زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں- اور اس پر خبث کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم صدیقہ کی طرف عائد ہوتاہے- اس سے ذرا پرہیز نہیں کرتے اور با وجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں- جاننا چاہیے کہ بیبل کے رُو سے تعدد نکاح نہ صرف قوہ ثابت ہے بلکہ نبی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہے- عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استحباب پر مہر لگا دی ہے- اسے ناخدا عیسائیو! اگر ملہم کے لئے ایک ہی جورد ہونا ضروری ہے تو پھر کیا تم دائود جیسے راستباز نبی اللہ نہیں مانو گے یا سیلمان جیسے مقبول الہٰی کو ملہم ہونے سے خارج کر دو گے- کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جن کا دلوں پر گویا- ہر دم الہام الہٰی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا نا خوشنودی کی تفصیل کے بارے میں ……… احکام وارد ہو رہے تھے ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اس کے حکموں کی کچھ پرواہ نہ کی- وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے ثمود اور عاد کو ہلاک کیا- لوط کی قوم پر پتھر برسائے- فرعون کو معہ اس کی تمام شریر جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کر دیا- کیا اس شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اور دائود اور سیلمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نا فرمان پا کر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا- بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی- کیا آپ کے خدا کو الہام اُتارنے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا یا بہت سی جورواں کرنے والے ہی اس کو پسند آ گئے ٔ٭ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی کرکے اور پھر روحانی طاقتوں اور قبولیتوںمیں سب سے سبقت لے جا کر تمام دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے - کہ دوست الہٰی بننے کے لئے یہ راہ نہیں کہ انسان دنیا میں مخنثوں اور نا مردوں کی طرح رہے- بلکہ ایمان میں قوی الطاقت وہ ہے کہ بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ کر پھر باوجود ان سب تعلقات کے بے تعلق ہو- خدا یتعالیٰ کا بندہ سے محب اور محبوب ہونے کا جوڑ ہونا ؎ایک تیسری چیزکے وجود کو چاہتاہے- وہ کیا ہے؟ ایمانی روح جو مومن میں پیدا ہو کر نئے حواس اس کو بخشتی ہے- اسی رُوح کے ذریعہ سے خدا یتعالیٰ کاکلا م مومن سنتا ہے- اور اسی کے ذریعہ سے سچی اور دائمی پاکیزگی حاصل کرتا ہے- اور اسی کے ذریعہ سے نئی زندگی کی خارق عادت طاقتیں اس میں پیدا ہوتی ہیں- اب ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جوگی اور راہب اور سنیاسی کہلاتے ہیں یہ پاک رُوح اُن میں سے کس کو دی گئی ہے - کیا کسی پادری میں یہ ایک رُوح یا یوں کہو کہ رُوح القدس پائی جاتی ہے- ہم تمام دنیا کے پادریوں کو بلاتے بلاتے تھک بھی گئے- کسی نے آواز تک نہیں دی - نورافشاں میں بعض پادریوں نے چھپوایا تھا کہ ہم ایک جلسہ میں ایک لفافہ بند پیش کریں گے- اس کا مضمون الہام کے ذریعہ سے ہمیں بتلایا جائے لیکن جب ہماری طرف سے مسلمان ہونے کی شرط سے یہ درخواست ٭منظور ہوئی تو پھر پادریوں نے اس طرف رخ بھی نہ کیا- پادری لوگ مدت سے الہام پر مہر لگانے بیٹھے تھے اب جب مہر ٹوٹی اور فیض روح القدس مسلمانوں پر ثابت ہوا تو پادریوں کو ہمارے الہام کی نقل منگا نے کا سو نورافشاں کی سخت زبانی کا اصل وہی رنج ہے جوذبوئے حق کی طرح لا علاج ہے-
اب یہ جاننا چاہیے کہ جس خط کو ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء کے نورافشاں میں فریق مخالف نے چھپوایا ہے- وہ خط محض ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا- ایک مدت دراز سے- بعض سرگودہ اور قریبی رشتہ دار مکتوب الہیہ کے جن کے حقیقی ہمشیرہ زادہ کی نسبت درخواست کی گئی تھی- نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں- چنانچہ اگست ۱۸۸۵ء میں جو چشمہ نور امرتسر میں ان کی طرف سے اشتہار چھپا تھا یہ درخواست ان کی اس اشتہار میں بھی مندرج ہے- ان کو نہ محض مجھ سے بلکہ خدا اور رسول سے بھی دشمنی ہے
اور والدا س دختر کا بباعث شدت تعلق قرابت ان لوگوں کی رضا جوئی میں محو اور ان کے نقش قدم پر دل و جان سے فدا اور اپنے خیالات سے قاصر و عاجز بلکہ انہیں کا فرمانبردار ہو رہا ہے- اور اپنی لڑکیاں انہیں کی لڑکیاں خیال کرتا ہے- اوروہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ہر باب میں اس کے مدارالمہام اور بطور نفس ناطقہ کے اس کے لئے ہو رہے ہیں- تبھی تو نقارہ بجا کر اس کی لڑکی کے بارہ میں آپ ہی شہرت دے دی یہاں تک کہ عیسائیوں کے اخباروں کی اس قصہ سے بھر دیا ہے- آخر یں بریں عقل و دانش- ماموں ہونے کا خوب ہی حق ادا کیا- ماموں ہوں تو ایسے ہی ہوں غرض یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دردغگو خیال کرتے تھے- اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے- اور امجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کے لئے دعا بھی کی گئی تھی- سو وہ عا قبول ہو کر خداتعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کاایک اپنے ضروری کام کے لئے ہماری طرف ملتجی ہوا- تفصیل اس کی یہ ہے کیہ نامبررہ کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچازاد بھائی بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی- غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے- اور مفقود الخبر ہے- اس کی زمین ملکیت جس کا حق ہمیں پہنچتا ہے- نامبردہ کی ہمشیرہ کی نام کاغذات سرکاری مین درج کروا دی گئی تھی اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے- نامبردہ یعنے ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں- چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا - چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضا مندی کے بیکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمامتر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں- اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے - لیکن یہ خیال آیا کہ جیساکہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے- جناب الہٰی میں استخارہ کر لینا چاہیئے سویہی جواب مکتوب الہٰیہ کو دیا گیا- پھر مکتوب الہٰیہ متواتر اصر ار سے استخارہ کیا گیا- گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا تھا- جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیایہ میں ظاہر کر دیا-
اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہدے کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا-اوریہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت کا نشان ہو گا- اور ان تمام برکتوںاور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰ فروری٭ ۱۸۸۸ میں درج ہیں- لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہو گا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی اور روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی اس دختر کا تین سال تک فوت٭ ہو جائے گا- اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی- اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئی گے-
پھران دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہو اکہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے- کہ وہ مکتوب الیہ کا دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لا دے گا- اور بے دینوں کو مسلمان بنا دے گا- اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا- چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے-
کذّبو باٰیا تنا و کانوابھا یستھزؤن ط فسیکقیکم اللّٰہ و یردّھا الیک لا بدیل لکلمات اللّٰہ ط انّ ربک فعال لما یرید- انت معی و انا معک -عسٰی ان
یبعثک ربّک مقاماً محمودًا یعنے انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے- سوخدا ئے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں-تمہارا مدد گار ہو گا- اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا- کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے- تیرا رب وہ قادر ہے جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے- تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا- جس میں تیری تعریف کی جائے گی- یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بد باطنی اور بد ظنی کی راہ سے بد گوئی کرتے ہیں- اور نالائق باتیں مونھ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدایتعالیٰ کی مدد دیکھ کر شرمندہ ہوں گے- اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرح سے تعریف ہو گی-
اس جگہ ایک اور اعتراض کا رفع دفع کرنے کے لائق ہے- اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ الہام خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اس پر اعتماد سے تھا اور اس پر اعتماد کلی تھا تو پھر پوشیدہ کیوں رکھا اور کیوں اپنے خط میں پوشیدہ رکھنے کے لئے تاکید کی-٭ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملہ تھا اور جن کے لئے یہ نشان تھا ن کو تو پہنچا دیا گیا تھا- اور یقین تھا کہ والد اس دختر کا ایسی اشاعت سے رنجیدہ ہو گا- اس لئے ہم نے دل شکنی اور رنج دہی سے گزیز کی بلکہ یہ بھی نہ چاہا کہ در حالت رد انکار وہ بھی اس امر کو شائع کریں اور گو ہم شائع کرنے کے لئے مامور تھے مگر ہم نے مسلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی یہاں تک کہ اس لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے جو مرزا امام دین کا حقیقی بھائی ہے- شدت غیظ وغصب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی
شائع کر دیا اور شائع بھی ایسا کیا کہ شاید ایک یا دو ہفتہ تک اس ہزار مرد دعوت تک ہماری درخواست نکاح اور ہمارے مضمون الہام سے بخوبی اطلاع یاب ہوں گے- اور پھر زبانی اشاعت پر اکتفاء نہ کر کے اخباروں میں ہمارا خط چھوایا اور بازاروں میں ان کے دکھلانے سے وہ خط جا بجا پڑھا گیا- اور عورتوں اور بچوں تک اُس خط میں بھی چھپ اور عیسائیوں نے اپنے مادہ کے موادفق بے جا افتراء کرنا شروع کیا- تو ہم پر فرض ہو گیا کہ اپنی قلم سے اصلیت کو ظاہر کریں- بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا اورنیز یہ پیشگوئی ایسی بھی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت میں ہم نے ظاہر کی ہے بلکہ مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آمدیہ اور نیز لیکھرام پشاوری اورصد ہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنے یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے- اب منصف آدمی سمجھ سکتا ہے- کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہو کہ یہ تفصیل اور وہ اجمال تھی اور اس میں تاریخ اور مدت اجمالی حالت میں تھی سمجھدار آدمی کے لئے یہ کافی ہے کہ پہلی پیشگوئی اس زمانہ کی ہے کہ جب کہ ہنوز وہ لڑکی نا بالغ تھی اور جبکہ یہ پیشگوئی بھی اس شخص کی نسبت ہے کہ جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی یعنے اس زمانہ میں جبکہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی تو اس پر نفسانی افتراء کا گمان کرنا حماقت نہیں تو اور کیاہے- والسلام علی من اتبع الہدی
خاکسار غلام احمد ؐ از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء
(یہ اشتہار ۸/۲۰*۲۶ کے آٹھ صفحوں پر ہے) (مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)

(۴۶)
تتمہ اشتہار
دہم جولائی ۱۸۸۸ء
(۱) اشتہار مندرجہ عنوان کے صفحہ ۶ میں یہ الہام درج ہے- فَسَیَمَکَھُمُ اللّٰہُاس کی تفصیل مکرر توجہ سے سے یہ کھلی ہے کہ خدا ئے تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بید ینی اور بدعتوں کی حمایت کی وجہ سے
پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے- اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور اُن سے لڑے گا- اور انہیں انواع اقسام کے عذابوں میں مبتلا کر دے گا- اور وہ مصیبتیں اُ ن پر اُتارے گا جن کی ہنوز انہیں خبر نہیں - ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہو گا-جو اس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور وجہ سے بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا-
۲- ایک عرصہ یہ لوگ میرے کنبے اور میرے اقارب ہیں کیا مرد اور کیا عو رت مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکّار اور دکاندار خیال کرتے ہیں اور بعض نشانوں کو دیکھ کر بھی قائل نہیں ہوتے اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ دین اسلام کی ایک ذرہ محبت اُن میں باقی نہیں رہی - اور قرآنی حکموں کی ایسا ہلکا سا سمجھ کر ٹال دیتے ہیں جیسا کوئی ایک تنکے کو اُٹھا کر پھینک دے- وہ اپنی بد عتوں اور رسموں اور ننگ وناموس کی خدا اور رُسول کے فرمودہ وسے ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں- پس خدا تعالیٰ نے انہیں بھلائی کے لئے انہیں کے تقاضا سے انہیں کی درخواست سے اس الہامی پیشگوئی کو جو اشتہار میں درج ہے، ظاہر فرمایا ہے تاوہ سمجھیں کہ وہ درحقیقت موجود ہے - اور اس کے سوا کچھ ہیج ہے- کاش وہ پہلے نشانوں کی کافی سمجھتے اور یقینا وہ ایک ساعت بھی مجھ پر بد گمانی نہ کر سکتے - اگر ان میں کچھ نور ایمان کا نشنس ہوتا ہمیں اس رشتہ٭ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیںتھی-سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا تھا- اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا- بلکہ ایک اور لڑکا اور ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا جس کا نام محمود احمدؐ ہو گا- اور اپنے کاموں میں الوالعزم نکلے گا- پس یہ رشتہ دار جس کی درخواست کی گئی ہے- محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلادے - اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور اُن بلائوں کو دفع کر دیوے- جو نزدیک چلی آتی ہیں- لیکن اگر وہ ردّ کریں تو اُن پر قہری نشان نازل کرکے ان کو متنبہ کرے-
برکت کا نشان یہ ہے کہ اس پیوندے دین اُن کا درست ہو گا- اور دنیا ان کی من کل الوجوہ صلاحیت پذیر ہو جائے گی- اور وہ بلائیں جو عنقریب اُترنے والی ہیں نہیں اُتریں گی اور قہر کا نشان وہی ہے- جو اشتہار میں ذکر ہو چکا اور نیز جو تتمہ ہذا میں درج ہے- ٭ والسلام علیٰ عباد اللہ المومنین
خاکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسار
غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور پانز دہم جولائی ٭۱۸۸۸ء


(۴۷)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
الحمد للّٰہ والسّلام علیٰ عبادہ الّذین اصطفیٰ
حقانی تقریر بر واقعہ و فات بشیر
واضح ہو کہ اس عاجز کے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو ۷ اگست ۱۸۸۷ء روز یکشنبہ میں پیدا ہوا تھا ور ۴ نومبر ۱۸۸۸ء کو اسی روز یکشنبہ میں ہی اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں بوقت نماز صبح اپنے حقیقی کی طرف بلایا گیا - عجیب طور کا شور و غوغا خام خیال لوگوں میں اُٹھا اور رنگا رنگ کی باتیں خوشیوں وغیر ہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں- مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترء ہے- انہوں نے اس بچے کی وفات پر انواع اقسام کی افتراء ارگھڑنی شروع کی- سو ہر چند ابتداء میں ہمارا ارادہ نہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں- اور نہ شائع کرنے کی ضرورت تھی- کیونکہ کوئی ایسا مرد درمیان نہ تھا کہ کسی فہیم آدمی کی ٹھوکر کھانے کا موجب ہو سکے- لیکن جب یہ شور و غوغا انتہاء کو پہنچ گیا- اورکچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں ہر بھی اس کا مضر اثر پڑتاہوا نظر آیا تو ہم نے محض اللہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا- اب ناظرین و اخبارات میں طننہ سے لکھتے ہیں ک یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و ۸ اپریل ۱۸۸۶ء اور ۷ اگست ۱۸۸۷ء میں یہ ظاہر کیا گیا تھا- کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا- اور قومیں اس سے برکت پائیں گی- بعضوں نے اپنی طرف سے ٭افتراء کر کے یہ بھی اشتہار میں لکھا کہ اس بچہ کی نسبت یہ الہام بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بادشا ہوں کی بیٹیاں بیاہنے والا ہو گا- لیکن ناظرین پر منکشت ہو کہ جن لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی ہے- انہوں نے بڑا دھوکا کھایا ہے- یا دھوکا دینا چاہا ہے- اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہ اگست ۱۸۸۷ء تک جو پسر متوفی کی ٭وفات کا مہینہ ہے جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھپے ہیں جن کا لیکھرام پشاوری نے وجہ ثبوت کے طور پر اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے ان میں سے کوئی آدمی ایک ایسا بھی پیش نہیں کر سکتا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے- بلکہ ۸ اپریل ۱۸۸۶ء کا اشتہار اور نیز ۷ اگست ۱۸۸۷ء میں اشتہار کہ جو ۸ اپریل ۱۸۸۶ء کی بناء پر اور اس حوالہ سے بروز تولّد بشیر شائع کیا گیا تھا صاحب بتلا رہا ہے کہ ہنوز الہامی طور پر یہ تصفیہ نہیں ہوا کہ آیا یہ لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے- تعجب کہ لیکھرام پشاوری نے جوش تعصب میں آ کر اس اشتہار میں جو اس کی جبلّی خصلت بد گوئی و بد زبانی سے بھرا ہوا ہے اشتہارات مذکورہ کے حوالہ سے اعتراض تو کر دیا- مگر آنکھیں کھول کر ان تینوں اشتہاروں کو پڑھ نہ لیا- تا جلد بازی کی ندامت سے بچ جاتا نہایت افسوس ہے کہ ایسے دردغ باف لوگوں کو آریوں کے وہ پنڈت کیوں دردغگوئی سے منع نہیں کرتے جو بازاروں میں کھڑے ہو کر اپنا یہ اصول بتاتے ہیں کہ جھوٹ کو چھوڑنا اور تیالناً اور سچ کو ماننا اور قبول کرنا آریوں کا دھرم ہے پس عجیب بات ہے کہ یہ دھرم قول کے ذریعہ سے تو ہمیشہ ظاہر کیا جاتا ہے- مگر فعل کے وقت ایک مرتبہ بھی کام میں نہیں آتا- افسوس ہزار افسوس- اب خلاصہ کلام یہ کہ ہر دو اشتہار ۸ اپریل ۱۸۸۶ء اور ۷ اگست ۱۸۸۷ء مذکورہ بالا اس ذکر و حمایت سے بالکل خاموش ہیں کہ لڑکا پیدا ہونے والا کیسا اور رو سے غیر منفصل اور غیر صّرح ہے٭ ہاں یہ تعریفیں جو اوپر گزر چکی ہیں ایک آنے والے لڑکے کی نسبت عام طور پر بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں ضرور بیان کی گئی ہیں- لیکن اس اشتہار مین یہ تو کسی جگہ نہیں لکھا کہ جو ۷ اگست ۱۸۸۷ء کو لڑکا پیدا ہوگا- وہی مصداق ان تعریفوں کا ہے بلکہ اس اشتہار میں اس لڑکے کے پیدا ہونے کی کوئی تاریخ مندرج نہیں- کہ کب اور
کس وقت ہو گا- پس ایسا خیال کرنا کہ ان اشتہارات میں مصداق ان تعریفوں کا اسی پسر متوفی کو ٹھہرایا گیا تھا- سراسر ہٹ دھری اور بے ایمانی ہے - یہ سب ہمارے پاس موجود ہیں- اور اکثر ناظرین کے پاس موجود ہو ں گے- مناسب یہ ہے کہ ان کو غور سے پڑھیں- اور پھر آپ ہی انصاف کریں- جب ی لڑکا فوت ہو گیا ہے پیدا ہوا تھا تو اس کی پیدائش کے بعد صد ہا خطوط اطرافِ مختلفہ سے بدیں استفسار پہنچے تھے کہ کیا یہ وہی مصلح موعود ہے جس کے ذریعہ سے لوگ ہدایت پائیں گے- تو سب کی طرف یہی جواب لکھا گیا تھا کہ اس بارے میں صفائی سے اب تک کام نہیں ہوا- ہاں اجتہادی طور پر گمان کیا جاتا ہے- کہ کیا تعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو- اور اس کی بیان کی گئی تھیں جو اس کی پاکیزگی رُوح اور بلندی فطرت اور علو استعداد اور روشن جوہری اور سعادت جبلّی کے متعلق تھیں اور اس کی کاملیت استعدادی سے علاقہ سے رکھتی تھیں سو چونکہ وہ استعدادی بزرگیاں ایسی نہیں تھیں جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا- اسی باعث سے یقینی طورپر کسی الہام کی بناء پر اس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا کہ ضرور یہ لڑکا پختہ عمر تک پہنچے گا- اور اسی خیال اور انتظارمیں سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی- تا جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جاوے تب اس کا مفصل اور مبسوط سال لکھا جائے- سو تعجب کی جس حالت میں ہم اب تک پسہ متوفی کی نسبت الہامی طور پر کوئی قطعی رائے ظاہر کرنے سے بکلی خاموش اور ساکت رہے- اور ایک ذرا سا الہام بھی اس بارے میں شایع نہ کیا تو پھر ہمارے مخالفوں کے کانوں میں کس نے پھونک مار دی کہ ایسا اشتہار ہم نے شایع کر دیا
یہ بھی یاد رہے کہ اگر ہم اس خیال کی بناء پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسر متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نو راللہ حبیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اور روشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں- کوئی مفصل و مبسوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ ان ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعوداور عمر پانے والا لڑکا یہی ہو گا- تب بھی صاحبان بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا کیونکہ ان کا منصفانہ خیال اور ان کی عارفانہ نگاہ فی الفور انہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے رکھا گیا ہے- جو فی حد ذاتہ صاف اور کھلے کھلے نہیں ہیں- بلکہ زوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں- سو ان کی نظر میں اگر یاہ ایک اجتہادی بھی متصور ہوتی تو وہ بھی ایک ادنیٰ درجہ کی اور نہایت کم وزن اور خفیف سی ان کے خیال میں دکھائی دیتی- کیونکہ ہر چند ایک غبی اور کور دل انسان کوخداتعالیٰ کا وہ قانون قدرت سمجھانا بہت مشکل ہے جو قدیم سے اس کے متشابہت وحی اور رویا اور کشوف اور الہامات کے متعلق ہے- لیکن جو عارف اور بابصیرت آدمی ہیں وہ خود سمجھے ہوئے ہیں- کہ پیشگوئیوں وغیرہ کے بارہ میں اگر کوئی اجتہادی غلطی ہو بھی جائے تو وہ محل نکتہ چینی نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر نبیوں اور الوالعزم رسولوں کو بھی اپنے مجمل مکا شفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعین میں ایسی ہلکی ہلکی غلطیاں پیش آتی رہی ہیں٭ اور ان کے بیداردل اور روشن ضمیر پیر و ہر گز ان غلطیوں سے حیرت و سر گردانی میں نہیں پڑے - کیونکہ وہ جانتے تھے کہ غلطیاں نفس الہامات و مکاشفات میں نہیں ہیں بلکہ تاویل کرنے میں غلطی وقوع میں آ گئی ہے- اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں اجتہادی غلطی علماء و باطن کی ان کی کسر شان کا موجب نہیں ہو سکتی اور ہم نے کوئی ایسی اجتہادی غلطی بھی نہیں کی جس کو ہم قطعی و یقینی طور پر کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کرتے تو کیوں بشیر احمد کی وفات پر ہمارے کوتہ اندیش مخالفوں نے اس قدر زہر اُگلا ہے-کیا ان کے پاس ان تحریرات کا کوئی کافی و قانونی ثبوت بھی ہے یا ناحق بار بار اپنے نفس امآرہ کے جذبات لوگوں پر ظاہر کر رہے ہیں- اور اس جگہ بعض نادان مسلمان کی حالت پر بھی تعجب ہے کہ وہ کس خیال پر وساوس کے دریا میں ڈالے جا رہے ہیں- کیا کوئی اشتہار ہمارا ان کے پاس ہے کہ جو ان کو یقین دلاتا ہے کہ ہم اس لڑکے کی نسبت الہامی طورپر قطع کر چکے ہیں کہ یہی عمر پانے والا اور مصلح موعود ہے - اگر کوئی ایسا اشتہار ہے تو کیوں پیش نہیں کیاجاتا- ہم ان کو باور دلاتے ہیں-کہ ایسا اشتہار ہم نے کوئی شایع نہیں کیا- ہاں خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم ان کو
باور دلاتے ہیں کہ ایسا اشتہار ہم نے کوئی شایع نہیں کیا- ہاں خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم ہر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا نام باران رحمت اور مبشر اور بشیر اور ید اللہ بجال و جمال و غیرہ اسماء بھی ہیں سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس کی صفات ظاہر کیں- یہ سب اس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور الخارج امر نہیں- اس عاجز کا مدلّل اور معقول طور پر یہ دعویٰ ہے کہ جو نبی آدم کے بچے طر ح طرح کی قوتیں لے کر اس مسافر خانہ میں آتے ہیں خواہ وہ بڑی عمر تک پہنچ جائیں اور خواہ وہ خورد سالی میں فوت ہو جائیں- اپنی فطرتی استعدادت میں ضرور باہم متفادت ہوتے ہیں- اور صاف طور پر امتیاز بین ان کی قوتوں اور خصلتوں اور شکلوں اور ذہنوں میں دکھائی دیتا ہے- جیسا کہ کسی مدرسہ میں اکثر لوگوں نے بعض بچے ایسے دیکھے ہوں گے جو نہایت ذہین اور فہیم اور تیز طبع اور زود فہم ہیں اور علم کو
ایسی جلدی سے حاصل کرتے جاتے ہیں لیکن ان کی عمر وفا نہیں کرتی اور چھوٹی عمر میں ہی مر جاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ نہایت غبی اور بلید اور انسانیت کا بہت کم حصہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور منہ میں رال ٹپکتی ہے اور وحشی سے ہوتے ہیں اور بہت سے بوڑھے اور پیر فرتوت ہو کر مرتے ہیں اوربباعث سخت نا لیاقتی فطرت کے جیسے آئے ویسے ہی جاتے ہیں غرض ہمیشہ اس کا نمونہ ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے-کہ بعض بچے ایسے کامل الخلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اور عارفوں کی روشن ضمیری اپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہو نہار دکھائی دیتے ہیں- مگر اس عالم بے ثبات میں رہنا نہیں پاتے اور کئی ایسے بچے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ ان کے لچھن اچھے نظر نہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں تو پرلے درجے کی بد ذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں- ابراہیم لخت جگر آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم جو خورد سالی مین یعنی حضرت خضر نے قتل کیاتھا- اس کی خباثت جبلّی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر و باہر ہے- کفار کے بچوں کی نسبت جو خورد سالی میں مر جائیں جو کچھ تعلیم اسلام ہے- وہ بھی درحقیقت اسی قاعدہکی رو سے ہے کہ بوجہ اس کے کہ الولدسرلابیہ ان کی استعدادات نا قصہ ہیں- غرض بلحاظ صفائی استعداد اور نورانیت اصل جو ہر و مناسبت تامہ دینی کے پسر متوفی کے الہام میں وہ نام رکھے گئے تھے جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں- اب اگر کوئی تحکم کی راہ سے کھینچ تان کر ان ناموں کو عمر دارز ہونے کے ساتھ وابستہ کرنا چاہیے-تو یہ اس کی سراسر شرارت ہو گی- جس کی نسبت کبھی ہم نے کوئی یقینی اور قطعی رائے ظاہر نہیں کی- ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ ان فضائل ذاتیہ کے تصور کرنے سے شک کیا جاتا تھا- کہ شاید یہی لڑکا مصلح موعود ہوگا- مگر وہ شکی تقریرہے تو کسی اشتہار کے ذریعے شائع نہیں کی گئی - ہنددئوں کی حالت پر سخت تعجب ہے کہ وہ باوصف اس کے کہ اپنے نجومیوں اور جوتشیوں کے منہ سے ہزاہا ایسی باتیں سنتے ہیں کہ بالآخر وہ سراسر پوچ ار لغو اور جھوٹ نکلتی ہیں اور پھر ان پر اعتقادرکھنے سے باز نہیں آتے اور عذر پیش کر دیتے ہیں کہ حساب میں غلطی ہو گئی ہے- ورنہ جوتش کے سچا ہونے میں کچھ کلام نہیں- پھر باوصف ایسے اعتقادات سخیفہ اور ردّیہ کے الہامی پیشگوئیوں پر بغیر کسی صریح اور صاف غلطی پکڑنے کے متعصبانہ حملہ کرتے ہیں- پھر ہندو لوگ اگر ایسی باتیں بے اصل منہ پر لا دیں تو کچھ مضائقہ بھی نہیں کیونکہ وہ دشمنِ دین ہیں- اور اسلام کے مقابل پر ہمیشہ سے ان کے پاس ایک ہتھیار ہے یعنی جھوٹ و افتراء- لیکن نہایت تعجب میں ڈالنے والا واقعہ مسلمانوں کی حالت ہے کہ باوجود عویٰ دینداری و پرہیزگاری اورباوجود عقائد اسلامیہ کے ایسے ہذیانات زبان پر لاتے ہیں- اگر ہمارے ایسے اشتہارات ان کی نظر سے گزرے ہوتے جن میں ہم نے قیاسی طور پر پسر متوفی کو مصلح موعود اور عمر پانے والا قرار دیا ہوتا- تب بھی ان کی ایمانی سمجھ اور عرفانی واقفیت کا مقضایہ ہونا چاہیے تھا یہ ایک اجتمادی غلطی ہیجو کہ کبھی کبھی علماء ظاہر و باطن دونوں کو پیش آ جاتی ہے- یہاں تک کہ الوالعزم رسول بھی اس سے باہر نہیںہیں- مگر اس جگہ تو کوئی ایسا اشتہار بھی شائع نہیں ہواتھا محض ’’ دریاندیدموزہازپاکشیدہ‘‘ پر عمل کیا گیا اور یاد رہے کہ ہم نے یہ چند سطریں جو عام مسلمانوں کی نسبت لکھی ہیں محض سچی ہمدردی کے تقاضا سے تحریر کی گئی ہیں- تا وہ اپنے بے بنیاد وساوس سے باز آ جاویں- اور ایسا ردّی اور فاسد اعتقاد دل میں پیدا نہ کر لیں- جس کا کوئی اصل صحیح نہیں ہے- بشیر احمد کی وفات پر انہیں وساوس او ر اوہام میں پڑنا انہیں کی بے سمجھی و نادانی ظاہر کرتا ہے ورنہ کوئی محل آویزش و نکمہ چینی نے نہیں ہے- ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ہم نے کوئی اشتہار نہیں دیا- جس میں ہم نے قطع اور یقین ظاہر کیا ہو کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے اور گو ہم اجتہادی طور پر اس کی ظاہری علامات سے کسی قدر اس خیال کی طرف جُھک بھی گئے تھے- مگر اسی وجہ سے اس خیال کے کھلے کھلے طور پر بذریعہ اشتہارات اشاعت نہیں کی گئی کہ ہنوزیہ امراجتہادی ہے- اگر یہ اجتہاد صحیح نہ ہوا تو عوام الناس جو فائق و مصارف علم الہٰی سے محض بے خبر ہیںوہ دھوکا میں پڑ جائیں گے - مگر نہایت افسوس ہے کہ پھر بھی عوام کا لانعام دھوکہ کھانے سے باز نہیںآئے اور اپنی طرف سے حاشیے چڑھا لئے- انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال کہ ان کے اعتراضات کی بناء صرف یہ وہم ہے- کہ کیون اجتہادی غلطی وقوع میں آئی- ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اول تو کوئی ایسی اجتہادی غلطی ہم سے ظہور میں نہیں آئی- جس پر ہم نے قطع اور بھروسہ کر کے عام طور پر اس کو شایع کیا ہو- پھر بطور تنزل ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر کسی نبی یا ولی سے کسی پیشگوئی کی تشخیص و تعیین میں کوئی غلطی وقوع میں آ جائے تو کیا ایسی غلطی اس کے مرتبہ نبوت یا دلائت کو کچھ کم کر سکتی یا گھٹا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں- یہ سب خیالات نادانی و نا واقفیت کی وجہ سے بصورت اعتراض پیدا ہوتے ہیں- چونکہ اس زمانہ میں جہالت کا انتشار اور علوم دینیہ سے سخت درجہ کی لوگوں کو لاپرواہی ہے اس وجہ سے سیدھی بات بھی الٹی دکھائی دیتی ہے- ورنہ یہ مسئلہ بالااتفاق مانا گیا ہے - اور قبول کیا گیا ہے کہ ہر ایک نبی اور ولی سے اپنے ان مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین مین جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے بخوبی تفہیم نہیں ہوئی غلطی واقو ہو سکتی ہے- اور اس غلطی سے ان انبیاء اوراصفیامیں سے یہ علم دیا گیا ہے ان کو مجبوراً اس کے تمام عوارض و لوازم بھی لینے پڑتے ہیں- یعنی ان پر وارد ہوتے ہیں جن میں سے ایک اجتہادی غلطی بھی پس اگر اجتہادی غلطی الزام ہے تو یہ الزام جمیع انبیاء و اولیاء و علماء میں مشترک ہے-
یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ کسی اجتہادی غلطی سے ربّانی پیشگوئیوں کی شان و شوکت میں فرق آ جاتا ہے- یا وہ نوعِ انسان کے لئے چنداں مفیدنہیں رہتیں- یا وہ دین وہ دینداروں کے گروہ نقصان پہنچاتے ہیں- کیونکہ اجتہادی غلطی اگر ہو بھی تو محض درمیانی اوقات میں بطور ابتلاء کے وارد ہوتی ہے- اور پھر اس قدر کثرت سے سچائی کے طور ظہور پذیر ہوتے ہیں- اورپھر اس قدر کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں- اور تائیدات الٰہیہ اپنے جلوے دکھاتی ہیں- کہ گویا ایک چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے ان سے انفصال پاجاتے ہیں- لیکن اس روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے- کہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں پر سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور اُن کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ سچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بزدلوں میں فرق کر کے دکھلادیوے-
عشق اول سرکش و خونی بود
تا گریزہ ہر کہ بیرونی بود
ابتلاء جو ادائل حال میں انبیاء او ر اولیاء پر نازل ہوتا ہے- اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے- اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مرد رددسا کر کے ان کو دکھاتا ہے- یہ ابتلاء اس لئے نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سا کر کے ان کو دکھاتا ہے- یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ گرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام مٹا دیوے- کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عزوجل اپنے پیارکرنے والوں سے دشمنی کر نے لگے- اوراپنے سچے اور عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے- بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے- اس لئے نازل ہوتا ہے کہ اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے اور الہٰی معارف کے باریک وقیقے ان کو سکھا دے یہی سنت اللہ ہے- جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے- زبور میں حضرت دائود کے ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمایش کے وقت میں حضرت مسیح موعودؑکی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر ارسلؐ کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتلا ت اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں٭اگریہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج الیہ کو ہرگز پاسکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پا لئے- ابتلاء نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے ار جانفشانی کی عادت پر مہر لگائی دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمایش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے سچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بیعزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربّانی مددوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ کچھ مدت منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے پنی مریبانہ عادت کو یہ یکبارگی کچھ ایسا بد ل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے- اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ وہ سخت مورد غضب اور اپنے تیئں ایسا خشک سا دکھایا کہ گو یا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلائوں کا سلسلہ بہت طویل کھینچ گیا- ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلا نازل ہوا- غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے- ایسا ہی آزمائشوں کی بار شیں ان پر ہوئیں- پر وہ پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سست اور شکستہ دل نہ ہوئے- بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس کے وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا- اور ان کی بلند اور شجاعت ذاتی جو ش میں آ گئی - بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اوّل درجہ کے پاس یافتہ ہو کر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے جباب کی طرح معدوم ہو گئے کہ گویا وہ کچھ نہیںتھے- غرض انبیاء اور اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے- بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں ابتلاء نازل ہوتے ہیں- اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے- عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کر سکتے- ویسے اس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں- بالخصوص ان محبوبان الہٰی کی آزمایش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں- گویا ڈوب ہی جاتے ہیںگویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کر سکتے کہ ان کے انجام کے منتظر رہیں- عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جلشانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگا تا ہے اس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کر دیوے بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لا دے- اور اس کے برگ و بار میں برکت ہو- پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم ہے حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی روحانی وردی ہے جس سے یہ شناغت کئے جاتے ہیں- اور جس شخص کو اس سنت کے بر خلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی - اور نیز یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نہایت درجہ کی بد قسمتی و ناسعادتی ہے کہ انسان جلد تر بد ظنی کی طرف جھک جائے او یہ اصول قرار دیدیوے کہ دنیا میں جس قدر خدا تعالیٰ کی راہ کے مدعی ہیں وہ سب مکار اور فریبی اور دوکاندار ہی ہیں کیونکہ ایسے ردّی اعتقاد سے رفتہ رفتہ وجود ولائت میں شک پڑے گا- اور پھر دلائت سے انکاری ہونے کے بعد نبوت کے منصب میں کچھ کچھ ترددات پیدا ہو جاویں گے- اور پھر نبوت سے منکر ہونے کے پیچھے خدا تعالیٰ کے وجود میں کچھ دغدغہ اور خلجان پیدا ہو کر یہ دھوکا دل میں شروع ہو جائے گا- کہ شاید یہ ساری بات ہی بناوٹی اور بے اصل ہے اور شاید ی سب اوہام باطلہ ہی ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں جمتے ہوئے چلے آئے ہیں سواے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیدا کرنے والو! اور صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقینا سمجھو کہ ایمانن کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کے لئے ولایت اور اس لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے- ولائت نبوت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اقرار وجود باری تعالیٰ کے لئے پناہ پس اولیاء انبیاء کے وجود کے لئے سیخوں کی مانند ہیں اور انبیاء خدا تعالیٰ وجود قائم کرنے کے لئے نہایت مستحکم کیلوں کے مشابہ ہیں- سو جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں اس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے- اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدائے تعالیٰ معرفت سے بھی بے بہرہ ہی اور ایک دن ٹھوکر کھائیگا- اور سخت ٹھوکر کھائے گا- اور بحرد لائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیں گے- اب ہم فائدہ عام کے لئے یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتے ہیں کہ بشیر احمد کی موت ناگہانی طور پر نہیں بلکہ اللہ جلشانہ نے اس کی وفات سے پہلے اس عاجز کو الہامات کے ذریعہ سے پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کر چکا ہے-٭اور اب فوت ہو جاوے گا- بلکہ جو الہامات اس پر متوفی کی پیدائش کے دن میں ہوئے تھے ان سے بھی اجمالی طور پر اس وفات کی نسبت بور آتی تھی اور متر شح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلاء عظیم کا موجب ہو گا جیسا کہ یہ الہام
انّا ارسلنہ شاھدًا و مبشراً و نزیرًا کھیب من السّماء فیہ ظلمت و رعد و برق کل شیٔ غت قدمیہ
یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس کے بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو- یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں- یعنی اس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو اس کی موت سے مراد ظہور میں آجائیں گی سو تاریکیوں سے مرادآزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں تھیں جو لوگوں کو اس کی موت سے پیش آئیں اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا اور آیت کریمہ واذاظلم علیھم فامواکے مصداق ہو گئے- اور الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد آئے گی او رپھر رعد اور برق- اسی ترتیب کے رُو اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اس کے بعد رعہ اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں آ گئی - اسی طرح یقینا جاننا چاہیے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آ جائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے- جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی- اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مردہ دلوں کے منہ سے نکلے ہیں- ان کو نابود اور ناپدید کر دے گی- یہ الہام جو ابھی ہم نے لکھا ہے ابتدا سے صدا ہا لوگوں کو بہ تفصیل سنا دیا گیا تھا- چنانچہ منجلہ سامعین کے مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی بھی ہیں اور کئی اور جلیل القدر آدمی بھی- سب اگر ہمارے موافقین و مخالفین اسی الہام کے مضمون پر غور کریں اور وقتِ نظر سے دیکھیں تو یہی ظاہر کر رہا ہے- کہ اسی ظلمت کے آنے کا پہلے س جناب الہٰی میں ارادہ ہو چکا تھا جو بذریعہ الہام بتلایا گیا اور صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں- یعنی اس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے ان کا آنا ضروری ہے- سو اے دے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا- حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی- بشیر کی موت نے جیسا کہاس پیشگوئی کو پورا کر لیا ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی کہ جو ۲۰ فروری کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہو جائیں گے-
با لآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ سپنے مولیٰ کریم پر ہے- اس بات سے غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا رد اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین - بلکہ ہم سب سے اعراض کرکے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میںلگے ہوئے ہیں- گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ ہمارے طریق کو نظر حقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں- اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا- وہ ان پر ظاہر نہیں اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے وہ انہیں نہیں- کلّ یعمل علیٰ شاکلتہ
اس محل میں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض اہل علم احباب کی ناصحانہ تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ بھی اس عاجز کی یہ کاروائی پسند نہیں کرتے کہ برکات تکمیل پذیر ہوتا ہے- لوگوں پر ظاہر کیا جائے- بعض کی ان میں سے اس بارہ میں یہ بحث ہے کہ یہ باتیں ظنّی و شکی ہیں اور ان کے ضرر کی امید ان کے فائدہ سے زیادہ تر ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ درحقیقت میں یہ باتیں تمام بنی آدم میںمشترک اور متساوی ہیں- شاید کسی قدر ادنیٰ کم و بیشی ہو- بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قریباً یکساں ہی ہیں- ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ان امور میں مذہب اور اتقا اور تعلق باللہ کو کچھ دخل نہیں- بلکہ یہ فطرتی خواص ہیں جو انسان کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں اور ہر ایک بشر سے مومن ہو یا کافر صالح ہپو یا فاسق کچھ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ صادر ہوتے رہتے ہیں-یہ تو اس کی قیل وقال ہے جس سے ان کی موٹی سمجھ اور سطحی خیالات اور مبلغ علم کا اندازہ ہو سکتا ہے- مگرفراست صحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت اور حبِ دنیا کا کیڑا ان کی ایمانی فراست کو بالکل کھا گیا ہے- ان میں بعض ایسے ہیں کہ جیسے مجذوم کا جذام انتہا کے درجہ تک پہنچ کر سقوط اعضاء جو روحانی قوتوں سے مراد ہیں-بباعث غلومحبت دنیا کے گلنے سڑنے شروع ہو گئے ہیں اور ان کا شیوہ فقط ہنسی اور ٹھٹھا بدظنی اور بد گمانی ہے دینی معارف اور حقائق پر غور کرنے سے بکلی آزادی ہے - بلکہ یہ لوگ حقیقت اور معرفت سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور کبھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے بلکہ جیفہ دنیا میں دن رات غرق ہو رہے ہیں ان میں حس ہی باقی نہیں رہی کہ اپنی حالت کو ٹٹولیں کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور بڑی بد قسمتی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس نہایت خطرناک بیماری گو پوری پوری صحت خیال کرتے ہیں اور جو حقیقی صحت تندرستی ہے اس کونبظر توہین و استخفاف دیکھتے ہیں اور کمالات و لائیت اور قرب الہٰی کی عظمت ان کے دلوں پر سے اُٹھ گئی ہے اور نو میدی اور ھرمان کی سی صورت پیدا ہو گئی ہے بلکہ یہی حالت رہی تو اُن کا نبوت پر ایمان قائم رہنا کچھ معرض خطرمیں ہی نظر آتا ہے-
یہ خوفناک اور گری ہوئی حالت جو میں نے بعض علماء کی بیان کی ہے اس کی یہ وکہ نہیں کہ وہ ان روحانی روشنیوں کو تجربہ کی رُو سے غیر ممکن یا شکّی و ظنی خیال کرتے ہیں- کیونکہ انہوں نے ہنوز بالاستیفار تجربہ کرنے کی طرف توجہ نہیں کی اور کامل اور محیط طور پر نظر ڈال کر رائے ظاہر کرنے کا ابھی تک انہوں نے اپنے لئے کوئی موقع پیدا نہیں کیا اور نہ پیداکرنے کی کچھ پروا ہے- صرف ان مفسدانہ نکتہ چینیوں کو دیکھ کر جو مخالفین تعصب آئین نے اس عاجز کی دو پیشگوئیوں پر کی ہیں٭ بالاتحقیق و تفتیش شک میں پڑ گئے اور ولایت اور قربت الہٰیہ کی روشنیوں کے بارے میں ایک ایسا اعتقاددل میں جما لیا جو کہ خشک فلسفہ اور کورانہ نیچریت کے قریب قریب ہے- انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ مخالفین نے اپنی تکذیب کی تائیدمیں کونسا ثبوت دیا ہے؟ پھر اگر کوئی ثبوت نہیں اور نرمی بک بک ہے تو کیا فضول اور بے بنیاد افترائوں کا اثر اپنے دلوں میں ڈال لینا عقلمندی یا ایمانی وثاقت میں داخل ہے- اور اگر فرض محال کے طور پر کوئی اجتہادی غلطی بھی کسی پیشگوئی کے متعلق اس عاجز سے ظہور میں آتی یعنی قطع یقین کے طور پر اس کی کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کیا جاتا تب بھی کسی دانا کی نظر میں وہ محل آویزش نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اجتہادی غلطی ایک ایسا امر ہے جس سے انبیاء بھی باہر نہیں- ماسوائے اس کے یہ عاجز اب تک قریب سات ہزار مکاشفات صادقہ اور الہامات صحیحہ سے خدا تعالیٰ کی طرف مشرف ہوا ہے اور آئندہ عجائبات روحانیہ کا ایسا بے انتہا سلسلہ جاری ہے کہ جو بارش کی طرح شب و روز نازل ہوتے رہتے ہیں- پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تیئں بصدق و صفااس ربّانی کارخانے کے حوالہ کر کے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اور نہایت بد قسمت وہ شخص ہے کہ اپنے تیئں ان انوار و برکات کے حصول سے لا پروا رکھ کر بے نبیاد نکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے ظاہر کر نا اپنا شیوہ کر لیوے- میں ایسے لوگوں کو محض للّٰلہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے خیالات کو دل میںجگہ دینے سے حق اورحق بینی سے بہت دور جا پڑے ہیں- اگر ان کا یہ قول سچ ہو کہ الہامات اور مکاشفات کوئی ایسی عمدہ چیز نہیں ہے جو خاص اور عوام یا کافر اور مومن میں کوئی امتیاز بیّن پیدا کر سکیں- تو سالکوں کے لئے یہ نہایت دل توڑنے والا واقعہ ہوگا- میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ روحانی اور اعلیٰ درجہ کی اسلام میں خاصیت ہے- کہ سچائی سے اس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الٰہیہ سے مشرف سے ہو جاتے ہیں اور قبولیت کے انوار جن میں ان کا غیر ان کا ساتھ شریک نہیں ہو سکتا- ان کے وجود میں پیدا ہو جاتے ہیں- یہ ایک واقعی صداقت ہے جو بے شمار راستبازوں پر اپنے ذاتی تجارب سے کھل گئی ہے - ان مدارج عالیہ پر وہ لوگ پہنچتے ہیں کہ جو سچی اور حقیقی پیروی رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں اور نفسانی وجود سے نکل کر ربّانی وجود کا پیراہن پہن لیتے ہیں- یعنی نفسانی جذبات پر موت وارد کر کے ربّانی طاعات کی نئی زندگی اپنے اندر حاصل کر تے ہیں- ناقص الحالت مسلمانوں کو ان سے کچھ نسبت نہیں ہوتی- پھر کافر اور فاسق کو ان سے کیا نسبت ہو- ان کی یہ کاملیت ان کی صحبت میں رہنے سے طالب حق پر کھلتی ہے- اسی غرض سے میں نے اتمام حجت کے لئے وہ میرے اس دعویٰ کی آزمایش کریں- اگر ان کو سچائی کی طلب ہوتی تو وہ صدق قد سے حاضر ہوتے سو ان میں سے کوئی ایک بھی بصدق قدم حاضر نہ ہوا- بلکہ جب کوئی پیشگوئی ظہور میں آتی رہی اس پر خاک ڈالنے کے لیے کوشش کرتے رہے- اب اگر ہمارے علماء کی اس حقیقت کے قبول کرنے اور ماننے میں کچھ تامل ہے تو غیروں کے بلانے کی کیا ضرورت ہے پہلے یہی ہمارے احباب جن میں سے بعض فاضل اور عالم بھی ہیں آزمایش کر لیں- اور صدق اور صبر سے کچھ مدت میری صحبت میں رہ کر حقیقت حال سے واقف ہو جائیں- پھر اگر یہ دعویٰ اس عاجز کا راستی سے معرا نکلے تو انہیںکے ہاتھ پرمیں توبہ کر لوں گا- ورنہ امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر توبہ اور رجوع کا دروازہ کھول دے گا- اور اگر وہ میری اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد میرے دعاوی کی آزمایش کر کے اپنی رائے کو بہ پایہ صداقت پہنچا دیں تو ان کی نا صحانہ تحریروں کے کچھ معنے ہوں گے- اس وقت تک تو اس کے کچھ معنے نہیں بلکہ ان کی محجوبانہ حالت قابل رحم ہے- میں خوب جانتا ہوں کہ آج ک کے عقلی خیالات کے پر زور بخارات نے ہمارے علماء کے دلوں کو کسی قدر دبا لیا ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ انہیں خیالات پر زور دے رہے ہیں اور تکمیل دین و ایمان کے لئے انہیں کو کافی وافی خیال کرتے ہیں اور ناجائز اور ناگوار پیرایوں میں روحانی برکات کی تحقیر کر ر ہے ہیں- اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تحقیر تکلف سے نہیں کرتے بلکہ فی الوقع انکے دلوں میں ایسا ہی جم گیا ہے- اور ان کی فطرتی کمزوری اس زلزلہ کو قبول کر گئی ہے کیونکہ ان کے اندر حقانی روشنی کی چمک نہایت ہی کم اور خشک لفاظی بہت سی بھری ہوئی ہے- اور اپنی رائے کی اس قدر صائب خیال کرتے اور اس کی تائید میں زور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو روشنی حاصل کرنے والوں کو بھی اس تاریکی کی طرف کھینچ لا دی- ان علماء کو اسلام کی فتح صواری کی طرف کو ضرور خیال ہے- مگر جن باتوں میں اسلام کی فتح حقیقی ہے ان سے بیخر ہیں-
اسلامی کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہی اسی طرح ہم اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دیں اور اپنے نفس اور اس کے جذبات سے بکّلی خالی ہو جائیں اور کوئی بُت ہو اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے- اور بکلی مرضیات الہٰیہ میں محو ہو جائیںاور بعد فناء کے وہ بقاء ہم کو حاصل ہو جائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورانیت عطا کرے- اور ہماری محبت میں ایک جدید جو ش پیدا کرے- اور ہم ایک نئے آدمی ہو جائیں اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی ہمارے لئے ایک نیا خدا ہو جائے- یہی فتح حقیقی ہے جس کے کئی شعبوں میں سے ایک شعبہ مکالمات الہٰیہ بھی ہیں - اگر یہ فتح اس زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تو مجرد عقلی فتح انہیں کسی منزل تک پہنچا نہیں سکتی- میں یقین رکھتا ہوں کہ اس فتح کے دن نزدیک ہیں- خدا تعالیٰ اپنی طرف سے یہ روشنی پیدا کرے گا- اور اپنے ضعیف بندوں کا آمرزگار ہوگا-
تبلیغ
میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتاہون کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کے راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں- پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں- انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا- اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا- اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دیگا- بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بد ل و جان طیار ہوں گے- یہ ربّانی حکم جو آج میں نے پہنچا دیا ہے- اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے :-
اذا عزمت فتو کل علے اللّٰہ واصنع الفلک با عیننا و رحینا الّذین یبایعو نک انّما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فرق ایدیھم-
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المبلخ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
یکم دسمبر ۱۸۸۸ء
مبطوعہ ریاض ہند پریس امرتسر


(۴۸)
تکمیل تبلیغ
مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں شائع کیا ہے جس میں بیعت کرنے کے لئے حق کی طالبوں کو بلایا ہے- اس کی مجمل شرائظ کی تشریح یہ ہے:-
اوّل:بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل نہ ہو جاک شرک سے مجتنب رہے گا-
دوم:یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا- اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا- اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے-
سوم:یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم اور خدااور رسول کے ادا کرتا رہے گا- اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلے اللہ و علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مدادمت اختیار کرے گا- اور دلی محبت خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا-
چہارم :ہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاًاپنے نفسانی جوشوںسے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گی- نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے -
پنجم :یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرے گا- اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا- اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا-
ششم:یہ ک اتباع رسم اور متابعت ہووہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکّلی اپنے سر پر قبول کرے گا- اور قال للہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا-
ہفتم :یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکّلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا-
ہشتم:یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر تک عزیز سے زیادہ سمجھے گا-
نہم :یہ کہ اس عاجز سے عقداخوت محض للہ باقرارطاعت در معرفت باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا- اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو-
یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں- جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی - اور واضح ہو چکا ہے- کہ اس دعوت بیعت کا حکم تخمیناً مدّت دس ماہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا ہے لیکن اس کی تاخیر اشاعت کی یہ وجہ ہوئی ہے کہ اس عاجز کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی رہی کہ ہر قسم کے رطب دیا بس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں اور دل یہ چاہتا رہا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور جو کچی اور سریع التغیر اور مغلوب شک نہیں ہیں- اسی وجہ سے ایک ایسی تقریب کی انتظار رہی کہ جو سچوں اور کچوں اور مخلصوں اور منافقوں میں فرق کر کے دکھلاوے- سو اللہ جل شانہ‘ نے اپنی کمال حکمت سے وہ تقریب بشیر احمدکی موت کو قرار دے دیا٭اور خام خیالوں اور کّچوںاور بد ظنّوں کو الگ کر کے دکھلا دیا اور وہی ہمارے ساتھ رہ گئے جن کی فطرتیں ہمارے ساتھ رہنے کے لائق تھیں - اور جو فطرتاً قوی الایمان نہیں تھے اور تھکے اور ماندے تھے وہ سب الگ ہو گئے اور شکوک و شبہات میں پڑ گئے- پس اسی وجہ سے ایسے موقع پر دعوت بیعت کا مضمون شائع کرنا نہایت چسپاں معلوم ہوا- تاخس کم جہاں پاک کا فائدہ ہم کو حاصل ہو اور مغشوشین کے بد انجام کی تلخی اُٹھانی نہ پڑے اور تا جو لوگ جو اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جائیں وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں اور وہی ہمارے خالص دوست متصور ہوں اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں ان کی غیروں پر قیامت دونگا- اوربرکت اوررحمت ان کے شامل حال رہیگی اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے روبر یہ کشتی تیار کر جو لوگ تجھ سے سیت کرینگے- وہ خدا طاقتوں کے ساتھ حاضر ہو جائو اور اپنے رب کریم کو اکیلا مت چھوڑو- جو شخص اسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا-
سوحسب فرمودہ ایزدی دعوت بیعت کا عام اشتہار دیا جاتا ہے اور متحملین شرائط متذکرہ بالا کو عام اجازت ہے کہ بعد ادائے استخارہ مسنونہ اس عاجز کے پاس بیعت کرنے کے لئے آویں- خدا تعالیٰ ان کا مدد گار ہو اور ان کی زندگی میں پاک تبدیلی کرے اور ان کو سچائی اور پاکیزگی اور محبت اور روشن ضمیری کی رُوح بخشے آمین ثم آمین - وآخردعوان الحمد اللہ رب العالمین
المبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــلغ
خاکسار احقہ عباد اللہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر) ۹ جمادی الاوّل ۱۳۰۶ مطابق ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء
(۴۹)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ‘و نصلّے
گزارش ضروری
بخدمت ان تمام صاحبوں کے جو بیعت کرنے کے لیے مستعد ہیں-
اے بر اخوان مومنین (اَیَّدَ کُمُ اللّٰہُ بِرُوحٍ مِنْہُ)آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً لقلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں٭ واضح ہو کہ بالقائے رب کریم وجلیل جس کا ارادہ ہے کہ مسلمان کینہ اور بغض سے جس نے ان کو بے برکت و نکمّاہ کمزور کر دیا ہے نجات دے کر فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اخواناً کا مصداق بنا دے- مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد د منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیںاس انتظام پر موقوف ہیںکہ آپ سب صاحبوںکے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے(اگر ممکن ہو) اندراج پاویں- اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزون تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیار کر کے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتدبہ گروہ ہو جاوے تو ایسا ہی ان کے اسماء کی فہرست تیار کر کے تمام مبائعین یعنی داخلین بیعت تک پہنچ جائے- یہ انتظام جس کے ذرریعہ سے راستبازو ں کا گروہ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرائے میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہو گا اور اپنی سچائی کے مختلف المخراج شعاعوں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کر ے گا خداوند عزوجل کو بہت پسند آیا ہے- مگر چونکہ کاروائی بجز اس کے بآسانی و صحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیجدیں- اس لئے ہر ایک صاحب جو صدق دل سے اور خلوص تام سے بیعت کرنے کے ک لئے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے - کہ وہ بتحریر خاص اپنی پورے پورے نام و لدیت و سکونت مستقل و عارضی وغیرہ اطلاح بخشیں یا اپنے حاضر ہونے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں-اور ظاہر ہے کہ ایسی کتاب کا شائع ہونا جس میں تمام بیعت کرنے والوں کے نام و دیگر پتہ نشان درج ہو- انشاء اللہ القدیر بہت سی خیر و برکت کا موجب ہو گا-
ازانجملہ ایک بڑی عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے بیعت کرنے والوں کا بہت جلد باہم تعارف ہو جائے گا- اور باہم خط و کتابت کرنے اور افادہ و استفادہ کے وسائل نکل آئیں گے اور غائبانہ ایک دوسرے کو دعائے خیر سے یادکریں گے اور نیز اس باہمی شناسائی کی رُو سوے ہر ایک موقعہ و محل پر ایک دوسرے کی ہمدردی کر سکیں گے اور ایک دوسرے کی ہمدردی کر سکیں گے اور ایک دوسرے کی غمخواری میں یا ان موافق و دوستانِ صادق کی طرح مشغول ہو جائیںگے اور ہر ایک کو ان میں سے اپنے ہم ارادت لوگوں کے ناموں پر اطلاع پانے سے معلوم ہو جائیگا کہ اس روحانی دنیا کی میں کسی قدر پھیلے ہوئے ہیں اور کن کن خدا داد فضائل سے متصف ہیں- سو یہ علم ان پر ظاہر کر دے گا کہ خدا تعالیٰ نے کس خارق عادت طور پر اس جماعت کو تیار کیا ہے اور کسی سرعت اور جلدی سے دنیا میں پھیلایا ہے- اور اس جگہ اس وصیت کا لکھنا بھی موزون معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے بھائی سے بکمال ہمدردی و محبت پیش آوے- اور حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر ان کا قدرکرے - ان سے جلد صلح کر لیوے- اور دلی غبار کو دُور کر دیوے- اور صاف باطن ہوجاوے- اور ہر گز ایک ذرّہ کینہ اور بغض ان سے نہ رکھے- لیکن اگر کوئی عمدًا ان شرائط کی خلاف ورزی کرے جو اشتہار٭۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مندرج ہیں اور اپنی بے باکانہ حرکات سے باز نہ آوے- تو وہ سلسلہ سے خارج شمار کیا جاوے گا- یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کر نے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے٭ اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور نجیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے- اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگایا ہے- اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے جوش نہیں- بلکہ وہ ایسی قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لیے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں- اور محبت الہٰی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتاہوا نظر آوے- خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھیراوے- اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تریبت باطنی میں مصروف ہو جائوں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لئے دن رات کوشش کرتا رہوں- اور ان کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامیء سے آزاد ہو جاتا ہے- اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لئے وہ روح قدس خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے - سو میں بتوفیقٖہ تعالیٰ کاہل اور سست نہیں رہوں گا- اور ان کے لئے خدا تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح وجود میں دوڑ جائے- اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا- کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیداکرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہٰی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے- سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا- اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا- وہ جیسا کہ اس نے پاک پیشین گوئی میں وعدہ فرمایا ہے‘ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا- وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا- اور اس کو نشوونما دے گا- یہانتک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی- اور وہ اس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے- وہ اس سلسلہ کے کامل متبصین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا- اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی - اُس ربّ جلیل نے یہی چاہا ہے - وہ قادر جو چاہتا ہے کرتا ہے- ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے- فالحمد لہ‘ اوّلا اٰخرواظاھرًا و باطناً- اَسْلَمْنَا لَہ‘ - ھو مولٰنا فی الدنیا والاٰ خرۃ- نعم المولی و نعم النصیر
خاکـــــــــــــــــــــــــــسار
غلام احمد - لودیانہ محلہ جدید متصل مکان اخی مکرم
حاجی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور
۴ مارچ ۱۹۸۹ء (مطبوعہ ریاض ہند امترتسر )
(یہ اشتہار ۸/ ۲۰ *۲۹) کے چار صفحوں پرہے)



(۵۰)
اشتہار عام معترضین کی اطلاع کے لیے
ہم نے ارادہ کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں جس قدر مختلف فرقے اور مختلف رائے کے آدمی اسلام پر یا تعلیم قرآنی پر یا ہمارے سیّد مولیٰ جناب عالی رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں یا جو کچھ ہمارے ذاتی امور کے متعلق نکتہ چینیاں کر رہے ہیں - یا جو کچھ ہمارے الہامات اور ہماری الہامی دعاوی کی نسبت ان کے دلوں میں شبہات اور وساوس ہیں- ان سب اعتراضات کو ایک رسالہ کی صورت پر نمبر وار مرتب کر کے چھاپ دیں اور پھر انہیں نمبروں کی ترتیب کے لحاظ سے ہر ایک اعتراض اور سوال کا جواب دینا شروع کریں- لہذا عام طور پر تمام عیسائیوں اور آریوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور دہریوں اور برہمیوں اور طبیعیوں اور فلسفویوں اور مخالف رالرائے مسلمانوں وغیرہ کو مخاطب کر کے اشہتار دیا جاتا ہے کہ ہر ایک شخص جو اسلام کی نسبت یا قرآن شریف اور ہمارے سید اور مقتدار خیر الرسل کی نسبت یا خود ہماری نسبت ہمارے منسب خداداد کی نسبت ‘ ہمارے الہامات کی نسبت کچھ اعتراضات رکھتا ہے تو اگر وہ طالب حق ہے تو وہ لازم و واجب ہے کہ وہ اعتراضات خوشخط قلم سے تحریر کر کے ہمارے پاس بھیجدے تا وہ تمام اعتراضات ایک جگہ اکٹھے کر کے ایک رسالہ میں نمبر وار ترتیب دے کے چھاپ دیئے جائیں اور پھر نمبر وار ایک ایک کا مفصل جواب دیا جائے
والسلام علیٰ من تبع الھدی
المشـــــــــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۰۰ جمادی الثانی ۱۳۰۸ھ
یہ اشتہار فتح اسلام بار دوم کے صفحہ ۳۸ پر درج ہے)
(۵۱)
اعلان
اس رسالہ کے ساتھ دو اور رسالے تالیف کئے گئے ہیں جو درحقیقت اس رسالہ کے جزو ہی چنانچہ اس رسالہ کا نام فتح اسلام اور دوسرے کا نام توضیع مرادم اور تیسرے کا نام ازالہ اوہام ہے-
المعــــــــــــــــــــــــلن
مرزا غلام احمد قادیان
(یہ اشتہار فتح اسلام بار دوم کے صفحہ ۲۹ پر درج ہے)

(۵۲)
اعلان
اس رسالہ کے بعد ایک اور رسالہ بھی چند روز میں طبع ہو کر طیار ہو جائے گا- جس کا نام ازالہ اوہام ہے وہ رسالہ فتح اسلام کا تیسرا حصہ ہے-
المعــــــــــــــــــــــــلن
مرزا غلام احمد عفی عنہ
(یہ اشتہار رسالہ توضیع مرام ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پر ہے-)
(۵۳)
یاددہانی
جو کچھ ہم نے رسالہ فتح اسلام میں الہٰی کارخانہ کے بارے میں جو خداوند عزّوجل کی طرف سے ہمارے سپرد ہوا ہے پانچ شاخوں کا ذکر کر کے دینی مخلصوں اور اسلامی ہمدردوں کی ضرورت امداد کے لئے لکھا ہے - اس کی طرف ہمارے با اخلاص اور پُرجوش بھائیوں کو بہت جلد توجّہ کرنی چاہیے کہ تا یہ سب کام باحسن طریق سے شروع ہو جائیں-
الـــــــــــــــــــــــــراقم
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
(یہ اشتہار رسالہ توضیع مرام مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے ٹائٹل کے آخر میں ہے)

(۵۴)
اطّلاع بخدمت عُلماء اسلام
چونکہ اس عاجز نے مثیل مسیح کے بارے میںلکھا ہے - یہ مضمون متفرق طور پر تین سالوں میں درج ہے یعنی فتح اسلام اور توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں- پس مناسب ہے کہ جب تک کوئی صاحب ان تینوں رسالوں کو غور سے نہ دیکھ لیں تب تک مخالفانہ رائے ظاہر کرنے کے لئے جلد ی نہ کریں- والسلا م علیٰ من اتبع الھدی
الــــــــــــــــــــــــــــــراقم
خاکسار مرزا غلام احمد ؐ
(یہ اطلاع توضیع مرام مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اوّل کے آخری صفحہ ٹائٹل پر اور بار دوم کے صفحہ ۴۰ پر ہے)



(۵۵)
ضروری اشتہار
لِیَھْلِکَ مَن ھَلَکَ عَنْ بِیْنَۃٍ وَ یَحْیٰیْ مَنْ حَیَّ عَنْ بِیِّنَۃٍ
ناظرین پر واضح ہو کہ مسیح ابن مریم کے نزول کی حقیقت جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز پرکھولی ہے جس کے بارے میں کچھ تھوڑا سا رسالہ فتح اسلام میں توضیح مرام میں ذکر ہے اور رسالہ ازالہ اوہام میں مبسوط اور مفصل طور پر اس کا بیان ہے- ایسا ہی ملائک اور لیلۃ القدر اور معجزات مسیح کے بارے میں جو کچھ ان رسالوں میں لکھا گیا ہے - قبل اس کے جو علماء اسلام ان مباحث کو پڑھیں- اور تدبر سے ان کے مطلب کو سوچیں- یونہی مخالفانہ خیالات خلق اللہ میں پھیلا رہے ہیں اور عوام الناس کو اپنے بے اصل و ساوس سے ہلاک کرتے جاتے ہیں حالانکہ رسالہ توضیح مرام کے آخر میں نصیحتاً لکھا گیا ہے کہ جب تک تینوں رسالوں کو دیکھ نہ لیں کوئی رائے ظاہر نہ کریں مگر وہ آخر تک صبر نہ کر سکے کسی نے کہا کہ یہ شخص کافر ہے اور کسی نے کہا کہ یہ شخص ضال اور مضل ہے اور کسی نے کہا کہ بیجاتاویلیں کرتا ہے اور کسی نے کہا کہ اس کو مالیخو ہے اور چونکہ اکثر لوگ ان میں موٹی عقل کے آدمی اور کجی سے نہ نسبت راستی کے زیادہ پیار کرنے والے ہیں- اس لئے ان مولوی صاحبوں کے بیانات کا ان کے دلوں پرسخت اثر پڑا- اور عوام الناس کی تو ی پہلے ہی سے عادت ہے کہ وہ اصل حقیقت پر غور کم کرتے ہیں- اور ایک خود غرض یا کو تاہ فہم مولوی کے بیان کو فیصلہ ناطق سمجھ لیتے ہیں- اسی ضرور رساں سیرت نے انہیں طرح طرح کے گڑھوں اور غاروں میں ڈال دیا ہے لہذا قرین مصلحت سمجھ کر کل مخلالف الرائے علماء کے مقابل محض اللہ یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے کہ اگر ان کو اس عاجز کے ان دعاوی مذکورہ بالا کے قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف ہیں تو وہ ایک عام مجلس مقرر کر کے تحریری طور پر اس عاجز سے مقاصد مذکور بالا میںمباحثہ کر لیں تا جلسہ عام میں حق ظاہر ہو جائے اور کوئی فتنہ بھی پیدا نہ ہو کیونکہ مجردزبانی بیانات میں انواع اقسام کی خرابیوں کا احتمال ہے- سو مناسب ہے کہ ان سب میں سے وہ مولوی صاحب کو کمالات علمی میں اوّل درجہ کے خیال کئے جائیں وہی فریق ثانی کی طرف سے اس مباحثہ کے لیے مختار مقرر ہوں اور فریق ثانی کے لوگ اپنے اپنے معلومات سے ان کو مدد کریں اور وہ (وکیل صاحب) بذریعہ تحریر ان سب دلائل کو اس عاجز کے سامنے پیش کر دیں اور اس عاجز کے سامنے پیش کر دیں- مگر مناسب ہے کہ اختصار اور حفظ اوقات کی غرض سے اپنے کُل دلائل اوّل پرچہ میں ہی پیش کر دیں اور اس عاجز کی طرف سے بھی صرف ایک پرچہ اس کے جواب میں ہو گا- وہی دونوں پرچے سوالات و جوابات کے حاضرین کو سنائے جائیں اور اخباروں میں چھپوائے دیئے جائیں- اس سے حق اور باطل روشن ہو جائے گا- اور تحریرات ہر دوع فریق سے ہر یک حاضر اور غائب کو خوب سوچ کے ساتھ حق کے سمجھنے اور رائے لگانے کا موقع مل جاوے گا- اگرچہ کتاب ازالہ اوہام چھپ رہی ہے - جو پچیس جزو کے قریب ہو گی اور یہ تمام مباحث معہ دیگر معارف حقایق کے اس میں کامل طور پر درج ہیں - مگریہ مولوی صاحبان اس کو ہر گز نہیں دیکھیں گے تا ایسا نہ ہو کہ آنکھیں کھل جائیں اور حق کو قبول کرنا پڑے بلکہ میں نے سنا ہے کہ ان حضرات میں اکثر مولوی صاحبان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی مسلمان ان کتابوں کو نہ دیکھے- یر ید ون ان یطفؤ نو ر اللہ بافو اھہم لیکن یہ اشہتار بہرحال انہیں دیکھنا پڑے گا- اور عوام الناس اگرچہ بڑی بڑی کتابوں کو نہیں پڑھتے مگر اس مختصر اشتہار کے مضمون سے بیخبر نہیں رہ سکتے- لہذا میں نے اتمام حجت کی نیت سے اس کو لکھا ہے اور میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القاء سے حق کھول دیا ہے وہ یہ ہے کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی یحیٰی کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے- اس زمانہ کے لئے جو رُوحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کے خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے- وہ مَیں ہوں- یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو لوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے - اور میں کھول کر کہتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدّق ہے- تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں- عقل خداداد بھی اس کی مؤید ہے - اگر مولوی صاحبوں کے پاس مخالفانہ طور پر شرعی دلائل موجود ہیں تو وہ جلسہ کر کے بطریق مذکورہ بالا مجھ سے فیصلہ کر یں- بے شک حق کو غلبہ ہو گا - میں بار بار کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں- مولوی صاحبان سراسر اپنے علم کی پردہ دری کراتے ہیں- جبکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے- اے حضرات اللہ جلشانہ آپ لوگوں کے دلون کو نور ہدایت کے منور کرے- یہ دعویٰ ہر گز قال الرسول کے برخلاف نہیں بلکہ آپ لوگوں کو سمجھ کر پھیر لگا ہوا ہے- اگر آپ لوگ جلسہ کے لیے مقام و تاریخ مقرر کر کے ایک عام جلسہ میں مجھ سے بحث تحریری نہیں کریں گے- تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اور نیز راستبازوں کی نظر میں بھی مخالف حق ٹھہریں گے- اور مناسب ہے کہ جب تک میرے ساتھ بالمواجہ تحریری طور پر بحث نہ کر لیں- اس وقت تک عوام الناس کو بہکانے اور مخالفانہ رائے ظاہر کرنے سے اپنا منہ بند رکھیں اور یہی آیت کریمہ لاتقف ما لیس لک بہ علم سے ڈریں نہ حرکت حیا اور ایمان اور خدا ترسی اور منصفا نہ طریق سے برخلاف سمجھی جائے گی - اور واضح رہے کہ اس اشتہار کے عام طور پر تمام مولوی صاحبان مخاطف ہیں جو مخالفانہ رائے ظاہر کر رہے ہیں اورخاص طور پر ان سب کے سر گروہ یعنی مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی- مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی- مولوی عبد الرحمن صاحب لکھو کے والے- مولوی شیخ عبید اللہ صاحب بنتی- مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانوی معہ برادران اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری (۲۶مارچ ۱۸۹۱ء)
المشــــــــــــــــــــــتہر
میرزا غلام احمد قادیانی (مطبع دبدنہ اقبال ادبّی لدھیانہ )
مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام ۱۶ اپریل ۱۸۹۱ء کو جو مندرجہ ذیل خط حضرت اقدس علیہ السلام نے مباحثہ کے متعلق ارسال فرمایا تھا وہ ضمیمہ اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۲۵ اپریل ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا ہے اس لئے مناسب جان کر اس خط کو بھی یہاں نقل کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ محفوظ ہو جائے- (المرتب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
از عاجز عأمذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ …بخدمت اخویم محمد حسین صاحب
السلام علیکم ورحمۃ و برکاتہ‘ آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جائو گے پہنچا- اے عزیز شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتح مند کون ہونے والا ہے - اور شکست کھانیوالا کون ہے- جو آسمان پر قرار پا گیا وہی زمین پر ہو گا- گو دیر سے سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر گمان کر لیا محبی فی اللہ مولوی حکیم نور الدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے- آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے- اصل بات تو صرف اسی قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب محدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبد الرحمن صاحب اس جگہ آئے ہوئے ہیں- میں نے اُن کو وہ تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تا ان کے روبرد ہم بعض شبہات آپ سے دُور کر لیں- اور یہ بھی لکھا کہ اس مجلس میں ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے- چنانچہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب نے اصرا کی وجہ سے لاہور پہنچے اور منشی امیر الدین صاحب نے مکان پر اترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا تھا- مولوی عبد الرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے اپ کو بُلایا تھا- انہوں نے مولوی صاحب نے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی صاحب محمد حسین کا طریق بحث پسند نہیں آیا وہ یہ تو سلسلہ دو برس تک ختم نہیں ہو گا- آپ خود ہمارے سوال کا جواب دیجئے- ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے- اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے- تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا - مولوی صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے- تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا- مولوی صاحب موصوف بخوبی اُن کی تسلّی کر دی- یہانتک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ یوسف صاحب نے باانشراح صد بآواز بلند کہا کہ اے حاضرین میری تومن کل الوجوپ تسلی وہ گئی- اب میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے- پھر بعد اس کے یہی تقرر منشی عبد الحق صاحب اور منشی الہٰی بخش صاحب اور منشی امیر الدین صاحب اور میرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر ان سب نے مولوی صاحب کویہ کہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلّی کرانے کے لئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بکلّی تسلّی ہو گئی- آپ بلا جرح تشریف لے جائیے- سو انہوں نے پی بُلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا - آپ کا تو درمیان میں قدا ہی نہ تھا- پھر آپ کایہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے- کہ کس قدر بے محل ہے آپ خود انصاف فرما ویں-
جب کہ ان سب لوگوں نے کہہ دیا کہ اب ہم مولوی صاحب محمد حسین کو بلانا نہیں چاہتے، ہماری تسلی ہو گئی اور وہی تو ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کو لدھیانہ سے بُلایا تھا- پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے-کیا آپ نہیں سمجھ سکتے- اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہیے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسرو چشم حاضر ہے- مگر تقریری بحثوں میں صد ہا طرح کا فتنہ ہوتاہے- صرف تحریری بحث ہونی چاہیئے- اور وہ یوں ہو کہ سادہ طورح پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں- اور لوگوں کو بآواز بلند سُنا دیں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں- پھر بعد میں بھی چار ورق اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سُنا ئوں- ان دونوں پرچو ں پر بحث ختم ہو جاوے اور فریقین میں کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور ہر بحث کے بارہ میں بات نہ کرے- جو کچھ ہو تحریری ہو اور پرچے صرف دو ہوں اوّل آپ کی طرف سے ایک چو ورقہ جس مین آپ میرے مشہور کردہ دعوے قرآن کریم اور حدیث کی رُو سے ردّ لکھیں- اور پھر دوسرا پرچہ چو ورقہ اسی تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں مَیں اللہ جلشانہ کے فضل و توفیق سے ردّ الرد لکھوں اور انہی دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جاوے- اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور آ سکتا ہوں- اور انشا ء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کے لئے انتظام کرادونگا- یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے - اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز متصور ہو گی- والسلام
میرزا غلام احمد از لدھیا نہ اقبال گنج ۱۶ اپریل ۱۸۹۱ء
مکر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کے لئے آپ پسند کر لیں اسی قدر ورق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جاوے- لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہیئے- کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں- اور آنمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچہ صرف دو ہوں گے اوّل آپ کی طرف سے میرے ان دونو بیانات کا ردّ ہو گا جو میں نے لکھا ہے کہ میں میثل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں- پھر اس ردّ کے ردّ الرد کے لئے میری طرف سے تحریر ہو گی غرض پہلے آپ کایہ حق ہو گا کہ جو کچھ ان دعوے کے ابطال کے لیے آپ کے پاس ذخیرہ نصوص قرآنیہ و حدیث موجود ہے- وہ آپ پیش کریں- پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا- اور بغیر اس طریق کے جو مبنی نا انصاف ہے اور نیز امن رہنے کے لیے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں- اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ اخیر تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روانہ رکھیں- اور بحالت انکار ہر گز کوئی تحریر یا خط میری طرف نہ لکھیں اور اگر پوری پوری و کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو اسی حالت میں جواب فرما ویں ورنہ فقط آج ۱۶ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا ہے- اور ۲۰ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کی انتظاری رہے گی- اگر ۲۰ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا خط نہ پہنچا تو یہ خط آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار وغیرہ میں شائع کر دیا جائے گا فقط-
آج بھوپال سے آپ کا ایک کارڈ مرقومہ ۹ اپریل ۱۸۹۱ء مرسلہ اخویم مولوی محمد حسین صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہو گیا- آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے میرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کے اپنے ریویو میں تصدیق نہیں دی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے آپ بلاروایت میرزا پر ایمان لے آئے- تسمع بالصدق خیر من ان تریٰہ- اشاعت السنہ میں اب ثابت ہے کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے- فقط حضرت مولوی صاحب من آنم کی من دانم- آپ جہانتک کہ ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے -میں کیا ہوں اور میری شان کیا - بیشک آپ جو چاہیں کہیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں- ربیّ سمیع ایریٰ والسلام علیٰ من اتبع الھدی


(٭خط مرزا صاحب بنام مولوی عبد الجبار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مشفقی اخوی ام مولوی عبد الجبار صاحب !
السلام علیکم ایک اشتہار جوعبد الحق سے جاری کیا گیا ہے جس میں مباہلہ کی درخواست کی ہے- کل کی ڈاک میں مجھ کو ملا ہے -چونکہ میں نہیں جانتا کہ عبد الحق کون ہے آیا کسی گروہ کا مقتدی ہے - اس وجہ سے آپ ہی کی طرف خط ہذا لکھتا ہوںاس خیال سے لکھا گیا ہو گا- پس واضح ہو کہ مباہلہ پر مجھے کسی طرح کا اعتراض نہیں جس حالت میں مَیں نے اس مدعا کی غرض سے قریب بارہ ہزار کے خطوط و اشتہارات مختلف ملکوں میں بڑے بڑے مخالفوں کے نام روانہ کئے ہیں تو پھر آپ سے مباہلہ کرنے میں کون سی تامل کی جگہ ہے- یہ بات سچ ہے کہ اللہ جلّشانہ ‘ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے سو میں اسی الہام کی بنا پر اپنے تئیں وہ موعو مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں- مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو- بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے جو میری ذریت میں سے ہو گا- لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث مین میرے آنے کی خبر دی گئی ہے- میں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کروں گا- مسیح موعود کوئی اور بھی اور شاید یہ پیشگوئیاں جو میرے حق میں رُوحانی طور پر ہیں ظاہر طورپر اس پر جمتی ہوں اور شاید سچ مچ و مشق میں کوئی میثل یحییٰ کی رُوح کے ساتھ نازل دوسرے آسمان میں اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر کر رہی ہے اب وہ رُوح دوسرے آسمان اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر کر رہی ہے- اب وہ رُوح بہشت سے بموجب وعدہ الٰہی کے جو بہشتیوں کے لئے قرآن شریف میں موجود ہے نکل نہیں سکتی اورنہ دو موتیں ان پر وارد ہو سکتی ہیں- ایک موت جو ان پر وارد ہوئی وہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے اور ہامرے اکثر مفسد بھی اس کے قائل ہیں اور ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کاثبوت ظاہر ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے اور نیز توریت میں بھی- اب دوسری موت ان کے لئے تجویز کرنا خلاف نص و حدیث ہے- وجہ یہ کہ کسی جگہ ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ایسا ہی اس پر ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ کتاب اللہ پر اور اسی اقرار اور انہی لفظوں کے ساتھ میں مباہلہ بھی کرونگا- اور جو لوگ اپنے شیطانی اوہام کو ربّانی الہام قرار دے کر مجھے جہنمی اور ضال قرار دیتے ہیں- ایسا ہی ان سے بھی ان کے الہامات کے بارہ میں اللہ جلشانہ کی حلف لوں گا- کہ کہاں تک انہیں اپنے الہامات کی یقینی معرفت حاصل ہے مگر بہرحال مباہلہ کے لئے میں مستعد کھڑا ہوں لیکن امور مفصلہ کا تصفیہ ہونا پہلے مقدم ہے-
اوّل یہ کہ چند مولوی صاحبان نامی جیسے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بالاتفاق یہ فتویٰ لکھ دیں کہ ایسی جزئیات خفیفہ میں اگر الہامی یا اجتہادی طور پر اختلاف واقع ہو تو اس کا فیصلہ بذریعہ طعن کرنے اور ایک دوسرے کو بد دعا دینے کے جس کا دوسرے لفظوں میں مباہلہ نام ہے کرنا جائز ہے کیونکہ میرے خیال میں جزیٔ اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو لعنتوں کا نشانہ بنانا ہر گز جائز نہیں کیونکہ ایسے اختلافات اصحابوں میں ہی شروع ہو گئے تھے مثلاً حضرت ابن عباس محدث کی وحی ک طرح قطعی سمجھتے تھے اور دوسرے ان کے مخالف تھے- ایسے ہی صاحب صحیح بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی توریت و انجیل وغیرہ محّرف نہیں ہیں اور اُن میں کچھ لفظی تحریف نہیں ہوئی-حالانکہ یہ عقیدہ اجماع مسلمین ہے اور بایں ہمہ سخت مضر بھی ہے اور نیز بہ ہدایت باطل ایسا ہی محی الدین ابن عربی رئیس المتصوئین کا یہ عقیدہ ہے کہ فرعون دوزخی نہیں ہے اور نبوت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا اور کفار کے لیے عذاب جادوانی نہیں اور مذہب الوجود کے بھی گویا وہی موجد ہیں- پہلے ان سے کسی نے ایسی واشگاف کلام نہیں کی- سو یہ چاروں عقیدے ان کی ایسا ہی اور بعج عقائد بھی اجماع کے برخلاف ہیں- اسی طرح شیخ عبد القادر جیلانی سرہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اسٰمعیل ذبیح نہیںہے اور عید الضحی کے خطبہ میں اکثر رو رو کر انہی کا حال سنایا کرتے ہیں- اسی طرح صد ہا اختلافات گذشتہ علماء و فضلاء کے اقوال میں پائے جاتے ہیںف- اسی زمانہ میں بعض علماء مہدی موعود کے بارہ میںدوسرے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں- کہ وہ سب حدیثیں ضعیف ہیں- غرض جزوئیات کے جھگڑے ہمیشہ سے چلے آتے ہیں مثلاً یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسینؓ نے اور ان کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے- اور بقول میاں عبدالحق اکیلے رہے- حالانکہ حدیث صحیح میں ہے گو خلفیئہ وقت فاسق ہی ہو بیعت کر لینی چاہیے- اور تخلف معصیت ہے- پھر انہی دیثوں پر نظر ڈال کر دیکھو جو مسیح کی پیشگوئی کے بارہ میں ہیں کہ کس قدر اختلاف سے بھری ہوئی ہیں- مثلاً صاحب بخاری نے دمشق کی حدیث کو نہیں لیا اور اپنے سکوت سے ظاہر کر دیا کہ اس کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے- اور ابن ماجہ نے بجائے دمشق کے بیعت المقدس لکھا ہے اور اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان بزرگوں نے باوجود ان اختلافات کثیرہ کے ایک دوسرے سے مباہلہ کی درخواست ہر گز نہیں کی- اور ہر گز روا نہیں رکھا کہ ایک دوسرے پر *** کریں بلکہ بجائے *** کے یہ حدیث سناتے رہے کہ اختلاف امّتی رحمۃٌ اب یہ نئی بات نکلی ہے کہ ایسے اختلافات کے وقت میں ایک دوسرے پر *** کریں اور بد دعا اور گالی اور دشنام کر کے فیصلہ کرنا چاہیے ہان اگر کسیایک شخص پر سراسر تہمت کی راہ سے کسی فسق اور معصیت کا الزام لگایا جائے جیسا کہ مولوی اسمٰعیل صاحب ساکن علی گڑھ نے اس عاجز پر لگایا تھا کہ نجوم سے کام لیتے ہیں اور اس کا نام الہام رکھتے ہیں تو مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے- مگر جزئی اختلافات میں جو ہمیشہ سے علماء میں واقع ہوتے رہتے ہیں- مباہلہ کی درخواست کرنا یہ غزنوء بزرگوں کا ہی ایجاد ہے- لیکن اگر علماء ایسے مباہلہ کا فتویٰ دین تو ہمیں کچھ عذر نہیں کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اس ملاعنہ کے طریق سے جس کا نام مباہلہ ہے اجتناب کریں تو یہی اجتناب ہمارے گریز کی وجہ سمجھی جائے- اور حضرات غزنوی خوش ہو کر کوئی دوسرا اشتہار عبد الحق کے نام چھپوا دیں اور لکھ دیں کہ مباہلہ قبول نہیں کیا- اور بھاگ گئے- لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم مسلمانوں پر خلاف حکم شرع اور طریق فقر کے *** کرنے کے لئے امرتسر تو مولوی صاحبان ہم پر یہ اعتراض کرد یں کہ مسلمانوں پر کیوں لعنتیں کیں اور ان حدیثوں سے کیوں تجاوز کیا جو مومن لعّان نہیں ہوتا- اور اس کے ہاتح اور زبان سے لوگ محفوظ رہتے ہیں- سو پہلے یہ ضروری ہے کہ فتٰوی لکھا جاوے اور اس فتوے پر ان تینوں مولوی صاحبان کے دستخط ہوں جن کا ذکر میں لکھ چکا ہوں جس وقت وہ استفتار مصدقہ بمواہیر علماء میرے پا س پہنچے تو پھر حضرات مجھے امرتسر پہنچا سمجھ لیں-
ما سوا اس کے یہ بھی دریافت طلب ہے کہ مباہلہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منجانب اللہ تجویز کیا گیا تھا- وہ کفار و انصاریٰ ایک جماعت کے ساتھ تھا جو انجران کے معزز اور مشہور نصرانی تھے- اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ ہو ایک مسنون امر ہے کہ اس میں ایک فریق کا کافر یا ظالم کس کو خیال کیا گیا ہے- اور نیز یہ بھی دریافت طلب ہے کہ جیسا کہ نحران کے انصاری کے ایک جماعت تھی آپ کی کوئی جماعت ہے یا صرف اکیلے میں عبد الحق صاحب قلم چلا رہے ہیں- تیسرا یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے والے درحقیقت کوئی صاحب آپ کی جماعت میں سے ہیں جن کا نام عبد الحق ہے یا یہ فرضی نام ہے- اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ آپ بھی مباہلین کے گروہ میں داخل ہیں یا کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں- اگر داخل نہیںتو کیا وجہ؟ اور پھر وہ کونسی جماعت ہے جن کے ساتھ نساء اور ابناء اخوان بھی ہوں گے جیسا کہ منشاء آیت کا ہے - ان تمام امور کا جواب بواپسی ڈاک ارسال فرماویں اور نیز یہ سارا خط میں عبد الحق کو بھی حرف بحرف سُنا دیں- اور میاں عبد الحق نے پانے الہام میں جو مجھے جہنمی اور ناری لکھا ہے اس کے جواب میں مجھے کچھ ضرورت لکھنے کی نہیں ہے- کیونکہ مباہلہ کے بعد خود ثابت ہو جائے گا کہ اس خطاب کا مصداق کون ہے- لیکن جہاں تک ہو سکے- آپ مباہلہ کے لئے کاغذ تیار کر کے مولوی صاحبین موصوفین کی مواہیر ثبت ہونے کے بعد وہ کاغذ میرے پاس بھیجدیں -اگر اس میں کچھ توقف کریں گے یا میاں عبد الحق چپ کر کے بیٹھ جائیں گے تو گزیزپر حمل کیا جائے گا- اور واضح رہے اس خط کی چار نقلیں چار اخبار میں اور نیز رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دی جائیں گی- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
الـــــــــــــــــــــــــــــــــرقم
خاکسار غلام احمد ؐ از قادیان ضلع گورداسپور
یکم رجب ۱۳۰۸ ھ مطابق ۱۱ فروری ۱۸۹۱ء
منقول از ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ ۱۵ مارچ ۱۸۹۱ء صفحہ ۱ کالم ۲ تا صفحہ ۴کالم ۱
۸/۲۰*۲۶کے سائز پر ہے جو صادق لائیبریری قادیان میں موجود ہے - (المرتب)


(۵۶)
رَبّنَا افْتح بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قو منا بِا لحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِْیْن ط
مباہلہ کے اشتہار کا جواب
ناظرین کو معلوم ہو گا کہ میاں عبد الحق صاحب غزنوی کے پہلے اشتہار کے جواب میں جو مباہلہ کے لئے انہون نے شایع کیا تھا- اس عاجز نے یہ جواب لکھا تحا کہ مسلمانوں کے جزئی اختلافات کی وجہ سے باہم مباہلہ کرنا عند الشرع ہر گز جائز نہیں مذہب اسلام ایسے اختلاف سے بھرا پڑا ہے - حضرت مسیح ابن مریم کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا ہمارے نبی کریم صلے اللہ و علیہ وسلم کے جسمانی طور پر اُٹھائے جانے کی نسبت جو معراج کی رات میں بیان کیا جاتا ہے‘ کچھ زیادہ عزّت کے لایق نہیں اور نہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کا بکلی انکار کر دیا ہے- مگر کسی صحابی نے ان سے مباہلہ کی درخواست نہیں کی- جسمانی معراج کا بکلی انکار کر دیا ہے- مگر کسی صحابی نے ان سے مباہلہ کی درخواست نہیں کی- ما سوا اس کے اور بہت سے اختلافات صحابہ میں واقع ہو ئے یہاں تک کہ بعض قرآن شریف کی سُورتوں کو قرآن شریف مین داخل نہیں سمجھا- اور پھر ایک زمانہ جزئی اختلافات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا - اور اس سلسلہ کو کچھ تو آئمہ اور محدثین اور مفسرین نے وسعت دی اور ہزار ہا جزئیات مختلفہ آگے رکھ دئیے اور کچھ اہل کشف نے ان اختلافات کو بڑھایا-چنانچہ ارباب کشف میں سے سب قدم بڑھا ہوا حضرت ابن عربی قدس سرہ کا ہے - اور بعض مکاشفات سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ بھی ایسے ہیں جو احادیث صحیحہ سے منافی اور مغائر ہیں- چنانچہ ابن تیمیہ کا قول ہے کہ احادیث صحیحہ کی رو سے اس بات پر اجماع ہو چکا ہے- کہ ذبیح اسماعیل ہیں مگر سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اسحاقؑ کو ذبیح ٹھہراتے ہیں- ایسا ہی قریب اجماع رئیس المجدثین اس اجماع کے مخالف ہین- اب ظاہر ہے کہ اگر ان تمام جزئیات اور بطریق مباہلہ فیصلہ کرنا جائز ہوتا تو خدا تعالیٰ ہر گز اس امت کو مہلت نہ دیتا کہ اب تک وہ دنیا میں قایم رہ سکتی - ذرا سوچ کر دیکھنا چاہیے کہ چونکہ درحقیقت حالت اسلام کی خیر القرون سے ہی ایس واقعہ ہو گئی ہے کہ حنفی مذہب شافعی مذہب سے صد ہا جزئیات میں اختلاف رکھتا ہے- ایسا ہی شافعی مالکی سے اور مالکی جنبلی سے سینکڑوں جزیٔ مسائل میں مختلف ہے- اور محد ثین کو بھی کسی ایک مذہب سے بکلی مطابقت نہیں ہے اور پھر وہ بھی باہم جزئیات کثیرہ میں اختلاف رکھتا ادھر اہل کشف کے اختلافات کا بھی ایک دفتر ہے یہانتک کہ بعض نے نبوت تامہ کے سلسلہ کو منقطع نہیں سمجھا- جادوانی عذاب کے قابل نہیں ہوئے- اور ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا مذہب نہیں جو جزئیات کے اختلافات میں غلطی اور خطاء اور احتمال سے خالی ہو- اب اگر فرض کریں کہ ان سب میں اختلافات جزئیہ کی وجہ سے مباہلہ واقع ہو- اور خداوند تعالیٰ مخطی پر عذاب نازل کرے- تو بلا شبہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام متفرق فرقے اسلام کے صفحہ زمین سے یک لخت نابود ہوں- پس ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کا ہرگز منشاء نہیں- کہ اہل اسلام ان تمام اختلافات جزئیہ کی وجہ سے ہلاک کئے جائیں- سو ایسے مباہلات سے اسلام کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا- اور اگر عند اللہ جائز ہوتا تو اسلام کا کب سے خاتمہ ہو جاتا-
اس کے جواب میں میاںعبد الحق صاحب اپنے دوسرے اشتہار میں اس عاجز کو یہ لکھتے ہیں کہ اگر مباہلہ مسلمانوں سے بوجہ اختلافات جزئیہ جائز نہیں- تو پھر تم نے مولوی محمد اسماعیل سے رسالہ فتح اسلام میں کیوں مباہلہ کی درخواست کی- سو انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ درخواست کسی جزیٔ اختلاف کی بناء پر نہیں - بلکہ اس افتراء کا جواب ہے جو انہوں نے عمدًا کیا اور یہ کہا کہ میرا دوست جس کی بات پر مجھے بکلی اعتماد ہے - دو مہینے تک قادیان میں میرزا غلام احمد کے مکان پر بچشم خود دیکھ کر آیا ہے کہ ان کے پاس آلاتِ نجوم ہیں- اور انہیں کے ذریعہ وہ آیندہ کی خبریں بتلاتے ہیں- اور ان کا نام الہام رکھ لیتے ہیں- اب دیکھنا چاہیے کہ اس صورت کو جزیٔ اختلاف سے کیا تعلق ہے - بلکہ یہ تو اس قسم کی بات ہے جیسے کوئی کسی کی نسبت یہ کہے کہ میں نے اس کو بچشم خود زنا کرتے دیکھا- یا بچشم خود شراب پیتے دیکھا- اگر میں اس بے بنیاد افتراء کے لیے مباہلہ کی درخواست نہ کرتا تو کیا کرتا!
بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں مباہلہ مسنونہ سے انکار نہیں- اگر انکار ہے تو ایسے مباہلہ سے جس کا قرآن اور حدیث سے نشان نہیں ملتا- اگر اس طور پر مباہلہ کرنا چاہو کہ جس طور سے ہمارے نبی صلے اللہ وعلیہ وسلم نے درخواست کی تھی تو ہم بدل وجان مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں- یقینا تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ مباہلہ جس کے لئے آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم نے نصاریٰ سے درخواست کی تھی- وہ یہ تھا کہ آنجناب کو وحی الٰہی سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ عیسائی لوگ اس بات میں جھوٹے ہیں جو انہوں نے مسیح ابن مریم کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا بنا رکھا ہے- سچ صرف اس قدر ہے کہ مسیحؑ نبی تھا اور خدا تعالیٰ کا بندہ تھا اور اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ عیسائیوں کا افتراء ہے- ادھر عیسائی بھی کلام اللہ کے اس بیان کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے تھے بلکہ خیال کرتے تھے کہ آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم کا نعوذ باللہ اپنا افتراء ہے- چنانچہ اوّل ان کے اسکات و الزام کے لیے ہرایک قسم کے نشان قرآن شریف نے پیش کئے مگر انہوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ان دلائل کو قبول نہ کیا- آخر جب انہوں نے کسی دلیل کو قبول نہ کیا - اور کسی نشان پر ایمان نہ لائے - تو اتمام حجت کی غرض سے مباہلہ کے لیے ان سے درخواست کی گئی- اور یہ درخواست صرف اس بناء پر تھی- کہ ہم پر خدا تعالیٰ نے یہ بات یقینی طور پر کھول دی ہے کہ تم اس اعتقاد میں کہ مسیح ابن مریم سچ مچ خد اکا بیٹا اور خدا ہے، مفتری ہو- خدا تعالیٰ نے انجیل میں ہر گز ایسی تعلیم نہیں دی کہ اس کا کوئی دوسرا شریک بھی ہے اور درحقیقت اس کا کوئی بیٹا بھی ہے جو بیٹا ہونے کی وجہ سے خدا بھی ہے - اگر تمہیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے تو بقول تمہارے ہم مفتری ٹھہرے- تو آئو باہم مباہلہ کریں- تا اس شخص پر جو کاذب اور مفتری ہے - خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اور فرمایا کہ مباہلہ کے لئے ایک نہیں بلکہ دونوں طرف سے جماعتیں آئی چاہیئں - تب مباہلہ ہو گا- جیسا کہ فرماتا ہے- الحق من ربّک فلا تکونن من الممترین فمن حاجک فید من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالو اند ع ابنا ئنا و ابنا تکم و نسا ئنا و نسا ئکم و انفسنا و انفسکم ثم بتھل فنجعل العنۃ اللّٰہ علے الکاذبین ط٭یعنی مسیح کا بندہ ہونا بالکل سچ اورشک سے منزہ ہے - اور اگر اب بھی عیسائی لوگ مسیح ابن مریم کی الوہیت پر تجھ سے جھگڑا کریں اور خدا تعالیٰ کے اس بیان کو جو مسیح درحقیقت آدم کی طرح ایک بندہ ہے- گو بغیر باپ کے پیدا ہوا دروغ سمجھیں اور انسا ن کا افتراء خیال کریں- تو ان کا کہہ دے کہ اپنے عزیزوں کی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں اور ادھر ہم بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں گے- پھر جھوٹوں پر *** کریں گے-
اب اس تمام بیان سے بوضاحت کھل گیا کہ مسنون طریق مباہلہ کا یہ ہے کہ جو شخص مباہلہ کی طرف درخواست کرے- اس کے دعوے کی بناء پر جس یقین کی وجہ سے وہ اپنے فریق کو قطی طور پر مفتری اور کاذب خیال کرے اور اس یقین کا اس کی طرف سے بصراحت اظہار چاہیے- کہ میں اس شخص کو مفتری جانتا ہوں - نہ صرف ظن اور شک کے طور سے بلکہ کامل یقین سے - جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں ظاہر فرمایا ہے-
پھر ان آیات سے یہ بھی ظا ہر ہے ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ نے دلائل بینہ سے بخوبی عسائیوں کو سمجھا دیا کہ عیسیٰ بن مریم میں کوئی خدائی نشان نہیں - اور جب باز نہ آتے تو پھر مباہلہ کے لئے درخواست کی- اور نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیںحاضر ہوں اگر کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اوّل مستحق ہمارے نبی صلے اللہ و علیہ وسلم مباہلہ کے لئے جماعت کے محتاج ٹھہرائے جائیں اور میاں عبد الحق اکیلے کافی ہوں! عجب بات ہے کہ مباہلہ کے لئے دوڑتے ہیں- اور پہلے ہی قدم میں فرمودہ خدا اور رسول کو چھوڑتے ہیں- اور اگر کوئی جماعت ساتھ ہے تو بذریعہ اشتہاراس کا نام لینا چاہیے- اگر اصل حقیقت پر غور کیا جاوے تو مباہلہ کی درخواست کرنا ہمارا حق تھا- اور وہ بھی اس وقت جب ہم دعوے کو دلائل و بینات مفصلہ و مسکتہ سے مؤید و مستند کر چکتے - مگر اب بھی تنزلاً ترحماً للہ مباہلہ کے لئے تیار ہیں- مگر انہیں شرائط کے ساتھ جو مذکور ہو چکیں-
اب ناظرین یاد رکھیں کہ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائے جائیں تو عند الشرح مباہلہ ہرگز درست نہیں- مباہلہ میں دونوں فریق ایسے چاہیں- کہ درحقیقت یقینی طور پر ایک دوسرے کو مفتری سمجھیں- اور وہ حسنِ ظن جو مومن پر ہوتا ہے- ایک ذرّہ ان کے درمیان موجود نہ ہو- ورنہ اجتہادی اختلافات میں ہر گز مباہلہ جائز نہیں- اور اگر مباہلہ ہو گا تو ہر گز کو ئی ثمرہ مرتب نہیں ہو گا- اور ناحق غیر مذہب والے ہنسی ٹھٹھا کریں گے- خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اجتہادی اختلافات کی وجہ سے تہ تیغ کر دیوے- اور دشمنوں کو ہنسا دے- پس میں عبد الحق اور ان کے پوشیدہ انصار کو مناسب ہے کہ اگر مباہلہ کا شوق ہے تو سنت نبوی اور کلام رب عریز کا اقتدر کریں- قرآن کریم نے منشاء کے خلاف اگر مباہلہ ہو تو وہ ایمانی مباہلہ ہر گز نہیں- افغانی مباہلہ ہو تو ہو- اب میں ایک دفعہ پھر ان تمام مولوی صاحبان کو جنہیں پہلے اشتہار میںمخاطب کیا گیا تھا- اتماماً اللجّتہ دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اگر میرے دعاوی اور بیانات کی نسبت انہیں تردد ہو- تو حسب شرائط اشتہار سابقہ مجلس مباحثہ کی منعقد کر کے ان اوہام کا ازالہ کرا لیں- ورنہ یا د رکھیں کہ یہ امر کمال معصیت کا موجب ہے کہ خوداپنے اوہام کے ازالہ کی فکر نہ کریں اور دوسروں کو ورطہ اوہام میں ڈالیں- والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
المشتـــــــــــــــــــــــھر
میرزا غلام احمد قادیانی
۱۶ اپریل ۱۸۹۱ء مطبوعہ
اعلان
ان اللّٰہ یحب التّو بین و یحب المتطھرین
چونکہ یہ عاجز تین سال سے عزیزم میرزا غلام احمد صاحب پر بد گمان تھا- لہذا وقتاً فوقتاً نفس شیطان نے خدا جانے کیا کیا - ان کے حق میں مجھ سے کہلوایا- جس پر آج مجھ کو افسوس ہے- اگرچہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ بھی کیا- لیکن اس کے اظہار کا یہ وقت مقدر تھا- باعث اس تحریر کا یہ ہے کہ ایک شخص نے میرزا صاحب کو خط لکھاکہ تم سے موافقت کیونکر کروں- تمہارے رشتہ دار( یعنی یہ عاجز) تم سے برگشتہ و بد گمان ہیں- اس کو سن کر مجھے سخت ندامت ہوئی - اور ڈرا کہ ایسا نہوکہ کہیں اپنے گناہوں کے علاوہ دوسروں کے نہ ما ننے کے وبال میں پکڑا جائوں - لہذا یہ اشتہار دے کر میں بری الذمہ ہوتا ہوں میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت برا کیا- اب میں توبہ کرتا ہوں- اور اس توبہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وبال میں نہ پڑے- اب سب لوگ جان لیں کہ مجھے کسی طرح کی بد گمانی میرزا صاحب پر نہیں -
وما علینا الا البلاغ
اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوادے- اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بری ہوں- اور اگر کبھی میں نے میرزا صاحب کی شکایت کی- یا کسی دوست سے آپ کی نسبت کچھ کہا ہو- تو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں-
المعـــــــــــــــــــــــــــلن
میرناصر نواب نقشہ نویس
اللہ اکبر
ہم مفصلہ ذیل کتابوں کا اشتہار جو مخالفان اسلام کے حملوں کے دفاع میں لکھی گئی ہیں- علاوہ غرض اشاعت کے بایں قصد بھی دیتے ہیں کہ ہمارے بھائی مسلمانوں پر کھل جائے کہ تائید دین متین اور تقویت احکام شرح مبین کس گروہ کی جانب سے ہو رہی ہے- اور کونسی جماعت مال وجان و دل سے اعلائے کلمۃ اللہ و نصرت دعوت رسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم میں مشغول و مصروف ہے-
(۱) ۸ تصدیق براہین احمدیہ حصہ اوّل مصنفہ حکیم مولوی نورالدین صاحب
(۲)۸ فصل الخطاب المقدمہ اہل الکتاب نصاریٰ کے جواب میں مصنفہ ایضاً
(۳) ۴ رسالہ رتناسخ مصنفہ ایضاً
یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ سے مل سکتی ہیں-
(۴)۴ رسالہ ابطال الوہیت و ابنیت مسیح علیہ السّلام - مصنفہ ایضاً یہ رسالہ انجمن حمایت الاسلام لاہور سے مل سکتا ہے-
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
لا یحب اللّہ الجھر بالسوء من القول الاّ من ظلم و کان اﷲ سمیعاً علیماً ہ
اشہتار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین
عَلیٰ ملّت اِبْراھِیْم حنیْفاً
چوں بد ندان تو کرمے اوفتاد
آن نہ دندانی بکن ای اوستاد
ناظرین کو یاد ہو گا کہ اس عاجزنے ایک دینی خصوصیت کے پیش آ جانے کی وجہ سے ناظرین کو یاد ہو گا- کہ اس عاجز کے وقت اپنے ایک قریبی میرز ا احمد بیگ ولد میرزا گاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں کی نسبت بحکم و الہام الہٰی یہ اشتہار دیا تھا کہ اخدا تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اورقرار یافتہ ہے - کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی- خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آ جائے- اور یا خدا تعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آوے- چنانچہ تفصیل ان کل امر مذکورہ بلا کی اشتہار میں درج ہے- اب باعث تحریر اشتہار ہذا یہ ہے کہ میرا بیٹا سلطان احمد نام جو نائب تحصیلدارلاہور میں ہے- اور اس کی تائی صاحبہ جنہوں نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے،وہی اس مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہیں- اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی کا کسی سے نکاح کیا جائے- اگر یہ اوروں کی طرف سے مخالفانہ کاروائی ہوتی تو ہمیں درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت اور کیاغرض تھی- امر ربی تھا- اور وہی اس کو اپنے فضل و کرم سے ظہور میں لاتا- مگر اس کام کے مدار المہام وہ لوگ ہو گئے جن پر اس عاجز کی اطاعت فرض تھی اور ہر چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جائیںورنہ میں تم سے جدا ہو جائوں گا- اور تمہارا کوئی حق نہیں رہے گا- مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا- اور بکّلی مجھ سے بیزاری ظاہر کی- اگر ان کی طرف سے ایک تیز تلوار کا بھی مجھے زخم پہنچتا تو بخدا میں اس پر صبر کرتا- لیکن انہوں نے میرے دل کو تو ڑ دیا کہ میں بیان نہیں کر سکتا- اور عمداً چاہا کہ میں سخت ذلیل کیا جائوں- سلطان احمد ان دوبڑے گناہوں کا مرتکب ہوا- اوّل یہ کہ اس نے رُسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم کے دین کی مخالفت کرینی چاہی- اوریہ چاہا کہ دین اسلام پر تمام مخالفوں کا حملہ ہو- اوریہ اپنی طرف سے اس نے ایک بنیاد رکھی ہے اس امید پر کہ یہ جھوٹے ہوجائیں گے- اور دین کی ہتک ہو گی- اور مخالفوں کی فتح- اس نے اپنی طرف سے مخالفانہ تلوار چلانے میں کچھ فرق نہیں کیا- اور اس نادان نے نہ سمجھا کہ خداوند قدیر و غیور اس دین کا حامی ہے اور اس عاجز کا بھی حامی - وہ اپنے بندہ کو کبھی ضایع نہ کرے گا- اگر سارا جہاں مجھے برباد کرنا چاہے تو وہ اپنی رحمت کے ساتھ مجھ کو تھام لے گا- کیونکہ میں اس کا ہوں اور وہ میرا- دوم سلطان احمد نے مجھے جو میں اس کا باپ ہوں سخت ناچیز قرار دیااور میری مخالفت پر کمر باندھی اور قولی اور فعلی طور پر اس مخالفت کو کمال تک پہنچا یا- اور میرے دینی خلوص کو مدد دی اور اسلام کی ہتک بدل وجان منظور رکھی- سو چونکہ اس نے دونوں طور کے گناہوں کو اپنے اندر جمع کیا- اپنے خدا کا تعلق بھی توڑ دیا- اور اپنے باپ کا بھی- اور ایسا ہی اس کی دونوں والدہ نے کیا-
سو جبکہ انہوں نے کوئی تعلق مجھ سے باقی نہ رکھا- اس لئے میں نہیں چاہتا کہ اب ان کا کسی قسم کا تعلق مجھ سے باقی رہے- اور ڈرتا ہوںکہ ایسے دینی دشمنوں سے پیوند رکھتے میں - معصیت نہ ہو- لہٰذا میں آج کی تاریخ کہ دوسری مئی ۱۸۹۱ء ہے عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادہ سے باز نہ آئے اور وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور نکاح کرنے کی اپنے ہاتھ سے یہ لوگ کر رہے ہیں اس موقوف نہ کر دیا- اور جس شخص کو انہوں نے نکاح کے دن سے سلطان احمد عاق اور محرم الارث ہوگا- اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے- اور اگر اس کا بھائی فضل احمد جس کے گھر میں مرزا احمد بیگ والد لڑکی کی بھانجی ہے- اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس نکاح کی خبر ہو - اور طلاق نہ دیوے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہو گا- اور آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں رہے گا- اور اس نکاح کے بعد تمام تعلقات خویشی و قرابت و ہمدردی دور ہو جائے گی- اور کسی نیکی - بدی- رنج راحت شادی اور ماتم میں ان سے شراکت نہیں رہے گی- کیونکہ انہوںنے آپ تعلق توڑ دیئے اور تورنے پر راضی ہو گئے- سو اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاً حرام اور ایمانی غیوری کے برخلاف اور ایک دیوثی کا کام ہے مومن دیوث نہیں ہوتا-
چوں نہ بود خویش و تقویٰ
قطع رحم بہ از مودت قربیٰ
واسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشـــــــــــــــــــــــــــــــــتہر
مرزا غلام احمد قادیانی لودیانہ
۲ مئی ۱۸۹۱ء حقانی پریس لودیانہ


(۵۸)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ط
حَامدًا و مُصلیا
اشتہار بمقابل پادری صاحبان
ذٰلک بان منھم تسیسین ورھبا دًا و انھم لا یستکبرون
لاَ الٰہ الاّ اللّٰہ والّذین ید عون من دون اللّٰہ لَا تخلقون شیعاً وّ ھم یخلقون ط
اموت غیر احیاء و ما تشعرون ایان یبحثون - سورۃ لنحل الجزو ۱۴
خدا تعالیٰ ان آیات مندرجہ ذیل عنوان میں حضرت مسیح ابن مریم اور ان تمام انسانوں کو جو محض باطل اور ناحق کے طور پر معبود قرار دیئے گئے تھے، مار چکا درحقیقت یہ ایک ہی دلیل مخلوق پر ستوں کی ابطال کے لئے کروڑ دلیل سے بڑھ کر ہے کہ جن بزرگوں یا اور لوگوں کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں یا وہ فوت ہو چکے ہیں- اور اب وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں- اگر وہ خدا ہوتے تو ان پر موت نہ ہوتی - یقینا سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایک عاجز انسان الہ العالمین قرار دیتے ہیں- وہ صرف ایک ہی ثبوت ہم سے مانگتے ہیں کہ ہم ان کے اس معبود کا مردہ ہونا او ر اموات میں داخل ہونا ثابت کر دیں- کیونکہ کوئی دانا مردہ کو خدا بنا نہیں سکتا- اور تمام عیسائی بالاتفاق اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح ابن مریم کا مر کر پھر مردہ رہنا ثابت کر دے- تو ہم یک لخت عیسائی مذہب کو چھوڑدیں گے- لیکن افسوس کہ ہمارے گذشتہ علماء نے عیسائیوں کے مقابل پر کبھی اس طرف توجہ نہ کی حالانکہ اس ایک ہی بحث میں تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے- دنیا میں ایسا نادان کون ہے کہ کسی مردہ کا نام الہ العالمین رکھے- اور جو مر چکا ہے اس میں حی الایموت کے صفات قائم کرے- عیسائی مذہب کا ستون جس کی پناہ میں انگلستان اور جرمن اور فرانس اور امریکہ اور روس وغیرہ کے عیسائی٭ ربنا المسیح کہہ رہے ہیں- صرف ایک ہی بات ہے- اور وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے برخلاف کتاب الہٰی یہ خیال کر لیا ہے- کہ مسیح آسمان پر مدت دراز سے بقید حیات چلا آتاہے اور کچھ شک نہیں کہ اگر ی ستون ٹوٹ جائے- تو اس خیال باطل کے دُور ہو جانے سے صفحہ دنیا یک لخت مخلوق پرستی سے پاک ہو جائے- اور تمام یوروپ اور ایشیا اور امریکہ ایک ہی مذہب توحید میں داخل ہو کر بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں- لیکن میں نے حال کے مسلمان مولویوں کو خوب آزمالیا- وہ اس ستُون کے ٹوٹ جانے سے سخت ناراض ہیں- اور در پردہ مخلوق پرستی مؤید ہیں- میں نے ان کو خدا تعالیٰ کا حکم سُنا دیا- لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا- اب میں اس دعوت کو لے کر اس ہدیہ طیبہ کے پیش کر نے کی غرض سے عیسائی صاحبوں کی طرف رُخ کرتا ہوں- اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس سختی سے مسلمانوں نے میرے ساتھ برتائو کیا - وہ نہیں کریں گے- کیونکہ ان میں وہ تہذیب ہے جو عدل گستر گورنمنٹ برطانیہ نے اپنے قوانین کے ذریعہ سے مہذب لوگوں کو سکھلائی ہے- اور ان میں وہ ادب ہے جو ایک باوقار سوسائٹی نے نمایاں آثار کے ساتھ دلوں میں قائم کیا ہے- سو مجھے اللہ جلّشانہ کا شکر کرنا چاہیے - اور بعد اس کے اس مصدر فیض گورنمنٹ کا بھی جس کی ظل حمایت میں ہم خوشی اور آزادی کے ساتھ گورنمنٹ کی ایسی رعیت کے ساتھ بھی مذہبی بحث کر سکتے ہیں- اور خود پادری صاحبان خلق اور بردباری اور رفق اور نرمی میں ہمارے ان مولوی صاحبان سے ایسی سبقت لے گئے ہیں کہ ہمیں موازنہ کرتے وقت شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور ہمیشہ اپنے ان مولویوں سے بحث کے وقت یہ خطرہ اور دھڑکا رہتا ہے کہ بات کرتے کرتے کہیں لاٹھی بھی نہ چلا دیں مگر میرے اس قول سے وہ شریف لوگ مستثنٰے جن کے سینوں میں خدا تعالیٰ نے صفائی بخشی ہے لیکن اکثر تو ایسے ہی ہیں جن پر صفات وسبیعہ غالب ہیں- میں اس شہر میں قریباً ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب کوئی مسلمان مخالف ملنے کے لئے آتا ہے تواس کے چہرہ پر ایک درندگی کے آثار ظاہر ہوتے گویا خون ٹپکتا ہے - ہر دم غصّہ سے نیلا پیلا ہوتا جاتا ہے سخت اشتعال کی وجہ سے زبان میں لکنت بھی ہوتی ہے- لیکن جب کوئی عیسائی مِلت کرتا ہے اور بردباری سے بولتا ہے- لہذا مجھے ان لوگوں پر نہایت ہی رحم آیا- ہمارا ان لوگوں سے جھگڑا ہی کیا ہے،فقط ایک مسیح کے زندہ نہ ہونے کا- ایک ذرہ سی بات ہے جس کے طے ہونے سے یہ لوگ بھائیوں کی طرح ہم سے آ ملیں گے- اور یوروپ اور ایشیا میں اسلام ہی اسلام ہو جائے گا- لہٰذا ادب اور عاجزی سے پادری صاحبوں کی خدمت میں یہ ہدیہ اشتہار روانہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکے ہیں- اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو بجز ماننے کے چارہ نہیں- سو میں امید کرتا ہوں ہوں کہ پادی صاحبان اس بارہ میں مجھ سے گفتگو کر کے میرے نافہم بھائیوں کو اس سے فائدہ پہنچا ویں- میں یقین رکھتاہوں کہ پادری صاحبان کی گفتگو اظہار حق کے لئے نہایت مفید ہو گی-
والسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المشتــــــــــــــــــــــــــــــھر
میرزا غلام احمد ؐ قادیانی - لودیانہ
۲۰ مئی ۱۸۹۱ء اقبال ربی پریس لودیانہ
(۵۹)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اشتہار واجب الاظہار
مولوی محمد حسین بٹالوی کے مباحثہ کا کیا انجام ہوا
عھد رابشکست و پیماں نیز ھم
مولوی محمد حسین صاحب کے سوالات کے جواب میں ۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ کے اس عاجز نے ایک قطعی فیصلہ کرنے والا مضمون سُنایا - جس کو سنتے ہی مولوی صاحب کے چھکے چھوٹ گئے اور تمام سمجھ دار اور منصف مزاج لوگوں نے معلوم کر لیا کہ مولوی صاحب کا سارا تانا بانا بیک دفعہ ٹوٹ گیا- اس لئے مولوی صاحب کو مضمون سُننے کی حالت میں بھی دھڑکا دل میں شروع ہوا کہ اب توہمارے اعتراضات کی ساری قلعی کھُل گئی- ناچار خلاف ورزی شرائط کر کے ان چھوٹے ہتھیاروں پر آ گئے - جن کو آجکل کے مولوی ملاں لا جواب ہونے کی حالت میں استعمال کیا کرتے ہیں- ناظرین کو واضح ہو کہ مولوی صاحب کے ساتھ تحریری طور پر یہ شرطیں ٹھہر چکی تھیں (۱) اوّل یہ کہ فریقین صرف تحریری طور پر اپنا سوال جواب لکھیں(۲) دوم یہ کہ جب کوئی فریق پنی تحریر کو سنانے لگے تو فریق ثانی اس کے سنانے کے وقت دخل نہ دیوے- اور کوئی بات منہ سے نہ نکالے- (۳) تیسرے ی کہ بیان سننے کے بعد کوئی فریق زبانی جواب دینا شروع نہ کر ے- لیکن افسوس کہ مولوی صاحب نے مضمون سُنتے ہی ان تینوں شرطوں کو توڑ دیا اور عہد شکنی کے بعد ایک جوش کی حالت میں کھڑے ہو کر بیجا اور غیر مہذب الفاظ کے مرتکب ہوئے- جس سے معلو م ہواکہ مولوی صاحب اپنے نفسانی جذبات کے ضبط کرنے پر ہر گز قادر نہیں ناچار ان کی یہ خطر ناک حالت دیکھ کر جلسہ برخاست کیا گیا- اور اس قدر لمبی بحث کے بعد جو مولوی صاحب نے اپنے خانہ زاد اصول موضوعہ کی نسبت سراسر لغو اور بے مصرف جاری کر رکھی تھی جو باراں دن تک ہوتی رہی اور اصل بحث سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتی تھی اور فریقین کے بیانات دس جزو تک پہنچ گئے تھے اور لوگ سخت معترض تھے کہ اصل بحث کیوں شروع نہیں کی جاتی- مولوی صاحب کو اس وقت آخر مضمون میں یہ بھی سُنا دیا گیا کہ اب ہم تمہیدی بحث کو ختم کرتے ہیں- آپ نے بھی بہت کچھ لکھ لیا- اور ہم نے بھی- اب اس بیسود بحث کو بند کرنا چاہیے- اور اصل بحث کو شروع کرنا چاہیے- مولوی صاحب٭ اسی طرح نہیں چاہتے تھے کہ اصل بحث کی طرف آویں- اس لئے انہوں نے ان شرطوں کو توڑ کر یہ چاہا کہ پھر کسی طرح سخت زبا نی کر کے اپنی فضول اور بالائی باتوں کو جن کی طوالت کو اصل بحث سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا، شروع رکھیں- مگر ہم نے صاف جواب لکھ دیا تھا کہ بے فائدہ باتوں میں ہم اپنی اوقات کو ضایع کرنا نہیں چاہتے- کیونکہ تمہیدی گفتگو بہت ہو چکی ہے- اور عنقریب رسالہ الحق سیالکوٹ میں فریقین کے بیانات چھپ جائیں گے- تب لوگ خود معلوم کر لیں گے- کہ سچ پر کون ہے - اب یہ اشتہار صرف اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ اگر مولوی صاحب کی نیت بخیر ہے تو اب بھی اصل مسئلہ میں بحث تحریری کر لیں- میرے نزدیک مولوی صاحب کا یہ دعویٰ بھی بالکل فضول ہے کہ وہ اکابرین محدثین کی طرح فن حدیث میں مہارت تمام رکھتے ہیں- بلکہ بات بات میں ان کی نا سمجھی اور غبادت مترشح ہورہی ہے- اگر وہ مجھے اجازت دیں تو میں ان کی حدیث دانی بھی لوگوں پر ظاہر کروں-
مولوی صاحب سے انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے اور کیا امید کی جا سکتی ہے کہ بڑی بردباری سے کسی مضمون کو وہ سُن سکیں- جس صورت میں آپ نے اپنی تہذیب اور معاملہ شناسی کا علیٰ رُوس الاشہادیہ نمونہ دیا کہ عام لوگوں کی طرح اپنی بیویوں کو طلاق دینے پر آمادہ ہو گئے- اور یہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک ہم نے کوئی حوالہ غلط دیا ہے - افسوس مولوی صاحب آغاز مضمون سے ہی تردیدی نوٹوں کی تحریر میں مصروف ہو گئے اور مضمون کی خوبیوں پر تدبر سے غور کرنے کا انہیں بیقرار اور پر جوش طبیعت نے ذرہ بھی موقع نہ دیاورنہ بے سوچے سمجھے انہیں طلاقوں کی ضرورت نہ پڑتی- اور یوں عوام میں اپنی مستورہ بیویوں کی ہتک حرمت کے کے الفاظ کے مُنہ سے نکال کر سب کی نہ اُٹھاتے- اب پبلک کو آگاہ کیا جاتا ہے- کہ اب اس کاروائی کی نسبت جو کچھ وہ مشتہر کریں گے- محض اپنی بد نامی اور٭ فضیحت کا داغ دھونے کے لئے ایک واویلا اور نوحہ ہو گا- یہ ان کی ساری بیہودہ باتیں ہیں- تا عوام پر جو ان کی حقیقت کھُل گئی ہے اس پر کسی طرح پردہ پڑ جائے- وہ اصل مطلب (حیات و ممات مسیح) پر میرے ساتھ کیوں بحث نہیں کرتے؟ وہ یقینا ڈرتے ہیں کہ اگر اصل مسئلہ میں بحث شروع ہو گی تو بڑی رسوائی کے ساتھ انہیں مغلوب ہونا پڑے گا- ہاں ناظرین پر واضح رہے کہ ہم اپنے آخری مضمون کے جو ۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ پڑھا گیا تھا- مولوی صاحب کو نقل نہیں دی- کیونکہ مولوی صاحب بباعث ارتکاب جریمہ عہد شکنی و ترک و تہذیب اور توڑ دینے تمام شرطوں کے اپنے تمام حقوق کو اپنی ہی کر توت کی وجہ سے کھو بیٹھے- حاضری جو قریباً تین سو کے موجود ہو گئے تھے- جب میں بعض معزز رئیس شہر اور صاحبان اڈیٹر اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور نورافشاں لودیانہ بھی تھے- اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولوی صاحب نے سبر ہو کر برخلافِ شرط قرار یافتہ اس عاجز کے مضمون پڑھتے وقت چپ رہ کر سُن نہیں سکتے-اور مضمون سُننے کے بعد بھی ان کی زبان ان سے رُک نہیں سکی- اور جوش میں آ کر ان تمام شرطوں کو ایسے بھول گئے کہ گویا ان سب باتوں کے کرنے کے لئے ان کو بالکل آزادی تھی- اس بے حواسی کے بے طرح جوش کا یہی سبب تھا کہ مولوی صاحب اپنا ۷۶ صفحہ مضمون کا سُنا کر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ لا جواب مضمون ہے بلکہ مغروری کی راہ سے بعض جگہ اپنی فتح کے خط بھی بھیج دیئے تھے اب جو عصائے موسیٰکی طرح اس عاجز کے مضمون نے مولوی صاحب کی تمام ساحرانہ کاروائی کو باطل کر دیا تو ایک دفعہ ان کے دل پر وہ زلزلہ آیا جس کی کیفیت خدا تعالیٰ کے بعد وہ جانتے ہوں گے- سو یہ تمام حرکات جو ان سے سرزد ہوئیں- ایک قسم کی بے ہوشی کی وجہ سے تھیں- جو اس وقت ان پر طاری ہو گئی تھی- بہرحال وہ شرائط شکنی کے بعد اس بات کے مستحق نہ رہے کہ انہیں مضمون ۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کی نقل دی جاتی- اور یاد رہے کہ ان کے ۷۶ صفحے کے مضمون میں بجزبے تعلق باتوں اور بد ز بانی اور افتراء کے اورخاک بھی نہیں تھا- اور بد زبانی سے یہاں تک انہوں نے کام لیا کہ ناحق بے وجہ امام بزرگ حضرت فخر الائمہ امامِ اعظم ابو حنیفہ ؓ کی شان بلند میں سخت تحقیر کے الفاظ استعمال کئے- بالآخر میں ایک دفعہ پھر حّجت پوری کرنے کے لئے بآواز بلند مولوی صاحب کو دعوت کرتا ہوں کہ وہ اصل مسئلہ کے متعلق ضرور بصد ضرور میرے ساتھ بحث کریں- مگر یہ بحث لاہور جیسے صدر مقام میں منعقد کی جائے جہاں اعلیٰ درجہ کی فہیم ذکی تعلیم یافتہ متین اشخاص اور رئوساء شامل ہو سکتے ہیں- اور مولوی صاحب کو غیر متعلق گفتگو چھیڑنے اور خلط مبحث کرنے اور انہیں بد زبانی ار خلافت تہذیب کلمات منہ سے نکالنے اور کسی شرط مقررہ کو توڑنے سے روکنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں- نیز ان میں سے بعض نے یہ درخواست بھی کی ہیء- امن وغیرہ کا انتظام بھی ہمارے سپرد ہو گا- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ٭
ضروری نوٹ- اب مولوی صاحب اپنے کارخانہ کی ترقی کے لئے بہتانوں پر آ گئے ہیں- منجملہ ان کے ایک بہتان یہ لگایا ہے کہ گویا ’’ میں صحیح بخاری اور مسلم کا منکر ہوں‘‘ اس کے جواب میں بجز علے الکاذبین اور کیا کہا جا سکتا ہے- ہر ایک مسلمان پر واضح رہے کہ بسرو چشم صحیحین کو مانتا ہوں- ہاں کتاب اللہ قرآن کریم کو نمبراوّل اور ان سے مقدم سمجھتا ہوں مگر بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ یقین رکھتا ہوں اور واجب العمل مانتا ہوں- ہاں صرف اتنا کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے اخبار اور قصص اور واقعات ماضیہ پر نسخ و زیادت ہر گز جائز نہیں-
المشتھر
خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یکم اگست ۱۸۹۱ ء
(بدبہ اقبال ربیّ پریس لودیانہ )



(۶۷)
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحِیْم ط
ربنا فتح بیننا و بین تو منا بالحق وانت خیر الفاتحین
ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شِعار و حضرات علمائے نامدار
اے اخوان مومنین اے بر طوران سکنائے دہلی و متوطنان ایںسر زمین!!!بعد سلام مسعون و دعائے درویشانہ آپ سب صاحبوں پر واضح ہو کہ اس وقت یہ حقیر غریب الوطن چند ہفتے کے لئے آپ کے اس شہر میں مقیم ہے اور اس عاجز نے سنا ہے کہ اس شہر کے بعض اکابر علماء میری نسبت یہ الزام مشہور کرتے ہیں کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ملائک کا منکر بہشت و دوزخ کا انکاری اور ایساہی وجود جبرائیل اور لیۃ القدر اور معجزات اور معراج نبوی سے بکلی منکر ہے- لہذا میں اظہار اللحق عام و خاص اور تمام بزرگوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ میرا الزام سراسر افتراء ہے- میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیۃ القدر وغیرہ سے منکر- بلکہ میں ان تمام امور کا قایل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہوں - اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں- جو قرآن اور حدیث کی مدد مسلم التوت ہیں- اور سیدنا و مولانا حضرت مولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ و علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں- میرا یقین کہ وحی حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی- اٰمنت باللّٰہ و ملاکتبہٖ و رسلہٖ والبعث بعد الموت و اٰمنت بکتاب اللّٰہ العظیم القراٰن الکریم- واتبعت افضل رسل اﷲو خاتم انبیاء اﷲ محمدا المصطفیٰ و انامن المسلمین - واشھد ان لا الٰہ الّا اﷲ وحدہ‘ رب احینی مسلماً و تو فنی مسلماً و احشرفی نی عبادک المسلمین- وانت تعلم مانی نفسی ولا یعلم غیر ک وانت خیر الشاھدین - اس میری تحریر ہر ایک شخص گواہ رہے اور خداوند علیم و سمیع اول شاہدین ہے کہ میں ان تمام عقائد کو مانتا ہوں کہ جن کے ماننے کے بعد ایک کافر بھی مسلمان تسلیم کیا جاتا ہے- اور جن پر ایمان لانے سے ایک غیر مذہب آدمی بھی معاً مسلمان کہلانے لگتا ہے - میں ان تمام امور پر ایمان رکھتاہوں جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں درج ہیں- اور مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ ہے- جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے ایساہی میری رُوحانی حالت مسیح ابن مریم کی رُوحانی حالت مسیح ابن مریم کی رُوحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے- غرض میں ایک مسلمان ہوں- ایہاالمسطون انا منکم و اما مکم منکم با مر اللہ تعالیٰ خلاصہ کلام یہ کہ محدث اللہ ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور بااینمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں جو صدیٔ چار دہم کے لئے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں مجدد دین ہو کر ربّ السمٰوات والارض کی طرف سے آیا ہوں- میں مغری نہیں ہوں- و قد خاب من افتریٰ- خدا تعالیٰ نے دنیا پر نظر کی اور اس کوظمت میں پایا اور مصلحت عباد کے لئے ایک اپنے عاجز بندہ کو خاص کر دیا- کیا تمہیں اس سے کچھ تعصب ہے کہ وعدہ کے موافق صدی کے سر پر ایک مجدد بھیجا گیا- اور جس نبی کے رنگ میں چاہا - خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا کیا ضرور نہ تھا کہ مخبر صادق صلے اللہ و علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی- بھائیو!میں مُصلح ہوں بد عتی نہیں- اور معاذ اللہ میںکسی بد عت کے پھیلانے کے لئے نہیں آیا حق کے اظہار کے لئے آیا ہوں- اور ہر ایک بات جس کا اثر اور نشان قرآن اور حدیث میں پایا نہ جائے اور اس کے برخلاف ہو- وہ میرے نزدیک الحاد اور بے ایمانی ہے- مگر لوگ تھوڑے ہیں جو کلام الٰہی کی تہہ تک پہنچتے اور ربّانی پیشگوئیوں کے باریک بھیدوں کو سمجھتے ہیں- میں نے دین میںکوئی کمی یا زیادتی نہیں کی- بھائیو! میرا وہی دین ہے جو تمہارا دین ہے -اور وہی رسول کریم میرا مقتداء ہے جو تمہارا مقتداء ہے- اور وہی قرآن شریف میرا ہاوی ہے- اور وہی میرا پیارا اور میری دستاویز ہے- جس کا ماننا تم پر بھی فرض ہے- ہاں یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم کو فوت شدہ اور داخل موتیٰ یقین رکھتاہوں- اور جو آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی ہے- وہ اپنے حق میں یقینی اور قطعی طور پر اعتقاد رکھتا ہوں- لیکن اے بھائیو یہ اعتقاد میں اپنی طرف سے اور اپنے خیال سے نہیں رکھتا-بلکہ خداوند کریم جلّشانہ نے اپنے الہام و کلام کے ذریعہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مسیح ابن مریم کے نام پر آنے والا توہی ہے- اور مجھ پر قرآن اور احادیث صحیحہ کے وہ دلائل یقینیہ کھول دئیے ہیں- جن سے بہ تمام یقین و قطع حضرت عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کا فوت ہو جاتا ثابت ہوتا ہے- اور مجھے اس قادر مطلق نے بار بار اپنے کلام خاص سے مشرف و مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کی یہودیت دُور کرنے کے لئے تجھے عیسٰی بن مریم کے رنگ اور کمال میں بھیجا گیا ے- سو میں استعارہ کے طور پر ابن مریم موعود ہوں- جس کا یہودیت کے زمانہ اور تنصر کے غلبہ میں آنے کا وعدہ تھا جو غربت اور روحانی قوت اور روحانی اسلحہ کے ساتھ ظاہر ہوا- برخلاف اس غلط خیال اور ظاہری جنگ اور جدل کے جو مسیح ابن مریم کی نسبت مسلمانوں میں پھیل گیاتھا- سو میرا جنگ روحانی ہے اور میری بادشاہت اس عالم کی نہیں- دنیا کی حرب و ضرب سے مجھے کچھ کام اور غرض واسطہ نہیں- میری زندگی ایسی فروتنی اور مسکینی کے ساتھ ہے جو مسیح ابن مریم کو ملی تھی- میں اس لئے آیا ہوں کہ تاایمانی فروتنی اور تقویٰ اور تہذیب اور طہارت کو دوبارہ مسلمانوں میں قایم کروں اور اخلاق فاضلہ کا طریق سکھلائوں - اگر مسلمانوں نے مجھے قبول نہ کیا تو مجھے رنج نہیں- کیونکہ مجھ سے پہلے بنی اسرائیل نے بھی مسیح ابن مریم کو قبول نہ کیا تھا -لیکن جنہوں نے مجھے قبول نہ کیا ان کے پاس کوئی عذر نہیں- کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میرے دعوے کی شرط صحت گو جو وفات مسیح ابن مریم ہے‘ کامل طور پر تصدیق کرتے ہیں- قرآن کریم کی تیس آیتیں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فوت ہوجانابیان کر رہی ہین- جیسا کہ کتاب ازالہ اوہام میں مفصل ذکر ہے- لیکن قرآن کریم میں ایک بھی آیت نہیں جوعیسیٰ بن مریم کی زندگی پر صریحہ الدلالت ہو- اور خدا تعالیٰ نے مجھے وہ آسمانی نشان بخشے ہیں جو اس زمانہ میں کسی دوسرے کو نہیں بخشے گئے- چنانچہ ان دونوں کے دلائل کے بارے میں میں نے ایک مبسوط کتاب ازالہ اوہام نام لکھی ہے جو چھپ کر تیار ہو چکی ہے- اور وہ ساٹھ جزو کی کتاب ہے اوربڑے اہتمام سے تیار ہوئی ہے اور معہذا فقط تین سو روپیہ اس کی قیمت رکھی ہے- اس کتاب میں بہت سے دلائل کے ساتھ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی وفات ثابت کی گئی ہے- اور اپنے مسیح موعود ہونے کی نسبت بہت سے دلائل بیان کئے گئے ہیں- اس کتاب میں بہت سے پیشگوئیاں بھی لکھی ہیں- اور بعض دوسرے نشان بھی بیان کئے ہیں- اور قرآن کریم حقایق و معارف اس میں بکثرت درج ہیں- اور وہ باتیں اس میں ہیں جو انسانوں کے علم اور طاقت سے بڑھ کر ہوتی ہیں - جو شخص اس کو اول سے آخر تک بغور پڑھے گا- اس کا نور قلب بلا شبہ شہادت دے گا کہ اس کتاب سے بہت مرقومات صرف الٰہی طاقت سے لکھے گئے ہیں-اور یہ وہی کتاب ہے جس کی نسبت رسالہ توضیح مرام میں نصیحتاً لکھا گیا تھا- اس کے دیکھنے سے پہلے کوئی صاحب مخالفانہ تحریر شایع نہ کریں - سو اب وہی بفضلہ تعالیٰ طیار ہو گئی ہے- اور خدا تعالیٰ ن چاہا ہے کہ سچائی کی حجت اپنی اس مخلوق پر پوری کرے جو سچائی سے رد گرد ان ہے معہذاچونکہ میں اس وقت شہر دہلی میں وارد ہوں اور افواہ سُنتا ہوں کہ اس شہر میں بعض علماء جیسے حضرت سید مولوی نذیر حسین صاحب اور جناب مولوی ابو محمدعبد الحق صاحب اس عاجز کی تکذیب اور تکفیر کے درپے ہیں- اور الحاد اور ارتداد کی طرف منسوب کرتے ہیں- اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ روایتیں کہاں تک صحیح ہیں-صرف لوگوں کی زبان سے سُنا ہے واللہ اعلم بالصواب- لیکن اتماماً للحجت حضرات موصوفہ کی خدمت میں گزارش کرتاہوں کہ معجزات و لیلۃ القدر وجود ملائکہ وجود جبرائیل و معراج نبوی وغیرہ تعلیمات قرآن کریم و احادیث صحیحہ پر تو میرا ایمان ہے- اور مجھے محدثیت کا دعویٰ ہے- نہ نبوت تامہ کا- اور ان سب باتوں میں اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ مجھے کچھ اختلاف نہیں- ہاں اصل عقائد مذکورہ بالا کو مسلم رکھ کر جو باتیں از قبیل اسراروحقایق و معارف و علوم حکمیہ و قایق بطون قرآن کریم ہیں وہ مجھ پر جیسے جیسے الہام کے ذریعہ سے کھلتے ہیں، ان کو بیان کر دیتا ہوں جن کا اصل عقایدسے کچھ بھی تعارض نہیں- ہاں حیات مسیح ابن مریم کی نسبت مجھے انکار ہے- سو یہ انکار نہ صرف الہام الٰہی پر مبنی ہے- بلکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویّہ مرییح اس الہام کے شاہد کامل ہیں- اگر حضرت سید مولوی محمد نذیر حسین صاحب یا جناب مولوی ابو محمدعبد الحق صاحب مسئلہ وفات مسیح میں مجھے مخطی خیال کرتے ہیں یا ملحد اور مأول تصور فرماتے ہیں- اور میرے قول کو خلاف قال اللہ قال الرسول گمان کرتے ہیں تو حضرات موصوفہ پر فرض ہے کہ عامہ خلایق کو فتنہ سے بچانے کے لئے اس مسئلہ میں اسی شہر دہلی میں میرے ساتھ بحث کر لیں- بحث میں صرف تیں شرطیں ہوں گی- (۱)اول یہ کہ امن قایم رہنے کی لئے وہ خود سرکاری انتظام کراویں- یعنی ایک افسر انگریز مجلس بحث میں موجود ہو- کیونکہ میں مسافر ہوں- اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب اور ہر طرف سے اپنے بھائیوں مسلمانوں کی زبان سے سب اور لعن و طعن اپنی نسبت سنتا ہوں- اور جو شخص مجھ پر *** بھیجتا ہے - اور مجھے دجال کہتاہے- وہ سمجھتاہے کہ آج میں بڑے ثواب کا کام کیا ہے لہذا میں بجز سرکاری افسر کے درمیان ہونے کے اپنے بھائیوں کی اخلاقی حالت پر مطمئن نہیںہوں- کیونکہ کئی مرتبہ تجربہ کر چکا ہوں- ولا یلد غ المؤمن من حجرداحدٍ مرتین (۲) دوسرے یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو- ہر ایک فریق مجلس بحث میں اپنے ہاتھ سے سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے- اور ایساہی فریق ثانی لکھ کر جواب دیوے- کیونکہ زبانی بیانات محفوظ نہیں رہ سکتے-اور نقل مجلس کرنے والے اپنی اغراض کی حمایت میں اس قدر حاشیے چڑھا دیتے ہیں کہ تحریف کلام میں یہودیوں کے بھی کان کاٹتے ہیں- اس صورت میں تمام بحث ضایع جاتی ہے اور جو لوگ مجلس بحث میں حاضر نیہں ہو سکے- ان کو رائے لگانے کے لئے کوئی صحیح بات ہاتھ نہیں آتی- ماسوااس کے صرف زبانی بیان میں اکثر مخاسم بے اصل او کچی باتیں منہ پر لاتے ہیں- لیکن تحریر کے وقت وہ ایسی باتوں کے لکھنے سے ڈرتے ہیں تا وہ اپنی خلاف واقعہ تحریر سے پکڑے نہ جائیں اور ان کی علمیت پر کوئی دھبہ نہ لگے-
(۳) تیسری شرط یہ کہ بحث وفات حیات مسیح میں ہو- اور کوئی شخص قرآن کریم اور کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر کیونکہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے- اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات طریقہ مذکورہ بالا سے جو واقعات صحیحہ کے معلوم کرنے کے لئے خیر الطرق ہے، ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دست بردار ہو جائوں گا- کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا- پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے- بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسیٰ میں غلطیی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا- اور ان تمام نشانوں کی پروا نہیں کروں گا- جو میرے اس دعوے کو مصدق ہیں- کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں- وما عند ناشئ الاّ کتاب اﷲ و ان تنازعتم فی شئ فردوہ الی اﷲ والرسول فبایّ حدیث بعد اﷲ و اٰیاتہٖ یؤ منون- میں ایک ہفتہ تک اس اشتہار کے شایع ہونے کے بعد حضرات موصوفہ کے جواب باصواب کا انتظار کروں گا- اور اگر وہ شرائط مذکورہ بالا کو منطور کر کے مجھے طلب کریں تو جس جگہ چاہیں میں حاضر ہو جائوں گا- والسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ- اور کتاب ازالہ اولام کے خریداروں پر واضح ہو کہ میں بلی ماروں کے بازار میں کوٹھی لوہارو والی میں فروکش اور ازالہ اوہام کی جلدیں میرے پاس موجود ہیں- جو صاحب تین روپیہ قیمت داخل کریں- وہ خرید سکتے ہیں- والسّلام
المشتــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار غُلام احمدؐقادیانی حال وارد و ھلی
بازار بلیماراں کوٹھی نواب لوہارو- ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء
(۶۱)
بسم اﷲ الرّحمٰنَ الرّحِیْم
نحمدہ نصلی
اشتہار بمقابل سیّد نذیر حسین صاحب سر گروہ اہل حدیث
چونکہ مولوی سید نذیر حسین صاحب نے جو کہ موحدین کے سرگروہ ہیں اس عاجز کو بوجہ اعتقاد وفات مسیح ابن مریم ملحد قرار دیا ہے اور عوام کو سخت شکوک و شبہات میں ڈالنا چاہا ہے- اور حق یہ ہے کہ وہ آپ ہی اعتقاد حیات مسیح میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں- اوّل اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے بھائیوں حنفیوں کو بد عتی قرار دیا - اور امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ الزام لگایا کہ ان کو حدیثیں نہیں ملی تھیں- اور وہ اکثر احادیث نبویہ سے بے خبر ہی رہے تھے- اور اب باوجود دعویٰ اتباع قرآن اور حدیث کے حضرت مسیح ابن مریم کی حیات کے قایل ہیں- وہذا عجب العجائب اگر کوئی عوام میں سے ایسا کچا اور خلاف قال اللہ الرسول دعویٰ کرتا تو کچھ افسوس کی جگہ نہیں تھی- لیکن یہی لوگ جو دن رات درس قرآن اور حدیث جاری رکھتے ہیں- اگر ایسا بے اصل دعویٰ کریں تو ان کی علمیت اور قرآن دانی پر سخت افسوس آتا ہے- یہ بات کسی متنفس پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ فی الواقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام وفات پا چکے ہیں- مگر جب لوگوں کو عاقبت کا اندیشہ نہیں- خدا تعالیٰ کا کچھ خوف نہیں- وہ تعصب کو مضبوط پکڑ کر قرآن اور احادیث خدا تعالیٰ اس امت پر رحم کرے- لوگوں نے کیسے قرآن اور احادیث کو چھوڑ دیا ہے- اور اس عاجز نے اشتہار ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں حضرت مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب کا نام بھی درج کی تھا- مگر عند الملاقات اور باہم گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب موصوف ایک گوشہ گزین آدمی ہیں اور ایسے جلسوں سے جن میں عوام نفاق شفاق کا اندیشہ ہے- طبعا کارہ ہیں- اور اپنے کام تفیسر قرآن میں مشغول ہیں اور شرائط اشتہار کے پورے کرنے سے مجبور ہیں کیونکہ گوشہ گزین ہیں- حکام سے میل ملاقات نہیں رکھتے-اور بباعث درویشانہ صفت کے ایسی ملاقاتوں سے کراہت بھی رکھتے ہیں- لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اوران کے شاگر د بٹالوی صاحب کو ان دہلی میں موجود ہیں ، ان کاموں میں اول درجہ کا جوش رکھتے ہیں- لہذا اشتہار دیا جاتا ہے کہ اگر ہر دو مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح ابن مریم کو زندہ سمجھنے میں حق پر ہیں اور قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے اس کی زندگی ثابت کر سکتے ہیں- تو میرے ساتھ بپابندی شرائط مندرجہ اشتہار ۲ اکتوبر۱۸۹۱ء بالا تفاق بحث کر لیں- اور اگر انہوں نے بقول شرائط مندرجہ اشتہار ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ ء بحث کے لئے مستعدی ظاہر نہ کی اور پوچ اور بے اصل بہانوں سے ٹال دیا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کو قبول کر لیا- بحث میں امر تنفیح طلب یہ ہو گا کہ آیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیح ابن مریم جس کو انجیل ملی تھی اب تک آسمان پر زندہ ہے اور آخری زمانے میں آئے گا- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہی مسیح ابن مریم بجدہ العنصری آسمان پر موجود ہے تو یہ عاجز دوسرے دعوے سے خود دست بردار ہو جائے گا- ورنہ بحالت ثانی بعد اس قرار کے لکھانے کے کہ درحقیقت اسی امت میں سے مسیح ابن مریم کے نام پر کوئی آنے والا ہے - یہ عاجز اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دے گا- اور اگر اس اشتہار کا جواب ایک ہفتہ تک مولوی صاحب کی طرف سے شایع نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے گریز کی- اور حق کے طالبوں کو محض نصیحتاً کہا جاتا ہے- کہ میری کتاب ازالہ اوہام کو خود غور سے دیکھیں- اور ان مولوی صاحبوں کی باتوں پر نہ جائیں- ساٹھ جزو کی کتاب ہے- اور یقینا سمجھو کہ معارف اور دلائل یقینہ کا اس میں ایک دریا بہتا ہے- صرف سیِ قیمت ہے- اور واضح ہو کہ یہ درخواست مولوی سید نذیر حسین صاحب کی مسیح موعود ہونے کا ثبوت دینا چاہیے- اور اس میں بحث ہونی چاہیے- بالکل تحکم اور خلاف طریق انصاف ار حق جویٔ ہے- کیونکہ ظاہرہے کہ مسیح موعود ہونے کا اثبات آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہو گا- اور آسمانی نشانوں کو بجز اس کے کون مان سکتا ہے- کہ اول اس شخص کی نسبت جو کوئی آسمانی نشان دکھاوے یہ اطیمنان ہوجاوے کہ وہ خلاف قال اللہ قال الرسول کوئی اعتقاد نہیں رکھتا- ورنہ ایسے شخص کی نسبت جو مخالف قرآن اور حدیث کوئی اعتقاد رکھتا ہے ولایت کا گمان ہر گز نہیں کر سکتے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے- اور اگر وہ کوئی نشان بھی دکھاوے- تو وہ نشان کرامت تصور نہیں ہوتا بلکہ اس کو استدراج کہا جاتا ہے- چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے لمبے اشتہار میں جو لدھیانہ میں چھپوایا تھا اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں- اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ سب سے پہلے بحث کے لایق وہی امر ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن اور حدیث اس دعوے کے مخالف ہیںاور وہ امر مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے- کیونکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر درحقیقت قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے- تو اس صورت میں پھر اگر یہ عاجز مسیح موعوہونے کے دعوے پر ایک نشان کیا بلکہ لاکھ نشان بھی دکھاوے تب بھی وہ نشان قبول کرنے کے لایق نہیں ہوں گے- کیونکہ قرآن ان کی مخالف شہادت دیتا ہے- غایت کا ر وہ استدراج سمجھے جائیں گے- لہذا سب سے اول بحث جو ضروری ہے، مسیح کی وفات کی بحث ہے- جس کا طے ہو جانا ضروری ہے- کیونکہ مخالف قرآن و حدیث کے نشانوں کا ماننا مومن کا کام نہیں- ہاں ان نادانوں کا کام ہے- جو قرآن اور حدیث سے کچھ غرض نہیں رکھتے- فاتقواللہ ایھا العماء والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ٭
المشتــــــــــــــــــــــــھر
مرزا غلام احمدؐ از دھلی بازار بیلماں - کوٹھی نواب لوہارو
۶ اکتوبر ۱۸۹۱ء
(۶۲)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
اللہ جلشانہ کی قسم دے کر مولوی سیّد محمد نذیر حسین صاحب کی خدمت میں بحث حیات و ممات مسیح ابن مریم کے لیے درخواست
ندارد کسے با تو نا گفتہ کار
و لیکن چو گفتی دلیلش بیار
انعام:انعام فی حدیث و فی آیت روپے بحالت پوری کرنے شرط کے مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کو دیا جائے گا- فقط
اطلاع:آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ ۱۸ اکتوبر ۱۸۹۱ء بحث کے لیے مقرر کر لیں- یا ۱۹ یا ۲۰ اور کل تک تاریخ منظور کر دہ کی اشاعت کے لیے اطلاع دیں اور اگر خاموش رفہے تو گریز تصور کی جائے گی-
اے مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب آپ نے اور آپ کے شاگردوں نے دنیا میں شور ڈال دیا ہے کہ یہ شخص یعنے یہ عاجز دعویٰ مسیح موعود ہونے میں مخالف قرآن و حدیث بیان کر رہا ہے- اور ایک نیا مذہب و نیا عقیدہ نکالا ہے جو سراسر مغائر تعلیم اللہ و رسول اور بہ بداہت باطل ہے- کیونکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجدہ العنصری آسمان پر اُٹھائے گئے اور پھر کسی وقت آسمان پر سے زمین پر تشریف لائیں گے- اور ان کا فوت ہو جانا مخالف نصوص قرآنیہ و احادیث صحیحہ ہے- سو چونکہ آپ نے مجھے اس دعوے میں مخالف قرآن و حدیث قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے سے ہزار یا مسلمانوں میں بد ظنی کا فتنہ برپا ہو گیا ہے- لہذا آپ پر فرض ہے کہ مجھ سے اس بات کا تصفیہ کر لیں کہ آیا ایسا عقدہ رکھتے میں مَیں نے قرآن اور حدیث کو چھوڑد یا ہے- یا آپ ہی چھوڑبیٹھے ہیں- اور اس قدر تو خو د میں مانتا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ مسیح ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن و حدیث ہے اور دراصل حضرت عیسیٰ ابن مریم آسمان پر زندہ بحدہ العنصری موجود ہیں- جو پھر کسی وقت میں زمین پر اُتریں گے- تو گو یہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے مؤیداور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسانی نشان اس کی تائید میں دکھائوں -
تا ہم وہ سب ہیچ ہیں- کوئی امر اورکوئی دعویٰ اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں- اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت!! ایک جلسہ بحث مقر ر کر کے میری دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں- اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا بجدہ العنصری زندہ ہونا ثابت کردیں تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلے کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا- ولعنۃ اللہ علیٰ کاذب یخفی فی قلبہٖ ما یخالف بیان لسانہٖ مگر یہ بھی یاد رکھیئے کہ اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے اور کوئی صریحتہ الدلالت آیت اور حدیث صحیح مرفوع متصل پیش نہ کر سکے تو آپ کو بھی اپنے اس انکار شدید سے توبہ کرنی پڑے گی- واللہ یحب التوابین اب میں یا حضرت!! آپ کو اُس ربّ جلیل تعالیٰ و تقدس کی قسم دیتا ہوں- جس نے آپ کو پیدا کر کے اپنی بے شمار نعمتوں سے ممنون فرمایا کہ اگر آپ کا یہی مذہب ہے کہ قرآن کریم میں مسیح ابن مریم کی زندگی کے بارے میں آیات صریحہ بیّنہ قطیعۃ الدلالت ہوجود ہیں اور ان کی تائید میں احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ اپنے منطوق سے شہادت دیتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو میرے الہامی دعوے کی نسبت مومنانہ حسن ظن کو الودی کہہ کر سخت انکار کرنا پڑا تو اس خداوند کریم سے ڈر کر جس کی میں ابھی آپ کو قسم دی ہے مرے ساتھ اظہار الحق بحث کیجئے- آپ کو اس بحث میں کچھ تکلیف نہیں ہو گی- اگر کوئی عدالت گورنمنٹ برطانیہ کی کسی دینوی مقدمہ میں آپ سے کسی امر میں اظہار لینا چاہے- تو آپ جس قدرعدالت چاہے ایک مبسوط بیان لکھوا سکتے یہں - بلکہ بلا توقف تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جائیں گے- آواز بلند شدّ و مد اظہار دیں گے- ماشاء اللہ درس قرآن و حدیث نبویہ و قرآن کریم حفظ کی طرح یاد ہیں- کوئی محنت اور فکر سوچ کا کام نہیں- تو پھر خدا ئے تعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہیں ڈرتے- اور سچی شہادت کو کیوں پیٹ دبائے بیٹھے ہیں- اور کیوں کچے عذر اور حیلے و بہانے کر رہے ہیں کہ بحث کرنے سے مجبور ہوں- شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد المجید میری طرف سے بحث کریں گے- حضرت مجھے آپ کا وہ ٭خط دیکھ کر کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا - دوسرں سے کرو، رونا آیا کیسا زمانہ آ گیا کہ آج کل کے اکثر علماء فتنہ ڈالنے کے لئے تو آ گئے اور اصلاح کے کاموں میں پیچھے ہٹتے ہیں- اگر ایسے نازک وقت میں آپ اپنے وسیع معلومات سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائیں گے تو کیا وہ معلومات آپ قبر میں لے جائیں گے آپ بقول بٹالوی شیخ الکل ہیں- شیخ الکل ہونے کا دعویٰ کچھ جھوٹادعویٰ نہیں- گویا آپ سارے جہان کے مقتداء ہیں- اور بٹالوی اور عبد المجید جیسے آپ کے ہزاروں شاگرد ہوں گے- اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں- ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے- تو اس کا کیا اثر ہو گا- وہ شیخ الکل تو نہیں- غرض دنیا کی آپ پر نظر ہے- یقیناسمجھو کہ اگر آپ نے اس بارے میں بذاتِ خود بحث نہ کی تو خدا تعالیٰ سے ضرور پوچھیے جائو گے- لبِ بام کی حالت ہے- خدا تعالیٰ سے ڈرو - سِفر آخرت بہت نزدیک ہے- اگر حق کو چھپائو گے تو ربّ منقسم کے اخذ شدید سے ہر گز نہیں بچو گے- آپ کو بٹالوی شیخ کے منصوبوں سے پرہیز کرنا چاہیے- وہ حضرت اس فطرت کے ہی آدمی نہیں کہ جو آپ کو محض اللہ بحث کرنے کے لئے صلاح دیویں - ہاں ایسے کام ان کو بخوبی آتے ہیں کہ فرضی طور اِدھر اُدھر مشہور کر دیا اور اپنے دوستوں کو بھی خبریں پہنچا دیں کہ ہم نے فتح پائی ہم سے گریزکی- تاریخ مقررہ پر نہ آئے - حیا شعبہ ایمان ہے اگر بٹالوی صاحب کو دیانت اور راست بازی کا کچھ خیال ہوتا تو ایسی دروغ بے فروغ باتیں مشہور نہ کرتے- یہ کس قدر مکرو فریب اور چالاکی ہے کہ سراسر بد نیتی سے ایک یک طرفہ اشتہار جاری کر دیا اور محض فرضی طور پر مشتہر کر دیا کہ فلاں تاریخ میں بحث مقرر کی جاتی تا کہ میں اپنے خانگی حفظ امن کے لئے انتظام کر لیتا جس تاریخ میں حاضر ہو سکتا اسی تاریخ کو منظور کرتا- اور نیز چاہیے تحا کہ پہلے امر قابلِ بحث صفائی سے طے ہو لیتا-
غرض ضروری تھا کہ جیا کہ مناظرات کے لئے دستور ہے- فریقین کی اتفاق رائے اور دونوں فریق کے دستخط ہونے کے بعد اشتہار جاری کیا جاتا- لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یونہی اُڑا دیا گیا کہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوئے اور گریز کر گئے- اور شیخالک صاحب سے ڈر گئے- ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہ عاجز اسی غرض سے تو اپنا وطن چھوڑ کر دہلی میں غربت اور مسافرت کی حالت میں آ بیٹھتا ہے تا شیخ الکل صاحب سے بحث کر کے ان کی دیانت و امانت اور ان کی حدیث دانی اور ان کی واقفیت قرآنی لوگوں پر ظاہر کر دیوے- تو پھر اُن سے ڈرنے کے کیا معنے- غور کرنے کا مقام ہے - کہ اگر ہ عاجز شیخ الکل سے ڈر کر ان کی یک طرفہ تجویز کردہ کردہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوا- تو اب شیخ اکل صاحب کیوں بحث سے کنارہ کش ہیں اور کیوں اپنے اس علم اور معرفت پر مطمئن نہیں رہے جس کے جوش سے یک طرفہ جلسہ تجویز کیا گیا تھا- ہر یک منصف ان کے پہلے ایک طرفہ جلسہ کی اصل حقیقت اسی سے سمجھ سکتا ہے- کہ اگر وہ جلسہ صحت نیت پر مبنی تھا اور مکاری اور دھوکہ دہی کا کام نہیں تھا تو ان کا وہ پہلا جوش اب کیوں ٹھنڈا ہو گیا- اصل بات یہ ہے کہ وہ یک طرفہ جلسہ محض شیخ بٹالوی کا ایک فریب حق پوشی کی غرض سے تھا- جس کی واقعی حقیقت کھولنے کے لئے اب شیخ الکل صاحب کو بحث کے لئے بُلایا جاتا ہے یک طرفہ جلسہ میں حاضر ہونا اگرچہ میرے پر فرض نہ تھا کیونکہ میری اتفاق رائے سے وہ جلسہ قرار نہ پایا تھا- اور میری طرف سے ایک خاص تاریخ میں حاضر ہونے کا وعدہ بھی نہ تھا مگر پھر بھی میں نے حاضر ہونے کے لئے طیاری کر لی تھی- لیکن عوام کے مفسدانہ حملوں نے جو ایک نا گہانی طور پر کئے گئے - اس دن حاضر ہونے سے مجھے روک دیا- صد ہا لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس جلسہ کے عین وقت مفسد لوگوں کا اس قدر ہجوم میرے مکان پر ہو گیا- کہ میں ان کی وحشیانہ حالت دیکھ کر اوپر کے زنانے مکان میں چلا گیا- آخر وہ اسی طرف آئے اور گھر کے کواڑ توڑنے لگے- اور یہاں تک کہ نوبت پہنچی کہ بعض آدمی زنانہ مکان میں گھس آئے اور ایک جماعت کا بخار نکالتے تھے- بڑی مشکل سے خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان سے رہائی پائی اور سخت مدافعت کے بعد یہ بلا دفع ہوئی-
اب ہر ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کہ اس بلوہ عوام کی حالت میں کیونکر میں گھر کو اکیلا چھوڑ کر جلسہ میں بحث میں حاضر ہو سکتا تھا- اب انصاف او ر غور کا مقا ہے کہ میرے جیسے مسافر کی دہلی والوں کو ایسی حالت میں ہمدردی کرنی چاہیے تھی نہ یہ کہ ایک طرف عوام کو ورغلا کر اور ان کو جوش دہ تقریریں سُنا کر میرے گھر کے ارد گرد کھڑا کر دیا- اور دوسری طرف مجھے بحث کے لئے بُلایا اور پھر نہ آنے پر جو موافع مذکورفہ کی وجہ سے تھا شور مچا دیا کہ وہ گریز کر گئے اور اہم نے فتح پائی یہ کیسی آو باشانہ چال ہے کیا انسانیت ہے- کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ انہوں نے فتح پائی-کیا یہ مُرغیوں اور بیڑوں کی لڑائی تھی یا اظہار الحق کے لئے بحث تھی- اگر ایمانداری پر اس جلسہ کی بناء ہوتی تو عذر معقول سن کر خود تاریخ بحث مقرر کرنے کے لئے راضی ہو جاتے- اور میں نے اسی روز ہ بھی سُنا کہ راہ میں بھی امن نہ تھا- اور مقام تجویز کردہ بحث میں عوام کی حالت قابل اطمینان نہ تھی- اور عین جلسہ میںمخالفانہ باتیں تہمت اور بہتان کے طور پر عوام کو سُنا کر ان کو بھڑکایا جا رہا تھا- لیکن سب سے بڑھ کر جو بچشم خود صورت فساد دیکھی گئی وہ یہی تھی جو ابھی میں نے بیان کی ہے- اگر مولوی نذیر حسین صاحب کو یہ بلا پیش آئی تو کیا ان کی نسبت ی کہنا جائز ہو تا کہ وہ بحث سے کنارہ کر گئے- جس حالت میں یہ واقعات ایسے ہیں- تگو پھر کسی بے شرمی کی بات ہے کہ اس غیر حاضری کو گریز پر حمل کیا جائے- اے حضرت خدا تعالیٰ سے ڈریں اور خلاف واقعہ منصوبوں کو رفتح یابی کے پیرایہ میں مشہور نہ کریں اب میں بفضلہ تعالیٰ اپنی حفاظت کا انتظام کر چکا ہوں اور بحث کے لئے طیار بیٹھا ہوں مصائف سفراُٹھا لر اور دصلی والوں سے ہر روز گالیوں اور لعن طعن کی برداشت کر کے محض آپ سے بحث کرنے کے لئے اے شیخ الکل بیٹھا ہوں- یہ عذر کوئی عقل مند قبول نہیں کرے گا- کہ آپ کے طرفہ جلسہ میں عاجز حاضر نہ ہو سکا- اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ درحقیقت قرآن کریم کی آیات صریحہ قطعیتہ الدلالت اور احادیث صحیحہ مر فوعہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا زندہ بجدہ العنصری آسمان پر اُٹھائے جا نا مستحق اور ثابت شدہ امر ہے تو ایسی کیک باتوں کا فتح نام رکھنا سخت نامردی ہے- بسم اللہ آئیے اور اپنا وہ عجیب ثبوت دکھلایئے- اگر آپ ایسے وقت میں جو تمام ملک میں ہند میں طرف سے بد لائل شافیہ یہ اشاعت ہو گئی ہے کہ درحقیقت مسیح ابن مریم کا زندہ بجد ہ العنصری اُٹھائے جانا قرآن و حدیث سے ہر گز ثابت نہیں ہوتا- بلکہ وہ فوت ہو چکا ہے اور جو شخص ان کی جسمانی دنیوی کا زندگی کا مدعی ہے وہ جھوٹا کذاب ہے، میدان میں آکر حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی دنیوی زندگی کا ثبوت نہیں دیں گے- حضرت بحث کرنے کے لئے باہر تشریف لائیے کہ میں بحث کرنے کے لئے تیار ہوں - آپ کیوں مقتدار اور شیخ الکل ہونے کی حالت میں بحث کرنے سے کنارہ کرتے اور حق الامر کو چھپاتے ہیں اور حق کو اس کے ظہور سے روکتے ہیں اورنہیں چاہتے کہ حق کھل جائے- آپ کو ڈرنا چاہیے یصدون عن سبیل اللہ کا مصداق نہ بن جائیں-اور میں تو یا حضرت؟!! اس عظیم الشّان بحث کے لئے حاضر ہوں اور ہر گز تخلف نہ کروں گا- لعنۃ اللہ علیٰ من تخلف و صد عن سبیل اللہ اب میں یا حضرت ؟ !!!پھر اللہ جلّشانہ کی آپ کو قسم دے کر اس بحث کے لئے بُلاتا ہوں جس جگہ چاہیں حاضر ہو جائوں- مگر تحریری بحث ہو گی تا کسی محّرف کو تحریف کی گنجایش نہ ہو- اور ملک بند کے تمام اہل نظر کو رائے کرنے کے لئے دہی تحریف ذریعہ مل جائے- آپ یقینا یاد رکھیں کہ یہ آپ کی جھوٹی خوشی ہے او ر یہ آپ کا غلط خیال ہے کہ یقینی اور قطعی طور پر مسیح ابن مریم زندہ بجدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا ہے- جس دن بحث کے لئے آپ میرے سامنے آئیں گے- اس دن تمام یہ خوشی رنج کے ساتھ مُبدّل ہو جائے گی- اور سخت رسوائی سے آپ کو اس قول سے رجوع کرنا پڑے گا- کہ درحقیت آیات بینہ صریحہ و قطیعۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ سے حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی زندگی ثابت ہے- اگرچہ آپ درس قرآن و حدیث میں ریش و بردت سفید کر بیٹھے ہیں- مگر حقیقت تک آپ کو کسی استاد نے نہیں پہنچایا- اور مغز قال اللہ اور قال الرسول سے دُور مہجورو بے نصیب محض ہیں- آپ کو شرم کرنی چاہیے کہ شیخ الکل ہونے کا دعویٰ اور پھر اس فضلیت کی غلطی کہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ ایسی آیات صریحیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ موجود ہیں جن سے مسیح ابن مریم کا زندہ بجدہ العنصریٰ آسمان پر جاناثابت ہونا ہے- شاید اسی حد یثیں آپ کو کوٹھری میں بند ہوں گی جو اب تک کسی پر ظاہر نہیں ہوئیں- اگر آپ کو کچھ شرم ہے تو اب بلا توقف بحث کے لئے میدان میں آ جائیں تا سیہ رُو شود ر کہ غش باشد- اگر آپ اس مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے نہ آئے اور مفسد طبع ملانوں پر بھروسہ رکھ کر کوٹھری میں چھپ گئے تو یاد رکھو کہ تمام ہندوستان و پنجاب میں ذلّت اور بد نامی کے ساتھ آپ مشہور ہو جائیں گے اور شیخ الکل ہونے کی تمام رونق جاتی رہے گی- میں متعجب ہوں آپ کس بات کے شیخ الکل ہیں- قرائن سے اس بات کا یقین آتا ہے کہ آپ نے ہی ایب بد زبان بٹالوی فطرت بگڑے ہوئے شیخ کو در پردہ سمجھا رکھا ہے- کہ مساجد اور مجالس میں اور نیز آپ کے مکان پر علانیہ اس عاجز کو گالیاں دیا کرے- چنانچہ اس نیک بخت کایہی کام ہے کہ آپ کو تو ہر جگہ شیخ الکل کہہ کر دوسری کی ہجو ملیح کرتا ہے- اور اس عاجز کو جا بجا شیطان و دجّال بے ایمان کافر کے نام سے یاد کرتا ہے مگر در حقیقت یہ گالیاں اس کی طرف سے نہیں آپ کی طرف سے ہیں- کیونکہ اگر ذرہ سی بھی دھمکی آپ کی طرف سے ملتی تو وہ دم بخود رہ جاتا- بلکہ میں نے سُنا ہے کہ آپ اس شخص کے مخالف نہیں- بلکہ ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور آپ پر واضح رہے کہ کسی قدر رشتی جو اس تحریر میں استعمال کی گئی ہے وہ درحقیقت آپ ہی کے اس شاگرد رشید کی مہربانی ہے- اور پھر بھی میں نے کماتدین تد ان پر عمل نہیں کیا- کیونکہ سفہاء کی طرح سب و شتم میری فطرت کے مخالف ہیں یہ شیوہ آپ اور آپ کے شاگردوں کے لئے ہی موزون ہے- میں بفضلہ تعالیٰ جوش نفس سے محفوظ ہوں- میرے ہر ایک لفظ کی صحت نیت پر نیاء ہے- آپ کے جگانے کے لئے کسی قدر بلند آواز کی ضرورت پڑی- ورنہ مجھے آپ لوگوں کی گالیوں پر نظر نہیں- کُلّ یعمل علیٰ شاکلتۃٖ والسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
بالآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام وفات مسیح سُن کر اللہ جلّشانہ کی تین بار قسم کھا کر کہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں- او ر صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زند ہ بجدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں- اور آیات قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہے اور میرا عقیدہ یہی ہے - تب میں آپ کی اس گستا خی اور حق پوشی اور بد دیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لئے جناب الٰہی میں تضّرع اور ابتہال کروں گا- اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ ادعونی استجب الکم اور مجھے یقین دلایا گیا ہے- کہ اگر آپ تقویٰ کا طریق چھور کر ایسی گستاخی کریں گے- اور آیت لا تقنامالیس لک بہ علم کو انظر انداز کریں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا- جو دوسرں کے لئے بطورِ نشان کے ہو جائے گا- لہذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھایوے- وھم علیٰ کلّ شئی قدیر - و اٰخر عرٰ نا ان الحمد اللہ ربّ العالمین -
حلفی اقرار دربارہ ادائے پچیس روپیہ فی حدیث اور فی اآیت بالآخر مولوی نذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے اس عقیدہ کی تائید میں جوحضرت مسیح ابن مریم بجدہ العنصری زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے آیات صریحہ بینّہ قطیعۃ الدلالت و احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ مجلس مباحثہ میں پیش کر دیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کے لئے ضروری ہے - یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح ابن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبا ن مبارک سے بیان فرما ویں تو میں اللہ جلّشانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت و فی حدیث پچیس روپیہ اُن کی نذرکروں گا-
الناصح المشفق المشتھر المعلن مرزا غلام احمد قادیانی
(مطبوعہ مطبع جوہر ہند دہلی ۷ ۱ کتوبر ۱۸۹۱ء )
(یہ اشتہار ۲/۱۸*۲۲ کے دو صفحوں پر ہے)
(۶۳)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
تقریر واجب الاعلان متعلق ان حالات وواقعات کے جو مولوی سید نذیرحسین صاحب ملقب بہ شیخ الکل سے جلسئہ بحث۲۰ اکتوبر۱۸۹۱؁ء کو ظہور میں آئی
حضرت شیخ الکل صاحب جلسئہ بحث ۲۰ اکتوبر۱۸۹۱؁ء میں حاضرتوہوئے مگراپنی خوشی سے نہیں بلکہ اس غیرت دلانے والے اشتہار٭کی وجہ سے جومیری طرف سے۱۷اکتوبر۱۸۹۱ ؁ء کو شائع کیاگیاتھا۔جس میں بالفاظ دیگر یہ بھی بیان تھاکہ یہ عاجز یاشیخ الکل صاحب یعنی کوئی ہم دونوںمیں جلسہ بحث میں حاضر ہونے سے تخلف کرے تو اس پربوجہ حق پوشی وصدّعن سبیل اللہ واخفائے شہادت خدا تعالیٰ کی *** ہو۔سو اس مجبوری سے ان کو بہرحال حاضرہونا پڑا۔تاوہ اپنے تئیں اس داغ ملامت سے بچالیں جو درصورت غیر حاضری ان کے چہرہ مشیخت لگتاتھا۔مگرجلسہ بحث کے منصف اور معززحاضرین خوب سمجھ گئے ہوںگے کہ شیخ الکل صاحب اس داغ سے بچ نہیں سکے ۔کیونکہ ان کافقط حاضرہونااس داغ سے محفظ رہنے کے لئے کافی نہ تھابلکہ اس کے ساتھ یہ بھی توضرورتھاکہ وہ اصل مقصد حاضری کو جومباحثہ تھانیک نیتی کے ساتھ مدنظررکھ کر بلاتوقف اظہاراًللحق مسلہ وفات وحیات میں ا س عاجز سے بحث کرتے اورحاضرین کو جوشوق سے آئے تھے دکھلاتے کہ حیات مسیح ابن مریم پرکونسے قطعی اوریقینی دلائل ان کے پاس موجود ہیں اور نیز براہین وفات مسیح کے بارے کے بارے میں تسلی بخش جوابات ان کے پاس ہیں لیکن انہوں نے ایسانہیں کیا۔کیوں نہیں کیا؟اس کا یہی باعث تھاکہ وہ تہیدست محض تھا۔جس حا ل میں قرآن کریم اوراحادیث نبویہ میں موجود ہیں جو چمکتے ہوئے نور کی طرح دل کو تسلی اوراطمینان کی روشنی بخشتے ہیں ۔پھر حضرت شیخ الکل صاحب حیات مسیح ابن مریم پر کون سی دلیل لاتے اور کہاں سے لاتے پس یہی وجہ تھی کہ وہ ایسے چپ ہوئے کہ گویا کہ قالب میں جان نہیں یاجسم میں دم نہیں ۔اس نازک وقت میں جب اُ ن سے دم بہ دم یہ مطالبہ ہورہا تھاکہ اگر آپ یہ عقیدہ مسیح کی حیات جسمانی کا درحقیق صحیح اوریقینی اور آیات قطیعہ الدلالت اوراحادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کردیں توہم اس ایک ہی ثبوت سے تمام دعویٰ چھوڑ دیتے ہیں۔آئیے وہ ثبوت پیش کیجئے۔شیخ الکل کی وہ حالت محسوس ہوتی تھی کہ گویااس وقت جان کندن کی حالت ان پر طاری تھی ۔اس جلسہ میں تخمیناًپانچ ہزار سے کچھ زیاد ہ آدمی ہوںگے اورشہر کے معزز اوررئیس بھی موجود تھے اورسرکارانگریز ی کی طرف سے امن قائم رکھنے کے لئے ایسااحسن انتظام ہوگیاتھاکہ جس سے بڑھ کرمتصور نہیں۔ صاحب سٹی پریذیڈنٹ پولیس یورپین مع انسپکٹرصاحب اورایک کافی جماعت پولیس کے موقع جلسہ پر جو جامع مسجددہلی تھی تشریف لے آئے تھے اورایک طوراورپہلو سے حفظ امن کے مراتب اپنے ہاتھ میں لے کراس بات کے منتظر تھے کہ اب فریقین تہذیب اورشائشتگی سے بحث شروع کردیں اسوقت تاکید اًواتماماًللحجۃ حضر ت شیخ الکل صاحب کی خدمت میں جو ایک گوشہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے یہ رقعہ بھیجا کہ میں موجود ہوں ۔اب آپ جیساکہ اشتہار۱۷اکتوبر۱۸۹۱ ؁ء٭میں میری طر ف سے شائع ہوچکا ہے،حیات ووفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو حسب منشاء اشتہارمذکورہ بدین قسم کھالیں کہ میرے نذدیک مسیح ابن مریم کا ز ندی بسجدہ العنصری آسمان پر اُٹھایاجانا قرآن اوراحادیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بیّنہ سے ثابت ہے توپھر آپ بعد اس قسم کے اگر ایک سال تک اس حلف دروغی کے اثر بد سے محفوظ رہے تومیں آ پکے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔بلکہ اس مضمو ن کی تما م کتابیں جلادوں گا۔لیکن شیخ الکل صاحب نے ان دونوں طریقوں میں سے کسی کو منظور نہ کیا۔ہر چند اس طرف سے بار بار یہی درخواست تھی کہ آپ بحث کیجئے یاحسب شرائط اشتہار قسم ہی کھائیے تااہل حق کے لئے خداتعالیٰ کوئی نشان ظاہرکرے ۔مگر شیخ الکل صاحب کی طر ف سے گریز تھی آخر انہوں ںنے غرق ہونے والے آدمی کی طرح جو بچنے کی طمع خام سے گھاس پات کو ہاتھ مارتاہے یہ حیلہ وبہانہ بوساطت اپنے بعض وکلاء کے صاحب سٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں جو اسی کام کے لئے فریقین کے درمیان کھڑے تھے پیش کیاکہ یہ شخص عقائد اسلا م سے منحر ف ہے ۔معجزات کو نہیں مانتا۔لیلۃ القدر کوتسلیم نہیں کرتا۔اورمعراج اوروجود ملائکہ سے منکر ہے ۔اورپھرنبوت کابھی مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے ۔پس جب تک یہ شخص اپنے عقائد کاہم سے تصفیہ نہ کرے ہم وفات وحیات مسیح کے بارے میں ہر گز بحث نہیں کریںگے یہ توکافرہے کیا کافروں سے بحث کریں۔اس طر ف میری طرف سے رُوبر وصاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کویہ جواب ملاکہ سب باتیں سب باتیں سراسرافتراء ہیں ۔مجھے ان تمام عقائد میں سے کسی کا بھی انکار نہیں ۔ہاں اصل عقائدکو مسلم رکھ کر بعض نکات ومعارف ارباب کشف کے طور پر کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں لکھے ہیں جو اصل عقائد سے معارض نہیں ہیں ۔اگر فریق مخالف اپنی کوتاہ فہمی اوربدنیتی سے انہیں متصوفانہ اسراراورالہامی نکات اور معارف کو خلاف عقائد اہلسنت خیال کرتے ہیںتویہ خو د ان کاقصور فہم ہے ۔میری طر ف سے کوئی اختلاف نہیں ۔اورمیں یہ وعدہ بھی کرتاہوں کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ ایک رسالہ مستقلہ ان کی تفہیم وتلقین کی غرض سے اس بارے میں شائع کرو ں گاپبلک خود فیصلہ کرلے کہ کیاا ن عقائد میں اہل سنت والجماعت کے عقائد سے میں نے علیحد گی اختیار کی ہے یادرحقیقت بہت سے لطائف اسرار کے ساتھ وہی عقائد اہلسنت ہیں ۔کوئی دوسرا امر نہیں ۔صرف معترضین کی آنکھوں میں غبار ہے ۔جو خویش کو اجنبی کی صورت پر دیکھتے ہیں اورموافق کلی کومغائر کلی خیال کرتے ہیں ۔اور بار بار یہ بھی کہا گیا کہ جس حالت میں میں نے اشتہار بھی شائع کردیاہے کہ ان عقائد سے انکار کرنامیرا مذہب نہیں ہے بلکہ منکر کو میں دائر ہ ااسلا م سے خارج سمجھتاہوں تو پھر میں ان عقائد مسلّمہ میں بحث کیا کروں ۔بحث تواختلا ف کی حالت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں ۔سو تم مسلمات فریقین میں خواہ مخواہ کی گفتگو نہ کرو۔اس بات میں بات کر و جس میں مجھے تمھارے عقید ہ موجودہ میں مخالفت یعنی صعود ونزول مسیح ابن مریم بجسدہ العنصری میں ۔لیکن حضرت شیخ الکل صاحب اپنی اس ضدسے باز نہ آئے اوربحث حیات ووفات مسیح سے صاف صاف انکار کرتے رہے ۔آخر ان کی ضد اور اصرار سے فہیم لوگوں نے سمجھ لیاکہ حضر ت کے پاس حیات جسمانی حضر ت مسیح ابن مریم پر کوئی دلیل نہیں اور نہ وہ دلائل وفات ابن مریم کوردّ کرسکتے ہیں ۔اوررعب حق کی وجہ سے حسب شرائط اشتہار قسم کھانے کے لئے بھی جرأ ت نہیں ۔تب صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے اس کشمکش سے تنگ آکر اورلوگوں کی ایک وحشانہ حالت اورنیز کثرت عوام دیکھ کرخیال کیاکہ اب دیر تک انتظار کرنا اچھا نہیں ۔لہذا عوام کی جماعت کومتفرق کرنے کے لئے حکم سُنا دیا کہ چلے جائو ۔بحث نہیں ہوگی۔یہ وہ واقعات ہیں جو صاحب سٹی سپرنٹنڈ نٹ پولیس اورنیزان کے ماتحت انسپکٹر صاحب خود درمیان میں کھڑے ہوکر سُن چکے ہیں ۔اس جلسۂ بحث میں خواجہ محمد یو سف صاحب رئیس ووکیل و آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ بھی موجود تھے ۔اوریہ ایک حُسن اتفاق تھاکہ ایک ایساثقہ آدمی اس جلسہ میں شامل ہوگیا۔غرض خواجہ صاحب نے بھی فریق ثانی کے بیحودہ سُن کر میری طر ف توجہ کی اور کہا کہ یہ سچ ہے کہ برخلاف عقیدہ اہلسنت والجماعت لیلۃ القدر اورمعجزات اورملایک اورمعراج وغیر ہ سے منکر اورنبو ت کے مدعی ہیں ۔میں کہایہ اسرار میرے پر افتراء ہے ۔میں ان سب باتوں کاقائل ہوں ۔اور ان لوگوں نے میری کتاب کامنشاء نہیں سمجھا۔اور غلط فہمی سے مجھ کومُنکر عقائد اہل سنت کا قرار دے دیا۔تب انہوں نے کہاکہ بہت اچھا۔اگر فی الحقیقت یہی بات تو مجھے ایک پرچہ پر یہ سب باتیں لکھ دیں ۔میں ابھی صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کواور نیز پبلک کو سُنا دوں گا۔اور ایک نقل اس کی علی گڑھ میں بھی لے جائوں گا۔تب میں نے مفصل طور پر اس بارے میں ایک پرچہ لکھ دیاجو بطور نوٹ درج ذیل ہے ۔اورخواجہ صاحب نے وہ تمام مضمون صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کوبلند آوازسُنایااور تمام معزز حاضرین نے جونزدیک تھے سُن لیا۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم - نحمدہٗ و نصلے
واضح ہو کہ اختلافی مسئلہ جس پر میں بحث کرنا چاہتا ہوں- صرف یہی ہے کہ یہ دعویٰ جو حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں- میرے نزدیک ثابت نہیں ہے اور نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے ایک بھی آیت صریحۃ الدلالۃ اور قطعیۃ الدلالت یا ایک بھی حدیث صحیح مرفوع متصل نہیں مل سکتی جس سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو سکے بلکہ جا بجا قرآن کریم کی آیات صریحہ اور صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے وفات ہی ثابت ہوتی ہے اور میں اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب حیات مسیح علیہ السلام کی آیات صریحۃ الدلالۃ اور قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں تو میں دوسرے دعویٰ مسیح موعود ہونے سے خوددست بردار ہو جائوں گا اور مولوی صاحب کے سامنے توبہ کروں گا- بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا اور دوسرے الزامات جو میرے پر لگائے جاتے ہیں کہ یہ شخص لیلۃ القدر کا منکر ہے اور معجزات کا انکاری ا ور معراج کا منکر ا ور نیز نبوت کا مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں- ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے- جو دیگر اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے اور میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام سے جو اعتراض نکالے گئے ہیں- یہ نکتہ چینوں کی سراسر غلطی ہے- اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا س مسجد میں کتاب ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بیدین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتاہوں- ایسا ہی ملائکہ اور معجزات اور لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہوں اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ بدفہمی سے بعض کوتہ فہم لوگوں نے سمجھ لیا ہے ان اوہام کے ازالہ کے لئے عنقریب ایک مستقل رسالہ تالیف کر کے شائع کروں گا- غرض میری نسبت جو بجز میرے دعویٰ وفات مسیح اورمثیل مسیح ہونے کے اور اعتراض تراشے گئے ہیں وہ سب غلط اور ہیچ اور صرف غلط فہمی کی وجہ سے کئے گئے ہیں-
پھر بعداس کے خواجہ صاحب نے اس بات پر زور دیاکہ جبکہ ان کے عقائد میں درحقیقت کوئی نزاع نہیں ۔فریقین بالاتفاق مانتے ہیں توپھر ان میں بحث کیونکر ہوسکتی ہے ۔بحث کے لائق وہ مسلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں ۔یعنی وفات وحیات مسیح کامسلہ جس کے طے ہوسے سارافیـصلہ ہو جاتاہے ۔بلکہ بصورت ثبوت حیات مسیح مسیح موعودہونے کادعویٰ سب ساتھ ہی باطل ہوتاہے ۔اوریہ بھی بار باراس عاجز کانام لے کرکہاکہ انہوں نے خود وعدہ کرلیا ہے کہ اگرنصوص بینہ قطعیہ قرآن وحدیث سے حیات مسیح ثابت ہوگئی تو میں مسیح موعودہونے کادعویٰ چھوڑ دوں گا۔لیکن باوجود اس کے کہ خواجہ صاحب نے اس بات کے بہت زور لگایاکہ فریق مخالف ضد اور تعصب کوچھوڑ کرمسلہ حیات ووفات مسیح میں بحث شروع کردیں ۔مگر وہ تمام مغز خراشی بے فائد ہ تھی۔ شیخ الکل صاحب کی اس بحث کی طرف آنے سے جان جاتی تھی- لہذا انہوں سے صاف انکار کردیااورحاضرین کے دل ٹوٹ گئے ۔میں نے سُنا ہے کہ ایک شخص بڑے درد سے کہہ رہاتھاکہ آج شیخ الکل نے دہلی کی عز ت کو خاک میں ملا دیااورہمیں خجالت کے دریا میں ڈبودیا۔بعض کہہ رہے تھے کہ اگرہمارایہ مولوی سچ پر ہوتاتو اس شخص سے ضرور بحث کرتا۔لیکن جاہل اور نادان لوگ جو دُور کھڑے تھے وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے کہ کیاہورہاہے بلکہ تعصب کی آگ میں جلے جاتے تھے ۔شیخ الکل صاحب کے ان معتقدین کوجو دُور رہنے والے خاص کرجو پنجابی ہیں بڑاتعجب ہوا کہ یہ کیا ہوا۔اورکیوں شیخ الکل نے ایسے ضروری وقت میں بحث سے انکار کردیااوربزدلی اختیار کی ۔ اس کاجو اب یہ ہے کہ وہ حق پر نہیں تھے اورقرآن کریم اُن کو اپنے پاس آنے سے دھکے دیتاتھااوراحادیث صحیحہ دُورسے کہتی تھیں کہ اس طر ف مت دیکھ ۔ہماری خوان نعمت میں تیرے لئے کچھ نہیں ۔سو بوجہ اس کے کہ ان کے ہاتھ میںکو ئی دلیل نہیں تھی ۔اورنہ اس طر ف کے دلائل کااُن کے پاس کافی جواب تھا۔اس لئے وہ عاجز ہو کر کالمیّت ہوگئے ۔اوران پر خوف غالب آگیاکہ اگر میں بحث کروں گاتوسخت رسوائی میر ی ہوگی ۔اورتمام رونق شیخ الکل ہونے کی ایک ہی دفعہ جاتی رہے گی اورزندگی مرنے سے بدتر ہوجائے گی۔
اور اگریہ سوال کیا جائے کہ اگر فی الحقیقت ایسی ہی حالت تھی تو پھر شیخ الکل نے جلسہ ٔ بحث میں صاف صاف کیوں نہ کہہ دیا کہ میں غلطی پر تھا۔اب میں نے اپنے قول سے رجوع کیاتوا س کاجو اب یہی ہے کہ اگر حقیقی تقویٰ شامل حال ہوتااورخدا تعالیٰ کاکچھ خوف ہوتاتو بے شک وہ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ اپنی غلطی کا اقرارکرکے خدایتعالیٰ کوخوش کرتے ۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کادل سخت ہوجاتاہے اورننگ اور ناموس اور پنداراورعُجب اور تکبر کا زنگ اس کے رگ وریشہ میں رچ جاتاتوپھر صر ف حق پوشی کیا۔بلکہ اس سے بھی بہت بڑ ھ کرافعال ناشائستہ ا س سے صادر ہوتے ہیں ۔غرض علماء کیلئے مشہور کردہ رائے سے رجوع کرنا اشد من الموت ہے اور اسی وجہ سے شیخ الکل صاحب شہادت حقہ کے اداکرنے کے لئے توفیق نہ پاسکے اورخداتعالی جانتاہے کہ مجھے اس بات کاسخت رنج ہے کہ شیخ الکل صاحب نے اپنی اس پیرانہ سالی کی عمر میں شہادت حقہ کا اخفا کرکے اپنی سو ء خاتمہ کی ذرا پر واہ نہ کی ۔ان کایہ فرض تھاکہ خداتعالیٰ سے ڈر کراس شہادت کو اداکردیتے کہ کیا قرآن اوراحادیث کے نصوص بیّنہ سے قطعی اوریقینی طور پر مسیح ا بن مریم کی حیات جسمانی ثابت ہوتی ہے یا اس کے مخالف ثا بت ہوتاہے ۔انہوں نے اپنی اس شہادت کوجو اُن سے محض للہ طلب کی گئی تھی کیوں چھپایا ۔کیاانہیں معلوم نہ تھاکہ اللہ جلشانہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتاہے -اِنَّ الَّذیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَااَنْزَلناَمِنَ الْبَیِّنَاتِ وَ الھُدیٰ مِنْ بَعْدِمَابَیَّنَالَلناسِ فِی لکِتَابِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ الَّاعِنُونَ الآیہ یعنی جو لوگ خداتعالیٰ کی ان کھُلی کھُلی تعلیمات اورہدایتوں کو لوگوں پر پوشید ہ رکھتے ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب میں بیان کردیاہے ۔ اُن پر خد اتعالیٰ کی *** ہے اورنیز ان کے بندوں کی بھی ***۔
اب اے ناظرین میں اللہ جلّشانہ‘کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کاقرآن اوراحادیث میں ایک ذرہ نشان نہیں ملتا۔لیکن ان کی وفات پرکھُلے کھُلے نشان اورنصوص قرآنیہ اوراحادیثیہ موجود ہیں ۔اوراگرا ن کی وفات کی نسبت قرآن اوراحادیث میں کچھ ذکر بھی نہ ہوتاتب بھی اس وجہ سے کہ حیات ثابت نہیں کی گئی ان کی وفات ہی ثابت ہوتی ۔قرآن کریم میں بہتیرے ایسے نبیوں کاذکرہے جن کی وفات کاکچھ حال بیان نہیں کیا گیاآخر وہ مرے یا کیا ہوئے لیکن محض اس خیال سے کہ ان کی وفات کاقرآن کریم میں ذکر نہیں ہے یہ ثابت نہیں ہوگاکہ وہ زندہ ہیں ۔وفات انسان اورہر حیوان کے لئے ایک اصلی اور طبعی امرہے جس کے ثبوت دینے کے لئے درحقیقت کچھ بھی ضرورت نہیں ۔جو شخص کئی سو برس سے مفقود الخبر ہو وہ قوانین عدالت کی رُو سے مردوں میں شمارکیا جائے گاوہ اس گومرتے ہوئے کسی بھی نے نہ دیکھا ہو لیکن حیات خارق عادت ایک استدالی امر ہے جو اپنے ثبو ت کے لئے دلیل کامحتاج ہے یعنی جب تک کسی مفقو دالخبر غائب ازنظرکی ایسی لمبی عمرہو جوطبعی عمر سے صدہا گونازیادہ ہے۔
دلائل یقینیہ سے ثابت نہ کی جائے تب تک کوئی عدالت تسلیم نہیں کرسکتی کہ وہ زندہ ہے ۔اس تقریر سے اس جگہ میری غرض صرف اس قدر ہے کہ جوشخص حضر ت مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی خارق عادت کادعویٰ کرتاہے ۔بار ثبوت اس پر ہے اوراُسی کایہ فرض ہے کہ آیات قطیعہ اوراحادیث صحیحہ کے منطوق سے اس دعویٰ کو ثابت کرے اوراگر یہ دعویٰ ثابت نہ ہوتو اس کاعدم ثبوت ہی وفات کے لئے کافی دلیل ہے ۔کیونکہ وفات ایک طبعی عمر ہے جو عمر طبعی کے بعدہر ایک متنفس کے لئے ضروری ہے ۔لیکن پھر بھی خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن وہموں کی بیخ کنی کرنے کے لئے مسیح ابن مریم کی وفات کو شافی بیان کے ساتھ ظاہر فرمادیاہے ۔کیونکہ وہ جانتاہے کہ آخری زمانہ کے فتنوں میں سے ایک یہ بھی فتنہ ہوگاکہ عاجز بندہ مسیح ابن مریم اخیر زمانہ تک زندہ رہنے والا قرار دیاجاوے گا۔سو اُس نے مسیح کی وفات کو ایسے صاف طور سے بیان کیاہے کہ ہر ایک وہم کی جڑ کاٹ دی۔ہماری کتاب ازالہ اوہام کو دیکھو اوران تمام دلائل کو غور سے پڑھو جو مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں ہیں ۔
ان تمام واقعات سے جو ہم نے اس اشتہار میں ظاہر کئے ہیں ،منصف مزاج لوگ بخوبی مطمئن ہوسکتے ہیں کہ شیخ الکل صاحب نے اس عاجز کے مقابلہ پر وہ وہ طریق اختیارنہیں کیاجو ایسے موقع پر ایک متقی پارسا طبع کو کرنا پڑتاہے ۔بلکہ اپنے زعم میں کل اکابر اورآئمہ کے مقتداء بن کر اور شیخ العرب والعجم کہلا کر پھر اظہار حق سے ایسا منہ چھپایاکہ ایک ادنیٰ طبع کامومن بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔اورہر گز نہ چاہاکہ سیدھے ہوکربحث کریں ۔میں نے اپنے ہر ایک اشتہار میں شیخ الکل صاحب کومخاطب کیااور انہیں کی مشیخت کوازمانے کے لئے دہلی تک پہنچا۔اوراپنے وطن کوچھوڑ کر اورتکالیف ومصائب غربت اُٹھاکر اس شہر میں آٹھہرا۔کوئی منصف مجھے سمجھادے کہ میرے مقابلہ پر شیخ الکل صاحب نے کیاکیا۔ہاں ایک یک طرفہ جلسہ مقرر کرکے یہ چال توضرور چلے کہ ایک طرف توناگہانی طور پر مجھے بلالیااور دوسری طر ف دہلی کے سفہاء اوراوباشوں کو بے اصل بہتانوں سے ورغلاء کراسی دن میرے گھر کے گرداگرد جمع کردیا۔اورصدہابدسرشت لوگوں کے دلوں میں جوش ڈال دیاجس سے وہ دلیر ی سے کوہستانی غازیوں کی طرح مارنے کے لئے مستعد ہوگئے اورمجھے باہر قدم رکھنے کی بھی گنجائش باقی نہ رہنے دی بلکہ زنانہ مکان کے کوارٹر توڑ نے لگے اوربعض وحشی خونخوار زنانہ مکان میں گُھس آئے اورپھر اس مجبوری کی وجہ سے جو میں اس پہلے جلسہ یکطرفہ میں حاضر نہ ہوسکاتوعام طور پر شائع کردیاکہ ہم نے فتح پائی ۔ناظرین خود سوچ لیں کہ یہ کیسا کام تھا اورکن لوگوں سے ایسے کام ہواکرتے ہیں ۔
پھردوسری چال یہ چلے کہ جب انہیں خوب معلوم ہوگیا کہ وہ حضر ت مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کاثبوت ہرگزدے نہیںسکتے اوراگراس بحث کے لئے مقابلہ پر آتے ہیں تو سخت رسوائی ہوتی ہے تو انہوں نے بعض زبان دراز شاگردو ں کو جن میں صر ف نقالوں کی طرح تمسخر کا مادہ ہے ۔بیحودہ اشتہارات کے جاری کرنے اوروقت کے ٹالنے کے لئے کھڑا کردیا۔گویا حضر ت نے اس تدبیر سے ان تلامیذکو اپنا فدیہ دے کر اپنی جان چھڑوانے کاارادہ کیا۔لیکن منصفین سوچ سکتے ہیں کہ اُن دھوکہ وہ اشتہاروں میں مطلب کی بات کون سی لکھی گئی ۔یا اس بات کا کیا جواب دیا گیاکہ کیوں شیخ الکل صاحب اتنا بڑاموٹانام رکھوا کر اس ضرروی بحث سے گریز کرتے ہیں اورکون سی ایسی آفت اُن پر نازل ہے جو ان کوبحث کرنے سے روکتی ہے ۔شیخ الکل صاحب کی ان کاروائیوںسے ایک عقلمندان کی دیانت وامانت وحق پرستی ودینداری وہمدردی اسلام کااندازہ کرسکتاہے ۔اگر وہ مثلاً اس بیان کے اداکرنے کے لئے عدالت میں بُلائے جاتے اورحُکماً پوچھا جاتاکہ سچ کہو کہ تمھارے پاس حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات اورجسمانی صعود ونزول پرکیاکیاقطعی دلائل قرآن اور احادیث کی رو سے موجود ہیں جو عقید ہ قرار دینے کے لئے کافی ہوں توکیا شیخ الکل صاحب عدالت میں حاضر نہ ہوتے اوراپنا بیان نہ لکھواتے ؟پھر خداتعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہ ڈرے ۔ایک دن مرنا ہے یا نہیں؟غضب کی بات ہے کہ نام شیخ الکل اورکرتوت یہ۔ اے شیخ الکل !بھلا آپ انصافاً فرماویں کہ آپ اس جُرم کے مرتکب ہوئے یا نہیں کہ آپ نے کتاب اللہ کے اس حکم کو چھپایاجس کے ظاہر کرنے کے لئے تاکید کی گئی تھی ۔اگر مثلاً عدالت برطانیہ سے اس امر کے دریافت کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوتااوردرحالت اخفائے شہادت قانو نی سزا کی دھمکی بھی دی جاتی توکیا آپ بیان لکھوانے سے انکار کرتے یا یہ کہتے کہ میں نہیں جائوں گا۔بٹالوی شیخ کو لے جائو یا عبدالمجید کی شہادت قلمبند کرلو۔آپ کو عدالت ربانی سے کیوں اس قد راستغناء ہے ہم توآپ کے منہ کودیکھتے دیکھتے تھک بھی گئے ۔آپ ۲۰ اکتوبر کے جلسہ میں بھی آئے توکیاخاک آئے ۔آتے ہی بحث سے انکار کر دیااورحسب منشاء اشتہار قسم کھا نے سے گریز کی اوراخفاء شہاد ت کاکبیر ہ گناہ ناحق اپنے ذمہ لے لیا۔اشتہار ۱۳ربیع الاوّل میں جو آپ کی طر ف سے جاری ہواہے جوا س کی خوب تعر یف لکھی ہے کہ بدیں پیرانہ سالی تما قویٰ نہایت عمدہ ہیں اورہاتھ پیروں کی قوت اورآنکھوں کی بینائی قابل تعریف ہے ۔ہر ایک مرض سے بفضلہ تعالیٰ امن ہے ۔پھر جس حالت میں ایسی عمدہ صحت ہے اور تمام قویٰ تعریف کے لائق ہیں ۔توپھر میں نہیں سمجھ سکتاکہ بحث سے گریز کیوں ہے ۔کیا ناظرین آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں ؟اے شیخ الکل اس خدائے عزوجل سے ڈر جو تیر ے دل کودیکھ رہا ہے ۔جنا ب رسُول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم نے فرمایا ہے ما حاک صدرک فھو ذنبک۔یعنی جوکام تیرا دل اس کے کرنے سے رکتا ہو اوروہی کام توکر بیٹھے تووہ تیر اگناہ ہے ۔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انکار وفات مسیح کے بارے میں اگر آپ کے دل میں ایک قبض نہ ہوتی تو آپ ضرو ر علانیہ بحث کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ۔لیکن یوں توآپ نے گھرمیں لاف وگزاف کے طور پربارہا کہا کہ مسیح ابن مریم بجسدہ العنصری زندہ ہے۔یہی قرآن اوراحادیث سے ثابت ہوتاہے ۔چنانچہ میرے بعض مخلص جو آپ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی آ پ کی ان بے اصل لافوں کاذکر کیا ۔لیکن چونکہ صرف یہ زبان کی فضول باتیں تھیں ۔اورمحض دروغ بے فروغ تھااوردل پر قبض اورنومید ی تھی ۔اس لئے آپ بحث کرنے کے لئے پیش قدمی نہ کرسکے ۔اگر آپ کے ہاتھ میں ثبوت ہوتاتو آپ مجھے کب چھوڑتے ۔میں نے غیرت دلانے والے الفاظ بھی سراسر نیک نیتی سے استعمال کئے اوراب بھی کررہا ہوں مگر آپ کوشر م نہ آئی۔
میں نے یہ بھی لکھ بھیجاکہ حضرت مجھے اجازت دیجئے اوراپنی خاص تحریر سے مجھے اشارہ فرمائیے تو میں آپ ہی کے مکان پر حاضر ہوجائو ںگااورمسلہ حیات ووفات مسیح میں تحریر ی طور پرآپ سے بحث کروں گااورمیں نے یہ بھی وعدہ کیاتھاکہ اگر میں اپنے اس الہام میں غلطی پر نکلا اورآپ نے نصوص صریحہ بیّنہ قطیعہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو کردکھایاتو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعویٰ سے دستبردار ہوجائوں گا۔اپنے قول سے رجو ع کروں گا۔اپنے الہام کو اضغاث احلام قرار دے دوں گااوراپنے ا س مضمون کی کتابوں کوجلا دُوں گا۔اورمیں نے اللہ جلشانہ‘کی قسم بھی کھائی کہ درحالت ثبوت مل جانے کے میں ایساہی کروں گا۔ لیکن اے حضرت شیخ الکل آپ نے میری طرف تو نظراُٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔میں مسافر تھا۔آپ نے میری تکالیف کابھی خیال نہ فرمایا۔میں آپ ہی کے لئے دہلی میں اس مدت تک ٹھیر ارہا۔آپ نے میری طر ف ذرا رُخ نہ کیا۔عوام کو میری تکفیر کافتویٰ سُنا کر فتنہ انگیز ملّائوں کی طرح بھڑکادیا۔مگر اپنے اسلام اور تقویٰ کاتو کوئی نشان نہ دکھلایا۔آپ خوب یاد رکھیں کہ ایک دن عدالت کا دن بھی ہے ۔ان تمام حرکات کااس دن آپ سے مواخذہ ہوگا۔اگرمیں دہلی میں نہ آیاہوتااوراس قدر قسمیں دے کراورعہد پر عہد کرکے آپ سے بحث کامطالبہ نہ کرتاتو شاید آپ کااس انکار میں ایسا بڑا گناہ نہ ہوتا۔لیکن اب تو آپ کے پاس کوئی عذر نہیں ۔اورتمام دہلی کاگناہ آپ ہی کی گردن پر ہے ۔اگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبدالمجید نہ ہوتے تو شاید آپ راہ پر آسکتے ۔لیکن آپکی بدقسمتی سے ہر وقت ان دونوں کی آپ پر نگرانی رہی۔میں تو مسافرہوں ۔ا ب انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی طر ف جائوں گا۔آپ کی برانگیخت سے بہت سے لعن طعن اور گندی گالیاں دہلی والوں سے سُن چکا۔اور آ پ کے ان دونوں رشید شاگردوں نے کوئی دقیقہ لعن طعن کا اُٹھانہ رکھا مگر آپ کو یادر ہے کہ آپ نے اپنے خداداد علم پر عمل نہیں کیااورحق کو چھپایااورتقویٰ کی راہ کو باالکل چھوڑ دیا۔انسان اگر تقویٰ کی راہوں کوچھوڑ دے تو وہ چیز ہی کیا ہے۔مومن کی ساری عظمت اوربزرگی تقویٰ سے ہے ۔شریر آدمی چالاکی سے جو کچھ چاہتاہے بغیر کسی قطعی ثبوت کے مُنہ پر لاتاہے ۔مگرعادل حقیقی کہتاہے کہ اے عمداًکجی کے اختیا کرنے والے آخر مرنے کے بعد تومیری ہی طر ف آئے گااورمیں تیرے ساتھ کوئی دوسراحمایتی نہیں دیکھتا۔تیر ی باتوں کاثبوت تجھ سے پوچھاجائے گا۔سو اے شیخ الکل اس دن سے ڈر جس دن ہاتھ اورپیر گواہی دیںگے ۔اوردل کے خیال مخفی نہیں رہیں گے۔اے غافل مغرور توکیوں اپنے رب کریم سے نہیں ڈرتا۔تیرے پاس مسیح ابن مریم کے بجسدہ العنصری اُٹھائے جانے کاکون سا ثبوت ہے تو کیوں اسے پیش نہیں کرتا۔ہائے تو اپنے دل کی حالت کو کیوں چھپاتاہے ۔اے شیخ سفر نذدیک ہے ۔میں محض نیک نیتی سے اوراخلاص سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ کہتاہوں ۔میراخدا اس وقت مجھے دیکھ رہاہے اور سُن رہا ہے اورمیرے دل پر نظر ڈال رہاہے ۔بخدا میرے پر ثابت ہوچکاہے کہ آ پ نے محض مولویانہ ننگ وناموس کی وجہ سے سچی گواہی نہیں دی اورباطل سے دوستی کی اورحق سے دشمنی۔اورآپ نے دہلی والوں کو حق پوشی کی وجہ سے بے باک کردیا۔یہاں تک کہ بعض نے تمسخر اورٹھٹھے کی راہ سے میرے مقابلہ پر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیااورچند اشتہارات شائع کردئیے ۔جن میں سے بعض کے اندر حد سے زیادہ آپ کی تعریف تھی جس پر نظر ڈالنے سے قوی شک گزرتاتھاکہ وہ اشتہارات آپ ہی کے اشارہ سے لکھے گئے ہیں ۔ان اشتہاروں میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ اوباشانہ باتوں سے نوراللہ کومنطفی کردیاجائے ۔مگر یہ کوشش کچھ نئی نہیں ۔قدیم سے یہ دستو رہے کہ جو لوگ حق کے دشمن ہیں وہ سچائی کے نوروں کو بجھانے کے لئے ہرایک قسم کے مکر کیا کرتے ہیں ۔آخر حق ظاہر ہوجاتاہے ۔اوروہ کراہت ہی کرتے رہ جاتے ہیں ۔انسان کااپنا تراشا ہواکام نہیں چل سکتا۔بلکہ ایسی جماعت جلد متفرق ہوجاتی ہے ۔لیکن جوسلسلہ آسمان اورزمین کے بنانے والے کی طر ف سے ہوتاہے کوئی ہے جو اس کو نابود کرسکے؟ سواے شیخ الکل ! توکیوں تیز تلوار پر ہاتھ مار رہاہے ۔کیا تجھے اپنے ہاتھ کااندیشہ نہیں ۔خداتجھے دیکھ رہاہے ۔اگرچہ تو اسے نہیں دیکھتا۔اپنے علم سے بڑھ کر کیوں دلیری کرتاہے ۔کچھ خو ف کر لمقت اللّٰہ اکبر من مقتکم ۔
اے ٹھٹھا کرنے والو ! اور تمسخر سے افتراء کرنے والو !اوربے باکی سے کہنے والو !کہ مسیح موعود تو ہم ہیں کہ ا بھی سے آسمان سے فتح گڑھ کی چھت پر اُترے ہیں ۔اگرچہ تم اپنے اس امن اورصحت اورجوانی اورغفلت کی حالت میں کب ڈرو گے ۔مگرمیں پھر بھی کہتاہوں کہ اس خد اسے ڈروجو ایک دم میں خوشی کرنے والوں کوغمگین بنا سکتاہے ۔اورراحتوںکو رنجوں کے ساتھ بدل سکتاہے ۔کیا انسان اس کے ہاتھ میں نہیں ۔اے دہلی تجھ پر افسوس ۔تو نے اپنا اچھا نمونہ نہیں دکھلایا۔اے مسلمانوں کی ذریّت یاد کروکہ اسلام کیا شئے ہے ۔ڈرو کہ اللہ جلشانہ ‘بے نیاز ہے۔یقینایادرکھو کہ جواس کی طر ف سے ٹھہر چکا ہے ۔وہ انسان کے منصوبوں سے باطل نہیں ہوسکتا۔اے دہلی والو! تُم اس زمین میں رہتے ہوجس میں بہت سے راست باز سوئے ہیں ۔شرم کرو کہ تمھارے اوپر خداہے اورتمھارے نیچے راستباز ہیں جو خا ک میں ملے پڑے ہیں ۔وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِ لٰی اللّٰہ ِ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌبِالعِبَادِ۔والسَّلام علیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصطْفیٰ۔
اَلنَّاصِحُ عَبْدُاللّٰہ الصَّمَد
غلام احمد قادیانی ۔۲۳اکتوبر۱۸۹۱ ؁ء
از مقام دہلی بازار بلیماراں ۔کوٹھی نواب لوہارو
(مطبوعہ مطبع افتخاردہلی)
ضروری اورمفید اعلان
بیقرار اور منتظر شائقین کو جن کے متعاقب استفساری خطوط ہمارے پاس آتے تھے اطلاع دی جاتی ہے کہ ازالہ اوہام تمام وکمال مرتب ہوکر شائع ہوگیاہے۔اس میں ر ب جلیل کے القاء سے علاوہ ان قاطعہ دلائل اورساطعہ حجج کے جوجناب مسیح علیہ السّلام کی وفات کے ثبوت میں بڑے بسط سے لکھے گئے ہیں ۔کلام الٰہی کے بہت سے دقیق مقامات کے مصارف اورحقائق آمیز تفسیریں بھی ثبت کی گئی ہیں ۔مثلاًبہشت میں اللہ جلشانہ‘کے حساب وکتاب لینے کی حقیقت ، معجزات مسیحیہ کی ماہیت وغیر ہ صدہاامور ایسے ہیں جو اللہ جلّشانہ ‘نے اس عاجز پر منکشف کئے ہیں اور جابجا اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں ۔میں نے اتماماً للحۃونصحاًللعباد حضرت مسیح علیہ السّلام کی وفات کے بارے میں ایسی وسعت سے بحث کی ہے کہ اس متعلق قرآن کریم اوراحادیث پرسیربخش اور کافی اطمینان دہ کلام کیاہے۔اورمحض حکیم حمیدتعالیٰ شانہ‘کی تفہیم وتعلیم سے قرآ ن کی تیس۳۰ صریح اوربیّن آیتوں سے حضرت مسیح علیہ السّلام کی کی وفات پراستدلال کیاہے ۔اور اس زمانہ میں اب تک جس قدر دلائل حیات پر مسیح علیہ السّلام کے دئیے گئے ہیں اوردئیے جاتے ہیں ان کو بڑے انصاف اورنیک نیّتی سے بدلائل کتاب وسُنّت توڑاہے ۔اس کتاب میں ایک کافی حصہ الہامی پیشگوئیوں کابھی ہے جو سُنّت اللہ کے موافق صادق اورکاذب کے امتیا ز اورشناخت کاسچا اورکامل آلہ اورمعیا رہیں ۔اگر لوب تحمل کریں تو بہت جلد ہماراصدق اورکذب آفتاب کی طرح ان پر کھُل جائے ۔اس عاجز نے وابستگان زنجیر فلسفہ اورمنطق کی طرح زمانہ کی بے بنیاد خشک اور بے مغز عقلی فلاسفی سے اس بارے میں کا م نہیں لیا اورنہ درحقیقت وہ ا س قابل ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وراء الوراء اسرار اوراُس کے کلام کریم کے اعلیٰ معارف کے حل وانکشاف میں مجرداً بلامددالہام ووحی اس سے اعانت کی توقع رکھی جاسکے بلکہ ہر قسم کے ثبوت کے پیش کرنے میں قرآ ن کریم اوراحادیث صحیحہ کو ہی پیش نظر رکھاہے ۔چنانچہ ازالہ اوہام کو پڑھ کرہمارے اس بیان کی بخوبی تصدیق ہوسکتی ہے ۔
نیز اس کتاب میں اپنے مسیح موعود ہونے کاثبوت دلائل شافیہ اوربراھین کافیہ سے دیاہے جسے پڑھ کرہر طالب حق اوررموز کلام الٰہی اورانبیاء علیہم السّلام کے کلمات کے اسرار کابصیرپورااطمینا ن حاصل کرسکتاہے ۔یہ وہی کتاب ہے جس کی نسبت لکھاگیا تھاکہ اس کے طبع اورپھر بغورمطالعہ کرنے کے بغیر کوئی شخص اس عاجز کی نسبت رد وتردید میں جرأت نہ کرے ۔مگر عجول انسان افسوس ادنیٰ تحریک پر قابو سے نکل جاتاہے اورپھر جزیات نفسانیہ پر غلبہ پانے کی اس میں مقدرت نہیں رہتی۔بڑی بڑی بردباری کے دعوے کرنے والے مولویوں اورفقیہوں نے عجلت مزاجی کی راہ سے تیغ زبان اورشمشیر قلم کے جوہر دکھائے جنہیں آخر اس عظیم الشان کتاب نے اپنی تمام قوت دلائل سے پست اورذلیل کیا۔وہ لوگ جن میں سچاتقویٰ اورخشیۃ اللہ ہوتاہے بے جانے بوجھے کسی بھاری بات کی نسبت اپنی زبان نہیں کھولا کرتے ۔انہیں ہمیشہ اس بات کادھڑکا لگارہتاہے کہ اس گوشت کے ٹکڑے (ز بان)کی سب کاروائی کی سخت باز پُرس ہوگی ۔
اے ناظرین ! میں تمھیںہمدردی اورخیرخواہی سے کہتاہوں ایک دفعہ تمام وکمال میری اس کتاب کو پڑ ھ جائو یقین سمجھو کہ تمھیں اس میں نور ہدایت اورحق کا راستہ ملے گا۔یہ کتاب قریب ساٹھ جزو کے بڑی صفائی سے طبع ہوئی ہے اوردوحصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔جن کی قیمت فقط۳ بِلامحصول ڈاک ہے ۔یہ کتاب س عاجز اورپنجاب پریس سیالکوٹ سے درخواست کرنے پر بصیغہ وی پی منگوائی جاسکتی ہے ۔اس وقت دھلی والوں کو اس کالین آسان ہے ۔کیونکہ یہاں میرے پاس کسی قد رنسخے موجود ہیں۔
(یہ اشتہار ۲۰×۸۲۶ کے ۱۶صفحات پرہے )
(۶۴)
بِسم اﷲ الرحمٰن الرّحیم ط
نَحمدہ‘ونصلّے
ربّنا افتحبینناوبین قومنابالحق وانت خیرالفاتحینط
اشتہار واجب الاظہار جس میں مولوی محمد اسحاق صاحب کو حضرت مسیح ابن مریم کی حیات ووفات کے بارے میں بحث کے لئے دعوت کی گئی ہے
واضح ہوکہ کل ۳۰اکتوبر ۱۸۹۱؁ء کومولوی محمد اسحاق صاحب اس عاجز کے مکان(فرودگاہ)میں تشریف لائے ۔اورایک جلسہ عام میں حضرت مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں مولوی صاحب موصوف نے گفتگو کی ۔اوریہ بھی فرمایاکہ اس قد رتوہم بھی مانتے ہیں کہ بعض احادیث میں لکھاہے کہ حضر ت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہوگئے تھے ۔مگر ہمیشہ کے لئے نہیں ۔بلکہ وہ پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے تھے ۔اورپھر کسی وقت زمین پر اُتریں گے اورپینتالیس برس تک زمین پر بسر کرکے پھر دوبارہ مریںگے یعنی دوموتیں ان پر ضرور وارد ہوںگی ۔اس پر مولوی صاحب کو ایک مبسوط تقریر میں سمجھایاگیاکہ حضر ت مسیح کی دوموتیں قرآن کریم اوراحادیث سے ثابت نہیں ہوتیں ۔بلکہ وہ ایک ہی دفعہ مرکر خداتعالیٰ کی طرف انتقال کرگئے اورفوت شدہ انبیاء میں جاملے اوردوبارہ دنیا میں وہ نہیں آسکتے۔کیونکہ اگردوبارہ دنیا میں آویں توپھریہ دعویٰ قرآن کریم کے مخالف ہوگااورکئی دلائل سے اُ نکو سمجھایاگیاکہ حضرت عیسیٰ ؑحقیقت میں فوت ہوچکے ہیں۔اب دوبارہ دنیا میں ان کاآنا تجویز کرناگویاقرآ ن کریم اوراحادیث نبویہ کو چھوڑ دیناہے لیکن مولوی صاحب یاتواُن دلائل کو سمجھ نہیں سکے یاعمداً حق پوشی کی راہ سے اس کی مخالف اشاعت کرن انہو ں نے اپنی دنیوی مصلحت قراردے دیاہوگا۔چنانچہ سُناگیا ہے کہ ان کے بعض دوستوں نے عام طور پر شہر پٹیالہ میں شائع کر دیا کہ کہ گویا مولوی صاحب اپنی اُس تقریر میںجو اس عاجز سے کی تھی فتحیاب ہوئے ۔چونکہ معلوم ہوتاہے کہ اس خلاف واقعہ تقریرکاپٹیالہ کی عوام پر بد اثر پڑے گااورشاید وہ اس مفتریانہ تقریر کوسُن کر یہ سمجھ بیٹھے ہوں گے کہ درحقیقت مولوی صاحب نے فتح پالی ہے ۔لہذامولوی محمد اسحاق صاحب کومخاطب کرکے اشتہار ہذا شائع کیا جاتاہے کہ ہریک خاص وعام کو اطلاع رہے کہ جو بیان مولوی صاحب کی طر ف سے شائع ہواہے وہ محض غلط ہے۔حق بات یہ ہے کہ ۳۰ اکتوبرکی تقریر میں مولوی صاحب ہی مغلوب تھے اورہمارے شافی وکافی دلائل کا مولوی صاحب ایک ذرا جواب نہیں دے سکے۔اگر ہمارا یہ بیان مولوی صاحب کے نذدیک خلاف واقعہ ہے تو مولوی صاحب پر فرض ہے کہ اشتہار کے شائع ہونے کے بعدایک جلسہ بحث مقرر کرکے اس مسئلہ حیات ووفا ت مسیح میں اس عاجز سے بحث سے کرلیں ۔اوراگربحث نہ کریں توپھر ہریک منصف کو سمجھناچاہیئے کہ وہ گریز کرگئے ۔شرائط بحث بہ تفصیل ذیل ہوں گے۔
(۱)حیات ووفات مسیح ابن مریم کے بارے میں بحث ہوگی (۲)بحث تحریری ہوگی یعنی دوکاتب ہماری طر ف سے اوردوکاتب مولوی صاحب کی طر ف سے اپنی اپنی نوبت پر بیانات قلم بند کرتے جائیںگے ۔اور ہر یک فریق ایک ایک نقل دستخطی اپنے فریق ثانی کودے گا۔پرچے بحث کے تین ہوں گے ۔مولوی صاحب کی طر ف سے بوجہ مدعی حیات ہونے کے پہلا پر چہ ہوگا۔پھر ہماری طرف سے جواب ہوگا۔تحریر بحث سے یہ فائدہ ہوتاہے کہ فریقین کے بیانات محفوظ رہتے ہیں اوردُور دست غائبین کو بھی ان پر رائے لگانے کاموقع مل سکتاہے اورکسی کویہ یارہ نہیں ہوتاکہ خارج از بحث یارطب دیابس کوزبان پر لاسکے ۔پبلک اس بات کوسُن رکھے کہ ہم اس اشتہار کے بعد ۲نومبر۱۸۹۱؁ء کے ۱۲بجے دن تک مولوی صاحب کے جواب اورشروع بحث کاانتظار کریں گے جس طر ح دہلی میں مولوی سیّد نذیر حسین کو اشتہار ۷اکتوبر۱۸۹۱ء میں قسم دی گئی تھی وہی قسم آپ کو دی جاتی ہے ۔امیدہے کہ آپ بحث سے ہر گز احتراز نہ کریں گے ۔
المشتھر
خاکسار میرزا غلام احمدؐقادیانی داردحال پٹیالہ
مکان شیخ فضل کریم صاحب سررشتہ محکمہ اڈیشنل جج ۔المرقوم ۳۱اکتوبر۱۸۹۱؁ء
واضح ہو کہ میری کتاب ازالہ اوہام یہاں پٹیالہ میں میر ناصرنواب صاحب نقشہ نویس محکمہ نہر سرہند سے مل سکتی ہے ۔
(یہ اشتہار ۱۸*۲۲/۴کے ایک صفحہ پر ہے )
(۶۵)
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
الحمدللّہ والسَّلام علی عبادہ الّذین اصطفیٰ
اشتہار٭ دعوتِ حق
امابعد چونکہ اکثریہ عاجز سنتاہے کہ لودیانہ کے بعض مولوی صاحبان جیسے مولوی عبداللہ صاحب ۔مولوی محمد صاحب ۔مولوی عبدالعزیز صاحب ۔مولوی مشتاق احمد صاحب ۔مولوین شاہدین صاحب اس مسئلہ میںاس عاجز سے مخالف ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السّلام فوت ہوگئے ہیں اورآنے والا مسیح جس کی خبردی گئی ہے درحقیقت مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ مثالی اورظلّی طورپرمسیح ابن مریم کے رنگ میں ہے اورایسی اس سے رُوحانی طور پرمناسبت ومشابہت رکھتاہے کہ گویا وہی ہے ۔اور اس عاجز نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض مولوی صاحبان موصوفین اکثر اوقات منبر پر کھڑے ہوکربلند آواز سے یہ کہتے ہیں کہ مدعی اس مسئلہ کاہم سے بحث کرے۔ہم بحث کے لئے طیارہیں ۔لیکن افسوس کہ تحریری بحث کو جس میں ہرطرح سے امن ہے اورنیز جس میں کیفیت بحث پرغور کرنے کے لئے ہریک کو حاضرین وغائبین میں سے کامل طور پر موقع مل سکتاہے قبول نہیں کرتے ۔نا چار ایک اور طریق سہل وآسان تجویز کرکے اشتہارتجویز کرکے اشتہار ھذ اشائع کیاجاتاہے ۔
لیکن قبل اس کے کہ ہم وہ طریق لکھیں ۔پہلے اس بات کو ظاہر کرناضروری ہے کہ سب سے اوّل بحث کرنے کاحق مولوی عبدالعزیز صاحب کوہے کیونکہ وہ شہر کے مفتی اوراکثرلوگوں کے پیشوااورمقتداء ہیں جو بار بار جامع مسجد میں برسر منبر اعلان بھی دے چکے ہیں کہ ہم بحث کو تیار ہیں کیوں ہم سے بحث نہیں کرتے ۔اوردرحقیقت ان سے بحث کرنا نہایت ضروری بھی ہے کیونکہ خاص شہر لودیانہ کی نظر انہیں پر ہے ۔سو یہ عاجز بمقابل ان کے بحث کے لئے تیارہے ۔اب ان کے مریدوں اور معانوں کو بھی مناسب بلکہ عین فرض ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو بحث کے لئے آمادہ کریں اوراگرکسی کمزوری کی وجہ سے وہ گریز کریں تواس گریز سے ان کی اندرونی حالت اورعلمی کمالات کا اندازہ اہلِ بصیرت خود ہی کرلیں گے۔ہماری طر ف سے مولوی صاحب موصوف کو بحالت ان کے عاجز رہ جانے کے یہ بھی اجاز ت ہے کہ اگر آپ بحث کرنے کاحوصلہ نہ دیکھیں تواپنے برادرحقیقی مولوی محمد صاحب سے بحث کرنے کے لئے منّت کریں۔اوراگر وہ بھی بوجہ اپنی کسی حالت ناچاری کے جس کو وہ خوب سمجھتے ہوں گے جواب دے دیں ۔توپھراپنے دوسرے بھائی مولوی عبداللہ صاحب کی خدمت میں التجا لے جائیں ۔اوراگروہ بھی نہ مانیں توپھر حالت لاچاری مولوی مشتاق احمدصاحب مدرس ہائی سکول کی خدمت میں دوڑیں ۔اوران سے اس سختی کے وقت میں دستگیرچاہیں اوراگر وہ بھی صاف جواب دے دیں اوروقت پر کام نہ آویں توپھر پھر قریب قریب یقین کے ہے کہ درجہ دوم کے مفتی صاحب یعنی مولوی شاہدین صاحب ایسے اضطراب کی حالت میں ضرور کام آئیں گے اوران کو اپنی منطق اوردست معلومات کودعویٰ بھی بہت ہے ۔اوراگر وہ بھی گریز کرجائیں توپھر استاد طائفہ مولوی رشید احمدصاحب گنگوہی کی خدمت میں مولوی شاہدین صاحب سے درخواست کرادیں ۔اوراگروہ بھی خاموش رہیں توپھر موحدین کے گروہ میں سے اس شہر میں چیدہ وبرگزیدہ حضرت مولوی محمد حسن صاحب رئیس صاحب رئیس اعظم لودیانہ ہیں کہ جو درحقیقت علاوہ کمالات علمی بڑے نیک اخلاق کے آدمی ہیں اورنیک نیت اوربردبار اورحلیم الطبع شخص ہیں ۔ان کی طر ف سب کورجوع کرنا چاہیئے۔اوران کو اختیار ہوگاکہ چاہیں توبذات خود بحث کریں اورچاہیں تواپنی طرف سے مولوی محمدابو سعید محمدحسین صاحب کوبحث کے لئے مقرر کردیں ۔لیکن اس وقت اگروہ بھی جواب دے دیں توآیندہ سب کے لئے مناسب ہے کہ غائبانہ طورپر بدزبانی اور غیبت کرکے ناحق اپنے تئیں عنداللہ قابل مواخذہ نہـ ٹھیرادیں َ
اب بحث کاآسان طریق جس کا اوپر ذکر کر آئیں ہیں ۔یہ ہے جوشرائط ذیل میں مندرج ہے ۔
(۱)یہ کہ کسی رئیس کامکان اس بحث کیلئے تجویز ہوجیسے نواب علی محمد خان صاحب شہزادہ نادر شاہ صاحب ،خواجہ احسن شاہ صاحب اور جلسہ بحث میں کوئی افسر یورپین تشریف لاویں اور چند دیسی پولس مین بھی ہوں ۔اوراگریورپین افسر نہ ہوں توکوئی ہندو مجسٹریٹ ہی ہوں تاایساشخص کسی کاطرفدار نہ ہو۔
(۲)یہ کہ فریقین کے سوال وجواب لکھنے کے لئے کوئی ہندومنشی تجویز کیاجائے جو خوشخط ہوایک فریق اول اپنا سوال مفصل طور پر اس کاجواب لکھادیوے۔چند سوال میں فریق ثانی سائل ہواوریہ عاجز مجیب اورپھر چند سوال میں یہ عاجز سائل اورفریق ثانی مجیب ہو۔اورہر ایک فریق کو ایک گھنٹہ یاآدھ گھنٹہ تک تحریر کااختیارہو۔سوال وجواب کی تعداد برابر ہواورہمیں وہی تعداد اسی قدروقت منظورہے جو فریق ثانی منظورکرے ۔
(۳)سوال وجواب میں خلط مبحث نہ ہواورنہ کوئی خارجی نکتہ چینی اورغیر متعلق امر ان میں پایاجائے ۔اگرکوئی ایسی تقریر ہوتووہ ہرگزنہ لکھی جائے بلکہ اس بیجابات سے ایسی بات کرنے والا موردالزام ٹھیرایاجائے ۔
(۴)ان سوالات وجوابات کے قلمبند ہونے کے بعد پھر دوبارہ عوام کو وہ سب باتیں سنا دی جائیں اوروہی لکھنے والاسُنادیوے ۔اوراگریہ منظورنہ ہوتو فریقین میں سے ہریک شخص اپنے ہاتھ میں پرچہ لے کر سُنادیوے۔
(۵)ہرایک فریق ایک ایک نقل اس تحریر کی اپنے دستخط سے اپنے مخالف کودے دیوے ۔
(۶)آٹھ بجے سے دس بجے تک یہ جلسہ بحث ہوسکتاہے۔اگر اس سے زیادہ چاہیں تووہ منظورہے ۔مگربہرحال نمازظہرکے وقت یہ جلسہ ختم ہوجاناچاہئیے۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اورمولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو اختیار ہے کہ وہ بطورخود اس جلسہ میں تشریف لاویں ۔اوراگردوسرے ا ن کی وکالت کو منظور کریں ۔تو وہی بحث کے لئے آگے قدم آگے بڑھاویں ۔ہمیں بہرحال منظور ہے ۔
اور تحریر کی اس لئے ضرورت ہے کہ تابیانات فریقین تحریف سے محفوظ رہیں۔اوراس قدر مغز خوری کے بعد اظہار حق کی کوئی سند اپنے پاس ہو۔ورنہ اگرنری زبانی باتیں ہوں اورپیچھے سے خیانت پیشہ لوگ کچھ کاکچھ بنادیں توان کامنہ بند کرنے کے لئے کون سی حجت یاسند ہمارے پاس ہوگی ۔والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
واضح ہوکہ یہ جلسہ بحث عید کے دوسرے دن قرارپانا چاہیئے تابوجہ تعطیل کے ملازمت پیشہ لوگ بھی حاضر ہوسکیں اوردُورسے آنیوالے بھی پہنچ سکیں یاجیسے مولوی صاحبان تجویز کریں ۔
المشتھر
خاکسارمیرزاغلام احمد ؐلودیانہ ۔محلہ اقبال گنج
۲۳مئی ۹۱ ؁ء
(۶۶)
نقل عبارت اقرارنامہ میرزاغلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونصلے
یہ خط ٭جوجماعت مسلمانان لدھیانہ وغیرہ نے لکھا ہے میں نے اوّل سے آخر تک پڑھامجھے ہر طرح منظور ومقبول ہے کہ الٰہ بخش صاحب تونسری سنگھڑی یامولوی رشید احمدؐ گنگوہی یانظام الدین صاحب بریلوی یا مولوی سید محم نذیر حسین صاحب دہلوی یاغلام فرید صاحب چاچڑانوالہ ظاہری وباطنی طورپر بحث کرنے کے لئے تشریف لاویں مجھے تحریری وز بانی طور پر بحث منظور ہے ۔کچھذ عذرنہیں اوربا طنی
طورپر مقابلہ کرنا خود میرامنشاہ ہے کیونکہ میں یقینی جانتاہوں کہ خداوندقدیرمیرے
ساتھ ہے ۔وہ ہریک راہ میں میری مدد کرے گا۔غرض میں بلا عذرہر طرح سے حاضرہوں ۔اورمباحثہ لاہور میں ہوکہ وہ مقام صدرہے اوررئیس لاہور امن وغیرہ کے ذمہ دار ہوگئے ہیں ۔
راقم
میرزاغلام احمد قادیانی بقلم خود
۲۳اگست ۱۸۹۱ء مطابق ۱۷محرم الحرام محلہ اقبال گنج ۔لودھیانہ
(مطبوعہ ریاض ہندوپریس امرتسر)
(منقول ازضمیمہ اخبار دریاض ہندو امرتسر مورخہ ۲۴اگست ۱۸۹۱ء؁صفحہ ۴)
(۶۷)
اے شک کرنیوالو آسمانی فیصلہ کی طر ف آجائو
اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو!خدتعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے غیظ اورغضب میں آکرحد سے مت بڑھو۔میری اس کتاب کے دونوں حصوںکو غور سے پڑھوان میں نوراورہدایت ہے ۔خداتعالیٰ سے ڈرو اوراپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو ۔خداتعالیٰ خوب جانتاہے کہ میں ایک مسلمان ہو ں اٰمنت باللہ وملائکتہٖ وکٰتبہٖ ورسلہ والبعث بعد الموت واشھد ان لاالٰہ الااللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ واشھدانّ محمّدًاعبدہٗ ورسولہ فاتقواللّٰہ ولاتقولوالست مسلماً اتقوالملک الّذی الیہ ترجعون ۔اوراگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آئو آزمالو۔خدا کس کے ساتھ ہے ۔اے میرے مخالف الرائے مولویو اورصوفیواورسجادہ نشینو!!!جو مکفّر اورمکذّب ہومجھے یقین دلایا گیاہے کہ اگر آپ لوب مل جل کریاایک ایک آپ میں سے ان آسمانی نشانوں میں میرامقابلہ کر ناچاہیں جو اولیاء الرحمن کے لازم حا ل ہوا کرتے ہیں تو خداتعالیٰ تمھیں شرمندہ کرے گااورتمھارے پردوں کوپھاڑدے گا۔اوراس وقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے۔کیاکوئی تم میں ہے کہ اس آزمایش کیلئے میدان میں آوے ۔اورعام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دے کر ان تعلقات قبولیت میں جومیرارب میرے ساتھ رکھتاہے اپنے تعلقات کاموازنہ کرے ۔یاد رکھو کی خداصادقوں کامددگار ہے ۔وہ اسی کی مدد کرے گاجس کو وہ سچا جانتاہے ۔چالاکیوںسے باز آجائو کہ وہ نزدیک ہے کیاتم اس سے لڑو گے کیاکوئی متکبرانہ اُچھلنے سے درحقیقت اُونچاہوسکتاہے ۔کیاصرف زبانوں کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے ۔اس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضبوں سے بڑھ کرہے ۔
ومن یأت ربّہٗ مجرماًفانّ لہ جھنم لایموت فیھاولایحیٰ۔
الناصح
خاکسار غلام احمدؐقادیانی
ازلودھیانہ محلہ اقبال گنج
(یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ اوّل مطبوعہ ریاض ہندپریس امرت سرکے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پرہے )
(۶۸)
توفی کے لفظ کی نسبت نیزالدجال کے بارے میں ھزار ۱۰۰۰روپیہ کااشتہار
تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآ ن کریم اورحدیث رسول ؐ سے ثابت ہوگیاہے کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریمؑ برطبق آیت فیہادتحیون وفیہاتموتون زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے بسر کرکے فوت ہوچکے ہیں اورقرآن کریم کی سولہ آیتوں اوربہت سی حدیثوںبخاری اورمسلم اوردیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شد ہ لوگ پھر آباد ہونے اوربسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اورنہ حقیقی اورواقعی طور پر دوموتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اورنہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے ۔بایں ہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پر سخت غلوہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوابلکہ زندہ ہی آسمان کی طر ف اُٹھایاگیااورحیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پرموجود ہے اورنہایت بیباکی اورشوخی کی راہ سے کہتے ہیںکہ توفّی کالفظ جو قرآ ن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیاہے اس کے معنے وفات دینانہیں ہے بلکہ پورا لیناہے یعنی یہ کہ رُوح کے ساتھ جسم کوبھی لے لینا۔مگرایسے معنے کرناان کاسراسر افتراء ہے ۔قرآ ن کریم عموماًالتزا م کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض رُوح اوروفات دینے کے معنوں پر ہریک جگہ اس کو استعمال کرتاہے۔یہی محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض رُوح اوروفات دینے کے معنوں پر ہریک جگہ اس کو استعمال کرتاہے ۔یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ ﷺ میں پایا جاتاہے ۔جب سے دنیامیں عرب کاجزیرہ آبادہواہے اورزبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یاجدیدسے ثابت نہیں ہوتاکہ توفی کالفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیاگیاہے وہ صرف وفات دینے اور قبض رُوح کے معنی پرآیاہے نہ قبض جسم کے معنوں میں کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیںکوئی مثل اورقول اہل زبان کااس کے مغائر نہیں ۔غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں ۔اگرکوئی شخص قرآن کریم سے یاکسی حدیث رسُول اللہﷺ سے یااشعار وقصائد ونظم ونصر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کالفظ خداتعالیٰ کے فعل ہونے کی حالت میں جوذوی روح کی نسبت استعمال کیاگیاوہ بجز قبض رُوح اوروفات دینے کے کسی اورمعنی پر بھی اطلاق پاگیاہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہواہے تومیں اللہ جلّشانہ ٗکی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتاہوں کہ ایسے شخص کو اپناکوئی حصہ ملکیت کافروخت کرکے مبلغ ہزارروپے نقد دوں گااورآئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اورقرآن دانی کااقرار کرلوں گا۔ایساہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یاان کاکوئی ہم خیال یہ ثابت کردیوے کہ الدّجال کالفظ جوبخاری اورمسلم میں آیاہے بجُز دجال معہود کے کسی اوردجال کے لئے بھی استعمال کیاگیاہے تومجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہوہزارروپیہ نقد بطورتاوان کے دوں گا۔چاہیں تومجھ سے رجسٹری کروالیں یاتمسک لکھالیں ۔اس اشتہار کے مخاطب خاص طورپر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غروراورتکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ توفی کالفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے پورالینے کے ہیں یعنی جسم اورروح کوبہ ہیئت کذائی زندہ ہی اُٹھالینا۔اوروجود مرکب جسم اوررُوح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑنابلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اورصحیح سلامت لے لینا۔سو اسی معنی سے انکار کرکے یہ شرطی اشتہارہے ۔ایساہی محض نفسانیت اورعدم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے الدجال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اورمسلم میں جابجادجال معہود کاایک نام ٹھہرایاگیاہے یہ دعویٰ کردیاہے کہ الدجال دجال معہود کاخاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اوراس دعوے کے وقت اپنی حدیث دانی کابھی ایک لمباچوڑادعویٰ کیاہے ۔سواس وسیع معنے الد جال سے انکار کرکے اوریہ دعویٰ کرکے کہ یہ لفظ الدجال کاصرف دجال معہود کے لئے آیاہے اوربطورعلم کے اس کے لئے مقررہوگیاہے یہ شرعی اشتہار جاری کیاگیاہے۔مولوی محمد حسین صاحب اوران کے ہمخیال علماء نے لفظ توفی اورالدّجال کی نسبت اپنے دعویٰ متذکرہ بالاکو بپایہ ثبوت پہنچادیاتووہ ہزار روپیہ لینے کے مستحق ٹھہری گے اورنیزعام طورپر یہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کردے گادرحقیقت مولوی محمد حسین صاحب اوران کے ہمخیال فاضل اور واقعی طور پر محدّث اورمفسّر اوررموز اوردقائق قرآن کریم اوراحادیث نبویّہ کے سمجھنے والے ہیں ۔اگرثا بت نہ کرسکے توپھریہ ثابت ہوجائے گاکہ یہ لوگ دقایق وحقایق بلکہ سطحی معنوں قرآن اورحدیث کے سمجھنے سے بھی قاصر اورسراسرغبی اوربلید ہیں ۔اوردرپردہ اللہ اوررسول کے دشمن ہیں کہ محض الحاد کی راہ سے واقعی اورحقیقی معنوں کو ترک کرکے اپنے گھرکے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں ۔ایساہی اگرکوئی یہ ثابت کردکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اوراحادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیںکہ کوئی مُردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گاقطیعتہ الدلالت نہیں اورنیز بجائے لفظ موت کے اورامانت کے جو متعدد المعنے ٰہے اورنیند اوربیہوشی اورکفر اورضلالت اورقریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیاہے توفی کالفظ کہیں دکھلادے مثلاً یہ کہ توفاہ اللہ مائۃعامٍ ثم بعثہ توایسے شخص کوبھی بلاتوقف ہزارروپیہ نقد دیاجائے گا۔٭
المشتھر
خاکسار میرزا غلام احمدؐ از لودھیانہ ۔محلہ اقبال گنج
(یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم باراول مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سرکے صفحہ ۹۱۷پرہے)
(۶۹)
عالی ہمت دوستوں کی خدمت میں گزارش
چونکہ طبع کتاب ازالہ اوہام میں معمول سے زیادہ مصارف ہوگئے ہیں اورمالک مطبع اورکاتب کاحساب بے باق کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے۔لہذابخدمت جمیع مخلص دوستوں سے التما س ہے کہ حتٰی الوسع اس کتاب کی خریداری سے بہت جلد مدد دیں ۔جو صاحب چند نسخے خرید سکتے ہیں وہ بجائے ایک کے اس قدرنسخے خریدلیں جس سے قدران کو خریدنے کی خداداد مقدرت حاصل ہے اوراس جگہ اخویم مکرم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سوروپے کے جوپہلا بھیجاتھااب تک ایک سوروپیہ اوربھیج دیا۔نہایت خوشی کی بات ہے کہ حکیم فضل دین صاحب اپنے مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئے ہیں کہ نہایت اولی العزمی سے ایثار کے طورپراُن سے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ صادرہوتے ہیں ۔چنانچہ یہ سوروپیہ بعض زیورات کی فروخت سے محض ابتغاء ًلمرضات اللہ بھیجاہے ۔جزاہم اللہ خیرالجزاء۔
اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظارم حیدرآباد دکن بھی ذکر کے لائق ہیں ۔مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرانام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیاجاوے چنانچہ داخل کیاگیا۔ان کی تحریرات سے نہایت محبت واخلاص پایاجاتاہے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمرمیں سے آپ کے نام لگا دیئے ہیں ۔خداتعالیٰ میری عمر میں سے کاٹ کر آپ کی عمر میں شامل کردے ۔سوخداتعالیٰ نے اس ایثار کی جزاان کو یہ بخشے کہ ان کی عمر دراز کرے ۔انہوں نے اوراخویم مولوی ظہور علی صاحب اورمولوی غضنفرعلی صاحب نے نہایت اخلاص سے دس دس روپیہ ماہواری چندہ قبول کیا ہے اوربہتر روپیہ امداد کے لئے بھیجے ہیں ۔جزاہم اللہ خیر الجزاء والصلوۃ والسلام علیٰ نبیّناومولانامحمد وآلہ واصحابہ وجمیع عباداللہ الصالحین
راقم خاکسار غلام احمد ؐ ازلودیانہ محلہ اقبال گنج
(یہ اشتہارازالہ واوہام حصہ دوم بار اول مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۹۴۴پرہے )
(۷۰)
اشتھار
نورالابصار صداقت آثار عیسائی صاحبوں کی ہدایت کے لئے
یاایّہاالمتضّرون ماکان عیسیٰ الّاعَبدمن عباداللہ قدمات ودخل فی الموتیٰ فلا تحسبوہ حیّابل ھومیّتٌولاتعبدو وامیتاً وانتم تعلمون
اے حضرات عیسائی صاحبان آپ لوگ اگر غورسے اس کتا ب ازالہ اوہام کو پڑھیں گے توآپ پر نہایت واضح دلائل کے ساتھ کھُل جائے گاکہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب زندہ موجود نہیں ہیں بلکہ وہ فوت ہوچکے ہیں اوراپنے فوت شدہ بزرگوں میں جاملے ۔ ہاں وہ روحانی زندگی جو ابرراھیم ؑ کو ملی ، اسحاق ؑ کو ملی ، اوربلحاظ رفع سب سے بڑھ کر ہمارے سیّد ومولیٰ محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم کی بھی ملی ۔اس بات پربائبل سے کوئی دلیل نہیں ملتی کہ مسیح ابن مریم کوکوئی انوکھی زندگی ملی بلکہ اس زندگی کے لوازم میں تما م انبیاء شریک مساوی ہیں ہاں باعتبار رفع کے اقرب الی اللہ مقام ہمارے نبی ﷺ کاہے ۔سوائے حضرات عیسائی صاحبان آپ لوگ اب ناجق کی ضد نہ کریں مسیح عاجز بندہ تھاجو فوت ہوگیااورفوت شدہ لوگوں میں جاملاآپ لوگوں کے لئے بہترہے کہ خداتعالیٰ سے ڈریں اور ایک عاجزمخلوق کوخداکہہ کراپنی عاقبت خراب نہ کریں ۔آپ لوگ ذرا سوچیںکہ مسیح اس دوسرے عالم میں اوروں سے کس بات میں زیادہ ہے ۔کیا انجیل اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ ابراھیم ؑزندہ ہے ؟بلکہ لعاذربھی ؟پھرمسیح لعاذرسے اپنی زندگی میں کس بات میں زیادہ ہے ۔اگر آپ لوگ تحقیق سے نوشتوں کودیکھیں توآپ کو اقرار کرناپڑے گاکہ کسی بات میں زیادہ نہیں ۔اگرآپ لوگ اس بارہ میں میرے ساتھ بحث کرنا چاہیں تومجھے اس بات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس بحث میں مغلوب ہونے کی حالت میں حتی الوسع اپنے ہر یک تاوان کو جو آپ لوگ تجویز کریں دینے کو طیار ہوں بلکہ اپنی جان بھی اس راہ میں فداکرنے کو حاضرہوں ۔خداوند کریم نے میرے پر کھول دیاہے کہ درحقیقت عیسیٰ بن مریم فوت ہوگیااور اب فوت شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے ۔سوآئو دین اسلام اختیار کرو۔وہ دین اختیارکرو جس میں حی لایموت کی پرستش ہورہی ہے نہ کسی مُردہ کی ۔جس پر کامل طورپرچلنے سے ہرایک مُحبّ صادق خود مسیح ابن مریم بن سکتاہے ۔والسّلام علے ٰ من اتبع الھدیٰ۔
المشتھر
غلام احمدؐ قادیانی
۳ستمبر۱۸۹۱ ؁ء
(یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم باراول مطبوعہ ریاض ہند امرت سرکے صفحہ ۹۴۶پرہے)
(۷۱)
ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبوں کاحوصلہ
خدائے تعالیٰ نے پورے طور پر جلوۂ قدرت دکھلانے کے لئے ایک ایسے نامی مولوی صاحب سے ہمیں ٹکرادیاجن کی لیاقت علمی جن کی طاقت فہمی جن کی طلافت لسانی جن کی فصاحت بیانی شہرہ ٔ پنجاب وہندوستان ہے ۔اورخدائے حکیم وعلیم کی مصلحت نے اس ناکارہ کے مقابل پر ایسا انہیں جوش بخشا اوراس وجہ سے بدظنی میں انہیں ڈال دیاکہ کوئی دقیقہ بدگمانی اور مخالفانہ حملہ کا انہوں نے اُٹھانہیں رکھاتااس کاوہ امر خارق عادت ظاہر ہو جو اس نے ارادہ کیا ہے ج۔مولوی صاحب نوراللہ بجھانے کے لئے بہت زور سے پھونکیں ماررہے ہیں دیکھئے اب سچ مُچ وہ نور بجھ جاتاہے یا کچھ اورکرشمہ قدرت ظہور میں آتاہے ۔۹اپریل ۱۸۹۱؁ء کے خط میں جوانہوں نے میرے ایک دوست مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے نام بھوپال میں بھیجاتھاعجیب طو رکے فقرات تحقیر کے استعمال کئے ہیں ۔آپ سیّد صاحب موصوف کو لکھتے ہیں کہ آپ اس شخص پر جلدی سے کیوں ایمان لے آئے اس کو ایک دفعہ دیکھ تولیا ہوتا مولوی صاحب نے اس فقرہ اور نیز ایک عربی کے فقرہ سے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ یہ شخص محض نالائق علمی اور عملی لیاقتوں سے بکلی بے بہرہ ہے اورکچھ بھی چیز نہیں اگر تم دیکھو تواس سے نفرت کرو ۔مگر بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اورقسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اور عملی خوبی ذہانت اوردانشمندی کی لیا قت نہیں ۔اورمیں کچھ بھی نہیں ۔ایک غیب میں ہاتھ ہے جو مجھے تھام رہاہے اورایک پوشیدہ دروشنی ہے جو مجھے منور کررہی ہے اورایک آسمانی روح ہے جو مجھے طاقت دے رہی ہے پس جس نے نفرت کرناہے کرے تامولوی صاحب خوش ہوجائیں ۔بخدامیری نظر ایک ہی پر ہے جو میرے ساتھ ہے اورغیراللہ ایک مری ہوئی کیڑی کے برابر بھی میری نظرمیں نہیں۔کیامیرے لئے وہ کافی نہیں جس نے مجھے بھیجاہے میں یقینا جانتاہوں کہ وہ اس تبلیغ کو ضائع نہیں کرے گاجس کو لے کر میں آیا ہوں۔مولوی صاحب جہاں تک ممکن ہے لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے زور لگالیں اورکوئی دقیقہ کوشش کااُٹھا نہ رکھیں ۔اورجیسا کہ وہ اپنے خطوط میں اور اپنے رسالہ میں اوراپنی تقریروں میں باربارظاہر کرچکے ہیں کہ یہ شخـص نادان ہے، جاہل ہے ،گمراہ ہے ،مفتری ہے ،دکاند ار ہے، بیدین ہے ،کافر ہے ،ایساہی کرتے رہیں اورمجھے ذرا مہلت نہ دیں ۔مجھے بھی ا س ذات کی عجیب قدرتوں کے دیکھنے کاشوق ہے جس نے مجھے بھیجاہے ۔لیکن اگرکچھ تعجب ہے تواس بات پرہے کہ باجوداس کے کہ یہ عاجز مولوی صاحب کی نظرمیں جاہل ہے بلکہ خط مذکورہ بالا میں یقینی طورپر مولوی صاحب نے لکھ دیاہے کہ یہ شخص ملہم نہیں یعنے مفتری ہے اوریہ دعویٰ اس عاجز نے کیا ہے مولوی صاحب کی نظرمیں بدیہی البطلان ہے جس کا قرآن وحدیث میں کوئی اثر ونشان نہیں پایاجاتا۔پھر مولوی صاحب پر ڈر اس قد رغالب ہے کہ آپ ہی بحث کے لئے بُلاتے اورآپ ہی کنارہ کرجاتے ہیں ۔ناظرین کو معلوم ہوگاکہ مولوی صاحب نے ایک بڑے کرّوفر سے ۱۲اپریل۱۸۹۱؁ء کو تاربھیج کراس عاجز کوبحث کے لئے بُلایا کہ جلد آئو اورآکر بحث کرو رنہ شکست یافتہ سمجھے جائو گے ۔اس وقت بڑ ی خوشی ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس طرف رُخ کیا اورشوق ہواکہ اب دیکھیں کہ مولوی صاحب حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کاکون ساثبوت پیش کرتے ہیں یا بع موت کے پھر زندہ ہوجانے کاکوئی ثبوت قرآ ن کریم یاحدیث صحیح سے نکالتے ہیں چنانچہ لدھیانہ میں ایک چرچاہوگیاکہ مولوی صاحب نے بحث کے لئے بُلایاہے اورسیالکوٹ میں بھی مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے خط بھیجے کہ ہم نے تار کے ذریعہ سے بُلایاہے ۔لیکن جب اس عاجز کی طر ف سے بحث کے لئے تیاری ہوئی اورمولوی صاحب کوپیغام بھیجا گیاتوآپ نے بحث کرنے سے کنارہ کیااوریہ عذ پیش کردیاکہ جب تک ازالہ اوہام چھپ نہ جائے ہم بحث نہیں کریں گے ۔آپ کو اسوقت یہ خیا ل نہ آیا کہ ہم نے توبُلانے کے لئے تاربھیجی تھی اوریہ بھی ایک خط لکھا تھاکہ ہمیں ازالہ اوہام کے دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔اوریہ بھی بار بارـظاہر کردیاتھاکہ یہ شخـص باطل پرہے ۔اب ازالہ اوہام کی ضرورت کیوں پڑ گئی ۔تار کے ذریعہ سے یہ پیغام پہنچانا کہ آئو ورنہ شکست یافتہ سمجھے جائو گے ۔اورحبی فی اللہ اخویم نوردین صاحب پر ناحق الزام لگاناکہ وہ ہمارے مقابلہ سے بھاگ گئے اورپھر درخواست بحث پر الزام لگانا کہ وہ ہمارے مقابلہ سے بھاگ گئے اورپھر درخواست بحث پر ازالہ اوہام یا دآجاناعجیب انصاف ہے ۔مولوی صاحب دعویٰ اس عاجز کا سن چکے تھے ۔فتح اسلا م اورتوضیح مرام کودیکھ چکے تھے ۔اب صر ف قرآ ن اورحدیث کے ذریعے بحث تھی جس کو مولوی صاحب نے وعدہ کرکے پھر ٹال دیا۔
(یہ اشتہار ازالہ اوہام حصہ دوم باراول مطبوعہ ریاض ہندامرتسرکے صفحہ ۱۴پرہے)
(۷۲)
اطلاع
بعض دوستوں کے خط پہنچے کہ جیسے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی بعد مباحثہ شہر لودیانہ سے حکماً نکالے گئے ہیں ۔یہی حکم اس عاجز کی نسبت ہواہے۔سوواضح رہے کہ یہ افواہ سراسر غلط ہے ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی وحشیانہ طرزبحث کی شامت سے لودھانہ سے شہر بدرکئے گئے۔لیکن اس عاجز کی نسبت کوئی حکم اخراج صاددرنہیں ہوا۔چنانچہ ذیل میں نقل مراسلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادرلدھیانہ لکھی جاتی ہے ۔
ازپیش گاہ مسٹر ڈبلیو چئوس صاحب بہادرڈپٹی کمشن لودھیانہ
میرزاغلا م احمدصاحب رئیس قادیان سلامت ۔چٹھی آپکی مورخہ دیروزہ موصل ملاحظہ وسماعت کے جوابش تحریرہے کہ آپکو بمتابعت وملحوظیت سرکاری لودھیانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقو ق حاصل ہیں جیسے دیگر رعایاتابع قانون سرکار انگریزی کو حاصل ہیں ۔المرقوم۶اگست ۱۸۹۱؁ء
دستخط
صاحب ڈپٹی کمشنربہادر
(یہ اشتہار ازالہ وہام حصہ دوم بار اول مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے ٹائٹل کے صفحہ آخر پرہے )
(۷۳)
میرعبا س علی صاحب لُدھیانوی
چوبشنوی سخن اہل دل مگوکہ خطااست سخن شناس نہ ٔدلبراخطااینجاست
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کاذکربالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰میں بیعت کرنے والو ں کی جماعت میں لکھاہے ۔افسوس کہ وہ بعض موسوسین کہ وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعداء میں داخل ہوگئے۔بعض لو گ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہواتھاکہ اصلہاثا بتٌوفرعہافی السماء ۔اس کاجواب یہ ہے کہ الہام کے صرف اس قدرمعنی ہیں کہ اصل اس کاثابت ہے اورآسمان میں ا س کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتباراپنی اصل فطرت کے کس بات پرثابت ہیں ۔بلاشبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ۶اورمستقل رہتاہے ۔اوراگرایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تووہ فطرتی خوبی کے ساتھ ہی لاتاہے اوراگرپھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اس خوبی کوساتھ ہی لے جاتاہے کیونکہ فطرت اللہ اورخلق اللہ میں تبدّل اورتغیّر نہیں۔افراد نوع انسان مختلف طور کے کانوں کی طرح ہیں ۔کوئی سونے کی کان ، کوئی چاندی کی کان ، کوئی پیتل کی کان ۔پس اس الہام میں میرصاحب کی کسی فطرتی کی خوبی کاذکرہوجوغیر متبدّ ل ہوتوکچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے۔بلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تومسلمان ہیں کفّار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اوربعض اخلاق فطرتاًان کوحاصل ہوتے ہیں ۔خداتعالیٰ نے مجسم ظلمت اورسراسر تاریکی میں کسی چیز کوبھی پید انہیں کیا۔ہاں یہ سچ ہے کہ فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کادوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے ۔موجب نجات اخروی نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خو بی ایمان اورخداشناسی اورراست روی اورخداترسی ہے ۔اگر وہ نہ ہوئی تودوسری خوبیاں ہیچ ہیں ۔علاوہ اس کے یہ الہام اس زمانہ کاہے کہ جب میرصاحب میں ثابت قدمی موجودتھی ۔زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اوراپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا۔سوخداتعالیٰ نے ان کی اس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی۔یہ بات خداتعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبردیتاہے ۔کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اس کانام کافر ہی رکھتاہے اوراس کے مومن اورثابت قدم ہونے کی حالت میں اس کانام مومن اورمخلص اورثابت قدم ہی رکھتاہے ۔خداتعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اوراس میں کچھ شک نہیں کہ میرصاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اورمحبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اورخلو ص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیوں اوررفیقوں اوردوستوں اورمتعلقوں کوبھی اس سلسلہ میں داخل کیااوراس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اورارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے ان کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کرسکتاہے ۔لیکن دوسوکے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کی عجز اورانکسارسے اپنے اخلاص اورارادت کابیان کیاہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پرا ن کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز منجانب اللہ ہے اوراس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں ۔اورنیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اوراس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں ۔ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اوراپنے مریدوں اورمخلصوں کوبتلائیں ۔اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جو ش سے اپنا اخلا ق ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خداتعالیٰ کاالہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں توکیا اس الہام کو خلا ف واقع کہا جائے گا۔بہت سے الہامات صرف موجودہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں ۔عواقب امور سے ان کاکچھ تعلق نہیں ہوتا۔اورنیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سواخاتمہ پر حکم نہیں کرسکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جلّشانہ کے قبضہ میں ہے ۔میر صاحب تومیرصاحب ہیں اگر وہ چاہے تودنیاکے بڑ ے سنگدل اورمختوم القلب آدمی کوایک دم میں حق کی طر ف پھیر سکتاہے ۔غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتاہے۔مآل پر ضروری طورپر اس کی دلالت نہیںہے اورمآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے ۔بہتوں نے راست بازوں کو چھوڑدیا۔اورپکّے دشمن بن گئے ۔مگر بعدمیں پھرکوئی کرشمہ قدرت دیکھ کرپشیمان ہوئے اورزار زار روئے اوراپنے گناہ کااقرار کیا اور رجوع لائے ۔انسان کادل خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔اوراس حکیم مطلق کی آزمائش ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہے ۔سو میر صاحب اپنی پوشیدہ خامی اورنقص کی وجہ سے آزمایش میں پڑ گئے اورپھر اس ابتلاء کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیداہوئی اورپھرقبض سے خشکی اور اجبنیت اور اجبیّت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جبری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاف و توہین پیدا ہو گیا- عبر ت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے- کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہو گا- ملک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے- میرے دوستوں کو چاہیے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشا ء اللہ الکریم دعا کروں گا- میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط البطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوںپر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے- لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجایش نہیں- انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا- یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا، آج اس کی کیا حالت ہے پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قایم رکھے اور لغزش سے بچاوے- اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو- کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہو گا-جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلاء پیش آ گیا تھا- اور خدا یتعالیٰ کا ہاتھ ان کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا- لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب میں حضرت مسیح موعود ؑ کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعا میں بھی وہ نمونہ پر آیا ہوتا- یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو ان کے ہم نوالہ وہم پیالہ تحے جن کی تعریف میں دحی الہٰی بھی نازل ہو گئی تھی- آخر حضرت مسیح سے منحرف ہو گئے تھے یہودااسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دم مارتا جس کو بہشت کے بارھویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی- اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ آسمان کی کنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کر دیں اور جن کو چاہیں نہ کریں - لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور ان کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر *** بھیجتا ہوں- میر ساحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں- کل کی کسی کو کیا خبر ہے کہ کیا ہو - میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ لغزش مقدر تھی اور اصلہاً ثابتٌ کی ضمیر تانیت بھی اس کی طرف اشارہ کر رہی تھی- لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کے حالت کو لغزش میں ڈالا- میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل وقیقہ دین کی کچھ خبر نہیں- حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف وغیرہ نے مفسدادنہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے بر خلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے- میں نے سُنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لَاُ غْوِ یَنَھُمْ اَجْمَعِیْن اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ بخدی کا استشار بھی ان کی کلامم میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے- اگرچہ وہ بعض رو گرو ان اراد تمندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں- مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہوجانے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا- جس ٹہنی کی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے ااور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے - بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا- اور اس آیت پر غور کریں فسوف یاتی اللہ بقومٍ یحبّھم و یحبو نہ ازلّۃ علی المومنین اعذّۃ علی الکٰفرین
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب ۱۲ دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شایع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے- سو ان الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں - جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے - لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے-
اوّل:یہ کہ میرے صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے- سو اس وسوسہ کے دُور کرنے کے لئے میرا یہی اشتہار کافی ہے - بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں-
دوم یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں کہ معجزاب کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدّعی اور انبیاء علیہم السّلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام نے منہ پھیرنے والا- سو ان اوہام کے دُور کرنے کے لئے میں وعدہ کر چکا ہوں کہ عنقریت میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شایع ہو گا- اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بد ظنیوں سے سخت ندامت اُٹھائیں گے-
سوئم یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے- چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا- میں نے کہا تھا کہ ہم دونو کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رُسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرا دی جائے اور یا میںزیارت کرا کر اس بارہ میں فیصلہ کرا دُوں گا- میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہو رہاہے کہ اگر میر صاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چایں رسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلاویں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نمائوں کے گروہ میں رہے- تعجب کہ ایک دفعہ بھی رُسول کریم ؐ ان کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذّاب اور مکّار اور بیدین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنستا ہے - کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رُسول اللہ صلے اللہ و علیہ و سلم کی حضور میں چلا جاوے اور ان کے فرمودہ کے مطابق کار بند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس کت برابر کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مُرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثرٰی میں گرنے والا ہو- زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رُسول اللہ صلے اللہ وعلیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرتؐ نے اس عاجز کو نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلفیۃ اللہ اور مجدد دین ہے - اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کو بھی لکھے- اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب نے اس رُسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے پہلے دیکھا وہ بہر حال اعتبار کے لایق ہوتا اور اگر وہ خوابیں اُن کے اعتبار کے لایق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہیں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ٹھرسکتیں - ناظرین سمجھ سکتے ہیں اور رُسول نسانی کا قادرانہ دعویٰ کسی قدر فضول بات ہے حدیث صحیح سے ظاہر ہ کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبّرا ہو سکتی ہے حس میں آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم کو ان کے حلیہ پر دیکھا گیا ہوں ورنہ شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اس کے عرش کی تجّلی دکھلا دیتا ے - پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے - اب جبکہ ی بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ وہ زیارت در حقیقت آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیو نکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت در حقیقت آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں- اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے- پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے اس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے- مثلاً رسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلا دیں یا بعض قضاء وقدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعائوں کو قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقایق و معارف بتلا دیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہو چکے تو بلا شبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی- ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رُسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم میری خواب میں آئیہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کافر اور دجّدل ہے- اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ رسُول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم کا قول ہے یا شیطان کا یا خوس اس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنا لی ہے- سو اگر میرے صاحب میں در حقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رُسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم ان کی خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھلا دیں- بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ کے ذریعہ سے اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچا دیں کہ درحقیقت انہوں نے آنحضرت صلے اللہ و علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے- اور اگر انہیں مقابلہ کا اتنا ہی شوق ہے تو اس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کاہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے- ہمیں بالفعل ان کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائے کہ ان کی رسُول نمائی کے دعوی کو قبول کیا جائے پہلا مرتبہ آزمایش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعوے میں صادق ہیں یا کاذب اگر صادق ہیں تو پھر کوئی اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلے اللہ و علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دُعا اور انکشاف حقایق و معارف کو بیان فرمایا- پھر بعد اس کے رُسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسُول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلاویں - قادیان میں آ جائیں- مسجد موجود ہے - ان کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہو گا- اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے-تو اپنی پردہ دری کرائیں گے عقل مند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی- مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا- اور مدت دس سال میں صادق ہے- میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے- خدا اُن پر رحم کرے- پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی- ازالہ اوہام کے صفحہ ۵۵ کو دیکھیں- ازالہ اوہام کے صفحہ ۲۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے -
ویسئلونک احق ھو قل ای و ربی انہ لحق و ما انتم بمعجزین زوجنا کھا لا مبدل بکلماتی و ان یروا اٰیۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر- اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے - کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے- ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے- میری باتوں کو کوئی بدلہ نہیں سکتا- اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے-
۲۸ - ۲۷ -۱۴-۲-۲۷-۲-۲۸-۱-۲۳-۱۵-۱۱- ۱- ۲- ۲۷- ۱۴- ۱۰- ۱- ۲۸- ۲۷- ۴۷- ۱۶- ۱۱- ۳۴- ۱۴- ۱۱- ۷- ۱- ۵- ۳۴- ۲۳- ۱۴- ۱۱- ۱۴- ۷- ۲۳- ۱۴- ۱- ۱ - ۱۴- ۵- ۲۸- ۷- ۳۴- ۱- ۷- ۳۴- ۱۱- ۱۶- ۱- ۱۴- ۷- ۲- ۱- ۷- ۵- ۱- ۱۴- ۱۴- ۲- ۲۸- ۱- ۷
والسلام علیٰ من فھم اسرارنا و اتبع الھدیٰ
الناصح المشفق خاکسار غلام احمد قادیانی - ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء
(یہ اشتہار آسمانی فیصلہ بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر تقطیع کلاں ٹائٹل کے آخری دو صفحوںپر ہے-)
(۷۴)
اطلاع
تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو- لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے-تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئیے اور کرنا چاہئیے کہ خدا تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئیے- کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا اور ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہو گی اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضعف فطرت یا کمی مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آ کر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف میں اُٹھا کر ملاقات کے لئے آوے- کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لیء بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں- لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں- جس میں تمام مخلصین اگر خدا چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو سکیں - سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ دسمبر سے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے- یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر ۱۸۹۱ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں- ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض ﷲ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئیے اور اس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں- ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگار ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدا ئے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے- اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی انہیں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہو گا کہ ہریک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اورروشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا- اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو رُوحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کو خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اُٹھا دینے کے لے بدرگار حضرت عزت جلّشانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی سلسلہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اﷲ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہو گا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلادقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا اور بہتر ہو گا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجاویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تاکہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع و الطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کے لئے اپنی آئندہ زندگی کے لئے عہد کرلیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں- بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آ جائیں جن میں سفر کرنا حد اختیار سے باہر ہو جائے- اور اب جو ۲۷ ؍ ۱۸۹۱ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا - اس جلسہ پر جس قدر احباب محض ﷲ تکلیف سفر اُٹھا کر حاضر ہوئے- خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب ان کو عطا فرماوے- آمین ثم آمین -
اعلان
ہمارے پاس کچھ جلدیں رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام موجود ہیں جن کی قیمت ایک روپیہ ہے اور کچھ جلدیں کتاب ازالہ اوہام موجود ہیں جن کی قیمت فی جلد تین روپیہ ہے- محصول ڈاک علاوہ ہے- جو صاحب خرید کرنا چاہیں منگوا لیں- پتہ یہ ہے- قادیان ضلع گورداسپور بنام راقم رسالہ ہذا یا اگر چاہیں تو بمقام پٹیالہ میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر سے لے سکتے ہیں اور نیز یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ میں مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع کے پاس بھی موجود ہیں- وہاں سے بھی منگوا سکتے ہیں-
(یہ اشتہار آسمانی فیصلہ بار اوّل تقطیع کلاں مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے ٹائٹل کے دوسرے صفحہ پر ہے)
(۶۵)
ڈاکٹر ٭جگن ناتھ صاحب ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت
میرے مخلص دوست اور للّٰہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورِ دین صاحب فی ابتغاء مرضات ربّانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت ٭نامہ مورخہ ۷ جنوری ۱۹۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے-
خاکسار نابکار نورالدین بحضور خدا ام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلاّم الرحمن السّلام علیکم ور حمۃ اللہ و برکاتہ‘ کے بعد بکمال ادب عرض پرواز ہے غریب نواز پر یزو ایک عرضی خدمت میں روانہ کی- اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں
ازالہ اوہام ٭میں حضور والانے ڈاکٹر جگناتھ کی نسبت ارقام فرمایا کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو معاملہ سے آگاہ تھے کہا ہے سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے سرخی سے اس پر قلم پھیر دو- میں نے ہر گز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی- مُردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور خشک درخت کا ہرا ہوا یعنی بلا تحضیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہو-
اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ - اس پر اُن کی خد مت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص نا جائز ہے خدا تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے - اور جبکہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں کہ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے - کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیدا نہ کر سیکیں اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا- اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اس پہلی قید کو اُٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں- کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو- لہذا آج ہی کی تاریخ یعنے ۱۱ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دو شنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکر راً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے- جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلا تخصیص کسی نشان کے دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیںتو اخبارات٭ مندرجہ حاشیہ میں حلفاً یہ اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جمّوں میں بر عہد ڈاکٹری متعین ہوں- س وقت حلفاً اقرار صحیح سرسر نیک نیتی اور ق طلبی اور خلوص دل سے کرتاہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جائوں اور انسانی طاقتوں کا اُس کٰن کوئی نمونہ اُنہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلانہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جائوں گا- اس اشاعت اور اس اقرار کیی اس لیے ضرور ہے کہ خدا ئے قیوم و قدوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا- جب تک کوئی انسان پورے انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا- اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے- اور چونکہ عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوںکے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے- سووہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی- طالب حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں- اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر داحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں اور وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذرنہیں-
ہماں بہ کہ جاں در رہ او نشانم جہاں راچہ نقصان اگر من خانم
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
المعلن المشتہر
خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عفی اﷲ عنہ
یازدہم جنوری ۱۸۹۲ء
(منقول از رسالہ آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۷ تقطیع کلاں - ایڈیشن اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)
(۷۶)
منصفین کے غور کے لایق
یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب دل کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو جسمانی آنکھیں بلکہ سارے حواس ساتھ ہی بند ہو جاتے ہیں - پھر انسان دیکھتا اور سُنتا ہوا نہیں سُنتا اور سمجھتا ہوا نہیں سمجھتا- اور زبان پر حق جاری نہیں ہو سکتا- دیکھو ہمارے محبوب مولوی کیسے دانا کہلا کر تعصب کی وجہ سے نادانی میں دوب گئے- دینی دشمنوں کی طرح آخر افترائوں پر آ گئے- ایک صاحب اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ ایک اپنے لڑکے کی نسبت الہام سے خبر دی تھی کہ یہ باکمال ہو گا حالانکہ وہ صرف چند مہینہ جی کر مر گیا- مجھے تعجب ہے کہان جلد باز مولویوں کو ایسی باتوں کے کہنے کے وقت کیوں لعنۃ اللہ علی الکاذبین کی آیت یاد نہیں رہتی- اور کیوں یک دفعہ اپنے باطنی جذام اور عداوت اسلام کو دکھلانے لگے ہیں اگر کچھ حیا ہو تو اب اس بات کا ثبوت دیں کہ اس عاجز کے کس الہام میں لکھا گیا ہے کہ وہی لڑکا جو فوت ہو گیا درحقیقت وہی موعود لڑکا ہے- الہام الہٰی میں صرف اجمالی طور پر خبر ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہو گا اور خدا تعالیٰ کے پاک الہام نے کسی کو اشارہ کر کے مورد اس پیشگوئی کا نہیںٹھہرایا- بلکہ اشتہار فروری ۱۸۸۶ء میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ بعض لڑکے صغر سن میں فوت بھی ہوں گے- پھر اس بچے کے فوت ہونے سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا کوئی پیشگوئی جھوٹی نکلی- اب فرض کے طور پر کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے اجتہاد سے کسی اپنے بچہ پر یہ خیال بھی کر لیں کہ شاید پسر موعود ہے اور ہمارا اجتہاد خطا ہو جائے تو اس میں الہام الہٰی کا کیا قصور ہوگا- کیا نبیوں کے اجتہادات میں اس کا کوئی نمونہ نہیں- اگر ہم نے وفات یافتہ لڑکے کی نسبت کوئی قطعی الدلات الہام کسی اپنی کتاب میں لکھا ہے تو وہ پیش کریں جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا ایک برابر ہے- تعحب کہ ان لوگوں کو نجاست کا کیوں شوق ہو گیا- آج تک صد ہا الہامی پیشگوئیاں سچائی سے ظہور میں آئیں جو ایک دُنیا میں مشہور ہو گئیں- مگر ان مولویوں نے ہمدردی اسلام کی راہ سے کسی کا بھی ذکر نہ کیا- دلیپ سنگھ کا ارادہ سیر ہندوستان و پنجاب سے ناکام رہنا صد ہا لوگوں کو پیش از وقوع سنایا گیا تھا- بعض ہندوئوں کو پنڈت دیانند کی موت کی خبر چند مہینے پہلے بتلائی گئی تھی- اور یہ لڑکا بشیر الدین محمود جو پہلے لڑکے کے بعد پیدا ہوا، ایک اشتہار میں اس کی پیدائش کی قبل از تولّد خبر دی گئی تھی- سر دار محمد حیا ت خان کی معطلی کے زمانہ میں ان کی دوبارہ بحالی کی لگوں کو خبر سُنا دی گئی تھی- شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارہ پورپر مصیبت کا آنا پیش از وقت ظاہر کر کیا گیا تھا اور پھر ان کی بریت کی خبر نہ صرف ان کو پیش از وقت پہنچائی گئی تھی- بلکہ صد ہا آدمیوں میں مشہور کی گئی تھی- ایسا ہی نشان ہیں جن کے گواہ موجود ہیں کیا ان دین دار مولویوں نے کبھی ان نشانوں کا بھی نام لیا- جس کے دل پر خدا تعالیٰ مُہر کر ے اُس کے دل کو کون کھول سکتا- کیڑوں کی طرح خود ہ مر جائیں گے- مگر اسلام کی نُور دن بدن ترقی کرے گا- خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نُور دُنیا میں پھیلاوے- اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بَک بَک سے رُک نہیں سکتیں- خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے- انا الفتّاح الفتح لک - تریٰ نصراً عجیباً و یخرّون علی المساجد- ربّنا اغفر لنا انا کنّاخا طین- جلا بیب الصدق- فاستقم کما امرت- الخوارق تحت منتھٰی صدق الاقدام - کن اﷲ جمیعاً و مع اﷲ جمیعاً عسٰی ان تبعثک ربّک مقا ماً محمودًا- ٰؑیعنی میں فتاح ہوں- تجھے فتح دوں گا- ایک عجیب مدد تو دیکھے گا او ر منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت متصلہ ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے ربّ ہمارے گناہ بخش - ہم خطا پر تھے- یہ صدق کے جلا بیب ہیں جو ظاہر ہوں گے- سو جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر- خوارق یعنی کرامات ا س محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے- تُو سارا خدا کے لئے ہو جا- تُو سارا خدا کے ساتھ ہو جا- خدا تجھے اس مقام پر اُٹھائے گاجس میں تُو تعریف کیا جائے گا اور ایک الہام میں چند وفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزّت دوں گا اور بڑھائوں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا- یہاںتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے- اب اے مولویو! اے بخل کے سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلائو - ہر یک قسم کے فریب کام میں لائو- اور کوئی فریب اُٹھا نہ رکھو- پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا - والسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
المنبّہ الناصح- مرزا غلام احمدؐ قادیانی جنوری ۱۸۹۲ء
یہ اشتہار علیحدہ بھی شائع ہوا- اور رسالہ فیصلہ آسمانی تقطیع کلاں بار اوّل
مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر ۱۹ بھی ہے-
(۷۷)
عام ٭اطلاع
اس عاجز کے عوام کے اوہام اور وساوس دُور کرنے کے لئے یہ بات قرین مصلحت سمجھی ہے کہ جلسہ عام میں ان الزامات کا شافی جواب سنایا جاوے جو علماء اس عاجز پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے - کو اکب کو ملائک قرار دیا ہے - معجزات اور لیلۃ القدر نے انکار ہے وغیرہ وغیرہ - سو ان بیجا الزامات کے رفع دفع کے لئے یہ تقریر سنائی جائے گی- اور تمام صاحبوں پر واضح رہے کہ اس جلسہ میں بحث نہیں ہو گی- بحث اور سوالات کے جواب دوسرے وقتوں میںسکتے ہیں - اس جلسہ میں صرف اپنی تقریر سُنائی جائے گی- لہذا عام اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب اس شرط سے تشریف لانا چاہیں کہ صرف اس عاجز کی تقریر کو سُنیں اور اپنی طرف سے کوئی کلمہ مُنہ سے نہ نکالیں- اور وہ اس تقریر کے سُننے کے لئے چونی منڈی کوٹھی منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر میں بتاریخ ۳۱ جنوری ۱۸۹۲ء تک شنبہ بوقت ڈیڑھ بجے دن کے تشریف لا دیں- اور واضح رہے کہ اس جلسہ میں کسی قدر اس طریق فیصلہ کے بارے میں تقریر ہو گی- جو انسان کے اختیار میں نہیں- بلکہ خدا تعالیٰ سچوں کی تائید میں خود آسمان سے اس فیصلہ کو ظاہر کرتا ہے- تا جھوٹے چالاک زبان دراز کو ملزم اور ساکت اور ذلیل کرے- فقط والسّلام من اتبع الھدیٰ
المطلع- میرزا غلام احمدؐ قادیانی مقام لاہور
مورخہ ۲۸ جنوری ۱۸۹۲ء
مطبوعہ مصطف پریس لاہور

(۷۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جو مباحثہ لاہور مولوی عبد الحکیم صاحب اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے درمیانی چند روز سے بابت مسئلہ دعویٰ مندرجہ کتب مرزا غلام صاحب کے ہو رہا تھا- آج مولوی صاحب کی طرف سے تیسرا پرچہ جواب الجواب میں لکھا جا رہا ہے- اثنائے تحریر میں مرزا صاحب کی عبارت مندرجہ ذیل کے بیان کرنے پرجلسہ عام میں فیصلہ ہو گیا جو عبارت درج ذیل ہے -
المرقوم ۳ فروری ۱۸۹۲ ء مطابق ۲ رجب ۱۳۰۹ ھ
العبد العبد العبد العبد
برکت علی وکیل چیفکورٹ پنجاب محی الدین خاکسار رحیم بخش فضل دین
العبد العبد العبد العبد
رحیم اللہ ابویوسف محمد مبارک حبیب اللہ
الحمدللہ والصلوۃ والسّلام علیٰ رسولہ خاتم النبین- امابعد تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح اسلام و مرام توضیع مرام و ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیںکہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتاہے یا یہ کہ محدث جزوی نبوت ہے یا یہ کہ نبوۃ نا قصہ ہے- یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں میں محمول نہیں ہیں- بلکہ سادگی سے ان کے لغوی معنوں کے رد سے بیان کئے گئے ہیں- ورنہ حاشاد کلّا- مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعویٰ نہیں ہے- بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام کے صفحہ ۱۳۷ میں لکھ چکا ہوں- میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلے اللہ و علیہ و سلم خاتم الانبیا ہیں- سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوںکہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں- کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں- جس حالت میں ابتداء سے میری نیت میں جس کو اللہ جل شانہ خوب جانتا ہے - اس لفظ نبی سے مُراد نبوت حقیقی نہیں ہے- بلکہ صرف محدّث مُراد ہے - جس کے معنے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے مُکَلَّم مراد لئے ہیں- یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا ہے- عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال النّبی صلے اللہ علیہ وسلم قد کان فیمن قبلکم من نبی اسرائیل رجال یکلّمون من غیران یکو نوا انبیاء فان یک فی امتی منھم احد نعمو صحیح بخاری جلد اول صفحہ ۵۲۱ پارہ ۱۴ باب مناقب عمرؓ - تو پھر مجھے اپنے مسلم بھائیوں کی دلجوئی کے لئے اس لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اُس کو( یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرما لیں- اور نیز عنقریب یہ عاجز ایک رسالہ مستقلہ نکالنے والا ہے- جس میں ان شبہات کی تفصیل اور بسط سے تشریح کی جائے گی جو میری کتا بوں کے پڑھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور میری بعض تحریرات کو خلاف عقیدہ اہل سنت اور اہل جماعت خیال کرتے ہیں- سو میں انشاء اللہ تعم عنقریب ان اوہام کے ازالہ کے لئے پوری تشریح کے ساتھ اس رسالہ کو لکھ دوں گا- اور مطابق اہل سُنت اور اہل جماعت کے بیان کردوں گا-
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار میرزاغلام احمدؐ قادیانی مؤلف رسالہ توضیح مرام و ازالۃ الاوہام
۳فروری ۱۸۹۲ ء
(محمدی پریس لاہور )
غلام نبی سنگ سازو کاتب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہٗ ونصلی علٰی رسولہ الکریم
اس عاجز کے ایک مخلص دوست جو سلسلہ مبائعین میں داخل ہیں اور خاص مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں- جوان صالح اور پرہیز گار- جس کا کسی قدر ذکر رسالہ ازالہ اوہام میں موجود ہے- بعض مالی حوادث کی وجہ سے اس ملک ہند میں تشریف لائے تھے اور مدت چار سال سے اس انتظار میں رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فتوح غیب میسر آوے تا کسی قدر با سامن ہو کر اپنے وطن مقدس کی طرف مراجعت فرماویں- لیکن اﷲجلّشانہٗ کی مشیت سے آج تک ایسا اتفاق نہ ہوا- مسلمانوں نے حق ہمدردی کا پورا نہ کیا- اس عرصہ میں صاحب موصوف ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور ایک مدت سے میری صحبت میں ہیں- اور میں دن رات نظر تعمق سے اُن کے حالات کو دیکھتا اور جانچتا ہوں- فی الواقعہ وہ صالح اور تفرقہ زدہ اور قابل رحم ہیں- اور اس قدر حالت عُسر اور تنگدستی میں مبتلا ہیں کہ دس کوس چلنے کے لئے ان کے پاس زاد راہ نہیں ہے- چہ جائیکہ اپنے وطن مانوس میں پہنچ سکیں یا اپنے مافات کا تدارک کر سکیں- لہذا میں محض ﷲ اپنے تمام بھائیوں کی خدمت میں گذارش کرتا ہوں کہ جیسا اﷲ جلّشانہٗ نے فرمایا ہے تعادنوا علی البّر و التقویٰ اور نیز فرماتا ہے وتواصو بالحق و تواصو بالمرحمہ - اپنے اس غریب بھائی اور مسافر اور تفرقہ زدہ اور ہموطن ہمارے سید و مولیٰ رسول اﷲ ؐ کی اپنی مقدرت اور وسعت کے موافق ہمدردی اور خدمت کریں اور اس خدمت کی بجاآوری میں کوئی فوق الطاقت امر مقصود نہیں ہے- بلکہ جو شخص ایک پیسہ دینے کی توفیق رکھتا ہے - وہ پیسہ دیوے- اور جو شخص ایک روپیہ دے سکتا ہے وہ روپیہ ادا کرے- بلکہ توفیق پر کچھ موقوف نہیں ہے- اپنے انشراح صدر کے لحاظ سے کم و بیش چندہ میں شریک ہو جائیں یعنی اگر کوئی اپنی خوشی خاطر اور پوری پوری انشراح سے زیادہ دینے پر قادر ہو وہ زیادہ دیوے- اور کچھ گرانی ہو تو ایک پیسہ یا ایک کوڑی کافی ہے- ہماری طرف سے تاکید یہ ہے کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے بکلی ثواب سے محروم نہ رہے- اور اس ناجائز حیا اور شرم کی وجہ سے کہ بہت دینے کو دل نہیں چاہتا اور ایک پیسہ یا ایک پائی دینا اپنی مقدرت سے کمتر ہے امر صالح کو نہ چھوڑے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں کوئی ایسا شخص مصیبت زدہ نہیں کہ وہ ایک پیسہ دینے پر بھی قادر نہ ہو سکے اور اس چندہ کے لئے میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ اس روپیہ کے تحویل دار منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے پنجاب لاہور مقرر کئے گئے ہیں- ہر ایک صاحب جو چندہ دینا چاہیں وہ براہ راست منشی صاحب مو صوف کی خدمت میں بھیج دیں- اور میرے نزدیک مناسب ہے کہ جس شہر کی جماعت کو اس چندہ پر اطلاع ہو وہ الگ الگ اپنا چندہ ارسال نہ کریں- بلکہ تمام صاحبوں کا جو اس شہر میں رہتے ہوں ایک جگہ چندہ جمع کر کے وہ رقم اکٹھی منشی صاحب کی خدمت میں بھیجی جاوے اور اس میں تایخر اور توقف جائز نہیں- بہت جلد اس پر عمل کرنا چاہئیے- اور اس جگہ قرین مصلحت سمجھ کر چند خاص دوستوں کے نام ذیل میں لکھے جاتے ہیں جنہوں نے آج ۱۷ ؍ مارچ ۹۲ء کو چندہ دیا- فہرست چندہ دہندگان
مرزا غلام احمد (صاحب) صہ - مولوی محمد احسن صاحب ۸ - حاجی عبدالمجید خاں صاحب ۸ - محمد خاں صاحب کپورتھلہ ۸- ظفر احمد صاحب کپورتھلہ ۸- مولوی محمد حسین صاحب سلطان پورہ ۴- چودھری امیر الدین صاحب گڑھ شنکر ۴- رحمت اﷲ صاحب لدھانوی - انگشتری- شیخ عبدالرحمن لدھانوی سہ پائی- شیخ برکت علی گورداسپور ۴- نجم الدین صاحب ۴- رستم علی ڈپٹی انسپکٹر ۱۰
المشتہر
خاکسار مرزا غلام احمد از جالندھر - ۱۷ مارچ ۹۲ء
(مطبوعہ مطبع منشی فخر الدین لاہور)
(۸۰)
آسمانی فیصلہ کے متعلق خط و کتابت
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
از جانب عباس علی- بخدمت مرزا غلام احمد قادیانی- عرض ہے کہ جواب فیصلہ آسمانی مندرجہ اشاعت السنۃ صفحہ ۵۱ جو ایک صوفی بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے وعدے کے کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں- بھیج کر التماس ہے کہ آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں کہ اس کے موافق عملدرآمد کیا جاوے- اور مضمون صفحہ ۵۱ بغور ملاحظہ ہو کہ فریق ثانی آپ کے عاجز ہونے پر کام شروع کرے گا-
الجواب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم - نحمدہٗ و نصلّی الحمد ﷲ و السلام علٰی عبادہ الّذی اصطفٰے
امابعد بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا رقعہ پہنچا- آپ لکھتے ہیں جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے دعوے کے اشاعت السنۃ میں کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں کہ آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرماویں- فقط- اس کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر درحقیقت کوئی صوفی صاحب اس عاجز کے مقابلہ پر اُٹھے ہیں اور جو کچھ فیصلہ آسمانی میں اس عاجز نے لکھا ہے اس کو قبول کرکے تصفیہ حق اور باطل کا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ وہ چوروں کی طرح کارروائی نہ کریں پردہ سے اپنا مونھ باہر نکالیں اور مرد میدان بن کر ایک اشتہار دیں- اسی اشتہار میں بتصریح اپنا نام لکھیں اور اپنا دعویٰ بالمقابل ظاہر فرمائیں او رپھر اس طرز پر چلیں جس طرز پر اس عاجز نے فیصلہ آسمانی میں تصفیہ چاہا ہے- اور اگر وہ طرز منظور نہ ہو تو فریقین میں ثالث مقرر ہو جائیں- جو کچھ وہ ثالث حسب ہدایت اﷲ اور رسول کے روحانی آزمائش کا طریق پیش کریں وہی منظور کیا جائے- چوروں اور نامردوں اور مخنشوں کی طرح کارروائی کرنا فیصلہ آسمانی کی چھپوا کر اسی غرض سے تقسیم کی ہے تا اگر اس فرقہ مکفرہ میں کوئی صوفی اور اہل صلاح موجود ہے تو میدان میں باہر آ جائے- تو پھر برقع کے اندر بولنا کس بات پر دلالت کررہا ہے- کیا یہ شخص مرد ہے یا عورت جو اپنے تئیں صوفی کے نام سے ظاہر کرتا ہے- کیا اس عاجز نے بھی اپنا نام لکھنے سے کنارہ کیا ہے- پھر جس حالت میں میری طرف سے مردانہ کارروائی ہے اور کھلے کھلے طور سے اپنا نام لکھا ہے تو یہ صوفی کیوں چھپتا پھرتا ہے- مناسب ہے کہ اُسی طرح مقابل پر اپنا نام لکھیں کہ میں ہوں فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں- اور اگر ایسا نہ کریں گے تو منصف لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ کارروائی ان لوگوں کی دیانت اور انصاف اور حق طلبی سے بعید ہے- اب بالفعل اس سے زیادہ لکھنا ضرورت نہیں- جس وقت اس صوفی محجوب پردہ نشین کا چھپا ہوا اشتہار میری نظر سے گذرے گا اس وقت اس کی درخواست کا مفصل جواب دوں گا- ابھی تک میرے خیال میں ایسے صوفی اور عنقا میں کچھ فرق معلوم نہیں ہوتا- فقط - والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
الراقم خاکسار غلام احمد ۷ ؍ مئی ۹۲ ء
مکرر یہ کہ ایک نقل اس کی چھپنے کے لئے اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں بھیجی گئی تاکہ یہ کارروائی مخفی نہ رہے- بالآخر یاد رہے کہ اگر اس رقعہ کے چھپنے اور شائع ہونے کے بعد کوئی صوفی صاحب میدان میں نہ آئے اور بالمقابل کھڑے نہ ہوئے اور مرد میدان بن کر بتصریح اپنے نام کے اشتہار شائع نہ کئے تو سمجھا جائے گا کہ دراصل کوئی صوفی نہیں- صرف شیخ بٹالوی کی ایک مفتریانہ کارروائی ہے- فقط-
جواب الجواب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
بعد الحمد الصَّلوۃ- بخدمت میرزا غلام احمد صاحب- سلام مسنون- آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۷ مئی میرے نیاز نامہ کے جواب میں وارد ہوا- اُسے اوّل سے آخر تک پڑھ کر سخت افسوس ہوا کہ آپ نے دانستہ ٹلانے کے واسطے سوال از آسمان جواب از ریسمان کے موافق عمل کر کے بچنا چاہا ہے- اصل مطلب تو آپ نے چھوڑ دیا یعنی آزمائش کے واسطے وقت او رمقام مقرر نہیں کیا بلکہ پھر آپ نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق کاغذی گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے- جناب من! جس طرح آپ نے فیصلہ آسمانی میں چھاپاتھا- اسی طرح اشاعت السنۃ میں ان صوفی صاحب نے جواب تُرکی بہ تُرکی شائع کر دیا ہے- آپ کو تو غیرت کر کے بلاتحریک دیگرے خود ہی تیار ہو جانا چاہئیے تھا- برعکس اس کے تحریک کرنے پر بھی آپ بہانہ کرتے ہیں اور ٹلاتے ہیں- صوفی صاحب نے خود قصداً اپنا نام پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی مصلحت سے ظاہر نہیں کیا- ناحق آپ نے کلمات گستاخانہ صوفی صاحب کی نسبت لکھ کر ارتکاب عصیان کیا- سو آپ نے اس سے کیا بحث ہے- آپ کو تو اپنے دعویٰ کے موافق تیار ہونا چاہیئے- مولوی محمد حسین صاحب خود ذمہ دار ہیں فوراً مقابلہ پر موجود کردیں گے- لہٰذا اب آپ ٹلائیں نہیں- مرد میدان بنیں اور صاف لکھیں کہ فلاں وقت اور فلاں جگہ پر موجود ہو کر سلسلہ آزمائش و اظہار کرامت متدعویہ شروع کیا جائے گا- یہ عاجز بصد عجز و نیاز عرض کرتا ہے کہ آپ اپنے دعویٰ میں اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو- میدان میں آئو- دیکھو یا دکھائو- صاف باطن لوگ غل باز نہیں ہوتے- حیلہ بہانہ نہیں کیا کرتے- برکات آسمانی والے کمیٹیاں مقرر کیا کرتے ہیں- رجسٹر کھلوایا کرتے ہیں- اس قسم کی کارروائی صرف دھوکہ دینا اور دفع الوقتی پر مبنی ہے- افسوس صد افسوس- اﷲ سے ڈرو- قیامت پیش نظر رکھو- ایسی مریدی پیری پر خاک ڈالو- جس مطبع میں آپ اپنا مضمون چھاپنے کے لئے بھیجیں اس عاجزکے مضمون کو بھی زیر قدم چھاپ دیں-
عریضہ نیاز میر عباس علی از لدھیانہ - روز دو شنبہ ۹ ؍ مئی ۱۸۹۲ء
جواب جواب الجواب
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم - نحمدہٗ و نصلّی الحمد ﷲ و السلام علٰی من اتبع الھدیٰ
بعد ہذا بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا جواب الجواب مجھ کو ملا- جس کے پڑھنے سے بہت ہی افسوس ہوا- آپ مجھ کو لکھتے ہیں کہ صوفی صاحب کے مقابلہ پر مرد میدان بنیں- اگر سچے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو- آپ کی اس تحریر پر مجھ کو رونا آتا ہے- صاحب میں نے کب اور کس وقت حیلہ بہانہ کیا- کیا آپ کے نزدیک وہ صوفی صاحب جن کے نام کا بھی اب تک کچھ پتہ و نشان نہیں میدان میں کھڑے ہیں- میں نے آپ کو ایک صاف اور سیدھی بات لکھی تھی کہ جب تک کوئی مقابل پر نہ آوے اپنا نام نہ بتاوے- اپنا اشتہار شائع نہ کرے کس سے مقابلہ کیا جائے- میں کیونکر اور کن وجہ سے اس بات پر تسلی پذیر ہو جائوں کہ آپ یا شیخ بٹالوی اس صوفی گمنام کی طرف سے وکیل بن گئے ہیں- کوئی وکالت نامہ نہ آپ نے پیش کیا اور نہ بٹالوی نے- اور اب تک مجھے معلوم نہیں ہوا کہ اس صوفی پردہ نشین کو وکیلوں کی ضرورت کیوں پڑی- کیا وہ خودستر میں ہے یا دیوانہ یا نابالغ بجز اس کے کیا سمجھا چاہئیے کہ اگر فرض کے طورپر کوئی صوفی ہی ہے تو کوئی فضول گو اور مفتری آدمی ہے جو بوجہ اپنی مفلسی اور بے سرمالگی کے اپنی شکل دکھانی نہیں چاہتا- میں متعجب ہوں یہ سیدھی بات آپ کو سمجھ نہیں آتی- یہ کس قسم کی بات ہے کہ صوفی تو عورتوں کی طرح چھپتا پھرے اور مرد میدان بن کر میرے مقابلہ پر نہ آوے اور الزام اس عاجز پر ہو کہ کیوں صوفی کے مقابل پر کھڑے نہیں ہوتے- صاحب من! میں تو بحکم اﷲ جلّشانہٗ کھڑا ہوں اور خدا تعالیٰ کے یقین دلانے سے قطعی طور پر جانتا ہوں کہ اگر کوئی صوفی وغیرہ میرے مقابل آئے گا- تو خدا تعالیٰ اس کو سخت ذلیل کرے گا- یہ میں نہیں کہتا بلکہ اس واحد لاشریک عزاسمہٗ نے مجھ کو خبر دی ہے جس پر مجھ کو بھر وسہ ہے- ایسے صوفیوں کی میں کس سے مثال دوں وہ ان عورتوں کی مانند ہیں جو گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھیں اور پھر کہیں کہ ہم نے مردوں پر فتح پائی- ہمارے مقابل پر کوئی نہ آیا- میں پھر مکرر کہتا ہوں کہ بٹالوی کی تحریر سے مجھ کو سخت شبہ ہے اور اس کے ہر روزہ افتراء پر خیال کر کے میرے دل میں یہی جما ہوا ہے کہ یہ صوفی کا تذکرہ محض فرضی طور پر اس نے اپنی اشاعت السنّہ میں لکھ دیا ہے ورنہ مقابلہ کا دم مارنا اور پھر پردہ میں رہنا کیا راست باز آدمیوں کا کام ہے- اس صوفی کو چاہئیے کہ میری طرح کھلے اشتہار دے کہ میں حسب دعوت فیصلہ آسمانی تمہارے مقابل پر آیا ہوں- اور میں فلاں ابن فلاں ہوں- اگر اس اشتہار کے شائع ہونے اور میرے پاس پہنچائے جانے کے بعد میں خاموش رہا تو جس قدر آپ نے اپنے اس خط میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ’’حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو- صاف باطن دغل باز نہیں ہوتے-‘‘ یہ سارے الفاظ آپ کے میری نسبت صحیح ٹھہریں گے ورنہ دشنام دہی سے زیادہ نہیں- جب انسان کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کو روز روشن بھی رات ہی معلوم ہوتی ہے- اگر آپ کی آنکھ میں ایک ذرّہ بھی نور باقی ہوتا تو آپ سمجھ لیتے کہ حیلہ بہانہ کون کرتا ہے- کیا وہ شخص جس نے صاف طور پر دو ہزار اشتہار تقسیم کر کے ایک دنیا پر ظاہر کر دیا کہ میں میدان میں کھڑا ہوں- کوئی میرے مقابل پر آوے یا وہ شخص کہ چوروں کی طرح غار کے اندر بول رہا ہے- جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں خدا تعالیٰ کی ان پر *** ہے- پس اگر یہ صوفی درحقیقت کوئی انسان ہے تو محمد حسین کی ناجائز وکالتوں کے برقع میں مخفی نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی *** سے ڈرے- اگر اس کے پاس حق ہے تو حق کو لے کر میدان میں آ جائے- جبکہ مجھ کو کوئی متعین شخص سامنے نظر نہیں آتا تو میں کس سے مقابلہ کروں کیا مردہ سے یا ایک فرضی نام سے- اور آپ کو یاد رہے کہ اگر میری نظر میں یہ صوفی ایک خارجی وجود رکھتا تو میں جیسا کہ میر ے پر ظاہر ہوتا اس کے مرتبہ کے لحاظ سے باخلاق اس سے کلام کرتا- مگر جبکہ میری نظر میں صرف یہ ایک فرضی نام ہے جس کا میرے خیال میں خارج میں وجود ہی نہیں تو اس کے حق میں سخت گوئی محض ایک فرضی نام کے حق میں سخت گوئی ہے- ہاں سخت گوئی آپ نے کی ہے سو میں آپ کے اس ترک ادب اور لعن طعن اور سبّ اور شتم کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں- فقط
راقم مرزا غلام احمدؐ
مکرر واضح رہے کہ اب اتمام حجت کر دیا گیا- آئندہ ہماری طرف ایسی پُرتعصب تحریریں ہرگز ارسال نہ کریں- جب یہ تحریریں چھپ جائیں گی منصف لوگ خود معلوم کرلیں گے کہ کس کی بات انصاف پر مبنی ہے اور کس کی سراسر ظلم اور تعصب سے بھری ہوئی ہے-
میرزا غلام احمد ۹ ؍ مئی ۱۸۹۲ء - ۱۱ عید الفطر ۱۳۰۰ھ
(مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ)
یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۴ کے دو صفحوں پر ہے جو ضمیمہ پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۱۴؍ مئی ۱۸۹۲ء میں طبع ہوا ہے- (المرتب)
(۸۱)
ضروری اشتہار
اس عاجز کا ارادہ ہے کہ ا شاعت دین اسلام کے لئے ایسا احسن انتظام کیاجائے کہ ممالک ہند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں- اور بندگان خدا کو دعوۃ حق کریں تا حجت اسلام روئے زمین پر پوری ہو- لیکن اس ضعف اور قلّت جماعت کی حالت میں بھی یہ ارادہ کامل طور پر انجام پذیر نہیں ہو سکتا - بالفعل یہ تجویز کیا ہے کہ اگر حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروی جو ایک فاضل جلیل اور امین اور متقی اور خدمت اسلام میں بدل و جان فداشدہ ہیں قبول کریں تو کسی قدر جہاںتت ممکن ہو یہ خدمت ان کے سپرد کی جائے- مولوی صاحب موصوف بچوں کی تعلیم اور درس قرآن و حدیث اور وعظ و نصیحت اور مباحثہ اور مناظرہ میں ید طولیٰ رکھتے ہیں- نہایت خوشی کی بات ہے -اگر وہ اس کام میں لگ جائیں- لیکن چونکہ انسان کو حالت عیالداری میں وجود معیشت سے چارہ نہیں اس لئے یہ فکر سب سے مقدم ہے کہ مولوی صاحب کے کافی گزارہ کے لیے کوئی احسن تجویز ہو جائے یعنی یہ کہ ہر ایک ذی مقدرت صاحب ہماری حماعت مین سے دائمی طور پر جب تک خدا تعالیٰ چاہیے ان کے گزارہ کے لئے حسب استطاعت اپنے کوئی چندہ مقرر کریں- اور پھر کچھ مقرر ہو بلا توقف ان کی خدمت میں بھیج دیا کریں- دنیا میں چند روز مسافر خانہ ہے- آخرت کے لیے نیک کاموں کے ساتھ تیاری کرنی چاہیے مبارک وہ شخص جو ذخیرہ آخرت کے اکٹھا کرنے کے لئے دن رات لگا ہوا ہے- اس اشتہار کے پڑھنے پر جو صاحب چندہ کے لئے تیار ہوں وہ اس عاجز کو اطلاع دیں- والسّلام علیٰ من تباع الھدیٰ
المشتھر
خاکسار غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور ۲۶ مئی ۱۸۹۲ء
(منقول از نشان آسمانی مطبوعہ ریاض ہند پریس - امرتسر بار اوّل صفحہ ۴)
(۸۲)
ضروری گذارش
اُن با ھمت دوستوں کی خدمت میں جو کسی قدر امداد امور دین کے لئے استطاعت رکھتے ہیں
اے مردان بکوشید و برائے حق بجو شید
اگرچہ پہلے ہی سے میرے مخلص احباب للّٰہی خدمت میں اس قدر مصروف ہیں کہ میں شکر ادا نہیں کر سکتا اور دعا کرتا ہوں کہ خدا وند کریم ان کو تمام خدمات کا دونوں جہانوں میں زیادہ سے زیادہ اجر بخشے- لیکن اس وقت خاص طور پر توجہ دلانے کے لئے یہ امر پیش آیا ہے کہ آگے تو ہمارے صرف بیرونی مخالف تھے اور فقط بیرونی مخالفت کی ہمیں فکر تھی اور اب وہ لوگ بھی جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ مولوی اور فقیہ کہلاتے ہیں ، سخت مخالف ہو گئے ہیں- یہاں تک کہ وہ عوام کو ہماری کتابوں کے خریدنے بلکہ پڑھنے سے منع کرتے اور روکتے ہیں- اس لئے ایسی دقتیں پیش آ گئی ہیں جو بظاہر ہیبت ناک معلوم ہوتی ہیں- لیکن اگر ہماری جماعت سست نہ ہو جائے تو عنقریب یہ سب دقتیں دور ہو جائیں گی- اس وقت ہم پر فرض ہو گیا ہے کہ بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کی خرابیوں کی اصلاح کرنے کے لئے بد ل و جان کوشش کریں اور اپنی زندگی کو اسی راہ میںفدا کریں- اور وہ صدق قدم دکھلاویں جس سے خدا تعالیٰ جو پوشیدہ بھیدوں کو جاننے والا اور سینوں میں چھپی ہوئی باتوں پر مطلع ہے- راضی ہو جائے- اسی بناء پر میں نے قصد کیا ہے کہ اب قلم اُٹھا کر پھر اس کو اُس وقت تک موقوف نہ رکھا جائے جب تک خد اتعالیٰ اندرونی اور بیرونی مخالفوں پر کامل طور پر حجت پوری کر کے حقیقت علسویہ کے حربہ سے حقیقت دجّالیہ کو پاش پاش نہ کرے- لیکن کوئی قصد بجز توفیق و فضل و امداد رحمت الہٰی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی بشارات پر نظر کر کے جو بارش کی طرح برس رہی ہیں - اس عاجز کو بھی امید ہے کہ وہ اپنے اس بندہ کو ضائع نہیں کرے گا- اور اپنے دین کو اس خطرناک پراگندگی میں نہیں چھوڑے گا جو اَب اس کے لا حق حال ہے- مگر برعایت ظاہری جو طریق منسون ہے من انصاری الی اللہ بھی کہنا پڑتا ہے- سو بھائیو! جیساکہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں- سلسلہ تالیفات کو بلا فصل جاری رکھنے کے لئے میرا پختہ ارادہ ہے - اور یہ خواہش ہے کہ اس رسالہ کے چھپنے کے بعدجس کا نام نشانی آسمانی ہے رسالہ وافع الوساوس طبع کرا کر شائع کیا جاوے اور بعد اس کے بلا توقف رسالہ حیات النبی و ممات المسیح جو یورپ اور امیریکہ کے ملکوں میں بھیجا جائے گاشائع ہوا ور بعد ا س کے بلا توقف حصہ پنجم براہین احمدیہ جس کے دوسرا نام ضرورت قرآن رکھا گیا ہے - ایک مستقل کتاب کے طور پر چھپنا شروع ہو- لیکن میں اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے یہ احسن انتظام خیال کرتا ہوں کہ ہر ایک رسالہ جو میری طرف سے شائع ہو میرے ذی مقدرت اس کی خریداری سے مجھ کو بدل و جان مدد دیں-اپنے ایک نسخہ یا چند نسخے اس کے خرید لیں - جن رسائل کی قیمت تین آنہ یا چار آنہ یا اس کے قریب ہو- ان کو ذی مقدرت احباب اپنے مقدور کے موافق ایک مناسب تعداد تک لے سکتے ہیں- اور پھر وہی قیمت دوسرے رسالہ ٍطبع میں کام آ سکتی ہے- اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں ہو ان پر بوجہ املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں- اور زکوۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے- وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوۃ کافر ہو جائے- پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوۃ دی جاوے زکوۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں- اور میری تالیفات بجزان رسائل کے اَور بھی ہیں جو نہایت مفید ہے جسیے رسالہ احکام القراٰن اور ہاربیعین فی علامات المقربین اور سراج منیر اور تفسیر کتاب عزیز- لیکن چونکہ کتاب براہین احمدیہ کا کام از بس ضروری ہے - اس لئے بشرط فرصت کوشش کی جائے گی کہ یہ رسائل بھی درمیان میں طبع ہو کر شائع ہو جائیں- آیندہ ہر ایک امر اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہے - یفعل ما یشاء و ھو علیٰ کل شیی قدیر
خاکسار غلام احمد ؐ از قادیان ضلع گوردادسپور
۲۸ مئی ۱۸۹۲ء
(منقول از نشان آسمانی بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر صفحہ الف - ب)

(۸۳)
تبلیغ رُوحانی
لَھُمْ الْبُشْریٰ فِیْ الْحَیٰوِۃ الدُّنْیا
اگر خودآدمی کاہل نبا شد تلاق حق
خدا خود راہ بنماید طلب گار حقیت
یہ بات قرآن کریم اورحدیث نبوی سے ثابت ہے کہ مؤمن رؤیا صالحہ مبشرہ دیکھتا ہے- اور اس کے لئے دکھائی بھی جاتی ہیں- بالخصوص جبکہ مومن لوگوں کی نظر میں مطردو اور محّذول اور ملعون اور مردود اور کافر اور دجّال بلکہ اکفر اور شرالبریہ پُر از لطف و احسان خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن کے ساتھ واقع ہوتے ہیں اس کو کو کون جانتا ہے-
رحمت خالق کہ حرز اولیا ست
ہست پنہاں زیر *** ہائے خلق
یہ عاجز تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس تکفیر کے وقت میںکہ یک طرف سے اس زمانہ کے علماء کی آوازیں آ رہی ہیں کہ لست مومنا- اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ ندا ہے کہ قل انيّ امرت و انا اول امومنین ایک طرف حضرات مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیخکنی کرو اور ایک طرف الہام ہوتا ہے یتر بصون علیک الد وائر علیھم دائرہ السوء- اور ایک طرف وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس شخص و سخت ذلیل اور رسوا کریں اور ایک طرف خدا وعدہ کر رہا ہے کہ انّی مھینٌ من ارادنتک- اﷲ یعطیک جلا لک- اور ایک طرف مولوی لوگ فتوے پر لکھ رہے ہیںکہ اس شخص کی ہم عقیدگی اور پیروی سے انسان کافر ہو جاتا ہے- اور ایک طرف اللہ تعالیٰ اپنے الہام میں بتواتر زور دے رہا ہے کہ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبکم اﷲ - غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدا تعالیٰ سے لڑ رہے ہیں- اب دیکھئے کہ فتح کسی کی ہوتی ہے-
بالآخر واضح ہو کہ اس وقت میرا مدعا اس تحریر سے یہ ہے کہ بعض صاحبوں نے پنجاب اور ہندوستان سے اکثر خوابیں متعلق زیارت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور نیز الہامات بھی اس عاجز کے بارہ میں لکھ کر بھیجے ہیں جن کا مضمون قریباً اور اکثر یہی ہوتا ہیکہ ہم نے رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور یا بذریعہ الہام کے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص یعنے یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس کو قبول کرو- چنانچہ بعض نے ایسی خوابیں بھی بیان کیں کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نہایت غضب کی حالت میں نظر آئے- اور معلوم ہوا کہ گویا آنحضرتؐ روضہ مقدسہ سے باہر تشریف رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمام ایسے لوگ جو اس شخص یعنے اس عاجز کو عمداً ستارہے ہیں قریب ہے جو ان پر غضب الہٰی نازل ہو- اوّل اوّل اس عاجز نے ان خوابوں کی طرف التفات نہیں کی- مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ کثرت سے دُنیا میںیہ سلسلہ شروع ہو گیا -یہاںتک کہ بعض لوگ محض خوابوں کے ہی ذریعہ سے عناد اور کینہ کو ترک کر ک کامل م مخلصین میں داخل ہو گئے- اور اسی بناء پر اپنے مالوں سے امداد کرنے لگے- سو مجھے اس وقت یاد آیا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میںیہ الہام درج ہے کہ جس کو دس برس کا عرصہ گزر گیا اور وہ یہ ہے ینصرک رجالٌ نوحی الیھم من السماء - یعنے ایسے لوگ تیری مدد کریںگے- جن پر ہم آسمان سے وحی کریں گے- سو وہ وقت آ گیا- اس لئے میرے نزدیک قرین مصلحت ہے کہ جب ایک معقول اندازہ ان خوابوں اور الہاموں کا ہو جائے تو ان کو ایک رسالہ مستقلہ کی صوفت میں طبع کرکے شائع کی جائے کیونکہ یہ بھی اشہادت آسمانی اور نعمت الہٰی ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کجہ وامّا بنعۃ ربک فحدیث لیکن پہلے اس سے ضروری طور پر یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آیندہ ہر یاک صاحب جو کوئی خواب یا الہام اس عاجز کی نسبت دیکھ کر بذریعہ خط اس سے مطلع کرنا چاہیں تو اُن پر واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اپنے خط کے ذریعہ سے اس بات کو ظاہر کریں کہ ہم نے واقعی اور یقینی طور پر خواب دیکھی ہے اور اگر نے کچھ اس میں ملایا ہے تو ہم اسی پر دُنیا اور آخرت میں *** اور عذاب الہٰی نازل ہو- اور جو صاحب پہلے قسم کھا کر اپنی خوابیں بیان کر چکے ہیں - ان کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں-مگر وہ تمام صاحب جنہوں نے خوابیں یا الہامات تو لکھ کر بھیجے لیکن وہ بیانات ان کے مؤلکد بقسم نہیں تھے- ان پر واجب ہے کہ پھر دوبارہ ان خوابوں یا الہامات کو قسم کے ساتھ مؤکد کر کے ارسال فرماویں- اور یاد رہے کہ بغیر قسم کے کوئی خواب یا الہام یا کشف کسی کا نہیں لکھا جاوے گا- اور قسم بھی اس طرز کی چاہیے جو ہم نے ابھی بیان کی ہے-
اس جگہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مؤخذاہ الہٰی سے ڈرتے ہیں وہ بلا تحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں- اورآخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے- ویسا ہی ڈرتے رہیں- اور ان کے فتووں کو دیکھ حیران نہ ہوجاویں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں- اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے اس کی صحت کی نسبت دل میںشبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل توبہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یٰسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورہ اخلاص ہو- اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ دردو شریف اور تین سو مرتبہ استغفا پڑھ کر خدا تعالی سے یہ دُعا کریں کہ ادے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا- پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیری نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدد الوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے- کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود- اپنے فضل سے یہ حال رویا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما-تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں- اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کر ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے - آمین- یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں- لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر- کیونکہ جو شخص پہلے ہی بُغض سے بھرا ہوا ہے- جس کو وہ بہت ہی بُرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اَور ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے- پس اس کا پچھلا حال پہلے حال سے بھی بد تر ہوتا ہے - سو اگرتُو خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کو بکلی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تیئں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوئوں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا- جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دُخان نہیں ہو گا- سو اسے حق کے طالبو- ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو- اُٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قوی اور قدیر اور علیہم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے - آیندہ تمہیں اختیار ہے- والسّلام علیٰ من اتبع
المبُلّغ غلام احمد عفی عنہ
(منقول از نشان آسمانی ایڈیشن مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر ۳۸ تا ۴۱)

(۸۴)
شیخ بٹالوی صاحب کے فتویٰ تکفیر کی کیفیت
اس فتوے کو میں نے اوّل سے آخر تک دیکھا- جن الزامات کی بناء پر یہ فتویٰ لکھا ہے انشاء اللہ بہت جلد ان الزامات کے غلط اورخلاف واقعہ ہونے کے بارے میں ایک رسالہ اس عاجز کی طرف سے شائع ہونے والا ہے جس کا نام دافع الوساوس ہے بانہمہ مجھ ان لوگوں کے لعن طعن پر کچھ افسوس نہیں اورنہ کچھ اندیشہ- بلکہ میں خوش ہوں کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی اور ان کے اتباع نے مجھ کو کافر اور مردود اور ملعون اوردجال اور ضال اور ابے ایمان اور جہنمی اور اکفر کہہ کر اپنے دل کے وہ بخارانکال لئے جو دیانت اور امانت اور تقویٰ کے التزام سے ہر گز نہیں نکل سکتے تھے اور جس قدر میری تمام حجت اور میر سچائی کی تلخی سے ان حضرات کو زخم پہنچا - اس صدمہ کا غم غلط کرنے کے لئے کوئی اور طریق بھی تو نہیں تھا بجز اس کے کہ لعنتوں پر آ جاتے - مجھے اس بات کو سوچ کر بھی خوشی ہے کہ جو کچھ یہودیوں کے فقیہوں اور مولویوں نے آخر کار حضرت مسیح علیہ السّلام کو تحفہ دیا تھا- وہ بھی تو یہی لعنتیںاور تکفیر تھی جیسا کہ اہل کتاب کی تاریخ اور چہار انجیل سے ظاہر ہے کہ پھر مجھے مثیل مسیح ہونے کی حالت میں ان لعنتوں کی آوازیں سُنکر بہت ہی خوش ہونا چاہیے کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو حقیقت دجّالیہ کے ہلاک اور فانی کرنے کے لئے حقیقت عیسویہ سے متصف کیا- ایسا ہی اس نے حقیقت کے متعلق جو جو نوازل و آفات تھے ان سے بھی خالی نہ رکھا- لیکن افسوس ہے تو صرف یہ کہ بٹالوی صاحب کو اس فتوے کے طیار کرنے میں یہودیوں کے فقیہوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی- اور وہ خیانت تین قسم ک ہے-
اوّل یہ کہ بعض لوگ جو مولویت اور فتویٰ دینے کا منصب نہیں رکھتے- وہ صرف مکفّرین کی تعداد بڑھانے کے لئے مفتی قرار دیئے گئے-دوسری یہ کہ ایسے لوگ جو علم سے خالی اور اعلانیہ فسق وفجور بلکہ نہایت بد کاریوں میں مبتلا تھے وہ عالم متشرع متصور ہو کر اُن کی مُہریں لگائی گئیں- تیسرے ایسے لوگ جو علم اور دیانت رکھتے تھے- مگر واقعی طور پر اس فتوے پرانہوں نے مُہر نہیں لگائی- بلکہ بٹالوی صاحب نے سراسر چالاکی اور افتراء سے خود بخود اُن کا نام اس میں جڑ دیا- ان تینوں قسم کے لوگوں کے بارے میں ہمارے پاس تحریری ثبوت ہیں- اگر بٹالوی صاحب یا کسی اور صاحب کو اس میں شک ہپو تو وہ لاہور میں ایک جلسہ منعقد کر کے ہم سے ثبوت مانگیں- تا سیہ روئے شود ہر کہ وردغش باشانہ - یو تو تکفیر کوئی نئی بات نہیں- ان مولویوں کا آبائی طریق یہی چلا آتا ہے کہ یہ لوگ ایک باریک بات سُن کر فی الفور اپنے کپڑوں سے باہر ہو جاتے ہیں- اور چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ عقل تو ان کو دی ہی نہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچیں- اور اسرار غامضہ کی گہری حقیقت کو دریافت کر سکیں- اس لئے اپنی نا فہمی کی حالت میں تکفیر کی طرف ڈورتے ہیں- اور اولیاء کرام میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ ان کی تکفیر ہو گی- ان باتوں کا جواب یہی ہے کہ اے حضرات آپ لوگوں سے خدا کی پناہ- اوسجانہ‘ خود اپنے بر گزیدہ بندوں کو آپ لوگوں کے شر سے بچاتا آیا ہے- ورنہ آپ لوگوں نے تو ڈائن کی طرح امّت محمدؐیہ کے تمام اولیاء کرام کو کھا جانا چاہا تھا- اور اپنی بد زبانی سے نہ پہلوں کو چھوڑا نہ پچھلوںکو اپنے ہاتھ سے اُن نشانیوں کو پوری کر رہے ہیں- جو آپ ہی بتلا رہے ہیں- تعجب کہ یہ لوگ آپس میں بھی تو نیک ظن نہیں رکھتے- تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ موحدین کے بے دینی پر مدارالحق میں شاید تین سو کے قریب مُہر لگی تھی- پھر جبکہ ایسی سستی ہے تو پھر ان کی تکفیروں سے کوئی کیونکر ڈرے- مگر افسوس تو یہ ہے کہ میاں نذیر اور شیخ بٹالوی نے اس تکفیر میں جعل سازی سے بہت کام لیا ہے- اور طرح طرح کے افتراء کر کے اپنی عاقبت درست کر لی ہے-
(منقول از رسالہ ’’ نشان آسمانی‘‘ بار اوّل ریاض ہند پریس امرت سر صفحہ ۴۲-۴۴)
(۸۵)
طب رُوحانی
یہ کتاب حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم کی تالیفات میں سے ہے- حاجی صاحب موصوف نے اس کتاب میں اس علم مخفی سلب امراض اور توجہ کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے- جس کو حال کے مشائخ اور پرزادے اور سجادہ نشین پوشیدہ طور پر اپنے خاص خاص خلیفوں کو سکھلایا کرتے ہیں- اور ایک عظیم الشان کرامت خیال کی جاتی تھی- اور جس کی طلب میں اب بھی بعض مولوی صاحبان دُور دُور کا سفر اختیار کر تے ہیں- اس لئے محض للہ عام و خاص کو مطلع کیا جاتا ہے- کہ اس کتاب کو منگوا کر ضرور ہی مطالعہ کریں- کہ یہ منجلہ ان علوم کے جو انبیاء پر فائض ہوئے تھے بلکہ حضرت مسیح کے معجزات تو اسی علم کے سر چشمہ میں سے تھے-
کتاب کی قیمت ایک روپیہ ہے - صاحبزادہ افتخار احمدؐ صاحب جو لدھیانہ محلہ جدید میں رہتے ہیں- اُن کی خدمت میں خط و کتابت کرنے سے قیمتاً مل سکتی ہے-
(منقول از نشان آسمانی ایڈیشن اوّل صفحہ ۵ مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)


(۸۶)
آئینہ کمالات اِسْلام
یہ کتاب جس کا نام عنوان میں درج ہے میں نے بڑی محنت اور تحقیق اور تفتیش سے صرف اس غرض اور نیت سے تالیف کی ہے کہ تا اسلام کے کمالات اور قرآن کریم کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کروں اور مخالفین کو دکھلائوں کہ فرقان حمید کن اغراض کے پورا کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے- اور انسان کے لئے اس کا کیا مقصد ہے- اور اس مقصد میں کس قدر وہ دوسرے مذاہب سے امتیاز اور فضلیت رکھتا ہے اور بایں ہمہ اس کتاب میں ان تمام اوہام اور وساوس کا جواب بھی دیا گیا ہے - جو کہ تا ہ نظر لوگ مدعیان اسلام ہو کر پھر ایسی باتیں مونہہ پر لاتے ہیں جو درحقیقت اللہ اور رسو،ل اور قرآن کریم کی ان میں اہانت ہے- اسی وجہ سے اس کتاب کا دوسرا نام دافع الودس بھی رکھا گیا ہے- لیکن ہر مقام اور محل میں زور کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا گیا ہے- کہ دنیا میں ایک دین اسلا م ہی ہے جس کو دین اللہ کہنا چاہیے- جو سچائی کو سکھلاتا اور نجات کی حقیقی راہیں س کے طالبوں کے لئے پیش کرتا ہے اور اُخروی رستگاری کے لئے کسی بیگانہ کو پھانسی دینا نہیں چاہتا- اور نہ انسان کو بخشا یش الہٰی سے ایسا نو مید کرتا ہے کہ جب تک ایسا گنہگار انسان کڑوڑ ہا کیڑوں مکوڑوں وغیرہ کی جُون میں نہ پڑے تب تک کوئی سبیل اور کوئی چارہ اور کوئی علاج اس کے گناہ بخشنے جانے کا نہیں- گویا اس دینوی زندگی میں ایک صغیرہ گناہ کرنے سے بھی تمام دروازے رحمت کے بند ہو جاتے ہیں- اور آخر انسان ایک لا علاج بیماری سے بڑے درد اور دُکھ کے ساتھ اور سخت نو میدی کی حالت میں دوسرے عالم کی طرف کوچ کرتا ہے بلکہ قرآن کریم میں نجات کی وہ صاف اور سیدھی اور پاک راہ بتلائی گئی ہیں کہ جن سے نہ تو انسان کو خدا تعالیٰ نے نو میدی پیدا ہوتی ہے اور نہ خدائے تعالیٰ کو کوئی ایسا نالایق کام کرنا پڑتا ہے کہ گناہ تو کوئی کرے اور سزا دوسرے کو دی جاوے- غرض یہ کتاب ان نادر اور نہایت لطیف تحقیقاتوں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی ذرّیت کے لئے نہایت مفید اور آج کل روحانی ہیضہ سے بچنے کے لئے جو اپنے زہر ناک مادہ سے ایک عالم کو ہلاک کرتا جاتا ہے - نہایت مجرب اور شفا بخش شربت ہے- اور چونکہ یہ کتاب بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کے فسادوں کی اصلاح پر مشتمل ہے- اور جہاں تک میرا خیال ہے میں یقین کرتا ہوں کہ یہ کتاب اسلام اور فرقان کریم اور حضرت سیّد مولانا خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی برکات دُنیا پر ظاہر کرنے کے لئے ایک نہایت عمدہ اور مبارک ذریعہ ہے- اس لئے میں نے اللہ جلّشانہ پر توکل کر کے چودہ سو کاپی چھپوانی شروع کر دی ہے اور امید ہے کہ ڈیرھ ماہ یا غایت دو ماہ تک یہ کام بخیر و کوخوبی ختم ہو جائے گا- اور چونکہ میں نے بغرض اہتمام بلیغ صحت و خوش خطی و دیگر مراتب پریس کو اپنے مسکن قادیان میں معہ اس کے تمام عملہ و اسباب و سامان کے منگوا لیا ہے اور کاغذ بھی بہت عمدہ لگایا گیا ہے- اس لئے مجھ کو اس کتاب کے اہتمام طبع میں معمولی صورتوں سے دو چند خرچ کرنا پڑا- اور اگرچہ میری نظر میںیہ یقینی امر ہے کہ کتاب کی ضخانت اس قدر بڑھ جائے گی کہ شاید اصل قیمت اس کی بنظر تمام مصارف اور حربوں کے دو روپیہ یا اس سے بھی زیادہ ہو- مگر چونکہ یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ بعض لوگ بباعث نابینائی اور نہایت کم توجہی کے دین اور دینی کتابوں کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے اور حقایق اور معارف کے موتیوں کو کوڑیوں کے مول پر بھی لینا نہیں چاہتے- اس لئے ہر یک نقصان اور حرج قبول کرکے صرف ایک روپیہ اس کتاب کی قیمت مقرر کی گئی ہے - مگر محصول علاوہ ہے اس مقام میں اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب اور اخویم حکیم فضل دین صاحب اور اخویم نواب محمد علی خان صاحب اور اخویم مولوی سیّدتفضل حسین صاحب اور احباب سیالکوٹ اور کپورتھلہ کی ہمدردی کا شکر قابل اظہار ہے کہ انہوں نے میری پہلی کتابوںکی خریدای میں بہت مدد دی - جس کا ذکر انشاء اللہ محض ترغیباً للمسلمین اس کتاب کے آخر میں معہ ذکر دیگر احباب کیا جائے گا- خدا تعالیٰ سب کو ہمدردی اسلام کے لئے جگاوے- اور اس خدمت کے لئے ان کے دلوں میں الہام کرے- اگرچہ ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی راہ میں جان دینے کو بھی حاضر ہیں - اور اگر ہماری جان فشانی سے کچھ بن سکتا ہے تو ہم اپنا خون بہانے کو بھی طیار ہیں-
سرکہ نہ درپائے عزیزش رود
بارِ گران است کشیدن بدوش
مگر اس وقت مال کا کام ہے جو ہمارے ہاتھ میں نہیں- جمہوری کا جمہو ر کی توجہ سے ہوتے ہیں- بھائیو تم دیکھتے ہو کہ اسلام کے باغ پر کس قدر پر طرف سے تیشے رکھے گئے ہیں اور اسلام کی نسبت کی ارادہ کیا گیا ہے- اور ہمارے پیارے نبی ہمارے محبوب رسول افضل الرسل صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کچھ افتراء کئے جاتے ہیں اور کس قدرذریعے خلق اللہ کے بہکانے کے لیے استعمال کئے گئے ہیں- بھائیو! آج وہ دن ہے کہ فقراء کی دُعااوعلماء کی علمیت سے اغنیاء کی دولت السلام کی عزت اور نبی کریمؐ کے جلال اور شوکت ظاہر کر نے کے لیے اس زور شور سے خرچ ہو کہ جیسے ایک سفلہ دنیا پرست کو رباطن اپنے کسی عزیز فرزند کی شادی کے لئے دل کھول کر اپنامال عزیز خرچ کرتا ہے یا ایک جاہل امیر اپنی شان و شوکت کی عمارت بنانے کے لئے ایک خزانہ کھول دیتا ہے- سو اٹھو اور کچھ خدمت کر لو اور دنیا روز دچند اور آخر کار باخدواند- اگرچہ اس عاجز کا ذرہ ذرہ اس جوش میں ہے کہ اس پر ظلمت زمانہ میں اللہ جلّشانہ اور اس رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور صداقت ظاہر کرے تا اسلام کی روشنی کے دن دوبارہ آویں- لیکن جو باتیں مصارف مالی پر موقوف ہیں وہاں کیا ہو سکتا ہے - خداتعالیٰ آپ پر رحم کرے
اگر اس وقت اور اس زمانہ میں کوئی دولت مند خواب غفلت سے بیدار ہو جائے تو مولیٰ کریم اور اس کے رُسول سیّد الرسل صلے اللہ علیہ وسلم کے راضی کرنے کے لئے کیسا عمدہ اور مبارک وقت ہے-
بیدار شوگر عاقلی دریاب گراہل ولی
شاید کہ نتواں یا فتن دیگر چینں ایام را
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار میرزا غلام احمدؐ مقام قادیان ضلع گورداسپور
مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان ضلع گورداسپور دہم اگست ۱۸۹۲ء
(یہ اشتہار۲۰×۲۶ ۸کے چارصفحوں پر ہے)
(۸۷)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
دوست آں باشد کہ گیر دستِ دوست
درپریشان حالی و ماندگی
اس وقت میں ضروری طور پر دوستوں کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ اخویک مکرم حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب جو اس وقت بمقام بھوپال چوبرار پوررہ میں نوکری سے علیحدہ ہو کر خانہ نشی ہیں- بوجہ تکالیف عُسر ہمدردی کالایق ہیں- اگر مولوی صاحب موصوف بڑے صابر اور متوکل اور خدا تعالیٰ پر اپنے کاروبار چھوڑنے والے ہیں- لیکن ہمیں خود موقعہ ثواب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے-حضرت مکرم نوردین صاحب ایسے للّہی کاروبار اور نوائب الحق میں سب سے پہلے قدم رکھتے تھے- مگر اس وقت برادر موصوف اپنے تعلق ملازمت ریاست جموںسے علیحدہ ہو گئے ہیں- لہذا ہر یک بھائی ایک اپنے اپنے مقدرت کے موافق توجہ درکار ہے- پہلے اکثر صاحب اس رائے کی طرف مائل تھے کہ جس وقت حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب کے لئے ایک رقم معقول چندہ ماہواری کی جو چالیس روپیہ ماہواری سے کم نہ ہو، قرار پاجائے تو اس وقت مولوی صاحب کو پنجاب میں بُلالیا جائے اور جس وقت وہ تشریف لے آویں اسی تاریخ سے ماہواری چندہ ادا کرنا لازم سمجھا جائے- مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کو اس تفرقہ اور پریشانی میں ڈالنا ضروری نہیں-
خدمت دین کا کام وہ بھوپال میں رہ کر بھی کر سکتے ہیں- مناسب ہے کہ ہر یک صاحب جو چندہ دینے کو طیار ہیں- یکم اگست اور ستمبر ۱۸۹۲ء بلا توقف مولوی صاحب کی خدمت میں بھیجدیں - اور آئیندہ ماہ بماہ دو ماہ کے بعد غایت تین ماہ کے بعد جس طرز سے سہولیت دیکھیں براہ راست اپنا اپنا چندہ مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں ارسال فرما دیا کریں- اور میری معرفت چندہ بھیجنا کچھ ضرورت نہیں بلکہ اس میں حرج متصور ہے- چاہے کہ براہ راست بھوپال دارلریاست میں جوبدار پورہ کے محلہ میں چندہ بھیجدیا کریں- اور اب تک جن جن صاحبوں نے حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے لے چندہ دینا تجویز کیا ہے - ان کے نام نامی معہ تعداد چندہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں:-
نمبر شمار
نام چندہ دہند معہ پتہ سکونت
تعداد چندہ
۱
منشی ہاشم علی صاحب پٹواری برنالہ
۴/
۲
شہزادہ عبد المجید صاحب لُدھیانہ کھڈ محلہ
۲/
۳
منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر ریلوے
۴
منشی فیاض علی صاحب دارلریاست
۴/
۵
منشی عبد الرحمن صاحب کپور تھلہ
۴/
نمبر شمار
نام چندہ دہند معہ پتہ سکونت
تعداد چندہ
۶
شیخ رحمت اللہ صاحب گجرات پنجاب
۷
دولت خاں ملازم مقام کا لکا اسٹیشن کا لکا
۴/
۸
مفتی محمد صادق مدرس جمّوں متوطن بھیرہ
۴/
۹
حکیم فضل الدین صاحب بھیروی
۱۰
بابو محمدؐ صاحب ہیڈ کلرک انبالہ چھائونی
۱۱
خلیفہ نور دین صاحب تا جر کتب جموّں
۱۲
حضرت مولوی حکیم نورالدّین صاحب
۱۳
سید حمید شاہ صاحب زبانی حضرت حکیم نورالدین صاحب
۸/
۱۴
مولوی غلام قادر نصیح صاحب سیالکوٹ
۱۵
میاں محمد علی صاحب لاہور معرفت بابو نبی بخش صاحب کلرک دفتر ایگز یمینہ ریلوے
۴/
۱۶
میاں مظفر دین صاحب لاہور معرفت// //
۴/
۱۷
میاں عبد الرحمن صاحب لاہور // //
۴/
۱۸
حافظ فضل احمد صاحب لاہور // //
۴/
۱۹
منشی مولا بخش کلرک // //
۴/
۲۰
بابو نبی بخش کلرک دفتر ایگزیمنہ صاحب ریلوے
۸/
۲۱
سید امیرعلی شاہ صاحب سارجنٹ سیالکوٹ
۲۲
سید خصلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر کڑیانوالہ گجرات
ان تمام حضرات کی خدمت میں مکرر عرض ہے کہ اگر کوئی مجبوری بشریت یا کوئی پریشانی مانع نہ ہو تو اس اشتہار ک پہنچنے کے ساتھ ہی دو ماہیہ چندہ یعنی بابت اگست و ستمبر ۱۸۹۲ ء حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب کی خدمت میں بلا توقف ارسال فرما دیں- پتہ وہی بھوپال محلہ چوبدار پورہ لیکن جو حضرات کسی پریشانی یا تبدل حال کی وجہ سے بالفعل مجبور ہوں وہ عرضداشت سے مستثنیٰ ہیں-
اطلاع اور خوشخبری
کتاب آئینہ کمالات اسلام پانچ جز تک چھپ چکی ہے- لیکن پہلے جو ارادہ کیا گیا تھا اس سے کتاب کی ضخانت بڑھ گئی ہے-شاید دو چند یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے- اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ کتاب کے دو حصّے کئے جائیں- ہر یک حصّہ قیمت مناسب کے ساتھ شائع ہو گا اور شاید ایک ماہ تک پہلا حصہ شائع ہو جائے-
الرقم خاکسار میرزا غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور
۱۲ ستمبر ۱۸۹۲ ء بروز شنبہ مطبوعہ ریاض ہند پریس ضلع گورداسپور
اطلاع
ہمارے یہاں قادیان میں شیخ نور احمد صاحب کا پریس آ گیا ہے- اگر ہمارے دوستوں میں سے یا دوستوں کے دوستوں میں سے اس پریس میں کچھ چھپانا چاہیں تو پریس کی امداد قادیان میں اس کے قایم رہنے کا موجب ہو سکتا ہے-
یہ اشتہار ۲۰× ۲۶ ۴ کے ایک صفحہ پر ہے-


(۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط
نحمدہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکریْم ط
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ء میں اس عاجز کو محبوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہو گا- اس جلسہ کے اغراض میں بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو- پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے- ماسوا اس کے جلسہ میں یہ ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں- کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے لئے طیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں ار ہراساں ہیں- چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کے میرے نام چھٹی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں- اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم- کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی سچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں- سو بھائیویقینا سمجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے- خدا تعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا- انشا ء اللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی- خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے- اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے- سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی با برکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک صاحب ضرور تشریف لاویں جو زادراہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں- اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حربوں کی پرواہ نہ کریں- خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہریک قدم پر ثواب دیتا ہے- اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی- اور مکرر لکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں- یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے- اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے- اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں- جو عنقریب اس میں آ ملیں گی- کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں- عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نیچریت کا نشان رہے گااور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے- اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے- اور خدا تعالیٰ اس امت وسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا- وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا- وہی راہ جو رسُول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓ کو سکھلائی تھی- وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے-یہی ہو گا ضرور یہی ہو گا- جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے- مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہریک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں- خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہم و غم دُور فرماوے- اور ان کو ہر ایک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے- اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کو ساتھ اُن کو اُٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر اُن کے بعد ان کا خلیفہ ہو- اے خدا اے ذولمجد اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرماکہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے آمین ثم آمین-
والسّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
الراقم خاکسار غلام احمدؐ از قادیان ضلع گوردسپور- عفی اللہ عنہ
(۷دسمبر ۱۸۹۲ء )
(یہ اشتہار ۸/۲۰*۲۶ کے دو صفحوں پر ہے مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان)
(۸۹)
مُباہلہ کے لئے اشتہار
اُن تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کی جزئی اختلافات کی وجہ سے یا اپنی نا فہمی کے باعث سے کافر ٹھہرتے ہیں- عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہو گیا ہوں کہ تا مَیں آپ لوگوںسے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں- اس طرح پر کہ اوّل آپ کو مجلس مُباہلہ میں اپنے عقاید کے دلائل ازروئے قرآن اور حدیث کے سُنائوں اگر پھر آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مُباہلہ کروں - سو میرے پہلے مخاطب میں نذیر حسین دہلوی ہیں- اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی- اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے تمام وہ مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سر گروہ سمجھے جاتے ہیں- اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم ۱۸۹۲ء ہے - چار ماہ تک مُہلت دیتا ہوں اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بلا مباہلہ نہ کیا اور نہ کافر کہنے سے باز آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کہ حُجت اُن پر پوری ہو گی- میں اوّل یہ چاہتا تھا ک وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کُفر قرار دیئے ہیں اور رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں- لیکن بباعث بیمار ہو جانے کاتب اور حرج واقع ہونے کے ابھی تک وہ حصّہ طبع نہیں ہو سکا-ک سو میں مباہلہ کی مجلس میں وہ مضمون بہرحال سُنا دوں گا- اگر اس وقت طبع ہو گیا ہو یا نہ ہواہو- لیکن یاد رہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کافتوی لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اوّل اس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے- اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت کیا جائے- اور پھر اگر باز نہ آویں تو اُسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے- اور مباہلہ کی اجازت کے بارے میں کلام الہٰی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے:-
نظر اﷲاالیک معطراً- و قالو اتجعل فیھا یفسد فیھا - قال انی اعلم مالا تعلمون - قالو اکتاب ممتلئی من الکفر والکذب- قل تعالو اند ع ابناء نا و ابناء کم و نسا ء نسا کم وانفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین
یعنے خدا تعالیٰ نے ایک معطر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قایم کر دے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے -تو خدا تعالیٰ نے اُن کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوںتم نہیں جانتے- اور ان لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے- سو ان کے کہ دے کہ آئو ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں- پھر ان پر *** کریں جو کاذب ہیں-
یہ وہ اجازت مباہلہ ہے جو اس عاجز کی دی گئی - لیکن ساتھ اس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے ان میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوںاور وہ یہ ہیں یوم یجی الحق و یکشف الصدق ویخسرا الخاسرون - انت معی و انامعک ولا یعلمہا الا المسترشدون نرد الیک لکّوۃ الثانیہ و نبد لنک منب بعد خوف امناً - یأتی قمر الانبیاء و امرت یتأ یسر اﷲو جھک و ینیر برھانک- سیو لد لک اولد و یدنیٰ منک الفضل -ان نوری قریبٌ و قالو ا انی لک ھذا قل ھواﷲ عجیب - والا تیئس من روح اﷲ- انظر الیٰ یوسف اقبالہ- قد جاء وقت الفتح والفتح اقرب- یخرّون علے المساجد ربنا اغفر لنا انا کناخاطئین- لا تثربب علیکم الیوم یغفر اﷲ لکم و ھوا ارحم الراحمین- اردت ان استخلف فخلقت اٰدم نجيّ الاسرار خلقنا الانسان فی یومٍ موعود یعنی اس دن حق آئے گا اور صدق کھُل جائے گااور جو لوگ خسار ہ میں ہیں اور خسارہ میں پڑیں گے تو میرے ساتھ میں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رشد رکھتے ہیں ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے- اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کر دیں گے- نبیوں کا چاند آئے گا- اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا- خداتیرے منہ بشاش کرے گا- اور تیرے برہان کو روشن کر دے گا- اور تجھے ایک بیٹا عطا ہو گا- اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا اور میرا نزدیک ہے اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں- ان کو کہہ کہ وہ ؒخداعجیب خدا ہے- اس کے ایسے ہی کام ہیں- جس کا چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے- اور میرے فضل سے نومید مت ہو- یوست کو دیکھ اور اس کے اقبال کو- فتح کا وقت آ رہا ہے اور فتح قریب ہے مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں میں گرینگے کہ اے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطاء پر تھے آج تم کوئی سرزنش نہیں-خدا تمہیں بخش دے گا- اور وہ ارحم الراحمین ہے- میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں تو میں نے آدم پیدا کیا جو نجی االاسرار ہے ہم نے ایسے دن اس کو پیدا کیا جو وعدہ کا دن تھایعنے جو پہلے پاک نبی کے واسطہ سے ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہو گا- اور جس وقت پیدا ہو گا فلاں قوم دُنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہو گی اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی روئے زمیں پر پھیلی ہوئی ہو گی- اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہو ا- اور وہ صلیب کا زمانہ اور عیسٰی پرستی کا زمانہ ہے- جو شخص کہ سمجھ سکتا ہے - چاہیے کہ ہلاک ہونے سے پہلے سمجھ لے- یکسر الصلیب پر غور کرے- یقتل الخزیر کو سوچے- یضع الجریتہ کو نظر تدبر سے دیکھے جو یہ سب امور اہل کتاب کے حق میں ان کی شان میں صادق آ سکتے ہیں نہ کسی اور کے حق میں- پھر جب تسلیم کیا گیا کہ اس زمانہ میں اعلیٰ طاقت عیسائی کی طاقت اور عیسائی گورنمنٹوںکی طاقت ہو گی جیسا کہ قرآن کریم بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے- تو پھر ان طاقتوں کے ساتھ ایک فرضی اور خیالی اور وہمی دجّال کی گنجایش کہاں- یہی لوگ تو ہیں جو تمام زمیں پر محیط ہو گئے ہیں- پھر اگر ان کے مقابل پر کوئی اور دجّال خارج ہو تو وہ باوجود ان کے کیونکر زمین پر محیط ہو- ایک میان میں تلواریں تو سما نہیں سکتیں- جب ساری زمین پر دجّال کی بادشاہت ہو گی تو پھر انگریز کہاں ہو ں گے اور روس کہاں اور جرمن اور فرانس وغیرہ یورپ کی بادشاہتیں کہاں جائیں گی- حالانکہ مسیح موعود کا عیسائی سلطنتوں کے وقت ظاہر ہونا ضروری ہے- اور جب مسیح موعودؑکے لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں عیسائی طاقتوں کو ہی دنیا غالب پاوے اور تمام مفاسد کی کنجیاں انہیں کے ہاتھ میں دیکھے انہیں کی صلیبوں کو توڑے اور انہیں کے خنزیروں کو قتل کرے اور انہیں کو اسلام میں داخل کر کے جزیہ کا قصہ تمام کر ے- توپھر سوچو کہ فرضی دجّال کی سلطنت باوجود عیسائی سلطنت کے کیونکر ممکن ہے- مگر یہ غلط ہے کہ مسیح موعود ظاہری تلوار کے ساتھ آئے گا- تعجب کہ یہ علماء یضع الحرب کے کلمہ کو کیوں نہیں سوچتے اور حدیث الائمۃ من القریش کو کیوں نہیں پڑھتے پس جبکہ ظاہری سلطنت اور خلافت اور امامت بجز قریش کے کسی کے لئے رواہی نہیں تو پھر مسیح معوعد جو قریش میں سے نہیں ہے- کیونکر ظاہری خلیفہ ہو سکتا ہے اور یہ کہنا کہ وہ مہدی سے بیعت کرے گا- عجب بیہودہ باتیں ہیں - نہیں حضرات خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو ہدایت دے- مسیح موعود کی روحانی خلافت ہے- دنیا کی بادشاہتوں سے اس کو کچھ تعلق نہیں- اس کو آسمانی بادشاہت دی گئی ہے- اور آج کل یہ زمانہ بھی نہیں کہ تلوار سے لوگ سچا ایمان لا سکیں- آج کل تو پہلی تلوار کی سخت حاجت ہے سو وہ چلے گی اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا-
اب ہم اس مقدمہ کو ختم کر تے ہیں - لیکن ذیل میں ایک روحانی تلوار مخالفوں پر چلا دیتے ہیں اور وہ یہ ہے ٭
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام بار اوّل مطبوعہ ہند پریس قادیان کے صفحہ ۱۶۱ سے صفحہ ۲۷۱ تک ہے )
(۸۸)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط
نحمدہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکریْم
( اللّٰہ اکبر مربت الذلۃ علیٰ کَل مغالفٍ)
اشتہار
بنام جملہ پادری صاحبان و ہندو صاحبان و آریہ صاحبان و برہمو صاحبان و سکھ صاحبان و دہری صاحبان و نیچری صاحبان وغیرہ صاحبان
الحمد اللّٰہ الّذی ارسل رسولہ یا الھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدّ ین کلّہ ولو کرہ المشرکون- والصّلٰوۃ والسَّلام علیٰ خیر رسلہ رافضل انبیا ئہٖ سلامتِہ وسلا لۃ اصفیا ئہٖ محمّد ن المصطفیٰ الّذی یصلّے علیہ اللّٰہ و ملائکتہٖ المؤ منون المقربون-امابعد چونکہ اس زمانہ میں مذاہب مندرجہ عنوان تعلیم القرآن کے سخت مخالف ہیں اور اکثر ان کے ہمارے سیّد و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیا صلے اللہ علیہ و سلم کو حق پر نہیں سمجھتے اور قرآن شریف کو ربّانی کلام تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے رسُول کریم کو مفتری اور ہمارے صحیفہ پاک کتاب اللہ کو مجموعہ افتراء قرار دیتے ہیں- ااور ایک زمانہ دراز ہم میں اور ان میں مباحثات میں گزر گیا- اور کامل طور پر ان کے تمام الزامات کا جواب دے دے گیا- اور جو ان کے مذاہب اور کتب پر الزامات عاید ہوتے ہیں اور شرطیں باندھ باندھ کر اُن کو سُنائے گئے اور ظاہر کر دیا گیا ان کے مذہبی اصول اور عقائدقوانین جو اسلام نے حق کو قبول نہیں کیا اور نہ اپنی شوخی اور بد زبانی کو چھوڑا- آخر ہم نے پورے پورے اتمام حجت کی غرض سے یہ اشتہار آج لکھا ہے جس کا مختصر مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے-
صاحبو ! تمام اہل مذاہب جو سزا جزاء کو مانتے ہیں اور بقاء رُوح اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں- اگرچہ صدہا باتوں میں مختلف ہیں- مگر اس کلمہ پر سب اتفاق رکھتے ہیں جو خدا موجود ہے - اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسی خدا نے ہمیں یہ مذہب دیا ہے اوراسی کی ہدایت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے - اور کہتے ہیں کہ اس کی مرضی پر چلنے والے اور اس کے پیارے بندے صرف ہم لوگ ہیں اور باقی سب مورد غضب اور ضلالت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں جن سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہے- پس جبکہ ہر یک کا دعویٰ ہے کہ میری راہ خدا تعالیٰ سخت ناراض ہے- پس جبکہ ہر یک کا دعویٰ ہے کہ میری راہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے- اور مدار نجات اور قبولیّت فقط یہی راہ ہے و بس-اور اسی راہ پر قدم مارنے سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ایسوں سے ہی وہ پیار کرتا ہے اور ایسوں کی ہی وہ اکثر اور اغلب طور پر باتیں مانتا ہے-اور دُعائیں قبول کرتا ہے- تو پھر فیصلہ نہایت آسان ہے اور ہم اس کلمہ مذکورہ میں ہر یک صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں- ہمارے نزدیک بھی یہ سچ ہے کہ سچے جھوٹے میں اسی دنیا میں کوئی ایسا مابہ الا متیاز قائم ہونا چاہیے- جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہر- یُوں تو کوئی اپنی قوم کو دوسروی قوموں سے خدا ترسی اور پرہیز گاری اور توحید اور عدل اور انصاف اور دیگر اعمال صالحہ میں کم نہیں سمجھے گا- پھر اس طور سے فیصلہ ہونا محال ہے - اگرچہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں وہ قابل تعریف باتیں ایک بے نظیر کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن سے اسلام کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے- مثلاً جیسے اسلام کی توحید، اسلام کا تقویٰ ، اسلام کے قواعد ، حفظان عفت ، حفظان حقوق جو عملاًکروڑ ہا افراد پرمیں موجود ہیں- اور اس کے مقابل پر جو کچھ ہمارے مخالفوں کی اعتقادی اور عملی حالت ہے- وہ ایسی شے ہے جو کسی منصف سے پوشیدہ نہیں- لیکن جبکہ تعصب درمیان ہے تو اسلام کی ان خوبیوں کو کون قبول کر سکتا ہے اور کون سُن سکتا ہے- سویہ طریق نظری ہے اور نہایت بد یہی طریق جو دیہات کے ہل چلانے والے اور جنگوں کے خانہ بدوش بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں یہ ہے کہ اس جنگ و جدل کے وقت میں جو تمام مذاہب میں ہو رہا ہے اور اب کمال کو پہنچ گیا ہے، اسی سے مدد طلب کریں جس کی راہ میں یہ جنگ وجدل ہے- جبکہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور درحقیقت اسی کے بارے میں یہ سب لڑائیاں ہیں- تو بہتر ہے کہ اسی سے فیصلہ چاہیں- اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری یہ حالت ہے کہ میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں- اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الٰہیہ اور اجابت دُعائوں کا مجھے حاصل ہوا ہے- جہ جو بجز سچّے نبی کے پیرو کے اَور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا- اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ مل نہیں سکتا اور وہ کلام الہٰی جو دوسرے ظنّی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سُن رہا ہوں- اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں- اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اَور ہے- اس کے لئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے- اگر وہ امور غبیہ کے ظاہر ہونے اور دُعائوں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہو گی، اس کے حوالہ کر دوں گا- یا جس طرح سے اس کی تسلّی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلّی دُوں گا- میرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں میں دل سے یہ کہتا ہوں- اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہوں اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس کو قبول کو لوں گا- میں ہر گز عذر نہیں کروں گا- اگرمیں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جائوں اور اگر سچا ہوں تو چاہتا ہوں کہ ہلاک شدہ میرے ہاتھ سے بچ جائے- اے حضرات پادری صاحبان جو اپنی قوم میں معّزز اور ممتاز ہو- آپ لوگوں کو اللہ جلشانہ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہو جائو- اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اس صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ضرور میرے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائو- جس نے مسیح کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا-جس نے انجیل نازل کی جس نے مسیح کو وفات دے کر پھر مُردوں میں نہیں رکھا- بلکہ اپنی زندہ جماعت ابرھیم اور موسیٰ اور یحییٰ اور دوسرے نبیوں کے ساتھ شامل کیا اور زندہ کر کے انہیں کے پاس آسمان پر بُلا لیا جو پہلے اس سے زندہ کئے گئے تھے- کہ آپ لوگ میرے مقابلہ کے لئے ضرور کھڑے ہو جائیں- اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور سچ مچ مسیح خدا ہی خدا ہے تو پھر تمہاری فتح ہے- اوراگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجز اور ناتواں انسان ہے اور حق اسلام مین ہے تو خدا تعالیٰ میری سُنے گا اور میرے ہاتھ پر وہ امر ظاہر کر دے گا جس پر آپ لوگ قادر نہیں ہو سکیں گے اور اگر آپ لوگ یہ کہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے اور نہ ایمانداروں کی نشانیاں ہم میں موجود ہیں تو آئو اسلا م لانے کی شرط پر یکطرفہ خدا تعالیٰ کا م دیکھو اور چاہیے کہ تم میں سے جو نامی اور پیشرد اور اپنی قوم میں معزز شمار کئے جاتے ہیں وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک میرے مقابل پر آوے- اور اگر مقابلہ سے عاجز ہو تو صرف اپنی طرف سے یہ وعدہ کر کے کہ میں کوئی ایسا کام دیکھ کر جو انسان سے نہیں ہو سکتا ، ایمان لے آئوں گا اور اسلام قبول کر لوں گا- مجھ سے کسی نشان کے دیکھنے کی درخواست کریں- اور چاہیے کہ اپنے وعدہ کو یہ ثبت شہادت بارہ کسی عیسائی و مسلمان و ہندو یعنی چار عیسائی اور چار مسلمان اور چار ہندو مؤکد بہ قسم کر کے بطور اشتہار کے چھپوا دیں- اور ایک اشتہار مجح کو بھی بھیج دیں- اور اگر خدا تعالیٰ کوئی اعجوبہ قدرت ظاہر کرے جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو بلا توقف اسلام قبول کر لیویں- اور اگر قبول نہ کریں تو پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ میں اپنے خدا تعالیٰ سے چاہوں گا کہ ایک سال تک ایسے شخص پر کوئی سخت و بال نازل کرے- جیسے جذام یا نابینائی یا موت- اور اگر یہ دعا منظور نہ ہو تو پھر بھی میں ہر یک تاوان کا جو تجویز کی جائے سزاوار ہوں گا- یہی شرط حضرات آریہ صاحبوں کی خدمت میں بھی ہے اگر وہ اپنے دید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور ہماری پاک کتاب کلام اللہ کو انسان کا افتراء خیال کرتے ہیں تو وہ مقابل پر آویں اور یاد رکھیں کہ وہ مقابلہ کے وقت نہایت رُسوا ہوں گے- ان میں دہریّت اور بے قیدی کی چالاکی سب سے زیادہ ہے- مگر خدا تعالیٰ ان پر ثابت کر دے گا کہ میں ہوں - اور اگر مقابلہ نہ کریں تو یکطرفہ نشان بغیر کسی بے ہودہ شرط کے مجھ سے دیکھیں اور میرے نشان کے منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اگر ایسا آریہ جس نے کوئی نشان دیکھا، بلاتوقف مسلمان نہ ہو جائے تو میں اس پر بد دُعا کروں گا- پس اگر وہ ایک سال تک جذام یا نابینائی یا موت کی بَلا میں مبتلا نہ ہو تو ہر یک سزا اُٹھانے کے لئے طیار ہوں - اور باقی صاحبوں کے لئے بھی یہی شرائط ہیں- اور اگر اب بھی میری طرف مُنہ نہ کریں - تو ان پر خدا تعالیٰ کی حجّت پوری ہی چکی-
المشتـــــــــــــــــــــــــــــــــھر
خاکسار غلام احمدؐ قادیان ضلع گورداسپور
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام بار اول مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے ۲۷۲ سے ۲۷۸ تک ہے)
(۹۱)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط
نحمدہ وَ نُصَلِیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکریْم
قیامت کی نشانی
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیںاور وہ یہ ہے - یقبض العلم بقبض العلماء حتی ازالم یبق عالم اتخذ الناس رؤسا جھا لاً نسئلو ا فافتوا بغیر علم فضلو اوفضلو یعنی بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا- یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا- تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتداء اور سردار قرار دے دیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے- تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و صواب فتویٰ دیں گے - پس آپ بھی گمراہ ہوں گے-اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے - اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدث اور فقیہ ان تمام لوگوں سے بد تر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوںگے- پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن ان کے خنجروں کے نیچے نہیں اُترے گا- یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے- ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں- مگر اس وقت ہم بطور نمونہ نہ صرف اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جوغلط فتنووںکے بارے میں ہم اُوپر لکھے چکے ہیں تا بر یک کو معلوم ہو کہ آجکل اگرمولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے- اور حضرت خاتم انبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں-
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گذشتہ مین بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشورہ اعلائِ کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں- اور اس مشورہ کے وقت یہ قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا نسب اور اولیٰ ہے- کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں- اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں- چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے- اب ٭۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پریس قادیان میں چھپا تھا- جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اُٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو- اب سُنا گیا ہے کہ اس کاروائی کو بد عت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمّت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیںاور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک اسفتاء پیش کیا جس کا مطلب یہ تھا یکہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دُور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کے لئے کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے- استفتاء میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سُنا ہو گا جو حبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاح نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہو گا، قادیان میںایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے- اس استفتار کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طعیل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شدر حال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیںکہ جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیّت ہے- اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سُنت میں کوئی شہادت نہیں- اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے-
اب منصف مزاج لوگ ایماناًکہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں- اے بھلے مانس…کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کے لئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرادیا ہے جس کا عمداً تارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں کُفر- کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلمٍ و مسلٰمۃٍ اور فرمایا گیا ہے کہ اطلبو العلم و لوکان فی الصینیعنی علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور علم کو طلب کرو اگرچہ چین میں جانا پڑے- اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفا ظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم نیت سے ہو گا- پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے - کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دُور ہے- رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بد عت نہیں- الما الاعمال بالنیات - بد ظنی کے مادہ فاسد کو ذرا دُور کر کے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جب کہ ۲۷ دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقت بھی ہو جاتی ہے- تو اس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے - تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کو وہ حدیثیںیاد نہ رہیں جن میں طلب علم کے لئے پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے- اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کے لیے جانا موجب خوشنودی خدا ئے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کر کے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا جائے کہ بُجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اَور تمام سفر قطعی حرام ہیں- یہ بات ظاہر ہے کہ تمامسلمانوں کو مختلف اغراض کے لئے سفر کرنے پڑتے ہیں - کبھی سفر طلب علم ہی کے لیے ہوتاہے- اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کے لئے- یا مثلاً عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کے لئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کے لئے اور کبھی مرد اپنی شادی کے لئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کے لئے سفر کرتے ہیں- جیسا کہ حضرت عمرؓ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کے لئے سفر کیا تھا- اور کبھی سفر جہاد کے لئے بھی ہوتا ہے- خواہ وہ جہاد تلوار وسے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیّت مباہلہ ہوتا ہے- جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورکبھی سفر اپنے مُرشد کے ملنے کے لئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبد القادرؓ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدّد الف ثانی بھی ہیں- اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفر نامے اُن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں- اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کے لئے بھی ہوتا ہے - جیسا کہ احادیث سے اس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے- اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں- شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہو گی- اور کبھی سفر عجائبات دُنیا کے دیکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے- جس کی طرف آیت کریمہ قل سیروا فی الارض اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ یا ایھا الّذین اٰمنو ااتقو اﷲ و کونو مع الصادقین ہدایت فرماتی ہے- اور کبھی سفر عیادت کے لئے بلکہ اتباع خیاز کے لئے بھی ہوتا ہے- اور کبھی بیمار یا بیمار کے علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے - اورکبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے- اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رُو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حثّ و ترغیب پائی جاتی ہے- اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے- ایسے فتویٰ لکھانے والے اورلکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثراس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں- پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی اُن کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پُرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں- میں خیال نہیں کرتا کہ بُجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اورجہالت نے اندھا کر دیا ہو- وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متامل ہو سکے- صحیح بخاری کا صفحہ ۱۶کھول کر دیکھو کہ سفر طلب کے لئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ من سلک طریقاً یطلب بہٖ علماً سھل اﷲ لہ طریق الجنۃ یعنے جو شخص طلب علم کے لئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے- اب اے ظالم مولوی ذرا انصاف کر کہ تو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گواہل قبلہ اور اللہ رسولؐ پر ایمان لاتا ہے ، مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے ، مردود رکھا اور اخدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پرواہ نہ کی کہ اسعد النا س بشفا عتی یوم القیامۃمن قال لا الٰہ لا اللّٰہ خالصاً من قبلہٖ- اور مردودٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہارکیوں شائع کیا ور لوگوں کو جلسہ پر بُلانے کے لئے کیوں دعوت کی- اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کا کیا مضمون ہے- کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کے لئے بُلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشااور راگ اور سرود کا ذکر ہے- اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو! تم اللہ جل شانہ ‘ سے کیوںنہیں ڈرتے- کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہر یک مؤاخذہ تم کو معاف ہے- حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسُولؐ کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے با ز آ جائیں- بلکہ مقد مہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آئو کسی طرح باتوں کو بنا کر اس کا رد چھاپیں- تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا- اس قدر دلیری اور بد دیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کے لئے- آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کے لیے اور اپنے شبہات دُور کرنے کے لئے اور اپنے دینی بھائیوں اور عزیزوں کو ملنے کے لئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر واجر عظیم قرار دیا ہے- بلکہ زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا قدیم سے سُنّت سلف صالح چلی آئی ہے- اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سخت مؤاخذہ میں ہو گا تو اللہ جل شانہ‘ اس پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کے لئے کبھی تو گیا تھا تو وہ کہے گا- با لارادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہو گئی تھی- تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جابہشت میں داخل ہو- میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا- اب اے کوتہ نظر مولوی ذرا نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے- اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کے لئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی ایسا فعل رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم یا صحابہؓ سے کب ثابت ہے - تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیخحو کہ اہل ہادیہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسائل دریافت کرنے کے لئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے- اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پا کر حاضر خدمت رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے- اور صحیح بخاری میں ابی حمزہ سے روایت ہے قال ان وفد عبد القیس اتوا النبی صلے اﷲ علیہ وسلم قالو ااناناتیک من شقۃ بعیدۃ والا تستطیع ان تائیک الا فی شھر حرامٍ- یعنی ایک گروہ قبیلہ القیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے- آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا- اور کہا کہ ہم لوگ دور سفر کر کے آتے ہیں- اور بُجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت ہو سکتے - ان کے قول کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ردّ نہیں کیا اور قبول کیا- پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ متسبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کے لئے کسی اپنے مقتداء کی خمت میں حاضر ہونا چاہیں-وہ اپنی گنجایش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں- جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں- اور یہی صورت ۲۷ دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے- کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بسہولت اُن دنوں میں آ سکتے ہیں- اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلاً کسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے- سہل اور آسان ہو سکتا ہے- تو وہی تدبیر اختیار کر لو- کچھ مضائقہ نہیں ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی نہ دنیا کی- امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کے لئے ایک خاص باب منعقد کیا جس کا یہ عنوان ہے- من جعل لا ھل العلم ایاماً معلومۃ- یعنی علم کے طالبوں کے …… افادہ کے لئے خاص مقرر کرنا بعض صحابہ کی سُنت ہے- اس ثبوت کے لئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی دائل سے یہ راویت کرتے ہیں- کان عبد اللہ یذ کر الناس فی کل خمیس یعنی عبد اللہ نے اپنے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے - یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جل شانہ‘ نے قرآن کریم میں نذیر اور نتظام کے لئے ہمیں حکم فرمایا ہے- اور ہمیں مامور کیا ہے جو کہ احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کے لئے مفید خیال کریں وہی بجا لا دیں- جیا کہ وہ عزا سمئہ فرماتا ہے- واعد والھہا استطعم من قوۃ - یعنی دینی دشمنوں کے لئے ہر یک قسم کی تیاری جو کر سکتے ہو- کرو- اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے جو قوت لگا سکتے ہو لگائو- اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کے لئے کارگر ہوں سب بجا لائو- اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی- اپنی مالی طاقت کی- اپنے احسن انتظام کی- اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تاکہ تم فتح پائو- اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صَرف قوت اور حکمت عملی کا نام بد عت رکھتے ہیں- اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں- جن کو قرآن کریم کی خبر بھی نہیں- اناّ ﷲ و انّا الیہ راجعون-
اس آیت موصوفہ پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی الما الاعمال بالنّیات کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے- جیسے جیسے بوجہ تبدّل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش کرنی پڑتی ہیں- پس اگر حالتِ موجودہ کے موافق ان حملوںکے روکنے کی کوئی تدبیراور تدارک چوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے- بدعا ت سے اس کا کچھ تعلق نہیں- اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش نہ آئی ہوں- مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میںپہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیںکر سکتے- کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے- اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اُٹھانا اور اُن سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہؓ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بُجز اس کے کہ ایک ذلّت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے، کوئی اَور بھی اس کا نتیجہ ہو گا- پس ایسے مقامات تدبیر اورا نتظام میں خواہ وہ مثلاً جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی، ہماری ہدایت پانے کے لئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے- یعنی یہ کہ اعدادلھم ما استطعتم من قوّہ اللہ جل شانہ‘ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں مؤثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو- پس اب ظاہر ہے کہ احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات کلمہ اسلام کے فکرمیں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ حب الانصار من الا یمان ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کاکام ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اوراگریہ کہو کہ یہ حدیث حب الانصار من الایمان وبغض الانصار من النفاق یعنی انصار کی محبت ایمان کی نشانی اورانصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ یہ ان انصارکے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اورتمام انصار تواس سے یہ لازم آئے گاکہ جواس زمانہ کے بعدانصار رسُول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے ۔نہیں نہیں ۔بلکہ یہ حدیث گوایک خاص گروہ کے لئے فرمائی گئی مگر اپنے اند رعموم کافائد ہ رکھتی ہے ۔جیساکہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کے لئے نازل ہوئیں مگر ان کامصداق عام قرار دیاگیاہے۔غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں ۔انصاردین کے دشمن اوریہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں۔مگر ہمارا یہ قول کلی نہیں ہے ۔راستباز علماء س سے باہرہیں ۔صرف خائن مولویوں کی نسبت یہ لکھاگیاہے ۔ہر یک مسلمان کویہ دعاکرنی چاہئیے کہ خداتعالیٰ جلد ان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے کیونکہ اسلام پر اب ایک ناز ک وقت ہے اوریہ نادان دوست اسلام پر ٹھٹھااورہنسی کراناچاہتے ہیں ۔اورایسی باتیں کرتے ہیں جوصریح ہریک شخص کے نو رقلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں ۔امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے ۔انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھاہے ۔چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں ۔قال علی رضی اللہ عنہ حدثو االناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ اوربخاری کے حاشیہ میںاس کی شرح میں لکھاہے ای تکلمواالنّاس علیٰ قدرعقولھم یعنی لوگوں سے اللہ رسُولؐ کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو ان کوسمجھ آجائیں اوران کومعقول دکھائی دیں۔
خوانخواہ اللہ رسُول ؐ کی تکذیب مت کرائو۔ا ب ظاہر ہے کہ جو مخالف اس بات کوسُنے گاکہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیاہے کہ بجُز تین مسجدوں یاایک دواورمحل کے اورکسی طرف سفر جائز نہیں۔ایسامخالف اسلام پرہنسے گااورشارع علیہ السّلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کے لئے اس کو موقع ملے گا۔اس کو یہ توخبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بناء پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یااس کی بے وقوفی ہے وہ توسیدھا ہمارے سیّدومولیٰ ﷺپر حملہ آورہوگا۔جیساکہ انہیں مولویوںکی ایسی ہی کئی مفسد انہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی۔مثلاًمولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیاکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تونعوذباللہ مُردہ ہیں مگرحضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں توہ وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اورہزاروں سادہ لوحوں کوانہوں نے انہیںباتوں سے گمراہ کیااوران بے تمیزوںنے یہ نہیں سمجھاکہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مُردہ تو اُن میں سے کوئی بھی نہیں ۔معراج کی رات آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظرنہ آئی۔سب زندہ ہیں ۔دیکھئے اللہ جلّشانہٗ اپنے نبی کریم کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتاہے اورفرماتاہے فلاتکن فی مریۃ من لقائِہٖ اورخودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت کے بعد اپنازندہ ہوجانا اورآسمان پر اُٹھائے جانااوررفیق اعلیٰ کوجاملنابیان فرماتے ہیں ۔پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کون سی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں ۔معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کوبرابر زندہ پایااورحضرت عیسٰی کوحضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھاہوادیکھا۔خداتعالیٰ مولوی عبد الحق محدث دہلوی پر رحمت کرے۔ وہ ایک محدث وقت کاایک قول لکھتے ہیں کہ ان کایہی مذہب ہے کہ اگرکوئی مسلمان ہوکرکسی دوسرے نبی کی حیات کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی ترسمجھے تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یاشاید یہ لکھاہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہوجائے۔ لیکن مولوی ایسے فتنوں سے بازنہیں آتے اورمخلص اوراس عاجزسے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے دین سے نکل جاتے ہیں ۔خداتعالیٰ ان سب کوصفحہ زمین سے اُٹھالے توبہترہے تادین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے۔ذراانصاف کرنے کامحل ہے کہ صدہالوگ طلب علم یاملاقات کے لئے نذیر حسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اوروہ سفر جائز ہواورپھر خود نذیرحسین صاحب بٹالوی صاحب کاولیمہ کھانے کے لئے بدیں عمروپیرانہ سالی دوسو کوس کاسفر اختیارکرکے بٹالہ میں پہنچیں اوروہ سفر بالکل رواہواورپھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے شملہ کی طرف دوڑ تے جائیں تادنیوی عزّت حاصل کرلیں اوروہ سفر ممنوع اورحرام شمار نہ کیاجائے ۔اورایساہی بعض مولوی وعظ کا نام لے کرپیٹ بھرنے کے لئے مشرق اورمغرب کی طرف گھومتے پھریں اوروہ سفر جائے اعتراض نہ ہو۔اورکوئی ان لوگوں پر بدعتی اوربداعمال اورمردودہونے کافتویٰ نہ دے ۔مگر جبکہ یہ عاجز باذن وامر لٰہی دعوت حق کے لئے مامور ہوکر طلب علم کے لئے اپنی جماعت کے لوگوں کوبلاوے تووہ سفرحرام ہوجائے ۔اوریہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے۔کیایہ تقویٰ اور خداترسی کاطریق ہے ۔افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اورانتظام کو بدعات کی مَد میں داخل نہیں کرسکتے ۔ہریک وقت اورزمانہ انتظامات جدیدہ کوچاہتاہے ۔اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں توبجُزجدید طور کی تدبیروں کے اورہم کیا کرسکتے ہیں۔پس کیایہ تدبیریں بدعات میں داخل ہوجائیں گی ۔جب اصل سنت محفوظ ہو اوراسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے توکیا وہ تدابیر بدعات نہیں کہلائیں گی ۔معاذاللہ ہر گز نہیں۔بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سُنّت نبویہ کے معارض اورنقیض واقع ہوں اورآثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اورتہدید پائی جائے۔اوراگرصرف جدت انتظام اورنئی تدبیر پر بدعت کانام رکھاہے توپھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جائو کچھ شمار بھی ہے ۔علم صرف بدعت ہوگااورعلم نحو بھی اورعلم کلام بھی اورحدیث کالکھنااوراس کامبوّب اور مرتب کرناسب بدعات ہوں گے ۔ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا۔کلوں کاکپڑاپہننا۔ڈاک میں خط ڈالنا۔تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا۔اوربندوق اورتوپوں سے لڑائی کرناتمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اورتوپوں سے لڑائی کرنانہ صرف بدعت بلکہ ایک گنا ہ عظیم ٹھہرے گا۔کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے ۔صحابہ سے زیادہ سُنّت کامتبع کون ہوسکتاہے ۔مگرانہوں نے بھی سُنّت کے وہ معنے نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش صاحب نے سمجھے انہوں نے تدبیر اورانتظام کے طورپر بہت سے ایسے کام کئے کہ جونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے۔اورقرآن کریم میں واردہوئے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھوجن کاایک رسالہ بنتاہے ۔اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقررکی اورشہروں کی حفاظت کے لئے کوتوال مقررکئے ۔اوربیت المال کے لئے ایک باضابطہ دفترتجویز کیا۔جنگی فوج کے لئے قواعد رُخصت اورحاضری ٹھہرائی اوران کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اورمقدمات مالی وغیرہ کے رجُوع کے لئے خاص خاص ہدائتیں مرتب کیں اورحفاظت رعایا کے لئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اورخودکبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طورپر رات کوپھرنا اوررعایاکاحال اس طرح سے معلوم کرنااپناخاص کام ٹھہرایا۔لیکن کوئی ایسانیاکام اس عاجز نے تونہیں کیا۔صرف طلب علم اورمشورہ امداداسلام اورملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا۔رہا مکان کابناناتواگرکوئی مکان بہ نیّت مہمانداری اوربہ نیت آرام ہر یک صادر ووارد بناناحرام ہے تواس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہئیے ۔اوراخویم حکیم نورالدین صاحب نے کیاگناہ کیاکہ محض للہ اس سلسلہ کی جماعت کے لئے ایک مکان بنوادیا۔جوشخص اپنی تما م طاقت اوراپنے مال عزیز وسے دین کی خدمت کرتارہاہے اس کوجائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے ۔اے حضرات مرنے کے بعدمعلوم ہوگا۔ذراصبر کرو ۔وہ وقت آتاہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جائو گے۔آپ لوگ ہمیشہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کوشناخت نہ کیااورمرگیاوہ جاہلیت کی موت مرا۔لیکن اس کی آپکو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پریعنی چودھویں صدی کے سر پر آیااورنہ صرف چودھویںبلکہ عین ضلالت کے وقت اورعیسائیت اورفلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیااوربتلایاکہ میں امام وقت ہوں اورآپ لوگ اس کے منکرہوگئے اور اس کانام کافر اوردجّال رکھا اور اپنے بدخاتمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پرمرنا پسند کیا ۔اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنجوقت نمازوں میں یہ دعا پڑھو کہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم اے ہمارے خدااپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا ۔وہ کون ہیں ۔نبی اورصدیق اور شہید اور صلحاء ۔اس دُعا کا خلاصہ مطلب یہی تھاکہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پائو اس کے سایہ صحبت میں تم آجائو اور اس سے تم فیض حاصل کرو۔ لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پرخوب عمل کیا۔آفرین آفرین میں ان کوکس سے تشبیہ دوں۔وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کے لئے بہت زور کے ساتھ لاف وگزاف مارتا ہے اور اپنی نابینائی سے غافل ہے -
بالآخرمیں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جلّشانہٗ کی قسم دیتاہوںکہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمدورفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتا ب کھول کر اور قرآ ن اور حدیث دکھلا کر ثابت کردوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسرباطل اورشیطانی اغواسے ہے ۔والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ -
۷دسمبر ۱۸۹۲؁ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
مطبوعہ ریاض ہند
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بطور ضمیمہ صفحہ الف تاج طبع ہوا ہے)
(۹۲)
ناظرین کی توجہ کے لایق
اس بات کے سمجھنے کے لئے انسان اپنے منصوبوںسے خداتعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا ۔یہ نظیر نہایت تشفی بخش ہے کہ سال گزشتہ میں جب ابھی فتویٰ تکفیر میاں بٹالوی صاحب کاطیا رنہیں ہوا تھا اور نہ انہوں نے کچھ بڑ ی جدوجہد اورجان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی صرف ۵۵ احباب اورمخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف لائے تھے۔ مگر اب جبکہ فتویٰ طیارہو گیااور بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آ پ بصد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کراورسفر کی ہرروزہ مصیتوں سے کوفتہ ہوکر اپنے ہم خیال علماء سے اس فتویٰ پرمہریں ثبت کروائیں اوروہ اور ان کے ہم مشر ب علماء بڑے ناز اورخوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب انہوں نے اس سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں۔تواس جلسہ میں بجائے ۷۵ کے تین سو ستائیس احباب شامل جلسہ ہوئے اورایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے توبہ کرکے بیعت کی ۔ا ب سوچنا چاہیئے کہ یہ خداتعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کاایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اوران کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا اُلٹا نتیجہ نکلا اورسب کوششیں برباد گئیں۔کیایہ خداتعالیٰ کافعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجا ب اورہندوستان میں پھرتے پھرتے پائوں بھی گھس گئے ۔لیکن انجام کار خداتعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ کیسے اس کے اراد ے انسان کے ارادوں پر غالب ہیں واللہ غالب علیٰ امرہٖ ولٰکن اکثر الناس لایعلمون ۔اس سال میں خداتعالیٰ نے دونشان ظاہر کئے ایک بٹالوی کااپنی کوششوں میں نامراد رہنا۔دوسری اس پیشگوئی کے پورے ہونے کانشان جو نورافشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔اب بھی بہترہے کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب باز آجائیں اورخداتعالیٰ سے لڑائی نہ کریں۔والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان
(یہ اشتہار ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۱۷ پر طبع ہواہے )
(۹۳)
قابل توجّہ احبا ب
اگرچہ مکرر یاددہانی کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔لیکن چونکہ دل میں انجام خدمت دینی کے لئے سخت اضطراب ہے۔اس وجہ سے پھر یہ چندسطریں بطور تاکید لکھتاہوں۔
اے جماعت مخلصین خداتعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔اس وقت ہمیں تمام قوموں کے ساتھ مقا بلہ درپیش ہے اورہم خداتعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ ہم ہمت نہ ہاریں۔اوراپنے سارے دل اورسارے زور اور ساری توجہ سے خدمت اسلام میں مشغول ہوں توفتح ہماری ہوگی۔سوجہاںتک ممکن ہواس کام کے لئے کوشش کرو۔ہمیں اس وقت تین قسم کی جمعیت کی سخت ضرورت ہے۔جس پر ہمارے کام اشاعت حقایق ومعارف دین کاسارا مدار ہے۔اوّل یہ کہ ہمارے ہاتھ میں کم سے کم دوپریس ہوں۔ دویم ایک خوشخط کاپی نویس۔ سوئم کاغذات۔ان تینوں مصارف کے لئے اڑھائی سوروپیہ ماہواری کاتخمینہ لگایا گیاہے۔
اب چاہیئے کہ ہر ایک دوست اپنی اپنی ہمت اورمقدرت کے موافق بہت جلد بلاتوقف اس چندہ میں شریک ہواوریہ چندہ ماہواری طور سے ایک تاریخ مقررہ پر پہنچ جانا چاہئیے۔بالفعل یہ تجویز ہوئی ہے کہ بقیہ براھین اورایک اخبار جاری کیاجائے اورآیندہ جو ضرورتیں ہمیں پیش آئیں گی ان کے موافق وقتاً فوقتاًرسائل نکلتے رہیں گے۔اورچونکہ یہ تمام کاروبار چندہ پر موقوف ہے اس لئے اس بات کو پہلے سوچ لیناچاہئیے کہ اُس قدر اپنی طرف سے چندہ مقرر کریں جو یہ سہولت ماہ بماہ پہنچ سکے۔
اے مردمان دین کوشش کرو کہ یہ کوشش کاوقت ہے۔ اپنے دل کودین کی ہمدردی کے لئے جوش میں لائو کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں۔اب تم خداتعالیٰ کو کسی اَور عمل سے ایسا راضی نہیں کرسکتے جیسا کہ دین کی ہمدردی سے۔سوجاگو اوراُٹھواورہوشیار ہوجائو۔اوردین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اُٹھائو کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ کہیں۔ اس سے مت غمگین ہوکہ لوگ تمھیں کافر کہتے ہیں۔تم اپنااسلام خداتعالیٰ کو دکھلائو اوراتنے جُھکو کہ بس فدا ہی ہوجائو۔
دوستاں خود انثارِ حضرت جاناں کنید
درہِ آں یار جانی جان ودل قربان کنید
آں دل خوش باش راکاند جہاں جوید خوشی
از پئے دینِ محمّدؐ کلبۂ احزاں کنید
از تعیش ہابروں آئید اے مردان حق
خویشتن را از پئے اسلام سرگرداں کنید
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۲۴ پر ہے)
(۹۴)
اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام
یاایّھا الّذین اٰمنو ان تنصروااﷲ ینصرکم
اے ایماندارو اگر تم اللہ تعالیٰ کی مددکرو تووہ تمھاری مدد کرے گا
اے عزیزان مدد دین متیں آں کارے ست
کہ بصد زہد میسّرز شود انساں را
واضح ہو کہ یہ کتاب جس کا نام عنوان میں درج ہے ان دنوں میں اس عاجز نے اس غرض سے لکھی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو قرآن کریم کے کمالات معلوم ہوں اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے ان کو اطّلاع ملے اورمیں اس بات سے شرمندہ ہوں کہ میں نے یہ کہا کہ میں نے اس کو لکھاہے۔ کیونکہ میں دیکھا ہوں کہ خداتعالیٰ نے اوّل سے آخر تک اس کے لکھنے میں آپ مجھ کو عجیب درعجیب مدد دیں ہیں اوروہ عجیب لطائف ونکات اس میں بھر دئیے ہیں کہ جو انسان کی معمولی طاقتوں سے بڑھ کرہیں۔میں جانتاہوں کہ اس نے یہ اپنا ایک نشان دکھلایاہے تاکہ معلوم ہوکہ وہ کیونکراسلام کی غربت کے زمانہ میںاپنی خاص تائیدوں کے ساتھ اس کی حمایت کرتاہے اورکیونکر ایک عاجز انسان کے دل پر تجلّی کرکے لاکھوں آدمیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتا اوران کے حملوں کوپاش پا ش کرکے دکھلا دیتاہے۔مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولاد اوراسلام کے شرفاء کی ذریّت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں اس کتاب کودیکھیں-اگرمجھے وسعت ہوتی تو میں تمام جلدوں کو مُفت لِلّٰہ تقسیم کرتا۔عزیزو!یہ کتاب قدرت حق کاایک نمونہ ہے-اورایک انسان کی معمولی کوششیں خود بخود اس قدر ذخیرہ معارف کا پید انہیں کرسکتیں-اس کی ضخامت چھ سو صفحہ کے قریب ہے اورکاغذ عمدہ اورکتاب خوشخط اورقیمت دوروپیہ اورمحصول علاوہ ہے-اوریہ صرف ایک حصہ ہے اوردوسرا حصہ الگ طبع ہوگا اورقیمت اس کی الگ ہو گی-اوراس میں علاوہ حقایق ومعارف قرآنی اورلطائف ربّ عزیز کے ایک وافر حصّہ اُن پیشگوئیوں کابھی موجودہے جن کواوّل سراج منیر میں شائع کاارادہ تھا۔اورمیں اس بات پر راضی ہوں کہ اگر خریدارانِ کتاب میری اس تعریف کو خلاف واقعہ پاویں توکتاب مجھے واپس کردیں۔مَیں بلاتوقف ان کی قیمت واپس بھیج دوں گا۔ لیکن یہ شرط ضروری ہے کہ کتاب کو دوہفتے اندر واپس کریں اوردوست مالیدہ اورداغی نہ ہو۔
اخیر یہ بات بھی لکھنا چاہتاہوں کہ اس کتاب کی تحریر کے وقت دودفعہ جناب رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کوہوئی اورآپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مُسرت ظاہر کی-اورایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بُلاتاہے اور کہتاہے۔ ھذا کتاب مبارک فتوموالاجلال والاکرام۔ یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لئے کھڑ ے ہو جائو-
اب گزارش مدعایہ ہے کہ جو صاحب اس کتاب کوخرید ناچاہیں وہ بلاتوقف مصمم ارادہ سے اطلاع بخشیں تاکہ کتاب بذریعہ ویلیو پے ایبل ا ن کی خدمت میں روانہ کی جائے ۔والسّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔
خاکســــــــــــــــار
غلام احمد ؐ ازقادیان ضلع گورداسپورپنجاب
(مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان)
(یہ اشتہار ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام ایڈیش اول مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ ۴ پرہے )
(۹۵)
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
(یہ حاشیہ متعلقہ صفحہ ۲اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء -مندرجہ آئینہ کمالات اسلام)
عجب نورے ست درجانِ محمّدؐ
عجب لعلے ست در کانِ محمّدؐ
ز ظلمت ہا دلے آنگہ شود صاف
کہ گردد از محبّانِ محمّدؐ
عجب دارم دلِ آں ناکساںراں
کہ رُو تابندہ از خوانِ محمّدؐ
ندانم ہیج نفسے در دو عالم
کہ دارد شوکت وشانِ محمّدؐ
خدا زاں سینہ بیزارست صد بار
کہ ہست از کینہ دارانِ محمّدؐ
اگرخواہی نجات از مستیٔ نفس
بیادر ذیلِ مستانِ محمّدؐ
اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت
بشو از دل ثناخوانِ محمّدؐ
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمّدؐ ہست بُرھانِ محمّدؐ
سرے دارم فدائے خاکِ احمدؐ
دِلم ہر وقت قُربان محمّدؐ
بگیسُوئے رسُول اللہ کہ ہستم
نثارِ رُوئے تابانِ محمّدؐ
دریں رہ گر کشندم ور بسوزند
نتابم رُو ز ایوانِ محمّدؐ
بکارِ دیں نترسم از جہانے
کہ دارم رنگِ ایمانِ محمّدؐ
بے سہل ست از دُنیا بُریدن
بیادِ حُسن واحسانِ محمّدؐ
فداشد در رہش ہر ذرۂ من
کہ دیدم حُسن واحسانِ محمّدؐ
دِگر اُستاد را نامے ندارم
کہ خواندم در وبستانِ محمّدؐ
بدیگر دلبرے کارے ندارم
کہ ہستم کُشتۂ آنِ محمّدؐ
مرا آں گوشۂ چشمے بباید
نخواہم جُز گلستانِ محمّدؐ
من آں خوش مُرغ از مرغانِ دسم
کہ دارد جا بہ بستانِ محمّدؐ
تو جانِ منوّر کر دی از عشق
فدایت جانم اے جانِ محمّدؐ
دریغا گر دہم صد جاں دریں راہ
نباشد نیز شایانِ محمّدؐ
چہ ہیبت ہا بداند ایں جواں را
کہ ناید کس بمیدانِ محمّدؐ
اَلَا اے دشمنِ نادان وبے راہ
بترس از تیغ بُرّانِ محمّدؐ
رہِ مولیٰ کہ گُم کر دند مردم
بجو در آل و اعوانِ محمّدؐ
اَلَا اے مُنکر از شانِ محمّدؐ
ہم از نُورِ نمایانِ محمّدؐ
کرامت گرچہ بے نام ونشان است
بیا بنگر ز غلمانِ محمّدؐ
لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی
واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیاگیاتھا۔ اندرمن مرادآبادی اورلیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو اُن کی قضاء وقدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں۔سواس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اورکچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا۔لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کردو-میری طرف سے اجازت ہے۔ سو اس کی نسبت توجہ کی گئی تو اللہ جلّشانہٗ کی طرف سے یہ الہا م ہوا-
عجل جسد لہٗ خوار۔لہ نصب وعذاب
یعنے یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اند ر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اوراس کے لئے ان گستاخیوں اوربدزبانی کے عوض میں سز ااوررنج اورعذاب مقدر ہے جوضروراس کو مِل رہے گا۔اور اس کے بعد آج ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی گئی توخداوند کریم نے مجھ پرظاہر کیاکہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بد زبانیوں کی سزا میں یعنے اُن بے ادبیوں کی سزا میں جواس شخص نے رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں۔عذاب شدید میں مبتلاہوجائے گا۔سواب میں اس پیشگوئی کو شائع کرکے تمام مسلمانوں اورآریوں اورعیسائیوں اور دیگر فرقوںپر ظاہر کرتاہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا٭جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اورخارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتاہو توسمجھو کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اورنہ اُس کی روح سے میرا یہ نطق ہے-اوراگرمیں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا توہریک سزا کے بُھگتنے کے لئے تیا ر ہوں-اوراگر اس پیشگوئی میں میں کاذب نکلا توہریک سزاکے بُھگتنے کے میں طیار ہوں-اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچاجائے اورباوجو د میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہرہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جُھوٹا نکلناخو دتما م رسوائیوں سے بڑھ کر رُسوائی ہے-زیادہ اس سے کیا لکھوں۔واضح رہے کہ اس شخص نے رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلّم کی سختیاں بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بھی بدن کانپتاہے-اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اورتوہین اوردشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں۔کون مسلمان ہے جوان کتابوں کوسُنے اوراس کادل اوراورجگر اورٹکڑے ٹکڑے نہ ہو-باایں ہمہ شوخی دخیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے-عر بی سے ذرا مسّ نہیں- بلکہ دقیق اُردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں -اوریہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے-کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے- اب میں اُسی خداعزّوجل کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیاتھا- والحمد للّٰہ والصلٰوۃ والسّلام علیٰ رسولہ محمدن المصطفیٰ افضل الرسل وخیرالوریٰ سیّدکل مافی الارض والسّماء-
خاکســــــــــــــــــــــــار
مرزاغلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور-۲۰ فروری ۱۸۹۳؁ء
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہے اورعلیحدہ بھی ۲۰ ×۲۶کے سائز پر بشمول اشتہار نمبر۹۶شائع ہواہے )
(۹۶)
شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارپور
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
نحمدہٗ ونصَلّے
تا دلِ مردِخدا نا مد بدرد
ہیچ قومے را خدا رُسوا نکرد
(کَلَّا ان الانسان لیطغیٰ ان راہٗ استغنیٰ )
انسان باوجو دسخت ناچیز اورمُشتِ خاک ہونے کے پھر اپنی عاجزی کو کیسے بھول جاتاہے۔ایک ذرّہ دردفروہونے اور آرام کی کروٹ بدلنے سے اپنی فروتنی کالہجہ فی الفور بدل لیتاہے۔پنجاب کے تمام آدمی شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور سے واقف ہوں گے۔اورمیرے خیال میں ہے کہ جس ایک بیجا الزام میں اپنے پنہانی قصوروں کی وجہ سے جن کو خداتعالیٰ جانتا ہوگا، وہ پھنس گئے تھے وہ قصّہ ہمارے ملک کے بچّوں اور عورتوں کو بھی معلوم ہوگا-تو اس وقت ہمیں اس منسوخ شدہ قصّہ سے توکچھ مطلب نہیں-صرف اس بات کاظاہر کرنا مطلو ب ہے کہ اس قصّہ سے تخمیناً چھ ماہ پہلے اس عاجز کو بذریعہ ایک خواب کے جتلایا گیا تھا کہ شیخ صاحب کی جائے نشست فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اوراُس آگ کواس عاجز انے بار بار پانی ڈال کربُجھایاہے- سو اس وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پراور اُن کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دعا سے نہ کسی اوروجہ سے وہ بَلا دُور کی جائے گی اور میں نے اس خواب کے بعد شیخ صاحب کو بذریعہ ایک مفصّل خط کے اپنے جواب سے اطلاع دے دی اورتوبہ اوراستغفار کی طرف سے توجہ دلائی-مگر اس خط کا جواب انہوں نے کچھ نہ لکھا- آخر قریباً چھ ماہ گزرنے پر ایساہی ہوا۔اور میں انبالہ چھائونی میں تھاکہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچااور بیا ن کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے-میں نے اس شخص سے اپنے خط کااحوال دریافت کیاجس میں چھ ماہ پہلے اس بَلا کی اطلاع دی گئی تھی۔تو اس وقت محمد بخش نے اس خط کے پہنچنے سے لاعلمی ظاہر کی لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیاکہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا۔پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہو چکے تھے لیکن ان کے بیٹے جان محمد کی طر ف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلّقداروں میں سے ہے کئی خط اس عاجز کے نام دُعا کے لئے آئے-اوراللہ جلّشانہٗ جانتاہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہد ہ سے دعائیں کی گئیں-اوراوائل میں صورت قضاء وقدر کی نہایت پیچیدہ اورمبرم معلوم ہوتی تھی- لیکن آخر خداتعالیٰ نے دُعا قبول کی اور اُ ن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دے دی اور اُس بشارت سے اُن کے بیٹے کومختصرلفظوں میں اطلاع دی گئی-
یہ تو اصل حقیقت اور اصل واقعہ ہے-پھر اس واقعہ کے بعد سُنا گیا کہ شیخ صاحب اس رہائی کے خط سے انکار کرتے ہیں جس سے لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ گویا اس عاجز نے جھوٹ بولا-سواس فتنہ سے دُور کرنے کی غرض سے اس عاجز نے شیخ صاحب سے اپنا خط طلب کیا- جس میں اُن کی بریّت کی خبر دی گئی تھی مگر انہوں نے خط نہ بھیجا-بلکہ اپنے خط ۱۹جون ۱۸۹۲ء میں میرے خط کاگُم ہوجانا ظاہرکیا۔ لیکن ساتھ ہی اپنے بیٹے جان محمد کی زبانی یہ لکھاکہ قطعیّت بریّت کی خبردیناہمیں یاد نہیں مگر غالباً خط کے یہ الفاظ اس کے قریب قریب تھے کہ فضل ہو جائے گادُعا کی جاتی ہے٭یہ قصہ تویہاں تک رہا۔اوروہ خط شیخ صاحب کا میرے پاس موجود پڑاہے-لیکن اب بعض دوستوں کے خطوط اوربیان سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب یہ مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں رہائی کی کوئی بھی اطلاع نہیں دی تھی-اورنہ صرف اس قدر بلکہ اس عاجز پر ایک طوفان بھی باندھتے ہیں- اوروہ یہ کہ گویا یہ عاجز یہ تو جانتا تھاکہ میں نے کوئی خط نہیں لکھا مگر شیخ صاحب کوجھوٹ بولنے کے لئے تحریک دے کر بطور بیان دروغ ان سے یہ لکھوانا چاہا کہ اس عاجز نے رہائی کی خبر دے دی تھی۔گویا اس عاجز نے کسی خط میں شیخ صاحب کی خدمت میں یہ لکھا ہے کہ اگرچہ یہ بات صحیح اورواقعی تو نہیں کہ میں نے رہائی کی خبرقبل از وقت بطور پیشگوئی دی ہومگر میری خاطر اورمیرے لحاظ سے تم ایسا ہی لکھ دو تاکہ میری کرامت ظاہر ہو-شیخ صاحب کا یہ طریق عمل سُن کرسخت افسوس ہوا- انَّاللہ واناالیہ راجعون-خداتعالیٰ جانتا ہے کہ شیخ صاحب کے اوّل و آخر کے متعلق ضرور اطلاع دی گئی تھی اور وہ دونوںپیشگوئیاں صحیح ہیں اوردونوں کی نسبت شیخ صاحب کی طرف خط بھیجا گیا اور وہی خط نکالا گیاتھایا اس کامضمون طلب کیاگیاتھا۔ شیخ صاحب نے اگر درحقیقت ایسا ہی بیان کیا ہے تو اُن کے افتراء کا کیا جواب دیا جائے۔ ناظرین اس بارے میں میرے خطوط اُن سے طلب کریں اور اُن کوباہم ملا کر غور سے پڑھیں ٭اگر شیخ صاحب میں مادہ فہم کاہوتاتو پہلے ہی پیشگوئی کے خط سے میرا بریّت کاخبر دینا سمجھ سکتے تھے کیونکہ ان سے یہی بہ بداہت سمجھا سکتا تھا کہ اس عاجز کے ذریعہ سے ہی ان کی بند خلاص ہو گی۔ وجہ یہ کہ اطلاع دی گئی تھی میں نے ہی پانی ڈال کر آگ کو بُھجایا۔ کیا شیخ صاحب کویاد نہیں کہ بمقام لدھیانہ جب وہ میرے مکان پر دعوت کھانے آئے تھے تو انہوں نے اس خط کو یاد کر کے رونا شروع کر دیا تھااورشاید روٹی پر بھی بعض قطرے آنسوئوں کے پڑے ہوں۔ پھر وہ آگ پر پانی ڈالنا کیوں یاد نہ رہا۔ اور اگر میں نے رہائی کی خبر شائع نہیں کی تھی تو پھر وہ صدہا آدمیوں میں قبل از رہائی مشہور کیونکر ہو گئی تھی اور کیوں آ پ کے بعض رشتہ دار ٭جلدی کرکے اس خبر کے صدق پر اعتراض کرتے تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اورپھر آپ نے کیوں میرے خط کا یہ خلاصہ مجھ کو تحریر کیا کہ گویا میں نے خط میں صرف اتنا ہی لکھا تھا کہ فضل ہوجائے گا۔ یہ کیسی ناخداترسی ہے کہ مجالس میں افتراء کی تہمت لگا کردل کودُکھایا جائے۔ خیر اب بطریق تنزل ایک آسمانی فیصلہ اپنے صدق اور کذب کے بارے میں ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے:-
فیصلہ
آج رات میں نے جو ۲۵ فروری ۱۸۹۳ء کی رات تھی۔ شیخ صاحب کی ان باتوں سے سخت دردمند ہو کرآسمانی فیصلے کے لئے دُعا کی۔خوا ب میں مجھ کودکھلایا گیا کہ ایک دکاندار کی طرف سے میں نے کسی قدر قیمت بھیجی تھی کہ وہ عمدہ اور خوشبودار چیز بھیج دے۔ اس نے قیمت رکھ کر ایک بدبُود ار چیز بھیج دی۔ وہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا کہ جائو دُکاندار کوکہو کہ وہ چیز دے ورنہ میں اس دغا کی اس پر نالش کروں گا - اورپھر عدالت سے کم از کم چھ ماہ کی اس کو سزا ملے گی-اورامید تو زیادہ کی ہے۔ تب دکاندار نے شاید کہلا بھیجا کہ یہ میرا کام نہیں یا میرا اختیار نہیں اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ ایک سودائی پھرتا ہے اس کااثر میرے دل پر پڑ گیا اور میں بُھول گیا اب وہی چیز دینے کے لئے تیار ہوں-اس کی میں نے یہ تعیبر کی کہ شیخ صاحب پریہ ندامت آنے والی ہے اور انجام کار وہ نادم ہوں گے اور ابھی کسی دوسرے آدمی کا ان کے دل پر اثر ہے- پھر میں نے توجہ کی تو مجھے یہ الہام ہوا-
انّا نری تقلب وجھک فی السّماء نقلب فی السّماء ماقلّبتَ فی الارض انّامعک نرفعک درجات
یعنے ہم آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ تیرا دل مہر علی کی خیر اندیشی سے بددُعا کی طرف پھر گیا سو ہم اُس طرح آسمان پھیر دیں گے جس طرح توزمین پھیرے گا۔ ہم تیرے ساتھ ہیں۔تیرے درجات بڑھائیں گے-لٰہذا یہ اشتہار شیخ صاحب کی خدمت میں رجسٹر ی کراکر بھیجتا ہوں کہ اگر وہ ایک ہفتہ کے عرصہ میں اپنے خلاف واقعہ فتنہ اندازی سے معافی چاہنے کی غرض سے ایک خط بہ نیّت چھپوانے کانہ بھیج دیں تو پھر آسمان پر میرا اور اُن کامقدمہ دائر ہوگا اور میں اپنی دُعائوں کو جو اُن کی عمر اور بحالی عزّت اور آرام کے لئے کی تھیں واپس لے لوں گا۔ یہ مجھے اللہ جلّشانہٗ کی طرف سے بشارت مل گئی ہے۔ پس اگر شیخ صاحب نے اپنے افترائوں کی نسبت میری معرفت معافی کامضمون شائع نہ کرایا تو پھر میرے صدق اور راستی کی نشانی یہ ہے کہ میری بددُعا کا اثراُن پر ہوگا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کووعدہ دیا ہے۔ ابھی میں اس کی کوئی تاریخ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ ابھی تک خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے لئے کھولی نہیں اور اگر میری بددُعا کا کچھ بھی اثر نہ ہوا تو بلاشبہ میں اسی طرح کاذب اور مفتری ہوں جو شیخ صاحب نے مجھ کو سمجھ لیا۔ میں اللہ جلّشانہٗ کی قسم کھا کر کھا کرکہتا ہوں کہ میں نے مصیبت سے پہلے ہی شیخ صاحب کوخبرد دی تھی اور مصیبت کے بعد بھی-اور اگر مَیں جھوٹا ہوں تو شیخ صاحب میری دعا سے صاف بچ جائیںگے-اوریہی میرے کاذب ہونے کی نشانی ہوگی-اگر یہ بات صرف میری ذات تک تک محدود ہوتی تو میں صبر کرتالیکن اس کادین پر اثر ہے اور عوام میں ضلالت پھیلتی ہے۔ اس لئے میں نے محض حمایتِ دین کی غرض سے دُعا کی اور خُدا تعالیٰ نے میری دعا منظور فرمائی- دُنیا داروں کو اپنی دُنیا کا تکبر ہوتا ہے اورفقیروں میں کبریائی تِکبّر اپنے نفس پر بھروسہ کرکے ہوتا ہے اور کبریائی خداتعالیٰ پر بھروسہ کر کے پیدا ہوتی ہے-پس میرے صادق یا کاذب ہونے کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے- میرا یہ دعویٰ ہے کہ شیخ صاحب کی نجات صرف میری دعا سے ہوئی تھی جیسا کہ میں نے آگ پر پانی ڈالا تھا-اگر میں اس دعویٰ میں صادق نہیں ہوں تو میری ذلّت ظاہر ہوجاوے گی۔ والسلا علیٰ من اتبع الہُدیٰ -
راقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ہ
(مطبوعہ ریاض ہند پریس قادین )
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے چار صفحو ں پر ہے اور آئینہ کمالات اسلام کے آخر میں بھی شامل ہے )
(۹۸)
ایک رُوحانی نشان جس سے ثابت ہو گا کہ یہ عاجز صادق۱ور خداتعالیٰ سے مؤیّد ہے یا نہیں اورشیخ محمدحسین بٹالوی اس عاجز کو کاذب اوردجّال قرار دینے میں صادق ہے یا خودکاذب اوردجّال ہے
عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے حقایق اور معارف اور لطائف حکمیہ کے بھی نشان ہوتے ہیں جو خاص ان کودئیے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو۔ جیسا کہ آیت لایمسّہ الّا المطھرون اورآیہ ومن یوت الحکمۃ نقد اوتی خیرا کثیرا بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے۔ سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اورکذب کے جانچنے کے لئے کُھلی کُھلی نشانی ہوگی۔ اور اس فیصلہ کے لئے احسن انتظام اس طرح ہو سکتاہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سُورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت اسّی آیت سے کم نہ ہوتفسیر کے لئے منتخب کر کے پیش کریں اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سُورۃ اُن میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے اور اس تفسیر کے لئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور مقفیٰ عبارت میں قلمبند ہواور دس جزو سے کم نہ ہواور جس قدر اس میںحقایق اور معارف لکھے جائیں وہ نقل عبارت کی طرح نہ ہوبلکہ معارف جدیدہ اور لطایٔف غریبہ ہوں جو کسی دوسری کتاب میں نہ پا جائیںاور بایں ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوںبلکہ ان کی قوت اور شوکت ظاہرکرنے والے ہوں ٭اور کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف بلیغ اور فصیح عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلّم میں بطور قصیدہ درج ہوں اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہئیں وہ بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اورفریقین کو اس کام کے لئے چالیس دن کی مہلت دی جائے اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سُنادیں- پھر اگر یہ عاجز شیخ محمد حسین بٹالوی سے حقایق اور معارف کے بیان کرنے اور عبارتے عربی فصیح وبلیغ اور اشعارآبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اور کم درجہ پر رہایا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہاتو اسی وقت یہ عاجزاپنی خطا کا اقرار کرے گا اور کتابیں جلا دے گا- اورشیخ محمد حسین کاحق ہو گا کہ اس وقت اس عاجز کے گلے میں رسہ ڈال کر یہ کہے کہ اے کذّاب اے دجّال اے مفتری آج تیری رسوائی ظاہر ہوئی- اب وہ کہاں وہ جس کوتو کہتا تھاکہ میرا مددگار ہے۔ اب تیرا الہام کہاں ہے اور تیرے خوارق کہاں چھپ گئے۔ لیکن اگر یہ عاجز غالب ہواتو پھر چاہیئے کہ میاں محمد حسیں اسی مجلس میں کھڑے ہو کران سے الفاظ سے توبہ کرے کہ اے حاضرین آج میری روسیاہی ایسی کھل گئی کہ جیسا آفتا ب کے نکلنے سے دن کُھل جاتا ہے اورا ب ثابت ہواکہ یہ شخص حق پر ہے اور میں ہی دجّال تھا اور میں ہی کذّاب تھا اور میں ہی کافر تھا اور میں ہی بے دین تھا- اور اب میں توبہ کرتا ہوں- سب گواہ رہیں- بعد اس کے اسی مجلس میں اپنی کتابیں جلا دے اور ادنیٰ خادموں کی طرح پیچھے ہو لے ٭
صاحبو! یہ طریق فیصلہ ہے جو اس وقت میں نے ظاہر کیاہے۔ میاں محمد حسین کواس پرسخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کودن اور نادان اور جاہل ہے٭٭اورعلم قرآن سے بالکل بیخبر ہے اور خدا تعالیٰ سے خبر پانے کے تو لائق ہی نہیں کیونکہ کذّاب اوردجّال ہے- اور ساتھ ہی اس کے ان کو اپنے کمال علم اور فضل کا بھی دعویٰ ہے کیونکہ ان کے نذدیک حضرت مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اس عاجز کی نظر میں علامہ عصر اورجامع علوم ہیں صرف ایک حکیم اور اس اخویم مولوی سیّد احسن صاحب جو گویا علم حدیث کیا ایک پُتلے ہیں صرف ایک مُنشی ہیں- پھر باجود ان کے اس دعویٰ کے اور میرے اس ناقص حال کے جس کووہ بار بار شائع کرچکے ہیں ، اس طریق فیصلہ میں کون سا اشتباہ باقی ہے۔اوراگر وہ اس مقابلہ کے لایق نہیں۔ اور اپنی نسبت بھی جھوٹ بولا ہے اور میری نسبت بھی۔اورمیرے معظم اور مکرم دوستوں کی نسبت بھی تو پھر ایسا شخص کسی قدر سز ا کے لائق ہے کہ کذّاب اور دجّال تو آپ ہواور دوسروں کو خوانخواہ دروغگو کرکے مشتہر کرے۔ اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ عاجز درحقیقت نہایت ضعیف اور ہیچ ہے گویا کچھ بھی نہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے چاہا ہے کہ متکبّر کاسر توڑ دے اور اس کودکھاوے کہ آسمانی مدد اس کا نام ہے۔ چند ماہ کا عرصہ ہواہے جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون نے میاں محمد حسین کا دیکھا جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذّاب اور دجّال اور بے ایمان ہے اور بایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علوم دینیہ سے بے خبر ہے۔ تب میں جناب الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ ادعونی استجب لکم۔ یعنی دُعا کرو میں قبول کروں گا-مگر میں بالطبع نافر تھا کہ کسی کے عذاب کے لئے دُعا کروں۔ آج ۲۹شعبان ۱۳۱۰ء ہے اس مضمون کے لکھنے کے وقت خُدا تعالیٰ نے دُعا کے لئے دل کھول دیا۔ سومیں نے اس وقت اسی طرح سے رقت دل سے اس مقابلہ میں فتح پانے کے لئے دُعا کی اور میرا دل کُھل گیا اور مَیں جانتا ہو ں کہ قبول ہوگئی-اور مَیں جانتاہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھاکہ انّی مھین من اراداھانتک وہ اسی موقع کے لئے ہوا تھا۔ مَیں نے اس مقابلہ کے لئے چالیس دن کاعرصہ ٹھہر ا کردُعا کی ہے اوروہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا- اب صاحبو! اگر میں اس نشان میں جھوٹا نکلا یا میدان سے بھاگ گیا یا کچے بہانوں سے ٹال دیاتو تم سارے گواہ رہو کہ بیشک میں کذّا ب اور دجّال ہوں تب میں ہر یک سزا کے لایق ٹھہروں گا-کیونکہ اس موقعہ پر ہر یک پہلو سے میرا کذب ثابت ہوجائے گااوردُعا کا نامنظور ہونا کُھل کر میرے الہام کاباطل ہونابھی ہر یک پر ہویدا ہوجائے گا- لیکن اگر میاں بٹالوی مغلوب ہوگئے تو اُن کی ذلّت اوررُو سیاہی اورجہالت اور نادانی روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گی۔ اب اگر وہ اس کُھلے کُھلے فیصلہ کو منظور نہ کریں اور بھاگ جائیں اور خطا کا اقرار بھی نہ کریں تو یقینا سمجھو کہ ان کے لئے خداتعالیٰ کی عدالت سے مندرجہ ذیل انعام ہے-
(۱) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۴) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۵) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۶) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۷) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۸) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۹) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱۰) ***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلک عشرۃ کاملۃ
المشتھر میرزاغلام احمد قادیانی ۳۰مارچ ۱۸۹۳؁ء
نوٹ- اگر میاں بٹالوی اس نشان کو منظور نہ کریں اور کسی اور قسم کا نشان چاہیں تو پھر اسی کے بارے میں دُعا کی جائے گی - مگر پہلے اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کردیںکہ میں اس مقابلہ سے عاجزاورقاصر ہوں۔
تنبیہ۔ اگر اس کاجواب یکم اپریل سے دوہفتہ کے اندر نہ آیا تو آ پ کی گریز سمجھی جائے گی۔
(یہ اشتہار آئینہ کمالات اسلام طبع اوّل مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان کے صفحہ۶۰۲سے ۲۰۴تک ہے)
(۹۸)
نمونہ دُعائے مستجاب
انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پراعتراض
اس اخبار کاپرچہ مطبوعہ۲۵مارچ۱۸۹۳؁ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری سے بارے میں مَیں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا- مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پربھی یہ کلمۃ الحق شاق گزرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یہ خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہورہی ہے۔ سو اس وقت میں اس نکتہ چینی کے جواب میں اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہااسی طور سے کیا۔ میرا اس میں دخل نہیں - ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہو گی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے۔اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے ۔میں اس بات کاخود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا معترضوں نے خیال فرمایاہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلاکہ کوئی معمولی تپ آیایا معمولی طور پر کوئی دردہوا یاہیضہ ہوا۔اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہو گئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلا شبہ ایک مکر اور فریب ہو گا- کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی خالی نہیں - ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار وہو جاتے ہیں۔پس اس سُورت میں بلاشبہ اس سز ا کے لایق ٹھہروں گاجس کاذکر میں نے کیا ہے۔ لیکن پیشگوئی کاظہور اس طور سے ہواکہ جس میں قہرالٰہی کے نشان صاف صاف اور کُھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت اورہیبت دنوں اور وقتوں کے مقرر کرنے کے محتاج نہیں۔ اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حد مقرر کر دینا کافی ہے۔ پھر اگر پیشگوئی فی الواقع ایک عظیم الشان ہیبت کے طور پر ظہور پزیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اوریہ سارے خیالات اوریہ تما م نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی معدوم ہوجاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں۔ ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانونِ قدرت کے تحت میں ہے۔اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف یاوہ گوئی کی طور پرچند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کراور اٹکل سے کام لے کریہ پیشگوئی شائع کی ہے۔ تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کرسکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو مَیں نے اس کے حق میں بنیاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے۔لیکھر ام کی عمر اس وقت شایدزیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت مند آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اوردائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے۔ پھر اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہوجائے گاکہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اورکون سی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے اور معترض کا یہ کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ،ایک معمولی فقرہ ہے۔جو اکثر مُنہ سے بول دیا کرتے ہیں۔ میری دانست میں تومضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کے لئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شاید اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کبھی مل نہ سکے۔ ہاں اس زمانہ میں کوئی فریب اور مکر مخفی نہیں رہ سکتا۔مگر یہ راستبازوں کے لئے اور بھی خوشی کامقام ہے۔ کیونکہ جوشخص فریب اور سچ میں فرق کرنا جانتا ہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتاہے اوربخوشی اور دوڑ کر سچائی کو قبول کر لیتا ہے اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرا لیتی ہے۔ظاہر ہے کہ زمانہ صدہاایسی نئی باتوں کو قبول کرتا جاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بیشک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن- اور یہ کہنا کہ زمانہ ایک ایسا بد زمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پا کر پھر اس کو قبول نہیں کرتا- لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رُجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اُٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گرو ہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے- ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں- اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کے لئے کافی ہیں- آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھاویں- مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیش کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں- اگریہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہبیت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہو گا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہو گی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلّت کا موجب ہو گا- وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا- یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا، توہین سے یاد کیا- اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہرکرے- والسلام علیٰ من اتبع الہُدیٰ -
لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک ا ور خبر :
آج جو ۲؍ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴؍ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے- صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں- اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے- میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے- مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے- گویا انسان نہیں- ملائک شداّد غلاّظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اَور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے- تب مَیں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اُس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے- مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے- ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں سے تھا جن کی نسبت مَیں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یکشنبہ کا دن ۴ بجے صبح کا وقت تھا- فالحمد ﷲ علٰی ذٰلک -
(یہ اشتہار برکات الدعاء کے ٹائیٹل مطبوعہ ریاض ہند قادیان کے صفحہ ۲ سے ۴ تک ہے-)
(۱۰۰)
اس کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ہے
بخدمت امراء و رئیسان و منعمان ذیمقرت و والیان ارباب حکومت و منزلت
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہٗ و نصلی علیٰ رُسولہ الکریم
اے بزرگانِ اسلام خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بناوے- میں اس وقت محض ﷲ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ، اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں - سو یہ کام برابر دس برس سے ہو رہا ہے- لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جو ہم کو اشاعت اسلام کے لئے درپیش ہیں بہت سی مالی امدادات کے محتاج ہیں- اس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں - سو سنو! اے عالی جاہ بزرگو! ہمارے لئے اﷲ جلّشانہٗ اور رسُول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی راہ میں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لئے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہئیے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے اور اب صورت یہ ہے کہ اوّل تو ان بڑے بڑے مقاصد کے لئے کچھ بھی سرمایہ کا بندوبست نہیں- اور اگر بعض پُرجوش مردانِ دین ٭ کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہو کر شائع ہو تو بباعث کم توجہی اور غفلت زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتی- اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہاسال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا ﷲ مفت تقسیم کئے جاتے ہیں- اور اس طرح اشاعت ضروریات دین میں بہت سا حرج ہو رہا ہے- اور گو خدا تعالیٰ اس جماعت کو دن بدن زیادہ کرتا جاتا ہے مگر ابھی تک ایسے دولتمندوں میں سے ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ کوئی حصہ معتدبہ اس خدمت اسلام کا اپنے ذمہ لے لے- اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لئے آیا ہے اور مجھے اﷲ جلّشانہٗ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض اُمرا اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا- اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاںتک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے- سواسی بناء پر آج مجھے خیال آیا کہ میں ارباب دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لئے تحریک کروں- اور چونکہ یہ دینی مدد کا کام ایک عظیم الشان کام ہے اور انسان اپنے شکوک اور شبہات اور وساوس سے خالی نہیں ہوتا- اور بغیر شناخت وہ صدق بھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسی بڑی مددوں کا حوصلہ ہو سکے- اس لئے میں تمام اُمراء کی خدمت میں بطور عام اعلان کے لکھتا ہوں کہ اگر اُن کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامّل ہو تو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں کہ تا میں اُن مقاصد کے پورے ہونے کے لئے دعا کروں- مگر اس بات کو تصریح سے لکھ بھیجیں کہ وہ مطلب کے پورے ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مالی مدد دیں گے- اور کیا انہوں نے اپنے دلوں میں پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ ضرور وہ اس قدر مدد دیں گے- اگر ایسا خط ٭ کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اس کے لئے دعا کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبر م نہ ہو ضرور خدا تعالیٰ میری دعا سنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے گا اس بات سے نومید مت ہوکہ ہمارے مقاصد بہت پیچیدہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے بشرطیکہ ارادہ ازلی اس کے مخالف نہ ہو اور اگر ایسے صاحبوں کی بہت سی درخواستیں آئیں تو صرف ان کو اطلاع دی جائے گی جن کے کشورکار کی نسبت از جانب حضرت عز و جل خوشخبری ملے گی- اور یہ امور منکرین کے لئے نشان بھی ہوں گے اور شاید یہ نشان اس قدر ہو جائیں کی دریا کی طرح بہنے لگیں- بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحۃً کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے- اس کی مدد کرو کہ ایہ غریب ہے- اور میں اسی لئے آیا ہوں- اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے- اور حقایق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں- اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں- سو میری طرف آئو- اس نعمت سے تم بھی حصّہ پائو- مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں- کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں، ایک مجدد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا- سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے- ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اس وقت علماء کی نا سمجھی اس کی مدّ راہ ہوئی- آخر جب وہ پہنچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہنچانا گیا - کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا- اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں- اے لوگو! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے اور اعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہو گیا ہے ایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان رکھائو اور مردانِ خدا میں جگہ پائو- والسلام علیٰ من تبع الھدیٰ
بیکے شُد دینِ احمدؐ ہیچ خویش دیار نیست
ہر کسے درکارِ خود با دینِ احمدؐ کار نیست
ہر طرف سَیل ضلالت صد ہزارں تن ربود
حیف بر چشمیکہ اکنوں نیز ہم ہشیار نیست
ایں خدا وندانِ نعمت ایں چنیں چراست
بیخوداز خوابید یا خود بختِ دیں بیدار نیست
اے مسلماناں خدا ایک نظر برحال دیں
آنچہ مے بینم بلا ہا حاجتِ اظہار نیست
آتش اُفتا دست درختش بخیز اے یلان
دیدنش از دُور کارِ مردمِ دیندار نیست
ہر زماں از بہر دیں در خوں دلِ من می تپد
محرمِ ایں دردِ جُز عالمِ اسرار نیست
آنچہ برما میر دو از غم کہ داند جُز خدا
زہرے گوشیم لیکن زہرہ گفتار نیست
ہر کسے غمخواری اہل و اقارب مے کند
اے دریغ ایں بیکسے راہیچ کسی غمخوار نیست
خونِ دیں بینم رواں چُوں کشتگانِ کر بلا
اے عجب این مردماں رامہر آں دلدار نیست
حیر تم آید چو بینم بذلِ شاں درکارِ نفس
کایں ہمہ ہوُد سخاوت دررہِ وااراہ نیست
بیں کہ چوں در خاک مے غلطد ز جورِ ناکساں
آنکہ مثل اور بزیر گنبدِ و توار نیست
اندریں وقتِ مصیبت چارہ ما بیکساں
جُز دُعائِ با مداد وگریہ اسحار نیست
اے خدا! ہر گز مکن شاد آں دلِ تاریک را ا
دائما عیش و بہار گلشن و گلزاار نیست
راقــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمد - از قادیان ضلع گوردارسپور
اپریل ۱۸۹۳ء مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان
(۱۰۱)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلّے
شیخ محمد حسین بٹالوی
آپ کا خط٭ دوسری شوال ۱۳۱۰ھ کو مجھ کو ملا- الحمد و اللہ المنتہ کہ آپ نے میرے اشتہار مورخہ ۳۰ مارچ ۱۸۹۳ء کے جواب میں بذریعہ اپنے خط ۱۹ اپریل ۱۸۹۳ء کے مجھ کو مطلع کیا کہ میں بالمقابلہ عربی عبارت میں تفسیر قرآن لکھنے کو حاضر ہوں- خاص کر مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے خط کی دفعہ ۲ میں صاف لکھ دیا کہ میں تمہاری ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں - سو اس اشتہار کے متعلق باتیں جن کو آپ نے قبول کر لیا- صرف تین ہی ہیں- زیادہ نہیں-
اوّل یہ کہ ایک مجلس قرار پا کر قرعہ اندازی کے ذریعہ سے قرآن پاک کی ایک سُورۃ جس کی آیتیں اسّی سے کم نہ ہوں، تفیسر کرنے کے لئے قرار پاوے- اور ایسا ہی قرعہ اندازی کے رو سے قصیدہ کا بحرتجویز کیا جائے-
دوسری یہ کہ وہ تفسیر قرآن کریم کے ایسے حقایق و معارف پر مشتمل ہو جو جدید ہوں- اور منقولات کی مدّ میں داخل ہو سکیں- اور بایں ہمہ عقیدہ متفق علیہا اہل سنت و الجماعت سے مخالف بھی نہ ہو- اور یہ تفسیر عربی بلیغ فصیح اور مقفّیٰ عبارت ہو- اور ساتھ اس کے سو شعر عربی بطور قصیدہ حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ہو-
تیسری یہ کہ فریقین کے لئے چالیس دن کی مُہلت ہو- اس مہلت میں جو کچھ لکھوا سکتے ہیں لکھیں اور پھر ایک مجلس میں سُنا دیں-
پس جب کہ آپ نے یہ کہ دیا کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں تو صاف طور پر کھل گیا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں مان لیں- اَبْ انشاء اللہ القدیر اسی پر سب فیصلہ ہو جائے گا- آج اگرچہ روز عید سے دوسرا دن ہے- مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آپ کے مان لینے اور قبول کرنے سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میں آج کے دن کو بھی عید کاہی دن سمجھتا ہوں- الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اب ایک کھلے کھلے فیصلہ کے لئے بات قایم ہو گئی- اب لوگ اب بات کو بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کو بقول آپ کے کافراور کذّاب ثابت کرتا ہے یا وہ امر ظاہر کرتا ہے جو صادقین کی تائید کے لئے اس کی عادت ہے اگرچہ دل میں اس وقت یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اس اقرار کے بعد رسالہ میں کچھ اَور کا اَور لکھ ماریں- لیکن پھر اس بات سے تسلّی ہوتی ہے کہ کہ ایسے صاف اور کھلے کھلے اقرار کے بعد کہ میں نے اپ کی ہر ایک بات مان لی ہے، ہرگز ممکن نہیں کہ آپ گریز کی طرف رُخ کریں اور اب آپ کے لئے یہ امر ممکن بھی نہیں اور کسی صورت سے چھوڑ نہیں سکتے- اورخود جیسا کہ آپ اپنے اس خط میں قبول کر چکے یں کہ میں نے ہر بات مان لی- تو پھر ماننے کے بعد انکار کرنا خلاف وعدہ ہے-
مجھے اس بات سے بھی خوشی ہوئی ک میری تحریر کے موافق آپ مباہلہ کے لئے بھی تیار ہیں اوراپنی ذات کی نسبت کوئی نشان دیکھنا چاہتے ہیں- سبحان اللہ اب تو آپ کچھ رُخ پر آ گئے اگر رسالہ میں کچھ نئے پتھر نہ ڈالدیں- مگر کیونکر ڈال سکتے ہیں- آپ کا یہ فقرہ کہ میں آپ کی ہر ایک بات کی اجابت کے لئے مستعد ہوں - طیار ہوں- حاضر ہوں - صاف خوشخبری دے رہا ہے کہ آپ نے میر ی ہر ایک بات اور ہر ایک شرط کو سچّے دل سے مان لیا ہے- اب میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس خوشخبری کو چھپایا نہ جائے بلکہ چھپوایا جائے- اس لئے معہ آپ کے خط کے اس خط کو چھاپ کر آپ کی خدمت میں نذر کرتا ہوں- اور ایفاء وعدہ کا منتظر ہوں- وَالسَّلَام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
الراقـــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
۱۹ اپریل ۱۸۹۲ء
منکرین کے ملزم کرنے کے لیے ایک اور پیشگوئی خاص کر شیخ محمد حسین بٹالوی کی توجہ کے لایق ہے-
۲۰ اپریل ۱۸۹۲ء سے چار مہینہ پہلے صفحہ ۲۶۲- آئینہ کمالات اسلام میں بقید تاریخ شائع ہو چکا ہے- کہ خدا تعالیٰ نے ایک اَور بیٹے کا اس عاجز سے وعدہ کیا ہے جو عنقریب پیدا ہو گا- اس پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں- سیو لد لک الو لد و ید نی منک الفضل ان نوری قریبہ-
ترجمعہ:یعنی عنقریب تیرے لڑکا پیدا ہو گا- اور فضل تیرے نزدیک کیا جائے گا- یقینا میرا نور قریب ہے- سو آج ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء کو وہ پیشگوئی پُوری ہوگئی- یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو خود اپنی زندگی کا اعتبار نہیں- چہ جائیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ اشتہار دیوے اور ضرور عنقریب اُس کے گھر میں بیٹا پیدا ہو گا- خاص کر ایسا شخص جو اس پیشگوئی کو اپنے صدق کی علامت ٹھہراتا ہے- اور تحدی کے طور پر پیش کرتا ہے- اب چاہیے کہ شیخ محمد حسین اس بات کا بھی جواب دیں کہ یہ پیشگوئی کیوں پوری ہوئی- کیا یہ استدراج ہے یا نجوم ہے یا اٹکل ہے - اور کیا سبب ہے کہ خد تعالیٰ بقول آپ کے ایک دجّال کی ایسی پیشگوئیاں پوری کرتا جاتا ہے جن سے اُن کی سچّائی کی تصدیق ہوتی ہے-
الراقـــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور
(یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ ۴ کے دو صفحوں پر ہے )
(مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ)
(۱۰۲)
اشتہار مُباہلہ میاں عبد الحق غزنوی
و حافظ محمد یوسف
ناظرین کو معلوم ہو گاکہ کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ غزنوی صاحبوں کی جماعت میں سے جو امرتسر رہتے ہیں- ایک صاحب عبد الحق نام نے اس عاجز کے مقابلہ پر مباہلہ کے لئے اشتہار دیا تھا- مگر چونکہ اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ لوگ کلمہ گو اور اہل قبلہ ہیں- ان کو لعنتوں کا نشانہ بنانا جائز نہیں- اس لئے درخواست کے قبول کرنے سے اس وقت تک ہونے کے بعد اس طرف سے بھی مباہلہ کا ٭اشتہار دیا گیا ہے - جو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بھی شامل ہے اور ابھی تک شخص مباہلہ کے لئے مقابلہ پر نہیں آیا- مگر مجھ کواس بات کے سننے سے بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ایک معزز دوست حافظ محمد یوسف صاحب نے ایمانی جو انمردی اور شجاعت کے ساتھ ہم سے پہلے اس ثواب کو حاصل کیا- تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حافظ صاحب اتفاقاً ایک مجلس میں بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحبؑ نے یہ بھی فرمایا کہ عبد الحق نے جو مباہلہ کے لئے اشتہار دیا تھا اب اگر وہ اپنے تیئں سّچا جانتا ہے تو میرے مقابلہ پر آوے میں اس مباہلہ کے لئے تیار ہوں- تب عبد الحق جو اسی جگہ کہیں موجود تھا- حافظ صاحب کے غیرت دلانے کے لئے لفظوں سے طوعاً و کرہاً مستعد مباہلہ ہو گیا اور حافظ صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا کہ میں تم سے اسی وقت مباہلہ کرتا ہوں- مگر مباہلہ فقط اس بارہ میں کروں گا کہ میرا یقین ہے- کہ مرزا غلام احمد و مولوی حکیم نورالدین اور مولوی محمد احسن یہ تینوں مرتدین اور کذّابین اور دجّالین ہیں- حافظ صاحب نے فی الفور بلا تامل منظور کیا کہ میں اس بارہ میں مباہلہ کروں گا- کیونکہ میرا یقین ہے کہ یہ تینوں مسلمان ہیں تب اسی بات پر حافظ صاحب نے عبد الحق سے مباہلہ کیا- اور گواہان مباہلہ منشی محمد یعقوب اور میاں نبی بخش صاحب اور میان عبد الہادی صاحب اور میاں عبد الرحمن صاحب عمر پوری قرار پائے- اور جب حسب دستور مباہلہ فریقین اپنے اپنے نفس پر لعنتیں ڈال چکے اور اپنے مُنہ سے کہہ چکے کہ یا الہٰی اگر ہم نے اپنے بیان میں سچّائی پر نہیں تو ہم پرتیری *** نازل ہو- یعنی کسی قسم کا عذاب ہم پر وارد ہو- تب حافظ صاحب نے عبد الحق سے دریافت کیاکیا کہ اس وقت میں بھی اپنے آپ پر بحالت کاذب ہونے کے *** ڈال چکا اور خدا تعالیٰ سے عذاب کی درخواست کر چکا- اور ایسا ہی تم بھی اپنے نفس پر اپنے مُنہ سے *** ڈال چکے اور بحالت کاذب ہونے کے عذاب الہٰی کی اپنے لئے درخواست کر چکے- لہذا اب میں تو اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس *** اور اس عذاب کی درخواست کا اثر مجھ پر وارد ہوا- اور کوئی ذلّت اور رُسوائی مجھ کو پیش آ گئی تو میں اپنے اس عقیدہ سے رُجوع کر لوں گا- سو اب تم بھی اس وقت اپنا ارادہ بیان کرو کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے نزدیک کاذب ٹھہرے اور کچھ *** اور عذاب کا اثر تم پر وارد ہو گیا تو تم بھی اپنے اس تکفیر کے عقیدہ سے رُجوع کرو گے یا نہیں - فی الفور عبد الحق نے صاف جواب دیا کہ اگر میں اپنی اس بد دُعا سے سور اور بندر اور ریچھ بھی ہو جائوں- تب بھی اپنا یہ عقیدہ تکفیر ہر گز نہ چھوڑوں گا اور کافر کہنے سے باز نہیں آئوں گا- تب حاضرین کو نہایت تعجب ہوا کہ جس مباہلہ کو حق اور باطل کے آزمانے کے لئے اس نے معیار ٹھہرایا تھا اور جو قرآن کریم کی رُو سے بھی حق اور باطل میں فرق کے آزمانے کے لئے ایک معیار ٹھہرایا تھا اور قرآن کریم کی رُو سے بھی حق کے آزمانے کے لئے ایک معیار ہے کیونکر اور کس قدر جلد اس معیار سے یہ شخص پھر گیا- اور زیادہ تر ظلم اور تعصّب اس کا اس سے ظاہر ہوا کہ وہ اس بات کے لئے تو تیار ہے کہ فریق مخالف پر مباہلہ کے بعد کسی قسم کا عذاب نازل ہو اور وہ اس کے اس عذاب کو اپنے صادق ہونے کے لئے بطور دلیل اورحجّت کے پیش کرے- لیکن وہ اگر آپ ہی مورد عذاب ہو جائیں تو پھر مخالف کے لئے اس کے کازب ہونے کی یہ دلیل اور حجت نہ ہو- اب خیال کرنا چاہیے کہ یہ قول عبد الحق کی کس قدر امانت اور دیانت اور ایمانداری سے دُور ہے- گویا مباہلہ کے عبد اہی اس کے اندرونی حالت کی مسخ ہونا کھُل گیا- یہودی لوگ جو مورد *** ہو کر بندر اور سور ہو گئے تھے- ان کی نسبت بھی تو بعض تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ بظاہر ہر انسان ہی تھے لیکن ان کی باطنی حالت بندروں اور سوروں کی طرح ہو گئی تھی- اور حق کے قبول کرنے کی توفیق بکلّی اُس سے سبب ہو گئی تھی- اور مسخ شدہ لوگوں کی یہی تو علامت ہے کہاگر حق کھُل بھی جائے تو اس کو قبول نہیں کر سکتے- جیسا کہ قرآن کریم اسی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے- و قالو قلو بنا غلف بل لعنھم اﷲ بکفرھم فقلیلاً ما یؤمنون الّا قلیلاً -یعنی کافر کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں- ایسے رقیق اور پتلے دل نہیں کہ حق کا انکشاف دیکھ کر اس کو قبول کریں- اللہ جلّشانہ اس کے جواب میں فرماتا ہے- کہ یہ کچھ خوبی کی بات نہیں بلکہ *** کا اثر ہے جو دلوں پر ہے- یعنی *** جب کسی پر نازل ہوتی ہے اس کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ دل سخت ہو جاتا ہے- اور گو کیسا ہی حق کھُل جائے پھر انسان اس حق کو قبول نہیں کرتا- سو یہ حافظ صاحب کی اسی وقت ایک کرامت ظاہر ہوئی کہ دشمن نے مسخ شدہ فرعون کی طرح اسی وقت مباہلہ کے بعد ہی ایسی باتیں شروع کر دیں - گویا ایس وقت *** نازل ہو چکی تھی-
اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ یہ وہی عبد الحق ہے جہ جس نے الہام کا بھی دعویٰ کیا تھا- اب ناظرین ذرا ایک انصاف کی نظر اس کے حال پر ڈالیں کہ یہ شخص سچّائی سے دوستی رکھتا ہے یا دشمنی ظاہر ہے کہ ملہم وہ شخص ہو سکتے ہیں جو ہمیشہ سچّائی کے پیاسے اور بھُوکے ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ سچّائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ فریق مخالف کے ساتھ ہے اسی وقت اپنی ضد کو چھوڑ دیتے ہیں اور حق کے قبول کرنے کے لئے ننگ و ناموس بلکہ موت سے بھی نہیں ڈرتے- اب سوچنے کا مقا م ہے کہ عبدالحق نے آپ ہی مباہلہ کو معیار حق و باطل ٹھہرا کر اشتہار دیا- اور جب کہ مردِ خُدا اُس کے مقابل پر اُٹھا اور مباہلہ کیا تو ساتھ ہی فکر پڑی کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی عذاب نازل ہو کر پھر مجھ کو حق کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جاوے- تب اسی وقت اُس نے اُسی مجلس میں کہہ دیا کہ اگر وہ *** جو میں نے اپنے ہی مُنہ سے اپنے پر کی ہے- مجھ پر نازل ہو گئی اور میرا جھوٹا ہونا کھل گیا- تب بھی میں سچ کو قبول نہیں کروں گا گو میں سور اور بندر اور ریچھ بھی بنایا جائوں - پس اس سے زیادہ تر *** اَور کیا ہو گی کہ دُور دُور تک ضِدّ کے خیمے لگا رکھے ہیں اور بندر اور سور بننا اپنے لئے پسند کر لیا- مگر حق کو قبول کرنا پسند نہیں کیا- یہ بھی سمجھ نہیں کہ اگر مباہلہ کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتا توپھر ایسے مباہلہ سے فائدہ ہی کیا ہے - اور اگر اپنی ہی دعا کے قبول ہونے اور *** کے آثار ظاہر ہونے پر بدن نہیں کانپتا تو یہ ایمان کس قسم کا ہے- اور تعجب کہ یہ بات کہنا کہ اگر مُنہ کی *** کا اثر اپنے پر دیکھ بھی لوں اور جو تضّرع سے درخواست عذاب کی تھی اس عذاب کا وارد ہونا بھی مشاہدہ کر لوں پھر بھی میں تکفیر سے باز نہ آئوں گا- کیا یہ ایمانداروں کے علامات ہیں- اور کیا ایس خبثِ نیت پر مباہلہ کا جوش و خروش تھا-
اور چونکہ اس عاجز کی طرف سے مباہلہ کا اشتہار شائع ہو چکا ہے- اور یہ اندیشہ ہے کہ کہیں دوسرے بزرگ بھی وہی اپنا جوہر نہ دکھاویں- جو عبد الحق نے دکھلایا - یعنی مباہلہ کے آثار کو اپنے لئے تو اپنے مطلب ہونے کی حالت میں حُجت ٹھہرالیا- مگر مخالف کے لئے یہ حُجت نہیں- لہذا اس اشتہار میں خاص طور پر میاں محمد حسین بطالوی اور میاں محی الدین لکھو کے والا- اور مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور ہر یک نامی مولوی یا سجادہ نشین کو جو اس عاجز کو کافر سمجھتا ہو، مخاطب کر کے عام طور پر شائع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے تئیں صادق قرار دیتے ہیں تو اس عاجز سے مباہلہ کریں اور یقین رکھیں کہ خداوند تعالیٰ ان کو رُسوا کرے گا- اگر کسی فریق پر *** کا اثر ظاہر ہو گیا تو وہ شخص اپنے عقیدہ سے رجوع کرے گا اور اپنے فریق مخالف کو سچّا مان لے گا- اور اس مباہلہ کے لئے اشخاص مندرجہ ذیل بھی خاص مخاطب ہیں- (۱) محمد علی واعظ(۲) ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ(۳) منشی سعد اللہ مدرس لدھیانہ (۴) منشی محمد عمر سابق ملازم لدھیانہ (۵) مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ (۶) میاں نذیر حسین دہلوی (۷) حافظ عبد المنان وزیر آبادی- (۸) میاں میر حیدر شاہ وزیر آبادی (۹) میاں محمد اسحاق پٹیالوی
الرقـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
مرزا غلام احمدؐ قادیانی ۲۵ اپریل ۱۸۹۳ء
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بقلم غلام محمد امرتسری )
(یہ اشتہار ۲۰ ×۲۶ کے چار صفحوں پرہے)



(۱۰۱)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلّے
اشتہار
براہین احمدیہ اور اس کے خریدار
واضح ہو کہ یہ کتاب اس عاجز نے اس عظیم الشان غرض سے تالیف کرنی شروع کی تھی کہ وہ تمام اعتراضات جو اس زمانہ میں مخالفین اپنی اپنی طرز پر اسلام اور قرآن کریم اور رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر کر رہے ہیں- ان سب کا ایسی عمد گی اور خوبی سے جواب دیا جائے کہ صرف اعتراضات کا ہی قلع قمع نہ ہو- بلکہ ہر ایک امر کو جو عیب کی صورت میں مخالف بد اندیش نے دیکھا ہے- ایسے محققانہ طور سے کھول کر دکھلایا جائے کہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال دکھائی دے- اور دوسری غرض یہ تھی کہ وہ تمام دلائل اور براہین اور حقایق اور معارف لکھے جائیں جن سے حقانیت اسلام اور صداقت رُسول صلے اللہ علیہ وسلم اورحقیقت قرآن روز روشن کی طرح ثابت ہو جائے- اور ابتداء میںیہی خیال تھا کہ اس کتاب کی تالیفات کے لئے جس قدر معلومات اب ہمیں حاصل ہیں وہی اس کی تکمیل کے لئے کافی ہیں- لیکن جب چار حصّے اس کتاب کے شائع ہو چکے- اور اس بات پر اطلاع ہوئی کہ کس قدر بد اندیش مخالف درحقیقت سے دُور مہجور ہیں اور کیسے صد ہا رنگا رنگ کے شکوک و شبہات نے اندر ہی اندر ان کو کھا لیا ہے- وہ پہلا ارادہ بہت ہی نا کافی معلوم ہوا- اور یہ بات کھل گئی کہ اس کتاب کا تالیف کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک ایسے زمانہ کے زیر و زبر کرنے کے لئے یہ ہماری طرف سے ایک حملہ ہے - جس زمانہ کے مفاسدان تمام فسادوں کے مجموعہ ہیں- جو پہلے اس سے متفرق طور پر وقتاً فوقتاً دنیا میں گذر چکے ہیں- بلکہ یقین ہو گیا کہ ان تمام فسادوں کو جمع بھی کیا جائے- تو پھر بھی موجودہ زمانہ کے مفاسدان سے بڑھے ہوئے ہیں- اور عقلی اور نقلی ضلالتوں کا ایک ایسا طوفان چل رہا ہے جس کی نظیر صفحۂ دنیا میں نہیں پائی جاتی- اور جو ایسا دلوں کو ہلا رہا ہے کہ قریب ہے کہ بڑے برے عقل مند اس سے ٹھوکر کھاویں- تب ان آفات کو دیکھ کر یہ قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اس کتاب کی تالیف میں جلدی نہ کی جائے- اور ان تمام مفاسد کی بیخ کنی کے لئے فکر اور عقل اور دُعا اور تضرّع سے پورا پورا کام لیا جائے اور نیز صبر سے اس بات کا انتظار کیا جائے کہ براہین کے چاروں حصّوں کے شائع ہونے کے بعد کچھ مخالف لوگ لکھتے ہیں- اور اگرچہ معلوم تھا کہ بعض جلد باز لوگ جو خریدار کتاب ہیں، وہ طرح طرح کے ظنّوں میں مبتلا ہوں گے اور اپنے چند روم کو یاد کر کے مؤلف کو بد دیانتی کی طرف منسوب کریں گے- چونکہ دل پر یہی غالب تھا کہ یہ کتاب رطب و یابس کا مجموعہ نہ ہو- بلکہ واقعی طور پر حق کی ایسی نُصرت ہو کہ اسلام کی روشنی دُنیا میں ظاہر ہو اجائے-اس لئے چند ایسے جلد بازوں کی کچھ بھی پروا نہیں کی گئی- اور اس بات کو خدا تعالیٰ بخوبی جا نتا ہے اور شاہد ہونے کے لئے وہی کافی ہے کہ اگر پوری تحقیق اور تدقیق کا ارادہ نہ ہوتا تو اس قدر عرصہ میں جو براہین کی تکمیل میں گذر گیا- ایسی بیس تیس کتابیں شائع ہو سکتی تھیں- مگر میری طبیعت اور میرے نُور فطرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف ظاہری طور پر کتاب کو کامل کر کے دکھلا دیا جائے- گو حقیقی اور واقعی کمال اس کو حاصل نہ ہو- ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اگر میں ایسا کرتا اور واقعی حقیقت کو مدنظر رکھتا تو لوگ بلا شُبہ خوش ہو جاتے لیکن حقیقی راست بازی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مستعجل لوگوں کی *** ملامت کا اندیشہ نہ کر کے واقعی خیر خواہی اور غم خواری کو مدنظر رکھا جائے- یہ سچ ہے کہ اس دس برس کے عرصہ میں کئی خریدار دنیا سے گذر بھی گئے- اور کئی لمبے انتظاروں میں پڑ کر نومید ہو گئے- لیکن ساتھ اس کے ذرہ انصاف سے یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ کیا وہ لوگ کتاب کے دیکھنے سے بکلی محروم گئے -اور کیا انہوں نے ۳۶ جزو کی کتاب پُراز حقایق و معارف نہیں دیکھ لی- اور یہ بھی سوچنا چاہئیے تھا کہ تما م دُنیا کا مقابلہ کرنا کیسا مشکل امر ہے- اور کس قدر مشکلات کا ہمیں سامنا پیش آ گیا ہے- اور جو کچھ زمانہ کی حالت موجودہ اپنے روز افزوں فساد کی وجہ سے جدید در جدید کوششیں ہم پر واجب کرتی جاتی ہے، وہ کس قدر زمانہ کو چاہتی ہیں- ماسوا اس کے ایسے بدظن خریدار اگر چاہیں تو خود بھی سوچ سکتے ہیں کہ کیا ان کے پانچ یا دس روپیہ لے کر اُن کو بکلی کتاب سے محروم رکھا گیا کیا ان کو کتاب کی وہ ۳۶ جزو نہیں پہنچ چکیں- جو بہت سے حقایق و معارف سے پُر ہیں- کیا یہ سچ نہیں کہ براہین کا حصہ جس قدر طبع ہو چکا وہ بھی ایک ایسا جواہرات کا ذخیرہ ہے کہ جو شخص اﷲ جلّشانہٗ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو بلاشبہ اس کو اپنے پانچ یا دس روپیہ سے زیادہ قیمتی اور قابلِ قدر سمجھے گا- میں یقینا یہ بات کہتا ہوں اور میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ جس طرح میں نے محض اﷲ جلّشانہ کی توفیق اور فضل اور تائید سے براہین کے حصص موجودہ کی نثر اور نظم کو جو دونوں حقایق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں، تالیف کیا ہے- اگر حال کے بدظن خریدار اُن ملائوں کو جنہوں نے تکفیر کا شور مچا رکھا ہے- اس بات کے لئے فرمایش کریں کہ وہ اسی قدر نظم اور نثر جس میں زندگی کی رُوح ہو اور حقایق معارف بھرے ہوئے ہوں دس برس تک تیار کر کے ان کو دیں اور اسی قدر کی پچاس پچاس روپیہ قیمت لیں تو ہرگز اُن کے لئے ممکن نہ ہو گا اور مجھے اﷲ جلّشانہ کی قسم ہے کہ جو نُور اور برکت اس کتاب کی نثر اور نظم میں مجھے معلوم ہوتی ہے- اگر اس کا مؤلف کوئی اور ہوتا اور میں اس کے اسی قدر کو ہزار روپیہ کی قیمت پر بھی خریدتا تو بھی مَیں اپنی قیمت کو اس کے ان معارف کے مقابل پر جو دلوں کی تاریکی کو دُور کرتی ہیں، ناچیز اور حقیر سمجھتا- اس بیان سے اس وقت صرف مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بقیہ کتاب کے دینے میں معمول سے بہت زیادہ توقف ہوا- لیکن بعض خریداروں کی طرف سے بھی یہ ظلم صریح ہے کہ انہوں نے اس عجیب کتاب کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ذرا خیال نہیں کیا کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفات میں کیا کچھ مؤلفین کو خون جگر کھانا پڑتا ہے اور کس طرح موت کے بعد وہ زندگی حاصل کرتے تھے- ظاہر ہے کہ ایک لطیف اور آبدار شعر کے بنانے میں جو معرفت کے نُور سے بھرا ہوا ہو اور گرتے ہوئے دلوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اُوپر کو اُٹھا لیتا ہو- کس قدر فضل الٰہی درکار ہے اور کس قدر وقت خرچ کرنے کی ضرورت ہے- پھر اگر ایسے آبدار اور پُرمعارف اشعار کا ایک مجموعہ ہو تو ان کے لئے کس قدر زمانہ درکار ہو گا- ایسا ہی نثر کا بھی حال ہے- جاندار کتابیں بغیر جانفشانی کے تیار نہیں ہوتیں- اور متقدمین ایک ایک کتاب کی تالیف میں عمریں بسر کرتے رہے ہیں- امام بخاری نے سولہ برس میں اپنی صحیح کو جمع کیا- حالانکہ صرف کام اتنا تھا کہ احادیث صحیحہ جمع کی جائیں- پھر جس شخص کا یہ کام ہو کہ زمانہ موجودہ کے علم طبعی علم فلسفہ کے ان امور کو نیست و نابود کرے- جو ثابت شدہ صداقتیں سمجھی جاتی ہیں اور ایک معبود کی طرح پوجی جا رہی ہیں- اور بجائے اُن کے قرآن کا سچا اور پاک فلسفہ دُنیا میں پھیلاوے اور مخالفوں کے تمام اعتراضات کا استیصال کر کے اسلام کا زندہ مذہب ہونا- اور قرآن کریم کا منجانب اﷲ ہونا اور تمام مذاہب سے بہتر اور افضل ہونا ثابت کر دیوے- کیا یہ تھوڑا سا کام ہے- میں خوب جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس عاجز کی نسبت اعتراض کئے ہیں کہ ہمارا روپیہ لے کر کھا لیا- اور ہم کو کتاب کا بقیہ اب تک نہیں دیا- انہوں نے کبھی توجہ اور انصاف سے کتاب براہین احمدیہ کو پڑھانہیں ہو گا- اگر وہ کتاب کو پڑھتے تو اقرار کرتے کہ ہم نے براہین کا زیادہ اس سے پھل کھایا ہے- اور اس مال سے زیادہ مال لیا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھ سے دیا- اور نیز یہ بھی سوچتے کہ اگر ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفوں کی تکمیل میں چند سال توقف ہو جائے تو بلاشبہ ایسا توقف ملامتوں کے لایق نہیں ہو گا- اور اگر ان میں انصاف ہوتا تووہ دغا باز اور بددیانت کہنے کے وقت کبھی یہ بھی سوچتے کہ اس عظیم الشان کام کا انجام دینا اور اس خوبی کے ساتھ اتمام حجت کرنا اور تمام موجودہ اعتراضات کو اُٹھانا اور تمام مذاہب پر فتحیاب ہو کر اسلام کی صداقتوں کو آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے دکھلا دینا کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ بغیر ایک معقول مدت اور تائید الٰہی کے ہو سکے- اگر انسان حیوانات کی طرح زندگی بسر نہ کرتاہو- تو اس بات کا سمجھنا اس پر کچھ مشکل نہیں کہ ایک سچا مخلص اور غم خوار اسلام کا جو اسلام کی تائید کے لئے قلم اُٹھاوے- اگرچہ وہ اپنے کسی موجودہ سامان کے لحاظ سے یہ بھی لکھ دے کہ میں صرف چند ماہ میں فلاں کتاب بمقابلہ مخالفین شائع کروں گا- لیکن وہ اس بات کو مجاز ہو گا کہ جدید خرابیاں مشاہدہ کر کے حقیقی اصلاح کی غرض سے اپنے پہلے ارادہ کو کسی ایسے ارادہ سے بدل دے جو خدمت اسلام کے لئے احسن ہے اور جس کا انجام مدت مدید پر موقوف ہے- درحقیقت یہی صورت اس جگہ پیش آ گئی- اور اس عرصہ میں مخالفین کی طرف سے کئی کتابیں تالیف ہوئیں اور کئی ردّ ہماری کتاب براہین کے لکھے گئے اور مخالفین نے اپنے تمام بخارات نکال لئے- اور تمام طاقتیں ان کی معلوم ہو گئیں- اور اس عرصہ میں اپنی فکر اور نظر نے بھی بہت ترقی کی اور ہزارہا باتیں ایسی باتیں معلوم ہوئیں جو پہلے معلوم نہ تھیں اور کتاب کی تکمیل کے لئے وہ سامان ہاتھ میں آ گیا کہ اگر اس سامان سے پہلے کتاب چھپ جاتی تو ان تمام حقایق سے خالی ہوتی- اور اس عرصہ میں یہ عاجز فارغ بھی نہیں بیٹھا رہا- بلکہ تیس ہزار کے قریب اشتہار شائع کیا اور بارہ ہزار کے قریب مخالفین اسلام کو اتمام حجت کے لئے رجسٹری کرا کر خط بھیجے اور بعض کتابیں جو براہین احمدیہ کے لئے بطور ارہاص کے تھیں- تالیف کیں- جیسا کہ سُرمہ چشم آریہ، شحنہ حق، فتح اسلام، توضیح مرام، ازالہ اوہام ، آئینہ کمالات اسلام، اور اس شغل میں صدہا حقایق معارف براہین کے لئے جمع ہو گئے- اور انہیں حقایق معارف نے اب مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ براہین کے پنجم حصہ کو جو اب انشاء اﷲ تعالیٰ آخری حصہ کی طرح اس کو نکالوں گا- ایک مستقل کتاب کے طور پر نکالا جائے- سو اب پنجم حصہ کی خوبیاں جس قدر میری نظر کے سامنے ہیں ان کے مناسب حال میں نے ضروری سمجھا کہ اس پنجم حصہ کا نام ضرورت قرآن رکھا جائے- اس حصہ میں یہی بیان ہو گا کہ قرآن کریم کا دُنیا میں آنا کیسا ضروری تھا- اور دُنیا کی رُوحانی زندگی بغیر اس کے ممکن ہی نہیں- اب میں یقین رکھتا ہوں کہ اس حصہ کے شروع طبع میں کچھ بہت دیر نہیں ہو گی- لیکن مجھے اُن مسلمانوں کی حالت پر نہایت افسوس ہے کہ جو اپنے پانچ یا دس روپیہ کے مقابل پر ۳۶ جزو کی ایسی کتاب پاکر جو معارف اسلام سے بھری ہوئی ہے -ایسے شرمناک طور پر بدگوئی اور بدزبانی پر مستعد ہو گئے کہ گویا ان کا روپیہ کسی چور نے چھین لیا یا ان پر کوئی قزاق پڑا- اور گویا وہ ایسی بے رحمی سے لوٹے گئے کہ اس کے عوض میں کچھ بھی ان کو نہیں دیا گیا- اور ان لوگوں نے زبان درازی اور بدظنّی سے اس قدر اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کیا کہ کوئی دقیقہ سخت گوئی کا باقی نہ رکھا- اس عاجز کو چور قرار دیا- مکار ٹھہرایا- مال مردم خور کر کے مشہور کیا- حرام خور کہہ کر نام لیا- دغا باز نام رکھا- اور اپنے پانچ یا دس روپیہ کے غم میں وہ سیاپا کیا کہ گویا تمام گھر ان کا لوٹا گیا اور باقی کچھ نہ رہا- لیکن ہم ان بزرگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے یہ روپیہ مفت دیا تھا اور کیا وہ کتابیں جو اس کے عوض میں تم نے لیں جن کے ذریعہ سے تم نے وہ علم حاصل کیا جس کی تمہیں اور تمہارے باپ دادوں کو کیفیت معلوم نہیں تھی اور وہ بغیر ایک عمر خرچ کرنے کے اور بغیر خون جگر کھانے کے یونہی تالیف ہو گئی تھیں - اور بغیر صرف مال کے یونہی چھپ گئی تھیں - اور اگر درحقیقت وہ بے بہا جواہرات تھی جس کے عوض آپ نے پانچ یا دس روپے دیئے تھے تو کیا یہ شکوہ روا تھا کہ بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے ہمارا روپیہ لے لیا گیا- آخر ان جوانمردوں اور پُرجوش مسلمانوں کو دیکھنا چاہئیے کہ جنہوں نے براہین کے ان حصوں کو دیکھ کر بغیر خریداری کی نیت کے صرف حقایق معارف کو مشاہدہ کر کے صد ہا روپیہ سے محض ﷲ مدد کی اور پھر عذر کیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے- ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں تمام قومیں تلواریں کھینچ کر اسلام کے گرد ہو رہی ہیں اور کروڑہا روپیہ چندہ کر کے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح اسلام کو روئے زمین سے نابود کر دیں- ایسے وقت میں اگر اسلام کے حامی اسلام کے مددگار اسلام غم خوار یہی لوگ ہیں کہ ایسی کتاب کے مقابل پر جو اسلام کے لئے نئے اور زندہ ثبوتوں کی بنیاد ڈالتی ہے اور اس قدر جزع فزع کر رہے ہیں اور ایک معقول حصہ کتاب کا لے کر پھر یہ ماتم اور فریاد ہے تو پھر اس دین کا خداحافظ ہے مگر نہیں- اﷲ جلّشانہٗ کو ایسے لوگوں کی ہرگز پروا نہیں جو دُنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں- نہایت تعجب انگیز یہ امر ہے کہ اگر کسی صاحب کو بقیہ براہین کے نکلنے میں دیر معلوم ہوئی تھی اور اپنا روپیہ یاد آیا تھا تو اس شور و غوغا کی کیا ضرورت تھی- اور دغا باز اور چور اور حرام خور نام رکھ کر اپنے نامۂ اعمال کے سیاہ کرنے کی کیا حاجت تھی- ایک سیدھے معاملہ کی بات تھی کہ بذریعہ خط کے اطلاع دیتے کہ براہین کے چاروں حصے لے لو اور ہمارا روپیہ ہمیں واپس کرو- مجھے ان کے دلوں کی کیا خبر تھی کہ اس قدر بگڑ گئے ہیں- میرا کام محض ﷲ تھا- اور میں خیال کرتا تھا کہ گو بعض مسلمان خریداری کے پیرایہ میں تعلق رکھتے ہیں- مگر اس پُرفتن زمانہ میں ہی للّٰہی نیت سے وہ خالی نہیں ہیں اور للّٰہی نیت کا آدمی حسن ظن کی طرف بہ نسبت بدظنّی کے زیادہ جھکتا ہے- اگرچہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بدنیتی سے کسی کا کچھ روپیہ رکھ کر اس کو نقصان پہنچاوے- مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک مؤلف محض نیک نیتی سے پہلے سے ایک زیادہ طوفان دیکھ کر اپنی تالیف میں تکمیل کتاب کی غرض سے توقف ڈال دے- وانما الاعمال بالنیات - اﷲ جلّشانہٗ جانتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ جیسا کہ میں نے اس توقف کی وجہ سے قوم کے بدگمان لوگوں سے لعنتیں سنی ہیں- ایسا ہی اپنی اس تاخیر کی جزا میں جو مسلمانوں کی بھلائی کی موجب ہے- اﷲ تعالیٰ سے عظیم الشان رحمتوں کا مورد بنوں گا- اب میں اس تقریر کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا- اصل مدعا میرا اس تحریر سے یہ ہے کہ اب میں اُن خریداروں سے تعلق رکھنا نہیں چاہتا جو سچے ارادت مند اور معتقد نہیں ہیں- اس لئے عام طور پر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جو آیندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں یا اُن کے دلوں میں بھی بدظنّی پیدا ہو سکتی ہے- وہ براہِ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرماویں اور میں اُن کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شخص میں یا اُس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے روپیہ ان کے حوالہ کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور دشنام دہی کو بھی محض ﷲ بخشتا ہوں- کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو- اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو تو چاہئیے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے جو خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے ا اور اگر کسی وارث کے پاس کتاب ہو تو وہ بھی بدستور اس میرے دوست کے روانہ کرے لیکن اگر کوئی کتاب کو روانہ کرے اور یہ معلوم ہو کہ چاروں حصے کتاب کے نہیں ہیں- تو ایسا پیکٹ ہرگز نہیں لیا جائے گا جب تک شخص فریسندہ یہ ثابت نہ کرے کہ اسی قدر کتاب اُن کو بھیجی گئی تھی- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
خاکسار غلام احمد - ا ز قادیان ضلع گورداسپور - یکم مئی ۱۸۹۳ء
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۶ ۱ کے آٹھ صفحوں پر ہے-) (مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ)
(۱۰۴)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہٖ کریم
ڈاکٹرپادری کلارک صاحب کا جنگ مُقّدس
اور اُن کے مقابلہ کے لئے
اشتہار
واضح ہو کہ ڈاکٹر صاحب مندرجۃ العنوان نے بذریعہ اپنے بعض خطوط یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ علمائے اسلام کے ساتھ ایک جنگ مقدّس کے لئے طیاری کر رہے ہیں- انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی ظاہرکیا تھا کہ یہ جنگ ایک پورے پورے فیصلہ کی غرض سے کیا جائے گا اور یہ بھی دھمکی دی کہ اگر علماء اسلام نے اس جنگ سے منہ پھیر لیا یا شکست فاش کھائی تو آیندہ اُن کا استحقاق نہیں ہو گا کہ مسیحی علماء کے مقابل پر کھڑے ہو سکیں یا اپنے مذہب کو سچا سمجھ سکیں یا عیسائی قوم کے سامنے دم مار سکیں- اور چونکہ یہ عاجز انہیں روحانی جنگوں کے لئے مامور ہو کر آیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ بھی جانتا ہے کہ ہر ایک میدان میں فتح ہم کو ہے - اس لئے بلاتوقف ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط کے اطلاع دی گئی ہے کہ ہماری عین مراد ہے کہ یہ وقوع میں آ کر حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو جائے اور نہ صرف اسی پر کفایت کی گئی کہ بلکہ چند معزز دوست بطور سفیر ان پیغام جنگ ڈاکٹر جنگ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بمقام امرت سر بھیجے گئے-جن کے نام نامی یہ ہیں- مرزا خدا بخش صاحب، منشی عبدالحق صاحب، حافظ محمد یوسف صاحب، شیخ رحمت اﷲ صاحب، مولوی عبدالکریم صاحب، منشی غلام قادر صاحب فصیح، میاں محمد یوسف خاں صاحب، شیخ نور احمد صاحب، میاں محمد اکبر صاحب، حکیم محمد اشرف صاحب، حکیم نعمت اﷲ صاحب، مولوی غلام احمد صاحب انجینئر، میاں محمد بخش صاحب، خلیفہ نور الدین صاحب، میاں محمد اسماعیل صاحب
تب ڈاکٹر صاحب اور میرے دوستوں میں جو میری طرف سے وکیل تھے کچھ گفتگو ہو کر بالاتفاق یہ بات قرار پائی کہ یہ مباحثہ بمقام امرت سر واقع ہو- اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس جنگ کا پہلوان مسٹر عبداﷲ آتھم سابق اکسٹرا اسسٹنٹ تجویز کیا گیا- اور یہ بھی ان کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ فریقین تین تین معاون اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز ہوں گے اور ہر یک فریق کو چھ چھ دن فریق مخالف پر اعتراض کرنے کے لئے دیئے گئے- اس طرح پر کہ اوّل چھ روز تک ہمارا حق ہو گا کہ ہم فریق مخالف کے مذہب اور تعلیم اور عقیدہ پر اعتراض کریں- مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور اُن کے منجی ہونے کے بارہ میں ثبوت مانگیں یا اور کوئی اعتراض جو مسیحی مذہب پر ہو سکتا ہے پیش کریں- ایسا ہی فریق مخالف کا بھی حق ہو گا کہ وہ بھی چھ روز تک اسلامی تعلیم پر اعتراض کئے جائیں اور یہ بھی قرار پایا کہ مجلسی انتظام کے لئے ایک ایک صدر انجمن مقرر ہو جو فریق مخالف کے گروہ کو شوروغوغا اور ناجائز کارروائی اور دخل بے جا سے روکے- اور یہ بات بھی باہم مقرر اور مسلم ہو چکی کہ ہریک فریق کے ساتھ پچاس سے زیادہ اپنی قوم کے لوگ نہیں ہوں گے اور فریقین ایک سو ٹکٹ چھاپ کو پچاس پچاس اپنے اپنے آدمیوں کے حوالہ کریں گے اور بغیر ٹکٹ دکھلانے کے کوئی اندر نہیں آ سکے گا- اور آخر پر ڈاکٹر صاحب کی خاص درخواست سے یہ بات قرار پائی کہ یہ بحث ۲۲ مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہونی چاہئیے- انتظام مقام مباحثہ اور تجویز مقام مباحثہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق رہا- اور وہی اس کے ذمہ دار ہوئے- اور بعد طے ہونے ان تمام مراتب کے ڈاکٹر صاحب اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کے اس تحریر پر دستخط ہو گئے جس میں یہ شرائط بہ تفصیل لکھے گئے تھے- اور یہ قرار پایا کہ ۱۵ مئی ۱۸۹۳ء تک فریقین ان شرائط مباحثہ کو شائع کر دیں- اور پھر میرے دوست قادیان میں پہنچے- اور چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے- اس لئے ان کی خدمت میں بتاریخ ۲۵ اپریل ۱۸۹۳ء کو لکھا گیا کہ وہ شرائط جو میرے دوستوں نے قبول کئے ہیں وہ مجھے بھی قبول ہیں- لیکن یہ بات پہلے سے تجویز ہو جانا ضروری ہے کہ اس جنگ مقدس کا فریقین پر اثر کیا ہو گا اور کیونکر کھلے کھلے طو رپر سمجھا جائے گا کہ درحقیقت فلاں فریق کو شکست آ گئی ہے- کیونکہ سالہاسال کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ معقولی اور منقولی بحثوں میں گو کیسی ہی صفائی سے ایک فریق غالب آ جائے مگر دوسرے فریق کے لوگ کبھی قائل نہیں ہوتے کہ وہ درحقیقت مغلوب ہو گئے ہیں- بلکہ مباحثات کے شائع کرنے کے وقت اپنی تحریرات پر حاشئے چڑھا چڑھا کر یہ کوشش کر تے ہیں کہ کسی طرح اپنا ہی غالب رہنا ثابت ہو- اور اگر صرف اسی قدر منقولی بحث ہو- تو ایک عقلمند پیشگوئی کر سکتا ہے کہ یہ مباحثہ بھی انہیں مباحثات کی مانند ہو گا جو اب تک پادری صاحبوں اور علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں- بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسے مباحثہ میں کوئی بھی نئی بات معلوم نہیں ہوتی- پادری صاحبوں کی طرف سے وہی معمولی اعتراضات ہوں گے کہ مثلاً اسلام زور شمشیر سے پھیلا ہے- اسلام میں کثرت ازدواج کی تعلیم ہے- اسلام کا بہشت ایک جسمانی بہشت ہے- وغیرہ وغیرہ- ایسا ہی ہماری طرف سے بھی وہی معمولی جواب ہوں گے کہ اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی- اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچوں اور راہبوں کے قتل کرنے کے لئے حکم نہیں دیا- جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے گئے اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ہے جس کی رُو سے بے شمار عورتیں اور بچے بھی قتل کئے گئے- جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بُری نہیں تھیں بلکہ اس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہو گی کہ وہی خدا اسلام کی اُن لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو کرنی پڑی تھیں- ایسا ہی کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہو گا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی- اور اسلام نے تعدد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ- بلکہ یہ قراٰن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سو سو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرام کاری میں مبتلا رہے- اور کیا اُن کی اولاد جن میں سے بعض راست باز بلکہ نبی بھی تھے- ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے- ایسا ہی بہشت کی نسبت وہی معمولی جواب ہو گا کہ مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الٰہی کا گھر ہے اور دنوں قسم کی سعادتوں رُوحانی اور جسمانی کی جگہ ہے- ہاں عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے-
لیکن اس جگہ سوال تو یہ ہے کہ ان مباحثات کا نتیجہ کیا ہو گا- کیاامید رکھ سکتے ہیں کہ عیسائی صاحبان مسلمانوں کے ان جوابات کو جو سراسر حق اور انصاف پر مبنی ہیں- قبول کر لیں گے- یا ایک انسان کے خدا بنانے کے لئے صرف معجزات کافی سمجھے جائیں گے یا بائیبل کی وہ عبارتیں جن میں علاوہ حضرت مسیح کے ذکر کے کہیں یہ لکھا ہے کہ تم سب خدا کے بیٹے ہو اور کہیں یہ کہ تم اس کی بیٹیاں ہو اور کہیں یہ تم سب خدا ہو، ظاہر پر محمول قرار دیئے جائیں گے- اور جبکہ ایسا ہونا ممکن نہیں- تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس بحث کا عمدہ نتیجہ جس کے لئے ۱۲ دن امرتسر میں ٹھہرنا ضروری ہے- کیا ہو گا-
ان وجوہات کے خیال سے ڈاکٹر شاہب کے بذریعہ خط رجسٹرڈ یہ صلاح دی گئی تھی کہ مناسب ہے کہ چھ دن کے بعد یعنی جب فریقین اپنے اپنے چھ دن پورے کر لیں تو ان میں مباہلہ بھی ہو- اوروہ صرف اس قدر کافی ہے کہ فریقین اپنے مذہب کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کی میعار قائم ہو-پھر جس فریق کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو گا کہ فریق مغلوب اس فریق کا مذہب اختیار کرنے سے اگر انکار کے تو واجب ہو گا کہ اپنی نصف جائیداداس سچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کے حوالہ کر دے- یہ ایسی صورت ہے کہ اس سے حق اور باطل میں بکلی فرق ہو جائے گا- کیونکہ جب ایک خارق نشان کے مقابل پر ایک فریق بالمقابل نشان دکھلانے سے بکلّی فرق ہو جائے - کیونکہ جب ایک خارق نشان کے مقابل پر ایک فریق بالمقابل نشان دکھلانے سے بکلّی عاجز رہا- تو فریق نشان دکھلانے والے کا غالب ہونا بکلّی کھل جائے گااور تمام بحثیں ختم ہو جائیں گی اور حق ظاہر ہو جائے گا- لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ گذرتا ہے جو آج تک ۳ مئی ۱۸۹۳ء ہے ڈاکٹر صاحب نے اس خط کا کچھ بھی جواب نہیں دیا- لہذا اس اشتہار کے ذریعہ سے ڈاکٹر صاحب اور ان کے تمام لوگوں کی خدمت میں التماس ہے کہ جس حالت میں انہوں نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں قطعی فیصلہ ہو جائے اور یہ بات کھل جائے کہ سّچا اور قادر خدا کس کا خدا ہے - تو پھر معمولی بحثوں سے یہ امید رکھنا طمع خام ہے - اگر یہ ارادہ نیک نیتی سے ہے تو اس سے بہتر اَور کرئی بھی طریق نہیں کہ اب آسمانی مدد کے ساتھ صدق اورکذب کو آزمایا جائے- اور میں نے اس طریق کو بدل و جان منظور کر لیا ہے- اور وہ طریق بحث جو منقولی اور معقولی طور پر قرار پایا ہے - گو میرے نزدیک چنداں ضروری نہیں- مگر تا ہم وہ بھی مجھے منظور ہے لیکن ساتھ اس کے یہ ضروریات سے ہوگا کہ ہر یک چھ دن کی میعاد کے ختم ہونے کے بعد بطور متذکرہ بالا مجھ میں اور فریق مخالف میں مباہلہ واقع ہو گا- اور یہ اقرار فریقین پہلے سے شائع کر دیں کہ ہم مباہلہ کریں گے- یعنی اس طور سے دُعا کریں گے کہ اے ہمارے خدا- اگر ہم باطل پر ہیں تو فریق مخالف کے نشان سے ہماری ذلّت ظاہر فرما- اور اس دُعا کے وقت دونوں فریق آمین کہیں گے- اور ایک سال تک اس کی میعاد ہو گی- اور فریق مغلوب کی سزا وہ ہو گی جو اُوپر بیان ہو چکی ہے-
اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر ایک سال کے عرصہ میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یا دونوں طرف سے ظاہر ہو تو پھر کیونکرک فیصلہ ہو گا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ راقم اس صورت میں بھی اپنے تئیںمغلوب سمجھے گا- اور ایسی سزا کے لایق ٹھہرے گا جو بیان ہو چکی ہے چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اور فتح پانے کی بشارت پا چکا ہوں- پس اگر کوئی عیسائی صاحب میرے مقابل آسمانی نشان دکھلاویں یا میں ایک سال تک دکھلا نہ سکوں- تو میرا باطل پر ہونا کھل گیا- اور اللہ جلشانہ ‘ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جلشانہ‘ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام بلا تفاوت ایسا ہی انسا ن تھا جس طرح اور انسان ہیں- مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اس کا مرُ سل اور برگزیدہ ہے- اورمجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا -وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے - اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا- پس جبکہ یہ بات ہے تو میری سچائی کے لئے ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو- اور اگر نشان ظاہر نہ ہو تو پھر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں- اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لایق ہوں- سو آج مین اُن تمام باتوں کو قبول کر کے اشتہار دیتا ہوں - اب بعد شائع ہونے اشتہار کے مناسب اور واجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس قدر اشتہار دے دیں - کہ اگر بعد مباہلہ مرزا غلام احمدؐ کی تائید مین ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہو جائے جس کے مقابل پر اسی سال کے اندر ہم نشان دکھلانے سے عاجز آ جائیں تا بلا توقف دین اسلام قبول کر لیں گے- ورنہ اپنی تمام جائیداد کا نصف حصّہ اسلام کے امداد کی غرض سے فریق غالب کے دے دیں گے اورآئندہ اسلام کے مقابل پر کبھی کھڑے نہیں ہوں گے- ڈاکٹر صاحب اس وقت سوچ لیویں کہ میں نے اپنی نسبت بہت زیادہ سخت شرائط رکھی ہیں- اور ان کی نسبت شرطیں نرم رکھیں گئی ہیں- یعنی اگر میرے مقابل پر وہ نشان دکھلائیںاور میں بھی دکھلائوں تب بھی بموجب اس شرط کے وہی سچے قرار پائیں گے - اور اگر نہ میں نشان دکھلائوں سکوں اور انہ وہ ایک سال تک نشان دکھلا سکیں تب بھی وہی سچّے قرار پائیوں گے- اور مین صرف اس حالت مین سچّا قرار پائوں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں- اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہو گی- اور ہم پھر اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہو گی- اور ہم پھر بھی ان کی منقولی اور معقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں- بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہونا شائع کر دیں- یعنی یہ لکھ دیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں- اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے - میں نے سُنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے دوستوں کے رو برو یہ بھی فرما یا تھا کہ ہم مباحثہ تو کریں گے مگر ی مباحثہ فرقہ احمدیہ سے ہو گا نہ مسلمانان جنڈیالہ سے- سو ڈاکٹر صاحب کو واضح رہے کہ فرقہ احمدیہ ہی سچّے مسلمان ہیں- جو خدا تعالیٰ کے کلام میں انسان کی رائے کو نہیں ملاتے- اور حضرت مسیح کا درجہ اسی قدر مانتے ہیں جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے والسَّلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
(یہ اشتہار حجتہ الا سلام بار اوّل مطبوعہ ۸ مئی ۱۸۹۳ء ریاض ہند پریس امرتسر کے صحہ ۱ تا ۱۱ پر ہے-)

(۱۰۵)
میاں بٹالوی صاحب کی اطلاع کے لئے اشتہار
واضح ہو کہ شیخ بٹالوی صاحب کی خدمت میں وہ اشتہار جس میں بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے اُن کو دعوت کی گئی تھی- بتاریخ یکم اپریل ۱۸۹۳ء پہنچایا گیا تھا- چنانچہ مرزا خدابخش صاحب جو اشتہار لے کر لاہور گئے تھے- یہ پیغام لائے کہ بٹالوی صاحب نے وعدہ کر لیا ہے جو یکم اپریل سے دو ہفتہ تک جواب چھاپ کر بھیج دیں گے- سو دو ہفتہ تک انتظار جواب رہا- اور کوئی جواب نہ آیا- پھر دوبارہ ان کو یاد دلایا گیا تو انہوں نے بذریعہ اپنے خط کے جو میرے اشتہار میں چھپ گیا ہے- یہ جواب کہ ہم اپریل کے اندر اندر جواب چھاپ کر روانہ کریں گے- چنانچہ اب اپریل بھی گذر گیا ہے - اوربٹالوی صاحب نے دو وعدے کر کے تخلف وعدہ کیا- ہم ان پر کوئی الزام نہیں لگاتے- مگر انہیں آپ شرم کرنی چاہیے‘ کہ وہ آپ تو دوسروں کا نام بلا تحقیق کاذب اور وعدہ شکن رکھتے ہیں- اور اپنے دعدوں کا کچھ بھی پاس نہیں کرتے -تعجب کہ یہ جواب صرف ہاں یا نہیں سے ہو سکتا تھا- مگر انہوں نے ایک مہینہ گذار دیا -اور یہ مہینہ ہمارا صرف انتظاری میں ضائع ہوا- اب ہمیں بھی دو ضروری کام پیش آ گئے- ایک ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ مباحثہ‘ دوسرے ایک ضروری رسالہ کا تالیف کرنا جو تائید اسلام کے لئے بہت جلد امریکہ میں بھیجا جائے گا جس کا یہ مطلب ہو گا کہ دُنیا میں سچّا اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے اس لئے میاں بٹالوی صاحب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اگر دونوں کاموں کی تکمیل کے پہلے آپ کا جواب آیا تو ناچار کوئی دوسری تاریخ آپ کے مقابلہ کے لئے شائع کی جائے گی- جوان دونوں کاموں سے فراغت کے بعد ہو گی-
(یہ اشتہار حجتہ الا سلام بار اوّل ریاض ہند امر تسر ۸ مئی ۱۸۹۳ء کے صفحہ ۱۱ ، ۱۲ پر ہے)
(۱۰۶)
شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشگوئی
شیخ محمد حسین ابو سعید کی آجکل ایک نازک حالت ہے- یہ شخص اس عاجز کو کافر سمجھتا ہے- اور نہ صرف کافر بلکہ اس کے کفر نامہ میں کئی بزرگوں نے اس عاجز کی نسبت اکفر کا لفظ بھی استعمال کیا ہے - اپنے بوڑھے اُستاد نذیر حسین دہلوی کو بھی اُس نے اسی بَلا میں ڈال دیا ہے - سبحان اللہ ایک شخص اللہ جلشانہ‘ اور اس کے رسُول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے- اور پابند صوم و صلٰوۃ اور اہل صلٰوۃ اور اہل قبلہ میں سے ہے- اور تمام عملی باتوں میں ایک ذرہ بھی کتاب اللہ اور سُنت رسُول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا مخالف نہیں- اس کو میاں بٹالوی صرف اس وجہ سے کافر بلکہ اکفر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے والا قرار دیتا ہے کہ وہ اور بموجب پیشگوئی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مسیح موعودؑاسی اُمت میں سے ہو گا- اپنے متواتر الہامات اور قطعی نشانوں کی بناء پر اپنے تیئں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے - اور میاں بٹالوی بطور افتراء کے یہ بھی کہتا ہے کہ گویا یہ عاجز ملائک کا منکر اور معراج نبوی کا انکا ری اور نبوت کا مدعی اور معجزات کی بھی نہیں مانتا- سبحان اللہ! کافر ٹھہرانے کے لئے اس بیچارے نے کیا کچھ افتراء کئے ہیں- انہیں غموں میں مر رہا ہے کہ کسی طرح ایک طرح ایک مسلمان کو تمام خلق اللہ کافر سمجھ لے- بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی کفر میں بڑھ کر قرار دیوے- دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اب اس شخص کا بہت ہی بُرا حال ہے- اگر کسی سے مُنہ سے نکل جائے کہ میاں کیوں کلمہ گوئوں کو کافر بناتے ہو- کچھ خدا سے ڈرو- تو دیوانہ کی طرح اس کے گرد ہو جاتا ہے- اور بہت سی گالیاں اس عاجز کع نکال کر کہتا ہے کہ وہ ضرور کافر اور سب کافروں سے بد تر ہے- ہم اُس کے خیر خواہوں سے ملتجی ہیں کہ اس نازک وقت میں ضرور اس کے حق میں دُعا کریں- اب کشتی اس کی ایک ایسے گرداب میں ہے جس سے جانبر ہونا بظاہر محال معلوم ہوتا ہے- وا نی رأیت ان ھذا الرجل یؤ من بایمانی قبل موتہٖ و ئبت کانۃ ترک قول التکھیرو تاب - و ھٰذہٖ رؤیا ی و ارجوا ن یجعلہا ربّی حقاً -والسَّلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
الراقــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــم
خاکسار غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپور ۴ مئی ۱۸۹۳ء
(یہ اشتہار حجتہ الاسلام بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ۸ مئی ۱۸۹۳ء کے صفحہ ۲۱-۲۲ پر ہے-)
(۱۰۷)
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَ کّٰھَا
کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
یہ تو ہر ایک قوم کادعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں سے ایسے ہیں کہ خداتعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں۔ مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خُدا تعالیٰ بھی اُن سے محبّت رکھتا ہے یانہیں۔ اور خداتعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو ان کے دلوں سے پردہ اُٹھاوے- جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا- اور ایک دُھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے-بلکہ بسااوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کربیٹھتا ہے-اور یہ پردہ اُٹھایا جانابجُز مکالمہ الٰہیہ کے اور کسی صورت سے میّسر نہیں آ سکتا- پس انسان حقیقی معارفت میں اس دن غوطہ مارتا ہے-جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کرکے انا الموجود کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے- تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈھکوسلے یا محض منقولی خیالات تک محدور نہیں رہتی- بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہوجاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے- اوریہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خداتعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جلّشانہٗ اپنے وجود سے آپ خبر دیتاہے- اورپھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے سارے بندوںکو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے- اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے زیادہ ہوں- قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے اُن کو اطلاع دے دیتا ہے- تب اُن کے دل تسلّی پکڑ جاتے ہیں- کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے- جو ہماری دعائیں سُنتا اور ہم کو اطلاع دیتا ہے اورمشکلات سے ہمیں نجات بخشتا ہے- اسی روز سے نجا ت کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجو دکا بھی پتہ لگتا ہے- اگرچہ جگانے اور متنبّہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کوبھی سچی خوابیں آ سکتی ہیں مگراس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگت اَ ور ہے - یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے-اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر تجلّی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دُعا کی بشارت دیتا ہے- اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے- اس کو نبی یا محدث کہتے ہیں- اورسچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پید اہوتے رہیں- جومحدَّث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے- اور اسلام کی حقیقت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں- تتنز علیھم الملائکۃ الّا تخانوا ولا تحزنوا- سو یہی معیار حقیقی- سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے- اور ہم جانتے ہیںکہ یہ نُور صرف اسلام میں ہے- عیسائی مذہب اس نُور سے بے نصیب ہے- اور ہماری یہ بحث جو ڈاکٹر کلار ک صاحب سے ہے- اس غرض سے اور اسی شرط سے ہے کہ اگر وہ اس مقابلہ سے انکار کریں تو یقینا سمجھو کہ عیسائی مذہب کے بطلان کے لئے یہی دلیل ہزار دلیل سے بڑھ کر ہے کہ مُردہ ہر گز زند ہ کامقابلہ نہی کر سکتا- اور اندھاسوجاکھے کے ساتھ پُورا اُتر سکتا ہے- والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ-
خاکسار میرزا غلا م احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ
( یہ اشتہار حجۃ الاسلام بار اول مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ۸ مئی ۱۸۹۳؁ء کے ٹائٹل پیج پر ہے)
(۱۰۸)
اطلاع عام
شیخ بٹالوی صاحب اشاعۃ السنتہ نے دو یہ مرتبہ یہ پختہ عہد کیا تھامیں اس خط کا جواب جوعربی تفسیراور قصیدہ بالمقابل کے بارہ میں اس طرف سے بطور اتمام حجت لکھا گیا تھا کہ فلاں فلاں تاریخ کو ضرور بھیج دوں گا-اب ان دونوں تاریخوں پر سولہ دن گزر گئے اور خدا جانے کس قدر گزرتے جائیں گے- شیخ صاحب کا بار بار وعدہ کرنا اور پھر توڑنا صاف دلالت کررہے کہ اب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو رہے ہیں- اور تین روز کاذکر ہے کہ ایک مجمل پیغام مجھ کوامرتسر سے پہنچا کہ بعض مولوی صاحب کہتے ہیںکہ اس مباحثہ میں اگر مسیح کی وفات حیات کے بارے میں بحث ہوتی تو ہم اس وقت ضرور ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ شامل ہو جاتے- لٰہذا عام طور پر شیخ جی اور ان کو دوسرے رفیقوں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ قسم دی جاتی ہے کہ یہ بخار بھی نکال لو- حیات وفات مسیح کے بارے میں ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ ضرور بحث ہوگی-بیشک اس کی مدد کرو-
واعلموان اللّٰہ یخزی الکاذبین واٰخردعوٰنا ان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین
(یہ اشتہار سچائی کا اظہار بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۵ پر ہے)
(۱۰۹)
مسٹر عبداللہ آتھم صاحب وکیل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب و دیگر عیسائیان کابصورت مغلوب ہوجانے کے مسلمان ہو جانے کا وعدہ
ہم اس وقت مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرااسسٹنٹ حال پنشنر رئیس امرت سر کاوہ وعدہ ذیل میں لکھتے ہیں جو انہوں نے بحیثیت وکالت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب وعیسائیان جنڈیالہ مسلمان ہونے کے لئے بحالت مغلوبیّت کیا ہے- صاحب موصوف نے اپنے اقرار نامہ میں صاف صاف اقرار فرمایا دیا ہے کہ اگر وہ معقولی بحث کی رُو سے یا کسی نشان کے دیکھنے سے مغلوب رہ جائیں تو دین اسلام اختیار کرلیں گے- اور وہ یہ ہے-
نقل خط مسٹر عبداللہ آتھم صاحب ۹مئی ۱۸۹۳؁ء
منقام امرت سر
جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان
بجواب جناب کے حجۃ الاسلام متعلق بندہ کے عرض ہے کہ اگر جناب یا اور کوئی صاحب کسی صورت سے بھی یعنی یہ تحدی معجزہ یا دلیل قاطع عقلی تعلیمات قرآنی کو ممکن اور موافق صفات اقدس ربانی کے ثابت کرسکیں تو میں اقرار کرتا ہوں کہ مسلمان ہو جائو ں گا- جناب یہ سندمیری اپنے ہاتھ میں رکھیں باقی منظوری سے مجھے معاف رکھئے کہ اخباروں میں اشتہار دوں-
دستخط - مسٹر عبداللہ آتھم صاحب
( یہ اشتہار سچائی کا اظہار بار اوّل مطبوعہ ریاض ہند امرتسر کے صفحہ ۱۴تا۱۶ پر ہے)
(۱۱۰)
اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبدالحق غزنوی مؤرخہ ۲۶شوال ۱۳۱۰ھ
ایک اشتہار مباہلہ٭ ۲۶ شوال ۱۳۱۰ھ شائع کردہ عبدالحق غزنوی میری
؎نظر سے گزرا- سو اس لئے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے کہ مجھ کو اس شخص اور ایسا ہی یک مکفّر سے جو عالم یا مولوی کہلاتا ہے، مباہلہ منظور ہے- اور میں امید رکھتا ہوں کہ
انشاء اللہ القدیر میں تیسری یا چوتھی ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ تک امرتسر میں پہنچ جائوں گا اور
تاریخ مباہلہ دہم ذیقعد اور بصور ت بارش وغیرہ کسی ضرروری وجہ سے گیارھویں ذیقعد ۱۳۱۰ ھ قرار پائی ہے جس سے کسی صورت میں تخلف لازم نہیں ہوگا-اور مقام مباہلہ عید گاہ جو قریب مسجدخاں بہادر محمد شاہ مرحوم قرار پایا ہے-اور چونکہ دن کے پہلے حصّہ میں قریباً بارہ بجے تک عیسائیوں سے دربارہ حقیقتِ اسلام اس عاجز کامباحثہ ہوگا-اور یہ مباحثہ برابر بارہ دن تک ہوتا رہے گا- اس لئے مکفّرین جو مجھ کو کافر ٹھہر اکر مجھ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں -دوبجے سے شام تک مجھ کو فرصت ہو گی- اس وقت میں بتاریخ دہم ذیقعد یا بصورت کسی عذر کے گیاراں ذیقعد ۱۳۱۰ھ کو مجھ سے مباہلہ کرلیں اور دہم ذیقعد اس مصلحت سے تاریخ قرار پائی ہے کہ تا دوسرے علماء بھی جواس عاجز کلمہ گو اہل قبلہ کو کافر ٹھہراتے ہیں- شریک مباہلہ ہو سکیں جیسے محی الدین لکھو کے والے اور مولوی عبدالجبار صاحب اور شیخ محمد حسین بٹالوی اور منشی سعدؔ اللہ مدرس ہائی سکول لدھیانہ اور عبدالعزیز واعظ لدھیانہ محمد ؔعمر سابق ملازم ساکن لدھیانہ اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور پیر حیدر شاہ صاحب اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی اور میاں عبداللہ ٹونکی اور مولوی غلام ؔدستگیر قصوری اور مولوی شاہدین صاحب اور مولوی مشتاقؔ احمد صاحب مدرس ہائی سکول لدھیانوی اور مولوی رشید ؔ احمد گنگوہی اورمحمدؔ واعظ ساکن بوپراں ضلع گوجرانوالہ اور مولوی محمد اسحاق اور سلیمان ؔساکنان ریاست پٹیالہ اور ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ اور مولوی محمد ملازم محمد ملازم مطبع کرم بخش لاہور وغیرہ- اور اگر یہ لوگ باوجود پہنچنے ہمارے رجسٹری شدہ اشتہارات کے حاضر میدان مباہلہ نہ ہوئے تو یہی ایک پختہ دلیل اس بات پر ہوگی کہ وہ درحیققت اپنے عقیدہ تکفیر میں اپنے تئیں کاذب اور ظالم اور نا حق پر سمجھتے ہیں- بالخصوص سب سے پہلے شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنۃ کا فرض ہے کہ میدان میں مباہلہ کے لئے تاریخ مقررہ پر امرتسر میں آجاوے- کیونکہ اس نے مباہلہ کے لئے خود درخواست بھی کردی ہے- اور یاد رہے کہ ہم بار بار مباہلہ کرنا ن نہیں چاہتے کہ مباہلہ کوئی ہنسی کھیل نہیں - ابھی تمام مکفّرین کافیصلہ ہو جانا چاہئیے- پس جو شخص اب ہمارے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد بھی گریز کرے گا اور تاریخ مقررہ پر حاضر نہیں ہوگا- آئیندہ اس کا کوئی حق نہیں رہے گا کہ پھر کبھی مباہلہ کی درخواست کرے اور پھر ترک حیا میں داخل ہوگا کہ غائبانہ کافر کہتا رہے- اتمام حجّت کے لئے رجسٹری کراکر یہ اشتہار بھیجے جاتے ہیں - تا اس کے بعد مکفّرین کو کوئی عذر نہ رہے- اگر بعد اس کے مکفّرین نے مباہلہ نہ کیااور نہ تکفیر سے باز آئے تو ہماری طرف سے اُن کو حجت پوری ہوگئی- بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ مباہلہ سے پہلے ہمارا حق ہو گاکہ ہم مکفّرین کے سامنے جلسہ عام میں اپنے اسلام کے وجوہات پیش کریں- والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ-
المشتھــــــــــــــــــــــــــــــــر
خاکسار میرزا غلام احمد ۳۰ شوال ۱۳۱۰ھ (بمطابق مئی ۱۸۹۳ء )
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے ایک صفحہ پر ہے)
(یہ اشتہار رسالہ سچائی کا اظہار مطبوعہ بار اول ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱۷ پربھی طبع ہوا ہے)
(۱۱۱)
اعلان عام
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم نحمدہٗ ونصلّی علیٰ رسولہٖ الکریم
ان اللہ مع الّذین اتّقوا والّذین ھُم مُحسنون
اس مُباہلہ کی اہلِ اسلام کو اطّلاع
جودہم ذیقعد روز شنبہ کو بمقام امرتسر عید گاہ متـصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ صاحب مرحوم ہوگا
اے برادران اہل اسلام کل دہم ذیقعد روز شنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبدالحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے اس عاجزسے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجّال اور بیدین اور دشمن اللہ جلّشانہٗ اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلّم کا سمجھتے ہیں- اور اس عاجز کی کتابوں کو مجموعہ کفریات خیال کرتے ہیں- اور اس طرف یہ عاجز نہ صرف اپنے تئیں مسلمان جانتا ہے بلکہ اپنے وجود کو اللہ اور رسُول کی راہ میں فدا کئے بیٹھا ہے- لٰہذا ان لوگوں کی درخواست پر یہ مباہلہ تاریخ مذکورہ بالا میں قرار پایا ہے- مگر میں چاہتا ہوں کہ مُباہلہ کی بد دُعاکرنے کے وقت بعض اور مسلمان بھی حاضر ہو جائیں کیونکہ میں یہ د ُعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں- ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسُول کے فرمودہ کے مخالف نہیںہیں اور نہ میں کافر ہوں- اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلّم کے فرمودہ سے مخالف اور کُفر سے بھری ہیں تو خدا تعالیٰ وہ *** اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو- اور آپ لوگ آمین کہیں -کیونکہ اگر میں کافر ہوں اور نعوذ باللہ دین اسلام سے مُرتداور بے ایمان تو نہایت بُرے عذاب سے مرنا ہی بہتر ہے اور میں ایسی زندگی سے بہزار دل بیزار ہوں- اور اگر ایسا نہیں تو خدا تعالیٰ اپنی طر ف سے سچا فیصلہ کردے گا- وہ میرے دل کو بھی دیکھ رہا ہے اور میرے مخالفوں کے دل کو بھی- بڑے ثواب کی بات ہوگی اگر آپ صاحبان کل دہم ذیقعد ہ کو دو بجے کے وقت عید گاہ میں مباہلہ پر آمین کہنے کے لئے تشریف لائیں -والسّلام
خاکسار غلام احمدؐ قادیانی عفی اللہ عنہ
۹ ذیقعد ہ ۱۳۱۰ھ
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر)
(یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے صفحہ پر ہے )
(۱۱۲)
اتمام حجّت
اگر شیخ محمد بٹالوی دہم ٭ذیقعد ۱۳۱۰کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اسی روز سے سمجھا جائے گاکہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے توبہ کرے گاپوری ہو گئی- بالآخر میں دُعا کرتا ہوں کہ اے خدا وند قدیراُس ظالم اور سرکش اور فتّان پر *** کراور ذلّت کی مار اس پر ڈال جو اب اس دعوت مباہلہ کے لئے میرے مقابل پر میدان میں نہ آوے اور نہ کافر کہنے اور سبّ اور شتم سے باز آوے- آمین ثم آمین-
یاایّھا لمکفرون وتعالوا الیٰ امر ھو سنۃ اللّٰہ و نبیّہٖ لافحام المکذبین-فان تولیتم فاعلموا ان لعنۃ اللّٰہ علی المکفرین الذین استبان تخلفہم وشھد تخوفھمم انھم کانواکاذبین-
المشتہر مرزا غلام احمد ؐ قادیانی
ا س میں تما م علماء مکفرین کو بہ تقرری تاریخ دہم ذیقعد ۱۳۱۰ھ بمقام امرتسر مُباہلہ کے لئے بلایا گیاہے-
(یہ اشتہار رسالہ سچائی کا اظہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے صفحہ ۱۹ پر ہے)


(۱۱۳)
جنگ مقدس
مضمون آخر ی حضرت مرزا صاحب ؑ
(۵ جون ۱۸۹۳ء)
آج یہ میرا آخری پرچہ ہے جو میں ڈپٹی صاحب کے جواب میں لکھتا ہوں- مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ بحث شروع کی گئی تھی- ان شرائط کاڈپٹی صاحب نے ذرّہ پاس نہیں فرمایا- شرط یہ تھی کہ جَیسے میں اپنا ہر ایک دعویٰ اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کی معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں- ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں گے- لیکن وہ کسی موقع پر اس شرط کو پُور ا نہیں کرسکے- خیر اب ناظریں خود دیکھ لیںگے- اس جواب کے الجواب میں صرف اتنا کہنا مجھے کافی ہے کہ پٹی صاحب نے یہ جو توبہ کی سُورۃ کو پیش کر دیا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان نہ لانے پر قتل کا حکم ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے- بلکہ اصل مدعا وہی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے جوہم بیان کر چکے ہیں یعنی جو شخص اپنی مرضی سے باوجود واجب القتل ہونے کے ایمان لے آوے وہ رہائی پا جائے گا- سو اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ جو لوگ ا س رعایت سے فائدہ نہ اُٹھاویں اور اپنی مرضی سے ایمان نہ لاویں اُن کو سزائے موت اپنے پاداش کردار میں دی جائے گی- اس جگہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایمان لانے پر جبر ہے بلکہ ایک رعایت ہے جو ان کی مرضی پر چھوڑی گئی ہے- اور سات قوموں کا جو آپ ذکر فرماتے ہیں کہ اُن کو قتل کیا گیا اور کوئی رعایت نہ کی گئی- یہ تو آیت کی تشریح کے برخلاف ہے- دیکھو قاضیون ۲۸,۳۰/۱کہ کنعانیوں سے جو ان ساتوںقوموں سے ایک قوم ہے-خراج لینا ثابت ہے-پھر دیکھو یشوع ۱۰/۱۶اور قاضیون ۳۵/۱جو قوم اموریوں سے جزیہ لیا گیا-
پھر آپ اعادہ اس بات کاکتے ہیں کہ قرآن نے تعلیم دی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی حالت میں ایمان کو چھپاوے- میں لکھ چکا ہوں کہ قرآن کی یہ تعلیم نہیں ہے- قرآن نے بعض ایسے لوگوں کو جن پر یہ واقعہ وارد ہوگیا تھا،ادنیٰ درجہ کے مسلمان سمجھ کر ان کو مومنوں میں داخل رکھا ہے- آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ کے ایماندار نہیں ہوا کرتے اور آپ اس سے بھی انکار نہیں کریں گے کہ بعض دفعہ حضرت مسیح ؑ یہودیوں کے پتھرائو سے ڈر کر اُن سے کنارہ کر گئے- اور بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کوچھپا دیا- اور متی ۲۰/۱۶ میں لکھا ہے- تب اس نے اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسو سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں- اب انصاف سے کہیں کہ کہ کیا یہ سچے ایمانداروں کا کام ہے اور ان کا کام جو رسُول اور مبلّغ ہو کردُنیا میں آتے ہیں کہ اپنے تئیں چھپائیں- اس سے زیادہ آپ کو ملزم کرنے والی اَور کون سی نظیر ہوگی بشرطیکہ آپ فکر کریں- اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ دَلْدَلْ میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں - مگر عین حمئَۃٍ سے تو کالا پانی مُراد ہے- اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں- اور مجازات کی بناء مشاہدات عینیہ پر ہے- جیسے ہم ستاروں کو کبھی نقطہ موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبود رنگ کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہہ دیتے ہیں- پس جبکہ انہی اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے انکار کیوں کیا جائے- آپ فرماتے ہیں کہ کلام مجسم ہو کر آیا ہے- اور گوڈنس کی تاویل پھر آپ تکلّف سے کرتے ہیں- میں کہہ چکا ہوں کہ گوڈنس یعنی احسان کوئی صفت صفات ذاتیہ میں سے نہیں ہے- یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے رحم آتا ہے - یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے احسان آتا ہے- مگر آپ پوچھتے ہیں کہ اگر یُونہی بغیر کسی کی مصیبت دیکھنے کے اس سے خوش سلوکی کی جائے تو اس کو کیا کہیں گے- سو آپ کو یاد رہے کہ وہ بھی رحم کے وسیع مفہوم میں داخل ہے- کوئی انسان کسی سے خوش سلوکی ایسی حالت میں کرے گا کہ جب اوّل کوئی قوت اس کے دل میں خوش سلوکی کرنے کے لئے رغبت دے تو پھر قوت رحم ہے جو انسان کے ہر ایک قسم کی ہمدردی کے لئے جوش مارتی ہے- اور جب تک کوئی شخص قابل خوش سلوکی کے قرار نہ پادے اور کسی جہت سے قابل رحم نظر نہ آوے بلکہ قابل قہر نظر آوے تو کون اس سے خوش سلوکی کرتا ہے- پھر آپ فرماتے ہیں کہ حیوانات کو قتل ہوتے دیکھ کر کیا ہم فرض کر لیں کہ خدا نے ظلم کیا- میں کہتا ہوں- میں نے کب اس کا نام ظلم رکھا ہے- میں تو کہتا ہوں کہ یہ عملدرآمد مالکیّت کی بناء پر ہے-جب آپ اس بات کو مان چکے کہ تفاوت مراتب مخلوقات یعنی انسان و حیوانات کا بوجہ مالکیّت ہے- اس کی تناسخ وجہ نہیں تو پھراس بات کو مانتے ہوئے کون سی بات سدّراہ ہے جو دوسرے لوازم جو حیوان بننے سے پیش آگئے وہ بھی بوجہ مالکیّت ہیں- اور باالآخر قرآن کریم کے بارہ میں آپ پر ظاہر کرتاہوں کہ قرآن کریم نے اپنے کلام اللہ ہونے کی نسبت جو ثبوت دئیے ہیں -اگرچہ میں اس وقت ان سب ثبوتوں کو تفصیل وار نہیں لکھ سکتا لیکن اتنا کہتا ہوں کہ منجملہ ان ثبوتوں کے بیرونی دلائل ہیں جیسے پیش از وقت نبیوں کا خبر دینا جو انجیل میں بھی لکھا ہوا آپ پائو گے -دوسرے ضرورت حقّہ کے وقت پر قرآن شریف کا آنا یعنی ایسے وقت پر جبکہ عملی حالت تمام دُنیاکی بگڑ گئی تھی اور نیز اعتقادی حالت میں بھی بہت اختلاف آگئے تھے اور اخلاقی حالتوں میں بھی فتور آگیا تھا-تیسرے اس کی حقانیت کی دلیل اس کی تعلیم کی کامل ہے کہ اس نے آ کر ثابت کر دکھلایا کہ موسیٰ کی تعلیم بھی ناقص تھی جو ایک شق سزادہی پر زور ڈال رہی تھی- اور مسیح کی تعلیم بھی ناقص تھی- جو ایک شق عفو اور درگزر پر زور ڈال رہی تھی- اور گویا ان کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کی تربیّت کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا- صرف ایک ایک شاخ پر کفایت کی گئی تھی- لیکن قرآ ن کریم انسانی درخت کی تما م شاخوں یعنے تمام قویٰ کو زیر بحث لایا اور تمام کی تربیّت کے لئے اپنے اپنے محل وموقع پر حکم دیا جس کی تفصیل ہم اس تھوڑے سے وقت میں نہیں کرسکتے-
انجیل کی کیا تعلیم تھی- جس پر مدار رکھنے سے سلسلہ دنیا کا ہی بگڑ تا ہے- اور پھراگر یہی عفو اور درگزر عمدہ تعلیم کہلاتی ہے تو جین مت والے کئی نمبر اس سے بڑھائے ہوئے ہیں- جو کیڑے مکوڑوں اور جوئوں اور سانپوں تک کو آزار دینا نہیں چاہتے - قرآنی تعلیم کادوسرا کمال کمال تفہیم ہے- یعنی اس نے تمام راہوں کو سمجھانے کے لئے اختیار کیا ہے- جو تصور میں آسکتے ہیں- اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اُس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے- اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرکے دکھلا دیا ہے اور آیت تعالو ا الیٰ کلمۃ ۱۵۳ اہل کتاب پر یہ حجّت پُوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو ہمارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں------ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے اور پھر قرآ ن کریم کے کمالات میں تیسرا حصّہ اس کی تاثیرات ہیں- اگر حضرت مسیح کے حواریوں اور ہمارے نبی صلعم کے صحابہ کا ایک نظر سے مقابلہ کیا جاوے تو ہمیں کچھ بتلانے کی حاجت نہیں- اُس مقابلہ سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ کس تعلیم نے قوت ایمانی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے- یہاں تک کہ ان لوگوں نے اس تعلیم کی محبت سے اور اس رسولؐ کی یعنی حضرت مسیح کو جب یہودیوں نے پکڑا- تو حواری ایک منٹ کے لے بھی نہ ٹھہر سکے- اپنی اپنی راہ لی- اور بعض نے تیس روپیہ لے کر اپنے نبی مقبول کے بیچ دیا اور بعض نے تین دفعہ انکار کیا- اور انجیل کھول کر دیکھ لو کہ س نے *** بھیج کر اور قسم کھا کر کہا کہ میں اس شخص کو نہیں جانتا- پھر جبکہ ابتدائے زمانہ کا کا یہ حال تھا - یہاںتک کہ تجہیز تکفین تک میں بھی شریک نہ ہوئے تو پھر اس زمانہ کا کیا حال ہو گا- جبکہ حضرت مسیح ان میں موجود نہ رہے- مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں- اس بارہ میں بڑے بڑے علماء عیسائیوں نے اسی زمانہ میں گواہی دی ہے کہ حواریوں کی حالت صحابہ کی حالت سے جس وقت ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ یہ اقرار کرنا پڑتا ہ کہ حواریوں کی حالت ان کے مقابل پر ایک قابل شرم عمل تھا - پھر آپ قرآنی معجزات کا انکار کرتے ہیں- آپ کو معلوم نہیں کہ وہ معجزات جس تواتر اور قطیعت سے ثابت ہو گئے- ان کے مقابل پر کسی دوسرے کے معجزات کا ذکر کرنا صرف قصّہ ہے - اس سے زیادہ نہیں- مثلاً ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا اس زمانہ میں اپنی کامل کامیابیوں کی نسبت پیشگوئی کرنا جو قرآن شریف میں مندرج ہے - یعنی ایسے زمانہ میں کہ جب کامیابی کے کچھ بھی آثار نہ نظر آتے تھے- بلکہ کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ بڑے دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا- اور ناپدیدہ ہو جائے گا- ایسے وقتوں میں اُن کو سنایا گیا کہ یریدون ان یطفئو انور اﷲ بافواھہم و یابی ا ﷲ الّا ان یتم نورہ‘ و لو کرہ لاکافرون ۱۰ ۱۱یعنی یہ لوگ اپنے مُنہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہو گی- یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گا- لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا- اور نہیں چھوڑے گا- جب تک اس جو پُورا کرے- پھر ایک اور آیت میں فرمایا- وعد اﷲ الّذین اٰمنو …
…الخ۱۸ ۱۲ یعنی خدا کا وعدہ چکا ہے کہ اس دین رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدتہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا- اسیا ہی اس جگہ بھی کرے گا- اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا- اب قرآن شریف موجود ہے- حافظ بھی بیٹھے ہیں- دیکھ لیجئے کہ کفار نے کس دعویٰ کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا- اور ہم اس کو کالعدم کردیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر گز تباہ نہیں ہو گا - یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہوں گے اور جیساکہ کذرعٍ اخرج شطأہ‘ ۲۶ ۱۲ میں اشارہ ہیح ا ور پھر فصاحت بلاغت کے بارہ میں فرمایا ھٰذا لسانٌ عربی مبین ۱۹ ۵ ۱ اور پھر اس کی نظیر مانگی اورف کہ اکہ اگر ہم کچھ کر سکتے ہو تو اس کی نظیر دو- پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اور کیا معنے ہو سکتے ہیں؟ خاص کر جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان کرتا ہوں کہ تم اس کی نظری پیش کرو- تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مبین کا لفظ بھی اسی کو چاہتا ہے بالآخر چونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب قرآن شریف کے معجزات سے عمداً مُنکر ہیں اور اس کی پیشگوئی سے بھی انکاری ہیں اور مجھ سے بھی اسی مجلس میں تین بیمار پیش کر کے ٹھٹھاہ کیا گیا کہ اگر دین اسلام سچا ہے اور تم فی الحقیقت ملہم ہو تو ان تینوں کو اچھا کر کے دکھلائو- حالانکہ میرا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں قادر مطلق ہوں- نہ قرآن شریف کے مطابق مواخذہ تھا- بلکہ یہ تو عیسائی صاحبوں کے ایمان کی نشانی ٹھیرائی گئی تھی کہ اگروہ سچے ایمان دار ہوں- تو وہ ضرور لنگڑوں اور اندھوں اور بہروں کو اچھا کریں گے- مگر تا ہم میں اس کے لئے دعا کرتا رہا- اور
آج رات جو مجھ پر کھُلاوہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہٰی میں دُعا کی تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے- تو اس نے مجھے یہ بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے- اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے - وہ انہیں دنوںمباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا- اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی- بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے- اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خد اکو مانتا ہے اُس کی اِس سے عزت ظاہر ہو گی- اور اس وقت جب یہ پیشگوئی ظہور میں آویگی بعض اندے سو جاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے- اسی پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے - سو الحمد للہ المنتہ کہ اگر یہ پیش گوئی اللہ کی طرف سے ظہور میں نہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے- انسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سُننے کے نہیں سُنتا اور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اور جرأت کرتا ہے اور شوخی کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا ہے - لیکن اب میں جانتاہوں کہ فیصلہ کا وقت آ گیا - میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا- معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں- اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لئے تھا- میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے- پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں- مجھ کو ذلیل کیا جاوے- میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے- مجھ کو پھانسی دیا جاوے- ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جلّشانہ ٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضروروہ ایسا ہی کرے گا- ضرور کرے گا-زمین و آسمان ٹل جائیں پر اُس کی باتیں نہ ٹلیں گی- اب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہیںٹھہرے گی- اور رُسول صلعم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں- محکم دلیل ہو جائے گی- اب اس سے زیادہ میں کیا لکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہے- اب نا حق ہنسنے کی جگہ نہیں- اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سُولی تیار رکھواور تمام شیطانوں اور بد کا روں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے *** قرار دو- لیکن اگر میں سچا ہوں تو انسان کو خدا مت بنائو- تو ریت کو پڑھو کہ اس کی اوّل اور کھلی کھلی تعلیم کیا ہے اور تمام نبی کیا تعلیم دیتے آئے- اور تمام دنیا کسی طرح جھک گئی- اب میں آپ سے رخصت ہوتاہوں- اس سے زیادہ نہ کہوں گا- والسَّلام علیٰ من تبع الھدیٰ
(مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر )
یہ اشتہار ۲۰×۲۶ ۸ کے آٹھ صفحوں پر ہے)
(۱۱۴)
اشتہار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
بہر دم ازول و جان صفِ یار خود بکنم
من آن نیم کہ تغافل زکار خودنکنم
بہر زماںبدلم ایں ہوس ہمے جو شد
کہ ہر چہ ہست نثار خود بکنم
اگرچہ دردۃِ جاناں چوخاک گردیدم
دلم تپد کہ فدایش غبار خود بکنم
روم بگلشن دلد ادگان کزاں باغم
چرا بکوچہ غیرے قرار خود بکنم
تعلقات دلارام خویش بنمایم
ہمائے ادج سعادت شکار خود بکنم
بگوش ہوش شنواز من اے مکّفر من
کہ من گواہ بدیں کردگار خود بکنم
ز فکر تفرقہ باز آیا ہشتی پرواز
دگرنہ گریہ پر غمگسار خود بکنم
عمارت ہمہ دوناں خراب خواہم ساخت
اگر ز چشم رواں آبشار خود بکنم
بروئے یار کہ از بہر قوم مے سوز م
مگر دلش چو دلِ ریش و زار خود بکنم
بنام مسلمانان ہند- یعنی ان سب کی طرف جو مختلف مذاہب کے اسلامی فرقے ملک ہند میں موجود ہیں اے اخوان دین و متبعین خاتم النّبین صلے اللہ علیہ وسلم اگرچہ میں نے علماء اور فقراء کی خدمت میں بہت کچھ لکھا اور اتمام جحت کا حق ادا کر دیا ہے- مگر آج میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ ایک اشتہار عام طور پر آپ لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لئے شائع کروں تا میں اس امر تبلیغ میں ہر یک پہلو سے سُرخرو ہو جائوں - سو بھائیو! میں آپ لوگوں پر ظاہر کرتو ہوں کہ وہ جو چودھویں صدی کے سر پر ایک مجّدد موعود آنے والا تھا جس کی نسبت بہت سے راستباز ملہموں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ مسیح موعود ہو گا- وہ مَیں ہی ہوں- آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے لے کر شاہ ولی اللہ تک مقّدس لوگوں نے الہام پا کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ آنے والا مسیح موعود چودھویں صدی کا مجدّد ہو گا- سو اب وہ تمام باتیں پوری ہوئیں- اے بزرگو! یہ بات صحیح نہیں ہے کہ چودھویں صدی مجدّد کے ظہور سے خالی گئی- اور اگر آیا تو ایک دجّال ایا- اے حق کے طالبو یہ وہ صدی تھی جس کے آنے سے پہلے ہی خدا تعالیٰ نے تمام خیالوں کو اس طرف پھیر دیا تھا کہ اس کے سر پر ایک عظیم الشان مجّدد پیدا ہو گا- کتابوں کو دیکھو اور بزرگوں کے نوشتوں کو غور سے پڑھو کہ کیونکر ان کے دل اسی طرف یک دفعہ جُھک گئے کہ وہ آنے والا ضرور اسی صدی کے سر پر آئے گا - یہاں تک کہ نوابّ صدیق حسن خاں صاحب مرحوم نے بھی اپنے خیال کو چودھویں صدی پر جما کر اپنی اولاد اس آنے والے موعود کو السّلام علیکم کہدے- ایسا ہی شاہ ولی اللہ صاحب بھی السّلام علیکم کی وصیت کر گئے- مگر جب وہ موعود ـآیا -تو لوگ بگڑ گئے- اور مسیح کی وفات کے بارہ میں جس کا قرآن کریم اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرو یا شک میں پڑ گئے اور یہ نہ سمجھے کہ اگر بالفرض وفات یا عدم وفات میں شک ہے تو ایسی پیچدار اور مہم کا فیصلہ ان آنے والے کی زبان سے ہونا چاہیے جس کا نام حُکم رکھا گیا-
اب اس اشتہار میں اس جحت کو آپ لوگوں پر پورا کرنا مقصد ہے کہ وہ مسیح موعود درحقیقت یہی عاجز ہے - قرآن کریم کو کھولواور توجہ سے دیکھو کہ حضرت مسیح علیہ السّلام بلا شبہ فوت ہو گئے- اور اگر اس عاجز کے بارے میں شک ہو تو ایک فیصلہ نہایت آسان ہے کہ ہر ایک شخص آپ لوگوں میں سے جس کا مُرید ہے اُس کو اس عاجز کے مقابل پر کھڑا کرے تا صداقت کے نشان دکھلائے میں وہ میرے مقابلہ کر سکے- اور یقینا سمجھو کہ اگر وہ مقابل پر آیا تو اُس سے زیادہ اس کی رُسوائی ہو گی جو حضرت موسیٰ کے مقابل پر ملبم کی ہوئی- اور اگر وہ مقابلہ منظور نہ کرے- اور حق کا طالب ہو تو خدا تعالیٰ اُس کی درخواست پر اور اس کے حاضر ہونے سے نشان دکھلائے گا- بشرطیکہ وہ اس جماعت میں داخل ہونے کے لئے مستعد ہو-اور اگر اس اشتہار کے جاری ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پیر اور مشایخ اور مجتہد بد گوئی اورتکفیر سے باز نہ آویں اور اس عاجز کی صداقت کو قبول نہ کریں اور مقابلہ سے روپوش رہیں تو دیکھوکہ میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا انہیں رُسوا کرے گا- اسے شوخ چشم اور گرمی دار لوگو کسی شیخ اور پیرزادہ کے مُرید ہو- یہ اشتہار ضرور اپنے مقابلہ سے روپوش رہے تو یقینا سمجھو کہ وہ اپنی مشیخت نمائی میں کذاب ہے- مجھے خدا تعالیٰ نے کئی قسم کے نشان اور معارف قرآنی کا نشان ہے - سو اپنے تیئں دھوکہ مت دو- ہر ایک کو پرکھو اور پھر سچ کو قبول کرو- اے ضیعف بندو! خدا تعالیٰ سے مت لڑو- اپنے پلنگوں پر لیٹ کر سوچو اور اپنے بستروں پر غور کر کیا ضرور نہ تھا کہ ایک دن ہمارے سیّد اور پیارے رسول صلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی-
غافل مشوگر عاقلی دریاگر صاحبد لی
شاید کہ نتواں یا فتن دیگر چینیں ایام را
آئینہ کمالات اسلام کے شائقین کے لیے اطلاع
اس وقت ایک کتاب آئینہ کمالات اسلام نام سے تالیف کی ہے جس میں بڑی تحقیق و تد فین سے اسلام اور قرآن کی خوبیوں اور کمالات کا بیان ہے- اور علاوہ اس مخالفین مذہب کے عقاید باطلہ کا ردّ ہے- اور فرقہ نیچریہ کے خیالات باطلہ کا بھی اچھی طرح استیحصال کیا گیا ہے- ضمانت اس کی ساڑھے چھ سو صفحہ سے زیادہ ہے- قیمت دو روپیہ محصول علاوہ ہے- اور ماسوا اس کے مفصلہ ذیل کتابیں بھی موجود ہیں- فتح اسلام- توضیع مرام- ازالہ اوہام علاوہ ہے اور فتح اسلام اور توضیح مرام کی قیمت آٹھ آٹھ آنہ تھی اب ہم نے چار چار آنہ کم کر دیئے ہیں-
المشتھــــــــــــــــــــــــر
مرزا غلام احمد ؐاز قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
(مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان)
(۱۱۵)
التوائے جلسہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۳ء
ہم افسوس سے لکھتے ہیں ک چند ایسے وجود ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے اور چونکہ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اس التوا کا موجب کیا ہے- لہذا بطور اختصارہ کسی قدر ان وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے-
اوّل یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بارباء کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ اُن کے دل آخرت کے طرف بکلی جھک جائیں اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو- اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں- لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا- بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سُنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخویٔ سے شاکی ہیں- اور بعض اس مجمع کثیر میں اپنے اپنے آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں- گویا وہ مجمع ان کے لئے موجب ابتلاء ہو گیا- اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ کے بعد کوئی بہت عمدہ اور نیک اثر اب تک اس جماعت کے بعض لوگوں میں ظاہر نہیں ہوا- اور اس تجربہ کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ ان دنوں سے آج تک ایک جماعت کثیر مہمانوں کی اس عاجز کے پاس بطور تبادل رہتی ہے یعنی بعض آتے اور بعض جاتے ہیں- اور بعض وقت یہ جماعت سو سو مہمان تک بھی پہنچ گئی ہے اور بعض وقت اس سے کم- لیکن اس اجتماع میں بعض دفعہ بباعث تنگی مکانات اور قلت وسائل مہمانداری ایسے نالائق رنجش اور خود غربی کی سخت گفتگو بعض مہمانوں میں باہم ہوتی دیکھی ہے کہ جیسے ریل میں بیٹھنے والے تنگی مکان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور اگر کوئی بیچارا عین ریل چلنے کے قریب اپنی گٹھڑی کے سمیت مارے اندیشہ کے دوڑتا دوڑتا ان کے پاس پہنچ جاوے تو اس کو دھکے دیتے اور دروازہ بند کر لیتے ہیں کہ ہم میں جگہ نہیں حالانکہ گنجائش نکل سکتی ہے- مگر سخت دلی ظاہر کرتے ہیں اور وہ ٹکٹ لئے اور بقچہ اُٹھائے ادھر اُدھر پھرتا ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا مگر آخر ریل کے ملازم جبراً اس کو جگہ دلاتے ہیں- سو ایسا ہی یہ اجتماع بھی بعض اخلاقی حالتوں کے بگاڑنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور جب تک مہمانداری کے پورے وسائل میسر نہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور خدمت اور جفاکشی کا پیدا نہ کرے- تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا- حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض ﷲ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں- میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے- مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے- سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے- کسی جلسہ پر موقوف نہیں- بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کرسکتے ہیں- اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دُنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے- بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے- ورنہ بغیر اس کے ہیچ- اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیّت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے- میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں- بلکہ وہ علّت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتاہوں- اصلاح خلق اﷲ ہے- پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں- اور اخی مکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب سلمہ تعالیٰ بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیّت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للّٰہی محبت باہم پیدا نہیں کی- سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے- مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کر کے اور عہد توبہ نصوح کر کے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں- وہ مارے تکبّر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کر سکتے- چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنے ٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں- اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے- بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں اور اگرچہ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت بلکہ یقینا دو سو سے زیادہ ہی ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے- جو نصیحتوں کو سُن کر روتے اور عاقبت کو مقدم رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر نصیحتوں کا عجیب اثر ہوتا ہے- لیکن میں اس وقت کج دل لوگوں کا ذکر کرتا ہوں- اور میں حیران ہوتا ہو ں کہ خدایا یہ کیا حال ہے- یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے- نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اس سے بلندی چاہتا ہے- میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز دوست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اُٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دُوں اور اپنے لئے فرشِ زمین پسند نہ کروں - اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر مَیں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گویٔ کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میںبھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آئوں- بلکہ مجھے چاہئیے کہ میں اس کی باتوں پر صبرکروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دُعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور رُوحانی طور پر بیمار ہے- اگر میرا بھائی ساد ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئیے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چین برجبیں ہو کر تیزی دکھائوں یا بدنیّتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دُور نہ ہو جائیں- خدام القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جُھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصّہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے- مگرمیںدیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں- بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اُٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اُٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتاہے اور اس کو نیچے گراتا ہے- ٭ پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا- اور وہ اُس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے- یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں- تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے- اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے- اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے- پھر مَیں کس خوشی کی اُمید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں- یہ دُنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں- ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دوسو سے کسی قدر زیادہ ہیں- جن پر خدا کی خاص رحمت ہے- جن میں سے اوّل درجہ پر میرے خالص دوست اور محب مولوی حکیم نور الدین صاحب اور چند اَ ور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالیٰ کے لئے میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے ہیں اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُن کی آخرت پر نظر ہے- سو وہ انشاء اﷲ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیں اور مَیں اُن کے ساتھ ہوں- میں اپنے ساتھ اُن لوگوں کو کیا سمجھوں جن کے دل میرے ساتھ نہیں- جو اس کو نہیں پہچانتے- جس کو میں نے پہچانا ہے اور نہ اس کی عظمتیں اپنے دلوں میں بٹھاتے ہیں اور نہ ٹھٹھوں اور بے راہیوں کے وقت خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک زہر کھا رہے ہیں جس کا بالضرور نتیجہ موت ہے- درحقیقت وہ ایسے ہیں جن کو شیطانی راہیں چھوڑنا منظور ہی نہیں- یاد رہے کہ جو میری راہ پر چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ میں سے نہیں اور اپنے دعوے ٰ میں جُھوٹا ہے اور جو میرے مذہب کو قبول کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنا مذہب پسندیدہ سمجھتا ہے وہ مجھ سے ایسا دُور ہے جیسا کہ مغرب مشرق سے- وہ خطا پر ہے کہ سمجھتا ہے کہ میں اس کے ساتھ ہوں- میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو رُوحانیت کے طور پر ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں- ظاہری رؤیت تو حیوانات میں بھی موجو د ہے- مگر انسان اس وقت سو جاکھا کہلا سکتا ہے جبکہ باطنی رویت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصّہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جُھک جائے- سو تم اپنی آنکھوں کے لئے نہ صرف چارپائوں کی بینایٔ بلکہ حقیقی بینایٔ ڈھونڈو- اور اپنے دلوں سے دُنیا کے بُت باہر پھینکو کہ دُنیا دین کی مخالف ہے- جلد مرو گے اور دیکھو گے کہ نجات انہیں کو ہے کہ جو دُنیا کے جذبات سے بیزار اور بَری اور صاف دل تھے- مَیں کہتے کہتے ان باتوں کو تھک گیا کہ اگر تمہاری یہی حالتیں ہیں تو پھر تم میں اور غیروں میں فرق ہی کیا ہے- لیکن یہ دل کچھ ایسے ہیں کہ توجہ نہیں کرتے اور ان آنکھوں سے مجھے بینایٔ کی توقع نہیں- لیکن خدا اگر چاہے- اور میں تو ایسے لوگوں سے اس دُنیا اور آخرت میں بیزار ہوں- اگر میں صرف اکیلا کسی جنگل میں ہوتا تو میرے لئے ایسے لوگوں کی رفاقت سے بہتر تھا جو خدا تعالیٰ کے احکام کو عظمت سے نہیںد یکھتے- اور اس کے جلال اور عزت سے نہیں کانپتے- اگر انسان بغیر حقیقی راست بازی کے صرف مُنہ سے کہے کہ میں مسلمان ہوں یا اگر ایک بُھوکا صرف زبان پر روٹی کا نام لاوے تو کیا فائدہ- ان طریقوں سے نہ وہ نجات پائے گا اور نہ وہ سیر ہو گا- کیا خدا تعالیٰ دلوں کو نہیں دیکھتا- کیا اس علیم و حکیم کی گہری نگاہ انسان کی طبیعت کے پاتال تک نہیں پہنچتی-
پس اے نادانو! خوب سمجھو- اے غافلو! خوب سوچ لو کہ بغیر سچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہایٔ نہیں- اور جو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے- وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکہ دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اُٹھا لیتے- اور رسول کریمؐ کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہو نا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر او رنرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبّر سے کُرسیوں پر بیٹھتے ہیں- اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں- اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے- مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیںا ور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے اور کبھی شرارت اور تکبّر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں - اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں- سو مَیں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات تیار کی گئی ہے جو شخص شرارت اور تکبّر اور خود پسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں- وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہو گا- میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لائوں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں- خدایا مجھے ایسے لفظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نُور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیّت سے اُن کی زہر کو دُ ور کر دیں- میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جُھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہر یک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبّر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دُ ور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے- مگر ابھی تک بُجز خاص چند آدمیوں کے ایسی شکلیں مجھے نظر نہیں آتیں- ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شئے ہے- جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے- جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا- صرف تقویٰ پہنچتا ہے- اور ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو- دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جُھکے اور سجود یہ کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو- سو افسوس ہزار افسوس کہ ان باتوں کا کچھ بھی اثر مَیں ان میں نہیں دیکھتا- مگر دُعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جائوں گا- اور دُعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے اُن کے دل اپنی طرف پھیر دے- اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اُٹھادے اور باہمی سچی محبت عطا کر دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دُعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا- ہاں میں یہ بھی دُعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچّی پاکیزگی اور خدا ترسی اُس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کر دے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اَورف لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو- اب میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے میں ایسا ڈرتا ہوں کہ جیسا کہ کوئی شیر سے- اسی وجہ سے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دُنیا کا کیڑا رہ کر میرے ساتھ پیوند کرے- پس التواء جلسہ کا ایک یہ سبب ہے جو میں نے بیان کیا-
دوسرے یہ کہ ابھی ہمارے سامان نہایت ناتمام ہیں- اور صادق جانفشاں بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلّت مخلصوں کے سبب سے باقی پڑے ہیں- پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جو صدہا آدمی خاص اور عام کئی دن آ کر قیام پذیر رہیں- اور جلسہ سابقہ کی طرح بعض دور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زاد راہ دیا جاوے- اور کماحقہ کئی روز صد ہا آدمیوں کی مہمان داری کی جاوے- اور دوسرے لوازم چارپائی وغیرہ کا صد ہا لوگوں کے لئے بندوبست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں- اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں اور نہ ہمارے مخلص دوستوں میں- اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان تمام سامانوں کو درست کرنا ہزار روپیہ کا خرچ چاہتاہے- اگر قرضہ وغیرہ پر اس کا انتظام بھی کیا جائے تو بڑے سخت گناہ کی بات ہے کہ جو ضروریات دین پیش آرہی ہیں وہ تو نظر انداز رہیں اور ایسے اخراجات جو کسی کو یاد بھی نہیں رہتے اپنے ذمہ ڈال کر ایک رقم کثیر قرضہ کی خواہ نخواہ اپنے نفس پر ڈالی جائے- ابھی باوجود نہ ہونے کسی جلسہ کے مہمانداری کا سلسلہ ایسا ترقی پر ہے کہ ایک برس سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ کبھی تیس تیس چالیس چالیس اور کبھی سو تک مہمانوں کی موجودہ میزان کی ہر روزہ نوبت پہنچ جاتی ہے- جن میں اکثر ایسے غرباء فقراء دُور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں جو جاتے وقت اُن کو زاد راہ دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے- برابر یہ سلسلہ ہر روز لگا ہوا ہے اور ا س کے اہتمام میں مکرمی مولوی حکیم نور الدین صاحب بدل و جان کوشش کررہے ہیں- اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں- چنانچہ بعض کو قریب تیس تیس یا چالیس چالیس روپیہ کے دینے کا اتفاق ہوا ہے- اور دو دو چار چار تو معمول ہے اور نہ صرف یہی اخراجات بلکہ مہمانداری کے اخراجات کے متعلق قریب تین چار سو روپیہ کے انہوں نے اپنی ذاتی جوانمردی اور کریم النفسی سے علاوہ امدادات سابقہ کے ان ایام میں دیئے ہیں اور نہ طبع کتب کے اکثراخراجات انہوں نے اپنے ذمہ کر لئے کیونکہ کتابوں کے طبع کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے- گو بوجہ ایسے لابدی مصارف کے اپنے مطبع کا اب تک انتظام نہیں ہو سکا- لیکن مولوی صاحب موصوف ان خدمات میں بدل و جان مصروف ہیں اور بعض دوسرے دوست بھی اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں- پھر کب تک اس قدر مصارف کا تحمل نہایت محدود آمدن سے ممکن ہے- غرض ان وجوہ کے باعث اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں- آگے اﷲ جلّشانہٗ کا جیسا ارادہ ہو- کیونکہ اس کا ارادہ انسان کے ضعیف ارادہ پر غالب ہے- مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے- اور میں نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء میری اس تحریر کے موافق ہے یا اس کی تقدیر میں وہ امر ہے جو اب تک مجھے معلوم نہیں-
وافوض امری الی اﷲ و اتوکل علیہ ھو مولا وانعم المولیٰ و نعم النص
خاکسار
غلام احمد از قادیان
(یہ اشتہار شہادت القرآن مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ بار اوّل کے آخر پر صفحہ ۱ تا ۵ پر ہے- )
 
Top