• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

اصحاب ثلاثہ کے ایمان کے دلائل کتب شیعہ سے

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اصحاب ثلاثہ کے ایمان کے دلائل کتب شیعہ سے

۱۔اگر اصحاب ثلاثہ مسلمان نہ تھے تو ان کے عہد خلافت میں قیصر و کسریٰ کے ساتھ جو جہاد ہوئے وہ بھی ناجائز ٹھہرے اور جو مال غنیمت ان جہادوں میں مسلمانوں کے قبضہ میں آیا وہ بھی حلال نہ ہوا۔اور جو لونڈیاں ان جہادوں میں بنائی گئیں وہ بھی حلال نہ ہوئیں۔شہربانو خسر و پرویز کی لڑکی جو حضرت حسینؓ کے قبضہ میں حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسیر ہو کر آئی وہ بھی جائز نہ ہوئی اور اس سے جو اولاد ہوئی اس کے متعلق کیا فتویٰ شیعہ حضرات لگائیں گے۔

۲۔قیصر و کسریٰ کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جو جہاد ہوا اور خدا کے حکم کے مطابق تھا جیسا کہ فروع کافی جلد ۱ باب مَنْ یَجِبْ عَلَیْہِ الْجِہَادُصفحہ ۶۱۲میں ابو عمیر زبیری نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے وَاِنَّہُ لَیْسَ کَمَا ظَنَنْتَ وَلَا کَمَا ذَکَرْتَ وَلٰکِنَّ الْمُھَاجِرِیْنَ ظُلِمُوْا مِنْ جَھَتَیْنِ ظَلَمَھُمْ اَھْلُ مَکَّۃَ بِاِخْرَاجِھِمْ مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ فَقَاتِلُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ ِ لَھُمْ فِیْ ذَالِکَ وَظَلَمَھُمْ کِسْریٰ وَقَیْصَرَ وَمَنْ کَانَ دُوْنَھُمْ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرْبِ وَالْعَجْمِ بِمَا کَانَ فِیْ اَیْدِیْھِمْ مِمَّا کَانَ الْمُوْمِنِیْنَ اَحَقَّ بِہِ مِنْھُمْ فَقَدْ قَاتَلُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ ِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ ذَالِکَ وَبِحُجَّۃِ ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ یُقَاتِلُ مُْومِنُوْا کُلَّ زَمَانٍ‘‘یعنی جس طرح تو نے سمجھا یا کہا (یعنی یہ کہ قیصر و کسریٰ کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں نا جائز تھیں) کیونکہ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا تھا ۔ان پر اہل مکہ نے ان کے گھروں اور مال و دولت سے نکال کر ظلم کیا۔پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم سے جہاد کیا۔اسی طرح قیصر و کسریٰ اور دیگر عربی و عجمی قبائل نے مسلمانوں پر ظلم کیا اس ملک اور حکومت پر قبضہ کرنے کی و جہ سے جس پر ان سے زیادہ مسلمانوں کا حق تھا۔ پس مسلمانوں نے ان کے ساتھ خدا کے حکم کے ساتھ جنگ کی ۔اور اسی آیت کے مطابق (یعنی (الحج:۴۰) ہر زمانہ کے مسلمان جہاد کرتے ہیں ۔

۳۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خندق کھودتے وقت پہلی مرتبہ پتھر پر کدال مار کر فرمایا۔ اﷲ اکبر فارس کے ملک کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔ (دیکھو حیات القلوب جلد ۶ صفحہ ۳۷۶نو لکشورو ناسخ التواریخ کتاب ۲ جلد ۱ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ ایران) یہ کنجیاں حضرت عمر ؓ کے ہاتھ میں دی گئیں۔گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو اپنا قائم مقام قرار دیا ہے۔

حضرت ابوبکر ؓ و عمر ؓ کی فضیلت

۴۔ وَکَانَ اَفْضَلَھُمْ زَعَمْتَ فِی الْاِسْلَامِ وَاَنْصَحَھُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہِ الْخَلِیْفَۃَ وَالْخَلِیْفَۃُالْخَلِیْفَۃِ وَلَعَمْرِیْ وَاِنََّ مَکَانَھُمَا فِی الْاِسْلَامِ لَعَظِیْمٌ وَاِنَّ الْمَصَائِبَ بِھِمَا لِجُرْحٍ فِی الْاِسْلَامِ شَدِیْدٌ فَرَحِمَھُمَا اللّٰہُ وَجَزَاھُمَا اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمَلَا (شرح نہج البلاغہ جلد۲ جز ۱۵ صفحہ ۲۱۹) فَاَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِیِّنَا (نہج البلاغہ جزثانی باب استناد صفحہ ۵۱ (اردو ترجمہ) خط نمبر۹ شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز) اور خلفاء میں سے اسلام میں سب سے افضل اور خدا اور رسول کے لئے سب سے زیادہ نصیحت کرنے والے حضرت ابو بکرؓ صدیق و خلیفہ فاروق ؓ تھے۔اسی طرح جس طرح تیرا خیال ہے اور بخدا ان کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے اور ان کی جدائی کی وجہ سے اسلام کو سخت زخم لگا ہے۔ان دونوں پر خدا تعالےٰ کی رحمت ہو اور خدا تعالیٰ اُن کے اچھے اور اعلیٰ کاموں کا ان کو اجر دے۔

۵۔ وَلَا رَیْبَ اِنَّ الصَّحِیْحَ مَا ذَکَرَہ‘ اَبُوْ عُمَرُ اِنَّ عَلِیًّا کَانَ ھُوَ السَّابِقُ وَاَنَّ اَبَابَکْرٍ ھُوَ اَوَّلُ مَنْ اَظْھَرَ اِسْلَامَہ‘ (شرح نہج البلاغہ مؤلفہ عبدالحمید ہبۃ اﷲ بن محمد بن محمد بن حسین بن ابی الحدید شیعی جلد۱ جز ۲ صفحہ ۲۱۳) اور بے شک جس بات کا ابو بکر نے ذکر کیا ہے ۔سچ ہے کہ گو حضرت علیؓ نے پہلے اسلام قبول کیا ،لیکن ابوبکر ؓ نے سب سے پہلے اسلام کا اعلان کیا۔

۶۔عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الْنَّخْعِیْ قَالَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ اَبُوْ بَکْرٍ (شرح نہج البلاغہ جلد ۱ جزو ۲ صفحہ ۲۱۳) ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سب سے پہلے اسلام لائے۔

۷۔عَنْ اَبِیْ نَصْرٍقَالَ قَالَ اَبُوْ بَکْرُ لِعَلِیٍّ اَنَا اَسْلَمْتُ قَبْلَکَ فِیْ حَدِیْثِ ذِکْرِہِ فَلَمْ یَنْکُرْہٗ عَلَیْہِ۔ (شرح نہج البلاغہ جلد۱جزو ۲ صفحہ ۳۱۳) ابو نصر کہتے ہیں کہ کسی سے گفتگو میں حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ میں آپ سے پہلے مسلمان ہوا تھا مگر حضرت علی ؓنے اس کے خلاف کچھ نہ کہا۔

۸۔ وَقَالَ عَلِیٌّ وَ الزُّبَیْرُمَاقَضَیْنَا اِلَّا فِیْ الْمَشْوَرَۃِ وَ اِنَّا لَنَرٰی اَبَابَکْرٍ اَحَقَّ الناَّسِ بِھَا اِنَّہُ لَصَاحِبُ الْغَارِ وَاِنَّا لَنَعْرِفُ لَہٗ سُنَنَہٗ وَلَقَدْ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِِﷺ بِالصَّلوٰۃِ بِالنَّاسِ وَھُوَ حَیٌٌّّ۔ (شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدید شیعی جلد ا جزو ۲ صفحہ ۷۵)

حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ نے فرمایا کہ ہم نے سوائے مشورے کے اور کوئی فیصلہ نہیں کیا۔کیونکہ ہم یقینا ً حضرت ابو بکرؓ کو اپنوں میں سے سب سے زیادہ اس امر کا مستحق خیال کرتے ہیں کیونکہ آپ صاحب غار ہیں ۔اور ہم ان کے اچھے طریقوں کو جانتے ہیں ۔اور آنحضرت صلعم نے جبکہ آپ زندہ تھے ابوبکرؓ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیاتھا۔

۹۔ کتاب کَشْفُ الْغُمَّۃِ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْاَئِمَّۃِ میں ہے۔اِنَّہ‘ سُئِلَ الْاِمَامُ اَبُوْ جَعْفَرٍ

عَلَیْہِ السَّلَام ُ عَنْ حِلْیَۃِ السَّیْفِ قَالَ نَعَمْ حَلّٰی اَبُوْ بَکْر الصِّدِّیْقَ سَیْفَہٗ بِالْفِضَّۃِ فَقَالَ الرَّاوِیُّ تَقُوْلُ ھٰکَذَا فَوَثَبَ الْاِمْامُ عَنْ مَکَانِہٖ فَقَالَ نَعَمْ اَلصِّدِّیْقُ فَمَنْ لَّمْ یَقُلْ لَہُ الصِّدِّیْقُ فَلَا صَدَّقَ اللّٰہُ قَوْلَہٗ فِی الدُّنْیَا۔

کہ امام جعفر سے پوچھا گیا کہ کیا تلوار کو سونا چڑھانا جائز ہے تو آپ نے فرمایا۔ہاں جائز ہے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے اپنی تلوار کو سونا چڑھایا تھا۔اس پر راوی نے متعجب ہو کر کہا کہ آپ ایسا (یعنی ابو بکر صدیق کو کہتے ہیں) تو امام اپنی جگہ سے اٹھ کر کہنے لگے ہاں وہ صدیق ہیں۔ہاں وہ صدیق ہیں اور جو ان کو صدیق نہ کہے خدا دنیا میں اس کی بات کو سچّا نہیں کرے گا۔

۱۰۔ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :۔وَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ مَا اَقُوْلُ لَکَ مَا اَعْرِفُ شَیْئاً تَجْھَلُہ‘وَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی شَیْءٍ لَا تَعْرِفُہُ اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا تَعْلَمُ مَا سَبَقْنَاکَ اِلیٰ شَیْءٍ فَنُبَلِّغَکَہٗ وَقَدْ رَأَیْتَ کَمَا رَأَیْنَا وَسَمِعْتَ کَمَا سَمِعْنَا وَ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَمَا صَحِبْنَا وَمَا اِبْنُ اَبِیْ قَحَافَۃَ وَلَا اِبْنُ الْخَطَّابِ یَأَوْلٰی بِعَمَلِ الحَقِّ مِنْکَ وَ اَنْتَ اَقْرَبُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔وَقَدْ نِلْتَ مِنْ صِھْرِہِ مَالَمْ یَنَالَا۔

(نہج البلاغہ جز ثانی نمبر ۱۵۹ ومن کلام لہ علیہ السلام لما اجتمع الناس ……)

بخدا میں نہیں جانتا کہ میں آپ کے سامنے کیا بیان کروں۔ مجھے کوئی ایسی نئی بات معلوم نہیں جو آپ نہ جانتے ہوں اور میں آپ کو کوئی ایسی نئی بات نہیں بتا رہا جو آپ کو معلوم نہ ہو۔کیونکہ میرا علم آپ سے زیادہ نہیں۔ہم آپ سے کسی امر میں سبقت نہیں رکھتے کہ ہم آپ کو اس کی اطلاع دینے کے قابل ہوں اور نہ ہم کسی امر میں منفرد ہی ہیں کہ وہ امر آپ تک پہنچائیں۔بے شک آپ نے وہ سب کچھ دیکھا اور سنا جو ہم نے دیکھا اور سنا ۔اور آپ بھی اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی رہے جس طرح ہم تھے۔ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ آپ سے کسی امر میں سبقت رکھنے والے نہ تھے اور آپ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دامادی کے باعث آنحضرت ؐ کے ان دونوں سے زیادہ مقرب ہیں ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۱۔ وَمِنْ کِتَابٍ لَہُ اِلٰی مُعَاوِیَۃَ اِنَّہ‘ بَا یَعْنِی الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا اَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلٰی مَا بَایَعُوْا ھُمْ عَلَیْہِ …… اُناَسٌ فَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَ سَمُّوْہُ اِمَامًا کَانَ ذَالِکَ }لِلّٰہِ{ رِضًا۔

(نہج البلاغہ جز ثالث ۶ و من کتاب لہ الی معاویۃ)

حضرت علی نے حضرت معاویہ کو ایک خط میں (اپنی خلافت کا یہ ثبوت) لکھا کہ میری بیعت انہی لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابو بکر ؓ و عمر ؓو عثمان ؓ کی بیعت کی اور اسی امر پر کی ہے جس امر پر ان کی کی تھی …… یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ایک شخص پر مجتمع ہوکر اس کو اپنا امام کہہ دیں تو یہی امر خدا کے ہاں بھی موجب رضا ہوتا ہے۔

۱۲۔ لِلّٰہِ بَلَادُ فُلَانٍ فَقَدْ قَوَّمَ الْاَوَدَ وَ دَاوَی العَمَدَ وَ خَلَّفَ الْفِتْنَۃَ وَّ أَقَامَ السُّنَّۃَ

وَ ذَھَبَ نَقَّی الثَّوْبِ قَلِیْلَ الْعَیْبِ اَصَابَ خَیْرَ ھَا وَ سَبَقَ شَرَّھَا اَدَّیٰٓ اِلٰی اللّٰہِ طَاعَتَہٗ وَاتَّقَاہُ بِحَقِّہِ۔ (نہج البلاغہ جز ثانی ۲۲۳ ومن کلام لہ علیہ السلام)

فلاں آدمی کیا ہی اچھا تھا کیونکہ اس نے کجی کو درست کیا اور دلوں کی بیماریوں کا علاج کیا۔فتنہ کو پیچھے ہٹایا اور سنت کو قائم کیا اور انتقال کیا ایسی حالت میں کہ وہ پاک اور بے عیب تھا۔خلافت کا اچھا حصہ پایا اور اُس میں پیدا ہونے والے شرّ سے پہلے گزر گیا۔اﷲ کی اطاعت گزاری کی اور اس کے حقوق میں تقویٰ سے کام لیا ۔

یہ سب عبارت حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی نسبت کہی۔چنانچہ اس خطبے کے حاشیہ میں عبدالحمید بن ابی الحدید شیعی نے لکھا ہے کہ فلاں سے مراد عمرؓ ہیں۔

۱۳۔ امام جعفر صادق سے حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کے متعلق کسی نے سوال کیا ۔تو انہوں نے جواب دیا: ھُمَا اِمَامَانِ عَادِلَانِ قَاسِطَانِ کَانَا عَلَی الْحَقِّ وَمَا تَا عَلَیْہِ فَعَلَیْھِمَا رَحْمَۃُ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (رسالہ ادلّہ تقیہ فی ثبوت تقیہ مؤلّفہ سلطان العلماء سید محمد صاحب مجتہد) کہ وہ دونوں امام تھے عدل اور انصاف کرنے والے۔ وہ دونو حق پر تھے اور حق پر ہی ان کی وفات ہوئی۔اور قیامت کے دن ان پر خدا تعالیٰ کی رحمت ہوگی۔

نوٹ:۔شیعوں کا اس قول کے متعلق یہ کہنا کہ امام جعفر نے دوسرے دن اس قول کی تاویل یہ کی تھی کہ’’ اِمَامَانِ ‘‘ سے میری مراد’’ اہل جہنم کے امام ‘‘تھی۔غلط ہے بوجوہات ذیل۔

(۱) ’’ھُمَا اِمَامَانِ‘‘سے مراد اہل جہنم کے امام نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ عربی زبان اس کی اجازت نہیں دیتی۔ھُمَا اِمَامَا اَھْلِ النَّارِ کہنا چاہیے تھا۔کیونکہ تثنیہ یا جمع کا صیغہ جب مضاف ہو تو اس کے آخر سے نون گر جاتا ہے جیسے ھُمْ مُسْلِمُوْا مَکَّۃَ (یعنی وہ مکہ کے مسلمان ہیں ھُمْ مُسْلِمُوْنَ مَکَّۃَ نہیں ہوسکتا۔)

(۲) امام سے جس شخص نے فتویٰ پوچھا اس کوتوآپ نے مندرجہ بالا صاف الفاظ میں جواب دے دیا وہ اب اس فتویٰ کے مطابق حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو مومن ہی سمجھے گا۔اس کے چلے جانے کے بعد دوسرے دن اس قول کے الفاظ کی ظاہری مفہوم کے خلاف غلط تاویل کرنا بالکل غیر معقول ہے۔ اس شخص کی گمراہی (بقول شما) کا باعث تو حضرت امام جعفر ہی کا یہ قول ہوگا ۔امام جعفر نے اگر کوئی تشریح اپنے الفاظ کی کرنی ہوتی تو اس شخص کے سامنے ہی کرنی چاہئے تھی۔

۱۴۔ علامہ کاشانی اپنی تفسیر خلاصۃ المنہج تفسیر سورۃالفتح آیت ۱۹ میں لکھتے ہیں:۔

’’آنحضرت فرمود بدوزخ نہ رودیک کس ازاں مومناں کہ اُو زیر شجر بیعت کردند وایں را بیعت الرضوان نام نہادہ اند۔ بجہت آنکہ حق تعالےٰ در حقِّ ایشاں فرمود کہ’’‘‘ (الفتح:۱۹) کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے سب کے سب جنتی ہیں کیونکہ خدا نے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا ان کو خطاب دیاہے۔

۱۵۔ بکشف الغمہ فی مّعرفۃ الائمہ بیعت رضوان کی شرح میں روایت ہے ۔از جابر بن عبداﷲ روایت است کہ مادر آں روز ہزار و چہار صد (یعنی چودہ سو) کس بودیم۔’’درآں روز من از آنحضرت صلعم شنیدم کہ آنحضرت خطاب بحاضراں نمود و فرمود کہ شما بہترین اہل روئے زمین اندوہمہ درآں روز بیعت کردیم و کسے از اہل بیعت نکس و نمود ۔مگر اجد بن قیس کہ آں منافق بیعت خود را شکست ۔‘‘

گویا بیعت رضوان کرنے والے چودہ سو مسلمان تھے اور سوائے اجد بن قیس کے سب کے سب جنتی ہیں مگر شیعہ تو صرف پنجتن یا ساڑھے چھ تن کوجنتی مانتے ہیں ۔

۱۶۔حضرت عثمان ؓ اس بیعت کے وقت موجود نہ تھے بلکہ بطور سفیر مکہ میں گئے ہوئے تھے ان کے متعلق لکھا ہے ۔فَلَمَّا اِنْطَلَقَ عُثْمَانُ وَبَایَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلْعَمْ بِاحْدَیْ یَدَیْہِ عَلٰی الْاَخْرٰی لِعُثْمَانَ وَقَالَ الْمُسْلِمُوْنَ طُوْبیٰ لِعُثْمَانَ قَدْ طَافَ بِالْبَیْتِ وَسَعَیٰ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَفَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلْعَمْ مَا کَانَ لِیَفْعَلَ فَلَمَّا جَآءَ عُثْمَانُ قَالَ لَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ اَطَفْتَ بِالْبَیْتِ فَقَالَ مَاکُنْتُ لِاَطُوْفَ بِالْبَیْتِ وَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَعَمْ لَمْ یَطُفْ بِہِ (فروع کافی جلد ۳ کتاب الروضہ صفحہ ۱۱۵)

حضرت عثمانؓ چلے گئے …… تو آنحضرت ؐ نے مسلمانوں سے بیعت لی۔اور آنحضرت ؐ نے اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر حضرت عثمان کی بیعت لینے کے لئے رکھا اورمسلمانوں نے کہا کہ عثمانؓ بڑا خوش قسمت ہے کہ اس نے کعبہ کا طواف بھی کر لیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی بھی کرلی مگر آنحضرتؐ نے فرمایا ۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔

نوٹ:۔یہ واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے ۔حضرت عثمان ؓ تو بطور سفیر مکہ چلے گئے اور باقی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے کفا ر نے روکا۔آنحضرتؐ نے مسلمانوں کی یہ بات سن کر فرمایا کہ عثمانؓ تو ایسا کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (یعنی اس نے ایسا نہیں کیا ہوگا) پس جب عثمان ؓ واپس آئے آنحضرت ؐ نے ان سے پوچھا کیا آپ نے کعبہ کا طواف کیا؟انہوں نے جواب دیا کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ میں طواف کر لیتا اس حالت میں کہ آنحضرت ؐ نے طواف نہ کیا ہو۔یہ حوالہ حضرت عثمانؓ کی شانِ ایمانی ثابت کرتا ہے۔

۱۷۔اگر اصحاب ثلاثہ مومن اور خلفائے برحق نہیں تھے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جو اَسَدُ اللّٰہِ الْغَالِبِ عَلٰی کُلِّ غَالِبٍٍکے مصداق ہیں ان کی بیعت کیوں کی؟شیعوں کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ جلد ۲کتاب دوم صفحہ ۴۴۹ پر لکھا ہے :۔ثُمَّ مَدَّ یَدَہٗ فَبَایَعَ۔‘‘

یعنی حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کرحضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔اگر کہو کہ انہوں نے ’’تقیّہ ‘‘کرکے بباعث خوف بیعت کی تو اوّل تو یہ حضرت علی جیسے’’ اَشْجَعُ النَّاسِ‘‘ ’’فاتح خیبر‘‘ اور ’’شیر خدا‘‘کی شان کے خلاف ہے۔دوسرے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک ’’فاسق، غاصب اور خائن‘‘کی مجبوراً بیعت کرلینا ایک مستحسن فعل تھا تو پھر حضرت امام حسین ؓ نے اپنے جلیل القدر والد کی اس اچھی سنت پر عمل کرکے کیوں یزید کی بیعت نہ کی۔اپنی اور خاندان نبوت کے بیسیوں معصوموں کی جانیں کیوں قربان کروا ڈالیں؟حالانکہ جہاں تک شجاعت اورمردانگی کا سوال ہے اس کے لحاظ سے اگر اس قسم کی کمزوری دکھانا ممکن ہو سکتا تھا تو امام حسین ؓ کے لئے ممکن ہو سکتا نہ کہ حضرت علیؓ کے لئے۔پس ثابت ہے کہ چونکہ حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یزید خلیفہ برحق نہ تھا اس لئے انہوں نے جان دے دی لیکن ایسے شخص کی بیعت نہ کی لیکن چونکہ حضرت علیؓ کے نزدیک حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ خلفائے برحق تھے اس لئے انہوں نے ان کی بیعت کرلی۔
 
Top