• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

امکان نبوت از روئے احادیث نبوی ﷺ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
امکان نبوت از روئے احادیث نبوی ﷺ

پہلی حدیث: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوْسِ ابْنُ مُحَمَّدٍ۔ حَدَّثَنَا دَاوٗدُ ابْنُ شَبِیْبِ الْبَاھِلِیُّ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَّنَا الْحَکَمُ ابْنُ عُتَیْبَۃَ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ اِنَّ لَہٗ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّۃِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔

(سنن ابن ماجہ جلد ۱ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اﷲ ذکر وفاتہ )

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا کہ جنت میں اس کے لئے ایک اَنّا ہے۔ اور فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔

یہ واقعہ وفات ابراہیم ابن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ۹ھ میں ہوا۔ اور آیت خاتم النبیین ۵ھ میں نازل ہوئی۔ گویا آیت خاتم النبیین کے نزول کے چار سال بعد حضورؑ فرماتے ہیں کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ گویا حضورؑ کے نزدیک اس کا نبی نہ بننا اس کی موت کی وجہ سے ہے نہ کہ انقطاع نبوت کے باعث اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خَاتَمُ النَّبِیِیّٖنَ کا مطلب یہ سمجھتے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو آپؐ کو یہ فرمانا چاہئے تھا لَوْ عَاشَ اِبْرَاہٖیْمُ لَمَا کَانَ نَبِیًّا لِاَنِّیْ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَکہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تب بھی نبی نہ ہوتا۔ کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ جیسے کوئی آدمی کہے کہ اگر میرا بیٹا زندہ رہتا تو بی۔ اے ہو جاتا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بی۔ اے کی ڈگری ہی بند ہے؟ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی۔ اے کی ڈگری تو مل سکتی ہے لیکن اس کی موت اس کے حصول میں مانع ہوئی یہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ نبوت تو مل سکتی ہے مگر ابراہیم کو چونکہ وہ فوت ہو گیا اس لئے اسے نہیں مل سکی۔

حدیث کی صحت کا ثبوت

۱۔ یہ حدیث ’’ابن ماجہ‘‘ میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے۔

۲۔ اس حدیث کے متعلق شہاب علی البیضاوی میں لکھا ہے:۔ اَمَّا صِحَّۃُ الْحَدِیْثُ فَلَا شُبْھَۃَ فِیْہِ لِاَنَّہٗ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَغَیْرُہٗ کَمَا ذَکَرَہٗ اِبْنُ حَجَرٍ (حاشیہ الشہاب علی البیضاوی جلد ۷ صفحہ۱۷۵ مطبوعہ دار صادر بیروت) کہ اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔ کیونکہ اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور دوسروں نے بھی جیسا کہ حافظ ابنِ حجر نے ذکر کیا ہے۔

۳۔ ملا علی قاریؒ جیسا محدث لکھتا ہے:۔

لَہٗ طُرُقٌ ثَلَاثٌ یُقَوَّیٰ بَعْضُھَا بِبَعْضٍ (موضوعات کبیر صفحہ ۲۹۱ زیر حدیث ۳۷۹ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ) کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے مگر یہ موضوع نہیں کیونکہ یہ تین طریقوں سے مروی ہے اور اس کا ہر ایک طریقہ دوسرے طریقہ سے تقویت پکڑتا ہے انہوں نے اس کو اس قدر صحیح قرار دیا ہے کہ آیت خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ کی اس لئے تاویل کی ہے کہ وہ اس حدیث کے معارض نہ ہو چنانچہ فرماتے ہیں:۔

فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلُہٗ تَعَالیٰ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ اِذِ الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ (موضوعات کبیر صفحہ ۲۹۲ زیر حدیث ۳۷۹ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ) کہ یہ حدیث خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں آ سکتا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپؐ کی امت امت میں سے نہ ہو۔

۴۔ یہ حدیث جیسا کہ حضرت ملا علی قاریؒ کی مندرجہ بالا تحریر سے ثابت ہے تین طریقوں سے مروی ہے یعنی صرف حضرت ابن عباسؓ ہی کی مندرجہ بالا روایت نہیں بلکہ حضرت ابن عباسؓ کے علاوہ حضرت انسؓ اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہے۔ حضرت حافظ ابن حجر العسقلانی ؒبحوالہ حضرت سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت انسؓ والی روایت بھی صحیح ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔

’’وَبَیَّنَ الْحَافِظُ السُّیُوْطِیْ اَنَّہٗ صَحَّ عَنْ اَنْسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّہٗ سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ ابْنِہٖ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ لَا اَدْرِیْ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیۃ مصنفہ حضرت امام ابن حجر ہیثمیؓ صفحہ ۱۵۰ مطبوعہ مصر)

یعنی حضرت امام سیوطیؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت انسؓ سے صحیح روایت ہے کہ آپ سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی کے سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ (اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا) تو حضرت انسؓ نے فرمایا یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن خدا کی رحمت ہو ابراہیم پر کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقینا نبی ہوتے۔

یہ روایت تیسرے طریقے سے حضرت جابرؓ سے مروی ہے جیسا کہ حضرت امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔

’’وَرَوَاہُ ابْنُ عَسَاکِرٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘

(الفتاویٰ الحدیثیۃ مصنفہ امام ابن حجر ہیثمی مطبوعہ مصری صفحہ ۱۵۰)

پس یہ حدیث تین مختلف طریقوں سے اور تین مختلف صحابیوں سے مروی ہے۔ اس لئے اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔

اسناد

اس حدیث کی اسناد میں چھ روای ہیں:۔

۱۔ عبد القدوس بن محمد۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب تہذیب التہذیب میں جو اسماء الرجال کی بہترین کتاب ہے لکھا ہے:۔

’’قال النسائی ثقۃ وذکرہ ابن حبان فی الثقات‘‘

(تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒحرف عین )

کہ نسائی نے کہا کہ یہ روای ثقہ ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے۔

۲۔ داؤد بن شبیب الباہلی:۔

قَالَ اَبُوْ حَاتِمِ صُدُوْقٌ وَ ذکَرَہٗ ابْنُ حَبَّانَ فِی الثِّقَاتِ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حرف دال زیر لفظ داؤد) کہ ابو حاتم نے کہا کہ سچا ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ رایوں میں شمار کیا ہے۔

۳۔ ابراہیم بن عثمان اس کے متعلق بعض لوگوں نے کہا کہ ضعیف ہے مگر اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی یہ ’’واسط‘‘ کے شہر میں قاضی تھا اس کے متعلق بھی تہذیب التہذیب میں لکھا ہے:۔

قَالَ یَزِیْدُ ابْنُ ھَارُوْنَ مَا قَضٰی عَلَی النَّاسِ رَجُلٌ یَعْنِیْ فِیْ زَمَانِہٖ اَعْدَلَ فِی الْقَضَاءِ مِنْہُ …… قَالَ ابْنُ عَدِیٍّ لَہٗ اَحَادِیْثُ صَالِحَۃٌ وَھُوَ خَیْرٌ مِّنْ اِبْرَاہِیْمَ بْنِ اَبِیْ حَیَّۃَ۔

(تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حرف الف زیر لفظ ابراہیم، تہذیب الکمال و الاکمال فی اسماء الرجال مصنفہ از حافظ جمال الدین ابی الحجاج یوسف جز اوّل زیر لفظ ابراہیم)

کہ یزید بن ہارون نے کہا ہے کہ اس کے زمانہ میں اس سے زیادہ عدل اور انصاف کے ساتھ کسی نے فیصلے نہیں کئے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ اس کی حدیثیں سچی ہوتی ہیں۔ اور ابو حیہ سے اچھا راوی ہے۔

ابو حیّہ کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے۔

قَالَ النَّسَائِیْ ثِقَۃٌ …… وَوَثَّقَہُ الدَّارُ قُطَنِیْ …… اِبْنُ حَبَّانَ۔ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حرف الف زیر لفظ ابو حیّہ) کہ دار قطنی ابن قانع اور ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور نسائی نے کہا ثقہ ہے۔

ابراہیم بن عثمان جب ابو حیّہ سے اچھا ہے اور ابو حیّہ ثقہ ہے پس ثابت ہوا کہ ابراہیم بن عثمان اس سے بڑھ کر ثقہ ہے بھلا جو شخص اتنا عادل ہو کہ اس کے زمانہ میں اس کی نظیر نہ ملے اس کے متعلق بلا وجہ یہ کہہ دینا کہ وہ جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا صریحًا ظلم ہے حقیقت یہ ہے کہ چونکہ وہ بڑا عادل اور باانصاف آدمی تھا۔ ناجائز طور پر کسی کی رعایت نہ کرتا تھا۔ بعض لوگوں نے کینہ کی وجہ سے اس کے متعلق یہ کہہ دیا کہ وہ برا ہے۔ پس جب تک کوئی معقول وجہ پیش نہ کی جائے اس وقت تک اس کے مخالفین کی کوئی بات قابل سند نہیں۔

’’عادل‘‘ تو کہتے ہی اس کو ہیں جو چیز کو اپنے محل پر رکھے۔ جب وہ ’’عادل‘‘ تھا تو وہ کس طرح جھوٹے اقوال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر سکتا تھا۔ اور ہم اس کے متعلق تہذیب التہذیب ہی سے دکھا چکے ہیں کہ لَہٗ اَحَادِیْثٌ صَالِحَۃٌ کہ اس کی احادیث قابل اعتبار ہیں علاوہ ازیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ حدیث تین مختلف طریقوں اور تین مختلف صحابیوں سے مروی ہے۔ اس لئے اگر محض ایک طریقہ (بطریق حضرت ابن عباس) کے ایک راوی پر تم جرح بھی کرو پھر بھی حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہو سکتی جیسا کہ حضرت ملا علی قاریؒ اور حضرت امام سیوطیؒ اور حضرت حافظ ابن حجرؒ کے اقوال سے اوپر ثابت کیا جا چکا ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
بعض امثلۂ تضعیف

کسی کے محض یہ کہہ دینے سے کہ فلاں راوی ضعیف ہے درحقیقت وہ راوی نا قابل اعتبار نہیں ہو جاتا۔ جب تک اس کی تضعیف کی کوئی معقول وجہ نہ ہو کیونکہ اس امر میں اختلاف یَسِیْرموجود ہے چنانچہ۔ ابراہیم بن عبد اﷲ بن محمدؐ کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے ’’زَعَمَ ابْنُ الْقَطَّانَ اِنَّہٗ ضَعِیْفٌ‘‘ کہ ابن قطان کے نزدیک ضعیف ہے اس کے آگے اسی صفحہ پر لکھا ہے:۔

۲۔ قَالَ الْخَلِیْلِیُّ کَانَ ثِقَۃً وَ قَالَ مُسْلِمَۃُ بْنُ قَاسِمِ الْاُنْدُلِسُّی ثِقَۃٌ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ زیر لفظ ابراہیم) کہ خلیلی نے کہا ہے کہ وہ ثقہ تھا اور مسلمہ بن قاسم اندلسی نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے اسی طرح ابراہیم بن صالح بن درہم الباہلی ابو محمد البصری کے متعلق لکھا ہے:۔

۳۔ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ ضَعِیْفٌ کہ دار قطنی نے کہا کہ ضعیف ہے حالانکہ ذَکَرَہُ ابْنُ حَبَّانَ فِی الثِّقَاتِ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ زیر لفظ ابراہیم) کہ ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے غرضیکہ بعض لوگوں کا ابراہیم بن عثمان کو محض ضعیف قرار دے دینا حجت نہیں۔ خصوصًا جب کہ ہم اس حدیث کی صحت کے متعلق ’’شہاب علی البیضاوی‘‘ اور ’’ملا علی قاری‘‘ جیسے محدث کی شہادت جو ناقابل تردید ہے پیش کر چکے ہیں۔

۴۔ اس حدیث کا چوتھا راوی اَلْحَکَمُ بْنُ عُتَیْبَۃَ ہے۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ الدَّوْرِیُّ کَانَ صَاحِبَ عِبَادَۃٍ وَ فَضْلٍ وَ قَالَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ مَا کَانَ بِالْکُوْفَۃِ بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ وَالشُّعْبِیْ مِثْلَ الْحَکِمُ وَ قَالَ ابْنُ مَھْدِیٍّ الْحُکْمُ بْنُ عُتَیْبَۃَ ثِقَۃٌ ثَبَتَ۔ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ زیر لفظ الحکم ) کہ ابن عباس الدوری نے کہا کہ یہ راوی صاحب عبادت و فضیلت تھا اور ابراہیم و شعبی کو چھوڑ کر ایسا عبادت گذار اور صاحب فضیلت آدمی کوفہ میں نہ تھا۔ اور ابن مہدی نے کہا کہ یہ راوی ثقہ اور قابل اعتبار ہے۔

۵۔ ’’مِقْسَمْ وَ قَالَ ابْنُ شَاھِیْنَ فِی الثَّقَاۃِ قَالَ اَحْمَدُ ابْنُ صَالِحِ الْمِصْرِیْ ثِقَۃٌ ثَبَتٌ لَا شَکَّ فِیْہِ۔‘‘ ابن شاہین اور احمد بن صالح نے اسے ثقہ اور قابل اعتبار بتایا ہے۔

(تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ زیر لفظ مِقسم)

۶۔ عبد اﷲ بن عباسؓ:۔ ملا علی قاری ؒکہتے ہیں:۔ حدیث ابن عباس صحیح لا ینکرہ الا معتزلی (موضوعات کبیر صفحہ ۳۹) کہ ابن عباس کی روایت کا سوائے معتزلی کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ آپ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ شَاہَدَ جِبْرِیْلَ مَرَّتَیْنِ (اَلْاِکْمَالُ فِی اَسْمَآءِ الرِّجَالِ اردو ترجمہ صفحہ ۷۰) کہ آپ نے دو مرتبہ جبرائیلؑ کی زیارت کی۔ یہ تو ہوئی اس حدیث کی صحت جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ (تہذیب التہذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ زیر لفظ عبد اﷲ بن عباس)

دوسری حدیث:۔ علامہ قسطلانی نے حضرت انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے وَ قَدْ رُوِیَ مِنْ حَدِیْثِ اَنْسِ بْنِ مَالِکَ قَالَ لَوْ بَقِیَ یَعْنِیْ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَکَانَ نَبِیًّا وَ لٰکِنْ لَمْ یَبْقَ لِاَنَّ نَبِیَّکُمْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ۔

(مواہب اللدنیہ از علامہ قسطلانی جز ثالث صفحہ ۱۶۳ طبع اولیٰ المطیعۃ الازھریۃ المصریۃ ۱۳۲۶ھ)

کہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ (ابراہیمؑ) باقی رہتا تو نبی ہو جاتا۔ اس کے آگے (ناقل) اپنی رائے لکھتا ہے کہ مگر وہ زندہ نہ رہا۔ کیونکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں راوی کا اپنا اجتہاد حجت نہیں اور وہ کس قدر غلط ہے۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں گویا خدا کو ڈر تھا کہ اگر ابراہیم زندہ رہا تو خواہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا ہو یا نہ وہ ضرور نعوذ باﷲ جبرًا نبی بن جائے گا۔ اس لئے اسے بچپن میں مار دیا۔

نوٹ نمبر۱:۔ مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے لکھا ہے کہ امام نووی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں بلکہ اس کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بہتان عظیم قرار دیتے ہیں؟

(محمدیہ پاکٹ بک از مولوی عبد اﷲ معمار امرتسری صفحہ ۵۰۱ ایڈیشن اپریل ۱۹۸۵ء)

جواب:۔ حدیث نبویؐ کے مقابلہ میں امام نووی کی رائے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ پھر یہ کہ نووی نے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس حدیث کے معنی کیا ہیں۔ اولاد نوح نبی نہ تھے‘‘ اس کا جواب ایک تو ملا علی قاریؒ نے دیا ہے جو نقل ہو چکا۔ دوسرا جواب علامہ شوکانی ؒ نے درج کیا ہے وہ یہ ہے:۔

’’وَھُوَ عَجِیْبٌ مِنَ النَّوَوِیْ مَعَ وَرُوْدِہٖ عَنْ ثَلَاثَۃٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَ کَاَنَّہٗ لَمْ یَظْھَرْ لَہٗ تَاوِیْلُہٗ۔‘‘

(فوائد المجموعہ از محمد بن علی شوکانی ؒالناشر دار الکتب العربی بیروت لبنان الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۸۶ء )

کہ نووی کا یہ اعتراض تعجب خیز ہے حالانکہ اس حدیث کو تین صحابیوں نے بیان کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ نووی کو اس حدیث کے اصل معنی سمجھ نہیں آئے۔

نوٹ نمبر ۲:۔ یہ کہنا کہ ’’لو‘‘ محال کے لئے آتا ہے صریحًا دھوکا ہے کیونکہ ’’لو‘‘ جس جملہ میں آئے اس کی شرط تو محال ہوتی ہے مگر جزا ممکن ہوتی ہے جیسا کہ:۔ (الانبیاء:۳۳) اگر خدا کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) خراب ہو جاتے۔ اب خدا کے سوا اور خدا کا ہونا تو ممکن نہیں۔ مگر زمین میں فساد کا ہونا ممکن ہے اسی طرح لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ والی حدیث میں ابراہیم کا زندہ رہنا محال ہے مگر اس کا نبی بننا ممکن۔

تیسری حدیث:۔ وَرَوَیَ الْبَیْھَقِیْ بِسَنَدِہٖ اِلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ اِنَّہٗ لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ لَہٗ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّۃِ تَتِمُّ رَضَاعَہٗ وَ لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر جلد ۱ صفحہ ۲۹۵ سطر ۴ مطبوعہ دار المسیرۃ بیروت)

چوتھی حدیث:۔ وَ عَنْ جَابِرٍ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ مَرْفُوْعًا لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا۔

(تاریخ ابن عساکر جلد ۱ صفحہ ۲۹۵ مطبوعہ دار المسیرۃ بیروت) نیز الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر الہیثمی صفحہ ۱۵۰ مطبوعہ مصر)

پانچویں حدیث:۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ (مسلم کتاب الفتن باب صفت الدجال) آنے والے مسیح کو نبی اﷲ قرار دیا ہے، پہلا مسیح فوت ہو چکا اور اس کا حلیہ آنے والے مسیح کے حلیے سے مختلف ہے لہٰذا یہ آنے والا بخاری کی حدیث اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسٰی ابن مریم) اسی امت میں سے نبی ہونا تھا۔

چھٹی حدیث:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اَبُوْبَکْرٍ اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا اَنْ یَکُوْنَ نَبِیٌّ (کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق از امام عبد الرؤف مناوی ؒ صفحہ ۴ بار اوّل ۱۹۳۰ء مطبوع گیلانی سٹیم پریس لاہور) کہ ابوبکرؓ اس امت میں سب سے افضل ہے سوائے اس کے کہ امت میں سے کوئی نبی ہو۔ یعنی اگر نبی ہو تو حضرت ابوبکرؓ اس سے افضل نہیں لہٰذا امکانِ نبوت فی خیر الامت ثابت ہے (نیز دیکھو جامع الصغیر السیوطی مصری حاشیہ صفحہ ۶ طبع بالمطبعۃ المیمنیۃ بمصر)

ساتویں حدیث:۔ اَبُوْ بَکْرٍ خَیْرُ النَّاسِ اِلَّا یَکُوْنَ نَبِیٌّ۔ (طبرانی و ابن عدی فی الکاہل بحوالہ جامع الصغیر السیوطی جز اوّل صفحہ ۲۸ مکتبہ نزار مصطفی الباز الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰ء) کہ ابو بکرؓ سب انسانوں سے بہتر ہیں۔ ہاں اگر کوئی نبی انسانوں میں سے ہو تو اس سے بہتر نہیں۔ (نیز کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۱۳۷ عن سلمہ بن الاکوع)

اگر انسانوں میں سے کوئی نبی ہونا ہی نہ تھا۔تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو استثناء فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّ کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبی کی آمد کا امکان ہے۔

نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’نَبِیٌّ‘‘ حدیث مذکورہ بالا میں کَانَ یَکُوْنَ کی خبر واقع نہیں ہوا کہ یہ خیال کیا جا سکے کہ حضرت ابوبکرؓ کی نبوت کی نفی مقصود ہے اگر ’’کَانَ‘‘ کی خبر ہو تا۔ تو ’’ نَبِیٌّ‘‘ کی بجائے نَبِیًّا ہونا چاہئے تھا۔ پس چھٹی اور ساتویں حدیث کا ترجمہ سوائے اس کے جو ہم نے بیان کیا قواعد عربیہ کے لحاظ سے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

آٹھویں حدیث:۔ ’’تَکُوْنُ النَّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ …… ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ مَا شَاءَ اللّٰہُ …… ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًا فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰہُ …… ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ۔‘‘ (رواہ احمد و البیہقی فی دلائل النبوۃ، مشکوۃ کتاب الرقاق، باب الانذار والتحذیر صفحہ۴۶۱ مطبع اصح المطابع نیز محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۴۱۷ ایڈیشن اوّل) ترجمہ:۔ تم میں نبوت رہے گی جب تک کہ اﷲ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اس کے بعد منہاج نبوت پر خلافت ہو گی اور وہ رہے گی جب تک کہ اﷲ تعالیٰ چاہے گا پھر اس کے بعد بادشاہت شروع ہو گی اور وہ بھی رہے گی جب تک اﷲ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اس کے بعد خلافت ہو گی منہاج نبوت پر۔

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت زمانہ میں دوبارہ منہاج نبوت پر خلافت ہو گی۔ جس طرح ابتدائے اسلام میں منہاج نبوت پر خلافت قائم ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر خلافت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی ہوئی تھی تو لازم آیا کہ آخری زمانہ میں بھی نبی ہو جس کی وفات پر دوبارہ خلافت شروع ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مندرجہ بالا حدیث مندرجہ مشکوٰۃ کتاب الرقاق صفحہ ۴۶۱ مطبع اصح المطابع میں بین السطور لکھا ہے:۔ ’’الظَّاھِرُ اَنَّ الْمُرَادَ بِہٖ زَمَنُ عِیْسٰی وَالْمَھْدِیْ‘‘ کہ ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر دوبارہ خلافت قائم ہونے کا زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہو گا۔
 
Top