• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 10

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 10

‏a10.1
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۷ء برموقع جلسہ سالانہ(
ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل والنھار لایت لا ولی الالباب- الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار- ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظلمین من انصار- ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار- ربنا و اتنا ماوعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیمہ انک لاتخلف المعیاد- فاستجاب لھم ربھم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض فالذین ھاجروا واخرجوا من دیار ھم و اوذوا فی سبیلی وقتلوا وقتلوا لاکفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھر- ثوابا من عنداللہ واللہ عندہ حسن الثواب- ۱~}~
میں نے جو چند آیات ابھی تلاوت کی ہیں- ان میں میرے اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جو آج میں بیان کرنا چاہتا ہوں-
یہ مضمون جماعت سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ اسے زندگی اور موت کا سوال کہا جا سکتا ہے- اور جس طرح میں اس مضمون کو اپنی جماعت کے لوگوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں اگر وہ اسی طرح ذہن نشین کر لیں تو تبلیغ میں انشاء اللہ بہت بڑی آسانی ہو سکتی ہے-
میں نے بڑا غور کیا ہے اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دنیا میں سچائی ٹکڑے ٹکڑے کر کے پیش کرنے سے وہ اثر نہیں پیدا کر سکتی جو مجموعی طور پر پیش کرنے سے ہو سکتا ہے- دیکھو اگر کسی خوبصورت سے خوبصورت انسان کا ناک کاٹ کر لے جائیں اور پوچھیں یہ ناک کیسا خوبصورت ہے؟ تو کوئی اس کی خوبصورتی کا اعتراف نہ کرے گا- اسی طرح اگر کسی خوبصورت انسان کا کان کاٹ کر لے جائیں اور جا کر پوچھیں- یہ کیسا خوبصورت ہے تو اس کی خوبصورتی کا کوئی اثر نہ ہوگا- ہاں سارے اعضاء مل کر متحدہ شکل میں دل پر اثر کرتے ہیں- اسی طرح حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق بھی ہم کو مجموعی رنگ میں غور کرنا چاہئے- اور پھر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچے ثابت ہوتے ہیں یا نہیں-
آج ہی ایک دوست نے جو غیر احمدی ہیں مجھے لکھا کہ ہم لوگ یہاں آتے تو اس لئے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق سنیں- مگر اس کے متعلق جلسہ میں مضمون کم رکھے جاتے ہیں- ان کا یہ مطالبہ درست ہے- مگر ان کو اور دوسرے احباب کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ جلسہ جماعت کی تربیت کے لئے بھی ہوتا ہے- اس وجہ سے دونوں قسم کے مضامین ضروری ہوتے ہیں- مگر اتفاقی بات ہے کہ اس دفعہ میرے مضمون کا بھی یہی ہیڈنگ ہے کہ حضرت مسیحموعودؑ نے کیا کام کیا؟
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس وقت تک اس مسئلہ کے متعلق بہت بیپروائی سے کام لیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاموں پر تفصیلی طور سے نظر نہیں ڈالی گئی- میں نے بار ہا لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بتائو تو مرزا صاحب کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک تفصیلی نظر ڈالیں تو وہ تمام باتیں موجود نظر آتی ہیں جن کے لئے آپ کا آنا ضروری تھا اور اس سوال کا جواب ایسا اہم اور اتنا وزنی ہے کہ اگر اسے بتفصیل بیان کیا جائے تو کوئی حق پسند اس کا انکار نہیں کر سکتا- یہ سوال ایسا اہم ہے کہ اس کے سمجھے بغیر کوئی سمجھدار شخص سلسلہ کی طرف مائل نہیں ہو سکتا- کیونکہ جب تک کسی کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام کی اہمیت کا نقش نہ جم جائے وہ آپ کی طرف توجہ کیونکر کر سکتا ہے؟
اس میں شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنیوالی تازہ صداقتیں اور نشانات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی ذات میں صداقت کا ثبوت ہوتے ہیں مگر جب تک ان کو بھی ایسے رنگ میں پیش نہ کیا جائے کہ دنیا ان کا فائدہ سمجھ سکے تو وہ نشانات بھی اثر نہیں کرتے- پس اس سوال کا جواب دینا نہایت ضروری ہے-
یہ سوال جب کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کیا کام کیا؟ تو بسا اوقات سوال کرنے والے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ٹھوس چیز اس کے ہاتھ میں دے دیں وہ ایسی شہادت چاہتا ہے جیسی کہ صرف مادیات میں مل سکتی ہے روحانیات میں نہیں- یا لوگ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ وقت سے پہلے نتیجہ نکال لیں وقت ابھی آتا نہیں مگر وہ پوچھتے ہیں کیا نتیجہ نکلا؟ ایسے لوگوں کی وہی مثال ہوتی ہے کہ ایک شخص کہے- چونکہ میرے ہاں اولاد نہیں ہے اس لئے میں اولاد کے لئے دوسری شادی کرتا ہوں- اور جس دن وہ دوسری شادی کرے اس کے دوسرے دن صبح ہی اس کے دوست اس کے ہاں پہنچ جائیں- اور السلام علیکم کے بعد پوچھیں اولاد ہوئی ہے یا نہیں؟ وہ کہے ابھی تو نہیں ہوئی- تو وہ کہیں پھر شادی کیوں کی تھی؟ شادی کا جلد سے جلد نتیجہ نو ماہ کے بعد نکل سکتا ہے اور اگر اس عرصہ کو کم سے کم بھی کر دیا جائے تو بھی سات مہینہ میں نتیجہ نکل سکتا ہے- اتنا انتظار کرنا ضروری ہوتا ہے- پس کسی کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے نتائج کا مطالبہ کرنا غلطی ہے- دراصل اس قسم کا سوال کرنے والوں کو عام طور پر دو غلطیاں لگتی ہیں- ایک تو یہ کہ جو سوال کرتے ہیں وہ ٹھوس مادی جواب چاہتے ہیں- مثلاً کہتے ہیں- یہ بتائو مسلمانوں کی حکومت کہاں کہاں قائم ہوئی؟ یا یہ کہ کتنے کافروں کو مارا ہے- کتنی غیر مسلم سلطنتوں کو شکست دی ہے- غرض وہ یا تو چاندی سونے کے یا مردوں کے ڈھیر دیکھنا چاہتے ہیں- دوسری غلطی یہ لگتی ہے کہ بے موقع نتائج تلاش کرتے ہیں- حالانہ کسی نبی کے متعلق اس قسم کا سوال ایسا باریک ہوتا ہے کہ اگر وہ اسے پہلے انبیاء پر چسپاں کریں تو انہیں معلوم ہو کہ اس سے باریک سوال اور کوئی نہیں ہو سکتا- جو انبیاء شریعت نہیں لائے ان کے متعلق تو خصوصاً یہ نہایت باریک سوال ہے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اگر کوئی یہ سوال کرتاکہ آپ نے کیا کیا؟ تو اس وقت پیش کیا جا سکتا تھا کہ آپ پر اتنی سورتیں اتری ہیں- اول تو یہ جواب بھی ایسے لوگوں کیلئے تسلی بخش نہیں ہو سکتا- کیونکہ ایک ہی وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل شریعت نہ اتری تھی- چند احکام اترے تھے اور جب تک مکمل شریعت نہ اتری تھی اس وقت تک اسلام کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا تھا- جس طرح آج سکھوں اور بہائیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تمہارے پاس تو مکمل شریعت نہیں ہے اس وقت جب کہ اسلام میں ورثہ کے متعلق مکمل احکام نہ اترے تھے اگر کوئی سوال کرتاکہ اسلام میں ورثہ کے متعلق کیا احکام ہیں؟ تو کوئی جواب نہ دیا جا سکتا تھا- پس شریعت بھی درحقیقت تکمیل کے بعد ہی پیش کی جا سکتی ہے- اور نبی کی زندگی میں صرف اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسے مسئلے بیان کئے ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ہیں- مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تعلیم کامل ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت تک وہ کامل نہیں ہوئی ہوتی- غرض شرعی نبی کے متعلق بھی یہ مشکل پیش آتی ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ احکام جو اس پر نازل ہوئے ہوں پیش کئے جا سکتے ہیں- لیکن جو شرعی نبی نہیں ان کے لئے کیا پیش کیا جا سکتا ہے؟ وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا کام کیا کہ آپ کا ماننا ضروری قرار دیا جائے- ان سے ہم کہتے ہیں کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تو مامور اور مرسل نہیں ہیں- آپ سے پہلے ہزاروں مامور گذر چکے ہیں جن کا ذکر قرآن میں اور دوسری کتابوں میں موجود ہے- دو درجن کے قریب انبیاء کا ذکر تو قرآن میں بھی آیا ہے- جن میں سے دو تین کو چھوڑ کر باقی ایسے ہی ہیں- جن پر کوئی شریعت نہ اتری- ہم کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق سوال جانے دو- یہ بتائو حضرت مسیح ناصریؑ کے زمانہ میں جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آیا ہوں اس وقت اگر لوگ ان سے یہ سوال کرتے کہ آپ نے کیا کام کیا ہے؟ تو وہ کیا جواب دیتے؟ یا ان کے حواریوں سے پوچھتے کہ حضرت مسیحؑ کا کام بتائو تو وہ کیا بتاتے؟ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہتے کہ حضرت مسیحؑ نے مردوں کو زندہ کیا- مگر میں کہتا ہوں یہ تو کام نہیں نشان اور معجزہ ہے اور ایسے نشان تو ہم حضرت مرزاصاحب کے بھی پیش کرتے ہیں- اگر نبی کے کام سے مراد یہ ہے کہ اس نے دنیا کے فائدہ اور دنیا کی ترقی کیلئے کیا کیا` عقائد اور اعمال کے لحاظ سے` سیاست اور تمدن کے لحاظ سے کونسا فائدہ پہنچایا تو حضرت مسیح ناصریؑ اس کا کیا جواب دیتے- پھر ان کے بعد حواری اس کے جواب میں کیا کہتے؟ ان کے جواب کو تو جانے دو` آج جب کہ حضرت مسیحؑ کو گزرے انیس سوسال ہو گئے ہیں آج جا کر عیسائیوں سے پوچھو کہ حضرت مسیحؑ نے کیا کام کیا؟ تو ان کا بڑے سے بڑا جواب یہی ہوگا یسوع مسیح نے دنیا میں محبت کی تعلیم قائم کی اور کہا-:
’’جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے‘‘- ۲~}~
یا یہ کہ خدا کی بادشاہت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا- مگر سوال یہ ہے کہ کیا حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں ان کے ماننے والوں کو بادشاہت مل گئی تھی؟ ان کو تو صرف وعدہ ہی دیا گیا تھا- اور اگر وعدہ سے تسلی ہو سکتی ہے تو ہم بھی ان لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق سوال کرتے ہیں کہتے ہیں- آپ نے فرمایا ہے- خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی زیادہ کا وعدہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں جماعت احمدیہ اس طرح پھیل جائے گی کہ باقی لوگ اتنے ہی تھوڑے رہ جائیں گے جتنے اس وقت خانہ بدوش لوگ ہیں- پس اگر وعدہ تسلی کا موجب ہو سکتا ہے تو اسے ہم بھی پیش کر سکتے ہیں- اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر پورا ہو جائے گا- دیکھو اگر حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کے بعد ان کے حواریوں سے لوگ پوچھتے` کہاں ہے وہ بادشاہت جس کا وعدہ دیا گیا ہے؟ اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے ثابت ہو جاتے؟ یا پھر حواریوں سے نہیں ان کے بعد آنے والوں سے لوگ پوچھتے- دکھائو وہ بادشاہت جس کا مسیحؑ نے وعدہ کیا ہے اور وہ نہ دکھا سکتے تو کیا حضرت مسیحؑ جھوٹے قرار پا جاتے- حضرت مسیحؑ کی امت میں تین سو سال کے بعد حکومت آئی- اگر مادی کامیابی کے لئے دعویٰ بھی دلیل ہو سکتا ہے- تو ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی- اور اسے دنیوی لحاظ سے بھی شان و شوکت حاصل ہوگی- لیکن اگر کہو کہ یہ دعویٰ ابھی پورا نہیں ہوا- اس لئے دلیل نہیں ہو سکتا تو ہم کہتے ہیں حضرت مسیح ناصریؑ کے وقت میں بھی بادشاہت قائم ہونے کا دعویٰ پورا نہیں ہوا تھا- پھر کیا وہ جھوٹے تھے؟ حواریوں کے وقت میں پورا نہیں ہوا تھا کیا اس وقت حضرت مسیحؑ جھوٹے تھے؟ حتیٰ کہ تین سو سال تک پورا نہ ہوا کیا اس وقت تک حضرت مسیح سچے نہ تھے؟ اگر باوجود اس کے سچے تھے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام کو کیوں سچا نہیں قرار دیا جاتا؟ جب کہ یہاں بھی ابھی حواریوں کا زمانہ ہی گذر رہا ہے-
پس حضرت مسیح ناصری کے متعلق ایسا ٹھوس جواب جیسا کہ آج کل لوگ حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق چاہتے ہیں- نہ ان کے وقت میں مل سکا- نہ حواریوں کے وقت- اور نہ تین سو سال کے عرصہ تک- لیکن اب یہی سوال دنیا کے سامنے پیش کرو- اور پھر دیکھو کیا جواب ملتا ہے- اگر آج سے ۱۹ سو سال پہلے حضرت مسیح کا یہ فقرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے تو یہ لوگ کہتے )نعوذ باللہ(یہ کس پاگل اور مجنون کا کلام ہے- مگر آج دنیا کے جتنے بڑے بڑے فلاسفر ہیں ان کے پاس جائو اور جا کر سوال کرو کہ حضرت مسیحؑ نے دنیا میں آکر کیا کام کیا تھا؟ تو وہ اس سوال کرنے والے کو پاگل قرار دیں گے اور کہیں گے- وہ مسیح جس نے ایک ہی فقرہ کہہ کر کہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی زندگی کو بدل دیا اس کے متعلق یہ پوچھنا کہ اس نے کیا کام کیا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اس فقرہ کا آج بھی عیسائیوں پر اتنا اثر ہے کہ باوجود بڑے بڑے ظلم کرنے کے ایک نقطہ رحم کا ان میں باقی رہتا ہے اور کم از کم اتنا تو ہے کہ جب کوئی ظلم کرتے ہیں تو بھی اعلان یہی کرتے ہیں کہ فلاں قوم کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہم یہ کام کر رہے ہیں- خواہ وہ کسی کی کھال ہی ادھیڑ رہے ہوں- مگر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ہم تمہارے فائدہ کے لئے ہی کر رہے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رحم کا احساس ان میں ایسا گھر کر گیا ہے کہ ظلم کرتے وقت بھی اس کا اظہار کرتے ہیں-
غرض آج سب لوگ مانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے ذریعہ ان کے ماننے والوں میں ایک بہت بڑا تغیر پیدا ہوا-
اسی طرح اگر یہ سوال بدھ کے متعلق کیا جاتا کہ انہوں نے کیا کیا؟ اور ان کے زمانہ کے لوگ یہ جواب دیتے کہ بدھ نے کہا ہے کہ اپنی ساری خواہشات کو مٹا ڈالو- تو سب لوگ اس بات کو سن کر ہنس دیتے- اور کہہ اٹھتے یہ بھی کوئی کام ہے اور کوئی عقلمند کس طرح یہ تعلیم دے سکتا ہے؟ مگر اس تعلیم نے ایک عرصہ کے بعد ایسا تغیر پیدا کیا کہ ہندوئوں کی عیاشیاں مٹا ڈالیں اور ان کو تباہی سے بچا لیا- جب حضرت بدھ پیدا ہوئے- اس وقت دام مارگیوں کا بڑا زور تھا- جن کا مذہب یہ ہے کہ ماں بہن سے زنا کرنا بڑا ثواب کا کام ہے یہ لوگ اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے بعض ان افعال کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسے عیب نہیں سمجھتے- ان میں سے بعض تارک الدنیا لوگ غلاظت بھی کھاتے ہیں ان کو ماتنگی یعنی ماں کوانگ بنانے والے بھی کہا جاتا ہے- اس وقت جب کہ ان لوگوں کا بڑا زور تھا- حضرت بدھ نے خواہشات کو مٹانے کی تعلیم دی- اس وقت تو اس تعلیم کی کوئی ایسی قدر نہ کی گئی- مگر کچھ عرصہ کے بعد اس تعلیم نے لوگوں کی حالت بدل دی- اور اب صرف چند لاکھ ہی ایسے لوگ ہندوستان میں پائے جاتے ہیں- حالانکہ حضرت بدھ کے وقت ہندوستان میں ان کو غلبہ حاصل تھا-
اسی طرح اگر یہ سوال حضرت کرشن پر ان کے زمانہ میں کیا جاتا کہ انہوں نے آکر کیا کیا- یا حضرت رامچندر کے متعلق کہا جاتا کہ انہوں نے کیا کیا- تو کیا جواب دیتے؟ یا حضرت اسمٰعیلؑ` حضرت اسحٰقؑ` حضرت زکریاؑ کے زمانہ کے متعلق کیا جائے تو مسلمان کیا جواب دیں- یا حضرت یوسفؑ کے متعلق پوچھا جائے کہ انہوں نے اپنے زمانہ میں کیا کیا؟ تو کیا بتائیں- کیا یہ کہ انہوں نے بادشاہ کے خزانوں کی دیانتداری سے حفاظت کی- مگر یہ کیا کام ہے- اس قسم کے دیانتدار تو کئیوڈ ۳~}~ یافاکس ۴~}~ نام کے انگریز بھی مل جائیں گے- اسی طرح یرمیاہ نبی کے متعلق اگر کوئی یہی سوال کرے تو کیا جواب دیا جائے گا- کیا یہ کہ وہ اپنے زمانہ میں روتے پیٹتے رہے کہ لوگ بیدار کیوں نہیں ہوتے- بعض انبیاء کے متعلق تو اس قسم کے جواب مل جائیں گے مگر بعض کے متعلق ایسے بھی نہ ملیں گے- مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کی تعلیموں نے دنیا میں تغیر نہیں پیدا کیا اور بڑے بڑے عظیمالشان نتائج نہیں نکلے- بات یہ ہے کہ نبی کی زندگی میں ان تغیرات کا جو آئندہ ہونے والے ہوتے ہیں صرف بیج نظر آنا ہے جس میں سے بعد میں عظیم الشان درخت پیدا ہو جاتا ہے- درخت ان کی زندگیوں میں نہیں دکھایا جا سکتا- جو کچھ دکھایا جا سکتا ہے وہ بیج ہوتا ہے اسے دکھا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سے درخت بن جائے گا-
غرض تمام انبیاء کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء نہایت باریک روحانی اثر دنیا میں چھوڑتے ہیں جو مادی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا- ہاں عقلی طور پر سمجھا جا سکتا ہے- کہ نبی نے ایسی چیز چھوڑی ہے جو عظیم الشان نتیجہ پیدا کر سکتی ہے-
دراصل انبیاء کی مثال اس بارش کی سی ہوتی ہے جو ایک عرصہ تک رکی رہنے کے بعد برستی ہے- بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پائوں پھوٹنے لگ جاتے ہیں` درخت سوکھنے شروع ہو جاتے ہیں- لیکن جب بارش ہوتی ہے تو خود بخود ہاتھوں میں نرمی آ جاتی ہے- سبزہ پیدا ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی کیفیات ظاہر ہونے لگ جاتی ہیں-
پس یہ سوال کہ فلاں نبی نے ابتدائی زمانہ میں کیا کیا- نہایت باریک ہوتا ہے اور مومن کا کام ہے کہ نہایت احتیاط سے اس پر غورکرے- اگر کوئی شخص ایک نبی کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ اس کی ابتدائی زندگی میں اسے کوئی مادی کام نظر نہیں آتا اور بہت بڑی کامیابی اور تغیر دکھائی نہیں دیتا تو اسے سب نبیوں کو چھوڑنا پڑے گا- کیونکہ اگر اس کا یہ معیار درست ہے تو پچھلے انبیاء کو بھی اس پر پرکھنا چاہئے اور ان کو بھی چھوڑ دینا چاہئے- مگر مسلمان چونکہ انبیاء کی صداقت کے قائل ہیں اس لئے انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انبیاء کے متعلق غور کرتے وقت نہایت باریک امور کو دیکھنا چاہئے-
اس تمہید کے بعد بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق قرآن اور حدیث میں جو کچھ کام بتایا گیا ہے وہ کوئی مسلمان لے لے اور جو انجیل میں بتایا گیا ہے وہ عیسائی لے لے- میں دعویٰ کرتا ہوں کہ جو کام ان کا بتایا جائے گا اس ایک ایک کام کے مقابلہ میں سو سو کام اس شان اور عظمت کا میں حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیش کر دوں گا- اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت مسیحؑ مردے زندہ کرتے تھے تو میں کہوں گا قرآن سے بتائو کہ وہ کیسے مردے زندہ کرتے تھے- پھر جیسے ثابت ہوں ویسے ایک کے مقابلہ میں سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ کئے ہوئے بتا دوں گا- مگر میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مردے زندہ کرنا کام نہیں- اسے اگر ہم ظاہری معنوں میں لیں تو وہ معجزہ کہلائے گا- اسی طرح بیماروں کو اچھا کرنا بھی کام نہیں ہے اور یہ تو طبیب بھی کرتے ہیں- ہاں معجزات کے نتائج کام کہلا سکتے ہیں- مثلاً یہ کہ ان معجزوں کے ذریعہ انہوں نے لوگوں میں پاکیزگی پیدا کی- مگر جو کوئی اس قسم کے یہ نشان بھی ثابت کرے- میں اس ایک کے مقابلہ میں سو سو انشائاللہ پیش کر دوں گا- ان کے علاوہ قرآن اور حدیث سے مسلمان یا انجیل سے عیسائی جو کام ثابت کریں ان کے مقابلہ میں سو سو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دکھادوںگا-
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام بیان کرنا شروع کرتا ہوں- لیکن یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کے جو روحانی کام ہوتے ہیں اور حقیقی کام وہی ہوتے ہیں اور وہی اہم ہوتے ہیں ان کے متعلق میں کچھ نہیں بیان کروں گا- کیونکہ میں اگر روحانی کام پیش کروں تو ایک غیراحمدی کہہ سکتا ہے کہ یہ آپ کا دعویٰ ہے اسے کس طرح مان لیا جائے- مثلاً نبی کا اصلی اور حقیقی کام یہ ہے کہ انسانوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دے- اب اگر میں یہ کہوں کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ماننے والوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیا تو ایک غیر احمدی کہے گا یہ آپ کا دعویٰ ہے- اسے حضرت مرزا صاحب کو نہ ماننے والا کس طرح تسلیم کر سکتا ہے- اس وجہ سے میں ایسی باتوں کو چھوڑتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے موٹے موٹے کام بیان کرتا ہوں جو دوسروں کیلئے بھی قابل تسلیم ہوں-
۱- پہلا کام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ جس میں تمام نبی شریک ہیں کہ نبی خدا تعالیٰ کا ثبوت اس کی کامل صفات سے دیا کرتا ہے خدا تعالیٰ دنیا سے مخفی ہوتا ہے اور انبیاء اس کا ثبوت اس کی کامل ژصفات سے دیتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت بھی خدا تعالیٰ دنیا کی نظروں سے مخفی ہو چکا تھا- اور ایسا مخفی ہو چکا تھا کہ حقیقی تعلق لوگوں کا اس سے بالکل نہ رہا تھا- خالق اور مالک کی حقیقت کا کوئی ثبوت نہ تھا بلکہ یہ صرف کتابوں میں لکھا رہ گیا تھا کہ خدا ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے- جب مسلمانوں سے پوچھا جاتا کہ خدا کے خالق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو وہ کہتے قرآن میں لکھا ہے` یا کہتے کیا تم نہیں مانتے کہ خدا خالق ہے- اور اگر وہ خالق نہیں تو پھر اور کون ہے؟ ایسے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے ذکر کو جو حقیقت میں مٹ گیا تھا اس کی کامل صفات کے ذریعہ قائم کیا اور نشانات کے ذریعہ اس کی صفات کو ثابت کیا- میں نے ابھی بتایا تھا کہ نشان اپنی ذات میں کام نہیں ہوتا` ہاں نشان کا نتیجہ کام ہوتا ہے- اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات پیش نہیں کر رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ حضرت مرزاصاحب نے نشان دکھا کر خدا تعالیٰ کو کامل صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا- مثلاً حضرت صاحب کا ایک الہام ہے جو ابتدائی زمانہ کا ہے کہ-:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا‘‘- ۵~}~
یہ الہام حضرت مرزا صاحب نے اس وقت شائع کیا جب کہ آپ کو یہاں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے- میرے زمانہ میں ہمارے ایک رشتہ دار نے جو قریب کے گائوں کے رہنے والے ہیں بیعت کی اور بتایا کہ میں یہاں آیا کرتا تھا- آپ کے گھر بھی آیا کرتا تھا لیکن حضرت مرزاصاحب کو نہ جانتا تھا- حضرت مرزا صاحب کے والد کو جانتا تھا- تو حضرت صاحب ایسے گمنام انسان تھے کہ رشتہ دار بھی آپ کو نہ جانتے تھے- قادیان کے لوگ آپ کے واقف نہ تھے- ایسے زمانہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے فرمایا-:
’’دنیا میں ایک نذیر آیا- پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا- لیکن خدا اسے قبول کرے گا- اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘-۶~}~
دیکھو اس میں کیسی عظیم الشان خبر دی گئی ہے- کیا کوئی انسان کسی انسانی تدبیر سے ایسی خبر دے سکتا ہے- یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماموریت سے پہلے ہوا- جس میں ایک تو یہ پیشگوئی تھی کہ آپ زندہ رہیں گے اور ماموریت کا دعویٰ کریں گے- دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ جب آپ دعویٰ کریں گے تو دنیا آپ کو رد کر دے گی- تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ دنیا کوئی معمولی مخالفت نہ کرے گی بلکہ آپ پر ہر قسم کے حملے کئے جائیں گے- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا کی طرف سے وہ حملے رد کئے جائیں گے اور دنیا پر عذاب نازل ہوں گے- پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ آپ کی صداقت آخر ظاہر ہو جائے گی-
یہ کوئی معمولی باتیں نہیں جو قبل از وقت اور اس وقت جب کہ ظاہری حالات بالکل خلاف تھے` بتلائی گئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحت شروع سے ہی اتنی کمزور تھی کہ بعض دفعہ بیماری کے حملوں کے وقت ارد گرد بیٹھنے والوں نے سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ کہتے ہیں وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماموریت کا دعویٰ کیا جائے گا- دوسرے یہ کہ لوگ مخالفت کریں گے- یہ بات بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی- گوجرانوالہ کے ضلع کا ایک شخص جس نے ماموریت کا دعویٰ کیا اس کے کئی خط میرے پاس آتے رہے کہ آپ اگر مجھے سچا نہیں سمجھتے تو میرے خلاف کیوں نہیں لکھتے- اور ’’الفضل‘‘ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بھی کچھ نہیں لکھتا- موافق نہیں تو خلاف ہی لکھے- میں نے دل میں سوچا کہ مخالفت بھی خدا ہی کی طرف سے کرائی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی اشاعت کا ذریعہ ہوتی ہے- ایسا ہی چکڑالویوں کے رسالہ پر کئی دفعہ اس کے ایڈیٹر کی طرف سے لکھا ہوا ملا کہ میرا جواب کیوں نہیں دیا جاتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد پانچ سات مدعی کھڑے ہوئے مثلاً ظہیرالدین` عبداللطیف` مولوی محمد یار` عبداللہ تیماپوری` نبی بخش- یہ تو اشتہاری نبی ہیں ان کے علاوہ چھوٹے موٹے اور بھی ہیں مگر ان کی مخالفت بھی نہیں ہوئی اور ان کو یہ بات بھی میسر نہ آئی- ان مدعیوں نے کھڑے ہو کر دکھا دیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مرزا صاحب کی لوگوں نے مخالفت کی اس لئے وہ سچے نہیں وہ غلطی پر ہیں- جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو تو مخالفت بھی نصیب نہیں ہوتی-
پھر مخالفتیں زبانی حد تک بھی محدود رہتی ہیں- مگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق خداتعالیٰ نے تیسری پیشگوئی یہ فرمائی کہ معمولی مخالفت نہ ہوگی- بلکہ ایسی ہوگی جس کو رد کرنے کیلئے خداتعالیٰ زور آور حملے کرے گا- یعنی ایک تو سخت حملے ہوں گے دوسرے کئی اقسام کے ہوں گے اور کئی جماعتوں کی طرف سے ہونگے- اس سے معلوم ہوا کہ دشمن بھی سخت حملے کریں گے اور کئی اقسام کے حملے کریں گے- جن کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کو بھی اس قسم کا جواب دینا پڑے گا- چنانچہ مخالفین نے آپ پر قسم قسم کے حملے کئے اور یہ حملے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک طرف گورنمنٹ آپ کو گرفتار کرنے کیلئے تلی بیٹھی تھی دوسری طرف پیر گدی` نشین اور مولوی آپ کی مخالفت پر آمادہ اور آپ کی جان کے درپے تھے- عام مسلمانوں نے بھی کوئی کمی نہ کی اور آپ کے خلاف منصوبوں پر منصوبے کئے- ہندوئوں` سکھوں اور عیسائیوں اور باقی سب قوموں نے بھی ناخنوں تک زور لگایا کہ آپ کو تباہ کر دیں` آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں` آپ پر اتہام لگائے گئے` آپ کی عزت و آبرو` آپ کی دیانت اور امانت` آپ کے تقویٰ و طہارت پر حملے کئے گئے مگر سب ناکام رہے اور آپ کی عزت بڑھتی گئی- چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ ان حملوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے حملے ہونگے چنانچہ ایسا ہی ہوا- جس نے جس رنگ میں آپ پر حملہ کیا تھا اسی رنگ میں وہ پکڑا گیا- پانچویں پیشگوئی جو آخری بات تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی صداقت ظاہر کر دے گا- اس کے ثبوت میں یہ جلسہ موجود ہے اس وقت تمام دنیا میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں- امریکہ میں موجود ہیں- یورپ میں موجود ہیں- افریقہ میں موجود ہیں- ایشیاء کے ہر علاقہ میں موجود ہیں- کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا کے چالیس کروڑ مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اتنے امریکہ کے باشندے مسلمان نہیں ہوئے جتنے احمدیوں کی قلیل ترین جماعت کی کوششوں سے ہوئے ہیں- اس وقت ایک ایسے امریکن مسلمان کے مقابلہ میں سو احمدی امریکن ہیں- اسی طرح ہالینڈ میں جہاں دوسرے مسلمانوں کا بنایا ہوا ایک بھی مسلمان نہیں` احمدی مسلمان موجود ہیں- اور کئی ایسے ممالک ہیں جہاں احمدی باشندوں کی تعداد اس ملک کے مسلمانوں سے زیادہ ہے یہ کتنا بڑا نشان ہے- اور زور آور حملوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ظاہر ہونے کا کتنا بڑا ثبوت ہے-
ہندوستان میں ہی دیکھ لو- دوسروں کے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کی کیسی کمزور حالت ہے مگر کتنی ترقی کر رہی ہے- کسی نے کہا ہے سوامی دیانند اور حسن بن صباح کے ماننے والوں نے بھی ترقی کی تھی- انہوں نے ترقی کی ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ کیا کمزوری کی حالت میں انہوں نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایسی ترقی ہوگی اور اس ترقی کے دعویٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع بھی کیا تھا- اتفاقی طور پر ترقی ہو جانا اور بات ہے اور دعویٰ کے بعد ترقی ہونا اور بات ہے- لارڈریڈنگ۷~}~ جو وائسرائے ہند رہ چکے ہیں` پہلے مزدور تھے جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے- مگر یہ اتفاقی باتیں ہوتی ہیں- صداقت کی علامت وہ ترقی ہوتی ہے جس کا پہلے سے دعویٰ کیا جائے اور پھر وہ دعویٰ پورا ہو جائے-
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے اور یہ یہ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے-:
’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘- ۸~}~
اب دیکھ لو کہ دنیا میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں اصل باشندوں میں سے دوسرے فرقوں کے مسلمان نہیں مگر احمدی ہیں- اس سے بڑھ کر دنیا کے کناروں تک آپ کی تبلیغ کے پہنچنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے-
اسی طرح آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میری مخالفت مٹتی جائے گی اور قبولیت پھیلتی جائے گی- جب آپ نے اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا تو خطرناک طور پر آپ کی مخالفت ہوئی مگر اس وقت آپ نے فرمایا- ~}~
وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے
اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن
اس وقت سوائے دجال کے آپ کا کوئی نام نہ رکھا جاتا تھا- لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا کام اتنا تو نمایاں ہو چکا ہے کہ جو لوگ ابھی آپ کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے ان کا بھی بہت بڑا حصہ کہتا ہے کہ آپ کو دجال نہیں کہنا چاہئے آپ نے بھی اچھا کام کیا ہے-
اسی طرح قادیان کی ترقی بھی بہت بڑا نشان ہے آخری جلسہ میں جو حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہوا` اس میں سات سو آدمی کھانا کھانے والے تھے- اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے نکلے تو اس لئے واپس چلے گئے کہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے گرد اڑتی ہے- اب دیکھو اگر سات ہزار بھی جلسہ پر آئیں تو شور پڑ جائے کہ کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے تھوڑے لوگ آئے ہیں- ہر سال آنے والوں میں زیادتی ہوتی ہے- پچھلے سال کی ستائیں تاریخ کی حاضری کی نسبت اس سال کی حاضری میں نو سو کی زیادتی ہے- گویا جتنے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ پر آئے تھے اس سے بہت زیادہ آدمیوں کی زیادتی ہر سال کے جلسہ کی حاضری میں ہو جاتی ہے-
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزاروں پیشگوئیاں ہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں-
میں جلسہ کے موقع پر ہی ایک کتاب دیکھ رہا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ’’سراج منیر‘‘ ایک کتاب ہم شائع کریں گے مگر اس کی اشاعت میں تعویق ہوگئی ہے کیونکہ اس کے لئے سو روپیہ کی ضرورت ہے- گویا وہ کتاب جو ایک سو روپیہ کیلئے اس وقت رکی رہی- مگر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بلکہ آپ کے خلیفہ نے کہا تو دو لاکھ بیاسی ہزار کے وعدے ہو گئے*-
غرض خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اس طرح اپنی صفات کے ثبوت دیئے ہیں جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں کے ذریعہ سے دیتا چلا آیا ہے- میں نے اپنی کتاب ’’احمدیت‘‘ میں کسی قدر تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوا ہے- مگر اس کتاب میں بھی پوری تفصیل سے نہیں لکھ سکا- اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو کسی وقت خدا تعالیٰ کی ساری صفات کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہوئیں` ایک کتاب لکھوں گا اور بتائوں گا کہ آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی تمام صفات ثابت ہوئی ہیں اور یہی نبی کا کام ہوتا ہے-
حضرت مسیح موعودؑ کا دوسرا کام
نبی کا ایک کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کام کرنے والی جماعت پیدا کر جاتا ہے- ہماری جماعت کی کمزوری مالیلحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دیکھو اور پھر اس کے مقابلہ میں اس کے کاموں کی وسعت کو دیکھو- کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو کام جماعت احمدیہ کر رہی ہے وہ کوئی اور قوم نہیں کر رہی- غیر احمدی اخباروں میں چھپتا رہتا ہے کہ کام کرنے والی ایک ہی جماعت ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے- روس` فرانس` ہالینڈ` آسٹریلیا` امریکہ` انگلینڈ وغیرہ ممالک میں
۔
* حضور کا یہ اشارہ ریزروفنڈ کے متعلق تھا جس کی تحریک پر احباب نے جو وعدے لکھائے ان کی مجموعی رقم دو لاکھ بیاسی ہزار ہو گئی تھی-
ہماری طرف سے اسلام کی تبلیغ ہوئی- اور اب تو لوگ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے میں آکر تبلیغ کرو چنانچہ ایران سے مطالبہ آیا ہے کہ بہائیوں کے مقابلہ کیلئے احمدیوں کو آنا چاہئے- بعض لوگ آریوں کا کام مقابلہ میں پیش کرتے ہیں مگر ان لوگوں کے مالوں اور ہمارے مالوں کو دیکھو- پھر ان کے کاموں کی وسعت اور ہمارے کاموں کی وسعت کو دیکھو- ہندوئوں میں سے بعض ایسے مالدار ہیں کہ وہ اکیلے اتنا روپیہ دے سکتے ہیں جتنا ہماری ساری جماعت مل کر سارے سال میں نہیں دے سکتی- اور ایک دو نہیں بلکہ خاصی تعداد میں ایسے لوگ ان میں موجود ہیں- مگر باوجود اس کے ساری ہندو قوم نے مل کر علاقہ ملکانا میں حملہ کیا- مگر جب ہمارے مبلغ پہنچے تو سب بھاگ گئے اس وقت دہلی میں ہندو مسلمانوں کی ایک کانفرس ہوئی جس میں یہ سوال پیش ہوا کہ آئو صلح کر لیں- اس کانفرنس کو منعقد کرنے والے حکیم اجمل خان صاحب` ڈاکٹر انصاری` مولوی محمد علی صاحب اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد تھے اور ہندوئوں کی طرف سے شردھانند صاحب وغیرہ- جیسا کہ علماء کا ہمارے متعلق طریق عمل رہا ہے انہوں نے کہا کہ احمدیوں کو بلانے کی کیا ضرورت ہے اور وہ خود صلح کی شرائط طے کرنے لگے- لیکن شردھانندجی نے کہا کہ احمدی بھی اس علاقہ میں کام کر رہے ہیں` ان کو بلانا چاہئے- اس پر میرے نام حکیم اجمل خان صاحب` ڈاکٹر انصاری اور مولوی ابوالکلام صاحب کا تار آیا کہ اپنے قائم مقام بھیجئے- میں نے یہاں کے آدمیوں کو بھیجا- اور انہیں بتا دیا کہ ملکانوں کے متعلق سوال اٹھے گا اور کہا جائے گا کہ ہندو مسلمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں مگر ہندوئوں نے بیس ہزار ملکانوں کو مرتد کر لیا ہے اس لئے جب یہ سوال پیش ہو تو آپ کہیں کہ ہمیں ۲۰ ہزار مرتدوں کو کلمہ پڑھا لینے دیجئے` تب اس شرط پر صلح ہوگی اور ہم وہاں سے واپس آ جائیں گے- ورنہ جب تک ایک ملکانا بھی مرتد رہے گا ہم وہاں سے نہیں ہٹیں گے- چنانچہ جب ہمارے آدمی کانفرنس میں پہنچے تو یہی سوال پیش ہوا- اور انہوں نے یہی بات کہی جو میں نے بتائی تھی- اس پر مولویوں نے کہا احمدیوں کی ہستی ہی کیا ہے ان کو چھوڑ دیجئے اور ہم سے صلح کیجئے- شردھانندجی نے اس وقت ان سب کے سامنے کہا آپ کے اگر پچاس آدمی بھی وہاں ہوں تو ہمیں ان کی پرواہ نہیں- لیکن جب تک ایک بھی احمدی وہاں ہوگا صلح نہیں ہو سکتی- احمدیوں کو پہلے اس علاقہ سے نکالو اور پھر صلح کے لئے آگے بڑھو-
غرض جماعت احمدیہ کے کام کی اہمیت کا ان لوگوں کو بھی اقرار ہے جو جماعت میں داخل نہیں ہیں- بلکہ جو اسلام کے دشمن ہیں وہ بھی اقرار کرتے ہیں- ابھی کلکتہ میں ڈاکٹر زویمر کے لیکچر ہوئے- یہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں میں سے سب سے زیادہ اسلام کے متعلق واقفیت رکھنے کے مدعی ہیں- مصر میں ایک رسالہ ’’مسلم ورلڈ‘‘ نکالتے ہیں- پچھلی دفعہ جب آئے تو قادیان بھی آئے تھے اور یہاں سے جا کر انہوں نے بعض دوسرے شہروں میں اشتہار دیا تھا کہ وہ ڈاکٹرزویمر جو قادیان سے بھی ہو آیا ہے ان کا لیکچر ہوگا- کچھ عرصہ ہوا وہ کلکتہ گئے اور وہاں انہوں نے لیکچر دیا- مولوی عبدالقادر صاحب ایم اے پروفیسر جو میری ایک بیوی کے بھائی ہیں` انہوں نے کچھ سوال کرنے چاہے- اس پر دریافت کیا گیا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ انہوں نے کہا- ہاں- اس پر کہہ دیا گیا ہم احمدیوں سے مباحثہ نہیں کرتے- مصر میں انہی صاحب کی کوشش سے کئی آدمی مسیحی بنا لئے گئے ہیں- اتفاقاً ایک شخص عبدالرحمن صاحب مصری کو جو ان دنوں مصر میں تھے مل گیا- انہوں نے اسے احمدی نقطہ نگاہ سے دلائل سمجھائے- وہ پادری زویمر کے پاس گیا اور جا کر گفتگو کی- اور کہا حضرت مسیح زندہ نہیں بلکہ قرآن کریم کے رو سے فوت ہو گئے- اس پادری نے کہا کہ کسی احمدی سے تو تم نہیں ملے؟ اس مصری نے کہا- ہاں ملا ہوں- یہ جواب سن کر وہ گھبرا گئے اور آئندہ بات کرنے سے صاف انکار کر دیا- غرض خدا کے فضل سے ہماری جماعت کو مذہبی دنیا میں ایسی اہمیت حاصل ہو رہی ہے کہ دنیا حیران ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہے- اور آپ کے اس کام کا کوئی انکار نہیں کر سکتا-
یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں یہ بھی چونکہ ایمانیات سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے میں اور نیچے اترتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علمی کام بیان کرتا ہوں-
حضرت مسیح موعودؑ کا تیسرا کام
تیسرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق لوگوں کے خیالات میں جو فساد پڑ گیا تھا` اس کی آپ نے اصلاح کی ہے- مذہب میں سب سے بڑی ہستی خدا تعالیٰ کی ہستی ہے- مگر اس کی ذات کے متعلق مسلمانوں میں اور دوسرے مذہبوں میں اتنا اندھیر مچا ہوا تھا اور ایسی خلاف عقل باتیں بیان کی جاتی تھیں کہ ان کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو توجہ ہی نہیں ہو سکتی تھی- اس خرابی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دور کیا-
خدا تعالیٰ کے متعلق یہ غلط خیالات پھیلے ہوئے تھے- )۱(شرک جلی اور خفی میں لوگ مبتلا تھے )۲(بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر خدا ہے تو وہ علت العلل ہے- وہ اس کی قوت ارادی کے منکر تھے اور سمجھتے تھے کہ جس طرح مشین چلتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ سے دنیا کے کام ظاہر ہو رہے ہیں- ہزاروں علتوں میں سے وہ ایک علت ہے گو آخری اور سب سے بڑی- مگر بہرحال ایک اضطرار کے رنگ میں اس کے سب افعال صادر ہوتے ہیں- مسلمان کہلانے والوں میں سے بھی فلسفہ کے دلدادے اس خیال سے متاثر ہو چکے تھے )۳(بعض لوگ خیال کر رہے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے اور قدیم ہے- خدا تعالیٰ کا جوڑنے جاڑنے سے زیادہ دنیا سے کوئی تعلق نہیں- بعض مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلا تھے )۴(بعض لوگ خدا تعالیٰ کے رحم کا انکار کرنے لگ گئے تھے اور یہ کہتے تھے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں پائی جاتی- کیونکہ وہ عدل کے خلاف ہے )۵(بعض لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایسا ناقص اندازہ کرنے لگ گئے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کو چند ہزار سال میں محدود کر دیا تھا اور خیال کرتے تھے کہ بس خدا تعالیٰ کی صفات انہی چند ہزار سال میں ظاہر ہوئی ہیں اور اگر اس دور کو لمبا بھی کرتے تھے تو اتنا کہ گو اس دنیا کی عمر لاکھوں سال کی مانتے تھے مگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور اسی دور کے ساتھ محدود کرتیتھے-
)۶(بعض لوگ خدا کی قدرت کو غلط طریق سے ثابت کرتے ہوئے یہ کہتے کہ خدا جھوٹ بھی بول سکتا ہے` چوری بھی کر سکتا ہے- اگر نہیں کر سکتا تو معلوم ہوا کہ اس میں قدرت نہیںہے-
)۷(بعض لوگ خدا تعالیٰ کو قانون قضائو قدر جاری کرنے کے بعد بالکل بیکار سمجھتے اور اس وجہ سے کہتے تھے کہ دعا کرنا فضول ہے- جب خدا کا قانون جاری ہو گیا کہ فلاں بات اس طرح ہو تو دعا کرنا بے فائدہ ہے- دعا سے اس قانون میں روکاوٹ نہیں پیدا ہو سکتی-
)۸( خدا تعالیٰ کی صفات کے اجراء کا مسئلہ بالکل لاینحل سمجھا جانے لگا تھا لوگ خداتعالیٰ کی سب صفات کے ایک ہی وقت میں جاری ہونے کا علم نہ رکھتے تھے اور سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ خداتعالیٰ جو شدید العقاب ہے وہ اس صفت کو رکھتے ہوئے ایک ہی وقت میں وھاب کس طرح ہو سکتا ہے وہ حیران تھے کہ کیا ایک انسان کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑا سخی ہے اور بڑا بخیل بھی ہے- اگر نہیں تو خدا کے لئے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں قھار بھی ہے اور رحیم بھی- چونکہ قرآن میں خدا تعالیٰ کی ایسی صفات آئی ہیں جو بظاہر آپس میں مخالفت رکھتی ہیں اس لئے وہ لوگ حیران تھے-
)۹(بعض لوگ اس خیال میں پڑے ہوئے تھے کہ ہر چیز خدا ہی خدا ہے اور بعض اس وہم میں پڑے ہوئے تھے کہ ایک تخت ہے` خدا تعالیٰ اس پر بیٹھا ہوا حکم کرتا ہے-
)۱۰(خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہی نہیں رہی تھی- حتی کہ جب کوئی مکان یا گھر ویران ہو جاتا تو کہتے کہ اب تو اس میں اللہ ہی اللہ ہے- یا کسی کے پاس کچھ نہ رہتا تو کہا جاتا کہ اب تو اس کے پاس اللہ ہی اللہ ہے جس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ بھی ایک خلو ہی کا نام ہے- خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے ملنے کی تڑپ بالکل مٹ گئی تھی- جنوں اور بھوتوں کی ملاقات` عمل حب اور عمل بغض کی خواہش تو لوگوں میں تھی- لیکن اگر نہ تھی تو خدا تعالیٰ کی ملاقات کی خواہش نہ تھی-
ان اختلافات کے طوفان کے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ان سب غلطیوں سے مذہب کو پاک کر دیا- سب سے پہلے میں شرک کو لیتا ہوں- آپ نے شرک کو پورے طور پر رد کیا اور توحید کو اپنے پورے جلال کے ساتھ ظاہر کیا- آپ سے پہلے مسلمان علماء تین قسم کا شرک مانتے تھے- )۱(بتوں` فرشتوں اور معین چیزوں کی عبادت کرنا- مگر باوجود اس کے عوام تو الگ رہے علماء تک قبروں پر سجدے کرتے تھے لکھنئو میں ایک بڑے مولوی کو میں نے قبر پر سجدہ کرتے بچشم خود دیکھا ہے-
)۲(علماء تسلیم کرتے تھے کہ کسی میں خدائی صفات تسلیم کرنا بھی شرک ہے مگر یہ صرف منہ سے کہتے تھے بڑے سے بڑے توحید پرست وہابی بھی حضرت مسیحؑ کو ایسی صفات دیتے تھے جو خدا سے ہی تعلق رکھتی ہیں- مثلاً یہ کہتے کہ وہ آسمان پر کئی سو سال سے بیٹھے ہیں- نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ ان پر کوئی تغیر آتا ہے- اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بعض انسانوں نے مردے زندہ کئے تھے اور مسیح نے تو علاوہ مردے زندہ کرنے کے پرندے بھی پیدا کئے تھے-
)۳( بڑے بڑے عالم اور دین کے ماہر یہ مانا کرتے تھے کہ چیزوں پر اتکال کرنا یعنی یہ سمجھنا کہ کوئی چیز اپنی ذات میں فائدہ پہنچا سکتی ہے یہ بھی شرک ہے- مثلاً اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلاں دوائی بخار اتار دے گی تو وہ شرک کرتا ہے- اصل میں یوں سمجھنا چاہئے کہ فلاں دوائی خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے اثر سے فائدہ دے گی- کیونکہ جب تک ہر چیز میں خدا کا ہی جلوہ نظر نہ آئے اس وقت تک اس سے فائدہ کی امید رکھنا شرک ہے-
یہ شرک کی بہت عمدہ تعریف ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے بھی اوپر تعریف بیان کی ہے جس کی نظیر پچھلے تیرہ سو سال میں نہیں ملتی- آپ نے توحید کے متعلق مختلف کتابوں میں مضامین لکھے ہیں- ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جو باتیں لوگوں نے بیان کی ہیں ان کے اوپر اور ان سے بالا ایک اور درجہ کامل توحید کا ہے- آخری درجہ پچھلے علماء نے توحید کا یہ بیان کیا تھا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ کام کرتا ہوا نظر آئے- گو یہ صحیح ہے مگر ہے تو آخر اپنا خیال ہی- کیونکہ جو شخص اپنے ذہن میں یہ خیال جماتا ہے کہ سب کچھ تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے وہ اس توحید کو خود پیدا کر رہا ہے اور اپنی پیدا کی ہوئی توحید کامل توحید نہیں کہلا سکتی- توحید وہی کامل ہوگی کہ جو خداتعالیٰ کی طرف جلوہ گر ہو- اور جس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ خود ماسویٰ کو مٹا ڈالے اور یہی توحید اصلی توحید ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور قرآن کریم نے اور تمام انبیاء نے پیش کیا ہے یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب ہو جائے کہ اسے اس امر کی ضرورت نہ رہے کہ وہ سوچے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے بلکہ خدا تعالیٰ اپنے ایک ہونے کو خود اس کے لئے ظاہر کر دے- اور ہر چیز میں خدا تعالیٰ اس کے لئے اپنا ہاتھ دکھائے- اور ہر چیز اس کے لئے بطور شفاف شیشہ کے ہو جائے کہ جس طرح وہ اپنے آپ کو بیچ میں سے غائب کر دیتا ہے اور اس کے پرے ہر چیز نظر آنے لگتی ہے- اسی طرح تمام دنیا کی اشیاء ایسے انسان کے لئے بہ منزلہ آئینہ ہو جائیں- اور وہ اپنے خیال سے ان میں اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو خاص طور پر ظاہر کر کے ہر چیز میں سے اسے نظر آنے لگے-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں- خالی عقیدہ رکھنا کہ ہر چیز میں خدا کا ہاتھ ہے یہ اعلیٰ توحید نہیں- بلکہ کمال توحید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز میں سے اپنا ہاتھ دکھائے- جب ایسا ہو تب خدا تعالیٰ واقعہ میں ہر چیز میں نظر آتا ہے` محض ہمارا خیال نہیں ہوتا-
یہ ایسی توحید ہے جو عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انسان کے تمام اعمال پر حاوی ہے ایک مسلمان کی اخلاقی` تمدنی` سیاسی` معاشرتی غرضیکہ ہر قسم کی زندگی پر حاوی ہے- جب انسان کھانا کھائے تو خدااس کھانے میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہو اور کھانے کی تمام ضرورتوں اور اس کی حدود کو اس پر ظاہر کر رہا ہو اور اپنا جلال دکھا رہا ہو` جب پانی پئے تو بھی اسی طرح ہو` جب دوستوں سے ملے تب بھی ایسا ہی ہو- غرض ہر ایک کام جو وہ کرے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہو اور اس میں اپنی قدرت اس کے لئے ظاہر کر رہا ہو-
یہ کامل توحید کا درجہ ہے جب کسی کو یہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد کسی قسم کا شبہ باقی نہیں رہتا- اور اسی توحید پر ایمان لانا مدار نجات ہے- اور اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہالذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلقالسموت والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور پہلوئوں پر بھی اور زمین اور آسمانوں کی پیدائش کے متعلق فکر کرتے ہیں` خدا ان کے سامنے آ جاتا ہے- اور وہ بے اختیار ہو کر پکار اٹھتے ہیں کہربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذابالنار اے ہمارے رب! یہ چیزیں جو تو نے بنائی تھیں لغو نہ تھیں- ان کے ذریعہ ہم تجھ تک آ گئے ہیں- تو پاک ہے اب ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے- یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم اس مقام سے ہٹ جائیں اور ہجر کی آگ ہمیں بھسم کر دے-
اب پیشتر اس کے کہ میں ان دوسری غلط فہمیوں کے ازالہ کا ذکر کروں جو خدا تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں` میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سب غلطیوں کے دور کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اصل پیش کیا ہے جو ان سب غلطیوں کا ازالہ کر دیتا ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰلیس کمثلہ شیء ۹~}~ہے- پس اس کے متعلق کوئی بات ہم مخلوق پر قیاس کرکے نہیں کہہ سکتے- اس کے متعلق ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ خود اسی کی صفات پر مبنی ہونا چاہئے ورنہ ہم غلطی میں مبتلا ہو جائیں گے- ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جو عقیدہ ہم خدا تعالیٰ کی نسبت رکھتے ہیں وہ اس کی دوسری صفات کے جنہیں ہم تسلیم کرتے ہیں مطابق ہے یا نہیں- اگر نہیں تو یقیناً ہم غلطی پر ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات متضاد نہیں ہو سکتیں-
اس اصل کے بتانے سے آپ نے ایک طرف تو ان غلطیوں کا ازالہ کر دیا جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف غیر مذاہب کی غلطیوں کی بھی حقیقت کھول دی ہے-
میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق لوگوں میں کئی قسم کی غلطیاں پڑی ہوئی تھیں جن میں سے توحید کے متعلق جو اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے کی ہے اسے میں اوپر بیان کر آیا ہوں- جو دوسری غلطیاں ہیں ان سب کی اصلاح حضرت مسیح موعودؑ نے اوپر کے بیان کئے ہوئے اصل کے ماتحت کی ہے-
چنانچہ دوسری غلطی اللہ تعالیٰ کے متعلق مختلف مذاہب کے پیرئوں میں یہ پیدا ہو رہی تھی کہ وہ اسے علت العلل قرار دیتے تھے- یعنی اس کی قوت ارادی کے منکر تھے- اس غلطی کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہتعالیٰ کی صفت حکیم اور قدیر سے کیا ہے- تمام مذاہب خدا تعالیٰ کے حکیم اور قدیر ہونے کے قائل ہیں- اور یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ حکیم اور قدیر ہے تو علتالعلل نہیں ہو سکتا بلکہ بالارادہ خالق ہے- کسی مشین کو کوئی عقلمند کبھی حکیم نہ کہے گا- پس اگر خدا حکیم ہے تو علت العلل نہیں ہو سکتا- کوئی درزی یہ نہیں کہے گا کہ میری سنگر کی مشین بڑی لائق ہے یا بڑی حکیم ہے- حکمت والا اس چیز کو کہا جاتا ہے جو ارادہ کے ماتحت کام کرتی ہے- پھر خدا تعالیٰ قادر ہے- اور عربی میں قادر کے معنی اندازہ کرنے والے کے ہیں- یعنی جو ہر اک کام کا اندازہ کرتا ہو اور دیکھتا ہو کہ کس چیز کے مناسب حال کیا طاقتیں یا کیا سامان ہیں- مثلاً یہ فیصلہ کرے کہ گرمی کے لئے کیا قوانین ہوں اور سردی کے لئے کیا- کس کس حیوان کی کس کس قدر عمر ہو- اور یہ اندازہ کوئی بلاارادہ ہستی نہیں کر سکتی- پس خداتعالیٰ کی قدیر اور حکیم صفات اس کے ارادہ کو ثابت کر رہی ہیں اور اسے قدیر اور حکیم مانتے ہوئے علتالعلل نہیں کہا جا سکتا-
)۳(تیسری قسم کے وہ لوگ تھے جو یہ کہتے تھے کہ دنیا آپ ہی آپ بنی ہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں- یعنی خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں ہے- اس کا جواب آپ نے خدا کی صفتمالکیت اور رحیمیت سے دیا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی دو بڑی صفات مالکیت اور رحیمیت ہیں- اب اگر خدا نے دنیا کو پیدا نہیں کیا تو پھر اس پر تصرف جمانے کا بھی اسے کوئی حق نہیں ہے- یہ حق اسے کہاں سے حاصل ہو گیا؟ پس جب تک خدا تعالیٰ کو دنیا کا خالق نہ مانو گے دنیا کا مالک بھی نہیں مان سکتے-
دوسری صفت خدا تعالیٰ کی رحیمیت ہے- رحیم کے معنی ہیں وہ ہستی جو انسان کے کام کا بہتر سے بہتر بدلہ دے- اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا کسی چیز کا خالق نہیں تو وہ بدلے اس کے پاس کہاں سے آئیں گے- جو لوگوں کو اپنی اس صفت کے ماتحت دے گا- ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ-‘‘ کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے دادا کی فاتحہ دلانی تھی- وہ کچھ خرچ کرنا نہیں چاہتا تھا اور مولوی بغیر امید کے فاتحہ پڑھنے کو تیار نہ تھے- آخر اس نے یہ تدبیر کی کہ مولویوں کو لے کر ایک حلوائی کی دکان پر پہنچا اور ان سے کہا- فاتحہ پڑھو- انہوں نے سمجھا کہ اس کے بعد مٹھائی تقسیم ہو گی- مگر جب وہ فاتحہ پڑھ چکے- تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل دیا- یہی حالت ان لوگوں کے نزدیک خدا کی ہے- اگر خدا کسی چیز کا خالق ہی نہیں ہے تو بدلے کہاں سے آئیں گے؟ اور وہ کہاں سے دے گا خواہ آریہ محدود ہی بدلہ مانیں لیکن بدلہ مانتے تو ہیں اور بدلہ خدا تعالیٰ نہیں دے سکتا ہے جب کہ وہ خالق ہی نہ ہو- جو خود کنگال ہو اس نے بدلہ کیا دینا ہے-
)۴(چوتھی قسم کے لوگ وہ تھے جو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ہی منکر تھے ان لوگوں کو حضرت مسیح موعودؑ نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور مالکیت سے جواب دیا- مثلاً مسیحیوں کے مذہب کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے اس لئے وہ کسی کا گناہ معاف نہیں کر سکتا- پس اسے دنیا کے گناہ معاف کرنے کے لئے ایک کفارہ کی ضرورت پیش آئی تا اس کا رحم بھی قائم رہے اور عدل بھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بے شک خدا عادل ہے- مگر عدل اس کی صفت نہیں- عدل صفت اس کی ہوتی ہے جو مالک نہ ہو- مالک کی صفت رحم ہوتی ہے- ہاں جب مالک کا رحم کام کے برابر ظاہر ہو تو اسے بھی عدل کہہ سکتے ہیں- پس چونکہ خدا تعالیٰ مالک اور رحمن بھی ہے اس لئے اس کا دوسری چیزوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا- دیکھو خدا تعالیٰ نے انسان کو کان` ناک` آنکھیں بغیر اس کے کسی عمل کے دی ہیں- کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے- پس اگر خدا بغیر انسان کے کسی استحقاق کے یہ چیزیں اسے دے سکتا ہے تو پھر وہ انسان کے گناہ کیوں معاف نہیں کر سکتا- اسی طرح وہ مالک ہے اور بہ حیثیت مالک ہونے کے معاف کرنے سے اس کے عدل پر حرف نہیں آتا- ایک جج بے شک عام حالات میں مجرم کا جرم معاف نہیں کر سکتا- کیونکہ اسے فیصلہ کا حق پبلک کی طرف سے ملتا ہے اور دوسروں کے حق معاف کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہوتا- لیکن خدا تعالیٰ اگر معاف کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اسے فیصلہ کا حق دوسروں کی طرف سے نہیں ملا بلکہ اسے یہ حق ملکیت اور خالقیت کی وجہ سے اپنی ذات میں حاصل ہے- پس اس کا عفو عدل کے خلاف نہیں-
)۵(پانچویں قسم کے وہ لوگ تھے جو خدا کی صفت خالقیت کو ایک زمانہ تک محدود کرتے تھے- ان کو آپ نے خدا تعالیٰ کی صفت قیوم سے جواب دیا- فرمایا خدا تعالیٰ کی صفات چاہتی ہیں کہ ان میں تعطل نہ ہو بلکہ وہ ہمیشہ جاری رہیں- قیوم کے معنی ہیں قائم رکھنے والا- اور یہ صفت تمام صفات پر حاوی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہو سکتا- آپ نے جو اصل پیش کیا اور جو تھیوری بیان کی ہے وہ باقی دنیا سے مختلف ہے- بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فلاں وقت سے دنیا کو پیدا کیا- گویا اس سے قبل خدا بے کار تھا- اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ دونوں باتیں غلط ہیں- یہ ماننا بھی کہ کسی وقت خدا کی صفات میں تعطل تھا خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کے خلاف ہے- اسی طرح یہ کہنا بھی کہ جب سے خدا تعالیٰ ہے تبھی سے دنیا چلی آ رہی ہے` خدا کی صفات کے خلاف ہے- شائد بعض لوگ کہیں کہ دونوں باتیں کس طرح غلط ہو سکتی ہیں دونوں میں سے ایک نہ ایک تو صحیح ہونی چاہئے- لیکن یہ ان کا خیال مادیات پر قیاس کرنے کے سبب سے ہوگا- اصل میں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقل انسانی سے بالا ہوتی ہیں- اور عقل ان کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتی- دنیا کا پیدا ہونا چونکہ انسانوں` جمادات بلکہ ذرات کی پیدائش سے بھی پہلے کا واقعہ ہے اس لئے انسانی عقل اس کو نہیں سمجھ سکتی- جو دو عقیدے لوگوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں ان پر غور کر کے دیکھ لو کہ دونوں بالبداہت غلط نظر آتے ہیں- اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جب سے خدا ہے اسی وقت سے دنیا کا سلسلہ ہے تو پھر اسے دنیا کو بھی خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ماننا پڑے گا اور اگر کوئی یہ کہے کہ پیدائش کا سلسلہ کروڑوں یا اربوں سالوں میں محدود ہے تو پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گا- کہ خدا تعالیٰ ازل سے نکما تھا صرف چند کروڑ یا چند ارب سال سے وہ خالق بنا- اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں- پس صحیح یہی ہے کہ اس امر کی پوری حقیقت کو انسان پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا- اور سچائی ان دونوں دعوئوں کے درمیان درمیان میں ہے یہ مسئلہ بھی اسی طرح محیر العقول ہے جس طرح کہ زمانہ اور جگہ کا مسئلہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کو محدود یا غیر محدود ماننا دونوں ہی عقل کے خلاف نظر آتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس بحث کا یوں فیصلہ فرمایا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کبھی معطل ہوئی اور نہ دنیا خدا کے ساتھ چلی آ رہی ہے اور صداقت ان دونوں امور کے درمیان ہے- اور اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی ہے کہ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے گو قدامت ذاتی کسی شے کو حاصل نہیں- کوئی ذرہ` کوئی روح` کوئی چیز ماسوی اللہ ایسی نہیں کہ جسے قدامت ذاتی حاصل ہو- لیکن یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے اپنی صفت خلق کو ظاہر کرتا چلا آیا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدامت نوعی کا بھی وہ مفہوم نہیں لیا جو دوسرے لوگ لیتے ہیں جو یہ ہے کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے- یہ ایک بیہودہ عقیدہ ہے اور حضرتمسیح موعودعلیہ السلام اس کے قائل نہیں-
یہ کہنا کہ جب سے خدا ہے تب سے مخلوق ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں- جو دونوں باطل ہیں- ایک تو یہ کہ خدا بھی ایک عرصہ سے ہے اور مخلوق بھی- کیونکہ جب کا لفظ وقت کی طرف خواہ وہ کتنا ہی لمبا ہو اشارہ کرتا ہے اور ایسا عقیدہ بالکل باطل ہے- دوسرے معنی اس جملہ کے یہ بنتے ہیں کہ مخلوق انہی معنوں میں ازلی ہے کہ جن معنوں میں خدا تعالیٰ ہے- اور یہ معنے بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور عقل کے بھی- خالق اور مخلوق ایک ہی معنوں میں ازلی نہیں ہو سکتے- ضروری ہے کہ خالق کو تقدم حاصل ہو اور مخلوق کو تاخر- یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃوالسلام نے یہ کبھی نہیں لکھا کہ مخلوق بھی ازلی ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مخلوق کو قدامت نوعی حاصل ہے اور قدامت اور ازلیت میں فرق ہے- غرض حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نزدیک مخلوق کو قدامت نوعی تو حاصل ہے مگر ازلیت نہیں- خالق مخلوق پر بہرحال مقدم ہے اور دوروحدت دور خلق سے پہلے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالق اور مخلوق کے اس تعلق کو سمجھنا کہ خالق کو ازلیت بھی اور دور وحدت کو تقدیم بھی حاصل ہوا اور مخلوق کو قدامت نوعی بھی حاصل ہو` انسانی عقل کے لئے مشکل ہے لیکن صفاتالہیہ پر غور کرنے سے یہی ایک عقیدہ ہے جو شان الہی کے مطابق نظر آتا ہے- اس کے علاوہ دوسرے عقائد یا تو شرک پیدا کرتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی صفات پر ناقابل قبول حد بندیاں لگاتے ہیں- اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق وہی عقیدہ درست ہو سکتا ہے جو اس کی دوسری صفات کے مطابق ہو- جو ان کے خلاف ہے وہ عقیدہ قابل قبول نہیں- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ لیس کمثلہ شیء ہے- اس کے افعال کی کنہ کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرنا جس طرح کہ انسان کے افعال کو سمجھا جاتا ہے عقل سے بعید ہے- پس جب کہ خلق عالم کا مسئلہ ایسے امور سے تعلق رکھتا ہے جن کو انسانی عقل پورے طور پر سمجھ نہیں سکتی تو بہترین طریق اور صحیح طریق یہی ہوگا کہ اسے مادی قواعد سے حل کرنے کی بجائے صفاتالہیہ سے حل کیا جائے تا کہ غلطی کے امکان سے حفاظت حاصل ہو جائے اور یہی طریق حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے اختیار کیاہے-
میں سمجھتا ہوں کہ وقت کا غلط مفہوم جو اس وقت تک دنیا میں قائم ہے وہ بھی اس مسئلہ کے سمجھنے میں روک ہے اور کچھ بھی تعجب نہیں کہ آئنسٹائن ۱۰~}~کی تھیوری )فلسفہ نسبت( ترقی پاتے پاتے اس مسئلہ کو زیادہ قابل فہم بنا دے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ دوروحدت مقدم ہے اور یہ اوپر کے بیان کے مخالف نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ آئندہ کیلئے بھی دوروحدت کی خبر دیتے ہیں- مگر باوجود اس کے آپ ارواح کے لئے غیر مجذوذ انعام تسلیم فرماتے ہیں- اور آریوں کے اس عقیدہ کو رد فرماتے ہیں کہ اربوں سال کے بعد ارواح پھر مکتی خانہ سے نکال دی جائیں گی- پس معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک آئندہ کسی اور وحدت کا آنا اور اس کے ساتھ ارواح کا فنا سے محفوظ رہنا دوروحدت کے خلاف نہیں- اصل بات یہ ہے کہ دوروحدت کا اصل مفہوم لوگوں نے نہیں سمجھا- مرنے کے بعد کی حالت دوروحدت ہی ہے کیونکہ اس وقت اپنا عمل نہیں ہوتا بلکہ انسان خدا کے تصرف کے ماتحت چلتا ہے- اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا- مرنے کے بعد انسان مشین کی طرح ہوتا ہے- دارالعمل )یعنی بالارادہ عمل( اس دنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور یہی حالت مخلوق کی نسبت سے دوروحدت کے منافی ہے-
)۶( حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق ایک اور بحث بھی پیدا ہو رہی تھی اور وہ یہ کہ اس کی قدرت کے مفہوم کو غلط سمجھا جا رہا تھا- بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ خدا قادر ہے اس لئے وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے یا فنا بھی ہو سکتا ہے- بعض کہتے کہ نہیں اس کی صفات اسی قدر ہیں جو اس نے بیان کی ہیں اور وہ جھوٹ نہیں بول سکتا- حضرتمسیح موعود علیہ السلام نے اس جھگڑا کا بھی فیصلہ کر دیا- اور فرمایا کہ خداتعالیٰ کے قدیر ہونے کی صفت کو اس کی دوسری صفات کے مقابلہ پر رکھو اور پھر اس کے متعلق غور کرو- جہاں یہ نظر آتا ہے کہ خدا قدیر ہے وہاں یہ بھی تو ہے کہ خدا کامل ہے اور فنا کمال کے خلاف ہے- دیکھو اگر کوئی کہے کہ میں بڑا پہلوان ہوں` بڑا طاقتور ہوں تو کیا اسے یہ کہا جائے گا کہ تمہاری طاقت ہم تب تسلیم کریں گے جب تم زہر کھا کر مر جائو- یہ اس کی طاقت کی علامت نہیں بلکہ الٹ ہے- پس خداتعالیٰ کے کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس میں نقائص اور کمزوریاں بھی ہوں- دراصل ان لوگوں نے قدرت کے معنے نہیں سمجھے- کیا اگر کوئی کہے کہ میں بہت طاقتور ہوں تو اسے کہا جائے گا کہ اگر طاقتور ہو تو نجاست کھا لو- یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ یہ کمزوری ہے اور کمزوری خداتعالیٰ میں پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ کامل ہستی ہے-
)۷( ایک ساتواں گروہ تھا- جس کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا قضا ئو قدر جاری کرنے کے بعد خالی ہاتھ ہو بیٹھا ہے- اس لئے کسی کی دعا نہیں سن سکتا- ان کے متعلق حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا- بے شک خدا تعالیٰ نے قضا و قدر جاری کی ہے مگر ان میں سے ایک قضاء یہ بھی ہے کہ جب بندے دعائیں مانگیں تو ان کی دعا سنوں گا- یہ کتنا چھوٹا لیکن کیسا تسلیبخش جواب ہے- فرماتے ہیں بے شک خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بندہ بدپرہیزی کرے تو بیمار ہو مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اگر وہ گڑ گڑا کر دعا مانگے تو اچھا بھی کر دیا جائے- پس باوجود قضا و قدر جاری ہونے کے خدا کا عمل تصرف بھی جاری ہے-
اس جواب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عملی طور پر بھی دعا کی قبولیت کے ثبوت پیش فرمائے-
)۸( خدا تعالیٰ کی صفات کے اجرا کے متعلق بھی اختلاف پیدا ہو گیا تھا- آپ نے اسے بھی دور کیا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت کا ایک دائرہ ہے ایک ہی وقت میں وہ رحیم ہے اور اسی وقت میں شدید العقاببھی ہے ایک شخص جسے پھانسی کی سزا ملی وہ چونکہ مجرم ہے اس لئے اسے خدا تعالیٰ کی صفت شدید العقاب کے ماتحت سزا ملی- مگر جہاں اس کی جان نکل رہی تھی وہاں ایسی تائیدیں جو موت سے تعلق نہیں رکھتیں وہ بھی اس کے لئے جاری تھیں انسانوں کی یہ حالت نہیں ہو سکتی کہ ایک ہی وقت میں ان کی ساری صفات ظاہر ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان رحم بھی کر رہا ہو اور اسی وقت ویسے ہی زور سے عذاب کا اظہار بھی کر رہا ہو- مگر خدا تعالیٰ چونکہ کامل ہے اس لئے ایک ہی وقت اس کی ساری صفات یکساں زور سے ظاہر ہو سکتی ہیں- اگر ایسا نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اگر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو رہا ہو اور ساتھ رحم نہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے- اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کا صرف رحم جاری ہو اور غضب بند ہو جائے تو مجرم چھوٹ جائیں اور اس طرح بھی تباہی برپا ہو جائے- پس خدا تعالیٰ کی ساری صفات ایک ہی وقت
‏a10.2
میں اپنے دائرہ کے اندر کام کر رہی ہوتی ہیں-
)۹( نواں غلط عقیدہ خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ پھیل رہا تھا کہ کچھ لوگ خیال کر رہے تھے کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے- آپ کے بتائے ہوئے اصل سے اس عقیدہ کا بھی رد ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت مالکیت بھی ہے اور جب تک اور مخلوق نہ ہو` خدا مالک نہیں ہو سکتا- اس عقیدہ کے خلاف کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے ان کا رد بھی اس اصل سے ہو گیا- کیونکہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بتا رہی ہیں کہ خداتعالیٰ محدود نہیں- عرش کے متعلق آپ نے فرمایا کہ عرش کرسی وغیرہ کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مادی اشیاء ہیں- اور عرش کوئی سونے یا چاندی سے بنا ہوا تخت نہیں ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے- بلکہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کی حکومت کی صفات ہیں اور ان کے ظہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ تخت پر بیٹھا ہے-
)۱۰(ان سب باتوں کے علاوہ ایک اہم کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق کیا یہ تھا کہ آپ نے لوگوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھیری- اور ان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت پیدا کر دی- لاکھوں انسانوں کو آپ نے خدا تعالیٰ کا مقرب بنا دیا اور وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک آپ کو نہیں مانا ان کی بھی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف اس رنگ میں ہو رہی ہے جو آپ کے دعویٰ سے پہلے نہ تھی-
خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور بھی بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو آپ نے تفصیلا یا اجمالاً دور کیں مگر مثال کے طور پر مذکورہ بالا امور کو بیان کیا گیا ہے-
حضرت مسیح موعودؑ کا چوتھا کام
چوتھا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے کلام الہی کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے اور اس کے متعلق جو مختلف خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے ان کی اصلاح کی ہے-
اول الہام
الہام کے متعلق اور خطرناک خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے تھے- لوگ سمجھتے تھے- )الف(الہام یا آسمانی ہوتا ہے یا شیطانی- )ب(پھر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ الہام صرف نبیوں کو ہو سکتا ہے- )ج(بعض لوگ سمجھتے تھے کہ الہام لفظوں میں نہیں ہو سکتا- دل کی روشنی سے حاصل کردہ علوم کا نام ہی الہام ہے- )د(بعض لوگ اس وسوسہ کا شکار ہو رہے تھے کہ الہام اور خواب کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتے ہیں- )ھ(بعض لوگ اس خیال میں مبتلا تھے کہ لفظی الہام کا عقیدہ رکھنا انسان کی ذہنی ترقی کے مانع ہے- )و(عام طور پر لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ اب الہام کا سلسلہ بند ہو چکا ہے- یہ اور اس قسم کے اور وساوس الہام کے متعلق لوگوں میں پائے جاتے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب کی اصلاح کی ہے-
یہ جو خیال تھا کہ الہام صرف آسمانی یا شیطانی ہوتا ہے اس سے کئی خطرناک نتائج پیدا ہو رہے تھے- بعض مدعیوں کو جب لوگ راستباز سمجھتے تو ان کی وحی کو بھی آسمانی سمجھ لیتے- بعض خوابیں جب لوگوں کی پوری نہ ہوتیں تو وہ الہام اور خواب کی حقیقت سے ہی منکر ہو جاتے وغیرہ وغیرہ- آپ نے اس مسئلہ کو حل کر کے دنیا کو بہت سے ابتلائوں سے بچا لیا- آپ کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ الہام کی دو بڑی قسمیں ہیں-
)۱( سچے الہام )۲(جھوٹے الہام
جو سچے الہام ہوتے ہیں- یعنی جن میں ایک صحیح واقعہ یا صداقت کی خبر دی ہوئی ہوتی ہے- آگے ان کی بھی کئی قسمیں ہیں- )الف(آسمانی الہام )ب(شیطانی الہام )ج(نفسانیالہام- میں نے سچے الہام میں ان دونوں قسموں کو بھی شامل کیا ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کلام سے ثابت ہوتا ہے اور قرآن کریم اور تجربہ اس کا شاہد ہے کہ کبھی شیطانی اور نفسانی الہام بھی سچا ہوتا ہے اور جب کوئی ایسا الہام سچا ہو جائے تو گو ہم اقرار کریں گے کہ وہ پورا ہو گیا مگر اسے آسمانی الہام پھر بھی نہیں کہیں گے-
ان الہامات کی بھی جو آسمانی ہوتے ہیں آپ نے کئی قسمیں بتائی ہیں-
)۱(انبیاء کی وحی جو یقینی وحی کہلاتی ہے-
)۲(دوسری اولیاء کی مصفی وحی یہ وحی بھی غلط نہیں ہوتی لیکن یقینی نہیں کہلاتی کیونکہ وہ اپنے اندر ایسے نشانات نہیں رکھتی جو دنیا پر حجت ہوں اور جس کا انکار گناہ ہو- وہ بیشک مصفی ہوتی ہے مگر اپنے ساتھ ایسے زبردست ثبوت نہیں رکھتی کہ لوگوں کے لئے اسے حجت قرار دیا جائے-
)۳(تیسری سالکوں کی وحی جسے اصطفائی وحی کہہ سکتے ہیں یعنی وہ ان کو بزرگی دینے کیلئے ہوتی ہے- مگر اس قدر صاف نہیں ہوتی جس قدر کہ اولیاء اللہ کی-
)۴(سالکوں اور مومنوں کی ابتلائی وحی- یہ وحی مومنوں کے تجربہ` آزمائش اور امتحان لینے اور ان کی ہمت ظاہر کرنے کیلئے ہوتی ہے-
)۵(پانچویں جبیزی وحی- یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام سے معلوم ہوتی ہے- میں اس الہام کے الفاظ کے مطابق اس کا نام جبیزی وحی رکھتا ہوں- اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح کامل مومن کا مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہوتا ہے وہ اس قرب کے حصول کے ذریعہ کی تعیین نہیں کرتا- بعض ناقص لوگ اس جدوجہد میں ایک نفسانیخواہش کو بھی ساتھ رکھتے ہیں کہ یہ قرب اس طرح حاصل ہو کہ ہمیں الہام ہو جائے اور الہام کی خواہش بھی قرب کے لئے نہیں بلکہ بڑائی اور درجہ کے حصول کے لئے ہوتی ہے- ایسی صورت میں ان لوگوں کی بڑھی ہوئی خواہش کو دیکھ کر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں بھی الہام کر دیتا ہے- جس طرح کھانا کھاتے وقت کوئی کتا آ جاتا ہے تو اس کے آگے بھی آدمی روٹی کا ٹکڑا یا بوٹی پھینک دیتا ہے- اس قسم کا الہام درحقیقت ایک سخت آزمائش ہوتا ہے جو بسا اوقات ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے- جبیز چونکہ سوکھے ٹکڑے کو کہتے ہیں اس لئے اسی مناسبت سے اس وحی کا نام جبیزی وحی رکھا گیا ہے-
)۶(چھٹی قسم وحی کی وہ ہے جو ایسے غیر مومن کو ہوتی ہے جو اپنی فطرت میں سعادت رکھتا ہو- اس کا نام میں نے ارشادی وحی رکھا ہے یعنی ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والی-
)۷(ساتویں قسم وحی کی طفیلی وحی ہے- کہ کفار اور بدکاروں کو ارشاد کے طور پر نہیں بلکہ ان پر حجت تمام کرنے کیلئے ہوتی ہے- اس کا نام میں نے طفیلی وحی رکھا ہے کیونکہ یہ اس لئے ہوتی ہے کہ انبیاء کی صداقت کے لئے ایک ثبوت ہو-
یہ سب آسمانی وحی کی قسمیں ہیں-
)ب(شیطانی الہام- جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں بعض شیطانی الہام بھی سچے ہوتے ہیں- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-الا من خطف الخطفہ فاتبعہ شھاب ثاقب ۱۱~}~یعنی آسمانی امور جب دنیا میں ظاہر ہونے لگتے ہیں تو شیطان بھی ان میں سے کچھ اچک کر اپنے ساتھیوں کو پہنچا دیتا ہے- اور گو اس کے بطلان کا سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے لیکن ارواح خبیثہ سے تعلق رکھنے والوں کی بعض بعض باتیں بھی کبھی سچی نکل آتی ہیں- حضرت مسیحموعودؑ فرماتے ہیں کہ ایسی خوابیں یا نظارے اگر اتفاقاً کبھی سچے بھی نکل آئیں تو ان میں ہیبت اور شوکت نہیں ہوتی اور نامکمل سے اور مبہم سے ہوتے ہیں-
)ج(نفسانی الہام- یعنی ایسے الہام یا خواب جو دماغی کیفیات کے نتیجے میں نظر آئیں- یہ الہام یا خواب بھی کبھی سچے ہوتے ہیں- جس طرح انسانی دماغ جاگتے ہوئے کوئی بات قیاس کر کے آئندہ کے متعلق نکال لیتا ہے اور وہ سچی ہو جاتی ہے- اسی طرح کبھی سوتے ہوئے بھی ایسے اندازہ لگا کر پیش کر دیتا ہے اور وہ کبھی سچے ہو جاتے ہیں- اور ان کے سچے ہو جانے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- ایسی خوابیں کئی قسم کی ہوتی ہیں- )۱(امور طبعیہ سے تعلق رکھنے والی- مثلاً بیماریوں کے متعلق- بیماریاں یکدم نہیں پیدا ہوتیں- بلکہ ان کے ظاہر ہونے سے کئی گھنٹے یا کئی دن یا کئی ہفتے پہلے جسم میں تغیرات شروع ہو جاتے ہیں- ایسے تغیرات کو بعض دفعہ انسانی دماغ محسوس کر کے انسان کی آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے اور وہ بات پوری بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک طبعی اندازہ ہوتا ہے- بیماریوں کے ایسے تغیرات مختلف عرصوں میں واقع ہوتے ہیں- مثلاً ہلکے کتے کا زہر بارہ دن سے دو ماہ تک کہتے ہیں تکمیل تک پہنچتا ہے- پس ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ہلکے کتے نے کاٹا ہو- اور زہر کے اپنے اثر کو مکمل کرنے کے دوران میں اس کا دماغ اس کی کیفیت کو محسوس کر کے ایک نظارہ کی شکل میں اسے دکھا دے- پس یہ خواب یا الہام سچا ہوگا- مگر نفس انسانی کا ایک فعل ہوگا نہ کہ آسمانی-
)۲(دوسری قسم اس قسم کی وحی کی عقلی وحی ہوتی ہے- جیسے کوئی شخص کسی امر کو سوچتے سوچتے سو جائے اور اس کا دماغ اس وقت بھی اس کے متعلق غور کرتا رہے )دماغ کا ایک حصہ انسان کی نیند کے وقت بھی کام کرتا رہتا ہے( اور جب وہ کسی نتیجہ پر پہنچے تو ایک نظارہ خواب کی حالت میں نظر آ جائے جس میں وہ نتائج جو دماغ کے حصہ متاثرہ نے غور کرنے کے بعد نکالے تھے دکھا دیئے گئے ہوں- بسا اوقات یہ نتائج دوسرے عقلی نتائج کی طرح صحیح ہوں گے- لیکن باوجود ان کے صحیح ہونے کے اس خواب کو آسمانی خواب نہیں کہیں گے بلکہ نفسانی خواب کہیں گے- کیونکہ اس کا منبع انسانی دماغ ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کا کوئی خاص امر-
اوپر کی دونوں قسمیں ایک رنگ میں آسمانی بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ قوانین کے ماتحت انسان کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کا موجب ہوتی ہیں مگر تقدیر عام کے ماتحت- ان کا ظہور کسی خاص حکم کے ذریعہ سے نہیں ہوتا- مگر ایک قسم نفسانی خواہشات کی اور بھی ہے جو خالص نفسانی ہوتی ہے مگر پھر بھی کبھی سچی ہو جاتی ہے اور وہ پراگندہ خواب ہے-
)۳(یہ قسم دماغ کی پراگندگی کے نتیجہ میں آتی ہے- مگر چونکہ مختلف اندازے لگانے والے کا کوئی اندازہ صحیح بھی ہو جاتا ہے- اسی طرح پراگندہ خیالات میں سے کبھی کوئی اتفاقاً صحیح بھی ہو جاتا ہے مگر اس کی صحت نہ خدا کے حکم سے تعلق رکھتی ہے نہ کسی طبعی قانون سے بلکہ اتفاق پر مبنی ہوتی ہے-
اب میں جھوٹے الہام کے متعلق بیان کرتا ہوں اس کی بھی کئی قسمیں ہیں-
)۱(شیطانی الہام- شیطان چونکہ قیاس سے کام لیتا ہے اس لئے اس کا قیاس اکثر اوقات غلط نکلتا ہے- پھر وہ جھوٹ بھی بولتا ہے-
)۲(دوسری قسم نفسانی خواب- اس کی آگے پھر کئی قسمیں ہیں-
)الف( وہ خواب جو دماغ کی خرابی کا نتیجہ ہو )ب(وہ خواب جو خواہش اور آرزو کے نتیجے میں پیدا ہو جائے- جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کی خوابیں- اس خواب میں اور جبیزی خواب میں بظاہر مناسبت ہے مگر ایک فرق بھی ہے- اور وہ یہ کہ جبیزی خواب تو وہ ہے جو خدا تعالیٰ بندہ کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے نازل کرتا ہے مگر اس خواب کو خدا تعالیٰ نازل نہیں کرتا بلکہ انسان کی خواہش سے متاثر ہو کر نفس خود پیدا کر لیتا ہے-
)۲(دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ الہام یا وحی صرف نبی کو ہو سکتا ہے یہ خیال نہایت غلط اور امت میں پست خیالی پیدا کرنے کا موجب اور قرب الہی کے حقیقی دروازوں کو بند کرنے والا تھا- اس کے نتیجہ میں صرف انسانی تدابیر پر خوش ہو جاتے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جو ایک ہی ذریعہ اس کی خوشنودی کا پتہ لگانے کا ہے بھلا بیٹھے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کی بھی اصلاح کی اور فرمایا کہ الہام ہر شخص کو ہو سکتا ہے- ہاں الہام کے بھی درجے ہوتے ہیں- نبی کو نبیوں والا الہام ہوتا ہے` مومن کو مومنوں والا اور کافر کو کافروں والا- اس حقیقت کو کھول کر آپ نے یہ فتنہ دور فرما دیا کہ غیر مومن کو جب کبھی کوئی سچا الہام ہو جائے تو بعض دفعہ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ بھی خدا کا مقرب ہے- آپ نے فرمایا- ایسے لوگوں کو سچا الہام ہو جاتا ہے مگر نبیوں اور نیک لوگوں کے الہام اور کفار کے الہام میں یہ فرق ہے کہ نبیوں اور اولیاء کے الہام اپنے ساتھ قدرت رکھتے ہیں- اور یہ بات کفار کے الہاموں کو حاصل نہیں ہوتی-
تیسری غلطی یہ لگی ہوئی تھی کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ الہام لفظوں میں نہیں ہوتا بلکہ دل کی روشنی کا نام ہی الہام ہے- آپ نے ان لوگوں کے خیال کی بھی اصلاح فرمائی- نیچریوں` بہائیوں اور اکثر عیسائیوں کا یہی خیال ہے- مسلمان تعلیم یافتہ بھی کثرت سے اسی وہم میں مبتلا ہیں- آپ نے ایسے لوگوں کے سامنے اول اپنا مشاہدہ پیش کیا- اور فرمایا- میں الہام کے الفاظ سنتا ہوں اس لئے میں اس خیال کی تردید کرتا ہوں کہ الہام الفاظ میں نہیں ہوتا- دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام اور خواب انسانی فطرت میں داخل ہے- ہر انسان میں یہ خواہش ہے کہ خدا سے ملے- اور اس فطرت کی خواہش کا جواب بھی ضرور ہونا چاہئے- خالی دل کا خیال اس جوش محبت کا جواب نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی ملاقات کے متعلق رکھا گیا ہے- اس کا جواب صرف الہام اور خواب ہی ہو سکتے ہیں- اسی طرح آپ نے فرمایا کہ خواب اور الہام صرف نبیوں سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دنیا کے اکثر افراد اس سے کم و بیش حصہ پاتے ہیں- حتی کہ جو بدکار سے بدکار وجود ہیں اور جن کا پیشہ ہی بدکاری ہوتا ہے وہ بھی اس سے کبھی حصہ پا لیتے ہیں- پس اس چیز کا انکار کس طرح ہو سکتا ہے جس پر اکثر انسان شاہد ہیں اور جو چیز تھوڑی یا بہت دنیا کے اکثر افراد کو مل جاتی ہے اس کی نسبت کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ باقی دنیا کو تو اس میں حصہ ملتا ہے مگر نبیوں کو ہی اس سے حصہ نہیں مل سکتا- حالانکہ اس چیز کی پیدائش کی غرض ہی نبوت کی تکمیل ہے جب لاکھوں کافر بھی گواہی دیتے ہیں کہ ان کو الہام ہوتے ہیں یا خوابیں آتی ہیں تو الہام یا خواب کا ہونا ناممکن نہ ہوا- اور جب ناممکن نہ ہوا تو نبیوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو الہام نہیں ہوتا بلکہ دل کے خیالات کا نام وہ الہام رکھ لیتے تھے حد درجہ کی نادانی ہے-
پھر آپ نے فرمایا کہ الہام ایسی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جو ملہم نہیں جانتا- اگر الہام محض خیال ہی ہوتا تو اسی زبان میں ہوتا جسے ملہم جانتا ہے` اس زبان میں نہ ہوتا جسے وہ نہیں جانتا- لیکن ملہموں کو بعض اوقات ان زبانوں میں بھی الہام ہوتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے- پس معلوم ہوا کہ الہام الفاظ میں ہی ہوتا ہے نہ کہ خیالات کا نام الہام ہے-
لفظی الہام پر عام طور پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیا خدا کی بھی زبان ہے اور ہونٹ ہیں کہ وہ الفاظ میں کلام کرتا ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بولنے کے لئے زبان کی حاجت نہیں ہے- کیونکہ وہلیس کمثلہ شیئہے- جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا بغیر ہاتھوں کے پیدا کی ہے` انکے لئے اس بات کا ماننا کیا مشکل ہے کہ وہ بغیر زبان کے بولنے کی بھی قدرت رکھتا ہے-
ایک جواب آپ نے یہ بھی دیا کہ بغیر الہام کے جو پرشوکت الفاظ میں ہو` اس بات کا یقین نہیں آ سکتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو کوئی حکم دیا گیا ہے- جب باہر سے آئے تب ہی پتہ لگ سکتا ہے کہ کسی اور طاقت نے یہ الفاظ بھیجے ہیں-
)۴(چوتھی غلطی بعض لوگوں کو الہام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ الہام کیفیت دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے- اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- بیشک ایسا بھی ہوتا ہے مگر یہ کہنا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے اور کبھی باہر سے الہام نہیں ہوتا- غلط ہے- کیونکہ نبیوں اور مومنوں کے بعض الہام ایسے علوم پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں انسانی دماغ دریافت نہیں کر سکتا- مثلاً ان میں آئندہ زمانہ کے متعلق بڑی بڑی خبریں ہوتی ہیں- دوسرا جواب اس کا آپ نے یہ دیا کہ اگر کیفیت دماغی سے یہ مراد ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ ہوتا ہے- تو پھر کیا وجہ ہے کہ الہام پانے والے لوگ بہترین دماغ رکھتے ہیں ان کے دماغوں کا بہترین ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ الہام بگڑے ہوئے دماغ کا نتیجہ نہیں ہوتا-
مجھے تعجب ہے کہ جو لوگ الہام کو دماغی بگاڑ کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ انسانی دماغ بڑھاپے میں کمزور ہو جاتا ہے- لیکن نبیوں پر بڑھاپے کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوا- بلکہ ان کے الہامات میں زیادہ شوکت پیدا ہوتی جاتی ہے-
)۵( پانچواں شبہ الہام کے متعلق یہ کیا جاتا ہے کہ الہام کا وجود انسان کی ذہنی اور عقلیترقی کے مخالف ہے- کیونکہ جب الہام سے ایک امر دریافت ہو گیا تو پھر لوگوں کو سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کیا موقع ہے؟
اس غلطی کو آپ نے لوگوں کی توجہ اس امر کی طرف پھیر کر دور کیا کہ الہام ذہنی ترقی کے مخالف نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اسے ذہنی ترقی کی خاطر پیدا کیا ہے- کارخانہ عالم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی اور جسمانی دو سلسلے اس دنیا میں متوازی اور مشابہ چل رہے ہیں- جسمانی سلسلہ میں انسانی ہدایت اور راہنمائی کے لئے عقل کے ساتھ تجربہ کو لگایا گیا ہے تا کہ عقل کی کمزوری کو پورا کر دے اور انسان غلطی کے احتمال سے بچ جائے- روحانیسلسلہ میں اس کی جگہ الہام کو عقل کے ساتھ لگایا گیا ہے تا کہ عقل غلطی کر کے انسان کو تباہی کے گڑھے میں نہ گرا دے- خالی عقل جب جسمانی امور میں کافی نہیں ہو سکتی اور تجربہ کی مدد کی محتاج ہے تو پھر روحانی دنیا میں خالی عقل پر بھروسہ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے اور کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی سلسلہ کے لئے جو ادنیٰ تھا عقل کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے تجربہ کو پیدا کیا اور روحانی سلسلہ میں جو اعلیٰ ہے عقل کی مدد کے لئے کوئی وجود نہ پیدا کیا؟
اگر کوئی کہے کہ جسمانی سلسلہ کی طرح روحانی سلسلہ میں بھی عقل کی امداد کے لئے تجربہ کو ہی کیوں نہ مقرر کیا گیا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجربہ کئی ٹھوکروں کے بعد اصل نتیجہ پر پہنچاتا ہے- دنیا کی زندگی چونکہ عارضی ہے اس لئے اس میں تجربہ کرتے ہوئے ٹھوکریں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکن اگر آئندہ کی زندگی کے متعلق جو ہمیشہ کی زندگی ہے ٹھوکریں کھانے کے لئے انسان کو چھوڑ دیا جاتا تو لاکھوں آدمی جو تجربہ سے پہلے پہلے مر جاتے حق سے محروم رہ جاتے اور سخت نقصان اٹھاتے اور اس دائمی زندگی کی ترقیات کو حاصل نہ کر سکتے- جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے ہیں- علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تجربہ شروع کرنے کیلئے بھی پہلے ایک بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے- روحانی امور چونکہ غیر محسوس ہیں اور مخفی ہیں- اس لئے ان کے متعلق تجربہ مادی امور کی نسبت زیادہ مشکلات رکھتا ہے- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کہ مادہ کے متعلق سائنس نے انتہا درجہ کی ترقی کی ہے- دماغ کے ان افعال کے متعلق جو عقل اور ارادہ سے تعلق رکھتے ہیں- حالانکہ وہ روح کے برابر لطیف نہیں بہت ہی کم تحقیق ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دنیا کی پیدائش پر اس قدر عرصہ گذر جانے کے باوجود اب تک تحقیق شروع ہی نہیں ہوئی-
)۶(چھٹا وسوسہ جس میں لوگ مبتلا تھے- یہ تھا کہ الہام کا سلسلہ اب بالکل بند ہو چکا ہے- یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہی نہ تھا بلکہ دوسرے مذاہب کا بھی یہی عقیدہ تھا- یہودی` مسیحی` ہندو سب پہلے زمانہ میں الہام کے قائل ہیں لیکن اب اس کے دروازہ کو بند بتاتے ہیں- حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس خطرناک عقیدہ کی غلطی کو بھی دنیا پر ظاہر کیا اور بتایا کہ الہام تو خداتعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک انعام ہے اور بندہ اور خدا تعالیٰ میں محبت کا نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور یقین اور وثوق تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اس کا سلسلہ بند کر کے مذہب اور روحانیت کا باقی کیا رہ جاتا ہے- مسلمانوں کو آپ نے توجہ دلائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی رحمت کی بارش اور بھی شان سے نازل ہو- پس آپ کے آنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا یہ انعام بند نہیں ہوا- بلکہ اس میں اور بھی زیادہ ترقی ہو گئی-
دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام صرف شریعت نہیں ہوتا بلکہ اس کی اور بھی اغراض ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بندوں کو خدا تعالیٰ پر یقین کامل کرائے- دیکھو جس سے خدا تعالیٰ باتیں کرے` اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو صرف یہ کہے کہ خدا ہے ایمانی لحاظ سے کیا حقیقت رکھ سکتا ہے- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گو شریعت کو مکمل کر گئے ہیں- مگر مسلمانوں کو یقین اور اطمینان قلب کے مرتبہ تک پہنچانے کیلئے پھر بھی الہام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے-
تیسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ معارف پر آگاہ کرتا ہے وہ روحانی علوم جو سینکڑوں سالوں کی محنت اور کوشش سے بھی معلوم نہ ہو سکیں` خدا تعالیٰ الہام کے ذریعہ ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہے- پس اس تعلیم کے سہل تر رستہ کو امت محمدیہﷺ~ کے لئے کس طرح بند کیا جا سکتا ہے- آپ نے اپنے وجود سے ثابت کیا کہ الہام جس قدر جلد اور جس قدر مکمل طور پر معارف روحانیہ کو کھولتا ہے اس کی مثال انسانی جدوجہد میں نہیں پائی جاتی- چنانچہ جو باتیں علماء تیرہ سو سال کے قریب عرصہ میں بحثوں سے حاصل نہ کر سکے` آپ نے چند سال میں الہام کی مدد سے حل کر کے رکھ دیں- اور ان کی مدد سے احمدی علماء دنیا بھر کے مذاہب پر اسلام کو غالب کر رہے ہیں-
چوتھا جواب آپ نے یہ دیا کہ الہام کی ایک غرض اظہار محبت بھی ہے جب تک خداتعالیٰ اپنے خاص بندوں پر الہام نہ نازل کرے` اس وقت تک کس طرح ان کی تڑپ دور ہو سکتی ہے-
غرض آپ نے ثابت کر دیا کہ الہام کا سلسلہ جاری ہے- کیونکہ اگر الہام کو بند مانیں تو خدا تعالیٰ کی کئی صفات میں تعطل ماننا پڑے گا- اس جگہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی صفات میں عارضی تعطل تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی مانا ہے- چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں خدا تعالیٰ اپنی ایک صفت کو بند کر دیتا ہے تاکہ دوسری صفت جاری ہو- اگر اس طرح ہو سکتا ہے تو یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ الہام کو خدا نے قیامت تک بند کر دیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعطل تب مانا ہے جب دو صفات آپس میں ٹکرائیں- اور جو صفات نہ ٹکرائیں ان کے متعلق تعطل نہیں مانا- چونکہ الہام کے جاری ہونے میں کسی صفت سے ٹکرائو نہیں اس لئے اس کے متعلق تعطل ماننا ناواجب ہے-
اگر کوئی کہے کہ الہام کا سلسلہ جاری مانا جائے تو بھی تعطل ہوتا ہے کیونکہ ایک مجدد آتا ہے- پھر اس کے ایک سو سال بعد دوسرا آتا ہے اس طرح کچھ عرصہ کیلئے الہام میں تعطل تم بھی مانتے ہو- اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک اس قسم کا کوئی تعطل واقع نہیں ہوتا- کیونکہ آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ الہام صرف نبی یا مجدد کو ہوتا ہے بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ الہام مومنوں کو بھی ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ کافروں اور بدکاروں کو بھی- پس چونکہ زمین گول ہے اور ہر وقت دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لوگ سو رہے ہوتے ہیں- پس بالکل قرین قیاس ہے کہ ہر سیکنڈ میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو الہام ہو رہا ہوتا ہے اور ایک سیکنڈ بھی نزول الہام میں تعطل نہیں ہوتا- میں ذاتی طور پر اس شخص کو انعام دینے کو تیار ہوں جو یہ ثابت کر دے کہ کوئی ایک دن بھی ایسا گذرا ہو جس میں کسی کو خواب نہ آئی ہو یا الہام نہ ہوا ہو- اگر یہ ثابت ہو جائے تب بے شک تعطل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں-
آپ نے آیات قرآنیہ سے بھی ثابت کیا ہے کہ الہام کے جاری رہنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو جھوٹا نہیں کیا کرتا-
اگر کوئی کہے خواب تو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے اس کی بحث نہیں بحث الہام کے متعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب بھی لوگوں کی ہدایت کیلئے خدا تعالیٰ کوئی سامان پیدا کرتا ہے یا نہیں- اگر کرتا ہے تو یہ کہنا بیہودہ بات ہے کہ وہ آنکھوں کے ذریعہ سے لکھے ہوئے لفظوں یا تصویری زبان میں تو اپنے منشاء کو ظاہر کر سکتا ہے مگر کانوں کے ذریعہ سے آواز پیدا کر کے جسے الہام کہتے ہیں اپنے منشاء کو ظاہر نہیں کرتا- جب کہ اپنے آقا کی مرضی کو معلوم کرنا ایک فطری تقاضا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے پورا نہ کرے اور الہام کا دروازہ بند کرنا ایک سخت ظلم ہے جو خدا تعالیٰ سے بعید ہے-
قرآن کریم کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
کلام الہی میں سے خاص طور پر قرآن کریم کے متعلق بہت سی غلطیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بھی دور کیا ہے مثلاً )۱(ایک غلطی بعض مسلمانوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس میں تبدیلی ہو گئی ہے اور بعض حصے اس کے چھپنے سے رہ گئے ہیں- اس خیال کی بھی آپ نے تردید فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم مکمل کتاب ہے- انسان کی جتنی ضرورتیں مذہب سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ سب اس میں بیان کر دی گئی ہیں اگر اس کے بعض پارے یا حصے غائب ہو گئے ہوتے تو اس کی تعلیم میں ضرور کوئی کمی ہونی چاہئے تھی- اور ترتیب مضمون خراب ہو جانی چاہئے تھی- مگر نہ اس کی تعلیم میں کوئی نقص ہے اور نہ ترتیب میں خرابی- جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ غائب نہیں ہوا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- قرآن نے دعویٰ کیا اور چیلنج دیا ہے کہ اس میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں- لیکن اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہوا ہوتا تو ضرور تھا کہ بعض ضروری اخلاقی یا روحانی امور کے متعلق اس میں کوئی ارشاد نہ ملتا- لیکن ایسا نہیں ہے- اس میں ہر ضرورت روحانی کا علاج موجود ہے- اور اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کے غائب ہو جانے کے باوجود اس کے مطالب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی- تو پھر تو جن لوگوں نے اس میں کمی کی ہے وہ حق بجانب تھے کہ انہوں نے ایسے لغو حصہ کو نکال دیا جس کی موجودگی نعوذ باللہ من ذلکقرآن کریم کے حسن میں کمی کر رہی تھی- اگر وہ موجود رہتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ اس حصہ کا کیا فائدہ ہے اور اسے قرآن کریم میں کیوں رکھا گیا ہے- مجھے اس عقیدہ پر ایک واقعہ یاد آگیا- میں چھوٹا سا تھا کہ ایک دن آدھی رات کے وقت کچھ شور ہوا- اور لوگ جاگ پڑے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا بات ہے- وہ ہنستا ہوا واپس آیا اور بتایا کہ ایک دائی بچہ جنا کر واپس آرہی تھی کہ نانک فقیر اسے مل گیا- اور اس نے اس کو مارنا شروع کر دیا- اس نے چیخنا چلانا شروع کیا اور لوگ جمع ہو گئے- جب انہوں نے نانک سے پوچھا کہ تو اسے کیوں مار رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ میرے سرین کاٹ کر لے آئی ہے اس لئے اسے مار رہا ہوں- لوگوں نے اسے کہا کہ تیرے سرین تو سلامت ہیں انہیں تو کسی نے نہیں کاٹا- تو حیران ہو کر کہنے لگا- اچھا- اور دائی کو چھوڑ کر چلا گیا- یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قرآن کریم میں تغیر کے قائل ہیں- وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم آج بھی ایک مکمل کتاب ہے اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہو گیا ہوتا تو اس کے کمال میں نقص آ جاتا-
غرض قرآن کریم کے مکمل ہونے کا ثبوت خود قرآن کریم ہے- اگر حضرت عثمانؓ یا اور کوئی صحابی اس کی ایک آیت بھی نکال دیتے تو اس میں کمی واقع ہو جاتی- لیکن تعجب ہے کہ باوجود اس بیان کے کہ اس سے دس پارے کم کر دیئے گئے اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا- اس صورت میں تو بڑے بڑے اہم مسائل ایسے ہونے چاہئیں تھے جن کے متعلق قرآن کریم میں کچھ ذکر نہ ہوتا- مگر قرآن کریم میں دین اور روحانیت سے تعلق رکھنے والی سب باتیں موجود ہیں-
)۲(دوسرا خیال مسلمانوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کا ایک حصہ منسوخ ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا جواب نہایت لطیف پیرایہ میں دیا- اور وہ اس طرح کہ جن آیات کو لوگ منسوخ قرار دیتے تھے- ان میں سے ایسے ایسے معارف بیان فرمائے جن کو سن کر دشمن بھی حیران ہو گئے اور آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ایک آیت بھی قرآن کریم کی ایسی نہیں جس کی ضرورت ثابت نہ کی جا سکے- اور اب وہی غیر احمدی جو بعض آیات کو منسوخ کہتے تھے دشمنان اسلام کے سامنے انہیں آیات کو پیش کر کے اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں- مثلاًلکم دینکم ولی دین ۱۲~}~کی آیت جسے منسوخ کہا جاتا تھا- اب اسی کو مخالفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-
)۳( تیسری غلطی قرآن کریم کے متعلق لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ اکثر حصہ مسلمانوں کا یہ خیال کرتا تھا کہ اس کے معارف کا سلسلہ پچھلے زمانہ میں ختم ہو گیا ہے اس وہم کا ازالہ بھی آپ نے کیا- اور اس کے خلاف بڑے زور سے آواز اٹھائی اور ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ پچھلے زمانہ میں اس کے معارف ختم نہیں ہوئے- بلکہ آج بھی ختم نہیں ہوئے- اور آئندہ بھی ختم نہ ہونگے- آپ فرماتے ہیں-
’’جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں- یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائیتعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو‘‘- ۱۳~}~
چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں جو اس زمانہ کے متعلق تھیں اور جنہیں پہلے زمانہ کے لوگ نہیں سمجھتے تھے آپ نے قرآن کریم سے نکال کر سمجھائیں- مثلاًاذا العشار عطلت 17] p[۱۴~}~کی پیشگوئی تھی- اس کے معنے پہلے لوگ یہی کرتے تھے کہ قیامت کے دن لوگ اونٹوں پر سوار نہ ہوں گے- مگر قیامت کو اونٹنی کیا کوئی چیز بھی کام نہ آئے گی- بات یہ ہے کہ چونکہ یہ کلام پیشگوئی پر مشتمل تھا- اور اس زمانہ کے لوگوں کے سامنے وہ حالات نہ تھے جو اس کے صحیح معنے کرنے میں ممد ہوتے اس لئے انہوں نے اسے قیامت پر چسپاں کر دیا- اصل میں یہ آخری زمانہ کے متعلق خبر تھی کہ اس وقت ایسی سواریاں نکل آئیں گی کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے- وہ مولوی جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی ہر ایک بات کی مخالفت کرتے ہیں ان کو بھی اگر موٹر کے مقابلہ میں اونٹ کی سواری ملے تو کبھی اس پر سوار نہ ہوں- اسی طرح مثلاًو اذا الوحوش حشرت ۱۵~}~کی پیشگوئی ہے یعنی وحوش جمع کر دیئے جائیں گے یعنی چڑیا گھر بنائے جائیں گے- چنانچہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گئی- اسی طرح اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ پہلے زمانہ میں قوموں کو ایک دوسرے سے وحشت تھی- آپس میں تنفر تھا- اب ایسا وقت آیا کہ ایک دوسرے سے تار اور ریل اور جہازوں کے ذریعہ ملنے لگ گئے ہیں-
اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہ واذا البحار سجرت ۱۶~}~کہ دریا خشک ہو جائیں گے اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ قیامت کے دن زلزلے آئیں گے اس وجہ سے دریا سوکھ جائیں گے حالانکہ قیامت کے دن تو دنیا نے ہی تباہ ہو جانا تھا دریائوں کے سوکھنے کا کیا ذکر تھا- حضرتمسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا مطلب بتایا کہ دریائوں کے سوکھنے سے مراد یہ تھی کہ ان میں سے نہریں نکالی جائیں گی-
اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہواذا النفوس زوجت ]71 [p۱۷~}~مختلف لوگوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا- اس کے یہ معنی کئے جاتے تھے کہ قیامت کے دن سب لوگوں کو جمع کر دیا جائے گا- مرد و عورت اکٹھے ہو جائیں گے- حالانکہ قیامت کے دن تو اس زمین نے تباہ ہو جانا تھا- اس میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی کیا صورت ہو سکتی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی کہ ایسے سامان اور ذرائع نکلنے کی اس آیت میں پیشگوئی کی گئی تھی جن کے ذریعہ سے یہاں بیٹھا ہوا شخص دور دراز کے لوگوں سے باتیں کر سکے گا- اب دیکھ لو- ایسا ہی ہو رہا ہے یا نہیں-
اسی طرح آپ نے قرآن کریم کی مختلف آیات سے ثابت کیا کہ ان میں صحیح علوم طبعیہ کا ذکر موجود ہے- مثلاًوالشمس وضحھا والقمر اذا تلھا ۱۸~}~کی آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ چاند اپنی ذات میں روشن نہیں بلکہ سورج سے روشنی لیتا ہے-
غرض آپ نے بیسیوں آیات سے بتایا کہ قرآن کریم میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے جنہیں ایک ہی زمانہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے- بلکہ اپنے اپنے وقت پر ان کی پوری سمجھ آ سکتی ہے-
اسی طرح زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جائے گا قرآن کریم میں سے نئے علوم نکلتے چلے جائیں گے- چنانچہ آج آپ کے بتائے ہوئے ان اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کا ایسا علم دیا ہے کہ کوئی اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا-
دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کتنا بڑا تغیر کر دیا- آپ سے پہلے مولوی یہی کہا کرتے تھے کہ فلاں بات فلاں تفسیر میں لکھی ہے اور اگر کوئی نئی بات پیش کرتا تو کہتے بتائو یہ کس تفسیر میں لکھی ہے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ جو خدا ان تفسیروں کے مصنفوں کو قرآن سکھا سکتا ہے` وہ ہمیں کیوں نہیں سکھا سکتا- اور اس طرح ایک کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے نکال کر آپ نے ہمیں سمندر کا تیراک بنا دیا-
)۴(چوتھی غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم کے مضامین میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہے وہ یہ نہ مانتے تھے کہ آیت کے ساتھ آیت اور لفظ کے ساتھ لفظ کا جوڑ ہے- بلکہ وہ بسا اوقات تقدیم و تاخیر کے نام سے قرآن کریم کی ترتیب کو بدل دیتے تھے- حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس خطرناک نقص کا بھی ازالہ کیا اور بتایا کہ تقدیم و تاخیر بیشک جائز ہوتی ہے- مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا صحیح ترتیب سے وہ افضل ہو سکتی ہے- اگر ترتیب تقدیموتاخیر سے اعلیٰ ہوتی ہے تو قرآن کی طرف ادنیٰ بات کیوں منسوب کرتے ہو؟
آپ نے آریوں کے مقابلہ میں دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم میں نہ صرف معنوی بلکہ ظاہری ترتیب کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے حتی کہ ناموں کو بھی زمانہ کے لحاظ سے ترتیب وار بیان کیا گیا ہے- سوائے اس کے کہ مضمون کی ترتیب کی وجہ سے انہیں آگے پیچھے کرنا پڑا ہو- اور اس میں کیا شک ہے کہ معنوی ترتیب زبانی ترتیب پر مقدم ہوتی ہے-
)۵( پانچویں غلطی مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی مطالب قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن کریم میں تکرار مضامین ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم میں ہر گز تکرار مضامین نہیں ہے- بلکہ ہر لفظ جو آتا ہے وہ نیا مضمون اور نئی خوبی لے کر آتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیتوں کو پھول سے تشبیہ دی ہے- اب دیکھو کہ پھول میں بظاہر ہر نیا دائرہ پتیوں کا تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ہر دائرہ پھول کے حسن کی زنجیر کو کامل کر رہا ہوتا ہے کیا پھول کی پتیوں کے ایک دائرہ کو اگر توڑ دیا جائے تو پھول کامل پھول رہے گا؟ نہیں- یہی بات قرآن کریم میں ہے- جس طرح پھول میں ہر پتی نئی خوبصورتی پیدا کرتی ہے- اور خداتعالیٰ پتوں کی ایک زنجیر کے بعد دوسری بناتا ہے اور تب ہی ختم کرتا ہے- جب حسن پورا ہو جاتا ہے- اسی طرح قرآن میں ہر دفعہ کا مضمون ایک نئے مطلب اور نئی غرض کے لئے آتا ہے- اور سارا قرآنکریم مل کر ایک کامل وجود بنتا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں- یہ خیال کرنا کہ قرآن کریم کی آیتیں ایک دوسری سے الگ الگ ہیں یہ غلط ہے قرآن کریم کی آیتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جسم کے ذرات- اور سورتوں کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کے اجزاء مثلاً انسان کے ۳۲ دانت ہوتے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دانتوں کو ۳۲ دفعہ دہرایا گیا ہے- اس لئے ۳۱ دانت توڑ ڈالنے چاہئیں- اور صرف ایک رہنے دینا چاہئے- یا انسان کے دو کان ہیں- کیا کوئی ایک کان اس لئے کاٹ دے گا کہ دوسرا کان کیوں بنایا گیا ہے یا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انسان کی بارہ پسلیاں نہیں ہونی چاہئیں` گیارہ توڑ دینی چاہئیں- اگر کسی کی ایک پسلی بھی توڑ دے گا تو وہ ضرب شدید کا دعویٰ کر دے گا- اسی طرح انسان کے جسم پر لاکھوں بال ہیں- کیا کوئی سارے بال منڈوا کر ایک رکھ لے گا کہ تکرار نہ ہو- ذرا جسم سے تکرار دور کر دو اور پھر دیکھو کیا باقی رہ جاتا ہے؟
عرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے مطالب بیان کر کے تکرار کا اعتراض کرنے والوں کو ایسا جواب دیا ہے کہ گویا ان کے دانت توڑ دیئے ہیں-
)۶(چھٹی غلطی قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے پرانے قصے بیان کئے گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم میں عبرت کے لئے قصے نہیں بیان کئے گئے گو قﷺقرآنیہ سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے- لیکن اصل میں وہ امت محمدیہﷺ~ کے لئے پیشگوئیاں ہیں- اور جو کچھ ان واقعات میں بیان کیا گیا ہے` وہ بعینہ آئندہ ہونے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مسلسل قصہ نہیں بیان کرتا بلکہ منتخب ٹکڑہ کا ذکر کرتا ہے-
یہ امر ایسا بدیہی ہے کہ قرآن کریم کے قﷺ کی جزئیات تک پوری ہوتی رہی ہیں- اور آئندہ پوری ہوں گی حتی کہ نملہ کا ایک واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے اس کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا- اس وقت بھی نملہ قوم کی حکمران ایک عورت تھی جیسے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں تھی- اس نے ہارون الرشید کے آگے ایک سونے کی تھیلی پیش کی- اور کہا کہ ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے وقت میں بھی ایک عورت نے ہی تحائف پیش کئے تھے- اب میں بھی عورت ہوں جو یہ پیش کر رہی ہوں اور اس طرح آپ کو سلیمانؑ سے مشابہت حاصل ہو گئی ہے- ہارون الرشید نے بھی اس پر فخر کیا کہ اسے حضرت سیلمانؑ سے تشبیہ دی گئی-
)۷( ساتواں شبہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کریم میں تاریخ کے خلاف باتیں ہیں- یہ شبہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گیا تھا- اور غیر مسلموں میں بھی سرسید احمد جیسے لائق شخص نے بھی اس اعتراض سے گھبرا کر یہ جواب پیش کیا کہ قرآن کریم میں خطابیات سے کام لیا گیا ہے- یعنی ایسے واقعات کو یا عقائد کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جو گو صحیح نہیں مگر مخاطب ان کی صحت کا قائل ہے اس لئے اس کے سمجھانے کے لئے انہیں صحیح فرض کر کے پیش کر دیا گیا ہے-
لیکن یہ جواب درحقیقت حالات کو اور بھی خطرناک کر دیتا ہے- کیونکہ سوال ہو سکتا ہے کہ کس ذریعہ سے ہمیں معلوم ہو کہ قرآن کریم میں کونسی بات خطابی طور پر پیش کی گئی ہے اور کونسی سچائی کے طور پر- اس دلیل کے ماتحت تو کوئی شخص سارے قرآن کو ہی خطابیات کی قسم کا قرار دیدے تو اس کی بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا- اور دنیا کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا- خطابیدلیل کے لئے ضروری ہے کہ خود مصنف ہی بتائے کہ وہ خطابی ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں خطابیات کے اصول کو اختیار نہیں کیا بلکہ اسے رد کیا ہے- اور یہ اصل پیش کیا ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس عالم الغیب کی طرف سے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یقیناً درست ہے- اور اس کے مقابلہ میں دوسری تاریخوں کا جو اپنی کمزوری پر آپ شاہد ہیں پیش کرنا بالکل خلافعقل ہے- ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے معنی خود قرآنکریم کے اصول کے مطابق کئے جائیں- اسے ایک قصوں کی کتاب نہ بنایا جائے اور اس کی پر حکمت تعلیم کو سطحی بیانات کا مجموعہ نہ سمجھ لیا جائے-
)۸( آٹھویں غلطی جس میں لوگ مبتلا ہو رہے تھے یہ تھی کہ قرآن کریم بعض ایسے چھوٹے چھوٹے امور کو بیان کر دیتا ہے جن کا بیان کرنا علم و عرفان اور ارتقائے ذہن انسانی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے بھی غلط ثابت کیا اور بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی فضول امر بیان نہیں ہوا- بلکہ جس قدر مطالب یا واقعات بیان کئے گئے ہیں نہایت اہم ہیں- میں مثال کے طور پر حضرت سیلمانؑ کے ایک واقعہ کو لیتا ہوں- قرآن کریم میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک محل ایسا تیار کرایا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اس کے نیچے پانی بہتا تھا- ملکہسبا جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے اس میں داخل ہونے کو کہا لیکن ملکہ نے سمجھا کہ اس میں پانی ہے اور وہ ڈری- مگر حضرت سلیمانؑ نے بتایا کہ ڈرو نہیں یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ کے نیچے پانی ہے- قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں-
قیل لھا ادخلی الصرح فلما راتہ حسبتہ لجہ وکشفت عن ساقیھا قال انہ صرح ممرد من قواریر- قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین- ۱۹~}~
یعنی سبا کی ملکہ کو حضرت سلیمان کی طرف سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو جا- جب وہ داخل ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ فرش کی بجائے گہرا پانی ہے اس پر اس نے اپنی پنڈلیوں کو ننگا کر لیا یا یہ کہ وہ گھبرا گئی- تب حضرت سلیمان نے اسے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے یہ پانی نہیں- پانی نیچے ہے اور اوپر شیشہ کا فرش ہے- تب اس نے کہا- اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا- اور اب میں سلیمان کے ساتھ سب جہانوں کے رب اللہ پر ایمان لاتی ہوں-
مفسرین ان آیات کے عجیب و غریب معنی کرتے ہیں- بعض کہتے ہیں حضرت سلیمانؑ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے- مگر جنوں نے انہیں خبر دی تھی کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں- حضرت سلیمانؑ نے اس کی پنڈلیاں دیکھنے کیلئے اس طرح کا محل بنوایا- مگر جب اس نے پاجامہ اٹھایا تو معلوم ہوا اس کی پنڈلیوں پر بال نہیں ہیں-
بعض کہتے ہیں پنڈلیوں کے بال دیکھنے کیلئے حضرت سلیمانؑ نے اس قدر انتظام کیا کرنا تھا- اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ملکہ کا تخت منگایا تھا- اس پر انہوں نے خیال کیا کہ میری ہتک ہوئی ہے کہ میں نے اس سے تخت مانگا- اس ہتک کو دور کرنے کیلئے آپ نے ایسا قلعہ بنوایا تا کہ وہ اپنی وقعت قائم کر سکیں-
مگر کیا کوئی سمجھدار کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی اہم ہیں کہ خدا کے کلام اور خصوصاً آخری شریعت کے کامل کلام میں ان باتوں کا ذکر کیا جائے جن کا نہ دین سے تعلق ہے نہ عرفان سے- اور کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی ایسے امور میں جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے مشغول ہو سکتیہیں-؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے کہ اس نے حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے اور صاف طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان ہوا ہے ایمان و عرفان کی ترقی کیلئے ہے- آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی- حضرت سلیمانؑ اسے سبق دینا چاہتے تھے اور شرک چھڑانا چاہتے تھے- پس آپ نے لفظوں میں دلیل دینے کے ساتھ ساتھ یہ طریق بھی پسند کیا کہ عملاً اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں- اور اس کی ملاقات کے لئے ایک ایسے قلعہ کو تجویز کیا جس میں شیشہ کا فرش تھا اور نیچے پانی بہتا تھا- جب ملکہ اس فرش پر سے چلنے لگی تو اسے پانی کی ایک جھلک نظر آئی- جسے دیکھ کر اس نے اپنا لباس اونچا کر لیا- یا یہ کہ وہ گھبرا گئی )کشف ساق کے دونوں ہی معنی ہیں( اس پر حضرت سلیمانؑ نے اسے تسلی دی اور کہا کہ جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو اصل میں شیشہ کا فرش ہے جس کے نیچے پانی ہے- چونکہ پہلے دلائل سے شرک کی غلطی اس پر ثابت کر چکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح پانی کی جھلک شیشہ میں سے تجھے نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلکا ہے اور لوگ انہیں خدا ہی سمجھ لیتے ہیں- حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نور سے نور حاصل کر رہے ہوتے ہیں چنانچہ اس دلیل سے وہ فوراً متاثر ہوئی اور بے تحاشا کہہ اٹھی کہاسملت مع سلیمن للہ رب العلمینمیں اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو سب جہانوں کا رب ہے- یعنی سورج وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں اور اصل فیض رسان وہی ایکہے-
اب دیکھو یہ کیسا اہم اور فلسفیانہ مضمون ہے اور اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے- مگر پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بالوں والی پنڈلیاں دیکھنے کے لئے محل بنایا گیا تھا- کیا جن عورتوں کی پنڈلیوں پر بال ہوں ان کی شادی نہیں ہوتی؟ اور نبی ایسے حالات میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ غرض حضرتمسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مضامین کی اہمیت کو قائم کیا اور اس کی طرف جو بے حقیقت امور منسوب کئے جاتے تھے ان سے اسے پاک قرار دیا-
)۹(نویں غلطی یہ لگ رہی تھی کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے دعوے بے دلیل ہیں` انہیں دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا- مسلمان کہتے قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں- اور دوسرے لوگ کہتے- یہ بیہودہ باتیں ہیں انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک دعویٰ دلائل قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے- اور قرآن اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود دیتا ہے- اور فرمایا یہی بات قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب سے ممتاز کرتی ہے- تم کہتے ہو قرآن کی باتیں بے دلیل ہیں- مگر قرآن میں یہی خصوصیت نہیں کہ اس کی باتیں دلائل سے ثابت ہو سکتی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتوں کے دلائل خود دیتا ہے- وہ کتاب کامل ہی کیا ہوگی جو ہمارے دلائل کی محتاج ہو- بات خدا بیان کرے اور دلائل ہم ڈھونڈیں- یہ تو ایسی ہی مثال ہوئی جیسے راجوں مہاراجوں کے درباروں میں ہوتا ہے کہ جب راجہ صاحب کوئی بات کرتے ہیں تو ان کے مصاحب ہاں جی ہاں جی کہہ کر اس کی تائید و تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں- پس حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کا کوئی دعویٰ ایسا نہیں جن کی دلیل بلکہ دلائل خود اس نے نہ دیئے ہوں- اور اس مضمون کو آپ نے اس وسعت سے بیان کیا کہ دشمنوں پر اس کی وجہ سے ایک موت آ گئی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا امرتسر میں عیسائیوں سے جو مباحثہ ہوا اور جنگمقدس کے نام سے شائع ہوا` اس میں آپ نے عیسائیوں کے سامنے یہی بات پیش کی کہ فریقین جو دعویٰ کریں اس کا ثبوت اپنی الہامی کتاب سے دیں- اور پھر اس کے دلائل بھی الہامی کتاب سے ہی پیش کریں- عیسائی دلائل کیا پیش کرتے وہ یہ دعویٰ بھی انجیل سے نہ نکال سکے کہ مسیحؑ خدا کا بیٹا ہے-
حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے- ایک دفعہ میں گاڑی میں بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ ایک عیسائی نے مجھ سے کہا- میں نے مرزا صاحب کا امرتسر والا مباحثہ دیکھا مگر مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا- آپ کے پاس ان کی صداقت کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا- یہی مباحثہ حضرت مرزاصاحب کی صداقت کی اور آپ کی سچائی کی دلیل ہے- عیسائی نے کہا وہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں کو کہا تھا- کہ اپنا دعویٰ اور اس کے دلائل اپنی الہامی کتاب سے پیش کرو- مگر عیسائی اس کا کوئی جواب نہ دے سکے- اگر میں ہوتا تو اٹھ کر چلا آتا- مگر میرا مرزا پندرہ دن تک عیسائیوں کی بیوقوفی کی باتیں سنتا رہا اور ان کو سمجھاتا رہا یہ حضرت مرزا صاحب کا ہی حوصلہ تھا-
)۱۰(دسویں غلطی بعض لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم علوم یقینیہ کو رد کرتا اور ان کے خلاف باتیں بیان کرتا ہے- اس غلطی کو بھی آپ نے دور فرمایا اور بتایا کہ قرآنکریم ہی تو ایک کتاب ہے- جو نیچر یا خدا کے فعل کو زور کے ساتھ پیش کرتی ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے- اور ظاہری سلسلہ یعنی نیچر کو باطنی سلسلہ یعنی کلام الہی کے مماثل قرار دیتی ہے- پس یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم علوم طبعیہ کے خلاف باتیں کرتا ہے خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل ایک دوسرے کے کبھی خلاف نہیں ہو سکتے- جو امور قرآن کریم میں خلافقانون قدرت قرار دیئے جاتے ہیں- آپ نے ان کے متعلق فرمایا- وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں- یا تو یہ کہ جس بات کو لوگوں نے قانون قدرت سمجھ لیا ہے وہ قانون قدرت نہیں- یا پھر قرآن کریم کے جو معنی سمجھے گئے ہیں وہ درست نہیں- چنانچہ آپ نے اس کے متعلق کئی مثالیں بیان فرمائیں کہ کس طرح قرآن کریم کے معنی غلط سمجھے گئے- چنانچہ آپ نے یہی مثال دی ہے کہوالسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع ۲۰~}~کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے اور زمین پھٹتی ہے- اور اس پر طبعی لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آسمان کوئی مادی شے ہی نہیں پھر وہ چکر کیونکر لگاتا ہے اور اگر مادی وجود ہو بھی تو بھی زمین چکر کھاتی ہے نہ کہ آسمان-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں- سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں اور رجع کے معنی بار بار آنے کے- پس اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے بلکہ یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طور پر بادلوں کو پیش کرتے ہیں- جو باربار خشک زمین کو سیراب کرنے کے لئے آتے ہیں- پھر زمین کو پیش کرتے ہیں جو بارش ہونے پر پھٹتی ہے یعنی اس سے کھیتی نکلتی ہے- شہادت کے طور پر ان چیزوں کو پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے بادلوں کا سلسلہ پیدا کیا ہے کہ وہ بار بار آتے ہیں اور زمین کی شادابی کا موجب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سرسبزی اور شادابی ناممکن ہے` اسی طرح روحانی سلسلہ کا حال ہے کہ جب تک اللہتعالیٰ اپنے فضل کے بادل نہیں بھیجتا اور اپنے کلام کا پانی نہیں برساتا زمین کی پھوٹنے کی قابلیت ظاہر نہیں ہوتی- لیکن جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تب جا کر انسانی ذہن بھی اپنی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے اور آسمانی کلام کی مدد سے باریک در باریک مطالبروحانیہ کو پیدا کرنے لگتا ہے- چنانچہ ان آیات کا سیاق بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے- کیونکہ آگے فرمایا ہے کہانہ لقول فصل وماھو بالھزل-۲۱~}~یعنی پہلی بات سے یہ امر ثابت ہے کہ قرآن کریم کوئی لغو بات نہیں` بلکہ حقیقت کو ثابت کرنے والا کلام ہے- کیونکہ اس زمانہ میں بھی زمین خشک ہو رہی تھی اور دینی علوم سے لوگ بے بہرہ تھے- پس ضرورت تھی کہ خدا کی رحمت کا بادل کلام الٰہی کی صورت میں برستا اور لوگوں کی روحانی خشکی کو دور کرتا-
اسی طرح آپ نے بتایا کہ دیکھو قرآن کریم کے زمانہ کے لوگوں کا خیال تھا کہ آسمان ایک ٹھوس چیز ہے اور ستارے اس میں جڑے ہوئے ہیں مگر یہ تحقیق واقعہ کے خلاف تھی- قرآن کریم نے اس زمانہ میں ہی اس کو رد کیا ہے- اور فرمایا ہے کہ کل فی فلک یسبحون- ۲۲~}~سیارے ایک آسمان میں جو ٹھوس نہیں ہے بلکہ ایک لطیف مادہ ہے جسے سیال سے نسبت دی جا سکتی ہے اور سیارے اس میں اس طرح گردش کرتے ہیں- جیسے کہ تیراک پانی میں تیرتا ہے- موجودہ تحقیق میں ایتھر کا بیان بالکل اس بیان کے مشابہ ہے-
اس طرح آپ نے فرمایا کہ خلق منھا زوجھا ۲۳~}~کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ آدم کی پسلی سے خدا تعالیٰ نے حوا کو پیدا کیا اور اس پر اعتراض کیا جاتا ہے- حالانکہ یہ معنی ہی غلط ہیں- قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حوا آدم ہی کی جنس سے پیدا کی گئی- یعنی جن طاقتوں اور جذبات کو لے کر مرد پیدا ہوا` انہی طاقتوں اور جذبات کو لے کر عورت پیدا ہوئی- کیونکہ اگر مرد اور عورت کے جذبات ایک نہ ہوتے تو ان میں حقیقی انس پیدا نہیں ہو سکتا تھا- بلکہ اگر مرد میں شہوت رکھی جاتی اور عورت میں نہ ہوتی تو کبھی ان میں اتحاد پیدا نہ ہوتا- اور ایک دوسرے سے سر پھٹول ہوتا رہتا- پس جیسے جذبات مرد میں رکھے گئے ہیں` ایسے ہی عورت میں بھی رکھے گئے ہیں تا کہ وہ آپس میں محبت سے رہ سکیں-
اب دیکھو یہ مسئلہ مرد و عورت میں کیسا صلح اور محبت کرنے والا ہے جب کوئی مرد عورت سے بلاوجہ ناراض ہو تو اسے کہیں گے- جیسے تمہارے جذبات ہیں` ایسے ہی عورت کے بھی ہیں- جس طرح تم نہیں چاہتے کہ تمہارے جذبات کو ٹھیس لگے` اسی طرح وہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے جذبات کو پامال نہ کیا جائے پس تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے-
اسی طرح آپ نے فرمایا بعض لوگ کہتے ہیں کہ الذی خلق السموت والارض وما بینھما فی ستہ ایام ثم استوی علی العرش الرحمن فاسئل بہخبیرا ۲۴~}~سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کئے گئے- اور پھر خدا عرش پر قائم ہو گیا- مگر یہ غلط ہے- کیونکہ زمین و آسمان لاکھوں سال میں پیدا ہوئے ہیں- یہ جیالوجی سے ثابت ہے لیکن حق یہ ہے کہ لوگ خود آیت قرآنیہ کو نہیں سمجھتے- ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ زمین و آسمان کتنے سالوں میں بنے مگر یہ جانتے ہیں کہ چھ دنوں میں نہیں بنے- کیونکہ یوم تو سورج سے بنتے ہیں- مگر جب سورج ہی نہ تھا تو یہ دن کہاں سے آگئے؟ یوم کے معنے ایک اندازہ وقت کے ہیں- قرآن کریم میں یوم ایک ہزار سال کا بھی اور پچاس ہزار سال کا بھی آیا ہے- پس اس آیت میں چھ لمبے زمانوں میں زمین و آسمان کی پیدائش مراد ہے-
)۱۱(گیارہویں لوگ قرآن کریم کی تفسیر کرنے میں غلطی کیا کرتے تھے- آپ نے ایسے اصول پر تفسیر قرآن کریم کی بنا رکھی کہ غلطی کا امکان بہت ہی کم ہو گیا ہے- ان اصول کے ذریعہ سے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے اتباع پر قرآن کریم کے ایسے معارف کھولے ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلے- چنانچہ میں نے بھی کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی مقام کسی بچہ سے کھلوایا جائے یا قرعہ ڈال لیا جائے پھر اس جگہ کے معارف میں بھی لکھوں گا` دوسری کسی جماعت کا نمائندہ بھی لکھے- پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کے ذریعہ قرآن کریم کے معارف ظاہر کراتا ہے مگر کسی نے یہ بات منظور نہ کی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اصول تفسیر بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں-:
)۱(آپ نے بتایا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا راز ہے اور راز ان پر کھولے جاتے ہیں جو خاص تعلق رکھتے ہیں- اس لئے قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے- مگر یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی تفسیریں جن لوگوں نے لکھی ہیں وہ نہ صوفی تھے نہ ولی بلکہ عام مولوی تھے جو عربی جاننے والے تھے- ہاں انہوں نے بعض آیتوں کی تفسیریں لکھی ہیں اور نہایت لطیف تفسیریں لکھی ہیں- جیسا کہ حضرت محی الدین صاحب ابنعربی کی کتب میں آیات قرآنیہ کی تفسیر آتی ہے تو ایسی لطیف ہوتی ہے کہ دل اس کی صداقت کا قائل ہو جاتا ہے- غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلق باللہ حاصل ہو-
)۲(دوسرا اصل آپ نے یہ بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے- اس نکتہ سے قرآن کریم کی تفسیر آسان بھی ہو گئی ہے اور اس کے لطیف معارف بھی کھلتے ہیں- پس چاہئے کہ جب کوئی قرآن کریم پر غور کرے تو اس بات کو مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ نے ایک لفظ کو پہلے کیوں رکھا ہے اور دوسرے کو بعد میں کیوں- جب وہ اس پر غور کرے گا تو اسے حکمت سمجھ میں آجائے گی-
)۳(قرآن کریم کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہوتا- اور کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا- ہر لفظ کسی خاص مفہوم اور مطلب کے ادا کرنے کے لئے آتا ہے- پس کسی لفظ کو یونہی نہ چھوڑو-
)۴(جس طرح قرآن کریم کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہوتا- اسی طرح وہ جس سیاقوسباق میں آتا ہے وہیں اس کا آنا ضروری ہوتا ہے پس معنے کرتے وقت پہلے اور پچھلے مضمون کے ساتھ تعلق سمجھنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے- اگر سیاق و سباق کا لحاظ نہ رکھا جائے تو معنے کرنے میں غلطی ہوتی ہے-
)۵(قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا ہے اس کے متعلق مفصل پہلے بیان کر آیا ہوں- آپ نے فرمایا جہاں قرآن کریم میں کوئی دعویٰ ہو وہاں اس کی دلیل بھی تلاش کرو ضرور مل جائے گی-
)۶(قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے- جہاں کہیں کوئی بات نامکمل نظر آئے اس کے متعلق دوسرا ٹکڑا دوسری جگہ تلاش کرو جو ضرور مل جائے گا اور اس طرح وہ بات مکمل ہو جائے گی-
)۷(قرآن کریم میں تکرار نہیں- اس کے متعلق میں تفصیلا پہلے بیان کر آیا ہوں-
)۸(قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں- بلکہ ہر گذشتہ واقعہ پیشگوئی کے طور پر بیان ہوا ہے- یہ بھی پہلے بیان کر چکا ہوں-
)۹(قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے- پہلے لوگوں کو جو آیت سمجھ نہ آتی تھی اس کے متعلق کہہ دیتے کہ وہ منسوخ ہے اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کا بہت بڑا حصہ منسوخ قرار دے دیا- ان کی مثال ایسی ہی تھی- جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو خیال تھا کہ وہ بڑا بہادر ہے- اس زمانہ میں بہادر لوگ اپنا کوئی نشان قرار دے کر اپنے جسم پر گدواتے تھے- اس نے اپنا نشان شیر قرار دیا اور اسے بازو پر گدوانا چاہا- وہ گودنے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میرے بازو پر شیر کا نشان گود دو- جب وہ ¶گودنے لگا اور سوئی چبھوئی تو اسے درد ہوئی اور اس نے پوچھا کیا چیز گودنے لگے ہو- گودنے والے نے کہا- شیر کا کان بنانے لگا ہوں- اس نے کہا اگر کان نہ ہو تو کیا اس کے بغیر شیر شیر نہیں رہتا؟ گودنے والے نے کہا کہ نہیں- پھر بھی شیر ہی رہتا ہے- اس نے کہا اچھا تب کان کو چھوڑ دو- اسے بھی پہلے بہانہ سے چھڑا دیا- اسی طرح جو حصہ وہ گودنے لگتا وہی چھڑا دیتا- آخر گودنے والے نے کہا کہ اب تم گھر جائو- ایک ایک کر کے سب حصے ہی ختم ہو گئے ہیں- یہی حال قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ ماننے والوں کا تھا- گیارہ سو آیات انہوں نے منسوخ قرار دے دیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں ہے- اور جن آیات کو منسوخ کہا جاتا تھا- ان کے نہایت لطیف معانی اور مطالب بیان فرمائے-
)۱۰(ایک گر آپ نے قرآن کریم کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی سنت آپس میں مخالف نہیں ہو سکتے- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی سائنس مخالف نہیں ہوتی- کیونکہ سائنس بعض اوقات خود غلط بات پیش کرتی ہے اور اس کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے- بلکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی سنت اس کے کلام کے خلاف نہیں ہوتی- ہاں یہ ممکن ہے کہ جس طرح کلام الہی کے سمجھنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں اسی طرح فعل الہی کے سمجھنے میں بھی غلطی کر جائیں-
)۱۱(آپ نے یہ بھی بتایا کہ عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے- بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں- پس ہمیشہ معانی پر غور کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہئے جو اس قسم کے دوسرے الفاظ میں پائے جاتے ہیں تاکہ وہ زائد بات ذہن سے غائب نہ ہو جائے جو ایک خاص لفظ کے چننے میں اللہ تعالیٰ نے مدنظر رکھی تھی-
)۱۲(قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضاء انسانی کے ہیں- جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں آپ نے فرمایا- کسی بات کو سمجھنا ہو تو سارے قرآن پر نظر ڈالنی چاہئے- ایک ایک حصہ کو الگ الگ نہیں لینا چاہئے-
)۱۳(تیرھویں غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے قرآن کریم احادیث کے تابع ہے حتی کہ یہاں تک کہتے تھے کہ احادیث قرآن کی آیات کو منسوخ کر سکتی ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کو اس طرح دور کیا کہ آپ نے فرمایا- قرآن کریم حاکم ہے اور احادیث اس کے تابع ہیں- ہم صرف وہی حدیث مانیں گے جو قرآن کریم کے مطابق ہو گی` ورنہ رد کر دیں گے- اسی طرح وہ حدیث جو قانون قدرت کے مطابق ہو وہ قابلتسلیم ہوگی- کیونکہ خداتعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل مخالف نہیں ہو سکتے-
)۱۴(چودھواں نقص لوگوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن ایک مجمل کتاب ہے جس میں موٹی موٹی باتیں بیان کی گئی ہیں- اخلاقی` تمدنی` معاشرتی باتوں کی تفصیل اس میں نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے جس نے روحانیات` معادیات` تمدنیات` سیاسیات اور اخلاقیات کے متعلق جتنے امور روحانی ترقی کے لئے ضروری ہیں` وہ سارے کے سارے بیان کر دیئے ہیں- اور فرمایا میں یہ سب باتیں نکال کر دکھانے کے لئے تیار ہوں-
)۱۵(پندرھویں غلطی یہ لوگوں کو لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی بعض تعلیمیں وقتی اور عرب کی حالت اور اس زمانہ کے مطابق تھیں- اب ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے- چنانچہ سید امیر علی جیسے لوگوں نے لکھ دیا کہ فرشتوں کا اعتقاد اور کثرت ازدواج کی اجازت ایسی ہی باتیں ہیں- دراصل یہ لوگ عیسائیوں کے اعتراضوں سے ڈرتے تھے اور اس ڈر کی وجہ سے لکھ دیا کہ یہ باتیں عربوں کے لئے تھیں ہمارے لئے نہیں ہیں- اب ان کو چھوڑا جا سکتا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- یہ بات غلط ہے- قرآن کریم کے سارے احکام صحیح اور کوئی حکم وقتی نہیں سوا اس کے جس کے متعلق قرآن کریم نے خود بتا دیا ہو کہ یہ فلاں وقت اور فلاں موقع کے لئے حکم ہے-
آپ نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری شریعت لانے والے تھے اس لئے سب تعلیمیں قرآن کریم میں موجود ہیں اور ہر زمانہ کے لئے ہیں- ہاں ان تعلیموں پر عمل کرنے کے اوقات خود اس نے بتا دیئے ہیں- اور قرآن کریم کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس پر عمل ہمیشہ کے لئے بند ہو یا ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے جس پر کوئی عمل نہ کر سکے اور تفصیلا آپ نے ان اعتراضوں
‏a10.3
کو دور کیا جو ملائکہ اور کثرت ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل پر پڑتے تھے-
)۱۶(سولہویں غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی- کہ وہ قرآن کریم کو ایک متبرک کتاب قرار دیتے تھے اور روزمرہ کام آنے والی کتاب نہیں سمجھتے تھے- جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اس کی تلاوت اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی طرف سے وہ بالکل بے پرواہ ہو گئے تھے- خوبصورت جز دانوں میں لپیٹ کر قرآن کریم کو رکھ دینا یا خالی لفظ پڑھ لینے کافی سمجھتے تھے کہیں قرآن کریم کا درس نہ ہوتا تھا- حتی کہ اس کا ترجمہ تک نہیں پڑھایا جاتا تھا- ترجمہ کے لئے سارا دارومدار تفسیروں پر تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی اس زمانہ میں وہ شخص ہوئے ہیں جنہوں نے قرآن کو قرآن کر کے پیش کیا اور توجہ دلائی کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہئے- آپ سے پہلے قرآن کا کام صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ جھوٹی قسمیں کھانے کے لئے استعمال کیا جائے- یا مردوں پر پڑھا جائے- یا اچھا خوبصورت غلاف چڑھا کر طاق میں رکھدیا جائے-
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ شاعروں نے خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں تو بے شمار نظمیں لکھی ہیں- مگر قرآن کریم کی تعریف میں کسی نے بھی کوئی نظم نہیں لکھی- پہلے انسان حضرت مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے قرآن کی تعریف میں نظم لکھی اور فرمایا ~}~
جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھنی ہوتی ہے تو وہ انہیں مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ کی حمد کے شعر پڑھنے ہوتے ہیں تو وہ انہیں مل جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تعریف میں انہیں نظم نہیں ملتی اور دشمن سے دشمن بھی حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں- اور یہ کہتے ہوئے کہ مرزا صاحب خود تو برے تھے مگر یہ شعر انہوں نے بہت اچھے کہے ہیں- آپ کے کلام کو پڑھنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحیح معنوں میں قرآنکریم کو ثریا سے لائے ہیں-
ملائکہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
پانچواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ ملائکہ کے متعلق جو غلط فہمیاں تھیں انہیں آپ نے دور کیا ہے-
)۱(بعض لوگ کہتے تھے کہ قوائے انسانی کا نام ملائکہ رکھا گیا ہے- ورنہ خدا تعالیٰ کو ملائکہ کی کیا ضرورت ہے- آپ نے اس شبہ کا بہ زور رد کیا اور بتایا کہ ملائکہ کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ وہ کارخانہ عالم میں ایک مفید اور کار آمد وجود ہیں آپ نے فرمایا کہ-:
)الف(ملائکہ کی ضرورت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے مگر ان کا وجود انسانوں کے لئے ضروری ہے جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کھانے کے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے لیکن اس نے کھانا بنایا- بغیر سانس کے زندہ رکھ سکتا تھا- مگر اس نے ہوا بنائی- بغیر پانی کے سیر کر سکتا تھا مگر اس نے پانی ¶بنایا- بغیر روشنی کے دکھا سکتا تھا مگر اس نے روشنی بنائی- بغیر ہوا کے سنا سکتا تھا مگر آواز کہ پہنچانے کے لئے اس نے ہوا بنائی- اور اس کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں- اسی طرح اس نے اگر اپنا کلام پہنچانے کے لئے ملائکہ کا وجود بنایا تو حاجت اور ضرورت کا سوال کیوں پیدا ہو گیا؟ باقی ذرائع کے پیدا کرنے سے اگر خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت ہوتی ہے تو ملائکہ کے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی احتیاج کیونکر ثابت ہوئی؟ ان کی پیدائش بھی مخلوق کی ضرورت کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی احتیاج کی وجہ سے-
)ب(دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ انسان کی عملی اور ذہنی ترقی کے لئے ملائکہ کا وجود ضروری ہے- علمی ترقی اس طرح ہوتی ہے کہ جو باتیں مخفی در مخفی رکھی گئی ہیں ان کو انسان دریافت کرتے جاتے ہیں اور ترقی کرتے جاتے ہیں- پس ضروری تھا کہ کارخانہ عالم اس طرح چلایا جاتا کہ نتائج یکدم نہ نکلتے بلکہ مخفی در مخفی اسباب کا نتیجہ ہوتے` تا کہ انسان ان کو دریافت کر کے علوم میں ترقی کرتا جاتا اور دنیا اس کے لئے ایک طے شدہ سفر نہ ہوتی بلکہ ہمیشہ اس کے لئے کام موجود رہتا- اس سلسلہ کی آخری کڑی ملائک ہیں- جن کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین کو صحیح طور پر چلائیں جن کو خدا تعالیٰ نے سنت اللہ کے نام سے دنیا میں جاری کیا ہے- ان کے وجود کے بغیر بے جان مادہ کا سلسلہ عمل اس خوبی سے چل ہی نہیں سکتا تھا جس طرح کہ وہ ان کی موجودگی میں چل رہا ہے-
)۲(دوسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ تصرف کے ذریعہ سے کام کرتے ہیں نہ کہ خود ہر جگہ جاکر اگر انہیں ہر جگہ جاکر کام کرنا پڑتا تو عزرائیل کے لئے اس قدر آدمیوں کی جان یکدم نکالنی مشکل ہوتی- ہاں جب انہیں کسی مقام پر ظاہر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس جگہ متمثل ہو جاتے ہیں بغیر اس کے کہ اپنی جگہ سے ہلیں-
)۳(تیسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگ رہی تھی کہ گویا وہ بھی گناہ کر سکتے ہیں- چنانچہ آدم کے واقعہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ملائکہ نے خدا تعالیٰ پر اعتراض کیا کہ اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے- اسی طرح خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ملائکہ دنیا میں آئے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے- آخر اللہتعالیٰ نے انہیں سزا دی اور وہ چاہ بابل میں اب تک قید ہیں- حضرت مسیحموعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے ان اتہامات سے ملائکہ کو پاک کیا اور بتایا کہ ملائکہ تو قانون قدرت کی پہلی زنجیر ہیں- ان میں خیروشر کے اختیار کرنے کی قدرت ہی حاصل نہیں- انہیں تو جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے کرتے ہیں- نہ اس کے خلاف ایک بالشت ادھر ہو سکتے ہیں نہ ادھر-
)۴(چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ ملائکہ کو ایک فضول سا وجود سمجھا جاتا تھا- جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنے گرد ایک حلقہ آدمیوں کا رکھتے ہیں گویا خدا تعالیٰ نے بھی اسی طرح انہیں رکھا ہوا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ ایسا نہیں بلکہ سب کارخانہ عالم انہی پر چل رہا ہے پھر ان کا کام انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکات کرنا بھی ہے اور انسان ان سے تعلقات پیدا کر کے روحانی علوم میں ترقی کر سکتا ہے-
انبیاء کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
چھٹا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا کہ انبیاء کے متعلق جو غلطیاں پھیلی ہوئی تھیں ان کو دور کیا-
)۱(پہلی غلط فہمی انبیاء کے متعلق یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے سنی سوائے اولیاء اللہ اور صوفیاء کے گروہ اور ان کے متعلقین کے عصمت انبیاء کے مخالف تھے بعض تو امکانات کی حد تک ہی رہتے لیکن بہت سے عملاً انبیاء کی طرف گناہ منسوب کرتے اور اس میں عیب محسوس نہ کرتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے- حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ انہوں نے چوری کی تھی- حضرت الیاس علیہ السلام کے متعلق کہتے کہ وہ خدا سے ناراض ہو گئے تھے- دائود علیہ السلام کی نسبت کہتے کہ وہ کسی غیر کی بیوی پر عاشق ہو گئے تھے اور اس کے حصول کے لئے انہوں نے خاوند کو جنگ پر بھجوا کر مروا دیا- یہ مرض یہاں تک ترقی کر گیا کہ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ رہی تھی-
)الف( حضرت مسیح موعودؑ نے بتایا کہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اور جو باتیں بیان کی جاتی ہیں بالکل جھوٹ ہیں- آپ نے ان باتوں کا غلط ہونا دو طرح ثابت کیا- ایک اس طرح کہ فرمایا یہ قانون قدرت ہے کہ معرفت کامل گناہ سوز ہوتی ہے- مثلاً جسے یقین کامل ہو کہ فلاں چیز زہر ہے` وہ کبھی اسے نہیں کھائے گا- پس جب یہ مانتے ہو کہ نبی کو معرفت کامل حاصل ہوتی ہے تو پھر یہ کہنا کہ نبی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے` یہ دونوں باتیں متضاد ہیں- پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ نبی سے کوئی گناہ سرزدہو-
)ب(یہ کہ نبی کے بھیجنے کی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہو` ورنہ نبی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے- کیا خدا تعالیٰ لکھی لکھائی کتاب نہیں بھیج سکتا تھا- پس نبی آتا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے کلام پر عمل کر کے لوگوں کو دکھائے اور ان کے لئے کامل نمونہ بنے پس اگر نبی بھی گناہ کر سکتا ہے تو پھر وہ نمونہ کیا ہوگا- نبی کی تو غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جو لفظوں میں خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ہو وہ اپنے عمل سے لوگوں کو سکھائے-
)۲( دوسری غلطی جس میں لوگ مبتلا تھے یہ تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو لوگ کہتے تھے کہ نبی گناہگار ہو سکتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہو سکتی- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا اور بتایا کہ-:
)الف(نبی سے اجتہادی غلطی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری ہے تا کہ معلوم ہو کہ نبی پر جو کلام نازل ہوا وہ اس کا نہیں بلکہ اور ہستی نے نازل کیا ہے- کیونکہ اپنی ذات کے سمجھنے میں کسی کو غلطی نہیں لگتی- کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں بات جب میں نے کہی تھی تو اس کا میں نے اور مطلب سمجھا تھا اور اب اور سمجھتا ہوں- اس غلطی کا لگنا ثبوت ہوتا ہے اس امر کا کہ وہ بات اس کی بنائی ہوئی نہیں- پس آپ نے فرمایا کہ نبی سے اجتہادی غلطی سرزد ہونا ضروری ہے تا کہ اس کی سچائی کا ایک ثبوت بنے-
)ب(دوسرے نہ صرف نبی کو اجتہادی غلطی لگتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نبی سے اجتہادی غلطی بعض دفعہ خود کراتا ہے- تا کہ اول نبی کا اصطفاء کرے یعنی اس کا درجہ اور بلند کرے- اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب ہے جب ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بیٹے کو قتل کر دیں- کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو جب وہ قتل کرنے لگے تھے انہیں منع نہ کیا جاتا- لیکن حضرت ابراہیمؑ کو خواب ایسے رنگ میں دکھائی گئی کہ ابراہیمؑ کا ایمان لوگوں پر ظاہر ہو جائے- اور جب وہ اس کے ظاہری معنوں کی طرف مائل ہوئے تو اس کی حقیقت ان پر کھولی گئی حتی کہ وہ عملاً بیٹے کو قتل کرنے لگے تب بتایا گیا کہ ہمارا یہ مطلب نہ تھا اور یہ خدا تعالیٰ نے اسی لئے کیا تا دنیا کو بتا دے کہ خدا کے لئے ابراہیمؑ اپنا اکلوتا اور بڑھاپے کا بیٹا بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہے-
دوسری قسم کی اجتہادی غلطیاں ابتلائی ہوتی ہیں- یعنی بعض لوگوں کا امتحان لینے کیلئے- جیسے صلح حدیبیہ کے وقت ہوا کہ آپﷺ~ کو خواب میں طواف کا نظارہ دکھایا گیا- مگر اس سے مراد یہ تھی کہ آئندہ سال طواف ہوگا- آپﷺ~ نے سمجھا کہ ابھی عمرہ کر آئیں- اور ایک جماعت کثیر کو لے کر آپﷺ~ چل پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا پھر بھی اظہار نہ کیا- جب روک پیدا ہوئی تو کئی صحابہ کو حیرت ہوئی اور کمزور طبائع کے لوگ تو تمسخر کرنے لگے اور اس طرح مومنومنافق کے ایمان کی آزمائش ہوگئی-
یاد رکھنا چاہئے کہ الہام کے سمجھنے میں تب ہی اجتہادی غلطی لگ سکتی ہے جب الہام کے الفاظ تعبیر طلب ہوں یا جو نظارہ دکھایا جائے وہ تعبیر رکھتا ہو- اگر الہام دماغیاختراع ہوتا تو پھر دماغ سے ایسے الفاظ نکلتے جو واضح ہوتے نہ کہ تعبیر طلب نظارے یا الفاظ- تعبیر طلب نظارے تو ارادے کے ساتھ نہیں بنائے جا سکتے مثلاً دماغ کو اس سے کیا نسبت ہے کہ وہ قحط کو دبلی گائیوں کی شکل میں دکھائے پس اجتہادی غلطی کا سرزد ہونا الہام کے دماغی اختراع ہونے کے منافی ہے اور اس تشریح کی وجہ سے یورپ کی ان نئی تحقیقاتوں پر جو الہام کے متعلق ہو رہی ہیں` پانی پھر جاتا ہے- کیونکہ اجتہادی غلطی کی موجودگی میں جو باریک تعبیر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے الہام کو انسانی دماغ کا اختراع کسی صورت میں قرار نہیں دیا جا سکتا- کیونکہ دماغی اختراع اگر فتور دماغ کا نتیجہ ہو گا تو پراگندہ ہوگا اور کبھی پورا نہ ہوگا- اگر ذہنیقابلیت کا نتیجہ ہو تو صاف الفاظ میں ہوگا` تعبیر طلب نہ ہوگا-
)۳(تیسری غلطی لوگوں کو شفاعت انبیاء کے متعلق لگی ہوئی تھی اور اس کی دو شقیں تھیں-
)الف(یہ کہ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ جو مرضی آئے کرو` شفاعت کے ذریعہ سب کچھ بخشا جائے گا- چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے-
مستحق شفاعت گناہگاراں اند
یعنی شفاعت کے مستحق گناہگار ہی ہیں-
)ب( بعض لوگ اس کے الٹ یہ خیال کرتے تھے کہ شفاعت شرک ہے- اور صفاتباری تعالیٰ کے خلاف ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان دونوں غلطیوں کو دور کیا آپ نے مسئلہشفاعت کی یہ تشریح کی کہ شفاعت خاص حالتوں میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتی ہے- پس شفاعت پر توکل کرنا درست نہیں ہے- شفاعت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ باوجود پوری کوشش کرنے کے پھر بھی انسان میں کچھ خامی رہ گئی ہو اور جب تک انسان شفیع کے ہمرنگ نہ ہو جائے شفاعت نہیں ہو سکتی- کیونکہ شفیع کے معنی ہیں جوڑا- اور جب تک کوئی رسول کا جوڑا نہ بن جائے شفاعت سے بخشا نہیں جا سکتا- پھر وہ جو کہتے ہیں شفاعت شرک ہے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ اگر شفاعت حکومت کے ذریعہ کرائی جاتی- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ سے حکما کہتے کہ فلاں کو بخش دے تو یہ شرک ہوتا- مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے شفاعت ہمارے اذن سے ہوگی یعنی ہم حکم دے کر رسول سے یہ کام کرائیں گے جب ہم کہیں گے کہ شفاعت کرو` تب نبی شفاعت کرے گا اور یہ امر شرک ہر گز نہیں ہو سکتا- اس میں نہ خدا تعالیٰ کی ہمسری ہے اور نہ اس کی کسی صفت پر پردہ پڑتا ہے-
آپ نے ثابت کیا کہ نہ صرف شفاعت جائز ہے بلکہ دنیا کی روحانی ترقی کیلئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دنیا کی نجات ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ورثہ سے کمالات ملتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کا باپ نماز نہیں پڑھتا- مگر بیٹا پکا نمازی ہوتا ہے` پھر اس بیٹے کو یہ بات ورثہ میں کس طرح ملی؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ باپ میں نماز پڑھنے کی قابلیت تھی تبھی بیٹے میں آئی ورنہ کبھی نہ آتی- بھینس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی- اس لئے کسی بھینس کا بچہ ایسا نہیں ہوتا جو نماز پڑھ سکے- پس حق یہی ہے کہ کمالات ورثہ میں ملتے ہیں اور جب جسمانی کمالات ورثہ میں ملتے ہیں تو روحانی کمالات بھی ان اشخاص کو جو آدم کے مقام پر نہیں ہوتے بغیر ورثہ کے نہیں مل سکتے- پس انسانوں کے لئے جو اپنی ذات میں کمال حاصل نہیں کر سکتے` نبی بھیجے جاتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جن پر آسمان سے روحانیت کے فیوض ڈالے جاتے ہیں- اور ان کو خدا تعالیٰ آدم قرار دیتا ہے پھر ان کی روحانیاولاد بن کر دوسرے لوگوں کو روحانی فیوض ملتے ہیں- اور اس طرح وہ نجات حاصل کرتے ہیں- پس شفاعت تو قانون قدرت سے کامل مطابقت رکھنے والا مسئلہ ہے نہ کہ اس کے خلاف-
)۴(انبیاء کے متعلق جن غلطیوں میں مسلمان مبتلا تھے ان میں سے چوتھے نمبر پر وہ غلطیاں ہیں- جو خصوصیت سے حضرت مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو رہی تھیں- مسیح کی ذات ایک نہیں متعدد غلطیوں کی آماجگاہ بنا دی گئی تھی- اور پھر تعجب یہ کہ ان کے متعلق مختلف اقوام غلط خیالات میں پڑی ہوئی تھیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب غلطیوں کو دور کیا-
سب سے پہلی غلطی حضرت مسیحؑ ناصری کی پیدائش کے متعلق تھی- مسلمان بھی اور دوسرے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا تھے کہ حضرت مسیحؑ کی پیدائش انسانی پیدائش سے بالا قسم کی پیدائش تھی- اور ان کا روح اللہ اور کلمہ اللہ سے پیدا ہونا اپنی مثال آپ ہی تھا- اس خیال سے بڑا شرک پیدا ہو گیا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ سب انبیاء میں روح اللہ تھی اور سب کلمہ اللہ تھے- حضرت مسیحؑ پر چونکہ اعتراض کیا جاتا تھا اور انہیں نعوذباللہ ولد الزنا کہا جاتا تھا اس لئے ان کی بریت کے لئے ان کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے ورنہ سارے نبی روح اللہ اور کلمہ اللہ تھے- قرآن کریم میں حضرتسلیمان کے کفر کا انکار کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایاماکفرسلیمن ۲۵~}~اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا باقی سب انبیاء نے کیا تھا- ان کے کفر کے انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا- اس لئے ان کے متعلق الزام کو رد کیا گیا- دوسرے انبیاء کے متعلق چونکہ اس قسم کا الزام نہیں لگا تھا اس لئے ان کے متعلق کفر کی نفی کرنے کی ضرورت نہ تھی-
یہی حال حضرت مسیح علیہ السلام کا تھا- جن کے متعلق یہود کا الزام تو الگ رہا` بڑے بڑے عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ )نعوذباللہ(ولد الزنا تھے- مگر اس میں ان کا کیا قصور تھا- چنانچہ ٹالسٹائے جو ایک بہت مشہور عیسائی ہوا ہے- اس نے مفتی محمد صاحب کو لکھا کہ اور تو مرزاصاحب کی باتیں معقول ہیں لیکن مسیح کو بن باپ قرار دینا میری سمجھ میں نہیں آتا- اگر اس کی وجہ مسیح کو پیدائش کے داغ سے بچانا ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں- کیونکہ اس قسم کی پیدائش میں خداوند کا کیا قصور تھا- غرض یہود چونکہ آپ کی پیدائش پر الزام لگاتے تھے کہ وہ شیطانی تھی اور خود مسیحیوں میں سے بعض نے آئندہ ایسا کرنا تھا` اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کی برائت کے لئے فرمایا کہ ان کی پیدائش روح اللہ سے تھی` کسی گناہ کا نتیجہ نہ تھی- اور کسی ایسے فعل کا نتیجہ نہ تھی جو خدا کی شریعت کے خلاف ہو بلکہ کلمہ اللہ کے مطابق تھی- پس روحاللہ اور کلمہ اللہ کے الفاظ سے مسیح کی پیدائش کا ذکر کرنا تعظیماً نہیں بلکہ اس کی برائت کیلئے ہے-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم مسیح کی پیدائش کو قانون قدرت سے بالا سمجھیں- ایسی پیدائش اور انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور حیوانوں میں تو یقیناً ہوتی ہے- باقی رہا یہ سوال کہ کیوں خدا تعالیٰ نے انہیں بلا باپ پیدا کیا؟ باپ سے ہی کیوں نہ پیدا کیا- تو اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق بنیاسرائیل میں سے متواتر انبیاء آ رہے تھے- جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے مسیح کی پیدائش کے ذریعہ سے انہیں آخری بار تنبیہہ کی اور بتایا کہ اب تک ہم معاف کر کے تمہارے اندر سے نبی بھیجتے رہے ہیں- مگر اب ہم ایک انسان کو بھیجتے ہیں جو ماں کی طرف سے بنی اسرائیل ہے اور باپ کی طرف سے نہیں- اگر آئندہ بھی باز نہ آئو گے- تو ایسا ہی آئے گا جو ماں باپ دونوں کی طرف سے غیر اسرائیلی ہوگا- چنانچہ جب بنی اسرائیل نے اس تنبیہہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور شرارت میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو کلی طور پر بنیاسرائیل سے جداتھے-
پس حضرت مسیحؑ کی بے باپ پیدائش بطور رحمت کے نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے لئے بطور انذار تھی- چنانچہ اس کا انجام یہی ہوا-
دوسری غلطی مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ مسلمان خیال کرتے تھے کہ صرف حضرت مسیح اور ان کی ماں مسشیطان سے پاک تھیں- اور کوئی انسان ایسا نہیں ہوا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ کل انبیاء بلکہ مومن بھی مسشیطان سے پاک ہوتے ہیں- چنانچہ مومنوں کو حکم ہے کہ جب وہ بیوی کے پاس جائیں تو یہ دعا پڑھا کریں-اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا- ۲۶~}~ایاللہ! مجھے بھی شیطان سے بچا اور میری اولاد کو بھی بچا- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بچہ پیدا ہوگا اسے شیطان مس نہ کرے گا- یہ گر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسشیطان سے اولاد کو محفوظ رکھنے کا بتایا ہے- پس جب امت محمدیہﷺ~ کے افراد بھی مسشیطان سے پاک ہو سکتے ہیں تو انبیاء اور خصوصاً سید ولد آدم کیوں محفوظ نہ ہوں گے- آپ نے بتایا کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ مس شیطان سے پاک تھیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حضرتمسیح پر ولد الزنا ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسشیطان سے پاک تھے یعنی ان کی پیدائش شیطانی نہ تھی- پس حدیث میں جو ان کے پاک ہونے کا ذکر آتا ہے اس سے مراد مسیح اور ابن مریم کی طرح کے لوگ ہیں نہ کہ صرف حضرت مسیح اور حضرت مریم- چنانچہ ان دونوں ناموں کو سورۃ تحریم میں بطور مثال بیان بھی کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی یہ اصطلاح ہے کہ وہ مومنوں کے ایک گروہ کا نام مسیح اور دوسرے کا مریم رکھتا ہے-
)۳( تیسری غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کے متعلق لگی ہوئی تھی- مثلاً لوگ کہتے تھے- حضرت مسیح نے مردے زندہ کئے` وہ پرندے پیدا کرتے تھے- حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے ان غلطیوں کو بھی دور فرمایا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کسی کو نہیں دیتا- قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان ہے کہ مردے زندہ کرنا اور پیدا کرنا صرف اسی کا کام ہے- اور مردے زندہ کرنے کے متعلق تو وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں وہ مردے زندہ کرتا ہی نہیں- پس یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح ناصری نے فی الواقع مردے زندہ کئے یا جانور پیدا کئے شرک ہے- اور ہرگز درست نہیں ہاں انہوں نے روحانی طور پر ایسی باتیں کیں یا علم الترب کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے یا یہ کہ ایسے لوگ ان کی دعا سے اچھے ہوئے جو قریبالمرگ تھے-
)۴(چوتھی غلطی لوگوں کو حضرت مسیحؑ کی تعلیم کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی تعلیم سب سے اعلیٰ اور بہت مکمل ہے حضرت مسیح نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑے مارے تو تو دوسرا بھی پھیر دے` یہ کمال حلم کی تعلیم ہے اور اس سے بڑھ کر اخلاقیتعلیم ہو ہی نہیں سکتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تعلیم ایک وقت اور ایک قوم کے لئے تو اچھی ہو سکتی تھی- لیکن ہر وقت اور ہر قوم کیلئے یہ تعلیم ہرگز اچھی نہیں- اس لئے سب سے کامل تعلیم نہیں کہلا سکتی- اس تعلیم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہود میں بہت سختی پیدا ہو گئی تھی اور وہ بڑے ظلم کیا کرتے تھے- اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کے ذریعہ سے ان کو انتہائی درجہ کی نرمی کی تعلیم دی تا کہ ان کی خشونت کم ہو` ورنہ اس تعلیم پر ہر موقع پر ہر گز عمل نہیں ہو سکتا-
اس موقع پر مجھے مصر کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے- کہتے ہیں ایک پادری صاحب وعظ کیا کرتے تھے- دیکھو مسیح نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے- وہ کہتے ہیں اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو- ایک دن مجمع میں سے ایک مصری نے نکل کر پادری صاحب کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا- پادری صاحب اس پر بہت غصے ہوئے اور اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے- اس مصری مسلمان نے کہا کہ مسیح کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے تو تمہیں دوسرا گال بھی میری طرف پھیرنا چاہئے تھا تا کہ میں اس پر بھی طمانچہ ماروں- پادری صاحب نے جواب دیا کہ نہیں اس وقت تو میں مسیح کی تعلیم پر نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرونگا` ورنہ تم لوگ بہت دلیر ہو جائو گے- پس جیسا کہ عقل بتاتی ہے اور جیسا کہ مسیحی لوگوں کا طریق عمل بتایا ہے اس تعلیم پر ہمیشہ عمل نہیں ہو سکتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کی تعلیم نامکمل ہے اور اس پر ہر وقت اور ہر زمانہ میں عمل نہیں کیا جا سکتا اس کے مقابلہ میں آپ نے بتایا کہ قرآن کی تعلیم کامل ہے اور ہر زمانہ اور ہر وقت کیلئے ہے-
)۵(پانچویں غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے متعلق تھی- جس میں مسلمان اور یہود اور عیسائی سب مبتلا تھے- مسلمان کہتے تھے یہود نے حضرتمسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکا دیا تھا- اور انہیں خدا نے آسمان پر اٹھا لیا تھا- یہود اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت مسیح کو ہی صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا تھا- مسلمانوں کے خیال کو تو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے اس طرح رد کیا کہ فرمایا-:
حضرت مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکانا صریح ظلم تھا- اور اگر اس شخص کی مرضی سے لٹکایا گیا تھا تو اس کا ثبوت تاریخ میں ہونا چاہئے- پھر اگر مسیح کو خدا نے آسمان پر اٹھا لینا تھا- تو کسی اور غریب کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پس یہ غلط ہے کہ مسیح کی جگہ کسی اور کو صلیب پر لٹکایا گیا- اور یہ بھی کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا- دوسری طرف آپ نے یہود اور مسیحیوں کی بھی تردید کی کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح کو صلیب سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور اس طرح خدا نے ان کو *** موت سے بچا لیا-
اب دیکھو انیس سو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس واقعہ کی اصل حقیقت کا پتہ لگانا کتنا بڑا کام ہے- خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اترنے کے ثبوت آپ نے خود انجیل سے ہی دیئے ہیں- مثلاً یہ کہ حضرت مسیح سے ایک دفعہ علماء وقت نے نشان طلب کیا تھا- تو اس نے انہیں جواب میں کہا-
’’اس زمانہ کے برے اور زناکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں- مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا- کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا- ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘- ۲۷~}~
تورات سے ثابت ہے کہ حضرت یونسؑ تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تھے اور پھر زندہ ہی نکلے تھے- پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح ناصری بھی صلیب کے واقعہ کے موقع پر زندہ ہی قبر میں داخل کئے جاتے اور زندہ ہی نکلتے پس یہ خیال کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے انجیل کے صریح خلاف ہے اور خود مسیح کی تکذیب اس سے لازم آتی ہے-
عیسائیت کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ آپ کے کام کی عظمت ثابت کرنے کیلئے اکیلا ہی کافی ہے مگر آپ نے اس پر بھی بس نہیں کی- بلکہ آپ نے تاریخ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر آئے اور وہاں آ کر فوت ہوئے گویا ان کی سب زندگی کو پردہ اخفاء سے نکال کر ظاہر کر دیا-
)۶(چھٹی غلطی حضرت مسیح کی زندگی اور دوبارہ آنے کے متعلق تھی اس غلطی کو بھی آپ نے ظاہر کیا اور بتایا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہے کہ وہ اپنے کام کے لئے ایک پرانا آدمی سنبھال کر رکھ چھوڑے اور نیا آدمی نہ بنا سکے کیا جو صبح کی باسی روٹی رکھ کر شام کو کھائے اسے امیر کہا جائے گا؟ یہ باسی روٹی رکھنے والے کی امارت نہیں بلکہ غربت کا ثبوت ہوگا- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں- کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ ان کے ذریعہ امتمحمدیہﷺ~ کی اصلاح کرے- ان کے کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ )نعوذ باللہ( اللہ تعالیٰ سے حضرت عیسیٰ جیسا انسان اتفاقاً بن گیا تھا جسے اس نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ جب دنیا میں فتنہ ہوگا تو اسے نازل کرے گا- مگر یہ غلط ہے جس طرح امیروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ جو روٹی بچ رہے اسے غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور دوسرے وقت نیا کھانا تیار کرتے ہیں- اسی طرح اللہتعالیٰ بھی ہر زمانہ کے مطابق نئے بندے پیدا کرتا ہے- پھر اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو سنبھال کر زندہ رکھنا ہوتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے انسان کو زندہ رکھتا مگر آپﷺ~ تو فوت ہو گئے- کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہے جو عمدہ دوا کو تو پھینک دے اور ادنیٰ دوا کو سنبھال کر رکھ چھوڑے اور پھر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کو کیوں زندہ رکھا-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت عیسیٰ کو زندہ رکھنے اور امت محمدیہﷺ~ کی اصلاح کے لئے بھیجنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے معلم تھے اور آپﷺ~ کا کام اعلیٰ درجہ کے شاگرد پیدا کرنا تھا- مگر کہا یہ جاتا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ امتمحمدیہ میں فتنہ پیدا ہوگا` اس وقت محمد2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم تو کوئی ایسا شاگرد نہ پیدا کر سکیں گے جو اس فتنہ کو دور کر سکے مگر حضرت عیسیٰؑ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے تھے` اس کام کے لئے لائے جائیں گے- نیز اس عقیدہ میں امت محمدیہ کی بھی ہتک ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب سے نازک موقع پر خطرناک طور پر ناقابل ثابت ہوگی- حتیکہ دجال تو اس میں پیدا ہوں گے مگر مسیح دوسری امت سے آئے گا-
آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح جن کی عزت کے لئے یہ عقیدہ بنایا گیا ہے اس میں ان کی بھی درحقیقت ہتک ہے کیونکہ وہ مستقل نبی تھے- اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ اس نبوت سے علیحدہ کر دیئے جائیں گے اور انہیں امتی بننا پڑے گا-
معجزات کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ
ساتواں کام حضرت مسیح موعودعلیہالصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ معجزات کے متعلق جو غلطفہمیاں تھیں` ان کی اصلاح کی- دنیا معجزات کے متعلق دو گروہوں میں تقسیم تھی- بعض لوگ معجزات کے کلی طور پر منکر تھے- اور بعض ہر رطب و یابس قصہ کو صحیح تسلیم کر رہے تھے جو لوگ معجزات کے منکر تھے- انہیں آپ نے علاوہ دلائل کے اپنے معجزات کو پیش کر کے ساکت کیا اور دعویٰ کیا کہ ~}~
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بنگر زغلمان محمد
جو لوگ ہر رطب و یابس حکایت کو معجزہ قرار دے رہے تھے انہیں آپ نے بتایا کہ معجزہ تو ایک غیر معمولی کیفیت کا نام ہے اور غیر معمولی امور کے تسلیم کرنے کیلئے غیر معمولی ثبوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے- پس انہی معجزات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ )۱(جن کا ذکر الہامی کتاب میں ہو- یا یہ کہ ان کی تائید میں زبردست تاریخی ثبوت ہو )۲(دوسرے جو سنت اللہ کے خلاف نہ ہو خواہ بظاہر اچنبھا نظر آئے- مثلاً خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ کوئی مردہ اس دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتا- اگر کوئی کہے کہ فلاں نبی یا ولی نے مردہ زندہ کیا ہے تو چونکہ یہ قرآن کے خلاف ہوگا` ہم اسے ہر گز تسلیم نہیں کریں گے- کیونکہ معجزہ دکھانے والی ہستی نے خود فرما دیا ہے کہ وہ مردہ زندہ نہیں کرے گی-
یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان نہ صرف حضرت عیسیٰ کو بلکہ اور لوگوں کو بھی مردے زندہ کرنے والے قرار دیتے ہیں- ہندو ان سے بھی بڑھ گئے ہیں- مسلمانوں میں تو ایسی روایات ہیں کہ کوئی بزرگ تھے جن کے سامنے پکا ہوا مرغ لایا گیا- انہوں نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور پھر اس کی ہڈیاں جمع کر کے ہاتھ میں پکڑ کر دبائیں اور وہ کڑ کڑ کرتا ہوا مرغ بن گیا- مگر ہندو ان سے بھی عجیب و غریب باتیں بیان کرتے- مثلاً کہتے ہیں کہ ان کے کوئی رشی تھے جو کہیں جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک خوبصورت عورت دیکھ کر اسے پھسلانا چاہا` مگر وہ راغب نہ ہوئی کیونکہ بدبخت تھی- اس وقت اس رشی کو یونہی انزال ہو گیا اور انہوں نے دھوتی اتار کر پھینک دی- تھوڑی دیر کے بعد اس دھوتی سے بچہ پیدا ہو گیا کیونکہ رشی کا نطفہ ضائع نہیں جا سکتا تھا- اسی طرح نیل کنٹھ کے متعلق جو ایک چھوٹا سا پرندہ ہے کہتے ہیں اس نے ایک دریا کا سارا پانی پی لیا- ایک برات جا رہی تھی اسے کھا گیا اور ابھی اس کا پیٹ نہیں بھرا تھا-
اب مسلمان ایسے معجزات کہاں سے لائیں گے اس لئے اسی میں ان کی بہتری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معجزوں کے متعلق جو شرط قرار دی ہے اسے مان لیں- ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے معجزات لوگوں سے منوائیں اور دوسروں کے معجزات سے انکار کریں-
)۳(تیسری شرط آپ نے یہ بتائی کہ معجزہ میں ایک رنگ کا اخفاء ضروری ہے اگر اخفاء نہ رہے تو معجزہ کی اصل غرض جو ایمان کا پیدا کرنا ہے ضائع ہو جاتی ہے- مثلاً اگر عزرائیل آئے اور کہے کہ فلاں نبی کو مان لو ورنہ ابھی جان نکالتا ہوں تو فوراً تمام لوگ مان لیں گے اور ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہ ہوگا- پس معجزہ کیلئے اخفاء ضروری ہے- کیونکہ معجزہ ایمان کیلئے ہوتا ہے اگر اس میں اخفاء نہ رہے تو اس پر ایمان لانا کیا فائدہ دے سکتا ہے- ہاں اس قدر مخفی بھی نہ ہونا چاہئے کہ دلیل کے درجہ سے ہی ساقط ہو جائے` ورنہ پھر لوگوں کے لئے حجت نہ رہے گا-
)۴(چوتھی شرط یہ ہے کہ معجزہ میں کوئی فائدہ مدنظر ہو کیونکہ معجزہ لغو نہیں ہوتا اور تماشہ کی طرح نہیں دکھایا جاتا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی غایت اور غرض ہوتی ہے- پس جو معجزہ کسی مقصد اور فائدہ پر مشتمل ہو اسی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ورنہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا-
شریعت کی عظمت کا قیام
آٹھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ شریعت کی عظمت قائم کی- شریعت کی عظمت غیر مسلموں میں بھی اور مسلمانوں میں بھی بالکل مٹی ہوئی تھی- آپ کے ذریعہ سے وہ پھر قائم ہوئی-
)۱(سب سے بڑا وسوسہ شریعت کے متعلق یہ پیدا ہوگیا تھا کہ لوگ شریعت کو چٹی سمجھتے تھے- عیسائی کہتے تھے یسوع مسیح انسانوں کو شریعت سے بچانے کے لئے آیا تھا- گویا شریعت چٹی تھی جس سے وہ بچانے آئے تھے- حالانکہ شریعت تو راہنمائی کے لئے تھی اور کوئی شخص راہنمائی کو چٹی نہیں کہتا- کیا اگر کوئی کسی کو سیدھا راستہ بتائے تو وہ یہ کہا کرتا ہے کہ ہائے اس نے مجھ پر چٹی ڈال دی- مسلمان بھی شریعت کو چٹی سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے اس قسم کی کوششیں کی ہیں کہ شریعت کے فلاں حکم سے بچنے کیلئے کیا حیلہ ہے اور فلاں کیلئے کیا- حتی کہ بعض لوگوں نے کتابالحیل لکھ دی ہے- اگر وہ شریعت کو *** نہ سمجھتے تو اس سے بچنے کے لئے حیلے کیوں تلاش کرتے- وہابی کسی قدر اس سے بچے ہوئے تھے مگر دوسرے مسلمانوں نے عجیب عجیب حیلے تراشے ہوئے تھے- مثلاً ایک مشہور فقہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ قربانی کرنا عید کی نماز کے بعد سنت ہے لیکن اگر کسی کو نماز سے پہلے قربانی کرنے کی ضرورت ہو تو وہ یوں کرے کہ شہر کے پاس کے کسی گائوں میں جا کر بکرا ذبح کر دے- کیونکہ عید شہر میں ہو سکتی ہے اور اس جگہ کے لئے عید کے بعد قربانی کی شرط ہے` اور وہاں سے گوشت شہر میں لے آئے-
غرض پچھلے زمانہ میں مولویوں کا کام ہی یہ رہ گیا تھا کہ لوگوں کو حیلے بتائیں- اور لوگ بھی ان سے حیلے ہی دریافت کرتے رہتے تھے- مشہور ہے کہ کچھ لڑکوں نے مردہ گدھے کا گوشت کھا لیا- اس پر مولوی صاحب نے کہا- یہ بہت بڑا گناہ ہوا ہے- لڑکوں کے والدین کو چاہئے کہ ایک شہتیر کھڑا کر کے اسے روٹیوں سے ڈھانپیں اور وہ روٹیاں خیرات کر دی جائیں- کسی نے کہہ دیا- مولوی صاحب آپ کا لڑکا بھی ان میں شامل تھا- اس پر کہنے لگے کہ ذرا ٹھہر جائو- میں پھر غور کر لوں- آخر کہنے لگے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے- شہتیر کو زمین پر لمبا ڈال کر اس پر ایک ایک روٹی رکھ دی جائے اور اس طرح اسے ڈھانپ دیا جائے-
)۲( دوسرا وسوسہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ شریعت تو اصل مقصد نہیں ہے اصل مقصد تو انسان کا خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے پس جب خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے تو پھر شریعت پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے-
یہ ایک خطرناک مرض تھا جو لوگوں میں پیدا ہو گیا تھا- صوفی کہلانے والے شریعت کے احکام پر عمل کرنا چھوڑ رہے تھے اور جب مسلمان ان سے پوچھتے کہ شریعت کے احکام پر کیوں عمل نہیں کرتے تو کہتے ہم خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے ہیں- اب ہمیں شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے- اسی عقیدہ کا ایک آدمی ایک دفعہ میرے پاس بھی آیا تھا- میں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ یہ فرمائیں کہ کوئی شخص کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے تک پہنچ جائے تو پھر کیا اسے کشتی میں ہی بیٹھ رہنا چاہئے یا کشتی سے اتر جانا چاہئے- اس کا مطلب یہ تھا کہ جب خدا مل جائے تو پھر شریعت پر چلنے کی کیا ضرورت ہے- جونہی اس نے یہ بات کہی` میں اس کا مطلب سمجھ گیا- میں نے کہا-:
اگر دریا کا کنارہ ہو تو بے شک کشتی کو چھوڑ کر اتر جائے- لیکن اگر کنارہ ہی نظر نہ آئے تو پھر کہاں اترے- ایسی صورت میں اگر اتر گیا تو غرق ہی ہوگا- یہ سنکر وہ بہت شرمندہ ہوا اور کوئی جواب نہ دے سکا- میرا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی محدود شے تو نہیں کہ کہہ دیا جائے قرب حاصل ہو گیا ہے` اب شریعت کی کیا ضرورت ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شبہ کا بھی خوب اچھی طرح ازالہ کیا اور بتایا کہ بے شک انسان کا اصل مقصد خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے شریعت پر عمل کرتے رہنا نہیں` مگر خدا تک پہنچنے کے اتنے مدارج ہیں جو ابدالاباد تک ختم نہیں ہو سکتے- اگر کوئی کہے کہ میں خدا تک پہنچ گیا` آگے کوئی درجہ نہیں ہے تو اس کے نزدیک گویا خدا تعالیٰ محدود ہوگا اور یہ عقیدہ کسی کا بھی نہیں ہے- پس جب خدا تعالیٰ کے قرب کے مدارج ختم نہیں ہو سکتے تو ان مدارج کو جس ذریعہ )شریعت( سے حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی چھوڑا نہیں جا سکتا-
)۳(تیسرا شبہ یہ پیدا ہو رہا تھا کہ بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اعمال جزو شریعت ہیں- اس وجہ سے اگر کوئی مولوی کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھتا تو جھٹ کہہ دیتا کہ یہ کافر ہے- کھانے کے بعد کسی کو ہاتھ دھوتے دیکھا تو کہہ دیا کافر ہے کیونکہ یہ رسول کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف کرتا ہے- حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سالن میں مسالے نہ پڑتے تھے- زیتون کے تیل سے روٹی کھا لیتے تھے- اور یہ تیل بالوں کو بھی ملا جاتا تھا- اس لئے کھانے کے بعد منہ پر مل لیتے- اب سالن میں ہلدی اور کئی قسم کے مسالے پڑتے ہیں مگر اب بھی کئی مولوی منہ پر ہاتھ ملنے کو سنت قرار دینے والے` مسالے سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت ہے- ہم کہتے ہیں اگر تم زیتون کے تیل سے کھانا کھائو تو بیشک ہاتھ کھانے کے بعد منہ پر مل لو- اور اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں- مگر تم سالن میں جب تک مسالہ ہلدی اور مرچ نہ ہو` کھاتے ہی نہیں` پھر ان مسالوں کو کون منہ پر ملے- ایک دفعہ میں نے ایک مولوی صاحب کی دعوت کی- کھانے کے بعد جب ہاتھ دھونے کیلئے چلمچی آئی تو انہوں نے بڑی حقارت سے اسے پرے ہٹا کر کہا یہ سنت کے خلاف ہے میں ہاتھ نہیں دھوئوں گا- اور سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لئے- درحقیقت یہ سنت کے خلاف نہیں- حدیث میں صاف آتا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھوئے اور بعد میں بھی-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس غلطی کا ازالہ یوں فرمایا ہے کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کئی قسم کے ہیں- ایک وہ اعمال ہیں جو آپ ہمیشہ کرتے اور جن کے کرنے کا آپ نے دوسروں کو بھی حکم دیا اور فرمایا اس طرح کیا کرو- ان کا کرنا واجب ہے )۲(وہ اعمال جو عام طور پر آپﷺ~ کرتے اور دوسروں کو کرنے کی نصیحت بھی کرتے` یہ سنن ہیں- )۳(وہ اعمال جو آپکرتے اور دوسروں کو فرماتے کہ کر لیا کرو تو اچھے ہیں یہ مستحب ہیں )۴(وہ اعمال جنہیں آپ مختلف طور پر ادا کرتے ان کا سب طریقوں سے کرنا جائز ہے )۵(ایک وہ اعمال ہیں جو کھانے پینے کے متعلق تھے ان میں نہ آپ دوسروں کو کرنے کے لئے کہتے اور نہ کوئی ہدایت دیتے- آپ ان میں عرب کے رواج پر عمل کرتے- ان احکام میں ہر ملک کا انسان اپنے ملک کے رواج پر عمل کر سکتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ لائی گئی جو آپ نے نہ کھائی- اس پر پوچھا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے؟ آپ نے فرمایا- نہیں حرام نہیں- مگر ہمارے ہاں لوگ اسے کھاتے نہیں- اسلئے میں بھی اسے نہیں کھاتا- ۲۸~}~
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جن امور میں شریعت ساکت ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ثابت نہ ہو- انہیں حتی الوسع ملک کے دستور اور رواج کے مطابق کر لینا چاہئے تا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو- ایسے امور سنت نہیں کہلاتے- جوں جوں ملک کے حالات کے ماتحت لوگ ان میں تبدیلی کرتے جائیں` اس پر عمل کرنا چاہئے-
)۴(چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی- کہ بعض لوگوں کے نزدیک شریعت صرف کلام الہی تک محدود تھی- نبی کا شریعت سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا جیسا کہ چکڑالوی کہتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ شریعت کے دو حصے ہیں- )۱(ایک اصولی حصہ ہے جس پر دینی` اخلاقی` تمدنی` سیاسی کاموں کا مدار ہے- )۲(دوسرا حصہ جزئیتشریحات اور علمی تفصیلات کا ہے- یہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ کراتا ہے تا کہ نبیوں سے بھی مخلوق کو تعلق پیدا ہو- اور وہ لوگوں کے لئے اسوہ بنیں- پس شریعت میں نبی کی تشریحات بھی شامل ہیں-
عبادات کے متعلق اصلاح
)۹(نواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادات کی اصلاح کا کیا ہے اس کے متعلق لوگوں کو )۱(اول تو یہ وسوسہ پیدا ہو گیا تھا کہ عبادت صرف دل سے تعلق رکھتی ہے جسم کو اس سے تعلق نہیں- چنانچہ قریباً بیس سال ہوئے ہیں کہ علی گڑھ میں ایک شخص نے لیکچر دیا- جس میں بیان کیا کہ اب چونکہ زمانہ ترقی کر گیا ہے اس لئے پہلے زمانہ کا طریق عبادت اس وقت قابل عمل نہیں ہے- اب صرف اتنا کافی ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھنا چاہے تو بیٹھے بیٹھے ذرا میز پر سر جھکا کر خدا کو یاد کرلے- روزہ اس طرح رکھا جا سکتا ہے کہ پیٹ بھر کے نہ کھائے- چند بسکٹ ایک آدھ چائے کی پیالی پی لے تو کوئی حرج نہیں ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ عبادات کا تعلق روح سے ہے اور روح کا تعلق جسم سے ہے- اگر جسم کو عبادت میں نہ لگائیں گے تو قلبی خشوع نہ پیدا ہوگا- پس جسمانی عبادت کو فضول سمجھنا نہایت غلط طریق اور مہلک راہ ہے اور اصول عبادت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایسا خیال پیدا ہوتا ہے-
)۲(دوسری غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ نماز میں دعا کرنا بھول گئے تھے- سنیوں میں تو نماز میں دعا کرنا گویا کفر سمجھا جاتا تھا- ان کا خیال تھا کہ نماز پڑھ چکنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس بات کا ذکر آتا تو آپ ہنستے اور فرماتے- ان لوگوں کی تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بادشاہ کے دربار میں جائے مگر وہاں چپ چاپ کھڑا رہ کر واپس آ جائے- اور جب دربار سے باہر آ جائے تو کہے حضور مجھے یہ کچھ دلایا جائے وہ کچھ دلایا جائے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دعا نماز میں کرنی چاہئے اور اپنی زبان میں بھی کرنی چاہئے تا کہ جوش پیدا ہو-
)۳( بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ ظاہری عبادت کافی ہے- ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی اور بیٹھ گئے- ان لوگوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میں نے ایک کتاب دیکھی ہے جس میں لکھا تھا- اگر کوئی فلاں دعا پڑھ لے تو سارے صلحاء کی نیکیاں اسے مل جائیں گی- اور سب گناہگاروں کے برابر گناہ اگر اس نے کئے ہوں تو وہ بخشے جائیں گے- جن لوگوں کا یہ خیال ہو انہیں روزانہ نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت محسوس ہو سکتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا-: یہ جسم تو گھوڑا ہے اور روح اس پر سوار ہے- تم نے گھوڑے کو پکڑ لیا اور سوار کو چھوڑ دیا- ظاہری عبادتیں تو روحانی پاکیزگی کا ذریعہ ہیں اس لئے قلبی پاکیزگی پیدا کرو جو اصل مقصود ہے-
فقہ کی اصلاح
دسواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ فقہ کی اصلاح کی جس میں سخت خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور اس قدر اختلاف ہو رہا تھا کہ حد نہ رہی تھی آپ نے اس کے متعلق زریں اصول باندھا اور فرمایا شریعت کی بنیاد مندرجہذیل چیزوں پر ہے-
)۱( قرآن کریم )۲( سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم )۳( احادیث جو قرآن کریم اور سنت اور عقل کے خلاف نہ ہوں )۴( تفقہ فی الدین )۵( اختلاف طبائع و حالات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ نے سنت اور حدیث کو الگ الگ کیا- آپ نے فرمایا- سنت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل ہے جس پر آپﷺ~ قائم ہوئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دی- اور حدیث وہ قول ہے جو آپﷺ~ نے بیان کیا-
اب دیکھو ان پانچ اصول سے آپ نے کیسی اصلاح کر دی ہے- سب سے اول درجہ پر آپ نے قرآن کریم کو رکھا کہ وہ خدا کا کلام ہے مفصل ہے مکمل ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی ہو گی نہ ہوئی ہے` نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا وعدہ ہے- ایسے کلام سے بڑھ کر کونسی بات معتبر ہو سکتی ہے- اس کے بعد سنت ہے کہ صرف قول سے اس کا تعلق نہیں بلکہ عمل سے ہے اور عمل بھی وہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے اور متواتر کرتے تھے- ہزاروں لوگ اسے دیکھتے تھے اور اس کی نقل کرتے تھے- یہ نہیں کہ ایک یا دو یا تین کی گواہی ہو کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا بلکہ ہزاروں آدمیوں کا عمل کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کرتے دیکھ کر آپ کی اتباع میں ایسا کام شروع کیا- اس سنت میں غلطی کا احتمال بہت ہی کم رہ جاتا ہے- اور یہ حدیث سے جو چند افراد کی شہادت ہوتی ہے بہت افضل ہے- اس کے بعد آپ نے حدیث کو رکھا- لیکن ان کے متعلق یہ شرط لگائی کہ صرف راویوں کی پرکھ ان کی صداقت کی علامت نہیں بلکہ ان کا قرآنکریم` سنت اور قانون قدرت کے مطابق ہونا ضروری ہے- حدیث کے بعد تفقہ فیالدین کا مرتبہ رکھا کہ عقل کو استعمال کر کے جو مسائل میں ترقی ہوتی ہے اس کے لئے بھی رستہ کھلا رہے- پھر پانچویں بنیاد فقہ کی آپ نے مختلف حالات اور مزاجوں کو مقرر کیا اور اسے شریعت اسلامیہ کا ضروری جزو قرار دیا- اس اصل سے بہت سے مختلف فیہ مسائل حل ہو گئے- مثلاً آمین کہنے پر جھگڑے ہوتے تھے- آپ نے فرمایا- جس کا دل اونچی آمین کہنے کو چاہے وہ اونچی کہے جس کا دل اونچی کہنا نہ چاہے نہ کہے- جب یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو ان پر جھگڑا فضول ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مزاج کے لوگوں کو مدنظر رکھ کر دونوں طرح عمل کیا ہے پس ہر اک شخص اپنے مزاج کے مطابق عمل کر سکتا ہے- دوسرے کے فعل سے سروکار نہیں رکھنا چاہئے- اسی طرح فرمایا کہ جس کا دل چاہے سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جس کا دل چاہے ناف کے نیچے باندھے- انگلی اٹھائے یا نہ اٹھانے کے متعلق رفعیدینکرنے یا نہ کرنے کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ دونوں طرح جائز ہے- اسی طرح بہت سے جھگڑوں کو جو کسی شرعی اختلاف کی وجہ سے نہ تھے بلکہ دو جائز باتوں پر جھگڑنے کے سبب سے تھے اور شریعت کی اس حکمت کو نہ سمجھنے کے سبب سے تھے کہ اس میں مختلف طبائع کا لحاظ رکھ کر مختلف صورتوں کو بھی جائز رکھا جاتا ہے` آپ نیمٹادیا-
عورتوں کے حقوق کا قیام
گیارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ عورتوں کے وہ حقوق قائم کئے جو آپ کی آمد سے پہلے بالکل تلف کئے جاتے تھے مثلاً )۱(ورثہ نہیں ملتا تھا )۲(پردہ میں سختی کی جاتی تھی- چلنے پھرنے تک سے روکا جاتا تھا- )۳(علم سے محروم رکھا جاتا تھا- )۴(سلوک اور مراعات سے محروم رکھا جاتا تھا )۵(نکاح کے متعلق اختیار نہیں دیا جاتا تھا- )۶(خلع اور طلاق میں سختی کی جاتی تھی- )۷(حقوقانسانیت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا- آپ نے ان سب کی اصلاح کی-
)۱(ورثہ سے محروم رکھنے کو آپ نے سختی سے روکا اور عورتوں کے اس حق کی تائید کی- چنانچہ ہمارے گھر میں کہ جہاں پشتوں سے عورتوں کا حق نہ دیا گیا تھا- ہماری بہنوں کو زمینداری کے پورے حقوق ملے اور وہ ہمارے ساتھ آپ کی جائیداد کی وارث ہوئیں-
)۲(پردہ میں جو ظاہری سختی کی جاتی تھی` اسے دور کیا- آپ )حضرت اماں جان( کو ساتھ لے کر سیر کو جایا کرتے- ایک دفعہ آپ ایک سٹیشن پر )حضرت اماں جان( کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے- مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ بہت ناگوار گذرا- کیونکہ اس زمانہ میں بڑی شرم کی بات اور عیب سمجھا جاتا تھا کہ عورت ساتھ ہو- وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس آئے اور کہا- حضرت صاحب بیوی صاحبہ کو ساتھ لے کر ٹہل رہے ہیں- لوگ کیا کہیں گے- آپ جا کر حضرت صاحب سے کہیں کہ بیوی صاحبہ کو بٹھا دیں- حضرت خلیفہ اول نے کہا- آپ خود جاکر کہیں میں تو نہیں کہہ سکتا- آخر آپ گئے اور پھر سر نیچے ڈالے ہوئے آئے- حضرت خلیفہ اول نے پوچھا حضرت صاحب نے کیا جواب دیا- کہنے لگے- جب میں نے کہا لوگ اس طرح ٹہلنے پر اعتراض کریں گے- تو آپ ٹھہر گئے اور فرمایا لوگ کیا اعتراض کریں گے کیا یہ کہیں گے کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ٹہل رہے تھے؟
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کی صحت کی درستی کے لئے ان کے چلنے پھرنے کی آزادی دی اور آج گو تعلیم یافتہ طبقہ اس تغیر کو نہیں سمجھ سکتا- لیکن جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کام کو شروع کیا تھا اس وقت یہ بات حیرت انگیز تھی- آپ نے بتایا کہ پردہ کی غرض بعض کمزوریوں سے بچانا ہے اور اس کے علاوہ عورتوں کو مردوں سے آزادانہ میل جول رکھنے سے روکا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو قید میں ڈالے رکھنے کا حکم دیا ہے-
)۳(تیسرے عورتوں کو علم سے محروم رکھا جاتا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں کو علم پڑھانے پر خصوصیت سے زور دیا- چنانچہ آپ نے ایک دوست کو خط میں لکھا کہ عورتوں کو عربی فارسی کے علاوہ کچھ انگریزی کی بھی تعلیم دینی چاہئے اور مختلف علوم سے بھی کچھ آگاہی ان کے لئے ضروری ہے-
)۴(چوتھے عورتوں کے متعلق سلوک اور مراعات الہامی طور پر آپ نے قائم کیں اور بتایا سلوک اور مراعات میں عورتیں مردوں کے مساوی ہیں- حتی کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب اپنی بیوی سے اونچی آواز میں بولے تو آپ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ-:
مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو کہہ دو کہ یہ طریق اچھا نہیں- ۲۹~}~
)۵(پانچویں عورتوں کو نکاح کے متعلق اختیارات حاصل نہ تھے آپ نے اس حق کو قائم کیا اور عورت کی رضا مندی نکاح کے لئے ضروری قرار دی- بلکہ عورت اور مرد کو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کے ارشاد کو پھر جاری کیا اور بعض مرد و عورت کو آپ نے خود حکم دے کر ایک دوسرے کو دکھلا دیا-
)۶(چھٹے طلاق کا رواج اس قدر وسیع تھا کہ جس کی کوئی حد نہ تھی- آپ نے اسے روکا اور جس حد تک ممکن ہو تعلق نکاح کو قائم رکھنے کا ارشاد فرمایا- اس کے مقابلہ میں خلع کا دائرہ اس قدر تنگ کیا گیا تھا کہ عورت گھٹ گھٹ کر مر جاتی` اس کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا- آپ نے اس دروازہ کو کھولا اور عورت کے حقوق جو شریعت نے اسے دیئے ہیں پھر قائم کئے- اور بتایا کہ طلاق کے مقابل میں عورت کو خلع کا حق ہے- اور صرف اس قدر فرق ہے کہ عورت کے لئے شرط ہے کہ وہ قاضی کی معرفت علیحدگی حاصل کرے- ورنہ عورت کی تکلیف اور احساسات کا شریعت نے اس قدر پاس کیا ہے جس قدر مرد کے احساسات کا-
)۷(ساتویں عورت کے اہلی اور تمدنی حقوق کو بلند کیا- آپ کی بعثت سے پہلے عورت کے کوئی حقوق ہی نہیں تسلیم کئے جاتے تھے- مگر آپ نے عورتوں کے حقوق پر خاص زور دے کر اسے اس غلامی سے آزاد کیا- جس میں وہ باوجود اسلام کی تعلیم کے مبتلا کر دی گئی تھی-
اصلاح اعمال انسانی
بارھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی اعمال کی اصلاح کے متعلق کیا جس پر نجات کا مدار ہے- تمام دنیا اعمال انسانی کی اصلاح تو ایک اہم امر سمجھتی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کام کس طرح ہو سکتا ہے- مسلمان بھی اس مسئلہ کے متعلق خاموش تھے- بلکہ دوسروں سے کچھ گری ہوئی حالت میں تھے- آپ نے قرآنکریم سے ایسے گر بتائے کہ اس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا اور راستہ کھول دیا جس کا مقابلہ اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا-
مسیحیت نے ورثہ کے گناہ کی تھیوری پیش کر کے کہا تھا کہ چونکہ انسان کو گناہ ورثہ میں ملے ہیں` اس لئے کوئی انسان ان سے بچ نہیں سکتا- گویا اس کے نزدیک اصلاح نفس ناممکن تھی اور اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے اس نے کفارہ ایجاد کیا تھا-
ہندو مذہب کا عقیدہ تھا کہ اصلاح نفس حساب صاف کرنے سے ہو سکتی ہے- جب حساب صاف ہو جائے گا تب نجات ہو گی- پرمیشور انسان کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب رکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرتا رہتا ہے- اگر بدیاں زیادہ ہوں تو مرنے کے بعد کسی اور جون میں ڈال کر دنیا میں بھیج دیتا ہے- اس طرح ہندو مذہب نے اصلاح نفس کو ناممکن بنا کر انسان کو تناسخ کے چکر میں ڈال دیا تھا-
یہود اصلاح نفس کے سرے سے ہی منکر تھے- کیونکہ ان کے نزدیک نبی بھی گناہگار ہو سکتا تھا اور ہوتا ہے- وہ مزے لے لے کر نبیوں کے گناہ گناتے تھے اور اس میں کوئی نقص نہ سمجھتے تھے- ان کے نزدیک نجات کی صورت صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا پیارا قرار دے کر اس سے نجات کو وابستہ کر دے- گویا وہ نجات کو ایک تقدیری عمل سمجھتے تھے اور اپنی نجات پر اس لئے مطمئن تھے کہ وہ ابراہیم کی اولاد اور موسیٰ کی امت ہیں` نہ اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کی خوشنودی کو اصلاح نفس کے ذریعہ سے حاصل کر چکے ہیں-
مسلمانوں نے بھی ملائکہ اور انبیاء تک کو گناہ میں ملوث کر کے یہود کی نقل میں اس مقصد کو فوت کر دیا تھا- اور یہ بات گھڑ لی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب مسلمانوں کی شفاعت کریں گے- اور سب بخشے جائیں گے اس سے بھی زیادہ غضب یہ ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور بہت سے پیر ایسے بنا رکھے تھے اور وہ پیر ان سے کہتے تھے کہ کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت نہیں- ہم تمہیں خود سیدھے جنت میں پہنچا دیں گے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی غلطی کو ثابت کیا اور نجات کے گر قرآن کریم سے پیش کئے اور ایک کامل اور مکمل اصل اصلاح نفس کے لئے جس پر نجات کا مدار ہے پیش کیا- آپ نے تسلیم کیا کہ ورثہ میں انسان کو عیب اور گناہ کا میلان ملتا ہے جس طرح نیکی کا میلان ملتا ہے- آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ نفسانی پاکیزگی کے لئے پچھلے حساب کی صفائی بھی نہایت ضروری ہے لیکن آپ نے انبیاء کے متعلق گناہ کی نسبت کو سختی سے رد کیا اور اس مسئلہ کو بھی رد کیا کہ انسان باوجود دیدہ و دانستہ شریعت کی مخالفت کرنے کے شفاعت سے حصہ لے سکتا ہے- یہ دونوں مسئلے یہود سے مسلمانوں نے لئے تھے اور اسلامیتعلیم کے مخالف تھے- آپ نے اس خیال کو بھی کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو بدکار بنایا اور کسی کو نیک رد کیا- اور پہلی دو باتوں کو آپ نے اس اصلاح کے ساتھ تسلیم کیا )۱(اس میں کوئی شک نہیں کہ ورثہ سے بھی اچھے اور برے اثر ملتے ہیں- )۲(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کھانیپینے اور آب و ہوا سے بھی بعض بعض خاص عادات پیدا ہو جاتی ہیں- جیسا کہ مختلف ملکوں کی عادات سے ظاہر ہے- کشمیر کے لوگ بزدل ہوتے ہیں اور پٹھان خونخوار ہوتے ہیں- بنگالی بزدل ہوتے ہیں اور ان کی نسبت پنچابی بہادر ہوتے ہیں- اگر انسان اپنے متعلق پورا پورا اختیار رکھتا تو ہمیشہ یہی کیوں ہوتا کہ بنگالی مارتا نہیں- کشمیری دلیری اور جرات کا کام نہیں کرتا اور پٹھان مرنے مارنے پر تیار رہتا ہے- اس طرح کے قومی عیوب بتاتے ہیں کہ کھانے پینے اور آب و ہوا کا بھی عادات میں دخل ہوتا ہے- پس ان خاص افعال کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں کے سب لوگ اپنی مرضی سے خاص عیب یا خاص خوبیاں اختیار کر لیتے ہیں- )۳(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تربیت اور عقیدہ کا بھی انسان پر خاص اثر پڑتا رہتا ہے جیسے ہندو گائے کے ذبح کرنے پر جوش میں آ جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ دوسرے کو مارنے پر پھانسی دیا جائونگا- مگر جب گائے کو ذبح ہوتے دیکھتا ہے تو قتل پر آمادہ ہو جاتا ہے` یہ عقیدہ کا اثر ہے- )۴(اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس وقت انسان کوئی کام کرنے لگتا ہے اس وقت کے حالات کا بھی اس پر خاص اثر پڑتا ہے- ایک استاد روز لڑکوں سے سبق سنتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے مگر ایک دن اس کی بیوی سے لڑائی ہو جائے اور وہ گھر سے غصہ میں بھرا ہوا نکلے تو سبق سننے کے وقت ذراسی غلطی کرنے پر سزا دے دے گا- پس ظاہر ہے کہ موجودہ حالات کا بھی انسان کے اعمال پر اثر پڑتا ہے-
غرض بہت سے امور ہیں جو انسان کے اعمال پر اثر ڈالتے ہیں- پس حضرت مسیحموعودعلیہ السلام نے بتایا کہ صرف ورثہ ہی ایک چیز نہیں کہ جو انسان پر تاثیر کرتا ہے- اس کے علاوہ اور اشیاء بھی ہیں اور جب یہ ثابت ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر ورثہ کا گناہ کفارہ سے دور ہو سکتا ہے تو باقی گناہ کس طرح سے دور ہوں گے؟
پھر آپ نے بتایا کہ اصل میں سب اقوام کو یہ دھوکا لگ گیا ہے کہ انسان کی فطرت گناہگار ہے- کسی کو ورثہ کے گناہ کی تھیوری سے کسی کو پرانے کرم کی وجہ سے کسی کو خلقالانسانضعیفا۳۰~}~کی آیت سے کسی کو تقدیر ازلی کے خیال سے یہ وسوسہ پیدا ہو گیا ہے- حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ باوجود ورثہ تربیت وغیرہ کے اثرات کے انسانی فطرت نیکی پر پیدا کی گئی ہے- فطرت میں عیب سے انقباض اور نیکی کی رغبت رکھی گئی ہے- باقی سب رنگ ہوتے جو اوپر چڑھ جاتے ہیں- ثبوت اس کا یہ ہے کہ بدکار لوگ بھی نیکیاں زیادہ کرتے ہیں- ایک آدمی جسے جھوٹا کہا جاتا ہے- اگر وہ کئی جھوٹ دن میں بولے گا تو ان سے کہیں زیادہ وہ سچ بولے گا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا کہ سب بدیوں کی جڑھ یہ ہے کہ انسان کے دل میں پاگیزگی کی امید کو نکال دیا گیا ہے- اور اسے خود اس کی نظروں میں گرا دیا گیا ہے- انسان کو ازلی شقی کہہ کہہ کر ایسا ہی بنا دیا گیا ہے- کسی لڑکے کو یونہی جھوٹا کہنے لگ جائو` کچھ عرصہ کے بعد وہ سچ مچ جھوٹ بولنے لگ جائے گا- آپ نے بتایا کہ انسان کو حقیقتا نیک بنایا گیا ہے بدی صرف زنگ ہے- جس دھات سے وہ بنا ہے وہ نیکی ہے- اسے اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہئے تا کہ اس میں دلیری پیدا ہو اور مایوسی دور ہو- اسے اس کے پاک مبدا کی طرف توجہ دلائو- اس طرح وہ خود بخود نیکی کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا-
)۲(دوسری دلیل دوسرے مذاہب کی تھیوریوں کے رد میں آپ نے یہ پیش کی کہ گناہ اس فعل کو کہتے ہیں جو دیدہ و دانستہ ہو- جو دیدہ و دانستہ نہ ہو- بلکہ جبر سے ہو وہ اس حد تک کہ جبر ہو گناہ نہیں ہوتا- مثلاً بچہ کا ہاتھ پکڑ کر ماں کے منہ پر تھپڑ مارا جائے تو کیا ماں بچہ کو مارے گی؟ پس فرمایا کہ ورثہ کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- عادت کے گناہ سے اگر انسان بچ نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- تعلیم و تربیت کا اگر اس پر ایسا اثر ہے کہ طبعی طور پر اس کا گناہ سے بچنا ناممکن ہے تو وہ گناہ نہیں اگر طبعی کمزوریاں ایسی ہیں کہ خواہ وہ کچھ کرے ان سے نکل نہیں سکتا تو وہ گناہ نہیں- پس اگر اس حد تک روک ہے کہ انسان اسے دور نہ کر سکے تو گناہ نہیں- اور اگر ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ انسان ان سے بچ سکتا ہے- اور اگر اس سے بچ سکتا ہے تو پھر طبی ذرائع کو چھوڑ کر نئے طریقے جیسے کفارہ یا تناسخ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں- اور جس حد تک انسان مجبور ہے` اسی حد تک انسان کو معذور اور اس کی وجہ سے بے گناہ تسلیم کرنا ہو گا اور اس حد تک اس کو سزا سے آزاد سمجھنا پڑے گا- پس پھر بھی کسی کفارہ یا تناسخ کی ضرورت نہ ہو گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کہہ کر کہ گناہ وہ ہے جو جانبوجھ کر اور اپنے اختیار سے کیا جائے- گناہ کی تھیوری ہی بدل دی ہے اور اس وجہ سے قرآنکریم نے جزائے اعمال کے متعلق مندرجہ ذیل اصول کو مدنظر رکھا ہے-
)۱(اول اس نے وزن پر خاص زور دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسانیاعمال کے متعلق یہ لحاظ رکھے گا کہ ان میں کہاں تک جبر یا اختیار کا دخل ہے )۲(دوسرے اس نے اللہ تعالیٰ کے ملک یوم الدین ۳۱~}~ہونے پر زور دیا ہے- یعنی اس نے حقیقی جزا سزا کو کسی اور کے سپرد نہیں کیا- اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے- اگر جزا و سزا اوروں کے سپرد ہوتی تو وہ انسانی اعمال کے پیچھے جو جبر کا حصہ ہے اس کا خیال نہ رکھ سکتے اور ان اعمال کے بدلہ میں انسان کو گنہگار قرار دے دیتے جن کے کرنے میں وہ گنہگار نہیں یا پورا گناہ گار نہیں- اور ان اعمال کے بدلہ میں اسے نیک قرار دے دیتے جن کے کرنے سے وہ نیک نہیں ہوتا یا پورا نیک نہیں ہوتا-
لطیفہ-: یاد رکھنا چاہئے کہ ملک یوم الدین اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ انسانی اعمال کے پیچھے اس قدر علتیں اور روکیں ہیں کہ ان کو سمجھے بغیر جزا سزا ظلم بن جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے یومالدین کے متعلق اپنے لئے مالکیت کا لفظ پسند فرمایا ہے- کیونکہ مالکیت حقیقیتصرف کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی- ملکیت ہو سکتی ہے- ملک منتخب ہو سکتا ہے مگر مالک نہیں- اور اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مالکم یوم الدین بھی نہیں فرمایا- بلکہ مالک یومالدین فرما کر اس امر پر زور دیا ہے کہ اس جگہ تمہاری مالکیت پر اس قدر زور دینا مقصود نہیں جس قدر کہ اس دن کی مالکیت پر زور دینا مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ اس وقت کا وہ مالک ہو گا-
‏a10.4
اور کہ اس وقت کا وہ مالک ہے- کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہے گی-
ایک اور آیت بھی اس مضمون کی تائید کرنے والی ہے اور وہ یہ ہے ولو یواخذاللہ الناس بماکسبوا ماترک علی ظھر ھا من دابہ۳۲~}~ یعنی اگر خداتعالیٰ انسان کو اس کے اعمال پر سزا دینے لگے تو کوئی جانور بھی زمین پر نہ چھوڑے- یعنی انسان سے بہت سے فعل ایسے صادر ہوتے رہتے ہیں جو خلاف شریعت ہوتے ہیں یا جن میں نفسانیت وغیرہ کا غلبہ ہوتا ہے- مگر خدا تعالیٰ ہر عمل کی سزا نہیں دیتا بلکہ صرف ان اعمال کی سزا دیتا ہے جن میں انسان کا اختیار ہوتا ہے-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں ماترک علی ظھرھا من دابہ فرمایا ہے- یعنی اگر انسان کے تمام اعمال پر سزا دیتا تو دنیا پر کوئی جانور بھی نہ چھوڑتا- اس پر طبعا سوال ہوتا ہے کہ جزا انسانوں کے اعمال کی دیتا تو جانور کیوں تباہ ہو جاتے؟ انسانوں کے مقدروں پر دواب کو کیوں سزا ملتی - مفسرین اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں- کہ چونکہ جانور انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کئے گئے ہیں- اس لئے جب انسان تباہ کر دیئے جاتے تو جانور بھی تباہ کر دیئے جاتے- یہ جواب بھی گو صحیح ہو مگر میرے نزدیک اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے- کہ انسان کے اعمال کا کچھ حصہ اسی طرح جبری ہوتا ہے جس طرح حیوانوں گائے بھینسوں کا ہوتا ہے- پس اگر انسان کے سارے اعمال کی سزا دی جائے تو لازماً گائے بیلوں وغیرھما کو بھی سزا دینی ہوتی اور سب حیوانات کو تباہ کر دیا جاتا- مگر ہم ایسا نہیں کرتے- اور جانوروں کو ان کے اعمال کا اس وجہ سے کہ وہ اختیاری نہیں ہوتے سزا نہیں دیتے- اسی طرح ہم انسان کے سب اعمال کی بھی سزا نہیں دیتے` صرف ان اعمال کی سزا دیتے ہیں جو اختیاری ہوتے ہیں-
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جس حد تک انسان پر جبر ہوتا ہے اس کا کیا علاج ہے؟ یا وہ بیعلاج ہے؟ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیا ہے کہ اس کا بھی علاج ہے اور وہ یہ کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے خوف اور محبت کے جذبات بہ شدت پیدا کئے ہیں- ان کے ذریعہ سے وہ اپنی مجبوریوں پر بھی غالب آ جاتا ہے- مثلاً بھیڑیئے میں کاٹنے کا مادہ ہے` مگر محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے بچے کو نہ کاٹے- گویا محبت اس کے کاٹنے کے جذبہ پر غالب آ جاتی ہے- یا جہاں آگ جل رہی ہو وہاں چیتا حملہ نہیں کرتا کیونکہ اسے اپنی جان کا خوف ہوتا ہے- چیتے کا طبعی تقاضا ہے کہ حملہ کرے مگر خوف اس کے اس تقاضا پر غالب آ جاتا ہے- اسی طرح اگر انسان کی محبت اور خوف کے جذبات کو ابھار دیا جائے تو وہ ان بدتاثیرات پر جو اس کے اعمال پر تصرف کر رہی ہوتی ہیں` غالب آ جاتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا کئے ہیں- اور وہ وقتا فوقتا دنیا میں اپنے مامور بھیجتا رہتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اپنی قدرت اور اپنے جلال اور اپنے فضل اور اپنی رحمت کی شان دکھاتا رہتا ہے- تا کہ لوگوں میں کامل محبت اور کامل خوف پیدا کیا جائے- اس طرح جو لوگ محبت کا جذبہ زیادہ رکھتے ہیں وہ ان نشانات اور تجلیات سے محبت میں ترقی کر کے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور پاک ہو جاتے ہیں- اور جو لوگ خوف کے جذبہ سے زیادہ موافقت رکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قہری تجلیات سے متاثر ہو کر خوف کی وجہ سے برے اثرات پر غالب آ جاتے ہیں اور اس ذریعہ سے بیرونی اثرات جو ایک رنگ کا جبر کر رہے تھے` ان سے انسان محفوظ کر دیا جاتا ہے اور اصلاح نفس میں اسے مدد مل جاتی ہے-
نیکی اور بدی کی تعریف
اس جگہ طبعا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نیکی بدی کیا چیز ہیں- اور اصلاح نفس کس چیز کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے مختلف طرح دیا ہے )۱(بعض نے کہا ہے کہ جو چیز بری معلوم ہو وہ بری ہے اور جو اچھی معلوم ہو وہ اچھی ہے- یہ جواب چونکہ انسان کے خیال سے تعلق رکھتا ہے- اس کے ماتحت ہمیں کہنا پڑے گا کہ ایک ہندو جو بت پرستی کو اچھا سمجھتا ہے` اگر وہ بت پرستی کرے تو اس کا یہ فعل اچھا سمجھا جائے گا- لیکن اگر یہی فعل ایک مسلمان کرے تو برا سمجھا جائے گا- )۲(بعض نے کہا ہے کہ جو بات بحیثیت مجموعی اس شخص کے لئے یا دنیا کے لئے اچھی ہو وہ اچھی ہے اور جو اس لحاظ سے بری ہو` وہ بری ہے-
پہلی رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر کوئی قتل کو اچھا سمجھ کر کسی کو قتل کرے تو کیا اس کایہ فعل نیکی ہوگا؟ یا کوئی شخص زنا کرتا ہے اور اسے جائز سمجھتا ہے تو کیا یہ اس کے لئے نیکی ہو جائے گا؟ دوسری رائے پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو چیز بحیثیت مجموعی اچھی ہو یا بری ہو` وہ نیکی یا بدی ہوگی- اس حیثیت مجموعی کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا؟ انسان تو اپنے گردوپیش کی حالت کو بھی پوری طرح نہیں سمجھتا- وہ بحیثیت مجموعی کا پتہ کس طرح لگائے گا؟ اور جس چیز کا علم ہی انسان کو نہیں ہو سکتا اس سے وہ فائدہ کس طرح اٹھا سکتا ہے؟
)۳(تیسری رائے یہ ہے کہ جس بات سے فطرت انسانی انقباض کرے` وہ برائی ہے اور جس بات کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- ساری قومیں جھوٹ سے نفرت کرتی ہیں یہ برائی ہے- اور ساری قومیں صدقہ اور خیرات سے رغبت رکھتی ہیں یہ نیکی ہے- مگر اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ انسانی رغبت یا نفرت کا تو عادات سے بھی تعلق ہوتا ہے- ایک ہندو گائے کے ذبح کرنے سے سخت نفرت کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور مسلمان اس فعل کی طرف رغبت رکھتا ہے- پس اس اصل کے ماتحت نیکی اور بدی کا فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے؟
)۴(چوتھا خیال یہ ہے کہ جس امر سے شریعت روکے وہ بدی ہے اور جس کی اجازت دے وہ نیکی ہے- اس خیال پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو معلوم ہوا کہ شریعت بدی سے روکتی نہیں بلکہ بدی پیدا کرتی ہے- کیونکہ اگر بدی کا الگ وجود کوئی نہیں شریعت کے روکنے کی وجہ سے وہ بدی بنی ہے تو گویا شریعت اس لئے نہیں آتی کہ بدی سے روکے بلکہ چونکہ اس نے بعض افعال سے روکا ہے اس لئے وہ بدی بن گئے- پس گویا بدی کا دروازہ شریعت نے کھولا ہے- مسیحی مذہب کا یہی نقطہ نگاہ ہے اور اسی وجہ سے اس نے شریعت کو *** قرار دیا ہے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ نیکی اور بدی کے متعلق لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان سب باتوں کو تسلیم کیا ہے اور سب کو رد بھی کیا ہے- گویا ان سب خیالات میں صداقت کا ایک ایک حصہ بیان ہوا ہے- آپ کی تعلیم پر غور کر کے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ یہ خیال بھی درست ہے کہ نیکی اور بدی کا بہت کچھ تعلق نیت کے ساتھ بھی ہے- مگر صرف نیت پر ہی نیکی اور بدی کا انحصار نہیں ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص جو کسی اچھے فعل کو خلاف شریعت سمجھتا ہے مگر کر لیتا ہے تو خواہ وہ فعل اچھا ہو پھر بھی گناہگار ہوگا- کیونکہ اس نے اسے گناہ سمجھ کر کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت پر آمادہ ہو گیا ہے- اسی طرح مثلاً ایک برے کام کو انسان اچھا سمجھ لیتا ہے- تو بعض اوقات وہ بدی کا مرتکب نہیں قرار دیا جاتا- مثلاً غلطی سے اپنے ایک دوست کو ایسا کھانا کھلا دے جو اس کے لئے مضر ہو تو گو یہ فعل برا ہو مگر اس کی طرف بدی نہیں بلکہ نیکی ہی منسوب ہوگی کہ اس نے دوسرے کے فائدہ کو ہی مدنظر رکھ کر وہ فعل کیا تھا-
دوسری تعریف بھی ایک حد تک درست ہے کیونکہ نیکیاں یا بدیاں اپنے اس نتیجہ کے مطابق نیکیاں یا بدیاں بنتی ہیں جو بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتا ہے مگر یہ تعریف ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی- کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس دنیا کے فوائد یا نقصانات کو بھی انسان پوری طرح نہیں سمجھ سکتا- بعض کاموں کے نتائج یا بعض حصے نتائج کے اگلی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا اندازہ کرنا انسان کیلئے ناممکن ہے- پس اس تعریف کی مدد سے ہم خود کسی کام کو نیک اور کسی کام کو بد نہیں قرار دے سکتے-
تیسری تعریف کہ جس سے انسانی فطرت انقباض کرے وہ برائی ہے اور جس کی طرف رغبت کرے وہ نیکی ہے- یہ بھی صحیح ہے لیکن فطرت انسانی دوسرے اثرات یعنی عادات وغیرہ کے ماتحت کبھی خراب بھی ہو جاتی ہے- پس دقت یہ ہے کہ فطرت کا صحیح میلان کس طرح معلوم ہو اور جب تک صحیح میلان فطرت کا معلوم نہ ہو سکے- اس تعریف سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا-
چوتھی تعریف کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے اور جس کا حکم دے وہ نیکی ہے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ اگر شریعت نے حکم یا نہی کو کسی حکمت پر مبنی کرنا ہے تو اس حکم یا نہی کو اسی حکمت کی طرف منسوب کرنا چاہئے- اور یوں کہنا چاہئے کہ فلاں سبب جس میں پایا جائے وہ بدی ہے- اور فلاں سبب پایا جائے تو وہ نیکی ہے- اور اگر شریعت نے بلا کسی حکمت کے بعض امور کا حکم دینا ہے اور بعض سے روکنا ہے تو شریعت کا یہ فعل لغو اور عبث ہو جاتا ہے-
پس یہ سب تعریفیں نامکمل ہیں اور صداقت ان کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نیکی بدی کی یہ تعریف کی ہے کہ حسن ازلی اور حسناکمل یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کی موافقت پیدا کرنا نیکی ہے- اور اس کی مخالفت یعنی خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کوئی کام کرنا برائی ہے- اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودیت` مسیحیت اور اسلام کا اتفاق ہے- خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے یعنی ظلی طور پر اپنی صفات کی چادر اسے پہنائی ہے اور اپنی صفات کا مظہر بننے کی اسے طاقت دی ہے اور اس غرض سے اسے پیدا کیا ہے- گویا انسان تصویر ہے خدا کی اور خدا تعالیٰ اصل ہے- اب یہ امر ظاہر ہے تصویر ¶کا حسن یہی ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو- اور اس کا عیب یہ ہے کہ اصل کے خلاف ہو- پس انسان جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اور جو عمل ایسا کرتا ہے جو اسے خدا تعالیٰ کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے- کیونکہ اس طرح گویا وہ تصویر کو بگاڑ رہا ہوتا ہے- جس کے بنانے کے لئے وہ بنایا گیا ہے- اس مناسبت کی وجہ سے جو انسان اور خدا میں ہے اصل منبع اور مبدا خدا ہے- پس جب انسان درحقیقت ایک تصویر ہے تو لازماً اصل کی مطابقت حسن ہے اور اس کی مخالفت عیب یا دوسرے لفظوں میں مطابقت نیکی ہے اور مخالفت بدی- اب چونکہ انسان کو مخفی طاقتوں کے ساتھ جو محدود دائرہ میں خدا تعالیٰ کی صفات سے مشابہ ہیں پیدا کیا گیا ہے- اس لئے فطرتاً اسے خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق اعمال سے مناسبت اور مخالف اعمال سے نفرت ہونی چاہئے- پس فطری انقباض اور رغبت نیکی بدی کا پتہ دینے والے ہونگے- اسی طرح اصل کے خلاف چلنے سے نقصان پہنچتا ہے اور مطابق چلنے سے حسن پیدا ہوتا ہے اس لئے لازماً نیکی کا نتیجہ نیک اور لازماً بدیوں کے نتائج بد نکلتے ہیں- تیسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ بالارادہ ہستی ہے اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ بالارادہ کام کرے- پس گناہ اور نیکی ایک حد تک ارادہ سے بھی وابستہ ہو جائیں گے-
لیکن باوجود ان تینوں باتوں کو تسلیم کر لینے کے اس امر کے تسلیم کرنے میں بھی کوئی عذر نہیں ہو سکتا کہ انسان بیرونی اثرات اور عادات کی وجہ سے اپنی عقل اور فطرت کے صحیحاستعمال سے بسا اوقات معذور ہو جاتا ہے پس ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریریہدایات بھی ملیں کہ اس اس عمل سے حسن ازلی کے مطابقت پیدا ہوگی اور اس اس طرح اس کی مخالفت ہوگی اور اسی کا نام شریعت ہے- پس اس لحاظ سے شریعت کے مطابق کام کرنے کا نام نیکی ہوا- اور اس کے خلاف کام کرنے کا نام بدی- پس صحیح تعریف نیکی اور بدی کی وہی ہے جو اوپر کی چاروں باتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے- اور جس کی طرف حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی تعلیم اشارہ کرتی ہے-
اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان
تیرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کئے جو یہ ہیں-:
)۱( تبلیغ اسلام- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کو جو مدتوں سے بند ہو چکا تھا- جاری کیا آپ کی بعثت سے پہلے مسلمان تبلیغ اسلام کے کام سے بالکل غافل ہو چکے تھے- اپنے اردگرد کے لوگوں میں کبھی کوئی مسلمان تبلیغ کر لیتا تو کر لیتا لیکن تبلیغ کو باقاعدہ کام کے طور پر کرنا مسلمانوں کے ذہن میں ہی نہ تھا- اور مسیحی ممالک میں تبلیغ کو تو بالکل ناممکن خیال کیا جاتا تھا- آپ نے ۱۸۷۰ء کے قریب سے اس کام کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے خطوط کے ذریعہ سے اور پھر ایک اشتہار کے ذریعہ سے یورپ کے لوگوں کو اسلام کے مقابلہ کی دعوت دی اور بتایا کہ اسلام اپنے محاسن میں تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے` اگر کسی مذہب میں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کرے- مسٹر الیگزنڈروب مشہور امریکن مسلم مشنری آپ ہی کی تحریرات سے مسلمان ہوئے اور ہندوستان آپ ہی کی ملاقات کو آئے تھے کہ دوسرے مسلمانوں نے انہیں ورغلا دیا کہ مرزا صاحب کے ملنے سے باقی مسلمان ناراض ہو جائیں گے اور آپ کے کام میں مدد نہ دیں گے امریکہ واپس جا کر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا- اور مرتے دم تک اپنے اس فعل پر مختلف خطوط کے ذریعہ ندامت کا اظہار کرتے رہے- اور آج دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کیلئے آپ کی جماعت کی طرف سے مشن کام کر رہے ہیں- اور تعجب ہے کہ آج ساٹھ سال کے بعد صرف آپ ہی کی جماعت اس کام کو کر رہی ہے-
)۲(دوسرے آپ نے جہاد کی صحیح تعلیم دی- لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ آپ نے جہاد سے روکا ہے- حالانکہ آپ نے جہاد سے کبھی بھی نہیں روکا بلکہ اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے حقیقت جہاد کو بھلا دیا ہے اور وہ صرف تلوار چلانے کا نام جہاد سمجھتے رہے ہیں- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا- گو دنیا میں اسلام کی حکومت ہو گئی` مگر دلوں میں کفر باقی رہا اور ان ملکوں کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی جن کو اسلامی حکومتوں سے جنگ کا موقع نہ پیش آیا- اور اس وجہ سے وہاں کفار کی حکومت رہی- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفر اپنی جگہ پر پھر طاقت پکڑتا گیا اور بعض قوموں کی سیاسی برتری کے ساتھ ہی اسلام کو نقصان پہنچنے لگا- اگر مسلمان جہاد کی یہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اس فعل کا نام ہے جسے انسان نیکی اور تقویٰ کے قیام کیلئے کرتا ہے اور وہ جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی ہوتا ہے اور ہر ایک قسم کے جہاد کا الگ الگ موقع ہے تو آج کا روز بد نہ دیکھنا پڑتا- اگر اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقع پر جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے- بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا- دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں اور تبلیغ کا جہاد شروع کرنے کا زیادہ موقع ہے- اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام اسلامی ممالک میں پھیل جاتا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا- غرض حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں- آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تلوار کا جہاد منع ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور سے اس جہاد کو شروع کر دیا ہے اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی ہے- اب بھی اگر مسلمان اس جہاد کو شروع کر دیں تو کامیاب ہو جائیں گے- اگر مسلمان سمجھیں تو آپ کا یہ فعل ایک زبردست خدمت اسلامی ہے اور اس کے ذریعہ سے آپ نے نہ صرف آئندہ کے لئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گناہ سے بھی بچا لیا ہے کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اسے فرض سمجھ کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے تھے- اور اس طرح اس احساس گناہ کی وجہ سے گناہگار بن رہے تھے- اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے ان کے دلوں پر سے احساس گناہ کا زنگ اترتا جائے گا- اور وہ محسوس کریں گے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے غداری نہیں کر رہے تھے- صرف نقص یہ تھا کہ صحیح جہاد کا انہیں علم نہ تھا-
)۳(تیسرا کام اسلام کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا ہے کہ آپ نے جدید علم کلام پیدا کیا ہے- آپ کی بعثت سے پہلے مذاہب کی جنگ گوریلا وار سے مشابہ تھی- ہر اک شخص اٹھ کر کسی ایک بات کو لیکر اعتراض شروع کر دیتا اور اپنے خصم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا تھا- آپ نے اس نقص کو دور کیا اور اعلان کیا کہ مذاہب کی شان کے خلاف ہے کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے کام لیں- نہ کسی کا نقص نکالنے سے مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے- اور نہ صرف ایک مسئلہ پر بحث کر کے کسی مذہب کی حقیقت ظاہر ہو سکتی ہے- مذاہب کی پرکھ مندرجہ ذیل اصول پر ہونی چاہئے-
)الف(مشاہدہ پر- یعنی ہر مذہب جس غرض کے لئے کھڑا ہے اس کا ثبوت دے- یعنی یہ ثابت کرے کہ اس پر چل کر وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے- جس مقصد کو پورا کرنا اس مذہب کا کام ہے- مثلاً اگر خدا کا قرب اس مذہب کی غرض ہے اور ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی ہے تو اسے چاہئے کہ ثابت کرے کہ اس مذہب پر چلنے والوں کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے- کیونکہ اگر وہ یہ ثابت نہیں کر سکتا- تو اس کے قیام کی غرض ہی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسم بے روح ہو جاتا ہے- چند اخلاقی یا تمدنی تعلیمیں یا فلسفیانہ اصول کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں کیونکہ ان باتوں کو تو انسان دوسرے مذاہب سے چرا کر یا خود غوروفکر کر کے بلا اس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے الہام ہو پیش کر سکتا ہے- مذہب کا اصل ثبوت تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جس مقصد کے لئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب` وہ انسان کو حاصل ہو جائے- اور اسی دنیا میں حاصل ہو جائے کیونکہ اگر کوئی مذہب یہ کہے کہ وہ مرنے کے بعد نجات دلائے گا تو اس دعویٰ پر یقین نہیں کیا جا سکتا اور اس کی صداقت کو پرکھا نہیں جا سکتا- اور علاوہازیں اس دعویٰ میں سب مذاہب شریک ہیں- کوئی مذہب نہیں جو کہتا ہو کہ میرے ذریعہ سے نجات نہیں مل سکتی- گو نجات کے مفہوم میں ان کو اختلاف ہو- پس بعد مرنے کے نجات دلانے کا دعویٰ نہ قابل قبول ہے اور نہ مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے- جو چیز قابل قبول ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب مشاہدہ کے ذریعہ ثابت کر دے کہ اس نے انسانوں کی ایک جماعت کو جو اس پر چلتی تھی` خدا سے ملا دیا- اور اس کا قرب حاصل کرا دیا یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتا- اور پھر ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ اس دلیل کے ساتھ تمام فضولمذہبی بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے- اور نیز سوائے اسلام کے کوئی مذہب میدان میں باقی نہیں رہتا- کیونکہ یہ دعویٰ صرف اسلام کا ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح فیوض ظاہر کرتا ہے جس طرح کہ پہلے زمانوں میں فیوض ظاہر ہوتے تھے اور لوگوں کو خدا سے ملا دیتا ہے- اور خدا تعالیٰ کے قرب کے آثار کا مشاہدہ کرا دیتا ہے- چنانچہ آپ کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر مذاہب کے پیروئوں کو آپ کا اور آپ کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا اور وہ ہر میدان میں شکست کھا کر بھاگنے لگے-
)ب(دوسرا اصل مذہبی مباحثات کے متعلق آپ نے یہ پیش کیا کہ دعویٰ اور دلیل دونوں الہامی کتاب میں موجود ہیں- آپ نے مذہبی دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ اس زمانہ میں یہ ایک عجیب رواج ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر کے اس پر بحث کرنے لگ جاتا ہے- اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی فتح اس کے مذہب کی فتح ہوتی ہے اور نہ اس کی شکست اس کے مذہب کی شکست ہوتی ہے اور اس طرح لوگ فضول وقت مذہبی بحثوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں` فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا- پس چاہئے کہ مذہبی بحثوں کے وقت اس امر کا التزام رکھا جائے کہ جس دعویٰ کو پیش کیا جائے اس کے متعلق پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ اس مذہب کی آسمانی کتاب میں موجود ہے اور پھر دلیل بھی اسی کتاب میں سے دی جائے کیونکہ خدا کا کلام بے دلیل نہیں ہو سکتا- ہاں مزید وضاحت کے لئے تائیدی دلائل دیئے جا سکتے ہیں- آپ کے اس اصل نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا- اور وہ کندہناتراش ۳۳~}~واعظ جو یونہی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ علوم جدیدہ کے فریفتہ جو اپنی قوم کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے جدید علوم کو اپنا مذہبی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کے عادی تھے دونوں سخت گھبرا گئے- آریہ جو روح و مادہ کے انادی ہونے کے متعلق خاص فخر کیا کرتا تھا اس سوال پر آکر بالکل ساکت ہو گیا- کیونکہ وید میں دلیل تو الگ رہی اس مسئلہ کا بھی کہیں ذکر نہیں- آج تک آریہ سماج کے علماء مشغول ہیں مگر وید کی کوئی شرتی نہیں نکال سکے جس سے ان کا یہ مطلب حل ہو- یہی حال دوسرے مذاہب کا ہوا- وہ اس اصل پر اپنے مذاہب کو سچا ثابت نہ کر سکے- لیکن اسلام کا ہر ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآنکریم سے نکال کر دکھا دیا اور ہر دعویٰ کے دلائل بھی اسی میں سے نکال کر بتا دیئے- اس حربہ کو آج تک احمدی جماعت کے مبلغ کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور ہر میدان سے کامیاب آتے ہیں-
)ج(تیسرا اصل آپ نے یہ پیش کیا کہ ہر مذہب جو عالمگیر ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اس کے لئے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ ثابت کر دے کہ اس کے اندر اچھی تعلیم ہے بلکہ عالمگیر مذہب کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کی تعلیم ہر فطرت کو تسلی دینے والی اور ضرورت حقہ کو پورا کرنے والی ہے- اگر خالی اچھی تعلیم کسی مذہب کی صداقت کا ثبوت سمجھی جائے تو بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کہہ دے کہ میں ایک جدید مذہب لایا ہوں اور میری تعلیم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو` ظلم نہ کرو` غداری نہ کرو- اب یہ تعلیم تو یقیناً اچھی ہے لیکن ہر ضرورت کو پورا کرنے والی نہیں- اور اس وجہ سے باوجود اچھی ہونے کے مذہب کی صداقت کا ثبوت نہیں ہو سکتی- مذاہب موجودہ میں سے مسیحیت کی مثال لی جا سکتی ہے مسیحیوں کے نزدیک مسیح کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی وہ تعلیم ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تیرے ایک گال پر کوئی تھپڑے مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے پھیر دے- اب بظاہر یہ تعلیم بڑی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو فطرت صحیحہ کے مخالف ہے- کیونکہ فطرت نیکی کا قیام چاہتی ہے اور اس تعلیم سے بدی بڑھتی ہے- اسی طرح ہر ضرورت کو بھی یہ نہیں پورا کرتی- کیونکہ انسان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور اس ضرورت کا اس میں علاج نہیں- اس اصل کے ماتحت بھی دشمنان اسلام کو ایک بہت بڑی شکست نصیب ہوئی اور اسلام کو بہت سے میدانوں میں غلبہ حاصل ہوا-
)۴(چوتھا کام اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے آپ نے یہ کیا کہ سکھ جو ہندوستان کی پرجوش اور کام کرنے والی قوم ہے- اسے اسلام کے قریب کر دیا- آپ نے تاریخ سے اور سکھوں کی مذہبی کتب سے ثابت کر کے دکھا دیا کہ باوا نانک علیہ الرحمتہ سکھ مذہب کے بانی درحقیقت مسلمان تھے- اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے- اور نمازیں پڑھتے تھے اور حج کو بھی گئے تھے اور مسلمان پیروں سے عموماً اور باوا فرید علیہ الرحمتہ سے خصوصاً بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے- یہ تحقیق ایسی زبردست اور یقینی ہے کہ مذہبی طور پر اس نے سکھوں کے دلوں میں بہت ہیجان پیدا کر دیا ہے اور اگر مسلمان اس تحقیق کی عظمت کو سمجھ کر آپ کا ہاتھ بٹاتے تو لاکھوں سکھ اس وقت تک مسلمان ہو جاتے- مگر افسوس کہ مسلمانوں نے الٹی مخالفت کی اور اس کے عظیم الشان اثرات کے راستہ میں روکیں ڈالیں- مگر پھر بھی تسلی سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک طبقہ کے اندر اس تحقیق کا گہرا اثر نمایاں ہے- اور جلد یا بدیر یہ تحریک عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوگی-
)۵(پانچواں کام آپ نے اسلام کی ترقی کے لئے یہ کیا کہ عربی کو امالالسنہ ثابت کیا- اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے- مسلمانوں نے ابھی تک اس بات کی عظمت کو سمجھا نہیں- بلکہ ابھی تک وہ اس کے برخلاف عربی کو مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں- مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تجویز میں مسلمانوں کے اتحادکامل کے لئے بنیاد رکھی گئی ہے- امید ہے کہ کچھ عرصہ تک خود بخود وہ اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی مذہبی اہمیت کے ساتھ اس کی سیاسی اور تمدنی عظمت کو بھی محسوس کریںگے-
)۶(چھٹا کام اسلام کی ترقی کے لئے آپ نے یہ کیا ہے کہ ایک عظیم الشان ذخیرہ اسلام کے تائیدی دلائل کا جمع کر دیا ہے- اور آپ کی کتب کی مدد سے اب ہر مذہب اور ہر ملت کے لوگوں کا اور علوم جدیدہ کے غلط استعمال سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں-
)۷(ساتواں کام آپ نے یہ کیا ہے کہ امید جو مسلمان کے دلوں سے بالکل مفقود ہوگئی تھی اسے پھر پیدا کر دیا ہے- آپ کے ظہور سے پہلے مسلمان بالکل نا امید ہو چکے تھے- اور سمجھے بیٹھے تھے کہ اسلام دب گیا آپ نے آکر بہزور اعلان کیا کہ اسلام کو میرے ذریعہ ترقی ہوگی- اور اسلام پہلے دلائل کے ذریعہ سے دنیا پر غالب ہوگا- اور آخر تبلیغ کے ذریعہ سے طاقتور قومیں اس میں شامل ہو کر اس کی سیاسی طاقت کو بڑھا دیں گی- اس طرح آپ نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو باندھا- جھکی ہوئی کمر کو سہارا دیا- بیٹھے ہوئے حوصلوں کو کھڑا کیا- اور مردہ امنگوں کو زندہ کیا- اور اس میں کیا شک ہے کہ جب امید اور زبردست امید پیدا ہو جائے تو سب کچھ کرا لیتی ہے- امید ہی سے قربانی و ایثار پیدا ہوتے ہیں- اور چونکہ مسلمانوں میں امید نہ تھی` قربانی بھی نہ رہی تھی- احمدیوں میں امید ہے` اس لئے قربانی بھی ہے- پھر قربانی بھی مرنے مارنے کی قربانی نہیں بلکہ سامان بقا کو پورا کرنے والی قربانی- جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر ذرہ کو اس طرح ملایا جائے کہ اس سے ترقی کے سامان پیدا ہوں-
امن عامہ کا قیام
چودھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا کہ آپ نے امن عامہ کو قائم کیا ہے اس غرض کیلئے آپ نے چند تدبیریں کی ہیں جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور ہوگا-
)۱(دنیا میں سب سے بڑی وجہ فساد کی یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کو برابھلا کہتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں- حالانکہ عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے وہ کسی ایک قوم کو ہدایت کیلئے چن لے گا اور باقی سب کو چھوڑ دے گا- مگر عقل سلیم خواہ کچھ کہے دنیا میں یہ خیال پھیلا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے سخت فسادات پیدا ہو رہے تھے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور بڑے زور سے دعویٰ کیا کہ ہر قوم میں نبی گذرے ہیں- اور اس طرح ایک عظیم الشان وجہ فساد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سے پہلے بھی بعض بزرگوں نے بعض قوموں کے بزرگوں کو یا بعض قوموں نے بعض غیر قومی بزرگوں کو خدا رسیدہ تسلیم کیا ہوا تھا جیسے مثلاً ایک دہلوی بزرگ نے فرمایا کہ کرشن نبی تھے- اسی طرح توریت میں ایوب علیہ السلام کو نبی کر کے پیش کیا گیا ہے- حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے- مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اور رنگ میں پیش کیا ہے- آپ کے دعویٰ سے پہلے مختلف اقوام کے ہدایت کے متعلق مختلف خیالات تھے- )۱(بعض کا خیال تھا کہ باقی سب لوگ جہنمی ہیں صرف ان کی قوم نجات یافتہ ہے- یہود اور زردشتی اس خیال کے تھے )۲(بعض کا خیال تھا کہ ان کے بانی کی آمد سے پہلے تو دنیا کی ہدایت کا دروازہ بند تھا مگر اس کے آنے کے بعد کھلا ہے- مسیحی لوگ اس خیال کے پابند ہیں- ان کے نزدیک ہدایت عام حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوئی ہے-
)۳(بعض کا خیال تھا کہ ہدایت قومی تو ان کی قوم سے ہی مخصوص ہے لیکن خاص خاص افراد دوسری اقوام کے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ خاص زور لگائیں- سناتن دھرمی لوگوں کا یہی عقیدہ ہے- وہ اصل اور سچا مذہب تو اپنا تسلیم کرتے ہیں- مگر ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور مذہب کا خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کر کے مجاہدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم کرتا ہے گویا اسے ایک ایسا راستہ مل جاتا ہے جو گو سیدھا تو منزل مقصود تک نہیں پہنچتا لیکن چکر کھا کر پہنچ جاتا ہے-
مسلمانوں کے خیالات بھی باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو حل کر دیا تھا` غیرمعین تھے- وہ یہ خیال کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ذریعہ دنیا کی ہدایت ہوتی رہی ہے- حالانکہ بنی اسرائیل کے نبی صرف اپنی قوم کی طرف تھے- نیز وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے تھے کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں- دوسری طرف بنی اسرائیل کے سوا باقی اقوام کو غیر کتابی سمجھتے تھے اور ان کے نبیوں کو جھوٹا قرار دیتے تھے-
اس قسم کے خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ مختلف اقوام میں صلح ناممکن ہو رہی تھی- اور ضد میں آکر سب لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ صرف ہم ہی نجات پائیں گے` ہمارے سوا اور کوئی نہیں نجات پا سکتا` ہمارا ہی مذہب اصل مذہب ہے- گویا ہر قوم خدا تعالیٰ کی اکلوتی بیٹی بننا اور اسی حیثیت میں رہنا چاہتی تھی- اور دوسری قوموں سے اگر کسی رعایت کے لئے تیار تھی تو صرف اس قدر کہ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو کر کچھ حصہ خدا کے فضل کا پا سکتے ہو- اور دوسری اقوام کی قدیم قومی روایات اور احساسات کو مٹا کر ایک نئی راہ پر لانا چاہتی تھی- یعنی یہ امید رکھتی تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو جھوٹا اور فریبی قرار دیتے ہوئے اور اپنی ساری پرانی تاریخ کا ورق پھاڑتے ہوئے ان میں آکر مل جائے اور نئے سرے سے ایک پنیری کی طرح جو نئی زمین میں لگائی جاتی ہے بڑھنا شروع کرے- چونکہ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے کرنے کے لئے انسان بہت ہی کم تیار ہو سکتا ہے- خصوصاً ایسا انسان جس کے آباء شاندار کام کر چکے ہوں اور علوم کے حامل رہ چکے ہوں اس لئے قومی جنگ جاری تھی اور صلح کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی-
بعض لوگ دوسروں کے بزرگوں کو بھی تسلیم کر لیتے تھے لیکن ایک مصلح یا معلم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک بزرگ یا پہلوان کی صورت میں جس نے اپنے زور سے ترقی کی- اور وہ اسی کی ذات تک محدود رہی آگے اس کے ذریعہ سے دنیا پر ہدایت قائم نہیں ہوئی- اور اس کا نور دنیا میں پھیلا نہیں- لوگوں نے اس کی دعائوں سے یا اس کے معجزات و کرامات سے فائدہ اٹھایا لیکن وہ کوئی تعلیم اور اصلاحی سکیم لے کر نہیں آیا جیسے کہ ایوبؑ اور کرشنؑ کی نسبت یہود اور بعض مسلمانوں کا خیال تھا-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر اس نقطہ نگاہ ہی کو بالکل بدل دیا- آپ نے بعض کی شخصیت کو دیکھ کر بزرگ تسلیم نہیں کیا- اور حضرت مظہر جان جاناں کی طرح یہ نہیں کہا کہ کرشن جھوٹا نہیں معلوم ہوتا وہ ضرور خدا کا بزرگ ہوگا- یا جیسے سناتنی کہتے ہیں کہ محمد) صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک بزرگ تھے مگر ہمارا ہی مذہب سچا ہے- بلکہ آپ نے اس مسئلہ پر اصولی طور پر نگاہ ڈالی- )۱(آپ نے سورج اور اس کی شعاعوں پانیوں اور ان کے اثرات` ہوا اور اس کی تاثیرات کو دیکھا اور کہا جس خدا نے سب انسانوں کو ان چیزوں میں مشترک کیا ہے وہ ہدایت میں فرق نہیں کر سکتا- اور اصولاً سب قوموں میں انبیاء کا ہونا لازمی قرار دیا- پس آپ نے مثلاً حضرت کرشن کو اس لئے نبی تسلیم نہ کیا کہ وہ ایک بزرگ ہستی تھے جنہوں نے ایک تاریکی میں پڑے ہوئے ملک میں سے استثنائی طور پر انفرادی جدوجہد کے ساتھ خدا کا قرب حاصل کر لیا` بلکہ اس لئے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا خدا ممکن نہ تھا کہ ہندو قوم کو بھلا دے اور اس کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرے-
)۲(دوسرے آپ نے انسان کی فطرت اور اس کی قوتوں کو دیکھا اور بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ جوہر ضائع ہونے والا نہیں` خدا نے اسے ضرور قبول کیا ہوگا- اور اس کو روشن کرنے کے اسباب پیدا کئے ہوں گے-
غرض آپ کا نقطہ نگاہ بالکل جداگانہ تھا اور آپ کا فیصلہ چند شاندار ہستیوں سے مرعوب ہونے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور انسانی قابلیت اور پاکیزگی کی بنا پر تھا-
اب صلح کا رستہ کھل گیا- کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں اسلام قبول کروں تو مجھے اپنے بزرگوں کو برا سمجھنا پڑے گا- کیونکہ اسلام ان کو بھی بزرگ قرار دیتا ہے- اور اسلام قبول کرنے میں وہ انہی کی تقلید کرے گا- یہی حال زردشتیوں کنفیوشس کے تابعین اور یہودیوں اور مسیحیوں کا ہوگا- پس ہر مذہب کا انسان اپنے آبائی فخر کو سلامت رکھتے ہوئے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور اگر داخل نہ ہو تو صلح میں ضرور شامل ہو سکتاہے-
اس اصل کے ذریعہ سے آپ نے بندہ کی خدا تعالیٰ سے بھی صلح کرا دی- کیونکہ پہلے مختلف اقوام کے لوگوں کے دل اس حیرت میں تھے کہ یہ کس طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ میرا خدا نہیں ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا- اور اللہ تعالیٰ کی نسبت ان جذبات محبت کو پیدا نہیں کر سکتے تھے- جو ان کے دل میں پیدا ہونے چاہئیں تھے- مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس زنگ کو بھی دور کرا دیا- اور جہاں اپنی تعلیم کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے درمیان صلح کا راستہ کھولا` وہاں خدا اور بندہ کے درمیان صلح کا بھی راستہ کھولا-
)۲(دوسرا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے امن عامہ کے قیام کے لئے یہ اختیار کیا کہ آپ نے تجویز پیش کی کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں- دوسرے مذاہب پر اعتراض نہ کریں کیونکہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے سے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں میں بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے-
)۳(تیسرا اصل امن عامہ کے قیام کے لئے آپ نے یہ تجویز کیا کہ ملک کی ترقی فساد اور بغاوت کے ذریعہ سے نہ چاہی جائے` بلکہ امن اور صلح کے ساتھ گورنمنٹ سے تعاون کر کے اس کے لئے کوشش کی جائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جب کہ عدم تعاون کا زور ہے لوگ اس اصل کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے- لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعاون سے جس سہولت سے حقوق مل سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں مل سکتے- مگر تعاون سے مراد خوشامد نہیں- خوشامد اور شے ہے اور تعاون اور شے ہے- جسے ہر شخص جو غور و فکر کا مادہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ سکتا ہے- خوشامد اور عہدوں کی لالچ ملک کو تباہ کرتی ہے اور غلامی کو دائمی بناتی ہے مگر تعاون آزادی کی طرف لے جاتا ہے-
معاد کے متعلق خیالات کی اصلاح
پندرھواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کیا ہے کہ جزا اور سزا اور باقی امورمعاد کے متعلق ایک ایسی صحیح تحقیق پیش کی ہے کہ جس سے بڑھ کر اور عقل کو تسلی دینے والی تحقیق ذہن میں نہیں آ سکتی- آپ سے پہلے تمام مذاہب میں جزا و سزا اور معاد کے متعلق عجیب قسم کے خیالات پھیلے تھے- جن کی وجہ سے دنیا اس عقیدہ سے ہی متنفر ہو رہی تھی اور معاد کو وہم قرار دے رہی تھی- مختلف مذاہب کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے-
)۱(بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ نجات عدماحساس کا نام ہے- جیسے بدھوں کا خیال تھا-
)۲(بعض کا خیال تھا کہ نجات خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے- سناتنی ہندو اسی عقیدہ کے ہیں-
)۳(بعض کا خیال تھا کہ نجات مادہ سے روح کے تعلق کے کامل طور پر آزاد ہو جانے کا نام ہے- جینیوں کا یہی خیال تھا-
)۴(بعض کا خیال تھا- نجات عارضی اور وقتی ہے- جیسے آریہ-
)۵(بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- جیسے سپرچولسٹ-
)۶(بعض کا خیال تھا کہ جزا و سزا خالص جسمانی ہیں جیسے یہود اور مسلمان-
)۷(بعض کا خیال تھا کہ دوزخ جسمانی اور جنت روحانی ہے جیسے مسیحی-
)۸(بعض کا خیال تھا- دوزخ کی سزائیں جنت کی نعماء کی طرح ہمیشہ کے لئے ہیں-
مگر یہ سب امر نہایت ہی قابل اعتراض اور شک و شبہ پیدا کرنے والے تھے- اگر عدماحساس نجات ہے تو خدا نے انسان کو پیدا ہی کیوں کیا؟ پیدا تو اس چیز کیلئے کیا جاتا ہے جو آئندہ حاصل ہونے والی ہو- عدم احساس تو پیدائش سے پہلے موجود تھا- پھر پیدا کرنے کی کیا غرض تھی؟ اسی طرح نجات اگر خدا میں فنا ہو جانے کا نام ہے تو یہ انعام کیا ہوا- فناء خواہ الگ ہو خواہ خدا میں ایک کامل الاحساس ہستی کے لئے انعام نہیں کہلا سکتی- اگر مادہ سے نجات کا نام نجات ہے تو ارواح پہلے ہی مادہ میں کیوں ڈالی گئیں- اس نئے دور کے اجراء کی غرض کیا تھی- اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ جزا و سزا صرف روحانی ہیں- کیونکہ انسان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ باہر کے اثرات کو جذب کرنا چاہتا ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ باہر سے بھی لذت حاصل کرے اور اندر سے بھی- اسی طرح وہ جو کہتے ہیں کہ جزا و سزا صرف جسمانی ہیں وہ بھی غلط کہتے ہیں- کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کو ابدی زندگی اس لئے دی جائے گی کہ وہ کھائے اور پیئے اور ایک بے مقصد زندگی بسرکرے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب خیالات کی تردید کی ہے اور مندرجہذیل حقیقت پیش کی ہے- آپ فرماتے ہیں کہ-:
انسان کا مقصد نجات نہیں بلکہ فلاح ہے- نجات کے معنی تو بچ جانے کے ہیں اور بچ جانا عدم پر دلالت کرتا ہے- اور عدم مقصد نہیں ہو سکتا- پس انسان کا مقصد فلاح ہے اور فلاح کچھ کھونے کا نام نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کا نام ہے- اور جب حاصل کرنے کا نام فلاح ہے تو ضروری ہے کہ اگلے جہان میں احساس اور زیادہ تیز ہوں تا کہ زیادہ حاصل کر سکیں- یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے-
ویحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمانیہ ۳۴~}~کہ اس دنیا میں تو چار بنیادی صفات کا ظہور انسان کے لئے ہوتا ہے- اگلے جہان میں عرش آٹھ بنیادی صفات کا ظہور ہوگا- یعنی اس دنیا کی نسبت اگلے جہان کی تجلیات بہت بڑھ کر ہوں گی-
پھر آپ نے ثابت کیا کہ نجات یا فلاح دائمی ہیں اور بتایا کہ عمل کا بدلہ کام کرنے والے کی نیت اور جزا دینے والے کی طاقت پر ہوتا ہے- ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر اور انسان کی فطرت پر نظر کرتے ہوئے جو فنا سے بھاگتی اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتی ہے` فلاح کی ہمیشگی ثابت ہے-
اسی طرح آپ نے یہ بھی بتایا کہ جزا و سزا نہ صرف روحانی ہیں اور نہ صرف جسمانی- اور نہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک جسمانی ہو اور دوسری روحانی- کیونکہ اعمال نیک و بد کا مرکز ایک ہی ہوتا ہے- اس جزا و سزا کا طریق بھی ایک ہی ہونا چاہئے- ہاں چونکہ کامل احساس اندرونی و بیرونی جذبات کے ملنے سے ہوتا ہے اس لئے جزا و سزا اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی حسوں پر مشتمل ہونگی اور چونکہ وہ عالم زیادہ تیز احساسات کی جگہ ہوگا` اس لئے وہاں کی جزا و سزا کے مطابق اور ضروریات کے لحاظ سے ایک نیا جسم انسان کو ملے گا- وہاں بے شک یہ جسم نہ ہوگا- مگر ہوگا ضرور- یعنی نیا جسم دیا جائے گا- جو یہاں کے لحاظ سے روحانی ہوگا- یہاں کی عبادتیں وہاں مختلف اشیاء کی شکل میں نظر آئیں گی- ان کی ظاہری شکل تو ہوگی مگر باوجود اس کے وہ اس دنیا کے مادہ سے نہ بنی ہوئی ہوں گی- گویا وہاں پھل اور دودھ اور شہد اور مکانات تو ہوں گے مگر اس دنیا کی قسم کے نہیں بلکہ ایک لطیف مادہ کے جنہیں لطافت کے سبب سے اس دنیا کے مقابلہ میں روحانی جسم والا کہا جا سکتا ہے-
لیکن سزا و جزا کے متعلق آپ نے ایک فرق بیان فرمایا اور وہ یہ کہ دوزخ کی سزا تو ابدی نہیں ہوگی- کیونکہ انسانی فطرت نیک ہے` اس لئے ضروری ہے کہ اسے نیکی کی طرف لے جایا جائے- دوسرے انسان خدا کے قرب کے حصول کے لئے پیدا کیا گیا ہے- اگر وہ دوزخ میں پڑا رہے تو قرب کہاں حاصل کر سکتا ہے- پھر خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے- اگر دوزخ کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو تو رحمت کس طرح وسیع ہوگی- اس صورت میں تو اس کا غضب بھی ویسا ہی وسیع ہوا- جیسے کہ اس کی رحمت- پھر اگر ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو تو انسان جو نیکیاں دنیا میں کرتا ہے` ان کا بدلہ ضائع ہو جائے گا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے` کسی کی نیکی ضائع نہیں کی جائے گی- پس عذاب دائمی نہیں ہوگا` فلاح دائمی ہوگی-
غرض آپ نے دوزخ کے عذاب کے محدود ہونے کو علمی طور پر کھول کر گویا کائناتعالم کی حقیقت کو کھول دیا ہے- ایک طرف انسانی فطرت کی کمزوری کو دیکھ کر جب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو تربیت کرنے والوں کی تربیت کا اس پر اثر پڑتا ہے- کھانے پینے کا اس پر اثر پڑتا ہے- اردگرد کے حالات کا اثر پڑتا ہے- اور کاموں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے عبادت کے لئے قلیل وقت ملتا ہے- دوسری طرف باوجود ان مجبوریوں کے عام طور پر انسان کی قرب الہی کے لئے جدوجہد کو دیکھ کر جس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ مشغول ہیں تیسری طرف یہ دیکھ کر کہ بنی نوع انسان تک خدا کے کلام کے پہنچانے میں ہزاروں قسم کی دقتیں ہیں اور بہت ہی کم لوگوں کو ایک وقت میں حقیقی طور پر کلام پہنچتا ہے- چوتھے رحمت الہی کی وسعت کو دیکھ کر` پانچویں انسانی طاقتوں کی حد بندیوں کو دیکھ کر ہر ایک صحیح فطرت جزا و سزا کی نسبت مختلف مذاہب کی پیش کردہ تعلیم سے رکتی تھی- مگر آپ نے ایسی تعلیم پیش کر دی کہ ان سب اعتراضات کا ازالہ ہو گیا- اور اب ہمیں نظر آتا ہے- کہ انسانی زندگی ترقیات لامحدود کی ایک کڑی ہے- اور اس میں غیر محدود ترقیات کی گنجائش ہے- اس کی روکیں عارضی ہیں ورنہ بحیثیت مجموعی وہ آگے کی طرف جا رہی ہے اور جائے گی- خود دوزخ بھی ایک عالم ترقی ہے- اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی جگہ ہے- گویا وہ ایک حمام ہے- جن کو آلائشیں لگی ہوں گی انہیں خدا کہے گا- اس حمام میں پہلے نہائو اور پھر میرے پاس آئو-
اب آخر میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی کہے کہ یہ سب باتیں تو قرآن کریم میں موجود تھیں- مرزا صاحب نے کیا کیا؟ ان باتوں کے اظہار سے ان کا کام کس طرح ثابت ہوگیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم یہ کہے کہ ساری باتیں تو خدا نے بتائیں- محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( نے کیا کام کیا- تو کیا یہی نہیں کہو گے کہ بے شک جو کچھ آپ نے دنیا کو بتایا` وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملا- مگر سوال یہ ہے کہ اور کسی کو کیوں نہ ملا؟ آخر کوئی نیکی اور تقویٰ اور قربانی کا درجہ آپ کو ایسا حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہ تھا- تب ہی تو خدا تعالیٰ نے آپ پر یہ علوم کھولے پس وہ کام آپ ہی کا کام کہلائے گا- یہی جواب ہم دیں گے کہ بیشک یہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود تھا- مگر باوجود اس کے لوگوں کو نظر نہ آتا تھا- اور خداتعالیٰ نے ان علوم کو کسی پر نہ کھولا مگر آپ پر ان علوم کو کھول دیا- اور ایسے وقت میں کھولا جب کہ دنیا قرآن کریم کی طرف سے رو گردان ہو رہی تھی- پس گو یہ علوم قرآن کریم میں موجود تھے مگر دنیا کی نظر سے چونکہ پوشیدہ تھے- اور خدا تعالیٰ نے ان کے کھولنے کے لئے آپ کو چنا` اس لئے وہ آپ ہی کا کام کہلائیں گے-
میں نے آپ کے کاموں کی تعداد پندرہ بتائی ہے- لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کا کام یہیں تک ختم ہو گیا ہے- آپ کا کام اس سے بہت وسیع ہے اور جو کچھ کہا گیا ہے یہ اصولی ہے- اور اس میں بھی انتخاب سے کام لیا گیا ہے- اگر آپ کے سب کاموں کو تفصیل سے لکھا جائے تو ہزاروں کی تعداد سے بھی بڑھ جائیں گے- اور میرے خیال میں اگر کوئی شخص انہیں کتاب کی صورت میں جمع کر دے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ منشاء پورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہین احمدیہ میں ظاہر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس کتاب میں اسلام کی تینسو خوبیاں بیان کی جائیں گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ وعدہ اپنی مختلف کتابوں کے ذریعہ پورا کر دیا- آپ نے اپنی کتابوں میں تین سو سے بھی زائد خوبیاں بیان فرما دی ہیں- اور میں یہ ثابت کرنے کیلئے تیار ہوں- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین-
‏]gap [tag
۱~}~
ال عمران : ۱۹۱ تا ۱۹۶
۲~}~
متی باب ۵ آیت ۳۹- برٹش فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۳~}~
وڈ JohnWood )۱۸۱۱ء-۱۸۷۱ء( ایسٹ انڈیا کمپنی کی بحریات کا رکن- برنز (Burns) کا اسسٹنٹ` افغانستان کے سفر میں وادی کابل کے متعلق رپورٹ تیار کی اور دریائے جیحوں کا سرچشمہ دریافت کیا- سندھ میں وفات پائی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۹۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور(
۴~}~
فاکس James Charles Fox )۱۷۴۹ء-۱۸۰۶ء( انگریز سیاستدان` مدبر` اور فصیحالبیان مقرر جسے ہندوستان کے لوگوں سے بہت ہمدردی تھی- چنانچہ اس نے ۱۷۷۳ء میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جسے Bill India Fox کہتے ہیں اس بل کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی سے چھین کر سات ارکان کی ایک کمیٹی کے سپرد کی جائے-
انقلابی جنگ میں اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں امریکی نوآبادیات کی حمایت کی- یہ بڑا ہی ملنسار اور ہمدرد آدمی تھا- ۱۸۰۶ء میں اسے خارجہ امور کا سیکرٹری بنایا گیا- )پاپولر تاریخ انگلستان صفحہ۲۳۹` ۲۴۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۰ء + اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۰۵۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء(
۵~}~
تذکرہ صفحہ۱۰۴ ایڈیشن چہارم ۱۹۷۷ء براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۵۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴
۶~}~
تذکرہ صفحہ۱۰۴- ایڈیشن چہارم
۷~}~
لارڈ ریڈنگ )۱۸۶۰ء-۱۹۳۵ء( انگریز سیاستدان و وکیل- ۱۹۱۰ء میں اٹارنی جنرل مقرر ہوا- ۱۹۱۳ء سے ۱۹۲۱ء تک انگلستان کا لارڈ چیف جسٹس اور ۱۹۲۱ء سے ۱۹۲۶ء تک ہندوستان کا وائسرائے رہا- لارڈ ریڈنگ سخت گیر وائسرائے ثابت ہوا- اگرچہ اس نے وقتی طور پر سیاسی شورش کو دبا دیا مگر اس سے حکومت کو کوئی مستقل اطمینان نصیب نہ ہوا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۶۹۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
۸~}~
تذکرہ صفحہ۳۱۲- ایڈیشن چہارم
۹~}~
الشوری: ۱۲
۱۰~}~
آئنسٹائن Einstein )۱۸۷۹ء-۱۹۵۵ء( نظری طبیعیات کا ماہر- جرمن نژاد- بعد میں امریکی شہریت اختیار کی- جرمنی میں تعلیم مکمل کر کے سوئٹزرلینڈ میں ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک پیٹنٹ دوائوں کی آزمائش گاہ میں کام کیا- ۱۹۰۵ء میں اس نے قدریوں (EnergyQuenta) کے مماثل` نور کے قدریوں یا ضیائیوں (Photons) کا مفروضہ وضع کیا اور ان کی بناء پر ضیاء کیمیائی اثر کی توجیہہ کی- اس نے نوعی حرارت کا قدریاتی نظریہ بھی پیش کیا- ۱۹۰۵ء میں ہی اس نے نظریہ اضافیت پیش کیا- اس نظریے کی بناء پر جوہری توانائی دریافت ہوئی- ۱۹۱۱ء میں اس نے تجاذب اور جمود کی معاونت ثابت کی- ۱۹۱۳ء میں برلن میں پروفیسر مقرر ہوا- ۱۹۲۱ء میں اس نے نظری طبیعیات بالخصوص ضیاء کیمیائی اثر کی تحقیق کی بناء پر نوبل انعام حاصل کیا- ۱۹۳۹ء میں صدر روزویلٹ کو بغرض غور ایٹم بم بنانے کی تجویز بھی اسی نے پیش کی- موسیقی کا بھی دلدادہ تھا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۳۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
۱۱~}~
الصفت: ۱۱ ۱۲~}~ الکفرون: ۷
‏2] fts[۱۳~}~
ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ۱۵۸ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۲۵۸
۱۴~}~
التکویر: ۵ ۱۵~}~ التکویر: ۶ ۱۶~}~ التکویر: ۷
۱۷~}~
التکویر: ۸ ۱۸~}~ الشمس: ۲`۳ ۱۹~}~ النمل: ۴۵
۲۰~}~
‏hn2] gat[ الطارق: ۱۲`۱۳ ۲۱~}~ الطارق: ۱۴`۱۵ ۲۲~}~ یس: ۴۱
۲۳~}~
النساء: ۲ ۲۴~}~ الفرقان: ۶۰ ۲۵~}~ البقرہ: ۱۰۳
۲۶~}~
بخاری کتاب الوضوء باب التسمیہ علی کل حال و عند الوقاع
۲۷~}~
متی باب ۱۲ آیت ۳۹`۴۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء
۲۸~}~
بخاری کتاب الذبائح والصید باب الضب
۲۹~}~
تذکرہ صفحہ ۳۹۶- ایڈیشن چہارم
۳۰~}~
النساء: ۲۹ ۳۱~}~ الفاتحہ: ۴ ۳۲~}~ فاطر: ۴۶
۳۳~}~
کندہ ناتراش: احمق- نالائق
‏۳۴2]~}~ ftr[
الحاقہ: ۱۸
‏ a10.5
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن)۱(
فضائل القرآن
)نمبر۱(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
فضائل القرآن
)نمبر۱(
قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت
اور
مستشرقین یورپ کے اعتراضات کا رد
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد` تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے متعلق کوئی حد بندی کرنا یا کوئی حد بندی چاہنا انسانی طاقت سے بالا اور ادب کے منافی ہے- لیکن آج جس وقت نماز جمعہ کے قریب بادل گھر آئے اور تیز بارش برسنے لگی تو باوجود ضعف اور خرابی صحت کے میری طبیعت یہی چاہتی تھی کہ کمازکم جلسہ سب دوستوں کے ساتھ مل کر دعا پر ختم ہو- اللہ تعالیٰ کی طاقتیں تو بہت وسیع ہیں لیکن بندہ گھبرا جاتا ہے- جب بارش تھمنے میں نہ آئی تو میں نے ایک تحریر لکھی اور دوستوں سے کہا کہ اس کی نقلیں کروا کر ابھی کمروں میں پہنچا دی جائیں- اس کا مضمون یہ تھا کہ بارش کی وجہ سے چونکہ ہم سب لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے سوا پانچ بجے میں دعا کروں گا سب دوست اپنی اپنی جگہ اس دعا میں شامل ہو جائیں- لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی نقلیں ہو ہی رہی تھیں کہ بارش تھم گئی اور میں نے کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی ہے اب نقلیں کروانے کی ضرورت نہیں-
قرآنی مطالب پر غور کرنے کیلئے بعض اصولی باتیں
‏]text1 [tagمجھے افسوس ہے کہ آج میں اس مضمون کو پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں جو اس جلسے کے لئے میں نے تجویز کیا تھا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کم ازکم وقت لے اور اسے خلاصتہ بھی بیان کیا جائے تب بھی پانچ چھ گھنٹے میں بیان ہو سکتا ہے- اور اتنی لمبی تقریر موسم کے خراب ہونے اور پھر طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اس وقت نہیں ہو سکتی- میں نے اس مضمون کو جلسہ سالانہ کے لئے اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ مضمون قرآن کریم کے متعلق ہے اور میراارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو آئندہ جو قرآن کریم کا ترجمہ ہماری طرف سے شائع ہو اس کا اسے دیباچہ بنا دیا جائے- کچھ حصہ ان مضامین کا جلسہ کے موقع پر بیان کر دوں اور باقی حصہ میں خود لکھ لوں- لیکن چونکہ اس وقت یہ مضمون تفصیلی طور پر بیان نہیں ہوسکتا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ قرآن کریم پرغور کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کن کن مطالب پرغور کرنا چاہئے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیر مسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کر رہے ہیں اور مسلمان اس طرف سے کتنے غافل اور لاپرواہ ہیں- میرے نزدیک قرآن کریم پر مجموعی نظر ڈالنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے-
ضرورت قرآن
اول کیا اس وقت جبکہ قرآن کریم نازل ہوا دنیا کو کسی الہامی کتاب کی ضرورت تھی یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی چیز باموقع نازل ہوئی ہے اس وقت تک خدا تعالٰے کی طرف وہ منسوب نہیں کی جاسکتی- بہت لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں کی حالت خراب تھی- مگر لوگوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب بھی نازل ہو- دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت تشریف لائے جب لوگوں کی عملی حالت بالکل خراب ہو چکی تھی لیکن کیا آپ کوئی کتاب لائے- پس یہ کہنا کہ لوگوں کی عادات خراب ہوگئی تھیں فسق وفجور پیدا ہوگیا تھا یہ اس بات کے لئے کافی نہیں کہ اس زمانہ میں قرآنکریم کی بھی ضرورت تھی- یا یہ کہ عربوں میں بد رسوم پیدا ہوگئی تھیں- بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے- سوتیلی مائوں سے شادی کر لیتے تھے- اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ عربوں کے لئے ایک کتاب کی ضرورت تھی - یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ساری دنیا کے لئے ضرورت تھی- جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت سخت خراب تھی- مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیھما السلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے- ہمیں جو چیز ثابت کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں تمام مذہبی کتب میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ذات میں دنیا کو تسلی دینے کے لئے نا کافی تھیں- پس قرآن کریم کے نازل ہونے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتب میں بگاڑ ثابت کرنا ضروری ہے-
قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی
)۲(دوسرے اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی؟ کیونکہ کسی وحی کے نزول کے طریق سے بھی بہت کچھ اس کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے- مثلاًاس بات پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آجائیگا کہ جس انسان پر یہ وحی نازل ہوئی کیا اس کے نازل ہونے کے وقت کی کیفیت سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا نعوذباللہ دماغ خراب تھا- بیسیوں لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہ یہ الہام ہوا- وہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے- مگر ان کا دماغ خراب ہوتا ہے- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے- آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے اس نے پھر کہا- جب میں سجدہ کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے- عرش پر سجدہ کر اور کہتا ہے- تو محمد ہے- تو عیسیٰ ہے- تو موسیٰ ہے- آپ نے فرمایا- کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا جمال اور جلال بھی دیا جاتا ہے یا قرآن کریم کے علوم بھی تم پر کھولے جاتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر خدا تعالیٰ تمہیں عرش پر نہیں لے جاتا ہے- بلکہ شیطان بہکاتا ہے اگر خدا تمہیں عرش پر لے جاتا اور محمد قرار دیتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتیں بھی تمہیں آپ کی غلامی میں عطا فرماتا- تو قرآن کریم کی وحی کے نزول پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سامنے آجائیگا کہ جس شخص پر یہ کلام اتراوہ ایسا تو نہ تھا کہ مجنوں ہو یا اس کے دماغ میں کوئی اور نقص ہو-
جمع قرآن پر بحث
)۳(تیسرا سوال قرآن کریم پر نظر ڈالتے وقت یہ سامنے آئے گا کہ قرآن کریم کس طرح ¶جمع ہوا؟ یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی گئی کیا اسی صورت میں سامنے آئی ہے جو اس کے نازل کرنیوالے کامنشا تھا؟ اگر اسی صورت میں سامنے آئی ہے تب تو معلوم ہوا کہ اس پر غور کرنے سے وہ صحیح منشاء معلوم ہوجائیگا- جو پیش کرنے والے کا تھا- لیکن اگر اس میں کوئی خرابی اور نقص پیدا ہو گیا ہے تو پھر اس کتاب کے پیش کرنے والے کا جو منشا تھا وہ خبط ہو گیا- اس وجہ سے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی- یورپ کے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم صحیح طور پر جمع نہیں ہوا- وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی عبارت کی کوئی ترتیب نہیں یونہی مختلف باتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے-
حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ
)۴(چوتھی چیز یہ ثابت کرنی ہو گی کہ قرآن اب تک محفوظ بھی ہے- اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن صحیح طور پر پیش کرنے والے کے منشاء کے مطابق جمع ہوا ہے- مگر یہ کہا جائے کہ اس میں کچھ زائد حصہ بھی شامل ہو گیا ہے یا اس میں سے کچھ حصہ حذف ہو گیا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کتاب اب اصل شکل میں نہیں رہی- اس وجہ سے وہ فائدہ نہیں دے سکتی جس کے لئے آئی تھی اور دنیا کے لئے کامل ہدایت نامہ نہیں ہو سکتی-
اس کے لئے بھی عیسائی مورخین نے بڑا زور لگایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں ہے-
قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق
)۵(پانچواں سوال جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے کیا تعلق ہے- آیا قرآن کریم پہلی کتب کا مصدق ہے یا نہیں اگر ہے تو کس طرح؟ ان کو موجودہ صورت میں درست تسلیم کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ پہلے صحیح اتری تھیں مگر اب بگڑ گئی ہیں- یورپ کے لوگوں نے اس بات کے لئے بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم نے پہلی کتب کو ان کی موجودہ صورت میں صحیح تسلیم کیا ہے- اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے ان کتب کی موجودہ شکل کو درست مانا ہے تو پھر قرآن کریم کا ان سے جو اختلاف ہوگا وہ غلط ہوگا- سرولیم میور نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے- اس میں اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک پہلی کتابیں صحیح ہیں-
قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق
)۶(چھٹا سوال یہ ہو گا کہ اتنی عظیم الشان کتاب جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے ہے اس کی تصدیق پہلی کتب سے ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قرآن کریم کا ذکر پہلی کتب میں موجود ہے؟ تا لوگ معلوم کر لیں کہ پہلی کتب میں اس کی جو خبر دی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آیا ہے-
قرآن کریم میں پہلی کتب سے زائد خوبیاں
)۷(ساتواں سوال اس کے ساتھ ہی یہ پیدا ہو جائے گا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے کون سی زائد چیز لایا ہے- یا تو وہ یہ کہے کہ پہلی سب کتابیں جھوٹی ہیں اس لئے مجھے نازل کیا گیا ہے- لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی سچی ہیں تو پھر یہ دکھانا چاہئے کہ قرآن کریم زائد خوبیاں کیا پیش کرتا ہے- ورنہ اس کے نازل ہونے کی ضرورت ثابت نہ ہوگی- پس یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ قرآن دوسری کتب کے مقابلہ میں افضل ہے-
ترتیب قرآن
)۸(ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ آیا قرآن کریم میں کوئی ترتیب مدنظر ہے؟ یعنی اس میں کوئی معنوی ترتیب ہے؟ یورپ والے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں- بالکل بے ربط کلام ہے- اور عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علماء نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں نعوذ باللہ کوئی ترتیب نہیں- لیکن کسی کتاب کا بیترتیب ثابت ہونا اس پر بہت بھاری حملہ ہے اور اگر اس میں ترتیب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اس طرح نہیں جس طرح نازل ہوئی تھی- پہلی اتری ہوئی آیتیں پیچھے اور پچھلی پہلے کر دیگئیہیں-سورۃ علق پہلے نازل ہوئی مگر بعد میں رکھی گئی اور سورۃ فاتحہ بعد میں نازل ہوئی اور اسے پہلے رکھا گیا- اسی طرح اور آیتوں کو بھی آگے پیچھے کیا گیا ہے- مکہ میں بعض آیتیں اتریں جنہیں مدنی سورتوں میں درج کیا گیا ہے- اور بعض مدینہ میں اتریں انہیں مکی سورتوں میں لکھا گیا ہے- اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ میں قرآن کریم کی ترتیب مدنظر تھی تو پھر کیوں اسی طرح جمع نہ کیا گیا جس طرح نازل ہوا تھا- اور اگر وہ ترتیب صحیح ہے جس میں اب قرآن موجود ہے تو پھر کیوں اسی ترتیب سے نازل نہ ہوا؟
یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل یورپ نے اٹھایا ہے- اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصولی طور پر میں نے اس طرح حل کیا ہے کہ ہر سمجھدار کی سمجھ میں آجائے گا-
ناسخ ومنسوخ کی بحث ]0 [rtf
)۹(ایک سوال قرآن کریم کے متعلق ناسخ ومنسوخ کا آجاتا ہے- یہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے- کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنکریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں- انہیں بعض دوسری آیتوں یا حدیثوں نے منسوخ کر دیا ہے- وہ پڑھی تو جائیں گی مگر ان پر عمل نہیں کیا جائیگا-
یورپ والوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ناسخ منسوخ کا ڈھکوسلا اس لئے بنایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صریح تضاد پایا جاتا ہے- جب اسے دور کرنے کی مسلمانوں کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے متضاد آتیوں میں سے ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے دیا-
نزول قرآن کا مقصد اور اس کا پورا ہونا
)۱۰(پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ آیا قرآنکریم اس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لئے کوئی مذہب نازل ہوتا ہے- ہر ایک الہامی کتاب اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب اس مقصد کو پورا کرے جسے الہامی کتاب کو پورا کرنا چاہیے- اور لوگ جن الہامی کتب کو مانتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب آنے کی یہ یہ ضرورت تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے وہ نازل ہوا ہے؟ اگر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ورنہ نہیں-
فطرت انسانی کے مطابق تعلیم
)۱۱(پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر طبقہ اور ہر درجہ کی فطرت کے لوگوں کے لئے ہے- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی تعلیم فی الواقع ایسی ہے کہ اس سے ایک ان پڑھ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر ایک عالم پڑھے تو وہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے- اگر اس کی تعلیم ایسی ہے تو یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہلا سکتی ہے- ورنہ نہیں-
فہم قرآن کے اصول
)۱۲(ایک اور سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے اصول کیا ہیں؟ ہر کتاب کو سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے لئے کوئی نہ کوئی کلید ہوتی ہے- قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کن اصول کی ضرورت ہے؟ گویا قرآن کریم کو اصول تفسیر بھی بیان کرنے چاہئیں تاکہ ان سے کام لے کر ہر انسان اپنی سمجھ اور اپنے علم کے مطابق فہم قرآن حاصل کر سکے-
قرآن کریم کو پہلی کتب کا مصدق کن معنوں میں کہا گیا ہے؟
‏]text1 )[tag۱۳(ایک سوال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قرآن اس لئے پہلی کتب کا مصدق ہے کہ ان کتابوں کی نقل کرتا ہے- اس نقل کے الزام سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ قرآن ان کا مصدق ہے- ہم کہتے ہیں بے شک قرآنان کی تصدیق کرتا ہے- مگر ان کے خلاف بھی تو کہتا ہے- اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن دوسری کتابوں سے کیا نقل کرتا ہے اور کیا چھوڑتا ہے؟ اور جو بات نقل کرتا ہے- اسے پہلی کتاب سے زائد بیان کرتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پہلی کتابوں سے اختلاف کرتا ہے- ایسی صورت میں کیا وجہ ہے کہ ہم قرآن کی بات کو صحیح مانیں-
پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض
)۱۴(پھر قرآن میں پرانے واقعات بیان کئے گئے ہیں- ان کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا ہے- کیا قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی کفار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان ھذا الا اساطیر الاولین ۱~}~قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں-
قسموں کی حقیقت
)۱۵(یہ سوال بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں؟ قسموں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام بنایا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ اسے خدا کا کلام قرار دے رہے ہیں- اس لئے قسمیں کھانے لگے- اس قسم کے شبہات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
معجزات پر بحث
)۱۶(اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات پر زور دینا کہ کوئی نشان دکھانا رسول کے اختیار میں نہیں- جب خدا چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے- دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ پوشی کے لئے ہے- اس کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سارے کا سارا قرآن نشانات کا مجموعہ ہے-
خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں
)۱۷(اسی طرح قرآن کریم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سائنس اور علوم طبعیہ کے خلاف باتیں پیش کرتا ہے- چونکہ خدا تعالیٰ کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا اس لئے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کے کسی فعل کے خلاف نہیں ہے- اس میں ایسی سچائیاں ہیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں- اور انہیں علوم طبعیہ کے خلاف قرار دیا جاتا تھا مگر اب انہیں درست قرار دیا جاتا ہے-
قرآن کریم کے روحانی کمالات
)۱۸(یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن کریم میں کیا کمالات ہیں اور قرآن کریم بنی نوع انسان کو کس اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچانے کے لئے آیا ہے-
آخری شرعی کلام
)۱۹(یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے- لوگ کہتے ہیں جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کلام نازل ہوتا رہا ہے تو اب شرعی کلام کا آنا کیوں بند ہو گیا- اس کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اب کسی اور شرعی کلام کی ضرورت نہیں-
عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ
)۲۰(پھر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآنکریم کے لئے عربی زبان کیوں اختیار کی گئی کیوں فارسی` سنسکرت یا کوئی اور زبان اختیار نہ کی گئی؟
پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی رد اور صحیح اصول کا بیان
)۲۱(پھر جب قرآنکریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور تمام پہلی مذہبی تعلیموں کا قائم مقام ہے تو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ ان تعلیموں میں جو نقائص تھے ان کو اصولی طور پر قرآن کریم نے دور کر دیا ہے اور ان کی جگہ صحیح اصول قائم کئے ہیں-
قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت
)۲۲(پھر قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے کہ اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے یہ یہ ثبوت ہیں-
قرآن کریم کے اثرات
)۲۳(قرآن کریم کے اثرات پر بھی بحث کرنی ہو گی-
متشابہات کا حل
)۲۴(آیات متشابہات کو حل کرنا بھی ضروری ہے- قرآن کریم یہ تو کہتا ہے کہ اس میں کچھ آیات متشابہات ہیں مگر یہ نہیں بتاتا کہ کون کون سی ہیں- جب تک ان آیات کا پتہ نہ ہو سارے قرآن کو متشابہات کہنا پڑے گا- مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بھی ایسا علم عطا فرمایا ہے کہ معمولی سے معمولی علم رکھنے والے کے لئے بھی متشابہات کا پتہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا اور نیز یہ کہ آیات متشابہات قرآن کریم کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہیں-
حروف مقطعات کا حل
)۲۵(حروف مقطعات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ ان کی کیا ضرورت اور غرض ہے؟
سات قرائتوں سے کیا مراد ہے
)۲۶(یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآنکریم کی سات قرائتیں ہیں ان سے کیا مراد ہے؟ یہ بحث بھی ضروری ہے-
خلق قرآن کا مسئلہ
)۲۷(کلام الہی کو خدا تعالیٰ کے علم سے کیا نسبت ہے- پہلے زمانہ میں اس پر بہت بڑی بحث ہوئی ہے- اور بڑے بڑے علماء کو خلق قرآن کے مسئلہ پر ماریں پڑی ہیں- حضرت امام احمد بن حنبل~رح~ کو عباسی خلیفہ نے مار مار کر اتنا چور کر دیا کہ وہ فوت ہو گئے- غرض خلق قرآن کے مسئلہ پر بھی بحث ضروری ہے یعنی خدا کے کلام کو خدا سے کیا نسبتہے-
قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے
)۲۸(پھر ایک بحث یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے- کسی کتاب کی پیشگوئیاں بتا دینا کہ وہ پوری ہو رہی ہیں اس کی زندگی کا ثبوت نہیں- تورات اور انجیل کی بعض پیشگوئیاں بھی اب تک پوری ہو رہی ہیں- لیکن ان کتب سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا جو ان کے نازل ہونے کے وقت مدنظر تھا- مگر قرآن کریم آج بھی وہ مقصد پورا کر رہا ہے جسے لیکر وہ نازل ہوا تھا-
قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے
)۲۹(پھر یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کن کن علوم کا ذکر کرتا ہے- یعنی سوال یہ ہے کہ مذہب کو کہاں تک دوسری بحثوں سے تعلق ہے- اخلاق` سیاست` تمدن وغیرہ مذہب میں شامل ہیں یا نہیں-
قرآن ذوالمعارف ہے
)۳۰(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن ذوالمعارف ہے اور یہ اس کی خوبی ہے نقص نہیں کہ ایک آیت کے کئی کئی معنے ہوتے ہیں-
قرآن کامل کتاب ہے
)۳۱(اس بات پر بحث کرنی بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور اب کسی اور آسمانی کتاب کی ضرورت نہیں- مگر اس کے باوجود سنت اور حدیث کی ضرورت ہے اور اس سے قرآن کریم کے کمال میں نقص پیدا نہیں ہوتا-
قرآن کریم کی فصاحت
‏]text1 )[tag۳۲(قرآن کریم جو فصیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے- اس کا کیا مطلب ہے اور یہ کہ وہ کس طرح بے مثل ہے اور کیوں کوئی اس کی مثل نہیں لا سکتا-
قرآن کریم کا دوسری الہامی کتب سے مقابلہ
)۳۳(قرآن اور دوسری کتابوں کی تعلیم کا مقابلہ بھی ضروری ہے-
ایک بے نظیر روحانی` جسمانی` تمدنی اور سیاسی قانون
)۳۴(اجمالی طور پر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم بے نظیر روحانی` جسمانی` تمدنی اور سیاسی قانون ہے-
قرآن کریم کے استعارات
)۳۵(قرآن کریم میں استعارات کیوں آئے ہیں- ان کی کیا ضرورت ہے- یہ سوال بھی قابل حل ہے-
تراجم قرآن کی ضرورت
)۳۶(یہ بھی کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ شائع کرنا کیوں ضروری ہے؟
حفاظت قرآن کے ذرائع
)۳۷(قرآن کریم کی حفاظت کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ اس دعویٰ کے لئے کیا ذرائع اختیار کئے گئے ہیں-
قرآن کریم کو شعر کیوں کہا گیا ہے
)۳۸(قرآن کریم کو جو اس زمانہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ایک شاعر کا کلام ہے اور قرآن کریم نے اس کی تردید کی ہے۲~}~ اس کا کیا مطلب ہے- یعنی قرآن میں شعر کا کیا مفہوم ہے- اور جب خدا تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق کہتا ہے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے-
قرآن کریم آہستہ آہستہ کیوں نازل ہوا
)۳۹(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیوں نازل ہوا- کیوں نہ ایک ہی دفعہ نازل ہو گیا-
قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا
)۴۰(یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کا کوئی ترجمہ اس کے سارے مضامین پر حاوی نہیں ہو سکتا-
قرآن کریم کے تمام الفاظ الہامی ہیں
)۴۱(یہ بحث بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے وہی الفاظ ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کئے یا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیال آیا- اسے آپ نے اپنے لفظوں میں لکھوا دیا؟
یورپ اس دوسری صورت کو ثابت کرنے کے لئے بڑا زور لگاتا ہے- وجہ یہ کہ انجیل کے نسخوں میں چونکہ اختلاف ہے- اس لئے وہ کہتے ہیں کہ الفاظ الہامی نہیں بلکہ مطلب الہامی ہے- اگر الفاظ میں اختلاف ہے تو کوئی حرج نہیں- کہتے ہیں کسی گیڈر کی دم کٹ گئی تھی- اس نے سب گیڈروں کو جمع کر کے تحریک کی کہ ہر ایک کو اپنی دم کٹوا دینی چاہئے- اس نے دم کے کئی ایک نقصان بتائے- کئی گیڈر اس کے لئے تیار ہو گئے- لیکن ایک بوڑھے گیڈر نے کہا کہ پہلے دم کٹانے کی تحریک کرنے والا اٹھ کر دکھائے کہ اس کی اپنی دم ہے یا نہیں- اگر اس کی دم پہلے ہی کٹی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ سب کو اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے- یہی حال یورپ والوں کا ہے- ان کی انجیلوں میں چونکہ اختلاف پایا جاتا ہے-اس لئے وہ قرآن کے متعلق بھی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے الفاظ الہامی نہیں-
قرآن کریم ہر قسم کے شیطانی کلام سے منزہ ہے
)۴۲(یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی شیطانی کلام بھی شامل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا سامان مسلمانوں نے ہی بہم پہنچایا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf کی زبان پر نعوذ باللہ بعض شیطانی فقرے جاری ہو گئے تھے جن کے متعلق جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں- یوروپین لوگ کہتے ہیں مخالفین کو خوش کرنے کے لئے آپﷺ~ نے کچھ کلمات کہے تھے لیکن بعد میں ان پر پچھتائے اور کہہ دیا کہ منسوخ ہو گئے ہیں- اس اعتراض کو بھی غلط ثابت کرنا ضروری ہے-
قرآن کریم کے مخاطب کون تھے؟
)۴۳(ایک یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب کون لوگ تھے- صرف اہل عرب یا ساری دنیا کے لوگ؟ اور پھر یہ بھی کہ شروع میں صرف اہل عرب مخاطب تھے اور بعد میں اور لوگ- یا سب کے سب شروع سے ہی مخاطب تھے؟
قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہونا چاہئے یا بامحاورہ
)۴۴(پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ لفظی ہو یا بامحاورہ؟ عام طور پر لوگ لفظی ترجمہ پسند کرتے ہیں- مگر اس طرح عربی کی سمجھ آتی ہے- مطلب سمجھ میں نہیں آتا- وجہ یہ کہ لفظ کے نیچے لفظ ہوتا ہے- اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اوپر کے عربی لفظ کا ترجمہ یہ ہے- لیکن سارے فقرے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا- کیونکہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے استعمال میں فرق ہے- لفظی ترجمہ کرنا ایسی ہی بات ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں- فلاں کی آنکھ بیٹھ گئی- اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والا اگر یہ ترجمہ کرے کہ ‘‘HISEYEHADSAT’’ اور عربی میں یہ کرے کہ جلست عینہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ لفظی ترجمہ اصل مفہوم کو ظاہر نہیں کرے گا- کیونکہ آنکھ بیٹھنے کا جو مفہوم اردو میں ہے وہ دوسری زبانوں کے لفظی ترجمہ میں نہیں پایا جاتا- ترجمہ کی غرض چونکہ مطلب سمجھانا ہے اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ مطلب سمجھ میں آجائے` چاہے محاورہ بدلنا ہی پڑے-
یہ سوالات ہیں جن پر مقدمہ قرآن میں بحث کی ضرورت ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہتعالیٰ چاہے تو ان امور پر بحث کروں-
قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ
اب میں جماعت کو یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی خدمت ایک نہایت اہم خدمت ہے- یورپین اقوام کا اسلام کے خلاف جس بات پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم کی اہمیت کو گرایا جائے- چنانچہ نولڈکے جو جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے اور یورپ میں عربی زبان کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اس نے انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں غلطیاں اور نقائص ثابت کرنے کے لئے یورپین مصنفوں نے بڑا زور لگایا ہے مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں- ۳~}~گویا خود تسلیم کرتا ہے کہ یوروپین مصنفوں نے قرآن کریم کے خلاف بڑا زور لگایا ہے- مگر سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے خلاف خطرناک کوشش ایک کتاب ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا نام ہے- ’’تین پرانے قرآنوں کے صفحات‘‘ ایک عورت نے جو ڈاکٹر آف فلاسفی ہے یہ کتاب لکھی ہے اور اس نے بیان کیا ہے کہ وہ مصر میں گئی- جہاں اس نے ایک کتاب خریدی جو عیسائی کتابوں کی نقل تھی- جب اس کے صفحات پر بعض دوائیں لگائی گئیں تو نیچے سے اور حروف نمودار ہو گئے- ڈاکٹر منگانا نے اس کے متعلق بتایا کہ یہ ایک پرانا قرآن ہے- جس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں اور موجودہ قرآن میں فرق ہے- وہ کہتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگڑ چکا ہے-
وہ اس کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے جب قرآن نقل کیا تو باقی قرآنوں کو جلا دیا- چونکہ ان میں جو کچھ لکھا تھا اسے کوئی نقل نہ کر سکتا تھا- اس لئے اس وقت عیسائیوں نے بظاہر اپنے مذہب کی ایک کتاب لکھی لیکن دراصل خفیہ طور پر اس میں وہ قرآن نقل کیا جسے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا- اب بعض قسم کی دوائیاں لگانے سے پوشیدہ لکھا ہوا قرآن ظاہر ہو گیا ہے-
یہ ایک نہایت خطرناک چال ہے جو چلی گئی- اس کتاب کا پرانا کاغذ دکھایا جاتا ہے- اس پر پرانی تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں-
عیسائیوں کی مزورانہ چالیں
اس کے متعلق میں نے مفصل تحقیقات کی ہے جو آج پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب نہ وقت ہے اور نہ موقع کیونکہ بادل گھرے ہوئے ہیں- البتہ اس کے متعلق ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں- وہ صفحات جو اس کتاب میں پرانے قرآن کے قرار دیکر شائع کئے ہیں- وہ اپنی غلطی آپ ظاہر کر رہے ہیں- مثلاً قرآن میں آتا ہے-فامنوباللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون۴~}~لیکن جو عیسائیوں کا لکھا ہوا قرآن ہے- اس میں آتا ہیفامنو باللہ ورسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ وکلمتہ واتبعہ- کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے کلمہ پر اور کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ لیتے ہیں- مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ کے پیرو تھے-
اس قسم کی چالیں اس میں چلی گئی ہیں- مگر باوجود اس قسم کی کوششوں کے یہی باتیں ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں- اول اس طرح کہ عیسائیوں کی طرف سے جو قرآن پیش کیا جاتا ہے اس کی وہی ترتیب ہے جو موجودہ قرآن کی ہے- اس لئے ان کا یہ کہنا انہی کے پیش کردہ قرآن سے غلط ہو گیا کہ حضرت عثمان~رضی۱~ کے وقت قرآن کریم کی ترتیب بدل گئی تھی-
پھر اس قرآن میں بعض ایسے الفاظ لکھے ہیں جو عربی کے ہیں ہی نہیں- مثلاً ایک جگہ علم کو ایلم لکھا ہے- اسی طرح ایک جگہ ایسی غلطی کی ہے جس سے اس چور کا مشہور قصہ یاد آجاتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نیا نیا چور بنا تھا- چوری کرنے کے بعد جب پولیس تحقیقات کے لئے آئی تو وہ خود بھی وہاں چلا گیا- اور تحقیقات میں مدد دینے لگ گیا- کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے چور ادھر سے آیا- یہاں سے اترا اور پھر ادھر گیا- پولیس والوں نے تاڑ لیا کہ اس کا چوری میں ضرور دخل ہے- اس لئے اس سے ساری باتیں پوچھنے لگے اور جدھر وہ لے گیا اس کے ساتھ چل پڑے- آخر ایک دروازہ کے پاس جا کر کہنے لگا- معلوم ہوتا ہے چور اس دروازہ سے نکلا اور اسے یہاں سے ٹھوکر لگی- اس پر گٹھڑی اندر اور میں باہر- اس موقع پر بے اختیار اس کے منہ سے میں نکل گیا- پولیس نے فوراً اسے پکڑ لیا- یہی حال یہاں ہوا- قرآن کریم میں ایک آیت ہے وانزل جنودا لم تروھا ۵~}~اللہ تعالیٰ نے ایسے لشکر اتارے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے- یہاں ھا کی ضمیر جنود کے طرف جاتی ہے- مگر عیسائیوں کے پیش کردہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہاں جندا ہے مگر آگے ھا ہی رکھا ہے اور ضمیر کو نہیں بدلا- غرض اس قسم کی بہت سی شہادتیں ہیں جن سے اس کے اندر سے ہی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں` معلوم ہوتا ہے کسی نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اسے لکھا اور اس میں غلطیاں کرتا گیا- چنانچہ واذا استسقی کوک کے ساتھ لکھا ہے-
اسی طرح ھم السفھاء کو ھمسفھا لکھ دیا- اسی طرح اور کئی الفاظ غلط لکھے ہیں- مثلاً انماالنسی کو انما ال ناسی لکھا ہے- حالانکہ ناسی ان معنوں میں آتا ہی نہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاہل عیسائی قرآن کی نقل کرنے بیٹھا جسے عربی نہ آتی تھی اور اس قسم کی غلطیاں کرتا گیا-
اب میں قرآن کریم کے متعلق یوروپین مستشرقین کے بعض متفرق اعتراضات کا ذکر کرتا ہوں-
قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں
یورپ کے مستشرق کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں- خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا اسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے- چونکہ بندہ کو ہی اگلے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ اگلی باتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حالات پیش آتے جاتے تھے ان کے متعلق قرآن میں ذکر کر دیتے- پس یہ انکا کلام ہے` خدا کا کلام نہیں-
قرآن کریم نے خود اس سوال کو لیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القران جملہ واحدہ ۶~}~ یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس رسول پر ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سوال عیسائیوں کو اب سوجھا ہے یہی سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار نے بھی کیا تھا کہ ایک ہی دفعہ قرآن کیوں نہ اترا- اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ کذلک اسی طرح اترنا چاہئے تھا جس طرح اتارا گیا ہے- لنثبت بہ فوادک ۷~}~ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں- گویا قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے اس کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کے نازل ہونے سے دل کی مضبوطی کس طرح ہوتی ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بتا دیتا ہوں-
)۱(اگر ایک ہی دفعہ قرآن نازل ہو جانے پر اس سے استدلال کرتے رہتے تو دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی جیسی کسی امر کے متعلق فوراً کلام الہی کے اترنے سے ہو سکتی ہے- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لطف اس میں آتا ہوگا کہ آپ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق وحی ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا- وہ لطف ہمیں اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے- اسی طرح جب کوئی واقعہ پیش آتا` آپ پر اس کے متعلق کلام الہی نازل ہو جاتا اور اس طرح معلوم ہو جاتا کہ اس کلام کا یہ مفہوم ہے- اگر آپ اجتہاد کر کے آیات کو کسی بات پر چسپاں کرتے تو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا-
)۲(قرآن کریم لنثبت بہ فوادک کا مصداق اس طرح ہے کہ جو کتاب ساری دنیا کے لئے آئی ہو اسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا- اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا اترتا تو اسے وہی شخص حفظ کر سکتا تھا جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا- لیکن آہستہ آہستہ اترنے سے بہت لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرتے گئے- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہوگی بلکہ محفوظ رہے گی- یہی وجہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جنہیں قرآن کریم حفظ تھا مگر اب اس نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں- اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ ساتھ کے ساتھ یاد کرتے جاتے تھے-
)۳( تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں راسخ نہ ہو سکتا تھا- اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والا مسلمان نظر آتے ہیں- اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا- لیکن اگر کسی کو ہم ایک کتاب لکھ کر دے دیں کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ موجود نہ ہو تو لوگ سو سال میں بھی اس پر عمل کرنا نہ سیکھ سکیں- پس قرآن کریم کی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے آہستہ آہستہ نازل کیا جاتا- ایک حکم پر عمل کرنا جب لوگ سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا- پھر تیسرا- اور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا-
)۴( اگر ایک ہی وقت قرآن نازل ہوتا تو ترتیب وہی رکھنی پڑتی جو اب ہے- لیکن یہ ترتیب اس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی- جس طرح اب ہمارے لئے وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا- اگر نماز اور روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی` تو وہ سمجھ میں ہی نہ آ سکتے تھے- پس پہلے نبوت کو ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچانی چاہئے تھی کہ یہ سچا نبی ہے- اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقع تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے- مگر اب یہ ضروری نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو ماننے والی ایک جماعت موجود ہے- اب جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمد رسول اللہ2] fts[ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے- پس اس کے لئے قرآن کی اسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے- لیکن قرآن کے ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا-
)۵( اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہوتا تو ایک حصہ میں دوسرے حصہ کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا تھا- مثلاً قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر صحیح و سلامت لے جائیں گے- اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے جایا گیا اس وقت یہ نہ کہا جا سکتا کہ دیکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئیں ہیں- یہ اسی صورت میں کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ایک حصہ نازل ہوتا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح و سلامت لے جانے کی پیشگوئی ہوتی- پھر جب یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی اس وقت وہ حصہ اترتا جس میں اس کے پورا ہونے کے متعلق اشارہ ہوتا-
)۶(میرے نزدیک ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کیا جانا تھا کہ کسی اور نے بنا کر دیا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اس اعتراض کا ذکر بھی آتا ہے- اللہتعالیٰ فرماتا ہے-وقال الذین کفروا ان ھذا الا افلک افترنہ واعانہ علیہ قوم اخرون ۸~}~یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنا لیا ہے- اور اس کے بنانے پر ایک اور قوم نے اس کی مدد کی ہے- اگر قرآن اکٹھا ملتا تو مخالف یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی نے بنا کر یہ کتاب دے دی ہے- اب کچھ حصہ مکہ میں نازل ہوا کچھ مدینہ میں- مکہ والے اگر کہیں کہ کوئی بنا کر دیتا ہے تو مدینہ میں کون بنا کر دیتا تھا- پھر قرآن مجلس میں بھی نازل ہوتا` اس وقت کون سکھاتا تھا- پھر قرآن سفر میں بھی نازل ہوتا- ایسا کون شخص تھا جو ہر لڑائی میں شامل ہوا` کوئی بھی نہیں- غرض قرآن سفر اور حضر میں رات اور دن میں` مکہ اور مدینہ میں` مجلس اور علیحدگی میں نازل ہوا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں کا جواب ہو گیا کہ قرآن کوئی اور انسان بنا کر آپ کو نہیں دیتا تھا- ورنہ اگر اکٹھی کتاب نازل ہوتی تو کہا جاتا کہ کوئی شخص کتاب بنا کر دے گیا- جسے سنا دیا جاتا ہے مگر اب جب کہ موقع اور محل کے مطابق آیات اترتی رہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقع پر کوئی بنا کر دے دیتا ہے- پس قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اترنا ثبوت ہے لنثبت بہ فوادککا-
جمع قرآن پر اعتراضات
ایک اعتراض جمع قرآن کے متعلق کیا جاتا ہے- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی اصلی صورت میں محفوظ نہیں وہ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ-:
)۱( محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو جس قدر کام ہوتے تھے اور جس طرح وہ لڑائیوں اور شورشوں میں گھرے ہوئے تھے ایسی حالت میں انہیں قرآن صحیح طور پر کہاں یاد رہ سکتا تھا-
)۲( کہا جاتا ہے کہ عربوں کا حافظہ بہت اچھا تھا- مگر یہ غلط ہے- صحیح بات یہ ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہیں ہوتا تھا جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کی ان نظموں میں اختلاف ہے جو پہلے شاعروں کی ہیں- کوئی کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسی طرح- اس سے معلوم ہوا کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے ورنہ اختلاف کیوں ہوتا-
)۳( قرآن رسول کے زمانہ میں پورا نہیں لکھا گیا- اگر پورا لکھا جاتا تو حافظوں کے مارے جانے پر قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ کیوں ظاہر کیا جاتا-
)۴( قرآن میں آتا ہے-
الذین جعلوا القران عضین ۹~}~یعنی وہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا- کہتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پیدا ہو گئے تھے-
)۵( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خود پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے انہوں نے قرآن لکھنے کے لئے کاتب رکھے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے لکھ دیتے-
)۶( لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن کے پڑھنے میں بڑا اختلاف ہو گیا تھا- اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں قرآن کے متعلق اختلاف موجود تھا-
)۷( حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت کے قرآن کی جتنی کاپیاں تھیں وہ جلوا دی تھیں- اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں اختلاف تھا اس قرآن سے جو عثمانؓ نے لکھوایا- اگر اختلاف نہیں تھا تو ان کو کیوں جلوایا گیا-
)۸( قرآن کریم کی اصلیت پر صرف زید گواہ ہے- مگر اس کا تو فرض تھا کہ قرآن لکھے- اس پر بھروسہ کس طرح کیا جا سکتا ہے-
)۹( اگر حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن کی کاپی درست تھی تو پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں دوبارہ لکھوانے کی کیا ضرورت تھی- یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی کاپیوں کو غلط سمجھا گیا-
)۱۰( حضرت عثمانؓ پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ خلیفہ ہوئے تو بہت سے قرآن تھے- لیکن جب وہ فوت ہوئے تو پیچھے صرف ایک قرآن چھوڑا- اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف والے قرآنوں کو جلا دیا گیا تھا-
مخالفین کے اعتراضات کے جوابات
اب میں ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں-
پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے کاموں اور شورشوں میں قرآن کریم یاد کس طرح رہ سکتا تھا- یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے- جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یاد رہا اور شب و روز نمازوں میں سنایا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے- مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے سامنے پروفیسر مارگولیتھ نے یہ اعتراض کیا کہ اتنا بڑا قرآن کس طرح یاد رہ گیا- میں نے کہا- محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپﷺ~ کے سپرد ساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا؟ آپﷺ~ اسے کیوں یاد نہ رکھتے- میرے ایک لڑکے نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن یاد کر لیا ہے- اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارے کا سارا قرآن یاد ہے- جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا وہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا-
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا حافظہ اچھا نہ تھا` کیونکہ وہ پرانی نظموں میں اختلاف کرتے ہیں- اس کے متعلق اول تو میں کہتا ہوں کہ یہ شتر مرغ والی مثال ہے- ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عربوں کو پرانے قصیدے یاد ہوتے تھے جن میں اختلاف ہوتا تھا- اور دوسری طرف مارگولیتھ کہتا ہے کہ پرانے زمانہ میں قصیدے تھے ہی نہیں یوں ہی بنا کر پہلے لوگوں کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں- گویا جس پہلو سے اسلام پر اعتراض کرنا چاہا- وہی سامنے رکھ لیا- اصل بات یہ ہے کہ عربوں کے ایسے حافظے ہوتے تھے کہ مشہور ہے ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جس شاعر کو ایک لاکھ شعر یاد نہ ہوں وہ میرے پاس نہ آئے- اس پر ایک شاعر آیا اور اس نے آ کر کہا- میں بادشاہ سے ملنے کے لئے آیا ہوں- اسے بتایا گیا کہ بادشاہ سے ملنے کے لئے ایک لاکھ شعر یاد ہونے ضروری ہیں- اس نے کہا- بادشاہ سے جا کر کہہ دو- وہ ایک لاکھ شعر اسلامی زمانہ کا سننا چاہتا ہے یا زمانہ جاہلیت کا- عورتوں کے سننا چاہتا ہے یا مردوں کے- میں سب کے اشعار سنانے کیلئے تیار ہوں- یہ سن کر بادشاہ فوراً باہر آ گیا- اور آکر کہا- کیا آپ فلاں شاعر ہیں- اس نے کہا- ہاں میں وہی ہوں- بادشاہ نے کہا- اسی لئے میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ آپ میرے پاس آتے نہ تھے- میں نے خیال کیا کہ شاید اس اعلان پر جوش کی وجہ سے آپ آ جائیں- پس یہ کہنا غلط ہے کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے- رہی یہ بات کے شعروں میں اختلاف ہے- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو شعر یاد رکھتے تھے وہ انہیں الہامی کتاب کے شعر سمجھ کر نہیں یاد کرتے تھے بلکہ ان کا مطلب اخذ کر لیتے تھے- مگر قرآن کو تو خدا کا کلام سمجھ کر یاد کرتے تھے- اس وجہ سے اس کا ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہ کرتے تھے- پھر شعر جو وہ یاد کرتے تھے وہ استادوں سے پڑھ کر یاد نہ کرتے تھے بلکہ جس سے سنتے یاد کر لیتے- اور ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ صحیح الفاظ ہی یاد کرائے- لیکن اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لکھنے کے متعلق اور قرآن یاد کرنے کے متعلق خاص قواعد مقرر تھے اور قرآن یاد کرانے کے لئے چار آدمی مقرر تھے- اور اس میں اتنی احتیاط کی جاتی تھی کہ ایک دفعہ نماز میں حضرتعلیؓ نے پڑھنے والے کو لقمہ دے دیا- تو انہیں منع کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس کام کے لئے مقرر نہیں- غرض قرآن کریم کے بارہ میں اتنی احتیاط کی گئی تھی کہ چار آدمی اس کام کے لئے مقرر تھے حالانکہ قرآن جاننے والے ہزاروں تھے- اس کے مقابلہ میں شاعروں کی طرف سے کونسے لوگ مقرر تھے- جو شعر یاد کراتے تھے- امراء القیس نے کسے مقرر کیا تھا کہ اس کے اشعار لوگوں کو یاد کرایا کرے- مگر قرآن یاد کرانے کے متعلق تو استاد در استاد بات چلی آ رہی ہے-
سوم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا- جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو- جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے- رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے- حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں- اس لئے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓ سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ انی اری ان تامر جمع القرانمیں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں- یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں- پھر حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو- چنانچہ فرمایا اجمعہ اسے ایک جگہ جمع کر دو- یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو- غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا- لکھنے کا سوال نہ تھا-
چہارم- یہ اعتراض تھا کہ قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلقالذین جعلوا القران عضین آیا ہے- سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر ویسا ہی عذاب نازل کرے گا- جیسا ان لوگوں پر کیا جو قرآن کے بعض حصوں پر عمل کرتے ہیں اور بعض پر نہیں کرتے- اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کافروں اور منافقوں کا ذکر ہے- اور اگر یہی معنے کئے جائیں کہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید ہے- کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اس وقت جمع تھا- اس لئے دشمن اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے تھے- مسلمانوں کے پاس قرآن محفوظ تھا مگر منافق اس کے ٹکڑے ٹکڑے رکھتے تھے-
پنجم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے- اس لئے کاتب جو چاہتے لکھ دیتے- اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہی اس کا انتظام کر لیا تھا- اور وہ یہ کہ جب وحی نازل ہوتی تو کاتب کو کہتے لکھ لو اور چار آدمیوں کو کہتے یاد کر لو- اس طرح لکھنے والے کی غلطی یاد کرنے والے درست کرا سکتے تھے- اور یاد کرنے والوں کی غلطی لکھنے والا بتا سکتا تھا- فرض کرو لکھنے والے نے لفظ غلط لکھ لیا مگر یاد کرنے والے اس غلطی کے ساتھ کیونکر متفق ہو سکتے تھے` اس طرح فوراً غلطی پکڑی جا سکتی تھی-
ششم- یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے پڑھنے میں بہت اختلاف ہو گیا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کے متعلق اختلاف ہو گیا تھا- بلکہ صاف لکھا ہے کہ قرائت میں اختلاف تھا- اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ سات قرائتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا- چونکہ بعض قوموں کے لئے بعض الفاظ کا ادا کرنا مشکل تھا- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلایا جاتا کہ ان الفاظ کو اس طرح بھی پڑھ سکتے ہیں- اس بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ حضرتعلیؓ نے بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ نے انہیں بلا کر کہا کہ مختلف قبائل کے لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قرائت صحیح ہے اور اس پر جھگڑا پیدا ہو رہا ہے- اس لئے اس کا فیصلہ ہونا چاہئے- حضرت علیؓ نے کہا آپ ہی فیصلہ کر دیں- انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مسلمان ہو کر اب سب ایک ہو گئے ہیں اس لئے ایک ہی قرائت ہونی چاہئے اور وہ قریش والی قرائت ہے-
ہفتم- اگر قرائتوں میں اختلاف نہ تھا تو حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن جلائے کیوں گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی صریح طور پر غلط ہے- وہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت حفصہؓ کے پاس حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ کا قرآن تھا- وہ ان سے منگوایا گیا اور کہا گیا کہ نقل کرنے کے بعد واپس کر دیں- چنانچہ واپس کر دیا گیا- اور جلائے مختلف قرائتوں والے قرآن گئے تھے تا کہ قرائتوں کا اختلاف نہ رہے-
ہشتم- یہ جو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اصلیت پر صرف زیدؓ کی گواہی ہے` یہ بھی غلط ہے- حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کے ساتھ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو رکھا اور مسجد کے دروازہ پر بٹھا دیا- اور حکم دیا کہ کوئی تحریر ان کے پاس ایسی نہ لائی جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی نہ ہو اور جس کے ساتھ دو گواہ نہ ہوں جو یہ کہیں کہ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوائی تھی-
نہم- ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اختلاف نہیں تھا تو حضرت عثمانؓ کے وقت دوبارہ تحقیق کی ضرورت کیوں پیش آئی- اس کا جواب یہ ہے کہ قرائتوں کی تحقیق کرائی گئی تھی عبارتوں اور سورتوں کی تحقیق نہیں کروائی گئی-
دہم- اس طرح یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر اختلاف نہ تھا تو ایک کے سوا باقی کاپیاں کیوں جلائی گئیں- اس کا بھی وہی جواب ہے کہ مختلف قرائتوں والی کاپیاں جلائی گئی تھیں- پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے خلیفہ ہونے کے وقت بہت قرآن تھے مگر ان کے بعد ایک رہ گیا- اس کا یہی مطلب ہے کہ انہوں نے مختلف قرائتوں کو اڑا دیا اور پھر جن قوموں کی قراتوں کو مٹایا گیا انہوں نے یہ اعتراض کیا-
پس نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا- اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے-
محکمات اور متشابہات
اب میں متشابہات کے متعلق مختصر طور پر کچھ بیان کر دیتا ہوں- اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں محکمات بھی ہیں اور متشابہات بھی` پھر قرآن کا کیا اعتبار رہا-
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے متشابہات پر غور ہی نہیں کیا گیا- سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن امالکتب و اخر متشبھت ۱۰~}~کہ وہ خدا ہی ہے جس نے اس قرآن کو اپنے رسول پر اتارا- اس میں کچھ تو محکمات ہیں جو ام الکتاب ہیں اور کچھ متشابہات ہیں-
اس کے متعلق لوگ کہتے ہیں- ہمیں کیا معلوم کہ کونسی آیت محکم ہے اور کونسی متشابہ- اس کے مقابلہ میں سورۃ ہود میں آتا ہے-کتب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ۱۱~}~کہ یہ کتاب وہ ہے جس کی ساری آیات محکمات ہیں- اس سے بظاہر اوپر کی بات غلط ہو گئی کہ قرآن کی بعض آیات متشابہ ہیں اور بعض محکم- تیسری جگہ آتا ہے-اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی ]71 [p۱۲~}~یعنی خدا ہی ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب نازل فرمائی ہے جو متشابہ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی ساری آیتیں ہی متشابہ ہیں- حالانکہ پہلے ساری آیات کو محکم قرار دیا گیا تھا-
اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ محکم اور متشابہ کا مطلب اور تھا جو سمجھا نہیں گیا- اور عجیب بات یہ ہے کہ متشابہ کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جس سے شکوک پیدا ہوں- حالانکہ قرآن متشابہ کی یہ تفسیر کرتا ہے-مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ ۱۳~}~کہ اس کے مضامین نہایت اعلیٰ ہیں اور جو لوگ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں- ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- پھر ان کے جسم کا روآں روآں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں- یعنی ان کے قلوب میں خدا تعالیٰ کی محبت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں- اب بتائو- کیا کسی شکی بات سے اس طرح ہو سکتا ہے- صاف معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ کا اور مطلب ہے اور وہ یہ کہ متشابہ کے معنی ہیں جو دوسری سے ملتی ہو- یعنی متشابہ وہ تعلیم ہے جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہو- مثلاً روزہ رکھنا ہے- یہ حکم اپنی ذات میں متشابہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی- جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم ۱۴~}~پس مجرد روزہ رکھنے کا حکم متشابہ ہے- اسی طرح قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہیولکل امہ جعلنا منسکا ۱۵~}~یعنی ہر قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے- پس قربانی کا حکم بھی متشابہ ہے- دراصل قرآن نے اس میں ان لوگوں کو جواب دیا ہے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ قرآن نے دوسری کتابوں سے چوری کر کے سب کچھ پیش کر دیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھنام الکتب واخرمتشبھات کہ یہ کتاب ایسی ہے جس میں کچھ تعلیمیں تو جدید ہیں اور کچھ تعلیمیں ایسی ہیں جو لازماً پچھلی تعلیموں سے ملنی چاہئیں- مثلاً پہلے نبیوں نے کہا سچ بولا کرو- کیا قرآن یہ کہتا ہے کہ سچ نہ بولا کرو- جھوٹ بولا کرو؟ غرض فرمایا قرآن میں بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں- مگر آگے فرماتا ہے-فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنہ وابتغاء تاویلہ ۱۶~}~بیوقوف لوگ جدید تعلیموں پر نظر نہیں ڈالتے اور پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی تعلیموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ قرآن نے یہ نقل کی ہے- وہ محض فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے اور اس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے ایسا کرتے ہیںومایعلم تاویلہ الا اللہ ۱۷~}~حالانکہ ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور وہی سمجھ سکتا ہے کہ کتنی تعلیم دوبارہ نازل کرنی ضروری ہے- انسان کے ہاتھ میں اس نے یہ کام نہیں رکھا- کیونکہ گو وہ تعلیم پہلے نازل ہو چکی ہوتی ہے مگر پھر بھی اس کی وہ مقدار جو آئندہ کے لئے ضروری ہوتی ہے- اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے- کوئی اور نہیں کر سکتا- اور یا پھر خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بعد وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی کتب کا حقیقی علم رکھنے والے ہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس حد تک اس تعلیم کو قائم رکھا جانا ضروری تھا اور کسی امر کو کیوں بدلا گیا؟
اس کی اور تشریحات صحیحہ بھی ہو سکتی ہیں- مگر ان میں محکم اور متشابہ کو معین نہیں کیا جا سکتا- ایک ہی آیت ایک وقت میں محکم اور ایک وقت میں متشابہ ہو جاتی ہے- یعنی جو آیت کسی کی سمجھ میں آ گئی وہ محکم ہو گئی اور جو نہ آئی متشابہ ہو گئی مگر پھر اختلاف ہو سکتا ہے- ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایک معنی کے لحاظ سے کسی آیت کو محکم قرار دے دے اور دوسرا اسے درست نہ سمجھتے ہوئے اسے متشابہ کہہ دے مگر ان معنوں میں محکم آیات بالکل ظاہر ہو جاتی ہیں- یعنی وہ تعلیمات قرآنیہ جو پہلی کتب سے زائد ہیں وہ سب محکم ہیں اور دوسری متشابہ-
سارے قرآن کو محکم اور سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے
باقی رہا یہ سوال کہ پھر ایک جگہ سارے قرآن کو محکم اور دوسری جگہ سارے قرآن کو متشابہ کیوں کہا گیا ہے- تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی اصطلاح میں محکم تعلیم وہی ہے جس میں قرآن کریم نے تجدید کی ہے- اور جس امر میں وہ پہلی کتب سے ملتا ہے وہ متشابہ ہے- لیکن ایک لحاظ سے سارا ہی قرآن محکم ہے- کیونکہ اصولاً کسی تعلیم کو دیکھتے ہوئے اس کے کسی ایک ٹکڑے کو نہیں بلکہ مجموعہ کو دیکھتے ہیں- اور احکام کی مختلف اجناس کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اسلامی تعلیم بالکل جدا ہے- کسی حصہ تعلیم میں بھی اس نے اصلاح کو ترک نہیں کیا- اور وہ پہلی کتب کے بالکل مشابہ نہیں ہے` اس لئے وہ سب محکم ہے- لیکن اسی طرح چونکہ سب اصول شریعت کا پہلی کتب میں پہلے لوگوں کے درجہ کے مطابق نازل ہونا بھی ضروری تھا تا کہ پہلے زمانہ کے لوگ بھی اپنے اپنے دائرہ میں تکمیل حاصل کریں اس لئے ہر قسم کے احکام جو قرآن کریم میں ہیں کسی نہ کسی صورت میں پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لحاظ سے قرآن کریم سب کا سب متشابہ ہے- نماز بھی پہلے مذاہب میں ہے- روزہ بھی ہے- حج بھی ہے` زکٰوۃ بھی ہے اور اس تشابہ کو دیکھ کر بعض لوگ دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا پھر کیا فائدہ ہوا- عیسائیوں میں سے ’’ینابیع الاسلام‘‘ وغیرہ کتابوں کے مصنف اسی گروہ میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دوسری کتب سے مشابہت ثابت کر کے قرآن کو جھوٹا قرار دیا ہے- حالانکہ قرآن کریم نے پہلے سے اس اعتراض کا ذکر کر کے اس کا نہایت واضح جواب دے دیا ہے- حق یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ ایک زبردست حقیقت بتائی ہے کہ ہر ایک آسمانی صحیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر کچھ محکم ہو اور کچھ متشابہ- متشابہ اس لئے کہ جو صحیفہ پہلی تعلیمات سے بکلی جدا ہو جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اس سے پہلے کوئی شخص خدا کا برگزیدہ ہوا ہی نہیں- اور خدا تعالیٰ نے کسی کو ہدایت دی ہی نہیں` اور یہ باطل ہوگا- اور محکم اس لئے کہ اگر وہ کوئی جدید خوبی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا تو اس کی آمد کی ضرورت کیا ہے` پہلی تعلیم تو موجود ہی تھی- اور کون ہے جو اس اصل کی خوبی کا انکار کر سکے یا اس کی سچائی کو رد کر سکے-
مفسرین نے محکم اور متشابہ کی تاویل میں بہت کچھ زور لگایا ہے- مگر اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انہوں نے بہت کچھ دھوکا کھایا ہے-
اب چونکہ سردی بڑھ رہی ہے اور بادل بھی گھرے ہوئے ہیں اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
)اس تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع کے ساتھ مل کر دعا کی اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور اس امر پر سجدہ شکر ادا کیا کہ اس نے حضور کو کمزوری صحت کے باوجود جلسہ میں شامل ہو کر تقریر کرنے اور پھر سب کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی توفیق بخشی- فالحمدللہ علی ذلک(
۱~}~
الانعام: ۲۶
۲~}~ الحاقہ : ۴۲

۳~}~
‏ 15th VOL BRITANNICA ENCYCLOPAEDIA THE
1911ء PUBLISHED 905 ۔P
۴~}~
الاعراف: ۱۵۹
۵~}~ التوبہ : ۲۶
۶`۷~}~ الفرقان: ۳۳
۸~}~
الفرقان:۵
۹~}~ الحجر : ۹۲
۱۰~}~ ال عمران: ۸
‏]1a [tag ۱۱~}~
ھود: ۲
۱۲`۱۳~}~ الرمز: ۲۴
۱۴~}~ البقرہ: ۱۸۴
۱۵~}~
الحج: ۳۵
۱۶`۱۷~}~ ال عمران: ۸
~}~ :
‏a10.6
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۲(
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد
‏]txte )[tagفرمودہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ نور کی ان آیات کی تلاوت فرمائی-
اللہ نور السموت والارض مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری- یوقد من شجرہ مبارکہ زیتونہ لا شرقیہ ولا غربیہ یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ویضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیم- فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکرفیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال- رجال لا تلھیھم تجارہ ولابیع عن ذکراللہ واقام الصلوہ وایتاء الزکوہ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار- لیجزیھم اللہ احسن ما عملوا ویزیدھم من فضلہ واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب۱~}~ اس کے بعد فرمایا-:
اسلام کا مغز اور اس کی جان
یہ مضمون جس کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے- اور درحقیت یہ اسلام کا مغز اور اس کی جان ہے- اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسے پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں- یہ مضمون فضائل قرآن کریم کے متعلق ہے- یعنی قرآنکریم میں وہ کونسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی کتابوں پر اسے فضیلت دی جا سکتی ہے- اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم پر ہمارے مذہب کا دارومدار ہے- اگر خدانخواستہ قرآن کریم میں ہی کوئی نقص ثابت ہو جائے یا اس میں غیر معمولی خوبیاں ثابت نہ ہوں تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا- پس یہ ایک نہایت ہی نازک مسئلہ ہے جس پر حملہ کرنے سے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے-
میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے باہر نہیں سمجھتا- آپ بھی قرآن کا جزو ہیں- جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے-وانہ لتنزیل رب العلمین- نزل بہ الروح الامین- علی قلبک لتکون من المنذرین-۲~}~ یعنی یہ قرآن یقیناً رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے- یہ قرآن روح الامین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تا کہ تو انذار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہو جائے- پس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہوا ہے- اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ درحقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہوگا-
تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضیلت
ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کیلئے ہے- اب اگر قرآن کریم ساری دنیا اور سارے زمانوں کیلئے ہے تو ہماری اس کے متعلق ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے- بہ نسبت اس کے کہ قرآن کریم صرف عرب کیلئے ہوتا اور صرف ایک زمانہ کے مفاسد دور کرنے کے لئے آتا- عربوں کے پاس کوئی شریعت نہ تھی کوئی مذہبی کتاب نہ تھی- وہ خیالی باتوں پر یا قومی رسم و رواج پر عمل کرتے تھے- ان کے متعلق ہمارے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے قرآن کریم نے انہیں ان برائیوں سے روک دیا اس وجہ سے اس کی ضرورت تھی- پس اگر عرب ہی کے لئے قرآن ہوتا تو قرآن کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے میں کوئی دقت نہ تھی- مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ساری دنیا کیلئے آیا ہے اور یہودی` مسیحی` ہندو` پارسی وغیرہ سب اس کے مخاطب ہیں اور تمام دوسری کتابیں جن کو الہامی درجہ دیا جاتا ہے یا وہ کتابیں جن کا پتہ آثار قدیمہ سے لگا ہے ان سب سے افضل ہے- اس وجہ سے ہمارے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ پہلی تمام کتابوں پر مقدم اور ان سے افضل ہے- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو تورات میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو پرانے صحیفوں میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو اناجیل میں نہیں- قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو ویدوں میں نہیں- اور قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو زرتشت وغیرہ کی کتابوں میں بھی نہیں-
قرآن کریم یک روحانی خزانہ ہے
پھر قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کریم میں وہ روحانی خزانہ ہے جس کے بغیر دنیا میں ہم گذارہ نہیں کر سکتے- صرف دوسری الہامی کتب کے مقابلہ میں زیادتی ثابت کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز پیش کی ہے اس سے ایسی نئی سہولتیں بہم پہنچی ہیں جو پہلے حاصل نہ تھیں- جب دو چیزیں صفات کے لحاظ سے برابر ہوں تو ایک کی ظاہری خوبی بھی دوسری پر فضیلت تسلیم کی جا سکتی ہے- جیسے دو آم ایک ہی طرح میٹھے ہوں مگر ان میں سے ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو بڑے کو چھوٹے پر بڑائی کی فضیلت حاصل ہوگی- لیکن قرآن کریم کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ساری دنیا کیلئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے- اب اس کے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی- اس لئے ہمیں ساری قوموں` سارے مذاہب اور سارے علوم کے مقابلہ میں قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنی ہوگی- جو کتاب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب سے آخری الہامی کتاب ہے` جیسے قرآن کہتا ہے` اس کی ذمہ داری پہلی تمام کتب سے بالا خوبیاں پیش کرنے کی ہے- پہلی کتابوں کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اتنا ثابت کر دے کہ پہلی کتابوں سے زیادہ اس میں خوبیاں پائی جاتی ہیں- لیکن وہ کتاب جو یہ کہے کہ میرے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی اور میں اب ہمیشہ کے لئے مکمل کتاب ہوں اس کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ پہلی کتابوں سے بڑھ کر خوبیاں پیش کرے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ روحانیت کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں آ سکتی جو اس میں نہ ہو- پس وہ کتاب جو صرف یہ نہ کہے کہ میں پہلی کتب کو منسوخ کرتی ہوں بلکہ یہ بھی کہے کہ آئندہ کے لئے بھی سب الہامی کتابوں کا دروازہ بند کرتی ہوں` اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت پیش کرے کہ آئندہ بھی کوئی ایسی کتاب نازل نہیں ہو سکتی-
پس قرآن کریم کی افضلیت ثابت کرنے کیلئے یہ معیار نہایت ضروری ہے- ہاں علاوہ اس اصولی بحث کے تفصیلی بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ فلاں فلاں خوبی قرآن کریم میں ہے جو اور کسی کتاب میں نہیں ہے مگر اصولی طور پر بحث کرنا بھی ضروری ہوگا-
جب ہم قرآن کریم میں خوبیوں کی کثرت ثابت کر دیں مثلاً یہ کہیں کہ فلاں فلاں خوبیاں وید` بائیبل اور ژند وستا میں بھی پائی جاتی ہیں اور قرآن میں بھی ہیں مگر یہ چار یا دس بیس خوبیاں ایسی ہیں جو صرف قرآن میں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوگی- مگر اس سے قرآن کریم کا اکمل ہونا ثابت نہ ہوگا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی کہ آئندہ کوئی اور شرعی کتاب نہیں آ سکتی- اس طرح قرآن کریم صرف موجودہ کتب کے مقابلہ میں افضل ثابت ہو سکتا-
تمام وجوہ کمال میں افضل کتاب
غرض سب کے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کیلئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی ثابت کرے کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دوسری کتب میں ہو ہی نہیں سکتا- جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے اس وقت تک صرف اچھی باتیں بتانے سے اس کی افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی- ہاں افضلیت چونکہ صرف اعلیٰ خوبیوں کے لحاظ سے نہیں ہوتی بلکہ وسیع خوبیوں کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے- اس لئے خوبیوں کی وسعت اس غرض کے اثبات کیلئے پیش کی جا سکتی ہے کہ گو بعض خوبیاں کسی اور کتاب میں بھی پائی جاتی ہوں مگر خوبیوں کی وسعت کے لحاظ سے فلاں کتاب افضل ہے- ہاں کامل افضل کتاب وہ کہلائے گی جوتمام وجوہ کمال میں افضل ثابت ہو- اور میرا قرآن کریم کے متعلق یہی دعویٰ ہے-
جواہرات کی کان
ممکن ہے کوئی کہے کہ کیا پہلے لوگوں کو قرآن کریم کے ان فضائل کا علم نہ تھا؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ علم تھا مگر روحانی علوم خدا تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ترقی کرتے ہیں- اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم جواہرات کی ایک کان ہے جس میں سے نئے سے نئے جواہر نکلتے رہتے ہیں تو پھر کیوں ہم انہی جواہرات پر اکتفاء کریں جو پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں- اور کیوں قرآنی کان میں سے ہم نئے ہیرے اور جواہرات نہ نکالیں- پس میں قرآن کریم کے خزانہ میں گیا کیونکہ پہلے میں وہاں سے کئی بار لعل و جواہر نکال چکا تھا` اور پھر اپنے دامن کو بھر کر لایا- جب میں اس خزانہ میں قرآن کریم کی خوبیاں معلوم کرنے کیلئے گیا تو مجھے ایک عجیب بات سوجھی- اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ اس خرانہ میں میں اندھا دھند ہاتھ ماروں اور جو چیز میرے ہاتھ میں آئے اسے اٹھا لوں حالانکہ ممکن ہے اس سے بہتر چیز وہاں موجود ہو اور میں اسے نہ اٹھا سکوں اس لئے کیوں نہ میں اصولی طور پر غور کروں کہ مجھے کیا لینا چاہئے- تب مجھے خیال آیا کہ کسی کتاب کی فضیلت اور اکملیت ثابت کرنے کیلئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس کے مضامین پر غور کریں اور اس طرح اس کی کوئی خوبی معلوم کریں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی چیز کو دوسری چیز پر فضیلت کیوں حاصل ہوتی ہے-
پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ جو فضیلت کے معیار ہیں اور جن کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی جاتی ہے وہ کس قدر قرآن میں پائے جاتے ہیں-
‏]bus [tag قرآنی فضیلت کے چھبیس وجوہ
جب میں نے اس رنگ میں غور کیا تو قرآن کریم کا سمندر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہر فضیلت کی وجہ جو دنیا میں پائی جاتی ہے اور جس کی بناء پر ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے وہ بدرجہ اتم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور فضیلت دینے والی خوبیوں کے سارے رنگ قرآنکریم میں موجود ہیں- میں نے اس وقت سرسری نگاہ سے دیکھا تو قرآن کریم کی فضیلت کی چھبیس وجوہات میرے ذہن میں آئیں- بالکل ممکن ہے کہ یہ وجوہات اس سے بہت بڑھ کر ہوں اور میں پھر غور کروں یا کوئی اور غور کرے تو اور وجوہات بھی نکل آئیں- مگر جتنی وجوہات اس وقت میرے ذہن میں آئیں ان میں میں نے قرآن کریم کو تمام کتب سے افضل پایا-
منبع کی افضلیت
)۱( پہلی وجہ کسی چیز کے افضل ہونے کی اس کے منبع کی افضلیت ہوتی ہے- جیسے گورنمنٹ کی ملازمت میں باپ نے جو گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں ان کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور ایک دوسرے شخص کو جو تعلیم اور قابلیت کے لحاظ سے بالکل مساوی ہوتا ہے اس پر ایسے شخص کو ترجیح دے دی جاتی ہے جس کے باپ دادا نے گورنمنٹ کی خدمات کی ہوتی ہیں- یہ منبع کے لحاظ سے فضیلت ہوتی ہے- اسی طرح ایک شخص جو امیر باپ کے گھر پیدا ہوتا ہے وہ امارت اپنے ساتھ لاتا ہے اور اسے یہ خوبی منبع کے لحاظ سے حاصل ہوتی ہے- میں نے قرآنکریم کو اس فضیلت کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا-
ذاتی قابلیت کے لحاظ سے فضیلت
دوسری وجہ فضیلت میرے ذہن میں یہ آئی کہ اندرونی اور ذاتی قابلیت اور طاقت کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے- جیسے دوائیں اپنے اندر طاقت رکھتی ہیں- اس وجہ کے لحاظ سے بھی میں نے قرآن کریم کو سب سے بڑھ کر پایا-
نتائج کے لحاظ سے فضیلت
تیسری وجہ فضیلت نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہے- اس وجہ سے بھی ایک چیز کو ہم دوسری پر فضیلت دے دیتے ہیں- بعض چیزیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر دوسری چیزوں سے مل کر ان کا اچھا نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا- جیسے ڈاکٹر جرمز(GERMS) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ٹیکہ سے مر جاتے ہیں- گویا انسان کے جسم میں جرمز اور ٹیکہ کا مادہ ملنے سے الٹا اثر ہوتا ہے- تو کبھی ایک چیز کو نتائج کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوتی ہے اور جو چیز اس میں بڑھ جاتی ہے اس کی برتری تسلیم کر لی جاتی ہے- اسی طرح بعض تعلیمیں یوں بڑی اچھی اور مفید نظر آتی ہیں لیکن ان کے نتائج ایسے اعلیٰ پیدا نہیں ہوتے- میں نے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب سے افضل پایا-
شدت فائدہ کے لحاظ سے فضیلت
چوتھی وجہ فضیلت شدت فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے- فائدے تو سب چیزوں میں ہوتے ہیں مگر ایک میں زیادہ ہوتے ہیں اور دوسروں میں کم- قرآن کریم میں شدت فوائد کے لحاظ سے بھی فضیلت پائی جاتی ہے-
کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت
پانچویں کثرت فوائد کے لحاظ سے بھی ہم ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دیتے ہیں- ایک دوائی ایک بیماری میں بڑا فائدہ دیتی ہے- مگر ایک اور دوائی ہوتی ہے جو اتنا فائدہ اس بیماری میں نہیں دیتی` مگر پچاس اور بیماریوں میں مفید ہوتی ہے- اسے پہلی دوائی پر کثرت فوائد کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہوگی- قرآن کریم کو میں نے اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا-
وسعت نفع کے لحاظ سے فضیلت
‏]1ttex [tagچھٹے- کبھی وسعت نفع کے لحاظ سے بھی فضیلت دی جاتی ہے- مثلاً ایک دوائی کے متعلق یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنی بیماریوں میں نفع دیتی ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی طبائع پر اثر ڈالتی ہے اور کتنے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں- قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مجھے افضل نظر آیا-
معیاد نفع کے لحاظ سے فضیلت
ساتویں- نفع کے وقت کے لحاظ سے بھی کہ کتنے عرصہ تک کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے ہم بعض دفعہ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دے دیتے ہیں- جب ایک قسم کے دو کپڑے سامنے ہوں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک کپڑا کتنی مدت تک چلتا ہے اور دوسرا کتنی مدت تک- ایک اگر ایک سال چلنے والا ہو اور دوسرا چھ ماہ تو ایک سال چلنے والے کو دوسرے پر فضیلت دے دی جائے گی- قرآن کریم کی اس لحاظ سے بھی مجھے فضیلت نظر آئی-
نفع اٹھانے والوں کے مقام کے لحاظ سے فضیلت
آٹھویں- پھر فضیلت کی ایک وجہ ان لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے جن کو وہ نفع پہنچاتی ہے- یعنی دیکھا جاتا ہے کہ کس پایہ کے لوگ اس سے نفع اٹھاتے ہیں- جن چیزوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ بڑے پایہ کے انسانوں کو نفع پہنچاتی ہیں ان کو دوسری چیزوں پر مقدم کر لیا جاتا ہے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
نفع اٹھانے والوں کی اقسام کے لحاظ سے فضیلت
نویں- یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنی اقسام کی چیزوں کو کوئی چیز نفع پہنچاتی ہے کیونکہ علاوہ افراد کے اقسام بھی ایک درجہ رکھتی ہیں- ایک چیز ایسی ہے جو ایک کروڑ انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے اور ایک اور ہے کہ وہ بھی ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچاتی ہے لیکن ان میں فرق یہ ہو کہ ایک صرف ایک قسم کے لوگوں کو نفع پہنچائے- مثلاً عیسائیوں یا ہندوئوں کو مگر دوسری ایک کروڑ انسانوں کو ہی نفع پہنچائے- لیکن عیسائیوں` ہندوئوں` یہودیوں اور مسلمانوں سب کو نفع پہنچائے تو اسے افضل قرار دیا جائے گا- غرض وسعت اقسام افراد کے لحاظ سے بھی ایک چیز افضل قرار دی جاتی ہے اس میں بھی مجھے قرآن کریم کی دوسری کتب پر فضیلت نظر آئی-
کھوٹ سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
دسویں- اس لحاظ سے بھی کسی چیز کی فضیلت کو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں ملا ہوا- جس چیز میں کھوٹ نہ ہو اسے دوسری چیزوں پر فضیلت دی جاتی ہے- اس میں بھی قرآن کریم تمام کتب الٰہیہ سے افضل پایا گیا-
یقینی فوائد کے لحاظ سے فضیلت
گیارھویں- بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کھوٹ سے تو پاک ہوتی ہیں مگر ان کے نفع کے متعلق اطمینان نہیں ہوتا- یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں کوئی غلطی نہ ہو جائے جس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑے- لیکن جس کے استعمال کے متعلق غلطی کا کوئی احتمال نہ ہو اور اس کے فوائد کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو اسے اختیار کر لیا جاتا اور اس کی فضیلت تسلیم کر لی جاتی ہے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کو فضیلت حاصل ہے-
ظاہری حسن کے لحاظ سے فضیلت
بارھویں- ظاہری حسن کی وجہ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے- قرآن کریم اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے بھی دوسری کتب سے افضل پایا گیا-
ضروری امور کو نقصان نہ پہنچانے کے لحاظ سے فضیلت
تیرھویں- ایک چیز کو دوسری پر اس لئے بھی فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کا استعمال دوسری ضروری اشیاء کو نقصان نہیں پہنچائے گا- مثلاً ایک شخص دو بیماریوں میں مبتلا ہو- اس کی ایک بیماری کے لئے ایک ایسی دوا ہو جو بہت فائدہ دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو بڑھا دیتی ہو- تو اس کی نسبت وہ دوائی استعمال کی جائے گی جو نفع کم دیتی ہو لیکن دوسری بیماری کو نقصان نہ پہنچاتی ہو- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتیہے-
فوائد کے سہل الحصول ہونے کے لحاظ سے فضیلت
چودھویں- اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دی جاتی ہے کہ اس کے فوائد سہل الحصول ہوتے ہیں- یعنی آسانی سے اس کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں- قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
ضروریات پوری کرنے میں یکتا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
پندرھویں- اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے کہ وہ ایسی ضرورت کو پورا کرتی ہے جسے اور کوئی چیز پورا نہیں کر سکتی- یہ فضیلت بھی قرآن کریم کو دوسری کتب کے مقابلہ میں حاصل ہے- کیونکہ وہ ایسی ضرورتیں پوری کرتا ہے جنہیں اور کوئی کتاب پوری نہیں کر سکتی-
اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت
سولہویں- اس لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیزوں پر مقدم کیا جاتا ہے کہ جس ضرورت کو وہ پورا کرتی ہے وہ ایسی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے ہم کسی صورت میں بھی ترک نہیں کر سکتے- کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے نقصان تو ہوتا ہے مگر پھر بھی انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا- لیکن بعض ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں ہم چھوڑیں` تو گئے- قرآن کریم ایسی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے اس لئے وہ دوسری کتب سے افضل ہے-
حفاظت میں آسانی ہونے کے لحاظ سے فضیلت
سترھویں- اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت میں کس قدر کوشش کرنی پڑتی ہے- ایک ایسی چیز جسے ہم آسانی اور سہولت سے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اسے ہم ایسی چیز پر مقدم کر لیتے ہیں جس کی حفاظت مشکل ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
نفع کے لحاظ سے فضیلت
اٹھارھویں- کسی چیز کی فضیلت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کس قدر ذمہ واریاں ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نفع کس قدر ہے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے کیونکہ اس کے لینے میں خرچ کم ہوتا ہے اور نفع زیادہ-
ہر قسم کے نقصان سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
انیسویں- اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے نقصان تو نہیں ہوتا- جب نقصان نہیں ہوتا تو اسے استعمال کر لیا جاتا ہے- مثلاً دو دوائیاں ہیں جن میں سے ایک تھوڑے نفع والی ہے مگر کوئی نقصان اس سے پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے تو اسے ہم استعمال کر لیتے ہیں اور زیادہ نفع دینے والی جس کے استعمال سے نقصان کا بھی خطرہ ہو اسے استعمال نہیں کرتے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے-
دعوت عام کے لحاظ سے فضلیت
بیسویں- کسی چیز کو فضیلت اس وجہ سے بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی چیز ہوتی ہے- جب میں نے قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ صرف قرآن ہی اپنا تھا- باقی سب کتب میں مجھے غیریت نظر آئی- قرآن کریم کو میں نے ایک ہندو کی نظر سے بھی دیکھا اور ایک عیسائی کی نظر سے بھی- ایک پارسی کی نظر سے بھی اور ایک بدھ کی نظر سے بھی- پھر کبھی میں سید بن کر اس کے پاس گیا کبھی مغل بن کر` کبھی شیخ بن کر کبھی راجپوت بن کر` کبھی عالم کے رنگ میں اور کبھی جاہل کے رنگ میں- مگر ہر دفعہ اس نے یہی کہا کہ آئو تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں- لیکن دوسری کتب کے پاس جس حالت میں بھی میں گیا- انہوں نے مجھے دھتکارا اور اپنے پاس تک پھٹکنے نہ دیا-
علاج الامراض کے لحاظ سے فضیلت
اکیسویں- کسی چیز کو اس لحاظ سے بھی ہم فضیلت دیا کرتے ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا علاج ہو جو ہم میں پائی جاتی ہیں- میں نے جب دیکھا تو قرآن کریم میں مجھے یہ بھی فضیلت نظر آئی-
زائد فوائد کے لحاظ سے فضیلت
بائیسویں- ایک چیز کو دوسری پر ہم اس لئے بھی مقدم کیا کرتے ہیں کہ اس سے ہمیں زائد فوائد حاصل ہوتے ہیں- میں نے دیکھا کہ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے-
مطمح نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضیلت
تیئسیویں- مذہب کی افضلیت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ ترقیات کی امید پیدا کرکے انسان کا مطمح نظر وسیع کرے- اپنے پیروئوں کی ہمت بڑھائے- ان میں مایوسی اور ناامیدی نہ آنے دے اور ان کی امنگوں کو قائم رکھے- میں نے دیکھا کہ اسلام اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات اور تعلق باللہ کا دروازہ ہمارے لئے کھولتا ہے اور اس طرح ہماری امید کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے وسیع کر کے ہماری ہمت کو بڑھاتا ہے- اور اس میں کیا شک ہے کہ انسانی ترقی اس کے مستقبل کے خواب میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے- پس اس لحاظ سے بھی مجھے قرآن کریم ہی افضل نظر آیا-
دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ سے افضلیت
چوبیسویں- اس لحاظ سے بھی کسی چیز کو دوسری چیزوں سے افضل قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک دوسری اشیاء کی ضرورت سے مستغنی کر دیتی ہے- ایسی چیز کی لوگ زیادہ قدر کرتے ہیں کیونکہ انہیں دوسری چیزوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضیلت
پچیسویں- کسی چیز کی افضلیت کا ایک یہ بھی باعث ہوتا ہے کہ وہ صحیح علوم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتی اور انہیں لغو امور میں حصہ لینے سے بچاتی ہے- کتاب الہی چونکہ معلم ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ صحیح طرف لگائے- انہیں لغویات سے روکے اور صحیح علوم کی طرف ان کی راہنمائی کرے- میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے-
اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ فضیلت
چھبیسویں- اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے لئے اسے حاصل کیا گیا تھا- اگر ایک چیز اپنی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو لازماً اس دوسری چیز کو ترجیح دی جائے گی جو اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہو- میں نے دیکھا کہ اس پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت حاصل ہے-
غرض غور کرتے وقت مجھے فضیلت کی یہ چھبیس وجوہات نظر آئیں- گو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ممکن ہے کہ اور بھی کئی باتیں غور کرنے سے نکل آئیں- بہرحال جب میں نے ان پر قرآنکریم کو پرکھا تو اسے ہر بات میں دوسری کتب سے افضل پایا-
قرآن کریم کا دعویٰ اور افضلیت
مگر پیشتر اس کے کہ ان امور پر تفصیلی بحث کی جائے سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے خود بھی دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا ہے یا نہیں کہ وہ تمام کتب الہیہ سے افضل ہے- اگر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہو تو پھر تو اس کی افضیلت اور برتری کے وجوہ پر بھی بحث کی جا سکتی ہے- لیکن اگر اس کا یہ دعویٰ ہی نہ ہو تو اس کی افضلیت کے وجوہ پیش کرنا مدعی سست اور گواہ چست والی بات بن جاتی ہے- اس نقطہ نگاہ سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی افضلیت کا بڑے واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے-
اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ۳~}~یعنی اللہ تعالیٰ نے نہایت زور` طاقت اور قوت کے ساتھ اس کتاب کو اتارا ہے جو احسن الحدیثہے- یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے- یہ کس طرح کہا گیا کہ ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے- اول اس لئے کہ جب قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی کتابوں سے افضل ہے- اعتراض کے موقع پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کتاب الہامی نہیں بلکہ انسانی دست برد کی آماجگاہ بن چکی ہے لیکن اصولی طور پر ان کو انسانی کتب قرار دے کر قرآن کو ان کے مقابلہ میں لانا بے وقوفی ہے- یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے ایک پہلوان کہے کہ دیکھو میں فلاں بچہ سے طاقت ور ہوں- ہاں اگر بچہ پہلوان کو آ کر کہے کہ میں تمہیں گرا دوں گا آئو تم میرا مقابلہ کر لو تو پہلوان اسے بیشک کہہ سکتا ہے کہ جا چلا جا ورنہ تو میرے ایک ہی تھپڑ سے مر جائے گا-
اس آیت میں حدیث کا لفظ جو استعمال کیا گیا ہے یہ پہلی الہامی کتابوں کے متعلق ہے- اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے-فذرنی ومن یکذب بھذا الحدیث۴~}~ یعنی تو مجھے اور اس کو جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے- اسی طرح فرماتا ہیوما یاتیھم من ذکر من الرحمن محدث الا کانوا عنہ معرضین ۵~}~یعنی رحمن خدا کی طرف سے کبھی کوئی نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لوگ اعراض نہ کرتے ہوں- چونکہ انبیاء کا کلام ضرور کسی نئی شے کو لے کر آتا ہے- یعنی وہ حسب ضرورت آتا ہے خواہ شریعت لائے خواہ فہم لائے` خواہ ایمان کی تجدید کے سامان لائے` اس لئے اسے حدیث کہتے ہیں اور قرآن کریم احسن الحدیث ہے یعنی جنس حدیث میں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ کلام الہی میں سب سے افضل ہے- غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہیاللہ نزل احسن الحدیث کتبا- یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے ان تمام کتابوں سے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں بڑھی ہوئی ہے- پس قرآن کریم سے ہمیں اس کی افضلیت کا دعویٰ ملتا ہے-
پھر قرآن کریم کی افضلیت کا دعویٰ اس آیت میں بھی موجود ہے کہ ماننسخ من ایہ اوننسھا نات بخیر منھا او مثلھا الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر ۶~}~فرماتا ہے- ہم کوئی کلام الہی منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے جب تک کہ اس سے بہتر یا اس جیسا کلام نہ لائیں- یعنی جسے منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں اور جو بھول چکا ہوتا ہے مگر عمل کے قابل ہوتا ہے اسے ویسا ہی لے آتے ہیں-الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر اے مخاطب! تجھے یہ کیوں عجیب بات معلوم ہوتی ہے- خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے-
تورات میں ایک نئی شریعت نازل ہونیکی پیشگوئی
جب قرآن کریم پہلی الہامی کتب کا ناسخ ہے تو ضروری تھا کہ وہ کچھ تعلیم تو ان تعلیموں سے بہتر لائے اور کچھ وہ لائے جو مٹ گئی ہو- جب میں نے اس پہلو سے غور کیا تو قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوئی- چنانچہ بائیبل میں آتا ہے-
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا- اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘- ۷~}~
اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی مبعوث ہوگا- حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شریعت نبی تھے اس لئے ان جیسے نبی کے آنے کے لازماً یہ معنی تھے کہ وہ بھی صاحب شریعت ہوگا- پھر جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا تو معلوم ہوا کہ جو کتاب وہ لائے گا اس میں بعض باتیں زائد بھی ہونگی جو بائیبل میں موجود نہ ہونگی` ورنہ نئی شریعت کے آنے کی کیا ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی- لیکن جب وہ منسوخ کی گئی تو ضروری تھا کہ آنیوالی شریعت اس سے افضل ہو- پس قرآن کریم کی افضلیت بائیبل کے اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کیونکہ شریعتجدیدہ ناسخہ عقلاً شریعت منسوخہ سے حقیقی طور پر یا نسبتی طور پر افضل ہونی چاہئے-
حضرت موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مصداق ہونیکا دعویٰ
ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کریم کب کہتا ہے کہ میں وہی کتاب ہوں جس کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا- سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا ۸~}~یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہیشاھدا علیکم جو تم پر شاہد اور گواہ ہے کما ارسلنا الی فرعون رسولا اور وہ اسی قسم کا رسول ہے جس قسم کا رسول موسیٰؑ تھا جسے فرعون کی طرف بھیجا گیا- اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ کے مصداق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے- اس کے علاوہ ایک اور طرح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے- اور وہ یہ کہ استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں اس کا مصداق نہیں- انجیل میں آتا ہے` حضرت مسیحؑ کہتے ہیں-
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘- ۹~}~
پس انجیل سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جس آنے والے کی پیشگوئی ہے وہ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ اس کا مصداق کوئی اور ہے- پھر حضرت مسیحؑ صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے- مگر وہ جس کی نسبت حضرت موسیٰؑ نے پیشگوئی کی وہ ساری دنیا کے لئے ہے- اور یہ دعویٰ قرآن ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہیالیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۱۰~}~یعنی اے لوگو! آج میں نے دین کے کامل کرنے کی کڑی کو پورا کر دیا- وہ کڑی جو آدمؑ سے لے کر اب تک نامکمل چلی آتی تھی آج قرآن کے ذریعہ پوری کر دی گئی ہے اور میں نے اپنے احسان کو تم پر کامل کر دیا ہے- گویا مختلف چکروں میں سے انسانوں کو گذارتے ہوئے میں انہیں اس مقام پر لے آیا کہ بندہ خدا کا مظہر بن گیا اور میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا-
اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم اپنے بعد کسی اور شریعت اور نئی کتاب کی امید نہیں دلاتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ نیا فہم اور نیا علم حاصل کرو جو قرآن کریم کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے-
قرآن کریم کے اس دعویٰ کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فضیلت کے وہ تمام وجوہ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور فضیلت کے ہر اصل کے لحاظ سے قرآنکریم تمام دوسری کتب الہامیہ سے افضل اور برتر ہے-
منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضیلت کا ثبوت
پہلی بات جو میں نے بطور فضیلت بیان کی ہے وہ منبع کے لحاظ سے کسی چیز کی افضلیت ہے- یعنی کسی چیز کے منبع اور مخرج کا اعلیٰ ہونا بھی اس کے لئے وجہ فضیلت ہوتا ہے- جیسے ایک بادشاہ کے کلام کو دوسرے لوگوں کے کلام پر مقدم کیا جاتا ہے- اگر دو آدمی کلام کر رہے ہوں جن میں سے ایک بادشاہ ہو تو سننے والے لازماً بادشاہ کی بات کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے اور بغیر یہ فیصلہ کرنے کے کہ ان میں سے کس کا کلام افضل ہے پہلے ہی یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بادشاہ کا کلام دوسرے سے اہم ہوگا- اسی طرح ایک بڑے ادیب کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دی جاتی ہے- مختلف شعراء اگر ایک جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں مثلاً غالب بھی آ جائیں تو بغیر اس کے کہ ان کے اشعار سنے جائیں یہی کہا جائے گا کہ ان کے اشعار افضل ہونگے- اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی بیمار کے متعلق رائے دیتا ہے اور بعض دفعہ وہ غلطی بھی کر جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عورتوں کے بتائے ہوئے نسخے زیادہ فائدہ دے دیتے ہیں مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ ایک ڈاکٹر کی بات رد کر دی جائے اور ایک عورت کی بات مان لی جائے- لازماً ڈاکٹر کی بات کی طرف ہی توجہ کی جائیگی- ہاں جسے کسی دوائی سے فائدہ نہ ہوتا ہو وہ کسی عورت کی بتائی ہوئی دوائی بھی استعمال کرے گا- کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق وہ یہ کہے گا کہ چلو اس کی دوائی بھی آزمالو-
غرض اتھارٹی اپنی ذات میں بھی فضیلت رکھتی ہے- اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے لحاظ سے غالب گمان ہوتا ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہوگی- اسی کی طرف پہلے کیوں نہ توجہ کریں- بہرحال جس چیز کی فضیلت مقام اور منبع کے لحاظ سے ثابت ہو جائے اس کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور اسے فضیلت دے دی جاتی ہے- لیکن اگر منبع ایسا ہو کہ جس سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو تو پھر تو سبحان اللہ!
اب قرآن کریم کو ہم اس اصل کے ماتحت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے جو سب خوبیوں کا جامع ہے اور جب ہم یہ دعویٰ پڑھتے ہیں تو ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو پھر یقیناً انسانوں کے کلاموں سے افضل ہوگا- اور ان کلاموں کو ہم اس کے مقابلہ میں قطعی طور پر ٹھکرا دیں گے-
میں پہلے یہ دعویٰ بیان کر آیا ہوں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو قرآن کریم کو تمام انسانی کلاموں پر منبع کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہو گئی-
قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے تین دلائل
لیکن ظاہر ہے کہ صرف دعویٰ کافی نہیں ہو سکتا- دعویٰ کے لئے دلیل بھی چاہئے جس سے ثابت ہو کہ فی الواقعہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے- اس کے لئے قرآن کریم یہ دلیل دیتا ہے کہ افمن کان علی بینہ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتب موسی اماما ورحمہ اولئک یومنون بہ ومن یکفربہ من الاحزاب فالنار موعدہ فلاتک فی مریہ منہ انہ الحق من ربک ولکن اکثر الناس لایومنون ۱۱~}~اس آیت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کی تین دلیلیں دی گئی ہیں- پہلی دلیل یہ بیان کی کہ افمن کان علی بینہ من ربہ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایکبینہ یعنی روشن دلیل پر قائم ہو وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا وہ تباہ ہو سکتا ہے- یہاںمن میں رسول کریم2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے- جیسا کہ آگے آتا ہیاولئک یومنون بہ- پس فرمایا کیا یہ لوگ تمہارے خیال کے مطابق تباہ و برباد ہو جائیں یا نقصان اٹھائیں گے یہ تو ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جوبینہ ہے یعنی اس میں الہامی دلائل ہیں جو مدلول علیہ کے دعویٰ کی صحت کو بیان کرتے ہیں-
آیت اور بینہ میں فرق
آیت اور بینہ میں یہ فرق ہے کہ آیت وہ ہوتی ہے جس سے ہم خود نتیجہ نکالیں- اوربینہ وہ ہوتی ہے جو اپنی دلیل آپ پیش کرے- جیسے ایک درخت کو ہم دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اسے کسی صانع نے بنایا ہے یہ آیت ہے- لیکن ایک نبی آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یہ بینہ ہے- تو آیت عام لفظ ہے اور بینہ خاص- اس سے مراد وہ دلیل ہوتی ہے جو اپنے لئے آپ شاہد ہوتی ہے-
قرآن کریم کے بینہ ہونے کا ثبوت 0] [rtf
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کس طرحبینہ ہے؟ یہ بھی تو دعویٰ ہی ہے کہ قرآنبینہ ہے- اس کے لئے میں کہیں دور نہیں جاتا- قرآن کریم کیبینہ ہونے کا ثبوت اس پہلی وحی میں ہی موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی- باقی کتابیں دوسروں کی دلیلوں کی محتاج ہوتی ہیں مگر قرآن اپنے دعویٰ کی آپ دلیل دیتا ہے- اور قرآن کے بینہ ہونے کی دلیل ان تین آیتوں میں موجود ہے جو پہلے پہل نازل ہوئیں- قرآن کریم کا یہ کمال دکھانے کیلئے میں نے سب سے پہلی وحی قرآنی کو ہی لیا ہے- سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آیا اور اس نے کہا-اقرا یعنی پڑھ- اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاما انا بقاری ۱۲~}~میں پڑھنا نہیں جانتا- مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے- کیونکہ اس وقت آپﷺ~ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپﷺ~ نے پڑھنا تھا- بلکہ جو کچھ جبرائیل بتاتا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا- اور یہ آپﷺ~ کہہ سکتے تھے مگر آپﷺ~ نے انکسار کا اظہار کیا- لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کیلئے آپﷺ~ ہی کو چنا تھا- اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو- آخر تیسری بار کہنے پر آپﷺ~ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا-
اقرا باسم ربک- الذی خلق- خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم- الذی علم بالقلم- علم الانسان مالم یعلم ۱۳~}~
کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گئے ہیں جو اور کتابوں میں ہر گز نہیں پائے جاتے- دوسری کتابوں کو دیکھو تو وید یوں شروع ہوتے ہیں- ’’اگنی میئرھے پروہتم-‘‘ آگ ہماری آقا ہے- بائیبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے-
’’ابتداء میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا- اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہرائو کے اوپر اندھیرا تھا- اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی‘‘- ۱۴~}~
انجیل کی ابتداء اس طرح ہے-:
’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا- یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا‘‘- ۱۵~}~
لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ اقرا باسم ربک الذی خلق- اے محمد! ) صلی اللہ علیہ وسلم ( تم ان لوگوں کے معلم بن جائو اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا-خلق الانسان من علق- اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا-اقرا و ربک الاکرم ہاں اے محمد! پڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائیگی-
قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی
یہ پہلی پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کیبینہ ہونے کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے- فرمایا قرآن کیبینہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان دنیا میں قائم کر دے گی-
حضرت مسیح علیہ السلام پر مخالفین نے اعتراض کیا تھا کہ اسے شیطان سکھاتا ہے اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا شیطان اپنے خلاف آپ سکھاتا ہے-
’’اگر شیطان شیطان کو نکالے تو وہ اپنا ہی مخالف ہوا- پھر اس کی بادشاہت کیونکر قائم رہے گی‘‘- ۱۶~}~
اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب جو خدا تعالیٰ کی گم شدہ عظمت قائم کرنے کیلئے آئے اسے شیطان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا- اول تو کوئی کتاب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو یہ کہہ ہی کس طرح سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہو جائیگی- کئی لوگ کتابیں لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی کتاب دنیا کا نقشہ بدل دے گی لیکن پھر اسی کتاب پر دوسروں سے ریویو کرانے کے لئے منتیں کرتے پھرتے ہیں- ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ شکوہ کرتا پھرتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ اس کی کتابوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتا- ایک اور مدعی نبوت نے مجھے لکھا کہ میں آپ کے پاس اپنی کتاب بھیجتا ہوں خواہ آپ اس کے خلاف ہی لکھیں لیکن لکھیں ضرور- تو بیسیوں کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں پیدا ہوتا- پھر کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایک ایسے علاقہ میں جہاں بت پرستی کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا- وہاں کہا گیا کہ اسے ایسی حالت میں پڑھ کہ تیرے رب کی عزت اس کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوتی جائے گی- اس کلام کے ذریعہ تیرا رب اکرم کے طور پر ظاہر ہوگا-
اس وقت نہ صرف عرب میں بلکہ سارے جہان میں شرک پھیلا ہوا تھا اور حالت یہ تھی کہ آخری مذہب جو عیسائیت تھا- اس کے ماننے والے عیسائی خود لکھتے ہیں کہ اسلام اس لئے اتنی جلدی اور اس وسعت کے ساتھ پھیل گیا کہ عیسائیت میں شرک داخل ہو چکا تھا- ہندوئوں کی کتابوں کو دیکھو تو یہی معلوم ہوگا کہ اس وقت ہندوئوں میں بکثرت شرک پایا جاتا تھا- زرتشتی بھی مانتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہر طرف شرک ہی شرک تھا- غرضیکہ تمام مذاہب والے فخر کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر مذہب میں شرک پھیل چکا تھا- ہم کہتے ہیں یہ درست ہے اور قرآن کریم نے ایسے ہی وقت میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شرک مٹ جائے گا اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائیگی-
اس وقت جب کہ قرآن نے توحید پیش کی مکہ والوں کی جو حالت تھی اس کا ذکر قرآن کریم اس طرح کرتا ہے کہ انہوں نے کہا اجعل الالھہ الھا واحدا ان ھذا لشیی عجاب۱۷~}~ یہ عجیب بات ہے کہ اس نے سارے معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے ان لوگوں کو یہ خیال ہی نہیں آتا تھا کہ وہ الہ ہیں ہی نہیں- وہ سمجھتے تھے کہ سب معبودوں کو اس نے اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے- سورۃص میں ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی- مگر معاً ان کی حالت بدلنے لگی- اور اس کے بعد ان میں اس قدر تغیر پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اسلامی توحید کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور یہ کہنے لگے کہمانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی ۱۸~}~یعنی یہ یونہی کہتا ہے کہ ہم مشرک ہیں ہم تو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بتوں کو مانتے ہیں- گویا وہ معذرت کرتے ہیں کہ ہم کب کہتے ہیں کہ بت خدا ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے-
یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو ان میں پیدا ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ کا اکرم ہونا ظاہر ہو گیا- غرض فرماتا ہے-اقرا وربک الاکرم تو اس کتاب کو پڑھ کیونکہ اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی توحید پھیلنے لگ جائے گی- لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے لگ جائیں گے اور اس کا جلال دنیا میں قائم ہو جائے گا- چنانچہ ایسا ہی ہوا- مگر یہ تو اس وقت کا حال تھا جب قرآن کریم نازل ہوا- اب دیکھ لو کہ کس طرح شرک کے خیالات دنیا سے مٹ رہے ہیں- ہندوستان میں ۳۳ کروڑ بت پوجے جاتے تھے مگر ان ہندوئوں میں سے ہی آریہ اٹھے جو کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل توحید کے ماننے والے ہیں- اسی طرح مسیحیوں کو دیکھو تو وہ کہتے ہیں اصل توحید ہم میں ہی ہے میں نے عیسائیوں کی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ کہ اسلام نے ہم پر یہ غلط اعتراض کیا ہے کہ ہم شرک میں مبتلا ہیں حالانکہ اب بھی ان میں ایسے لوگ ہیں جو حضرت مریمؑ اور حضرت مسیحؑ کی پرستش کرتے ہیں-
غرض کتنا بڑا تغیر رونما ہو گیا کہ جہاں جہاں قرآن پڑھا گیا وہاں توحید قائم ہوتی چلی گئی- اور دنیا یہ اقرار کرنے لگ گئی کہ خدا ہی اکرم ہے- یہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو قرآن کریم کے متعلق کی گئی- پھر پہلے دن پہلی وحی میں اور پہلے وقت میں کی گئی-
‏sub] gat[ قلم کے ذریعہ ہر قسم کے علوم کا اظہار
ایک اور پیشگوئی اس وحی میں قرآن کے متعلق یہ کی کہ الذی علم بالقلم یعنی اس کتاب کے ذریعہ نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ تیرا رب سب سے بالا ہے اور باقی ساری ہستیاں اس کے تابع ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگا کہالذی علم بالقلم تیرے رب نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے- یعنی آئندہ تحریر کا عام رواج ہو جائے گا- وہ مکہ جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے- جہاں کے بڑے بڑے لوگ لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے- شعراء اپنے شعر صرف زبانی یاد کراتے تھے- اور اگر انہیں کہا جائے کہ اشعار لکھوا دیئے جائیں تو اسے اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے کہ لوگ ان کے اشعار زبانی یاد رکھتے ہیں- جب قرآن نازل ہوا تو ان میں ایک عظیم الشان تغیر آ گیا- یہاں تک کہ صحابہؓ میں کوئی ان پڑھ نہ ملتا تھا- سو میں سے سو ہی پڑھے لکھے تھے- تو فرمایاالذی علم بالقلم اس کتاب کے ذریعہ دوسرا عظیم الشان تغیر یہ ہوگا کہ لوگوں کی توجہ علوم کی طرف پھیر دی جائے گی چنانچہ آپﷺ~ کی بعثت کے معاً بعد لکھنے کا رواج ترقی پذیر ہوا- صحابہؓ نے لکھنا پڑھنا شروع کیا- مدینہ میں آپﷺ~ نے سب بچوں کو تعلیم دلوائی یہاں تک کہ عرب کا بچہ بچہ پڑھ لکھ گیا بلکہ اسلام کے ذریعہ سے یونانی کتب بھی محفوظ ہو گئیں- غرض قلم کا استعمال اس کثرت سے ہوا کہ اس کی مثال پہلے زمانہ میں نہیں ملتی-
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اس بات کا تعلق قرآن کریم کی فضیلت سے کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کو کامل اور افضل ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے مخاطب عالم ہوں جاہل نہ ہوں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد علم کا زمانہ آ جائے گا- لوگ مختلف علوم کے ماہر ہونگے- مگر باوجود اس کے یہ کتاب دنیا میں قائم رہے گی اور پڑھی جائے گی- اور کوئی اس پر غالب نہیں آ سکے گا- غرض اس پیشگوئی کے بعد کیا عرب اور کیا دوسرے ممالک ان میں علم کا اتنا رواج ہوا کہ اس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی-
نئے نئے علوم کی ترویج
تیسری پیشگوئی یہ کی کہعلم الانسان مالم یعلم خدا کا نام لے کر اس کتاب کو پڑھ جو انسان کو وہ وہ باتیں سکھانے والا ہے جنہیں اس سے پہلے وہ ہر گز نہیں جانتا تھا- گو یہ عام بات ہے کہ جہاں تحریر کی کثرت ہوگی وہاں علوم کا رواج ہوگا- اور لوگ نئی نئی باتیں بیان کریں گے- مگر لغو تحریریں بھی ہو سکتی ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اب میں انسانوں کو وہ باتیں سکھائونگا جو خواہ دینی ہوں یا دنیوی دنیا اس سے پہلے نہیں جانتی تھی-
چنانچہ قرآن کریم نے ایسے علوم بتائے جو نہ تورات میں موجود ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور کتاب میں- پھر دوسرے علوم بھی اس کے ذریعہ سے کھلنے شروع ہوئے- عرب میں شعروں کے قواعد` علم معانی` بیان اور صرف ونحو وغیرہ کے اصول وقواعد کوئی نہ تھے- یہ علوم صرف مسلمانوں نے رائج کئے- عرب کے جاہل لوگوں کی ساری کائنات لوٹ مار تھی- مگر قرآن کریم نازل ہونے کے بعد جن علوم سے وہ ہزاروں سال سے ناآشنا چلے آرہے تھے ان سے وہ آشنا ہوئے اور وہ ساری دنیا کے علوم کے حامل بن گئے- یونانی علوم کی کتابوں کے انہوں نے ترجمعے کئے اور پھر ان کے ترجمعے یورپ میں گئے- سپین میں جب مسلمان پہنچے تو انہوں نے ان کتابوں کے ترجمے کئے اور پھر ان ترجموں سے یورپ نے فائدہ اٹھایا- غرض علم الانسان مالم یعلم کے بعد ایسا تغیر شروع ہوا کہ وہ باتیں جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھیں ساری دنیا میں پھیل گئیں- اور مسلمانوں نے ایسے علوم ایجاد کئے جو پہلے نہ تھے- مثلاً علم الاخلاق` علم النفس` سائنس کے متعلق علوم` علم قضا ان سب علوم کے متعلق نئے اصول تجویز کئے- اسی طرح مسلمانوں نے علمروایت نکالا` علم کلام ایجاد کیا` علم قضا اور حکومت کے قوانین مرتب کئے- پہلے رومن لاء جاری تھا مگر خود یوروپین مدبروں نے تسلیم کیا ہے کہ اسلامی لاء اس سے بہتر ہے- حفظان صحت` علمتصوف اور الجبرا کے علوم بھی مسلمانوں کے ذریعہ نکلے- غرض ایک طرف تو قرآن نے ایسی روحانی باتیں بیان کیں جو دنیا پہلے نہ جانتی تھی اور دوسری طرف ایسے دنیوی علوم ظاہر ہوئے جن کے مقابلہ میں پہلے علوم ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے- یہ تین پیشگوئیاں قرآن کریم کے الہی کتاب ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہیں-
قرآن کریم کی افضلیت کی ایک اور شہادت
مگر ان پیشگوئیوں کے علاوہ قرآن کریم اپنی افضلیت کے لئے ایک چوتھی شہادت بھی پیش کرتا ہے- فرماتا ہے لا یمسہ الا المطھرون ۱۹~}~ اس کتاب کے معارف اور حقائق صرف انہی لوگوں پر کھل سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کی طرف سے پاک کئے گئے ہوں- دیکھو قرآن اسی زبان میں آیا جسے لوگ جانتے تھے- اس کے الفاظ وہی تھے جو لوگ استعمال کرتے تھے- اور عربی جاننے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں مگر ان پر قرآن کے معارف نہیں کھلتے- معارف انہی پر کھلتے ہیں جو اس کے خدا کا کلام ہونے پر ایمان لاتے اور اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے ہیں- کیا کوئی انسان اپنی تصنیف کردہ کتاب کے متعلق یہ شرط عائد کر سکتا ہے کہ میں نے جو کتاب تصنیف کی ہے اس کے مطالب وہی سمجھے گا جو خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گا- کوئی انسان اپنی تصنیف کے متعلق اس قسم کی شرط نہیں پیش کر سکتا- پس جو کتاب معروف زبان میں ہو مگر اس کے مطالب کا انکشاف دماغی قابلیتوں اور علوم ظاہری کی بحائے تعلق باللہ کے ساتھ وابستہ ہو- اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ورنہ اس کے علوم کا ظہور خالی علم و فکر پر کیوں نہ ہوتا- یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ جس قدر الہامی کتب پائی جاتی ہیں ان کے مطالب ان زبانوں کے جاننے والوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں- لیکن قرآنکریم کے متعلق یہ شرط ہے کہ خواہ ظاہری طور پر کوئی بڑا عالم نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتا ہو تو اس پر اس کے معارف کھل جائیں گے- چنانچہ جہاں تورات انجیل وید اور ژنداوستا کے علوم ظاہری عالموں کے ہاتھوں میں ہیں وہاں قرآن کریم کے علوم صرف روحانی علماء اور اولیاء کے ہاتھ سے ہی کھلتے چلے آئے ہیں- جیسے سید عبدالقادر صاحب جیلانی~رح`~ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح`~ مولانا روم~رح`~ امام غزالی~رح`~ سید احمد صاحب سرہندی~رح`~ شہاب الدین صاحب سہروردی~رح`~ شاہولی اللہ صاحب~رح~ یہی لوگ قرآن کریم کے علوم کو سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہوئے ہیں- بے شک ظاہری علوم رکھنے والے بعض علماء نے بھی قرآن کریم کی تفسیریں لکھی ہیں- لیکن انہوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں جو لوگوں کے لئے گمراہی کا موجب ہوئی ہیں لیکن صوفیاء جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ان کا بڑی عمدگی سے رد کیا ہے-
روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل
‏text1] gat[مثلاً قرآن کریم میں حضرت یونسؑ کے متعلق آتا ہے- وذالنون اذ ذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ۲۰~}~ یعنی یونس کو بھی یاد کرو جب وہ غضب کی حالت میں چلا گیا اور اسے یہ یقین تھا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے- اس آیت میں لن نقدر علیہ کے جو الفاظ آتے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یونسؑ نے یہ خیال کیا کہ خدا اسے گرفتار نہیں کر سکتا- مگر حضرت محی الدین ابن عربی~رح~ اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ]1nsk [tag لن نقدر علیہ کے معنی ہیں لن نضیق علیہ- ۲۱~}~ یعنی حضرت یونس علیہ السلام کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں تنگی میں نہیں ڈالے گا- بلکہ ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا ساتھدیگا-
غرض عصمت انبیاء کے متعلق ظاہری علماء نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں- لیکن صوفیاء اس سے محفوظ رہے ہیں بلکہ انہوں نے عصمت انبیاء ثابت کرنے کے لئے بڑی لطیف بحثیں کیہیں-
پیدائش عالم کے متعلق ابن عربی~رح~ کا ایک کشف
اسی طرح دنیا کی پیدائش کے متعلق حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح~ لکھتے ہیں کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا کہ دنیا کئی لاکھ سال میں مکمل ہوئی ہے اور مکمل ہونے کے سترہ ہزار سال کے بعد انسان کی پیدائش ہوئی ہے- آج لوگ کہتے ہیں کہ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہوا ہے- حالانکہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی~رح~ نے پہلے سے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہوئی ہے- وہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے ساتویں باب میں انسان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ھو اخر جنس موجود من العالم الکبیر واخر صنف من المولدات-۲۲~}~ یعنی انسان عالم کبیر کی آخری جنس اور مولدات ثلثہ )جمادات` نباتات اور حیوانات( میں سے آخری قسم ہے- اور مولدات ثلثہ کی پیدائش کا زمانہ وہ اکہتر ہزار سال بتاتے ہیں-
اسی طرح بعض صوفیاء نے قرآن کریم سے استدلال کر کے لکھا کہ زمین گول ہے- چنانچہ کولمبس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اسے امریکہ کی طرف جانے کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں سے سنا تھا کہ زمین گول ہے- غرض صوفیاء نے تو زمین کے متعلق لکھا کہ وہ گول ہے مگر ظاہری علوم رکھنے والے اسے نہ سمجھ سکے- اسی طرح اجرائے نبوت کے متعلق صوفیاء اور اولیاء نے تو لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی آسکتے ہیں- جیسے محیالدین صاحب ابن عربی~رح~ آنے والے مسیح کو امتی بھی اور نبی بھی قرار دیتے ہیں لیکن علماء نے اس کا انکار کیا-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چلینج
اب اسی زمانہ میں دیکھ لو کہ ظاہری علوم رکھنے والوں کی سمجھ میں قرآن کریم کی کوئی بات نہ آئی- انہوں نے معذرت کے نیچے پناہ لینی چاہی اور لکھ دیا کہ قرآن میں خطابیات ہیں یعنی قرآن نے کئی باتیں ایسی لکھی ہیں جنہیں دوسرے لوگ مانتے تھے- ان کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن خود بھی انہیں درست قرار دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے رد کیا اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت ثابت کی- اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان کیا کہ کوئی ایسی بات بتائو جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہو مگر قرآن میں نہ ہو- یا قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں پر جو اعتراض پڑے وہ پیش کرو- آپ نے قرآن کریم سے ایسی ایسی معرفت کی باتیں نکالیں کہ انہیں پڑھنے والے سر دھنتے ہیں اور ان لوگوں کی غفلت اور نادانی پر افسوس کرتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اسے محل اعتراض ٹھہرایا- اب آپ کی جماعت پر بھی خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جیسے قرآن کریم کے معارف آپ کی جماعت کے لوگ بیان کر سکتے ہیں وہ باقی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہیں-
قرآن کریم دعویٰ کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جن قرآنی علوم اور معارف کا انکشاف ہوا ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے وہ اپنی امداد کے لئے انسانوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا- ورنہ وہ کتاب کس کام کی جو دعویٰ ہی دعویٰ کرتی جائے اور کوئی دلیل نہ دے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ وہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے جو دوسروں کی امداد کی محتاج نہ ہو- یہ نہ ہو کہ دعویٰ تو خود کرے اور دلیل دوسروں پر چھوڑ دے جو زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے لیکن دلیل دینا اور اس دعویٰ کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے-
اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر تعلیم
دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہالصلٰوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے اخلاق کے متعلق جو تعلیم پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا- چنانچہ آپ نے قرآنی علوم کی روشنی میں اخلاق کے ایسے اصول بیان کئے کہ اس وقت کے ترقییافتہ علم النفس کے ماہرین بھی ان کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتے- بلکہ اب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتیں جن کی پہلے یہ لوگ مخالفت کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمانے کے بعد ان کی تائید کرنے لگ گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعلیم قرآن کریم سے نکالی اور ان سوالات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ اخلاق کس طرح پیدا ہوتے ہیں- ان کے حصول میں کون کون سی روکیں ہیں- ان کے پیدا کرنے کے کیا ذرائع ہیں- یہ سب باتیں قرآن کریم سے آپ نے پیش کیں اور دنیا پر اسلام کی فضلیت ثابت کی-
حقیقت نبوت کا اثبات
تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قرآن کریم سے حقیقت نبوت ثابت کی- پہلی ساری کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں- چنانچہ میں نے اس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں کو چٹھیاں لکھیں کہ بائیبل کی رو سے نبوت کی کیا تعریف ہے؟ اس پر بعض کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہماری اس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں- حالانکہ وہ مسئلہ جس پر مذہب کی بنیاد ہے اس کی حقیقت تو معلوم ہونی چاہئے- مگر بڑے بڑے پادریوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں اور ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ میں نبوت کی تعریف لکھتا ہوں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حقیقت نبوت قرآن کریم سے ثابت کی اور بتایا کہ ان شرائط کے ماتحت جن پر وحی نازل ہو انہیں ہم نبی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں- جن پادریوں نے نبوت کے متعلق کچھ لکھا انہوں نے یہی لکھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو پیشگوئیاں کرے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بائیبل میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جو پیشگوئیاں کرتے تھے- مگر نبی نہ تھے- وہ ان میں اور سچے نبیوں میں یہ فرق نہ بتا سکے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے-
قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب
چوتھی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے اور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا- حالانکہ اس سے خود مسلمان کہلانے والے بھی انکار کر رہے تھے- اور کہتے تھے کہ قرآن کی آیات ایک دوسری سے کوئی جوڑ نہیں رکھتیں-
قرآنی قﷺ میں آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیاں
پانچویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں- یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ الٹ دیا- وہاں بات بات پر قصہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں عقل انسانی تسلیم ہی نہیں کر سکتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر واقعات کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں- کوئی قصہ نہیں- یہ آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات تھے جو پورے ہوئے-
قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم
چھٹے آپ نے قرآن کریم سے قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم واضح کیا اور جو لغو باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان کو رد کیا-
تمام مذاہب باطلہ کا رد
ساتویں بات جو نہایت عظیم الشان ہے اور جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ پیش کی کہ جتنے مذاہب نئے یا پرانے ہیں ان سب کا رد قرآن کریم میں موجود ہے- یہ کتنی آسان بات ہے جس سے قرآنکریم کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے- برہمو سماج والے کہہ سکتے تھے- بتائو ہمارے مذہب کا قرآن میں کہاں رد ہے- پراٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ کہہ سکتے تھے بتائو قرآن ہمارے خلاف کیا دلیل دیتا ہے- غرض ہر مذہب والے اس قسم کا مطالبہ کر سکتے تھے مگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج منظور نہ کیا- اب بھی یہ چیلنج موجود ہے- کوئی معقول آدمی اپنے مذہب کے متعلق مطالبہ کرے ہم اسی وقت قرآن کریم سے اس کے مذہب کا رد نکال کر دکھا دیں گے-
اپنی ذات میں کامل کتاب
آٹھویں بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کسی اور کتاب کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ذات میں کامل ہے- اور تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں- یہ صرف جھوٹے مذاہب کا رد ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ضروری چیز بھی پیش کرتا ہے- یہ دعویٰ بھی ایسا ہے جس کا لوگ تجربہ کر سکتے تھے کیونکہ بعض نئے اخلاق اور نئی قابلیتوں کا علم ہوا تھا- ان کے متعلق وہ پوچھ سکتے تھے کہ بتائو قرآن میں کہاں ہیں- مگر کوئی شخص مقابل میں نہ اٹھا-
اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے والی کتاب
نویں بات آپ نے یہ پیش کی کہ قرآن میں انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقیات کے گر موجود ہیں- اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھولے گئے ہیں- اور ہر قسم کی تدابیر بتائی گئی ہیں جن سے وہ ترقیات حاصل کر سکتا ہے-
‏sub] ga[tبعث بعدالموت کی حقیقت
دسویں آپ نے بعث بعدالموت کی حقیقت ثابت کی- دوزخ کا کیا نقشہ ہوگا- کون لوگ اس میں جائیں گے- کیا کیا تکالیف ہونگی- اسی طرح یہ کہ جنت میں کون لوگ ہونگے- اس کی لذات کیسی ہونگی- جنت دائم ہو گی یا نہیں- غرض ساری باتیں بیان کر دیں اس وقت میں ان انکشافات کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں پڑھی جا سکتی ہیں- بالخصوص ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور میری کتاب ’’احمدیت‘‘ میں ان کا ذکر ہے-
مطہر کی تعریف
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ لا یمسہ الا المطھرون میں مطھر کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ طاھر کا لفظ- اس کی وجہ یہ کہ طاھر وہ شخص ہوتا ہے جو زہد و ورع سے ایک پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے- اور مطھر وہ ہوتا ہے جو کسی اندرونی نسبت سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے- اور مطھر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے قول یا فعل سے ہی ہوتا ہے نہ کہ اس کے کسی عمل یا لوگوں کے کہنے سے- چنانچہ دیکھ لو- وہ لوگ جنہوں نے قرآنکریم کی صحیح تفاسیر لکھیں- وہ وہی لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے قرب سے مشرف تھے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال تھی-
‏a10.7
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
ایک سوال کا جواب
یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ دلائل سے تو یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن کریم دوسری انسانی کتابوں سے منبع کے لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کیونکر ثابت ہوا کہ دوسری الہامی کتابوں سے بھی افضل ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ الہامی کتب سے بھی قرآن کریم افضل ہے اس لئے کہ گو وہ کتب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں لیکن بعض صفات کا ظہور ان کے زمانہ میں نہ ہوا تھا- مثلاً ایک زمانہ میں اگر خیانت زیادہ پھیلی ہوئی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر اس بدی کو دور کرنے کی صفت ظاہر ہوئی- اگر لوگوں میں خشونت اور سختی زیادہ پائی جاتی تھی تو اس زمانہ کے نبی پر رحم اور محبت اور نرمی اور شفقت کی صفت کا ظہور ہوا- لیکن کوئی پہلی کتاب ایسی نہیں جو رب العلمین کی صفت کی مظہر ہو- کوئی کتاب دو صفات کی یا چار صفات کی یا پانچ صفات کی مظہر تھی مگر کوئی کتاب رب العلمین کی صفت کی مظہر نہ تھی- اسی طرح کوئی کتاب قرآن کریم کی طرح اکملیت کی مظہر نہ تھی- کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی صفت قیوم کی مظہر نہ تھی کیونکہ قرآن کریم سے پہلی ہر ایک کتاب منسوخ ہونے والی تھی لیکن قرآن کریم چونکہ ہمیشہ رہنے والی کتاب تھی اس لئے یہ تینوں صفات قرآن کریم میں ظاہر ہوئیں- جو صفات پہلی کتب میں ظاہر ہو چکی ہیں وہ بھی سب کی سب تمام کتب میں ظاہر نہ ہوئی تھیں بلکہ بعض ایک میں اور بعض دوسری میں بیان کی گئی تھیں- لیکن قرآن کریم میں وہ بھی سب جمع ہیں- پس قرآن کریم منبع کے لحاظ سے بھی افضل ہے-
اس مضمون کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے- الحمد للہ فاطر السموت والارض جاعل الملئکہ رسلا اولی اجنحہ مثنی وثلث وربع- یزید فی الخلق مایشاء- ان اللہ علی کلی شئی قدیر-۲۳~}~ یعنی آسمان اور زمین کے کمالات ظاہر کرنے والے خدا کا شکر اور اس کی حمد ہے- وہ اپنے ملائکہ کو اظہار کمالات کے لئے نازل کرتا رہتا ہے اور ان کے کئی پر ہوتے ہیں- یعنی وہ کئی رنگ کی پناہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں- جناح عربیزبان میں پناہ اور حمایت کو بھی کہتے ہیں- اور فرشتے جو نازل کئے جاتے ہیں وہ دو دو تین تین چار چار پروں والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے اپنی پیدائش میں اضافہ کر دیتا ہے- یعنی جیسا موقع ہوتا ہے اتنے ہی پر زیادہ کر دیتا ہے-
یہاں بتایا کہ سب تعریفیں اللہ کی ہیں جو زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے- اس میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول میں آسمان و زمین کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں- پس قرآن کریم کا نزول ان تمام صفات پر مشتمل ہے جن سے یہ دنیا وابستہ ہے اورفاطر السموت والارض کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہوا ہے- حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک مرکز پر ساری دنیا جمع نہ ہو خدا تعالیٰ کی ہر لحاظ سے تعریف نہیں کی جا سکتی- الحمد للہ تبھی کہا جا سکتا ہے جب ساری دنیا کے لحاظ سے رب العالمین کی صفت کا اظہار ہو- اسی لئے فرمایا کہ اب جو تعلیم آئی ہے یہ
یذید فی الخلق مایشاء کے مطابق آئی ہے- پہلے صرف دو دو تین تین چار چار کمالات ظاہر کرنے کے لئے آئی تھی پس قرآنکریم کے نزول میں زمین و آسمان کے کمالات کے ظہور کے سامان رکھے گئے ہیں-
صفات الہیہ اور ان کی مظہریت
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کتاب میں کسی صفت کا ذکر ہونا یہ اور امر اور ہے اس صفت کا مظہر ہونا اور امر ہے- یوں تو رب العلمین کی صفت اور کتب میں بھی ہے مگر وہ اس صفت کا مظہر ہونے کی مدعی نہیں ہیں- قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے وانہ لتنزیل رب العلمین۲۴~}~ یہ کتاب رب العلمین کی صفت کے ماتحت نازل ہوئی ہے- چونکہ یہ سارے جہان کو مخاطب کرتی ہے اس لئے ساری کی ساری صفات اس میں ظاہر کی گئی ہیں- پس قرآن کریم خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر ہے-
ظاہری حسن میں برتری
ایک اور وجہ فضیلت )جسے میں نے بارھویں نمبر پر بیان کیا تھا( کسی چیز کا ظاہری حسن میں دوسری اشیاء پر فائق ہونا ہوتا ہے- کیونکہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں سے انسان طبعی طور پر ظاہری حسن میں فائق چیز کو منتخب کرتا ہے- بلکہ سب سے پہلے یہی چیز انسان کی دلکشی کا موجب بنتی ہے- میں نے جب اس لحاظ سے دیکھا تو قرآنکریم کو ظاہری طور پر بھی خوبصورت پایا- بلکہ ایسا خوبصورت پایا کہ گو یورپ نے اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے اپنا سارا زور صرف کر دیا مگر پھر بھی وہ ناکام رہا- اس خوبصورتی کو مٹانے کے لئے یورپ نے چار طریق اختیار کئے ہیں-
عیسائیوں کے چار اعتراضات
اول- یہ کہا گیا کہ قرآن کریم کا سٹائل )نعوذ باللہ( نہایت بھدا ہے-
دوم- یہ کہا گیا کہ اس میں بہت سے غیر عربی الفاظ داخل ہیں-
سوئم- یہ کہ اس میں فضول تکرار ہے یونہی ایک بات کو دہراتا چلا جاتا ہے-
چہارم- یہ کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں- کہیں احکام شروع ہیں تو ساتھ ہی وعظ کیا جاتا ہے- پھر لڑائیوں کا ذکر آ جاتا ہے تو ساتھ ہی منافقوں کو ڈانٹا جاتا ہے-
لیکن یہ اعتراض جیسا کہ میں ابھی بتائوں گا درست نہیں بلکہ قرآن کریم کا ظاہری حسن بھی اسے کل دنیا کی کتب پر افضل قرار دیتا ہے اور یہ فضیلت دس خوبیوں سے ثابت ہے-
قرآنی زبان کی فصاحت
اول زبان کی فصاحت- قرآن کی یہ خوبی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے اور عربوں نے تو اس کے آ گے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور بڑے بڑے ادیب اس کے کمال کے آگے عاجز آ گئے ہیں- میں اس کے متعلق دوستوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں-
لبید عرب کا ایک مشہور شاعر تھا جو سات بڑے مشہور شاعروں میں سے ایک تھا- پہلے وہ اسلام کا مخالف تھا مگر بعد میں ایمان لے آیا- اسلام لانے کے بعد وہ ہر وقت قرآن کریم پڑھتا رہتا- اور اس نے شعر کہنے ترک کر دیئے- حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر مغیرہ بن شعبہ کو چٹھی لکھی کہ اپنے علاقہ کے مشہور شاعروں سے اچھے اچھے اشعار لکھوا کر مجھے بھیجو- مغیرہ نے اس کام کے لئے دو شاعر اغلب اور لبید پسند کئے اور انہیں کہا گیا خلیفہ وقت کا حکم آیا ہے کہ کچھ شعر لکھ کر بھیجو- اس پر اغلب نے تو قصیدہ لکھا لیکن لبید نے کہا- جب سے میں اسلام لایا ہوں میں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے ہیں- جب انہیں مجبور کیا گیا تو وہ سورۃ بقرہ کی چند آتیں لکھ کر لے آئے اور کہا کہ ان کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا- مغیرہ نے لبید کو سزا دی اور اغلب کی حضرت عمرؓ کے پاس سفارش کی- لیکن حضرت عمرؓ کو لبید کی بات کی اتنی لذت آئی کہ انہوں نے کہا لبید نے جو کچھ کہا ہے اس سے اس کے ایمان کا ثبوت ملتا ہے کہ اتنا قادر الکلام ہونے کے باوجود شرماتا ہے کہ قرآن کے سوا کچھ اور اپنی زبان سے نکالے-][ مسیحیوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کیا لبید نے پہلے کبھی قرآن نہ سنا تھا جبکہ وہ اسلام کا مخالف تھا- وہ دراصل لالچ کے لئے اس طرح کہتا تھا- لیکن اس دلیل سے عیسائیت پر بھی اعتراض وارد ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایک انسان کئی بار انجیل پڑھتا اور عیسائیوں کے وعظ سنتا ہے مگر عیسائیت کو نہیں مانتا- لیکن پھر ایک وقت مان لیتا ہے تو کیا وہ لالچ سے ایمان لاتا ہے؟ یہ ایک طبعی بات ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بات کا انکار کر دیتا ہے لیکن جب اس پر صداقت کھلتی ہے تو اسے مان لیتا ہے- ایسا ہر مذہب میں ہوتا ہے- کئی لوگ ہندو ہو جاتے ہیں- اب کیا انہیں کہا جاتا ہے کہ اتنے سال تو تم ہندو مذہب کا ذکر سنتے رہے اور ہندو نہ ہوئے؟ اب جو ہندو ہوئے ہو تو کسی لالچ کی وجہ سے ہوئے ہو؟ دراصل یہ بہت بودی دلیل ہے اور سوائے اس کے جو خود لالچی ہو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا-
یوں تو دنیا میں بڑی اچھی اچھی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ان کی قبولیت بھی ہوتی ہے- مگر دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا کوئی ایسی کتاب لکھی گئی ہے جس کے لکھنے والے نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہو کہ یہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہو گی اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیل جائیگی- یورپین لوگ کہتے ہیں شیکسپئیر جیسا کلام کوئی نہیں لکھ سکتا- گو خدا کی قدرت ہے جب سے قرآن پر یورپین اعتراض کرنے لگے ہیں ایسی سوسائٹیاں بھی بن گئی ہیں جو شیکسپئیر کی تحریروں پر اعتراض کرتی ہیں- لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ اچھا لکھنے والا تھا تو دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا لکھتے وقت اس نے کہا تھا کہ اس کا کلام تمام کلاموں سے افضل رہے گا- اس نے یقیناً ایسا نہیں کہا- مگر قرآن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کتاب کا مقابلہ کرنے سے دنیا عاجز رہے گی- میں نے بینٹ کی ایک کتاب پڑھی ہے- جس میں اس نے لکھا ہے کہ جب میں نے یہ کتاب لکھی تو سمجھا کہ بہت مقبول ہو گی مگر چھاپنے والوں نے اس کی اشاعت میں لیت ولعل کیا اور پبلک نے بھی قدر نہ کی- پس کوئی لکھنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کتاب مقبول ہو گی یا نہیں- مگر قرآن نے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ یہ کتاب تمام کتب سے افضل ہے اور ہمیشہ افضل رہے گی-
پھر عرب وہ ملک تھا جس کا تمام کمال زبان دانی پر تھا- اس ملک میں قرآن آیا اور ان لوگوں کی زبان میں آیا- اور پھر اس نے ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ عربوں کا طرز کلام ہی بدل ڈالا- اور انہوں نے قرآن کی طرز اختیار کر لی- ان کی طرز تحریر بدل گئی- پرانا سٹائل جاتا رہا اور قرآن کریم کے سٹائل پر ہی سب چلنے لگے-
بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو ماننے والوں نے ایسا کرنا ہی تھا- میں کہتا ہوں بائیبل` انجیل اور ویدوں کے ماننے والوں نے کیوں ایسا نہ کیا- وہ بھی تو ان کتابوں کو خدا کی طرف سے مانتے تھے-
قرآن کریم میں غیر زبانوں کے الفاظ
یہ اعتراض کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں یہ بھی درست نہیں- کوئی زبان خواہ وہ نئی ہو یا پرانی غیر زبانوں کے الفاظ سے پاک نہیں ہو سکتی- اعتراض تب ہوتا جب عربی زبان میں وہ الفاظ جاری نہ ہوتے اور عرب کہتے کہ ہم ان الفاظ کو سمجھ نہیں سکتے- جب عرب قرآن کے الفاظ کو سمجھ جاتے تھے اور مکہ والے سمجھ لیتے تھے عرب میں وہ الفاظ جاری تھے اور وہ الفاظ عربی زبان کا ایک حصہ ہو چکے تھے تو خواہ وہ غیر زبان کے ہی ہوں کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر قرآن نے ہی وہ الفاظ عربی میں داخل کئے ہوں تب بھی یہ قرآن کی بہت بڑی طاقت کی علامت ہے کہ وہ الفاظ عربوں میں رائج ہو گئے- کیونکہ جو قادر الکلام نہ ہو اس کی بات چل نہیں سکتی- اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قادر الکلام اپنے کلام میں غلطی بھی کرے تو اسے ایجاد کہیں گے غلطی نہیں کہیں گے- کیونکہ وہ زبان پر عبور رکھتا ہے- پس اگر قرآن میں نئے الفاظ آئے اور وہ عربی زبان کا جزو بن گئے تو یہ قرآن کا اور زیادہ معجزہ ہے- مگر یہ درست نہیں کہ غیر زبانوں کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں- دراصل یہ دھوکا اس وجہ سے لگا ہے کہ عربی اور عبرانی زبان کے بعض الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہیں- بلکہ بعض محاورات بھی آپس میں مل گئے ہیں- اس سے یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ قرآن میں غیر زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں- مثلاً فرقان ایک لفظ ہے- اس کے تمام مشتقات عربی میں موجود ہیں- اس کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن نے یہ لفظ باہر سے لیا ہے غلط ہے- اسی طرح رحمن کے متعلق اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی عربی لفظ ہے-
لفظ رحمن کی حقیقت
اصل بات یہ ہے کہ محققین یورپ کو یہ دھوکا قرآن کریم کی اس آیت سے لگا ہے کہ واذ قیل لھم اسجدوا اللرحمن قالوا وما الرحمن- ۲۵~}~ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدائے رحمن کے سامنے سجدہ میں گر جائو تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- معترضین کہتے ہیں- یہ آیت اس بات کی سند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں- کیونکہ عرب کے لوگ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- اگر یہ غیر زبان کا لفظ نہ ہوتا تو وہ کیوں ایسا کہتے حالانکہ معترضین اس آیت کے معنے ہی نہیں سمجھے- کفار کا اعتراض لفظ رحمن پر نہیں تھا بلکہ اس اصطلاح پر تھا جو قرآن نے رحمن کے لفظ کے ذریعہ پیش کی تھی- قرآن نے یہ نئی اصطلاح پیش کی تھی جو عربوں میں رائج نہ تھی- جیسے صلوہ عربی لفظ ہے مگر اصطلاحی صلٰوۃ قرآن نے پیش کی ہے- اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے صلٰوۃ کیا ہوتی ہے-
پس ان لوگوں کا اعتراض در حقیقت اسلامی اصطلاح پر تھا- اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے وہ ہم نہیں جانتے اور اصطلاح جدید علم جدید کے لئے ضروری ہوتی ہے- یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک طرف تو قرآن میں آتا ہے کہ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ ۲۶~}~ یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اسکی قوم کی زبان میں ہی وحی دیکر بھیجا ہے- اور دوسری طرف سورۃ ہود میں آتا ہے- مخالفین نے حضرت شعیبؑ سے کہا- یشعیب مانفقہ کثیرا مما تقول۲۷~}~ اے شعیب! ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں- اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ سمجھ نہ سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے اور جو جو مسائل وہ پیش کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے-
اہل عرب میں رحمن کا استعمال
وہ الفاظ جو قرآن نے استعمال کئے ہیں وہ ان لوگوں میں پہلے سے موجود تھے- چنانچہ رحمن کا لفظ بھی ان میں استعمال ہوتا تھا- قرآن کریم میں آتا ہے- وقالوا لوشاء الرحمن ما عبدنھم ۲۸~}~ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمنکا یہی منشاء ہوتا کہ ہم شرک نہ کریں تو ہم شرک نہ کرتے- غرض رحمن کا لفظ وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے- اور یہ بات وہ لوگ نہیں مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے ان کا شرک باطل ہو جاتا تھا- غرض وما الرحمن کے یہ معنی نہیں کہ عرب کے لوگ رحمن کا لفظ نہیں جانتے تھے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہ تھے جو قرآن نے پیش کی- بہر حال قرآنکریم کی فصاحت اس کے حسن کا ایک روشن ثبوت ہے- اور پھر قرآن کریم کی یہ فصاحت ایسی بڑھی ہوئی ہے کہ آج تک علم ادب پر اس کا اثر ہے اور زبان عربی کی ترقی کو اس نے ایک خاص لائن پر چلا دیا ہے- حتیٰ کہ عرب مسیحی مصنف بھی قرآن کی تعریف کرتے تھے اور ان کے مدارس میں قرآن کریم کے ٹکڑے بطور ادب کے رکھے جاتے تھے- ایک جاہل ملک میں ایک کتاب کا لوگوں کو والہ وشیدا بنا دینا اور انہیں جاہل سے عالم کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے-
قرآن کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب 0] f[rt
قرآن کریم کی دوسری ظاہری خوبی اس کی اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے- ترتیب کا اعلیٰ ہونا بذات خود روحانیت سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ مجرد ترتیب انسانی کلام میں بھی پائی جاتی ہے- لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ترتیب ایک ظاہری خوبی ہے جو کسی کلام کو خوبصورت بنا دیتی ہے- اور اس خوبی کے لحاظ سے بھی قرآن کریم تمام دوسری کتب سے افضل ہے- بظاہر وہ ایک بے ترتیب کلام نظر آتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب موجود ہے بلکہ جہاں سب سے بڑھ کر بے ترتیبی نظر آتی ہے وہاں سب سے زیادہ ترتیب ہوتی ہے- اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے- دنیا میں کوئی انسان ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا جو بظاہر تو بے ترتیب ہو مگر غور کرنے سے اس میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہو- پس اس حسن میں بھی قرآن کریم نہ صرف دوسری کتب کے مشابہ ہے بلکہ ان سے افضل ہے- اس وجہ سے کہ معروف ترتیب کی اتباع کرنا ایک عام بات ہے- ہر عقلمند ایسا کر سکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ترتیب میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتب میں نہیں اور وہ خصوصیات یہ ہیں-
ترتیب قرآن کی چند خصوصیات
اول- اس کی ترتیب بظاہر مخفی ہے مگر غور اور تامل سے ایک نہایت لطیف ترتیب معلوم ہوتی ہے اور کسی انسانی کتاب میں اس قسم کی ترتیب کی مثال نہیں ملتی کہ بظاہر ترتیب نہ ہو لیکن غور کرنے پر ایک مسلسل ترتیب نظر آئے جو نہایت لطیف اور فلسفیانہ ہو-
اس وقت میں قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق مثالیں دینے سے معذور ہوں- کیونکہ جس مقام کی بھی میں ترتیب بیان کروں گا کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر چن لیا گیا ہے- میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی مثال ایسی چن دیں جس کی ترتیب عام لوگوں کو معلوم نہ ہو اور جو بے جوڑ فقرے نظر آتے ہوں مگر افسوس ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع نہ تھا اس لئے وہ کوئی مثال پیش نہ کر سکے اور میں خود سردرد کی وجہ سے ایسا مقام نہ نکال سکا ورنہ بتاتا کہ قرآن کریم میں کیسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے-
دوم- قرآن کریم بغیر اس کے کہ ترتیب کی طرف اشارہ کرے علم النفس کے ماتحت اپنے مطالب کو بیان کرتا ہے اور جو سوال یا جو ضرورت کسی موقع پر پیش آتی ہے اس کا اگلی عبارتوں میں جواب دیتا ہے- گویا اس کی ہر اگلی آیت میں پچھلی آیات کے مطابق جو سوال پیدا ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے- اور یہ باریک ترتیب اور کسی کتاب میں نہیں ہے- بائیبل کے متعلق لوتھر لکھتا ہے-:
‏ deeds and miracles of account their in order keep not do Gospels "The about dispute is there When ۔moment small of is This ۔jesus of۔drop matter the let possible is comparison no and Writ Holy۲۹~}~
‏says, man" of "son book his in Ludwidg ofEmile out arise snoitccontradi all "Almost "۔reports the of nature disorderly the ۳۰~}~
‏other an one contradict Knowledge, of sources main four Gosples,the scantyThe the by contradicted points some upon are and respects many in۳۱"~}~۔authoriteis non-Christians
‏serial in confusion is there Moreover ۳۲which~}~ confusion a arrangement, ۔centuries out through- deplored been has
یعنی بائیبل میں ترتیب واقعات کا لحاظ نہیں رکھا گیا- پس اس کے بیانات کے بارہ میں جب کوئی جھگڑا پیدا ہو اور سلجھائو کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسے چھوڑ دینا چاہئے-
ایمل لڈوگ Ludwidg) (Emilنے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ بیان کرتا ہے کہ موجودہ انجیل ہمیں بالکل بے ترتیب نظر آتی ہے- وہ اپنی کتاب ’’ابن آدم‘‘ میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انجیل میں ہمیں جو بھی تضاد نظر آتا ہے وہ واقعات کے بے ترتیبی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- اناجیل جو ہمارے علم کے چار بڑے چشمے ہیں کئی امور میں ایک دوسرے کے مخالف بیانات کی حامل ہیں اور غیر عیسائی محققین نے بھی انہیں متضاد قرار دیا ہے` اس کے علاوہ ان کی ترتیب میں اس قدر الجھنیں ہیں کہ صدیوں سے خود مسیحی اس پر افسوس کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں-
اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو وہاں بھی ترتیب کا کچھ پتہ نہیں لگتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ ایک واقعہ کا دوسرے واقعہ سے کیا جوڑ ہے-
مختصر آیات میں حقائق و معارف کی کثرت
تیسری خوبی جو قرآن کریم کے ظاہری حسن کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کے مضامین کا باوجود اختصار کے مفصل ہونا ہے- چنانچہ ایک ایک آیت کئی کئی مطالب بیان کرتی چلی جاتی ہے- اور پھر اس میں علم کلام` علم تاریخ` علم اوامر اور علم نواہی سب ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور آئندہ کے لئے پیشگوئیاں بھی ہوتی ہیں- اس خوبی کی وجہ سے ایک طرف تو قرآن کریم نہایت مختصر ہے اور دوسری طرف جو اس میں عظیم الشان مطالب بیان ہیں وہ بائیبل اور دوسری الہامی کتب میں مل ہی نہیں سکتے- اس کی ایک مثال میں نے ابھی دی ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت میں تین عظیم الشان پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی مقام لے لو یہ بات واضح ہو جائے گی- میں اس کے مزید ثبوت کیلئے پھر پہلی آیت کو ہی لے لیتا ہوں-
اقرا باسم ربک الذی خلق کی لطیف تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-اقرا باسم ربک الذی خلق- خلق الانسان من علق- اقرا و ربک الاکرم- الذی علم بالقلم- علم الانسان مالم یعلم- ان چند آیات میں پہلے تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ فرمایااقرا باسم ربک الذی خلق- پڑھ اس کلام کو- مگر جب پڑھنے لگو تو یہ کہہ لینا کہ میں اللہ کا نام لے کر اسے پڑھتا ہوں- اس میں استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸`۱۹ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ہے جو یہ ہے کہ
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا- اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گا- وہ سب ان سے کہے گا- اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘- ۳۳~}~
پسباسم ربک میں موسیٰؑ کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کے مثیل ہونے موسیٰؑ کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے اور نبوت کے تسلسل کا ذکر کیا گیا ہے- پھر اقرا میں تبلیغ کے واجب ہونے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے- کئی کلام ایسے ہوتے ہیں جو خود پڑھنے والے کے لئے ہوتے ہیں` دوسروں کو سنانے کیلئے نہیں ہوتے- مگر اس کلام کے متعلق فرمایا یہ ساری دنیا کے لئے ہے` جا اور اسے سنا- اس میں تبلیغ اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-
تیسری بات ربک الذی خلق ]text [tagمیں یہ بتائی کہ اس کلام کے پیش کرنے میں تمہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں گی مگر تو اس رب کا نام لے کر پڑھ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے- اس میں یہ اشارہ کیا کہ یہ کلام صرف بنی اسرائیل کیلئے یا اہل ہنود کیلئے نہیں یہ الانسان کیلئے ہے اور جب ایک قوم کو مخاطب کرنے والوں کو دکھ اور تکالیف اٹھانی پڑیں تو تم جو ساری دنیا کو مخاطب کر رہے ہو تمہیں کس قدر مشکلات پیش آئیں گی- مگر کسی بات سے ڈرنا نہیں یہ کلام تیرے رب کی طرف سے آیا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا اس کی مخاطب ہے اور اس وجہ سے ساری دنیا تیری مخالف ہوگی تیرا رب تیرے ساتھ ہوگا- مگر یہ بھی یاد رکھنا کہ تیری آہستہ آہستہ ترقی ہوگی کیونکہ رب آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والے کو کہتے ہیں-
چوتھی بات یہ بیان کی کہ خلق الانسان من علق- اس میں ایک تو اس طرف توجہ دلائی کہ اے انسان! دیکھ تیری پیدائش کتنی ادنیٰ ہے پھر تو خیال بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ اپنی کامیابی کے ذرائع خود معلوم کر لے گا- دوسرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرف توجہ دلا دی کہ انسان کو علق سے پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں قدرتی طور پر تعلق باللہ کا مادہ رکھا گیا ہے- اور یہ بات تمہاری معاون ہوگی- پس تمہیں گھبرانا نہیں چاہئے اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہئے-
غرض ایک چھوٹی سی آیت میں تاریخ` علم کلام` تبلیغ` انسان کی پیدائش اور انسان کی مخفی طاقتوں کا ذکر کر دیا- اور ابھی یہ باتیں ختم نہیں ہوئیں اور بھی کئی علوم کا اس میں ذکر ہے-
قرآن کریم کی مقفی عبارت
چہارم قرآن کریم کی عبارت مقفی ہوتی ہے- قافیہ بندی کے ساتھ اگر مضمون خراب ہو جائے تو وہ مقفی عبارت بری معلوم ہوتی ہے- لیکن قرآن کریم کی عبارت باوجود مقفی ہونے کے ایسی ہے جس سے صرف مضمون کی عظمت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ نئے نئے معارف بھی ظاہر ہوتے ہیں- اس کی مثال کے طور پر سورۃ جمعہ کو لے لیتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض الملک القدوس العزیز الحکیم- ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھو العزیز الحکیم- ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم-۳۴~}~
دیکھو کس طرح ان آیات میں توازن کو قائم رکھا گیا ہے- یہ ہے تو نثر مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اشعار ہیں- مگر باوجود اس کے کوئی لفظ زائد نہیں- شاعر تو مضمون کے لحاظ سے الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا-
یہ آیتیں اس زمانہ کے متعلق ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعر ہیں- وزن قائم رکھنے کے لئے ان میں توازن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مقفی عبارت ہے مگر ترتیب خراب نہیں ہوئی- نہ کوئی زائد چیز آئی ہے` ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ہے-
سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر
خدا تعالیٰ فرماتا ہے یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض ہر ایک چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہے خواہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے- یعنی ہر چیز ثابت کرتی ہے کہ خدا بے عیب ہے- الملک القدوس العزیز الحکیم- وہ ملک ہے` قدوس ہے` عزیز ہے` حکیم ہے- یہاں قافیہ کے لحاظ سے حکیم پیچھے آیا ہے- اگر ملک پیچھے آتا تو وزن قائم نہ رہتا- آگے اسی ترتیب سے مضمون چلتا ہے- پہلی صفت خدا تعالیٰ کی یہ بیان کی تھی کہ وہ الملک یعنی بادشاہ ہے- اور بادشاہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ رعایا کی بہتری اور بہبودی کے احکام جاری کرے- اس لئے فرمایا ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم- جب خدا تعالیٰ ساری دنیا کا بادشاہ ہے تو اس نے اپنی رعایا کو احکام پہنچانے کیلئے امیین میں ایک رسول بھیجا اور اپنا نائب مقرر کیا مگر یہ نائب باہر سے مقرر نہیں کیا بلکہ تم میں سے ہی بھیجا-
دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ القدوس ہے اس کے متعلق فرمایا یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تا کہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے- پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یزکیھم ان کے اعمال کو پاک کرے-
تیسری صفت یہ بیان کی تھی کہ العزیز وہ غالب ہے- اس کے لئے فرمایا- و یعلمھم الکتب- ان کو کتاب سکھائے- یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی بات وہی سکھا سکتا ہے جس کے شاگرد ہوں- چونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں یہ رکھا کہ اس رسول کو ہم ایک جماعت دیں گے جسے یہ سکھائیگا اور اسے دنیا پر غلبہ بخشے گا- کیونکہ میں اسے اپنی صفت عزیر کے ماتحت بھیج رہا ہوں-
چوتھی صفت الحکیم بیان کی تھی- اس کے متعلق فرمایا والحکمہ کہ وہ حکمت سکھائے گا- وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین اور گو اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے مگر پھر بھی یہ رسول اس کتاب کو منوا لے گا-
اس کے بعد فرمایا و اخرین منھم لما یلحقوابھم- یہ رسول کچھ اور لوگوں کو بھی سکھائے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے- وھوالعزیز الحکیم اور وہ غالب اور حکمت والا ہے- ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کی عبارت تو مقفی بتائی جاتی ہے لیکن یہ ترتیب کیسی ہے کہ انہیں الفاظ کو پھر دہرا دیا گیا ہے جو پہلے آچکے ہیں اور بغیر ضرورت کے صرف قافیہ بندی کے لئے لائے گئے ہیں- لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہی الفاظ آنے چاہئیں تھے- اس کی وجہ ہے کہ جب کہا گیا واخرین منھم لما یلحقوابھم کہ یہ رسول ایک اور جماعت کو بھی سکھائے گا جو ان لوگوں سے نہیں ملی تو گویا بتایا کہ ان لوگوں میں اور اس جماعت میں ایک وقفہ ہوگا- اور دوسرے لوگ کچھ مدت کے بعد آئیں گے- اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد مسلمانوں میں سے قرآن مٹ جائیگا اور پھر بعد میں آنے والوں کو سکھایا جائے گا- ورنہ اگر وقفہ نہیں پڑنا تھا تو یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی- پیچھے آنے والے آخر پہلوں سے ہی سیکھا کرتے ہیں- اس کے ذکر کی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا تھا جس میں قرآن دانی مٹ جانی تھی- اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا جانے والا تھا-
اب یہ صاف بات ہے کہ درمیانی وقفہ کسی نقص کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے- اور اس نقص کے ازالہ سے ہی اس امر کو دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے- پس دوبارہ عزیز و حکیم کہہ کر بتایا کہ یہ وقفہ دشمنان اسلام کے غلبہ ظاہری اور ان کی علمی اور فلسفی اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ہوگا- اور مسلمان ان سے متاثر ہو کر قرآن کو چھوڑ دیں گے- مگر پھر خدا تعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا- کیونکہ وہ عزیز ہے- چونکہ دوسروں کو حکومت ملنی تھی اور اس سے مسلمانوں پر رعب چھا جانا تھا اور ایسے علوم نکل آنے تھے جن کی وجہ سے اسلام پر حملہ کیا جاتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس وقت بھی اپنی صفات عزیز اور حکیم کا اظہار کریں گے اور مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ دیں گے- اور ان علوم کا بھی رد کریں گے جو قرآن کے مقابلہ پر آئیں گے- کیونکہ اصل غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہے اور علوم اس کے بھیجے ہوئے ہیں- پس وہ باوجود ان فتن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا-
غرض ان الفاظ کا تکرار صرف مقفی عبارت کیلئے نہیں بلکہ عین اس ترتیب کے ماتحت ہے جس کی یہاں ضرورت تھی-
قرآنی آیات کا لطیف توازن
)۵( پھر قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کر سکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو- یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے- چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا- قرآن کریم کو خدا تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہو سکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی- اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے-
قرآن کریم میں ذکر الہی کی کثرت
)۶( چھٹی خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کی اس میں اتنی کثرت ہے کہ جب انسان قرآن کھولتا ہے تو اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے پر ہے- چنانچہ مکہ کے کئی مخالف جو سخت دشمن ہوا کرتے تھے جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ جاتے تو کہتے وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے- غرض قرآن کریم نے اس طرح عظمت الہی کو بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اس امر کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا- اور ہر خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا دل اس کثرت سے ذکر الہی کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتا ہے- ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے- محمد کے متعلق خواہ کچھ کہو لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے- وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے- یہ مخالفین کی قرآن کریم کے متعلق گواہی ہے کہ وہ ذکر الہی سے بھرا ہوا ہے- اور ذکر الہی ہی مذہب کی جان ہے- لیکن دوسری کتب اس سے عاری ہیں اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کو ضائع کرتی ہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بندوں کے قصے کہانیاں زیادہ ہیں اور اللہ کا ذکر کم ہے-
سخت کلامی سے مبرا کتاب
ساتویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ سخت کلامی سے مبرا ہے اور یہ بھی حسن کلام کی ایک قسم ہے- کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اس میں گالیاں ہیں- پھر نہ صرف قرآن سخت کلامی سے مبرا ہے بلکہ نہایت لطیف اور دلنشین پیرایہ میں یہ نصیحت کرتا ہے کہnsk1] ga[t ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم ۳۵~}~یعنی تم ان معبودان باطلہ کو گالیاں مت دو جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتے ہیں- اور اگر تم ان کو گالیاں دو گے تو وہ اللہ کو گالیاں دیں گے بغیر یہ سمجھنے کے کہ اللہ تو سب کا ہے-
پھر فرماتا ہیکذلک زینا لکل امہ عملھم ۲۶~}~اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں- یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ ان لوگوں کے معبود جھوٹے ہیں اس لئے انہیں برا بھلا کہنے میں کیا حرج ہے- یہ لوگ اب شرک کے عادی ہو چکے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس برے کام کو بھی اچھا سمجھنے لگ گئے ہیں اس لئے اگر تم انہیں گالیاں دو گے تو فتنہ پیدا ہوگا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے-
کیا ہی لطیف نکتہ قیام امن کے متعلق بیان کیا کہ کسی کے بزرگوں اور قابل تعظیم چیزوں کو برا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ اس سے آپس کے بہت سے جھگڑے اور فساد رک سکتے اور بہت اچھے تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں-
‏0] f[st فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب
آٹھویں ظاہری خوبی قرآن کریم میں یہ ہے کہ وہ فحش کلامی اور ہر قسم کی بداخلاقی کی تعلیم سے منزہ ہے- یعنی اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر طبیعت منغض ہو جائے یا شرمائے یا بد اخلاقی معلوم ہو- قرآن کریم ایک شریعت کی کتاب ہے- اور بوجہ شریعت ہونے کے اسے ایسے مضامین پر بھی بحث کرنی پڑتی ہے جو نہایت نازک ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح ان کو بیان کر جاتا ہے کہ جن کو پڑھ کر جو واقف ہے وہ تو سمجھ جائے اور جس کی عمر ابھی سمجھنے کی نہیں اسے خاموش گذار دیا جائے- مثلاً اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر ہے- طہارت اور پاکیزگی کے متعلق احکام بیان ہیں- مگر ان احکام کو ایسی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے کہ بات بھی کہہ دی گئی ہے اور عریاں الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے- لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری کتابوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے شرم آ جاتی ہے- جیسا کہ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۸ میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ایک گندے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے- چونکہ یہاں عورتیں بھی بیٹھی ہیں اس لئے میں اس حوالہ کو نہیں پڑھتا- احباب بائیبل سے اس حوالہ کو خود پڑھ لیں- انجیل میں فحش تو نہیں مگر ایک بات اس میں بھی ایسی ہے جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہے- اور وہ یہ کہ متی باب ۱۲ میں لکھا ہے-
’’جب وہ )مسیح( بھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے- کسی نے اس سے کہا- دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں- اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا- کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی- اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا- دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے‘‘- ۳۷~}~
حضرت مریمؑ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے والی تھیں مخالف نہ تھیں مگر باوجود اس کے انجیل کے بیان کے مطابق آپ نے ان کی پروا نہ کی- لیکن قرآن کہتا ہے- ماں باپ خواہ مخالف ہوں` ان کی عزت و توقیر کرنا تمہارا فرض ہے-
پھر رگوید جلد اول کتاب ۴ دعا ۱۸ میں اندر دیوتا کی پیدائش کا ذکر ان الفاظ میں ہے-
‏hFort ۔passage the is hard forth: I go way this Not undone yet is that Much ۔issue I will obliquely side the from۳۸~}~ ۔accomplish I must
یعنی اندر نے اپنی پیدائش کے وقت کہا- میں ماں کی پسلیوں میں سے نکل کر جائوں گا-
اسی طرح اتھروید جلد اول کتاب ۳ دعا ۲۵ میں عمل حب بتایا گیا ہے- اور کہا گیا ہے کہ اے عورت تو چوری چھپے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر بھاگ چل-
اتھروید جلد اول کتاب ۵ دعا ۲۵ صفحہ۲۲۹-۲۳۰ میں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق ¶نہایت فحش دعا درج ہے- پھر مرد عورت کے تعلقات کا ایسا گندہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کوئی ماں باپ اپنے لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے ایسی کتاب نہیں دے سکتے- لیکن قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ایسی پاک زبان میں ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا-
ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام
نویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے- کہیں چلتے پانیوں سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہیں برستے بادلوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے- کہیں چمکتی بجلی میں خدا تعالیٰ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہیں دفن ہونے والے مردوں کا ذکر کر کے خداتعالیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہیں پیدا ہونے والے بچوں کا حوالہ دیکر قدرت خدا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- کہیں نجاستوں اور گندوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت بتائی گئی ہے- کہیں پاکیزگی کی ترغیب اور تحریص دلانے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے- غرض قرآن پڑھ کر انسانی فطرت بول اٹھتی ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے انسانی قلب کا نقشہ کھینچ رہا ہے- لیکن دوسری کتب میں اس طرح قانون نیچر کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی-
جذبات انسانی سے اپیل
دسویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ انسان کے اعلیٰ جذبات سے اپیل کرتا ہے- انسانی پیدائش کی خوبیاں بتاتا ہے- انسانی طاقتوں اور قوتوں کا ذکر کرتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ ان سے کام لو اور ترقی کرو- اس کے ساتھ ہی یہ بتاتا ہے کہ ان باتوں سے بچو ورنہ ترقی سے محروم رہ جائو گے- یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہر سلیم الفطرت انسان متاثر ہوتا ہے-
غرض ظاہری حسن میں بھی قرآن کریم ایک افضل کتاب ہے اور اس کی عبارت کو پڑھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا- ہاں جو لوگ قصوں کے شیدا ہیں ان پر اس کی عبارت بیشک گراں گذرتی ہے-
قرآن کریم میں تکرار پائے جانے کا اعتراض
قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے میں جواب دے چکا ہوں- اب ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک ایک فقرہ کو بار بار دہراتا ہے- اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دہرانے کا اعتراض قرآن کریم پر عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن خود ان کی الہامی کتابیں اس کی زد میں آتی ہیں- بائیبل میں کئی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں- چاروں اناجیل میں تکرار موجود ہے- وہی بات جو متی کہتا ہے مرقس` لوقا اور یوحنا بھی اسی کو دہراتے ہیں- اسی طرح ہندوئوں کی کتابوں میں تکرار پایا جاتا ہے- مثلاً اتھروید جلد اول کتاب ۲ دعا ۲۷ اور رگ وید جلد اول کتاب اول دعا ۹۶ میں تکرار موجود ہے- اگر تکرار قابل اعتراض بات ہے تو ان پر بھی کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا-
قرن کریم پر یہ اعتراض محض نا سمجھی اور نادانی کی وجہ سے کیا جاتا ہے- میں اسے واضح کرنے کیلئے ایک آیت لے کر اس کا مطلب بیان کر دیتا ہوں-
کہا جاتا ہے کہ سورۃ الرحمن میں فبای الاء ربکما تکذبن ۳۹~}~کا بار بار تکرار ہے اور ایسے موقع پر بھی اسے لایا گیا ہے جہاں اس کا کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا- بلکہ الٹ پڑتا ہے- جیسے کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجال والاکرام ۶۰~}~کے ساتھ فبای الاء ربکما تکذبن آتا ہے- پادری اکبر مسیح نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ کل من علیھا فان کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی فنا ہونے والا ہے اور یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام کے یہ معنی ہیں کہ صرف خدا ہی باقی رہنے والا ہے جو جلال اور اکرام والا ہے- مگر آگے آتا ہے فبای الاء ربکما تکذبن تم خدا کی کون کونسی نعمت کا انکار کرو گے- اب اس موقع پر کس نعمت کا ذکر تھا؟ کہ یہ کہا گیا- کیا مرنا اور فنا ہونا بھی ایک نعمت ہے؟
موت کا فلسفہ
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ فنا بھی انسان کیلئے ایک انعام ہے- جہاں دیگر مذاہب نے فنا کو سزا قرار دیا ہے وہاں قرآن نے اسے انعام ٹھہرایا ہے- چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے- تبرک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیء قدیر- ن الذی خلق الموت والحیوہ لیبلو کم ایکم احسن عملا وھو العزیز الغفور ۴۱~}~یعنی سب برکتوں والا خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور یہ ہر بات پر قادر ہے- وہ برکتوں والا خدا ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا- یہ اس لئے کہ انسانوں کے اعمال کا امتحان لے اور ان کے نیک نتائج پیدا کرے وہ غالب ہے اور غفور ہے-
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لیبلو کم ایکم احسن عملا- پس موت ضروری تھی کیونکہ موت کے بغیر انسانی اعمال کے نتائج پیدا نہیں ہو سکتے تھے- اس لئے کہ زندگی میں ایک انسان جو اچھے عمل کرتا ہے اگر اسے ان کا بدلہ اسی دنیا میں مل جائے اور جو بدیاں کرتا ہے ان کی اسے یہاں ہی سزا دے دی جائے تو پھر کوئی نبیوں کا انکار کیوں کرے- بلکہ فوری جزا سزا کو دیکھ کر سب مان لیں- لیکن انعام مشقت اور محنت کے بعد ملا کرتا ہے- اگر حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ اسی دنیا میں موجود ہوں اور خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد جو درجات انہیں دیئے ہیں وہ اسی دنیا میں مل گئے ہوں تو پھر ان کا کون منکر رہ سکتا ہے- یا فرعون اور ابوجہل اگر کفر کی وجہ سے اسی دنیا میں آگ میں جل رہے ہوتے تو کون انکار کرتا- اس طرح تو ایمان لانے والوں کو کوئی محنت اور کوشش ہی نہ کرنی پڑتی- لیکن انعام محنت اور کوشش کے بعد ہی ملا کرتا ہے- پس ضروری تھا کہ انعام دینے کے لئے ایک اور دنیا ہو اور وہ ان آنکھوں کے سامنے نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے- پس فرمایا خلق الموت والحیوہ لیبلوکم ایکم احسن عملا-حیات کی غرض یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں کام کرے اور موت کی غرض یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کام کرے موت کے بعد ان کے انعام پائے- وھو العزیز الغفور اور خدا غالب اور بخشنے والا ہے وہ انعام بھی دے سکتا ہے اور کمزوریوں کو معاف بھی کر سکتا ہے-
اس آیت میں چونکہ پہلے موت کو رکھا ہے- اس لحاظ سے عزیز کو پہلے رکھا- اور حیات میں چونکہ کمزوریاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں اس کے لئے غفور کی صفت کو رکھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگی جنہیں خدا معاف کر دے گا-
پس یہ تکرار نہیں بلکہ بہت بڑی حکمت کے ماتحت اسے رکھا گیا ہے-
افضلیت کی تیسری وجہ
)۳( افضلیت کی تیسری وجہ ایک الہامی کتاب کے لئے یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے جن کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے- مثلاً اگر ایک چیز پیاس بجھانے کیلئے پی جاتی ہے تو اس کا کام ہے کہ پیاس بجھائے- لیکن چونکہ کتاب مذہب کے متعلق ایک معلم کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ان ضرورتوں کے دو حصے ہو جائیںگے-
اول- ان ضرورتوں کی تشریح کرے جن کو پورا کرنے کا وہ مدعی ہے- کیونکہ ضرورت کا احساس بھی وہی کرتا ہے-
دوم- ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرے-
مذہب کی پانچ ضرورتیں
سو یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کی قرآن کریم سے پانچ ضرورتیں ثابت ہوتی ہیں-
اول-: وجود باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم-
دوم-: انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان اور ان کا ثبوت-
سوم-: ان امور کا بیان جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور امداد کیلئے ضروری ہیں-
چہارم-: انسانی زندگی کے مال کا بیان اور اس کا ثبوت-
پنجم-: مذکورہ بالا امور میں نہ صرف علمی طور پر روشنی بخشنا بلکہ عملاً بھی خدا تعالیٰ سے وصال کرانا اور روحانی طاقتوں کو مکمل کرانا اور حیات اخروی کے فوائد سے بہرہ ور کرانا-
یہ ضرورتیں جو اسلام نے بیان کی ہیں باقی مذاہب بھی اس امر میں اس سے متفق ہیں گو اس مقصد کے پورا کرنے میں قرآن کریم منفرد ہے- کوئی مذہبی کتاب اس بارہ میں اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی- تورات کو شروع سے آخر تک پڑھ جائو` انجیل کو پڑھ جائو` وید کو پڑھ جائو بس یہ معلوم ہوگا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اور اس کی ذات میں کسی شک کی گنجائش نہیں مگر اس کا ثبوت وہ کوئی نہیں دیتیں- اسی طرح اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پا سکتا- پس ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جائے اور پھر اس کے دلائل دیئے جائیں- زیادہ سے زیادہ دوسری کتب نے کوئی ثبوت دیا ہے تو معجزات سے دیا ہے- بیشک اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہو جاتا ہے مگر اس کی ہر صفت ثابت نہیں ہوتی- اگر کوئی کتاب خدا تعالیٰ کو غفور کہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا کے غفور ہونے کا ثبوت بھی پیش کرے- اگر رحیم قرار دیتی ہے تو اس بات کا ثبوت دے کہ وہ رحیم ہے- غرض باقی مذاہب نے اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیاد ہے بالکل مہمل چھوڑ دیا ہے اس کے مقابل پر قرآن کریم کو دیکھو- وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی دیتا ہے- اور نہ صرف اس کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اس کی سب صفات کا ثبوت دیتا ہے- اور اس طرح وہ ایک نیا اصل پیش کرتا ہے- جو یہ ہے کہ جس قدر صفات الٰہیہ بندہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبوت ضروری ہے ورنہ خدا تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہوگا مگر اس کی صفات کا ثبوت نہ ہوگا-
‏sub] gat[ بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کا ثبوت
میں اس وقت اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ھو خالق کل شیء فاعبدوہ وھو علی کل شیء وکیل- لا تدرکہ الا بصار و ھویدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر- ۴۲~}~یعنی یہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب بھی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں- وہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اسی کی تم عبادت کرو- وہ ہر چیز پر نگران ہے- اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری یہ مادی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں نہ تمہاری عقلیں پہنچ سکتی ہیں- یعنی تمہاری آنکھیں اور عقلیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں- ہاں اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ جن کے نتیجہ میں وہ بندہ کے پاس آ جاتا ہے یعنی اپنی صفات کے ظہور کے ذریعہ- کیونکہ وہ نہایت لطیف اور خبیر ہے- غرض ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے- اور لا تدرکہ الابصار کے ثبوت میں بتایا ہے کہ وہ لطیف اور خبیر ہے- وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ان آنکھوں سے دکھا دو` وہ غلط کہتے ہیں- اس لئے کہ جو لطیف چیز ہوتی ہے وہ نظر نہیں آیا کرتی- لطیف کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ نظر نہ آئے- ورنہ جو چیز نظر آ جائے وہ لطیف نہیں کہلا سکتی- پھر خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کس طرح نظر آ سکتا ہے- دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا ہے یا نہیں- سو اس کا ثبوت اس کی صفت خبیر سے مل جاتا ہے- وہ بندہ کی نگہداشت کرتا ہے- اس کی روحانی اور جسمانی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے- کسی کے خبردار ہونے کا آخر کیا ثبوت ہوا کرتا ہے- یہی کہ جس قسم کی ضروریات اسے پیش آئیں ان کا انتظام کرے- مثلاً ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے- اس کے لئے اگر مکان اور مکان میں بستر وغیرہ موجود ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بستر خود بخود آ گیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ میزبان بہت خبردار ہے جس نے پہلے سے ہی بستر کا انتظام کر دیا- اسی طرح مہمان کے آگے کھانا چنا جائے لیکن میزبان خود اس وقت نظر نہ آئے تو کیا یہ کہا جائیگا کہ کھانا خود بخود آ گیا ہے- اگر مہمان کی ضروریات پوری ہوتی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے والا ایک وجود موجود ہے خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے- پس جسمانی اور روحانی ضرورتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری ہوتی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے- اور جب وہ ان ضروریات کے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہے-
خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں
یہاں یہ نہایت عجیب نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں- جس طرح مرد وعورت کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح ان دو صفات کے ملنے سے نتیجہ پیدا ہوتا ہے- مثلاً خبردار رہنا اور ادنیٰ سے ادنیٰ تغیر کو بھی غائب نہ ہونے دینا یہ لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہو سکتا- یعنی ایسی ہستی جو موجودات کے ہر ذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو- اور ایسے اتصال کے لئے لطیف ہونا شرط ہے- پس خبیر کی صفت لطیف کیلئے بمنزلہ جوڑے کے ہے- اور اس کے ذریعہ سے اس کا بھی ظہور ہوتا ہے- یا ان دونوں کا آپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہو تو دوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اور دوسری نہ ہو تو پہلی ثابت نہیں ہوتی- اگر خبیر کی صفت وھو یدرک الابصار ]text1 [tag سے ثابت نہ ہوتی تو لا تدرکہ الابصار بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا- اس کے مقابلہ میں اگر لا تدرکہ الابصار ثابت نہ ہوتا یعنی اس کا لطیف ہونا تو خبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی- کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا وہ خبیر بھی نہیں ہو سکتا- غرض لطیف ہستی وہ ہوتی ہے جو باریک در باریک اور ہر ذرہ میں موجود ہو- اور جو ایسی لطیف ہو وہ نظر کبھی نہیں آ سکتی` ضرور ہے کہ وہ مخفی ہو-
پھر لطیف ہونا خبیر ہونے کا بھی ثبوت ہے- کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک ہستی ہے جو لطیف ہونے کی وجہ سے ہر ذرہ سے تعلق رکھتی ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ خبیر ہے- غرض خدا تعالیٰ کی صفت لطیف اس کے خبیر ہونے پر شاہد ہے- اور خبیر
ہونے کی صفت اس کے لطیف ہونے کی شہادت دے رہی ہے-
خدا تعالیٰ کی صفت رب العلمین کا مادی ثبوت
ایک اور صفت خدا تعالیٰ کا رب العالمین ہونا ہے- اس کے روحانی اور جسمانی دو ثبوت پیش کئے گئے ہیں- جسمانی ثبوت تو یہ دیا کہ فرمایا- اللہ الذی جعل لکم الارض قرارا و السماء بناء وصورکم فاحسن صورکم و رزقکم من الطیبت ذلکم اللہ ربکم فتبرک اللہ رب العلمین- ۴۳~}~
یعنی زمین اور آسمان اور انسان اور اس کی طاقتیں )یعنی ترقی کی قابلیتیں جن سے وہ زمین و آسمان پر حکومت کرتا ہے اور جو رب العلمین پر جو ترقیات کا سرچشمہ ہے شاہد ہیں(- اور اغذیہ وغیرہ جو ان طاقتوں کو قائم رکھتی ہیں- یہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب العلمین ہونے پر دلالت کرتی ہے-
اس سال جب میں کشمیر گیا تو وہاں ایک ایم- اے مجھے ملنے کیلئے آئے- اور کہنے لگے میں خدا کو تو نہیں مانتا لیکن اگر کوئی خدا ہے تو اس نے ہمیں دنیا میں پیدا کر کے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈال دیا- ہم نے کب اس سے کہا تھا کہ ہمیں پیدا کر کے دنیا میں بھیج دو؟ میں نے کہا- اگر دنیا کی زندگی مصیبت ہے اور آپ اس مصیبت سے نکلتا چاہتے ہیں تو یہ کونسی مشکل بات ہے- زہر کھالو اور مر جائو- کہنے لگے یہ بھی تو نہیں ہو سکتا مرنے کو دل نہیں چاہتا- میں نے کہا- اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ آپ دنیا کی زندگی کو اچھا سمجھتے ہیں اور صرف منہ سے اس کی برائی بیان کرتے ہیں-
غرض اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسانوں کے لئے قرار کی جگہ بنایا ہے- ہندو ¶کہتے ہیں- دنیا مصیبت کی جگہ ہے مگر جب بیمار ہوں تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فیس وہی دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے منہ سے جتنا چاہو کہو کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے لیکن یہاں سے تم ہلنا نہیں چاہتے- کیونکہ خدا نے تمہارے لئے اس زمین کو قرار گاہ قرار دیا ہے-
پھر والسماء بناء آسمان بھی تمہاری حفاظت کا موجب ہے- جو چیزیں زمین کے ذریعہ پوری نہ ہو سکتی تھیں ان کو ہم تمہارے لئے آسمان سے نازل کرتے ہیں- کیونکہ آسمان بناء کا موجب ہے- وصورکم پھر اس خدا نے تمہیں شکل دی- فاحسن صورکم- اور بڑی اعلیٰ درجہ کی اور مکمل قابلیتوں والی شکل بنائی- ورزقکم من الطیبت اور تمہارے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں پیدا کی ہیں- اگر چیزیں خراب ہوتیں تو تمہاری قابلیتیں بھی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتیں- مگر ان قابلیتوں کو خرابی سے بچانے کے لئے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے رزق طیب پیدا کیا- فتبرک اللہ رب العلمین- پس اے لوگو! یہ رب العلمین ہے- اگر وہ ]nsk [tag رب العلمین نہ ہوتا اور سورج کوئی اور پیدا کرتا اور زمین کوئی اور پیدا کرتا تو سورج اور زمین کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہوتا- مگر اب دیکھو سورج زمین کی حفاظت کر رہا ہے اور زمین سورج کی- یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا اور وہی رب العلمین ہے-
صورکم میں یہ بھی بتایا ہے کہ بندہ ایسا بنایا گیا ہے کہ باقی سب مخلوق پر حکومت کرتا ہے- یہ جسمانی ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے رب العلمین ہونے کا-
خدا تعالیٰ کے رب العلمین ہونے کا روحانی ثبوت
روحانی ثبوت سورۃ شعراء میں اس طرح دیا کہ بہت سے نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو مختلف اقوام کی طرف آئے تھے فرمایا وانہ لتنزیل رب العلمین- نزل بہ الروح الامین- علی قلبک لتکون من المنذرین- بلسان عربی مبین- وانہ لفی زبرالاولین۴۴~}~ یعنی یہ قرآن رب العلمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کا روحانی ثبوت یہ ہے کہ یہ کلام سب دنیا کو مخاطب کر کے نازل ہوا ہے- جب کہ پہلے کلام صرف مختص القوم اور مختص الزمان تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ثبوت تھے- یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے-
غرض یہ قرآن کسی ایک قوم کی طرف نہیں آیا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ رب العلمین کی صفت کے ماتحت نازل کیا گیا ہے اور تمام دنیا اس کی مخاطب ہے- پھر اس کلام کو روح الامین لے کر نازل ہوا ہے- یعنی پہلے نبیوں کے کلام میں خرابیاں آ گئی تھیں کیونکہ بندوں نے ان کی حفاظت نہ کی- پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے- محفوظ طور پر وہ پہلے کلام آپ پر نازل کئے ہیں- اور چونکہ کلام کے پہنچانے کے لئے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تا کہ پہنچانے میں کوئی نقص نہ رہ جائے اس لئے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے-
غرض بائیبل اور وید وغیرہ کتابیں سب خراب ہو چکی تھیں- مگر خدا تعالیٰ کے پاس اصلی تعلیم محفوظ تھی- چنانچہ اس نے روح الامین کے ذریعہ اس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا تا کہ لوگوں کا جرات کے ساتھ مقابلہ کر سکے یہ کلام عربی زبان میں ہے جو تمام مضامین کو کھول کر بیان کرنے والی ہے- اور اس کے رب العالمین کی طرف سے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ یہ کلام پہلی کتب میں بھی موجود ہے- اس رنگ میں بھی کہ ان کے اصول اس میں پائے جاتے ہیں اور اس رنگ میں بھی کہ ان سب کو اکٹھا کر کے اس میں بیان کر دیا گیا ہے- گویا اس میں تمام غیر مسلم اقوام کی ذہنیت کا خیال رکھا گیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رب العلمین کی طرف سے ہے- اگر یہ رب العلمین کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ ساری دنیا کی فکر کیوں کرتا-
پہلی کتب میں قرآن کریم کی موجودگی کے معنی
مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم کی ساری تعلیم وہی ہے جو پہلی کتابوں میں تھی- بلکہ یہ ہیں کہ پہلی کتابوں کی صحیح تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اور اس سے زائد بھی ہے- پھر پہلی کتب میں اس کلام کی موجودگی سے یہ بھی مراد ہے کہ ان میں ایک کتاب کی پیشگوئی پائی جاتی ہے- اسی طرح تمام صفات الٰہیہ کا قرآن کریم میں مبسوط بیان ہے- مگر اور کتابوں میں اس طرح ذکر نہیں ہے- انجیل میں صرف پانچ سات صفات کا ذکر آتا ہے- تورات میں نسبتاً زیادہ صفات کا ذکر ہے مگر قرآن نے جتنی صفات پیش کی ہیں اتنی تورات نے بھی پیش نہیں کیں- پھر پہلی کتابیں ان صفات کو بطور دلیل پیش نہیں کرتیں بلکہ صرف دعائوں میں ان کا ذکر آ جاتا ہے- حالانکہ ضروری ہے کہ صفات الٰہیہ کا نہ صرف بالاستیعاب ذکر ہو بلکہ ان کے الگ الگ کام اور ان کے ثبوت بھی دیئے جائیں مگر یہ کام صرف قرآن کریم نے کیا ہے-
صفات الٰہیہ کی تشریح بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونی چاہئے
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف صفات کے نام بھی کافی نہیں جب تک ان کے صحیح معنی بھی بیان نہ کئے جائیں- کیونکہ خالی نام صرف شدت محبت کے اظہار کے لئے بھی جمع کئے جا سکتے ہیں جب کہ ان ناموں کے لئے والا ان کی حقیقت سے کچھ بھی واقف نہ ہو- جیسے پیار کے وقت انسان بہت سے نام لے لیتا ہے لیکن ان کی حقیقت کا اسے علم نہیں ہوتا- پس صرف کسی صفت کا ذکر کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک صفت کا ذکر ہو اور پھر اس کی تشریح اور توضیح بھی خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ میں ہو- جیسے گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے تو ساتھ ہی بعض الفاظ کی تشریح بھی کر دیتی ہے کہ فلاں لفظ کے یہ معنی ہیں تا کہ اس میں اختلاف نہ شروع ہو جائے- اسی طرح خدائی کلام کا یہ بھی کام ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرے اور خود ہی ان کی تشریح کرے- چنانچہ دیکھ لو رحمن کا لفظ عربوں میں موجود تھا- اور وہ اسے استعمال کرتے تھے- قرآن کریم میں بھی آتا ہے وقالوا لوشاء الرحمن ماعبدنھم یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر رحمن خدا چاہتا تو ہم اس کے سوا دوسرے معبودوں کی پرستش نہ کرتے- خود مسیلمہ کذاب بھی رحمن یمامہ کہلاتا تھا- لیکن جب رحمن
کے معنوں کو قرآن کریم نے بیان کیا تو وہ حیران رہ گئے- اور چونکہ ان معنوں کے رو سے ان کے مذہب پر زد پڑتی تھی صاف کہہ اٹھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- و اذا قیل لھم اسجدوا للرحمن قالوا وما الرحمن انسجد لما تامرنا و زادھم نفورا جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کی عبادت کرو- تو وہ کہتے ہیں رحمن کون ہے- کیا ہم اس کے آگے سجدہ کریں جس کے آگے سجدہ کرنے کا تو حکم دیتا ہے- اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے- اس کی وجہ کیا تھی- یہی کہ وہ رحمن کے اور معنی کرتے تھے- چنانچہ آگے اللہ تعالیٰ نے اس کے معنی بھی کر دیئے اور بتا دیا کہ ان معنوں میں ہم رحمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں- اور ان معنوں سے رد کرتے ہیں- فرماتا ہے-
تبرک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سرجا و قمرا منیرا وھو الذی جعل الیل والنھار خلیفہ لمن اراد ان یذکر اواراد شکور ۶۱~}~
یعنی رحمن تو وہ ہے جس نے آسمانوں میں بروج بنائے اور ان میں چمکتا ہوا سورج اور نور دینے والا چاند بنایا- اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا- مگر ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا شکر گذار بندے بننا چاہیں- یہاں رحمن کی تشریح کر دی- اور مطلب بیان کر دیا کہ رحمن سے مراد خدا تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو انسان کے عمل سے بھی پہلے اس کے لئے کام شروع کر دیتی ہے- چنانچہ بتایا- دیکھو ہم نے چاند اور سورج کو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے بنایا- اور پھر اس کی ضرورت بھی بیان کر دی- اور وہ یہ کہ انسان کو عمل کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت ہے- اگر اسباب نہ ہوں تو وہ عمل کس طرح کر سکے- مثلاً بڑھئی ہو لیکن لکڑی نہ ہو تو وہ کیا کر سکتا ہے- پس ضروری تھا کہ انسان پر اس کے اعمال شروع کرنے سے قبل انعام ہوتا- اور انعام کے طور پر اس کے لئے اسباب مہیا کئے جاتے تا کہ وہ عمل کر سکتا- پس یہ کہنا غلط ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے عمل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے- کیونکہ عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک پہلے کچھ انعام نہ ہو- پھر یہ وجہ بتائی کہ رحمانیت کی ضرورت انسان کے شکور بننے کے لئے ہے- شکور کے لئے عمل کی شرط ہے- اور عمل بغیر رحمانیت کے نہیں ہو سکتا- اگر اس کی یہ صفت نہ ہوتی اور وہ بلامزد انعام نہ کرتا تو انسان اپنے پیدا کرنے والے کا شکر بھی ادا نہ کر سکتا اور ایک بلا عمل ہستی رہ جاتا-
شکور کے لفظ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے کے لئے قلب میں شکریہ کے احساسات کا پیدا ہونا ضروری ہے- اور یہ احساسات بغیر رحمانیت کی صفت کے پیدا نہیں ہو سکتے-
اسی طرح اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ رحمانیت کے بغیر وہ اعلیٰ محرک عمل جو بے نفسی کا موجب ہوتا ہے پیدا نہ ہو سکتا- کیونکہ سب کچھ نتیجہ عمل میں ملتا تو ہر عمل لالچ کی وجہ سے ہوتا- مگر چونکہ احسان موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر اس کے عمل کرنے کے قابل بننے سے پہلے نعمتیں نازل کی ہیں- اس لئے اعلیٰ انسان اپنے اعمال کو طلب صلہ کی بجائے شکر ماضی کے ماتحت لے آتا ہے- اور وہ خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے- نہ اس لئے کہ اب اسے کچھ ملے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پہلے احسانات کا شکر ادا کرے- اس طرح مومن کے دل میں لالچ اور طمع کو نکال دیا اور محض خدا تعالیٰ کی شکر گذاری کا جذبہ اس میں پیدا کیا-
غرض تکمیل صفات اور دلائل صرف قرآن کریم نے دیئے ہیں- باقی کتب صرف دعا میں بطور ایک ٹونے کے خدا تعالیٰ کے اسماء کو استعمال کرتی ہیں اور وہ ذرہ بھر بھی متشابہ صفات کے فرق اور ان کے دلائل پر روشنی نہیں ڈالتیں-
انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان
دوسرا امر جس کا بیان ایک الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان ہے- اس مضمون پر بھی قرآن کریم نے بلکہ صرف قرآن کریم نے ہی روشنی ڈالی ہے دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی- یا تو اس لئے کہ جس وقت وہ نازل ہوئیں اس وقت اس قدر روحانی ارتقاء نہ تھا- یا پھر ان کے بگاڑ کے زمانہ میں جو بھی تعلیم ان میں تھی وہ ضائع ہو گئی- مگر قرآن کریم کو دیکھو اس میں ایک اعلیٰ طریق سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے-
‏a10.8
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۲(
ویسئلونک عن الروح کی لطیف تفسیر
خدا تعالیٰ فرماتا ہے-: ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا- ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا- الا رحمہ من ربک ان فضلہ کان علیک کبیرا- قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا- ولقد صرفنا للناس فی ھذا القران من کل مثل فابی اکثر الناس الا کفورا-۴۸~}~
ان آیات سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے- اس کے بعد فرماتا ہے- ویسئلونک عن الروح کچھ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح اپنے اندر یہ ذاتی قابلیت رکھتی ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا کلام نکلنے لگ جاتا ہے- یہاں سوال نقل نہیں کیا گیا- اس لئے اس موقع کے لحاظ سے جتنے سوال کے پہلو نکل سکتے ہوں وہ سب جائز ہونگے- ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کو کس طرح پیدا کیا گیا ہے دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح میں کیا کیا طاقتیں رکھی گئی ہیں- تیسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کا انجام کیا ہو گا؟ خداتعالیٰ فرماتا ہے- قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا- روح مادیات سے بالا ہے اس لئے یہ تمہارے تصرف میں نہیں آسکتی- اس کی پیدائش اس کا قیام اور اس کاانجام سب اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ خود روح کو پیدا کرنے والا ہے- اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ روح آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے- فرمایا جب تک خدا کا کلام روح کو حاصل نہ ہو وہ کوئی کمال ظاہر نہیں کر سکتی- پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روح فنا کیوں نہیں ہوتی؟ ان کے متعلق فرمایا کہ زندہ رکھنے والا جو موجود ہے تو فنا کیوں ہو- جیسے آگ جلانے والا جب تک آگ میں لکڑیاں ڈالتا جائے گا وہ نہیں بجھے گی- غرض نہ یہ سوال درست ہے کہ روح ہمیشہ کس طرح رہے گی اور نہ یہ کہ اگر زندہ رہے گی تو حادث نہیں ہے کیونکہ اس کی زندگی خدائی اذن سے ہے نہ کہ اپنی ذاتی قابلیت کی وجہ سے- بہر حال روح کی پیدائش بھی امر یعنی کن کہنے سے ہے اور اس کی ترقی بھی امر یعنی کلام الٰہی سے ہے اور اس کا ابدی قیام بھی امر یعنی قضاء الٰہی سے وابستہ ہے-
پھر فرمایا کہ انسانی روح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اور آپ ہی تعلیم بیان کر سکتی ہے مگر یہ غلط ہے وما اوتیتم من العلم الا قلیلا روح کے متعلق جو انسانی معلومات ہیں وہ نہایت ناقص اور ناتمام ہیں جس طرح اور غیر مادی اشیاء مثلاً ذات باری یا ملائکہ کے متعلق اس کے معلومات ناقص ہیں- اس کے لئے خدا تعالیٰ کا الہام ضروری ہے جس کے امر سے یہ سب کچھ ہے- اسی طرح اس کی مخفی طاقتوں کا ابھارنا بھی امر پر ہی منحصر ہے- تم خود اپنے طور پر اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے-
یہ سوال اس زمانہ میں بڑے زور سے پیدا ہو رہا ہے کہ انسان یا تو خود روحانیت میں کمال پیدا کر کے روحانی تعلیم بنا سکتا ہے یا پھر دوسری روحوں سے تعلق پیدا کر کے ان کی امداد سے ایسی تعلیم ایجاد کر سکتا ہے- اس وہم میں اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگ مبتلا نظر آتے ہیں کہ روحیں انسان کو روحانیت کا اعلیٰ رستہ بتا دیتی ہیں- ان کا خیال ہے کہ انسانی روح میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ مردوں کی روحیں پوری کر دیتی ہیں- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا خیال ہے کہ تم خود روحانی طاقتوں کو ترقی دیکر اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیم بنا سکتے ہو- اسی طرح تمہارا خیال ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی آپ یہ کتاب بنا لی ہے اس پر خدا کی طرف سے الہام نازل نہیں ہوا- اس کی اپنی روحانی طاقت اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس سے خود بخود ایسی باتیں صادر ہونے لگ گئیں- مگر یہ درست نہیں کیونکہ انسانی طاقتیں اتنی نہیں ہیں کہ ایسا کلام بنا سکیں- انسانی عقل کا اپنے آپ روحانی رستہ تجویز کرنا تو الگ رہا ولئن شئنا لنذ ھبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا- اگر یہ قرآن جو نازل شدہ ہے اسی کو ہم تمہاری نظر سے اوجھل کر دیں تب بھی تم اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دے کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے- یعنی اگر ہم یہ بنی بنائی تعلیم ہی دنیا سے غائب کر دیں تو پھر بھی انسان اس جیسی تعلیم نہیں بنا سکتے-
کہا جا سکتا تھا کہ یہ قرآن کا محض ایک دعویٰ ہے کہ اگر قرآن کریم کی تعلیم غائب ہو جائے تو انسان اس جیسی تعلیم نہیں لا سکتے- اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ ثبوت بھی اللہ تعالیٰ نے پیش کر دیا ہے- چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا- اس کی تحریر تو رہ جائے گی مگر تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوں گے- چنانچہ جب ایسا زمانہ آیا تو نہایت ہی لغو باتیں اسلام اور قرآن کی طرف منسوب ہونے لگ گئیں- اور اس کی بے نظیر اخلاقی اور روحانی تعلیم پر پردہ پڑ گیا-
اس کے بعد فرماتا ہے الا رحمہ من ربک سوائے اس کے کہ تیرے رب کی خاصرحمت اسے دنیا میں پھر واپس لے آئے اور کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہو گی- چنانچہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کی طرف لمبا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ دوبارہ قرآن کریم کا دنیا میں نزول ہوا- اب دیکھ لو- وہی قرآن ہے جو پہلے تھا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیسے کیسے معارف اور حقائق نکل رہے ہیں اور کس طرح قرآن ساری دنیا پر غالب آ رہا ہے- درحقیقت اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ قرآن اس وقت دنیا سے اٹھ جائے گا- مگر پھر خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کے ذریعہ اسے زمین پر قائم کر دیا جائے گا-
سپر چولزم اور ہپناٹزم والوں کو چیلنج
پھر فرماتا ہے قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا- تو ان لوگوں سے کہدے کہ اگر جنوانس بھی مل جائیں تب بھی وہ اس قرآن کی مثل یعنی روحانی ترقیات کا راستہ بتانے والی تعلیم لانے سے قاصر رہیں گے- یہاں جن سے مراد وہ جن نہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں- ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لو بیہودہ بات ہے- یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کہا جائے کہ تم خواہ فلاں درخت سے مدد لے لو یا فلاں بھیڑ سے امداد حاصل کر لو تو بھی فلاں شاعر جیسے شعر نہیں کہہ سکتے- جس طرح یہ بات لغو ہے اسی طرح ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان سے مدد لے لو لغو بات ہے پس یہاں جن سے مراد کوئی اور وجود نہیں ہیں- بلکہ وہ وجود مخفیہ ہیں جن کا نام سپرچولزم والے ارواح اور ہپنوٹزم والے قوائے روحانیہ رکھتے ہیں- چونکہ یہ نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو جن کہا گیا ہے-
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی عقلمند کا دعویٰ نہیں تھا کہ جنات سے مل کر وہ اعلیٰ روحانی تعلیم بنا سکتا ہے- پس جس چیز کا دعویٰ ہی نہیں تھا اور جس اجتماع کا امکان ہی نہیں تھا اس کا چیلنج عقل کے خلاف ہے- پس اس جگہ جن سے مراد وہ روحانی افعال ہیں جو )سبجیکٹو مائنڈ( (SUBJECTIVEMIND)سے ظاہر ہوتے ہیں یا وہ اتحاد ہے جو بقول بعض ارواح غیر مرئی سے انسانوں کا ہو جاتا ہے اور ان سے وہ بعض روحانی علوم دریافت کر لیتے ہیں-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بھی مدد لے لو وہ بھی تمہاری مدد کریں تب بھی تم اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے- پس یہاں جن سے مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئے روحانی علوم معلوم کر سکتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان سے بھی مدد لے لو اور قرآن کی مثل بنا دو- پھر تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ بغیر کلام الہی کے کام چل سکتا ہے یا نہیں- چنانچہ دیکھو لو یہ کس قدر زبردست معجزہ قرآن کریم کا ہے کہ وہی زمانہ جس کے متعلق احادیث نبویہﷺ~ سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے اٹھنے کا ہے- اور جس زمانہ میں رحمہ ربی سے دوبارہ قرآن آنے کا ذکر ہے- اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہیں جو ارواح سے مل کر حقائق روحانیہ کے دریافت کرنے کے مدعی ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اگر ارواح کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ آپ ہی آپ اپنی ترقی کے ذریعہ علوم کو معلوم کر لیں تو وہ قرآن کی مانند کوئی تعلیم پیش کر کے دکھائیں-
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثل میں کن کن امور کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے- سو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولقد صرفنا للناس فی ھذا القران من کل مثل فابی اکثر الناس الاکفورا- ہم نے قرآن میں دو خوبیاں رکھی ہیں- ان کی مثال روحوں سے تعلق رکھنے والے اور خود روحانیات میں ترقی کرنے کا دعویٰ کرنے والے پیش کریں- ایک تو یہ کہ ہر ضروری امر جس کی روح کو ضرورت ہے قرآن کے اندر بیان کر دیا گیا ہے- دوسرے ہر ضروری امر کی ہر ضروری شق بیان کر دی گئی ہے- یعنی مختلف متفاوت فطرتوں کا اس میں پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور ہر حکم ایسے رنگ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب کے لئے کارآمد ہو- یہاں فلسفیوں اور سپرچولزم والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم ایسی کتاب بنا کر دکھائو جس میں وہ ساری باتیں آ جائیں جن کی تکمیل روحانیت کے لئے ضرورت ہے اور پھر اس کتاب میں ایسی تعلیم ہو جس میں ساری فطرتوں کا لحاظ رکھا گیا ہو- ایسی باتوں کی وہ کوئی مثال نہیں لا سکتے- یہ لوگ بہت مدت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکے اور نہ آئندہ کر سکیں گے- اول تو وہ قرآن جیسی جامع تعلیم ہی نہیں پیش کر سکتے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ پیش کریں گے تو یا تو وہ قرآن کے مطابق ہوگی اور یا پھر قرآن کے خلاف- اگر قرآن کے مطابق ہوگی تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن موجود ہے- اور اگر قرآن کے خلاف ہوگی تو اس کا رد قرآن میں موجود ہوگا- گویا کوئی کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کا مقابلہ کر سکے- کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی ہے جو روحانی امور کے متعلق ایسا عظیم الشان دعویٰ پیش کر سکتی ہو؟
فطرت انسانی کی روحانی طاقتوں کا اظہار کلام الہی کے بغیر نہیں ہو سکتا
اب ایک اورسوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر روح کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کو کس طرح سمجھ سکتی ہے- یہ بات ایک اور آیت سے حل ہو جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روحانی طاقتوں کو فطرت انسانی سے بھی وابستہ قرار دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ روح میں بھی کلام الہی موجود ہوتا ہے مگر مخفی طور پر- اور وہ اپنے ظہور کیلئے بیرونی کلام الہی کا محتاج ہوتا ہے- پس تھوڑا علم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ فطرت انسانی کو روحانی طاقتوں سے لگائو نہیں- لگائو ہے مگر ان طاقتوں کا ظہور سوائے کلام الہی کے نہیں ہو سکتا- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انہ لقران کریم- فی کتاب مکنون ۴۹~}~یعنی قرآن کریم میں جو تعلیمات ہیں وہ فطرت انسانی میں جو مظہرروح ہے موجود ہیں- کیونکہ انسان اسی شئے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس کے اندر بھی موجود ہو- غیر جنس اسے نفع نہیں دے سکتی- جیسے اگر کان نہ ہوں تو سننا ناممکن ہے اور آنکھیں نہ ہوں تو دیکھنا ناممکن ہے- یا اس کی مثال پانی کی سی ہے کہ جب اوپر سے پانی برستا ہے تو چشمے بھی جاری ہو جاتے ہیں اور اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو چشمے بھی خشک ہو جاتے ہیں- اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی وحی کا پانی نازل ہوتا ہے تو روح انسانی سے بھی روحانی پانی ابلنے لگتا ہے- کیونکہ الہی کلام اور انسانیفطرت یک دوسرے کیلئے بطور جوڑے کے ہیں- ایک لفظوں میں کتاب الہی ہوتی ہے اور دوسریفطرت میں مرکوز ہوتی ہے- اور وہی کتاب الہامی ہو سکتی ہے- جو انسانی فطرت کے مطابق ہو پس انسانی فطرت میں بھی کلام الہی ہوتا ہے- مگر اسے ابھارنے کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی ہے خداتعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے کلام کا ایک حصہ انسان کے دماغ میں رکھ دیا اور دوسرا حصہ اس نے اپنے نبی کو دے کر بھیج دیا- جب یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں تو اسے خداکی طرف سے سمجھ لیا جاتا ہے-
سفر ولایت کے ایام کا ایک واقعہ
اس موقع پر میں ایک لطیفہ سناتا ہوں- جب میں ولایت سے واپس آیا تو جس جہاز پر ہم سوار ہوئے اس کا چیفانجینئر ایک دن جہاز کی مشینری دکھانے کیلئے مجھے لے گیا- اور دکھانے کے بعد کہنے لگا کہ آپ اپنے سیکرٹریوں کو واپس بھیج دیں- میں آپ کے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا ہوں- میں نے کہا بہت اچھا- میں نے ساتھیوں کو بھیج دیا- جب وہ چلے گئے تو کہنے لگا- آپ کے پاس مختلف ممالک کے خطوط آتے ہونگے- اگر آپ مجھے ان خطوط کے ٹکٹ بھجوا دیا کریں تو میں بہت ممنون ہونگا- میں نے کہا اچھا اگر کوئی غیر معمولی ٹکٹ ملا تو بھیج دیا کروں گا- کہنے لگا میں بھی آپ کی خدمت کروں گا- آپ مجھ پر اعتبار کریں اور مجھ سے کام لیں- پھر کہنے لگا- آپ جس غرض کیلئے ولایت گئے تھے وہ مجھے معلوم ہے اور وہ یہی ہے کہ آپ نے حکومت کے خلاف وہاں مشنری رکھے ہوئے ہیں انہیں آپ مخفی ہدایات دینے گئے تھے- اب آپ جو مخفی تحریریں بھیجنا چاہیں وہ میں لے جایا کروں گا- آپ اس طرح کریں کہ کارڈ کا ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنریوں کو دیں اور دوسرے میرے ذریعہ بھیجیں- جب دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے ساتھ فٹ (FIT) ہو جایا کریں گے تو آپ کے مشنری سمجھ لیں گے کہ آپ نے جو ہدایات ان کو بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں- اس طرح وہ آپ کی ہدایت پہچان لیا کریں گے- اس کا یہ قیاس تو غلط تھا اور میں نے اس کی تردید بھی کی اور کہا کہ ہم اپنی حکومت کے وفادار ہیں- مگر جس طرح اس نے کہا تھا کہ ایک ٹکڑا آپ اپنے مشنری کو دے دیں اور دوسرا ٹکڑا مجھے بھجوا دیں جب وہ دونوں ٹکڑے مل جائیں گے تو مشنری سمجھ لے گا کہ آپ نے جو ہدایات بھیجی ہیں وہ اصلی ہیں- یہی حالت انسان کی روحانیت کے متعلق ہوتی ہے- ایک ٹکڑا کلام الہی کا انسان کے دماغ میں ہوتا ہے اور دوسرا ٹکڑا نبی کے پاس ہوتا ہے جب وہ دونوں فٹ ہو جاتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر فٹ نہ ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کلام پیش کرنے والا دھوکا باز ہے-
کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد
غرض روحانی ترقیات کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہی تعلیم نازل ہو جو روحانی قابلیتوں کے مشابہ ہو- پس اس طرح ایک رنگ میں کلام الہی انسانی دماغ میں بھی موجود ہوتا ہے- لیکن وہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا ابھارنا ایک کتاب واضح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے- چنانچہ قرآن کریم کا نام اسی جہت سے کتاب مبین آیا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- قدجاء کم من اللہ نور و کتب مبین ۵۰~}~اے لوگو! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آ چکی ہے اس سے فائدہ اٹھائو-
پس روحانی قابلیتیں بمنزلہ زمین کے پانی کے ہیں جو آسمانی پانی کے قرب کے ساتھ اونچا ہوتا ہے- اور جس طرح بارش نہ ہونے پر کنوئوں کے پانی سوکھنے لگتے ہیں اسی طرح الہام کے نازل نہ ہونے پر فطرت کا سرچشمہ خشک ہونے لگتا ہے- پس باوجود اس کے کہ فطرت میں کلام مخفی طور پر موجود ہے وہ آسمانی کی پانی عدم موجودگی میں گدلا اور خراب ہو جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہو سکتا- ہاں جب آسمانی پانی نازل ہو تو دونوں ایک دوسرے پر گواہ ہوتے ہیں- آسمانی پانی فطرت کے پانی کی صفائی کی گواہی دیتا ہے اور فطرت کا پانی آسمانی پانی کی صفائی پر گواہی دیتا ہے- گویا وہ ایک چیز کے دو ٹکڑے ہیں کہ دونوں مل کر ایک وجود پورا ہوتا ہے- اور اللہ تعالیٰ نے ایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں اس لئے رکھا ہے کہ جب آسمانی پانی نازل ہو تو فطرت صحیحہ اس کے لئے بطور شاہد ہو- پس کتاب مبین اور کتاب مکنون کا اتحاد کتاب مبین اور کتاب مکنون دونوں کی سچائی پر شاہد ہوتا ہے- اور دھوکے بازوں کے دھوکا سے بچاتا ہے اور ان میں آپس میں ایسا ربط ہے کہ جب ایک قریب ہو تو دوسری خود بخود قریب ہونے لگتی ہے- الہام ہو تو فطرت ابھرنے لگتی ہے جیسا کہ سورۃ انعام میں بطور کلام الہی کی تمثیل کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وھوالذی انزل منالسماء ماء فاخرجنا بہ نبات کل شیء ۵۱~}~یعنی الہی کلام کی مثال پانی کی طرح ہے- جس طرح پانی نازل ہونے سے سبزیاں اگنے لگتی ہیں اسی طرح کلام الہی کے نازل ہونے سے ہر قسم کی قابلیتوں میں ابھار شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اپنے جوہر کو ظاہر کرنے لگتی ہیں- اسی طرح فطرت کے ابھرنے سے بھی کلام الٰہیہ کھچ آتا ہے- جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
اللہ نور السموت والارض مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری یوقد من شجرہ مبارکہ زیتونہ لاشرقیہ ولا غربیہ یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء و یضرب اللہ الامثال للناس واللہ بکل شیء علیم-
اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مثل نورہ کمشکوہ فیھا مصباح المصباح فی زجاجہ الزجاجہ کانھا کوکب دری اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں لیمپ ہو اور لیمپ چمکدار گلوب میں ہو جو ستارہ کی طرح چمکے- جس کی وجہ سے اس کی روشنی کا فوکس فائدہ اٹھانے والوں پر پڑ رہا ہو- یوقد من شجرہ مبرکہ زیتونہ اور اس میں اعلیٰ درجہ کا مصفیٰ تیل زیتون کے مبارک شجر کا ہو- لاشریقہ ولاغربیہ اور وہ شجر ایسا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی- یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار- ایسا تیل اپنی اعلیٰ درجہ کی صفائی کی وجہ سے قریب ہو کہ بغیر آگ کے آپ ہی آپ روشن ہو جائے- نور علی نور اس لئے کہ جب اس تیل یعنی فطرت صحیحہ میں ایسی جلا پیدا ہو جائے تو اللہتعالیٰ کا نور جو اس فطرتی نور کو روشن کر دینے کی وجہ سے نار سے مشابہ بھی ہے نازل ہو جاتا ہے اور آسمانی نور زمینی نور سے آکر مل جاتاہے-
اب دیکھو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ فطرت کا نور جب کامل جلا پا جائے اور ایسا مصفیٰ ہو جائے کہ گویا خود ہی جل اٹھنے والا ہو تو اس وقت وہ آسمانی نور کو جذب کر لیتا ہے یعنی مورد الہام ہو جاتا ہے- پس یہ کہنا کہ کامل اور مصفیٰ دماغ آپ ہی تعلیم کو معلوم کرے گا درست نہیں- اگر وہ کامل ہے تو الہام خود بخود اس پر نازل ہوگا- اور اگر وہ ناقص ہے تو پھر تعلیم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا-
غرض اس آیت میں روحانی طاقتوں اور ان کے ارتقاء کے مسئلہ پر سیر کن بحث کی گئی ہے- جس پر عقل اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں- اور یہ بحث دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں مل سکتی-
آگے بتایا کہ یہ نور کہاں ہے؟ فرماتا ہے- فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھااسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال2] f[st۵۲~}~ یہ نور ایسے گھروں میں ہے جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے گا اور حکومت دی جائے گی- گویا نور سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں دنیا کا بادشاہ بنا دیا جائے گا-
پس بے شک انسانی فطرت میں بھی نور ہے اور وہ خدا کے نور کے مشابہ ہے مگر قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک فطرت جلا پا جائے یعنی اس قدر مکمل ہو جائے کہ الہام پانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے تو آسمان سے الہام اس پر نازل ہوتا ہے گویا انسانی فطرت صحیحہ الہام کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی- جب فطرت کامل ہو جائے تو ضرور ہے کہ الہام نازل ہو- لیکن اگر الہام نازل نہیں ہوتا تو فطرت کامل نہیں ہوگی- پس بغیر الہام الہی کے کام نہیں کیا جا سکتا-
روحانی طاقتوں کی تکمیل کیلئے کامل تعلیم
)۳( تیسری چیز جس کا بیان کرنا ایک مذہب کیلئے نہایت ضروری ہے- وہ ان امور کا بیان کرنا ہے جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور ان کی امداد کیلئے ضروری ہیں- یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس میں شریعت کے تمام احکام آ سکتے ہیں- اور مذہب کے تمام اصول اور جزئیات پر بھی اس میں بحث ہو سکتی ہے- کیونکہ ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ روحانی طاقتوں کا ارتقاء ہو- لیکن چونکہ اس لیکچر کے یہ مناسب حال نہیں اس لئے میں اختصاراً اس کے متعلق صرف ایک ریویو کر دیتا ہوں کہ اسلام چونکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ )۱(روح انسانی جسمانی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی- جیسے فرمایا یایھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا ۵۳text1]~}~ g[ta
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو- یعنی طیبات کے کھانے سے نیک اعمال کی توفیق عطا ہوتی ہے- اس لئے وہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کو ایک حد تک انسان کی غذائوں اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں اور اس کی قوت حاسہ پر بھی حد بندی کرنی چاہئے تا کہ معدہ اور حواس کے ذریعہ سے دماغ اور دل پر بد اثرات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ نہ ہو اور اس نے اس کے متعلق دو اصول مقرر کئے ہیں-
اول ضروری اور اصولی امور اس نے خود بتا دیئے ہیں اور ہر مسئلہ کے متعلق تفصیلی احکام دیئے ہیں مگر باوجود اس کے )۲(اس نے تسلیم کیا ہے کہ بعض امور میں انسان کی بدلنے والی ضرورتیں یا مختلف ممالک کے لوگوں کیلئے بدلتے رہنے والے قوانین کی بھی ضرورت ہوگی- کیونکہ زمانہ کے تغیرات کے لحاظ سے ایسی ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں جن کے متعلق اپنے طور پر قوانین بنانے پڑیں- چنانچہ اس کے لئے وہ یہ قاعدہ مقرر فرماتا ہے کہ یایھا الذین امنوا لاتسلوا عن اشیاء ان تبد لکم تسو کم- وان تسئلوا عنھا حین ینزل القران تبدلکم عفا اللہ عنھا واللہ غفور حلیم-۵۴text]~}~ [tagفرمایا- اے مومنو! تم آپ ہی آپ یہ سوال نہ کیا کرو کہ ہم فلاں کام کس طرح کریں اور فلاں کس طرح- کیونکہ بعض باتیں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اس حکمت کے ماتحت چھوڑ دی ہیں کہ اگر انہیں بیان کر دیا جائے تو وہ تمہارے لئے دائمی طور پر مقرر ہو جائیں گی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ ان میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہے گی- پس دوسرا اصل قرآن کریم نے یہ بتایا کہ کامل تعلیم کے بعد بھی بعض ہدایتوں میں وقتی طور پر تغیر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے- ان کو قرآن نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے- اور فیصلہ کرنے کا یہ طریق بتا دیا ہے کہ امرھم شوری بینھم ۵۵~}~یعنی مومنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ قومی معاملات کو باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں- پس اسلام میں یہ نہیں کہ ہر فرد اپنی اپنی رائے پر چلے بلکہ مشورہ کرنے کے بعد جو بات طے ہو اس پر چلنا چاہئے- مگر باوجود ان باتوں کے چونکہ انسان پھر بھی غلطی کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کیلئے بعض غیبی سامان بھی مہیا کئے ہیں- اور وہ یہ ہیں کہ اس نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ انسان کو نیکی کے رستہ پر چلاتے رہیں- چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ ۵۶~}~یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی ملائکہ کی ایک جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کر رہی ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کیلئے شریعت نازل کی اور اسے تفصیلی ہدایات دیں- مگر پھر بھی انسان چونکہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی حفاظت پر ملائکہ لگا دیئے گئے ملائکہ کے ایسے اعمال کے متعلق باقی کتب خاموش ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ باقی کتب نے ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کی ہی نہیں- بلکہ ایسے رنگ میں بحث کی ہے کہ ایک طبقہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے لگ گیا- دنیا اس امر پر ہنستی ہے مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں سے ایک احسان ملائکہ کا وجود ہے مگر یہ موقع اس پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے-
روحانی نتائج کا اظہار
)۳(تیسرا اصل یہ بتایا کہ چونکہ انسان اگر ایک ہی رنگ میں کام کرتا چلا جائے اور اس کے نتائج نہ دیکھے تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے- اس لئے نتائج کے اظہار کا بھی کوئی طریق ہونا چاہئے- سکولوں میں طلباء کا امتحان لینے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ نتائج دیکھ کر ان کی ہمت بڑھے اور وہ تعلیم میں ترقی کریں- اسی رنگ میں خدا تعالیٰ نے روحانی نتائج کے اظہار کے لئے بھی ایک طریقہ بیان فرما دیا- چناچہ فرمایا ادعونی استجبلکم ۵۷~}~تممجھے ساتھ کے ساتھ بلائو میں تمہاری پکار سنوں گا-
غیر مذاہب کا بے اصولا پن
اب یہ تینوں باتیں اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں بھی ملیں گی تو سہی مگر بے اصولے طور پر- مثلاً )۱(وہ مذاہب جو احکام دیتے ہیں ان کی حکمت نہیں بتاتے- )۲(احکام تو دیتے ہیں مگر ایسے کہ جو انسانی حریت کو کچلنے والے ہیں- )۳(دوسری کتابیں بعض احکام تو بیان کرتی ہیں لیکن بے جوڑ- یعنی وہ نہ تو یہ بتاتی ہیں کہ جو احکام وہ بیان کرتی ہیں انہیں کیوں بیان کرتی ہیں اور نہ یہ بتاتی ہیں کہ جن کو نہیں بیان کرتیں انہیں کیوں چھوڑتی ہیں- دانستہ چھوڑا گیا ہے یا نادانستہ- جیسے وید ہیں کہ بڑے بڑے اہم امور کے متعلق کچھ بیان نہیں- حتیٰ کہ قصاص اور عفو اور محرمات تک کے متعلق بھی کوئی حکم نہیں- انجیل نے تو غضب کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شریعت کو *** قرار دیتی ہے اور دوسری طرف احکام بھی دیتی ہے- حالانکہ اگر یہ درست ہے کہ شریعت *** ہے تو چاہئے تھا کہ انجیل میں کوئی بھی حکم نہ ہوتا- مگر حکم ہیں- جیسا کہ متی باب۵ آیت ۳۲ میں آتا ہے-:
پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے- وہ اس سے زنا کراتا ہے- اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتاہے- ۵۸~}~
اگر شریعت *** ہے تو معلوم نہیں اس *** سے لوگوں کو کیوں حصہ دیا گیا ہے- اور اگر کہو کہ شریعت *** نہیں بلکہ رحمت ہے تو باقی ضروری باتیں کیوں چھوڑ دی گئیں- وہ بھی بتا دی جاتیں- غرض ان مذاہب نے ایک بے جوڑ سی بات کر دی ہے- کہیں کوئی بات چھوڑ دی اور یہ نہ بتایا کہ جن احکام پر خاموشی اختیار کی ہے ان پر خاموشی کیوں اختیار کی ہے اور کہیں بیان کر دی اور اس کی حکمت نہ بتائی- مگر قرآن اصولی بات کہتا ہے- جو حکم دیتا ہے اس کی حکمت بتاتا ہے- اور جن احکام کو اس نے چھوڑا ہے ان کی وجہ بھی بیان کر دی ہے مگر دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی- ویدوں میں بہن بھائی کی شادی کی کہیں ممانعت نہیں ہے- لیکن ویدوں کے ماننے والے اسے ناجائز قرار دیتے ہیں-
قرآنی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک واضح ثبوت
میں ان روحانی ہدایت ناموں کی پرکھ کے متعلق ایک موٹا نسخہ بتاتا ہوں- ہر ایک کتاب جو قرآن کریم کے سوا ہے اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ ضرور ایسے مسائل نکلیں گے کہ جن پر عمل کرنے کو اخلاقی برائی سمجھا جائے گا- لیکن ان کی ممانعت اس کتاب میں نہیں ملے گی- اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی امر ایسا نہیں جس پر عمل اخلاقی برائی سمجھا جائے اور اس سے اسلام نے نہ روکا ہو- یا اس کے متعلق خاص طریق عمل کا ارشاد نہ کیا ہو- یہ مختصر گر اس کی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک اہم ثبوت ہے-
عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
)۴(چوتھا امر جس کے متعلق ہدایت دینا مذہب کا اہم فرض ہے وہ معاد کے متعلق ہے یعنی وہ بتائے کہ مرنے کے بعد انسان کی کیا حالت ہوگی؟ اسلام اس بارہ میں بھی مفصل بحث کرتا ہے- جسے اس موقع پر تفصیلاً تو بیان نہیں کیا جا سکتا- لیکن دو آیتیں اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- افحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون- ۵۹~}~یعنی کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری پیدائش عبث اور فضول ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف نہیں آئو گے- یہ آیت زمین اور آسمان کی پیدائش اور احیاء اور اماتت اور اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے ذکر کے بعد آئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان میں ہم نے کتنی طاقتیں رکھی ہیں- کس طرح زمین اور آسمانوں کو اس کے لئے مسخر کیا- اس کے لئے چاند اور سورج پیدا کئے- ان کے اثرات رکھے- پھر انسان کے اندر قابلیتیں ودیعت کیں- کیا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور مر کر ختم ہو جائے` یہ کبھی نہیں ہو سکتا- انسان کے لئے بہرحال ایک اور زندگی ہونی چاہئے جس میں وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہو اور جو اس کی پیدائش کی غرض کو تکمیل تک پہنچانے والی ہو-
پھر سورۃ قیامت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- لا اقسم بیوم القیمہ- ولا اقسم بالنفس اللوامہ ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ- ۶۰~}~یعنی میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں- اس پر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی دلیل دینی تھی اسی کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے- مگر ذرا آگے پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے- اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے- کیونکہ نبی کی بعثت بھی ایک قیامت ہوتی ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے- یسئل ایان یوم القیمہ- فاذا برق البصر- وخسف القمر- وجمع الشمس والقمر- یقول الانسان یومئذ این المفر- ۶۱~}~یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہوگا ان سے کہہ دو کہ یہ وہ زمانہ ہوگا جب نظر پتھرا جائیگی- یعنی نئے نئے علوم نکلیں گے اور انسان حیران رہ جائیں گے وجمع الشمس و القمر اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا- اس وقت انسان کہے گا کہ اب میں بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں- یہاں قیامت سے مراد مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اسے قیامت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے- اور بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی تباہی اور بربادی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی اس وقت خدا تعالیٰ پھر ان کو دوبارہ زندہ کرے گا- یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہونے کے بعد پھر ترقی کریں گے اور اس بات کا پورا ہونا بتا دے گا کہ قرآن ایسے منبع سے نکلا ہے جہاں سے کوئی بات غلط نہیں نکلتی- جب یہ بات پوری ہو جائے گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد کے متعلق بھی قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا-
دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ انسان کے اندر جو نفس لوامہ رکھا گیا ہے وہ بھی قیامت کا ثبوت ہے- انسان جب کوئی گناہ کی بات کرتا ہے تو اس پر اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے- ایک چھوٹا بچہ بھی جب جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو سمٹتا اور سکڑتا جاتا ہے کیونکہ نفس لوامہ جو اس کے اندر موجود ہے وہ اسے شرم دلا رہا ہوتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی نفس لوامہ جس کے نتیجہ میں انسان محسوس کرتا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور بد اخلاقی کیا ہے- گناہ کیا ہے اور ثواب کیا ہے- اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے ورنہ اس کے اندر ندامت کا یہ احساس کیوں پیدا ہوتا- اسی طرح قرآن کریم عذاب اور انعام کی تمام تفصیلات بتاتا ہے اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے اور سزا اور اس کی غرض اور انعام اور اس کا مقصد اور طریق سزا اور طریق انعام غرض ہر ایک پہلو پر مفصل روشنی ڈالتا ہے جس کی مثال دوسری کتب میں بالکل نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو ناقص طور پر- پس ضرورت مذہب کے بیان کرنے میں بھی اسلام دوسرے مذاہب سے افضل ہے-
خداتعالیٰ سے اتصال پیدا کرنے اور روحانی طاقتوں کو تکمیل تک پہنچانے والا مذہب
)۵(اب میں پانچویں بات بیان کرتا ہوں کہ جو ضرورتیں کوئی مذہب پیش کرے اس کا فرض ہے کہ وہ انہیں پورا بھی کرے- میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب پوری نہیں اترتی- صرف قرآن کریم ہی ہے جو اس امر کا مدعی ہے کہ جب تک کوئی مذہب خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا نہیں کراتا اور روحانی طاقتوں کو مکمل نہیں کراتا اور اخروی بھلائی کی ضمانت اسے نہیں دیتا اس کی خالی تعلیم اسے نفع نہیں پہنچا سکتی- چنانچہ وہ اس دنیا سے آواز دیتا ہے کہ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرہ اعمی واضل سبیلا ۶۲~}~یعنی یہ یاد رکھو کہ نماز` روزہ` حج اور زکٰوۃ وغیرہ کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا کو پا لے کیونکہ مذہب کا مدعا یہ ہے کہ انسان خدا کو دیکھ لے- اور اگر اس دنیا میں خدا کسی کو نظر نہیں آتا تو اگلی دنیا میں بھی نظر نہیں آئے گا- خدا کو دیکھنے کی اس دنیا میں بھی ضرورت ہے- اگر ایک انسان سب عبادات بجا لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا تو صاف معلوم ہوا کہ عبادت کا جو اصل مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا- اور جو شخص اس دنیا میں خدا کو دیکھنے سے اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا اور اسے وہاں بھی خدا نظر نہیں آئے گا- اضل سبیلا کے معنی یہ ہیں کہ اگلے جہان میں اس کی نابینائی اور بھی بھیانک ہوگی کیونکہ وہاں توبہ کا کوئی موقع نہ ہوگا-
آخرت سے آواز
پھر وہ آخرت سے آواز دیتا ہے کہ یوم تری المومنین والمومنت یسعی نورھم بین ایدیھم وبایمانھم بشرئکمالیوم جنت تجری من تحتھا الانھار خلدین فیھا ذلک ھوالفوز العظیم- یوم یقول المنفقون والمنفقت للذین امنوا انظر ونا نقتبس من نور کم قیلارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا فضرب بینھم بسور لہ باب باطنہ فیہ الرحمہ وظاھرہ من قبلہ العذاب- ۶۳~}~یعنی اس روز تو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے سامنے بھی اور ان کے دائیں طرف بھی بھاگتا جائے گا- اس میں بتایا کہ اگلے جہان کی ترقیات بہت جلدی جلدی ہونگی نور تیز تبھی ہوگا جب کہ ساتھ چلنے والے بھی تیز ہونگے- وہ نور بین ایدیھم وبایما نھم رہے گا یعنی ان کے دائیں بائیں بھی نور ہوگا اور آگے بھی- گویا اس میں ترقیات کی رفتار کی تیزی اور اس تیزی میں مومنوں کے ہم قدم رہنے کی طرف اشارہ ہے- بشرئکم الیوم خداتعالیٰ کے فرشتے انہیں کہیں گے کہ آج تمہارے لئے بشارت ہے- جنت تجری من تحتھاالانھار خلدین فیھا ان جنات اور قسم قسم کے باغوں کی جن میں نہریں بہہ رہی ہیں- یوم یقول المنفقون والمنفقت للذین امنوا انظر ونا نقتبس من نور کم قیلارجعوا ورائکم فالتمسوا نورا اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ تم تو دوڑے جا رہے ہو ذرا ہمارا بھی انتظار کرو- ہم بھی تم سے نور لے لیں- اس وقت ان سے کہا جائے گا تمہیں یہاں سے نور نہیں مل سکتا- اگر طاقت ہے تو تم پیچھے کی طرف لوٹ جائو- اور وہیں جائو جہاں سے تم آئے ہو اور وہاں جا کر نور کی تلاش کرو- اس میں بتایا کہ وہ نور جو اگلے جہان میں کام آئے گا اسی دنیا میں ملتا ہے- وہاں جانے کے بعد نہیں ملے گا- اس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان اسی دنیا میں نیکیاں کرے تب اگلے جہان میں کامیاب ہو سکتا ہے- مگر دیکھو رحمت الہی بھی کس قدر وسیع ہے- کہا جا سکتا تھا کہ جب دنیا میں کسی کو نور نہیں ملا تو کیا پھر اسے کبھی نور نہ مل سکے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اگر اسے نور مل سکتا ہے جس کی طرف فالتمسوا نورا میں ایک مخفی اشارہ ہے تو کیسے- اس کے متعلق فرمایا- فضرب بینھم بسور لہ باب باطنہ فیہ الرحمہ و ظاھرہ من قبلہ العذاب- منافقوں اور مومنوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی- اور اس میں ایک دروازہ رکھا جائے گا- یہ تو صاف بات ہے کہ جنت والے تو جنت سے باہر نہیں جائیں گے اس لئے یقیناً یہ دروازہ اسی لئے رکھا جائے گا کہ باہر والے اندر آ جائیں- پس بتایا کہ گو نور اسی دنیا میں حاصل ہو سکتا ہے لیکن جو اس سے محروم رہیں گے انہیں بعض حالتوں میں سے گذارنے کے بعد معاف کر دیا جائے گا- اور وہ اس دروازہ میں سے گذر کر جنت میں داخل ہو جائیں گے- باطنہ فیہ الرحمہ و ظاھرہ من قبلہ العذاب میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ جنتی حواس اور قوتوں سے ہی دوزخ پیدا ہوتی ہے- یعنی حواس حقیقی تو نیک ہی ہیں لیکن ان کے غلط استعمال سے دوزخ پیدا ہوتی ہے- غرض اس دعویٰ میں بھی قرآن کریم کے ساتھ اور کوئی کتاب شریک نہیں ہے-
ایفائے وعدہ کا ثبوت 0] ftr[
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جو کچھ بیان ہوا یہ تو دعویٰ ہے- کیا ایفائے وعدہ بھی ہوگا سو اس کے متعلق فرمایا- ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بالحق لما جائہ الیس فی جھنم مثوی للکفرین- والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین- ~}~یعنی اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرے- یا اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اس سچائی کا انکار کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس آئے- کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم نہیں ہونی چاہئے؟ ہاں وہ جو ہماری تعلیم قرآن کے مطابق ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ محسنوں کا ساتھ دیتا ہے- اس آیت میں بتایا کہ ایسے لوگ جتنا ہماری طرف چل کر آ سکیں گے اتنا اگر چلیں گے- تو جب ان کے پیر چلنے سے رہ جائیں گے ہم خود جا کر انہیں لے آئیں گے- کیونکہ ہمارا یہ طریق ہے کہ کچھ بندہ آتا ہے اور کچھ ہم اس کی طرف جاتے ہیں-
‏text] ga[t یہاں ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا الخمیں یہ بتایا کہ قرآن خدا پر افتراء نہیں- اگر یہ جھوٹ ہوتا تو اس کے بنانے والا عذاب میں مبتلا کیا جاتا- پھر والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا میں یہ بتایا کہ جھوٹ کوئی اس وقت بولتا ہے جب سچائی سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے- لیکن جب ہم نے کلام نازل ہونے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور ہم نے کہہ دیا ہے کہ محسن بن جائو تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائو گے تو کیوں سچی کوشش کرکے سچا کلام حاصل نہ کیا جائے- جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے-
رضائے الہی حاصل کرنے والا کامیاب گروہ
اس آیت کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کریں گے- سوال یہ ہے کہ کیا خدا تعالیٰ نے ایسا کیا بھی ہے یا نہیں؟ سو اگرچہ اس سوال کا جواب اسی آیت میں آ جاتا ہے- کیونکہ خدا تعالیٰ سے اتصال اس کا ہوگا جو مناسب روحانی تکمیل حاصل کر چکا ہو اور وہ جنت بھی پائے گا- لیکن علیحدہ علیحدہ بھی ان باتوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق رکھنے والے آخر قرآن پر چل کر اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے جنت پا لی- چنانچہ فرماتا ہے- من المومنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا- لیجزی اللہ الصدقین بصدقھم ویعذب المنفقین ان شاء اویتوب علیھم ان اللہ کان غفورا رحیما-۶۵~}~فرمایا- ان مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے انہوں نے پورا کر دیا- فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا- ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا اور وہ خدا سے مل گئے- نحب کے معنی نذر اور ما اوجب علی نفسہ کے بھی ہوتے ہیں- پس اس سے مراد ماخلقت الجن والانس الالیعبدون۶۶~}~ کے عہد کو پورا کرنے کے ہیں- لیکن فرماتاہے- بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی اس خلش میں لگے ہوئے ہیں کہ خدا سے مل جائیں- انہوں نے اپنی طرف سے جدوجہد کرنے میں کوئی کمی نہیں کی- سو خدا ایسے صادقوں کو بھی ان کے صدق کا ضرور بدلا دے گا-
اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن نے یہ امر تسلیم کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو قرآن پر چل کر خدا کو مل گئے-
ملائکہ سے مومنوں کا تعلق
پھر ملائکہ چونکہ اخلاق فاضلہ کی محرک ہستیاں ہیں- اس لئے مزید ثبوت کے لئے فرمایا کہ ان کی روحانی درستی کی علامتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں اور روحانی تکمیل کے موکل ان سے ملنے لگتے ہیں- چنانچہ فرماتا ہے-
‏]ksn [tag ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکہ الاتخافوا ولا تخزنوا وابشروا بالجنہ التی کنتم توعدون- نحن اولیاو کم فی الحیوہ الدنیا و فی الاخرہ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون نزلامن غفور رحیم-۶۷~}~
یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت سے قائم رہتے ہیں یعنی اپنے اعمال سے اس کا ثبوت دیتے ہیں- ہم ان پر فرشتے نازل کرتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی غلطی کا غم کرو- تمہیں جنت کی بشارت ہو- تم خدا سے جا ملو گے اور وہاں تمہیں وہ چیز مل جائیگی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے- ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہوں گے اور تم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں جو کچھ چاہو گے اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں مل جائے گا- اس میں بتایا کہ تمہاری قلبی اصلاح بھی ہو جائیگی اور عملی بھی- جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کے متعلق فرمایا کہ اعملوا ماشئتم ۶۸~}~ تم جو چاہو کرو- یعنی اب تم بدی کر ہی نہیں سکتے- اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم تمہارے نفس ایسے پاکیزہ ہوگئے ہیں کہ اب جو کچھ تم چاہو گے پاک چیز ہی چاہو گے- یعنی تمہارے دل میں نیک تحریکیں ہی ہونگی بری نہیں ہونگی- اور ہمیشہ پاک چیزیں ہی مانگو گے بری نہیں مانگوگے-
اب سوال ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے زمانہ پر ہی ختم ہو گیا یا آگے بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا- سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم- یعنی وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سنتا اور ان کو پاک کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھاری گمراہی میں مبتلا تھے- اسی طرح ان لوگوں کے سوا اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے- یہ آیت بتاتی ہے کہ جو کچھ اس رسول کے زمانہ میں ہوا وہی اس زمانہ میں بھی ہوگا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا بند نہ ہوگا-
فائدہ کی شدت کے لحاظ سے قرآن کریم کی فضیلت
)۴(فضیلت کی ایک اور وجہ فائدہ کی شدت کے لحاظ سے ہوتی ہے- یعنی گو فائدہ تو اور چیزوں میں بھی ہوتا ہے مگر جس چیز کا فائدہ اپنی شدت میں بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اسے دوسروں پر فضیلت دی جاتی ہے- قرآن کریم کے متعلق جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اس بارے میں بھی فضیلت حاصل ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم- ۶۹~}~یعنی اے مسلمانوں تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور اس رستہ پر چلا جس پر چل کر پہلے لوگوں نے تیرے انعامات حاصل کئے- گویا جس قدر انعامات تو نے پہلے لوگوں پر کئے ہیں وہ سب کے سب ہم پر بھی کر- اور پہلے لوگوں کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- والذین امنوا باللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون- والشھداء عند ربھم ۷۰~}~یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہداء کا درجہ پانے والے ہیں- اس آیت میں بتایا کہ تمام امتوں میں شہداء اور صدیقوں کا دروازہ کھلا تھا- مگر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا وہاں فرمایا- ومن یطع اللہ والرسول فاولئک معالذین انعم اللہ علیھم من النبین و الصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا- ۷۱~}~یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر خدا تعالیٰ کے انعامات نازل ہوئے یعنی نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں- گویا پہلے نبیوں کی اطاعت سے تو صرف صدیق اور شہداء بنتے تھے مگر اس نبی کی اطاعت سے نبوت کا درجہ بھی حاصل ہو سکتا ہے- حضرت دائودؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے نبوت ملی ہے- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر زور دیا اور بار بار اس کا اعلان کیا کہ مجھے محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں درجہ نبوت حاصل ہوا ہے-
انبیاء اور صدیقین وغیرہ کی معیت کا مفہوم
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہاں معالذین آیا ہے جس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اور اس رسول کی اطاعت سے کوئی نبی بن سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اسے انبیاء کی معیت حاصل ہوگی- اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اگر نبی بننے کی نفی کی جائیگی تو اس کے ساتھ ہی صدیق` شہید اور صالح بننے کی نفی بھی کرنی پڑے گی- اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ امتمحمدیہﷺ~ میں اب کوئی صدیق` شہید اور صالح بھی نہیں بن سکتا- لیکن اگر صالحیت` شہادت اور صدیقیت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر نبوت کا انعام بھی حاصل ہو سکتا ہے- لیکن اس پر یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کا کوئی لفظ حکمت کے بغیر نہیں ہے تو پھر یہاں مع کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی- جیسا کہ دوسری جگہ مع الذین نہیں رکھا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ صدیق اور شہید ہونگے- اسی طرح یہاں بھی کہا جا سکتا تھا- اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مع رکھ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس رسول کی اطاعت کرنے والے صرف صدیق ہی نہیں ہونگے بلکہ سب امتوں کے صدیقوں کی خوبیاں ان میں آ جائینگی- صرف شہید ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے سب شہیدوں کی صفات کے جامع ہونگے- صرف صالح ہی نہیں ہونگے بلکہ پہلے صالحین کی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتے ہوں گے اسی طرح جو نبی آئے گا وہ پہلے سب نبیوں کی خوبیوں اور کمالات کا بھی جامع ہوگا- پس مع نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے نتیجہ کو بڑھا دیا ہے گھٹایا نہیں- اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے جو مرتبہ حاصل ہوتا ہے وہ پہلے لوگوں کے مراتب سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے-
ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک کلام
)۵(ایک اور وجہ فضیلت یہ ہوتی ہے کہ جو چیز پیش کی جائے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو- قرآن کریم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے- قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس کے متعلق لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے- آج میں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اپنے مطالب کے لحاظ سے کیسی ضروری اور اہم ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ذلک الکتب لاریب فیہ- ۷۲~}~صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں باقی سب میں ملاوٹ ہے- تورات کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا کا ہے بلکہ اس میں ایک جگہ تو یہاں تک لکھا ہے کہ
’’خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا- اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا- پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘- ۷۳~}~
اسی طرح انجیل کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے- پس موٹی اور واضح ضرورت اس آیت کی یہی ہے کہ اس میں دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ باقی کتابوں میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن صرف یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں-
ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو قرآن کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے جو اس وقت کیا گیا ہے جب قرآن نازل ہوا- اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ بعد میں بھی اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہو سکی- سو اس کے متعلق فرماتا ہے-انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحفظون ۷۴~}~ہم نے ہی اس قرآن کو اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے- گویا آئندہ کے متعلق بھی ہم اس بات کا ذمہ لیتے ہیں کہ کوئی شخص اس میں تغیر و تبدل نہیں کر سکے گا- چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اسی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا-
ربوبیت عالمین کا بلند تصور
)۶( فضیلت کی چھٹی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ہو- کیونکہ اپنی چیز ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے پیاری لگتی اور افضل نظر آتی ہے- قرآن کریم کو جب ہم اس نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی چیز نظر آتا ہے- مثلاً قرآن کریم نے رب العلمین کا خیال لوگوں میں پیدا کیا اور اس طرح قومی خدائوں کا تصور باطل کیا- بائیبل پڑھ کر دیکھو تو اس میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کا خدا- تیری قوم کا خدا- فلاں قوم کا خدا- ویدوں کو پڑھ کر دیکھو تو برہمنوں کا خدا الگ معلوم ہوتا ہے اور دوسروں کا الگ- مگر قرآن کی ابتداء ہیnsk1] ga[t الحمدللہ رب العلمین سے ہوتی ہے- اس طرح دنیا کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری دنیا کے رب کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب کو اپنی طرف بلاتی ہے- غرض اسلام نے سب لوگوں کو جو علیحدہ علیحدہ تھے ماں کی طرح اکٹھا کیا اور کہہ دیا کہ ایک خدا کے پاس آ جائو- پہلے لوگوں میں شرک پیدا ہونے کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ الگ الگ خدا سمجھتے تھے- ہندو کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے یہود کہتے تھے ہمارا خدا ایسا ہے پارسی کہتے تھے کہ ہمارا خدا ایسا ہے- پھر بعض لوگوں نے کہا کہ چلو سب کے خدائوں کو پوجو تا کہ سب سے فائدہ حاصل ہو- اس طرح شرک پیدا ہو گیا- مگر اسلام نے بتایا کہ مومن اور کافر سب کا خدا ایک ہی ہے- اور اسلام کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے- چنانچہ فرماتا ہے- یوقد من شجرہ مبرکہ زیتونہ لا شرقیہ ولا غربیہ یعنی اسلام کا چراغ ایک ایسے برکت والے تیل سے جلایا جا رہا ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی- ہر قوم اور ہر زمانہ کیلئے ہے- سب کیلئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں- اس طرح اسلام نے قومیت کے امتیاز کو مٹا دیا اور بڑائی کا معیار یہ رکھا کہnsk1] gat[ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۷۵~}~اسلام میں بڑائی کا معیار صرف تقویٰ ہے- خواہ کوئی کیسی ہی ادنیٰ قوم کا فرد ہو اگر وہ متقی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہے- پس اسلام نے ذات پات کو مٹا دیا اور مختلف مذاہب کے نتیجہ میں جو تفرقے پیدا ہوتے تھے` ان کو دور کر دیا-
دوستوں کو چاہئے کہ قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنائیں
میں نے فضیلت قرآن کی ۲۶ وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے- خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کرونگا- فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں- اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرز جان بنانے کی کوشش کرو- اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کر سکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی- دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں- اگر کسی انسان کے پاس بہتر سے بہتر چیز ہو لیکن وہ استعمال نہ کرے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- کنواں موجود ہو لیکن ہم پانی نہ پیئیں تو کس طرح پیاس بجھ سکتی ہے- پس یہ اعلیٰ درجہ کی کتاب جو تمہارے پاس موجود ہے یہ اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جب کہ تم اس سے فائدہ اٹھائو-
پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو- اور ہر معاملہ میں قرآن کریم کی اقتداء کرو تا کہ قرآنی حسن دنیا پر نمایاں ہو- اور انہیں بھی اس پاک کتاب کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر اور کہیں نور اور ہدایت نہیں-
‏]pga [tag۱~}~ النور: ۳۶ تا ۳۹
۲~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۱۹۵
۳~}~ الزمر: ۲۴
۴~}~ القلم: ۴۵
۵~}~ الشعراء: ۶
۶~}~ البقرہ: ۱۰۷
۷~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ برٹش اینڈفارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۸~}~المزمل: ۱۶
۹~}~ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲`۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہورمطبوعہ ۱۹۰۶ء
۱۰~}~المائدہ: ۱۱۴~}~ھود: ۱۲۱۸~}~ بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم
۱۳~}~ العلق: ۲ تا ۶
۱۴~~} پیدائش باب ۱ آیت ۱`۲ برٹش اینڈفارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۵~}~ یوحنا باب ۱ آیت ۱`۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۶~}~ متی باب ۱۲ آیت برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۷~}~ ص: ۶
۱۸~}~ الزمر:۴
۱۹~}~ الواقعہ:۸۰
۲۰~}~ الانبیاء:۸۸
۲۱~}~ تفسیر ابن عربی جلد۲ صفحہ۸۸ مطبوعہ بار دوم بیروت ۱۹۷۸ء
۲۲~}~ فتوحات مکیہ )مولفہ حضرت محی الدین ابن عربی( جلد۱ صفحہ۱۲۱ مطبوعہ مصر
۲۳~}~ فاطر: ۲
۲۴~}~ الشعراء: ۱۹۳
۲۵~}~ الفرقان: ۶۱
۲۶~}~ ابراہیم: ۵
۲۷~}~ھود: ۲۸۹۲~}~ الزخرف: ۲۱
۲۹~}~ لوتھر کا بیان
۳۰~}~
۳۱~}~
۳۲~}~
۳۳~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸`۱۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۳۴~}~ الجمعہ: ۲ تا ۵
۳۵~}~ الانعام: ۱۰۹
۳۶~}~الانعام: ۱۰۹
۳۷~}~ متی باب ۱۲ آیت ۴۶ تا ۵۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
‏۳۸~}~ of Hymms The Hymm W, Book 1۔Vol Rigveda the۔Benares,1920 416۔P xviii Hymm
۳۹~}~ الرحمن: ۱۴
۴۰~}~ الرحمن: ۲۷` ۲۸
۴۱~}~ الملک: ۲` ۳
‏۴۲~}~]kns [tag الانعام: ۱۰۳` ۱۰۴
۴۳~}~ المومن: ۴۴۶۵~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۱۹۷
۴۵~}~ الزخوف:۴۶۲۱~}~ الفرقان: ۶۴
۴۷~}~ الفرقان:۶۲` ۶۳
۴۸~}~ بنی اسرائیل: ۸۶ تا ۴۹۹۰~}~ الواقعہ: ۷۸` ۷۹
۵۰~}~ المائدہ: ۵۱۱۶~}~ الانعام: ۱۰۰
۵۲~}~ النور: ۵۳۳۷~}~ المومنون:۵۲
۵۴~}~ المائدہ: ۱۰۲
۵۵~}~ الشوری: ۵۶۲۹~}~ الرعد: ۱۲
۵۷~}~ المومن: ۵۸۶۱~}~ متی باب ۵ آیت ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء )مفہوماً(
۵۹~}~ المومنون: ۶۰۱۱۶~}~ القیمہ: ۱ تا ۴
۶۱~}~ القیمہ: ۷ تا ۶۲۱۱~}~ بنی اسرائیل: ۷۳
۶۳~}~ الحدید: ۱۳ تا ۶۴۱۴~}~ العنکبوت: ۶۹` ۷۰
۶۵~}~ الاحزاب: ۲۴`۶۶۲۵~}~]2 [rtf الذریت: ۵۷
۶۷~}~ حم السجدہ: ۳۱ تا ۳۳
۶۸~}~ مسند احمد بن جنبل جلد۲ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ مصر ۱۳۱۳ھ
۶۹~}~ الفاتحہ: ۶`۷۰۷~}~ الحدید: ۲۰
۷۱~}~ النساء: ۷۲۷۰~}~ البقرہ: ۲
۷۳~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۵`۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۷۴~}~ الحجر: ۷۵۱۰~}~ الحجرات: ۱۴
‏a10.9
انوار العلوم جلد ۱۱
فضائل القرآن )۳(
بسم اللہ الرحمن الرحمن نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۳(
ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتا کتاب
‏20] [pصدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عبس کی حسب ذیل آیات کی تلاوتفرمائی-
عبس و تولی- ان جائہ الا عمی- وما یدریک لعلہ یزکی- او یذکر فتنفعہ الذکری- اما من استغنی- فانت لہ تصدی- وما علیک الا یزکی- وامامن جائک یسعی- وھو یخشی- فانت عنہ تلھی- کلا انھا تذکرہ- فمن شاء ذکرہ- فی صحف مکرمہ مرفوعہ- مطھرہ- بایدیسفرہ-کرامبررہ- ۱~}~
اس کے بعد فرمایا-:
مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی- اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلتی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہو گئی تو آواز بلند ہو جائیگی اور سب احباب تک پہنچنی شروع ہو جائیگی- دوست گھبرائیں نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں-
ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات ][پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں- یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں- سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں- لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کر دوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں- اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہو جائیگی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جو لوگ اسے دریا سے پار اتارنے کے لئے کہتے انہیں پار لے جاتا- ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جا رہا تھا اور ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جائو- اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آ گیا- جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا کہ مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو- اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آ گیا اور تیسرے کو لے کر چلا- ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا- اچانک پانی کا ایک ریلا آیا تو پہلے نے کہا- میاں ہر دلعزیز مجھے بچانا- یہ سن کر اس نے جس شخص کو اٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کیلئے لپکا- اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے-
پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہر قسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے- گو ممکن ہے اس طرح ہر دلعزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا- پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا- البتہ مختصر طور پر چند باتیں بیان کر دیتا ہوں-
مسلمان محکوم ہو سکتا ہے یا نہیں؟
سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے- اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں- یہ صورت حالات کیوں ہے؟
اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتا ہی نہیں- مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں- پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگر اصول کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر حق کا- پس جب ہم کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف- اگر اس کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہئے- لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے- پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے- لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیرمسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے-
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا- چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین ۲~}~یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اسلم مسلمان ہو جائو- تو انہوں نے کہا اسلمت لرب العلمین میں تو رب العلمین کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں- غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا- ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے- حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے- پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی- پس جب ان انبیائؑ کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں جو ان لوگوں سے اقرب ہیں- رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی- اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے- اگر اس محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آ سکتا- اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحترہے-
باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں ہے- میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں- میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا- بھلا اس شخص کو کون غلام کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا` وہ غلام کس طرح کہلا سکتا ہے- اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں- پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہر احمدی آزاد ہے-
عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں- لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح ؑ کی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئیہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے- عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دیئے گئے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی- اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائیگی عیسائیوں کو نہیں-
مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے برے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی- ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام` حضرت یوسف علیہ السلام` حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کئی اور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی- اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی- شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دیئے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے- اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس سے پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خدا تعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے-
علیؓ اور خالدؓ کے مثیل
چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علیؓ یا خالدؓ پیدا نہ کر سکی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے- اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے کیا- اس لئے اس میں خالدؓ اورعلیؓ کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے- شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے- اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گئی ہے- پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے- پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ماننے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا- پھر ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے ایسے لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کی طرح قربانیاں کیں- جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کر لیا- اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کیلئے اپنی جان قربان کر دی- پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہالسلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہالسلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے-
احمدیت کا پیغام ابھی تک ساری دنیا میں نہیں پہنچا
پانچواں سوال یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بعد خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا- اب خلیفہ دوم کا زمانہ ہے مگر ابھی تک ساری دنیا میں مرزا صاحب کا نام نہیں پہنچا لیکن گاندھی جی کا پہنچ گیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ نام پھیلنے میں حقیقی عظمت نہیں ہوتی- مشہور ہے کہ کسی شخص نے چاہ زمزم میں پیشاب کر دیا- لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب مارا- اس نے کہا خواہ کچھ کرو میری جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی ہے- اس سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری کیا غرض تھی؟ تو اس نے کہا- مجھے شہرت کی خواہش تھی- یہاں چونکہ ساری دنیا کے لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے جب میری اس حرکت کا علم سب کو ہوگا تو خواہ مجھے گالیاں دیں لیکن جہاں جہاں بھی جائیں گے اس بات کا ذکر کریں گے اور اس طرح ساری دنیا میں میری شہرت ہو جائے گی- غرض نام اس طرح بھی پھیل جاتا ہے لیکن حقیقی نام وہ ہوتا ہے جو دنیا کی مخالفت کے باوجود پیدا کیا جائے- گاندھی جی نے کھڑے ہو کر کیا کہا؟ وہی جو ہر ہندوستانی کہتا تھا- قدرتی طور پر ہر ہندوستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ملک آزاد ہو- یہی گاندھی جی نے کہا- لیکن حضرت مرزا صاحب وہ منوانا چاہتے تھے جسے دنیا چھوڑ چکی تھی اور جس کا نام بھی لینا نہیں چاہتی تھی- گاندھی جی کی مثال تو اس تیراک کی سی ہے جو ادھر ہی تیرتا جائے جدھر دریا کا بہائو ہو- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال اس تیراک کی سی ہے جو دریا کے بہائو کے مخالف تیر رہا ہو- اس وجہ سے آپ کا ایک میل تیرنا بھی بہائو کی طرف پچاس میل تیرنے والے سے بڑھ کر ہے- دنیا الہام کی منکر ہو چکی تھی- حضرت مرزا صاحبؑ اسے یہ مسئلہ منوانا چاہتے تھے- دنیا مذہب کو چھوڑ چکی تھی- آپ مذہب کی پابندی کرانے کے لئے آئے- پھر آپ کا اور گاندھی جی کا کیا مقابلہ- ابھی دیکھ لو- میرے مضامین چونکہ عام لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے دوسرے اخبارات میں نہیں چھپتے- لیکن ابھی میں انگریزوں کے خلاف وہی روش اختیار کر لوں جو دوسرے لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے تو تمام اخبارات میں شور مچ جائے کہ خلیفہ صاحب نے یہ بات کہی ہے جو بڑے عقلمند اور محب وطن ہیں- لیکن چونکہ ان کے منشاء کے مطابق اور ان کی خواہشات کے ماتحت ہمارے مضامین نہیں ہوتے اس لئے خواہ ان میں کیسی ہی پختہ اور مدلل باتیں ہوں انہیں شائع نہیں کرتے- سوال کرنے والے دوست نے شاید اس پوربی عورت کا قصہ نہیں سنا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کا خاوند مر گیا تو وہ یہ کہہ کر رونے لگی کہ اس کا اتنا قرضہ فلاں فلاں کے ذمہ ہے وہ کون وصول کرے گا- اس کے رشتہ کے مردوں میں سے ایک نے اکڑ کر کہا اری ہم ری ہم- اسی طرح وہ وصولیاں گناتی گئی اور وہ کہتا چلا گیا- اری ہم ری ہم- لیکن جب اس نے کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا قرض دینا ہے وہ کون دے گا- تو کہنے لگا- ’’ارے میں ہی بولتا جائوں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘- اسی طرح گاندھی جی تو وصولیوں کی بات کہہ رہے ہیں- اور سارا ہندوستان ان کی آواز پر کہتا جاتا ہے- ’’ہم ری ہم‘‘ لیکن حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا اس پر اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے- اس لئے اس آواز پر لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ’’ارے ہم ہی بولیں یا کوئی اور بھی بولے گا‘‘- کہا گیا ہے کہ گاندھی جی کے کارنامے دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ان کے نام سے کانپ رہی ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گاندھی جی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے کانپ رہی ہے- وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ ۳۳ کروڑ کی آبادی پر چند لاکھ افراد کی حکومت کس قدر مشکل ہے- انگریز اس بات سے ڈر رہا ہے نہ کہ گاندھی جی سے-
شفارشات
سوالات کے جواب دینے کے بعد اب ایک تو میں سفارش بچوں کے متعلق کرتا ہوں- جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء نے اپنے اپنے رسالوں کے سالنامے نکالے ہیں- چونکہ ملک میں رسالوں کے سالنامے نکالنے کا مرض پیدا ہو چکا ہے اس لئے بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے- انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے پرچوں کی خریداری کے متعلق سفارش کروں- جب یہ رسالے جاری کرنے لگے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر سکول اور جامعہ ان کو چلائے تو شوق سے نکالو لیکن اگر کہو کہ جماعت میں ان کے متعلق تحریک کی جائے تو یہ خواہش نہ کرنا- لیکن اب چونکہ یہ پٹھان والی بات ہو گئی ہے کہ اس کا بچہ اپنے استاد پر تلوار سے وار کرنے لگا- تو اس نے کہا کہ اس کا پہلا وار ہے کر لینے دو- اس لئے گو اس سے ہماری ہی جیبوں پر اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے بچوں کا پہلا وار ہے اس لئے میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ ان کے رسالے خریدے جائیں- ایک تو اس لئے کہ یہ لڑکے پہلے وار کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے وار کی قدر کی جائے- دوسرے انہوں نے ایک رنگ میں احسان بھی جتایا ہے- وہ کہتے ہیں- ہم جلسہ کے کاموں میں لگے رہے اور رسالے نہ بیچ سکے- اب تو گویا ایک وجہ بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے- دوست ان کے رسالے خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کریں-
اب میں ان باتوں میں سے دو چار اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں جو کل بیان کی تھی-
احمدی تاجروں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت
میں نے بیان کیا تھا کہ مومن کے لئے دینی اور دنیوی طور پر ہر قسم کی آگ سے بچنا نہایت ضروری ہے- لیکن چونکہ وقت کم تھا میں نے اس آگ سے بچنے کے صرف اصول بیان کر دیئے تھے تفصیل چھوڑ دی تھی- اب میں ان میں سے ایک بات کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں- دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہو سکتے باہمی تعاون سے ہو سکتے ہیں- ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سرانجام نہیں دیئے جا سکتے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں کا جو جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں- وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی انتظام فرمایا- اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی- ہمیں بھی دین کے ساتھ جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہئے- ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے اور جہاں دنیا دین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دینا چاہئے-
دنیوی ترقی کے لئے بہترین چیز تعاون ہے- یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی- لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑے رہے- جب سارا یورپ اکٹھا ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے- اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو- اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے- پس تعاون سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے- اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لئے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے- بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے- اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے اس لئے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے- اس کے لئے سردست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں- اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے- مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے- یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان` آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتا ہے- اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتا ہے- سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں- اس لئے اس سال کے لئے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبرسوخ ہوں` سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں` کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں` کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں- وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے- میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں- جس کے صرف وہی حصہ دار ہوں جو یہ کاربار کرتے ہیں تا کہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے- اس وقت میں صرف یہ تحریک کرتا ہوں- جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کر لیں گے` اس وقت اخبار میں میں اعلان کر دونگا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے- اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہوگی-
تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز
اسی طرح ایک کمپنی تعاون کرنیوالی قائم کرنی چاہئے جس میں تاجر` زمیندار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوں- میں نے اس کے لئے کچھ قواعد تجویز کئے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے پسند کیا تھا- اب ان کو شائع کر دیا جائے گا- یہ اس قسم کی کمپنی ہوگی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے- اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اس سے رہن باقبضہ جائیداد خریدی جائے گی- اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لئے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن با قبضہ جائیداد خرید لی جائے گی- جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتا ہے- اس طرح جو نفع حاصل ہوگا اس کا نصف یا ثلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا- جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہوگی- میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں- پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی- دوست اس کے لئے تیاری کر رکھیں-
اب میں وہ مضمون شروع کرتا ہوں جسے میں نے اس سال کے منتخب کیا ہے-
فضائل القرآن کے مضمون کی اہمیت
‏]1txet [tagمیں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائل قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا- یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی- آپﷺ~ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب موجود تھے اگر آپﷺ~ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپﷺ~ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی! لیکن اگر قرآن کریم کے افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی- ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ ’’آب آمد تیمم برخاست‘‘- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے-
میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولی طور پر ہم افضلیت ثابت کر دیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کلی طور پر تمام کتب الہیہ سے افضل ہے-
میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھبیس وجوہ بیان کی تھیں- مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی- اور باقی بیس میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں- بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں-
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش
یہ مضمون دراصل اس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا- ۳~}~اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ-:
’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی- پھر بعد اس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی- یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سیانی انا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی- سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے- اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں‘‘- ۴~}~
پھر بعد میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ-:
’’میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل )یعنی سچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات( ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں- پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے ¶کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا‘‘-۵~}~
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فرما دیئے- مگر ہر ایک نظر ان تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا-
پچاس وجوہ فضیلت
لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کیلئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے- کیونکہ میں نوٹ کرنے لگا تو ۲۶ کی بجائے ۵۰ فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح ۲۰ کی بجائے ۴۴ میرے ذمہ نکلیں- اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کر کے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جا سکی تھیں تو اس سال ۴۴ کس طرح بیان کی جا سکیں گی- اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گر بیان کر کے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی- اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر سکتے ہونگے- اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو بھی لے لوں- اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کر سکتا- اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے- اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا-
قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے
میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہیں بلکہ جو باتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے- میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے- اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے- گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو- اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا- بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیا جائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلیٰ تعلیم پیش کی ہے- پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کیلئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہو سکتی ہو میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے-
صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت
پہلی مثال میں میں صدقہوخیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں- یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے- ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ حیوانوں تک میں موجود ہے- ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے- ایک پرندہ دوسرے پرندہ سے ہمدردی کرتا ہے- اگر ایک کوا مارو تو بیس کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہو جاتے ہیں- وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے- اور اگر کسی نے مرا ہوا کوا اٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تا کہ اسے چھڑا لیں- غرض ہمدردی اور ایک دوسرے سے احسان کا مادہ حیوان اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے- ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں- انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ دوسروں کی امداد کرتے ہیں- بہرحال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہئے- بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہئے تھی- کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدمؑ سے لیکر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہو سکتی-
صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم
صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں- انجیل میں آتاہے-:
’’یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا- میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے- اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہوا-‘‘۶~}~
گویا انجیل کی رو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا- اسی طرح آتاہے-
’’اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا‘‘-۷~}~
پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں-
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے- اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلا دیگا‘‘-۸~}~
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اول جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو- دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو- یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے-
یہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دو- گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو وہ دے دے گا تو پھر لے گا کون- یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ملانوں نے ایک رسم اسقاط بنائی ہوئی ہے- چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے- یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے- اس طرح پھرتا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آ جاتا ہے- پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آ جائے گا- پس یہ تعلیم عمل کے قابل ہی نہیں ہے- عمل کے قابل تعلیم وہی ہو سکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جا سکے-
اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ-:
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے‘‘- ۹~}~
یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے- مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جا رہے ہیں- انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا ہے- اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا- کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے- اب وہ کیا کرے- وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کیلئے ادھر ادھر بھیجتا ہے تا کہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے یہ اپنا بخل چھپانے کیلئے مجھے علیحدہ کرنا چاہتا ہے- اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے- علاوہ ازیں اس کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی- لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے- ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بے رحم ہے- اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے- کئی ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے- خواہ کوئی ہمارے سامنے بھوکا مر جائے- غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کیلئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہے-
صدقہ کے متعلق تورات کی تعلیم
اب تورات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر اس کی تکلیف کو دور کرنا چاہئے- گویا تورات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے- پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے ایک واجبی اور دوسرا نفلی- یہ انجیل سے یقیناً اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں- بیشک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا برا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے- جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح کبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے- حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے- دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی سمجھی جاتی ہے- لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں- اور یہ خیال کہ میں بڑا ہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لوگ میرے محتاج ہیں اس کی روحانی زندگی کو کچل دینے اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دینے والا خیال ہے- اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے- اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا- یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کیلئے دیا گیا ہے- دیکھو ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذبہ کے ماتحت پلاتی ہے- ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے- کئی ایسی مائیں ہونگی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا- یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلانا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی- کیونکہ ماں بچہ کو فطری محبت سے دودھ پلاتی ہے` رحم کے طور پر نہیں پلاتی-
صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم
اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں- وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھتے ہونگے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہونگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں- تا ہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے- وید کہتے ہیں- جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہئے- جو نہ دے وہ گنہگار ہو گا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گنہگار ہوگا- گویا )۱(ایک طرف تو مانگنا سکھایا )۲(اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا- )۳(اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ ہو اسے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں- یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے- چونکہ ہندوئوں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے- چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اسی گائے کے دودھ پر ہو رہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فوراً دے دے- اگر نہ دے گا تو سخت گنہگار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا- ۱۰~}~
ان ساری تعلیموں کو دیکھو- ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی- اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی راہنما ہوتی ہے- کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا- گویا انسان کے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا- بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے- ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے- اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے- اور اگر ان مذاہب کے پیروئوں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص ہیں-
اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے
صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی ہے اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے- سوائے اس کے اور کوئی بات صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی- ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں- فی الحال ہم اس کے متعلق اتنا مان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے- مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے- اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقے کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے- اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے- کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں- اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے-
صدقہ کے مختلف پہلوئوں پر اسلام کی روشنی
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنا دیا ہے-
صدقہ کی مقدار
پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہئے- انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو- وید کہتا ہے برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چون و چرا دے دو- مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے- اسلام کہتا ہے- لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا- ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا- ۱۱~}~یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کو تو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں- )مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں( اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے- گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہئے- گویا پادری تو کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا- اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہئے- بہرحال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں- قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے اور پھر کہتاہے لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسطنہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو- یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں- ان میں سستی پیدا ہوتی ہے` وہ محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دیدو- اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے دو نتائج ہوں گے- فتقعد ملوما محسورا- قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے- فرمایا- اگر تو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہئے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا فتقعد ملوما محسورا تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب تجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے برا کیا- بھوکے کو کچھ نہ دیا محتاج کی مدد نہ کی- حاجتمند کی امداد نہ کی-
اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہئے- اس سے اختلاف کیوں کیا- اس کی دلیل یہ دی ہے فتقعد ملوما محسورا- حسرالشیء کے معنی ہوتے ہیں کشفہ ۱۲~}~اس نے کھول دیا- اور حسرا الغصن ]txte [tagکے معنی ہیں قشرہ- ۱۳~}~ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اتار دیا- گویا درخت کی چھال اتار دینے کو حسر کہتے ہیں- اسی طرح حسر البعیر کے معنی ہیں ساقہ حتی اعیاہ۱۴~}~ اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا- جس طرح درخت کی اوپر کی موٹی چھال اتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح جانور کو اتنا چلایا جائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا- پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دو دنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے- اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اونٹ کی طرح بن جائو گے یا چھال اترے ہوئے درخت کی طرح ہو جائو گے تو کل کیا کرو گے- جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے- پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تا کہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے- پھر بڑھے اور پھر دے- یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں- اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں- اگر وہ اپنا سارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے ہیں اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے- پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سر سبز ہونے کے سامان نہ رہیں- یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کیلئے مرغی مار ڈالی تھی- کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی- اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو ہر روز دو انڈے دے دیا کرے گی- اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مر گئی-
پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا-
پھر حسر کے معنی ننگے ہو جانے کے بھی ہیں- ۱۵~}~اس لئے محسورا کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ ننگا ہو جائے گا- اور جو ننگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے- پس فرمایا- اگر تم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہو کر بیٹھنا پڑے گا- اور تم کسی کام کے قابل نہ رہو گے-
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا کریں- کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے- ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے- اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کر دیا جائے تو دنیا میں تباہی آ جائے-
جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے- اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اسی قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے- اور اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے- چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے- وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی- اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے- غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے- لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے- اور نفع میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرتا ہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے- رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا ہم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے- تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کر سکتے- ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنا دیئے ہیں-
اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہو جاتی ہے- یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہو سکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہئے- پھر جب تک غرباء کو اٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہو جاتے ہیں- گویا غرباء کے نہ ابھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں- اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہو جاتے ہیں- پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو ان پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے- اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتا دی اور اس کی دلیل بھی دے دی-
‏sub] [tag اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت
دوسری جگہ فرماتا ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولمیقتروا وکان بین ذلک قواما۱۶~}~اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے- جنہیں ہم مال و دولت دیں ان کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کر دیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو- وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر-
اس میں اسلام نے کچھ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن` مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں- آپ ان کے جواب میں سید عبدالقادر جیلانی~رح~ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے- گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا- اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا- تو انہوں نے فرمایا- میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالٰی مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا- اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو فلاں کپڑا پہن- ۱۷~}~حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور کیلئے نہیں ہو سکتی- ایسا انسان اگر اپنے اوپر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا- ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے گئے- رمضان کا مہینہ تھا- کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے- ۱۸~}~ پس اسلام کہتا ہے- جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں- وہ باری باری رات کو آپ کے مکان کا پہرہ دیتے- اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا- اور صحابہ ؓ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپﷺ~ کی حفاظت کا انتظام کرتے- کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے- پہرہ آپﷺ~ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفتہوتا-
صدقہ و خیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وات ذاالقربی حقہ والمسکین و ابنالسبیل ولا تبذر تبذیرا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن وکانالشیطن لربہ کفورا-۱۹~}~ اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں-
اول- انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لٹا دے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی رکھ لے- گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں سے کچھ خیرات کرے-
دوم- اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے- تبذر تبذیرا کے معنی ہیں- بکھیر دینا- اگر دس بھوکے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہو تو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی- وہی روٹی اگر ایک کو دیدو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا- یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کونین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہوگا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہو سکے گی- تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال تقسیم نہ کر دو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے- جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن- وکان الشیطن لربہ کفورا ایسا انسان شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے- اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا- اور ناشکری پیدا کرے گا-
اخوان الشیطین کہنے میں حکمت
یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے- جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا- لیکن حقیقتاً اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا- اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے- پھر تھوڑی چیز کو بہتوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کر دیا- وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے- اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا- اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی-
صدقہ دینے کا صحیح طریق
پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے- جو یہ ہے کہ الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سرا و علانیہ ۲۰~}~یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں- اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیدہ صدقہ دو- دوم علانیہ صدقہ دو-
یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہو گیا- انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ-:
’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے‘‘-
لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے- اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو- اور پوشیدہ طور پر بھی- فرمایا ان تبدوا الصدقت فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم ویکفر عنکم من سیئاتکم واللہ بما تعملون خبیر ۲۱~}~یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے- لیکن وان تخفوھا وتوتوھاالفقراء فھو خیر لکم اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے- گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتا دی- کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا تو یہ بھی فرما دیا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کیلئے بہتر ہوگا- کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے- دیکھو جو لوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنچتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے- ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جبے پہنے پھرتے تھے- اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوئوں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے- جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے- ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا- اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا- میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا- جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے- انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آئیے آپ بھی کھانا کھائیں- مگر اس نے نہ کھایا- جب وہ اترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ برا مناتے ہیں- تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا- تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتاہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کلکم راع وکلم مسئول عن رعیتہ 2] f[st۲۲~}~تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے- ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑیں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں- پس اگر کوئی ظاہرہ طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے` بھائی یا دوسرے رشتہ دار` مرید` ملازم` دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے-
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا- بچوں کو صدقہ دینے کی عادت پڑے گی- جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی-
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے- ہو سکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو- ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آ جائے گا- یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں-
اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کیلئے اچھی ہے اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہو سکتا ہے- لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کیلئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتا ہے- ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جو صرف ظاہرہ خیرات دیتا ہے-
پھر لکم کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہو ان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے- غرض مخفی طور پر صدقہ دینا` دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریاء پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لئے بھی کہ اس کی خفت نہیں ہوتی-
صدقہ کی مختلف اقسام
صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں- صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا- واقیموا الصلوہ واتواالزکوہ ۲۳~}~تم نماز باشرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکٰوۃ دو- آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتائیں- اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے- جب جہاد کا موقع پیش آ جائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کر دے- دوم لازمی مقررہ جیسے فرمایا خذمن اموالھم صدقہ ۲۴~}~یہ زکٰوۃ ہے- لیکن ایک صدقہ وقتی غیر مقررہ ہے- اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو- مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو- چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں- مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں- آج میں ان سے بڑھوں گا- یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا- وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا- لیکن حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا- ابوبکرؓ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا- اللہ اور اس کا رسولﷺ-~ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں- یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓ بڑھ گئے- ۲۵~}~ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا- وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے-
جہاد کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع ۲۴ میں ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ ۲۶~}~تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو- اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہو جائو گے-
پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے- اس کے متعلق بقرہ رکوع ۲۶ میں آتا ہے- ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتمی والمسکین وابن السبیل ۲۷~}~جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو- اپنے والدین کیلئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے` یتامی اور مساکین اور مسافروں کیلئے- یہ صدقہ اختیاری رکھا- ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے- فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم2]- [stf۲۸~}~معلوم کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقررہ صدقہ ہے- کیونکہ معلوم کے معنی ہیں مقرر کر دیا گیا- یعنی رقم مقرر کر دی کہ اتنا دینا ضروری ہے- یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے- پس فرمایا فی اموالھم حق معلوم- ان کے مال میں ایک مقرر حق ہوتا ہے- للسائل والمحروم-سوال کرنے والے اور محروم کا- گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا-
و فی اموالھم حق للسائل والحمروم ۲۹~}~یہاں معلوم کا لفظ نہیں رکھا گیا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے- حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو محروم کے ساتھ معلوم قافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا- مگر سورۃ ذاریات میں معلوم کا لفظ اڑا دیا- کیونکہ یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے-
‏a10.10
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے
صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے- بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے- مگر اسلام کہتا ہے و فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم- فی اموالھم حق للسائل والمحروممحتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو- اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو- دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعا منہ۳۰~}~ یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے- اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کیلئے نہیں پیدا کی گئیں- اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو- یہی حال دوسری چیزوں کا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے- سخر لکم کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے- پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کیلئے پیدا کی ہے- بے شک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی توحق ہوتا ہے- جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے- لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے- یہ حق صدقہ اور زکٰوۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے-
اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے- جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے- ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے- ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں-
صدقہ کے محرکات
پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بری ہو جاتی ہے- مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہو جائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہو گی- لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہو گی- پس برے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنیٰ ہو جاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہو جاتی ہے- یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے- یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے- اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے- اور بتایا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالھمابتغاء مرضات اللہ وتثبیتا من انفسھم ۳۱~}~یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں- ایک یہ کہ ابتغاء مرضات اللہ محض یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو دوسری یہ کہ تثبیتا من انفسھمکبھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہو جائے- پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں- ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد اپنی مدد ہوتی ہے- جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہونگے وہ قوم بھی کمزور ہو جائیگی- کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہونگے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی- اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے- پس صدقہ کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ تثبیتا من انفسھماس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے-
اسی طرح نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-واتی المال علی حبہ یعنی نیک وہ ہوتا ہے جوعلی حبہمال دیتا رہے- کتنے مختصر الفاظ ہیں- لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں-علی حبہ کے معنے یہ ہیں کہ اول اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے- چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے- گویا وہ مال دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر- انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں- ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں-
۲- حبہکی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے- اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں- وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں- اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں-
۳- حبہ کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے- اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں- کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے- وہ چٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے- اسی حبہ کے متعلق دوسری جگہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی۳۲~}~ کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں- جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں- دودھ کیا ہوتا ہے ماں کا خون ہوتا ہے- مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں- جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں- تو فرمایا- وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں- یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں- جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے ’’میں صدقے جاواں- میں واری جاواں‘‘ حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے- تمہارا وہ درجہ ہونا چاہئے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے ان پر کرئی احسان کیا ہے-
صدقات کی غرض و غایت
چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے- ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنیاتیالمال علی حبہ جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے- دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے- جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو- ایسی حالت نہ ہو جائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے-
صدقات سے معذوری کے اصول
ساتویں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کئے ہیں- یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو- یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو- جیسے فرمایا- واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا ۳۳~}~اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں- اول جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو- ابتغاء رحمہ من ربک text1] gat[جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو- دوم- جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو- لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دونگا تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور اگر نہ دونگا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا-اما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا-بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دونگا تو خدا کا فضل نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے- مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کر دیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الٰہی کا موجب ہو گا- یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا- اب ایک اور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کا دل تو چاہتا ہے کہ دے مگر ابتغاء رحمہ من ربکنہیں دیتا- ایک بچہ ہے جو ہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے- وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی- اس لئے اسے پورا نہیں کرتے- تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کے لئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے-
صدقات سے انکار کرنے کا طریق
آٹھویں- اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے سے انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہئے- یعنی بتایا کہ انکا کرو تو کس طرح کرو- فرمایا-اما السائل فلا تنھر۳۴~}~ جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو- تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہئے-
پھر فرمایا-قل لھم قولا میسوراایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو- لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہئے- یہ اما السائل فلا تنھر میں آچکا ہیقولا میسوراکے یہ معنے ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اسے ذلت اور شرمندگی محسوس ہو-
صدقات میں کیا چیز دی جائے
نویں- اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے- یہ بھی ایک اہم سوال ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ- اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوا دیئے جائیں تو زیادہ اچھا ہو گا- یا مثلاً ایک شخص کو پلائو کھانے کی بجائے دس کو آٹا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے- لیکن یہ ان کی غلطی ہے- اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے- اسلام جانتا ہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے ہیں اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں- اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہئے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہو سکیں- اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے- ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے- قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لایا کرتا تھا- ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جا رہا تھا- اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیا اس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو- اس نے کہا- یہ بڑا قیمتی کھانا ہے- تمہیں کس طرح دیا جا سکتا ہے- کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے- یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے- لکڑ ہارے نے پوچھا- یہ کتنا قیمتی ہے- اسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے- اس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا- پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا- پھر دو لانے لگا- ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا- اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا- آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا- جب وہ اسے لے کر گھر گیا- تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا- لکڑ ہارے کی بیوی نے کہا- یہی کھانا اسے دیدو- کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا- لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا-
اسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا- اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی- یہ تھی ایک سقہ کے دل کو خواہش تو خدا تعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے- فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہو سکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ ومما رزقنھم ینفقون۳۵~}~کہ جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرو- روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے کبھی اچھا کپڑا بھی دو- اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو-
اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا- کلوا من ثمرہ اذا اثمر و اتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا-۳۶~}~اے باغوں والے مسلمانو! جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو- کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گذرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گذرتا ہے- کلوا من ثمرہ اذا اثمرہجب پھل پکیں تو خوب کھائو مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھو- اور وہ یہ کہ و اتوا حقہ یوم حصادہ جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تاکہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں- یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھا لیں- مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ولا تسرفوا
ہاں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہو- مگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونیچاہئے-
پھر بتایا کہ جو کچھ دو حلال مال سے دو- فرمایا- یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم۳۷~}~اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اٹھتا ہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں- وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں ہوتے` وہ کہتے ہیں فلاں ڈاکو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ انفقوا من طیبت ماکسبتمغریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دیدو اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو- کسی کی خاطر ناجائز فعل کرنا درست نہیں- لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘ کا مصداق بننا ہے- اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں- تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپرد کرو-
ایک تاریخی لطیفہ ہے- لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا- میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیت المال سے تنخواہ لوں- میں آئندہ تنخواہ نہیں لونگا- اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گذارہ کرو گے- اس نے کہا- میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے- میں اس کی کمائی سے گذارہ کر لوں گا- گویا اس نے اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھلیا-
غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے
دسویں بات اسلام نے یہ بتاتی ہے کہ صدقہ دے کون- کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہئے غرباء کو نہیں دینا چاہئے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہئے- کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الذین ینفقون فی السراء والضراء۳۸~}~مومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے- اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں- اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تاکہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہو جائیں- صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کر دیتا ہوں-
اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں- ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہو اسے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے- میں کسے صدقہ دوں؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا ہے- اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جو کئی وقت کا بھوکا ہو-
دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے- اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر ہی نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں- اور پھر وہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو تنگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے-
سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے- جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں- اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے- اسی لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تا کہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں- اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے- یعنی رمضان کے بعد صدقہ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا- حتیٰ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے-
صدقہ کے متسحقین
گیارھویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے- میں نے بتایا ہے- وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے- بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے- مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے- بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے اپنے لوگوں کے لئے نہیں- مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دینا چاہئے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے- بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے-قل ما انفقتم من خیر فللوالدین و الا قربین والیتمی و المسکین و ابن السبیل یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی دور نہ ہو سکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو- پھر اقربین کو دو- یتامی کو دو مساکین کو دو- مسافروں کو دو- پھر فرماتا ہے-انما الصدقت للفقراء والمسکین والعملین علیھا و المولفہ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ و ابن السبیل فریضہ من اللہ واللہ علیم حکیم ۳۹~}~یعنی صدقات غریبوں کے لئے` مسکینوں کے لئے اور جو ان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں- اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کیلئے یعنی ان کے کھانے پینے کیلئے` ان کی رہائش کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کے لئے- پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے- قرض داروں کے لئے جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں- یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے-
اسی طرح فرمایا- لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین ۴۰~}~یعنی اللہ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دو ان کو جو تم سے لڑتے نہیں- جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا- تم ان سے نیکی اور انصاف کرو- اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے-
اسی طرح فرماتا ہے-فی اموالھم حق للسائل والمحروممسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے-
پھر فرماتا ہے- ولا یاتل اولو الفضل منکم والسعہ ان یوتوا اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون انیغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم- ۴۱~}~یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو صدقہ نہ دوں گا چاہئے کہ تم درگذر سے کام لو- کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق درگذر سے کام لے- پس کسی سے ناراض ہو کر اسے صدقہ سے محروم نہیں کرنا چاہئے-
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کا ارشاد فرمایا ہے- کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا- نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے-
دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا- اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی- اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو ¶)الف(اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں- )ب(جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو ہی صدقہ شمار کر لیاہے-
سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے )الف(مثلاً ایک لکھ پتی ہو مگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں- اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ کوئی لٹیرا ہو اور دغا باز ہے یا ٹھگ ہے- لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھگ اور دغا باز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا- )ب(مساکین- مسکین سے مراد غریب نہیں- کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوتے تو پھر للفقرائکیوں فرمایا- دراصل مسکین سے مراد ایسا شخص ہے جو سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے- مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایسا ہے کہ دس ہزار روپے سے کام چل سکتا ہے- ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلا سکتا- وہ بہر حال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا- اگر اسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے- ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد- )ج(ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو- مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہو- اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں- تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کر دے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے ایسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جا سکتی ہے- یا مثلاً زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے- اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدد دی جا سکتی ہے-
چہارم- صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے- کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں گی- یہ ایک سوال ہے` جس کی طرف اور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی- یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کابھی حق ہے-
پنجم- یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہئے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انہیں دینا چاہیے- کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے` یا نہیں- اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اسے دے دینا چاہئے-
ششم- اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں مشغول ہوں تاکہ وہ نقصان نہ پہنچائیں-
ہفتم- انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کر کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی- صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کر دیا ہے- گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا- گئوشالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں-
صدقات کی تقسیم کے اصول
بارھویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے- اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں- فرمایا تطھر ھم و تزکیھم بھا ۴۲~}~ یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چائیں-
اول- تطھرھم-قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے-
دوم- یزکیھم بھا-قوم کو بلند کرنے کے لئے-زکیکے معنے اٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں-
صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث
تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں؟ )۱(شریعت نے ایسے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے- ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے- اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے- یا میرا روپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی-
)۲(حق للسائل والمحرومکہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے-
)۳(لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دیئے- چنانچہ فرمایا-یایھا الذین امنو لا تبطلوا صد قتکم بالمن و الاذی۴۳~}~ایمومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو-
)۴(پھر ایک اور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا- فرمایا-یمحقاللہ الربوا ویربی الصدقت ۴۴~}~اللہ تعالیٰ سود کر مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کو بڑھائے گا- اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے-
صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت
چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی- چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیمھم لایسئلون الناس الحافا ۴۵~}~یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے- لیکن جو اس سے واقف ہے- وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے-
اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا- یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہو جاتا ہے- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا- اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں- آپﷺ~ نے دیا- اس نے پھر مانگا- آپﷺ~ نے پھر دیا- اس نے پھر مانگا آپﷺ~ نے پھر دیا- پھر آپﷺ~ نے فرمایا- میں تمہیں ایک بات بتائوں؟ اور وہ یہ کہ مانگنا اچھا نہیں ہوتا- اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد میں کسی سے نہیں مانگوں گا- ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا- دوسرا شخص اٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو- میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا- اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا- تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ لیں- وہاں یہ بھی بتا دیا کہ مانگنا نہیں چاہئے- یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے-
یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہو گی- اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائیگی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے-
عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث
اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے- اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی- ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا- گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے- غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے- پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے- کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے- مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے- حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے-
عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے- میں اس وقت کثرت ازدواج` حقوق نسواں ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں` مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں- میں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مرد و عورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں- اور بتائوں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے- اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنا دیا ہے-
دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں- مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے-:
’’شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں- اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے- کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا- اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا- جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے‘‘-۴۶~}~
گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے- مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے- ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کر لے اسی طرح ۱- کرنتھیوں باب ۷ میں لکھا ہے-:
’’مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے‘‘- 2] fts[۴۷~}~
’’میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں‘‘-۴۸~}~ گویا عورت مرد اگر بن بیاہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے-
یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں- تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ-:
’’خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا- اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی- اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا- اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے- اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی- کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی- اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے‘‘-۴۹~}~
ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے- اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا- اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی- یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہو گا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے-
ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا- صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے- مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے- منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہئے پھر پچیس سال تک شادی شدہ رہے- لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوئوں کی اصل مقدس کتاب ہے- شادی کی ضرورت- اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منو وغیرہ بھی خاموش ہیں- بدھمذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمان مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے- خواہ عورت ہو خواہ مرد- یہی جین مذہب کی تعلیم ہے-
اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے-
اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے
اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے- اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے- نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے- اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا ۵۰~}~یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو- جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنایا-
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انسانیت ایک جوہر ہے- یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے- انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے- وہ نفسواحدہ ہے اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں- آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت- جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہو گی- وہ تبھی کامل ہو گی جب اس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے-
یہ اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں- اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہو گی- اور جب انسانیت مکمل نہ ہو گی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا-
حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی
اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جیسا کہ بائیبل میں ہے- لیکن یہ درست نہیں- کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے-ومن کل شیی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ۵۱~}~یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے- تو کیا انسان کا جوڑا بنانا نعوذباللہ اسے یاد نہ رہا تھا کہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں` عقلیات ہوں` احساسات ہوں` ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں- کوئی ارادہ` کوئی احساس` کوئی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں- اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو جسم نہ ملیں- کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں- کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں- پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا- قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں- اس لئے جب خدا نے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا- پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وخلقنکم ازوجا ۵۲~}~ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے- پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا- اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنے نہیں کئے جاتے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا-۵۳~}~ کہ اے بنی نوع انسان! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں- اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا- اسی طرح سورۃ شوریٰ رکوع ۲ میں آتا ہیجعل لکم من انفسکم ازوجا و من الانعام ازواجا۵۴~}~ تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایا گیا- اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی- اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنا دیتا- مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ھو الذی خلقکم من نفس واحدہ وجعل منھا زوجھا لیسکن الیھا۵۵~}~ وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وجعل منھا زوجھا اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہیلیسکن الیھا تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے-
وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا کو بنایا گیا- یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا- لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زوجھا کی ضمیر نفس واحدہ کی طرف جاتی ہے جو مونث ہے- اسی طرح منھامیں بھی ضمیر مونث استعمال کی گئی ہے- اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نفس واحدہ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لئیلیسکنمیں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا- پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا-
ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں- الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہو سکتے- مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں- اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی- اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا- اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہو سکتی- پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے- اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گذارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے-
پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کے مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے- اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے- اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقیناً مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا- اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعی فعل کر برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقیناً انسانی تکمیل کے راستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے-
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی- اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودہ ورحمہ- ۵۶~}~اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تا کہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو- گویا انسان میں ایک اضطراب تھا- اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے- اور ان کو آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا گیا- اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت و مرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں- سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی الست بربکم قالوا بلی ۵۷~}~والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے- اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے- جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تجسس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ بھی فرماتاہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کر دی ہے- جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اسے پا لیتا ہے- جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو- تب اس کی زبان سے بلیکی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں- اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں- تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بلییقیناً آپ ہی اصل مقصود ہیں- اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجسس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اسے پالیتے ہیں-
‏]bsu [tag خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا
اب سوال ہو سکتا ہے- کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہراً محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا- ثواب کے لئے اخفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کیلئے اور عورت کے پیچھے مرد کیلئے اپنی محبت کو چھپا دیا تا کہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں- مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے- اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں- اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کیلئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے- لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے- اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو- جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کیلئے مرد اور مرد کیلئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کیلئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا- اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی- دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے- پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا- جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے- اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ حبب الی من الدنیا النساء والطیب وجعل قرہ عین فی الصلوہ-۵۸~}~ایک روایت میں من الدنیا کی بجائے من دنیا کم کے الفاظ بھی آتے ہیں- یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں- النساء ]1ttex [tagعورتیں الطیب خوشبو وجعل قرہ عینی فی الصلوہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے- یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں- اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور عاجزانہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں- وہ بھی انسان کیلئے سکون کا موجب ہوتی ہیں-
مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہیں
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کیلئے عورت سکون کا باعث ہے یہ ذکر نہیں کہ عورت کیلئے بھی مرد سکون کا باعث ہے- یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ۵۹~}~یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو- پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں- عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کیلئے-
مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے- اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا- کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندہ ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے- پس ھن لباس لکم و انتم لباس لھن میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے- اس طرح بھی لتسکنوا الیھا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں-
روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستی
حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ ہیں- اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے- یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے- نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں- اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے- حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں- جہاں اللہ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے- جب جسم ان کے تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا- کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے- مگر ایسا نہیں ہوتا- یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا- اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بلی تو کہہ ہی چکی تھی- مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے- جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں-
رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق
انہیں قوتوں میں سے جو انسان کو ابدیت کے حصول کیلئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو رجولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں- یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا- پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں- بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے- رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض درحقیقت بقا کی حس پیدا کرنے کی خواہش ہے- اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں- یعنی نسل کشی- گویا نسل انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے- اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنا دیا اور یہ بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے- روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے- اس لئے بقاء پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا-
اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی پیداش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے- پہلے چھوٹا جانور بنا- پھر بڑا- پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا- چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- مالکم لا ترجون للہ وقارا- ۶۰~}~تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے- وقد خلقکم اطوارا ۶۱~}~تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے- غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے- اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں- پس تمام حیوانات درحقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں- اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کیلئے بننی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے- اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے- اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں-
غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں- اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا- اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا- یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے- اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں- چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں- ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے- کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشوونما پا جاتی ہے- گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں- اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے- پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کیلئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا- اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے- اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کیلئے موجب سکون بنا دیا-
حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے- آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا- بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا- آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے- چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح و تمحید کی تو شفا ہو گئی- پس یہ بہت باریک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا-
روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات
یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تا کہ غفلت میں کمال غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تا کہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے- اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے- چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداء رجولیت ایمان کی حالت غالب ہوتی ہے- اور ہر مومن پر رجولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے- مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا- لیکن جب کوئی علم حاصل کر لے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا- ہر جگہ یہی بات چلتی ہے- قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے- کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں- اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں- کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت- اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے- درحقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا- لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے- البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں- اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں- یعنی بعض لوگوں میں فطرتاً ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی- جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسبی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں- جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں- کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں- حالانکہ تمام صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں- چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی~رح~ اپنی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں حضرت مسیحؑ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ لن یلج ملکوت السماء من لم یولد مرتین ۶۳~}~یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا- جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو- ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی- اور دوسری مریم والی پیدائش- پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں- و صرف الیقین علی الکمال یحصل فی ھذہ الولادہ وبھذہ الولادہ یستحق میراث الانبیاء ومن لم یصلہ میراث الانبیاء ماولد وان کان علی کمال من الفطنہ والذکاء لان الفطنہ والذکاء نتیجہ العقل و العقل اذا کان یا بسا من نور الشرع لایدخل الملکوت ولایزال مترددا فی الملک ۱۴۹~}~یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے- اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے- پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی- اگرچہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سوجھیں اور اگرچہ اس میں بڑی ذکاء ہو- یہ عقل کا نتیجہ ہوگا- روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے-
پس روحانیات میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ما من مولود یولد الا والشیطن یمسہ حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطن ایاہ الا مریم وابنھا-۶۴~}~ یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے-
اس سے مراد صرف مریم اور عیسیٰ نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چھوا تھا- اس حدیث میں دراصل رسول کریم2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدائشیں ہوتی ہیں- ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش- جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے- مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی- ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی- ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے- یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں-
غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں- جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تاثیری یا تاثری پہلو کہہ سکتے ہیں- جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے-
یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے- جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں- مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے-
مرد و عورت میں مودت کا مادہ
دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ وجعل بینکم مودہ اس ذریعہ سے تم میں مودت پیدا کی گئی ہے- مودت محبت کو کہتے ہیں- لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور مودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے- اور وہ یہ کہ مودت اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے- لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ nsk1] g[ta مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے- ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے- مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا- کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے- چنانچہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودودہے مگر خدا تعالیٰ کیلئے آیا ہے کہ وہ ودود
ہے- وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مرد و عورت کیلئے مودہ کا لفظ استعال فرمایا ہے- چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے- لیکن خدا تعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا- اس لئے بندوں کیلئے یحبھم و یحبونہ ۶۵~}~ یا اشد حباللہ ۶۶~}~ آتا ہے یودون اللہ نہیں آتا-
مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے- اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے- اس طرح طبعا تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہ تعالیٰ یہ مودت پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں- اور ذمہ واریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں- لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودہ پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں-
…………
‏a.10.11
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجراء
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رحمہ پیدا کی گئی ہے- کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے- مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے- ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے- جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا- کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے- اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے- لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے- پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے- اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے- وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں- لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے- اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں- گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے- اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے- اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک-
عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کیلئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں- یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں- اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے- فرمایا ہے- نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لا نفسکم ۱۵۳~}~تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں- تم جس طرح چاہو ان میں آئو- اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وقد موا لانفسکم اس طرح آئو کہ آگے نسل چلے اور یاد گار قائم رہے- پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا- اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں-
۱-نر و مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے- یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے- اسے غیر محدود بنانے کیلئے کیا کرنا چاہئے- یہی کہ نسل چلائی جائے- پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا- تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو- اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا بیج ضائع ہو گا-
۲-دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری- اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے- تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے- پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے- جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے- اور کس حد تک کھیت سے فضل لینی چاہئے- اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے-
اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے- کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں- کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معاً دوسری بو دی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی- اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی- اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے- لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے- اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا ہونے لگے- اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہئے- اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو-
تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو- تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا- اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی- پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو- اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا- یعنی عورتوں سے بدسلوکی اولاد کو بداخلاق بنا دے گی- کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے-
چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جس سے اولاد ہوتی ہو- بعض نادان اس سے خلاف وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں- حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے- اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو جس سے کھیتی پیدا ہو- قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کیلئے اس کا عریاں کرنا ضروری ہوتا ہے باقی حصہ کو اشارہ سے بتا جاتا ہے- پس انی شئتم میں تو اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو- لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے- یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے- مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کیلئے مکان دیں- اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو- تو اس کا مطلب اس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا- اور تمہیں نقصان پہنچے گا- اس طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے- جیسا چاہو اس سے سلوک کرو- اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو- بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے- اسے سنبھال کر رکھنا- پس انی شئتم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے برا ہوگا- اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہوگا- دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے انی کو پنجابی کا >اناہ< سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ >انھے واہ< کرو-
تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق
پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنت میں بھی بیویاں ہونگی- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق اسلام میں روحانیت کی تکمیل کیلئے ضروری ہے- ورنہ اس جگہ بیویوں کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی- وہاں تو اولاد پیدا نہیں ہونی- اس سے صاف معلوم ہوا کہ رجولیت اور نسائیت کی اصل غرض تکمیل انسانی ہے- اولاد ایک ضمنی فائدہ رکھا گیا ہے-
غرض قرآن کریم کاکوئی حکم لے لو- خواہ وہ کس قدر ہی ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی- نرو مادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا- باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا- پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں- بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو- خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو- خواہ لین دین کے متعلق ہو- خواہ اور معاملات کے متعلق ہو- اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو- تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے- انشاء اللہ تعالیٰ-
پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے- حتیٰ کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے- لیکن بوجہ اس کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہوتا ہے میں اب اصول کی طرف آتا ہوں-
میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے- اور ثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہر امر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے- وہ چھ اصول یہ تھے- اول- جس کا منبع افضل ہو- دوم- ظاہری حسن- سوم- وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے اس کی ضرورت سمجھی گئی ہو- چہارم- اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو- پنجم- جس میں ملاوٹ نہ ہو- ششم- وہ چیز اپنی ہو-
اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم پر وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے-
قرآنی فضیلت کی ساتویں وجہ
ساتویں وجہ فضیلت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو- جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا کپڑا زیادہ چلے گا- جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے- بلکہ جو زیادہ دیر چلنے والا ہو وہ لیتے ہیں- یہی حال اور چیزوں کا ہوتا ہے- زیادہ چلنے والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے- تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازماً ہوتا ہے- اگر دو تعلیمیں برابر ہوں- لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقیناً تقدم حاصل ہوگا- اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتابیں- الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں یہی کہ الہامی تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو- اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو- پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے- گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہونے سے رہ گئے تھے- مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی- ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے- قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ
)۱( قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے- اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی- پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی- لیکن یہ صرف دعویٰ ہے- میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا- اس دعویٰ میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے- کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے- نہ انجیل کا نہ تورات کا- نہ وید کا اور نہ کسی اور کتاب کا- قرآن کریم نے اس دعویٰ کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے- اور وہ یہ کہ ()یہ کامل ذکر ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم نے اس کامل ذکر کو اتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہونے سے چونکہ دنیا تباہ ہوتی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں- نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے- لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی-
دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے- اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہونے دیں-
‏]bsu [tag حفاظت قرآن کے ذرائع
پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا- سورۃ حجر میں جب فرمایا کہ تلک ایت الکتب و قران مبین ۱۵۴~}~یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو مبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے- تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لو ماتاتینا بالملائکہ ان کنت من الصادقین ۱۵۵~}~اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے- چاہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اترتے- یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا- اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا ماننزل الملئکہ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین ۱۵۶~}~فرشتے تو پیغام بر ہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی- فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں- فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا- وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں- مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے- حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا- سو ہم بتاتے ہیں کہ انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں- ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں- اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لو- تم کچھ نہیں کر سکتے- اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا-
پھر فرمایا ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاولین وما تا تیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزون کذالک نسلکہ فی قلوب المجرمین لا یومنون بہ وقد خلت سنہ الاولین ۱۵۷~}~یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہوتا چلا آیا ہے- لیکن پہلے انبیاء تو اس کتاب کے متعلق جو ان پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی- پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے- ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں- ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعاً معقول بات نہیں ہے- یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے-
اب رہا اس کے محفوظ ہونے کا ثبوت- سو اس کے متعلق فرماتا ہے- ولو فتحنا علیھم بابا من السماء فظلوا فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین و حفظنھا من کل شیطن رجیم الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین ۱۵۷~}~فرمایا- یہ بے وقوف لوگ اپنی ناواقفی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے- جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی- انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے- اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے- یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہوتے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے- ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا- پس معلوم ہوا کہ ہم نابینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے-
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین- ہم نے اس کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں- یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں- اور ہم نے اس کے آسمان کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے- یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی- وحفظنھا من کل شیطن رجیم اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چاہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیاہے- پس اب اس کلام کو کوئی شریر چھو نہیں سکتا- الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین- ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے- جیسے عیسائی کرتے ہیں- مگر جو دور سے سن کر باتیں بنانے والے ہونگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے- ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو ان کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا- یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کاغلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کر دیں گے-
یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کیلئے اختیار کیا گیا ہے- زینھا میں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اور مبین میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے نہیں- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہوگا جو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا-
اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا- دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ nsk] gat[لا یمسہ الا المطھرون یعنی اس کو وہی لوگ چھو سکتے جو مطہر اور خادم دین ہوں- دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے اور بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں نہیں چھو سکتے- پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے- کہ شیطان اسے چھو نہیں سکتا- ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا- تو کیا مومن چھو سکتا ہے؟ مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے- پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چھو سکتا ہے-
ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے- تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا-انا لمسنا السماء فوجدنھا ملئت حرسا شدیدا وشھبا وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجدلہ شھابا رصدا۱۵۹~}~یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے- لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں- اور آسمان کو ہم نے شھب سے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے- لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اسے پتھر پڑتے ہیں-
اس سے بات بالکل واضع ہو جاتی ہے- یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جو ہے- اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے- اور اگر فرض کو لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے- مگر پھر نہ بیٹھے حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کافرہ بھی آسمان پر نہیں جا سکتیں- پھر ہم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جب شیطان اوپر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی- پھر وہ کون تھے جو خدا تعالیٰ کا غیب سن کر زمین پر آجایا کرتے تھے- حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رد کرتا ہے- قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو غیب معلوم ہو سکتا ہے- پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا- اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہردار مقرر کر دیئے ہیں-
دراصل ان آیات کے یہ معنے ہیں کہ آسمان روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے- اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا- یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا- اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے- اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کو سن کر جس طرح چاہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑے والا اسے چھو نہیں سکتا- بلکہ اگر کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہوا ستارہ آ گرے گا- گویا لمستو بالکل بند ہے لیکن سمعہو سکتا ہے- مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بدنیتی سے سنے اس کی فوراً تردید ہو جاتی ہے-
غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظاً بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا- اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی-
شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے- پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو- سو یاد رکھنا چاہئے کہ )۱(وہ آسمان جس سے کلام نازل ہوتا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہو سکتا- ورنہ اللہ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا- پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب ہو- پس آسمان جس سے کلام اترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے- )۲(عربی زبان کے محاورہ کے رو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارۃ سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں- چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے- بارش چونکہ اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اسے بھی سماء کہہ دیتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہیوارسلنا السما علیھم مدرارا۱۶۰~}~ہم نے ان پر بادلوں کو موسلادھار بارش برساتے ہوئے بھیجا- اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہوتی ہے- کہتے ہیں-ما زلنا نطاء السماء حتی اتیناکمہم سماء یعنی سبزی کو کچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے- پس اس جگہ سماسے مراد آسمانی کتاب ہے- ورنہ یہ کہنا بے جا ہوگا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے- پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے- ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھو سکتے- سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ان کو بگاڑ لیتے تھے - چنانچہ سورۃ بینہ میں آتا ہے-لم یکن الذین کفروامن اھل الکتاب و المشرکین منفکین حتی تاتیھم البینہ رسول من اللہ یتلوا صحفا مطھرہ فیھا کتب قیمتہ ۱۶۱~}~فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑ نہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آ جاتی- بینہ کیا ہے وہ خدا کا رسول ہے جو ان پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے- کئی ایسی تعلیمیں تھیں جو بگڑ گئی تھیں- قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے- پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں- اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی-
قرآن کے متعلق فیھا کتب قیمہ کہہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں- ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا- دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی چاہیے تھی سو اسے دور کر کے اخذ کر لیا- غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے- اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چاہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیا گیا ہے-
‏sub] ga[t سماء روحانی حیی و قیوم کی صفات پر بنیاد
اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآن کے ذریعہ بنا- اس کی بنیاد حیی و قیوم کی صفات پر رکھی گئی ہے- مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات الہیہ کے ماتحت نازل ہوتے رہے ہیں- چانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- کل یوم ھو فی شان یعنی ہر زمانہ نبوت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہوتا ہے- اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے- جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے- یدبر الامر من السماء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنہ مما تعدون ۱۶۲~}~یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو- پس یوم سے مراد زمانہ نبوت ہے- اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سما بھی بلندی کا نام ہے- پس اس روحانی آسمان کو بھی سما کہہ سکتے ہیں- اور اس کے لئے صفت حیی و قیوم کو استعمال کیا گیا ہے-
یہ ثبوت کہ قرآن کریم حیی و قیوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے- حدیث میں آتا ہے- کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا- آیت الکرسی-۱۶۳~}~ اور آیت الکرسی کی بنیاد حیی و قیوم پر ہے- یہ روایت ابی بن کعب ؓ` ابن مسعود ؓ` ابوذر غفاری ؓ` ابوہریرہ ؓ اور چار پانچ صحابہ ؓ سے مروی ہے- اور اکثر کتب حدیث میں ہے-
اعظم ایہ سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا- ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں- اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں- جو بطورnsk] [tagام کے ہو- یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے- چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی- ۱۶۴~}~یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی- مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا- اور وہ صفات حیی و قیوم کی ہی ہیں- چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے- حیی کے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا- اور قیوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا- پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے- یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا- اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے- پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا- آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے- ۱۶۵~}~ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے-
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لا یمسہ الا المطھرون
پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا- اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا- صاف ظاہر ہے کہ اسی کلام کی طرفانا لمسنا والی آیت میں اشارہ ہے- نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر حفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں شھب کے نزول کے ذکر کے کیا معنے ہیں؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے- پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جا سکتا اور اگر جاتا ہے تو اس پر شہاب گرتا ہے-
کتب سابقہ میں تحریف
اب عملاً دیکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں- تورات میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰؑ کی موت کا ذکر ہے- اسی طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کی موت کا ذکر ہے- ژند اوستا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اسے بگاڑ دیا- میں کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھا جائے گا- کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی کتاب بگڑ چکی ہے- ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ وہ بگڑ چکے ہیں- وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دعائیں سکھائی گئی ہیں- اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چاہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے- جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دعائیں ہوں وہ کیونکہ لمس شیطانی سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے- اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھوا- لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعویٰ طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لا یمسہ الا المطھرون- کوئی اسے بگاڑ ہی نہیں سکتا- اور اگر کوئی اسے خراب کرنا چاہے گا تو اس پر شھب گریں گے- یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں- حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ
>بائیبل سوسائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلدیں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں<- ۱۶۶~}~
اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے ہیں- تو اب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہوگیا- مگر ہم کہتے ہیں- اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مس کیا- مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا- آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے- اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے- روسی حکومت نے ایک دفعہ چاہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے- لیکن ملک میں اتنا شور پڑا- کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے باز رہنا پڑا- یہ بھی شھب ہی تھے جو اس پر گرے- انجیل کے متعلق کیوں ایسا نہیں ہوتا- پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چاہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آ گئی-
حفاظت قرآن اور یوروپین مستشرقین
دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا- اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں- یعنی اس کے نگران ہیں- اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی- اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- کلا انھا تذکرہ فمن شاء ذکرہ فی صحف مکرمہ مرفوعہ مطھرہ بایدی سفرہ کرام بررہ یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلند شان رکھنے والے اور پاک ہیں- اور یہ صحیفے دور دور سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں-
یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مدنظر رکھ کر اتاری گئی ہے- میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہوتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے- اور وہ یہ کہ )۱(یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی- اس کا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اور لوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے- اس ادب کو سرولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے-
‏each with closely correspond would sources two The alive, yet was Prophet the while even Coran, the for theother; containing awe superstitious a with regarded bewas would variations any that so God; of words andvery himself, Mahomet to reference direct a by copiesreconciled or existed, they where originals the to death his Prophet'safter the of memory the to and same, the from۔sesneunama and friends confidential
‏doubt of incase references such of instances with meet Omar,We by made Mahomet to doubt of incase references such۱۶۷~}~۔Kab Ibn obey and Masud, Ibn Abdallah
یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے- خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے-
دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہnsk] [tag مرفوعہ یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کوئی خرابی نہیں آ سکتی کیونکہ اس کے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے- اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں- کہ انہیں خدا کا کلام یقین نہ کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے- اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائیگی- غرض فرمایا- قرآن کے مطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں- اور جو دشمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے- یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے- اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے- سرولیم میور اس بارے میں لکھتا ہے-
‏Coran the of arrangement the and contents The that fragments the All ۔authenticity its for forcibly joinedspeak been simplicity, artless with have, obtained be designingcould a of marks no bears patchwork The ۔together۱۶۸~}~۔hand moulding or genius
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں- تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا- اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جرات ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے- جو سمجھتے ہیں وہ بررہ ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے-
تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقص سے پاک بنائی گئی ہے- اور ایسی اعلیٰ چیز میں جو دخل دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے- اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو- سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے- اس کا فوراً پتہ لگ جاتا ہے- اسی طرح تاج محل کی حالت ہے- معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ چھپ سکتا ہے- لیکن اگر تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے- پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوبصورتی میں دخل نہیں دے سکتے- کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے- اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جرات ہی نہیں ہوتی-
قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان
پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں- جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے- اول فرمایا بایدی سفرہ- سفرہ کے ایک معنی لکھنے والے کے ہوتے ہیں- اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہوتی گئی لکھی جاتی رہی- اور جو بات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے-
پھر فرمایا- یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کرام بررہ ہیں- یعنی معزز لوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں- پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے- بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہوں گے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہونگے اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہونگے- وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے- اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے- پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑ ہی ناممکن ہوجائے گا-
اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے- اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے- بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو- اور پھر مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے- ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اورنگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے- اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے- اس میں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے- چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے ۴۳ قرآن موجود تھے-
دوسرے معنی سفرہ کے سفر کرنے والے کے ہیں- ان معنوں کی رو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا- بلکہ فوراً دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا- اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چاہے گا تو عرب` شام` ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہوگا- وہ بگاڑ کو رد کر دے گا- غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تا کہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی تمام عرب` افریقہ اور ابی سینا میں پہنچ گیا تھا- پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین` شام` عراق` فارس اور افغانستان` چین` اناطولیہ` مصر` ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا- پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہو گیا- اور پھر اس میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا- کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں- اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی-
پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا- وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا موید ہو گیا- سفرہ کے معنی اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں- اس لحاظ سے اس کے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈروں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہوگا- جو سب کے سب نیک ہونگے- اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا- اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی- کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی-
یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے- مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا- سرولیم میور لکھتا ہے-
‏when party, his or Ali, either that conceivable it Is mutilated a tolerated have would power, at arrived wethus Yet ￿claims his destroy to expressly raisedCoran---mutilated and opponents, their as Coran same the used they that find۱۶۹~}~ ۔it against objection an of shadow no
یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیر کیا گیا ہے- مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہوئی تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے- اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا- اسی طرح لکھتا ہے-
‏multiplied Ali revision, Othman's to objecting from for So have to supposed ۔MSS other Among ۔edition the of copies at preserved been have to said is one Ali, by written borebeen which century, fourteenth the as late as Ali Mashed۱۷۰~}~۔signature his
>یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہونے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن کر بتایا ہے<-
مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبردست نشان ہے- قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا- دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا- مسلمانوں میں جنگیں ہونگی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا- اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا-
سفرہ کے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اٹھا دینے کے بھی ہوتے ہیں- اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہونگے کہ اس کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس و خاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کا موجب ہو سکتا تھا دور کرتے رہیں گے- اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کرتے رہیں گے- اور اس کے بلند مطالب کو لوگوں کے سامنے لا کر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کرام ہوں گے- یعنی ماہرین فن ہونگے اور بررہ ہونگے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہونگے- اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے- لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتاب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں- لیکن کرم کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے- کتاب کیلئے مرفوعہ اور مطھرہ ]text [tag فرمایا ہے- اور انسانوں کیلئے سفرہ بررہ- لیکن اگر ہم غور کریں تو درحقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے- سفرہ کا جوڑہ مرفوعہ سے ہے- کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے- اور سفر کے معنی خفا کو دور کرنے کے ہوتے ہیں- چنانچہ جب سفرہ الریح الفیح عن وجہ السماء کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں کشفتہ یعنی ہوا نے گرد و غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا- اس طرح مطھرہ کے مقابلہ میں بررہ فرمایا ہے- کیونکہ مطھرہ کے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بررہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں- پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے-
اللہ اللہ!! کیسا زبردست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعویٰ کو زبردست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے- سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اٹھنے لگا تھا- جب کہ آپﷺ~ کی وفات میں شبہ پیدا ہو گیا- اور گویا آپﷺ~ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا- مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے یہ اختلاف دور کر دیا- انہوں نے قرآن کریم ہی کی یہ آیت پیش کی کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ۱۷۱~}~اور اس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے نہ رہ سکے اور گر گئے- مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیح کے بعد کیا ہوا- ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ شروع ہو گیا- اور حضرت موسیٰؑ کی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاں حضرت ہارونؑ جیسے اور مسیحؑ کے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجودگی میں گمراہی شروع ہو گئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے- جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آتی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے- لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی- جو اباحت کے رنگ میں تھی-
اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہو گئی- اور ہمیشہ امت محمدیہﷺ~ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دور کرتے رہے- اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی حالت بدلتی چلی گئی- اور اصلاح کرنے والے کوئی پیدا نہ ہوئے- اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو- کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے- اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا ہے- موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کرنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں- انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دور کر دیا- اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا-
حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ
پس قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا- اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر- اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا- خدا تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے- اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے- پس جب مکمل دین آ گیا- اور نعمت کامل ہو گئی- تو اب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی- اب جو بھی مامور آئے گا اسی کی تائید میں آئے گا- اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا- اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے- لیکن خدا نے اپنے متعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے- اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کی متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں- پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا-
دوستوں کو ایک نصیحت
آخر میں حضور نے فرمایا- میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے- ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں- جنہیں مجبوری ہو- رخصت ختم ہو چکی ہو- وہ تو جا سکتے ہیں- لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں- انہیں ضرور ٹھہرنا چاہئے- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں- جنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقعہ پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے- انہیں چاہئے کہ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ٹھیرا کریں- یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں- یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں- یہاں کا کاروبار دیکھیں- بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دعائیں کریں-
اب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
‏a.10.12
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
نمبر۴
تمام کتب الہامیہ میں سے صرف قرآن کریم کو ہی کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضیلت کی آٹھویں دلیل
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۱ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان دارالامان(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
جس مضمون کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا کل اعلان کیا تھا- وہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق پچھلے تین سال سے میں تقریر کر رہا ہوں- اور جو فضائل القرآن کا مضمون ہے- یعنی قرآن کریم کو وہ کون سی فضیلتیں حاصل ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف انسانی بلکہ آسمانی کتابوں پر بھی وہ فوقیت رکھتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون براہین احمدیہ میں شروع کیاتھا- اور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا- میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور اس غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں وہ تین سو دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہو کر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تشریح کی جا سکتی ہے-
تفسیر القرآن کا دیباچہ
براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے- تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیر کن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہو جائے- باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کر دی تین سو دلائل چھوڑ کئی لاکھ آسمانی دلائل آپ نے پیش کر دیئے- لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہو چکے تو ان ظاہری دلائل کو بھی پیش کر دینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہو گی- جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کر دے-
میں نے پہلے کچھ تمہیدی ریماکس اس مضمون کے متعلق ۱۹۲۸ء میں بیان کئے تھے اور ۲۹-۳۰ء کی تقریروں میں چھ دلیلیں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق بیان کی تھیں اور ۱۹۳۰ء کے جلسہ کے موقع پر ساتویں دلیل بیان کرنے سے پہلے ہی لمبا وقت ہو گیا تھا- اور ادھر مجھے ضعف ہونے لگ گیا تھا- اس وجہ سے اس تقریر کو جلد ختم کر دینا پڑا اس ساتویں دلیل کا ایک حصہ ابھی باقی تھا- اب میں اسے بیان کروں گا اور اس کے بعد آٹھویں دلیل شروع کروں گا-
ساتویں دلیل کا بقیہ حصہ
میں اس مضمون پر پچھلے سال بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف اس لحاظ سے محفوظ ہے کہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں نہیں ہوئی بلکہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں ہو بھی نہیں سکتی- گویا قرآن کریم کو یہی فضیلت حاصل نہیں کہ باقی آسمانی کتابوں میں انسانی تصرف ہو چکا ہے مگر اس میں نہیں ہوا- بلکہ اس کی یہ بھی فضیلت ہے کہ دوسری کتابوں میں انسانی تصرف ممکن ہے مگر قرآن میں ممکن بھی نہیں- میں نے اس کے دو ثبوت پچھلے سال بیان کئے تھے اب میں تیسرا ثبوت اس امر کا کہ قرآن کریم میں تبدیلی نہیں ہو سکتی بیان کرتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کلام اللہ ہے اور کلام اللہ میں علقلا انسانی تبدیلی ناممکن ہے- شاید اکثر لوگ حیران ہوں کہ کلام اللہ تو باقی کتابیں بھی ہیں- پھر قرآن کو یہ خصوصیت کس طرح حاصل ہوئی- حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی کلام اللہ تھی- اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام` حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا- جب وہ بھی کلام اللہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان میں نہ صرف تبدیلی ہو سکتی ہے بلکہ ہوئی اور قرآن میں نہ ہوئی بلکہ نہیں ہو سکتی ایک ہی چیز میں یہ فرق کیوں ہے؟
میں ابھی بتائوں گا کہ یہ حیرت در حقیقت درست نہیں اور قرآن کریم کی افضلیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ یہ کلام اللہ ہے- اس وجہ سے قرآن نہ صرف غیر الہامی کتب سے افضل ہے یا الہامی کتب کی شکل سے ممتاز ہے- بلکہ یہ اس کی ایسی فضیلت ہے کہ اس میں کبھی بھی کوئی کتاب اس کی شریک نہیں ہوئی-
پہلی الہامی کتب کلام اللہ نہیں تھیں
یہ ایک غلط خیال ہے کہ پہلی الہامی کتب بھی کلام اللہ تھیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ توریت کلام اللہ نہیں- بلکہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی- وہ بھی کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ انجیل کلام اللہ نہیں- یہ تو حضرت مسیح علیہ السلام پر نازل ہی نہیں ہوئی مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح پر جو انجیل نازل ہوئی وہ موجودہ ہوتی تو بھی ہم یہی کہتے کہ وہ کلام اللہ نہیں- وہ کتاب اللہ تھی وہ ما انزل علی المسیح تھی مگر کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر حضرت نوح علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر ایک لفظ بھی ان میں کسی انسان کا داخل نہ ہوتا تب بھی وہ کلام اللہ نہ ہوتے- ہاں کتاب اللہ ہوتے- قرآن کریم میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- اور قرآن ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کلام اللہہے-
اول سورۃ توبہ رکوع اول میں آتا ہے- وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مامنہ ذلک بانھم قوم لایعلمون ۱۷۲~}~خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اے رسول! اگر مشرکوں میں سے کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو تو اسے پناہ دے- حتی یسمع کلام اللہ یہاں تک کہ تیری صحبت میں رہ کر وہ کلام اللہ سن لے- ثم ابلغہ مامنہ پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دو- ذلک بانھم قوم لایعلمون- یہ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ وہ قوم دین کا علم نہیں رکھتی اور جب تک علم دین حاصل نہ کرے گی کس طرح دین سیکھ سکے گی- گو کفار کے ساتھ لڑائی ہے- وہ تم سے جنگ کر رہے ہیں- اور جنگ کی حالت میں غیر کو مارنے کا تمہیں حق حاصل ہے لیکن چونکہ تم مذہبی پیشوا ہو- اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ حکومتوں کے دستور کے خلاف اگر کوئی غیر قوم کا فرد تمہارے پاس آئے اور کلام اللہ سننا چاہے- تو اسے سنائو- اگر وہ نہ مانے اور واپس جانا چاہے تو اسے واپس پہنچا دو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے-
دوسری جگہ آتا ہے- افتطمعون ان یومنوا لکم وقدکان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحر فونہ من بعدما عقلوہ وھم یعلمون ۱۷۳~}~فرمایا- اے مسلمانو! کیا تم اس بات کی امید رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں مان لیں گے- بعض صحابہ ؓ سمجھتے تھے کہ یہود ہماری باتیں مان لیں گے- ان کے ساتھ مسلمانوں کی دوستیاں تھیں- تعلقات تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کیا تمہاری ایسی دوستی ہے کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک جماعت آتی ہے- قرآن سنتی ہے- پھر یحر فونہ من بعد ما عقلوہ وھم یعلمون اس کا مفہوم سمجھنے کے بعد اور بات بنا لیتی ہے- جو جھوٹ ہوتی ہے- حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں- جب قرآن کے متعلق ان کا یہ حال ہے- تو تمہاری باتیں کہاں مان سکتے ہیں-
بعض نے یہاں کلام اللہ سے تورات مراد لی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کون سے ایسے یہودی علماء تھے کہ جن کی تحریف کوئی اثر رکھتی تھی- معمولی درجہ کے لوگ تھے- اگر کوئی سردار تھا تو محلہ کے سردار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا- اس لئے مدینہ کے یہود کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اگر وہ تورات کو بدل کر پیش کریں گے تو لوگ مان ¶لیں گے- وہ یہی کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آتے- قرآن کریم سنتے- اور پھر بالکل جھوٹی باتیں جا کر بیان کرتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور قادیان کے متعلق لوگ غلط بیانیاں کرتے تھے- فیروزپور کے علاقہ کے ایک شخص نے دوسروں سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ قادیان گیا- تو مجھے مہمان خانہ میں ٹھیرایا گیا- ہمارے پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ مرزا صاحب نے حلوہ بھیجا ہے- اور کہا ہے کہ سب مہمانوں کو کھلا دو- باقی سب مہمانوں نے تو کھا لیا لیکن میں نے موقع پا کر پھینک دیا- کچھ دیر بعد مرزا صاحب مجھے ساتھ لے کر فٹن میں سیر کو نکلے- )اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ قادیان آیا ہی نہیں تھا( رستہ میں مجھ سے باتیں کرتے رہے- اور کہا میں ہی خدا ہوں- یہ سن کر میں نے لاحول پڑھا-اس پر ان کا رنگ فق ہو گیا- اور مولوی نور الدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگے- کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ مولوی صاحب کا بھی رنگ اڑ گیا- اور انہوں نے کہا میں نے تو حلوہ بھیج دیا تھا- نہ معلوم کیا بات ہوئی- پھر میں وہاں سے بھاگ آیا- جس مجلس میں اس نے یہ بات سنائی- اسی میں ایک معزز غیر احمدی بیٹھے تھے- انہوں نے کہا- یہ شخص بڑا ہی جھوٹا ہے- میں خود قادیان سے ہو آیا ہوں- اور یہ وہاں گیا ہی نہیں- وہاں تو یکہ چلنا بھی مشکل ہے- فٹن اس کا باپ وہاں لے گیاتھا؟
اسی طرح وہ لوگ کرتے- کلام سنتے اور پھر کچھ کا کچھ جا کر دوسروں سے بیان کرتے- اس بات کا ثبوت کہ یہ انہی کے متعلق ہے یہ ہے کہ اگلی آیت میں آتا ہے- و اذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلا بعضھم الی بعض قالوا اتحدثونھم بما فتح اللہ علیکم لیحاجو کم بہ عند ربکم افلا تعقلون ۱۷۴text]~}~ [tagوہ مسلمانوں کے پاس آکر کہتے ہیں ہم تو ایمان لے آئے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریف کرنے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگ تھے جو قرآن سن کر دوسروں کے سامنے جھوٹ بولتے اور کہتے کہ اس نے یوں کہا ہے- ووں کہا ہے- پھر اس جگہ فرماتا ہے- یسمعون کلام اللہ کلام اللہ سنتے ہیں- مگر یہودی کوئی کتاب نہیں سنتے تھے بلکہ پڑھتے تھے- اور اس میں فقرے داخل کرنے والا سن کر نہیں بلکہ پڑھ کر داخل کر سکتا ہے- اگر بائیبل مراد ہوتی تو یقرون text] [tagآتا- کیونکہ بائیبل تو وہ لوگ پڑھا کرتے تھے- پس یہاں تورات کا نہیں بلکہ قرآن کا ذکر ہے- اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں سے سن کر اور سمجھ کر ایسے رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ لوگ مخالفت میں بڑھیں-
تیسری آیت سورۃ فتح رکوع۲ کی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ۱۷۵~}~فرمایا- وہ لوگ جن کو پیچھے چھوڑا گیا ہے- جب تم جنگ کو جاتے ہو- اور وہ سمجھتے ہیں کہ فتوحات حاصل ہونگی اور غنیمتیں ملیں گی- تو کہتے ہیں- ہمیں بھی ساتھ لے چلو وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح خدا کے کلام کو بدل دیں- اگر تم ان کو ساتھ لے جائو گے تو وہ کہیں گے دیکھو انہوں نے خدا کے کلام کو بدل دیا ہے- جس میں کہا گیا تھا کہ یہ نہیں جائیں گے- اور اگر نہ لے جائو گے تو کہیں گے- یہ حریص ہیں- سب کچھ خود ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں-
غرض قرآن میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ آیا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کریم کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- کسی اور کتاب کے متعلق نہیں- اس لئے عقلاً یہی کہا جائے گا کہ قرآن ہی کلام اللہ ہے- اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم بلا دلیل یہ خیال کریں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اور آسمانی کتاب بھی کلام اللہ کے نام کی مستحق ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام کلام اللہ نہیں رکھا گیا- پھر اس کو ہم کلام اللہ کیسے کہہ سکتے ہیں- خصوصاً جب کہ میں آئندہ ثابت کروں گا کہ تاریخا بھی ان میں سے کوئی کتاب کلام اللہ نہیں-
قرآن کریم میں انبیاء کو کلمہ کہا گیا ہے- الہامات کو کلمات کہا گیا ہے- بلکہ کلمات اللہ بھی کہا گیا ہے- یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام اللہ موسی تکلیما ۱۷۶~}~موسیٰؑ سے خدا نے خوب اچھی طرح کلام کیا- لیکن باوجود اس کے حضرت موسیٰؑ کی کتاب جس کا بہت سی جگہ قرآن کریم میں ذکر آیا ہے- اسے کلام اللہ نہیں کہا گیا- جیسا کہ فرمایا- نبذ فریق من الذین اوتوا الکتب کتب اللہ وراء ظھورھم کانھم لایعلمون۱۷۷~}~ یعنی وہ لوگ جن کو کتاب اللہ دی گئی تھی انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا گویا کہ انہیں علم ہی نہیں- پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ اور کلام اللہ میں فرق ہے- کتاب اللہ ہر اس کتاب کو جس میں خدا کی باتیں ہوں کہا جا سکتا ہے- لیکن کلام اللہ ہر ایک کو نہیں کہا جا سکتا- دوسری الہامی کتابوں کو کتاب اللہ کہا گیا ہے- اور کتاب اللہ کا لفظ قرآن کے متعلق بھی موجود ہے مگر دوسرا لفظ کلام اللہ صرف قرآن کیلئے استعمال کیا گیا ہے- کسی اور کے لئے نہیں- یہ فرق ہے اور یہ بغیر حکمت کے نہیں-
وحی الہی کی مختلف اقسام
اس فرق کو سمجھنے کیلئے یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے- )۱(ایک وہ وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں کانوں میں پڑتی ہے- اور زبان پر جاری ہوتی ہے- مثلاً خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا- الحمدللہ رب العلمین۱۷۸-~}~ یہ الفاظ کان میں آواز کے طور پر پڑے- اور زبان سے جاری ہوئے- اس آیت کا ا` ل` ح` م` د اور ان کے اعراب سب خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے ہیں- یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک مضمون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈال دیا- بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے- یہ وحی سب انبیاء پر نازل ہوئی-
)۱( دوسری وحی رئویا اور کشوف ہیں- یہ الفاظ میں نہیں بلکہ نظاروں میں ہوتی ہے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد کی جنگ میں تشریف لے جانے لگے- تو آپﷺ~ نے دیکھا کہ آپﷺ~ کی تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے- اور دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- تلوار کی شکستگی سے مراد فتح ہے جو مشتبہ ہوگی- اور گائے کے ذبح ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ احباب شہید ہونگے- یہ وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی مگر فرق یہ ہے کہ پہلی وحی الفاظ میں تھی- اور یہ نظارہ میں ہے- اور نظارہ بیان کرتے وقت اپنے الفاظ بیان کرنے پڑتے ہیں- بالکل ممکن ہے کہ اس بیان میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے-
)۳(تیسری وحی خفی ہوتی ہے جو الفاظ میں نازل نہیں ہوتی- نہ نظارہ دکھایا جاتا ہے بلکہ تفہیم اور انکشاف کے ذریعہ سے ہوتی ہے- دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ تمہارا خیال نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور الفاظ اس کو خود بنانے پڑتے ہیں- یہ سب سے ادنیٰ درجہ کی وحی ہے- اس سے بڑھ کر رئویا اور کشف کی وحی ہوتی ہے- مگر اس میں تاویل کی ضرورت ہوتی ہے اور تاویل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے- لیکن پہلی وحی جو الفاظ میں ہوتی ہے اس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا- یہ سب سے اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے-
اب اگر ایک نبی اپنی تمام وحی کو ایک کتاب میں جمع کر دے جس میں وحی کلام بھی ہو- اور وحی کشف و رئویا بھی ہو اور وحی خفی بھی نبی کے اپنے الفاظ میں ہو تو اسے ہم کتاب اللہ تو کہہ سکتے ہیں- لیکن ہم اسے کلام اللہ نہیں کہہ سکتے- کیونکہ وہ سب کی سب کلام الل¶ہ نہیں بلکہ اس میں ایک حد تک کلام بشر بھی ہے گو مضمون سب کا سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے- اور اس وجہ سے وہ کتاب کتاب اللہ ہے-
اب اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھ لو- دنیا کی کوئی کتاب خواہ کسی قوم کی ہو اور کس قدر ہی شد و مد کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہو کلام اللہ نہیں ہو سکتی- کیونکہ ایک بھی ایسی کتاب نہیں نہ موجودہ صورت میں اور نہ اس صورت میں جس طرح کسی نبی نے دی تھی کہ اس کے تمام کے تمام الفاظ خدا تعالیٰ کے ہوں- اس میں بعض الفاظ خدا تعالیٰ کے ہونگے بعض نظارے ہونگے اور بعض مفہوم بیان کئے گئے ہونگے- اگر آج ہم تورات سے ان زوائد کو نکال دیں جو یہودیوں نے اپنی طرف سے ملا دیئے ہیں- مثلاً اس میں لکھا ہے کہ-
>سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا- اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا<- ۱۷۹~}~ تب بھی تورات کلام اللہ نہ ہوگی- کیونکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ-
>اس وقت خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا- اس نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے- اور وہ جل نہیں جاتا<- ۱۸۰~}~
یہی حال حضرت عیسیٰؑ اور باقی انبیائؑ کی کتابوں کا ہے- پس اگر ان کتب میں سے ہم ان زوائد کو نکال بھی دیں جو بعد میں لوگوں نے داخل کر دیئے ہیں تو بھی حضرت موسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت موسیٰؑ نے اسے ترتیب دیا- اور حضرت عیسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰؑ نے اسے بیان کیا- اور وید جب کہ وہ نازل ہوئے کلام اللہ نہ تھے- اگر دوسروں کی باتیں ان میں نہ تھیں تو رسولوں کی اپنی باتیں تو ضرور تھیں- غرض اپنی سلامتی کے زمانہ میں بھی وہ کلام اللہ نہیں تھیں-
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا فضیلت ہے- اگر حضرت موسیٰؑ چاہتے تو وہ بھی کلام اللہ کو الگ جمع کر سکتے تھے- اگر تورات سے حضرت موسیٰؑ کا کلام اور انجیل سے حضرت عیسیٰؑ کا کلام نکال لیا جائے تو کیا یہ کتابیں قرآن کریم کے برابر ہو جائیں گی؟ میں کہوں گا نہیں- کیونکہ اگر حضرت موسیٰؑ ایسا کر سکتے تو کیوں نہ کر دیتے- اگر حضرت موسیٰؑ کیلئے ممکن ہوتا کہ الفاظ والی وحی کو الگ کر کے کتاب بنا دیتے تو کیوں نہ کر دیتے؟ اسی طرح اگر حضرت عیسیٰؑ کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بھی کیوں نہ کر دیتے- یہ فضیلت صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ ساری کی ساری شریعت آپﷺ~ کو وحی کے الفاظ میں عطا ہوئی- باقی سب انبیاء کی کتب میں کچھ کلام الہی تھا- کچھ نظارے تھے اور کچھ مفہوم جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا- اگر وہ نظاروں اور مفہوم کے حصہ کو علیحدہ کر دیتے تو ان کی کتابیں نامکمل ہو جاتیں کیونکہ ان کا سارا دین کلام اللہ میں محصور نہیں- کچھ رئویا اور کشوف ہیں اور کچھ وحی خفی کے ذریعہ سے تھا- اگر وہ کلام اللہ کو الگ کرتے- تو ان کا دین ناقص رہ جاتا- برخلاف اس کے قرآن کریم میں سب دین آ گیا ہے- اور کلام اللہ میں ہی سب دین محصور ہے- پس قرآن کے سوا اور کسی نبی کی کتاب کا نام کلام اللہ ہو ہی نہیں سکتا- یہ نام صرف قرآن کریم کا ہی ہے-
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اکمل دین اور قرآن کو آخری کلام بنانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اسے ایسا محفوظ بناتا کہ کوئی مطلب فوت نہ ہو- اور اس کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ عالم الغیب خدا کے الفاظ میں سب کچھ بیان ہو- رئویا اور کشوف میں جھگڑے اور اختلاف پڑ جاتے ہیں- اس لئے شریعت اسلامیہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں اتار کر اس کا نام کلام اللہ رکھا اور کہہ دیا کہ اس کے سب الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے سوا اور کوئی ایسی کتاب نہیں جس کے الفاظ سے نئے نئے مضامین نکلتے چلے آئیں- صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس کے مطالب کبھی ختم نہیں ہوتے- رات دن قرآن کریم کو پڑھو- قرآن کے حقائق کبھی ختم نہ ہونگے- اس کی حکمتیں نکلتی چلی آتی ہیں اور ہر لفظ پر حکمت معلوم ہوتا ہے- پرانے زمانہ کی کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تھیلی ہوتی تھی جس میں سے ہر قسم کے کھانے نکلتے آتے تھے- مگر یہ تو وہمی اور خیالی بات تھی- قرآن کریم واقع میں ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا- اس کی جگہ دوسری کتب میں یہ بات نہیں- مثلاً مسیحی وغیرہ خود اقرار کرتے ہیں کہ اصل عبارتوں میں غلطیاں ہو گئی ہیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء پر کلام اللہ نازل نہیں ہوتا تھا- بلکہ یہ ہے کہ ان کا سب دین اور سب کتاب کلام اللہ میں محصور نہ ہوتے تھے-
پہلی کتب میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کتب کے بگڑنے کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہ کلام اللہ نہ تھیں- چونکہ ان میں خود انبیاء کی تشریحات اور رئویا اور کشوف اور تفہیمات ان کے الفاظ میں ہوتے تھے اس لئے لوگوں کے دلوں میں حفاظت کا اس قدر گہرا خیال نہیں ہو سکتا تھا- جب حضرت موسیٰؑ کے صحابیوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰؑ پر وحی ہوئی جو انہوں نے لکھوا دی اور ساتھ ہی اپنا رئویا اور کشف بھی لکھا دیا- ساتھ ہی یہ بھی لکھوا دیا کہ مجھے یہ خیال آیا جو الہامی خیال ہے تو ایسی باتوں سے ان کو جرات ہوئی کہ جو بات توریت سے انہیں سوجھتی اسے بھی اس میں داخل کر دیتے- اور وہ خیال کرتے کہ اگر ہم نے اپنی تفہیم بطور یادداشت لکھ دی تو کیا حرج ہوا اور چونکہ ہر شخص اپنی تفہیم کو صحیح سمجھتا ہے- اس لئے وہ اسے خدائی امر ہی سمجھتے تھے- اس طرح وہ کتب بگڑ گئیں- حالانکہ اگر وہ سمجھتے تو نبی کی تفہیم الہامی ہونے کی وجہ سے کتاب کا حصہ تھی- مگر ان کی نہیں- بلکہ اگر کسی دوسرے کی الہامی تفہیم بھی ہو تب بھی وہ پہلے نبی کی تفہیم کی طرح اس کتاب کا حصہ نہیں کہلا سکتی- اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے دیکھا کہ جب وہ آپﷺ~ کے پاس آتے تو آپﷺ~ فرماتے- آج خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی ہے- صحابہؓ کہتے لکھ لیں- آپﷺ~ فرماتے لکھ لیا جائے- پھر فرماتے یہ کشف ہوا ہے یہ رئویا تھی- آپﷺ~ اس کا مفہوم بیان فرماتے اور کہتے یہ وحی میں نہ لکھا جائے- جب صحابہؓ دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی وحی میں کچھ نہیں بڑھا سکتے تو وہ سمجھتے کہ ہم کس طرح اس میں کچھ داخل کر سکتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے تو الگ رہا خدا تعالیٰ کی دوسری وحی جو رئویا اور کشف کی شکل میں ہوتی یا جس کے ذریعہ کوئی مفہوم دل میں ڈالا جاتا وہ بھی اس میں شامل نہ کرتے تو ہم کس طرح اس وحی میں کچھ شامل کر سکتے ہیں- لیکن پہلے انبیاء چونکہ اپنی تشریحات` رئویا` کشوف اور تفہیمات اپنے الفاظ میں درج کرتے تھے اس لئے ان کے پیرئوں کو اپنی تفہیمات درج کر دینے کی بھی جرات ہو گئی-
محققین بائیبل کا بھی یہی خیال ہے کہ صحف قدیمہ میں جو اضافہ ہوا- وہ اس طرح ہوا کہ جو بات کسی کو سوجھی وہ اس نے اس میں لکھ دی- لیکن قرآن کریم چونکہ خالص کلام اللہ ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے الہامات یا کشوف یا رئویا یا تفہیم اس میں داخل ہی نہ کرتے تھے- جس کا اثر صحابہؓ پر گہرا پڑا- اور وہ محسوس کرتے تھے- کہ اس کتاب میں کوئی اور بات نہیں ہونی چاہئے- حتیٰ کہ طرز تحریر اور وقف تک کو انہوں نے محفوظ رکھا- اور اس طرح بوجہ کلام اللہ ہونے کے قرآن کریم ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا-
یہ امر کہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا اثر اس کے تبدیل نہ ہونے پر خاص طور پر پڑا ہے مخالفوں تک نے تسلیم کیا ہے- چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے-
‏the of feelings the in existed guarantee similar A deeply more was principle no soul whose in large, at supposedpeople the for reverence awful an than rooted۱۸۱~}~ ۔God of word
یعنی قرآن کریم کے محفوظ رہنے کی یہ بھی گارنٹی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات نقش تھی کہ قرآن کا ہر شوشہ اور ہر لفظ خدا کی طرف سے ہے-
دوسرا فائدہ کلام اللہ کے اس طرح جمع کرنے کا یہ ہوا کہ اس میں تاریخ اور تفہیم آ ہی نہیں سکتی- مثلاً قرآن میں یہ نہیں لکھا- کہ میں فلاں جگہ گیا اور وہاں یہ الہام ہوا- بلکہ اس کی عبارت اس طرح چلتی ہے کہ ہر لفظ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے- اس لئے بندہ اس میں کوئی اور کلام داخل ہی نہیں کر سکتا- اور اگر کرے تو بالکل بے جوڑ معلوم ہوگا- لیکن پہلی کتب میں چونکہ تفہیم بھی درج تھی اس لئے کسی کا تفہیم کو درج کرنا غلطی کو ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا-
کلام اللہ کے نام میں منفرد کتاب صرف قرآن کریم ہے ][غرض قرآن کریم کلام اللہ کے نام میں منفرد ہے- جس طرح کعبہ بیت اللہ کے نام میں دوسرے بیوت سے منفرد ہے- خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بیت اللہ قرار دیا ہے اور قرآن کو کلام اللہ قرار دیا ہے- کعبہ کو بھی یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے بنوایا تھا- اگر دوسرے مقامات کو بھی خدا تعالیٰ بنواتا تو وہ منسوخ نہ ہوتے- چونکہ دوسرے گھروں نے منسوخ ہونا تھا اس لئے انہیں یہ نام نہ دیا گیا- اسی طرح قرآن کریم نے بھی چونکہ ہمیشہ قائم رہنا تھا- اسے بھی کلام اللہ کی صورت میں نازل کیا گیا اور اسے یہ نام دیا گیا تا کوئی اپنا کلام اس میں داخل نہ کر سکے-
اگر کوئی کہے کہ آپ تو کہتے ہیں قرآن میں ساری شریعت موجود ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ قرآن میں جو باتیں آئی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا- اور احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفہیمات ہیں جو قرآن سے ہی حاصل ہوئیں کوئی زائد شئے نہیں- خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۱۸۲~}~ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ جو کچھ بتاتے ہیں- وحی الہی سے بتاتے ہیں- پس حدیث میں جو کچھ ہے وہ قرآن ہی کی تشریح اور تفہیم ہے-
قرآن کریم کی افضلیت کی آٹھویں دلیل
اب میں قرآن کریم کی فضیلت کی آٹھویں دلیل بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ ہر کلام جو نازل ہوتا ہے- اس کی عظمت اور افضلیت اس لانے والے کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ آتا ہے- کیونکہ پیغامبر پیغام کی حیثیت سے بھیجے جاتے ہیں- مثلاً ایک بادشاہ جس نے اپنے کمرہ کی صفائی کرانی ہے- وہ چوبدار سے کہے گا کہ صفائی کرنے والے کو بلائو- لیکن اگر اسے یہ کہنا ہوگا کہ فلاں بادشاہ کو ملاقات کیلئے بلائو- تو چوبدار سے نہیں کہے گا- بلکہ وزیر سے کہے گا اور وہ یہ پیغام پہنچائے گا کہ بادشاہ کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کریں-
غرض پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے- سفراء جو بادشاہوں کے خطوط لے کر جاتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بلند پایہ رکھنے والے ہوں-
اسی طرح اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کیلئے اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہوتی ہے- اگر کوئی کتاب علمی لحاظ سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہو تو اس کو پڑھانے والے کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی- ایم- اے کے طلباء کو پڑھانے والا معمولی قابلیت کا آدمی نہیں ہو سکتا- اگر کسی جگہ کوئی پرائمری پاس پڑھانے کیلئے بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ ابتدائی قاعدہ پڑھایا جائے گا- اگر انٹرنس پاس بھیجا جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ چوتھی پانچویں جماعت کو پڑھائے گا- اگر گریجوایٹ بھیجا جاتا ہے تو نویں دسویں کو پڑھائے گا- اور اگر مشہور ڈگری یافتہ بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ بڑی جماعتوں کیلئے ہے- اسی طرح الہامی کتاب لانے والے کی شخصیت سے بھی کتاب کی افضیلت یا عدم افضلیت کا پتہ لگ جاتا ہے- لیکن اگر خود کتاب ہی اس کی افضلیت ثابت کر دے تو یہ اور بھی اعلیٰ بات سمجھی جائے گی کہ اس نے اس شق میں بھی خود ہی ثبوت دے دیا اور کسی اور ثبوت کی محتاج نہ ہوئی- غرض چونکہ اس انسان کے چلن کا جس پر کتاب نازل ہوئی ہو کتاب کی اشاعت پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے وہی کتاب کامل ہو سکتی ہے جو اس کے کریکٹر کو نمایاں طور پر پیش کرے تا کہ لوگ اس منبع کی نسبت شبہ میں نہ رہیں- پس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ قرآن کا منبع مشتبہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی زبان پر جاری ہوا ہے یہ ضروری ہے کہ قرآن ثابت کرے کہ اس کے لانے والا ایک مقدس اور بے عیب انسان تھا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو باوجود کتاب کے کامل و افضل ہونے کے انسان کے دل میں ایک شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کا لانے والا کیسا انسان تھا اور دوسرا شبہ یہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کتاب نے اس کے پہلے مخاطب پر کیا اثر کیا- اگر اس پر اچھا اثر نہیں کیا تو ہم پر کیا اثر کرے گی- اور اگر اس نے اپنے پہلے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچایا تو ہمیں کیا پہنچا سکے گی- پس کتاب کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے ہمیں کتاب لانے والے کے اخلاق پر اور لانے والے کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے اس کے پیش کردہ خیالات پر ضرور بحث کرنی ہوگی-
قرآن کریم کو یہ فضیلت بھی دوسری کتب پر حاصل ہے یعنی اس کا لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے خواہ وہ کوئی ہوں افضل ہے- اور مزید افضلیت یہ ہے کہ قرآن کریم اس دلیل کے محفوظ رکھنے میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے اس دلیل کو بھی خود اس نے ہی محفوظ کر دیا ہے- یہاں تک کہ میور جیسا متعصب انسان بھی لکھتا ہے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے حالات کا بہترین منبع قرآن ہے- اس موقع پر وہ حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ کان خلقہ القرآن ۱۸۳~}~یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق قرآن کو دیکھ لو- آپﷺ~ کے تمام اخلاق قرآنی معیار کے مطابق تھے- پس قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کم از کم ایک شخص اپنے معیار کے مطابق پیدا کر لیا ہے اس لئے ہم اس کی تعلیم کے متعلق یہ شبہ نہیں کر سکتے کہ )۱(وہ قابل عمل نہیں )۲(یا یہ کہ اس نے اپنے لانے والے کی اصلاح نہیں کی تو دوسروں کی کیا کرے گا؟ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن گئے- پس کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن نے لانے والے کو کیا فائدہ پہنچایا کہ ہمیں پہنچائے گا-
میں نے جو یہ بتایا ہے کہ الہامی کتاب کی افضلیت کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس کے لانیوالا دوسروں سے افضل ہو یہ بھی قرآن خود ہی بیان کرتا ہے- اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کی پہلی زندگی بھی پاک اور کامل ہونی چاہئے اور دعویٰ کے بعد کی زندگی بھی مطابق وحی ہونی چاہئے- پہلی زندگی کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- واذا جاء تھم ایہ قالوا لن نو من حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجراموا صغار عنداللہ و عذاب شدید بما کانوا یمکرون فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایومنون۱۸۴~}~
فرمایا- ان لوگوں کے سامنے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کوئی نشان پیش کرتا ہے تو کہتے ہیں ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں وہی کچھ نہ ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملا- یعنی وحی اور الہام- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہر ایک پر وحی رسالت نازل کی جائے- اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسے رسول بنانا چاہئے- وہ اس کے احوال اس کے افکار اور اس کے عادات دیکھتا ہے- جو سب سے اعلیٰ ہو اسے رسالت کا منصب دیتا ہے- تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہیں بھی وہی کچھ ملنا چاہئے جو رسولوں کو ملتا ہے- کیا تم اپنی حالت کو نہیں دیکھتے- تم تو گندے ہو- اور گندوں کو ذلت ہی ملا کرتی ہے- رسالت تو بہت بڑی عزت ہے- یہ پاک اور اعلیٰ پایہ کے انسان کو ملتی ہے تم کو تو تمہارے مکروں کی وجہ سے عذاب ملے گا- اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے- وہ نیک کام کرتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا پہاڑ پر چڑھ رہا ہے- جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان سے سلوک کرتا ہے-
اس میں بتایا کہ )۱(رسول بناتے وقت اللہ تعالیٰ اس آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا ہے- پس مجرموں کو رسالت نہیں مل سکتی- انہیں تو ذلت ملے گی- رسالت تو بڑی بھاری عزت ہے- )۲(جو رسول بنتا ہے وہ پہلے بھی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے- الہی احکام کی فرمانبرداری اس کی طبیعت میں داخل ہوتی ہے- اور نیک تحریکوں کو قبول کرنے میں وہ پیش پیش ہوتا ہے-
یہ گویا قرآن نے گر بتایا کہ انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی چاہئے- بیشک ایک ایسا شخص ولی ہو سکتا ہے- جو ایک زمانہ تک عیوب میں مبتلا رہا ہو- اور بعد میں اس نے توبہ کر لی ہو- لیکن نبوت کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طہارت اسے حاصل ہو- )۲(اور نبوت کی زندگی کے متعلق فرمایا فالذین عند ربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لایسئمون ۱۸۵~}~جن لوگوں کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے- وہ رات دن اپنے اعمال سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا پاک ہے- یعنی انہیں جس قدر قرب عطا ہو- اسی قدر وہ فرمانبردار ہوتے ہیں- اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنے ہر عمل سے ظاہر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا نے یونہی نہیں چنا- گویا وہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں- اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ خدا نے غلط انتخاب نہیں کیا-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی پاکیزہ زندگی
اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق بھی اس عام قاعدہ کے پورا ہونے کا کہیں ذکر ہے؟ سو اس امر کے متعلق کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعویٰ سے پہلی زندگی بالکل پاک اور بے عیب تھی- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- قل لوشاء اللہ ماتلوتہ علیکم ولا ادرکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا من قلبہ افلا تعقلون ۱۸۶~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ کتاب پڑھ کر تمہیں نہ سناتا- یعنی اگر اللہ چاہتا تو کتاب ہی نہ بھیجتا اور نہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ کرتا- تمہیں علم ہے کہ میری زندگی کیسی پاکیزہ گذری ہے- معمولی عمر نہیں بلکہ چالیس سال کا لمبا عرصہ- تم اسے جانتے ہو اور اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتے- پھر کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اب میں نے جھوٹ بنا لیا- یہ پہلی زندگی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے اور کفار کے مقابلہ میں اعلان ہے جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب
نبوت کی زندگی کے متعلق ہم قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ ۱۸۷~}~یہ رسول اس بات کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ قرآن نے اس کی زندگی پر کیا اثر کیا- اور یہ کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے نمونہ ہے- جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے- ممکن ہے کوئی کہے کہ باقی انبیاء بھی ایسے ہی ہونگے- اس لئے قرآن کی ایک اور آیت میں پیش کرتا ¶ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم- ۱۸۸~}~یعنی اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو ان سے کہہ دے )یہ الفاظ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی شان بلند کا اظہار کرتے ہیں- خدا تعالیٰ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کہلواتا ہے تا کہ دنیا کیلئے ایک چیلنج ہو- گویا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک چیلنج دیا- اور کہا- ان سے کہو( اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو- اور تمہارے دل میں تڑپ ہے کہ اس کے محبوب بن جائو تو آئو میں تمہیں ایسا گر بتائوں کہ تم عاشق ہو کر معشوق بن جائو اور وہ یہ ہے کہ فاتبعونی جس طرح میں کام کرتا ہوں تم بھی کرو- یہاں اطیعونی نہیں فرمایا بلکہ فاتبعونی فرمایا ہے- یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کر رہے ہیں ویسے ہی تم بھی کرو- یہ نہیں فرمایا کہ محمد رسول اللہ2] ft[s صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں اس کی تعمیل کرو اس جگہ اتباع کا لفظ ہے جس کے معنی >قفی اثرہ< کے ہوتے ہیں یعنی اس کے نقش قدم پر چلا- اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کا لفظ تو آتا ہے مگر اتباع کا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شرائع سے بالا ہے- لیکن رسول کیلئے اتباع اور اطاعت دونوں الفاظ آتے ہیں- یعنی وہ حکم بھی دیتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے- پس فاتبعونی کے یہ معنی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اطاعت الہی سے محبوب الہی بن گیا ہوں- اگر تم بھی میرے جیسے کام کرو گے تو تم بھی محبوب الہی بن جائو گے- گویا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا دوسرا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال رکھا ہے-
مخالفین اسلام کے اعتراضات کا رد
اس کے بعد میں ان بعض اعتراضات کو لیتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کئے گئے ہیں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآن کریم نے ان کو رد کر کے آپﷺ~ کے بے عیب اور کامل ہونے کو ثابت کیا ہے- کیونکہ قرآن نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r کی پاکیزگی ثابت کرنے کا فرض خود اپنے ذمہ لیا ہے- کسی بندہ پر نہیں چھوڑا- پہلا اعتراض جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ہو سکتا تھا وہ یہ ہے کہ آپﷺ~ کے دعویٰ کی موجبات و محرکات کیا تھے؟ یا یہ کہ قرآن پیش کرنے کا اصل باعث کیا تھا؟ کوئی کہتا آپﷺ~ نعوذ باللہ پاگل ہیں- کوئی کہتا اسے جھوٹی خوابیں آتی ہیں- کوئی کہتا ساحر ہیں- کوئی کہتا جھوٹ بولتے ہیں- کوئی کہتا کاہن ہیں- غرض مختلف قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے- یہی خیالات آج تک چلتے چلے آتے ہیں- جب بھی کوئی مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لکھتا ہے تو یہی کہتا ہے آپﷺ~ جھوٹے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ مجنون تھے-
پہلا اعتراض
میں سب سے پہلے جنون کے اعتراض کو لیتا ہوں- چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ منکر اس کے متعلق کوئی حرف گیری نہیں کر سکتے تھے اس لئے جب آپﷺ~ کا کلام سنتے تو یہ نہ کہہ سکتے کہ آپﷺ~ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ پاگل ہے- چونکہ مشرکانہ خیالات ان لوگوں کے دلوں میں گڑے ہوئے تھے ادھر وہ سمجھتے تھے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے ان دونوں باتوں کے تصادم سے یہ خیال پیدا ہو جاتا کہ اس کی عقل ماری گئی ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون ۱۸۹~}~جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پیش کیا تو لوگوں نے حیران ہو کر کہ اب کس طرح انکار کریں یہ کہہ دیا کہ اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کا کلام اترا ہے تیرا دماغ پھر گیا ہے اور تو پاگل ہو گیا ہے اس کا جواب قرآن کریم میں اس طرح دیا گیا ہے کہ ن والقلم ومایسطرون ماانت بنعمہ ربک بمجنون وان لک لاجرا غیر ممنون وانک لعلی خلق عظیم فستبصر ویبصرون بایکم المفتون ۱۹۰~}~لوگ تجھے پاگل کہتے ہیں مگر ہم دوات اور قلم کو تیری سچائی کے لئے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں- پاگل آخر کسے کہتے ہیں- اسے جس کی عقل عام انسانوں کی عقل کی سطح سے نیچے ہوتی ہے- ورنہ پاگلوں میں بھی کچھ نہ کچھ عقل تو ہوتی ہے- وہ کھانا کھاتے اور کپڑا پہنتے اور پانی پیتے ہیں- پاگل انہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ادنیٰ معیار عقل جو قرار دیا جاتا ہے- اس سے ان کی عقل کم ہو جاتی ہے- خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل کہنے والوں کے متعلق فرماتا ہے- تم اسے پاگل کہتے ہو- مگر سب سے زیادہ عقلمند لکھنے پڑھنے والے عالم سمجھے جاتے ہیں اور مصنفین کو بڑا دانا تسلیم کیا جاتا ہے- ہم کہتے ہیں ان عقلمندوں کی باتیں مقابلہ کیلئے لائو- دنیا کی تمام کتابیں جو اب تک لکھی جا چکی ہیں انہیں اکٹھا کر کے لائو- یہ نہیں فرمایا کہ جو اپنی طرف سے لوگوں نے لکھی ہیں بلکہ فرمایا جو لکھی گئی ہیں- گویا مذہبی اور آسمانی کتابیں بھی لے آئو- یا اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں جو لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں وہ نکال کر لائو- اگر یہ سب کی سب کتابیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ثابت ہوں تو انہیں ماننا چاہئے- کہ ما انت بنعمہ ربک بمجنون- اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو مجنون نہیں ہے-
دیکھو! یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے اور کتنی زبردست دلیل ہے- یہ اس زمانہ کے لوگوں کو دلیل دی- اور بعد میں آنے والوں کو یہ دلیل دی کہ وان لک لاجرا غیر ممنون- آئندہ بھی جو لوگ تجھے پاگل کہیں گے ہم انہیں کہیں گے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( اب تو تمہارے سامنے نہیں مگر اس کے کارناموں کے نتائج تمہارے سامنے ہیں- پاگل جو کام کرتا ہے اس کی کوئی جزا نہیں ہوتی- کیا جب کوئی پاگل بادشاہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی ٹیکس ادا کیا کرتا ہے- یا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی اس سے علاج کراتا ہے- یا کوئی نبی بنتا ہے تو کوئی اس کا مرید بنتا ہے؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ ہم اس کے کاموں کا وہ اجر دیں گے جو کبھی کاٹا نہیں جائے گا- کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جب اس کے اعمال کا اجر نہ مل رہا ہوگا- جب بھی کوئی پاگل ہونے کا اعتراض کرے- اس کے سامنے یہ بات رکھ دی جائے کہ پاگل کے کام کا تو نتیجہ اس وقت بھی نہیں نکلتا جب وہ کر رہا ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دیکھو کہ کئی سو سال گذر جانے کے بعد بھی نتائج نکل رہے ہیں-
پھر فرمایا- ہم ایک اور بات بتاتے ہیں- وانک لعلی خلق عظیم پاگل کو پاگل کہو تو وہ تھپڑ مارے گا- لیکن عقلمند برداشت کر لے گا- اگر یہ لوگ تجھے پاگل سمجھتے تو تیری مجلس میں آکر تجھے پاگل نہ کہتے بلکہ تجھ سے دور بھاگتے- یہ جو تیرے سامنے تجھے پاگل کہتے ہیں یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تو پاگل نہیں ہے اور آئندہ آنے والوں کے لئے یہ ثبوت ہے کہ یہ پاگل کہنے والوں کے متعلق تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے برا بھلا کہنے پر چپ رہو- کیا ایسا بھی کوئی پاگل ہوتا ہے جو صرف آپ ہی پاگل کہنے والوں کے مقابلہ میں اپنے جوش کو نہ دبائے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ ہدایت کر جائے کہ مخالفوں کو برا بھلا نہ کہنا- فستبصر و یبصرون پس عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ nsk] [tag بایکم المفتون تم دونوں میں سے کون گمراہ ہے- اس دلیل میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ پاگل کو کبھی خدائی مدد نہیں ملتی- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہو رہے ہیں پھر ان کو پاگل کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے-
دوسرا اعتراض
دوسرا اعتراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حالت میں کیا گیا جب مخالفین نے دیکھا کہ پاگل کہنے پر عقلمند لوگ خود ہمیں پاگل کہیں گے- جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جسے پاگل کہتے ہیں اس نے تو نہ کسی کو مارا ہے نہ پیٹا- بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھائے ہیں- پس انہوں نے سوچا کہ کوئی اور بات بنائو- اس پر انہوں نے کہا- اسے پریشان خوابیں آتی ہیں اور ان کی وجہ سے دعویٰ کر بیٹھا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- بل قالوا اضغاث احلام۱۹۱~}~ کہتے ہیں اس کا کلام اضغاث احلام ہے کچھ مشتبہ سی خوابیں ہیں جو اسے آتی ہیں- یعنی آدمی تو اچھا ہے- اس کی بعض باتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں لیکن بعض بری باتیں بھی اسے دکھائی دیتی ہیں- جنون اور اضغاث احلام میں یہ فرق ہے کہ جنون میں بیداری میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- لیکن اضغاث میں نیند میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- چونکہ مخالفین دیکھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات میں کوئی نقص نہیں اس لئے کہتے کہ جنون سے مراد ظاہری جنون نہیں بلکہ خواب میں اسے ایسی باتیں نظر آتی ہیں- اس کا جواب قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ لقد انزلنا الیکم کتبا فیہ ذکرکم افلا تعقلون ۱۹۲~}~جن لوگوں کو اضغاث احلام ہوتی ہیں کیا ان کی خوابوں میں قومی ترقی کا بھی سامان ہوتا ہے؟ پراگندہ خواب تو پراگندہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہے- مگر اس پر تو وہ کتاب نازل کی گئی ہے جو تمہارے لئے عزت اور شرف کا موجب ہے- کیا دماغ کی خرابی سے ایسی ہی تعلیم حاصل ہوتی ہے؟ تم اپنے آپ کو عقلمند کہتے ہو- کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے؟
تیسرا اعتراض
پھر بعض اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھذا ساحر ۱۹۳~}~کہ یہ جادو گر ہے- سحر کے معنی عربی زبان میں جھوٹ کے بھی ہوتے ہیں- مگر مخالفین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ بھی جھوٹا کہا ہے- اس لئے اگر اس کے معنی جھوٹ کے ہوں تو اس کا جواب علیحدہ ہوگا- دوسرے معنی سحر کے یہ ہوتے ہیں کہ باطن میں کچھ اور ہو اور ظاہری شکل میں کچھ اور دکھائی دے- اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے- وان یروا ایہ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر ۱۹۴~}~اگر یہ لوگ محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں- اور کہتے ہیں ہم ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں- یہ بڑا پرانا جادو ہے- آگے فرماتا ہے حکمہ بالغہ فما تغن النذر۱۹۵~}~ قرآن میں تو حکمت بالغہ ہے- قرآن میں ایسے مضامین ہیں جو دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں- سحر کے معنی تو یہ ہیں کہ ظاہر کو مسخ کر دیا جائے اور باطن آزاد رہے- مگر قرآن کا اثر تو یہ ہے کہ ظاہر کی بجائے دلوں کو بدلتا ہے- اس لئے اسے سحر نہیں کہہ سکتے-
یہ حکمت بالغہ ہے- یعنی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جو دور تک اثر کرنے والی ہیں- یہ اندرونی جذبات اور افکار پر اثر ڈالتی ہیں- مگر ان لوگوں کو یہ انذار فائدہ نہیں دیتا-
چوتھا اعتراض
پھر بعض نے کہا کہ یہ ساحر تو معلوم نہیں ہوتا ہاں مسحور ضرور ہے- یعنی خود تو بڑا اچھا ہے- لیکن کسی نے اس پر سحر کر دیا ہے اس لئے یہ ایسی باتیں کہتا پھرتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا ۱۹۶~}~یعنی ظالم لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک مسحور کی اتباع کر رہے ہیں- کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے-
اس آیت سے پہلے ملائکہ کے نزول کے متعلق معترضین کا مطالبہ ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور خزانے عطا کرتے ہیں )ملائکہ سے الہام اور خزانے سے معارف قرآن مراد تھے( تو مخالفین نے کہا- کہ دیکھو اسے جو ملائکہ نظر آتے ہیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسحور ہے- فرشتے ہمیں نہیں نظر آتے- خزانے ہمیں نہیں دکھائی دیتے- مگر یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں- اور خزانے مل رہے ہیں` کہاں ملے ہیں؟ یہ سحر کا اثر ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے- اسی طرح اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
وقال الذین لایرجون لقاء نالولا انزل علینا الملئکہ او نری ربنا لقد استکبروا فی انفسھم وعتو عتوا کبیرا یوم یرون الملئکہ لا بشری یومئذ للمجرمین ویقولون حجرا محجورا وقدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا ویوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلا الملک یومئذ ن الحق للرحمن وکان یوما علی الکافرین عسیرا۱۹۷~}~ یعنی یہ نادان کہتے ہیں کہ یہ مسحور ہے اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں فرشتے نظر نہیں آتے- ہمیں کیوں خزانے دکھائی نہیں دیتے- لولا انزل علینا الملئکہ ہم پر وہ فرشتے کیوں نہیں اترتے جن کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اترتے ہیں- او انری ربنا یا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے رب کو دیکھتا ہوں- ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا- یہ جاہل خیال کرتے ہیں کہ ہمیں چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے جو ان کے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو مسحور ہے- مگر یہ اپنے نفسوں کو نہیں دیکھتے- کیا ایسے گندوں کو خدا نظر آ سکتا ہے- انہوں نے بڑی سرکشی سے کام لیا ہے- یوم یرون الملئکہ لابشری یومئذ للمجرمین- ان کو بھی فرشتے نظر آئیں گے مگر اور طرح- جب انہیں فرشتے نظر آئیں گے تو یہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے کہ کاش یہ ہمیں دکھائی نہ دیتے- اس دن مجرموں کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی- بلکہ یہ گھبرا کر کہیں گے کہ ہم سے پرے ہی رہو- اسی طرح ہم بھی ان کو نظر تو آئیں گے مگر انعام دینے کیلئے نہیں بلکہ قدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا- ہم ان کو تباہ کرنے کیلئے ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے اور ان کی حکومت کو باریک ذروں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے- اور وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک مسحور کے پیچھے چل رہے ہیں- ان کے لئے وہ بڑی خوشی کا دن ہوگا- اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقر واحسن مقیلا- ان کو نہایت اعلیٰ جگہ اور آرم دہ ٹھکانا ملے گا- اس کی آگے تفصیل بیان کی ہے- کہ یوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلااس دن آسمان سے بارش برسے گی- اور بہت سے فرشتے اتارے جائیں گے- جیسے بدر کے موقع پر ہوا- الملک یومئذ ن الحق للرحمن- اس دن مکہ کی حکومت تباہ کر دی جائے گی- اور حکومت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دی جائے گی- وکان یوما علی الکفرین عسیرا]text [tagاور مکہ کی فتح کا دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا-
باقی رہے خزانے سو ان کے متعلق فرمایا- وقال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا ۱۹۸~}~ہمارا یہ رسول قیامت کے دن اپنے خدا سے کہے گا کہ اے میرے رب! انہوں نے اگر حکومت نہ دیکھی تھی تو اس کے متعلق اعتراض کر لیتے- خزانے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے- فرشتے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے مگر یہ قرآن کو دیکھ کر کس طرح انکار کر سکتے تھے- مگر افسوس کہ اتنے بڑے قیمتی خرانہ کا بھی انہوں نے انکار کر دیا- حالانکہ یہ تو ان کو دکھائی دینے والی چیز تھی-
سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحور کہا جاتا تھا- چنانچہ فرماتا ہے- اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا- ۱۹۹~}~یعنی ظالم لوگ کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور کی پیروی کر رہے ہو- پھر اس جگہ اور سورہ فرقان میں بھی اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے- انظر کیف ضربوا لک الا مثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا ۲۰۰~}~
یعنی دیکھ یہ کیسی باتیں تیرے لئے بیان کرتے ہیں- حالانہ یہ سارا زور تیرے پیش کردہ کلام کے رد میں لگا رہے ہیں- اور ناکامی اور نامرادی کی وجہ سے ان کی جانیں نکلی جا رہی ہیں مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس پر کسی جادو کا اثر ہے- اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمزور کے مقابلہ سے یہ لوگ کیوں عاجز آ رہے ہیں- مسحور تو دوسروں کا تابع ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے تابع کر رہا ہے- اور دوسرے تمام لوگ اس کے مقابل پر عاجز ہیں-
مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتراض میں مسلمان بھی کافروں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں- اورانہوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دفعہ جادو کر دیا تھا- اور اس کے اثرات بڑے لمبے عرصہ تک آپﷺ~ پر رہے- اور اس میں وہ امام بخاری کو بھی گھسیٹ لائے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں وہ صاف طور پر پڑھتے ہیں واللہ یعصمک من الناس- خدا تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا- اگر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کر سکتے تھے تو پھر یعصمک من الناس کس طرح درست ہوا؟ ہم تو دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو الگ رہے- آپﷺ~ کے غلاموں پر بھی کوئی سحر نہیں کر سکتا- ایک شخص نے ایک احمدی دوست سے بیان کیا کہ میں مسمریزم میں بڑا ماہر ہوں- ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب کے پاس جا کر ان پر مسمریزم کروں- اور لوگوں کے سامنے ان سے عجیب و غریب حرکات کرائوں- یہ خیال کر کے میں ان کی مجلس میں گیا- اور ان پر توجہ ڈالنے لگا- مگر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا- پھر میں نے اور زور لگایا- مگر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا- آخر میں نے سارا زور لگایا اور کوشش کی کہ آپ پر اثر ڈالوں مگر اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک شیر مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے- یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا- اور واپس چلا آیا- لاہور جا کر اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ بہت بڑے ولی اللہ ہیں- کسی نے اسے کہا- کہ تم نے ولی اللہ کس طرح سمجھ لیا- ہو سکتا ہے وہ مسمریزم میں تم سے زیادہ ماہر ہوں- اس نے کہا- مسمرائیزر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاموش ہو کر دوسرے پر توجہ ڈالے- مگر وہ اس وقت دوسروں سے باتیں کرتے رہے تھے اس لئے وہ مسمرائیزر نہیں ہو سکتے-
پانچواں اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا- کہ آپﷺ~ کاہن ہیں- کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو مختلف علامات سے آئندہ کی خبریں بتاتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ماتذکرون۲۰۱~}~لوگ تجھے کاہن کہتے ہیں- حالانکہ تیرا کلام ایسا نہیں- مگر یہ لوگ بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے-
یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جہاں دو جگہ مسحور کا ذکر آیا ہے وہاں دونوں جگہ یہ آیت بھی ساتھ آئی ہے کہ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلااسی طرح کاہن کا لفظ بھی دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ ذکر کا لفظ ساتھ ہے- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاہن اور مذکر دونوں اضداد میں سے ہیں- چنانچہ سورہ طور رکوع۲ میں آتا ہے- فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون ۲۰۲~}~ان لوگوں کو نصیحت کر کیونکہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہے نہ مجنون- یعنی کاہن مذکر نہیں ہو سکتا- اور مذکر کاہن نہیں ہو سکتا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کاہن درحقیقت ارڑپوپو کی قسم کے لوگوں کو کہتے ہیں جو بعض علامتوں وغیرہ سے اخبار غیبیہ بتاتے ہیں- چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی اخبار بتاتے تھے- بعض نادان آپﷺ~ کو کاہن کہہ دیتے تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی اخبار تو محض اخبار ہوتی ہیں- پھر یہ کاہن کیونکر ہوا- کاہنوں کی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے مولوی برہان الدین جہلمی کو ایک نے بتائی تھی- مولوی صاحب نے ایک دفعہ پردہ میں بیٹھ کر ایک ارڑپوپو کو اپنا ہاتھ دکھایا- اس نے آپ کو عورت سمجھ کر خاوند کے متعلق باتیں بتانی شروع کر دیں- جب وہ بہت کچھ بیان کر چکا تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی داڑھی اس کے سامنے کر دی- یہ دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا- اور پھر کبھی اس محلہ میں نہیں آیا-
غرض کاہنوں کی خبریں محض خبریں ہی ہوتی ہیں کہ فلاں کے ہاں بیٹا ہوگا- فلاں مر جائے گا ان میں خدا تعالیٰ کی قدرت کااظہار نہیں ہوتا- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خبریں بتاتے ہیں ان کو کاہنوں والی خبریں نہیں کہا جا سکتا- یہ تو ایمان کو تازہ کرنے والی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں- رسول کہتا ہے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں جو میرا مقابلہ کرے گا وہ ناکام رہے گا- اور جو مجھے مان لے گا جیت جائے گا- مگر کوئی کاہن یہ نہیں کہہ سکتا- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کاہن کا قول ہے- ان کی عقل ایسی ماری گئی ہے- کہ اتنی پیشگوئیاں سنتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کا اظہار ہے- مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے-
دوسرا رد اس کا یہ فرمایا- فلا اقسم بما تبصرون ومالا تبصرون انہ لقول رسول کریم وما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون ولا بقول کاھن قلیلا ماتذکرون تنزیل من رب العلمین ولو تقول علینا بعض الا قاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین فما منکم من احد عنہ حجزین ۲۰۳~}~یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کو بھی جسے تم دیکھتے ہو اور اس کو بھی جسے تم نہیں دیکھتے- یعنی اس کے ظاہری اور باطنی دونوں حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قرآن ایک عزت والے رسول کا کلام ہے- ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بات میں کاہن اور شاعر دونوں مشترک ہوتے ہیں- شاعر بھی بڑے بڑے جذبات کا اظہار کرتا ہے- اور سب کچھ بیان کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دیتا ہے- اسی طرح کاہن بھی خبریں بتا کر مانگتا پھرتا ہے- مگر فرمایا یہ رسول تو ایسا ہے جو اپنے پاس سے خرچ کرتا ہے- کاہن تو دوسروں سے مانگتا ہے- یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام قرار دیا گیا ہے- یہاں رسول کہہ کر اس شبہ کو رد کر دیا ہے- اور بتایا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں کیونکہ رسول وہی ہوتا ہے جو دوسرے کا پیغام لائے اگر محمد )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( اپنی طرف سے بیان کرتا تو آپﷺ~ کا کلام سمجھا جاتا ہے- مگر یہ تو رسول ہے-
تیسری دلیل یہ دی کہ کاہن تو اپنے اخبار کو اپنے علم کی طرف منسوب کرتا ہے- اور کہتا ہے کہ میں نے جفر` رمل` تیروں اور ہندوسوں وغیرہ سے یہ یہ باتیں معلوم کی ہیں- وہ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی خبروں کو منسوب نہیں کرتا- مگر یہ رسول کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے کلام پا کر سناتا ہوں اور یہ اپنے کلام کو تنزیل من رب العلمین کہتا ہے-
یہاں یہ بھی بتا دیا کہ کاہن ایسی باتیں بیان کرنے کی وجہ سے اس لئے سزا نہیں پاتا کہ وہ خدا پر تقول نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے بیان کرتا ہے- مگر رسول کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے میں بیان کرتا ہوں- اگر رسول جھوٹا ہو تو فوراً تباہ کر دیا جاتا ہے- پس یہ کاہن نہیں ہے بلکہ خدا کا سچا رسول ہے- اور اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- یہ رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے- اگر کہو کہ یہ اس طرح اپنی کہانت کو چھپاتا ہے تو یاد رکھو کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والا کبھی سزا سے نہیں بچ سکتا- اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا- خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جو اسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا-
چھٹا اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپﷺ~ شاعر ہیں- چنانچہ سورۃ انبیاء رکوع اول میں آتا ہے بل ھو شاعر کہ یہ فصیح باتیں بیان کر کے لوگوں پر اثر ڈال لیتا ہے- اس کا جواب سورۃ یٰسین رکوع ۵ میں یہ دیا کہ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ- ان ھو الا ذکر و قران مبین لینذر من کان حیا و یحق القول علی الکافرین۲۰۴~}~ یعنی ہم نے اسے شعر نہیں سکھایا- اور یہ تو اس کی شان کے مطابق بھی نہیں ہے- یہ تو ذکر اور قران مبین ہے- کھول کھول کر باتیں سنانے والا ہے- یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ اسے جس میں روحانی زندگی ہے ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے-
اس میں الل¶ہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اول قرآن شعر نہیں- ان لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ نثر کو شعر کہتے ہیں- دوم- اگر کہیں کہ مجازی معنوں میں شعر کہتے ہیں کیونکہ شعر کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اندر سے باہر آئے اور شعر کو اس لئے شعر کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات کو ابھارتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ وما ینبغی لہ یہ تو اس کی شان کے ہی مطابق نہیں کہ اس قسم کی باتیں کرے- اس کی ساری زندگی دیکھ لو- شاعر کی غرض اپنے آپ کو مشہور کرنا ہوتی ہے- مگر یہ تو کہتا ہے مثلکم ]ttex [tagمیں تمہارے جیسا ہی انسان ہوں- پھر شاعر ان لوگوں کی مدح کرتا ہے جن سے اس نے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے- مگر یہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں لیتا- نہ کچھ مانگتا ہوں- پس شاعری اور اس کا لایا ہوا کلام آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتے- سوم- پھر اس میں ذکر ہے حالانکہ شعر ذکر نہیں ہوتا- یعنی شاعر اندرونی جذبات کو ابھارتا ہے- شہوت اور حسن پرستی کا ذکر کرتا ہے- مگر یہ ایسی باتوں کی مذمت کرتا ہے- چہارم- پھر یہ ایسا کلام ہے جو فطرت کے اعلیٰ محاسن کو بیدار کر کے جن کی فطرت صحیح ہوتی ہے- انہیں بدیوں سے بچاتا ہے- اور جو مردہ ہوتے ہیں ان پر حجت تمام کرتا ہے- حالانکہ شاعر جذبات بہیمیہ کو ابھارتا ہے- پس اسے مجازی طور پر بھی شعر نہیں کہہسکتے-
ساتواں اعتراض
ساتواں اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ معلم ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انی لھم الذکری و قدجاء ھم رسول مبین ثم تولوا عنہ و قالو معلم مجنون۲۰۵~}~ فرمایا ان نامعقولوں کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگئی- حالانکہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کے معارف بیان کرنے والا رسول آیا- مگر یہ کہاں اس سے منہ پھیر کر چلے گئے- اور کہہ دیا کہ اسے کوئی اور سکھا جاتا ہے اور مجنون ہے- مطلب یہ کہ یہ ایسا نادان ہے کہ لوگ اس کو اس کے باپ دادا کے دین کے خلاف باتیں بتا جاتے ہیں اور یہ آگے ان کو بیان کر دیتا ہے-
بعض لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں کہ قرآن نہ آپﷺ~ پر نازل ہوا- نہ آپﷺ~ نے بنایا بلکہ کوئی اور شخص ان کو سکھا دیتا تھا- مکہ والے کہتے تھے کہ مکہ کا ہو کر محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کس طرح اپنی قوم کے بتوں کی مذمت کر سکتا ہے- اور ان کے مقابلہ میں دوسری قوم کے نبیوں کی تعریف کر سکتا ہے اسے کوئی اور اس قسم کی باتیں سکھا جاتا ہے- جب وہ حضرت موسیٰؑ کی تعریف قرآن میں سنتے تو کہتے کہ کوئی یہودی سکھا گیا ہے اور جب حضرت عیٰسیؑ کی تعریف سنتے تو کہتے کوئی عیسائی بتا گیا ہے- اس میں ان کو اس بات سے بھی تائید مل جاتی کہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں- اس جگہ مجنوں حقیقی معنوں میں نہیں آیا- بلکہ غصہ کا کلام ہے کیونکہ معلم اور مجنوں یکجا نہیں ہو سکتے- مطلب یہ کہ پاگل ہے- اتنا نہیں سمجھتا کہ لوگ اسے اپنے مذہب اور قوم کے خلاف باتیں سکھاتے ہیں-
‏a.10.13
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
قرآن کریم میں دو جگہ بھی یہ ذکر آیا ہے- سورہ نحل رکوع ۱۴ میں ہے- قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین امنوا وھدی وبشری للمسلمین ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین ۲۰۶~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو مخالفوں سے کہدے کہ قرآن کو روح القدس نے اتارا ہے تیرے رب کی طرف سے ساری سچائیاں اس میں موجود ہیں- اور اس لئے اتارا ہے کہ مومنوں کے دل مضبوط ہوں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو- اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کسی اور نے قرآن سکھایا ہے مگر جس کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے )عجمی وہ ہوتا ہے جو عرب نہ ہو- یا عرب تو ہو مگر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح عربی میں بیان نہ کر سکے( اور یہ جو کلام ہے یہ تو زبان عربی میں ہے اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ خوب کھول کھول کر بیان کرنے والی-
دوسری جگہ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک افترانہ واعانہ علیہ قوم اخرون فقد جاوا ظلما و زورا و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض انہ کان غفورا رحیما ۲۰۷~}~یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ صرف ایک جھوٹ ہے- جو اس نے بنا لیا ہے اور اس بنانے میں کچھ اور بھی لوگ اس کی مدد کرتے ہیں- یہ بات کہنے میں انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے- اور بڑا افترا باندھا ہے و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے قصے ہیں جو لکھوا لیتا ہے- یعنی دو جماعتیں ہیں ایک مضمون بناتی ہے اور ایک لکھ لکھ کر دیتی ہے- فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا پھر اس کی مجلس میں اسے خوب پڑھتے ہیں- تا کہ یاد ہو جائے قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض کہدے- اسے خدا نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جاننے والا ہے- انہ کان غفورا رحیما وہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے-
اس اعتراض میں آج کل عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں- اور بڑے بڑے مصنف مزے لے لے کر اسے بیان کرتے ہیں- وہ کہتے ہیں- محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو کیا پتہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے- وہ عیسائی اور یہودی ہی تھے جو باتیں بنا کر ان کو دیتے تھے- چونکہ اب بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے اس لئے میں کسی قدر تفصیل سے اس کا جواب بیان کرتا ہوں-
مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اسے بشر سکھاتا ہے- اس بشر سے مراد جبر رومی غلام تھا- جو عامر بن حضرمی کا غلام تھا- اس نے تورات اور انجیل پڑھی ہوئی تھی- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ تکلیف دینے لگے تو آپﷺ~ اس کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے- اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا- دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ فرا اور زجاج کہتے ہیں کہ حویطب ابن عبدالعزیٰ کا ایک غلام عائش یا یعیش نامی پہلی کتب پڑھا کرتا تھا- بعد میں پختہ مسلمان ہو گیا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تھا- اس کی نسبت لوگ یہ الزام لگاتے تھے- مقاتل اور ابن جبیر کا قول ہے کہ ابوفکیہ پر لوگ شبہ کرتے تھے ان کا نام یسار تھا- مذہباً یہودی تھے اور مکہ کی ایک عورت کے غلام تھے- بیہقی اور آدم بن ابی ایاس نے عبداللہ بن مسلم الحضرمی سے روایت لکھی ہے کہ ہمارے دو غلام یسار اور جبر نامی تھے دونوں نصرانی تھے اور عین التجر کے رہنے والے تھے- دنوں لوہار تھے- اور تلواریں بنایا کرتے تھے اور کام کرتے ہوئے انجیل پڑھا کرتے تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس ٹھہر جاتے- ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک غلام سے لوگوں نے پوچھا- کہ انک تعلم محمدا فقال لا ھو یعلمنی- کیا تم محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو سکھاتے ہو؟ اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتا ہے- ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعجمی رومی غلام مکہ میں تھا- اس کا نام ملبام تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام سکھایا کرتے تھے اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو سکھاتا ہے- )روح المعانی(
مسیحی مورخ لکھتے ہیں کہ غالباً آپﷺ~ نے بحیرہ راھب سے سیکھا تھا- چونکہ مسیحی تاریخوں میں بحیرہ کا کہیں پتہ نہیں ملتا- اس وجہ سے ابتداء تو وہ اس کے وجود سے ہی منکر تھے لیکن اب مسعودی کی ایک روایت کی وجہ سے اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں- اور اس اعتراض کے رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں- وہ روایت یہ ہے کہ بحیرہ کو مسیحی لوگ سرگیس کہا کرتے تھے اور Sergius نامی ایک پادری کا پتہ مسیحی کتب میں مل جاتا ہے- پس اب وہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے سیکھ کر رسول کریم )صلی اللہ علیہ وسلم( نے نعوذ باللہ قرآن بنا لیا- سیل اس خیال کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بحیرہ کا مکہ جانا ثابت نہیں- اور یہ خیال کہ آپﷺ~ نے جوانی میں دعویٰ سے بہت پہلے بحیرہ سے قرآن سیکھا ہو عقل کے خلاف ہے- ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مسیحیت کا کچھ علم سیکھا ہو-
وہیری ان روایتوں سے خوش ہو کر کہتا ہے کہ خواہ ناموں میں اختلاف ہی ہو لیکن یہ روایت اتنی کثرت سے آتی ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے- کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے پاس بعض مسیحی اور یہودی آتے تھے- اور یہ کہ انہوں نے ان کی گفتگو سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا اور جواب کی کمزوری بتاتی ہے کہ کچھ دال میں کالا کالا ضرور ہے` ورنہ یہ کیا جواب ہوا کہ اس کی زبان اعجمی ہے- ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بنا دیتا ہو- اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( اسے عربی میں ڈھال لیتے ہوں )وہ اپنے اس خیال کی تصدیق میں آرنلڈ کو بھی پیش کرتا ہے( اس کے بعد وہ لکھتا ہے-:
‏reiterate to hesitate not do we that this of because is <It deliberate of charge old the۲۰۸~}~]tqi-eng >[tag۔imposture
یعنی >ہم یہ پرانا الزام دہراتے ہوئے اپنے دل میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے جان بوجھ کر جھوٹ بنایا<-
اوپر کے مضمون سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ اس اعتراض کو خاص اہمیت دیتے تھے- اور ان کے وارث مسیحیوں نے اس اہمیت کو اب تک قائم رکھا ہے- میں پہلے مسیحیوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں- اور اس شخص کو جواب میں پیش کرتا ہوں جسے عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں- حضرت مسیح پر یہ اعتراض ہوا تھا- کہ ان کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور دیوئوں کو اس کی مدد سے نکالتے ہیں- چنانچہ لکھا ہے-:
>پھر وہ ایک گونگی بد روح کو نکال رہا تھا- اور جب وہ بدروح اتر گئی تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب کیا- لیکن ان میں سے بعض نے کہا- یہ تو بدروحوں کے سردار بعل زبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے بعض اور لوگ آزمائش کے لئے اس سے ایک آسمانی نشان طلب کرنے لگے مگر اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا کہ جس کسی بادشاہت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے- اور اگر شیطان بھی اپنا مخالف ہو جائے تو اس کی بادشاہت کس طرح قائم رہے گی- کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعل زبول کی مدد سے نکالتا ہے<-۲۰۹~}~
یہاں حضرت مسیح نے ایک قانون پیش کیا ہے- جب ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ شیطان کو شیطان کی مدد سے نکالتے ہیں تو انہوں نے کہا- شیطان شیطان کو کیوں نکالے گا؟ اس قانون کے ماتحت غور کر لو کہ کیا قرآن کسی یہودی یا عیسائی کا بنایا ہوا نظر آتا ہے- اگر کسی عیسائی کا بنایا ہوا ہوتا تو عیسائیت کے رد سے کس طرح بھرا ہوا ہوتا؟ اور اگر کسی یہودی نے بنایا ہوتا تو اس میں یہودیت کا کس طرح رد ہوتا؟ عیسائیت کا کوئی فرقہ بتا دو اس کا رد قرآن سے دکھا دیا جائیگا- اسی طرح کوئی یہودی فرقہ پیش کرو- اس کا رد قرآن میں موجود ہے- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کوئی عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کی آپ تردید کرے گا- قرآن پورے طور پر عیسائیت کو رد کرتا ہے- ہم دور نہیں جاتے پہلی سورۃ میں ہی قرآن نے عیسائیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں- پہلی سورت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی یہ ہے-:
اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی ان الی ربک الرجعی ارئیت الذی ینھی وعبدا اذا صلی ارئیت ان کان علی الھدی او امر بالتقوی ارئیت ان کذب وتولی الم یعلم بان اللہ یری کلا لئن لم ینتہ لنسفعا بالناصیہ ناصیہ کاذبہ خاطئہ فلیدع نادیہ سندع الزبانیہ کلا لا تطعہ و اسجد و اقترب ۲۱۰~}~
یہ سورۃ جو سب سے پہلی سورت ہے- اسی میں عیسائیت کے تمام مسائل کو رد کر دیا گیا ہے- پہلا حملہ عیسائیت پر یہ ہے کہ فرمایا- خلق الانسان من علق- عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان کی فطرت میں گناہ ہے- عیسائیت کہتی ہے- انسان فطرتاً گناہگار ہے اور عمل سے نیک نہیں بن سکتا- اس لئے مسیح کو جو پاک اور بے عیب تھا صلیب پر چڑھا دیا گیا- اسی طرح وہ انسانوں کے گناہ اپنے اوپر اٹھا کر قربان ہو گیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خلق الانسان من علق- انسان کی فطرت میں خدا کی محبت رکھی گئی ہے اور اس کی بناوٹ میں ہی خدا سے تعلق رکھا گیا ہے- اس طرح عیسائیت کا پہلا عقیدہ باطل کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ کفارہ کوئی چیز نہیں ہے اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ انسان گناہ گار ہے- لیکن اسلام شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان نیک ہے اور اس کی فطرت میں خدا سے محبت رکھی گئی ہے نہ کہ گناہ-
دوسرا جواب یہ دیا- کہ اقرا و ربک الاکرم خدا جو تیرا رب ہے اس کی یہ شان ہے کہ دوسری چیزوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں ان سب سے اعلیٰ صفات اس میں جلوہ گر ہیں- عیسائیت کہتی ہے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں- وہ گناہگار کو نہیں بخش سکتا- مگر اسلام کہتا ہے- جب انسان اپنے قصور وار کو بخش سکتا ہے اور انسان میں عفو کی صفت ہے تو خدا کیوں نہیں بخش سکتا- اور اس میں کیوں یہ صفت نہیں- اس میں تو بدرجہ اتم یہ صفت ہے- کیونکہ وہ اکرم ہے- یعنی تمام صفات حسنہ میں سب سے بڑھ کر ہے-
تیسرا رد یہ کیا کہ فرمایا علم الانسان مالم یعلم- عیسائیت کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ شریعت *** ہے- لیکن قرآن نے بتایا کہ شریعت میں وہ باتیں ہیں جو انسان عقل سے دریافت نہیں کر سکتا- انسان اپنی کوشش سے شرعی احکام نہیں بنا سکتے اس لئے شریعت آتی ہے-
چوتھی زد عیسائیت پر یہ کی کہ فرمایا کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی انسان بڑا ہی سرکش ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا کی شریعت کی ضرورت نہیں- میں خود اپنی راہ نمائی کے سامان مہیا کر لونگا- یہ کہنے والے بہت نامعقول لوگ ہیں-
پانچواں رد یہ کیا کہ فرمایا- کلا لا تطعہ واسجد و اقترب- ایسے لوگوں کی باتیں کبھی نہ سننا اور اللہ کی خوب عبادت اور فرمانبرداری کرنا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ کسی راہب کی بات نہ سننا جو شریعت کو *** قرار دیتا ہے بلکہ خدا کی فرمانبرداری میں لگا رہ- گویا نجات اور قرب الہی کا ذریعہ بجائے کسی کفارہ پر ایمان لانے کے سجدہ یعنی فرمانبرداری یا بالفاظ دیگر اسلام کو قرار دیاہے-
پس قرآن کی تو پہلی سورۃ نے ہی مسیحیت کو رد کیا ہے اور بادلیل رد کیا ہے- اسی طرح سورۃ فاتحہ میں عیسائیت اور یہودیت کو رد کیا گیا ہے- پھر کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کے خلاف خود دلائل بتایا کرتے تھے- دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں- یا تو عیسائی راہب اپنے مذہب کو ماننے والا ہوگا- یا نہ ماننے والا- اگر ماننے والا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اپنے مذہب کی تائید کرتا- نہ کہ اس کے خلاف باتیں بتاتا- اور اگر نہ ماننے والا تھا اور سمجھتا تھا کہ جو باتیں اس کے ذہن میں آئی ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی ہیں تو اس نے ان کو خود اپنی طرف منسوب کر کے کیوں نہ پیش کیا- اسے چاہئے تھا کہ اپنے نام پر کتاب لکھتا نہ کہ لکھ کر دوسرے کو دے دیتا-
اب میں ان آیتوں اور ان میں مذکور جوابات کو لیتا ہوں- سورہ نحل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اسے کوئی اور آدمی سکھاتا ہے- اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ وہ شخص تو عجمی ہے اور قرآن کی زبان عربی ہے- وھیری کہتا ہے کہ یہ جواب بالکل بودا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے- مضمون وہ عجمی بنا کر دیتا تھا- آگے عربی میں وہ خود ڈھال لیتے تھے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے دوسرے جواب بھی ایسے ہی بودے ہوتے ہیں- اگر قرآن کی دوسری باتیں ارفع اور اعلیٰ ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ جواب بھی ضرور اعلیٰ ہوگا- اور جو مطلب ہم سمجھتے ہیں وہ غلط ہوگا- دوسرے اگر یہ جواب بے جوڑ تھا تو کیوں مکہ والوں نے اسے رد نہ کر دیا اور کیوں وہیری والا جواب انہوں نے نہ دیا ان کا تو اپنا اعتراض تھا اور وہ اپنے اعتراض کا مطلب وہیری وغیرہ سے بہتر سمجھتے تھے- وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو بے معنی جواب ہے- مگر کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ مکہ والوں نے کہا ہو- یہ جواب بے جوڑ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جو اعتراض تھا اس کا جواب انہیں صحیح اور مسکت مل گیا تھا- اسی لئے وہ خاموش ہو گئے-
اب رہا یہ امر کہ اچھا پھر سوال و جواب کا مطلب کیا تھا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں کفار کا سوال ایک نہ تھا بلکہ دو تھے اور ان سوالوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی قرآنی جواب کو بے جوڑ قرار دے دیا گیا ہے- ان میں سے ایک کا ذکر سورہ نحل میں ہے اور دوسرے کا سورہ فرقان میں- سورہ نحل کا وہ سوال نہیں جو سورہ فرقان کا ہے- اور سورہ فرقان میں وہ نہیں جو سورہ نحل میں ہے- چنانچہ سورہ نحل میں یہ اعتراض نقل ہے کہ ایک عجمی شخص آپﷺ~ کو سکھاتا ہے- قرآن کریم نے اس کا نام نہیں لیا- مگر یہ کہا کہ لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی کہ وہ جس کی طرف قرآن کو منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کسی خاص شخص کا نام لیتے تھے- پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ شخص معروف تھا اور مسلمان بھی اس شخص کا نام جانتے تھے-
سورہ فرقان کی آیت اس سے مختلف ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کسی خاص آدمی کا نام لئے بغیر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتی ہے- اور رات دن آپ کے پاس رہتی ہے اور آپ بعض دوسرے لوگوں سے اس جماعت کے بتائے ہوئے واقعات کو لکھوا لیتے ہیں-
یہ فرق نمایاں ہے- ایک میں ایک خاص شخص کا ذکر ہے اور دوسری میں غیر معین جماعت کا ذکر ہے- ایک میں صرف سیکھنے کا ذکر ہے اور دوسری میں بعض لوگوں سے لکھوانے کا بھی ذکر ہے- ایک میں محض تعلیم کا ذکر ہے اور دوسری میں پہلوں کے واقعات اور خیالات کے نقل کرنے کا ذکر ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ دونوں جگہ جواب الگ الگ دیا گیا ہے- یہ فرق اتنے نمایاں ہیں کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے-
اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا- تو شروع میں ہی بعض غلام آپﷺ~ پر ایمان لے آئے تھے- وہ پہلے بت پرست یا عیسائی یا یہودی تھے- انہیں جب صبح و شام فرصت ملتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچ جاتے اور دوسرے صحابہؓ کے ساتھ دین سیکھتے- اور نمازیں پڑھتے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکان پر یہ اجتماع ہوتا تھا- حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ ایک دن اپنے گھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکلے- کسی نے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمدﷺ~ جو صابی ہو گیا ہے اس کی خبر لینے جا رہا ہوں- اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو- انہوں نے کہا- کیا ہوگیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں- یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر گئے- اور جا کر دستک دی- اس وقت ایک صحابیؓ ان کو قرآن پڑھا رہے تھے- جب انہیں معلوم ہوا کہ عمرؓ ہیں تو صحابیؓ کو چھپا دیا گیا اور بہن اور بہنوئی سامنے ہوئے- انہوں نے پوچھا کہ کس طرح آئے ہو- عمرؓ نے کہا- بتائو تم کیا کر رہے تھے- میں نے سنا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو- انہوں نے کہا- یہ غلط ہے- ہم تو صابی نہیں ہوئے- عمرؓ نے کہا میں نے تو خود تمہاری آواز سنی ہے- تم کچھ پڑھ رہے تھے- اور بہنوئی پر حملہ کر دیا- یہ دیکھ کر بہن آگے آگئی- اور ضرب اس کے سر پر پڑی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا- اس پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا- ہم مسلمان ہو گئے ہیں- اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں- تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو- جب حضرت عمرؓنے یہ حالت دیکھی تو چونکہ وہ ایک بہادر انسان تھے- اور ان کا وار ایک عورت پر پڑا جو ان کی بہن تھی- اس سے انہیں سخت شرمندگی محسوس ہوئی- اور انہوں نے کہا کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھائو- اس نے کہا- تم مشرک اور ناپاک ہو- پہلے جا کر نہائو- پھر بتائیں گے- چنانچہ وہ نہائے اور رہا سہا غصہ بھی دور ہو گیا- اس کے بعد قرآن کی جو آیات پڑھ رہے تھے وہ انہیں سنائی گئیں- حضرت عمرؓ کا دل ان کو سن کر پگھل گیا- اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ-اس وقت وہ صحابی جن کو انہوں نے چھپایا ہوا تھا- وہ بھی باہر آگئے حضرت عمرؓ نے کہا- بتائو تمہارا سردار کہاں ہے- میں اسکے پاس جانا چاہتا ہوں- انہیں بتایا گیا- کہ فلاں گھر میں مسلمان جمع ہوتے ہیں- حضرت عمرؓ وہاں گئے- وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہؓ موجود تھے اور دروازہ بند تھا- جب حضرت عمرؓ نے دستک دی- تو صحابہؓ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے اپنا نام بتایا تو صحابہؓ نے ڈرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا- عمرؓ آیا ہے- دروازہ کے سوراخ سے انہوں نے دیکھا کہ تلوار ان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- دروازہ کھول دو- جب عمرؓ اندر داخل ہوئے تو رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کرتہ پکڑ کر کہا- عمرؓ کس نیت سے آئے ہو- انہوں نے کہا- اسلام قبول کرنے کیلئے- آپﷺ~ نے فرمایا- اللہ اکبر- یہ سن کر باقی صحابہؓ نے بھی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا-۲۲۱~}~ اس واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ صحابہؓ کو دین سکھانے کے لئے الگ مکان میں بلا لیتے- چونکہ آپﷺ~ دروازہ بند کر کے بیٹھتے تھے تا کہ کفار شرارت نہ کریں- اس لئے کفار کے نزدیک اس قسم کا اجتماع بالکل عجیب بات تھی- وہ خیال کرتے تھے کہ وہاں قرآن بنایا جاتا ہے- اور چونکہ انبیاء سابق کے بعض واقعات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ تھا وہ یہ خیال کرتے کہ مسیحی اور یہودی غلام یہ باتیں ان لوگوں کو بتاتے ہیں- اور دوسرے صحابہؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک ن افترئہ واعانہ علیہ قوم اخرون فقد جاء واظلما و زورا یعنی منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بنا لیا گیا ہے- اور کچھ لوگ اس میں مدد دیتے ہیں- مگر ان کا یہ اعتراض بالبداہت ظلم اور جھوٹ پر مبنی ہے- کیونکہ کیا مسیحی غلام ایسا کر سکتے ہیں کہ خود اپنے دین پر ہنسی کرائیں- آخر انہیں اس کی کیا ضرورت ہے اور کیا فائدہ ہے کہ وہ اسی بات پر رات دن ماریں کھائیں اور گرم ریت پر گھیسٹے جائیں اور ایک بے فائدہ فریب میں شامل ہوں- پس ایسے مخلص لوگوں پر یہ اعتراض کر کے ان لوگوں نے ظلم اور جھوٹ سے کام لیا ہے- یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ ایسا جھوٹ بنا سکیں-
دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جن کو تم پرانے قصے سمجھتے ہو وہ قصے نہیں بلکہ آئندہ کے متعلق خبریں اور پیشگوئیاں ہیں- چنانچہ فرماتا ہے- قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض۲۱۲~}~ تو کہہ دے کہ یہ خدا کا کام ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے واقف ہے- کوئی انسان ایسا کلام نہیں بنا سکتا- یہ تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب خدا ہی جانتا ہے-
اب ان جوابوں کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور مضبوط ہیں- اور وھیری کا خیال کس قدر بے معنی ہے- اگر یہاں بھی وہی اعتراض سورہ نحل والا ہوتا تو اس کا وہی جواب کیوں نہ دیا جاتا جو وہاں دیا گیا ہے- آخر کیا وجہ تھی کہ اگر یہی سوال سورہ نحل میں تھا تو اس کا جواب بقول وہیری کے بیہودہ دیا جاتا- ایک شخص جو صحیح جواب جانتا ہے اور وہ جواب دے بھی چکا ہے اسے وہ جواب چھوڑ کر اور جواب دینے کی کیا ضرورت تھی- پس یہ جواب لغو نہیں بلکہ معترضین کی اپنی سمجھ ناقص ہے- اصل بات یہ ہے کہ سورہ نحل میں یہ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسے مضمون بنا دیتا ہے- بلکہ یہ ذکر ہے کہ نادان لوگ ایک ایسے شخص کی نسبت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کو سکھاتا ہے جو خود عجمی تھا- یعنی اپنا مفہوم اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا تھا- صرف تھوڑی سی عربی جانتا تھا- )عجمی کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو اپنا مفہوم اچھی طرح ادا نہ کر سکے چنانچہ لغت میں یہ معنی بھی لکھے ہیں(- اس کاجواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ دوسرے کا قول انسان دو طرح نقل ہے- ایک تو اس طرح کہ اس کا مطلب سمجھ کر اپنے الفاظ میں ادا کر دے- اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس کے الفاظ رٹ کر ادا کر دے- جیسے طوطا میاں مٹھو کہتا ہے- نقل انہی دو طریق سے ہو سکتی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- تم جانتے ہو کہ جس شخص کی طرف تم یہ بات منسوب کرتے ہو- وہ اپنا مطلب عربی زبان میں پوری طرح اد نہیں کر سکتا- پس جب وہ مطلب ہی بیان نہیں کر سکتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مضامین کس طرح سمجھاتا ہے کہ وہ عربی میں اس کو بیان کر دیتے ہیں- یہ جواب ہے آدھے حصے کا- دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اس کے قول کو نقل کیا جاتا- مگر یہ کس طرح ہو سکتا تھا- وہ تو عبرانی میں کہتا تھا اور اس کی بات اگر دہرائی جاتی تو عبرانی میں ہوتی- مگر قرآن تو عبرانی یا یونانی میں نہیں جس میں توارت یا انجیل لکھی ہوئی ہیں بلکہ عربی میں ہے- پس جب نہ وہ شخص اپنا مطلب عربی میں ادا کر سکتا ہے نہ قرآن کسی دوسری زبان کی نقل کر سکتا ہے تو اس کی طرف یہ کتاب کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے-
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت تک تورات اور انجیل کا کوئی ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا- چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض صحابہؓ کو عبرانی اس لئے پڑھوائی گئی کہ وہ تورات و انجیل پڑھ سکیں- دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ مفسرین دنیا بھر کے علوم کا ذکر تفسیروں میں کرتے ہیں- مگر جب بائیبل کا حوالہ دیتے ہیں تو بالعموم غلط دیتے ہیں- جس کی وجہ یہی تھی کہ عربی میں بائیبل نہ تھی- وہ سن سنا کر لکھتے اس لئے غلط ہوتا-
تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بخاری میں ورقہ بن نوفل کے متعلق لکھا ہے کہ کان یکتب الکتاب العبرانی۲۱۳~}~ وہ عبرانی میں تورات لکھا کرتے تھے- گویا اس وقت توریت اور انجیل عربی میں نہ تھی- پس یقیناً وہ غلام عبرانی یا یونانی میں انجیل پڑھتا تھا- اور عربی میں اس کا مفہوم بیان نہ کر سکتا تھا- اس طرح اس اعتراض کو رد کر دیا گیا-
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ جبیر نے کہا تھا کہ بل ھو یعلمنی جبیر آخر کار مسلمان ہو گیا تھا- عبداللہ بن ابی سرح نے مرتد ہونے پر اس کا راز کفار کو بتا دیا تھا- اور وہ اسے سخت تکالیف دیتے تھے- آخر فتح مکہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ دے کر اسے آزاد کروا دیا- اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتے تھے-
آٹھواں اعتراض
آٹھواں اعتراض یہ تھا کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے- اور اس کی طرف سے اسے کلام حاصل ہوتا ہے- اور گو کفار کا کوئی قول اس اعتراض کے متعلق نقل نہیں کیا گیا- مگر اس اعتراض کے اشارے ضرور پائے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما تنزلت بہ الشیطن ۲۱۴~}~شیطان اس کلام کو لیکر نہیں اترے- اسی طرح فرماتا ہے- وما ھو بقول شیطن رجیم ۲۱۵~}~یہ شیطان رجیم کا قول نہیں ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا یہ بھی اعتراض تھا کہ اس پر شیطان اترتا ہے- افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اعتراض کو اور پکا کر دیا ہے- اور کفار کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے- وہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار جمع ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپﷺ~ کے پاس ادنی درجہ کے لوگ آتے ہیں اور بڑے لوگ آپﷺ~ کی باتیں نہیں سنتے- اگر آپﷺ~ دین میں کچھ نرمی کر دیں تو ہم لوگ آپﷺ~ کے پاس آ کر بیٹھا کریں- اس طرح دوسرے لوگ بھی آپﷺ~ کے پاس آنے لگیں گے- اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ مان لیں گے- )مجھے کیا ہی لطف آیا اس شخص کے اس فقرہ سے جس کا نام نولڈکے ہے- وہ لکھتا ہے- >معلوم ہوتا ہے- یہ روایت بنانے والے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو اپنے جیسا ہی بیوقوف سمجھتے تھے<- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دین میں نرمی کرنے کا خیال آیا- اتنے میں آپﷺ~ نماز پڑھنے لگے اور سورہ نجم پڑھنی شروع کی- اس وقت شیطان نے افرئیتم اللت والعزی ومنوہ الثالثہ الاخری۲۱۶~}~کے بعد یہ کلمات آپﷺ~ کی زبان پر جاری کر دیئے کہ وتلک الغرانیق العلی- وان شفاعتھن لترتجی کیا تم نے لات اور عزیٰ اور منات کی حقیقت نہیں دیکھی- یہ بہت خوبصورت دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی بڑی امید ہے- چونکہ سورہ نجم کے آخر میں سجدہ آتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا- تو سب کفار نے بھی آپﷺ~ کے ساتھ سجدہ کر دیا- کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ آپﷺ~ نے دین میں نرمی کر دی ہے- اور بتوں کو مان لیا ہے-
اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ابن حجر جیسے آدمی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے- گو تاریخی طور پر یہ روایت بالکل غلط ہے- اور میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ محض جھوٹ ہے مگر اس وقت میں کسی تاویل میں نہیں پڑتا- میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہتا ہے- اور کیا واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہوا؟
اس موقعہ پر میں ایک مسلمان بزرگ کا قول بھی بیان کرتا ہوں جو مجھے بے انتہا پسند ہے میں تو جب بھی یہ قول پڑھتا ہوں ان کیلئے دعا کرتاہوں- یہ بزرگ قاضی عیاض ہیں- وہ فرماتے ہیں- شیطان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی تصرف نہیں کیا البتہ بعض محدثین کے قلم سے شیطان نے یہ روایت لکھوا دی ہے- گویا اگر شیطان کا تسلط کسی پر کرانا ہی ہے تو کیوں نہ محدثین پر کرایا جائے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو درمیان میں کیوں لایا جائے-
بعض نادان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھتے ہوئے یہ آیتیں بھی پڑھ دیں- اس پر جبریل نازل ہوا اور اس نے کہا- آپﷺ~ نے یہ کیا کیا- میں تو یہ آیتیں نہیں لایا تھا یہ تو شیطان نے جاری کی ہیں- یہ معلوم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت فکر ہوا- خدا تعالیٰ نے اس فکر کو یہ کہہ کر دور کر دیا کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطن ثم یحکم اللہ ایتہ واللہ علیم حکیم ۲۱۷~}~فرمایا- تم سے پہلے بھی کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا گیا کہ جب اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو تو شیطان نے اس میں دخل نہ دے دیا ہو- پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی بات کو مٹا دیتا ہے- اور جو اس کی اپنی طرف سے ہوتی ہے اسے قائم رکھتا ہے-
کہتے ہیں جب یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہو گئی- تسلی کس طرح ہوئی اسی طرح جس طرح اس بڑھیا عورت کی ہو گئی تھی جس سے کسی نے پوچھا کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تمارا کبڑا پن دور ہو جائے یا یہ کہ دوسری عورتیں بھی تمہاری طرح کبڑی ہو جائیں- اس نے کہا- مجھ پر تو دوسری عورتوں نے جس قدر ہنسی کرنی تھی کر لی ہے- اب باقی عورتیں بھی کبڑی ہو جائیں تا کہ میں بھی ان پر ہنسوں-
اس روایت کو درست قرار دینے والوں کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح تسلی ہوئی- اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہہ دیا کہ تم پر ہی شیطان کا قبضہ نہیں ہوا سب نبیوں پر ہوتا چلا آیا ہے- یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] [rtf کا فکر دور ہو گیا- کتنی نامعقول بات ہے- ان لوگوں نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- واللہ علیم حکیم اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے- کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا ہر نبی اور رسول پر قبضہ پا لینا بڑی حکمت کی بات ہے- اور پھر علیم کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے-
میں بیان کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کے قول سے مجھے بڑا مزہ آتا ہے- ان کا نام قاضی عیاض ہے- وہ اس قسم کی روایتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے یہ تو پتہ لگ گیا کہ شیطان کا تصرف ہوا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ ان روایتوں کو نقل کرنے والوں کی قلموں پر ہوا ہے- یہ بہت ہی لطیف بات ہے-
قرآن کریم نے اس کا جو جواب دیا ہے- وہ اسی جگہ موجود ہے جہاں کہتے ہیں کہ شیطان نے آیتیں نازل کیں- یعنی تلک الغرانیق العلی- وان شفا عتھن لترتجی کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آیت اتری- لکم الذکر ولہ الانثی تلک اذا قسمہ ضیزی ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم واباو کم ما انزل اللہ بھا من سلطان۲۱۸~}~ ]text [tagفرمایا- کیا تم اپنے لئے تو بیٹے قرار دیتے ہو- اور خدا کے لئے- لات` منات اور عزیٰ بیٹیاں- یہ کس قدر بھونڈی تقسیم ہے جو تم نے کی- یہ نام تم نے اپنے طور پر رکھ لئے ہیں- خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئے- خدا نے تو ان بتوں کے لئے اتارا ہی کچھ نہیں-
کیا ان آیات کے بعد کوئی شخص ان فقروں کو درمیان میں شامل سمجھ سکتا ہے- پس یہ آیات ہی بتا رہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل نہیں ہو سکتے- آخر کفار عربی تو جانتے تھے-
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آیتیں بھی اس حصہ کو رد کر رہی ہیں- فرمایا وما تنزلت بہ الشیطین وما ینبغی لھم وما یستطیعون ۲۱۹~}~یعنی اس میں شیطانی کلام کا اس قدر رد ہے کہ اسے شیطان اتار ہی کس طرح سکتا ہے- )۲(پھر اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا چاہیں- تو ملا ہی نہیں سکتے- کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی جو کچھ ملائیں گے- بے جوڑ ہوگا- جیسا کہ یہاں ہوا ہے- پھر آگے چل کر فرماتا ہے- ھل انبئکم علی من تنزل الشیطین تنزل علی کل افاک اثیم یلقون السمع و اکثر ھم کذبون ۲۲۰text]~}~ g[taکیا میں تمہیں بتائوں کہ شیطان کس طرح اترتے ہیں- شیطان کا تعلق ہر افاک اور اثیم کے ساتھ ہوتا ہے- یعنی جو بڑا جھوٹ بولنے والا اور گنہگار ہو اس سے شیطان کا تعلق ہوتا ہے- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو تم خود کہتے ہو کہ اس سے بڑھ کر سچا کوئی نہیں- اس کے امین ہونے کے بھی تم قائل ہو- پھر اس پر شیطان کا تصرف کس طرح ہو سکتا ہے- پھر فرماتا ہے- ان الشیطین لیوحون الی اولیئھم لیجادلو کم ۲۲۱2]~}~ ftr[کہ شیطان تو اپنی وحی شیطانوں کی طرف کرتا ہے تا کہ وہ تم سے جھگڑیں مومنوں کی طرف سے نہیں کرتا-
اب دیکھو وہ روائتیں جو بیان کی جاتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسا خطرناک الزام لگاتی ہیں- شیطان تو اپنے دوست کو ہی کہے گا- کہ یہ ہتھیار لے جا اور لڑ- کسی مسلمان کو وہ اپنے خلاف کس طرح بتائے گا-
اسی طرح سورہ نحل رکوع۱۳ میں آتا ہے انہ لیس لہ سلطن علی الذین امنوا وعلی ربھم یتوکلون انما سلطنہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون 2] fts[۲۲۲~}~یعنی شیطان کا مومنوں پر کوئی تسلط نہیں ہو سکتا جو خدا پر توکل رکھتے ہیں- شیطان کی حکومت تو انہی پر ہوتی ہے جو اس کے دوست ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں- محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ساری عمر شرک کا رد کرتے رہے- ان سے شیطان کا کیا تعلق ہو سکتا ہے-
نواں اعتراض
نواں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ شخص مفتری اور کذاب ہے- سورہ ص میں آتا ہے- دشمنوں نے کہا- ھذا ساحر کذاب اسی طرح سورہ نحل ۱۶ میں آتا ہے- قالوا انما انت مفتری ۲۲۳~}~مخالفت کہتے ہیں کہ تو مفتری ہے اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ وماکان ھذا القران ان یفتری من دون اللہ ولکن تصدیق الذی بین یدیہ وتفصیل الکتب لاریب فیہ من رب العلمین ام یقولون افترئہ قل فاتوا بسورہ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین ۲۲۴~}~فرمایا- یہ قرآن خدا کے سوا کسی اور سے بنایا ہی نہیں جا سکتا- اس کے اندر تو پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق ہے- پھر اس کے اندر الہامی کتابوں کی تفصیل ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں- یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے- یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے پاس سے بنا لی ہے- ان سے کہو کہ تم اس جیسی کوئی ایک ہی سورت لے آئو- اکیلے نہیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم واقع میں سچے ہو-
قرآن کریم کے متعلق پانچ دعوے
اس آیت میں پانچ دعوے قرآن کریم کے متعلق پیش کئے گئے ہیں- اول یہ کہ قرآن اپنی دلیل آپ ہے اور اسے خدا کے سوا کوئی بنا ہی نہیں سکتا- اس لئے ایسے امور ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں یعنی امور غیبیہ- فرماتا ہے- قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ ۲۲۵~}~کہ آسمان اور زمین میں خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا- مطلب یہ کہ قرآن میں غیب کی باتیں ہیں اور یہ خدا کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا-
دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں-
تیسرا یہ کہ اس میں پہلی کتابوں کی تشریح ہے-
چوتھا یہ کہ ہر امر کو دلیل کے ساتھ ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا-
پانچواں یہ کہ قرآن خدا کی صفت رب العلمین کے ماتحت نازل ہوا ہے تا کہ اس کا فیضان سب قوموں کیلئے وسیع ہو-
فرماتا ہے- اگر قرآن افترا ہے تو ان پانچ صفات والی کوئی سورۃ پیش کرو- اگر ان صفات والی سورۃ لے آئو گے تو ہم مان لیں گے کہ انسان ایسی کتاب بنا سکتا ہے- لیکن اگر تم سارے مل کر بھی نہ بنا سکو- تو معلوم ہوا کہ ایسی کتاب کوئی انسان نہیں بنا سکتا-
اس سے معلوم ہوا کہ جس سورۃ )یونس( میں یہ دعویٰ کئے گئے ہیں اس سے پہلے جس قدر قرآن اتر چکا تھا- اس میں یہ پانچ باتیں پائی جاتی تھیں- اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا قرآن کے اس حصہ میں یہ پانچوں باتیں ہیں- اگر ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے-
علم غیب
پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن میں وہ باتیں ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا- یعنی قرآن میں علم غیب ہے- اس کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کی نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ایک سورۃ کوثر ہے جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے- خداتعالیٰ فرماتا ہے انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر ان شانئک ھوالابتر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دشمن کہا کرتا کہ یہ ابتر ہے- اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں- اس کے بعد اس کا جانشین کون بنے گا- اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ تو ابتر نہیں بلکہ تیرا دشمن ابتر ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ابتر نہیں- اور آپ کا دشمن کس طرح ابتر ہے- اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا اعطینک الکوثر- ]1txte [tagاے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہم نے تیرے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ ہم تجھے ایک عظیم الشان جماعت دیں گے- جو روحانی طور پر تیری فرزند ہوگی- اور اس میں بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے انسان ہوں گے- پھر فرماتا ہے- فضل لربک وانحر- اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو اس خوشی میں خوب نمازیں پڑھ` دعائیں کر اور قربانیاں کر- پھر جب ہم تیری جماعت کو اور بڑھانے لگیں تو تو اور عبادت کر اور قربانیاں کر- کیونکہ ہم تیری روحانی نسل کو بڑھانے والے ہیں- اور یہ روحانی نسل اس طرح بڑھے گی کہ ابوجہل کا بیٹا چھینیں گے اور تجھے دے دیں گے- وہ ابتر ہو جائے گا- اور تو اولاد والا ہوگا- یہی حال دوسروں کا ہوگا- ان کے بیٹے چھین چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- ان کے بیٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے- اور وہ روحانی لحاظ سے ابتر ہو گئے- یہی وجہ تھی کہ جوں جوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیابی ہوتی گئی- کفار زیادہ تکلیفیں دیتے گئے- اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا جو سورۃ کوثر میں بیان کی گئی ہے- اللہ تعالیٰ نے سورۃ انبیاء رکوع۴ میں ذکر کیا ہے- فرماتا ہے- افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبون- ۲۲۶~}~فرمایا- کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ ہم ان کے ملک کو اس کے کناروں کی طرف سے چھوٹا کرتے جا رہے ہیں- اور ہر روز ان کی اولادیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہے ہیں- کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ غالب آئیں گے- وہ غالب کس طرح آ سکتے ہیں جب کہ ہم ان کے جگر گوشے کاٹ کاٹ کر تیرے حوالے کرتے جا رہے ہیں- اور انہی ابتر کہنے والوں کے بچے اور عزیز اسلام میں داخل ہو کر اس کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں اور کفار کو بے اولاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بااولاد ثابت کر رہے ہیں- چنانچہ مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے جو بیٹے اور بھتیجے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے ان میں حضرت عثمانؓ` حضرت زبیرؓ` حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ` حضرت سعد بن ابی وقاصؓ` حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ` حضرت ابوعبیدہؓ` حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ` حضرت عثمان بن مظلعونؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ تھے- یہ لوگ ابتدا میں ہی ایمان لے آئے تھے- اور وہ رئوساء جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے یہ ان کے بیٹے اور بھانجے اور بھتیجے تھے- ان کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے کفار کو اور زیادہ غصہ آتا کہ یہ اپنے باپ دادا کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں- اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کی تائید کرتے ہیں- حضرت عثمان بن مظلعون ؓ` ولید بن مغیرہ کے عزیز تھے- اور اس نے ان کو پناہ دی ہوئی تھی- حضرت عثمانؓ ایک دن باہر جا رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان پر سخت ظلم کیا جا رہا ہے- مگر آپ کو کسی نے کچھ نہ کہا- انہوں نے ولید کے پاس جا کر کہا کہ میں اب آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا- کیونکہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو اس طرح دکھ دیا جائے اور میں آپ کی پناہ میں محفوظ رہوں- اللہ تعالیٰ مومن کے ایمان کی آزمائش کرتا ہے- ادھر انہوں نے پناہ ترک کی اور ادھر یہ حادثہ پیش آ گیا کہ لبید جو ایک بہت بڑے شاعر تھے ایک مجلس میں شعر سنا رہے تھے- کہ ایک شعر انہوں نے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز خدا کے سوا تباہ ہونے والی ہے اور ہر نعمت آخر میں زائل ہونے والی ہے- جب لبید نے پہلا مصرح پڑھا تو حضرت عثمانؓ نے کہا ٹھیک ہے- اس پر لبید نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا کہ ایک بچہ میرے کلام کی داد دے رہا ہے- اسے اس نے اپنی ہتک سمجھا اور کہا- اے مکہ والو! پہلے تو تم میں ایسے بدتہذیب لوگ نہ تھے- اب تمہیں کیا ہو گیا ہے- انہوں نے کہا- یہ بے وقوف بچہ ہے- اسے جانے دیں- حالانکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے قرآن سنا ہوا تھا- اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں رہ گئی تھی- بلکہ خود لبید نے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا- حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے بعض مشہور شعراء کا تازہ کلام بھجوائو- جب ان سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا- تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں-
جب لبید نے دوسرا مصرح پڑھا اور کہا کہ ہر نعمت زائل ہونے والی ہے تو عثمانؓ نے کہا- یہ غلط ہے- جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی- یہ سن کر اسے طیش آگیا اور اس نے اہل مجلس سے کہا کہ تم نے میری بڑی ہتک کرائی ہے- اس پر ایک شخص نے عثمانؓ کو برا بھلا کہا- اور اس زور سے مکا مارا کہ ان کی ایک آنکھ نکل گئی- ولید کھڑا دیکھ رہا تھا- اس نے کہا- دیکھا میری پناہ میں سے نکلنے کا یہ نتیجہ ہوا- اب بھی پناہ میں آجائو- حضرت عثمانؓ نے کہا- پناہ کیسی- میری تو دوسری آنکھ بھی انتظار کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلے- ان کے فوت ہونے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا اور آپﷺ~ کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیمؓ فوت ہوا- تو آپﷺ~ نے فرمایا الحق سبلقنا الصالح عثمان بن مظعون ۲۲۷~}~یعنی ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظلعون کی صحبت میں جا-
پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب
دوسرا دعویٰ قرآن کریم کے متعلق یہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے- چنانچہ استثناء باب۱۸ آیت ۱۸ میں آتا ہے-
>خداوند تیرا خدا تیرے لئے- تیرے ہی درمیان سے- تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا<-
اس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ نبی جو آنے والا ہے وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے ہوگا گویا وہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے ہی ہوگا- نہ کہ کسی غیر قوم سے- پھر اس کی علامت یہ بتائی کہ-:
>جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے- اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو- تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی<- ۲۲۸~}~
اب دیکھو قرآن کی باتیں کیسی پوری ہوئیں- اور اس کی بیان کردہ پیشگوئیاں کس طرح سچی نکلیں- کفار نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا کہ اس کی اولاد نہیں تو خدا تعالیٰ نے فرمایا- ہم اسے اولاد دیں گے- اور ابتر کہنے والوں کی اولاد ہی چھین کر دے دیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی-
حضرت مسیحؑ نے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے سے انکار کیا ہے- چنانچہ یوحنا باب۱ آیت۲۱ میں لکھا ہے-:
>انہوں نے اس سے پوچھا- پھر تو کون ہے- کیا ایلیاہ ہے- اس نے کہا- میں نہیں ہوں- کیا تو وہ نبی ہے- اس نے جواب دیا کہ نہیں<-
اسی طرح اعمال باب۳ میں لکھا ہے کہ وہ نبی مسیح کی بعثت ثانی سے پہلے اور بعثت اول کے بعد ظاہر ہوگا- بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ-:
>سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے باتیں کیں ان سب نے ان دنوں کی خبر دی ہے<- ۲۲۹~}~
یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی- کیونکہ آپﷺ~ ان کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے تھے-
اسی طرح یسعیاہ آنے والے نبی کی خبر دیتے ہوئے کہتے ہیں-:
>تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے- اور تو ایک نئے نام سے کہلائے گا- جسے خداوند کا مونہہ خود رکھ دے گا<- ۲۳۰~}~
سوائے اسلام کے دنیا میں کوئی مذہب نہیں جس کا نام خدا تعالیٰ نے رکھا ہو- چنانچہ اسلام کے متعلق ہی فرمایا ہے- ورضیت لکم الاسلام دینا
دوسری پیشگوئی بھی اسی کے ساتھ لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>تو آگے کو متروکہ نہ کہلائے گی- اور تیری سرزمین کا کبھی پھر خرابہ نام نہ ہوگا- بلکہ تو حفیضیاہ کہلائے گی<- ۲۳۱~}~
یہ پیشگوئی بھی اسلام کے متعلق ہی ہے- چنانچہ مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے- من دخلہ کان امنا ۲۳۲~}~جو اس میں داخل ہو وہ امن میں آ جاتا ہے-
پھر حضرت مسیحؑ کہتے ہیں-
>مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں- مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا- بلکہ جو کچھ سنے گا وہی کہے گا- اور تمہیں آئندہ کی خبریں دیگا<-
اب دیکھو- اس میں کتنی علامتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی گئی ہیں-
اول یہ کہ آنیوالا نبی ایسی تعلیم دے گا جو مسیح تک کسی نے نہیں دی- گویا وہ سب سے بڑھ کر تعلیم دے گا-
)۲(وہ ساری باتیں کہے گا- یعنی کامل تعلیم دے گا- اور اس کے بعد اور کوئی اس سے بڑھ کر تعلیم نہیں لائے گا-
)۳(وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا- بلکہ کلام اللہ لائے گا-
)۴( اس کلام اللہ میں آئندہ کی خبریں ہوں گی-
)۵(وہ کلام مجھ )یعنی مسیح~ع۱(~ پر دشمنوں کے عائد کردہ الزامات کو دور کرے گا-
یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں- پہلی بات حضرت مسیحؑ نے یہ فرمائی تھی کہ وہ نبی ایسی تعلیم لائے گا جو پہلے کوئی نہیں لایا- قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے علم الانسان مالم یعلم یعنی قرآن کریم کے ذریعہ وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں- جو کسی اور کو معلوم نہیں- دوسری بات حضرت مسیحؑ نے یہ بیان کی تھی کہ وہ ساری باتیں بتائے گا- قرآن کریم میں اس کے متعلق آتا ہے- الیوم اکملت لکم دینکم آج سارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے- پھر سورہ کہف رکوع۸ میں آتا ہے- ولقد صرفنا فی ھذا القران للناس من کل مثل- ۲۳۳~}~ہم نے اس قرآن میں ہر ضروری آیت کو مختلف پیرایوں میں بیان کر دیا ہے- تیسری بات حضرت مسیحؑ نے یہ بتائی تھی کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا- بلکہ خدا تعالیٰ اسے جو کچھ بتائے گا اسے پیش کرے گا- قرآن کریم میں بھی آتا ہے- وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خدا ہی کا کلام پیش کرتا ہے- باقی سب کتابوں میں انبیاء کی اپنی باتیں بھی ہیں- صرف قرآن ہی ایک ایسا کلام ہے جو سارے کا سارا خدا کاکلام ہے- پانچویں بات حضرت مسیحؑ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نبی ان الزامات کو دور کرے گا جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں- اس کے متعلق سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کو نعوذ باللہ والدالزنا کہا گیا تھا- اور *** قرار دیا گیا تھا- قرآن نے ان الزامات کی پوری تردید کی-
کتب سماویہ کی تفصیل
اب میں تیسری بات بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کتب سماویہ کی تشریح اور تفصیل بیان کرنے والا ہے- اس میں علوم روحانیہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے- اور انہیں کمال تک پہنچایا گیا ہے- میں اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں-
تورات میں لکھا تھا-:
>تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان- آنکھ کا بدلہ آنکھ- دانت کا بدلہ دانت- ہاتھ کا بدلہ ہاتھ- اور پائوں کا بدلہ پائوں ہوگا<- ۲۳۴~}~
اور انجیل میں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ-:
>تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ- اور دانت کے بدلے دانت- لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے- دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے- اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتہ لینا چاہئے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے- اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا<-۲۳۵~}~
مگر قرآن کریم نے کہا ہے-
وجزوا سیئہ سیئہ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظلمین ۲۳۶2]~}~ [rtf
یعنی شرارت کے مطابق بدی کا بدلہ لے لینا تو جائز ہے- لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس میں دوسرے کی اصلاح مدنظر رکھے اللہ تعالیٰ اسے خود اجر دے گا- اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا-
تورات نے ایک حصہ تو لیا تھا اور دوسرا چھوڑ دیا تھا- اور انجیل نے دوسرا حصہ بیان کیا اور پہلا حصہ چھوڑ دیا- قرآن کریم نے اس تعلیم کو مکمل کر دیا- فرمایا- بدی کا بدلہ لے لینا جائز ہے- لیکن جو شخص معاف کر دے ایسی صورت میں کہ بدی نہ بڑھے اس کا اجر اللہ پر ہے- ہاں جو ایسے طور ¶پر معاف کرے کہ معافی دینے پر ظلم بڑھ جائے تو اس سے خدا ناراض ہوگا کیونکہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا-
صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق تفصیلی احکام گذشتہ سال کے مضمون میں بیان کر چکا ہوں- اور بتا چکا ہوں کہ پہلی کتب میں ان امور کے متعلق صرف مختصر احکام دیئے گئے ہیں- مگر قرآن کریم نے ہر ایک حکم کی غرض اور اس کے استعمال کی حدود وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں-
دلائل و براہین سے مزین کلام
قرآن کریم کو چوتھی خصوصیت یہ بیان کی کہ
لاریب فیہ- ہر ایک امر کو دلیل سے بیان کرتا ہے اور شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا- شک ہمیشہ ابہام سے پیدا ہوتا ہے- مگر قرآن کریم کے دعوئوں کی بنیاد مشاہدہ پر ہے- قرآن میں ہستی باری تعالیٰ` ملائکہ` دعا` نبوت` انبیاء کی ضرورت` قضاء و قدر` حشر نشر` جنت و دوزخ` نماز و روزہ` حج و زکٰوۃ اور معاملات وغیرہ کے متعلق دلائل بیان کئے گئے ہیں- یونہی دعوے نہیں کئے گئے- مثلاً جنت کے متعلق آتا ہے- ولمن خاف مقام ربہ جنتان۲۳۷~}~ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرنے کے بعد تمہیں جنت ملے گی- اور تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد کیا معلوم جنت ملے گی یا نہیں- قرآن اسی دنیا میں جنت کا ثبوت پیش کرتا ہے- اور مومنوں کو اسی دنیا میں جنت حاصل ہو جاتی ہے- اس کا ثبوت یہ دیا کہ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکہ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنہ التی کنتم توعدون یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہیں- ان پر فرشتے اترتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ تم غم نہ کرو- تم کو جنت کی بشارت ہو- گویا اسی دنیا میں انہیں خدا سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور جب خدا کا کلام مل گیا تو ریب کہاں رہ گیا-
قرآن کریم کے ذریعہ صفت رب العلمین کا ظہور
پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم کا اس حالت میں نزول ہوا کہ اس سے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے- اس لئے کہ اس میں ہر فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے- بعض انسانوں میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انہیں عفو کی طرف توجہ دلائی جائے بعض میں دیوثی اور بے غیرتی ہوتی ہے انہیں غیرت کی تعلیم دی گئی- انجیل نے اس کا خیال نہیں رکھا اس نے ہر حال میں عفو کی تعلیم دی ہے اور تورات نے عفو کا خیال نہیں رکھا ہر حالت میں سزا دینے پر زور دیا ہے- مگر قرآن نے دونوں قسم کے لوگوں کا خیال رکھا ہے- پھر ہر زمانہ کا خیال رکھا ہے- اور تمام دنیا کو دعوت دی ہے- چنانچہ فرمایا قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا کہہ دے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں-
پس قرآن کریم سے پہلی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے ساری دنیا کو دعوت دی ہو- انہوں نے دوسری قوموں کیلئے رستے بند کر دیئے- حضرت مسیح کا انجیل میں یہ قول موجود ہے کہ-:
>میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا<-
اور یہ کہ-:
>لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں<- ۲۳۸~}~
گویا مسیح نے بنی اسرائیل کے سوا کسی اور کو ہدایت دینے سے انکار کر دیا-
مگر قرآن میں سب قوموں کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان جمع کر دیئے- مثلاً )۱(سارے نبیوں کی تصدیق کی- اس سے سب کے دلوں میں بشاشت پیدا کر دی- لیکن اگر کوئی ہندو عیسائی ہو تو اسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بدھ اور کرشن جھوٹے ہیں- اور اگر کوئی عیسائی ہندو ہو- تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے- مگر کتنی خوبی کی بات ہے کہ قرآن نے کہہ دیا- انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا- وان من امہ الا خلافیھا نذیر۲۳۹~}~
ہم نے اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے- اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہماری طرف سے نذیر نہ بھیجا گیا ہو- اس بنا پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اقوام سے کہہ دیا کہ مجھے قبول کر کے تمہیں اپنے بزرگوں کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں- وہ بھی سچے تھے- ہاں ان میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ ان کی تعلیم اس زمانہ کے لئے مکمل تھی جس میں وہ آئے- لیکن میں جو تعلیم لایا ہوں یہ ہر زمانہ کے لئے مکمل ہے-
مفتری ہمیشہ ناکام ہوتا ہے
دوسری دلیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مفتری نہ ہونے کی قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مفتریوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے اولئک لم یکونوا معجزین فی الارض وما کان لھم من دون اللہ من اولیاء یضعف لھم العذاب ماکانوا یستطیعون السمع وما کانوا یبصرون اولئک الذین خسروا انفسھم وضل عنھم ماکانوا یفترون لا جرم انھم فی الاخرہ ھم الاخسرون۲۴۰~}~ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی جھوٹ پیش کرتا ہے- حالانکہ اس قسم کا جھوٹ بنانے والے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں- اور وہ عذاب سے ہر گز بچ نہیں سکتے- ان کا عذاب لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ سچی بات سننے کی بھی طاقت نہیں رکھتے کجا یہ کہ وہ سچی باتیں خود بنا سکیں- وہ عذاب سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں- اور جب دنیا میں ان کا یہ حال ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا-
اس میں بتایا کہ مفتریوں کی تو یہ علامت ہوتی ہے کہ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو کوئی عذاب نہیں آیا بلکہ خدا نے اس کی مدد کی ہے-
دوسری علامت مفتری کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا عذاب بڑھتا جاتا ہے- مگر اس رسول کی تو ہر گھڑی پہلی سے اچھی ہے-
)۳(پھر مفتری کو اپنی تعلیم بدلنی پڑتی ہے- مگر کیا اس نے بھی کبھی قرآن کی کوئی بات بدلی پھر یہ مفتری کس طرح ہو سکتا ہے-
وجدک ضالا فھدی کا صحیح مفہوم
دوسرا الزام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسسلم پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپﷺ~ نعوذ باللہ نبوت سے پہلے ضال تھے- اور بعد میں بھی گناہ آپﷺ~ سے سرزد ہوتے رہے- ان الزامات کی بنا خود قرآن کریم ہی کی بعض آیات کو قرار دیا گیا ہے- ضال کے متعلق تو یہ آیت پیش کی جاتی ہے کہ ووجدک ضالا فھدی۲۴۱~}~ ہم نے تجھے ضال پایا پھر ہدایت دی- اس کا جواب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ضلالت کی کلی طور پر نفی کر دی ہے- فرماتا ہے- والنجم اذا ھوی ماضل صاحبکم وما غوی ۲۴۲~}~ہم نجم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں- نجم اس بوٹی کو کہتے ہیں جس کی جڑ نہ ہو- فرمایا- ہم اس بوٹی کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی جڑ نہیں ہوتی- جب کہ وہ گر جاتی ہے- یعنی وہ جتنا اونچا ہونا چاہتی ہے اسی قدر گرتی ہے- اس شہادت سے تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب کبھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ راستہ سے دور ہوا-ضل ظاہری گمراہی کے لئے آتا ہے اور غوی باطنی فساد کے لئے- جو فساد اعتقاد سے پیدا ہو-
فرمایا جو بے جڑ کی بوٹی ہو- اس پر تو جتنے زیادہ دن گذریں اس میں کمزوری آتی جاتی ہے- اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا سے تعلق نہ ہوتا تو اس کی جڑ مضبوط نہ ہوتی اور یہ کمزور ہوتا جاتا اور خرابی پیدا ہو جاتی- مگر تم دیکھتے ہو کہ جوں جوں دن گذر رہے ہیں اسے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل ہو رہی ہے اور یہ دن رات ظاہری اور باطنی طور پر ترقی حاصل کر رہا ہے- اگر ضلالت اس کے اندر ہوتی تو اس پر ضلالت والا کلام نازل ہوتا- مگر اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- اسے دیکھو کیا اس میں کوئی بھی ہوائے نفس کا نشان ملتا ہے اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا- لیکن اس کا کلام تو پرشوکت اور قادرانہ کلام پر مشتمل ہے- شیطانی تعلقات والا انسان دنیا پر تصرف کیسے حاصل کر سکتا ہے-
یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ ضحیٰ میں بیان کیا ہے- فرماتا ہے- وللاخرہ خیر لک من الاولی ۲۴۳~}~تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہے- اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہاں تو کہا کہ تیری ہر پچھلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہوتی ہے لیکن اسی سورۃ میں کہہ دیا کہ تو گمراہ تھا- آیا پچھلی گھڑی کا پہلی سے اچھی ہونا ضلالت کی دلیل ہوتا ہے؟
سورہ ابراہیم رکوع۴ میں آتا ہے- الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء ۲۴۴~}~کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کیسی باتیں بیان کرتا ہے- پاک کلمہ کی مثال ایک پاک درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑ میں بڑی مضبوطی ہوتی ہے- اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں- اسی طرح صادق کی علامت یہ ہے کہ اس کی تعلیم ترقی کرتی ہے اور اس کی جماعت بڑھتی جاتی ہے- اب یہ رسول جو دن رات ترقی کر رہا ہے- اگر ضلالت پر ہوتا- تو جتنی زیادہ تعلیم بناتا- اسی قدر زیادہ نقص ہوتے- مگر اس کے کلام کی زیادتی تو اس کی تعلیم کو مکمل بنا رہی ہے-
پھر بتایا- اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا- مگر اس کا کلام تو ایسا ہے کہ وہ وما ینطق عن الھوی- ان ھو الاوحی یوحی- علمہ شدید القوی ۲۴۵~}~
یہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے اور اس کو یہ کلام بڑی قوتوں والے خدا نے سکھایا ہے-
ایک اور آیت بھی اس امر کو حل کرتی ہے- سورہ بنی اسرائیل رکوع۸ میں آتا ہے- وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذا لا تخذوک خلیلا ۲۴۶~}~فرمایا- قریب تھا کہ کہ لوگ تجھے عذاب میں مبتلا کر دیں- عام طور پر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ رسول کو پھسلا لیں- مگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں پھسلا سکتے تھے- اس کے تو یہ معنی ہیں کہ قریب ہے کہ یہ لوگ تجھے سخت عذاب دیں اس کلام کی وجہ سے جو تجھ پر وحی کیا گیا ہے تا کہ تو اس سے گھبرا کر کچھ تبدیلی کر لے- اور اگر ایسا ہو تو یہ ضرور تجھے دوست بنا لیں- لیکن ان کا خیال ایک جنون ہے ولو لا ان ثبتنک لقد کدت ترکن الیھم شیئا قلیلا- ۲۴۷~}~اگر ہم نے قرآن نہ بھی نازل کیا ہوتا تو بھی تیری فطرت ایسی پاک ہے کہ یہ بات تو بڑی ہے- تیری ان سے مشابہت پھر بھی معمولی سی ہوتی- مگر اب تو تجھے وحی الہی نے ایک صحیح راستہ دکھا دیا ہے- اب ان کی یہ خواہش کس طرح پوری ہو سکتی ہے-
اب سوال ہوتا ہے کہ پھر ووجدک ضالا فھدی کا کیا مطلب ہوا- سو اس کا جواب خود اسی سورۃ میں موجود ہے- اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک زبردست دلیل دی گئی ہے- فرماتا ہے والضحی والیل اذا سجی ماودعک ربک وما قلی ۲۴۸~}~اے دنیا کے لوگو سنو! عین دوپہر کے وقت کو- اور رات کو جب وہ خوب ساکن ہو جاتی ہے اور اس کی تاریکی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ہم اس بات کی شہادت میں پیش کرتے ہیں کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا- اور نہ محمد رسول اللہ )صلی اللہہ علیہ وسلم( سے ہم کبھی ناراض ہوئے ہیں-
اب سوال یہ ہے کہ دوپہر اور آدھی رات اس بات کی کس طرح دلیل ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا کبھی ناراض نہیں ہوا- اور نہ اس نے آپ کو چھوڑا- یہ ظاہر ہے کہ یہاں ظاہری دن رات مراد نہیں- بلکہ مجازی دن رات مراد ہیں- اور یہ محاوہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے کہ رات اور دن سے خوشی اور رنج اور ہوش اور غفلت کا زمانہ مراد لیا جاتا ہے- رات تاریکی مصیبت اور جہالت کو کہتے ہیں- اور دن ترقی` روشنی اور علم کے زمانہ کو کہتے ہیں- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تیری عمر کی ان گھڑیوں کو بھی پیش کرتے ہیں جو خوشی کی تھیں اور ان کو بھی پیش کرتے ہیں جو رنج کی تھیں اور تیرے ہوش کے زمانہ کو بھی اور بچپن کے زمانہ کو بھی جو جہالت کا زمانہ ہوتا ہے- پھر اس زمانہ کو بھی جو نبوت سے پہلے کا تھا- اور اسے بھی جب نبوت کا سورج طلوع ہو کر نصف النہار پر آگیا- تجھ پر وہ زمانہ بھی آیا- جب کہ تو دایہ کی گود میں تھا- پھر وہ زمانہ بھی آیا جو شباب کی تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے- وہ زمانہ بھی آیا جب جذبات سرد ہو جاتے ہیں- پھر وہ زمانہ بھی آیا- جب کہ ہر طرف تیرے دشمن ہی دشمن تھے اور تیرے لئے دن بھی رات تھا- پھر وہ زمانہ آیا جب ساری قوم تجھے امین اور صادق کہتی تھی- ان سب زمانوں کو دیکھ لو- کیا کوئی وقت بھی ایسا آیا ہے جب خدا تعالیٰ نے تیری نصرت سے ہاتھ روکا ہو- اس کی ناراضگی کسی رنگ میں تجھ پر ظاہر ہوئی ہو- بعض لوگ آرام اور عزت حاصل ہونے پر بگڑ جاتے ہیں- مگر تجھے جب امن ہوا- امیر بیوی ملی- تیری قوم نے تیری عزت کی- اس وقت بھی تو نے اچھے کام کئے- پھر وہ زمانہ آیا کہ خدا نے اپنا کلام تجھ پر اتارا- تب بھی تو فرمانبردار رہا- گویا تیری ہر آنے والی گھڑی پہلی سے اعلیٰ اور بہتر رہی ہے- اور خدا کی تائید اور اس کی پسندیدگی بڑھتی چلی گئی- اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے- عجیب بات ہے- خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس کی ساری زندگی بچپن سے لے کر آخر تک دیکھ لو- ایک لمحہ بھی اس کے لئے گمراہی کا نہیں آیا- اور خدا تعالیٰ نے اسے نہیں چھوڑا مگر نادان مخالف کہتے ہیں کہ آپ گمراہ تھے- اگر یہی گمراہی ہے تو ساری ہدایت اس پر قربان کی جا سکتیہے-
پھر فرماتا ہے- وللاخرہ خیر لک من الاولی- تیرا ہر قدم ترقی کی طرف چلتا گیا- بچپن میں انسان بے گناہ ہوتا ہے- اگر نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہو کر گمراہ ہو گئے تو آخرت اولیٰ سے سے بہتر نہ ہوئی- مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلے سے اچھی تھی- اور جب ہر اگلی گھڑی اچھی تھی تو ضلالت کہاں سے آ گئی-
پھر فرماتا ہے ولسوف یعطیک ربک فترضی- ۲۴۹~}~عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے ایسے انعام دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا- اس کے متعلق ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ftr[ کی وہ کونسی خواہش تھی جس کے پورا ہونے سے آپ خوش ہو سکتے تھے- سورہ کہف رکوع۱ میں آتا ہے- فلعلک باخع نفسک علی اثار ھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا ۲۵۰~}~اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کر رہا ہے- کہ لوگ ہمارے کلام پر ایمان کیوں نہیں لاتے- یہ خواہش تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ آپﷺ~ کی قوم خدا تعالیٰ کے کلام کو مان لے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولسوف یعطیک ربک فترضی تو نے دیکھا ہے کہ تیری ہر گھڑی کو ہم نے پہلی سے اچھا رکھا پھر کیا تمہاری یہ بات ہم رد کر دیں گے کہ تیری قوم ہدایت پا جائے- ہمیں اس خواہش کا بھی علم ہے اور اسے بھی ہم پورا کر دیں گے-
‏a.10.14
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
پھر فرمایا- الم یجدک یتیما فاوی- ۲۵۱~}~اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو یتیم تھا جب پیدا ہوا- اس یتیمی کے وقت سے خدا نے تم کو اپنی گود میں لے لیا- گویا کوئی وقت خدا کی گود سے باہر آپﷺ~ پر آیا ہی نہیں- اوی کے معنی ہیں قرب میں جگہ دی- فرمایاالم یجدک یتیما فاوی کیا خدا نے تم کو یتیم پا کر اپنے پاس جگہ نہیں دی- ووجدک ضالا فھدی اب اس کے معنی اگر یہ کئے جائیں کہ تجھے گمراہ پایا پھر ہدایت دی تو یہ معنی یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے- پس اس کے یہی معنی ہیں کہ ہم نے تجھ میں محبت کی تڑپ دیکھی اور دنیا کی ہدایت کا سامان دے دیا- ان معنوں کی تائید ایک اور آیت سے بھی ہوتی ہے- جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے تو انہیں گھر والوں نے کہا- تا للہ انک لفی ضللک القدیم۲۵۲~}~ یوسف کی پرانی محبت تیرے دل سے نکلتی ہی نہیں- تو ابھی تک اسی پرانی محبت میں گرفتار ہے- وہ لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کو گمراہ نہیں سمجھتے تھے- بلکہ یوسف علیہ السلام کی محبت میں کھویا ہوا سمجھتے تھے- اس لئے ضلال کا لفظ انہوں نے شدت محبت کے متعلق استعمال کیا- پس ووجدک ضالا فھدی کے یہ معنی ہیں کہ جب تو جوان ہوا اور تیرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا سے ملے بغیر میں آرام نہیں پا سکتا تو ہم نے تجھے فوراً آواز دی کہ آ جائیں موجود ہوں- اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تجھے معلوم ہے کہ جب ہم نے ہدایت دی تو وہ تیرے نفس کے لئے ہی نہ تھی بلکہ ساری دنیا کیلئے تھی- پس لوگ تیرے پاس آئے اور مختلف طبائع کے لوگ آئے پھر ہم نے ان کی کفالت کیلئے قرآن کے ذریعہ تجھے وہ رزق دیا جو ہر فطرت کے انسان کیلئے کافی تھا- پس ووجدک عائلا فاغنی۲۵۳~}~ اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہم نے تجھے کثیر العیال پایا اور اپنے فضل سے غنی کر دیا- فاما الیتیم فلا تقھر واما السائل فلا تنھر۲۵۴~}~ پس اب تو بھی ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا کہ ان کی طاقتیں کچلی جائیں- نہ اتنی رعایت کرنا کہ بگڑ جائیں- اس آیت میں ضال کے مقابل پر سائل رکھا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہاں بھی ضال سے مراد خدا کی محبت کے طلبگار کے ہیں- بہرحال فرمایا کہ جب کوئی تمہارے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے آئے تو انکار نہ کرنا بلکہ وہ ہدایت جو ہم نے تجھے دی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچانا-
ضال کے جو معنی میں نے اس وقت کئے ہیں اس کے خلاف کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتے- کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ووجدک ضالا فھدی- ہم نے تجھے ضال پایا اور اس کے نتیجہ میں ہدایت دی- اور دوسری طرف فرماتا ہے- واللہ لا یھدی القوم الفاسقین ۲۵۵~}~کہ فسق کے نتیجہ میں کبھی ہدایت نہیں ملا کرتی- پھر ضال کے معنی گمراہ کس طرح کئے جا سکتے ہیں-
پھر فرماتا ہے- و اذا جاء تھم ایہ قالوا لن نومن حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجرموا صغار عنداللہ و عذاب شدید بما کانوا یمکرون جب ان کے پاس کوئی نشان آتا ہے تو وہ کہتے ہیں- ہم اسے نہیں مان سکتے- جب تک ہمیں ویسا ہی کلام نہ ملے جو رسولوں کو ملا- اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے- یہ گناہگار لوگ ہیں- ان کو تو ذلت ہی ملے گی- اس آیت میں صاف طور پر بتا دیا کہ گناہ کے نتیجہ میں ذلت حاصل ہوتی ہے نہ کہ ہدایت-
ذنب اور استغفار کی حقیقت
پھر یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ گناہگار تھے- اس کے لئے ذنب اور استغفار کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں- لیکن عام طور پر لوگوں نے اس کے معنی نہیں سمجھے- استغفار کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ جو مشکلات کسی کے رستہ میں حائل ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے- اسی طرح ذنب کے معنی گناہ کے بھی ہوتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کے بھی- پس غفر کے معنی ڈھانکنے اور ذنب کے معنی زوائد کے ہیں- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استغفار کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد آپﷺ~ کے رستہ کی مشکلات کا دور ہونا ہوتا ہے- اور جہاں ذنب کا لفظ آتا ہے وہاں زوائد کا دور کیا جانا مراد ہوتا ہے- چنانچہ دیکھ لو سورہ نساء رکوع۱۶ میں پہلے جنگ کا ذکر ہے- پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- لا تکن للخائنین خصیما واستغفراللہ ۲۵۶~}~اے محمد رسول اللہ جب ہم حکومت دیں گے تو کچھ لوگ ایسے ہونگے جو دین کی باتیں میں خیانت سے کام لیں گے اور کجی کا راستہ اختیار کریں گے ان سے لڑنے کی طرف توجہ نہ کرنا- بلکہ بجائے اس کے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنا کہ ان کی یہ کمزوری دور ہو جائے- )۲(سورہ مومن رکوع۶ میں بھی پہلے انالننصر رسلنا فرما کر نصرت کا ذکر کیا ہے اور پھر واستغفر لذنبک وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار ۲۵۷~}~میں استغفار اور تسبیح کا حکم دیا ہے اس سورۃ محمد رکوع۲ میں بھی پہلے ساعت آنے کا ذکر ہے یعنی فتح کا- اور پھر واستغفر لذنبک ۲۵۸~}~فرماتا ہے- )۴(سورہ نصر میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے- اور پھر آتا ہے فسبح بحمد ربک واستغفرہ۲۵۹~}~ )۵(سورہ فتح میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے اور پھر غفر کا- فرمایا- انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر- ۲۶۰~}~ان سب حوالوں میں فتح کے ساتھ ذنب یا استغفار کا ذکر ہے- یعنی یا تو فتح کے وعدہ کے بعد یا فتح کے ذکر کے بعد- چار جگہوں میں تو فتح کے وعدہ کے ساتھ استغفار کا ذکر کیا ہے- اور ایک جگہ فتح مبین کا ذکر ہے اور وہاں لیغفر کہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تیری دعا سنی گئی اور ہم نے عام فتوحات کی بجائے تجھے فتح مبین عطا کی ہے تا کہ تیرے ذنب بخشے جائیں-
اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کسی کو فتح و نصرت کا ملنا کیا گناہ ہے اور ہر جگہ فتح کے ساتھ یہ الفاظ کیوں آئے ہیں- اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور ذنب کسی اور قسم کا ہے- اگر گناہ مراد تھا تو چاہئے تھا کہ کسی گناہ کا ذکر کیا جاتا- مگر ایسا تو ایک جگہ بھی نہیں کیا گیا- بلکہ بجائے اس کے یہ بتایا کہ ہم تجھے فتح و نصرت دیتے ہیں- تو استغفار کر- اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس کے معنی کچھ اور ہیں- اور وہ یہ کہ فتح کے ساتھ جو لوگ سلسلہ بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کی تربیت پوری طرح نہیں ہو سکتی- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے زوال کا وقت اسی دن سے شروع ہو جاتا ہے- جب کہ فتوحات شروع ہوتی ہیں- اور لوگوں کی تربیت اچھی طرح نہیں ہو سکتی- جب لاکھوں مسلمان ہو گئے اور وہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے تو ان کی تربیت ناممکن تھی- اس لئے فرمایا یہ بات بشریت سے بالا ہے کہ اتنے لوگوں کی پوری طرح تربیت کی جا سکے- ان کی تربیت خدا ہی کر سکتا ہے- اس لئے دعائیں کر کہ خدایا تو ہی ان کی نیک تربیت کا سامان پیدا فرما- اور پھر خوشخبری دی کہ ہم نے تمہاری دعائیں سن لی ہیں- انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخرہم تجھ کو جو فتح عظیم دیں گے وہ ایسی صورت میں دیں گے کہ وہ فتح مبین ہوگی- حق و باطل میں تمیز کر دینے والی ہوگی اور صرف جسموں پر ہی نہیں ہوگی- بلکہ دلوں پر بھی ہوگی- لوگ منافقت سے اسلام میں داخل نہیں ہونگے- بلکہ دین کے شوق کی وجہ سے ہونگے- اور یہ فتح ہم نے اس لئے دی ہے کہ تربیت کا پہلو مضبوط ہو جائے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر کے تربیت کے پہلو کو مضبوط کر دیا اور ایسے نائب آپﷺ~ کو بخشے جو ہمیشہ کیلئے دین کے محافظ ہو گئے- دیکھ لو- ایک تو وہ وقت تھا کہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ مکہ چھوڑ کر اس لئے بھاگ گیا کہ جہاں محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہو وہاں میں نہیں رہ سکتا- مگر پھر وہ وقت آیا کہ وہ مسلمان ہوا اور ایسا مخلص مسلمان ہوا کہ ایک جنگ میں دشمن چن چن کر صحابیوں کو مار رہے تھے- عکرمہ نے کہا- یہ بات مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی ہے جو دشمن کے مقابلہ کیلئے میرے ساتھ چلے- اس طرح کچھ آدمی ساتھ لئے اور جرنیل سے اجازت لے کر دشمن پر جس کی تعداد ساٹھ ہزار تھی حملہ کر دیا اور عین قلب پر حملہ کیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کو شکست ہوگئی- اور وہ بھاگ گئے- اس وقت عکرمہ کو دیکھا گیا تو وہ دم توڑ رہے تھے- ان کی پیاس محسوس کر کے جب پانی لایا گیا- تو انہوں نے کہا- پہلے میرے ساتھی کو پانی پلائو- اس ساتھی نے دوسرے کی طرف اشارہ کر دیا اور دوسرے نے تیسرے کی طرف وہ سات نوجوان تھے جو زخموں کی وجہ سے دم توڑ رہے تھے- مگر کسی نے پانی کو مونہہ بھی نہ لگایا- اور ہر ایک نے یہی کہا کہ پہلے فلاں کو پلائو مجھے بعد میں پلا دینا- جب سب نے انکار کر دیا تو وہ پھر عکرمہ کے پاس آیا- دیکھا تو وہ فوت ہو چکے تھے- اس کے بعد اس نے دوسروں کو دیکھا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے- ۲۶۱~}~
غرض خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ظاہری فتح ہی عطا نہیں فرمائی بلکہ ظاہری فتح کے ساتھ قلوب کی فتح بھی عطا کی-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند ترین مقام
پھر قرآن نہ صرف یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے گناہ قرار دیتا ہے بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان قرار دیتا ہے- فرماتا ہے- انک لعلی خلق عظیم کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا نبی گنہگار ہے- اگر دشمن ایسا کہتے ہیں تو وہ بکتے ہیں- ہم جانتے ہیں کہ تو بڑے اعلیٰ اخلاق والا ہے-
پھر فرمایاالم نشرح لک صدرک ۲۶۲~}~اے محمد رسول اللہ! کیا ہم نے تیرا سینہ کھولا نہیں-
پھر فرماتا ہے- لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ تمہارے لئے محمد رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وسلم( ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ ہے اس کے پیچھے چل کر تم نجات پا سکتے ہو-
پھر اس سے بھی بڑا درجہ آپ کا یہ بیان فرمایا- کہ آپ دوسروں کو پاک کرنے والے ہیں- فرماتا ہے- کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم ایتنا ویزکیکم- ۲۶۳~}~ہم نے تم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہے- جو ہماری آیتیں پڑھ کر تمہیں سناتا ہے اور گناہگاروں کو پاک بناتا ہے-
پھر اس سے بڑھ کر فرمایا- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی تحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم تو کہدے کہ اے ماننے والو یا مجھ پر اعتراض کرنے والو- اگر تم اللہ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو آئو اس کا طریق میں تمہیں بتائوں- جس طرح میں عمل کرتا ہوں- اسی طرح تم بھی عمل کرو- پھر اللہ تعالیٰ تم کو بھی اپنا محبوب بنا لے گا-
پھر اس سے بھی آگے ترقی کی اور فرمایا کہ محمد رسول )اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( تو وہ ہے- کہ اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- اسے بھی ہم کسی ناپاک کو چھونے نہیں دیتے- پھر کیا اس کلام کو لانے والا ناپاک ہو سکتا ہے- چنانچہ فرمایا انہ لقران کریم فی کتب مکنون لا یمسہ الا المطھرونیہ قرآن بڑی عظمت والا ہے- یہ اس جگہ خدا نے رکھا ہے جہاں کوئی گندہ شخص اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا- اور اسے مطہر کے بغیر کوئی چھو ہی نہیں سکتا- پھر جس پر یہ کلام نازل ہوا اسے ناپاک کس طرح کہہ سکتے ہو-
پھر فرمایا- ہم نے اسے وہ کتاب دی ہے جس کو آج ہی نہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی ناپاک نہیں چھو سکے گا- بایدی سفرہ- کرام بررہ یہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی جو دور دور سفر کرنے والے اور نہایت معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکوکار ہونگے-
اس وقت یہ دو ہی اعتراض بیان کئے جا سکے ہیں اور وہ بھی بہت مختصر طور پر- اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دوستوں کو جو اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں اپنی نعمتوں کا وارث بنائے- اور وہ جنہوں نے مہمان نوازی میں حصہ لیا ہے- مرد اور عورتیں` چھوٹے اور بڑے ان سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے- پھر ان پر اپنا فضل نازل کرے جن کے دل اس جلسہ میں شامل ہیں گو وہ خود نہیں آ سکے- اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے سب لوگوں کو توفیق دے کہ جو نور اور صداقت انہیں حاصل ہوئی ہے وہ دنیا کو پہنچائیں- ہماری جماعت کے خطا کاروں کو نیک بناوے- ہماری جماعت کے کمزوروں کو مضبوط بناوے- ہماری جماعت کے بیماروں کو شفا دے- ہماری جماعت کے مقروضوں کو قرض سے سبک دوش کرے- جن میں ایمان کی کمزوری ہے ان کی اس کمزوری کو دور کرے- ہماری جماعت کے مبلغوں کی مدد اور تائید کرے خدا کے فرشتے ان کی حفاظت کریں- وہ اللہ کے محبوب بن جائیں- ان کے اعمال` ان کی زبانوں اور ان کی فکروں میں برکت دے- پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر فرد کو خواہ وہ کہیں ہو- اس جلسہ کی برکات میں شریک کرے- پھر ہندوئوں` سکھوں` عیسائیوں` دہریوں غرضیکہ سب کے قلوب کو کھول دے- تا کہ سب ابن آدم ہو کر بھائیوں کی طرح رہیں-
پھر میں دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ جو باتیں انہوں نے جلسہ میں سنی ہیں ان پر عمل کریں- میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا- اور میں دوستوں سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے اور جو ذمہ داری اس نے مجھ پر رکھی ہے- اس میں مجھے سرخرو کرے- یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور کوئی انسان بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے اسے اٹھا نہیں سکتا- اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اس میں خطرات بھی زیادہ ہیں- اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے- تا کہ جب میں اس کے سامنے حاضر ہوں تو میں نے کیا کہنا ہے وہی خوشخبری دے کہ تو نے اپنا فرض ادا کر دیا-
میں پھر دوستوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامل الایمان بنائے اور اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے- ہم ایسی جماعت بن جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے- اور ہم اس سے راضی ہوں- آمین
حوالہ جات
‏a.10.15
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن نمبر۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۵(
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضلیت کی نویں دلیل
انبیاء سابقین کی رسول کریمﷺ~ کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں
اور
قرآن کریم کی آٹھ اصولی اصلاحات
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے سورہ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی-:
قال عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیء فسا کتبھا للذین یتقون ویوتون الذکوہ والذین ھم بایتنا یومنون الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوریہ و الانجیل یامرھم بالمعروف و ینھھقم عن المنکر ویحل لھم الطیبت و یحرم علیھم الخبئث و یضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیھم فالذین امنوا بہ و عزروہ و نصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السموت والارض لا الہ الا ھو یحی ویمیت فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ و کلمتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون ۲۶۴~}~
اس کے بعد فرمایا-:
کل کی تقریروں کے بعد میرا گلا شام تک تو اچھا تھا- لیکن رات کو ملاقاتوں کے بعد گلا بیٹھ گیا- ۱۲ بجے کے قریب سردی لگنے کی وجہ سے بات کرنے میں تکلیف شروع ہوئی اور ایک بجے رات جب ملاقاتیں ختم ہوئیں تو گلا بہت کچھ بیٹھا ہوا تھا- اس لئے گو میں اس وقت اونچی آواز سے نہیں بول سکتا- لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑی دیر میں ہی حلق گرم ہونے کے بعد آواز بلند ہو جائیگی- شروع میں ممکن ہے کہ تقریر کے بعض حصے احباب تک نہ پہنچ سکیں لیکن احباب کو صبر سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھنی چاہئے کہ جب کہ وہ دور دور سے کلمات حق سننے کے لئے یہاں آئے ہیں اور جب اللہہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے میں حق کہنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں تو ہم دونوں پر وہ فضل فرمائے گا اور مجھے کہنے اور آپ لوگوں کو سننے کی توفیق عطا فرماویگا-
دینی مجالس کی اہمیت
مجھے افسوس ہے کہ بعض دوست گو وہ نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں- باوجود سمجھانے کے پھر بھی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے اور باہر پھرتے رہتے ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ نمائشی ممبر بھی ہوتے ہیں اور وہ مجلس میں اپنی نمائش کرنے کے بعد جگہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں- قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ ایسے نمائشی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی تھے- جب مجلس منعقد ہوتی تو وہ بھی آجاتے- گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہر ایک پر نظر پڑتی ہے- صحابہؓ ان کو دیکھتے لیکن جب کام شروع ہو جاتا تو آنکھ بچا کر کھسکنے لگتے- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتا ہے- قدیعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا ۲۶۵~}~وہ لوگ تم سے نظر بچا کر مجلس سے بھاگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے- ایسے نمائشی ممبر یہاں بھی ہوتے ہونگے- مگر کئی لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے- اور وہ جانتے نہیں کہ ان کا یہ فعل کیسا ہے- حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر کر رہے تھے کہ آپﷺ~ نے فرمایا- اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس مجلس میں ایک شخص آیا- اس نے دیکھا کہ مجلس بھری ہوئی ہے- اس تک آواز مشکل سے پہنچتی تھی- مگر اس نے یہ خیال کر کے کہ ذکر الہی ہو رہا ہے یہاں سے جانا نہیں چاہئے- شرم کر کے بیٹھ گیا- خدا تعالیٰ نے کہا- میں بھی اس کے گناہوں کے متعلق شرم کروں گا اور ان کے بارے میں گرفت نہیں کرونگا- پھر ایک اور شخص آیا- اس نے بھی دیکھا کہ مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں- مگر وہ ادھر ادھر تلاش کر کے ایسی جگہ بیٹھ گیا- جہاں سے آواز سن سکے- خدا تعالیٰ نے فرمایا- جس طرح یہ شخص کوشش کر کے آگے بڑھا میں بھی اسے اپنے قرب میں جگہ دونگا- پھر ایک تیسرے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خبر دی- وہ آیا مگر یہ دیکھ کر کہ آواز نہیں پہنچتی واپس چلا گیا- اللہ تعالیٰ نے فرمایا- کہ جس طرح یہ شخص ذکر الہی کی مجلس سے واپس چلا گیا اسی طرح میں بھی اس سے منہ پھیر لوں گا اور رحمت کے دروازے اس کے لئے نہیں کھولوں گا- ۲۶۶~}~
غرض ذکر الہی کی مجلس کے آداب ہوتے ہیں- وہ لوگ جن کے دل میں مرض تھا ان کا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی علاج نہ کر سکے- یہی فرمایا کہ ایسا شخص آیا اور چلا گیا- جب ایسا بیمار دل رکھنے والے کا علاج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو سکا تو ہم سے کس طرح ہو سکتا ہے- مگر کئی لوگ بے خبری کی حالت میں مارے جاتے ہیں- انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب ذکر الہی کی مجلس منعقد ہوتی ہے تو اس کے خاتمہ تک فرشتے نازل ہوتے اور خدا تعالیٰ کی رحمت لاتے رہتے ہیں- ذکر الہی کی مجلس ایسی مجلس ہوتی ہے جیسا کہ بادشاہ کا دربار ہو- اگر بادشاہ کے دربار سے اٹھ کر جانے والا مجرم ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے دربار سے اٹھ کر چلا جانے والا کیوں مجرم نہیں ہوگا- اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجلس میں سب لوگ بیٹھے رہیں- اگر کسی ضرورت کی وجہ سے اٹھنا پڑے تو اجازت لیکر جائے- اس مجلس میں جو پندرہ بیس ہزار افراد پر مشتمل ہے لوگوں کا اجازت لینا تو مشکل ہے- مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو لوگ ضرورتاً باہر جائیں وہ ضرورت پوری کر کے جلد واپس آ جائیں اور وہ سمجھیں کہ ان کا اس مجلس میں بیٹھنا فضول نہیں- اول تو جو بات بھی کان میں پڑے گی اگر مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑ لیا جائے گا- تو وہ نجات کا ذریعہ بن جائے گی- لیکن اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو بھی اس مجلس میں بیٹھنا نیکی ہے- ہم چاہتے ہیں کہ ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو- مگر بہت ہیں جو نہیں جانتے- لیکن جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں ثواب ہوتا ہے- اسی طرح اس مجلس میں خواہ کسی کو آواز نہ آئے اور تقریر کا مطلب نہ سمجھ سکے تب بھی بیٹھنے پر ثواب حاصل ہوتا ہے-
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا آج کا مضمون گذشتہ مضمون کی ایک کڑی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں چار سال سے متواتر بیان کرتا آ رہا ہوں یعنی آج کا مضمون فضائل القرآن کی پانچویں قسط ہے- بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ہستی باری تعالیٰ کے مضمون کی طرح اتنی وسعت حاصل ہوتی ہے کہ ان کو خواہ کتنی بار بیان کیا جائے ان میں تکرار پیدا نہیں ہو سکتا- فضائل القرآن کے مضمون میں بھی تکرار نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اتنے معارف ہیں کہ چاہے ساری دنیا مل کر قیامت تک انہیں بیان کرتی رہے وہ کبھی ختم نہ ہونگے-
اس موضوع پر گذشتہ سالوں میں جو لیکچر دیئے گئے ہیں- وہ شائع نہیں ہو سکے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا منشا ہے کہ مکمل ایک جلد کی شکل دے کر ان کو شائع کیا جائے تا کہ قرآن کریم اور دوسرے مذاہب کی الہامی کتب کا مقابلہ کرتے وقت جماعت کے لوگوں کیلئے سہولت اور آسانی پیدا ہو جائے اور براہین احمدیہ کو مکمل کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو منشا تھا اس کے پورا کرنے میں ہم بھی حصہ لے سکیں-
علمی تقاریر کا فائدہ
بعض دوستوں نے کہا ہے کہ آپ کا سالانہ جلسہ کا علمی لیکچر ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے- بہت سے لوگ صرف برکت حاصل کرنے کیلئے لیکچر میں بیٹھے رہتے ہیں- اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ لوگ برکت حاصل کرنے کیلئے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں برکت دے دیتا ہے تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے- یہی غرض تو یہاں آنے کی ہوتی ہے- جب وہ مل گئی چاہے لیکچر سمجھ کر اور چاہے نہ سمجھتے ہوئے مقصد تو حاصل ہو گیا- پس اس پر کسی کو گلہ نہیں پیدا ہو سکتا- دیکھو اگر خدا تعالیٰ کسی گناہگار کو باز پرس کئے بغیر جنت میں داخل کر دے تو کیا وہ جنت میں داخل ہونے سے انکار کر دے گا- وہ تو فوراً آگے بڑھ کر جنت میں داخل ہو جائے گا- اسی طرح جسے لیکچر میں بیٹھے رہنے سے برکت حاصل ہو جائے اسے اس بات کا کیا شکوہ ہو سکتا ہے کہ لیکچر میں جو کچھ بتایا گیا ہے اسے وہ سمجھ نہیں سکا- مگر میں سمجھتا ہوں یہ بات ہے بھی غلط- اس لئے کہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دماغ خدا تعالیٰ نے ایسے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیئے ہیں کہ اپنے ایک دوست کی طرف سے یہ بات سن کر کہ بعض لوگ لیکچر کو سمجھ نہیں سکتے مجھے بہت تعجب ہوا- پچھلے دنوں مرکزی خلافت کمیٹی کے آرگن روزانہ اخبار >خلافت< نے ایک کانگریسی ہندو لیڈر کے یہ کہنے پر کہ >مسلمان جاہل پسماندہ اور ناکافی تعلیم یافتہ ہیں- اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں- دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ناخواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے<- لکھا تھا کہ >اگر قادیان جیسے قصبہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کے منہ بند نہ کر دے تو ہمارا ذمہ- پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے<- اگر مخالفین کے نزدیک قادیان کے ٹانگہ چلانے والے کو اتنی قابلیت حاصل ہے تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اپنوں میں سے کوئی یہ کہے کہ احمدی میرے لیکچر کو سمجھ نہیں سکتے- اصل بات یہ ہے کہ وہ تو لیکچر کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض احمدی لیکچر کو نہیں سمجھ سکتے وہ اپنے بھائیوں کو نہیں سمجھتے- انہوں نے اپنے متعلق تو حسن ظنی سے کام لیا کہ وہ خود لیکچر کو سمجھ سکتے ہیں لیکن دوسروں کے متعلق حسن ظنی اختیار نہ کی اور کہہ دیا کہ وہ نہیں سمجھتے- حالانکہ انبیاء پر ایمان لانے والے خواہ مروجہ علوم سے ناواقف ہوں- دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں آسمانی علوم ملا کرتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں اسلام کے تازہ معجزات لایا ہوں- اور اپنا مشاہدہ پیش کرتا ہوں- مگر دوسرے لوگ قصے کہانیاں پیش کرتے ہیں- اسی طرح آپ کی جماعت کو روحانی علوم کے متعلق مشاہدہ حاصل ہے اور آپ پر ایمان لانے کے دن ہی ہر احمدی کو نیا علم حاصل ہو جاتا ہے اور احمدیوں کو خدا تعالیٰ ہر قسم کے اعتراضات کے جواب آپ سمجھا دیتا ہے- اگر کوئی تمسخر کرتا ہے تو اسے بھی جواب مل جاتا ہے- مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے سنایا کہ وہ ایک جگہ مباحثہ کیلئے گئے- مباحثہ کے متعلق مخالف مولوی سے گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک احمدی کو رقعہ دیکر ان مولوی صاحب کے پاس بھیجا گیا- مولوی صاحب نے انہیں بے علم سمجھ کر چاہا کہ اسے قابو میں لے آئیں- اس خیال سے اس احمدی کو کہا- دیکھو قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق رافعک الی لکھا ہے یعنی اوپر اٹھانا اس لئے وہ فوت ہو ہی نہیں سکتے- اس احمدی نے کہا- رافعک کی ف کے نیچے کیا ہے- مولوی صاحب نے کہا- زیر- احمدی نے کہا رافعک اوپر تو لے جاتا ہے مگر یہ زیر اوپر نہیں جانے دیتی- اس پر مولوی صاحب بالکل خاموش ہو گئے- غرض جس رنگ میں دشمن چلتا ہے- اسی رنگ میں ناکام کرنے کیلئے خدا تعالیٰ احمدیوں کو سمجھ عطا کر دیتا ہے- ظاہری علوم سے بالکل ناواقف احمدی ایسے ایسے لطیف جواب دیتے ہیں کہ مخالف کے لئے خاموش ہوئے بغیر چارہ نہیں رہتا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کا ایک خادم پیراں دتا نام ہوا کرتا تھا- بہت معمولی سمجھ کا انسان تھا- مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہنے کا اس پر ایسا اثر تھا کہ ایک دفعہ بٹالہ تار لے کر گیا- اس زمانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتے تھے- پیراں دتا کو جو انہوں نے دیکھا تو اسے پکڑ لیا- اور کہنے لگے- تو کہاں چلا گیا- وہاں کیا رکھا ہے- تمہیں وہاں نہیں رہنا چاہئے- اس رنگ میں بہت کچھ کہا- اس نے کہا- میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں- اور نہیں جانتا کہ کیا بات ہے- لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے گھر بیٹھے رہتے ہیں- مگر دور دور سے لوگ آتے اور یکوں کے دھکے کھا کھا کر ان کے پاس پہنچتے ہیں- اور تم یہاں دوڑے پھرتے ہو- مگر کوئی تمہیں پوچھتا تک نہیں- یہ ایک علمی دلیل ہے ایک مامور من اللہ کی صداقت کی- جو ایک جاہل نے پیش کی- ایسے جاہل نے جس کی یہ حالت تھی کہ چند آنے لے کر مٹی کا تیل دال میں ڈال کر کھا جاتا تھا- اسے علمی الفاظ نہ آتے تھے- لیکن جو کچھ اس نے کہا وہ علمی دلیل تھی- جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہے اور اس کی *** تم پر پڑ رہی ہے-
غرض جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی عقل تیز ہو جاتی ہے اور وہ روحانیت کے باریک سے باریک معارف باسانی سمجھنے لگ جاتا ہے- وہ قومیں جو یہ کہتی ہیں کہ ہم فلاں قسم کی باتیں نہیں سمجھ سکتیں ان کی عقلی طاقتیں گر جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ موٹی باتیں سمجھنے سے بھی عاری ہو جاتی ہیں- لیکن جن لوگوں کو روحانی اور علمی باتیں سنائی جاتی ہیں اور وہ انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- ان میں سے نہ سمجھنے والوں میں بھی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں- چنانچہ میں احمدی زمینداروں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتا ہوا یہ خیال نہیں کرتا کہ ان کی سمجھ میں نہ آئے گی لیکن کالجوں کے غیر احمدی طالبعلموں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتے ہوئے مجھے یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ شائد وہ میری باتیں نہ سمجھ سکیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ احمدی علمی اور روحانی تقریریں سننے کے عادی ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگ عادی نہیں ہوتے- دین کی باتیں سننے کا عادی بنانے کیلئے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے- اگر اس طرح دین کی باتیں سمجھنے کی بچہ میں قابلیت پیدا ہو سکتی ہے تو احمدیوں کے سامنے علمی باتیں بیان کرنے سے وہ کیوں نہیں سمجھسکتے-
اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود علوم کو مشکل بنا دیا ہے- اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے علوم بنائے ہیں- اور ہر طبقہ کے لوگوں میں علوم کو سمجھنے کی قابلیت رکھی ہے خواہ وہ زمیندار ہوں خواہ علمی کام کرنے والے- اگر لوگ علوم کو خود مشکل نہ بنا دیتے تو کسی انسان کے لئے ان کا سمجھنا مشکل نہ ہوتا- اب ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ دلیل استقراء سے یہ بات ثابت ہے تو بہت لوگ کہہ دیتے ہیں ہمیں کیا معلوم دلیل استقراء کیا ہوتی ہے- لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تمہارے باپ دادا مرتے چلے آئے ہیں یا نہیں تو ہر شخص اس بات کو سمجھ لے گا-
غرض خدا تعالیٰ نے کسی علم کو مشکل نہیں بنایا- علم کو لوگ الفاظ کے ذریعہ مشکل بنا دیتے ہیں- اگر لوگ میری تقریر کو بھی نہ سمجھیں گے تو اس میں میری غلطی ہوگی کہ میں نے ایسے الفاظ استعمال نہ کئے جو ان کی سمجھ میں آ سکتے- ورنہ قرآن کا کوئی مضمون ایسا نہیں جسے کوئی انسان سمجھ نہ سکے ہاں میں اپنی طرف سے کوشش کرتا ہوں کہ آسان الفاظ میں تقریر کروں- باقی روانی میں بعض اوقات مشکل الفاظ بھی نکل جاتے ہیں مگر اس سے مضمون خراب نہیں ہوتا-
قرآن کریم کی فضیلت پر نویں دلیل
میں اس وقت تک قرآن کریم کے افضل ہونے کی آٹھ دلیلیں بیان کر چکا ہوں- آج نویں دلیل پیش کرتا ہوں-
نویں دلیل قرآن کریم کی دوسری الہامی کتب سے یا دوسرے فلسفوں سے افضل ہونے کی یہ ہے کہ وہ تمام گذشتہ مذاہب کی الہامی کتب میں یا مذہبی فلسفوں میں جو غلطیاں ہیں ان کو واضح کرتا ہے اور نہ صرف ان کی غلطیاں واضح کرتا ہے بلکہ ان کی اصلاح بھی کرتا ہے- اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو غلطی نکالتا ہے وہ اس سے افضل ہوتا ہے جس کی غلطی نکالی جاتی ہے- اور غلطی نکالنے والا استاد اور ماہر فن ہوتا ہے- اس دلیل کے مطابق قرآن کریم کی جو افضلیت ثابت ہوگی- وہ موجودہ الہامی کتب اور موجودہ مذاہب پر ثابت ہوگی- کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ قرآن کریم جو غلطی نکالے وہ اصل کتاب میں نہ ہو بلکہ بعد میں داخل ہو گئی ہو- یا اس مذہب میں وہ بات نہ ہو اور بعض میں لوگوں نے اس کی طرف منسوب کر دی ہو کیونکہ تمام مذاہب خدا تعالٰی کی طرف سے ہیں ان میں کوئی جھوٹی اور غلط بات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی- پس قرآن کریم جہاں کسی سابقہ کتاب کو نامکمل بتائے گا وہاں یہ معنی ہونگے کہ پہلی کتب میں وہ بات نہ تھی- اور جہاں یہ ظاہر کرے گا کہ فلاں بات غلط ہے وہاں یہ معنی ہونگے کہ وہ بات خدا نے نہیں بتائی- پھر جہاں قرآن فلسفہ کی غلطیاں بتائے گا وہاں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ لوگوں نے اپنی عقل سے وہ باتیں بنا لیں جو غلطہیں-
میں نے کہا ہے کہ پہلی کتابوں میں اصل میں وہ غلطیاں نہ تھیں جو قرآن بتاتا ہے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ثابت ہوتا ہے- کیونکہ وہ کتابیں اب محرف و مبدل ہیں- اور چونکہ دنیا کے سامنے وہ موجود شکل میں آتی ہیں اور قومیں ان پر عمل کرتی ہیں- وہ ان سے نقصان اٹھاتی ہیں- اس لئے قرآن کی افضلیت بہرحال ثابت ہے- کیونکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو سابقہ کتب کی غلطیاں معلوم ہوتی ہیں اور یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اس وقت سوائے قرآن کریم کے کوئی قابل عمل کتاب نہیں ہے- قرآن کریم اس دعویٰ کو خود پیش کرتا ہے- فرماتا ہے-
تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطن اعمالھم فھو ولیھم الیوم ولھم عذاب الیم وما انزلنا علیک الکتب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ وھدی ورحمہ لقوم یومنون ۲۶۷~}~
قرآن کریم کے چھ دعوے
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ دعوے پیش کئے گئے ہیں- پہلا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں- چنانچہ فرمایا تا للہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک- مجھے اپنی ذات ہی کی قسم کہ پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے جاتے رہے ہیں- دوسرا دعویٰ یہ فرمایا کہ
فزین لھم الشیطن اعمالھم- اس کے بعد وہ قومیں بگڑ گئیں- ان کو جو تعلیمیں دی گئی تھیں ان میں انہوں نے نقص پیدا کر دیا اور لوگوں نے اپنے نفسانی خیالات کو خوبصورت سمجھنا شروع کر دیا-
انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ پہلے وہ بدی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس کی تائید میں دلائل لاتا ہے- حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے- ایک چور سے میں نے پوچھا کہ کبھی تمہیں چوری کرتے ہوئے شرم نہیں آئی- اس کے جواب میں اس نے کہا- اصل میں حلال کی کمائی تو ہماری ہی ہوتی ہے- ہم خطرات میں پڑ کر مال حاصل کرتے ہیں- چونکہ اس طرح ہمیں بہت محنت مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے- اس لئے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے حلال ہوتا ہے- اس سے ظاہر ہے کہ چور بھی اپنی چوری کو جائز قرار دینے کیلئے دلیل پیش کرتے ہیں-
غرض پہلے انسان بدی کرتا ہے اور پھر اس کے جواز کی دلیلیں بناتا ہے- اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی رکھی ہے جو برے فعل پر اس کو ملامت کرتی ہے- چونکہ انسان ہر وقت کی ملامت برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اپنے فعل کو جائز قرار دینے کیلئے دلائل پیدا کرتا ہے- فزین لھم الشیطن اعمالھم شیطان ان کو ان کے اعمال خوبصورت دکھانے لگتا ہے- اور جب لوگ کسی برے فعل کے عادی ہو جاتے ہیں تو اسے اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں-
تیسرا دعویٰ یہ کیا کہ فھو ولیھم الیوم- یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گیا- ساری کی ساری قومیں آج بھی ایسی حالت میں ہیں- اب تک اس شیطانی عمل کا اثر اور اس کی *** ان پر باقی ہے- کیونکہ جو بگاڑ ایک دفعہ پیدا ہوا- اسے خدا ہی دور کر سکتا ہے کوئی انسان دور نہیں کر سکتا-
چوتھی بات یہ بیان کی کہ ولھم عذاب الیم وہ اس نقص کی وجہ سے جہنم میں گرنے کے خطرہ میں ہیں- اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کی مدد کرنا چاہتی ہے-
پانچویں بات یہ بیان کی کہ وما انزلنا علیک الکتب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ- ایسی حالت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ رحمت کا دروازہ کھولتا- جب اس کے بندے گمراہ ہو گئے- پہلی کتابیں خراب ہو گئیں تو خدا تعالیٰ نے رحمت کا دروازہ کھولا- پس اے رسولﷺ!~ اس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری ہے تا کہ تو انہیں وہ اصل تعلیم بتائے جس سے اختلاف کر کے وہ ادھر ادھر چلے گئے تا کہ بگاڑ دور ہو-
چھٹی بات یہ بیان کی پھر اسی پر بس نہیں کیا کہ بگاڑ دور کر دے بلکہ اس کتاب میں زائد باتیں بھی بیان کی ہیں- نہ صرف پہلی کتابوں اور پہلے فلسفوں کی غلطیاں بتائیں- بلکہ ایسی باتیں بھی بتائی ہیں جو اس سے پہلے فلسفیوں کے ذہن میں بھی نہیں آئیں- اور وہ دو قسم کی ہیں- ھدی و رحمہ لقوم یومنون- ایک ھدی اور دوسری رحمت- ہدایت کے معنی ہیں ذہنی اور عقلی ترقی کے سامان- اور رحمت کے معنی ہیں عملی ترقی اور آرام و آسائش کے سامان- گویا قرآن میں صرف ذہن کی ترقی کے سامان ہی نہیں بلکہ عملی ترقی کے سامان بھی ہیں- اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کے حاصل کرنے کیلئے تمام مذاہب اورتمام فلسفے کوشش کرتے ہیں- یہ دونوں باتیں قرآن میں موجود ہیں- اس میں ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی-
الفرقان قرآن کریم ہی ہے
دوسری آیت جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہے- وہ یہ ہے- اللہ فرماتا ہے- تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا ۲۶۸~}~فرمایا بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا تا کہ یہ سب زمانوں کیلئے نذیر ہو-
فرقان کے عربی میں کئی معنی ہیں- ان میں سے دو جو یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں ان کو میں لیتا ہوں- اول یہ کہ کل مافرق بہ بین الحق والباطل ۲۶۹~}~یعنی ہر وہ چیز جس کے ساتھ حق و باطل میں فرق کیا- وہ فرقان ہے- دوسرے معنی یہ ہیں کہ الصبح والسحر-۲۷۰~}~ یعنی پو پھٹنے کو بھی فرقان کہتے ہیں- گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ایک تو حق و باطل میں تمیز ہو سکتی ہے- دوسرے ہم نے اسے پو پھٹنے کی طرح بنایا ہے- جو پو پھٹتی ہے تو ہر چیز کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے- یہی حال قرآن کا ہے- اس نے بھی حقیقت ظاہر کر دی ہے- ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ )۱(بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اتارا ہے جو حق و باطل میں فرق کر کے دکھاتا ہے- )۲(بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اتارا ہے کہ جس کی روشنی میں تمام مذاہب کے فلسفے اپنے نقائص آپ دیکھ کر ان کی اصلاح شروع کر دیں گے- جس طرح پو پھٹنے پر ہر گھر کا ہر نقص نظر آ جاتا ہے- اسی طرح قرآن کی روشنی میں سب مذاہب والوں کو اپنے اپنے ہاں کے نقائص نظر آنے لگ جائیں گے اور وہ ان کی اصلاح کی کوشش شروع کر دیں گے-
غرض قرآن میں حق و باطل میں فرق کرنے والے دلائل بھی دیئے گئے ہیں اور تعلیمات صحیحہ کو ایسے رنگ میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ خود بخود لوگوں پر ان کے دین کی کمزوریاں ظاہر ہونے لگ گئی ہیں اور انہوں نے اپنے عیوب چھپانے شروع کر دیئے ہیں-
اقوام عالم کی شرک سے بیزاری
اب دیکھو یہ دونوں باتیں کس طرح پوری ہوئیں؟ ان میں سے ایک کو تو میں آگے چل کر تفصیل سے بیان کرونگا- مگر یہ جو کہا کہ پو پھٹنے پر لوگ آپ ہی آپ اپنے نقائص دور کرنے شروع کر دیتے ہیں اس کی صداقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ساری قومیں شرک میں مبتلا تھیں- یہودیوں نے باوجود اس کے کہ ان کے ہاں ایک خدا کو ماننے کی تعلیم تھی- عزیر کو ابن اللہ قرار دے لیا تھا- اسی طرح زرتشتی مذہب کی بنیاد بھی توحید پر تھی مگر اس کے ماننے والوں نے بھی خرابی پیدا کر لی تھی- اور دو خدا بنا لئے تھے- ہندوئوں نے ۳۳ کروڑ معبود بنا رکھے تھے- چین میں بدھ مذہب تھا- اس نے ہر چیز کا الگ خدا بنا رکھا تھا- مثلاً لکڑی کا خدا الگ تھا- اور جب اس لکڑی کی میز بن جائے تو اس کا الگ- ایسے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپﷺ~ نے یہ تعلیم دی کہ خدا ایک ہے- اس وقت لوگ توحید سے اتنے دور ہو چکے تھے کہ یہ بات سن کر انہوں نے قہقہے لگائے- آپﷺ~ ¶کے ملک والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اجعل الا لھہ الھا واحد اس نے تو بہت سے خدائوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے- چونکہ ان کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ خدا ایک ہے- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کرتے کہ آپﷺ~ نے سب خدائوں کو کوٹ کر ایک بنا دیا ہے- گویا وہ ایک خدا کا عقیدہ پیش کرنا حماقت کی بات قرار دیتے تھے- اسی طرح عیسائیوں کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ تین خدا مانتے ہیں- غرض سب کی سب قومیں شرک میں مبتلا تھیں لیکن جب قرآن کا نور پھیلا تو اب یہ حالت ہے کہ آج ایک عیسائی کھڑا ہو کر بغیر یہ محسوس کئے کہ وہ کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے کہتا ہے کہ توحید خالص سوائے انجیل کے اور کوئی کتاب پیش ہی نہیں کرتی- گویا پہلے تو لوگ توحید کا عقیدہ پیش کرنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنستے تھے- لیکن اب جب کہ سورج نکل آیا تو انہیں اپنے منہ کی سیاہی نظر آ گئی اور وہ منہ دھونے لگ گئے- ہندو ۳۳ کروڑ دیوتا مانتے تھے اور محمود غزنوی سے اس لئے ناراض تھے کہ اس نے ان کے بت توڑ دیئے- لیکن اب ہندو خود بت توڑتے پھرتے ہیں- کیونکہ قرآن کا سورج نکل آیا- اور انہیں پتہ لگ گیا کہ بت پرستی بہت بری بات ہے- غرض جس قوم کو دیکھو مشرکانہ خیالات کی مخالفت کرتی ہے- یہ کتنا بڑا قرآن کے فرقان ہونے کا ثبوت ہے- اس کے ثبوت میں بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ یہ ایک ضمنی بات ہے اس لئے میں اسے لمبا نہیں کرتا- بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ یہود` نصاریٰ اور مجوس اور ہنود وغیرہ مذاہب میں سے ایک مذہب بھی ایسا نہ تھا جو پہلے شرک میں مبتلا نہ تھا اور نزول قرآن کریم کے بعد اس نے پہلو کو نہیں بدلا- یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ عقلمند کے لئے صرف یہی افضلیت کا ثبوت کافی ہے-
غرض اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ ہر مذہب و ملت اور ہر فلسفہ اور خیال کی غلطیاں نکالی گئی ہیں اور اس کے مقابل پر جو سچی تعلیم تھی وہ بتائی گئی ہے- پھر فرماتا ہے کہ ایسا ہونا ضروری تھا- یہ خیال درست نہیں کہ دوسروں کی غلطیاں نکالنے کی کیا ضرورت تھی اپنی تعلیم پیش کر دینا کافی تھا- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ضرورت تھی- کیونکہ لیکون للعلمین نذیرا ہم نے قرآن کو ساری دنیا کیلئے بھیجا ہے- نہ صرف یہود کیلئے نہ صرف نصاریٰ کیلئے- نہ صرف ہندوئوں کیلئے- پھر نہ صرف اہل مذاہب کیلئے بلکہ فلسفہ والوں کیلئے بھی- اور جب تک حجت تمام نہ ہو نذیر نہیں ہو سکتا- پس ضروری تھا کہ تمام ادیان باطلہ اور فلسفہ باطل اور اوہام باطلہ اور وساوس کا اس میں ازالہ کیا جاتا- ورنہ سب دنیا کی طرف اس کا بھیجا جانا جائز نہ تھا-
اب دیکھو یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا- اس کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسا دعویٰ پیش نہیں کر سکتی- بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی اور ایسا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا- جب تک یہ چھ خوبیاں اس میں نہ ہوں- اول جب تک سب کتب کا اسے علم نہ ہو- جب وید اور ژند اوستا وغیرہ کا کسی کو پتہ ہی نہ ہو اس وقت تک کوئی ان کی غلطیاں کیونکر نکالے گا- اسی طرح اگر فلسفیوں کے خیالات معلوم نہ ہوں تو ان کا رد کس طرح کرے گا- یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جس کے پاس ساری دنیا کے مذاہب اور سارے فلسفیوں کی کتب کی لائبریری ہو ایسی لائبریری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو نہ تھی بلکہ بیسیوں مذاہب کا آپﷺ~ کو علم بھی نہ تھا- دوسری خوبی اس میں یہ ہونی چاہئے کہ اس کی نظر ایسی ہو کہ اسے غلطیاں نظر بھی آ جائیں اور ایسی واقفیت ہو جو ساری کتابوں کے مضامین پر حاوی ہو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہ کر سکتے تھے- کیونکہ آپ کے پاس مذاہب عالم کی کتابیں ہی موجود نہ تھیں ان کے پڑھنے پڑھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- تیسری خوبی یہ ہونی چاہئے کہ سب فلسفیوں کا اسے علم ہو- چوتھی یہ کہ سب قسم کے اوہام اور وساوس کا بھی علم ہو کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم وسوسوں کو بھی دور کرتا ہے اور یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ انسانوں کے وساوس کا پتہ لگا سکے- یہ دعویٰ کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا کہ میں انسانوں کے وساوس دور کر سکتا ہوں- جب تک اسے سب کے افکار کا پتہ نہ ہو- اور یہ پتہ لگانا انسان کی طاقت سے باہر ہے- پانچویں اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کسی کو سب قسم کے اوہام اور وساوس وغیرہ کا علم ہو گیا- تب بھی وہ اس وقت تک ان کا رد نہیں کر سکتا جب تک اس میں جواب دینے کی طاقت نہ ہو- اس لئے پانچویں بات اس میں یہ ہونی چاہئے کہ وہ ہر قسم کے اعتراض کو رد کر سکے- چھٹی خوبی یہ ہو کہ اس قدر چھوٹی سی کتاب میں جیسی کہ قرآن شریف ہے ساری کتابوں کو غلط باتوں کا رد بھی کر دے اور ساری عمدہ باتیں بیان بھی کر دے- عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن بائیبل سے چھوٹا ہے- حالانکہ بائیبل میں صرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ خدا محبت ہے- یہ چھ باتیں سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں پائی جا سکتیں- خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ دنیا میں کتنے مذاہب ہیں- خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کتنے فلسفے ہیں- خدا تعالیٰ ہی کی نظر باریک در باریک باتوں تک پہنچ سکتی ہے- خدا تعالیٰ ہی کی نظر انسانوں کے اوہام اور وساوس کو دیکھ سکتی ہے- خدا تعالیٰ ہی کی قدرت میں یہ بات ہے کہ سب غلط باتوں کا رد کرے اور خدا تعالیٰ ہی چھوٹی سی کتاب میں سب کچھ بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے- پس یہ دعویٰ سوائے الہی کتاب کے اور کوئی نہیں کر سکتا- جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ- ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ۲۷۱~}~پہلی آیت میں تو صرف مذہبی کتب کے ماننے والوں کی غلطیاں نکالنے کا دعویٰ تھا- لیکن اس آیت میں سب انسانوں کی خواہ ان کا مذہبی کتب سے تعلق ہو یا محض عقلی دلائل پر ان کے خیالات کی بنیاد ہو غلطیاں بیان کرنے کا ذکر ہے- دوسری کتب تو ان اعتراضات تک کو بیان بھی نہیں کرتیں جو مذہب کے خلاف عائد ہوتے ہیں- کجا یہ کہ ان کے جواب دینے کا دعویٰ کریں-
دنیا کو چیلنج
یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف یہی دعویٰ قرآن کریم کی افضلیت ثابت کر سکتا ہے- اور اس دعویٰ کا پرکھنا بالکل آسان کام ہے- لوگ چند عجیب در عجیب اعتراضات مذہب کے بارہ میں پیش کر دیں اور پھر دیکھیں کہ قرآن کریم میں ان کا جواب موجود ہے یا نہیں- خود میں نے ساری دنیا کو یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ وہ مذہب پر کوئی اعتراض کریں- میں ان کے تمام اعتراضات کا قرآن کریم سے ہی جواب دینے کیلئے تیار ہوں- وہ کتاب کی شکل میں اپنے اعتراضات شائع کر دیں- پھر میرا فرض ہوگا کہ ان کا جواب میں قرآن سے ہی دوں- اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو بے شک لوگ مجھے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ قرآن نے ہر ایک اعتراض کا جواب دے دیا ہے- لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اس آزمائش کیلئے تیار ہو تو خدا تعالیٰ مجھے کامیاب کرے گا- خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کی جڑ ہے مجھے سکھائی ہے- اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ جب قرآن کریم نازل کرنے والے خدا کے فرشتوں نے مجھے سورۃ فاتحہ سکھائی اور اس کے معارف بتائے- اور فرشتہ نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں تجھے وہ باتیں سکھاتا ہوں جو کسی کو معلوم نہیں تو کسی مخالف کا کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جس کا میں قرآن کریم سے ہی جواب نہ دے سکوں- اس لئے میں سب مخالفین اسلام کو پھر چیلنج دیتا ہوں کہ وہ کوئی مخالفانہ بات پیش کریں- اصولی طور پر اس کا رد میں قرآن کریم سے ہی دکھا دوں گا- میرے پاس پچھلے دنوں ایک صاحب آئے اور آ کر کہنے لگے- میں کچھ مذہبی باتیں پوچھنا چاہتا ہوں- میں نے کہا- بڑی خوشی سے پوچھیے- کہنے لگے- مرزا صاحب کے دعویٰ کے متعلق پوچھتا ہوں کہ کیا قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے- میں نے کہا- ہاں کرتا ہے- کہنے لگے- کوئی آیت بتائیے- میں نے کہا- کوئی آیت کیا- سارا قرآن ہی تصدیق کرتا ہے- کہنے لگے یہ کس طرح؟ میں نے کہا- مجھے تو یہی نظر آتا ہے- آپ کوئی آیت پڑھیں میں اس سے ثابت کر دوں گا- اور خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت اسی سے سمجھا دوں گا- میں نے کہا- قل ھواللہ احد ۲۷۲~}~ہی پڑھ دیجئے- یہ سن کر وہ کچھ گھبرا سے گئے کہ اس سے شائد اپنی دعویٰ ثابت کر دیں اس لئے اسے چھوڑ کر انہوں نے یہ آیت پڑھی ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وماھم بمومنین ۲۷۳~}~میں نے کہا- ایمان لانے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں- ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر وہ جھوٹ کہتے ہیں- اور ایک وہ جو واقعہ میں ایمان لاتے ہیں- اب ایسے لوگ جو سمجھتے تو ہیں کہ ایمان لائے مگر درحقیقت ایمان نہیں لائے- جب مر کر خدا تعالیٰ کے سامنے جائیں گے تو خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تم نے تو ایمان کا دعویٰ کیا تھا مگر حقیقت میں تم ایمان نہیں لائے تھے- وہ کہیں گے پھر ہمیں کسی رسول کے ذریعے بتایا کیوں نہیں گیا- میں نے ان صاحب سے پوچھا- آج کل کتنے مسلمان نماز پڑھتے ہیں- انہوں نے کہا- بہت کم- میں نے کہا- ایسے ہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور وہ سمجھتے بھی ہیں کہ ایمان لائے مگر حقیقت میں ایمان نہیں لائے ہوتے- ان کے لئے کیا ہوگا- قرآن کریم سچا ہو ہی نہیں سکتا جب تک ایسے لوگوں کا علاج نہ کرے- پس اگر ایسے لوگ ہو سکتے ہیں اور ہیں تو ان کو راہ راست دکھانے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور بھی آناچاہئے-
‏]bus [tag قرآن کریم کی پہلی اصولی اصلاح ہستی باری تعالیٰ کے متعلق
اب میں مثال کے طور پر بعض ان باتوں کو لیتا ہوں جو اصولی ہیں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح دوسرے مذاہب یا فلسفیوں کے خیالات کی غلطیاں نکالیں اور ان کی اصلاح کی ہے- پہلی بات جو مذہب کا سوال سامنے آتے ہی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا یہ دنیا آپ ہی آپ ہے اور اس کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں-
اس بات کو قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں- اور ان کے منبع علم کی بھی تشریح کی ہے- مگر میں ان مثالوں کے متعلق صرف ایک ایک دلیل دونگا- تفصیل میں نہیں جائونگا-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما یھلکنا الا الدھر وما لھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون- ۲۷۴~}~یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں- ورنہ کوئی ایسی ہستی نہیں جو یہ کام کر رہی ہے-
جو لوگ دہریہ ہوتے ہیں ان میں سے کئی ایک ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے رد میں دلیلیں دینے لگے جاتے ہیں لیکن جو بڑے بڑے اور ہوشیار دہریہ ہوتے ہیں جیسے ہکسلے وغیرہ وہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دلیل خدا کے ہونے کی نہیں ملتی- چنانچہ ہکسلے سے پوچھا گیا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا- >یہ کہ میں نہیں جانتا<- غرض ان کی بنیاد نفی پر ہے- اور خدا تعالیٰ نے آج تیرہ سو سال قبل یہ بات بتا دی ہے کہ وما لھم بذلک من علم ان ھم الایظنون- خدا کے منکر صرف یہی بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ خدا نہیں ہے- اس کے لئے کوئی مثبت دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی- صرف وہم اور گمان ہوتا ہے کہ خدا نہیں ہے- اور نفی پر قطعیت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی- یہ تو دہریت کا ذکر ہے-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دہریت کو قرآن نے کس طرح رد کیا ہے- مگر صرف ایک دلیل دوں گا اور وہ یہ کہ ہے کہ سورۃ جاثیہ کے رکوع۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وللہ ملک السموت والارض ۲۷۵~}~کہ اس دنیا میں ایک ایسا بادشاہ نظر آ رہا ہے جو آسمان اور زمین دونوں پر قابض ہے- اور جس کی طاقتوں کا مظاہرہ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے- اس جگہ آسمان سے شرعی نظام اور زمین سے طبعی نظام مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی یعنی شرعی اور زمینی یعنی طبعی نظاموں میں ایک زبردست اتحاد پایا جاتا ہے- جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ اتفاق سے اور آپ ہی آپ ہے- اگر طبعی نظام آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اس کا تطابق کیوں ہوتا؟ ان دونوں میں تو ایسا اتحاد ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اس دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں- یہ مشاہدہ اور نظام عالم کی دلیلیں میرے لیکچر >ہستی باری تعالیٰ< میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہیں- یعنی خدا کے کلام اور طبعی نظام کا آپس میں اتحاد- جسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہے- اگر طبعی نظام آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اس کا تطابق کیوں ہوتا ہے؟ پس شرعی اور طبعی نظام کا ایک دوسرے کی تائید کرنا بلکہ طبعی نظام کا شرعی نظام کے تابع چلنا بتاتا ہے کہ اس دنیا کا چلانے والا کوئی ضرور موجود ہے- یہ دلیل مجموعہ ہے دلیل مشاہدہ اور دلیل نظام کا- اور میرے نزدیک سب دلیلوں سے زیادہ مضبوط ہے- دلیل نظام یہ بتاتی ہے کہ یہ سب دنیا ایک نظام کے نیچے ہے- اور دلیل مشاہدہ یہ بتاتی ہے کہ شریعت اپنے ساتھ ثبوت رکھتی ہے- اور ان دونوں دلیلوں کا مجموعہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں نظام ایک دوسرے سے متحد ہیں اور یہ اتحاد سب سے بڑا ثبوت ہے ہستی باری تعالیٰ کا- اس کے متعلق میں ایک مثال قرآن کریم سے ہی پیش کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ آسمان کا نظام کس طرح زمینی نظام سے متفق ہوا-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سو سال ہوئے دعویٰ کیا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں- آپ نے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات میری تائید میں ہیں- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے ساتھ ہی وہ دنیا جو ایک نظام کے ماتحت چل رہی تھی اس میں ایسے تغیرات رونما ہونے لگ جاتے ہیں جو آسمانی کلام کے ماتحت ہوتے ہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اسی ہستی کے احکام کے ماتحت چل رہی ہے- جس کی طرف سے قرآن آیا-
بعثت محمدیﷺ~ کے متعلق حضرت ابراہیمؑ کی دعا
اس کے ثبوت کیلئے کس طرح آسمان اور زمین کی بادشاہت ایک ہستی کے ماتحت چل رہی ہے میں آج سے چار ہزار سال پیچھے جاتا ہوں- آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں بلند کرتے ہوئے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر یہ دعا کی تھی کہ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم- ۲۷۶~}~یعنی اے خدا ہم تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس ملک میں جو ہماری آئندہ نسل پھیلے گی- اس میں سے تو ایک رسول بھیج جس کے یہ کام ہوں کہ یتلو علیھم ایتک- وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے- و یعلمھم الکتب شریعت کی باتیں انہیں سکھائے- والحکمہ اور احکام کی حکمتیں ان پر واضح کرے ویزکیھم- اور انہیں پاک کرے اور بدیوں سے بچائے- یہ دعا چار ہزار سال پہلے ایسی جگہ پر کی گئی جہاں نہ غلہ پیدا ہوتا تھا اور نہ اور کسی قسم کی کھیتی- زمزم کا چشمہ جو نشان کے طور پر قائم ہوا اس کا پانی بھی کھاری ہے- جسے ہندوستانی نہیں پی سکتے- اس کھاری پانی کے چشمہ کے پاس چند گھر آباد تھے- وہاں پتھروں کا ایک مکان بناتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جو لوگ یہاں پیدا ہوں ان میں تو اپنا ایک رسول بھیج جو تیری ہستی کے دلائل انہیں بتائے- لوگوں کو تیری شریعت سکھائے- اس شریعت کی حکمت یعنی باریکیاں بتائے کہ شریعت پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہے- پھر ان کو پاک بنائے-
اس دعا پر اگر غور سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے-
اول اس عرصہ تک کہ اس نبی کی بعثت کی ضرورت پیش آئے مکہ قائم رہے گا- اب طبعی صورت تو یہ ہے کہ آندھیاں آتی ہیں جو شہروں کے شہر برباد کر دیتی ہیں- زلزلے آتے ہیں جو بڑے بڑے شہروں کو تودہ خاک بنا دیتے ہیں- مگر یہاں پہلے سے خبر دے دی گئی کہ تمام قسم کے حادثات اس آبادی کو اجاڑ نہ سکیں گے- اور آخر ایسا ہی ہوا-
دوسری بات یہ بتائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی- کیونکہ کہا یہ گیا کہ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم- اس سے معلوم ہوا کہ اس رسول کے آنے تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل موجود ہوگی- دنیا کے اکثر گھرانے ایسے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تین چار سو سال تک ان کی نسل چلتی ہے اور پھر مٹ جاتی ہے- مگر حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کے متعلق یہ کہا گیا کہ دو ہزار سال تک یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک ان کی نسل بہر حال قائم رہے گی- بیماریوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو تباہ نہ کر سکیں- لڑائیوں اور جنگوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کا خاتمہ نہ کریں- اسی طرح ہر قسم کے حادثات پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو مٹا نہ دیں- اولاد کی اولاد ہوتی چلی جائے گی اور یہ نسل ہمیشہ قائم رہے گی-
تیسری بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیمؑ کی نسل میں سے ایک رسول آئے گا حالانکہ کوئی شخص دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نسل میں کس قسم کے انسان پیدا ہونگے-
چوتھی بات یہ بتائی گئی کہ وہ اس قوم کا کایا پلٹ دے گا- اور وہ لوگ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف منتقل ہو جائیں گے- کتنے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو پاک کر سکتے ہیں- ایک شاگرد کو ایک استاد پاک نہیں کر سکتا- بوعلی سینا کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کو ایک کتاب پڑھا رہے تھے- پڑھتے پڑھتے ایک شاگرد نے کہا کہ آپ تو محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( سے بھی بڑھ کر ہیں- بو علی سینا مومن آدمی تھے مگر علم النفس کے ماہر تھے- انہوں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس وقت اگر میں اسے سمجھائوں تو اس کی سمجھ میں بات نہ آئے- اور یہ ضد میں اور گمراہ ہو جائے- اس لئے چپ رہے لیکن ایک دن جب کہ سردی کا موسم تھا اور تالاب کا پانی سخت سردی سے جما ہوا تھا انہوں نے اس شاگرد سے کہا کہ کپڑے اتارو اور تالاب میں کود پڑو- اس نے کہا- آپ یہ کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں- کیا میں پانی میں کود کر مر جائوں- انہوں نے کہا- اس دن تو تم مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا کہہ رہے تھے اور آج اتنی بات بھی نہیں مانتے- محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ تھے کہ آپﷺ~ کے ماننے والوں نے کبھی نہ کہا کہ ہم مر جائیں گے- بلکہ آپﷺ~ جو کہتے تھے فوراً اس پر عمل کرتے خواہ موت سامنے نظر آتی- اور خوشی خوشی آپﷺ~ کے لئے جانیں دے دیتے-
غرض یہ کتنی بڑی بات بتائی کہ وہ ایک دو کی نہیں بلکہ قوم کی قوم کی کایا پلٹ دے گا- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے دو ہزار سال بعد مکہ موجود تھا- حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل موجود تھی- ہو سکتا تھا کہ نسل موجود ہوتی مگر انہیں پتہ نہ ہوتا کہ کس کی اولاد ہیں- مگر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ بائیبل میں بھی ذکر کر دیا کہ یہ ابراہیم کی نسل ہے- اس طرح ان میں یہ احساس بھی قائم رکھا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں- پھر ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے آپﷺ~ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس قوم کی کایا پلٹ دی-
حضرت موسیٰؑ کی پیشگوئی
پھر ہم کچھ اور نیچے آ جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پھر دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چھ سو سال گذرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوتے ہیں- اور وہ آپﷺ~ کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ بات بتاتے ہیں-
>میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا- اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا<-
اس سے ابراہیمی دعا کی تصدیق کی گئی- حضرت اسحاقؑ` حضرت اسمٰعیلؑ کے بھائی تھے اور حضرت موسیٰؑ حضرت اسحاقؑ کی اولاد سے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسمٰعیل کی اولاد سے- گویا ان کے بھائیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا کیا گیا اور اس طرح چھ سو سال کے بعد پھر ابراہیمی وعدہ کا تکرار کیا گیا- گویا اس میں پھر حضرت اسمٰعیل کی نسل کے قائم رہنے اور ان میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی خبر دی جاتی ہے-
پھر اس شخص کے متعلق ایک اور امر بیان کیا جاتا ہے کہ-:
>خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا- دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا- اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی<- ۲۷۷~}~
سینا وہی پہاڑ ہے جسے قرآن شریف میں طور کہا گیا ہے- اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ظہور مراد ہے- شعیر سے بعض نے حضرت مسیح مراد لئے ہیں- مگر یہ ان پہاڑوں کا نام بھی ہے جس میں سے گذر کر حضرت موسیٰؑ آئے- اور انہوں نے دشمن پر فتح پائی تھی- اس لئے یہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں-
آگے فرماتا ہے-
>فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا- دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا<- ۲۷۸~}~
اس میں بھی دو باتیں بتائی گئی ہیں- اول یہ کہ وہ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوگا- دوم یہ کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا- یہ دونوں باتیں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں- جس طرح پہلی دو بھی ایک ہی کے متعلق ہیں-
پھر بتایا کہ آتشی شریعت اس کے ساتھ ہوگی- اس میں یہ خبر ہے کہ وہ فاران کی پہاڑیوں سے جو مکہ کے گرد کے پہاڑ ہیں دس ہزار قدوسیوں سمیت آئے گا اور آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی- اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ )۱(وہ نبی مکہ سے نکالا جائے گا کیونکہ پہلے بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہوگا- پھر کہا کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ مکہ سے نکالا جائے گا- )۲(یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوگا- )۳(یہ کہ اس کے ساتھ دس ہزار سپاہی ہونگے- )۴(یہ کہ وہ لوگ قدوسی ہونگے یعنی یزکیھم کے مصداق ہونگے- )۵(یہ کہ اس کے ساتھ گناہ سوز شریعت ہوگی- یہ یعلمھم الکتب والحکمہ کا ترجمہ ہے- جب انسان کو معلوم ہو کہ فلاں حکم کے ماننے میں میرا فائدہ ہے تو اس پر عمل کرتا ہے- شریعت کا لفظ الکتب سے اور گناہ سوز کا مفہوم حکمہ سے نکلتا ہے- کیونکہ حکمت معلوم کرنے کے بعد انسان گناہ کے نزدیک جانے سے احتراز کرتا ہے-
سب لوگ جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ پورا ہوا- فاران کی پہاڑیاں تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مکہ کی پہاڑیاں ہیں- حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ
‏iqt] >[tagوادی فاطمہ میں )یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک پڑائو ہے( گل جذیمہ یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ من یرید فاران یعنی دشت فاران سے<- ۲۷۸~}~
بائیبل میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں- جن سے اشارہ ثابت ہوتا ہے کہ وادی فاران یہیہے-
حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشگوئی
اس کے بعد اور چار سو سال گذرتے ہیں- اور حضرت سلیمان علیہ السلام آتے ہیں تو وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں گیت گاتے ہیں- چنانچہ فرماتے ہیں-
>اے یرو شلم کی بیٹیو! )یعنی بنی اسرائیل( میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ اگر تمہیں میرا محبوب )مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم( مل جائے تو تم اسے کہیو کہ میں عشق کی بیمار ہوں<- ۲۷۹~}~
وہ جواب دیتی ہیں-
>تیرے محبوب کو دوسرے محبوبوں کی نسبت سے کیا فضیلت ہے- اے تو جو عورتوں میں جمیلہ ہے تیرے محبوب کو دوسرے محبوب سے کیا فضیلت ہے جو تو ہمیں ایسی قسم دیتی ہے<- ۲۸۰~}~
اس پر وہ فرماتے ہیں-:
>میرا محبوب سرخ و سفید ہے- دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے- اس کا سر ایسا ہے جیسے چوکھا سونا- اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں- اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں- اس کے رخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں- اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مر ٹپکتا ہے- اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے ہیں- اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں- اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پائیوں پر کھڑے کئے جائیں- اس کی قامت لبنان کی سی- وہ خوبی میں رشک سرو ہے- اس کا مونہہ شیرینی ہے- ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے- )عبرانی میں لکھا ہے وہ محمدیم ہے( اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے<- ۲۸۱~}~
گویا حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس امر کی تاکید کرتے ہیں- کہ جب وہ محبوب آئے تو اسے مان لینا- اور پھر خود ہی سوال پیدا کر کے کہتے ہیں کہ اس میں یہ یہ خوبیاں ہونگی- ان آیات میں بعض باتیں تو شاعرانہ رنگ رکھتی ہیں اور بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ سے قطعی طور پر ملتی ہیں- مثلاً لکھا ہے- اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں- انگریزی بائیبل میں یہ الفاظ آتے ہیںwavy>- are locks -<His اور یہی حلیہ حدیثوں میں بیان ہوا ہے- چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں- لم یکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالطویل الممعط ولا بالقصیر المتردد- کان ربعہ من القوم لم یکن بالجعد القطط و لا بالبسط کان جعدا رجلا- ۲۸۳~}~یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے قد کے تھے- نہ بہت چھوٹے بلکہ آپ میانہ قد و قامت رکھنے والوں میں سے تھے- اسی طرح آپﷺ~ کے سر کے بال نہ تو سخت گھنگرالے تھے جیسے کہ حبشیوں کے ہوتے ہیں اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ اس طرح گھنگھرالے تھے جس طرح کنگھی کرنے سے بال نیچے سے ذرا خمیدہ ہو جائیں- اور مڑ جائیں- یہی حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ آپ کے بال لمبے ہونگے- یعنی زلفیں ہونگی مگر بال کچھ پیچ دار ہونگے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r کے سر کے بال کانوں کو لو تک آتے تھے- گویا لمبے بال ہونے کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ بال نہ پیچ دار ہونگے اور نہ بالکل سیدھے اور یہی حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں-
پھر حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کا رنگ سرخ و سفید بیان کرتے ہیں اور حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ کے متعلق فرماتے ہیں- ابیض مشرب۲۸۴~}~ اور مشرب کے معنی لغت والے یہ لکھتے ہیں کہ ایسا سفید رنگ جس میں سرخی ملی ہوئی ہو- ۲۸۵~}~
پھر حضرت سلیمانؑ نے یہ فرمایا کہ وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوگا- یعنی چھوٹے قد کا نہ ہوگا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا قد ایسا تھا جو لمبائی کی طرف مائل تھا- گویا حضرت سلیمانؑ کی بیان کی ہوئی سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں تو اس قدر مشہور ہیں کہ لوگ ان کے متعلق شعر کہا کرتے ہیں-
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی
اب ہم کچھ اور نیچے چلتے ہیں- تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سات سو سال بعد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد یسعیاہ نبی کے زمانہ میں آتے ہیں- یہ پھر حضرت ابراہیمؑ` حضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ کی بات کو دہراتے ہیں- چنانچہ فرماتے ہیں-
>ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا- اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا- اور سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی- اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے- عجیب` مشیر` خدائے قادر ابدیت کا باپ )انگیریزی میں ہے EverlastingFather یعنی ہمیشہ رہنے والا باپ( سلامتی کا شہزادہ- اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی- وہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لیکر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا- رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی<- ۲۸۶~}~
اس میں بتایا کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ کہیں گے- عجیب ہے- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے- انا سمعنا قرانا عجبا ۲۸۷~}~ہم نے یہ کتاب سنی ہے جو عجیب اور نرالی قسم کی ہے- متی باب۲۱ آیت۴۲ میں بھی حضرت مسیحؑ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عجیب رکھا ہے- چنانچہ آتا ہے-
>یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب<- ۲۸۸~}~
دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ اس کا نام مشیر ہوگا- یعنی وہ مشورے دینے والا ہوگا- اب ہم دیکھتے ہیں- کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہو کہ لوگ اس سے مشورے لیتے تھے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یایھا الذین امنوا اذ ناجیتم الرسول فقد موابین یدی نجوئکم صدقہ ذلک خیر لکم واطھر فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم ۲۸۹~}~اے مومنو! تمہاری عادت ہے کہ تم رسول سے مشورے لیا کرتے ہو- مگر رسول کا وقت بڑا قیمتی ہے- تمہیں چاہئے کہ جب مشورہ لو تو مسکینوں کے لئے صدقہ کیا کرو- یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا- اور اگر تم میں سے کوئی صدقہ نہ کر سکے تو اللہ اس کی کمزوری کو دور کرنے والا ہے- حدیثوں میں آتا ہے- بعض اوقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے ہوتے تو کوئی بڑھیا آپ کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی کہ مجھے آپﷺ~ سے مشورہ لینا ہے- مسجد میں بھی لوگ آپﷺ~ سے مشورہ کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے- ایک دفعہ ایک شخص اتنی دیر آپﷺ~ سے باتیں کرتا رہا کہ مسجد میں جو لوگ نماز پڑھنے آئے تھے وہ سو گئے-
تیسرا نام خدائے قادر بتایا گیا ہے- توریت میں خدا کا لفظ مجازی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے- چنانچہ لکھا ہے-
>پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا- دیکھ میں نے تجھے فرعون کیلئے خدا سا بنایا<-۲۹۰~}~
متی باب ۲۱ آیت ۴۰ میں حضرت مسیحؑ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں-
>جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا<-
گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو حضرت مسیح نے خدا کا آنا بتایا-
اب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا 2] [stf۲۹۱~}~یعنی جس طرح ہم نے موسیٰؑ کو فرعون کے لئے خدا سا بنا کر بھیجا تھا اسی حیثیت سے ہم نے تجھے دنیا کیلئے بھیجا ہے-
چوتھا نام آپﷺ~ کا ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امھتھم- ۲۹۲~}~یعنی نبی کا تعلق مومنوں کے ساتھ باپوں سے بھی زیادہ ہے اور اس کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مائیں ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باپ ہوئے- سورہ احزاب کے پانچویں رکوع میں آتا ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین- ۲۹۳~}~محمد صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو کسی کے باپ نہیں لیکن روحانی باپ ہیں رسول ہونے کی وجہ سے- اور ابدی باپ ہیں خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے-
پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ بتایا گیا ہے- عبرانی میں بادشاہ کی جگہ شہزادہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں- اس کا اپنے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ سلامتی کا بادشاہ- اور سلامتی اسلام ہے- اس لئے اصل نام یہ ہوا کہ اسلام کا بادشاہ- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھو سمکم المسلمین یوں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ تھے- فتح مکہ پر مکہ والوں کو آپﷺ~ نے بلا کر کہا- بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے- تو انہوں نے کہا- آپﷺ~ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا- اس پر آپﷺ~ نے فرمایا- لا تثریب علیکم الیوم ۲۹۴~}~جائو تم پر کوئی گرفت نہیں- اس طرح بھی آپﷺ~ نے سلامتی ہی دکھائی-
پھر چھٹی بات آپﷺ~ کے متعلق یہ بیان کی گئی ہے کہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے ابد تک بندوبست کرے گا- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شام اور فلسطین پر قبضہ انہیں حاصل ہوگا- پھر اسی کتاب میں ہم عرب کی بابت الہامی کلام پڑھتے ہیں کہ-
>عرب کے صحراء میں تم رات کاٹو گے- اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو- اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو- کیونکہ وے تلواروں کے سامنے ننگی تلوار اور کھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں- کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا- ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی- اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے- کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا<- ۲۹۵~}~
اس جگہ یہ پیشگوئی بیان کی کہ جو آنے والا نبی ہوگا جب وہ اپنے وطن سے نکالا جائے گا تو ہجرت کے ایک سال بعد اس کی قوم اس پر حملہ کرے گی- ایک رات میدان میں سوئیں گے اور صبح کو جنگ ہوگی جس میں دشمن شکست کھائے گا اور اس کے بڑے بڑے بہادر مارے جائیں گے- یہ پیشگوئی بھی رسول کریم کی ذات میں بدر کی جنگ سے پوری ہوئی-
اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئیں- اس میں بتایا گیا ہے کہ )۱(پہلے اس رسول کو مکہ والے اپنے شہر سے نکالیں گے اور )۲(پھر لڑائی کے لئے مکہ والے آئیں گے- اگر وہی جس نے یسعیاہ پر یہ کلام نازل کیا تھا دنیا پر قابض نہ تھا اور دنیا اس کے ہاتھ میں نہ تھی- تو اس نے کیوں اہل مکہ سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلوایا- اور ایک سال کے بعد کس نے ان کو حملہ کرنے کیلئے نکالا- )۳(پھر جب انہوں نے حملہ کیا- تو اس حملہ میں سارے سردار شامل ہوئے- کہا جاتا ہے کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی اس جنگ میں شریک نہ ہوا ہو- )۴(پھر اس جنگ میں بڑے بڑے سردار مارے گئے- ان باتوں سے ظاہر ہے کہ خیالات پر اور تلواروں پر اسی کا قبضہ تھا جس نے یسعیاہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی کرائی تھی- مکہ میں اس جنگ کی وجہ سے ایسی تباہی آئی کہ ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا اور اس ڈر سے کہ لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ان کو حکما رونے سے منع کر دیا گیا- ایک شخص کے تین بیٹے تھے اور وہ تینوں اس جنگ میں مارے گئے- وہ اندر چھپ چھپ کر روتا تھا مگر اس کی تسلی نہ ہوتی تھی- ایک دن ایک شخص کا اونٹ گم ہو گیا- اور وہ رونے لگ گیا- اس شخص نے اس کے رونے کی آواز سنکر کسی سے کہا- دیکھ کیا بین ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے اور پھر فوراً باہر نکل کر پیٹنے لگ گیا- اور زور زور سے بین ڈالنے لگا-
غرض ہجرت کے عین ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور اس میں قیدار کے بڑے بڑے جنگ جو اور بہادر مارے گئے اور شکست کھا کر بھاگے- اور تیما جسے عرب تہامہ کہتے ہیں- اس میں ماتم برپا ہو گیا-
پھر یسعیاہ نبی ہی کہتے ہیں-:
>دیکھ میں نے اسے قوموں کے لئے گواہ مقرر کیا- بلکہ لوگوں کا ایک پیشوا اور فرمانروا- دیکھ تو ایک گروہ جسے تو نہیں جانتا بلا دے گا- اور وے گرو ہیں تجھے نہیں جانتیں- خداوند تیرے خدا اور اسرائیل کے قدوس کے لئے جس نے تجھے جلال بخشا تیرے پاس دوڑتی آئیں گی<- ۲۹۶~}~
اس میں یہ بتاتیں بتائیں کہ )۱(وہ لوگوں کے لئے گواہ ہوگا- )۲(لوگوں کیلئے پیشوا اور )۳(فرمانروا ہوگا )۴(ایسی قومیں اس پر ایمان لائیں گی جنہوں نے بنی اسرائیل کے نام نہ سنے ہوں گے- اور نہ بنی اسرائیل نے ان کے-
لوگوں کے لئے گواہ ہونے کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے- ھو سمکم المسلیمن من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونوا شھداء علی الناس یعنی ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے- اس زمانہ میں بھی اور پہلے بھی تا کہ یہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم باقی دنیا پر گواہ ہو اور اس رسالت کو قیامت تک لئے چلے جائو- گویا وہی الفاظ جو بائیبل میں آتے ہیں قرآن کریم میں بھی آئے ہیں-
)۲-۳( پیشوا اور فرمانروا کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ یعنی اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری فرمانبرداری اختیار کرو- میں تمہارا پیشوا اور فرمانروا ہوں-
چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ دوسری قومیں اس رسول پر ایمان لاویں گی- سو اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے- قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم یعنی تو ساری دنیا سے کہدے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں- اب دیکھ لو ہم میں سے کوئی کسی قوم کا ہے اور کوئی کسی قوم کا- اور یہ قومیں نہ عربوں کو جانتی تھیں اور نہ عرب انہیں جانتے تھے- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں سب ایک ہو گئی ہیں-
پھر یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲ تا ۵ میں ہی لکھا ہے-:
>تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا مونہہ خود تجھے رکھ دے گا اور تو حفیظاہ کہلائیگی اور تیری سرزمین بعولاہ- کیونکہ خداوند تجھ سے خوش ہے اور تیری زمین خاوند والی ہوگی-
اس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے زمانہ میں اس کی قوم حفیظاہ کہلائیگی- اور اس کی زمین بعولاہ- سارے بادشاہ اس کی شوکت دیکھیں گے- اور اس کا نیام رکھا جائے گا-
پھر لکھا ہے-:
>تب وہ مقدس قوم اور خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے اور تو مطلوبہ کہلائے گی- اور وہ شہر جو ترک کیا نہ گیا<- ۲۹۷~}~
‏a.10.16
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں- مثلاً )۱(کہا گیا ہے کہ وہ ایک نئے نام سے کہلائے گا- جسے خداوند کا مونہہ خود رکھ دے گا- چنانچہ یہ نیا نام اسلام ہے جو خدا تعالیٰ نے خود رکھا اور ارشاد فرمایا کہ ھو سمکم المسلمین خدا نے خود تمہارا نام مسلم رکھا ہے- حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا نام خدا نے رکھا ہو- نہ موسوی مذہب کا کوئی نام رکھا گیا اور نہ عیسوی مذہب کا- بلکہ ان کی پیروئوں کو بھی کبھی اپنا نام نہ سوجھا- مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا خود نام رکھے گا- اور یہ بات صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے-
دوسری بات یہ بتائی کہ اس کی قوم کو خدا کی خوشنودی حاصل ہو گی- چنانچہ آتا ہے کہ وہ قوم حفیظاہ کہلائے گی- یہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تم سے راضی ہوا- اور قرآن کریم میں آتا ہے- والسابقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضواعنہ ۲۹۸~}~یعنی محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( پر ایمان لانیوالے جو ابتداء میں ہی جلد ایمان لے آئے اور مہاجرین اور انصار بھی جو بعد میں آئے- اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے- گویا قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ خدا مسلمانوں سے خوش ہوا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بھی خدا سے خوش ہوئے-
تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا گھر بعولاہ کہلائے گا- یعنی اس کی حفاظت کی جائیگی اور اس کی زمین خاوند والی کہلائیگی- یعنی کبھی تباہ نہ ہوگی- اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے والطور وکتب مسطور فی رق منشور والبیت المعمور السقف المرفوع والبحر المسجور ۲۹۹~}~فرمایا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں طور کی یعنی طور شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کتاب کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں- جو لکھی ہوئی ہے اور ہمیشہ لکھی جائیگی- اور اس خانہ کعبہ کی بھی قسم کھاتے ہیں جو ہمیشہ معمور رہے گا اور دور دور سے لوگ اس کی طرف آتے رہیں گے- اور اس چھت کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ بلند رہے گی- یعنی اس کی عزت ہمیشہ قائم رہے-
گویا بتایا کہ نہ صرف یہ گھر ہمیشہ معمور رہے گا اور کروڑوں انسان اس سے تعلق رکھیں گے بلکہ بلند و بالا لوگ تعلق رکھیں گے- اور اس کی عزت قیامت تک قائم رہے گی- غرض قرآن نے یہ خبر دی کہ بیت اللہ قائم رہے گا- اس سے اعلیٰ درجہ کے لوگ تعلق رکھیں گے اور مکہ سے تعلق رکھنے والی کتاب کا چشمہ کبھی ختم نہ ہوگا-
چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی- قرآن کریم کا یہ بھی دعویٰ ہے چنانچہ فرمایا- بایدی سفرہ کرام بررہ یہ قرآن ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہونگے- ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض اوقات خرابی بھی تو آ سکتی ہے- پھر یہ کتاب ہمیشہ مقدس لوگوں کے ہاتھ میں کیسے رہی- سو قرآن نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے- کہ ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین واخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم فرمایا- محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو خدا نے امیوں میں رسول بنا کر بھیجا ہے- تا کہ وہ ان کو اللہ کی آیتیں سنائے اور پاک کرے اور کتاب کی تعلیم دے اور حکمت سکھائے- اس کے بعد جب مسلمانوں میں خرابی پیدا ہوگی- تو واخرین منھم لما یلحقوا بھم خدا اس رسول کو ایک دوسری قوم میں بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں گویا یہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی- کیونکہ اس میں اصلاح کرنے والے آتے رہیں گے-
پانچویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے- قرآن میں بھی آتا ہے- ویضع عنھم اصرھم والا غلل التی کانت علیھم یعنی دنیا کی گردنوں میں طوق اور پائوں میں زنجیریں اور بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان بیڑیوں کو کاٹ دے اور لوگوں کو ان بندھنوں سے نجات دے- اس طرح وہ چھڑائے ہوئے کہلائیں گے-
چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بستی مطلوبہ کہلائے گی- قرآن کریم بھی فرماتا ہے وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا یعنی قیامت تک کیلئے یہ بات مقرر کر دی گئی ہے کہ جسے طاقت ہو وہ اس بستی میں جائے اور حج کرے کہ یہ بستی مطلوبہ ہے-
حبقوق نبی کی پیشگوئی
پھر ہم اور آگے چلتے ہیں تو حبقوق نبی فرماتے ہیں-:
>خدا تیمان سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا- سلاہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی- مری اس کے آگے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی وبا روانہ ہوئی- وہ کھڑا ہوا- اور اس نے زمین کو لرزا دیا- اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا- اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھس گئیں- اس کی قدیم راہیں یہی ہیں- میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی- اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے- سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے- تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اڑے اور تیرے بھالے کی چمکاہٹ کے سبب تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کر گیا- تو نے بہت غصے ہو کے قوموں کو روند ڈالا ہے- تو اپنی قوم کو رہائی دینے کیلئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا- تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا- وہ مجھے پراگندہ کرنے کو آندھی کی طرح نکل آئے- ان کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جائیں ہر چند انجیر کا درخت نہ پھولے اور تاکوں میں میوے نہ لگیں تس پر بھی خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا- میں اپنی نجات کے خدا کے سبب خوش وقت ہوںگا<- ۳۰۰~}~
اس میں پہلی پیشگوئی تو یہ کی گئی ہے کہ خدا تیمان سے ظاہر ہوا- تیمان کے معنی عبرانی مفسر جنوب کی سر زمین کے کرتے ہیں- اور عرب فلسطین سے جنوب کی طرف ہی ہے- لیکن عرب لوگ ایک وادی تہامہ کہتے ہیں اور مکہ کو اس وادی تہامہ میں شامل سمجھتے ہیں- قاموس میں لکھا ہے- وتھامہ بالکسر مکہ شرفھا اللہ تعالی وارض معروفہ- ۳۰۱~}~یعنی تہامہ سے مراد مکہ مکرمہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے شرف کو بڑھائے اور ایک معروف زمین بھی ہے-
تاج العروس میں لکھا ہے- ومن اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم التھامی لکونہ ولد بمکہ- ۳۰۲~}~یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام تھامی بھی ہے کیونکہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی- بائیبل والے تیمان کو صرف جنوبی علاقہ قرار دیتے ہیں اور تیما کو حضرت اسمٰعیل کا ایک بیٹا قرار دیتے ہیں جو عرب میں آباد تھا- پس گو وہ مکہ کو تہامہ نہ قرار دیں لیکن عرب کا ایک حصہ ہونے سے انہیں بھی انکار نہیں ہو سکتا- اور یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک وقت ایک قوم ایک جگہ آباد ہو- اور پھر اٹھ کر ذرا ہٹ کر دوسری جگہ بس گئی ہو-
دوسرے یہ ذکر ہے کہ وہ فاران سے ظاہر ہوا- اور فاران بھی حضرت اسمٰعیل کے ایک بیٹے کا نام ہے اور وہ بھی عرب میں تھا- ان کے علاقہ کو یورپین جغرافیہ والے تسلیم کرتے ہیں کہ عرب میں تھا گو اسے بھی فلسطین کے پاس پاس بتاتے ہیں- لیکن اس بارہ میں خود عربوں کی شہادت زیادہ معتبر تسلیم کی جائے گی بہ نسبت دوسری قوموں کے- اور عرب لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیانی جنگل کو بریہ فاران کہتے ہیں- چنانچہ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے- وادی فاطمہ نامی پڑائو پر اگر پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھا جائے کہ تم یہ کہاں سے لائے ہو تو یہی کہتے ہیں کہ ہم بریہ فاران یعنی دشت فاران سے لائے ہیں- تاج العروس میں لکھا ہے- وفی الحدیث ذکر جبال فاران وھو اسم لجبال مکہ بالعبرانی ۳۰۳~}~کہ حدیث میں فاران کے پہاڑوں کا جو ذکر آتا ہے- اس سے مراد مکہ کی پہاڑیاں ہیں اور یہ نام عبرانی زبان میں مستعمل ہے-
پھر دوسری اور تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ آسمان اس کی شوکت سے چھپ گیا- اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی- یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی- چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما۳۰۴~}~یعنی اللہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر آسمان سے درود بھیج رہے ہیں- اس لئے اے مومنو! تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو- گویا آسمان آپ کی شوکت سے چھپ گیا- حدیث میں آتا ہے- آسمان میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں- جہاں ملائکہ نہ ہوں- اور چونکہ سب کے سب ملائکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں- اس لئے رسول کریم2] fts[ صلی اللہ علیہ وسلم کی شوکت سے سارا آسمان چھپ گیا- آگے بتایا کہ ہم نے بھی زمین کو اس کی حمد سے معمور کرنا ہے اس لئے اے مسلمانو! اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نبی پر درود و سلام بھیجو- آسمان کی شوکت کے متعلق ہمارا کام تھا- وہ ہم نے کر دیا- اب زمین کو حمد سے معمور کرنا تمہارے سپرد ہے- تم اٹھتے بیٹھتے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( پر درود بھیجو- اور اس طرح صلوا علیہ وسلموا تسلیما پر عمل کرو- غرض دونوں باتیں پوری ہو گئیں- آسمان سے فرشتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں- اور زمین پر مسلمان- اور پھر زمین کا وہ کونسا حصہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہیں- اس طرح زمین بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد سے معمور ہو گئی-
چوتھی پیشگوئی یہ بیان کی کہ مری اس کے آگے آگے چلی- اس کے معنی یہ ہیں کہ- جدھر اس نے توجہ کی ادھر ہی دشمن ہلاک ہو گئے- یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ ؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مری ان کے آگے نہ چلی بلکہ بقول عیسائیاں وہ مری کے آگے چلے- ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ دشمنوں سے بچائے گئے- لیکن عیسائی کہتے ہیں ان کے دشمنوں نے انہیں صلیب پر مار دیا-
پانچویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ اس کے قدموں پر آتشی وبا روانہ ہوئی- بائیبل کے مفسر کہتے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں جائے گا وبا آئے گی- مگر خدا کے کسی مقدس کی یہ علامت نہیں ہوتی- بعض بائیبل کے نسخوں میں خصوصاً عربی نسخوں میں لکھا ہے- وعندر جلیہ خرجب الحمی کہ اس کے پائوں کے پاس سے بخار نکل گیا- یعنی جہاں اس کا پائوں پڑے گا وہاں سے بخار نکل جائے گا- گویا آتشی وباء سے مراد بخار ہے- یہ بات بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت وضاحت سے پوری ہوئی- حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بخار کی بڑی شدت تھی- حتیٰ کہ اسے یثرب اسی لئے کہتے تھے کہ وہاں ملیریا بخار بڑی شدت سے ہوتا تھا- جب صحابہؓ وہاں ہجرت کر کے گئے تو سب کو بخار آنے لگا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی- قرآن کریم میں بھی مدینہ کا نام یثرب آتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اذ قالت طائفہ منھم یاھل یثرب لا مقام لکم فارجعوا۳۰۵~}~ اور یثرب کے معنی عیب اور ہلاکت کے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور صحابہؓ بخار سے بیمار ہو گئے تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ پیدا ہوئی- اور آپﷺ~ نے یہ دعا کی کہ اللھم العن شیبہ بن ربیعہ و عتبہ بن ربیعہ و امیہ بن خلف کما اخرجونا من ارضنا الی ارض الوباء- ۳۰۶~}~اے خدا! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو تباہ کر جنہوں نے ہمیں مکہ کی زمین سے نکال کر بخار کی سرزمین میں پہنچا دیا- پھر فرمایا- صححھالنا وانقل حماھا الی الحجفہ ۳۰۷~}~یعنی اے خدا! میں دعا کرتا ہوں کہ تو یہاں سے بخار کو نکال دے اور حجفہ کی طرف بھیج دے- حدیثوں میں آتا ہے کہ اس کے بعد مدینہ سے بخار دور ہو گیا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اب اسے یثرب نہ کہو کیونکہ اس میں عیب اور سزا اور ڈانٹ کے معنی پائے جاتے ہیں بلکہ اسے طیبہ کہو- ۳۰۸~}~ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لے جانے سے وہاں سے بخار نکل گیا- اور اس کی ہوا آج تک نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے- یہ خبر تھی جو اس پیشگوئی میں دی گئی تھی-
چھٹی پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ >وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا<- اس کے ایک تو ظاہری معنی ہیں- وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حلیہ لکھا گیا ہے اس میں ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اذا مشی تقلع کانما ینحط من صبیب- ۳۰۹~}~جب آپ چلتے تو آپ کا پائوں زمین پر اس طرح پڑتا کہ گویا پائوں دھنس گیا ہے-
دوسرے معنی لرزانے کے یہ ہیں کہ آپﷺ~ کا بے حد رعب تھا- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں- نصرت بالرعب مسیرہ شھر- ۳۱۰~}~یعنی ایک ایک مہینہ کے فاصلہ تک کے لوگ آپ کے رعب سے لرزتے تھے- قرآن کریم میں بھی یہ ذکر آتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیار ھم لاول الحشر ماظننتم ان یخرجوا و ظنوا انھم مانعتھم حصونھم من اللہ فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا وقذف فی قلوبھم الرعب یخزبون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا یا ولی الابصارہ ۳۱۱~}~فرمایا- وہ خدا ہی ہے جس نے اہل کتاب کے کفار کو ان کے گھروں سے نکالا- تمہیں گمان تک نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے- وہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے قلعے ہمیں بچا لیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب نے ان کو تباہ کر دیا- وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو تباہ کرنے لگے- اور وہ بھاگ گئے-
غرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طاقت عطا کی کہ جہاں دشمن کے مقابلہ کیلئے جاتے لوگ آپﷺ~ کے رعب سے لرز جاتے-
ساتویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ >اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا<- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں اس پر چڑھ آئیں گی- لیکن جب وہ مقابلہ کرے گا تو بھاگ جائیں گی- جنگ احزاب کے موقعہ پر ایسا ہی ہوا جس کے متعلق سیھزم الجمع ولوتون الدبر ۳۱۲~}~میں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا- کہ قومیں جمع ہو کر حملہ کریں گی مگر پھر بھاگ جائیں گی-
آٹھویں پیشگوئی یہ کی گئی کہ >قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں<- پہاڑ سے مراد بڑے بڑے آدمی بادشاہ اور حکمران ہوتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب قیصر و کسریٰ آئے تو کس طرح ان کا نام و نشان مٹ گیا- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ان عذاب ربک لواقع مالہ من دافع یوم تمور السماء مورا وتسیر الجبال سیرا فویل یومئذ للمکذبین ۳۱۳~}~کہ ہم اسلام کی ترقی کے متعلق جن باتوں کی خبریں دے رہے ہیں وہ ہو کر رہیں گی- کوئی انہیں روک نہیں سکتا- جب آسمان لرزہ کھا کر پھٹ جائے گا- اور پہاڑ اپنی پوری رفتار کے ساتھ چلیں گے- اس دن جھٹلانے والوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا- گویا قرآن بھی اس پیشگوئی کی تائید کرتا ہے-
معلوم ہوتا ہے لوگوں کو بھی حبقوق نبی کی اس پیشگوئی کا خیال تھا- کیونکہ قرآن کریم میں قیامت کا نقشہ کھینچتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقد اتینک من لدنا ذکرا من اعرض عنہ فانہ یحمل یوم القیامہ وزرا ۳۱۴~}~کہ ہم نے تمہیں یہ قرآن دیا ہے- جو اس کا انکار کرے گا قیامت کے دن سزا پائے گا- اس کے بعد فرماتا ہے- و یسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعا صفصفا لاتری فیھا عوجا ولا امتا یومئذ یتبعون الداعی لاعوج لہ وخشعت الاصوات للرحمن فلاتسمع الا ھمسا ۳۱۵~}~یعنی کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا کیا حال ہوگا تو کہہ دے کہ میرا رب ان کو اکھیڑ کر پھینک دے گا اور ان کوایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا کہ نہ تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی- اس دن لوگ سچے امام کے پیچھے چل پڑیں گے- جس کی تعلیم میں کوئی کجی نہ ہوگی- اور آوازیں خدائے رحمان کیلئے دب جائیں گی- یعنی ادب والی آواز کے سوا تم کوئی اور آواز نہ سنو گے-
مفسرین کہتے ہیں ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ اڑائے جائیں گے مگر یہاں پہلے قیامت کا ذکر آ چکا ہے جس میں بتایا ہے کہ اس وقت زمین و آسمان نہ رہیں گے- اور جب زمین و آسمان نہ رہیں گے تو پھر پہاڑوں کے علیحدہ ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی- تو اس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ اتنی بڑی بڑی موجودہ حکومتیں کہاں جائیں گی اس کے جواب میں بتایا کہ تباہ ہو جائیں گی- پھر یتبعون الداعی بھی بتاتا ہے کہ یہاں مراد اگلا جہان نہیں- کیونکہ مومن تو اس جہان میں بھی ایسی داعی کے پیچھے ہوتے ہیں اور کافروں کے متعلق آتا ہے کہ وہ آخرت میں ساتھ جانا چاہیں گے تو انہیں واپس کر دیا جائے گا- اور پھر فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرہ اعمی و اضل سبیلا کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے- وہاں بھی اندھا ہوگا- اس وقت کفار کہاں ایمان لائیں گے وہ تو وہاں بھی گمراہ ہی ہونگے- پھر داعی کے پیچھے کیونکر چلیں گے- پس مراد یہی ہے کہ ان حکومتوں کو تباہ کر دیا جائے گا- اور جو لوگ اس وقت دشمن ہیں وہ ایمان لے آئیں گے- چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو سارے دشمن ایمان لے آئے- پس جبال سے مراد بڑے آدمی اور سرداران قوم اور سلاطین ہیں کہ جن کے مارے جانے اور جن کے نظام کو توڑ دیئے جانے پر اسلام کی اشاعت مقدر تھی-
نویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ >میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جانتے تھے<- عربی بائیبل میں بپت کی جگہ بلیلہ یعنی مصیبت لکھا ہے اور پردے کان جاتے تھے کی جگہ انگریزی میں elbmertdDi کا لفظ استعمال کیا گیا ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ کوشان کیا ہے- بائیبل والے کہتے ہیں کہ کوشان کے معنی کوش میں رہنے والا قبیلہ ہے جو عراق عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے- بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمرود کے باپ کا نام کوش تھا- اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کوش قبیلہ کے لوگ چھ سو سال تک عراق پر حکومت کرتے رہے- مدیان شمالی عربی کا ساحل سمندر کے پاس کا ایک شہر ہے جو مصر سے شام یا عرب کو جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے- قرآن کریم میں اسے مدین کہا گیا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ حکومت قیصر میں شامل تھا اور شام کے صوبہ کے نیچے تھا- ان دونوں ملکوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حملہ ہوا اور دونوں حکومتوں کو تباہ کر کے اسلامی حکومت قائم کر دی گئی- اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتح درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فتح تھی- کیونکہ آپ نے فرمایا- قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں- اور جنگ احزاب کے موقع کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا تھا- صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا- آپﷺ~ تشریف لائے- فقال بسم اللہ ثم ضربہ فنشر ثلثھا وقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح الشام و اللہ انی لابصر قصورھا الحمر الساعہ ثم ضرب الثانیہ فقطع ثلثا اخر فقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح فارس واللہ انی لابصر قصور المدائن الا بیض الان ثم ضرب الثالثہ وقال بسم اللہ فقطع بقیہ الحجر فقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح الیمن واللہ انی لابصر ابواب صنعاء من مکانی الساعہ ۳۱۶~}~یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر کدال اپنے ہاتھ میں لی- اور اسے زور سے پتھر پر مارا تو اس میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور پتھر کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا- اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرہ تکبیر بلند کیا- اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے حکومت شام کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں اس کے سرخ محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں- پھر دوسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کدال کو پتھر پر مارا تو پھر اس میں سے شعلہ نکلا اور پتھر کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا- اس پر پھر آپﷺ~ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے ایران کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن کے سفید محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں- پھر آپﷺ~ نے تیسری دفعہ کدال ماری جس سے پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور باقی پتھر بھی ٹوٹ گیا- اس پر آپﷺ~ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے یمن کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں صنعاء کے دروازے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں-
غرض حبقوق نبی کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ آنے والا` شام` عراق اور مدائن کو فتح کر لے گا- قرآن کریم بھی ان جنگوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے- قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید تقاتلونھم اویسلمون فان تطیعوا یوتکم اللہ اجرا حسنا وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذبکم عذابا الیما ۳۱۷~}~یعنی اعراب میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑے گئے ہیں تو ان سے کہدے کہ تم ضرور ایک ایسی قوم سے جنگ کرنے کیلئے بلائے جائو گے جو فنون جنگ میں بڑی ماہر ہے اور تم ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور مسلمان نہ ہو جائیں- پس اگر تم اس وقت خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو بڑا اچھا اجر دے گا- اور اگر تم اس حکم سے روگردانی اختیار کرو گے جس طرح تم نے اس سے پہلے رو گردانی کی تھی تو اللہ تعالیٰ تم کو دردناک عذاب دے گا-
اس آیت میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی اب باہر سے اور قومیں آئیں گی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہونگی اور ان سے تمہارا مقابلہ ہوگا- مگر ان جنگوں کا بھی آخری نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائیں گے- اس سے معلوم ہوا کہ عرب سے باہر بھی جنگیں ہونی ضروری تھیں- چنانچہ قیصر و کسریٰ کے ساتھ اسلامی فوجوں کی جنگیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ بخشا-
دسویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ >سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے- تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اڑے اور تیرے بھالے کی چمکاہٹ کے سبب- تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کرے گا- تو نے نہایت غصے ہو کر قوموں کو روند ڈالا ہے<-
سورج اور چاند کا ٹھہر جانا یہ محاورہ ہے روحانی اور جسمانی سلسلوں کے نظام کے ٹوٹ جانے کا- سورج دنیوی اور چاند روحانی سلسلوں کا نشان ہے- جب خیبر فتح ہوا اور حضرت صفیہؓ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی- تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا- مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ میری شادی آپﷺ~ سے ہوگی- آپﷺ~ نے فرمایا- کس طرح؟ انہوں نے کہا- میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں آ گرا ہے- اس کا ذکر میں نے اپنے باپ سے کیا- تو اس نے مجھے تھپڑ مارا اور کہا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے- پس چاند سے مراد مذہبی حکومت ہے اور سورج سے مراد دنیوی حکومت- مطلب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے روحانی اور جسمانی دونوں نظام ٹوٹ جائیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- دونوں سابقہ نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ٹوٹ گئے- روحانی طور پر سب فیض آپﷺ~ کے سلسلہ کے بعد بند ہو گئے- اور جسمانی طور پر آپﷺ~ کے اتباع نے سب حکومتوں کو خواہ کسی ملک کی تھیں تباہ کر دیا- اور دنیا کا نظام ہی بدل ڈالا- بائیبل کی اگلی آیت اسی کی تفسیر ہے-
گیارھویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ >تو اپنی قوم کو رہائی دینے کیلئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا- تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا- وہ مجھے پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے- ان کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جائیں<-
اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ موعود جنگ کے لئے نکلے گا تا کہ اپنی کمزور قوم کو ظالموں سے رہائی دلائے- اور اس میں یہ بھی بتایا کہ دشمن بھی جنگ کیلئے نکلے گا کیونکہ لکھا ہے کہ >وہ پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے<- گویا ادھر سے یہ اور ادھر سے وہ نکلیں گے- اور دونوں کی مڈبھیڑ ہوگی- دشمن چاہے گا کہ غریب اور کمزور قوم کو دھوکا سے تباہ کر دے گا- مگر وہ خود تباہ ہوگا- اور موعود کامیاب ہوگا-
اب دیکھو کتنی تفصیل سے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات اور بدر کی جنگ کی تفصیل بیان کی گئی ہے- مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کیلئے عتبہ کی کمان میں نکلے- ابوجہل سیکنڈ ان کمان تھا- جب عتبہ مارا گیا- تو ابوجہل نے کمان سنبھال لی- غرض مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ~ کے ماننے والوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے- ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے ارادہ کا علم ہوا تو آپﷺ~ بھی نکلے تا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کر کے مدینہ کو تباہ نہ کر سکے- قرآن کریم میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ والمستصنعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریہ الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا ۳۱۸~}~ فرمایا- اے مسلمانو! اللہ کے رستہ میں لڑائی کرنے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے- جب کہ کچھ کمزور مرد عورتیں اور بچے ہم سے دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس ظالم بستی سے نکال اور ہماری امداد کے لئے کسی کو کھڑا کر- آگے فرماتا ہے- فقاتل فی سبیل اللہ لاتکلف الانفسک وحرض المومنین عسی اللہ ان یکف باس الذین کفروا- واللہ اشد باسا واشد تنکیلا ۳۱۹~}~یعنی اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو نکل کھڑا ہو- کوئی اور جائے یا نہ جائے تو چل- ہاں مسلمانوں کو تحریص دلا- اگر وہ شامل ہو جائیں تو ثواب کے مستحق ہونگے- نہیں تو عذاب کے- مگر تو ضرور چل-
اس پیشگوئی میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہ فخر سے نکلے اور چوری چھپے کمزوروں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا ارادہ کیا- قرآن کریم میں بھی آتا ہے-ولا تکونوا کالذین خرجوامن دیار ھم بطرا ورئاء الناس ویصدون عن سبیل اللہ ۳۲۰~}~یعنی اے مسلمانو! بدر کے موقع پر نکلنے والے کفار کی طرح نہ بنو- جو اتراتے ہوئے نکلے تھے- پھر وہ ظاہر کچھ دکھاتے تھے اور اندر سے ان کی نیت اور تھی- ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ایک قافلہ کو بچانے چلے ہیں- مگر ان کی نیت مدینہ منورہ کو تباہ کرنے کی تھی-
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ قافلہ کو لوٹنے کیلئے نکلے تھے- اگر یہی بات تھی اور کفار اس قافلہ کو بچانے چلے تھے تو پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ تکبر کرتے نکلے اور پھر یہ کہ کہتے کچھ تھے اور ان کا اندرونی منشاء کچھ اور تھا- وہ چاہتے یہ تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچائیں- بھلا قافلہ کو بچانے سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتے تھے- یہ عجیب لطیفہ ہے کہ بائیبل کہتی ہے کہ دشمن چوری سے نکلے اور ان کی غرض یہ تھی کہ چپکے سے اس قوم کو جو کمزور تھی تباہ کر دیں- اور قرآن بھی ان کے غرض یصدون عن سبیل اللہ بیان کر کے بائیبل کی تصدیق کرتا ہے- لیکن مورخ کہتے ہیں کہ کفار صرف اپنے ایک قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قافلہ کو لوٹنے کیلئے آئے تھے- بائیبل اور قرآن دونوں کا بیان ایک ہے اور مورخ جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل غلط ہے- کفار نے قافلہ کو بچانے کا صرف بہانہ بنایا تھا- ان کی غرض مدینہ پر حملہ کرنا تھی تا کہ مسلمانوں کو تباہ کر دیں-
ابوجہل کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی جو بڑی شان سے پوری ہوئی
بارھویں پیشگوئی- اب اس پیشگوئی کے درمیان کے دو فقرے جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا ان کا ذکر کرتا ہوں- اور وہ یہ ہیں- >تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اس کے بھالوں سے مار ڈالا<-
اس پیشگوئی میں اس قدر استعارہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہر مضمون کا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے- لیکن اگر ہم غور کریں تو معنی کھل جاتے ہیں- یہ تو صاف بات ہے کہ بنیاد کی گردن کوئی نہیں ہوتی- نہ شریر کے گھر کا سر کوئی ہے- پس اس کے کوئی اور معنی کرنے ہونگے- سو ہم دوسرے حصہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں اس کی تشریح موجود ہے- اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے- جب یہ حل ہو گیا تو اب بنیاد کی گردن کو ننگا کرنا بھی آسان ہو گیا- اس نقطہ نگاہ سے جب اس پیشگوئی پر غور کیا جائے تو ہمیں اس کا پہلا فقرہ یہ نظر آتا ہے کہ >بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے<- اب دیکھنا یہ ہے کہ بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے کیا معنی ہیں- بائیبل والے کہتے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد کو ننگا کر دے- مگر جب بنیاد کا لفظ موجود تھا تو پھر گردن تک کہنے کے کیا معنی- اور بنیاد کی گردن کا کوئی محاورہ نہیں ہے- جب گردن کا ذکر ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ کسی انسان کے متعلق ہے- اور بنیاد عام محاورہ میں اس نیچے کی چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز رکھی ہو- انگریزی میں BASE عمارت کی بنیاد کو بھی کہتے ہیں اور سر کی جڑ کو بھی کہتے ہیں- جہاں سر گردن سے ملتا ہے- عبرانی میں BASE کا لفظ ہی ہے- پس سر کا نچلا حصہ چونکہ گردن پر رکھا ہوتا ہے- اس لئے وہ بنیاد ہے- اور مطلب یہ ہے کہ گردن تک نچلے حصہ کو ننگا کیا جائے گا- پھر شریر کے گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے- کیونکہ شریر کے گھر کا سر کوئی اور چیز نہیں ہوتی پس اسے جڑ سے کاٹ دے گا- ان معنوں کی اگلے فقرہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے- آگے آتا ہے- >تو نے اس کے سرداروں میں سے جو عالی درجہ کا تھا اس کے بھالوں سے مار ڈالا<- اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ پہلے فقرہ میں کسی دشمن کے قتل کی کیفیت بیان ہوئی ہے- پس بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے معنی یقیناً سر کو گدی تک ننگا کرنے کے ہیں- اور بتایا گیا ہے کہ جب وہ نبی کمزوروں کو بچانے کیلئے ایک طرف سے نکلا- اور دوسری طرف سے اس کے دشمن غریبوں کو مسل ڈالنے کے خیال پر فخر کرتے ہوئے نکلے تو آپس میں جنگ ہوئی- اور اس جنگ میں جو دشمنوں کا سردار تھا اسے اس نبی یا اس کے کسی تابع نے گردن تک ننگا کر کے اسی کے ہتھیار سے مار ڈالا-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا بدر کی جنگ میں جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ کسی سردار کے سر کو اس کی گردن ننگی کر کے گدی سے کاٹ دیا گیا ہو- جب ہم بدر کی جنگ کا حال پڑھتے ہیں- تو ہمیں لفظ بلفظ ایسا ہی ایک واقعہ ملتا ہے- تاریخوں میں لکھا ہے جب جنگ شروع ہوئی اور صحابہ مقابل پر کھڑے ہوئے- تو ان میں دو کم سن لڑکے بھی تھے- یہ جنگی قاعدہ ہے کہ بہادر لڑنے والے اس بات کی احتیاط رکھتے ہیں کہ ان کے دائیں بائیں بھی بہادر ہوں تاکہ وہ پوری بے فکری سے جنگ میں نمایاں حصہ لے سکیں- حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ ہمارے دل کفار کی تکالیف سے بھرے ہوئے تھے- اور ہم سمجھتے تھے کہ آج ان سے خوب بدلہ لیں گے- مگر جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دو لڑکے کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کہ آج کیا لڑنا ہے جب کہ دونوں پہلو اتنے کمزور ہیں- لیکن ابھی یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے تا کہ دوسرا لڑکا نہ سن لے کہا- چچا سنا ہے ابوجہل بڑا شریر ہے مسلمانوں کو بہت دکھ دیتا ہے وہ کونسا ہے- میں اسے مارنا چاہتا ہوں- وہ کہتے ہیں- باوجود اس بہادری کے جو میں رکھتا تھا مجھے یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میں ابوجہل کو ماروں- لیکن ابھی وہ لڑکا مجھ سے بات کر ہی رہا تھا کہ دوسرے نے مجھے کہنی ماری اور چپکے سے پوچھا- چچا وہ ابوجہل کون ہے جو مسلمانوں کو بہت تنگ کرتا ہے- میرا جی چاہتا ہے کہ میں اسے ماروں- حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں ان کی بات سن کر سخت حیران ہوا- ابھی تھوڑی سی جنگ ہوئی تھی کہ عتبہ مارا گیا اور ابوجہل کمانڈر بنا تھا- میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا- وہ ابوجہل ہے- وہ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں لڑکے چیل کی طرح چھپٹا مار کر پہرہ میں سے گذرتے ہوئے اس پر جا پڑے اور اسے گرا دیا-۳۲۱~}~ پہرہ کے سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور ایک کا ہاتھ کاٹ دیا جو تسمہ سے لٹک رہا تھا- اس نے اس پر پائوں رکھ کر اسے علیحدہ کر دیا تا کہ لڑائی میں حارج نہ ہو-
ابوجہل گر گیا تھا اور اسے زخم آئے تھے مگر مرا نہ تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پوچھا کہ ابوجہل کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تو عبداللہ بن مسعودؓ اس کا پتہ لگانے کیلئے نکلے- جب وہ گئے تو دیکھا کہ ابوجہل گرا پڑا ہے- انہوں نے اسے کہا اے دشمن خدا- آج بھی تو ذلیل ہوا ہے یا نہیں- اس نے جواب دیا- ایک سردار قوم کو اس کی قوم مار دے تو اس میں کیا ذلت ہے- انہوں نے اس پر حملہ کیا- لیکن چونکہ ان کی تلوار چھوٹی تھی- اور اس کے پاس بھی تلوار تھی اس لئے کامیاب نہ ہوسکے- آخر اس کے ہاتھ پر ان کی تلوار لگی- اور اس کی تلوار گر گئی- انہوں نے اس کی تلوار اٹھا لی اور اسے مارنے لگے- اس نے کہا- دیکھ میں سردار قوم ہوں- میری گردن لمبی کر کے کاٹنا- تا کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( اسے دیکھ کر ڈرے- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اس سے اور زیادہ غصہ آیا- انہوں نے پیچھے سے ہو کر اس کی گردن پکڑ لی اور اس کا خود اٹھا کر سر کے عین نیچے سے اس کی گردن کو ننگا کیا- اور اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا- ۳۲۲15]~}~ p[ اور اس طرح اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوئی- اور حبقوق نبی کی یہ پیشگوئی کہ تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- >تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا<- لفظاً لفظاً پوری ہوئی-
اب دو سوال باقی رہتے ہیں- ایک یہ کہ پیشگوئی میں ہے کہ تو نے دشمن کو مارا- لیکن مارا عبداللہ بن مسعودؓ نے- اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کے متبع کا کام درحقیقت رسول کا ہی ہوتا ہے- دوسرا سوال یہ ہے کہ پیشگوئی میں بھالا آیا ہے مگر عبداللہ بن مسعودؓ نے تلوار سے مارا- اس کا جواب یہ ہے کہ اردو بائیبل میں بھالا لکھا ہے- انگریزی میں ٹیڑھی لکڑی- فارسی میں سونٹا اور عربی میں تیر- اس اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عبرانی لفظ کے معنی نہ بھالا ہیں- نہ تیر` نہ سونٹا بلکہ ہتھیار کے ہیں جس کا ترجمہ مختلف مترجموں نے مختلف کر دیا ہے- یہ میرا خیال ہی نہیں بائیبل کا ایک مفسر بھی تفسیر بائیبل میں لکھتا ہے-
‏through smite didst than translated later were This his of head the weapons own his with۳۲۳~}~۔chieftains
یعنی صحیح مطلب یہ ہے کہ اسی کے ہتھیار سے اس کی گردن کاٹ دی-
تیرھویں پیشگوئی یہ تھی کہ >ہر چند کہ انجیر کا درخت نہ پھولے تس پر بھی میں خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا<- اس میں بتایا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہ ہوگا- نبی اسرائیل کی مثال بائیبل میں انجیر سے دی گئی ہے- چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح نے ایک انجیر کے درخت پر *** کی کہ اسے پھل نہ لگیں- ۳۲۴~}~اور اس کی تفسیر مسیحی مفسر یہی کرتے ہیں کہ یہودی قوم کا خدا سے تعلق کٹ جائے- پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حبقوق نبی کہتا ہے کہ گو یہود جن میں سے وہ خود ہے تباہ ہو جائیں گے- لیکن پھر بھی مجھے اس نبی کے ذریعہ خدا کے نام کا روشن ہونا اپنی قومی ترقی سے زیادہ پسند ہے اور میں اپنی قومی تباہی کو محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے جلال کی وجہ سے بخوشی برداشت کرلوں گا-
حضرت مسیحؑ ناصری کی پیشگوئی
اس کے بعد ہم کچھ اور صدیاں پیچھے چلتے ہیں جب کہ حضرت مسیح ناصری کا زمانہ آتا ہے- وہ انگورستان کی تمثیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں-
>پس جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا- انہوں نے اس سے کہا- ان برے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا- جو موسم پر اس کو پھل دیں- یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا- یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے- اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائیگی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائیگی- اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے- مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا<- ۳۲۵~}~
دوسری جگہ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں-
>میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے- کیونکہ اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا- لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا- اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھیرائے گا- گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے- ¶راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے- عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے- مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا- اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا- وہ میرا جلال ظاہر کرے گا- اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا<- ۳۲۶2]~}~ ftr[
ان پیشگوئیوں میں حضرت مسیحؑ نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ہیں-:
اول یہ کہ ایک مثیل موسیٰ آئے گا- کیونکہ خدا تعالیٰ کا آنا ایک شرعی نبی کے آنے پر جو مثیل موسیٰ ہو دلالت کرتا ہے- )۲(یہ کہ وہ بنی اسرائیل سے نہ ہوگا )۳(یہ کہ اس کی قوم میں ہمیشہ برگزیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قوم کی ہدایت کا موجب ہوں گے- )۴(یہ کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہوگا- یعنی اس پر سب شریعتیں ختم ہو جائیں گی- )۵(یہ کہ اس کا مقابلہ دوسری اقوام سے ہوگا- لیکن خواہ اس پر کوئی حملہ کرے یا وہ کسی پر حملہ کرے دونوں صورتوں میں وہ کامیاب رہے گا- )۶(یہ کہ وہ تسلی دینے والا ہوگا- )۷(یہ کہ وہ دنیا کو تین چیزوں سے تقصیر وار ٹھہرائے گا- گناہ سے یعنی بوجہ مسیح کو نہ ماننے کے گناہ کے- وہ لوگوں پر الزام لگائے گا- یہاں گناہ محدود معنوں میں لیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ایک قوم کو مسیح کے انکار کی وجہ سے اور دوسری کو راستی سے یعنی مسیح کو چھوڑ بیٹھنے کی وجہ سے- اور تیسری کو عدالت سے یعنی اس وجہ سے کہ وہ لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہوں گے قصور وار ٹھہرائے گا- گویا یہود انکار مسیح نصاری غلو درمسیح اور دیگر اقوام شیطانی تعلقات کی وجہ سے مجرم قرار دی جائیں گی- اور سب ہی دنیا اس کے آنے پر مجرم قرار پائے گی- )۸(یہ کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہ کہی گئی ہونگی- )۹(یہ کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی- )۱۰(یہ کہ اس کی کتاب میں صرف خدا کا کلام ہوگا اور وہ آئندہ کیلئے بھی روحانی ترقی کا رستہ کھلا رکھے گی- )۱۱(یہ کہ وہ کتاب مسیح کو عیب سے مبرا کرے گی- )۱۲(یہ کہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دے گی- یعنی اس کے کلام کو پورا کر کے اس کے باخدا ہونے کا ثبوت پیش کرے گی-
یہ ساری کی ساری باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت شان سے پوری ہوئیں- اول آپ مثیل موسیٰؑ تھے اور آپﷺ~ نے دعویٰ کیا کہ آپﷺ~ میں خدا ظاہر ہوا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ۳۲۷~}~یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں-
دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ موعود بنی اسرائیل میں سے نہ ہوگا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ بنی اسمٰعیل میں سے تھے-
تیسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپﷺ~ کی قوم کی ہدایت کے سامان ہمیشہ ہوتے رہیں گے چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول کو ایک دوسری قوم میں بھی بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں- اور وہ غالب حکمت والا ہے-
پھر حدیثوں میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا-
ان اللہ یبعث لھذہ الامہ علی راس کل ماہ سنہ من یجدد لھا دینھا ۳۲۸~}~یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں تجدید دین کیلئے اپنے پاک بندوں کو کھڑا کرتا رہے گا-
چوتھی بات یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہوگا- جسے سب معماروں نے رد کر دیا- یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ بنی اسرائیل ہمیشہ بنی اسمٰعیل کو محروم الارث قرار دیتے رہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دعویٰ کیا ہے کہ آپ کونے کا پتھر ہیں- چنانچہ فرمایا-]nsk [tag ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنہ من زاویہ فجعل الناس یطوفون لہ ویتعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنہ قال فانا اللبنہ و انا خاتم النبیین- ۳۲۹~}~فرمایا- میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے مکان کی سی ہے جسے ایک شخص نے بنایا اور اسے خوب سجایا- مگر اس کے ایک کونہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رکھی- لوگ آتے اور اس مکان کو دیکھنے کیلئے اس کا چکر کاٹتے- اور تعجب سے کہتے یہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے؟ میں وہ کونے کی اینٹ ہوں جس سے اس مکان کی تکمیل ہوئی اور خاتم النبیین ہوں-
کونے کے پتھر کے بھی یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ دو دیواروں کو آپس میں ملاتا ہے اور دیوار کے معنی قرآن میں روحانی سلسلہ کے ہوتے ہیں- چنانچہ سورہ کہف میں حضرت موسیٰؑ نے دیوار کی مثال بنی اسرائیل سے دی ہے- اب دیکھنا یہ چاہئے کہ ان دو دیواروں سے کیا مراد ہے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کونہ کا پتھر بن کر ملایا- سو ایک دیوار تو پہلے انبیاء کی تھی- جو مختلف شریعتوں کے تابع تھے- اور ایک دیوار قرآن کی تھی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے اتصال کا ذریعہ ہیں- کیونکہ آپﷺ~ ہی کے ذریعہ آپﷺ~ کی امت پہلے انبیاء کو مانتی ہے- اور آپﷺ~ ہی کے ذریعہ سے آئندہ آنے والے مامور پہلے نبیوں سے تعلق پیدا کرتے ہیں- دیکھ لو دوسری قوموں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کا تمام اقوام عالم سے تعلق قائم ہے- ہندوئوں کے سوا اور کسی قوم کا حضرت کرشن سے کوئی تعلق نہیں ہے- لیکن مسلمانوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ان سے بھی ہے- کیونکہ قرآن میں آیا ہے ان من امہ الا خلا فیھا نذیر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ معلوم نہ ہوتا کہ ہر قوم میں نبی آئے تو ہمیں کیا علم تھا کہ کرشن جی بھی خدا کی طرف سے تھے- پھر دیکھو یہود کو زرتشی قوم سے کوئی تعلق نہیں- وہ ایک علیحدہ دیوار کھڑی ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی ہر دیوار کو ملا دیا- زرتشت کی ساختہ دیوار سے اسلامی دیوار وابستہ ہے- اور دوسرے انبیاء کی دیواروں سے بھی اسلامی دیوار وابستہ ہے- پس کونے کے پتھر کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ~ آئندہ آنے والے لوگوں اور پچھلی قوموں میں واسطہ پیدا کر دیں گے پہلی دیواریں الگ الگ کھڑی تھیں- حضرت موسیٰؑ کی دیوار علیحدہ تھی- حضرت عیسیٰؑ کی علیحدہ- حضرت کرشنؑ کی علیحدہ- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دیوار میں کونے کا پتھر بن گئے اور آپﷺ~ نے سب کو یہ کہہ کر ملا دیا کہ سب نبی خدا کی طرف سے ہیں- اور سب کا ایک ہی سلسلہ ہے-
پانچویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپﷺ~ کا مقابلہ سب دنیا سے ہوگا- آپﷺ~ پر حملے کئے جائیں گے اور آپﷺ~ بھی حملے کریں گے- مگر دونوں صورتوں میں وہ نبی ہی جیتے گا- اس میں یہ نہیں کہا کہ وہ جیتے گا- بلکہ یہ کہا- اگر یہ حملہ کرے گا تو بھی جیتے گا اور اگر دشمن تیار ہو کر حملہ کریں گے تو بھی یہی جیتے گا- چنانچہ جنگ احزاب` احد اور بدر میں دشمن چڑھ کر آ گیا مگر ان میں بھی دشمن ہی کچلا گیا- اور فتح مکہ` خیبر اور تبوک کی جنگ میں آپﷺ~ گئے- اور ان میں بھی دشمن کچلا گیا-
چھٹی بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپﷺ~ تسلی دینے والے ہونگے- اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا کو تسلی کی ضرورت تھی یا نہیں- اگر ضرورت تھی تو کیا ان اقوام کو ان کے مذاہب تسلی دے سکتے تھے؟ سو اس بارے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذاہب اپنے ماننے والوں کے لئے تسلی کا باعث نہ رہے تھے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو سب مذاہب اس سے خالی تھے اور قلبی اطمینان ان میں کسی کو حاصل نہ ہو سکتا تھا- چنانچہ کوئی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل گناہ کی معافی کی قائل نہ تھی- ہندو کہتے کہ پرمیشور کسی کا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا- وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ کی سزا دیتا ہے اور انسان کو مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے- اور سارے گناہوں کی سزا جونوں میں پڑ کر بھگت لینے کے بعد بھی پرمیشور ایک نہ ایک گناہ رکھ لیتا ہے اور پھر اس کی پاداش میں نجات سے محروم کر دیتا ہے- اس وجہ سے ہندو اپنے مذہب کے ذریعہ تسلی نہ پا سکتے تھے- زرتشتی اور مسیحی ابدی دوزخ کے قائل تھے- اس عقیدہ کے ماتحت جس انسان سے ایک دفعہ بھی کوئی گناہ ہو جائے وہ یہی سمجھتا تھا کہ ابدی دوزخ میں جانا پڑے گا- اور اس وجہ سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا تھا- یہود بھی کسی کو تسلی نہ دیتے تھے- وہ کہتے تھے نجات صرف یہود کیلئے ہے باقی سب کیلئے ہلاکت ہے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی امید کی کمر ٹوٹ چکی تھی- کوئی مذہب ابتداء میں ہی ناامیدی کے گڑھے میں گرا دیتا- کوئی درمیان میں لا کر منجھدار میں چھوڑ دیتا- کوئی آخر میں ابدی دوزخ میں جھونک دیتا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر سب کو تسلی دلائی- )۱(جو گناہ کی معافی کے قائل نہ تھے- انہیں بتایا کہ تناسخ کے چکر کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے- وہ گناہوں کو معاف کر دیتا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقنطوا من رحمہ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم ۳۳۰~}~یعنی اے رسول! تو سب بندوں کو کہدے کہ مجھے خدا نے تسلی دینے والا بنایا ہے- اس لئے وہ لوگ جنہوں نے کوئی گناہ کیا ہے- انہیں خبر دے دے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو- توبہ کرو تو وہ گناہ بخش دے گا- کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے-
)۲(پھر اس نے ان قوموں کی طرف مونہہ کیا جو کہتی ہیں کہ جو گنہگار مر گئے- ان کیلئے ہمیشہ کا جہنم ہے- اور سنایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے- چنانچہ سورہ اعراف:۱۵۷ میں آتا ہے- رحمتی وسعت کل شیء ۳۳۱ ~}~پھر فرمایا- امہ ھاویہ ۳۳۲~}~یعنی جہنم ماں کی طرح ہے- ماں کے پیٹ میں بچہ ہمیشہ نہیں رہتا جب تک ناقص ہوتا ہے پیٹ میں رہتا ہے- اور جب کامل ہو جاتا ہے- پیٹ سے نکال دیا جاتا ہے- اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے- جہنم ماں کی طرح ہے- جب ان لوگوں کے گند دور ہو جائیں گے جن کو اس میں ڈالا جائے گا اور ان کی صفائی ہو جائے گی تو ہم ان کو جنت میں بلا لیں گے- پس دوزخ صرف ایک تکمیل اور علاج کا مقام ہے- آخر سب خدا تعالیٰ کی بخشش کے نیچے آ جائیں گے- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں کو بھی تسلی دی جو یہ سمجھتی تھیں کہ گناہگار ہونے کی حالت میں مرنے پر ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا-
)۳(پھر وہ قومیں جو یہ کہتی تھیں کہ سوائے ہمارے اور کسی کیلئے نجات نہیں ان کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ لوگوں کو تسلی دے دے کہ یہ غلط خیالات ہیں- جیسے یہود نے نادانی سے کہہ دیا کہ ہمارے سوا کوئی نجات نہیں پا سکتا- اور نسلا یہ نجات ہمارے حصہ میں ہی آئی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص ہے- نجات ہم نے دینی ہے اور ہمارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے- چنانچہ فرمایا- قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۳۲۳~}~ یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں- پس ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں- بلکہ ہر قوم اس میں برابر کی حقدار ہے-
اب انسان کے دل میں ایک اور خوف پیدا ہوتا ہے کہ اچھا آپﷺ~ آگئے- اور آپ کے ذریعہ سب کے لئے نجات کا دروازہ بھی کھل گیا- جس کیلئے ہم بڑے ممنون ہیں- مگر ہمیں اپنے باپ دادا سے محبت ہے ان کی کیا حالت ہوگی- مسیحیت کہتی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کفارہ پر ایمان نہیں لائے- یہودی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ سوائے یہود کے اور کسی کیلئے نجات نہیں- زرتشتی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے- ہندو بھی یہی کہتے ہیں- مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خدا تعالیٰ کہتا ہے- کہدو وان من امہ الا خلا فیھا نذیرتم اپنے باپ دادوں کے متعلق مت ڈرو- ان کے وقت بھی ہم نے نبی بھیجے تھے- اگر انہوں نے ان انبیاء کو قبول کر لیا تھا تو خدا انہیں جنت میں لے جائے گا- یہ آباء کے متعلق ان کو تسلی دی-
اب یہ وسوسہ باقی رہتا تھا کہ انسان گناہ سے تو بچ ہی نہیں سکتا- پھر نجات کیسے ہوگی- اس کے لئے فرمایا- یہ وسوسہ بھی دور کر دو- اور ان سے کہو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددنہ اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون ۳۳۴~}~اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ان کو تسلی دے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ انسان کی فطرت گندی ہے وہ جھوٹ بولتا ہے- ہم نے انسان کو نیک فطرت دے کر بھیجا ہے- جب انسان خطا کرتا ہے تب ہم اسے نچلے درجہ میں بھیجتے ہیں- ورنہ بڑے بڑے انعام دیتے ہیں- گناہ ایک باہر سے آنے والی چیز ہے- اصل میں انسان کے اندر نیکی ہی رکھی گئی ہے-
غرض اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو تسلی دلائی- جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے نجات کا دروازہ بند ہے- انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی دعوت دی- جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نیک نہیں ہو سکتے انہیں نیکی کی امید دلائی- جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ایک دفعہ گناہ کر لیا تو پھر اس کے وبال سے نجات نہیں ان میں توبہ کا اعلان کیا- جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ گنہگار مر گئے تو ہمیشہ کیلئے گئے- انہوں دوزخ کے ایک درمیانی سٹیج ہونے کا علم دیا غرض آپﷺ~ حقیقی معنوں میں دنیا کو تسلی دلانیوالے تھے- یہ تو دوسروں کے متعلق فرمایا- اس کے بعد اپنے لوگوں کی باری آئی- ان کو تسلی کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد سنایا- کہ خذمن اموالھم صدقہ تطھرھم و تزکیھم بھا وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم واللہ سمیع علیم فرمایا- جب وہ رسول دنیا کو تسلی دے گا تو اس کی امت والے کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے ہی دن حاصل کر چکے ہیں- پھر ہمیں کیا ملے گا- فرمایا- ان سے مساکین کیلئے چندے لو- اور اس طرح ان کو پاک کرو- اور ان کی ترقی مدارج کیلئے دعائیں کرو- کہ جس کے لئے تو دعا کرتا ہے اس کے لئے تسلی ہی تسلی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ تیری دعا سنے کیونکہ وہ سمیع ہے- اور اگر بعد میں آنے والی امت کہے کہ ہمارے لئے کیا ہے- تو ان سے کہو خدا علیم ہے- اب بھی تمہارے لئے وہ دعا موجود ہے اور تم اس سے حصہ لے سکتے ہو- اس طرح ان کے لئے بھی تسلی کا سلسلہ جاری کر دیا-
ساتویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ رسول دنیا کو تین طرح مجرم قرار دے گا- )۱(گناہ سے )۲(راستبازی سے )۳(عدالت سے- یعنی ایک قوم سے کہے گا کہ یہ مسیح کا انکار کرنے والے ہیں- اس لئے مجرم ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داود و عیسی ابن مریم ۳۳۵~}~یعنی بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا ان پر دائودؑ اور عیسیٰ بن مریمؑ کی زبان سے *** کی گئی تھی- اس طرح غیر المغضوب علیھم میں حضرت مسیح کا انکار کرنے والوں کو مغضوب قرار دے کر ان سے پناہ مانگی گئی ہے- )۲(راستبازی سے اس طرح مجرم قرار دیا کہ حضرت مسیحؑکی وفات کے بعد نصاریٰ نے انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا- کہ تم نے راستبازی تو اختیار کی یعنی مسیح کو قبول کیا لیکن پھر صحیح راستہ کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں نکل گئے- اس لئے تمہارا نام ضال رکھا گیا ہے- جیسا کہ غیر المغضوب علیھم والاالضالین سے ظاہر ہے- )۳(باقی قوموں کو آپﷺ~ نے عدالت سے مجرم قرار دیا یعنی اس وجہ سے کہ وہ شرک کی مرتکب ہوئیں اور توحید کو جو عدل کا طریق تھا انہوں نے ترک کر دیا اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک کا نام غیر عدل رکھا گیا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما قدروا اللہ حق قدرہ ۳۳۶~}~ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس طرح اندازہ نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا- اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے- الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون ۳۳۷~}~وہ لوگ جو ایمان لائے انہوں نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا- انہی لوگوں کیلئے امن مقدر ہے- اور وہی ہدایت پانے والے ہیں- احادیث میں آتا ہے کہ صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہر شخص تھوڑا بہت ظلم تو کر بیٹھتا ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- اس جگہ ظلم سے مراد شرک ہے- 2] f[st۳۳۸~}~
غرض اس پیشگوئی کے مطابق ہر قوم جو اہل کتاب میں سے ہے- آپﷺ~ نے اسے مثیل یہود قرار دے کر مغضوب یا مثیل نصاریٰ قرار دے کر ضال قرار دیا- اور جو قومیں اہل کتاب نہ تھیں- ان کے متعلق عدالت کو اس رنگ میں استعمال کیا کہ فرمایا ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا- اور شرک کا ارتکاب کر کے صحیح راستہ سے منحرف ہو گئی ہیں- گویا` گناہ کا لفظ جو انجیل میں استعمال ہوا ہے وہ تفریط کے مترادف ہے- راستی افراط کے مترادف اور عدالت توحید سے بے اعتنائی کے مترادف ہے- اور تین ہی گروہ قرآن کریم نے قرار دیئے ہیں-
آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہیں کہی گئیں- قرآن کریم میں بھی آتا ہے- وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباء کم۳۳۹~}~ تمہیں وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو- ان باپ دادا میں حضرت موسیٰؑ بھی شامل ہیں-
نویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی- یہ بھی قرآن کریم میں دعویٰ کیا گیا ہے- فرماتا ہے الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعتمی و رضیت لکم الاسلام دیناآج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا- اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا-
دسویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنائے گا وہی کہے گا- یعنی اس کا کلام کلی طور پر الہام پر مشتمل ہوگا- یہ پیشگوئی صرف قرآن کریم پر ہی چسپاں ہوتی ہے- ورنہ انجیل اور تورات میں تو حواریوں کا کلام بھی درج ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی یعنی وہ اپنی ہوا و ہوس سے نہیں بولتا- بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے- پھر آتا ہے- وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ مشرکین میں سے اگر کوئی کہے کہ مجھے پناہ دو- میں خدا کی باتیں سننا چاہتا ہوں تو تم اسے بلائو تا کہ وہ کلام اللہ سن لے-
گیارھویں بات یہ بتائی تھی کہ وہ میرا جلال یعنی بزرگی ظاہر کرے گا- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے- سورۃ بقرہ میں آتا ہے- واتینا عیسی ابن مریم البینت وایدنہ بروح القدس۳۴۰~}~ یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریمؑ کو کھلے کھلے نشانات دیئے اور روح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی- پھر آتا ہے- وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیما ۳۴۱~}~کہ ان لوگوں نے عیسیٰؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھا کر مارا- ہاں صلیب پر چڑھایا ضرور تھا- اور وہ ان کے لئے مصلوب کے مشابہ بنا دیا گیا تھا- وہ لوگ جو اس بات میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً شک میں پڑے ہوئے ہیں- ان کو اس بات کے متعلق کوئی یقینی علم نہیں وہ صرف ایک وہم کی پیروی کر رہے ہیں- انہوں نے ہر گز حضرت عیسیٰؑ کو نہیں مارا- بلکہ اللہ نے اس کو اپنے حضور میں بڑی عزت اور رفعت بخشی تھی- )گویا آپﷺ~ نے حضرت عیسیٰؑ کی وہی بزرگی ظاہر کی جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے( اور کیوں خدا ایسا نہ کرتا- وہ عزیز اور حکیم ہے- یعنی ضروری تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کے منکرین صلیب پر لٹکاتے مگر یہ بھی ضروری تھا کہ وہ صلیب پر فوت نہ ہوتے اس لئے کہ اللہ عزیز اور حکیم ہے- چونکہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اس لئے ضروری تھا کہ صلیب پر چڑھاتے-
بارھویں بات یہ بتائی کہ وہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دکھائے گا- یعنی مشاہدہ کرا دے گا- جو فوت ہو گیا اسے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دکھا نہیں سکتے تھے- اسے اسی طرح دکھایا کہ فرمایا- میری امت میں سے ایک سپہ سالار کھڑا ہو گا جس کا نام مسیح ہوگا- اور اس طرح عملاً مسیح کی راستبازی کو ثابت کر دے گا- کیونکہ اتنے بڑے آدمی کو اس سے مشابہت دینا یہی معنی رکھتا ہے کہ مسیح بھی بزرگ اور برگزیدہ ہستی تھی چنانچہ حضرت مرزا صاحبؑ جو مسیح موعود ہیں انہوں نے مسیح کی تصویر کھینچ کر دکھا دی-
قانون شریعت اور قانون طبعی کی باہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ
اب دیکھو یہ نشان کتنا عظیم الشان ہے- کتنا لمبا سلسلہ چلتا ہے- حضرت ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام تک جو دو ہزار سال کا زمانہ ہے تغیرات ہوتے رہتے ہیں- پھر حضرت مسیحؑ کے سلسلہ چھ سو سال کے عرصہ میں بھی تغیرات ہوتے ہیں- اور آخر وہ انسان ظاہر ہوتا ہے جو ان کا مصداق تھا- اگر صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ کرتے اور شریعت لے آتے تو لوگ کہتے یہ کلام آپﷺ~ نے خود بنا لیا ہے- مگر یہاں تو قانون شریعت اور قانون طبعی صدیوں ہاتھ میں ہاتھ دے کر چل رہے ہیں اور ثابت ہو رہا ہے کہ ہمارا خدا آسمان کا ہی بادشاہ نہیں بلکہ زمین کا بھی بادشاہ ہے- قانون شریعت کہتا ہے کہ مکہ میں ایک نبی آئے گا اور قانون طبعی اس کے لئے سامان مہیا کرتا ہے- تباہی اور ہلاکت کی آندھیاں چلتی ہیں- قوموں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں- وبائیں آتی ہیں اور قوموں کو ہلاک کر کے چلی جاتی ہیں- زمانہ کی گردشیں آتی ہیں اور قوموں کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں- یہ سب کچھ ہوتا ہے- مگر قریش ان تمام آفات سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی تائید ہوتی ہے- ابرہہ مکہ پر چڑھائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مکہ اور اہل مکہ کو میں تباہ و برباد کر دوں گا- مگر خود اس کا لشکر تباہ ہو جاتا ہے- اور وہ ناکام و نامراد لوٹ جاتا اور راستہ میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے- کیونکہ قانون طبعی کہتا ہے کہ میں اس قوم کو نہیں مٹنے دونگا قوموں میں تغیرات آتے ہیں- مرد نامرد پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح خاندانوں کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں- مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں یہ تغیر نہیں آتا- اس لئے کہ آپ کی نسل بڑھے اور ترقی کرے- عیسائی کہتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کی تباہی کی خبر دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی- ان میں تباہی کے آثار پیدا ہو چکے تھے- مگر ان کی تباہی کی خبر تو یسعیاہ اور حبقوق نے بھی دی تھی اور کئی ہزار سال پہلے دی تھی جب کہ قیصر و کسریٰ کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا- اور پھر قانون قدرت نے ان کی تباہی کے سامان اس وقت پیدا کئے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہو گئے-
اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو ہو سکتا تھا کہ مکہ سے نکالے نہ جاتے- اگر نکالے گئے تھے تو آپﷺ~ کی قوم آپﷺ~ پر حملہ نہ کرتی- اگر حملہ کرتی تو شکست نہ کھاتی- مگر یہ سب کچھ ہوا- اب غور کرو یہ کس نے کرایا؟
اسی طرح ممکن تھا کہ ابوجہل حملہ نہ کرتا اگر اس نے کیا تو عبداللہ کو غصہ نہ دلاتا تا کہ وہ اس کی گردن چھوٹی نہ کاٹے- مگر اس کے لئے اسباب پیدا ہوئے- یہ اسباب کس نے پیدا کئے- ان سے صاف نظر آتا ہے کہ دو ہزار سال سے زمین و آسمان کی بادشاہت ایک ساتھ چل رہی تھی- آسمان سے یہ حکم ہو گیا کہ ابراہیمؑ کی نسل کو قائم رکھنا- تباہی و بربادی کی آندھیاں آتیں تو انہیں کہہ دیا جاتا کہ دیکھنا مکہ پر کوئی آنچ نہ آئے-
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ اتنا عرصہ قبل بتا دینا اور پھر اس کا ہو بہو پورا ہونا- یہ سب باتیں قانون طبعی کے ماتحت تھیں- اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کے نتیجہ میں فرماتا ہے- وللہ ملک السموت والارض- 17] [p۳۴۲~}~اے خدا کے منکرو غور تو کرو کیا یہ قانون آپ ہی آپ چل رہا ہے- میں دو ہزار سال کی ہسٹری پیش کر کے بتاتا ہوں کہ خدا ہے اور یقیناً ہے- للہ ملک السموت والارض سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے متعلق فرمایا کہ اس وقت خدا خود آ جائے گا- یعنی آپﷺ~ کے وجود سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملے گا- اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے پیرئوں سے یہ بھی کہا- کہ دعائیں مانگو کہ اے خدا جیسی تیری آسمان پر بادشاہت ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے- یعنی تم ہمیشہ دعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں- دعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان اور زمین کا خدا ایک ہی ہے-
اس میں نہ صرف دہریوں کا رد ہے بلکہ جینیوں اور آریوں کا بھی رد ہے- جینی کہتے ہیں کہ روحیں ترقی کرتے کرتے آپ ہی اونچی ہو جاتی ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- یہ غلط ہے ہم خود تغیرات کرتے کرتے کامل روح پیدا کرتے ہیں- آریہ کہتے ہیں- دنیا میں خدا کا تصرف نہیں- مادہ اور روح آپ ہی آپ سب کچھ کرتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا کا سارا انتظام ہمارے احکام کے ماتحت چلتا ہے اور ہر قسم کے تغیرات ہم خود پیدا کرتے ہیں-
‏a.10.17
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
طبعی قانون پر خدائے واحد کی حکومت
ذرا غور کرو- قانون شریعت کا قانون قدرت نے ایک زمانہ دراز تک کس طرح ساتھ دیا- اور کس طرح اس کے ماتحت چلا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قریباً پونے تین ہزار سال بعد پیدا ہوئے- کیا یہ طبعی قانون پر حکومت نہیں کہ اس وقت تک حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد جاری رہے گی- حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا نام ایسا روشن ہوگا کہ ان کی اولاد اس بات کو یاد رکھے گی کہ وہ ان کی اولاد ہے- مکہ قائم رہے گا- اس میں ایک خاص شخص اس خاص حلیہ کا پیدا ہوگا- اس کی قوم اس کا مقابلہ کرے گی اور اسے گھر سے نکال دے گی- وہ نبی حضرت موسیٰؑ کی طرح صاحب شریعت ہوگا- وہ پہلے کمزور ہوگا اور گھر سے نکالا جائے گا- لیکن خدا تعالیٰ اسے جماعت دے گا- وہ مصائب برداشت کرے گا- اور صبر کرے گا- لیکن اس کی قوم کا اس پر ظلم بڑھتا جائے گا- آخر دشمن خفیہ تدبیر کرے گا کہ اس کے کمزور ساتھیوں کو تباہ کر دے اور فخر کرتا ہوا آئے گا- یہ واقعہ اس کی ہجرت کے ایک سال بعد ہوگا- جب مقابلہ ہوگا تو میدان اس کے ہاتھ رہے گا- اور دشمن کے اکثر سردار مارے جائیں گے- ان میں سے رئیس المکفرین عالی خاندان والا اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں اس طرح مارا جائے گا کہ اسی دشمن کے ہتھیار سے ایک شخص اس کی گردن تک سر کو ننگا کر کے اس کا سر کاٹ دے گا- اس کا قد اونچا لیکن بدنما اونچا نہ ہوگا- وہ چلتے وقت زور سے قدم مارے گا )زمین اس کے قدموں سے لرزے گی( اس کا رنگ سفید لیکن سرخی مائل ہوگا- اس کے بال گھنگھرالے ہونگے- لیکن بالکل گھنگھرالے نہیں- ان میں پیچ پڑے ہونگے- اس کا کلام شیریں ہوگا- لیکن سچائی پر مشتمل ہونے کے سبب سے لوگوں کو تلخ معلوم ہوگا- اس کا نام محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہوگا- آخر وہ ایک دن فاران کی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا مکہ پر حملہ آور ہوگا- دس ہزار سپاہیی جو نہایت نیک و پاک ہونگے اس کے ساتھ ہونگے- اور وہ مکہ کو فتح کر لے گا- اس کے بعد ملک اس پر ایمان لے آئے گا-
اس کے کام ایسے شاندار ہونگے کہ لوگ انہیں دیکھ کر عجیب کہہ اٹھیں گے- وہ نہایت بااخلاق ہوگا اور غریب و مسکین اس سے مشورہ کرنے میں نہ جھجکیں گے- اس کے کلام میں اسے مثیل موسیٰؑ کہا جائے گا- اس کی قوم کے کاموں سے خدا تعالیٰ خوش ہوگا- وہ انہیں مقدس بنائے گا- اور ہمیشہ انہیں مقدس بنانے کے سامان پیدا کرتا رہے گا- اس کے مذہب کا نام نیا ہوگا اور خدا تعالیٰ خود وہ نام انہیں دے گا اور اس میں سلامتی کا لفظ پایا جائے گا )سلامی کا شہزادہ یعنی سردار اسلام اس کا لفظی ترجمہ ہے( اس ¶کے شہر کو ہمیشہ آباد رکھا جائے گا- اور لوگ دور دور سے اس کا قصد کر کے آئیں گے-
وہ جس طرف رخ کرے گا لوگ مرعوب ہونگے- قومیں اس پر مل کر حملہ کریں گی لیکن شکست کھائیں گی- )سیھزم الجمع ویولون الدبر( او اس کے دشمن ہلاک ہونگے- اس کا مقابلہ ایک طرف شامی حکومت سے اور ایک طرف ایرانی حکومت سے یعنی قیصر و کسریٰ سے ہوگا- اور دونوں شکست کھائیں گی-
اس کے آنے کے بعد پہلی سلطنتیں اور پہلے دینوں کی برکت مٹ جائے گی اور ترقی رک جائے گی- )عیسائیت نے بظاہر ترقی کی ہے لیکن پہلے عیسائیت نے بذریعہ تلوار بڑھنا چاہا اور بذریعہ تلوار روکی گئی- اب بذریعہ تبلیغ بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تو حضرت مسیح موعودؑ مقابلہ کیلئے پیدا ہو گئے( اس کی قوم ہمیشہ مصلح پیدا ہوتے رہیں گے- وہ اگلے اور پچھلے لوگوں میں بمنزلہ ایک واسطہ کے ہوگا- اس کی تعلیم سلامتی کی تعلیم ہوگی- وہ کسی خاص قوم کے لئے نہ ہوگی- بلکہ سب کے لئے ہوگی- اس کا رویہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ کے طور پر ہوگا- اور دوسری اقوام اس کے اثر سے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کر لیں گی- اس کی تعلیم کے ذریعہ سے بے حکمت اور رسمی احکام کو مٹا کر با حکمت تعلیم دی جائے گی- اس کی تعلیم میں ہر قسم کے ضروری امور بیان ہونگے اور وہ بالکل مکمل ہوگی جس کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہ رہے گی- اس کی تعلیم کا ماحصل یہ ہوگا کہ وہ نجات کا راستہ ہر قوم اور ہر حالت کے لوگوں کیلئے کھولے گا- اور افراط و تفریط اور شیطانی غلامی سے لوگوں کو بچائے گا- )غیر الہامی مذہب کلی طور پر شیطان کے قبضہ میں ہیں( وہ فطرت انسانی کی نیکیوں کو ابھارے گا- اس کی کتاب خالص الہام پر مشتمل ہوگی ایک لفظ بھی دوسرا اس میں موجود نہ ہوگا- وہ گذشتہ انبیاء پر سے الزامات کو دور کرے گا خصوصاً حضرت مسیح کی پاکیزگی ایک خاص نمونہ کے ذریعہ لوگوں کو عملاً دکھا دے گا-
یہ اخبار ایسی ہیں کہ جو ایک وقت میں نہیں دی گئیں- ایک وقت میں ان کے سامان نہیں پیدا کئے گئے- قوموں اور شہروں کا زندہ رہنا ہزاروں سال کے طبعی تصرفات کا نتیجہ ہے- ایک خاص حلیہ کے شخص کا پیدا ہونا خاص علم الحیوانات کا نتیجہ ہے- دشمنوں اور دوستوں کے دل میں ان خیالات کا پیدا ہونا جو مذکور تھے خالص علم النفس کے ماتحت تغیرات کا نتیجہ ہے- دشمنوں کا زیر ہونا خاص سیاسی تغیرات کا نتیجہ ہے- )مسیحی کہتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ پہلے سے کمزور تھے- ہم کہتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی مدد کے لئے پیدائش سے بھی پہلے سے سامان ہو رہے تھے( اس طرح خاص تعلیم اور اس کی تفصیلات خاص آسمانی توجہات کا نتیجہ ہیں- غرض صاف طور پر یہ سلسلہ آسمانی اور زمینی بادشاہت کے ایک ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ان سب امور کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ للہ ملک السموت والارض آسمانی اور زمینی بادشاہتوں کا اتحاد ایک بالا اور بالارادہ ہستی کا ثبوت دے رہا ہے- فسبحان اللہ الملک القدوس- یہ میں نے ہی نہیں کہا- بلکہ حضرت مسیح ناصریؑ بھی اس دلیل میں میرے ساتھ متفق ہیں- چنانچہ حضرت مسیحؑ کی یہ دعا کہ >تیری بادشاہت آئے- تیری مراد جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی آئے<- ۳۴۳~}~اس سے حضرت مسیح کا یہی مطلب ہے کہ ظہور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا کرو کہ اسی کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت کا ظہور زمین پر ہوگا-
اب دیکھو یسعیاہ باب ۹ اور حضرت مسیح کی پیشگوئی ۳۴۴~}~ کس رنگ میں پوری ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ خدائے قادر ہوگا اور مالک ارض و سما ہوگا- )یعنی باغ کا مالک( اس کے یہی معنی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت اور آسمانی اور زمینی نظاموں کا ایک بالارادہ ہستی کے ہاتھ میں ہونے کا ثبوت آپ کی ذات میں ملے گا- اور ان کے ذریعہ سے لوگ قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم حاصل کریں گے- پس آپﷺ~ کا آنا خدا کا آنا ہوگا-
قرآن کریم کی دوسری اصولی اصلاح
قرآن کریم نے جو دوسری اصلاح کی وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ہے-
چنانچہ دوسری اصولی غلطی جو دنیا میں پیدا ہوئی وہ خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں سے بھی اس گروہ میں پیدا ہوئی جو خداتعالیٰ کو تو مانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی زندگی کا منکر ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ خدا دنیا کو پیدا کر کے اب الگ ہو گیا ہے- اور اب سب تغیرات آپ ہی آپ ہو رہے ہیں- گویا نعوذ باللہ اگر خدا تعالیٰ نہ بھی رہے تو بھی دنیا چلتی رہے گی- اور دنیا کے انتظام میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوگا- یہ وہ لوگ ہیں- جو دعا کے منکر اور ہر امر کو قانون قدرت کے تابع قرار دیتے ہیں- یہ بھی ہر زمانہ میں ہوتے آئے ہیں- اس زمانہ میں علی گڑھ میں سید احمد ایسے خیالات رکھتے ہیں- اور اس سے پہلے بھی بہت سے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے رہے ہیں- جو یہ کہتے تھے کہ خدا اب دنیا کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا- اسلام نے ان لوگوں کی غلطی کو بھی دور کیا ہے- چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے-:
قل اللھم ملک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعزمن تشاء ویذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شی قدیر تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل و تخرج الحی من المیت و تخرج المیت من الحی و ترزق من تشاء یغیر حساب ۳۴۵~}~فرمایا- کہو اے اللہ! تو ہی ہے جو ملک کا مالک ہے- تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے- تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے- ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں- تو دن رات میں اور رات کو دن میں داخل کرتا ہے- تو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے- تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے-
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنا دیا اب وہ بالکل بے دخل ہے کس طرح پیدا ہوا- اصل میں تو یہ قلت معرفت سے پیدا ہوا ہے- مگر فلسفی اس کے متعلق کچھ دلائل بھی دیتے ہیں- جو یہ ہیں-:
اول اگر خدا کا تصرف قانون قدرت کے خلاف ہے- تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ قانون قدرت کی غرض باطل ہو جاتی ہے- مثلاً اللہ تعالیٰ نے قانون بنایا ہے کہ آگ جلائے- اگر کوئی خدا سے دعا کرے کہ آگ نہ جلائے اور یہ دعا قبول ہو جائے تو دنیا میں ابتری پھیل جائے گی- اور کوئی ترقی نہ ہو سکے گی- قانون قدرت کی اتباع اسی لئے کی جاتی ہے کہ اس کا ایک یقینی نتیجہ نکلتا ہے- لوگ آگ جلاتے ہیں اس لئے کہ وہ جلتی ہے- پانی پیتے ہیں اس لئے کہ پیاس بجھاتا ہے- اگر کبھی پانی پینے سے شعلے نکلنے لگ جائیں تو کوئی نہ پئے-
دوم قانون کے خلاف تصور کرنا انصاف کے خلاف ہے- مثلاً ایک نے سامان جنگ تیار کیا- اور لشکر جمع کیا- اور اس طرح جنگ میں فتح پانے کے متعلق قانون قدرت کی اطاعت کی- لیکن ایک دوسرے نے دعا کر کے اسے شکست دے دی- تو یہ انصاف کے خلاف ہے کہ جو قانون کے مطابق کام کر رہا ہے وہ تو نقصان اٹھائے اور جو مخالف ہے وہ جیت جائے-
تیسرے اگر تصرف قانون قدرت کے مطابق ہے تو پھر بے فائدہ ہے- کسی کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے- ایسی صورت میں دعا کے قبول ہونے کا دعویٰ کرنا ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں نے روٹی کھائی- مگر میں نے دعا کی تھی جو قبول ہو گئی اور میرا پیٹ بھر گیا- یہاں دعا نے کیا اثر کیا یہ تو روٹی نے اپنا اثر دکھایا-
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں- ہر چیز کا سبب موجود ہے بلکہ جسے دعا کا نتیجہ کہتے ہیں اس کا بھی ہم سبب بتا دیتے ہیں- مثلاً کہتے ہیں- دعا کی اور لڑکا پیدا ہوگیا- حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی ملے تب بچہ پیدا ہوا اور اسی طرح بچے پیدا ہوتے ہیں- کوئی ایسی چیز دکھائو جو اسباب سے الگ ہو- اگر پیشگوئیاں پیش کرو- مثلاً کہو بتایا گیا تھا کہ بیٹا ہوگا اور ہوگیا- تو پیشگوئی اظہار واقعہ ہے- بیٹا پیدا ہونا تھا- تمہیں اس کا پتہ لگ گیا- اور تمہیں بتا دیا گیا- اس سے دعا کا کیا تعلق ہوا؟
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس سے قانون قدرت کی غرض باطل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی بالعموم سامان ہی پیدا کرتا ہے جس سے انسان کو اس کا مقصد حاصل ہوتا ہے- وہ بغیر اسباب کے تصرف نہیں کرتا بلکہ اپنی مشیت پوری کرنے کیلئے بعض نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی ہوتے ہیں-
دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا میں ہر سبب یقینی نہیں مگر پھر بھی لوگ ان کی طرف توجہ کرتے ہیں- جیسے بیماریوں میں علاج کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن کیا کوئی علاج یقینی اور قطعی ہے- آخر سب بیمار تو اچھے نہیں ہوتے- مگر پھر بھی لوگ علاج پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں- اس سے معلوم ہوا کہ ہر جگہ استثناء پایا جاتا ہے- اور استثناء قاعدہ کو کمزور نہیں بلکہ اسے مضبوط کرتا ہے- اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ بھی کبھی تقدیر خاص جاری کرے تو اس سے قانون قدرت میں کوئی خرابی واقعہ نہیں ہوتی بلکہ اس سے ایک زائد فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا جلال نظر آ جاتا ہے اور ان کا ایمان اپنے رب پر بڑھ جاتا ہے- )۲(تصرف انصاف کے بھی خلاف نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ قانون قدرت جدھر چل رہا ہو انصاف بھی اسی طرح ہو- مثلاً ایک ڈاکو جاتا ہے اور ایک بچے کی گردن پر تلوار مار کر اسے اڑا دیتا ہے- اب قانون قدرت کہتا ہے کہ جب تلوار گردن پر پڑے تو سر الگ ہو جائے مگر کیا یہی انصاف ہوگا- دنیا میں کروڑ ہا مواقع ایسے پیش آتے ہیں جب کہ قانون قدرت کو غلط رنگ میں استعمال کرتے ہیں- اس لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ ایسے نشان دکھائے جن سے قانون قدرت کا غلط استعمال رک جائے- چنانچہ جب ایسے مواقع پر خدا تعالیٰ قانون قدرت کے غلط استعمال کو اپنے تصرف سے روکتا ہے تو بحیثیت مجسٹریٹ کے نہیں- بلکہ بحیثیت مالک روکتا ہے- اور دعا اسی وقت قبول ہوتی ہے- جب دعا کرنے والا حق پر ہوتا ہے- ورنہ دعا اس کے مونہہ پر ماری جاتی ہے- پس اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے قانون قدرت کے صرف ناجائز استعمال کو دور کیا ہے اور یہ ظلم نہیں بلکہ انصاف کے عین مطابق ہے- )۳(یہ جو کہا جاتا ہے کہ اگر خدا کا تصرف قانون قدرت کے مطابق ہے تو پھر تصرف کیسا ہوا یہ بھی درست نہیں- کیونکہ اگر تصرف محض قانون کے مطابق چلے تو بے شک بے فائدہ کہلائے گا- لیکن اگر تصرف قانون کو اپنے مطابق کرنے کے ذریعہ سے ظاہر ہو تو پھر وہ بے فائدہ کہلائے گا- لیکن اگر تصرف قانون کو اپنے مطابق کرنے کے ذریعہ سے ظاہر ہو تو پھر وہ بے فائدہ کیوں ہوا- ایسی صورت میں تو اگر تصرف نہ ہوتا تو قانون مخالف رنگ میں ظاہر ہوتا اور نقصان کا موجب بنتا-
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر چیز کا سبب موجود ہے- لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرف کے مدعی یہ تو کہتے ہی نہیں کہ وہ بغیر اسباب کے تصرف کیا کرتا ہے- بلکہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ دعا کرنے والے کی تائید میں اسباب پیدا کر دیتا ہے- اور اسباب پیدا کرنا دنیا کے لئے باعث رحمت ہوتا ہے- ورنہ بغیر ظاہری اسباب کے تصرف تو بعض دفعہ فساد کا موجب ہو سکتا ہے- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی خدا تعالیٰ نے اسباب کو مخفی کیا- وہاں عوام کو ٹھوکر لگی- جیسے دیکھ لو مسیح کی پیدائش یہود کیلئے ٹھوکر کا موجب ہوئی- اور انہوں نے حضرت مریم~ع۱~ پر زنا کا الزام لگایا- لیکن یحیؑ کی پیدائش ان کیلئے کسی ٹھوکر کا موجب نہ تھی- اس طرح سارہ کے ہاں بچہ پیدا ہونا بھی لوگوں کے لئے کسی ٹھوکر کا موجب نہ بنا- اس کی وجہ یہی تھی کہ حضرت اسحاقؑ اور یحیؑ کی پیدائش میں ظاہری اسباب موجود تھے- مگر حضرت مسیحؑ کی پیدائش میں وہ اسباب نہیں تھے- اس لئے ان کو ٹھوکر لگی- حالانکہ مریم میں بچہ کے پیدا کرنے کی خاصیت پیدا کرنا یا زکریاہ اور سارہ میں پیدا کرنا بالکل ایک ہی بات تھی- پس اسباب کا مخفی کرنا بسا اوقات فضل کی بجائے فتنہ پیدا کرتا ہے- اس لئے اسباب کا پیدا کرنا انسان کے لئے رحم کے طور پر ہے اور لوگوں کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ہے- ہم اس بات کے ہر گز قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر اسباب کے کچھ کر ہی نہیں سکتا- یا جہاں اسباب ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کا تصرف نہیں ہوتا- بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ دعائوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ جن سے کام ہو جاتا ہے- پہلے وہ اسباب کسی کو نظر نہیں آتے- لیکن دعا کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتے ہیں- مثلاً تجارت میں ترقی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کئی اسباب بنائے ہوئے ہیں مگر ہر شخص کو پورے سامان میسر نہیں آتے- جب دعا کی جائے تو وہ اسباب مہیا ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان ترقی کر جاتا ہے- لیکن اگر خدا تعالیٰ یوں ہی کسی کے گھر دس ہزار روپیہ پھینک دے تو فوراً پولیس آکر اسے پکڑ لے کہ کہیں سے چوری کر کے لایا ہے- پس اسباب کا پیدا کرنا بسا اوقات خود اس شخص کے لئے مفید ہوتا ہے جس کے لئے وہ تصرف کرتا ہے-
کہا جاتا ہے کہ مان لیا خدا اسباب پیدا کرتا ہے- مگر ایک منکر کو کس طرح منوائو گے کہ خدا نے اسباب پیدا کئے اور اس طرح اس کا تصرف ظاہر ہوا- یا فلاں موقعہ پر عام قانون جاری ہوا- اور فلاں موقعہ پر تصرف- اس کے دو جواب ہیں- اول یہ کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے اس کا ہر فعل ہی تھوڑے یا بہت تصرف میں ہوتا ہے- مگر بعض اوقات اپنے خاص تصرف کے ماتحت اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ جن میں بندہ پر کوئی اعتراض نہیں آتا- اور اس کی طاقت کا ایک نشان ظاہر ہو جاتا ہے- جیسے بدر کے موقع پر ہوا- خدا تعالیٰ نے آندھی چلا دی اور ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر چلائے- کفار آندھی کی وجہ سے دیکھ نہ سکتے تھے کیونکہ آندھی کا رخ ان کی طرف تھا- اور مسلمان خوب زور سے ان پر حملہ کرتے تھے اس قسم کی مثالوں کے متعلق دشمن کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ خاص تصرف ہوا اور جس کی تائید میں ایسا نشان ظاہر ہو اس پر کوئی الزام بھی نہیں آتا- لیکن ایسی مثالیں کبھی کبھی ظاہر ہوتی ہیں اور لمبے زمانہ تک دلیل رہتی ہیں- پھر خدا تعالیٰ نیا انسان بھیج دیتا ہے اور اس کی تائید میں ایسے نشانات دکھائے جاتے ہیں-
اب رہا یہ اعتراض کہ کیوں نہ سمجھیں کہ پیشگوئیاں صرف اظہار حقیقت ہوتی ہیں ان میں خدا کا کوئی تصرف نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اظہار حقیقت بھی تو کسی غرض کیلئے ہوتا ہے- جب خدا تعالیٰ کسی سے کہتا ہے کہ تمہارے ہاں بیٹا ہوگا تو یہ کیوں قبل از وقت بتاتا ہے- اس کی کوئی غرض ہونی چاہئے- یا کسی کو بتاتا ہے کہ تم مر جائو گے تو اس کے بتانے کی بھی کوئی حکمت ہونی چاہئے- اور وہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ خوشخبری اس لئے دیتا ہے تا انسان اس کے لئے کوشش کرے- اور ڈراتا اس لئے ہے تا کہ آنے والی مصیبت سے انسان بچ سکے- ورنہ اگر کوئی پیشگوئی بے مقصد ہو تو وہ فضول ہے- اگر خیر کے حصول اور شر سے بچنے کاکوئی ذریعہ ہی نہیں تو پھر بتانے کے معنی ہی کیا ہوئے- اور اگر کہو کہ قبل از وقت بتانے کی غرض ہوشیار کرنا ہے تو یہ بھی تو تصرف ہے- کسی کو بتا دینا کہ ایسے اسباب پیدا ہو رہے ہیں تم ان کے مقابل میں ایسے ایسے اسباب پیدا کر لو- یہ بھی تو تصرف ہی ہے خواہ بالواسطہ ہی سہی- یہ تو فلسفیوں کا اعتراض تھا جس کا جواب دیا گیا- دوسرا اعتراض عملی لوگوں کا ہے وہ کہتے ہیں- ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی- ہم نے دعا مانگی کہ بیٹا ہو مگر نہ ہوا- ہم نے مقدمہ جیتنے کی دعا مانگی مگر نہ جیتے- قرآن نے ان سب باتوں کا جواب دیا ہے اور اپنے دعویٰ کے دو ثبوت دیئے ہیں ایک فلسفیانہ اور ایک مشاہدہ کا- فرماتا ہے-
ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل و النھار لایت لاولی الالباب الذین یذکرون اللہ قیما و قعودا وعلی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظلمین من انصار ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک ولاتخزنا یوم القیمہ انک لا تخلف المیعاد فاستجاب لھم ربھم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض فالذین ھاجروا و اخرجوا من دیار ھم و اوذوا فی سبیلی وقتلوا و قتلوا لا کفرن عنھم سیاتھم و لادخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھار ثوابا من عنداللہ واللہ عندہ حسن الثواب لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد متاع قلیل ثم ماوئھم جھنم وبئس المھاد۳۴۶~}~
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف کے کئی دلائل دیئے ہیں- )۱(پہلی دلیل یہ دی ہے کہ اس دنیا کی پیدائش میں طبعی قانون کا ہی اجراء نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی قانون بھی عمل کر رہا ہے- تم تو کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ دخل دے مگر ہم ایک اور نکتہ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ دیکھو اس دنیا کو کیوں پیدا کیا گیا؟ کیا اس لئے کہ انسان کھائے پیئے اور پھر مر جائے- یہ تو مقصد نہیں- پھر کیا اس لئے کہ انسان کو اعلیٰ مدارج اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچایا جائے- اگر یہ ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا کا اصل مقصد قانون طبعی کا اجراء نہیں بلکہ قانون اخلاقی کا اجراء ہے- دنیا کے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں انسان پیدا ہو اور وہ باخدا انسان بنے- چنانچہ فرمایاان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل و النھار لایت لاولی الالباب الذین یذکرون اللہ قیما و قعودا وعلی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار آسمانوں اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بڑے نشانات ہیں- عقلمند وہ ہیں جو خدا کو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوئوں پر یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں- تب وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ اے خدا! تو نے اس دنیا کو بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا- اب دیکھو قانون طبعی تو ہر ایک کو نظر آتا ہے اس کے متعلق سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے- مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس دنیا کو بغیر وجہ کے پیدا نہیں کیا گیا- اور پھر وہ کہتے ہیں- اے ہمارے رب! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اس مقصد کے مطابق زندگی بسر کریں- وہ مقصد کیا ہے یہ کہ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظلمین من انصار ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار یعنی اے خدا! ہمیں وہ اعلیٰ درجہ کی روحانی اور اخلاقی ترقیات عطا کر- جن کی وجہ سے انسان با خدا ہو جاتا ہے- اور ان باتوں سے بچا جن سے انسان خدا سے دور ہو جاتا ہے- ہم نے اس کے لئے کوشش شروع کر دی ہے- تو توفیق دے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں-
)۲(دوسری دلیل یہ دی ہے کہ الہی تصرف کے بغیر بالکل ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ روحانی اور اخلاقی قانون ملیا میٹ ہو جائے- کیونکہ نبی دنیا میں خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے آتا ہے- اور دنیا کو کمزور ہونے کے باوجود دکھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا تصرف کیسا کامل ہے- اس وقت دنیا کلی طور پر قانون قدرت پر چل رہی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہر قسم کی خرابیاں پورے زور پر ہوتی ہیں- پس جب قانون قدرت کے ذریعہ زیادہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو خدا تعالیٰ اپنا کوئی نبی مبعوث کر کے قانون اخلاق کو قائم کر دیتا ہے- پس اگر دنیا کی پیدائش کی غرض کو پورا کرنا ہے تو ضروری ہے کہ الہی تصرف ہوتا کہ جب روحانی اور اخلاقی قانون کو کچلنے کیلئے کوئی زبردست فرد یا گروہ طبعی قانون سے مدد لے رہا ہو تو وہ اس کے راستہ کو تبدیل کر دے- اسی لئے فرمایا کہ انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض میں نے دنیا کو روحانی ترقی کیلئے بنایا ہے- میں اسے ضائع نہیں ہونے دیتا-
اب مشاہدہ آتا ہے- کہا جاتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی- فرمایا- ہر ایک دعا خدا قبول نہیں کرتا- لیکن یہ نہیں کہ کوئی دعا بھی قبول نہیں کرتا- اگر خدا کے تصرف کانمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو اس امر سے دیکھو کہ ہم کفار کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں- چنانچہ فرماتا ہے- لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد متاع قلیل ثم ماوئھم جھنم وبئس المھاد- سامانوں کو دیکھو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے پاس ہر قسم کے سامان موجود تھے- قانون قدرت پوری طرح ان کی تائید میں تھا- مگر ہمارا قانون اخلاق چونکہ اس سے مقدم ہے اس لئے ہم بتاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اپنے لشکروں اور سامانوں سے ڈراتے پھرتے ہیں خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان سامانوں والوں کو ہلاک کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب کر دے گا- ہاں فرماتا ہے کہ چونکہ طبعی قانون بھی ہمارا ہے اس لئے اس کا اعزاز بھی قائم رہنا چاہئے اور شرعی اور اخلاقی قانون پر اعتماد کر کے اسے ترک نہیں کرنا چاہئے- کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ہتک ہے- فرماتا ہے- یایھا الذین امنوا صبروا و صابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون ۳۴۷~}~اے مومنو! ہم نے دشمن کے اس اعتراض کا جواب دے دیا کہ خدا دعا نہیں سنتا- ان کو ہم نے بتا دیا ہے کہ وہ دعائیں سنتا ہے- اور ایسے تصرفات کرے گا کہ تم باوجود ساز و سامان کے جیت نہیں سکو گے اور جو تمہارے مقابلہ میں بے سرو سامان ہیں وہ جیت جائیں گے- مگر تم بھی غلطی نہ کرنا کہ کہہ دو ہمیں قانون قدرت کی پابندی کی ضرورت نہیں- وہ قانون بھی میرا ہی بنایا ہوا ہے- پس اے مومنو! صبر سے کام لینا- جتھ بندی کرنا- ہر قسم کے سامان تیار رکھنا- تا کہ کامیاب ہو جائو-
ہاں کبھی خدا تعالیٰ کا منشا یہ بھی ہوتا ہے کہ قانون قدرت کو بالکل چھوڑ دیا جائے- جیسے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کو کھانسی کی تکلیف تھی- یہ کھانسی اتنی شدید تھی کہ جب اس کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ڈاکٹر عبدالحکیم نے پیشگوئی کر دی کہ مرزا صاحب کو سل ہو گئی ہے اور اس بیماری سے فوت ہو جائیں گے- ادھر پیشگوئی شائع ہوئی ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دوائی پلانے کا کام میرے سپرد تھا اور مجھے کمپونڈری کرنے کے لحاظ سے یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو علاج کے متعلق میری ہدایات ماننی چاہئیں- ان دنوں ایک دوست آئے جو تحفہ کے طور پر کچھ پھل لائے- حضرت مسیح موعودؑ اس وقت لیٹے ہوئے تھے- اور اس سے تھوڑی ہی دیر پہلے آپ کو کھانسی کا شدید دورہ ہو چکا تھا- آپ نے دریافت فرمایا- کیا پھل ہے- میں نے عرض کیا- کیلے اور سنگترے ہیں اور ساتھ ہی میں نے عرض کیا کہ آپ نہ کھائیں کیونکہ آپ کو شدید کھانسی ہے- آپ نے پھل اپنے پاس رکھ لئے- آپ کھاتے جائیں اور مسکراتے جائیں- میں کڑھنے لگا کہ حضرت مولوی صاحب )یعنی حضرت خلیفہ اول( کو کیا جواب دوں گا- حضرت مسیح موعودؑ نے میری حالت کو دیکھ کر ہنس کر فرمایا- تمہیں برا لگتا ہے لیکن مجھے الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہو گئی ہے- تو بعض مواقع پر خدا تعالیٰ نے ایسے اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے کہ قانون قدرت کی پابندی کی ضرورت نہیں رہتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ایسے واقعات پائے جاتے ہیں- غزوہ حنین میں جب صحابہؓ کی سواریاں بدک گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف ۱۲ آدمی رہ گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ ذرا پیچھے ہٹ جائیں کیوں کہ دشمن کا شدید حملہ ہے- جس صحابیؓ نے آپﷺ~ کی سواری کے جانور کو پکڑا ہوا تھا اسے آپﷺ~ نے فرمایا- چھوڑ دو- اور پھر سواری کو ایڑ لگا کر آگے بڑھے اور فرمایا-
انا النبی لا کذب
ان ابن عبدالمطلب ۳۴۸~}~
اور باوجود یکہ اس وقت چاروں طرف سے تیر برس رہے تھے مگر آپﷺ~ کو نہ لگے- تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت جو اسباب پیدا ہوتے ہیں وہ نظر نہیں آتے-
اس جواب میں دعا والے اعتراض کا جواب بھی آ گیا- یعنی خدا تعالیٰ کے طبعی اور اخلاقی قانون پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں- اس لئے دعا دونوں کے توازن کے ماتحت اور قانون کے ماتحت ہی قبول ہوتی ہے- اور جو اس کے خلاف چاہتا ہے وہ بیوقوف ہے- بہرحال اخلاقی اور روحانی قانون میں اندھیر نگری نہیں ہے-
تیسری اصولی اصلاح توحید کے متعلق
تیسری اصلاح قرآن کریم نے توحید کے متعلق کی ہے- اس کے متعلق پہلی خرابی یہ پیدا ہو گئی تھی کہ خدا کے مقابلہ میں اور خدا کے مقرر کرنے شروع کر دیئے گئے تھے- یہ خرابی خواہ شرک فی الذات کی صورت میں ہو جیسا مسیحیوں` ہندوئوں اور زرتشتیوں میں ہے- اورخواہ شرک فی الصفات ہو جیسا کہ یہود میں ہے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے- ملک صدق والی سلیم کو ازلی ابدی بن ماں باپ کے مانتے تھے- الیاس اور کئی اور لوگوں کو آسمان پر زندہ تسلیم کرتے تھے- اسلام نے ان سب شرکوں کو مٹایا ہے اور ایک خالص توحید قائم کی ہے- قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اللہ خالق کل شیء وھو علی کل شیء وکیل لہ مقالید السموت والارض والذین کفروا بایت اللہ اولئک ھم الخسرون ۳۴۹~}~یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر ایک کام کے لئے کافی ہے- آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں- اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں وہی گھاٹے میں پڑتے ہیں-
اس میں چار دلیلیں ہر قسم کے شرک کے رد میں دی گئی ہیں- )۱(فرمایا- تمام چیزوں کے دیکھنے سے صاف طور پر نظر آئے گا کہ وہ دو ہستیوں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ ایک ہی ہستی کی پیدا کی ہوئی ہیں- اور سب کی پیدائش ایک ہی قانون کے ماتحت ہے- بچہ کو کسی اور نے اور خوراک کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا- بلکہ بچہ پیدا ہی اس خوراک سے ہوتا ہے جو تم کھاتے ہو اور جو چیزیں کھائی جاتی ہیں ان کو خدا نے پیدا کیا ہے- فرمایا- اللہ خالق کل شیء- اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ اور کوئی خدا نہیں ہے-
)۲( دوسری دلیل یہ دی کہ وھو علی کل شیء وکیل خدا ہی سب چیزوں کا محافظ ہے- یعنی سب چیزوں کی حفاظت ایک قانون کے ماتحت ہے- مثل¶ا کسی کا بیمار بیٹا اچھا ہوتا ہے تو اگر وہ یونہی اچھا ہو جاتا تو کہا جاتا کہ اس کو اچھا کرنے والا کوئی اور ہے اور سورج چاند کو بنانے والا کوئی اور- مگر اب چونکہ اچھا کرنے میں سورج چاند کا بھی دخل ہے- اس لئے ماننا پڑے گا کہ جس نے سورج چاند پیدا کئے اسی نے اچھا کیا-
)۳(تیسری دلیل یہ دی کہ تمام ضرورتیں روحانی و جسمانی اسی سے پوری ہو سکتی ہیں- فرمایا لہ مقالید السموت والارض- آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں- جب انسان کی ساری ضروریات خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی خدا ہی پوری کرتا ہے تو پھر عزیر یسوع اور ملک صدق وغیرہ کی ضرورت نہ رہی- کسی اور خدا کی کیا ضرورت رہی کہ اس کو معبود قرار دیاجائے-
)۴( چوتھی دلیل یہ دی کہ خدا کی توحید کے موید ہمیشہ جیتتے اور دشمن ناکام ہوتے ہیں فرمایا- والذین کفروا بایت اللہ اولئک ھم الخاسرون جو لوگ توحید کے منکر ہوتے ہیں وہ توحید کے ماننے والوں کے مقابلہ میں ہارتے ہیں- یہ عملی ثبوت ہے` خدا کی توحید کا-
پس شرک فی الذات اور شرک فی الصفات دونوں غلط ہیں- جہاں بعض ¶لوگوں نے مشرکانہ خیالات سے توحید میں نقص پیدا کیا ہے- وہاں بعض لوگ توحید کے شوق میں وحدۃ وجود کے قائل ہو گئے اور ذرہ ذرہ کو خدا بنا دیا- قرآن کریم نے اس کی بھی تردید کی ہے- ان لوگوں نے اپنی طرف سے توحید کی تائید کی تھی اور کہا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور وجود تسلیم کریں تو اس سے شرک لازم آتا ہے- مگر انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ اس طرح انہوں نے ہر چیز کو خدا قرار دے دیا- اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی رد کیا ہے اور وہ اس طرح کہ فرمایا- ولا تدع مع اللہ الھا اخر لا الہ الا ھو کل شیء ھالک الا وجھہ لہ الحکم والیہ ترجعون ۳۵۰~}~فرمایا- تم کہتے ہو کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہر وہ چیز جو پیدا ہوئی ہے ہلاک ہوتی ہے- اگر یہ سب کچھ خدا ہے تو تغیر پذیر نہیں ہو سکتا- لیکن اس کا تغیر پذیر ہونا خود ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا کا حصہ نہیں- کیونکہ اگر حصہ میں تغیر ہو سکتا ہے تو کل میں تغیر بھی لازمی ہے-
اس طرح قرآن کریم نے انسانوں پر جو لعنتیں کی ہیں ان سے بھی وحدۃ الوجود والوں کی تردید ہوتی ہے- *** کے معنی دور کئے جانے کے ہیں- اگر ہر چیز خدا کا حصہ ہے- تو ایسے لوگوں کو دور کیوں کیا گیا- بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سختی کی گئی ہے- مگر اس طرح وحدۃ الوجود کی جڑ کاٹ دی گئی ہے- اگر ہم یہ مان لیں کہ ہر چیز خدا کا حصہ ہے تو کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ اس کے حصے نہایت گندے اور ناپاک ہیں- مگر یہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے- اگر وحدۃ الوجود والوں کو کہیں کہ تم تو اچھے ہو- مگر تمہارا دل بڑا ناپاک ہے تو لڑ پڑیں گے- مگر خدا تعالیٰ کا جن چیزوں کو جزو قرار دیتے ہیں- ان کے متعلق کہتے ہیں کہ گندی ہیں-
بعض لوگوں نے ان کے برعکس یہ نظریہ قائم کیا کہ دنیا کو خدا سے بالکل جدا کر دیا اور کہہ دیا کہ خدا عرش پر ہے اور دنیا اس سے بالکل الگ ہے- وہ مخلوق سے بالکل جدا آسمان پر قائم ہے اور وہاں سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے- یہ نظریہ موحد یہود اور موحد زرتشتیوں کا ہے- اور بدقسمتی سے اہلحدیث کا بھی ہے- اسلام نے اسے بھی رد کیا ہے` فرمایا ہے- ھوالاول والاخر والظاہر والباطن وھو بکل شی علیم ۳۵۱~}~یعنی اللہ ہی اول ہے اور اللہ ہی آخر ہے- وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے- عرش پر الگ تھلگ بیٹھنے والا تو اول` آخر اور ظاہر` باطن نہیں ہو سکتا اور نہ ہر چیز کو جاننے والا ہو سکتا ہے-
پھر فرمایا- ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ۳۵۲~}~ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں- اب جب تک وہ سارے جسم پر تصرف نہ کرے رگ جان کے کس طرح قریب ہو سکتا ہے-
غرض اسلامی تعلیم یہ ہے کہ نہ تو ہر شے خدا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کسی خاص مقام پر محصور ہے- چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ ہر انسان اسے سمجھ نہ سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ ہر جگہ بھی ہے اور پھر الگ بھی ہے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اور اعتراضوں کے جواب کے سلسلہ میں یہ دیا کہ لیس کمثلہ شی وھو السمیع البصیر فرمایا یہ اعتراض جہالت کا نتیجہ ہے- مخلوقات کے متعلق تو خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی نہیں ہو سکتی لیکن خدا کی تو کوئی مثل ہی نہیں ہے- پھر اس کی ذات کو اپنی ذاتوں پر قیاس کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے- پس اسے اپنے اوپر قیاس نہ کرو- جو طاقت سے بالا ہو اس کے سمجھنے کی کوشش کرنا فضول ہے- تم خدا کو سمیع کہتے ہو تو کیا یہ بھی کہتے ہو کہ اس کے تمہاری طرح کان ہیں- جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا بغیر کانوں کے سنتا ہے اور بغیر آنکھوں کے دیکھتا ہے اور کہتے ہو خدا کے دیکھنے اور سننے کے متعلق ہمارا قانون نہیں چلتا تو پھر جگہ کے متعلق اپنا قانون کیوں چلاتے ہو- پس جو ہستی تم سے بالا ہے اس کے سمجھنے کی کوشش فضول ہے- فرماتا ہے- لا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا ۳۵۳~}~یعنی اے مخاطب جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی اتباع ہر گز نہ کیا کر- کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے متعلق تجھ سے پوچھا جائے گا- لوگ کہتے ہیں کہ صرف آنکھ اور کان کا تجسس ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دل بھی تجسس کرے گا تو پکڑا جائے گا- درحقیقت یہ ضرور نہیں کہ کسی چیز کے سمجھنے کے لئے اس کی کنہ بھی سمجھی جائے- انسان سمجھ اسی قدر سکتا ہے جس قدر سمجھنے کی اس میں طاقت ہو- انسان کا علم دو قسم کا ہوتا ہے- بعض چیزوں کے خالی وجود کا اسے علم ہوتا ہے- مگر معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح ہیں اور بعض چیزوں کے متعلق پتہ ہوتا ہے کہ کس طرح ہیں اور ان کی کیا حقیقت ہے- پھر بعض کے متعلق اس کے منبع تک کا علم ہوتا ہے- غرض جس جس قدر اس کا ادراک چل سکتا ہے اسی قدر وہ بھی چل سکتا ہے- مگر فرمایا ولا یحیطون بشی من علمہ الا بماشاء۳۵۴~}~ اللہ تعالیٰ کے متعلق جس قدر سمجھنے کی خدا تعالیٰ نے تمہیں طاقت دی ہے اتنا ہی تم سمجھ سکتے ہو- اس سے آگے بڑھو گے تو ٹھرکریں کھائو گے-
چوتھی اصلاح- خدا تعالیٰ اور بندے کا تعلق
چوتھی اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا اور بندہ کے متعلق کی ہے- اس بارہ میں ایک وسوسہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندہ کی ہدایت کیلئے کوئی کلام نہیں اتارا- خود ہی انسان تجربہ سے اپنے لئے ایک راہ تجویز کر لیتا ہے- فلاسفر وغیرہ کہ خدا کے قائل ہیں لیکن الہام و شریعت کے نہیں ان کا یہی نظریہ ہے- قرآن کریم اسے رد کرتا ہے- اور فرماتا ہے- قل ان ھدی اللہ ھو الھدی- یاد رکھو روحانی معاملات میں آپ ہی رستہ نہیں بنایا جاسکتا- صرف اللہ ہی یہ رستہ دکھا سکتا ہے- آگے اسکی وجہ بیان کرتا ہے- فرماتا ہے- قولہ الحق ولہ الملک یوم ینفخ فی الصور علم الغیب والشھادہ وھو الحکیم الخبیر۳۵۵~}~ اس کی بات ہو کر رہنے والی ہے- اور جس دن صور پھونکا جائے گا حکومت صرف اسی کو حاصل ہوگی- وہ پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی جانتا ہے وہ حکمت والا اور خبردار ہے-
اس آیت میں مندرجہ ذیل دلائل دیئے گئے ہیں-:
اول یہ کہ خدا کا کلام غلطی سے پاک ہوتا ہے اور ہدایت کے لئے غلطی سے پاک ہونا ضروری ہے- دنیوی امور کے متعلق تو ہو سکتا ہے کہ ایک غلط بات بھی مان لی جائے اور اس کا کچھ نقصان نہ ہو- مثلاً باپ دادا پانی کو مفرد مانتے آئے تو اس سے کوئی نقصان نہ ہوا- لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق غلطی کی جائے اور خدا کو ایک نہ مانیں تو اس کا نتیجہ جہنم ہوگا- اس لئے ضروری ہے کہ روحانی ہدایت خدا ہی دے- تا کہ وہ غلطی سے پاک ہو نہ کہ تجربہ سے حاصل کی جائے-
دوم- جس مقصد کے لئے کلام الہی کی ضرورت ہے یعنی مابعد الموت ترقیات روحانی ان کے اسرار خدا تعالیٰ کو ہی معلوم ہیں- پس اس منزل کے لئے جس کا علم انسان کو نہیں وہ کیونکر اپنے لئے قوانین بنا سکتا ہے؟ چونکہ اس دنیا میں جو تم عمل کرتے ہو اس کی غرض ابدی زندگی میں ایسی طاقت کا حاصل ہونا ہے جس سے کہ وہاں کام کر سکو- اور تمہیں پتہ ہی نہیں کہ اگلے جہان کی کیا حالت ہے تو اس کے لئے سامان کس طرح مہیا کر سکتے ہو- اس ملک پر صرف خدا کا تصرف ہے اس لئے خدا ہی اس کے متعلق سامان کی تیاری کرا سکتا ہے-
سوم- یہ کہ وہ عالم الغیب والشھادہ ہے وہ ظاہری اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے- اگلے جہان کو جانے دو- اسی جہان کو دیکھ لو- تمہاری فطرت میں بڑی بڑی طاقتیں ہیں مگر انسان خود ان کو نہیں جانتا- یہ سب باتیں خدا ہی جانتا ہے- اس لئے ترقی کے سامان بھی وہی کر سکتا ہے- اس کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا-
چہارم یہ کہ وہ علیم و خبیر ہے- جہاں اسے انسانی طاقتوں کا علم ہے وہاں وہ انسانی کمزوریوں کا بھی علم رکھتا ہے- اس لئے فرماتا ہے چونکہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کیا کیا طریق تمہیں بتانے چاہئیں- اس لئے ہم ہی سامان پیدا کرتے ہیں کیونکہ حکیم اور خبیر ہستی ہی قواعد تجویز کر سکتی ہے- اسی بناء پر حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ روحانی راہنما کے لئے طبیب ہونا بھی ضروری ہے- ورنہ ممکن ہے وہ دوسروں کو ایسی باتیں بتا دے جو انسانی صحت کیلئے سخت مضر ہوں-
دوسرا وسوسہ خدا تعالیٰ کے کلام کے متعلق یہ تھا کہ کہتے تھے کہ خدا کلام تو اتارتا ہے مگر الفاظ میں نہیں بلکہ دل میں خیال پیدا کر دیتا ہے- آج کل یہ غلطی برہمو سماج کو لگی ہوئی ہے- بلکہ مسیحیوں` یہودیوں اور ہندوئوں کو بھی لگی ہوئی ہے- وہ کہتے ہیں- کیا خدا تعالیٰ کا منہ اور زبان ہے کہ وہ الفاظ بولتا ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا]ksn [tag لیس کمثلہ شی ہے جس طرح وہ بے کان کے سنتا ہے- بے آنکھ کے دیکھتا ہے- اسی طرح بے زبان کے کلام بھی کر سکتا ہے اور یہ معترض خدا تعالیٰ کے دیکھنے اور سننے کے طاقت کو تسلیم کرتے ہیں پھر اعتراض کیسا- یہ الزامی جواب ہے- حقیقی جواب یہ دیا کہ وما قدر اللہ حق قدرہ اذ قالوا ما انزل اللہ علی بشر من شی قل من انزل الکتب الذی جاء بہ موسی نورا وھدی للناس تجعلونہ قراطیس تبدونھا و تخفون کثیرا وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباو کم قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون فرمایا- ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا- جب انہوں نے یہ بات کہی کہ کسی بندہ پر اس نے کلام نازل نہیں کیا- اگر نہیں نازل کیا تو موسیٰؑ پر کس نے کتاب نازل کی تھی؟ جس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہوں کے کچھ چھپائے اور کچھ ظاہر کئے- پھر وہ کون ایسی باتیں سکھاتا ہے جو ان کے باپ دادے بھی نہیں جانتے تھے- کہو- اللہ ہی سکھاتا ہے- پھر ان کو چھوڑ دے تا کہ لغو باتوں میں لگے رہیں-
یہ منکرین کلام کا رد کیا گیا ہے اور حضرت موسیٰؑکی مثال دی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کا خیال تھا کہ اور نبیوں سے تو رئویا وغیرہ کے ذریعہ سے کلام ہوا ہے یا وحی خفی قلبی سے لیکن حضرت موسیٰؑ سے کلام الفاظ میں ہوا- چنانچہ گنتی باب ۱۲ آیت ۱`۲ میں لکھا ہے کہ ہارون اور مریم نے شکوہ کیا کہ موسیٰ نے کوشی عورت سے کیوں شادی کی- وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے- حالانکہ خدا جس طرح اس سے باتیں کرتا ہے ہم سے بھی کرتا ہے- اس پر خدا وند ناراض ہوا اور انہیں موسیٰ سمیت بلوایا- اور کہا-
>میری باتیں سنو- اگر تم میں سے کوئی نبی ہوتا تو میں جو خداوند ہوں اپنے تئیں رئویا میں اسے معلوم کرواتا- اور اس سے خواب میں باتیں کرتا- پر میرا بندہ موسیٰ ایسا نہیں ہے کہ وہ میرے سارے گھر میں امانت دار ہے- میں اس سے آمنے سامنے صریح باتیں کرتا ہوں اور نہ کہ پوشیدہ باتیں<- ۳۵۶~}~
بنی اسرائیل کے نزدیک اس قسم کا کلام حضرت موسیٰؑ سے پہلے نبیوں کی نسبت سے ہی نہیں ہوا بلکہ بعد میں بھی جو نبی آئے ان سے بھی یہی فرق کیا جاتا- چنانچہ استثنا باب۳۴ میں حضرت موسیٰ کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے-
>اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰؑ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا- جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا<- ۳۵۷~}~
قرآن کریم نے بھی حضرت موسیٰؑ کا کچھ امتیاز تسلیم کیا ہے- کیونکہ قرآن کریم میں نبیوں کے ذکر میں آتا ہے- وکلم اللہ موسی تکلیما اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ سے خوب اچھی طرح کلام کیا- تکلیما آمنے سامنے کلام کرنے کو کہتے ہیں- بائیبل میں بھی عام طور پر نبیوں کی رئویا بیان ہوئی ہیں- اس سے آہستہ آہستہ یہود میں بھی جیسا کہ مسلمانوں میں سے بعض میں ہوا یہ خیال پیدا ہو گیا کہ الہام قلبی ہوتا ہے نہ کہ لفظی- مسیحی آج تک اس خیال کی بنا پر قرآن کریم پر اعتراض کرتے ہیں- لیکن ان کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ موسیٰؑ پر لفظی الہام نازل ہوا- پس اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ باقی نبیوں کو چھوڑو- موسیٰ کی نسبت الفاظ میں وحی کا دعویٰ موجود ہے یا نہیں اور جو حضرت موسیٰؑ کو ماننے والے نہیں ہیں جیسے ہندو اور برہمو سماج والے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباو کم- تم قلبی و حیاں کہتے ہو یہ تو شروع سے چلی ہی آتی ہیں مگر کیا کوئی ایسی وحی ہے جو اس علم کو بیان کرے جو قرآن کریم میں ہے- پس اگر باوجود اپنے قلبی القائوں کے تم قرآنی علوم سے بے بہرہ رہے اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو ہم نے وہ وہ باتیں سکھا دیں جو تمہارے باپ دادوں کو بھی معلوم نہ تھیں تو تم کس طرح حقیقی الہام کی افضلیت اور ضرورت کا انکار کر سکتے ہو-
پانچویں اصولی اصلاح خدا تعالیٰ کی خالقیت کے متعلق
پانچویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت کے متعلق کی- بعض لوگ خدا تعالیٰ کو تو مانتے ہیں- لیکن اسے خالق تسلیم نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ روح اور مادہ آپ ہی آپ پیدا ہو گئے- بعض فلاسفروں اور ہندوئوں کا بھی یہی خیال ہے- جیسا کہ آریہ کہتے ہیں- قرآن کریم نے اسے رد کیا ہے اور اس کی تردید میں دلیلیں دی ہیں- فرمایا ومن کل شی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون یہ خیال کہ روح اور مادہ اپنے طور پر ہی چلے آتے ہیں بالکل غلط ہے- ہم نے کسی چیز کو مفرد پیدا نہیں کیا بلکہ ہر چیر کو جوڑا جوڑا بنایا ہے- چنانچہ تم دنیا کی ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ لو تمہیں کوئی چیز مفرد نظر نہیں آئے گی- سب مرکبات ہیں جو دکھائی دیتے ہیں- ہر چیز جہات رکھتی ہے- رنگ رکھتی ہے- قوام رکھتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے مفرادت کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ مرکبات کو پیدا کیا ہے تو یہ کہنا کہ مادہ ازل سے ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے- سائنس نے بھی اسی کی تائید کی ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام چیزوں کو جوڑے کی صورت میں بنایا ہے-
)۲( پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولا تدع مع اللہ الھا اخر لا الہ الہ الا ھو کل شی ھالک الا وجھہ لہ الحکم والیہ ترجعون text] g[taیعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں- وہ ایک ہی خدا ہے- اور ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے- سوائے اس کے جس پر خدا کی توجہ ہو گئی- تم سب اس کی طرف لوٹائے جائو گے-
یہاں بتایا کہ ہر چیز تباہ ہو رہی ہے- کوئی ایسی چیز دکھائو جو مٹتی نہیں- جن چیزوں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ تباہ نہیں ہوتیں- ان کے متعلق اب معلوم ہو گیا ہے کہ وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں- اور جن کو اب سمجھتے ہیں کہ تباہ نہیں ہو رہیں ان کے متعلق آئندہ سمجھ لیں گے کہ وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں- پس ہلاکت بھی ثابت کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی ذات میں قائم نہیں- پھر فرمایا- خدا ہر چیز کا حاکم ہے- مگر سوال یہ ہے کہ جب اس نے روح اور مادہ کو پیدا ہی نہیں کیا- تو ان کے ذریعہ جو چیزیں بنتی ہیں یا بنی ہوئی ہیں ان کا وہ حاکم کس طرح ہو سکتا ہے- کیا تم یہ مانتے ہو یا نہیں کہ خدا روح اور مادہ پر حکومت کرتا ہے- اگر یہ مانتے ہو تو کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایسی ہستی جو ظالم نہیں ہے بلاوجہ ان پر حکومت کر رہی ہے حالانکہ ان کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے- غرض ہر چیز کا جوڑے کی صورت میں ہونا ان کے نقص پر اور ہلاکت ان کے مخلوق ہونے پر دلالت کرتی ہے- اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت اور اس کی طرف رجوع اس کے خالق ہونے کا ثبوت ہے-
چھٹی اصولی اصلاح اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے متعلق
چھٹی اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے متعلق کی ہے- اس کے بارے میں دو نقص پیدا ہو گئے تھے- جن میں سے ایک تناسخ کا عقیدہ ہے جو بڑی شدت سے اختیار کر لیا گیا- اور کہا جانے لگا کہ دنیا میں بعض انسان ادنیٰ اور ذلیل حالت میں ہیں اور بعض اچھی حالت میں ہیں- یہ فرق ان کے پچھلے اعمال کا نتیجہ ہے- اسی طرح بعض سکھ میں ہیں اور بعض دکھ میں- یہ بھی گذشتہ اعمال کا نتیجہ ہے- قرآن کریم کہتا ہے یہ بات غلط ہے- چنانچہ فرمایا- حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انھا کلمہ ھو قائلھا ومن ورائھم برزخ الی یوم یبعثون ۳۵۸~}~جب کافر مرنے لگتے ہیں تو وہ کہتے ہیں- خدایا ہمیں پھر دنیا میں واپس لوٹا دے تا کہ ہم جو کچھ چھوڑ آئے ہیں وہ جا کر تیرے راستہ میں لٹا دیں- اور نیک اعمال کریں- فرمایا یہ کبھی نہیں ہو سکتا- یہ صرف ایک کلمہ ہے جو ان کی زبان سے نکل رہا ہے- کیونکہ مجرم جب سوچتا ہے کہ میں جہنم میں گیا تو کیا ہوگا تو وہ گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے واپس لوٹا دو- اسی خیال کے ماتحت تناسخ کا عقیدہ بنایا گیا- کہتے ہیں خواہش ایجاد کی ماں ہے- تناسخ کا عقیدہ اس گھبراہٹ سے پیدا ہوا کہ اگر بدعمل مرے تو پھر کیا کریں گے- درحقیقت یہ جاہل مجرم دماغ کی اختراع ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو اپنے ماحول میں مجرم روح کہے گی- اور یہ اس کی ایک طبعی خواہش ہے مگر یہ پوری نہیں کی جا سکتی- کیوں نہیں کی جا سکتی- اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے کہ قل لمن ما فی السموت والارض قل للہ کتب علی نفسہ الرحمہ لیجمعنکم الی یوم القیمہ لا ریب فیہ الذین خسروا انفسھم فھم لایومنون ۳۵۹~}~یعنی تو ان سے پوچھ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے اور کون اس کا مالک ہے- اس کا جواب وہ کیا دیں گے- تو خود ہی ان سے کہہ دے کہ اللہ ہی اس کا مالک ہے- اس نے اپنے نفس پر رحمت فرض کر لی ہے- اور اس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تناسخ کے چکر میں روحوں کو نہیں ڈالے گا- بلکہ وہ تم کو قیامت کے دن تک جمع کرتا چلا جائے گا- اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہے- وہ اپنی بداعمالی کی وجہ سے اس قیامت کے مسئلہ پر یقین نہیں لاتے- لیجمعنکم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تناسخ کا رد کیا گیا ہے کیونکہ فرمایا نہیں ہم قیامت تک رکھیں گے اور لوٹائیں گے نہیں-
اس میں ایک دلیل یہ دی ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور مالک کا اختیار ہے کہ جس چیز کو جس مقام پر چاہے رکھے- کیا مالک کو کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس چمڑے کی جوتی کیوں بنائی- پیٹی کیوں نہیں بنائی- یا یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک ہی قسم کے لٹھے کے ایک ٹکڑے کا پاجامہ اور دوسرے کا کرتا کیوں بنایا- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- تم جو کہتے ہو یہ ظلم ہو گیا کہ ایک کو امیر اور دوسرے کو غریب بنایا- تم بتائو کہ میں ہر چیز کا مالک ہوں یا نہیں- اگر مالک ہوں تو میں نے جو کام کسی کے سپرد کیا- وہی ٹھیکہے-
اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ پھر اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ خدا جسے چاہے بہشت میں بھیج دے اور جسے چاہے دوزخ میں ڈال دے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- مجھے حق حاصل ہے مگر میں نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے کہ میں ایسا نہیں کرونگا- چنانچہ فرمایا کتب علی نفسہ الرحمہ۳۶۰~}~ اس نے اپنی جان پر رحمت فرض کر لی ہے- اور اس وجہ سے باوجود مالک ہونے کے کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا- اور یہی سبب ہے کہ وہ مردوں کو اس دنیا میں واپس نہیں کرتا بلکہ اس نے فیصلہ کا دن یوم قیامت اور فیصلہ کا طریق دوسرا مقرر کیا ہے- اور جب ہم غور کرتے ہیں تو واقعہ میں تناسخ رحم کے خلاف اور محشر رحم کے مطابق نظر آتا ہے-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح تناسخ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے رحم میں فرق آتا ہے- تناسخ کی غرض اصلاح بتائی جاتی ہے- اور کہا جاتا ہے کہ اس چکر میں پڑنے سے روح کی اصلاح ہو جاتی ہے- مگر انسانی اصلاح حقیقت کے علم سے ہوتی ہے- جہالت سے نہیں ہو سکتی- اب غور کرو- تناسخ کے رو سے انسان کو کوئی حیوان یا پرندہ یا درندہ بنا دینے سے اس کے لئے اصلاح میں آسانی پیدا کرنا ہے یا مشکل- انسان کو خدا نے عقل دی- دولت دی- بھلائی برائی کی سمجھ دی بدیوں سے بچنے کی طاقت دی مگر اس نے گناہ کیا- اس پر اسے بے عقل اور بے وقوف حیوان بنا دیا اور اس طرح اس کے لئے نیکی کرنا اور زیادہ ناممکن کر دیا گیا- پس انسان کو انسانیت کی بجائے ادنیٰ حالت میں لے جانا خدا کی رحمت کے بالکل خلاف ہے اور اصلاح سے اسے دور کرنا ہے- اور اگر انسان ہی بنا کر دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تو بھی دو حالتیں ہونگی- وہ پہلی زندگی سے واقف ہوگا یا ناواقف- اگر واقف ہوگا تو اخفا باقی نہ رہا- پھر نجات کوئی معنی نہیں رکھتی- کیونکہ اس پر حقیقت کھل گئی- کہ اس وجہ سے مجھے سزا دی گئی تھی اور اگر ناواقف ہوگا تو پھر اصلاح کس طرح کر سکے گا- ساری عمر اسی چکر میں پڑا رہے گا اور ممکن ہے کہ بجائے نیکی کرنے کے بدی میں اور بڑھ جائے-
پس رحمت کا طریق وہی ہے جو اسلام نے مقرر کیا ہے اور جو یہ ہے کہ جو نیکیاں کر چکا- اگلے جہان میں ان نیکیوں کو بڑھنے کا موقع دیا جائے اور جو گناہ کر چکا اس کے زنگ کو جہنم میں دور کیا جائے تا کہ کم از کم اس کی آئندہ نجات کی صورت تو پیدا ہو جائے جونوں کے چکر میں تو نہ پڑا رہے-
دوسری چیز جس کی وجہ سے مالکیت کی صفت کے متعلق لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے وہ کفارہ ہے- یہ غلطی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صفت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے- نصاریٰ نے کہا کہ اگر الل¶ہ تعالیٰ گناہگار کو بخش دے تو یہ ظلم ہوگا- اور وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ چونکہ کسی کا گناہ بخش نہیں سکتا اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کے گناہ کے بدلے پھانسی پائے- یہ خیال بھی مالکیت کی صفت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- کیونکہ مالک تو جسے چاہے بخش سکتا ہے- وہی نہیں بخش سکتا جو مالک نہ ہو- ہاں ایک اعتراض ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ خدا تعالیٰ بعض گناہ نہ بخشے گا- لیکن مالکیت کے ماتحت اس کا بھی علاج ہو جاتا ہے- فرماتا ہے- فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی وقتلوا و قتلوا لاکفرن عنھم سیاتھم ولاد خلنھم جنت تجری من تحتھا الانھار یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میری راہ میں تکلیف دی گئی- اور وہ لوگ جنہوں نے جنگ کی اور مارے گئے- ان کی بدیوں کے اثر کو ان سے یقیناً مٹا دوں گا اور جو دوسرے کا قرضہ ان کے ذمہ ہوگا وہ اپنی طرف سے ادا کر دوں گا- اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے- کہ ان کی طرف سے ہم آپ کفارہ دے دیں گے- اس کفارہ اور عیسائیوں کے کفارہ میں ایک فرق ہے- اور وہ یہ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ خدا چونکہ معاف نہیں کر سکتا- اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو قربان کر دیا- اسلام کہتا ہے خدا تعالیٰ مالک ہے وہ معاف کر سکتا ہے- لیکن وہ کسی دوسرے کا حق ضائع نہیں کرتا خود اجر دے دیتا ہے-
ساتویں اصولی اصلاح خدا تعالیٰ کی ربوبیت عالمین کے متعلق
ساتویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین کے متعلق کی ہے- ہر قوم نے خدا تعالیٰ کی رب العالمین کی صفت کا انکار کر رکھا تھا- اور ہدایت کو صرف اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا- حتی کہ مسیحیت جو تبلیغی مذہب ہے اس نے گو آئندہ کیلئے دروزاہ کھولا تھا مگر گذشتہ کے متعلق وہ بھی یہودی مذہب سے ہی ہدایت وابستہ قرار دیتی تھی- قرآن کریم نے آئندہ کے لئے تو یہ اعلان کیا کہ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں- اور گذشتہ کے متعلق فرمایا- وان من امہ الا خلا فیھا نذیر ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے ہیں-
‏text] ga[t )۲(دوسرے بعض قوموں کو بعض پر ترجیح دی جاتی تھی- ایک قوم کو معزز قرار دیا جاتا تھا اور دوسری کو ذلیل ٹھہرایا جاتا- چنانچہ ہندوئوں نے برہمن اور شودر کی تقسیم کے ذریعہ اور یہود نے کہانت کو بنی لاوی میں مخصوص کر کے مساوات کو مٹا رکھا تھا- اسی طرح بعض قوموں نے بادشاہت کی وجہ سے اپنے آپ کو فضیلت کے حق دار قرار دیا- اسلام نے اسے بھی رب العالمین کی صفت کے خلاف قرار دیا اور فرمایا- یایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ان اللہ علیکم خبیر کہ اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو کئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض لوگ بڑے اور بعض چھوٹے ہیں- بلکہ یہ قومیں محض جاننے اور پہچاننے کے لئے بنائی گئی ہیں تا کہ تم میں امتیاز قائم رہے- ورنہ تم میں اگر کوئی معزز ہے تو وہی جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہے- اور اللہ یقیناً بہت علم رکھنے والا اور جاننے والا ہے- اسے معلوم ہے کہ کون تقویٰ سے کام لے رہا ہے- اور کون تکبر اور تفاخر کی راہ اختیار کر رہا ہے- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمدنی برتری کی وجہ سے دوسروں کو حقیر قرار دینا ناجائز قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل فضیلت تقویٰ میں ہے- ذات پات اور قومیت کی قیود میں نہیں-
پھر سیاسی برتری کو بھی اس نے رد کیا اور فرمایا- ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلھا شیعا یستضعف طائفہ منھم یذبح ابناء ھم و یستحی نساء ھم انہ کان من المفسدین ۳۶۱~}~یعنی فرعون نے اپنے ملک میں بڑی تعلی سے کام لیا- اور اس کے رہنے والوں کو اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا- وہ بعض کو کہتا کہ یہ حاکم قوم کے لوگ ہیں اور دوسروں کے متعلق کہتا کہ وہ محکوم قوم کے لوگ ہیں- اس نے بہت بڑے تکبر سے کام لیا اور وہ مفسدین میں سے تھا- ہم نے اس قسم کا کوئی قانون نہیں بنایا کہ کوئی قوم ہمیشہ کیلئے حاکم ہو اور کوئی قوم ہمیشہ کیلئے محکوم ہو- جیسے انگریز ہیں ویسے ہی دوسرے لوگ ہیں- انگریزوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ کہیں ہم ہمیشہ کیلئے حاکم ہیں اور دوسرے ہمیشہ کے لئے محکوم ہیں-
آٹھویں اصولی اصلاح اللہ تعالیٰ کی صفت حکیم کے متعلق
آٹھویں اصولی اصلاح قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت حکیم کے متعلق کی- قرآن کریم سے پہلے قریباً ہر مذہب میں یہ احساس ہو رہا تھا کہ گویا اس دنیا کی پیدائش کا کوئی مقصد ہی نہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو مکتی کے قائل تھے- بدھ نروانا کے قائل تھے- یہود حکومتوں اور بادشاہتوں کے ملنے کے- نصاریٰ موت سے نجات اور امن کے- زرتشتی جنت کے- مگر باوجود اس کے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں جسے دنیا کی پیدائش کا مقصد کہا جا سکے- سب محدود مقاصد ہیں جو پیدائش کی حقیقت کو نہیں کھولتے- قرآن کریم نے اس سوال کو بھی حل کر دیا ہے- اور بتایا ہے کہ پیدائش عالم کا مقصد یہ ہے کہ انسان جو عالم صغیر ہے عرفان الہی کو حاصل کرے جسے دوسرے لفظوں میں لقا بھی کہتے ہیں- کیونکہ جب کوئی چیز اپنے اندر ہوتی ہے تبھی انسان اسے پہچان سکتا ہے- مثلاً زید بکر کو پہچانتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بکر کی تصویر زید کے اندر ہے ورنہ وہ اسے پہچان نہیں سکتا- پس عرفان کے معنی ہیں اللہ اپنے بندے کے اندر داخل ہو گیا- ایک ہندو تو کہتا ہے کہ بندہ خدا میں داخل ہو گیا- مگر اس طرح تو انسان کی کوئی حس ہی باقی نہ رہی- پھر اسے مزا کیا آیا- مثلاً ایک گاجر آدمی نے کھالی تو گاجر کو کیا لطف آیا- لیکن اسلام کہتا ہے کہ خدا بندہ کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس کی حس قائم رکھتا ہے- اور اسلام بتاتا ہے کہ یہ مقصد کسی خاص انسان کے لئے نہیں بلکہ ہر فرد بشر کو اس مقام تک پہنچایا جائے گا- چنانچہ فرماتا ہے- وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے- تذلل کے لئے پیدا کیا ہے- تا کہ وہ میرے نقش کو لے لیں- اور میری صفات کو اپنے اندر داخل کر لیں- مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں یہ بات خدا تعالیٰ کی لقا کا مرتبہ حاصل نہیں ہوتا- ان کے لئے فرمایا- قال عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شی فسا کتبھا للذین یتقون ویوتون الزکوہ والذین ھم بایتنا یومنون یعنی میں اپنا عذاب جس کو چاہتا ہوں پہنچاتا ہوں- مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ میں اسے ہمیشہ عذاب میں رکھوں گا- ورحمتی وسعت کل شی میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے اور اس کے لئے بھی میں نے رحمت پیدا کی ہے مگر مومنوں کے لئے تو اسے فرض کر دیا گیا ہے- وہ مومن جو تقویٰ اختیار کرتے اور زکٰوۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں-
غرض بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ خواہ کوئی ہو- یہودی ہو- نصرانی ہو- ہندو ہو یا مسلمان ہو جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرلے اور یہ وہ مقصد ہے کہ جس میں دنیا کی کوئی قوم اسلام کی شریک نہیں- خدا تعالیٰ نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کے جلال کا مظہر بنے- اور اس غرض کیلئے خدا تعالیٰ نے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا- اسی طرح ¶ابوجہل کو پیدا کیا- فرق صرف یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو سیدھا رستہ اختیار کر کے اس مقصد کو پا لیا اور ابوجہل کو مارپیٹ کر اس مقصد کی طرف لایا جائے گا- بہرحال اس مقصد کے حاصل کرنے میں جو آگے ہوگا وہ آگے ہی رہے گا- اور جو پیچھے چلے گا وہ پیچھے ہی رہے گا-
‏a.10.18
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۶(
ترتیب قرآن کا مسئلہ اور استعارات کی حقیقت
استعارات اور تشبیہات سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی-:
ولقد اتینا داود و سلیمن علما وقالا الحمد للہ الذی فضلنا علی کثیر من عبادہ المومنین و ورث سلیمن داود وقال یایھا الناس علمنا منطق الطیر و اوتینا من کل شیء ان ھذا لھو الفضل المبین وحشر لسلیمن جنودہ من الجن والانس و الطیر فھم یوزعون حتی اذا اتوا علی واد النمل قالت نملہ یایھا النمل ادخلوا مسکنکم لایحطمنکم سلیمن وجنودہ وھم لایشعرون فتبسم ضاحکا من قولھا وقال رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی وان اعمل صالحا ترضہ و ادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین وتفقد الطیر فقال مالی لا اری الھدھد ام کان من الغائبین لاعذ بنہ عذابا شدیدا اولا اذبحنہ اولیا تینی بسلطن مبین فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من سبا بنبا یقین انی وجدت امراہ تملکھم و اوتیت من کل شیء ولھا عرض عظیم وجدتھا و قومھا یسجدون للشمس من دون اللہ و زین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لایھتدون الا یسجدوا للہ الذی یخرج الخبء فی السموت والارض ویعلم ماتخفون وما تعلنون اللہ لا الہ الا ھو رب العرش العظیم قال سننظر اصدقت ام کنت من الکذبین اذھب بکتبی ھذا فالقہ الیھم ثم تول عنھم فانظر ماذا یرجعون ۳۶۲~}~
اس کے بعد فرمایا-:
میرا آج کا مضمون پھر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو تین سال پہلے میں بیان کر رہا تھا یعنی فضائل القرآن- درمیان میں تین سال اس میں ناغہ ہو گیا- کیونکہ رمضان کی وجہ سے لمبی تقریر نہیں کی جا سکتی- اس دفعہ بھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں لمبی تقریر نہیں کر سکتا- لیکن چونکہ میں اس مضمون کے بیان کرنے کا ارادہ کر چکا تھا اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مضمون کا کوئی حصہ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے-
قرآن کریم کے سوا اور کسی کتاب کو افضل الکتب ہونیکا دعویٰ نہیں
تمام مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرتے ہیں- اور وہ اپنی مذہبی کتب کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ افضل الکتب ہیں- لیکن ان کی کتب کو یہ دعویٰ نہیں- میں نے آج تک سوائے قرآن کریم کے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس میں یہ لکھا ہو کہ وہ دوسری مذہبی کتب سے افضل ہے- ہاں قرآن کریم بے شک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے- مگر یہ کہ وہ کس طرح افضل ہے- یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دینا مسلمانوں کے ذمے ہے- غیر مذاہب والے یا تو قرآن پڑھتے نہیں یا بوجہ اس کے کہ قرآن تعصب کی نگاہ سے پڑھتے ہیں- صاف دل لے کر اس کا مطالعہ نہیں کرتے یا بوجہ اس کے کہ وہ قلب مطہر نہیں رکھتے اور قرآن فرماتا ہے کہ لا یسمہ الا المطھرون میرے مطالب اور معانی مطہر قلوب پر ہی کھل سکتے ہیں قرآن کریم کے مطالب ان پر نہیں کھلتے- پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تک قرآن کریم کے مطالب پہنچائیں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم نہ صرف ایک اعلیٰ کتاب ہے بلکہ وہ ساری الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتی ہے- اس سلسلہ میں پانچ لیکچر میں پہلے دے چکا ہوں- ایک ۱۹۲۸ء میں تمہیدی طور پر میں نے دیا تھا- مگر اس وقت طبیعت بہت علیل تھی- اس لئے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہی میں نے بعض باتیں بیان کی تھی- پھر ۲۹ء` ۳۰ء` ۳۱ء اور ۳۲ء میں چار تفصیلی لیکچر میں نے فضائل القرآن پر دیئے گو بعض حصے اس وقت بھی چھوڑنے پڑے تھے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے- اس میں آپ نے اپنے اس ارادہ کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کیلئے میں تین سو دلائل دوں گا- میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو میں نے اس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں- اگر کوئی شخص میرے ان نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں اس پر واضح ہو جائیں گی- یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا- میں نہیں جانتا کہ اس مضمون کو مکمل بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں- اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے- یہ تمام مسالہ نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ بعض جگہ محض اشارات میں ۲۸ء اور ۲۹ء میں میں نے جمع کر دیا تھا اور جلسہ سالانہ کے موقعہ پر انہیں بیان بھی کر دیا تھا- مجھے ان دلائل کی تعداد تو یاد نہیں جو بیان کر چکا ہوں- اس لئے میں نمبر کا نام نہیں لے سکتا صرف ضمناً بغیر نمبر دینے کے میں آج فضیلت قرآن کے ایک خاص پہلو کا ذکر کر دیتا ہوں- اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اول تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگا- دوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہو جائے گی- یعنی اس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اظہار فرمایا تھا- گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہو گئی یعنی وحی اور الہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا- وہ تین سو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے- پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی تحریر فرما دیا تھا- کہ اب یہ سلسلہ تالیف کتاب بوجہ الہامات الہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے- اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پر خدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا- کیونکہ اب اس کتاب کا وہ خود متولی ہے اور اس کی مشیئت کسی اور رنگ میں اس کی تکمیل چاہتی ہے- لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے تو دشمنوں کا اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سو دلائل پیش نہیں کئے-
براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی
آج کل تو >زمیندار< اور >احسان< وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے- جب تک ان کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے- مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی- گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہو گیا کہ انہیں جو اچھا نکتہ سوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور ادھر ادھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے- آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنف ہیں- براہین احمدیہ کے مقابلہ میں ان کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دیے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی- پس اول تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے- اور اگر بھیجتے تو عمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے- جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے- مگر >دیوان ذوق< اور >دیوان ظفر< آج کل دونوں پائے جاتے ہیں- انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے- حالانکہ ظفر بادشاہ تھا- غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر بھیجتے- مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی- انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو- کوئی بھی ان میں نسبت ہے- انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کو نہیں سوجھے- اور ان معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں-
الہامی کتب کے سمجھنے میں ایک دقت
میرا آج کا مضمون اس بات پر ہے کہ ہر الہامی کتاب میں بعض ایسے مشکل مضامین ہوتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور آسانی سے حل نہیں ہوتے یا ان کے متعلق آپس میں بحث شروع ہو جاتی ہے- کوئی کہتا ہے اس کا یہ مطلب ہے اور کوئی کہتا ہے اس کا وہ مطلب ہے- ایسی صاف بات نہیں ہوتی- جیسے مثلاً یہ حکم ہے کہ اقیموا الصلوہ نماز قائم کرو- جو شخص عربی جانتا اور اسلام سے واقفیت رکھتا ہے وہ اقیموا الصلوہ سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو- یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کہ اقیموا الصلوہ سے مراد نماز نہیں روزہ ہے یا روزہ نہیں حج ہے- آگے نماز کی کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے- خشوع خضوع میں فرق ہو سکتا ہے- عرفان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو- بلکہ جونہی کسی کے مونہہ سے یہ فقرہ نکلے گا کہ اقیموا الصلوہ یا قرآن کریم میں یہ حکم دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں پڑھو- مگر جو مشکل مسائل ہوتے ہیں ان کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں انہیں وہ مسائل سمجھائیں- خواہ اس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اس وجہ سے کہ اس کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا- یہ مشکل مضامین بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں- ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں- مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا ایک ہے- مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کیلئے ایک عارف کی ضرورت ہوگی- اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کے لئے کوئی عالم درکار ہوگا- ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا- لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں- دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اس زبان میں بیان کئے گئے ہوں جسے تشبیہ اور استعارہ کہتے ہیں-
استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ
استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ باریک نہیں ہوتی مگر عوام الناس اس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے- مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا- جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالار لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں- اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں- تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا- اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اسے واپس لے آئے- جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اس جنگ میں شہید ہوئے تھے انہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہار افسوس کیلئے نہ اس لئے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں- فرمایا- جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں- میرے نزدیک اس فقرہ سے آپﷺ~ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے- کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً اس بات کے اظہار کے لئے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا ہے مگر میں نہیں رویا- فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں- ۳۶۳~}~ انصار نے جب یہ بات سنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہ یہاں رونا دھونا چھوڑو- اور جعفرؓ کے گھر چل کر روئو- چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہو گئیں اور سب نے ایک کہرام مچا دیا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا- یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپﷺ~ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں- اس لئے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں- آپﷺ~ نے فرمایا- میرا یہ مطلب تو نہیں تھا- جائو انہیں منع کرو- چنانچہ ایک شخص گیا اور اس نے انہیں منع کیا- وہ کہنے لگیں- تم ہمیں کون روکنے والے ہو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں- اور تو ہمیں منع کرتا ہے- وہ یہ جواب سن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا- کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں- آپﷺ~ نے فرمایا- ان کے سروں پر مٹی ڈالو- مطلب یہ تھا کہ چھوڑو- اور انہیں کچھ نہ کہو خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی- مگر اس کو خدا دے- اس نے اپنی چادر میں مٹی بھر لی- اور ان عورتوں کے سروں پر ڈالنی شروع کر دی- انہوں نے کہا- پاگل کیا کرتا ہے- وہ کہنے لگا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو- اس لئے میں تو ضرور ڈالوں گا- حضرت عائشہؓ کو اس بات کا علم ہوا- تو انہوں نے اسے ڈانٹا- اور فرمایا- تو بات کو تو سمجھا ہی نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا- کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو- ۳۶۴~}~ وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی- یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کردو- اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارۃ کلام تھا- مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا- تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے- اور بعض دفعہ لفظی معنی ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں- اور اس طرح بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے-
خیط ابیض اور خیط اسود کا غلط مفہوم
میں نے عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے- اب میں پنجاب کی ایک مثال دے دیتا ہوں- قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھاگا سے الگ نظر نہیں آتا- یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پو پھٹ نہ جائے کھاتے پیتے رہو- مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں- اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے- اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتاً کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھے کے بعد بھی اس آیت کی رو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے- ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب جب اپنی طالب علمی کے زمانہ میں لاہور پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر پر رہتے تھے- رمضان کے دن تھے- ایک رات انہوں نے خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اسے کیا جگانا ہے روزے کے لئے نہ جگایا- مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا- ان کی آنکھ ایسے وقت میں کھلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی- ادھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھلا دینی چاہئے- چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے گا- ہیں ہیں کھولنا نہیں روشنی آئے گی میں اندر سے کھانا پکڑا دیتا ہوں-
انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات پائے جاتے ہیں
غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز معنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں- اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے- اور الہامی کتابوں میں تو بالخصوص بہت مشکل پیش آتی ہے- لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس کی کسی آیت کے دوسرے معنی ہم نہیں کرنے دیں گے- اسی طرح نبیوں کی پیشگوئیوں میں استعارات پائے جاتے ہیں- بلکہ ہر انسان روزانہ استعارے استعمال کرتا ہے- مگر نبیوں کے کلام میں جب کوئی استعارہ آ جائے گا لوگ کہیں گے کہ اس کے کوئی اور معنی نہیں کرنے دینگے ورنہ یہ ثابت ہو گا کہ نعوذ باللہ نبی بھی جھوٹ بولتے ہیں- بلکہ خدا اور اس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور ان کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں-
ایک لطیفہ
ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے >سلک مروارید< نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی- ہماری کاٹھ گڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے- انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ المسیح الاول کا زمانہ تھا- دوستوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے- انہوں نے کہا- اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے- انہوں نے پوچھا کہاں جائو گے تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا- مگر آخر اصرار پر کہا کہ اس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں- جن کا ذکر >سلک مروارید< میں ہے- ان کی زیادت کا شوق ہے- )شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں( انہوں نے کہا- نیک بخت وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے- جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے- یہ تو نہیں کہ سہارن پور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے- وہ کہنے لگا- اچھا- تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو- وہ کہنے لگے کہ اس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے- وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے- وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اسے یقین دلایا تو کہنے لگا- اچھا یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو- میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کیلئے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں- فوراً خارج کر دیں- میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا- اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جائوں گا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا- اب اس بیچارے کے لئے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں- یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں-
استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت
غرض مذہبی کتابوں میں یہ مشکل ہوتی ہے کہ جہاں کوئی استعارہ آیا- وہاں ایک طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم آگے چلنے نہیں دیں گے- جب تک تم اس بات کو انہی الفاظ میں تسلیم نہ کرو جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں- دودھ کی نہروں کا ذکر آ جائے تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کر لیں کہ منٹگمری اور لاہور اور شیخوپورہ کی بھینسیں خدا تعالیٰ کے رکھی ہوئی ہونگی انہیں دودھ کی نہروں کا یقین ہی نہیں آتا- کیلے کا ذکر آ جائے تو جب تک بمبئی کاکیلا جنت میں مانیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی- شراب کا ذکر آ جائے تو گو وہ یہ ماننے کیلئے تیار ہو جائیں گے کہ جنت کی شراب زیادہ صاف ہوگی- مگر یہ نہیں مانیں گے کہ شراب سے مراد کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے- اور اگر حورو غلمان کا ذکر آ جائے تو پھر تو ان کے منہ سے رالیں ٹپک پڑتی ہیں-
حضرت خلیفہ المسیح اول کے عہد خلافت میں ایک دفعہ میں مدارس دیکھنے کے لئے لکھنو گیا- اتفاقاً وہاں ندوۃ العلماء کا جلسہ تھا- میں بھی جلسہ دیکھنے کے لئے چلا گیا- ایک مولوی عبدالکریم صاحب پروفیسر تھے- ان کی تقریر اس وقت نماز کی خوبیوں کے متعلق تھی- سامعین اگرچہ کم تھے مگر ان میں سے اکثر مسلمان تھے- اور وہ بھی مولوی طرز کے- ایک مسلمان بیرسٹر بھی شریک تھے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے- مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور کہا کہ لوگو! نماز پڑھنی چاہئے- نماز کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے- اور جنت کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جنت کی جو کیفیت بیان کرنی شروع کی اس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے- اس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا میں بیان کر دیتا ہوں- انہوں نے کہا- وہاں بہترین شکل کی خوبصورت تصویریں ہونگی اور جس تصویر کو دیکھ کر انسان کا دل للچائے گا وہ فوراً خوبصورت عورت بن جائے گی اور پھر مرد و عورت کے تعلقات شروع ہو جائیں گے اور ان تعلقات کا جنت کی طرح اختتام نہیں ہوگا- یہ نقص اسی بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں دو چار لفظ حور کے پڑھ لئے اور نتیجہ نکال لیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہی کچھ وہاں بھی ہوگا- میرے پاس جو بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے- اچھا ہوا یہ لیکچر رات کو رکھا گیا- اگر دن کو رکھا جاتا اور لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو جاتے تو ہماری بڑی ذلت ہوتی- تو الہامی کتابوں میں خصوصاً یہ مشکل پیش آتی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو تشبیہ یا استعارہ استعمال ہوا ہے وہ حقیقت ہے- اس کے دوسرے معنی ہو ہی نہیںسکتے-
علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات
اس طرح الہامی کتابوں کے اعلیٰ علمی مضامین کا سمجھنا بھی عام لوگوں کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں-
اول الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں سے جدا ہوتی ہے- عام کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے مسائل وضو بیان کئے جائیں گے- پھر مسائل عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائل نکاح بیان کئے جائیں گے- اسی طرح کسی باب میں طلاق اور خلع کا اور کسی میں کسی اور چیز کا ذکر ہوگا- اور جس جگہ مسائل بیان ہونگے اکٹھے ہونگے- مگر الہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا اور ان کی ترتیب بالکل اور قسم کی ہوتی ہے- جو دنیوی کتب کی ترتیب سے نرالی ہوتی ہے یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے ہی نہیں-
الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں-
)الف( اس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرانی مدنظر ہوتی ہے- اگر الہامی کتاب کی ترتیب اسی طرح ہو جس طرح مثلاً قدوری کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں- نکاح کے مسائل وہ- تو عام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق انہی حصوں کو الگ کر کے ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے- مگر اب اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کر رکھ دیا ہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اسے حاصل ہی نہیں ہوسکتا-
)ب(لوگوں کو غور و فکر کی عادت ڈالنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے- اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تو لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل نہ ہوتا کہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں- وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غور و فکر سے محروم رہتے- مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا اور ایک دوسرے میں داخل کر دیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کیلئے غور و فکر کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے-
)ج(یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے تا خشیت الہی پیدا ہو- کیونکہ خشیت الہی پیدا کرنے کیلئے یہ ترتیب ضروری ہے- مثلاً اگر یوں مسائل بیان ہوتے کہ وضوء یوں کرو کلی اس طرح کرو- عبادت اس طرح کرو- اتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الہی پیدا نہ ہوتی- جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایہ وغیرہ میں بھی مذکور ہیں- مگر قدوری اور ہدایہ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی- لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں یتا ہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے- اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جزو بنا کر بیان کرتا ہے الگ نہیں- اور دراصل نماز` روزہ` حج اور زکٰوۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقویٰ ہی ہے- پس قرآن تقویٰ کو مقدم رکھتا ہے تا جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضو کرو تو وہ وضو کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو- اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو- اگر قرآن میں نماز کا الگ باب ہوتا تو اسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی- پس الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کو چھوڑ کر ایک نئی ترتیب پیدا کرتی ہے جو جذباتی ہوتی ہے- یعنی قلب میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب ان کا ذکر کرتی ہے- یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکر کرے- بلکہ وہ وضو سے روحانیت طہارت اور خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی- کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں- پھر جب نماز کا مسئلہ آئے گا تو یہ نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرنا شروع کر دے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرے گا تا کہ جو جذبات بھی انسان کے اندر پیدا ہوں ان سے وہ ایسا اثر لے جو اسے خدا تعالیٰ کے قریب کردے-
قلبی واردات کی دو مثالیں
پس ترتیب قرآن ظاہر پر مبنی نہیں- بلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے اور یہ لہریں مختلف ہوتی ہیں- میں اس کے متعلق دو مثالیں دے دیتا ہوں- ایک اچھی اور ایک بری- کہتے ہیں کسی مسجد کا ملا ایک دن جماعت کرانے لگا- تو اس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں- اس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیہ تو میرے پاس بڑا مال اکٹھا ہو جائے- پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اس سے تجارتی سامان خریدوں گا اور خوب تجارت کروں گا- کبھی دلی میں اپنی اشیاء لے جائوں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جائوں گا- غرض اسی طرح وہ خیالات دوڑاتا چلا گیا- پھر ہندوستان اور بخارا کے درمیان اس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی- اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے- ایک بزرگ بھی ان مقتدیوں میں شامل تھے- ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور انہیں امام کے تمام خیالات بتا دیئے گئے- اس پر وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے- جب اس ملا نے نماز ختم کی- تو وہ ان پر ناراض ہوا اور کہنے لگا- تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں- وہ کہنے لگے- مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے- میں آپ کے ساتھ چلا اور دلی تک گیا- پھر دلی سے بخارا گیا- اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا- اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا-
اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اس کے دل میں پیدا ہوئے- مگر ان خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جو اس کے جذبات قلب پر مبنی تھی- یہی حال نیک خیالات کا ہے- اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں- بسا اوقات ایسا ہوتا ہوگا کہ مثلاً تم سجدہ میں گئے ہو اور تم سبحان ربی الاعلی کہتے ہو تو اس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے- اس وقت گو تمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سبحان ربی الاعلی نکل رہا ہوتا ہے مگر تمہارا دل پہلے سبحان ربی الاعلی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا- یا الحمدللہ کہتے ہو اور اس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگر آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محو ہو جاتے ہو- اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو گو تم اس کی اقتداء میں کبھی سجدہ کرو گے کبھی رکوع میں جائو گے اور منہ سے سبحان ربی العظیم وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی تو قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں- اس وقت انسان گو الفاظ منہ سے نکال رہا ہوتا ہے مگر اس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں- پس وہ واردات جو انسان مومن پر آتی ہیں قرآن کریم کی تربیت ان پر مبنی ہے- وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا- کیونکہ و جانتا ہے کہ میری یہ آیت پڑھنے کے بعد کیا کیا خیالات انسان کے اندر پیدا ہونگے- پس وہ خیالات جو اس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیدا ہو سکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا- غرض بالعموم مذہبی کتابوں کی ترتیب خصوصاً قرآن مجید کی ترتیب ظاہری تعلق پر نہیں بلکہ ان جذبات پر ہے جو قرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں- اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ فلاں آیت یا فلاں حکم کے نتیجہ میں کس کس قسم کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہری ترتیب کے اس نے قرآن کریم کی ترتیب ان جذبات پر رکھی جو قلب مومن میں پیدا ہوتے ہیں- مگر اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ جو لوگ غور سے اور محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے انہیں یہ کتاب پھیکی معلوم ہوتی ہے- وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا کہ ابھی موسیٰؑ کا ذکر تھا- پھر نوحؑ کا ذکر شروع کر دیا- پھر شعیبؑ کے حالات بیان ہونے لگ گئے- ابھی سود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آگیا- ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ ان کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے- مگر وہی مضمون جب کسی عالم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سنتا ہے اور سر دھنتا ہے-
قرآنی علوم سے فائدہ اٹھانے کا اصول 0] f[rt
اگر کہو کہ پھر اس کا علاج کیا ہے- تو گو میرے مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں مگر چونکہ میں نے بتایا ہے کہ انسان بسا اوقات جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے- اس لئے میں بھی جذبات کے ماتحت دو تین علاج بتا دیتا ہوں-
پہلا علاج یہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے- یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا-
دوم اس وقت پڑھے جب اس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو- جن لوگوں کا جذبہ محبت ہر وقت کامل رہتا ہو ان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کے لئے مقرر کر لیں- مگر جن کا جذبہ محبت ایسا کامل نہ ہو وہ اس وقت تلاوت کیا کریں جب ان کے دل میں محبت کے جذبات ابھر رہے ہوں- چاہے دوپہر کو ابھریں یا کسی اور وقت-
سوم قرآن کریم کو اس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے- جو شخص قرآن کریم کو اس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اس کا مطلب بتائیں گے یا جو کچھ پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اس کے معارف ہیں اس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے- مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں خزانے موجود ہیں وہ اس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے-
کوئی سال ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک سوال پوچھنا ہے- مجھے اس وقت جلدی تھی- میں نے کہا کوئی مختصر سوال ہے یا تفصیل طلب وہ کہنے لگا کہ میں مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت چاہتا ہوں- میں نے کہا مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت سارے قرآن سے ملتا ہے- کہنے لگا کوئی آیت بتائیں- میں نے کہا ممکن ہے میں جو آیت بتائوں آپ کہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں وہ مطلب ہے- اس لئے آپ ہی قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیں- میں اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دونگا- اس نے جلدی سے یہ آیت پڑھ دی کہ ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر و ما ھم بمومنین- ۳۶۵~}~میں نے مختصراً اس آیت کا مضمون بیان کرکے اسے بتایا کہ اس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہالصلٰوۃ والسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے- چنانچہ میں نے کہا- آپ بتائیں آج کل مسجدوں میں لوگ کتنے جاتے ہیں کہنے لگا- بہت کم- میں نے کہا- پھر جو نماز پڑھنے جاتے ہیں ان میں سے نماز کی حقیقت سے کتنے آگاہ ہوتے ہیں- کہنے لگا- بہت ہی کم- پھر میں نے کہا ان میں سے جو باقاعدہ پانچوقت نمازیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے- کہنے لگا- ان کی تعداد تو اور بھی تھوڑی ہوتی ہے- میں نے کہا- خدا اس آیت میں یہ کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے- اب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتری آج بھی اپنے مضمون کی صداقت ظاہر کر رہی ہے- پھر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بدیاں آج پیدا ہو گئی ہیں تو کیا ان بدیوں کو دور کرنے کیلئے مصلح نہیں آنا چاہئے تھا- آخر یہ آیت اسی لئے قرآن میں آئی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ بتائے کہ ایسے گندے لوگ چونکہ دنیا میں موجود ہیں اس لئے ہم نے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا- پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کیلئے قرآن کی ضرورت تھی- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی تو جب کہ موجودہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور آپ خود تسلیم کرتے ہیں- کہ اس آیت کا مضمون لوگوں کے عمل سے نظر آتا ہے- تو جس اصلاح کا سامان خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تھا- وہ بھی ہونا چاہئے- اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا- تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں ایسے وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان غور کرے تو وہ خزانہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا- ہاں جو لوگ اسے بند کتاب سمجھ لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں سے نئے معارف نہیں نکل سکتے ان پر واقعہ میں کوئی بات نہیں کھلتی- جس طرح اگر تم کسی جنگل میں سے گذر رہے ہو تو تمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے- مگر تم کسی کو غور سے نہیں دیکھو گے- لیکن اگر محمکہ جنگلات کا افسر معائنہ کرنے کے لئے آ جائے تو وہ بیسیوں نئی باتیں معلوم کر لیتا ہے- اسی طرح جو شخص اس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ غیر محدود خزانہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور جو اس نیت سے نہیں پڑھتا وہ محروم رہتا ہے-
ہر زبان میں تشبیہ اور استعارہ کا استعمال
الہامی کتابوں کے مطالب کے متعلق دوسری شکل جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تشبیہ اور استعارہ کی ہے- دنیا کی ہر زبان میں تشبیہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے- ہر اعلیٰ عملی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں- ہر ملک میں استعداروں کا استعمال کیا جاتا ہے- ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ آنکھ بیٹھ گئی- مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں- یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور کرسی پر- کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہو گئی- اور پھوٹ گئی- اس طرح اور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبان اردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں-
غرض تشبیہ اور استعارہ ایسی ضروری چیز ہے کہ اس کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا- اور چونکہ اس کے استعمال سے مضامین خوبصورت اور مزین ہو جاتے ہیں- اس لئے الہامی کتابیں بھی اسے استعمال کرتی ہیں- اور اس طرح وہ اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ تشبیہ اور استعارہ بڑی ضروری چیز ہے-
الہامی کتب کے بارہ میں لوگوں کی مشکلات
لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے الہامی کتابوں کو چونکہ بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کے لفظ لفظ پر بیٹھ جاتے ہیں- اور تشبیہ اور استعارہ کی وجہ سے غلطی خوردہ لوگ دو انتہائوں کو پہنچ جاتے ہیں- کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو تشبیہ اور استعارہ کو بالکل نظر انداز کر کے اس حقیقت پر محمول قرار دے دیتے ہیں- اگر قرآن میں خدا کے ہاتھ کا ذکر آئے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بس اس طرح چمڑے کا ہے جس طرح ہمارا ہاتھ ہے- اس کی بھی انگلیاں ہیں- اور انگوٹھا ہے- اور اگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا کی طاقت ہے تو وہ کہیں -گے- تم تاویلیں کرتے ہو جب خدا نے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس کی کوئی اور تاویل کرو- اسی طرح خدا کی آنکھ کا ذکر آئے تو وہ کہیں گے اس کے بھی ڈیلے ہیں- اور اگر اس کے کوئی اور معنی کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو تاویلیں ہوئیں- ایسے معنی کرنا خدا کی ہتک ہے- اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کے متعلق استوی علی العرش ۳۶۶~}~کے الفاظ آ جائیں تو وہ کہیں گے کہ جب تک خدا تعالیٰ کو ایک سنگ مر مر کے تخت پر بیٹھا ہوا تسلیم نہ کیا جائے قرآن سچا نہیں ہو سکتا- یا اگر حدیثوں میں بعض ایسے ہی الفاظ آ جائیں کہ خدا اپنا پائوں دوزخ میں ڈالے گا یا قرآن میں انہیں یہ دکھائی دے کہ یوم یکشف عن ساق ۳۶۷~}~تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا نے بھی پاجامہ پہنا ہوا ہوگا اور وہ اپنی پنڈلی سے نعوذ باللہ اپنا پاجامہ اٹھائے گا اس وقت تک ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی- پس وہ تشبیہ اور اور استعارہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے- اور خدا تعالیٰ کے تجسم کے قائم ہو گئے- اور کسی نے ان الفاظ کی حکمت پر غور نہ کیا-
وارفتگی کا استثنا
بے شک بعض دفعہ جذبات کی رو میں بھی انسان ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتا ہے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی مجسم ہے مگر وہ ایک عارضی حالت ہوتی ہے- جو وارفتگی کے وقت انسان پر وارد ہوتی ہے جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گذر رہے تھے کہ انہوں نے گڈریے کو دیکھا جو مزے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ خدایا اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلائوں- تیری جوئیں نکالوں- تجھے مل مل کر نہائوں- تیرے پائوں میں کانٹے چبھ جائیں تو میں نکالوں- حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو انہوں نے اسے سونٹا مارا اور کہا- نالائق تو خدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے- اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ! اس بندے کو تو میری کسی کتاب یا الہام کا پتہ نہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ میری کیا شان ہے- یہ تو جذبہ محبت میں سرشار ہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا تیرا کیا بگڑتا تھا- اگر یہ اسی طرح مجھ سے باتیں کرتا رہتا- تو دنیا میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا عام انسانوں پر قیاس کر لیتے ہیں- اور جب انہیں محبت کا جوش اٹھتا ہے تو وہ کہتے ہیں اگر خدا مل جائے تو ہم اس کی خدمت کریں- حالانکہ خدا تعالیٰ خدمت سے بالا ہستی ہے لیکن بہرحال یہ ایک وارفتگی کی کیفیت ہے- اور اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ کہنے والا خدا تعالیٰ کے تجسم کا قائل ہے- لیکن بعض پڑھے لکھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ اور اس کی آنکھ سے ظاہری آنکھ مراد لے لیتے ہیں-
فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز
اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر محبت کا جوش نہیں ہوتا بلکہ فلسفہ ان کے اندر جوش مار رہا ہوتا ہے- وہ جب سنتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے خدا کی آنکھیں ہیں اور دوسرا کہتا ہے اس سے آنکھیں مراد نہیں بلکہ فلاں چیز مراد ہے یا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ مراد نہیں بلکہ طاقت و قوت مراد ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سارا قرآن ہی استعارہ ہے- ایسے لوگوں کو جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز پڑھی جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا سے محبت پیدا کی جائے- اسی طرح جب قرآن کہتا ہے- روزے رکھو تو وہ کہتے ہیں- اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھوکے رہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ حرام خوری نہ کرو- اس طرح جب حج کا ذکر آتا ہے- تو وہ کہتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ خواہ مخواہ مکے جائو بلکہ اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی قومی ضروریات اجتماع چاہتی ہوں وہاں انسان چلا جائے-خواہ علی گڑھ چلا جائے یا کسی اور جگہ- حتیٰ کہ بعض نے تو اس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے- اگر کسی جگہ موسیٰؑ کا نام آیا ہے تو اس کے کچھ اور ہی معنی لئے ہیں- اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اس کے بھی کچھ اور معنی لئے گئے ہیں- ایسا آدمی بالکل سوفسطائی بن جاتا ہے- اور اس کی مثال اس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے- بادشاہ نے اسے نیچے صحن میں کھڑا کر مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے- جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا- اور دوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا- بادشاہ کہنے لگا- کہاں جاتے ہو- ہاتھی واتھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے- وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا- کہنے لگا- بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے- تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کئے نہیں چھوڑتے- ایسے لوگوں کے نزدیک خدا ایک طاقت کا نام ہے- فرشتے اخلاق کا نام ہیں- جنت اور دوزخ قومی ترقی اور تنزل کے نام ہیں اور ان کے نزدیک یہ سب عبادتیں نعوذ باللہ لوگوں کو بہلانے کے لئے رکھی گئی ہیں-
عیسائیوں کی مذہبی کیفیت
بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں- یعنی بعض باتوں کے متعلق تو وہ یہ کہتی ہیں کہ یہ استعارے ہیں- اور بعض باتوں کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ استعارے نہیں- اور بعض ایسی قومیں ہیں جن کا اگر استعارہ میں فائدہ ہو تو استعارہ مراد لے لیتی ہیں اور حقیقت میں فائدہ ہو تو حقیقت مراد لے لیتی ہیں- عیسائی اسی قسم کے شتر مرغ ہیں- انہوں جن چیز میں فائدہ نظر آتاہے وہ اختیار کر لیتے ہیں- حضرت مسیح نے اپنے متعلق کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں- یہ ایک استعارہ تھا- مگر عیسائیوں نے اسے حقیقت قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ سچ مچ خدا کے بیٹے تھے- مگر جب مسیح نے روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا تو کہہ دیا کہ یہ استعارہ ہے- گویا جس میں اپنا فائدہ دیکھا وہی روش خود اختیار کر لی- جیسے کہتے ہیں- کوئی پوربن تھی جس کا خاوند مر گیا- پوربن نے رونا پیٹنا شروع کر دیا- اور اپنی بے کسی ظاہر کرنے کے لئے کہنے لگی- میرے خاوند نے فلاں سے اتنے روپے وصول کرنے تھے وہ اب کون وصول کرے گا- ایک پوربیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا- >اری ہم ری ہم< وہ کہنے لگی فلاں جگہ اتنی زمین اور جائیداد ہے- اب اس پر کون قبضہ کرے گا- تو وہ پھر بولا- اری ہم ری ہم- پھر وہ کہنے لگی- اس نے فلاں کا سو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا تو وہ کہنے لگا- ارے بھئی! میں ہی بولتا جائوں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا- تو عیسائیوں نے اپنا مذہب ایسا ہی بنایا ہوا ہے- جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ میں خدا کا بیٹا ہوں- وہاں کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک- مگر جب وہ کہتے ہیں کہ بھوتوں کے نکالنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ روزے رکھے جائیں- تو وہ کہہ دیتے ہیں- یہ استعارہ ہے-
استعارات کی ضرورت
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب استعارات میں اس قدر خطرے ہیں تو الہامی کتابوں نے اسے استعمال کیوں کیا- کیونکہ خرابیاں یا تو استعارے کو محدود کر دینے سے پیدا ہوتی ہیں یا اسے وسیع کر دینے سے- اگر استعارہ رکھا ہی نہ جاتا- تو اس میں کیا حرج تھا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ کی کئی ضرورتیں ہیں- اول اس کی ضرورت اختصار ہے تشبیہ اور استعارہ میں جس قدر اختصار پیدا ہو سکتا ہے وہ اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتا- اس طرح لمبے لمبے مضامین بعض دفعہ صرف ایک فقرہ میں آ جاتے ہیں- مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ وہ فالق الاصباح۳۶۸~}~ یعنی صبحوں کا پھاڑنے والا ہے- اس جگہ اصباح جمع کا لفظ رکھا ہے اور پھر اس کے ساتھ فالق کا لفظ رکھا ہے- اور گو بظاہر یہ دو لفظ نظر آتے ہیں- لیکن اس مضمون کو اگر دیکھیں جو اس میں بیان کیا گیا ہے تو وہ بہت لمبا ہے- یعنی دنیا میں قسم قسم کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور ان تمام تاریکیوں کو دور کرنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کی آخری کڑی خدا ہے- جب وہ کڑی تیار ہو جاتی ہے تو تاریکی دور ہو جاتی اور فلق صبح ہو جاتا ہے- ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر ان کا علاج کرتے ہیں- مگر کیا ان کے علاج سے سارے مریض اچھے ہو جاتے ہیں؟ یقیناً تمام قسم کا علاج کرنے کے باوجود بعض مریضوں پر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب ڈاکٹر کہہ دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا- یہی حال ہر پیشے کا ہے- وکیل کو لے لو تو اسے وکالت میں` انجنیئر کو لے لو تو اسے انجنیئرنگ میں ایک جگہ پہنچ کر رستہ بالکل بند نظر آتا ہے- اور سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اس کی غیب سے مدد کرے- پس ایسی حالت میں سوائے خدا کے اور کوئی مصیبت دور نہیں کر سکتا- اور اسی کو فالق الاصباح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے- لیکن اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اللہ مشکلات کو دور کرنے والا ہے تو اس سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو فالق الاصباح کے الفاظ میں ادا ہوا ہے- اور جو رات اور صبح کی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے- پس اس استعارہ نے لمبے مضامین کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا-
دوسرے استعارہ سے وسعت نظر پیدا ہوتی ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بندر اور سور بنا دیا- اب اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ ہم نے انہیں بے حیا بنا دیا- تو ان الفاظ میں اس مضمون کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہ ہوتا جو قردہ اور خنازیر کے الفاظ میں ادا ہوا ہے- کیونکہ قردہ اور خنازیر کی بیسیوں خصوصیتیں ہیں کوئی ایک خصوصیت نہیں- مثلاً بے حیائی بھی ایک خصوصیت ہے- گندگی بھی ایک خصوصیت ہے- خنزیر نہایت ہی گندہ ہوتا ہے- اور یہود بھی حد درجہ غلیظ ہوتے ہیں- میں نے ایک دفعہ جہار کا سفر کیا- تو کچھ یہودی بھی اس جہاز میں سوار ہو گئے- میں نے انہیں دیکھا تو وہ اتنے گندے تھے کہ گویا چوہڑے ہیں- مگر جب بمبئی جہاز پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہایت زرق برق لباس پہنے بیٹھے ہیں- میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ کہاں سے آ گئے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ وہی یہودی ہیں جو سارے سفر میں ساتھ رہے ہیں-
تو اللہ تعالیٰ نے جو قردہ اور خنازیر کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو اسی لئے کہ بتائے کہ بندر اور سور میں جو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں وہ سب ان میں پائی جاتی ہیں- اگر صرف اتنا کہہ دیتا کہ یہودی گندے اور بدکار ہیں تو وہ مضمون ادا نہ ہو سکتا- غرض nsk] ga[t قردہ اور خنازیر کے الفاظ سے مضمون کو حیرت انگیز وسعت ہوئی ہے حتیٰ کہ قردہ اور خنازیر کی بعض خصوصیات آج معلوم ہو رہی ہیں- اور وہ خصوصیات بھی یہودی قوم میں پائی جاتی ہیں- مثلاً بندر میں نقالی کا مادہ ہوتا ہے- اور یہودیوں میں بھی نقل کا مادہ کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہے- پس یہودیوں کے متعلق بتایا کہ وہ صرف بدکار ہی نہیں بلکہ نقال بھی ہیں- اسی طرح بندر پانی سے ڈرتا ہے- یہود بھی ہمیشہ خشکی میں رہتے ہیں- سمندر میں سفر نہیں کرتے- اسی طرح درجن سے زیادہ خصوصیات ایسی ہیں جو یہود میں پائی جاتی ہیں- مگر وہ سب قردہ اور خنازیر کے الفاظ کے اندر خدا تعالیٰ نے بیان کر دیں- اگر قردہ اور خنازیر کے الفاظ اللہ تعالیٰ استعمال نہ کرتا اور الگ الگ ان کی خصوصیات بیان کرتا تو اس کے لئے ایک مکمل سورۃ چاہئے تھی- اب رہے خنازیر- تو خنازیر میں بھی کئی عیب ہیں- مثلاً ایک عیب تو یہ ہے کہ ہمیشہ سیدھا جاتا ہے رستہ نہیں بدلتا حتیٰ کہ حملہ بھی کرتا ہے تو سیدھا کرتا ہے- یہود میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے- وہ بھی اپنی زندگی کے شعبے تبدیل نہیں کر سکتے- اسی طرح خنزیر میں گندگی پائی جاتی ہے اور یہود بھی حد درجہ گندے ہوتے ہیں- پھر بعض امراض بھی خنزیر میں ہوتی ہیں- جو یہودیوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا-
تیسرے تشبیہ اور استعارہ کی ضرورت تبعید کے لئے ہوتی ہے یعنی مضمون کو اونچا کر دینا اور نظر کو وسیع کر دینا استعارہ کا مقصود ہوتا ہے- مثلاً یہ استعارہ تھا کہ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کو سورج چاند اور ستاروں کی صورت میں دیکھا- اب خالی بھائی کہہ دینے سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو ستاروں میں ادا ہوا ہے- یا جیسے سورج اور چاند کے الفاظ میں ادا ہوا ہے- کیونکہ سورج چاند اور ستارے ایک وسیع مضمون رکھتے ہیں- مثلاً یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ تیرے بھائی باوجود اس کے کہ اس وقت تیرے مخالف ہیں اور ان کی عملی حالت اچھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے دنیا کی ایسی ہی رہنمائی کرے گا جس طرح ستارے رہنمائی کرتے ہیں- اب یہ ایک وسیع مضمون تھا جو بھائی کہہ کر ادا نہیں ہو سکتا تھا مگر ستارے کہہ کر ادا ہو گیا-
چوتھے تقریب مضمون کے لئے بھی استعارہ ضروری ہوتا ہے- یعنی بعض دفعہ مضمون اتنا وسیع ہوتا ہے کہ انسان اسے سمجھ نہیں سکتا- جب تک کسی خاص طریق سے اسے ذہن کے قریب نہ کر دیں- مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے- تو اس پر بچہ پوچھتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے تو اگر ہم اسے کہہ دیں کہ ماں سے بھی زیادہ- تو وہ فوراً بات سمجھ جائے گا- حالانکہ ماں کی محبت اور خدا کی محبت میں کوئی نسبت ہی نہیں- اسی لئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا کہ خدا ماں ہے- خدا باپ ہے کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جب تک استعارہ کے رنگ میں اسے ادا نہ کیا جائے- تو استعارہ اور تشبیہ نہایت ضروری چیز ہے اور کلام کا ویسا ہی اہم جزو ہے جیسے اور الفاظ اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا- جہاں وسعت مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہوگا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا- بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں- مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے- ورنہ گ ھ وڑ اور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے- پس یہ ایک تشبیہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا- ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آ جاتی- جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی- ایک دن کسی نے ان کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اس نے کھیر پکائی ہے- وہ کہنے لگے- کھیر کیا کھانا ہوتا ہے- اس نے بتایا- کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے- اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے- شاگرد کہنے لگا- بگلے کی طرح ہوتا ہے- حافظ صاحب پوچھنے لگے- بگلا کس طرح کا ہوتا ہے- اس پر شاگرد نے ہاتھ کی انگلی بگلے کی طرح بنائی اور اس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا- حافظ صاحب نے فوراً شور مچا دیا اور کہنے لگے- جائو` جائو- میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا- یہ کھیر تو میرے گلے میں اٹک کو مجھے مار ڈالے گی- یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بگلے سے فلاں چیز مراد ہے- گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا- پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا-
استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے
حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا- مثلاً عام طور پر جب کسی شخص سے کوئی حماقت کا کام سرزد ہو تو اسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے- یا کوئی بہادر شخص ہو تو اس کے متعلق ہم شیر کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں- اب اگر ہم شیر کا لفظ استعمال نہ کریں اور خالی بہادر کہہ دیں تو جو شخص استعارہ کو سمجھنے کی طاقت رکھتا ہے وہ بہادر کے لفظ سے کبھی وہ مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو شیر کے لفظ سے سمجھ سکتا ہے- یہ اور بات ہے کہ کوئی استعارہ غلط استعمال کر دے- مثلاً گدھا ہے- گدھا ہمیشہ بے موقعہ کام کرنے والا ہوتا ہے- راہ چلتے ہوئے باقی جانوروں کو ہٹائو تو وہ ایک طرف ہو جائیں گے مگر گدھے کو ہٹائو تو وہ ٹیڑھا ہو جائے گا اور رستہ روک لے گا- اب اگر ہم کسی کو بیوقوف کہیں تو اس بیوقوف کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ بے موقع کام کرتا ہے لیکن گدھے کا لفظ استعمال کرنے سے فوراً دوسرا شخص سمجھ جائے گا کہ یہ بے موقع کام کرتا ہے- اسی طرح گدھے سے بوجھ اٹھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے- قرآن کریم میں اسی وجہ سے علماء یہود کی مذمت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں- اب جو لوگ اس نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ کسی کو گدھا کہنے سے ایک مقصد اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ بدعمل ہے- وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ جسے گدھا کہا گیا ہے وہ نہ صرف بے موقع کام کرتا ہے بلکہ بے عمل بھی ہے- لیکن خالی احمق یا بیوقوف کا لفظ کہنے سے یہ مضمون ادا نہیں ہوتا- اسی طرح جو مضمون کسی کو شیر کہنے سے ادا ہوتا ہے وہ خالی بہادر کہنے سے ادا نہیں ہوتا- کیونکہ شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ بلاوجہ حملہ نہیں کرتا- دوسرے وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے- اگر شیر کے آگے لیٹ جائیں تو وہ حملہ نہیں کرتا- سوائے اس کے کہ اس کے منہ کو خون لگ چکا ہو- یہ خوبی شیر میں یہاں تک دیکھی گئی ہے کہ بعض جگہ چھوٹے بچے لیٹے ہوئے تھے کہ اتفاقاً وہاں شیر آ گیا- ایسی حالت میں بجائے ان پر حملہ کرنے کے وہ انہیں چاٹنے لگ گیا- اسی طرح اس میں خوف بالکل نہیں ہوتا- یہ خصوصیات ہیں جو شیر میں پائی جاتی ہیں- اب اگر ہم کسی کے متعلق محض بہادر کا لفظ استعمال کریں تو گو اس سے اس کی جرات اور دلیری کا اظہار ہو جائے گا- مگر یہ اظہار نہیں ہوگا کہ وہ بلاوجہ حملہ نہیں کرتا- وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے اور ڈر اور خوف اس میں بالکل نہیں- تیسرے اس میں ہیبت ہوتی ہے- یہ خصوصیت بھی ایسی ہے جو شیر میں ہی پائی جاتی ہے کہ اسی میں خدا تعالیٰ نے ایسی ہیبت پیدا کر دی ہے کہ حملہ سے نہیں بلکہ اس کی شکل سے ہی دوسرے کو ڈر لگنے لگ جاتا ہے-
غرض استعارہ مضمون میں وسعت پیدا کر دیتا ہے- چنانچہ اس کا ثبوت کہ یہ ضروری چیز ہے یہ ہے کہ رئویا میں نوے فیصدی استعارات سے کام لیا جاتا ہے- انسان دیکھتا ہے کہ میں بینگن کھا رہا ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اسے کوئی غم پہنچے گا- وہ دیکھتا ہے کہ فلاں عزیز مر گیا ہے- اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہوگی- وہ دیکھتا ہے کہ اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہے- اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے دین کیلئے وقف کر دے گا- وہ دیکھتا ہے کہ میں بکرا ذبج کر رہا ہوں- اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بچہ مر جائے گا- میں اس بحث میں اس وقت نہیں پڑتا کہ رئویا خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے یا دماغی کیفیت کا ایک نتیجہ ہیں- لیکن بہرحال اگر رئویا ایک دماغی کیفیت ہے تب بھی سب دماغوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں- اور اگر رئویا خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے- تب بھی خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں- پس بنی نوع انسان اور خدا تعالیٰ کی متفقہ شہادت اس امر پر ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں ہو سکتا- باقی رہے خطرات- سو میں انہیں تسلیم کرتا ہوں- میں مانتا ہوں کہ استعاروں کو نہ سمجھ کر ہی عیسائی گمراہ ہو گئے- کہیں انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو خدا قرار دے لیا- تو کہیں شریعت کو *** قرار دے دیا- لیکن اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو جس سے یہ خطرات دور کئے جا سکیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کلام ان خطرات کا ازالہ کر دے وہ بہترین کلام سمجھا جائے گا- )میں اس وقت انسانی کلام پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ الہامی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں(
غلط فہمیاں دور کرنے کے ذرائع
پہلی الہامی کتابوں نے بے شک استعارے استعمال کئے ہیں- مگر ان کے خطرات کو دور کرنے کیلئے بعد میں نبی آتے رہے- اور جب بھی لوگوں کو کوئی غلطی لگی آنے والے نبیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ ہوتا رہا- لیکن اس استعارات کو سمجھنے کے لئے ان میں اندرونی شہادت موجود نہیں ہوتی تھی- مثلاً انجیل میں حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے- مگر اس استعارہ کو حل کرنے کیلئے اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں- کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک عارضی تعلیم ہے جب اس کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا لگا تو پھر ایک مکمل شریعت اتاری جائیگی جیسے گورنمنٹیں جب عارضی طور پر پل بناتی ہیں تو ایسے سامان سے بناتی ہیں جو تھوڑے عرصہ تک کام دے سکے- زیادہ پائیدار اور پختہ سامان نہیں لگاتیں- اسی طرح پہلی تعلیمیں چونکہ عارضی تھیں اور اللہ تعالیٰ ان کو منسوخ کر کے ایک کامل تعلیم اتراے کا ارادہ کر چکا تھا اس لئے ان کتب میں اندرونی شہادت نہ رکھی- صرف بیرونی شہادت سے خطرات کا ازالہ کرتا رہا- اس لئے جب بیرونی شہادت بند ہو گئی تو سابقہ الہامی کتب بھی منسوخ کر دی گئیں- لیکن قرآن کریم چونکہ ابدی ہدایت نامہ ہے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خطرات کے ازالہ کیلئے دو صورتیں رکھی ہیں- اول بعثت مامورین- دوم اندرونی شہادت- تا کہ کسی وقت بھی ایسی غلطیاں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوں جو سب کو گمراہ کر دیں- پہلی کتب کے ساتھ چونکہ یہ حفاظت کے اسباب نہیں تھے- اس لئے ان کے بعض مضامین سے لوگوں کو ٹھوکر لگی- اور بعض مضامین کو وہ سمجھ ہی نہ سکے- مثلاً بائیبل کی کئی آیات ان ہدایات پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو- ۳۶۹~}~
اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے- انسانی عقل سے بالا ہے- ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں- مگر بائیبل کی کتاب گنتی میں باقاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں- اور پھر اس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے- اب یقیناً یہ کوئی استعارہ ہوگا- مثلاً ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو- جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے- وثیابک فطھر ۳۷۰~}~لیکن چونکہ اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے- اس لئے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے- گذشتہ دنوں ایک جرمن استانی میں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کیلئے رکھی- اسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں- چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی- ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اسے تبلیغ کی- تو وہ کہنے لگی- ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں- توریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں- پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا- ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں- اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں- چنانچہ میں نے کہا- کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے- اس نے کہا نہیں- میں نے کہا- بائیبل میں یہ لکھا ہے- چنانچہ بائیبل منگوا کر اس کے سامنے رکھی گئی اور باب نکال کر اسے دکھایا گیا- وہ سارا دن سر ڈالے بار بار اسے پڑھتی اور سوچتی رہی- آخر مجھے کہنے لگی- یہ بات میری عقل سے باہر ہے- میں کسی پادری کو اس کے متعلق لکھوں گی- اور جو جواب آئے گا وہ میں آپ کو بتائوں گی- میں نے کہا- پادری بھی اس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا- مگر خیر اس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا- کوئی دو مہینے کے بعد اس کا جواب آیا- مگر وہ بھی اس نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کی کسی سہیلی سے لکھوایا- اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ سچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو- ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے- اور اس قسم کی باتیں جو بائیبل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتی- تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں- اور اس کی تشریح کیلئے جو نبی آیا کرتے تھے ان کا سلسلہ بند ہو گیا- اس لئے لوگوں کے لئے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا- لیکن قرآن نے اپنے استعارات کے حل کے متعلق دونوں شہادتیں رکھی ہیں- یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی- پس پہلی کتب اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ تو تشبیہ اور استعارہ دونوں کتب میں استعمال ہوئے ہیں- مگر پہلی کتب سے جو غلطی پیدا ہو جاتی تھی وہ ان کتب سے دور نہیں ہو سکتی تھی- مگر قرآن کریم کی کسی بات سے اگر کوئی غلطی لگے تو وہ قرآن سے ہی دور ہو سکتی ہے- یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے استعاروں کو کوئی حقیقت نہیں بنا سکتا- اور نہ حقیقت کو استعارہ بنا سکتا ہے- میں یہ مانتا ہوں کہ اس امر کا امکان ہے کہ کسی وقت مسلمان غلط فہمی سے لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ کی تعداد میں بگڑ جائیں- مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے بگڑ جائیں- حالانکہ عیسائی سب کے سب بگڑ گئے-
‏a.10.19
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے
چنانچہ یہ دعویٰ جو میں نے کیا ہے کہ قرآن کریم اپنے استعارات کو آپ حل کرتا ہے- اس کو قرآن کریم نے خود پیش کیا ہے- وہ فرماتا ہے ھو الذی انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنہ وابتغاء تاویلہ ومایعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الا اولو الالباب فرماتا ہے- قرآن کے جو مضامین ہیں- ان میں سے کچھ تو محکم ہیں- یعنی ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا- مگر کچھ آیتیں ایسی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں- یعنی الفاظ تو ہیں مگر ان سے تشابہ ہے- مثلاً انسان کو بندر اور سور کہہ دیا گیا ہے- فرماتا ہے- وہ لوگ جو کجی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں- اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے- اگر یہود کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا تو وہ کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا تھا- اور اگر یہ آئے کہ انہیں سور بنا دیا گیا تھا- تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ واقعہ میں وہ سور بن گئے تھے- اگر یہ ذکر آئے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے- اور اس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ فتنہ پیدا کریں- ابتغاء تاویلہاور حقیقت سے پھرانے کیلئے وہ ایسا کرتے ہیں- تاویل کے معنی پھرانے کے ہوتے ہیں- چاہے حقیقت سے دور لے جانے کے معنوں میں ہو یا حقیقت کی طرف لے جانے کے معنوں میں ہو مگر یہاں وابتغاء تاویلہ کے معنی حقیقت سے دور لے جانے کے ہیں- یعنی استعارے کو وہ حقیقت قرار دے کر لوگوں کو اصل معنوں سے دور لے جاتے ہیں- حالانکہ وہ استعارہ ہوتا ہے اور استعارہ کی وجہ سے اس کا مفہوم خدا ہی بیان کر سکتا ہے جو عالم الغیب ہے- تم خود کس طرح سمجھ سکتے ہو- اگر کہو کہ پھر ہمیں استعاروں کے مفہوم کا کس طرح پتہ لگے تو فرمایا والرسخون فی العلم ہم نے ان کا مفہوم قرآن میں بیان کر دیا ہے جو سمجھنے والے ہیں ان کے سامنے جب دونوں آیات آتی ہیں- وہ بھی جن میں استعارہ ہوتا ہے اور وہ بھی جن میں حقیقت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کل من عند ربنا- وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے جو استعارے والی ہے- اور وہ آیت بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے- اور ناممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو- مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید گدھا ہے اور پھر کہیں کہ زید نے فلاں کتاب نقل کر کے دی ہے- تو اس صورت میں اگر کوئی دوسرا اس استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہوئے سوال کرے کہ کیا زید چوپایہ ہے- تو اسے دوسرے فقرہ کو جس میں اس کی طرف کتاب کا نقل کرنا منسوب کیا گیا ہے جھٹلانا پڑے گا- لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ دونوں فقرے صحیح ہیں تو لازماً استعارہ کو استعارہ کے معنوں میں لانا پڑے گا اور حقیقت کو حقیقت کے معنوں میں- اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- راسخون فی العلم یہ کہتے ہیں کہ کل من عند ربنا- یعنی اے بھلے مانسو! جو استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہو کیا تم اس امر کو نہیں جانتے کہ جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جائیں گی اور وہ سچی ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک استعارہ کو استعارہ کی حد میں نہ رکھا جائے- حالانکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں- اور دونوں سچی ہیں اور جب دونوں باتیں سچی ہیں- تو لازماً ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ایک حقیقت ہے اور ایک استعارہ- وما یذکر الا اولو الالباب- مگر یہ فائدہ عقلمند لوگ ہی اٹھاتے ہیں-
حضرت مسیحؑ کا معجزہ احیاء موتی
اس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں- مگر ایک موٹی مثال احیاء موتی کی ہے- قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردے زندہ کیا کرتے تھے- اور دوسری طرف قرآن میں ہی لکھا ہے کہ مردے کی روح اس جہان میں واپس نہیں آتی- اب اگر ہم مردوں کو زندہ کرنے سے حقیقی مردوں کا احیاء مراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نعوذ باللہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے- لیکن اگر مردوں سے روحانی مردے مراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں- اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ مردے زندہ کرو- اور دوسری طرف کہہ دیا کہ مردے واپس نہیں آتے- اس طرح جو استعارہ کا فائدہ تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور جو نقصان تھا وہ بھی دور ہو گیا- احیاء موتی کے الفاظ استعمال کرنے سے مضمون میں جو وسعت پیدا کرنا مدنظر تھا وہ وسعت بھی پیدا ہو گئی اور جو خطرہ تھا کہ جاہل مسلمان انہیں خدا قرار نہ دے دیں اسے بھی دور کر دیا-
مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم ~صل۱~ کا ارشاد
ان معنوں کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے- عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہرسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ محکمات و متشابہات کے بارہ میں جھگڑتے اور استعارہ اور حقیقت میں فرق نہ سمجھتے ہوئے قابل اعتراض باتیں کرتے ہیں- اس پر آپﷺ~ نے فرمایا- کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی کتاب اس لئے اتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرے- پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں- اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے- ۳۷۱~}~پس کبھی قرآن کے وہ معنی نہ کرو جو اس کی کسی دوسری آیت کو جھٹلاتے ہوں- اگر مطلب سمجھ میں نہ آئے تو جانے دو اور کسی عالم قرآن سے دریافت کرو وہ تمہیں اس کا مطلب بتا دے گا- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں مخالف نہیں اگر استعارہ سمجھ آ جائے تو اسے محکم آیات کے مطابق کرو- اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی واقف کے پاس جائو اور اس سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے وہ تمہاری عقدہ کشائی کر دے گا-
غرض اس اصل کے ماتحت جو قرآن کریم نے بتایا ہے اور حدیث کے بھی ماتحت ہے جہاں دوسری کتب میں بعض خلاف عقل اور خلاف سنت باتیں پائی جاتی ہیں- وہاں قرآن کریم ان باتوں سے پاک ہے کیونکہ مستعمل استعاروں کا حل قرآن میں موجود ہے-
قرآنی استعارات کی ایک مثال
اس سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی بیسیوں باتیں بیان کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ میں قرآن کی تفسیر نہیں کر رہا اس لئے مثال کے طور پر میں صرف ایک امر بیان کر دیتا ہوں- اور وہ وہی ہے جس کا ذکر سورہ نمل کے اس رکوع میں کیا گیا ہے- جس کی آج ہی میں نے تقریر شروع کرنے سے قبل تلاوت کی ہے- اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے- ہم نے دائودؑ اور سلیمانؑ کو علم عطا کیا- اور ان دونوں نے کہا الحمدللہ الذی فضلنا علی کثیرا من عبادہ المومنین اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے و ورث سلیمان داود ۳۷۲~}~اور سلیمانؑ دائودؑ کا وارث بنا اور اس نے کہا- اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے- اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے- اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے- اور سلیمانؑ کے لئے لشکر جمع کئے گئے- وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں کے بھی- گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی- حتی اذا اتوا علی وا دالنمل- پھر حضرت سلیمانؑ اپنا لشکر لے کر چلے- یہاں تک کہ وہ وادالنمل یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے- ایک چیونٹی نے انہیں دیکھ کر کہا- اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو- ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پیروں کے نیچے مسل دیں- حضرت سلیمانؑ اس کا یہ قول سن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا- اے میرا خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں- وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں- اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما- پھر حضرت سلیمانؑ نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا- یہ کیا بات ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا- میں اسے سخت عذاب دونگا- ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا؟ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ہد ہد آگیا- اور اس نے کہا کہ حضور ناراض نہ ہوں- میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں- میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں- اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے- اور ہر نعمت اسے حاصل ہے اور اس کاایک بڑا تخت ہے- اور میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں- اور ان کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کو پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اسے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے- حضرت سلیمانؑ نے کہا- اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے- تو میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں-
اسی قسم کا مضمون سورہ سبا رکوع۲ میں بھی آتا ہے- جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولقد اتینا داود منا فضلا یجبال اوبی معہ والطیر والنا لہ الحدید ان اعمل سبغت وقدر فی السرد واعملوا صالحا انی بما تعملون بصیر۳۷۳~}~ یعنی ہم نے دائودؑ پر بھی بڑا فضل کیا- اور اس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو- اور پرندوں کو بھی حکم دے دیا کہ اس کے ساتھ رہیں- اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا- اور اسے کہا کہ اس لوہے سے زرہیں بنائو اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو- اور نیک اعمال بجا لائو- میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں-
اسی طرح سورہ انبیاء رکوع ۶ میں فرماتا ہے- وسخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر وکنا فعلین وعلمنہ صنعہ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم فھل انتم شاکرون ۳۷۴~}~ہم نے دائودؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخر کر دئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے- اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے- پس کیا تم شکر گذار بنو گے-
پھر سورہ ص رکوع۲ میں آتا ہے- واذکر عبدنا داود ذا الاید انہ اوب انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق والطیر محشورہ کل لہ اوب وشددنا ملکہ واتینہ الحکمہ وفصل الخطاب ۳۷۵~}~یعنی ہمارے بندے دائودؑ کو یاد کر جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جھکتا تھا ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے- اسی طرح پرندے اس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے- اور ہم نے اس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنا دیا تھا- اور اسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا مونہہ بند کر دیں-
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جن بھی تھے- پرندے بھی تھے- پہاڑ بھی تھے- وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے- ایک ہد ہد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو ان کے بڑے بڑے کام کرتا تھا-
مفسرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں
اب جن لوگوں نے متشابہہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت دائودؑ کے قبضے میں پہاڑ تھے- جن تھے- پرندے تھے- حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت دائودؑ کے ساتھ ذکر الہی کرتے تھے- جب وہ کہتے سبحان اللہ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جن بھی اور حیوانات بھی سب سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ جاتے- جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں- پڑھو درود- وہ بھی گویا اسی طرح کرتے تھے- جب خود ذکر الہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ پڑھو درود- اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا- پھر جب انہیں آرام آ جاتا تو کہتے چپ کرو- اب میں خود درود پڑھتا ہوں- بعض کہتے ہیں- پہاڑوں وغیرہ کا سبحان اللہ کہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے- جب حضرت دائود سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے- اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے- بعض کو اس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں- اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائودؑ جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے- حضرت دائودؑ تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ` شوالک اور الپس سب آپ کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے تھے- اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے- ان دنوں چڑیاں چوں چوں نہیں کرتی تھیں- بکریاں میں میں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کرتی تھیں- کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہو گیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اسی طرح لکھا ہے- غرض وہ عجیب زمانہ تھا- اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی- اور وہ یہ کہ جن ان کے حوالے کر دیئے جو ان کے اشارے پر کام کرتے- جب چلتے تو پرندے ان کے سر پر اپنے پر پھیلا کر سایہ کر دیتے- وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت دائودؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے- جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے- ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے- وہ اسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے- اور کہنے لگے- تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آ گیا ہے- پھر اس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آگیا؟ وہ کہنے لگا- میں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں- آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے- اس نے کہا- ہاں- اور یہ کہتے ہی اس نے آپ کی جان نکال لی- حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پروں سے سایہ کیا-
کہتے ہیں- حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے- کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسرین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے- کہتے ہیں- ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا کہ چلیں استسقاء کی نماز پڑھائیں- حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبرائو نہیں بارش ہو جائیگی- کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بل کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی- ایک دفعہ وہ وادی النمل میں سے گذرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حکم دیا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو- مگر مفسرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے- اور کہتے ہیں- جس طرح انسانوں میں مغل راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں- چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے کہ ¶چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے- وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پائوں سے لنگڑی تھی اور اس کا قد بھیڑ کے برابر تھا- یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسرین کو گھڑنے پڑے ہیں- حالانکہ بات بالکل صاف تھی- چنانچہ میں باری باری ہر واقعہ کو لیتا ہوں- اور سب سے پہلے میں حضرت دائود علیہ السلام کا قصہ لتیا ہوں-
پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دائود~ع۱~ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا- جو تسبیح کرتے تھے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے؟ حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے- تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ الذی سخر لکم البحر لتجری الفلک فیہ بامرہ ولتیتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون وسخر لکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعا منہ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون ۳۷۶~}~یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کافرو اور منافقو! ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے سمندر مسخر کر دیئے ہیں جس میں کشتیاں اس کے حکم سے چلتی ہیں- تا کہ تم خدا کا فضل تلاش کرو- اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے کر دیا ہے- اور اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے نشانات ہیں- اب اس آیت سے حضرت دائودؑ والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے- کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں- خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کے لئے مسخر ہیں- اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائود کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے- اگر دائود کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں- اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت دائودؑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا تھا-
پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنی
اب رہا سوال تسبیح کا- کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے پہاڑ اور پرندے حضرت دائودؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے- کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں دے دیا ہے- فرماتا ہے- یسبح للہ ما فی السموت وما فی الارض الملک القدوس العزیز الحکیم یعنی سورج بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے- چاند بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے- ستارے بھی تسبیح کر رہے ہیں- اسی طرح مافی السموت وما فی الارضجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کر رہے ہیں- یہ لیمپ بھی تسبیح کر رہا ہے- لائوڈ سپیکر بھی تسبیح کر رہا ہے- اسی طرح درخت بھی تسبیح کر رہے ہیں- اس کے پتے بھی تسبیح کر رہے ہیں- آم بھی تسبیح کر رہا ہے- کیلا بھی تسبیح کر رہا ہے بلکہ کیلے کا چھلکا جس کو ہم اتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کر رہا ہے- روٹی بھی تسبیح کر رہی ہے- تھالی بھی تسبیح کر رہی ہے- جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں- چائے بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے- مصری یا کھانڈ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے- پیالی بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے پرچ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے- اسی طرح مکان بھی چھت بھی دیواریں بھی دروازے بھی وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو- اس بستر کی چادر بھی اور توشک اور رضائی بھی سب سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہر چیز سبحان اللہ کہہ رہی ہے تو حضرت دائودؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آجائیں تو اس کے معنے کیوں بن جاتے ہیں- دیکھ لو وہ دونوں باتیں جو حضرت دائودؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں- ہمارے لئے بھی خدا کہتا ہے کہ میں نے ہر چیز مسخر کر دی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے- بلکہ حضرت دائودؑ کے لئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدا بے عیب ہے- چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کر رہا ہے- لیکن حضرت دائودؑ نے چونکہ صرف جبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائودؑ کے زمانہ میں صرف جبال نے تسبیح کی- لیکن محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ ﷺ~ نے فرمایا- جعلت لی الارض مسجدا۳۷۷~}~ زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کر رہا- اس لئے جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائیگی` پس یسبح للہ والے مضمون کو دائود کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا- اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ما فی السموت وما فی الارض کے لئے تھے اور حضرت دائود~ع۱~ صرف چند جبال کے لئے-
باقی رہا اوبی معہ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت دائودؑ کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے- اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرہ ذرہ تسبیح میں شامل ہے- کوئی کہے کہ پھر حضرت دائودؑ کی خصوصیت کیا رہی تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ ان کے لئے مسخر تھے- کیونکہ میں قرآن کریم سے ثابت کرچکا ہوں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے- ہاں جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اس میں اسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے- پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائودؑ کے لئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح عام نبی نوع انسان کے لئے- لیکن حضرت دائودؑ کو ایک زائد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا- پس گو تسخیر بعینہ وہی ہے جو ہمارے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرقہے-
جبال سرداران قوم کو بھی کہتے ہیں
‏]1txet [tagاب میں لغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں- چنانچہ جبل کے معنے لغت میں سید القوم کے لکھے ہیں- پس حضرت دائودؑ کے لئے جبال مسخر کر دیئے کے معنے یہ تھے کہ حضرت دائود علیہ اسلام یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے ارد گرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہو گئے- حضرت دائود علیہ السلام سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو- لیکن حضرت دائودؑ پہلے بادشاہ ہیں جن کے ارد گرد کے حکمران ان کے مطیع ہو گئے تھے- اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یسبحن کا لفظ آتا ہے- تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جبال چونکہ مونث ہے` اس لئے یسبحن کا لفظ آتا ہے- ورنہ سرداران قوم کے معنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں-
پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
باقی رہے nsk1] ga[t طیر- سو ان کے لئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں- اور اس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ حضرت دائودؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے دراصل لوگوں کو عربی زبان کے ایک معمولی قاعدے سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا- اور خیال کرنے لگے کہ جبال کے ساتھ طیر بھی تسبیح کیا کرتے تھے- حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ کہ و سخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر ۳۷۸text1]~}~ gat[یہاں طیر پر زبر ہے اور زبر دینے والا سخر کا لفظ ہے- مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو تسبیح کرتے تھے- اسی طرح ہم نے طیر بھی مسخر کر دیئے- یہاں کسی تسبیح کا ذکر نہیں- صرف اتنے معنے لئے جا سکتے ہیں کہ انہیں پرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا- جیسے کبوتروں سے خبر رسانی وغیرہ کا کام لے لیا جاتا ہے- پس قرآن میں سخرنا الطیر ہے- یسبحن الطیر ]text1 [tagنہیں ہے-
دوسری آیت یہ ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والا شرق والطیر محشورہیہاں بھی طیر کا ناصب سخر ہے- اور میں حیران ہوں کہ مفسرین نے پرندوں کے تسبیح کرنے کے معنے کہاں سے لئے-
تیسری آیت یہ ہے: ولقد اتینا داود منا فضلا یجبال اوبی معہ والطیر ہم نے داوئوؑ پر بڑا فضل کیا- اور پہاڑوں سے کہا- اے پہاڑو- تم بھی اس کی تسبیح کا تسبیح سے جواب دیا کرو- اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دیئے- گویا یہاں اتینا الطیرفرمایا گیا ہے- یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے- غرض طیر کا ناصب یا سخر ہے یا اتی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے حضرت داوئوؑ کو طیر بھی دیئے تھے- لیکن میں کہتا ہوں اگر اس کے معنی تسبیح کے بھی کر لو- تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی بڑی بات ہو سکتی ہے- مجھے ہمیشہ آج کل کے علماء پرتعجب آیا کرتا ہے کہ جب حضرت دائودؑ یا حضرت سلیمانؑ یا حضرت عیسیٰؑ کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنی لے لیتے ہیں- لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آ جائے تو اس کے معنی اور کر لیتے ہیں- حضرت دائودؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے- تو کہتے ہیں- پہاڑ واقعہ میں سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کرتے تھے- اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 2] f[rt کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان آپﷺ~ کے لئے مسخر کر دیئے- تو کہیں گے یہاں تشبیہ مراد ہے- اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مردوں سے روحانی مردے مراد ہیں- لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفان آ جائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوالیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کے نتھنوں میں پھونک مار کر انہیں زندہ کر دیا کرتا تھا- اس وقت تک انہیں چین ہی نہیں آتا-
جنات کا ذکر 0] ftr[
اس کے بعد میں جنوں کو لیتا ہوں- یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت میرے سامنے ایک ایسے دوست بیٹھے ہیں جو جنوں کے قابض کہلاتے ہیں اور بائیں طرف وہ بیٹھے ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جن ان کے قبضہ میں آ جائیں- میں امید کرتا ہوں کہ اگر میں ان کے خلاف طبیعت کوئی بات کہدوں تو وہ مجھے معاف کریں گے-
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی یا بری کوئی مخلوق جن ضرور ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا- مگر سوال یہ نہیں کہ جن کوئی مخلوق ہے یا نہیں- بلکہ سوال ان جنوں کا ہے- جو حضرت سلیمانؑ کے ساتھ تھے اور سلیمانؑ کے متعلق ان جنوں کا ذکر ہے جن کا باقاعدہ لشکر تھا- وہ خبریں لا لا کر دیا کرتے تھے- وہ باقاعدہ لڑائیوں میں ساتھ جاتے تھے- حتیٰ کہ جنوں کے پیروں کے نیچے چیونٹیاں بھی کچلی جاتی تھیں- پس اس وقت سوال ان جنوں کا ہے- جو ہر وقت حاضر رہتے تھے- اور جن کی فوجیں رائٹ لفٹ کرتی رہتی تھیں-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنوں کی آمد
اب سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ہی یہ ذکر آیا ہے یا اور کسی نبی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اس کے پاس جن آئے- سو جب ہم اس غرض کے لئے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو سورہ احقاف میں ہمیں یہ آیات نظر آتی ہیں- واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القران فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین قالوا یقومنا انا سمعنا کتبا انزل من بعد موسی مصدقا لما بین یدیہ یھدی الی الحق و الی طریق مستقیم یقومنا اجیبوا داعی اللہ وامنوابہ یغفرلکم من ذنوبکم ویجرکم من عذاب الیم ۳۷۹~}~یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو- جب ہم جنوں میں سے کچھ لوگ جو قرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے تیری طرف پھیر کر لے آئے- جب وہ تیری مجلس میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا- خاموش ہو جائو- تا کہ قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے جب قرآن کی تلاوت ختم ہو گئی- تو وہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کر دی- اور اپنی قوم سے کہا- اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ سچا نبی تھا اور اس نے جو کچھ کہا تھا خدا کی طرف سے کہا تھا یہ کتاب حق کی طرف بلاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے- اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز کو سنو اور اسے قبول کرو- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا-
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جن تورات پر` حضرت موسیٰؑ پر` قرآن پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے- پس حضرت سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جن ایمان لائے بلکہ موسیٰؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] f[rt کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنات آپﷺ~ پر ایمان لائے مگر افسوس ان لوگوں پر جو سلیمانؑ کے جنوں کے تو عجیب عجیب قصے سناتے ہیں- کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنوں کو چاروں گوشے پکڑوا دیتے اور وہ انہیں اڑا کر آسمانوں کی سیر کراتے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جن ایمان لائے ان کے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو- حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر سفر کرتے تھے- آپﷺ~ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اور وہ روتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کا انتظام فرما دیجئے تو ہم جانے کے لئے حاضر ہیں- کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود ان سنگدل جنوں کا دل نہ پسیجا اور انہوں نے آپﷺ~ کی کوئی مدد نہ کی- حضرت سلیمانؑ کے وقت تو لشکر کا لشکر اٹھا کر وہ دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اور یہاں ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ دس بیس مہاجرین کو ہی اٹھا کر میدان جنگ میں پہنچا دیتے-
ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک دلیل
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جن غیر از انسان وجود ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ پر ایمان لائے تھے- مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے- اگر یہ ایک استعارہ ہے- تو یقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا- اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا- پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے- جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہی لفظ ہے- جیسے شیطان کا لفظ آتاہے- جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے- اسی طرح جن بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ واذا خلوا الی شیطینھم ۳۸۰~}~میں مفسرین بالاتفاق لکھتے ہیں- کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور ان کے بڑے بڑے سردار ہیں- پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جن کیوں نہیں بن سکتا؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا۳۸۱~}~ یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اکساتے اور انہیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں- یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں- پس اگر شیاطین الانس ہو سکتے ہیں تو جن الانس کیوں نہیں ہو سکتے- یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں- اسی طرح ان میں سے جن کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں- پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جن نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جن ایمان لائے تھے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف 0] ftr[
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن کی طرف ہوئی تھی- اللہ تعالیٰ سورہ نساء میں فرماتا ہے- وارسلنک للناس رسولا ۳۸۲~}~یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے- اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جن کہتے ہیں آپﷺ~ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ارسلناک للناس والجن مگر وہ یہ نہیں فرماتا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کیلئے بھیجا ہے- پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جن آپﷺ~ پر ایمان لائے وہاں ان سے جن الانس ہی مراد ہیں- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے- واذ قال موسی لقومہ یقوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذ کم العجل ۳۸۳~}~یعنی اے میری قوم تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا- اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی- جن نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جن آپ پر ایمان لائے تھے- پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جن ہی مراد تھے نہ کہ وہ جن جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے- اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں- ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کان النبی یبعث الی قومہ خاصہ ۳۸۴~}~کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا وبعثت الی الناس کافہ مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں- یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیاء سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو- لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف بھی بھیجے گئے تھے- اگر واقعہ میں حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ باللہ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے-
جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل
پھر اگر یہ جن غیر از انسان ہیں تو وہ مخاطب کیونکر ہو گئے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ویوم یحشرھم جمیعا یمعشر الجن قد استکثرتم من الانس ۳۸۵~}~فرماتا ہے جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہونگے تو ہم جنوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ اے جنوں کے گروہ تم نے انسانوں میں سے اکثر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا- ہم تو جنوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ جنوں نے اکثروں کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے- حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تو ملتے نہیں- لوگ وظیفے پڑھتے ہیں- چلہ کشیاں کرتے ہیں اور جب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور خشکی سے کان بجنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں جن آگیا حالانکہ اس وقت ان کا دماغ بگڑ چکا ہوتا ہے- تروتازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جن کبھی انسان کے پاس نہیں آتے-
اس جگہ جنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قد استکثرتم من الانس کہ ان کے اکثر انسانوں سے تعلقات ہیں- اور انسان بھی کہیں گے کہ ہم ان سے بڑا فائدہ اٹھاتے رہے مگر تم اپنے محلے اور گائوں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کر لو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لوگ جنوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں- سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ میں جنوں سے فائدہ اٹھاتا ہوں- اور میرے ان سے تعلقات ہیں- جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ جن سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض جن مراد ہیں اور انسانی جنوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظر آتی ہیں-
قرآن کریم سے ثبوت کہ جن انسانوں کے ایک گروہ کا ہی نام ہے
پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قیامت کے دن دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ یمعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم۳۸۶~}~ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ جو ہمارے سامنے کھڑے ہو بتائو کہ کیا تمہارے پاس ایسے رسول جو تمہی میں سے تھے نہیں آئے- اب بتائو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بعض جن بھی ایمان لائے اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمارا رسول بھی انہی میں سے تھا تو کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جن بھی انسان تھے- کوئی غیر مری وجود نہیں تھے- پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وینذرونکم لقاء یومکم ھذا- ۳۸۷~}~وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اور اس دن سے ڈراتے تھے- گویا حضرت ` حضرت سلیمانؑموسیٰؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf جنوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے اور انہیں یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جن جن الانس تھے- جس طرح شیاطین الانس ہوتے ہیں- کوئی علیحدہ قسم کی مخلوق نہیں تھے-
مومن جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیوں نہ کی
اب ایک اور بات سنو- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- انا ارسلنک شاھدا و مبشرا و نذیرا لتومنوا باللہ ورسولہ و تعزروہ و توقروہ ۳۸۸~}~یعنی اے رسول! ہم نے تجھے اپنی صفات کے لئے گواہ اور مومنوں کیلئے مبشر اور کافروں کے لئے نذیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت بجا لائو- اب جب کہ جن بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے- تو کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو- ایک معمولی ملا کیلئے تو تو جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے وہ انگور کے خوشے لے آتے ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ لائے- اور آپﷺ~ کو بسا اوقات کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کرنے پڑے- ایک دفعہ آپﷺ~ کے چہرہ پر ضعف کے آثار دیکھ کر صحابہؓ نے سمجھا کہ آپﷺ~ کو بھوگ لگی ہوئی ہے- چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اور آپﷺ~ کو اور بعض اور صحابہؓ کو کھانا کھلایا- مگر ایسے مواقع میں سے کسی ایک موقع پر بھی جنوں نے مدد نہیں کی- میں سمجھتا ہوں وہ بڑے ہی شقی القلب جن تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر وہ ایمان لائے تھے ان کو تو انہوں نے ایک روٹی بھی نہ کھلائی اور آج کل کے مولویوں کو سیب اور انگور کھلاتے ہیں- پھر وہ مومن کس طرح ہو گئے- وہ تو پکے کافر تھے- حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ جن کوئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے- وہ جن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے- اور جس طرح اور لوگوں نے آپﷺ~ کی مدد کی وہ بھی مدد کرتے رہے- اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے تو پھر اس سوال کا حل کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہوگا جو جنات کے قائل ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی حالانکہ وہ رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے- اور قرآن میں انہیں یہ حکم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کریں-
بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں
پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے- اللہ تعالیٰ سورہ احزاب میں بطور قاعدہ کلیہ کے فرماتا ہے- انا عرضنا الامانہ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا ۳۸۹~}~یعنی ہم نے اپنی شریعت اور کلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کیا- اور کہا کوئی ہے جو اسے مانے اور اس پر عمل کرے- اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم یہ بار امانت اٹھانے کے ہر گز اہل نہیں- پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا- اور کہا- لو یہ بوجھ اٹھاتے ہو- انہوں نے بھی کہا- ہر گز نہیں- پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا- حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ جن پہاڑوں پر رہتے ہیں- فابین ان یحملنھا سارے ڈر گئے- اور کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اٹھانے کی جرات نہ کی فحملھا الانسان- صرف انسان آگے بڑھا اور اس نے کہا- مجھے شریعت دیجئے میں اس پر عمل کر کے دکھا دونگا- فرماتا ہے انہ کان ظلوما جھولا- انسان نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا- کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار اور عواقب سے بے پروا تھا- اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑا ہے بلکہ شوق سے اسے اٹھانے کیلئے آگے نکل آیا- اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اٹھانے والا صرف انسان ہے اور کوئی شریعت کا مکلف نہیں- پھر جب کہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی تو سوال یہ ہے کہ اگر جن غیر از انسان ہیں تو وہ کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اپنے ایمان کا کیوں اظہار کیا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ غیر از انسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سوا سب مخلوق نے اس شریعت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ یہاں جن سے مراد جن الانس ہی ہیں- ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو- اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں سے آ کر چمٹ جاتے ہیں- میرے سامنے ہی اس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں اور آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں لکھا کہ آپ جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو- اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں- ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ بیشک کئی ایسے لوگ ہونگے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں- لیکن مومن کے سامنے یہ سوال نہیں ہوتا کہ اس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے- اگر قرآن کہتا ہے کہ جن موجود ہیں تو ہم کہیں گے امنا و صدقنا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جن کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی-
متکبر قوموں اور امراء کو بھی جن کہا جاتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ بعض قومیں بڑی متکبر ہوتی ہیں- اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا اور بلند مرتبہ سمجھتی ہیں- ایسی قوموں کے بڑے بڑے صنادید کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے دروازے پر لے آتا ہے- اس لئے یہ لوگ جن کہلاتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے- ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا- پیرا اس کا نام تھا- اسے دو چار آنے کے پیسے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا- دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا ناواقف تھا- کہ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ وہ اس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گائوں کے نمبردار کو لکھ دیں- آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے- تو وہ کہنے لگا- آپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا- میں نمبردار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے- حضرت خلیفہ اول ہمیشہ اس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی- صرف سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا آتا ہے- خیر ایک دن حضرت خلیفہ اول نے پیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو- تو میں تمہیں دو روپے انعام دونگا- اس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ ہوتی تھیں- ان دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے تھے- اس لئے ان کا کھانا ہمارے گھر میں ہی ہتھیار ہوتا تھا- مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پیرے کھانا لے جائو- وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اس کی پانچویں نماز تھی- لیکن بلانے والی عورت کو اس کا علم نہ تھا- اس لئے وہ برابر آوازیں دیتی گئی- اس پر پیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا- >ٹھیر جا- التحیات ختم کر کے آندا ہاں<- ایک دفعہ کسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اسے بٹالہ بھیجا- وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے- وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے- اس دن اتفاقاً انہیں اور کوئی نہ ملا- تو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا- پیرے تو کیوں قادیان بیٹھا ہے- پیرے نے جواب دیا- مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں- ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں- اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دور دور سے یکوں میں دھکے کھا کھا کر ان کے پاس پہنچتے ہیں- مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں- جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں- مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا- حتیٰ کے روزانہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھس گئی ہوگی- لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے- آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اس طرح کھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں پوچھتا- غرض اس قسم کے آدمی ہی جن ہوتے ہیں- جو کسی کی بات نہیں مانتے- اور دوسرے کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے- مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے- حضرت عمرؓ کو ہی دیکھ لو- وہ ابتداء میں اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے- اور ایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے- مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے قدموں میں گر گئے- تو بعض طبائع ناری ہوتی ہیں- مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں تو ٹھنڈی ہو کر رہ جاتی ہیں- ایسی طبیعت رکھنے والے انسانوں کو عربی زبان میں جن کہتے ہیں- اسی طرح بڑے لوگوں کو اس لحاظ سے بھی جن کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے بالعموم مخفی رہتی ہے- بڑی بڑی کوٹھیوں میں ان کی رہائش ہوتی ہے اور ان کے دروازہ پر لوگ آسانی سے نہیں پہنچسکتے-
نملہ سے کیا مراد ہے؟
اب میں اس کے بعد نملہ کو لیتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ حتی اذا اتوا علی واد النمل قالت نملہ یایھا لنمل ادخلوا مسکنکم لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لایشعرون ۳۹۰~}~جب وہ وادی نملہ میں پہنچے- تو ایک نملہ نے کہا- اے نملہ قوم! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو- ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہارے حالات کو نہ جانتے ہوئے تمہیں اپنے پائوں کے نیچے مسل دیں-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نملہ سے کیا مراد ہے- پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ ذکر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو منطق الطیر سکھائی مگر اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ اس نے کیا کہا ہے- حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو دلیل میں مثلاً یہ بات پیش کرنی چاہئے تھی کہ فلاں موقع پر بلبل بولی اور حضرت سلیمانؑ نے کہا- بلبل یہ کہہ رہی ہے- مگر وہ کہتے ہیں- چیونٹی بولی تو حضرت سلیمانؑ کو سمجھ آ گئی حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں- پس نملہ سے مراد اگر چیونٹی لی جائے تو یہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آ سکتی کیونکہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو منطق الطیر آتی تھی- اور وہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ- اور وہ اس کی بات کو سمجھ جاتے ہیں- غرض پہلی بات جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے-
دوسری چیز یہ دیکھنے والی ہے کہ یہاں حطم کا لفظ آیا ہے اور حطم کے معنی ہوتے ہیں توڑنے اور غصہ سے حملہ کرنے کے- عام طور پر لوگ اس کا ترجمہ یہ کر دیتے ہیں کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر تمہیں اپنے پیروں کے نیچے نہ مسل دے- مگر یہ حطم کے صحیح معنی نہیں- عربی میں حطم کے معنی توڑ دینے اور غصہ میں حملہ کر دینے کے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کا ایک نام حطمہ بھی رکھا گیا ہے- کیونکہ وہ جلا دیتی ہے- یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پائوں ہوگئے اور وہ دوزخیوں کو اپنے پیروں کے نیچے مسل ڈالے گی- تو لایحطمنکم کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر تمہیں توڑ دے یا غصہ سے تم پر حملہ کر دے اور تمہیں تباہ کر دے- اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر در لشکر تھے کیا ان کا سارا غصہ چیونٹیوں پر ہی نکلنا تھا- اور کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے- میں بتا چکا ہوں کہ لا یحطمنکم کے معنی پیروں میں مسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کو توڑ دینے اور حملہ آوار ہونے کے ہیں- اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں- کیونکہ اس میں ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے- اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو- ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر کدالیں لے کر آ جائیں اور ہماری بلوں کو کھود کھود کر غلہ کے دانے نکال لے اور اس طرح ہماری طاقت توڑ دے- مگر کیا کوئی عقلمند ان معنوں کو تسلیم کر سکتیہے-
تیسری دلیل جو نہایت ہی بین اور واضح ہے- وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جو ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں- مثلاً ادخلوا کا لفظ آیا ہے- حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے ادخلن text] [tagکا لفظ آنا چاہئے تھا- اسی طرح لایحطمنکم میں کم کا لفظ آتا ہے حالانکہ کن کا لفظ آنا چاہئے تھا- پس قرآن مجید کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے- جن کے لئے کم اور ادخلوا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھروں میں گھس جائو- اس کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے- یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی لشکر کہیں سے گذرے اور وہاں کے لوگ اپنے گھروں میں گھس جائیں اور دروازے بند کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں- چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں گے اور دروازے بند کر لیں گے ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی- یہی نملہ نے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں جائو اور دروازے بند کر لو- حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے- اگر ہم باہر رہیں گے تو ممکن ہے وہ حملہ کر دیں- حضرت سلیمانؑ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ ہنسے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری نیکی اور تقویٰ کی کتنی دور دور خبر پہنچی ہوئی ہے- یہ قوم بھی جو اتنی دور رہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیا کرتا- اگر ہم اپنے دروازے بند کر لیں گے- تو یہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا- اور ہماری کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچائے گا-
وادی النمل کی تحقیق
باقی رہا واد النمل کے الفاظ- سو یاد رکھنا چاہئے کہ تاج العروس جو لغت کی مشہور کتاب ہے- اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میں جبرین اور عسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہا جاتا ہے- اور عسقلان کے متعلق تقویمالبدان صفحہ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ عسقلان ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر تھا- جو غز سے جو سینا کے ملحق فلسطین کا ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے- اور جبرین شمال کی طرف کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے جو ولایت دمشق میں واقع ہے- پس وادی النمل ساحل سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جو اندازاً دمشق سے سو میل نیچے کی طرف ہوگی- ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مدین کے قبائل بہت بستے تھے-
)مقام کی وضاحت کیلئے دیکھو نقشہ فلسطین و شام بعہد قدیم و عہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا(
اب رہ گیا نملہ سو قاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے- والابرقہ من میاہ النملہ ۳۹۱~}~یعنی ابرقہ ایک وادی ہے جہاں نملہ قوم کے چشمے ہیں- غرض نملہ قوم بھی مل گئی- وادی النمل کا بھی پتہ لگ گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس قسم کے ¶نام پرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے- چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا` سانپ` بچھو اور کنکھجور وغیرہ ہوا کرتے تھے- بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کا نام کاڈھا ہے- نور الدین کاڈھا لاہور کے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں- اس طرح ایک قوم کا نام کیڑے ہے- ایک کا نام مکوڑے ہے- کشمیر میں ایک قوم کا نام ہاپت ہے جس کے معنی ریچھ کے ہیں اسی طرح حضرت سلیمانؑ جس جگہ سے گذرے وہاں جو قوم رہتی تھی اس کا نام نملہ تھا-
خلق طیر کا مسئلہ
اب میں طیر کی بحث کو لیتا ہوں- طیر کے متعلق جو امور قابل غور ہیں ان میں سے ایک اہم امر خلق طیر کا مسئلہ ہے- میں اس کے متعلق گذشتہ سے پیوستہ سال جلسہ سالانہ کی تقریر میں روشنی ڈال چکا ہوں- لیکن مضمون کی تکمیل کے لئے پھر مختصراً اسے دوہرا دیتا ہوں- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- ویعلمہ الکتب والحکمہ والتورئہ والانجیل و رسولا الی بنی اسرائیل انی قدجئتکم بایہ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیہ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ۳۹۲~}~ ]1text [tagیعنی ہم نے مریم کو الہام کیا کہ ہم تجھے ایک بیٹا عطا کریں گے- جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف سے اسے اس پیغام کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یہ نشان لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے فائدہ کے لئے پانی ملی ہوئی مٹی یعنی طینی خصلت رکھنے والوں میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کروں گا- پھر میں اس میں ایک نئی روح پھونکوں گا- جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اڑنے والے ہو جائیں گے- دوسری جگہ فرماتا ہے واذ علمتک الکتب والحکمہ والتورہ والانخیل واذ تخلق من الطین کھیئہ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون طیرا باذنی- ۳۹۳~}~یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیحؑ سے فرمائے گا کہ تو اس وقت کو بھی یاد کر جب کہ تو میرے حکم سے طینی خصلت رکھنے والے افراد میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کرتا تھا- پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا- جس سے وہ میرے حکم سے اڑنے کے قابل ہو جاتا-
اب یہاں دونوں جگہ پرندے کا ذکر آتا ہے- دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ استعارہ ہے یا حقیقت- اگر حقیقتاً پرندہ مان کر کوئی دوسری آیت باطل ہوتی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ استعارہ ہے- اس نقطئہ نگاہ سے جب ہم قرآن کی اور آیات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک آیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ام جعلوا للہ شرکاء خلقوا کخلقہ فتشابہ الخلق علیھم قل اللہ خالق کلہ شیء وھو الواحد القھار ۳۹۴~}~یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اس جیسی کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اس کی اور دوسروں کی پیدا کردہ مخلوق آپس میں مل گئی ہے اور ان کے لئے مشتبہ صورت پیدا ہو گئی ہے- تو ان سے کہدے کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے- اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے- اب دیکھوں اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا کا شریک قرار دیا جاتا ہے اور جن کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اندر صفت خلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا محض بہتان ہے- جس قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کرتا ہے اس قسم کی پیدائش اور کوئی نہیں کر سکتا- اب اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ میں پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو سورہ رعد کی یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر یہ آیت سچی ہو تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خلق طیر کے وہ معنی غلط ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں اور ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی استعارہ ہے- تبھی یہ آیتیں آپس میں متضاد نظر آتی ہیں- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا تشریح ہے؟
کھیئہ الطیر کا مفہوم
سو اس کی تشریح کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں کھیئہ الطیر کے الفاظ آتے ہیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح پرندہ بچے پیدا کیا کرتا ہے- اسی طرح میں بھی کرتا ہوں- مگر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے- اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پرندہ پہلے انڈے دیتا ہے پھر اس پر بیٹھتا اور انہیں گرمی پہنچاتا ہے تب ان سے بچہ پیدا ہوتا ہے- حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں بھی ایسے لوگوں کو جن کی مٹی میں الہام کا پانی شامل ہو اپنی صحبت میں لیتا ہوں اور اپنے بازوئوں کے نیچے رکھ کر ایسی روحانیت ان میں پیدا کر دیتا ہوں کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہیں- اب دیکھو قرآن کریم کا مضمون کتنا بلند ہو گیا- اور اس کے معنی کیسے اعلیٰ ہو گئے- وہ بھی کیا معنی تھے کہ آپ چمگاڈریں بناتے پھرتے تھے- اور پھر قرآن میں حضرت مسیحؑ نے کہیں نہیں فرمایا کہ میں پرندے بناتا ہوں- بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں کھیئہ الطیر بناتا ہوں یعنی جس طرح پرندہ انڈوں کو سیتا ہے- اسی طرح میں بھی لوگوں کو اپنی تربیت میں لیتا ہوں اور جن میں ترقی کی قابلیت ہوتی ہے وہ اڑنے لگ جاتے ہیں- پھر زیادہ سے زیادہ پرندے چالیس دن تک انڈوں کو سیتے رہتے ہیں- بلکہ بعض تو اس سے بھی کم عرصہ میں پیدا ہو جاتے ہیں- اور غالباً اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعلان کیا کہ جو شخص میرے معجزات کا منکر ہو- وہ چالیس دن میرے پاس رہے- تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا دے گا- اب جو شخص فطرت صحیحہ رکھتا ہے وہ تو بہت جلد نبی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے- مگر جس طرح سخت چھلکے کا انڈا چالیس دن لیتا ہے- اسی طرح نبی کی صحبت میں اگر کوئی سخت دل انسان بھی چالیس دن رہے تو وہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیکھ لیتا ہے- اسی لئے قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کونوا مع الصادقین ۳۹۵~}~یعنی اے وہ لوگو! جن میں نیکی کی قابلیت تو ہے مگر تم ابھی انڈے کی حد تک ہی ہو پرندے نہیں بنے- تم کسی صادق کے پروں کے نیچے چلے جائو- تم تھوڑے دنوں میں ہی پرندے بن جائو گے-
ایک لطیفہ
تشابہ الخلق کے الفاظ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا- ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مولوی کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو پرندے بنائے تھے- وہ کہاں چلے گئے؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے اس کا ذہن اس طرف چلا جائے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے ہیں اور خدا نے بھی تو پھر تو تشابہ فی الخلق ہو گیا اور یہ قرآن کے خلاف ہے کہنے لگا کہ >وچے ہی رل مل گئے ہیں<-
ترتیب مضامین کے لحاظ سے غور
اب میں بتاتا ہوں کہ خود یہی آیت ان معنوں کو رد کرتی ہے جو عام لوگ لیتے ہیں- یہ ساری آیت یوں ہے- حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں- انی قد جئتکم بایہ من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیئہ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ و ابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ وانبئکم بماتاکلون وماتدخرون فی بیوتکم ان فی ذالک لایہ لکم ان کنتم مومنین اس آیت کی ترتیب اپنے مدنظر رکھ لو اور پھر سوچو کہ آیا پرندے بنانے والے معنی کسی صورت میں بھی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں؟ یہ صاف بات ہے کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ ترتیب سے خالی نہیں- فرض کرو ہم مان بھی لیں کہ اس جگہ پرندہ سے مراد پرندہ بنانا ہی ہے- تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ان معنوں کو تسلیم کر لینے کے بعد اس آیت میں کوئی ترتیب بھی پائی جاتی ہے یا نہیں- بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کوئی ترتیب نہیں- مگر ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے- چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ آیت دو جگہوں میں آتی ہے- ایک سورہ آل عمران میں اور دوسرے سورہ مائدہ میں اور دونوں جگہ الفاظ اسی ترتیب سے رکھے گئے ہیں- اب دونوں جگہ ان الفاظ کا اسی ترتیب سے رکھا جانا بتاتا ہے کہ اس میں کوئی خاص مقصد ہے ہم تو قرآن کریم کی ہر آیت میں ترتیب کے قائل ہیں- مگر جو لوگ اس کے قائل نہیں انہیں بھی اگر کسی اور جگہ نہیں تو اس جگہ ترتیب ضرور ماننی پڑتی ہے- کیونکہ پہلے خلق طیر کا ذکر ہے- پھر اکمہ کا ذکر ہے پھر ابرص کا اور پھر احیاء موتی کا- اور ان کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ دونوں جگہ اسی ترتیب سے کیا گیا ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ ترتیب میں دو باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے- کبھی چھوٹی بات پہلے بتائی جاتی ہے پھر اس سے بڑی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اس سے بڑی- اور کبھی پہلے سب سے بڑی بات بتائی جاتی ہے- پھر اس سے چھوٹی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اس سے چھوٹی- اور ان دونوں ترتیبوں میں مخاطب کا فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے- یعنی جن رنگ میں وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہو- اسی رنگ میں بات بیان کر دی جاتی ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ معنی کئے جائیں جو ہمارے مخالف لیتے ہیں تو ان معنوں میں کوئی ترتیب ہی نظر نہیں آتی- کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں پہلے سب سے بڑی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے چھوٹی بات کو اور پھر اس سے چھوٹی بات کو تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سب سے بڑی چیز پرندوں کا پیدا کرنا ہے- اس سے اتر کر اندھوں کو آنکھیں بخشنا- اس سے اتر کر کوڑھیوں کو اچھا کرنا اور اس سے اتر کر مردوں کو زندہ کرنا- حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مردہ زندہ کرنا سب سے بڑی بات ہے- پس یہ ترتیب صحیح نہیں ہو سکتی اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پہلے سب سے چھوٹی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے بڑی بات کو- اور پھر اس سے بڑی بات کو- تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ سب سے آسان کام دنیا میں پرندے بنانا ہے- اس سے مشکل کام اندھوں کو آنکھیں دینا ہے- اس سے مشکل کام کوڑھی کو اچھا کرنا ہے اور اس سے مشکل کام مردے زندہ کرنا ہے- گویا اس صورت میں سب سے آسان تر بات پرندے بنانا ٹھیرتی ہے- اب اگر یہ درست ہے تو کوئی مولوی ہمیں دو چار پرندے ہی بنا کر دکھا دے-
دوسری مشکل ان معنوں میں یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ احیاء موتی کو ادنیٰ اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحی العظام وھی رمیم قل یحییھا الذی انشاھا اول مرہ وھو بکل خلق علیم ۳۹۶~}~یعنی انسان کا یہ طریق ہے کہ وہ ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے- اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا- فرماتا ہے تم احیاء موتی کا انکار اسی لئے کرتے ہو کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہڈیاں گل سڑ کر پھر کس طرح اصل شکل و صورت میں آ جائیں گی- حالانکہ جب اس نے تمہیں ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو دوسری دفعہ پیدا کرنا اس کے لئے کیا مشکل ہے- چنانچہ فرمایا- ان لوگوں سے کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا- اور وہ ہر مخلوق کی حالت سے خوب واقف ہے- اس آیت سے ظاہر ہے کہ مردہ زندہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ادنی قرار دیا ہے اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے- مگر اوپر کی ترتیب تسلیم کر لینے کی صورت میں پیدائش کو ادنیٰ ماننا پڑتا ہے اور احیاء موتی کو اعلیٰ-
پھر اس ترتیب سے کوڑھیوں کو اچھا کرنا پرندے پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل قرار پاتا ہے- حالانکہ ڈاکٹر بھی چالموگراآئیل کی پچکاریوں او رمالش وغیرہ سے کئی کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے ہیں- اب چاہئے تھا کہ جب کوڑھی اچھے ہو رہے ہیں تو ان کوڑھیوں کے اچھا ہونے سے پہلے چڑیاں اور کبوتر بھی بننے شروع ہو جاتے- حالانکہ نہیں کوئی انسان نہیں بنا سکتا- اگر کہا جائے کہ اس ترتیب سے مخاطب کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے تو یہ بھی درست نہیں- کیونکہ اگر ایک یہودی کے سامنے حضرت مسیحؑ چڑیا پیدا کرتے تو کیا وہ اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا یا اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا کہ آپ کسی کوڑھی یا مادر زاد اندھے کو اچھا کر دیتے پس یہ چیز سے وہ زیادہ متاثر ہو سکتا تھا چاہئے تھا کہ اسے پہلے رکھا جاتا- مگر رکھا اسے بعد میں ہے-
‏a.10.20
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن
ترتیب قرآنی کے لحاظ سے خلق طیر اور احیاء موتی کے معنی
غرض ہمارے مخالف علماء جو معنی لیتے ہیں وہ ہر ترتیب کے رو سے غلط ٹھیرتے ہیں- مگر ہمارے معنوں کی رو سے ترتیب پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا- ہم پرندے پیدا کرنے سے مراد روحانی آدمی پیدا کرنا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص یہ پوچھے کہ مرزا صاحب نے کیا کیا- اور اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک کام کرنے والی جماعت دنیا میں پیدا کر دی ہے تو بالعموم وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے- کیونکہ لوگوں کی نگاہ میں روحانی آدمی پیدا کرنا سب سے کم حیثیت رکھتا ہے اسی لئے اس کو پہلے رکھا- پھر اکمہ یعنی اندھراتے کا علاج ہے یہ چونکہ ایک جسمانی چیز ہے اور ہر ایک کو نظر آ جاتی ہے- اس لئے اسے بعد میں رکھا اور برص چونکہ اس سے زیادہ سخت ہے اس لئے اکمہ کے بعد ابرص کا ذکر کر دیا- اور احیاء موتی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بالکل مردہ ہونے کی حالت تک پہنچ جائے اور دعا سے زندہ ہو جائے- برص والے اور اندھراتے والے کو گو سخت مرض ہوتا ہے مگر طاقت قائم ہوتی ہے- لیکن جس کی نبضیں چھوٹ جائیں اور پھر کسی نبی یا پاکباز انسان کی دعا سے زندہ ہو جائے وہ بڑا معجزہ ہوتا ہے- پس ہمارے معنی تسلیم کرنے کی صورت میں یہ ترتیب بالکل درست رہتی ہے- اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا-
ھدھد کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا
طیر کا دوسرا ذکر حضرت سلیمانؑ کے حالات کے بیان میں آتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا یایھا الناس علمنا منطق الطیر اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے- اب یہاں بھی طیر سے مراد تمام قسم کے پرندے نہیں- اس لئے کہ )۱(جس وقت ہدہد کہیں جاتا ہے- حضرت سلیمانؑ سخت ناراض ہوتے ہیں- اور فرماتے ہیں لاعذبنہ عذابا شدیدا او لااذبحنہ اولیا تینی بسلطن مبین یعنی ہدہد چونکہ غائب ہے اس لئے جب وہ آیا تو میں اسے سخت سزا دوں گا- میں اسے ذبح کر ڈالوں گا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور بتائے کہ کیوں غائب رہا- اب بتائو- کیا قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں کہ اگر ان سے کوئی قصور سر رذ ہو تو آدمی تلوار لے کر کھڑا ہو جائے اور اسے کہے کہ وجہ بیان کر ورنہ ابھی تیرا سرکاٹ دوں گا- یا کبھی تم نے دیکھا کہ تمہارا ہمسایہ ہدہد کو پکڑ کر اسے سوٹیاں مار رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ میرے دانے تو کیوں کھا گیا- اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم اسے پاگل قرار نہیں دو گے؟ پھر وہ لوگ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کرتے ہیں- کہ انہوں نے ہدہد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی لگاتے ہیں- بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں اسے سخت ترین سزا دوں گا اولیا تینی بسلطن مبین ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جو نہایت ہی واضح اور منطقی ہو- گویا وہ ہدہد سقراط بقراط اور افلاطون کی طرح دلائل بھی جانتا تھا- اور حضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا-
)۲(پھر قرآن تو یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس جنوں انسانوں اور طیر کے لشکر تھے- مگر حضرت سلیمانؑ کی نظر صرف ہدہد کی طرف جاتی ہے اور فرماتے ہیں مالی الا اری الھد ھد کیا ہوا کہ اس لشکر میں ہدہد کہیں نظر نہیں آتا- حکومت کے نزدیک تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھا جاتا- مگر حضرت سلیمانؑ نے یہ عجیب بھرتی شروع کر دی تھی کہ ہدہد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا- پھر ہدہد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی تب بھی کوئی بات تھی- بتایا یہ جاتا ہے کہ ہدہد صرف ایک آپ کے پاس تھا- اس ایک ہدہد نے بھلا کیا کام کرنا تھا- اور ایک جانور ساتھ لے جانے سے آپ کی غرض کیاتھی؟
)۳(تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے- ہدہد نے واپس آ کر یہ یہ باتیں بیان کیں اور معجزہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے- حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ بیان ہونا چاہئے تھا- مگر بیان ہدہد کا معجزہ ہوتا ہے جو سلیمانؑ کے معجزہ سے بھی بڑھ کر ہے- پھر پرندوں کی بولی سمجھنا حضرت سلیمانؑ سے ہی مخصوص نہیں- تمام شکاری پرندوں کی آوازیں سمجھتے ہیں-
)۴(ایک اور بات یہ ہے کہ ہدہد ان جانوروں میں سے نہیں جو تیز پرواز ہوں- اور اس قدر دور کے سفر کرتے ہوں- یہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے- مگر قرآن یہ بتلاتا ہے کہ ہدہد دمشق سے اڑا اور ۸ سو میل اڑتا چلا گیا- یہاں تک کہ سبا کے ملک تک پہنچا اور پھر وہاں سے خبر بھی لے آیا- گویا وہ ہدہد آج کل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیر رفتار تھا- اور معجزہ دکھلانے والا ہدہد تھا نہ کہ حضرت سلیمانؑ- حالانکہ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمانؑ نے معجزہ دکھایا-
)۵(اسی ہدہد کا دوسرا معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شرک اور توحید کے باریک اسرار سے واقف تھا اور اس کو وہ وہ مسائل معلوم تھے جو آج کل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں- کتنی اعلیٰ توحید وہ بیان کرتا ہے- کہتا ہے- وجدتھا و قومھا یسجدون للشمس من دون اللہ و زین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لایھتدون یعنی میں نے اس کو اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے ان کے عمل ان کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور ان کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے- پھر اس کی غیرت دینی دیکھو- آج کل مولویوں کے اپنے ہمسایہ میں بت پرستی ہو رہی ہو تو وہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے- مگر ہدہد چاروں طرف دوڑا پھرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر لا کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ شرک ہے فلاں جگہ بت پرستی ہے-
)۶(پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا- کیونکہ وہ کہتا ہے کہ واوتیت من کل شیء یعنی ملکہ سبا میں بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں اور اسے لوازم حکومت میں سے ہر چیز ملی ہوئی ہے- گویا وہ اس کے تمام خزانے اور محکمے چیک کرکے آیا اور اس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہوا کرتی ہے وہ اس کے پاس موجود ہیں-
)۷(پھر شیطان اور اس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے کیونکہ وہ کہتا ہے میں جانتا ہوں کہ انسان کا جب شیطان سے تعلق پیدا ہو جائے تو برے خیالات اس کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں- بلکہ ان خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا کیونکہ کہتا ہے کہ طفصد ھم عن السبیل ایسے خیالات کے نتیجہ میں انسان کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ سے دور جا پڑتا ہے- یہ ہدہد کیا ہوا اچھا خاصہ عالم ٹھیرا- ایسا ہدہد تو اگر آج مل جائے تو اسی کو مفتی بنا دینا چاہئے-
)۸(ہاں ایک بات رہ گئی اور وہ یہ کہ وہ تخت سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا- کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا کے پاس ایک ایسا عظیم الشان تخت ہے جو آپ کے پاس نہیں- گویا وہ لالچ بھی دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیجئے-
شریعت کا بوجھ انسان کے سوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہدہد کوئی پرندہ نہیں تھا- کیونکہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اٹھا سکے- جسے آسمان اور زمین کی کوئی چیز اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئی اسے انسانوں نے اٹھا لیا- وہی ہے جو ہماری شریعت کے اسرار کو جانتا ہے- فرشتہ صرف ایک ہی بات سمجھتا ہے- یعنی نیکی کی بات کو- مگر انسان بدی اور نیکی دونوں پہلوئوں کو جانتا ہے- اور تمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے- مفسرین کہتے ہیں کہ ہدہد کوئی جانور تھا- حالانکہ حملھا الانسان والی آیت موجود ہے- جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سوا اور کوئی مخلوق اسرار شریعت کی حامل نہیں- پس جب کہ ہدہد بھی اسرار شریعت سے واقف تھا تو لازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ-
طیر کی مختلف اقسام
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طیر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طیر کئی قسم کے ہوتے ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما من دابہ فی الارض ولا طیر یطیر بجنا حیہ الا امم امثالکم ۳۹۷~}~یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور دونوں پروں سے اڑنے والے پرندے سب تمہاری طرح کی جماعتیں ہیں- اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے پرندوں کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ یطیر یجناحیہ کہ وہ پرندے جو اپنے دونوں پروں کے ساتھ اڑتے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا پرندہ بھی ہوتا ہے جو پروں سے نہیں اڑتا-
پھر اس سے بھی واضح آیت ہمیں ایک اور ملتی ہے- جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طیر کسی اور چیز کا نام ہے- سورہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الم تر ان اللہ یسبح لہ من فی السموت والارض والطیر صفت کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ واللہ علیم بمایفعلون ۳۹۸~}~یعنی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذوی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور ان ذوی العقول میں سے جو طیر ہیں وہ صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذوی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے- یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طیر سے مراد پرندے نہیں-
اول- یسبح لہ من فی السموت والارض میں سے اللہ تعالیٰ نے طیر کیوں نکال ڈالے اور ان کا الگ کیوں ذکر کیا؟ پھر من کا لفظ ہمیشہ ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے- غیر ذوی العقول کے لئے نہیں- پھر اللہ تعالیٰ نے صرف طیر کو کیوں نکالا- جنات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا- کیا اس سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طیر کوئی الگ چیز ہے؟
پھر فرماتا ہے کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے- اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں- مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نمار کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں- آخر میں فرمایا واللہ علیم بما یفعلون اور یفعلون کا صیغہ پھر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے- آخر تم نے کبھی ایسے طیر دیکھے ہیں جو صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہوں ایسے طیر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں-پس من کا استعمال کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ کا استعمال اور واللہ علیم بمایفعلون کا ذکر بتا رہا ہے کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے- خصوصاً ان مومنوں کا جو باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں-
مومنوں کو طیر کیوں کہا گیا ہے
اب سوال یہ ہے کہ اگر طیر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طیر کیوں کہا گیا ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو اسے عربی میں طائر کہتے ہیں- اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے- الل¶ہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے- فاذا جاء تھم الحسنہ قالوا لناھذہ وان تصبھم سیئہ یطیروا بموسی و من معہ الا انما طئرھم عنداللہ ولکن اکثرھم لا یعلمون ۳۹۹~}~یعنی جب ان کو کوئی خوشی پہنچتی ہے اور ان پر خوشحالی کا دور آتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے- اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الا انما طیر ھم عنداللہ سنو! ان کا پرندہ یعنی ان کے وہ اعمال جنہیں وہ بجا لاتے ہیں خدا کے پاس موجود ہیں- وہ کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے عذاب آیا اور خدا کہتا ہے کہ ان کا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے- بظاہر اس کا آپس میں چونکہ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا- اس لئے لغت والے لکھتے ہیں کہ طائر کے ایک معنی انسانی اعمال کے بھی ہیں- چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں-
و کل انسان الزمناہ طاھرہ فی عنقہ کے معنی ہیں عملہ الذی طارعنہ من خیر و شر یعنی اس جگہ طائر سے مراد ہر اچھا یا برا عمل ہے جو انسان سے سرزد ہوتا اور پھر اڑ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے- مفردات اقرب میں بھی طائر کے معنی عملہ الذی قلدہ و طارعنہ من خیر و شر کے لکھے ہیں یعنی انسان عمل خواہ اچھا ہو یا برا-
پھر فرماتا ہے قالوا طیر نابک وبمن معک قال طائر کم عنداللہ بل انتم قوم تفتنون ۴۴۰~}~جب ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے برے اعمال کی نحوست کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں- جیسے آج کل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں- فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طائر کم عند اللہ تمہارا طائر تو اللہ کے پاس ہے بل انتم قوم تفتنون بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جسے آزمائش میں ڈالا گیا ہے-
پھر تین رسولوں کا سورہ یٰسین میں ذکر کر کے فرماتا ہے قالوا انا تطیر نابکم لئن لم تنتھوا لنرجمنکم ولیمسنکم منا عذاب الیم قالوا طائر کم معکم ائن ذکرتم بل انتم قوم مسرفون ۴۰۱~}~یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے- تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں- اور تمہارا آنا ہم منحوس سمجھتے ہیں- اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے- انہوں نے کہا- تمہارا پرندہ تو تمہارے ساتھ ہے- یعنی تم جہاں بھی ہوگے تمہارے اعمال بد کا نتیجہ تم ہی کو تباہ کرے گا- ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے- اور کیا تم یہ بات اس لئے کہتے ہو کہ ہم تمہیں اچھے کام یاد دلاتے ہیں- بلکہ حق یہ ہے کہ تم حد سے گذرنے والی قوم ہو اس لئے تم اپنے اعمال کی ضرور سزا پائو گے- اس جگہ بھی طائر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوت عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ ونخرج لہ یوم القیمہ کتبا یلقہ منشورا اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا ولا تزر وازہ وزر اخری وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ۴۰۲~}~یعنی ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک پرندہ اس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے- اور ہم قیامت کے دن اس کے اعمال نامہ کو اس کے سامنے لائیں گے- جسے وہ بالکل کھلا ہوا پائے گا اور اسے کہا جائے گا اسے پڑھ کر دیکھ لے اور اپنی نیکی بدی کا آپ حساب کر لے کیونکہ آج تیرا نفس ہی تیرا حساب لینے کے لئے کافی ہے- اور یاد رکھو کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان بھی اسی کو ہوتا ہے- کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا- اور ہم اس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کہ ان کی طرف رسول مبعوث نہ کرلیں-
یہاں قرآن نے طائر کے نہایت لطیف معنی کئے ہیں- اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے اس کا پرندہ بندھا ہوا ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے- سو جب ہمیں خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیں یہ تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیں ہوتا- پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے- اور وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ قوت عمل یا نتیجہ عمل کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے- پس جس قسم کے بھی انسان اعمال بجا لاتا ہے- ان کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے- اگر تو انسان نیک اعمال بجا لاتا ہے تو وہ انسان کو آسمان روحانیت کی طرف اڑا کر لے جاتے ہیں- جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں اڑا کر لے جاتا ہے- اور اگر اعمال برے ہونگے تو لازماً پرندہ بھی کمزور ہوگا اور انسان بجائے اوپر اڑنے کے نیچے کی طرف گرے گا- اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے- اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اوپر اڑا کر لے جائے گا- اور اگر برے اعمال کرے گا تو وہ اسے نیچے گرا دے گا- اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ کل مولود یولد علی الفطرہ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسا نہ ۴۰۳~}~کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے- پھر ماں باپ اسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں- گویا انسان میں اڑنے کی طاقت موجود ہے- اور اسے پرواز کے پر عطا کئے گئے ہیں- یہی مضمون کل انسان الزمنہ طائرہ فی عنقہ میں بیان کیا گیا ہے- کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس کا پرندہ بھی اس کے ساتھ پیدا کر دیا جاتا ہے- پھر بعض ماں باپ تو اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بعض جو بچ جاتے ہیں ان کے لئے پرواز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور عمل نیک کی وجہ سے ان کا طائر یعنی فطرتی مادہ سعادت ترقی کرتا رہتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ فاطر میں فرماتا ہے- الحمدللہ فاطر السموت والارض جاعل الملئکہ رسلا اولی اجنحہ مثنی و ثلثت وربع یعنی سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے- اور فرشتوں کو ایسی حالت میں رسول بنا کر بھیجنے والا ہے جب کہ کبھی تو ان کے دو دو پر ہوتے ہیں کبھی تین تین اور کبھی چار چار- پھر وہ انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے- من کان یرید العزہ فللہ العزہ جمیعا الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والذین یمکرون السیات لھم عذاب شدید و مکر اولئک ھو یبور ۴۰۴~}~فرماتا ہے- تمہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ مختلف فرشتوں کی ترقی کیلئے ہم نے کئی کئی پر بنائے ہوئے ہیں- مگر اے انسانوں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو- پس تم میں سے جو کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں- الکلم الطیب یعنی خدا کا کلام جن کو میسر ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں- مگر خالی کلام نہیں بلکہ العمل الصالح یرفعہ اعمال صالحہ کا اسے سہارا چاہئے- گویا الکلم الطیب ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اڑ سکتا بلکہ اعمال صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے- اس طرح اس کے دو پر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمان روحانیت کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے-
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں- ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا یعنی فضا میں اڑتا ہے- دوسرے یہ کہ اس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے- جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں- اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی درخت پر بسیرا کرتے ہیں- نیچے نہیں بیٹھتے- اب یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واذا قیل انشروا فانشروا یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم درجت واللہ بما تعملون خبیر ۴۰۵~}~اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھو! تو فوراً اٹھ کھڑے ہوا کرو اور نبی یا اس کے خلیفہ کی آواز پر دوڑ پڑا کرو- کیونکہ یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم درجت اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علم حقیقی رکھنے والے ہیں اونچا کر دے گا اور انہیں درجات میں بڑھا دے گا- گویا اوپر اڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے تعلق میں ذکر آ گیا-
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندہ ہمیشہ اپنا آشیانہ اونچا بناتا ہے- اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- فی بیوت اذان اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال رجال لاتلھیھم تجارہ لا بیع عن ذکر اللہ و اقام الصلوہ وایتاء الزکوہ یہ نور کچھ گھروں میں ہے- جن کے متعلق ہمارا حکم ہے کہ انہیں اونچا کر دیا جائے- ان گھروں میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے- مگر فرماتا ہے رجال ہماری مراد گھروں سے نہیں بلکہ آدمیوں کو اونچا کرنے سے ہے ایسے آدمیوں کو جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے قیام اور زکٰوۃ کی ادائیگی سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیع- گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کر دیا گیا- اور بتا دیا گیا ہے عمل صالح مومن کو اڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے- حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دروازے کھول دو ایک مومن کی روح آتی ہے- مگر جب کافر مرتا ہے تو اس کی روح اٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے-
غرض طیر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو دین کیلئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کیلئے تیار رہتی ہیں- وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں- اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں- بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ اور تیار رہتی ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے جنگ بدر کے موقعہ پر کہا- یا رسول اللہ آپﷺ~ حکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں- اور ذرا بھی ہمارے اندر ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ حضور نے یہ حکم کیوں دیا- گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں پائی جاتی ہیں- اور بتایا ہے کہ وہ سفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتے اور نیچے جھکنے کی بجائے اوپر کی طرف پرواز کرتیہیں-
ہدہد کے متعلق تاریخی تحقیق
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہدہد نام کیوں رکھا گیا ہے؟ اور گو اس کا عقلی جواب میں قرآن کریم سے دے چکا ہوں- مگر اب بتاتا ہوں کہ ہدہد سے مراد کیا ہے-
ہدہد کا پتہ لینے کے لئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا ان میں کسی ہدہد کا ذکر آتا ہے یا نہیں- تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ھدد نام ہوا کرتا تھا جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہدہد ہو گیا- جیسے عبرانی میں ابراہم کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیم بن گیا- اسی طرح عبرانی میں یسوع کہا جاتا ہے مگر عربی میں عیسیٰ کہتے ہیں- اسی طرح عبرانی میں موشے کہا جاتا ہے مگر عربی میں یہی نام موسیٰ ہو گیا- اب بھی کسی اہل عرب کو لکھنئو کہنا پڑے تو وہ لکھنئو نہیں بلکہ >لکھنا ہو< کہے گا- اسی طرح عبرانی میں ہدد کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن عربی میں ہے- اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ہدہد ہوگیا-
درحقیقت تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھدو کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا- اور اس کے معنی بڑے شور کے ہوتے ہیں- عربی زبان میں بھی ھد کے ایک معنی الصوت الغلیظ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ہدد یا ہدہد رکھ دیتے تھے- پھر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا بھی تھا- جس نے مدین کو شکست دی تھی- اور آخری بادشاہ کا بھی یہی نام تھا- حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہدہد تھا- بائیبل کی کتاب نمبر۱ سلاطین باب۱۱ آیت ۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہدد تھا- اور جو یوآب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا- جیوش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آئے اور اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہو تو اس کے معنی ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں- غرض یہ ہدہد عبرانی زبان کا لفظ ھدد ہے جو عربی میں آکر ھدھد ہو گیا- چونکہ مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں- اس لئے وہ بعض دفعہ بے ہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کر دیتے ہیں- چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضب عربی میں گوہ کو کہتے ہیں مگر ضب عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا- اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسے ہندوئوں میں طوطا رام نام ہوتا ہے- وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا- اور اس نے آپﷺ~ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا- اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ رستہ میں ایک سوراخ سے گوہ نکلی اور اس نے قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا- اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا ان کے لئے ہدہد کا پرندہ بنا لینا کونسا مشکل کام تھا-
بہرحال قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے- مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے- اس لئے اس نے ساتھ ہی محکم آیات بھی رکھ دی ہیں جو کوئی دوسرے معنی کرنے ہی نہیں دیتیں- جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنی ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں ٹکرا جائیں گی-
غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعاً نہیں ٹھہر سکتیں- افسوس ہے کہ باوجود ایسی عظیم الشان کتاب پاس رکھنے کے مسلمانوں کو پھر بھی ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے عجیب و غریب قصے گھڑ لئے- چنانچہ چیونٹی کا واقعہ جو وہ بیان کرتے ہیں اسی کے ضمن میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کو جب وہ چیونٹی ملی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتا- مجھ سے بڑا آدمی بھی تو نے کبھی دیکھا ہے- وہ کہنے لگی- یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی کہ آپ تخت پر بیٹھے ہوں اور میں زمین پر- آپ مجھے اپنے پاس بٹھائیں- پھر آپ کی بات کا میں جواب بھی دے دونگی- انہوں نے اسے اٹھا کر تخت پر بٹھا لیا- وہ کہنے لگی- اب بھی میں بہت نیچے ہوں- آپ ذرا اور اوپر کریں- چنانچہ انہوں نے اسے اپنے ہاتھ پر اٹھا لیا- اس پر وہ کہنے لگی- بڑے آپ نہیں بلکہ میں بڑی ہوں جو سلیمان کے ہاتھ پر بیٹھی ہوں- تو ایسے ایسے لطائف انہوں نے لکھے ہیں جنہیں سن کر ہنسی آتی ہے-
بے شک پہلی کتب میں بھی استعارے استعمال کئے گئے ہیں مگر ان کتب میں ان استعاروں کے لئے اندرونی حل موجود نہیں تھا- اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی استعارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے حل بھی رکھ دیا ہے تا کہ اگر کسی کو ٹھوکر لگے تو عالم قرآن اس کو سمجھا سکے-
غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں- اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے- اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے- اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے- اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے- اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں- پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے- لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں-
اس وقت تک میں نے قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق آٹھ دس باتیں ہی بیان کی ہیں- لیکن میرا اندازہ ہے کہ تین سو بلکہ اس سے بھی زیادہ دلائل ایسے دیئے جا سکتے ہیں- جن سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے- اور جن کے مقابلہ میں عام انسانی کتابیں تو الگ رہیں الہامی کتابیں بھی نہیں ٹھیر سکتیں- لیکن ان کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں- وہ تو شاید آپ لوگوں سے دعائیں کرانا چاہتے ہیں- ورنہ کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ اور پھر صحت ایسی خراب رہتی ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے-
اس کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو اس طرح توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسے پر آئے- تقریریں سنیں اور جلسہ ختم ہو گیا- اس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہئے- ورنہ آ کر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے- پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اٹھائو اور اس دفعہ میں نے جو مضمون بیان کیا ہے اس کی مناسبت سے کوشش کرو کہ تم طیر بن جائو- اور ہدہد والے کمال تم میں آ جائیں اگر سلیمانؑ کی امت میں سے ایک شخص جس کا نام ہدہد تھا اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اسرار کا اسے علم ہو جاتا ہے- سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے- سلیمانؑ شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اس کو دور کرنا چاہئے- حالانکہ سلیمانؑ صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جائو اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچائو اس کے افراد کے اندر اگر اپنے مذہب کا درد نہ ہو- تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی- غالباً اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کیلئے یہ قصہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مقابلہ میں تو سلیمانؑ کی امت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہدہد- پس جب ہدہد یہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہو سکتے-
پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو اپنے اندر جوش اخلاص اور ہمت پیدا کرو- تم آسمان کی طرف اڑو- کیونکہ تمہارا خدا اوپر ہے- تم نیچے مت دیکھو اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے- کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں- جن پر تمہیں ابتلاء آ جاتے ہیں- کہیں اس بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں عہدہ مجھے کیوں نہیں ملا- کہیں اس بات پر کوئی شخص ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ انجمن کا سیکرٹری فلاں کیوں بنا مجھے کیوں نہ بنایا گیا- گویا ہر وقت ان کی نظر نیچی رہتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تم کو طائر بنانا چاہتا ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہیکل انسان الزمنہ طائرہ فی عنقہ ہم نے ہر انسان کی گردن کے نیچے ایک طائر باندھ رکھا ہے- اب بتائو جس کی گردن کے نیچے کوئی چیز باندھ دی جائے اس کی نگاہ کبھی نیچی بھی ہو سکتی ہے- وہ تو ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھے گا- پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم اپنی نگاہیں ہمیشہ اونچی رکھو- کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا-
پس فائدہ اٹھائو میرے اس وعظ و نصیحت سے- اور جب اپنے گھروں میں جائو تو اس ارادے اور نیت کے ساتھ جائو کہ آئندہ ہم چوہے اور چھپکلیاں نہیں بنیں گے بلکہ وہ طائربنیں گے جو ہوائوں میں اڑتے پھرتے ہیں- اور اپنے خدا کی آواز کو سننے کی کوشش کریںگے-
اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا
اس کے بعد میں دعا کروں گا- دوست بھی دعا کریں- اپنے لئے بھی- اپنے رشتہ داروں کیلئے بھی کیونکہ یہ جامع دعا ہوتی ہے- جو احمدی ہیں ان کیلئے بھی کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو- اور جو غیر احمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو- اسی طرح اپنے شہر والوں کے لئے- اپنے ہمسایوں کیلئے اور اپنے ملک والوں کیلئے دعائیں کرو- اور خصوصیت سے جماعت کے لئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سچا تقویٰ پرہیزگاری اور تقدس پیدا کرے- کیونکہ بغیر اس کے ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں` ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں- پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جائیں- اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے- اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے- اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کے لئے- اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کے لئے- اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کے لئے- ہماری مثال حضرت علیؓ کی سی ہو جائے کہ ان سے جب ان کے بیٹے امام حسنؓ نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا- ہاں! پھر انہوں نے پوچھا- کیا آپ خدا سے بھی محبت کرتے ہیں- انہوں نے کہا ہاں- یہ سن کر حضرت حسنؓ کہنے لگے- کیا یہ شرک نہیں کہ آپ خدا کی محبت میں میری محبت کو بھی شریک کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا- اے میرے بیٹے! یہ شرک نہیں- کیونکہ اگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں تیری محبت آ جائے تو میں اسے اٹھا کر پرے پھینک دوں گا-
پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے- اور اگر ماسوی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اس کی وجہ سے ہو مستقل نہ ہو- اللہ تعالیٰ ہم کو اچھے کاموں کی توفیق دے- ہمیں دنات کمینگی اور پست ہمتی سے محفوظ رکھے- ہمارے خیالات میں وسعت دے- ہماری کوششوں میں برکت ڈالے- اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا- پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اس کے دین کے لئے وقف کر دیں- اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے لالچ اور حرص نکال دے- اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے ظلم کا مادہ نکال دے- اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے بدظنی اور اپنے بھائیوں کی عیب جوئی اور ان پر طعنہ زنی کا مادہ نکال دے- اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے- ہمارے اندر رحم پیدا کرے- ہمیں قرآن کا علم دے- اس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے- اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے- اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نور پیدا کرے وہ ہماری آنکھوں ہمارے کانوں ہمارے دماغوں ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں میں نور پیدا کرے- ہمارے آگے بھی نور ہو- ہمارے پیچھے بھی نور ہو- ہمارے دائیں بھی نور ہو- ہمارے بائیں بھی نور ہے- ہمارے اندر بھی نور ہو- ہمارے باہر بھی نور ہو- یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں- اللہ تعالیٰ تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے- اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے- وہ ہر قسم کے دشمنوں کے حملوں سے ہمیں بچائے- اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے- اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفیٰ کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اس پر پڑنے لگے- یہاں تک کہ ہم اس کے وہ بندہ بن جائیں جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فادخلی فی عبادی واخلی جنتی- ۴۰۶~}~
پھر دعا کرو ان مبلغوں کیلئے جو باہر گئے ہوئے ہیں- دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کیلئے کر رہے ہیں برکت ڈالے- اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے- ان کی زبانوں میں تاثیر ڈالے- ان کے قلوب میں درد پیدا کرے- ان کی دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور ان کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں-
پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے جو ہم میں نقص ہیں وہ ان میں نہ جائیں- مگر ہم میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے وارث ہوں- آمین ثم آمین
اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا-
حوالہ جات
۱~}~ الانعام:۲۶-۲~}~ الحاقہ: ۴۲-
۳~}~
۴~}~ الاعراف:۵۱۵۹~}~ التوبہ:۶۲۶`۷~}~ الفرقان:۳۳
۸~}~ الفرقان:۵]txte [tag۹~}~ الحجر:۹۲
۱۰~}~
۱۱~}~ ال عمران:۱۲۸~}~ ھود:۱۳۲`۱۴~}~ الرمز:۲۴
۱۵~}~ البقرہ: ۱۶۱۸۴~}~ الحج: ۱۷۳۵`۱۸~}~ ال عمران:۸
۱۹~}~ النور: ۳۶ تا ۳۹]txet [tag۲۰~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۲۱۱۹۵~}~ القلم: ۴۵
۲۲~}~ الشعراء: ۲۳۶~}~ البقرہ: ۱۰۷
۲۴~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸
۲۵~}~المزمل: ۱۶
۲۶~}~ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲`۱۳
۲۷~}~المائدہ: ۴]2 [stf۲۸~}~ھود: ۲۹۱۸~}~ العلق: ۲ تا ۶
۳۰~}~
۳۱~}~
۳۲~}~ متی باب ۱۳ آیت ۲۶
۳۳~}~ص:۶ ۳۴~}~ الزمر: ۳۵۴~}~ الواقعہ:۸۰
۳۶~}~ الانبیاء:۸۸
۳۷~}~
‏text] g[ta۳۸~}~ فتوحات مکیہ )مئولفہ حضرت محی الدین ابن عربی( جلد۱ صفحہ مطبوعہ
۳۹~}~ فاطر: ۴۰۲~}~ الفرقان: ۴۱۶۱~}~ ابراہیم: ۵
۴۲~}~ھود: ۴۳۹۲~}~ الزخرف: ۲۱
۴۴~}~ لوتھر کا بیان
۴۵~}~
۴۶~}~
۴۷~}~
۴۸~}~ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸`۱۹
۴۹~}~ الجمعہ: ۲ تا ۵۰۵~}~ الانعام: ۵۱۱۰۹~}~
۵۲~}~ متی باب ۱۲ آیت ۴۶ تا ۵۰
۵۳~}~
۵۴~}~
‏۵۵2]~}~ ftr[ الرحمن: ۵۶۱۴~}~ الرحمن: ۲۷` ۵۷۲۸~}~ العلک: ۲`۳
۵۸~}~ الانعام: ۱۰۳` ۵۹۱۰۴~}~ المومن: ۶۰۶۵~}~ الشعراء: ۱۹۳ تا ۱۹۷
۶۱~}~ الفرقان:۶۲` ۶۲۶۳~}~ بنی اسرائیل: ۸۶ تا ۶۳۹۰~}~ الواقعہ: ۷۸` ۷۹
۶۴~}~ المائدہ: ۶۵۱۶~}~ الانعام: ۶۶۱۰۰~}~ المائدہ: ۱۰۲
۶۷~}~ الشوری: ۶۸۲۹~}~ الرعد: ۶۹۱۲~}~ المومن: ۶۱
۷۰~}~ متی باب ۵ آیت ۳۲
۷۱~}~ المومنون: ۷۲۱۱۶~}~ القیمہ: ۱ تا ۷۳۴~}~ القیمہ: ۷ تا ۱۱
۷۴~}~ بنی اسرائیل: ۷۵۷۳~}~ الحدید: ۱۳ تا ۷۶۱۴~}~ العنکبوت: ۶۹` ۷۰
۷۷~}~ الاحزاب: ۲۴`۷۸۲۵~}~ الذریت: ۷۹۵۷~}~ حم السجدہ: ۳۱ تا ۳۳
‏۸۰2]~}~ ftr[
۸۱~}~ الفاتحہ: ۶`۸۲۷~}~ الحدید: ۸۳۲۰~}~ النساء: ۷۰
۸۴~}~ البقرہ: ۲
۸۵~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۷
۸۶~}~ الحجر: ۸۷۱۰~}~ الحجرات: ۸۸۱۴~}~ عبس: ۲ تا ۱۷
‏2] [stf۸۹~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۴
۹۰~}~ براہین احمدیہ چہار حﷺ- روحانی خزائن جلد صفحہ ۹۸
۹۱~}~
۹۲~}~ دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۵- روحانی خزائن جلد صفحہ
۹۳~}~ متی باب ۱۹ آیت ۲۳` ۲۴
۹۴~}~ متی باب ۱۹ آیت ۲۱
۹۵~}~ متی باب ۶ آیت ۳`۴
۹۶~}~
۹۷~}~
۹۸~}~ بنی اسرائیل: ۳۰`۳۱
۹۹~}~
۱۰۰~}~
۱۰۱~}~
۱۰۲~}~
۱۰۳~}~ الفرقان:۶۸
۱۰۴~}~
‏]2 [stf۱۰۵~}~
۱۰۶~}~ بنی اسرائیل: ۲۷` ۱۰۷۲۸~}~ البقرہ: ۱۰۸۳۷۵~}~ البقرہ: ۲۷۲
۱۰۹~}~
۱۱۰~}~ البقرہ: ۱۱۱۱۱۱~}~ التوبہ: ۱۰۳
۱۱۲~}~
۱۱۳~}~ البقرہ: ۱۹۶text] gat[۱۱۴~}~ البقرہ: ۱۱۵۲۱۶~}~ المعارج: ۲۵`۲۶
۱۱۶~}~ الذریت: ۱۱۷۲۰~}~ الجاثیہ: ۱۱۸۱۴~}~ البقرہ: ۲۶۶
۱۱۹~}~ النحل: ۱۲۰۹۱~}~ بنی اسرائیل: ۱۲۱۲۹~}~ الضحی: ۱۱
‏۱۲۲nsk]~}~ [tag البقرہ: ۱۲۳۴~}~ الانعام: ۱۲۴۱۴۲~}~ البقرہ: ۲۶۸
۱۲۵~}~ ال عمران: ۱۲۶۱۳۵~}~ التوبہ: ۱۲۷۶۰~}~ الممتحنہ: ۹
۱۲۸~}~ النور: ۱۲۹۲۳~}~ البقرہ: ۱۳۰۲۶۵~}~ البقرہ: ۲۷۷
‏]2 [stf۱۳۱~}~ البقرہ: ۲۷۴
۱۳۲~}~ متی باب ۱۹ آیت ۱۰ تا ۱۲
۱۳۳~}~ کرنتھیوں باب ۷ آیت ۲`۳
۱۳۴~}~ کرنتھیوں باب ۷ آیت ۸ تا ۱۰
۱۳۵~}~ پیدائش باب ۲ آیت ۲۱ تا ۲۴
۱۳۶~}~ النساء: ۱۳۷۲~}~ الذریت: ۱۳۸۵۰~}~ النبا: ۹
۱۳۹~}~ النحل: ۱۴۰۷۳~}~ الشوری: ۱۴۱۱۲~}~ الاعراف: ۱۹۰
۱۴۲~}~ الروم: ۱۴۳۲۲~}~ الاعراف: ۱۷۳
۱۴۴~}~
۱۴۵~}~ البقرہ: ۱۴۶۱۸۸~}~ نوح: ۱۴۷۱۴nsk]~}~ ga[t نوح ۱۴۸۵۱~}~ عوارف المعارف مولفہ حضرت شہادب الدین شہروردی صفحہ
۱۴۹~}~ عوارف المعارف مولفہ حضرت شہادب الدین سہروردی صفحہ
۱۵۰~}~ بخاری کتاب التفسیر- تفسیر سورہ ال عمران زیر آیت انی اعیذ ھابک
۱۵۱~}~ المائدہ:۱۵۲۵۵~}~ البقرہ: ۱۵۳۱۶۶~}~ البقرہ: ۲۲۴
۱۵۴~}~ الحجر: ۱۵۵۲~}~ الحجر: ۱۵۶۸~}~ الحجر: ۹
۱۵۷~}~ الحجر: ۱۱ تا ۱۵۸۱۴~}~ الحجر: ۱۵ تا ۱۵۹۱۹~}~ الجن: ۹` ۱۰
۱۶۰~}~ الانعام: ۱۶۱۷~}~ البینہ: ۲ تا ۱۶۲۴~}~ السجدہ: ۶
۱۶۳~}~
۱۶۴~}~
۱۶۵~}~
۱۶۶~}~ اخبار نور افشاں ۲۸ نومبر ۱۹۳۰ء
۱۶۷~}~
۱۶۸~}~
۱۶۹~}~
‏۱۷۰~}~ ۱۷۱nsk]~}~ gat[ ال عمران: ۱۷۲۱۴۵~}~ التوبہ: ۱۷۳۶~}~ البقرہ ۷۶
۱۷۴~}~ البقرہ: ۱۷۵۷۷~}~ الفتح: ۱۷۶۱۶~}~ النساء: ۱۶۵
۱۷۶~}~ البقرہ: ۱۷۷۱۶۵~}~ البقرہ: ۱۷۸۱۰۲~}~ الفاتحہ: ۲
۱۷۹~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۵
۱۸۰~}~
۱۸۱~}~
۱۸۲~}~ النجم: ۴`۵
۱۸۳~}~ مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ ۹۱
۱۸۴~}~ الانعام: ۱۲۵`۱۸۵۱۲۶~}~ حم السجدہ: ۱۸۶۳۹~}~ یونس: ۱۷
۱۸۷~}~ الحزاب: ۱۸۸۲۲~}~ ال عمران: ۱۸۹۳۲~}~ الحجر: ۷
۱۹۰~}~ القلم: ۲ تا ۱۹۱۷~}~ الانبیاء: ۱۹۲۶~}~ الانبیاء: ۱۱
۱۹۳~}~ ص: ۱۹۴۵~}~ القمر: ۱۹۵۳~}~ القمر: ۶
‏۱۹۶nsk]~}~ gat[ الفرقان:۱۹۷۹~}~ الفرقان:۲۲ تا ۱۹۸۲۷~}~ الفرقان: ۳۱
۱۹۹~}~ بنی اسرائیل: ۴۸`۲۰۰۴۹~}~ الفرقان:۲۰۱۱۰~}~ الحاقہ:۴۳
۲۰۲~}~ الطور: ۲۰۳۳۰~}~ الحاقہ: ۳۹ تا ۲۰۴۴۸~}~ یسن: ۷۰`۷۱
۲۰۵~}~ الدخان: ۱۴`۱۵
۲۰۶~}~ النحل: ۱۰۳` ۲۰۷۱۰۴~}~ الفرقان: ۵`۶
۲۰۸~}~
۲۰۹~}~ لوقا باب ۱۱ آیت ۱۴ تا ۱۸
۲۱۰~}~ سورہ العلق
۲۱۱~}~
۲۱۲~}~ الفرقان:۷
‏۲۱۳~}~]ksn [tag
۲۱۴~}~ الشعراء: ۲۱۱`۲۱۵~}~ التکویر: ۲۱۶۲۶~}~ النجم: ۱۰`۲۱
۲۱۷~}~ الحج: ۲۱۸۵۳~}~ النجم: ۲۱۹۲۴~}~ الشعراء: ۲۲۱`۲۱۲
۲۲۰~}~ الشعراء: ۲۲۲ تا ۲۲۱۲۲۴~}~ الانعام:۱۲۲17] [p۲۲۲~}~ النحل: ۱۰۰`۱۰۱
۲۲۳~}~ النحل: ۲۲۴۱۰۲~}~ یونس: ۳۸`۲۲۵۳۹~}~ النمل: ۶۶
۲۲۶~}~ الانبیاء: ۴۵
۲۲۷~}~ مواھب اللدنیہ مئولفہ جلد۱ صفحہ۲۴۶ مطبوعہ
۲۲۸~}~استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲
۲۲۹~}~ اعمال باب ۳ آیت ۲۴
۲۳۰~}~ یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲
۲۳۱~}~ یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۴
۲۳۲~}~ ال عمران: ۲۳۳۹۸~}~ الکھف: ۵۵
۲۳۴~}~ استثناء باب ۱۹ آیت ۲۱
۲۳۵~}~ متی باب ۵ آیت ۳۸ تا ۴۱
۲۳۶~}~ الشوری: ۴۱]71 [p۲۳۷~}~ الرحمن ۴۷
۲۳۸~}~ متی باب ۱۵ آیت ۲۶
۲۳۹~}~ فاطر: ۲۴۰۲۵~}~ ھود: ۲۱ تا ۲۴۱۲۳~}~ الضحی: ۸
۲۴۲~}~ النجم: ۲`۲۴۳۳~}~ الضحی: ۲۴۴۵~}~ ابراھیم: ۲۵
۲۴۵~}~ النجم: ۴ تا ۲۴۶۶~}~ بنی اسرائیل: ۲۴۷۷۴~}~ بنی اسرائیل ۷۵
۲۴۸~}~ الضحی: ۲ تا ۲۴۹۴~}~ الضحی: ۲۵۰۶~}~ الکھف: ۷
۲۵۱~}~ الضحی:۲۵۲۷~}~ یوسف: ۲۵۳۹۶~}~ الضحی: ۹
۲۵۴~~} الضحی: ۱۰`۲۵۵۱۱~}~ المائدہ: ۲۵۶۱۲۵~}~ النساء:۱۰۶`۱۰۷
۲۵۷~}~ المومن:۲۵۸۵۶~}~ محمد: ۲۵۹۲۰~}~ النصر: ۴
۲۶۰~}~ الفتح: ۲`۳
۲۶۱~}~
۲۶۲~}~ الانشراح: ۲17] p[۲۶۳~}~ البقرہ: ۲۶۴۱۵۲~}~ الاعراف: ۱۵۸`۱۵۹
۲۶۵~}~ النور: ۲۴
۲۶۶~}~
۲۶۷~}~ النحل: ۶۴` ۲۶۸۶۵~}~ الفرقان:۲
۲۶۹~}~
۲۷۰~}~
۲۷۱~}~ ق: ۱۷۱2] [stf۲۷۲~}~ الاخلاص: ۲۷۳۲~}~ البقرہ:۹
۲۷۴~}~ الجاثیہ: ۲۷۵۲۵~}~ الجاثیہ: ۲۷۶۲۹~}~ البقرہ: ۱۲۰
۲۷۷~}~ استثناء باب ۳۳ آیت ۶
۲۷۸~}~ فضل الخطاب جلد۲ صفحہ ۳۸
۲۷۹~}~
‏۲۸۰~}~]ksn [tag
۲۸۱~}~ غزل الغزلات باب۵ آیت ۸ تا ۱۶
۲۸۲~}~
۲۸۳~}~
۲۸۴~}~
۲۸۵~}~
۲۸۶~}~ یسعیاہ باب۹ آیت۶`۷
۲۸۷~}~ الجن: ۲
۲۸۸~}~ متی باب ۲۱ آیت ۴۲
۲۸۹~}~ المجادلہ: ۱۳
۲۹۰~}~ خروج باب ۷ آیت ۱
۲۹۱~}~ المزمل: ۲۹۲۱۶~}~ الاحزاب: ۲۹۳۷~}~ الاحزاب: ۴۱
۲۹۴~}~ یوسف: ۹۳
۲۹۵~}~ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷
۲۹۶~}~ یسعیاہ باب ۵۵ آیت ۴`۵
۲۹۷~}~ یسعیاہ ۶۲ آیت ۱۲
۲۹۸~}~ التوبہ: ۲۹۹۱۰۰~}~ الطور: ۲ تا ۷
۳۰۰~}~ حبقوق باب ۳ آیت ۳ تا ۱۸
۳۰۱~}~
۳۰۲~}~
۳۰۳~}~
۳۰۴~}~ الاحزاب: ۳۰۵۵۷~}~ الاحزاب: ۱۴
۳۰۶~}~
۳۰۷~}~ بخاری ابواب فضائل المدنیہ باب کراھیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان تعری المدینہ
۳۰۸~}~
۳۰۹~}~
۳۱۰~}~
۳۱۱~}~ العشر: ۳۱۲۳~}~ القمر: ۳۱۳۴۶~}~ الطور: ۸ تا ۱۲
۳۱۴~}~ طہ: ۱۰۰` ۳۱۵۱۰۱~}~ طہ: ۱۰۶` ۱۰۹
۳۱۶~}~
۳۱۷~}~ الفتح: ۳۱۸۱۷~}~ النساء: ۳۱۹۷۶~}~ النساء: ۸۵
۳۲۰~}~ الانفال: ۴۸
۳۲۱~}~
۳۲۲~}~
۳۲۳~}~
۳۲۴~}~ متی باب ۲۱ آیت ۱۹` مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲
۳۲۵~}~ متی باب ۲۱ آیت ۴۰ تا ۴۴
۳۲۶~}~ یوحنا باب ۱۶ آیت ۷ تا ۱۴
۳۲۷~}~ الفتح: ۱۱
۳۲۸~}~
۳۲۹~}~ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوہ
۳۳۰~}~ الرمز: ۳۳۱۵۴~}~ الاعراف: ۳۳۲۱۵۷~}~ القارعہ: ۱۰
۳۳۳~}~ الاعراف: ۳۳۴۱۵۹~}~ التین: ۵ تا ۳۳۵۷~}~ المائدہ: ۷۹
۳۳۶~}~ الانعام: ۳۳۷۹۲~}~ الانعام: ۸۳
۳۳۸~}~
۳۳۹~}~ الانعام: ۳۴۰۹۲~}~ البقرہ: ۳۴۱۸۸~}~ النساء: ۱۵۸` ۱۵۹
۳۴۲~}~ ال عمران: ۱۹۰
۳۴۳~}~ لوقا باب ۱۱ آیت ۲
۳۴۴~}~ متی باب ۲۱ آیت ۴۲
۳۴۵~}~ ال عمران: ۲۷`۳۴۶۲۸~}~ ال عمران: ۱۹۱ تا ۳۴۷۱۹۶~}~ ال عمرن: ۲۰۱
۳۴۸~}~
۳۴۹~}~ الرمز: ۶۳` ۳۵۰۶۴~}~ القﷺ: ۳۵۱۸۹~}~ الحدید: ۴
۳۵۲~}~ ق: ۳۵۳۱۷~}~ بنی اسرائیل: ۳۵۴۳۷~}~ البقرہ: ۲۵۶
۳۵۵~}~ الانعام: ۷۴
۳۵۶~}~ گنتی باب ۱۲ آیت ۶ تا ۸
۳۵۷~}~ استثناء باب ۳۴ آیت ۱۰
۳۵۸~}~ المومنون: ۱۰۰`۳۵۹۱۰۱~}~ الانعام: ۳۶۰۱۳~}~
۳۶۱~}~ القﷺ: ۳۶۲۵~}~ النمل: ۱۶ تا ۲۹
۳۶۳~}~
۳۶۴~}~
۳۶۵~}~ البقرہ: ۳۶۶۹~}~
۳۶۷~}~ القلم: ۴۳
۳۶۸~}~
۳۶۹~}~ احبار باب ۱۲ آیت ۴۷ تا ۵۹
۳۷۰~}~ المدثر: ۵
۳۷۱~}~ درمنثور
‏]ttex [tag۳۷۲~}~ ۳۷۳~}~ سبا: ۱۱`۳۷۴۱۲~}~ الانبیاء: ۸۰`۸۱
۳۷۵~}~ ص: ۱۸تا ۳۷۶۲۱~}~ الجاثیہ: ۱۳`۱۴
۳۷۷~}~
۳۷۸~}~ الانبیاء: ۳۷۹۸~}~ الاحقاف: ۳۰ تا ۳۸۰۳۲~}~ البقرہ: ۱۵
۳۸۱~}~ الانعام: ۳۸۲۱۱۳~}~ النساء: ۳۸۳۸۰~}~ البقرہ: ۵۵
۳۸۴~}~ نسائی کتاب الطھارہ باب التیمم بالصعید
۳۸۵~}~ الانعام: ۳۸۶۱۲۹`۳۸۷~}~ الانعام:۳۸۸۱۳۱~}~ الفتح: ۹`۱۰
۳۸۹~}~ الاحزاب: ۳۹۰۷۳~}~ النمل: ۱۹
۳۹۱~}~ قاموس مولفہ جلد۳ صفحہ مطبوعہ
۳۹۲~}~ ال عمران: ۴۹`۳۹۳۵۰~}~ المائدہ: ۳۹۴۱۱~}~ الرعد: ۱۷
۳۹۵~}~ التوبہ: ۳۹۶۱۱۹~}~ یسن: ۷۹`۳۹۷۸۰~}~ الانعام: ۲۹
۳۹۸~}~ النور: ۳۹۹۴۲~}~ الاعراف: ۴۰۰۱۳۲~}~ النمل: ۴۸
۴۰۱~}~ یسن: ۱۹`۴۰۲۲۰~}~ بنی اسرائیل: ۱۴ تا ۱۶
۴۰۳~}~
۴۰۴~}~ فاطر: ۴۰۵۱۱~}~ المجادلہ: ۴۰۶۱۲~}~]2 [rtf الفجر: ۳۰`۳۱
‏a.10.21
نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ
نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح
تمہید
اس وقت تک نہرو رپورٹ اس قدر زیر بحث آچکی ہے کہ مجھے شاید اس سے بہ تفصیل روشناس کرانے کی ضرورت نہیں ہے- یہ رپورٹ ۱۲/اگست ۱۹۲۸ء کو شائع ہوئی ہے اور اس وقت تک اس کی اشاعت پر ڈیڑھ ماہ گذر چکا ہے- میں نے ۸/اگست سے ۸/ستمبر تک ایک خاص درس قرآن کریم کا شروع کیا ہوا تھا- جس میں شامل ہونے کیلئے پانچ سو کے قریب زن و مرد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے- اس لئے اس وقت تک تو میں اس کی طرف توجہ نہیں کر سکتا تھا- کیونکہ میرا سارا دن درس یا درس کی تیاری میں لگ جاتا تھا- اس کے بعد چند دن گذشتہ ماہ کے جمع شدہ کام کے نکالنے میں لگے- جب میں فارغ ہوا تو نہرو رپورٹ کی تلاش کی- لیکن باوجود تلاش کے اس کی کوئی کاپی میسر نہ آئی اور آخری اطلاع لاہور سے یہی آئی کہ تیسرا ایڈیشن چھپنے پر ہی یہ کتاب دستیاب ہو سکے گی- چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی مجھے اس کا بہت افسوس ہوا- لیکن کچھ کیا نہ جا سکتا تھا- اسی اثناء میں میرے گھر سے شملہ سے واپس آئے اور میں انہیں لینے کیلئے امرتسر کے سٹیشن پر گیا- اور میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب کہ میں نے وہاں کے بک سٹال پر دو نسخے نہرو کمیٹی کی رپورٹ کے دیکھے- غرض اس طرح ۲۱/ ستمبر کو مجھے نہرو رپورٹ کی کاپی ملی اور اسی وقت سے میں نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا- چونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے- میں فوراً ہی >الفضل< کے ذریعہ سے اس کے متعلق اپنی رائے کا باقساط اظہار کرنا چاہتا ہوں- اگر ضرورت محسوس ہوئی تو بعد میں اسے رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا جائے گا-
کیا نہرو کمیٹی کسی صورت میں بھی ہندوستان کی نمائندہ کہلا سکتی ہے
سب سے پہلے تو میں اس سوال کو لیتا ہوں- کہ کیا نہرو کمیٹی تمام ہندوستان کی نمائندہ کہلا سکتی ہے- اور اس کے فیصلہ کو اس عزت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے- جو ایک ملک کی نمائندہ کمیٹی کی رپورٹ کو حاصل ہونی چاہئے- اس سوال کا جواب دینے کیلئے میں خود اسی رپورٹ کے بیان کو لیتا ہوں- میرے نزدیک اس رپورٹ کو پڑھ لینا ہی اس امر کے معلوم کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس کمیٹی کو کسی صورت میں بھی ملک کی نمائندہ کمیٹی نہیں کہا جا سکتا- اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو کمیٹی کو آل پارٹیز کانفرس (ALLPARTIESCONFERENCE)نے بمبئی کے مقام پر ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء کو مقرر کیا تھا- یہ آل پارٹیز کانفرنس کیا تھی اور کس طرح وجود میں آئی- اس کا حال بھی اسی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے فسادات کو دیکھ کر دسمبر۱۹۲۶ء کے اجلاس میں نیشنل کانگریس نے گوہاٹی کے مقام پر ایک ریزولیوشن پاس کیا تھا کہ >ورکنگ کمیٹی (WORKINGCOMMITTEE) ہندو اور مسلمان لیڈروں سے مشورہ کر کے ایسی تجاویز کرے کہ جن کے ذریعہ سے ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین جو قابل افسوس تنازعات ہو رہے ہیں` دور کئے جا سکیں اور ورکنگ کمیٹی اپنی رپورٹ ۳۱ مارچ ۱۹۲۷ء سے پہلے پہلے پیش کرے<-۱~}~
اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے ورکنگ کمیٹی ہندو اور مسلمان لیڈروں سے مشورہ کرتی رہی- لیکن اسی اثناء میں ۲۰ مارچ ۱۹۲۷ء کو بعض بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے دہلی کے مقام پر ایک اجتماع کیا اور ہندو مسلم فسادات کو مٹانے کے لئے بعض تجاویز شائع کیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان مشترک انتخاب پر رضا مند ہو جائیں گے- بشرطیکہ )۱(سندھ کو مستقل صوبہ بنا دیا جائے- )۲(صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو بھی وہی حقوق ¶دے دیئے جائیں جو دوسروں صوبوں کو حاصل ہیں- )۳(پنجاب اور بنگال میں آبادی کی تعداد کے مطابق سب اقوام کو حقوق نیابت حاصل ہوں- )۴(مرکزی دارالنواب )لیجسلیٹو اسمبلی- (LEGISLATIVEASSEMBLY میں مسلمانوں کو کم سے کم ایک تہائی نیابت ملے-
ورکنگ کمیٹی نے ان تجاویز کے شائع ہوتے ہی ایک جلسہ کیا- اور ایک ریزولیوشن پاس کیا کہ وہ مسلمانوں کے اس فیصلہ پر خوش ہے کہ انہوں نے مشترک انتخاب کی تجویز کو منظور کر لیا ہے اور امید ہے کہ ان کی پیش کردہ تجاویز کو بطور بنیاد قرار دے کر ہندوئوں اور مسلمانوں میں سمجھوتہ کرنے میں کامیابی ہو جائے گی اس کے بعد مئی ۱۹۲۷ء کو ورکنگ کمیٹی نے پھر ایک اجلاس کیا- اور مسلمانوں کی تجاویز کی بنیاد پر ایک زیادہ تفصیلی تجویز کو منظور کیا- اور ساتھ کے ساتھ انڈین کانگریس (INDIANCONGRESS) نے بھی ورکنگ کمیٹی کی تجویز کو معمولی سی اصلاح کے بعد منظور کر دیا-
آل انڈیا کانگریس نے اسی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ اب ورکنگ کمیٹی کو کونسلوں کے ممبروں اور مختلف اقوام کی پولیٹیکل پارٹیوں سے مشورہ کر کے ایک سوراج کی سکیم تیار کرنی چاہئے- اور اس کی تیاری میں دوسری ایسی ہی یعنی سیاسی` مزور پیشوں کی` تجارتی اور فرقہوارانہ انجمنوں سے بھی تبادلہ خیالات کرنا چاہئے-
اس کے معاً بعد لبرل فیڈریشن (LIBERALFEDERATION) نے بھی ایک ریزولیوشن پاس کیا- جس میں اس نے مسلمان لیڈروں کے اعلان پر خوشی کے اظہار کے علاوہ یہ بھی پاس کیا کہ مسلمانوں کی تجویز کے متعلق مختلف اقوام کے باقاعدہ طور پر منتخب شدہ نمائندوں کے جلد سے جلد غور کر کے ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچنا چاہئے-
لبرل فیڈریشن کے جلسہ کے بعد مسلم لیگ نے بھی ایک جلسہ کیا- اور یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ لیگ کونسل (LEAGUECOUNCIL) ایک سب کمیٹی مقرر کرے- جو انڈین نیشنل کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ساتھ مل کر ہندوستان کے لئے ایک قانون اساسی تیار کرے- جس میں مسلمانوں کے حقوق کی پورے طور پر نگہداشت کر لی گئی ہو-
آل پارٹیز کانفرنس میں شامل ہونے والی جماعتیں
ادھر تو لبرل فیڈریشن اور مسلملیگ نے مندرجہ بالا ریزولیوشن پاس کئے ادھر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے کانگریس کے منشاء کے مطابق مختلف انجمنوں کو دعوتی رقعے بھیجے جن میں سے مسلمانوں کی دو انجمنیں تھیں- ایک تو آل انڈیا مسلملیگ- دوسری خلافت کمیٹی- اس کے مقابلہ میں پارسیوں کی چار انجمنوں کو دعوت دی گئی- ریاستوں کے باشندوں کی تین انجمنوں کو دعوت دی گئی- بقول نہرو رپورٹ کے مذکورہ بالا انجمنوں میں سے بہتوں نے اپنے نمائندے بھیجے- اور ۱۲/فروری ۱۹۲۸ء سے بائیس فروری تک دہلی میں اس کانفرنس کا اجلاس ہوتا رہا- اس کانفرنس نے جو ریزولیوشن پاس کئے` ان کے متعلق مسلم لیگ کی کونسل نے فوراً ہی اجلاس کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا- اور اس طرح یہ آل پارٹیز کانفرنس آل پارٹیز کانفرنس نہیں` بلکہ صرف ہندو کانفرنس رہ گئی- مسلم لیگ کی کونسل نے یہ بھی ریزولیوشن پاس کیا کہ اس کے نمائندے تمام جماعتوں کے نمائندوں پر زور دیں کہ وہ لیگ کے کلکتہ کے اجلاس کے ریزولیوشن کو قبول کر لیں- اور قانون اساسی کے بنانے میں حصہ لینے سے پہلے کونسل کے پاس رپورٹ کریں کہ انہیں اس امر میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے گویا اس طرح لیگ نے اپنے نمائندوں کو قانون اساسی کی بنانے والی کمیٹی میں حصہ لینے سے بھی روک دیا-
نہرو رپورٹ کے مرتب کرنے والے لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کونسل کے اس فیصلہ نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا- کیونکہ اس فیصلہ کی رو سے مسلم لیگ کے نمائندے کمیٹی کی رپورٹ پر غور ہی نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ مسلم لیگ کی پاس کردہ تجویز کو پورے طور پر تسلیم نہ کر لیا جاتا- یا لیگکونسل دوبارہ نئی ہدایات نہ دیتی- ان حالات میں آل پارٹیز کانفرنس ۸/مارچ کو پھر اکٹھی ہوئی- )گو یہ نہیں بتایا گیا- کہ اس دفعہ اس کانفرنس میں کون کون لوگ شامل ہوئے(- اور دو سب کمیٹیاں ایک سندھ کی علیحدگی اور دوسری نسبتی نیابت کے مسئلہ پر غور کرنے کیلئے مقرر کی گئیں-
۲۲/فروری کو جو کمیٹی مقرر کی گئی تھی- اس کی رپورٹ پر غور نہیں کیا جا سکتا` کیونکہ مسلم لیگ کے نمائندوں نے اس پر بحث کرنے سے انکار کر دیا تھا- اس لئے کانفرنس نے رپورٹ کو شائع کرنے کا حکم دیا- اور ۱۹/مئی ۱۹۲۸ء تک اپنے اجلاس کو ملتوی کر دیا- اسی دوران میں ہندو مہاسبھا نے بھی اپنا ایک جلسہ اپریل کے مہینہ میں کیا- اور مسلم لیگ کے فیصلہ کے بعض حصوں کی سختی سے مخالفت کی-
آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس بمبئی
۱۹ مئی کو آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس پھر بمبئی میں ہوا اور چونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت کسی متفقہ فیصلہ کی امید نہ ہو سکتی تھی` یہ تجویز کی گئی کہ ایک چھوٹی سی سب کمیٹی مقرر کی جائے جو سب امور پر یکجائی نظر ڈالے- چنانچہ مندرجہ ذیل اصحاب کی ایک سب کمیٹی تجویز کی گئی- سرعلیامام اور مسٹر شعیب قریشی مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کے پیش کرنے کیلئے- مسٹر اینی اور مسٹر جیاکار ہندو مہاسبھا کی نمائندگی کیلئے- مسٹر پردہان غیر برہمنوں کے نمائندہ کی حیثیت سے- سردار منگلسنگھ سکھ لیگ کی طرف سے- سرتیج بہادر سپرو لبرل فیڈریشن کی طرف سے- مسٹر جوشی مزدوروں کی طرف سے- ان کے علاوہ مسٹر سوباس چندرا بوس اور پنڈت موتی لال نہرو بھی اس کے ممبر تھے- گویا نو ممبروں میں سے دو مسلمان اور سات ہندو ممبر تھے- رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ سر علی امام بوجہ بیماری صرف ایک اجلاس میں شریک ہوئے- اور اس طرح گویا صرف مسٹر شعیب قریشی مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ رہے-
آل پارٹیز کانفرنس تمام ہندوستان کی نمائندہ نہ تھی
اوپر کے حالات خود نہرورپورٹ سے ہی لئے گئے ہیں- ان کے علاوہ بعض کارروائیاں جو پس پردہ ہوتی رہی ہیں اور جنہیں اب بعض مسلم لیڈر شائع کر رہے ہیں` میں انہیں نظر انداز کرتا ہوں- کیونکہ میرے مقصد کے حصول کیلئے خود یہی حالات کافی ہیں- ان حالات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی ہر گز تمام ہندوستان کی نمائندہ نہ تھی- چند آدمی اپنی مرضی سے ایک جگہ جمع ہو گئے تھے- جن میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے کہ انہوں نے اپنے آپ کو آپ ہی لیڈر قرار دے لیا تھا- نہ مختلف صوبوں کی نمائندگی اس میں ہوئی نہ مختلف جماعتوں کی- مثال کے طور پر میں اپنی ہی جماعت کو لیتا ہوں- ہماری جماعت سے شروع سے لیکر آخر تک کسی نے نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے- حالانکہ ہم تعداد میں کس قدر بھی کم ہوں مگر پارسیوں سے زیادہ ہیں اور آل ¶انڈیا حیثیت رکھتے ہیں- ہماری مضبوط جماعتیں تین صوبوں میں پائی جاتی ہیں- یعنی پنجاب` بنگال اور صوبہسرحدی- اس کے علاوہ بہار` یوپی` مدراس اور سندھ میں بھی معقول جماعتیں پائی جاتی ہیں- اور چھوٹی چھوٹی جماعتیں تو ہر صوبہ میں ہیں- ہماری جماعت منظم ہے اور رجسٹر شدہ تعداد کے لحاظ سے اور نظام کے لحاظ سے تو شائد کوئی ہندو سوسائٹی بھی اس کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جا سکتی- آل پارٹیز کانفرنس کے نمائندے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے کیونکہ ہماری جماعت اپنے مذہبی اور سیاسی مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم پر طے کرتی ہے- اور محض اس وجہ سے کہ ہمارے نزدیک مذہب` سیاست اور تمدن کی ضروریات کے لئے الگ الگ انجمنوں کی ضرورت نہیں ہے ایک ہی مجلس میں ان مسائل پر بحث ہو سکتی ہے بلکہ بہتر طریق پر ہوتی ہے ہمیں اپنے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا- مگر ہماری جماعت کو نظر انداز کر دو- اس کمیٹی کا اصل کام ۱۹۲۸ء سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت مسلم لیگ کے دو حصے ہو چکے تھے- ایک لاہور کی آل انڈیا لیگ کہلاتی ہے اور ایک کلکتہ کی- رپورٹ سے کہیں معلوم نہیں ہوتا- کہ لاہور کی لیگ کی نمائندگی کی بھی کوشش کی گئی- نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صوبہجات کی لیگوں کی نمائندگی کیلئے کوشش کی گئی- حالانکہ جن مسائل پر اختلاف زیادہ بھیانک صورت میں نمایاں ہوتا ہے- وہ آل انڈیا مسائل نہیں ہیں` بلکہ صوبہ جات کے مسائل ہیں- پس خالی آل انڈیا کی مسلم لیگ کے دونوں حصوں کی نمائندگی بھی کافی نہیں ہو سکتی تھی- آلپارٹیز کانفرنس کبھی آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہو سکتی تھی جب تک کہ وہ سب قسم کے خیالات کے لوگوں کو دعوت نہ دے-
نہرو رپورٹ ہندوستان کے لئے دو مجالس کی تجویز کو پیش کرتی ہے- ایک جس میں کل ہندوستان کے نمائندے براہ راست چنے جائیں- اور دوسری سینٹ (SENATE) جس میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی نقل میں صوبہ جات کی کونسلیں اپنے نمائندے بھیجیں-۲~}~اگر معمولی قسم کے قوانین کے لئے جو وقتی اور جزئی ہونگے` دو قسم کی نمائندگی کی ضرورت ہے تو کیا کانسٹیٹیوشن (CONSTITUTION) کے سوال کے متعلق اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ صوبہ جات کی لیگز کے نمائندے بھی طلب کئے جاتے تا کہ وہ اپنے اپنے نقطہ نگاہ کو پیش کر سکیں- کیا یہ بات آل پارٹیز کانفرنس کی نظر سے پوشیدہ تھی کہ کئی صوبہ جات کی کثرت مرکزیانجمن کی کثرت کے مخالف ہے- پھر مرکزی انجمن کی نمائندگی قانون اساسی کے حل کے لئے کس طرح کافی ہو سکتی تھی- مثال کے طور پر پنجاب` بنگال` سندھ` یوپی اور صوبہ سرحدی کے مسلمانوں کو لے لو- ان میں سے اکثر کے خیالات نیابت کے طریق کے متعلق کلکتہ لیگ سے مختلف ہیں- پھر کلکتہ لیگ کے نمائندے ان لوگوں کے نمائندے کس طرح ہو سکتے تھے- آلپارٹیز کانفرنس اگر ملک کی نمائندہ کہلانا چاہتی تھی- تو اسے چاہئے تھا کہ ہر ایک صوبہ کی انجمنوں کو بھی دعوت دیتی- اور ساتھ ہی یہ بھی لکھتی کہ ان کی طرف سے جو نمائندے آئیں وہ صرف اکثریت کے نمائندے نہ ہوں- بلکہ اقلیتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں تا کہ ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے خیالات کو سننے کے بعد کسی فیصلہ پر پہنچا جائے- لیکن نسبتی نیابت کی حمایت کا دعویٰ کرنے والے کرتے ہیں تو کیا صرف ان انجمنوں کو دعوت دیتے ہیں جو اصولاً ہندو نقطہ نگاہ سے متفق ہیں- یعنی مشترک انتخاب کے حامیوں کو- ان انجمنوں کے ناموں کو پڑھ جائو جن کے نام نہرو رپورٹ کے صفحہ ۲۰ و ۲۱ پر لکھے ہیں- ایک انجمن بھی ان میں ایسی نہیں ہے کہ جو جداگانہ انتخاب کی حامی ہو- پس صرف ان انجمنوں کو بلانا جو پہلے سے اس اصل پر متحد تھیں- جس کے متعلق ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اختلاف رکھتا ہے کیا یہ نہیں بتاتا کہ یہ کانفرنس آل پارٹیز کانفرنس نہ تھی بلکہ ایک خیال کی مختلف جماعتوں کی کانفرنس تھی-
آل انڈیا مسلم کانفرنس شملہ
اس سوال کی حقیقت اس واقعہ کے یاد کرنے سے پوری طرح کھل جاتی ہے جسے نہرو کمیٹی نے دبا دیا ہے- اور وہ شملہ کے مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس ہے- نہرو کمیٹی نے اس امر کا تو ذکر کیا ہے کہ دہلی میں مسلم لیڈروں نے ایک جلسہ کر کے بعض شرائط کے ماتحت مخلوط انتخاب کو تسلیم کر لیا تھا- لیکن یہ ذکر وہ بالکل چھوڑ گئی ہے کہ اس مشورہ کو قوم کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس بھی شملہ کے مقام پر منعقد کی گئی تھی- حقیقت یہ ہے کہ جب چند مسلم لیڈروں نے دہلی میں مخلوط انتخاب کو بعض شرائط کے ساتھ تسلیم کر لیا تو اس پر ہندوستان میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں- اور ان لیڈروں کو معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کا اکثر حصہ ان کی اس تجویز سے متفق نہیں ہے- اسی عرصہ میں ناگپور میں ہندو مہاسبھا کا جلسہ ہوا- اور اس میں مسٹر کیلکر نے بحیثیت پریزیڈنٹ ایک تقریر کی- جس میں مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق ایسا رویہ اختیار کیا کہ بعض مسلم لیڈر اپنی غلطی کو محسوس کرنے لگے- اس پر مسلم لیگ نے ستمبر ۱۹۲۷ء میں شملہ میں ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا- اور اپنی دعوت کو صرف لیگ کے ممبروں تک محدود نہ رکھا- مجھے بھی اس موقع پر دعوت دی گئی- میں ایسی مجالس میں جایا تو نہیں کرتا- لیکن اس وقت چونکہ اتفاقاً مذہبی مسودہ قانون کی بابت کوشش کرنے کے لئے میں شملہ گیا ہوا تھا میں بھی اس آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شامل ہوا- دو دن کی بحث کے بعد ایک زبردست اکثریت جداگانہ انتخاب کی تائید میں ثابت ہوئی- اور اگر ووٹ لئے جاتے تو یقیناً ۷۰فیصدی ممبر جداگانہ انتخاب کی تائید میں ہوتے- جو لوگ مخلوط انتخاب کی تائید میں تھے ان میں سے بھی اکثر نے اقرار کیا کہ ان کی ذاتی رائے مخلوط انتخاب کی تائید میں ہے- لیکن ان کے ہموطنوں کی رائے جداگانہ انتخاب کے حق میں ہے- وہ ایک قابل دید نظارہ تھا- مسٹر جناح کی تمام کوششوں کے باوجود مختلف صوبہ جات اور مختلف جماعتوں کے نمائندے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھے- آخر مسٹر جناح نے جو پریزیڈنٹ تھے` اٹھ کر صاف لفظوں میں کہا کہ ووٹ کی ضرورت نہیں- کیونکہ یہ کوئی باقاعدہ ایسوسی ایشن نہیں- وہ مسلمانوں کی عام رائے کو سمجھ گئے اور باوجود اس کے کہ ان کی رائے مخلوط انتخاب کے حق میں ہے مگر وہ مسلمانوں کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہندوئوں سے سمجھوتہ کے وقت اس امر کو پیش کریں گے` جس طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے-
یہ کانفرنس دہلی کے بیس مسلم لیڈروں کے فیصلہ پر غور کرنے کیلئے بیٹھی تھی- اور اس میں مخالف اور موافق ہر قسم کے خیالات کے لوگ تھے- لیکن باوجود اس کے سامنے نہ مدراس کانگرس کے ریزولیوشن تھے- اور نہ نہرو کمیٹی کے بلکہ دہلی کے مسلم لیڈروں کی تجویز تھی- جو مدراس کانگریس اور نہرو کمیٹی کی نسبت مسلمانوں کی رائے کے بہت زیادہ قریب تھی- مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کی ایک زبردست اکثریت نے اسے رد کر دیا- حتیٰ کہ خود اس تجویز کے مجوزوں میں سے بھی بعض آدمی جیسے کہ سر محمد شفیع اس کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے- پس جب کہ مسلمانوں کا ایک اجتماع مخلوط انتخاب کی تجویز کو رد کر چکا تھا- تو اس سے یہ بات ظاہر ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت مخلوط انتخاب کے مخالف ہے- پھر باوجود اس کے آل پارٹیز کانفرنس نے کیوں ان مخالف خیال والوں کو دعوت نہیں دی- اگر نہیں دی تو بھی وہ تمام خیالات کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی- اور اگر دی اور انہوں نے اس دعوت کو رد کر دیا تو بھی ثابت ہوا کہ ہندوستان کی ایک زبردست قوم کی اکثریت کو اس آل پارٹیز کانفرنس پر کسی قسم کا کوئی اعتبار نہ تھا- حتی کہ وہ اس کے جلسوں میں شامل ہونا بھی پسند نہیں کرتی تھی- پس اس کانفرنس کو ہندوستان کا نمائندہ کون کہہ سکتا ہے-
مگر میں جو واقعات اوپر نہرو رپورٹ سے نقل کر آیا ہوں` ان سے معلوم ہوتا ہے کہہ یہ کانفرنس کلکتہ لیگ کی بھی جو درحقیقت ایک ہی مسلمانوں کی آواز تھی نمائندہ نہ تھی- کیونکہ نہرو رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے- کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل نے اپنے نمائندوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ جب تک کلکتہ سیشن (SESSION) کے پاس کردہ ریزولیوشن کو پہلے تسلیم نہ کر لیا جائے` اس وقت تک وہ اس کی کارروائی میں حصہ نہ لیں- اب سوال یہ ہے کہ اس ریزولیوشن کو لیگ نے کب مسترد کیا؟ نہرو رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہدایت کو کبھی بھی مسترد نہیں کیا گیا- پس جب اس ہدایت کو مسترد نہیں کیا گیا تو بمبئی کانفرنس کی تجویز کے ماتحت جو سب کمیٹی بنی تھی` اس میں مسلم لیگ کے نمائندے اسی ہدایت کے ماتحت ممبر ہوئے تھے نہ کہ اس سے آزاد ہو کر- اور وہ ہدایت یہ تھی کہ کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن کو کلی طور پر تسلیم کئے بغیر مسلم لیگ قانون اساسی پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں- بمبئی کانفرنس کے دوران میں یا اس کے بعد کوئی جلسہ لیگ کا ایسا نہیں ہوا جس میں اس شرط کو توڑ دیا گیا ہو- پھر کس طرح جائز ہو سکتا تھا کہ لیگ کے نمائندے اپنے اختیار سے باہر جا کر کوئی کام کریں- اب سوال یہ ہے کہ کیا نہرو کمیٹی نے کلکتہ ریزولیوشن کو کلی طور پر تسلیم کیا- وہ خود اقرار کرتی ہے کہ نہیں- ۳~}~ مسلم نمائندے تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں- اور اگر نہرو کمیٹی نے کلکتہ ریزولیوشن کو تسلیم نہیں کیا تو لیگ کے فیصلہ کے مطابق اس کے نمائندوں کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت ہی کب ہو سکتی تھی- اور اگر وہ باوجود کونسل کی ہدایت کے اس کمیٹی کے اس فیصلہ کے بعد کہ کلکتہ کی تجویز میں تبدیلی کر دی جائے- اس کمیٹی کے ساتھ بیٹھتے رہے ہیں تو یقیناً وہ لیگ کے نمائندے نہ تھے- وہ لیگ کونسل کے فیصلہ کے مطابق اسی وقت سے لیگ کی نمائندگی سے علیحدہ ہو گئے تھے جب سے انہوں نے کلکتہ ریزولیوشن کے خلاف فیصلہ کو سن کر کمیٹی سے قطع تعلق نہیں کیا- اور اس صورت میں یہ بات خوب اچھی طرح ظاہر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ حصہ جو مسٹر جناح کی صدارت میں کام کرتا ہے` اس کی نیابت بھی اس کمیٹی کو حاصل نہ تھی- اور اس طرح یہ کمیٹی مسلمانوں کے نمائندوں سے بالکل خالی تھی- اور یہی وجہ ہے کہ مولانا شوکت علی مسٹر محمد یعقوب حسرت موہانی مولوی شفیع دائودی اور دوسرے مسلم لیگ اور خلافت کے سرکردہ ممبر نہرو کمیٹی کی مخالفت کر رہے ہیں-
مجھے اس تفصیل سے اس مسئلہ پر اس لئے لکھنا پڑا ہے کہ میں نہایت ہی تکلیف سے دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو گائے اور بیل کی طرح ہانکا جا رہا ہے- سو دو سو آدمی ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں- اور اپنے فیصلہ کو بڑے موٹے لفظوں میں ہندوستان کے لیڈروں کا فیصلہ قرار دے کر شائع کر دیتے ہیں- کوئی نہیں پوچھتا کہ لیڈر ان لوگوں کو کس نے بنایا ہے- دنیا کے کسی اور ملک میں اس سے زیادہ ذلت اور حقارت جمہور کی نہیں کی جاتی- فرض کر لیا جاتا ہے کہ باقی سب ملک چند آدمیوں کی جائیداد ہے- وہ اس سے جس طرح چاہئیں معاملہ کریں- میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے پچھلے سال یونیٹی کانفرنس (UNITYCONFERENCE) میں دیکھا کہ مجتمع شدہ لوگوں میں سے بھی بعض کو بعض لوگ ڈانٹتے تھے کہ اپنے لیڈروں کی قدر کیوں نہیں کرتے اور ان کی بات کیوں نہیں مانتے- میرا دل کئی بار چاہا کہ پوچھوں کہ کیوں صاحب ان بعض احباب کو باقی لیڈروں کا لیڈر کس نے بنایا ہے مگر آداب مجلس کی وجہ سے خاموش رہا- مگر میں نے اس بنا پر شملہ میں ایک لیکچر دیا اور اس میں یہ بیان کیا کہ ہندوستان لیڈروں کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ پیروئوں کی کمی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے- ہر اک جو سیاست میں کچھ حصہ لیتا ہے اپنے آپ کو لیڈر سمجھنے لگتا ہے- اور کبھی خیال نہیں کرتا کہ میرے پیچھے کوئی جماعت ہے بھی یا نہیں- سائمن کمیشن کی آمد پر جو میں نے ٹریکٹ شائع کیا تھا- اس وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شہر اور قصبہ میں مسلمان اپنی انجمنیں بنائیں اور تمام مختلف الخیال مسلمانوں کو اس کا ممبر بنائیں اور پھر ہر ایک تجویز کے متعلق ہر شہر اور قصبہ سے آواز بلند ہو تا کہ معلوم ہو سکے کہ مسلمانوں کی عام رائے کیا ہے- اور بعض بلند آہنگ لوگ اپنی رائے کو مسلمانوں کی رائے نہ قرار دے سکیں-
آل انڈیا کانفرنس یا نہرو کمیٹی ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ نہ تھی
اب میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں کہ نہ آل انڈیا کانفرنس ہندوستان کی نمائندہ تھی اور نہ نہروکمیٹی مسلمانوں کے کسی فریق کی ہی نمائندہ تھی- ایک خاص خیال کے لوگوں کی ایک کانفرنس ہوئی- اور اس میں سے بھی مسلمانوں کی نیابت کو عملاً خارج کر کے ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی- جس کی رپورٹ اب ہندوستان کے نمائندوں کی رپورٹ کے نام سے مشہور کی جا رہی ہے-
کہا جا سکتا ہے کہ نہرو کمیٹی یا آل پارٹیز کانفرنس سب فرقوں اور جماعتوں کی نمائندہ نہ سہی لیکن اگر وہ ایک ایسی رپورٹ پیش کرتی ہے جس میں مختلف اقوام کے حقوق کی نگہداشت کر دی گئی ہے تو کیا اسے روک دیا جائے گا- میں کہتا ہوں کہ ہر گز نہیں- اگر وہ رپورٹ ایسی ہی ہے تو ہم اسے ضرور قبول کریں گے- لیکن ہماری بے اعتباری جو اس وقت تک ہندو مسلم فسادات کا سب سے بڑا موجب ہے اور بھی بڑھ جائے گی اور ہمارے دل ضرور یہ کہیں گے کہ جب قانون اساسی کے بناتے ہوئے مسلمانوں کی نیابت کا خیال نہیں رکھا گیا تو آئندہ چھوٹے قوانین بناتے ہوئے مسلمانوں کے احساسات کا خیال کب رکھا جائے گا مگر بہرحال چونکہ رپورٹ ہمارے سامنے آ گئی ہے- اس لئے اس کے حسن و قبح کا دیکھنا بھی ضروری ہے- اور میں افسوس سے کہتا ہوں کہ اس پر غور کرنے کے بعد بھی میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سکیم ہر گز ملک کیلئے مفید نہیں ہو سکتی- خصوصاً مسلمانوں کو تو اس سے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے-
مسلمانوں کے مطالبات اور ان کے بواعث
پیشتر اس کے کہ میں نہرو رپورٹ کی تجاویز پر بحث کروں- میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات کیا ہیں اور کیوں ہیں- میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں میں سیاسی نقطہ نگاہ سے دو پارٹیاں ہیں- ایک پارٹی جو زیادہ تر پنجاب اور یو-پی کے مسلمانوں پر مشتمل ہے- اس کے اصولی مطالبات جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ہیں کہ آئندہ ہندوستان کیلئے جو قانون اساسی تیار ہو- اس میں ان امور کو مدنظر رکھا جائے-
پہلا مطالبہ` اتحادی حکومت
پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت کا طریق فیڈرل (FEDERAL) یا اتحادی ہو- یعنی تمام صوبہ جات کامل طور پر خود مختار سمجھے جائیں- برطانیہ جس قدر اور جس وقت اپنا قبضہ کم کرتا جائے- اس کے چھوڑے ہوئے اختیارات مختلف صوبہ جات ملک کو ملتے جائیں- ہاں چونکہ ملک کے انتظام کے لئے ایک مرکزی نظام کی بھی ضرورت ہے- جو امور مشترک ہوں وہ ہندوستانی مرکزی حکومت کے سپرد صوبہ جات کی طرف سے کئے جائیں- گویا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہندوستانی مرکزی حکومت صوبہ جات کو اختیار دیتی ہے- بلکہ یہ سمجھا جائے کہ صوبہ جات ایک منظم گورنمنٹ کے چلانے کے لئے اپنے بعض اختیارات ایک مرکزی حکومت کو دیتے ہیں- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے جو ایک مجرب اصل ہے- اور امریکہ کی ریاست ہائے متحدہ` سوئٹزرلینڈ` سائوتھ افریقہ اور آسٹریلیا میں نہایت کامیاب صورت میں جاری ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فارن معاملات` افواج کے انتظام` ڈاک خانہ` کسٹمز وغیرہ کے علاوہ باقی سب معاملات کا فیصلہ ہر صوبہ کی کونسلیں اپنی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر کریں گی- اور مرکزی حکومت کو ان کے کاموں میں دخل اندازی کا حق نہ ہوگا-
مسلمان اس مطالبہ کو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہر قوم کو اپنے طور پر ترقی کرنے کا موقع ملے- اور تا کہ باوجود اس کے کہ مسلمان بعض صوبوں میں کثیر التعداد ہیں- ہندوستانی مرکزی گورنمنٹ کی دخل اندازی کا شکار نہ ہوں جس میں ہندو اکثریت ہوگی- اب فرض کرو کہ بنگال` پنجاب` سندھ میں مسلمانوں کی اکثریت ہو- لیکن اگر فیڈرل حکومت کا طریق ہندوستان میں رائج نہ ہوگا تو ہندوستان کی مرکزی حکومت کو ہر وقت اختیار ہوگا کہ وہ ان صوبوں کی ترقی میں روک بن جائے اور آئے دن ان کے انتظام میں نقص نکال کر ان کے بعض اختیارات کو واپس لے لے یا ان کے پاس کردہ قوانین کو رد کر دے- اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کا کچھ بھی فائدہ نہ رہے- یہ ایک خیالی شبہ نہیں ہے- بلکہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ نے اس شبہ کو قوی کر دیا ہے- نہرو کمیٹی سندھ کی علیحدگی پر بحث کرتے ہوئے لکھتی ہے-
>ہمیں شبہ ہے کہ علیحدگی )سندھ( کی مخالفت کسی بڑے قومی خیال کی بنا پر نہیں ہے بلکہ مالی اقتصادی خیالات پر مبنی ہے- ہندوئوں کو ڈر ہے کہ اگر ایک جداگانہ صوبہ میں مسلمانوں کو اختیارات حاصل ہوئے تو ہندوئوں کی اقتصادی برتری کو نقصان پہنچے گا ہمیں یقین ہے کہ یہ خوف بلاوجہ ہے- ہندوستان کے تمام باشندوں میں سے سندھ کا ہندو اقدام و نفوذ کا مادہ سب سے زیادہ رکھتا ہے- سیاح اسے دنیا کے ہر گوشہ میں نہایت کامیاب تجارت کرتا ہوا اور اپنی کمائی سے اپنے ملک کی دولت بڑھاتا ہوا پاتا ہے- کوئی شخص اس اقدام کی طاقت کو سندھ کے ہندوئوں سے چھین نہیں سکتا- اور جب تک یہ طاقت ان میں موجود ہے- اس وقت تک ان کا مستقبل بالکل محفوظ ہے- نیز اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صوبہ جات کی حکومتوں کے اختیارات محدود ہونگے- اور ایک مرکزی حکومت موجود ہوگی جو تمام اہم محکمہ جات کے متعلق اختیار رکھتی ہوگی<- ۴~}~
اول تو اس عبارت کو پڑھ کر اور دوسری طرف مسلمانوں کے خوف کے متعلق نہرورپورٹ نے جو کچھ لکھا ہے اسی سے انسان معلوم کر لیتا ہے کہ مسلمانوں سے کس قسم کی ہمدردی کی جائیگی- کیونکہ جہاں ہندوئوں کے خوف کو اس محبت اور ادب سے دور کیا ہے- مسلمانوں کے خوف کے متعلق اسی رپورٹ میں لکھا ہے-
>ایک نو وارد ان اعداد کو دیکھ کر اور مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگا کر غالباً یہی خیال کرے گا کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کے خود قابل ہیں- اور انہیں کسی خاص حفاظت اور چمچوں کے ذریعہ سے دودھ پلانے کی ضرورت نہیں<- ۵~}~]2 [rtf
گویا کہ مسلمان کے جذبات اس رپورٹ کے لکھنے والوں کے نزدیک کچھ بھی قیمت نہیں رکھتے جب کہ ہندو کا دل دکھانا ایک بہت بڑا گناہ ہے- مگر اس کے علاوہ اوپر کے حوالہ سے یہ بھی صاف طور پر عیاں ہے کہ رپورٹ لکھنے والے سندھ کے ہندوئوں کو تسلی دلاتے ہیں کہ وہ سندھ میں مسلمانوں کی کثرت سے نہ گھبرائیں- کیونکہ اوپر ہم جو مرکزی گورنمنٹ والے موجود ہیں- جب اور جس وقت تمہاری اقتصادی برتری کو صدمہ پہنچنے لگے گا ہم دخل اندازی کر دیں گے- گو لفظ ایک حد تک احتیاط کے استعمال کئے گئے ہیں- مگر یہ مضمون بین السطور واضح ہے کہ مرکزیگورنمنٹ نے اپنے ہاتھ میں طاقتیں اسی لئے رکھی ہیں تا کہ صوبہ جات میں ہندوئوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے- ہم خود نہیں جاہتے کہ کسی کا حق مارا جائے مگر ہمیں یہ شبہ ہے کہ مرکزیگورنمنٹ مسلم اکثریت والے صوبوں کے کاموں میں صرف اسی وقت دخل نہ دے گی جب کہ ہندوئوں کے حقوق تلف ہو رہے ہوں بلکہ بیجا دخل دے کر مسلمان صوبوں کو ترقی کے راستہ سے روک دے گی اور مسلمانوں کی ترقی کی تدابیر کو اختیار نہ کرنے دے گی- جس طرح کہ پچھلے زمانہ میں یورپین طاقتیں ٹرکی میں مسلمانوں کی ترقی کے راستہ میں روک ڈالا کرتی تھیں- لیکن یہی وجہ نہیں کہ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہندوستان کی وسعت اور اس کی زبانوں اور قوموں اور عادات کا اختلاف چاہتا ہے کہ ہر صوبہ الگ الگ آزادانہ ترقی کرے- ملکی حکومت کبھی بھی ہندوستان کیلئے مفید نہیں ہو سکتی- سوائے اس صورت کے کہ فیڈرل اصول پر ہو- اور فیڈرل یعنی اتحادی اصول پر حکومت کوئی غیر مجرب شے نہیں ہے- ریاستہائے متحدہ امریکہ اس اصل پر حکومت کر رہی ہیں- اور اس وقت سب دنیا کی حکومتوں سے طاقتور اور مالدار ہیں- ہاں یہ قانون ضرور ہونا چاہئے کہ صوبہ جات کو کسی وقت اور کسی صورت میں بھی مرکزی حکومت سے علیحدہ ہونے کا اختیار نہ ہوگا- یہ ذمہ داری ہر ایک صوبہ اپنے اوپر لے لے گا تو ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا کوئی احتمال نہ رہے گا- جیسا کہ ایک وقت ریاستہائے متحدہ کو خطرہ ہوا کرتا تھا-
دوسرا مطالبہ` نیابت
دوسرا مطالبہ اس پارٹی کا یہ ہے کہ مختلف اقوام کی نیابت کے متعلق اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے کہ جن صوبوں میں کہ کسی قوم کی اقلیت کمزور ہے- ان میں اس کے ہر قسم کے خیالات کے لوگوں اور ہر قسم کے فوائد کی نیابت کا راستہ کھولنے کے لئے جس قدر ممبریوں کا اسے حق ہو- اس سے زیادہ ممبریاں اسے دے دی جائیں- لیکن جن صوبوں میں کہ اقلیت والی قوم یا اقوام مضبوط ہوں- وہاں انہیں ان کی اصلی تعداد کے مطابق حقنیابت دیا جائے- کیونکہ ان صوبوں میں اگر اقلیت کو زیادہ حقوق دیئے گئے تو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی- اس اصل کے ماتحت پنجاب اور بنگال میں ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق ممبری دیا جائے گا- کیونکہ ان دونوں صوبوں میں گو مسلمان زیادہ ہیں- مگر صرف پچپن اور چون فی صدی ہیں- اور اگر ان کے حق میں سے کچھ کم کر کے ہندوئوں یا سکھوں کو دیا جائے تو مسلمانوں کی اکثریت اقلیت سے بدل جاتی ہے حکومت میں غلبہ ان صوبوں میں بھی ہندوئوں کا ہی ہو جاتا ہے- اس کے خلاف یو-پی` بہار` بمبئی` مدراس اور سی- پی میں ہندوئوں کی اکثریت بہت زیادہ ہے- اور مسلمان بہت کم ہیں- پس مسلمانوں کو اوپر کے قاعدہ کے مطابق اپنے حق سے زیادہ ممبریاں ملنی چاہئیں تا کہ ان کی مختلف جماعتوں کو نیابت کا موقع مل جائے- اور اس طرح مسلمانوں کو زیادہ حق دینے سے ہندوئوں کا کوئی نقصان بھی نہیں- کیونکہ وہ پھر بھی مسلمانوں سے بہت زیادہ رہیں گے- اسی طرح صوبہ سرحدی` صوبہسندھ اور صوبہ بلوچستان میں مسلمان بہت زیادہ ہیں- پس ان تین صوبوں میں ہندوئوں کو ان کے حق سے زیادہ ممبریاں ملنی چاہئیں تا کہ ان کے ہر قسم کے فوائد کی کونسلوں میں نیابت ہو جائے-
اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی ہے کہ چونکہ کل ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد صرف پچیس فیصدی ہے اس لئے انہیں مرکزی حکومت میں کم سے کم تینتیس فیصدی نیابت کاحق دیا جائے- یعنی جب تک مسلمان تینتیس فیصدی سے کم ہیں انہیں تنتیس فیصدی نیابت کا حق ہو جب وہ مقدار میں اس نسبت سے بڑھ جائیں تو پھر جس قدر حق ان کا بنتا ہو وہ انہیں دیا جائے-
تیسرا مطالبہ` جداگانہ انتخاب
تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں میں اعتبار قائم نہ ہو جائے- اس وقت تک سب صوبوں میں اور کم سے کم پنجاب اور بنگال میں کہ جن میں مسلمانوں کی تعداد ہندوئوں سے تھوڑی ہی زیادہ ہے- جداگانہ انتخاب کا طریق جاری رہے تا کہ مسلمانوں کے نمائندے واقعہ میں مسلمانوں کے نمائندے ہوں- اور ہندو اثر کے ماتحت ہو کر مسلمانوں کے فوائد سے کوتاہی کرنے والے نہ بنیں-
چوتھا مطالبہ` صوبہ سرحدی اور بلوچستان کیلئے نیابتی حکومت
چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کی طرح نیابتی حکومت دی جائے- اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر اسے بھی نیابتی حکومت دی جائے-
پانچواں مطالبہ` اقلیت کی زبان کی حفاظت
پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ کسی صوبہ میں بھی اکثریت کو اقلیت کی زبان یا اس کے طرزتحریر میں دخل دینے کا حق نہ ہو- بلکہ اقلیت اگر اپنی زبان کو زندہ رکھنا چاہئے- تو اس زبان کی تعلیم کا سکولوں میں انتظام کرنا حکومت کے لئے ضروری قرار دیا جائے-
چھٹا مطالبہ` مذہب اور تبلیغ مذہب کی آزادی
چھٹا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت کو مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کا کوئی حق نہ ہو نہ تبدیل مذہب کے لئے وہ کوئی پابندیاں مقرر کر سکے اور نہ حکومت کو کوئی ایسا قانون پاس کرنے کا اختیار ہو جو کہ کسی قوم کی تمدنی یا اقتصادی حالت کو نقصان پہنچانے والا ہو- جیسے مثلاً گائے کے ذبح کے متعلق یا اسی قسم کے اور امور کے متعلق اس قسم کے قوانین اسی وقت پاس کے جا سکیں جب کہ خود اس قوم کے ۵/۳ ممبران اس کی تائید میں ہوں جن پر ان قانون کا خاص طور پر اثر ہوتاہے-
ساتواں مطالبہ` قانون اساسی اور اس کی تبدیلی
میری طرف سے ساتواں مطالبہ یہ بھی پیش ہوتا رہا ہے کہ ان حقوق کو قانون اساسی میں داخل کیا جائے- اور قانون اساسی اس وقت تک نہ بدلا جا سکے جب تک کہ منتخب شدہ ممبروں میں سے ۳/۲ ممبر اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں- اور یہی کافی نہ ہو بلکہ اس کے بدلنے کیلئے یہ شرط بھی ہو کہ تین دفعہ کی متواتر منتخب شدہ مجالس آئینی پے در پے ۳/۲ رائے سے اس کے بدلنے کا فیصلہ کریں- اور قانون اساسی کا جو حصہ کسی خاص قوم کے حقوق کے متعلق ہو اس کے متعلق یہ شرط ہو کہ جب تک اس قوم کے ۳/۲ ممبر جس کے حقوق کی حفاظت اس قانون میں بھی تھی اس کے بدلنے کے حق میں نہ ہوں اور تین متواتر طور پر منتخب شدہ کونسلوں میں وہ اس تبدیلی کے حق میں ووٹ نہ دیں اسے پاس نہ سمجھا جائے- اور پھر اسی صوبہ میں اس تبدیلی کا نفاذ ہو- جس صوبہ کی کونسل کے اس قوم کے ۳/۲ منتخب شدہ ممبر اس کے نفاذ کے حق میں رائے دے دیں- اگر یہ شرط نہ لگائی گئی تو ہندوئوں کو ہر وقت اختیار ہوگا کہ اپنی اکثریت کے زور سے قانون کو بدل دیں اور ان حفاظتی تدابیر کو منسوخ کر دیں- جنہیں قانوناساسی کے بناتے ہوئے مسلمانوں کی خاطر منظور کر لیا جائے-
کلکتہ لیگ کے مطالبات
کلکتہ لیگ جس کی نمائندگی کا نہرو کمیٹی کو دعویٰ ہے اس کا فیصلہ یہ تھا کہ اس کے نمائندے کانگریس کے ساتھ قانون اساسی بنانے میں شریک ہوں مگر ان امور کا خیال رکھیں کہ
۱- سندھ ایک مستقل اور خود مختار صوبہ بنایا جائے-
۲- صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں بھی اصلاحات جاری کی جائیں اور باقی صوبوں کے برابر اختیارات ان کو بھی دیئے جائیں-
۳- موجودہ حالات میں مختلف صوبہ جات میں جدا گانہ انتخاب مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے ضروری ہے- اور مسلمان اس حق کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ سندھ کو ایک مستقل اور خود مختار صوبہ نہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں اصلاحات نہ جاری کر دی جائیں-
جب یہ شرطیں مکمل طور پر پوری ہو جائیں- تب مسلمان جداگانہ انتخاب کو مشترکہانتخاب کے حق میں چھوڑنے کیلئے تیار ہونگے مگر اس شرط سے کہ آبادی کی تناسب سے ہر قوم کی نیابت محفوظ ہو- سوائے ان صورتوں کے جو ذیل میں درج ہے-:
الف-: صوبہ سرحدی` بلوچستان اور سندھ میں مسلمان ہندوئوں کو ان کے جائز حقوق سے زیادہ اسی قدر حق دیں گے- جس قدر زائد حقوق کہ ہندو دوسرے صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہوگی مسلمانوں کو دیں گے-
ب- مرکزی حکومت میں موجودہ نیابت سے کم مسلمانوں کو نہ ملے گی-
اس کے علاوہ لیگ نے مدراس کانگریس کے فیصلہ کو جو حریت ضمیر مذہبی قانون سازی اور گائے اور باجہ کے سوال کے متعلق تھا- قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اسے بھی اوپر کے ریزولیوشن کے ساتھ شامل کیا جائے-
بعض امور جو دوسری پارٹی کے مطالبات میں ہیں وہ اس میں چھوڑ دیئے گئے ہیں- لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ کلکتہ لیگ ان کے مخالف ہے- مثلاً حکومت اتحادی کا مطالبہ ان مطالبات میں شامل نہیں- لیکن جب ہم ان تقریروں کو دیکھتے ہیں- جو اس موقع پر کی گئی تھیں- تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلکتہ لیگ کے ممبروں کے دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ صوبہ جات کو کامل آزاد حکومت حاصل ہوگی- مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد نے جو تقریر اس وقت کی تھی اس کا مندرجہ ذیل فقرہ اپنے مضمون پر خود شاہد ہے- وہ فرماتے ہیں-:
>اب نو ہندو صوبوں کے مقابل پر پانچ مسلمان صوبے ہونگے اور جو سلوک بھی ہندو ان نو صوبوں میں مسلمانوں سے کریں گے مسلمان وہی سلوک اپنے پانچ صوبوں میں ہندوئوں سے کریں گے کیا یہ ایک بڑی کامیابی نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ رکھنے کیلئے ایک نیا ہتھیار نہیں مل گیا؟< ۶~}~
یہ فقرہ بتاتا ہے کہ مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے ذہن میں اس وقت یہی تھا کہ صوبہجات کامل طور پر خود مختار ہونگے` ورنہ اگر سب اہم اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہونے تھے اور صوبہ جات کے کاموں میں اسے دخل دینے کا اختیار حاصل ہونا تھا تو پھر مسلمانوں کو کونسا نیا ہتھیار ملتا ہے- مرکزی حکومت جس میں ہندو اکثریت لازمی ہے` ہر وقت مسلم صوبہ جات کے کام میں دخل دے سکتی ہے جیسا کہ نہرو رپورٹ والوں نے دبے الفاظ میں سندھ کے ہندوئوں سے وعدہ بھی کیا ہے- یا اسی طرح مثلاً زبان کا سوال ہے- کلکتہ لیگ نے زبان کے سوال کو نہیں اٹھایا- لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس سوال کو اہمیت نہیں دیتی تھی` بلکہ محض اس وجہ سے کہ اس سوال کو کانگریس پہلے حل کر چکی تھی اور ملک کی زبان ہندوستانی یا اردو تسلیم کر چکی تھی- جس کی تحریر فارسی یا ناگری رسم الخط دونوں میں جائز ہوگی- پس کلکتہ لیگ نے یہ سمجھا کہ جو فیصلہ کانگریس پہلے کر چکی ہے اسے نہرو کمیٹی نظر انداز نہیں کرے گی-
غرض گو بعض باتیں کلکتہ سیشن کے ریزولیوشن میں نہیں ہیں- لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کلکتہ سیشن ان کے مخالف تھا- کلکتہ سیشن جس امر میں لاہور سیشن کے مخالف ہے` وہ صرف یہ بات ہے کہ لاہور کہتا ہے ان صوبوں کا الگ کرنا ہمارا حق ہے- پس ہم اس حق کا مطالبہ بھی کریں گے- اور جداگانہ انتخاب کو بھی اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہمیں ہندوئوں پر اعتماد پیدا نہ ہو جائے- اور ہم یہ نہ دیکھ لیں کہ وہ اپنے روپیہ اور اپنے رسوخ کو ہمارے تباہ کرنے پر خرچ نہیں کرتے- اس اختلاف کے سوا کوئی اصولی اختلاف کلکتہ اور لاہور میں نہیں ہے- اور کلکتہ سیشن (SESSION) کے بانی مبانی اور اس کے روح رواں مسٹرجناح جنہوں نے شملہ کی آل مسلم کانفرنس میں مسلمانوں کی رائے کا اچھی طرح موازنہ کر لیا تھا` وہ اس امر کو جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کے ساتھ نہیں بلکہ لاہور کے ساتھ ہے- چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میں فرمایا تھا-:
>ہمیں )کلکتہ لیگ کے بانیوں کو( اس کمرہ میں اکثریت حاصل ہے- لیکن کیا ہمیں ملک میں بھی اکثریت حاصل ہوگی؟- )اس پر لوگوں نے کہا- ہاں( مسٹر جناح نے کہا کہ میرے لئے اس سے زیادہ کوئی امر خوش کن نہ ہوگا- مگر انصاف یہ چاہتا ہے کہ میں اقرار کروں کہ مجھے اس پر اطمینان حاصل نہیں ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت ہماری تائید میںہے<- ۷~}~
‏28] [pنہرو رپورٹ کا فیصلہ
میں مسلمانوں کے مطالبات کو اوپر بیان کر چکا ہوں- اور یہ بھی ثابت کر چکا ہوں کہ مسلمانوں کی دونوں پارٹیوں میں آئندہ سوراج کے متعلق کس قدر اختلاف ہے- اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی دونوں پارٹیوں میں سے ہندوئوں کے نقطہ نگاہ کا زیادہ پاس کرنے والی کلکتہ لیگ ہے- مگر وہ بھی صاف لفظوں میں یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ سوراج کی سکیم میں مسلمان اسی وقت شریک ہو سکتے ہیں- جب کہ اوپر کے بیان کردہ امور کا کلی طور پر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو جائے- گویا اوپر کے مطالبات ہندو مسلم صلح کی گفتگو کے لئے بطور بنیاد نہیں ہیں- بلکہ ان کا پہلے منظور ہو جانا ہندو مسلم کی صلح کے لئے بطور شرط ہے- اور اس امر میں لاہور لیگ ان سے متفق ہے- ان کے مخالف نہیں- کیونکہ لاہور لیگ تو ان سے بھی زیادہ مطالبہ کرتی ہے- پس اس چھوٹے مطالبہ میں کسی کمی کو وہ کب جائز قرار دے سکتی ہے-
اس قدر اظہار کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ نہرو کمیٹی مذکورہ بالا امور کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے-
مطالبہ اول کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ
پہلا سوال اتحادی یا فیڈرل طریق حکومت کا ہے- میں بتا چکا ہوں کہ یہ سوال سب سوالات سے اہم ہے اور اس کے بغیر کوئی حفاظت کا ذریعہ کامیاب نہیں ہو سکتا- اکثر مسلمان اس امر کی تائید میں رائے دے چکے ہیں- اور مسٹر جناح کی لیگ بھی جیسا کہ مولانا ابوالکلامصاحب آزاد کے مذکورہ بالا فقرہ سے ظاہر ہے اس کی تائید میں تھی- لیکن نہرو رپورٹ نے بجائے اتحادی یا فیڈرل طریق حکومت کے ایک قسم کی یونیٹیرین (UNITARIAN) یا مرکزیحکومت کی تجویز پیش کی ہے- جو ملک کی اصل حاکم سمجھی جائے گی- اور صوبہ جات کے اختیار اس مرکزی حکومت سے حاصل کردہ ہونگے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ نہرو کمیٹی کے ہوشیار ممبر اس امر کے متعلق صفائی کے ساتھ نہیں لکھ سکتے تھے- کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فوراً مسلمان بیدار ہو جائیں گے اور شور کا دبانا مشکل ہو جائے گا- اور چونکہ وہ ایسے اہم سوال کو بغیر اس الزام کا مورد بننے کے نظر انداز بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ یا تو سیاسیات سے نابلد ہیں یا انہوں نے رپورٹ کے تیار کرنے میں محنت سے کام نہیں لیا- اس لئے انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اپنی رپورٹ کے ساتویں باب کے شروع میں اصل تجاویز میں یہ فقرہ لکھ دیا ہے کہ-:
>ہم نے قانون اساسی کو مکمل صورت میں تیار کرنے کی کوشش نہیں کی<-۸~}~
لیکن باوجود اس کے کون عقلمند آدمی کہہ سکتا ہے کہ قانون اساسی کے تیار کرنے والے بغیر مورد الزام بننے کے اس امر کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ آئندہ حکومت ہند کی شکل کیا ہوگی؟ مگر نہرو کمیٹی نے ایسا کیا ہے- لیکن ایسا اہم سوال چونکہ قانون اساسی سے کسی صورت سے بھی جدا نہیں ہو سکتا- اس لئے جس امر کو تعریف کے حذف کر دینے سے چھپایا گیا ہے- اسے تفاصیل نے ظاہر کر دیا ہے- اور رپورٹ کے متعدد مقامات ظاہر کر رہے ہیں کہ رپورٹ نے ایک مضبوط سینٹرل اور ایک رنگ کی یونیٹیرین گورنمنٹ تجویز کی ہے- چنانچہ رپورٹ کے باب تجاویز کے عنوان پارلیمنٹ کے نیچے چونتیسویں مادہ میں لکھا ہے-
>صوبہ جات کی کونسلوں کے اختیارات تمام ان امور پر حاوی ہیں جنہیں فہرست دوم میں گنایا گیا ہے<- ۹~}~
اسی طرح رپورٹ کے عنوان پارلیمنٹ کے نیچے تیرھویں مادہ کی پہلی شق میں یوں درج ہے کہ یہ پارلیمنٹ قانون بنائے گی-
>امن نظام اور کامن ویلتھ (COMMONWEALTH) کی حکومت کے اچھی طرح چلنے کے لئے ان تمام امور کے متعلق جو اس قانون کے مطابق صوبوں کی کونسلوں کے سپرد نہیں کئے گئے<- ۱۰~}~
اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ آئندہ حکومت ہند میں صوبوں سے مرکزی حکومت کو اختیارات نہیں دیئے گئے- بلکہ مرکزی حکومت کی طرف سے صوبوں کو اختیارات دئے گئے ہیں- اسی طرح صوبہ جات کی مجالس واضع قوانین کے عنوان کے نیچے مادہ تیس)۳۰( کے ماتحت لکھا ہے-
>صوبہ کی آمد میں سے بادشاہ کو گورنر صوبہ کی تنخواہ کے طور پر۔۔۔۔۔ سالانہ رقم ادا کی جائے گی جو کہ جب تک کامن ویلتھ کی پارلیمنٹ کوئی دوسرا فیصلہ نہ کرے- اس قاعدہ کے مطابق ہوگی- جو ساتھ درج ہے<- ۱۱~}~
اس قاعدہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ جات کی مجالس کو مرکزی مجلس کے ماتحت رکھا گیا ہے- اور واضح حوالہ سول سروس کے عنوان کے نیچے ملتا ہے- اس عنوان کے نیچے اکیاسیویں مادہ کے ماتحت لکھا ہے-
>پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر اور معین کردہ امور کے متعلق گورنر جنرل ان کونسل COUNCIL) IN GENERAL (GOVERNER یا صوبہ جات کی گورنمنٹوں کو بھی دے سکتی ہے<-۱۲~}~
ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی نے جو قانون اساسی حکومت ہند کے لئے تجویز کیا ہے` وہ مسلمانوں کے مجموعی مطالبہ کے بالکل مخالف ہے- مسلمانوں کا مطالبہ فیڈرل یا اتحادی گورنمنٹ کا تھا- جس میں کہ سب صوبے آزادانہ حکومت رکھتے ہوں اور وہ اپنی مرضی سے بعض ایسے اختیارات جو بغیر مرکزی حکومت کی موجودگی کے نہیں برتے جا سکتے- ایک مرکزی حکومت کو تفویض کر دیں- اور مرکزی حکومت کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ صوبہ جات کے اندرونی انتظام میں کسی قسم کا بھی دخل دے سکے-
یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس قسم کی گورنمنٹ کے مسلمانوں کو ہندوستان میں امن نہیں حاصل ہو سکتا- اگر مسلمانوں کا مطالبہ سندھ` صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو اختیار حاصل کرنے کا ہے تو محض اس لئے کہ ہندوئوں کو اس وجہ سے ان صوبوں میں مسلمانوں پر ظلم کرنے کا خیال پیدا نہیں ہو سکے گا` جہاں مسلمان کم ہیں- کیونکہ مسلمان آزاد صوبوں میں بھی ہندو آبادی بس رہی ہوگی- لیکن اگر اصل اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہیں- تو پھر اس احتیاط سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- جب مرکزی حکومت ہر وقت دخل دے سکتی ہے تو جس وقت وہ چاہے گی مسلمانوں کے صوبوں کے معاملات میں دخل دے دے گی- اگر کہو کہ ایسا کیوں کرے گی- تو میں کہتا ہوں کہ اصل سوال تو ہے ہی یہی کہ دونوں قوموں کو ایک دوسرے پر بے اعتباری ہے- اگر بے اعتباری نہیں تو یہ سب شرطیں اور پابندیاں لگائی ہی کیوں جاتی ہیں- صاف کہدو کہ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں پر اعتبار ہے- وہ جس طرح چاہیں حکومت کریں- ہمیں ان سے ہر ایک طرح نیک امید ہے- اس نتیجہ پر پہنچ جائو تو آج ہی سب جھگڑے کا فیصلہ ہو جاتا ہے- اسی وقت ہندو اٹھ کر آپ لوگوں کو گلے لگا لیں گے-
مطالبہ دوئم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ
دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس جس صوبہ میں اقلیت نہایت کمزور ہو` وہاں اسے اپنے اصل حق سے زائد حق دیا جائے- اور جس جگہ اقلیت کمزور نہ ہو` وہاں اقلیت کو زائد حق نہ دیا جائے- نہرو رپورٹ کا فیصلہ یہ ہے کہ زائد حق کسی جگہ بھی نہ دیا جائے- نہ اس جگہ جہاں اقلیت کم ہو اور نہ وہاں جہاں طاقتور ہو- چنانچہ رپورٹ میں لکھا ہے-
>تعداد آبادی کی نسبت سے زائد نمائندگی جو لکھنئو کے معاہدہ اور مانٹیگ چیمسفورڈ سکیم ۱۳(MONTAGUECHELMSFORDSCHEME)~}~ کے مطابق مسلمانوں کو بعض صوبوں میں دی گئی تھی` وہ ہماری سکیم کے مطابق واپس لے لی جائیگی<- ۱۴~}~ گویا اس مطالبہ کو بھی کلکتہ اور لاہور لیگ کا مشترکہ تھا` رد کر دیا گیا ہے- جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ مسلمانوں نے چونکہ پنجاب اور بنگال میں بوجہ تعداد میں زیادہ ہونے کے ہندوئوں کی حکومت سے انکار کیا تھا- اس کے بدلہ میں دوسرے صوبہ کے مسلمانوں کو نمائندگی کی ایک قلیل زیادتی سے محروم کر دیا جائے- جس سے وہ حاکم نہیں بنتے تھے- صرف اتنا تھا کہ مختلف جماعتوں اور سیاسی انجمنوں کی نیابت آسانی سے صوبوں کی حکومت میں ہو سکتی تھی-
اسی مطالبہ کے ضمن میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ مرکزی حکومت میں بجائے پچیس فیصدی کے مسلمانوں کو ۳۳ فی صدی نمائندگی کا حق دیا جائے تاکہ مختلف صوبوں سے ان کی نیابت اچھی طرح ہو سکے- اس مطالبہ میں کلکتہ اور لاہور لیگ برابر کی شریک ہیں- نہروکمیٹی نے اس مطالبہ کو بھی رد کر دیا ہے- وہ لکھتی ہے-
>مسلمان برطانوی ہندوستان میں ایک چوتھائی سے کچھ کم ہیں- اور ان کے لئے مرکزی پارلیمنٹ میں اس نسبت آبادی سے زیادہ ممبریاں ہر گز محفوظ نہیں کی جا سکتیں<- ۱۵~}~
اس وقت لیجسلیٹو اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد گو پوری تینتیس فیصدی نہیں ہے- مگر چوتھائی سے زیادہ ہے- چنانچہ نہرو رپورٹ میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے- اس وقت مسلمانوں کی تعداد لیجسلیٹو اسمبلی میں تیس فیصدی ہے- نہرو رپورٹ آئندہ نظام حکومت میں مسلمانوں کو اس قدر بھی حق نہیں دینا چاہتی- گویا مسلم لیگ تو اس بنا پر کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کی نمائندگی چوتھائی ممبروں سے نہیں ہو سکتی- اور کسی قدر زیادہ ممبریوں کے دینے سے ہندوئوں کو کوئی نقصان نہیں موجودہ ممبریوں سے زیادہ کا مطالبہ کرتی ہے اور کم سے کم اس کا مطالبہ یہ ہے کہ موجودہ تعداد ہی رہنے دی جائے- لیکن نہرو کمیٹی موجودہ حق کو بھی چھین کر مسلمانوں کی نیابت کو ایک چوتھائی پر لے آتی ہے- اور مسلم لیگ کے دعویٰ پر وہی مثل صادق آتی ہے کہ چوبے جی چھبے ہونے گئے تھے دوبے ہو کر آئے-
مطالبہ سوئم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ
تیسرے مطالبہ میں مسلمانوں میں اختلاف تھا- لاہور لیگ جب تک ہندو مسلمانوں میں اعتبار قائم نہ ہو جائے اور مسلمان اپنی مرضی سے جدا گانہ انتخاب کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوں` جداگانہ انتخاب کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھی- کلکتہ لیگ کے نزدیک اگر سندھ کو الگ صوبہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو وہی اختیارات دے دیئے جائیں جو باقی صوبوں کو تو ان تبدیلیوں کے مکمل ہو جانے کے بعد کوئی حرج نہ تھا` اگر مسلمان اپنے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑ دیں- ان دونوں مطالبات میں سے کسی مطالبہ کو بھی لے لیا جائے- نہرو رپورٹ نے اسے پورا نہیں کیا- نہرو کمیٹی تسلیم کرتی ہے کہ مسلم لیگ کونسل کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ کم سے کم مطالبہ ہے جسے کم کرنے کیلئے مسلمان تیار نہیں ہونگے- اور کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن بتاتے ہیں کہ اس کا بھی یہی منشا تھا- کیونکہ جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں` کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن میں یہ الفاظ صاف طور پر درج ہیں کہ-:
>مسلمان اس حق کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے- جب تک کہ سندھ کو ایک مستقل اور خودمختار صوبہ نہ بنا دیا جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان میں اصلاحات نہ جاری کر دی جائیں<-
لیکن نہرو کمیٹی ان تین امور میں سے صرف ایک کو تسلیم کرتی ہے- یعنی صوبہ سرحدی کو نیابتی حقوق دینے کی تائید کرتی ہے- سندھ کے متعلق وہ شرطیں لگاتی ہے کہ فلاں فلاں شرط کے ماتحت اسے آزاد کیا جا سکتا ہے- اور بلوچستان کا ذکر وہ بالکل مشتبہ الفاظ میں کرتی ہے- اس کے صفحہ۵۵ پر یہ الفاظ درج ہیں-:
>جن صوبوں کی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں بحث کی ضرورت ہے وہ صوبہسرحدی اور بلوچستان ہیں<-
اس فقرہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر اس کے مرتبین کے ذہن میں تھا کہ بلوچستان میں ہندوئوں کے حقوق کا سوال پیدا ہوگا- مگر صفحہ ۱۲۴ پر قانون اساسی کے عنوان ثانوی فرقہ وارانہ نمائندگی کے نیچے ساتویں مادہ میں لکھا ہے-:
>صوبہ سرحدی میں اور تمام نئے بنائے ہوئے صوبوں میں جو پرانے صوبوں سے کاٹ کر بنائے جائیں گے` وہی طریق حکومت ہوگا جو دوسرے ہندوستان کے صوبوں میں رائج ہوگا<-
اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون اساسی میں بلوچستان کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہے- ممکن ہے کہ یہ غلطی سے ہو- مگر بہرحال معاملہ مشتبہ ہے- اور ہمیں اس وقت تک یہی کہنا چاہئے کہ نہرو کمیٹی نے ان شرطوں کو پورا نہیں کیا- جن پر کلکتہ لیگ جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے کے لئے تیار تھی- اور جن کے باوجود بھی لاہور مسلم لیگ جداگانہ انتخاب کو کچھ عرصہ کیلئے چھوڑنے پر تیار نہ تھی-
لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا کلکتہ لیگ کے ریزولیوشن کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ لیگ صرف یہ نہیں کہتی کہ ہندو صاحبان ان شرطوں کو پورا کرنے پر راضی ہو جائیں تو جداگانہ انتخاب کو اڑا دیا جائے گا- بلکہ وہ دو احتیاطیں اور کر لیتی ہے- وہ یہ بھی شرط لگاتی ہے کہ ان پر عملدرآمد بھی ہو جائے- اور دوسری شرط یہ لگاتی ہے کہ اس عملدرآمد پر مسلمان اپنی تسلی بھی کر لیں کہ ان کے منشاء کے مطابق کام ہو گیا ہے- کیونکہ وہ کہتی ہے-:
>جب یہ شرطیں مکمل طور پر پوری ہو جائیں` تب مسلمان جداگانہ انتخاب کو مشترکہ انتخاب کے حق میں چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے<-
لیکن نہرو کمیٹی بغیر ان کے پورا ہونے کے صرف اپنا مشورہ دیکر جداگانہ انتخاب کو اڑا دیتی ہے حالانکہ مسلم لیگ کی شرط کے مطابق اسے چاہئے تھا کہ صاف طور پر لکھتی کہ مشترکہ انتخاب اسی وقت سے شروع ہوگا- جب کہ پہلی تین باتیں پوری ہو جائیں- اسی طرح مسلملیگ کے الفاظ یہ ہیں کہ تب مسلمان جداگانہ انتخاب چھوڑنے کیلئے تیار ہونگے- انگریزی ریزولیوشن کے الفاظ یہ ہیںabandon>- to prepared be <Will
ان الفاظ میں اختیار ابھی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی رکھا گیا ہے- گو یہ مطلب نہیں کہ اگر مسلمان چاہیں تو پھر بھی نہ چھوڑیں- لیکن یہ مطلب ضرور ہے کہ مسلمان پہلے اپنی تسلی کر لیں کہ ان کی شرائط پوری ہو گئی ہیں تب وہ اپنا آخری فیصلہ دیں گے کہ اب جداگانہ انتخاب کو اڑا دیا جائے- مگر نہرو رپورٹ نے ہر گز ان شرائط کا خیال نہیں کیا- مجھے خوب یاد ہے کہ شملہ کی آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں جب یہ سوال بار بار پیش کیا جاتا تھا کہ اگر ہندو ہماری شرطوں پر راضی ہو جائیں لیکن بعد میں عذر کر دیں کہ ہم تو راضی ہیں لیکن فلاں فلاں روک کے سبب سے ابھی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا تو پھر آپ کے ہاتھ میں کیا رہ جائے گا- تو مسٹر جناح بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہماری سفارش کے لفظوں پر غور نہیں کیا گیا- ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جداگانہ انتخاب اس وقت سے جاری کیا جائے گا- جب ہماری شرائط پر عملدرآمد ہو جائے گا- صرف ہندوئوں کے منظور کر لینے سے انتخاب کو نہیں چھوڑا جائے گا- لیکن ابھی ایک سال نہیں گذرا کہ مسٹر جناح کے اس خیال کی تردید ہو گئی ہے-
نہرو رپورٹ بغیر ان شرطوں پر عملدرآمد ہونے کے` بلکہ بغیر ان شرطوں کو مکمل طور پر منظور کرنے کے جداگانہ انتخاب کا فیصلہ کرتی ہے اور ان شرائط کا ذکر تک نہیں کرتی- مسلمانوں کی ایک جماعت نے ہندوستان میں امن کے قیام کے لئے باوجود سخت خطرات کے جداگانہ انتخاب کے حق کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی تھی- اور اپنی قوم سے لڑائی مول لی تھی- مگر اس کی تجاویز کا نہرو کمیٹی کے ہاتھوں جو حشر ہوا ہے` میں اسے اوپر بیان کر چکا ہوں- جب شروع میں یہ حال ہے- جب سوراج۱۶~}~ کے حصول کے جوش میں ان لوگوں کو مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا ہے تو اس وقت کیا ہوگا جب حکومت مل جائے گی اور سب اختیار انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا-
مطالبہ چہارم کے متعلق نہرو کمیٹی کا فیصلہ
چوتھا سوال صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو نیابتی حکومت دینے اور سندھ کو الگ صوبہ بنا کر نیابتی حکومت دینے کے متعلق تھا- نہرو کمیٹی نے صوبہ سرحدی کے متعلق مطالبہ کو تسلیم کیا ہے- بلوچستان کو مشتبہ چھوڑ دیاہے- اور سندھ کے متعلق یہ شرط لگا دی ہے کہ جب تک وہ مالی طور پر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کے باشندے مالی بوجھ کو اٹھانے کیلئے آمادہ نہ ہوں` اس وقت تک اس صوبہ کو آزاد نہ کیا جائے- بظاہر یہ شرطیں معقول معلوم ہوتی ہیں- کیونکہ کہا جا سکتا ہے کہ جو صوبہ اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ الگ کس طرح ہو سکتا ہے- گو مسلمان یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور الگ نہیں ہو سکتا تو پھر جداگانہ انتخاب کو بھی نہ اڑائو جس کے لئے سندھ کی علیحدگی بطور شرط ہے- مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ نہرو کمیٹی کے ان سیدھے سادے فقروں کے نیچے نہایت گہرا مضمون پوشیدہ ہے- بوجھ کا لفظ ایسا غیر محدود ہے کہ اس کی حد بندی میں ہی سندھ کو علیحدگی سے محروم رکھا جا سکتا ہے- بوجھ سے مراد ایک سیدھا سادہ نظام بھی ہو سکتا ہے- جس کا اٹھانا یقیناً سندھ کے لئے مشکل نہ ہوگا- لیکن بوجھ سے مراد ایک ایسا بوجھ بھی ہو سکتا ہے` جسے سندھ جیسا چھوٹا صوبہ اٹھا ہی نہ سکے- اور اس صورت میں وہ کبھی الگ ہی نہ ہو سکے- میرے لئے شک کرنیکی کافی وجہ موجود ہے کہ اس جگہ بوجھ سے مراد ضرورت اور طاقت سے زیادہ بوجھ ہے- کیونکہ نہرو رپورٹ ہی میں لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک درخواست سندھ کے ہندوئوں` مسلمانوں اور پارسیوں کی مشترکہ آئی تھی کہ سندھ کو علیحدہ کر دیا جائے اور مالی مشکلات کے متعلق اس درخواست میں یہ حل پیش کیا گیا تھا- کہ >ان کا کوٹ ان کے کپڑے کے مطابق بیونت دیا جائے< یعنی جس قدر طاقت مالی ان کے صوبہ میں ہے- اسی کے مطابق ان کے صوبہ کی گورنمنٹ کا انتظام کر دیا جائے- اور زیادہ دیر تک مالی حالت کی ترقی کا انتظار نہ کیا جائے- لیکن کمیٹی کہتی ہے کہ وہ ان کی اس خواہش کو مالی مشکلات کا آخری حل نہیں قرار دے سکتی-۱۷~}~ اس سے ظاہر ہے کہ سندھ کے لئے ایک ایسا انتظام تجویز کیا جائے گا جو اس کی طاقت سے باہر ہو- اور چونکہ وہ اس بوجھ کو اٹھانے کا اقرار کر ہی نہ سکے گا- کیونکہ اس کے معنی یہ ہونگے- کہ وہ بجائے اقتصادی ترقی کے اپنی پہلی حالت کو بھی کھو بیٹھے- اس لئے سندھ کو الگ بھی نہیں کیا جائے گا- اس کا مزید ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ پنڈت موتی لال نہرو صاحب نے بمبئی کونسل میں سندھ کی علیحدگی کے مسودہ کو روکنا چاہا ہے- اور کانگریسی ممبروں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر اس مسودہ کو مسلمان ضرور ہی پیش کریں تو وہ اس کی مخالفت کریں-
مطالبہ پنجم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ
پانچواں سوال زبان کا تھا- اس سوال کو نہرو کمیٹی نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے- وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک معمولی سوال ہے- اول تو یہ سوال معمولی نہیں ہے- اس سے مسلمانوں کی ترقی اور تنزل وابستہ ہے- ہندوستان کی آئندہ حکومت اردو کو اڑا دے- پھر دیکھو کس طرح چند ہی سال میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے وہ تھوڑے بہت کام بھی نکل جاتے ہیں- جو اس وقت ان کے ہاتھ میں ہیں- اور کس طرح ان کی مخصوص تہذیب برباد ہو جاتی ہے- لیکن اگر اسے معمولی بھی فرض کر لیا جائے` تب بھی دیکھنا تو یہ ہے کہ جس قوم سے معاملہ ہے وہ اسے کیا اہمیت دیتی ہے- اگر مسلمان اردو کے سوال کو اہمیت دیتے ہیں- اور اسے اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھتے ہیں تو اسے نظر انداز کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا- مگر میں اس امر پر بعد میں بحث کروں گا کہ زبان کا سوال نہ معمولی ہے اور نہ یہ صرف ہندوستان میں پیدا ہوا ہے- بلکہ اسے دوسرے ممالک میں بھی اہمیت دی گئی ہے- اور اس کے لئے خاص قوانین بنائے گئے ہیں جو قانون اساسی کے ساتھ ہی منظور کئے گئے ہیں-
مطالبہ ششم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ
چھٹا مطالبہ مذہبی اور اقتصادی دست اندازی سے روکنے کے متعلق تھا- لیکن اس کے متعلق بھی نہرو کمیٹی کی رپورٹ واضح نہیں ہے- بلکہ لفظوں کے ہیر پھیر میں اس مطالبہ کی اہمیت اور اس کی وسعت کو دبا دیا گیا ہے اس کے متعلق جو کچھ نہروکمیٹی نے فیصلہ کیا ہے وہ ذیل میں درج ہے- وہ اصولی حقوق کے عنوان کے نیچے چوتھے مادہ میں لکھتی ہے-:
>ضمیر کی آزادی اور مذہب کا آزادانہ اقرار اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق بشرطیکہ ایسا مذہبی فعل یا اعلان ملکی امن اور اخلاق کے خلاف نہ ہو ہر فرد بشر کو حاصل ہوگا<- ۱۸~}~
یہ الفاظ مسلمانوں کے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے- گائے کی قربانی پر ہمیشہ ہندو فساد کرتے ہیں- اس قانون کی رو سے ان کے فساد کی بنا پر گائے کی قربانی سے مسلمانوں کو روکا جا سکتا ہے- اسی طرح اس میں مذہب کی تبلیغ کے متعلق کچھ ذکر نہیں- یہ قانون ہر شخص کو صرف یہ حق دیتا ہے- کہ وہ اپنے مذہب کا آزادی سے اظہار کرے- مگر اس امر کا حق نہیں دیتا کہ کوئی شخص دوسرے کو آزادی سے تبلیغ کر سکے- قانون کسی وقت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تبلیغ سے فساد ہوتا ہے- اس لئے ہم اس سے روکتے ہیں تم اپنے مذہب کا اظہار کر سکتے ہو لیکن دوسرے شخص کو اس کی دعوت نہیں دے سکتے- اسی طرح قانون کسی وقت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ مذہب کی تبدیلی سے فساد ہوتے ہیں` ہم مذہب کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے- ضمیر کی آزادی کا قانون اس کو نہیں روک سکتا- کیونکہ ضمیر کی آزادی صرف عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے- اور مذہب کی تبدیلی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونے کا نام ہے- اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی مثلاً یہ قانون بنایا جا سکتا ہے کہ مجسٹریٹ کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کوئی شخص مذہب تبدیل نہیں کر سکتا- اور اس کی وجہ یہ بتائی جائے کہ اس طرح جبر وغیرہ نہ ہو سکے گا- اور اس طرح تبدیلیمذہب کا سلسلہ روک دیا جائے- جیسا کہ آج کل کئی ریاستوں میں ہو رہا ہے- اول تو اس قدر لمبی مصیبت کو لوگ برداشت نہیں کرتے- اور اگر درخواست دیں تو پھر پوچھا جاتا ہے کس نے تبلیغ کی` کس طرح کی` کوئی دبائو تو نہیں؟ اور اسی قسم کے سوالات میں اسے پھنسا کر تبدیلیمذہب سے روک دیا جاتا ہے- اس کی مثالیں موجود ہیں اور میں اس امر کو ثابت کر سکتا ہوں- غرض اسی قسم کے کئے رخنے ہیں جو قانون مذہب میں موجود ہیں- اور جن کے ذریعہ سے مذہبیآزادی کو نہایت محدود کیا جا سکتا ہے- پس نہرو رپورٹ مسلمانوں کے مطالبات کو اس جہت سے بھی قطعاً پورا نہیں کرتی- بلکہ میں تو کہتا ہوں وہ اس مطالبہ کے بالکل الٹ جاتی ہے وہ مذکورہ بالا عنوان کے بارہویں مادہ میں کہتی ہے کہ-:
>کوئی شخص جو ایسے سکول میں تعلیم پا رہا ہو جسے گورنمنٹ امداد حاصل ہو یا پبلک کے روپیہ سے کسی اور طرح فائدہ اٹھا رہا ہو` اسے ایسی مذہبی تعلیم کے حصول پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو سکول میں دی جاتی ہو<-
اس مادہ کے ساتھ ذرا اس امر کو بھی ملا لو کہ ہندوستان کی آئندہ گورنمنٹ اگر یہ قانون بھی پاس کر دے کہ کوئی پرائیویٹ سکول جو گورنمنٹ ایڈ (GOVERNMENTAID) لیکر گورنمنٹ کے قانون کا پابند نہ ہو` منظور نہیں کیا جا سکتا- تو اس قانون کے پاس ہونے میں قانون اساسی ہر گز روک نہیں بن سکتا- اور اگر ایسا قانون پاس ہو جائے تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے بالکل بیگانہ کر دیا جائے- ہر مذہب اور ہر مذہبی سکول کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہم مذہبوں پر مذہبی تعلیم کے لئے زور دے سکے- اور یہ جبر نہیں ہے جبر یہ ہے کہ انسان دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کی تعلیم پر مجبور کرے- پس یہ قانون کئی رنگ میں مسلمانوں کو مذہبی تعلیم سے روکنے کا موجب بنایا جا سکتا ہے- یہ کہنا کہ ہندوئوں پر بھی اس کا یکساں اثر پڑے گا` مذاہب کی کامل ناواقفیت پر دلالت کرے گا- کیونکہ اسلام ایک مقررہ حدود والا مذہب ہے- جس کے جاننے کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہے- اس کے مقابلہ میں ہندو مذہب ایک سیاسی مذہب ہے- اور وید اور اس کی تعلیم سے بالکل بے بہرہ شخص اپنے پاس سے کچھ خیال تجویز کر سکتا ہے- اور پھر اسی طرح ہندو کہلا سکتا ہے جس طرح ویدوں کا سب سے بڑا عالم-
مطالبہ ہفتم اور نہرو کمیٹی کا فیصلہ
ساتواں مطالبہ یہ کہ وہ سوالات جو قومی بے اعتباری سے پیدا ہوتے ہیں` اور جن کا حل کرنا اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ضروری ہے` انہیں قانون اساسی میں اسی طرح داخل کیا جائے کہ اس کا بدلنا آسان کام نہ ہو- میں نہیں جانتا کہ ہماری جماعت کے سوا کسی اور جماعت کی طرف سے بھی یہ مطالبہ پیش ہوا ہے- یا نہیں- مگر بہرحال یہ اہم ترین مطالبات میں سے ہے- اور اس کی طرف بھی نہرو کمیٹی نے توجہ نہیں کی- اس مطالبہ کی طرف ایک رنگ میں لکھنئو پیکٹ (LUCKNOWPACT) میں اشارہ ضرور تھا- مگر وہ مطالبہ قانونی زبان میں نہ تھا- مبہم الفاظ میں تھا-
‏a.10.22
مذکورہ بالا بیان سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ سات مطالبات میں سے جو مسلمانوں کی طرف سے ہوئے ہیں- ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں- جسے نہرو کمیٹی نے پورے طور پر منظور کر لیا ہو بلکہ بعض کو بالکل رد کر دیا ہے اور بعض کو ناقص طور پر قبول کیا ہے- اور عجیب بات یہ ہے کہ نقص ہمیشہ اسی حصہ میں واقع ہوا ہے جس سے اس مطالبہ کی اصل غرض فوت ہو جاتی ہے- اور اس کا قبول کرنا نہ کرنا برابر ہو جاتا ہے- اب سوال ہے کہ جب نہرو کمیٹی نے ان شرطوں کو بھی رد کر دیا ہے جن کو مسلمانوں میں سے نرم سے نرم جماعت نے آخری شرطیں قرار دیا تھا- تو کیا ایسا فیصلہ انصاف کا فیصلہ کہلا سکتا ہے- اور کیا اسے قبول کر کے مسلمان ہندوستان میں امن سے رہ سکتے ہیں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے` ہر گز نہیں- اور میں اگلے حصہ مضمون میں اسی پر بحث کرنی چاہتا ہوں- اور اپنے مضمون کو کئی سوالوں پر تقسیم کرتا ہوں تا کہ اچھی طرح ہر اک شخص کی سمجھ میں آ سکے-
۱- کیا تفاصیل کو آزاد حکومت کے حصول تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا
پیشتر اس کے کہ میں اس امر پر بحث کروں کہ مسلمانوں کے مطالبات کہاں تک ضروری اور جائز ہیں` میں ایک خطرناک وہم کو دور کرنا چاہتا ہوں جو مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہے- اور جس کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں` جس کے بعد واپس لوٹنا ناممکن ہوگا اور پچھتانے اور نادم ہونے سے کچھ نہیں بنے گا- اور وہ وہم یہ ہے کہ اب جو کچھ بھی فیصلہ ہونا ہے ہو جائے- بعد میں اگر اس میں نقص معلوم ہو گا تو موجودہ فیصلہ کو بدل دیا جائے گا- میں سمجھتا ہوں کہ اکثر مسلمانوں کے دل میں یہی احساس ہے اور اس احساس کی وجہ سے ایک غلط اور میرے نزدیک خطرناک احساس حفاظت ان کے دلوں میں پیدا ہے- اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس فیصلہ کو جو آج سوراج کے متعلق ہوگا` بدلنا ان کی طاقت سے باہر ہوگا` تو پھر وہ کبھی جلدی نہ کریں گے- اور اس ہزاروں خطرات سے پر قدم کے اٹھانے سے پہلے وہ لاکھوں قسم کے سوالات کو حل کرنا چاہیں گے اور بیسیوں راستے واپسی کے سوچیں گے- لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ انہیں یہ یقین دلایا ہے کہ اگر اس فیصلہ میں کوئی نقص ہوگا تو اسے بعد میں بدلا جا سکتا ہے- اور اس وجہ سے مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف ایک تجربہ ہوگا- اگر اس میں نقص نظر آئے گا تو ہم اور تدبیر سوچیں گے- لیکن میں انہیں خوب اچھی طرح اور واضح کر کے سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے- آج جو قدم وہ اٹھائیں گے- اگر اس میں غلطی ہوگی تو الٹے پائوں لوٹنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا- بلکہ جن امور کا مطالبہ انہوں نے کیا ہے` اگر وہ آج انہیں منوانا چاہیں تو بہت زیادہ آسان ہے لیکن سوراج کے ملنے کے بعد ان مطالبات کا منوانا بالکل ناممکن ہوگا-
ڈومینین سلف گورنمنٹ کیا ہے
مسلمانوں کو یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ جس امر کا مطالبہ نہرو کمیٹی نے کیا ہے اور جس امر کا مطالبہ آج قریباً ہر ایک ہندوستانی کر رہا ہے وہ ڈومینین سلف گورنمنٹ (DOMINIONSELFGOVERNMENT) ہے- یعنی نیم آزاد حکومت- یہ نیم آزاد حکومت کیا شے ہے؟ اس کا سمجھ لینا ان کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس کے سمجھ لینے کے بغیر انہیں معلوم نہ ہو سکے گا کہ وہ اس وقت اپنے مطالبات پر زور نہ دیکر اپنی اور اپنی اولادوں کا خون کر رہے ہیں- نہیں نہیں بلکہ وہ خود اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ رہے ہیں- اور ہندوستان میں سپین کی تباہی کی داغ بیل ڈال رہے ہیں- عیاذا باللہ
ڈومینین سلف گورنمنٹ ایک تازہ اصطلاح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی آزاد حکومت جس قسم کی حکومت کہ کینیڈا` آسٹریلیا` سائوتھ افریقہ` نیوزی لینڈ کو حاصل تھی- اور اب پانچ سال سے جنوبی آئرلینڈ کو بھی حاصل ہے- مختلف بحثوں جھگڑوں اور سمجھوتوں کے بعد جنگ کے زمانہ تک برطانوی گورنمنٹ سے ڈومینینز (DOMINIONS) کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہو چکے تھے-
اول- برطانوی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہ بنائے گی جو کسی ڈومینین کے اندرونی نظمونسق سے تعلق رکھتا ہو بلکہ اس ڈومینین کو پورا حق حاصل ہوگا- کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کے متعلق خود قانون بنائے- برطانوی گورنمنٹ کی پریوی کونسل (PRIVYCOUNCIL) کے پاس اپیل کرنے کا حق اگر کوئی ڈومینین چاہے تو اپنے اہل وطن سے چھین سکتی ہے- یعنی اس ڈومینین کے ججوں کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے- ہر ڈومینین اپنے ملک کی حفاظت کیلئے خشکی یا تری کی فوج رکھ سکتی ہے- اسی طرح ہر ایک ڈومینین اپنے قانون اساسی کو اپنی پارلیمنٹ کے فیصلہ سے بھی بدل سکتی ہے` گو وہ قانون اساسی برطانوی پارلیمنٹ کا ہی پاس کردہ ہو- ڈومینین گورنمنٹ کے پاس کردہ قوانین پر گو برطانوی حکومت کو ویٹو (VETO) کا حق حاصل ہے لیکن وہ حق استعمال نہیں کیا جائے گا- جب تک کہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو جو صرف اس ڈومینین سے تعلق نہ رکھتا ہو` بلکہ برطانوی حکومت کے دوسرے حصوں پر بھی موثر ہو- چنانچہ ۱۹۱۱ء کی امپیریل (IMPERIAL) کانفرنس میں یہ فیصلہ کر دیا گیا تھا کہ ڈومینین حکومت کے متعلق آئندہ برطانوی پالیسی یہ ہوگی کہ وہ ہر ڈومینین کو پوری بغیر حد بندیوں کے اور کامل مقامی آزاد گورنمنٹ دے دے گا- اور اس وقت تک دخل نہ دے گا جب کہ ڈومینین کوئی ایسا فعل نہ کر لے جو برطانوی حکومت سے اس کے وفادارانہ تعلقات کے خلاف ہو-۱۹~}~ لیکن اس عرصہ میں اور تغیرات پیدا ہو گئے ہیں- اور ان کے مطابق ڈومینینز کو اور بھی زیادہ اختیارات مل چکے ہیں- اور گو اب بھی رسمی طور پر برطانوی حکومت کو ڈومینینز کے قوانین کے متعلق ویٹو کا اختیار حاصل ہے- لیکن عملاً اس کو کلی طور پر چھوڑ دیا گیا ہے- چنانچہ ۱۹۲۰ء میں کوئینزلینڈ (QUEEN'SLAND) میں ایک قانون پاس کیا گیا- جس کے خلاف وہاں کے زمینداروں نے بھی اور برطانیہ کے زمینداروں نے بھی شور مچایا کہ یہ قانون قانون اساسی کے خلاف ہے- اور اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ گورنمنٹ زبردستی زمینداروں کی زمینیں چھین لے- لیکن برطانوی گورنمنٹ نے دخل دینے سے انکار کر لیا کہ ہم ڈومینینز کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دے سکتے-
صرف ایک امر کا ڈومینینز کو اختیار حاصل نہیں ہے- اور وہ ان کا اپنے علاقہ کو بڑھانے اور گھٹانے کا سوال ہے- اس معاملہ میں وہ برطانیہ کی مرضی کی پابند ہیں-
بیرونی تعلقات کے لحاظ سے بھی جنگ کے بعد سے ڈومینینز کو بہت آزادی حاصل ہو چکی ہے وہ اپنے طور پر مگر بعد اجازت برطانیہ کے دوسری حکومتوں سے معاہدہ بھی کر سکتی ہیں- اور ۱۹۲۴ء میں جنوبی آئرلینڈ سے معاہدہ کرتے وقت برطانیہ نے سب ڈومینینز کا حق تسلیم کر لیا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینے پر مجبور ہونگی جب کہ برطانیہ پر کوئی اور حکومت حملہ آور ہو ورنہ اگر برطانیہ کسی اور حکومت سے جنگ کرے تو لازمی نہیں کہ وہ اس جنگ میں شریک ہوں- بلکہ ان کی پارلیمنٹوں کو اختیار ہوگا کہ وہ خواہ عملی طور پر جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کریں` خواہ علیحدہ رہنے کا- معاہدات کے متعلق بھی تسلیم کر دیا گیا ہے کہ اگر ڈومینینز سے کسی معاہدہ کے متعلق مشورہ نہ کیا جائے گا اور ان کی طرف سے اس معاہدہ پر دستخط نہ ہونگے- تو ڈومینینز پر اس معاہدہ کا کوئی اثر نہ ہوگا- ۱۹۲۴ء میں مسٹر بونرلسابق وزیراعظم نے امپیریل کانفرنس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اس امر کا اقرار کیا کہ ڈومینینز کو یہ بھی حق ہے کہ جب وہ چاہیں` برطانیہ سے علیحدگی کا اعلان کر کے کامل طور پر آزاد ہو جائیں- سائوتھ افریقہ اور کینیڈا کی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر اس حق کے حاصل ہونے کا اعلان کر چکی ہیں- ۲۰~}~
اوپر میں نے جو ڈومینینز کی حکومت کے قواعد بتائے ہیں` ان سے صاف ظاہر ہے کہ ڈومینین کی حکومت سے مراد ایک آزاد حکومت ہے- صرف اس فرق کے ساتھ کہ فی الحال وہ برطانیہ کے بادشاہ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتی ہے- اور اپنے آپ کو برطانوی حکومت کا جزو تسلیم کر کے اس کی شوکت کو بڑھاتی ہے اور اس کے رسوخ سے خود فائدہ اٹھاتی ہے- مگر باوجود اس کے یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ جب چاہے برطانیہ سے اپنا تعلق توڑ دے- دوسری حدبندی اس کی کامل آزادی پر یہ ہے کہ جب تک وہ جدا نہ ہو وہ اہم خارجی معاملات کے تصفیہ میں برطانوی حکومت کے توسط سے کام لیتی ہے ورنہ اندرونی طور پر وہ پوری طرح مختار ہے- وہ نہ صرف عام قوانین اپنے لئے بنا سکتی ہے` بلکہ اپنے قانون اساسی کو بھی بدل سکتی ہے-
اس قسم کی آزاد حکومت ہے جس کا مطالبہ اس وقت نہرو کمیٹی نے کیا ہے اور اس مطالبہ میں تمام ہندوستان سوائے چند لوگوں کے اس کے ساتھ شامل ہے- مگر سوال یہ ہے کہ ایسی آزاد حکومت کے قوانین میں تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے- کیونکہ اس وقت ہم نے اسی امر پر غور کرنا ہے کہ اگر موجودہ فیصلہ جو نہرو کمیٹی نے کیا ہے ہمارے موافق نہ ہو تو کیا ہم اسے بدلوا سکیں گے- اور اگر بدلوا سکیں گے تو کس طرح؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی حکومت میں قوانین کو بدلوانے کے تین ہی طریق ہیں- ۱-کثرت رائے سے قوانین کو بدل دینا- ۲-مقابلہ کر کے حکومت کو مجبور کرنا- ۳-بیرونی حکومتوں کی مدد سے حکومت کو مٹا دینا- میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ اس وقت نہرو کمیٹی کے فیصلہ پر متفق ہیں- وہ ان تینوں امور میں سے ایک نہ ایک کو اپنے آئندہ دکھوں کا علاج سمجھ رہے ہیں- بعض خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ حقوق جو ہم نے آج چھوڑ دیئے ہیں` کل کو ہمارے لئے ضروری معلوم ہوئے تو ہم پھر مجالس قوانین کے ذریعہ سے قوانین کو بدلوا لیں گے- بعض خیال کرتے ہیں کہ بیشک کونسلوں کے ذریعہ سے تو ہم نہیں بدلوا سکتے لیکن اگر کسی تبدیلی کی ضرورت ہوئی تو ہم مقابلہ کر کے زور سے اپنی مرضی کے مطابق قوانین بدلوا لیں گے- بعض سمجھتے ہیں کہ ہم میں زور نہیں ہے لیکن ہندوستان کی ہمسایہ حکومتیں مسلمان ہیں ان کی مدد سے ہم ایسی حکومت کو تباہ کر دیں گے جو ہمارے حقوق کے حصول میں روک ڈالے گی- اس لئے میں الگ الگ تینوں طریقوں کو لیکر بتاتا ہوں کہ ڈومینین حکومت کے اصول کے مطابق یہ تینوں طریق بظاہر ناممکن ہیں اور ان میں سے ایک کے ذریعہ بھی مسلمان اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ لے سکیں گے-
کونسلوں کے ذریعہ مسلمانوں کا مطالبات حاصل کرنا
پہلا امر کہ کونسلوں کے ذریعہ سے مسلمان اپنے مطالبات کو پورا کر لیں گے- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے جس قدر مطالبات ہیں سب کے سب آئندہ قانون اساسی میں مرکزی حکومت کے سپرد کئے گئے ہیں اور مرکزی حکومت میں نہرو کمیٹی میں مسلمانوں کو موجودہ حق نیابت سے بھی کم حق دیا ہے یعنی صرف چوتھائی- پس جب کہ ہمارا موجودہ تجربہ یہ ہے کہ تیس فیصدی حق کے باوجود بھی مسلمان اسمبلی میں اپنی مرضی نہیں منوا سکتے- حالانکہ بعض دفعہ وہ گورنمنٹ کے ممبروں سے بھی مل جاتے ہیں- تو آئندہ پچیس فیصدی ممبروں کے ساتھ وہ کیا کچھ کر سکیں گے اور خصوصاً جب کہ انگریز ممبروں کا عنصر آزاد حکومت میں سے بالکل مٹ جائے گا- پھر خصوصاً جب کہ سوال کسی عام پالیسی کا نہ ہوگا` بلکہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی طاقت موجودہ قوانین کی وجہ سے کمزور ہے- ان کو طاقتور کرنے کے لئے قوانین میں تبدیلی کرنی چاہے اور ان کے پرانے مطالبات کو پورا کر دینا چاہئے- کیا کوئی عقلمند ایک منٹ کیلئے بھی تسلیم کر سکتا ہے کہ اس سوال کے پیش ہونے پر ایک ہندو بھی مسلمانوں کے حق میں ووٹ دے گا- اور کیا کوئی عقلمند بھی اس امر کو تسلیم کر سکتا ہے- کہ اس صورت میں پچیس فی صدی ممبر پچھتر فیصدی ممبروں کی رائے کے خلاف قانون پاس کرا لیں گے- اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ جس قانون کی تبدیلی کا سوال ہوگا وہ قانون اساسی ہے نہ کہ عام قوانین اور قوانین اساسی کی تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے- نہرو کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے صفحہ۱۲۳ پر قانون اساسی کے بدلنے کا مندرجہ ذیل طریق پیش کیا ہے-:
‏iqt] >[tagپارلیمنٹ نیا قانون بنا کر قانون اساسی کی جس دفعہ کو چاہئے منسوخ یا تبدیل کر سکتی ہے- مگر شرط یہ ہوگی کہ وہ بل جس میں قانون اساسی کی تبدیلی کا سوال اٹھایا گیا ہو وہ پارلیمنٹ کی دونوں مجلسوں کی مشترکہ میٹنگ میں پاس ہوا ہو- اس طرح کہ تیسری دفعہ ووٹ لیتے وقت دونوں مجالس کے ممبروں کی کل تعداد میں سے کم سے کم دو تہائی ممبر دونوں مجالس کے اس کے پاس کرنے پر متفق ہوں<-
اس قاعدہ کی رو سے مسلمانوں کو اگر محسوس ہو کہ انہوں نے نہرو کمیٹی کی رائے کو قبول کرنے میں غلطی کی ہے- اور اپنے مطالبات کے چھوڑنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے تو انہیں موجودہ مطالبات پورا کرانے کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہوگا کہ ان کا ہر ایک ممبر اس وقت مجلس میں موجود ہو اور ان کے پیش کردہ مسودہ کی تائید کرے` بلکہ یہ بھی ضروری ہوگا کہ ہندو ممبروں کی کل تعداد میں سے بھی بیالیس فیصدی یعنی دو سو چونتیس ممبران کی تائید میں ہوں- کیا کوئی نیم مجنون بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ ایک ایسے مسودہ کی تائید جس کا مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو اور جس کی وجہ سے ہندوئوں کو اپنے بعض غصب کئے ہوئے حقوق واپس کر دینے پڑتے ہوں` اس قدر ہندو ممبر کسی وقت بھی کرنے کے لئے تیار ہونگے- اور یہ اندازہ بھی درحقیقت تھوڑا ہے کیونکہ یہ فرض کر لینا کہ کوئی وقت ایسا آئے گا کہ سب کے سب پارلیمنٹ کے ممبر جمع ہو جائیں گے درست ہی نہیں- یورپ کی پارلیمنٹوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا- سات سو کی تعداد میں سے کچھ بیمار ہونگے` بعض کے رشتہ دار بیمار ہونگے` بعض کو ایسے کام پیش آ جائیں گے جن کو چھوڑ کر وہ نہ آ سکیں گے- پس بیس فی صدی ممبروں کو غیر حاضر فرض کر لینا چاہئے- اور اس صورت میں مسلمانوں کو ہندوئوں کے حاضر الوقت ممبروں میں سے ساٹھ فیصدی ممبروں کی تائید کی ضرورت ہوگی- میں پھر پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی مسلمان خواہ اس وقت وہ کس قدر ہی نہروکمیٹی کی تائید میں ہو یہ کہہ سکتا ہے کہ آج سے دس سال کے بعد اگر معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لئے مخلوط انتخاب مضر ثابت ہوا ہے- جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہونگے کہ ہندو اپنی تعداد سے زیادہ ممبریاں لے جاتے ہیں- یا ایسے مسلمان ممبر بھیج دیتے ہیں جو بجائے مسلمانوں کے فائدہ کے ہندوئوں کا فائدہ کریں` تو اس وقت خود ہندوئوں میں سے ۶۰ فیصدی ممبرپارلیمنٹ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس بات پر ووٹ دیں گے کہ ہندوئوں کو اس فائدہ سے روکا جائے اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دے دیا جائے- یا یہ کہ صوبہجات کو اندرونیمعاملات میں آزاد حکومت دے دی جائے- اگر نہیں اور ہر عقلمند کہے گا کہ ایسا نہیں ہو سکتا` تو میں پوچھتا ہوں کہ جب بعد میں اپنے حقوق واپس لینے ناممکن ہونگے تو کیوں ابھی ان کے حصول پر زور نہ دیا جائے-
زور سے اپنے مطالبات پورے کرانا
دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان زور سے اپنے حقوق لے لیں- اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کیا مسلمان اپنے اندر وہ زور محسوس کرتے ہیں؟ اس وقت انگریز اس ملک پر حاکم ہیں اور وہ چونکہ غیر ملک کے باشندے ہیں` ان کی تعداد یہاں صرف چند لاکھ ہے- ہندو مسلمان دونوں ان سے حکومت واپس لینے پر متفق ہیں- مگر کیا باوجود اس کے ہمارا زور اس حد تک کارآمد ہوا ہے کہ فوراً حکومت کو بدل دیں- اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس وقت جب کہ ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہوگی- اور اس حکومت کی پہلی شکل کو قائم رکھنے کا فائدہ چند لاکھ نہیں بلکہ چھبیس کروڑ آدمیوں کو پہنچتا ہوگا کیا مسلمان کسی قسم کا بھی زور دکھا سکیں گے- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ فوج مرکزی حکومت کے قبضہ میں ہوگی اور یہ خیال کرنا کہ مسلمان سپاہی اس گورنمنٹ کو چھوڑ کر جس کے وہ تنخواہ دار ہونگے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے ایک بعید از قیاس امر ہے- اب بھی دیکھ لو کہ وہ برطانوی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں یا ہندوستانیوں کا- سپاہی کی اٹھان ہی وفاداری کے جذبات پر ہوتی ہے- اور وہ حکومت کی مخالفت کا ارتکاب کرنے کیلئے جلد تیار نہیں ہوتا- نیز آجکل فوج کا نظام ایسا ہے کہ کوئی حصہ بغاوت نہیں کر سکتا کیونکہ کوئی حصہ فوج کا اپنی ذات میں مکمل نہیں ہوتا- بلکہ چھ سات قسم کی فوج ہوتی ہے- جو جنگ کے وقت ایک دوسرے کی محتاج ہوتی ہے- اور ہر حصہ جانتا ہے کہ اگر میں علیحدہ ہو جائوں تو خود تباہ ہو جائوں گا- علاوہ ازیں ہوائی جہاز اور ٹینک اور نئی قسم کی توپوں نے اب جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا ہے- ایک جہاز ایک علاقہ کے علاقہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے- ایک ٹینک ایک فوج کا مقابلہ کر سکتا ہے- غرض اب جنگ آلات جنگ پر منحصر ہے` نہ کہ انسانی طاقت اور شجاعت پر- اور اس وجہ سے بہادری اور قربانی بغیر آلات جنگ کے وہ نفع نہیں پہنچا سکتی جو آج سے پہلے پہنچا سکتی تھی- اسی وجہ سے آج کل جن ملکوں میں بغاوت ہوتی ہے- وہ ایک حصہ رعایا کی بغاوت نہیں ہوتی` بلکہ سب ملک کی بغاوت ہوتی ہے- لوگ اندر ہی اندر سب ملک کو اکستاتے ہیں اور فوج اور حکام اور رعایا یک دم مقابلہ کرتی ہے- اور صرف چند اعلیٰ افسر مقابلہ پر رہ جاتے ہیں لیکن ہندوستان میں یہ صورت مسلمانوں کیلئے کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتی- کیونکہ اکثر حصہ آبادی کا ہندو ہے اور لامحالہ ان کو ہندو گورنمنٹ سے ہی ہمدردی ہوگی- علاوہ ازیں مسلمانوں کو اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہندو قوم بنئے کا ہی نام نہیں- پنجاب کے مسلمان عام طور پر اسی وہم میں مبتلاء ہیں کہ ان بنیوں نے ہمارا کیا مقابلہ کرنا ہے- حالانکہ سکھ بھی تمدنی لحاظ سے ہندوئوں میں شامل ہیں گو مذہبا وہ ان سے دور اور مسلمانوں کے قریب ہیں- دوسرے بعض سیاسی حالات ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ جب تک کوئی خاص دل و دماغ کا لیڈر پیدا نہ ہو سکھ سیاستا بھی ہندوئوں سے ملنے پر مجبور ہونگے کیونکہ سکھ صرف پنجاب میں ہیں- اور یہاں انہیں ویسی ہی اہمیت حاصل ہے جو تمام ہندوستان میں مسلمانوں کو حاصل ہے- لیکن پنجاب کے مخصوص حالات کے ماتحت کہ یہاں کی اکثریت جو مسلمانوں پر مشتمل ہے بہت تھوڑی ہے` انہیں خاص حقوق نہیں دئے جا سکتے- اور ان کی اس خواہش کے پورا ہونے میں روک مسلمان ہیں- پس وہ ان حالات سے مجبور ہیں کہ ہندوئوں سے سمجھوتہ کریں- اسی وجہ سے باوجود مسلمانوں کی کوشش کے اور گوردواروں کے معاملہ میں ہندو قوم کے مقابلہ کے سکھ ہندوئوں سے زیادہ ساز باز رکھتے ہیں- سکھوں کے علاوہ خالص ہندو اقوام جو لڑنے کے قابل ہیں ہندو جاٹ` ہندو راجپوت` ڈوگرے` پوربی` مرہٹے اور جنوبی ہند کی بہت سی اقوام ہیں- گورکھے گو مذہبا بدھ ہیں مگر وہ اپنے آپ کو ہندو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں- پس یہ خیال کر لینا کہ ہندوئوں میں طاقت کہاں سے آئی- ایک وہم اور ایک دل خوش کن لیکن تباہ کرنے والے خیال سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا مسلمان اس امر پر پھول رہے ہیں کہ اس وقت فوجوں میں مسلمانوں کا عنصر زیادہ ہے` حالانکہ یہ انگریروں کی پالیسی ہے ایک ایسے ملک میں کہ جس میں ہندو آبادی زیادہ ہے- اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے انگریزوں کی مصلحت یہی ہونی چاہئے کہ وہ قلیل التعداد جماعتوں کو ان کی نسبت سے زیادہ فوج میں بھرتی کریں- لیکن ایک آزاد ہندوستان میں یہ ضرورت نہ رہے گی- بلکہ اس کے برخلاف اکثریت کو یہ خیال ہوگا کہ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنے ہم مذہبوں کی فوج کو بھرتی کریں- اور سکھ` ڈوگرے` راجپوت` جاٹ` مرہٹے` گورکھے` پوربی اور جنوبی ہند کی اقوام کو ملا کر کم سے کم پانچچھکروڑ کی آبادی ہے جس میں سے فوج باسانی بھرتی کی جا سکتی ہے- پس یہ خیال ہم زور سے منوا لیں گے` ایک شیطانی وسوسہ ہے` جسے جس قدر جلد دل سے نکالا جائے اسی قدر اچھا ہے-
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم عدم تعاون سے کام لیں گے- لیکن یاد رہے کہ عدمتعاون بڑی جماعت چھوٹی جماعت کے مقابلہ میں استعمال کر سکتی ہے- نہ کہ چھوٹی جماعت بڑی جماعت کے مقابلہ میں- تھوڑے سے لوگ اور خصوصاً وہ لوگ جن کے کام پر ملک کا تمدن یا ملک کی سیاست قائم نہیں` بہتوں کے مقابلہ میں کر کیا سکتے ہیں- بروولی میں ہندوستانیوں کو کیا طاقت حاصل تھی- یہی کہ ملک ان کے ساتھ تھا- انگریز اپنے ملک سے آکر ہندوستان کی زمینداریاں خرید نہیں سکتے تھے- لیکن اگر کسی وقت ہندو مسلمان کا مقابلہ ہو` تو ہندوئوں کو وہ دقت نہ ہوگی جو انگریزوں کو ہے- ان کے پاس ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین تین ہندو موجود ہونگے- پس عدم تعاون سے مقابلہ کا خیال بھی بالکل دور از قیاس ہے-
بیرونی ممالک کی امداد سے مطالبات حاصل کرنا
تیسری صورت یہ ہے کہ بیرونی ملکوں سے ملکر مسلمان اپنے حقوق واپس لے لیں- مگر یہ بھی ممکن نہ ہوگا- کیونکہ اول تو دوسرے ملکوں کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ ان کی خاطر ایک زبردست ہمسایہ طاقت سے لڑیں- کیا اس سے پہلے قریب کے زمانہ میں کسی اسلامیحکومت نے بھی دوسری اسلامی حکومت کی مدد کی ہے کہ ہندوستان کی رعایا کی مدد کرنے کے لئے پاس کی حکومتیں آ جائیں گی- دوسرے یہ خیال کہ اگر کوئی حکومت باہر سے آئے گی تو وہ صرف مسلمانوں کو حق دے کر واپس چلی جائے گی اور صرف اس کام کے لئے لاکھوں جانوں اور اربوں روپیہ کا نقصان قبول کرے گی` ایک مجنونانہ خیال ہے- جو باہر سے حملہ کرے گا وہ یا سب مفتوحہ ملک کا مطالبہ کرے گا یا ایک حصہ کا- اور میں سمجھتا ہوں کہ اس خیال کے خلاف خود مسلمانوں کا ہی ایک حصہ کھڑا ہو جائے گا- اور وہ بیرونی لوگوں کو اپنے ملک میں گھسنے دینے کیلئے تیار نہ ہوگا- تیسرے یہ کہ اگر بفرض محال کوئی بیرونی قوم اس امر کے لئے تیار ہوئی بھی تو ہندوستان جیسے وسیع ملک کا مقابلہ اور پھر اس حالت میں کہ وہ جدید آلات حرب کا ذخیرہ رکھتا ہو کونسی قوم کرے گی- افغانستان کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے- اس سے ڈیوڑھی ایران کی ہے- ہندوستان کی آبادی تینتیس کروڑ ہے- چوتھے اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کو نو آبادی کی حکومت ملنی ہے نہ کہ خود مختار- اس لئے ہندوستان پھر بھی برطانویحکومت کا جزو ہوگا- اور ساری برطانوی طاقت ایسے وقت میں ہندوستان کی حفاظت کیلئے جمع ہو جائے گی- پس دنیوی سامانوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ امر بھی ناممکن ہے- اور علاوہ ازیں ایسی امید رکھنی اخلاقی طور پر بھی ایک بہت بڑا گناہ اور قومی غداریہے-
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ چونکہ ہندوستان کامل طور پر آزاد نہ ہوگا- ہم برطانوی حکومت سے اپیل کر کے اپنے حقوق لے لیں گے- لیکن جو کچھ میں اوپر ڈومینینگورنمنٹ (DOMINIONGOVERNMENT) کے حقوق کے متعلق لکھ آیا ہوں` اس کو غور سے دیکھنے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ صورت بھی ناممکن ہے- اول تو اس لئے کہ یہاں سوال یہ نہیں کہ ہندو ہمارے حقوق چھین لیں گے- بلکہ سوال یہ ہے کہ اس وقت بعض حقوق ہم اپنی مرضی سے چھوڑ رہے ہیں- اگر بعد میں ہمیں اپنی غلطی معلوم ہو تو ان حقوق کو پھر تسلیم کرانے کا کیا ذریعہ ہے- اب یہ بات قانون سے واضح ہے کہ گو برطانیہ نے رسمی طور پر ڈومینینز کے فیصلوں کو رد کرنے کا حق تو محفوظ رکھا ہے- لیکن یہ حق برطانیہ کو رسما بھی حاصل نہیں کہ وہ نئی بات ڈومینینز سے منواوے- پس قانوناً اس سوال میں برطانیہ کو بھی کوئی اختیار حاصل نہ ہوگا- اور اگر برطانیہ کو کوئی حق حاصل بھی ہو تو بھی کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے- کہ برطانیہ ایسے معاملہ میں دخل دینا پسند کرے گا- میں برطانیہ پر حسن ظن رکھتا ہوں مگر میں بھی جو اس پر حسن ظن رکھتا ہوں ایک منٹ کے لئے خیال نہیں کر سکتا کہ برطانیہ کسی دوسرے کے لئے اپنے قومی نقصان کو برداشت کر لے گا- ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ڈومینین حکومت کا تعلق برطانوی حکومت سے صرف قلبی ہوتا ہے کوئی مادی طاقت اسے برطانوی حکومت سے وابستہ نہیں کرتی- اس کی فوجیں اپنی` اس کی ممبری طاقت اپنی` اس کا نظام اپنا` ایک گورنر ہی ہے نا جو برطانیہ سے آتا ہے اور وہ بھی بے اختیار اور جب نو آبادیوں کو یہ حق بھی حاصل ہو کہ جب وہ چاہیں` برطانیہ سے الگ ہو جائیں تو کب ممکن ہو سکتا ہے کہ برطانیہ ایک قلیلالتعداد جماعت کی خاطر ایک اتنی بڑی حکومت کو ناراض کر لے گا جو اس کے تاج کا ہیرا کہلاتی ہے- برطانیہ کا انصاف اس وقت تک ہے جب تک کہ اس کے قومی فوائد کو نقصان نہیں پہنچتا- جس وقت اس کے قومی فوائد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو وہ ایسے معاملہ کو اس کی اندرونی حقیقت کے لحاظ سے نہیں دیکھے گا- بلکہ شاہی مصالح کی نگاہ سے دیکھے گا- یاد رکھنا چاہئے کہ قلیل التعداد جماعتوں کا ساتھ کوئی نہیں دیا کرتا جب تک اپنا ذاتی فائدہ نہ ہو- قلیل التعداد جماعتوں کو اپنے فوائد کی نگرانی خود ہی کرنی پڑتی ہے- میں اس امر کے متعلق کہ قلیل التعداد جماعت کو انصاف پانے میں نہایت دقت ہوتی ہے` اس شخص کی شہادت پیش کرتا ہوں جو اس وقت اس مسئلہ کا سب سے بڑا عالم ہے- میری مراد پروفیسر گلبرٹ مرے سے ہے- یہ صاحب جنگ عظیم کے بعد صلح کی کانفرنس میں برطانوی سفارت کے ساتھ بطور ماہر فن کے بھیجے گئے تھے- اور اس کے بعد لیگ آف نیشنز (LEAGUEOFNATIONINS) کی تنظیم میں بھی انہوں نے کام کیا ہے- انہیں قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق کا خاص خیال ہے- چنانچہ انہوں نے لیگ میں کئی مفید تجاویز ایسی پیش کی ہیں- جن میں قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق کی حفاظت کو مدنظر رکھا گیا ہے- یہ صاحب دی پروٹیکشن آف مائناریٹیز )(PROTECTIONOFMINORITIES مصنفہ مس ایل- پی- میر ایم اے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں-:
>وہ فرض جو کونسل کا مقرر کیا گیا تھا- وہ اس عظیم الشان مجلس کی شرمیلی شرافت کو کسی قدر مرعوب کرنے والا ثابت ہوا ہے- مظلوم اقلیتوں کی حمایت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی ہر دلعزیزی کھو بیٹھے- اور کونسل کے کسی ممبر نے شکایتیں سننے یا بے انصافی کے دور کرنے میں کوئی غیر واجبی چستی نہیں دکھائی<- ۲۱~}~
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قلیل التعداد جماعتوں کی اپیلیں بھی چنداں کارگر نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کی مدد کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کثیر التعداد جماعتوں سے لڑا جائے- اور دوسرے کی خاطر اس بکھیڑے میں پڑنے کو کوئی پسند نہیں کرتا- پس اس دروازہ کو بھی مسلمانوں کو بند ہی سمجھنا چاہئے- کیا مسلمان نہیں دیکھتے کہ جس وقت سے اصلاحات جاری ہوئی ہیں- انگریزوں میں سے اکثر حصہ روز بروز ہندوئوں کے ہاتھوں میں پڑتا جاتا ہے- انگریزیاخباروں کو پڑھ کر دیکھو- وہ یہ استثنائے چند سب کے سب ہندوئوں کی تائید میں ہیں- انگریز مدبروں کی تقریریں پڑھو وہ سب کے سب ہندوئوں کے نقطہ نگاہ کے موید ہیں- انگریز حکام کو دیکھو- وہ ہندو قوم کی پیٹھ پر ہاتھ دھرتے ہیں- آخر یہ کیا بات ہے- کیا مسلمان سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندو حق پر ہیں اور مسلمان ناراستی پر- اگر ان کا یہی خیال ہے تو وہ اپنی ناراستی کو کیوں نہیں چھوڑتے اور کیوں سچائی کو اختیار نہیں کرتے- لیکن اگر یہ بات نہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ فوری تبدیلی اصلاحات کی وجہ سے ہے- چونکہ اس ملک میں نیابتیحکومت کی بنیاد ڈالدی گئی ہے- اس لئے انگریر بھی روز بروز ہندوئوں کی طرف جھک رہے ہیں- ان کے اندر وہی معقولہ تغیر پیدا کر رہا ہے کہ-:
یار غالب شو کہ تا غالب شوی
اور ابھی تو ابتداء ہے- جس وقت ہندوستان کو کامل نیابتی حکومت مل گئی اور اسمبلی پر ہندوئوں کا قبضہ ہو گیا اس وقت تو انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد یہ ہو گا کہ ہندوئوں کی خوشی اور رضا کو حاصل کریں- آئرلینڈ میں اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوں کے مقابلہ میں اگر جنوبی آئرلینڈ والوں کی بات کو انگریزوں نے تسلیم کر لیا تھا` تو ہندوستانی مسلمانوں کا ساتھ خلاف مصالح ملکی کے وہ کب دینے لگے- پس مسلمانوں کو آج ہی ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اپنے حقوق محفوظ کر لینے چاہئیں- ورنہ جو کچھ وہ آج چھوڑیں گے` کل انہیں کسی صورت میں نہیں مل سکے گا اور ان کے لئے دو ہی دروازے کھلے ہونگے- یا اپنے مذہب کو خیر باد کہہ کر ہندوئوں سے جا ملنا اور یا پھر آہستہ آہستہ اپنی قوم کو تباہ اور برباد ہونے دینا- کیا ان دونوں طریقوں میں سے کسی کو بھی مسلمان پسند کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں` تو میں آج انہیں یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوتا ہوں کہ اپنے حقوق لینے کا یہی وقت ہے- اس وقت آپ نے غلطی کی تو پھر آپ کا ٹھکانا کہیں نہ ہوگا- پس جلد بازی سے آزاد حکومت کی لالچ میں اپنی موجودہ آزادی کو بھی نہ کھو ڈالیں اور ایک دوسرے سپین کا نظارہ پیدا نہ کریں کہ ہمارے رونے کے لئے پہلا سپین ہی کافی ہے-
میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشش نہ کرو- اب جب کہ انگلستان نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے` اس لئے جو جائز کوشش کی جائے` میں اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ شریک ہوں- مگر جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں- اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ دونوں مسلم لیگز کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کر لیا جائے` اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر راضی نہ ہوں گے ورنہ جو خطرناک صورت پیدا ہو گی اس کا تصور کر کے بھی دل کانپتا ہے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو کمیٹی کے مخالف جو مسلمان ہیں خواہ مسلم لیگ کے ممبر ہوں خواہ خلافت والے خواہ دوسرے لوگ` ان کے وہ مطالبات جو میں اوپر لکھ آیا ہوں` اگر ان کی بناء پر فیصلہ ہو تو پھر مسلمانوں کو فیصلہ کی تبدیلی کا خوف نہیں رہتا- کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں- اور اگر بعد میں ان احتیاطوں کے ضرورت نہ رہے تو قوانین کا تبدیل کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا- کیونکہ ان کے بدلنے میں مسلمانوں کا فائدہ نہیں بلکہ ہندئووں کا فائدہ ہو گا اور ہندو اس تبدیلی کی مخالفت نہیں کریں گے-
کیا قلیل التعداد جماعتوں کو خاص قوانین کی ضرورت ہوتی ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو مدتوں سے زیر بحث ہے- رومی امپائر (EMPIRE) نے یہودیوں کے متعلق چند سال کے لئے عارضی طور پر اور اسلامی حکومت نے ابتدائے عہد سے غیر مسلموں کے متعلق ایسے قوانین کو جاری کیا تھا کہ جن سے اقلیتوں کی حفاظت ہو سکے- قسطنطنیہ کی فتح پر محمد ثانی نے مسیحیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے خاص قواعد بنائے- جن کا بیشتر حصہ فروری ۱۹۲۶ء تک جاری رہا- جبکہ ترکی حکومت نے اسلامی قوانین کی جگہ سوئیٹزرلینڈ کا قانون دیوانی اپنے ملک میں جاری کر دیا- لیکن اس سوال کو بین الاقوامی حیثیت سب سے پہلے ۱۸۱۴ء میں حاصل ہوئی ہے- جبکہ کانگریس آف وینا (VIENNA) نے یونائیٹڈ نیدر لینڈ (UNITEDNETHERLAND) کی نئی حکومت قائم کی- چونکہ اس ملک میں دو مذہب اور دو زبانیں بولی جاتی تھیں- اس لئے قلیل التعداد جماعتوں کی حفاظت کے لئے ایک دستاویز لکھی گئی جو تاریخ میں >آٹھ دفعات< کے نام سے مشہور ہے اس کی دفعہ دو یہ ہے-
>قانون اساسی کی ان دفعات میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکے گی جو تمام مذاہب کو یکساں حق اور آزادی عطا کرتے ہیں- اور سب شہریوں کو خواہ ان کا کوئی مذہب ہو- سرکاریعہدوں اور اعزازوں کا مستحق قرار دیتے ہیں<-۲۲~}~
پھر دفعہ چار یہ ہیں کہ-:
>تمام باشندگان نیدرلینڈز اس طرح برابر کے حقوق حاصل کر کے تمام ایسے تجارتی اور دوسرے حقوق پر یکساں دعویٰ رکھیں گے` جن کی ان کے حالات اجازت دیتے ہیں- اور کوئی روک یا مشکل ان کے راستہ میں نہ ڈالی جائے گی- جس سے دوسریقوم زیادہ فائدہ حاصل کر لے<-۲۳~}~
چونکہ اس وقت تک صرف مذہب ہی اختلاف کا موجب سمجھا جاتا تھا- اس لئے اسی کا ذکر اس معاہدہ میں کیا گیا تھا- گو بعد میں ثابت ہوا کہ اکثریت اقلیت کو تباہ کرنے کے لئے اور ذرائع بھی ایجاد کر لیتی ہے- چنانچہ نیدرلینڈز میں فلیجنگ زبان کو دبا کر جو اقلیت کی زبان تھی` اقلیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی- اس کے بعد ۱۸۳۰ء میں یونان کی حکومت کے قیام کے وقت ۱۸۶۳ء میں جزائر آیونین کی علیحدگی کے وقت ۱۸۵۶ء میں رومانیہ کی علیحدگی کے وقت کانگرس آف برلن میں ۱۸۷۸ء میں سرویا مانٹینگرو اور بلغاریہ کے علاقوں کے متعلق اقلیتوں کی حفاظت کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا اور ایسے قوانین تجویز کئے گئے کہ اقلیتوں کے حقوق تلف نہ ہو سکیں-
جنگ عظیم کے بعد یورپ میں نئی تبدیلیاں ہوئیں تو پولینڈ` لتھیونیا` لٹویا` استھونیا` آسٹریا` ہنگری` رومانیا` زکوسلویکا `(CZECHOSLOVAKIA) یوگوسلیویا (YUGOSLAVIA) سے خاص معاہدات لئے گئے` جن کا نام معاہدات متعلق اقلیت ہے- ان معاہدات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی ہے- کہ اقلیتوں کے حقوق اکثریتوں کے دستتصرف سے محفوظ رہیں-
اوپر کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے- کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت صدیوں سے زیربحث ہے اور اقوام عالم اس کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں- اور اس وقت عام طور پر یہ امر تسلیم کیا جاتا ہے- کہ اقلیتوں کو خصوصاً جبکہ وہ ممتاز وجود رکھتی ہوں- خاص حفاظت کی ضرورت ہے- اور اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف یہ ہے کہ بعض اقوام اس امر کی دعویدار ہیں کہ ان کے ملکوں میں چونکہ اقلیتوں کو اکثریت سے کوئی اختلاف نہیں` اس لئے ان کے ملک میں یہ قانون نہ جاری کیا جائے- لیکن دوسری اقوام کہتی ہیں کہ نہیں- جب ہمارے ملک میں یہ قانون جاری کیا گیا ہے- تو سب اقوام کو اس پر عمل کرنے کا معاہدہ کرنا چاہئے- چنانچہ دیپروٹیکشن آف مائناریٹیز کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے-:
>لیکن پریزیڈیٹ ولسن (PRESIDENTWILSON) نے اس امر کا کوئی جواب نہ دیا کہ اقلیتوں کی حفاظت کا قانون ان تمام حکومتوں میں جاری ہونا چاہئے جن میں اقلیتیں پائی جاتی ہیں- یہ سوال اب تک بھی بغیر جواب کے پڑا ہے- اور وہ عدممساوات جو ان معاہدات سے پیدا ہوئی ہے- )کہ نئی حکومتوں کو اس کا پابند کیا گیا ہے لیکن پرانی حکومتوں کو نہیں( اس کو بہ نسبت اس اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے جسے ان معاہدات میں جائز قرار دیا گیا ہے` بہت زیادہ بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے<-
جنگ عظیم کے بعد جن ملکوں میں نئی اقلیتیں آئی ہیں- ان میں سے ایک اٹلی بھی ہے جس سے اقلیتوں والا معاہدہ نہیں لیا گیا- لیکن وہاں جو حال اقلیتوں کا ہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اقلیتوں کو حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے- )اور مسلمان بھی اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ اگر خود حفاظتی کے بغیر انہوں نے ہندئووں سے سمجھوتا کر لیا تو ان کا کیا انجام ہو گا( اٹلی کو جو نیا علاقہ جنگ کے بعد ملا ہے` اس میں سے کچھ تو وہ ہے جس میں جرمن آبادی پائی جاتی ہے اور کچھ وہ ہے جس میں سرب اور کروٹس پائے جاتے ہیں- ان لوگوں سے اٹلی نے جو ہندوستان سے یقیناً زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے` کیا سلوک کیا ہے- وہ خود سینور میوز لمینی کی ایک گفتگو سے ظاہر ہے- فروری ۱۹۲۶ء کو فرانس کے ایک اخبار کے نمائندہ کے سوال کے جواب میں انہوں نے بیان کیا کہ-:
>جب میں نے جنوبی ٹائرال کا معائنہ کیا- )آسٹرین علاقہ جو اب اٹلی کو ملا ہے اور جس میں جرمن نسل کے لوگ بستے ہیں( تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہر ایک چیز جرمنی اثر کے ماتحت ہے- گرجہ` سکول` پبلک` کارکن` ریل اور پوسٹ آفس کے افسر سب جرمن ہیں ہر جگہ پر صرف جرمنی زبان ہی سننے میں آتی تھی- اور لوگ ایسے گیت گاتے تھے جن کا روم میں گانا فوری گرفتاری کا موجب ہوتا- اب اس علاقہ کے ہر ایک سکول میں اٹالین زبان لازمی ہے تمام ڈاک خانہ اور ریل کے افسر اٹالین ہیں- اور اب ہم وہاں بہت سے اطالوی خاندان بسانے کی فکر میں ہیں- ایک ہزار خاندان پنشنر فوجیوں کا جنوب ٹائرال کو اس غرض کے لئے بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں کی زمین کی حالت کو اچھا بنائیں- اس طرح ہم اس ملک کو اطالوی بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے<-۲۴~}~
اس اطالوی بنانے کی تفصیل یہ ہے کہ-:
>تمام قانون صرف اطالوی زبان میں شائع کئے جاتے ہیں- ۱۵- اکتوبر ۱۹۲۵ء کا اعلان اطالوی زبان کو عدالتوں میں لازمی قرار دیتا ہے- اور اس طرح قلیل التعداد جماعتوں کے قانونی حق کو سخت صدمہ پہنچاتا ہے- یہ اعلان اطالوی زبان کے سوا باقی سب زبانوں کو دیوانی یافوجداری کارروائیوں میں خواہ زبانی ہو یا تحریری ممنوع قرار دیتا ہے اسیسر (ASSESSOR) وہی لوگ بنائے جا سکتے ہیں جو اطالوی زبان جانتے ہوں- تمام کاغذات اور شہادتیں جو اور کسی زبان میں ہوں` رد کر دی جاتی ہیں<-۲۵~}~
>چونکہ صرف اطالوی جاننے والے لوگ اسیسر بنائے جاتے ہیں اس لئے اقلیتوں کے ہر فرد کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ سب کی سب جیوری (JURY) اس کے قطعی طور پر مخالف ہو گی< ۲۶~}~
>کوئی ایک فرد بھی اقلیتوں کا ان قوانین سے کسی نہ کسی وقت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن ٹولو مئی )اطالوی وزیر( کے پروگرام میں مذکور بالاامور کے علاوہ اور ذرائع بھی لوگوں کو اطالوی قوم شامل کر لینے کے لئے تجویز کئے گئے ہیں<-۲۷~}~
ان امور کو گنانے کے بعد دی پروٹیکشن آف مائناریٹیز کی لائق مصنفہ لکھتی ہے کہ-:
>صرف اقلیتوں کے معاہدات نے ہی دوسری حکومتوں کی اقلیتوں کو اس انجام سے محفوظ رکھا ہے- یہ مثال اس امر کی کہ بغیر حد بندیوں کے قوم پرستی کیا کچھ کر سکتی ہے- ظاہر کرتی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے معاہدات کیسے ضروری ہیں اور یہ کیسی سخت غلطی تھی کہ اطالوی حکومت کی خود اختیاری کا احترام کرتے ہوئے اسے اس معاہدہ سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا<- ۲۸~}~
مجھے اس مثال کے بعد اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے- اٹلی جس میں اس امر کا لحاظ نہیں کیا گیا` اس جگہ اقلیتوں کی حالت باواز بلند دوسرے ایسے ہی ممالک کو کہہ رہی ہے کہ-:
من نہ کردم شما حذر بکنید
اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ باوجود عبرت کے موجود ہونے کے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں-
نہرو رپورٹ کے نزدیک اقلیتوں کو خاص حفاظت کی ضرورت نہیں
جو کچھ میں اوپر لکھ چکا ہوں اس کے بعد اس کی ضرورت تو نہیں کہ میں نہرو رپورٹ کے دعویٰ کو پیش کر کے رد کروں- لیکن اس خیال سے کہ تفصیل شاید اس مسئلہ کو اور روشن کر دے` میں بتانا چاہتا ہوں کہ
نہرو کمیٹی نے بھی اس امر پر زور دیا ہے اور کانگریس والے اور مہاسبھا والے بھی ہمیشہ اس امر پر زور دیتے چلے آئے ہیں کہ قلیل التعداد جماعتوں کو خاص حفاظت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب انصاف کے ساتھ قواعد بنائے جائیں تو ان کے ماتحت قلیل التعداد جماعتوں کو کسی نقصان کے پہنچنے کا احتمال نہیں ہوتا- یہ دلیل ہمیشہ ہندوئوں کی طرف سے پیش ہوتی چلی آئی ہے اور نہرو کمیٹی کے بین السطور سے بھی یہ صاف ظاہر ہے- بلکہ نہرو کمیٹی تو ایک عجیبنرالی منظق بھی چھانٹتی ہے - وہ لکھتی ہے کہ-:
>اگر قومی حفاظت کی ضرورت کسی جماعت کے لئے ضروری بھی ہو- تو اس کی ضرورت دو بڑی جماعتوں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کے لئے تو بالکل نہیں- اس کی ضرورت ان چھوٹی اقوام کے لئے تسلیم کی جاسکتی ہے جو سب ملکر ہندوستان کی دسفیصدی آبادی بنتی ہے<- ۲۹~}~
گویا اول تو قلیل التعداد جماعتوں کی حفاظت کے قواعد کی ضرورت ہی نہیں- اگر ہو تو پھر بالکل چھوٹی جماعتوں کو ہے نہ کہ مسلمانوں کو- اس منطق کے سمجھنے سے میں قاصر ہوں اور یہ عقل کے بالکل برخلاف ہے- یہ بات تب درست ہو سکتی ہے اگر ہم مندرجہ ذیل امور کو صحیح سمجھ لیں جو ہرگز درست نہیں- )۱(بڑی اقلیت اور اکثریت میں اختلاف کا امکان بہ نسبت چھوٹی اقلیت کے کم ہوتا ہے- )۲(یکساں قواعد تجویز کرنے سے انصاف قائم ہو جاتا ہے-
میں ان دونوں باتوں کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ کوئی اور عقلمند انہیں صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو گا- پہلا دعویٰ اس لئے باطل ہے کہ اقلیت اور اکثریت میں جھگڑا اقلیت اور اکثریت کے سبب سے نہیں ہوتا بلکہ بعض ایسے اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے جو دونوں کو مدمقابل پر لا کر عداوت پیدا کر دیتے ہیں- اور جب وہ اسباب پیدا ہوں تو خواہ اقلیت بڑی ہو یا چھوٹی` اکثریت اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے-
اقلیت اور اکثریت کے ٹکرانے کے اسباب
ان مختلف اسباب میں سے جو اقلیت اور اکثریت میں ٹکرائو کرا دیتے ہیں مندرجہ ذیل اسباب بڑے بڑے ہیں-
)۱(اقلیت قریب زمانہ میں پہلے حاکم رہی ہو- اور اس نے اکثریت پر ظلم کئے ہوں یا اکثریت کو یہ یقین دلا دیا گیا ہو کہ اس نے ظلم کئے ہیں ان دونوں صورتوں میں اکثریت کے ذہن پر یہ بات غالب ہوتی ہے کہ ہم نے ان لوگوں سے پچھلے بدلے لینے ہیں-
)۲(اقلیت اپنی تہذیب اور اپنے تمدن میں اکثریت سے اعلیٰ اور اس پر غالب ہو- اس صورت میں بھی اکثریت چاہتی ہے کہ اقلیت کو تباہ کر دے- کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر اسے ترقی کا موقع دیا گیا تو وہ ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن کو تباہ کر دے گی-
)۳(جب اقلیت میں کوئی ایسا امر پایا جائے جو اسے اکثریت میں جذب ہونے سے مانع ہو- اس وجہ سے اکثریت کو خوف ہوتا ہے کہ ہمیشہ ملک میں دو پارٹیاں رہیں گی- اور کسی وقت بھی ہمیں امید نہ ہو گی کہ اقلیت ہم میں جذب ہو کر ایک ہو جائے گی- یا جذب نہ ہو گی تو کمسے کم ہمارے ساتھ سموئی جائے گی اور اس کے ممتاز نشانات مٹ کر وہ ظاہر میں ہم سے متحد ہو جائے گی-
)۴(جب اقلیت میں کوئی ایسی طاقت پائی جائے جس کی وجہ سے اکثریت کو خوف ہو کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ کسی وقت اکثریت ہو جائے گی-
)۵(جب اقلیت اپنے آپ کو ملک کا حصہ نہ قرار دے اور اس کی نظر ملکی حدود سے باہر نکل کر اپنے غیر ملکی بھائیوں پر پڑ رہی ہو- اس وقت اکثریت اقلیت سے خائف ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی وقت غداری نہ کریں اور انہیں دبانا چاہتی ہے-
)۶(جب اکثریت اقلیت کی گری ہوئی اقتصادی حالت کی وجہ سے نفع حاصل کر رہی ہوتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ اقلیت کی بیداری کی وجہ سے ہمیں نقصان پہنچے گا-
یہ موٹی موٹی چھ وجوہ ہیں جن میں سے بعض یا تمام کے پائے جانے پر اکثریت اقلیت کو دبانے کی کوشش کرتی ہے اور جن کی وجہ سے اقلیتوں کو بھی اکثریت سے خوف رہتا ہے- اب ان اسباب پر نظر ڈال کر ہر اک عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ بڑی اقلیتوں کو چھوٹی اقلیتوں سے کم خطرہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی- بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو خواہ وہ بہت ہی کم ہوں` خواہ اچھی تعداد میں ہوں` جب بھی اوپر کے حالات پیدا ہو جائیں یکساں خوف ہوگا- بلکہ حق یہ ہے کہ جب اقلیت بہت ہی تھوڑی ہو مثلاً صرف ایک فیصدی یا دو فیصدی ہو یا اس سے بھی کم ہو تو اسے کوئی خطرہ ہوتا ہی نہیں- کیونکہ اکثریت سمجھتی ہے کہ اس سے نقصان کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں- پس مسیحیوں` بدھوں` پارسیوں وغیرہ کو جن کی مجموعی تعداد دسفیصدی بتائی گئی ہے` کوئی خطرہ نہیں ہے- خطرہ ہے تو مسلمانوں کو جن کی نسبت ہندو لوگ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کسی وقت یہ لوگ بڑھ کر ہم پر غالب ہو جائیں-
یورپ میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت
دوسرے ممالک میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی اور اچھی اقلیتوں میں فرق نہیں کیا جاتا- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں اقلیتوں کی حفاظت کے وقت یہ خیال نہیں کیا گیا کہ اقلیت بڑی ہے یا چھوٹی- مثلاً پولینڈ میں اقلیتوں کی تعداد اٹھائیس فیصدی سے زیادہ ہے- مگر وہاں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے- زیکوسلویکا میں جرمن ہی پچیس فیصدی کے قریب ہیں- اور باقی اقلیتوں کی تعداد ملا کر اقلیتوں کی کل تعداد چالیس فیصدی کے قریب ہو جاتی ہے- مگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے- پس یہ کہنا کہ صرف چھوٹی اقلیتوں کی حفاظت کی جانی چاہئے نہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ دنیا کے دستور کے بھی خلاف ہے- اور میں حیران ہوں کہ نہرو کمیٹی نے کس طرح جرات کی کہ اس عقل و نقل کے خلاف تھیوری کو اس دلیری سے اپنی رپورٹ میں پیش کردیا-
اس جگہ میں اس امر کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا کہ زبردست کے لئے ہر ایک امر دلیل بن جاتا ہے- یہ عجیب بات ہے کہ ہماری ہندوستان کی اکثریت یعنی ہندو صاحبان نہرورپورٹ کے ذریعہ سے جس حقیقت کو ہم سے منوانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ چھوٹی اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ بڑی اقلیتوں کو اور لکھتے ہیں کہ-:
>چھوٹی اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہو سکتی ہے جو سب مل کر دس فیصدی بنتیہے<-۳۰~}~
اس کے مقابلہ میں استھونیا (ESTHONIA) کی حکومت جو روس کی سابقہ حکومت سے الگ ہو کر بنی ہے- اور جس میں اقلیتوں کی تعداد دس فیصدی ہے ۳۱~}~وہ لیگ آف نیشنز کے مطالبہ پر کہ ان کے ملک میں بھی اقلیتوں کی حفاظت کا قانون جاری ہونا چاہئے لکھتی ہیکہ-:
>ہمارے ملک کی اقلیت اتنی چھوٹی ہے کہ اس کے حقوق کی حفاظت کی ضرورت ہی نہیں<- ۳۲~}~
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندوستان کی اکثریت مسلمانوں کو اس لئے حفاظت کا حق نہیں دینا چاہتی کہ ان کی تعداد اتنی کم نہیں کہ انہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہو- ہاں دس فیصدی والیاقلیت حفاظت کے لئے قوانین کا مطالبہ کر سکتی ہے- لیکن استھونیا کی اکثریت لکھتی ہے کہ ہمارے ہاں کی اقلیتوں کو کسی خاص حفاظت کی ضرورت نہیں ہے` کیونکہ وہ >اتنی تھوڑی ہیں< کہ صرف دس فی صدی ہیں- پس چونکہ اقلیت کی تعداد زیادہ نہیں ہے` اس لئے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے الگ قوانین بنائے جائیں- مگر ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ دونوں جوابوں کا مفہوم ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اقلیت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی` اکثریت اسے اس کا حق دینے پر راضی نہیں ہے- بلکہ وہ ہر قسم کے بہانے بنا کر اسے تباہ کرنا چاہتی ہے-
کیا یکساں قواعد تجویز کرنا انصاف کیلئے کافی ہے
اس اصل کو غلط ثابت کرنے کے بعد کہ خوف کے لحاظ سے چھوٹی اور بڑی اقلیتوں میں کوئی فرق ہوتا ہے- اب میں دوسرے دعویٰ کو لیتا ہوں- جو یہ ہے کہ یکساں قواعد کا تجویز کرنا انصاف کے قیام کے لئے کافی ہے- میں نے اس دعویٰ کے لئے یکساں کا لفظ استعمال کیا ہے تا کہ اس لفظ میں انصاف اور مساوات دونوں مفہوم آ جائیں- کیونکہ اس دعویٰ کی دو ہی شقیں ہیں- ایک یہ کہ سب کے لئے ایک ہی قانون ہو تو اس سے انصاف قائم ہو جاتا ہے اور کسی کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ہو سکتا- اور دوسری شق یہ ہے کہ اگر دونوں فریق کا یکساں لحاظ رکھ لیا جائے اور قوانین ایسے ہوں کہ دونوں کی ضرورت کا خیال ان میں ہو- تو پھر کسی کو شکایت کا موقع نہیں ہو سکتا- میرے نزدیک یہ دعویٰ دونوں معنوں کے لحاظ سے غلط ہے- نہ یہ درست ہے کہ قوموں کے لئے ایک ہی قانون بنایا جائے تو ان میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے` کیونکہ انصاف قائم ہو گیا ہے- اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ اگر دونوں قوموں کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق انصاف سے قواعد بنا دئے جائیں تو ان کے حق محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہئے-
پہلی بات کہ جب سارے ملک کے لئے ایک قانون بنا دیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ انصاف یہی چاہتا ہے کہ سب سے یکساں سلوک ہو- اس لئے درست نہیں کہ سب انسانوں کی حالت برابر نہیں ہوتی نہ سب پر قانون کا ایک سا اثر پڑتا ہے- بلکہ بعض پر زیادہ اور بعض پر کم- اور جب قانون کا اثر نمایاں طور پر ایک خاص گروہ پر پڑتا ہو اور دوسری قوم پر اس کا اثر بالکل نہ پڑتا ہو یا بہت کم پڑتا ہو تو ایسا قانون ہر گز منصفانہ نہیں کہلا سکتا- مثال کے طور پر دیکھ لو کہ اگر ہندوستان میں یہ قانون پاس کر دیا جائے جیسا کہ بعض میونسپل کمیٹیاں اب قریب قریب ایسا کر بھی رہی ہیں کہ گائے ذبح نہ کی جائے- تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قانون سب کے لئے برابر ہے- ہندوئوں کے لئے بھی اور مسلمانوں کے لئے بھی اس لئے انصاف کے مطابق ہے- اس قانون کے متعلق یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قانون برابر ہے- بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس قانون کا مضر اثر کس پر پڑتا ہے- اور یہ ظاہر ہے کہ ہندو تو خود ہی گائے نہیں ذبح کرتا- پس گو اس قانون میں ہندو مسلمان کو برابر رکھا جائے` مگر اس کا اثر صرف مسلمانوں پر پڑے گا- یا مثلاً اگر پنجاب کی آئندہ حکومت ¶یہ قانون پاس کر دے کہ زمین سب گورنمنٹ کی ہوگی یا سندھ میں ایسا قانون بن جائے- تو گو اس کا کچھ اثر ہندوئوں پر بھی پڑے گا- لیکن زیادہ تر اس کا اثر مسلمانوں پر ہی پڑے گا اور انہیں کو نقصان پہنچے گا- یا مثلاً تجارت پر اگر زیادہ ٹیکس لگا دیا جائے- جس سے تجارت کا تباہ کرنا مقصود ہو تو کوئی نہ کہے گا کہ اس کا اثر مسلمانوں پر بھی برابر پڑتا ہے- ہر عقلمند سمجھ لے گا کہ اس قانون کا اصل مقصد ہندوئوں کو نقصان پہنچانا ہے- پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ جب یکساں قواعد بن جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے- ایک ایسے گھر میں جس میں بچے بھی ہوں اور بڑے بھی` اگر ایسی غذا پکا دی جائے` جسے صرف بڑے کھا سکیں اور یہ کہا جائے کہ انصاف کر دیا گیا ہے- تو کوئی شخص تسلیم نہیں کرے گا کہ انصاف کر دیا گیا ہے- یا ایک میلے میں جہاں لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہو- اگر کوئی شخص ایک چھوٹے بچے کو چلانے لگے کہ سب میں برابری چاہئے- تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا کہ انصاف ہو گیا ہے- انصاف اور برابری تبھی ہو گی کہ جب اس بچے کی طاقت کے مطابق انتظام کیا جائے- اسے گودی میں اٹھا کر چلو` پھر انصاف قائم ہوگا- اور بچوں کے لئے ان کی عمر کے مطابق غذا تیار کرو پھر انصاف قائم ہوگا-
عقلاً اس امر کو ثابت کر چکنے کے بعد کہ ایک قسم کا قانون ضروری نہیں کہ انصاف کے مطابق بھی ہو- بلکہ بہت دفعہ اس سے بے انصافی پیدا ہوتی ہے- میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف خیال ہی نہیں ہے` بلکہ عملاً دنیا میں ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ بظاہر ایک سا قانون بنا کر بعض اقوام کو نقصان پہنچاتے ہیں- چنانچہ ایسٹ افریقہ کے داخلہ کے متعلق جب قواعد بنائے گئے ہیں- تو اسی وقت سارے ہندوستان میں شور پڑ گیا تھا کہ گو بظاہر یہ قانون سب کے لئے یکساں معلوم ہوتا ہے- لیکن اصل غرض اس کی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچے- اسی طرح زیکوسلویکا کی نئی حکومت میں یہ قانون پاس کیا گیا تھا کہ جس کے پاس ۱۵۰ایکڑ سے زیادہ زمین ہو ضبط کی جائے- اور دوسرے لوگوں کو دے دی جائے اب بظاہر یہ قانون نہایت انصاف پر مبنی معلوم ہوتا ہے- لیکن اصل غرض اس کی یہ تھی کہ جرمن لوگ جو جنگ سے پہلے یہاں کے بڑے بڑے زمیندار تھے` انہیں نقصان پہنچایا جائے- زک لوگ زیادہ تر کارخانہ دار تھے- پس اس قانون سے زکس کو بہت کم نقصان کا احتمال تھا- حالانکہ بظاہر قانون منصفانہ تھا- چنانچہ اس پر جرمنوں نے بہت کچھ شور مچایا- مگر ان کی حکومت نے سنی نہیں- یہی جواب دیتی رہی کہ ہم نے انصاف کا قانون بنایا ہے- جیسا تم کو اس قانون سے نقصان ہے ویسا ہی اور قوموں کو- ۳۳~}~اسی طرح رومانیانے ٹرنسلومینیا کے صوبہ میں کیا- جس میں کہ مگیار قوم کی زمینیں زیادہ تھیں- ۳۴~}~
پس تاریخی واقعات سے بھی ثابت ہے کہ ایک قانون سب کے لئے یکساں بنایا جاتا ہے لیکن اس میں غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص قوم کو اس سے نقصان پہنچ جائے یا یہ کہ وہ اپنا حق نہ لے سکے- میری اس رائے سے ایل- پی- میئرز کی رائے بھی متفق ہے وہ لکھتی ہیں-:
>اقلیتوں پر ظلم ایک خام اور ناقص طریق سے بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ قتل اور ملک سے نکال دینے کے طریق ہیں- لیکن یہی بات زیادہ مہذب طریقوں سے بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے- جن میں سے )اکثریتوں میں( زیادہ مقبول مادری زبان کے آزادانہ استعمال سے روک دینے کا طریق ہے- تعلیم کے قوانین تجارت کے قوانین اور انصاف کے قائم کرنے کے قوانین اس مقصد کو پورا کرنے کے بڑے کھلے کھلے ذرائع ہیں<- ۳۵~}~
‏text] ga[t اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں اکثریتیں اقلیتوں پر مہذبانہ طور پر ظلم کرتی ہیں- اور ایسے قوانین بنا کر نقصان پہنچاتی ہیں جو بظاہر یکساں ہوتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ صرف ایک قوم کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے-
پس ہندوستان کا قانون اساسی بناتے وقت صرف یہ دیکھنا کافی نہ ہوگا کہ قوانین ہندومسلمانوں کے لئے برابر ہیں- بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان قوانین کا ہندوئوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور مسلمانوں پر کیا- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ بظاہر برابر نظر آنے والے قوانین باطن میں مسلمانوں کے لئے مضر ہیں` خواہ اس لحاظ سے کہ مسلمانوں کو ان سے کوئی نقصان پہنچتا ہے` خواہ اس لحاظ سے کہ ان کی وجہ سے مسلمان اپنے جائز حقوق کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو ان کا بدلنا ضروری ہوگا-
صرف صحیح قانون بنا دینا قیام انصاف کیلئے کافی نہیں
دوسرا پہلو اس سوال کا یہ ہے کہ اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں ہر قوم کی ضرورت کا لحاظ رکھا جائے تو کیا یہ کافی نہ ہوگا اور کیا اس سے انصاف قائم نہ ہو جائے گا؟ میرا جواب اس سوال کے متعلق بھی یہی ہے کہ ہر گز نہیں- کوئی قوم صرف باانصاف قوانین کے پاس ہو جانے سے محفوظ نہیں ہو جاتی- بلکہ اس کے لئے دو اور باتوں کی ضرورت ہوتی ہے- )۱(اس انتظام کی کہ اس قانون پرعمل کرتے وقت بھی اس امر کی نگرانی ضروری ہوگی کہ اس قانون پر اس کے منشاء کے مطابق عمل کیا جاتا ہے یا نہیں؟ بہتر سے بہتر قانون پر اگر عمل نہ کیا جائے تو اس سے کیا فائدہ- ایک ڈاکٹر ہسپتال میں کونین کے ڈبے رکھ چھوڑے لیکن مریضوں کو نہ دے تو انہیں کیا نفع ہوگا- قانون اپنی ذات میں کچھ بھی چیز نہیں- عمدہ قانون کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح استعمال بھی کیا جائے- قانون کا صحیح نتیجہ اس کے صحیح استعمال پر مبنی ہوتا ہے- پس اگر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت قانون کے ذریعہ سے ہو بھی جائے- لیکن اس کے صحیح استعمال کا علاج نہ ہو تو بھی اقلیتوں کو امن نصیب نہیں ہو سکتا- چنانچہ لیگ آف نیشنز میں اقلیتوں کی حفاظت کے سوال میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ خالی قانون نفع نہیں دے سکتا- اور اس امر کی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اس قانون پر اس منشاء کے عین مطابق عمل بھی ہو- مثال کے طور پر استھونین گورنمنٹ کی گفت و شنید کو میں پیش کرتا ہوں- لیگ آف نیشنز نے اس حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کا لیگ کو یقین دلائے- لیکن اس نے اول اول انکار کیا اور جواب دیا کہ اگر ہمارے ملک میں اقلیتوں کی حفاظت کا قانون توڑا گیا- تو اس وقت لیگ دخل دے سکتی ہے- لیکن لیگ کی طرف سے جو ایجنٹ (AGENT) اس تصفیہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا- اس نے اس جواب پر نوٹ لکھا کہ-:
>اس جواب سے لیگ کو اس وقت تک دخل دینے کا کوئی حق حاصل نہ ہوگا جب تک قانون نہ بدلا جائے- لیکن قانون بدلے بغیر اگر استھونین گورنمنٹ اقلیتوں کو دکھ دیتی رہے تو اس کا علاج نہ ہو سکے گا<-
لیگ نے اس نوٹ کی صحت کو تسلیم کیا اور استھونین گورنمنٹ کے جواب کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ تمہارے اس جواب سے اقلیتوں کی حفاظت نہیں ہوتی- اس واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے سب عقلمند تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ صرف قوانین کی صحت کافی نہیں ہوتی- بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ذرائع استعمال کئے جائیں کہ قوانین کے منشاء کے مطابق عمل بھی ہو- راجپال کا کیس موجود ہے اس وقت وہ سب اخبار جو اس وقت نہرو کمیٹی کی تائید میں لکھ رہے ہیں` یہ لکھ رہے تھے کہ قانون کے منشاء کے مطابق عمل نہیں ہوا- پس یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور اس کا بند کرنا ضروری ہے-
)۲(دوسرے اس انتظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ آئندہ کے لئے اس قانون کو محفوظ کر دیا جائے- کیونکہ اکثریت کے لئے یہ بالکل آسان ہے- کہ وہ پہلے تو اقلیت کو تسلی دلا دے اور ان کی مرضی کے مطابق قانون بنا دے- لیکن بعد میں جب حکومت مل جائے تو پھر اس قانون کو بدل دے- کیونکہ جس طرح قانون بنانا اس کے اختیار میں ہے- اس کا بدلنا بھی اس کے اختیار میںہے-
میں دیکھتا ہوں کہ یورپ کی نئی حکومتوں میں جو جنگ کے بعد قائم ہوئی ہیں` اقلیتوں کی حفاظت کیلئے دونوں امور کا انتظام کیا گیا ہے- اس امر کا بھی کہ قانون کا صحیح استعمال ہو اور اس امر کا بھی کہ قانون کو بدلا نہ جا سکے- امر اول کا انتظام ایک تو یہ کیا گیا ہے کہ لیگ آف نیشنز کو حق دیا گیا ہے کہ وہ ایسے امور کی اپیل سن سکے جو قلیل التعداد جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں- اور اگر قلیل التعداد جماعتوں کی طرف سے کوئی شکایت پہنچے تو لیگ کمیشن مقرر کر کے دیکھ لیتی ہے کہ آیا وہ شکایت صحیح ہے یا غلط- اور اس طرح قلیل التعداد جماعتوں کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں- دوسرا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ قلیل التعداد جماعتوں کو گورنمنٹ میں ایسا دخل دیا گیا ہے- جس کی بنا پر وہ اپنے حقوق کی خود نگرانی کر سکتی ہیں- مثلاً زیکو سلویکا میں روتھینین قوم جو روسی قوم کی ایک شاخ ہے- چونکہ ایک علیحدہ تہذیت اور علیحدہ زبان اور علیحدہ مذہب رکھتی ہے- اس قوم کو روتھینیا کے علاقہ میں کامل خود اختیاری حکومت دے دی گئی ہے- گو خارجیمعاملات میں اور عام قوانین میں وہ زیکو سلویکا کے ماتحت ہے- یہ انتظام تو اس وجہ سے ہے کہ ایک صوبہ میں روتھینین قوم کی کثرت ہے- لیکن جن ملکوں میں قلیل التعداد آبادیاں پھیلی ہوئی ہیں اور کسی صوبہ میں بھی ان کی کثرت نہیں ہے- وہاں ان کے حقوق کی مزید حفاظت اس طرح کی گئی ہے کہ ان کی قوم کی زبان اور ان کے مذہب اور تمدن کی حفاظت کے لئے یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ گورنمنٹ خود اسی قوم کی کمیٹیوں کو روپیہ دے دے اور وہ اپنی نگرانی میں اپنے سکولوں اور اپنی مذہبی سوسائٹیوں کا انتظام کریں- دوسرا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ قومی تعداد کے لحاظ سے ملازمتوں کو اقلیتوں کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے- اسی طرح اقلیتوں کا ایک معقولعنصر گورنمنٹ میں موجود رہتا ہے- جو یہ دیکھتا رہتا ہے کہ ان کے بھائیوں کے حقوق نہ مارے جائیں- اس امر کا انتظام کہ قانون بدلا نہ جا سکے- اس طرح کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کے متعلق جو قانون ہے- اس کے لئے یہ شرط کر دی گئی ہے کہ لیگ آف نیشنز کی اجازت کے بغیر کوئی گورنمنٹ اس قانون کو نہیں بدل سکتی پس خواہ کسی گورنمنٹ کی اکثریت اس قانون کو بدلنا بھی چاہئے تو بھی وہ اپنے قانون اساسی یا اپنی بین الاقوامی ذمہ داری کے سبب سے اسے بدلنے پر قادر نہیں ہو سکتی- اور اگر وہ اس قانون کو زور سے توڑنا چاہے تو دوسری حکومتیں اس کی ذمہوار ہیں کہ وہ ایسا نہ کر سکے- ۳۶~}~
نہرو رپورٹ میں اقلیتوں کی کوئی حفاظت نہیں کی گئی
اب اس کے مقابلہ میں دیکھا جائے کہ نہرو کمیٹی نے اقلیتوں کی حفاظت کی کیا تدبیر کی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں- نہرو کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق نہ تو مسلمانوں کو ان صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہے خود اختیاری حکومت دی گئی ہے جس طرح کہ روتھینیا میں لعل رشینز کو دی گئی ہے` نہ ان صوبوں میں جن میں مسلمانوں کی اقلیت ہے اس امر کا انتظام کیا گیا ہے کہ تعلیم اور مذہب اور تمدن کے اصول کا طے کرنا مسلمانوں کی کمیٹیوں کے قبضہ میں رکھا جائے- نہ اس امر کا انتظام کیا گیا ہے کہ ان صوبوں کو جہاں آج کل مسلمانوں کی اکثریت ہے آئندہ ایسی شکل میں نہ بدل دیا جائے گا کہ مسلمان تھوڑے رہ جائیں- اور نہ پھر یہ انتظام کیا گیا ہے کہ جو مطالبات مسلمانوں کے آج ناقص طور پر منظور ہوئے ہیں` کم سے کم وہی آئندہ محفوظ رہیں گے- بلکہ قانون اساسی کو بدلنے کے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ دو تہائی ممبروں کی رائے سے قانون اساسی بدلا جا سکتا ہے- ۳۷~}~اور قانون اساسی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو پچیس فیصدی ممبریاں ملیں گی- ۳۸~}~
پس اس کے یہ معنی ہوئے کہ گو مسلمانوں میں سے ایک بھی رائے ہندو حاصل نہ کر سکیں بلکہ پانچ چھ فیصدی تک ہندو ممبر بھی اگر ہندوئوں کے مخالف ہو جائیں` تب بھی وہ جس وقت چاہیں` ان حقوق کو جنہیں وہ اس وقت دے رہے ہیں واپس لے سکتے ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوئوں کے لئے دو تہائی ووٹ جمع کر لینا مشکل ہوگا- قانون اساسی کے بدلنے کے لئے پونے ستاسٹھ فیصدی ووٹوں کی ضرورت ہے- اور ہندو قوم کو نہرو رپورٹ کے مطابق پچھترفیصدی ووٹ حاصل ہونگے- پھر ان کے لئے یہ بات کیا مشکل ہے کہ جب چاہیں قانون اساسی کو بدل دیں اور مسلمان منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں-
میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ امر پوری طرح واضح ہو چکا ہے کہ چھوٹی اور بڑی اقلیت میں کوئی فرق نہیں- اگر اقلیت کے حقوق کے تلف ہونے کا احتمال ہو تو اقلیت بڑی ہو یا چھوٹی اسے حفاظت کی ضرورت ہے- اور میں وہ امور بھی بیان کر چکا ہوں کہ جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اکثریت اقلیت کو دکھ دیا کرتی ہے- اور پھر میں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ خالی قوانین بھی کافی نہیں ہوتے` بلکہ دو باتوں کا انتظام کر لینا ضروری ہوتا ہے-: اول یہ کہ قوانین پر صحیح طور پر عمل ہو اور اس کے ذرائع میں سے ایک بڑا کارآمد ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ اقلیت کی کثرت ہو اس میں اسے خود مختار حکومت دی جائے اور جس جگہ کثرت نہ ہو وہاں کم سے کم ایک تو اپیل کا حق کھلا رکھا جائے دوسرے اس امر کا خیال رکھا جائے کہ اقلیت کے خاص معاملات اس کی اپنی کمیٹیوں کے ذریعہ سے طے پائیں- اور ملازمتوں میں کمسے کم اس کے حق کے مطابق اسے نیابت حاصل ہو- اور دوسرا انتظام یہ کیا جائے کہ قانوناساسی کا وہ حصہ جو اقلیت کے حقوق سے تعلق رکھتا ہو` وہ اس وقت تک نہ بدل سکے جب تک کہ خاص شرائط کے ماتحت خود اقلیت بھی اس کے بدلنے پر راضی نہ ہو-
مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو کمیٹی کی رپورٹ پر تفصیلی نظر
جو کچھ میں اس وقت لکھ چکا ہوں- میرے نزدیک ایک سیاست سے واقف شخص کے لئے کافی ہے اور وہ اس کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے کہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ ملک کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی اور اس کے تسلیم کر لینے میں مسلمانوں کو سخت نقصان ہے- لیکن چونکہ عام طور پر لوگ سیاسی امور سے واقف نہیں- نہ انہیں اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ وقت خرچ کر کے اصول کو فروغ پر چسپاں کریں- اس لئے میں مسلمانوں کے مطالبات اور نہرو رپورٹ پر ایک تفصیلی نظر بھی ڈالنی ضروری سمجھتا ہوں-
‏ a.10.23
مسلمانوں کے مطالبات
میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں-
۱- ہندوستان کی آئندہ حکومت فیڈرل اصول پر ہو` یعنی صوبہ جات سے مرکزی حکومت کو اختیار ملیں نہ کہ مرکزی حکومت سے صوبہ جات کو- اور سوائے ان امور کے جن میں مشترکہحکومت کا کام چلانے کیلئے صوبہ جات اپنے اختیارات مرکزی حکومت کو دیں- باقی سب اختیارات صوبہ جات کے پاس رہیں-
۲- صوبہ سرحدی کو ویسی ہی بااختیار حکومت دی جائے- جیسی کہ اور صوبوں کو اور سندھ اور بلوچستان کو آزاد کر کے انہیں بھی ویسی ہی آزاد حکومت دی جائے-
۳- ہر قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق نیابت مقامی مجالس میں دیا جائے- سوائے اس صورت کے کہ کسی قوم کی تعداد دوسری قوم کے مقابل پر بہت تھوڑی ہو- اس صورت میں اس کی اصل تعداد سے کسی قدر زائد حق اسے دے دیا جائے-
۴- مرکزی حکومت میں مسلمانوں کو ان کے موجودہ حق سے کسی صورت میں کم نہ دیا جائے بلکہ ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک ثلث نیابت کا حق انہیں دیا جائے-
۵- انتخاب کا طریق قومی ہو` یعنی ہر ایک قوم اپنے نمائندے خود چنے- اور بعض کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر اوپر کے چار مطالبات کو پورا کر دیا جائے تو ان پر عملدرآمد ہونے کے بعد مخلوط انتخاب محفوظ نشستوں کے ساتھ جاری کیا جا سکتا ہے-
۶- مذہب` مذہب کی تبلیغ یا مذہب کی تبدیلی میں حکومت کسی قسم کا دخل نہ دے- اور مذہب یا تمدن و تہذیب کے متعلق کوئی ایسا قانون پاس نہ کر سکے جس کا اثر کسی خاص مذہب کے لوگوں پر ہی کلی طور پر یا زیادہ طور پر پڑتا ہو-
ان مطالبات کے صحیح عمل درآمد کو دیکھنے کیلئے یہ بھی مطالبات مسلمانوں کی طرف سے تھیکہ-:
الف- مختلف اقوام کو ان کی تعداد کے مطابق ملازمتوں میں حصہ دیا جائے-
ب- قانون اساسی کی تبدیلی کے لئے ایسے قوانین بنا دیئے جائیں کہ قلیل التعداد کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو فیصلہ ہو اسے بغیر قلیل التعداد جماعتوں کی مرضی کے تبدیل نہ کیا جا سکے- زیکوسلویکا کا قانون اساسی مطالعہ کرنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ وہاں کے حالات بہت کچھ ہندوستان سے ملتے ہیں اور پھر پچھلے چند ہفتوں کی ہندوئوں کی کش مکش کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک یہ قاعدہ بھی ہونا چاہئے کہ کسی صوبہ کی حدود کو تبدیل کرنے کا حق مرکزیحکومت کو نہ ہوگا` بلکہ اس کا فیصلہ خود اس صوبہ سے ہی تعلق رکھے گا-
ان مطالبات کے گنوانے کے بعد میں ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لیکر اس امر پر بحث کرنا چاہتا ہوں- کہ آیا یہ مطالبات اول جائز ہیں یا نہیں` دوم ضروری ہیں یا نہیں؟ کیونکہ حقوق کے فیصلہ کے وقت یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اول وہ مطالبہ جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ جو مطالبہ جائز ہی نہیں- اس کا پیش کرنا ہی غلط ہے- کسی کا حق نہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے لئے دوسرے کو اس کا حق چھوڑنے پر مجبور کرے- دوسرے یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا وہ مطالبہ ضروری ہے یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیا جائے کہ مدعی کو اس کا مطالبہ دینے میں مدعا علیہ کا کیا نقصان ہے اور نہ دینے میں مدعی کا کیا نقصان ہے- اس وقت تک صحیح نتیجہ پر پہنچنا ناممکن ہوتا ہے- اور بسا اوقات ایسے شخص سے قربانی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے- جس کے لئے وہ قربانی مہلک ہوتی ہے- اور اس شخص کو فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے جو آگے ہی بہت کچھ لے چکا ہوتا ہے-
میں سمجھتا ہوں- کہ ان اصول کے ماتحت پہلے ہمیں اس سوال پر اصولی غور کرنا چاہئے کہ کیا ہندوستان کی موجودہ حالت اس قسم کی ہے کہ مسلمانوں کو کسی خاص حفاظت کی ضرورت ہو- اور انہیں ایک علیحدہ اقلیت کی صورت میں رہنے دینا ناگزیز ہو- میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں سے تو ہر ایک شخص اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی اس وقت خاص حفاظت کی ضرورت ہے- میں پہلے بتا آیا ہوں کہ ان وجوہ میں سے جو کسی اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے پر مائل کرتے ہوں- بڑے بڑے وجوہ چھ ہیں- پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ وجوہ اس وقت پائے جاتے ہیں یا نہیں-
مسلمانوں کو خاص حفاظت کی ضرورت اور اس کی وجوہات
پہلی وجہ
اول وجہ یہ ہوتی ہے کہ اقلیت اس ملک میں پہلے حاکم رہ چکی ہو- اور یا تو عملاً ظلم کر چکی ہو- یا اکثریت کو یہ دھوکا لگ گیا ہو یا دھوکا دیا گیا ہو کہ اقلیت اپنے زمانہاقتدار میں اس پر ظلم کرتی رہی ہے- ایسی صورت میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثریت اپنے برسراقتدار ہونے پر حقیقی یا خیالی مظالم کا بدلہ اقلیت سے لیتی ہے- چنانچہ قدیم تاریخ کی مثالوں میں سے بدھوں کی مثال موجود ہے کہ انہیں ہندوئوں نے بالکل تباہ کر دیا- سپین کے مسلمانوں کی مثال موجود ہے کہ انہیں مسیحیوں نے تباہ کر دیا- زمانہ حاضر میں دوسرے ممالک کی مثالوں میں سے یونان` سرویا` رومانیہ اور بلغاریہ کی مثال موجود ہے کہ ان علاقوں میں ترکوں پر خصوصاً اور مسلمانوں پر عموماً سخت سے سخت ظلم ہوتے رہے ہیں- محض اس وہم کی بنا پر کہ ترک اپنے زمانہ اقتدار میں ان کے آباء و اجداد سے ظلم کرتے رہے ہیں پولینڈ میں جرمنوں سے بدسلوکی ہو رہی ہے- کیونکہ ایک حصہ پولینڈ کا جرمنی کے ماتحت تھا- زیکوسلویکا میں جرمن زمینداروں سے اسی وجہ سے سختی ہو رہی ہے- رومانیہ میں 2] mrl[مگیار قوم سے` یوگوسلاویا میں آسٹرینز اور مگیار سے اٹلی میں آسٹرینز سے ظلم ہو رہا ہے-
یہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور ہمیں بتا رہی ہیں کہ حقیقی یا وہمی ظلموں کی بناء پر ایک قوم دوسری قوم کو تباہ کیا کرتی ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ذہنی حالت ہندوئوں کی بھی ہے- اول تو انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت کی جڑہیں مضبوط کرنے کے لئے مسلمان بادشاہوں کو تاریخ میں نہایت خطرناک صورت میں پیش کیا ہے- تا کہ لوگ ان کی یاد کو بھول کر انگریزی حکومت سے وابستہ ہو جائیں- دوسرے اب تمام ہندو اپنی قومیت کو مضبوط کرنے کیلئے پورے زور سے شاذ و نادر صحیح لیکن اکثر جھوٹے اور مفتریانہ الزامات مسلمان بادشاہوں پر لگا رہے ہیں- وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ان کے مذہب` ان کی تہذیب اور ان کے تمدن اور ان کی علمی ترقی کو مسلمانوں نے آ کر بالکل تباہ کر دیا ہے- اگر وہ نہ آتے تو آج ہندو نہ معلوم کیا سے کیا ہوتے- بہت سے ہندو مردوں اور ہندو عورتوں کے سینے آج مسلمانوں کے وہمی مظالم کے خلاف غیظ و غضب کی آگ سے جل رہے ہیں- وہ اپنی قوم کی تباہی کا واحد ذمہ دار مسلمانوں کو سمجھتے ہیں- وہ ان کی تباہی پر اپنی قومی ترقی کی بنیاد رکھنا بالکل جائز خیال کرتے ہیں- اس تعصب کی حالت جہاں تک پہنچ گئی ہے` اس کا کسی قدر نقشہ اس مثال سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ میرے ایک رشتہ دار نے ایک استانی اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے رکھی ہے- وہ مذہباً مسیحی ہے لیکن نسلاً ہندو ہے- اور میسور کی رہنے والی ہے- اس کا یہ حال ہے کہ تاریخ میں اگر کسی جگہ کسی مسلمان بادشاہ کا ذکر آ جائے تو وہ ان صفحوں کو چھوڑ جاتی ہے- اور جب بچے زور دیتے ہیں تو یہ جواب دیتی ہے کہ میں خوب جانتی ہوں کہ پہلے کونسا حصہ کتاب کا پڑھانا چاہئے اور بعد میں کونسا- یہ حالت ایک عورت کی ہے اور ایسی عورت کی جو خوب تعلیم یافتہ ہے- اور کئی دفعہ ولایت ہو آئی ہے- اسی پر قیاس ہندو قوم کے بہت سے افراد کا کیا جا سکتا ہے- یہ جوش و خروش ہندو قوم کا مردہ بادشاہوں کے خلاف کیوں ہے؟ کیا اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لئے نہیں؟ اور اس ذریعہ سے جو بیداری پیدا ہوگی` کیا مسلمان اس کے نتائج سے آنکھیں بن کر سکتے ہیں یقیناً نہیں- اور اس وجہ سے وہ حقبجانب ہیں کہ ایسے قوانین کا مطالبہ کریں جن سے ان کی قومی زندگی تباہی سے بچ جائے- اور اس کی ذمہ داری ایک حد تک انگریزوں پر اور ان سے زیادہ خود ہندوئوں پر ہے-
دوسری وجہ
دوسری بات جس کی وجہ سے اکثریت اقلیت کو تباہ کرنا چاہتی ہے یہ ہے کہ اقلیت اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کی وجہ سے اکثریت سے اعلیٰ ہو ایسی صورت میں اکثریت چونکہ اقلیت سے خائف ہوتی ہے- وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے- ہندو مسلمان سوال میں یہ صورت بھی پیدا ہے-
مجھے اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ حالت کیوں پیدا ہے لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تہذیب اور تمدن کے اصول کے لحاظ سے مسلمانوں کو ہندوئوں پر برتری حاصل ہے- ان میں چھوت چھات نہیں ہے- ان میں ایک حد تک قومی مساوات ہے- ان میں شادی بیاہ کی رسومات ہندوئوں کی نسبت بہت کم ہیں- بیوہ کی شادی کا دستور ابھی بہت حد تک باقی ہے- غرض ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی بنیاد ہندوئوں سے بالکل الگ اصول پر ہے- اور ہندو سمجھتے ہیں کہ نہ تو اس تہذیب اور تمدن کو ہم کچل سکتے ہیں اور نہ اس کی موجودگی میں ہم اپنی قدیم روایات کے مطابق ترقی کر سکتے ہیں- پس اس حالت میں خوف ہے کہ وہ اسلامیتہذیب اور تمدن کی آزاد نشوونما کے راستہ میں روک ڈالیں گے-
تیسری وجہ
تیسرا سبب جو اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے کی طرف راغب کرتا ہے یہ ہے کہ اقلیت دائمی اقلیت ہو- یعنی اس میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو اسے اپنی جگہ تبدیل کرنے سے مانع ہو- اس صورت میں اکثریت یہ خیال کرتی ہے کہ چونکہ اس اقلیت کو ہم جذب نہیں کر سکے` آئو اسے ہم مٹا دیں- یہ وجہ بھی اس وقت موجود ہے- اسلام ایک ایسا ممتاز مذہب ہے جس نے سیاست تمدن اخلاق اور معاملات کے لئے ایک ممتاز اور مستقل دستورالعمل پیش کیا ہے- پس مسلمان دوسری اقوام کی طرح ان مسائل کے متعلق جن پر اسلام نے روشنی ڈالی ہے` سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور نہ دوسرے کا رنگ قبول کر سکتا ہے- عام طور پر اکثریتوں کو جب یہ یقین ہوتا ہے کہ اقلیت کو اس کی جگہ پر باندھ رکھنے والی کوئی چیز نہیں- تو وہ امید کرتی ہے- کہ کچھ عرصہ میں یا تو اقلیت ہم میں جذب ہو جائے گی- یا پھر کھوئی جائے گی- یعنی بعض باتیں اپنی چھوڑ دے گی- اور بعض ہماری مان لے گی- جیسا کہ مثلاً پرانے زمانہ میں ہندوستان میں ہوا- کہ باہر سے آنے والی اقوام نے ہندوئوں کے دیوتائوں کو قبول کر لیا اور ہندوئوں نے ان کے بعض معبودوں کو قبول کر لیا- اسی طرح باہر سے آنے والی اقوام نے ہندوئوں کے سب سے بڑے تمدنی دستور یعنی قومیت کے اصول کو تسلیم کر لیا اور چاروں ورنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہو گئیں اسلام کی موجودگی میں مسلمان ایسا نہیں کر سکتے- پس ہندو یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اسلام ہے اس وقت تک تمدن اور تہذیب میں مسلمانوں کا ہمارا دبائو تسلیم کرنا ناممکن ہے- پس لازماً وہ یہ کوشش کریں گے اور اب بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو یا ہندوستان سے نکال دیں یا اپنے ساتھ شامل کر لیں-
چوتھی وجہ
چوتھی چیز جو اکثریت کو اقلیت کا دشمن بنا دیتی ہے یہ ہے کہ اقلیت میں کوئی بڑھنے والی طاقت موجود ہو- اور اکثریت کو یہ خطرہ ہو کہ کسی وقت وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی- اس وجہ سے وہ اقلیت کو ظالمانہ قوانین سے مٹانے کی کوشش کرتی رہتی ہے- یہ سبب بھی ہندوستان میں موجود ہے` اسلام ایک زبردست تبلیغی مذہب ہے- وہ اپنی کمزوری کے ایام میں بھی اپنی تعداد بڑھاتا رہا ہے- پچھلی مردم شماریاں اس امر پر شاہد ہیں کہ اسلام نہ صرف نسلاً بلکہ تبلیغی طور پر بھی بڑھ رہا ہے- پس یہ بات ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہندو قوم اس حالت کو جاری نہیں رہنے دے سکتی- اسے اگر اختیارات مل جائیں تو وہ پورا زور لگائے گی کہ جس مقصد کو وہ مذہبی تبلیغ سے حاصل نہ کرسکے وہ اسے جابرانہ قانون سے حاصل کرے- اور طاقت حاصل ہونے پر اس غرض کیلئے سینکڑوں تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں- جو بظاہر منصفانہ بھی ہوں اور ان سے یہ مقصد بھی پورا ہو جائے- پس مسلمانوں کے لئے خودحفاظتی ضروری ہے-
اس جگہ یہ اعتراض نہیں پڑتا کہ پارٹی سسٹم (PARTYSYSTEM) تو اکثریت اور ¶اقلیت کے مقابلہ پر ہی مبنی ہوتا ہے- اور باوجود اس کے اکثریت اقلیت کو تباہ نہیں کرتی- کیونکہ وہ اکثریت اور اقلیت تغیر پذیر ہوتی ہیں- آج ایک اکثریت جو اقلیت ہے` کل وہ اقلیت ہو جاتی ہے اور پھر اکثریت بن جاتی ہے- اس صورت میں چونکہ ہیر پھیر رہتا ہے` دشمنی پیدا نہیں ہوتی- لیکن یہاں اس اقلیت اور اکثریت کا سوال ہے جو سیاسی مسائل پر مبنی نہیں- بلکہ مذہب پر اس کی بنا ہے- ایسی پارٹیوں میں روزانہ تبدیلی نہیں ہوتی- اور بالکل ممکن ہے کہ ایک مذہب اگر زبردست ہے تو اکثریت کو اقلیت بنا دینے کے بعد وہی ملک پر ہمیشہ کے لئے قابض ہو جائے-
پانچویں وجہ
پانچواں سبب جس کے باعث اکثریت اقلیتوں پر ظلم کیا کرتی ہے` اقلیتوں کا غیرملکی لوگوں سے تعلق ہے- اکثریت چاہتی ہے کہ ملک کے سب لوگ اسی کے ساتھ وابستہ رہیں اور ملک کے باہر کی کسی قوم پر دوستانہ نگاہ نہ ڈالیں- لیکن اقلیت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ملک سے باہر کی بعض اقوام سے بھی تعلق رکھنے پر مجبور ہوتی ہے- اس حالت میں اکثریت ہمیشہ اس سے مشتبہ رہتی ہے اور ڈرتی ہے کہ کسی وقت غیر ملکیوں سے مل کر ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں- اور اس شبہ کی وجہ سے اقلیت کو نقصان پہنچانے پر تلی رہتی ہے- اس قسم کے واقعات دنیا میں کثرت سے ہوتے رہتے ہیں- چنانچہ یونانی حکومت میں بلغاریوں کے ساتھ اسی بنا پر ظلم ہوتا رہتا ہے- اسی طرح لیتھونیا میں پولز اور پولینڈ میں لیتھونینز کے ساتھ یہ سبب بھی ہندوستان میں موجود ہے- مسلمان اپنی مذہبی روایات کی بنا پر تمام دنیا کے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں- اور شدت سے ان کی مصائب سے متاثر ہوتے ہیں- اور یہی حال باہر کے مسلمانوں کا ہے گو ایک دوسرے کی مصیبت میں مدد نہ دیں` لیکن ان سے متاثر ضرور ہو جاتے ہیں اور ان کی ہمدردی کرتے ہیں- پس ایسی صورت میں ہندوستان کی اکثریت ضرور ان سے مشتبہ رہے گی- اور ان کی ترقی کے راستہ میں روک بنے گی- یہ شبہ وہمی نہیں ہے` بلکہ اب بھی ہندو عام طور پر شاکی نظر آتے ہیں کہ مسلمان اپنے آپ کو پورے طور پر ہندوستانی نہیں سمجھتے- بلکہ غیر ملکیوں سے بہت راہ و رسم رکھتے ہیں- گو وہ اس وقت منہ سے نہیں کہتے- لیکن ان کے دل میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کل کو اگر افغانستان- ایران یا عرب سے ہندوستان کی جنگ چھڑی تو مسلمان کیا کریں گے- کیا یہ سرحد پار کے مسلمان بھائیوں کی تائید نہیں کریں گے- اگر ایسا کریں گے تو یقیناً ہندوستان کی حکومت میں ہمیشہ ایک کمزور عنصر موجود رہے گا- اب یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ایسا موقع پیش آئے تو مسلمان کیا کریں گے- لیکن یہ شبہ جس کا اظہار کئی دفعہ ہندو لیڈر کر چکے ہیں ان کے دلوں میں ضرور کھٹکتا رہے گا اور اس کی بنا پر وہ مسلمانوں کی ترقی میں روڑا اٹکانے کو حب الوطنی کا ایک اعلیٰ فعل خیال کریں گے- میں اس سوال کے بارہ میں اس حد تک تو ہندوئوں سے متفق ہوں کہ حب الوطنی کے جذبات کو انصاف کی حدود کے اندر بڑھانا ملکی حکومت کے لئے ضروری ہے- لیکن میں یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمان اپنے اس وسیع جذبہ محبت کو جو وہ کل دنیا کے مسلمانوں سے رکھتا ہے- کس طرح دور کر سکتا ہے- وہ صدیوں سے اسے ورثہ میں مل رہا ہے اور درحقیقت وہ اب اس کی طبیعت ثانیہ بن گیا ہے- اور پھر انصاف کی شرط جو حب الوطنی کے ساتھ میں نے لگائی ہے` اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- کل کو ہندوستان عرب پر اوم کا جھنڈا کھڑا کرنے کی نیت کرے جیسا کہ آریہ لیڈر کہہ چکے ہیں تو یقیناً مسلمان اس وقت اپنی اعلیٰ ذمہ داریوں کو ملکی ذمہ داری پر قربان نہیں کر سکے گا-
چھٹی وجہ
چھٹا سبب جو اکثریت کو اقلیت کے دبا دینے یا دبائے رکھنے پر مجبور کرتا ہے یہ ہے کہ اکثریت اقلیت کی گری ہوئی اقتصادی حالت سے فائدہ اٹھا رہی ہو اور خیال کرتی ہو کہ اقلیت کی بیداری سے اسے نقصان پہنچے گا- پس وہ ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ اقلیت غافل ہی رہے- یہ وجہ بھی اس وقت پیدا ہے- جس طرح یورپ کی بہت سی دولت ایشیا کی غفلت کی وجہ سے ہے` اسی طرح ہندوئوں کی بہت سی دولت مسلمانوں سے براہ راست یا بالواسطہ آتی ہے- مسلمان تاجر نہیں` اس لئے سب تجارت کا نفع ہندو اٹھا رہے ہیں` مسلمان کارخانہ دار نہیں اس لئے صنعت و حرفت کا نفع بھی ہندو ہی اٹھا رہے ہیں- مسلمان اعلیٰ پیشہ ور نہیں اس لئے اعلیٰ پیشوں کا فائدہ بھی ہندو ہی حاصل کر رہے ہیں- جیسے وکلاء` ڈاکٹر` انجینیئر وغیرہ- مسلمان بینکر نہیں` پس بنک کے نفع کو بھی ہندو ہی حاصل کر رہے ہیں- مسلمان ٹھیکیدار نہیں پس ٹھیکیداری کے منافع بھی ہندوئوں کو ہی پہنچ رہے ہیں- مسلمانوں میں تعلیم کم ہے` پس گورنمنٹ کے عہدے بھی ہندوئوں کے ہی ہاتھ میں ہیں- مسلمان تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں` پس یونیورسٹیوں سے بھی ہندو ہی فائدہ حاصل کر رہے ہیں- غرض ہر اک اقتصادی میدان میں مسلمان ہندوئوں سے پیچھے ہیں اور ان کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہندوئوں کو خاص نفع ہو رہا ہے- اب اس حالت میں ہندو خوب سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ترقی کی تو ہماری دولت کم ہو جائے گی اور ایک حصہ دولت کا مسلمان لے جائیں گے- پس ان حالات میں کوئی عقلمند کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ ہندو بہ رضائو رغبت مسلمانوں کو آگے بڑھنے دیں گے- کیا مسلمان اپنی مقبوضہ چیزیں ہندوئوں کو بانٹ دیتے ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ اپنی مقبوضہ چیزیں بخوشی مسلمانوں کو دے دیں- پس جب حالات یہ ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو ہر ایک مسلمان کو یہ اندیشہ ہے اور بالکل جائز اندیشہ ہے کہ ہندو برسراقتدار آنے پر پورا زور لگائیں گے کہ مسلمان اپنی غفلت سے بیدار نہ ہوں- اور ضروری ہے کہ پہلے سے ایسے قواعد بنا لئے جائیں کہ ہندو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں اور مسلمانوں کے لئے کام کے دروازے کھلے رہیں-
بعض لوگ اس موقع پر نادانی سے یا مسلمانوں کو غافل رکھنے کیلئے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ترقی کے راستے بہت ہیں ملک ابھی اور ترقی کرے گا- پس مسلمانوں کی ترقی کے راستے مسدود نہیں ہیں- مگر یہ بات احمقانہ ہے دنیا کی ترقی کے بھی بہت سے راستے ہیں- لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یورپ کے لوگ ہندوستان کی صنعتی ترقی کے راستے میں روکیں ڈالتے ہیں- اگر انگریز صناع دور کا فاصلہ پر بیٹھے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہندوستان صنعت و حرفت میں ترقی کر جائے کیونکہ ڈرتے ہیں کہ اس سے ہمارے مال کو نقصان پہنچے گا تو ہندوستان کے ہندو تاجر کس طرح برداشت کر سکیں گے کہ مسلمان بھی اس میدان میں آگے نکلیں- اسی طرح گورنمنٹ عہدے محدود ہیں اور ان پر ہندو قابض ہیں کیا اس میں کوئی شک ہے کہ جس قدر عنصر مسلمانوں کا گورنمنٹ کے عہدوں میں بڑھایا جائے اسی قدر عنصر ہندوئوں کا کم ہوگا- کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مسلمانوں کو عہدے دینے کے لئے کوئی گورنمنٹ ملکی ہو یا غیر ملکی نئے عہدے نکالے- پس کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندو بخوشی خود مسلمانوں کیلئے جگہیں خالی کر دیں گے- اگر ایسا نہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ابھی سے ایسے قوانین تجویز ہو جائیں جن سے مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں-
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق واقعات کی شہادت
اس وقت تک تو میں نے اصولاً اس امر کی بحث کی تھی کہ ہندوستان میںایسے حالات موجود ہیں جن کی بنا پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے لیکن اب میں مختصراً واقعات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جائے- میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان بھی اس امر کا انکار کرے گا کہ ہندو مسلم تعلقات وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہئیں یا یہ کہ تعصب دونوں اقوام میں کام نہیں کر رہا گورنمنٹ کی ملازمتوں کو لے لو- شروع سے لیکر آخر تک ہندو عنصر غالب ہے- مسلمان اپنے جائز حقوق سے محروم کئے جا رہے ہیں جو شخص کسی نہ کسی سبب سے ملازمت میں آ بھی جاتا ہے تو ہندو عملہ اس کے نکالنے کے درپے رہتا ہے- چند دن ہوئے بنگال کے ایک مسلمان ممبر کونسل نے نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ تعجب ہے کہ ایک مسلمان ملازم ایک ہندو افسر کے ماتحت آکر فوراً نالائق ہو جاتا ہے لیکن ایک انگریر افسر کے نیچے جا کر لائق بن جاتا ہے- ہم پنجاب میں بھی اس کی سینکڑوں مثالیں پیش کر سکتے ہیں کہ نہایت لائق مسلمان جن کی انگریز افسروں نے بے حد تعریف کی تھی` ہندو افسروں کے ماتحت آکر بالکل نالائق بن گئے بعض ہندو مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کیلئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ انگریزوں کی چال ہے وہ ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں کہ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس کارروائی میں ہندوئوں کا فائدہ ہے یا انگریزوں کا اگر ہندوئوں کا فائدہ ہے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انگریز ایسا کرتے ہیں- دوسرے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا عقل اسے باور کر سکتی ہے کہ انگریز اس غرض کے لئے ہندوئوں کو ہی اپنا آلہ کار بناتے ہیں- کبھی مسلمانوں کو یہ سبق نہیں پڑھاتے کہ ہندوئوں کو نالائق قرار دے کر نکالنے کی کوشش کرو- تیسرے کئی گورنمنٹ افسر بعد میں قومی لیڈر بن گئے ہیں- کیا ان میں سے کوئی شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ اسے انگریز کہا کرتے تھے کہ تو ہندوئوں کو لائق قرار دے اور مسلمانوں کو نالائق بنا بنا کر نکالتا جا- میں تو دیکھتا ہوں کہ یہ مرض اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب بعض ہندوافسر برملا مسلمان امیدوار کو کہہ دیتے ہیں کہ تم پر کوئی کیس کھڑا کروں یا یونہی اپنی مرضی سے فلاں عہدہ سے دست برداری دے دو گے- میرے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن افسوس کہ اس کا علاج موجود نہیں-
یہی حال تعلیمی محکموں میں ہے- تعلیم کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کئے جا رہے ہیں مسلمان زیادہ فیل کئے جاتے ہیں- بعض فنون کے پروفیسر صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تمہیں پاس نہیں ہونے دینا- اور اورل (ORAL) امتحان میں فیل کر دیتے ہیں- گورنمنٹ سے وظیفہ لیتا لیتا طالبعلم جس وقت آخری منزل پر پہنچتا ہے` اس کا کیریکٹر تباہ کر دیا جاتا ہے- مسلمان دکانداروں سے ہندو سودا نہیں لیتے- اور کھانے پینے میں جو چھوت چھات ہے وہ تو ظاہر ہے ہی- سٹیجوں پر سے بھائی بھائی کا اعلان کرنا اور بات ہے- ان کروڑوں محنت کش خاندانوں میں جا کر دیکھو کہ کس طرح مسلمانوں کے گھروں میں ماتم ہو رہا ہے ہندو بنیا زمیندار کا خون چوس رہا ہے- اس سے ہندوزمیندار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے- مگر چونکہ اس کی کوشش کا آخری نتیجہ مسلمانوں کی تباہی ہے اس کے خلاف قانون پاس نہیں ہونے دیا جاتا- اور مسلمان کے ساتھ ہندو کو اس امید میں پیسا جاتا ہے کہ اس کی حالت کو ہم بعد میں درست کر لیں گے- مسلمان اخبارات کے اشتہارات کے کالم دیکھو ہندو اخبارات سے دوگنی اور تین گنی اشاعت ہے- مگر عدالتوں کے اشتہار اور دوسرے گورنمنٹ اشتہارات ان میں بہت کم نظر آئیں گے- لیکن ہندو اخبارات ذلیل سے ذلیل بھی ان اشتہارات سے بھرے ہوئے ہوں گے- اور انہی اشتہارات کی بدولت چل رہے ہوں گے- اسلامی مسائل کونسل میں ایک نجاست کی طرح پھینکے جاتے ہیں لیکن ہندوئوں کی ہر اک ضرورت مقدم کی جاتی ہے- آج ہی کا تار مظہر ہے کہ سندھ کی علیحدگی کا سوال بمبئی کونسل میں پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا- ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند انسان بھی کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کو خود حفاظتی کی ضرورت نہیں اور کیا ان حالات کی موجودگی میں کوئی مسلمان جو اپنے ہوش و حواس میں ہو` اسلام کے فوائد کو بغیر معقول گارنٹی (GUARANTEE) کے مہمل چھوڑ سکتا ہے- اگر کوئی ایسا کرے گا تو آئندہ نسلیں اس پر *** کریں گی اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں ایک مجرم کی حیثیت میں پیش کیا جائے گا-
مسلمانوں کا پہلا مطالبہ ہندوستان کے لئے فیڈرل حکومت
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مسلمانوں کا پہلا مطالبہ فیڈرل حکومت کا ہے یعنی اختیاراتحکومت صوبہ جات کو ملیں جنہیں کامل خود اختیاری حکومت حاصل ہو- مرکزیحکومت کو صرف وہی کام صوبہ جات کی طرف سے تفویض ہوں جن کا مرکزی حکومت کو دیا جانا ضروری ہو اور جن اختیارات کا قانون اساسی میں ذکر نہ ہو وہ صوبہ جات کے سمجھے جائیں- اور ضرورت پیش آنے پر صوبہ جات وہ اختیار خاص قانون کے ماتحت مرکزی حکومت کو دے سکتے ہیں- مرکزی حکومت کو کسی صورت میں صوبہ جات کی حکومت کے کاموں میں دخل دینے کا حق حاصل نہ ہو- یہ مطالبہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب مسلمانوں کا ہے- کم سے کم دونوں مسلم لیگوں کا یہ مطالبہ ضرور ہے- اس مطالبہ کو نہرو کمیٹی نے کلی طور پر مسترد کر دیا ہے- اور بجائے فیڈرل حکومت کے مرکزیحکومت کے طریق کو منظور کیا ہے- یعنی ان کی تجویز کی رو سے ہندوستان کی حکومت کے اختیار مرکزی پارلیمنٹ کو دیئے گئے ہیں اور ان کی طرف سے بعض اختیارات صوبہ جات کو عطا کئے گئے ہیں-
مسلمانوں کے مطالبہ اور نہرو رپورٹ کی تجویز میں فرق
مسلمانوں کے مطالبہ اور اس تجویز میں فرق یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے مطالبہ کے مطابق حکومت قائم کی جاتی تو حکومت ہند کو صوبوں کی حکومتوں کے کام میں دخل دینے کا اختیار نہیں رہتا تھا- دوسرے یہ اختیار بھی نہیں رہتا تھا کہ وہ کسی صوبہ کے اختیار چھین سکے- تیسرے اگر کوئی نیا کام نکلے تو اس پر مرکزی حکومت کو حق حاصل نہیں ہوتا تھا- بلکہ ہر نئے کام کا حق صوبہ جات کی حکومت کو حاصل ہوتا تھا- اگر وہ چاہتے تو کثرترائے سے مقررہ قواعد کے مطابق اسے مرکزی حکومت کے سپرد کر سکتے تھے- نہرو کمیٹی کی تجویز کے مطابق مرکزی حکومت کو صوبہ جات کے کاموں میں دخل دینے کا پورا اختیار ہے- وہ جب چاہے کسی صوبہ کے اختیار کو چھین لے- اور اس کی حکومت کا کوئی اور انتظام کر دے- یا جب چاہے سب صوبہ جات کے اختیارات کو محدود کر کے اپنے اختیار کو بڑھائے- اور جو نیا کام نکلے بطور حق کے وہ اسی کے حلقہ کار میں ہوگا- وہ اگر چاہے تو صوبہ جات کی طرف اس حق کو منتقل کر دے اور اگر چاہے تو خود اپنے پاس رکھے-
ہندو مسلم تعلقات پر دونوں تجاویر کا اثر
دونوں تجاویز میں فرق بتانے کے بعد میں اب یہ بتاتا ہوں کہ ہندو مسلم تعلقات پر ان دونوں تجاویر کا کیا اثر پڑتا ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں چونکہ مسلمان صرف پچیسفیصدی ہیں- اس لئے ان کو خواہ کتنا بھی حق دے دیا جائے- وہ مرکزی حکومت میں ہندوئوں سے بہت کم رہیں گے- نہرو کمیٹی نے انہیں پچیس فیصدی حق دیا ہے- اس صورت میں تین ہندوئوں کے مقابلہ میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلمان ہوگا- اور مسلم لیگ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مانگتی ہے- اس صورت میں دو ہندوئوں کے مقابلہ میں صرف ایک مسلمان ہوگا- اور یہ ظاہر ہے کہ پچھتر کے مقابلہ میں پچیس یا چھیاسٹھ کے مقابلہ میں تینتیس ممبر کچھ بھی نہیں کر سکتے پس مرکزی حکومت لازماً ہندوئوں کے اختیار میں ہوگی- اور وہ جو کچھ چاہیں گے کر سکیں گے- اب چونکہ اصل حاکم ہندوستان کی مرکزی انجمن قرار دی گئی ہے اور صوبہ جات صرف گماشتے بنائے گئے ہیں اس کا لازماً نتیجہ یہ ہوگا کہ باوجود چند صوبے مسلمانوں کی اکثریت کے قرار دینے کے حکومت اصل ہندوئوں کی ہی رہے گی اور وہ جس طرح چاہیں گے کریں گے- پس نہرو کمیٹی نے فیڈرل (FEDERAL) یعنی اتحادی حکومت کو جس میں سب صوبے برابر کے حقدار ہوتے ہیں رد کر کے مسلمانوں کو بالکل بے بس کر دیا جاتا ہے- اس تجویز پر اگر عمل ہو جائے اور باقی سب مطالبات مسلمانوں کے منظور کر لئے جائیں تب بھی مسلمانوں کا کوئی حق حکومت میں باقی نہیں رہتا- اس مضمون کو سمجھانے کے لئے میں اس فرض پر کہ صوبہ جات کے متعلق مسلمانوں کے سب مطالبات کو منظور کر لیا گیا ہے آئندہ کی حالت بتاتا ہوں کہ کیا ہوگی-
مرکزی حکومت کو کلی اختیار حاصل ہونے سے ہندو کیا کچھ کریں گے
مسلمانوں کے مطالبہ کے ماتحت پنجاب` بنگال` سندھ` بلوچستان اور صوبہ سرحدی میں ایسی حکومت ہوگی جس کا زیادہ عنصر مسلمان ہوگا- اس کے مقابلہ میں یوپی` بہار` مدراس` بمبئی` وسطی صوبوں اور آسام میں ایسی حکومت ہوگی- جس میں ہندوعنصر زیادہ ہوگا لیکن باوجود اس کے کہ صوبہ جات کو بعض اختیار حاصل ہونگے- وہ قانونی طور پر مرکزی حکومت کے گماشتے ہونگے جس میں ہندو عنصر مسلم عنصر سے بہت زیادہ ہوگا- اب اس حالت میں دیکھ لو کہ ہندو کیا کچھ نہ کر سکیں گے- فرض کرو کل کو پنجاب اور بنگال میں مسلمان یونیورسٹی کے متعلق فیصلہ کریں کہ اس میں مسلمان عنصر نسبت آبادی کے مطابق ہو یا ملازمتوں کے متعلق فیصلہ کریں کہ ان میں مسلم عنصر آبادی کے تناسب سے ہو مرکزی حکومت اس میں دخل دے دے کہ ہمارے نزدیک یہ قانون فرقہ وارانہ اصول پر مبنی ہے- اسے ہم روکنا چاہتے ہیں- پنجاب اور بنگال اس امر کو تسلیم نہ کریں اور اپنے منشاء کو پورا کرنے پر زور دیں- مرکزی حکومت اس پر ایک مسودہ پیش کر دے کہ پنجاب اور بنگال نے چونکہ اپنے آپ کو حکومت کا اہل ثابت نہیں کیا- اس لئے اس سے فلاں فلاں حقوق مرکزی حکومت واپس لیتی ہے- یا اس کی حکومت کا نظام پوری طرح بدل کر اس اس طرح کرتی ہے- بتائو کہ اس وقت مسلمانوں کا کیا حال ہوگا- تم یہ نہیں کہہ سکتے- کہ ایسا کیوں ہوگا- اس وقت بھی گورنمنٹ بعض میونسپل کمیٹیوں کے ساتھ ایسا کرتی ہے کہ ان پر بعض الزامات لگا کر ان کے حقوق واپس لے لیتی ہے- مرکزی حکومت کو حکومت کا مالک قرار دے کر صوبہ جات کی حیثیت میونسپل کمیٹیوں سے زیادہ نہ ہوگی- انہیں جس قدر بھی اختیارات دے دو پھر بھی وہ مختار عام سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتے- مالک مرکزی حکومت ہوگی- وہ جس وقت چاہے گی اپنے مختار نامہ کو منسوخ کر دے گی` پھر مسلمانوں کے پاس کیا رہ جائے گا-
بنگال اور پنجاب کی مسلم اکثریت کس طرح اقلیت بنائی جا سکتی ہے
میں ایک اورمثال لیتا ہوں اور وہ یہ کہ نہرو رپورٹ کی رو سے مرکزی حکومت صوبہ جات کی حدود کو تبدیل کر سکتی ہے- بیشک آج مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت حاصل کر لیں` حقوق بھی لے لیں لیکن پنجاب اور بنگال چونکہ اصل مالک نہ ہونگے- بلکہ گماشتے ہونگے` اس لئے کل کو اگر مرکزی حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ آسام کو بنگال کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کے راستے میں کوئی روک نہیں- یا اڑیا علاقے بہار سے نکال کر بنگال کے ساتھ ملا دیں- اس بہانہ سے کہ اڑیا قوم چھوٹی ہے` اس کا الگ صوبہ نہیں بنایا جا سکتا- اس لئے ان سب کو بنگال میں جمع کر دو تو مسلمانوں کا کوئی بس نہیں چل سکے گا- اور اس ایک تغیر سے جو بظاہر بالکل غیر فرقہ وارانہ معلوم ہوگا` بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور وہی حقوق جو مسلمانوں نے اپنے لئے حاصل کئے ہوں گے ہندوئوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے- اسی طرح اگر پنجاب میں مرکزی حکومت تبدیلی کر دے- یوپی ایک بہت بڑا صوبہ ہے- پنجاب سے اس کی آبادی قریباً دگنی ہے- اسی طرح پنجاب کے تین اضلاع راولپنڈی` اٹک` میانوالی` افغان طرز رہائش سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت پنجاب کے اور ڈیرہ غازیخان بلوچوں سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے- اگر آئندہ زمانہ میں مرکزی حکومت یہ فیصلہ کر دے کہ افغانوں سے زیادہ مشابہت رکھنے والے پنجابی اضلاع کو صوبہ سرحدی سے ملا دیا جائے اور ڈیرہ غازخان کو بلوچستان سے تو بتائو کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کا کیا باقی رہ جائے گا- اور پھر اگر وہ میرٹھ اور مظفر نگر کے علاقوں کو پنجاب سے ملا دیں- یا انبالہ اور دہلی کے علاقہ کو یوپی سے کاٹ کر پنجاب میں ملا دیں- تو کیا مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں نہ بدل جائے گی- اور ان دو بڑے اسلامی صوبوں میں اسلامیاکثریت کے مٹ جانے سے جس آزاد ترقی کے مسلمان خواہاں ہیں` کیا اس کا کوئی بھی امکاں باقی رہ جائے گا-
اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جن کے ذریعہ سے مرکزی حکومت نہرو رپورٹ کیپیش کردہ طرز حکومت کی رو سے بنگال اور پنجاب کے اسلامی صوبہ جات کو یا تو بالکل مٹا سکتی ہے یا ان میں ہندوئوں کی اکثریت کر سکتی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے جو مطالبہ ہے` اس کی رو سے ایسا نہیں ہو سکتا- کیونکہ مسلمان فیڈرل حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں اصل مالک صوبہ جات قرار پاتے ہیں مرکزی حکومت ایک گماشتہ کی حیثیت رکھے گی وہ قانوناً صرف انہی معاملات میں دخل دے سکے گی جن میں دخل دینے کا اختیار اسے صوبہ جات دیں گے اور اس وجہ سے وہ کسی صوبہ کے حدود کو اس صوبہ کے لوگوں کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کر سکے گی اور نہ صوبہ جات کی حکومت پر الزام لگا کر اس کے اختیار چھین سکے گی-
‏0] fts[ مرکزی حکومت کو سب اختیار ملنے پر مسلمانوں کو کیوں خطرہ ہے
اس جگہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی حکومت کو اختیار تو سب صوبوں کے متعلق ملا ہے- ہندوئوں کے صوبوں کے متعلق بھی اور مسلمانوں کے صوبوں کے متعلق بھی پھر ہمیں کیوں اعتراض ہو- کیونکہ اصل سوال تو اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے تعلقات اچھے نہیں ہیں- اور قریب زمانہ تک ان کے اچھے ہونے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی- اور اگر اچھے بھی ہو جائیں تو موجودہ حالات میں اس تغیر پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا- کیونکہ پچھلے پندرہ سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سال میں دو تین دفعہ بدلتے ہیں- لیکن غضب یہ ہے کہ جب تعلقات خراب ہوتے ہیں تب بھی مسلمانوں کو ہی نقصان ہوتا ہے اور جب وہ اچھے ہوتے ہیں تب بھی کچھ مسلمانوں کو ہی دینا پڑتا ہے- پس ان حالات میں ہندو مرکزی حکومت سے مسلمانوں کو تو خوف ہو سکتا ہے` ہندوئوں کو نہیں- پنجاب کے مسلمان تو ڈر سکتے ہیں کہ پنجاب کو ہندو مرکزی حکومت ہندو صوبہ نہ بنا دے- یوپی کے ہندو صوبہ کو مرکزی حکومت سے جو اکثریت کی وجہ سے ہندو حکومت ہو گی- کیا خوف ہو سکتا ہے- پس یہ کہنا کہ اثر سب پر برابر ہوگا` ایک دھوکا اور فریب ہے-
گورنر یا حکومت برطانیہ دخل نہ دے سکے گی
یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے حالات ہونگے تو گورنر یا حکومت برطانیہ دخل دے دے گی- کیونکہ جو لوگ اب مسلمانوں کے مطالبات پورا کرنے کو تیار نہیں وہ آئندہ کب کریں گے- اور پھر کیا اس قدر اہم معاملہ کو گورنر پر چھوڑا جا سکتا ہے- اگر ایک غیر شخص کی رائے پر اس قدر اعتبار ہو سکتا ہے تو سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) کے خلاف اس قدر جوش کیوں ہے- اس میں تو ایک شخص نہیں بلکہ سات آدمی شامل ہیں اور آئندہ کا معاملہ صرف ایک گورنر سے تعلق رکھے گا- پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آئینیحکومتوں میں گورنروں کے اختیارات صرف فرضی ہوا کرتے ہیں-
نہرو رپورٹ موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ان شبہات کا ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ قانوناساسی میں یہ امر شامل کر دیا جائے کہ صوبہ جات کی حکومت میں مرکزی حکومت دخل نہ دے سکے گی- اور یہ بھی کہ اس کی حدود کو اس کی مرضی کے بغیر بدل نہ سکے گی- اس سے مسلمانوں کی حالت مضبوط ہو جائے گی- تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئندہ تغیرات کے بعد نہرورپورٹ کو اچھا بنا دیا جائے تو اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے- ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کی موجودہ شکل مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں- مگر اس مخصوص سوال کے متعلق تو میں یہ بھی کہوں گا کہ اس تغیر کے باوجود بھی مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے- کیونکہ اگر قانوناساسی میں اس امر کو داخل بھی کر دیا جائے تو اس امر کا کون ذمہ دار ہے کہ قانون اساسی کو آئندہ بدل نہ دیا جائے گا- جب حق حکومت` مرکزی حکومت کو دیا گیا ہے اور قانون اساسی کو بدلنے کا حق بھی اسے دے دیا گیا ہے تو کل کو وہ ان قوانین کو بدل سکتی ہے اور اپنے لئے یہ اختیار تجویز کر سکتی ہے کہ ہم صوبہ جات کے معاملات میں ضرورت کے موقع پر دخل دے سکتے ہیں اور ان کی حدود کو بھی بدل سکتے ہیں- پس جب تک ملکیت مرکزی حکومت کی تسلیم کی گئی ہے اس وقت تک اس بارے میں کوئی حقیقی حفاظت مسلمانوں کو حاصل نہیں ہو سکتی- علاج صرف یہی ہے کہ حق حکومت صوبہ جات کو دیاجائے-
ساہو کارے والی روح کا مظاہرہ
لوگ نہرو رپورٹ کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں جب اس مقام پر آتا ہوں تو اس رپورٹ کے لکھنے والوں کی عقل پر مجھے تعجب آتا ہے- انہوں نے بعض دوسرے امور میں مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر کے خواہ مخواہ انہیں بھڑکا دیا- اگر وہ صرف حق حکومت مرکزی حکومت کو دے کر صوبہ جات کو سب اختیار دے دیتے اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق بھی دے دیتے- پنجاب اور بنگال میں اکثریت بھی دے دیتے- تب بھی ہندوئوں کا کچھ نہ بگڑتا- کیونکہ وہ حکومت کے ملنے کے بعد جس وقت چاہتے ان حقوق کو ملیا میٹ کر سکتے تھے- مگر معلوم ہوتا ہے کہ ساہوکارے والی روح ان پر غالب تھی- اور وہ منہ سے بھی مسلمانوں کو کچھ دینے کیلئے تیار نہ تھے- جس طرح کہ گڑیانی کے ایک بنئے کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ وہاں کے ایک پٹھان رئیس سے کہا کرتا تھا کہ خان صاحب تمہارا مال سو ہمارا مال اور ہمارا مال سوا ہاہاہا! ہاہاہا- یعنی ہنسی میں بھی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ ہمارا مال سو تمہارا مال- بلکہ ہنس کر بات ختم کر دیتا تھا- یہی حال نہرو کمیٹی کا ہے کہ اس نے ہنسی میں بھی مسلمانوں کو حق نہ دیئے- اگر وہ یہ حق رکھ کر باقی سب کچھ دے دیتی تو شائد اکثر مسلمان دھوکے میں آ جاتے- اور چند سمجھ دار لوگ ہی اصل حقیقت تک پہنچتے مگر ان کے سمجھانے کا شائد کچھ اثر نہ ہوتا-
مسلمانوں کا مطالبہ پورا کرنے پر حکومت کا طریق کیا ہوگا
نہرو رپورٹ کی تجویز کا بودا پن بتانے کے بعد میں اب یہ بتاتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کا مطالبہ پورا کیا جائے تو ہندوستان کی حکومت کا طریق یہ ہوگا کہ سب صوبہ جات اپنے اپنے علاقہ میں خود مختار حکومتیں سمجھے جائیں گے- جو اپنے فوائد اور ہندوستان کے مجموعی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے- اس امر پر اتفاق کریں گے کہ چنداختیارات جن کا ایک مرکز کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے جیسے ملکی فوج )صوبہ جات اپنی ضروریات کیلئے ایک مقامی فوج بھی رکھتے ہیں( ریل` تار` ڈاک` محصول برآمد درآمد کا انتظام` امور خارجیہ اور ان کا مقرر کرنا` سکہ کا اجراء وغیرہ وغیرہ ایک مرکزی حکومت کے ہاتھ میں دے دیئے جائیں- جو اختیارات مرکزی حکومت کو شروع میں مل جائیں گے- ان سے زائد اس نے اگر حاصل کرنے ہوں یا کوئی نیا صیغہ نکلے جس کا اس سے پہلے خیال نہ ہو تو وہ چند قواعد کے مطابق تمام صوبہ جات مل کر اور مشورہ کے بعد اگر چاہیں تو ان کو عطا کریں گے- اس طرزحکومت میں ہر اک صوبہ اپنے طور پر ترقی کرنے کا پورا اختیار رکھے گا- اسلامی صوبے بغیر ہندو مرکزی حکومت کی دخل اندازی کے خوف کے آزادی سے ترقی کر سکیں گے اور ہندو صوبے اپنی جگہ ترقی کر سکیں گے اگر کہو کہ ہندو صوبوں میں مسلمانوں پر ظلم ہوا تو اس صورت میں اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہ ہوگی- تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرکزی حکومت تو ہندو ہی ہوگی- اس کے ذریعہ سے مسلمانوں نے کیا کر لینا ہے- اگر ہندو ان کی بات سننے پر تیار ہونگے تو وہی اثر جو مرکزی حکومت پر ڈالنا ہے` اس صوبہ کی حکومت پر ڈالا جا سکتا ہے جس میں جھگڑا پیدا ہوگا- لیکن مرکزی حکومت کو حکومت کا حق دے دینے میں تو مسلمانوں کیلئے کوئی صوبہ بھی آزاد نہ رہے گا- اس آزاد حکومت کا یہ بھی اثر ہوگا کہ مرکزی حکومت بھی ظلم کرتے ہوئے ڈرے گی- کیونکہ وہ جانے گی کہ اس کے اختیار کی وسعت صوبہ جات کی رائے پر ہے- اگر وہ کسی خاص مذہب کے صوبہ کو دق کرے گی تو اسے بھی حقوق کے ملنے میں مشکل ہوگی- اس صوبہجات کی نگرانی میں یاد رکھنا چاہئے کہ آٹھ یا نو ہندو صوبوں کے مقابلہ میں پانچ مسلمان صوبے ہونگے- اور آبادی کی نسبت سے مسلمانوں کا حق زیادہ ہو جائے گا- یعنی ثلث سے بھی زیادہ اور اختیارات کی وسعت کے سوال کے متعلق دوسری حکومتوں کی طرح یہ قانون بنانا ہوگا کہ تین چوتھائی صوبوں کی مرضی پر اختیارات وسیع ہو سکتے ہیں- اور اس طرح مسلمانوں کا زور بہت حد تک موثر ہوگا-
مسلمانوں کا فیڈرل حکومت کا مطالبہ جائز ہے
یہ بتانے کے بعد کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ضروری ہے اور بلاوجہ نہیں اور یہ کہ اس کے بغیر مسلمانوں کے حقوق ہر گز محفوظ نہیں رہتے اور نہرو رپورٹ کا اس مطالبہ کو رد کرنا گویا مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت سے انکار کرنا ہے` اب میں اس امر پر روشنی ڈالتا ہوں کہ کیا یہ مطالبہ جائز ہے` سو یاد رکھنا چاہئے کہ جواز پر دو طرح غور کیا جا سکتا ہے-
اول: کیا اس مطالبہ سے کسی اور کے حقوق پر زد پڑتی ہے-
دوم: کیا ملک کی ترقی اور نشوونما کے لئے یہ مطالبہ مضر ہے-
اگر ان دونوں صورتوں میں سے کوئی ایک بھی ثابت ہو تو ہمیں اس مطالبہ کے پورا ہونے پر مسلمان کے فوائد اور اس کے مقابلہ پر ملک یا دوسری اقوام کو جو نقصانات پہنچ سکتے ہیں ان کا موزانہ کرنا پڑے گا- پہلا سوال کہ کیا اس مطالبہ کے پورا کرنے سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے` اس جگہ پیدا ہی نہیں ہوتا- کیونکہ فیڈرل حکومت کے قیام میں کسی قوم کو نقصان نہیں پہنچتا- ہندوئوں کی اس ملک میں کثرت ہے- مرکزی حکومت میں ان کی کثرت ہی رہے گی- باقی رہے صوبہ جات ان میں بھی جو صوبے ہندو اکثریت والے ہیں` ان میں ہندوئوں کی کثرت رہے گی- اور جو مسلمان اکثریت والے ہیں` ان میں مسلمانوں کی اکثریت رہے گی- پس اس انتظام میں نہ ہندوئوں کا کوئی نقصان ہے اور نہ کسی قوم کا- اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہے- اور یہ مطالبہ مسلمانوں کا کسی رعایت کا مطالبہ نہیں ہے- بلکہ بغیر کسی رعایت کے اپنے حق کی حفاظت کا مطالبہ ہے- اور اگر ہندو انہیں ایسے حقوق بھی دینے کیلئے تیار نہیں جن میں انہیں کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی` صرف اقلیتوں کی حفاظت ہوتی ہے تو انہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ اقلیتیں ان کے ساتھ مل جائیں گی-
فیڈرل طرز حکومت ترقی میں روک نہیں
دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا یہ مطالبہ ملک کی ترقی کے راستہ میں تو روک نہ ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فیڈرل گورنمنٹ کا اصول کوئی غیر مجرب اصول نہیں ہے` بلکہ ایک لمبے عرصہ سے اس کا تجربہ کیا جا رہا ہے اور یہ بہترین اصل ثابت ہوا ہے- برٹشامپائر (BRITISHEMPIRE) بھی درحقیقت ایک قسم کا فیڈریشن (FEDERATION) ہے کہ جس کے آزاد حصوں کے کام میں مرکزی حکومت کوئی دخل نہیں دیتی- لیکن سب سے بہتر تجربہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہوا ہے- ان ریاستوں کی گورنمنٹ کی ابتدا ہی فیڈرل اصول پر ہوئی ہے اور برابر یہ گورنمنٹ ترقی ہی کرتی چلی جا رہی ہے- اس وقت سب دنیا سے مالدار حکومت یہی ہے` بلکہ سب سے زیادہ طاقتور بھی- پچیس سال کی بات ہے کہ انگریزی حکومت سب سے بڑی دو بحری حکومتوں کے بیڑوں سے بڑا بیڑا بناتی تھی- لیکن آج اس وسیع حکومت کو ریاستہائے متحدہ کے مقابلہ سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے- اور کل ہی کی بات ہے کہ ایک لیبر لیڈر نے تقریر میں کہا کہ کیا کوئی حکومت پاگل ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ ریاستہائے متحدہ کو ناراض کر کے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال لیگی- پس باوجود اس کامیاب تجربہ کے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ فیڈرل حکومت سے گورنمنٹ طاقت نہیں پاتی- ریاستہائے متحدہ کے علاوہ جنوبی افریقہ` آسڑیلیا اور سوئٹزرلینڈ میں بھی اسی قسم کی حکومت ہے- گو آسڑیلیا اور سائوتھ افریقہ کی حکومتوں پر انگریزی طرز حکومت کا اثر پڑا ہے اور سوئٹزرلینڈ نے ملک کے چھوٹا ہونے کے سبب سے بعض ایسے قوانین بنائے ہیں کہ وسیع ملک میں ان پر عمل نہیں ہو سکتا- مگر بہر حال یہ حکومتیں فیڈرل اصول پر ہیں اور کامیاب طور پر چل رہی ہیں- ان کے علاوہ ایک اور نئی حکومت ہے یعنی زیکوسلویکا جس میں نئی قسم کا تجربہ کیا گیا ہے- یعنی سارے ملک میں تو فیڈریشن نہیں ہے- لیکن روتھینیا کے علاقہ کو ان لوگوں کے خوف کی وجہ سے کامل خود اختیاری حکومت دیدی گئی ہے جس کو کبھی مٹا نہ سکنے کا عہد زیکوسلویکا نے کیا ہے- مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر اسی طریق پر ہندو راضی ہو جائیں یعنی پانچوں مسلم صوبے فیڈریشن کے اصول پر ہندوستان سے ملحق رہیں- اور ہندو صوبے مضبوط مرکزیحکومت کے ماتحت رہیں- اور جس طرح روتھینیا والوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ ان معاملات میں مرکزیپارلیمنٹ میں دوسرے صوبوں کے متعلق رائے نہ دیں گے جن امور میں کہ ان کے صوبے میں مرکزی حکومت دخل نہیں دیتی- )مگر زیکوسلویکا نے ان کے اس اقرار کے باوجود اپنے معاملات میں رائے دینے کا انہیں حق دیکر ایک بے نظیر وسعت حوصلہ کا ثبوت دیا ہے(- اسی طرح مسلمان بھی شوق سے یہ عہد کر لیں گے کہ جو اختیارات مسلم صوبہ جات اپنے لئے محفوظ رکھیں گے ان میں ان صوبہجات کے نمائندے دوسرے صوبوں کے کاموں میں دخل نہ دیں گے-
ہندوستان کی فیڈریشن کیسی ہو
گو یہ موقع نہیں کہ میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کروں کہ ہندوستان کی فیڈریشن کیسی ہو- لیکن چونکہ ممکن ہے بحث میں بعض نقائص کو لوگ پیش کریں- اس لئے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان میں ریاستہائے متحدہ کا طریق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے- کیونکہ وہ ملک بھی ہندوستان کی طرح وسیع ہے اور اس میں مختلف نسلیں اور مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں- ہاں یہ شرط ہو جانی چاہئے کہ کوئی صوبہ فیڈریشن سے آزاد نہیں ہو سکتا- اور یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف وہی اختیارات مرکزی حکومت کو دیئے جائیں جو امریکہ میں دیئے گئے ہیں بلکہ ان سے زائد اختیارات دیئے جا سکتے ہیں- ہاں اس امر کا لحاظ رکھنا ہو گا کہ صوبہ جات کے اندرونی نظم و نسق میں خلل نہ آئے-
مسلمانوں کی موت و حیات کا سوال
میں سمجھتا ہوں کہ میں یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ فیڈریشن کا سوال مسلمانوں کے لئے موت اور حیات کا سوال ہے- اور یہ بھی کہ فیڈریشن کے اصول کو تسلیم کر لینے میں ہندئووں کا کوئی نقصان نہیں اور سیاستا اس قسم کی حکومت میں کوئی خرابی نہیں- اور اس لئے اس حصہ کو ان فقرات پر ختم کرتا ہوں کہ مسلمان یاد رکھیں کہ ان کے سب مطالبات میں سے وزنی مطالبہ یہی ہے- اگر اسے وہ حاصل کر لیں تو باقی مطالبات میں کوئی نقص رہ بھی جائے تو کوئی حرج نہیں- لیکن اس مطالبہ میں اگر کوئی نقص رہ گیا تو پھر ان کے لئے کہیں ٹھکانا نہ ہو گا- اللہ تعالیٰ انہیں ہر ایک شر سے محفوظ رکھے-
مسلمانوں کا دوسرا مطالبہ` تین نئے اسلامی صوبوں کا قیام
دوسرا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ تین نئے اسلامی صوبے قائم کئے جائیں- کہ اس طرح کہ صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو وہی حقوق دیئے جائیں جو دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں- اور سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک کامل طور پر با اختیار صوبہ بنا دیا جائے-
نہرو کمیٹی نے اس مطالبہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ صوبہ سرحدی کو دوسرے صوبوں کی طرح حقوق دے دیئے جائیں- بلوچستان کے متعلق ایک چیستان سی ہے- بعض حﷺ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق آزادی اسے ملے گا- لیکن جس جگہ حق کا فیصلہ کیا گیا ہے وہاں اس صوبہ کا ذکر نہیں ہے- نہ معلوم بھول گیا ہے یا جان کر چھوڑ دیا گیا ہے- ایک صوبہ کا صوبہ بھول جانا ایک ایسی کمیٹی کے لئے جو خاص سیاسی امور کے تصفیہ کے لئے مقرر ہوئی تھی` قابل تعجب ضرور ہے-
سندھ کی علیحدگی کے رستہ میں شرائط کے روڑے
سندھ کے متعلق نہرو رپورٹ ان شرائط سے آزادی کا وعدہ کرتی ہے- کہ )اول( اس کی مالی حالت ایسی ثابت ہو جائے کہ وہ اپنا بوجھ اٹھا سکے-۳۹~}~ یا اس کے باشندے یہ اقرار کر لیں کہ وہ حکومت کا بوجھ اٹھا لیں گے-۴۰~}~ بشرطیکہ وہ بوجھ نہرو کمیٹی کی رپورٹ کرنے والوں کے ارادوں کے مطابق ہو-۴۱~}~ )دوم( کوئی اور روک پیدا نہ ہو جائے جس کا ازالہ نا ممکن ہو-۴۲~}~ )سوم( وہ یہ بھی اشارہ کرتے ہیں- اور پھر اس اشارہ کو چھپانا چاہتے ہیں کہ سندھ کو علیحدہ صوبہ بنانے کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ وہ پوری طرح آزاد صوبہ ہو وہ لکھتے ہیں کہ-:
>ہمیں یہ بھی کہہ دینا چاہئے کہ ایک صوبہ کی علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ضرور اس کی اقتصادی زندگی بھی علیحدہ کر دی جائے- نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ سب اعضائیگورنمنٹ اس کے لئے نئے بنائے جائیں- مثلاً یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہائیکورٹ ایک سے زیادہ صوبوں کا کام کرے<- ۴۳~}~
سندھ کبھی آزاد نہ کیا جائے گا
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبہ کو پورا کرنے کا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ پنجاب` بنگال` سندھ` بلوچستان اور صوبہ سرحدی کو کامل آزادی حاصل ہو جائے گی- لیکن نہرو رپورٹ کے مطابق کم سے کم بنگال میں اسلامی عنصر کو کمزور کر دیا جائے گا- )جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا( صوبہ سرحدی کو کاملآزادی ملے گی- بلوچستان کے متعلق ان کی رائے ظاہر نہیں ہوئی- سندھ کی آزادی مشتبہ ہے` کیونکہ ان کے مطالبات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے نہایت قوی شبہ ہوتا ہے کہ سندھ کبھی بھی آزاد نہیں کیا جائے گا- اور اگر آزاد کیا جائے گا تو اس صورت سے کہ اس کی آزادی صرف نام کی ہو گی- اول تو ان کا یہ قول کہ کوئی غیر معمولی سبب پیدا نہ ہو جائے تو سندھ کو آزاد کرنے میں کوئی روک نہ ہو گی- ایک اشارہ ہے ہندو ایجیٹیٹر(AGITATOR) کو کہ اس وقت شور نہ مچائو- سندھ کو آزادی تمہارے ہی بھائیوں کے اختیار میں ہو گی- اور وہ اس میں پوری روک ڈالیں گے- میں اسے ایک خدا پرست انسان کا اظہار عقیدت نہیں قرار دے سکتا- جو ہر آئندہ کے کام میں خدا تعالیٰ کی قدرت کے ظہور کا راستہ کھلا رکھتا ہے- اور کسی آئندہ کی بات پر یقینی اور قطعی رائے ظاہر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا- یہ انشاء اللہ کی قسم کا جملہ نہیں ہے` کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اس مقام کے سوا دوسرے مقامات پر بھی وہ ایسے ہی جملے استعمال کرتے` لیکن وہ ایسا نہیں کرتے- وہ کرناٹک کی علیحدگی کے متعلق اس رضا برقضا کے عقیدہ کا اظہار نہیں کرتے- وہ اپنی اور سفارشوں کے متعلق )اور نہرو رپورٹ ہے ہی آئندہ کے متعلق( کسی جگہ پر یہ فقرہ استعمال نہیں کرتے- پس اس جگہ ان الفاظ کا استعمال صاف بتاتا ہے کہ یہاں خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی بے بضاعتی کا اقرار نہیں ہے` بلکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی طاقت کا مظاہر ہے-
سندھ کی مالی حالت کی شرط
اسی طرح وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مالی حالت سندھ کی اس قابل ثابت ہو کہ وہ آزاد کیا جا سکے- یا وہاں کے لوگ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوں- تب سندھ کو آزاد کیا جائے گا- یہ شرط بھی ایسی ہے کہ اس میں آئندہ کے لئے سندھ کی آزادی میں روک ڈالنے کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے- کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ مالیکمیشن سندھ کو آزادی کے قابل قرار ہی نہ دے- اور سندھ کے لوگ جب بوجھ اٹھانے پر آمادگی ظاہر کریں تو ان کے لئے ایک ایسی حکومت کی تجویز پیش کی جائے جس کی ناز برداری ان کے لئے ناممکن ہو- کیونکہ سندھ کے ہندو مسلمانوں کے اجتماعی مطالبہ کے جواب میں کمیشن والے خود لکھ چکے ہیں کہ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ تمہاری مالی حالت کو مدنظر رکھ کر ایک ایسی گورنمنٹ کی تجویز کو منظور کر لیں جو تمہاری مالی حالت کے مطابق ہو- ۴۴~}~پس ان باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کی آزادی کے راستہ میں ہر قسم کی روکیں ڈالی جائیں گی- اور تسلیاں جو دی گئی ہیں` صرف طفل تسلیاں ہیں- اس سے زیادہ ان کی حقیقت نہیں ہے- کسی کا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ بدظنی کیوں کی جاتی ہے- کیونکہ یہ پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے` قومی سمجھوتا ہے- اور قومیسمجھوتوں میں ہر ایک لفظ کا دیکھنا اور اس پر غور کرنا فرض ہے- اور جو ایسا نہیں کرتا وہ قومی غدار ہے نہ کہ حسن ظن کرنے والا مومن- آگے معاہدات کے الفاظ کی جانچ پڑتال نہ کرنے کے سبب سے ترکی اور عرب اور ایران اور مصر سخت نقصان اٹھا چکے ہیں اور یہ بد قسمتی ہوگی اگر پچھلے واقعات سے مسلمان فائدہ نہ اٹھائیں اور ان سے درسعبرت نہ لیں-
سندھ کو کیسی آزادی دی جائے گی
تیسری بات جس کی طرف کمیٹی نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ ضروری نہیں کہ سندھ پوری طرح آزاد کیا جائے- کیونکہ آزادی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقتصادی آزادی بھی اسے حاصل ہو- اور تمام محکمہجات گورنمنٹ بھی اسے حاصل ہوں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ اقتصادی آزادی حاصل نہ ہو تو وہ صوبہ آزاد کس طرح کہلا سکتا ہے- اصل چیز جس کے لئے الگ حکومتیں قائم کی جاتی ہیں وہ تو ہے ہی اقتصادی اور تمدنی آزادی- سیاست تو اس آزادی کے حصول کا ذریعہ ہے- چونکہ آزاد سیاست کے بغیر آزاد اقتصادی نشوونما حاصل نہیں ہوتی- اس لئے لوگ آزاد سیاست کی جستجو کرتے ہیں- پس اقتصادی زندگی کو کسی دوسرے صوبہ کے ساتھ وابستہ کرنے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اسے آزادی نہ دی جائے-
میں افسوس سے اس امر کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ سندھ کے سوال پر جو کچھ کمیشن نے لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے تو سندھ کو مالی سوال پر آزادی سے محروم کیا جائے گا- اگر وہاں کے لوگ مالی بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوئے تو پھر ایسی وزنی مشینری حکومت کی ان کے سامنے پیش کی جائے گی جسے وہ قبول نہ کر سکیں- اور جب سندھ مایوس ہو جائے گا تو اس وقت اس کے سامنے وہ تجویر پیش کی جائے گی- جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ-:
>ہمیں یہ بھی کہہ دینا چاہئے کہ ایک صوبہ کی علیحدگی کے یہ معنی نہیں کہ ضرور اس کی اقتصادی زندگی بھی علیحدہ کر دی جائے- نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ سب اعضائگورنمنٹ اس کے لئے بنائے جائیں- مثلاً یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ہائیکورٹ ایک سے زیادہ صوبوں کا کام کرے<- ۴۵~}~
اور یہ بات ظاہر ہے- کہ ایک مایوس شدہ صوبہ جب ساری نہ ملے گی تو آدھی کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور سندھ کی حکومت ایک نیم آزاد صوبہ کی سی قرار پا جائے گی-
بنگال میں مسلمانوں کی میجارٹی کس طرح توڑی جائے گی
میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں کہ نہرو کمیٹی نے بنگال میں مسلمانوں کی میجارٹی (MAJORITY) کو توڑنے کا بھی ایک دروازہ کھلا رکھا ہے- اب میں اس پر کسی قدر روشنی ڈالتا ہوں- رپورٹ کے صفحہ۶۳ پر لکھا ہے-
>ہمارے شریک کار مسٹر سوباش چندرا بوس تسلی ظاہر کرتے ہیں کہ اڑیا بولنے والے علاقے آپس میں ملا دینے چاہئیں- اور اگر مالی طور پر ممکن ہو تو ان کا ایک جدا گانہ صوبہ بنا دینا چاہئے اسی طرح ان کی رائے یہ بھی ہے کہ آسام` اڑیسہ اور بہار میں بنگالی بولنے والے علاقوں کا مطالبہ کہ انہیں بنگال سے ملا دیا جائے ایک معقول اور جائز مطالبہہے<-
مسٹر سوباش چندرا بوس کے اس مطالبہ کے متعلق کمیشن نے ہوشیاری سے بحث نہیں کی- کیونکہ فتنہ خوابید کو جگانے کی کیا ضرورت تھی- لیکن انہوں نے اس خیال کو پیش کر کے آئندہ کے لئے راستہ کھول دیا ہے کیونکہ وہ اپنی رپورٹ میں خود یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ صوبہجات کی نئی تقسیم زبان اور کثرت آبادی کی خواہش کے مطابق ۴۶~}~ہونی چاہئے- اور یہ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان لوگوں کی زبان بنگالی ہے- اور ان کی خواہش بھی ہے کہ اپنے بنگالیبھائیوں سے انہیں ملا دیا جائے- پس جب ان کے اس فقرہ کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے- کہ >یہ بات واضح ہے کہ صوبہ جات کی تقسیم نئے سرے سے ہونی چاہئے<- ۴۷~}~تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ بنگال کی ایسی تبدیلی کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ جس میں ہندو عنصر مسلمانوں سے زیادہ ہو جائے گا-
پنجاب کی مسلم اکثریت کو خطرہ
اس فقرہ سے کہ >یہ بات تو واضح ہے کہ صوبہ جات کی تقسیم نئے سرے سے ہونی چاہئے<- پنجاب بھی باہر نہیں- اور اس کی داغ بیل اگر رپورٹ لکھنے والوں کے ذہن میں نہ تھی تو اب بعد میں پڑنے لگ گئی ہے- چنانچہ پنجاب کی نیشنل پارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کے متعلق انہیں نہرورپورٹ کا فیصلہ منظور ہے بشرطیکہ مغربی اضلاع صوبہسرحدی میں شامل کر دیئے جائیں- اور میرٹھ کمشنری پنجاب میں )سول اینڈ ملٹری گزٹ( یعنی انہیں یہ فیصلہ اس صورت میں منظور ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو توڑ کر ہندو اکثریت کر دی جائے یہ تجویز نہ معلوم کب تک زور پکڑے- مگر بہر حال اب عملی سیاست کے صفحات پر آگئی ہے اور ہندو مرکزی اکثریت اگر ایسا کرے تو اس میں کیا روک ہو سکتیہے-
نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کو کیا دیا
پس موجودہ صورت حالات یہ ہے کہ مسلمانوں نے چاہا تھا- پنجاب` بنگال` سرحدی صوبہ` سندھ اور بلوچستان آزاد اور خود مختار اسلامی صوبے ہوں- نہرو رپورٹ سندھ کو ایک نیم آزاد حکومت دینا چاہتی ہے- بنگال کی اسلامی اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کا اشارہ کرتی ہے- اور اپنے پیش کردہ اصول کے مطابق اسے ناقابل رد مطالبہ قرار دیتی ہے- پنجاب کے متعلق ایک ایسی ہی تحریک شروع ہو گئی ہے جس کا روکنا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں ہے- پس نہرورپورٹ کے نتیجہ میں ایک نیم آزاد سندھ ایک ہندو بنگال ایک ہندو پنجاب مسلمانوں کو دیا گیا ہے- باقی رہے صوبہسرحدی اور بلوچستان` سو بلوچستان کا معاملہ مشکوک ہے- اگر وہ آزاد بھی کر دیا جائے تو دو چھوٹے چھوٹے صوبے مسلمانوں کے قبضہ میں رہ گئے جو زیادہ سے زیادہ ایک عبرتناک ہجرت کے لئے راستہ کا کام دے سکتے ہیں- اور مسلمانوں کو یہ یاد دلانے کے کام آئیں گے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا تھا اسے آنکھیں بند کر کے کھو دینے کی سزا میں اب تم ادھر سے ہی واپس چلے جائو جدھر سے تم آئے تھے-
‏0] [stf مسلمانوں کے مطالبہ کی معقولیت
مسلمانوں کے مطالبہ اور نہرو رپورٹ کی تجویز میں فرق بتانے کے بعد اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا مطالبہ ضروری تھا- سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر کی ضرورت کو تمام دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ جن اقوام کے مذہب اور تمدن میں اختلاف ہو` انہیں آزاد نشو ونما کا موقع ضرور ملنا چاہئے ورنہ فساد اور فتنہ کا دروازہ وسیع ہو جاتا ہے- اور صلح اور امن حاصل نہیں ہوتا- یورپ میں جہاں جہاں زبان اور تمدن کا اختلاف ہے- ان علاقوں کو الگ علاقہ کی صورت میں نشو ونما پانے کا موقع دیا جاتا ہے- زیکوسلویکا کا واقعہ میں پہلے لکھ چکا ہوں- اس میں روتھینیا کو الگ اور اندورنی طور پر آزاد حکومت عطا کی گئی ہے- ریاستہائے متحدہ کی ریاستوں کا قیام بھی اسی اصل پر ہے کہ چونکہ وہ الگ الگ پہلے سے قائم تھیں اور ہر اک کا ایک خاص طریق تمدن قائم ہو چکا تھا اور مذہب کا بھی اختلاف تھا` اس لئے ریاستوں کو توڑ کر ایک حکومت قائم کرنے کی بجائے انہیں علیحدہ ہی رہنے دیا گیا پس یہ مطالبہ بالکل عقل کے مطابق ہے- اور اس کی ضرورت مسلمانوں کو یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص تمدن اور اپنی روایات کو قائم رکھ سکیں اور ان کی قومی روح تباہ نہ ہو جائے- جو ضرورت ہندوستان کو انگریزی اثر سے آزاد ہونے کی ہے وہی ضرورت مسلمانوں کو ان کی کثرت رکھنے والے صوبوں میں ایک حد تک آزاد رہنے میں ہے- اگر یہ ضرورت غیر حقیقی ہے تو پھر ہندوستان کی آزادی کی ضرورت بھی غیر حقیقی ہے- مگر میں تفصیل سے اس بحث پر یہاں نہیں لکھ سکتا` کیونکہ اس کے دلائل محفوظ نشستوں کی ضرورت کے دلائل سے ملتے ہیں اور اس کا ذکر آئندہ ہوگا پس اس جگہ میں اس پر زیادہ تفصیل سے بحث کروں گا-
مسلمانوں کے مطالبہ سے کسی کے حقوق کا اتلاف نہیں
اب رہا یہ سوال کہ کیا یہ مطالبہ جائز ہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ حقوق کے لحاظ سے بھی اور سیاست کے لحاظ سے بھی یہ مطالبہ بالکل جائز ہے حقوق کے لحاظ سے اس لئے کہ اس میں کسی کے حق کا اتلاف نہیں- صوبہ سرحدی کو نیابتیحکومت نہ دینے میں سرحدیوں کے حقوق کا اتلاف ہے- اسی طرح سندھ جس کی نسبت خود رپورٹ والے تسلیم کر چکے ہیں- کہ اس کی زبان علیحدہ ہے- اس کا تعلق بمبئی سے مصنوعی ہے- بمبئی تک لوگوں کا پہنچنا بہت مشکل ہے- اس کی آزادی میں کسی کا حق کس طرح مارا جا سکتا ہے- اگر حق مارا جاتا ہے تو سندھ کو الگ نہ کرنے کی صورت میں سندھیوں کا مارا جاتا ہے- بلوچستان پہلے ہی ایک علیحدہ صوبہ ہے پس اسے نیابتی حق دینے میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے-
‏a.10.24
سندھ کی آزادی اور ہندو
دو باتیں ہیں جنہیں پیش کیا جا سکتا ہے- ایک تو یہ کہ اس تغیر میں ان ہندوئوں کا نقصان ہے جو ان صوبوں میں بستے ہیں- کیونکہ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں انہیں نقصان پہنچنے کا احتمال ہے- لیکن یہ کوئی نقصان نہیں- اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر بمبئی` مدراس` یوپی` بہار وغیرہ صوبوں کو بھی حق نہیں ملنے چاہئیں- کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اقلیت کو ایسا ہی خوف ہو سکتا ہے- بلکہ حق یہ ہے کہ کہ مسلمانوں کو زیادہ خوف ہے- کیونکہ مرکزی حکومت گو فیڈرل اصول پر ہو پھر بھی ایک بہت بڑا وزن رکھے گی اور اس میں اکثریت ہندوئوں کی ہوگی- دوسری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ سندھ پر بمبئی کا بہت کچھ روپیہ خرچ ہو چکا ہے` اس لئے اسے آزادی کا حق نہیں- یہ جواب بھی درست نہیں- یہ تو ویسا ہی جواب ہے جیسا کہ بعض انگریز کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہمارے تاجر ہیں- ہم سرمایہ لگا چکے ہیں` اس لئے اسے آزادی نہیں ملنی چاہئے- اگر سندھ پر بمبئی کا اس قدر بھی خرچ ہو رہا ہوتا تو آج بمبئی کے ہندو سندھ کی آزادی پر سب سے زیادہ زور دینے والے ہوتے- مگر وہ سب سے زیادہ سندھ کو قابو رکھنا چاہتے ہیں- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گو ظاہر میں بمبئی سندھ پر روپیہ خرچ کر رہا ہے` لیکن اصل میں وہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- کیا اس میں شک ہے کہ کراچی جیسا بندر موجود ہوتے ہوئے سندھ مالی ترقی نہیں کر سکا- اور کیا اس کی یہی وجہ نہیں کہ بمبئی سندھ سے فائدہ حاصل کر رہا تھا- اور نہیں چاہتا تھا کہ کراچی ترقی کر سکے تا کہ اس کا فائدہ ضائع نہ جائے- غرض بمبئی نے بلاواسطہ اگر سندھ پر ایک روپیہ خرچ کیا ہے تو بالواسطہ اس نے دو کمائے ہیں اور تب ہی اس کی وابستگی اسے اس قدر مرغوب ہے- پس یہ دونوں اعتراض باطل ہیں اور کسی کا حق سندھ کے آزاد ہونے میں تلف نہیں ہوتا-
صوبہ سرحدی اور سندھ کو آزادی دینا سیاستا ضروری ہے
اب رہا سیاست کا سوال سو سیاستا ان صوبوں کے آزاد ہونے میں بڑا نفع ہے اور نہ ہونے میں نقصان- اگر سندھ کو نیابتی حکومت دے کر علیحدہ صوبہ نہ بنایا گیا تو جیسا کہ خود نہرو رپورٹ نے تسلیم کیا ہے` سندھ میں سخت ایجیٹیشن (AGITATIONS) ہوگا اور ملکی طاقت ضائع ہو گی- ۴۸~}~
صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو اگر نیابتی حکومت نہ دی گئی تو ظاہر ہے کہ سرحدی صوبے ہونے کی وجہ سے وہ سرحد پار کی حکومتوں کی سازش کی آماجگاہ بن سکیں گے- بہترین سیاسی پالیسی یہی ہوتی ہے کہ سرحدی صوبوں کو خوش رکھا جائے- ورنہ ان میں ہمسایہ حکومتیں ریشہ دوانیاں شروع کر دیتی ہیں اور خود ملک کا ایک حصہ اپنی حکومت کے خلاف کھڑا ہو کر اسے کمزور کر دیتا ہے- یہ ظاہر امر ہے کہ اگر سرحدی صوبوں کو دوسرے صوبوں کے سے حقوق نہ ملے تو وہ ہندوستان سے ملحق رہنے پر رضا مند نہ ہوں گے- اور ان کے دل میں خواہش پیدا ہوگی کہ وہ کسی دوسری مملکت سے مل کر اپنی آزادی حاصل کریں- پس صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو آزادی نہ دینا بدترین سیاست ہوگی- اور ہندوستان کو نہ صرف خانہ جنگی میں مبتلا کر دے گی بلکہ غیر حکومتوں کی چھائونیاں اس ملک میں قائم کر دے گی-
نہرو رپورٹ لکھنے والوں کے دل میں تعصب
میں سمجھتا ہوں کہ میں کافی بحث کر چکا ہوں کہ تین نئے اسلامی صوبوں کے قیام کے متعلق مسلمانوں کے مطالبات بالکل درست ہیں- اور ان کے پورا کرنے میں کسی کی حق تلفی نہیں- اور سیاستا ان کا قائم کرنا ملک کے لئے نہایت ضروری ہے- اور ایسے اہم مطالبہ کا پورا نہ کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں کے دل تعصب سے خالی نہ تھے- اور یہ ظاہر ہے کہ جس وقت تک کثرت کے دل سے تعصب نہ نکلے گا` اقلیت بھی اس کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکتی-
مسلمانوں کا تیسرا مطالبہ نیابت مطابق آبادی
تیسرا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ ہر صوبہ میں ہر جماعت کو اس کی تعداد کے مطابق نمائندگی کا حق دیا جائے- سوائے اس صورت کے کسی صوبہ میں اقلیت بہت کم ہو- تب اقلیت کو اس کی آبادی سے کسی قدر زیادہ حقوق دیئے جا سکتے ہیں- اور اگر ایسا کیا جائے تو جو حقوق ہندو صوبوں میں مسلمانوں کو دیئے جائیں` وہی حقوق ویسے ہی مسلمان صوبوں میں ہندوئوں کو دیئیجائیں-
مطالبہ کا خلاصہ
اس مطالبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بڑی قوم جو حساب میں آ سکتی ہے اس کے حق کو جو اس کی تعداد آبادی کے مطابق بنتا ہو` محفوظ کر دیا جائے تا کہ دوسری قومیں اپنی چالاکی سے اسے اس کے حق سے محروم نہ کر دیں-
نہرو رپورٹ کا فیصلہ
نہرو رپورٹ نے اس کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ خیال عمدہسیاست کے بالکل خلاف ہے کہ کسی قوم کا حق مقرر کر دیا جائے- زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو اقوام بہت ہی کم ہیں ان کے حقوق مقرر کر دیئے جائیں- اور حق سے زیادہ دینا تو کسی صورت میں بھی درست نہیں- اس امر کو سمجھ لینا چاہئے کہ حقوق کی حفاظت انتخاب سے تعلق رکھنے والے امور میں محفوظ نشستوں سے ہوتی ہے- یعنی یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ فیصدی کس قدر ممبریاں لازماً فلاں قوم کو ملیں گی اور وہ جگہیں بھی مقرر کر دی جاتی ہیں کہ جہاں سے اس قوم کے سوا کوئی اور ممبر منتخب نہیں ہو سکتا- پس حقوق مقرر کرنے سے مراد درحقیقت حلقہ ہائے انتخاب کی تعیین ہوتی ہے کہ اتنے حلقوں سے سوائے فلاں قوم کے امیدوار کے اور کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا-
اب نہرو رپورٹ کے فیصلہ کے مطابق پنجاب اور بنگال کے سوا باقی صوبوں میں اگر اقلیتوں کی خواہش ہوگی تو انہیں ان کی آبادی کی تعداد کے مطابق محفوظ نشستیں دے دی جائیں گی- پس اس قانون کے مطابق پنجاب اور بنگال میں تو اپنے اپنے زور سے جس قدر ممبریاں ہندو مسلمان لے جائیں` لے جائیں- ان کی کوئی حد بندی نہیں ہوگی- اور باقی صوبوں میں سے صوبہ سرحدی بلوچستان اور سندھ اگر قائم ہو جائیں- تو ہندوئوں کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہیں تو اپنی آبادی کے مطابق نشستوں کو ریزرو کرا لیں- اور اس سے زائد میں مسلمانوں کا مقابلہ کریں- اور ان صوبوں کے سوا باقی صوبوں میں یہی حق مسلمانوں کو حاصل ہوگا- گویا اس تجویز کے مطابق مسلم لیگ کے مطالبہ کا پورا کرنا تو الگ رہا- جو کچھ مسلمانوں کو پہلے مل رہا تھا- وہ بھی ان سے چھین لیا گیا ہے- مسلم لیگ تو یہ طلب کر رہی تھی کہ جو حق اب مسلمانوں کو مل رہا ہے- اس قدر حق مسلمانوں کے لئے محفوظ کر لیا جائے اور اس سے زائد نشستوں میں ہندوئوں کا مقابلہ کرنیکی مسلمانوں کو اجازت ہو- اور یہی حق ان صوبوں میں ہندوئوں کو مل جائے- جن میں مسلمانوں کی کثرت بہت زیادہ ہو- لیکن نہرو رپورٹ صرف اسی قدر حق مسلمانوں کا رکھتی ہے جو مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے انہیں ملنا چاہئے- جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان جو یوپی میں ۱۵ فیصدی ہیں لیکن تیس فیصدی حق نیابت انہیں مل رہا ہے- آئندہ انہیں صرف پندرہ فیصدی کا حق حاصل ہوگا- اس سے زیادہ اگر وہ زور سے لے سکیں` تو لے لیں- بہار جس میں مسلمان دس فیصدی سے بھی کم ہیں لیکن اس وقت بیس فیصدی کے قریب حق لے رہے ہیں` آئندہ انہیں صرف دس فیصدی کا حق حاصل ہوگا اور مدراس میں مسلمانوں کی آبادی چھ فیصدی کے قریب ہے` اور اس وقت انہیں حق نیابت بارہ فیصدی کے قریب ملا ہوا ہے- نہرو رپورٹ کی تجویز کے مطابق آئندہ وہاں مسلمانوں کو صرف چھ فیصدی حق حاصل ہوگا- آسام میں مسلمانوں کی تعداد اکیس فیصدی کے قریب ہے- لیکن کونسلوں میں انہیں اس وقت تیس فیصدی تک کا حق حاصل ہے- نہرو رپورٹ کے مطابق آئندہ انہیں صرف اکیس فیصدی نیابت کا حق حاصل ہوگا- بمبئی جس میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصدی کے قریب ہے- لیکن حق نمائندگی ایک ثلث کے قریب انہیں حاصل ہے` آئندہ صرف بیس فیصدی انہیں ملے گا- غرض نہرو رپورٹ نے جو سفارش کی ہے- اس کی رو سے ہر صوبہ میں مسلمانوں کی نیابت نصف سے لیکر ایک تہائی تک کم ہو جائے گی- اور اس کے مقابلہ میں جو کچھ ملا ہے- وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں اور دوسرے صوبوں میں سے جو کچھ مسلمان زور سے لے سکیں لے لیں-
یہ تقسیم بالکل ایسی ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ ایک بخیل ہندو راجہ نے اپنے پروہت کو خوش ہو کر وہ گائے بخش دی تھی جو ایک سال پہلے گم ہو چکی تھی- مگر اس کا لڑکا جو اس سے بھی زیادہ بخیل تھا- گھبرا کر بول اٹھا کہ پتا جی وہ تو شاید یہ تلاش کر لے- اسے وہ گائے دیجئے جو پرارسال مر گئی تھی- لکھنئو پیکٹ (LUCKNOWPACT) نے مسلمانوں کی جان نکالنے کی کوشش کی تھی- نہرو رپورٹ نے کھال تک ادھیڑنے کا تہیہ کیا ہے- مجھے تعجب ہے کہ وہ مسلمان جو اس وقت اس رپورٹ کی تائید میں ہیں` وہ کیا سوچ کر تائید کر رہے ہیں- کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ واپس لیا گیا ہے وہ تو ایک یقینی چیز ہے- آٹھ ہندو صوبوں میں جو مسلمانوں کو اس وقت حق حاصل تھا- اس میں قریباً آدھا حق چھین لیا گیا ہے- یعنی کل ہندو صوبوں میں اس وقت مسلمانوں کو متفقہ اوسط کے لحاظ سے چوبیس فیصدی کے قریب حق نیابت کا حاصل تھا- لیکن آئندہ صرف چودہ فیصدی کے قریب رہ جائے گا اور اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیا وہ کچھ گیا ہے جو بالکل وہمی اور خیالی ہے-
بہت بڑا دھوکا
کہا جاتا ہے کہ یہ حق جو مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے کہ آئندہ مسلمان اپنے حق کے علاوہ جس قدر اور نشستوں کے لئے چاہیں گے` ہندوئوں کے مقابلہ پر کھڑے ہو سکیں گے- اس سے ان کے لئے راستہ کھول دیا گیا ہے- وہ اس کے ذریعہ سے ترقی کر سکتے ہیں اور ہندوئوں سے اپنے حق سے زیادہ نشستیں چھین سکتے ہیں- یہ خیال بالکل دھوکا ہے- اور اس کی تائید میں جو باتیں پیش کی جاتی ہیں وہ یا جہالت پر یا کم عقلی پر یا دنیا کی تاریخ سے ناواقفی پر دلالت کرتی ہیں-
نیابت مطابق آبادی کے دلائل
پہلی دلیل
سب سے پہلی دلیل جو میں اس خیال کے رد سے پیش کرنا چاہتا ہوں وہ خود نہروکمیٹی کی اپنی شہادت ہے- جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں` کہا جاتا ہے کہ محفوظ نشستوں کے طریق کو چھوڑنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے- کیونکہ اس طرح وہ اپنے حق سے زیادہ لے لیں گے- نہرو کمیٹی بھی اس دلیل کو صحیح سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم نے مسلمانوں پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں آزاد مقابلہ کا حق دے کر ان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے- ۴۹~}~ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اقلیتوں کا کلی طور پر اپنے حق سے محروم ہو جانا بالکل ممکن ہے- نہرو رپورٹ بیان کرتی ہے-
>بے قاعدہ کانفرنس کے ریزولیوشن کے پاس ہونے کے بعد یہ بات ہمارے نوٹس میں لائی گئی ہے کہ مسلمان اقلیتوں کو اس سے سخت نقصان پہنچے گا جو کہ زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس ممبر تک مرکزی پارلیمنٹ کے لئے جس کے پانچ سو ممبر ہونگے` بنگال اور پنجاب سے بھیج سکیں گے اور شاید ایک یا دو یوپی اور بہار سے- اور دوسرے صوبوں سے جن میں ان کی آبادی سات فی صدی سے بھی کم ہے` ان کا کسی ممبر کو بھیج سکنا قریباً ناممکن ہوگا- اور کہا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان جو چوبیسفیصدی ہیں` انہیں صرف دس فی صدی نیابت مرکزی پارلیمنٹ میں حاصل ہو سکے گی- یہی دلیل کہا جاتا ہے کہ ان صوبوں کے متعلق بھی چسپاں ہوتی ہے- جن میں کہ مسلمانوں کی اقلیت تھوڑی ہے- ہم اس دلیل کی قوت کو تسلیم کرتے ہیں` اور اس امر کو دیکھ کر حالات سے مجبور ہو گئے ہیں کہ عارضی طور پر فرقہ وارانہ عنصر کو ملک کے انتخابی نظام میں داخل کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسلمان اقلیتوں کے حق میں یہ استثناء کرتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ان کے لئے نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے مرکزی اور صوبہ جات کی مجالس میں محفوظ کر دی جائیں<- ۵۰~}~
اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو رپورٹ کو یہ امر تسلیم ہے کہ )۱(پنجاب اور بنگال سے مسلمان حد سے حد چالیس ممبر مرکزی پارلیمنٹ میں بھیج سکیں گے- )۲(اقلیتیں مخلوطانتخاب میں خطرہ میں ہوتی ہے- اور بالکل ممکن ہے کہ سات فیصدی تک کی اقلیت اپنا ایک نمائندہ بھی نہ بھیجسکے-
یہ اس رپورٹ کی شہادت ہے جس کی تائید میں اس قدر شور کیا جا رہا ہے- یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ مخلوط انتخاب کی صورت میں اقلیتیں خطرہ میں ہوتی ہیں- حتیٰکہ وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ممکن ہے مدراس` بمبئی` برما اور وسطی صوبہ جات میں مسلمان مرکزیپارلیمنٹ میں ایک نمائندہ بھی نہ بھیج سکیں- اور یوپی اور بہار سے جہاں سے آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کے نمائندے بائیس کے قریب جانے چاہئیں وہ صرف دو تین نمائندے منتخب کرنے پر قادر ہو سکیں-
نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی
میں اس وقت مخلوط انتخاب کی خوبی یا مضرت پر بحث نہیں کر رہا- میں صرف اس امر پر بحث کر رہا ہوں کہ آیا نہرو کمیٹی کی رپورٹ کی تجاویز کے ذریعہ سے جس قدر نمائندگی مسلمان حاصل کرنا چاہتے تھے حاصل ہو گئی ہے یا کم سے کم جس قدر نمائندگی انہیں اس وقت حاصل ہے وہ قائم رکھی گئی ہے- اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ خود اسی رپورٹ کی بنا پر یہ امر ثابت ہے کہ زیادہ نمائندگی کا ملنا تو الگ رہا جو نمائندگی اس وقت مسلمانوں کو حاصل ہے` وہ بھی آئندہ انہیں حاصل نہ ہو سکے گی-
اس حقیقت کے سمجھنے کیلئے یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اس وقت لیجسلیٹو اسمبلی (LEGISLATIVEASSEMBLY) میں مسلمانوں کو ساڑھے انتیس فی صدی حق نیابت حاصل ہے- آئندہ ہندوستانی پارلیمنٹ (PARLIAMENT) کے ممبروں کی تعداد نہرو کمیٹی نے پانچ سو تجویز کی ہے- پس آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کو سوا سو نشستیں ملنی چاہئیں اور موجودہ حق جو انہیں حاصل ہے اس کی رو سے ڈیڑھ سو نشستیں ملنی چاہئیں- کلکتہ مسلم لیگ کا اصل مطالبہ ایک تہائی کا تھا- پس اس کی رو سے ایک سو چھیاسٹھ ممبریاں مسلمانوں کو ملنی چاہئیں اب میں دکھاتا ہوں کہ نہرو کمیٹی کے اندازہ کے مطابق مسلمانوں کو کس قدر ممبریاں ملیں گی-
نہرو کمیٹی اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ پنجاب اور بنگال سے مسلمان تیس اور چالیس کے درمیان نشستیں انتخاب کے ذریعہ سے حاصل کر سکیں گے- ہم فرض کر لیتے ہیں کہ جو بڑے سے بڑا اندازہ اس کا ہے` مسلمان خوش قسمتی سے اسی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے- اور سمجھ لیتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال سے مسلمانوں کو چالیس نشستیں حاصل ہو جائیں گی- دوسرے مسلمان صوبے سندھ` صوبہ سرحدی اور بلوچستان کے متعلق بھی ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہاں بھی ہندو مسلمانوں سے کوئی سیٹ چھین نہیں سکیں گے اور مسلمان اپنا حق پورا وصول کر لیں گے- چونکہ ان تینوں صوبوں کی آبادی اکاسٹھ لاکھ چھبیس ہزار ہے جس میں پانچفی صدی ہندو ہیں- پس کل مسلمان اٹھاون لاکھ باون ہزار ہوئے اور ان کا حق نیابت گیارہنشستیں ہوا- یوپی میں مسلمانوں کی تعداد اکہتر لاکھ ہے- بہار میں پینتیس لاکھ` آسام میں پندرہ لاکھ` مدراس میں پچیس لاکھ` وسطیصوبہ میں قریباً پانچ لاکھ` بمبئی میں قریباً بارہ لاکھ- )سندھ کے علاوہ( برما کا حال مجھے معلوم نہیں- مگر غالباً زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ ہوگی- )کیونکہ ۱۹۰۱ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ چھیالیس ہزار تھی( یہ کل آبادی ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہوتی ہے- اور اس پر مسلمانوں کو تینتیس ممبریوں کا حق حاصل ہوتا ہے- گویا سب کا مجموعہ چوراسی ممبریاں ہوتی ہیں یہ خیال کر کے کہ انڈمان۵۱~}~ کورگ اجمیر مار واڑ وغیرہ کو اس حساب میں شامل نہیں کیا گیا- اور بعض جگہ ہزاروں کی تعداد چھوڑ دی گئی ہے- تو ہم ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ کی جگہ ایک کروڑ پچہتر لاکھ فرض کر لیتے ہیں- اس صورت میں دو ممبر اور بڑھ جائیں گے اور چھیاسی مسلمان منتخب ہو جائیں گے- یہ اعداد اپنی حقیقت کو خود ظاہر کر رہے ہیں- مسلم لیگ کا مطالبہ ایک سو چھیاسٹھ نشستوں کا تھا- اس وقت گورنمنٹ نے جو حق دیا ہے اس کی رو سے ڈیڑھ سو نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں- آبادی کے لحاظ سے سوا سو انہیں ملنی چاہئیں- نہرو رپورٹ کا اندازہ ہے کہ ہمارے اصول کے مطابق چھیاسی نشستیں انہیں ملیں گی- خود ہی غور کر لو کہ یہ تغیر مسلمانوں کو کہاں سے کہاں لے جائے گا-
یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو رپورٹ ہندوئوں کی تیار کردہ ہے- جو اپنا پورا زور اس امر پر لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو مطمئن کریں- پس جب ان کا یہ اندازہ ہے تو دوسرے اندازے ان کے مقابلہ میں کہاں ٹھہر سکتے ہیں- یہ کہنا کہ مسلمان جن علاقوں میں کم ہیں- ان میں اپنے مقرر کردہ حق سے زائد لے لیں گے` کم سے کم نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں کی رائے کے خلاف ہے کیونکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ-:
>ان صوبوں میں کہ جہاں مسلمان سات فی صدی سے بھی کم ہیں- )بمبئی` مدراس` وسطی صوبہ برما وغیرہ( وہاں اس امر کا کوئی احتمال نہیں کہ ایک مسلمان بھی )مرکزی پارلیمنٹ کیلئے( منتخب ہو سکے<- ۵۲~}~
اور یوپی- اور بہار میں شاید ایک دو نشستیں حاصل کر لیں-
اب بھلا کوئی بھی عقلمند اس امر کو تسلیم کر سکتا ہے کہ بمبئی` مدراس` برما اور وسطی صوبہ کے سب کے سب مسلمان تو ایک مسلمان ممبر کا انتخاب بھی اپنے اپنے حلقہ سے نہ کر سکیں- لیکن محفوظ نشستوں پر جب ان کے ووٹ ختم ہو جائیں تو پھر وہ ہندوئوں سے بھی ان کا حق چھیننے پر تیار ہو جائیں- یہ ظاہر ہے کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کو محفوظ نشستیں انہی علاقوں میں دی جائیں گی جہاں ان کی آبادی زیادہ ہوگی اور ان کے اکثر ووٹ انہی ممبروں کے چننے پر خرچ ہو جائیں گے- اور شاید باقی صوبہ میں کل مسلمان ووٹوں میں سے دس پندرہ فی صدی ووٹ رہ جائیں تو کونسی عقل اس کو باور کر سکتی ہے کہ سب کے سب ووٹ تو اپنا جائز حق بھی لینے پر قادر نہ تھے- لیکن بچے کھچے ووٹ ہندوئوں کا بھی جو ترانوے فی صدی ہونگے حق چھین لیں گے- پس یہ امر ظاہر ہے کہ جن صوبہ جات میں مسلمان کم ہیں نہرو رپورٹ اندازہ کرتی ہے کہ وہاں مسلمان اپنے حق سے ہر گز زیادہ نیابت حاصل نہیں کر سکتے- باقی رہے پنجاب اور بنگال سو اس کا حال وہ خود ہی بتا چکے ہیں کہ تیس چالیس نشستیں مسلمانوں کو ملیں گی حالانکہ آبادی کے لحاظ سے ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں کو چوہتر نشستیں ملنی چاہئیں- خلاصہ یہ کہ نہرو رپورٹ کے اپنے بیان کے مطابق بھی بغیر محفوظ نشستوں کے مسلمانوں کا حق محفوظ نہیں ہے اور دنیا کی کوئی سیاست اس امر کو تسلیم نہ کرے گی کہ آٹھ کروڑ آبادی کو اس کے حق سے محروم کر دیا جائے-
دوسری دلیل
دوسری دلیل محفوظ نشستوں کی تائید میں یہ ہے کہ ہندوستان کی اقلیت اور اکثریت ایسی ہے کہ جس کی بنیاد مذہب پر ہے یورپ میں پارٹیوں کی بنیاد سیاست پر ہوتی ہے- اس لئے وہ تو روز بروز بدلتی رہتی ہیں- لیکن یہ اس قدر جلد نہیں بدل سکتیں- پس اگر ایک قوم حاکم ہوگی تو اس کے بدلنے کا احتمال ہی نہ ہوگا- اور خطرہ ہے کہ وہ اپنے لمبے اور مسلسل دور حکومت میں دوسری قوم کو نقصان پہنچا دے- مثلاً اس کی اقلیت کو اور بھی کم کر کے دکھائے- جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے کہ حکومت میں غالب پارٹی دوسری پارٹی کی تعداد کو مردم شماری میں کم کرکے دکھا دیتی ہے یا انتخاب کے ایسے قاعدے تجویز کر دیتی ہے کہ جن سے اس کی پارٹی کو فائدہ ہوتا ہے اور دوسری پارٹی کو نقصان ہوتا ہے- پس ان خطرات سے کمزور پارٹیوں کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ نشستوں کو محفوظ کر دیا جائے تا کہ ایک دوسرے سے خطرہ نہ رہے- اور یاد رکھو کہ جب تک دل ایک دوسرے سے خائف رہیں گے` ملک میں امن نہ ہوگا- پس محفوظ نشستوں کا طریق امن کے قیام کا ذریعہ ہے نہ کہ اس کے مخالف- جب مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے حقوق کے اتلاف کا خوف ہے تو کیا وجہ ہے کہ انہیں بنگال اور پنجاب میں بھی محفوظ نشستیں نہ دی جائیں- بہرحال وہ ان صوبوں میں اپنا حق مانگتے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں مانگتے- پس ان کا حق دینے سے انکار کرنا ان کے دلوں میں اور شبہ پیدا کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو رپورٹ خود تسلیم کر چکی ہے کہ مخلوط انتخاب سے قوموں کے حق مارے جاتے ہیں- اور اس لئے انگلستان کی مثال بھی پیش کی ہے کہ وہاں کنزرویٹوپارٹی (CONSERVATIVEPARTY) تھوڑے ووٹوں سے حاکم ہو گئی- اور لیبر پارٹی (LABOURPARTY) زیادہ ووٹ لیکر بھی شکست کھا گئی- یہی سوال مسلمانوں کا ہے کہ دو ہی بڑے صوبے ایسے ہیں- جن میں ان کی آبادی زیادہ ہے- اگر ان علاقوں میں یہی ہوتا رہا کہ تھوڑے ووٹوں والے جیتتے رہے اور زیادہ ووٹوں والے محکوم رہے تو ان کے لئے مشکل پیش آ جائے گی-
تیسری دلیل
تیسری دلیل پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے لئے محفوظ نشستوں کا حق مقرر کرنے کے بارہ میں یہ ہے کہ ہندوستان کے آٹھ بڑے صوبوں میں سے چھصوبے ایسے ہیں کہ جن میں ہندو زیادہ ہیں- اور لازماً وہاں تہذیب اور تمدن کا رنگ غالب ہوگا- ہندوئوں کی زیادتی وہاں ایسی ہے کہ مسلمان کبھی بھی حکومت پر قادر نہیں ہو سکتے- دو ہی صوبے ہیں کہ جن میں مسلمان زیادہ ہیں- لیکن ان میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی نہیں کہ یہ یقین کیا جائے کہ مسلمان ہی ہمیشہ حاکم ہونگے اور اپنی روایات کے مطابق ترقی کر سکیں گے- پس مسلمان چاہتے ہیں کہ ان دو صوبوں میں اس امر کا دروازہ کھلا رہے کہ وہ اپنی روایات کے مطابق نشوونما پائیں- اور اس کی صورت سوائے محفوظ نشستوں کے اور کوئی نظر نہیں آتی-
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب نشستیں محفوظ نہ ہوں تو ایک قوم اپنے حق سے زیادہ بھی لے سکتی ہے- مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ اپنے حق کو بھی کھو بیٹھے- اور جس وقت آبادی کا فرق اس قدر کم ہو جیسا کہ پنجاب اور بنگال میں ہے- اور اقلیت ایسی مضبوط ہو جیسے کہ ہندو ہیں تو خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے- نہرو رپورٹ والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب میں مسلمانوں کی اقلیت ہو جانے کا خوف ہے- وہ لکھتے ہیں کہ-:
>خواہ کچھ بھی ہو )پنجاب کے( مسلمان اس قدر نشستیں ضرور حاصل کر لیں گے کہ اگر ان کی اکثریت نہ ہو تو کم سے کم ایسی مضبوط اقلیت ضرور ہوگی جو اکثریت سے کچھ ہی کم ہوگی<- ۵۳~}~
مسلمان یہی کہتے ہیں کہ صرف دو صوبے ہیں جن میں ہماری اکثریت ہے- اور ہم اس خطرہ میں نہیں پڑنا چاہتے کہ ہماری اکثریت ایسی اقلیت ہو جائے کہ جو اکثریت سے کچھ ہی کم ہو-
مسلمانوں کے اس قسم کے خیالات کا نہرو رپورٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے اور اس میں لکھا ہیکہ-:
>مسلمان چونکہ سارے ہندوستان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیت ہیں وہ خوف کرتے ہیں- کہ اکثریت انہیں دق نہ کرے اور اس مشکل کو دور کرنے کیلئے انہوں نے ایک عجیب طریق ایجاد کیا ہے- اور وہ یہ کہ کم سے کم بعض حﷺ ہندوستان میں وہ غالب رہیں- ہم اس جگہ ان کے مطالبہ پر تنقید نہیں کرتے- اس موجودہ تفرقہ کے زمانہ میں ممکن ہے کہ مطالبہ کسی قدر جائز ہو- لیکن ہم یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان اصول سے دور جا پڑا ہے- جن پر ہم نے اپنی سکیم کی بنیاد رکھی ہے- جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بہترین حفاظت کا ذریعہ یہی ہے کہ ایک شخص خود حاکم بن بیٹھے<-۵۴~}~
کیا مسلمانوں کا مطالبہ خلاف انصاف ہے
نہرو کمیٹی کو یہ اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ کے یہ معنی ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت بغیر اس کے ہو ہی نہیں سکتی کہ انہیں ہی حاکم بنا دیا جائے- اور چونکہ یہ بات ظاہر نظر میں ہی خلاف انصاف نظر آتی ہے- اس لئے گویا نہرو کمیٹی نے نتیجہ کو ایک ہی بات میں محصور کر کے مسلمانوں کے مطالبہ کو خلاف انصاف ثابت کیا ہے- مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں نہرو کمیٹی نے مسلمانوں کے مطالبہ کے ایسے معنی لئے ہیں جو کم سے کم ان کے سمجھدار طبقہ کے ذہن میں نہیں ہیں- مجھے یاد ہے کہ شملہ اتحاد کانفرنس کے موقع پر بھی ایک ہندوڈیلیگیٹ (DELEGATE) نے جنہیں ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارا جاتا تھا` اور شاید اگر میں غلطی نہیں کرتا تو وہ ڈاکٹر نندلعل صاحب بیرسٹر تھے` یہ ذکر کیا تھا کہ یہ کیا تجویز ہوئی کہ سی- پی میں ایک مسلمان کو کوئی ہندو مارے اور پنجاب کا ایک مسلمان آکر اس کے بدلے میں میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دے- میں جہاں تک سمجھتا ہوں یہ مفہوم مسلمانوں کے دل میں اس تجویز کا کبھی نہ تھا- قومی جرائم کی سزا میں باقی افراد قوم خواہ وہ جرم میں شریک ہوں یا نہ ہوں- یقیناً شریک ہوتے ہیں لیکن اس طرح بلاحد بندی سزائیں دینا یا بدلے لینا خلاف عقل و انصاف ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اگر بعض مسلمان ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہوتے ہوئے دیکھ کر ہندو صاحبان سے یہ کہیں کہ-:
>آپ بھی ہندوستان کی آزادی چاہتے ہیں اور ہم بھی آزادی چاہتے ہیں- آپ جانتے ہیں کہ بغیر ہماری مدد کے آپ کو یہ آزادی حاصل نہیں ہو سکتی- لیکن آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے آپ کے تعلقات ایک لمبے عرصہ سے اچھے نہیں ہیں- ہمیں شکایت ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں ہمارے حقوق تلف کر دئے گئے ہیں- پس اس کا علاج یہ کیوں نہ کریں کہ چونکہ ہندوستان ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے- جس کے اندر کئی ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے بعض ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ یورپ کی آزاد حکومتوں کی زبانیں بھی اس قدر مختلف نہیں- اور چونکہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں آپ زیادہ ہیں اور بعض میں ہم- ہم اس امر پر راضی ہو جائیں کہ جس علاقہ میں کوئی قوم زیادہ ہے` اسے غالب عنصر حکومت میں مل جائے- اس طرح ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہو جائے گا- ہر اک قوم کہے گی کہ جب دوسری قوم نے مجھ پر اعتماد کیا ہے تو کیوں میں اس پر اعتبار نہ کروں- اور ٹھنڈے دل سے سب ہندوستان کی ترقی میں لگ جائیں<-
تو اس میں کونسی بات خلاف عقل یا خلاف انصاف ہے- اس تجویز کے یہ معنی کیوں کئے جائیں کہ سی- پی میں اگر کوئی ہندو مسلمان کو مار لے گا تو پنجاب کا مسلمان پنجاب کے ہندو کو مارے گا- یا اس کے الٹ ہوگا- اور اس طرح ڈر کر انصاف قائم ہو جائے گا- اصل مطالبہ کی غرض تو یہ ہے کہ ہندو ہر جگہ مسلمان کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے جہاں وہ عقلاً ماتحت نہیں رکھ سکتا- وہاں وہ ایسی تجویز کرتا ہے کہ اس کے غالب آنے کے لئے راستہ کھلا رہے- مسلمان کے دل میں قدرتاً اس پر شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت کا طریق یہ ہوگا کہ ہندوستان صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا تو کیوں مجھے بھی ان صوبوں میں آزاد نشوونما کا موقع نہیں دیا جاتا- جن میں کہ میری قوم زیادہ ہے- اور یہ شبہ اسے کسی نہ کسی مخفی سبب کی طرف توجہ دلاتا ہے اور گو یہ شبہ صحیح ہو یا نہ ہو مگر صلح کے راستہ میں ضرور روک ہوتا ہے-
ہندوئوں اور مسلمانوں کی اکثریت میں فرق
اس موقع پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے صرف اسلامی اکثریت والے صوبوں میں تو ہر قوم کے لئے ترقی کا راستہ کھلا نہیں رکھا بلکہ ہم نے تو ہر صوبہ میں یہ راستہ کھلا رکھا ہے کہ اکثریت پر اقلیت غالب آ سکے- مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا بنگال اور پنجاب کے سوا جن میں اسلامی اکثریت ہے- کوئی اور بڑا صوبہ ہے- جس میں معقول طور پر یہ امید کی جا سکے کہ اقلیت اور اکثریت عام طور پر آپس میں جگہ بدلتی رہے گی؟ اگر نہیں تو دونوں مثالوں میں مشابہت کیا ہوئی- پنجاب اور بنگال میں اقلیت ایسی طاقتور ہے کہ اگر وہ اپنے علم مال اور انتظام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے حکومت پر قائم نہ ہو تو کم سے کم وہ اکثریت کے ساتھ اپنی جگہ کا تبادلہ ضرور کرتی رہے گی- لیکن مدراس` بمبئی` سی-پی` یو-پی` بہار اور برما میں مسلمانوں کی اقلیت جو کہیں بھی پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں ہمیشہ ہی اقلیت رہے گی- اور حکومت میں اسے کبھی بھی دخل حاصل نہ ہوگا- پس برابری تبھی ہوتی ہے کہ پنجاب اور بنگال میں نشستیں محفوظ ہوں- اور اس طرح مسلمانوں کو بھی کہا جا سکے کہ جس طرح ہندوئوں نے تم پر ان صوبوں میں اعتبار کیا ہے` تم بھی دوسرے صوبوں میں ان پر اعتبار کرو- اور دل سے ہر ایک قسم کے شکوک کو نکال دو-
نہرو کمیٹی اس غالبیت کے اصول پر خاص زور دیتی ہے وہ لکھتی ہے کہ-:
>ہم ایک قوم کا دوسری پر دائمی طور پر تسلط نہیں دیکھ سکتے- ہم اس امر کو کلی طور پر روک نہیں سکتے- لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ ایک قوم کو دوسری پر تسلط کا موقع نہ دے دیا جائے- بلکہ ہر ایک فرد یا قوم کو اس سے روکا جائے کہ وہ دوسریفرد یا دوسری قوم کو تکلیف دے- اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے<- ۵۵~}~
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے اس تسلط کو روک دیا ہے- مدراس بہار وغیرہ میں نہرورپورٹ خود تسلیم کرتی ہے کہ ہندوئوں کو غلبہ رہے گا- اور مسلمانوں کی اقلیت وہاں >ناقابل التفات< ہے- اور اس میں لکھا ہے کہ-:
>یہ بات ہر ایک سمجھ لے گا کہ مسلمان اقلیتوں کے حق میں یہ رعایت کر کے )یعنی بہار` یو-پی` مدراس وغیرہ میں نشستیں محفوظ کر کے( ہم وہ نقائص پیدا نہیں کر رہے جو اکثریت کے لئے محفوظ نشستوں کا قاعدہ جاری کرنے کی صورت میں پیدا ہوتے تھے- کیونکہ ایک اقلیت )یعنی اس قسم کی چھوٹی اقلیت( بہرحال اقلیت ہی رہے گی- خواہ اس کے لئے بعض نشستیں محفوظ کر دی گئی ہوں- یا نہ کی گئی ہوں- اور کسی صورت میں بھی اکثریت پر غالب نہیں آ سکتی<- ۵۶~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی کے نزدیک بمبئی` مدراس` یو-پی وغیرہ صوبہ جات میں مسلمان ہمیشہ اقلیت ہی کی صورت میں رہیں گے- جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان صوبوں میں ہمیشہ حکومت ہندوئوں کے ہاتھ میں رہے گی اور اسی کا نام انہوں نے تسلط رکھا ہے- پس جب کہ اس قسم کا تسلط دوسرے صوبوں میں ہوگا اور اس سے کوئی نقص واقع نہ ہوگا` تو کیا وجہ ہے کہ ویسی ہی حالت پنجاب اور بنگال میں نہ پیدا کر دی جائے اگر ہمیشہ ایک قوم کا نیابت میں زیادہ ہونا برا ہے- تو وہ سب جگہ برا ہے- اور اگر اس کی بمبئی اور مدراس میں برداشت کی جا سکتی ہے تو یقیناً پنجاب اور بنگال میں بھی برداشت کی جا سکتی ہے-
مسلمانوں کا مطالبہ سمجھنے میں غلطی
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے مطالبہ کے سمجھنے میں نہرو کمیٹی نے ایک اور سختغلطی کھائی ہے اور وہ فرقہ وارانہ جذبات میں خود ایسے مبتلا رہے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے مطالبہ کو بھی اسی رنگ میں دیکھا ہے وہ غلطی یہ ہے کہ نہرو کمیٹی نے یہ سمجھا ہے کہ مسلمانوں کا گویا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اکیلے ہی پنجاب اور بنگال میں حکومت کریں- یہ مسلمانوں کا مطالبہ نہیں- ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جس طرح ہندوستان کے بعض دوسرے صوبوں میں جہاں ہندو زیادہ ہیں آئینی مجالس میں نیابت لازماً ہندوئوں کی زیادہ رہے گی اس طرح پنجاب اور بنگال میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں` نیابت کی زیادتی مسلمانوں کو حاصل ہونی چاہئے- اور چونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت اس قدر نہیں کہ وہ بغیر کسی خاص قانون کے اپنی اکثریت کو قائم رکھ سکیں` اس لئے یہ قانون نافذ کر دیا جائے کہ یہ حق ان کا دوسرے جائز یا ناجائز ذرائع سے توڑ نہیں دیا جائے گا-
ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ اس میں تسلط کا سوال نہیں ہے- تسلط کا سوال تب ہوتا اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے کہ ہندواکثریت والے صوبوں میں ہندوئوں کی حکومت ہو- اور مسلماناکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت ہو- لیکن ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ ہندو اکثریت والے صوبوں میں ہندوئوں کی نیابت جس طرح ہمیشہ زیادہ رہے گی- اسی طرح مسلمان اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی نیابت زیادہ رہے- اور نیابت کی زیادتی کے یہ معنی نہیں کہ حکومت بھی خالص طور پر ان کے ہاتھ میں رہے- اسی وقت دیکھ لو کہ جداگانہ انتخاب کی موجودگی میں جس کے ذمہ دنیا کے سب عیب لگائے جاتے ہیں` پنجاب میں خالص اسلامی پارٹی کوئی نہیں ہے- ایک زمیندار پارٹی ہے جس میں مسلمان اور ہندو شامل ہیں- اور ایک خلافتی پارٹی ہے جو سوراجیوں سے ملکر کام کرتی ہے- پس پنجاب اور بنگال میں صرف چھ فیصدی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہندو باسانی حکومت میں ایک بڑا حصہ لے سکتے ہیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمان اور ہندو آپس میں ملیں گے کیونکر- جب کہ مذہبی نیابت کو جاری رکھا جائے گا` کیونکر مذہب سیاست کا نام نہیں- مذہب کا تعلق تمدن اور تہذیب سے ہے- سیاسی معاملات میں مختلف مذاہب کے لوگ خود مل جاتے ہیں- اگر اس وقت ایسے شدید اختلاف کے باوجود مل جاتے ہیں تو آئندہ کیوں نہ ملیں گے- کونسی عقل یہ تجویز کر سکتی ہے کہ مسلمان سب کے سب سیاست میں ایک خیال کے رہیں گے- اور اگر وہ ایک خیال کے نہیں رہیں گے تو پارٹیوں کے بننے پر یقیناً کوئی خالص اسلامی پارٹی پنجاب اور بنگال میں حکومت نہیں کر سکے گی- بلکہ حکومت کیلئے ہندو عنصر کی شمولیت ضروری ہوگی- پس ڈومینیشن )NOI(DOMINAT کا سوال ہر گز یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا- اور نہرو کمیٹی نے فرقہ وارانہ خیالات سے شدید تاثر کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف وہ بات منسوب کر دی ہے- جو ان کے مطالبہ میں شامل نہیں بلکہ خود نہروکمیٹی کے ممبروں کے دماغ سے نکلی ہے- حق یہ ہے کہ تسلط تو ہندو اکثریت والے صوبوں میں ہو سکتا ہے اور ہوگا- کیونکہ وہاں اکثریت اس قدر زیادہ ہے کہ ہندوئوں کی کئی پارٹیاں ہو کر بھی غالب گمان ہے کہ کوئی خالص ہندو پارٹی ہی حکومت کیا کرے گی- ہاں صوبہ سرحدی اور سندھ وغیرہ میں مسلمانوں کو بھی یہ موقع حاصل ہوگا مگر وہ صوبے بالکل چھوٹے ہیں اور ہندوستان کے عام معاملات پر کوئی زیادہ اثر نہیں ڈال سکتے-
چوتھی دلیل
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کا نیابت کی اکثریت پر زور دینا اور بہت سے معقول دلائل سے بھی ضروری ثابت ہوتا ہے- میں یہ تو ثابت کر چکا ہوں کہ بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی اس قدر اکثریت نہیں کہ اس کے حقوق محفوظ ہو جانے پر بھی وہ اکیلے حکومت کر سکیں- بلکہ ان دونوں صوبوں میں یقیناً ایسی پارٹیاں حکومت کریں گی جن میں ایک حد تک ہندو عنصر شامل ہوگا- مگر باوجود اس کے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چونکہ مسلمانوں کو نیابت میں کثرت حاصل ہوگی` جو حکومت بھی ان صوبوں میں قائم ہوگی اس میں ایک کافی حصہ اسلامی عنصر کا ہوگا- جسے ان صوبوں کی آئندہحکومت کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکے گی- اس امر کی وضاحت کے بعد اب یہ سوچنا چاہئے کہ فرقہ وارانہ خیالات کو جانے دو` قومی نقطہ نگاہ سے کیا یہ بات ملک کے لئے مفید ہو سکتی ہے کہ ملک کے اداری (ADMINISTRATIVE) حصہ میں مسلمانوں کی آواز بالکل نہ ہو یا ایسی کم ہو کہ نہ ہونے کے برابر ہو- کونسا سیاست کا طالبعلم نہیں جانتا کہ عمدہ حکومت عمدہ قانونوں پر ہی نہیں چلتی بلکہ قوانین کے اچھے استعمال کی بھی ویسی ہی ضرورت ہوتی ہے- اب یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان جس کی حکومت صوبوں میں تقسیم ہو گی- جس طرح اس کے لئے ایک مرکزی مجلس قوانین کی ضرورت ہوگی- اسی طرح اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اس کی صوبہ جات کی حکومتیں اداری ضرورتوں کیلئے وقتا فوقتا مشورے کیا کریں- نہرو کمیٹی کے رو سے بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت پنجاب و بنگال میں مسلمان ہی حاکم ہوں اور کسی وقت ہندو ہی حاکم ہوں- اب سوال یہ ہے کہ جس وقت ہندو ہی حاکم ہونگے- اس وقت اگزیکٹو (EXECUTIVE) کے مشوروں میں مسلمانوں کی آواز کیا ہوگی- یقیناً کوئی تسلیم نہیں کر سکتا کہ سرحد اور سندھ کے چھوٹے چھوٹے صوبے اس ضرورت کو پورا کر سکیں گے پس قومی نقطہ نگاہ سے بھی یہ ضروری ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے لئے ایسا قانون بنایا جائے کہ یہاں کی ہر حکومت میں اسلامی عنصر موجود ہے- اور اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ان صوبوں میں مسلمانوں کا حق نیابت محفوظ کر دیا جائے-
پانچویں دلیل
میں اس اہم معاملہ کے متعلق ایک اور دلیل بھی دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ نہرو کمیٹی نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ ہر قوم کی تہذیب جداگانہ ہوتی ہے- اور ہر قوم اپنی روایات کے مطابق ترقی کرنے کی خواہش رکھتی ہے- اور باوجود ایک ملک میں رہنے اور ایک سیاست میں پروئے جانے کے پھر آپس میں تہذیب کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے- نہرورپورٹ میں لکھا ہے-
>حفاظت کا احساس پیدا کرنے کے ذرائع صرف یہ ہیں کہ حفاظتی تدابیر اور کفالتوں کے ساتھ بہ حد ممکن کسی قوم کو تہذیبی آزادی عطا کی جائے<- ۵۷~}~
پس معلوم ہوا کہ نہرو کمیٹی کو تسلیم ہے کہ مختلف اقوام کی تہذیب جداگانہ ہوتی ہے- اور اس کی حفاظت کا مطالبہ غیر معقول نہیں- اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو علاوہ اطمینان اور اعتبار کی صورت پیدا کرنے کے اداری محکموں میں اپنی آواز کی نیابت کے حصول کے علاوہ صوبہ جات میں اپنی تعداد کے مطابق نیابت کے حصول کی خواہش کے یہ بھی خواہش ہے کہ ان دو صوبوں میں جن میں ان کی اکثریت ہے` وہ اسلامی روایات کے مطابق اپنی مخصوص تہذیب کو نشوونما دیں- مجھے اس امر پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہر قوم جب ترقی کرتی ہے تو چند اصولی مسائل پر اس کی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے- اور وہ اپنی روایات اور ترقی کی راہوں میں دوسری اقوام سے ایک جداگانہ صورت اختیار کر لیتی ہے- اسے انگریزی میں کلچر (CULTURE) کہتے ہیں- اور اردو میں تہذیب ہی کہہ سکتے ہیں- گو تہذیب کا لفظ اس جگہ سویلزیشن (CIVILIZATION) سے کسی قدر جداگانہ معنوں میں استعمال ہوگا- یہ کلچر قوموں کو سیاسی آزادی سے بھی زیادہ مرغوب ہوتا ہے- اور جس قدر وہ اس کی حفاظت کے لئے لڑتی ہیں` اتنی سیاسیات کے لئے بھی نہیں لڑتیں- یہ کلچر ایک ہیولی کی سی چیز ہے اسے مادی اشیاء کی طرح معین بھی نہیں کیا جا سکتا- اور اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا- ہر قوم اپنے مذہب کے سبب سے یا اپنے گردو پیش کے حالات کے سبب سے ایک خاص قسم کا دماغی میلان پیدا کر لیتی ہے- اور اس کی تمام ترقی اسی لائن پر ہوتی ہے اس کا فلسفہ اس کا تمدن` اس کی علمیترقی` اس کی اقتصادی ترقی اسی دائرہ میں چکر کھاتی ہوئی اپنے وجود کو نمایاں کرتی چلی جاتی ہے- گویا وہ ذہنی زمین ہے- جس پر اگنے والا ہر علم پودوں کی طرح ایک خاص رنگ اختیار کر لیتا ہے- جس طرح مختلف زمینوں میں مختلف پھل پھول ایک امتیازی صورت پیدا کر لیتے ہیں- اسی طرح مختلف کلچرز کے ماتحت نشوونما پانیوالے ایک خاص رنگ اور ادا پیدا کر لیتے ہیں- اور قوموں کو اپنے کلچر سے ایک ایسی طبعی مناسبت ہو جاتی ہے کہ اس سے باہر جا کر وہ اسی طرح مرجھا جاتی ہیں جس طرح کہ ایک خاص ملک کا درخت دوسرے ملک کی زمین میں لگایا جاکر- تمام علوم ایک ہی ہیں لیکن انگریزوں اور فرانسیسیوں اور روسیوں اور جرمنوں کو دیکھو- ان میں سے ہر ایک ان کی طرف ایک خاص امتیازی رنگ میں متوجہ ہوتا ہے- ہندوستانیوں کو بھی سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ انگریزوں نے مغربیت سے ہمارے مشرقی اخلاق کو رنگ کر ہمیں کہیں کا نہیں رکھا- غرض یہ تہذیب مذہب کے بعد ہر اک شے سے زیادہ پیاری ہوتی ہے- اور سچ تو یہ ہے کہ کلچر ہر قوم کے جسم کے لئے زندگی کے سانس کا کام دیتی ہے- جس قوم کا کوئی مخصوص کلچر نہیں اس کی کوئی زندگی ہی نہیں- وہ آج نہیں تو کل دوسری اقوام میں جذب ہو کر اپنے وجود کو کھو بیٹھے گی` کیونکہ وہ مفید وجود نہیں- جس طرح مختلف لیباریٹریز میں بیٹھے مختلف سائنس دان اپنے اپنے رنگ میں علوم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں- اسی طرح مختلف اقوام اپنی کلچر کے دائرہ میں انسانی حیات کے فلسفہ کے تجربے کر کے دنیا کو نفع پہنچاتے ہوئے- اور اس کے نقطہ نگاہ کو پورا کرتے ہوئے اپنی کلچر کو بھی ترقی دے رہی ہیں- جو قوم اس مشترک خزانہ کے بڑھانے میں حصہ نہیں لیتی` وہ اخلاقاً تو مردہ ہی ہوتی ہے مادی طور پر بھی آخر مر کر ہی رہتی ہے-
ہندو صاحبان کو جو آج حکومت کا خیال ہے وہ بھی تو اسی کلچر کی وجہ سے ہے >اچھی حکومت اپنی حکومت کا قائم مقام نہیں ہو سکتی<- کا مقولہ بھی درحقیقت اسی صداقت پر مشتمل ہے- کیونکہ اچھی حکومت مال اور آرام کو تو بڑھا دے گی` مگر وہ کسی قوم کی کلچر کو نہیں بڑھا سکتی` بلکہ اسے تباہ کر دے گی- کلچر کی ترقی کا موجب صرف اپنی حکومت ہی ہوتی ہے- پس جس طرح ہندو صاحبان اپنی پرانی تاریخ کو پڑھ کر بے چین ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ زمانہ حال کی مناسبت میں وہ اپنی مخصوص کلچر کو نشوونما دیں اور دنیا کے تمدن اور تہذیب میں زیادتی کا موجب ہوں- اسی طرح وہ سمجھ لیں کہ مسلمانوں کا دل بھی ہے- وہ بھی ایک شاندار روایت رکھتے ہیں- وہ بھی ایسے آباء کی اولاد ہیں جن میں اقدام کا مادہ انتہا درجہ کو پہنچا ہوا تھا- ان کی بھی امنگیں ہیں وہ ہندوستان سے علیحدہ نہیں وہ ہندوستانی ہیں- اور کسی سے کم ہندوستانی نہیں لیکن اس میں کیا شک ہے کہ جہاں ہندو عنصر زیادہ ہوگا وہاں حکومت ہندو کلچر اور ہندو فلسفہ پر نشوونما پائے گی- پس وہ بھی چاہتے ہیں کہ بعض صوبوں میں جن میں وہ زیادہ ہیں` انہیں بھی اس امر کا موقع ملے کہ وہ اسلامی کلچر اور تہذیب کے مطابق نشوونما پائیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے احکام کو وہ جاری کریں- ایسی مخلوط حکومتوں میں اپنے مذہب کے احکام جاری کرنا درست نہیں نہ ہندوئوں کے لئے نہ مسلمانوں کیلئے- مگر اس کے علاوہ زندگی کے ہزاروں شعبے ہیں جن میں قطع نظر مذہب کے انسان اپنے مخصوص قومی فلسفہ کے مطابق ترقی کرنی چاہتا ہے- اور دنیوی ترقی کے متعلق جو اس کی قوم کی سکیم ہوتی ہے` اس کی پنیری لگاتا ہے اور پھر اس سے باغ تیار کرتا ہے- پس اس چیز کی جائز امنگ اور خواہش مسلمانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی دو بڑے صوبوں میں ایسا موقع پائیں کہ ایک عرصہ تک بلاوقفہ کے وہ اپنے مخصوص قومیاصول پر ترقی کرنے کی راہ پا سکیں- کیا یہ مطالبہ ناجائز ہے- کیا یہ خواہش غیر طبعی ہے- یا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ آرزو قومیت کی روح کے منافی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں- آزاد کلچر متحدہقومیت کو ہر گز نقصان نہیں پہنچاتی- جس طرح ہندوستان کی ڈومینین (DOMINION) حکومت انگلستان کو نقصان نہیں پہنچائے گی- باوجود اس کے کہ وہ ایشیائی کلچر کے نشوونما دینے میں ایک بہت بڑی لیبارٹری (LABORATORY) ثابت ہوگی- افسوس ہے کہ نہرو رپورٹ خواہ اور کچھ بھی ہو` مسلمانوں کی اس خواہش کا علاج مہیا نہیں کرتی- وہ خواہ اس کا دروازہ کھولتی ہے کہ کبھی مسلمان پنجاب اور بنگال میں ہندوئوں پر بالکل غالب آ جائیں مگر اس کا انتظام نہیں کرتی کہ انہیں ایک عرصہ تک اس امر کا موقع ملے کہ اپنی روایات کے مطابق عمل کر کے دنیا کی تہذیب کے مجموعی خزانہ میں اپنا حصہ بھی شامل کر سکیں- کیونکہ کلچر بغیر متواتر موقع پانے کے اپنے آثار ظاہر نہیں کرتی اور نہرو سکیم کے ماتحت پنجاب اور بنگال میں ایسے مواقع آ سکتے ہیں کہ اسلامی عنصر حکومت سے نکل ہی جائے-
چھٹی دلیل
پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے حق کے بقدر آبادی محفوظ رہنے کے حق میں یہ بھی ایک دلیل ہے کہ ہر قوم کی ترقی کے لئے اس کے افراد کا تمام کاموں سے واقف ہونا بھی ضروری ہے یہ ظاہر ہے کہ ہندو صوبوں میں مسلمانوں کی اعلیٰ سیاسی عہدوں کے لئے تربیت نہیں ہو سکتی- ان کے لئے پنجاب اور بنگال ہی رہ جائیں گے کہ یہی دو اہم صوبے مسلمانوں کی اکثریت کے ہیں- اگر ان میں بھی ایسی حکومت آتی رہی جو خالص ہندو ہو- یا اس میں مسلمانوں کا عنصر بہت کم ہو تو مسلمان کیلئے ان اعلیٰ کاموں کے لئے تربیت کا دروازہ بالکل ہی بند ہو جائے گا- جس سے انہیں سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے صوبہ سرحدی اور سندھ اور بلوچستان کو پیش نہیں کیا جا سکتا- کیونکہ بلوچستان کی آبادی تو سوا چار لاکھ ہے اور گویا ایک میونسپل کمیٹی کے برابر کی حیثیت ہے- صوبہ سرحدی اور سندھ بھی آبادی کے لحاظ سے اور مالی طورپر نہایت کمزور ہیں- پس ان صوبوں میں اس پیمانہ پر حکومت کو وسعت حاصل نہ ہوگی- جو بڑے صوبوں میں اور مختلف لیاقتوں کے اپنی قدر کے مطابق نشوونما پانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کو کم سے کم اس قدر عرصہ تک کہ وہ اپنی گذشتہ کمزوری پوری کر لیں- متواترتربیت کا موقع دیا جائے- اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ پنجاب اور بنگال میں ان کے حقوق محفوظ ہوں- اگر یہ انتظام نہ ہوا تو مسلمان کبھی بھی حکومت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہونگے اور ملک کے لئے قوت بننے کی بجائے اس پر ایک بار بن جائیں گے-
محفوظ حقوق کے خلاف نہرو رپورٹ کے دلائل
ان دلائل کے بیان کرنے کے بعد جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق پنجاب اور بنگال میں بھی ویسے ہی محفوظ ہونے چاہئیں جیسے کہ ان صوبوں میں جن میں مسلمان بہت کم ہیں- ہندوئوں کے حقوق بوجہ ان کی عظیم الشان اکثریت کے محفوظ ہونگے- اب میں نہرو رپورٹ کے ان دلائل کو توڑتا ہوں جو محفوظ حقوق کے خلاف دئے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں-
۱- میجارٹی کے حقوق کی حفاظت اور نشستوں کے محفوظ کر دینے سے فرقہ وارانہ منافرت ترقی کرتی ہے- کیونکہ انتخابی نقطہ نگاہ ایک غیر حقیقی سوال ہوتا ہے- )یعنی مذہب کا اختلاف(
۲- مخلوط انتخاب کے ساتھ اگر اکثریت کی نشستوں کو محفوظ کر دیا جائے تو اتفاق کا پیدا ہونا مشکل ہے کیونکہ اکثریت کو یقین ہو جائے گا کہ وہ اقلیت کے ووٹوں کی محتاج نہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرے گی-
۳- حکومت مسئولی (RESPONSIBLEGOVERNMENT)) اسے کہتے ہیں جس میں حکومت تنفیذی ایگزیکٹو (EXECUTIVE) مجلس واضع قوانین کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے- اور مجلس واضع قوانین جماعت منتخبین (ELECTORATE) کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اگر حکومت تنفیذی کے کل ممبر جن کی پشت پر اکثرت ہو محفوظ حقوق کی وجہ سے باختیار ہوئے ہوں- نہ کہ منتخبین کے بے قید انتخاب کے ماتحت- تو اس صورت میں نہ تو جمہور کی نیابت حاصل ہوئی اور نہ کوئی مسئول حکومت قائم ہوئی-
۴- پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آبادی اس طرح تقسیم شدہ ہے کہ محفوظ نشستوں کی انہیں ضرورت نہیں- وہ اپنی تعداد کے مطابق اپنے حقوق اچھی طرح حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ-
اس کے ساتھ ہی میں اس دلیل کو بھی شامل کر لیتا ہوں جو ہمارے صوبہ کے ایک قابلقدر ممبر کونسل نے دی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں باوجود اس کے کہ مسلمان ووٹر کم تھے وہ بہت زیادہ ممبریاں لے گئے ہیں- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو آزاد مقابلہ میں زیادہ فائدہ رہے گا-
نہرو کمیٹی کی پہلی دلیل کا رد
کمیٹی کی پہلی دلیل یہ ہے کہ چونکہ محفوظ نشستوں میں انتخابینقطہ ایک غیر حقیقی سوال یعنی مذہب ہوتا ہے` اس لئے فرقہ وارانہ منافرت بڑھتی ہے میں اس دلیل کے سمجھنے سے قاصر ہوں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ جس جگہ نشست ایک خاص قوم کے لئے محفوظ ہوگی` وہاں انتخاب کا مرکز قومی سوال کیونکر ہوگا- کیونکہ اس صورت میں تو قومی سوال پہلے ہی حل ہو چکا ہوگا- قانون فیصلہ کر چکا ہوگا کہ فلاں جگہ سے مسلمان ممبر ہی کھڑا ہو سکتا ہے- پس یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ممبر ایسے حلقہ سے کھڑا ہو کر یہ کہے کہ مجھے ووٹ دو کیونکہ میں مسلمان ہوں- یہ سوال تو غیر محفوظ نشستوں میں پیدا ہو سکتا ہے- کیونکہ ایسے حلقوں میں ممکن ہے کہ ایک ہندو امیدوار ہو اور ایک مسلمان- اور ہندو اپنی قوم کو یہ کہے کہ میں ہندو ہوں` مجھے ووٹ دو- اور مسلمان کہے کہ میں مسلمان ہوں مجھے ووٹ دو- لیکن جس جگہ قانون مذہب کا فیصلہ کر چکا ہو` وہاں تو یہ سوال اٹھ ہی نہیں سکتا- وہاں تو سوال یا فرقہ کا اٹھ سکتا ہے کہ امیدوار سنی ہے یا شیعہ یا پھر سیاسی نقطہ نگاہ کا سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مختلف امیدواروں کے سیاسی خیالات کیا ہیں- اور یہ یقینی بات ہے کہ محفوظنشست کی صورت میں اسی سوال کو انتخاب میں اہمیت حاصل ہوگی- اور اگر بجائے جداگانہانتخاب کے مخلوط انتخاب ہو تو اس صورت میں اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ سوائے سیاسی سوال کے کوئی اور سوال نہ اٹھے گا کیونکہ مختلف ممبروں کو ہندوئوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہوگی- پس وہ مجبور ہونگے کہ مذہبی سوال کو درمیان میں نہ آنے دیں تا کہ ان کا مدمقابل دوسری قوموں کے ووٹوں سے فتح نہ لے-
دوسرے یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ انتخابوں میں ایک ہی امیدوار نہیں ہوا کرتا` بلکہ کئی امیدوار ہوتے ہیں- پس یہ خیال کرنا کہ جو کھڑا ہوگا` وہ اسلامی امیدوار ہونے کی صورت میں کھڑا ہوگا اور اس طرح قومی منافرت بڑھے گی` درست نہیں- کیونکہ ایک ہی وقت میں کئی امیدوار کھڑے ہو کر سب یہی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ مسلمان ہیں- اس لئے انہیں ووٹ دیا جائے- انہیں دوسرے امور پیش کرنے ہونگے اور وہ سیاسی ہونگے- اور اگر یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کہ کوئی امیدوار بھی ایسا نہ ہو- جو ہندو نقطہ نگاہ کے ساتھ متفق ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس جگہ ایک شخص بھی مسلمانوں میں سے ایسا نہ ہوگا- جو سیاسی خیالات میں وہاں کے ہندوئوں سے متفق ہو تو یہ کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہاں سے اگر ہندو کھڑا ہو تو اسے مسلمان جائز طور پر ووٹ دے دیں گے- میں نے جائز کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ ووٹنگ مخفی ہوتی ہے- اس لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ ناجائز ذرائع سے مسلمانوں سے ووٹ لے لئے جائیں اور وہ قومی غداری کرنے پر اس لئے تیار ہو جائیں کہ ان کا راز فاش نہ ہوگا- لیکن ایسے ووٹوں سے چنا ہوا شخص ملک کا نمائندہ نہیں ہوگا` بلکہ ہوا و ہوس کا نمائندہ ہوگا-
دوسری دلیل کا رد
۱- دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر اکثریت کی نشستیں محفوظ کر دی جائیں تو منافرت قومی دور نہ ہوگی- کیونکہ اکثریت اقلیت کی محتاج نہیں رہے گی-
اس کا ایک تو یہ جواب ہے کہ اسی حالت کو ایک اور نگاہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اس طرح قوموں کا خوف چونکہ دور ہو جائے گا- اور ایک دوسرے سے حق تلفی کا خطرہ جاتا رہے گا اس لئے تعلقات زیادہ درست ہو جائیں گے-
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ووٹوں کی محتاج قوم نہیں ہوا کرتی بلکہ افراد ہوتے ہیں- کسی جگہ کی ممبری کے لئے زید اور بکر جو دو شخص کھڑے ہونگے` ان کو اس بات سے کوئی اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ نے مسلمان کے لئے سیٹ محفوظ کر دی ہے- گورنمنٹ مسلمان کے لئے سیٹ محفوظ کرے گی نہ کہ کسی شخص کیلئے- پس ہر امیدوار اپنی تائید کے لئے ایک ایک ووٹ کا محتاج ہوگا- اور لازماً اپنے حریف پر برتری حاصل کرنے کیلئے ہر اک ممبر کی مدد حاصل کرنیکی کوشش کرے گا- پس یہ دعویٰ بھی بالکل باطل ہے- کہ محفوظ نشستوں کی وجہ سے اکثریت اقلیت کی محتاج نہ رہے گی- احتیاج امیدوارں کو ہوتی ہے نہ کہ قوم کو اور ان کی احتیاج ہر صورت میں قائم رہے گی- اور ان کی احتیاج کے ساتھ ان کے ہمدردوں کو بھی احتیاج ہوگی- اور اس طرح بالواسطہ طور پر ساری اکثریت ہی کسی نہ کسی امیدوار کی کامیابی کی خاطر اقلیت کی محتاج ہو جائے گی- پس محفوظ نشستیں منافرت قومی کے دور کرنے کے راستہ میں ہر گز روک نہیں ہیں-
تیسری دلیل کا رد
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر محفوظ نشستیں کر دی جائیں تو رسپانسیبلگورنمنٹ (RESPONSIBLEGOVERNMENT) کا اصول باطل ہو جاتا ہے- کیونکہ اس صورت میں ہم منتخب کرنیوالی جماعتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا نمائندہ فلاں دائرہ سے چنیں اور اس کے باہر نہ جائیں- تو گویا اکثریت بوجہ ایک قانونی حد بندی کے حکومت کرتی ہے نہ کہ آزاد انتخاب کی وجہ سے- اور اگر یہ بات حاصل ہوئی تو نیابتی حکومت کی اصل غرض ہی فوت ہو گئی-
میرے نزدیک یہ سوال سیاسی طور پر بہت اہم ہے- اگر نتیجہ وہی پیدا ہوتا ہو جو کمیشن نے نکالا ہے تو یقیناً یہ بحث یہیں ختم ہو جاتی ہے- مگر میرے نزدیک نتیجہ نکالنے میں کمیشن نے غلطی کی ہے- کیونکہ اول تو وہی سوال ہے کہ کیا جس خیال کی نمائندگی ایک ہندو کر سکتا تھا اسی خیال کی نمائندگی کرنے والا کوئی مسلمان نہیں مل سکتا- اگر نہیں تو معلوم ہوا کہ ہئیت انتخابی اس خیال کے مخالف ہے- اور اگر انتخاب کرنے والے ایک خیال کے مخالف ہیں تو ہندو کے کھڑا ہونے سے نیابت زیادہ کس طرح ہو جائے گی جب تک کہ ناجائز وسائل استعمال نہ کئے گئے ہوں- اور ناجائز وسائل بہرحال ناجائز ہیں-
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں کیا شک ہے کہ مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے انتخاب کرنے والوں کے حق کو محدود کر دیا جاتا ہے- مثلاً خود نہرو کمیٹی نے بعض صوبوں میں مسلمان اقلیتوں اور بعض میں ہندو اقلیتوں کے حق میں حقوق محفوظ کر کے اکثریت کے انتخاب کے حق کو محدود کر دیاہے-
اسی طرح مثلاً ممبروں کیلئے عمر کی نہرو کمیٹی نے شرط لگائی ہے کہ اکیس سالہ آدمی ووٹ دے سکتا ہے- اور چونکہ کوئی اور قید موجود نہیں` معلوم ہوا کہ اسی عمر کا آدمی ممبر منتخب ہو سکے گا- یہ بھی ایک قید ہے اکیس سال سے پہلے بھی کئی لوگ صاحب عقل و فہم ہو جاتے ہیں- پھر انتخاب کرنے والوں کیلئے یہ قید کیوں لگائی گئی ہے-
اسی طرح گو مجھے سکیم میں نظر نہیں آیا لیکن جیسا کہ دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے` ہندوستانیقومیت کی بھی ممبر کیلئے شرط ہوگی- کیونکہ سب مہذب ملکوں میں یہ قید موجود ہے- لیکن کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسا خیر خواہ شخص انتخاب کرنے والوں کو مل جائے جو باوجود غیرہندوستانی ہونے کے ہندوستانیوں کا خیر خواہ ہو یا وہ ہندوستانی بننا تو چاہتا ہو لیکن قواعد اس کے ہندوستانی بننے میں کچھ عرصہ کیلئے روک ہوں-
غرض انتخاب کے دائرہ کو اب بھی نہرو کمیٹی نے محدود کیا ہے- اور قانون اساسی کے مکمل ہونے پر اور بھی یہ دائرہ محدود کرنا پڑے گا- پس معلوم ہوا کہ حد بندی کر دینا نیابتیگورنمنٹ کے اصول کے مخالف نہیں` بلکہ ناجائز حد بندی کرنا اصول نیابت کے خلاف ہے اور جب کہ ایک صوبہ کی اکثریت ایک حق کا مطالبہ کرتی ہے اور مطالبہ بھی وہ جس میں دوسرے کے حق کو تلف نہیں کیا جاتا تو ایسی حد بندی کو ناجائز کیونکر کہا جا سکتا ہے اور جب وہ ناجائز نہیں تو وہ نیابت کے قانون کو تلف کرنے والی بھی نہیں- زیادہ سے زیادہ جو کچھ اس طریق انتخاب کے متعلق کہا جا سکتا ہے- وہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ملک کے سب حصے مل کر اپنے نمائندے منتخب کریں- ملک کے مختلف حصے اپنے اپنے حلقوں میں انتخاب کریں گے- پس نمائندگی موجود ہے` صرف اس کی شکل بدلی ہے- اور شکلوں کے لحاظ سے تو دنیا کی تمام مہذب حکومتوں کے انتخاب کے طریق کا آپس میں اختلاف ہے-
چوتھی دلیل کا رد
اب رہی چوتھی اور آخری دلیل اور شاید محفوظ نشستوں کے مخالفین کے نزدیک سب سے زبردست دلیل- لیکن ہر اک عقلمند محسوس کرے گا کہ یہ دلیل نہیں ہے بلکہ احساسات سے ملا عبہ ہے- اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ملاعبہ میں نہرو رپورٹ کے مصنف بھی خوب دل کھول کر شامل ہوئے ہیں- اور یہ نہیں خیال کیا کہ ان کی یہ ترغیب اس کے بالکل الٹ نتیجہ پیدا کرے گی جو انہوں نے پیدا کرنا چاہا ہے-
یہ دلیل جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں` یہ ہے کہ محفوظ نشستوں سے تو مسلمانوں کو صرف آبادی کے مطابق حق ملیں گے- لیکن اگر محفوظ نشستیں نہ ہوں تو انہیں اور بھی زیادہ حق مل جائیں گے- پس انہیں اس پر ناراض نہیں ہونا چاہئے- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پنجاب اور بنگال میں اس طرح تقسیم ہے کہ مخلوط انتخاب کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچتا ہے-
نہرو کمیٹی اس نظریہ پر اس قدر خوش ہے کہ اس نے باربار مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ دلائی ہے- وہ صفحہ ۴۸ پر لکھتے ہیں-:
>ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ )باوجود محفوظ نشستوں کے نہ ہونے کے( اس فوقیت نے بنگال کے ہندوئوں کو ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں کوئی نفع نہیں دیا- اور ہمیں یقین ہے کہ کونسلوں کے انتخاب کا نتیجہ اس سے بھی زیادہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا<-
پھر لکھتے ہیں-:
>مگر ہندو نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہم اس امر کا یقین کر سکتے ہیں کہ مسلمان اکثریت کیلئے پنجاب اور بنگال میں نشستوں کا محفوظ کرنا نشستوں کے محفوظ نہ کرنے کی نسبت عملی طور پر ہندوئوں کو اور غالباً سکھوں کو بھی نفع پہنچا سکتا ہے- وہ اعداد اور واقعات جو ہم بیان کر چکے ہیں- ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی حالت ایسی مضبوط ہے کہ وہ ایسے مخلوط انتخاب میں جس کے ساتھ نشستیں محفوظ نہ ہوں اپنی آبادی کی نسبت سے زیادہ ممبریاں حاصل کر لیں گے اور اس طرح بالکل ممکن ہے کہ ہندو اور سکھ اپنی آبادی کی نسبت سے بھی کم نیابت حاصل کریں- یہ ایک ایسا نظریہ نہیں جو صرف ممکن ہے` بلکہ غالباً ایسا ہی ہوگا لیکن ایسے وقوعہ کو کسی طرح روکا نہیں جا سکتا<- ۵۸~}~
اسی طرح بنگال کی نسبت لکھا ہے-:
>ہندو اقلیت گو بہت بڑی اقلیت ہے- بہت ہی غالب گمان ہے کہ اعداد کے لحاظ سے ایک بے قید انتخاب میں زیادہ نقصان اٹھائے گی- بہ نسبت اس انتخاب کے کہ جس میں محفوظ نشستوں کی قید لگی ہوئی ہو<- ۵۹~}~
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نہرو رپورٹ اس امر پر خاص زور دینا چاہتی ہے کہ محفوظنشستوں کے بغیر مسلمان بنگال اور پنجاب میں خاص طور پر غالب رہیں گے- اور ایک ایسی رپورٹ کا جسے ہندوئوں نے تیار کیا ہے اس قدر زور مسلمانوں کو زائد حقوق کے ملنے پر دینا خواہ مخواہ ہی شک میں ڈالتا ہے- اور خصوصاً جب کہ وہی رپورٹ صفحہ اکاون پر یہ تسلیم کرتی ہے کہ محفوظ نشستوں کے بغیر پنجاب اور بنگال کے مرکزی پارلیمنٹ کے لئے بجائے اپنی تعداد کے مطابق بہتر ممبر نامزد کر سکنے کے صرف تیس سے چالیس تک ممبریاں نامزد کر سکیں گے- تو اس یقین اور غالب امید کا بھانڈا اس طرح پھوٹ جاتا ہے کہ کوئی پردہ اسے چھپا نہیں سکتا-
میں یہاں مختصر لفظوں میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اوپر کے حوالہجات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہروکمیٹی کے نزدیک مخلوط انتخاب کے باوجود ملک میں انتخابات کی جنگ صرف فرقہ وارانہ اصول پر لڑی جائے گی- کیونکہ اگر اس اصل کے جاری ہو جانے کے بعد ان کے نزدیک قومی خیالات میں اصلاح ہو سکتی تو کس دلیل پر مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں اکثریت حاصل ہو سکتی تھی-
آبادی کی تقسیم کا انتخاب پر اثر
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ آبادی کی تقسیم کا انتخاب پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا- یاد رکھنا چاہئے کہ نہروکمیٹی نے تین حلقے پنجاب کے بتائے ہیں- ایک حلقہ وہ جس میں مسلمان زیادہ ہیں- ایک وہ جس میں ہندو مسلمان کا پلڑہ برابر ہے اور ایک وہ جس میں ہندوئوں کا پلڑہ بھاری ہے- اور اس سے ثابت کیا ہے کہ چونکہ وہ علاقہ جس میں ہندوئوں کا پلڑہ بھاری ہے` تھوڑا ہے` اس لئے مسلمان بہرحال ہندوئوں` سکھوں سے فائدہ میں رہیں گے- اور یہی حال بنگال کا ہے میرے نزدیک یہ ایک مغالطہ ہے- نہرو کمیٹی نے فرض کر لیا ہے کہ انتخاب کا حلقہ ضلع ہوگا- حالانکہ انتخاب کا حلقہ ضلع نہیں ہوگا- بلکہ اس سے بہت چھوٹا علاقہ ہوگا- نہرو کمیٹی نے ہر ایک لاکھ آدمی کو ایک ممبر منتخب کرنے کا حق دیا ہے- پنجاب کی آبادی دو کروڑ چھ لاکھ پچاس ہزار ہے- اور اضلاع اٹھائیں ہیں پس اوسطاً ہر ضلع کے حصہ میں ساڑھے سات ممبر آئیں گے- اور اس تقسیم میں یقیناً بعض حلقے ایسے ہونگے- جہاں ہندو آبادی یا سکھ آبادی ایسی حقیر نہ ہوگی جیسی کہ سب ضلع کی آبادی کے مقابلہ میں وہ نظر آتی ہے اور یہ بات اس قاعدہ کو زیر نظر رکھنے سے اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ جو قوم کسی علاقہ میں کم ہو اور اس کا دوسری اقوام سے اختلاف ہو وہ بجائے دیہات میں بسنے کے شہروں میں رہتی ہے- ہندو بھی ایسا ہی کرتے ہیں- اور ان تمام علاقوں میں جہاں مسلمان زیادہ ہیں` جا کر دیکھ لو کہ ہندو ان علاقوں میں گائوں میں نہیں بلکہ قصبوں میں بستے ہیں اور اکھٹے رہتے ہیں- اور پھر ان میں سے جو گائوں میں جا کر کام کرتے ہیں` وہ بھی اپنی جائداد شہر میں خرید لیتے ہیں اور اپنا تعلق قصبات سے نہیں توڑتے- چنانچہ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی پچپن فیصدی اور سکھوں اور ہندوئوں کی کل آبادی تنتالیس فی صدی ہے لیکن شہروں کی نیابت میں آٹھ ممبر ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے منتخب ہوتے ہیں اور چھ مسلمانوں کی طرف سے- یعنی شہری آبادی کی نیابت کے لحاظ سے سکھ ہندو ستاون فیصدی ہیں اور مسلمان تینتالیس فی صدی- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ کا حق ملنے پر یہ نسبت نہ رہے گی اور ہندوئوں اور سکھوں کی نسبت کم ہو جائے گی اور مسلمانوں کی ترقی کرے گی- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس نسبت سے ظاہر ہے کہ ہندو اور سکھ شہروں میں زیادہ بستے ہیں اور اسلامی کثرت والے علاقوں میں یہ بات اور زیادہ نمایاں ہوگی خصوصاً جب ہر بالغ کو ووٹ کا حق ملا تو ان علاقوں میں ہر ہندو اپنا ووٹ کا حق شہر میں رکھے گا- اور اس طرح اپنا حق ان علاقوں میں بھی وصول کر کے رہے گا جن میں اس کی اقلیت ہے- پس نہرو کمیٹی کا نقشہ محض دکھاوے کا ہے- اور اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے- اور یقیناً وہ زبردست فیکٹر (FACTOR) جسے نہرو کمیٹی نے بھی تسلیم کیا ہے یعنی ہندوئوں اور سکھوں کی تعلیمی اور مالی برتری وہ عمل کئے بغیر نہیں رہے گا-
اب ایک ہی سوال رہ جاتا ہے اور وہ بنگال اور پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب ہیں- کہا جاتا ہے کہ ان انتخابوں میں مسلمانوں نے اپنے حق سے زیادہ حاصل کیا تھا- اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان باوجود کمزوری کے اپنی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے اپنے حق سے زیادہ لینے پر قادر ہیں اور جب ہم یہ اندازہ کر لیں کہ وہ آئندہ منظم بھی ہو جائیں گے تو اس وقت تو یقیناً ایک بہت بڑا غلبہ حاصل کر لیں گے-
‏a.10.25
بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کا انتخاب
چونکہ یہ حصہ مضمون کا بہت لمبا ہو چکا ہے میں بنگال اور پنجاب کو ملا کر ہی اس سوال پر روشنی ڈالتا ہوں اور پہلے بنگال کو لیتا ہوں- بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے الیکشنوں کا خود نہرو کمیٹی نے ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیل بیان کر کے یہ بتانا چاہا ہے کہ بعض ضلعوں میں مسلمانوں نے اپنے حق سے زیادہ لے لیا ہے- لیکن سوال یہ ہے کہ کل صوبہ کے لحاظ سے مسلمانوں نے کیا حاصل کیا ہے- سو جب ہم ضلعوں کی نشستوں کی میزان لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب بنگال کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کی ممبریوں کی تعداد چار سو اٹھاون )۴۵۸( ہے اس میں سے مسلمانوں کو بحساب آبادی دو سو سینتالیس )۲۴۷( ملنی چاہئے تھی- اور ہندئووں کو دو سو گیارہ )۲۱۱-( لیکن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہندئووں نے دو سو انچاس نشستیں )۲۴۹( حاصل کی ہیں- اور مسلمانوں نے دو سو نو )۲۰۹( گویا مسلمان جو چون )۵۴( فیصد ہیں` انہیں پینتالیس )۴۵( فیصد نشستیں ملی ہیں- اور ہندو جو چھیالیس )۴۶( فیصد تھے` انہیں پچپن )۵۵( فیصد نشستیں ملی ہیں- یہ امید ہے جو نہرو کمیٹی ہمیں دلاتی ہے- اگر اسی قسم کا حق کونسلوں میں بھی ملنا ہے تو مسلمانوں کو کیا خوشی ہو سکتی ہے-
پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کا انتخاب
اب میں پنجاب کو لیتا ہوں- اور اقرار کرتا ہوں کہ بادی النظر میں پنجاب کا معاملہ بہت مضبوط ہے- چوہدری افضل حق صاحب نے جو اعداد و شمار پنجاب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے متعلق شائع کئے ہیں وہ بہت سے لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ان پر نظر ڈال کر یقین کر لیتے ہیں کہ اعداد و شمار اس امر کی تائید میں ہیں کہ مسلمان کافی طاقت رکھتے ہیں کہ باوجود مالی اور علمی کمزوری کے پنجاب میں اپنے حق کی حفاظت کر سکیں- بلکہ اس سے زیادہ لے سکیں- ان اعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے چار سو تینتالیس )۴۴۳( اور حق رائے دہندگی کے لحاظ سے تین سو باسٹھ نشستیں )۳۶۳( ملنی چاہئیں تھیں- مگر ملیں چار سو آٹھ )۴۰۸-( گویا حق رائے دہندگی کے لحاظ سے مسلمانوں نے اپنے مقابل والوں سے چھیالیس نشستیں )۴۶( چھین لیں- سکھوں کو آبادی کے لحاظ سے پونے ستاسی )۸۷( نشستوں کا حق تھا- اور رائے دہندگی کے لحاظ سے ایک سو پونے پچاسی کا- لیکن انہوں نے حاصل ایک سو پچاسی کیں- گویا اپنے حق سے نہایت ہی خفیف زیادتی حاصل کی- ہندئووں کا اس کے مقابلہ میں آبادی کے لحاظ سے دو سو سوا پچھتر ممبریوں کا حق تھا رائے دہندگی کے لحاظ سے دو سو اڑسٹھ )۲۶۸( کا اور حاصل انہوں نے دو سو اکیس )۲۲۱( کیں- اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں-
اخذ کردہ نتائج سے اختلاف
باوجود ان کھلے کھلے اعداد کے مجھے ان نتائج سے اختلاف ہے جو نکالے گئے ہیں- اور سب سے پہلے تو میرا یہ سوال ہے کہ کیا دنیا کی کسی معقول ہستی نے بھی ایک وقت کے نتیجہ پر حقائق کا اندازہ لگایا ہے- نتائج نکالنے کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ کم سے کم دس انتخابوں کے اعداد ہوں اور پھر ان کو ملا کر دیکھا جائے کہ اوسطاً کون سی قوم کس قدر نمائندگی حاصل کر سکی ہے- اگر یہ فرق اعداد کا صرف قریب کے انتخابوں کا ہے` بنگال میں بھی اور پنجاب میں بھی` تو یقیناً اس سے ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ نتائج مسلمانوں کی ہوشیاری کے سبب سے نہیں ہیں- بلکہ اس فرقہ وارانہ جذبہ کی شدت کے ہیں جو پچھلے چار پانچ سال میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے- ملتان کے فسادات` کلکتہ کے فسادات` باریسال کے فسادات` لاہور کے فسادات` اور موپلوں پر مظالم ایسے نہ تھے کہ انہیں دیکھ اور سن کر ایک غافل سے غافل مسلمان کی آنکھوں میں بھی خون نہ اتر آتا- پس اس جذبات کے عارضی ابھار کو ایک مستقل معیار قرار نہیں دیا جا سکتا- کیا غیر محفوظ نشستوں کے حامی ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی دونوں اقوام کے جذبات کو اسی طرح ابھارتے رہیں گے- اور دونوں قوموں میں نہ ختم ہونے والی جنگ جاری رکھیں گے- اگر نہیں اور ملک کی خیر خواہی چاہتی ہے کہ وہ ایسا نہ کریں تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو نتیجہ دونوں قوموں کے ابھرے ہوئے جذبات کا تھا` اس سے ایک مستقل اندازہ کس طرح لگایا جا سکتا ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کسی قوم کو کوئی ناقابلتلافی صدمہ پہنچتا ہے تو اس وقت وہ تمام دوسرے اثرات کو بھلا دیتی ہے اور ہر قسم کے دبائو سے آزاد ہو کر کام کرتی ہے- اور اس وقت اس کے اعداد اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں- چونکہ پچھلے چندسالوں میں مسلمانوں پر سخت ظلم ہوا ہے- بوجہ مظلوم ہونے کے ان کے جذبات دوسری اقوام سے زیادہ مشتعل تھے- اور اس وقت کی ان کی جدوجہد پر ہمیشہ کا قیاس کرنا بالکل خلاف عقل ہوگا- اور ان اعدادو شمار کی قدرومنزلت اسی وقت ثابت ہو گی` جب کہ کم سے کم دس انتخابوں کے اعداد و شمار سے وہی نتیجہ نکلتا ہو جو پچھلے انتخابوں کے اعداد و شمار سے نکلتا ہے کیونکہ مقابلہ اعداد کے صحیح نتائج واقفین فن کے نزدیک اسی وقت نکالے جاتے ہیں جس وقت کہ اول وہ خاص حالات کے اثر سے آزاد ہوں- دوم ایک لمبے عرصہ کے اعداد کا مقابلہ کر کے دیکھا جائے- سوم ان اعداد و شمار سے یہ نہ ثابت ہوتا ہو کہ کوئی مخالف رو اندر ہی اندر ترقی کر رہی ہے- یا اس کے آئندہ ترقی کرنے کا احتمال ہے یعنی یہ ثابت ہو جائے کہ جو نتیجہ ہم نکال رہے ہیں- اس کے خلاف ہر سال کے اعداد میں کوئی تدریجی طور پر بڑھنے والا فیکٹر(FACTOR) موجود نہیں ہے- مگر ہمارے قابلقدر نوجوان نے اور نہرو کمیٹی نے جو اعداد پیش کئے ہیں` ان میں اوپر کی تینوں باتوں میں سے ایک کا بھی خیال نہیں رکھا گیا- نہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان انتخابوں کے وقت کوئی خاص حالات پیدا نہ تھے )میں ثابت کر چکا ہوں کہ خاص حالات تھے( اور نہ کئی انتخابوں کے اعداد پیش کئے گئے ہیں اور نہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ پچھلے انتخابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کی اس برتری کو مٹانے والے کوئی اسباب رونما ہو رہے ہیں- اس وجہ سے ان اعداد سے نتیجہ نکالنا بالکل خلاف عقل اور خلاف تجربہ ہے- اعداد و شمار کی قدرو قیمت تو صرف اوسط کے کلیہ پر منحصر ہے- اس کے سوا اعداد و شمار کی کوئی قیمت ہی نہیں- ایک مثال پر تو انحصار سخت خطرناک ہوتا ہے- کمزور سے کمزور فوج بھی کبھی زبردست سے زبردست غنیم کو ایک میدان میں شکست دے دیتی ہے مگر اس فعل کی تکرار نہیںہوتی-
ہندئووں کا ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتخاب میں دلچسپی نہ لینا
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اعداد و شمار سے یہ امر ثابت بھی ہو جائے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں مسلمان پچھلے انتخابات میں متواتر جیتتے چلے آئے ہیں` تب بھی اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ کونسلوں کے الیکشن میں بھی مسلمان ضرور ہندئووں پر غالب رہیں گے` درست نہیں- کیونکہ ڈسٹرکٹ بورڈوں اور کونسلوں میں کوئی مشارکت ہی نہیں- اصل بات یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں کوئی حقیقی عزت اور حکومت نہیں ہے اور نہ ان کا اثر تجارتی امور پر پڑتا ہے- اس وجہ سے ہندو دماغ یعنی بنیا ان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا- وہ اسی وقت دخل دیتا ہے کہ جب اس کا اپنا انٹرسٹ )TSER(INTE ہو- مگر ڈسٹرکٹبورڈ میں اس کا کیا انٹرسٹ ہے؟ وہ اگر ان کے انتخاب میں حصہ لیتا ہے تو صرف بعض دوستوں کی خاطر- ہاں میونسپلکمیٹیوں میں وہ دخل دیتا ہے اور کونسلوں میں دخل دیتا ہے کیونکہ میونسپل کمیٹیوں کا تجارت سے تعلق ہے- اور اسی طرح کونسلوں کا اور پھر اس کے ساتھ ان میں حکومت بھی ہے- اور ہندئووں کا دیرینہ آئڈیل (IDEAL) ان کے ذریعہ سے پورا ہوتا نظر آتا ہے- یعنی یہ کہ وہ پھر ہندو تہذیب کو دنیا میں قائم کریں گے- پس ڈسٹرکٹ بورڈوں پر قیاس کرنا بالکل درست نہیں انگلستان کے پارلیمنٹ کے انتخاب اور لوکل بروز (BOROUGHS) کے انتخاب کے نتائج کو سامنے رکھ کر دیکھ لو- کہ ملک پارلیمنٹ میں اور پارٹی کو بھیجتا ہے- اور لوکل بروز (BOROUGHS) اور میونسپل کمیٹیوں میں بعض دفعہ بالکل مخالف پارٹی کو بھیجتا ہے- اس لئے واقفان سیاست جانتے ہیں کہ ایک کے نتائج پر دوسری کا قیاس نہیں کرنا چاہئے- پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ نہرو کمیٹی یا ہمارے پنجاب کے ممبر کونسل نے کس طرح دونوں کو ایک شے قرار دے کر بورڈوں کے انتخاب سے کونسلوں کے متعلق نتیجہ نکال لیا ہے-
ڈسٹرکٹ بورڈوں سے ہندئووں کی بے اعتنائی
میرے نزدیک سیاسی اصول کے مطابق اور عقلی دلائل کی رہبری سے غور کرنے کے علاوہ اگر ہم خود ان عداد پر غور کریں تو بھی ہمیں یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ انتخاب کا جو نتیجہ پیدا ہوا ہے وہ مسلمانوں کی ہوشیاری کی وجہ سے نہیں- بلکہ ہندئووں کی بیاعتنائی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- چنانچہ دیکھ لو کہ مسلمانوں نے جس قدر نشستیں زائد لی ہیں وہ ہندئووں سے لی ہیں نہ کہ سکھوں سے- اگر مسلمانوں کی ہوشیاری کے سبب سے یہ نتیجہ نکلتا تو وہ سکھوں سے بھی زائد نشستیں حاصل کرتے مگر اعداد کے مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب نشستیں ہندئووں ہی نے کھوئی ہیں ان کی نشستوں کی کمی پونے سینتالیس ہے- اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی زیادتی چھیالیس ہے- اور سکھوں کی زیادتی ۴/۱ نشست کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے بھی ہندئووں کا حق چھینا ہے - اور سکھوں نے بھی ہندئووں کا- حالانکہ اگر اقلیت پر اکثریت کے غلبہ کا سوال ہوتا تو سکھ زیادہ نقصان میں رہتے` کیونکہ ان کی اقلیت بہت کم ہے- اور ہندئووں سے قریباً آدھی ہے- پس ان اعداد سے یہ نتیجہ کسی صورت میں بھی نہیں نکالا جا سکتا کہ مسلمانوں نے اپنی طاقت سے یہ غلبہ حاصل کیا ہے- بلکہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندئووں کو ڈسٹرکٹ بورڈوں کے انتظام کے ساتھ کوئی خاص انٹرسٹ (INTEREST) نہیں ہے- اور جب یہ امر بالبداہت ثابت ہوتا ہے کہ ہندئووں کی کمزوری ڈسٹرکٹ بورڈ میں بوجہ ان کی رغبت کی کمی کے ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ کونسلوں میں بھی وہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھائیں گے کسی طرح درست نہیں ہو سکتا-
یاد رکھنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ بورڈوں میں زیادہ تر زمیندار کا انٹرسٹ ہوتا ہے اور بنیا زمین تو خرید لیتا ہے لیکن وہ کبھی زمیندار نہیں بننا چاہتا- اس وجہ سے وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے کام میں اس قدر حصہ نہیں لیتا- جس قدر کہ بظاہر اسے لینا چاہئے اور جو ہندو زمیندار ہے- وہ اسی طرح بنئے کے ہاتھوں مظلوم ہے جیسے کہ ہم مسلمان ہیں سرکاری عہدوں کو دیکھو- ان میں کانگڑہ` حصار` رہتک` گوڑگانواں` کرنال` انبالہ کے ہندو زمیندار بھی ویسے ہی کم نظر آئیں گے جیسے کہ مسلمان بلکہ ان سے بھی کم- اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہندوبنئے کے تسلط کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں میں زیادہ مقابلہ اس طبقہ کے لوگوں سے ہے نہ کہ ہندو تاجر اور ساہوکار سے-
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخاب میں مرکزی انجمنیں دخل نہیں دیتیں اور نہ شہروں سے آکر لوگ امید وار بنتے ہیں- لیکن کونسلوں میں مرکزی مجالس آکر دخل دیتی ہیں اور وہاں کے مالدار لوگ آکر مقابلہ کرتے ہیں پس دونوں کی مشابہت آپس میں بالکل ہی نہیں ہے-
خلاصہ یہ کہ اول تو جو اعداد پیش کئے گئے ہیں- وہ اس صورت میں نہیں کہ سائنٹیفک (SCIENTIFIC) طور پر ان سے کوئی نتیجہ نکالا جا سکے- اور اگر ان سے وہی نتیجہ نکلے جو نکالا جاتا ہے تو بھی ڈسٹرکٹ بورڈوں پر کونسلوں کے الیکشنوں کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے- کیونکہ دونوں میں کوئی مماثلت نہیں اور نتیجہ نکالنے کے لئے مماثلت کا ہونا ضروری ہوتا ہے-
مسلمانوں کی قومی ہستی کو خطرہ
مگر میں کہتا ہوں کہ ایک منٹ کے لئے تمام وہ امور تسلیم کر لو جو اس مثال کے پیش کرنے والے منوانا چاہتے ہیں- پھر بھی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان اعداد سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ انتخاب میں غالب رہیں گے- یا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کبھی مسلمان بھی غالب ہو سکیں گے- میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقل مند بھی ان اعداد سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ ہمیشہ مسلمان اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں لے لیا کریں گے کیونکہ جس آرگنائزیشن (ORGANIZATION) کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھلا ہوگا- اسی کا دروازہ ہندئووں کے لئے بھی کھلا ہوگا اور پھر جب ہم اس امر کو مدنظر رکھیں کہ ہندو اقلیت ہیں اور اقلیت میں جوش اکثریت سے زیادہ ہوتا ہے- اور اس سے بڑھ کر اس بات کو بھی دیکھیں کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں پنجاب میں دو اقلتیں ہیں- اور ان میں سے ہر اک یہ سمجھتی ہے کہ میں بہت تھوڑی ہوں اور یہ امر ان کے جوش کو بڑھا دیتا ہے- اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ دونوں اقلیتیں مل کر مسلمانوں کے قریب پہنچ جاتی ہیں تو خطرہ اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے- اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان بعض اوقات اکثریت حاصل کر لیں گے تو یہ دوسری اقوام بھی ضرور اکثریت حاصل کرتی رہیں گی- اور اگر یہ ہوتا رہا تو پھر مسلمانوں کے لئے اس رنگ میں ترقی کرنے کا کوئی موقع نہ رہے گا جو ہندئووں کو دوسرے صوبوں میں ملے گا- اور مسلمانوں کو چند ہی سال میں پورے طور پر اپنے آپ کو ہندو کلچر (CULTURE) کے آگے ڈال کر اپنی قومی ہستی کو کھو دینا پڑے گا- کلچر کی ترقی کے لئے زبردست حکومت کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر کہ متواتر حکومت کی- اور وہ تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب کہ محفوظ نشستیں ہوں بیشک اس صورت میں ہندئووں کا عنصر قریباً ہر حکومت میں شامل رہے گا- مگر میرے نزدیک یہ بہتر ہوگا` کیونکہ اس طرح فرقہ وارانہ حکومت کا سدباب ہو جائے گا اور اتحاد میں زیادہ مدد ملے گی-
مسلمانوں کا چوتھا مطالبہ مرکزی حکومت میں اسلامی نیابت
چوتھا مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ مرکزیحکومت میں انہیں ایک ثلث نیابت دی جائے- اور کم سے کم ان کے موجودہ حق کو کم نہ کیا جائے- جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں اس مطالبہ کو بھی رد کر دیا گیا ہے- نہرو رپورٹ میں لکھا ہے-
>ہم نے خوب غور کیا ہے لیکن ہم افسوس کرتے ہیں کہ ہم مرکزی پارلیمنٹ کی کل نشستوں میں سے ایک تہائی کی مسلمانوں کے لئے سفارش نہیں کر سکتے<-۶۰~}~ اس کی جگہ جو کچھ رپورٹ تجویز کرتی ہے- وہ یہ ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان بہت کم ہیں- ان میں ان کے حقوق بقدر آبادی محفوظ کر دئے جائیں- اور پنجاب اور بنگال میں آزاد مقابلہ رہے-
مجنونانہ خیال
میں یہ بتا چکا ہوں کہ خود نہرو رپورٹ کے بیان کے مطابق ان صوبوں میں جن میں مسلمان کم ہیں مسلمانوں کا زیادہ حق لے لینا تو بڑی بات ہے` وہ اس قدر حق بھی نہیں لے سکتے جس قدر حق کہ ان کو آبادی کے لحاظ سے ملنا چاہئے- پس یہ امید کرنی کہ اس انتظام کی رو سے مسلمانوں کو ان کی آبادی سے زیادہ حق مل سکے گا- ایک مجنونانہ خیال ہے- پس نہرو کمیٹی کے فیصلہ کی رو سے مسلمانوں کا سخت نقصان ہوا ہے- اور ضروری ہے کہ کم سے کم ایک ثلث ممبریوں کا حق ان کے لئے محفوظ رکھا جائے-
نہرو رپورٹ کے دلائل
نہرو کمیٹی جو دلائل اس کے خلاف پیش کرتی ہے وہ یہ ہیںکہ-:
۱-کسی قوم کو اس کی تعداد سے زائد حق دینا اصول کے خلاف ہے-
۲-اگر مسلمانوں کو زائد حق دیا گیا تو دوسری قلیل التعداد جماعتوں کی حق تلفی ہو گی-
۳-اگر مسلمانوں کے لئے ایک ثلث نشستیں خاص کر دی جائیں تو ان کی تقسیم کا کیا طریق ہو گا؟ اس طرح ہمیں لازماً پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کو محفوظ نشستوں کا حق دینا پڑے گا جسے ہم غلط ثابت کر چکے ہیں- پس علاوہ اس کے یہ بات اصولی طور پر غلط ہے` اس پر عمل کرنے میں بھی مشکلات ہیں-
تعداد سے زائد حق
پہلی بات کہ کسی جماعت کو اس کی تعداد سے زائد حق دینا اصول کے خلاف ہے بالکل درست نہیں- اگر یہ بات درست ہوتی تو بینالاقوامی گفتگو میں ہمیشہ بڑی حکومتوں کے نمائندے زائد ہوتے اور چھوٹی حکومتوں کے کم- لیکن واقعہ یہ ہے کہ رائے کے لحاظ سے وہی حق بلجیئم کو جو ایک چھوٹی سی حکومت ہے` حاصل ہے جو کہ برطانیہ کو جو چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہے- پس قوموں کے حقوق کے وقتخالی تعداد نہیں دیکھی جاتی بلکہ تعداد کے علاوہ اور امور بھی قابل غور ہوتے ہیں-
نیابتی حکومت کی حقیقت
میرے نزدیک نیابت کی نسبت کے سمجھنے کے لئے نیابتیحکومت کی حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہئے- نیابتی حکومت کی بنیاد اسی اصل پر ہے کہ ہر انسان آزاد ہے- لیکن )۱(وہ ایک کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور ہے کہ کسی نہ کسی حکومت سے وابستہ ہو- )۲(آزادی کا استعمال اسی وقت جائز ہے- جبکہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچتا ہو- چونکہ یہ دونوں مقصد بغیر ایک نظام سے وابستہ ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے اس لئے حکومت کا قیام ضروری ہے- چونکہ یہ امر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ ہر انسان آزاد ہے- اس لئے حکومت کا بہترین طریق وہ ہی ہوگا جس میں فرد کی آزادی کم سے کم قربان ہو- اور حکومت میں زیادہ سے زیادہ ممکن حصہ اسے حاصل ہو- چونکہ حکومت بہت سے افراد کے ملنے سے ہوتی ہے- اور کوئی مجموعہ بہت سے افراد کا ایسا نہیں مل سکتا کہ جس کی رائے ہر اک امر میں متفق ہو- اس لئے درمیانی راہ حکومت کی یہ ہوگی کہ ہر امر میں اس رائے پر عمل ہو جس پر زیادہ سے زیادہ لوگ متفق ہوں- اور چونکہ ہر امر پر لوگوں کی رائے لینا ناممکن ہے` اس لئے آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز کی جائے کہ بجائے مسائل پر رائے لینے کے ملک کے عاقلوں` بالغوں سے یہ رائے لے لی جائے کہ حکومت کے معاملات میں کن لوگوں پر وہ اعتبار کرتے ہیں- تاکہ پیش آمدہ امور میں ان سے رائے لے لی جایا کرے- اس کے سوا کوئی اور معقول وجہ نیابتی حکومت کے قیام کی نہیں ہے- لیکن یہ سلسلہ خیالات اپنی تمام کڑیوں میں ایک اصل کی طرف اشارہ کرتا چلا جاتا ہے اور وہ حریت افراد ہے- تمام افراد آزاد ہیں- اپنے معاملات میں فیصلہ کرنے کا کامل حق انہیں حاصل ہے- حکومت کی خاطر اپنے حق کو چھوڑ دینا ایک مجبوری کا امر ہے- ہر اک جو اپنی حریت کو چھوڑتا ہے` وہ گویا ملکوقوم کی خاطر ایک قربانی کرتا ہے- اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ انسانی طبائع مختلف ہیں ایک معاملہ میں لوگ مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں تو دوسرے معاملہ میں مجھ سے اتفاق کریں گے- اس لئے میں ایک بات دوسروں کے لئے چھوڑ دیتا ہوں کہ دوسرے موقع پر اسی قانون کے ماتحت میری بات مانی جائے گی-
جہاں تک افراد کا سوال ہے اور پھر خصوصاً سیاسیات کا یہ سمجھوتا ٹھیک چلتا ہے- لیکن جس وقت قومیتوں اور مذہب کا سوال درمیان میں آجاتا ہے` یہ دلیل رہ جاتی ہے- کیونکہ کوئی شخص قومیت اور مذہب کو قربان نہیں کر سکتا- وہ اپنی رائے کو تو کثرت کے لئے اس وجہ سے قربان کرتا تھا کہ دوسرے ہی معاملہ میں کثرت میرے ساتھ ہو گی- لیکن وہ مذہب اور قوم کو کس بنا پر قربان کر سکتا ہے- کیا وہ امید کر سکتا ہے کہ دوسرا بھی میری خاطر مذہب اور قوم قربان کر دے گا- اور فرض کرو کہ دوسرا شخص اس امر کے لئے تیار بھی ہو جائے- کیا ایک دیانتدار آدمی اپنے مذہب کو اس لئے چھوڑ دے گا کہ دوسرا بھی اپنے مذہب کو چھوڑنے کے لئے تیار ہے؟ ہرگز نہیں- پس ایسے وقت میں لازماً وہ یہ سوال کرے گا کہ میری قومیت اور مذہب کی حفاظت کا سامان کر دو- تب میں اپنا پیدائشی حق آزادی مجموعہ افراد کے حق میں چھوڑنے کے لئے تیار ہوں-
مسلمانوں کے سامنے مذہب اور قومیت کا سوال
یہی سوال اس وقت ہندوستان میں پیدا ہے- مسلمانوں کے سامنے مذہب اور قومیت کا سوال ہے- سیاست کا سوال ہوتا تو وہ یہ سمجھ لیتے کہ رائے ہر معاملہ میں بدلتی رہے گی- لیکن یہاں دو مختلف قومیں اور زبردست قومیں بستی ہیں جن کے مذہب الگ ہیں- اور جن کے تمدن کے اصول الگ ہیں- پس ایک مستقل اکثریت کے مقابلہ میں ایک مستقل اقلیت بن کر رہنے کے لئے وہ کس طرح تیار ہو سکتے ہیں- جب تک کہ ان کے حقوق کی حفاظت کا انتظام نہ ہو جائے- یہاں سیاسی مسائل کا سوال نہیں کہ ہر مسئلہ پر اقلیت اور اکثریت بدلتی چلی جائے گی بلکہ قومی اور مذہبی حقوق کا سوال ہے- یہ کہنا بالکل فضول ہوگا کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرنا چاہئے- کیونکہ اگر یہی بات ہے تو کیوں ہندو ہی مسلمانوں پر اعتبار کر کے انہیں نصف سے زیادہ نشستیں نہیں دے دیتے- اور دوسرے ہمارے سامنے ریاستوں اور سرکاری دفاتر کا تجربہ موجود ہے- وہاں جو کچھ ہو رہا ہے` اس کو دیکھتے ہوئے آئندہ کے لئے حفاظت کا سامان نہ کرنا قومی خود کشی سے کم نہ ہو گا-
غرض مستقل اقلیت اور اکثریت کا سوال ان اصول پر طے نہیں کیا جا سکتا جو بدلنے والی اکثریت اور اقلیت کے سوال کے حل کرنے میں کام آتے ہیں- بلکہ ان اصول پر طے ہوتا ہے کہ جن پر دو مختلف حکومتوں کے باہمی اختلاف طے کئے جاتے ہیں- اور اگر ان حالات میں مسلمان زیادہ نمائندگی مانگتے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- آخر ان کے اس دعویٰ کا کیا رد ہے کہ نیابتی حکومتیں اکثریت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں- ہم جو یہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں کہ حکومت ہند کو ہندو اکثریت کے ہاتھ میں دے دیں تو کیا ہمارا اس قدر حق بھی نہیں کہ ہم مطالبہ کریں کہ قانوناساسی کی کوئی تبدیلی بغیر ہمارے مشورہ کے نہ ہو-
قانون اساسی کی تبدیلی اور مسلمان
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ نہرو کمیٹی نے قانون اساسی کی تبدیلی کے لئے ۳/۲ ممبروں کی رائے کی شرط رکھی ہے- اور اگر مسلمانوں کو ان کی تعداد کے برابر بھی ممبریاں مرکزی پارلیمنٹوں میں مل جائیں تو انہیں ۴/۱ نشستیں ملیں گی- جس کے یہ معنی ہیں کہ قانون اساسی اس وقت بھی بدلا جا سکتا ہے کہ جب ایک مسلمان بھی اس کی تائید میں نہ ہو- کیونکہ مسلمان نیابت اگر آبادی کے مطابق ہو تو مسلمان ممبر پچیس )۲۵( فیصدی ہوں گے- اور ہندو پچھتر )۷۵( فیصدی اور قانوناساسی چھیاسٹھ )۶۶( فیصدی ممبر بدل سکتے ہیں پس مسلمانوں کا حکومت میں دخل قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے- کہ تینتیس )۳۳( فیصدی نہیں بلکہ چونتیس )۳۴( فیصدی ممبریاں دونوں مرکزی پارلیمنٹوں میں مسلمانوں کو دی جائیں- ہندئووں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا- وہ پھر بھی اکثریت رہتے ہیں- مسلمان حکومت کے لئے حق نہیں مانگتے- وہ صرف اس قدر مانگتے ہیں کہ جس حق کی موجودگی میں ان کا اپنا حق نہ مارا جائے- ورنہ حکومت کرنے کے لحاظ سے چونتیس )۳۴( فیصدی اقلیت بھی ویسی ہی بیکار ہے جیسے کہ پچیس )۲۵( فیصدی- ہندو صاحبان کا یہ کہنا کہ اقلیت کا کیا حق ہے کہ وہ اپنی تعداد سے زائد حق مانگے- نیابتی حکومت میں بہر حال اکثریت حکومت کرتی ہے` ہرگز درست نہیں- کیونکہ نیابتی اور انتخابی حکومتوں کا دارومدار فردی آزادی کے حق پر ہے- اگر فردی آزادی کا اصل درست نہیں تو نیابتی اور انتخابی حکومت بھی ایک بے معنے شے ہے- اور اگر فردی آزادی کا حق درست ہے تو آٹھ کروڑ مسلمان جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انتخابی اور نیابتی حکومت کا قیام فردی آزادی کے قیام کے لئے ہوتا ہے- پس ہم کس طرح اس طریق حکومت پر راضی ہو سکتے ہیں کہ جو ایک چوتھائی آبادی کے حقوق کو بغیر حفاظت کے چھوڑ دیتا ہے- ہم اپنے لئے اکثریت کے طالب نہیں- مگر کیا ہم اس قدر حق کے طلب کرنے میں بھی حق بجانب نہیں جو اس حق کی حفاظت کرتا ہو جس کے قائم رکھنے کے لئے ہی انتخابی اور نیابتی حکومت قائم کی جاتی ہے- اور جس کی خاطر فرد اپنی آزادی کو محدود کرتا ہے- اگر اکثریت کو اپنی غیر مبدل کثرت کے سبب سے حکومت کا حق حاصل ہے تو پھر انتخابی اور جبری حکومت میں فرق کیا ہے-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک اکثریت کے لئے حکومت کا حق تسلیم کیا گیا ہے- مگر اس سے مراد سیاسی اکثریت ہوتی ہے- جو حالات کے ماتحت بدلتی رہتی ہے` نہ کہ ایسی اکثریت جو دائمی ہو- اور جس کے بعض فیصلے مذہبی تعصب سے متاثر ہو سکتے ہوں- جب یہ خطرہ ہو کہ کسی اکثریت کے فیصلے بیرونی اثرات سے متاثر ہو سکتے ہیں اور وہ اکثریت نہ بدلنے والی ہو تو اس وقت اس قوم کی حفاظت کا ذریعہ پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے جس پر اکثریت کے متعصبانہ فیصلوں کا اثر ممکنہو-
اقلیت کو زائد حق نیابت کب دینا ضروری ہے
شاید کوئی شخص یہ کہے کہ تب تو پھر ہر حکومت میں ہر مذہبی اقلیت کو زائد حق نیابت دینے کی ضرورت پیش آئے گی اور اگر اس طرح ہوگا تو پھر نیابتی حکومت چلے گی کیونکر؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس اقلیت کے لئے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی نسبت خطرہ ہو کہ اکثریت اور اس کے درمیان مذہبی یا قومی تعصب حائل ہوگا- ورنہ خالی اقلیت ہونے کی وجہ سے کسی خاص قانون کی ضرورت پیش نہیں آتی- دوسرے اگر ایک سے زیادہ اقلیتیں مل کر ایسی تعداد کو پہنچ جاتی ہوں کہ اکثریت کو ظلم سے روک سکیں` تب بھی کسی خاص حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں ہوتی- ہندوستان میں مشکل یہی ہے کہ قابل ذکر اقلیت صرف ایک ہی ہے- بدھ اور سکھ گو ہندوئوں سے علیحدہ مذہب کے دعویدار ہیں مگر وہ عملی سیاست میں ایک ہیں- اور وہ درحقیقت اقلیتوں کی حفاظت کا موجب نہیں ہیں` بلکہ اکثریت کا پلڑہ بھاری کرنے کا موجب ہیں- اگر دو حقیقی اقلیتیں ہندوستان میں ہوتیں جو مل کر ایک زبردست اقلیت بن جاتیں تب مسلمانوں کو زائد حق دینے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی- اس وقت حقیقی اقلیت مسلمانوں کے سوا صرف مسیحیوں کی ہے- مگر وہ صرف ایک فیصدی ہیں- اور انہیں نہ تو اپنی انتہائی کمزوری کی وجہ سے ہندوئوں سے کوئی خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ظلم کے روکنے میں مسلمانوں کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں-
کیا ہندوستان کو خود اختیاری حکومت نہیں ملنی چاہئے
میں اس موقع پر اس خیال کو رد کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو بعض لوگ ہندو مسلم مناقشات کے ذکر پر ظاہر کیا کرتے ہیں- اور وہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں اس قدر اختلاف ہے تو پھر ہندوستان کو خود اختیاری حکومت نہیں ملنی چاہئے- میرے نزدیک جب ایسے ذرائع موجود ہیں کہ اقلیت کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے خود اختیاری حکومت ہندوستان کو نہ دی جائے- یورپ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں کہ جن میں شدید اختلاف کا وجود تسلیم کیا گیا ہے- مگر باوجود اس کے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے ذرائع اختیار کر کے وہاں جدید حکومتیں قائم کی گئی ہیں- پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کچھ یورپ میں کیا گیا ہے وہی ہندوستان میں نہ کیا جائے-
دوسری اقلیتوں کے حقوق تلف ہونے کا سوال
دوسری دلیل نہرو کمیٹی کی مسلمانوں کو زیادہ نیابت دینے کے خلاف یہ ہے کہ اس طرح دوسری اقلیتوں کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں- میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس دلیل کا کیا مفہوم ہے اور مجھے ڈر ہے کہ خود نہرو کمیٹی بھی اس کا مطلب نہیں سمجھتی تھی- کیونکہ مسلمانوں کو زائد حق دینے کی وجہ سے دوسری اقلیتوں کے حقوق کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچ سکتا- اول تو مسلمانوں کے سوا اور کوئی اقلیت ایسی ہے ہی نہیں جسے مستقل اقلیت کہا جا سکے- بدھ لوگ اس وقت ہندوستان میں ہندوئوں کی ایک شاخ بن رہے ہیں- انہیں وہ خطرات ہی نہیں جو مسلمانوں کو ہیں- قومی سوالات کے موقع پر وہ ہمیشہ ہندوئوں کے ساتھ ہوتے ہیں- سکھوں کا بھی یہی حال ہے- باقی رہے مسیحی` وہ صرف ایک فی صدی ہیں- اور اکثر ہندوئوں سے نکل کر مسیحی ہوئے ہیں- اور کوئی ماضی نہیں رکھتے جس کے ساتھ انہیں وابستگی ہو- کوئی چیز ان کے پاس ایسی نہیں جس کے کھوئے جانے کا خطرہ ہو- پس ان کو خوف کوئی نہیں ہو سکتا- اور مسلمانوں کا یہ مطالبہ بھی نہیں کہ مسیحیوں کا حق نیابت کم کر کے انہیں دیا جائے- ان کا مطالبہ تو یہ ہے کہ اکثریت کے پاس اس قدر گنجائش ہے کہ اس کا حق نیابت کم کر کے مسلمانوں کے حقوق کو محفوظ کیا جا سکتا ہے- اور باوجود اس کے اکثریت کی اکثریت میں فرق نہیں آتا- پس دوسری اقلیتوں کے حقوق کو کم کرنے کا اس جگہ کوئی سوال ہی نہیں کہ انہیں نقصان کا اندیشہ ہو-
کیوں نشستیں مخصوص نہ کی جائیں؟
تیسری دلیل نہرو کمیٹی کی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کیلئے نشستیں مخصوص کر دی جائیں تو ان کی تقسیم کس طرح ہوگی اس طرح تو پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کے لئے حق نیابت محفوظ کر دینا ہوگا لیکن یہ بھی کوئی دلیل نہیں- کیونکہ یہ امر تو مسلمانوں کے مطالبات میں شامل ہے کہ پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمانوں کی نیابت کا حق محفوظ ہونا چاہئے اور میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہی طریق درست اور انصاف کے مطابق ہے پس دلیل کی بنیاد ایک ایسا امر پر رکھنا جو خود مابہ النزاع ہے- عقل کے خلاف ہے اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کے لئے نشستوں کی حفاظت نہ کی جائے گی تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا- کیونکہ مجلس نیابت کے نمائندوں کے انتخاب کے وقت ہندوستان کو مجموعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا- اور ہندوستان کی مجموعیآبادی کو مدنظر رکھ کر مسلمان اقلیت ہیں` بلکہ کمزور اقلیت- پس اگر بفرض محال صوبوں میں نشستیں محفوظ نہ بھی ہوں تب بھی مرکزی مجلس کیلئے نشستوں کی حفاظت کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے- انہیں محفوظ کیا جا سکتا ہے-
ہندو کس طرح مسلمانوں کا اعتبار حاصل کر سکتے ہیں
میں آخر میں ہندو صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں وسعت حوصلہ سے کام لینا چاہئے- وہ اس بات کی امید ہرگز نہ رکھیں کہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہوتے ہوئے بھی وہ مسلمانوں کا حق چھیننا چاہیں گے تو انہیں آزادی کے حصول میں کامیابی ہوگی- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی آزادی کا فردی لحاظ سے گو ہر اک فرد کو فائدہ پہنچے گا- مگر قومی لحاظ سے اس کا نفع ہندوئوں کو پہنچے گا- کیونکہ ان کی تعداد اس ملک میں بہت زیادہ ہے- پس انہیں وسعت حوصلہ سے کام لینا چاہئے- اور اس تنگ نظریہ پر انہیں زور نہیں دینا چاہئے جس کے اختیار کرنے سے ایک اقلیت کو بھی شرمانا چاہئے- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کسی قوم کا فرض ہے کہ وہ وسعتحوصلہ دکھائے تو وہ زبردست اکثریت ہی ہے- انہیں پروفیسر مرے (PROFESSORMURREY) کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ-:
>دونوں طرفوں کو نہ صرف عفو بلکہ احسان سے کام لینا چاہئے- اور دنیا تو یہی کہے گی کہ پہلا فرض غالب قوم کا ہے کہ وہ احسان سے کام لے<- ۶۱~}~
یہی قول ان پر بھی چسپاں ہوتا ہے- اگر ہندوئوں کی اکثریت باوجود اس کے کہ ان کی اکثریت کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا` مسلمانوں کی اقلیت سے ان شرائط کے طے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جن کی واحد غرض مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے تو پھر اسے بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ مسلمانوں کا اعتبار حاصل کر لے گی` اور وہ گورنمنٹ کو ایک ملکی گورنمنٹ خیال کریں گے-
مسلمانوں کا پانچواں مطالبہ جداگانہ طریق انتخاب
پانچواں مطالبہ مسلمانوں کا یہ تھا کہ انتخاب کا طریق جداگانہ ہو- یعنی مسلمان مسلمان ممبر منتخب کریں- اور ہندو ہندو ممبر منتخب کریں- مگر اس مطالبہ کے متعلق مسلمانوں میں اختلاف تھا- بعض کے نزدیک جداگانہ انتخاب اس وقت تک جاری رہنا چاہئے` جب تک خود مسلمان اس کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوں- بعض کے نزدیک اوپر کے مطالبات کے منظور ہونے پر اس مطالبہ کو مخلوط انتخاب کے حق میں چھوڑا جا سکتا ہے- بشرطیکہ مسلمانوں کے حقوق تمام صوبوں میں اور مرکزی گورنمنٹ میں محفوظ کر دئے جائیں- جداگانہ انتخاب کی تائید میں مسلمانوں کے ایک معتدبہ حصہ کی رائے ہے- لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں` سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ جداگانہ انتخاب ایک عارضی علاج ہے- اس لئے اس امر پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جداگانہ انتخاب اصولی طور پر مخلوط انتخاب کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے- دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا جداگانہ انتخاب اس عارضی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے یا نہیں- جس کے لئے اسے تجویز کیا جاتا ہے وہ عارضی ضرورت مسلمانوں اور ہندوئوں کی آپس کے بے اعتباری ہے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں- اس بے اعتباری کے وجود کا کسی کو انکار نہیں- سوال صرف یہ ہے کہ اس بے اعتباری کے زمانہ میں انتخاب کا طریق کیا ہو مسلم لیگ کا کلکتہ سیکشن بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ جب تک بعض شرطیں پوری نہ ہو جائیں- اس وقت تک اس کو اڑانا درست نہ ہوگا- اور چونکہ وہ شرطیں پوری نہیں ہوئیں` اس لئے سمجھنا چاہئے کہ وہ بھی جداگانہ انتخاب کی تائید میںہیں-
جداگانہ انتخاب کا فائدہ
میں جہاں تک سمجھتا ہوں جداگانہ انتخاب کم سے کم عارضی طور پر فساد کے مٹانے میں ضرور مفید ہوگا- یہ خیال کہ اس وقت تک اس نے کیا اثر کیا ہے` چنداں وزن نہیں رکھتا- اس لئے کہ اس کے مقابلہ میں یہی سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک ڈسٹرکٹ بورڈوں کے مشترک انتخاب نے کیا اثر کیا ہے- یا ان میونسپل کمیٹیوں کے انتخاب نے کیا اثر کیا ہے جہاں مخلوط انتخاب ہے- اصل بات یہ ہے کہ جداگانہ انتخاب اگر برا ہے تو بینالاقوامی تعلقات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اندرونی تعلقات کے لحاظ سے- بینالاقوامی تعلقات تو اس سے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں- ہاں یہ ضرور نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ قوم میں اقدام کی روح کمزور ہو جاتی ہے- لیکن اس وقت چونکہ ہندو مسلم تعلقات خراب ہیں` اس کو اختیار کرنا اشد ضروری ہے- اس طریق کے اختیار کرنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دونوں قومیں اطمینان سے کام کریں گی- موجودہ تجربہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے- ہم دیکھتے ہیں کہ جداگانہ انتخاب کے طریق پر عمل کرتے ہوئے ایک جگہ بھی خالص مسلم پارٹی کوئی نہیں بنی- اگر جداگانہ انتخاب تفرقہ پیدا کرتا تو چاہئے تھا کہ کونسلوں میں مسلم اور ہندو پارٹیاں بنتیں- مگر ان پارٹیوں کا نہ بننا بناتا ہے کہ اس تجویر میں وہ نقص نہیں ہے جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے- آخر اس جداگانہ انتخاب کی مدد سے وہ مسلمان بھی کامیاب ہوئے ہیں- جو سوراج پارٹی میں شامل ہیں- اور وہ بھی جو مخلوطانتخاب کے حامی ہیں اسی طرح وہ ہندو بھی جو مسلمانوں سے مل کر کام کر رہے ہیں- پس کونسلوں کے انتخاب کے لحاظ سے تو ہمیں اس کا کوئی خاص برا اثر نظر نہیں آتا-
باہمی تفاہم کیلئے ایک مفید تجویز
میرا خیال یہ ہے کہ اگر دوسرے مسلمان اس پر متفق ہوں تو طریق انتخاب کے متعلق یہ سمجھوتہ کر لیا جائے کہ مسلم لیگ کے مطالبات کے پورا ہو جانے اور سوراج کے حصول کے بعد دس سال تک ان صوبوں میں جہاں ہندو یا مسلمان چاہیں جداگانہ انتخاب کا طریق جاری رہے- اس دس سال کے عرصہ میں اگر وہ قوم جس کا یہ مطالبہ ہو` خوشی سے اپنے حق کو چھوڑ دے تو اس کی مرضی` ورنہ دس سال تک جداگانہ انتخاب ضرور رکھا جائے- اس کے بعد جن صوبوں میں ہندو یا مسلمان کمزور اقلیت ہیں` وہاں تو اس وقت تک کیلئے کہ وہ اقلیت اپنی مرضی سے اپنے حق کو نہ چھوڑے` مخلوطانتخاب اور محفوظ نشستوں کے طریق کو جاری رکھا جائے- اور پنجاب اور بنگال میں ایک مقررہ عرصہ تک مخلوط انتخاب اور محفوظ نشستوں کے طریق کو جاری کیا جائے- اس کے بعد خالی مخلوط انتخاب کو- مگر شرط یہی ہو کہ ڈومینین سلف گورنمنٹ(DOMINIONSELFGOVERNMENT)کے حصول اور مسلمانوں کی شکایات کے دور ہونے کے بعد سے یہ انتظام شروع ہو تا کہ مسلمان اپنے حق سے پورا فائدہ اٹھا کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں-
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس بات کو بطور تجویز نہیں بلکہ بطور ایک خیال کے پیش کرتا ہوں جس پر غور کر کے ممکن ہے کہ کوئی مفید درمیانی راہ نکل سکے- جو مسلمانوں کے دونوں مختلف گروہوں کو اکٹھا کر دے- میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر ایک کافی عرصہ مسلمانوں کو آزاد گورنمنٹ میں اپنے حقوق کی حفاظت کا اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا مل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ تدریجی ترقی کے بعد کھلے میدان میں اپنے حریف کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں- اور خصوصاً جب کہ یہ انتظام صرف بنگال اور پنجاب کے لئے ہو جہاں کہ مسلمانوں کی اکثریت ہے تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ ہم لوگوں کے لئے اس میں کیا نقصان ہے- بہرحال یہ ایک تجویز ہے جس پر ہندو اور مسلمان اگر غور کریں تو شاید باہمی تفاہم کی صورت پیدا ہو جائے-
میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جداگانہ انتخاب اصول انتخاب کے بالکل خلاف نہیں ہے- اور صرف یہ کہہ دینا کہ یورپ میں اس پر عمل نہیں ہوتا اس لئے یہ طریق ہی صحیح نہیں` کوئی دلیل نہیں- جس ملک میں ایسی اقوام بستی ہوں کہ جو اپنی جداگانہ تہذیب اور جداگانہ مذہب رکھتی ہوں اور ان کے درمیان میں ایک لمبے عرصہ سے جھگڑے اور مناقشے ہوں` ان کے متعلق کوئی نہ کوئی احتیاط کرنی ضروری ہوگی ورنہ چھوٹی قوم کی تباہی یقینی ہو جائے گی اور اس کی ذمہ داری اکثریت پر ہی ہوگی- کیونکہ ایسے جھگڑوں کے موقعوں پر اکثریت ہی کے بس میں ہوتا ہے کہ وہ اقلیت کو اطمینان دلائے- پس حق تو یہ تھا کہ خود ہندو صاحبان مسلمانوں سے کہتے کہ آپ کو اطمینان دلانے کا طریق یہ ہے کہ آپ اپنے نمائندے الگ منتخب کریں- اور ہم اپنے نمائندے الگ منتخب کریں گے- لیکن تعجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے علاج پیش کرنے پر بھی اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیںہیں-
جداگانہ انتخاب افتراق کا موجب نہیں
کہا جاتا ہے کہ جداگانہ انتخاب سے افتراق پیدا ہوتا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے جس کا رد اصولاً تو میں اوپر بیان کر چکا ہوں- اب واقعات کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا ہندو مسلمانوں میں اختلاف جداگانہ انتخاب سے پہلے کا ہے یا پیچھے کا؟ اگر بعد کا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اس طریق فیصلہ سے پہلے مسلمانوں کی نسبت مختلف گورنمنٹ کے محکموں میں کیا تھی؟ اگر یہ واقعہ ہے کہ پہلے مسلمانوں کو پورا حق ملا کرتا تھا تو پھر بیشک کہا جائے گا کہ اس سے پہلے ہندوئوں کو مسلمانوں سے تعصب نہ تھا- لیکن اگر پہلے موجودہ حالت سے بھی بدتر حال تھا تو ماننا پڑے گا کہ جداگانہ انتخاب سے تعصب نہیں پیدا ہوا بلکہ تعصب کی وجہ سے مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا خیال پیدا ہوا ہے- اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ آج کل پہلے سے زیادہ تعصب کی صورت پیدا ہے تو اس کا باعث جداگانہ انتخاب کو قرار نہیں دیا جائے گا` بلکہ ہندوئوں کی اس بے چینی کو کہ جو حقوق وہ پہلے بلاشرکت غیرے استعمال کر رہے تھے` اب مسلمان بھی کسی قدر ان میں حصہ لے رہے ہیں-
میں اس قصہ کو ختم کرنے سے پہلے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نیابت کی اصل غرض ایک قوم کے صحیح خیالات کی ترجمانی ہوتی ہے- اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحیح ترجمانی ایک قوم کی اس کا ہم مذہب ہی اچھی طرح کر سکتا ہے- ہمیں یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ الیکشن کے وقت عارضی اور جوش دلانے والے سوالات اٹھا کر ووٹ حاصل کر لئے جاتے ہیں- لیکن دوران اجلاس کونسل میں بیسیوں نئے سوال پیدا ہو جاتے ہیں جن کا خود انتخاب کرنے والوں کو کوئی علم نہیں ہوتا- پس اصل نیابت وہی ہے جو اپنے ہم مذہب کریں تا کہ ہر نئے پیش آمدہ معاملہ میں صحیح نیابت ہو سکے- اور یہ امر اس وقت تک ضروری ہے جب تک کہ قوم کی ایسی حالت نہ ہو جائے کہ سب لوگ مذہب اور پالیٹکس (POLITICS) کو الگ رکھنے کے عادی ہو جائیں- اور تمام اقوام کے تعلقات مضبوط ہو کر ایک ہندوستانی نیشنلٹی (NATIONALITY) پیدا ہو جائے اور اختلاف دور ہو جائے- اور اختلاف بالفاظ پروفیسر ایل- بی- مرے MURREY)۔B۔(L ایک دن میں اور سچی خواہشات سے دور نہیں ہو سکتا >بلکہ وہ صرف آہستہ آہستہ باہمی روا داری کے ذریعہ سے نسلوں کے بعد دور ہو سکتاہے<-
مسلمان کا چھٹا مطالبہ مذہب اور تمدن کی حفاظت
چھٹے امر کے متعلق مجھے اس جگہ مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں مذہب اور تمدن کی حفاظت کے متعلق اپنی مختلف تحریروں میں بہ تفصیل لکھ چکا ہوں- یہاں اس قدر کہہ دینا ضروری ہے کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونی چاہئے-
میرے نزدیک یورپ میں اقلیتوں کی حفاظت کیلئے جو کچھ کیا گیا ہے اس کی ایک مختصرفہرست شاید اس ہیڈنگ کی تفاصیل کیلئے مفید ہوگی- اس لئے میں ذیل میں چند وہ باتیں درج کرتا ہوں جو کہ اقلیتوں کی تہذیب اور ان کے مذہب کی حفاظت کیلئے ضروری سمجھی گئی ہیں- میرے نزدیک قانوناساسی بناتے وقت اور ہندو مسلم سمجھوتے کے وقت انہیں مدنظر رکھ لینا چاہئے-
کانگریس آف برلن ۱۸۷۸ء میں رومانیہ کی آزادی کے اعلان کے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کی حفاظت کیلئے یہ شرطیں کی گئی تھیں-
اول-: مذہب` عقیدہ اور خاص اصول کی وجہ سے کسی کو دیوانی یا فوجداری حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا نہ سرکاری عہدوں` عزتوں یا مجالس سے محروم کیا جائے گا اور نہ مختلف پیشوں اور حرفتوں سے روکا جائے گا-
دوم-: مذہبی مجالس کے بنانے یا تنظیم سے یا مذہبی پیشوائوں کی ملاقات سے ملک کے اندر یا باہر نہیں روکا جائے گا-
لیگ آف نیشنز (LEAGUEOFNATIONS) کی نگرانی کے ماتحت جو معاہدات اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ہوئے ہیں ان میں پولینڈ سے یہ اقرار لیا گیا ہے کہ ان ضلعوں اور شہروں میں جہاں اقلیت ایک معقول تعداد میں رہتی ہو- گورنمنٹ ذمہ دار ہوگی کہ پرائمریسکولوں میں اس کی زبان میں تعلیم دے- ایسے ضلعوں میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی رقم سرکاری خزانہ سے تعلیمی` مذہبی یا خیراتی کاموں کے لئے دی جائے تو اقلیت کو بھی اس کی تعداد کے مطابق اس روپیہ میں سے حصہ دیا جائے- )مادہ نو( اور ان حقوق کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی صورت میں موقوف نہیں کئے جا سکتے-
یہودیوں کے متعلق اسی معاہدہ کے مادہ دس میں لکھا ہے کہ جو روپیہ یہودیوں کی تعلیم کے لئے الگ کیا جائے گا وہ یہودیوں کی منتخب کردہ کمیٹیوں کی معرفت خرچ ہوگا- مادہ گیارہ میں لکھا ہے کہ یہودیوں سے کوئی ایسا کام نہ کرایا جائے گا جس کی وجہ سے ان کے سبت کی حرمت میں فرق آتا ہو- )جمعہ کی بے قدری کرنے والے مسلمان اس سے سبق حاصل کریں- یہ ایک مردہ قوم کا حال ہے جب کہ مسلمانوں کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابدی طور پر زندہ ہے( ہاں فوجی اور پولیس کی ضرورتوں کے وقت اس کا لحاظ نہیں رکھا جا سکے گا- انتخاب ہفتہ کے دن نہ ہوا کریں-
یوگوسلیویا سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت میں مسلمانوں کو قانون وراثت` طلاق` نکاح` حقوق زن و شوہر کے متعلق اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہوگی- )یاد رکھنے کے قابل ہے( حکومت مساجد` تکیوں اور دوسری مسلمانوں کی عمارات کی حفاظت کی ذمہدار ہوگی- اوقاف میں کسی قسم کا تصرف نہ کیا جائے گا- )یاد رکھنے کے قابل ہے( اور آئندہ نئے اوقاف یا ایسے صیغوں کے قیام میں کوئی روک نہ ڈالی جائے گی-
زیکوسلویکا میں زبان کی تعلیم کو پرائمری تک محدود نہیں کیا گیا-
البانیہ سے یہ معاہدہ لیا گیا ہے کہ اس میں ایسا طریق انتخاب جاری کیا جائے گا- جس میں اقلیتوں کے قومی مذہبی اور لسانی حقوق کی نگہداشت پوری طرح ہوتی جائے گی-
جزائر الانڈ کے متعلق فن لینڈ سے یہاں تک معاہدہ لیا گیا ہے کہ جن سکولوں میں فنشزبان میں تعلیم دی جائے ان کے لئے الانڈ کے باشندوں سے روپیہ نہ لیا جائے-
پولینڈ سے یہودیوں کے متعلق یہ اقرار بھی لیا گیا کہ یہودیوں کے مذہبی سکولوں میں تعلیم پانا بھی جبری تعلیم کے قانون کو پورا کرنے کا موجب سمجھا جائے گا- )مسلمان اسے بھی یاد رکھیں( یہ بھی شرط رکھی گئی کہ یہودی ملازموں اور سپاہیوں کو نماز کیلئے وقت دیا جائے گا- انہیں ان کے مذہب کے مطابق غذا مہیا کر کے دی جائے گی- علماء فوجی جبری خدمت سے آزاد ہونگے- )یہ امور بھی فیصلہ کے وقت یاد رکھنے چاہئیں(
یہ امر بھی واضح ہونا چاہئے کہ کسی قوم کے بادشاہوں کو حقیر کر کے سکولوں کی کتابوں میں نہ دکھایا جائے گا- کیونکہ اس سے قومی کریکٹر بچوں کا تباہ ہو جاتا ہے- یورپ کی بعض حکومتوں میں کیا جاتا ہے اور ہندوئوں کے دماغ کی افتاد خاص طور پر اس ناپسندیدہ طریق کے مطابق معلوم ہوتی ہے-
اوپر کے بیان کردہ امور سے یہ امر بخوبی سمجھ میں آسکتا ہے کہ قومی حفاظت کے سوال کے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بات چھوٹی ہے یا بڑی- بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو قوم کے کیرکٹر کا کیا حال ہوگا- پس ضروری ہے کہ مذہب اور تمدن اور زبان کی حفاظت کیلئے پورے سامان پیدا کر لئے جائیں-
قوانین کے صحیح استعمال کی ضمانت
میں نے بتایا تھا کہ قوانین کے صحیح استعمال کی بھی کوئی ضمانت ہونی چاہئے- کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کے صحیح استعمال کے بغیر قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا- اس غرض کے پورا کرنے کے دو طریق دنیا میں مقرر ہیں- )۱(اقلیت کو اس کی تعداد کے مطابق ہر قسم کی ملازمتوں میں حصہ دیا جائے- )۲(کوئی ایسی عدالت اپیل ہو جس کے پاس اختلاف کی صورت میں معاملہ پیش کیا جا سکے-
مسلمانوں کی طرف سے پہلا مطالبہ ہمیشہ پیش ہوتا رہتا ہے- اور انہیں قابلیت کا عذر پیش کر کے ہمیشہ ان کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے- لیکن یہ عذر بالکل جھوٹا ہے- مسلمان ہر گز ناقابل نہیں ہیں بلکہ انہیں ناقابل ظاہر کیا جاتا ہے- اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں کہ ایک مسلمان انگریز افسروں کے ماتحت ہر قسم کی ترقیات کا مستحق ہوتا رہا ہے` مگر ہندوافسر کے ماتحت آتے ہی ناقابل ہو جاتا ہے- پس ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی قابلیت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے- ہاں اس کی قابلیت کے چھپانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور انگریز حکام بھی شکایتیں کر کر کے بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- اور یہ ظاہر بات ہے کہ ہندو چونکہ پرانے زمانہ سے دفاتر میں گھسے ہوئے ہیں` وہ زیادہ بھی ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر بھی سرفراز ہیں` انہیں انگریزوں کے کان بھرنے کا اچھا موقع ملتا ہے- اس وجہ سے بعض انگریز بھی خیال کرنے لگے ہیں کہ مسلمان نالائق ہیں- حالانکہ اگر ان عہدہ داروں کے ریکارڈ نکال کر دیکھے جائیں جن کو نالائق قرار دیا جاتا ہے تو اکثر ایسے نکلیں گے جو ہندو افسر کی ماتحتی میں آنے سے پہلے نہایت اعلیٰ ریکارڈ رکھتے تھے- مگر افسوس ہے کہ انگریز افسر بھی بغیر محنت کے صرف سنی سنائی باتوں پر یقین لا رہے ہیں- اور ایک قوم کی قوم کے خون کرنے سے نہیں ڈرتے-
تناسب آبادی کے مطابق ملازمتیں
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قوم کی تعداد کے مطابق عہدوں کا مطالبہ رائج الوقت سیاست کے خلاف ہے- یورپ کی اقلیتوں کے متعلق یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے- اور اس مطالبہ کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے- پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں اس مطالبہ کو ادنیٰ اور فضول قرار دیا جائے- چنانچہ مثال کے طور پر پولینڈ کو ہی لے لو- اس میں یہودیوں کی اقلیت کے متعلق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ-:
>یہودیوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جائے گا<- ۶۲~}~
لٹویا حکومت کے انتظام کے دیکھنے کیلئے لیگ کی کونسل نے ایک کمیشن مقرر کیا تھا- اس نے جو رپورٹ کی ہے` اس سے بھی معلوم ہوتا کہ اس اصل کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے- کمیشن لکھتا ہے کہ یہودیوں سے انصاف نہیں ہوتا- حکومت کے عہدوں میں یہودی اپنی تعدادآبادی سے بہت کم حصہ پا رہے ہیں- ۶۳~}~
ملازمتوں کا سوال نہایت اہم ہے
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملازمتوں کے سوال کو معمولی نہیں قرار دیا جاتا- اور اس کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہر اک قوم اپنی تعداد کے مطابق حکومت کے عہدوں میں حصہ پائے` تا کہ اس کے ہم مذہب اس امر کا خیال رکھ سکیں کہ اس قوم کے وہ حقوق جو قانون کے ذریعہ سے محفوظ کر دیئے گئے تھے قانون کے استعمال کے ذریعہ سے ضائع تو نہیں کر دئے گئے-
غرض ملازمتوں میں مناسب حصہ پانا ہر اک قوم کی ترقی کیلئے ضروری ہے- اور یہ ضروری ہے کہ آئندہ نظام حکومت میں اس کا بھی انتظام کر لیا جائے-
برطانیہ کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے
دوسرا طریق قانون اساسی کے استعمال کی حفاظت کا` اپیل ہے- ہندوستان کے حالات کے لحاظ سے اس میں دقتیں ہیں- ہندوستان کی حکومت کا منزل مقصود ڈومینین سلف گورنمنٹ (DOMINIONSELFGOVERNMENT) رکھا گیا ہے- اور میرے نزدیک یہی صحیح راہ ہے- بعض لوگ تو اسے درمیانی راہ سمجھتے ہیں اور اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ضروری خیال کرتے ہیں- میرا اپنا خیال ہے کہ اپنی ذات میں بھی یہ طریق حکومت بہترین ہے اور خصوصاً مسلمانوں کیلئے- اس وقت نہ تو انگریز اس امر کو سمجھ رہے ہیں اور نہ ہندوستان اس امر کو سمجھتا ہے کہ برطانیہ کا مستقبل ایشیا اور خصوصاً اسلام سے وابستہ ہے- لیکن زمانہ مستقبل انشاء اللہ اس امر کو ثابت کر دے گا کہ حقیقت یہی ہے- انگلستان صدیوں کی عادت سے مجبور ہو کر اس امر کا اقرار کر سکے یا نہ کر سکے` حق یہی ہے کہ اس کی گرفت یورپ پر کمزور ہو چکی ہے- اس کا دبدبہ اب وہ نہیں جو پہلے تھا- اس کی جگہ آج ریاست ہائے متحدہ نے لے لی ہے- جس طرح کئی صدیاں پہلے انگلستان کی پالیسی تھی کہ یورپ کے معاملات میں دخل نہیں دینا- اسی طرح آج امریکہ کی بھی حالت ہے- مگر جس طرح انگلستان کو حالات سے مجبور ہو کر ایسی پالیسی کو بدلنا پڑا` اسی طرح ریاستہائے متحدہ کو بھی بدلنا پڑے گا- اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کی طاقت کا احساس بیرونی طاقتوں کو زیادہ ہونے لگے گا- اور انگلستان مجبور ہوگا کہ اپنی پوزیشن کے قیام کیلئے اور حلیف تلاش کرے- بلکہ یوں کہو کہ اور حلیف تراشے اور اس وقت سوائے ایشیاء کے اور خصوصاً اسلام کے ساتھ اتحاد کے بغیر انگلستان اپنا سر اقوام عالم میں اونچا نہیں رکھ سکے گا- جس طرح رومی حکومت جس وقت بازنٹائن حکومت میں تبدیل ہوئی تھی تو اس کی طاقت کا انحصار ایشیاء پر ہو گیا تھا` اسی طرح انگلستان سے ہوگا- اور جس وقت یہ احساس انگلستان میں پیدا ہونا شروع ہوگا` اس وقت وہ اسلام کی طرف خاص طور پر توجہ کرے گا- جس طرح براعظم کی طاقتوں کی مخالفت نے رومنکیتھولک انگلستان کو پروٹسٹنٹ بنا دیا تھا` اسی طرح نئی مخالفت کا دور اس کے اندر ایک نئی مذہبی تبدیلی پیدا کر دے گا- اور اس کے افراد اپنے اندر ایک فکر کی آزادی محسوس کریں گے- اور اس وقت اسلام کے لئے ایک خاص موقع ہوگا- بہرحال انگلستان کا مستقبل ایشیا سے وابستہ ہے اور اس صورت میں یقیناً ایشیا کی ترقی میں انگلستان ایک بڑی مدد ثابت ہوگا- اور اس کا نیا نقطہ نگاہ اس کے موجودہ رویہ کو بالکل بدل دے گا- پس نہ صرف وقتی تدبیر کے طور پر بلکہ ایک مستقل تدبیر کے طور پر انگلستان کے ساتھ اتحاد ہندوستان کے لئے اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے مفید ہے- اور انہیں موجودہ حالات کی بجائے ان تغیرات پر زیادہ نگاہ رکھنی چاہئے جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں اور جن کا اثر مستقبل میں ایسے طور پر ظاہر ہونے والا ہے کہ وہ موجودہ حالات کو بالکل بدل ڈالیگا-
قانون اساسی کے غلط استعمال پر اپیل کی گنجائش ہونی چاہئے
میں اصل مبحث سے کسی قدر دور جا پڑا ہوں- لیکن میرے نزدیک اتنا دور نہیں کہ جتنا بادی النظر سے دیکھنے والا خیال کرے گا- میرا مطلب یہ ہے کہ انگلستان سے تحالف جس کا بہترین ذریعہ بادشاہ انگلستان سے وابستگی ہے اور جسے دوسرے لفظوں میں ڈومینین سلف گورنمنٹ کہتے ہیں اس وقت ہندوستان کی حکومت کا مقصد رکھا گیا ہے- اور اس قسم کی حکومت کے ماتحت ایک غیر جانبدار جماعت کے پاس اپیل کا راستہ کھلا رکھا جا سکتا ہے- پس قانون اساسی میں اس کی اجازت ہونی چاہئے کہ جب کوئی فرد یا افراد دیکھیں کہ قانون اساسی کو حکومت غلط استعمال کر رہی ہے تو اس کے خلاف اپیل کر سکیں- اور یہ اپیل جیسا کہ دوسری ڈومینینز کے متعلق طے ہو چکا ہے` پریوی کونسل میں ہونی چاہئے- میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہندوئوں کے زور آور ہونے کی حالت میں ایسی اپیلوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے گی- مگر صوبہجات کو حکومت خود اختیاری حاصل ہونے کی صورت میں مسلمانوں کی آواز اس قدر کمزور نہ ہوگی- اور ضرور ایسی اپیلوں سے قانون شکنی میں ایک حد تک روک پیدا ہو جائے گی-
قانون اساسی میں تبدیلی
قانون اساسی کے غلط استعمال کے علاوہ جیسا کہ میں لکھ آیا ہوں- قانون اساسی میں تبدیلی کے طریق کا بھی سوال ہے- اگر قانوناساسی اس طرح تبدیل ہو سکے کہ جب چاہے اکثریت اسے بدل ڈالے` تو ہماری ساری بحثیں اور ہماری ساری کوششیں لغو اور فضول ہو جاتی ہیں- کیونکہ اس صورت میں جب چاہیں ہندو ان اختیارات کو جو اس وقت مسلمانوں کو مل جائیں سلب کر سکتے ہیں- پس ضروری ہے کہ قانوناساسی کی تبدیلی کو ایسی شرائط سے مشروط کیا جائے کہ ایک بڑی بھاری قوم کی مرضی کے بغیر ہی اس میں تبدیلی اور تغیر نہ ہو سکے- میں افسوس سے کہتا ہوں کہ موجودہ قانون میں اس امر کا کوئی انتظام نہیں ہے بلکہ قانون اساسی کی تبدیلی کیلئے صرف دو تہائی ممبروں کے ووٹ کافی رکھے گئے ہیں- پس چونکہ نہرو کمیٹی کی تجاویز کے مطابق کم سے کم پچھتر فیصدی ہندوممبر ضرور مرکزی پارلیمنٹوں میں ہونگے` اس لئے قانون اساسی کا صرف ہندو ووٹروں کی مدد سے بدلایا جا سکنا بالکل ممکن ہے- اور یہ صورت کہ ایک ملک کا قانون اساسی ملک کی ایک اہم اقلیت کی مرضی کے صریح خلاف بدلا جا سکے- ملک کے امن کا کبھی موجب نہیں ہو سکتا- پس اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم سے کم چونتیس یا تینتیس فیصدی کی جائے- تا کہ کوئی ایسی تبدیلی بغیر مسلمانوں کی رائے کے نہ ہوسکے-
زائد نمائندگی خلاف اصول نہیں
یہ کہنا کہ اقلیتوں کو زائد نمائندگی دینا اصول کے خلاف ہے- دنیا کی کانسٹی ٹیوشنز (CONSTITUTIONS) سے بے خبری کا ثبوت ہے- زیکو سلویکا میں اقلیتوں کو ان کی تعداد سے زائد حقوق دیئے گئے ہیں- چنانچہ جرمن اقلیت نے پانچ اپریل ۱۹۲۲ء کو لیگ آف نیشنز میں جب شکایت کی کہ ان سے زیکو سلیویکا میں اچھا سلوک نہیں ہوتا- تو جو جواب لیگ کو سلویکاگورنمنٹ نے دیا اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ-:
>وہ )یعنی جرمن( باوجود اس کے قومی مجلس میں اپنی تعداد سے زیادہ نشستیں رکھتے ہیں- اور اگر انہیں کافی اکثریت حاصل ہو جائے تو قانون اساسی کو بدل سکتے ہیں<- ۶۴~}~
غرض میرے نزدیک ایک علاج موجودہ مشکل کا یہی ہے کہ مسلمانوں کو چونتیس )۳۴( یا کم سے کم تینتیس )۳۳( نشستیں مرکزی پارلیمنٹ اور سینٹ میں دی جائیں تا کہ ان کی رائے کے بغیر قانون اساسی نہ بدل سکے-
اسلامی مفاد سے تعلق رکھنے والے امور میں تبدیلی
مذکورہ بالا علاج تو عام امور کے متعلق ہوگا لیکن بعض سوالات مسلمانوں کے خاص حقوق سے تعلق رکھتے ہیں- اور میرے نزدیک ان کی تبدیلی سوائے مسلمانوں کی مرضی کے کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے- وہ امور وہی ہیں جن کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں- ان امور کے متعلق لکھنئو پیکٹ والا سمجھوتہ بہترین ہے- یعنی یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان امور میں تبدیلی اس وقت تک نہیں ہونی چاہئے کہ جب تک مرکزی پارلیمنٹ کے منتخب شدہ مسلمان ممبر دوتہائی ووٹ کے ساتھ کسی تبدیلی کے حق میں رائے نہ دیں- اس وقت تک مذکورہ بالا امور کے متعلق جو قانون اساسی تیار ہو` اس میں کوئی تبدیلی نہ ہو- اور نیز یہ کہ ایسے قانون کو صرف انہی صوبوں میں رائج کیا جا سکے جہاں کے دو تہائی مسلمان ممبر اپنے صوبہ میں اس کے اجراء کا فیصلہ کر دیں-
ان احتیاطوں سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت ہو سکتی ہے- اور کوئی وجہ نہیں کہ ہندو صاحبان ان احتیاطوں کے متعلق راضی نہ ہوں-
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے
میں اس وقت تک نہرو رپورٹ کے ان ضروری امور کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں جن کا تعلق مسلمانوں کے مطالبات کے ساتھ ہے- پس اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے-
بہت سے لوگ ہونگے جو نہرو رپورٹ کے نقائص کو دیکھ کر یہ کہہ دیں گے کہ ہم اس رپورٹ کو تباہ کر دیں- لیکن میں اس رائے کے سخت مخالف ہوں- جو کچھ میں اوپر لکھ چکا ہوں اس سے قارئین سمجھ گئے ہونگے کہ اسلامی مفاد کی حفاظت کے معاملہ میں نہرو رپورٹ کی مخالفت میں کسی دوسرے شخص سے میں پیچھے نہیں ہوں- لیکن باوجود اس کے میں اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ اپنے رنگ کی پہلی کوشش ہے جس میں ہندوستانیوں کی طرف سے اپنے نصب العین کو تفصیلی رنگ میں پیش کیا گیا ہے- اور اس لئے اس امر کی مستحق ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہو سکے تو ہم اس کی اصلاح کر دیں اور اسے اپنا متفقہ مطالبہ بنا لیں- وہ قوم جو ہر روز نئے سرے سے کام شروع کرتی ہے` اپنے کام میں ہرگز کامیاب نہیں ہوتی- نئے سرے سے کام شروع کرنے میں یہ نقص ہوتا ہے کہ سب سوالات پر پھر نئے سرے سے بحث ہوتی ہے- پھر دوبارہ ان امور پر وقت خرچ کیا جاتا ہے جن پر ایک دفعہ وقت خرچ ہو چکا ہوتا ہے- اور نیاجوش اور نیا ولولہ پھر اس مقام پر پہنچنے تک خرچ ہو جاتا ہے جس مقام تک کہ ہم پہلے پہنچ چکے تھے- اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کولہو کے بیل کی طرح دماغ` وقت` روپیہ بلکہ اتحاد کی قربانیوں کے بعد پھر اسی جگہ کھڑا رہتا ہے جس جگہ کہ وہ اس تحریک سے پہلے تھا- وہ قوم جو نئے سرے سے ریل اور تار کی ایجاد میں مشغول ہوگی تا کہ کسی کی ممنون احسان نہ ہو` کبھی دوسری اقوام کے مقابلہ پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوگی- پس میرے نزدیک ہماری کوشش یہ نہ ہونی چاہئے کہ ہم اس رپورٹ کو تباہ کر دیں- بلکہ یہ کہ ہم اس رپورٹ میں اصلاح کریں اور اگر اس رپورٹ کے مرتب کرنیوالوں نے بعض اچھی باتیں لکھی ہیں تو ان کا فخر انہیں حاصل ہونے دیں- اور اپنے کام کی بنیاد حسد اور افتراق پر نہیں بلکہ حبالوطنی اور اعتراف خدمات پر رکھیں- میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہم اس طرح کام کریں گے تو ہمارے لئے کامیابی آسان ہو جائے گی- ہمیں یہ نہیں بھلانا چاہئے کہ اس رپورٹ کے لکھنے والے خواہ کتنے ہی تجربہ کار اور خیر خواہ ملک افراد ہوں مگر پھر بھی دو ایک خاص مذہب اور سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے اور طبعاً ان کا میلان اس مذہب اور سوسائٹی کی طرف تھا- پس ہمیں ان کی اس بشری کمزوری اور نقص کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے معاملہ کرنا چاہئے- اور سوچنا چاہئے کہ اگر فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو شاید ہم میں سے بعض ویسی ہی کمزوری دکھاتے- پس میرے نزدیک ملک کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اس رپورٹ کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں نہ کہ تردید کی نظر سے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ رپورٹ لکھنے والوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ان کی تجاویز ایسی ہیں کہ اگر انہیں قبول کرنا ہو تو یکجائی صورت میں وہ قبول کی جا سکتی ہیں- لیکن ان کی اس رائے کا ملک پابند نہیں ہے- ان کے مدنظر رپورٹ لکھتے وقت یہ تھا کہ ہم کچھ نہ کچھ کر کے دکھائیں- اور ہمارے مدنظر یہ ہوگا کہ ہم اس کام میں سے اچھا اور برا الگ الگ چھانٹ لیں- پس ہمیں حق ہے کہ ہم مناسب تبدیلیاں کر کے اپنے ہمسایوں سے کہیں کہ آپ نے اپنی قوم کے فوائد کو سوچ لیا ہے- ہم نے اپنی قوم کے منافع پر غور کر لیا ہے- آئو اب ملکر فیصلہ کر لیں کہ کس نقطہ پر ہم دونوں جمع ہو سکتے ہیں-
ووٹ دہندگی کا سوال غور طلب ہے
میرے نزدیک صرف انہی مطالبات پر غور کرنا ضروری نہیں ہے جن کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں- بلکہ اس کے علاوہ اور بھی سوالات ہیں کہ جن پر اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے- مثلاً ایک سوال حق ووٹ دہندگی کا ہے- یہ سوال بہت پیچیدہ ہے- میرے نزدیک عورتوں کا بھی حق ہے کہ وہ مشورہ میں حصہ لیں- اور ہم ایک حصہ انسانی کو اس کے حقوق سے یکسر محروم نہیں کر سکتے- لیکن دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر ہر بالغ مرد و عورت کو ووٹ کا حق دیا جائے تو مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے- مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور ان کی عورتیں ان کے مردوں سے بھی- پھر پردہ کا سوال ہے- ووٹ دینا اگر ہر ووٹر کے لئے جیسا کہ زیکوسلویکا اور بعض دوسری حکومتوں میں لازمی قرار دیا گیا ہے` یہاں بھی لازمی قرار دیا جائے- اور نہ دینے والے کو سزا ملے تب تو شاید مسلمان عورتیں ووٹ دینے کیلئے نکلیں- ورنہ قریباً ناممکن ہے- پس ہمارے لئے غور کر کے کسی درمیانی نتیجہ پر پہنچنا نہایت ضروری ہے-
خارجی تعلقات
دوسرا سوال خارجی تعلقات کا ہے- نہرو کمیٹی نے خارجی تعلقات کے متعلق صرف ایک مختصر سا نوٹ دیا ہے- اور نہایت ہوشیاری سے اس کی تفصیلات میں پڑنے سے گریز کیا ہے لیکن جو کچھ انہوں نے اشارتاً کہا ہے- وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے- ان کے بیان کا ماحصل یہ ہے کہ برطانیہ ہندوستانی گورنمنٹ کی وساطت سے جو معاملہ ہندوستان کے اردگرد کی ایشیائی حکومتوں سے کرتا ہے- وہی آئندہ ہندوستانی حکومت ان حکومتوں سے کرے- میرے نزدیک وہ دن اسلامی حکومتوں کیلئے نہایت ہی تاریک ہوگا جب عرب پر اوم کا جھنڈا گاڑنے کی نیت رکھنے والے ہندوستان کی خارجی پالیسی کے نگران ہوئے اور افغانستان` ایران اور عرب کے تعلقات ان کے سپرد کئے گئے- انگلستان کے تعلقات ان ایشیائی حکومتوں سے بالکل ہی اور اصول پر مبنی ہیں- ان کی پشت پر اقتصادی برتری کا خیال متحرک ہے- لیکن آزاد ہندوستان کی حکومت جو ابھی سے سیاسی برتری کے خواب دیکھ رہی ہے ان تعلقات کو بالکل ہی اور نگاہ سے دیکھے گی- پس میرے نزدیک خارجیتعلقات برطانوی گورنمنٹ کے ہی ہاتھوں میں رہنے چاہئیں- سوائے ان چھوٹے معاملات کے جو تجارت` مسافروں` ڈاک خانہ اور اسی قسم کے چھوٹے معاملات سے تعلقات رکھتے ہیں- ورنہ ہندوستانی حکومت پاس کی اسلامی حکومتوں کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کی کوشش کرتی رہے گی-
احترام جمعہ المبارک
تیسرا سوال جمعہ کے احترام کا سوال ہے- قومی زندگی کے برقرار رکھنے کیلئے یہ سوال نہایت اہم ہے- اگر یہودی اپنی شریعت کے نزول کے ساڑھے تین ہزار سال بعد اپنے سبت کی حفاظت ضروری سمجھتے ہیں اور مسیحی اتوار کی حفاظت معاہدات کے ذریعہ سے کراتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جمعہ کی نماز کیلئے سہولت کو قانون کا ایک اہم جزو قرار نہ دیں-
اسلامی مذہبی قانون
چوتھا سوال اسلامی مذہبی قانون کا ہے- ایک مشترکہ حکومت میں خالص اسلامی قانون تو رائج نہیں ہو سکتا- لیکن کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اہلی اور عائلی معاملات میں اسلامی قانون کے نفاذ پر زور نہ دیں-
ہائیکورٹوں کے جج
پانچواں سوال ہائیکورٹ کے ججوں کے متعلق ہے- صوبہ جات کی کاملخوداختیاری کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک ضروری ہے کہ صوبہجات کے ہائیکورٹوں کے جج صوبہ جات ہی کی طرف سے مقرر کئے جائیں اور انہی کی کونسلوں کے فیصلہ پر ان کی علیحدگی وقوع میں آئے-
نہرو رپورٹ نے اس کا اختیار گورنر جنرل کو دیا ہے- مگر آئینی گورنر جنرل اپنے وزراء کے مشورے پر کاربند ہونے پر مجبور ہوگا اور مرکزی حکومت کے وزراء تمام کے تمام یا اکثر ہندو ہی ہونگے- پس اگر اس طریق کو جاری کیا گیا تو تمام ہائیکورٹ ہندوئوں کے اختیار میں چلے جائیں گے- ہاں سپریم کورٹ گورنر جنرل کے ساتھ وابستہ ہونا چاہئے-
علاوہ ان معاملات کے جو مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں- عام معاملات حکومت کے متعلق بھی ہمارے لئے غور کرنا ضروری ہے- میرا خیال ہے کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والوں نے ان نئی کانسٹی ٹیوشنز (CONSTITUTIONS) کا گہرا مطالعہ نہیں کیا جو جنگ کے بعد نئی حکومتوں نے اپنے لئے تجویز کی ہیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں مزید غور سے نہرو رپورٹ کی تجویز کردہ کانسٹیٹیوشن سے بہتر کانسٹی ٹیوشن تیار ہو سکتی ہے-
ریاستوں کا سوال
ریاستوں کا سوال بھی ابھی حل نہیں ہوا- نہرو کمیٹی کا تجویز کردہ طریقعمل نہ معقول ہے نہ ریاستوں کو منظور ہو سکتا ہے- انگریز تو ریاستوں پر اپنے غلبہ کی وجہ سے حکومت کر رہے تھے- آئندہ نظام حکومت میں ایک حصہ ہندوستان کو دوسرے حصہ ہندوستان پر حکومت کرنے کا اختیار کس طرح ہو سکتا ہے- پس ضروری ہے کہ مزید غور کے بعد ایک ایسا نظام تجویز کیا جائے جو ایک طرف ہندوستان کے اتحاد میں فرق نہ آنے دے- اور دوسری طرف ہندوستان کے بعض حصوں کو دوسرے حصوں کے ماتحت نہ کر دے- میرا خیال ہے کہ اگر ریاستوں کو کامل خود اختیاری حکومت دے کر جس میں وہاں کے باشندوں کے حقوق کی بھی حفاظت کر لی گئی ہو ایک مستقل انڈین امپیریل کانفرنس(INDIANIMPERIALCONFERENCE) کی بنیاد رکھی جائے- اور سینٹ کو اڑا دیا جائے تو موجودہ مشکل کا ایک حل نکل سکتا ہے اس کانفرنس میں صوبہ جات کے نمائندے مجلسیکونسل کے نمائندے اور ریاستوں کے نمائندے ہوں- اور یہ ایسے امور کے متعلق فیصلہ کرے- جو صوبہجات کے باہمی تعلقات یا اہم آل انڈیا (ALLINDIA) معاملات سے تعلق رکھتے ہوں یہ کانفرنس واضع قوانین نہ ہو` بلکہ تنفیذی ہو یعنی ایڈمنسٹریٹو )EVITAR(ADMINIST معاملات کے ساتھ اس کا تعلق ہو-
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مجلس کو پریوی کونسل کے طور پر مزید حقوق کے ساتھ گورنرجنرل سے وابستہ کر دیا جائے- اور قانون اساسی کے اختلافات کے متعلق بھی یہی رائے دیا کرے-
‏a.10.26
آل پارٹیز مسلم کانفرنس
خلاصہ یہ کہ ہمیں نہرو کمیٹی کی رپورٹ پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے اول تو ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہونی چاہئے- جس میں عام مسلمان فرقوں کے نمائندے طلب کئے جائیں- مجھے اس بات کو معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ ایسی کانفرنس کی بنیاد لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلمان نمائندوں نے رکھ دی ہے- اور دسمبر میں اس کے انعقاد کی تجویز ہو رہی ہے- اس لئے مجھے اس امر پر زیادہ زور دینے کی تو اب ضرورت نہیں معلوم ہوتی- لیکن میں اس کانفرنس کے داعیان کو اس امر کی طرف توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ اس کی دعوت کو جس قدر بھی زیادہ وسیع کریں` مفید ہوگا- اور ان کی کامیابی کا انحصار ان کی دعوت کی وسعت پر ہوگا- یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مخالف خیالات کے لوگوں کو کثرت سے دعوت دیں کانفرنس میں بولنے والوں کیلئے وقت کی تعیین کر دی جائے- جو موافق و مخالف پر یکساں حاوی ہو لیکن بولنے کا پورے طور پر ہر ایک کو موقع دیا جائے- اگر نہرو کمیٹی کے مخالف اور موافق دونوں فریقوں کو یکساں حقوق اور نمائندگی کے ساتھ اس میں شامل نہ کیا گیا تو مسلمانوں کی آواز کبھی مضبوطی کے ساتھ بلند نہ ہوگی- مخالفت سچائی کو کمزور نہیں کرتی` بلکہ مضبوط کرتی ہے- ہمیں اپنے ذاتی خیالات پر اسلام اور مسلمانوں کے فوائد مقدم ہونے چاہئیں- اگر کوئی شخص ہم سے بہتر خیالات رکھتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے خیالات کو رد کر دیں- ہمیں اسے دور ہٹانے کی بجائے اسے قریب بلانا چاہئے اور اس کی رائے کو شوق سے سننا چاہئے- کیونکہ رائے کی مضبوطی ہم خیالوں کی تائید سے نہیں بلکہ مخالف کی تنقید سے ہوا کرتی ہے- ہمیں چاہئے کہ اس کانفرنس میں نہرو کمیٹی پر اصولی بحث کریں لیکن چونکہ ایسی کانفرنسوں میں تفصیلی طور پر غور کرنا ناممکن ہوتا ہے- اس لئے اصولی طور پر غور کرنے کے بعد ایک سب کمیٹی مقرر کرنی چاہئے- جو نہرو کمیٹی پر تفصیلی اور باریک نگاہ ڈالے اور اس کی خامیوں میں اصلاح کرنے کی اور کمیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے- اور ایک مکمل نظام تیار کر کے جس میں نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو` بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون پیش کیا گیا ہو- آل انڈیا مسلم کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں پیش کرے- اور اگر کل مسلمان متحدہ طور پر اسے منظور کر لیں یا ان کی اکثریت اس کی تائید کرے- تو اس قانون اساسی کو شائع کر دیا جائے- کیونکہ ایک مکمل قانون اساسی جو اثر پیدا کر سکتا ہے وہ محض تنقید نہیں پیدا کر سکتی- نہرو کمیٹی نے جو اس وقت شور پیدا کر دیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ایک مکمل قانون ہے- پس جب تک ہم بھی نہرو کمیٹی میں مناسباصلاحات کر کے ایک مکمل قانون نہیں پیش کریں گے- اس وقت تک دنیا ہمیں ایک عملیسیاست دان کی حیثیت میں نہیں` بلکہ ایک حاسد تنقید کرنے والے کی شکل میں دیکھے گی-
نہرو رپورٹ کے خلاف پروپیگنڈے کی ضرورت
‏]1text [tagدوسری بات جس کی ہمیں ضرورت ہے یہ ہے کہ ہر شہر اور قصبہ میں جلسے کر کے یہ ریزولیوشن پاس کئے جائیں کہ نہرو کمیٹی کی رپورٹ سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان جلسوں کی رپورٹوں کو گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجا جائے- کیونکہ تعاون یا عدمتعاون کے سوال سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ نہرو کمیٹی گورنمنٹ کے حلقوں میں ایک خاص جنبش پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے- اور اگر مسلمانوں نے ایک پراثر اور پرزور آواز نہ اٹھائی تو یقیناً گورنمنٹ بھی اور دوسرے لوگ بھی یہی خیال کریں گے کہ مسلمان اس رائے سے متفق ہیں- اور اگر اس غلط خیال کے ماتحت آئندہ نظام حکومت میں بعض ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں جو مسلمانوں کے خلاف ہوں تو یقیناً جاری شدہ قوانین میں تبدیلی مشکل ہو جائے گی اور سٹیٹس کوا (STATUSQUO) کا پرانا مسئلہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں روک بن جائے گا-
مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرنے کی ضرورت
علاوہ ازیں اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں عام طور پر جلسے کر کے مسلمانوں کو ان کی بہتری اور ان کے فائدہ سے آگاہ کیا جائے نہرو رپورٹ کے حامی ہر جگہ پہنچ کر اپنے خیالات منوانے کی کوشش کر رہے ہیں- لیکن اس کے مخالفوں میں سے بہت ہی کم ہیں جو عامہالمسلمین کو اس کی خرابیاں بتانے کی طرف متوجہ ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ سیاست کے پیچیدہ مسائل بغیر سمجھائے کے عوام کی سمجھ میں نہیں آ سکتے- مسٹر گاندھی کی ساری طاقت ان کے رئوئیسخن کی تبدیلی میں پوشیدہ تھی- ان سے پہلے لیڈر ملک کے بہترین دماغوں کو مخاطب کرنے میں ہندوستان کی کامیابی کا راز مضمر سمجھتے تھے- گاندھی نے اپنا رخ عوام الناس کی طرف پھیر دیا- اور اس میں کیا شبہ ہے کہ حکومت جمہوری کا مطالبہ کرنے والے جمہور کو اپنے ساتھ ملائے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے- کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک طرف تو جمہوری حکومت کا مطالبہ کرے اور دوسری طرف جمہور سے پیٹھ پھیرے رکھے- پس ضروری ہے کہ عامہ المسلمین کو موجودہ حالات سے آگاہ کیا جاوے- اور ہر شہر ہر قصبے اور ہر گائوں میں جلسے ہوں اور مسلمانوں کو حقیقت حالات سے آگاہ کیا جاوے اور ان کی رائے کو مضبوط کیا جاوے- بڑے آدمیوں کی کانفرنس صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں بے شک ممد ہو سکے گی- لیکن وہ اس وقت تک کامیاب بنا دینے والے زور سے خالی رہے گی جب تک جمہور اس کی پشت پر نہ ہوں-
جماعت احمدیہ ہر جائز اعانت کے لئے تیا رہے
میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں- اور میں احمدیہ جماعت کے وسیع اور مضبوط نظام کو اس اسلامی کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں-
انگلستان کی رائے کو بدلنے کی کوشش
ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انگلستان کی رائے پر بھی اثر ڈالنے کی کوشش کریں- میں نے سر دست اس کے لئے تجویز کی ہے کہ اپنے اس مضمون کا انگریزی ترجمہ کرا کے پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے ذمہ دار انگریزوں میں تقسیم کرائوں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ نہرو رپورٹ کے لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالا نہیں رہ سکے اور اس میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پورے طور پر نہیں کی گئی-
ممبران پارلیمنٹ سے تعلقات کا فائدہ
مجھے نہایت افسوس ہے کہ ہندو انتہا پسند باوجود اپنے عدم تعاون کے دعووں اور سٹیجوں پر کھڑے ہو کر گورنمنٹ برطانیہ کو گالی دینے کے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبروں کو اپنے زیر اثر لانے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں- جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت دو تین درجن پارلیمنٹ کے ممبر انتہا پسند ہندئووں کے گہرے دوست ہیں- لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں سے حقیقی رنگ میں ہمدردی رکھنے والا ایک ممبر بھی نہیں- اسی طرح انگریزی پریس کے ایک حصہ پر بھی ہندو اثر رکھتے ہیں- لیکن مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں کی- اور اس وجہ سے انگلستان کے سیاسی حلقوں میں ہندئووں کی آواز کو جو اثر حاصل ہے` مسلمانوں کی آواز اس سے محروم ہے- میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک ہندو عدم تعاونی کو تو ضرورت ہو کہ وہ باوجود عدم تعاون پر عمل کرنے کے شخصی طور پر انگریز مدبرین کو متاثر کرنے کر کوشش کرتا رہے لیکن ایک مسلمان کے لئے یہ کام حرام ہو- زیادہ سے زیادہ ایک عدم تعاونی یہی کہے گا ناکہ انگریز ہمارے دشمن ہیں` لیکن کیا کوئی عقل مند بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ دشمن کے آدمی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانا برا ہے- میں تو انگریزوں کو اپنا دوست ہی سمجھتا ہوں- اور مجھے یقین ہے کہ انگریزوں اور اسلام کا مستقبل روز بروز متحد ہوتا چلا جائے گا- لیکن جو انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں` میں ان سے پوچھتا ہوں کہ دشمن کے آدمیوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے- یہ تو جنگ کی حکمتوں میں سے ایک بہترین حکمت ہے- اور جنگی حکمتوں کو ترک کرنے والا خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے-
مسلمانوں کو نصیحت
میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے تمام مسلمانوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ وقت ان کے لئے بہت نازک ہے- چاروں طرف سے تاریک بادل امڈے آرہے ہیں- زمانہ مسلمانوں کو ایک اور زخم دینے کو تیار ہے- ایک دفعہ پھر وہ بنیادیں جن پر انہیں عظیم الشان اعتماد تھا` ہل رہی ہیں- وہ عمود جن پر ان کے نظام کی چھتیں رکھی گئی تھیں` متزلزل ہو رہے ہیں- وہ لوگ جنہیں وہ اپنا سپاہی سمجھتے تھے` دشمن کی فوج میں شامل ہو کر ان سے لڑنے پر آمادہ ہیں- ان کی عقل اور ان کی دانش کے امتحان کا وقت پھر آ رہا ہے- خدا پھر دیکھنا چاہتا ہے کہ پچھلی مصیبتوں سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے- اور پچھلے تجربوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے- پس یہ وقت ہے کہ وہ بیدار ہوں` ہوشیار ہوں` زور دار تحریروں اور لچھے دار تقریروں کی سحرکاریوں سے متاثر ہونے کی بجائے ان آنکھوں سے کام لیں جو خدا نے انہیں دی ہیں- اور ان کانوں سے کام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے- اور اس دل و دماغ سے کام لیں جو ان کے رب نے انہیں بخشا ہے- اور اس بات کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ذلت کی چادر جو انہیں پہنائی جاتی ہے` وہ اسے ہر گز نہیں پہنیں گے- خدا نے مسلمانوں کو معزز بنایا تھا- مگر انہوں نے خود اپنے لئے ذلت خریدی- لیکن اب ان کو چاہئے کہ وہ ذلت کے جامے کو اتار پھینکیں- اور اپنی موروثی عزت کو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ لیں- ہاں مگر یاد رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے- کہ تو جس سے بھی محبت کرتا ہے` اس سے بھی حدود کے اندر ہی محبت رکھ- اور جس سے بغض رکھتا ہے` اس سے بھی حدود کے اندر ہی بغض رکھ- شرافت کا امتحان مخالفت ہی کے وقت میں ہوتا ہے- پس اپنے حقوق کے لئے پوری جدو جہد کریں- لیکن ایسے ذرائع اختیار نہ کریں جو دین اور دیانت کے خلاف ہوں- میں حیران ہوں کہ کیوں ان لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- جو مخالف خیالات رکھتے ہیں- ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی سنیں اور اپنی سنائیں- خیالات کا اختلاف تو دنیا کی ترقی کی کلید ہے- پس اس سے گھبرانا نہیں چاہئے- اگر کوئی بددیانتی کرتا ہے تو اپنی بددیانتی کی سزا پائے گا- لیکن اگر وہ نیک نیتی سے ہمیں اپنے خیالات سنانا چاہتا ہے- تو اس کی مخالفت کر کے خواہ ہم حق پر ہی ہوں` اپنے لئے نیکی کے دروازے بند کر دیں گے- بجائے جنگ و جدل کے مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والی جدو جہد کو اختیار کریں- اور گالی کا جواب محبت سے اور سختی کا جواب نرمی سے دیں- تا کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ان کے اندر ایک ایسی طاقت ہے جسے بغض و عناد کی آندھیاں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں- وہ اپنے نفوس پر اعتماد رکھتے ہیں اور مضبوط چٹانوں کی طرح ہیں جو ہر حالت میں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں نہ کہ چھوٹے کنکروں کی طرح کہ جو تھوڑی سی ہوا پر اودہم مچا دیتے ہیں-
واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۷`۱۸
۲~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۹۵
۳~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۲۵
۴~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۳۲
‏h1] [tag۵~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۲۸
۶~}~
سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۳
۷~}~
سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۵ کالم۳
۸~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۰
۹~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۱۱۱
۱۰~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۵
۱۱~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۱۰۹
‏h1] gat[۱۲~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۱۲۱
۱۳~}~
مانٹیگ چیمسفورڈ سکیم SCHEEM) CHELMSFORD (MONTEGUE جنگعظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا- جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجیٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے لارڈ چیمسفورڈ جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹر مانٹیگو (MONTEGUE) کی معیت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم بنائی جو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی- اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا-
۱۴~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۲
۱۵~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۴
‏]2 [stf۱۶~}~
حکومت خود اختیاری
۱۷~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۶۹
۱۸~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۰۲
۱۹~}~
لاء آف کانسٹی چیوشن مصنفہ اے وی ڈائس
۲۰~}~ ۔444 ۔p Edition 13th Britannica Encyclopeadia The
‏1926 Published
‏۲۱~}~ Chapel Mair, ۔P۔L by minorities of nProtectio The
7-8۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏۲۲~}~ Chapel Mair, ۔P۔L by minorities of Protection The
30۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏۲۳~}~ Chapel Mair, ۔P۔L by minorities of Protection The
30۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏۲۴~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
209۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۲۵`۲۶~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
212۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۲۷~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
213۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏۲۸~}~ lepahC Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
216۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
۲۹`۳۰~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۲۸
‏۳۱~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
114۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۳۲~}~ Chapel Mair, ۔P۔L by minorities of Protection The
54۔P ۔London yerruS Kingston Press River
‏۳۳~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
120۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۳۴~}~ Chapel Mair, ۔P۔L by minorities of Protection The
144۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏۳۵~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
20۔P ۔London Surrey nKingsto RiverPress
‏۳۶~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
۔London Surrey Kingston RiverPress
۳۷~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۲۳
۳۸~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۴
۳۹~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۸
۴۰~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۷
۴۱~}~
نہرو رپورٹ صفحہ ۶۹
۴۲`۴۳~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۸
۴۴~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۱۴۹
۴۵~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۸
۴۶~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۶
۴۷~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۱
۴۸~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۶۷
۴۹~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۲
‏۵۰2]~}~ ftr[
نہرو رپورٹ صفحہ۵۱`۵۲
۵۱~}~
انڈمان: انڈمان اورنکوبار جزائر- یہ علاقہ انڈمان کے دو سو جزیروں اور ۹۰ میل کے فاصلے پر ان کے جنوب میں نکوبار کے انیس جزیروں پر مشتمل ہے- یہ جزیرے ساتویںصدی میں دریافت ہو چکے تھے- ۱۸۵۸ء سے ہندوستان کی انگریزی حکومت نے جزائرانڈمان میں ان لوگوں کو قیدی بنا کر بھیجنا شروع کیا جنہیں کسی سیاسی یا دوسری نوعیت کے شدید جرم کی پاداش میں حبس دوام یا جلاوطنی کی سزا دی جاتی تھی- انگریزوں کے زمانے میں لوگ اسے کالا پانی کہتے تھے- ۱۹۴۵ء میں یہ طریقہ ختم کر دیا گیا- جزائرانڈمان میں نکوبار کو شامل کر کے بھارت نے ایک نیا صوبہ بنا دیا جسے انڈمان اور نکو بار کہتے ہیں- اس کا صدر مقام پورٹ بلیئر ہے جو کلکتہ سے ۷۸۰ میل کی دوری پر جانبجنوب مشرق واقع ہے- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۴۰` ۱۴۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء(
۵۲~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۱
۵۳~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۳۵
۵۴`۵۵~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۲۹
۵۶~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۲
۵۷~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۲۸
۵۸~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۴۹
۵۹~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۴۷
۶۰~}~
نہرو رپورٹ صفحہ۵۴
‏۶۱~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
9۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏]2 [stf۶۲~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
97۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۶۳~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
113۔P ۔London Surrey Kingston RiverPress
‏۶۴~}~ Chapel Mair,۔P۔L by minorities of Protection The
120۔P ۔London Surrey Kingston Press River
‏a.10.27
انوار العلوم جلد ۱۰
عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبی
عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]pag [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
عورتوں کو غلامی سے نجات دلانے والا نبیﷺ~
مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی الفضل کے خاص نمبر کے لئے مضمون لکھوں- اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ درجہ اور ارفع شان کے اظہار کے لئے شائع ہونے والا ہے` مضمون لکھنا ایک ثواب کا کام ہے- پس باوجود اس کے کہ اندنوں میں سخت عدیم الفرصت ہوں اور پھر ساتھ ہی بیمار بھی` ایک مختصر سا مضمون لکھنا ضروری سمجھتا ہوں-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو ایسا شاندار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کس پہلو کو اختیار کروں اور کس کو چھوڑوں- اور انتخاب کی آنکھ خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے لیکن میں اس زمانہ کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مضمون کے لئے آپ کی زندگی کے احسن حصہ کو لیتا ہوں کہ کس طرح آپ نے دنیا کو اس غلامی سے نجات دلائی ہے جو ہمیشہ سے دنیا کے گلے کا ہار ہو رہی تھی اور وہ عورتوں کی غلامی ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عورتیں ہر ملک میں غلام اور مملوک کی طرح تھیں اور ان کی غلامی مردوں پر بھی اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ لونڈیوں کے بچے آزادی کی روح کو کامل طور پر جذب نہیں کر سکتے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ سے عورت اپنی خوبصورتی یا خوب سیرتی کے زور سے بعض مردوں پر حکومت کرتی چلی آئی ہے لیکن یہ آزادی حقیقی آزادی نہ تھی کیونکہ یہ بطور حق کے حاصل نہ تھی بلکہ بطور استثناء کے تھی اور ایسی استثنائی آزادی کبھی صحیح جذبات کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے ہوئی ہے اس وقت تک کسی مذہب اور قوم میں عورت کو ایسی آزادی حاصل نہ تھی کہ اسے بطور حق کے وہ استعمال کر سکے- بے شک بعض ملک جہاں کوئی بھی قانون نہ تھا وہ ہر قسم کی قیود سے آزاد تھے لیکن اسے بھی آزادی نہیں کہا جا سکتا اسے آوارگی کہا جائے گا- آزادی وہ ہے جو تمدن اور تہذیب کے قواعد کو پورا کرتے ہوئے حاصل ہو ان قواعد کو توڑ کر جو حالت پیدا ہو وہ آزادی نہیں کہلا سکتی کیونکہ وہ بلند ہمتی پیدا کرنے کا موجب نہیں بلکہ پست ہمتی پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس سے قبل عورت کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی جائیداد کی مالک نہ تھی` اس کا خاوند اس کی جائیداد کا مالک سمجھا جاتا تھا- اسے اس کے باپ کے مال میں سے حصہ نہ دیا جاتا تھا- وہ اپنے خاوند کے مال کی بھی وارث نہیں سمجھی جاتی تھی گو بعض ملکوں میں اس کی حین حیات وہ اس کی متولی رہتی تھی- اس کا نکاح جب کسی مرد سے ہو جاتا تھا تو یا تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کی قرار دے دی جاتی تھی اور کسی صورت میں اس سے علیحدہ نہیں ہو سکتی تھی اور یا پھر اس کے خاوند کو تو اختیار ہوتا تھا کہ اسے جدا کر دے- لیکن اسے اپنے خاوند سے جدا ہونے کا کوئی حق حاصل نہ تھا` خواہ اسے کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو- خاوند اگر اس کو چھوڑ دے اور اس سے سلوک نہ رکھے یا کہیں بھاگ جائے تو اس کے حقوق کی حفاظت کا کوئی قانون مقرر نہ تھا- اس کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو لے کر بیٹھی رہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے آپ کو بھی پالے اور بچوں کو بھی پالے- خاوند کا اختیار سمجھا جاتا تھا کہ وہ ناراض ہو کر اسے مار پیٹ لے اور اس کے خلاف وہ آواز نہیں اٹھا سکتی تھی- اگر خاوند فوت ہو جائے تو بعض ملکوں میں وہ خاوند کے رشتہ داروں کی ملکیت سمجھی جاتی تھی- وہ جس سے چاہیں اس کا رشتہ کر دیں خواہ بطور احسان کے یا قیمت لے کر بلکہ بعض جگہ وہ خاوند کی جائیداد سمجھی جاتی تھی- بعض خاوند بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے یا جوئے اور شرطوں میں ہار دیتے تھے اور وہ بالکل اپنے اختیارات کے دائرہ میں سمجھے جاتے تھے- عورت کا بچوں پر کوئی اختیار نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کا زوجیت کی صورت میں نہ اس سے علیحدگی کی صورت میں- عورت کے گھر کے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی اور دین میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کوئی درجہ نہیں رکھتی` دائمی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا- اس نتیجہ یہ تھا کہ خاوند عورتوں کی جائیداد کو اڑا دیتے تھے اور اس کو بغیر کسی گذارہ کے چھوڑ دیتے تھے- وہ بیچاری اپنے مال میں سے صدقہ خیرات یا رشتہ داروں کی خدمت کرنے کی مجاز نہ تھی جب تک کہ خاوند کی مرضی نہ ہو اور وہ خاوند جس کے دانت اس کی جائیداد پر ہوتے تھے کبھی اس معاملہ میں راضی نہ ہوتا تھا- ماں باپ جن کا نہایت ہی گہرا اور محبت کا رشتہ ہے ان کے مال سے وہ محروم کر دی جاتی تھی حالانکہ جس طرح لڑکے ان کی محبت کے حقدار ہوتے ہیں` اسی طرح لڑکیاں ہوتی ہیں- جو ماں باپ اس نقص کو دیکھ کر اپنی لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کچھ دے دیتے تھے ان کے خاندانوں میں فساد پڑ جاتا تھا- کیونکہ لڑکے یہ تو نہ سوچتے تھے کہ باپ ماں کے مرنے کے بعد وہ ان کی سب جائیداد کے وارث ہونگے ہاں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ ان کے ماں باپ ان کی نسبت لڑکیوں کو زیادہ دیتے ہیں- اسی طرح خاوند جس سے کامل اتحاد کا رشتہ ہوتا تھا` اس کے مال سے بھی اسے محروم رکھا جاتا- خاوند کے دور دور کے رشتہ دار تو اس کی جائیداد کے وارث ہو جاتے اور وہ عورت جو اس کی محرم راز اور عمر بھر کی ساتھی ہوتی جس کی محنت اور جس کے کام کا بہت سا دخل خاوند کی کمائی میں تھا وہ اس کی جائیداد سے محروم کر دی جاتی تھی- یا پھر وہ خاوند کی ساری ہی جائیداد کی نگران قرار دے دی جاتی لیکن وہ اس کے کسی حصہ میں تصرف سے محروم تھی- وہ اس کی آمد کو تو خرچ کر سکتی تھی لیکن اس کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کر سکتی تھی اور اس طرح بہت سے صدقات جاریہ میں اپنی خواہش کے مطابق حصہ لینے سے محروم رہتی تھی- خاوند اس پر خواہ کس قدر ہی ظلم کرے وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی تھی یا جن قوموں میں جدا ہو سکتی تھی ایسی شرائط پر کہ بہت سی شریف عورتیں اس جدائی سے موت کو ترجیح دیتی تھیں- مثلاً جدائی کی یہ شرط تھی کہ خاوند یا عورت کی بدکاری ثابت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ظلم بھی ثابت کیا جائے- اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ تھا کہ بہت سی صورتوں میں جب عورت کا خاوند کے ساتھ رہنا ناممکن ہوتا تھا تو اسے کامل طور پر جدا کرنیکی بجائے صرف علیحدہ رہنے کا حق دیا جاتا تھا جو خود ایک سزا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو بے مقصد بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے- یا پھر یہ ہوتا تھا کہ خاوند جب چاہے عورت کو جدا کر دے لیکن عورت کو اپنی علیحدگی کا مطالبہ کرنے کا کسی صورت میں اختیار نہ تھا- اگر خاوند اسے معلقہ چھوڑ دیتا یا ملک چھوڑ جاتا اور خبر نہ لیتا تو عورت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اس کا انتظار عمر بھر کرتی رہے اور اسے اپنی عمر کو ملک اور قوم کے لئے مفید طور پر بسر کرنے کا اختیار نہ تھا- شادی کی زندگی بجائے آرام کے اس کے لئے مصیبت بن جاتی تھی اس کا کام ہوتا کہ وہ خاوند اور بیوی دونوں کا کام بھی کرے اور خاوند کا انتظار بھی کرے- خاوند کا فرض یعنی گھر کے اخراجات کے لئے کمانا بھی اس کے سپرد ہو جاتا اور عورت کی ذمہ داری کہ بچوں کی نگہداشت اور ان کی پرورش کرے یہ بھی اس کے سپرد رہتا- ایک طرف قلبی تکلیف دوسری طرف مادی ذمہواریاں- یہ سب اس بے کس جان کے لئے روا رکھی جاتی تھیں- عورتوں کو مارا پیٹا جاتا اور اسے خاوند کا جائز حق تصور کیا جاتا- خاوندوں کے مرنے کے بعد عورتوں کا زبردستی خاوند کے رشتہ داروں سے نکاح کر دیا جاتا تھا یا اور کسی شخص کے پاس قیمت لے کر بیج دیا جاتا- بلکہ خاوند خود اپنی عورتوں کو بیچ ڈالتے- پانڈوں جیسے عظیم الشان شہزادوں نے اپنی بیوی کو جوئے میں ہار دیا اور ملک کے قانون کے سامنے دروپدی۱~}~ جیسی شریف شہزادی اف نہ کر سکی- بچوں کی تعلیم یا پرورش میں مائوں کی رائے نہ لی جاتی تھی اور ان کا بچوں پر کوئی حق نہ تسلیم کیا جاتا تھا- اگر ماں اور باپ میں جدائی واقع ہو تو بچوں کو باپ کے سپرد کیا جاتا تھا- عورت کا گھر سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا نہ خاوند کی زندگی میں نہ بعد- جب چاہتا خاوند اسے گھر سے نکال دیتا تھا اور وہ بے خانماں ہو کر ادھر ادھر پھرتی رہتی-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r کے ذریعہ سے ان سب ظلموں کو یک قلم مٹا دیا گیا- آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے عورتوں کے حقوق کی نگہداشت خاص طور پر سپرد فرمائی ہے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانیت برابر ہیں اور جب وہ مل کر کام کریں تو جس طرح مرد کو بعض حقوق عورت پر حاصل ہوتے ہیں` اسی طرح عورت کو مرد پر بعض حقوق حاصل ہوتے ہیں- عورت اسی طرح جائیداد کی مالک ہو سکتی ہے جس طرح مرد ہو سکتا ہے اور خاوند کا کوئی حق نہیں کہ عورت کے مال کو استعمال کرے جب تک کہ عورت خوشی سے بطور ہدیہ اسے کچھ نہ دے- اس سے جبراً مال لینا یا اس طرح لینا کہ شبہ ہو کہ عورت کی حیاء انکار سے مانع رہی ہے نادرست ہے- خاوند بھی جو کچھ بطور ہدیہ اسے دے وہ عورت کا ہی مال ہوگا اور خاوند اسے واپس نہیں لے سکے گا- وہ اپنی ماں اور اپنے باپ کے مال کی اسی طرح وارث ہوگی جس طرح کہ بیٹے اپنے ماں باپ کے وارث ہوتے ہیں ہاں چونکہ خاندانی ذمہ واریاں مرد پر ہوتی ہیں اور عورت پر صرف اپنی ذات کا بار ہوتا ہے اس لئے اسے مرد سے آدھا حصہ لے گا- اسی طرح ماں بھی اپنے بیٹے کے مال سے اسی طرح حصہ پائے گی جس طرح باپ- گو مختلف حالات اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے کبھی باپ کے برابر اور کبھی کم حصہ اسے ملے گا- وہ اپنے خاوند کے مرنے پر اس کے مال کی بھی وارث ہوگی خواہ اولاد ہو یا نہ ہو کیونکہ اسے دوسرے کا دست نگر نہیں بنایا جا سکتا- اس کی شادی بے شک ایک پاک اور مقدس عہد ہے جس کا توڑنا بعد اس کے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے انتہائی بیتکلفی پیدا کر لی` نہایت معیوب ہے- لیکن یہ نہیں کہ اگر عورت اور مرد کی طبیعت میں خطرناک اختلاف ثابت ہو یا مذہبی جسمانی` مالی` تمدنی` طبعی مغائرت کے باوجود انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اس عہد کی خاطر اپنی عمر کو برباد کر دیں اور اپنی پیدائش کے مقصد کو کھو دیں- جب ایسے اختلافات پیدا ہو جائیں اور مرد اور عورت متفق ہوں کہ اب وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ اس معاہدہ کو بہ رضا مندی باطل کر دیں- اور اگر مرد اس خیال کا ہو اور عورت نہ ہو تو آپس میں اگر کسی طرح سمجھوتا نہ ہو سکے تو ایک پنچایت ان کے درمیان فیصلہ کرے جس کے دو ممبر ہوں ایک مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے پھر اگر وہ فیصلہ کریں کہ ابھی عورت اور مرد کو اور کچھ مدت مل کر رہنا چاہئے تو چاہئے کہ ان کے بتائے ہوئے طریق پر مرد اور عورت مل کر رہیں- لیکن جب اس طرح بھی اتفاق نہ پیدا ہو تو مرد عورت کو جدا کر سکتا ہے- لیکن اس صورت میں اس نے جو مال اسے دیا ہے وہ اسے واپس نہیں لے سکتا- بلکہ مہر بھی اسے پورا ادا کرنا ہوگا- برخلاف اس کے اگر عورت مرد سے جدا ہونا چاہئے` تو وہ قاضی سے درخواست کرے اور اگر قاضی دیکھے کہ کوئی بد اخلاقی کا محرک اس کے پیچھے نہیں ہے تو وہ اسے اس کی علیحدگی کا حکم دے اور اس صورت میں اسے چاہئے کہ خاوند کا ایسا مال جو اس کے پاس محفوظ ہو یا مہر اسے واپس کر دے- اور اگر عورت کا خاوند اس کے حقوق مخصوصہ کو ادا نہ کرے یا اس سے کلام وغیرہ چھوڑ دے یا اس کو الگ سلائے تو اس کی مدت مقرر ہونی چاہئے- اور اگر وہ چار ماہ سے زائد اس کام کا مرتکب ہو تو اسے مجبور کیا جائے کہ یا اصلاح کرے یا طلاق دے- اور اگر وہ اس کو خرچ وغیرہ دینا بند کر دے یا کہیں چلا جائے اور اس کی خبر نہ لے تو اس کا نکاح فسخ قرار دیا جائے )تین سال تک کی مدت فقہائے اسلام نے بیان کی ہے( اور اسے آزاد کیا جائے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کر لے اور ہمیشہ خاوند کو اپنی بیوی اور بچوں کے خرچ کا ذمہوار قرار دیا جائے- خاوند کو اپنی بیوی کو مناسب تنبیہہ کا اختیار ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ تنبیہہ سزا کا رنگ اختیار کرے تو اس پر لوگوں کو گواہ مقرر کرے اور جرم کو ظاہر کرے اور گواہی پر اس کی بنیاد رکھے اور سزا ایسی نہ ہو جو دیرپا اثر چھوڑنے والی ہو- خاوند اپنی بیوی کا مالک نہیں وہ اسے بیچ نہیں سکتا نہ اسے خادموں کی طرح رکھ سکتا ہے` اس کی بیوی اس کے کھانے پینے میں اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کے ساتھ سلوک اپنی حیثیت کے مطابق اسے کرنا ہوگا اور جس طبقہ کا خاوند ہے اس سے کم سلوک اسے جائز نہ ہوگا- خاوند کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ داروں کو بھی اس پر کوئی اختیار نہیں- وہ آزاد ہے` نیکصورت دیکھ کر اپنا نکاح کر سکتی ہے` اس سے اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں- نہ اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خاص جگہ پر رہے` صرف چار ماہ دس دن تک اسے خاوند کے گھر ضرور رہنا چاہئے تا اس وقت تک وہ تمام حالات ظاہر ہو جائیں جو اس کے اور خاوند کے دوسرے متعلقین کے حقوق پر اثر ڈال سکتے ہیں- عورت کو اس کے خاوند کی وفات کے بعد سال بھر تک علاوہ اس کے ذاتی حق کے خاوند کے مکان میں سے نہیں نکالنا چاہئے تا اس عرصہ میں وہ اپنے حصہ سے اپنی رہائش کا انتظام کر سکے- خاوند بھی ناراض ہو تو خود گھر سے الگ ہو جائے عورت کو گھر سے نہ نکالے کیونکہ گھر عورت کے قبضہ میں سمجھا جاتا ہے- بچوں کی تربیت میں عورت کا بھی حصہ ہے اس سے مشورہ لے لینا چاہئے اور اسے بچہ کے متعلق کوئی تکلیف نہیں دینی چاہئے- دودھ پلوانے` نگرانی وغیرہ بچہ کے متعلق تمام امور میں اس سے پوچھ لینا چاہئے اور اگر عورت اور مرد آپس میں نبھائو کو ناممکن پا کر جدا ہونا چاہیں تو چھوٹے بچے ماں ہی کے پاس رہیں- ہاں جب بڑے ہو جائیں تو تعلیم وغیرہ کیلئے باپ کے سپرد کر دیئے جائیں- جب تک بچے ماں کے پاس رہیں ان کا خرچ باپ دے بلکہ ماں کو ان کے لئے جو وقت خرچ کرنا پڑے اور کام کرنا پڑے تو اس کی بھی مالی مدد خاوند کو کرنی چاہئے- عورت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور دینی انعامات بھی وہ ہر قسم کے پا سکتی ہے- مرنے کے بعد بھی وہ اعلیٰدرجہ کے انعامات پائے گی اور اس دنیا میں بھی حکومت کے مختلف شعبوں میں وہ حصہ لے سکتی ہے- اور اس صورت میں اس کے حقوق کا ویسا ہی خیال رکھا جائے گا- جس طرح کہ مردوں کے حقوق کا-
یہ وہ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دی جب اس کے بالکل برعکس خیالات دنیا میں رائج تھے- آپ نے ان احکام کے ذریعہ عورت کو اس غلامی سے آزاد کرا دیا- جس میں وہ ہزاروں سال سے مبتلا تھی جس میں وہ ہر ملک میں پابند کی جاتی تھی جس کا طوق ہر مذہب اس کی گردن میں ڈالتا تھا- ایک شخص نے ایک ہی وقت میں ان دیرینہ قیود کو کاٹ دیا اور دنیا بھر کی عورتوں کو آزاد کر دیا- اور مائوں کو آزاد کر کے بچوں کو بھی غلامی کے خیالات سے محفوظ کر لیا اور اعلیٰ خیالات اور بلند حوصلگی کے جذبات کے ابھرنے کے سامان پیدا کر دیئے-
مگر دنیا نے اس خدمت کی قدر نہ کی اس نے وہی بات جو احسان کے طور پر تھی اسے ظلم قرار دیا- طلاق اور خلع کو فساد قرار دیا- ورثہ کو خاندان کی بربادی کا ذریعہ عورت کے مستقلحقوق کو خانگی زندگی کو تباہ کرنے والا- اور وہ اسی طرح کرتی چلی گئی اور کرتی چلی گئی اور تیرہ سوسال تک وہ اپنی نابینائی سے اس بینا کی باتوں پر ہنستی چلی گئی اور اس کی تعلیم کو خلافاصول فطرت قرار دیتی چلی گئی- یہاں تک کہ وقت آ گیا کہ خدا کے کلام کی خوبی ظاہر ہو اور جو تہذیب و شائستگی کے دعویدار تھے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہذیب سکھانے والے احکام کی پیروی کریں- ان میں سے ہر ایک حکومت ایک ایک کر کے اپنے قوانین کو بدلے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول کی پیروی کرے-
انگریزی قانون جو طلاق اور خلع کے لئے کسی ایک فریق کی بدکاری اور ساتھ ہی ظلم اور مارپیٹ کو لازمی قرار دیتا تھا ۱۹۲۳ء میں بدل دیا گیا اور صرف بدکاری بھی طلاق اور خلع کا موجب تسلیم کر لی گئی-
نیوزی لینڈ میں ۱۹۱۲ء میں فیصلہ کر دیا گیا کہ سات سالہ پاگل کی بیوی کا نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے اور ۱۹۲۵ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر خاوند یا بیوی عورت اور مرد کے حقوق کو ادا نہ کریں تو طلاق یا خلع ہو سکتا ہے اور تین سال تک خبر نہ لینے پر طلاق کو جائز قرار دیا گیا )بالکل اسلامی فقہاء کی نقل کی ہے مگر تیرہ سو سال اسلام پر اعتراض کرنے کے بعد(
آسٹریا کی ریاست کوئینز لینڈ میں پانچ سالہ جنون کو وجہ طلاق تسلیم کر لیا گیا ہے- ٹسمانیا میں ۱۹۱۹ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ بدکاری` چار سال تک خبر نہ لینا` بدمستی اور تین سال تک عدمتوجہی` قید` مارپیٹ اور جنون کو وجہ طلاق قرار دیا گیا ہے- علاقہ وکٹوریا میں ۱۹۲۳ء میں قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ خاوند اگر تین سال خبر نہ لے` بدکاری کرے` خرچ نہ دے یا سختی کرے` قید` مارپیٹ` یا عورت کی طرف سے بدکاری یا جنون یا سختی اور فساد کا ظہور ہو تو طلاق اور خلع ہو سکتا ہے-
مغربی آسٹریلیا میں علاوہ اوپر کے قوانین کے حاملہ عورت کی شادی کو بھی فسخ قرار دیا گیا ہے )اسلام بھی اسے ناجائز قرار دیتا ہے( کیوبا جزیرہ میں ۱۹۱۸ء میں فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ بدکاری پر مجبور کرنا` مارپیٹ گالی گلوچ` سزا یافتہ ہونا` بدمستی` جوئے کی عادت` حقوق کا ادا نہ کرنا` خرچ نہ دینا` متعدی بیماری یا باہمی رضامندی کو طلاق یا خلع کی کافی وجوہ تسلیم کر لیا گیا ہے-
اٹلی میں ۱۹۱۹ء میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ عورت اپنے مال کی مالک ہوگی اور اس میں سے صدقہ خیرات کر سکے گی یا اسے فروخت کر سکے گی )اس وقت تک یورپ میں عورت کو اس کے مال کا مالک نہیں مانا جاتا تھا( میکسیکو امریکہ میں بھی اوپر کے بیان کردہ وجوہ کو طلاق و خلع کے لئے کافی وجہ تسلیم کر لیا گیا ہے- اور ساتھ ہی باہمی رضامندی کو بھی اس کے جواز کیلئے کافی سمجھا گیا ہے- یہ قانون ۱۹۱۷ء میں پاس ہوا ہے- پرتگال میں ۱۹۱۵ء میں` ناروے میں ۱۹۰۹ء میں` سویڈن میں ۱۹۲۰ء` اور سوئٹرزلینڈ میں ۱۹۱۲ء میں ایسے قوانین پاس کر دئے گئے کہ جن سے طلاق اور خلع کی اجازت ہوگئی ہے- سویڈن میں باپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اٹھارہ سال تک کی عمر تک بچہ کے اخراجات ادا کرے-
یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں گو قانون اب تک یہی کہتا ہے کہ بچہ پر باپ کا حق ہے لیکن عملاً اسلامی طریق پر اصلاح شروع ہو گئی اور جج عورت کے احساسات کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں اور مرد کو مجبور کر کے خرچ بھی دلوایا جاتا ہے- لیکن ابھی تک اس قانون میں بہت کچھ خامیاں ہیں گو مرد کے حقوق کی حفاظت زیادہ سختی سے کی گئی ہے- عورت کو اس کے مال پر تصرف بھی دلایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی بعض ریاستوں میں یہ بھی قانون پاس کر دیا گیا ہے کہ اگر خاوند اپاہج ہو جائے تو بیوی پر بھی اس کے اخراجات کا مہیا کرنا لازمی ہوگا-
عورتوں کو ووٹ کے حقوق دیئے جا رہے ہیں اور ان سے قومی امور میں مشورہ لینے کے لئے بھی راہیں کھولی جا رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے پورے تیرہسو سال کے بعد ہوئی ہیں اور ابھی کچھ ہونی باقی ہیں- بہت سے ممالک میں ابھی عورت کو باپ اور ماں اور خاوند کے مال کا وارث نہیں قرار دیا گیا- اور اسی طرح اور کئی حقوق باقی ہیں جن میں اسلام اب بھی باقی دنیا کی راہنمائی کر رہا ہے لیکن ابھی اس نے اس کی راہنمائی کو قبول نہیں کیا لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو ان معاملات میں بھی دنیا قبول کرے گی جس طرح اس نے اور معاملات میں قبول کیا- اور آپ کا جہاد عورتوں کی آزادی کے متعلق اپنے پورے اثرات اور نتائج ظاہر کرے گا-
اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید-
مرزا محمود احمد
)الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۸ء(
‏line] [tag
۱~}~
دروپدی شہزادی: ریاست پنجاب کے راجہ دروپد کی خوبصورت بیٹی جسے سویمبر )جوا( میں ارجن جیت کر لایا تھا- ارجن کی ماں کے مشورہ پر وہ پانچ پانڈو بھائیوں کی مشترکہ بیوی بنی- دروپدی کے پانچ شوہروں سے پانچ بیٹے تھے جنہیں مہابھارت کی جنگ میں کوروں کے جرنیل نے قتل کر دیا- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۵۹۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
‏a.10.28
دنیا کا محسن :

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
دنیا کا محسن
)فرمودہ ۱۷ جون ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ منعقدہ قادیان(
قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین- لا شریک لہ و بذلک امرت و انا اول المسلمین- ۱~}~
جلسہ کی غرض
آج کا جلسہ اس غرض کے لئے منعقد کیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں وہ رواداری اور وہ ایک دوسرے کے احساسات کا ادب و احترام پیدا ہو جس کے بغیر نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے- ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم تمام ادیان کے بزرگوں اور ہادیوں کا ادب و احترام کریں- تمام وہ لوگ جن کو ان کی قومیں خدا کی طرف سے کھڑا کیا گیا تسلیم کرتی ہیں- تمام وہ لوگ جن کے متبعین کی جماعتیں پائی جاتی ہیں- جو انہیں خدا کا مرسل اور مامور` اوتار یا بھیجا ہوا تسلیم کرتی ہیں` ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی عزت کریں- ان کی ہتک سے اجتناب کریں- اور اس تعلیم کے ماتحت ہم ہمیشہ ہی مختلف اقوام کے بزرگوں اور ان کے مذہب کے بانیوں کا ادب و احترام کرتے رہے ہیں- ہم یہودیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں- ہم عیسائیوں کے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں- ہم چینیوں کے بزرگوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں- ہم جاپانیوں کے بزرگوں کا ادب کرتے اور ہم اپنے ابنائے وطن ہندئووں کے بزرگوں کی تعظیم کرتے ہیں- اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں- اپنی کسی نفسانیت کی وجہ سے نہیں کرتے کسی ذاتی فائدہ اور غرض کے لئے نہیں کرتے بلکہ واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اور دنیا کے لئے مامور سمجھ کر کرتے ہیں- اور ہم سمجھتے ہیں` دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ جب سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کریں گے تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کا قیام خواہ روحانی لحاظ سے ہو اور خواہ جسمانی لحاظ سے اسی پر ہے کہ اپنے خیالات اور اپنی زبانوں پر قابو رکھا جائے اور ایسے رنگ میں کلام کیا جائے کہ تفرقہ اور شقاق نہ پیدا ہو-
شملہ میں برہمو سماج کا جلسہ
میں پچھلے سال شملہ گیا- ان دنوں رام موہن رائے صاحب جو کہ کلکتہ کے بہت بڑے آدمیوں میں سے گذرے ہیں- ان کی برسی تھی اور شملہ میں برہمو سماج کی طرف سے جلسہ ہونا تھا- مسز نائیڈو۲~}~ جو کہ ایک ہندو لیڈر ہیں- بڑی بھاری شاعرہ ہیں اور گاندھی جی کی طرح ہندو مسلمانوں میں ادبواحترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اور بہت اثر رکھنے والی ہستی ہیں` وہ مجھے ملنے کے لئے آئیں- انہوں نے ذکر کیا کہ رام موہن رائے کی برسی کا دن ہے اور برہمو سماج نے جلسہ کیا ہے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ بھی اس جلسہ میں چلیں اور تقریر کریں- گو میں نے برہمو سماج کے متعلق کچھ لٹریچر پڑھا ہوا تھا مگر مجھے رام موہن رائے صاحب کی ذات کے متعلق زیادہ واقفیت نہ تھی- اس لئے میں حیران سا رہ گیا- لیکن معاً میرے دل میں خیال آیا کہ خواہ ان کے ذاتی حالات سے کتنی ہی کم واقفیت ہو مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ انہوں نے شرک کو مٹانے کی ایک حد تک کوشش کی ہے- تب میرا انشراح صدر ہو گیا اور میں نے کہا میں اس جلسہ میں آئوں گا- چنانچہ میں وہاں گیا- مسٹر ایس- آر- داس جو وائسرائے کی کونسل کے قانونی ممبر ہیں` وہ اس جلسہ کے پریذیڈنٹ تھے اور بھی بہت سے معزز لوگ وہاں موجود تھے مسز نائیڈو بھی تھیں- سرحبیب اللہ بھی تھے- اتفاق ایسا ہوا اور وہاں کی سوسائٹی کے لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی کہ سامعین کا اکثر حصہ اردو نہ جانتا تھا- مسز نائیڈو نے مجھ سے پوچھا- کیا آپ انگریزی میں تقریر کریں گے- میں نے کہا- انگریزی میں تقریر کرنے کی مجھے عادت نہیں- ولایت میں لکھ کر انگریزی تقریر کرتا رہا- مگر زبانی مختصراً چند الفاظ کہنے کے سوا باقاعدہ تقریر کا موقع نہیں ملا- مسزنائیڈو نے کہہ دیا اردو میں ہی تقریر کریں- لیکن چونکہ پریذیڈنٹ صاحب بالکل اردو نہ سمجھتے تھے اور حاضرین میں سے بھی ۹۰ فیصدی بنگالی تھے جو اردو نہ جانتے تھے` اس لئے میں نے تقریر نہ کی اور اس وجہ سے تقریر رہ گئی مگر میں تیار تھا- دراصل کسی کی خوبی کا نظر آنا بینائی پر دلالت کرتا ہے- اور خوبی کو نہ دیکھ سکنا نابینائی کی علامت ہوتی ہے اور اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ کسی کی خوبی کا انکار نہ کرو- اور دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی تعظیم و تکریم کرو-
جلسہ میلاد
میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مسلمانوں میں جلسے ہوتے ہیں مگر وہ خاص مذہبی رنگ کے ہوتے ہیں جیسے مولود کے جلسے- ان میں غیر مسلموں کے متعلق یہ امید رکھنا کہ وہ شامل ہوں- بہت بڑی بات ہے ان سے یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ وہ بانی اسلام کی خوبیاں سننے کے لئے آ جائیں- مگر یہ کہ کسی جلسہ میں مذہبیرسوم کی پابندی بھی کریں` یہ امید نہیں کی جا سکتی- وہ انسانی` علمی اور اخلاقی نقطئہنگاہ سے تو ایسے جلسوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئے جائیں- مگر مذہبی نقطئہ نگاہ سے نہیں شامل ہو سکتے-
ہندو مسلم اتحاد کی تجویز
پس میں نے سمجھا کہ ہندو مسلمانوں میں جو بعد بڑھتا جاتا ہے- اسے روکنے کا یہی طریق ہے کہ ایسے جلسے کئے جائیں- جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذہبی حیثیت سے جلسہ نہ کیا جائے` بلکہ علمی حیثیت سے جلسہ کیا جائے- اگر لوگ دوسرے مذاہب کے لیڈروں کی خوبیاں دیکھ اور سن سکتے ہیں- تو پھر کیا وجہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیاں وہ نہ دیکھ سکیں- ایسے جلسوں میں غیر مسلم لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اس طرح وہ خلیج جو روز بروز بڑھتی جاتی ہے دور ہو سکتی ہے- اور ہندو مسلمانوں میں صلح ممکن ہو سکتی ہے- علاوہ ازیں خود مسلمانوں کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہونے سے عقیدت اور اخلاص پیدا ہو سکتا ہے- پھر دوسرے مذاہب کے لوگ جب آپ کے صحیح حالات سنیں گے تو وہ ایسے لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں روکیں گے-
تحریک کی کامیابی
یہ تحریک خدا کے فضل سے ایسے رنگ میں کامیاب ہوئی ہے کہ جو ہماری امیدوں سے بڑھ کر ہے- مثلاً کلکتہ میں بڑے بڑے لیڈروں نے جیسے بپن چندر پال جو گاندھی جی سے پہلے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور سی- پی رائے وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے ایسے جلسہ کے اعلان میں اپنے نام لکھائے یا لیکچر دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے- اسی طرح اور کئی لیڈروں نے اپنے نام پیش کئے ہیں- مدراس کے ایک ہندو صاحب نے کئی ضلعوں میں ایسے جلسے کرانے کا ذمہ لیا ہے- اور لکھا ہے کہ ہندوستان میں امن قائم کرنے کے لئے یہ بہت قیمتی چیز ہمیں مل گئی ہے- پھر درخواست کی ہے کہ ہر سال ایسے جلسے ہونے چاہئیں- اسی طرح تھیوسافیکل سوسائٹی نے مدراس میں جلسہ کرانے کا ذمہ لیا ہے- پھر لاہور میں بڑے بڑے آدمیوں نے اس جلسہ کے اعلان پر دستخط کئے ہیں جیسے لالہ دنی چند صاحب جو بہت بڑے کانگریسی لیڈر ہیں- پھر سکھوں کے بہت بڑے لیڈر سردار کھڑک سنگھ صاحب نے کہا ہے کہ اگر اس دن میں امرتسر میں ہوا تو وہاں کے جلسہ میں اور اگر سیالکوٹ میں ہوا تو اس جگہ جلسہ میں شامل ہوں گا-
غرض اس تحریک کو مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم قوموں نے بھی احترام کی نظر سے دیکھا ہے اور نہ صرف احترام کی نظر سے دیکھا ہے بلکہ خواہش کی ہے کہ ایسے جلسے ہمیشہ ہونے چاہئیں تا کہ تفرقہ دور ہو اور میں سمجھتا ہوں اگر اس سال یہ تحریک کامیاب ہوئی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ امن قائم کرنے کے لئے نہایت مفید تحریک ہے- اور آئندہ ہر قوم اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی- پس اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اس مقصد کو پا لیں جو کہ ایک ہی جیسا ہندوئوں کو بھی پیارا ہے- اور مسلمانوں کو بھی ہے اور وہ ہندوستان کا امن اور ترقی ہے-
۱۷ جون کے لیکچروں کی بنیاد
اس تمہید کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں- میں نے اس وقت ایک آیت پڑھی ہے جو یہ ہے-قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العلمین- لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین- اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے- جس پر میں نے آج کے لئے لیکچر رکھے ہیں- آج کے لیکچر کے میں نے تین موضوع قرار دیئے ہیں-
)۱( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات
)۲( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں
)۳( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس
اس آیت میں یہ تینوں امور ہی بیان کئے گئے ہیں- گویا یہ ہیڈنگ (HEADING) میں نے اپنے پاس سے نہیں رکھے بلکہ قرآن کریم نے پیش کئے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خداتعالیٰ نے کہلایا ہے کہ تیرے ذریعہ دنیا پر احسان کئے گئے ہیں- تجھ سے دنیا کے لئے قربانیاں کرائی ہیں اور تجھ کو پاک کیا گیا ہے- صلوہ کے معنی دعا اور رحمت کے ہیں- پس اس کے معنی نیک سلوک اور احسان کے ہوئے- نسک کے معنی ذبح کر دینے کے ہیں- پس اس کے معنی سزا دینے کے ہوئے- محیای یعنی زندگی ذاتی آرام اور آسائش اور ممات یعنی موت ذاتی قربانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے- پس اس آیت میں یہ بتایا کہ کہو میری عبادت یا میرا لوگوں سے حسن سلوک )یہ بھی صلٰوۃ کے معنی ہیں( اور میرا قربانیاں کرنا اور میری اپنی زندگی اور اپنی موت یہ سب خدا ہی کے لئے ہے- پہلی چیز جو صلوتی ہے- اس میں لوگوں پر احسان کرنے کا دعویٰ کیا ہے- یعنی فرمایا میرے ذریعہ لوگوں پر احسان ہوئے ہیں- دوسرے نسکی و محیای و مماتی میں بتایا کہ میرا مارنا یا مرنا یعنی قربانی کرنا یہ بھی خدا ہی کے لئے ہے- اس آخری جملہ میں تقدس کی طرف اشارہ ہے- کیونکہ تقدس کے معنی پاک ہونے کے ہیں اور جو چیز خدا کے لئے ہوگی- وہ پاک نہ ہوگی تو اور کونسی پاک ہوگی پس اس آیت میں تینوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں- ایک تو اس آیت میں دعویٰ بیان کیا گیا ہے- اور دوسرے گر بھی بتا دیا ہے کہ احسان اور قربانی اور تقدس کی دلیل کیا ہوتی ہے-
ایک خاص گر
اس آیت میں یہ گر بتایا گیا ہے کہ کسی شخص نے احسان یا قربانی یا تقدس کو دیکھتے وقت اس کے اعمال کے ٹکڑوں کو نہ لینا چاہئے بلکہ تمام زندگی پر نظر کرنی چاہئے- اور اس کے اعمال کے مقصد کو دیکھنا چاہئے صرف سزا کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یہ شخص ظالم ہے` درست نہیں- یا کسی تکلیف دہ عمل کو دیکھ کر یہ سمجھنا کہ یہ شخص ظالم ہے صحیح نہیں- کسی کو سزا دیتے ہوئے دیکھ کر کوئی کہے کہ یہ کتنا بڑا ظالم ہے` تو بسا اوقات وہ اس کے متعلق رائے قائم کرنے میں غلطی کر جائے گا-
استاد کے بید
مثلاً ہمارے سامنے اس وقت مدرسہ کی عمارت ہے- یہاں سے ایک شخص گذرے اور دیکھے کہ ہیڈ ماسٹر ایک لڑکے کو بید لگا رہا ہے اور وہ کہے یہ کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے تو یہ درست نہ ہوگا- کیونکہ اگر استاد کسی لڑکے کی شرارت پر اسے سزا نہ دے گا تو اس لڑکے کے ماں باپ کو حق ہوگا کہ وہ کہیں استاد نے اس کے لڑکے کو آوارہ کر دیا ہے اور اس کی اصلاح نہیں کی- اور ممکن ہے کہ لڑکا خراب ہو کر کہیں کا کہیں چلا جائے- مثلاً لڑکے نے چوری کی یا امتحان میں نقل کی یا کوئی بدکاری کی- اب اگر پیار و محبت سے سمجھانے پر وہ نہیں سمجھتا اور شرارت میں بڑھتا جاتا ہے- جس پر استاد اسے سزا دیتا ہے- تو یہ ظلم نہیں ہوگا بلکہ اس سے محبت اور ہمدردی ہوگی- پس دیکھنا یہ ہوگا کہ استاد نے لڑکے کو مارا کیوں ہے- صرف بید لگتے دیکھ کر یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے-
اسی طرح کسی گھر میں کوئی ماں یا باپ ایسا نہ ہوگا- جس نے کبھی اپنے بچے کو جھڑکا نہ ہو یا تنبیہہ نہ کی ہو یا مارا نہ ہو- مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سب ماں باپ ظالم ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان سے پیار اور محبت رکھتے ہیں- اور ان کی اصلاح کے لئے جب ضرورت سمجھتے ہیں سزا بھی دیتے ہیں-
ڈاکٹر کا نشتر
اسی طرح کوئی شخص ہسپتال کے پاس سے گذرے اور دیکھے کہ ڈاکٹر نے نشتر نکالا ہوا ہے اور ایک شخص کے جسم کو چیر رہا ہے- تو اسے کوئی عقلمند آدمی ظلم نہ کہے گا- دیکھنا یہ ہوگا کہ کیوں چیرا دیا گیا ہے- اگر ڈاکٹر چیرا دے کر پیپ نہ نکالتا یا گندہ حصہ کو جدا نہ کرتا تو وہ شخص مر جاتا- پس اگر ڈاکٹر کسی کے زخم سے پیپ نکالتا ہے یا اس کے پیٹ کو چیر کر پتھری نکالتا ہے- یا اس کا کوئی دانت نکالتا ہے- یا بعض دفعہ اس کا ہاتھ یا پائوں یا ناک یا کان کاٹتا ہے تو وہ ظلم نہیں کرتا` بلکہ رحم کرتا ہے- اور جو شخص یہ دیکھے گا کہ ڈاکٹر اس قسم کا کام کر رہا ہے- وہ یہی کہے گا کہ اس نے احسان کیا ہے اور اس کے احسان ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ لوگ خود ڈاکٹروں کے پاس جاتے اور بڑی بڑی رقمیں دے کر اپنا ہاتھ یا پائوں یا کوئی اور حصہ کٹواتے ہیں- اگر یہ رحم اور احسان نہ ہوتا تو روپیہ اس کے بدلے میں دے کر کیوں ایسا کراتے- کیا کبھی کوئی اپنے پاس سے روپیہ دے کر بھی سزا لیا کرتا ہے-
خدا تعالیٰ پر الزام
پس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کسی فعل کا مقصد کیا ہے- اس کی غرض فائدہ پہنچانا ہے یا تکلیف دینا اور صرف سزا کو دیکھ کر یہ کہنا کہ ظلم کیا گیا ہے درست نہیں ہے- ورنہ دنیا کے سارے مجسٹریٹ` سارے استاد` سارے ماں باپ` سارے ڈاکٹر ظالم قرار دینے پڑیں گے- بلکہ نعوذ باللہ خدا کو بھی ظالم کہنا پڑے گا کیونکہ ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی جان نکالتا ہے- وبائیں آتی ہیں` طوفان آتے ہیں` اگر صرف کسی تکلیف دہ فعل کو دیکھ کر اسے ظلم قرار دینا درست ہو سکتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا بھی ظالم ہے- لیکن اگر خدا تعالیٰ کے ایسے فعل کی کوئی حکمت ہوتی ہے- مثلاً یہی کہ ایک قوم کے نزدیک وہ پچھلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے یا ایک دوسری قوم کے نزدیک گناہوں سے بچانے کے لئے ہوتا ہے- یا اگلے جہان میں ترقی دینے کے لئے ہوتا ہے- تو ماننا پڑے گا کہ ہر سزا کو دیکھ کر اسے ظلم نہیں کہا جا سکتا- جیسا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سزا آتی ہے` چاہے اسے تناسخ کا نتیجہ سمجھو` چاہے اس دنیا کی زندگی کے اعمال کی جزا سمجھو` چاہے تنبیہہ کے طور پر سمجھو` چاہے ترقی کا ذریعہ سمجھو- مگر بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ظلم نہیں ہے بلکہ رحم ہے- اور انسان کے فائدہ کے لئے ہے-
غرض کسی انسان کے فعل میں کوئی سختی یا سزا یا موت یا قتل کا پایا جانا ظلم نہیں ہوتا- ظلم اس وقت ہوتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ محبت اور شفقت` ہمدردی اور خیر خواہی کے طور پر نہیں بلکہ انتقام اور بدلہ لینے کے لئے سزا دی گئی ہے- اگر غصہ اور بے پرواہی` بدلہ اور لذتانتقام کے لئے سزا دی جائے تو یہ فعل یا تو عبث ہوگا اور یا ظالمانہ کہلائے گا- لیکن اگر فعل کی غرض رضائیالہی` اصلاح نفس سزا یافتہ یا حفاظت حقائق ازلیہ ہو` تو یہ فعل برا نہ ہوگا-
مذہبی لیڈروں کا لڑائی میں حصہ لینا
چنانچہ ہم کہتے ہیں جتنے بڑے بڑے مذہبی لیڈر ہوتے ہیں` انہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے- رامچندر جی نے لڑائی میں حصہ لیا- انہوں نے روان پر جو حملہ کیا اور اسے تباہ کیا یہ درست تھا کیونکہ وہ سبق دینا چاہتے تھے کہ کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہئے- ان کے اس مقصد کو دیکھ کر ہر عقلمند ان کے اس فعل کو درست کہے گا اور ان کی تعریف کرے گا- اسی طرح کرشن جی نے لڑائی میں حصہ لیا- لڑائی کرنے کی پر زور تحریک کی اور گیتا میں اس بات پر بڑا زور دیا کہ لڑائی کرنا بھی ضروری ہوتا ہے- اور اچھے اغراض کے ماتحت لڑائی کرنا منع نہیں ہے- اور بتایا ہے کہ کرشن جی لڑائی کی تحریک خدا کے لئے ہی کر رہے تھے- اس لئے ان کا فعل اچھا تھا برا نہ تھا-
اسی طرح دوسرے مذاہب میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں- اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لڑائی کا موقع نہیں ملا- مگر ان کے بعد میں آنے والے پیرئووں نے لڑائیاں کیں اور حق کے لئے کیں- پس جو کام دنیا کی اصلاح اور فائدہ کے لئے کیا جائے اور نیکی نیتی سے کیا جائے` جائز حد تک کیا جائے` وہ برا نہیں ہوتا بلکہ اچھا ہوتا ہے-
رحم کس حال میں اچھا ہے
یہی حال رحمت کا بھی ہے- رحم بھی اسی وقت اچھا ہوتا ہے جب کہ نیک نیتی اور نیک ارادہ سے کیا جائے- مثلاً ایک شخص کے پاس کسی کا لڑکا ہو جو روز بروز خراب ہوتا جائے- مگر وہ اسے کچھ نہ کہے اور کسی برائی سے نہ روکے تو کوئی شخص اسے اچھا نہ کہے گا- ہر ایک یہی کہے گا کہ اس نے بہت برا کیا` فلاں کے لڑکے کو خراب کر دیا- اسی طرح طبعی رحم بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا- ایک شخص میں بزدلی پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے وہ کسی کو سزا نہیں دے سکتا تو یہ اس کی خوبی نہیں` نہ قابل تعریف بات بلکہ یہ نقص ہے- اسی طرح اگر کوئی ریا کے طور پر رحم کرے- اس کے دل میں تو بغض بھرا ہو مگر ظاہر طور پر وہ رحم کا سلوک کرے تو یہ بھی قابل قدر نہ ہوگا- یا اگر نیک سلوک اس لئے کرتا ہو کہ اسے کچھ حاصل ہو جائے تو یہ بھی قابل تعریف نہ ہوگا- جیسے شاعر لوگوں کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ کچھ مل جائے- لیکن اگر حسن سلوک دلیل اور برہان کے ماتحت ہو` فکر کے نتائج میں ہو` دوسرے کے فائدہ کے لئے ہو کہ اس سے ان کی اصلاح ہو گی اور امن قائم ہوگا` تو یہ قابل قدر چیز ہوگی-
نفس کا آرام
پھر نفس کے آرام کا بھی یہی حالت ہے وہ جس مقصد کے لے ہوگا` اسی کے مطابق اس کا درجہ ہوگا- اگر وہ لذت نفس کے لئے سستی یا تکبر کے لئے یا آرام طلبی کی غرض سے ہو تو برا ہے- لیکن اگر حکمت کے ماتحت ہو` اظہار شکر کے لئے ہو تو اچھا ہے- مثلاً اگر کوئی اس لئے سوتا ہے کہ تازہ دم ہو کر خدا کے لئے یا بنی نوع انسان کے لئے زیادہ محنت سے کام کر سکے گا` تو اس کا یہ آرام پانا قابل تعریف ہوگا- یا کوئی کھانا اس لئے کھاتا ہو کہ طاقت پیدا ہو اور دین یا دنیا کی خدمت کر سکوں- تو یہ بھی قابل تعریف ہوگا- یا اچھے کپڑے اس لئے پہنتا ہو کہ اللہ نے اس پر جو احسان کیا ہے` اسے ظاہرے کرے- صفائی رکھے تو یہ اچھی بات ہے- اسی طرح اگر کوئی زہد اختیار کرے یعنی دنیا کی چیزوں کو چھوڑے تو وہ اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اس کی تعریف کریں` تو یہ برا فعل ہے- لیکن اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگوں کو نفع پہنچائے تو اچھا ہے- یا اگر اس لئے چھوڑے کہ لوگ اسے پیر مان لیں` تو یہ برا ہے- لیکن اگر لوگوں کے لئے قربانی کرتا ہے تو یہ اچھا ہے-
پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو سزا دینا یا ان پر رحم کرنا` کسی کو مارنا یا خود مرنا یا زندہ رہنا اگر خدا کے لئے ہے تو اچھا فعل ہے اور اگر خدا کے لئے نہیں تو پھر اچھا فعل نہیں ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
اس گر کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو دیکھنا چاہئے کہ آپؐکی زندگی لوگوں کے فائدہ کے لئے تھی یا اپنے فائدہ کے لئے- آپ کا مرنا اپنے لئے تھا یا لوگوں کے فائدہ کے لئے- آپ نے جو احسان کئے وہ اپنے فائدہ کے لئے تھے یا لوگوں کے فائدہ کے لئے- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے جو احسان کئے` وہ اپنے نفس کے لئے تھے تو پھر خواہ آپ کے دس ہزار احسان گنا دئے جائیں یہ آپ کی کوئی خوبی نہ ہوگی- اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے کسی کو جو سزا دی` وہ غصہ اور انتقام کے طور پر دی تھی تو بے شک یہ بری بات ہوگی- لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا- اور یہ ایسی ہی سزا تھی جیسی خدا تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے اور جو دوسروں کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے تو یہ قابل تعریف بات ہوگی- اسی طرح اگر یہ ثابت ہو جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی اپنے ذاتی آرام و آسائش کے لئے خرچ کی` تو یہ بری بات ہوگی- لیکن اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ نے اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کی` تو یہ مقدس زندگی ہوگی- اسی طرح آپ کی موت اپنے لئے ہوئی تو بری ہوگی لیکن اگر خدا کے لئے ہوئی` تو مقدس ہوگی-
‏]bus [tag بری قربانی
دیکھو کئی دفعہ قربانی بھی بری ہو جاتی ہے- ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک شخص آ کر اسلامی لشکر میں شامل ہو گیا اور بڑے زور سے لڑتا رہا- لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا یہ بڑی جانبازی سے لڑا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ جہنمی ہے- یہ بات سن کر ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور ایک شخص اس کے پیچھے چل پڑا- آخر وہ زخمی ہوا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم کیوں لڑے ہو` تو اس نے کہا کہ میں کسی نیک مقصد کے لئے نہیں لڑا- بلکہ مجھے اس قوم سے بغض تھا` اس کی وجہ سے لڑا تھا- تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا- حالانکہ وہ آپ کی طرف سے لڑا تھا- بلکہ آپ نے فرمایا چونکہ یہ صداقت کے لئے نہیں لڑا` بلکہ نفسانیت کے لئے لڑا ہے` اس لئے اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہے-
غرض جب مقصد اور مدعا اچھا ہو` سزا بھی اچھی ہوتی ہے اور احسان بھی اچھا ہوتا ہے- لیکن اگر مقصد خراب ہو تو سزا بھی خراب ہوتی ہے اور احسان بھی-
رسول اللہ کا تقدس
گو احسان اور قربانی میں ہی تقدس کا ذکر آ جاتا ہے کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھ کر کام کرنے کا نام ہی تقدس ہے- مگر میں اصول طور پر بھی بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں-
تقدس کا دعویٰ
سب سے پہلی چیز دعویٰ ہوتا ہے اور جب مصلحین کا سوال ہو تو سب سے مقدم امر یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ انہوں نے خود بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کہ جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہمیں صاف لفظوں میں تقدس کا دعویٰ نظر آتا ہے- خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ فرمائیں کہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون- ۳~}~ ان کے سامنے یہ بات پیش کرو کہ میں بچپن سے تمہارے اندر رہا ہوں بچہ تھا کہ تم میں رہتے ہوئے بڑا ہوا- تم نے میری ایک ایک بات دیکھی ہے- کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں نے کبھی جھوٹ اور فریب سے کام لیا اگر کبھی نہیں لیا تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ آج میں تم سے کوئی فریب کر رہا ہوں- یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے کہ آپ پر لوگ کوئی عیب نہیں لگا سکتے- پس وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خدا پر آپ نے جھوٹ بولا- اس دعویٰ کا رد چونکہ آپ کے دشمنوں نے نہیں کیا- اس سے معلوم ہوتا کہ انہیں بھی آپ کے تقدس کا اقرار تھا-
تقدس کے دعویٰ کا ایک اور ثبوت
دوسری شہادت ایک اور ہے- یہ بھی قرآن کریم کی ہے اور قرآن کریم کے نہ ماننے والوں کے لئے گو دلیل نہیں لیکن اس سے دعویٰ ضرور ثابت ہو جاتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- قد نعلم انہ لیحزنک الذی یقولون فانھم لا یکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون ۴~}~ اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے- ہمیں معلوم ہے کہ لوگ تجھے جھوٹا اور فریبی کہتے ہیں- مکار اور ٹھگ قرار دیتے ہیں- طالب حکومت اور شوکت بتاتے ہیں- اور یہ باتیں تجھے بری لگتی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ یہ تجھے برا کہتے ہیں- بلکہ اس لئے کہ یہ لوگ ہماری باتوں کا انکار کرتے ہیں-
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے مذہب کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو اسے اتنا جوش نہیں آتا جتنا اس وقت آتا ہے جب کوئی اسے گالی دے- مگر یہاں خدا تعالیٰ ¶فرماتا ہے کہ محمد)صلیاللہ علیہ وآلہ وسلم( کے نفس کی یہ حالت ہے کہ انہیں جو چاہیں کہہ لیں مگر خدا تعالیٰ کی باتوں کا انکار نہ کریں- اور اس کی شان کے خلاف باتیں نہ کریں- گویا آپ کا غم و حزن محض اللہ کے لئے تھا- اپنی ذات کے لئے نہ تھا-
اپنے متعلق اپنی شہادت
اب ایک اور شہادت آپ کے تقدس کی پیش کرتا ہوں جو آپ کی اپنی شہادت ہے- عموماً اپنے متعلق اپنی شہادت کو وقعت نہیں دی جاتی لیکن یہ ایسی بے ساختہ شہادت ہے کہ جس کے درست تسلیم کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا-
جب آپ کو پہلے پہل الہام ہوا تو آپ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے جو عیسائی تھے- عیسائیوں میں چونکہ الہامی کتاب تھی اور عربوں میں نہ تھی` اس وجہ سے حضرت خدیجہ ؓ آپ کی بیوی ان کے پاس آپ کو لے گئیں تا ان سے اس کے متعلق مشورہ کریں- آپ نے ان سے ذکر کیا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے- ورقہ نے کہا تمہاری قوم تمہیں تمہارے وطن سے نکال دے گی- کاش میں اس وقت جواب ہوتا تو تمہاری مدد کرتا- یہ سن کر آپ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا- او مخرجی ھم ]txet [tag ۵~}~ میں ہمیشہ لوگوں کا خیر خواہ رہا ہوں اور ان کی بھلائی کی کوشش کرتا رہا ہوں پھر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ یہ مجھے نکال دیں گے-
یہ شہادت گو آپ کی اپنی شہادت ہے مگر ہر عقلمند کو ماننا پڑے گا کہ سچی ہے- کیونکہ ایسے موقع پر منہ سے نکلی ہے جب کہ کسی بناوٹ کا شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا- آپ فرماتے ہیں کیا یہ بھی ممکن ہے کہ میرے جیسے خیر خواہ اور ہمدرد کو نکال دیں- وہ لوگ مجھ سے محبت اور پیار کرتے ہیں- مجھے صدوق اور امین قرار دیتے ہیں میری خیر خواہی کے قائل ہیں- پھر کس طرح ممکن ہے کہ نکال دیں- میں نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا` کسی سے کبھی فریب نہیں کیا- کسی کو نقصان نہیں پہنچایا-
یہ بھی اس بات کی ایک شہادت ہے کہ آپ کی زندگی مقدس تھی کیونکہ آپ یہ خیال ہی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی یا یہ کہ قوم کے پاس آپ کو نکالنے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے-
بیوی کی شہادت
چونکہ خاوند کی سب سے زیادہ راز دان بیوی ہوتی ہے اس لئے میں آپ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق آپ کی بیوی کی بھی ایک شہادت پیش کرتا ہوں- یہ شہادت لوگوں کے سامنے نہیں دی گئی کہ اس میں بناوٹ کا شبہ ہو- بلکہ علیحدہ گھر میں دی گئی ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ عمر کی عورت سے شادی کی- ۲۵ سال کی عمر میں مرد پورا جوان ہوتا ہے- اور چالیس سالہ عورت بڑھاپے کی طرف جا رہی ہوتی ہے- اس عمر کا نوجوان اول تو پہلے ہی ایسے رشتہ کو ناپسند کرتا ہے اور اگر رشتہ ہو جائے تو ناگوار حالات رونما ہو جاتے ہیں- وجہ یہ کہ ایسی عمر میں مرد کی خواہشات اور ہوتی ہیں اور عورت کی اور- لیکن رسول کریم2] fts[ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کے ۱۵ سال بعد نبوت کا دعویٰ کیا- اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر ۵۵ سال کی تھی اور آپ کی عمر چالیس سال کی- اس پندرہ سال کے عرصہ میں حضرت خدیجہ نے جو نتیجہ نکالا` وہ یہ تھا کہ جب آپ کو الہام ہوا اور آپ اس بات سے گھبرا گئے کہ میں کہاں اور یہ درجہ کہاں- اور آپ نے حضرت خدیجہ سے ذکر کیا تو انہوں نے آپ سے کہاکلا واللہ مایخزیک اللہ ابدا- انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف وتعین علی نوائب الحق ۶2]~}~ f[rt فلا یسلط اللہ علیک الشیطین والاوھام والا مراء ان اللہ اختارک لھدایہ قومک- ۷~}~
حضرت خدیجہ الہام نازل ہونے کا ذکر سن کر فوراً کہتی ہیں- نہیں نہیں- خدا کی قسم- خدا کبھی آپ کو ضائع نہ کرے گا- آپ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں- کبھی کوئی بے کس آپ کو نظر نہیں آیا جس کا آپ نے بوجھ نہ اٹھایا ہو- سارے عرب میں یہ خوبیاں نہ تھیں آپ نے زندہ کیں- کوئی مسافر آپ کے پاس نہیں آیا جس کی مہمانی آپ نے نہ کی ہو- کسی پر جائز مصیبت نہیں پڑی جس کی مدد کے آپ تیار نہ ہو گئے ہوں- پس کبھی آپ پر خدا تعالیٰ شیاطین کو مسلط نہ کرے گا- اور کبھی خدا آپ کو مجنون نہ کرے گا- پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنی قوم کی ہدایت کے لئے چن لیا ہے-
یہ اس عورت کی گواہی ہے جس نے چالیس سال کی عمر میں پچیس سالہ مرد سے شادی کی تھی- اور اس مرد سے شادی کی تھی جو غریب تھا اور ایسی حالت میں شادی کی تھی کہ کئی لاکھروپیہ کی وہ مالک تھی- پھر اس نے اپنی ساری دولت خاوند کے ہاتھ میں دے دی تھی اور اس خاوند کے حق میں ہے جس نے وہ ساری دولت غریبوں میں لٹا دی تھی- ایسی حالت میں اس عورت کو اپنے خاوند کے متعلق شکایت کے بیسیوں مواقع پیدا ہو سکتے تھے- مگر جب حضرت خدیجہ ؓ نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ بوجھ جو مجھ پر ڈالا گیا ہے مجھ سے کس طرح اٹھایا جائے گا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ کس طرح یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا آپ پر شیطانوں کو مسلط کر دے مرد کا عورت سے بڑھ کر محرم راز کوئی نہیں ہو سکتا- پس یہ اس محرم راز کی شہادت ہے آپ کے تقدس کے متعلق- اور وہ بھی لوگوں کے سامنے نہیں کہ کہا جائے اپنے خاوند کی حمایت کے لئے اس نے ایسا کہا بلکہ الگ طور پر آپ کو تسلی دینے کے لئے کہتی ہے- یہ اتنی بڑی شہادت ہے کہ کسی کو اس کے انکار کی گنجائش نہیں ہو سکتی-
دوستوں کی شہادت
یہ تو آپ کے تقدس کے متعلق آپ کی بیوی کی شہادت ہے- مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیویوں سے تو اچھا سلوک کرتے ہیں- مگر اپنے ملنے جلنے والوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا- اس لئے کوئی کہہ سکتا ہے مان لیا بانیاسلام کی زندگی بیوی کے متعلق پاکیزہ تھی- لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اپنے دوستوں کے متعلق بھی اچھی تھی اس لئے میں آپ کے دوستوں کی شہادت پیش کرتا ہوں- ان دوستوں میں سے ایک تو ایسے دوست کی شہادت پیش کرتا ہوں جو آپ پر ایمان لایا- اور ایک ایسے کی جو ایمان نہ لایا- جو دوست ایمان لایا وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے- ان کی گواہی یہ ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تو لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ پاگل ہو گئے ہیں یا آپ جھوٹ بولتے ہیں- حضرت ابوبکر ؓ اس وقت مکہ سے باہر تھے- واپسی پر کسی دوست کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس شخص کی لونڈی نے آکر کہا- آپ نے سنا کیسا اندھیر ہو گیا ہے کہ خدیجہ کے خاوند محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوتا ہے- اور میں نبی ہوں- حضرت ابوبکر ؓ یہ سن کر چپ چاپ اٹھے اور رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے- آکر دروازہ پر دستک دی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر آئے اور چاہا کہ آپ کو اپنے دعویٰ سے خبردار کریں کہ انہوں نے کہا مجھے ایک بات پوچھ لینے دیں- آپ نے رسالت کا دعویٰ کیا ہے` کیا یہ صحیح ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں- انہوں نے کہا- بس میں اور کچھ نہیں معلوم کرنا چاہتا- میں جانتا ہوں کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا- اور میں آپ پر ایمان لاتا ہوں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی اس میں کچھ کجی پائی- لیکن ابوبکر نے فوراً ہی میری بات کو قبول کر لیا-۸~}~ )اس سے مراد خاندان کے باہر کے لوگ ہیں ورنہ حضرت خدیجہ حضرت علیؓ اور زید بن حارثہؓ جو بیٹوں کی طرح آپ کے گھر میں پلے تھے اس میں شامل نہیں- یہ لوگ فوراً ایمان لے آئے تھے(-
‏]text [tag یہ دوست کی شہادت ہے کہ وہ کوئی دلیل` کوئی ثبوت` کوئی معجزہ طلب نہیں کرتا- صرف اتنا کہتا ہے کہ یہ بتا دیجئے کیا آپ نے دعویٰ کیا ہے؟ اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ کیا ہے تو ایمان لے آتا ہے-
ایک اور دوست آپ کا حکیم ابن حزام تھا- وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جا کر ایمان لایا- ۲۱ سال کے قریب وہ آپ کا مخالف رہا- مگر باوجود اس کے کہ اس نے آپ کے دعویٰ کو نہ مانا` تا ہم اتنا اخلاص رکھتا تھا کہ ایک بادشاہ کا مال جب مکہ میں آ کر نیلام ہوا تو ایک کوٹ جو کئی سو کی قیمت کا تھا اور لوگوں کو بہت پسند آیا تھا` اسے جب اس نے دیکھا تو کہنے لگا محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( سے زیادہ یہ کسی کو نہ سجے گا- اس نے وہ کوٹ خرید لیا اور ہدیہ کے طور پر آپ کے لئے مدینہ میں لے کر آیا-
اس اخلاص سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کو غلطی لگ گئی ہے- مگر یہ نہ سمجھتا تھا کہ آپ فریب دے رہے ہیں- تبھی تو باوجود ایمان نہ لانے کے وہ آپ کے لئے ایک قیمتی تحفہ خرید کر مکہ سے مدینہ تین سو میل کی مسافت طے کر کے لے گیا-
ایک غیر جانبدار کی شہادت
لیکن بعض دفعہ دوست کی شہادت کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ دوست جو ہوا اس کی شہادت دوست کے حق میں ہی ہوگی- اس لئے میں ایک غیر جانبدار کی شہادت پیش کرتا ہوں- وہ آپ کے بچپن کے متعلق ہے اور یہ ایک لونڈی کی شہادت ہے- ابوطالب کی لونڈی کہتی ہے- جب بچپن میں آپ اپنے چچا ابوطالب کے گھر آئے تو سارے بچے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے- مگر آپ نے کبھی ایسی باتوں میں حصہ نہ لیا- کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر سارے بچے لپک پڑتے- مگر آپ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے- جو کچھ دے دیا جاتا کھا لیتے` خود کچھ نہ مانگتے- یہ آپ کے وقار` عزتنفس اور سیر چشمی کے متعلق شہادت ہے-
بہت بڑے دشمن کی شہادت
مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک وقت اور ایک حالت کے متعلق ہے اس لئے میں ایسی شہادت پیش کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن کی ہے اور بچپن سے لے کر ادھیڑ عمر تک کے زمانہ کے متعلق ہے- اس شخص نے آپ کی مخالفت میں ہر طرح سے حصہ لیا تھا- آپ پر پتھر پھینکے` آپ کے قتل کے منصوبے کئے- اس کا نام نضر بن الحارث تھا- یہ ان ۱۹- اشخاص میں سے تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبہ میں شامل تھے- جب دعویٰ کے بعد لوگ مکہ میں آنے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کا چرچا پھیلا تو مکہ کے لوگوں کو فکر پیدا ہوئی کہ حج کا موقع آ رہا ہے- بہت سے لوگ یہاں آئیں گے اور ان کے متعلق پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گے- اس کے لئے انہوں نے مجلس کی- جس میں قریش کے بڑے بڑے سردار اکٹھے ہوئے تاکہ سب مل کر ایک جواب سوچ لیں- ایسا نہ ہو کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ` اور سب ہی لوگ ہم کو جھوٹا سمجھیں- اس مجلس میں مختلف جواب پیش کئے گئے- ایک شخص نے کہا یہ کہدو کہ جھوٹا ہے اس وقت نضر بن الحارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا-
قد کان محمد فیکم غلاما حدثا ارضا کم فیکم واصد قکم حدیثا واعظمکم امانہ حتی اذا رایتم فی صدغیہ الشیب وجاء کم بماجاء کم قلتم ساحر لا واللہ ماھر بساحر۹~}~
وہ بڑے جوش سے کہنے لگا- جواب وہ سوچو جو معقول ہو- محمدﷺ~ تمہارے اندر پیدا ہوا- تمہارے اندر جوان ہوا- تم سب اسے پسند کرتے تھے اور اس کے اخلاق کی تعریف کرتے تھے- اسے سب سے سچا سمجھتے تھے- یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہو گیا- اور اس کے سر میں سفید بال آ گئے- اور اس نے وہ دعویٰ کیا جو کرتا ہے- اب اگر تم کہو گے کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے کون جھوٹا مانے گا- لوگ تمہیں ہی جھوٹا کہیں گے اس جواب کو چھوڑ کر کوئی اور جواب گھڑو-
یہ دشمن کی گواہی ہے اور بہت بڑے دشمن کی گواہی ہے- پھر تائید کے لئے گواہی نہیں- بلکہ ایسی مجلس میں پیش کی گئی ہے جو آپ کی مخالفت کے لئے منعقد کی گئی تھی اور اس لئے پیش کی گئی تھی کہ کس طرح لوگوں کو آپ کی طرف سے پھرایا جائے-
خادم کی شہادت
پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں- بیویوں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں- بھائیوں سے بھی عمدگی سے پیش آتے ہیں- مگر اپنے نوکروں پر سختی کرتے ہیں- اس لئے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک نوکروں سے کیسا تھا- اس کے لئے ایک ایسے شخص کی شہادت پیش کی جاتی ہے جو بچپن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا اور آپ کی وفات تک آپ کے پاس رہا- وہ شخص انس~رضی۱~ تھے- وہ بیان کرتے ہیں خواہ مجھ سے کوئی کام کتنا ہی خراب ہو جائے- کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ نہ ہوتے تھے- اور نہ ہی بری نظر سے دیکھتے تھے- پھر آپ نے مجھے کوئی کام ایسا نہیں بتایا جو میں نہ کر سکتا تھا اور جو کام مجھے بتاتے آپ بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے اور آپ کبھی سخت کلامی نہ کرتے تھے-
معاملہ کرنے والے کی شہادت
پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دوستوں اور نوکروں سے بھی اچھا معاملہ کرتے ہیں- مگر جب کسی سے مشارکت مالی انہیں ہو جاتی ہے تو پھر ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جن لوگوں کو معاملہ پڑا ہم ان کی شہادت پر نگاہ ڈالتے ہیں-
قیس بن سائب ایک شخص تھا- جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مل کر تجارت کی تھی- وہ مدتوں تک مسلمان نہ ہوا- فتح مکہ کے بعد وہ آپ کے پاس آیا اور کسی نے بتایا کہ یہ فلاں شخص ہے- آپ نے فرمایا- میں تمہاری نسبت اسے زیادہ جانتا ہوں- اس سے مل کر میں نے تجارت کی تھی- اس نے کہانعم الشریک لایداری ولایماری ولایشاری text] [tag۱۰~}~ کہ اس سے اچھا شریک میں نے نہیں دیکھا- اس نے کبھی ٹھگی نہ کی` کبھی کوئی شرارت نہ کی` کبھی کوئی جھگڑا نہ کیا-
وصال کے بعد کی شہادتیں
پھر کہا جا سکتا ہے کہ آپ بڑے آدمی تھے زندگی میں لوگ ان سے ڈرتے تھے اور کوئی مخالفانہ بات نہ کہہ سکتے تھے- اس لئے میں اس زمانہ کو لیتا ہوں- جب کہ آپ فوت ہو گئے کہ اس وقت آپ کے متعلق کیا شہادت ملتی ہے-
دوسری بیوی کی شہادت
اس زمانہ کے متعلق بھی پہلے میں آپ کی ایک بیوی کی شہادت پیش کرتا ہوں اور وہ حضرت عائشہؓ ہیں- جو آپ کی نو بیویوں میں سے ایک ہیں- کسی کی دو بیویاں ہوں تو اس کے متعلق شکایت پیدا ہو جاتی ہے- مگر آپ کی ۹ بیویاں تھیں اور بڑھاپے کی عمر کی تھیں- اور وہ بیویاں تھیں جن کو کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملا تھا- مگر کسی نے حضرت عائشہؓ سے جب پوچھا- رسول کریم کے خلق کے متعلق تو کچھ بتائیے- تو انہوں نے کہا کان خلقہ القران ۱۱~}~ قرآن میں جن اخلاق حمیدہ کا ذکر ہے- وہ سارے کے سارے آپ میں پائے جاتے تھے-
حضرت عائشہ ؓ کی محبت کا یہ حال تھا کہ کسی نے انہیں دیکھا کہ روٹی کھا رہی ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں- پوچھا یہ کیا- آپ کیوں رو رہی ہیں- تو کہا کیوں نہ رئووں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے مگر کبھی چھنے آٹے کی روٹی میں پکا کر ان کو نہ کھلا سکی اب جو میں ایسی روٹی کھا رہی ہوں تو میرے گلے میں پھنس رہی ہے اس وقت اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو میں انہیں یہ روٹی کھلاتی-
کسی کو جب ذرا آرام مل جاتا ہے تو وہ اپنے پیارے سے پیارے عزیزوں کو بھول جاتا ہے- مگر حضرت عائشہ ؓ جو نوجوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں- جنہیں کوئی دنیاوی آرام رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حاصل نہ ہوا تھا وہ آپ کے اخلاق کی ایسی معتقد ہیں کہ جب انہیں اچھی چیز ملتی ہے` تو کہتی ہیں کاش رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو میں انہیں کھلاتی-
خلفاء کی شہادتیں
پھر میں آپ کے خلفاء کی شہادت کو لیتا ہوں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کا قائم مقام بنتا ہے تو اس کی مذمت کرتا ہے تاکہ اپنی عزت قائم کرے- سوائے اس کے جسے خاص روحانی اور اخلاقی تعلقات ہوں-
حضرت ابوبکرؓ کی شہادت
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے خلیفہ ہوئے- جب ان کے وقت میں سارے عرب میں بغاوت ہو گئی اور لوگوں نے کہہ دیا ہم ٹیکس نہیں دیں گے- تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ ان لوگوں سے مقابلہ پیش آ گیا ہے` اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل جو لشکر روانہ کیا تھا` اسے روک لیا جائے- پہلے بغاوت کو فرو کر لیا جائے اور پھر لشکر کو بھیجا جائے- مگر حضرت ابوبکر ؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عظمت تھی کہ اپنے باپ کا نام لے کر کہنے لگے- کیا ابن ابی قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے- خدا کی قسم! اگر دشمن مدینہ میں آکر ہماری عورتوں کو گھسیٹنے لگے تو بھی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو نہیں روکوں گا-۱۲~}~
اس واقعہ کو سن کر کوئی کہہ سکتا ہے- اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی اسلام اپنے دعویٰ میں سچے تھے- ہم بھی کہتے ہیں- بے شک صرف اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا مگر اس سے یہ تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہایت راستباز اور متقی انسان تھے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے قول کا پاس ان کے شاگردوں کو غیر معمولی حد تک تھا-
حضرت عمرؓ کی شہادت
دوسری شہادت آپ کے دوسرے خلیفہ کی پیش کرتا ہوں اور وہ بھی موت کے وقت کی- جب حضرت عمر ؓ فوت ہونے لگے تو انہوں نے اس بات کے لئے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دفن ہونے کی جگہ مل جائے- چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو مجھے آپ کے پہلو میں دفن کیا جائے-۱۳~}~
حضرت عمر وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مورخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اور کسی نے نہیں کی- وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عمر ؓ کی تعریف کرتے ہیں- ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت یہ حسرت رکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے- اگر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی کہ آپ خدا کی رضا کے لئے کام نہیں کرتے تو کیا حضرت عمرؓ جیسا انسان اس درجہ کو پہنچ کر کبھی یہ خواہش کرتا کہ آپ کے قدموں میں جگہ پائے-
حضرت عثمانؓ کی شہادت
تیسری شہادت میں آپ کے تیسرے خلیفہ کی پیش کرتا ہوں- جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر آپ کی عزت و احترام ان کی نظر میں تھا- حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بغاوت ہو گئی اور باغیوں نے یہ منصوبہ کیا کہ ان کو مار دیں- اس وقت حضرت معاویہؓ ان کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ باغیوں کا خیال ہے کہ آپ کو مار کر کسی اور صحابی کو خلیفہ بنا لیں گے- اس لئے آپ بڑے بڑے صحابہ کو باہر بھیج دیں- مگر اس وقت جب کہ بغاوت پھیل رہی تھی اور حضرت عثمانؓ کو اپنی جان کا خطرہ تھا- انہوں نے کہا- اے معاویہ! یہ کس طرح مجھ سے امید کی جا سکتی ہے کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر بھیج دوں- جنہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا تھا- گویا انہوں نے اپنی جان قربان کر دی- مگر صحابہ کو باہر بھیجنے کے لئے تیار نہ ہوئے- اس لئے کہ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا تھا-
کیا یہ ادب اور یہ احترام اس شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جس نے ساری عمر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر آپ کی کوئی ٹھگی دیکھی ہو-
حضرت علیؓ کی شہادت
حضرت علیؓ چونکہ آپ کے عزیز ترین رشتہ دار تھے اور ان کی ساری زندگی ہی آپ کی صداقت کی شہادت میں پیش کی جا سکتی ہے- اس لئے ان کے کسی خاص واقعہ کو بیان کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا-
شہادت کا نتیجہ
یاد رکھو- شہادت اسی وقت کے لوگوں کی ہوتی ہے- پس آپ کی بیوی کی شہادت پیش کی گئی کہ آپ کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے- پھر آپ کے دوستوں` دشمنوں کی شہادت پیش کی گئی ہے- پھر وفات کے بعد کے زمانہ کے متعلق شہادت پیش کی گئی ہے- پھر کیا یہ ہو سکتا ہے کہ موقع کے لوگوں کی گواہی تو قابل اعتبار نہ سمجھی جائے- اور بعد کے لوگ جو کہیں اسے درست مان لیا جائے- موقع ہی کی گواہی اصل گواہی ہوتی ہے- اور موقع کے دوست دشمن سب کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مقدس وجود تھے- پھر کوئی وجہ نہیں کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کو مقدس نہ کہیں-
خدا تعالیٰ کے لئے غیرت
دوسرا ثبوت آپ کے تقدس کا وہ غیرت ہے جو آپ خدا تعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے- ایک مشہور واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے کس قدر غیرت تھی- جب احد کی لڑائی ہوئی تو اس میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہو گئے اور دشمنوں نے سمجھا کہ آپ کو انہوں نے مار ڈالا ہے- یہ سمجھ کر مکہ کے ایک سردار نے میدان جنگ میں بلند آواز سے کہا بتائو محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کہاں ہے- آپ نے فرمایا کوئی جواب نہ دو- کوئی جواب نہ پا کر اس نے کہا ہم نے محمد کو مار دیا ہے- پھر اس نے کہا ابوبکر کہاں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- کوئی نہ بولو- اس نے کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا ہے- پھر اس نے کہا عمر کہاں ہے- حضرت عمر جوش سے ¶بولنے لگے کہ میں تمہاری خبر لینے کے لئے موجود ہوں مگر آپ نے انہیں روکا کہ جواب مت دو اس پر اس نے کہا ہم نے عمر کو بھی مار دیا ہے- پھر اس نے کہا اعل ھبل- اعل ھبل- ھبل )جو مکہ کا ایک بت تھا( کی شان بلند ہو- کیونکہ ہم نے بتوں کے مخالفوں کو مار دیا ہے- اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ابھی فرما چکے تھے کہ خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو کیونکہ مصلحت اسی میں تھی- بہت سے مسلمان زخمی تھے اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لوٹ کر ان پرحملہ آور نہ ہوں` فرمانے لگے کہ جواب کیوں نہیں دیتے- کہو- اللہ اعلی و اجل- اللہ اعلی و اجل-۱۴~}~ اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے- اللہ ہی عزت والا اور شان والا ہے- اب دیکھو کہ باوجود ایسے نازک موقع کے کہ بہت کثرت سے مسلمان زخمی پڑے تھے- اور بظاہر مسلمانوں کے شکست ہو گئی تھی- آپ نے خدا تعالیٰ کی توحید پر حرف آتے دیکھ کر خاموش رہنے کو پسند نہ کیا- حالانکہ اپنی موت کی خبر کی تردید نہ کرنے دی- اس وقت بولنے کا صرف یہی نتیجہ نظر آتا تھا کہ دشمن حملہ کر کے سب کو مار ڈالے- مگر جب آپ نے خدا تعالیٰ کی تحقیر سنی تو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا کردہ پھل
تیسرا ثبوت آپ کی تقدیس کا وہ پھل ہیں جو آپ نے پیدا کئے اور اس کے لئے میں حضرتابوبکرؓ- حضرت عمرؓ- حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو پیش کرتا ہوں- متعصب سے متعصب عیسائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ناپاک سے ناپاک حملے کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں- ابوبکر اور عمر بہت اچھے انسان تھے- وجہ یہ کہ انہوں نے دنیا کے لئے اتنی قربانیاں کی ہیں کہ دشمن بھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں- مگر جب دشمن یہ مانتے ہیں کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ بہت اعلیٰ انسان تھے- جنہوں نے دنیا کو بے شمار فوائد پہنچائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مفید وجود جو نعوذ باللہ ایک ٹھگ اور عیاش نے پیدا کر دیئے- وہ شخص جس کی نظر دوسروں کے مال پر ہو- وہ کہاں ایسے انسان پیدا کر سکتا ہے- جو اپنا مال بھی خدا کی راہ میں لٹا دیں- ٹھگوں سے ٹھگ ہی پیدا ہوتے ہیں اور عیاشوں سے عیاش ہی بنتے ہیں- کبھی ٹھگوں سے نیک اور عیاشوں سے متقی نہیں بنائے جا سکتے- یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ یہ لوگ جن کے تقویٰ` جن کی دیانت` جن کے ایثار` جن کی سادگی اور جن کی قومی غمخواری کی تمام دنیا قائل اور مقر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہر وقت رہنے کے بعد اگر نعوذ باللہ یہ صفات آپ میں ان لوگوں سے ہزاروں گنے زیادہ نہیں پائی جاتی تھیں تو ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ظاہر کرنے والے ہوتے اور پھر یہ دعویٰ کرتے کہ یہ اخلاق ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمندر میں سے ایک قطرہ کے برابر ملے ہیں-
حضرت عثمان~رضی۱~ کی زندگی بھی حقیقتاً بے عیب تھی- گو بعض تاریخی غلطیوں کی وجہ سے لوگوں نے اسے اچھی طرح محسوس نہیں کیا- مگر حضرت علیؓ جو چوتھے خلیفہ ہیں اور نہ صرف خلیفہ ہی بلکہ بچپن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پلے تھے اور آپ کے گھر میں رہے تھے اور آپ کے داماد تھے- ان کی نیکی` ان کے زہد` ان کی بے نفسی اور ان کی پاکیزگی کے دشمناناسلام قائل ہیں- میں پوچھتا ہوں- علیؓ ان اعتراضات کی موجودگی میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کئے جاتے ہیں` اوپر کی صفات کو کہاں سے پا سکتے تھے- اور اگر یہ اخلاق ان کے ذاتی تھے- تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے باوجود وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلص کیوں رہے- پھر ان چاروں خلفاء کی ہی شرط نہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کی قوم ایسی پیدا کر دی جو عدل و انصاف کی مجسمہ تھی- حتیٰ کہ شام کے یہودیوں نے ہی نہیں مسیحیوں تک نے مسلمانوں کے شام کو چھوڑنے کا ارادہ معلوم کر کے ایک وفد بھیجا کہ ہمیں اپنے ہم مذہب مسیحیوں کی حکومت منظور نہیں آپ لوگ یہاں رہیں ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے- کیونکہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری جانیں اور ہماری عزتیں اور ہمارے مال محفوظ ہیں- اب خدا را غور کرو کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں غیر معمولی تقدس بلکہ تقدیس کی طاقت نہ ہوتی- تو عرب کے غیر متمدن لوگ ڈاکوں اور جوئے اور شراب میں فخر محسوس کرنے والے اس قسم کا تغیر کہاں سے پیدا کر لیتے اور عرب کی زمین آسمان کی جائے فخر کیونکر ہو جاتی-
اہم اعتراضات کے جوابات
آپ کے تقدس کے خلاف کچھ اعتراض بھی کئے جاتے ہیں- میں ان میں سے تین اہم اعتراضات کے جواب بھی اس موقع پر بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں-
میور لکھتا ہے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے بے شک بعض اصلاحات کیں لیکن تین خطرناک باتیں انہوں نے رائج کیں جو ان کی خدمات سے بہت زیادہ خطرناک تھیں- اور انہوں نے ان کی نیکیوں کے پلڑہ کو بالکل ہلکا کر دیا ہے اور وہ آپ کی تعلیم طلاق` کثرت ازدواج اور غلامی کے متعلق ہے-
مسئلہ طلاق
طلاق کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے یا تو اس پر بڑے زور شور سے اعتراض کئے جاتے تھے` اور یا اب تمام ممالک میں اور تمام اقوام میں یہ مسئلہ جاری ہو رہا ہے اور دنیا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ طلاق کا جائز نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے- بلکہ امریکہ تو طلاق کے جواز میں اسلامی احکام سے بھی آگے نکل گیا ہے-
کثرت ازدواج
باقی رہا بیویوں کے متعلق اعتراض- سو زیادہ بیویاں کرنا اپنی ذات میں تو قابل اعتراض فعل نہیں ہے- قابل اعتراض بات تو عیاشی ہے یعنی بعض عورتوں کی طرف ناجائز اور حد سے بڑھی ہوئی رغبت-
عیاشی کے لوازمات
عیاشی کے لئے یہ چیزیں ضرورت ہوتی ہیں- )۱( بڑا عیاش شراب کا دلدادہ ہوتا ہے- )۲( عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- )۳( عمدہ سامانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- )۴( راگ و رنگ کا دلدادہ ہوتا ہے- )۵( باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے- )۶( پہلے سے زیادہ حسین عورتوں کو تلاش کرتا ہے اور کم عمر عورتیں تلاش کرتا ہے- )۷( عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے- )۸( عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے- )۹( ان کی صحبت میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے-
عیاش کی علامتیں
یہ عیاش کی علامتیں ہوتی ہیں- کوئی عیاش ایسا نہ ہوگا جو شراب کو ناپسند کرتا ہو- کیونکہ عیاشی کے لئے غم و فکر سے علیحدگی ضروری ہوتی ہے- اور چونکہ ہر انسان کو کوئی نہ کوئی غم لگا ہوتا ہے اس لئے شراب پی کر خود فراموشی حاصل کی جاتی ہے- پھر عیاش کو عمدہ کھانوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ شہوت بڑھے- پھر عیاش کو عمدہ سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ شہوت کے خیالات پیدا ہوں- اس کے لئے یہ بھی ضرورت ہوتا ہے کہ راگ و رنگ ہو` گانا بجانا ہو تاکہ شہوانی خیالات کو طاقت حاصل ہو- پھر عیاش باکرہ عورتوں کا متلاشی ہوتا ہے- کبھی یہ نہ ہوگا کہ کوئی عیاش باکرہ عورتوں کو چھوڑ کر دوسری عورتیں پسند کرے- اور باکرہ عورتوں سے بھی وہ کم عمر عورتوں کو تلاش کرتا ہے- کیونکہ وہ کھیل تماشہ ہی چاہتا ہے اور یہ کم عمری میں زیادہ ہوتا ہے- اسی طرح طبعاً بھی جس قدر رغبت چھوٹی عمر کی عورتوں سے ہو سکتی ہے- بڑی عمر کی عورت سے نہیں ہو سکتی- دوسرے مطلقہ یا بیوہ عورت کے متعلق یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ اس نے پہلے خاوند دیکھا ہوا ہے- ممکن ہے میں اس سے کمزور ہوں اور اس کی نظر میں میری سبکی ہو- پس وہ اس امتحان میں پڑنا نہیں چاہتا- پھر عیاش آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک سے ایک بڑھ کر حسین عورت اس کے قبضہ میں آئے-
اسی طرح عیاش مرد عورت کو خوش کرنا اور اس کی خواہشات کو پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے` تاکہ وہ اس کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت کرے- وہ عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے- ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے- دوسری کو چھوڑ کر تیسری کی طرف- کیونکہ سب کی طرف توجہ کرنا اس کے مزے کو خراب کرتا ہے- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عیاش مرد عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے- کیونکہ اس کے بغیر اس کی عیاشی کے میلان پورے ہی نہیں ہو سکتے- یہ نو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیر یا کم سے کم ان میں سے بعض کے بغیر دنیا میں کوئی عیاش ہو نہیں سکتا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں؟
شراب
پہلی چیز شراب ہے سو دیکھو کہ ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جنہوں نے دنیا میں شراب کو قطعاً حرام کیا ہے- پہلی اقوام میں شراب کو محدود کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے- لیکن اسے بالکل نہیں روکا گیا سوائے اسلام کے- اب سوچو کہ اگر آپ میں عیاشی کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ کی قوم اگر پہلے پانچ دفعہ شراب پیتی تھی تو آپ انہیں حکم دیتے کہ آٹھ دفعہ پیو- اور اگر آٹھ دفعہ پیتی ہوتی تو آپ انہیں کہتے کہ بارہ دفعہ پیا کرو- لیکن آپ نے شراب کو بالکل اور قطعاً حرام قرار دے دیا- کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے شراب کو اس لئے حرام کیا کہ آپ کے تقدس پر لوگ حرف گیری نہ کریں- کیونکہ آپ کے ملک کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے لوگ بھی اس زمانہ میں شراب کو تقدس کے خلاف نہیں سمجھتے تھے- عرب کے کاہن اور ایران کے موبد ۱۵~}~اور روم کے پادری اور ہندوستان کے پنڈت شراب میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے اور شراب تقدس کے خلاف نہیں بلکہ شراب عبادات کا ایک جزو اور ریاضات کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی تھی- پس ایسے وقت میں پبلک اوپینین (OPINION) کا خیال کر کے شراب کو حرام کرنے کا خیال بھی کسی شخص کے دل میں نہیں آ سکتا تھا- پس اگر عیاشی کا ایک خفیف سا میلان بھی آپ میں پایا جاتا جیسا کہ آپ کے دشمن خیال کرتے ہیں- تو آپ شراب کو ہر گز منع نہ فرماتے بلکہ اپنے ملک کے رواج کو جو ملک کے بڑے اور چھوٹے کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا جاری رہنے دیتے-
ہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپ کو عیاشی کے لئے شراب کی ضرورت ہی نہ تھی- کیونکہ شراب کی ضرورت غموں کے غلط کرنے کے لئے ہوتی ہے اور آپ غموں سے آزاد تھے مگر یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زیادہ بودی اور لچر ہوگی کیونکہ آپ کی زندگی غموں کا ایک مرقع تھی- جان کاہیوں کی ایک نہ ٹوٹنے والی زنجیر تھی- نبوت کا دعویٰ پیش کرنے کے بعد سے آپ دنیا کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے- اپنے اور پرایوں کے حملوں کے ہدف بن گئے- دنیا آپ کے دکھ دینے میں صرف لطف ہی محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ وہ اسے ثواب دارین کا موجب خیال کرتی تھی- مکہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ عرب کے لوگ مشرک ہی نہیں بلکہ یہودونصاریٰ بھی آپ کو اپنے مذہب اور اپنی قومیت کے لئے ایک خطرناک وجود سمجھتے تھے- پس ہر اک کی تلوار آپ کے خلاف اٹھ رہی تھی- ہر اک کی زبان آپ کی ہتک عزت کے لئے دراز ہو رہی تھی- ہر اک کی آنکھ غصہ سے سرخ ہو ہو کر آپ پر پڑتی تھی- جب عرب آپ کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو تب بھی آپ کو امن نہ ملا- روم کی حکومت نے آپ کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں- ایران کے بادشاہ نے آپ کے قتل کے احکام دیئے- گھر کے دشمن منافقوں نے اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کردیں- غرض دنیوی لحاظ سے ایک شعلہ مارنے والی قبا تھی جو آپ کے لئے تیار کی گئی تھی- ایک گھڑی اور ایک ساعت راحت اور آرام کی آپ کے لئے میسر نہ تھی- حتیٰکہ وفات کے وقت بھی آپ ایک بہت بڑے دشمن کے مقابلہ کے لئے ایک جرارلشکر کو بھیج رہے تھے- ان مصائب اور ان آلام کے ہوتے ہوئے اور شخص ہوتا تو پاگل ہو جاتا مگر آپ بہادری سے ان مشکلات کا مقابلہ کر رہے تھے- پس اگر عیاشی کے لئے نہیں تو غموں ہی کے کم کرنے کے لئے آپ شراب کی اجازت دے سکتے تھے- مگر آپ نے شراب کو حرام اور قطعاً حرام کر دیا- پس کون کہہ سکتا ہے کہ آپ کو غم نہ تھے- اس لئے آپ نے شراب کو حرام کیا-
عمدہ کھانے
پھر عیاش عمدہ کھانوں کا دلدادہ ہوتا ہے- عیاش لذیذ سے لذیذ اور مقوی سے مقوی کھانے کھاتے ہیں تاکہ شہوت پیدا ہو- مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا یہ حال تھا کہ جس دن آپ فوت ہوئے اس دن شام کو آپ کے گھر فاقہ تھا- بعض اوقات آپ کو بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑا- آپ کے پاس جو کچھ آتا- اسلام کی ضرورتوں پر خرچ کر دیتے- حضرت عائشہ فرماتی ہیں بیسیوں وقت ایسے آئے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملا- کئی وقت ایسے آئے کہ صرف کھجوریں کھا کر گذارہ کیا اور کئی وقت ایسے آئے کہ صرف پانی پی کر وقت گذارا- جس شخص کے کھانے پینے کی یہ حالت ہو اسے کون عیاش کہہ سکتا ہے-
عمدہ سامان
پھر عیاشی کے لئے عمدہ سامان جمع کئے جاتے ہیں- تاکہ عیاشی میں لذت پیدا ہو- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کا یہ حال تھا کہ بعض گھروں میں صرف بھیڑبکری کی ایک کھال تھی- جس پر میاں بیوی اکٹھے سو رہتے تھے- چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں ہمارے گھر میں ایک ہی بستر تھا- اور ہمیں اکٹھے سونا پڑتا- جب رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے اٹھتے- تو اسی بچھونے پر نماز پڑھتے اور مجھے اپنی ٹانگیں اکٹھی کر لینی پڑتیں-
باکرہ عورتیں
پھر عیاش باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بااختیار بادشاہ ہونے کی حالت میں کسی باکرہ سے شادی نہ کی- ہاں مکہ میں ایک باکرہ حضرت عائشہ سے شادی کی- مگر جب صاحب اختیار ہوئے تو ایک بھی نکاح کسی باکرہ سے نہ کیا- اگر آپ عیش پسند ہوتے تو کیا آپ باکرہ عورتوں سے شادی نہ کر سکتے- کئی باکرہ عورتوں نے اپنے آپ کو نکاح کے لئے پیش بھی کیا- مگر آپ نے کسی سے نکاح نہ کیا- بلکہ ان کا نکاح دوسروں سے کرا دیا-
حسین عورت کی تلاش
پھر عیاش انسان پہلی عورت سے زیادہ حسین تلاش کرتا ہے- جو پہلی عورتوں سے زیادہ اس کی شہوات کو پورا کر سکے- مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ کے درجہ کی آپ کی کوئی بھی بیوی نہ تھی- اگر آپ نعوذ باللہ عیاش ہوتے تو جو نکاح آپ نے بعد میں کئے وہ زیادہ حسین عورتوں سے کرتے- مگر ارونگ جیسا دشمن بھی آپ کے متعلق لکھتا ہے-
‏ years, of Blossom very the in chosen thus wife this Upon shusequently he whom those of any than more dotted Prophet the۱۶~}~ ۔married
یعنی اس طرح چنی ہوئی یہ بیوی )عائشہؓ( جس سے آپ نے اس کے عنفوان شباب میں بیاہ کیا ہے ایسی تھی کہ جس پر نبی اپنی تمام دوسری بیبیوں سے جو بعد میں بیاہی گئیں فریفتہ تھا- یہ ایک دشمن اور سخت دشمن کی شہادت ہے- اگر نعوذ باللہ آپ عیاش ہوتے تو آپ عائشہؓ کے بعد ان سے زیادہ خوبصورت نہایت نوجوانی کی عمر کی بیویوں کو تلاش کرتے- مگر آپ نے ایسا نہیں کیا- اور ایسی عورتوں سے شادی کی جو عائشہ کا مقابلہ اپنی عمر اور اپنی ظاہری خوبی کے لحاظ سے نہیں کر سکیں اور ایسی حالت میں شادی کی- جب کہ آپ عائشہؓ کے والد کے اخلاص اور خود ان کے زہد اور تقویٰ کی وجہ سے عائشہؓ سے کمال محبت رکھتے تھے کیا یہ عیاشی کہلا سکتی ہے-
مزامیر
پھر عیاشی کے لئے مزامیر ضروری ہوتے ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرما دیا ہے کہ یہ شیطانی آلے ہیں- یاد رکھو کہ ایسے لوگ تو ہو سکتے ہیں جو عیاش نہ ہوں اور باجے سنیں مگر کوئی ایسا عیاش نہیں ہو سکتا جو مزامیر نہ سنتا ہو- مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ انسان تھے جو مزامیر کو مٹانے والے تھے- اگر آپ نعوذ باللہ عیاش ہوتے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ ایسا کرتے-
عورتوں کی خواہشوں کی پابندی
پھر عیاش انسان عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ جب خیبر کا علاقہ فتح ہوا اور وہاں کے ٹیکس کی ایک معقول رقم آنے لگی اور مسلمانوں کے گھروں میں دولت اور فراوانی آ گئی تو آپ کی بیویوں نے بھی جن میں سے اکثر آسودہ حال گھرانوں کی لڑکیاں تھیں- خواہش کی کہ ہم بہت تنگی میں گذارہ کرتی ہیں- اس وقت تو ہم نے اس وجہ سے کچھ نہیں کہا کہ روپیہ تھا ہی نہیں- لیکن اب جب کہ روپیہ آ گیا ہے اور سب لوگوں کو حصہ ملا ہے- ہماری آسودگی کا بھی انتظام ہونا چاہئے اور اس تنگ زندگی سے ہمیں بچانا چاہئے تو اس خواہش کے جواب میں وہ انسان جسے کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ عیاش تھا اور عورتوں کی صحبت میں اس نے عمر گذاری جو جواب دیتا ہے اس کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے-
یایھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوہ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا- وان کنتن تردن اللہ و رسولہ والدار الاخرہ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجرا عظیما- ۱۷~}~
خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اے نبی ان بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے مال اور زینت کے سامان کی خواہش رکھتی ہو تو آئو تم کو مال دے دیتا ہوں- مگر اس حالت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں- مال لے کر تم مجھ سے جدا ہو جائو- لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت رکھتی ہو اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہو تو پھر ان اموال کا مطالبہ نہ کرو- اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان کے لئے جو پوری طرح خدا کے احکام کی پابندی کرنے والیاں ہوں گی بہت بڑے اجر مقرر کر چھوڑے ہیں-
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ میری زوجیت یا میری موجودگی میں تم کو مال نہیں مل سکتا- اگر میری زندگی میں مال لینا چاہتی ہو- تو طلاق لے لو- اور الگ ہو جائو کہ میری دینی ذمہداریاں مالداروں کی زندگی کی برداشت نہیں کر سکتیں- لیکن اگر تم اس وقت صبر سے کام لو اور میرے ساتھ مل کر خدمت دین کو ترجیح دو- تو پھر بھی تم کو مال مل جائے گا مگر میری وفات کے بعد ملے گا- میری موجودگی میں نہیں- چنانچہ آپ کی بیویوں کو مال ملے اور بہت ملے مگر آپ کی وفات کے بعد- اب دیکھو کہ اس طرح عورتوں کی خواہشات کو ٹھکرا دینے والا کیا عیاش کہلا سکتا ہے اور کیا کوئی عیاش اپنی بیویوں کی مال و زینت کی خواہش سن کر انہیں کہہ سکتا ہے کہ زینت کے سامان چاہئیں تو طلاق لے لو-
عورتوں میں بے انصافی
پھر عیاش انسان عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے جسے خوبصورت سمجھے اس کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ جب آپ بیمار ہوئے تو اس حالت میں بھی دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس بیوی کے ہاں چلے جاتے جس کی باری ہوتی- وفات سے تین دن قبل تک ایسا ہی کرتے رہے حتیٰکہ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہؓ رو پڑیں اور آپ کی بیویوں نے بھی کہا کہ آپ ایک جگہ ٹھہر جائیے- ہم بخوشی اس کی اجازت دیتی ہیں- تب آپ ایک جگہ ٹھہر گئے جو انسان بیویوں میں انصاف کرنے کا اس قدر پابند ہو کو مرض الموت میں بھی دوسرے کے کندھوں کا سہارا لے کر ان کے ہاں باری باری جاتا ہو اسے کون عیاش کہہ سکتا ہے-
عورتوں میں زیادہ وقت صرف کرنا
پھر عیاش اپنا زیادہ وقت عورتوں کی صحبت میں گذارتا ہے- مگر آپ کی یہ حالت تھی کہ صبح سے شام تک باہر رہتے اور رات کو جب گھر جاتے تو کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور پھر رات کو اٹھ کر عبادت کرتے- اس طرح بندھے ہوئے اوقات میں آپ کو عیاشی کے لئے کونسا وقت ملتا تھا-
رسول کریم~صل۲~ کی شادیوں کی غرض
پس آپ کی کئی بیویوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نعوذ باللہ آپ عیاش تھے- دیکھنا یہ چاہئے کہ کس غرض کو مدنظر رکھ کر آپ نے شادیاں کیں- خدا کے لئے یا اپنے نفس کے لئے- اگر خدا کے لئے کیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کا زیادہ بیویاں کرنا عیاشی کی دلیل ہے- میں ثابت کر چکا ہوں کہ آپ کا ایک سے زیادہ بیویاں کرنا نفس کی خواہشات کے لئے نہ تھا- کیونکہ انہیں تو آپ نے پورا نہیں کیا- اس کی وجہ کوئی اور تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جس کے مرد اور عورتیں سب شریعت سے بے خبر تھے- اس قوم میں آپ نے شریعت کو رائج کرنا تھا- پس آپ نے مختلف خاندانوں کی بیویوں سے شادیاں کیں- تاکہ وہ دین کے اس حصہ کو جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے سیکھ کر اپنی ہم جنسوں کو تعلیم دیں اور یہ ایک محض للہی غرض تھی اور آپ کا زیادہ شادیاں کرنا اور ان میں انصاف قائم رکھنا ایک بہت بڑی قربانی تھا نہ کہ عیاشی-
اور اب جب کہ میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ جس رنگ میں آپ نے عورتوں سے معاملہ کیا ہے وہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے- تو یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کہ آپ نے اپنی امت کے انہی لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے جو آپ کی طرح عورتوں سے معاملہ کر سکیں تو اس حکم سے کسی ظلم کی بنیاد نہیں پڑی- بلکہ دنیوی ترقی کے لئے ایک بہت بڑی قربانی اور ملک کی اخلاقی درستی کے لئے ایک بہت بڑی تدبیر کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے-
غلامی
باقی رہا غلامی کا اعتراض- اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں- کیونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور بہت سے پہلوئوں پر بحث کا محتاج ہے- پس میں ایک صاف اور سیدھا طریق اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہوں- کہا جاتا ہے کہ آپ نے غلامی کو رائج کر کے دنیا پر بہت بڑا ظلم کیا ہے- میں کہتا ہوں کہ آئو آپ کی زندگی پر غور کر کے دیکھ لیں کہ کیا آپ غلاموں کے حامی تھے یا غلامی کے حامی- اور یہ بھی کہ غلام آپ کے دوست تھے یا آپ کے دشمن- کیونکہ ہر ایک قوم اپنے فوائد کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہے- پہلی بات کو معلوم کرنے کے لئے میں آپ کی جوانی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں- جب آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی ہے اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی اور اس عمر میں انسان کا دماغ حکومت کے خیالات سے بھرا ہوا ہوتا ہے- حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد اپنا سب مال اور اپنے سب غلام آپ سپرد کر دیئے اور آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سب غلاموں کو آزاد کر دیا- اب بتائو کہ یہ شخص جس نے جوانی کے ایام میں دولت ہاتھ آتے ہی یہ کام کیا ہے غلامی کاحامی کہلا سکتا ہے یا غلاموں کا-
‏a.10.29
غلاموں کی رائے
پھر ایک مثل مشہور ہے کہ ماں سے زیادہ چاہنے والی کٹنی۱۸~}~ کہلائے- اب سیدھی بات ہے کہ غلاموں سے زیادہ کسی کو ان کی آزادی کا خیال نہیں ہو سکتا- دیکھنا یہ چاہئے کہ غلاموں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا رائے تھی- اگر غلام آپ کو اپنا محسن سمجھتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ آپ غلاموں کے محسن تھے نہ کہ غلامی کے حامی-
اس کے متعلق میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہے کہ غلام آپ کے کیسے دلدادہ تھے- نبوت کی زندگی کے پہلے سات سال میں کل چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے تھے- ان میں سے کم سے کم پندرہ غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے- گویا کل مومنوں کی تعداد میں تینتیس فیصدی غلام تھے اور مکہ کی آبادی کا لحاظ رکھا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی مومنوں سے نوے فیصدی غلام تھے- مکہ کی آبادی دس بارہ ہزار کی تھی - جس میں چالیس پچاس آدمی ایمان لائے تھے اور زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو غلام وہاں ہوگا- پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ دس بارہ ہزار میں سے تیس پینتیس 1] mrl[ آدمی ایمان لائے اور پانچ چھ سو آدمیوں میں سے پندرہ سولہ آدمی- کیا غلاموں کا اس کثرت سے آپ پر ایمان لانا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام آپ کو اپنا رہائی دہندہ سمجھتے تھے-
غلاموں کا تکلیفیں اٹھانا
یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر جن لوگوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں` وہ غلام ہی تھے-
خبابؓ
چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار کا کام کرتے تھے- وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے- لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے- حتیٰکہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر ان پر انہیں لٹا دیتے تھے اور اوپر سے چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تھے تا کہ آپ کمر نہ ہلا سکیں- ان کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہو گئے- مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے آپ ایک منٹ کے لئے بھی متذبذب نہ ہوئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے- آپ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے- چنانچہ حضرت عمرؓ کی حکومت کے ایام میں انہوں نے اپنے گذشتہ مصائب کا ذکر کیا تو انہوں نے ان سے پیٹھ دکھانے کو کہا- جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں-
اب غور کرو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غلامی قائم کرنے کے لئے آتے تو چاہئے تھا کہ خباب آپ کی گردن کاٹنے کے لئے جاتا` نہ یہ کہ آپ کی خاطر گرم کوئلوں پر لوٹتا-
زیدؓ پھر ایک اور غلام زید ابن حارثہ تھے- جو ایک عیسائی قبیلہ میں سے تھے- ان کو کسی جنگ میں قید کر کے غلام بنایا گیا تھا- وہ بکتے بکتے حضرت خدیجہ کے قبضہ میں آئے اور انہوں نے شادی پر سب جائیداد سمیت انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا اور آپ نے انہیں آزاد کر دیا- جب ان کے رشتہ داروں کو پتہ لگا کہ وہ مکہ میں ہیں تو ان کا باپ اور چچا آئے اور رسولکریمﷺ~ سے کہا- ان کو آزاد کر دیں- آپ نے فرمایا- میں نے آزاد کیا ہوا ہے- جہاں چاہے چلا جائے- اس پر اس کے باپ نے کہا چلو بیٹا- مگر انہوں نے کہا- آپ کی میرے حال پر بڑی مہربانی ہے- مگر بات یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارا مجھے کوئی نہیں ہے- اس لئے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا-
اب غور کرو ایک نوجوان پکڑا ہوا آتا ہے- ماں باپ کی یاد کے نقش اس کے دل پر جمے ہوئے ہوتے ہیں- مگر جب باپ آ کر اسے کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ چل تو وہ کہتا ہے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اور کوئی چیز اچھی نہیں لکتی- اس کے بعد وہ آپ کے دعویٰ کے وقت آپ پر ایمان لاتا ہے اور آخر ایک دن اپنے خون سے حق رفاقت ادا کرتا ہے- اب بتائو کہ کیا یہ فدائیت اور محبت ایک غلام کو اس شخص سے ہو سکتی تھی جو غلامی کا حامی تھا-
بلالؓ ]0 [rtf ایک اور غلام تھے جن کا نام بلال تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن امیہبنخلف کے غلام تھے- وہ ابتدائی ایام میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے- امیہ انہیں جلتی ریت پر لٹا دیتا تھا اور توبہ کے لئے کہتا تھا- مگر وہ ایمان سے باز نہ آتے تھے- اب خدا را کوئی غور کرے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں پر ظلم کرنے والے ہوتے تو بلال امیہ جیسے دشمن رسول کے گھر میں رہ کر آپ کے خلاف کیا کیا شوخیاں نہ کرتے- وہ ایسے دشمن کے گھر میں ہو کر اور ہر قسم کی مخالف باتیں سن کر بھی آپ پر ایمان لاتے ہیں اور بڑی بڑی تکالیف اٹھاتے ہیں- ان کا آقا اسی وجہ سے انہیں گرم ریت پر لٹا دیا کرتا اور وہ چونکہ عربی زبان زیادہ نہ جانتے تھے- اس لئے وہ زیادہ تو کچھ نہ کہہ سکتے مگر احد احد کہتے رہتے تھے- یعنی اللہ ایک ہے- اللہ ایک ہے- اس پر ناراض ہو کر ان کا آقا انہیں اور تکالیف دیتا اور رسی ان کے پائوں سے باندھ کر لڑکوں کے سپرد کر دیتا تھا وہ انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے حتیٰکہ بلال کی پیٹھ کا چمڑا اتر جاتا تھا- مگر رسول کریم2] f[st صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نشہ پھر بھی نہ اترتا تھا اور جس ایمان کی حالت میں ان پر مار پڑنی شروع ہوتی تھی- اس سے بھی زیادہ ایمان پر اس مار کا خاتمہ ہوا کرتا تھا-
اب غور کرو یہ محبت اس کے دل میں کس طرح پڑ سکتی تھی- اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کا حامی اور آزاد کرانے والا نہ سمجھتا- اس کے سوا وہ کونسی چیز تھی جو اسے آپ کے دشمن کے گھر میں رہ کر بھی آپ کی طرف مائل کر رہی تھی-
سمیہ چوتھا شخص ایک عورت لونڈی تھی جن کا نام سمیہ تھا- ابوجہل ان کو سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب ان کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی تو ایک دن ناراض ہو کر اس نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو مار دیا- انہوں نے جان دے دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کو نہ چھوڑا- اب سوچو کہ مرد تو مرد عورت لونڈیاں جو شدید ترین دشمنوں کے گھر میں تھیں انہوں نے کس قربانی کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا ہے- اگر وہ یہ دیکھتیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی کے دشمن نہیں اس کے حامی ہیں تو کیا صنف نازک میں سے ہوتے ہوئے وہ اس طرح آپ کے لئے اپنی جان قربان کر سکتی تھیں-
عمارؓ پانچویں مثال عمار کی ہے جو سمیہ کے بیٹے تھے- انہیں جلتی ریت پر لٹایا جاتا تھا-
صہیبؓ ایک غلام صہیب تھے جو روم سے پکڑے آئے- عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے- جنہوں نے ان کو آزاد کر دیا تھا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کے لئے بہت سی تکالیف اٹھائیں-
ابو فکیہہؓ
ابوفکیہہ ایک غلام تھے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی ایام میں ایمان لائے- انہیں بھی گرم ریت پر لٹایا جاتا- ایک دفعہ رسی باندھ کر انہیں کھینچا جا رہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گذرا- ان کے آقا نے ان کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا- یہ تمہارا خدا ہے انہوں نے کہا میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے- اس پر اس ظالم نے ان کا گلا گھونٹا اور پھر بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیا - جس سے ان کی زبان باہر نکل آئی اور لوگوں نے سمجھا کہ مر گئے ہیں- دیر تک ملنے ملانے سے انہیں ہوش آئی-
لبینہؓ لبینہ ایک کنیز تھیں- یہ بھی نہایت ابتدائی ایام میں اسلام لائیں حضرت عمرؓ اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں اسلام کی وجہ سے تکلیف دیا کرتے تھے مگر یہ اپنے اسلام پر قائم رہیں-
زنیزہؓ
زنیزہ بھی ایک کنیز تھیں اور ابتدائی ایام میں ہی ایمان لائیں- حضرت عمرؓ اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں ستایا کرتے- ابوجہل نے مار مار کر ان کی آنکھیں پھوڑ دیں- مگر باوجود اس کے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار نہ کیا- ابوجہل اسے دیکھ کر غصہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہو گئے ہیں کہ زنیزہ نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا-
نہدیہؓ اورام عبیس ؓ
اسی طرح نہدیہ اورام عبیس دو کنیزیں تھیں جو مکی زندگی میں اسلام لائیں اور دونوں نے اسلام لانے کی وجہ سے سخت مصائب برداشت کئے-
عامرؓ
‏text1] ga[tعامر بن فہیرہ بھی ایک غلام تھے- جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے آزاد کر دیا- انہیں بھی اسلام لانے کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں-
حمامہؓ
حمامہ بلالؓ کی والدہ تھیں- یہ بھی اسلام لائیں اور اسلام کی خاطر انہوں نے تکالیف اٹھائیں- ان کے علاوہ اور غلام اور لونڈیاں بھی تھیں جو آپ پر ایمان لائیں اور اس کی وجہ سے انہوں نے سخت تکلیفیں اٹھائیں-
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی سات سالوں میں کل چالیس افراد نے آپ کو مانا- جن میں سے کم سے کم ۱۴` ۱۵ غلام تھے- اور انہوں نے آزاد لوگوں سے زیادہ تکالیف اٹھائیں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی قائم کرنے والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے دشمن ہوتے نہ کہ آپ پر ایمان لاتے-
غیر مسلم غلاموں کی ہمدردی
علاوہ ان غلاموں اور لونڈیوں کے جو آپ پر ایمان لائے- مکہ کے اکثر غلام اور لونڈیاں آپ سے ہمدردی رکھتے تھے- چنانچہ حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کی موجب بھی ان کی ایک غیر مسلمہ لونڈی ہی تھی- جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور مارنے کے لئے اٹھا اور آپ کو بہت تکلیف دی- حضرت حمزہؓ جو رسول کریم کے چچا تھے اور ابھی ایمان نہ لائے تھے ان کی ایک لونڈی دیکھ رہی تھی- اسے بہت صدمہ ہوا اور سارا دن کڑھتی رہی- جب حضرت حمزہؓ گھر آئے تو کسی بات کا بہانہ ڈھونڈ کر اس نے طعنہ دیا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو- دیکھتے نہیں تمہارے بھتیجے کو ابوجہل نے کس طرح دکھ دیا ہے- حضرت ہمزہؓ شکار کے شائق تھے اور ادھر ادھر پھرنے میں وقت گذارتے تھے- اور حالات سے زیادہ واقف نہ تھے- لونڈی سے یہ بات سن کر ان کا دل اندر ہی اندر گھائل ہو گیا- واقع کی تفصیل سنی اور غیرت سے بے تاب ہو کر باہر نکل آئے- مجلس کفار میں آئے- ہاتھ میں تیر کمان تھا- لونڈی نے کچھ اس طرح واقع بیان کیا تھا کہ درد اور غصہ دونوں جذبات بے طرح۱۹~}~ جوش میں تھے- اور بات کرنے کی طاقت نہ تھی- مجلس میں آ کر ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور کمان پر سہارا لگا لیا- بار بار بات کرنا چاہتے تھے مگر شدت غم سے منہ سے بات نہ نکلتی تھی- اسی طرح کھڑے تھے کہ ابوجہل کی نگاہ پڑ گئی اور وہ بولا خیر ہے حمزہ تم تو اس طرح کھڑے ہو جس طرح انسان لڑائی پر آمادہ ہوتا ہے- اس کا یہ کہنا تھا کہ یہ ٹوٹ پڑے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ ظالم تیرے ظلموں کی کوئی انتہا بھی ہے تو نے محمد ) صلی اللہ علیہ وسلم ( کو حد سے بڑھ کر ستایا ہے- لے میں بھی مسلمان ہوتا ہوں اگر طاقت ہے تو آ مجھ سے لڑ لے- ابوجہل بھی مکہ کا سردار تھا` اٹھ کر چمٹ گیا- لیکن اردگرد کے لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھگڑا مکہ کو بھسم کر دے گا` صلح کرا دی- اور اس دن سے حضرت حمزہ کو اسلام کی طرف توجہ ہو گئی- ایک دو دن کے غور کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اسلام سچا ہے اور اپنے ایمان کا اعلان کر دیا-
اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف گئے اور وہاں سے زخمی ہو کر واپس آئے تو ایک غلام نے ہی آپ سے ہمدردی کی اور آپ کی حالت کو دیکھ کر روتا رہا-
بات یہ ہے کہ سب غلام جانتے تھے کہ آپ ان کو آزاد کرانے کے لئے آئے ہیں نہ کہ ان کی غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرنے کے لئے- اس لئے وہ سب آپ سے محبت رکھتے تھے اور آپ سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان کا شروع زمانہ میں ایمان لانا اور سخت تکالیف اٹھانا اور آخر تک ساتھ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ مکہ کے تمام غلام اور تمام لونڈیاں اس امر کو سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم غلاموں کو آزاد کرانے والی ہے- تبھی ان میں سے سب کے سب جو سمجھدار تھے آپ پر ایمان لائے- یا اگر اس کی جرات نہ کر سکے تو آپ کی مدد کرتے رہے اور آپ سے اظہار ہمدردی کرتے رہے اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں کا معاملہ ہے وہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاموں کا آزاد کرانے والا قرار دیتے ہیں اور جو لوگ نہ اس وقت تھے اور نہ ان کو غلامی سے کچھ تعلق ہے اور نہ انہوں نے غلاموں کے آزاد کرانے میں کبھی بھی کوئی حصہ لیا ہے- وہ غلامی کے متعلق آپ پر اعتراض کرتے ہیں-
اس عملی کام کے علاوہ اس امر پر بھی غور کرنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے غلامی کا رواج تھا اور کوئی ملک غلامی سے پاک نہ تھا- ہندوستان میں مجھے نہیں معلوم دوسری قسم کی غلامی تھی یا نہ تھی- مگر اچھوت اقوام سب کی سب غلام ہی ہیں وہ اعلیٰ پیشوں سے محروم ہیں اور ان کا فرض ہی برہمنوں کی خدمت مقرر کیا گیا ہے- فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگوں میں غلاموں کو کھانا کپڑا دینے کا رواج تھا- یہاں جن لوگوں نے غلامی کا رواج دیا تھا- انہوں نے کھانے کپڑے سے بھی دست برداری دے دی تھی اور غلام کا فرض مقرر کیا تھا کہ وہ اپنے لئے بھی کمائے اور برہمنوں کی بھی خدمت کرے- ایران اور روم بھی غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے- ان ممالک کے لوگوں نے غلامی کے دور کرنے کا کیا علاج مقرر کیا تھا` کچھ بھی نہیں- یہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین تھا جس نے یہ قانون بنایا کہ ہر آزاد کو قید کرنے والا قتل کا مجرم سمجھا جائے گا- پھر یہ شرط لگائی کہ غلام بنانا صرف اس جنگ میں جائز ہے جو جنگ کہ دشمن اسلام صرف اس لئے کریں کہ مسلمانوں سے تلوار کے زور سے اسلام چھڑوائیں- حالانکہ اس تعلیم سے پہلے تمام ممالک میں سیاسی جنگوں کے قیدیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا- پھر یہ شرط لگا دی کہ ایسی مذہبی جنگ میں بھی جو قید ہو اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے گھر کے لوگوں سے کرتے ہو- جو کھاتے ہو وہ کھلائو` جو پیتے ہو وہ پلائو` جو پہنتے ہو وہ پہنائو- پھر یہ شرط کی کہ باوجود اس خاطر کے ہر اک غلام کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ جب وہ چاہے آزاد ہو جائے- ہاں چونکہ وہ ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہوا ہے- اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے مطابق خرچ جنگ ادا کر دے یا اس کے رشتہ دار کر دیں- پھر یہ شرط لگا دی کہ اگر غلام کے رشتہ دار یا اہل ملک اس کو نہ چھڑوا سکیں اور اس کے پاس روپیہ نہ ہو تو ہر غلام کا حق ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں اور اس کا آقا مجبور ہو گا کہ اس کی طاقت کے مطابق خرچ جنگ اس پر ڈال دے اور اسے نیم آزاد کر دے کہ وہ اپنی کمائی سے قسط وار روپیہ ادا کر کے اپنے آپ کو آزاد کرائے اور جس وقت یہ قسط مقرر ہو` اسی وقت سے غلام کو عملاً آزادی حاصل ہو جائے- پھر یہ حکم دیا کہ جو غلام کو مارے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا غلام آزاد سمجھا جائے- پھر کئی گناہوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا مقرر کیا تاکہ جو کوئی غلام رہ جائے وہ اس طرح آزاد ہو جائے- اور پھر اسی پر بس نہیں کی- آخر یہ بھی حکم دے دیا کہ حکومت کے مال میں غلاموں کا بھی حق ہے حکومت کو چاہئے کہ ایک رقم ایسی مقرر کرے جس سے وہ غلام آزاد کراتی رہے- اب سوچو کہ غلامی تو ہر ملک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہی پائی جاتی تھی- آپ نے تو جاری نہیں کی- آپ نے جو کچھ کیا وہ یہ کیا کہ اس کا دائرہ محدود کر دیا- اور پھر ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ عملاً غلام آزاد ہی ہو جائیں- مگر باوجود اس کے اگر اسلام کے ابتدائی زمانہ میں غلام باقی رہ گئے تھے تو اس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ اسلامی احکام کے ماتحت ان سے آقا ویسا ہی سلوک کرنے پر مجبور تھا جیسے کہ اپنے نفس یا اپنے عزیزوں سے وہ کرتا تھا- اور غریب غلام جانتے تھے کہ ایک مسلمان کا غلام رہ کر اگر ان پر سودوسو یا ہزار دو ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے` تو آزاد رہ کر وہ سات آٹھ روپیہ سے زیادہ نہ کما سکیں گے اور اس میں انہیں اپنا کنبہ پالنا پڑے گا- پس بہت سے تھے جو اس غلامی میں آزادی سے زیادہ آسائش پاتے تھے اور اسلامی احکام سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی تنگ حالت کو بدلنا نہیں چاہتے تھے- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلامی کے قائم کرنے والے نہیں تھے- بلکہ غلامی کے مٹانے والے تھے اور آپ سے بڑھ کر غلامی کے مٹانے میں اور کسی نے حصہ نہیں لیا- بلکہ آپ کے کام سے ہزارواں حصہ کم بھی کسی نے کام نہیں کیا-
رسول اللہﷺ~ کے احسانات
اب میں آپ کے احسانات کی طرف آتا ہوں- لیکن احسانات بیان کرنے سے پہلے میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو احسانات اور قربانیوں دونوں کے متعلق کام آئے گا- یہ واقعہ مکہ کا ہے- عتبہ جو ایک بڑا سردار تھا` آپ کے پاس آیا اور آ کر کہنے لگا- کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپس میں خونریزی ہو اور بھائی بھائی سے جدا ہو جائیں- اگر نہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں` اسے مان لو- وہ تجویز یہ ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی غرض ہے- اگر تمہیں مال حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اپنے اموال کا ایک حصہ تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں- اس طرح تم بہت بڑے مالدار بن جائو گے- اور اگر اس بات کی خواہش ہے کہ حکومت حاصل ہو تو ہم سب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنا سردار بنائیں- اور اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو جس عورت کو پسند کرو وہ ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں- اور اگر تم بیمار ہو تو بھی بتائو کہ ہم علاج کے لئے بھی تیار ہیں- غرض عزت چاہتے ہو تو عزت دینے کیلئے تیار ہیں` اگر بادشاہت چاہتے ہو تو بادشاہت دینے کے لئے` اگر عورت چاہتے ہو تو عورت دینے کے لئے اور بیمار ہو تو علاج کرنے کے لئے ہم تیار ہیں- مگر تم یہ کہنا چھوڑ دو کہ خدا ایک ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہاری ان چیزوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں- میرا جواب سنو- یہ فرما کر آپ نے چند آیات قرآن کی تلاوت فرمائیں جن میں توحید کی تعلیم تھی- ان آیات کو سن کر عتبہ پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے واپس جا کر کہا یہ نہ جھوٹا ہے اور نہ ساحر ہے` اس کی مخالفت چھوڑ دو-
احسانات کی قسمیں
اب میں آپ کے احسانات کا ذکر کرتا ہوں- احسان کئی قسم کے ہوتے ہیں- ایک احسان وقتی ہوتے ہیں اور دوسرے لمبے عرصہ کے لئے- پھر آگے ان کی دو قسمیں ہیں- )۱( طبعی یعنی فطرت کے تقاضا کے ماتحت- جیسے ماں کے دل میں بچہ کی خدمت کا تقاضا ہوتا ہے- )۲( عقلی یعنی ایسا احسان جو عقل کے تقاضا کے ماتحت ہو- مثلاً ایک مظلوم کو دیکھ کر رحم آ جانا اور اس پر احسان کرنا- یا ایک شخص کو جاہل دیکھ کر اس پر رحم کر کے اسے علم پڑھا دینا-
پھر آگے عقلی احسان کی بھی دو قسمیں ہیں- )۱( ایسا احسان جس کا بدلہ لینے کی امید ہوتی ہے- مثلاً کسی کو علم پڑھاتے ہیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خیالات کی آگے اشاعت کرے گا- )۲( طبعی عقل یعنی خواہش احسان تو بوجہ دلیل اور عقل کے ہوتی ہے مگر وہ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ طبعی کی طرح ہو جاتی ہے- انسان احسان کرنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہے- اس کی آگے پھر دو قسمیں ہیں- ایک وہ احسان جو اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالے بغیر کیا جاتا ہے- جیسے کسی کے پاس مال ہو اور وہ کسی پر احسان کر کے اسے کچھ مال دے دے- دوسری قسم کا احسان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر دوسرے پر احسان کرتا ہے- مثلاً کسی کے گھر آگ لگی ہے- اس میں کود کر اس کے مال کو یا اس کے گھر کے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے- یہ احسان کی قسمیں ہیں- ان کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف احسان ہی نہیں کیا- بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ احسان کیا ہے- مثلاً آپ کے احسانات صرف عارضی نہیں ہیں` اکثر دائمی ہیں- اور پھر آپ کے احسانات صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہیں جو آپ کے رشتہ دار تھے- بلکہ آپ کے احسانات اپنے دوستوں سے نکل کر واقفوں اور ان سے بھی گذر کر ناواقفوں تک پھیل گئے ہیں- پھر یہ کہ آپ کے احسانات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نفع کی آپ کو امید نہ تھی بلکہ وہ ایسے ہی طبعی تھے- جیسے کہ ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے اور پھر صرف انتہائی جوش کے ماتحت اور عام احسان ہی آپ نے نہیں کئے بلکہ ساتھ اس کے یہ بات تھی کہ آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر وہ احسانات کئے ہیں اور ان کے بدلہ میں خطرناک سے خطرناک مشکلات میں اپنی جان کو ڈالا ہے- پس احسان کی تمام اقسام میں سے بہتر سے بہتر اقسام کا ظہور آپ سے ہوا ہے اور ایسے رنگ میں ہوا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اب میں آپ کے احسانات کی چند مثالیں بیان کرتا ہوں تا معلوم ہو سکے کہ آپ کے احسان کس اعلیٰ شان کے تھے-
شرک کو دور کرنا
پہلا احسان آپ کا شرک کو دور کرنا ہے- آپ نے ایک خدا کی پرستش دنیا میں قائم کی- اب تو سب دنیا اس بات کی قائل ہو رہی ہے کہ شرک برا ہے- مگر جب آپ مبعوث ہوئے تھے اس وقت قائل نہ تھی- آپ نے سارے ملک کو اپنا دشمن بنا کر اور سخت سے سخت تکالیف برداشت کر کے اس صداقت کو قائم کیا اور نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنا ممنون احسان کیا- یہ احسان صرف مذہبی پہلو سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دنیوی پہلو بھی ہے اور یہ احسان دنیا کی دنیوی ترقی میں بھی ممد ہے- مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لوگ ان چیزوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے خدا سمجھنے لگیں تو کبھی بھی ان کے طبعی فوائد پر غور نہیں کریں گے اور ان کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے- لیکن جب لوگ ایک خدا کے قائل ہونگے اور سب مخلوق کو انسان کے فائدہ کے لئے قرار دیں گے تو پھر ان کے فوائد کو حاصل کرنے اور ان کو اپنی خدمت میں لگانے کی بھی کوشش کریں گے اور اس طرح سائنس اور علم کی بھی ترقی ہوگی- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو دور کرکے اور توحید کی تعلیم دے کر نہ صرف ایک عظیم الشان مذہبی احسان دنیا پر کیا ہے بلکہ علمی ترقی کا بھی رستہ کھول دیا ہے-
مذہب اور سائنس میں صلح
دوسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو دور کر دیا ہے- آپ سے پہلے لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے- آگ جو جلاتی ہے تو اسے بھی خدا نے پیدا کیا ہے` جس طرح اس نے اپنا کلام نازل کیا ہے- پس اگر مثلاً گرمی کے خواص پر غور کیا جائے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل پر غور ہوگا نہ کہ مذہب کے مخالف- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب اور سائنس میں صلح کرا دی اور آپ نے فرمایا طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمہ ۲۰~}~علم مذہب کے خلاف نہیں- میرے ہر ماننے والے پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے کہ علم پڑھے- اس وقت غیر مذاہب والے کہتے ہیں کہ مسلمان جاہل ہیں- مگر یہ ہمارا قصور ہے- ہمارے رسول کا نہیں ہے- اس اعتراض سے ہم شرمندہ ہوتے ہیں اور ہماری آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں- مگر اس سے ہمارے رسول پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ اس وقت جب کہ مکہ والے علم حاصل کرنا ذلت سمجھتے تھے اور سارے مکہ میں صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے اور ان کو بھی صرف سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے علم پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی- آپ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم و مسلمہ پڑھنا لکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے-
پس اگر آج کل مسلمان جاہل ہیں تو یہ قصور ہمارا ہے- ہمارے آقا کا نہیں ہے- اس نے یہی تعلیم دی ہے کہ علم سیکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے- اور یہ اسی کا نتیجہ ¶تھا کہ مسلمانوں نے پچھلے علوم کو قائم رکھا اور نئے علوم کی بنیاد ڈالی جن سے آج دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے- اگر مسلمان پہلے علوم کی حفاظت نہ کرتے تو ارسطو کا فلسفہ اور بقراط کی حکمت آج کوئی نہ معلوم کر سکتا- مسلمانوں نے ان کی کتب کے ترجمے کرائے اور جب کہ ان حکماء کے اپنے اہل وطن ان سے غافل ہو گئے تھے ان کے درس اپنی یونیورسٹیوں میں جاری کئے اور ان کتب کو محفوظ کر دیا اور پھر ان کے ذریعہ سے یہ علوم اور خود مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم سپین میں پہنچے اور اس وقت جب کہ مسیحی علماء علوم کو پڑھنا کفر قرار دے رہے تھے جس طرح کہ آج کل بعض لوگ علوم جدیدہ کا پڑھنا کفر قرار دے رہے ہیں- مسلمانوں کے ذریعہ سے یورپ کے نوجوانوں نے علوم کو سیکھا اور پھر ان پر مزید ترقی کر کے آج کل کے علوم کی بنیاد رکھی- چنانچہ ایک یورپین مصنف لکھتا ہے کہ اہل یورپ کب تک دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکتے اور یہ کہتے رہیں گے کہ مسلمانوں نے علم کی خدمت نہیں کی حالانکہ واقعہ یہ ہے اگر سپین میں مسلمانوں کے ذریعہ علوم نہ پہنچتے تو ہم آج جہالت کی نہایت ابتدائی حالت میں ہوتے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں علوم کی ترقی کا وہ تسلسل قائم رہا ہے جس کے بغیر علمی ترقی بالکل ناممکن تھی-
علم ختم نہیں ہوتا
تیسرا احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے بہ زور اس امر کی تعلیم دی کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا- دنیا میں لوگ ایک حد تک ترقی کر کے جب یہ کہتے ہیں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی تو علم مٹنا شروع ہو جاتا ہے اور تمام علوم اور قوموں کے تنزل کا موجب ہی یہ ہے کہ ایک حد تک پہنچ کر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اس سے اوپر اور کیا ترقی ہوگی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے اس خطرناک مرض کو معلوم کیا اور دنیا کے سامنے پیش کرکے اس سے اسے بچایا اور بڑے زور سے تعلیم دی کہ علم خواہ کوئی ہو کبھی ختم نہیں ہوتا- پس ہمیشہ علم کی تحقیق کرتے رہو اور کبھی کسی جگہ پر ٹھہر نہ جائو یہ کتنا بڑا نکتہ ہے- ہم لوگ اپنے ایمان کے لحاظ سے یہی مانتے ہیں کہ آپ سب سے بڑے عالم تھے- آپ سے بڑھ کر نہ کوئی عالم ہوا اور نہ ہوگا- مگر آپ بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رب زدنی علما ۲۱~}~ اے خدا میرا علم اور بڑھا- اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی علم کے انتہائی مقام کو نہیں پہنچ سکے اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے غیر محدود راستوں پر برابر آگے ہی آگے بڑھتے رہے اور ہمیشہ اضافہ علم کی خواہش آپ کے دل میں موجزن رہی- پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو علم روحانی کے مکمل کرنے والے تھے دعا کرتے رہے کہ ان کا علم اور بڑھے تو کونسا علم ہو سکتا ہے جو ختم ہو جائے اور کونسا شخص ہو سکتا ہے جو کسی علم کو ختم کر لے- اور جب علم کی حد کوئی نہ رہی تو معلوم ہوا کہ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں ہمیشہ مزید ترقی کے لئے کوشش کرتے رہا کریں اور کسی مقام پر پہنچ کر یہ خیال نہ کریں کہ اب ترقی نہیں ہو سکتی- بلکہ ہمیشہ ترقی ہوتی رہے گی اور نئے علوم نکلتے رہیں گے اور ایجادات ہوتی رہیں گے-
ہر مرض کی دوا
جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احسان کیا ہے کہ علوم کسی مقام پر ختم نہیں ہوتے- اسی طرح آپ کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی کہ ہر اک انسانی ضرورت کا خدا تعالیٰ نے علاج مقرر کیا ہے اور کوئی ضرورت حقہ نہیں جس کے پورا کرنے کا سامان نہ موجود ہو چنانچہ آپ فرماتے ہیں لکل داء دواء ۲۲~}~ ہر مرض کا علاج خدا تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے یہ تعلیم آپ نے اس وقت دی تھی جب کہ طب میں ہزاروں بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے- اور آج بھی جب کہ طب اتنی ترقی کر گئی ہے- اطباء کہتے میں کہ کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں کوئی طبیب نہ تھا- فرماتے ہیں کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دوا نہ ہو- تجسس کرو علاج پالو گے- آپ کے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں نے علم طب کی طرف توجہ کی اور بیسیوں بیماریوں کا علاج معلوم کر لیا- اور اب یورپ کے اطباء اس تعلیم کی صداقت کو ثابت کر رہے ہیں کہ مختلف لاعلاج سمجھی جانے والی بیماریوں کا علاج تلاش کر رہے ہیں اور کئی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکے ہیں- یہ تعلیم صرف امراض ہی کے متعلق نہیں بلکہ دوسری ضروریات کے متعلق بھی ہے اور اس اصل پر عمل کرنے والے ہمیشہ کامیابی کا منہ دیکھتے رہیں گے-
اخلاقی ترقی کا گر
پانچواں احسان آپ کی وہ تعلیم ہے جو آپ نے اخلاقی ترقی کے متعلق دی ہے اور جس سے بدی کا قلع قمع ہو جاتا ہے- اور وہ یہ ہے کہ انسان خواہ کیسی گندی حالت میں پہنچ جائے یہ نہ سمجھے کہ وہ نیک نہیں بن سکتا- اس تعلیم کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مایوسی اور ناامیدی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے- آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر فرمایا- انہ لایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون ۲۳~}~ کہ خدا کی رحمت سے سوائے انکار کرنے والے کے اور کوئی مایوس نہیں ہوتا-
اب دیکھو اس اصل کے ماتحت کس حد تک امید کا دروازہ کھل جاتا ہے- عام طور پر بدی اسی طرح پھیلتی ہے کہ جو شخص بدیوں میں مبتلا ہو چکا ہو- وہ سمجھتا ہے کہ اتنی بدیاں کر لی ہیں تو اب میں کہاں نیک بن سکتا ہوں اور جب وہ یہ رائے قائم کر لیتا ہے تو وہ بدیوں میں بڑھتا جاتا ہے- لیکن اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ خواہ اس سے کتنی ہی بدیاں سرزد ہو چکی ہیں- وہ نیک ہو سکتا ہے اور واپسی کا راستہ اس کے لئے بند نہیں ہے تو اس کے نیک بن جانے کا ہر وقت احتمال ہے-
سچے دل سے جستجو کرنے والا ضرور کامیاب ہو جاتا ہے
مذکورہ بالا اصل کے ماتحت ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا پر یہ بھی احسان ہے کہ آپ نے یہ تعلیم دی ہے کہ سچی جستجو کبھی ضائع نہیں جاتی- چنانچہ اللہتعالیٰ کے حکم سے آپ یہ تعلیم دیا کرتے تھے کہ والذین جاھدوا فینالنھدینھم سبلنا ۲۴~}~ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہمارے ملنے کے لئے کوشش کریں گے ہم ضرور ان کو ہدایت دے دیں گے- یعنی جو بھی سچے دل سے جستجو کرے گا وہ خدا کو پالے گا- یہ اور بات ہے کہ کس طرح سے خدا تعالیٰ ہدایت دے مگر دے گا ضرور- اور یہ کہنا کہ سکھ یا ہندو یا عیسائی کی دعا قبول نہیں ہوتی- بالکل غلط ہے- طلب ہدایت کے متعلق ہر اک کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر کوئی سچے دل سے جستجو کرے تو ضرور اسے سیدھا رستہ دکھایا جائے گا- اور جب اس کی دعا اپنی حد کو پہنچ جائے گی تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا جن کی مدد سے وہ کشاں کشاں اس راستہ پر پڑ جائیں گے- جس پر چل کر خدا تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوتا ہے-
مساوات
چھٹا احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ آپ نے قومی امتیازات کو مٹا کر انسانیمساوات کو قائم کیا ہے- آپ سے پہلے ہر قوم اپنے آپ کو اعلیٰ قرار دیتی تھی- عرب تحقیر کے طور پر کہتے کہ عجمی جاہل ہیں- ان کی ہمارے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے- عجمی عربوں کے متعلق کہتے تھے کہ عرب وحشی ہیں- رومی کہتے تھے کہ ہم سب سے اعلیٰ ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیس للعربی فضل علی عجمی الابالتقوی ۲۵~}~اے عربو! یاد رکھو- تم کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی- تم بھی ویسے ہی ہو جیسے اور ہیں- سوائے اس صورت کے کہ تم خدا کے خوف میں دوسروں سے بڑھ جائو اور یہ فضیلت نسل کی وجہ سے نہ ہوگی بلکہ تقویٰ کی وجہ سے-
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی غیر قوم کے لوگوں کو یہ تعلیم دیتے کہ تمہیں دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جا سکتا کہ اپنی قوم کو بڑھانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں- مثلاً اگر کوئی شخص چوہڑوں اور چماروں میں سے کھڑا ہو کر کہے- کہ اے پنڈتو اور برہمنو! تم کو کسی اور قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہے- تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تعلیم مساوات قائم کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عزت قائم کرنے کے لئے ہے- لیکن اگر کوئی سید کھڑا ہو کر سیدوں کو کہے کہ تمہیں دوسروں پر انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فضیلت نہیں ہے تو کہا جائے گا کہ وہ اپنی قوم کو ایک سچی تعلیم دے کر ان پر احسان کر رہا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو دیکھو آپ نے ایسے ہی الفاظ میں نصیحت کی ہے جو آپ کی قوم کے درجہ کو گراتے ہیں نہ یہ کہ اوروں کے درجہ کو گرا کر اپنی قوم کا درجہ بڑھاتے ہیں- پس آپ کی تعلیم حقیقی مساوات کی تعلیم تھی- آپ یہ نہیں فرماتے کہ اے عجمیو! تم رومیوں یا عربوں سے بڑے نہیں ہو- بلکہ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ تم دوسروں پر فضیلت کا دعویٰ نہ کیا کرو پس آپ کی تعلیم مساوات کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی اور بنی نوع انسان پر ایک عظیم الشان احسان تھا-
اسی ضمن میں آپ نے خدا تعالیٰ سے حکم پا کر کہا- یایھا الناس انا خلقنکم من ذکرو انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا- ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۲۶~}~ تو کہہ دے کہ قومیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں جس طرح دو مقابل کی ٹیمیں ہوتی ہیں- قومی مساوات کے ساتھ ساتھ آپ نے تمدنی درجہ میں بھی سب کو برابر کر دیا اور فرمایا سوائے ایسی قوموں کے جن کو حرام و حلال کا پتہ نہیں ہے باقیوں سے مل کر تم کھا پی سکتے ہو یعنی جو صاف ستھرے لوگ ہوں یا جن کے ہاں کوئی معیار حلال و حرام کے لئے مقرر ہو- ان سے کھانا پینا منع نہیں ہے-
احکام انصاف میں مساوات
اسی طرح احکام انصاف میں برابری رکھ کر آپ نے مساوات کو قائم کیا- خواہ کسی سے لڑائی ہو تو بھی اس کے متعلق انصاف کو قائم رکھا جائے گا- مثل¶ا کسی مسلمان کی کسی یہودی سے لڑائی ہو تو اس لڑائی میں مسلمان کو کوئی ترجیح نہ دی جائے گی- نہ معاملات میں اپنی قوم کو ترجیح دی جائے گی- جیسے مثلاً یہودیوں میں حکم ہے کہ یہودی سے سود نہ لو- مگر غیر سے لے لو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے سب بندے برابر ہیں نہ کسی مسلمان سے سود لو نہ کسی اور سے- اگر سود ظلم ہے تو ایک یہودی سے لینا ایسا ہی برا ہے جیسا کہ مسلمان سے-
مساوات کا ایک بے نظیر سبق
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے- انصر اخاک ظالما او مظلوما ۲۷~}~ اے مسلمان تو اپنے بھائی کی مدد کر- خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم- یہ سن کر صحابہ حیران رہ گئے کہ مظلوم کی تو مدد کی جا سکتی ہے- ظالم کی کیا مدد کی جائے اور انہوں نے کہا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آگیا مگر ظالم کی کس طرح مدد کی جائے- آپ نے فرمایا- ظالم کی مدد اس طرح کرو کہ اسے ظلم سے روک دو-
یہ واقعہ نہ صرف اس امر کا ثبوت ہے کہ آپ نے انصاف اور مساوات کو قائم کیا ہے اور معاملات میں سب انسانوں کو برابر کیا ہے` یہ تعلیم نہیں دی کہ ہر حالت میں اپنے بھائی کا ساتھ دو بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ اگر بھائی ظلم کرے تو یہ خیال کر کے کہ اس کا مقابل غیر ہے بھائی کی مدد نہ کرو بلکہ ایسے وقت میں بھائی کی مدد یہی ہے کہ اس کا ہاتھ ظلم سے روکو کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں- بلکہ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی نہایت مقدس اور پاک تھی- اگر نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظالم ہوتے اور دوسروں کو نقصان پہنچانا جائز سمجھتے تو جب آپ نے یہ فرمایا تھا- انصر اخاک ظالم او مظلوما- اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم- تو اس وقت مسلمان حیران کیوں رہ جاتے اگر انہیں ظلم کی تعلیم دی جاتی تھی تو ان کے حیران رہ جانے کا کوئی موقع نہ تھا- وہ تو ایسی تعلیم کے سننے کے عادی تھے- لیکن وہ حیران ہوئے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انہیں روزانہ یہی تعلیم ملتی تھی کہ ظلم نہیں کرنا چاہئے اور یہی وجہ تھی کہ جب انہیں یہ کہا گیا کہ اپنے ظالم بھائی کی مدد کر- تو اس تعلیم کو عام تعلیم کے خلاف پا کر وہ گھبرا گئے اور اس کی تشریح طلب کی جو ایسی بے نظیر تھی کہ اس نے اخلاق فاضلہ کے لئے نئے دروازے کھول دیئے-
عہد کا احترام
اسی مساوات کی مثال کے طور پر آپ کا وہ طریق عمل پیش کیا جا سکتا ہے جو آپ معاہدات کی پابندی میں کرتے تھے- ایک دفعہ آپ لڑائی کے لئے جا رہے تھے- لڑائی کے وقت سب جانتے ہیں کہ ایک ایک آدمی کس قدر قیمتی ہوتا ہے- اس وقت رستہ میں دو آدمی آپ کو ملے- آپ نے دریافت فرمایا- کس طرح آئے ہو- انہوں نے کہا اسلام لانے کے لئے آئے ہیں- ہم مکہ سے آئے ہیں- مگر وہاں کہہ آئے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد کے لئے نہیں جا رہے- آپ نے فرمایا- یہ کہہ کر آئے ہو تو ہمارے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہو- جب ان سے تم کہہ آئے ہو کہ ہم مسلمانوں کی مدد کو نہیں جا رہے تو اب ہمارے ساتھ ملنے سے وعدہ خلافی ہو جائے گی- پس اس سے بچو- یہ کیسا اعلیٰ سبق مساوات کا ہے-
ہر چہ بر خود مپسندی بردیگراں مپسند
ایک خالی مقولہ ہے جس پر لوگ عمل نہیں کرتے ہاں زور بہت دیتے ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ایسے بے نظیر طور پر عمل کیا ہے کہ اس کی نظر تاریخ میں نہیں ملتی-
ذرا غور کرو ایک ہزار دشمن کے مقابلہ کے لئے آپ جا رہے ہیں اور صرف تین سو آدمی آپ کے ساتھ ہیں اس وقت آپ کو دو آدمی ملتے ہیں- جو تجربہ کار سپاہی ہونے کی وجہ سے آپ کے لئے نہایت کارآمد ہیں مگر آپ انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیتے ہیں تاکہ ان کا عہد قائم رہے- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ عہد خواہ اپنے سے ہو یا غیر سے کس طرح آپ اس کی پابندی کراتے تھے- حتیٰکہ جو دشمن جنگ کر رہا ہو- اس کے عہد کو بھی پورا کراتے تھے-
تمدنی اور شرعی مساوات کے علاوہ آپ نے روحانی مساوات بھی قائم کی ہے چنانچہ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہر ایک قوم کے لئے روحانی بادشاہت پانے کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سب دنیا کے لئے بھیجا ہے کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ- خداتعالیٰ کے لئے سب برابر ہیں- پس وہ اس کے دین میں داخل ہو سکتے ہیں اور اعلیٰ روحانی انعامات پا سکتے ہیں-
قیام امن کے سامان
ساتواں احسان آپ کا یہ ہے کہ آپ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے سامان پیدا کئے ہیں جس کے ثبوت میں مندرجہ ذیل چند امور پیش کئے جاتے ہیں-
ہر قوم کے بزرگوں کا ادب
)ا( بہت سی لڑائیاں اس سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے مذہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے خدا تعالیٰ کو اور کوئی عزیز نہیں ہوا- باقی لوگ ازل سے خدا کے دروازہ سے دھتکارے ہوئے ہیں اب یہ خیال فطرت کے بالکل مخالف ہے خواہ کوئی کسی قوم کا ہو اور کسی ملک کا ہو وہ خدا تعالیٰ پر اپنا ایسا ہی حق سمجھتا ہے جیسا کہ دوسرا- پس اس قوم کے خیال سن کر جذبہحقارت بھڑک اٹھتا ہے اور جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا ہے- آپ نے اس جھگڑے کا یہ اعلان کر کے کہ ان من امہ الا خلا فیھا نذیر ۲۸~}~بالکل بند کر دیا- یعنی کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نبی نہ گذرے ہوں- اس اعلان کے ذریعہ سے سب اقوام کے نبیوں کے تقدس کو قبول کر لیا گیا ہے اور وہ منافرت جو دائرہ ہدایت کے محدود کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اس اعلان کو مدنظر رکھنے والے کے دل سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سب مذاہب کی اصل سچائی ہے- پس باوجود اختلاف کے مجھے ان سے اتحاد ہے سب مذاہب خدا کے قائم کئے ہوئے اور اسی کے جاری کئے ہوئے ہیں- پس ان سے بغض اور ان کا قطعی انکار خود خدا کے فضل کا انکار ہے-
اب غور کرو آپ نے یہ کیسا امن قائم کرنے کا طریق بتایا ہے- ایک ہندو جب ہم سے پوچھتا ہے تم رامچندر جی کو کیسا سمجھتے ہو- تو ہم کہتے ہیں- ہم انہیں خدا تعالیٰ کا بزرگ سمجھتے ہیں- یہ بات سن کر ایک ہندو ہم سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہے- اسی طرح ہم جہاں جائیں ہمیں اس بات کی فکر نہ ہوگی کہ دوسروں کے بزرگوں میں کیڑے نکالیں- اگر کوئی بتائے کہ امریکہ یا افریقہ کے فلاں علاقہ میں خدا کا کوئی برگذیدہ گذرا ہے تو ہم کہیں گے ٹھیک ہے- قرآن نے اس کا علم پہلے ہی دے دیا تھا کہ ہر قوم میں ہادی گذرے ہیں- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کے ذریعہ سے قیام امن کا ایک دروازہ کھول دیا ہے-
کسی کی قابل عزت چیز کو برا نہ کہو
)ب( دوسری وجہ لڑائی جھگڑوں کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی قوم کے بزرگوں کو تو برا بھلا نہیں کہتا- لیکن اس کے اصولوں کو برا کہتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فعل سے بھی روکا ہے- آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ ]1ksn [tag لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم کذلک زینا لکل امہ عملھم ثم الی ربھم مرجعھم فینبئھم بما کانوا یعملون ۲۹~}~
فرمایا وہ چیزیں جنہیں دوسرے مذاہب والے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں- جیسے بت وغیرہ- ان کو بھی گالیاں مت دو- گو تمہارے نزدیک وہ چیزیں درست نہ ہوں- مگر پھر بھی تمہارا حق نہیں ہے کہ انہیں سخت الفاظ سے یاد کرو- کیونکہ اس طرح ان لوگوں کے دل دکھیں گے اور پھر لڑائی اور فساد پیدا ہوگا اور وہ بھی بغیر سوچے تمہارے اصول کو برا بھلا کہیں گے اور خدا تعالیٰ کو ضد میں آ کر گالیاں دیں گے-
یہ کتنی اعلیٰ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے دوسرے مذاہب کے جو بزرگ سچے تھے- ان کے متعلق تو فرمایا کہ انہیں مان لو- اور جو چیزیں سچی نہ تھیں` ان کے متعلق کہہ دیا کہ انہیں برا بھلا نہ کہو-
ہر مذہب میں خوبی
)ج( تیسری بات لڑائی فساد پیدا کرنے والی یہ ہوتی ہے کہ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کے متعلق کہتا ہے کہ وہ قطعاً جھوٹا ہے- اس میں کوئی خوبی نہیں ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے فرمایا- وقالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصاری لیست الیھود علی شی وھم یتلون الکتب- کذلک قال الذین لایعلمون مثل قولھم- فاللہ یحکم بینھم یوم القیمہ فیما کانوا فیہ یختلفون- ۳۰~}~
فرمایا کیسا اندھیر مچ رہا ہے- یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں- حالانکہ یہ دونوں کتاب الہی پڑھتے ہیں یعنی جب کتاب الہی پڑھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ہر اک چیز میں خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور جب کوئی چیز کسی فائدہ کی نہ رہے تو وہ بالکل مٹا دی جاتی ہے پس یہ کس طرح کہتے ہیں کہ دوسرے میں کوئی خوبی ہے ہی نہیں-
وہ مسلمان جو یہ کہتا ہے کہ ہندو مذہب میں عیب ہی عیب ہیں یا ہندو مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں- یا عیسائی ہندوئوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان کے مذہب میں عیب ہی عیب ہیں` کوئی خوبی نہیں ہے- انہیں غور کرنا چاہئے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عیسائیت دنیا میں قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- یا یہودیت قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- ہندو دھرم قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- یا اسلام قائم ہو مگر اس میں کوئی خوبی نہ ہو- کوئی مذہب اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک اس میں کوئی خوبی نہ ہو- مگر یہ تعلیم صرف اسلام نے ہی دی ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرو- دراصل یہ بزدلی ہوتی ہے کہ دوسروں کی خوبی کا اعتراف نہ کیا جائے-
نیک نیتی سے ماننے والے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کے قیام کا ایک یہ بھی ذریعہ اختیار کیا ہے کہ آپ نے دنیا کے سامنے اس صداقت کو بھی پیش کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ سب اقوام میں نبی آئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ہر مذہب میں کچھ خوبیاں ہیں بلکہ یہ امر بھی بالکل حق ہے کہ ہر مذہب کے پیرئووں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو اس مذہب کو سچا سمجھ کر مان رہے ہوتے ہیں نہ کہ ضد اور شرارت سے- پس یہ نیکی کی تڑپ جو ماننے والوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے نظر انداز نہیں کی جا سکتی- اور گو وہ غلطی پر ہوں مگر پھر بھی ان کی یہ سعی قابل قدر ہے چنانچہ اس کی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل سے ملتی ہے سب جانتے ہیں کہ اسلام شرک کا سخت مخالف ہے- مگر ایک دفعہ کچھ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مسجد میں بیٹھ کر بحث کرتے رہے حتیٰکہ ان کی عبادت کا وقت ہو گیا اور عبادت کے لئے مسجد سے باہر جانے لگے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا یہاں ہی عبادت کر لو- چنانچہ انہوں نے بت اپنے سامنے رکھے اور عبادت کر لی- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھے دیکھتے رہے- اب دیکھو کہ انہوں نے تو صلیب یا بزرگوں کے بتوں کی پوجا کی- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf نے انہیں مسجد میں ایسا کرنے کی اجازت دی- کیونکہ آپ جانتے تھے کہ وہ لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے ایسا کر رہے ہیں- پس ان کی اس تڑپ کی آپ نے قدر کی- اور ان کی نیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں جو ذکر الہی کے لئے ہوتی ہے اپنی عبادت بجا لانے کی اجازت دی-
جنگ کے حدود
دنیا میں ایک باعث فساد کا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کسی نہ کسی وجہ سے فساد پیدا ہو جائے تو لوگ اسے قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ فساد کو بھی دور فرمایا اور جنگ میں بھی حدود قائم کر دی ہیں-
چنانچہ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر آپ نے فرمایا ہے کہ فان انتھوا فان اللہ غفور رحیم ۳۱~}~ کہ جب لڑائی ہو رہی ہو اور لڑنے والا دشمن لڑائی چھوڑ دے- تو پھر اس سے لڑنا جائز نہیں ہے- کیونکہ یہ ایک قسم کی ندامت ہے اور اللہ تعالیٰ نادم کی ندامت کو ضائع نہیں کرتا- بلکہ بخشش سے کام لیتا ہے اور رحم کرتا ہے- اسی طرح فرمایا کہفلا عدوان الا علیالظلمین 2] fts[۳۲~}~ سزا انہی کو دی جاتی ہے جو ظلم کر رہے ہوں جو اپنی شرارت سے باز آ جائیں انہیں پچھلے قصوروں کی وجہ سے برباد نہیں کرتے جانا چاہئے-
حریت ضمیر
آٹھواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ آپ نے حریت ضمیر کے اصل کو قائم کیا ہے- علمی ترقی کی جڑ حریت ضمیر ہے- شک پیدا ہو اور اس شک کے مطابق تحقیق کی جائے اور جو صحیح نتیجہ نکلے اس کے مطابق اپنے خیال اور اپنے اعمال کو بدلا جائے یہی سب ترقیات کی کنجی ہے- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں اس وقت عرب خصوصاً اور دوسرے ممالک کے لوگ عموماً حریت ضمیر کی قدر نہ جانتے تھے- اس وقت قرآنکریم نے اعلان کیا کہ لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی ۳۳~}~ دین کے بارہ میں کچھ جبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہدایت اور گمراہی میں خدا تعالیٰ نے نمایاں فرق کر کے دکھا دیا ہے پس جو سمجھنا چاہئے وہ دلیل سے سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہیں ہونا چاہئے-
ایک دفعہ عربوں نے خواہش کی کہ آپ سے سمجھوتہ کر لیں اور وہ اس طرح کہ ہم اللہ کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں اور تم بتوں کی پرستش شروع کر دو- اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق فرمایا کہ لکم دینکم ولی دین ۳۴~}~ جب میں بتوں کو جھوٹا سمجھتا ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ضمیر کو قربان کر کے ان کی پرستش کروں اور تم واحد خدا کو نہیں مانتے تو تم اس کی پرستش کس طرح کر سکتے ہو- تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا-
عورتوں کے حقوق
‏text1] ga[tنواں احسان آپ کا وہ ہے جو صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کئے جاتے تھے- اور عرب لوگ تو انہیں ورثہ میں بانٹ لیتے تھے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت عورتوں کے حقوق کو قائم کیا اور اعلان فرمایا کہ ولھن مثلالذی علیھن ۳۵~}~ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے- پھر آپ نے اعلان فرمایا جس طرح مردوں کے لئے مرنے کے بعد انعام ہیں- اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں- پھر عورتوں کے لئے جائیداد میں حصے مقرر کئے- اس کی اپنی جائیداد مقرر کی- انگلستان میں بھی آج سے ۲۰ سال قبل عورت کی کوئی جائیداد نہ سمجھی جاتی تھی- جو کچھ اسے باپ سے ملتا` وہ بھی اس کا نہ ہوتا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ حکم دیا کہ عورت اپنے مال کی آپ مالک ہے- خاوند بھی اس کی مرضی کے خلاف اس سے مال نہیں لے سکتا- بچوں کی تربیت` نکاح میں رضامندی اور اس قسم کے بہت سے حقوق آپ نے عورت کو عطا کئے-
توہم کا انسداد ]0 [rtf
دسواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ دنیا میں جو توہم پائے جاتے تھے- آپ نے ان کا انسداد کیا- آپ کی آمد سے پہلے جادو اور ٹونے کا بہت رواج تھا- اور جانوروں سے اور ان کی بولیوں سے لوگ تفائول لیتے تھے اور قسم قسم کے وہموں میں مبتلا تھے- مگر جب کہ تعلیم یافتہ ملکوں کے لوگ وہم میں مبتلا تھے- آپ نے ایک جاہل ملک میں پیدا ہو کر سب وہموں کو دور کر دیا اور اعلان کر دیا کہ یہ سب امور فضول اور لغو ہیں- خدا تعالیٰ نے ہر اک امر کے لئے علم پیدا کیا ہے- اس علم سے فائدہ اٹھانا چاہئے- اس کے ذریعہ سے بیماریاں بھی دور ہونگی اور ترقیات حاصل ہونگی- لوگ کہتے ستاروں کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں- آپ نے فرمایا بے شک ان کا بھی اثر ہوتا ہے- مگر یہ ستارے اپنی ذات میں کوئی مستقل حیثیت رکھتے ہوں یہ درست نہیں ہے- وہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں- ان کی گردشوں پر اپنے کام کو منحصر رکھنا فضول اور لغو بات ہے-
اسی طرح بلی` کوا اور الو وغیرہ جانوروں سے شگون لینے کو آپ نے ناپسند فرمایا- اسی طرح قانون قدرت کی صحت کو تسلیم کر کے فرمایاnsk] ga[tلن تجد لسنہ اللہ تبدیلا ۳۶~}~ ایک قانون خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اس کے ماتحت چل کر ترقی کر لو- اس کے خلاف کرو گے تو ترقی نہ ہوگی ایک دفعہ آپ کہیں جا رہے تھے کہ لوگ کھجور کے پیوند لگا رہے تھے- آپ نے فرمایا- یہ کیا کر رہے ہو` اس کی کیا ضرورت ہے؟ پیوند لگانے والوں نے سمجھا آپ نے منع فرمایا ہے اور انہوں نے پیوند لگانے چھوڑ دیئے- اس سال کھجوروں کو پھل نہ لگے- انہوں نے آ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا- آپ نے پیوند لگانے سے منع کیا تھا مگر پھل نہیں لگے- آپ نے فرمایا میں نے تو پوچھا تھا` نہ یہ کہ منع کیا تھا- تم نے کیوں پیوند لگانے چھوڑ دیئے تم لوگ ان امور کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو- اسی طرح آپ کے بیٹے ابراہیم کی موت پر گرہن لگا- تو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت پر گرہن لگا ہے- تو آپ نے اس سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا کہ گرہن خدا تعالیٰ کے ایک قانون سے تعلق رکھتا ہے اسے کسی کی موت اور حیات سے کیا تعلق ہے-
سرمایہ اور مزدوری میں اتحاد
گیارھواں احسان آپ کا دنیا پر یہ ہے کہ آپ نے سرمایہدار اور مزدور کے تعلقات کو ایسے اصول پر قائم کیا کہ دنیا کی ترقی کے لئے رستہ کھل جاتا ہے اور سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے بالکل دور ہو جاتے ہیں- آپ نے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے دی ہے اس میں فیصلہ فرمایا ہے کہ ہر مالدار غریب کے ذریعہ کماتا ہے اس لئے اسے اپنے مال کا ۴۰/۱ حصہ غریبوں کے لئے الگ کر دینا چاہئے- جو ان پر خرچ کیا جائے- لیکن اس کے خرچ کا اختیار گورنمنٹ کو ہوگا- نہ کہ اس شخص کو یا اس کے ہاں کام کرنے والے مزدوروں کو- اس لئے درحقیقت سرمایہ دار صرف اپنے ہی مزدوروں کے ذریعہ نہیں کماتا بلکہ اس کی کمائی پر تمام ملک کے مزدورں کی محنت کا اثر پڑتا ہے- پس چالیسواں حصہ کل سرمایہ کا سرمایہ دار سے وصول کر کے گورنمنٹ غرباء پر اس طرح خرچ کرے کہ کچھ تو اپاہجوں پر کرے اور کچھ ان پر جو اپنی آمد میں گذارہ نہیں کر سکتے اور کچھ غرباء میں سے جو ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں انہیں مدد دے کر- تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل سکیں- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غرباء کی ترقی کے لئے راستہ کھول دیا ہے- اور امراء کو ہمیشہ کے لئے امیر بنے رہنے سے روک دیا ہے-
شراب کی ممانعت 0] f[rt
بارھواں احسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر یہ کیا ہے کہ آپ نے شراب کو بالکل روک دیا ہے- شراب کی برائیوں کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب سب دنیا اس کے نقائص کو تسلیم کر رہی ہے اور مختلف ملکوں میں اس کے کم کرنے یا بند کرنے کا انتظام ہو رہا ہے- چنانچہ امریکہ والوں نے قانوناً اسے منع کر دیا ہے- ہمارے ملک کے لوگ بھی اس کی ممانعت پر زور دے رہے ہیں اور گو گورنمنٹ نے ابھی تک انکی اس بات کو تسلیم نہیں کیا لیکن امید ہے کہ مسلمانوں` ہندوئوں اور مسیحیوں کی کوشش جاری رہی تو گورنمنٹ بھی تسلیم کر لے گی-
‏a.10.30
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں
اب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض قربانیوں کا ذکر کرتا ہوں- لیکن اس سے پہلے میں قربانی کی حقیقت کے متعلق کچھ تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ لوگ سمجھ سکیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں کس شان کی تھیں-
قربانی کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اصل قربانی یہ نہیں ہے کہ انسان سے کوئی چیز زبردستی چھین لی جائے- بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کے نفع کے لئے ایسے حالات میں قربانی دی جاوے کہ اس سے بچنا انسان کے اختیار میں ہو دنیا میں ہزاروں لوگ ہر روز مرتے ہیں- مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں- ہزاروں لوگ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں- مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ قربانی کرتے ہیں- اور اس کی یہی وجہ ہے کہ موت انسان کے اختیار میں نہیں ہے- اور ملک چھوڑنے والے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے فائدہ کے لئے ملک چھوڑتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کو آپ لوگ دیکھیں گے کہ وہ ایسی ہی ہیں کہ جن کو آپ نے اپنی مرضی سے پیش کیا اور لوگوں کے نفع کے لئے پیش کیا نہ کہ اپنے کسی فائدہ کے لئے-
دائمی عمل
پھر سچی قربانیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں- ایک وہ قربانی ہے جو وقتی ہوتی ہے اور دوسری وہ جو دائمی ہوتی ہے دائمی قربانی اعلیٰ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں میں یہی رنگ پایا جاتا ہے بلکہ آپ کی نسبت روایت ہے کہ آپ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ وہی نیک کام اچھے ہوتے ہیں جو دائمی ہوں- پس ہمیشہ جب نیکی شروع کرو تو اسے ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرو-
قربانیوں کی مزید اقسام
‏]1text [tagقربانی کی ان دونوں قسموں کی آگے پھر دو قسمیں ہیں- ایک قربانی جسے دوسرے وصول کرتے ہیں- )۲( وہ قربانی جسے انسان خود پیش کرتا ہے- پہلی قسم کی قربانی یہ ہے کہ مثلاً لوگ اسے اس لئے ماریں کہ وہ صداقت کو چھوڑ دے` مگر انسان نہ چھوڑے- اس کا نام ہم جبری قربانی رکھ لیتے ہیں- اور دوسری قربانی یہ ہے کہ انسان کے پاس مال ہو اور وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی مرضی سے اسے خرچ کرے- اس کا نام ہم طوعی قربانی رکھ لیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتلا دونوں ہی قسم کے تھے- آپ پر لوگوں نے جبر کیا- اس لئے کہ آپ صداقت کو چھوڑ دیں- مگر آپ نے اسے نہ چھوڑا اسی طرح آپ نے بہت سی قربانیاں ایسی کیں کہ جن کے لئے واقعات نے آپ کو مجبور نہیں کیا تھا-
پھر ان دونوں قسموں کی بھی آگے دو قسمیں ہیں-:
)۱( استکراہی یعنی ایسی قربانی جو انسان واقعات سے مجبور ہو کر پیش کرتا ہے- مگر اس کا دل اسے ناپسند کرتا ہے- اور )۲( رضائی- یعنی ایسی قربانی کہ انسان واقعات سے مجبور ہو کر اسے پیش کرتا ہے- مگر پھر بھی اس کا دل اسے پسند کرتا ہے- امر اول کی مثال جنگ ہے کہ نیک لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں- لیکن پھر بھی دنیا کے نفع کے لئے اسی ناپسندیدہ شے کو قبول کر لیتے ہیں- اور دوسری مثال لوگوں کی تعلیم کے لئے مال اور وقت خرچ کرنا ہے کہ اس قربانی کو وہ خوشی سے اور رغبت قلبی سے دینا پسند کرتے ہیں یا قوم کی راہ میں موت ہے کہ اپنے آپ کو خود تو ہلاک نہیں کرتے- جب جان دیتے ہیں تو لوگوں کے فعل کے نتیجہ میں دیتے ہیں مگر خواہش رکھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں موت آئے- پس یہ قربانی گو جبری ہے مگر ہے رضائی` یعنی دل اسے پسند کرتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں دونوں ہی قسم کی تھیں- آپ نے وہ قربانیاں بھی کیں جو استکراہی تھیں- یعنی لوگوں کے نفع کے لئے آپ نے ایسے کام کئے کہ جو آپ کو ذاتی طور پر ناپسند تھے- مگر دنیا کے نفع کے لئے آپ نے اپنے میلان کو قربان کر دیا جیسے آپ کی جنگوں میں شرکت اور ایسی قربانیاں بھی کیں کہ جنہیں آپ طبعاً پسند فرماتے تھے- جیسے مال اور آرام کی قربانیاں-
پھر قربانیوں کی یہ قسمیں بھی ہیں- ایک وہ قربانیاں جو کسی عارضی مقصد کے لئے ہوں- دوسری وہ قربانیاں جو کسی دائمی صداقت کے لئے ہوں- دوسری قسم کی قربانیاں اعلیٰ ہوتی ہیں- کیونکہ وہ تمام ذاتی نفعوں کے خیال سے بالا ہوتی ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیاں جیسا کہ آپ لوگ دیکھیں گے اسی قسم کی تھیں- آپ نے کسی عارضی مقصد کے لئے قربانیاں نہیں کیں- بلکہ دائمی صداقتوں اور بنی نوع انسان کی ابدی ترقی کے لئے قربانیاں کی ہیں- پس آپ کی قربانیاں کیا بلحاظ نیت کے اور کیا بلحاظ مقصد کے اور کیا بلحاظ قربانی کی کمیت اور کیفیت کے نہایت عظیم الشان ہیں- بلکہ حیرت انگیز ہیں اور اگلوں اور پچھلوں کے لئے نمونہ- آپ نے خود ہی دنیا کے دائمی نفع کیلئے اور دائمی صداقتوں کے قیام کے لئے خوشی سے قربانیاں نہیں کیں- بلکہ آپ نے اپنے اتباع کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ بھی خوشی سے قربانیاں کریں تاکہ دنیا ترقی کرے- چنانچہ آپ خدا تعالیٰ سے حکم پا کر فرماتے ہیں-ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرت- وبشر الصبرین- الذین اذا اصابتھم مصیبہ قالوا انا للہ وانا الیہ رجعون- ۳۷~}~
ہم ضرور تمہارے ایمان کے کمال کو ظاہر کریں گے- اس طرح سے کہ تمہیں ایسے مواقع میں سے گذرنا پڑے گا کہ تمہیں صداقتوں کے لئے خوف اور بھوک کا سامنا ہوگا اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا- پس جو لوگ ان مشکلات کو خوشی سے برداشت کریں گے اور کہیں گے کہ خدا کی چیز خدا کی راہ میں قربان ہو گئی` انہیں خوشخبری دے کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہ ہونگی-
قربانیوں کی شقیں
جس طرح قربانیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں اسی طرح وہ کئی شقوں کی بھی ہوتی ہیں مثلاً )۱(شہوات کی قربانی- یعنی شہوات کو مٹا دینا )۲(جذبات کی قربانی- یعنی جذبات کو مٹا دینا- )۳(مال کی قربانی- )۴(وطن کی قربانی یعنی وطن چھوڑ دینا )۵(دوستوں کی قربانی- )۶(رشتہ داروں کی قربانی- یعنی خدا کے لئے ان کو چھوڑ دینا- )۷(عزت کی قربانی- یعنی خدا تعالیٰ اور دائمی صداقتوں کے لئے ذلت کو برداشت کرنا یا عزت حاصل کرنے کے مواقع کو چھوڑ دینا- )۸(آرام کی قربانی )۹(آسائش کی قربانی- )۱۰( آئندہ نسل کی قربانی- )۱۱(رشتہ داروں کے احساسات کی قربانی )۱۲(اپنی جان کی قربانی- )۱۳(دوستوں کے احساسات کی قربانی-
اب میں یہ بتلاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب قسم کی قربانیاں کی ہیں-
شہوات کی قربانی
)۱(شہوات کی قربانی اس سے ثابت ہے کہ آپ نے جوانی کی عمر میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی- اور آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی بیوی آپ کو اپنی طرف مائل نہ رکھے بلکہ آپ دنیا کی ترقی کے متعلق کوششوں میں مشغول رہ سکیں- جس وقت آپ نے یہ شادی کی ہے` اس وقت آپ نے ابھی نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا- اور مذہبی وجہ سے آپ سے اخلاص کی صورت پیدا نہ تھی- پس آپ سمجھتے تھے کہ جوان عورت کی خواہشات چاہیں گی کہ اس کی طرف توجہ کی جاوے- اس لئے آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے شادی کی اور یہ آپ کی بہت بڑی قربانی تھی- آپ اس وقت ۲۵ سال کے جوان تھے اور آپ کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ ۶۳ سال کی عمر میں بھی صرف چند بال سفید آئے تھے اور آپ ایسے مضبوط تھے کہ آپ ہی نمازیں پڑھاتے تھے اور آپ ہی لشکروں کی کمان کرتے تھے- پس وہ شخص جو بڑھاپے میں بھی نہایت قوی تھا وہ بھرپور جوانی کے وقت نوجوان عورتوں کو چھوڑ کر ایک ادھیڑ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت خدمت مخلوق میں لگا سکے- اس سے بڑھ کر شہوات کی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے-
پھر جوانی کی عمر میں تو آپ نے ادھیڑ عمر کی عورت سے اس لئے شادی کی کہ وہ آپ کے سارے وقت پر قابو نہ پالے اور جب آپ ادھیڑ عمر کو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ اب عورتوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو آپ سے مذہبی طور پر اخلاص رکھتی ہے اور آپ کے ساتھ مل کر ہر قسم کی مذہبی قربانی کے لئے تیار رہے گی- تو اس وقت اس نیت سے کہ شریعت کے مختلف مسائل کو قوم میں رائج کر سکیں آپ نے کئی جوان عورتوں سے شادی کی اور اس بوجھ کو اٹھایا جو نوجوانوں کی بھی کمر توڑ دیتا ہے- گویا دونوں زمانوں میں جوانی میں بھی اور ادھیڑ عمر میں بھی آپ نے شہوات کی قربانی کی- کیونکہ عائشہؓ کی شادی کے بعد دوسری عورتوں سے شادی ایک زبردست قربانی تھی-
)۲( جذبات کی قربانی
آپ نے مختلف اوقات میں اپنے جذبات کی بھی قربانی کی ہے- چنانچہ اس کی ایک مثال وہ قربانی ہے جسے آپ نے عدل و انصاف کے قیام کے لئے پیش کیا- تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ بدر میں آپ کے چچا عباس قید ہو گئے- حضرت عباس دل سے مسلمان تھے- اور ہمیشہ حضرت کی مدد کیا کرتے تھے- اور مکہ سے دشمنوں کی خبریں بھی بھیجا کرتے تھے- مگر کفار کے زور دینے پر ان کے ساتھ مل کر بدر کی جنگ میں شریک ہوئے- قید ہونے پر اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہی انہیں بھی رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا- چونکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور اس زمانہ کے لحاظ سے ایسے سامان نہیں تھے کہ قیدیوں کے بھاگنے کی روک کی جا سکے- اس لئے رسیاں خوب مضبوطی سے باندھی گئیں- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عباس جو نہایت نازو نعم میں پلے ہوئے تھے اور امیر آدمی تھے- اس تکلیف کی تاب نہ لا سکے اور کراہنے لگے- ان کی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوئی اور صحابہ نے دیکھا کہ آپ کبھی ایک کروٹ بدلتے ہیں کبھی دوسری اور انہوں نے سمجھ لیا کہ آپ کی اس بے چینی کا باعث حضرت عباس کا کراہنا ہے اور انہوں نے چپکے سے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں- تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کو ان کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپ نے پوچھا کہ عباس کو کیا ہوا ہے کہ ان کے کراہنے کی آواز نہیں آتی- صحابہ نے کہا یا رسولاللہ آپ کی تکلیف کو دیکھ کر ہم نے ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں- آپ نے فرمایا- یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو یا ان کی بھی سخت کر دو- یہ قربانی کیسی شاندار ہے-
حضرت عباس آپ کے چچا تھے اور محبت کرنے والے چچا- لیکن آپ نے پسند نہ فرمایا کہ ان کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں اور دوسرے قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی نہ کی جائیں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جس طرح وہ میرے رشتہ دار ہیں- اسی طرح دوسرے قیدی دوسرے صحابہ کے رشتہ دار ہیں اور ان کے دلوں کو بھی وہی تکلیف ہے جو میرے دل کو- پس آپ نے اپنے لئے تکلیف کو برداشت کیا تا کہ انصاف اور عدل کا قانون نہ ٹوٹے- اور اس وقت تک حضرتعباس کو آرام پہنچانے کی اجازت نہ دی جب تک دوسرے قیدیوں کے آرام کی بھی ضرورت نہ پیدا ہو جائے-
آپ کی جذبات کی قربانیوں کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ مخالفین آپ کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور آ کر کہا کہ اب بات برداشت سے بڑھ گئی ہے تم اپنے بھتیجے کو سمجھائو کہ وہ تو بے شک کہا کرے کہ ایک خدا کو پوجو- مگر یہ نہ کہا کرے کہ ہمارے بتوں میں کوئی طاقت بھی نہیں ہے- اگر تم اسے نہ روکو گے تو ہم پھر تم سے بھی مقابلہ کرنے کو تیار ہونگے اور ہر طرح کا نقصان پہنچائیں گے- یہ وقت ان کے لئے بڑی مصیبت کا وقت تھا- انہوں نے رسول کریم2] f[st صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور خیال کیا کہ میرے ان پر بڑے احسان ہیں- یہ میری بات ضرور مان جائیں گے جب آپ آئے تو انہوں نے کہا- اب تو لوگ بہت جوش میں آ گئے ہیں اور وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ تمہاری وجہ سے مجھے اور میرے سب رشتہ داروں کو تکلیف پہنچائیں گے- کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم بتوں کے خلاف وعظ کرنے سے رک جائو` تا کہ ہم لوگ ان کی مخالفت سے محفوظ رہیں- اب غور کرو کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے پالا ہو- پھر چچا ہو اور محسن چچا ہو` اس کی بات کو جو اس نے سخت تکلیف کی حالت میں کہی ہو رد کرنے سے احساسات کو کس قدر ٹھیس اور صدمہ پہنچ سکتا ہے- چنانچہ قدرتاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس مصیبت سے صدمہ پہنچا- ایک طرف ایک زبردست صداقت کی حمایت- دوسری طرف اپنے محسنوں کی جان کی قربانی- ان متضاد تقاضوں کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- لیکن آپ نے فرمایا کہ اے چچا- میں آپ کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھا سکتا ہوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ اور شرک کی مذمتوں کا وعظ چھوڑ دوں- پس آپ بے شک مجھ سے علیحدہ ہو جائیں اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیں- کوئی اور ہوتا تو یہ سمجھتا کہ دیکھو میں نے اس پر اس قدر احسان کئے ہیں- مگر باوجود اس کے یہ میری بات نہیں مانتا- مگر ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو جانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ آپ اس قدر احسان کی قدر کرنے والے ہیں کہ اس وقت میری بات کو رد کرنا ان کے اخلاق کے لحاظ ایک بہت بڑی قربانی ہے اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں وہ اپنے نفس کے لئے نہیں ہے- بلکہ صرف اپنی قوم کی بہتری اور اسے گمراہی سے نکالنے کے لئے ہے- پس وہ بھی آپ کی اس قربانی سے متاثر ہوئے اور بے اختیار ہو کر کہا کہ میرے بھتیجے تو جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے جا اور اپنا کام کر- میں اور میرے دوسرے رشتہ دار تیرے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ مل کر ہر ایک تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں-
رشتہ داروں کے جذبات کی قربانی
یہ قربانی اپنے جذبات کی قربانی سے بھی مشکل ہوتی ہے- لوگ اپنے جذبات تو مار سکتے ہیں- لیکن اپنے عزیزوں کے جذبات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں- کئی ماں باپ خود معمولی کپڑے پہنتے ہیں- لیکن بچوں کو اعلیٰ کپڑے پہناتے ہیں- خود معمولی کھانا کھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اعلیٰ کھانے کھلانے کی کوشش کرتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں پر نظر مارنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے جذبات ہی کو دائمی صداقتوں کے قیام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے قربان نہیں کیا- بلکہ اپنے رشتہ داروں کے جذبات کو بھی قربان کر دیا ہے- اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو بہت بڑی فتح ہوئی اور مسلمانوں کی آسودگی کے سامان پیدا ہو گئے- تو آپ کی پیاری بیٹی فاطمہؓ نے آپ سے کہا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں- چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لوگوں کو اتنے اموال اور نوکر ملتے ہیں- ایک لونڈی مجھے بھی دے دی جائے- اس کے جواب میں آپ نے فرمایا- یہ چھالے اس سے اچھے ہیں کہ اس مال سے تمہیں کچھ دوں- تم اس حالت میں خوش رہو کہ یہی خداتعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس مال میں حق تھا اور آپ جائز طور پر اس سے لے سکتے تھے- مگر آپ نے یہ دیکھ کر کہ ابھی مسلمانوں کی ضرورت بہت بڑھی ہوئی ہے` اس مال میں سے کچھ نہ لیا اور اپنی نہایت ہی پیاری بیٹی کی تکلیف کو برادشت کیا- آپ کا اپنی بیویوں کے جذبات کی قربانی کرنے کا ذکر میں پہلے کر آیا ¶ہوں-
دوستوں کے جذبات کی قربانی
اس کے متعلق میں حضرت ابوبکرؓ کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں ان کی کسی یہودی سے گفتگو ہوئی- یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دی- اس پر حضرت ابوبکر کو غصہ آ گیا- اور آپ نے اس سے سختی کی مگر جب یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ حضرتابوبکرؓ سے ناراض ہوئے اور فرمایا- آپ کا حق نہ تھا کہ اس طرح اس شخص سے جھگڑتے-
بظاہر یہ قربانی معمولی بات معلوم ہوتی ہے- مگر عقلمند جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے لئے جو ہر وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہو- دوستوں کے جذبات کا احترام کیسا ضروری ہوتا ہے- مگر آپ نے دوسرے لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے کبھی اپنے دوستوں کے جذبات کی پرواہ نہیں کی- اس قسم کی قربانی کی دوسری مثال کے طور پر میں صلح حدیبیہ کا ایک مشہور واقعہ پیش کرتا ہوں- اس صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے گا` تو اسے واپس کر دیا جائے گا- لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ والوں کے پاس جائے گا` تو اسے واپس نہیں کیا جاوے گا ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ ایک شخص ابو بصیر نامی مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا- اس کا جسم زخموں سے چور تھا- بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے- اس شخص کے پہنچنے پر اور اس کی نازک حالت کو دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہو گیا- لیکن دوسری طرف کفار نے بھی اس کے اس طرح آنے میں اپنی شکست محسوس کی اور مطالبہ کیا کہ بموجب معاہدہ اسے واپس کر دیا جائے- مسلمان اس بات کے لئے کھڑے ہو گئے کہ خواہ کچھ ہو جائے- مگر ہم اسے جانے نہ دیں گے- انہوں نے کہا ابھی معاہدہ نہیں ہوا- اس لئے مکہ والوں کا کوئی حق نہیں کہ اس کی واپسی کا مطالبہ کریں- مگر چونکہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرما چکے تھے کہ ہر مرد جو مکہ سے آئے گا` اسے واپس کیا جائے گا- آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دے دیا اور مسلمانوں کے جذبات کو وفائے عہد پر قربان کر دیا-
مال کی قربانی
آپ کی مالی قربانی کے لئے کسی خاص واقعہ کی مثال دینے کی ضرورت نہیں- ہر اک شخص جانتا ہے کہ جب سے آپ کے پاس مال آنا شروع ہوا` آپ نے اسے قربان کرنا شروع کر دیا- چنانچہ سب سے پہلا مال آپ کو حضرت خدیجہؓ سے ملا اور آپ نے اسے فوراً غرباء کی امداد کے لئے تقسیم کر دیا- اس کے بعد مدینہ میں آپ بادشاہ ہوئے تھے تو باوجود بادشاہ ہونے کے آپ نے حقوق نہ لئے اور سادہ زندگی میں عمر بسر کی- اور جس قدر ممکن ہو سکا غرباء کی خبر گیری کی- حتیٰ کہ آپ نے کھانا تک پیٹ بھر کر نہ کھایا- صحابہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ عام طور پر اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں تو انصار نے جو اپنے آپ کو اہل وطن ہونے کی وجہ سے صاحب خانہ خیال کرتے تھے` یہ انتظام کیا کہ کھانا آپ کے گھر میں بطور ہدیہ بھجوا دیا کرتے- لیکن آپ اسے بھی اکثر مہمانوں میں تقسیم کر دیتے یا ان غرباء میں جو دین کی تعلیم کے لئے مسجد میں بیٹھے رہتے تھے- یہاں تک کہ جب آپ فوت ہوئے تو اس دن بھی آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا اور یہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ ماترکناہ صدقہ ۳۸~}~اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے کوئی مال چھوڑا تھا اور اسے آپ نے صدقہ قرار دیا تھا` بلکہ اس کا یہ مطلب تھا کہ ہمارے گھر میں اپنا مال کوئی نہیں ہے جو کچھ ہے وہ صدقہ کا مال ہے- پس اس کامالک بیت المال ہے نہ کہ ہمارے گھر کے لوگ- دوسرے معنی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں- کیونکہ اپنے سارے مال کی وصیت قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے- پس اس حدیث کے یہ معنی کرنے کہ آپ نے اپنا ذاتی مال کوئی چھوڑا تھا اور اسے سب کا سب صدقہ قرار دیا تھا درست نہیں-
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی مالی قربانی کا ایک بے نظیر نمونہ تھی-
عزت کی قربانی
عزت کی قربانی بہت بڑی قربانی ہے اور بہت کم لوگ اس کی جرات رکھتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں- مثلاً صلح حدیبیہ ہی کا واقعہ ہے کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو آپ نے لکھایا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور مکہ والوں کے درمیان ہے- حضرت علیؓ یہ معاہدہ لکھ رہے تھے- کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو- کیونکہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اچھا اسے مٹا دو- حضرت علیؓ نے جو محبت رسول کے متوالے تھے کہا` مجھ سے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ کا لفظ لکھ کر کاٹ دوں- آپ نے فرمایا- کاغذ میری طرف کرو اور رسول اللہ کا لفظ اپنے ہاتھ سے آپ نے مٹا دیا-۳۹~}~ صلح اور امن کی خاطر اس قسم کی قربانی بہت کم لوگ کر سکتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فاتح کی حیثیت میں تھے- آپ کا لشکر جنگ کے لئے بیتاب ہو رہا تھا کیونکہ وہ مکہ والوں کے بے جا مظالم کو دیکھ دیکھ کر جوش سے ابل رہا تھا- اہل مکہ اس وقت بالکل بے بس تھے- ان کا لشکر تھوڑا اور ان کے مددگار دور تھے- پس ان کی ان ہتک آمیز باتوں کا علاج آپ فوراً کر سکتے تھے- مگر آپ کے سامنے یہ بات تھی کہ وہ مقام کہ جسے خدا تعالیٰ نے اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہاں لوگ امن سے اکٹھے ہو کر اصلاح نفس اور اصلاح عالم کی طرف توجہ کر سکیں` اس جگہ جنگ نہ ہو اور اس کی دیرینہ عزت کو صدمہ نہ پہنچے- پس اس کی خاطر ہر ایک ہتک کا کلمہ سنتے تھے اور خاموش ہو جاتے تھے-
دوسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں مکہ میں غلاموں کو بہت ذلیل سمجھا جاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بہت معزز تھا- بڑے بڑے قبیلوں والے اس قبیلہ کو لڑکیاں دینا فخر سمجھتے تھے- مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کی شادی ایک آزاد شدہ غلام سے کرد دی- یہ عزت کی کتنی بڑی قربانی تھی- آپ نے اس طرح عملی قربانی سے لوگوں کو سبق دیا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں- فرق صرف نیکی` تقویٰ` اخلاص اور اخلاق سے پیدا ہوتا ہے-
تیسری مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا آپ نے قرضہ دینا تھا- اس نے آ کر سخت کلامی شروع کی اور گو ادائیگی قرض کی معیاد ابھی پوری نہ ہوئی تھی- مگر آپ نے اس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیجا کہ فلاں شخص سے جا کر کچھ قرض لے آئو اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا- جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہ کو اس یہودی پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے کے لئے تیار ہو گئے- مگر آپ نے فرمایا اسے کچھ مت کہو` کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا- جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت آپ مدینہ اور اس کے گرد کے بہت سے علاقہ کے بادشاہ ہو چکے تھے اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپ کا اس یہودی کی سختی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھا- چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا-
چوتھی مثال اس قسم کی قربانی کی یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو کئی دفعہ ایسے آدمیوں کے ماتحت کیا جو خاندانی لحاظ سے ادنیٰ تھے- چنانچہ زید بن حارثہ جو آپ کے آزادکردہ غلام تھے ان کے ماتحت آپ نے حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر طیار کو ایک فوج میں بھیجا-
اسی طرح ابو لہب کے دو بیٹوں سے آپ کی دو بیٹیاں بیاہی ہوئی تھیں- اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم ترک نہ کریں گے تو میں اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دوں گا مگر آپ نے پرواہ نہ کی- اور اس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی- اوپر کی مثالوں کے علاوہ مکہ میں آپ پر غلاظت ڈالی جاتی` منہ پر تھوکا جاتا` تھپڑ مارے جاتے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر کھینچا جاتا اور ہر طرح ہتک کرنے کی کوشش کی جاتی- مگر آپ یہ سب باتیں برداشت کرتے کہ خدا تعالیٰ کے نام کی عزت ہو- آپ مکہ میں صادق اور امین کہلاتے تھے- اپنی قوم کی ترقی کا بیڑا اٹھانے کے بعد آپ کا نام کاذب اور جاہ طلب رکھا گیا- پہلی عزت سب مٹ گئی- پہلا ادب نفرت اور حقارت سے بدل گیا- مگر آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا تا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم ہو اور دنیا جہالت اور توہم پرستی سے آزاد ہو-
وطن کی قربانی
وطن ہر ایک کے لئے ایک عزیز چیز ہوتی ہے- لوگ اس کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنا وطن عزیز تھا اور آپ اسے چھوڑنا نہ چاہتے تھے- مگر آپ نے خدا کے لئے اس کی بھی قربانی کی- آپ کو وطن سے جو محبت تھی اس کا پتہ اس سے ملتا ہے کہ جب آپ وطن چھوڑنے لگے تو آپ کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور آپ نے دردناک الفاظ میں مکہ کی طرف دیکھ کر اسے مخاطب کر کے کہا کہ اے مکہ مجھے تو بہت ہی پیارا ہے- مگر افسوس کہ تیرے رہنے والے مجھے یہاں نہیں رہنے دیتے- یہ تو وطن کی وہ قربانی تھی جو آپ نے مجبوری کی حالت میں کی- مگر اس کے بعد آپ نے وطن کی ایسی شاندار قربانی کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی- مکہ سے نکالے جانے کے آٹھ سال بعد آپ پھر مکہ کی طرف واپس آئے اور اس دفعہ آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا- مکہ کے لوگ آپ کا مقابلہ نہ کر سکے- اور مکہ آپ کے ہاتھوں پر فتح ہوا- اور آپ اسی مکہ میں جس میں سے صرف ایک ہمراہی کے ساتھ آپ کو افسردگی سے نکلنا پڑا تھا` ایک فاتح جرنیل کی صورت میں داخل ہوئے- وہ لوگ جو آپ کو نکالنے والے تھے یا مارے جا چکے تھے یا اطاعت قبول کر چکے تھے اور مکہ آپ کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے ایک مضطرب ماں کی طرح تڑپ رہا تھا- لیکن باوجود اس کے کہ آپ کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہاں خانہ کعبہ تھا` آپ نے اسلام کی خاطر اور اس قوم کی خاطر جس نے تکلیف کے وقت آپ کو جگہ دی تھی` اور اس کا دل رکھنے کے لئے مکہ کی رہائش کا خیال نہ کیا اور واپس مدینہ تشریف لے گئے- یہ آپ کی وطن کی دوسری قربانی تھی-
آرام کی قربانی
آپ نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور ساری عمر اٹھائیں- مکہ میں تو کفار دکھ دیتے ہی رہے مگر مدینہ میں بھی منافقوں نے آرام نہ لینے دیا- علاوہ ازیں آپ سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کام میں لگے رہتے تھے- راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے- اس طرح آپ نے اپنی آسائش اور آرام کو قربان کر دیا- آپ نے نہ اچھے کپڑے پہنے اور نہ اچھے کھانے کھائے- عورتوں نے مال کا مطالبہ کیا تو انہیں جواب دیا میری زندگی میں تو تمہیں مال نہیں مل سکتا- یہ سب باتیں ایسی ہیں جو آرام کی قربانی سے تعلق رکھتی ہیں-
رشتہ داروں کی قربانی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رشتہ داروں کی قربانی کے لئے تیار رہتے تھے- اس کی مثال کے طور پر ایک تو اس واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت نے چوری کی- وہ ایک بڑے خاندان سے تھی- لوگوں نے اس کی سفارش کی- آپ اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ انصاف اور عدل کی خاطر میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا- اگر فاطمہ میری بیٹی سے بھی ایسا فعل سرزد ہو تو اسے بھی سزا دی جائے گی- یہ واقعہ تو آپ کے قلبی خیالات پر دلالت کرتا ہے- مگر عملی ثبوت بھی کثرت سے ملتے ہیں- مثلاً یہ کہ باوجود اس کے کہ صحابہ آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار تھے- آپ خطرناک سے خطرناک مقامات پر اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے تھے- چنانچہ حضرت علیؓ کو ہر میدان میں آگے رکھتے` اسی طرح حضرت حمزہؓ کو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائیوں میں آپ کے عزیز رشتہ دار مارے گئے- چنانچہ حضرت حمزہؓ احد کی لڑائی میں حضرت جعفرؓ شام کے سریہ میں مارے گئے- اول الذکر آپ کے چچا اور ثانی الذکر آپ کے چچا زاد بھائی تھے-
جان کی قربانی
جان کی قربانی بھی بہت بڑی قربانی ہے- حتیٰ کہ بعض لوگ غلطی سے صرف اسی قربانی کو قربانی سمجھ بیٹھتے ہیں- آپ نے اس قربانی کو بھی خدا تعالیٰ اور بنینوع انسان کے لئے پیش کیا- اشاعت حق کے لئے ہر خطرہ کو برداشت کیا- چنانچہ مکہ میں آپ پر اشاعت توحید کی وجہ سے مکہ والوں نے سخت سے سخت ظلم کیا اور آپ کے مارنے پر انعامات مقرر کئے- مگر آپ نے ذرہ بھر بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی- بلکہ ہمیشہ جان کے خطرے سے استغناء کیا- چنانچہ آپ بے دھڑک ہو کر سخت سے سخت دشمنوں کے پاس تبلیغ کے لئے چلے جاتے تھے- چنانچہ ایک دفعہ آپ تن تنہا طائف تبلیغ کے لئے چلے گئے- حالانکہ طائف ان لوگوں کے اثر کے نیچے تھا جو آپ کے سخت دشمن تھے- وہاں جا کر تبلیغ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے رئوسا نے آپ کے پیچھے لڑکوں اور کتوں کو لگا دیا- جو آپ پر پتھر پھینکتے تھے اور آپ کو کاٹتے تھے- وہ کئی میل تک آپ کا تعاقب کرتے آئے اور آپ پر اس قدر پتھر پڑے کہ آپ کا سب جسم لہولہان ہو گیا اور جوتیوں میں خون بھر گیا- آپ بعض دفعہ زخموں کی تکلیف اور خون کے بہنے کی وجہ سے گر جاتے تھے- تو وہ کم بخت آپ کے بازو پکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے تھے اور پھر مارنے لگتے-
اسی طرح ایک دفعہ رات کے وقت شور پڑا اور سمجھا گیا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے- صحابہ اس شور کو سن کر گھروں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہونے لگے کہ تا تحقیق کریں کہ شور کیسا ہے- اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر چڑھے ہوئے جنگل سے واپس آ رہے ہیں اور معلوم ہوا کہ آپ تن تنہا شور کی وجہ دریافت کرنے کے لئے چلے گئے تھے` تا ایسا نہ ہو کہ دشمن اچانک مدینہ پر حملہ کر دے-
ایک اور مثال جان کی قربانی کی غزوہ حنین کا واقع ہے- غزوہ حنین میں بہت سے ایسے لوگ شامل تھے جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے- فتح مکہ کے بعد قومی جوش کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے- ہوازن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہ لوگ پسپا ہو گئے اور ان کے بھاگنے سے صحابہ کی سواریاں بھی بھاگ پڑیں اور چار ہزار دشمن کے مقابلہ میں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ صحابی رہ گئے- اس وقت چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی- اور وہاں کھڑے رہنے والوں کے مارے جانے کا سو فیصدی احتمال تھا- صحابہ نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس لوٹائیں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عباس نے گھوڑے کی باگ پکڑ کر واپس کرنا چاہا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باگ چھوڑ دو اور بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گئے اور فرمایا-انا النبی لا کذب ۴۰~}~میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں- یعنی اس صورت میں میں اپنی جان کی کیا پرواہ کر سکتا ہوں-
احد کی جنگ میں ایک بہت بڑا دشمن آپ پر حملہ کرنے کے لئے آیا- چونکہ وہ تجربہ کار جرنیل تھا- صحابہ نے اسے روکنا چاہا- مگر آپ نے فرمایا آنے دو- وہ مجھ پر حملہ آور ہوا ہے میں ہی اس کا جواب دوں گا-
جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تھے تو علاوہ جنگوں کے خفیہ حملے بھی آپ کی جان پر ہوتے رہتے تھے- چنانچہ ایک دفعہ مکہ سے ایک شخص کو لالچ دے کر بھیجا گیا کہ آپ کو خفیہ طور پر مار آئے یہ شخص اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوا اور گرفتار کر لیا گیا-
یہود بھی آپ کے قتل کے درپے رہتے تھے- ایک دفعہ آپ کو اپنے محلہ میں بلا کر سر پر پتھر پھینکنا چاہا مگر آپ کو معلوم ہو گیا اور آپ واپس تشریف لے آئے-
ایک دفعہ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا- آپ نے ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو حقیقت پر آگاہ کر دیا-
تبوک کی جنگ سے واپسی کے وقت چند منافق آگے بڑھ کر راستہ میں چھپ گئے اور آپ پر اندھیرے میں قاتلانہ وار کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع کر دیا- آپ نے ان لوگوں کو بھی چھوڑ دیا-
غرض آپ پر بڑے بڑے خطرناک حملے کئے گئے- اور تئیس سال کے لمبے عرصہ میں ہر روز گویا آپ کو قتل کرنے کی تجویز کی گئی اور صرف اس وجہ سے کہ آپ توحید کا وعظ کیوں کرتے تھے اور کیوں نیکی اور تقویٰ کی طرف بلاتے تھے- مگر آپ نے اپنی جان کو روز کھو کر صداقت کا وعظ کیا اور سچائی کو قائم کیا- تعجب ہے کہ لوگ ان لوگوں کو تو قربانی کرنے والے سمجھتے ہیں جنہیں ایک موقع جان دینے کا آیا اور ان کی جان چلی گئی- مگر اس کی قربانی کا اقرار کرنے سے رکتے ہیں جس نے ہر روز سچائی کے لئے اپنی جان کو پیش کیا- گو یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے اس کی جان کو محفوظ رکھا- قربانی تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کا نام ہے- آگے ہلاکت نہ آئے تو اس میں اس شخص کا کیا قصور ہے جو ہر وقت اپنی جان کو قربانی کے لئے پیش کرتا رہتا ہے-
آئندہ نسل کی قربانی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی ترقی کے لئے اپنی ہی قربانی نہیں کی- بلکہ اپنی آئندہ نسل کی بھی قربانی کی ہے اور یہ قربانی نہایت عظیمالشان قربانی ہے- اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر دیتے ہیں- لیکن ان قربانیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کو فائدہ پہنچ جائے- پس اولاد کی قربانی اکثر اوقات اپنی قربانی سے بھی شاندار ہوتی ہے- آپ نے اس قربانی کا بھی نہایت شاندار نمونہ دکھایا ہے- چنانچہ آپ نے حکم دیا ہے کہ صدقات کا مال میری اولاد کے لئے منع ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دانا انسان اس امر کو خوب سمجھ سکتا تھا کہ زمانہ یکساں نہیں رہتا- میری اولاد پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے اور آئے گا کہ وہ لوگوں کی امداد کی محتاج ہوگی- لیکن باوجود اس کے آپ نے فرما دیا کہ میری اولاد کے لئے صدقہ منع ہے- گویا ایک ہی رستہ جو غرباء کی ترقی کے لئے کھلا ہے اسے اپنی اولاد کے لئے بند کر دیا اور اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ آپ نے خیال فرمایا کہ اگر صدقہ میری اولاد کے لئے کھلا رہا تو اسرائیلی نبیوں کی اولاد کی طرح میری امت کے لوگ بھی میرے تعلق کی وجہ سے صدقہ میری اولاد کو ہی زیادہ تر دیں گے- اور مسلمانوں کے دوسرے غرباء تکلیف اٹھائیں گے- پس آپ نے دوسرے مسلمان غرباء کو تکلیف سے بچانے کے لئے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا اور گویا دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کر دیا- یہ کس قدر قربانی ہے اور کیسی شاندار قربانی ہے- اگر مسلمان اس قربانی کی حقیقت کو سمجھیں تو سادات کو کبھی تنگ دست نہ رہنے دیں کیونکہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مسلمانوں کی خاطر اپنی اولاد کو قربان کیا ہے- مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ اس قربانی کے مقابلہ میں ایک شاندار قربانی کریں اور جس دروازہ کو صدقہ کی شکل میں بند کیا گیا ہے اسے ہدیہ کی شکل میں کھول دیں-
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے لئے ہر رنگ میں ایسی قربانیاں کیں جس کی نظیر کسی جگہ نہیں مل سکتی- آپ دنیا میں خالی ہاتھ آئے- باوجود بادشاہ ہونے کے خالی ہاتھ رہے اور خالی ہاتھ چلے گئے- زندگی میں تو دیتے ہی رہے- وفات پانے کے بعد بھی سب کچھ لوگوں کو دے گئے- یعنی آپ کے بعد دوسرے لوگ تخت خلافت پر متمکن ہوئے- اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وعلی خلفاء محمد وبارک وسلم انک حمید مجید-
نصیحت
یہ وہ وجود ہے جسے آج دنیا برا بھلا کہتی ہے اور جس کے روشن وجود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے- مگر میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب کے سنجیدہ اور شریف آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور قربانیوں اور پاکبازیوں کا علم حاصل کر کے آپ کا ادب کرنا سیکھیں گے اور آپ کو بنی نوع انسان کا محسن سمجھ کر آپ کو اپنا ہی سمجھیں گے جس طرح کہ وہ اپنے قومی نبیوں کو سمجھتے ہیں اور مسلمان آپ کی زندگی کے حالات معلوم کر کے آپ کے نقشقدم پر چلنے کی کوشش کریں گے اور اس عظیم الشان نعمت کی جو خدا تعالیٰ نے انہیں دی ہے ناشکری نہیں کریں گے اور دین کی طرف سے بے توجہی کی بجائے دین کے احکام پر عمل کرنے کی اور عیش و عشرت کی بجائے قربانی اور دنیا کے لئے مفید بننے کی پوری کوشش کریں گے- اللہتعالیٰ انہیں اس امر کی توفیق دے- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین- ]1txte [tag
۱~}~
الانعام:۱۶۳`۱۶۴
۲~}~
نائیڈو سروجنی )۱۸۷۹ء-۱۹۴۹ء( شاعرہ اور سیاستدان- حیدر آباد دکن میں بارہ سال کی عمر میں میٹرک کیا- بعد میں کیمبرج میں تعلیم پائی- بچپن سے انگریزی میں نظمیں لکھنی شروع کیں- ہندوستانی موضوعات پر رومانی اسلوب میں انگریزی نظمیں لکھ کر انگریزی ادب میں نمایاں شاعرہ کا لوہا منوالیا- اس کی شاعری میں جذبے اور فکر کا امتزاج ہے- ایک دفعہ اس کی نظمیں انگلستان میں گیتوں کی طرح مقبول ہوئیں- ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں قومی خدمتگار کی حیثیت سے مشہور تھی- مہاتماگاندھی کے ساتھ عدم تعاون کی تحریک سے وابستہ ہوئی اور ملک کی سیاست سے گہرا تعلق قائم کیا- کئی دفعہ قید ہوئی- کانپور میں نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ ۱۹۲۵ء کی صدر منتخب ہوئی- ہندوستان کی آزادی کے بعد اترپردیش کی گورنر مقرر ہوئی- اس کی بیٹی بدماجانائیڈو مغربی بنگال کی گورنر رہی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۰۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء(
۳~}~
یونس: ۱۷ ۴~}~الانعام:۳۴
۵`۶~}~
بخاری باب کیف کان بدء الوحی
۶~}~
بخاری باب کیف کان بدء الوحی
۸~}~
سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۱ صفحہ۸۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۹~}~
سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۱ صفحہ ۱۰۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۰~}~
مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۳۹۸ھ میں یہ الفاظ ملتے ہیں >کنت شریکی فکنت خیر شریک کنت لاتد اری ولا تماری<
۱۱~}~
مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ۹۱ مطبع میمنہ مصر ۱۳۱۳ھ
۱۲~}~
تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱ مطبع محمدی لاہور+ تاریخ الکامل لابن الاثیر جلد۲ صفحہ۱۳۸`۱۳۹
۱۳~}~
بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۱۴~}~
‏]2hn [tag بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد+ سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۲ صفحہ۱۴۰ مطبع مکتبہ فاروقیہ ملتان ۱۹۷۷ء
۱۵~}~
آتش پرستوں کا ملا- حکیم- فلاسفر- دانشمند )علمی اردو لغت صفحہ۱۴۴۹ مطبوعہ علمی کتب خانہ لاہور ۱۹۹۶ء(
۱۶~}~

۱۷~}~
الاحزاب:۲۹`۳۰
۱۸~}~
عورتوں کو ورغلانے والی عورت- چالاک
۱۹~}~
بے حد- بری طرح- عجیب طور پر
۲۰~}~
ابن ماجہ باب فضل العلماء والحث علی طالب العلم میں >طلب العلم فریضہ علی کل مسلم< کے الفاظ ہیں-
۲۱~}~
طہ:۱۱۵
۲۲~}~
الجامع الصغیر للسیوطی جلد۲ صفحہ۱۰۴ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ
۲۳~}~
یوسف: ۸۸
۲۴ ~}~ العنکبوت : ۷۰
‏]d1 [tag
۲۵~}~

۲۶~}~
الحجرات:۱۴
۲۷~}~
بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ
۲۸~}~
فاطر: ۲۵
۲۹~}~ الانعام: ۱۰۹
۳۰~}~ البقرہ: ۱۱۴
۳۱~}~
البقرہ: ۱۹۳
۳۲~}~ البقرہ : ۱۹۴
۳۳~}~ البقرہ : ۲۵۷
۳۴~}~
الکفرون: ۷
۳۵~}~ البقرہ : ۲۲۹
۳۶~}~ الفتح : ۲۴
۳۷~}~
البقرہ : ۱۵۶`۱۵۷
۳۸~}~
بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث وما ترکناہ صدقہ
۳۹~}~
بخاری کتاب الصلح باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان ابن فلان و فلان ابن فلان و ان لم ینسبہ الی قبیلتہ اونسبہ
۴۰~}~
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ ویوم حنین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
‏a.10.31a
انوار العلوم جلد ۱۰
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]pag [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۸ء برموقع جلسہ سالانہ(
میری غرض اس وقت یہاں آنے کی صرف یہ ہے کہ میں دعا کے ساتھ اس جلسہ کا افتتاح کروں- میں اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے آج اس موقع پر یہاں آنے کی توفیق دی ہے` ورنہ پرسوں شام تک میں امید نہیں کرتا تھا کہ آ کر جلسہ کا افتتاح کر سکوں گا-
اس وقت میں دوستوں کو صرف اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری دعائیں حقیقی دعائیں ہونی چاہئیں- جس طرح دنیا میں اور رسمیں ہیں جنہیں ادا کیا جاتا ہے` اسی طرح دعائیں بھی لوگ رسمی طور پر کرتے ہیں- جس طرح دنیا دار لوگ اپنے جلسوں کے افتتاح کے موقع پر بعض قومی رسوم ادا کرتے ہیں اسی طرح بعض مذہبی لوگ اپنے جلسوں کا افتتاح دعا کے ساتھ کرتے ہیں- مگر ان کی دعائیں ان کے ہونٹوں سے نیچے قلوب سے نہیں نکل رہی ہوتیں اور پھر ان کے ہاتھوں کے فاصلہ سے آگے پرواز نہیں کرتیں- ان کی دعائیں زبانوں سے نکل کر ہونٹوں تک آ کر رہ جاتی ہیں نہ ان کے دل سے نکلتی ہیں نہ خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلاتی ہیں- وہ ایک جسم ہوتی ہیں بلا روح کے یا ایک تلوار ہوتی ہیں جس کی دھار بالکل کند ہوتی ہے- بلکہ اگر میں قرآن کے الفاظ کی ترجمانی کروں تو میں کہوں گا کہ وہ ایسی تلوار ہوتی ہے جس کی دھار کند ہوتی ہے جو دشمن پر پڑتی ہے لیکن اس کی دوسری طرف بہت تیز ہوتی ہے- جو ایسی تلوار چلانے والے کو کاٹ دیتی ہے- کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے- فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون ۱~}~وہ دعا بجائے اس کے کہ کوئی مفید اثر پیدا کرے` اسی کو کاٹ دیتی ہے جو ایسی دعا کرتا ہے- کیونکہ وہ خداوند خدا زمینوآسمان کے خالق خدا سے ہنسی اور تمسخر ہوتا ہے-
پس اے میرے دوستو! بھائیو اور عزیزو! ہماری دعا ہمارے دلوں سے نکلے- خدا تعالیٰ پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے نکلے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو- ہمارے لئے بابرکت ہو اور ہماری کوششیں اور محنتیں ضائع نہ ہوں-
)الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء(
۱~}~ الماعون:۶`۷
‏a.10.31b
انوار العلوم جلد ۱۰
لایسمہ الا المطھرون کی تفسیر
لایمسہ الا المطھرون کی تفسیر

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
لایمسہ الالمطھرون کی تفسیر
)فرمودہ ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء بمقام مسجد احمدیہ لاہور(
میں نے ایک دفعہ ایک رئویا دیکھا تھا جسے کئی دفعہ سنا چکا ہوں- اس کے اندر اخلاقی اور روحانی سبق دیا گیا ہے- چونکہ اس موقع کے لحاظ سے بھی وہ اس قابل ہے کہ اس کے ذکر سے میں اس وقت تقریر شروع کروں اس لئے اس کا ذکر کرتا ہوں-
میں نے رئویا دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے- جو نہایت خوبصورت` نہایت حسین` نہایتپاکیزہ اور نہایت ذکی ہے- جس کے چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلتی اور جس کی آنکھوں سے ذہانت اور شرافت ٹپکتی ہے- آٹھ نو سال کی عمر ہے اور نہایت خوبصورت لباس پہنے ہوئے ہے- ایک سنگمرمر کا چبوترہ ہے جس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں- وہ بچہ دوسری یا تیسری سیڑھی پر کھڑا اوپر ہاتھ اٹھائے اور سر جھکائے دعا مانگ رہا ہے- تب میں نے دیکھا بادلوں میں سے ایک حسین عورت جس کے لباس کے رنگ غیر معمولی شوخی اور خوبصورتی رکھتے ہیں اور نہایت خوشنما رنگوں والے پر رکھتی ہے` نیچے اتری اور بچے پر جھک کر اسے پیار کرنے لگی- اس وقت مجھے بتایا گیا کہ بچہ حضرت مسیح ہے اور عورت حضرت مریم- تب میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہو گیا LOVECREATESLOVE محبت محبت پیدا کرتی ہے-
یہ ایک نہایت ہی زبردست صداقت ہے کہ محبت قلوب کے نہایت باریک خانوں میں داخل ہو جاتی ہے- آواز کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ خاموش چیز ہے` لیکن اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ واضح ہے- وہ شخص جس کی آنکھ محبت کے باریک اثرات دیکھنے کی قابلیت نہیں رکھتی` وہ تمام عالم میں سکون اور خاموشی دیکھ رہا ہوتا ہے- لیکن محبت کے جذبات اتنا عظیم الشان تلاطم اندر ہی اندر پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ کان جو محبت کے اثرات سننے سے نا آشنا اور وہ آنکھیں جو محبت کی حرکات دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں` وہ بھی حیران رہ جاتی ہیں-
میں نے اس کے اثرات کو دیکھا اور بار ہا دیکھا ہے- بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نہایت کمزوری اور نقاہت کی حالت میں دوستوں کی مجلس میں آیا اور اس خیال اور اس وثوق سے آیا کہ اس قلیل عرصہ میں کوئی موقع ایسا پیدا نہیں ہو سکتا کہ دوست مجھ سے باتیں سننے کی جو خواہش رکھتے ہیں` وہ پوری کی جا سکے- لیکن ایک مخفی ہاتھ نے اور اس مخفی ہاتھ نے جو گرے ہوئے کو اٹھاتا اور کمزور کو سہارا دیتا ہے` میری حالت میں تغیر پیدا کر دیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں تقریر کروں اور دوستوں کو روحانی اور جسمانی تربیت کے متعلق باتیں سنائوں-
اسی جلسہ سالانہ پر ایک صاحب نے جو یوں تو کئی سال سے ملتے ہیں مگر ابھی تک غیراحمدی ہیں مجھ سے سوال کیا کہ میں نے کئی بار دیکھا ہے آپ بیمار اور کمزور ہوتے ہیں مگر پھر لمبی لمبی تقریریں بھی کرتے ہیں- آپ کو کس قسم کی بیماری ہے جس کی آپ کوئی پرواہ نہیں کرتے اور اتنی مشقت برداشت کر لیتے ہیں- میں نے کہا مجھے بیماری تو اسی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی دوسرے لوگوں کو ہوتی ہے مگر موقع پر خدا تعالیٰ طبیعت میں ایسا تغیر پیدا کر دیتا ہے کہ میں تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور پھر وہ خیالات کے اظہار کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے-
میں آج بھی ارادہ تو نہ رکھتا تھا کہ یہاں کوئی تقریر کروں- چند ہی دن ہوئے کہ میں چارپائی سے اٹھا ہوں- ۶ دسمبر سے لے کر آج پانچ دن قبل تک میں صاحب فراش تھا- اسی وجہ سے لاہور تک موٹر میں آنے کی وجہ سے کمر میں درد ہو گیا ہے- آج کچھ حرارت بھی ہے` اس لئے میں امید نہ رکھتا تھا کہ کچھ بیان کر سکوں گا- مگر بعض دوستوں نے جب مجبور کیا کہ میں کرسی پر بیٹھوں اور یہ مجھے گراں گذرا کہ باقی دوست فرش پر بیٹھے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھوں- اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ تقریر کروں- اسی طرح سب دوست دیکھ بھی لیں گے اور باتیں بھی سن لیں گے- میں نے اس سال سالانہ جلسہ کے موقع پر قرآن کی طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ دلائی تھی- اس وقت بعض دوستوں نے کچھ سوالات کئے تھے اور رقعے لکھ کر دے تھے- چونکہ دوران تقریر میں جواب دیتا اصل تقریر سے دوسری طرف متوجہ ہو جانا ہوتا ہے اور یہ اصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے- ایک دفعہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کر رہے تھے کہ دوسرے شخص نے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا- آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی- اس سے اس نے سمجھا آپ ناراض ہیں- لیکن جب آپ نے کلام ختم کیا تو اسے بلایا اور فرمایا دوران کلام میں بات کرنا درست نہیں- اب میں نے وہ بات ختم کر لی ہے` تم جو بات کرنا چاہتے ہو کرو-
میرا اپنا طریق یہ ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی سوال موضوع تقریر سے گہرا تعلق رکھتا ہے تو میں اس کا جواب بیان کر دیتا ہوں- اور بعض اوقات جب سوال موضوع تقریر سے الگ ہوتا ہے` اسے چھوڑ دیتا ہوں- جلسہ کے موقع پر جب میں تقریر کر رہا تھا تو ایک سوال اگرچہ قرآن کے متعلق کیا گیا تھا مگر میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تھا- اس لئے میں نے چھوڑ دیا تھا- لیکن چونکہ ممکن ہے وہ سوال اور لوگوں کے دل میں بھی پیدا ہوتا ہو` اس لئے اب اس کے متعلق بیان کرتا ہوں-
سوال یہ تھا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- لا یمسہ الاالمطھرون ]71 [p۱~}~ کہ قرآن کو پاکیزہ اور مطہر لوگ ہی چھوئیں گے` دوسرے لوگ اس تک پہنچ نہیں سکیں گے- مگر ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میں گندے سے گندے لوگ قرآن کریم کو ہاتھ لگا لیتے ہیں- عیسائی` ہندو` آریہ حتی کہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے اور شرعی طہارت کا قطعی خیال نہ رکھنے والے بھی قرآن کریم کو چھوتے ہیں- عیسائیوں نے تو قرآن کریم چھپوائے بھی ہیں- پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو اور عیسائی قرآن کریم چھپواتے` اسے فروخت کرتے اور اس کی تفسیریں لکھتے ہیں-
بعض نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ کوئی ناپاک انسان قرآنکریم کو چھو نہیں سکتا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کوئی ناپاک انسان چھوئے نہیں- یعنی یہ حکم ہے اور اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ قرآن کریم کو باوضو ہاتھ لگایا جائے- اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہے- لیکن نہ تو اس آیت کا یہ مفہوم ہے اور نہ سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ مفہوم درست ہے- علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف ہے- حضرت علیؓ کہتے ہیں حائضہ عورت بھی قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے اور بہت سے ائمہ نے لکھا ہے حائضہ عورت پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھنا بھی مس ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ ذہن میں سے گذرتے ہیں-
بہرحال حائضہ کو کپڑے میں ہاتھ لپیٹ کر قرآن کریم کو چھونے یا بغیر کپڑے کے چھونے بلکہ پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے- پھر لا یمسہ الالمطھرون کا کیا مطلب ہوا- اس کے متعلق لوگوں کو بہت سی مشکلات پیش آئی ہیں- مگر خدا تعالیٰ نے مجھے اس کے نہایت لطیف معنی سمجھائے ہیں- میرے نزدیک اس کے دو معنی ہیں- ایک معنی تو یہ ہیں کہ سچا اور حقیقی مس یہ ہوا کرتا ہے کہ اس چیز سے تعلق ہو جائے- مثلاً محاورہ ہے فلاں کو تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- باوجود اس کے کہ ایک لڑکا مدرسہ میں جاتا ہے پورا وقت کلاس میں بیٹھتا ہے مگر استاد اس کے متعلق کہتا ہے اسے تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- کیا اس پر وہ طالب علم کہہ سکتا ہے کہ استاد کی یہ بات صحیح نہیں- کیونکہ میں روز مدرسہ جاتا ہوں` اس مضمون کی کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی ہے پھر کیونکر مجھے اس مضمون سے مس نہیں- بات یہ ہے` استاد کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اس مضمون سے حقیقی لگائو نہیں- ان نتائج کو ہو حاصل نہیں کر سکتا جو اس مضمون کے پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں- لا یمسہ الالمطھرون کے ایک معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم اپنے ساتھ فوائد لایا ہے- وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے ساتھ تعلق پیدا کرے گا` وہ قیامت کو ہی نجات پا سکے گا- اگر قرآن کا صرف یہی دعویٰ ہو تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے- مرنے کے بعد اگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے- قرآن کریم نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ کہتا ہے میں اپنے ماننے والوں اور سچا تعلق پیدا کرنے والوں کو اسی دنیا میں انعامات کا وارث بنا دیتا ہوں- یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ اگلے جہاں میں بھی قرآن کے ماننے والوں کو نجات حاصل ہو گی-
چنانچہ قرآن کریم اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے متعلق بتاتا ہے- اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ۲~}~ کہ ایسے لوگوں کو دو باتیں حاصل ہو جاتی ہیں - ایک یہ کہ ایسے لوگ ہدایت الٰہی پر سوار ہو جائیں گے- ہدایت پر سوار ہونے کا کیا مطلب ہے- یہ کہ جس طرح گھوڑا اپنے سوار کے ماتحت ہو جاتا ہے` جدھر سوار چاہے اسے پھیر لیتا ہے` اسی طرح ہدایت ایسے لوگوں کے تابع ہو جاتی ہے یعنی ایسے انسان کے ذریعہ ہدایت پھیلتی ہے- یہ قرآن کریم کی خاص خصوصیت ہے- دوسری مذہبی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ ان کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے- مگر قرآن یہ کہتا ہے- اس کی تعلیم پر چلنے والے کو یہ مقدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے- وہ جدھر رخ کرتا ہے` دنیا اس کے قدموں میں گرتی ہے-
دوسری بات قرآن پر عمل کرنے والوں کے متعلق یہ بیان کی کہ اولئک ھم المفلحون- جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوں گے` اسے ضرور پا لیں گے- مفلحون]ttex [tag کے یہ معنی نہیں کہ بڑے بن جائیں گے- اس کا مطلب یہ قرار دے کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں قرآن کو نہ ماننے والے دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں` آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں` عزت و شوکت رکھتے ہیں- ان کے مقابلہ میں قرآن کو ماننے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے` پھر مفلح کس طرح ہوئے-
مگر یاد رکھنا چاہے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ میرے ماننے والوں کو حکومت مل جائے گی` سلطنت حاصل ہو جائے گی- ایک وقت اور ایک زمانہ کے لئے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بھی ملے گی- لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ دنیا کی حکومت ہی قرآن کی تعلیم پر چلنے والوں کا مقصد ہے- بلکہ یہ کہا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں روحانیت قائم کریں- اگر اس میں کوئی کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا` چاہے دنیا میں سب سے غریب ہی ہو-
پس مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے- بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو` اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے- دیکھو حضرت امام حسینؓ مارے گئے اور بادشاہ نہ بن سکے- لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے` ہرگز نہیں- وہ کامیاب ہو گئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے` اس میں کامیاب ہو گئے- ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں` انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا- اس میں ان کو کامیابی حاصل ہو گئی- ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خلفاء راشدین نہیں کہا گیا- کیونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتا دیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے- یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آ جائے و ہ خلیفہ بن جائے- اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچا لیا- اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کر کے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں- اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی-
پس اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والا مفلح ہوتا ہے` خواہ ایک شہادت چھوڑ سوشہادتیں اسے حاصل ہوں- تو فرمایا اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ایسے انسان کو فلاح نصیب ہو جاتی ہے اور ہدایت اس کے ماتحت آ جاتی ہے- اس کے کلام میں تاثیر` برکت اور نور ہوتا ہے-
یہ قرآن کا دعویٰ ہے- اب سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے` ہدایت اس کے تابع ہو جاتی ہے اور وہ مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے- مگر ہم تو بہتیرے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں مگر ان کے متعلق یہ نتیجہ نہیں نکلتا- اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ لا یمسہ الالمطھرون- مطہر لوگ ہی اس کے برکات اور فیوض سے حصہ پاتے ہیں- یہ نہیں کہ جو مونہہ سے قرآن کے الفاظ نکالے` وہ فائدہ اٹھا لے- یہ مس مطہر لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے-
پس یہاں مس سے مراد ظاہری طور پر چھونا نہیں` ایک نجاست سے بھرا ہوا انسان بھی قرآن کو چھو لیتا ہے- اگر وہ مسلمان ہو گا تو گناہ گار ہو گا اور اگر کافر ہے تو وہ تو قرآن کو مانتا ہی نہیں- پس لا یمسہ الالمطھرون کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی برکات` اس کے فضائل اور اس کی رحمتوں سے حصہ نہیں پاتے مگر مطہر لوگ - جو لوگ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں وہی اس کی برکات اور رحمتوں سے حصہ پاتے ہیں- ایک معنی تو اس کے یہ ہیں- ایک اور معنی ہیں جو علمی طور پر نہایت عظیم الشان ہیں- اور وہ یہ ہیں دنیا میں کئی ایک کتابیں پائی جاتی ہیں- جو اس بات کی مدعی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- ایسی کتابیں ہندوئوں` عیسائیوں` زرتشتیوں وغیرہ کی ہیں- اسی طرح قرآن بھی مدعی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے- اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن کو ان کتابوں پر کیا فضیلت ہے کہ ان کو چھوڑ کر اسے مانا جائے- وہ بھی اس بات کی دعویدار ہیں کہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- اور قرآن کا بھی یہی دعویٰ ہے- اور ہمارے لئے تو اس لحاظ سے بھی مشکل ہے کہ قرآن نے تسلیم کیا ہے کہ خدا کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے کتابیں آتی رہی ہیں- اس طرح ان کتابوں کا پلہ بھاری ہو گیا کہ قرآن نے بھی ان کے آنے کی تصدیق کر دی- مگر ان کتابوں کے ماننے والے قرآن کو نہیں مانتے- اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کونسی کتاب ماننی چاہئے جبکہ بظاہر قرآن کی اپنی تصدیق سے ان کتابوں کا درجہ بڑھ جاتا ہے-
قرآن نے اس بات کے لئے کہ یہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جسے ماننا چاہئے جو دلائل دیئے ہیں` ان میں سے ایک یہ ہے جو اس آیت میں بیان ہے-
یہ سیدھی بات ہے کہ ہر انسان اپنا خزانہ اور اپنی قیمتی چیزیں اپنے پیاروں کے لئے محفوظ رکھتا ہے- مثلاً انسان اپنی جائداد اپنے وارثوں کے لئے قرار دیتا ہے- کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی جائداد پر قابض ہو جائیں اور اس کے وارث محروم رہ جائیں- اسی طرح سلطنتیں چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اموال ان کے ملک میں ہوں` اسی بات کے لئے لڑتی ہیں- ہندوستان میں اسی لئے شورش پیدا ہوتی رہتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں دوسرے ملک کے لوگ ہمارے ملک سے اموال لے جا رہے ہیں- ان اموال سے ہمارے ملک کے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے- ورنہ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر لنکا شائر بند ہو جائے تو کپڑے کے کارخانے ہندوستان کے زمیندار نہیں چلا لیں گے` بڑے بڑے سیٹھ ساہوکار ہی ایسے کارخانوں کے مالک ہوں گے اور ممکن ہے اب جو کپڑا سستا ہے` اس وقت لوگوں کو مہنگا ملے مگر شور مچانے کے لئے وہ بھی تیار ہیں اور کہتے ہیں ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہو- اگر اہل ہند کو حکومت مل جائے تو زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار لوگ پارلیمنٹ کے ممبر بن جائیں گے اور باقی سارے لوگ ان کے جوئے کے نیچے ہوں گے- مگر وہ بھی حکومت کے ایسے ہی شائق ہیں جیسے وہ لوگ جو اس بات کے امیدوار ہیں کہ وہ پریذیڈنٹ بن جائیں گے یا کوئی اور بڑا عہدہ حاصل کر لیں گے- اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ اپنے ملک کا خزانہ اپنے لوگوں کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں- مذہبی کتب بھی بطور خزانہ ہوتی ہیں- جس طرح جسمانی خزانے ہوتے ہیں` اسی طرح روحانی خزانے بھی ہوتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم کو کہیں شفاء قرار دیا گیا ہے` کہیں پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے جس سے کھیتیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں- ادھر ہم دیکھتے ہیں یہ قانونقدرت بلکہ قانون فطرت ہے کہ اپنا خزانہ اپنوں کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے- اب اگر قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ روحانی خزانہ ہے تو ضرور ہے کہ یہ خزانہ انہیں کو ملے جو اس سے حقیقی تعلق رکھنے والے ہوں اور یہ انہیں کے لئے کھلے جن کو اس کے کھولنے کی جستجو اور شوق ہو- اگر اس کے خلاف ہو اور یہ خزانہ اس کے مخالفوں پر کھلے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں ہو سکتی- انسانی کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے`گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے مگر اس قانون کو گورنمنٹ کی نسبت دوسرے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں-کئی بار >پائونیر< اور >سول< نے لکھا ہے- مسٹر جناح قوانیں سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے` اس لئے گورنمنٹ کے وزراء کو دبا لیتا ہے- چونکہ گورنمنٹ کا قانون انسانی کلام ہوتا ہے اس لئے اس کا مخالف موافقین کی نسبت اس کی زیادہ باریکیاں سمجھ سکتا ہے- اگر خدا تعالیٰ کا کلام جو برکت اور انعام کے طور پر نازل ہوتا ہے` اسے خدا تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے زیادہ عمدگی سے سمجھ سکیں تو وہ برکت کہاں رہے گی-
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آسمانی کتاب کے پرکھنے کا گر بتایا ہے- آسمانی کتاب بطور رحمت` برکت اور نعمت کے نازل ہوتی ہے- اگر غیر لوگ جنہوں نے اس کے احکام کا جوا اپنی گردنوں پر نہیں رکھا` اس کے ماننے والوں سے زیادہ اس کی باریکیاں سمجھ لیں تو معلوم ہوا اس خزانے کو دوسرے لے گئے- اس لئے فرمایا اس خزانہ پر ایسے محافظ ہیں کہ یہ ماننے والوں کے لئے ہی کھلتا ہے` دوسروں کے لئے نہیں- مگر انجیل کو دیکھ لو اس کے مفسر وہی لوگ ہیں جنہیں انجیل کے مطابق روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل نہیں ہیں` یہی حال ویدوں کا ہے- مگر قرآن کریم کے علوم میں وہی لوگ آگے بڑھے جو تقویٰ اور طہارت میں بھی اعلیٰ تھے- علماء نے قرآن کریم کی جو تفسیریں لکھی ہیں` آج مسلمان انہیں چھپائے پھرتے ہیں تاکہ غیر مذاہب کے لوگ ان کی بناء پر اعتراض نہ کریں- لیکن صوفیاء نے وہ وہ باتیں لکھی ہیں جو اس وقت دنیا کو معلوم نہ تھیں اور اب معلوم ہو رہی ہیں- پہلے کہا جاتا تھا کہ موجودہ دنیا کی عمر پانچ چھ ہزار سال ہے- مگر ابن عربی نے کہا مجھے کشف میں بتایا گیا ہے کہ کئی لاکھ سال سے یہ دنیا ہے اور کئی لاکھ سال سے یہ بنتی چلی آ رہی ہے- اب یورپین لوگ ایولیوشن (EVOLUTION) تھیوری کے ماتحت یہی مان رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تھیوری ایجاد کی حالانکہ اس کے اصل موجد ابن عربی ہیں-
اسی طرح ظاہری علماء یہ کہتے رہے کہ غیر تو غیر جو مسلمان بھی دوزخ میں جائے گا` وہ پھر نہیں نکلے گا مگر ابن عربی کہتے ہیں-
خدا کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ شیطان بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں نہیں رہے گا اور قرآن کریم بھی یہی کہتا ہے- پھر عام مفسر تو کہتے رہے کہ سورۃ نجم کی آیات میں شیطان نے یہ فقرات داخل کر دئے تھے- تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی-۳~}~ کہ کچھ دیویاں ایسی ہیں جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے- یہ شرک کا کلام شیطان نے )نعوذ باللہ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر قرآن کریم پڑھتے ہوئے جاری کر دیا-
پھر کہتے ہیں- سورۃ حج کی ایک آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسے رد کر دیا گیا ہے- لیکن ان کے مقابلہ میں ابن عربی نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ شیطان انبیاء کے رستہ میں روڑیاٹکاتا ہے اور خدا تعالیٰ ان کو دور کر دیتا اور نبی کو کامیاب کر دیتا ہے- غرض ایک ایک بات صوفیا کی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے بالکل صحیح اور درست کہی-
اسی سلسلہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج جو ترقیاں فلسفہ` اخلاق` تاریخ وغیرہ کی بیان کی جاتی ہیں` یہ سب کچھ پہلے قرآن کریم میں بیان ہو چکی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلسفہ اخلاق کی ایسی تھیوریاں بیان کی ہیں کہ پہلے لوگ ان کے خلاف تھے- لیکن اب امریکہ والوں نے وہ باتیں لکھی ہیں تو ان کی بڑی تعریف کی جا رہی ہے` حالانکہ ان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ باتیں نہایت وضاحت سے لکھ دی ہیں-
بادلوں کے متعلق پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ سمندر سے پانی پی کر آتے اور برستے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے پانی سے بخارات ہوائیں اٹھاتی اور پھر بادل بوجھل ہوتے اور برستے ہیں- بدی اور نیکی کی صحیح تشریح سے پہلے لوگ واقف نہ تھے- اب قرآنکریم سے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے مگر یہ باتیں کسی ایسے انسان نے بیان نہیں کیں جو دنیاویعلوم کے لحاظ سے بڑا عالم ہو- بلکہ اس شخص نے بیان کی ہیں جس نے کسی مدرسے میں تعلیم نہیں پائی اور جس کے متعلق مخالف یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ وہ صحیح اردو بھی نہیں لکھ سکتا- بات یہ ہے قرآن کریم کے علوم ظاہری علم سے وابستہ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ سے وابستہ ہیں- آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے انہیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھ کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں- بعض لوگ کہتے ہیں مولوی نورالدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں- خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے- آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا- کئی دفعہ پینک ۴~}~ میں اس کے حقے کی چلم ٹوٹ جاتی- ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا- غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے- کئی لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ آپ کو کئی سال پڑھانے کی قابلیت رکھتے ہیں- اب اس سوال کو جانے دو کہ آپ نے دنیا میں کیا تغیر پیدا کیا- مگر اس میں شبہ نہیں کہ سارا اسلامی عالم اس بات کو تسلیم کرتا ہے- سوائے ان لوگوں کے جو بلاء تعصب میں حد سے زیادہ مبتلا ہو چکے ہیں کہ اسلام کے دشمنوں کو شکست دینے والے یہی لوگ ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں-
میرے ایک سسرال سے غیر احمدی رشتہ دار ہیں- جو معزز عہدیدار ہیں- انہوں نے مجھے خط لکھا کہ قرآن کریم کے مطالب کو بگاڑنے والا تم سے بڑھ کر کوئی نہیں مگر میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں ر ہ سکتا کہ اسلام کے دشمنوں کا سر کچلنے کے لئے آپ کی باتیں بہت کارگر ہیں- میں نے کہا عجیب بات ہے- قرآن بگڑ کر دشمنان اسلام کا سر کچلتا ہے` یوں نہیں کچل سکتا- انہوں نے یہ بھی لکھا مجھے آپ اس خط کا جواب نہ لکھیں- شائد انہوں نے یہ اس لئے لکھا کہ انہوں نے سخت الفاظ استعمال کئے تھے- انہوں نے سمجھا ہو گا میں بھی انہیں سخت جواب دوں گا` حالانکہ میں ایسا نہ کرتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے جو علوم ظاہر کئے ہیں` وہ سمندر ہیں اور دشمن بھی انہیں تسلیم کرتے ہیں- جب ترجمہ القرآن کا پہلا پارہ انگریزی میں قادیان سے شائع ہوا تو فورمین کرسچین کالج لاہور کے پرنسپل اور وائی-ایم-سی اے کے سیکرٹری مجھ سے ملنے کے لئے قادیان آئے` انہوں نے مختلف امور کے متعلق گفتگو کی- انہیں وہ پارہ دیا گیا- اس وقت تو انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا لیکن بعد میں سیلون میں تقریر کی جس میں بیان کیا-
>اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ازہر وغیرہ میں نہیں ہو گا جن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں- بلکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ہو گا جہاں سے میں ابھی ہو کر آیا ہوں اور جہاں سے قرآن کا ترجمہ شائع ہونا شروع ہوا اور وہ قادیان ہے- اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حالت ہے-<
>اسی طرح امریکہ کا ایک رسالہ ہے جس نے لکھا جب یہ ترجمہ مکمل ہو گیا جو قادیان سے شائع ہونا شروع ہوا ہے تو اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہو گا یا عیسائیت<-
یہ تو مخالفین اسلام کی آراء ہیں- ادھر مسلمان بھی جو آپ کو جاہل اور بے علم کہتے تھے` ان میں سے اکثر یا تو یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ قرآن کریم کی وہ خدمت آپ نے کی ہے جو اور کسی نے اس زمانہ میں نہیں کی- یا یہ کہ قرآن کو تو بگاڑ کرپیش کرتے ہیں مگر غیر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی فتح انہی کے ذریعہ ہوتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے لایمسہ الاالمطھرون خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھ جائے جب تک تقویٰ و طہارت حاصل نہ کرے گا علوم قرآنیہ میں بچہ ہی ہو گا- وہی ان علوم کا ماہر ہو گا خواہ وہ دینوی علوم نہ رکھتا ہو جو روحانی پاکیزگی رکھتا ہو گا- اس پر ایسے علوم کھولے جائیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی-
پس قرآن کریم سچائی کا یہ معیار بتایا ہے کہ جو خدائی کتاب ہو` اس کے علوم روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں- ہم اس صداقت کو آج بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں- میں ہی ہوں میں نے ہائی سکول میں پڑھا مگر کسی جماعت میں پاس نہ ہوا- حساب سے مجھے مس ہی نہ تھا- عربی میں قرآن کریم کا خالی ترجمہ حضرت خلیفہ اول نے پڑھایا اور باوجود اس کے کہ مجھے بہت کم عربی آتی تھی` آدھا پونا پارہ روزانہ پڑھا دیتے اور فرماتے ایک دفعہ قرآن میں سے گذر جائو- اسی طرح بخاری میں سے انہوں نے گذار دیا- اگر میں کوئی سوال کرتا تو فرماتے میاں یہ باتیں خود خدا سکھائے گا- اسی طرح میرے سوال کو ٹال دیتے- کبھی خود کچھ بتانا چاہتے تو بتا دیتے` میرے سوال پر کچھ نہ بتاتے- اس طرح پڑھا کر فرمانے لگے مجھے جو کچھ آتا تھا` میں نے تمہیں سکھا دیا ہے اس وقت تو میں نہ سمجھ سکا کہ کس طرح وہ سب کچھ سکھا دیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس فقرہ میں انہوں نے سب کچھ سکھایا کہ خدا خود سکھاتا ہے-
اگر دل پاکیزہ ہو` خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو خدا تعالیٰ قرآن کریم کے علوم خود سکھاتا ہے- چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ جب حج کے لئے جانے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میں نے کبھی پہلے یہ بات ظاہر نہ کی تھی تاکہ تمہاری ترقی میں روک نہ ہو- اب ظاہر کرتا ہوں کہ یوں تو میں نے تمہیں قرآن پڑھایا لیکن کئی معارف قرآنیہ تم سے سنے اور یا رکھے- اور اس طرح تم سے قرآن پڑھا- اب چونکہ تم جار ہے ہو- اس لئے سنا دیا ہے کہ شاید پھر ملاقات ہو یا نہ ہو- تو میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اٹھے جو یہ کہے کہ میں قرآن کے معارف اور حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں اس سے مقابلہ کے لئے تیار ہوں- وہ خود تسلیم کرے یا نہ کرے` دنیا اور حقائق پسند دنیا تسلیم کرے گی کہ جو حقائق اور معارف میں نے بیان کئے ہوں گے` وہ بہت بڑھ کر ہوں گے-
تو قرآن کا علم محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے- اور یہ قرآن کریم کی بہت بڑی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ جس کتاب کا علم خدا کے فضل سے حاصل ہو` وہی خدا کی کتاب ہو سکتی ہے- جسے خدا تعالیٰ اپنے کلام کے حقائق سے واقف ہونے کا مستحق سمجھتا ہے` اس پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے- لیکن جو خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے` اسے یہ کتاب ایسی ہی بدنما لگتی ہے جیسی پنڈت دیانند صاحب کو لگی کہ انہیں اس میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آئی-
وہ لوگ جو ظاہری علوم کے بڑے بڑے دعوے رکھتے تھے` حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابلہ میں قرآن کریم کے نکات بیان کرنے میں ایسے ہی ہیچ تھے جیسے کمزور دماغ کا انسان ایک اعلیٰ دماغ کے انسان کے مقابلہ میں ہوتا ہے- وہ سوائے اس کے یہ کہتے رہے غلط تاویلیں کرتے ہو` قرآن کو بگاڑتے ہو اور کچھ نہ کر سکے- آج انہی کی زریتیں اور ان کے ساتھی تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے جو حقائق بیان کئے وہ کسی نے بیان نہیں کئے-
عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل سر سید نے قرآن کریم کی تفسیر لکھنی شروع کی- اور قرآنی مطالب کو اس طرح پیش کیا کہ وہ نئی تعلیم کے مطابق معلوم ہوں- اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود نے کئی آیات کی ایسی تشریح بیان کی کہ اس وقت یورپ کی تحقیقات اس کے خلاف تھی- مگر اب حضرت مسیح موعود کی بیان کردہ کئی باتوں کی تصدیق اہل یورپ بھی کرنے لگے ہیں اور کئی ابھی باقی ہیں- کیا عجیب بات نہیں کہ ان کی باتیں تو مٹی جا رہی ہیں جنہوں نے زمانہ کے حالات کے مطابق کہی تھیں مگر حضرت مسیح موعود کی فرمودہ باتیں اب مخالف بھی مانتے جا رہے ہیں-
غرض لایمسہ الاالمطھرون سچے کلام الٰہی کے پرکھنے کا معیار ہے کہ جتنا کوئی باطنی علوم میں ترقی کرے گا` اتنا ہی زیادہ اس کلام کے سمجھنے میں ترقی کرے گا- جس کتاب کے متعلق یہ بات پائی جائے گی وہی خدا کی طرف سے ہو گی-
یہ دوسرے معنی ہیں اس آیت کے- یہ معنی نہیں کہ کوئی ناپاک ہاتھ قرآن کو نہیں لگا سکتا- یہ مس تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوا- حضرت عمر ؓ کے متعلق آتا ہے- مسلمان ہونے سے قبل انہوں نے بہن سے قرآن مانگا` انہوں نے باوجود ان کے مشرک ہونے کے ان کے ہاتھ میں دے دیا-
بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت پر واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرے اور تقویٰ و طہارت اختیار کرے- آگے اس کے کئی مدارج ہیں- کئی لوگ ہوتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کو سامنے رکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں ہم اس درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے- جیسے تندرستی اور صحت کے مدارج ہوتے ہیں` اسی طرح روحانیت کے بھی مدارج ہوتے ہیں- اور ہر درجہ کے ساتھ معارف تعلق رکھتے ہیں- جتنا جتنا کوئی درجہ پاتا جاتا ہے` اتنے ہی زیادہ اعلیٰ معارف سمجھنے کی اس میں قابلیت پیدا ہوتی جاتی ہے- اگر باوجود کسی کی کوشش اور سعی کے اس میں کمزوری رہ جائے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک سپاہی اپنی طرف سے پوری ہمت اور بہادری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے- اگر وہ جرنیل کی طرح کام نہیں کر سکتا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے ملک کی خدمت نہیں کی- اس نے ضرور کی ہے مگر اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق- پس اگر کسی میں تقویٰوطہارت حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ رکھنے کے اور کوشش کرنے کے باوجود کوئی کمزوری رہ جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اس کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اسے بھی اس کا بدلہ دیتا ہے تاکہ اس کا حوصلہ بڑھے اور وہ اور زیادہ کوشش کرے-
پس کسی کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے` کوشش کرنی چاہئے کہ طہارت اور کوشش کرے- خدا تعالیٰ نے اولئک علی ھدی من ربھم میں یہی بتایا ہے- کہ جب انسان میں اخلاص پیدا ہوتا ہے تو اسے سواری ملتی ہے جو اسے آگے لے جاتی ہے- اسی طرح اسے اور ترقی ملتی ہے- پھر وہ سواری اور آگے لے جاتی ہے-
)الفضل ۵ فروری ۱۹۲۹ء(
۱~}~ الواقعہ:۸۰ ۲~}~البقرہ:۶
‏]17 [p۳~}~ تفسیر روح المعانی جلد۹ صفحہ۲۰۹ مطبوعہ استنبول ۱۹۲۶ء
۴~}~ پینک: افیون یا پوست کے نشہ کی اونگھ
‏a.10.31
انوار العلوم جلد ۱۰
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ -ھوالناصر
پنجاب سائمن کمیٹی کی رپورٹ پر تبصرہ
پنجاب کے تمام مسلم اخبارات میں اس وقت شور پڑ رہا ہے کہ پنجاب سائمن کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے جس رپورٹ پر اپنے دستخط ثبت کئے ہیں` وہ مسلمانوں کے منافع کے خلاف ہے- چونکہ سائمن کمیشن کی آمد پر ہماری جماعت کی طرف سے بھی ایک میموریل پیش ہوا تھا- اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس رپورٹ کے اس حصہ کے متعلق جو اس وقت زیر بحث ہے` اپنے خیالات ظاہر کروں-
پچپن کی بجائے اکاون فیصدی
بیان کیا جاتا ہے کہ اس کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے اس تجویز پر دستخط کئے ہیں کہ پنجاب کونسل میں کل ایک سوپینسٹھ ممبر ہوں جن میں سے ۸۳ ممبر مسلمان ہوں اور باقی ہندو` سکھ` مسیحی وغیرہ- اگر اس تجویز پر عمل کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو بجائے پچپن فی صدی کے اکاونفیصدی سے بھی کم ممبریاں ملتی ہیں-
مسلمان ممبروں کی غلطی
مجھے پہلے سے یہ معلوم تھا کہ بعض لوگ مسلمانوں میں یہ تحریک کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے مطالبہ کو کم کر کے مذکورہ بالا حد تک لے آئیں تو گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ کارکن ان کے مطالبات کی تائید کرنے کے لئے تیار ہوں گے- میں نے جس وقت یہ بات سنی` اس وقت بھی اس کی مخالفت کی اور اب بھی اس کا سخت مخالف ہوں- اور میرے نزدیک پنجاب سائمن کمیٹی کے مسلمان ممبروں نے اس بات کو تسلیم کر کے سخت غلطی کی ہے` حقیقی بھی اور سیاسی بھی- اللہ تعالیٰ اس کے بد نتائج سے مسلمانوں کو بچائے-
اظہار رائے میں تاخیر کی وجہ
افسوس ہے کہ بوجہ سفر پر ہونے کے اردو اخبارات جو قادیان کے پتہ پر جاتے رہے تھے` مجھے دیر سے ملے اور سفر کی وجہ سے میں اس امر کے متعلق اس سے پہلے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکا- مگر میں سمجھتا ہوں موجودہ حالات میں میرا خاموش رہنا قومی مفاد کے مخالف ہوگا اس وجہ سے باوجود دیر ہونے کے میں اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں رک سکتا-
مسلمان ممبروں سے تعلقات 0] ftr[
اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں مسلمان ممبران جو اس کمیٹی کے ممبر تھے` مجھے عزیز ہیں- ایک تو خود اس جماعت کے فرد ہیں جس کی خدمت اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد فرمائی ہے اور میں ان کی بے نفسی اور دیانت پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں کہ جیسا اپنے نفس پر اور دوسرے صاحب یعنی سردارسکندرحیات خان صاحب چند ایک دفعہ کی ملاقات میں اپنی سعادت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا نقش میرے دل پر جما چکے ہیں- اور مجھے ان سے محبت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ جذبہ یک طرفہ نہیں- لیکن باوجود اس کے جو کچھ خدا تعالٰی نے موجودہ صورت کے متعلق مجھے سمجھایا ہے اس کی بناء پر میں ان عزیزوں کی رائے کی علی الاعلان تغلیط سے باز نہیں رہ سکتا اور مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر یہ دونوں عزیز اپنی غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے- گو مجھے شک ہے کہ ان کا ایسا اعتراف ہمیں کوئی فائدہ بھی دے سکے گا یا نہیں-
اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا اصل
آج سے آٹھ سال پہلے میں نے یہ اصل مختلف سیاسی لیڈروں کے سامنے پیش کیا کہ ممبریوں کی تقسیم کے متعلق یہ قاعدہ ہونا چاہئے کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ان کے حق سے زائد انہیں دیا جائے- بشرطیکہ کسی صوبہ کی اکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے- اس اصل کو اب عام طور پر مسلمان تسلیم کر چکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ غیر اقوام کے غیر متعصب اصحاب بھی اس کی معقولیت سے انکار نہیں کر سکتے-
مسلمان ممبروں کی تسلیم کردہ تجویز
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ممبروں کی تسلیم کردہ تجویز اس اصل کے بالکل مخالف ہے- کیونکہ گو انہوں نے ظاہر میں مسلمانوں کے لئے اکثریت کی تجویز کی ہے لیکن حقیقت میں وہ برابری ہے بلکہ ہندئووں کی دولت اور ان کے اثر کو دیکھتے ہوئے برابری سے بھی کم ہے- ایک سو پینسٹھ )۱۶۵( ممبروں میں سے تراسی )۸۳( کے معنے یہ ہیں کہ ایک فی صدی کی زیادتی بھی مسلمانوں کو نہیں دی گئی- حالانکہ انہیں تعداد کے لحاظ سے دس فی صدی زیادتی حاصل تھی- ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایک سو پینسٹھ میں سے ایک کی زیادتی زیادتی نہیں ہے- کیونکہ کوئی نظام ایسا مضبوط نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک آدمی کو بھی باہر نہ جانے دے اور اس تعداد کا تسلیم کر لینا کہ جس کی وجہ سے صرف ایک آدمی کے پھر جانے سے اکثریت اقلیت بن جائے` نہایت ہی خطرناک ہے- اس میں اخلاقاً بھی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچے گا` کیونکہ دنیا کی نظر میں وہ اکثریت کے حقوق حاصل کر چکے ہوں گے اور اگر جیسا کہ ان حالات میں امید ہے انہیں نقصان پہنچا تو دنیا یہی کہے گی کہ جو باوجود اکثریت کے اپنے جائز حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ خود ہی نالائق ہیں پارلیمنٹ کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ چار پانچ فیصدی کی اکثریت بھی اکثریت نہیں سمجھی جایا کرتی اور ان حالات میں اکثر حکومتیں مستعفی ہو جایا کرتی ہیں- پس ایک فیصدی اکثریت ہر گز اکثریت نہیں ہے اور مسلمانوں کے تسلیم شدہ اور عقلاً ناقابل تردید اصل کو مسلم ممبران نے اپنی پیش کردہ تجویز سے بالکل رد کر دیا ہے-
لفظی کثرت ہرگز ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی- کثرت وہ کہلا سکتی ہے جو معقول حد تک موثر ہو ورنہ لفظ کثرت اپنے اندر ہرگز کوئی ایسا جذب نہیں رکھتا کہ ہم محض اس کی خاطر ملک میں اختلاف پیدا کر لیں-
جہاں تک میں سمجھتا ہوں مسلمان ممبران کمیٹی کو بعض اصولی غلط فہمیاں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے ایسی سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے-
پہلی غلطی
اول ان کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ گورنمنٹ موجودہ صورت میں ان کی تائید کرے گی- پس اس خیال سے کہ ان کے مطالبات ضرور منظور ہو جائیں اور کم سے کم وہ اکثریت جو اب غیر مسلموں کو حاصل ہے دور ہو جائے` انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس وقت یہ سوال نہ تھا کہ کیا منظور ہو گا یا نہ ہو گا` بلکہ قومی مطالبات کو پیش کرنا مطلوب تھا- پس خواہ گورنمنٹ ان کے مطالبات کی کسی قدر بھی مخالفت کرتی` انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے مطالبات سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہ ہوتے تا کہ ایک دفعہ مسلمانوں کے مطالبات ان کے نمائندوں کے ذریعہ سے ریکارڈ میں آ جاتے- اگر گورنمنٹ انہیں تسلیم نہ کرتی تو اس کی مرضی تھی- ہمارے مطالبات پھر بھی موجود رہتے اور ہم ہر وقت ان پر زور دے سکتے تھے-
دوسری غلطی
دوسری غلطی انہیں یہ لگی ہے کہ انہوں نے اپنے متعلق یہ خیال کر لیا کہ وہ بطور جج کے اس کمیٹی کے ممبر بنے تھے اور اس وجہ سے جس طریق کے متعلق انہوں نے خیال کیا کہ اس سے سمجھوتے کی صورت نکل آئے گی اسے پیش کر دیا- حالانکہ وہ جج نہ تھے بلکہ وکیل تھے- اور ایک وکیل کی حیثیت میں ان کا فرض تھا کہ وہ ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے جن کے وہ وکیل تھے- دیانت اور ا مانت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وکیل اپنے موکل کی ترجمانی کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اپنے عہدہ سے استعفاء دیدے-
مسلمان ممبران ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں کے لئے درواز ہ کھلا ہے کہ وہ ان کے خیالات کر تردید کریں- اور یہ ظاہر کریں کہ انہوں نے مسلمانوں کے خیالات کر ترجمانی نہیں کی- بے شک مسلمانوں کے لئے یہ درواز ہ کھلا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آئینی طرز حکومت میں عوام کی رائے کون سی سمجھی جایا کرتی ہے- آیا وہ رائے جو اس کے آئینی نمائندے ظاہر کرتے ہیں یا وہ رائے جو پبلک جماعتیں ظاہر کیا کرتی ہیں کونسلوں کے ممبر ہرگز اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ آئینی حکومت کے قیام کے بعد پبلک مجالس کی رائے کونسلوں کے نمائندوں سے بہت کم وزن دار خیال کی جاتی ہے- چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا متواتر اس امر کا اظہار کر چکی ہے کہ اسمبلی کے نمائندوں کی رائے کو ہم ملک کی رائے سمجھیں گے کیونکہ وہ منتخب شدہ نمائندے ہیں- پس ان حالات میں مسلمان نمائندے ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی رائے کو ذاتی رائے سمجھ لیا جائے- جن لوگوں کے پاس ان کی رائے جائے گی` وہ ہرگز اسے ذاتی رائے قرار نہیں دیں گے بلکہ ملکی مجالس کی رائے پر ان کی رائے کو ترجیح دیں گے اور اسے پبلک کی حقیقی آواز قرار دیں گے- لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ پبلک کی حقیقی آواز نہیں ہے- بلکہ جس حد تک بھی ہمارے ملک کے حالات کے مطابق پبلک کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے` پبلک کی رائے ان کے خلاف ہے حتی کہ اکثر ممبران کونسل کی رائے بھی ان کے خلاف ہے- پس جبکہ گورنمنٹ برطانیہ نے آئینی دستور کے مطابق ان کی رائے ہی کو پبلک کی رائے قرار دینا تھا تو ان کا دیانتدارانہ فرض تھا کہ اگر پبلک کی رائے کے مطابق جو ان سے پوشیدہ نہ تھی` وہ رائے نہیں دے سکتے تھے تو ممبری سے استعفاء دے دیتے- اور اگر وہ پبلک کی رائے کے ساتھ اختلاف نہیں رکھتے تھے یا شدید اختلاف نہیں رکھتے تھے تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ پورے زور سے مسلمانوں کے مطالبہ کو پیش کرتے اور کسی دوسرے شخص کی بات کو قبول نہ کرتے- مگر افسوس کہ انہوں نے دونوں باتوں میں سے ایک کو بھی قبول نہ کیا-
تیسری غلطی
تیسری غلطی جو ان صاحبوں کو معلوم ہوتا ہے یہ لگی کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ جس قدر مطالبات کو کم کیا جائے` اسی قدر وہ معقول معلوم ہوں گے اور ان کے منظور ہونے کا زیادہ احتمال ہو گا- حالانکہ یہ اصل بالکل غلط ہے- یہ اصل صرف دیندار` خدا ترس لوگوں کے سامنے چلتا ہے- جو لوگ موجودہ سیاسیات کی دلدل میں پھنس رہے ہیں` وہ اس اصل کو نہیں جانتے- ان کے پیش نظر تو صرف یہ بات ہوتی ہے کہ جو مطالبہ بھی پیش کیا جائے` اس کے متعلق سودا کیا جائے- آپ اگر اپنے حق سے پچاس فیصدی بھی کم کر کے پیش کر دیں گے تو فیصلہ کرنے والا امن کو قائم رکھنے اور دونوں فریق کے خیالات سمونے کے نام سے انہیں اور کم کر دے گا- سکھوں پر لوگ ہنستے ہیں- لیکن انہوں نے نہایت عقلمندی سے کام کیا کہ تیس فیصدی کا مطالبہ کیا- وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کا پروپیگنڈہ کامیاب ہوا تو وہ اس مطالبہ کی وجہ سے بیس فیصدی تو لے ہی لیں گے- اصل میں تو مسلمانوں کو پنجاب میں ساٹھ فیصدی کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا اور پورے زور سے اس پر قائم رہنا تھا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کو ان کے حق کے قریب قریب مل جاتا- مگر اپنے حق سے تو ذرہ بھر بھی کم کا مطالبہ ان کے لئے زہر ہے- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اس زہر کا ازالہ نہ ہوا تو جو انہوں نے مانگا ہے` وہ بھی ان کو نہ ملے گا-
چوتھی غلطی
چوتھی غلطی مسلم ممبران کو یہ لگی ہے کہ انہوں نے پنجاب کے حالات کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب وہ علیحدہ نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انصاف چاہتا ہے کہ پھر وہ پورے حق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ انصاف کے خلاف ہے کہ وہ قانون کے زور سے ایک زبردست اکثریت حاصل کر لیں- حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اگر حالات علیحدہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کرتے تو خواہ مسلمان اس ذریعہ سے اقلیت کا ہی مطالبہ کرتے` یہ ناجائر ہوتا- لیکن اگر زبردست اقلیت کے اپنے پیدا کردہ حالات سے مجبور ہو کر تعداد کے لحاظ سے زیادہ` لیکن سیاستاً کمزور اکثریت علیحدہ انتخاب کا صرف تھوڑے سے عرصہ کے لئے مطالبہ کرتی ہے تو یہ انصاف کے مخالف نہیں- بلکہ بالکل مطابق ہے کہ وہ اپنی تعداد کے برابر نمائندگی کا مطالبہ کریں-
پھر ایک اور بھی سوال ہے اور وہ یہ کہ اگر کچھ عرصہ کے بعد مسلمان مشترک انتخاب کو قبول کر لیں تو موجودہ مسودہ میں وہ کونسی شق ہے جو اس امر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ اس وقت انہیں اپنی تعداد کے مطابق حق مل جائے گا- محض کمیٹی کے ذہنی خیالات تو اس وقت مسلمانوں کو نفع نہیں پہنچا سکیں گے-
غلطی کے ازالہ کی صورتیں
کمیٹی کی تجویز کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں اس امر کو لیتا ہوں کہ اب اس غلطی کا ازالہ کس طرح ہو سکتا ہے-:
)۱( سب سے اول تو میرے نزدیک کمیٹی کے مسلمان ممبروں کا فرض ہے کہ جب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ مسلمان اکثریت ان کی اس تجویز کے مخالف ہے تو وہ ایک نوٹ لکھ کر کمیشن کو روانہ کر دیں کہ ہماری اس تجویز کو صرف ذاتی رائے قرار دیا جائے- ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مسلمان اکثریت اس کے مخالف ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے ان کے حق کے مطابق نمائندہ کا مطالبہ کرتی ہے- میں بتا چکا ہوں کہ آئین دستور کے مطابق وہ اپنی قوم کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں لیکن اس امر میں وہ قومی رائے کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں- پس اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ان پر واجب ہے- ان کا تقرر گورنمنٹ کی طرف سے نہیں بلکہ ان کی قوم کی طرف سے ہوا ہے اور اس کے خیالات کے متعلق گورنمنٹ کو اگر غلط فہمی لگے اور وہ اس کا ازالہ نہ کریں تو وہ ایک بہت بڑی اخلاقی ذمہ واری کی ادائیگی سے قاصر رہیں گے-
)۲( اگر وہ ایسا نہ کریں تو دوسرے مسلمان ممبران کونسل کو جو اس معاملہ میں رائے عامہ کی تائید میں ہوں ایک میموریل بنا کر اس کی ایک ایک کاپی گورنمنٹ پنجاب سائمن کمیشن اور انڈینسائمن کمیٹی کے پاس بھیج دینی چاہئے کہ اس سوال کے متعلق ہماری رائے میں ہمارے نمائندوں نے ہماری نمائندگی نہیں کی پس اس رائے کو ان کی ذاتی رائے سمجھا جائے- مسلمانوں کے نمائندوں کی کثرت اس تجویز کو ہرگز قبول نہیں کر سکتی-
)۳( مختلف سیاسی انجمنیں اور نمائندہ جماعتیں ایسے ریزولیوشن پاس کر کے مذکورہ بالا تینوں جماعتوں کو بجھوا دیں- جن میں کہ مسلمانوں کے خیالات کی اس بارہ میں صحیح ترجمانی ہو- لیکن چونکہ سیاسی انجمنوں کا صحیح طور پر انتخاب نہیں ہوتا اور وہ باوجود اپنے بڑے بڑے ناموں کے صرف چند سو آدمیوں کی نمائندہ ہوتی ہیں` اول الذکریا اگر اس پر عمل نہ ہو تو ثانی الذکر تجاویز زیادہ کارآمد ہوں گی- اگر مسلم نمائندوں نے اول الذکر تجویز کے مطابق عمل نہ کیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اپنے خیالات سے مذکورہ بالا تینوں جماعتوں کو آگاہ کر دے گی-
ایک نہایت مفید تجویز
ایک اور تجویز ہے جس کے خلاف مسلمان اخبارات نے آواز اٹھائی ہے اور وہ کمیٹی کی یہ تجویز ہے کہ ایک حصہ مرکزی مجلس کا صوبہ جات کی کونسلوں کے توسط سے چنا جائے- میں اس امر میں ان اخبارات کی رائے سے متفق نہیں- میرے نزدیک انہوں نے غور نہیں کیا کہ صوبہ جات کی کونسلوں کی خود اختیاری کو قائم نہ رکھنے کے لئے اور مرکزی مجلس کو اس کی حدود کے اندر رکھنے کے لئے یہ تجویز ایک نہایت مفید آلہ ہو سکتی ہے- ممالک متحدہ میں اس غرض کو پورا کرنے کے لئے سینٹ کام دیتی ہے- اگر کونسل آف سٹیٹ کا انتخاب اسی اصول پر نہ ہو تو کسی قدر تعداد اسمبلی کے ممبروں کی ضرور اسی طرح چنی جانی چاہئے اور اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہے نہ کہ نقصان اگر اس تجویز پر عمل کیا گیا تو دوسرے ہندو صوبہ جات بھی مسلمانوں کے اس مطالبہ کی ہمیشہ تائید کریں گے کہ صوبہ جات کو کامل اندرونی آزادی حاصل ہونی چاہئے- ایسے ممبر صوبہ جات کی کونسل کے وکلاء کے طور پر ہوں گے- مگر یہ ایک جزوی سوال ہے` اس پر اس قدر زور دینے کی بھی ضرورت نہیں-
مسلمان اخبارات سے خطاب
میں آخر میں مسلمان اخبارات کو اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا موجودہ اختلاف چاہتا ہے کہ ہماری آپس کی مخالفت خواہ کیسی پرزور ہو مگر اس میں نیتوں پر حملہ نہ ہو- اور اگر دل میں ہمیں یقین بھی ہو جائے کہ ایک شخص محض نیک نیتی سے کام نہیں کر رہا تو بھی قومی کاموں میں ایسے خیالات کے اظہار سے ہم حتی الوسع باز رہیں تاکہ بجائے فائدہ کے نقصان نہ ہو- اگر اس شخص کی نیت خراب ہو گی تو اس کا اندرونہ خود ظاہر ہو کر رہے گا اور خدا تعالیٰ اس سے گرفت کرے گا- لیکن اگر ہم اپنے اندازہ میں غلطی کریں گے تو یقین¶ا ہم گنہگار بنیں گے- پس ہمیں اپنی نکتہ چینی کو صرف ظاہر تک محدود رکھنا چاہئے اور دلوں کے اسرار کو نکالنے کی یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے- اگر اخلاقی اور مذہبی بناء پر ہم ایسا نہ کریں تو کم سے کم سیاسی مصلحت کے طور پر ہی اس طریق کو اختیار کر لیں- اس کے اختیار کرنے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں- بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اگر وہ شخص جس سے ہمیں اختلاف ہے` حد سے تجاوز نہیں کر جاتا تو اپنی اصلاح کی طرف مائل ہو جائے اور ہماری خرابی کا موجب نہ بنے بلکہ ہمارا دست و بازو بن کر ہماری تقویت کا باعث ہو-
‏]bsu [tag ایک شبہ کا ازالہ
میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے اس شبہ کا ازالہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جب میری اور جماعت کی رائے زیر بحث مسئلہ میں مسلمانوں کی کثرت رائے کے مطابق تھی تو کیوں چودھری ظفراللہ خان صاحب نے اس کے خلاف رائے دی- سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ چودھری صاحب کو نہ میں نے کوئی ہدایت دی اور نہ دینی مناسب تھی- کیونکہ وہ میری طرف سے یا جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر کمیٹی میں نہ گئے تھے- ہر ایک احمدی اگر اسے سچے طور پر مجھ سے اختلاف ہو` ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھ سے اختلاف رکھ سکتا ہے- ہاں اگر اختلاف ایسا ہوتا کہ جس پر عمل کرنا یا جس کا ظاہر کرنا تفرقہ` تشتت` یا تباہی کا موجب ہوتا تو میرا حق تھا کہ میں قبل از وقت معلوم ہونے پر اس کے اظہار سے انہیں روک دیتا اور اگر وہ اخلاقاً اپنی موجودہ پوزیشن میں اس کے اظہار سے باز نہ رہ سکتے تو ان کا فرض ہوتا کہ وہ اس عہدہ سے استعفاء دے دیتے اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسا موقع ہوتا تو چودھری صاحب ایسا ہی کرتے- مگر چونکہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوا` اس لئے ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے-
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
)الفضل ۳۰- اگست ۱۹۲۹ء(
‏a.10.32a
انوار العلوم جلد ۱۰
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ-ھوالناصر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان کی حیثیت میں
نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے
بظاہر یہ ایک عجیب بات معلوم دیتی ہے کہ وہ شخص جسے انبیاء کے سردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے` اسے ایک انسان کی حیثیت میں بھی پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو- لیکن حق یہ ہے کہ باوجود نبوت کے دعویٰ کے کوئی شخص اس بات سے بالا نہیں ہو سکتا کہ اس کی انسانیت پر بحث کی جائے کیونکہ نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے اور انسانیت ہی کے کمالات کے ظہور کے لئے اس کا وجود پیدا کیا گیا ہے-
میرے نزدیک یوں سمجھنا چاہئے کہ نبوت ایک بارش ہے جو فطرت انسانی کی مخفی طاقتوں کو ابھار کر باہر نکال دیتی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جس زمین پر وہ بارش خدا تعالیٰ کے انتخاب کے ماتحت نازل ہوگی وہ زمین اس بارش کے اثر کو قبول کرنے کی سب سے زیادہ قابلیت رکھتی ہوگی اور انسانی کمالات کو سب سے زیادہ ظاہر کرے گی-
کامل نبی کامل انسان ہوتا ہے
اوپر کی بات کو پوری طرح واضح کرنے کے لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت گندی نہیں ہے جس کی اصلاح نبوت کرتی ہے بلکہ اسلام کے نزدیک فطرت انسانی ان تمام قابلیتوں کو بیج کے طور پر اپنے اندر رکھتی ہے جن کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے ہاں وہ اسی طرح بیرونی مدد کی محتاج ہے جس طرح آنکھ نور کی اور زمین بارش کی- پس نبوت کا یہ کام نہیں کہ وہ فطرتانسانی کے بعض خواص کو کاٹے بلکہ اس کا یہ کام ہے کہ وہ تمام خواص انسانی کو صحیح طور پر ابھارے- پس کامل نبی کا کامل انسان ہونا ضروری ہے جب تک انسانیت کے تمام لطیف خواص کسی انسان میں صحیح طور پر نشوونما نہ پائیں وہ نبی نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ خواص اپنے اپنے دائرہ میں کمال کو نہ پہنچ جائیں وہ شخص نبی نہیں کہلا سکتا-
خاص دائرہ میں خاص قابلیت
یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ کسی خاص بات میں غیر معمولی قابلیت رکھتے ہیں اور دنیا ان کی لیاقت کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے لیکن آخر کار وہ پاگل اور مجنون ہو کر مرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص دائرہ میں قابلیت کا ظہور انسانی کمال پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف بعض خواص انسانی کے ایک محدود دائرہ میں حد سے زیادہ ترقی کر جانے پر دلالت کرتا ہے- یہ امر بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جس کے اندر عشق کا مادہ ایسا غالب آ گیا ہو کہ دوسرے تمام جذبات پر وہ غالب ہو گیا ہو` بجائے کسی انسان پر عاشق ہونے کے خدا تعالیٰ ہی کی محبت کی طرف متوجہ ہو جائے اور دنیا و مافیھا کو بھلا دے- مگر ایسا شخص کبھی بھی ان کمالات روحانیہ کو حاصل نہ کر سکے گا جو دوسرے لوگ حاصل کر سکتے ہیں- کیونکہ اس کا جذبہ محبت بگڑی ہوئی نفسی حالت کا نتیجہ ہے تندرست اور صحیح نشوونما کا نتیجہ نہیں ہے- اس شخص کی حالت بالکل اس بیج کی سی ہوگی جو نہایت طاقتور زمین میں بویا جاتا ہے اور اس قدر جلد نشوونما پا کر بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کی بالیں دانوں سے محروم رہ جاتی ہیں وہ بھوسہ تو بہت کچھ دے دیتا ہے مگر دانہ اس سے بہت کم نکلتا ہے- اس کے مقابلہ میں جو شخص تمام انسانیکمالات کو ظاہر کرنے والا ہوگا اس کی نشوونما تمام خواص فطرت پر مشتمل ہوگی اور ان کے اندر ایک خاص تناسب ہوگا- ہر ایک خاصہ فطرت اس نسبت سے ترقی کرے گا جس نسبت سے کہ اسے ترقی کرنی چاہئے- مثلاً سزا دینے کی طاقت بھی اس کی نشوونما پائے گی اور رحم کی بھی اور عفو کی بھی اور برداشت کی بھی اور موازنہ کی بھی کہ یہ پانچوں جذبات جرائم کے متعلق فیصلہ کرتے وقت ضروری ہوتے ہیں- ان میں سے ایک جذبہ بھی اپنی حد مناسب سے کم ہو جائے تو انسانیت ناقص ہو جائے گی اور کمالات انسانیہ کا ظہور ناممکن رہ جائے گا-
چونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور علم النفس کے باریک مطالعہ کے بغیر اس کا سمجھ میں آنا بغیر تفصیل کے مشکل ہے اور وہ چند کالم جن میں میں نے اس مضمون کو ختم کرنا ہے اس کے لئے کافی نہیں- اس لئے میں ایک دو مثالوں کے ذریعہ سے اس امر پر روشنی ڈال کر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں-
وفاداری کا جذبہ
مثال کے طور پر میں وفاداری کے جذبہ کو لیتا ہوں ہر شخص اسے پسند کرتا ہے لیکن یہی جذبہ اگر بدصحبت کے متعلق استعمال ہو تو کیسا سخت مضر ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے- دو شخص ایک جرم میں شریک ہوتے ہیں ایک کی ضمیر ایک وقت میں اسے ملامت کرنے لگتی ہے لیکن اس کی وفاداری کی روح جو موازنہ نیک و بد کی طاقت سے بڑھی ہوئی تھی` اس کی اندرونی آواز کو خاموش کرا دیتی ہے اور اس کے کان میں کہہ دیتی ہے کہ بے وفا نہیں ہونا چاہئے جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب مجھے اپنے دوست کا ساتھ دینا چاہئے-
اولاد کی محبت کا جذبہ
یا مثلاً اولاد کی محبت ایک اچھا جذبہ ہے اور بقائے عالم کے زبردست اسباب میں سے ہے لیکن اگر کسی شخص کے اندر یہی جذبہ ترقی کر جائے اور باقی جذبات کو دبا دے تو یہی ایک گناہ بن جاتا ہے اور اولاد کو بھی گناہ کا عادی بنا دیتا ہے- غرض کسی ایک یا بعض خواص فطرت انسانی کا کمال حقیقی کمال نہیں ہوتا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ بعض حالتوں میں وہ ایک خطرناک نقص کی صورت بن جائے- اور نہ ایسا کمال بنی نوعانسان کے لئے نمونہ بن سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی بن سکتا ہے جو طبعی ترقی کا مظہر ہو- غیر طبعی ترقی دوسرے کے لئے نمونہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کا حاصل کرنا دوسروں کے لئے ناممکن ہوتا ہے اور نمونہ کے لئے شرط ہے کہ اس کی نقل کرنا ہماری طاقت میں ہو-
‏]0 [stf رسول کریم کا رتبہ بحیثیت انسان
اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اس امر کے متعلق اپنی تحقیق کو پیش کرتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت انسان کے کیا رتبہ رکھتے تھے-
انسانی تقاضے نبوت کے منافی نہیں
جو کچھ میں اوپر لکھ آیا ہوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ )۱( نبوت کمالات انسانیہ کے صحیح ظہور کا نمونہ پیش کرنے کیلئے آتی ہے- )۲( پس کامل نبی کے لئے کامل انسان ہونا ضروری ہے- )۳( اگر کوئی شخص بعض خواص انسانی کو ان کی انتہائی صورت میں دکھاتا ہے تو یہ اس کے کامل انسان ہونے کی علامت نہیں بلکہ بسا اوقات یہ امر اس کے نظام عصبی کی ظاہر یا مخفی خرابی کی علامت ہو سکتا ہے ان امور کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ انسانی تقاضوں کے پورا کرنے کو نبوت کے منافی سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں- حق یہ ہے کہ نبوت ایک ذہنی کیفیت ہے اور انسانی تقاضوں کا صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنا اس کیفیت کا عملی ظہور ہے جس کے بغیر نمونہ کامل نہیں ہو سکتا- نبی ہماری فطرت کو بدلنے کیلئے نہیں آتا بلکہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنے کیلئے ہمیں عملی سبق دینے کے لئے آتا ہے- پس فطرت کے تقاضوں کا کلی ترک اگر بعض دوسرے شخصوں کے لئے جائز بھی ہو سکتا ہے تو نبی کے لئے نہیں کیونکہ وہ نمونہ ہے امت کے لئے اور جس قدر تقاضوں کو وہ ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اپنے نمونہ کو نامکمل کر دیتا ہے-
انسانوں کے لئے کامل نمونہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس طرح کامل نبی تھے کامل انسان بھی تھے اور آپ کے اہم کاموں نے آپ کو انسانی جذبات سے غافل نہیں کر دیا تھا- بلکہ ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ انسانی تقاضوں کو بھی ایسے رنگ میں پورا کر رہے تھے کہ تمام انسانوں کے لئے ایک کامل نمونہ قائم ہو رہا تھا-
اچھا کھانا
فطرت انسانی کے کمالات سے ناواقف لوگوں میں یہ عام خیال ہے کہ اچھا کھانا ایک حیوانی فعل ہے اور اعلیٰ روحانی مقامات کے منافی ہے لیکن وہ فطرت انسانی جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کے بالکل برخلاف ہے- کھانوں کا انسانی اخلاق سے ایک گہرا تعلق ہے اور مختلف کھانے اپنے نباتی احساسات کو انسانی جسم میں جا کر اخلاقی میلانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کھانے میں میانہ روی کی تو بے شک تعلیم دیتے تھے لیکن عمدہ کھانے سے آپ نے کبھی نہیں روکا- بلکہ جب کبھی کسی نے عمدہ کھانا دعوت میں پیش کیا آپ نے اسے استعمال فرمایا- ہاں یہ شرط لگا دی کہ کھانے کے متعلق ان امور کو مدنظر رکھو )۱( ایسی طرح کھانے کی چیزوں کو ضائع نہ کرو کہ غرباء کو تکلیف ہو )۲( جس وقت ملک میں قحط ہو اور لوگ تکلیف میں ہوں غذا سادہ کر دو تا کہ تمہارے بہت سے کھانوں میں غرباء کا ایک کھانا بھی ضائع نہ ہو جائے- )۳( سوائے حقیقی ضرورت کے کھانوں کا ذخیرہ جمع نہ کرو تا غرباء اپنے حصہ سے محروم نہ رہ جائیں-
خوش طبعی
انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خوش طبعی بھی ہے ہنسی انسان کے طبعی جذبات میں سے ہے- ایک اچھا انسان جو اپنے ہم جنسوں کیلئے وبال جان نہ بننا چاہتا ہو- اس کے لئے خوش مذاق ہونا بھی شرط ہے- لیکن دنیا کو یہ ایک وہم ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اس کے لئے نہایت سنجیدہ مزاج اور خاموش رہنے والا ہونا ضروری ہے مسکراہٹ اس کے درجہ کو گرانی ہے اور ہنسی اس کے تقویٰ کو برباد کر دیتی ہے لیکن انسانیت پر غور کرنے والا انسان جانتا ہے کہ ہنسی اور خوش طبعی کو انسانی تمدن سے خارج کر کے وہ ایک ایسا ڈھانچہ رہ جاتا ہے جو تمام خوشنمائیوں سے معرا ہو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اپنی تمام سنجیدگیوں کے اور عارضی خوشیوں سے بالا ہونے کے اور باوجود اپنے اس عظیم الشان دعویٰ کے جو ان کے درجہ کو معمولی انسان سے غیر محدود طور پر اونچا کر دیتا تھا اس طبعی جذبہ کو دبانے کی کبھی کوشش نہ کرتے تھے- آپ کے درجہ کی بلندی اور رفعت میں سے پھوٹ پھوٹ کر خوش طبعی کا انسانیجذبہ ایسے خوشنما طور پر نکل رہا تھا کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی وہ جو ایک تند اور سختمزاج حاکم کو دیکھنے کی امید رکھتا تھا` ایک خوش مذاق اور مسکراتے ہوئے چہرہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا- مجلس اصحاب میں بیٹھے جہاں اعلیٰ تعلیمات کا درس دیا جاتا تھا لوگوں کی کوفت کو دور کرنے اور ملال کو کم کرنے کے لئے لطائف بھی بیان ہوتے چلے جاتے تھے کبھی اپنے اصحاب سے پاکیزہ ہنسی بھی ہوتی جاتی تھی- بچے آ جاتے تو ان کو بہلانے کے لئے کوئی چڑیا چڑے کا قصہ بھی بیان ہو جاتا تھا- کبھی بچہ کو خوش کرنے کے لئے اس کے منہ پر پانی کا باریک چھینٹا دیا جاتا تو اہل خانہ کی دلجوئی کے لئے عرب کی مروجہ کہانیوں میں سے کوئی کہانی بھی سنا دی جاتی تھی مگر ہاں ان سب امور کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی جاتی تھی کہ )۱(ہنسی اس رنگ میں نہ کرو کہ دوسرے کی تحقیر یا دلشکنی ہو )۲(ہنسی کو پیشہ یا عادت نہ بنائو اور اس غرض سے ہنسی نہ کرو کہ لوگ ہنسیں بلکہ جس وقت طبیعت خود بخود اپنے آپ کو پرکیف رنگ میں ظاہر کرنا چاہے اسے ایسا کرنے دو )۳(ہنسی اور مذاق میں جھوٹ نہ ہو بلکہ صداقت کا پہلو محفوظ ہو`تا ادنیٰ طبعی جذبات کے ظہور کے وقت اعلیٰ طبعی جذبات کا خون نہ ہوتا چلا جائے-
صفائی پسندی
انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا صفائی پسندی کا ہے جسم کو صاف رکھنا منہ کو صاف رکھنا- کپڑوں کو صاف رکھنا اور ایسی اشیاء کا استعمال کرنا جو ناک کی قوت کو صدمہ نہ پہنچانے والی ہوں بلکہ اس کے لئے موجب راحت ہوں- اس تقاضا کو بھی لوگوں نے غلطی سے تقویٰ اور نیکی کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والوں کے طریق کے خلاف سمجھا ہے اور ایک ایسی راہ اختیار کر لی ہے کہ یا تو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ طیب اشاء فضول جائیں یا خدا کے بندے جو ان طیب اشیاء کو استعمال کریں گنہگار ٹھہریں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بناوٹی نیکی اور جھوٹے تقویٰ کی چادر کو بھی چاک کر دیا اور حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک رہنے کو پسند کرتا ہے- آپ جہاں رہتے اکثر غسل فرماتے- کئی امور کے ساتھ غسل کو آپ نے واجب قرار دے دیا- چونکہ انسان اپنے گھر کے اشغال کی وجہ سے صفائی میں سستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے ساتھ غسل کو واجب قرار دیا- پانچوں ¶نمازوں سے پہلے آپ ان اعضا کو دھوتے جو عام طور پر گردو غبار کا محل بنتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتے- کپڑوں کی صفائی کو آپ پسند فرماتے- جمعہ کے دن دھلے ہوئے کپڑے پہن کر آنے کا حکم دیتے اور خوشبو کو خود بھی پسند فرماتے اور اجتماع کے مواقع کے لئے خوشبو کا لگانا پسند فرماتے- جہاں اجتماع ہونا ہو چونکہ مختلف قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں متعدی بیماریوں کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا` آپ وہاں خوشبودار مصالحہ جات اور ان جگہوں کو صاف رکھنے کا حکم دیتے- بدبودار اشیاء سے پرہیز فرماتے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے کہ بدبودار اشیاء کھا کر اجتماع کی جگہوں میں آئیں- غرض جسم کی صفائی` لباس کی پاکیزگی اور ناک کے احساس کا آپ پورا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیتے- ہاں یہ ضرور فرماتے کہ جسم کی صفائی میں اس قدر منہمک نہ ہو جائو کہ روح کی صفائی کا خیال ہی نہ رہے اور لباس کی پاکیزگی کا اس قدر خیال نہ رکھو کہ ملکوملت کی خدمت سے محروم ہو جائو اور غریب لوگوں کی صحبت سے احتراز کرنے لگو اور کھانے میں اس قدر احتیاط نہ کرو کہ ضروری غذائیں ترک ہو جائیں ہاں یہ خیال رکھو کہ اہل مجلس کو تکلیف نہ ہو تاکہ اچھے شہری بنو اور لوگ تمہاری صحبت کو ناگوار نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کریں لوگوں نے کہا کہ صفائی اور خوشبو سے بچو کہ وہ جسم کو پاک مگر دل کو ناپاک کرتی ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حبب الی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الطیب ۱~}~ اور ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۲~}~ مجھے خوشبو کی محبت بخشی گئی ہے اور یہ کہ خداتعالیٰ ظاہری اور باطنی صفائی رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے-
مرد و عورت کا تعلق
عورت و مرد کا تعلق بھی ایک ایسا طبعی تقاضا ہے کہ دنیا کا تمدن اس پر مبنی ہے اور وہ گویا دنیا کی ترقی کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہے مگر عجیب بات ہے کہ دنیا کے ایک کثیر حصہ نے اسے بھی روحانیات کے خلاف سمجھ رکھا ہے- وہ عورت جو نسلانسانی کے چلانے کی ذمہ وار ہے جس کے بغیر انسان ایک کٹا ہوا جسم معلوم ہوتا ہے جو کسی کام کا نہیں جو مرد کے لئے بطور لباس کے ہے اور جس کے لئے مرد بطور لباس کے ہے اس عورت کو ہاں اس عورت کو ایک ناپاک شے قرار دیا جاتا تھا اور خدا رسیدہ انسان کے لئے جائے اجتناب سمجھا جاتا تھا اور اس طرح گویا پاکیزگی کو انسانیت کے مخالف قرار دے کر خود پاکیزگی کے درخت پر ہی تبر رکھا جاتا تھا- کیا یہ سچ نہیں کہ انسان ہی حقیقی پاکیزگی کا برتن ہے اور برتن کے بغیر لطیف اشیاء محفوظ رہ ہی نہیں سکتیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو پا کر انسان کو نہیں بھلایا- آپ نے شادیاں کیں اور اپنے ملک کے فائدہ اور مسلمانوں کے فائدہ اور بعض دفعہ خود بیویوں کے فائدہ کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور نہ صرف شادیاں کیں بلکہ جذبات محبت سے اپنی بیویوں کو محروم نہیں کیا- اور ان سے اس طرح معاملہ کیا کہ ان میں سے ہر اک نے یہ سمجھا کہ گویا آپ اسی کے لئے ہیں آپ خدا کے تھے اور خدا آپ کا تھا- مگر آپ نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ گویا خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا سے نرالا پا کر چن لیا بلکہ آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ بہتر انسان کو اپنے لئے چنتا ہے چونکہ آپ بہتر انسان بن گئے اس لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو اختیار کر لیا-
بیوی کی محبت خدا کی رحمت ہے
دنیا نے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو چھوڑ دو اہلی تعلقات کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دو- تب تم خدا سے ملو گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں بلکہ تم اپنے اہل ہی کے ذریعہ سے خدا سے مل سکتے ہو دنیا کا ہر ایک ذرہ خدا کی پیدائش ہے اور ہر اک ذرہ تم کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور جس چیز کو اس نے جس قدر خوبصورت بنایا ہے اسی قدر واضح طور پر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ کیلئے دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کی اعلیٰ مخلوقات میں سے عورتیں بھی ہیں اسی وجہ سے حبب الی من دنیاکم النساء ]1txet [tag۳~}~ مجھے دنیوی چیزوں میں سے بیویوں کی محبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تحفہ کے ملی ہے اور خیر کم خیر کم لاھلیکم ۴~}~تم میں سے بہتر لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ نیک سلوک کریں- اور ان کے احساسات کا خیال رکھیں- کیا ہی عجیب فرق ہے دنیا نے کہا کہ خدا نے عورت کو ایک خوبصورت سانپ بنا کر پیدا کیا ہے اور انسان کو ہوشیار کیا ہے کہ اس کی خوبصورتی کی طرف نہ دیکھے بلکہ اس کے زہر سے بچے محمد رسول اللہ2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیویوں سے محبت کروں اور جو رحمتیں اس نے مجھ پر کی ہیں ان میں سے ایک رحمت یہ ہے کہ میرے دل میں اپنی بیویوں کی محبت پیدا کر دی گئی ہے لوگوں نے کہا کہ عورتوں سے دور بھاگو اور ان کے فریبوں سے بچو- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے محبت کرو اور ان سے محبت کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچو کیونکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت بنائی ہے اسی طرح بیوی کی دعا کو بھی اپنے قرب کا ذریعہ بنایا ہے پس اس کے دل کو خوش کرو خداتعالیٰ تم سے خوش ہوگا-
بیویوں کے احساسات کا خیال رکھو
آپ عملاً اس حکم پر عمل کرتے اپنی بیویوں کے سب احساسات کا خیال رکھتے- گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے- ان سے پیار کرتے ان کی دلدہی کے لئے باریک در باریک راہیں تلاش کرتے ایک بیوی نے ایک گلاس سے پانی پیا تو اسی جگہ پر منہ رکھ کر خود پانی پی لیا- ایک بیوی کو جو یہود میں سے تھی دوسری نے غصہ میں یہودن کہہ دیا تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں کہتیں کہ میں یہودن نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی اولاد ہوں- اگر کوئی بیمار ہوتی تو آپ اس کی بیماری کو اپنی بیماری سمجھتے اور اس سے بھی زیادہ اس کے درد کو محسوس کرتے ان کے جذبات کا خیال رکھتے اور انہیں اپنے عزیزوں سے جدا نہ کرتے بلکہ تعلق بڑھانے میں مدد کرتے- اپنی ایک بیوی ام حبیبہؓ کے گھر میں آپ داخل ہوئے وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو جو بعد میں بادشاہ اسلام ہوئے پیار کر رہی تھیں- آپ نے اس امر کو ناپسند نہیں فرمایا بلکہ محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور بہن بھائی کی محبت کو طبعی تقاضوں کا ایک خوبصورت جلوہ تصور فرماتے ہوئے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا ام حبیبہ کیا معاویہ تمہیں پیارا ہے ام حبیبہ نے جواب دیا- ہاں فرمایا اگر یہ تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے- بیوی کا دل اس جواب کو سن کر کس قدر خوشی سے اچھلا ہو گا کہ میرے رشتہ داروں کو یہ غیریت کی نگاہ سے نہیں بلکہ میری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ جو مجھے جس قدر پیارا ہو اسی قدر ان کو بھی پیارا ہوتا ہے گویا وہی نظارہ ہے کہ
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
مگر باوجود انسانیت کے اس کامل اور اتم نظارہ کے محمد]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم کلی طور پر اور سر سے پا تک اپنے خدا کے تھے- اور اپنی بیویوں کو بھی اسی کا اور خالص اسی کا بنانا چاہتے تھے-
بقائے نسل کا جذبہ
انسانی فطرت بقائے نسل کے جذبہ سے نہایت ہی گہرے طور پر رنگین ہے جونہی ایک عورت کامل جوان ہوتی ہے اولاد کی خواہش خواہ الفاظ میں پیدا نہ ہو مگر تاثیرات کے ذریعہ سے ظاہر ہونے لگتی ہے صحیح القویٰ مرد خواہ کسی قدر ہی آزاد کیوں نہ ہو اپنی علیحدگی کی گھڑیوں میں اس کی طرف ایک زبردست رغبت پاتا ہے مگر باوجود اس کے ¶بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا رسیدوں کو اولاد سے کیا تعلق- وہ نہیں سمجھتے کہ اگر اولاد سے ان کو تعلق نہیں تو اولاد کی تربیت جو نسل انسانی کا ایک اہم ترین فرض ہے اس میں دنیا کا رہنما کون ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد ہوئی اور آپ نے اس اولاد پر فخر کیا اس کی محبت کو چھپایا نہیں اسے خدا کی ایک رحمت قرار دیا- اولاد سے بے تعلقی کا اظہار نہیں کیا اس کی طرف توجہ کی اور اس کی تربیت کا خیال رکھا- اس سے بے اعتنائی نہیں ظاہر کی بلکہ اس سے محبت کرنے کو خدا تعالیٰ کے مقدس فرائض میں سے قرار دیا جب وہ نا سمجھ تھی اس کی پرورش کی جب وہ چھوٹی تھی اس کی تربیت کی جب وہ بڑی ہوئی اسے تعلیم دلائی اور جب وہ اپنے گھر بار کی مالک ہوئی اس کا ادب کیا اور اپنی محبت کا مقر اسے بنایا- ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ بیمار ہوا اس کے دیکھنے کیلئے آپ کی صاحبزادی نے آپ کو بلایا اس کی حالت اس وقت سخت تکلیف کی تھی اور زندگی کی آخری گھڑیوں کو نہایت اضطراب اور دکھ کے ساتھ وہ طے کر رہا تھا- آپ نے اسے ہاتھوں میں لیا اور اس کے اضطراب کو دیکھا آنکھیں فرط محبت اور وفوررحمت سے پرنم ہو گئیں- ایک شخص جو اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ نبی کے لئے یہی ضروری نہیں کہ ہمیں خدا کی باتیں سکھائے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ہمارے لئے کاملنمونہ ہو انسانیت کا` مکمل نقشہ ہو بشریت کا- اس امر کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور بے اختیار ہو کر بولا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں صبر کا سبق دیتے ہیں اور آج خود آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تمہارا دل شاید رحم سے خالی ہوگا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحم دل بنایا ہے- کیا لطیف سبق ایک ہی فقرہ میں دے دیا کہ اولاد کی محبت اور ان کی تکلیف کا احساس تو انسانیت کے اعلیٰ جذبات میں سے ہے خدا کا نبی ان جذبات سے خالی کیونکر ہو سکتا ہے وہ دوسروں کے لئے اس میں بھی نمونہ ہے جس طرح اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں نمونہ ہے-
اولاد کی تکریم
آپ کی اولاد میں سے آخر عمر میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ رہ گئی تھیں جب کبھی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ کھڑے ہو جاتے بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے- آپ کی اولاد کھیلتی ہوئی پاس آ جاتی تو گود میں اٹھا لیتے پیار کرتے اور ان کی عمر کے مطابق نصیحت کرتے اور اخلاق کا کوئی عمدہ سبق دیتے- غرض آپ نے اس جذبہ انسانیت میں بھی ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے لئے قائم کیا ہے- ہاں اولاد کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ یہ تعلیم بھی دیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کہ اولادا کی محبت انسان کو اس کے ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہیں اور نہ خود اولاد کی اصل ذمہ داری کو جو اعلیٰ پرورش اعلیٰ تربیت اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ رہنمائی پر مشتمل ہے اس کی نظروں سے اوجھل کر دے-
صحت کی درستی اور ورزش کا خیال
انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑ ہے کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں بھی ہمارے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ کو صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف نہیں قرار دیا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باہر باغات میں جا کر بیٹھتے تھے- گھوڑے کی سواری کرتے تھے اپنے صحابہ کو کھیلوں وغیرہ میں مشغول دیکھ کر بجائے ان پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے- ایک دفعہ آپ نے اپنے احباب کو تیر اندازی کا مقابلہ کرتے دیکھا تو خود بھی اس مقابلہ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی- مرد تو مرد رہے آپ عورتوں کو بھی ورزش کرنے کی ترغیب دیتے تھے- چنانچہ کئی دفعہ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزش جسمانی کی تحریک کی- ہاں آپ اس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہو جائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ خود مقصد-
دنیا کے لئے اسوہ حسنہ
غرض انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھا کر اور بے نظیر مثال قائم کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ آپ کی زندگی دنیا کے لئے ایک اسوہ حسنہ تھی کیونکہ اگر آپ صرف خدا تعالیٰ کی عبادت یا اعلیٰ فلسفیانہ تعلیمات کی اشاعت کی طرف متوجہ ہوتے تو ہر اک سمجھ دار انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر معمولی دل و دماغ کے انسان تھے اور ان جذبات سے عاری تھے جو عام انسان کے دل میں موجزن رہتے ہیں اور اس وجہ سے باوجود اپنے اعلیٰ تقویٰ کے وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتے لیکن آپ کی ساری زندگی اس شبہ کا ازالہ کرتی ہے- آپ ہماری ہی طرح کے جذبات رکھتے تھے اور ہماری ہی طرح کی ذمہ واریاں- اور پھر آپ ان ذمہ داریوں سے بزدلانہ طور پر آنکھیں نہیں بند کر لیتے تھے بلکہ آپ ان ذمہ داریوں کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور ان کے ادا کرنے کو اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے تھے کہ ہر اک انسان محسوس کرتا تھا اور کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ اس نمونہ کی تقلید سے وہ کسی عذر اور بہانے سے بچ نہیں سکتا یہاں ایک ایسا شخص ہے جو اسی کی طرح کے جذبات اور اسی کی طرح کے احساسات لے کر پیدا ہوا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات کو کچلتا نہیں بلکہ انہیں ایک بہادر آدمی کی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے- ایک ایسا انسان ہے جس کے راستہ میں وہ سب مشکلات ہیں جو دوسرے انسانوں کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں اور وہ ان سب مشکلات کو دور کرتا ہوا اپنا بوجھ خود اٹھائے ہوئے تقویٰ اور طہارت کے اس پل پر سے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے نڈر اور بے خوف گذر جاتا ہے اور ایک آنچ ہاں ایک خفیف سی آنچ بھی اسے نہیں آتی- ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا قدم نہیں لڑکھڑاتا- پس جب وہ انسان ہمارے جیسا انسان اس کام کو جسے لوگ ناممکن خیال کرتے تھے اور کرتے ہیں اس خوبی سے سرانجام دے سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کام کو نہ کر سکیں-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف کلام الہی میں اشارہ
خدا تعالیٰ کس لطیف پیرایہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منھم ان انذر الناس وبشرالذین امنوا ان لھم قدم صدق عند ربھم ۵~}~ کیا لوگوں کو اس پر تعجب آتا ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر یہ کہتے ہوئے وحی نازل کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر اور ان لوگوں کو جو مان لیں خوشخبری دے کہ ان کے رب کے حضور میں انہیں ایک ہمیشہ قائم رہنے والا درجہ حاصل ہے محمد رسول اللہ ہم میں سے ایک انسان ہے اسی لئے اس کے نقش قدم پر چلنے میں ہمیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا- جو امر اس کے لئے ممکن ہے وہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی ممکن ہے وہ ایسا نبی نہیں جو انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے مقام کو حاصل کرتا ہے بلکہ ایسا نبی ہے جو انسانیت کو کامل کرتے ہوئے اور اس کے دروازہ میں سے گزرتے ہوئے نبی بنتا ہے اس کا ایک ہاتھ خدا کی طرف ہے جو اس کا پیدا کرنے والا اور اسے ترقیات عطا فرمانے والا ہے اور وہ اس کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو مانگتا ہے اور دوسرا ہاتھ اپنے ہم جنسوں اور بھائیوں کی طرف ہے جنہیں وہ ہمت کرنے اور اپنے پیچھے پیچھے چلے آنے اور خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا وعدہ دے رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ کان قاب قوسین اوادنی 2] [stf۶~}~کا مظہر ہے- خدا کی لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوں تجھ پر اے کامل انسان جس نے ہمیں شش و پنج کی زندگی سے نجات دلا کر اس یقین پر قائم کیا کہ انسانیت تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ وہ تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ اور خدا تعالیٰ کے وصال کا ایک موجب ہے- تیرا درجہ بلند ہو کہ تو جس قدر خدا کے قریب ہوا` اسی قدر ہمارے نزدیک ہوا- یقیناً تو ہمارا ہے اور ہم تیرے ہیں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
)الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۹ء(
][۱~}~
الجامع الصغیر جلد۱ صفحہ۱۲۲ مطبوعہ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ
۲~}~
البقرہ: ۲۲۳
۳~}~
الجامع الصغیر جلد۱ صفحہ۱۲۲ مطبوعہ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ
۴~}~
الجامع الصغیر جلد۲ صفحہ۹ مطبوعہ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ میں >خیر کم خیرکم لاھلہ< کے الفاظ ہیں-
۵~}~
یونس: ۳ ۶~}~ النجم: ۱۰
‏a.10.32b
انوار العلوم جلد ۱۰
لایسمہ الا المطھرون کی تفسیر
لایمسہ الا المطھرون کی تفسیر

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
لایمسہ الالمطھرون کی تفسیر
)فرمودہ ۱۴ جنوری ۱۹۲۹ء بمقام مسجد احمدیہ لاہور(
میں نے ایک دفعہ ایک رئویا دیکھا تھا جسے کئی دفعہ سنا چکا ہوں- اس کے اندر اخلاقی اور روحانی سبق دیا گیا ہے- چونکہ اس موقع کے لحاظ سے بھی وہ اس قابل ہے کہ اس کے ذکر سے میں اس وقت تقریر شروع کروں اس لئے اس کا ذکر کرتا ہوں-
میں نے رئویا دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے- جو نہایت خوبصورت` نہایت حسین` نہایتپاکیزہ اور نہایت ذکی ہے- جس کے چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلتی اور جس کی آنکھوں سے ذہانت اور شرافت ٹپکتی ہے- آٹھ نو سال کی عمر ہے اور نہایت خوبصورت لباس پہنے ہوئے ہے- ایک سنگمرمر کا چبوترہ ہے جس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں- وہ بچہ دوسری یا تیسری سیڑھی پر کھڑا اوپر ہاتھ اٹھائے اور سر جھکائے دعا مانگ رہا ہے- تب میں نے دیکھا بادلوں میں سے ایک حسین عورت جس کے لباس کے رنگ غیر معمولی شوخی اور خوبصورتی رکھتے ہیں اور نہایت خوشنما رنگوں والے پر رکھتی ہے` نیچے اتری اور بچے پر جھک کر اسے پیار کرنے لگی- اس وقت مجھے بتایا گیا کہ بچہ حضرت مسیح ہے اور عورت حضرت مریم- تب میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہو گیا LOVECREATESLOVE محبت محبت پیدا کرتی ہے-
یہ ایک نہایت ہی زبردست صداقت ہے کہ محبت قلوب کے نہایت باریک خانوں میں داخل ہو جاتی ہے- آواز کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ خاموش چیز ہے` لیکن اثرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ واضح ہے- وہ شخص جس کی آنکھ محبت کے باریک اثرات دیکھنے کی قابلیت نہیں رکھتی` وہ تمام عالم میں سکون اور خاموشی دیکھ رہا ہوتا ہے- لیکن محبت کے جذبات اتنا عظیم الشان تلاطم اندر ہی اندر پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ کان جو محبت کے اثرات سننے سے نا آشنا اور وہ آنکھیں جو محبت کی حرکات دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں` وہ بھی حیران رہ جاتی ہیں-
میں نے اس کے اثرات کو دیکھا اور بار ہا دیکھا ہے- بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نہایت کمزوری اور نقاہت کی حالت میں دوستوں کی مجلس میں آیا اور اس خیال اور اس وثوق سے آیا کہ اس قلیل عرصہ میں کوئی موقع ایسا پیدا نہیں ہو سکتا کہ دوست مجھ سے باتیں سننے کی جو خواہش رکھتے ہیں` وہ پوری کی جا سکے- لیکن ایک مخفی ہاتھ نے اور اس مخفی ہاتھ نے جو گرے ہوئے کو اٹھاتا اور کمزور کو سہارا دیتا ہے` میری حالت میں تغیر پیدا کر دیا اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں تقریر کروں اور دوستوں کو روحانی اور جسمانی تربیت کے متعلق باتیں سنائوں-
اسی جلسہ سالانہ پر ایک صاحب نے جو یوں تو کئی سال سے ملتے ہیں مگر ابھی تک غیراحمدی ہیں مجھ سے سوال کیا کہ میں نے کئی بار دیکھا ہے آپ بیمار اور کمزور ہوتے ہیں مگر پھر لمبی لمبی تقریریں بھی کرتے ہیں- آپ کو کس قسم کی بیماری ہے جس کی آپ کوئی پرواہ نہیں کرتے اور اتنی مشقت برداشت کر لیتے ہیں- میں نے کہا مجھے بیماری تو اسی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی دوسرے لوگوں کو ہوتی ہے مگر موقع پر خدا تعالیٰ طبیعت میں ایسا تغیر پیدا کر دیتا ہے کہ میں تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور پھر وہ خیالات کے اظہار کی توفیق بھی عطا کر دیتا ہے-
میں آج بھی ارادہ تو نہ رکھتا تھا کہ یہاں کوئی تقریر کروں- چند ہی دن ہوئے کہ میں چارپائی سے اٹھا ہوں- ۶ دسمبر سے لے کر آج پانچ دن قبل تک میں صاحب فراش تھا- اسی وجہ سے لاہور تک موٹر میں آنے کی وجہ سے کمر میں درد ہو گیا ہے- آج کچھ حرارت بھی ہے` اس لئے میں امید نہ رکھتا تھا کہ کچھ بیان کر سکوں گا- مگر بعض دوستوں نے جب مجبور کیا کہ میں کرسی پر بیٹھوں اور یہ مجھے گراں گذرا کہ باقی دوست فرش پر بیٹھے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھوں- اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ تقریر کروں- اسی طرح سب دوست دیکھ بھی لیں گے اور باتیں بھی سن لیں گے- میں نے اس سال سالانہ جلسہ کے موقع پر قرآن کی طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ دلائی تھی- اس وقت بعض دوستوں نے کچھ سوالات کئے تھے اور رقعے لکھ کر دے تھے- چونکہ دوران تقریر میں جواب دیتا اصل تقریر سے دوسری طرف متوجہ ہو جانا ہوتا ہے اور یہ اصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بھی خلاف ہے- ایک دفعہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کر رہے تھے کہ دوسرے شخص نے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا- آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی- اس سے اس نے سمجھا آپ ناراض ہیں- لیکن جب آپ نے کلام ختم کیا تو اسے بلایا اور فرمایا دوران کلام میں بات کرنا درست نہیں- اب میں نے وہ بات ختم کر لی ہے` تم جو بات کرنا چاہتے ہو کرو-
میرا اپنا طریق یہ ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی سوال موضوع تقریر سے گہرا تعلق رکھتا ہے تو میں اس کا جواب بیان کر دیتا ہوں- اور بعض اوقات جب سوال موضوع تقریر سے الگ ہوتا ہے` اسے چھوڑ دیتا ہوں- جلسہ کے موقع پر جب میں تقریر کر رہا تھا تو ایک سوال اگرچہ قرآن کے متعلق کیا گیا تھا مگر میرے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تھا- اس لئے میں نے چھوڑ دیا تھا- لیکن چونکہ ممکن ہے وہ سوال اور لوگوں کے دل میں بھی پیدا ہوتا ہو` اس لئے اب اس کے متعلق بیان کرتا ہوں-
سوال یہ تھا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- لا یمسہ الاالمطھرون ]71 [p۱~}~ کہ قرآن کو پاکیزہ اور مطہر لوگ ہی چھوئیں گے` دوسرے لوگ اس تک پہنچ نہیں سکیں گے- مگر ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میں گندے سے گندے لوگ قرآن کریم کو ہاتھ لگا لیتے ہیں- عیسائی` ہندو` آریہ حتی کہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے والے اور شرعی طہارت کا قطعی خیال نہ رکھنے والے بھی قرآن کریم کو چھوتے ہیں- عیسائیوں نے تو قرآن کریم چھپوائے بھی ہیں- پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو اور عیسائی قرآن کریم چھپواتے` اسے فروخت کرتے اور اس کی تفسیریں لکھتے ہیں-
بعض نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ کوئی ناپاک انسان قرآنکریم کو چھو نہیں سکتا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کوئی ناپاک انسان چھوئے نہیں- یعنی یہ حکم ہے اور اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ قرآن کریم کو باوضو ہاتھ لگایا جائے- اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہے- لیکن نہ تو اس آیت کا یہ مفہوم ہے اور نہ سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ مفہوم درست ہے- علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف ہے- حضرت علیؓ کہتے ہیں حائضہ عورت بھی قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے اور بہت سے ائمہ نے لکھا ہے حائضہ عورت پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھنا بھی مس ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ ذہن میں سے گذرتے ہیں-
بہرحال حائضہ کو کپڑے میں ہاتھ لپیٹ کر قرآن کریم کو چھونے یا بغیر کپڑے کے چھونے بلکہ پڑھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے- پھر لا یمسہ الالمطھرون کا کیا مطلب ہوا- اس کے متعلق لوگوں کو بہت سی مشکلات پیش آئی ہیں- مگر خدا تعالیٰ نے مجھے اس کے نہایت لطیف معنی سمجھائے ہیں- میرے نزدیک اس کے دو معنی ہیں- ایک معنی تو یہ ہیں کہ سچا اور حقیقی مس یہ ہوا کرتا ہے کہ اس چیز سے تعلق ہو جائے- مثلاً محاورہ ہے فلاں کو تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- باوجود اس کے کہ ایک لڑکا مدرسہ میں جاتا ہے پورا وقت کلاس میں بیٹھتا ہے مگر استاد اس کے متعلق کہتا ہے اسے تو فلاں مضمون سے مس ہی نہیں- کیا اس پر وہ طالب علم کہہ سکتا ہے کہ استاد کی یہ بات صحیح نہیں- کیونکہ میں روز مدرسہ جاتا ہوں` اس مضمون کی کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی ہے پھر کیونکر مجھے اس مضمون سے مس نہیں- بات یہ ہے` استاد کے کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اس مضمون سے حقیقی لگائو نہیں- ان نتائج کو ہو حاصل نہیں کر سکتا جو اس مضمون کے پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں- لا یمسہ الالمطھرون کے ایک معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم اپنے ساتھ فوائد لایا ہے- وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے ساتھ تعلق پیدا کرے گا` وہ قیامت کو ہی نجات پا سکے گا- اگر قرآن کا صرف یہی دعویٰ ہو تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے- مرنے کے بعد اگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے- قرآن کریم نے اس سوال کو یوں حل کیا ہے کہ کہتا ہے میں اپنے ماننے والوں اور سچا تعلق پیدا کرنے والوں کو اسی دنیا میں انعامات کا وارث بنا دیتا ہوں- یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ اگلے جہاں میں بھی قرآن کے ماننے والوں کو نجات حاصل ہو گی-
چنانچہ قرآن کریم اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے متعلق بتاتا ہے- اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ۲~}~ کہ ایسے لوگوں کو دو باتیں حاصل ہو جاتی ہیں - ایک یہ کہ ایسے لوگ ہدایت الٰہی پر سوار ہو جائیں گے- ہدایت پر سوار ہونے کا کیا مطلب ہے- یہ کہ جس طرح گھوڑا اپنے سوار کے ماتحت ہو جاتا ہے` جدھر سوار چاہے اسے پھیر لیتا ہے` اسی طرح ہدایت ایسے لوگوں کے تابع ہو جاتی ہے یعنی ایسے انسان کے ذریعہ ہدایت پھیلتی ہے- یہ قرآن کریم کی خاص خصوصیت ہے- دوسری مذہبی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ ان کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے- مگر قرآن یہ کہتا ہے- اس کی تعلیم پر چلنے والے کو یہ مقدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے- وہ جدھر رخ کرتا ہے` دنیا اس کے قدموں میں گرتی ہے-
دوسری بات قرآن پر عمل کرنے والوں کے متعلق یہ بیان کی کہ اولئک ھم المفلحون- جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوں گے` اسے ضرور پا لیں گے- مفلحون]ttex [tag کے یہ معنی نہیں کہ بڑے بن جائیں گے- اس کا مطلب یہ قرار دے کر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں قرآن کو نہ ماننے والے دنیا میں حکومتیں کرتے ہیں` آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں` عزت و شوکت رکھتے ہیں- ان کے مقابلہ میں قرآن کو ماننے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے` پھر مفلح کس طرح ہوئے-
مگر یاد رکھنا چاہے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ میرے ماننے والوں کو حکومت مل جائے گی` سلطنت حاصل ہو جائے گی- ایک وقت اور ایک زمانہ کے لئے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت بھی ملے گی- لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ دنیا کی حکومت ہی قرآن کی تعلیم پر چلنے والوں کا مقصد ہے- بلکہ یہ کہا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں روحانیت قائم کریں- اگر اس میں کوئی کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا` چاہے دنیا میں سب سے غریب ہی ہو-
پس مفلح کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مادی چیز مل جائے- بلکہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہو` اس میں کامیاب ہونے والا مفلح ہے- دیکھو حضرت امام حسینؓ مارے گئے اور بادشاہ نہ بن سکے- لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ناکام رہے` ہرگز نہیں- وہ کامیاب ہو گئے اور مفلح بن گئے کیونکہ جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے تھے` اس میں کامیاب ہو گئے- ان کے سامنے یہ مقصد تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے بعض حقوق ایسے ہیں کہ جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوں` انہیں پھر وہ چھوڑ نہیں سکتا- اس میں ان کو کامیابی حاصل ہو گئی- ان کی شہادت کا یہ نتیجہ ہوا کہ گو بعد میں خلفاء ہوئے مگر ان کو خلفاء راشدین نہیں کہا گیا- کیونکہ حضرت امام حسین کی قربانی نے بتا دیا کہ خلافت بعض شرائط سے وابستہ ہے- یہ نہیں کہ جس کے ہاتھ میں بادشاہت آ جائے و ہ خلیفہ بن جائے- اس طرح دین کو بہت بڑی تباہی اور بربادی سے بچا لیا- اگر یہ نہ ہوتا تو یزید کے سے انسان کے اقوال اور افعال پیش کر کے کہا جاتا یہ اسلام کے خلفاء کی باتیں ہیں- اور اس طرح دین میں رخنہ اندازی کی جاتی-
پس اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والا مفلح ہوتا ہے` خواہ ایک شہادت چھوڑ سوشہادتیں اسے حاصل ہوں- تو فرمایا اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون- ایسے انسان کو فلاح نصیب ہو جاتی ہے اور ہدایت اس کے ماتحت آ جاتی ہے- اس کے کلام میں تاثیر` برکت اور نور ہوتا ہے-
یہ قرآن کا دعویٰ ہے- اب سوال ہو سکتا ہے کہ قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے` ہدایت اس کے تابع ہو جاتی ہے اور وہ مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے- مگر ہم تو بہتیرے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں مگر ان کے متعلق یہ نتیجہ نہیں نکلتا- اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ لا یمسہ الالمطھرون- مطہر لوگ ہی اس کے برکات اور فیوض سے حصہ پاتے ہیں- یہ نہیں کہ جو مونہہ سے قرآن کے الفاظ نکالے` وہ فائدہ اٹھا لے- یہ مس مطہر لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے-
پس یہاں مس سے مراد ظاہری طور پر چھونا نہیں` ایک نجاست سے بھرا ہوا انسان بھی قرآن کو چھو لیتا ہے- اگر وہ مسلمان ہو گا تو گناہ گار ہو گا اور اگر کافر ہے تو وہ تو قرآن کو مانتا ہی نہیں- پس لا یمسہ الالمطھرون کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی برکات` اس کے فضائل اور اس کی رحمتوں سے حصہ نہیں پاتے مگر مطہر لوگ - جو لوگ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں وہی اس کی برکات اور رحمتوں سے حصہ پاتے ہیں- ایک معنی تو اس کے یہ ہیں- ایک اور معنی ہیں جو علمی طور پر نہایت عظیم الشان ہیں- اور وہ یہ ہیں دنیا میں کئی ایک کتابیں پائی جاتی ہیں- جو اس بات کی مدعی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- ایسی کتابیں ہندوئوں` عیسائیوں` زرتشتیوں وغیرہ کی ہیں- اسی طرح قرآن بھی مدعی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے- اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن کو ان کتابوں پر کیا فضیلت ہے کہ ان کو چھوڑ کر اسے مانا جائے- وہ بھی اس بات کی دعویدار ہیں کہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں- اور قرآن کا بھی یہی دعویٰ ہے- اور ہمارے لئے تو اس لحاظ سے بھی مشکل ہے کہ قرآن نے تسلیم کیا ہے کہ خدا کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے کتابیں آتی رہی ہیں- اس طرح ان کتابوں کا پلہ بھاری ہو گیا کہ قرآن نے بھی ان کے آنے کی تصدیق کر دی- مگر ان کتابوں کے ماننے والے قرآن کو نہیں مانتے- اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کونسی کتاب ماننی چاہئے جبکہ بظاہر قرآن کی اپنی تصدیق سے ان کتابوں کا درجہ بڑھ جاتا ہے-
قرآن نے اس بات کے لئے کہ یہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جسے ماننا چاہئے جو دلائل دیئے ہیں` ان میں سے ایک یہ ہے جو اس آیت میں بیان ہے-
یہ سیدھی بات ہے کہ ہر انسان اپنا خزانہ اور اپنی قیمتی چیزیں اپنے پیاروں کے لئے محفوظ رکھتا ہے- مثلاً انسان اپنی جائداد اپنے وارثوں کے لئے قرار دیتا ہے- کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی جائداد پر قابض ہو جائیں اور اس کے وارث محروم رہ جائیں- اسی طرح سلطنتیں چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اموال ان کے ملک میں ہوں` اسی بات کے لئے لڑتی ہیں- ہندوستان میں اسی لئے شورش پیدا ہوتی رہتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں دوسرے ملک کے لوگ ہمارے ملک سے اموال لے جا رہے ہیں- ان اموال سے ہمارے ملک کے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے- ورنہ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر لنکا شائر بند ہو جائے تو کپڑے کے کارخانے ہندوستان کے زمیندار نہیں چلا لیں گے` بڑے بڑے سیٹھ ساہوکار ہی ایسے کارخانوں کے مالک ہوں گے اور ممکن ہے اب جو کپڑا سستا ہے` اس وقت لوگوں کو مہنگا ملے مگر شور مچانے کے لئے وہ بھی تیار ہیں اور کہتے ہیں ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہو- اگر اہل ہند کو حکومت مل جائے تو زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار لوگ پارلیمنٹ کے ممبر بن جائیں گے اور باقی سارے لوگ ان کے جوئے کے نیچے ہوں گے- مگر وہ بھی حکومت کے ایسے ہی شائق ہیں جیسے وہ لوگ جو اس بات کے امیدوار ہیں کہ وہ پریذیڈنٹ بن جائیں گے یا کوئی اور بڑا عہدہ حاصل کر لیں گے- اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ اپنے ملک کا خزانہ اپنے لوگوں کے لئے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں- مذہبی کتب بھی بطور خزانہ ہوتی ہیں- جس طرح جسمانی خزانے ہوتے ہیں` اسی طرح روحانی خزانے بھی ہوتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم کو کہیں شفاء قرار دیا گیا ہے` کہیں پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے جس سے کھیتیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں- ادھر ہم دیکھتے ہیں یہ قانونقدرت بلکہ قانون فطرت ہے کہ اپنا خزانہ اپنوں کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے- اب اگر قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ روحانی خزانہ ہے تو ضرور ہے کہ یہ خزانہ انہیں کو ملے جو اس سے حقیقی تعلق رکھنے والے ہوں اور یہ انہیں کے لئے کھلے جن کو اس کے کھولنے کی جستجو اور شوق ہو- اگر اس کے خلاف ہو اور یہ خزانہ اس کے مخالفوں پر کھلے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں ہو سکتی- انسانی کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے`گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے مگر اس قانون کو گورنمنٹ کی نسبت دوسرے زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں-کئی بار >پائونیر< اور >سول< نے لکھا ہے- مسٹر جناح قوانیں سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے` اس لئے گورنمنٹ کے وزراء کو دبا لیتا ہے- چونکہ گورنمنٹ کا قانون انسانی کلام ہوتا ہے اس لئے اس کا مخالف موافقین کی نسبت اس کی زیادہ باریکیاں سمجھ سکتا ہے- اگر خدا تعالیٰ کا کلام جو برکت اور انعام کے طور پر نازل ہوتا ہے` اسے خدا تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے زیادہ عمدگی سے سمجھ سکیں تو وہ برکت کہاں رہے گی-
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آسمانی کتاب کے پرکھنے کا گر بتایا ہے- آسمانی کتاب بطور رحمت` برکت اور نعمت کے نازل ہوتی ہے- اگر غیر لوگ جنہوں نے اس کے احکام کا جوا اپنی گردنوں پر نہیں رکھا` اس کے ماننے والوں سے زیادہ اس کی باریکیاں سمجھ لیں تو معلوم ہوا اس خزانے کو دوسرے لے گئے- اس لئے فرمایا اس خزانہ پر ایسے محافظ ہیں کہ یہ ماننے والوں کے لئے ہی کھلتا ہے` دوسروں کے لئے نہیں- مگر انجیل کو دیکھ لو اس کے مفسر وہی لوگ ہیں جنہیں انجیل کے مطابق روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل نہیں ہیں` یہی حال ویدوں کا ہے- مگر قرآن کریم کے علوم میں وہی لوگ آگے بڑھے جو تقویٰ اور طہارت میں بھی اعلیٰ تھے- علماء نے قرآن کریم کی جو تفسیریں لکھی ہیں` آج مسلمان انہیں چھپائے پھرتے ہیں تاکہ غیر مذاہب کے لوگ ان کی بناء پر اعتراض نہ کریں- لیکن صوفیاء نے وہ وہ باتیں لکھی ہیں جو اس وقت دنیا کو معلوم نہ تھیں اور اب معلوم ہو رہی ہیں- پہلے کہا جاتا تھا کہ موجودہ دنیا کی عمر پانچ چھ ہزار سال ہے- مگر ابن عربی نے کہا مجھے کشف میں بتایا گیا ہے کہ کئی لاکھ سال سے یہ دنیا ہے اور کئی لاکھ سال سے یہ بنتی چلی آ رہی ہے- اب یورپین لوگ ایولیوشن (EVOLUTION) تھیوری کے ماتحت یہی مان رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تھیوری ایجاد کی حالانکہ اس کے اصل موجد ابن عربی ہیں-
اسی طرح ظاہری علماء یہ کہتے رہے کہ غیر تو غیر جو مسلمان بھی دوزخ میں جائے گا` وہ پھر نہیں نکلے گا مگر ابن عربی کہتے ہیں-
خدا کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ شیطان بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں نہیں رہے گا اور قرآن کریم بھی یہی کہتا ہے- پھر عام مفسر تو کہتے رہے کہ سورۃ نجم کی آیات میں شیطان نے یہ فقرات داخل کر دئے تھے- تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی-۳~}~ کہ کچھ دیویاں ایسی ہیں جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے- یہ شرک کا کلام شیطان نے )نعوذ باللہ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر قرآن کریم پڑھتے ہوئے جاری کر دیا-
پھر کہتے ہیں- سورۃ حج کی ایک آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسے رد کر دیا گیا ہے- لیکن ان کے مقابلہ میں ابن عربی نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ شیطان انبیاء کے رستہ میں روڑیاٹکاتا ہے اور خدا تعالیٰ ان کو دور کر دیتا اور نبی کو کامیاب کر دیتا ہے- غرض ایک ایک بات صوفیا کی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے بالکل صحیح اور درست کہی-
اسی سلسلہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج جو ترقیاں فلسفہ` اخلاق` تاریخ وغیرہ کی بیان کی جاتی ہیں` یہ سب کچھ پہلے قرآن کریم میں بیان ہو چکی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلسفہ اخلاق کی ایسی تھیوریاں بیان کی ہیں کہ پہلے لوگ ان کے خلاف تھے- لیکن اب امریکہ والوں نے وہ باتیں لکھی ہیں تو ان کی بڑی تعریف کی جا رہی ہے` حالانکہ ان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ باتیں نہایت وضاحت سے لکھ دی ہیں-
بادلوں کے متعلق پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ وہ سمندر سے پانی پی کر آتے اور برستے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے پانی سے بخارات ہوائیں اٹھاتی اور پھر بادل بوجھل ہوتے اور برستے ہیں- بدی اور نیکی کی صحیح تشریح سے پہلے لوگ واقف نہ تھے- اب قرآنکریم سے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے مگر یہ باتیں کسی ایسے انسان نے بیان نہیں کیں جو دنیاویعلوم کے لحاظ سے بڑا عالم ہو- بلکہ اس شخص نے بیان کی ہیں جس نے کسی مدرسے میں تعلیم نہیں پائی اور جس کے متعلق مخالف یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ وہ صحیح اردو بھی نہیں لکھ سکتا- بات یہ ہے قرآن کریم کے علوم ظاہری علم سے وابستہ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ سے وابستہ ہیں- آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے انہیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھ کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں- بعض لوگ کہتے ہیں مولوی نورالدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں- خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے- آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا- کئی دفعہ پینک ۴~}~ میں اس کے حقے کی چلم ٹوٹ جاتی- ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا- غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے- کئی لوگ اس بات کے مدعی تھے کہ آپ کو کئی سال پڑھانے کی قابلیت رکھتے ہیں- اب اس سوال کو جانے دو کہ آپ نے دنیا میں کیا تغیر پیدا کیا- مگر اس میں شبہ نہیں کہ سارا اسلامی عالم اس بات کو تسلیم کرتا ہے- سوائے ان لوگوں کے جو بلاء تعصب میں حد سے زیادہ مبتلا ہو چکے ہیں کہ اسلام کے دشمنوں کو شکست دینے والے یہی لوگ ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں-
میرے ایک سسرال سے غیر احمدی رشتہ دار ہیں- جو معزز عہدیدار ہیں- انہوں نے مجھے خط لکھا کہ قرآن کریم کے مطالب کو بگاڑنے والا تم سے بڑھ کر کوئی نہیں مگر میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں ر ہ سکتا کہ اسلام کے دشمنوں کا سر کچلنے کے لئے آپ کی باتیں بہت کارگر ہیں- میں نے کہا عجیب بات ہے- قرآن بگڑ کر دشمنان اسلام کا سر کچلتا ہے` یوں نہیں کچل سکتا- انہوں نے یہ بھی لکھا مجھے آپ اس خط کا جواب نہ لکھیں- شائد انہوں نے یہ اس لئے لکھا کہ انہوں نے سخت الفاظ استعمال کئے تھے- انہوں نے سمجھا ہو گا میں بھی انہیں سخت جواب دوں گا` حالانکہ میں ایسا نہ کرتا-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے جو علوم ظاہر کئے ہیں` وہ سمندر ہیں اور دشمن بھی انہیں تسلیم کرتے ہیں- جب ترجمہ القرآن کا پہلا پارہ انگریزی میں قادیان سے شائع ہوا تو فورمین کرسچین کالج لاہور کے پرنسپل اور وائی-ایم-سی اے کے سیکرٹری مجھ سے ملنے کے لئے قادیان آئے` انہوں نے مختلف امور کے متعلق گفتگو کی- انہیں وہ پارہ دیا گیا- اس وقت تو انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا لیکن بعد میں سیلون میں تقریر کی جس میں بیان کیا-
>اسلام اور عیسائیت کا فیصلہ ازہر وغیرہ میں نہیں ہو گا جن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں- بلکہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ہو گا جہاں سے میں ابھی ہو کر آیا ہوں اور جہاں سے قرآن کا ترجمہ شائع ہونا شروع ہوا اور وہ قادیان ہے- اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حالت ہے-<
>اسی طرح امریکہ کا ایک رسالہ ہے جس نے لکھا جب یہ ترجمہ مکمل ہو گیا جو قادیان سے شائع ہونا شروع ہوا ہے تو اس وقت اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہو گا یا عیسائیت<-
یہ تو مخالفین اسلام کی آراء ہیں- ادھر مسلمان بھی جو آپ کو جاہل اور بے علم کہتے تھے` ان میں سے اکثر یا تو یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ قرآن کریم کی وہ خدمت آپ نے کی ہے جو اور کسی نے اس زمانہ میں نہیں کی- یا یہ کہ قرآن کو تو بگاڑ کرپیش کرتے ہیں مگر غیر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی فتح انہی کے ذریعہ ہوتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے لایمسہ الاالمطھرون خواہ کوئی ظاہری علوم میں کتنا بڑھ جائے جب تک تقویٰ و طہارت حاصل نہ کرے گا علوم قرآنیہ میں بچہ ہی ہو گا- وہی ان علوم کا ماہر ہو گا خواہ وہ دینوی علوم نہ رکھتا ہو جو روحانی پاکیزگی رکھتا ہو گا- اس پر ایسے علوم کھولے جائیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی-
پس قرآن کریم سچائی کا یہ معیار بتایا ہے کہ جو خدائی کتاب ہو` اس کے علوم روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے سے حاصل ہو سکتے ہیں- ہم اس صداقت کو آج بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں- میں ہی ہوں میں نے ہائی سکول میں پڑھا مگر کسی جماعت میں پاس نہ ہوا- حساب سے مجھے مس ہی نہ تھا- عربی میں قرآن کریم کا خالی ترجمہ حضرت خلیفہ اول نے پڑھایا اور باوجود اس کے کہ مجھے بہت کم عربی آتی تھی` آدھا پونا پارہ روزانہ پڑھا دیتے اور فرماتے ایک دفعہ قرآن میں سے گذر جائو- اسی طرح بخاری میں سے انہوں نے گذار دیا- اگر میں کوئی سوال کرتا تو فرماتے میاں یہ باتیں خود خدا سکھائے گا- اسی طرح میرے سوال کو ٹال دیتے- کبھی خود کچھ بتانا چاہتے تو بتا دیتے` میرے سوال پر کچھ نہ بتاتے- اس طرح پڑھا کر فرمانے لگے مجھے جو کچھ آتا تھا` میں نے تمہیں سکھا دیا ہے اس وقت تو میں نہ سمجھ سکا کہ کس طرح وہ سب کچھ سکھا دیا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس فقرہ میں انہوں نے سب کچھ سکھایا کہ خدا خود سکھاتا ہے-
اگر دل پاکیزہ ہو` خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو خدا تعالیٰ قرآن کریم کے علوم خود سکھاتا ہے- چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ جب حج کے لئے جانے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میں نے کبھی پہلے یہ بات ظاہر نہ کی تھی تاکہ تمہاری ترقی میں روک نہ ہو- اب ظاہر کرتا ہوں کہ یوں تو میں نے تمہیں قرآن پڑھایا لیکن کئی معارف قرآنیہ تم سے سنے اور یا رکھے- اور اس طرح تم سے قرآن پڑھا- اب چونکہ تم جار ہے ہو- اس لئے سنا دیا ہے کہ شاید پھر ملاقات ہو یا نہ ہو- تو میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی شخص اٹھے جو یہ کہے کہ میں قرآن کے معارف اور حقائق بیان کرنے میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں اس سے مقابلہ کے لئے تیار ہوں- وہ خود تسلیم کرے یا نہ کرے` دنیا اور حقائق پسند دنیا تسلیم کرے گی کہ جو حقائق اور معارف میں نے بیان کئے ہوں گے` وہ بہت بڑھ کر ہوں گے-
تو قرآن کا علم محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے- اور یہ قرآن کریم کی بہت بڑی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ جس کتاب کا علم خدا کے فضل سے حاصل ہو` وہی خدا کی کتاب ہو سکتی ہے- جسے خدا تعالیٰ اپنے کلام کے حقائق سے واقف ہونے کا مستحق سمجھتا ہے` اس پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے- لیکن جو خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے` اسے یہ کتاب ایسی ہی بدنما لگتی ہے جیسی پنڈت دیانند صاحب کو لگی کہ انہیں اس میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آئی-
وہ لوگ جو ظاہری علوم کے بڑے بڑے دعوے رکھتے تھے` حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابلہ میں قرآن کریم کے نکات بیان کرنے میں ایسے ہی ہیچ تھے جیسے کمزور دماغ کا انسان ایک اعلیٰ دماغ کے انسان کے مقابلہ میں ہوتا ہے- وہ سوائے اس کے یہ کہتے رہے غلط تاویلیں کرتے ہو` قرآن کو بگاڑتے ہو اور کچھ نہ کر سکے- آج انہی کی زریتیں اور ان کے ساتھی تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے جو حقائق بیان کئے وہ کسی نے بیان نہیں کئے-
عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل سر سید نے قرآن کریم کی تفسیر لکھنی شروع کی- اور قرآنی مطالب کو اس طرح پیش کیا کہ وہ نئی تعلیم کے مطابق معلوم ہوں- اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود نے کئی آیات کی ایسی تشریح بیان کی کہ اس وقت یورپ کی تحقیقات اس کے خلاف تھی- مگر اب حضرت مسیح موعود کی بیان کردہ کئی باتوں کی تصدیق اہل یورپ بھی کرنے لگے ہیں اور کئی ابھی باقی ہیں- کیا عجیب بات نہیں کہ ان کی باتیں تو مٹی جا رہی ہیں جنہوں نے زمانہ کے حالات کے مطابق کہی تھیں مگر حضرت مسیح موعود کی فرمودہ باتیں اب مخالف بھی مانتے جا رہے ہیں-
غرض لایمسہ الاالمطھرون سچے کلام الٰہی کے پرکھنے کا معیار ہے کہ جتنا کوئی باطنی علوم میں ترقی کرے گا` اتنا ہی زیادہ اس کلام کے سمجھنے میں ترقی کرے گا- جس کتاب کے متعلق یہ بات پائی جائے گی وہی خدا کی طرف سے ہو گی-
یہ دوسرے معنی ہیں اس آیت کے- یہ معنی نہیں کہ کوئی ناپاک ہاتھ قرآن کو نہیں لگا سکتا- یہ مس تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوا- حضرت عمر ؓ کے متعلق آتا ہے- مسلمان ہونے سے قبل انہوں نے بہن سے قرآن مانگا` انہوں نے باوجود ان کے مشرک ہونے کے ان کے ہاتھ میں دے دیا-
بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت پر واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرے اور تقویٰ و طہارت اختیار کرے- آگے اس کے کئی مدارج ہیں- کئی لوگ ہوتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کو سامنے رکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں ہم اس درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے- جیسے تندرستی اور صحت کے مدارج ہوتے ہیں` اسی طرح روحانیت کے بھی مدارج ہوتے ہیں- اور ہر درجہ کے ساتھ معارف تعلق رکھتے ہیں- جتنا جتنا کوئی درجہ پاتا جاتا ہے` اتنے ہی زیادہ اعلیٰ معارف سمجھنے کی اس میں قابلیت پیدا ہوتی جاتی ہے- اگر باوجود کسی کی کوشش اور سعی کے اس میں کمزوری رہ جائے تو اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک سپاہی اپنی طرف سے پوری ہمت اور بہادری سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے- اگر وہ جرنیل کی طرح کام نہیں کر سکتا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے ملک کی خدمت نہیں کی- اس نے ضرور کی ہے مگر اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق- پس اگر کسی میں تقویٰوطہارت حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ رکھنے کے اور کوشش کرنے کے باوجود کوئی کمزوری رہ جاتی ہے تو خدا تعالیٰ اس کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اسے بھی اس کا بدلہ دیتا ہے تاکہ اس کا حوصلہ بڑھے اور وہ اور زیادہ کوشش کرے-
پس کسی کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے` کوشش کرنی چاہئے کہ طہارت اور کوشش کرے- خدا تعالیٰ نے اولئک علی ھدی من ربھم میں یہی بتایا ہے- کہ جب انسان میں اخلاص پیدا ہوتا ہے تو اسے سواری ملتی ہے جو اسے آگے لے جاتی ہے- اسی طرح اسے اور ترقی ملتی ہے- پھر وہ سواری اور آگے لے جاتی ہے-
)الفضل ۵ فروری ۱۹۲۹ء(
۱~}~ الواقعہ:۸۰ ۲~}~البقرہ:۶
‏]17 [p۳~}~ تفسیر روح المعانی جلد۹ صفحہ۲۰۹ مطبوعہ استنبول ۱۹۲۶ء
۴~}~ پینک: افیون یا پوست کے نشہ کی اونگھ
‏a.10.32
]انوار العلوم جلد ۱۰
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ-ھوالناصر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں
اہم مضامین پر اخبار میں قلم اٹھانے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو پر روشنی ڈال دی جائے ورنہ جو مضامین کہ سینکڑوں صفحات کے محتاج ہیں انہیں ایک دو صفحات میں لے آنا یقیناً انسانی طاقت سے بالا ہے میں بھی مذکورہ بالا مضمون کے متعلق جو اپنی تفصیلات کے لئے بیسیوں مجلدات کا محتاج ہے بلکہ پھر بھی ختم نہیں ہو سکتا یہی طریق اختیار کروں گا-
خدا تعالیٰ کا کلمہ
انبیاء خدا تعالیٰ کا کلمہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل لو کان البحر مداد الکلمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا ۱~}~ تو کہہ دے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے میرے کلمات کی توضیح اور تشریح کی جائے تو سمندر ختم ہو جائیں گے مگر میرے کلمات کے کمالات کا بیان ختم نہ ہوگا- خواہ اس قدر سیاہی ہم اور بھی کیوں نہ پیدا کر دیں- غرض نبوت کا مضمون تو ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے مگر موقع کے لحاظ سے اس کا ایک قطرہ پیش کیا جا سکتا ہے-
نبی کے کام
قرآن کریم نے نبی کے چار کام مقرر فرمائے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہالسلام کی دعا میں اس کا اشارہ ہے ان کی دعا قرآن کریم میں یوں نقل ہے ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم ۲~}~ اے ہمارے رب! اہل مکہ میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو اور ان کو تیرے نشانات سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے اور انہیں پاک کرے-
ایک سرسری نگہ ڈالنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نبی کے کاموں کا ایک بہترین نقشہ ہے جو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچ دیا ہے- نبی کا کام )۱(اللہ تعالیٰ کی آیات کا سنانا- )۲(کتاب کا سکھانا- )۳(حکمت کی باتوں کی تعلیم دینا اور )۴(لوگوں کے نفوس کو پاک کرنا ہے- کیا اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں کوئی اور نقشہ نبی کے کاموں کا کھینچا جا سکتا ہے؟ آئو اب ہم دیکھیں کہ ان کاموں کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ثابت ہوتے ہیں-
نبی کا پہلا کام آیات سنانا
پہلا کام نبی کا آیات کا سنانا بتایا گیا ہے- آیت کے معنی عربی زبان میں عبرت اور دلیل کے ہوتے ہیں- جو چیز کسی اور چیز کی طرف راہنمائی کرے وہ آیت ہے پس آیات کے سنانے کا یہ مطلب ہوا کہ ایسی باتیں بتائیں جو امور غیبیہ پر ایمان لانے کا موجب ہوں کیونکہ امور غیبیہ ایسے امور ہیں کہ انسان ان تک خود نہیں رسائی پا سکتا خدا تعالیٰ کا وجود سب سے مقدم ہے بلکہ ایک ہی حقیقی وجود ہے مگر وہ اس قدر وراء الورا ہے کہ اس تک پہنچنا انسانی طاقت سے بالا ہے اس تک پہنچنے کا ذریعہ محض وہ دلائل اور براہین اور وہ عرفان اور مشاہدہ ظہور صفات الہیہ ہو سکتا ہے جو ہمیں اس کے قریب کر دے اور اس کے وجود کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک باقی نہ چھوڑے یہی حال قانون قدرت کے ظہور کا اور ملائکہ کا اور رسالت کا اور کلام الہی کا اور بعثت مابعدالموت کا ہے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کی سمجھ انسان کو براہ راست ہو سکتی ہے- بلکہ ان میں سے ہر ایک شے ایسے دلائل کی محتاج ہے جو ہمیں روحانی اور عقلی طور پر ان کے قریب کر دیں- ان سے ہمیں ایسا اتصال بخش دے کہ گویا ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا-
امور مذکورہ بالا کی اہمیت اس امر سے ثابت ہے کہ جس قدر بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ان امور پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی نام کے نیچے ان امور کو اپنے معتقدات میں شامل رکھتے ہیں خواہ تشریحات میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو- پس جو شخص بھی ان امور پر ایمان لانے کو ہمارے لئے آسان کر دیتا ہے اور ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جس جگہ کھڑے ہو کر ان امور کا گویا ایسا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی وہ نبوت کے کام کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے-
صفات الہی کا بیان
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب ہم غور کرتے ہیں اور آپ کے کام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ مذکورہ بالا کام کو آپ نے ایسے بے نظیر طریق پر کیا ہے کہ اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی- خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق سب سے پہلی چیز اس کی صفات کا بیان ہے ایک غیر محدود ہستی ہونے کے لحاظ سے وہ اپنی صفات ہی کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے اگر کوئی شخص صفات الہیہ کو اس طرح بیان نہیں کرتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلنشین ہو اور دوسری طرف عقل ان کا اس حد تک ادراک کر سکے جس حد تک کہ ان کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے ممکن ¶ہو وہ ہر گز خدا تعالیٰ تک بندوں کو پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا-
توحید الہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات خدا تعالیٰ کی بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک طرف تو عقل انسانی ان سے تسلی پا جاتی ہے دوسری طرف وہ ایک غیر محدود اور قادر اور خالق ہستی کے بالکل شایان شان ہیں آپ ایک طرف خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں اور جلووں سے پاک ثابت کرتے ہیں اور اس کی توحید پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ تمام آلائشوں اور نقصوں سے اسے پاک قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کی محبت اور اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچانیکی خواہش کو ایسے واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دل محبت سے بھر جاتا ہے اور عقل مطمئن ہو جاتی ہے مگر آپ اسی پر بس نہیں کرتے آپ اس اصل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ امور جن پر ایمان لانا انسان کی نجات کے لئے ضروری ہو ان پر ایمان لانے کی بنیاد صرف عقلی دلیل پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مشاہدہ پر ہونی چاہئے تا کہ دل شک و شبہ کے احتمال سے بھی پاک ہو جائے اور آپ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات اس کے خاص بندوں کے لئے ایسے خاص رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ ان کے معجزانہ ظہور کو دیکھ کر انسان کا دل یقین کی آخری کیفیات سے لبریز ہو جاتا ہے-
ملائکہ کی حقیقت
ملائکہ کے متعلق جہاں ایک طرف آپ نے ان لوگوں کے خیالات کو رد کیا ہے جو ان کے وجود ہی کے منکر ہیں وہاں ان لوگوں کے خیالات کو بھی رد کیا ہے جو انہیں بادشاہی درباریوں کی حیثیت میں پیش کرتے ہیں اور بتایا ہے کہ ملائکہ نظام عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ میں اسی طرح ضروری وجود ہیں کہ جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب وہ ایک مادی خدا کے دربار کی رونق نہیں ہیں بلکہ ایک غیر مادی خدا کے احکام تکوین کی پہلی کڑیاں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلے پوری طرح ان پر قائم ہیں اور جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت نہیں ہو سکتی اسی طرح ملائکہ کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن ہے-
قانون قدرت کیا ہے؟
آپ نے قانون قدرت کو ایسا قریب الفہم کر دیا کہ مادی عللواسباب کا دیکھنے والا سائنس دان اور عقلی موجبات کی موشگافی کرنے والا فلسفی اور روحانی اثرات پر نگہ رکھنے والا صوفی اور موٹی موٹی باتوں سے نتیجہ نکالنے والا عامی یکساں طور پر تسلی پا گیا- ہر اک نے اسے اپنے اپنے نقطئہ نگاہ سے دیکھا- غور کیا اور اطمینان کا سانس لیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی تصدیق کر دی کیونکہ مختلف پہلوئوں سے غور کرنے کے بعد جب ایک ہی نتیجہ نکلے تو اس نتیجہ کی صحت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا-
رسالت اور کلام الہی کی ضرورت
آپ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت اور قانون قدرت کی مثالوں سے ثابت کیا وہ خدا جس نے جسمانی آنکھ کے لئے سوج کو پیدا کیا ہے کس طرح ممکن ہے کہ روحانی آنکھ کو کام کرنے کے قابل بنانے کے لئے اس نے روحانی سورج اور روحانی نور پیدا نہ کیا ہو حالانکہ جسمانی آنکھ کا تعلق تو ایک محدود عرصہ سے ہے لیکن روحانی بینائی کا اثر انسان کی تمام آئندہ زندگی پر ہے خواہ اس دنیا کی ہو خواہ اگلے جہاں کی-
بعث مابعد الموت
بعث ما بعد الموت کے متعلق بھی آپ نے مختلف پیرایوں سے بحث کی اور ایسے رنگ میں اسے پیش کیا کہ وہ ایک خالص علمی مسئلہ کی بجائے ایک عملی مسئلہ بن گیا- انسانی اعمال ایک زبردست جزاء کے طالب ہیں اور وہ جزا اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے دوسروں کی نگہ سے مخفی رکھا جائے کیونکہ اس عظیم الشان جزاء کے ظاہر ہو جانے پر انسانی اعمال اختیاری نہیں رہیں گے بلکہ ایک رنگ میں غیر اختیاری ہو جائیں گے- عالم آخرت ایک نئی دنیا نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں مادیات کے اثر سے آزاد ہو کر انسانی روح اسی راستہ پر بلا روک ٹوک چلنا شروع کر دیتی ہے جو اس نے اپنے اعمال کی داغ بیل ڈال کر اپنے لئے تیار کیا تھا خدا تعالیٰ ایک غم و غصہ سے پر بادشاہ نہیں اس کی صفات کے تقاضے نے انسان کو پیدا کیا تھا اور وہی صفات اس امر کی متقاضی ہیں کہ انسان آخر کار اپنے مقصد کو پا جائے اور کوئی پہلے اور کوئی پیچھے آخر اس وجود سے پیوست ہو جائے جس وجود کی رحمت اسے عالم وجود میں لائی تھی-
غرض ہر اک مخفی مسئلہ کو جس پر ایمان کی بنیاد تھی وہم اور شک کے بادلوں سے نکال کر ایک چمکتے ہوئے سورج کی روشنی کے نیچے آپ نے رکھ دیا تا کہ ہر شخص اپنی عقل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکے اور اپنے روحانی ادراک سے اسے چھو سکے اور وہم اور وسوسہ سے نکل کر یقین اور اطمینان حاصل کر سکے-
نبی کا دوسرا کام تعلیم کتاب
دوسرا کام نبی کا تعلیم کتاب ہے اس کام کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیا ہے کہ کسی اور وجود میں اس کی مثال نہیں ملتی- آپ نے سب سے اول تو یہ بتایا کہ شریعت ایک فضل ہے انسان اپنی دنیوی اوراخروی زندگی کی بہتری کیلئے اس امر کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس پر اپنی مرضی کا اظہار کرے تا کہ اس روحانی سفر میں جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے کاموں کی بنیاد شک اور وہم پر نہ ہو بلکہ یقین اور وثوق پر ہو شریعت ایک بوجھ نہیں جو آگے ہی بوجھ سے دبے ہوئے انسان کو کچلنے کے لئے اس کے سر پر رکھ دیا گیا ہے وہ کسی سزا کا نتیجہ نہیں بلکہ محبت کے تقاضے کے ماتحت اس کا نزول ہوا ہے اور ان مخفی گڑھوں اور یکدم چکر کھا جانے والے موڑوں اور سر بلند اور سیدھی پہاڑیوں اور تیز اور سرعت سے بہنے والی ندیوں اور حد سے جھکی ہوئی شاخوں اور کانٹے دار جھاڑیوں اور گندگی اور میلے کے ڈھیروں سے مطلع کرنے کے لئے اتاری گئی ہے جو اس لمبے سفر میں انسان کے لئے تکلیف کا موجب اور اسے اس کے سفر کو بارام طے کرنے سے محروم کر دینے کا باعث ہو سکتی ہیں وہ نہ سزا ہے نہ امتحان بلکہ رہنما ہے اور ہادی- اس کا کوئی حکم خدا تعالیٰ کی شان کو بڑھانے والا نہیں بلکہ ہر اک حکم انسان کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے-
عالمگیر شریعت
آپ نے دنیا کے سامنے یہ ایک نیا طریق پیش کیا کہ شریعت عالمگیر ہونی چاہئے اور اس میں مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ رکھا جانا چاہئے جو کتاب کہ مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ نہیں کرتی وہ گویا دنیا کے ایک حصہ کو نجات پانے سے بالکل محروم کر دیتی ہے اور اس طرح خود اس غرض کو معدوم کر دیتی ہے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا-
شریعت کے دو اہم امور
تیسرا اصل کتاب کی تعلیم میں آپ نے یہ مدنظر رکھا کہ شریعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ دو اہم ضرورتوں کو پورا کرے ایک طرف تو اس میں ان تمام ضروری امور کے متعلق ہدایت ہو جن کا مذہبی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ تعلق ہے اور دوسری طرف انسان کی ذہنی ترقی کے لئے اس میں گنجائش ہو اور وہ انسانی دماغ کو بالکل جامد بنا کر اس میں سڑاندھ نہ پیدا کر دے- ان دو اصول کے ماتحت آپ نے ان دو خطرناک راستوں کو بند کر دیا جو حقیقی روحانیت کو تباہ کرنے کا باعث بن جایا کرتے ہیں یعنی اباحت کے راستہ کو بھی جو انسان کے روحانی مفاد کو مادی لذات کی قربان گاہ پر قربان کروا دیا کرتا ہے اور تقلید جامد کے راستہ کو بھی جو انسانی دماغ کو ایک سڑے ہوئے تالاب کی طرف بنا کر ان بدبوئوں کا مرکز بنا دیتا ہے جو نشوونما کی تمام قابلیتوں کو جلا کر رکھ دیتی ہیں-
نبی کا تیسرا کام` تعلیم حکمت
تیسرا کام نبی کا تعلیم حکمت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام میں بھی ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باوجود خدا تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے بے نظیر اظہار کے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو چاہے حکم دے اور کسی کو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مجال نہ ہو وہ اگر قادر ہے تو غنی بھی ہے کسی حکم میں خود اس کا اپنا فائدہ مدنظر نہیں ہوتا اور پھر وہ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم نہیں دیتا جس میں کہ کوئی حکمت نہ ہو پس کسی تعلیم کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی جزئیات تمام حکمتوں سے اور اس کے احکام تمام علتوں سے خالی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا ہی اس امر کا ضامن ہے کہ وہ بات ضرور حکمتوں سے پر اور مقاصد عالیہ سے وابستہ ہے ورنہ وہ حکیم اور غنی ہستی اس کا حکم کیوں دیتی- اس اصل کے ماتحت آپ نے اپنی تمام تعلیم کی حکمتیں ساتھ ساتھ بیان فرمائی ہیں ہر اک بات جس کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کے کرنے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں اور ہر اک بات جس سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ اس کے کرنے سے کیا نقصانات ہیں اور اس کے نہ کرنے میں کیا فوائد ہیں- پس آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والا اپنے دل میں انقباض نہیں محسوس کرتا بلکہ ایک جوش اور خوشی محسوس کرتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً فائدہ ہے اور جس امر سے مجھے روکا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً نفع ہے اور یہ بشاشت اس کے اندر ایک ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دیتی ہے کہ شریعت پر عمل کرنا اسے ناگوار نہیں گزرتا بلکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ایک ضروری فرض سمجھتا ہے اور اسے ایک چٹی نہیں خیال کرتا بلکہ ایک عظیم الشان رحمت خیال کرتا ہے-
نبی کا چوتھا کام` تزکیہ نفس
چوتھا کام ایک نبی کا تزکیہ نفس ہے یعنی لوگوں کے دلوں کو پاک کر کے ان کے اندر ایسی قابلیت پیدا کرنا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اتصال تام حاصل کر سکیں اور اس کے فیوض کو اپنے نفس میں جذب کر کے بقیہ دنیا کے لئے اس کے مظہر اور اس کی قدرتوں کی جلوہ گاہ بن سکیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو اس احسن طریق پر پورا کیا ہے کہ دوست تو دوست آپ کے دشمن بھی اس کام کے قائل ہیں جس ملک میں آپ پیدا ہوئے اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے` اس کی جو حالت تھی وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں خود اس زمانہ کی عام حالت بھی اچھی نہ تھی عرب جو آپ کا ملک تھا اس کے سوا دوسرے ممالک بھی مذہبی` اخلاقی` علمی اور عملی حالت میں اچھے نہ تھے گویا ایک رات تھی جو سب دنیا پر چھائی ہوئی تھی- اول تو پہلے مذاہب کی پاک تعلیموں کو ہی لوگوں نے بگاڑ دیا تھا دوم جو کچھ پہلی تعلیموں میں سے موجود تھا اس پر بھی عمل نہ تھا- مذہب تو ایک بالا چیز ہے معمولی انسانیت بھی مردہ ہو چکی تھی اور شرافت مفقود ہو رہی تھی شرکت و بدعت اور گندیرسوم ایک دوسرے کا حق مارنا` فسق و فجور ظلم` قتل و غارت` بے شرمی اور بے حیائی` جہالت` سستی` نکما پن` تفرقہ` شراب خوری` جوئے بازی` کبر` خود پسندی` غرض ہر اک عیب اس وقت موجود تھا اور اس کے مقابل کی ہر ایک نیکی مفقود تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی مٹ گیا تھا اور اس کے ارتکاب پر بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے فخر کیا جاتا تھا- اس زمانہ میں پیدا ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوم کو اپنی تربیت کے لئے چنا جو اس تاریک زمانہ میں بھی سب قوموں سے گناہ اور بدی میں بڑھی ہوئی تھی- نظام حکومت اس کے اندر اس قدر مفقود تھا کہ اسے سب سے زیادہ فخر اپنی لا مرکزیت پر تھا- اس قوم کے اندر اپنی پاکیزی کی روح آپ نے پھونکنی شروع کی- جیسا کہ قاعدہ ہے جس چیز کو جی نہ چاہے انسان اس کا مقابلہ کرتا ہے لوگوں نے آپ کا مقابلہ شروع کیا اور سخت ہی مقابلہ کیا مگر آپ استقلال اور صبر سے اپنا کام کرتے چلے گئے اور لوگوں کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی ماریں کھائیں گالیاں سنیں` طعنے سہے سب کچھ برداشت کیا- مگر دنیا کی گمراہی کو برداشت نہ کیا- آخر ایک ایک کر کے لوگوں کے دلوں پر فتح پانی شروع کی- سالہا سال تک یہ مقابلہ جاری رہا بڑے بڑے قوی دل` دل ہار گئے مگر آپ نے دل نہ ہارا جس طرح پانی پہاڑوں کو چوٹیوں پر سے بہتے بہتے نرمی سے ملائمت سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آخر ایسی نشیب والی جگہیں پیدا کر لیتا ہے- جن پر سے وہ آسانی کے ساتھ بہہ سکے- اسی طرح آپ نے اپنے نیک نمونہ سے اور موثر وعظ سے دنیا کی اصلاح کا کام جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آ گیا کہ پاکیزگی اور طہارت کی خوبی کے دل قائل ہو گئے- روحانی مردوں نے اپنے اندر ایک نئی روح` سوئے ہوئوں نے تمازت آفتاب` بیماروں نے صحت کے آثار اور کمزوروں نے ایک طاقت کی لہر اپنے اندر محسوس کرنی شروع کی دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا- جہاں ظلم اور تعدی کی حکومت تھی وہاں عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو گیا- جہاں جہالت کے بادل چھا رہے تھے وہاں علم کا سورج چمکنے لگا- جہاں برودت اور جمود جمے بیٹھے تھے وہاں امن اور سعی کی گرم بازاری ہو گئی- نسل انسانی نے سانس لیا` کروٹ بدلی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی- اس معجزانہ تغیر پر نظر ڈالی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفس جدوجہد نے پیدا کر دیا تھا- اور بے اختیار ہو کر چلا اٹھی کہ بے شک تو نبی ہے بلکہ نبیوں کا سردار- اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
)الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۹ء(
۱~}~ الکھف: ۱۱۰ ۲~}~البقرہ:۱۳۰
‏a.10.33a
انوار العلوم جلد ۱۰
توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرتﷺ~کی تعلیم
توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
)فرمودہ ۲ جون ۱۹۲۹ء بمقام قادیان(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر دوبارہ اس تحریک پر عمل کرنے کی توفیق عطا کی جو میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ ملک کے امن اور اس میں صلح کے قیام کا موجب ہوگی- میں نے پچھلے سال اس مہینہ میں گو اسی تاریخ تو نہیں` اسی موقع پر ان جلسوں کی غرض بیان کی تھی جو کہ ایک ہی دن میں سارے ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر بھی اس غرض سے منعقد کئے گئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مبارک حالات بیان کئے جائیں- میں نے بتایا تھا کہ اس قسم کے جلسے علاوہ اس کے کہ ان کے ذریعہ ایک عظیم الشان تاریخی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے- مختلف قوموں میں صلح اور آشتی کا موجب ہونگے- اس سال بعض ہندو لیڈروں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آیا ان کے بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کئے جائیں تو ہماری جماعت ان جلسوں میں اسی رنگ میں شریک ہوگی- جس طرح وہ شریک ہو رہے ہیں- میں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ ان جلسوں کی غرض جب یہ بھی ہے کہ مختلف اقوام میں اتحاد اور رابطہ پیدا کیا جائے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ جب دوسری اقوام ان بزرگوں کے حالات بیان کرنے کے لئے جلسے کریں جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیئے` تو ہماری جماعت کے لوگ ان جلسوں میں شامل نہ ہوں- ہماری جماعت کے لوگ بڑی فراخ دلی اور پورے وسعت حوصلہ اور بڑے شوق سے ان میں شامل ہونگے- میں نے گزشتہ سال کے جلسہ پر جو تقریر کی` اس میں مثال کے طور پر بیان کیا تھا کہ جب میں شملہ گیا تو وہاں ایک جلسہ برہموسماج کا ہوا جس میں شمولیت کے لئے مسز نائیڈو نے مجھے بھی دعوت دی اور میں اس میں شامل ہوا- مجھے تقریر کے لئے بھی کہا گیا لیکن چونکہ تمام کے تمام حاضرین انگریزی سمجھنے والے تھے` اور بہت قلیل التعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اردو سمجھ سکتے تھے اور مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کا ملکہ نہ تھا` اس مجبوری کی وجہ سے میں تقریر نہ کر سکا ورنہ میں نے کہہ دیا تھا کہ تقریر کروں گا- چونکہ ابھی تک اس قسم کے جلسوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا` اس لئے پوری طرح ان پر عمل نہیں شروع ہوا- لیکن جب بھی ایسے جلسے کئے گئے اور حضرت کرشن` حضرترامچندر یا اور بزرگوں کے حالات بیان کئے گئے- انہوں نے دنیا میں جو اصلاحیں کی ہیں` وہ پیش کی گئیں- انہوں نے خود تکلیفیں اٹھا کر دوسروں کو جو آرام پہنچایا` ان کے لئے جلسے کئے گئے تو کوئی احمدی نہ ہوگا جو شوق اور محبت سے ان میں شامل نہ ہوگا- لیکن یہ ضروری ہے کہ انبیاء کا ذکر انبیاء کے طور پر کیا جائے اور قومی مصلحین کا ذکر اسی رنگ میں ہوگا نہ کہ انبیاء کے رنگ میں- میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر قوم کی طرف سے اپنے مذہبی بزرگوں کے متعلق اس قسم کے جلسے ہوں تو وہ بھی یقیناً ہمارے ان جلسوں کو بہت پر لطف اور بہت دلچسپ بنا دیں گے- کیونکہ اس طرح آپس میں بہت زیادہ تعاون کا سلسلہ شروع ہو جائے گا- اور جس قدر محنت اور کوشش ہمیں اب ان جلسوں کے انعقاد کے متعلق کرنی پڑتی ہے` اس وقت اتنی نہ کرنے پڑے گی- جب دیگر مذاہب کے لوگ دیکھیں گے کہ ان کے جلسوں میں ہر جگہ ہماری جماعت کے لوگ شامل ہوتے ہیں- محبت اور شوق سے ان کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہیں- کھلے دل سے ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں` تو یقیناً ہمارے جلسوں میں ان کی شمولیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگی اور بہت زیادہ اخلاص اور محبت سے ہوگی- مجھے اس بات سے نہایت خوشی ہے کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ جلسے ہو رہے ہیں- پچھلے سال ہندوستان کے مختلف مقامات کے لوگوں نے پانچ سو جلسے کرنے کا وعدہ کیا تھا- مگر اس سال ۱۹ سو سے زیادہ جلسوں کے وعدے آ چکے ہیں- پچھلے سال ایک ہزار کے قریب جلسے ہوئے تھے- اس سے اندازہ لگا کر کہا جا سکتا ہے کہ اس سال چار پانچ ہزار جگہ لوگ اس مبارک تقریب پر جمع ہونگے- انسانی آنکھ دور تک نہیں دیکھ سکتی اور میری آنکھ بھی اس نظارہ کو نہیں دیکھ سکتی جو سارے ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی آج رونما ہے- لیکن خدا نے جو روحانی آنکھ پیدا کی ہے` اس سے میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں` اس سے دل خوشی سے بھرتا جا رہا ہے اور نظر آ رہا ہے کہ یہی جلسے ایک دن فتنہ و فساد کو مٹا کر امن و اتحاد کی صحیح بنیاد قائم کر دیں گے- اس سال نہ صرف یہ کہ جلسے گزشتہ سال کی نسبت زیادہ منعقد ہونگے بلکہ پہلے سے زیادہ مقتدر اور معزز لوگوں نے ان میں حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے- کل ہی کلکتہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر سین گپتا نے جو کلکتہ کے نہایت معزز آدمی ہیں` شمولیت کا وعدہ کیا ہے- اور بڑے بڑے لوگوں نے اشتہار میں اپنے نام لکھائے ہیں- بہت سی اعلیٰ طبقہ کی خواتین نے بھی جلسہ میں شریک ہونے کا اشتیاق ظاہر کیا ہے- پچھلے سال تو بنگال کی ایک مشہور خاتون نے جو ایم- اے ہیں` اس بات پر اظہار افسوس کیا تھا کہ ہمارے طبقہ کو ان جلسوں میں زیادہ حصہ لینے کا موقع کیوں نہ دیا گیا- اسی طرح اور مقامات کے معززین کے متعلق بھی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے اعلانات میں اپنے نام لکھائے` شمولیت جلسہ کے وعدے کئے اور ہر طرح جلسہ کو کامیاب بنانے میں امداد دی-
اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے- پچھلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تین پہلوئوں کو لیا گیا تھا- اور میں نے بھی ان پر اظہار خیالات کیا تھا- اس سال ان کے علاوہ دو اور پہلو تجویز کئے گئے ہیں اور وہ یہ کہ-
)۱( توحید باری تعالیٰ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اس پر زور-
)۲( غیر مذاہب کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تعامل- ][ گو دوسرے مقامات پر یہی طریق رکھا گیا ہے کہ مختلف مضامین پر مختلف لوگاظہار خیالات کریں- لیکن اس مقام )قادیان( کے مخصوص حالات کی وجہ سے پچھلے سال بھی یہی طریق تھا کہ تینوں مضامین پر میں نے ہی اظہار خیالات کیا تھا اور اب بھی یہی ارادہ ہے کہ انشاء اللہ دونوں مضامین پر میں ہی بولوں گا-
مجھے افسوس ہے کہ اس تقریب کی اہمیت کے لحاظ سے جتنا لمبا کلام اور جس طرز کا کلام ہونا چاہئے تھا بوجہ بیماری اور کھانسی میں اتنا لمبا بیان نہیں کر سکوں گا اس لئے مجبوراً اختصار کے ساتھ اہم پہلو لے کر اظہار خیالات کروں گا- میں سب سے پہلے توحید کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں- لوگوں میں یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ توحید کے متعلق مختلف مذاہب میں اصولی اختلاف پایا جاتا ہے مسلمان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کئی مذاہب ایسے ہیں جو توحید کے قائل نہیں` مگر یہ درست نہیں ہے- یہ اور بات ہے کہ توحید کی تفصیل اور تشریح میں اختلاف ہو مگر اصولی طور پر تمام مذاہب کے لوگ توحید کے قائل ہیں- حتیٰ کہ جن مذاہب کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ توحید کے خلاف ہیں` وہ بھی دراصل توحید کے قائل ہیں- میں نے ہندوئوں` سکھوں` یہودیوں` زرتشتیوں` عیسائیوں` بدھوں کی کتب کا مطالعہ کیا ہے- اور اسلام تو ہے ہی اپنا مذہب` اس کا مطالعہ سب سے زیادہ کیا ہے- ان سب کے مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ساری اقوام اور تمام مذاہب توحید کے لفظ پر جمع ہیں اور سب کے سب اس کے قائل ہیں- عام مسلمان خیال کرتے ہیں کہ عیسائی توحید کے قائل نہیں- مگر میں نے عیسائیوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسلمان توحید کے قائل نہیں- توحید کے اصل قائل ہم )عیسائی( ہیں- اسی طرح میں نے ہندوئوں کی کتب میں پڑھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو توحید کے قائل اور دوسروں کو اس کے خلاف بتاتے ہیں- یہی حال دوسرے مذاہب کا ہے- اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لفظ توحید کے سب قائل ہیں- باقی تشریحات میں اختلاف ہے- اور جب کوئی قوم خود اقرار کرتی ہو کہ وہ توحید کی قائل ہے تو پھر اس کے متعلق یہ کہنا کہ قائل نہیں` درست نہیں ہو سکتا اور سب اقوام اور سب مذاہب کے لوگوں کا توحید کا قائل ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ مسئلہ باقی دنیا کی نظر میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی ایک ہی غرض پیش کرتے ہیں- اور وہ یہ کہ بندوں کا خدا سے تعلق پیدا کرنا- خواہ اس ہستی کا نام خدا رکھ لیا جائے یا گاڈ (GOD) یا پرمیشور یا ایزد` اس سے بندہ کا تعلق پیدا کرنا مذہب کی غرض ہے- اب صاف بات ہے کہ اگر کوئی مذہب توحید پر قائم نہ ہو تو یقیناً وہ اپنے پیرئووں کو اور طرف لے جائے گا- اور اس کا پیرو اس مقصد کے حاصل کرنے سے محروم ہو جائے گا جو مذہب کا ہے- جب تک ایک نقطہ نہ ہو جس پر پہنچنا مقصود ہو` اس وقت تک تمام کوششیں بے کار جاتی ہیں- اور ساری اقوام اس پر متفق ہیں کہ ایک ہی نقطہ ہے جس تک سب کو پہنچنا ہے- بعض قومیں گو بتوں کو پوجتی ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہم بتوں کو اس لئے پوجا کرتی ہیں کہ وہ خدا تک ہمیں پہنچا دیں- غرض ہر مذہب والا اپنے مذہب کی غرض خدا تک پہنچنا قرار دیتا ہے اور اگر کوئی خدا تک نہ پہنچے تو ہر مذہب والا سمجھے گا کہ وہ اصل مقصد کے پانے سے محروم رہ گیا- اس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنی ہیں کہ جسے توحید کا راز معلوم نہ ہوا وہ محروم رہ گیا- میں نے جیسا کہ بتایا ہے` ایسے جلسوں کی غرض مختلف اقوام میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا ہے- اس لئے میں ایسے رنگ میں اپنا مضمون بیان کروں گا کہ کسی پر حملہ نہ ہو بلکہ ہمارا مذہب جو کچھ بتاتا ہے` اسے پیش کیا جائے- ہمارا عقیدہ اور مذہب ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں وہ سب کے سب خدا کی طرف سے قائم کئے گئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گذری جس میں کوئی نہ کوئی نبی` اوتار` رشی اور منی نہ گذرا ہو- یہ بات آپ نے اپنے پاس سے نہیں لکھی بلکہ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی خیال تھا اور پرانے آئمہ کا بھی یہی مذہب تھا- اس عقیدہ کی موجودگی میں یہ کہنا کہ توحید پہلے نہ تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے` قرآن کریم کی تردید کرنا ہے- جب قرآن بتاتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو یقیناً ہر قوم میں توحید بھی قائم ہوئی- اگر آج کسی قوم میں توحید نہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے` اس وقت نہ تھی تو اس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ اس وقت وہ قوم توحید سے تہی دست ہو چکی تھی` نہ یہ کہ اس قوم میں جو نبی آیا اس نے توحید کی تعلیم نہ دی تھی- پس ہر وہ مذہب جو خدا تعالیٰ کو مانتا ہے اس میں توحید کی تعلیم دی گئی- ہاں اس پر سب اقوام متفق ہیں کہ جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے` اس وقت توحید مٹ چکی تھی- چنانچہ ہندوئوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہو چکی تھی` مذہبی حالت بہت خراب ہو چکی تھی- عیسائیوں کی کتابوں میں بھی لکھا ہے- کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا- اور لکھا ہے کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ عیسائی قوم سے توحید جاتی رہی تھی- عیسائیوں نے اسلام میں توحید دیکھ کر اسے قبول کر لیا- یہی بات زرتشتی کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں چونکہ ]2 [lrmزرتشتی لوگ توحید چھوڑ چکے تھے` انہیں مسلمانوں کی پیش کردہ توحید پسند آ گئی اور وہ مسلمان ہو گئے- غرض یہ سب مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل گیا تھا` دنیا میں توحید نہ رہی تھی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں پیدا ہو کر ایسے مقام میں پیدا ہو کر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا` وہاں کوئی مذہب ہی نہ تھا` کوئی ایسی کتاب نہ تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہو کہ خدا کی طرف سے ملی ہے- بلکہ وہ لوگ سمجھتے تھے` ہمارے بزرگ جو بات کہہ گئے وہی مذہب ہے- حالانکہ مذہب وہی کہلا سکتا ہے جس کے ماننے والوں کے پاس ایسی کتاب ہو` جس کے متعلق ان کا اعتقاد ہو کہ پرمیشور یا خدا نے نازل کی ہے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قوم میں پیدا ہوئے جس کا کوئی مذہب نہ تھا- وہ نہ وید کو الہامی مانتی تھی نہ توریت کو` نہ انجیل کو نہ ژند کو- ایسے ملک اور ایسی قوم میں پیدا ہو کر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیا کہ آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں-
پہلی چیز جو توحید کے قیام کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمائی` وہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے متعلق دنیا نے اب بھی نہیں سمجھا کہ اس کا توحید سے کیا تعلق ہے وہ نکتہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اعلان کیا کہ ساری دنیا میں نبی آتے رہے ہیں- بظاہر اس امر کا توحید سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس امر کو تسلیم کرنے کے توحید ثابت ہی نہیں ہو سکتی- بغیر یہ ماننے کے کہ مصر` ایران` ہندوستان` چین` جاپان` یورپ` امریکہ میں خدا نے نبی پیدا کئے` توحید کامل نہیں ہو سکتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf نے آ کر اس پر بڑا زور دیا ہے- چنانچہ قرآن میں آتا ہیان من امہ الا خلافیھا نذیر ۱~}~ کہ کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو- پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ولقد بعثنا فی کل امہ رسولا ۲~}~ کہ ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا اس کے ساتھ ہی توحید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ان اعبد واللہ و اجتنبوا الطاغوت ہم نے رسول اس لئے بھیجے کہ وہ لوگوں کو سکھائیں اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے بچو-
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم میں ہی صداقت آئی` باقی ساری دنیا کو خدا نے چھوڑے رکھا تھا- حق یہ ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس میں نبی اور رسول نہ آئے ہوں- اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس بات کا توحید سے تعلق ہے- جب کوئی قوم یہ خیال رکھے اور ہمارے اندر ہی خدا نے نبی یا اوتار بھیجے` دوسری اقوام میں نہیں بھیجے تو اس سے یہ بھی خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمارا خاص خدا ہے جو دوسروں کا خدا نہیں اور یہ خیال جب ہر ایک قوم میں پیدا ہو جائے گا تو دنیا میں قومی خدائوں کا احساس پایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے متعلق یہ وسیع نظریہ کہ ایک ہی خدا سب کا خالق ہے پیدا نہ ہوگا- ہر قوم یہ محدود خیال رکھے گی کہ ایک ایسا خدا ہے جو ہماری قوم کا خدا ہے` باقیوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے- اس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق محدود خیال پیدا ہوتا ہے- حالانکہ جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم میں مصلح آئے- ہندوئوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسروں کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اپنے آپ پر مصائب کے پہاڑ گرا لئے` تکالیف کے بھنور میں پڑ کر ڈوبتی ہوئی دنیا کو ترا لیا- اسی طرح ہم دیکھتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے انسان پیدا ہوئے جن کی زندگیاں خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف تھیں- دنیا کی اور اقوام میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ جب جب ان کی دینی اور روحانی حالت خراب ہوئی- خدا کی طرف سے ان میں ایسے انسان پیدا کئے گئے جنہوں نے ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا- پس جب سب اقوام میں ایک ہی قسم کے فساد کے وقت ایک ہی قوم کا علاج کیا گیا تو کیوں نہ مانا جائے کہ ایک ہی ہستی کی طرف سے یہ سارے انسان بھیجے گئے تھے اور جب یہ خیال کیا جائے تو کسی انسان کے ذہن میں قومی خدا کا تصور نہیں پیدا ہوتا- بلکہ رب العلمین کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے- یہ سمجھنا کہ خدا کا ہماری قوم کے ساتھ ہی تعلق رہا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں رہا- ہم میں جب خرابی پیدا ہوئی` اس وقت اس نے اپنا کوئی پیارا بھیج دیا- مگر کسی اور قوم میں نہ بھیجا اس سے ایک قومی خدا کا تصور ذہن میں آتا ہے- یہی وجہ ہے کہ مختلف اقوام اپنا اپنا خدا الگ سمجھتی اور کہتی ہیں ہمارا خدا ایسا ہے اور فلاں قوم کا خدا ایسا- حتیٰ کہ یہاں تک بھی لکھ دیا گیا کہ ہمارے خدا نے فلاں قوم کے خدا پر فتح پائی- گویا اپنے جیتنے کو انہوں نے اپنے خدا کا دوسروں کے خدا پر جیتنا قرار دیا- اس کی وجہ یہی ہے انہوں نے سمجھا نہیں کہ ہر قوم میں مصلح آتے رہے ہیں اور ہر قوم کی ہدایت کے سامان خدا تعالیٰ کرتا رہا ہے- اس بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف سخت جھگڑا کرتے رہے ہیں- لیکن اگر یہ سمجھ لیں کہ ہر قوم میں نبی اور مصلح آتے رہے ہیں- تو ان میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ سب کا ایک ہی خدا ہے گو اس کے نام مختلف رکھ لئے گئے ہیں- اب تو ناموں کی وجہ سے بھی الگ الگ خدا سمجھے جاتے ہیں- بچپن کا ایک واقعہ ابھی تک مجھے یاد ہے ایک لڑکے نے مجھ سے باتیں کرتے کرتے کہا ہندوئوں کا خدا کیسا خدا ہے- میں نے کہا جو ہمارا خدا ہے وہی ان کا خدا ہے- کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے ان کا خدا تو پرمیشور ہے- میں نے کہا خدا تو وہی ہے` ہندوئوں نے نام اور رکھا ہوا ہے- یہ سن کر وہ بڑا حیران ہوا-
دراصل بات وہی ہے جو مثنوی والے نے لکھی ہے- انہوں نے لکھا ہے چار فقیر تھے جو مانگتے پھرتے تھے- کسی نے انہیں ایک سکہ دے کر کہا جائو جو چیز کھانے کو جی چاہے جا کر خرید لو- ایک نے کہا ہم انگور لیں گے دوسرے نے کہا انگور نہیں عنب لیں گے- تیسرے نے کہا داکھ لیں گے- چوتھے نے ترکی زبان کا ایک لفظ استعمال کیا کہ وہ لیں گے- اس پر ان کا جھگڑا ہو گیا- ہر ایک کہنے لگا جو چیز میں کہتا ہوں وہ خریدو- وہ جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا- اس نے پوچھا کیوں لڑتے ہو- ہر ایک نے اپنا قصہ سنایا- وہ چاروں زبانیں جانتا تھا` بات سمجھ گیا- اس نے کہا آئو میں سب کو اس کی پسند کی چیز خرید دیتا ہوں اس نے جا کر انگور خرید دیئے اور انہیں دیکھ کر سب خوش ہو گئے-
اسی طرح قوموں نے ایک ہی خدا کے نام تو اپنی اپنی زبان میں رکھے تھے- لیکن حالت یہ ہو گئی کہ مختلف ناموں سے مختلف خدا سمجھے جانے لگے اور ہر قوم نے اپنا خدا علیحدہ قرار دے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمارے لئے فلاں نبی یا رشی بھیجا اور باقی سب لوگوں کو چھوڑ دیا- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- سب کے لئے خدا نے نبی بھیجے- ان کے مختلف نام رکھ لینے سے ان میں فرق نہیں پڑ سکتا- وہ سب سچے اور خدا کے پیارے تھے- غرض اس مسئلہ کو دنیا میں قائم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کو مضبوط بنیاد پر قائم کر دیا-
دوسرا مسئلہ جس کا تعلق لوگوں نے مسئلہ توحید سے نہیں سمجھا لیکن وہ بھی نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے وہ عالمگیر مذہب پیش کرنا ہے- جب مختلف مذاہب کے لوگوں میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اور وہ اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیم کو چھوڑ چکے تو ان میں سے ہر ایک نے یہ خیال کر لیا کہ ہماری قوم ہی ہدایت پا سکتی ہے اور کوئی قوم اس نعمت سے مستفیض نہیں ہو سکتی- جب سب قومیں اپنی اپنی جگہ یہ سمجھی بیٹھی تھیں- اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ ساری دنیا کے لئے ہدایت پانے کا رستہ خدا تعالیٰ نے کھلا رہا ہے- چنانچہ اپنے مشن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر آپ نے اعلان فرمایا کہیایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۳~}~ یہ نہیں کہ ہدایت کا دروازہ صرف عربوں کے لئے کھلا ہے باقی اقوام کے لئے نہیں- مجھے خدا نے رسول بنا کر ساری دنیا کے لئے بھیجا ہے اور سب اقوام ہدایت پا سکتی ہیں- اب غور کرو جب یہ خیال پیدا کیا جائے گا کہ سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے تو سب کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ جاگزیں ہو جائے گا- لیکن اگر یہ خیال پیدا کیا جائے کہ صرف عربوں کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے` ہندوستانیوں کے لئے یا ایرانیوں کے لئے یا چینیوں کے لئے نہیں تو پھر یہ خیال پیدا ہوگا کہ ان کا خدا کوئی اور ہے وہ خدا نہیں جو عربوں کا ہے- پس عالمگیر مذہب پیش کرنے سے توحید کا بہت بڑا خیال پیدا ہو جاتا ہے اور یہی خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر پیدا کیا ہے- آپ نے اعلان فرمایا- مجھے خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے- کسی قوم کا انسان ہو` وہ میرے ذریعہ ہدایت پا سکتا ہے` روحانی مدارج طے کر سکتا ہے` اور خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے- اس طرح آپ نے قومی خدا کا خیال مٹا دیا اور اس کی بجائے عالمگیر خدا پیش کیا جس سے اصل توحید قائم ہوئی- چنانچہ آپ کی بعثت کے بعد تمام دنیا کے ادیان میں پھر توحید کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے-
یہ تو مذہبی نقطئہ نگاہ تھا ان دو اصول کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے مسئلہ کو مضبوط کیا- یوں کہنے سے کہ خدا ایک ہے` لوگ نہ مان سکتے تھے جب تک ان کے دماغ میں ایسے احساسات نہ پیدا کئے جاتے کہ خدا تعالیٰ سب کا ہے اور سب کے لئے اس کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی احساس پیدا کئے یہ تو مذہبی نقطئہ نگاہ تھا- ایک دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو پیش فرمایا ہے- اور وہ اس طرح کہ کمپیریٹو ریلیجن (COMPARATIVERELIGION) )یہ ایک نیا علم نکلا ہے کہ سب مذاہب کے اصول کو جمع کر دیا جاتا ہے- اور بتایا جاتا ہے کہ مذاہب میں کتنی باتیں مشترک ہیں- مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ سب مذاہب میں خدا کا خیال مشترک ہے( والوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ مذہب میں بھی اسی طرح ارتقا ہوتا چلا آیا ہے جس طرح دنیا میں- وہ کہتے ہیں ہر چیز میں آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے- مذہب نے بھی آہستہ آہستہ ترقی کی ہے- جسے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پہلے انسان خدا کو نہ مانتے تھے بلکہ عناصر کی پرستش کرتے تھے اور عناصر کو خدا کا ظل قرار دیتے تھے- جب انسانوں نے ترقی کی تو عناصر کی بجائے ارواح کو خدا کا ظل ماننے لگے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے ایک خدا کے خیال پر قائم ہوئے- اسی لئے وہ کہتے ہیں خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ دنیا نے آہستہ آہستہ خدا کا کھوج نکال لیا- یہ ان میں سے ان لوگوں کا قول ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں- وہ کہتے ہیں جس طرح مٹی کا تیل انسانوں نے کوشش کرتے کرتے نکال لیا` وہ خود بخود نہ نکلا تھا- اسی طرح خدا تو موجود تھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا- آخر ترقی کرتے کرتے اس کا پتہ لگا لیا گیا` وہ خود ظاہر نہ ہوا- لیکن جو خداتعالیٰ کے قائل ہی نہیں وہ کہتے ہیں خدا کوئی نہیں- دنیا نے اپنی عقل سے ایک نقشہ تجویز کر لیا ہے جسے خدا کہا جاتا ہے- اس خیال کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ کسی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو سکتا ہے- ان کے نقطئہ نگاہ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے متعلق عظیم الشان تغیر پیدا کیا ہے- کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن توحید کے متعلق ساری ترقی آپ کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھی- آپ نے توحید کی جو تشریح فرمائی` اس کے بعد کوئی نئی تشریح آپ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد نہیں نکلی- اس لئے ماننا پڑے گا کہ خیال انسانی کا ارتقاء آپ کی ذات میں آ کر مکمل ہوا اور دنیا کے لئے آپ ہی مقصد اعظم تھے- جب آپ مبعوث ہو گئے تو پھر توحید مکمل ہو گئی اور آپ نے توحید کی وہ تشریح پیش کر دی کہ اس کے بعد کسی اور تشریح کی ضرورت نہ رہی-
میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے رشی` منی اور رسول گزرے` انہوں نے توحید کو ناقص طور پر پیش کیا- کیونکہ توحید کو ناقص رنگ میں پیش کرنے والا نبی ہی نہیں ہو سکتا- جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہو کر آیا` اس نے مکمل توحید پیش کی- مگر اپنے زمانہ کے لحاظ سے مکمل پیش کی- اگر مسئلہ ارتقاء کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت توحید کا نقطہ کمال کو پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے مکمل ہو گیا-
علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت
اب میں علمی لحاظ سے مسئلہ توحید کی اہمیت پیش کرتا ہوں-
اول: علم سائنس میں بغیر توحید کے ترقی نہیں ہو سکتی- سائنس اس قانون کی دریافت کا نام ہے جو دنیا میں جاری ہے- مثلاً یہ کہ آگ جلاتی ہے پانی پیاس بجھاتا ہے- غرض خواص اشیاء جو ایک مقررہ رنگ میں چلتے ہیں` ان کا دریافت کرنا سائنس رہے- اب اگر آپ کسی اور خدا نے پیدا کی ہو` درخت کسی اور خدا نے` پہاڑ کسی اور نے` تو یہ چیزیں آپس میں موافقت نہیں رکھیں گے بلکہ ایک دوسری سے ٹکراتی رہیں گی- لیکن جب یہ تسلیم کیا جائے کہ پرمیشور ایک ہی ہے اور سب چیزیں اسی کے ماتحت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ سب کے لئے ایک ہی قانون جاری ہے- اور یہ بغیر ایک خدا کے ہو نہیں سکتا- اگر دنیا کی تمام اشیاء کے لئے ایک ہی ہستی قانون جاری کرنے والا نہیں تو پھر سائنس باطل ہے- اب پانی میں بجھانے اور آگ میں جلانے کی خاصیت ہے- اگر آپ پیدا کرنے والا خدا اور ہو اور پانی پیدا کرنے والا اور` اور وہ اپنی اپنی پیدا کردہ چیزوں کی خاصیتیں بدل دیں تو کیا کام چل سکتا ہے- مثلاً ایک خدا نے مگنیشیا اس لئے بنایا کہ جلاب لگائے اور دوسرے خدا نے معدہ ایسا بنایا کہ مگنیشیاکے اثر کو قبول کرلے- لیکن اگر وہ معدہ کی اس خاصیت کو بدل دے تو پھر خواہ کوئی کتنا مگنیشیا پئے جلاب ہی نہ لگیں گے- غرض بغیر توحید ماننے کے سائنس چل ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی دنیا میں ترقی ہو سکتی ہے-
دوم: بغیر توحید کے علم کی تحقیق کی جرات بھی کسی کو نہیں ہو سکتی- کیونکہ اگر یہ سمجھا جائے کہ اور چیزوں میں بھی خدائی طاقتیں ہیں تو ان کی تحقیقات کرنے کی کیونکر جرات کی جائے گی- مثلاً جو شخص کسی چیز کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ بھی رب ہے` اسے چیرنے پھاڑنے کے لئے کس طرح تیار ہو سکے گا- لیکن جب یہ عقیدہ ہو کہ ایک ہی خدا ہے جس نے باقی سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر انسان ان اشیاء کی تحقیقات کریں گے اور اس طرح علوم میں ترقی ہوگی- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید پر زور دینے کے بعد علوم میں اس قدر ترقی ہوئی جس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر ۱۳ سوسال کے اندر اندر علوم نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جو پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی- یہ توحید کی وجہ سے ہی علوم نے ترقی کی- جب لوگوں نے یہ سمجھا کہ تمام چیزوں کا ایک ہی خدا ہے اور اس نے سب چیزیں انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں تو اس سے علوم میں ترقی کرنے کے دروازے کھل گئے- ہر چیز کے متعلق تحقیقات شروع ہو گئی-
ان پہلوئوں کے علاوہ جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے` رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ]2 [rtf کریم نے اور طرح بھی توحید کو قائم کیا ہے- یعنی اصولی طور پر توحید کی تعلیم دی ہے- آپ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ توحید کو مان لو- بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح مانو- اسی طرح آپ نے یہی نہیں فرمایا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ کس طرح شرک نہ کرو اور کس طرح اس سے بچو- پھر آپ نے صرف یہ نہیں کہا کہ توحید کو مان لو بلکہ توحید کے دلائل دے کر کہا ہے کہ اسے مانو- اسی طرح آپ نے صرف یہی نہیں کہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل دے کر شرک کی برائی سمجھائی ہے- چنانچہ قرآن کریم میں شرک کے متعلق آتا ہے-
قل ھو اللہ احد- اللہ الصمد- لم یلد ولم یولد- ولم یکن لہ کفوا احد ۴~}~ اس میں چار اقسام کا شرک پیش کر کے اس کا رد کیا گیا ہے- فرمایا شرک چار طرح کیا جا سکتا ہے-
اول شرک احدیت کے لحاظ سے کہ خدا کی ذات ایسی کوئی اور ذات قرار دی جائے- یہ درست نہیں کیونکہھواللہ احد اللہ ایک ہی ہے` کوئی اس کا ہم پایہ نہیں-
دوم یہ کہ صفات کے لحاظ سے خدا کا شریک مقرر کیا جائے- یہ بھی نادرست ہے- کیونکہ اللہ الصمد صمد وہ ہے جس کی مدد کے بغیر کوئی چیز قائم نہ رہ سکے- اللہ تعالیٰ کا سہارا اس کی صفات کے ذریعہ ہی ہوتا ہے- اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ خیال کرنا شرک ہے کہ کوئی اور ہستیاں بھی ہیں جن کی مدد کے بغیر کوئی چیز زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی- یا کوئی کام نہیں ہو سکتا-
سوم یہ کہ کوئی خیال کرے خدا ایک زمانہ میں تھا مگر پھر فوت ہو گیا اور آگے اس کی اولاد چل پڑی- یہ بھی شرک ہے- اس سے خدا تعالیٰ میں یہ نقص ماننا پڑتا ہے کہ وہ فنا ہو جاتا ہے- یہ ازلیت کے لحاظ سے شرک ہے-
چہارم یہ کہ کسی کو خدا کا ہمسر ماننا بھی شرک ہے- یعنی یہ کہ کسی دوسرے کو خدا نے اپنی طاقتیں دے دیں اور وہ اس طرح خدا کے برابر ہو گیا- یہ بھی شرک ہے- یہ چار اقسام شرک کی ہیں- دنیا کے سارے شرک ان کے اندر آ جاتے ہیں- پھر توحید کے متعلق فرمایا-
اللہ لا الہ الا ھوالحی القیوم لاتا خذہ سنہ ولانوم- لہ مافی السموت ومافی الارض- من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ- یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بشی من علمہ الا بماشاء وسع کرسیہ السموت والارض- ولا یودہ حفظھما وھو العلی العظیم- text] [tag ۵~}~ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں الحی القیوم وہ اپنی ذات میں زندہ ہے اور دوسروں کو زندہ رکھتا ہیلاتاخذہ سنہ ولانوم پھر اس کے کاموں میں وقفہ نہیں پڑتا- اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے کاموں میں وقفہ پڑ جاتا ہے تو وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے- کیونکہ وقفہ ماننے کا یہ مطلب ہوا کہ اگر خدا کا تعلق دنیا سے نہ رہے تو بھی دنیا اپنے آپ چل سکتی ہے- تو فرمایالاتا خذہ سنہ ولانوم کہ اسے نیند یا اونگھ کبھی نہیں آئی-لہ ما فی السموت وما فی الارض ہر ایک چیز اسی کے قبضہ قدرت میں ہے- انسان کو چاہئے ہر چیز کے متعلق یہی سمجھے کہ اس کااصل مالک خدا ہی ہے اور کسی کا اختیار اس پر نہیں ہے- من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ پھر یہ بھی تسلیم کرے کہ بے شک دعائیں قبول کرنے کا سلسلہ خدا تعالیٰ نے جاری رکھا ہے- مگر یہ خیال نہ کرے کہ کوئی خدا سے کوئی بات زور سے منوا سکتا ہے- خدا خود کسی امر کے متعلق اجازت دے کہ لو اب مانگو- تو انسان مانگ سکتا ہے` ورنہ نہیں- یعلم مابین ایدیھم وماخلفھم وہ جانتا ہے جو ہو چکا یا جو ہوگا- توحید کے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرف کامل نہیں ہو سکتا- پس خدا تعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے-ولا یحیطون بشی من علمہ الابما شاء اور کوئی انسان خدا کے دیئے ہوئے علم کے بغیر کچھ نہیں حاصل کر سکتا- پس انسان سمجھے جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے- خدا ہی سے حاصل ہونا ہے- آگے فرمایاوسع کرسیہ السموت والارض اس کی کرسی ساری زمین اور آسمانوں پر چھا گئی- کرسی وہ مقام ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے- مطلب یہ کہ ہر ذرہ جو حرکت کرتا ہے` خدا کے تصرف کے ماتحت کرتا ہے- اس کے مانے بغیر بھی توحید کامل نہیں ہو سکتی- آگے فرمایاولا یودہ حفظھما وہ جو حفاظت کر رہا ہے اس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا` ہمیشہ جاری رہے گی-وھوالعلی باوجود اس کے کہ ہر ذرہ ذرہ سے اس کی قدرت ظاہر ہو رہی ہے` وہ اتنا بلند ہے کہ کوئی خود بخود اس کی کنہہ تک نہیں پہنچ سکتا- العظیم text] [tag مگر وہ بلندی پر ہی نہیں کہ کوئی اس کی کنہہ تک نہ پہنچ سکے- بلکہ وہ بھی ہے- قدرتوں کے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے` اسے پا سکتا ہے- ہر شخص بڑی جلدی اس تک پہنچ سکتا اور اس کا وصال حاصل کر سکتا ہے-
پس بتایا کہ توحید کامل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال ہو جائے- جب کوئی خدا کو پا لے` اس وقت اسے توحید کامل حاصل ہوگئی- گویا اتصال کا نام ہی توحید ہے-
یہ وہ توحید ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہے کہ اسی دنیا میں خدا سے ایسا وصول ہو جائے کہ انسان کا اپنا وجود مٹ جائے اور خدا ہی خدا باقی رہے-
توحید کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کو ایک بتانا اور ایک قرار دینا` یعنی اپنی زبان کے اقرار کے علاوہ اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کرنا کہ خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں اگر خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسان کی مرضی مطابقت نہیں رکھتی` اگر خدا تعالیٰ کے ارادوں سے انسان کے ارادے نہیں ملتے` تو وہ توحید کا سچا اقرار نہیں کرتا- اصل توحید یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو مٹا کر دکھاوے کہ خدا تعالیٰ ہی کی مرضی دنیا میں چلتی ہے-
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل سے شرک کا رد فرمایا ہے- آپ نے شرک کے رد میں ایک دلیل یہ دی کہ کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو- ہر ایک چیز دوسری کی محتاج ہے- آسمان سے پانی برستا ہے` اس کا تعلق سورج سے ہے- گرمی پانی کو بخارات بنا کر اڑاتی ہے اور اس طرح بادل بنتے ہیں- پھر اس سے زمین کی گردش کا تعلق ہے- اسی طرح ہر چیز کا ایک سلسلہ چلتا ہے- دہلی میں ایک بزرگ گذرے ہیں ان کے متعلق بیان کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے ایک شاگرد سے پوچھا میاں تمہیں لڈو کھانا آتا ہے- اس نے کہا یہ کونسی مشکل بات ہے- لڈو اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا- انہوں نے فرمایا- نہیں یہ کھانے کا طریق نہیں` کسی دن لڈو آئے تو تمہیں بتائیں گے کس طرح کھانا چاہئے- ایک دن کسی نے لڈو لا کر پیش کئے تو انہوں نے شاگرد کو بلا کر پاس بٹھا لیا اور ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا- اس سے ایک تھوڑا سا ٹکڑا توڑا اور کہنا شروع کیا- میاں غلام علی )یہ ان کے شاگرد کا نام تھا( تمہیں پتہ ہے اس لڈو کی تیاری کیلئے خدا تعالیٰ نے کتنے سامان پیدا کئے- اس میں گھی پڑا` میٹھا پڑا` میدا پڑا اور کتنی چیزیں پڑیں- پھر ان چیزوں کی تیاری میں کتنے سامان کئے گئے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ مظہر جان جانان ایک لڈو کھائے- آگے ان کی تشریح کرنی شروع کر دی- ساتھ ساتھ ہر بات پر محویت میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے تھے- اس میں ظہر سے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے-
غرض کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں جو خود بخود بغیر کسی دوسری چیز کے سہارے کے قائم ہو- ہر ایک کا ایک سلسلہ چلتا ہے- ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے بیسیوں سامان پہلے سے موجود ہوتے ہیں- اگر بچہ پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہو اور اس کی ضروریات پیدا کرنے والا کوئی اور تو پھر بچہ کے لئے اس کی ضروریات کا کس طرح انتظام ہوتا- بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی ضروریات کا انتظام موجود ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے جو بچہ کو پیدا کرنے والا اور اس کے لئے انتظام کرنے والا ہے- اسی طرح سب جگہ ایک ہی انتظام اور ایک ہی قانون جاری ہے- جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے- اور بھی بیسیوں دلائل ہیں- لیکن انہیں میں اس وقت چھوڑتا ہوں-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اشاعت کے لئے کیا کیا- اس کے لئے بھی صرف ایک بات پیش کرتا ہوں- آپ سے لوگوں کی ساری دشمنی توحید ہی کے پھیلانے کی وجہ سے تھی- ایک دفعہ کفار نے آپ کو کہلا بھیجا اگر مال چاہتے ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر دیتے ہیں` اگر حکومت چاہتے ہو تو تمہیں اپنا حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں` اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو سارے عرب میں سے خوبصورت عورت پیش کرنے کے لئے تیار ہیں` اور اگر دماغ خراب ہو گیا ہے تو اس کا علاج کرنے کے لئے بھی تیار ہیں` مگر تم ہمارے بتوں کے خلاف کچھ نہ کہو- جب یہ پیغام ایک رئیس نے آپ کو پہنچایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ میری بے نفس خدمت کی ان لوگوں نے کیا قیمت ڈالی ہے- اور جواب میں فرمایا اگر سورج کو میرے دائیں رکھ دو اور چاند کو بائیں اور کہو توحید چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا- پیغام لانے والا آپ کا بڑا سخت دشمن تھا- مگر آپ کا جواب سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے جو باتیں اس کے منہ سے سنی ہیں` ان کی وجہ سے کہتا ہوں اس کی مخالفت چھوڑ دو ورنہ تباہ ہو جائو گے-
غرض آپ کو دشمنوں کی طرف سے تمام تکلیفیں توحید کی اشاعت کی وجہ سے دی گئیں- آپ کو مارا جاتا` کتے اور لڑکے آپ کے پیچھے ڈالے جاتے- ایک دفعہ آپ طائف گئے تو وہاں کے لوگوں نے اس قدر مارا کہ آپ سر سے لے کر پائوں تک لہولہان ہو گئے- آپ تکلیف کی وجہ سے گر پڑتے لیکن جب اٹھتے تو وہ لوگ پھر آپ پر پتھر پھینکتے- ایسی حالت میں بھی آپ کے منہ سے یہی نکلتا خدایا ان لوگوں کو معاف کر دے کہ یہ حقیقت سے بے خبر ہیں- ان تمام حالات میں سے گذرتے ہوئے آپ نے توحید کی تبلیغ کو نہیں چھوڑا اور یہی کہتے رہے کہ خواہ یہ کچھ کریں میں توحید کی تبلیغ نہیں چھوڑ سکتا- پھر جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو اس وقت بھی یہی کہتے فوت ہوئے- میرے بعد شرک نہ کرنا اور میں تو سمجھتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت بھی خدا تعالیٰ نے اپنی توحید کا ثبوت آپ کے والد کو قبل ازولادت اور والدہ کو جلد بعد از ولادت فوت کر کے دیا- آپ کی بے کسی کی ابتداء اور شاندارانجام خود خدا تعالیٰ کی توحید کا بڑا ثبوت تھا-
اب میں مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری قوموں سے کیا سلوک کیا اور ان کے متعلق کیا تعلیم دی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح طور پر یہ تعلیم دی ہے- کہ کسی کی خوبی کا ا نکار نہیں کرنا چاہیئے اور یہ بھی کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں جن کا انکار کرنا ظلم ہے- چنانچہ قرآن میں آتا ہے وقالت الیھود لیست النصری علی شی وقالت النصری لیست الیھود علی شی وھم یتلون الکتب- ۶~}~ فرمایا کیسے ظلم کی بات ہے` عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں اور یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں` حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں- کیا اس میں کوئی بھی خوبی نہیں- تو رسول کریم]2 [stf صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ دوسروں کی خوبی کو تسلیم کرنا چاہئے- جو شخص کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں کوئی خوبی نہیں` وہ غلطی کرتا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایسی اعلیٰ تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ تمام اقوام کے دل رکھ لئے ہیں- کسی کے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں اس مذہب کے پیروئوں کے لئے بہت تکلیف دہ بات ہے- اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ہر قوم کی خوبی تسلیم کرو- اس طرح آپ نے تمام قوموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے-
دوم-: آپ نے فرمایا کسی مذہب کے افراد کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ اپنے مذہب کو قریب سے مانتے ہیں- باوجود اس کے کہ پہلے مذاہب بگڑ چکے ہیں تاہم ان کے ماننے والوں میں سے اکثر انہیں دل سے سچا سمجھتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں بعض یہود اور نصاری کی تعریف آئی ہے- یہودیوں کے متعلق آتا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر انہیں پہاڑ کے برابر بھی سونا دے دو تو وہ اس میں خیانت نہ کریں گے- اس سے معلوم ہوتا ہے- یہودیوں میں ایسے لوگ تھے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے تھے- آج کل مسلمانوں میں بھی یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذاہب کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور باوجود اس کے ان کو نہیں چھوڑتے- حالانکہ ہندوئوں` عیسائیوں` یہودیوں میں سے ۹۹فی صدی ایسے ہیں جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے ہیں-
اسی طرح عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ ان میں ایسے لوگ ہیں جو خدا کا ذکر سن کر رونے لگ جاتے ہیں` خشیت سے ان کے دل بھر جاتے ہیں- کیا ایسے لوگ اپنے مذہب کو فریب سے ماننے والے ہو سکتے ہیں- یہ تعلیم دے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کے احساسات کا ادب اور احترام کرنا سکھایا ہے-
تیسری تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی ہے کہ آپ نے حکم دیا سب قوموں کے متعلق تسلیم کرو کہ ان میں انبیاء آئے- اس بات پر اجمالی طور پر ایمان لائو کہ سب اقوام میں نبی آئے-
اس طرح آپ نے انٹرنیشنل لاء (INTERNATIONALLAW) کو مذہب میں جاری کر دیا- گزشتہ جنگ کے دوران میں روس کی حکومت میں تبدیلی ہو گئی جس پر باقی حکومتیں اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتیں- روسی اس کے لئے منتیں کرتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی- بعض لوگ کہیں گے دوسری حکومتوں کے تسلیم کر لینے سے کیا فائدہ ہوتا ہے کہ روسی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں- بات یہ ہے اس میں بہت بڑے فائدے ہوتے ہیں- جس حکومت کو دوسری حکومتیں تسلیم کر لیں` اسے بینالاقوامی قانون کے فوائد حاصل ہونے لگ جاتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے تمام مذاہب کے حقوق کو تسلیم کیا اور یہ قرار دیا کہ سب مذاہب خدا کی طرف سے ہیں- ان مذاہب کی غلط باتوں سے اختلاف بھی کیا` ان کا مقابلہ بھی کیا مگر ان کے ماننے والوں کے احساسات کا احترام کیا اور ان کے حقوق قائم کئے- یہ بہت بڑا حق تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو دیا-
چوتھی تعلیم آپ نے یہ دی کہ جب کسی قسم کی بحث ہو تو گالیوں پر نہ اتر آئو- چنانچہ آتا ہے لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم- ۷~}~جب دوسری قوموں سے جھگڑا ہو تو وہ ہستیاں جنہیں تم نہیں مانتے` خواہ انہیں خدا کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہو- انہیں تم برا نہ کہو` ورنہ وہ بھی اس خدا کو گالیاں دیں گے جسے تم مانتے ہو- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت کلامی سے روکا ہے-
پانچویں بات آپ نے یہ فرمائی کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہیں کرنا چاہئے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سمجھا جاتا تھا جس قوم سے مذہبی اختلاف ہو اس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کرنے کا حق حاصل ہے- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا- چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ فرمایا- وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ۸~}~تم جنگ کر سکتے ہو- مگر انہی سے جو تم پر حملہ آور ہوں- مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کبھی کسی پر حملہ نہ کرنا-
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو حریت ضمیر عطا کی کہ خواہ کسی کا کوئی مذہب ہو` اس وجہ سے کسی کو حق نہیں کہ اسے مارے یا نقصان پہنچائے-
چھٹا سلوک آپ نے یہ کیا کہ تمام دنیا کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دیا- پہلے کہا جاتا تھا کہ ہدایت صرف ہماری قوم کے لئے ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا اور اپنی قوم اور دوسری قوموں میں کوئی فرق نہیں رکھا چنانچہ فرمایا- انی رسول اللہ الیکم جمیعا- ۹~}~میں دنیا کی سب اقوام کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں` سب کو ہدایت کا رستہ دکھا سکتا ہوں-
ساتواں حق غیر مسلم اقوام کا یہ قرار دیا کہ فرمایا عہد وہی قائم نہیں رکھنا چاہئے جو اپنی قوم کے اندر ہوا ہو بلکہ خواہ کسی قوم سے عہد ہو` اسے قائم رکھنا چاہئے- لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہوتی ہے اور اس غلطی میں وہ مسلمان بھی مبتلا ہو گئے ہیں جو قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے کہ غیروں سے جو عہد ہو` اسے توڑ دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- و اما تخا فن من قوم خیانہ فانبذ الیھم علی سواء۱۰~}~کہ اگر کوئی قوم عہد توڑ دے تو اسے بتا دینا چاہئے کہ تم نے عہد توڑ دیا ہے` اب ہم پر بھی عہد کی پابندی نہیں` یونہی اس پر حملہ نہیں کر دینا چاہئے- چنانچہ ابوسفیان جب مکہ سے آیا اور آ کر اس نے کہا اب میں نئے سرے سے عہد کرتا ہوں` تو اس موقع پر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو اچانک حملہ کر سکتے تھے- مگر آپ نے فرمایا- ابوسفیان تم نے یہ اعلان کیا ہے` میں نے نہیں کیا اور اس طرح بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے- اس کے مقابلہ میں آج کل کیا ہوتا ہے` یہ کہ جب کسی پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں- پیچھے اٹلی نے جب ترکی پر حملہ کیا تو اس حملہ سے تین دن قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے آج کل ایسے اچھے تعلقات ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے- یہ اس لئے تھا تا کہ ترکی بالکل غافل رہے- مگر ابوسفیان نے جب اعلان کیا اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے تو آپ پر کوئی ذمہ واری عائد نہ ہوتی تھی- مگر آپ خاموش نہ رہے اور فرما دیا یہ تمہارا اعلان ہے` ہمارا نہیں- اس طرح ان کو بتا دیا کہ ہم حملہ کریں گے-
آٹھویں آپ نے یہ تعلیم دی کہ مسلم اور غیر مسلم کے تمدنی حقوق ایک قرار دیئے- یہ بات صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آپ سے پہلے نہ تھی- یہودیوں کو یہ حکم تھا کہ تم اپنے بھائیوں یعنی یہودیوں سے سود نہ لو` دوسروں سے لے لیا کرو- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود نہ یہودیوں سے لو نہ عیسائیوں سے نہ مسلمانوں سے` غرض کسی سے بھی سود نہ لو- سب سے ایک سلوک کرنے کا حکم دیا- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمدنی سلوک کے بارے میں مسلم اور غیر مسلم کو ایک قرار دیا-
نویں تعلیم یہ دی کہ غلاموں کی آزادی میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں رکھا- کہا جائے گا قرآن میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا حکم آتا ہے- مگر یہ حکم اسی موقع کے لئے ہے جہاں مسلمانوں کو نقصان اور صدمہ پہنچا ہو` ورنہ عام طور پر سب غلاموں کی آزادی کا آپ نے حکم دیا- جنگ حنین کے موقع پر سینکڑوں غلام جو پکڑے آئے` باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھے انہیں آپ نے آزاد کر دیا-
دسویں تعلیم غیر مسلموں کے متعلق آپ نے یہ دی کہ جہاں اسلامی حکومت ہو` وہاں مسلمانوں پر زیادہ بوجھ رکھا جائے اور دوسروں پر کم- )۱( مسلمان لڑائی میں شامل ہوں- )۲( عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا دیں- )۳( زکٰوۃ دیں- یعنی جمع مال کا حصہ دیں- یہ خدمات مسلمانوں کے لئے رکھی گئیں اور غیر مسلموں کے لئے اڑھائی روپیہ کے قریب فی کس ٹیکس رکھا جو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے- اور پھر اسی وجہ سے مسلمانوں پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری رکھی گئی ہے- آج کل یورپ میں دس دس روپیہ فی کس ٹیکس لگا ہوا ہے اور بعض ممالک میں اس سے بھی زیادہ ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے زیادہ ٹیکس رکھا اور جنگیخدمات بھی ان کا فرض قرار دیا- لیکن دوسروں کے لئے ٹیکس بھی کم رکھا اور جنگی خدمات سے بھی آزاد کر دیا-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مذاہب کے انسانوں کے متعلق اپنا عمل کیا رکھا- اس کے لئے دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے-
پہلی مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر قوم کے نیک انسانوں کا عملاً احترام کیا- لکھا ہے طی قوم سے جب جنگ ہوئی تو کچھ مشرک بطور قیدی پکڑے آئے- ان میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی- اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ جانتے ہیں میں کس کی بیٹی ہوں- آپ نے فرمایا کس کی بیٹی ہو؟ اس نے کہا میں اس شخص کی بیٹی ہوں جو مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آیا کرتا تھا- یعنی حاتم کی- وہ مسلمان نہ تھا لیکن چونکہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتا تھا` اس لئے اس کی وجہ سے اس کی بیٹی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] f[rt نے آزاد کر دیا- اس کا بھائی گرفتاری کے خوف سے بھاگا پھرتا تھا- آپ نے اسی وقت اسے روپیہ اور سواری دے کر کہا جا کر بھائی کو لے آئو- وہ گئی اور اسے لے آئی- اس پر اس سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا-
اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر غیر مذاہب کے لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور اس وجہ سے اچھا سلوک کیا-
دوسری مثال نصاریٰ نجران کا واقعہ پیش کرتا ہوں- نجران کے نصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کے لئے آئے- انہوں نے ایسے رنگ میں بحث کی کہ تاریخوں میں آتا ہے بے ادبی سے گفتگو کرتے رہے- جب گفتگو کرتے کرتے اٹھ کر اس لئے جانے لگے کہ ان کی نماز کا وقت آ گیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہیں نماز ادا کر لو- چنانچہ انہوں نے مسجد میں ہی اپنی صلیبیں نکالیں اور انہیں سامنے رکھ کر عبادت کر لی-۱۱~}~
آج دیکھو کس طرح مسجدوں اور مندروں کے متعلق لڑائیاں ہوتی ہیں- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں سے کہا کہ مسجد میں اپنے طریق سے عبادت کر لو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اعلان کیا تھا کہ لنڈن کی مسجد میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی آزادی کے ساتھ آنے کی اجازت ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس بات کو پیش کر کے کہا یہ مسجد نہیں دھر مسالہ ہے-
غرض یہ عملی سلوک ہے غیر اقوام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا- کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانیں لینے کے لئے اور ان پر ظلم کرنے کے لئے آئے تھے- جو جانیں لینے کے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں ]2 [lrmصلیبیں پوجنے کی اجازت دے سکتا ہے- اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپ نے اخرالمساجد ۱۲~}~ فرمایا اور جس میں نماز پڑھنے پر دیگر مساجد کی نسبت بہت زیادہ ثواب رکھا گیا ہے- اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے نبی کی موجودگی میں اور اس نبی کی موجودگی میں جو خداتعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے آیا- نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کیا حرج ہے بے شک کر لو- آج بڑے بڑے حوصلہ والوں کی بھی اتنی جرات نہیں کہ اپنی عبادت گاہوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے دیں-
تیسری مثال یہ ہے کہ آپ ہمسائیوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے کہ صحابہ ہر وقت اس کی پابندی یاد رکھتے- لکھا ہے کہ ابن عباس ایک دفعہ گھر میں آئے- انہوں نے دیکھا کہیں سے ان کے ہاں گوشت آیا ہے- انہوں نے گھر والوں سے پوچھا اپنے ہمسائے یہودی کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں- آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ گھر والوں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں- انہوں نے کہا رسولکریم2] f[st صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے جبرائیل نے اتنی دفعہ ہمسایہ کے حق کی تاکید کی کہ میں نے سمجھا اسے وراثت میں شریک کر دیا جائے گا-
یہ عملی سلوک تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آپ نے غیر مذاہب کے لوگوں سے روا رکھا- آپ لوگوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے- ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے کسی یہودی نے کہا موسیٰ کی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی- اس پر حضرتابوبکرؓ نے اسے طمانچہ مار دیا- جب یہ معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرتابوبکر جیسے انسان کو زجر کی- غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسے طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آ جاتا ہے اور وہ اسے طمانچہ مار بیٹھتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کیوں تم نے ایسا کیا- اسے حق ہے جو چاہے عقیدہ رکھے-
چوتھی مثال فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور اس نے گوشت میں زہر ملا دیا- جب آپ کے سامنے رکھا گیا تو ایک صحابی بشر نے اس میں سے کھا لیا- مگر آپ کو الہاماً معلوم ہو گیا- اس لئے آپ نے لقمہ اٹھا کر پھر رکھ دیا- آپ نے اس عورت سے پوچھا کہ اس کھانے میں تو زہر ہے- اس نے کہا آپ کو کس نے بتلا دیا- آپ نے ایک ہڈی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس نے- یہودن نے کہا میں نے اس لئے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کے سچے نبی ہیں تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے گی- اگر جھوٹے ہیں تو دنیا کو آپ کے وجود سے نجات حاصل ہو جائے گی- آپ نے یہ سن کر فرمایا اسے کچھ نہ کہو- حالانکہ وہ صحابی بشر فوت ہو گئے- آپ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا صحابی فوت ہو گیا مگر آپ نے عورت ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا- حالانکہ اس نے آپ کی اور آپ کے مخلص صحابہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس طرح اسلام کو بیخ و بن سے اکھیڑنا چاہا تھا- یہ کتنا بڑا سلوک تھا-
پانچویں مثال جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو حکم دیتے کسی قوم کی عبادت گاہیں نہ گرائی جائیں- ان کے مذہبی پیشوائوں کو نہ مارا جائے- عورتوں پر اور بوڑھوں` بچوں پر حملہ نہ کیا جائے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے یہ رواج تھا کہ پادریوں اور صوفیوں کو مار ڈالا جاتا تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روک دیا- اگر آپ دیگر مذاہب کے ایسے دشمن ہوتے جیسے مخالفین آپ کو قرار دیتے ہیں تو کیا آپ یہ حکم دیتے کہ ان مذاہب کے راہ نمائوں کو چھوڑ دیا جائے- آپ تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ان کو مارا جائے- مگر آپ نے فرمایا جو تلوار لے کر حملہ کرتا ہے اسے مارو- لیکن جو لوگ مذہبی کاموں میں لگے ہوئے ہوں` ان کو نہ مارو-
چھٹی مثال دنیا میں طریق ہے کہ جن لوگوں سے جنگ ہوئی ہے` ان کے احساسات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور مفتوح اقوام کو ہر طرح دبانے اور ان کے جذبات کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے- انگریزی حکومت بڑی مہذب کہلاتی ہے مگر آج تک لاہور میں لارنس کا مجسمہ ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا ہے- جس کے نیچے ہندوستانیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے-
قلم کی حکومت چاہتے ہو یا تلوار کی
ہر ہندوستانی سمجھتا ہے اس میں اہل ہند کی ہتک کی گئی ہے اور انہیں کہا گیا ہے اگر تم قلم کی حکومت نہ مانو گے تو تلوار کے زور سے تم پر حکومت کی جائے گی- ہندوستانیوں نے اس مجسمہ کے ہٹائے جانے کے لئے بڑا زور بھی لگایا- مگر گورنمنٹ نے نہیں مانا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے مکہ والوں نے آپ پر کس قدر ظلم کئے تھے- متواتر ۱۳ سال مکہ والے آپ اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کرتے رہے- عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کیا گیا- رسیوں سے باندھ کر تپتی ریت پر گھسیٹا گیا- بھٹیوں سے کوئلے نکال کر ان پر مسلمانوں کو لٹایا گیا- پتھریلی زمین پر گھسیٹا گیا- بعض مردوں اور عورتوں کی آنکھیں نکال دی گئیں- اور یہاں تک ظلم کئے گئے کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیارا وطن چھوڑنا پڑا- وہاں بھی ان لوگوں نے آپ کو چین نہ لینے دیا- وہاں کے لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا- قیصر اور کسریٰ کی حکومتوں کو اشتعال دلایا- مگر جب ایسی قوم کے خلاف آپ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ چڑھائی کر کے جاتے ہیں تو ابوسفیان آ جاتا ہے اس وقت مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے اہلمکہ کے سارے مظالم ایک ایک کر کے آ رہے ہیں- ان کا خون جوش سے ابل رہا اور وہ سمجھ رہے ہیں آج ہم اپنے بھائیوں کے خون کے ایک ایک قطرہ کا بدلہ لیں گے- اس وقت فوج کے ایک حصہ کا کمانڈر کہتا ہے آج مکہ والوں کی خیر نہیں` ہم ان کے ظلموں کا ان سے بدلہ لیں گے- اس پر ابوسفیان آگے بڑھ کر شکایت کرتا ہے کہ اس شخص نے ہمارا دل دکھایا ہے )کس کا؟ شدید دشمن بالمقابل لشکر کے کمانڈر کا( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس شخص کو بلوایا اور فرمایا آپ کو معزول کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے کفار مکہ کے احساسات کا خیال نہیں رکھا-
دیکھو ابھی معلوم نہیں کہ مکہ والے کیا رویہ اختیار کریں گے` لڑائی کا کیا نتیجہ رونما ہو گا- مگر مکہ والوں کے ایک سردار کے یہ کہنے پر کہ فلاں افسر نے ہمارا دل دکھایا ہے` ایک کمانڈر کو معزول کر دیا جاتا ہے- کیا دنیا کی تمام جنگوں کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جا سکتی ہے- کمانڈر چھوڑ نائیک (NIKE) اور لانس نائیک (LANCENAIK) کی مثال بھی نہیں دکھائی جا سکتی کہ اسے اس لئے سزا دی گئی ہو کہ اس نے میدان جنگ میں کھڑے ہو کر کہا ہو آج ہم دشمن کی خوب خبر لیں گے اور اسے پوری پوری شکست دیں گے-
اب میں اپنی تقریر ایک واقعہ کا ذکر کر کے ختم کرتا ہوں- مخالفوں کی طاقت کو کچلنے کا آخری موقع فتح مکہ تھا- مگر دیکھو کس محبت اور پیار کا معاملہ آپ نے ان لوگوں سے کیا- مغربیتاریخوں میں ایک مشہور شخص ابراہیم لنکن ہوا ہے- اس کے زمانہ میں دو گروہوں میں لڑائی ہو- ایک کہتا کہ غلامی قائم رہنی چاہئے مگر دوسرا گروہ اسے ظلم قرار دے کر مٹانا چاہتا- ابراہیملنکن مٹانے والوں میں سے تھا- اس کی بڑی خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب دوسرے فریق کو شکست ہوئی اور اسے فتح تو وہ سر نیچے کئے ہوئے گیا- کہتے ہیں وہ دعا کر رہا تھا کہ فیصلہ ہو گیا- فوجوں نے اسے کہا کہ بینڈ بجاتے ہوئے جانا چاہئے مگر اس نے کہا نہیں اس طرح دوسروں کا دل دکھے گا- یہ اس کی خاص خوبی بیان کی جاتی ہے- مگر وہ ایسا شخص تھا جسے ان لوگوں نے کوئی ذاتی دکھ نہ دیا تھا- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو ان لوگوں کی غداری کی وجہ سے حملہ آور ہوئے تھے- اور ان دشمنوں پر حملہ کرنے گئے تھے جنہوں نے قریباً ربعصدی تک مسلمانوں پر ظلم کئے تھے- جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو بے حد دکھ دیئے تھے- مگر جب مکہ کے قریب پہنچے تو سب کمانڈروں کو جمع کیا اور فرمایا جب تم مکہ میں داخل ہو گے` میں ساتھ نہ ہوں گا` تم نے کسی کو مارنا نہیں- اور جب مکہ نظر آیا اور آپ نے مخالفوں کی طرف سے لڑائی کے سامان نہ دیکھے تو سجدہ میں گر گئے- کہا گیا ہے کہ لنکن دعا کرتا ہوا گیا تھا- مگر اس کی اور رسول کریم2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حالت نہ تھی- جو دکھ اہل مکہ نے آپ کو دیئے تھے` ان کا لاکھواں حصہ بھی لنکن کو نہ دیا گیا تھا- مگر آپ نے قوم کو خونریزی سے بچا لیا- مسلمانوں کے چار لشکر گئے مگر آپ کسی لشکر کے ساتھ نہ گئے بلکہ اکیلے گئے تاکہ شان نہ ظاہر ہو- اور جا کر کعبہ میں نماز پڑھی اور اعلان کر دیا کہ جو شخص گھر میں بیٹھا رہے گا` اسے معاف کیا جاتا ہے- اس کے بعد مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے- وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ اپنے مذہب پر قائم تھے- اور وہ لوگ تھے جنہوں نے ۱۳ سال کے ہر منٹ میں آپ کو مارنے کی کوشش کی تھی- اور اس کے بعد سات سال تک دو سو میل دور جا کر آپ کی تباہی کی کوشش کرتے رہے تھے- ان سے پوچھا جاتا ہے بتائو تم سے کیا سلوک کیا جائے- اگر ان کے جسموں کا قیمہ بھی کر دیا جاتا تو یہ ان کے جرموں کے مقابلہ میں کافی سزا نہ تھی- مگر جب انہوں نے کہا ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا- تو آپ نے فرمایا لا تثریب علیکم الیوم۱۳~}~ جائو تمہیں معاف کیا جاتا ہے اور کوئی گرفت نہیں کی جاتی- یہ وہ خاتمہ ہے جو اس جنگ کا ہوا جو آپ کے قدیمی دشمنوں اور آپ کے درمیان ہوئی-
وہ لوگ جو کہتے ہیں- اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا وہ سن لیں` اگر کوئی شخص یہ کہلانے کا مستحق ہے کہ اس نے تلوار کے مقابلہ میں عفو سے کام لیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے- اگر عمر بھر کے ظلموں اور دکھوں کو کسی نے بخش دیا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی- میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے مقدس وجود پر کوئی اعتراض کرنے کی بجائے اس کے مخالف بھی اس کی تقدیس کریں گے-
اب آئو ہم سب مل کر دعا کریں کہ آپس کا تفرقہ دور ہو اور آپس میں ایسی صلح کریں کہ ایک دوسرے کے حقوق نہ لیں بلکہ بھائی بھائی بن کر اور ایک دوسرے کے حقوق دیتے ہوئے صلح کریں-
)الفضل ۵`۷` ۸- دسمبر ۱۹۴۴ء(
۱~}~
فاطر : ۲۵
۲~}~ النحل : ۳۷
۳~}~ الاعراف : ۱۵۹
۴~}~
الاخلاص:۲ تا ۵
۵~}~ البقرہ: ۲۵۶
۶~}~ البقرہ : ۱۱۴
۷~}~
الانعام: ۱۰۹
۸~}~ البقرہ: ۱۹۱
۹~}~ الاعراف: ۱۵۹
۱۰~}~
الانفال :۵۹


۱۱~}~
زرقانی مولفہ علامہ محمد عبدالباقی جلد۴ صفحہ۴۱ مطبوعہ مصر ۱۳۲۷ھ
۱۲~}~
مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوہ بمسجدی مکہ و مدینہ
۱۳~}~
شرح مواھب اللدنیہ جلد۲ صفحہ۳۰۲ طبع بار اول مطبع ازھریہ مصر
‏a.10.33
انوار العلوم جلد ۱۰
کامیابی
کامیابی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
کامیابی
کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنوں سے عام طور پر ہمارے اہل ملک ناواقف ہیں اور یہی ہماری ناکامیوں کی ہے- ہمارے ملک میں کامیابی نام ہے روپیہ کا- کامیابی نام ہے اچھے کپڑے پہننے کا اور اچھے کھانے کھانے کا- کامیابی نام ہے لوگوں پر تسلط پانے اور حکومت کرنے کا- مگر حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ غلط مفہوم کامیابی کا نہیں ہو سکتا- جن چیزوں کو ہم کامیابی قرار دیتے ہیں انہی کو اپنا کام یعنی مقصد بنا لینا کامیابی کے راستہ میں روک ہوا کرتا ہے- یہ چیزیں خود کامیابی نہیں بلک بعض دفعہ کامیابی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں- اس غلط فہمی کی وجہ سے بعض لوگ پوچھ بیٹھا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسینؑ کیوں ناکام ہوئے اور یزید کیوں کامیاب ہوا- حالانکہ اگر غور کرتے تو یزید باوجود مال و دولت اور جاہ و حشم کے ناکام رہا اور حضرتامامحسینؑ باوجود شہادت کے کامیاب رہے- کیونکہ ان کا مقصد حکومت نہیں بلکہ حقوق العباد کی حفاظت تھا- تیرہ سو سال گذر چکے ہیں مگر وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسینؑکھڑے ہوئے تھے یعنی انتخاب خلافت کا حق اہل ملک کو ہے` کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعد بطور وارثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا` آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا- بلکہ ان کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے- پس کامیاب حضرت امام حسینؑ ہوئے نہ کہ یزید-
قرآن کریم نے نہایت مختصر الفاظ میں کامیابی کا گر بتایا ہے اور میں اس کی طرف ناظرین کو توجہ دلاتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم با حسان رضی اللہ عنھم ورضواعنہ واعدلھم جنت تجری تحتھاالانھار خلدین فیھا ابدا- ذلک الفوز العظیم ۱~}~
نوٹ-: یہ مضمون ابتداء خواجہ حسن نظامی صاحب کے رسالہ >کامیابی< دہلی میں شائع ہوا-
یعنی وہ لوگ جو دوسروں سے آگے نکلنے اور اول رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی ہر اک چیز کو قربان کر دیتے ہیں یا ایسے لوگوں کے ممد اور معاون ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو مذکورہ بالا جماعت کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں` خداتعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ خداتعالیٰ سے راضی ہو گئے اور اسی نے ان لوگوں کے لئے ایسے باغات تیار کئے ہیں جن کے اندر نہریں چلتی ہیں اور وہ ان میں بستے چلے جائیں گے- یہ بہت بڑی کامیابی ہے-
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اصل کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے- آرام اور آسائش کے سامان اس کے نتیجہ میں ملتے ہیں خود مقصود بالذات نہیں ہوتے- اور نیز یہ بتایا گیا ہے کہ کامیابی کا گر یہ ہے کہ کوئی قوم ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے جو قربانی چاہتے ہیں اور جن کا فائدہ بادی النظر میں انسان کی اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو ہی پہنچتا ہے` دوسری اقوام سے آگے بڑھنے اور اول رہنے کی کوشش کرے- یہ وہ گر ہے جسے ہماری قوم نے نظر انداز کر دیا ہے- اور یہی وہ گر ہے جس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے- ہمارے اندر دولت مند بھی ہیں اور صاحب جائداد بھی لیکن باوجود اس کے ہم کامیاب نہیں- اس لئے کہ ہماری قوم اور ہمارے اہل ملک کی کوششیں اپنے نفس کی عزت اور اپنے آرام کے حصول کے لئے خرچ ہوتی ہیں- لیکن کامیابی کا گر یہ ہے کہ قوم سب کی سب مہاجر ہو جائے- یعنی اپنے نفس کو بھلا کر ان کاموں میں لگ جائے جو نبی نوع انسان کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں یا انصار بن جائے یعنی ایسے لوگوں کی مدد گار اور معاون ہو حتیٰکہ دنیا کا ہر ایک ملک اپنے گرد و پیش ایسے سامان دیکھے جن کے بغیر اس کا گذارہ مشکل تھا اور جن کا حصول اسی قوم کی شدید قربانیوں کے بغیر ناممکن تھا- یہ قوم کامیاب ہوتی ہے اور اس کا ذکر خیر دنیا سے کبھی نہیں مٹ سکتا- میں امید کرتا ہوں کہ میرے برادران وطن اسی صداقت کو سمجھ کر اس کی طرف پوری توجہ کریں گے- خالی نقل سے وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ بعض علوم و فنون میں السابقون الاولون ہونے کی کوشش نہیں کریں گے اور دوسری اقوام کو اپنے پیچھے چلانے میں کامیاب نہ ہوں گے وہ برابر ناکامی کا منہ دیکھتے رہیں گے- لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہماری سابقہ ناکامیاں ہمیں بیدار کر دیں- کیا ہماری پستی کے لئے کوئی قعر مذلت باقی ہے جس تک گرنا ہمارے لئے ضروری ہے- کیا ہم بچپن کے زمانہ سے نکل کر شباب نہیں بلکہ پیری کا زمانہ ہی دیکھیں گے اور پھر نابالغ بنے رہیں گے- خدا نہ کرے کہ ایسا ہو بلکہ خدا کرے کہ ہماری قوم بیدار ہو کر مہاجر و انصار کا رنگ دکھاتی ہوئی دنیا کی ترقی کے میدان میں السابقون الاولون کے دوش بدوش کھڑی ہو اور ہر ایک قربانی عارضی نہیں بلکہ مستقل اس پر آسان ہو اور کامیابی کے میدان میں ایک ایسی پائیدار یادگار چھوڑے جس کے نقش مرور زمانہ سے بھی نہ مٹ سکیں- آمین- اللھم امین و اخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین-
)الفضل ۱۲- جولائی ۱۹۲۹ء(
۱~}~ التوبہ: ۱۰۰
‏a.10.34
انوار العلوم جلد ۱۰
سائمن کمیشن اور پنجاب کونسل
سائمن کمیشن اور پنجاب کونسل

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏gap] ga[tاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
سائمن کمیشن اور پنجاب کونسل
سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) کے پنجاب آنے پر ممبران پنجاب کونسل نے فیصلہ کیا تھا اور میرے نزدیک نہایت صحیح فیصلہ کیا تھا کہ پنجاب کونسل کمیشن سے تعاون کرے گی اور اس کی خواہش کے مطابق اپنے میں سے سات آدمی مقرر کرے گی تا کہ ¶وہ سائمنکمیشن سے مل کر پنجاب کے مطالبات پر غور اور فکر کریں- اس ریزولیوشن کے مطابق پچھلے دنوں کونسل نے سات آدمی مقرر کئے ہیں جن میں سے تین ہندو` ایک سکھ` ایک انگریز اور دو مسلمان ہیں- اس فیصلہ پر مسلم اخبارات میں خصوصاً اور مسلم پبلک میں عموماً اظہار ناراضگی ہو رہا ہے اور میرے نزدیک مسلمانوں کا اس فیصلہ پر ناراض ہونا درست اور جائز ہے-
اس فیصلہ کا مضر اثر
موجودہ صورت معاملات یہ ہے کہ مسلمان جو اس صوبہ کی آبادی کا پچپن فیصدی ہیں ان کے نمائندے تیس فیصدی سے بھی کم ہیں اور ہندو جو اٹھائیس فیصدی ہیں ان کے نمائندے بیالیس فیصدی ہیں- اگر گورنمنٹ کی طرف سے ایسا کیا جاتا تب بھی یہ ایک خطرناک بات تھی لیکن موجودہ صورت میں تو اس فیصلہ پر مسلمان ممبران کی رضا مندی کی بھی مہر ثبت معلوم ہوتی ہے پس ظاہرہ طور پر ہماری پوزیشن یہ ہے کہ مسلمان اپنی مرضی سے اس ادنیٰ درجہ کو قبول کر چکے ہیں-
موجودہ فیصلہ میں یہ خطرناک نقائص ہیں کہ اول تو مسلمانوں کو وہ حق نہیں ملا جو ملنا چاہئے تھا- اگر صوبہ کی آبادی کا لحاظ رکھا جاتا تو انہیں چار ممبر ملنے چاہئیں تھے اور اگر ان حقوق کو مدنظر رکھا جاتا جنہیں گورنمنٹ تسلیم کر چکی ہے تو انہیں تین ممبر ملنے چاہئیں تھے لیکن ملے انہیں کل دو ہیں- اور یہ تعداد اس قدر قلیل ہے کہ اس کا خیال نہ گورنمنٹ کو تھا نہ ہندوئوں کو- کوئی بھی تین ممبروں سے کم کی امید نہ رکھتا تھا- پس ایک تو اس فیصلہ سے ہمارے اس دعویٰ کو صدمہ پہنچ گیا کہ ہم اپنی تعداد کے مطابق حق مانگتے ہیں- قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص بغیر احتجاج کرنے کے ایک ادنیٰ مقام پر راضی ہو جاتا ہے تو دوسرے لوگ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اس کو ادنیٰ درجہ دینے میں چنداں ہرج یا خوف کا مقام نہ ہوگا- پس جب مسلمان سات میں سے دو نمائندوں پر راضی ہو گئے ہیں تو یقیناً گورنمنٹ اور کمیشن کے دل میں خیال پیدا ہوگا کہ یہ لوگ گو زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ان کے اندر سچی خواہش اس امر کی نہیں ہے ورنہ کیوں یہ اس مقدار سے تھوڑی تعداد پر راضی ہو جاتے ہیں جس سے زیادہ کا حاصل کرنا ان کے اختیار میں تھا- ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گورنمنٹ نے ہمیں اپنے قانون سے ایسا بے بس بنا رکھا ہے کہ اپنی تعداد کے مطابق حق نہیں لے سکتے کیونکہ گو ہم اپنی تعداد کے مطابق حق نہ لے سکتے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تین ممبریاں ضرور لے سکتے تھے مگر ہم نے اس قدر بھی نہیں لیں اور اپنی مرضی سے نہیں لیں- پس ہماری مذکورہ بالا دلیل عقلمندوں کیلئے ہر گز حجت نہ ہوگی اور ہماری نسبت یہی سمجھا جائے گا کہ ہم اپنے جائز اور ضروری مقام کے حصول کے لئے اس قدر بے تاب نہیں ہیں جس قدر کہ ہم ظاہر کرتے ہیں یا یہ کہ ہم اس مقام کے حصول کے قابل ہی نہیں ہیں-
دوسرا نقص اس فیصلہ کی وجہ سے یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہم نے اپنی آواز کو خود ہی کمزور کر لیا ہے- چوہدری چھوٹو رام صاحب کا انتخاب گو زمیندار پارٹی کی طرف سے ہوا ہے لیکن ہر اک شخص جانتا ہے کہ عملاً انہیں مسلمانوں نے منتخب کیا ہے اور وہ مسلمانوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں- اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ مسلمانوں کے حقوق کی پوری نیابت کریں گے یا کر سکتے ہیں؟ کیا ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پورے طور پر اس سوال پر زور دیں گے کہ مسلمانوں کے حقوق کو پچھلی دفعہ پامال کیا گیا ہے اور اب اس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے کیا وہ یہ کہیں گے کہ مجلس اور ملازمت اور قضاء میں مسلمانوں کی کمی تعداد کو فوراً پورا کیا جائے- اور ہندوئوں نے جو ان محکموں پر قبضہ کیا ہوا ہے اس سے انہیں آہستگی سے لیکن قطعی طور پر دستبردار کیا جائے- کیا کبھی بھی کسی قوم کے فرد سے خواہ وہ کس قدر بھی تعلق دوستی رکھنے والا ہو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی قوم کے متعلق ایسی بات کہے گا اور خصوصاً ایسے شخص سے جو انتخاب کے ذریعہ سے کونسل میں آیا ہو اور آئندہ اس نے آنا ہو- زیادہ سے زیادہ چوہدری چھوٹو رام صاحب سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ یہ کہہ دیں گے کہ زمینداروں کو ان کا پورا حصہ ملے- لیکن کیا مسلمان ممبران کونسل اب تک یہ بھی نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں کے اس مطالبہ سے بھی ہندوئوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ ہندو زمیندار بھی اس قدر مل سکتے ہیں کہ بغیر مسلمانوں کو ان کا حق دینے کے زمینداروں کے حقوق کے مطالبہ کو پورا کر دیا جائے- اب یہی ہو رہا ہے کہ جس جس صیغہ میں زمینداروں کی تعداد بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے بجائے مسلمان زمینداروں کو بڑھانے کے ہندو زمینداروں کو بڑھایا جا رہا ہے اور پہلی صورت سے صرف اس قدر فرق ہے کہ ہندو شہری کی جگہ ہندو دیہاتی آ رہا ہے- اور ہندو دیہاتی دلیری سے کام کرنے میں ہندو شہری سے بڑھا ہوا ہے- اور شہری اگر خفیہ کام کرتا تھا تو یہ صاف مسلمان امیدوار کو کہہ دیتا ہے کہ میرے دفتر میں مسلمان کے لئے جگہ نہیں ہے-
غرض چوہدری صاحب سے جو کچھ امید کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ زمینداروں کو ان کا حق ملنا چاہئے لیکن یہ امید کرنا کہ وہ مسلمانوں کے متعلق یہ کوشش کریں گے کہ ہندوئوں کو ان کے موجودہ اجارہ حکومت سے علیحدہ کر کے ان کی آبادی کے مطابق ہر شعبہ حکومت میں حصہ دیا جائے ایک حد سے بڑھا ہوا مطالبہ اور عقل سے بعید امید ہے- خصوصاً جب کہ چوہدری صاحب کو گو مسلمانوں نے منتخب کیا اور نمائندہ چنا ہے مگر ان کا انتخاب مسلمانوں نے بحیثیت مسلمان نہیں بلکہ بحیثیت زمیندار کیا ہے- پس چوہدری صاحب کہہ سکتے ہیں کہ زمینداروں کی تائید میں مجھ سے جو چاہو کہلا لو مگر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے کسی اسلامی پارٹی نے نہیں بلکہ زمیندار پارٹی نے منتخب کیا ہے-
جب حالات یہ ہیں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ چوہدری چھوٹو رام صاحب جو کچھ مسلمانوں کی تائید میں کہہ سکتے ہیں وہ اس قدر نہیں کہ جس کی ہمیں ضرورت ہے- لیکن جس امر میں وہ ہماری مخالفت کرنے پر مجبور ہونگے اس کا سخت نقصان پہنچ جائے گا کیونکہ کہا جائے گا کہ یہ مسلمانوں کے نمائندہ کی رائے ہے- پس اس انتخاب سے ہم نے اپنی رائے کو نہایت کمزور کر لیا ہے-
تیسرا نقصان ہمیں اس انتخاب سے یہ پہنچا ہے کہ ہم نے اس انتخاب سے اس دلیل پر تبر رکھ دیا ہے جس پر ہمارے مطالبات کی بنیاد ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوئوں نے اپنے پچھلے اعمال سے اپنے آپ کو قابل اعتماد ثابت نہیں کیا بلکہ ہر جگہ اور ہر موقع پر ہمیں یہ تلخ تجربہ ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اس انتخاب کے بعد ہم اس دلیل کو کس طرح پیش کر سکتے ہیں- انگریزی دماغ جو مذہبی تعصب کو سمجھنے سے قاصر ہے اور سیاسیات میں مذہبی سوال کو لانے سے گھبراتا ہے جب اس پر یہ نقش خود ہمارے انتخاب سے پڑے گا کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ ہندوئوں پر اعتماد کر سکتے ہیں بلکہ انہیں ایسے نازک موقع پر جب کہ ان کی قوم کی زندگی اور موت کا سوال تھا نمائندہ مقرر کر سکتے ہیں تو یقیناً ان کا رجحان ادھر ہی ہوگا کہ عدم اعتماد محض ایک بہانہ ہے اور صرف مسلمانوں کی یہ خواہش ہے کہ قطع نظر لیاقت کے ان کے نالائق آدمی بھی عہدے پا سکیں ورنہ ہندوئوں سے ان کو کوئی حقیقی ضرر نہیں پہنچ رہا- اب اگر یہ خیال کمیشن کے ممبروں کے دل میں پیدا ہو جائے اور اس انتخاب کے بعد اس قسم کا خیال پیدا ہو جانا بعید نہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ ہماری تمام اس جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلے گا جو ہم مسلمانوں کی اقتصادی اور سیاسی غلامی کے خلاف کرتے چلے آئے ہیں کیا وہ سب کی سب باطل نہ جائے گی-
اس جگہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ کمیشن کے ممبر یہ سمجھیں کہ مسلمان ہندوئوں سے نیک سلوک کرتے ہیں لیکن وہ ان سے نیک سلوک نہیں کرتے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ قومی نیابت کے سوال میں دوسری قوم کے آدمی کو نمائندہ بنانا نیک سلوک نہیں کہلاتا بلکہ اس کے صریح یہ معنی ہیں کہ ہم اس پر کلی طور پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے اپنے آدمیوں سے اچھا سمجھتے ہیں یا یہ کہ ہم بیوقوف ہیں اور اپنے برے بھلے کو نہیں سمجھ سکتے اور ان دونوں نتائج میں سے جو بھی کمیشن کے ممبر نکالیں مسلمانوں کے حق میں اچھا نہ ہوگا-
صدائے احتجاج کی غلطی
غرض یہ تین نقصان ہیں جو اس انتخاب سے مسلمانوں کو پہنچے ہیں اور کوئی شخص بھی غور کرنے کے بعد ان نقصانات کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا- مگر میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ کونسل کے فیصلہ کے خلاف جو احتجاج کی آواز بلند کی گئی ہے وہ بھی درست نہیں- اول تو بعض لوگوں نے یہ بات تحریر و تقریر کے ذریعہ سے مشہور کر رکھی ہے کہ گویا یہ انتخاب کسی سازش کے ذریعہ سے ہوا ہے حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے- سازش بھی طاقت کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ خیال کرنا کہ عزیز مکرم چوہدری ظفراللہ خان صاحب` سردار سکندر حیات خان صاحب اور چوہدری چھوٹو رام صاحب کو ایسی طاقت حاصل تھی کہ وہ سازش سے لائق آدمیوں کو انتخاب سے محروم کر سکتے تھے یا یہ کہ مسلمانوں کو مناسب حقوق ملنے سے روک سکتے تھے ایک ایسی بات ہے جسے کوئی انسان باور نہیں کر سکتا- ان تینوں صاحبان میں سے ایک صاحب ہندو ہیں` دوسرے پنجاب کے ایک کونے کے رہنے والے ہیں اور تیسرے احمدی ہیں- اور احمدیت لوگوں کی توجہ کو پھیرنے کی بجائے آج کل مخالفت کے اکسانے کا موجب ہو جاتی ہے پھر دونوں مسلمان جونیر ہیں اور سیاسیات کے میدان میں بالکل نئے- پس ان کا انتخاب اگر ہوا ہے تو ان کی لیاقت کی وجہ سے یا ذی اثر لوگوں کی سازش سے- اور دونوں صورتوں میں ان ممبروں پر کوئی الزام نہیں آ سکتا- علاوہ ازیں واقعات سے ثابت ہے کہ انتخاب کے وقت چوہدری ظفراللہ خان صاحب مجلس میں موجود ہی نہ تھے- انہیں بعد میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام منتخب ہو گیا ہے اور اس کے بعد بھی انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے دو دفعہ استعفیٰ دینے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی- پس جو الزامات نمائندوں پر لگائے جاتے ہیں بالکل درست نہیں ہیں-
غلطی کی اصل وجہ
اصل میں اس تمام غلطی کی وجہیں تین ہیں- ایک تو مسلمانوں کی وہ پالیسی ہے جو انہوں نے میاں سرفضل حسین صاحب کی قیادت میں اصلاحات کے دورہ کی ابتداء سے اختیار کی اور دوسرے بعض ممبروں کی بائیکاٹ کی پالیسی جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اصل میں حق تو یہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے چار ممبر منتخب ہوتے لیکن حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ تین سے زیادہ کا انتخاب ناممکن ہو گیا- اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ہر ممبر کے انتخاب کے لئے سات ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن کل تئیس ممبر مسلمانوں کے ساتھ تھے کیونکہ پانچ عدم تعاونی ممبر ووٹ دینے سے مجتنب رہے- اب یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اس پر واویلا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور دوسری طرف اس نازک موقع پر ووٹ دینے سے اجتناب کر کے خود مسلمان ممبروں نے مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا ہے- اگر عدم تعاونی اس وقت اپنی ذمہ واری کو سمجھتے تو چار مسلمانوں کا منتخب ہونا یقینی تھا لیکن ان کی بائیکاٹ کی پالیسی جو موسم اور غیر موسم ظاہر ہوتی رہتی ہے اس وقت بھی نہایت بے موقع ظاہر ہوئی- یہ عجیب بات ہے کہ وہ مسلمان ممبر کونسل میں جاتے ہیں دوسرے موقعوں پر ووٹ بھی دیتے ہیں لیکن جس وقت مسلمانوں کی آئندہ بہبود کا سوال آتا ہے تو وہ بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیتے ہیں- میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمانوں نے انہیں اسی غرض سے کونسل میں بھیجا تھا کہ وہ عین اس وقت جب کہ مسلمانوں کے آئندہ حقوق کا سوال پیش ہو روٹھ کر بیٹھ جائیں اگر وہ ذرہ بھی ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو وہ اپنی غلطی کو محسوس کریں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت انہوں نے مسلمانوں کا فائدہ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے- اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے-
دوسرا سبب میں نے بتایا تھا کہ وہ پالیسی ہے جو مسلمان ابتدائے اصلاحات سے پنجاب میں اختیار کر چکے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے کہ کونسلوں کی ابتداء میں میاں سر فضل حسین صاحب نے دیکھا کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ نے پورے حق نہیں دیئے اور باوجود پنجاب میں کثیرالتعداد ہونے کے کونسلوں میں وہ قلیلالتعداد ہیں اور شاید انہیں حکومت میں کوئی حصہ نہ ملے- تب انہوں نے آہستہ آہستہ ایک زمیندار پارٹی تیار کی اور ہندوئوں میں سے کچھ لوگوں کو جدا کر لیا اور اس طرح ایک جماعت تیار کر لی جس کی مدد سے وہ مسلمانوں کے حقوق کی ایک حد تک نگہداشت کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ آئندہ یہی پالیسی مسلمانوں کے لئے مضر ہوگی- دوسری کونسل میں وہ ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہو گئے اور اس وجہ سے لازماً چوہدری چھوٹو رام صاحب جو ہندو زمیندار پارٹی کے سربرآوردہ رکن تھے اور سرمیاںفضلحسین صاحب کے نائب تھے پارٹی کے لیڈر ہو گئے اور مسلمان پارٹی ایک ہندو کی لیڈری میں آگئی- اب جو سائمن کمیشن کیلئے انتخاب ہونے لگا تو اس زمیندار پارٹی کو یہ مشکل پیش آئی کہ اگر چوہدری چھوٹو رام صاحب کو ممبر نہیں مقرر کرتے تو اخلاقی الزام آتا ہے کہ ان کی قوم سے انہیں جدا کر کے اس اہم موقع پر انہیں الگ کر دیا- اور پھر یہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ پارٹی کا لیڈر اس موقع پر پارٹی کا نمائندہ نہ ہو- پس ان اخلاقی اور رسمی ذمہ واریوں سے متاثر ہو کر پارٹی نے چوہدری صاحب کو منتخب کر لیا اور دو مسلمان ممبروں پر کفایت کر لی- ایک لحاظ سے تو یہ انتخاب قابل تعریف تھا کیونکہ اس سے ظاہر ہو گیا کہ مسلمان کی سرشت میں وفاداری ہے اور وہ اپنا بہت بڑا نقصان برداشت کر کے بھی اپنے ہمراہی کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا- لیکن دوسرے لحاظ سے یہ ایک خطرناک غلطی تھی جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے- میرے نزدیک مسلمان ممبروں کو چاہئے تھا کہ جب انہیں معلوم تھا کہ خلافتی اس وقت اسلام کے مفاد کی نگہداشت پر اپنی ذاتی آراء کو مقدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ چوہدری صاحب کو صاف کہہ دیتے کہ اس وقت ممبروں کا انتخاب مذہبی اصول پر ہو رہا ہے- اگر ہم چار ممبر حاصل کر سکتے تو ہم یقیناً آپ کی لیڈری اور رفاقت کا لحاظ کرتے- لیکن چونکہ ہم چار ممبر حاصل نہیں کر سکتے اور آپ قومی لحاظ سے مجبور ہیں کہ بعض اسلامی مطالبات کی تائید نہ کر سکیں اس لئے ہم تین مسلمان ممبر منتخب کرنے پر مجبور ہیں- میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری چھوٹو رام صاحب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اور وہ خوشی سے اس صورت میں معاملات کو قبول کرتے- خیر جو کچھ ہوا وہ تو ہوا جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ نقص اس پارٹی سسٹم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو شروع کے زمانہ اصلاحات سے مسلمانوں نے اختیار کی ہے- اس وقت مسلمان پارٹی کوئی نہیں بلکہ زمیندار پارٹی ہے پس مسلمان اسلامی مفاد کی اس آزادی سے حفاظت نہیں کر سکتے جس قدر کہ اسلامی پارٹی کی صورت میں کر سکتے تھے- اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس وقت مسلمان پارٹی کے نام سے ووٹ دیئے جاتے تو غالباً کئی خلافتی ممبر بھی اس کے ساتھ ووٹ دینے پر مجبور ہو جاتے-
‏sub] [tag پارٹی کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت
قطع نظر موجودہ مشکل کے جو پیش آ گئی ہے یہ طریق پارٹیوں کا آئندہ بھی مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اس کے بد اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد مسلمان ممبران کونسل موجودہ پارٹی کے نظام میں تبدیل کریں- اور میرے نزدیک مسلمانوں کی اقلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہوگا کہ موجودہ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے- ایک مسلم زمیندار پارٹی ہو اور ایک ہندو زمیندار پارٹی ہو- ہندو پارٹی چوہدری چھوٹو رام صاحب کے ماتحت ہو اور مسلمپارٹی اپنا الگ لیڈر منتخب کرے- جب حکومت کا سوال آئے دونوں پارٹیاں مل کر ملک کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لانے کی کوشش کریں- لیکن جہاں خالص مذہبی سوال ہو وہاں مسلمپارٹی آزادانہ طور پر اپنے نمائندے منتخب کرے- یورپ میں اکثر ممالک میں اب اتحادیحکومتیں ہیں- ایک پارٹی تو بہت ہی کم حکومت کے قابل ہوتی ہے- پس اس طریق کو اختیار کرنے سے مسلمانوں کی آزادی بھی قائم رہے گی اور موجودہ موقع کی طرح کوئی اور موقع پیش آیا تو انہیں ایسی زک نہ اٹھانی پڑے گی جو اب اٹھانی پڑی ہے- اور ساتھ ہی ایک ہندو پارٹی بھی ایسی رہے گی جس کے ساتھ مل کر وہ حکومت کو ایسے طور پر چلا سکیں گے کہ وہ چند شائی لاکس کے قبضہ میں نہ جا سکے-
میرے نزدیک اوپر کی اصلاح کے علاوہ مسلمان پارٹی کو اپنا وہپ سسٹم (WHIPSYSTEM) بھی مضبوط رکھنا چاہئے- پچھلے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو کوئی لائق وہپ (WHIP) ہے اور نہ اس کا کام معین ہے اور نہ اسے کوئی خاص اختیار ہیں- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت پر مسلمان اپنی طاقت کو جمع نہیں کر سکتے اور پراگندہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھا لیتے ہیں- موجودہ موقع پر اگر مضبوط وہپ ہوتا اور وہ حالات کا مطالعہ کرتا رہتا تو مسلمان پارٹی کو چار پانچ ووٹر اور مل سکتے تھے- لیکن کام ایسے بے ڈھنگے طور پر ہوا کہ کئی ممبروں کے ووٹ سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا کیونکہ وہ لاہور چھوڑ چکے تھے- ایسا ہی موقع ولایت میں پیش آتا تو ممکن نہ تھا کہ ممبر اپنی جگہ چھوڑ سکتے-
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے
میرے نزدیک پارٹی کی اصلاح تو ہوتی رہے گی- ہمیں اب یہ سوچنا چاہئے کہ جو غلطی ہو چکی ہے اس کا کیا علاج کیا جائے- بعض لوگ اس کا علاج یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان ممبر استعفیٰ دے دیں- اگر گورنمنٹ نے انہیں منتخب کیا ہوتا تو یہ تدبیر معقول کہی بھی جا سکتی تھی لیکن موجودہ حالات تو خود مسلمانوں نے پیدا کئے ہیں وہ استعفیٰ کس کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے دیں- اور اگر یہ خیال ہے کہ ان کے استعفیٰ دینے سے مسلمانوں کی نمائندگی مضبوط ہو جائے گی تو پہلے اس کے متعلق سوچ لینا چاہئے کہ آیا ایسا ہوگا بھی یا نہیں کیونکہ اگر ان لوگوں کے استعفیٰ دینے سے کوئی مفید تبدیلی نہیں ہو سکتی تو استعفیٰ دینا فضول ہوگا بلکہ مضر-
سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کے استعفیٰ دینے پر مسلمانوں کو پھر ممبر منتخب کرنے کا موقع مل جائے گا- اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں تین سوالوں پر غور کر لینا چاہئے- اول یہ کہ کیا انتخاب ہو چکنے کے بعد گورنمنٹ نئے ممبروں کے انتخاب کی اجازت دے گی- دوم یہ کہ انتخاب کونسل سے تعلق رکھتا ہے اور کونسل کے اجلاس اب بند ہو چکے ہیں- وہ دوبارہ اسی وقت جمع ہوگی جب سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) آچکا ہوگا- تو اس صورت میں مسلمانوں کے نمائندوں کو کون منتخب کرے گا- سوم یہ کہ انتخاب ممبران ساری کونسل سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ مسلمانوں سے- فرض کرو گورنمنٹ نئے انتخاب کی اجازت بھی دے دے- اور فرض کرو کہ وہ کونسل کا اجلاس بھی کر دے تو بھی یہ سوال باقی ہے کہ جب کہ ہندوئوں` سکھوں اور یورپین کا انتخاب ہو چکا ہے اور ان کے ووٹ آزاد ہو چکے ہیں تو کیا وہ اپنے ووٹوں کے زور سے ایسے تین مسلمانوں کا انتخاب نہ کرا دیں گے جو مسلمانوں کے لئے مضر ہوں گے اور ان کی رہی سہی طاقت بھی ٹوٹ جائے گی- غرض ہمیں پورا فیصلہ کرنے سے پہلے ان تین سوالوں پر غور کر لینا چاہئے- ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلمان اس کمیٹی میں شامل ہی نہ ہوں- لیکن میں اس کی تائید نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نمائندے عدم تعاونیوں کے نہیں ہیں بلکہ تعاون کرنے والوں کے ہیں اور عدم تعاون کی پالیسی کا اختیار کرنا ان کے لئے جائز نہیں- علاوہ ازیں یہ عقل کے بالکل بر خلاف ہوگا کہ ہم دو ممبریوں پر ناراض ہو کر جب کہ یہ دو ممبریاں ہماری ہی غلطی کے سبب سے ملیں بالکل ہی شمولیت نہ کریں اور میدان بالکل ہندوئوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیں- اور خصوصاً اس صورت میں جب کہ فیصلہ کثرت رائے پر نہیں ہے بلکہ فیصلہ ولایت کی پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے- پس اس غلطی پر جو ہو چکی افسوس کرتے ہوئے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے اس سے بہتر سے بہتر کام لیں اور اپنی تعداد کی کمی کو اپنی محنت اور خیر خواہی اور خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کر کے پورا کرنے کی کوشش کریں-
ایک جلسہ کی ضرورت
میرے نزدیک اس وقت بہتر سے بہتر پالیسی یہ ہوگی کہ جو لوگ اس وقت سائمن کمیشن (SIMONCOMMISSION) میں جانے کی تائید میں ہوں ان کے مختلف الخیال گروہوں کے سربرآوردہ اصحاب کا ایک جلسہ کیا جائے اس میں کونسل کے نمائندے بھی ہوں اور مقتدر اسلامی اخبارات کے نمائندے بھی- اس جلسہ میں حالت موجودہ کے تمام پہلوئوں پر غور کیا جائے- اور سب حالات جو موجودہ حالت کے پیدا کرنے کا موجب ہوئے ہیں ان کو بھی معلوم کیا جائے- اور پھر اس نتیجہ پر پہنچنا چاہئے کہ اب اسلامی فوائد کے لئے کونسا طریق زیادہ مفید ہوگا- اگر یہی ثابت ہو کہ اسلامی فوائد کے لئے یہی مفید ہوگا کہ کوئی مسلمان ممبر شامل نہ ہو تو میں یقین دلاتا ہوں کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب بہ خوشی استعفیٰ دے دیں گے- اور میں کامل امید رکھتا ہوں کہ سردار سکندرحیاتخان صاحب اور چوہدری چھوٹو رام صاحب بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ ان لوگوں کا پرانا رویہ ہر طرح اطمینان کا یقین دلاتا ہے- اس عرصہ میں ہمیں یہ بھی معلوم کر لینا چاہئے کہ اب جب کہ کونسل کے اجلاس ختم ہو چکے ہیں اور انتخاب کا فیصلہ ہو چکا ہے گورنمنٹ سابقہ فیصلہ میں کسی تبدیلی پر رضا مند ہوگی یا نہیں- اگر گورنمنٹ اس پر راضی ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ کچھ مشکل نہیں کہ تبدیلی کی جا سکے- کم سے کم ایک ممبر کی طرف سے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ کسی مناسب تبدیلی میں روک نہیں ڈالیں گے بلکہ اس کے پیدا کرنے کیلئے پوری سعی کریں گے-
میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تجویز پر مسلمان غور کریں گے- اور اس راہ کو اختیار کریں گے جو فتنہ اور فساد سے بچا کر کوئی مفید تجویز پیدا کرنے میں ممد ہو اور ایسا طریق اختیار نہیں کریں گے جو پہلے ہی سے پراگندہ شدہ اسلامی طاقت کو اور بھی پراگندہ کر دے- میرے نزدیک بعض تجاویز ایسی ہیں جن پر چل کر اگر گورنمنٹ کی طرف سے دقت نہ ہو تو موجودہ صورت کو بدلا جا سکتا ہے لیکن انہیں شائع کرنا میں پسند نہیں کرتا- اگر ایسا اجتماع ہو جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں تو اس وقت میں انہیں ظاہر کر سکتا ہوں-
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ- قادیان
۲۱ مئی ۱۹۲۸ء
)الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۸ء(
‏a.10.35
]انوار العلوم جلد ۱۰
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ
)تحریر فرمودہ ۱۸ جولائی ۱۹۲۸ء(
برادران! آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپس کے جھگڑوں کو ناپسند کیا ہے اور ان کے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن باوجود اس کے غیر مبائعین کے متعرف گروہ کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گندے اور غیر شریفانہ پیرایہ میں یہ لوگ مجھ پر اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں گویا کہ ان کے سینے ایک ذخیرہ ہیں حاسدانہ خیالات کا اور ایک سمندر ہیں غضب و غصہ کے احساسات کا-
آپ کو یاد ہو گا کہ ۱۹۲۶ء میں جب میں ڈلہوزی آیا تو بعض دوستوں نے تحریک کی کہ ان جھگڑوں کو بند کرنا چاہئے- اس پر میں نے ان سے کہا کہ ہم تو ہمیشہ مدافعانہ لکھتے ہیں اور وہ بھی بہت کم لیکن ابتداء تو دوسرے فریق ہی کی طرف سے ہوتی ہے- پس اس کا فیصلہ کر لیا جائے کہ زیادتی کس کی ہے- مگر ان لوگوں نے کہا کہ پچھلے جھگڑے کو جانے دیا جائے اور اس شرط پر صلح کر لیجئے کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہ لکھا جائے گا- میں نے اس امر کو منظور کر لیا اور آپس میں ایک تحریر لکھی گئی جو >الفضل اور >پیغام صلح< دونوں میں شائع کر دی گئی- اس تحریر کی اشاعت کے بعد خلاف معاہدہ پیغام صلح میں جماعت کے خلاف عموماً اور میری ذات کے خلاف خصوصاً مضامین شائع ہوتے رہے حالانکہ اس معاہدہ سے بالخصوص ذاتی جھگڑوں کو روکنا مدنظر تھا- میں برابر اس وعدہ خلافی کو دیکھ کر خاموش رہا حتیٰکہ جب بات انتہا کو پہنچ گئی تو میں نے حسب احکام قرآن اور دستور زمانہ کے اس امر کا اعلان کر دیا کہ چونکہ دوسرے فریق نے معاہدہ فسخ کر دیا ہے اس لئے اب اس کا اثر ہم پر بھی کوئی نہیں ہوگا- جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے توڑنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے برائت حاصل کر لی تھی اور مکہ پر حملہ کر دیا تھا- اس اعلان پر بھی جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہے انہوں نے شور مچایا کہ گویا میں نے معاہدہ توڑا ہے حالانکہ یہ اس معاہدہ کو توڑتے چلے آ رہے تھے اور بیسیوں دفعہ توڑ چکے تھے جس کے ثبوت میں عنقریب انشائاللہ ایک خلاصہ ان مضامین کا شائع کیا جائے گا جو دو سال کے عرصہ میں پیغام صلح اور الفضل میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں شائع ہوتے رہے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ کس نے معاہدہ کو توڑا ہے اور کس نے اس کا پاس کیا ہے اور کس نے ظلم سے کام لیا ہے اور کون مظلوم ہے-
بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ معاہدہ منسوخ ہوا- اور ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پچھلے دو سال میں جو کچھ گالیاں یہ لوگ دیتے رہے تھے وہ درحقیقت ان کے معیار اخلاق کے لحاظ سے ایک نہایت ہی شریفانہ فعل تھا اور درحقیقت ان کے بغض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے نفوس پر جبر کر کے صرف اس قدر پر کفایت کی جو ان کے اخبارات میں شائع ہوا تھا بد زبانی اور سخت کلامی کا ایک ایسا باب کھول دیا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسان غصہ میں کس قدر گر جاتا ہے اور اخلاق حسنہ سے کس قدر دور جا پڑتا ہے- خدا تعالیٰ اس حالت بغض سے بچائے اور ایسے کینہ سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-
نہایت ہی حیرت کا مقام ہے کہ باوجود اس قدر تعدی اور متواتر ظلم کے اور حملہ کی ابتداء کے >پیغام صلح< کے ۲۸- محرم کے پرچہ میں لکھا ہے- >اس لئے پھر دشنام دہی کا دروازہ کھول دیا ہے<- حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جوابی مضامین کے سوا اور وہ بھی چند ایک سے زیادہ نہیں ہمارے اخبارات نے ان لوگوں کے متعلق کچھ لکھا ہی نہیں- اس کے مقابلہ میں ان کے اخبارات میں کالم کے کالم ہمارے خلاف سیاہ کئے جاتے ہیں- اور گالیوں کی ایسی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ الامان- اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرے فرقوں بلکہ غیر مذاہب کے غیرجانبدار لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا تو وہ بلا تردد گواہی دیں گے کہ پیغام صلح جو کچھ ہمارے خلاف لکھتا ہے اور جس طرح سے لکھتا ہے اس سے بیسواں حصہ بھی ہم نہیں لکھتے اور ان کی عامیانہطرز کے مقابلہ میں نہایت متانت سے لکھتے ہیں- خصوصاً میری تحریرات اور مولویمحمدعلی صاحب کی تحریرات کا مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک شخص کو اقرار کرنا پڑے گا کہ میں نے اپنے دامن کو بدکلامی کے داغ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ پاک رکھا ہے-
میری تحریرات بھی اور مولوی صاحب کی تحریرات بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں- الفضل اور پیغام صلح کے پڑھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں میں نے مولویصاحب کے متعلق کیا لکھا یا کہا ہے اور انہوں نے کیا لکھا اور کہا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے` میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں- آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کر سکیں اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں` لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں ہے- نہ معلوم چند دن کو` نہ معلوم چندہ ماہ کو` نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گا` جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے` جب سخت دل سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا ماضی پر نگاہ ڈالے گا` جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا- حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا- اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقع میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی- یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا جو اس صورت میں مجھے ملے گا- پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں` بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں` وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے-
پیغام صلح کی اس سخت کلامی کے خلاف اپنے رویہ کا ذکر کر کے میں اس چیلنج کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے اپنے تازہ پرچہ میں دیا ہے- اس چیلنج کے الفاظ یہ ہیں-
>ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں- صلح کریں یا جنگ کریں- ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے<- ۱~}~
حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں` وہ پیغام جنگ ہے- اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات سے چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے اور آپﷺ~ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے- میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ ان ہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں- پیغام ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں- ہر ایک جو سچے دل سے بیعت میں شامل ہوا ہے اب اس کا فرض ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کے اس اعلان جنگ کو قبول کرے اور ایک سچے مسلمان کی طرح جو بزدل نہیں ہوتا بلکہ بہادری سے اپنے عقیدہ پر قائم ہوتا ہے اور اپنی ہر ایک چیز کو سچائی کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اس امر کے لئے تیار ہو جائے کہ وہ اس جنگ کو جو نفسانیت کی جنگ ہے` جو خود غرضی کی جنگ ہے` جو بے جا تحقیر اور بے سبب بغض کی جنگ ہے` ہر ایک جائز ذریعہ سے جلد سے جلد خاتمہ کرنے کی کوشش کرے گا- جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں- لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا- پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائو جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے- اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے- اور کوشش کرو کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچائو مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں سے انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تا کہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
۱۸- جولائی ۱۹۲۸ء
)الفضل ۲۷- جولائی ۱۹۲۸ء(
۱~}~ پیغام صلح نمبر۴۶ -۴۷ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۵ کالم ۲
‏a.10.35
انوار العلوم جلد ۱۰
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
>پیغام صلح< کا پیغام جنگ
)تحریر فرمودہ ۱۸ جولائی ۱۹۲۸ء(
برادران! آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپس کے جھگڑوں کو ناپسند کیا ہے اور ان کے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن باوجود اس کے غیر مبائعین کے متعرف گروہ کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور گندے اور غیر شریفانہ پیرایہ میں یہ لوگ مجھ پر اور جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں گویا کہ ان کے سینے ایک ذخیرہ ہیں حاسدانہ خیالات کا اور ایک سمندر ہیں غضب و غصہ کے احساسات کا-
آپ کو یاد ہو گا کہ ۱۹۲۶ء میں جب میں ڈلہوزی آیا تو بعض دوستوں نے تحریک کی کہ ان جھگڑوں کو بند کرنا چاہئے- اس پر میں نے ان سے کہا کہ ہم تو ہمیشہ مدافعانہ لکھتے ہیں اور وہ بھی بہت کم لیکن ابتداء تو دوسرے فریق ہی کی طرف سے ہوتی ہے- پس اس کا فیصلہ کر لیا جائے کہ زیادتی کس کی ہے- مگر ان لوگوں نے کہا کہ پچھلے جھگڑے کو جانے دیا جائے اور اس شرط پر صلح کر لیجئے کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہ لکھا جائے گا- میں نے اس امر کو منظور کر لیا اور آپس میں ایک تحریر لکھی گئی جو >الفضل اور >پیغام صلح< دونوں میں شائع کر دی گئی- اس تحریر کی اشاعت کے بعد خلاف معاہدہ پیغام صلح میں جماعت کے خلاف عموماً اور میری ذات کے خلاف خصوصاً مضامین شائع ہوتے رہے حالانکہ اس معاہدہ سے بالخصوص ذاتی جھگڑوں کو روکنا مدنظر تھا- میں برابر اس وعدہ خلافی کو دیکھ کر خاموش رہا حتیٰکہ جب بات انتہا کو پہنچ گئی تو میں نے حسب احکام قرآن اور دستور زمانہ کے اس امر کا اعلان کر دیا کہ چونکہ دوسرے فریق نے معاہدہ فسخ کر دیا ہے اس لئے اب اس کا اثر ہم پر بھی کوئی نہیں ہوگا- جس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے توڑنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے برائت حاصل کر لی تھی اور مکہ پر حملہ کر دیا تھا- اس اعلان پر بھی جیسا کہ ان لوگوں کی عادت ہے انہوں نے شور مچایا کہ گویا میں نے معاہدہ توڑا ہے حالانکہ یہ اس معاہدہ کو توڑتے چلے آ رہے تھے اور بیسیوں دفعہ توڑ چکے تھے جس کے ثبوت میں عنقریب انشائاللہ ایک خلاصہ ان مضامین کا شائع کیا جائے گا جو دو سال کے عرصہ میں پیغام صلح اور الفضل میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں شائع ہوتے رہے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ کس نے معاہدہ کو توڑا ہے اور کس نے اس کا پاس کیا ہے اور کس نے ظلم سے کام لیا ہے اور کون مظلوم ہے-
بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ معاہدہ منسوخ ہوا- اور ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پچھلے دو سال میں جو کچھ گالیاں یہ لوگ دیتے رہے تھے وہ درحقیقت ان کے معیار اخلاق کے لحاظ سے ایک نہایت ہی شریفانہ فعل تھا اور درحقیقت ان کے بغض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے نفوس پر جبر کر کے صرف اس قدر پر کفایت کی جو ان کے اخبارات میں شائع ہوا تھا بد زبانی اور سخت کلامی کا ایک ایسا باب کھول دیا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انسان غصہ میں کس قدر گر جاتا ہے اور اخلاق حسنہ سے کس قدر دور جا پڑتا ہے- خدا تعالیٰ اس حالت بغض سے بچائے اور ایسے کینہ سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے-
نہایت ہی حیرت کا مقام ہے کہ باوجود اس قدر تعدی اور متواتر ظلم کے اور حملہ کی ابتداء کے >پیغام صلح< کے ۲۸- محرم کے پرچہ میں لکھا ہے- >اس لئے پھر دشنام دہی کا دروازہ کھول دیا ہے<- حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جوابی مضامین کے سوا اور وہ بھی چند ایک سے زیادہ نہیں ہمارے اخبارات نے ان لوگوں کے متعلق کچھ لکھا ہی نہیں- اس کے مقابلہ میں ان کے اخبارات میں کالم کے کالم ہمارے خلاف سیاہ کئے جاتے ہیں- اور گالیوں کی ایسی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ الامان- اور میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرے فرقوں بلکہ غیر مذاہب کے غیرجانبدار لوگوں سے بھی پوچھا جائے گا تو وہ بلا تردد گواہی دیں گے کہ پیغام صلح جو کچھ ہمارے خلاف لکھتا ہے اور جس طرح سے لکھتا ہے اس سے بیسواں حصہ بھی ہم نہیں لکھتے اور ان کی عامیانہطرز کے مقابلہ میں نہایت متانت سے لکھتے ہیں- خصوصاً میری تحریرات اور مولویمحمدعلی صاحب کی تحریرات کا مقابلہ کیا جائے تو ہر ایک شخص کو اقرار کرنا پڑے گا کہ میں نے اپنے دامن کو بدکلامی کے داغ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ پاک رکھا ہے-
میری تحریرات بھی اور مولوی صاحب کی تحریرات بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں- الفضل اور پیغام صلح کے پڑھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں میں نے مولویصاحب کے متعلق کیا لکھا یا کہا ہے اور انہوں نے کیا لکھا اور کہا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب کے شریف لوگ جو ہمارے لٹریچر کو اخباری یا علمی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھتے ہیں اس امر پر گواہی دیں گے کہ بلاوجہ اور متواتر مجھ پر ظلم کیا گیا ہے` میرے خلاف اتہامات لگائے گئے ہیں اور مجھ پر حملے کئے گئے ہیں- آج میری زندگی میں شاید معاصرت کی وجہ سے لوگ اس فرق کو اس قدر محسوس نہ کر سکیں اور شاید گواہی دینا غیر ضروری سمجھیں یا اس کے بیان کرنے سے ہچکچائیں` لیکن دنیا کا کوئی شخص بھی خالد اور ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں ہے- نہ معلوم چند دن کو` نہ معلوم چندہ ماہ کو` نہ معلوم چند سال کو جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گا` جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے` جب سخت دل سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتا ہوگا ماضی پر نگاہ ڈالے گا` جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناً محسوس کرے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا- حملہ پر حملہ کیا گیا لیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا- اور اگر اپنی زندگی میں مجھے اس شہادت کے سننے کا موقع میسر نہ آیا تو میرے مرنے کے بعد بھی یہ گواہی میرے لئے کم لذیذ نہ ہوگی- یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابل قدر انعام ہوگا جو اس صورت میں مجھے ملے گا- پس میں بجائے اس کے کہ ان لوگوں کے حملہ کا جواب سختی سے دوں` بجائے اس کے کہ گالی کے بدلہ میں گالی دوں تمام ان شریف الطبع لوگوں کی شرافت اور انسانیت سے اپیل کرتا ہوں جو اس جنگ سے آگاہ ہیں کہ وہ اس اختلاف کے گواہ رہیں` وہ اس فرق کو مدنظر رکھیں اور اگر سب دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو بھی ان لوگوں کی نیک ظنی جو خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں لیکن ایک غیر متعصب دل ان کے سینہ میں ہو ان بہترین انعاموں میں ہوگا جن کی کوئی شخص امید کر سکتا ہے-
پیغام صلح کی اس سخت کلامی کے خلاف اپنے رویہ کا ذکر کر کے میں اس چیلنج کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے اپنے تازہ پرچہ میں دیا ہے- اس چیلنج کے الفاظ یہ ہیں-
>ان کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں- صلح کریں یا جنگ کریں- ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں ہر حال میں جنگ کریں گے<- ۱~}~
حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ پیغام صلح نہیں` وہ پیغام جنگ ہے- اور آج کھلے لفظوں میں پیغام صلح نے ہمیں پیغام جنگ دیا ہے اور صرف اس بات سے چڑ کر کہ کیوں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے اور آپﷺ~ کے خلاف گالیوں کا سدباب کرنے کے لئے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر ایک ہی دن سینکڑوں جلسوں کا انعقاد کیا ہے- میں اس جرم کا مجرم بے شک ہوں اور اس جرم کے بدلہ میں ہر ایک سزا خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور چونکہ اس اعلان جنگ کا موجب ہمارے عقائد نہیں کیونکہ ان ہی عقائد کے معتقد خود مولوی محمد علی صاحب بھی رہے ہیں اور سب فرقہ ہائے اسلام ان کے معتقد ہیں بلکہ ہماری خدمات اسلام ہیں اس لئے میں اس چیلنج کو خوشی سے منظور کرتا ہوں اور اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دماغوں پر اس اعلان جنگ کو لکھ لیں- پیغام ہم سے آخری دم تک جنگ کرنے کا اعلان کرتا ہے اب ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس جنگ کی دفاع کے لئے تیار ہو جائیں- ہر ایک جو سچے دل سے بیعت میں شامل ہوا ہے اب اس کا فرض ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کے اس اعلان جنگ کو قبول کرے اور ایک سچے مسلمان کی طرح جو بزدل نہیں ہوتا بلکہ بہادری سے اپنے عقیدہ پر قائم ہوتا ہے اور اپنی ہر ایک چیز کو سچائی کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اس امر کے لئے تیار ہو جائے کہ وہ اس جنگ کو جو نفسانیت کی جنگ ہے` جو خود غرضی کی جنگ ہے` جو بے جا تحقیر اور بے سبب بغض کی جنگ ہے` ہر ایک جائز ذریعہ سے جلد سے جلد خاتمہ کرنے کی کوشش کرے گا- جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے یہ لوگ دنیا میں قائم رکھے جائیں گے تاکہ آپ لوگ ہمیشہ ہوشیار رہیں- لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا ہے آپ لوگ اس کے فضل سے ان پر غالب رہیں گے اور وہ ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا- پس خدا تعالیٰ کے لئے نہ کہ اپنے نفسوں کے لئے ان صداقتوں کے پھیلانے کے لئے مستعد ہو جائو جو خدا تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں اور اس بغض اور کینہ کو انصاف اور عدل کے ساتھ مٹانے کی کوشش کرو جس کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی ہے- اور اس فتنہ اور لڑائی کا سدباب کرو جس کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے- اور کوشش کرو کہ مسلمانوں کے اندر اس صحیح اتحاد کی بنیاد پڑ جائے جس کے بغیر آج مسلمانوں کا بچائو مشکل ہے اور جسے صرف اپنی ذاتی اغراض کے قیام کے لئے یہ لوگ روکنا چاہتے ہیں اور کوشش کرو کہ ان میں سے انصاف پسند روحیں اپنی غلطی کو محسوس کر کے آپ لوگوں میں آ شامل ہوں تا کہ جس قدر بھی ہو سکے اس اختلاف کی شدت کو کم کیا جا سکے- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
۱۸- جولائی ۱۹۲۸ء
)الفضل ۲۷- جولائی ۱۹۲۸ء(
۱~}~ پیغام صلح نمبر۴۶ -۴۷ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۵ کالم ۲
‏a.10.36
انوار العلوم جلد ۱۰
اظہار حقیقت
اظہار حقیقت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
کیا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء دیانت سے کام لے رہے ہیں
مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں
مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء نے سترہ جون کے جلسہ کی کامیابی کے آثار شروع سے محسوس کر کے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے اور یہ ان کی دیرینہ عادت ہے- وہ ہر اس تحریک کی جو میری طرف سے ہو مخالفت کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اگر احمدی جماعت سے کوئی نیک کام ہوگا تو لوگ اس طرف متوجہ ہو جائیں گے اور اس سے ان کے کام کو نقصان پہنچے گا- چنانچہ جب پچھلے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لئے تمام ہندوستان میں جلسے کئے گئے تھے تو اس وقت بھی غیر مبائعین نے ان جلسوں میں شمولیت سے اجتناب کیا تھا اور ان کے بعض افراد نے بیان کیا تھا کہ ہمیں ہمارے مرکز نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے- چنانچہ سوائے دو چار جگہوں کے جہاں سے کہ غیر مبائعین نے اپنے طور پر ان جلسوں میں شمولیت اختیار کی بحیثیت قوم مولوی صاحب کے رفقاء ان جلسوں میں شامل ہونے سے مجتنب رہے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کا بانی میں تھا اور ان لوگوں کے نزدیک میری تحریکات میں حصہ لینا درست نہ تھا- حالانکہ جو وجہ وہ اب بتاتے ہیں وہ اس وقت موجود نہ تھی کیونکہ اس وقت ختم نبوت کا سوال نہ تھا بلکہ سوال یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو گالیاں دی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے اور مسلمانوں کو اپنی تمدنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے- مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے اس وقت تو ان تحریکات میں حصہ لینا پسند نہ کیا مگر چار پانچ ماہ کے بعد مولوی صاحب نے ایک ٹریکٹ شائع کیا جو اب تک شائع ہو رہا ہے اور اس میں ان تمدنی تحریکات کو جو میں نے پیش کی تھیں اس طرح پیش کیا گیا ہے گویا کہ وہ ابتداء ان کی طرف سے پیش ہوئی تھیں- اور اس امر کو مولوی صاحب بالکل دبا گئے ہیں کہ جس وقت وہ تجاویز میری طرف سے پیش ہوئی تھیں تو اس وقت وہ اور ان کے رفقاء ان میں حصہ لینے کے لئے بالکل تیار نہ تھے-
مولوی صاحب کے اس رویہ کے مقابلہ میں میرا رویہ جو ان کے بارہ میں رہا ہے وہ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جس وقت مولوی محمد یعقوب صاحب پر جو مولوی محمد علی صاحب کے ہم زلف اور لائٹ اخبار کے ایڈیٹر ہیں مقدمہ چلانے کا خیال گورنمنٹ نے ظاہر کیا تو اس وفد میں جو اس مقدمہ کے واپس لینے کے لئے اوگلوی صاحب کے پیش ہوا ہماری جماعت لاہور کے سیکرٹری حکیم محمد حسین صاحب قریشی بھی شامل تھے- اور میں نے اپنی جماعت کے بعض وکیلوں کو تاکید کی کہ اگر دوسرا فریق منظور کر لے تو وہ اس مقدمہ کی مفت پیروی کریں اور اس کے علاوہ گورنمنٹ سے پروٹسٹ کیا کہ اس کا مولوی محمد یعقوب صاحب پر مقدمہ چلانا درست نہیں ہے اور یہ کہ اسے چاہئے کہ انہیں آزاد کر دے-
بہرحال ہر شخص اپنی طینت کے مطابق معاملہ کرتا ہے- مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہیں اور میں اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہوں اس میں کوئی شکوہ کی وجہ نہیں ہے- مگر جس امر کی طرف میں اس وقت توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے سترہ جون کے جلسوں کی مخالفت کرنے میں دیانتداری سے کام نہیں لیا اور یہ کہ انہوں نے مسلمان پبلک سے حقیقت کو چھپایا ہے اور جو وجہ مخالفت کی وہ ظاہر کرتے رہے ہیں وہ درست نہ تھی اور وہ خوب جانتے تھے کہ وہ پبلک کو دھوکا دے رہے ہیں-
اخبار >پیغام صلح< نے ان جلسوں کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان جلسوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا تھا کہ وہ خاتم النبین کی تائید میں ہیں- اور چونکہ نعوذ باللہ میں اور جماعتاحمدیہ بقول >پیغام صلح< رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں اس لئے ہمیں کوئی حق نہ تھا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r کو خاتم النبین قرار دے کر ان کی عظمت کے اظہار کے لئے جلسے کرتے- ہمارا ایسا کرنا ایک دھوکا تھا جو ہم دنیا کو دے رہے تھے-
اس مضمون کی مولوی محمد علی صاحب نے اپنی زبان سے ایک معزز رئیس سردار حبیباللہ صاحب کے سامنے تائید کی ہے- جنہوں نے خود میرے سامنے بہ موجودگی اپنے نانا صاحب اور ہماری جماعت کے بعض افراد کے اس امر کی شہادت دی کہ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمیں ان جلسوں پر یہ اعتراض تھا کہ باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہ ماننے کے ان لوگوں نے خاتم النبین کے نام کے نیچے آپ کی تعظیم کے اظہار کے لئے جلسے کیوں کئے ہیں-
پیغام صلح کی اشاعت ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء میں اوپر کے بیان کی تصدیق بھی ہو گئی ہے کیونکہ اس میں مولوی محمد علی صاحب الفضل کی ایک ڈائری کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے سردار حبیب اللہ صاحب سے کہا تھا کہ-:
>مگر جن لوگوں کا ختم نبوت پر ایمان نہیں اور آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری کرتے ہیں ان کا دنیا میں یہ اعلان کرنا کہ ہم یوم خاتم النبین منائیں گے دنیا کو دھوکا دینا ہے کہ لوگ یہ خیال کریں کہ واقعی یہ لوگ نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں<- ۱~}~
پھر لکھتے ہیں کہ-:
>جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت صعلم پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتمالنبین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<- ۲~}~
ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے اس بیان کی جو سردار حبیب اللہ صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل پنجاب کی زبانی مجھے معلوم ہوا تھا تحریراً بھی تصدیق کر دی ہے اور اب ان کی اور پیغام صلح کی تحریروں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے جو ۱۷/جون کے جلسوں کی مخالفت کی تھی اس کے اسباب مندرجہ ذیل تھے-
۱- میں اور میرے احباب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے اس لئے ہمارا حق نہ تھا کہ ہم خاتم النبین کی تائید میں جلسے کرتے-
۲- مولوی صاحب کے عقیدہ کے مطابق عام مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین مانتے ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کے قائل نہیں اس لئے ہمارا خاتم النبین کی تائید میں جلسوں کا اعلان کرنا دھوکا تھا اور ایک فریب تھا- جس سے ہمارا مقصد خاتم النبین ماننے والے غیر احمدی مسلمانوں کو دھوکا دینا تھا-
میں اب یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب اور ان کے احباب ان دونوں امور میں دیدہ و دانستہ غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے وہ باتیں شائع کی ہیں جو ان کے علم اور ان کے یقین کے خلاف ہیں-
امر اول کے جواب میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے- قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے- جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں میں انہیں کافر سمجھتا ہوں- میرے نزدیک رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے- اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا- اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا منکر ہوں اور لوگوں کے دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکا دینے کیلئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہتعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے تباہ و برباد کر دے- میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان کیا ہے- اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرے گا- مولوی محمد علی صاحب بھی میرے اس عقیدہ اور میرے اس فعل سے اچھی طرح واقف ہیں- باوجود اس کے مولوی صاحب کا اور ان کے رفقاء کا یہ شائع کرنا کہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں تقویٰ اور دیانت کے خلاف فعل ہے اور ہر شریفانسان ان کے اس فعل پر انہیں ملامت کرے گا-
مولوی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہر گز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو گئی ہو اور آپ کی شریعت منسوخ ہو گئی ہو- بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 2] [rtf کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آپ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا اور کسی مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے- اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی جو آپ کو امتی ہونے سے ہر گز باہر نہیں نکالتی تھی- اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا وہ رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا- پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں اس لئے گو میں منہ سے کہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں میں جھوٹا اور دھوکے باز ہوں خود ایک دھوکا ہے اور مولوی صاحب اس امر کو خوب جانتے ہیں-
میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس طرح کسی کے ایمان اور اس کے دعویٰ پر باوجود اس کے انکار کے حملہ کرنا جائز ہوتا ہے تو پھر کیا میں جو مرزا صاحب کو امتی نبی مانتا ہوں اور جس کے نزدیک مرزا صاحب کا یہی دعویٰ تھا کیا میرا اور میری جماعت کا حق ہوگا کہ چونکہ مولوی صاحب مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے ہم ان کی نسبت یہ کہا کریں کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء مرزا صاحب کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہنے میں وہ دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں-
پھر میں پوچھتا ہوں کہ غیر احمدی طبقہ جو علماء کے ماتحت ہے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مردے زندہ ہو سکتے ہیں اور انبیاء کو ایسی طاقت مل جاتی ہے اور انسان بہ جسد عنصری آسمان پر جا سکتاہے اور اس عقیدہ کے ماتحت ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام بھی مردے زندہ کیا کرتے تھے اور پرندے بھی پیدا کیا کرتے تھے اور جب یہود نے انہیں مارنا چاہا تو اللہتعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اب تک وہاں زندہ موجود ہیں لیکن ان لوگوں کے برخلاف آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کا واقع ہونا تعلیم قرآنی کے خلاف ہے- تو اس صورت میں کیا مولوی صاحب یہ جائز سمجھیں گے کہ غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب کی نسبت جو ان امور کے قائل نہیں یہ اعلان کریں کہ وہ معجزات کے قائل نہیں ہیں- اور مولویصاحب یہ جواب دیں کہ میں تو معجزات کا قائل ہوں البتہ اس تشریح کا پابند نہیں ہوں جو دوسرے لوگ کرتے ہیں اور جو میرے نزدیک قرآن کریم کے خلاف ہے- پس مجھے معجزات کا منکر نہیں کہا جا سکتا-
تو کیا مولوی صاحب یہی جواب ہماری طرف سے نہیں دے سکتے تھے اور یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ گو ہمارا اور ان کا ختم نبوت کے مفہوم میں اختلاف ہے لیکن یہ لوگ چونکہ اس امر کے مدعی ہیں کہ انہیں ختم نبوت پر ایمان ہے اس لئے انہیں خاتم النبین کا منکر نہیں کہا جا سکتا- مگر یہ جواب تو مولوی صاحب کو تب سوجھتا جب وہ عدل اور انصاف سے مسئلہ کی حقیقت پر غور کرنے کے لئے تیار ہوتے-
پھر کیا مولوی صاحب اس امر کا جواب دیں گے کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہالسلام کو آسمان پر زندہ ماننا اور ان کی نسبت یہ یقین کرنا کہ وہ بغیر کھانے پینے کے آسمان پر بیٹھے ہیں اور وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے اور مردے زندہ کیا کرتے تھے شرک ہے یا نہیں- تو پھر کیا وہ اس امر کا اعلان کریں گے کہ تمام مسلمان لا الہ الا اللہ دھوکے اور فریب سے پڑھتے ہیں دراصل وہ سب کے سب مشرک ہیں اور توحید کے منکر ہو کر کافر ہو چکے ہیں- اگر نہیں تو کیوں؟ جب انہوں نے ہم پر ختم نبوت کے منکر ہونے ¶کا الزام لگایا ہے اور دھوکے باز ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے نہیں کہ ہم ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کی جو تشریح ہے ہم اس سے اختلاف رکھتے ہیں تو کیا سبب ہے کہ غیر احمدیوں کی نسبت جو لا الہ الا اللہ تو کہتے ہیں مگر شرک کی تعریف میں مولوی صاحب سے اختلاف رکھتے ہوئے وہ بعض ایسے امور کے قائل ہیں جن کو مولوی صاحب شرک قرار دیتے ہیں مولوی صاحب یہ اعلان نہیں کرتے کہ یہ لوگ دھوکے سے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں ورنہ اصل میں یہ مشرک ہیں- کیا ایسا نہ کرنے کی یہی وجہ تو نہیں کہ مولوی صاحب کے تمام کاموں کا گزارہ ہی ان لوگوں کے چندوں پر چلتا ہے ورنہ ان کے اپنے ہم عقیدہ معدودے چند آدمی ہیں-
پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مولوی صاحب اسی فتویٰ کو جو انہوں نے ہم پر چسپاں کیا ہے کچھ اور لوگوں پر بھی چسپاں کریں گے- اگر وہ اس کے لئے تیار ہیں تو سنیں کہ حضرت عائشہ ؓ کا وہی مذہب ہے جو میرا ہے- وہ فرماتی ہیں-قولوا انہ خاتم النبین ولا تقولوا لا نبی بعدہ 2] [stf۳~}~یہ تو کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں- مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں- اب مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ کیا حضرت عائشہ ؓ کی نسبت بھی وہ یہ اعلان کریں گے کہ وہ خاتم النبین کی منکر تھیں اور لا نبی بعدہ کہنے سے منع کر کے جو انہوں نے خاتم النبین کہنے کی تعلیم دی ہے یہ محض نعوذ باللہ من ذلک لوگوں کو دھوکا دیا ہے- مولوی صاحب نے اپنی کتاب >النبوۃ فی الاسلام< میں اس احتمال کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ قول حضرت عائشہ ؓ کا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہا ہے کہ اس صورت میں یہ قول ان کا مردود ہوگا-۴~}~ مگر یہ فتویٰ نہیں دیا کہ میں پھر حضرت عائشہ ؓ کو دھوکا باز کہوں گا- اور کہوں گا کہ خاتمالنبین کہنے میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہی تھیں- اسی طرح کیا مولوی صاحب ان بیسیوں بزرگان اسلام کو جنہوں نے غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا تسلیم کیا ہے ختم نبوت کا منکر قرار دیں گے اور سب کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ دھوکا باز تھے اور لوگوں کو فریب دے رہے تھے- اور تو خیر میں پوچھتا ہوں کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند جنہوں نے اپنے متعدد رسالوں میں غیر تشریعی نبوت کو جائز قرار دیا ہے کیا مولوی صاحب ان کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان لانے کے دعویٰ میں جھوٹے تھے اور دنیا کو فریب دے رہے ہیں-
اگر باوجود ان تشریحات کے مولوی صاحب ان کو دھوکا باز نہیں کہتے بلکہ نہیں کہہ سکتے تو پھر اس عقیدہ کی بناء پر مولوی صاحب مجھے اور باقی احمدی جماعت کو دھوکا باز کس طرح کہہ رہے ہیں اور کیا ان کا یہ فعل خود دھوکا نہیں- اور اس وجہ سے نہیں کہ وہ اصل میں یہ چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ عظیم الشان خدمت جو ۱۷- جون کے جلسوں کی شکل میں ظاہر ہوئی مجھ سے اور میرے احباب کے ذریعہ سے نہ ہو- گویا ان کا دل میرے کینہ سے اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ اس کو تو پسند کر لیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے کوشش نہ کی جائے مگر اسے پسند نہیں کر سکتے کہ کوئی اچھا کام میرے ذریعہ سے ہو-
غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک
ختم نبوت کے منکر ہیں!
اب میں دوسری بات کو لیتا ہوں جو یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے یہ وعویٰ کیا ہے کہ ان کے نزدیک غیر احمدی فرقے ختم نبوت کے ماننے والوں میں سے ہیں اور چونکہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں اس لئے میرا حق نہ تھا کہ میں ختم نبوت کی تائید کا نام لیکر ان کو جلسہ کرنے کی دعوت دیتا-
میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ان کے نزدیک عام مسلمان ختم نبوت کو مانتے ہیں اور اس لئے ان کو ایک ختم نبوت کے منکر کے دھوکا سے بچانے کے لئے ان کے اخبار نے لوگوں کو متوجہ کیا تھا ایک صاف اور واضح دھوکا ہے- مولوی صاحب ہر گز غیراحمدیوں کو ختم نبوت کے ماننے والے نہیں مانتے- وہ انہیں اسی طرح ختم نبوت کے منکر قرار دیتے ہیں جس طرح کہ مجھے اور میرے احباب کو- اور اس کا ثبوت وہ حوالہ جات ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب >النبوۃ فی الاسلام< میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے نقل کئے ہیں- ان میں سے چند ذیل میں درج کرتا ہوں-
>اور سب حدیثیں اس بات پر متفق ہیں کہ مسیح موعودؑ اس امت میں سے ہوگا- کیونکہ نبوت ختم کر دی گئی ہے اور ہمارے رسول خاتم النبین ہیں<-۵~}~
>ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو کوئی شک نہیں کہ جو شخص اس مسیح کے نزول پر ایمان لاتا ہے جو بنی اسرائیل کا نبی ہے وہ خاتم النبین کا کافر ہے-<۶~}~
>پس کچھ شک نہیں کہ اس عقیدہ کو )یعنی آسمان سے مسیح کے نزول پر ایمان لانے( کو نہ ایک بیماری بلکہ کئی بیماریاں لگی ہوئی ہیں- قرآن کی بینات کا مخالف ہے ختم نبوت کے امر کی تکذیب کرتا ہے اور قوم عرب کے محاورات کے مغائر پڑا ہے<-۷~}~
>اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-ولکن رسول اللہ و خاتم النبین اور حدیث میں ہے-لا نبی بعدی اور بایں ہمہ حضرت مسیح کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی- لہذا دنیا میں ان کے دوبارہ آنے کی امید طمع خام- اور اگر کوئی اور نبی نیا یا پرانا آوے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر خاتم الانبیاء رہیں<-۸~}~
>ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے- کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آ جائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے- اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہو سکتا ہے- اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت عیسیٰ امتی ہو کر آئیں گے تو شان نبوت تو ان سے منقطع نہیں ہوگی- گو امتیوں کی طرح وہ شریعت اسلام کی پابندی بھی کریں- مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ کے علم میں نبی نہیں ہوں گے- اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ نبی ہوں گے تو وہی اعتراض لازم آیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی دنیا میں آگیا اور اس میں آنحضرت صلعم کی شان کا استخفاف ہے اور نص صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے<- ۹~}~
قولہ: مسیح نبی ہو کر نہیں آئے گا- امتی ہو کر آئے گا- مگر نبوت اس کی شان میں مضمر ہوگی-
اقول: جب کہ شان نبوت اس کے ساتھ ہوگی اور خدا کے علم میں وہ نبی ہوگا تو بلاشبہ اس کا دنیا میں آنا ختم نبوت کے منافی ہوگا<- ۱۰~}~
>قرآن شریف جیسا کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ولکن رسول اللہ و خاتم النبین لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتالیس برس تک ان پر جبرئیل علیہالسلام وحی نبوت لیکر نازل ہوتا رہے گا- اب بتلائو کہ ان کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختموحی نبوت کہاں باقی رہا- بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰ ہیں<-۱۱~}~
یہ حوالہ جات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ہیں- اور انہیں مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب >النبوہ فی الاسلام< میں نقل کیا ہے- اور میں نے اس لئے کہ جو چاہے جہاں سے دیکھ لے دونوں کتب کے صفحات کے حوالے دے دیئے ہیں- یعنی حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی کتب کے بھی اور مولوی صاحب کی کتاب کے بھی ان حوالہ جات سے مندرجہ ذیل مطالب بوضاحت ثابت ہوتے ہیں-
اول-:
مسیح ناصری کی آمد پر ایمان لانا ختم نبوت کے منافی ہے-
دوم-:
جو شخص مسیح ناصری کے نزول پر ایمان لاتا ہے وہ خاتم النبین کا کافر ہے اور ختم نبوت کی تکذیب کرتا ہے-
سوم-:
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ بھی رکھے کہ حضرت مسیح ناصری نبی نہیں بلکہ امتی ہو کر دوبارہ دنیا میں آئیں گے تب بھی وہ ختم نبوت کا انکار ہی کرتا ہے-
چہارم-:
حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کے عقیدہ رکھنے والے کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتمالنبین نہیں ہیں بلکہ مسیح ناصری ہے-
یہ چار نتائج جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے نکلتے ہیں صاف بتاتے ہیں کہ آپ کے عقیدہ کی رو سے وہ تمام لوگ جو حضرت مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کے قائل ہیں خواہ انہیں نبی بنا کر اتارتے ہوں خواہ امتی بنا کر بہرحال ختم نبوت کے منکر اور خاتم الانبیاء کے کافر ہیں- اور چونکہ مسلمانوں کا بیشتر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان میں سے ننانوے فیصدی اسی عقیدہ کے قائل ہیں- پس اوپر کے حوالہ جات کی رو سے جو مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب >النبوہ فی الاسلام< میں نقل کئے ہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام غیر احمدی فرقہجات بہحیثیت فرقہ کے ختم نبوت کے منکر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- اور جب مولوی صاحب کے عقیدہ کی رو سے تمام غیر احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے تو پھر وہ بتائیں کہ ان کا یہ لکھنا کہ-:
>جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت صلعم پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتمالنبین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<- ۱۲~}~
سراسر غلط اور مغالطہ دہی میں شامل ہے یا نہیں-
مولوی محمد علی صاحب کا فرض ہے کہ وہ پہلے حضرت مسیح موعود کی کتب کے ان حوالہجات کو رد کریں جو خود انہی کی کتاب میں منقول ہیں- اور اس کے بعد یہ دعویٰ کریں کہ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ان معنوں سے مانتے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- لیکن جیسا کہ اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہے بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک مسلمان ان معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ ان معنوں میں مانتے ہیں کہ آپ کے بعد پرانے نبیوں میں سے ایک نبی آئے گا اور ان کے عقیدہ اور ہمارے عقیدہ میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ ایک ایسا نبی آپ کے بعد آئے گا جس نے نبوت آپ کی اطاعت سے حاصل نہیں کی ہو گی اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایسا نبی کوئی نہیں آئے گا بلکہ پیشگوئی ایسے نبی کے متعلق تھی جس نے اپنے تمام کمالات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اتباع میں حاصل کرنے تھے اور جس کا کام محض بیان` علوم قرآنیہ اور اشاعت اسلام اور احیائے قوائے روحانیہ تھا- پس ختم نبوت کے جلسہ میں دوسرے فرقوں کو دعوت اتحاد دے کر ہم نے دنیا کو دھوکا نہیں دیا بلکہ اپنے عقیدہ کے مطابق اعلان کیا اور اس امر میں اشتراک عمل کی دعوت دی جس میں ہمارا دوسرے فرقہ ہائے اسلام سے آپ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ اتحاد ہے- ہاں جب آپ نے لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا آپ کے عقیدہ کی رو سے دوسرے فرقے رسول اللہ کو خاتم النبین ماننے والے ہیں تو آپ نے ایک صریح غلط بیانی کی- ورنہ اصل عقیدہ آپ کا یہی ہے کہ تمام مسلمان فرقے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- اور صرف آپ اور آپ کے چندساتھی اور چند ایسے نو تعلیم یافتہ لوگ جو آمد مسیح کے ہی منکر ہیں ختم نبوت کے قائل ہیں-
گو اس جگہ یہ بحث نہیں کہ ہمارا عقیدہ درست ہے یا نہیں بلکہ بحث یہ ہے کہ کیا مولویصاحب کے عقیدہ کی رو سے فی الواقعہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں اور دوسرے مسلمان فرقے اس کے ماننے والے ہیں- لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک حوالہ میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ خواہ نئے نبی کی آمد کا کوئی ماننے والا ہو یا پرانے نبی کی آمد کا وہ ختم نبوت کا منکر ہے اس لئے میں ضمنا یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سے ہمارے عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں-:
>صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو- یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں امتی بھی قرار دیتا ہے` پھر دوسری طرف اس کا نام بنی بھی رکھتا ہے` یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے- کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے` کوئی مستقل نبوت نہیں ہے<-۱۳~}~
اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بنی مانتے ہیں تو اوپر کی تشریح کے ساتھ ہی مانتے ہیں- پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات کا ہم پر کوئی مخالف اثر نہیں پڑتا-
اور اس کے بعد میں پھر اصل مضمون کی طرف رجوع کرتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات سے ثابت ہے کہ مسیح کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا ختم نبوت کا منکر ہے- پس جب تک مولوی صاحب اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں انہیں اس امر کا اقرار کرنا پڑے گا کہ تمام غیر احمدی خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ختم نبوت کے منکر ہیں- اور ان کا یہ ظاہر کرنا کہ ان کے عقیدہ کی رو سے عام مسلمان ختم نبوت کے قائل ہیں` مغالطہ دہی سے زیادہ نہیں ہے-
گو اوپر کی تحریرات کے بعد مولوی صاحب اس بات کی پناہ نہیں لے سکتے کہ نئے نبی اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدہ میں فرق ہے- اور جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ پرانے نبیوں میں سے کوئی نبی آئے گا وہ تو ختم نبوت کا قائل ہے اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ اسی امت میں سے ایک شخص کو اسلام کے قیام کے لئے رسول کریم 2] [stf صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے نبی کا نام دیا جائے گا وہ ختم نبوت کا منکر ہے- لیکن اگر وہ ایسا کریں تو میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور حوالے کی طرف توجہ دلاتا ہوں- یہ حوالہ بھی انہوں نے اپنی کتاب النبوہ فی الاسلام میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے-:
>قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے- اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے- نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے- اور حدیت لا نبی بعدی میں بھی یہی نفی عام ہے<- ۱۴~}~
اس حوالہ سے ثابت ہے کہ جو شخص یہ فرق کرے کہ پرانے نبی کی واپسی کا عقیدہ رکھنے والا تو ختم نبوت کا قائل ہے اور نئے نبی کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا منکر ہے` وہ شرارتی ہے-
مگر شاید مولوی صاحب کی اور ان کے متبعین کی حضرت مسیح موعود کے حوالہ جات سے تسلی نہ ہو کیونکہ وہ خود مجتہد اعظم ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صریح تحریر کے بعد کہ مسیح کا بن باپ ہونا ہمارے عقیدہ میں شامل ہے` وہ اس کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں- اور جبکہ ان کے نزدیک مرزا صاحب محض ایک مجدد ہیں تو پھر ان کی تحقیق کے خلاف اور ان کے عقیدہ کے مباین عقیدہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک کوئی حرج بھی نہیں ہو گا- جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر سے جو مولوی صاحب کے نزدیک سب سے پہلے مجدد تھے اور ان کے محدث ہونے کی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دی تھی` کئی مسائل میں صحابہ نے اختلاف کیا ہے اور آج تک لوگ اختلاف کرتے چلے جاتے ہیں اس لئے میں خود مولوی صاحب کی اپنی ہی ایک تحریر جو کسی پرانے زمانہ کی نہیں بلکہ قریب کے زمانہ کی ہے` پیش کرتا ہوں- جس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ تھوڑا عرصہ پہلے ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے- مولوی صاحب اپنے رسالہ موسومہ بہ >دعوت عمل< میں تحریر فرماتے ہیں-
>قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرتا ہے- مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ جو نبی ہیں` وہ آئیں گے- اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اس لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے` خواہ پرانا ہو یا نیا- نبی جب آئے گا` نبوت کے کام کے لئے آئے گا- اور جب نبوت کا کام ختم ہو گیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا- پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا<- ۱۵~}~ پھر صفحہ ۱۳ پر لکھتے ہیں کہ-:
>مسلمانوں نے عقیدہ بنا لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے` وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی<-۱۶~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختمنبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے- یعنی متضاد اور مخالف ہے- دوم- مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا` ان میں کچھ فرق نہیں- یہ دونوں عقیدے ایک ہی طرح ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں- سوم- مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کی رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو جائے گی- اب اس عقیدہ کے بعد مولوی صاحب کا ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء کے پیغام صلح میں یہ فرمانا کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا` صرف ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ایک چال اور خلاف ضمیر عقیدہ کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے نکال رہے تھے- لیکن ۱۷-جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ مولوی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہو گیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبائع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں- ان کے ساتھ مل کر کہیں دوسروں کے بھی عقیدے خراب نہ ہو جائیں- کیا یہ تغیر غیر معمولی نہیں ہے کیا یہ تبدیلی موجب حیرت نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ مولوی صاحب میرے بغض کی وجہ سے اس تحریک کو ناکام بنانا چاہتے تھے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر جو ان کے دل میں یقیناً ہوگی` ایک ساعت کے لئے میرا بغض غالب آ گیا- انا للہ وانا الیہ راجعون- میں تو اب بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اس امر سے محفوظ رکھے کہ ان کا دل ہمیشہ کے لئے ان کے جرم کی سزا میں محبت رسول سے محروم رہ جائے-
شاید مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ مسیح کے نزول کو ماننا ختم نبوت کے خلاف ہے اور گو میں نے بھی اس عقیدہ کی تصدیق کی ہے` لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقعہ وہ لوگ ختم نبوت کے منکر ہیں بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ان کا عقیدہ حقیقت میں ختم نبوت کے خلاف ہے اور اس قسم کے حقائق کے اظہار سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم کسی کو فی الواقعہ اس عقیدہ کا منکر قرار دے دیں- پس چونکہ غیر احمدی تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ خاتم النبین ہیں اس لئے ہم بھی انہیں خاتمالنبین کا ماننے والا قرار دیتے ہیں- اگر مولوی صاحب یہ فرمائیں تو میں ان سے سوال کروں گا کہ جب کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے معتقدوں کو وہ خود برابر قرار دے چکے ہیں اور ان عقیدوں میں انہیں کچھ فرق نظر نہیں آیا تو یہی وسعت حوصلہ انہوں نے ہمارے حق میں کیوں نہ دکھائی؟ کیا انہیں کوئی ایسی تحریر میری ملی تھی جس میں میں نے یہ لکھا تھا کہ ہم رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے- نعوذ باللہ من ذلک- اور اگر ایسی کوئی تحریر انہیں نہیں ملی بلکہ انہوں نے ہمارے عقائد پر قیاس کیا تھا اور ان کے نزدیک ہم اور غیر احمدی جیسا کہ ان کی تحریرات سے میں ثابت کر چکا ہوں` ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور دونوں بقول ان کے صرف منہ سے ختم نبوت کے اقراری ہیں تو پھر انہوں نے دونوں سے سلوک میں فرق کیوں کیا؟ اور ایک کو ختم نبوت کا ماننے والا اور ایک کو منکر کیوں قرار دیا اور حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فیصلہ کو کیوں طاق نسیاں پر رکھ دیا کہ >پرانے اور نئے نبی کی تفریق کرنا شرارت ہے<-
حق یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دل میں تو دونوں ہی کو خاتم النبین کا ماننے والا ہی سمجھتے ہیں اور اپنی پہلی تحریروں میں دونوں ہی کو منکر قرار دے چکے ہیں- لیکن اس موقع پر اس خوف سے کہ کہیں ۱۷-جون کے جلسوں کی تحریک کامیاب نہ ہو جائے انہوں نے یہ درمیانی راستہ نکالا کہ جو کثیر التعداد جماعتیں ہیں اور جن سے انہیں چندے ملتے رہتے ہیں` انہیں تو انہوں نے اپنی پہلی تحریروں کے خلاف ختم نبوت کا ماننے والا قرار دے لیا اور ہم لوگ جو تعداد میں تھوڑے ہیں اور ہم سے کچھ وصول ہونے کی امید نہیں ہے` ہمیں انہوں نے ختم نبوت کا منکر قرار دے لیا- لیکن حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے- لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے` وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے-
واخر دعونا ان الحمدللہ ربالعلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح الثانی(
۲۸ جولائی ۱۹۲۸ء
۱`۲~}~
پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۱ کالم ۳ ][۳~}~
تفسیر الدر المنثور للسیوطی جلد ۵ صفحہ۲۰۴ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۴ھ
۴~}~
النبوہ فی الاسلام صفحہ۱۱۷ مولفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۵~}~
تحفہ بغداد صفحہ۳۳ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۳۳` النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ` مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۶~}~
تحفہ بغداد صفحہ۳۴ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۳۴` النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ` مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۷~}~
نورالحق حصہ اول صفحہ۷۰`۷۱ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۷۰`۷۱ النبوہ فی الاسلام صفحہ۷۷ + ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۸~}~
ایام الصلح صفحہ۸۲` ۸۳ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۰۸`۳۰۹ + النبوہ فی الاسلام صفحہ۹۷ ضمیمہ مصنفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۹~}~
ایام الصلح صفحہ۱۶۶ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۹۲` النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحبصفحہ۹۹ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۱۰~}~
ایام الصلح صفحہ۱۸۵ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۱۱ + النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۱۰۱ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۱۱~}~
تحفہ گولڑویہ صفحہ۸۸ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۷۴` النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۱۲۰ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۱۲~}~
پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۱ کالم نمبر۳
۱۳~}~
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم` روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۳۵۲
۱۴~}~
ایام الصلح صفحہ۱۶۶`۱۶۷ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۳۹۲`۳۹۳ ` + النبوہ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صفحہ۹۹ ضمیمہ مطبوعہ سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء
۱۵~}~
رسالہ >دعوت عمل< از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۱۲ مطبوعہ اتحاد پرنٹنگ پریس لاہور
۱۶~}~
رسالہ >دعوت عمل< از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۱۳ مطبوعہ اتحاد پرنٹنگ پریس لاہور
‏a.10.37
انوار العلوم جلد ۱۰
نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں
نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی][بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے
اور
بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں
)فرمودہ ۱۶- اگست ۱۹۲۹ء بمقام یاڑی پورہ کشمیر(
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جب کسی بستی میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتا ہے- توجعلوا اعزہ اھلھا اذلہ ۱2]~}~ ft[rوہ اس کے بڑے لوگوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دیتا ہے- اور ہم دیکھتے ہیں دنیا میں جب کبھی حکومت بدلتی ہے تو جہاں نیا بادشاہ اور نئے حاکم ہو جاتے ہیں وہاں اس کے ساتھ دنیا میں بہت بڑا تغیر بھی واقع ہوتا ہے- وہ لوگ جو اس ملک میں بڑے سمجھے جاتے ہیں` جن کے ہاتھوں میں سب کام ہوتے ہیں` وہ اپنی عزت اور حکومت کی حفاظت کیلئے نئے بادشاہ سے مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اور بادشاہ قابض ہو گیا تو ان کی حکومت میں خلل واقع ہوگا- اگر اس مقابلہ میں نیا بادشاہ غالب آ جاتا ہے تو وہ چھوٹوں کو بڑا بنا دیتا ہے اور بڑوں کو چھوٹا کر دیتا ہے- خدائی سلسلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو عرب میں گو کوئی بادشاہ نہیں تھا مگر ہر علاقہ میں بڑے بڑے لوگ تھے جو اپنے اپنے علاقہ پر حکومت کرتے تھے- مدینہ میں` طائف میں` حضرموت میں` یمن وغیرہ میں` غرض ہر علاقہ میں رئیس تھے- جب آپ نے نبوت کا پیغام پہنچایا تو آپ کی باتوں میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو بری ہو- آپ نے ایک بات بھی ایسی نہ کہی جس سے مخالفین یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ شخص اپنی بڑائی چاہتا ہے اور ہمیں گرانا چاہتا ہے- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا حکم دیا تو اس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا` سراسر دوسروں کا ہی فائدہ تھا- اگر آپ نے حقیقی مالک کو راضی کرنے کی تعلیم دی تو جو لوگ اس تعلیم پر چلتے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیتے ان کی اپنی ذاتوں کو ہی فائدہ پہنچتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ ہوتا- اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکٰوۃ دینے کا حکم دیا تو اس میں بھی لوگوں کا ہی فائدہ تھا نہ کہ آپﷺ~ کا- آپﷺ~ نے تو سیدوں کو زکٰوۃ لینے سے منع کر دیا حالانکہ سیدوں میں بھی غریب ہوتے ہیں- تو نہ صرف آپ زکٰوۃ کے مال سے مجتنب رہے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی فرما گئے کہ ان کے لئے زکٰوۃ کا مال جائز نہیں-۲~}~
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے سے منع فرمایا اس میں آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا تھا کونسی جاگیر مل جاتی تھی یہ صرف لوگوں کے فائدہ کے لئے آپ نے تعلیم دی-
اسی طرح چوری کرنے سے منع فرمایا- اس سے بھی آپ کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا صرف لوگوں کے بھلے کے لئے فرمایا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تو بعض اوقات کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا تھا اس حالت میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے جو چوری سے منع فرمایا تو اس لئے کہ تا آپ کے گھر محفوظ رہیں بلکہ یہ حکم صرف لوگوں کے اموال کی حفاظت کیلئے دیا- اسی طرح آپﷺ~ نے ظلم کرنے سے منع فرمایا یہ حکم بھی اس لئے دیا تا لوگ ایک دوسرے کے ظلم سے بچیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تو علیحدگی میں عبادت کر کے اپنا وقت گزارتے تھے- پس جو بھی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دی نہ تو اس میں کوئی برائی تھی اور نہ آپﷺ~ کی اس میں کوئی ذاتی غرض تھی- آپﷺ~ نے جھوٹ سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی` چوری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی` بدکاری سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی` عرب لوگ شراب سے بدمست رہتے تھے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا اس میں کونسی بری بات تھی مگر باوجود اس کے پھر بھی لوگوں نے آپ کو سخت تکلیفیں دیں- آپ کے ماننے والوں پر ایسے ظلم و ستم ڈھائے کہ وہ ہمیشہ مصائب کا تختہ مشق بنے رہے- ان تکالیف سے تنگ آ کر بعض صحابہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ہجرت کر کے حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہوئے مگر مکہ والوں کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی کہ چار پانچ سو کوس پر بھی وہ اپنے غریب ہموطنوں کو آرام سے بسنے دیں- انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو تحفے بھیج کر اس بات کے لئے رضامند کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے لیکن جب یہ تدبیر کار گر نہ ہوئی تو بعض ان میں سے حبشہ پہنچے ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے جو بعد میں بہت بڑے صحابی ہوئے انہوں نے مصر فتح کیا تھا- انہوں نے جا کر حبشہ کے بادشاہ سے کہا یہ لوگ ہمارے غلام ہیں اور بغاوت کر کے وہاں سے بھاگ آئے ہیں- بادشاہ منصف مزاج تھا اس نے مسلمانوں کو بلایا اور دریافت کیا آپ لوگوں پر کیا الزام ہے؟ انہوں نے جواب دیا- اے بادشاہ! ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم لوگ چوری کیا کرتے تھے` بدکاری میں مبتلاء تھے` شرک کے گناہ سے ملوث تھے` ہر قسم کا دغا فریب کرتے تھے کہ خدا کا ایک برگزیدہ پیدا ہوا اس نے ہمیں ان باتوں سے روکا- ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور یہ سب برائیاں چھوڑ دیں بس یہی ہمارا قصور ہے-
یہ تقریر ایسے رقت بھرے الفاظ میں کی گئی کہ بادشاہ اور درباری سب رو پڑے اور بادشاہ نے انہیں واپس دینے سے انکار کر دیا-
جب اس طرح بھی اہل مکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو عمرو بن عاص نے اپنے ساتھی سے کہا اب میں درباریوں کو ان کے خلاف اکساتا ہوں- چنانچہ اس نے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ بادشاہ کو یہ کہہ کر مخالف بنائیں کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہالسلام کی ہتک کرتے ہیں- بادشاہ عیسائی تھا اسے اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی- دوسرے دن درباریوں نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ! یہ لوگ نہ صرف مکہ والوں کے دشمن ہیں بلکہ تمہارے بھی دشمن ہیں کیونکہ یہ حضرت عیسیٰؑکی توہین کرتے ہیں- بادشاہ نے پھر مسلمان مہاجرین کو بلایا اور اس بارے میں دریافت کیا- انہوں نے کہا ہم لوگ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور دل سے ان کی تعظیم کرتے ہیں- ہاں ہم انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے اور سورۃ مریم کی آیات سنائیں- بادشاہ نے ان کا جواب سنکر ایک تنکا اٹھایا اور خدا کی قسم کھا کر کہا میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ اس تنکا کے برابر بھی نہیں سمجھتا- درباری یہ سن کر بادشاہ کے خلاف سخت برافروختہ ہو گئے مگر بادشاہ نے انہیں وہ واقعہ یاد دلایا جب کہ وہ اس کے باپ کی وفات پر اسے قتل کر کے اس کے چچا کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے-۳~}~ مگر خدا نے کچھ ایسے سامان کر دیئے کہ بادشاہت اسے مل گئی- بادشاہ نے کہا کہ تم لوگوں کا مجھ پر کچھ احسان نہیں یہ خدا کا مجھ پر احسان ہے- بادشاہت کے جانے کا مجھے کچھ بھی ڈر نہیں وہ خدا جس نے مجھے بادشاہت عطا کی میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور یہ ظلم جو تم مجھ سے کرانا چاہتے ہو ہر گز نہیں کروں گا-
ایک وقت تو یہ حالت تھی لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا جب کہ یہ اسلام` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے دشمن مسلمان ہوئے اور اخلاص میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کی- یہی عمرو بن عاص جب مسلمان ہو گئے تھے تو اپنے متعلق کہنے لگے- مجھ پر دو زمانے آئے ایک اسلام کی مخالفت کا اور ایک موافقت کا- مخالفت کے زمانہ میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا بغض رکھتا تھا کہ حقارت سے کبھی چہرہ نہیں دیکھتا تھا پھر موافقت کا زمانہ آیا اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس قدر دل میں جاگزیں ہوئی اور آپ کا جلال ایسا تھا کہ میں رعب کی وجہ سے آپ کے چہرہ کی طرف نگاہ نہیں کر سکتا تھا- ابوجہل کا لڑکا عکرمہ تھا پہلے مخالفت کرتا رہا لڑائیوں میں سرگرم حصہ لیتا تھا مگر جب اسلام اختیار کیا تو ہر طرح کی قربانیاں کیں` جان و مال سے دریغ نہ کیا` اور اسلام کی اس قدر خدمت کی کہ اپنا پورا جان نثار ہونا ثابت کر دیا- غرضیکہ وہ دشمنان اسلام جو سخت مخالفت پر تلے رہتے تھے آخر کار انہوں نے حقانیت کو مانا اور مان کر ہر طرح کی قربانیوں میں حصہ لیا-
اسی طرح ایک وقت تو وہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو گھروں سے باہر نکلنا دشوار تھا- اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گزارہ کرنا پڑتا تھا تا کہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں لیکن پھر وہ بھی زمانہ آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے ایک جرار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے- اس طرح وہ دن آیا کہ دشمن کو دروازے بند کر لینے پڑے اور کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ باہر نکل سکے- وہ لوگ جو غریب سمجھے جاتے تھے اور جو اتنے مظلوم تھے کہ کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچتا تھا` اس وقت وہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے اور اس دن خداتعالیٰ نے دشمنوں کو دکھا دیا کہ کس طرح چھوٹے بڑے بنائے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں-
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے باپ سے کسی نے کہا ابوبکر مسلمانوں کا خلیفہ ہو گیا- اس پر وہ تعجب سے پوچھنے لگے کون ابوبکر؟ کیا ابوقحافہ کا بیٹا؟ جب ان کو یقین دلایا گیا کہ وہی خلیفہ ہوئے ہیں تو وہ دریافت کرنے لگے- کیا بنوہاشم نے ان کو مان لیا ہے` بنو عبدالشمس` بنو عبدالمطلب وغیرہ نے ان کی اطاعت اختیار کر لی ہے؟ جب کہا گیا کہ ہاں سب نے مان لیا ہے تو حضرت ابوبکر ؓ کے والد نے اگرچہ وہ پہلے سے اسلام میں داخل تھے مگر کمزور ایمان رکھتے تھے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا ہے- ۴~}~یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی قوت قدسیہ کا اثر ہے کہ ان قبائل نے ابوبکر ؓ کی اطاعت اختیار کر لی` ورنہ ابوبکر کی کیا حقیقت تھی-
پھر حضرت ابوہریرہ کو دیکھو- فتوحات کے زمانہ میں ایک دن ریشمی رومال میں تھوک کر کہنے لگے- واہ واہ ابوہریرہ- ایک وہ زمانہ تھا کہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو جانے پر لوگ مرگی کے خیال سے جوتیاں مارا کرتے تھے اور ایک یہ زمانہ ہے ریشمی رومالوں میں تھوکتے ہو- پاس بیٹھنے والوں نے یہ بات سنکر پوچھا آپ نے کیا فرمایا؟ کہنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تا کہ جب آپ باہر تشریف لائیں اور کچھ فرمائیں تو میں سن سکوں اس وجہ سے میرے کھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا- بعض دفعہ سات سات فاقے کرنے پڑتے تھے اور بعض اوقات شدت بھوک کے سبب بے ہوشی طاری ہو جاتی اور اس بے ہوشی کو مرگی خیال کیا جاتا اور عرب کے رواج کے ماتحت اس کا علاج جوتیوں سے کیا جاتا- ایک دفعہ جب کہ بھوک نے بہت ستایا تو میں نے صدقہ کی آیت نکال کر حضرت ابوبکر ؓ کے پیش کی- انہوں نے اس کا مطلب بیان کیا اور چل دیئے- اسی طرح حضرت عمر ؓ کے پیش کی- انہوں نے بھی مطلب بیان کیا اور چل دیئے- حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں جب وہ مطلب بیان کر کے چل پڑتے اور آیت کے پیش کرنے سے میری غرض کو نہ سمجھتے تو میں اپنے دل میں کہتا کیا یہ معنی مجھے معلوم نہ تھے یہ مجھ سے بہتر تو نہیں جانتے- اس اثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا ابوہریرہ! کیا بھوک لگی ہے- میں نے عرض کیا ہاں- اس پر آپ نے مسجد کے دوسرے غرباء کوبھی بلانے کے لئے فرمایا- چنانچہ جب میں سب کو بلا کر لے گیا تو آپ نے دودھ کا ایک پیالہ نکالا اور پلانا شروع کیا مگر مجھے چھوڑ کر پہلے دوسروں کو پلانے لگ گئے- اس پر میں دل میں کڑھا کہ بھوک سے تو میں مر رہا تھا ایک پیالہ دودھ ہے وہ دوسرے پینے لگ گئے ہیں مجھے کیا ملے گا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو پلا کر مجھے فرمایا- ابوہریرہ! اب تم پیو- میں نے پیا- حضور نے فرمایا اور پیو- پھر میں نے پیا- اس طرح حضور نے مجھے کئی بار پلایا- حتیٰ کہ پیٹ میں ذرا بھی گنجائش باقی نہ رہی- یہ واقعہ سنا کر حضرت ابوہریرہ ؓ فرمانے لگے اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ میرا یہ حال تھا۵~}~ اور ایک یہ زمانہ ہے کہ جب خدا نے فضل کیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مطابق فتوحات ہوئیں اور میں ایران کے بادشاہ کے رومال میں تھوکتا ہوں- حضرت ابوہریرہؓ فتوحات کے زمانہ میں مصر کے گورنر بھی بنا دیئے گئے تھے-
الغرض دنیا میں جب خدا کے نبی آتے ہیں تو لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں- وجہمخالفت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو حکومت ہمیں حاصل ہے وہ اسے حاصل ہو جائے گی- ایسے لوگوں کو چھوٹا بنا دیا جاتا ہے اور جو نبی کو قبول کرتے ہیں انہیں ادنیٰ حالت سے بڑا بنا دیا جاتا ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مبعوث ہوئے تو ان کی قوم نہایت ذلیل سمجھی جاتی تھی- اینٹیں پاتھنے کا کام ان سے لیا جاتا تھا لیکن حضرت موسیٰ کو مان کر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی- اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے آپ کے ماننے والے بھی ادنیٰ قوموں سے تعلق رکھتے تھے حواری اور مچھلیاں پکڑنے والے آپ کے متبع تھے مگر خدا نے ان کو عزت دی- باقی جو بڑے بنے بیٹھے تھے` ان سب کو ذلیل و رسوا کر دیا-
آج بھی خدا نے ایک مامور بھیجا ہے جس کے ہاتھ پر ہم سب احمدیوں نے بیعت کی ہے- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام- الہی سلسلوں کی طرح یہ سلسلہ بھی پہلے بہت کمزور سمجھا جاتا تھا مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے سلسلہ ترقی کرتا جاتا ہے اور اس کی عظمت لوگوں کے دلوں پر بیٹھتی جاتی ہے- ایک دفعہ کچھ حنفی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے لے گئے- بٹالہ پہنچنے پر آپ نے فرمایا- پہلے میں یہ تو معلوم کر لوں کہ وہ کہتے کیا ہیں؟ مولوی محمد حسین صاحب نے بتایا کہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کی بات بہرحال مقدم ہے اور حدیث موخر- اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہی ٹھیک ہے میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں- حضرت صاحب کے اس جواب پر مباحثہ کے لئے لے جانے والے تالیاں پیٹنے لگے مگر آپ نے ان کی تالیوں کا کچھ بھی خیال نہ کیا اور خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے خلاف کچھ کہنا گناہ سمجھا- جب آپ قادیان کو واپس لوٹے تو راستے میں الہام ہوا- آج تو نے میری خاطر ذلت قبول کی ہے- مگر میں تجھے عزت دوں گا اور تمام دنیا میں تیرا نام معزز کروں گا- بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے- مگر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فعل بہت بڑی بات تھی-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آپ بھی بڑے مرزا صاحب کے بیٹے ہیں- آپ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہتے- آپ کے والد افسوس کیا کرتے کہ یہ میرا بیٹا آئندہ زندگی میں بھوکا مرے گا کیونکہ یہ تو زمیندارہ بھی نہیں کر سکے گا- مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک عظیم الشان ہستی بننے والا ہے-
اس زمانہ کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ آپ نے بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی جو بری ہو- اس سرینگر میں فاحشہ عورتیں موجود ہیں- مولوی اور واعظ انہیں دیکھتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرو تو فوراً مخالفت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے- نہ صرف مخالفت بلکہ سخت افروختہ ہو جائیں گے- مانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کی ہے اور بعض لوگوں کا عقیدہ ان کی زندگی کا ہے مگر اس قدر افروختہ ہونے کے کیا معنی- زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ کی غلطی ہے-
مسلمانوں کی ذلت کا ایک بہت بڑا باعث یہ بھی ہے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر مدفون مانا اور عیسیٰ علیہ السلام کو بقید حیات آسمان پر بٹھایا- یہی عیسائی جو ہم پر حکومت کرتے ہیں مسلمان بادشاہ ہونے کے زمانہ میں ان کی منت و سماجت پر ان کے لڑکوں کو سکولوں میں داخل کیا جاتا تھا مگر آج یہ بادشاہ ہیں- اس کی وجہ کیا ہے- یہی کہ مسلمانوں نے حضرت محمد رسول اللہہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین میں دفن کیا خدا نے بھی انہیں ذلیل و رسوا کر دیا- حضرت عیسیٰ کو آسمان پر بٹھایا خدا نے بھی ان کی قوم کو ان پر حاکم کر دیا- انہی عقائد کی وجہ سے مسلمان عیسائیوں سے مغلوب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا ایک حصہ عیسائیت کا شکار ہو چکا ہے- ایک سادہ لوح مسلمان نہایت آسانی سے ان کے جال میں پھنس جاتا ہے- وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کر کے دکھاتے ہیں اس طرح پر کہ ساتھ ساتھ اقرار کرواتے چلے جاتے ہیں- وہ پوچھتے ہیں بتائو بھائی دونوں نبیوں میں سے زندہ کون ہے؟ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے- اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ آسمان پر کون ہے` مردے کون زندہ کیا کرتا تھا` پرندے کون پیدا کرتا تھا- مسلمان ان سب کا جواب حضرت عیسیٰ کے متعلق اثبات میں دیتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نفی کرتا ہے- پھر عیسائی کہتے ہیں وہ جو زندہ ہے` آسمان پر ہے` مردوں کو زندہ کرتا تھا` پرندے پیدا کرتا تھا` ہم اسے مانیں اور اسے نجات دہندہ قرار دیں یا اسے جو زندہ نہیں نہ آسمان پر ہے اور نہ مردوں کو زندہ کرتا تھا نہ کوئی چیز اس نے پیدا کی- اس مقابلہ میں مسلمان کے پاس کوئی حقیقی جواب نہیں ہوتا اور وہ مجبور ہوتا ہے کہ عیسائیت اختیار کرے` عیسیٰ کی خدائی کو تسلیم کرے` کیونکہ جن باتوں کو وہ پہلے سے مانتا چلا آتا ہے عیسائی وہی باتیں اس کے سامنے رکھتے ہیں اور وہی باتیں ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کو مستلزم ہیں- بر خلاف اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کی اور حقیقت اسلام کو لوگوں کے سامنے رکھا` باطل کی آمیزش کو دور کیا اور خدائیاحکام کو دنیا میں جاری کیا- مگر لوگوں نے آپ کی مخالفت کی اور ہر طرح سے مقابلہ کیا تا یہ تعلیم دنیا میں نہ پھیلے- آپ کے خلاف ہر قسم کے ذلیل و رسوا کرنے کے منصوبے کئے گئے` آپ پر مقدمات کئے گئے` جھوٹے گواہ بنا کر لے جائے گئے` مارنے کی کوشش کی گئی` قتل کے مقدمے بنائے گئے- یہی وہ زمانہ تھا جب کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا میں مرزا صاحب کو اپنے قلم سے مٹا دوں گا مگر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو خدا نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان ترقی کر رہا ہے اور احمدیت پھیلتی جاتی ہے-
افغانستان جہاں کہ احمدیوں پر سخت مظالم ڈھائے جاتے ہیں` ان کو مروا دیا جاتا ہے اس ملک میں بھی خدا کے فضل سے احمدیت ترقی کرتی جاتی ہے-
مولوی نعمت اللہ خان صاحب جن کو محمود طرزی وزیر امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان کی چٹھی پر کہ اپنا مبلغ بھیجو` افغانستان میں بطور مبلغ بھیجا تھا لیکن جب انہوں نے لوگوں کے سامنے احمدیت کو پیش کیا تو ان کے خلاف وہاں کے علماء نے فتاویٰ کفر لگائے اور انہیں واجبالقتل قرار دیا اور انہیں تکلیفوں میں ڈال کر سنگسار کر دیا انہیں ذلیل کرنے کی غرض سے بازاروں میں پھیرایا گیا- غرضیکہ ہر نوع کی تکلیف انہیں پہنچائی گئی مگر انہوں نے احمدیت کو نہ چھوڑا- ایک انگریز مصنف جو ان دنوں وہاں موجود تھا اور اس نے سنگساری کا واقعہ دیکھا تھا وہ لکھتا ہے کہ جب مولوی نعت اللہ خان صاحب کو گاڑا گیا اور پتھر پڑنے شروع ہوئے تو وہ یہی کہتے تھے میں نے حق کو قبول کیا ہے` میں اسے نہیں چھوڑ سکتا- آپ مجھے مار دیں میں تو آپ کے حق میں دعا ہی کروں گا- باوجود ایسے خطرناک مظالم کے پھر بھی اس ملک میں جماعت ترقی کر رہی ہے- اب جب کہ امیر امان اللہ خان اپنے ملک کو چھوڑ کر روما )اٹلی( میں پہنچ چکے ہیں ان کے ایک وزیر کی چٹھی میرے نام سیلون سے آئی ہے کہ میں جب افغانستان میں تھا تو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتا تھا- اب ولایت جا رہا ہوں` واپسی پر افغانستان میں آ کر پھر تبلیغ کروں گا-
خدا کی گرفت سے بڑھ کر کسی کی گرفت نہیں ہو سکتی- امان اللہ خان کے ان بے جا مظالم پر خدا کی گرفت ہوئی- اس نے لڑ کر ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا اس وجہ سے قوم اس کی بہت ممنون تھی اور اس کی بہت عزت کرتی تھی مگر یکدفعہ حالات بدلے اور وہ عزت جو اسے حاصل تھی ذلت کے رنگ میں بدل گئی اور اب جس حال میں امان اللہ خان ہیں وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں- غرضیکہ احمدیت ہر ملک میں پھیلتی جاتی ہے- اس علاقہ میں بھی احمدیت پھیلی ہے- یاڑی پورہ` گنج پورہ` آسنور` رشی نگر` بنڈہ پور وغیرہ دیہات میں ہزاروں احمدی ہیں مگر باقی علاقوں کی نسبت کم ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم کم ہے- حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہاں نہیں آئے- یہاں حق کی آواز پہنچی اور لوگوں نے قبول کی- پھر وہ مرکز میں پہنچے اور صداقت کو معلوم کیا اور اس پر قائم ہو گئے اور واپس آ کر دوسرے لوگوں تک اس صداقت کو پہنچایا اور اس طرح صداقت پھیلتی گئی-
یاد رکھو! خدا کی طرف سے آنے والا برکات کے ساتھ آتا ہے- گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام شریعت کی نئی کتاب نہیں لائے اور نہ نیا کلمہ جاری کیا ہے- وہی نمازیں ہیں` وہی روزے ہیں جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا مگر آپ کے ساتھ برکات کا نزول ہوا جن سے بہتوں کو فائدہ ہوا- کشمیر کی جماعتوں کے متعلق جب میں غور کرتا ہوں تو افسوس آتا ہے کہ انہوں نے نمایاں ترقی نہیں کی جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے تبلیغ کرنا چھوڑ دیا ہے- میں سمجھتا ہوں کوئی شخص سری نگر جائے اور اس سے راجہ صاحب مصافحہ کریں تو وہ ہر جگہ اس کا ذکر کرے گا لیکن جب خدا تعالیٰ کے نائب نے دنیا کو آواز دی اور تم لوگوں نے اس پر لبیک کہا اور اس کے سلسلہ میں داخل ہوئے جسے خدا دنیا میں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم حق کی آواز دوسروں تک نہیں پہنچاتے- افسوس ہے کہ یہاں کی جماعتوں نے اس کی پوری قدر نہ کی- آج نہیں تو آنے والی نسلیں تمہارے کپڑوں تک سے برکت حاصل کریں گی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے پیرئووں سے لوگ برکات حاصل کرتے رہے-
حضرت ابو ذر غفاریؓ کا قصہ حدیث میں آتا ہے جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سنا تو وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی تعلیم کو سن کر اسلام میں داخل ہو گئے- چونکہ آپ کا قبیلہ سخت مخالف تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہی- آپ نے اجازت دے دی- اس کے بعد کچھ دن وہ حضور کی صحبت میں رہے اور اس قدر اسلام کی محبت ان کے اندر موجزن ہوئی کہ وہ سرداران مکہ کے سامنے جا کر بلند آواز سے کہنے لگے-
اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا رسول اللہ-اس پر انہیں اس قدر زدو کوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش گئے- حضرت عباس جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے وہاں سے گذرے اور انہیں یہ کہہ کر چھڑایا کہ جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے؟ غفار قبیلہ کا ہے اور اگر وہ تمہارے مخالف ہوگئے تو تمہاری ساری تجارت بند ہو جائے گی اور کوئی چیز تمہارے پاس نہیں پہنچ سکے گی- اس دن تو وہ چھوٹ گئے لیکن دوسرے دن پھر اسی طرح کیا اور پھر مار کھائی- پہلے تو وہ اپنے قبیلہ میں جا کر اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہتے تھے مگر ایمان نے ایسا جوش مارا کہ انہوں نے مکہ ہی میں اشاعت اسلام شروع کر دی-
ہماری کشمیر کی جماعتیں تبلیغ کے معاملہ میں بہت سست نظر آتی ہیں- اس دفعہ بھی اور پہلے بھی جب کبھی میں یہاں آیا یہی دیکھا- یہ عذر درست نہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں- ہماری جماعت میں بہت سے ایسے ان پڑھ ہیں جو ایک حرف بھی نہیں جانتے مگر احمدیت کے لئے ایسا جوش رکھتے ہیں کہ سینکڑوں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں- احمدیت کی سچائی کی یہ بھی ایک زبردست دلیل ہے کہ کوئی زمانہ تھا جب مسلمان کہلانے والے عیسائی ہوتے تھے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا تو عیسائی اور انگریز لوگ مسلمان ہونے لگے- گویا پہلے اگر شیر بکری کو کھاتے تھے تو اب بکری شیروں کو کھانے لگی اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے ہوا- ولایت میں انگریز مسلمان ہو رہے ہیں امریکہ میں امریکن لوگ اسلام قبول کرتے جاتے ہیں- یہی لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے مگر اب اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں- عیسائی پادریوں کو نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ احمدیوں سے بات چیت نہ کریں- پادری زویمر جو کسی زمانہ میں مصر میں رہتا تھا اس نے ایک شخص سے سوال کیا جس کا وہ جواب نہ دے سکا- اتفاقاً وہ شخص ہمارے ایک طالب علم سے ملا جو مصر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے ہوئے تھے اور جو آج کل مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر ہیں- انہوں نے اس شخص کو سوال کا جواب سمجھایا اور کہا یہ جواب پادری کے سامنے پیش کرنا- چنانچہ وہ شخص پادری زویمر کے پاس گیا اور اسے جواب سنایا- پادری صاحب گھبرا کر کہنے لگے کیا تم کسی قادیانی سے تو مل کر نہیں آئے` اب یہاں نہ آنا- غرضیکہ یہ لوگ اب احمدیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے-
پس احمدیت کی اشاعت بزدلی سے نہ کرو بلکہ جرات اور بہادری سے کرو- یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنی شروع کر دو بلکہ یہ ہے کہ گورنمنٹ سے مل کر کام کیا جائے- ہم پنجاب میں رہتے ہیں وہاں گورنمنٹ سے ملکر کام کرتے ہیں مگر ڈرتے نہیں- اگر ہماری جماعت دوسروں پر ظاہر کر دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خزانہ ہے تو پھر کون ہے جو انکار کرے اور خزانہ کو رد کر دے-
میں پھر کہتا ہوں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم ان پڑھ ہیں- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 2] ft[r امی تھے مگر سب دنیا کو آپ نے تعلیم دی- پس خدا کا فضل حاصل کرو` پھر سب کچھ پا لو گے- نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو پھر کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں- اصل چیز خدا کی محبت ہے` اسے پیدا کرو- پڑھائی صرف >سونے پر سہاگہ< کا کام دیتی ہے- اگر کتابی علم سے کچھ بنتا تو پھر اسلام نہ پھیلتا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے- عرب لوگ امی تھے` مگر دیکھو ان امیوں نے کس طرح اسلام پھیلایا- پہلے بزرگ مختلف پیشے اختیار کر کے اسلام کو پھیلایا کرتے تھے- وہ امی تھے اپنا کام کرتے تھے مگر خدا کی محبت ان میں موجزن تھی اس لئے وہ اسلام کی راہ میں تکلیف اٹھا کر بھی اسلام پھیلاتے تھے- پس کوشش کرو کہ حق دنیا میں پھیل جائے اور اس وقت تک آرام نہ کرو جب تک حق تمام دنیا تک نہ پہنچ جائے- اپنے نفوس میں اصلاح کرو اور اپنی حالت درست کرو- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر اپنے فضل نازل کرے گا اور لوگوں کے قلوب میں الہام کرے گا تا کہ وہ آپ کی مدد کریں اور ہاتھ بٹائیں-
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسنور کے علاقہ کے کچھ طلباء قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے ہیں- ایک ان میں سے فارغ التحصیل ہونے والا ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہتعالیٰ چاہے تو اسے اس علاقہ میں مقرر کیا جائے- اس کے بعد اور طالب علم جوں جوں تیار ہوتے جائیں` انہیں اس علاقہ میں تبلیغ کے کام پر لگایا جائے تا کہ وہ اپنے علاقہ کو سنبھالیں- مگر قبل اس کے کہ ایسا ہو آپ لوگوں کو اپنی سستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا چاہئے- آج ہی مجھ سے شکایت کی گئی ہے کہ عام طور پر لوگ چندہ نہیں دیتے- میں نے کہا چندہ لینے والے بھی آپ لوگ ہیں اور دینے والے بھی آپ ہی- ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں- جب تک کسی کو دین کے لئے خرچ کرنے کا خود شوق نہ ہو دوسرے کیا کر سکتے ہیں- ہاں یہ سیدھی اور پکی بات ہے کہ جب کوئی جماعت بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوتی ہے تو اسے بیرونی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے-
ایسے تمام علاقے جن کی زبان علیحدہ ہے مگر ہندوستان کا ہی حصہ ہیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کے چندہ کا ایک حصہ انہیں کے علاقہ میں خرچ کیا جائے- گذشتہ مجلسمشاورت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسے علاقوں کا چندہ ۲۵فیصدی انہی میں خرچ کیا جائے- باقی مرکز میں بھیجا جائے- اور جو دوسرے ممالک ہیں وہاں کا ۷۵ فیصدی چندہ وہیں خرچ ہو اور ۲۵ فیصدی مرکز میں بھیجا جائے- مرکز میں چندہ بھیجنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہاں حضرتمسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر خانہ ہے دفاتر ہیں جو ساری جماعت کے انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں ان کے اخراجات کے لئے چندہ کی ضرورت ہے-
اس علاقہ کی جماعتیں اگر باقاعدہ چندہ دیں تو اس میں سے ۲۵ فیصدی یہاں خرچ کیا جا سکتا ہے جس سے کئی مدرسے چل سکتے ہیں اور مبلغ رکھے جا سکتے ہیں- پھر ہر احمدی کو تبلیغ میں حصہ لینا چاہئے- پنجاب میں احمدیت اسی طرح پھیلی کہ سینکڑوں آدمی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور ۸۰ فیصدی چندہ پنجاب کا ہوتا ہے جس سے کئی کام کرنے والے مقرر کئے جاتے ہیں اسی طرح کشمیر میں بھی ہو سکتا ہے- موجودہ جماعت تبلیغی اخراجات برداشت کرے اور جوں جوں جماعت بڑھتی جائے` آمد بھی بڑھتی جائے جس سے کئی مبلغ رکھے جائیں اور کئی مدرسے بنائے جا سکیں- مگر پہلے انہی لوگوں کو سارا بوجھ اٹھانا چاہئے جو اس وقت احمدیت میں داخل ہیں- میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو یا واعظ` زمیندار ہو یا گورنمنٹ کا ملازم` خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے پکار اٹھے- خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں- اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے اور کتنی جلدی ترقی ہوتی ہے- لیکن یہ حالت نہ ہو تو خواہ کوئی مبلغ آئے یا میں خود ہی آئوں جسے خدا تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور وعظ کروں تو لوگ یہی کہیں گے جب احمدیوں میں کوئی تغیر نہیں نظر آتا تو ہم کیوں احمدی بنیں- پس اپنے اخلاق درست کرو` اپنے معاملات درست کرو` اپنے تعلقات درست کرو` اور لوگوں پر ثابت کر دو کہ ان کی سچی ہمدردی اور خیر خواہی آپ کے دل میں ہے- میں بخار کی حالت میں تھا اور آج ہی مجھے واپس سری نگر جانا ہے چونکہ معلوم ہوا تھا کہ لوگ یہاں جمع ہیں اس لئے آ گیا ہوں- میرے گھر سے بھی بیمار ہیں اس لئے میرا واپس جانا ضروری ہے- میں آپ لوگوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنے کی کوشش کریں- عبادات باقاعدہ ادا کریں- چندہ وغیرہ میں اچھی طرح حصہ لیں اور تبلیغ میں سرگرم رہیں-
خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آپ لوگوں کی ضرورتیں پوری کر سکیں اور آپ لوگوں کو پورے جوش سے کام کرنے کی ہمت عطا کرے اور دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی توفیق بخشے- جو لوگ اس سچائی کو قبول نہیں کرتے` وہ اسلام کے غلبہ میں روک ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جماعت قائم کی ہے وہ اسلام کی حفاظت کرنے والی فوج ہے- جو اس فوج میں شامل نہیں ہوتا وہ اسلام کی شکست کا باعث بنتا ہے- خدا تعالیٰ لوگوں کو سمجھ دے تا کہ وہ اس فوج میں داخل ہوں اور اسلام دنیا میں کامیاب ہو اور ساری دنیا میں پھیل جائے-
)الفضل ۱۲-نومبر ۱۹۲۹ء(
۱~}~ النمل: ۳۵
۲~}~ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۰۶ مطبوعہ مکتبہ اسلامی بیروت ۱۳۹۸ھ
۳~}~ السیرہ النبویہ لابن ھشام الجزء الاول صفحہ ۳۵۶ تا ۳۶۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴~}~
۵~}~
بخاری کتاب الاعتصام باب ماذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم` بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ
‏a.10.37.b
انوار العلوم جلد ۱۱
مسئلہ ذبیحہ گائے
مسئلہ ذبیحہ گائے

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ-ھوالناصر
مسئلہ ذبیحہ گائے کے متعلق
بنام
ہندو` سکھ اور مسلم لیڈر صاحبان
)تحریر فرمودہ ۹ ستمبر ۱۹۲۹ء(
آپ کو قادیان کے مذبح کے متعلق ناگوار حالات اخبارات کے ذریعہ معلوم ہو چکے ہوں گے- چونکہ یہ معاملہ اب بہت اہمیت اختیار کرتا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس بارہ میں میری مزید خاموشی سلسلہ احمدیہ کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور ملک کے امن کی بربادی کا بھی موجب ہے اس لئے پیشتر اس کے کہ میں کوئی ایسی راہ اختیار کروں جو احمدیہ سلسلہ کے وقار اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ضروری ہو اور ملک سے شوریدہ سری کی روح کو دور کر کے حقیقی امن کی بنیاد رکھنے والی ہو میں نے مناسب سمجھا کہ میں ان سکھ` ہندو اور مسلمان لیڈروں اور بارسوخ افراد کو جو اس معاملہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ذاتی طور پر مخاطب کر کے ان کی رائے معلوم کر لوں تاکہ اگر کوئی ایسی راہ نکل سکے جس سے بغیر ایسے ذرائع کے اختیار کرنے کے جو مختلف اقوام کے لئے تکلیف دہ ہوں مسلمانوں کو ان کے حقوق بھی مل سکیں اور دوسری اقوام کے لئے بھی کسی ناواجب تکلیف کی صورت پیدا نہ ہو تو اسے اختیار کیا جائے- مذبح کے خلاف جن جن اخبارات نے لکھا ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا اکثر حصہ راستی سے دور اور مبالغہ بلکہ خلاف بیانی سے پر ہے- اصل واقعات یہ ہیں-:
قادیان میرے آباء واجداد کا بنایا ہوا قصبہ ہے اور اس کا اصل نام اسلام پور تھا جس کے آخر میں قاضی کا لفظ اس وجہ سے زائد کیا جاتا تھا تا یہ ظاہر کیا جائے کہ مغلیہ حکومت کی طرف سے ایک قاضی اس علاقہ کی نگرانی کے لئے رہتا ہے لیکن مرور زمانہ سے یہ نام صرف قاضی اور پھر قاضی سے قادی اور قادی سے قادیان بن گیا- میرے آباء واجداد تین سو سال تک اس پر اور اس کے علاقہ پر پہلے تو مغلیہ حکومت کی طرف سے اور بعد میں طوائف الملوکی کے زمانہ میں آزادانہ طور پر حکومت کرتے رہے ہیں- چنانچہ پرانی روایات اور سرلیپل گریفن کی کتاب رئوسائے پنجاب اس امر پر شاہد ہیں- مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی حکومت سے پہلے ہمارے خاندان کی حکومت کے خلاف سکھ قبائل نے حملہ کیا- اور آہستہ آہستہ ان کے مقبوضات سے جو اسی)۸۰( دیہات پر مشتمل تھے` ان کو بے دخل کرتے گئے یہاں تک کہ صرف قادیان ان کے قبضہ میں رہ گیا- اس سے بھی ان کو بے دخل کرنے کے لئے سکھ قبائل پاس کے قصبات میں ایک نیم دائرہ کی صورت میں آباد ہو گئے اور آخر میرے دادا کے والد کے زمانے میں میرے آباء کو قادیان چھوڑنا پڑا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں قبائل کا زور ٹوٹنے پر میرے دادا صاحب پھر قادیان میں واپس آ گئے اور قادیان اور اس کے ملحقہ سات دیہات پر انہیں دخل مل گیا- اس کے بعد انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تو برخلاف فوج کے دوسرے افسروں کے میرے دادا صاحب نے انگریزی حکومت سے خفیہ سازباز نہ کیا اور غالباً اسی وجہ سے ان کے مقبوضہ علاقہ کو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا اور لمبے مقدمات کے بعد صرف قادیان کی ملکیت اور اس کے پاس کے تین گائوں کی ملکیت اعلیٰ ہمارے خاندان کو ملی- میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ قادیان اور اس کے پاس کے اکثر گائوں اسلامی زمانہ کے آباد شدہ ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی بناء پڑی ہے- پس ان کے ساتھ کوئی ہندو روایات وابستہ نہیں ہیں وہ شروع سے اسلامی روایات کے پابند رہے ہیں اور سوائے سکھوں کی حکومت کے چالیس پچاس سالہ عرصہ کے وہ کبھی بھی اسلامی حقوق کی بجاآوری سے محروم نہیں ہوئے- اس وقت بھی قادیان کی زرعی زمین کے مالک صرف میں اور میرے بھائی ہیں- اور محض تھوڑی سی زمین بعض احمدی احباب کے قبضہ میں ہے جنہوں نے وہ زمین ہم ہی سے بغرض آبادی حاصل کی ہے- ہندو اور سکھ صرف بطور مزارعان یا غیر مالکان آباد ہیں اور وہ بھی نہایت قلیل تعداد میں یعنی بمشکل کل آبادی کا قریباً ساتواں حصہ-
باوجود ان حالات کے اول میرے دادا صاحب نے اور بعد میں میرے والد صاحب بانیسلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دکھایا جائے-
قادیان کے کئی ہندو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ چند سال ہوئے کہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ملحقہ گائوں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے حکام کو کہلا کر مذبح کو رکوا دیا اور ایک معزز ہندو صاحب کی تحریر بھی اس بارہ میں میرے پاس موجود ہے جو بوقتضرورت پیش کی جا سکتی ہے- علاوہ ازیں اس امر کا ثبوت کہ اپنے ہمسایوں کے احساسات کا میں نے پورا خیال رکھا ہے یہ بھی ہے کہ جس حد تک قانون گائے ذبح کرنے کو جائز قرادر دیتا ہے` میں اس سے بھی جماعت کو برابر روکتا رہا ہوں بلکہ بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہونے پر کہ انہوں نے اس معاملہ میں فتنہ کا طریق اختیار کیا ہے` میں نے چھ چھ ماہ یا سال سال کے لئے قادیان سے نکال دیا-
غرض جب تک کہ اقتصادی ضرورت انتہاء کو نہیں پہنچ گئی میں نے اپنے ہمسایوں کے احساسات کو اپنی جماعت کے مالی نقصان پر مقدم رکھا اور زور سے انہیں ان کے حق کے استعمال سے باز رکھا- لیکن قادیان کی آبادی بوجہ احمدی جماعت کا مرکز ہونے کے اس سرعت سے بڑھ رہی ہے کہ بہت کم شہروں میں جو اس حیثیت کے ہوں اس کی مثال ملتی ہے- اس بڑھتی ہوئی آبادی کا اثر طبعی طور پر قادیان اور اس کے گردو نواح پر پڑنا تھا اور پڑا اور لوگوں میں یہ مطالبہ بڑھتا گیا کہ کثیر التعداد آبادی کو قلیل التعداد جماعت کے احساسات کی خاطر آپ مالی نقصان کیوں پہنچاتے ہیں- آبادی کی زیادتی کے ساتھ ساتھ جب میں نے دیکھا کہ ملک کی عام مالی حالت کی خرابی کی وجہ سے ان کے خورد و نوش کے سامانوں کا مہیا ہونا بھی مشکل ہو رہا ہے اور لوگ نہایت تنگ حال ہو رہے ہیں تو لوگوں کے بار بار کے اصرار پر اور یہ دیکھ کر کہ سکھ لوگ جھٹکا کی دکان کھولنے کی تجویزیں کر رہے ہیں` میں نے اجازت دے دی کہ اگر کوئی شخص چاہے تو مذبح کے لئے درخواست دے سکتا ہے- لیکن میں نے اپنا آخری فیصلہ آئندہ پر ملتوی رکھا-
اس کے بعد میں چند روز کے لئے لاہور گیا اور اپنے برادر نسبتی عزیزم لفٹنٹ خلیفہتقیالدین احمد- آئی- ایم- ایس کے مکان پر مقیم تھا کہ رات کے گیارہ بجے قادیان کے سات ہندئووں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مذبح کھلنے والا ہے میں اس کا تدارک کروں- اس وفد کے رئیس پنڈت دولت رام ممبر میونسپل کمیٹی قادیان تھے- میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف لوگ اپنی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں` دوسری طرف سکھوں نے جھٹکا کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے ان حالات میں میں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی فیصلہ کر سکتا ہوں اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہوگا` میں ایسی صورت اختیار کروں تا کہ طرفین کی ضرورت اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے- پس وہ قادیان جانے پر مجھ سے ملیں- میں دوسرے ہی دن قادیان کو روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچنے پر ہندو صاحبان کا ایک بڑا وفد میرے پاس اسی غرض کے لئے آیا- میں نے انہیں سمجھایا کہ سکھوں نے جھٹکا کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہو چکی ہے کہ جب دوسرا فریق ہمارے احساسات کا خیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے اس لئے پہلے مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع دیں- اس پر وہ لوگ چلے گئے-
دوسرے دن ایک آریہ صاحب ایک پاس کے گائوں کے جھتے دار اور ایک سکھ ڈاکٹر کو لے کر میرے پاس آ گئے اور کہا کہ آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے ہیں` سو یہ لوگ آ گئے ہیں- میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلوائوں گا- آپ صرف ایک قادیان کے آدمی اور ایک جھتے دار کو لے کر آگئے ہیں مگر بہرحال میں ان کی بات سننے کو تیار ہوں- ان لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ جب پہلے گائے کے ذبیحہ سے آپ روکتے تھے تو اب آپ نے مذبح کی درخواست کی کیوں اجازت دے دی ہے- میں نے انہیں بتایا کہ آپ لوگوں کا سوال بھی اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ موجودہ درخواست کسی دشمنی یا دل کے دکھانے کی غرض سے نہیں ہے کیونکہ جب میں پہلے آپ کے احساسات کا خیال رکھتا رہا ہوں تو اب کیوں بلاوجہ ان کو صدمہ پہنچائوں گا- ہاں اگر آپ وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کی اقتصادی حالت اور بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی نے حالات بدل دیئے ہیں- اور دوسرے جھٹکا کے سوال کے پیدا ہونے کے سبب سے میں دیانت دارانہ طور پر اس قدر زور نہیں دے سکتا جس قدر کہ پہلے دے سکتا تھا- ہاں میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ میرے نزدیک جھٹکا پر مسلمانوں کا اعتراض بھی ویسا ہی فضول ہے جیسے گائے کے ذبیحہ پر ہندوئوں کا لیکن سمجھوتہ کراتے وقت یہ سوال نہیں ہوتا کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں بلکہ لوگوں کے احساسات کا جو غلط ہوں یا صحیح لحاظ رکھنا پڑتا ہے گو مجھے جھٹکا پر کوئی اعتراض نہیں لیکن چونکہ اب دوسرے مسلمانوں کے احساسات کا بھی سوال آگیا ہے جن کو جھٹکا پر اعتراض ہے اور پھر چونکہ میں جج نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ کرانے والے کی حیثیت رکھتا ہوں- میرا فرض ہے کہ طرفین کے احساسات کا یکساں خیال رکھوں-
اس گفتگو کے دوران میں جتھہ دار صاحب نے مجھے دھمکی دی کہ اگر گائوکشی کی اجازت ہوئی تو آپ یاد رکھیں کہ فساد ہو جائے گا اور اس دھمکی کے جواب میں میری شرافت کا صرف ایک ہی تقاضا تھا کہ میں انہیں یہ کہتا کہ اگر آپ فساد سے ڈرا کر اس امر کو روکنا چاہتے ہیں تو میں ہرگز ہرگز اسے نہیں روکوں گا- اور یہی میں نے ان کو جواب دیا-
چونکہ میں نے دیکھا کہ سکھ صاحبان میرے لئے ایسا موقع مہیا کرنے پر تیار نہ تھے کہ میں دوسرے فریق پر زور دے کر اگر ان کو کلی طور پر نہ روک سکوں` کم از کم ایک ایسا سمجھوتہ کرادوں جس سے فریقین کی کم سے کم دل آزاری ہو اس لئے میں نے مسلمانوں کو بلوا کر ان سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا اور اس امر کا منتظر رہا کہ ہندو صاحبان کا نمائندہ جب انہیں جا کر اطلاع دے گا اور وہ مجھ سے آکر ملیں گے تو اس وقت آئندہ طریق عمل پر غور کروں گا- لیکن وہ لوگ پھر میرے پاس نہ آئے اور میں نے سنا ہے- واللہ اعلم درست ہے یا نہیں کہ آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ جھٹکا کو چلنے دو گائے کا سوال خود زور سے طے کر لیں گے- اس طرح یہ دونوں سوال چلتے رہے میرے کہنے پر مسلمانوں کی طرف سے جھٹکا پر کوئی اعتراض نہ ہوا اور برسر بازار جھٹکا کی دکان کھل گئی اور مذبح کے متعلق ایک لمبے عرصہ کے غور اور ہندئووں کے جذبات کا کافی خیال رکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے اجازت دے دی اور مذبح اس طرف بنایا گیا جس طرف کہ مسلمان گائوں ہیں- اور اس کی فروخت کے لئے ایسے محلہ میں دکان کھلوائی گئی جس کی ۱۰۰ فیصد آبادی مسلمان ہے-
میں نے دوران ملاقات میں ہندو صاحبان اور سکھ صاحبان کو بھی کہہ دیا تھا اور اب بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک ملک میں امن اسی اصل پر کار بند ہونے سے ہوگا کہ ہر قوم دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینے سے اجتناب کرے- مسلمانوں کو ان کی مرغوب چیزوں کے استعمال کرنے کی پوری آزادی ہو اور ہندوئوں اور سکھوں کو ان کی مرغوب چیزوں کے استعمال کی ہاں بغیر آزادی کو محدود کرنے کے دوسرے کے احساسات کا جس قدر خیال رکھنا ممکن ہو رکھا جائے- جب تک ہندو مسلمان اور سکھ اس اصل کی پابندی نہیں کریں گے کبھی امن نہیں ہوگا اور کبھی نہیں ہوگا-
اب میں پھر واقعات کی طرف آتا ہوں- حکام ضلع کی منظوری کے بعد مذبح قائم ہو گیا- اور جب کہ میں کشمیر آیا ہوا تھا- میرے پیچھے ہی اس میں ذبیحہ بھی شروع ہو گیا- اس پر جیسا کہ مجھے باقاعدہ رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے قادیان سے بعض ہندو جو شروع سے ہی مذبح کے خلاف آس پاس کے گائوں میں سکھوں اور ہندوئوں کو اکسا رہے تھے- انہوں نے خوب لوگوں کو جوش دلایا اور آخر سات اگست ۱۹۲۹ء کو سکھوں اور ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد نے پولیس کی موجودگی میں مذبح گرا دیا اور اینٹوں تک کے ٹکڑے کر دے- احمدیہ جماعت موقع پر مقابلہ سے مجتنب رہی ورنہ اپنی طاقت اور قوت کے لحاظ سے اور قریب کے دیہات کی مزید مدد کے ساتھ وہ اس قابل تھی کہ حملہ آوروں کو ایسا تلخ جواب دیتی کہ انہیں مدتوں تک یاد رہتا مگر انہوں نے امن پسندی کو اور قانون کے احترام کو اپنے جوش پر مقدم کیا-
لیکن افسوس ہے کہ اس امن پسندی کا جواب عام طور پر ہندو اخباروں کی طرف سے نہایت ہی قابل شرم ملا ہے- انہوں نے بجائے اس کے کہ اپنے ہم مذہبوں کے ناجائز رویہ پر اظہار افسوس کرتے خلاف بیانی اور مغالطہ دہی سے ان کی تائید کرنی شروع کی اور انہیں اور بھی اکسایا- اور بجائے اس کے کہ انہیں ملامت کرتے` ان کی اور بھی پیٹھ ٹھونکی اور اس قدر شور برپا کیا کہ اس سے متاثر ہو کر گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ڈر گئے اور انہوں نے سخت قابلاعتراض رویہ اختیار کیا-
بعض سکھ لیڈروں کا قابل تعریف رویہ
لیکن اس کے مقابلہ میں سکھوں کے بعض لیڈروں اور ان کے بعض اخبارات نے نہایت قابل تعریف رویہ اختیار کیا اور فساد سے پہلے بھی سکھوں کو اس میں شمولیت سے روکا- اور بعد میں بھی ان لوگوں کے فعل کو جنہوں نے مذبح گرایا تھا ناپسند کیا-
اس وقت کمشنر صاحب کے سامنے اپیل پیش ہے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیا فیصلہ کریں- لیکن ان کا موجودہ رویہ بہت ہی قابل اعتراض ہے- مگر اس وقت سوال ان کے فیصلہ کا نہیں ہے کیونکہ جو ہمارا حق ہے ہم اسے آج نہیں تو کل لے کر رہیں گے- سوال یہ ہے کہ اس فتنہ کا اثر ہندوستان کی دو نہیں تین قوموں پر جنہوں نے چند سال کے لئے نہیں` ہمیشہ ہندوستان میں رہنا ہے` کیا پڑے گا؟
میں بتا چکا ہوں کہ میں مدتوں تک مذبح کے خلاف رہا ہوں- نہ اس وجہ سے کہ میں مسلمانوں کا اس بارہ میں حق نہیں سمجھتا بلکہ اس وجہ سے کہ میرے نزدیک باوجود قانونی اور عقلی حق کے جہاں تک ہو سکے اپنے ہمسایہ کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے- مگر میرے نزدیک ہمسایہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اس امر کا خیال رکھے کہ قربانی کرنا صرف دوسرے پر ہی واجب نہیں اس کا بھی فرض ہے کہ جب کسی دوسرے کو حقیقی اور مادی نقصان پہنچ رہا ہو وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے اور سمجھے کہ اس کا مذہب صرف اس کے اعمال پر حکومت کر سکتا ہے دوسرے مذہب کے پیروئوں پر اس کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے-
غرض گو میں اس وقت تک کہ اقتصادی حالت نے مجبور نہیں کر دیا مذبح کے خلاف رہا ہوں لیکن اب جب کہ اس طرح ظالمانہ طور پر اور امن عامہ کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان اور اس کے نواحی علاقہ کے سکھوں اور ہندوئوں نے مذبح گرا دیا ہے ذبیحہ گائے کا سوال ایک نئی صورت میں میرے سامنے آیا ہے- اس واقعہ نے مجھ پر روشن کر دیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی اصل قانون ہے اور اس کے بغیر اور کسی قانون کی حرمت ان کی نگاہ میں نہیں ہے- اس تلخ حقیقت کو اس امر نے اور بھی نمایاں کر دیا ہے کہ مہابیر دل نام کی ایک سوسائٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ اگر ذبیحہ گائے کی اجازت مل گئی تو اس کے ممبر دوبارہ بھی جبر اور تعدی سے اس کام کو روکنے سے باز نہیں رہیں گے-
میرے نزدیک موجودہ حالات نے مسلمانوں کو پہلے سے بھی زیادہ مجبور کر دیا ہے کہ وہ گائے کے ذبح کرنے کے حق کو استعمال کریں- اور جہاں یہ حق حاصل نہ ہو وہاں اس کے حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ پہلے تو اقتصادی حالت کا ہی تقاضا تھا- کہ وہ گائے کے گوشت کو استعمال کریں اب مذہبی اور اخلاقی حالات بھی اس کا مطالبہ کرنے لگ گئے ہیں- مذہبی حق اس طرح کہ اسلام میں کسی وجود کا حد سے بڑھ کر احترام شرک ہے- قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے- کہ بنی اسرائیل چونکہ فرعونیوں میں رہتے تھے جن میں کہ گائے ایک مقدس وجود سمجھا جاتا تھا اس وجہ سے ہمسائیوں کے خیالات کے بد اثرات سے بچانے کے لئے انہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا- پس جب کہ ہندو صاحبان مسلمانوں کو مجبور کرنے لگے ہیں کہ وہ کسی صورت میں بھی گائے ذبح نہ کیا کریں تو ہمیں ڈر ہے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آہستہ آہستہ گائے کا ناواجب احترام کرنے لگیں گی اور جس طرح انہوں نے اور کئی بدرسوم ہندوئوں کی اختیار کر لی ہیں گائے کی عزت بھی مشرکانہ طور پر ان کے دل میں جاگزیں ہو جائے گی- اور یہ ایک خیالی خطرہ نہیں ہے- بلکہ سکھوں میں اس کی نظیر ملتی ہے- سکھ لوگ موحد ہیں اور مشرکانہ خیالات ان کے اصول مذہب کا جزو نہیں ہیں لیکن باوجود اس کے چونکہ ہندوئوں سے ان کی رسوم ملتی تھیں ان سے رشتہ ناطہ کا تعلق رکھنے کی خاطر انہوں نے گائے کا کھانا ترک کر دیا- اب گو وہ کہتے تو یہی ہیں کہ گائے کی عزت ہمارے مذہب کا جزو نہیں صرف اقتصادی طور پر ہم اس کے ذبح کرنے کے مخالف ہیں لیکن حق یہی ہے کہ ان کے دلوں میں آہستہ آہستہ اس کی عزت گھر کی چکی ہے ورنہ اقتصادی طور پر گائے کی حفاظت کا خیال مسلمانوں میں زیادہ ہونا چاہئے تھا جن کے زمینداروں کی تعداد پنجاب میں سکھوں سے بہت زیادہ ہے-
پھر یہ اقتصادی سوال عقلاً بھی درست نہیں- یورپ کے لوگ گائے کا گوشت کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے ملک کی گائے ہمارے ملک کی گائے سے بہت اچھی ہوتی ہے- اور گائے کی تعداد کو بھی بے روک گائوکشی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس ملک میں جس جانور کی کھپت زیادہ ہو گی اس کی پیدائش بھی زیادہ ہو جائے گی کیونکہ اس کے فوائد کی کثرت کی وجہ سے اس کی قدر بڑھ جائے گی اور لوگ اسے زیادہ پالنے لگیں گے- گائے کی حفاظت گائوکشی کے روکنے سے ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی نسل کشی کی طرف توجہ کرنے سے ہو گی- یو- پی جس میں کثرت سے گائے ذبح ہوتی ہے وہاں گائے کی تعداد اس کی نسل کی عمدگی میں پنجاب کی نسبت جہاں کہ بہت سی روکیں ہیں` کوئی کمی نہیں آئی-
اخلاقی طور پر بھی اس جبر کی وجہ سے یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کیونکہ جبر کے ماتحت کسی امر سے رکنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے- پس اب جب کہ جبر اور تعدی سے کام لیا گیا ہے اور آئندہ کے لئے بھی دھمکی دی گئی ہے ہر مسلمان کا فرض ہوگا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے ہر ممکن طریق سے اس سرکشی والی روح کا مقابلہ کرے اور اپنی آئندہ نسل کو غلامی اور بزدلی کی دو لعنتوں سے بچائے اور مسلمان اگر اس فتنہ کا مقابلہ نہیں کریں گے تو یقیناً آئندہ وہ شودروں کی طرف ہو کر رہیں گے- ان حالات کو آپ کے سامنے پیش کر کے میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے کہ مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کر سکیں اور ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے اور ان کے ہمسائیوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں تو آپ مجھے اس سے مطلع کریں میں ہر معقول تجویز پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں-
آپ پر یہ بھی واضح رہے کہ مجھے ہر گز ان لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے جنہوں نے بعض شریروں کے اکسانے سے مذبح کو گرا دیا ہے- میں ہر گز اس پر خوش نہیں کہ ضرور ان کو سزا ہی ملے- اگر مسلمانوں کے جائز حقوق ان کو مل جائیں اور اگر یہ وحشیانہ طریق ترک کر دیا جائے اور دوسرے کے کاموں میں خواہ مخواہ دخل نہ دیا جائے تو میں بڑی خوشی سے ان لوگوں کو معاف کر دوں گا اور دوسری اقوام سے مل کر گورنمنٹ سے درخواست کروں گا کہ آئندہ دلوں کی صفائی کیلئے ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے-
اسی طرح میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبح کو جاری کیا جا سکے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرانے کا ذمہ وار ہوں- مثلاً اگر مجھے یہ بتایا جائے کہ قادیان کے نواح میں شہر سے باہر )کیونکہ حفظان صحت کا خیال ضروری ہے( فلاں جگہ مذبح بنایا جائے` پہلی جگہ پر نہ ہو یا یہ کہ دیواریں پہلے سے زیادہ اونچی ہوں یا مثلاً یہ کہ دوکانیں صرف شہر کے فلاں فلاں حصہ میں رکھی جائیں یا اور ایسی ہی تجاویز جن سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کو کم سے کم صدمہ پہنچتا ہو پیش کی جائیں تو میں انشاء اللہ ان کی تائید کروں گا اور ان کے حصول کے لئے ہندوئوں اور سکھوں کی پوری مدد کروں گا- لیکن اگر مجھے اس پر مجبور کیا جائے کہ گائے کے ذبیحہ کو کلی طور پر بند کر دیا جائے تو میں اسے نہ صرف خلاف عقل مطالبہ سمجھتا ہوں بلکہ گذشتہ طاقت کے مظاہرہ کے بعد ذبیحہ گائے کے ترک کو مسلمانوں کے اخلاق کو بھی اور ان کے مذہب کو بھی برباد کرنے والا سمجھتا ہوں اور اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں بلکہ اس مطالبہ کی صورت میں میں یہ اپنا فرض سمجھوں گا کہ مسلمانوں کو اس ظلم سے بچائوں اور جس قدر تدابیر گائے کے گوشت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے ممکن ہو سکتی ہوں` انہیں اختیار کروں-
میرے نزدیک ہمارے برادران وطن کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صرف نئے مذبحوں کے اجراء ہی سے گائے کے گوشت کا استعمال زیادہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے اور بھی طریق ہیں- مثلاًیہ کہ جس جس جگہ پر پہلے سے مذبح موجود ہے اگر وہاں کے مسلمان جو پہلے شاذو نادر گائے کا گوشت استعمال کرتے تھے آئندہ عہد کر لیں کہ وہ گائے کا گوشت ہی استعمال کیا کریں گے یا اکثر استعمال کیا کریں گے تو وہ سمجھ لیں کہ چند ماہ میں بیسیوں مذبحوں سے زیادہ گائے کے گوشت کی کھپت شروع ہو جائے گی- اسی طرح مثلاً اگر ان قصبات کے لوگ جہاں پہلے گائے کا گوشت نہیں ہوتا تھا قریب کے مذبحوں سے گائے کا گوشت منگوا کر استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے یا مثلاً اگر دیہات کے لوگ جن پر موجودہ قانون حاوی نہیں ہے گائے زیادہ ذبح کرنے لگیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے؟ غرض ایسے بہت سے ذرائع ہیں کہ جن کو اختیار کر کے پنجاب میں چند ہی ماہ میں گائے کے گوشت کی کھپت دگنی سے بھی زیادہ کی جا سکتی ہے اور ان ذرائع کے اختیار کرنے سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کو بھی پہلے سے زیادہ صدمہ پہنچے گا- اور اگر گورنمنٹ دخل دے گی تو یقیناً یہ تحریک اور بھی زیادہ طاقت پکڑ جائے گی اور ہر مسلمان گائوں کا براہ راست گورنمنٹ سے مقابلہ شروع ہو جائے گا- لیکن گورنمنٹ سے بہت زیادہ تکلیف خود ہندو صاحبان کے احساسات کو پہنچے گی- میں امید کرتا ہوں کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ میرے خط کا جلد جواب دے کر مجھے ممنون فرمائیں گے- لیکن اگر آپ نے اس طرف جلد توجہ نہ کی اور بعد میں کوئی ناگوار صورت حالات پیدا ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ اپنی قوم کا درد اور ملک کی محبت رکھنے کی وجہ سے آپ کو بھی ضرور تکلیف محسوس ہوگی- مگر چونکہ وقت پر آپ نے خبر نہ لی ہوگی آپ کو مجھے ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی کچھ کہنے کا حق نہ ہوگا اور نہ آپ کو یہ حق ہوگا کہ آپ مجھ پر خصوصاً اور باقی مسلمانوں پر عموماً یہ اعتراض کریں کہ ہمیں حالات کو بہتر بنانے کا موقع نہیں دیا گیا- یا یہ کہ ایسے ذرائع کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو ملک میں صلح اور آشتی پھیلانے کا موجب ہوتے-
پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو ختم کروں میں سکھ لیڈروں کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے ان کے جائز حقوق کا ہمیشہ احترام کیا ہے- چنانچہ پچھلے دنوں جب ایک احمدی نو مسلم کی کتاب کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا کہ اس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے تو گورنمنٹ نے بھی ان کی آواز پر توجہ نہ کی تھی کہ میں نے خود اس کتاب کو ضبط کر لیا اور انہیں اس امر کا اقرار ہوگا کہ میرا ضبطی کا حکم گورنمنٹ کے حکم سے زیادہ موثر تھا- کیونکہ نہ صرف اس کتاب کی خریداری رک گئی بلکہ فروخت شدہ کتاب یا اس کے قابل اعتراض حصے ہر جگہ جلا دیئے گئے- پس میں مخلصانہ طور پر انہیں مشورہ دینے کا حق رکھتا ہوں کہ گائوکشی کے سوال کے متعلق فیصلہ کرنے سے پہلے وہ دو باتوں پر غور کر لیں- اول اس کا مذہبی پہلو ہے- سکھ اصحاب یہ امر بھلا نہیں سکتے کہ حضرت باوا نانک علیہ رحمہ نے توحید کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی سے کام لیا ہے- پس جس چیز کو قائم کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے آرام کو قربان کر دیا تھا اس چیز کو محض ایک عارضی معاہدہ کے قیام کے لئے تباہ ہونے دینا ہر گز اپنے آباء کی خدمات توحید کا اچھا اعتراف نہ ہوگا-
دوسرے انہیں یہ بات نہ بھلانی چاہئے کہ جب تک گائو کشی کے متعلق عام سکھوں کے جوش کی موجودہ حالت قائم رہے گی اس وقت تک سکھ پبلک کے دو لیڈر رہیں گے- ایک ہندوساہوکار اور دوسرے سکھوں کے قومی لیڈر- چنانچہ مذبح قادیان کا واقعہ اس امر کا بین ثبوت ہے- باوجود اس کے کہ سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے قومی لیڈر خود قادیان میں کہہ آئے تھے کہ گائوکشی پر سکھوں کو اور جھٹکا پر مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے- مسلمانوں نے تو ان کی نصیحت پر عمل کر کے جھٹکا پر اعتراض نہ کیا مگر سکھوں کو ہندو جوش دلانے میں کامیاب ہو گئے- پھر انہدام مذبح کے بعد بھی اکالی اور خالصہ سکھوں کے دونوں حصوں کے موقر اخبارات کے سمجھانے کے باوجود قادیان اور اس کے گردو نواح کے سکھوں پر کوئی اثر نہیں ہوا- پس گائوکشی کے متعلق سکھوں کے رائج الوقت خیالات ان کے قومی شیرازہ کے باندھنے میں بھی روک ہیں-
پس امید ہے کہ اپنے مذہب کی جان یعنی توحید کی حفاظت اور اپنے قومی شیرازہ کی مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھ لیڈر اپنی قوم کو اس مشرکانہ خیال کی تائید میں کھڑا ہونے سے باز رکھیں گے بلکہ توحید کے قیام کے لئے ہمارے دوش بدوش کھڑے ہوں گے- میں امید کرتا ہوں کہ اوپر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان اپنے ہمسائیوں کے احساسات کا جائز احترام کرنے کو تیار ہیں اس امر کو ترجیح دی جائے گی کہ جن جن مسلمانوں کو جائز طور پر مذبح کی ضرورت ہے ایسی شرائط کے ساتھ ان کو اجازت دی جائے کہ ان کے ہمسائیوں کو ناواجب تکلیف نہ ہو اور ایسے حالات سے ملک کو بچایا جائے جو اس کے امن کو برباد کرنے والے اور اس کی آزادی کو نقصان پہنچانے والے ہوں- اس جابرانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے جو قادیان کے مذبح کے انہدام میں تیار کیا گیا ہے اور جو مسلمانوں کو کھلا چیلنج ہے اور اس رویہ کو دیکھتے ہوئے جو بعض ہندو اخبارات نے اس موقع پر اختیار کیا ہے میرے جذبات جس قدر متاثر ہیں میں نے اس کا اظہار اس مضمون میں نہیں ہونے دیا تا کہ میری اصل غرض فوت نہ ہو جائے- مگر میں امید کرتا ہوں کہ باوجود اس کے آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ ایک زندہ قوم اپنی آئندہ نسل کو روحانی اور اخلاقی موت میں پڑنے کے خطرہ میں دیکھ کر انتہائی جدوجہد کرنے کے بغیر خاموش نہیں ہوگی-
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
حال سرینگر کشمیر
۹- ستمبر۱۹۲۹ء
)الفضل ۲۰- ستمبر ۱۹۲۹ء(
‏a.10.38
انوار العلوم جلد ۱۱
ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے
ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے
فرمودہ ۳۰- ستمبر ۱۹۲۹ء بمقام جموں کشمیر(
۳۰- ستمبر کشمیر سے واپس آتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو بوجہ لاریوں کے وقت پر نہ پہنچنے کے جموں ٹھہرنا پڑا اس موقع پر احباب جموں نے حضور کی تقریر کا انتظام کیا-
تشہد و تعوذ اور تلاوت سورہ فاتحہ کے بعد فرمایا-
اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے منشاء کے ماتحت باوجود اس کوشش کے کہ میں یہاں سے کل ہی روانہ ہو جانا چاہتا تھا مجھے ایک دن کے لئے اس مقام پر ٹھہرنا پڑا- میرے دل میں خواہش تھی کہ میں اس مقام کو دیکھوں اس لئے کہ ہماری جماعت کے پہلے خلیفہ اور امام حضرت مولوی نورالدین ایک عرصہ تک اس میں رہے ہیں اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے انسان اپنے پیاروں کے مقامات کو دیکھتا ہے- مجھے مدت سے اس کا خیال تھا مگر ہر کام کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے- جب میری خواہش تھی میں نہ آ سکا مگر اب بغیر اپنی خواہش کے مجبوراً مجھے ٹھہرنا پڑا- ہمارے یہاں کے دوستوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان اصحاب کی خاطر جو ابھی سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے کچھ بیان کروں- خدا کی حکمت ہے میں سمجھتا تھا میرا وقت ضائع گیا- مگر اب خدا نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے- ممکن ہے میرے اس بیان میں بعض ان لوگوں کو جنہیں تحقیق حق مطلوب ہو کوئی مفید بات معلوم ہو اور وہ فائدہ اٹھائیں-
مذہب کی غرض
میرے نزدیک مذہب کی غرض فتنہ و فساد پیدا کرنا نہیں بلکہ مذہب دلوں کی صفائی کے لئے ہوتا ہے- اگر فتنہ غرض ہوتی تو اسے شیطان با حسن طریق سرانجام دے سکتا تھا- مگر مذہب کی ہر گز یہ غرض نہیں-
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے اپنی جوانی کی زندگی اپنی قوم کی بھلائی میں خرچ کی کوئی عقلمند ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ آپ بڑھاپے کی عمر میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تاریخ میں ایک واقعہ درج ہے جو اگرچہ عام مورخین کی نظر سے پوشیدہ ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے- وہ جنگ احد کا واقعہ ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت شہید ہوئے- اس وقت ابوسفیان نے کہا محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کہاں ہے ابوبکر )ؓ( کہاں ہے؟ عمر )ؓ( کہاں ہے؟ یعنی سب مارے گئے ہیں- اس وقت حضرت عمر ؓ جواب دینے لگے کہ میں تمہارے مارنے کے لئے موجود ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا اور اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کہنے دیا- لیکن جب ابوسفیان نے کہااعل ھبل` اعل ھبل تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہ ہوکا- اور فرمایا کیوں نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔۔اللہ اعلی و اجل ۱~}~غرض آپ نے ہر گز اپنی ذات نہ منوائی نہ اپنی بڑائی چاہی بلکہ ہمیشہ خدا کی ذات منواتے رہے- پس میں ان واقعات کی موجودگی میں ہر گز نہیں سمجھ سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بڑائی دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے-
پس میں یہی ایک بات پیش کر کے احمدیوں سے بھی اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ تعصب سے کام لینا چھوڑ دیں اور صداقت پر غور کریں- اب جب کہ میں گاڑی پر جانے والا ہوں بعض اصحاب نے سوالات کئے ہیں- یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام کے جواب دے سکوں صرف ایک بات پیش کرتا ہوں جس سے کوئی اہل مذہب انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ خدا کو ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر پیار کرنے والا کوئی وجود نہیں- اگر کوئی خدا ہے تو وہ ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے- پھر یہ بھی کہ اسے ہماری ہدایت کی زیادہ فکر ہے-
ایک امریکن دہریہ کی کتاب میں نے پڑھی ہے جو خدا تعالیٰ کے متعلق دیباچہ میں عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے- ایک بات مجھے سمجھائیں اور وہ یہ کہ اگر خدا ہے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسے ہمارے ساتھ ہمارے والدین سے زیادہ پیار ہونا چاہئے- اس نے سب کچھ ہمارے لئے بنایا تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ پیار نہ کرے اور والدین سے زیادہ ہماری فکر نہ کرے- پھر کہتا ہے- اگر میں زہر کھاتا ہوں تو مجھے ماں باپ روکتے ہیں` دوست روکتے ہیں مگر جب میں گمراہی و ضلالت میں مبتلاء ہوتا ہوں تو کیا وجہ خدا میرا ہاتھ نہیں پکڑتا- پھر وہ کہتا ہے مجھ سے کہا جائے گا کہ تم گندے ہو جیسے والدین نالائق اولاد سے ناراض ہو جاتے ہیں اسی طرح خدا بھی تم سے ناراض ہے مگر میں اس کا یہ جواب دوں گا کہ میں تو گندہ سہی مگر تم میں سے کوئی بھی نظر نہیں آتا جس کا ہاتھ خدا پکڑتا ہو اور اس کو گمراہیوضلالت کے گڑھے سے بچاتا ہو- عیسائیوں میں سے کوئی تو ہو جو خدا سے تعلق رکھتا ہو اور خدا اس سے تعلق رکھتا ہو-
جب میں نے اس کتاب کا یہ مقام پڑھا تو مجھے وجد آ گیا کہ یہ فطرت انسانی بول رہی ہے- میں نے کہا بے شک اس کی تسلی عیسائیت نہیں کر سکتی مگر اسلام کر سکتا ہے- قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہیوالذین جاھدوا فینالنھدینھم سبلنا ۲~}~یعنی وہ لوگ جو ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں- موجودہ زمانہ میں فرقوں کی کثرت کا یہ حال ہے کہ ان کا گننا بھی آسان نہیں- اس حالت میں ایک طالب حق کے لئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ وہ خدا کے حضور جھکے اور صحیح رستہ معلوم کرے- ایک صوفی کا واقعہ لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک طالب علم تھا- کچھ عرصہ کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگا تو صوفی صاحب نے اسے نصیحت کرنی چاہی اور اس سے دریافت کیا تم اب جاتے ہو مگر یہ تو بتائو اگر شیطان نے تمہارا مقابلہ کیا تو کیا کرو گے- طالب علم نے کہا کہ میں بھی اس کا مقابلہ کروں گا- صوفی نے کہا اچھا اگر وہ بھاگ جائے اور پھر آ کر مقابلہ شروع کر دے تو پھر کیا کرو گے- طالب علم نے کہا میں بھی پھر اس کا مقابلہ کروں گا- صوفی نے کہا اس طرح تو تم ہمیشہ شیطان کا مقابلہ ہی کرتے رہو گے- پھر آگے کس طرح ترقی کرو گے طالب علم نے کہا پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے- کہا یہ بتائو- اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے جائو اور اس کا کتا تمہارا مقابلہ کرے تو اس وقت کیا کرو گے- طالب علم نے کہا میں اسے ہٹائوں گا- صوفی نے کہا اگر وہ باز نہ آئے اور اندر جانے نہ دے تو پھر کیا کرو گے- اس نے کہا میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ اپنے کتے کو روکو میں اندر آنا چاہتا ہوں- صوفی نے کہا- بس خدا سے ملنے کا بھی یہی طریق ہے کہ جب شیطان پیچھا نہ چھوڑے تو خدا کی طرف انسان توجہ کرے اور اسے آواز دے کہ تو ہی اسے دور کر دے- پس میرے نزدیک بہترین ذریعہ سچائی کی طلب کا یہ ہے کہ انسان خدا کی طرف متوجہ ہو- خدا تعالیٰ سے کہے- میں کسی مذہب کو اس لئے نہیں مانتا کہ یہ میرے ماں باپ کا مذہب ہے بلکہ میں مذہب کو مذہب سمجھ کر ماننا چاہتا ہوں تو ہی مجھے سچے مذہب کا پتہ بتا- جب کوئی یہ طریق اختیار کرے گا تو ضرور خدا اس کی راہنمائی کرے گا- میرا یہ ذاتی تجربہ ہے- نہ صرف میرا بلکہ بہت سے غیر مسلموں سے بھی کرایا گیا ہے اور وہ اس طرح کامیابی حاصل کر چکے ہیں- پس اگر کسی کو دلائل سے راہنمائی نہیں ہوئی تو وہ یہ طریق اختیار کرے پھر خدا تعالیٰ ضرور اس کی رہنمائی کرے گا- سورۃ فاتحہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ دعا ہے اور صرف مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ مسلمان` غیر مسلمان سب اس سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں- اس میں سکھایا گیا ہے کہ بندہ یوں دعا کرے- خدایا! ہمیں ایسا رستہ دکھا جو ہدایت کا رستہ ہے اور جو پہلے nsk] g[taمنعم علیہ گروہ کا رستہ ہے- ایسا رستہ نہ دکھا جو مغضوب علیھم یا ضالین کا ہے-
پس میرے نزدیک جو شخص ہدایت کا طالب ہے وہ تعصب سے دور ہو کر مذاہب کی قیود سے باہر ہو کر خدا سے دعا کرے کہ اے خدا! تو نے مجھے پیدا کیا` تو سچائیوں کا منبع ہے` تو ہی سچا ہادی ہے تو مجھے سچائی کا رستہ دکھا- میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص چالیس دن تک ایسا کرے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس کے لئے رہنمائی کے سامان پیدا کر دے گا- یہ ایسا طریق ہے جس سے ہر شخص خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو فائدہ اٹھا سکتا ہے- اگر میں دلائل پیش کروں اور آپ لوگ متاثر بھی ہو جائیں تو بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو کوئی اور آئے اور ان باتوں کو غلط قرار دے اور ان کے خلاف دلائل پیش کرے اور پھر ان سے تم متاثر ہو جائو اس لئے میں ایسی بات پیش کرتا ہوں کہ خود بخود خدا کی طرف سے راہنمائی حاصل ہو جائے- یہ وہ طریق فیصلہ ہے جو میں اپنے لئے بھی پسند کرتا اگر میں ہدایت کی تلاش میں ہوتا مگر چونکہ بعض لوگ دلائل کے خواہشمند ہوتے ہیں اور وہ دلائل سننا چاہتے ہیں سو میں ان اصحاب کے لئے مختصراً چند باتیں پیش کرتا ہوں-
ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی اور دینی لحاظ سے وہ بالکل کورے تھے- اسلام صرف نام کا رہ گیا تھا اور قرآن کریم سے عمل اٹھ گیا تھا- صرف رسومات کی پابندی باقی تھی اس لئے خدا کے قاعدہ مستمرہ کے ماتحت ضرور تھا کہ کوئی مامور و مرسل آتا جو مسلمانوں کی حالت سنوارتا- اسلام قائم کرتا احکام قرآن کی پابندی کراتا- حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے مبعوث فرمایا ہے- میں مسیح موعود ہوں اور خدا کی طرف سے مامور و مرسل ہوں- میرا کام یہ ہوگا کہ میں اسلام کو دنیا میں قائم کروں اور غیر مذاہب کے حملوں سے اسے بچائوں` اعتراضات کا قلع قمع کروں اور حقیقت اسلام پیش کروں- چنانچہ آپ ہی کے ذریعہ وہ اعتراض جو مدت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین اسلام کی طرف سے کیا جاتا تھا کہ اسلام دنیا میں تلوار کے زور سے پھیلا ہے دور ہوا- آپ نے ثابت کیا کہ اسلام کی اشاعت کا باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ تھی جس سے سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح لاکھوں کو اپنا گرویدہ بنایا- آج بھی خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے جو آپ کا غلام ہے تا آپ کا غلام دنیا میں اسلام بغیر تلوار پھیلائے تا دنیا جان لے کہ جو کام شاگرد کر سکتا ہے وہ استاد کیوں نہیں کر سکتا-
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استاد تھے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی اتباع سے اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات حاصل ہو سکتے ہیں- دیکھو استاد کا کمال کیا یہ ہوتا ہے کہ اس کی نسبت کہا جائے یہ ایسا کامل ہے کہ اس کا کوئی شاگرد پرائمری سے بڑھ نہیں سکتا- یا یہ کہ یہ ایسا کامل ہے کہ اس کے شاگرد بی اے اور ایم اے ہیں- ہم یہ ¶عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے نبوت مل سکتی ہے- سورۃ فاتحہ میں جو انعمت علیھم آیا ہے اس کی دوسرے مقام پر اس طرح توضیح کی گئی ہے کہومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا ۳~}~اس آیت میں منعم علیہ گروہ کے چار درجے بیان فرمائے گئے ہیں- نبی` صدیق` شہید` صالح- یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انسان یہ چار درجے حاصل کر سکتا ہے- دوسرے انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک یہ بھی فرق ہے کہ پہلے انبیاء کی اتباع سے نبی نہیں بن سکتے تھے صدیق اور شہید ہو سکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کمال حاصل تھا کہ حضور کی اتباع سے نبی بھی بن سکتے ہیں-
بعض لوگ ناواقفیت کے باعث یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میںمع کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ نبی نہ ہونگے نبیوں کے ساتھ ہونگے- مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے- یہ مع صرف النبین کے ساتھ ہی نہیں- بلکہالصدیقین` الشھداء` الصالحین سب کے ساتھ بھی ہے اور اگر ان کے معنی درست تسلیم کئے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ نبی نہ ہونگے` نبیوں کے ساتھ ہونگے- صدیق نہ ہونگے بلکہ صدیقوں کے ساتھ ہونگے- شہید نہ ہونگے بلکہ شہداء کے ساتھ ہونگے- صالح نہ ہونگے بلکہ صالحین کے ساتھ ہوں گے- لیکن اگر غور کیا جائے تو ان معنی سے تو امت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا
یہاں مع بمعنی من یعنی >سے< کے ہیں- قرآن کریم میں یہ استعمال موجود ہے- چنانچہ آیا ہے- توفنا مع الابرار ۴~}~یعنی نیکوں میں سے کر کے مار` یہ معنی نہیں کہ جب کوئی نیک بندہ مرنے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ وفات دے دے-
پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مقام نبوت بھی حاصل ہو جاتا ہے- یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے جو نبی بنے گا- اس کی نبوت دوسرے انبیاء کے مقابلہ میں ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے وہ امتی ہوتا ہے- پس ایسی نبوت کے حصول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان نہیں- حدیث میں آیا ہے لوکان موسی و عیسی حیین لما وسعھما الااتباعی ۵~}~یعنی اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا- پس اگر نبی کے ماتحت ہونے سے کسر شان ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے- حضرت مرزا صاحب باوجود دعویٰ نبوت کے امتی ہونے پر فخر کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے اظہار میں عزت سمجھتے تھے- چنانچہ آپ کا یہ مشہور شعر ہے-
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیابنگر زغلمان محمد
اسی طرح آپ اپنے فارسی الہامی قصیدہ میں فرماتے ہیں-
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفرایں بود بخدا سخت کافرم
آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ نعتیں لکھیں جن کا پہلی نعتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں- آپ سے پہلے کی کہی ہوئی نعتیں صرف زلفوں گیسوئوں کے ذکر پر مشتمل ہوتی تھیں- اور کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا وغیرہ- مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی نعتیں کہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا- ان نعتوں کا موازنہ صرف مطالعہ سے ہو سکتا ہے-
ایک شخص نے جب مجھ سے سوال کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی نعت دیکھی جائے اس میں آپ کے کمالات کا ذکر نہیں ہوتا` آپ کی خوبیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا صرف گیسوئوں اور زلفوں کی تعریف ہوتی ہے تو میں سخت شرمندہ ہوا اور میں نے اسے یہ جواب دیا کہ حضرت مسیحموعود علیہ السلام نے جو نعتیں لکھی ہیں وہ آپ دیکھیں-
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ نعتیں لکھی ہیں جن سے اسلام کی محبت ظاہر اور نمایاں طور پر نظر آتی ہے جو شخص بھی ان نعتوں کو دیکھے کبھی خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کے لئے کوئی دعویٰ کرتا ہوگا- کیا یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان کرنے والے ہوں اور پھر حضور کی عزتوعظمت قائم کرنے کے لئے ایسی ایسی نعتیں بھی لکھیں- بالاخر میں کہتا ہوں آپ لوگ خدا تعالیٰ ہی سے راہنمائی حاصل کریں اور اس کے لئے یہ طریق اختیار کریں جو دعا کا ہے- اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا کرے کہ ہم صحیح رستے پر گامزن ہوں اور اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں-
)الفضل ۳- دسمبر ۱۹۲۹ء(
۱~}~
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد+ سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۲ صفحہ۱۴۰ مطبع مکتبہ فاروقیہ ملتان ۱۹۷۷ء
۲~}~
العنکبوت: ۷۰
۳~}~ النساء : ۷۰
۴~}~ ال عمران : ۱۹۴
۵~}~
الیواقیت والجواھر مولفہ الامام شعرانی جلد۲ صفحہ۲۰
‏a.10.39
انوار العلوم جلد ۱۱
مذبح قادیان
مذبح قادیان

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مذبح قادیان کے انہدام کے متعلق اظہار خیالات
)فرمودہ یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء(
سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-
میں اپنے دوستوں کا اس اظہار مسرت اور اظہار اخلاص پر جو میری آمد پر انہوں نے کیا ہے شکریہ ادا کرتے ہوئے اور اللہ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس اخلاص اور محبت کی جزائے خیر عطا کرے` اس موضوع کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس پر کہ اس ایڈریس کے جو اس وقت میری آمد پر پڑھا گیا ہے اکثر مطالب حاوی ہیں-
دنیا جانتی ہے ہم نے بزدل کہلا کر` خوشامدی کہلا کر` لالچی اور حریص کہلا کر` بے وقوف اور جاہل کہلا کر اور ہر قسم کے برے سے برے نام رکھا کر بھی دنیا میں امن اور آشتی قائم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سعی اور جدوجہد سے کام لیا ہے- لوگوں نے ہمارے نازک ترین احساسات کو صدمہ پہنچایا اور ہر طرح کے طعنوں سے بھڑکایا لیکن باوجود ان کے اشتعال اور غیرت دلانے کے ہم نے اپنے جذبات کو دبائے رکھا اور فتنوں اور فسادات کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے مٹانے کی سعی کی ہے- لیکن ایک بات ہے جو میں اپنی جماعت کے دوستوں کو سنا دینا اور ساری دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مومن اگر ایک وقت اپنی نرمی` آشتی اور صلح جوئی کے ثبوت کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو جس وقت اس کی اس آزمائش اور اس امتحان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں سے آگے چلنے سے شریعت اسے روک دیتی ہے` اس وقت اس سے بڑھ کر بہادر اور جری بھی کوئی نہیں ہوتا- اس وقت اسے بہادری اور شجاعت دکھانے سے نہ دنیا کی حکومتیں روک سکتی ہیں` نہ گورنمنٹیں اس کا کچھ کر سکتی ہیں کیونکہ دنیا میں کسی کام سے رکنے اور باز رہنے کی دو ہی وجوہ ہوتی ہیں- اول شریعت اور عقل کہتی ہے کہ یہ کام نہ کرو- دوسرے بزدلی اور منافقت کہتی ہے اس سے پیچھے ہٹ جائو لیکن جب مومن کو یہ معلوم ہو جائے کہ شریعت اور عقل فلاں کام کرنے سے روکتی نہیں بلکہ اس کے کرنے کا حکم دیتی ہے تو ایک ہی بات باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ بزدلی اسے اس کام کے کرنے سے روک دے- مگر خدا کے بندے کبھی بزدل نہیں ہوتے- حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں-
صادق بزدلے نبود اگر بیند قیامت را
‏]text [tagجو شخص سچائی پر قائم ہو جو یہ سمجھتا ہو کہ جس رستہ پر چل رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کا رستہ ہے تو پھر اگر قیامت بھی آ جائے تو وہ بزدلی نہیں دکھایا کرتا- پس ہم اپنی ان قدیم روایات کو قائم رکھتے ہوئے جن کی وجہ سے ہم نے اپنے ہم قوموں اور اپنے بھائیوں سے لڑائی مول لی` ان کی ناراضگی برداشت کی` ان کے طعنے سنے` انہیں قائم رکھتے ہوئے سعی کریں گے کہ دنیا میں امن قائم رہے` فتنہ و فساد نہ پیدا ہو- مگر دنیا کو یہ بھی معلوم ہو جانا چاہئے جہاں ہم خود ابتداء نہ کریں گے وہاں اگر کوئی ہمارے متعلق ابتداء کرے گا تو ہم اس کی کوئی حرکت بھی برداشت نہیں کریں گے اور وہ` وہ کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہوگا- ہم کسی کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھاتے لیکن جو ہاتھ ہمارے خلاف اٹھے گا وہ شل کیا جائے گا` وہ قطع کیا جائے گا اور وہ کبھی کامیابی سے نیچے نہیں جھکے گا- ہم نے کبھی باتیں نہیں بنائیں` کبھی بڑھ بڑھ کر دعوے نہیں کئے اور اس وجہ سے لوگوں کے اعتراض بھی سنے- جب انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے کہ ہم یہ کر دیں گے` وہ کر دیں گے اس وقت ہم ان کے دعووں میں شریک نہ ہوئے اس لئے کہ ہم جانتے تھے یہ محض دعوے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں کیا جائے گا- اس پر ہمارے متعلق کہا گیا یہ بزدل ہیں اس لئے پیچھے ہٹ گئے ہیں- مگر کر کے انہوں نے بھی کچھ نہ دکھایا- صرف باتیں کر کے رہ گئے-
غرض ہم نے کبھی نہیں کہا کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے اور ہم تو لوگوں کے زخم مندمل کرنے آئے ہیں نہ کہ خون بہانے کے لئے- پس ہم اب بھی یہی کہیں گے کہ ہم دنیا میں امن اور صلح قائم کریں گے- مگر باوجود اس کے میں بتا دینا چاہتا ہوں- اگر کوئی ہمارے امنپسندی کے جذبات سے غلط فائدہ اٹھا کر قدم اٹھانا چاہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی جماعتوں نے کبھی پیٹھ نہیں دکھائی اور پہلوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی پیٹھ دکھانے کے لئے تیار نہیں ہیں- مگر میں نے بتایا ہے ہم یوں دعوے نہیں کیا کرتے اور اس وقت بھی میں کوئی دعویٰ کرنا پسند نہیں کرتا اسی لئے میں اس بات کو طول دینا نہیں چاہتا بلکہ صرف اتنا کہتا ہوں کہ جب کوئی ایسا موقع آئے گا اس وقت ہم دکھا دیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا کرتے ہیں- مومن کا کام وقت اور موقع پر کر کے دکھانا ہوتا ہے اس لئے اسے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں ہوتی- لیکن چونکہ خیالات کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے دوسرے دھوکا کھا سکتے ہیں اس لئے میں فساد بڑھانے کی غرض سے نہیں بلکہ امن پسندی کی نیت سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم قیام امن کے لئے سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتے جس سے بے غیرتی اور بے حمیتی پیدا ہو- مذبح کے سوال پر میں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سوال یہ نہیں کہ سکھوں اور ہندوئوں نے اینٹوں کی ایک چار دیواری گرا دی- یا یہ کہ ایک خاص غذا کھانے سے مسلمانوں کو روک دیا بلکہ سوال ہے کہ کوئی قوم اپنی نجابت اور شرافت کو ثابت کرنے کے لئے کبھی ایسی زندگی برداشت نہیں کر سکتی کہ ایک دوسری قوم اسے کہے کہ جو میں کہوں وہ کرے اور جس کی میں اجازت دوں وہ کھائے- اس قوم سے بڑھ کر بے غیرت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی جو اپنے کھانے پینے کو دوسری قوم کے اختیار میں دے دے- اسلام نے کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا کہ اس کی تعلیم پر عمل کرے لیکن اس بات کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تعلیم پر چلنے کیلئے مجبور کرے- کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندو ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک کہتے تو یہ ہیں کہ اسلام جبر کی تعلیم دیتا ہے مگر جبر خود کرنا چاہتے ہیں اور گائے کا گوشت جبراً بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اسلام نے تو ان معاملات میں بھی جبر کرنے کی اجازت نہیں دی جو کہ گائے کی نسبت بہت اہم ہیں- مثلاً سود خوری- اسے خدا سے لڑائی قرار دیا گیا ہے- مگر ہم روزانہ بنیوں اور مہاجنوں کو دیکھتے ہیں کہ سودی کاروبار کرتے ہیں- مگر ہم ان کی بہیوں کو چاق نہیں کر دیتے- لیکن اگر یہی طریق جاری ہو جائے کہ جو بات کسی کو دوسرے مذاہب والوں کی ناپسند ہو` اس سے جبراً روک دے تو ہندوئوں کو معلوم ہونا چاہئے- اسلام نے سودخوری کو خدا سے جنگ قرار دیا ہے- اگر اسی اصل پر عمل ہونا چاہئے جو ہندو گائے کے متعلق قرار دے رہے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی حق حاصل ہونا چاہئے سودی لین دین کرنے والوں کو جبراً روک دیں- ان کی بہیاں پھاڑ دیں اور ان کے مکان گرا دیں- کیا دوسری قومیں مسلمانوں کو یہ حق دینے کے لئے تیار ہیں- کہا جاتا ہے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم تو نہیں ہے- ہم کہتے ہیں کیا وید میں سود لینے کا حکم ہے اور لکھا ہے کہ جو سود نہ لے گا اس کی مکتی نہ ہوگی- اگر نہیں تو گائے اور سود کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے- انہیں ان کا مذہب سود لینے سے روکتا ہے- لیکن ہمارا مذہب گائے ذبح کرنا جائز قرار دیتا ہے اور سودی کاروبار کو خدا سے جنگ بتاتا ہے- پھر ہم مسلمان ہی گائے کا گوشت کھاتے ہیں دوسرے ہماری نقل نہیں کرتے- مگر ہندوئوں کا سودی کاروبار دیکھ کر کچھ مسلمان بھی سود لینے لگ گئے ہیں- اگر اسی اصل پر عمل کرنا چاہئے تو کیا دوسری قومیں اس کے لئے تیار ہیں؟ ہمیں تو اس اصل کی صحت سے انکار ہے- لیکن جو اس پر عمل کرتے ہیں کیا وہ یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ مسلمانوں کو ان کی جو بات ناگوار ہو اس میں وہ بھی جبر کر لیں- کیا اس طرح ملک میں امن قائم رہ سکتا ہے اور ملک کے باشندے امن کی زندگی بسر کر سکتے ہیں- اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جہاں مسلمانوں کا زور ہوا وہاں مسلمانوں نے ہندوئوں کو دبا لیا- اور جہاں ہندوئوں کا زور ہوا وہاں انہوں نے مسلمانوں کو دبا لیا- اس سے نہ کوئی قوم قائم رہ سکتی ہے نہ امن قائم ہو سکتا ہے- جب ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں تو اس سچائی کو تسلیم کرنا پڑے گا- کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے زندگی بسر نہیں کی جا سکتی- منہ سے سوراج سوراج۱~}~ کہنے سے سوراج حاصل نہیں ہو سکتا- نہ وطنیت` وطنیت کہنے سے قائم ہو سکتی ہے- بلکہ جب یہ سمجھ لیں کہ ہندوستان میں کئی مذاہب قائم ہیں جن کا آپس میں اختلاف ہے اور ہر ایک کا حق ہے کہ اپنے اپنے مذہب پر چلے- دوسرے کو کسی کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دینا چاہئے اس وقت وطنیت قائم ہو سکتی ہے- لیکن جب تک اس بات کو تسلیم نہ کر لیا جائے اور اس کے مطابق زندگی بسر نہ کی جائے اس وقت تک وطنیت قائم ہو سکتی ہے نہ سوراجیہ مل سکتا ہے-
ہم اس رواداری سے کام لینے کے لئے تیار ہیں اور اس کا عملی ثبوت دے رہے ہیں- ہمارے مرکز میں غیر مذاہب کے لوگ ایسے کام کرتے ہیں جن سے مسلمانوں کے احساسات کو شدید صدمہ پہنچتا ہے مگر ہم ان میں دخل نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں ہر ایک کی مرضی اور اختیار ہے` جو چاہے کرے- جب دوسروں کے متعلق ہمارا یہ رویہ ہے تو ہم یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ وہ چیز جو ہمارے مذہب نے ہمارے لئے جائز قرار دی ہے وہ دوسروں کے دبائو پر چھوڑ دیں- ہم اپنی مرضی اور اختیار اور سمجھوتہ سے جو چاہیں چھوڑ دیں مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی نسلوں میں یہ احساس پیدا ہونے دیں کہ فلاں چیز ہم سے زبردستی چھڑا دی گئی ہے- اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ ہم اپنی اولاد کو ہمیشہ کے لئے ہندوئوں اور سکھوں کی غلامی میں دے دیں- پس موجودہ حالات میں ذبیحہ گائے کا سوال مسلمانوں کے لئے ایسا اہم ہے کہ اس پر ان کی اولادوں کی غلامی اور آزادی کا انحصار ہے- دوسری طرف جو لوگ ذبیحہ گائے کو روکنا چاہتے ہیں وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے احساسات حد سے بڑھے ہوئے ہیں ورنہ ان کا حق نہیں کہ ایسا کریں کیونکہ جو گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں وہ ان کے مذہب کے لوگ نہیں بلکہ الگ مذہب کے ہیں اور دوسروں پر جبر کرنے کا انہیں کیا حق ہے- بہرحال انہوں نے جو جبر کا نمونہ دکھایا ہے اس نے مسلمانوں کو بتا دیا ہے کہ یہ ان کی غلامی اور حریت کا سوال ہے اور اس وجہ سے ہم اسے حل کرنے کے لئے مجبور ہیں- ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی ہے` ان میں کوئی انتظام نہیں` انہیں پھاڑنے کے کئی طریق برادران وطن جانتے اور ان پر عمل کرتے رہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں ہم حق کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے کامیاب ہونگے کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی پس اگر ہمسایہ قوموں نے ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تو ہم نہ صرف پنجاب کے بلکہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو منظم کریں گے تا کہ وہ اپنے حقوق حاصل کریں- اور غیر مسلموں کے حد سے بڑھے ہوئے احساسات مٹا دیں اس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی- جو اس بات کے لئے مسلمانوں کو مجبور کر رہے ہیں-
ہم نے ان لوگوں کا ہمیشہ بے حد خیال رکھا- یہاں کے لوگ گواہ ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہاں سے اس لئے نکال دیا کہ اس نے گائے کا گوشت فروخت کیا اور جب تک میں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ اس کام کی واقعی ضرورت ہے اس وقت تک اس کی اجازت نہیں دی- ممکن ہے یہاں کے لوگ غصہ کی حالت میں اس کا انکار کر دیں- جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ پہلے گورنمنٹ نے اجازت نہیں دی تھی نہ کہ آپ نے روکا تھا حالانکہ اس وقت میں نے افسروں کو اجازت دینے سے روکا تھا اور میرے پاس قادیان کے ایک معزز ہندو کا خط موجود ہے جس میں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ میں نے ہی پہلے مذبح کو روکا تھا- غرض ہم نے ہر طرح ان کا خیال رکھا اور لمبے عرصہ تک رکھا- حالانکہ اس عرصہ میں بھی یہ لوگ ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر طرح کوشش کرتے رہے اور میں سمجھتا ہوں جو طریق انہوں نے اس دفعہ اختیار کیا اگر اس کی بجائے پہلی طرح ہی میرے پاس آتے تو جس قدر ممکن ہوتا میں ان کا خیال رکھتا- اور میرے ذہن میں ایسی تجاویز تھیں کہ ان پرعمل کرنے سے ہندو اور سکھ صاحبان کی دلجوئی ہو سکتی تھی مگر ان میں سے ایک فریق نے تو دھمکی دی کہ اگر مذبح جاری ہوا تو فساد ہو جائے گا اور چونکہ دھمکی کوئی باغیرت انسان برداشت نہیں کر سکتا اس لئے میں نے بھی کہہ دیا جو فساد کرنا چاہتے ہوں وہ کر کے دیکھ لیں- دوسرا فریق ملنے کا وعدہ کر کے نہ آیا- اس نے سمجھا وہ زور سے جو چاہے منوا لے گا- ورنہ اگر یہ لوگ میرے پاس آتے تو انکا مدعا ان کے اختیارکردہ طریق سے زیادہ بہتر حاصل ہوتا- میں نہیں سمجھتا گورنمنٹ کس طرح ایسا ظالمانہ اور خلافعقل فعل کر سکتی ہے کہ مذبح کو روک دے- لیکن اگر وہ ایسا ہی کرے تو بیسیوں طریق ایسے ہیں جن پر عمل کیا جا سکتا ہے اور میں نے معلوم کر لیا ہے کہ ذبیحہ گائے گورنمنٹ کے روکنے سے بھی نہیں رک سکتا اور قانون کے اندر رہ کر اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور مذبح سے بھی زیادہ کیا جا سکتا ہے- پس اگر مذبح کو روک بھی دیا گیا تو ہم قانون کے الفاظ کی تو پابندی کریں گے مگر اس کی روح کو کچل دیں گے- اور خود کئی ہندوئوں نے میری اس چٹھی کے جواب میں جو میں نے شائع کی ہے تسلیم کیا ہے کہ قانون کے ذریعہ اس کاتصفیہ نہیں ہو سکتا اور نہ قانون کے ذریعہ ذبیحہ گائے روکا جا سکتا ہے ایسی باتیں آپس کے سمجھوتہ سے ہی طے ہو سکتی ہیں- اور قانون کی نسبت زیادہ عمدگی سے طے ہو سکتی ہیں- مگر اس طریق کو چھوڑ کر جبر کا رنگ اختیار کیا گیا اس لئے ہم بھی مجبور ہیں کہ حریت کی روح دکھائیں اور اپنا حق حاصل کریں- پس ہم اب اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں- ہاں غور کرنے کیلئے اب بھی تیار ہیں بشرطیکہ پہلے مذبح قائم کر دیا جائے- جنہوں نے مذبح گرایا ہے وہ پہلے اسے بنا دیں اور پھر میرے پاس آئیں اور مجھ سے بات کریں- مذبح کے کھڑے ہونے سے پہلے نہیں- اس صورت میں ہم تمام وہ طریق اختیار کریں گے جن سے اپنی عزت قائم کر سکیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم کسی کے غلام ہو کر رہنے کیلئے تیار نہیں ہیں- میں نے بتایا ہے گورنمنٹ کے قانون کی پابندی کرنا ہمارے لئے مذہباً ضروری ہے مگر ایسے رستے ہیں کہ ان کے ذریعہ اس قانون کی غرض باطل کی جا سکتی ہے- چنانچہ ہماری جماعت کے ایک معزز شخص نے حکومت کے ایک بڑے افسر سے کہہ دیا تھا آپ جو چاہیں کر لیں میں بھی تمہیں حکومت نہیں کرنے دوں گا گایوں کے پیچھے ہی پھیراتا رہوں گا- تو وہ غلطی کا ازالہ کر کے آئیں- میں ہر وہ طریق اختیار کرنے کیلئے تیار ہوں جو ہماری عزت کو قائم رکھ سکے` ہماری ضرورت پوری کر سکے اور ان کے احساسات کا خیال رکھا جا سکے- غرض ہم ان کے احساسات کو زیادہ سے زیادہ مدنظر رکھیں گے- ورنہ نہ صرف ہم ہی ذبیحہ گائے پر زور دیں گے بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تحریک کریں گے- باوجود اس کے مقامی ہندوئوں کے تعلقات ہم سے اچھے نہ تھے- وہ جھوٹی باتیں ہماری طرف منسوب کر کے فتنہ پیدا کرنیکی کوشش کرتے رہتے تھے- میں نے ہمیشہ ان کا خیال رکھا اور جب ایک گذشتہ سال مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ سیاسی تعلقات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریک کی کہ گائے کی قربانی زیادہ کی جائے- تو میں نے اعلان کر دیا کہ ہندوئوں کی دل آزاری کی غرض سے ایسا نہ کیا جائے اس طرح قربانی نہ ہوگی مگر ہماری ان باتوں کا کوئی خیال نہ کیا گیا- ہماری امن پسندی کو بزدلی بتایا گیا اور کہا گیا قادیان کے اردگرد سکھوں اور ہندوئوں کے ۸۴ گائوں ہیں وہ مذبح قائم نہیں ہونے دیں گے- میں کہتا ہوں- اگر ۸۴ گائوں بھی ہوں کیا ہوا مومن تو ساری دنیا سے بھی نہیں ڈرتا- میں تو اگر اکیلا ہوتا اور ۸۴ چھوڑ ۸۴ لاکھ گائوں بھی اردگرد ہوتے اور عزت کا سوال ہوتا تو میں اکیلا ہی گائے ذبح کرتا اور سب سے کہہ دیتا آئو جو کر سکتے ہو کر لو- انسان زندہ رہتا ہے کچھ کرنے کیلئے- اگر اس کی عزت ہی نہ رہی تو اس نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے کس کے لئے زندہ رہے- ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہیمن قتل دون مالہ و عرضہ فھو شھید ۲~}~کہ جو اپنے مال اور عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے- پس مومن موت سے نہیں ڈر سکتا- اگر کوئی اسے موت کی دھمکی دیتا ہے تو وہ بڑی خوشی سے اسے خیر مقدم کرتا ہے کہ آئو جو مارنا چاہتا ہے مار ڈالے- مگر جن کو خدا نے زندہ رکھنے کیلئے پیدا کیا ہے انہیں کون مار سکتا ہے- مومن تو اس دیو کی طرح ہوتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے خون کی ایک ایک بوند سے ایک ایک دیو پیدا ہو جاتا تھا- اگر کوئی ایک احمدی کو مارے گا تو اس کی جگہ سو کھڑے ہو جائیں گے جس کا جی چاہے یہ تماشہ دیکھ لے- اور ہم سے پہلے کونسی کمی کی گئی ہے لیکن ہمارا کیا بگاڑ لیا- ابھی دیکھ لو ہندوئوں اور سکھوں نے مذبح کی اینٹیں ہی جدا کی تھیں کہ سارے مسلمانوں کے دل اکٹھے ہو گئے- اگر اس قسم کے جبر سے یہ لوگ کام لیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے- مسلمانوں میں قومی غیرت بھڑکے گی اور مسلمانوں کا تفرقہ جس کا کوئی علاج نظر نہیں آتا اس طرح دور ہو جائے گا- پس ہم ان دھمکیوں سے گھبراتے نہیں- ہاں کوئی صدمہ ہے تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں جو صلح و آشتی پیدا کرنا چاہتے ہیں اسے نقصان نہ پہنچے- ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی عزت قائم رکھنے اور امن و آشتی سے زندگی بسر کرنے کی توفیق دے- ہم خود بھی امن میں رہیں اور اپنے ہمسایوں کو بھی امن دیں- غرض یہ ایک اہم معاملہ ہو گیا ہے اور اس کا سب اسلامی فرقوں سے تعلق ہے- میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اس قسم کے نقصان ہمیں اس لئے پہنچ رہے ہیں کہ جن امور میں ہمیں اتحاد کرنا چاہئے ان میں نہیں کرتے- اس وجہ سے ہم سے دوسری قومیں وہی سلوک کر رہی ہیں جو ایک جاٹ نے ایک سید ایک مولوی اور ایک ان کے خادم سے کیا تھا کہ ان تینوں کو اکیلے اکیلے کر کے خوب پیٹا تھا- مگر میں سمجھتا ہوں مسلمانوں میں یہ بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جن باتوں میں ہم متفق ہو سکتے ہیں ان میں متفق ہو جانا چاہئے- میں نے مسلمانوں کی تنظیم کے متعلق ایک سکیم سوچی ہے جو ایسے اصول پر ہے جو مسلمان خود تسلیم کر لیں- پہلے قادیان کے اردگرد اور ضلع گورداسپور کے مسلمانوں میں اسے جاری کرنے کا ارادہ ہے- پھر وسعت دی جائے گی اگر مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں ہیں اور جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے` کھل گئی ہیں تو دوسری قومیں خود بخود انہیں حقوق دے دیں گی- اب وقت نہیں ہے کیونکہ مغرب کی نماز قریب ہے کہ میں سکیم کے متعلق کچھ کہوں- میرا ارادہ ہے لوگوں کو جمع کر کے یہ سکیم ان کے سامنے پیش کروں اور پھر کارروائی شروع کی جائے- میں اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ قادیان کے دوسرے مسلمانوں سے جو کشیدگی چلی آتی تھی وہ اس موقع پر دور ہو گئی- اور میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے دوست خیال رکھیں گے کہ یہ اتحاد مستقل ہو اور وہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے- میں نے اس کے لئے بھی سکیم تجویز کی ہے کہ اگر کوئی اختلاف پیدا ہو تو کس طرح اسے دور کیا جائے-
آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دعویٰ کرنے کی بجائے ہمیں اپنے عمل سے ثبوت دینے کی توفیق دے- میں مظلوم کی موت کو ظالم کی زندگی سے بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ مظلوم خدا کا مقرب ہوتا ہے اور ظالم خدا سے دور پھینکا جاتا ہے- میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اسلام اور مسلمانوں کا اعزاز اور توقیر اس ملک میں اور اس سے باہر بھی قائم کرنے کی توفیق دے اور مسلمان اسی نظر سے دیکھے جائیں جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اجدا دیکھے جاتے تھے- )الفضل ۸-اکتوبر ۱۹۲۹ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مذبح کے سوال کو حل کرنے پر اہل قادیان کی پوری آمادگی
)فرمودہ ۶- اکتوبر ۱۹۲۹ء(
مذبح قادیان کے انہدام سے پیدا شدہ صورت حالات کے مطابق مشورہ اور غور کرنے کیلئے ۶-اکتوبر ۱۹۲۹ء بعد نماز عصر مسجد نور میں ایک جلسہ منعقد ہوا- جس میں حضرت خلیفہالمسیح الثانی نے تقریر فرمائی- حضور نے تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا-:
مذبح کے معاملہ میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہاں دو قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں- بعض لوگ تو یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ مذبح کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے اور ہمیں اس کے متعلق اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں اور بعض کا یہ خیال ہے کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے سستی ہو رہی ہے اور جس طرح کام ہونا چاہئے اس طرح نہیں چلایا جاتا- لیکن یہ دونوں خیال غلط ہیں-
مذبح کے متعلق کام کرنے کا وقت اب شروع ہونے والا ہے ہم نہیں کہہ سکتے گورنمنٹ اس کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی- اس وقت تک ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ یہی ہے کہ تمام باتیں کمشنر تک پہنچا دی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان باتوں پر عمل بھی کرے- اور ہمارا پچھلا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ گورنمنٹ شورش پسندوں سے ڈرتی ہے اور امن پسند لوگوں کے حقوق کی کماحقہ حفاظت نہیں کرتی حالانکہ گورنمنٹ کی ضرورت ہی کمزوروں کے لئے ہوتی ہے- زبردست تو خود لاٹھی سے اپنی حفاظت کر لیتے ہیں بلکہ ان کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہ رہے تا وہ اپنی من مانی کارروائیاں کریں- اگرچہ ہندوستان میں اس وقت بھی ایسے حکام موجود ہیں جو قانون کا احترام اور کمزوروں کی اعانت کرتے اور حق و انصاف کو ہرحال میں قائم رکھتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو حالات کے مطابق ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور اسے عمدہ پالیسی سمجھتا ہے- افسران بالا کے ساتھ گفتگو کرنے سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ان میں سے بعض مذبح کے موافق نہیں- بلکہ ڈپٹی کمشنر جس نے انگریزی انصاف کا پورا پورا نمونہ دکھایا ہے اور پوری پوری تحقیقات کے بعد جو دوسری جماعت کو بے صبر کرنے والی تھی اس کی اجازت دی ہے- افسران بالا نے اس کے بھی خلاف رائے دی ہے حالانکہ سنا گیا ہے کہ پہلے کمشنر مسٹر کینوے بھی اس سے متفق تھے لیکن باوجود اس کے یہ دونوں افسر تجربہ کار` مقامیحالات سے واقف اور علاقہ کے ذمہ وار تھے ان کی پراوہ نہیں کرتے- اور جب تک پورے زور کے ساتھ کوشش نہیں کی گئی افسران بالا نے واقعات کو معلوم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی- گویا وہ ایک ایسی قوم کو جو شروع سے وفاداری پر قائم رہی ہے قانون توڑنے پر مجبور کر رہے تھے اور دھتکار رہے تھے اور پوری کوشش کے بعد ہم صرف واقعات ان تک پہنچانے کے قابل ہو سکے ہیں- اب اس کا نتیجہ کیا ہوگا اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا- پس ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہونے والا ہے- اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی ایسا نظام قائم کر لیں کہ اگر فیصلہ ہہمارے خلاف ہو تو معاً اپنا کام شروع کر سکیں- میں نے بتایا ہے کہ ہم مذہباً پاپندی قانون کے لئے مجبور ہیں- اگر احمدیت کا جوا ہماری گردنوں پر نہ ہوتا تو یقیناً ہم بھی وہی طریقہ اختیار کرتے جو دوسرں نے کیا ہوا ہے اور یہ ہمارا گورنمنٹ پر کوئی احسان نہیں اور نہ اس کا بدلہ ہم اس سے چاہتے ہیں- اگرچہ گورنمنٹ کا فرض تھا کہ اس انسان کا احترام کرتی جس نے اس کے لئے ایک وفادار جماعت پیدا کر دی ہے ایسا نہ کرنا گورنمنٹ کی احسان فراموشی ہے- مگر بہرحال ہم پابندی قانون کے لئے مجبور ہیں اور چاہے طبائع میں کتنا ہی جوش ہو` ہمارے دشمن` شریک` ساتھی` واعظ سب ہمیں طعنے دیں ہم نے بہرحال قانون کی پابندی کرنی ہے- لیکن قانون کے معنی ڈپٹی کمشنر` کمشنر یا گورنر کا حکم نہیں بلکہ شہنشاہ معظم کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق گورنمنٹ کے معنی PEOPLE) THE OF (GOVT یعنی ملک کی آواز کے ہیں یعنی گورنمنٹ رعایا کی رائے کا نام ہے- پس جب گورنمنٹ کے معنی یہ ہیں تو اگر ہم اپنی آواز بلند ہی نہ کریں تو ہم تعاون کرنے والے کیسے ٹھہر سکتے ہیں- پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی نمائندگی کو زیادہ مضبوط کریں- اور پورے زور کے ساتھ اپنی آواز افسران بالا تک پہنچائیں- لیکن شرط یہ ہے کہ قانون شکنی نہ ہو اور ہمیشہ آئین کا احترام کیا جائے- پس ہم نے قانون کے اندر رہتے ہوئے اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں- یہ اصل ہے جس کے ماتحت ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہئے- عجیب بات ہے کہ میں نے اپنے خط میں جو لیڈروں کے نام لکھا جن الفاظ میں انہیں مخاطب کیا` وہی آج سے پچاس سال قبل گورنر جنرل لکھ چکا ہے جنہیں میں نے بعد میں دیکھا- ملتان کے کمشنر نے حکومت سے دریافت کیا کہ مذبح کے متعلق کیا قوانین ہیں- اس کے جواب میں گورنر جنرل نے لکھا کہ اس میں اس حد تک روک ہونی چاہئے کہ ہندوئوں کی دل آزاری نہ ہو- اس جواب پر اس نے ملتان میں گائو کشی بند کر دی کیونکہ اس نے اس کے معنی یہی سمجھے کہ جہاں ہندو ہوں وہاں چونکہ ان کی دلازاری ہوتی ہے` اس لئے گائوکشی نہیں ہونی چاہئے اور اپنے اس فیصلہ سے لوکلگورنمنٹ کو اطلاع دی- جس نے اسے لکھا تمہارا یہ فیصلہ الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور ساتھ ہی گورنر جنرل کو اطلاع دی کہ کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ آپ کے الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے جس پر گورنر جنرل نے لکھا نہ صرف یہ کہ ہمارے الفاظ کا ہی خیال نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی روح کے بھی خلاف ہے- گائوکشی مسلمانوں کا امتیازی نشان ہے اور اس کے بند کر دینے کے یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں ہندوئوں کی حکومت ہے اور مسلمان ان کے غلام ہیں- پس کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ غلط ہے اور گائوکشی کی عام اجازت ہے- اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ غلامی کی بدترین قسم ہے- دیہات میں جو لوگ ڈرتے ہیں` وہ چونکہ کمزور ہیں- اگر وہ اسے برداشت کرتے ہیں تو کریں- نبیوں کی جماعتیں حر ہوتی ہیں اور حریت پیدا کرنے آتی ہیں اس لئے ہم اسے قبول نہیں کرتے-
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم نے کہ میری جماعت گورنمنٹ کی وفادار ہے ہمیں غلامی سے بچا لیا- لوگ ہمیں غلام کہتے ہیں لیکن حقیقت میں غلام وہ ہیں جو اطاعت کو فرض نہ سمجھتے ہوئے مجبوراً اطاعت کرتے ہیں اور ہم مذہب کی پابندی میں ایسا کرتے ہیں- وگرنہ ہم اسے کبھی برداشت نہ کرتے اور فوراً ہتھیار لیکر نکل کھڑے ہوتے- ہماری شریعت نے تو ایمان میں بھی غلامی کو جائز نہیں رکھا- بظاہر یہ کمزوری معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے اس وقت کیوں سکھوں پر لٹھ نہیں چلایا لیکن یہ بہت بہتر ہوا ہے کیونکہ جہاں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں ہندو کہتے ہیں مسلمانوں نے ابتداء کی لیکن یہاں ان کے ظلم کا خالص نمونہ نظر آ رہا ہے- اور ہندو لیڈر غصہ میں دانت پیس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے کیوں مقابلہ نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی تعدی کا روشن ثبوت ہے- اور یہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ امن و امان سے رہنے کے متمنی نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ مسلمان چوہڑے` چمار اور گونڈبھیل کی طرح ملک کے اندر رہیں- اب مسلمان دیکھ لیں کہ وہ ایسی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں- ہندو برابر چند سال سے ایسی حرکات کر رہے ہیں- ایک جگہ فساد کرتے ہیں وہاں کے مسلمان دو تین ماہ شور مچا کر خاموش ہو جاتے ہیں تو دوسری جگہ کر دیتے ہیں پھر تیسری جگہ غرضیکہ فسادات کا ایک سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا ہے- جس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ مسلمان بزدل ہو جائیں اور خود بخود کہنے لگیں کہ ہمیں تمہاری غلامی منظور ہے-
غرضیکہ ہندو روز بروز دلیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مہابیر دل نے اعلان کیا ہے کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے لیکن مذبح نہیں بننے دیں گے- پس اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے جس پر غور کرنا ہے- اس کے دو پہلو ہیں- ایک مقامی جس سے باہر والوں کا تعلق نہیں ہے اور صرف قادیان یا اس کے ملحقہ دیہات سے جو یہاں سے گوشت لے جا سکتے ہیں تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہاں کے مذبح کا گوشت یہاں کے لوگ ہی کھائیں گے- اور دوسرا پہلو اس جبر کا ہے جو اس کے گرانے کے متعلق کیا گیا اور وہ تعدی کی روح جس کا مظاہرہ ہوا- یہ ساری دنیا کے احمدیوں بلکہ سارے مسلمانوں بلکہ دوسری اقوام سے بھی تعلق رکھتا ہے- مقامی حصہ کے متعلق تمام اخراجات مقامی جماعت کو برداشت کرنے ہونگے اگرچہ مرکزی نظام کے ماتحت ہی یہ کام ہوگا لیکن باہر کے لوگوں سے اس کے لئے مدد نہیں لی جائے گی- لیکن اس ظالمانہ روح کو توڑنا جیسا قادیان سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی دوسرے مقامات سے ہے اس لئے لوگوں کے اندر نئی زندگی اور ایسا جوش پیدا کرنا جس سے وہ ثابت کر دیں کہ وہ اس جبر کو ماننے کے لئے تیار نہیں یہ کام مرکز سے متعلق ہے- پس مرکزی حصہ کے متعلق تو باہر کی جماعتوں سے مدد لی جائے گی لیکن مقامی پہلو کی ہر قسم کی ذمہ داری مالی` جانی` مقامی لوگوں کو برداشت کرنی چاہئے- اگرچہ اس میں بھی مرکزی جماعت مدد دے گی لیکن وہ SUBSIDY قسم کی ہوگی- اصل بوجھ مقامی جماعت پر ہی ہوگا- یہ نہیں کہ اس کے لئے بھی باہر سے مدد مانگیں اور خود مجاور بن کر بیٹھے رہیں- یہ سپرٹ نہایت بری ہے- مقامی لوگوں کو تو ہرکام میں عملی نمونہ سے باہر والوں کی راہ نمائی کرنی چاہئے- اگرچہ باہر کے لوگ بھی اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں` لیکن ہمیں اپنی ذمہ واری کو خود محسوس کرنا چاہئے- پس آپ لوگ یہ سمجھ کر کہ اس رستہ میں آپ کو بہت سی قربانیاں کرنی پڑیں گی` بھوکے` پیاسے` ننگے رہنا پڑے گا` سپاہیانہ زندگی کی مشق کرنی ہوگی` راتوں کو جاگنا ہوگا` پہرے دینے ہونگے- ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں اور اس کام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں-
)حضور کے اس سوال پر تمام حاضرین نے بلا استثناء کھڑے ہو کر اس کام کو سرانجام دینے پر آمادگی کا اقرار کیا- پھر حضور نے دریافت فرمایا(-
جو لوگ اس معاملہ کو طول دینا مناسب نہ سمجھتے ہوں اور اسے یہیں ختم کر دینا چاہتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں- )جس پر ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہوا(-
)اس کے بعد حضور نے فرمایا(-
ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کی تنظیم کریں` لوگوں کو قانون سے واقف کریں` اس علاقہ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے- اس ضلع میں کثرت مسلمانوں کی ہے- ذیلداریاں اور آنریر مجسٹریٹیاں مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوئوں کے پاس بہت زیادہ ہیں- مسلمان قانون سے ناواقف ہیں ہمارا کام ہے کہ انہیں واقف کریں- انہیں بتائیں بلکہ اشتہار دیں کہ گائے کھائیں- یہ کوئی جرم نہیں ہے صرف یہ شرط ہے کہ پردہ کے اندر اسے ذبح کیا جائے- گائے کے ذبیح کرنے کی کہیں بھی ممانعت نہیں سوائے اس جگہ کے جہاں دفعہ۴۳ ہو- صرف اتنی احتیاط چاہئے کہ نمائش نہ ہو- اس وقت یہاں دفعہ ۴۳ ہے- لیکن اگر کمشنر نے فیصلہ خلاف سنا دیا تو اسی دن یہ منسوخ ہو جائے گی- پس ہمیں آج سے ہی سکیمیں بنانی چاہئیں کہ پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا-
)الفضل ۱۵-اکتوبر ۱۹۲۹ء(
۱~}~
حکومت خود اختیاری
۲~}~
بخاری کتاب المظالم باب من قتل دون مالہ میں >من قتل دون مالہ فھو شھید< کے الفاظ ہیں-
‏a.10.40
انوار العلوم جلد ۱۱
احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں
احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksn-cmj [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ داریاں
)فرمودہ ۵- اکتوبر ۱۹۲۹ء(
۵- اکتوبر ۱۹۲۹ء لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو جو ایڈریس پیش کیا گیا اس کے جواب میں حضور نے حسب ذیل تقریر فرمائی- سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں پہلے تو ممبرات لجنہ کا اپنی طرف سے اور اپنے خاندان اور اپنے ہمراہیوں کی طرف سے اس دعوت کے متعلق شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہماری آمد پر دی گئی ہے- اس کے بعد اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ لجنہ آہستگی کے ساتھ گو استقلال کے ساتھ اپنے لئے کام کے نئے میدان تلاش کر رہی ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر لجنہ اسی طرح کام کرتی چلی گئی تو حقیقتاً نہ کہ نام کے طور پر اسے ہم ایک مرکزی لجنہ قرار دے سکیں گے-
اس کے بعد جو کچھ لجنہ اپنے کام کو وسیع کرنے کے متعلق کر رہی ہے اس کی نسبت ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انجمنوں کی زندگی دراصل قانون کی زندگی ہوتی ہے- کسی ایک فرد سے کام لے کر بہت سے افراد کے ہاتھوں میں کام دینے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ افراد متحدہ جدوجہد کے احترام کے عادی ہو جائیں اور ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ اگر کسی وقت ایک لیڈر سے انجمن محروم ہو جائے تو کام کے تسلسل میں فرق نہ پیدا ہو- اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ اہم اور ضروری بات ہوتی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے اور قانون کی پابندی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ قانون مقررہ الفاظ میں موجود ہو- جہاں لجنہ کی ممبرات اپنے کام کو وسیع کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں وہاں انہیں اپنے ہی قانون سے باہر نہیں نکلنا چاہئے- اسی ایڈریس میں جو اس وقت پڑھا گیا ہے ایک سکول کا ذکر ہے مگر میرے پاس لجنہ کی جو رپورٹ پہنچتی رہی ہے اس میں اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں تھا جس رنگ میں اس کا ایڈریس میں ذکر ہے بلکہ اور رنگ میں تھا- لجنہ جب اپنے کام کی آپ ذمہوار ہے تو وہ ایسا ریزولیوشن پاس کر سکتی تھی جس کے ماتحت یہ سکول آ جاتا- ممکن ہے لجنہ نے اس کے متعلق ریزولیوشن پاس کیا ہو اور مجھے وہ ریزولیوشن نہ پہنچا ہو مگر جو پہنچا اس میں اور جس بات کا اس وقت ذکر کیا گیا ہے بہت فرق ہے- اس قسم کی اور خامیاں بھی لجنہ کے کام میں ہو جاتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ممبرات لجنہ کو یہ احساس نہیں کہ پہلے قانون ہونا چاہئے اور پھر اس کے ماتحت کام کرنا چاہئے- خواہ کوئی کتنا اچھا کام ہو لیکن اگر قانون سے پہلے شروع کیا جاتا ہے تو اس سے انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح برباد ہو جاتی ہے- اس کے مقابلہ میں خواہ کتنا تھوڑا کام ہو لیکن اگر اس کے متعلق قانون پہلے وضع کیا جاتا ہے اور کام پیچھے کیا جاتا ہے تو اس طرح قربانی اور ایثار کا مادہ ترقی کرتا اور انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح پیدا ہوتی ہے- پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں لجنہ کی ممبرات کام کی طرف قدم بڑھاتی ہیں وہاں کوئی ایسا کام نہ کریں نہ کوئی عہدہ دار ایسا کرے اور نہ ساری ممبرات کہ جس کام کے متعلق قانون نہ پاس ہو- اسے شروع کیا جائے- مجھے یاد ہے جب صدر انجمن کی بنیاد پڑی تو بعض ممبر ایسے کام خود بخود جاری کر لیتے جو انجمن کے اصول کے خلاف ہوتے- ہم ان کی اس بناء پر مخالفت کرتے کہ انجمن کے اصول کے خلاف کوئی کام نہ ہونا چاہئے- اس پر وہ کہتے دیکھو یہ اچھا کام نہیں ہونے دیتے- ہم ان کو جواب دیتے اگر کوئی اچھا کام ہے تو سو دفعہ اسے کرو مگر اس کے لئے قانون پاس کر لو- انجمن کے اصول کی خلاف ورزی کر کے کوئی کام کیوں شروع کرتے ہو-
پس ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے قانون پاس کرنے سے قبل کوئی کام نہ شروع کریں- خواہ وہ کام کتنا بڑا اور کتنا مفید ہی کیوں نہ ہو اور میں تو کہوں گا اگر جہاد بھی لجنہ کے فیصلہ پر منحصر ہو تو اس کے فیصلہ سے قبل وہ بھی شروع نہیں ہونا چاہئے-
دوسری بات جس کی طرف میں لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب کوئی جماعت نظام کے ماتحت کام کرنا شروع کرتی ہے تو چونکہ وہ پہلے نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادی نہیں ہوتی اس لئے کام کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے- ایسے اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہئے اس قسم کے اختلاف سے نظام کی وہ خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ابتدائی کاموں میں عموماً پائی جاتی ہیں- قانون کی خامیاں وکلاء کے بالمقابل کھڑے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہیں اور اس طرح قانون مکمل ہوتا چلا جاتا ہے- پس اگر لجنہ کے کاموں میں اختلاف پیدا ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اختلاف تو نقائص کی طرف توجہ دلاتا اور دوسرے کی خامیاں ظاہر کرتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون مکمل ہوتا جاتا ہے اور قانون کے مکمل ہونے سے کام کو پختگی حاصل ہوتی جاتی ہے- پس اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اس کی قدر کرنی چاہئے- دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے-اختلاف امتی رحمہ ۱~}~میری امت میں اختلاف رحمت ہے- یہ ایسا ہی اختلاف ہے جو ایک نظام کے ماتحت` ایک انجمن کے ماتحت اور خلافت کے ماتحت کیا جائے- ہاں جو اختلاف اس کے مقابلہ میں اور اس کے باہر ہو کر کیا جائے` وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے- ہر فریق جب یہ کہے کہ ہمیں جو اختلاف ہوگا وہ جب قانون اور نظام کے خلاف ہوگا ہم اسے چھوڑ دیں گے اور نظام کے ماتحت کام کریں گے تو ایسا اختلاف نقصان کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فائدہ رسان ہوتا ہے- ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے ان کے سامنے کاموں کا بہت بڑا میدان پڑا ہے اور ان کے کرنے کے ایسے ایسے کام ہیں جو ابھی ان کے ذہن میں بھی نہیں آ سکتے- ایک زمانہ تھا جب میں ممبرات لجنہ کے سامنے تقریر کرتا اور بتاتا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے تو ممبرات تقریر سن کر کہتیں ہم خوب اچھی طرح تقریر سمجھ گئی ہیں مگر یہ تو بتایا جائے ہم کام کیا کریں- میں پھر تقریر کرتا اور پھر ان کی طرف سے یہی سنتا کہ ہم نے سب باتیں سن لی ہیں مگر جو کام ہمیں کرنا چاہئے وہ بتایا جائے- گویا وہی حالت ہوتی جو ساری رات زلیخا کا قصہ سنانے والے کے متعلق ہوئی تھی کہ ساری رات سن سن کر پوچھنے لگے- زلیخا مرد تھا یا عورت؟ میں ان کی بات پر حیران ہوتا کہ میں نے تو انہیں دنیا بھر کے کام بتا دیئے ہیں مگر یہ کہہ رہی ہیں بتائو ہم کیا کام کریں- لیکن اب میں دیکھتا ہوں ان میں کام کرنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور انہوں نے جوش سے کام شروع کئے ہوئے ہیں- لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے ان امور کے ساتھ اختلاف کا ہونا بھی لازمی ہے ان کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے- وہ قوم جو ایسے اختلاف کو جو اصولی نہیں ہوتے برداشت نہیں کرتی اور اختلاف کرنے والوں کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی بلکہ علیحدہ ہو جانے پر مجبور کرتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی-
مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا باعث یہی ہے کہ جسے کوئی اختلاف ہو اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے حالانکہ اگر اختلاف اصولی نہیں نظام کو نہیں توڑتا اور اصل جڑ پر ضرب نہیں لگاتا تو اس کا ہونا ضروری ہے اور اسے برداشت کرنا چاہئے- ہاں اگر اختلاف اصولی ہو اسکا جڑ پر حملہ ہو تو ایسا اختلاف کرنے والے کو علیحدہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے- جیسے اس عضو کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے جس میں ایسے جراثیم پیدا ہو جائیں جو سارے جسم کو تباہ کر دینے والے ہوں-
ان نصائح کے بعد میں سمجھتا ہوں لجنہ آہستہ آہستہ اپنے کام کو سمجھنے لگ جائے گی اور اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ ہم فخر کر سکیں گے- کہ جس طرح ہماری جماعت کے مرد منظم ہیں اور قانون کے ماتحت کام کرنا جانتے ہیں اسی طرح ہماری جماعت کی عورتیں بھی منظم ہیں-
اس کے بعد چونکہ اس ایڈریس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہاں پیش آیا اور جو مذبح کا واقعہ ہے- اس کی طرف میں اپنی تقریر کا رخ پھیرتے ہوئے لجنہ کو مخاطب کرتا ہوں- لجنہ اماء اللہ میں گو ایسی عورتیں نہیں ہیں جن کی اولاد ہو` یا جوان اولاد ہو- الاماشاء اللہ- لیکن بوجہ اس کے کہ یہی عورتوں کی قائمقام ہیں اس لئے میں انہیں اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس زمانہ میں عورتوں پر عائد ہوتا ہے- ہماری جماعت ہر موقع پر باامن جماعت رہی ہے- اب بھی باامن ہے اور باامن رہے گی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم کسی جبر سے اپنے حقوق چھوڑ دیں اور ان کی حفاظت نہ کریں- دنیا میں سب سے بڑھ کر باامن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر آپ کی آخری عمر لڑائیوں میں ہی گذری- دراصل امن اور جنگ متضاد نہیں- بعض دفعہ امن اور جنگ ایک ہی ہوتا ہے بعض دفعہ جنگ امن کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنگ ایک حد تک امن کے خلاف ہوتی ہے اور ایک حد تک اس کے موافق- بعض دفعہ امن کے قیام کے لئے جنگ کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ امن کی بربادی کے لئے جنگ کی جاتی ہے اور بعض دفعہ بین بین حالت ہوتی ہے- یعنی نیت تو امن قائم کرنے کی ہوتی ہے لیکن فعل امن کو برباد کرنے والا ہوتا ہے- یا نیت تو امن کو برباد کرنے والی ہوتی ہے لیکن فعل امن قائم کر دیتا ہے- پس جب کہ قیام امن کے لئے جنگ بھی ضروری ہوتی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری اولادیں بہادر اور مضبوط دل کی ہوں- ہمارے ملک میں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ جب مردوں کے لئے کوئی خاص کام کرنے کا وقت آتا ہے تو عورتوں میں شور پڑ جاتا ہے کہ ہمارے بچے` ہمارے بھائی` ہمارے خاوند` ہمارے دوسرے رشتہ دار تکلیف میں مبتلاء ہو جائیں گے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں مرد جری اور بہادر ملے تھے وہاں عورتیں بھی نہایت قوی دل اور مضبوط حوصلہ والی ملی تھیں- یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے- ورنہ اگر میدان جنگ میں جانے کے لئے گھر سے نکلنے والا مرد گھر میں روتی ہوئی ماں` چلاتی ہوئی بیوی اور بے ہوش بہن کو چھوڑ کر جائے گا تو کوئی بہادرانہ کام نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کے دل پر غم کا بادل چھایا ہوا ہوگا اور اسے خیال ہوگا معلوم نہیں گھر میں کیا کہرام مچا ہوا ہوگا- لیکن اگر وہ گھر والوں کو ہشاش بشاش چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کا دل خوش ہوگا اور وہ سمجھے گا میں اپنے گھر میں کسی کو افسردہ دل نہیں چھوڑ آیا اور اس خوشی میں وہ پوری طرح جان بازی دکھا سکے گا-
ہماری جماعت جوں جوں ترقی کر رہی ہے اس کے سامنے نہایت اہم کام آ رہے ہیں اور ہم نہیں جانتے ہمیں آگے قدم بڑھانے کے لئے کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی اور خدا ہی جانتا ہے کتنے مستقبل قریب میں ہمارے سپرد حکومتوں کا انتظام ہوگا اور اس کے لئے ہمیں کن حالات میں سے گزرنا پڑے گا- پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت کی عورتیں بہادر اور مضبوط دل ہوں تا کہ ان کی اولاد بہادر اور جری ہو- میں جہاں اپنی جماعت کی عورتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم میں` تربیت میں` نظام میں` خدمت دین میں ترقی کریں وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ اولاد کو بہادر بنائیں اور اس کے دل ایسے مضبوط کریں کہ جو بھی قربانی انہیں کرنی پڑے` وہ خوشی سے کریں- وہ جب قربانی کے لئے گھروں سے نکلیں تو خوش خوش نکلیں نہ کہ دل کو دکھ دینے والے نظارے دیکھتے ہوئے نکلیں- چونکہ اب مغرب کی اذان ہو گئی ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ایسی روح پیدا کرے جس سے بہترین نظام قائم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی روحانیت بھی عطا کرے تا ایسا نہ ہو کہ نظام باقی رہ جائے اور روحانیت نہ رہے- مجھے لجنہ کی طرف سے رقعہ دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جس سکول کا ایڈریس میں ذکر ہے اس کے متعلق ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا مجھے کوئی ایسا ریزولیوشن نہیں پہنچا اگر پاس ہوا ہو تو لکھ کر مجھے بھیج دیا جائے میں اسے دیکھ لوں گا-
)الفضل۱۱-اکتوبر۱۹۲۹ء(
۱~}~
الجامع الصغیر للسیوطی جلد۱ صفحہ۱۱ مطبع خیریہ مصر ۱۳۲۱ھ
;::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
انوار العلوم جلد ۱۰
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں
رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو اور ان کو تیرے نشانات سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے اور انہیں پاک کرے-
ایک سرسری نگہ ڈالنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نبی کے کاموں کا ایک بہترین نقشہ ہے جو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچ دیا ہے- نبی کا کام )۱(اللہ تعالیٰ کی آیات کا سنانا- )۲(کتاب کا سکھانا- )۳(حکمت کی باتوں کی تعلیم دینا اور )۴(لوگوں کے نفوس کو پاک کرنا ہے- کیا اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں کوئی اور نقشہ نبی کے کاموں کا کھینچا جا سکتا ہے؟ آئو اب ہم دیکھیں کہ ان کاموں کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ثابت ہوتے ہیں-
نبی کا پہلا کام آیات سنانا
پہلا کام نبی کا آیات کا سنانا بتایا گیا ہے- آیت کے معنی عربی زبان میں عبرت اور دلیل کے ہوتے ہیں- جو چیز کسی اور چیز کی طرف راہنمائی کرے وہ آیت ہے پس آیات کے سنانے کا یہ مطلب ہوا کہ ایسی باتیں بتائیں جو امور غیبیہ پر ایمان لانے کا موجب ہوں کیونکہ امور غیبیہ ایسے امور ہیں کہ انسان ان تک خود نہیں رسائی پا سکتا خدا تعالیٰ کا وجود سب سے مقدم ہے بلکہ ایک ہی حقیقی وجود ہے مگر وہ اس قدر وراء الورا ہے کہ اس تک پہنچنا انسانی طاقت سے بالا ہے اس تک پہنچنے کا ذریعہ محض وہ دلائل اور براہین اور وہ عرفان اور مشاہدہ ظہور صفات الہیہ ہو سکتا ہے جو ہمیں اس کے قریب کر دے اور اس کے وجود کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک باقی نہ چھوڑے یہی حال قانون قدرت کے ظہور کا اور ملائکہ کا اور رسالت کا اور کلام الہی کا اور بعثت مابعدالموت کا ہے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کی سمجھ انسان کو براہ راست ہو سکتی ہے- بلکہ ان میں سے ہر ایک شے ایسے دلائل کی محتاج ہے جو ہمیں روحانی اور عقلی طور پر ان کے قریب کر دیں- ان سے ہمیں ایسا اتصال بخش دے کہ گویا ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا-
امور مذکورہ بالا کی اہمیت اس امر سے ثابت ہے کہ جس قدر بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ان امور پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی نام کے نیچے ان امور کو اپنے معتقدات میں شامل رکھتے ہیں خواہ تشریحات میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو- پس جو شخص بھی ان امور پر ایمان لانے کو ہمارے لئے آسان کر دیتا ہے اور ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جس جگہ کھڑے ہو کر ان امور کا گویا ایسا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی وہ نبوت کے کام کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے-
ــــ٭٭٭
‏del.15
انوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن نمبر۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضائل القرآن
نمبر۵
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضلیت کی نویں دلیل
انبیاء سابقین کی رسول کریمﷺ~ کی بعثت کے متعلق پیشگوئیاں
اور
قرآن کریم کی آٹھ اصولی اصلاحات
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۲ء بمقام قادیان(
تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے سورہ اعراف کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی-:
قال عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیء فسا کتبھا للذین یتقون ویوتون الذکوہ والذین ھم بایتنا یومنون الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوریہ و الانجیل یامرھم بالمعروف و ینھم عن المنکر ویحل لھم الطیبت و یحرم علیھم الخبث و یضع عنھم اصرھم والاغلل التی کانت علیھم فالذین امنوا بہ و عزروہ و نصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السموت والارض لا الہ الا ھو یحی ویمیت فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باللہ و کلمتہ وانبعوہ لعلکم تھتدون
اس کے بعد فرمایا-:
کل کی تقریروں کے بعد میرا گلا شام تک تو اچھا تھا- لیکن رات کو ملاقاتوں کے بعد گلا بیٹھ گیا- ۱۲ بجے کے قریب سردی لگنے کی وجہ سے بات کرنے میں تکلیف شروع ہوئی اور ایک بجے رات جب ملاقاتیں ختم ہوئیں تو گلا بہت کچھ بیٹھا ہوا تھا- اس لئے گو میں اس وقت اونچی آواز سے نہیں بول سکتا- لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑی دیر میں ہی حلق گرم ہونے کے بعد آواز بلند ہو جائیگی- شروع میں ممکن ہے کہ تقریر کے بعض حصے احباب تک نہ پہنچ سکیں لیکن احباب کو صبر سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھنی چاہئے کہ جب کہ وہ دور دور سے کلمات حق سننے کے لئے یہاں آئے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس سے امید رکھتے ہوئے میں حق کہنے کیلئے کھڑا ہوا ہوں تو ہم دونوں پر وہ فضل فرمائے گا اور مجھے کہنے اور آپ لوگوں کو سننے کی توفیق عطا فرماویگا-
دینی مجالس کی اہمیت
مجھے افسوس ہے کہ بعض دوست گو وہ نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں- باوجود سمجھانے کے پھر بھی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے اور باہر پھرتے رہتے ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ نمائشی ممبر بھی ہوتے ہیں اور وہ مجلس میں اپنی نمائش کرنے کے بعد جگہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں- قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ ایسے نمائشی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی تھے- جب مجلس منعقد ہوتی تو وہ بھی آجاتے- گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہر ایک پر نظر پڑتی ہے- صحابہؓ ان کو دیکھتے لیکن جب کام شروع ہو جاتا تو آنکھ بچا کر کھسکنے لگتے- اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتا ہے- قدیعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا وہ لوگ تم سے نظر بچا کر مجلس سے بھاگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے- ایسے نمائشی ممبر یہاں بھی ہوتے ہونگے- مگر کئی لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے- اور وہ جانتے نہیں کہ ان کا یہ فعل کیسا ہے- حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر کر رہے تھے کہ آپﷺ~ نے فرمایا- اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس مجلس میں ایک شخص آیا- اس نے دیکھا کہ مجلس بھری ہوئی ہے- اس تک آواز مشکل سے پہنچتی تھی- مگر اس نے یہ خیال کر کے کہ ذکر الہی ہو رہا ہے یہاں سے جانا نہیں چاہئے- شرم کر کے بیٹھ گیا- خدا تعالیٰ نے کہا- میں بھی اس کے گناہوں کے متعلق شرم کروں گا اور ان کے بارے میں گرفت نہیں کرونگا- پھر ایک اور شخص آیا- اس نے بھی دیکھا کہ مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں- مگر وہ ادھر ادھر تلاش کر کے ایسی جگہ بیٹھ گیا- جہاں سے آواز سن سکے- خدا تعالیٰ نے فرمایا- جس طرح یہ شخص کوشش کر کے آگے بڑھا میں بھی اسے اپنے قریب میں جگہ دونگا- پھر ایک تیسرے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خبر دی- وہ آیا مگر یہ دیکھ کر کہ آواز نہیں پہنچتی واپس چلا گیا- اللہ تعالیٰ نے فرمایا- کہ جس طرح یہ شخص ذکر الہی کی مجلس سے واپس چلا گیا اسی طرح میں بھی اس سے منہ پھیر لوں گا اور رحمت کے دروازے اس کے لئے نہیں کھولوں گا-
غرض ذکر الہی کی مجلس کے آداب ہوتے ہیں- وہ لوگ جن کے دل میں مرض تھا ان کا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی علاج نہ کر سکے- یہی فرمایا کہ ایسا شخص آیا اور چلا گیا- جب ایسا بیمار دل رکھنے والے کا علاج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو سکا تو ہم سے کس طرح ہو سکتا ہے- مگر کئی لوگ بے خبری کی حالت میں مارے جاتے ہیں- انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب ذکر الہی کی مجلس منعقد ہوتی ہے تو اس کے خاتمہ تک فرشتے نازل ہوتے اور خدا تعالیٰ کی رحمت لاتے رہتے ہیں- ذکر الہی کی مجلس ایسی مجلس ہوتی ہے جیسا کہ بادشاہ کا دربار ہو- اگر بادشاہ کے دربار سے اٹھ کر جانے والا مجرم ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے دربار سے اٹھ کر چلا جانے والا کیوں مجرم نہیں ہوگا- اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجلس میں سب لوگ بیٹھے رہیں- اگر کسی ضرورت کی وجہ سے اٹھنا پڑے تو اجازت لیکر جائے- اس مجلس میں جو ۱۵-۲۰ ہزار افراد پر مشتمل ہے لوگوں کا اجازت لینا تو مشکل ہے- مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جو لوگ ضرورتاً باہر جائیں وہ ضرورت پوری کر کے جلد واپس آ جائیں اور وہ سمجھیں کہ ان کا اس مجلس میں بیٹھنا فضول نہیں- اول تو جو بات بھی کان میں پڑے گی اگر مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑ لیا جائے گا- تو وہ نجات کا ذریعہ بن جائے گی- لیکن اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو بھی اس مجلس میں بیٹھنا نیکی ہے- ہم چاہتے ہیں کہ ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو- مگر بہت ہیں جو نہیں جانتے- لیکن جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں ثواب ہوتا ہے- اسی طرح اس مجلس میں خواہ کسی کو آواز نہ آئے اور تقریر کا مطلب نہ سمجھ سکے تب بھی بیٹھنے پر ثواب حاصل ہوتا ہے-
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا آج کا مضمون گذشتہ مضمون کی ایک کڑی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں چار سال سے متواتر بیان کرتا آ رہا ہوں یعنی آج کا مضمون فضائل القرآن کے مضمون میں بھی تکرار نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اتنے معارف ہیں کہ چاہے ساری دنیا مل کر قیامت تک انہیں بیان کرتی رہے وہ کبھی ختم نہ ہونگے-
اس موضوع پر گذشتہ سالوں میں جو لیکچر دیئے گئے ہیں- وہ شائع نہیں ہو سکے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا منشا ہے کہ مکمل ایک جلد شکل دے کر ان کو شائع کیا جائے تا کہ قرآن کریم اور دوسرے مذاہب کی الہامی کتب کا مقابلہ کرتے وقت جماعت کے لوگوں کیلئے سہولت اور آسانی پیدا ہو جائے اور براہین احمدیہ کو مکمل کرنے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا جو منشا تھا اس کے پورا کرنے میں ہم بھی حصہ لے سکیں-
علمی تقاریر کا فائدہ
بعض دوستوں نے کہا ہے کہ آپ کا سالانہ جلسہ کا علمی لیکچر ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگ اسے سمجھ نہیں سکتے- بہت سے لوگ صرف برکت حاصل کرنے کیلئے لیکچر میں بیٹھے رہتے ہیں- اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ لوگ برکت حاصل کرنے کیلئے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں برکت دے دیتا ہے تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے- یہی غرض تو یہاں آنے کی ہوتی ہے- جب وہ مل گئی چاہے لیکچر سمجھ کر اور چاہے نہ سمجھتے ہوئے مقصد تو حاصل ہو گیا- پس اس پر کسی کو گلہ نہیں پیدا ہو سکتا- دیکھو اگر خدا تعالیٰ کسی گناہگار کو باز پرس کئے بغیر جنت میں داخل کر دے تو کیا وہ جنت میں داخل ہونے سے انکار کر دے گا- وہ تو فوراً آگے بڑھ کر جنت میں داخل ہو جائے گا- اسی طرح جسے لیکچر میں بیٹھے رہنے سے برکت حاصل ہو جائے اسے اس بات کا کیا شکوہ ہو سکتا ہے کہ لیکچر میں جو کچھ بتایا گیا ہے اسے وہ سمجھ نہیں سکا- مگر میں سمجھتا ہوں یہ بات ہے بھی غلط- اس لئے کہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دماغ خدا تعالیٰ نے ایسے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیئے ہیں کہ اپنے ایک دوست کی طرف سے یہ بات سن کر کہ بعض لوگ لیکچر کو سمجھ نہیں سکتے مجھے تعجب ہوا- پچھلے دنوں مرکزی خلافت کمیٹی کے آرگن روزانہ اخبار >خلافت< نے ایک کانگریسی ہندو لیڈر کے یہ کہنے پر کہ >مسلمان جاہل پسماندہ اور ناکافی تعلیم یافتہ ہیں- اور ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں- دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ناخواندہ فرقہ کے ہاتھ میں دی جانے لگی ہے<- لکھا تھا کہ >اگر قادیان جیسے قصبہ کا ٹانگہ والا خالصہ اور دیانند کالج کے گریجوئیٹوں کے منہ بند نہ کر دے تو ہمارا ذمہ- پھر مسلمان کبھی صوبہ کی آزادی طلب نہیں کریں گے<- اگر مخالفین کے نزدیک قادیان کے ٹانگہ چلانے والے کو اتنی قابلیت حاصل ہے تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اپنوں میں سے کوئی یہ کہے کہ احمدی میرے لیکچر کو سمجھ نہیں سکتے- اصل بات یہ ہے کہ وہ تو لیکچر کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض احمدی لیکچر کو نہیں سمجھ سکتے وہ اپنے بھائیوں کو نہیں سمجھتے- انہوں نے اپنے متعلق تو حسن ظنی سے کام لیا کہ وہ خود لیکچر کو سمجھ سکتے ہیں لیکن دوسروں کے متعلق حسن ظنی اختیار نہ کی اور کہہ دیا کہ وہ نہیں سمجھتے- حالانکہ انبیاء پر ایمان لانے والے خواہ مروجہ علوم سے ناواقف ہوں- دین کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں آسمانی علوم ملا کرتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میں اسلام کے تازہ معجزات لایا ہوں- اور اپنا مشاہدہ پیش کرتا ہوں- مگر دوسرے لوگ قصے کہانیاں پیش کرتے ہیں- اسی طرح آپ کی جماعت کو روحانی علوم کے متعلق مشاہدہ حاصل ہے اور آپ پر ایمان لانے کے دن ہی ہر احمدی کو نیا علم حاصل ہو جاتا ہے اور احمدیوں کو خدا تعالیٰ ہر قسم کے اعتراضات کے جواب آپ سمجھا دیتا ہے- اگر کوئی تمسخر کرتا ہے تو اسے بھی جواب مل جاتا ہے- مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے سنایا کہ وہ ایک جگہ مباحثہ کیلئے گئے- مباحثہ کے متعلق مخالف مولوی سے گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک احمدی کو رقعہ دیکر ان مولوی صاحب کے پاس بھیجا گیا- مولوی صاحب نے انہیں بے علم سمجھ کر چاہا کہ اسے قابو میں لے آئیں- اس خیال سے اس احمدی کو کہا- دیکھو قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق رافعک انی لکھا ہے یعنی اوپر اٹھانا اس لئے وہ فوت ہو ہی نہیں سکتے- اس احمدی نے کہا- رافعک کی ف کے نیچے کیا ہے- مولوی صاحب نے کہا- زیر- احمدی نے کہا رافعک اوپر تو لے جاتا ہے مگر یہ زیر اوپر نہیں جانے دیتی- اس پر مولوی صاحب بالکل خاموش ہو گئے- غرض جس رنگ میں دشمن چلتا ہے- اسی رنگ میں ناکام کرنے کیلئے خدا تعالیٰ احمدیوں کو سمجھ عطا کر دیتا ہے- ظاہری علوم سے بالکل ناواقف احمدی ایسے ایسے لطیف جواب دیتے ہیں کہ مخالف کے لئے خاموش ہوئے بغیر چارہ نہیں رہتا- حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں آپ کا ایک خادم پیراں دتا نام ہوا کرتا تھا- بہت معمولی سمجھ کا انسان تھا- مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہنے کا اس پر ایسا اثر تھا کہ ایک دفعہ بٹالہ تار لے کر گیا- اس زمانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتے تھے- پیراں دتا کو جو انہوں نے دیکھا تو اسے پکڑ لیا- اور کہنے لگے- تو کہاں چلا گیا- وہاں کیا رکھا ہے- تمہیں وہاں نہیں رہنا چاہئے- اس رنگ میں بہت کچھ کہا- اس نے کہا- میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں- اور نہیں جانتا کہ کیا بات ہے- لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے گھر بیٹھے رہتے ہیں- مگر دور دور سے لوگ آتے اور یکوں کے دھکے کھا کھا کر ان کے پاس پہنچتے ہیں- اور تم یہاں دوڑے پھرتے ہو- مگر کوئی تمہیں پوچھتا تک نہیں- یہ ایک علمی دلیل ہے ایک مامور من اللہ کی صداقت کی- جو ایک جاہل نے پیش کی- ایسے جاہل نے جس کی یہ حالت تھی کہ چند آنے لے کر مٹی کا تیل دال میں ڈال کر کھا جاتا تھا- اسے علمی الفاظ نہ آتے تھے- لیکن جو کچھ اس نے کہا وہ علمی دلیل تھی- جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہے اور اس کی *** تم پر پڑ رہی ہے-
غرض جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کی عقل تیز ہو جاتی ہے اور وہ روحانیت کے باریک سے باریک معارف باسانی سمجھنے لگ جاتا ہے- وہ قومیں جو یہ کہتی ہیں کہ ہم فلاں قسم کی باتیں نہیں سمجھ سکتیں ان کی عقلی طاقتیں گر جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ موٹی باتیں سمجھنے سے بھی عاری ہو جاتی ہیں- لیکن جن لوگوں کو روحانی اور علمی باتیں سنائی جاتی ہیں اور وہ انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- ان میں سے نہ سمجھنے والوں میں بھی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں- چنانچہ میں احمدی زمینداروں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتا ہوا یہ خیال نہیں کرتا کہ ان کی سمجھ میں نہ آئے گی لیکن کالجوں کے غیر احمدی طالبعلموں کے سامنے بھی علمی تقریر کرتے ہوئے مجھے یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ شائد وہ میری باتیں نہ سمجھ سکیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ احمدی علمی اور روحانی تقریریں سننے کے عادی ہوتے ہیں لیکن دوسرے لوگ عادی نہیں ہوتے- دین کی باتیں سننے کا عادی بنانے کیلئے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے- اگر اس طرح دین کی باتیں سمجھنے کی بچہ میں قابلیت پیدا ہو سکتی ہے تو احمدیوں کے سامنے علمی باتیں بیان کرنے سے وہ کیوں نہیں سمجھ سکتے-
اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود علوم کو مشکل بنا دیا ہے- اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے علوم بنائے ہیں- اور ہر طبقہ کے لوگوں میں علوم کو سمجھنے کی قابلیت رکھی ہے خواہ وہ زمیندار ہوں خواہ علمی کام کرنے والے- اگر لوگ علوم کو خود مشکل نہ بنا دیتے تو کسی انسان کے لئے ان کا سمجھنا مشکل نہ ہوتا- اب ایک شخص جب یہ کہتا ہے کہ دلیل استقراء سے یہ بات ثابت ہے تو بہت لوگ کہہ دیتے ہیں ہمیں کیا معلوم دلیل استقراء کیا ہوتی ہے- لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تمہارے باپ دادا مرتے چلے آئے ہیں یا نہیں تو ہر شخص اس بات کو سمجھ لے گا-
غرض خدا تعالیٰ نے کسی علم کو مشکل نہیں بنایا- علم کو لوگ الفاظ کے ذریعہ مشکل بنا دیتے ہیں- اگر لوگ میری تقریر کو بھی نہ سمجھیں گے تو اس میں میری غلطی ہوگی کہ میں نے ایسے الفاظ استعمال نہ کئے جو ان کی سمجھ میں آ سکتے- ورنہ قرآن کا کوئی مضمون ایسا نہیں جسے کوئی انسان سمجھ نہ سکے ہاں میں اپنی طرف سے کوشش کرتا ہوں کہ آسان الفاظ میں تقریر کروں- باقی روانی میں بعض اوقات مشکل الفاظ بھی نکل جاتے ہیں مگر اس سے مضمون خراب نہیں ہوتا-
قرآن کریم کی فضیلت پر نویں دلیل
میں اس وقت تک قرآن کریم کے افضل ہونے کی آٹھ دلیلیں بیان کر چکا ہوں- آج نویں دلیل پیش کرتا ہوں-
نویں دلیل قرآن کریم کی دوسری الہامی کتب سے یا دوسرے فلسفوں سے افضل ہونے کی یہ ہے کہ وہ تمام گذشتہ مذاہب کی الہامی کتب میں یا مذہبی فلسفوں میں جو غلطیاں ہیں ان کو واضح کرتا ہے اور نہ صرف ان کی غلطیاں واضح کرتا ہے بلکہ ان کی اصلاح بھی کرتا ہے- اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو غلطی نکالتا ہے وہ اس سے افضل ہوتا ہے جس کی غلطی نکالی جاتی ہے- اور غلطی نکالنے والا استاد اور ماہر فن ہوتا ہے- اس دلیل کے مطابق قرآن کریم کی جو افضلیت ثابت ہوگی- وہ موجودہ الہامی کتب اور موجودہ مذاہب پر ثابت ہوگی- کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ قرآن کریم جو غلطی نکالے وہ اصل کتاب میں نہ ہو بلکہ بعد میں داخل ہو گئی ہو- یا اس مذہب میں وہ بات نہ ہو اور بعض میں لوگوں نے اس کی طرف منسوب کر دی ہو کیونکہ تمام مذاہب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں ان میں کوئی جھوٹی اور غلط بات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی- پس قرآن کریم جہاں کسی سابقہ کتاب کو نامکمل بتائے گا وہاں یہ معنی ہونگے کہ پہلی کتب میں وہ بات نہ تھی- اور جہاں یہ ظاہر کرے گا کہ فلاں بات غلط ہے وہاں یہ معنی ہونگے کہ وہ بات خدا نے نہیں بتائی- پھر جہاں قرآن فلسفہ کی غلطیاں بتائے گا وہاں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ لوگوں نے اپنی عقل سے وہ باتیں بنا لیں جو غلط ہیں-
میں نے کہا ہے کہ پہلی کتابوں میں اصل میں وہ غلطیاں نہ تھیں جو قرآن بتاتا ہے- اس لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ثابت ہوتا ہے- کیونکہ وہ کتابیں اب محرف و مبدل ہیں- اور چونکہ دنیا کے سامنے وہ موجود شکل میں آتی ہیں اور قومیں ان پر عمل کرتی ہیں- وہ ان سے نقصان اٹھاتی ہیں- اس لئے قرآن کی افضلیت بہرحال ثابت ہے- کیونکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو سابقہ کتب کی غلطیاں معلوم ہوتی ہیں اور یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اس وقت سوائے قرآن کریم کے کوئی قابل عمل کتاب نہیں ہے- قرآن کریم اس دعویٰ کو خود پیش کرتا ہے- فرماتا ہے-
تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطن اعمالھم فھو ولیھم الیوم ولھم عذاب الیم وما انزلنا علیک الکتب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ وھدی ورحمہ لقوم یومنون
قرآن کریم کے چھ دعوے
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھ دعوے پیش کئے گئے ہیں- پہلا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی رسول آتے رہے ہیں- چنانچہ فرمایا تا للہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک- مجھے اپنی ذات ہی کی قسم کہ پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے جاتے رہے ہیں- دوسرا دعویٰ یہ فرمایا کہ فزین لھم الشیطن اعمالھم- اس کے بعد وہ قومیں بگڑ گئیں- ان کو جو تعلیمیں دی گئی تھیں ان میں انہوں نے نقص پیدا کر دیا اور لوگوں نے اپنے نفسانی خیالات کو خوبصورت سمجھنا شروع کر دیا-
انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ پہلے وہ بدی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس کی تائید میں دلائل لاتا ہے- حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے- ایک چور سے میں نے پوچھا کہ کبھی تمہیں چوری کرتے ہوئے شرم نہیں آئی- اس کے جواب میں اس نے کہا- اصل میں حلال کی کمائی تو ہماری ہی ہوتی ہے- ہم خطرات میں پڑ کر مال حاصل کرتے ہیں- چونکہ اس طرح ہمیں بہت محنت مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے- اس لئے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے حلال ہوتا ہے- اس سے ظاہر ہے کہ چور بھی اپنی چوری کو جائز قرار دینے کیلئے دلیل پیش کرتے ہیں-
غرض پہلے انسان بدی کرتا ہے اور پھر اس کے جواز کی دلیلیں بناتا ہے- اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی رکھی ہے جو برے فعل پر اس کو ملامت کرتی ہے- چونکہ انسان ہر وقت کی ملامت برداشت نہیں کر سکتا اس لئے اپنے فعل کو جائز قرار دینے کیلئے دلائل پیدا کرتا ہے- فزین لھم الشیطن اعمالھم شیطان ان کو ان کے اعمال خوبصورت دکھانے لگتا ہے- اور جب لوگ کسی برے فعل کے عادی ہو جاتے ہیں تو اسے اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں-
تیسرا دعویٰ یہ کیا کہ فھو ولیھم الیوم- یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گیا- ساری کی ساری قومیں آج بھی ایسی حالت میں ہیں- اب تک اس شیطانی عمل کا اثر اور اس کی *** ان پر باقی ہے- کیونکہ جو بگاڑ ایک دفعہ پیدا ہوا- اسے خدا ہی دور کر سکتا ہے کوئی انسان دور نہیں کر سکتا-
چوتھی بات یہ بیان کی کہ ولھم عذاب الیم وہ اس نقص کی وجہ سے جہنم میں گرنے کے خطرہ میں ہیں- اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کی مدد کرنا چاہتی ہے-
پانچویں بات یہ بیان کی کہ وما انزلنا علیک الکتب الا لتبین لھم الذی اختلفوا فیہ- ایسی حالت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ رحمت کا دروازہ کھولتا- جب اس کے بندے گمراہ ہو گئے- پہلی کتابیں خراب ہو گئیں تو خدا تعالیٰ نے رحمت کا دروازہ کھولا- پس اے رسولﷺ!~ اس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری ہے تا کہ تو انہیں وہ اصل تعلیم بتائے جس سے اختلاف کر کے وہ ادھر ادھر چلے گئے تا کہ بگاڑ دور ہو-
چھٹی بات یہ بیان کی پھر اسی پر بس نہیں کیا کہ بگاڑ دور کر دے بلکہ اس کتاب میں زائد باتیں بھی بیان کی ہیں- نہ صرف پہلی کتابوں اور پہلے فلسفوں کی غلطیاں بتائیں- بلکہ ایسی باتیں بھی بتائی ہیں جو اس سے پہلے فلسفیوں کے ذہن میں بھی نہیں آئیں- اور وہ دو قسم کی ہیں- ھدی و رحمہ لقوم یومنون- ایک ھدی اور دوسری رحمت- ہدایت کے معنی ہیں ذہنی اور عقلی ترقی کے سامان- اور رحمت کے معنی ہیں علمی ترقی اور آرام و آسائش کے سامان- گویا قرآن میں صرف ذہن کی ترقی کے سامان ہی نہیں بلکہ علمی ترقی کے سامان بھی ہیں- اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کے حاصل کرنے کیلئے تمام مذاہب اورتمام فلسفے کوشش کرتے ہیں- یہ دونوں باتیں قرآن میں موجود ہیں- اس میں ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی-
الفرقان قرآن کریم ہی ہے
دوسری آیت جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہے- وہ یہ ہے- اللہ فرماتا ہے- تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیرا فرمایا بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا تا کہ یہ سب زمانوں کیلئے نذیر ہو-
فرقان کے عربی میں کئی معنی ہیں- ان میں سے دو جو یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں ان کو میں لیتا ہوں- اول یہ کہ کل مافرق بہ بین الحق والباطل یعنی ہر وہ چیز جس کے ساتھ حق و باطل میں فرق کیا- وہ فرقان ہے- دوسرے معنی یہ ہیں کہ ]ksn [tag الصبح والسحر- یعنی پو پھٹنے کو بھی فرقان کہتے ہیں- گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ایک تو حق و باطل میں تمیز ہو سکتی ہے- دوسرے ہم نے اسے پو پھٹنے کی طرح بنایا ہے- جو پو پھٹتی ہے تو ہر چیز کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے- یہی حال قرآن کا ہے- اس نے بھی حقیقت ظاہر کر دی ہے- ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ )۱(بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اتارا ہے جو حق و باطل میں فرق کر کے دکھاتا ہے- )۲(بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندہ پر وہ کلام اتارا ہے کہ جس کی روشنی میں تمام مذاہب کے فلسفے اپنے نقائص آپ دیکھ کر ان کی اصلاح شروع کر دیں گے- جس طرح پو پھٹنے پر ہر گھر کا ہر نقص نظر آ جاتا ہے- اسی طرح قرآن کی روشنی میں سب مذاہب والوں کو اپنے اپنے ہاں کے نقائص نظر آنے لگ جائیں گے اور وہ ان کی اصلاح کی کوشش شروع کر دیں گے-
غرض قرآن میں حق و باطل میں فرق کرنے والے دلائل بھی دیئے گئے ہیں اور تعلیمات صحیحہ کو ایسے رنگ میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ خود بخود لوگوں پر ان کے دین کی کمزوریاں ظاہر ہونے لگ گئی ہیں اور انہوں نے اپنے عیوب چھپانے شروع کر دیئے ہیں-
اقوام عالم کی شرک سے بیزاری
اب دیکھو یہ دونوں باتیں کس طرح پوری ہوئیں؟ ان میں سے ایک کو تو میں آگے چل کر تفصیل سے بیان کرونگا- مگر یہ جو کہا کہ پو پھٹنے پر لوگ آپ ہی آپ اپنے نقائص دور کرنے شروع کر دیتے ہیں اس کی صداقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ساری قومیں شرک میں مبتلا تھیں- یہودیوں نے باوجود اس کے کہ ان کے ہاں ایک خدا کو ماننے کی تعلیم تھی- عزیز کو ابن اللہ قرار دے لیا تھا- اسی طرح زرتشتی مذہب کی بنیاد بھی توحید پر تھی مگر اس کے ماننے والوں نے بھی خرابی پیدا کر لی تھی- اور دو خدا بنا لئے تھے- ہندوئوں نے ۳۳ کروڑ معبود بنا رکھے تھے- چین میں بدھ مذہب تھا- اس نے ہر چیز کا الگ خدا بنا رکھا تھا- مثلاً لکڑی کا خدا الگ تھا- اور جب اس لکڑی کی میز بن جائے تو اس کا الگ- ایسے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپﷺ~ نے یہ تعلیم دی کہ خدا ایک ہے- اس وقت لوگ توحید سے اتنے دور ہو چکے تھے کہ یہ بات سن کر انہوں نے قہقہے لگائے- آپﷺ~ کے ملک والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اجعل الا لھہ الھا واحد اس نے تو بہت سے خدائوں کو کوٹ کاٹ کر ایک بنا دیا ہے- چونکہ ان کے واہمہ میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ خدا ایک ہے- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کرتے کہ آپﷺ~ نے سب خدائوں کو کوٹ کر ایک بنا دیا ہے- گویا وہ ایک خدا کا عقیدہ پیش کرنا حماقت کی بات قرار دیتے تھے- اسی طرح عیسائیوں کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ تین خدا مانتے ہیں- غرض سب کی سب قومیں شرک میں مبتلا تھیں لیکن جب قرآن کا نور پھیلا تو اب یہ حالت ہے کہ آج ایک عیسائی کھڑا ہو کر بغیر یہ محسوس کئے کہ وہ کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے کہتا ہے کہ توحید خالص سوائے انجیل کے اور کوئی کتاب پیش ہی نہیں کرتی- گویا پہلے تو لوگ توحید کا عقیدہ پیش کرنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنستے تھے- لیکن اب جب کہ سورج نکل آیا تو انہیں اپنے منہ کی سیاہی نظر آ گئی اور وہ منہ دھونے لگ گئے- ہندو ۳۳ کروڑ دیوتا مانتے تھے اور محمود غزنوی سے اس لئے ناراض تھے کہ اس نے ان کے بت توڑ دیئے- لیکن اب ہندو خود بت توڑتے پھرتے ہیں- کیونکہ قرآن کا سورج نکل آیا- اور انہیں پتہ لگ گیا کہ بت پرستی بہت بری بات ہے- غرض جس قوم کو دیکھو مشرکانہ خیالات کی مخالفت کرتی ہے- یہ کتنا بڑا قرآن کے فرقان ہونے کا ثبوت ہے- اس کے ثبوت میں بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ یہ ایک ضمنی بات ہے اس لئے میں اسے لمبا نہیں کرتا- بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ یہود` نصاریٰ اور مجوس اور ہنود وغیرہ مذاہب میں سے ایک مذہب بھی ایسا نہ تھا جو پہلے شرک میں مبتلا نہ تھا اور نزول قرآن کریم کے بعد اس نے پہلے پہلو کو نہیں بدلا- یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ عقلمند کے لئے صرف یہی افضلیت کا ثبوت کافی ہے-
غرض اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ ہر مذہب و ملت اور ہر فلسفہ اور خیال کی غلطیاں نکالی گئی ہیں اور اس کے مقابل پر جو سچی تعلیم تھی وہ بتائی گئی ہے- پھر فرماتا ہے کہ ایسا ہونا ضروری تھا- یہ خیال درست نہیں کہ دوسروں کی غلطیاں نکالنے کی کیا ضرورت تھی اپنی تعلیم پیش کر دینا کافی تھا- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی ضرورت تھی- کیونکہ لیکون للعلمین نذیرا ہم نے قرآن کو ساری دنیا کیلئے بھیجا ہے- نہ صرف یہود کیلئے نہ صرف نصاریٰ کیلئے- نہ صرف ہندوئوں کیلئے- پھر نہ صرف اہل مذاہب کیلئے بلکہ فلسفہ والوں کیلئے بھی- اور جب تک حجت تمام نہ ہو نذیر نہیں ہو سکتا- پس ضروری تھا کہ تمام ادیان باطلہ اور فلسفہ باطل اور اوہام باطلہ اور وساوس کا اس میں ازالہ کیا جاتا- ورنہ سب دنیا کی طرف اس کا بھیجا جانا جائز نہ تھا-
اب دیکھو یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا- اس کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسا دعویٰ پیش نہیں کر سکتی- بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی اور ایسا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا- جب تک یہ چھ خوبیاں اس میں نہ ہوں- اول جب تک سب کتب کا اسے علم نہ ہو- جب وید اور ژند اوستا وغیرہ کا کسی کو پتہ ہی نہ ہو اس وقت تک کوئی ان کی غلطیاں کیونکر نکالے گا- اسی طرح اگر فلسفیوں کے خیالات معلوم نہ ہوں تو ان کا رد کس طرح کرے گا- یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جس کے پاس ساری دنیا کے مذاہب اور سارے فلسفیوں کی کتب کی لائبریری ہو ایسی لائبریری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو نہ تھی بلکہ بیسیوں مذاہب کا آپﷺ~ کو علم بھی نہ تھا- دوسری خوبی اس میں یہ ہونی چاہئے کہ اس کی نظر ایسی ہو کہ اسے غلطیاں نظر بھی آ جائیں اور ایسی واقفیت ہو جو ساری کتابوں کے مضامین پر حاوی ہو- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہ کر سکتے تھے- کیونکہ آپ کے پاس مذاہب عالم کی کتابیں ہی موجود نہ تھیں ان کے پڑھنے پڑھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- تیسری خوبی یہ ہونی چاہئے کہ سب فلسفیوں کا اسے علم ہو- چوتھی یہ کہ سب قسم کے اوہام اور وساوس کا بھی علم ہو کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم وسوسوں کو بھی دور کرتا ہے اور یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ انسانوں کے وساوس کا پتہ لگا سکے- یہ دعویٰ کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا کہ میں انسانوں کے وساوس دور کر سکتا ہوں- جب تک اسے سب کے افکار کا پتہ نہ ہو- اور یہ پتہ لگانا انسان کی طاقت سے باہر ہے- پانچویں اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کسی کو سب قسم کے اوہام اور وساوس وغیرہ کا علم ہو گیا- تب بھی وہ اس وقت تک ان کا رد نہیں کر سکتا جب تک اس میں جواب دینے کی طاقت نہ ہو- اس لئے پانچویں بات اس میں یہ ہونی چاہئے کہ وہ ہر قسم کے اعتراض کو رد کر سکے- چھٹی خوبی یہ ہو کہ اس قدر چھوٹی سی کتاب میں جیسی کہ قرآن شریف ہے ساری کتابوں کو غلط باتوں کا رد بھی کر دے اور ساری عمدہ باتیں بیان بھی کر دے- عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن بائیبل سے چھوٹا ہے- حالانکہ بائیبل میں صرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ خدا محبت ہے- یہ چھ باتیں سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں پائی جا سکتیں- خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ دنیا میں کتنے مذاہب ہیں- خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کتنے فلسفے ہیں- خدا تعالیٰ ہی کی نظر باریک در باریک باتوں تک پہنچ سکتی ہے- خدا تعالیٰ ہی کی نظر انسانوں کے اوہام اور وساوس کو دیکھ سکتی ہے- خدا تعالیٰ ہی کی قدرت میں یہ بات ہے کہ سب غلط باتوں کا رد کرے اور خدا تعالیٰ ہی چھوٹی سی کتاب میں سب کچھ بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے- پس یہ دعویٰ سوائے الہی کتاب کے اور کوئی نہیں کر سکتا- جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ- ونحن اقرب الیہ من حبل الورید پہلی آیت میں تو صرف مذہبی کتب کے ماننے والوں کی غلطیاں نکالنے کا دعویٰ تھا- لیکن اس آیت میں سب انسانوں کی خواہ ان کا مذہبی کتب سے تعلق ہو یا محض عقلی دلائل پر ان کے خیالات کی بنیاد ہو غلطیاں بیان کرنے کا ذکر ہے- دوسری کتب تو ان اعتراضات تک کو بیان بھی نہیں کرتیں جو مذہب کے خلاف عائد ہوتے ہیں- کجا یہ کہ ان کے جواب دینے کا دعویٰ کریں-
دنیا کو چیلنج
یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ صرف یہی دعویٰ قرآن کریم کی افضلیت ثابت کر سکتا ہے- اور اس دعویٰ کا پرکھنا بالکل آسان کام ہے- لوگ چند عجیب در عجیب اعتراضات مذہب کے بارہ میں پیش کر دیں اور پھر دیکھیں کہ قرآن کریم میں ان کا جواب موجود ہے یا نہیں- خود میں نے ساری دنیا کو یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ وہ مذہب پر کوئی اعتراض کریں- میں ان کے تمام اعتراضات کا قرآن کریم سے ہی جواب دینے کیلئے تیار ہوں- وہ کتاب کی شکل میں اپنے اعتراضات شائع کر دیں- پھر میرا فرض ہوگا کہ ان کا جواب میں قرآن سے ہی دوں- اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو بے شک لوگ مجھے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ قرآن نے ہر ایک اعتراض کا جواب دے دیا ہے- لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اس آزمائش کیلئے تیار ہو تو خدا تعالیٰ مجھے کامیاب کرے گا- خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ سورہ فاتحہ جو قرآن کی جڑ ہے مجھے سکھائی ہے- اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ جب قرآن کریم نازل کرنے والے خدا کے فرشتوں نے مجھے سورۃ فاتحہ سکھائی اور اس کے معارف بتائے- اور فرشتہ نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں تجھے وہ باتیں سکھاتا ہوں جو کسی کو معلوم نہیں تو کسی مخالف کا کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا جس کا میں قرآن کریم سے ہی جواب نہ دے سکوں- اس لئے میں سب مخالفین اسلام کو پھر چیلنج دیتا ہوں کہ وہ کوئی مخالفانہ بات پیش کریں- اصولی طور پر اس کا رد میں قرآن کریم سے ہی دکھا دوں گا- میرے پاس پچھلے دنوں ایک صاحب آئے اور آ کر کہنے لگے- میں کچھ مذہبی باتیں پوچھنا چاہتا ہوں- میں نے کہا- بڑی خوشی سے پوچھیئے- کہنے لگے- مرزا صاحب کے دعویٰ کے متعلق پوچھتا ہوں کہ کیا قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے- میں نے کہا- ہاں کرتا ہے- کہنے لگے- کوئی آیت بتائیے- میں نے کہا- کوئی آیت کیا- سارا قرآن ہی تصدیق کرتا ہے- کہنے لگے یہ کس طرح؟ میں نے کہا- مجھے تو یہی نظر آتا ہے- آپ کوئی آیت پڑھیں میں اس سے ثابت کر دوں گا- اور خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت اسی سے سمجھا دوں گا- میں نے کہا- قل ھواللہ احد ہی پڑھ دیجئے- یہ سن کر وہ کچھ گھبرا سے گئے کہ اس سے شائد اپنی دعویٰ ثابت کر دیں اس لئے اسے چھوڑ کر انہوں نے یہ آیت پڑھی ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وماھم بمومنین میں نے کہا- ایمان لانے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں- ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر وہ جھوٹ کہتے ہیں- اور ایک وہ جو واقعہ میں ایمان لاتے ہیں- اب ایسے لوگ جو سمجھتے تو ہیں کہ ایمان لائے مگر درحقیقت ایمان نہیں لائے- جب مر کر خدا تعالیٰ کے سامنے جائیں گے تو خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تم نے تو ایمان کا دعویٰ کیا تھا مگر حقیقت میں تم ایمان نہیں لائے تھے- وہ کہیں گے پھر ہمیں کسی رسول کے ذریعے بتایا کیوں نہیں گیا- میں نے ان صاحب سے پوچھا- آج کل کتنے مسلمان نماز پڑھتے ہیں- انہوں نے کہا- بہت کم- میں نے کہا- ایسے ہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور وہ سمجھتے بھی ہیں کہ ایمان لائے مگر حقیقت میں ایمان نہیں لائے ہوتے- ان کے لئے کیا ہوگا- قرآن کریم سچا ہو ہی نہیں سکتا جب تک ایسے لوگوں کا علاج نہ کرے- پس اگر ایسے لوگ ہو سکتے ہیں اور ہیں تو ان کو راہ راست دکھانے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور بھی آنا چاہئے-
قرآن کریم کی پہلی اصولی اصلاح ہستی باری تعالیٰ کے متعلق
اب میں مثال کے طور پر بعض ان باتوں کو لیتا ہوں جو اصولی ہیں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح دوسرے مذاہب یا فلسفیوں کے خیالات کی غلطیاں نکالیں اور ان کی اصلاح کی ہے- پہلی بات جو مذہب کا سوال سامنے آتے ہی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا یہ دنیا آپ ہی آپ ہے اور اس کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں-
اس بات کو قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں- اور ان کے منبع علم کی بھی تشریح کی ہے- مگر میں ان مثالوں کے متعلق صرف ایک ایک دلیل دونگا- تفصیل میں نہیں جائونگا-
خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما یھلکنا الا الدھر وما لھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون- یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں- ورنہ کوئی ایسی ہستی نہیں جو یہ کام کر رہی ہے-
جو لوگ دہریہ ہوتے ہیں ان میں سے کئی ایک ایسے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے رد میں دلیلیں دینے لگے جاتے ہیں لیکن جو بڑے بڑے اور ہوشیار دہریہ ہوتے ہیں جیسے ہکسلے وغیرہ وہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دلیل خدا کے ہونے کی نہیں ملتی- چنانچہ ہکسلے سے پوچھا گیا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا- >یہ کہ میں نہیں جانتا<- غرض ان کی بنیاد نفی پر ہے- اور خدا تعالیٰ نے آج تیرہ سو سال قبل یہ بات بتا دی ہے کہ وما لھم بذلک من علم ان ھم الایظنون- خدا کے منکر صرف یہی بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ خدا نہیں ہے- اس کے لئے کوئی مثبت دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی- صرف وہم اور گمان ہوتا ہے کہ خدا نہیں ہے- اور نفی پر قطعیت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی- یہ ¶تو دہریت کا ذکر ہے-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دہریت کو قرآن نے کس طرح رد کیا ہے- مگر صرف ایک دلیل دوں گا اور وہ یہ کہ ہے کہ سورۃ جاثیہ کے رکوع۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وللہ ملک السموت والارض کہ اس دنیا میں ایک ایسا بادشاہ نظر آ رہا ہے جو آسمان اور زمین دونوں پر قابض ہے- اور جس کی طاقتوں کا مظاہرہ ہمیشہ ہوتا رہتا ہے- اس جگہ آسمان سے شرعی نظام اور زمین سے طبعی نظام مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی یعنی شرعی اور زمینی یعنی طبعی نظاموں میں ایک زبردست اتحاد پایا جاتا ہے- جسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ اتفاق سے اور آپ ہی آپ ہے- اگر طبعی نظام آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اس کا تطابق کیوں ہوتا؟ ان دونوں میں تو ایسا اتحاد ہے کہ اسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ اس دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں- یہ مشاہدہ اور نظام عالم کی دلیلیں میرے لیکچر >ہستی باری تعالیٰ< میں تفصیل سے بیان ہو چکی ہیں- یعنی خدا کے کلام اور طبعی نظام کا آپس میں اتحاد- جسے دیکھ کر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہے- اگر طبعی نظام آپ ہی آپ ہے تو نبیوں کے کلام سے اس کا تطابق کیوں ہوتا ہے؟ پس شرعی اور طبعی نظام کا ایک دوسرے کی تائید کرنا بلکہ طبعی نظام کا شرعی نظام کے تابع چلنا بتاتا ہے کہ اس دنیا کا چلانے والا کوئی ضرور موجود ہے- یہ دلیل مجموعہ ہے دلیل مشاہدہ اور دلیل نظام کا- اور میرے نزدیک سب دلیلوں سے زیادہ مضبوط ہے- دلیل نظام یہ بتاتی ہے کہ یہ سب دنیا ایک نظام کے نیچے ہے- اور دلیل مشاہدہ یہ بتاتی ہے کہ شریعت اپنے ساتھ ثبوت رکھتی ہے- اور ان دونوں دلیلوں کا مجموعہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں نظام ایک دوسرے سے متحد ہیں اور یہ اتحاد سب سے بڑا ثبوت ہے ہستی باری تعالیٰ کا- اس کے متعلق میں ایک مثال قرآن کریم سے ہی پیش کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ آسمان کا نظام کس طرح زمینی نظام سے متفق ہوا-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سو سال ہوئے دعویٰ کیا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں- آپ نے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات میری تائید میں ہیں- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے ساتھ ہی وہ دنیا جو ایک نظام کے ماتحت چل رہی تھی اس میں ایسے تغیرات رونما ہونے لگ جاتے ہیں جو آسمانی کلام کے ماتحت ہوتے ہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اسی ہستی کے احکام کے ماتحت چل رہی ہے- جس کی طرف سے قرآن آیا-
بعثت محمدیﷺ~ کے متعلق حضرت ابراہیمؑ کی دعا
اس کے ثبوت کیلئے کس طرح آسمان اور زمین کی بادشاہت ایک ہستی کے ماتحت چل رہی ہے میں آج سے چار ہزار سال پیچھے جاتا ہوں- آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں بلند کرتے ہوئے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر یہ دعا کی تھی کہ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمہ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم- یعنی اے خدا ہم تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اس ملک میں جو ہماری آئندہ نسل پھیلے گی- اس میں سے تو ایک رسول بھیج جس کے یہ کام ہوں کہ یتلو علیھم ایتک- وہ تیری آیات انہیں پڑھ کر سنائے- و تعلمھم الکتب شریعت کی باتیں انہیں سکھائے- والحکمہ اور احکام کی حکمتیں ان پر واضح کرے ویزکیھم- اور انہیں پاک کرے اور بدیوں سے بچائے- یہ دعا چار ہزار سال پہلے ایسی جگہ پر کی گئی جہاں نہ غلہ پیدا ہوتا تھا اور نہ اور کسی قسم کی کھیتی- زمزم کا چشمہ جو نشان کے طور پر قائم ہوا اس کا پانی بھی کھاری ہے- جسے ہندوستانی نہیں پی سکتے- اس کھاری پانی کے چشمہ کے پاس چند گھر آباد تھے- وہاں پتھروں کا ایک مکان بناتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جو لوگ یہاں پیدا ہوں ان میں تو اپنا ایک رسول بھیج جو تیری ہستی کے دلائل انہیں بتائے- لوگوں کو تیری شریعت سکھائے- اس شریعت کی حکمت یعنی باریکیاں بتائے کہ شریعت پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہے- پھر ان کو پاک بنائے-
اس دعا پر اگر غور سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل امور کی خبر دی گئی ہے-
اول اس عرصہ تک کہ اس نبی کی بعثت کی ضرورت پیش آئے مکہ قائم رہے گا- اب طبعی صورت تو یہ ہے کہ آندھیاں آتی ہیں جو شہروں کے شہر برباد کر دیتی ہیں- زلزلے آتے ہیں جو بڑے بڑے شہروں کو تودہ خاک بنا دیتے ہیں- مگر یہاں پہلے سے خبر دے دی گئی کہ تمام قسم کے حادثات اس آبادی کو اجاڑ نہ سکیں گے- اور آخر ایسا ہی ہوا-
دوسری بات یہ بتائی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل ہمیشہ قائم رہے گی- کیونکہ کہا یہ گیا کہ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم- اس سے معلوم ہوا کہ اس رسول کے آنے تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل موجود ہوگی- دنیا کے اکثر گھرانے ایسے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تین چار سو سال تک ان کی نسل چلتی ہے اور پھر مٹ جاتی ہے- مگر حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کے متعلق یہ کہا گیا کہ دو ہزار سال تک یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک ان کی نسل بہر حال قائم رہے گی- بیماریوں پر یہ پشیگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو تباہ نہ کر سکیں- لڑائیوں اور جنگوں پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کا خاتمہ نہ کریں- اسی طرح ہر قسم کے حادثات پر یہ پیشگوئی حکومت کرے گی تا کہ وہ اس نسل کو مٹا نہ دیں- اولاد کی اولاد ہوتی چلی جائے گی اور یہ نسل ہمیشہ قائم رہے گی-
تیسری بات اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیمؑ کی نسل میں سے ایک رسول آئے گا حالانکہ کوئی شخص دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی نسل میں کس قسم کے انسان پیدا ہونگے-
چوتھی بات یہ بتائی گئی کہ وہ اس قوم کا کایا پلٹ دے گا- اور وہ لوگ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف منتقل ہو جائیں گے- کتنے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو پاک کر سکتے ہیں- ایک شاگرد کو ایک استاد پاک نہیں کر سکتا- بوعلی سینا کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کو ایک کتاب پڑھا رہے تھے- پڑھتے پڑھتے ایک شاگرد نے کہا کہ آپ تو محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( سے بھی بڑھ کر ہیں- بو علی سینا مومن آدمی تھے مگر علم النفس کے ماہر تھے- انہوں نے سمجھا کہ ممکن ہے اس وقت اگر میں اسے سمجھائوں تو اس کی سمجھ میں بات نہ آئے- اور یہ ضد اور گمراہ ہو جائے- اس لئے چپ رہے لیکن ایک دن جب کہ سردی کا موسم تھا اور تالاب کا پانی سخت سردی سے جما ہوا تھا انہوں نے اس شاگرد سے کہا کہ کپڑے اتارو اور تالاب میں کود پڑو- اس نے کہا- آپ یہ کیسی احمقانہ بات کر رہے ہیں- کیا میں پانی میں کود کر مر جائوں- انہوں نے کہا- اس دن تو تم مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑا کہہ رہے تھے اور آج اتنی بات بھی نہیں مانتے- محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ تھے کہ آپﷺ~ کے ماننے والوں نے کبھی نہ کہا کہ ہم مر جائیں گے- بلکہ آپﷺ~ جو کہتے تھے فوراً اس پر عمل کرتے خواہ موت سامنے نظر آتی- اور خوشی خوشی آپﷺ~ کے لئے جانیں دے دیتے-
غرض یہ کتنی بڑی بات بتائی کہ وہ ایک دو کی نہیں بلکہ قوم کی قوم کی کایا پلٹ دے گا- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے دو ہزار سال بعد مکہ موجود تھا- حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل موجود تھی- ہو سکتا تھا کہ نسل موجود ہوتی مگر انہیں پتہ نہ ہوتا کہ کس کی اولاد ہیں- مگر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ بائیبل میں بھی ذکر کر دیا کہ یہ ابراہیم کی نسل ہے- اس طرح ان میں یہ احساس بھی قائم رکھا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں- پھر ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے آپﷺ~ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس قوم کی کایا پلٹ دی-
حضرت موسیٰؑ کی پیشگوئی
پھر ہم کچھ اور نیچے آ جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پھر دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام پر چھ سو سال گذرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوتے ہیں- اور وہ آپﷺ~ کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ بات بتاتے ہیں-
>میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا- اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا<-
اس سے ابراہیمی دعا کی تصدیق کی گئی- حضرت اسحاقؑ` حضرت اسمٰعیلؑ کے بھائی تھے اور حضرت موسیٰؑ حضرت اسحاقؑ کی اولاد سے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسمٰعیل کی اولاد سے- گویا ان کے بھائیوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا کیا گیا اور اس طرح چھ سو سال کے بعد پھر ابراہیمی وعدہ کا کیا گیا- گویا اس میں پھر حضرت اسمٰعیل کی نسل کے قائم رہنے اور ان میں سے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی خبر دی جاتی ہے-
پھر اس شخص کے متعلق ایک اور امر بیان کیا جاتا ہے کہ-:
>خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا- دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا- اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی<-
سینا وہی پہاڑ ہے جسے قرآن شریف میں طور کہا گیا ہے- اس سے حضرت ¶موسیٰ علیہ السلام کا ظہور مراد ہے- شعیر سے بعض نے حضرت مسیح مراد لئے ہیں- مگر یہ ان پہاڑوں کا نام بھی ہے جس میں سے گذر کر حضرت موسیٰؑ آئے- اور انہوں نے دشمن پر فتح پائی تھی- اس لئے یہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام مراد ہیں-
آگے فرماتا ہے-
>فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا- دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا<-
اس میں بھی دو باتیں بتائی گئی ہیں- اول یہ کہ وہ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوگا- دوم یہ کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا- یہ دونوں باتیں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں- جس طرح پہلی دو بھی ایک ہی کے متعلق ہیں-
پھر بتایا کہ آتشی شریعت اس کے ساتھ ہوگی- اس میں یہ خبر ہے کہ وہ فاران کی پہاڑیوں سے جو مکہ کے گرد کے پہاڑ ہیں دس ہزار قدوسیوں سمیت آئے گا اور آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی- اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا ہے کہ )۱(وہ نبی مکہ سے نکالا جائے گا کیونکہ پہلے بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہوگا- پھر کہا کہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ مکہ سے نکالا جائے گا- )۲(یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوگا- )۳(یہ کہ اس کے ساتھ دس ہزار سپاہی ہونگے- )۴(یہ کہ وہ لوگ قدوسی ہونگے یعنی یزکیھم کے مصداق ہونگے- )۵(یہ کہ اس کے ساتھ گناہ سوز شریعت ہوگی- یہ یعلمھم الکتب والحکمہ کا ترجمہ ہے- جب انسان کو معلوم ہو کہ فلاں حکم کے ماننے میں میرا فائدہ ہے تو اس پر عمل کرتا ہے- شریعت کا لفظ الکتب سے اور گناہ سوز کا مفہوم حکمہ سے نکلتا ہے- کیونکہ حکمت معلوم کرنے کے بعد انسان گناہ کے نزدیک جانے سے احتراز کرتا ہے-
سب لوگ جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ پورا ہوا- فاران کی پہاڑیاں تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مکہ کی پہاڑیاں ہیں- حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ
>وادی فاطمہ میں )یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک پڑائو ہے( گل جذیمہ یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ من یرید فاران یعنی دشت فاران سے<-
بائیبل میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں- جن سے اشارہ ثابت ہوتا ہے کہ وادی فاران یہی ہے-
حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشگوئی
اس کے بعد اور چار سو سال گذرتے ہیں- اور حضرت سلیمان علیہ السلام آتے ہیں تو وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں گیت گاتے ہیں- چنانچہ فرماتے ہیں-
>اے یرو شلم کی بیٹیو! )یعنی بنی اسرائیل( میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ اگر تمہیں میرا محبوب )مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم( مل جائے تو تم اسے کہیو کہ میں عشق کی بیمار ہوں<-
وہ جواب دیتی ہیں-
>تیرے محبوب کو دوسرے محبوبوں کی نسبت سے کیا فضیلت ہے- اے تو جو عورتوں میں جمیلہ ہے تیرے محبوب کو دوسرے محبوب سے کیا فضیلت ہے جو تو ہمیں ایسی قسم دیتی ہے<-
اس پر وہ فرماتے ہیں-:
>میرا محبوب سرخ و سفید ہے- دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے- اس کا سر ایسا ہے جیسے چوکھا سونا- اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں- اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں- اس کے رخسار پھولوں کے چمن اور بلسان کی ابھری ہوئی کیاریوں کی مانند ہیں- اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مر ٹپکتا ہے- اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے ہیں- اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں- اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پائیوں پر کھڑے کئے جائیں- اس کی قامت لبنان کی سی- وہ خوبی میں رشک سرو ہے- اس کا مونہہ شیرینی ہے- ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے- )عبرانی میں لکھا ہے وہ محمدیم ہے( اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے<-
گویا حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس امر کی تاکید کرتے ہیں- کہ جب وہ محبوب آئے تو اسے مان لینا- اور پھر خود ہی سوال پیدا کر کے کہتے ہیں کہ اس میں یہ یہ خوبیاں ہونگی- ان آیات میں بعض باتیں تو شاعرانہ رنگ رکھتی ہیں اور بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ سے قطعی طور پر ملتی ہیں- مثلاً لکھا ہے- اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں- انگریزی بائیبل میں یہ الفاظ آتے ہیںwavy>- are locks -<His اور یہی حلیہ حدیثوں میں بیان ہوا ہے- چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں- لم یکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالطویل الممعط ولا بالقصیر المتردد- کان ربعہ من القوم لم یکن بالجعد القطط و لا بالبسط کان جعدا رجلا- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے قد کے تھے- نہ بہت چھوٹے بلکہ آپ میانہ قد و قامت رکھنے والوں میں سے تھے- اسی طرح آپﷺ~ کے سر کے بال نہ تو سخت گھنگرالے تھے جیسے کہ حبشیوں کے ہوتے ہیں اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ اس طرح گھنگھرالے تھے جس طرح کنگھی کرنے سے بال نیچے سے ذرا خمیدہ ہو جائیں- اور مڑ جائیں- یہی حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ آپ کے بال لمبے ہونگے- یعنی زلفیں ہونگی مگر بال کچھ پیچ دار ہونگے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال کانوں کو لو تک آتے تھے- گویا لمبے بال ہونے کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ بال نہ پیچ دار ہونگے اور نہ بالکل سیدھے اور یہی حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں-
پھر حضرت سلیمانؓ آپ کا رنگ سرخ و سفید بیان کرتے ہیں اور حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ کے متعلق فرماتے ہیں- ابیض مشرب اور مشرب کے معنی لغت والے یہ لکھتے ہیں کہ ایسا سفید رنگ جس میں سرخی ملی ہوئی ہو-
پھر حضرت سلیمانؑ نے یہ فرمایا کہ وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوگا- یعنی چھوٹے قد کا نہ ہوگا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا قد ایسا تھا جو لمبائی کی طرف مائل تھا- گویا حضرت سلیمانؑ کی بیان کی ہوئی سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زلفیں تو اس قدر مشہور ہیں کہ لوگ ان کے متعلق شعر کہا کرتے ہیں-
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی
اب ہم کچھ اور نیچے چلتے ہیں- تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سات سو سال بعد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد یسعیاہ نبی کے زمانہ میں آتے ہیں- یہ پھر حضرت ابراہیمؑ` حضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ کی بات کو دہراتے ہیں- چنانچہ فرماتے ہیں-
>ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا- اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا- اور سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی- اور وہ اس نام سے کہلاتا ہے- عجیب` مشیر` خدائے قادر ابدیت کا باپ )انگیریزی میں ہے EverlastingFather یعنی ہمیشہ رہنے والا باپ( سلامتی کا شہزادہ- اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی- وہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لیکر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اسے قیام بخشے گا- رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی<-
اس میں بتایا کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ کہیں گے- عجیب ہے- چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے- انا سمعنا قرانا عجبا ہم نے یہ کتاب سنی ہے جو عجیب اور نرالی قسم کی ہے- متی باب۲۱ آیت۴۲ میں بھی حضرت مسیحؑ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عجیب رکھا ہے- چنانچہ آتا ہے-
>یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب<-
دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ اس کا نام مشیر ہوگا- یعنی وہ مشورے دینے والا ہوگا- اب ہم دیکھتے ہیں- کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہو کہ لوگ اس سے مشورے لیتے تھے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یایھا الذین امنوا اذ ناجیتم الرسول فقد موابین یدی نجولکم صدقہ ذلک خیر لکم واطھر فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم اے مومنو! تمہاری عادت ہے کہ تم رسول سے مشورے لیا کرتے ہو- مگر رسول کا وقت بڑا قیمتی ہے- تمہیں چاہئے کہ جب مشورہ لو تو مسکینوں کے لئے صدقہ کیا کرو- یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا- اور اگر تم میں سے کوئی صدقہ نہ کر سکے تو اللہ اس کی کمزوری کو دور کرنے والا ہے- حدیثوں میں آتا ہے- بعض اوقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے ہوتے تو کوئی بڑھیا آپ کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی کہ مجھے آپﷺ~ سے مشورہ لینا ہے- مسجد میں بھی لوگ آپﷺ~ سے مشورہ کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے- ایک دفعہ ایک شخص اتنی دیر آپﷺ~ سے باتیں کرتا رہا کہ مسجد میں جو لوگ نماز پڑھنے آئے تھے وہ سو گئے-
تیسرا نام خدائے قادر بتایا گیا ہے- توریت میں خدا کا لفظ مجازی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے- چنانچہ لکھا ہے-
>پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا- دیکھ میں نے تجھے فرعون کیلئے خدا سے بنایا<-
متی باب ۲۱ آیت ۴۰ میں حضرت مسیحؑ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں-
>جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا<-
گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کو حضرت مسیح نے خدا کا آنا بتایا-
اب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ انا ارسلنا الیکم رسولا شاھدا علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولا یعنی جس طرح ہم نے موسیٰؑ کو فرعون کے لئے خدا سا بنا کر بھیجا تھا اسی حیثیت سے ہم نے تجھے دنیا کیلئے بھیجا ہے-
چوتھا نام آپﷺ~ کا ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امھتھم- یعنی نبی کا تعلق مومنوں کے ساتھ باپوں سے بھی زیادہ ہے اور اس کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں- جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مائیں ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باپ ہوئے- سورہ احزاب کے پانچویں رکوع میں آتا ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین- محمد صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو کسی کے باپ نہیں لیکن روحانی باپ ہیں رسول ہونے کی وجہ سے- اور ابدی باپ ہیں خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے-
پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ بتایا گیا ہے- عبرانی میں بادشاہ کی جگہ شہزادہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں- اس کا اپنے الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ سلامتی کا بادشاہ- اور سلامتی اسلام ہے- اس لئے اصل نام یہ ہوا کہ اسلام کا بادشاہ- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھو سمکم المسلمین یوں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ تھے- فتح مکہ پر مکہ والوں کو آپﷺ~ نے بلا کر کہا- بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے- تو انہوں نے کہا- آپﷺ~ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا- اس پر آپﷺ~ نے فرمایا- لا تثریب علیکم الیوم جائو تم پر کوئی گرفت نہیں- اس طرح بھی آپﷺ~ نے سلامتی ہی دکھائی-
پھر چھٹی بات آپﷺ~ کے متعلق یہ بیان کی گئی ہے کہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے ابد تک بندوبست کرے گا- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متعلق پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شام اور فلسطین پر قبضہ انہیں حاصل ہوگا- پھر اسی کتاب میں ہم عرب کی بابت الہامی کلام پڑھتے ہیں کہ-
>عرب کے صحراء میں تم رات کاٹو گے- اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو- اے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو- کیونکہ وے تلواروں سامنے ننگی تلوار اور کچھی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں- کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا- ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی- اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے- کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا<-
اس جگہ یہ پیشگوئی بیان کی کہ جو آنے والا نبی ہوگا جب وہ اپنے وطن سے نکالا جائے گا تو ہجرت کے ایک سال بعد اس کی قوم اس پر حملہ کرے گی- ایک رات میدان میں سوئیں گے اور صبح کو جنگ ہوگی جس میں دشمن شکست کھائے گا اور اس کے بڑے بڑے بہادر مارے جائیں گے- یہ پیشگوئی بھی رسول کریم کی ذات میں بدر کی جنگ سے پوری ہوئی-
اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئیں- اس میں بتایا گیا ہے کہ )۱(پہلے اس رسول کو مکہ والے اپنے شہر سے نکالیں گے اور )۲(پھر لڑائی کے لئے مکہ والے آئیں گے- اگر وہی جس نے یسعیاہ پر یہ کلام نازل کیا تھا دنیا پر قابض نہ تھا اور دنیا اس کے ہاتھ میں نہ تھی- تو اس نے کیوں اہل مکہ سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلوایا- اور ایک سال کے بعد کس نے ان کو حملہ کرنے کیلئے نکالا- )۳(پھر جب انہوں نے حملہ کیا- تو اس حملہ میں سارے سردار شامل ہوئے- کہا جاتا ہے کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی اس جنگ میں شریک نہ ہوا ہو- )۴(پھر اس جنگ میں بڑے بڑے سردار مارے گئے- ان باتوں سے ظاہر ہے کہ خیالات پر اور تلواروں پر اسی کا قبضہ تھا جس نے یسعیاہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی کرائی تھی- مکہ میں اس جنگ کی وجہ سے ایسی تباہی آئی کہ ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا اور اس ڈر سے کہ لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ان کو حکماً رونے سے منع کر دیا گیا- ایک شخص کے تین بیٹے تھے اور وہ تینوں اس جنگ میں مارے گئے- وہ اندر چھپ چھپ کر روتا تھا مگر اس کی تسلی نہ ہوتی تھی- ایک دن ایک شخص کا اونٹ گم ہو گیا- اور وہ رونے لگ گیا- اس شخص نے اس کے رونے کی آواز سنکر کسی سے کہا- دیکھ کیا بین ڈالنے کی اجازت مل گئی ہے اور پھر فوراً باہر نکل کر پیٹنے لگ گیا- اور زور زور سے بین ڈالنے لگا-
غرض ہجرت کے عین ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور اس میں قیدار کے بڑے بڑے جنگ جو اور بہادر مارے گئے اور شکست کھا کر بھاگے- اور تیما جسے عرب تہامہ کہتے ہیں- اس میں ماتم برپا ہو گیا-
پھر یسعیاہ نبی ہی کہتے ہیں-:
>دیکھ میں نے اسے قوموں کے لئے گواہ مقرر کیا- بلکہ لوگوں کا ایک پیشوا اور فرمانروا- دیکھ تو ایک گروہ جسے تو نہیں جانتا بلا دے گا- اور وے گرو ہیں تجھے نہیں جانتیں- خداوند تیرے خدا اور اسرائیل کے قدوس کے لئے جس نے تجھے جلال بخشا تیرے پاس دوڑتی آئیں گی<-
اس میں یہ بتاتیں بتائیں کہ )۱(وہ لوگوں کے لئے گواہ ہوگا- )۲(لوگوں کیلئے پیشوا اور )۳(فرمانروا ہوگا )۴(ایسی قومیں اس پر ایمان لائیں گی جنہوں نے بنی اسرائیل کے نام نہ سنے ہوں گے- اور نہ بنی اسرائیل نے ان کے-
لوگوں کے لئے گواہ ہونے کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے- ھو سمکم المسلیمن من قبل و فی ھذا لیکون الرسول شھیدا علیکم وتکونوا شھداء علی الناس text] [tagیعنی ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے- اس زمانہ میں بھی اور پہلے بھی تا کہ یہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم باقی دنیا پر گواہ ہو اور اس رسالت کو قیامت تک لئے چلے جائو- گویا وہی الفاظ جو بائیبل میں آتے ہیں قرآن کریم میں بھی آئے ہیں-
)۲-۳( پیشوا اور فرمانروا کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی تحببکم اللہ یعنی اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری فرمانبرداری اختیار کرو- میں تمہارا پیشوا اور فرمانروا ہوں-
چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ دوسری قومیں اس رسول پر ایمان لاویں گی- سو اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے- قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم یعنی تو ساری دنیا سے کہدے کہ میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں- اب دیکھ لو ہم میں سے کوئی کسی قوم کا ہے اور کوئی کسی قوم کا- اور یہ قومیں نہ عربوں کو جانتی تھیں اور نہ عرب انہیں جانتے تھے- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں سب ایک ہو گئی ہیں-
پھر یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲ تا ۵ میں ہی لکھا ہے-:
>تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے اور تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا مونہہ خود تجھے رکھ دے گا اور تو حفیظاہ کہلائیگی اور تیری سرزمین بعولاہ- کیونکہ خداوند تجھ سے خوش ہے اور تیری زمین خاوند والی ہوگی-
اس میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے زمانہ میں اس کی قوم حفیظاہ کہلائیگی- اور اس کی زمین بعولاہ- سارے بادشاہ اس کی شوکت دیکھیں گے- اور اس کا نیام رکھا جائے گا-
پھر لکھا ہے-:
>تب وہ مقدس قوم اور خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے اور لو مطلوبہ کہلائے گی- اور وہ شہر جو ترک کیا نہ گیا<-
‏del.16
ہانوار العلوم جلد ۱۰
فضائل القرآن نمبر۵
یہ سب باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں- مثلاً )۱(کہا گیا ہے کہ وہ ایک نئے نام سے کہلائے گا- جسے خداوند کا مونہہ خود رکھ دے گا- چنانچہ یہ نیا نام اسلام ہے جو خدا تعالیٰ نے خود رکھا اور ارشاد فرمایا کہ ھو سمکم المسلمین خدا نے خود تمہارا نام مسلم رکھا ہے- حقیقت یہی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا نام خدا نے رکھا ہو- نہ موسوی مذہب کا کوئی نام رکھا گیا اور نہ عیسوی مذہب کا- بلکہ ان کی پیروئوں کو بھی کبھی اپنا نام نہ سوجھا- مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا خود نام رکھے گا- اور یہ بات صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے-
دوسری بات یہ بتائی کہ اس کی قوم کو خدا کی خوشنودی حاصل ہو گی- چنانچہ آتا ہے کہ وہ قوم حفیظاہ کہلائے گی- یہ عبرانی لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تم سے راضی ہوا- اور قرآن کریم میں آتا ہے- والسابقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوانہ یعنی محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( پر ایمان لانیوالے جو ابتداء میں ہی جلد ایمان لے آئے اور مہاجرین اور انصار بھی جو بعد میں آئے- اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے- گویا قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ خدا مسلمانوں سے خوش ہوا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بھی خدا سے خوش ہوئے-
تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا گھر بعولاہ کہلائے گا- یعنی اس کی حفاظت کی جائیگی اور اس کی زمین خاوند والی کہلائیگی- یعنی کبھی تباہ نہ ہوگی- اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے والطور وکتب مسطور فی رق منشور والبیت المعمور السقف المرفوع والبحر المسجور فرمایا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں طور کی یعنی طور شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کتاب کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں- جو لکھی ہوئی ہے اور ہمیشہ لکھی جائیگی- اور اس خانہ کعبہ کی بھی قسم کھاتے ہیں جو ہمیشہ معمور رہے گا اور دور دور سے لوگ اس کی طرف آتے رہیں گے- اور اس چھت کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ہمیشہ بلند رہے گی- یعنی اس کی عزت ہمیشہ قائم رہے-
گویا بتایا کہ نہ صرف یہ گھر ہمیشہ معمور رہے گا اور کروڑوں انسان اس سے تعلق رکھیں گے بلکہ بلند و بالا لوگ تعلق رکھیں گے- اور اس کی عزت قیامت تک قائم رہے گی- غرض قرآن نے یہ خبر دی کہ بیت اللہ قائم رہے گا- اس سے اعلیٰ درجہ کے لوگ تعلق رکھیں گے اور مکہ سے تعلق رکھنے والی کتاب کا چشمہ کبھی ختم نہ ہوگا-
چوتھی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی- قرآن کریم کا یہ بھی دعویٰ ہے چنانچہ فرمایا- بایدی سفرہ کرام بدرہ یہ قرآن ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہونگے- ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض اوقات خرابی بھی تو آ سکتی ہے- پھر یہ کتاب ہمیشہ مقدس لوگوں کے ہاتھ میں کیسے رہی- سو قرآن نے اس کا جواب بھی دے دیا ہے- کہ ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتب و الحمہ دین کانوا من قبل لفی ضلال مبین واخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم فرمایا- محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو خدا نے امیوں میں رسول بنا کر بھیجا ہے- تا کہ وہ ان کو اللہ کی آیتیں سنائے اور پاک کرے اور کتاب کی تعلیم دے اور حکمت سکھائے- اس کے بعد جب مسلمانوں میں خرابی پیدا ہوگی- تو واخرین منھم لما یلحقوا بھم خدا اس رسول کو ایک دوسری قوم میں بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں گویا یہ قوم ہمیشہ مقدس کہلائے گی- کیونکہ اس میں اصلاح کرنے والے آتے رہیں گے-
پانچویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خداوند کے چھڑائے ہوئے کہلائیں گے- قرآن میں بھی آتا ہے- ویضع عنھم اصرھم والا غلل التی کانت علیھم یعنی دنیا کی گردنوں میں طوق اور پائوں میں زنجیریں اور بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان بیڑیوں کو کاٹ دے اور لوگوں کو ان بندھنوں سے نجات دے- اس طرح وہ چھڑائے ہوئے کہلائیں گے-
چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بستی مطلوبہ کہلائے گی- قرآن کریم بھی فرماتا ہے وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا یعنی قیامت تک کیلئے یہ بات مقرر کر دی گئی ہے کہ جسے طاقت ہو وہ اس بستی میں جائے اور حج کرے کہ یہ بستی مطلوبہ ہے-
حبقوق نبی کی پیشگوئی
پھر ہم اور آگے چلتے ہیں تو حبقوق نبی فرماتے ہیں-:
>خدا تیمان سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا- سلاہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی- مری اس کے آگے آگے چلی اور اس کے قدموں پر آتشی و بار روانہ ہوئی- وہ کھڑا ہوا- اور اس نے زمین کو لرزا دیا- اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا- اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھس گئیں- اس کی قدیم راہیں یہی ہیں- میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی- اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے- سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے- تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اڑے اور تیرے بھالے کی چمکاہٹ کے سبب تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کر گیا- تو نے بہت غصے ہو کے قوموں کو روند ڈالا ہے- تو اپنی قوم کو رہائی دینے کیلئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا- تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا- وہ مجھے پراگندہ کرنے کو آندھی کی طرح نکل آئے- ان کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جائیں ہر چند انجیر کا درخت نہ پھولے اور تاکوں میں میوے نہ لگیں تس پر بھی خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا- میں اپنی نجات کے خدا کے سبب خوش وقت ہوں گا<-
اس میں پہلی پیشگوئی تو یہ کی گئی ہے کہ خدا تیمان سے ظاہر ہوا- تیمان کے معنی عبرانی مفسر جنوب کی سر زمین کے کرتے ہیں- اور عرب فلسطین سے جنوب کی طرف ہی ہے- لیکن عرب لوگ ایک وادی تہامہ کہتے ہیں اور مکہ کو اس وادی تہامہ میں شامل سمجھتے ہیں- قاموس میں لکھا ہے- وتھامہ بالکسر مکہ شرفھا اللہ تعالی وارض معروفہ- یعنی تہامہ سے مراد مکہ مکرمہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے شرف کو بڑھائے اور ایک معروف زمین بھی ہے-
تاج العروس میں لکھا ہے- ومن اسمائہ صلی اللہ علیہ وسلم التھامی لکونہ ولد بمکہ- یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام تہامی text] [tagبھی ہے کیونکہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی- بائیبل والے تیمان کو صرف جنوبی علاقہ قرار دیتے ہیں اور تیما کو حضرت اسمٰعیل کا ایک بیٹا قرار دیتے ہیں جو عرب میں آباد تھا- پس گو وہ مکہ کو تہامہ نہ قرار دیں لیکن عرب کا ایک حصہ ہونے سے انہیں بھی انکار نہیں ہو سکتا- اور یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک وقت ایک قوم ایک جگہ آباد ہو- اور پھر اٹھ کر ذرا ہٹ کر دوسری جگہ بس گئی ہو-
دوسرے یہ ذکر ہے کہ وہ فاران سے ظاہر ہوا- اور فاران بھی حضرت اسمٰعیل کے ایک بیٹے کا نام ہے اور وہ بھی عرب میں تھا- ان کے علاقہ کو یورپین جغرافیہ والے تسلیم کرتے ہیں کہ عرب میں تھا گو اسے بھی فلسطین کے پاس پاس بتاتے ہیں- لیکن اس بارہ میں خود عربوں کی شہادت زیادہ معتبر تسلیم کی جائے گی بہ نسبت دوسری قوموں کے- اور عرب لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیانی جنگل کو بریہ فاران کہتے ہیں- چنانچہ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے- وادی فاطمہ نامی پڑائو پر اگر پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھا جائے کہ تم یہ کہاں سے لائے ہو تو یہی کہتے ہیں کہ ہم بریہ فاران یعنی دشت فاران سے لائے ہیں- تاج العروس میں لکھا ہے- وفی الحدیث ذکر جبال فاران وھو اسم لجبال مکہ بالعبرانی کہ حدیث میں فاران کے پہاڑوں کا جو ذکر آتا ہے- اس سے مراد مکہ کی پہاڑیاں ہیں اور یہ نام عبرانی زبان میں مستعمل ہے-
پھر دوسری اور تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ آسمان اس کی شوکت سے چھپ گیا- اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی- یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی- چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنو صلوا علیہ وسلموا تسلیمایعنی الل¶ہ اور اس کے ملائکہ اس نبی پر آسمان سے درود بھیج رہے ہیں- اس لئے اے مومنو! تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو- گویا آسمان آپ کی شوکت سے چھپ گیا- حدیث میں آتا ہے- آسمان میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ایسی نہیں- جہاں ملائکہ نہ ہوں- اور چونکہ سب کے سب ملائکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں- اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شوکت سے سارا آسمان چھپ گیا- آگے بتایا کہ ہم نے بھی زمین کو اس کی حمد سے معمور کرنا ہے اس لئے اے مسلمانو! اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نبی پر درود و سلام بھیجو- آسمان کی شوکت کے متعلق ہمارا کام تھا- وہ ہم نے کر دیا- اب زمین کو حمد سے معمور کرنا تمہارے سپرد ہے- تم اٹھتے بیٹھتے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( پر درود بھیجو- اور اس طرح صلوا علیہ وسلموا تسلیما پر عمل کرو- غرض دونوں باتیں پوری ہو گئیں- آسمان سے فرشتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں- اور زمین پر مسلمان- اور پھر زمین کا وہ کونسا حصہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہیں- اس طرح زمین بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد سے معمور ہو گئی-
چوتھی پیشگوئی یہ بیان کی کہ مری اس کے آگے آگے چلی- اس کے معنی یہ ہیں کہ- جدھر اس نے توجہ کی ادھر ہی دشمن ہلاک ہو گئے- یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ ؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مری ان کے آگے نہ چلی بلکہ بقول عیسائیاں وہ مری کے آگے چلے- ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ دشمنوں سے بچائے گئے- لیکن عیسائی کہتے ہیں ان کے دشمنوں نے انہیں صلیب پر مار دیا-
پانچویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ اس کے قدموں پر آتشی و بار روانہ ہوئی- بائیبل کے مفرس کہتے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہاں جائے گا وبا آئے گی- مگر خدا کے کسی مقدس کی یہ علامت نہیں ہوتی- بعض بائیبل کے نسخوں میں خصوصاً عربی نسخوں میں لکھا ہے- وعندر جلیہ خرجب الحمی کہ اس کے پائوں کے پاس سے بخار نکل گیا- یعنی جہاں اس کا پائوں پڑے گا وہاں سے بخار نکل جائے گا- گویا آتشی وباء سے مراد بخار ہے- یہ بات بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت وضاحت سے پوری ہوئی- حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بخار کی بڑی شدت تھی- حتیٰ کہ اسے یثرب اسی لئے کہتے تھے کہ وہاں طیریا بخار بڑی شدت سے ہوتا تھا- جب صحابہؓ وہاں ہجرت کر کے گئے تو سب کو بخار آنے لگا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی- قرآن کریم میں بھی مدینہ کا نام یثرب آتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اذ قالت طائفہ منھم یاھل یثرب لا مقام لکم فارجعوا اور یثرب کے معنی عیب اور ہلاکت کے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور صحابہؓ بخار سے بیمار ہو گئے تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ پیدا ہوئی- اور آپﷺ~ نے یہ دعا کی کہ اللھم العن شیبہ بن ربیعہ و عتبہ بن ربیعہ و امیہ بن خلف کما اخرجونا من ارضضنا الی ارض الوباء- اے خدا! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو تباہ کر جنہوں نے ہمیں مکہ کی زمین سے نکال کر بخار کی سرزمین میں پہنچا دیا- پھر فرمایا- صححھالنا وانقل حماھا الی الجعفتہ یعنی اے خدا! میں دعا کرتا ہوں کہ تو یہاں سے بخار کو نکال دے اور حجفہ کی طرح بھیج دے- حدیثوں میں آتا ہے کہ اس کے بعد مدینہ سے بخار دور ہو گیا- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- اب اسے یثرب نہ کہو کیونکہ اس میں عیب اور سزا اور ڈانٹ کے معنی پائے جاتے ہیں بلکہ اسے طیبہ کہو- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لے جانے سے وہاں سے بخار نکل گیا- اور اس کی ہوا آج تک نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے- یہ خبر تھی جو اس پیشگوئی میں دی گئی تھی-
چھٹی پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ >وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا<- اس کے ایک تو ظاہری معنی ہیں- وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حلیہ لکھا گیا ہے اس میں ایک بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اذا مشی تقلع کانما ینحط من صبیب- جب آپ چلتے تو آپ کا پائوں زمین پر اس طرح پڑتا کہ گویا پائوں دھنس گیا ہے-
دوسرے معنی لرزانے کے یہ ہیں کہ آپﷺ~ کا بے حد رعب تھا- خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں- نصرت بالرعب مسیرہ شھر- یعنی ایک ایک مہینہ کے فاصلہ تک کے لوگ آپ کے رعب سے لرزتے تھے- قرآن کریم میں بھی یہ ذکر آتا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- ھوالذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیار ھم لاول الحشر ماظننتم ان یخرجوا و ظنوا انھم مانعتھم حصونھم من اللہ فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا وقذف فی قلوبھم الرعب یحزبون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا یا ولی الابصارہ فرمایا- وہ خدا ہی ہے جس نے اہل کتاب کے کفار کو ان کے گھروں سے نکالا- تمہیں گمان تک نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے- وہ بھی کہتے تھے کہ ہمارے قلعے ہمیں بچا لیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب نے ان کو تباہ کر دیا- وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو تباہ کرنے لگے- اور وہ بھاگ گئے-
غرض الل¶ہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ طاقت عطا کی کہ جہاں دشمن کے مقابلہ کیلئے جاتے لوگ آپﷺ~ کے رعب سے لرز جاتے-
ساتویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ >اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا<- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومیں اس پر چڑھ آئیں گی- لیکن جب وہ مقابلہ کرے گا تو بھاگ جائیں گی- جنگ احزاب کے موقعہ پر ایسا ہی ہوا جس کے متعلق سیھزم الجمع ویوتون الدبر میں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا- کہ قومیں جمع ہو کر حملہ کرینگی مگر پھر بھاگ جائیں گی-
آٹھویں پیشگوئی یہ کی گئی کہ >قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھنس گئیں<- پہاڑ سے مراد بڑے بڑے آدمی بادشاہ اور حکمران ہوتے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب قیصر و کسریٰ آئے تو کس طرح ان کا نام و نشان مٹ گیا- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ان عذاب ربک لوقع مالہ من دافع یوم تمور السماء مورا وتسیر الجبال سیرا فویل یومئذ للمکذبین کہ ہم اسلام کی ترقی کے متعلق جن باتوں کی خبریں دے رہے ہیں وہ ہو کر رہیں گی- کوئی انہیں روک نہیں سکتا- جب آسمان لرزہ کھا کر پھٹ جائے گا- اور پہاڑ اپنی پوری رفتار کے ساتھ چلیں گے- اس دن جھٹلانے والوں پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا- گویا قرآن بھی اس پیشگوئی کی تائید کرتا ہے-
معلوم ہوتا ہے لوگوں کو بھی حبقوق نبی کی اس پیشگوئی کا خیال تھا- کیونکہ قرآن کریم میں قیامت کا نقشہ کھینچتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے- وقد اتینک من الدنا ذکرا من اعرض عنہ فانہ یحمل یوم القیامہ وزرا کہ ہم نے تمہیں یہ قرآن دیا ہے- جو اس کا انکار کرے گا قیامت کے دن سزا پائے گا- اس کے بعد فرماتا ہے- و یسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعا صفصفا لاتری فیھا عوجا ولا امتا! یومئذ یتبعون الداعی لاعوج لہ وخشعت الاصوات للرحمن فلاتسمع الا ھمسا یعنی کہتے ہیں کہ پہاڑوں کا کیا حال ہوگا تو کہہ دے کہ میرا رب ان کو اکھیڑ کر پھینک دے گا اور ان کوایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا کہ نہ تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی- اس دن لوگ سچے امام کے پیچھے چل پڑیں گے- جس کی تعلیم میں کوئی کجی نہ ہوگی- اور آوازیں خدائے رحمان کیلئے دب جائیں گی- یعنی ادب والی آواز کے سوا تم کوئی اور آواز نہ سنو گے-
مفسرین کہتے ہیں ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن پہاڑ اڑائے جائیں گے مگر یہاں پہلے قیامت کا ذکر آ چکا ہے جس میں بتایا ہے کہ اس وقت زمین و آسمان نہ رہیں گے- اور جب زمین و آسمان نہ رہیں گے تو پھر پہاڑوں کے علیحدہ ذکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی حکومت قائم ہوگی- تو اس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ اتنی بڑی بڑی موجودہ حکومتیں کہاں جائیں گی اس کے جواب میں بتایا کہ تباہ ہو جائیں گی- پھر یتبعون الداعی بھی بتاتا ہے کہ یہاں مراد اگلا جہان نہیں- کیونکہ مومن تو اس جہان میں بھی ایسی داعی کے پیچھے ہوتے ہیں اور کافروں کے متعلق آتا ہے کہ وہ آخرت میں ساتھ جانا چاہیں گے تو انہیں واپس کر دیا جائے گا- اور پھر فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرہ اعمی و اضل سبیلا کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے- وہاں بھی اندھا ہوگا- اس وقت کفار کہاں ایمان لائیں گے وہ تو وہاں بھی گمراہ ہی ہونگے- پھر داعی کے پیچھے کیونکر چلیں گے- پس مراد یہی ہے کہ ان حکومتوں کو تباہ کر دیا جائے گا- اور جو لوگ اس وقت دشمن ہیں وہ ایمان لے آئیں گے- چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو سارے دشمن ایمان لے آئے- پس جبال سے مراد بڑے آدمی اور سرداران قوم اور سلاطین ہیں کہ جن کے مارے جانے اور جن کے نظام تو توڑ دیئے جانے پر اسلام کی اشاعت مقدر تھی-
نویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی کہ >میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جانتے تھے<- عربی بائیبل میں بپت کی جگہ بلیلہ یعنی مصیبت لکھا ہے اور پردے کان جاتے تھے کی جگہ انگریزی میں elbmertDid کا لفظ استعمال کیا گیا ہے- اب ہم دیکھتے ہیں کہ کوشان کیا ہے- بائیبل والے کہتے ہیں کہ کوشان کے معنی کوش میں رہنے والا قبیلہ ہے جو عراق عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے- بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمرود کے باپ کا نام کوش تھا- اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کوش قبیلہ کے لوگ چھ سو سال تک عراق پر حکومت کرتے رہے- مدیان شمالی عربی کا ساحل سمندر کے پاس کا ایک شہر ہے جو مصر سے شام یا عرب کو جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے- قرآن کریم میں اسے مدین کہا گیا ہے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ حکومت قیصر میں شامل تھا اور شام کے صوبہ کے نیچے تھا- ان دونوں ملکوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حملہ ہوا اور دونوں حکومتوں کو تباہ کر کے اسلامی حکومت قائم کر دی گئی- اور حضرت عمرؓ کی فتح درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فتح تھی- کیونکہ آپ نے فرمایا- قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں- اور جنگ احزاب کے موقع کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا تھا- صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا- آپﷺ~ تشریف لائے- فقال بسم اللہ ثم ضربہ فنشر ثلثھا وقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح الشام و اللہ انی لابصر قصو وھا الحمر الساعہ ثم ضرب الثانیہ نقطع ثلثا اخر فقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح فارس واللہ انی لابصر قصور المدائن الا بیض الان ثم ضرب الثالثہ وقال بسم اللہ نقطع بقیہ الحجر فقال اللہ اکبر اعطیت مفاتیح الیمن واللہ انی لابصر ابواب صنعاء من مکانی الساعہ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعرہ تکبیر بلند کیا- اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے حکومت شام کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں اس کے سرخ محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں- پھر دوسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کدال کو پتھر پر مارا تو پھر اس میں سے شعلہ نکلا اور پتھر کا ایک اور حصہ ٹوٹ گیا- اس پر پھر آپﷺ~ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے ایران کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن کے سفید محلات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں- پھر آپﷺ~ نے تیسری دفعہ کدال ماری جس سے پھر اس میں سے ایک شعلہ نکلا اور باقی پتھر بھی ٹوٹ گیا- اس پر آپﷺ~ نے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا اللہ اکبر- مجھے یمن کی کنجیاں بھی دے دی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں صنعاء کے دروازے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں-
غرض حبقوق نبی کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ آنے والا` شام` عراق اور مدائن کو فتح کر لے گا- قرآن کریم بھی ان جنگوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے- قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید تقاتلونھم اویسلمون فان تطیعوا یوتکم اللہ اجرا حسنا وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذبکم عذابا الیما
یعنی اعراب میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑے گئے ہیں تو ان سے کہدے کہ تم ضرور ایک ایسی قوم سے جنگ کرنے کیلئے بلائے جائو گے جو فنون جنگ میں بڑی ماہر ہے اور تم ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں اور مسلمان نہ ہو جائیں- پس اگر تم اس وقت خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو بڑا اچھا اجر دے گا- اور اگر تم اس حکم سے روگردانی اختیار کرو گے جس طرح تم نے اس سے پہلے رو گردانی کی تھی تو اللہ تعالیٰ تم کو دردناک عذاب دے گا-
اس آیت میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی اب باہر سے اور قومیں آئیں گی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہونگی اور ان سے تمہارا مقابلہ ہوگا- مگر ان جنگوں کا بھی آخری نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائیں گے- اس سے معلوم ہوا کہ عرب سے باہر بھی جنگیں ہونی ضروری تھیں- چنانچہ قیصر و کسریٰ کے ساتھ اسلامی فوجوں کی جنگیں ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ بخشا-
دسویں پیشگوئی یہ بیان کی گئی ہے کہ >سورج اور چاند اپنے اپنے مکان میں ٹھہر گئے- تیرے تیروں کی روشنی کے باعث جو اڑتے اور تیرے بھالے کی چمکاہٹ کے سبب- تو قہر کے ساتھ زمین پر کوچ کرے گا- تو نے نہایت غصے ہو کر قوموں کو روند ڈالا ہے<-
سورج اور چاند کا ٹھہر جانا یہ محاورہ ہے روحانی اور جسمانی سلسلوں کے نظام کے ٹوٹ جانے کا- سورج دنیوی اور چاند روحانی سلسلوں کا نشان ہے- جب خیبر فتح ہوا اور حضرت صفیہؓ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی- تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا- مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ میری شادی آپﷺ~ سے ہوگی- آپﷺ~ نے فرمایا- کس طرح؟ انہوں نے کہا- میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں آ گرا ہے- اس کا ذکر میں نے اپنے باپ سے کیا- تو اس نے مجھے تھپڑ مارا اور کہا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے- پس چاند سے مراد مذہبی حکومت ہے اور سورج سے مراد دنیوی حکومت- مطلب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے روحانی اور جسمانی دونوں نظام ٹوٹ جائیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- دونوں سابقہ نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ٹوٹ گئے- روحانی طور پر سب فیض آپﷺ~ کے سلسلہ کے بعد بند ہو گئے- اور جسمانی طور پر آپﷺ~ کے اتباع نے سب حکومتوں کو خواہ کسی ملک کی تھیں تباہ کر دیا- اور دنیا کا نظام ہی بدل ڈالا- بائیبل کی اگلی آیت اسی کی تفسیر ہے-
گیارھویں پیشگوئی یہ کی گئی ہے کہ >تو اپنی قوم کو رہائی دینے کیلئے ہاں اپنی ممسوح کو رہائی دینے کیلئے نکل چلا- تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا- وہ مجھے پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے- ان کا فخر یہ تھا کہ مسکینوں کو ہم چپکے نگل جائیں<-
اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ موجود جنگ کے لئے نکلے گا تا کہ اپنی کمزور قوم کو ظالموں سے رہائی دلائے- اور اس میں یہ بھی بتایا کہ دشمن بھی جنگ کیلئے نکلے گا کیونکہ لکھا ہے کہ >وہ پراگندہ کرنے کیلئے آندھی کی طرح نکل آئے<- گویا ادھر سے یہ اور ادھر سے وہ نکلیں گے- اور دونوں کی مڈبھیڑ ہوگی- دشمن چاہے گا کہ غریب اور کمزور قوم کو دھوکا سے تباہ کر دے گا- مگر وہ خود تباہ ہوگا- اور موعود کامیاب ہوگا-
اب دیکھو کتنی تفصیل سے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات اور بدر کی جنگ کی تفصیل بیان کی گئی ہے- مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کیلئے عتبہ کی کمان میں نکلے- ابوجہل سیکنڈ ان کمان تھا- جب عتبہ مارا گیا- تو ابوجہل نے کمان سنبھال لی- غرض مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ~ کے ماننے والوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے- ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے ارادہ کا علم ہوا تو آپﷺ~ بھی نکلے تا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کر کے مدینہ کو تباہ نہ کر سکے- قرآن کریم میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ والمستصنعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریہ الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا فرمایا- اے مسلمانو! اللہ کے رستہ میں لڑائی کرنے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے- جب کہ کچھ کمزور مرد عورتیں اور بچے ہم سے دعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس ظالم بستی سے نکال اور ہماری امداد کے لئے کسی کو کھڑا کر- آگے فرماتا ہے- فقاتل فی سبیل اللہ لاتکلف الانفسک وحرض المومنین عسی اللہ ان یکف باس الذین کفروا- واللہ اشد باسا واشد تنکیلا یعنی اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو نکل کھڑا ہو- کوئی اور جائے یا نہ جائے تو چل- ہاں مسلمانوں کو تحریص دلا- اگر وہ شامل ہو جائیں تو ثواب کے مستحق ہونگے- نہیں تو عذاب کے- مگر تو ضرور چل-
اس پیشگوئی میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہ فخر سے نکلے اور چوری چھپے کمزوروں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا ارادہ کیا- قرآن کریم میں بھی آتا ہے- ولا تکونوا کالذین خرجوامن دیار ھم بطرا ورئاء الباس ویصدون عن سبیل اللہ یعنی اے مسلمانو! بدر کے موقعہ پر نکلنے والے کفار کی طرح نہ بنو- جو اتراتے ہوئے نکلے تھے- پھر وہ ظاہر کچھ دکھاتے تھے اور اندر سے ان کی نیت اور تھی- ظاہر تو یہ کرتے تھے کہ ایک قافلہ کو بچانے چلے ہیں- مگر ان کی نیت مدینہ منورہ کو تباہ کرنے کی تھی-
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ قافلہ کو لوٹنے کیلئے نکلے تھے- اگر یہی بات تھی اور کفار اس قافلہ کو بچانے چلے تھے تو پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ تکبر کرتے نکلے اور پھر یہ کہ کہتے کچھ تھے اور ان کا اندرونی منشاء کچھ اور تھا- وہ چاہتے یہ تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچائیں- بھلا قافلہ کو بچانے سے اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتے تھے- یہ عجیب لطیفہ ہے کہ بائیبل کہتی ہے کہ دشمن چوری سے نکلے اور ان کی غرض یہ تھی کہ چپکے سے اس قوم کو جو کمزور تھی تباہ کر دیں- اور قرآن بھی ان کے غرض یصدون عن سبیل اللہ بیان کر کے بائیبل کی تصدیق کرتا ہے- لیکن مورخ کہتے ہیں کہ کفار صرف اپنے ایک قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قافلہ کو لوٹنے کیلئے آئے تھے- بائیبل اور قرآن دونوں کا بیان ایک ہے اور مورخ جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل غلط ہے- کفار نے قافلہ کو بچانے کا صرف بہانہ بنایا تھا- ان کی غرض مدینہ پر حملہ کرنا تھی تا کہ مسلمانوں کو تباہ کر دیں-
ابوجہل کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی جو بڑی شان سے پوری ہوئی
بارھویں پیشگوئی- اب اس پیشگوئی کے درمیان کے دو فقرے جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا ان کا ذکر کرتا ہوں- اور وہ یہ ہیں- >تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اس کے بھالوں سے مار ڈالا<-
اس پیشگوئی میں اس قدر استعارہ استعمال کیا گیا ہے کہ بظاہر مضمون کا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے- لیکن اگر ہم غور کریں تو معنی کھل جاتے ہیں- یہ تو صاف بات ہے کہ بنیاد کی گردن کوئی نہیں ہوتی- نہ شریر کے گھر کا سر کوئی ہے- پس اس کے کوئی اور معنی کرنے ہونگے- سو ہم دوسرے حصہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں اس کی تشریح موجود ہے- اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے- جب یہ حل ہو گیا تو اب بنیاد کی گردن کو ننگا کرنا بھی آسان ہو گیا- اس نقطہ نگاہ سے جب اس پیشگوئی پر غور کیا جائے تو ہمیں اس کا پہلا فقرہ یہ نظر آتا ہے کہ >بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے<- اب دیکھنا یہ ہے کہ بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے کیا معنی ہیں- بائیبل والے کہتے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد کو ننگا کر دے- مگر جب بنیاد کا لفظ موجود تھا تو پھر گردن تک کہئے کے کیا معنی- اور بنیاد کی گردن کا کوئی محاورہ نہیں ہے- جب گردن کا ذکر ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ کسی انسان کے متلعق ہے- اور بنیاد عام محاورہ میں اس نیچے کی چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز رکھی ہو- انگریزی میں BASE عمارت کی بنیاد کو بھی کہتے ہیں اور سر کی جڑ کو بھی کہتے ہیں- جہاں سر گردن سے ملتا ہے- عبرانی میں BASE کا لفظ ہی ہے- پس سر کا نچلا حصہ چونکہ گردن پر رکھا ہوتا ہے- اس لئے وہ بنیاد ہے- اور مطلب یہ ہے کہ گردن تک نچلے حصہ کو ننگا کیا جائے گا- پھر شریر کے گھر کے سر سے مراد گھرانہ کا سردار ہے- کیونکہ شریر کے گھر کا سر کوئی اور چیز نہیں ہوتی پس اسے جڑ سے کاٹ دے گا- ان معنوں کی اگلے فقرہ سے بھی تصدیق ہوتی ہے- آگے آتا ہے- >تو نے اس کے سرداروں میں سے جو عالی درجہ کا تھا اس کے بھالوں سے مار ڈالا<- اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ پہلے فقرہ میں کسی دشمن کے قتل کی کیفیت بیان ہوئی ہے- پس بنیاد کو گردن تک ننگا کرنے کے معنی یقیناً سر کو گدی تک ننگا کرنے کے ہیں- اور بتایا گیا ہے کہ جب وہ نبی کمزوروں کو بچانے کیلئے ایک طرف سے نکلا- اور دوسری طرف سے اس کے دشمن غریبوں کو مسل ڈالنے کے خیال پر فخر کرتے ہوئے نکلے تو آپس میں جنگ ہوئی- اور اس جنگ میں جو دشمنوں کا سردار تھا اسے اس نبی یا اس کے کسی تابع نے گردن تک ننگا کر کے اسی کے ہتھیار سے مار ڈالا-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا بدر کی جنگ میں جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ کسی سردار کے سر کو اس کی گردن ننگی کر کے گدی سے کاٹ دیا گیا ہو- جب ہم بدر کی جنگ کا حال پڑھتے ہیں- تو ہمیں لفظ بلفظ ایسا ہی ایک واقعہ ملتا ہے- تاریخوں میں لکھا ہے جب جنگ شروع ہوئی اور صحابہ مقابل پر کھڑے ہوئے- تو ان میں دو کم سن لڑکے بھی تھی- یہ جنگی قاعدہ ہے کہ بہادر لڑنے والے اس بات کی احتیاط رکھتے ہیں کہ ان کے دائیں بائیں بھی بہادر ہوں تاکہ وہ پوری بے فکری سے جنگ میں نمایاں حصہ لے سکیں- حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ ہمارے دل کفار کی تکالیف سے بھرے ہوئے تھے- اور ہم سمجھتے تھے کہ آج ان سے خوب بدلہ لیں گے- مگر جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دو لڑکے کھڑے ہیں تو میرا دل بیٹھ گیا کہ آج کیا لڑنا ہے جب کہ دونوں پہلو اتنے کمزور ہیں- لیکن ابھی یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے تا کہ دوسرا لڑکا نہ سن لے کہا- چچا سنا ہے ابوجہل بڑا شریر ہے مسلمانوں کو بہت دکھ دیتا ہے وہ کونسا ہے- میں اسے مارنا چاہتا ہوں- وہ کہتے ہیں- باوجود اس بہادری کے جو میں رکھتا تھا مجھے یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ میں ابوجہل کو ماروں- حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں ان کی بات سن کر سخت حیران ہوا- ابھی تھوڑی سی جنگ ہوئی تھی کہ عتبہ مارا گیا اور ابوجہل کمانڈر بنا تھا- میں نے انگلی کے اشارے سے بتایا- وہ ابوجہل ہے- وہ کہتے ہیں کہ میرا اشارہ کرنا تھا کہ دونوں لڑکے چیل کی طرح چھپٹا مار کر پہرہ میں سے گذرتے ہوئے اس پر جا پڑے اور اسے گرا دیا- پہرہ کے سپاہیوں نے ان پر حملہ کیا اور ایک کا ہاتھ کاٹ دیا جو تسمہ سے لٹک رہا تھا- اس نے اس پر پائوں رکھ کر اسے علیحدہ کر دیا تا کہ لڑائی میں حارج نہ ہو-
ابوجہل گر گیا تھا اور اسے زخم آئے تھے مگر مرا نہ تھا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پوچھا کہ ابوجہل کی کوئی علامت نظر نہیں آتی تو عبداللہ بن مسعودؓ اس کا پتہ لگانے کیلئے نکلے- جب وہ گئے تو دیکھا کہ ابوجہل گرا پڑا ہے- انہوں نے اسے کہا اے دشمن خدا- آج بھی تو ذلیل ہوا ہے یا نہیں- اس نے جواب دیا- ایک سردار قوم کو اس کی قوم مار دے تو اس میں کیا ذلت ہے- انہوں نے اس پر حملہ کیا- لیکن چونکہ ان کی تلوار چھوٹی تھی- اور اس کے پاس بھی تلوار تھی اس لئے کامیاب نہ ہوسکے- آخر اس کے ہاتھ پر ان کی تلوار لگی- اور اس کی تلوار گر گئی- انہوں نے اس کی تلوار اٹھا لی اور اسے مارنے لگے- اس نے کہا- دیکھ میں سردار قوم ہوں- میری گردن لمبی کر کے کاٹنا- تا کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( اسے دیکھ کر ڈرے- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اس سے اور زیادہ غصہ آیا- انہوں نے پیچھے سے ہو کر اس کی گردن پکڑ لی اور اس کا خود اٹھا کر سر کے عین نیچے سے اس کی گردن کو ننگا کیا- اور اسی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا- اور اس طرح اس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوئی- اور حبقوق نبی کی یہ پیشگوئی کہ تو بنیاد کو گردن تک ننگا کر کے شریر کے گھر کے سر کو کچل ڈالتا ہے- >تو نے اس کے سرداروں میں سے اسے جو عالی درجہ کا تھا اسی کے بھالوں سے مار ڈالا<- لفظاً لفظاً پوری ہوئی-
اب دو سوال باقی رہتے ہیں- ایک یہ کہ پیشگوئی میں ہے کہ تو نے دشمن کو مارا- لیکن مارا عبداللہ بن مسعودؓ نے- اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کے متبع کا کام درحیقیقت رسول کا ہی ہوتا ہے- دوسرا سوال یہ ہے کہ پیشگوئی میں بھالا آیا ہے مگر عبداللہ بن مسعودؓ نے تلوار سے مارا- اس کا جواب یہ ہے کہ اردو بائیبل میں بھالا لکھا ہے- انگریزی میں ٹیڑھی لکڑی- فارسی میں سونٹا اور عربی میں تیر- اس اختلاف سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عبرانی لفظ کے معنی نہ بھالا ہیں- نہ تیر` نہ سونٹا بلکہ ہتھیار کے ہیں جس کا ترجمہ مختلف مترجموں نے مختلف کر دیا ہے- یہ میرا خیال ہی نہیں بائیبل کا ایک مفسر بھی تفسیر بائیبل میں لکھتا ہے-
‏through smite didst than translated later were This ۔chieftains his of head the weapons own his with
یعنی صحیح مطلب یہ ہے کہ اسی کے ہتھیار سے اس کی گردن کاٹ دی-
تیرھویں پیشگوئی یہ تھی کہ >ہر چند کہ انجیر کا درخت نہ پھولے تس پر بھی میں خداوند کی یاد میں خوشی کرونگا<- اس میں بتایا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہ ہوگا- نبی اسرائیل کی مثال بائیبل میں انجیر سے دی گئی ہے- چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح نے ایک انجیر کے درخت پر *** کی کہ اسے پھل نہ لگیں- اور اس کی تفسیر مسیحی مفسر یہی کرتے ہیں کہ یہودی قوم کا خدا سے تعلق کٹ جائے- پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حبقوق نبی کہتا ہے کہ گو یہود جن میں سے وہ خود ہے تباہ ہو جائیں گے- لیکن پھر بھی مجھے اس نبی کے ذریعہ خدا کے نام کا روشن ہونا اپنی قومی ترقی سے زیادہ پسند ہے اور میں اپنی قومی تباہی کو محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے جلال کی وجہ سے بخوشی برداشت کرلوں گا-
حضرت مسیحؑ ناصری کی پیشگوئی
اس کے بعد ہم کچھ اور صدیاں پیچھے چلتے ہیں جب کہ حضرت مسیح ناصری کا زمانہ آتا ہے- وہ انگورستان کی تمثیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں-
>پس جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا- انہوں نے اس سے کہا- ان برے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا- جو موسم پر اس کو پھل دیں- یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا- یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے- اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائیگی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائیگی- اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے- مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا<-
دوسری جگہ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں-
>میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے- کیونکہ اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا- لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا- اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھیرائے گا- گناہ کے بارے میں اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے- راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے- عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے- مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا- اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا- وہ میرا جلال ظاہر کرے گا- اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا<-
ان پیشگوئیوں میں حضرت مسیحؑ نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ہیں-:
اول یہ کہ ایک مثیل موسیٰ آئے گا- کیونکہ خدا تعالیٰ کا آنا ایک شرعی نبی کے آنے پر جو مثیل موسیٰ ہو دلالت کرتا ہے- )۲(یہ کہ وہ بنی اسرائیل سے نہ ہوگا )۳(یہ کہ اس کی قوم میں ہمیشہ برگزیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو قوم کی ہدایت کا موجب ہوں گے- )۴(یہ کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہوگا- یعنی اس پر سب شریعتیں ختم ہو جائیں گی- )۵(یہ کہ اس کا مقابلہ دوسری اقوام سے ہوگا- لیکن خواہ اس پر کوئی حملہ کرے یا وہ کسی پر حملہ کرے دونوں صورتوں میں وہ کامیاب رہے گا- )۶(یہ کہ وہ تسلی دینے والا ہوگا- )۷(یہ کہ وہ دنیا کو تین چیزوں سے تقصیر وار ٹھہرائے گا- گناہ سے یعنی بوجہ مسیح کو نہ ماننے کے گناہ کے- وہ لوگوں پر الزام لگائے گا- یہاں گناہ محدود معنوں میں لیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ایک قوم کو مسیح کے انکار کی وجہ سے اور دوسری کو راستی سے یعنی مسیح کو چھوڑ بیٹھنے کی وجہ سے- اور تیسری کو عدالت سے یعنی اس وجہ سے کہ وہ لوگ شیطان سے تعلقات کی وجہ سے مجرم قرار دی جائیں گی- اور سب ہی دنیا اس کے آنے پر مجرم قرار پائے گی- )۸(یہ کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہ کہی گئی ہونگی- )۹(یہ کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی- )۱۰(یہ کہ اس کی کتاب میں صرف خدا کا کلام ہوگا اور وہ آئندہ کیلئے بھی روحانی ترقی کا رستہ کھلا رکھے گی- )۱۱(یہ کہ وہ کتاب مسیح کو عیب سے مبرا کرے گی- )۱۲(یہ کہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دے گی- یعنی اس کے کلام کو پورا کر کے اس کے باخدا ہونے کا ثبوت پیش کرے گی-
یہ ساری کی ساری باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت شان سے پوری ہوئیں- اول آپ مثیل موسیٰؑ تھے اور آپﷺ~ نے دعویٰ کیا کہ آپﷺ~ میں خدا ظاہر ہوا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں-
دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ موعود بنی اسرائیل میں سے نہ ہوگا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ بنی اسمٰعیل میں سے تھے-
تیسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپﷺ~ کی قوم کی ہدایت کے سامان ہمیشہ ہوتے رہیں گے چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول کو ایک دوسری قوم میں بھی بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں- اور وہ غالب حکمت والا ہے-
پھر حدیثوں میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا- ان اللہ یبعث لھذاہ الامہ علی راس کل ماہ سنہ من یجدد لھا دینھا یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں تجدید دین کیلئے اپنے پاک بندوں کو کھڑا کرتا رہے گا-
چوتھی بات یہ بیان کی گئی تھی کہ وہ موعود کونے کا پتھر ہوگا- جسے سب معماروں نے رد کر دیا- یہ اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ بنی اسرائیل ہمیشہ بنی اسمٰعیل کو محروم الارث قرار دیتے رہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دعویٰ کیا ہے کہ آپ کونے کا پتھر ہیں- چنانچہ فرمایا- ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنتہ من زاویہ فجعل الناس یطوفون لہ ویتعجبون لہ ویقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنہ قال فانا اللبنہ و انا خاتم النبیین- فرمایا- میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے مکان کی سی ہے جسے ایک شخص نے بنایا اور اسے خوب سجایا- مگر اس کے ایک کونہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رکھی- لوگ آتے اور اس مکان کو دیکھنے کیلئے اس کا چکر کاٹتے- اور تعجب سے کہتے یہاں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے؟ میں وہ کونے کی اینٹ ہوں جس سے اس مکان کی تکمیل ہوئی اور خاتم النبیین ہوں-
کونے کے پتھر کے بھی یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ دو دیواروں کو آپس میں ملاتا ہے اور دیوار کے معنی قرآن میں روحانی سلسلہ کے ہوتے ہیں- چنانچہ سورہ کہف میں حضرت موسیٰؑ نے دیوار کی مثال بنی اسرائیل سے دی ہے- اب دیکھنا یہ چاہئے کہ ان دو دیواروں سے کیا مراد ہے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کونہ کا پتھر بن کر ملایا- سو ایک دیوار تو پہلے انبیاء کی تھی- جو مختلف شریعتوں کے تابع تھے- اور ایک دیوار قرآن کی تھی- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے اتصال کا ذریعہ ہیں- کیونکہ آپﷺ~ ہی کے ذریعہ آپﷺ~ کی امت پہلے انبیاء کو مانتی ہے- اور آپﷺ~ ہی کے ذریعہ سے آئندہ آنے والے مامور پہلے نبیوں سے تعلق پیدا کرتے ہیں- دیکھ لو دوسری قوموں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کا تمام اقوام عالم سے تعلق قائم ہے- ہندوئوں کے سوا اور کسی قوم کا حضرت کرشن سے کوئی تعلق نہیں ہے- لیکن مسلمانوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ان سے بھی ہے- کیونکہ قرآن میں آیا ہے ان من امہ الا خلا فیھا نذیر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ معلوم نہ ہوتا کہ ہر قوم میں نبی آئے تو ہمیں کیا علم تھا کہ کرشن جی بھی خدا کی طرف سے تھے- پھر دیکھو یہود کو زرتشی قوم سے کوئی تعلق نہیں- وہ ایک علحیدہ دیوار کھڑی ہے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی ہر دیوار کو ملا دیا- زرتشت کی ساختہ دیوار سے اسلامی دیوار وابستہ ہے- اور دوسرے انبیاء کی دیواروں سے بھی اسلامی دیوار وابستہ ہے- پس کونے کے پتھر کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ~ آئندہ آنے والے لوگوں اور پچھلی قوموں میں واسطہ پیدا کر دیں گے پہلی دیواریں الگ الگ کھڑی تھیں- حضرت موسیٰؑ کی دیوار علیحدہ تھی- حضرت عیسیٰؑ کی علیحدہ- حضرت کرشنؑ کی علیحدہ- مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دیوار میں کونے کا پتھر بن گئے اور آپﷺ~ نے سب کو یہ کہہ کر ملا دیا کہ سب نبی خدا کی طرف سے ہیں- اور سب کا ایک ہی سلسلہ ہے-
پانچویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ~صل۳~ کا مقابلہ سب دنیا سے ہوگا- آپﷺ~ پر حملے کئے جائیں گے اور آپﷺ~ بھی حملے کریں گے- مگر دونوں صورتوں میں وہ نبی ہی جیتے گا- اس میں یہ نہیں کہا کہ وہ جیتے گا- بلکہ یہ کہا- اگر یہ حملہ کرے گا تو بھی جیتے گا اور اگر دشمن تیار ہو کر حملہ کریں گے تو بھی یہی جیتے گا- چنانچہ جنگ احزاب` احد اور بدر میں دشمن چڑھ کر آ گیا مگر ان میں بھی دشمن ہی کچلا گیا- اور فتح مکہ` خیبر اور تبوک کی جنگ میں آپﷺ~ گئے- اور ان میں بھی دشمن کچلا گیا-
چھٹی بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپﷺ~ تسلی دینے والے ہونگے- اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا کو تسلی کی ضرورت تھی یا نہیں- اگر ضرورت تھی تو کیا ان اقوام کو ان کے مذاہب تسلی دے سکتے تھے؟ سو اس بارے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذاہب اپنے ماننے والوں کے لئے تسلی کا باعث نہ رہے تھے- اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو سب مذاہب اس سے خالی تھے اور قلبی اطمینان ان میں کسی کو حاصل نہ ہو سکتا تھا- چنانچہ کوئی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل گناہ کی معافی کی قائل نہ تھی- ہندو کہتے کہ پرمیشور کسی کا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا- وہ ہر چھوٹے بڑے گناہ کی سزا دیتا ہے اور انسان کو مختلف جونوں میں جانا پڑتا ہے- اور سارے گناہوں کی سزا جونوں میں پڑ کر بھگت لینے کے بعد بھی پرمیشور ایک نہ ایک گناہ رکھ لیتا ہے اور پھر اس کی پاداش میں نجات سے محروم کر دیتا ہے- اس وجہ سے ہندو اپنے مذہب کے ذریعہ تسلی نہ پا سکتے تھے- زرتشتی اور مسیح ابدی دوزخ کے قائل تھے- اس عقیدہ کے ماتحت جس انسان سے ایک دفعہ بھی کوئی گناہ ہو جائے وہ یہی سمجھتا تھا کہ ابدی دوزخ میں جانا پڑے گا- اور اس وجہ سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا تھا- یہود بھی کسی کو تسلی نہ دیتے تھے- وہ کہتے تھے نجات صرف یہود کیلئے ہے باقی سب کیلئے ہلاکت ہے- غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی امید کی کمر ٹوٹ چکی تھی- کوئی مذہب ابتداء میں ہی ناامیدی کے گڑھے میں گرا دیتا- کوئی درمیان میں لا کر منجھدار میں چھوڑ دیتا- کوئی آخر میں ابدی دوزخ میں جھونک دیتا- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر سب کو تسلی دلائی- )۱(جو گناہ کی معافی کے قائل نہ تھے- انہیں بتایا کہ تناسخ کے چکر کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے- وہ گناہوں کو معاف کر دیتا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتفنطوا من رحمہ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغور الرحیم یعنی اے رسول! تو سب بندوں کو کہدے کہ مجھے خدا نے تسلی دینے والا بنایا ہے- اس لئے وہ لوگ جنہوں نے کوئی گناہ کیا ہے- انہیں خبر دے دے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو- توبہ کرو تو وہ گناہ بخش دے گا- کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے-
)۲(پھر اس نے ان قوموں کی طرف مونہہ کیا جو کہتی ہیں کہ جو گناہگار مر گئے- ان کے لئے ہمیشہ کا جہنم ہے- اور سنایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے- میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے- چنانچہ سورہ اعراف:۱۵۷ میں آتا ہے- رحمتی وسعت کل شیء پھر فرمایا- امہ ھاویہ یعنی جہنم ماں کی طرح ہے- ماں کے پیٹ میں بچہ ہمیشہ نہیں رہتا جب تک ناقص ہوتا ہے پیٹ میں رہتا ہے- اور جب کامل ہو جاتا ہے- پیٹ سے نکال دیا جاتا ہے- اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے- جہنم ماں کی طرح ہے- جب ان لوگوں کے گند دور ہو جائیں گے جن کو اس میں ڈالا جائے گا اور ان کی صفائی ہو جائے گی تو ہم ان کو جنت میں بلا لیں گے- پس دوزخ صرف ایک تکمیل اور علاج کا مقام ہے- آخر سب خدا تعالیٰ کی بخشش کے نیچے آ جائیں گے- اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قوموں کو بھی تسلی دی جو یہ سمجھتی تھیں کہ گناہگار ہونے کی حالت میں مرنے پر ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا-
)۳(پھر وہ قومیں جو یہ کہتی تھیں کہ سوائے ہمارے اور کسی کیلئے نجات نہیں ان کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ لوگوں کو تسلی دے دے کہ یہ غلط خیالات ہیں- جسے یہود نے نادانی سے کہہ دیا کہ ہمارے سوا کوئی نجات نہیں پا سکتا- اور نسلاً یہ نجات ہمارے حصہ میں ہی آئی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص ہے- نجات ہم نے دینی ہے اور ہمارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے- چنانچہ فرمایا- قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں- پس ہدایت کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں- بلکہ ہر قوم اس میں برابر کی حقدار ہے-
اب انسان کے دل میں ایک اور خوف پیدا ہوتا ہے کہ اچھا آپﷺ~ آگئے- اور آپ کے ذریعہ سب کے لئے نجات کا دروازہ بھی کھل گیا- جس کیلئے ہم بڑے ممنون ہیں- مگر ہمیں اپنے باپ دادا سے محبت ہے ان کی کیا حالت ہوگی- مسیحیت کہتی ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کفارہ پر ایمان نہیں لائے- یہودی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ سوائے یہود کے اور کسی کیلئے نجات نہیں- زرتشتی کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں جائیں گے- ہندو بھی یہی کہتے ہیں- مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خدا تعالیٰ کہتا ہے- کہدو وان من امہ الا خلا فیھا نذیر تم اپنے باپ دادوں کے متعلق مت ڈرو- ان کے وقت بھی ہم نے نبی بھیجے تھے- اگر انہوں نے ان انبیاء کو قبول کر لیا تھا تو خدا انہیں جنت میں لے جائے گا- یہ آباء کے متعلق ان کو تسلی دی-
اب یہ وسوسہ باقی رہتا تھا کہ انسان گناہ سے تو بچ ہی نہیں سکتا- پھر نجات کیسے ہوگی- اس کے لئے فرمایا- یہ وسوسہ بھی دور کر دو- اور ان سے کہو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددنہ اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون اے محمد )صلی الل¶ہ علیہ وسلم( ان کو تسلی دے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ انسان کی فطرت گندی ہے وہ جھوٹ بولتا ہے- ہم نے انسان کو نیک فطرت دے کر بھیجا ہے- جب انسان خطا کرتا ہے تب ہم اسے نچلے درجہ میں بھیجتے ہیں- ورنہ بڑے بڑے انعام دیتے ہیں- گناہ ایک باہر سے آنے والی چیز ہے- اصل میں انسان کے اندر نیکی ہی رکھی گئی ہے-
غرض اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو تسلی دلائی- جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے نجات کا دروازہ بند ہے- انہیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونے کی دعوت دی- جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نیک نہیں ہو سکتے انہیں نیکی کی امید دلائی- جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ایک دفعہ گناہ کر لیا تو پھر اس کے وبال سے نجات نہیں ان میں توبہ کا اعلان کیا- جو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ گہنگار مر گئے تو ہمیشہ کیلئے گئے- انہوں دوزخ کے ایک درمیانی سٹیج ہونے کا علم دیا غرض آپﷺ~ حقیقی معنوں میں دنیا کو تسلی دلانیوالے تھے- یہ تو دوسروں کے متعلق فرمایا- اس کے بعد اپنے لوگوں کی باری آئی- ان کو تسلی کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد سنایا- کہ خذمن اموالھم صدقہ تطھرھم و تزکیھم بھا وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم واللہ سمیع علیم فرمایا- جب وہ رسول دنیا کو تسلی دے گا تو اس کی امت والے کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے ہی دن حاصل کر چکے ہیں- پھر ہمیں کیا ملے گا- فرمایا- ان سے مساکین کیلئے چندے لو- اور اس طرح ان کو پاک کرو- اور ان کی ترقی مدارج کیلئے دعائیں کرو- کہ جس کے لئے تو دعا کرتا ہے اس کے لئے تسلی ہی تسلی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ تیری دعا سنے کیونکہ وہ سمیع ہے- اور اگر بعد میں آنے والی امت کہے کہ ہمارے لئے کیا ہے- تو ان سے کہو خدا علیم ہے- اب بھی تمہارے لئے وہ دعا موجود ہے اور تم اس سے حصہ لے سکتے ہو- اس طرح ان کے لئے بھی تسلی کا سلسلہ جاری کر دیا-
ساتویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ رسول دنیا کو تین طرح مجرم قرار دے گا- )۱(گناہ سے )۲(راستبازی سے )۳(عدالت سے- یعنی ایک قوم سے کہے گا کہ یہ مسیح کا انکار کرنے والے ہیں- اس لئے مجرم ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسنان دائود و عیسی ابن مریم یعنی بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا ان پر دائودؑ اور عیسیٰ بن مریمؑ کی زبان سے *** کی گئی تھی- اس طرح غیر المغضوب علیھم میں حضرت مسیح کا انکار کرنے والوں کو مغضوب قرار دے کر ان سے پناہ مانگی گئی ہے- )۲(راستبازی سے اس طرح مجرم قرار دیا کہ حضرت مسیحؑکی وفات کے بعد نصاریٰ نے انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا- پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا- کہ تم نے راستبازی تو اختیار کی یعنی مسیح کو قبول کیا لیکن پھر صحیح راستہ کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں نکل گشے- اس لئے تمہارا نام ضال
رکھا گیا ہے- جیسا کہ غیر المغضوب علیھم والاالضالین سے ظاہر ہے- )۳(باقی قوموں کو آپﷺ~ نے عدالت سے مجرم قرار دیا یعنی اس وجہ سے کہ وہ شرک کی مرتکب ہوئیں اور توحید کو جو عدل کا طریق تھا انہوں نے ترک کر دیا اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک کا نام غیر عدل رکھا گیا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما قدروا اللہ حق قدرہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اس طرح اندازہ نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا- اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ہے- الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدونوہ لوگ جو ایمان لائے انہوں نے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا- انہی لوگوں کیلئے امن مقدر ہے- اور وہی ہدایت پانے والے ہیں- احادیث میں آتا ہے کہ صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہر شخص تھوڑا بہت ظلم تو کر بیٹھتا ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- اس جگہ ظلم سے مراد شرک ہے-
غرض اس پیشگوئی کے مطابق ہر قوم جو اہل کتاب میں سے ہے- آپﷺ~ نے اسے مثیل یہود قرار دے کر مغضوب یا مثیل نصاریٰ قرار دے کر ضال قرار دیا- اور جو قومیں اہل کتاب نہ تھیں- ان کے متعلق عدالت کو اس رنگ میں استعمال کیا کہ فرمایا ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا- اور شرک کا ارتکاب کر کے صحیح راستہ سے منحرف ہو گئی ہیں- گویا` گناہ کا لفظ جو انجیل میں استعمال ہوا ہے وہ تفریط کے مترادف ہے- راستی افراط کے مترادف اور عدالت توحید سے بے اعتنائی کے مترادف ہے- اور تین ہی گروہ قرآن کریم نے قرار دیئے ہیں-
آٹھویں بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایسی باتیں کہے گا جو اس سے پہلے نہیں کہی گئیں- قرآن کریم میں بھی آتا ہے- وعلمتم مالم تعلموا انتم ولا اباء کم تمہیں وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں جو نہ تمہیں معلوم تھیں اور نہ تمہارے باپ دادا کو- ان باپ دادا میں حضرت موسیٰؑ بھی شامل ہیں-
نویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ سب سچائیاں بتائے گا جن کے بعد کسی اور سچائی کی ضرورت نہ رہے گی- یہ بھی قرآن کریم میں دعویٰ کیا گیا ہے- فرماتا ہے الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعتمی و رضیت لکم الاسلام دینا آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا- اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا-
دسویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنائے گا وہی کہے گا- یعنی اس کا کلام کلی طور پر الہام پر مشتمل ہوگا- یہ پیشگوئی صرف قرآن کریم پر ہی چسپاں ہوتی ہے- ورنہ انجیل اور تورات میں تو حواریوں کا کلام بھی درج ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی یعنی وہ اپنی ہوا و ہوس سے نہیں بولتا- بلکہ جو کچھ کہتا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے- پھر آتا ہے- وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ مشرکین میں سے اگر کوئی کہے کہ مجھے پناہ دو- میں خدا کی باتیں سننا چاہتا ہوں تو تم اسے بلائو تا کہ وہ کلام اللہ سن لے-
گیارھویں بات یہ بتائی تھی کہ وہ میرا جلال یعنی بزرگی ظاہر کرے گا- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے- سورۃ بقرہ میں آتا ہے- واتینا عیسی ابن مریم البینت وایدنہ بروح القدس یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریمؑ کو کھلے کھلے نشانات دیئے اور روح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی- پھر آتا ہے- وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیعہ و کان اللہ عزیزا حکیما کہ ان لوگوں نے عیسیٰؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ صلیب پر چڑھا کر مارا- ہاں صلیب پر چڑھایا ضرور تھا- اور وہ ان کے لئے مصلوب کے مشابہ بنا دیا گیا تھا- وہ لوگ جو اس بات میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً شک میں پڑے ہوئے ہیں- ان کو اس بات کے متعلق کوئی یقینی علم نہیں وہ صرف ایک وہم کی پیروی کر رہے ہیں- انہوں نے ہر گز حضرت عیسیٰؑ کو نہیں مارا- بلکہ اللہ نے اس کو اپنے حضور میں بڑی عزت اور رفعت بخشی تھی- )گویا آپﷺ~ نے حضرت عیسیٰؑ کی وہی بزرگی ظاہر کی جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے( اور کیوں خدا ایسا نہ کرتا- وہ عزیز اور حکیم ہے- یعنی ضروری تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کے منکرین صلیب پر لٹکاتے مگر یہ بھی ضروری تھا کہ وہ صلیب پر فوت نہ ہوتے اس لئے کہ اللہ عزیر اور حکیم ہے- چونکہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اس لئے ضروری تھا کہ صلیب پر چڑھاتے-
بارھویں بات یہ بتائی کہ وہ مسیح کے راستباز ہونے کا عملی ثبوت دکھائے گا- یعنی مشاہدہ کرا دے گا- جو فوت ہو گیا اسے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دکھا نہیں سکتے تھے- اسے اسی طرح دکھایا کہ فرمایا- میری امت میں سے ایک سپہ سالار کھڑا ہو گا جس کا نام مسیح ہوگا- اور اس طرح عملاً مسیح کی راستبازی کو ثابت کر دے گا- کیونکہ اتنے بڑے آدمی کو اس سے مشابہت دینا یہی معنی رکھتا ہے کہ مسیح بھی بزرگ اور برگزیدہ ہستی تھی چنانچہ حضرت مرزا صاحبؑ جو مسیح موعود ہیں انہوں نے مسیح کی تصویر کھینچ کر دکھا دی-
قانون شریعت اور قانون طبعی کی باہم مطابقت کا حیرت انگیز سلسلہ
اب دیکھو یہ نشان کتنا عظیم الشان ہے- کتنا لمبا سلسلہ چلتا ہے- حضرت ابراہیم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام تک جو دو ہزار سال کا زمانہ ہے تغیرات ہوتے رہتے ہیں- پھر حضرت مسیحؑ کے سلسلہ چھ سو سال کے عرصہ میں بھی تغیرات ہوتے ہیں- اور آخر وہ انسان ظاہر ہوتا ہے جو ان کا مصداق تھا- اگر صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ کرتے اور شریعت لے آتے تو لوگ کہتے یہ کلام آپ~صل۳~ نے خود بنا لیا ہے- مگر یہاں تو قانون شریعت اور قانون طبعی صدیوں ہاتھ میں ہاتھ دے کر چل رہے ہیں اور ثابت ہو رہا ہے کہ ہمارا خدا آسمان کا ہی بادشاہ نہیں بلکہ زمین کا بھی بادشاہ ہے- قانون شریعت کہتا ہے کہ مکہ میں ایک نبی آئے گا اور قانون طبعی اس کے لئے سامان مہیا کرتا ہے- تباہی اور ہلاکت کی آندھیاں چلتی ہیں- قوموں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں- وبائیں آتی ہیں اور قوموں کو ہلاک کر کے چلی جاتی ہیں- زمانہ کی گردشیں آتی ہیں اور قوموں کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں- یہ سب کچھ ہوتا ہے- مگر قریش ان تمام آفات سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کی تائید ہوتی ہے- ابرہہ مکہ پر چڑھائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مکہ اور اہل مکہ کو میں تباہ و برباد کر دوں گا- مگر خود اس کا لشکر تباہ ہو جاتا ہے- اور وہ ناکام و نامراد لوٹ جاتا اور راستہ میں ہی ہلاک ہو جاتا ہے- کیونکہ قانون طبعی کہتا ہے کہ میں اس قوم کو نہیں مٹنے دونگا قوموں میں تغیرات آتے ہیں- مرد نامرد پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح خاندانوں کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں- مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں یہ تغیر نہیں آتا- اس لئے کہ آپ کی نسل بڑھے اور ترقی کرے- عیسائی کہتے ہیں کہ قیصر و کسریٰ کی تباہی کی خبر دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی- ان میں تباہی کے آثار پیدا ہو چکے تھے- مگر ان کی تباہی کی خبر تو یسعیاہ اور حبقوق نے بھی دی تھی اور کئی ہزار سال پہلے دی تھی جب کہ قیصر و کسریٰ کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا- اور پھر قانون قدرت نے ان کی تباہی کے سامان اس وقت پیدا کئے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہو گئے-
اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو ہو سکتا تھا کہ مکہ سے نکالے نہ جاتے- اگر نکالے گئے تھے تو آپﷺ~ کی قوم آپﷺ~ پر حملہ نہ کرتی- اگر حملہ کرتی تو شکست نہ کھاتی- مگر یہ سب کچھ ہوا- اب غور کرو یہ کس نے کرایا؟
اسی طرح ممکن تھا کہ ابوجہل حملہ نہ کرتا اگر اس نے کیا تو عبداللہ کو غصہ نہ دلاتا تا کہ وہ اس کی گردن چھوٹی نہ کاٹے- مگر اس کے لئے اسباب پیدا ہوئے- یہ اسباب کس نے پیدا کئے- ان سے صاف نظر آتا ہے کہ دو ہزار سال سے زمین و آسمان کی بادشاہت ایک ساتھ چل رہی تھی- آسمان سے یہ حکم ہو گیا کہ ابراہیمؑ کی نسل کو قائم رکھنا- تباہی و بربادی کی آندھیاں آتیں تو انہیں کہہ دیا جاتا کہ دیکھنا مکہ پر کوئی آنچ نہ آئے-
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ اتنا عرصہ قبل بتا دینا اور پھر اس کا ہو بہو پورا ہونا- یہ سب باتیں قانون طبعی کے ماتحت تھیں- اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کے نتیجہ میں فرماتا ہے- وللہ ملک السموت والارض- اے خدا کے منکرو غور تو کرو کیا یہ قانون آپ ہی آپ چل رہا ہے- میں دو ہزار سال کی ہسٹری پیش کر کے بتاتا ہوں کہ خدا ہے اور یقیناً ہے- للہ ملک السموت والارض سے خدا کا ثبوت ملتا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے متعلق فرمایا کہ اس وقت خدا خود آ جائے گا- یعنی آپﷺ~ کے وجود سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملے گا- اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے پیرئوں سے یہ بھی کہا- کہ دعائیں مانگو کہ اے خدا جیسی تیری آسمان پر بادشاہت ہے ویسی ہی زمین پر بھی آئے- یعنی تم ہمیشہ دعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں- دعائیں مانگتے رہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان اور زمین کا خدا ایک ہی ہے-
اس میں نہ صرف دہریوں کا رد ہے بلکہ جینیوں اور آریوں کا بھی رد ہے- جینی کہتے ہیں کہ روحیں ترقی کرتے کرتے آپ ہی اونچی ہو جاتی ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- یہ غلط ہے ہم خود تغیرات کرتے کرتے کامل روح پیدا کرتے ہیں- آریہ کہتے ہیں- دنیا میں خدا کا تصرف نہیں- مادہ اور روح آپ ہی آپ سب کچھ کرتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا کا سارا انتظام ہمارے احکام کے ماتحت چلتا ہے اور ہر قسم کے تغیرات ہم خود پیدا کرتے ہیں-
٭٭٭
فہرست مضامین خطبات محمود
)خطبات جمعہ ۳۲-۱۹۳۱ء(
جلد ۱۳
خطبہ نمبر
تاریخ بیان فرمودہ
موضوع خطبہ
صفحہ
۱
‏2a] g[ta ۲ /جنوری ۱۹۳۱ء
نئے سال سے فائدہ اٹھائو
۳
۲
۹ /جنوری
غیر مبائعین کے پیچھے نماز
۶
۳
۱۶ /جنوری
دہریت اور الحاد کی رو کو روکو
۱۶
۴
۲۳ /جنوری
رمضان المبارک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہے
۲۷
۵
۳۰ /جنوری
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک حوالہ کی تشریح اور

][
تبلیغی اشتہارات کے متعلق اعلان
۳۵
۶
۶ /فروری
تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی ضرورت
۴۱
۷
۱۳ / فروری
دین اور دنیا دونوں کیلئے رمضان کی کیفیت پیدا کرو
۵۴
۸
۲۰ / فروری
عید میں عید
۶۷
۹
۲۷ / فروری
قومی نقائص اور کمزوریاں
۷۴
۱۰
۶ / مارچ
‏3a] [tag شجر احمدیت کے پھل لانے کا وقت
۸۶
۱۱
۱۳ / مارچ
قومی اصلاح کیلئے عملی کوشش
۹۴
۱۲
۲۰ /مارچ
خلیفہ اور نظام سلسلہ کا احترام
۱۰۳
۱۳
۲۷ /مارچ
مسلمان غیروں کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں
۱۱۲
۱۴
۳ /اپریل
ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے
۱۲۹
۱۵
۱۰ /اپریل
‏3a] ga[t خذوا حذرکم کے حکم الہی پر عمل کرو
۱۳۵
۱۶
۲۴ /اپریل
جماعت احمدیہ منصوری کی ذمہ داریاں
۱۴۶
خطبہ نمبر
تاریخ بیان فرمودہ
موضوع خطبہ
صفحہ
۱۷
۱۵ /مئی ۱۹۳۱ء
جماعت احمدیہ کا ہر فرد بیدار ہو
۱۵۰
۱۸
۲۹ /مئی
قاضی محمد علی صاحب کیوں تعریف کے مستحق ہیں
۱۶۲
۱۹
۵ /جون
جماعت احمدیہ کی چالیس سالہ جوبلی منائی جائے
۱۷۱
۲۰
۱۲ /جون
جمعہ کی رات کو ہر احمدی تہجد پڑھے
۱۸۵
۲۱
۱۹/ جون
بٹالہ میں جماعت احمدیہ کا کامیاب جلسہ
۱۹۰
۲۲
۲۶ /جون
اپنی دوستیاں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول



کے ماتحت رکھو
۲۰۴
۲۳
‏]a2 [tag ۳ /جولائی
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال
۲۰۹
۲۴
۱۰ /جولائی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز تحریر کی تقلید کرو
۲۱۷
۲۵
۱۷ /جولائی
حقیقی ایمان اور یقین نبی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے
۲۲۳
۲۶
۷ /اگست
روحانی اور دنیوی مراتب اربعہ
۲۳۴
۲۷
۴ /ستمبر
خدا تعالیٰ سے ملنے کی حسرت نہیں بلکہ ارادہ پیدا کرو
۲۳۸
۲۸
۱۱ /ستمبر
مرمت مسجد لندن اور چندہ خاص کی تحریکیں
۲۴۶
۲۹
۲۵ /ستمبر
کامل جماعت وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم



کی قابلیتیں ظاہر کرے
۲۵۷
۳۰
۹ /اکتوبر
مایوسی اور ناقص انکسار` کبر اور خود پسندی سے بچو
۲۶۴
۳۱
۲۳/ اکتوبر
قربانی کا مطالبہ نہیں بلکہ بیج کو صحیح جگہ پر



ڈالنے کا مشورہ ہے
۲۶۷
۳۲
۶/ نومبر
سخت مخالفت کے باوجود جماعت کو آگے بڑھنا چاہئے
۲۷۴
۳۳
۱۳/ نومبر
مسئلہ کشمیر اور جماعت احمدیہ
۲۷۸
۳۴
۲۰/ نومبر
ایذا دینے والوں سے محبت اور شفقت کا سلوک کرو
۲۸۸
۳۵
۱۱/ دسمبر
سالانہ جلسہ کی قدرو قیمت کا انذازہ نہیں کیا جا سکتا
۲۹۶
۳۶
۱۸/ دسمبر
مہمان نوازی کے متعلق ضروری ہدایات
۳۰۴
خطبہ نمبر
تاریخ بیان فرمودہ
موضوع خطبہ
صفحہ
۳۷
۲۵/ دسمبر ۱۹۳۱ء
مومن کی عملی زندگی اور سورۃ فاتحہ
۳۰۹
۳۸
۸/ جنوری ۱۹۳۲ء
نظام جماعت کے احترام اور دعوت الی اللہ پر زور



دینے کی تحریک
۳۲۳
۳۹
۱۵/ جنوری
رمضان المبارک سے فائدہ اٹھائو
۳۳۰
۴۰
۲۲/ جنوری
مسلمانان کشمیر کی مال اور دعا سے مدد کرو
۳۳۳
۴۱
۲۹/ جنوری
حق دار کو اس کا حق فوراً ادا کر دو
۳۴۳
۴۲
۵/ فروری
مسلمانان کشمیر کی مدد کرو اور فتنہ و فساد سے بچو
۳۴۸
۴۳
۱۲/ فروری
دعوت الی اللہ پر زور دو اور مخالفین



کا ڈر دل سے نکال دو
۳۶۲
۴۴
۱۹/ فروری
کشمیر کے مظلومین کی امداد کرو
۳۷۶
۴۵
۲۶ / فروری
امید سے ہی ہر قوم ترقی کر سکتی ہے
۳۸۰
۴۶
۴/ مارچ
دینی اور دنیوی امور میں مایوسی سے بچو
۳۹۰
۴۷
۱۸/ مارچ
تمام مخلوق ایک دوسرے سے وابستہ ہے
۳۹۴
۴۸
۲۵/ مارچ
خدا کا فضل اپنے ساتھ تکالیف بھی رکھتا ہے
۳۹۸
۴۹
یکم اپریل
مومن کی نگاہ ہر طرف ہونی چاہئے
۴۰۲
۵۰
۸/ اپریل
اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر امید اور یقین رکھو
۴۰۷
۵۱
۱۵/ اپریل
دنیا کی ترقی کا مدار اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول



‏]c [tag الہام الہی پر منحصر ہے
۴۲۲
۵۲
۲۲/ اپریل
ہر نیکی استقلال کے ساتھ کرنی چاہئے
۴۳۲
۵۳
۲۹/ اپریل
کامیابی کیلئے کامل اطاعت ضروری ہے
۴۳۷
۵۴
۱۳/ مئی
جماعت احمدیہ کی شاندار مالی قربانی
۴۴۷
۵۵
۲۰/ مئی
ہر کام میں ہمیں دوسروں سے نمایاں



غلبہ حاصل ہونا چاہئے ][ ۴۵۱
خطبہ نمبر
تاریخ بیان فرمودہ
موضوع خطبہ
صفحہ
۵۶
۲۷/ مئی ۱۹۳۲ء
دوسروں کی اصلاح کیلئے گداز اور سوز پیدا کرو
۴۶۴
۵۷
۳/ جون
تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا مقصد
۴۷۹
۵۸
یکم جولائی
ہر احمدی قیام امن کیلئے جدوجہد کرے
۴۹۳
۵۹
۸/ جولائی
‏3a] ga[t نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں
۵۱۳
۶۰
۲۹/ جولائی
حقیقی بہادر بننے کی کوشش کریں
۵۱۹
۶۱
۵/ اگست
حقیقی پکار خدا کیلئے ہی ہے
۵۲۶
۶۲
۱۲/ اگست
اذان کی حکمتیں اور نماز باجماعت کی تاکید
۵۳۳
۶۳
۱۹/ اگست
قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو
۵۴۰
۶۴
‏]a2 [tag ۲۶/ اگست
جماعت کے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ
۵۵۲
۶۵
۲/ ستمبر
ہماری ہمدردی کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے
۵۶۸
۶۶
۹/ ستمبر
ہر کام میں استقلال سے کام لینا چاہئے
۵۷۲
۶۷
۱۶/ ستمبر
امراء اور حکام کو دعوت الی اللہ کی جائے
۵۷۸
۶۸
۲۳/ ستمبر
اسی دنیا میں جنت حاصل کرنے کی کوشش کرو
‏4a] [tag ۵۸۷
۶۹
۷/ اکتوبر
ہر گھڑی میں صراط مستقیم طلب کرو
۶۰۲
۷۰
۱۴/ اکتوبر
جرات اور موقع شناسی سے کام لینا چاہئے
۶۰۷
۷۱
۲۱/ اکتوبر
دعوت الی اللہ
۶۱۱
۷۲
۲۸/ اکتوبر
اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی سعادت حاصل کرو
۶۱۷
۷۳
۲۵/ نومبر
جلسہ سالانہ بہت بڑی نعمت ہے
۶۲۸
۷۴
۲/ دسمبر
خاکساری مذہب کا ایک ضروری جزو ہے
۶۳۵
۷۵
۹/ دسمبر
حقیقی نیکی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے
۶۴۰
۷۶
۱۶/ دسمبر
السلام علیکم کہنے کی تاکید
۶۴۷
۷۷
۲۳/ دسمبر
اسلام ہی زندہ خدا پیش کرتا ہے
۶۵۴
۷۸
۳۰/ دسمبر
تم خدا اور اس کے رسول کے مناد ہو
۶۶۳
٭٭٭
انوار العلوم جلد ۷
حقیقی اسلام
مسیح موعودؑ کی تعلیم کا اثر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بیان کرچکنے کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس تعلیم کا اثر آپ کی جماعت پر کیا ہوا ہے؟
یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خیالات موجودہ کا آئینہ نہ تھے بلکہ زمانہ کی رو اور اس کے میلان کے بالکل خلاف تعلیم لے کر آئے تھے اگر غور سے دیکھا جائے تو اس زمانہ میں خیالات کی رو دوجہان کی طرف مائل ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ اور بندہ کے درمیان کوئی گہرا تعلق نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسان کو آزادی ملنی چاہئے۔ چنانچہ تمام جدید مذاہب اور قدیم مذاہب اپنے آپ کو اس رو کیمطابق بنا رہے ہیں اور عبادات کی حقیقت کو بدل کر یا ان میں کمی کرکے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دوسری رو اس زمانہ میں یہ چل رہی ہے کہ لوگ فیصلہ کربیٹھے ہیں کہ تمدنی بنیاد جو پچھلے کئی سو سال میں دنیا میں قائم ہوئی ہے اس میں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ نہ اس لئے کہ وہ تمدن اعلیٰ اور اکمل ہے بلکہ اس لئے کہ لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں اور اب وہ اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں نئے اور پرانے سب مذاہب اپنی تعلیمات کو اس تمدن کے مطابق کرنے کی کوش کررہے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ سود ۔ پردہ۔ کثرت ازدواج ایسے تمام امور کے متعلق تمام مذاہب اپنی پوزیشن کو صاف کرنے کی فکر میں ہیں اور اپنی تعلیم کو رائج الوقت تمدنی خیالات کے مطابق بنا رہے ہیں۔ مگر برخلاف تمام لوگوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم کی بنیاد خالص مذہب پر رکھی ہے اور رائج الوقت خیالات پر ان کی بنیاد نہیں رکھی۔ پس آپ حقیقی معنوں میں مصلح تھے نہ کہ زمانہ کے منہ میں نے کی مانند۔ کہ جو کچھ وہ بجانا چاہتا تھا آپؑ نے اس کو بلند آواز سے کہہ دیا۔ آپ نے زمانہ کی دونوں موجوں کا مقابلہ کیا۔ مذہبی آزادی کا بھی اور تمدنی غلامی کا بھی۔ آپ نے نہ تو عبادات میں کمی کی نہ ان کو اڑایا۔ بلکہ آپ نے اسلام کے قدیم حکم کی طرف دنیا کو توجہ دلائی اور عبادات کی حقیقت کو لوگوں پر ظاہر کیا اور ان کے دلوں میں عبادت کا سچا جوش پیدا کرکے خداتعالیٰ سے ان کے تعلق کو مضبوط کیا۔ نہ صرف فرض نمازوں کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی بلکہ نوافل پر کاربند ہونے کی بھی رغبت دلائی۔ کیونکہ عبادت چٹی نہیں بلکہ ترقیات روحانیت کا ذریعہ ہیں۔ روزے جو اس زمانہ میں دوسرے مذہاب سے تو بالکل مفقود ہوگئے تھے مسلمانوں میں سے بھی تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا بالکل رواج نہ رہا تھا اپ نے ان کی ضرورت کو بھی روحانی اور جسمانی دلائل سے ثابت کیا اور ان کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی۔ اسی طرح ذکر۔ حج اور ق ربانی کی حقیقت کو روشن کرکے ان پر کاربند ہونے کی تعلیم دی۔
تمدنی غلامی سے بھی آپ نے لوگوں کو چھڑایا اور ان بھیڑ چال کی غلطی ان پر ظاہر کی جس میں وہ مبتلا تھے اور اسلامی تمدنی تعلیم کی خوبی کو ظاہر کیا۔ سود کی برائی کو ظاہر کیا۔ پردہ کی خوبیوں کو واضح کیا۔ کثرت ازدواج کی ضرورت کو ثابت کیا۔ طلاق کی اہمیت کو بیان کیا۔ غرض وہ مسائل جن کے متعلق لوگ زمانہ کی کی رو کو دیکھ کر بھول نہیں سکتے تھے۔ ان کے متعلق علی الاعلان اسلامی تعلیم کو پیش کیا اور زمان کے خیالات کی پرواہ نہیں کی۔
میں اس جگہ ان پرانے وساوس اور شہادت کا جو غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں رائج تھے اور جن کا آپ نے مقابلہ کیا اس جگہ ذکر نہیں کرتا کیونکہ کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ خود ان کی اصلاح کررہا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم کا جو آپ نے زمانہ کی وح کے خلاف دی یہ اثر ہوا کہ لاکھوں آدمی جو زماہہ کی رو میں بہے جاتے تھے ان کو ہوش آگئی اور وہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے سوچا اور اسلامی تعلیم کو سب تعلیموں سے فضل پایا۔ وہ لوگ جو پہلے دہریت اور مادہ پرستی کا شکار تھے جو خداتعالیٰ کی عبادت تو کیا کرنی تھی اس کے وجود کے ہی منکر ہورہے تھے ان کو آپ نے تہجد گزار اور ذاکر بنادیا۔ ان کے دماغ مغربی تعلیم سے روشن ہیں اور ان کے فکر جدید افکار پر محتوی۔ مگر ان کے دل محبت الٰہی سے لبریز ہیں اور ان کے ماتھے خداتعالیٰ کے حضور میں جھکے رہتے ہیں۔ رات اور دن وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں بسر کرتے ہیں اور باوجود اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے وہ دین کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔
تمدن کی غلامی سے بھی آپ نے بہت سے لوگوں کو چھڑا کر عقل کے حریت خیز میدان میں لاکھڑا کیا ہے۔ باوجود زمانہ کی مخالفت کے آپ کی جماعت تمدنی اصلاح میں مشغول ہے اور اس کی عمارت کو طلب فرحت اور عیاشی کی بنیادوں سے ہٹا کر اصلاح اور عفت اور اخلاق پر کھڑا کررہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہبی دیوانگی پیدا نہیں کی اور نہ مذہب کو اپنی ذات کی محبت کے گود لپیٹ کر لوگوں کی توجہ کو ایک ہی نقطہ پر جمع کردیا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا قاعدہ ہے جو باقی نیک خصلتوں کو نظر انداز کرکے صرف قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ آپ نے ہر اک چیز کو اس کے مرتبہ کے مطابق پیش کیا ہے اور انسانی عقل کو ہر ممکن طریق سے زندہ رکھنے کی بلکہ ترقی دینے کی کوشش کی ہے۔ مگر باوجود اس کے آپ کی جماعت میں یہ مادہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنی جان اور اپنا مال خداتعالیٰ کے راستہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار رکھتے ہں۔ ان کی مثال صحابہؓ رسول کریم ~صل۱~ کی ہے جن کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے۔ فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر )الاحزاب آیت ۲۴( ان میں سے بعض نے اپنے ارادہ کو پورا کردیا اور خدا کی راہ میں جان دیدے ہے اور بعض اس وقت کے منتظر ہیں۔ چنانچہ افغانساتا میں دو موقعے احمدیوں کو جان قربان کرنے کے طے ہیں جن میں انہوں نے نہایت ثبات سے جانیں دی ہیں۔ دو موقعوں سے میری مراد یہ ہے کہ جن دو موقعوں پر ان کو کہا گیا ہے کہ تم توبہ کرلو مگر انہوں نے توبہ نہیں کی ورنہ احمدیت کی وجہ سے مارے تو وہاں کئی آدمی گئے ہیں جن کی تعداد دس سے کم نہ ہوگی۔
ان آدمیوں میں سے زیادہ اہم شہادت سید عبداللطیف صاحب کی ہے۔ آپ افغانستان کے بہت بڑے عالم تھے اور آپ کو ایسا درجہ حاصل تھا کہ امیر حبیب اللہ خان صاحب کی تاجپوشی کی رسم آپ ہی نے ادا کی تھی۔ آپؓ کو جب سلسلہ احمدیہ کی خبر ملی تو آپ نے کتب سلسلہ منگواکر پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ اس کے بعد ملاقات کا شوق پیدا ہوا اور حج کی نیت سے افغانستان کے امیر سے اجازت لی اور راستہ میں قادیان بھی ٹھہرنے کا ارادہ کیا۔ قادیان آکر ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے کہا کہ مجھے اب آگے نہیں جانا چاہئے بلکہ یہاں رہ کر دین کی معلومات بڑھانی چاہئیں چنانچہ وہ یہیں ٹھہرگئے اور کئی مہینے ٹھہر کر واپس وطن گئے اور جاتی دفعہ کہہ گئے کہ میرا ملک مجھے بلاتا ہے تا اپنے خون سے اس کی اصلاح کا راستہ کھولوں اور میں اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی دیکھتا ہوں ملک میں جاتے ہی امیر نے طلب کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ احمدی ہوگئے ہیں؟ انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر بہت بڑی بحث کے بعد علماء کے فتویٰ کے ماتحت ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا۔ بار بار امیر نے بلا کر ان کو توبہ کی تحریک کی مگر انہوں نے انکار کیا اور آخر ان کو زمین میں گڑھا کھود کر آدھا دفن کیا گیا اور امیر خود مع لشکر میدان میں آیا اور شہر کے لگو بھی اکٹھے ہوئے اور سنگسار کرنے کی تجویز ہوئی۔ آخری وقت میں امیر پھر ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ صاحبزادہ صاحب اب بھی موقع ہے آپ اپنے عقیدہ سے توبہ کرلیں مگر انہوں نے جواب دیا توبہ کس بات سے؟ میں نے حق کو پالیا ہے اور میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یاد رکھو کہ میرے مرنے کے بعد پہلی جمعرات کو قیامت آجائے گی اور میں جی اٹھوں گا جب امیر مانوس ہوگیا تو اس نے واپس آکر سید الشہداء پر پتھر پھینکا اور چاروں طرف سے لوگوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے مگر صاہبزادہ صاحب استقلال سے کھڑے رہے یہاں تک کہ پتھروں کی ضربوں سے ان کا سر پاش پاش ہوگیا اور گردن جھک گئی۔ ظالم برابر پتھر مارتے چلے گئے حتی کہ سر تک پتھوں کا ایک بڑا ڈھیر جمع ہوگیا اور اس صادق مومن کی پاکیزہ روح اپنے پیدا کرنے والے سے جاملی تب لوگ واپس اپنے گھروں کو جلے گئے مگر ان کی لاش پر پہرہ مقرر کردیا گیا تاکہ کوئی شخص ان کو دفن نہ کردے۔ مگر خدا کا بدلہ نزدیک تھا وہ قیامت جس کی انہوں نے خبر دی تھی اچانک آگئی اور پہلی جمعرات کو غیر معمولی طور پر خلاف توقع اور خلاف پچھلے تجربہ کے کابل میں سخت ہیضہ پھوٹا اور سخت موت پڑی جس سے شاہی خاندان میں سے بھی بعض جانوں کا نقصان ہوا۔ ان واقعات کو ایک بے تعلق انگریز انجینئر مسٹر مارٹن دی انجینئر ان چیف افغانستان نے اپنج کتاب >انڈر دی اسولیوٹ امیر< میں نہایت سادگی سے بیان کیا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے گو بوجہ سلسلہ سے ناواقفیت کے بعض باتیں انہوں نے غلط لکھ دی ہیں مگر پھر بھی ان کی تحریر نہایت موثر ہے خصوصاً اس صورت میں کہ ایک بے تعلق آدمی کی لکھی ہوئی ہے۔
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے پہلے ان کے شاگرد مولوی عبدلرحمن صاحب کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا تھا ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دو قتلوں کے علاوہ جو حکومت کی طرف سے ہوئے ہیں لوگوں نے کئی احمدی قتل کئے ہیں۔ چنانچہ پچھلے ماہ میں دو احمدیوں کو لوگوں نے مار دیا ہے علاوہ قتل کے دوسری تکلیف تو ہمیشہ ہی احمدیوں کو پہنچائی جاتی ہے جنہیں وہ نہایت بہادری سے برداشت کرتے ہیں چنانچہ اسی سال کے دوران میں خوست کے علاقہ میں جو بغاوت ہوئی ہے اس میں جب باغیوں نے ہرمیجسٹی دی امیر کی افواج کے خلاف کچھ زور چلتا ہوا نہ دیکھا تو احمدیوں کے دوگائوں جلادیئے اور بہانہ کیا کہ یہ لوگ امیر کو ورغلاتے ہیں سال میں دوتین دفعہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ عوام بعض متقب مقامی افسروں کو ملا کر جس جس احمدی پر زور چلے اسے گرفتار کرلیتے ہیں اور بعض کو منہ کا لاکر کے گدھے پر سوار کرکے شہر میں پھراتے ہیں۔ بعض کو مارتے ہیں۔ بعض کو قید میں ڈال دیتے ہیں اور جرمانہ وصول کرکے چھوڑتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ پچیس سال سے احمدی یہ مصائب برداشت کرتے چلےآرہے ہیں خداتعالیٰ کے فضل سے ان کے ایمان متزلزل نہیں ہیں بکہ وہ ترقی کررہے ہیں۔
یہ امر جذبہ لشکر کے خلاف ہوگا اگر میں اس جگہ یہ اظہار نہ کردوں کہ ہزمیجسٹی امیرامان اللہ صاہب جب سے سلطنت افغانستان پر متمکن ہوئے ہیں انہوں نے ان مظالم کو بالکل مٹا دیا ہے جو احمدیوں کے خلاف حکومت کی طرف سے ہوتے تھے اور گو بوجہ اس کے کہ ابھی افغانستان انتظام و درستی کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہے وہ ان کے لئے حقیقی امن قائم کرنے ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ مگر ہم امید کرتے ہیں کہ گورنمنٹ افغانستان اسی انصاف کی روح کے ساتھ کام کرتی رہی تو کچھ عرصہ تک افغانستان میں احمدیوں کے لئے گورنمنٹ کے علاوہ حکام مقامی اور رعایا سے بھی امن ہوجائے گا۔
یہ تو افغانستان کے لوگوں کی قربانی ہے مگر ہندوستان کے احمدیوں کا حال کم نہیں ہندوستان میں انگریزی حکومت ہے اس لئے یوں تو مار نہیں سکتے مگر جھوٹ اور فریب سے ہر جگہ احمدیوں کو تکلیف دی جاتی ہے اور وہ سب تکلیفوں کو خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ قتل بے شک ایک بڑا ابتلاء ہے لیکن صبر آزما مصیبت وہ ہے جو آہستہ اہستہ آتی ہے۔ ہندوستان کے احمدیوں کو اس سے حصہ ملا ہے۔ بلکہ نوے فیصدی احمدی ان حالات مں سے گزرتے ہیں بہت ہیں جن کے جسم ان نشانوں سے پر ہیں جو ان کو احمدیت کے قبول کرکے ماریں کھا کر لگے ہیں بہت سے لوگ گھروں سے نکالے گئے۔ بعض چھوٹے چھوٹے بچوں کو والدین نے نکال دیا۔ مگر ثابت قدم رہے۔ بعض دفعہ ایک گائوں مں ایک ہی احمدی ہوتا ہے اور سب لوگ اس کو مل کر مارتے ہیں پھر پولیس کی تفتیش پر کوئی اس کی تائید میں گواہی دینے والا نہیں ہوگا کئی جگہوں پر قبرستانوں میں احمدیوں کو مردے دفن نہیں کرنے دیتے۔ بعض جگہ لاشیں لوگوں نے باہر نکالکر پھینک دیں۔ گرمیوں کے دنوں میں کووں سے پانی لینے سے روک دیا اور کئی کئی دن اس شدید گرمی میں کہ پارہ حرارت ایسو پندرہ تک سایہ میں ہوجاتا ہے بڑوں اور بچوں کو پیاسا رہنا پڑا۔ کئی جگہ ان کی دوکانوں سے س ودا نہیں لیا جاتا اور ان کے کھیت برباد کردیئے جاتے ہیں۔ ان کے لیکچروں اور وعظوں کے موقعوں پر پتھر مارے جاتے ہیں شور کیا جاتا ہے کئی جگہ ان کی بیویوں کی ون سے جبراً چھین کر ان کا دوسری جگہ نکاح کر دیا گیا ہے بچوں کو والد سے جدا کرلیا گیا ہے عورتوں کو ان کے خاوندوں نے مار کر گھر سے نکال دیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں چونکہ دوسرے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ان میں بھی احمدیوں کو دق کی جاتا ہے اور ہمیشہ وہ مصائب میں مبتلا رہتے ہیں وکلاء اور ڈاکٹروں کا بھی جہاں بس چلتا ہے بائیکاٹ یا جاتا ہے عام پیشہ وروں کا تو حال ہی ناقابل بیان ہے ان کو تو سخت تکلیف دی جاتی ہے حتیٰ کہ سینکڑوں ہیں جو غیر احمدی ہونے کی حالت میں اچھے آسودہ حال تھے مگر آج وہ نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود نے کچھ ایسی روح اس جماعت میں پھینک دی ہے کہ وہ دلیری سے کئی مصائب کو برداشت کرتی ہے مگر اپنے ایمان کو نہ چھوڑتی ہے نہ چھپاتی ہے بلکہ علی الاعلان اس کو ظاہر کرتی رہتی ہے اور دین کو دنییا پر مقدم کرنے کا اعلیٰ نمونہ دکھاتی رہتی ہے۔
احمدی افراد اپنے لباس واطوار میں دوسرے لوگوں سے جدا نہیں ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے ان پر کچھ ایسا اثر کیا ہے کہ باوجود لباس وغیرہ میں تغیر نہ ہونے کے عام طور پر لوگ ان کو پہچان لیتے ہیں اور اس کی وجہ ان کے وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جن کے ذریعہ سے وہ وسروں سے ممتاز نظر آتے ہیں ان کی زبانوں کا گالیوں اور فحش باتوں سے پاک ہونا ان کا دوسروں کی خاطر تکلیف اٹھانا اور ایثار سے کام لینا ان کا دھوکے اور فریب سے بچنا یہ ان کو ہر مجلس میں ممتاز کرکے دکھا دیتا ہے اور وہ آدمی بھی جو احمدی کیریکٹر سے واقف ہو لیکن ایک احمدی کا ذاتی واقف نہ ہو اسے ریل یا جلسہ یا دوسری اجتماع کی جگہوں میں پہچان لیتا ہے۔
جاہل سے جاہل احمدی بھی کہیں نظر آئے تو اس کی عقل تیز اور اس کی بحث کی قابلیت غیر معلومی نظر آئے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے اس جماعت کے بنانے میں یہ عظیم الشان معجزہ دکھایا ہے کہ ایک طرف تو احمدی آپ کی تعلیم کے ماتحت اس انتہائی بے دینی اور بے پرواہی کو چھوڑ کر جو دنیا میں نظر آتی تھی خداتعالیٰ اور اس کے رسولوں اور اس کے کلام کی محبت میں سرشار نظر آتا ہے وہ اپنے وجود کو اب صرف ایک آئینہ سمجھتا ہے جو خداتعالیٰ کی صفات کے انعکاس کے لئے بنایا گیا تھا اس کا دن اور اس کی رات خداتعالیٰ کی صفات کے انعکاس کے لئے بنایا گیا تا اس کا دن اور اس کی رات خداتعالیٰ کی یاد اور اس کی عبادت میں صرف ہوتے ہیں وہ اس دنیوی مقابلہ کے زمانہ میں اپنے کاموں کا ہرج کرکے روحانی فیوض کے حصول میں مشغول نظر آتا ہے مگر دوسری طرفہ اسی تعلیم کے اثر سے وہ دنیا کے سخت ترین معقولی لوگوں میں سے ہے وہ کسی بات کو بلا دلیل ماننے کے لئے تیار نہیں ہر اک بات کو دلیل سے مانتا ہے اور دلیل سے منوانا چاہتا ہے وہ علوم جدیدہ کا دشمن نہیں بلکہ ان کا موید ہے اور ان کو دین کا مخالف نہیں بلکہ دین کا خادم سمجھتا ہے۔ غرض وہ ہر بات میں اپنی حریت کو قائم رکھتا ہے وہ نہ اپنے باپ دادوں کی سنی سنائی بات کو مانتا ہے اور نہ ہر مدعی علم کے دعوے کو تسلیم کرلیتا ہے اور ہر جدید بات پر فدا ہوجاتا ہ ے بلکہ ہر بات کو علم اور عقل سے موازنہ کرکے دیکھتا ہے اور ہر اک حقیقت کو اسی مقام پر رکھتا ہے جو اسے خداتعالیٰ نے بخشا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عجیب اثر اپنی جماعت میں یہ پیدا کردیا ہے کہ آپ کی جماعت کو لوگ علم حاصل کرنے میں دوسرے لوگوں سے غیر معمولی طور پر بڑھ گئے ہیں۔ ہندوستان کی دوسری آبادی کی نسبت اس جماعت کے لوگ تعلیمی نسبت میں بہت زیادہ حالانکہ بوجہ غربت مدارس کا کوئی الگ انتظام نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بڑھاپے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ عورتوں کا اس قدر چرچا ہے کہ قادیان کے بہت سے گھر معلوم ہوتے ہیں۔ ستر ستر برس کی عورتیں قرآن کریم کو ت رجمہ کے ساتھ پڑھ رہی ہیں۔ ہر عمر کے لوگوں کا اک جمگھٹا مردوں میں سے بھی اور عورتوں میں سے بھی قادیان میں لگا رہتا ہے جو مختلف صوبوں سے اور ملکوں سے قادیان میں تعلیم دیں حال کرنے کے لئے آتے ہیں غرض دنیا میں اگرکہیں مغرب و مشرق جمع نظر آتے ہیں تو وہ قادیان ہی ہے۔ کیونکہ دوسری جگہوں میں اگر مغربی تعلیم ہے تو دین جو مشرق سے پیدا ہوا ہے ندار ہے۔ اور اگر دین ہے تو علوم جدید سے بے پرواہی ہے جن کا سرچشمہ آجکل مغرب ہے لیکن احمدی جماعت اور خصوصاً قادیان میں جو مرکز سلسلہ ہے یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں یہاں باوجود مسٹر کپلنگ کے مخالف دعویٰ کے مغرب ومشرق اکٹھے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو علوم جدیدہ کی تحصیل اور ان میں ترقی کرنے کا جوش ہے اور دوسری طرف مذہب سے اخلاص اور اس کی تعلیمات پر یقین اس درجہ پر پہنچا ہوا ہے کہ اس کے لئے جان اور مال اور وطن کی قربانی ایک حقیر شے نظر آتی ہے اور مذہب کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو اس کی اصل شکل اور صورت میں احتیاط سے پورا کیا جاتا ہے۔
احمدیوں میں عورتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو جائز قیود سے آزاد کرنے کا بھی خاص خیال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے وہ مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے۔ ان میں مذہبی روا داری تمام اقوام سے زیادہ ہے وہ ان جھگڑوں کو جو بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے متعلق مختلف اقوام ہند میں ہوتے رہتے ہ یں بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں اور لوگوں کو سمجھاتے رہتے ہیں وہ اپنی مساجد میں سخت ترین دشمنان اسلام کو بولنے کا موقع دیدیتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے اور اپنی سناتے ہیں۔
ایک عظیم الشان تبدیلی جو احمدی جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کردی ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا احساس ہے ہر اک احمدی اپنے مال کو خداتعالیٰ کی امانت خیال کرتا ہے جو لوگ سلسلہ کی تربیت کے نیچے آجکے ہیں وہ ماہوار سولھواں حصہ دینی کاموں کے لے بطور چندہ دیتے ہیں۔ اس چندہ کے علاوہ خاص چندوں میں بھی ان کو حصہ لینا پڑتا ہے جن کو اگر جمع کردیا جائے تو ہر ایک احمدی جو سلسلہ تربیت کے نیچے آچکا ہے اپنے اپنے اخلاق کے مطابق اپنی آمد کے تیسرے حصہ سے دسویں حصہ تک چندہ میں دیتا ہے اور یہ انکی قربانی لوگوں کی نظروں میں ایسی عجیب ہے کہ بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جماعت بڑی امیر ہے اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جماعت کو گورنمنٹ مدد دیتی ہے حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ نہ مدد دیت ہے نہ دے سکتی ہے اور ہماری جماعت نہایت ہی غریب ہے اور شاید اس سے غریب اور کوئی جماعت ہندوستان میں نہیں۔ مگر ہم میں سے ہر اک اپنی ضرورتوں کو قربان کرکے دنیا کی دینی۔ اخلاقی اور علمی ضرورتوں کی اصلاح کے لئے اس قدر چندہ دیتا ہے کہ دوسری اقوام میں اس سے دس گنی آمدنی والے لوگ بھی اس قدر روپیہ بنی نوع انسان کی ہمدرفی انہوں نے اپنے ایثار سے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کے پردے پر ایسی عورتیں بھی ہیں جو زیور اور کپڑے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے جیتی ہیں۔ چنانچہ پچھلے سال میں نے جرمن میں مسجد بنانے کی تحریک کی اور صرف عورتوں سے چندہ طلب کیا اور میں نے دیکھا کہ بیسیوں عورتوں نے اپنے زیور اور اپنے اعلیٰ کپڑے تک فروخت کرکے اس کام کے لئے دیدیئے اور جس قدر رقس ان سے طلب کی گئی تھی اس سے دگنے سے بھی زیادہ چندہ جمع کردیا۔
غرض سلسلہ احمدیہ کا اثر افراد سلسلہ پر ایسا گہرا اور نمایاں ہے کہ اس ک و دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ چنانچہ سلسلہ کے اشد ترین دشمن بھی اس کا اقرار کرتے ہیں مگر وہ اس تغیر کو اس پردہ کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ دکھانے کے لئے اور منافقت سے ہے۔ مگر کیسی مبارک یہ منافقت ہے جس نے بیماروں کو چنگا کردیاہے اور مردے زندہ کردیئے ہیں۔ کاش یہ منافقت دنیا کے ہر گوشہ میں نظر آتی ۔
سلسلہ احمدیہ کا جو اثر اس کے افراد پر ہے۔ اس کو اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں اور تمام بھائیوں اور بہنوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ:۔
اے بھائیو اور بہنو! خدا نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے تاہم اس کے جلال مظہر ہوں اور تا اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کریں جب تک ہم اس مصد کو پورا نہ کریں ہم ہرگز کامیاب نہیں کہلاسکتے۔ ہماری دنیاوی ترقیات کیا ہیں؟ ایک مشغلہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ یہ تمام ترقیات ہمارے کس کام کی اگر ہم خدا کو اپنے پر ناراض کرلیتے ہیں؟ اور ابدی ترقیات کے راستے اپنے اوپر بند کرلیتے ہیں۔ اگر ہم دنیا کے سب سے بڑے موجد بھی ہیں۔ لیکن اس علم کی طرف توجہ نہیں کرتے جس کے ذریعہ سے ہم ابدی زندگی میں نور حاصل کرسکیں تو ہماری مثال اس طالب علم کی ہے جو سارا دن کھیلتا رہتا ہے اور اس پر خوش ہوجاتا ہے کہ اس نے مقابلہ میں اپنے حریف کو پچھاڑ لیا۔ لیکن وہ اس مقابلہ کی فکر نہیں کرتا جو اس کی ساری زندگی کو سدھارنے والا ہو اور علم وہی ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہے پس ابدی زندگی اور دائمی راحت اور حقیقی علم کی طرف توجہ کروتا دونو جہان کا آرام پائو اور اسی طرح خداتعالیٰ کو خوش کو جس طرح کہ دنیا کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہو۔
اے بھائیو اور بہنو! خداتعالیٰ نے تمہاری پریشان حالت کو دیکھ کر آپ تمہارے لئے رحمت کا دروازہ کھولا ہے اور خود تم کو بلانے کے لئے آیا ہے پس اس کے اس احسان اور اس کی محبت کی قدر کرو اور اس کی نعمتوں کو رد نہ کرو اور اس کے احسانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے منہ نہ پھیرو کہ وہ خالق ہے اور مالک ہے اور اس کے آگے کسی تکر کرنے والے کا تکبر نہیں چلتا۔ بڑھو اور اس کے فضل کے دروازے میں داخل ہوجائو۔ تاکہ اس کی رحمت تم کو اپنی آغوش میں لے لے اور اس کے فضل کی چادر تم کو اپنے اندر لپیٹ لے۔
اے انگلستان کے رہنے والو! خدا نے تم کو دنیا میں عزت دی ہے مگر اس عزت کے ساتھ تمہاری ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر اک جو زیادہ احسان کے نیچے ہوتا ہے زیادہ ذمہ وار ہوتا ہے خدانے تم کو سینکڑوں سالوں سے سمندروں کی حکمرانی عطا کی ہوئی ہے۔ تمہارا ملک سمندرو کی ملکہ کہلاتا ہے مگر کیا تم نے کبھی اس بادشاہ کی طرف بھی توجہ کی جو سب عزتوں کا سرچشمہ ہے اور جس کی عنایت کی ایک نگاہ نے تم کو اس مرتبہ تک پہنچایا ہے۔ کیا تم نے کبھی معرفت کے سمندر کی بھی جستجو کی؟ جو ہر اس شخص کے دل میں لہریں مارتا ہے جو اس کی تلاش کرے آ! تم شمال کی طرف گئے اور جنوب کی طرف گئے اور تم نے زمین پر ایک ایک چلو پانی کو چھان مارا اور سب گہرائیوں کو دریافت کیا۔ مگر افسوس! کہ ابھی تک معرفت کے سمندر کی شہہ معلوم کرنے کے لئے تم نے کبھی غوطہ نہیں مارا نہ اس کی دریافت کے لئے وفد بھیجے
تم نے جزیروں کی تلاش میں اور خشکیوں کی جستجو میں زمین کا چپہ چپہ دیکھ مارا اور تمہارے بیڑوں نے ہر اک طرف کا رخ کیا۔ مگر تم کبھی اس پار کی جستجو میں نہ نکلے جو ان سب زمینوں کا پیدا کرنے والا اور سب جزیروں کا بنانے والا ہے کیا یہ بھی دانش ہے کہ درخت سے گرے ہوئے بور کو تو جمع کیا جائے لیکن پھل کو چھوڑ دیا جائے؟
اے بھائیو! میں تم کو بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی رحمت آج اسی طرح جوش میں آئی ہوئی ہے جس طرح آج سے سینکڑوں سال پہلے وہ جوش میں آئی تھی جس طرح وہ لحمد صلعم کے وقت میں جوش میں آئی تھی۔ مسیح ناصری علیہ السلام کے و قت میں جوش میں آئی تھی۔ اسحٰق کے وقت میں جوش میں آئی تھی اور اس کی معرفت کا سورج اسی طرح آج بھی چڑھا ہے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے زمانہ میں چڑھا کرتا تھا۔
پس باہر نکلو اور کمروں کی بند ہوا کی بجائے عالم روحانی کی وسیح فضاء میں خدا کی رحمت کی ٹھنڈی اور معطر ہوا سونگھو اور اس کی معرفت کے سورج کی خوشگوار روشنی اور چمک سے اپنی آنکھوں کو منور کرو کہ یہ دن روز روزنہیں چڑھا کرتے۔
میں تمہیں ہی نہیں بلکہ سب ان قوموں کو جو انگریزی حکومت کے جھنڈے کے نیچے آرام کی زندگی بسر کرتی ہیں کہتا ہوں کہ دیکھو خدانے اپنی برکت کا ہاتھ تمہارے سروں پر رکھا ہے تم ادب کے گھٹنے اس کے س امنے جھکا دو۔
میں ویلز کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اے ویلز تو اپنی محنت اور جانفشانی پر نگاہ کر اور دیکھ کہ تیری محنت میں سے کس قدر حصہ خدا کے لئے ہے اور اے سکاٹ لینڈ تو اپنی آزاد زندگی پر فخر کرتا ہے کیا تونے خداکی باتوں کے سمجھنے اور قبول کرنے میں بھی ویسی ہی آزادی دکھائی ہے جیسی کہ دوسرے امور میں؟ اور اے آئرلینڈ کے لوگو! تمہاری حب الوطنی اور جوش ضرب المثل ہیں۔ مگر کیا تم نے اس محبت کا کچھ حصہ خدا کے لئے بھی نکالا؟ کیا اس کے پانے کے لئے بھی تم نے ویسا ہی جوش دکھایا جیسا کہ اپنے ملک کی حکومت کے لئے؟
اے نوآبادیوں کے لوگو! کہ تم نو آبادیوں کے بسانے میں ایک خاص ملکہ رکھتے ہو اور نئی زمینوں کو شوق سے بساتے ہو۔ مگر اب تک تم اس عرفان کے جزیرے کو جو علم کے سمندر سے نکلا ہے بسانے میں کیوں غافل ہو؟
میں پھر کہتا ہوں۔ دیکھو! خدا نے برکت کا ہاتھ تمہارے سروں پر رکھا ہے اپنے ادب کے گھٹنے اس کے سامنے جھکادو کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ اپنے سروں کو اس کے سامنے کرو تا وہ اسی طرح ان کو دین کی برکتوں سے ممسوح کرے۔ جس طرح کہ اس نے انہیں دنیا کی برکتوں سے ممسوح کیا۔
خداتعالیٰ کی نعمتیں محدود نہیں ہوتیں۔ وہ ہر اک ملک اور ہر اک قوم کا خدا ہے اور اس کا سچا پرستار بھی شکلوں اور حد بندیوں کے چکر میں بندھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ بے شک اپنی قوم اور اپنے ملک کا خیر خواہ ہوتا ہے لیکن اس کی نظر قوم اور ملک سے بالا جاتی ہے۔ وہ ان حدبندیوں سے بہت اوپر رہتا ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ اور سب انسانوں میں اس برادرانہ تعلق کا نشان پاتا ہے جو رب العالمین خدا کی مخلوق ہونے کے سبب سے ان میں پایا جاتا ہے اس کے لئے کالے اور گورے ` مغربی اور مشرقی اپنے اور غیر اس کی نظر میں بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ہر اک کی خیر خواہی اس کے دل میں راسخ اور ہر اک کی محبت اس کے قلب میں موجزن ہوتی ہے۔ وہ درحقیقت رب العالمین خدا کا سچا مظہر ہوتا ہے۔
پس میں اپنے خطاب کو کسی خاص قوم تک محدود نہیں رکھتا نہ کسی خاص ملک تک بلکہ میں سب دنیا کے لوگوں کو اس خدا کے پیغام کی طرف بلاتا ہوں جس نے اپنی تقسیم میں کسی قوم سے بخل نہیں کیا۔ جس نے اپنی رحمت کے دروازے ہر اک ملک کے لوگوں کے لئے یکساں طور پرکھلے رکھے ہیں اور کہتا ہوں کہ اے امریکہ اور یورپ کے لوگو! اے آسٹریلیا اور افریقہ کے لوگو! اے ایشیا کے باشندو !!! خواب غفلت کو ترک کرو اور آنکھیں کھولو۔ خدا کی محبت کا سورج قادیان کی گمنام سرزمین سے چڑھا ہے تاہر اک کو اس ازلی بادشاہ کے پیار کی یاد دلائے جو اسے اپنے بندوں سے ہے تاشکوک وشبہات کی تاریکیاں مٹ جائیں۔ تا غفلت اور ہے پراہ کی سردیاں دور ہوجائیں۔ تافسق اور فجور اور ظلم اور خونریزی اور فساد اور ہر قسم کی بدیوں کے راہزن جو انسان کے متاع ایمان اور دولت مند کو ہر وقت لوٹنے کی فکر میں رہتے تھے بھاگ جائیں اور تاریک غاروں میں جاچھپیں جو اس کی اصل جگہ ہے۔ تاپاک دل اور پاک نفس بندے جو دنیا میں بمنزلہ فرشتوں کے ہیں اس کی روشنی کی مدد سے اس سانپ کا سر کچلیں جس نے حوا اور آدم کی ایڑی کو ڈسا تھا۔ اور شیطان کی زہریلی کچلیوں کو توڑیں اور اس کے شر سے دنیا کو ہمیشہ کے لئے بچالیں۔
ہاں اے مشرق ومغرب کی سرزمین کے بسنے والو! سب خوش ہوجائو اور افسردگی کو دلوں سے نکال دو کہ آخر وہ دولھا جس کی تم کو انتظار تھی آگیا۔ آج تمہارے لئے غم اور فکر جائز نہیں۔ آج تمہارے لئے حسرت واندوہ کا موقع نہیں بلکہ خرمی وشادمانی کا زمانہ ہے۔ مایوسی کا وقت نہیں۔ بلکہ امیدوں اور آرزوئوں کی گھڑیاں ہیں۔ پس تقدیس کے سنگھار سے اپنے آپ کو زینت دو اور پاکیزگی کے زیوروں سے اپنے آپ کو سجائو کہ تمہاری دیرینہ آرزوئیں بر آئیں اور تمہاری صدیوں کی خواہشیں پوری ہوئیں۔ تمہارا رب خود چل کر تمہارے گھروں میں آگیا اور تمہارا ماک اپ تمہاری رضامندی کا طالب ہوا۔ آئو ائو! کہ ہم سب اپنے بچوں والے تنازعات کو بھول کر اس کے فرستاردہ کے ہاتھ پر جمع ¶ہوجائیں اور اس کی حمد کے ترانے گائیں اور ثناء کے قصیدے پڑھیں اور اس کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑلیں کہ پھر وہ یاریگانہ کبھی ہم سے جدا نہ ہو۔
آمین
واخر ذعونا ان الحمد للہ رب العلمین
٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فائونڈیشن کو سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کی پر معارف تصانیف >انوارالعلوم< کی دسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے- الحمدللہ علی ذلک
اس جلد میں سیدنا حضرت المصلح الموعود کی ستمبر ۱۹۲۷ء سے اگست ۱۹۲۹ء تک کی تحریرات اور تقاریر شامل ہیں-
پیشگوئی مصلح موعود کے الہامی الفاظ >وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا< کا اظہار اس جلد سے بھی ہو رہا ہے- اور ان دو سالہ تحریرات سے بھی اس نشان آسمانی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے- اس مجموعہ کی تئیس تحریرات و تقاریر میں سے چھ ملک کے اہم سیاسی امور کے بارہ میں` چھ سیرۃ النبیﷺ~ کے موضوع پر` دو قرآن کریم کے فضائل اور آیات قرآنی کی تفسیر کے بارہ میں ہیں اور کچھ متفرق موضوعات بھی شامل ہیں-
زیر نظر مجموعہ میں دو اہم کتب شامل ہیں ایک >حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے< اور دوسری >نہرورپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح-< حضرت مسیح موعود علیہالسلام کے کارنامے کے عنوان سے حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۷ء پر تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پندرہ کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے- حضور نے فرمایا کہ درحقیقت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے ہزاروں ہیں اگر کوئی ان پر کتاب لکھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ منشاء پورا ہو سکتا ہے جو آپ نے براہیناحمدیہ کی اشاعت کے وقت بیان فرمایا تھا کہ حضور یہ چاہتے تھے کہ اسلام اور حضرت نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صد خوبیاں یعنی دلائل صداقت بیان کئے جائیں- حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص یہ کرے تو یہ ایک اچھا کام ہوگا- حضرت مصلح موعود کا یہ ارشاد آج بھی جماعت احمدیہ کے قلم کاروں اور ریسرچ سکالروں کو صلائے عام دے رہا ہے خدا کرے کہ کوئی احمدی اس نیک کام کا بیڑا اٹھانے والا ہو-
اس مجموعہ میں دوسری اہم کتاب >نہرورپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح< ہے یہ کتاب دراصل ہندوستان کی تاریخ آزادی کا ایک اہم باب اور ایک فیصلہ کن موڑ ہے- یہ کتاب آج بھی حضرت مصلح موعود کی سیاسی بصیرت کا شاہکار سمجھی جاتی ہے- ہندوئوں نے مسلمانوں کو نظر انداز کرنے اور گویا ان کا مستقبل تاریک کرنے کے خیال سے نہرورپورٹ شائع کی تھی تا کہ انگریز حکمران اس کی روشنی میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کر لیں- بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی اس رپورٹ کے حامی ہوتے نظر آ رہے تھے ان میں جناب محمد علی جناح بھی شامل تھے- لیکن حضرت مصلح موعود بروقت مسلمانان ہند کی سیاسی راہنمائی کیلئے میدان عمل میں اترے اور اس کتاب یعنی >نہرورپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح< کے ذریعہ نہرورپورٹ کے مسلمان دشمن کردار کو ایسے ناقابل تردید دلائل سے واضح فرمایا کہ مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور مسلمانوں کے لیڈر جناب محمد علی جناح جن کو بعد میں مسلمانان ہند نے قائد اعظم کا خطاب دیا وہ بھی نہرورپورٹ کی حقیقت جان گئے اور آخرکار ان کی قیادت میں مسلم لیگ نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا- مسلمانوں کی سیاسی رائے بدلنے میں اس رپورٹ نے ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا اور رائے عامہ کا دھارا موڑ کر رکھ دیا-
اسی مجموعہ میں سائمن کمیشن کے بارہ میں حضرت مصلح موعود کے چار مضامین بھی درج ہیں یہ بھی ہندوستان کی تاریخ آزادی کا ایک اہم موڑ تھا مسلمان اپنی بے بصیرتی سے اس کا بائیکاٹ کر کے رہے سہے فوائد سے بھی محروم ہو رہے تھے- حضرت مصلح موعود نے ان مضامین کے ذریعہ مسلمانوں کے اہم مطالبات انگریزوں کے سامنے رکھے جن میں جداگانہ انتخاب کا معاملہ بے حد اہم تھا جس کو بعد ازاں مسلم لیگ نے زبردست جدوجہد سے منوا لیا اور قیام پاکستان کی رائے ہموار ہو گئی- حضور نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ یہ امر قانون اساسی میں داخل کیا جائے کہ قوموں کی مذہبی آزادی کو کسی قانون کی آڑ میں محدود نہیں کیا جائے گا-
اس مجموعہ کی آخری قابل ذکر بات اس میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر چھ تحریرات و تقاریر ہیں یہ وہ دور تھا جب بعض متعصب ہندئووں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دلازار کتب لکھیں اور جواب میں حضرت مصلح موعود نے عالمگیر سطح پر سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کے انعقاد کا اعلان فرمایا- یہ تاریخ احمدیت کا ایک سنہری دور تھا جب مسلمان اور غیر مسلم ہندو` سکھ` عیسائی حضرات بھی یکجا ہو کر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تقاریر کر رہے تھے- حضرت مصلحموعود کے کارناموں میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا اجراء بلاشبہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے-
اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں بہت سے بزرگان اور مربیان سلسلہ نے اس اہم کام میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے-
مکرم مولانا فضل الہی صاحب بشیر اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے ابتدائی پروف ریڈنگ مسودات کی ترتیب اور اصلاح کے سلسلہ میں بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں-
مکرم عبدالرشید صاحب طاہر اٹھوال` مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ اور مکرمفضلاحمد صاحب شاہد )مربیان سلسلہ( نے پروف ریڈنگ` حوالہ جات کی تلاش` ان کی نظر ثانی` اعراب کی درستگی اور Re-Checking کے سلسلہ میں دلی لگن اور بشاشت سے اس کام کو پایہتکمیل تک پہنچایا ہے-
محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب کا بھی خاکسار دلی شکریہ ادا کرتا ہے- اس جلد کی فائنل پروف ریڈنگ اور تیاری کے مختلف مراحل میں ان کے گرانقدر مشوروں اور راہنمائی سے ہم نے بہت فائدہ اٹھایا ہے- فجزاھم اللہ احسن الجزاء
تعارف کتب مکرم چوہدری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کا تحریر کردہ ہے- خاکسار ان سب احباب کا ممنون احسان ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے` بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے نوازے اور ہمیں ان اہم ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ برآء ہونے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
انوارالعلوم کی یہ جلد بھی ہر احمدی کے دل کو نور ایمان سے منور کرنے والی کتاب ہے- جس کا مطالعہ روحانی لطف و مسرت کا ایک حسین باب ہے- امید ہے احباب جماعت حسب سابق پوری طرح تعاون فرماتے ہوئے اس علمی اور روحانی مائدہ سے فائدہ اٹھانے کی سعی فرمائیں گے-
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
٭٭٭
 
Top