• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 11

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 11

‏a.11.1
سلسلہ ٹریکٹ منجاب لوگ انجمن احمدیہ قادیان نمبر۳
اظہار حقیقت
از قلم حقیقت رقم
حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ
جس میں
مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کی دیانت داری کا کشف راز کیا گیا ہے
جسے
بغرض افادہ عام
فضل حسین لوکل سیکرٹری تبیلغ قادیان نے شائع کیا
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
کیا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء دیانت سے کام لے رہے ہیں
مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں
مولوی محمد علی صاحب کے رفقا نے سترہ جون کے جلسہ کی کامیابی کے آثار شروع سے محسوس کر کے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے اور یہ ان کی دیرینہ عادت ہے- وہ ہر اس تحریک کی جو میری طرف سے ہو` مخالفت کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں- کیونکہ ان کے نزدیک اگر احمدی جماعت سے کوئی نیک کام ہوگا تو لوگ اس طرف متوجہ ہو جائیں گے- اور اس سے ان کے کام کو نقصان پہنچے گا- چنانچہ جب پچھلے سال رسول کریم ~صل۲~ کی عزت کی حفاظت کے لئے تمام ہندوستان میں جلسے کئے گئے تھے تو اس وقت بھی غیر مبایعین نے ان جلسوں کی شمولیت سے اجتناب کیا تھا اور ان کے بعض افراد نے بیان کیا تھا کہ ہمیں ہمارے مرکز نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے- چنانچہ سوائے دو چار جگہوں کے جہاں سے کہ غیر مبایعین نے اپنے طور پر ان جلسوں میں شمولیت اختیار کی- بحیثیت قوم مولوی صاحب کے رفقاء ان جلسوں میں شامل ہونے سے مجتنب رہے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کا بانی میں تھا- اور ان لوگوں کے نزدیک میری تحریکات میں حصہ لینا درست نہ تھا- حالانکہ جو وجہ وہ اب بتاتے ہیں` وہ اس وقت موجود نہ تھی- کیونکہ اس وقت ختم نبوت کا سوال نہ تھا بلکہ سوال یہ تھا کہ رسول کریم ~صل۲~ کو جو گالیاں دی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے اور مسلمانوں کو اپنی تمدنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے- مومولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے اس وقت تو ان تحریکات میں حصہ لینا پسند نہ کیا مگر چار پانچ ماہ کے بعد مولوی صاحب نے ایک ٹریکٹ شائع کیا جو اب تک شائع ہو رہا ہے اور اس میں ان تمدنی تحریکات کو جو میں نے پیش کی تھیں اس طرح پیش کیا گیا ہے گویا کہ وہ ابتدا ان کی طرف سے پیش ہوئی تھی- اور اس امر کو مولوی صاحب بالکل دبا گئے ہیں کہ جس وقت وہ تجاویز میری طرف سے پیش ہوئی تھیں تو اس وقت وہ ان کے رفقاء ان میں حصہ لینے کے لئے بالکل تیار نہ تھے-
مولوی صاحب کے اس رویہ کے مقابلہ میں میرا رویہ جو ان کے بارہ میں رہا ہے- وہ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جس وقت مولوی محمد یعقوب صاحب پر جو مولوی محمد علی صاحب کے ہم زلف اور لائٹ اخبار کے ایڈیٹر ہیں` مقدمہ چلانے کا خیال گورنمنٹ نے ظاہر کیا تو اس وفد میں جو اس مقدمہ کے واپس لینے کے لئے اوگلوی صاحب کے پیش ہوا- ہماری جماعت لاہور کے سیکرٹری حکیم محمد حسین صاحب قریشی بھی شامل تھے- اور میں نے اپنی جماعت کے بعض وکیلوں کو تاکید کی کہ اگر دوسرا فریق منظور کر لے تو وہ اس مقدمہ کی مفت پیروی کریں- اور اس کے علاوہ گورنمنٹ سے پروٹسٹ کیا کہ اس کا مولوی محمد یعقوب صاحب پر مقدمہ چلانا درست نہیں ہے- اور یہ کہ اسے چاہئے کہ انہیں آزاد کر دے-
بہرحال ہر شخص اپنی طینت کے مطابق معاملہ کرتا ہے- مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہیں- اور میں اپنے درجہ اخلاق کے مطابق سلوک کرنے پر مجبور ہوں- اس میں کوئی شکوہ کی وجہ نہیں ہے- مگر جس امر کی طرف میں اس وقت توجہ دلانی چاہتا ہوں` وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے سترہ جون کے جلسوں کی مخالفت کرنے میں دیانتداری سے کام نہیں لیا- اور یہ کہ انہوں نے مسلمان پبلک سے حقیقت کو چھپایا ہے- اور جو وجہ مخالفت کی وہ ظاہر کرتے رہے ہیں وہ درست نہ تھی- اور وہ خوب جانتے تھے کہ وہ پبلک کو دھوکا دے رہے ہیں-
اخبار >پیغام صلح< نے ان جلسوں کی مخالفت کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان جلسوں کے متعلق یہ بیان کیا گیا تھا کہ وہ خاتم النبیین کی تائید میں ہیں- اور چونکہ نعوذ باللہ میں اور جماعت احمدیہ بقول >پیغام صلح< رسول کریم ~صل۲~ کی ختم نبوت کے منکر ہیں` اس لئے ہمیں کوئی حق نہ تھا کہ ہم رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین قرار دے کر ان کی عظمت کے اظہار کے لئے جلسے کرتے- ہمارا ایسا کرنا ایک دھوکا تھا جو ہم دنیا کو دے رہے تھے-
اس مضمون کی مولوی محمد علی صاحب نے اپنی زبان سے ایک معزز رئیس سردار حبیب اللہ صاحب کے سامنے تائید کی ہے- جنہوں نے خود میرے سامنے بہ موجودگی اپنے نانا صاحب اور ہماری جماعت کے بعض افراد کے اس امر کی شہادت دی کہ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمیں ان جلسوں پر یہ اعتراض تھا کہ باوجود رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین نہ ماننے کے ان لوگوں نے خاتم النبیین کے نام کے نیچے آپ کی تعظیم کے اظہار کے لئے جلسے کیوں کئے ہیں-
پیغام صلح کی اشاعت ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء میں اوپر کے بیان کی تصدیق بھی ہو گئی ہے کیونکہ اس میں مولوی محمد علی صاحب الفضل کی ایک ڈائری کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے سردار حبیب اللہ صاحب سے کہا تھا کہ
>مگر جن لوگوں کا ختم نبوت پر ایمان نہیں اور آنحضرت ~صل۲~ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری کرتے ہیں- ان کا دنیا میں یہ اعلان کرنا کہ ہم یوم خاتمالنبیین منائیں گے` دنیا کو دھوکا دینا ہے کہ لوگ یہ خیال کریں کہ واقعی یہ لوگ نبوت کو آنحضرت ~صل۲~ پر ختم مانتے ہیں<-
)صفحہ ۱ کالم ۳(
پھر لکھتے ہیں کہ-:
>جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت ~صل۲~ پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبیین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتم النبیین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<- )صفحہ۱ کالم۳(
ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے اس بیان کی جو سردار حبیب اللہ صاحب ممبر لیجلیٹو کونسل پنجاب کی زبانی مجھے معلوم ہوا تھا` تحریراً بھی تصدیق کر دی ہے اور اب ان کی اور پیغام صلح کی تحریروں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انہوں نے جو ۱۷-جون کے جلسوں کی مخالفت کی تھی` اس کے اسباب مندرجہ ذیل تھے-
۱- میں اور میرے احباب رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین نہیں مانتے- اس لئے ہمارا حق نہ تھا کہ ہم خاتم النبیین کی تائید میں جلسے کرتے-
۲- مولوی صاحب کے عقیدہ کے مطابق عام مسلمان رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین مانتے ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی کے قائل نہیں- اس لئے ہمارا خاتم النبیین کی تائید میں جلسوں کا اعلان کرنا دھوکا تھا اور ایک فریب تھا- جس سے ہمارا مقصد خاتم النبیین ماننے والے غیر احمدی مسلمانوں کو دھوکا دینا تھا-
میں اب یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب اور ان کے احباب ان دونوں امور میں دیدہ و دانستہ غلط بیانی کی مرتکب ہوئے ہیں- اور انہوں نے صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے وہ باتیں شائع کی ہیں جو ان کے علم اور ان کے یقین کے خلاف ہیں-
امر اول کے جواب میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں رسول کریم ~صل۲~ کی خاتم النبیین یقین کرتا ہوں اور اس پر میرا ایمان ہے- قرآن شریف کے ایک ایک شوشہ کو میں صحیح سمجھتا ہوں- اور میرا یقین ہے کہ اس میں کسی قسم کا تغیر ناممکن ہے- جو لوگ قرآن شریف کو منسوخ قرار دیں یا اس کی تعلیم کو منسوخ قرار دیں` میں انہیں کافر سمجھتا ہوں- میرے نزدیک رسول کریم ~صل۲~ خاتم النبیین ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے- اور جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میرا یہی عقیدہ ہے اور انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ موت تک اس عقیدہ پر قائم رہوں گا- اور اللہ تعالیٰ مجھے محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے خدام کے زمرہ میں کھڑا کرے گا- اور میں اس دعویٰ پر اللہ تعالیٰ کی غلیظ سے غلیظ قسم کھاتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اگر میں دل میں یا ظاہر میں رسول کریم ~صل۲~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں- اور لوگوں کے دکھانے کے لئے اور انہیں دھوکا دینے کیلئے ختم نبوت پر ایمان ظاہر کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو اور اللفہ تعالیٰ اس کام کو جو میں نے شروع کیا ہوا ہے` تباہ و برباد کر دے- میں یہ اعلان آج نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ میں نے اس عقیدہ کا اعلان ہے- اور سب سے بڑا ثبوت اس کا یہ ہے کہ میں بیعت کے وقت ہر مبائع سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین یقین کرے گا- مولوی محمد علی صاحب بھی میرے اس عقیدہ اور میرے اس فعل سے اچھی طرح واقف ہیں- باوجود اس کے مولوی صاحب کا اور ان کے رفقاء کا یہ شائع کرنا کہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں` تقویٰ اور دیانت کے خلاف فعل ہے- اور ہر شریف انسان ان کے اس فعل پر انہیں ملامت کرے گا-
مولوی صاحب یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی مانتا ہوں- اس لئے ثابت ہوا کہ میں رسول کریم ~صل۲~ کے خاتم النبیین ہونے کا منکر ہوں کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا نبی ہر گز نہیں مانتا کہ ان کے آنے سے رسول کریم ~صل۲~ کی نبوت ختم ہو گئی ہو- اور آپ کی شریعت منسوخ ہو گئی ہو- بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے اور ہر ایک جس نے میری کتب کو پڑھا ہے یا میرے عقیدہ کے متعلق مجھ سے زبانی گفتگو کی ہے جانتا ہے کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو رسول کریم ~صل۲~ کا ایک امتی مانتا ہوں اور آپ کو رسول کریم ~صل۲~ کی شریعت اور آپ کے احکامات کے ایسا ہی ماتحت مانتا ہوں جیسا کہ اپنے آپ کو یا اور کسی مسلمان کو بلکہ میرا یہ یقین ہے کہ مرزا صاحب رسول کریم ~صل۲~ کے احکامات کے جس قدر تابع اور فرمانبردار تھے` اس کا ہزارواں حصہ اطاعت بھی دوسرے لوگوں میں نہیں ہے- اور آپ کی نبوت ظلی اور تابع نبوت تھی جو آپ کو امتی ہونا سے ہر گز باہر نہیں نکالتی تھی- اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ ملا تھا` وہ رسول کریم ~صل۲~ کے ذریعہ اور آپ کے فیض سے ملا تھا- پس باوجود اس عقیدہ کے میری نسبت یہ کہنا کہ میں چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں` اس لئے گو میں منہ سے کہوں کہ رسول کریم ~صل۲~ خاتم النبیین ہیں` میں جھوٹا اور دھوکے باز ہوں- خود ایک دھوکا ہے- اور مولوی صاحب اس امر کو خوب جانتے ہیں-
میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس طرح کسی کے ایمان اور اس کے دعویٰ پر باوجود اس کے انکار کے حملہ کرنا جائز ہوتا ہے تو پھر کیا میں جو مرزا صاحب کو امتی نبی مانتا ہوں اور جس کے نزدیک مرزا صاحب کا یہی دعویٰ تھا- کیا میرا اور میری جماعت کا حق ہوگا کہ چونکہ مولوی صاحب مرزا صاحب کو ہی نہیں مانتے- ہم ان کی نسبت یہ کہا کریں کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء مرزا صاحب کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہنے میں وہ دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں-
پھر میں پوچھتا ہوں کہ غیر احمدی طبقہ جو علماء کے ماتحت ہے` ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مردے زندہ ہو سکتے ہیں اور انبیاء کو ایسی طاقت مل جاتی ہے اور انسان بہ جسد عنصری آسمان پر جا سکتاہے- اور اس عقیدہ کے ماتحت ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود ناصر علیہ السلام بھی مردے زندہ کیا کرتے تھے- اور پرندے بھی پیدا کیا کرتے تھے- اور جب یہود نے انہیں مارنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اب تک وہاں زندہ موجود ہیں- لیکن ان لوگوں کے بر خلاف آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کے امور کا واقع ہونا تعلیم قرآنی کے خلاف ہے- تو اس صورت میں کیا مولوی صاحب یہ جائز سمجھیں گے کہ غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب کی نسبت جو ان امور کے قائل نہیں یہ اعلان کریں کہ وہ معجزات کا قائل نہیں ہیں- اور مولوی صاحب یہ جواب دیں کہ میں تو معجزات کا قائل ہوں- البتہ اس تشریح کا پابند نہیں ہوں جو دوسرے لوگ کرتے ہیں اور جو میرے نزدیک قرآن کریم کے خلاف ہے- پس مجھے معجزات کا منکر نہیں کہا جا سکتا-
تو کیا مولوی صاحب یہی جواب ہماری طرف سے نہیں دے سکتے تھے اور یہ خیال نہیں کر سکتے تھے کہ گو ہمارا اور ان کا ختم نبوت کے مفہوم میں اختلاف ہے- لیکن یہ لوگ چونکہ اس امر کے مدعی ہیں کہ انہیں ختم نبوت پر ایمان ہے- اس لئے انہیں خاتم النبیین کا منکر نہیں کہا جا سکتا- مگر یہ جواب تو مولوی صاحب کو تب سوجھتا جب وہ عدل اور انصاف سے مسئلہ کی حقیقت پر غور کرنے کے لئے تیار ہوتے-
پھر کیا مولوی صاحب اس امر کا جواب دیں گے کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا اور ان کی نسبت یہ یقین کرنا کہ وہ بغیر کھانے پینے کے آسمان پر بیٹھے ہیں- اور وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے- اور مردے زندہ کیا کرتے تھے` شرک ہے یا نہیں- تو پھر کیا وہ اس امر کا اعلان کریں گے کہ تمام مسلمان لا الہ الا اللہ دھوکے اور فریب سے پڑھتے ہیں` دراصل وہ سب کے سب مشرک ہیں- اور توحید کے منکر ہو کر کافر ہو چکے ہیں- اگر نہیں تو کیوں؟ جب انہوں نے ہم پر ختم نبوت کے منکر ہونے کا الزام لگایا ہے اور دھوکے باز ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے- اس لئے نہیں کہ ہم ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں- بلکہ اس لئے کہ ان کے نزدیک ختم نبوت کی جو تشریح ہے` ہم اس سے اختلاف رکھتے ہیں- تو کیا سبب ہے کہ غیر احمدیوں کی نسبت جو ]ksn [tagلا الہ الا اللہ تو کہتے ہیں- مگر شرک کی تعریف میں مولوی صاحب سے اختلاف رکھتے ہوئے وہ بعض ایسے امور کے قائل ہیں جن کے مولوی صاحب شرک قرار دیتے ہیں- مولوی صاحب یہ اعلان نہیں کرتے کہ یہ لوگ دھوکے سے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں- ورنہ اصل میں یہ مشرک ہیں- کیا ایسا نہ کرنے کی یہی وجہ تو نہیں کہ مولوی صاحب کے تمام کاموں کا گزارہ ہی ان لوگوں کے چندوں پر چلتا ہے ورنہ ان کے اپنے ہم عقیدہ معدودے چند آدمی ہیں-
پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مولوی صاحب اسی فتویٰ کو جو انہوں نے ہم پر چسپاں کیا ہے` کچھ اور لوگوں پر بھی چسپاں کریں گے- اگر وہ اس کے لئے تیار ہیں تو سنیں کہ حضرت عائشہ ؓ کا وہی مذہب ہے جو میرا ہے- وہ فرماتی ہیں-قولوا خاتم النبیین ولا تقولو لا نبی بعدہ یہ تو کہو کہ رسول کریم ~صل۲~ خاتم النبیین نہیں- مگر یہ نہ کہو کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی اور نبی نہیں- اب مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ کیا حضرت عائشہ ؓ کی نسبت بھی وہ یہ اعلان کریں گے کہ وہ خاتم النبیین کی منکر تھیں اور لا نبی بعدہ کہنے سے منع کر کے جو انہوں نے خاتم النبیین کہنے کی تعلیم دی ہے- یہ محض نعوذ باللہ من ذالک لوگوں کو دھوکا دیا ہے- مولوی صاحب نے اپنی کتاب النبوۃ فی الاسلام میں اس احتمال کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ قول حضرت عائشہ ؓ کا ہو سکتا ہے- لیکن یہ کہا ہے کہ اس صورت میں یہ قول ان کا مردود ہوگا- )صفحہ۱۷۷( مگر یہ فتویٰ نہیں دیا کہ میں پھر حضرت عائشہ ؓ کو دھوکہ باز کہوں گا- اور کہوں گا کہ خاتم النبیین کہنے میں وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہی تھیں- اسی طرح کیا مولوی صاحب ان بیسیوں بزرگان اسلام کو جنہوں نے غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا تسلیم کیا ہے- ختم نبوت کا منکر قرار دیں گے اور سب کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ دھوکہ باز تھے اور لوگوں کو قریب دے رہے تھے- اور تو خیر میں پوچھتا ہوں کہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند جنہوں نے اپنے متعدد رسالوں میں غیر تشریعی نبوت کو جائز قرار دیا ہے کیا مولوی صاحب ان کی نسبت یہ اعلان کریں گے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان لانے کے دعویٰ میں جھوٹے تھے- اور دنیا کو قریب دے رہے ہیں-
اگر باوجود ان تشریحات کے مولوی صاحب ان کو دھوکہ باز نہیں کہتے- بلکہ نہیں کہہ سکتے تو پھر اس عقیدہ کی بنا پر مولوی صاحب مجھے اور باقی احمدی جماعت کو دھوکہ باز کس طرح کہہ رہے ہیں- اور کیا ان کا یہ فعل خود دھوکہ نہیں- اور اس وجہ سے نہیں کہ وہ اصل میں یہ چاہتے تھے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی وہ عظیم الشان خدمت جو ۱۷- جون کے جلسوں کی شکل میں ظاہر ہوئی` مجھ سے اور میرے احباب کے ذریعہ سے نہ ہو- گویا ان کا دل میرے کینہ سے اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ اس کو تو پسند کر لیتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ کی عظمت کے اظہار کے لئے کوشش نہ کی جائے- مگر اسے پسند نہیں کر سکتے کہ کوئی اچھا کام میرے ذریعہ سے ہو-
غیر احمدی صاحبان مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک ختم نبوت کے منکر ہیں!
اب میں دوسری بات کو لیتا ہوں جو یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء نے یہ وعویٰ کیا ہے کہ ان کے نزدیک غیر احمدی فرقے ختم نبوت کے ماننے والوں میں سے ہیں اور چونکہ میں ختم نبوت کا منکر ہوں اس لئے میرا حق یہ تھا کہ میں ختم نبوت کی تائید کا نام لیکر ان جلسہ کرنے کی دعوت دیتا-
میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ان کے نزدیک عام مسلمان ختم نبوت کو مانتے ہیں اور اس لئے ان کو ایک ختم نبوت کے منکر کے دھوکہ سے بچانے کے لئے ان کے اخبار نے لوگوں کو متوجہ کیا تھا- ایک صاف اور واضح دھوکہ ہے- مولوی صاحب ہر گز غیر احمدیوں کو ختم نبوت کے ماننے والے نہیں مانتے- وہ انہیں اسی طرح ختم نبوت کے ¶منکر قرار دیتے ہیں جس طرح کہ مجھے اور میرے احباب کو- اور اس کا ثبوت وہ حوالہ جات ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب النبوۃ فی الاسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے نقل کئے ہیں- ان میں سے چند ذیل میں درج کرتا ہوں-
>اور سب حدیثیں اس امر پر متفق ہیں کہ مسیح موعودؑ اس امت میں سے ہوگا- کیونکہ نبوت ختم کر دی گئی ہے اور ہمارے رسول خاتم النبیین ہیں<-
)تحفہ بغداد صفحہ۲۷ النبوۃ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ(
‏iqt] [tag >ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہمارے نزدیک نبی ~صل۲~ خاتم الانبیاء ہیں تو کوئی شک نہیں کہ جو شخص اس مسیح کے نزول پر ایمان لاتا ہے جو بنی اسرائیل کا نبی ہے` وہ خاتم النبیین کا کافر ہے<-
)ترجمہ تحفہ بغداد صفحہ۲۸ النبوۃ الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۳۱ ضمیمہ(
>پس کچھ شک نہیں کہ اس عقیدہ کو یعنی آسمان سے مسیح کے نزول پر ایمان لانے کو نہ ایک بیماری بلکہ کئی بیماریاں لگی ہوئی ہیں- قرآن کی بنیات کے مخالف ہے ختم نبوت کے امر کی تکذیب کرتا ہے اور قوم عرب کے محاورات کے مغائر پڑا ہوا ہے<-
)نور الحق حصہ اول صفحہ ۵۱ ترجمہ النبوۃ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب صفحہ۷۰ ضمیمہ(
>خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین اور حدیث میں ہے-لا نبی بعدی اور با اینہمہ حضرت مسیح کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی- لہذا دنیا میں ان کے دوبارہ آنے کی امید طمع خام- اور اگر کوئی اور نبی نیا یا پرانا آوے تو ہمارے نبی ~صل۲~ کیونکہ خاتم الانبیاء ہیں<-
)ایام الصلح صفحہ ۷۴ النبوۃ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحبہ صفحہ۹۷(
>ہمارے نبی ~صل۲~ کا خاتم الانبیاء ہونا بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے- کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آ جائے تو آپ خاتم الانبیاء نہیں ٹھہر سکتے- اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہو سکتا ہے- اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت عیسیٰ امتی ہو کر آئیں گے` تو شان نبوت تو ان سے منقطع نہیں ہوگی- گو امتیوں کی طرح وہ شریعت اسلام کی پابندی بھی کریں- مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ کے علم میں نبی نہیں ہوں گے- اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ نبی ہوں گے تو وہی اعتراض لازم آیا کہ خاتم الانبیاء ~صل۲~ کے بعد ایک نبی دنیا میں آگیا اور اس میں آنحضرت صلعم کی شان کا استخفاف ہے اور نص صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے<-
)ایام الصلح صفحہ۱۴۶ النبوۃ فی الاسلام مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ضمیمہ صفحہ۹۹(
قولہ: مسیح نبی ہو کر نہیں آئے گا- امتی ہو کر آئے گا- مگر نبوت اس کی شان میں مضمر ہوگی-
اقول: جب کہ شان نبوت اس کے ساتھ ہوگی اور خدا کے علم میں وہ نبی ہوگا تو بلاشبہ اس کا دنیا میں آنا ختم نبوت کے منافی ہوگا<-
)ایام الصلح صفحہ ۱۶۳` ۱۶۴ النبوۃ فی الاسلام ضمیمہ صفحہ۱۰۱(
>قرآن شریف جیسا کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت ~صل۲~ پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے کہ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں- ان کا یہ عقودہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پنتالیس برس تک جبرئیل علیہ السلام وحی نبوت لیکر نازل ہوتا رہے گا- اب بتلائو کہ ان کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختم وحی نبوت کہاں باقی رہا- بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰ ہیں<-
)تحفہ گولڑویہ صفحہ۸۳ النبوۃ فی الاسلام صفحہ۱۲۰(
یہ حوالہ جات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ہیں- اور انہیں مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب النبوۃ فی الاسلام میں نقل کیا ہے- اور میں نے اس لئے کہ جو چاہے جہاں سے دیکھ لے- دونوں کتب کے صفحات کے حوالے دے دیئے ہیں- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے بھی اور مولوی صاحب کی کتاب کے بھی` ان حوالہ جات سے مندرجہ ذیل مطالب برضاحت ثابت ہوتے ہیں-
اول-:
مسیح ناصری کی آمد پر ایمان لانا ختم نبوت کے منافی ہے-
دوم-:
جو شخص مسیح ناصری کے نزول پر ایمان لاتا ہے وہ خاتم النبیین کا کافر ہے- اور ختم نبوت کی تکذیب کرتا ہے-
سوم-:
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ بھی رکھے کہ حضرت مسیح ناصری نبی نہیں بلکہ امتی ہو کر دوبارہ دنیا میں آئیں گے- تب بھی وہ ختم نبوت کا انکار ہی کرتا ہے-
چہارم-:
حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کے عقیدہ رکھنے والے کے نزدیک رسول کریم ~صل۲~ خاتم النبیین 1] mrl[ نہیں ہیں بلکہ مسیح ناصری ہے-
یہ چار نتائج جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں سے نکلتے ہیں` صاف بتاتے ہیں کہ آپ کے عقیدہ کے رو سے وہ تمام لوگ جو حضرت مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کے قائل ہیں خواہ انہیں نبی بنا کر اتارتے ہوں خواہ امتی بنا کر- بہرحال ختم نبوت کے منکر اور خاتم الانبیاء کے کافر ہیں- اور چونکہ مسلمانوں کا بیشتر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان میں سے ننانوے فیصدی اسی عقیدہ کے قائل ہیں- پس اوپر کے حوالہ جات کے رو سے مولوی محمد علی صاحب نے اپنی کتاب النبوۃ فی الاسلام میں نقل کئے ہیں` یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام غیر احمدی فرقہ جات بہ حیثیت فرقہ کے ختم نبوت کے منکر ہیں اور رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین نہیں مانتے- اور جب مولوی صاحب کے عقیدہ کی رو سے تمام غیر احمدی رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبیین نہیں مانتے تو پھر وہ بتائیں کہ ان کا یہ لکھنا کہ
>جب میاں صاحب اور ان کے مرید آنحضرت ~صل۲~ پر نبوت کو ختم نہیں مانتے تو یوم خاتم النبیین سے لوگوں کو دھوکا ہوگا یا نہیں- کیونکہ عام مسلمان خاتم النبیین کے معنی یہی جانتے ہیں کہ نبوت آنحضرت ~صل۲~ پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا<-
>پیغام صلح ۲۷- جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ۱ کالم۳(
سراسر غلط اور مغالطہ دہی میں شامل ہے یا نہیں-
مولوی محمد علی کا فرض ہے کہ وہ پہلے حضرت مسیح موعود کی کتب کے ان حوالہ جات کو رد کریں جو خود انہی کی کتاب میح منقول ہیں- اور اس کے بعد یہ دعویٰ کریں کہ مسلمان رسول کریم ~صل۲~ 2] f[rt کو خاتم النبین ان معنوں سے مانتے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- لیکن حیسا کہ اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہے باقی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک مسلمان ان معنوں میں رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبین نہیں مانتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں یئے گا` بلکہ ان کے عقیدہ اور ہمارے عقیدہ میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ ایک ایسا نبی آپ کے بعد آئے گا جس نے نبوت آپ کی اطاعت سے حاصل نہیں کی ہو گی اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایسا نبی کوئی نہیں آئے گا بکلہ پیشگوئی ایسے نبی کے متعلق تھی جس نے اپنے تمام کمالات رسول کریم ~صل۲~ کے فیض سے اور آپ کی اتباع میں حاصل کرنے تھے- پس ختم نبوت کے جلسہ میں دوسرے فرقوں کو دعوت اتحاد و مکیرہم نے دنیا کو دھوکا نہیں دیا بکلہ اپنے عقیدہ کے مطابق اعلان کیا- اور اس امر میں اشتراک عمل کی دعوت دی جس میں ہمارا دوسرے فرقہ ہائے اسلام سے آپ لوگوں کی نسبت بہیں زیادہ اتحاد ہے- ہاں جب آپ نے لوگوں پر ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ گویا آپ کے عقیدہ کی رو سے دوسرے فرقے رسول اللہ کو خاتم النبین ماننے والے ہیں تو آپ نے ایک صریح غلط بیانی کی- ورنہ اصل عقیدہ آپ کا یہی ہے کہ تمام مسلمان فرقے رسول کریم ~صل۲~ کو خاتم النبین نہیں مانتے- اور صرف آپ اور آپ کے چند ساتھی ایسے نو تعلیم یافتہ لوگ جو آمد مسیح کے ہی منکر ہیں ختم نبوت کے قائل ہیں-
گو اس جگہ یہ بحث نہیں کہ ہمارا عقیدہ درست ہے یا نہیں` بلکہ بحث یہ ہے کہ کیا مولوی صاحب کے عقیدہ کے رو سے فی الواقع ہم ختم نبوت کے منکر ہیں- اور دوسرے مسلمان فرقے اس کے ماننے والے ہیں- لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ایک حوالہ میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ خواہ نئے بنی کی آمد کا کوئی ماننے والا ہو یا پرانے نبی کی آمد کا وہ ختم نبوت کا منکر ہے- اس لئے میں ضمنایہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سے ہمارے عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں-:
>صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو- یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت ~صل۲~ کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں امتی بھی قرار دیتا ہے` پھر دوسری طرف اس کا نام بنی بھی رکھتا ہے` یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے- کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت کی نبوت کا ایک ظل ہے` کوئی مستقل نبوت نہیں ہے<-
)ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنحم صفحہ ۱۸۱(
اور ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بنی مانتے ہیں تو اوپر کی تشریح کے ساتھ ہی مانتے ہیں- پس حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے حوالہ جات کا ہم پر کوئی مخالف اثر نہیں پڑتا-
اور اس کے بعد میں پھر اصل مضمون کی طرف رجوع کرتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے حوالہ جات سے سابت ہے کہ مسیح کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا ختم نبوت کا منکر ہے- پس جب تک مولوی صاحب اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں` انہیں اس امر کا اقرار کرنا پڑے گا کہ تمام غیر احمدی خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں` ختم نبوت کے منکر ہیں- اور ان کا یہ ظاہر کرنا کہ ان کے عقیدہ کے رو سے عام مسلمان ختم نبوت کے قائل ہیں` مغالطہ دہی سے زیادہ نہیں ہے-
گو اوپر کی تحریرات کے بعد مولوی صاحب اس بات کی پناہ نہیں لے سکتے کہ نئے نبی اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدہ میں فرق ہے- اور جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ پرانے نبیوں میں سے کوئی نبی آئے گا وہ تو ختم نبوت کا قائل ہے- اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ اسی امت میں سے ایک شخص کو اسلام کے قیام کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کے فیض سے نبی کا نام دیا جائے گا` وہ ختم نبوت کا منکر ہے- لیکن اگر وہ ایسا کریں تو میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور حوالے کی طرف توجہ دلاتا ہوں- یہ حوالہ بھی انہوں نے اپنی کتاب النبوۃ فی السلام میں نقل یکا ہے اور یہ ہیں-:
>قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں- لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے- اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے- نہ حدیث میں نہ قرآن میں موجود ہے- اور حدیت لا نبی بعدی میں بھی یہ نفی عام ہے<- )ایام الصلح صفحہ ۱۴۶(
اس حوالہ سے ثابت ہے کہ جو شحص یہ فرق کرے کہ پرانے بنی کی واپسی کا عقیدہ رکھنے والا تو ختم نبوت کا قائل ہے اور نئے نبی کی آمد کا عقیدہ رکھنے والا منکر ہے` وہ شرارتی ہے-
مگر شاید مولوی صاحب کی اور ان کے متعین کی حضرت مسیح موعود کے حوالہ جات سے تسلی نہ ہو- کیونکہ وہ خود محتہد اعظم ہیں جیسا کہ حضرت مسیح عود علیہ اسلام کی صریح تحریر کے بعد کہ مسیح کا بن باپ ہونا ہمارے عقیدہ میں شامل ہے` وہ اس کے خلاف تعلیم دے رہے ہیں- اور جبکہ ان کے نزدیک مرزا صاحب محض ایک مجدد ہیں تو پھر ان کی تحقیق کے خلاف اور ان کے عقدہ کے مبائین عقیدہ رکھتے ہیں ان کے نزدیک کوئی ہرج بھی نہیں ہو گا- جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر سے جو مولوی صاحب کے نزدیک سب سے پہلے مجدد تھے اور ان کے محدث ہونے کی خود رسول کریم ~صل۲~ نے شہادت دی تھی` کئی مسائل میں صحابہ نے اختلاف کیا ہے اور آج تک لوگ اختلاف کرتے چلے جاتے ہیں- اس لئے میں خود مولوی صاحب کی اپنی ہی ایک تحریر جو کسی پرانے زمانہ کی نہیں بلکہ قریب کے زمانہ کی ہے` پیش کرتا ہوں- جس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ تھوڑا عرصہ پہلے ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ غیر احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں اور یہ کہ نئے اور پرانے نبی کی آمد کے عقیدوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے- مولوی صاحب اپنے رسالہ موسومہ بہ دعوۃ عمل میں تحریر فرماتے ہیں-
>قرآن شریف تو نبوت کو آنحضرت ~صل۲~ پر ختم کرتا ہے- مگر مسلمانوں نے اس اصولی عقیدہ کے بالمقابل یہ خیال کر لیا ہے کہ ابھی آنحضرت ~صل۲~ کے بعد حضرت عیسیٰ جو نبی ہیں` وہ آئیں گے- اور یہ بھی نہ سوچا کہ جب نبوت کا کام تکمیل کو پہنچ چکا اور اس لئے نبوت ختم ہو چکی تو اب آنحضرت ~صل۲~ کے بعد کوئی نبی کس طرح آ سکتا ہے` خواہ پرانا ہو یا نیا- نبی جب آئے گا` نبوت کے کام کے لئے آئے گا- اور جب نبوت کا کام ختم ہو گیا تو نبی بھی نہیں آ سکتا- پرانے اور نئے سے کچھ فرق نہیں پڑتا<- )صفحہ۱۲(
پھر صفحہ ۱۳ پر لکھتے ہیں کہ
>مسلمانوں نے عقیدہ بنا لیا کہ حضرت عیسیٰ جنہوں نے آنحضرت ~صل۲~ سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کی ہے` وہ اس امت کے معلم بنیں گے اور یوں آنحضرت ~صل۲~ کی شاگردی سے یہ امت نکل جائے گی<-
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اول مولوی صاحب کے نزدیک عام مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کے مقابل پر ہے- یعنی متضاد اور مخالف ہے- دوم- مولوی صاحب کے نزدیک یہ عقیدہ کہ کوئی پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا ور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نیا نبی آئے گا` ان میں کچھ فرق نہیں- یہ دونوں عقیدے ایک ہی طرح ختم نبوت کے عقیدہ کو رد کرنے والے ہیں- سوم- مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کے رو سے امت محمدیہ امت محمدیہ نہ رہے گی- یعنی رسول کریم ~صل۲~ کی نبوت ختم ہو جائے گی- اب اس عقیدہ کے بعد مولوی صاحب کا ۲۷-جولائی ۱۹۲۸ء کے پیغام صلح میں یہ فرمانا کہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبوت آنحضرت ~صل۲~ پر ختم ہو گئی اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا` صرف ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ایک چال اور خلاف ضمیر عقیدہ کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے- کیا یہ غضب نہیں کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تو مولوی صاحب کے نزدیک تمام مسلمان ختم نبوت کے منکر تھے اور ان کے عقائد امت محمدیہ کو آنحضرت ~صل۲~ کی امت سے نکال رہے تھے- لیکن ۱۷-جون کے جلسہ کی تحریک کا ہونا تھا کہ مولوی صاحب کی آنکھیں کھل گئیں- اور انہیں معلوم ہو گیا کہ سب مسلمان تو ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مبایع احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں- ان کے ساتھ مل کر کہیں دوسروں کے بھی عقیدے خراب نہ ہو جائیں- کیا یہ تغیر غیر معمولی نہیں ہے- کیا یہ تبدیلی موجب حیرت نہیں ہے- کیا اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ مولوی صاحب میرے بغض کی وجہ سے اس تحریک کو ناکام بنانا چاہتے تھے- اور رسول کریم ~صل۲~ کی محبت پر جو ان کے دل میں یقیناً ہوگی` ایک ساعت کے لئے میرا بغض غالب آ گیا- انا للہ وانا الیہ راجعون- میں تو اب بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اس امر سے محفوظ رکھے کہ ان کا دل ہمیشہ کے لئے ان کے جرم کی سزم میں محبت رسول سے محروم رہ جائے-
شاید مولوی صاحب یہ فرمائیں کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ مسیح کے نزول کو ماننا ختم نبوت کے خلاف ہے اور گو میں نے بھی اس عقیدہ کی تصدیق کی ہے` لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقعہ وہ لوگ ختم نبوت کے منکر ہیں- بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ ان کا عقیدہ حقیقت میں ختم نبوت کے خلاف ہے- اور اس قسم کے حقائق کے اظہار سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم کسی کو فی الواقعہ اس عقیدہ کا منکر قرار دے دیں- پس چونکہ غیر احمدی تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ خاتم النبیین نہیں مانتے- نعوذ باللہ من ذالک- اور اگر ایسی کوئی تحریر انہیں نہیں ملی- بلکہ انہوں نے ہمارے عقائد پر قیاس کیا تھا- اور ان کے نزدیک ہم اور غیر احمدی جیسا کہ ان کی تحریرات سے میں ثابت کر چکا ہوں` ایک ہی کشتی میں سوار ہیں- اور دونوں بقول ان کے صرف منہ سے ختم نبوت کے اقراری ہیں تو پھر انہوں نے دونوں سے سلوک میں فرق کیوں کیا اور ایک کو ختم نبوت کا ماننے والا اور ایک کو منکر کیوں قرار دیا- اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فیصلہ کو کیوں طلاق نسیاں پر رکھ دیا کہ >پرانے اور نئے نبی کی تفریق کرنا شرارت ہے<-
حق یہ ہے کہ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دل میں تو دونوں ہی کو خاتم النبیین کا ماننے والا ہی سمجھتے ہیں اور اپنی پہلی تحریروں میں دونوں ہی کو منکر قرار دے چکے ہیں- لیکن اس موقع پر اس خوف سے کہ کہیں ۱۷-جون کے جلسوں کی تحریک کامیاب نہ ہو جائے انہوں نے یہ درمیانی راستہ نکالا کہ جو کثیر التعداد جماعتیں ہیں اور جن سے انہیں چندے ملتے رہتے ہیں` انہیں تو انہوں نے اپنی پہلی تحریروں کے خلاف ختم نبوت کا ماننے والا قرار دے لیا- اور ہم لوگ جو تعداد میں تھوڑے ہیں اور ہم سے کچھ عرصہ وصول ہونے کی امید نہیں ہے` ہمیں انہوں نے ختم نبوت کا منکر قرار دے لیا- لیکن حق یہ ہے کہ گو ہم میں سے ہر ایک کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کی نسبت یہ کہہ دے کہ اس کا عقیدہ حقیقت ختم نبوت کے منافی ہے- لیکن جو شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی فرقہ بھی ایسا ہے کہ وہ ختم نبوت کا ایسے رنگ میں منکر ہے کہ اس کا حق ہی نہیں کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے مل کر رسول کریم ~صل۲~ کی عظمت کے قیام کے لئے کوشش کر سکے` وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
خاکسار
مرزا محمود احمد )خلیفہ المسیح ثانی(
مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال
برادران السلام علیکم
کچھ عرصہ ہوا میرے پاس قادیان کے کچھ سکھ صاحبان بطور وفد آئے اور انہوں نے شکایت کی کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے کی کتاب >گورونانک صاحب کا مذہب< میں ان کے پیشوائوں پر حملہ کیا گیا ہے- میں یہ یقین نہیں کر سکا تھا کہ کوئی احمدی ایسا کرے- لیکن چونکہ بعض حوالہ مجھے ایسے سنائے گئے جو میرے نزدیک واقعہ میں قابل اعتراض تھے` اس لئے میں نے انہیں تسلی دلائی کہ اس کتاب کے متعلق تحقیق کر کے میں مناسب کارروائی کروں گا- اس وعدہ کے
‏a.11.2
نبی کے زمانہ میں چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے کئے جاتے ہیں
فرمودہ ۱۶- اگست ۱۹۲۹ء بمقام یاڑی پورہ کشمیر(
تشہد و تعوذ و تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا-:
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جب کسی بستی میں فاتحنہ طور پر داخل ہوتا ہے- توجعلوا اعزہ اھلھا اذلہ وہ اس کے بڑے لوگوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا کر دیتا ہے- اور ہم دیکھتے ہیں دنیا میں جب کبھی حکومت بدلتی ہے تو جہاں نیا بادشاہ اور نئے حاکم ہو جاتے ہیں- وہاں اس کے ساتھ دنیا میں بہت بڑا تغیر بھی واقع ہوتا ہے وہ لوگ جو اس ملک میں بڑے سمجھے جاتے ہیں- جن کے ہاتھوں میں سب کام ہوتے ہیں` وہ اپنی عزت اور حکومت کی حفاظت کیلئے نئے بادشاہ سے مقابلہ کرتے ہیں- کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اور بادشاہ قابض ہو گیا تو ان کی حکومت میں خلل واقع ہوگا- اگر اس مقابلہ میں نیا بادشاہ غالب آ جاتا ہے تو وہ چھوٹوں کو بڑا بنا دیتا ہے اور بڑوں کو چھوٹا کر دیتا ہے- خدائی سلسلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے-
رسول کریم ~صل۲~ جب مبعوث ہوئے تو عرب میں گو کوئی بادشاہ نہیں تھا مگر ہر علاقہ میں بڑے بڑے لوگ تھے جو اپنے اپنے علاقہ پر حکومت کرتے تھے- مدینہ میں` طائف میں` حضر موت میں` یمن وغیرہ میں` غرض ہر علاقہ میں رئیس تھے- جب آپ نے نبوت کا پیغام پہنچایا تو آپ کی باتوں میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو بری ہو- آپ نے ایک بات بھی ایسی نہ کہی جس سے مخالفین یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ شخص اپنی بڑائی چاہتا ہے اور ہمیں گرانا چاہتا ہے- اگر رسول کریم ~صل۲~ نے نماز کا حکم دیا تو اس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا` سراسر دوسروں کا ہی فائدہ تھا- اگر آپ نے حقیقی مالک کو راضی کرنے کی تعلیم دی تو جو لوگ اس تعلیم پر چلتے اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیتے ان کی اپنی ذاتوں کو ہی فائدہ پہنچتا- رسول کریم ~صل۲~ کو کیا فائدہ ہوتا- اگر رسول کریم ~صل۲~ نے زکٰوۃ دینے کا حکم دیا تو اس میں بھی لوگوں کا ہی فائدہ تھا نہ کہ آپﷺ~ کا- آپﷺ~ نے تو سیدوں کو زکٰوۃ لینے سے منع کر دیا- حالانکہ سیدوں میں بھی غریب ہوتے ہیں- تو نہ صرف آپ زکٰوۃ کے مال سے مجتنب رہے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی فرما گئے کہ ان کے لئے زکٰوۃ کا مال جائز نہیں-
اسی طرح کریم ~صل۲~ نے جھوٹ بولتے سے منع فرمایا- اس میں آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا تھا- کونسی جاگیر مل جاتی تھی- یہ صرف لوگوں کے فائدہ کے لئے آپﷺ~ نے تعلیم دی-
اسی طرح چوری کرنے سے منع فرمایا- اس سے بھی آپ کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا- صرف لوگوں کے بھلے کے لئے فرمایا- آنحضرت ~صل۲~ کے گھروں میں تو بعض اوقات کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا تھا- اس حالت میں یہ خیال نہیں کیا جا سکتا- کہ آپﷺ~ نے ظلم کرنے سے منع فرمایا- یہ حکم بھی اس لئے دیا تا لوگ ایک دوسرے کے ظلم سے بچیں- ورنہ آنحضرت ~صل۲~ خود تو علیحدگی میں عبادت کر کے اپنا وقت گزارتے تھے- پس جو بھی تعلیم رسول کریم ~صل۲~ نے لوگوں کو دی` نہ تو اس میں کوئی برائی تھی اور نہ آپﷺ~ کی اس میں کوئی ذاتی غرض تھی- آپﷺ~ نے جھوٹ سے منع فرمایا- اس میں کونسی بری بات تھی- چوری سے منع فرمایا- اس میں کونسی بری بات تھی- بدکاری سے منع فرمایا- اس میں کونسی بری بات تھی- عرب لوگ شراب سے بدمست رہتے تھے- ان کو شراب پینے سے منع فرمایا- اس میں کونسی بری بات تھی- مگر باوجود اس کے پھر بھی لوگوں نے آپﷺ~ کو سخت تکلیفیں دیں- آپ کے ماننے والوں پر ایسے ظلم و ستم ڈھائے کہ وہ ہمیشہ مصائب کا تختہ مشق بنے رہے- ان تکالیف سے تنگ آ کر بعض صحابہ ملک چھوڑے پر مجبور ہو گئے اور ہجرت کر کے حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہوئے- مگر مکہ والوں کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی کہ چار پانچ سو کوس پر بھی وہ اپنے غریب ہم وطنوں کو آرام سے بسنے دیں- انہوں نے حشبہ کے بادشاہ کو تحفے بھیج کر اس بات کے لئے رضا مند کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے- لیکن جب یہ تدبیر کار گر نہ ہوئی تو بعض ان میں سے حشبہ پہنچے ان میں سے ایک عمرو بن عاص بھی تھے جو بعد میں بہت بڑے صحابی ہوئے- انہوں نے مصر فتح کیا تھا- انہوں نے جا کر حبشہ کے بادشاہ سے کہا- یہ لوگ ہمارے غلام ہیں اور بغاوت کر کے وہاں سے بھاگ آئے ہیں- بادشاہ منصف مزاج تھا- اس نے مسلمانوں کو بلایا اور دریافت کیا- آپ لوگوں پر کیا الزام ہے- انہوں نے جواب دیا- اے بادشاہ- ہماری قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم لوگ چوری کیا کرتے تھے- بدکاری میں مبتلا تھے` شرک کے گند سے ملوث تھے` ہر قسم کا دغا فریب کرتے تھے کہ خدا کا ایک برگزیدہ پیدا ہوا- اس نے ہمیں ان باتوں سے روکا- ہم نے اس کی آواز پر لبیک کہا- اور یہ سب برائیاں چھوڑ دیں- بس یہی ہمارا قصور ہے-
یہ تقریر ایسے رقت بھرے الفاظ میں کی گئی کہ بادشاہ اور درباری سب رو پڑے اور بادشاہ نے انہیں واپس دینے سے انکار کر دیا-
جب اس طرح بھی اہل مکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا- تو عمرو بن عاص نے اپنے ساتھی سے کہا- اب میں درباریوں کو ان کے خلاف اکستاتا ہوں- چنانچہ اس نے درباریوں کو تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ بادشاہ کو یہ کہہ کر مخالف بنائیں کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتے ہیں- بادشاہ عیسائی تھا- اسے اس طرح اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی دوسرے دن درباریوں نے بادشاہ سے کہا- اے بادشاہ: یہ لوگ نہ صرف مکہ والوں کے دشمن ہیں بلکہ تمہارے بھی دشمن ہیں- کیونکہ یہ حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں- بادشاہ نے پھر مسلمان مہاجرین کو بلایا اور اس بارے میں دریافت کیا- انہوں نے کہا ہم لوگ حضرت عیسیٰ کو خدا کا نبی مانتے ہیں- اور دل سے ان کی تعظیم کرتے ہیں- ہاں ہم انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے- اور سورہ مریم کی آیات سنائیں- بادشاہ نے ان کا جواب سنکر ایک تنکہ اٹھایا اور خدا کی قسم کھا کر کہا میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ اس تنکہ کے برابر بھی نہیں سمجھتا- درباری یہ سن کر بادشاہ کے خلاف سخت برافروختہ ہو گئے- مگر بادشاہ نے انہیں وہ واقعہ یاد دلایا جب کہ وہ اس کے باپ کی وفات پر اسے قتل کر کے اس کے چچا کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے- مگر خدا نے کچھ ایسے سامان کر دیئے کہ بادشاہت اسے مل گئی- بادشاہ نے کہا کہ تم لوگوں کا مجھ پر کچھ احسان نہیں یہ خدا کا مجھ پر احسان ہے- بادشاہت کے جانے کا مجھے کچھ بھی ڈر نہیں- وہ خدا جس نے مجھے بادشاہت عطا کی میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں- اور یہ ظلم جو تم مجھ سے کرانا چاہتے ہو ہر گز نہیں کروں گا-
ایک وقت تو یہ حالت تھی- لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا- جب کہ یہ اسلام- نبی کریم ~صل۲~ اور صحابہؓ کے دشمن مسلمان ہوئے اور اخلاص میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کی- یہی عمرو بن عاص جب مسلمان ہو گئے تھے تو اپنے متعلق کہنے لگے- مجھ پر دو زمانے آئے ایک اسلام کی مخالفت کا اور ایک موافقت کا- مخالفت کے زمانہ میں میں نبی کریم ~صل۲~ سے ایسا بغض رکھتا تھا کہ حقارت سے کبھی چہرہ نہیں دیکھتا تھا- پھر موافقت کا زمانہ آیا- اس میں نبی ~صل۲~ کی محبت اس قدر دل میں جاگزیں ہوئی اور آپ کا جلال ایسا تھا کہ میں رعب کی وجہ سے آپﷺ~ کے چہرہ کی طرف نگاہ نہیں کر سکتا تھا- ابوجہل کا لڑکا عکرمہ تھا- پہلے مخالفت کرتا رہا- لڑائیوں میں سرگرم حصہ لیتا تھا- مگر جب اسلام اختیار کیا تو ہر طرح کی قربانیاں کیں- جان و مال سے دریغ نہ کیا- اور اسلام کی اس قدر خدمت کی کہ اپنا پورا جان نثار ہونا ثابت کر دیا- غرضیکہ وہ دشمان اسلام جو سخت مخالفت پر تلے رہتے تھے آخر کار انہوں نے حقانیت کو مانا اور مان کر ہر طرح کی قربانیوں میں حصہ لیا-
اسی طرح ایک وقت تو وہ تھا کہ آنحضرت ~صل۲~ اور صحابہ کرام کو گھروں سے باہر نکلنا دشوار تھا- اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گزارہ کرنا پڑتا تھا تا کہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں- لیکن پھر وہ بھی زمانہ آیا کہ آنحضرت ~صل۲~ فاتح کی حیثیت سے ایک جرار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے- اس طرح وہ دن آیا کہ دشمن کو دروازے بند کر لینے پڑے اور کسی کو طاقت نہ ہوئی کہ باہر نکل سکے- وہ لوگ جو غریب سمجھے جاتے تھے اور جو اتنے مظلوم تھے کہ کوئی ان کی فریاد کو نہیں پہنچتا تھا` اس وقت وہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہو رہے تھے- اور اس دن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کو دکھا دیا کہ کس طرح چھوٹے بڑے بنائے جاتے ہیں اور بڑے چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں-
پھر آنحضرت ~صل۲~ کی وفات پر جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے باپ سے کسی نے کہا- ابوبکر مسلمانوہ کا خلیفہ ہو گیا- اس پر وہ تعجب سے پوچھنے لگے- کون ابوبکر ؓ - کیا ابوقحافہ کا بیٹا- جب ان کو یقین دلایا گیا کہ وہی خلیفہ ہوئے ہیں تو وہ دریافت کرنے لگے- کیا بنو ہاشم نے ان کو مان لیا ہے- بنو عبدالشمس- بنو عبدالمطلب وغیرہ نے ان کی اطاعت اختیار کر لی ہے- جب کہا گیا کہ ہاں- سب نے مان لیا ہے تو حضرت ابوبکر ؓ کے والد نے اگرچہ وہ پہلے سے اسلام میں داخل تھے مگر کمزور ایمان رکھتے تھے- کلمہ شہادت پڑھا اور کہا آج مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا ہے- یہ آنحضرت ~صل۲~ کی ہی قوت قدسیہ کا اثر ہے کہ ان قبائل نے ابوبکر ؓ کی اطاعت اختیار کر لی` ورنہ ابوبکر کی کیا حقیقت تھی-
پھر حضرت ابوہریرہ کو دیکھو- فتوحات کے زمانہ میں ایک دن ریشمی رومال میں تھوک کر کہنے لگے- واہ واہ ابوہریرہ- ایک وہ زمانہ تھا کہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو جانے پر لوگ مرگی کے خیال سے جوتیاں مارا کرتے تھے اور ایک یہ زمانہ ہے ریشمی رومالوں میں تھوکتے ہو- پاس بیٹھنے والوں نے یہ بات سنکر پوچھا- آپ نے کیا فرمایا- کہنے لگے آنحضرت ~صل۲~ کے زمانہ میں میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تا کہ جب آپ باہر تشریف لائیں اور کچھ فرمائیں تو میں سن سکوں- اس وجہ سے میرے کھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا- بعض دفعہ سات سات فاقے کرنے پڑتے تھے اور بعض اوقات شدت بھوک کے سبب بے ہوشی طاری ہو جاتی اور اس بے ہوشی کو مرگی خیال کیا جاتا- اور عرب کے رواج کے ماتحت اس کا علاج جوتیوں سے کیا جاتا- ایک دفعہ جب کہ بھوک نے بہت ستایا تو میں نے صدقہ کی آیت نکال کر حضرت ابوبکر ؓ کے پیش کی- انہوں نے اس کا مطلب بیان کیا اور چلد دیئے- اسی طرح حضرت عمر ؓ کے پیش کی- انہوں نے بھی مطلب بیان کیا اور چل دیئے- حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں جب وہ مطلب بیان کر کے چل پڑتے اور آیت کے پیش کرنے سے میری غرض کو نہ سمجھتے تو میں اپنے دل میں کہتا کیا یہ معنی مجھے معلوم نہ تھے- یہ مجھ سے بہتر تو نہیں جانتے- اس اثنا میں آنحضرت ~صل۲~ تشریف لائے اور فرمایا- ابوہریرہ کیا بھوک لگی ہے- میں نے عرض کیا ہاں- اس پر آپ نے مسجد کے دوسرے غرباء کوبھی بلانے کے لئے فرمایا- چنانچہ جب میں سب کو بلا کر لے گیا تو آپ نے دودھ کا ایک پیالہ نکالا اور پلانا شروع کیا- مگر مجھے چھوڑ کر پہلے دوسروں کو پلانے لگ گئے- اس پر میں دل میں کڑھا کہ بھوک سے تو میں مر رہا تھا- ایک پیالہ دودھ ہے- وہ دوسرے پینے لگ گئے ہیں مجھے کیا ملے گا- آنحضرت ~صل۲~ نے سب کو پلا کر مجھے فرمایا- ابوہریرہ اب تم پیو- میں نے پیا- حضور نے فرمایا اور پیو- پھر میں نے پیا- اس طرح حضور نے مجھے کئی بار پلایا- حتیٰ کہ پیٹ میں ذرا بھی گنجائش باقی نہ رہی- یہ واقعہ سنا کر حضرت ابوہریرہ ؓ فرمانے لگے اس وقت مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ میرا یہ حال تھا- اور ایک یہ زمانہ ہے کہ جب خدا نے فضل کیا- آنحضرت ~صل۲~ کے فرمانے کے مطابق فتوحات ہوئیں- اور میں ایران کے بادشاہ کے رومال میں تھوکتا ہوں- حضرت ابوہریرہ فتوحات کے زمانہ میں مصر کو گورنر بھی بنا دیئے گئے تھے-
الغرض دنیا میں جب خدا کے نبی آتے ہیں تو لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں- وجہ مخالفت صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ خیال کر لیتے ہیں جو حکومت ہمیں حاصل ہے وہ اسے حاصل ہو جائے گی- ایسے لوگوں کو چھوٹا بنا دیا جاتا ہے- اور جو نبی کو قبول کرتے ہیں انہیں ادنیٰ حالت سے بڑا بنا دیا جاتا ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مبعوث ہوئے تو ان کی قوم نہایت ذلیل سمجھی جات یتھی- اینٹیں پاتھنے کا کام ان سے لیا جاتا تھا- لیکن حضرت موسیٰ کو مان کر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی- اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے- آپ کے ماننے والے بھی ادنیٰ قوموں سے تعلق رکھتے تھے- حواری اور مچھلیاں پکڑنے والے آپ کے متبع تھے- مگر خدا نے ان کو عزت دی- باقی جو بڑے بنے بیٹھے تھے` ان سب کو ذلیل و رسوا کر دیا-
یج بھی خدا نے ایک مامور بھیجا ہے جس کے ہاتھ پر ہم سب احمدیوں نے بیعت کی ہے- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام- الہی سلسلوں کی طرح یہ سلسلہ بھی پہلے بہت کمزور سمجھا جاتا تھا- مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے سلسلہ ترقی کرتا جاتا ہے- اور اس کی عظمت لوگوں کے دلوں پر بیٹھتی جاتی ہے- ایک دفعہ کچھ حنفی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے لے گئے- بٹالہ پہنچنے پر آپ نے فرمایا- پہلے میں یہ تو معلوم کر لوں کہ وہ کہتے کیا ہیں- مولوی محمد حسین صاحب نے بتایا کہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کی بات بہرحال مقدم ہے اور حدیث موخر- اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا- یہی ٹھیک ہے میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں- حضرت صاحب کے اس جواب پر مباحثہ کے لئے لے جانے والے تالیاں پیٹنے لگے- مگر آپ نے ان کی تالیوں کا کچھ بھی خیال نہ کیا- اور خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے خلاف کچھ کہنا گناہ سمجھا- جب آپ قادیان کو واپس لوٹے تو راستے میں الہام ہوا- آج تو نے میری خاطر ذلت قبول کی ہے- مگر میں تجھے عزت دوں گا اور تمام دنیا میں تیرا نام معزز کروں گا- بظاہر یہ بات معمولی نظر آتی ہے- مگر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فعل بہت بڑی بات تھی-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آپ بھی بڑے مرزا صاحب کے بیٹے ہیں- آپ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہتے- آپ کے والد افسوس کیا کرتے کہ یہ میرا بیٹا آئندہ زندگی میں بھرکا مرے گا- کیونکہ یہ تو زمیندارہ بھی نہیں کر سکے گا- مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک عظیم الشان ہستی بننے والا ہے-
اس زمانہ کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ آپ نے بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی- جو بری ہو- اس سرینگر میں فاحشہ عورتیں موجود ہیں- مولوی اور واعظ انہیں دیکھتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرو تو فوراً مخالفت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے- نہ صرف مخالفت بلکہ سخت افروختہ ہو جائیں گے- مانا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کی ہے- اور بعض لوگوں کا عقیدہ ان کی زندگی کا ہے- مگر اس قدر افروختہ ہونے کے کیا معنی- زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ کی غلطی ہے-
مسلمانوں کی ذلت کا ایک بہت بڑا باعث یہ بھی ہے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ ~صل۲~ کو زمین پر مدفون مانا- اور عیسیٰ علیہ السلام کو بقید حیات آسمان پر بٹھایا- یہی عیسائی جو ہم پر حکومت کرتے ہیں- مسلمان بادشاہ ہونے کے زمانہ میں ان کی منت و سماجت پر ان کے لڑکوں کو سکولوں میں داخل کیا جاتا تھا- مگر آج یہ بادشاہ ہیں- اس کی وجہ کیا ہے- یہی کہ مسلمانوں نے حضرت محمد رسول اللہ ~صل۲~ کو زمین میں دفن کیا- خدا نے بھی انہیں ذلیل و رسوا کر دیا- حضرت عیسیٰ کو آسمان پر بٹھایا- خدا نے بھی ان کی قوم کو ان پر حاکم کر دیا- انہی عقائد کی وجہ سے مسلمان عیسائیوں سے مغلوب ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا ایک حصہ عیسائیت کا شکار ہو چکا ہے- ایک سادہ لوح مسلمان نہایت آسانی سے ان کے جال میں پھنس جاتا ہے- وہ آنحضرت ~صل۲~ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کر کے دکھاتے ہیں- اس طرح پر کہ ساتھ ساتھ اقرار کرواتے چلے جاتے ہیں- وہ پوچھتی ہیں بتائو بھائی دونوں نبیوں میں سے زندہ کون ہے- مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے اور آنحضرت ~صل۲~ کو وفات یافتہ قرار دیتا ہے- اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ آسمان پر کون ہے مردے کون زندہ کیا کرتا تھا- پرندے کون پیدا کرتا تھا- مسلمان ان سب کا جواب حضرت عیسیٰ کے متعلق اثبات میں دیتا ہے اور آنحضرت ~صل۲~ کے حق میں نفی کرتا ہے- پھر عیسائی کہتے ہیں وہ جو زندہ ہے آسمان پر ہے- مردوں کو زندہ کرتا تھا- پرندے پیدا کرتا تھا- ہم اسے مانیں اور اسے نجات دہندہ قرار دیں یا اسے جو زندہ نہیں نہ آسمان پر ہے اور نہ مردوں کو زندہ کرتا تھا نہ کوئی چیز اس نے پیدا کی- اس مقابلہ میں مسلمان کے پاس کوئی حقیقی جواب نہیں ہوتا- اور وہ مجبور ہوتا ہے کہ عیسائیت اختیار کے- عیسیٰ کی خدائی کو تسلیم کرے- کیونکہ جن باتوں کو وہ پہلے سے مانتا چلا آتا ہے عیسائی وہی باتیں اس کے سامنے رکھتے ہیں اور وہی باتیں ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی کو مستلزم ہیں- بر خلاف اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ~صل۲~ کی عزت قائم کی اور حقیقت اسلام کو لوگوں کے سامنے رکھا- باطل کی آمیزش کو دور کیا اور خدائی احکام کو دنیا میں جاری کیا- مگر لوگوں نے آپ کی مخالفت کی اور خدائی احکام کو دنیا میں جاری کیا- مگر لوگوں نے آپ کی مخالفت کی- اور ہر طرح سے مقابلہ کیا تا یہ تعلیم دنیا میں نہ پھیلے- آپ کے خلاف ہر قسم کے ذلیل و رسوا کرنے کے منصوبے کئے گئے- آپ پر مقدمات کئے گئے- جھوٹے گواہ بنا کر لے جائے گئے- مارنے کی کوشش کی گئی- قتل کے مقدمے بنائے گئے- یہی وہ زمانہ تھا جب کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا- میں مرزا صاحب کو اپنے قلم سے مٹا دوں گا- مگر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو خدا نے ان کے خاندان کو تباہ کر دیا- اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان ترقی کر رہا ہے اور احمدیت پھیلتی جاتی ہے-
افغانستان جہاں کہ احمدیوں پر سخت مظالم ڈھائے جاتے ہیں` ان کو مروایا جاتا ہے- اس ملک میں بھی خدا کے فضل سے احمدیت ترقی کرتی جاتی ہے-
مولوی نعمت اللہ خان صاحب جن کو محمود طرزی وزیر امان اللہ خان سابق شاہ افغانستان کی چھٹی پر کہ اپنا مبلغ بھیجو` افغانستان میں بطور مبلغ بھیجا تھا- لیکن جب انہوں نے لوگوں کے سامنے احمدیت کو پیش کیا تو ان کے خلاف وہاں کے علماء نے فتاویٰ کفر لگائے- اور انہیں واجب القتل قرار دیا اور انہیں تکلیفوں میں ڈال کر سنگسار کر دیا- انہیں ذلیل کرنے کی غرض سے بازاروں میں پھیرایا گیا- غرضکہ ہر نوع کی تکلیف انہیں پہنچائی گئی- مگر انہوں نے احمدیت کو نہ چھوڑا ایک انگریز مصنف جو ان دنوں وہاں موجود تھا- اور اس نے سنگساری کا واقعہ دیکھا تھا- وہ لکھتا ہے کہ جب مولوی نعت اللہ خان صاحب کو گاڑا گیا اور پتھر پڑنے شروع ہوئے تو وہ یہی کہتے تھے- میں نے حق کو قبول کیا ہے` میں اسے نہیں چھوڑ سکتا- آپ مجھے مار دیں میں تو آپ کے حق میں دعا ہی کروں گا- باوجود ایسے خطرناک مظالم کے پھر بھی اس ملک میں جماعت ترقی کر رہی ہے- اب جب کہ امیر امان اللہ خان اپنے ملک کو چھوڑ کر روما )اٹلی( میں پہنچ چکے ہیں ان کے ایک وزیر کی چھٹی میرے نام سیلون سے آئی ہے کہ میں جب افغانستان میں تھا تو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتا تھا- اب ولایت جا رہا ہوں` واپسی پر افغانستان میں آ کر پھر تبلیغ کروں گا-
خدا کی گرفت سے بڑھ کر کسی کی گرفت نہیں ہو سکتی- امان اللہ خان کے ان بے جا مظالم پر خدا کی گرفت ہوئی- اس نے لڑک کر ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا- اس وجہ سے قوم اس کی بہت ممنون تھی اور اس کی بہت عزت کرتی تھی- مگر یکدفعہ حالات بدلے اور وہ عزت جو اسے حاصل تھی- ذلت کے رنگ میں بدل گئی اور اب جس حال میں امان اللہ خان ہیں وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں- غرضیکہ احمدیت ہر ملک میں پھیلتی جاتی ہے- اس علاقہ میں بھی احمدیت پھیلی ہے- یاڑی پورہ` گنج پورہ` آسنور` رشی نگر` بنڈہ پور وغیرہ دیہات میں ہزاروں احمدی ہیں- مگر باقی علاقوں کی نسبت کم ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم کم ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہاں نہیں آئے- یہاں حق کی آواز پہنچی اور لوگوں نے قبول کی- پھر وہ مرکز میں پہنچے اور صداقت کو معلوم کیا- اور اس پر قائم ہو گئے اور واپس آ کر دوسرے لوگوں تک اس صداقت کو پہنچایا اور اس طرح صداقت پھیلتی گئی-
یاد رکھو- خدا کی طرف سے آنے والا برکات کے ساتھ آتا ہے- گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام شریعت کی نئی کتاب نہیں لائے اور نہ نیا کلمہ جاری کیا ہے- وہی نمازیں ہیں` وہی روزے ہیں جن کا رسول کریم ~صل۲~ نے حکم دیا تھا- مگر آپ کے ساتھ برکات کا نزول ہوا- جن سے بہتوں کو فائدہ ہوا- کشمیر کی جماعتوں کے متعلق جب میں غور کرتا ہوں تو افسوس آتا ہے کہ انہوں نے نمایاں ترقی نہیں کی- جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو چھوڑ دیا ہے- میں سمجھتا ہوں کوئی شخص سری نگر جائے اور اس سے راجہ صاحب مصافحہ کریں تو وہ ہر جگہ اس کا ذکر کرے گا- لیکن جب خدا تعالیٰ کے نائب نے دنیا کو آواز دی اور تم لوگوں نے اس پر لبیک کہا اور اس کے سلسلہ میں داخل ہوئے جسے خدا دنیا میں عزت دینا چاہئے ہے- تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم حق کی آواز دوسروں تک نہیں پہنچاتے- افسوس ہے کہ یہاں کی جماعتوں نے اس کی پوری قدر نہ کی- آج نہیں تو آنے والی نسلیں تمہارے کپڑوں تک سے برکت حاصل کریں گی- جیسے رسول کریم ~صل۲~ کے بعد آپ کے پیروں سے لوگ برکات حاصل کرتے رہے-
حضرت ابو ذر غفاری کا قصہ حدیث میں آتا ہے جب انہوں نے آنحضرت ~صل۲~ کی نسبت سنا- تو وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے- اور آپ کی تعلیم کو سن کر اسلام میں داخل ہو گئے- چونکہ آپ کا قبیلہ سخت مخالف تھا- اس لئے آنحضرت ~صل۲~ سے اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہی- آپ نے اجازت دے دی- اس کے بعد کچھ دن وہ حضور کی صحبت میں رہے اور اس قدر اسلام کی محبت ان کے اندر موجزن ہوئی کہ وہ سرداران مکہ کے سامنے جا کر بلند آواز سے کہنے لگے-اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمد رسول اللہ اس پر انہیں اس قدر زود کوب کیا گیا کہ وہ بے ہوش گئے- حضرت عباس جو ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے وہاں سے گذرے اور انہیں یہ کہہ کر چھڑایا کہ جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے؟ غفار قبیلہ کا ہے اور اگر وہ تمہارے مخالف ہوگئے تو تمہاری ساری تجارت بند ہو جائے گی- اور کوئی چیز تمہارے پاس نہیں پہنچ سکے گی- اس دن تو وہ چھوٹ گئے لیکن دوسرے دن پھر اسی طرح کیا اور پھر مار کھائی- پہلے تو وہ اپنے قبیلہ میں جا کر اپنے اسلام کے مخفی رکھنے کی اجازت چاہتے تھے- مگر ایمان نے ایسا جوش مارا کہ انہوں نے مکہ ہی میں اشاعت اسلام شروع کر دی-
ہماری کشمیر کی جماعتیں تبلیغ کے معاملہ میں بہت سست نظر آتی ہیں- اس دفعہ بھی اور پہلے بھی جب کبھی میں یہاں آیا یہی دیکھا- یہ عذر درست نہیں کہ ہم ان پڑھ ہیں- ہماری جماعت میں بہت سے ایسے ان پڑھ ہیں جو ایک حرف بھی نہیں جانتے- مگر احمدیت کے لئے ایسا جوش رکھتے ہیں کہ سینکڑوں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں- احمدیت کی سچائی کی یہ بھی ایک زبردست دلیل ہے کہ کوئی زمانہ تھا جب مسلمان کہلانے والے عیسائی ہوتی تھے- لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا تو عیسائی اور انگریز لوگ مسلمان ہونے لگے گویا پہلے اگر شیر بکری کو کھاتے تھے تو اب بکری شیروں کو کھانے لگی- اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے ہوا- ولایت میں انگریز مسلمان ہو رہے ہیں- امریکہ میں امریکن لوگ اسلام قبول کرتے جاتے ہیں- یہ لوگ تھے جو آنحضرت ~صل۲~ کو گالیاں دیا کرتے تھے- مگر اب اسلام قبول کر کے آنحضرت ~صل۲~ پر درود بھیجتے ہیں- عیسائی پادریوں کو نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ احمدیوں سے بات چیت نہ کریں- پادری زویمر جو کسی زمانہ میں مصر میں رہتا تھا- اس نے ایک شخص سے سوال کیا جس کا وہ جواب نہ دے سکا- اتفاقا وہ شخص ہمارے ایک طالب علم سے ملا جو مصر میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے ہوئے تھے اور جو آج کل مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر ہیں- انہوں نے اس شخص کو سوال کا جواب سمجھایا اور کہا یہ جواب پادری کے سامنے پیش کرنا- چنانچہ وہ شخص پادری زویمر کے پاس گیا اور اسے جواب سنایا- پادری صاحب گھبرا کر کہنے لگے کیا تم کسی قادیانی سے تو مل کر نہیں آئے` اب یہاں نہ آنا- غرضیکہ یہ لوگ اب احمدیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے-
پس احمدیت کی اشاعت بزدلی سے نہ کرو` بلکہ جرات اور بہادری سے کرو- یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنی شروع کر دو- بلکہ یہ ہے کہ گورنمنٹ سے مل کر کام کیا جائے- ہم پنجاب میں رہتے ہیں- وہاں گورنمنٹ سے ملکر کام کرتے ہیں مگر ڈرتے نہیں- اگر ہماری جماعت دوسروں پر ظاہر کر دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خزانہ ہے- تو پھر کون ہے جو انکار کرے اور خزانہ کو رد کر دے-
میں پھر کہتا ہوں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم ان پڑھ ہیں- آنحضرت ~صل۲~ امی تھے- مگر سب دنیا کو آپ نے تعلیم دی- پس خدا کا فضل حاصل کرو` پھر سب کچھ پا لو گے- نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو- پھر کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں- اصل چیز خدا کی محبت ہے` اسے پیدا کرو- پڑھائی صرف >سونے پر سہاگہ< کا کام دیتی ہے- اگر کتابی علم سے کچھ بنتا- تو پھر اسلام نہ پھیلتا- کیونکہ آنحضرت ~صل۲~ امی تھے- عرب لوگ امی تھے- مگر دیکھو ان امیوں نے کس طرح اسلام پھیلایا- پہلے بزرگ مختلف پیشے اختیار کر کے اسلام کو پھیلایا کرتے تھے- وہ امی تھے- اپنا کام کرتے تھے- مگر خدا کی محبت ان میں موجزن تھی- اس لئے وہ اسلام کی راہ میں تکلیف اٹھا کر بھی اسلام پھیلاتے تھے- پس کوشش کرو کہ حق دنیا میں پھیل جائے اور اس وقت تک آرام نہ کرو جب تک حق تمام دنیا تک نہ پہنچ جائے- اپنے نفوس میں اصلاح کرو اور اپنی حالت درست کرو- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر اپنے فضل نازل کرے گا- اور لوگوں کے قلوب میں الہام کرے گا تا کہ وہ آپ کی مدد کریں اور ہاتھ بٹائیں-
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسنور کے علاقہ کے کچھ طلباء قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے ہیں- ایک ان میں سے فارغ التحصیل ہونے والا ہے- ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے اس علاقہ میں مقرر کیا جائے- اس کے بعد اور طالب علم جوں جوں تیار ہوتے جائیں` انہیں اس علاقہ میں تبلیغ کے کام پر لگایا جائے- تا کہ وہ اپنے علاقہ کو سنبھالیں- مگر قبل اس کے کہ ایسا ہو آپ لوگوں کو اپنس سستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا چاہئے- آج ہی مجھ سے شکایت کی گئی ہے کہ عام طور پر لوگ چندہ نہیں دیتے- میں نے کہا- چندہ لینے والے بھی آپ لوگ ہیں اور دینے والے بھی آپ ہی- ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں- جب تک کسی کو دین کے لئے خرچ کرنے کا خود شوق نہ ہو` دوسرے کیا کر سکتے ہیں- ہاں یہ سیدھی اور پکی بات ہے کہ جب کوئی جماعت بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوتی ہے تو اسے بیرونی مدد بھی حاصل ہو جاتی ہے-
ایسے تمام علاقے جن کی زبان علیحدہ ہے مگر ہندوستان کا ہی حصہ ہیں ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کے چندہ کا ایک حصہ انہیں کے علاقہ میں خرچ کیا جائے- گذشتہ مجلس مشاورت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسے علاقوں کا چندہ ۲۵ فیصدی انہی میں خرچ کیا جائے- باقی مرکز میں بھیجا جائے- اور جو دوسرے ممالک ہیں وہاں کا ۵۷ فیصدی چندہ وہیں خرچ ہو اور ۲۵ فیصدی مرکز میں بھیجا جائے- مرکز میں چندہ بھیجنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر خانہ ہے- دفاتر ہیں جو ساری جماعت کے انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں- ان کے اخراجات کے لئے چندہ کی ضرورت ہے-
اس علاقہ کی جماعتیں اگر باقاعدہ چندہ دیں تو اس میں سے ۲۵ فیصدی یہاں خرچ کیا جا سکتا ہے- جس سے کئی مدرسے چل سکتے ہیں اور مبلغ رکھے جا سکتے ہیں- پھر ہر احمدی کو تبلیغ میں حصہ لینا چاہئے- پنجاب میں احمدیت اسی طرح پھیلی کہ سینکڑوں آدمی اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور ۸۰ فیصدی چندہ پنجاب کا ہوتا ہے جس سے کئی کام کرنے والے مقرر کئے جاتے ہیں- اسی طرح کشمیر میں بھی ہو سکتا ہے- موجودہ جماعت تبلیغی اخراجات برداشت کرے اور جوں جوں جماعت بڑھتی جائے` آمد بھی بڑھتی جائے جس سے کئی مبلغ رکھے جائیں اور کئی مدرسے بنائے جا سکیں- مگر پہلے انہی لوگوں کو سارا بوجھ اٹھانا چاہئے جو اس وقت احمدیت میں داخل ہیں- میں جماعت کے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں خواہ کوئی تاجر ہو` یا واعظ` زمیندار ہو` یا گورنمنٹ کا ملازم- خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا- ہر ایک کو سب سے اول اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور لوگوں کے سامنے اپنا ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ جو کوئی دیکھے` پکار اٹھے- خدا رسیدہ لوگ ایسے ہوتے ہیں- اگر ایسی حالت ہو جائے تو پھر دیکھ لو احمدیت کی ترقی کے لئے کس طرح رستہ کھل جاتا ہے اور کتنی جلدی ترقی ہوتی ہے- لیکن یہ حالت نہ ہو تو خواہ کوئی مبلغ آئے یا میں خود ہی آئوں جسے خدا تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور وعظ کرو- تو لوگ یہی کہیں گے جب احمدیوں میں کوئی تغیر نہیں نظر آتا تو ہم کیوں احمدی بنیں- پس اپنے اخلاق درست کرو- اپنے معاملات درست کرو- اپنے تعلقات درست کرو- اور لوگوں پر ثابت کر دو کہ ان کی سچی ہمدردی اور خیر خواہی آپ کے دل میں ہے- میں بخار کی حالت میں تھا اور آج ہی مجھے واپس سری نگر جانا ہے چونکہ معلوم ہوا تھا کہ لوگ یہاں جمع ہیں` اس لئے آ گیا ہوں- میرے گھر سے بھی بیمار ہیں اس لئے میرا واپس جانا ضروری ہے- میں آپ لوگوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنے کی کوشش کریں- عبادات باقاعدہ ادا کریں- چندہ وغیرہ میں اچھی طرح حصہ لیں اور تبلیغ میں سرگرم رہیں-
خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آپ لوگوں کی ضرورتیں پوری کر سکیں- اور آپ لوگوں کو پورے جوش سے کام کرنے کی ہمت عطا کرے اور دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی توفیق بخشے- جو لوگ اس سچائی کو قبول نہیں کرتے` وہ اسلام کے غلبہ میں روک ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جماعت قائم کی ہے- وہ اسلام کی حفاظت کرنے والی فوج ہے- جو اس فوج میں شامل نہیں ہوتا- وہ اسلام کی شکست کا باعث بنتا ہے- خدا تعالیٰ لوگوں کو سمجھ دے تا کہ وہ اس فوج میں داخل ہوں اور اسلام دنیا میں کامیاب ہو- اور ساری دنیا میں پھیل جائے- )الفضل ۱۲-نومبر ۱۹۲۹ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‏]82 [pخدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
حضرت امام جماعت احمدیہ کا مکتوب
مسئلہ ذبیحہ گائے کے متعلق بنام ہندو` سکھ اور مسلم لیڈر صاحبان
آپ کو قادیان کے مذبح کے متعلق ناگوار حالات اخبارات کے ذریعہ معلوم ہو چکے ہوں گے- چونکہ یہ معاملہ اب بہت اہمیت اختیار کرتا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس بارہ میں میری مزید خاموشی سلسلہ احمدیہ کے مفاد کے بھی خلاف ہے اور ملک کے امن کی بربادی کا بھی موجب ہے- اس لئے پیشتر اس کے کہ میں کوئی ایسی راہ اختیار کروں جو احمدیہ سلسلہ کے وقار اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے ضروری ہو- اور ملک سے کی روح کو دور کر کے حقیقی امن کی بنیاد رکھنے والی ہو- میں نے مناسب سمجھا- کہ میں ان سکھ` ہندو اور مسلمان لیڈروں اور بارسوخ افراد کو جو اس معاملہ سے دلچسپی رکھتے ہیں- ذاتی طور پر مخاطب کر کے ان کی رائے معلوم کر لوں- تاکہ اگر کوئی ایسی راہ نکل سکے جس سے بغیر ایسے ذرائع کے اختیار کرنے کے جو مختلف اقوام کے لئے تکلیف دہ ہوں- مسلمانوں کو ان کے حقوق بھی مل سکیں اور دوسری اقوام کے لئے بھی کسی ناواجب تکلیف کی صورت پیدا نہ ہو- مذبح کے خلاف جن جن اخبارات نے لکھا ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا اکثر حصہ راستی سے دور اور مبالغہ بلکہ خلاف بیانی سے پر ہے- اصل واقعات یہ ہیں-:
قادیان میرے آباء واجداد کا بنایا ہوا قصبہ ہے اور اس کا اصل نام اسلام پور تھا- جس کے آخر میں قاضی کا لفظ اس وجہ سے زائد کیا جاتا تھا تا یہ ظاہر کیا جائے کہ مغلیہ حکومت کی طرف سے ایک قاضی اس علاقہ کی نگرانی کے لئے رہتا ہے- لیکن مرور زمانہ سے یہ نام صرف قاضی اور پھر قاضی سے قادی اور قادی سے قادیان بن گیا- میرے آباء واجداد تین سو سال تک اس پر اور اس کے علاقہ پر پہلے تو مغلیہ حکومت کی طرف سے اور بعد میں طوائف الملوکی کے زمانہ میں آزادانہ طور پر حکومت کرتے رہے ہیں- چنانچہ پرانی روایات اور سرلیپل گریفن کی کتاب رئوسائے پنجاب اس امر پر شاہد ہیں- مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی حکومت سے پہلے ہمارے خاندان کی حکومت کے خلاف سکھ قبائل نے حملہ کیا- اور آہستہ آہستہ ان کے مقبوضات سے جو اسی دیہات پر مشتمل تھے` ان کو بے دخل کرتے گئے- یہاں تک کہ صرف قادیان ان کے قبضہ میں رہ گیا- اسی سے بھی ان کو بے دخل کرنے کے لئے سکھ قبائل پاس کے قصبات میں ایک نیم دائرہ کی صورت میں آباد ہو گئے اور آخر میرے دادا کے والد کے زمانے میں میرے آباء کو قادیان چھوڑنا پڑا- لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں قبائل کا زور ٹوٹنے پر میرے دادا صاحب پھر قادیان میں واپس آ گئے- اور قادیان اور اس کے محلقہ سات دیہات پر انہیں دخل مل گیا- اس کے بعد انگریزی حکومت اس ملک میں آئی- تو برخلاف فوج کے دوسرے افسروں کے میرے دادا صاحب نے انگریزی حکومت سے خفیہ سازباز نہ کیا` اور غالباً اسی وجہ سے ان کے مقبوضہ علاقہ کو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا- اور لمبے مقدمات کے بعد قادیان کی ملکیت اور اس کے پاس کے تین گائوں کی ملکیت اعلیٰ ہمارے خاندان کو ملی- میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ قادیان اور اس کے پاس کے اکثر گائوں اسلامی زمانہ کے آباد شدہ ہیں- اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی بناء پڑی ہے- پس ان کے ساتھ کوئی ہندو روایات وابستہ نہیں ہیں- وہ شروع سے اسلامی روایات کے پابند رہے ہیں- اور سوائے سکھوں کی حکومت کے چالیس پچاس سالہ عرصہ کے وہ کبھی بھی اسلامی حقوق کی بجاآوری سے محروم نہیں ہوئے- اس وقت بھی قادیان کی زرعی زمین کے مالک صرف میں اور میرے بھائی ہیں- اور محض تھوڑی سی زمین بعض احمدی احباب کے قبضہ میں ہے- جنہوں نے وہ زمین ہم ہی سے بغرض آبادی حاصل کی ہے- ہندو اور سکھ صرف بطور مزارعان یا غیر مالکان آباد ہیں- اور وہ بھی نہایت قلیل تعداد میں یعنی بمشکل کل آبادی کا قریباً ساتواں حصہ-
باوجود ان حالات کے اول میرے دادا صاحب نے اور بعد میں میرے والد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی- اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دکھایا جائے-
قادیان کے کئی ہندو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ چند سال ہوئے کہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ملحقہ گائوں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے حکام کو کہلا کر مذبح کو رکوا دیا اور ایک معزز ہندو صاحب کی تحریر بھی اس بارہ میں میرے پاس موجود ہے جو بوقت ضرورت پیش کی جا سکتی ہے- علاوہ ازیں اس امر کا ثبوت کہ اپنے ہمسایوں کے احساسات کا میں نے پورا خیال رکھا ہے` یہ بھی ہے کہ جس حد تک قانون گائے ذبح کرنے کو جائز قرادر دیتا ہے` میں اس سے بھی جماعت کو برابر روکتا رہا ہوں- بلکہ بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہونے پر کہ انہوں نے اس معاملہ میں فتنہ کا طریق اختیار کیا ہے` میں نے چھ چھ ماہ یا سال سال کے لئے قادیان سے نکال دیا-
غرض جب تک کہ اقتصادی ضرورت انتہا کو نہیں پہنچ گئی` میں نے اپنے ہمسایوں کے احساسات کو اپنی جماعت کے مالی نقصان پر مقدم رکھا- اور زور سے انہیں ان کے حق کے استعمال سے باز رکھا- لیکن قادیان کی آبادی بوجہ احمدی جماعت کا مرکز ہونے کے اس سرعت سے بڑھ رہی ہے کہ بہت کم شہروں میں جو اس حیثیت کے ہوں- اس کی مثال ملتی ہے- اس بڑھتی ہوئی آبادی کا اثر طبعی طور پر قادیان اور اس کے گردو نواح پر پڑنا تھا اور پڑا- اور لوگوں میں یہ مطالبہ بڑھتا گیا کہ کثیر التعداد آبادی کو قلیل التعداد جماعت کے احساسات کی خاطر آپ مالی نقصان کیوں پہنچاتے ہیں- آبادی کی زیادتی کے ساتھ ساتھ جب میں نے دیکھا کہ ملک کی عام مالی حالت کی خرابی کی وجہ سے ان کے خورد و نوش کے سامانوں کا مہیا ہونا بھی مشکل ہو رہا ہے اور لوگ نہایت تنگ حال ہو رہے ہیں تو لوگوں کے بار بار اصرار پر اور یہ دیکھ کر کہ سکھ لوگ جھٹکہ کی دکان کھولنے کی تجویزیں کر رہے ہیں` میں نے اجازت دے دی کہ اگر کوئی شخص چاہے تو مذبح کے لئے درخواست دے سکتا ہے- لیکن میں نے اپنا آخری فیصلہ آئندہ پر ملتوی رکھا-
اس کے بعد میں چند روز کے لئے لاہور گیا- اور اپنے برادر نسبتی عزیزم لفٹینٹ خلیفہ تقی الدین احمد- آئی- ایم- ایس کے مکان پر مقیم تھا کہ رات کے گیارہ بجے قادیان کے سات ہندئووں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور مجھ سے شکایت کی کہ قادیان میں مذبح کھلنے والا ہے` میں اس کا تدارک کروں- اس وفد کے رئیس پنڈت دولت رام ممبر میونسپل کمیٹی قادیان تھے- میں نے ان سے کہا کہ ایک طرف لوگ اپنی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں` دوسری طرف سکھوں نے جھٹکہ کا کام شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے- ان حالات میں میں قادیان جا کر اور فریقین کے حالات سن کر ہی فیصلہ کر سکتا ہوں- اور انہیں تسلی دلائی کہ جس حد تک ممکن ہوگا` میں ایسی صورت اختیار کروں تا کہ طرفین کی ضرورت اور احساسات کا لحاظ رکھا جائے- پس وہ قادیان جانے پر مجھ سے ملیں- میں دوسرے ہی دن قادیان کو روانہ ہو گیا- اور وہاں پہنچے پر ہندو صاحبان کا ایک بڑا وفد میرے پاس اسی غرض کے لئے آیا- میں نے انہیں سمجھایا کہ سکھوں نے جھٹکہ کا سوال چھیڑ کر میری پوزیشن نازک کر دی ہے- کیونکہ ذبیحہ گائے کا روکنا احساسات کے احترام پر منبی ہے- اور مسلمانوں میں یہ شکایت پیدا ہو چکی ہے کہ جب دوسرا فریق ہمارے احساسات کا خیال نہیں رکھتا تو ہمیں اس کے احساسات کے لئے اس قدر بڑی قربانی پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے- اس لئے پہلے مجھے سکھوں سے اور اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقعہ دیں- اس پر وہ لوگ چلے گئے-
دوسرے دن ایک آریہ صاحب ایک پاس کے گائوں کے میری جھتے دار اور ایک سکھ ڈاکٹر کو لے کر میرے پاس آ گئے اور کہا کہ آپ سکھوں سے بات کرنا چاہتے ہیں` سو یہ لوگ آ گئے ہیں- میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود قادیان کے سکھوں کو بلوائوں گا- آپ صرف ایک قادیان کے آدمی اور ایک جھتے دار کو لے کر آگئے ہیں- مگر بہر حال میں ان کی بات سننے کو تیار ہوں- ان لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ جب پہلے گائے کے ذبیحہ سے آپ روکتے تھے تو اب آپ نے مذبح کی درخواست کی کیوں اجازت دے دی ہے- میں نے انہیں بتایا کہ آپ لوگوں کا سوال بھی اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ موجودہ درخواست کسی دشمنی یا دل کے دکھانے کی غرض سے نہیں ہے- کیونکہ جب میں پہلے آپ کے احساسات کا خیال رکھتا رہا ہوں تو اب کیوں بلاوجہ ان کو صدمہ پہنچائوں گا- ہاں اگر آپ وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں- تو وہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کی اقتصادی حالت اور بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی نے حالات بدل دئے ہیں- اور دوسرے جھٹک کے سوال کے پیدا ہونے کے سبب سے میں دیانت دارانہ طور پر اس قدر زور نہیں دے سکتا- جس قدر کہ پہلے دے سکتا تھا- ہاں میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ میرے نزدیک جھٹکہ پر مسلمانوں کا اعتراض بھی ویسا ہی فضول ہے جیسے گائے کے ذبیحہ پر ہندوئوں کا- لیکن سمجھوتہ کراتے وقت یہ سوال نہیں ہوتا کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں- بلکہ لوگوں کے احساسات کا جو غلط ہوں یا صحیح- لحاظ رکھنا پڑتا ہے- گو مجھے جھٹکہ پر کوئی اعتراض نہیں- لیکن چونکہ اب دوسرے مسلمانوں کے احساسات کا بھی سوال آگیا ہے جن کو جھٹکہ پر اعتراض ہے- اور پھر چونکہ میں جج نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ کرانے والے کی حیثیت رکھتا ہوں- میرا فرض ہے کہ طرفین کے احساسات کا یکساں خیال رکھوں-
اس گفتگو کے دوران میں جتھ دار صاحب نے مجھے دھمکی دی- کہ اگر گائوکشی کی اجازت ہوئی تو آپ یاد رکھیں کہ فساد ہو جائے گا اور اس دھمکی کے جواب میں میری شرافت کا صرف ایک ہی تقاضا تھا کہ میں انہیں یہ کہتا کہ اگر آپ فساد سے ڈرا کر اس امر کو روکنا چاہتے ہیں تو ہرگز اسے نہیں روگوں گا- اور یہی میں نے ان کو جواب دیا-
چونکہ میں نے دیکھا کہ سکھ صاحبان میرے لئے ایسا موقعہ مہیا کرنے پر تیار نہ تھے کہ میں دوسرے فریق پر زور دے کر اگر ان کو کلی طور پر نہ روک سکوں` کم از کم ایک ایسا سمجھوتہ کرا دوں- جس سے فریقین کی کم سے کم دل آزاری ہو- اس لئے میں نے مسلمانوں کو بلوا کر ان سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمھجا- اور اس امر کا منتظر رہا کہ ہندو صاحبان کا نمائندہ جب انہیں جا کر اطلاع دے گا- اور وہ مجھ سے آکر ملیں گے تو اس وقت آئندہ طریق عمل پر غور کروں گا- لیکن وہ لوگ پھر میرے پاس نہ آئے- اور میں نے سنا ہے- واللہ اعلم درست ہے یا نہیں کہ آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ جھٹکہ کو چلنے دو- گائے کا سوال خود زور سے طے کر لیں گے- اس طرح یہ دونوں سوال چلتے رہے میرے کہنے پر مسلمانوں کی طرف سے جھٹکہ پر کوئی اعتراض نہ ہوا- اور برسر بازار جھٹکہ کی دوکان کھل گئی- اور مذبح اس طرف بنایا گیا جس طرف کہ مسلمان گائوں ہیں- اور اس کی فروخت کے لئے ایسے محلہ میں دوکان کھلوائی گئی جس کی ۱۰۰ فیصد آبادی مسلمان ہے-
میں نے دوران ملاقات میں ہندو صاحبان اور سکھ صاحبان کو بھی کہہ دیا تھا- اور اب بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک ملک میں امن اسی اصل پر کار بند ہونے سے ہوگا کہ ہر قوم دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینے سے اجتناب کرے- مسلمانوں کو ان کی مرغوب چیزوں کے استعمال کرنے کی پوری آزادی ہو- اور ہندوئوں اور سکھوں کو ان کی مرغوب چیزوں کے استعمال کی- ہاں بغیر آزادی کو محدود کرنے کے دوسرے کے احساسات کا جس قدر خیال رکھنا ممکن ہو- رکھا جائے- جب تک ہندو مسلمان اور سکھ اس اصل کی پانبدی نہیں کریں گے- کبھی امن نہیں ہوگا اور کبھی نہیں ہوگا-
اب میں پھر واقعات کی طرف آتا ہوں- حکام ضلح کی منظوری کے بعد مذبح قائم ہو گیا- اور جب کہ میں کشمیر آیا ہوا تھا- میرے پیچھے ہی اس میں ذبیحہ بھی شروع ہو گیا- اس پر جیسا کہ مجھے باقاعدہ رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے` قادیان سے بعض ہندو جو شروع سے ہی مذبح کے خلاف آس پاس کے گائوں میں سکھوں اور ہندوئوں کو اکسا رہے تھے- انہوں نے خوب لوگوں کو جوش دلایا- اور آخر سات اگست ۱۹۲۹ء کو سکھوں اور ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد نے پولیس کی موجودگی میں مذبح گرا دیا- اور انیٹوں تک کے ٹکڑے کر دے- احمدیہ جماعت موقعہ پر مقابلہ سے مجتنب رہی- ورنہ اپنی طاقت اور قوت کے لحاظ سے اور قریب کے دیہات کی مزید مدد کے ساتھ وہ اس قابل تھی کہ حملہ آوروں کو ایسا تلخ جواب دیتی کہ انہیں مدتوں تک یاد رہتا مگر انہوں نے امن پسندی کو اور قانون کے احترام کو اپنے جوش پر مقدم کیا-
لیکن افسوس ہے کہ اس امن پسندی کا جواب عام طور پر ہندو اخباروں کی طرف سے نہایت ہی قابل شرم ملا ہے- انہوں نے بجائے اس کے کہ اپنے ہم مذہبوں کے ناجائز رویہ پر اظہار افسوس کرتے- خلاف بیانی اور مغالطہ دہی سے ان کی تائید کرنی شروع کی- اور انہیں اور بھی اکسایا- اور بجائے اس کے کہ انہیں ملامت کرتے` ان کی اور بھی پیٹھ ٹھونکی- اور اس قدر شور برپا کیا کہ اس سے متاثر ہو کر گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ڈر گئے- اور انہوں نے سخت قابل اعتراض رویہ اختیار کیا-
بعض سکھ لیڈروں کا قابل تعریف رویہ
لیکن اس کے مقابلہ میں سکھوں کے بعض لیڈروں اور ان کے بعض اخبارات نے نہایت قابل تعریف رویہ اختیار کیا` اور فساد سے پہلے بھی سکوں کو اس میں شمولیت سے روکا- اور بعد میں بھی ان لوگوں کے فعل کو جنہوں نے مذبح گرایا تھا- ناپسند گیا-
اس وقت کمشنر صاحب کے سامنے اپیل پیش ہے- اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیا فیصلہ کریں- لیکن ان کا موجودہ رویہ بہت ہی قابل اعتراض ہے- مگر اس وقت سوال ان کے فیصلہ کا نہیں ہے- کیونکہ جو ہمارا حق ہے ہم اسے آج نہیں تو کل لے کر رہیں گے- سوال یہ ہے کہ اس فتنہ کا اثر ہندوستان کی دو نہیں تین قوموں پر جنہوں نے چند سال کے لئے نہیں` ہمیشہ ہندوستان میں رہنا ہے` کیا پڑے گا؟
میں بتا چکا ہوں کہ میں مدتوں تک مذبح کے خلاف رہا ہوں- نہ اس وجہ سے کہ میں مسلمانوں کا اس بارہ میں حق نہیں سمجھتا- بلکہ اس وجہ سے کہ میرے نزدیک باوجود قانونی اور عقلی حق کے جہاں تک ہو سکے` اپنے ہمسایہ کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے- مگر میرے نزدیک ہمسایہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اس امر کا خیال رکھے کہ قربانی کرنا صرف دوسرے پر ہی واجب نہیں- اس کا بھی فرض ہے کہ جس کسی دوسرے کو حقیقی اور مادی نقصان پہنچ رہا ہو- وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے اور سمجھے کہ اس کا مذہب صرف اس کے اعمال پر حکومت کر سکتا ہے- دوسرے مذہب کے پیروئوں پر اس کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے-
غرض گو میں اس وقت تک کہ اقتصادی حالت نے مجبور نہیں کر دیا مذبح کے خلاف رہا ہوں- لیکن اب جب کہ اس طرح ظالمانہ طور پر اور امن عامہ کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے قادیان اور اس کے نواحی علاقہ کے سکھوں اور ہندوئوں نے مذبح گرا دیا ہے- ذبیحہ گائے کا سوال ایک نئی صورت میں میرے سامنے آیا ہے- اس واقعہ نے مجھ پر روشن کر دیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی اصل قانون ہے- اور اس کے بغیر اور کسی قانون کی حرمت ان کی نگاہ میں نہیں ہے- اس تلخ حقیقت کو اس امر نے اور بھی نمایاں کر دیا ہے کہ مہابیر دل نام کی ایک سوسائٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ اگر ذبیحہ گائے کی اجازت مل گئی تو اس کے ممبر دوبارہ بھی جبر اور تعدی سے اس کام کو روکنے سے باز نہیں رہیں گے-
میرے نزدیک موجودہ حالات نے مسلمانوں کو پہلے سے بھی زیادہ مجبور کر دیا ہے- کہ وہ گائے کے ذبح کرنے کے حق کو استعمال کریں- اور جہاں یہ حق حاصل نہ ہو` وہاں اس کے حاصل کرنے کی کوشش کریں- کیونکہ پہلے تو اقتصادی حالت کا ہی تقاضا تھا- کہ وہ گائے کے گوشت کو استعمال کریں- اب مذہبی اور اخلاقی حالات بھی اس کا مطالبہ کرنے لگ گئے ہیں- مذہبی حق اس طرح کہ اسلام میں کسی وجود کا حد سے بڑھ کر احترام شرک ہے- قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے- کہ بنی اسرائیل چونکہ فرعونیوں میں رہتے تھے- جن میں کہ گائے ایک مقدس وجود سمجھا جاتا تھا- اس وجہ سے ہمسائیوں کے خیالات کے بد اثرات سے بچانے کے لئے انہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا- پس جب کہ ہندو صاحبان مسلمانوں کو مجبور کرنے لگے ہیں کہ وہ کسی صورت میں بھی گائے ذبح نہ کیا کریں- تو ہمیں ڈر ہے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آہستہ آہستہ گائے کا ناواجب احترام کرنے لگیں گی- اور جس طرح انہوں نے اور کئی بدرسوم ہندوئوں کی اختیار کر لی گائے کی عزت بھی مشرکانہ طور پر ان کے دل میں جاگزیں ہو جائے گی- اور یہ ایک خیالی خطرہ نہیں ہے- بلکہ سکھوں میں اس کی نظیر ملتی ہے- سکھ لوگ موحد ہیں اور مشرکانہ خیالات ان کے اصول مذہب کا جزو نہیں ہیں- لیکن باوجود اس کے چونکہ ہندوئوں سے ان کی رسوم ملتی تھیں- ان سے رشتہ ناطہ کا تعلق رکھنے کی خاطر انہوں نے گائے کا کھانا ترک کر دیا- اب گو وہ کہتے تو یہی ہیں کہ گائے کی عزت ہمارے مذہب کا جزو نہیں- صرف اقتصادی طور پر ہم اس کے ذبح کرنے کے مخالف ہیں- لیکن حق یہی ہے کہ ان کے دلوں میں آہستہ آہستہ اس کی عزت گھر کی چکی ہے ورنہ اقتصادی طور پر گائے کی حفاظت کا خیال مسلمانوں میں زیادہ ہونا چاہئے تھا- جن کے زمینداروں کی تعداد پنجاب میں سکھوں سے بہت زیادہ ہے-
پھر یہ اقتصادی سوال عقلا بھی درست ہیں- یورپ کے لوگ گائے کا گوشت کثرت سے استعمال کرتے ہیں- اور ان کے ملک کی گائے ہمارے ملک کی گائے سے بہت اچھی ہوتی ہے- اور گائے کی تعداد کو بھی بے روک گائوکشی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا- اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس ملک میں جس جانور کی کھپت زیادہ ہو گی- اس کی پیدائش بھی زیادہ ہو جائے گی- کیونکہ اس کے فوائد کی کثرت کی وجہ سے اس کی قدر بڑھ جائے گی- اور لوگ اسے زیادہ پالنے لگیں گے- گائے کی حفاظت گائوکشی کے روکنے سے ہرگز نہیں ہو سکتی- بلکہ اس کی نسسل کشی کی طرف توجہ کرنے سے ہو گی- یو- پی جس میں کثرت سے گائے ذبح ہوتی ہے- وہاں گائے کی تعداد اس کی نسل کی عمدگی میں پنجاب کی نسبت جہاں کہ بہت سی روکیں ہیں` کوئی کمی نہیں آئی-
اخلاقی طور پر بھی اس جبر کی وجہ سے یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کیونکہ جبر کے ماتحت کسی امر سے رکنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم میں بزدلی پیدا ہو جاتی ہے- پس اب جب کہ جبر اور تعدی سے کام لیا گیا ہے اور آئندہ کے لئے بھی دھمکی دی گئی ہے- ہر مسلمان کا فرض ہوگا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے ہر ممکن طریق سے اس سرکشی والی روح کا مقابلہ کرے اور اپنی آئندہ نسل کو غلامی اور بزدلی کی دو لعنتوں سے بچائے اور مسلمان اگر اس فتنہ کا مقابلہ نہیں کریں گے تو یقیناً آئندہ وہ شودروں کی طرف ہو کر رہیں گے- ان حالات کو آپ کے سامنے پیش کر کے میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے کہ مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کر سکیں اور ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے- اور ان کے ہمسائیوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں تو آپ مجھے اس سے مطلع کریں میں ہر معقول تجویز پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں-
آپ پر یہ بھی واضح رہے کہ مجھے ہر گز ان لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے جنہوں نے بعض شریروں کے اکسانے سے مذبح کو گرا دیا ہے- میں ہر گز اس پر خوش نہیں کہ ضرور ان کو سزا ہی ملے- اگر مسلمانوں کے جائز حقوق ان کو مل جائیں اور اگر یہ وحشیانہ طریق ترک کر دیا جائے اور دوسرے کے کاموں میں خواہ مخواہ دخل نہ دیا جائے تو میں بڑی خوشی سے ان لوگوں کو معاف کر دوں گا- اور دوسری اقوام سے مل کر گورنمنٹ سے درخواست کروں گا کہ آئندہ دلوں کی صفائی کیلئے ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے-
اسی طرح میں ہر وہ تجویز جس سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کا ممکن سے ممکن حد تک خیال رکھ کر مذبح کو جاری کیا جا سکے- قبول کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس پر جہاں تک میرا اختیار اور میری طاقت ہے عمل کرانے کا ذمہ وار ہوں- مثلاً اگر مجھے یہ بتایا جائے کہ قادیان کے نواح میں شہر سے باہر )کیونکہ حفظان صحت کا خیال ضروری ہے( فلاں جگہ مذبح بنایا جائے` پہلی جگہ پر نہ ہو یا یہ کہ دیواریں پہلے سے زیادہ اونچی ہوں یا مثلاً یہ کہ دوکانیں صرف شہر کے فلاں فلاں حصہ میں رکھی جائیں یا اور ایسی ہی تجاویز جس سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کو کم سے کم صدمہ پہنچتا ہو- پیش کی جائیں تو میں انشاء اللہ ان کی تائید کروں گا اور ان کے حصول کے لئے ہندوئوں اور سکھوں کی پوری مدد کروں گا- لیکن اگر مجھے اس پر مجبور کیا جائے کہ گائے کے ذبیحہ کو کلی طور پر بند کر دیا جائے تو میں اسے نہ صرف خلاف عقل مطالبہ سمجھتا ہوں بلکہ گذشتہ طاقت کے مظاہرہ کے بعد ذبیحہ گائے کے ترک کو مسلمانوں کے اخلاق کو بھی اور ان کے مذہب کو بھی برباد کرنے والا سمجھتا ہوں- اور اس کے قبول کرنے کے لئے تیار نہیہ ہوں- بلکہ اس مطالبہ کی صورت میں میں یہ اپنا فرض سمجھوں گا کہ مسلمانوں کو اس ظلم سے بچائوں اور جس قدر تدابیر گائے کے گوشت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے لئے ممکن ہو سکتی ہوں` انہیں اختیار کروں-
میرے نزدیک ہمارے برادران وطن کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ صرف نئے مذبحوں کے اجراء ہی سے گائے کے گوشت کا استعمال زیادہ نہیں ہوتا- بلکہ اس کے اور بھی طریق ہیں- مثلاًیہ کہ جس جس جگہ پر پہلے سے مذبح موجود ہے- اگر وہاہ کے مسلمان جو پہلے شاذو نادر گائے کا گوشت استعمال کرتے تھے- آئندہ عہد کر لیں کہ وہ گائے کا گوشت ہی استعمال کیا کریں گے- یا اکثر استعمال کیا کریں گے تو وہ سمجھ لیں کہ چند ماہ میں بیسیوں مذبحوں سے زیادہ گائے کے گوشت کی کھپت شروع ہو جائے گی- اسی طرح مثلاً اگر ان قصبات کے لوگ جہاں پہلے گائے کا گوشت نہیں ہوتا تھا- قریب کے مذبحوں سے گائے کا گوشت منگوا کر استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے یا مثلاً اگر دیہات کے لوگ جن پر موجودہ قانون حاوی نہیں ہے- گائے زیادہ ذبح کرنے لگیں تو اس کا علاج ان کے پاس کیا ہے؟ غرض ایسے بہت سے ذرائع ہیہ کہ جن کو اختیار کر کے پنجاب میں چند ہی ماہ میں گائے کے گوشت کی کھپت دگنی سے بھی زیادہ کی جا سکتی ہے- اور ان ذرائع کے اختیار کرنے سے ہندوئوں اور سکھوں کے احساسات کو بھی پہلے سے زیادہ صدمہ پہنچے گا- اور اگر گورنمنٹ دخل دے گی تو یقیناً یہ تحریک اور بھی زیادہ طاقت پکڑ جائے گی اور ہر مسلمان گائوں کا براہ راست گورنمنٹ سے مقابلہ شروع ہو جائے گا- لیکن گورنمنٹ سے بہت زیادہ تکلیف خود ہندو صاحبان کے احساسات کو پہنچے گی- میں امید کرتا ہوں کہ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ میرے خط کا جلد جواب دے کر مجھے ممنون فرمائیں گے- لیکن اگر آپ نے اس طرف جلد توجہ نہ کی اور بعد میں کوئی ناگوار صورت حالات پیدا ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ اپنی قوم کا درد اور ملک کی محبت رکھتے کی وجہ سے آپ کو بھی ضرور تکلیف محسوس ہوگی- مگر چونکہ وقت پر آپ نے خبر نہ لی ہوگی` آپ کو مجھے ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی کچھ کہنے کا حق نہ ہوگا- اور نہ آپ کو یہ حق ہوگا کہ آپ مجھ پر خصوصاً اور باقی مسلمانوں پر عموماً یہ اعتراض کریں کہ ہمیں حالات کو بہتر بنانے کا موقعہ نہیں دیا گیا- یا یہ کہ ایسے ذرائع کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو ملک میں صلح اور آشتی پھیلانے کا موجب ہوتے-
پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو ختم کروں میں سکھ لیڈروں کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے ان کے جائز حقوق کا ہمیشہ احترام کیا ہے- چنانچہ پچھلے دنوں جب ایک احمدی نو مسلم کی کتاب کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا کہ اس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے- تو گورنمنٹ نے بھی ان کی آواز پر توجہ نہ کی تھی کہ میں نے خود اس کتاب کو ضبط کر لیا اور انہیں اس امر کا اقرار ہوگا کہ میرا ضبطی کا حکم گورنمنٹ کے حکم سے زیادہ موثر تھا- کیونکہ نہ صرف اس کتاب کی خریداری رک گئی بلکہ فروخت شدہ کتاب یا اس کے قابل اعتراض حصے ہر جگہ جلا دیئے گئے- پس میں مخلصانہ طور پر انہیں مشورہ دینے کا حق رکھتا ہوں کہ گائوکشی کے سوال کے متعلق فیصلہ کرنے سے پہلے وہ دو باتوں پر غور کر لیں- اول اس کا مذہبی پہلو ہے- سکھ اصحاب یہ امر بھلا نہیں سکتے کہ حضرت باوا نانک علیہ رحمتہ نے توحید کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی سے کام لیا ہے- پس جس چیز کو قائم کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے آرام کو قربان کر دیا تھا- اس چیز کو محض ایک عارضی معاہدہ کے قیام کے لئے تباہ ہونے دینا ہر گز اپنے آباء کی خدمات توحید کا اچھا اعتراف نہ ہوگا-
دوسرے انہیں یہ بات نہ بھلانی چاہئے کہ جب تک گائو کشی کے متعلق عام سکھوں کے جوش کی موجودہ حالت قائم رہے گی اس وقت تک سکھ پبلک کے دو لیڈر رہیں گے- ایک ہندو ساہوکار اور دوسرے سکھوں کے قومی لیڈر- چنانچہ مذبح قادیان کا واقعہ اس امر کا بین ثبوت ہے- باوجود اس کے کہ سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے قومی لیڈر خود قادیان میں کہہ آئے تھے کہ گائوکشی پر سکھوں کو اور جھٹکہ پر مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے- مسلمانوں نے تو ان کی نصیحت پر عمل کر کے جھٹکہ پر اعتراض نہ کیا- مگر سکھوں کو ہندو جوش دلانے میں کامیاب ہو گئے- پہر انہدام مذبح کے بعد بھی اکالی اور خالصہ سکھوں کے دونوں حصوں کے موقر اخبارات کے سمجھانے کے باوجود قادیان اور اس کے گردو نواح کے سکھوں پر کوئی اثر نہیں ہوا- پس گائوکشی کے متعلق سکھوں کے رائج الوقت خیالات ان کے قومی شیرازہ کے باندھنے میں بھی روک ہیں-
پس امید ہے کہ اپنے مذہب کی جان یعنی توحید کی حفاظت اور اپنے قومی شیرازہ کی مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھ لیڈر اپنی قوم کو اس مشرکانہ خیال کی تائید میں کھڑا ہونے سے باز رکھیں گے بلکہ توحید کے قیام کے لئے ہمارے دوش بدوش کھڑے ہوں گے- میں امید کرتا ہوہ کہ اوپر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان اپنی ہمسائیوں کے احساسات کا جائز احترام کرنے کو تیار ہیں- اس امر کو ترجیح دی جائے گی کہ جن جن مسلمانوں کو جائز طور پر مذبح کی ضرورت ہے- ایسی شرائط کے ساتھ ان کو اجازت دی جائے کہ ان کے ہمسائیوں کو ناواجب تکلیف نہ ہو اور ایسے حالات سے ملک کو بچایا جائے جو اس کے امن کو برباد کرنے والے اور اس کی آزادی کو نقصان پہنچانے والے ہوں- اس جابرانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے جو قادیان کے مذبح کے انہدام میں تیار کیا گیا ہے- اور جو مسلمانوں کو کھلا چیلنج ہے اور اس رویہ کو دیکھتے ہوئے جو بعض ہندو اخبارات نے اس موقعہ پر اختیار کیا ہے- میرے جذبات جس قدر متاثر ہیں- میں نے اس کا اظہار اس مضمون میں نہیں ہونے دیا- تا کہ میری اصل غرض فوت نہ ہو جائے- مگر میں امید کرتا ہوں ہوں کہ باوجود اس کے آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ ایک زندہ قوم اپنی آئندہ نسل کو روحانی اور اخلاقی موت میں پڑنے کے خطرہ میں دیکھ کر انتہائی جدوجہد کرنے کے بغیر خاموش نہیں ہوگی-
خاکسار
مرزا غلام احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
حال سری نگر کشمیر۹ ستمبر۱۹۲۹ء
‏a.11.3
مذبح کے سوال کو حل کرنے پر اہل قادیان کی پوری آمادگی
)فرمودہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۹ء(
مذبح قادیان کے انہدام سے پیدا شدہ صورت حال کے مطابق مشورہ اور غور کرنے کیلئے ۱۶-اکتوبر ۱۹۲۹ء بعد نماز عصر مسجد نور میں ایک جلسہ منعقد ہوا- جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تقریر فرمائی- حضور نے تلاوت سورہ فاتحہ کے بعد فرمایا- مذبح کے معاملہ میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے- یہاں دو قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں- بعض لوگ تو یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ مذبح کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے- اور ہمیں اس کے متعلق اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں اور بعض کا یہ خیال ہے کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے سستی ہو رہی ہے- اور جس طرح کام ہونا چاہئے اس طرح نہیں چلایا جاتا- لیکن یہ دونوں خیال غلط ہیں-
مذبح کے متعلق کام کرنے کا وقت اب شروع ہونے والا ہے ہم نہیں کہہ سکتے گورنمنٹ اس کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی- اس وقت تک ہم نے جو کچھ کیا ہے- وہ یہی ہے کہ تمام باتیں کمشنر تک پہنچا دی ہیں- لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان باتوں پر عمل بھی کرے- اور ہمارا پچھلا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ گورنمنٹ شورش پسندوں سے ڈرتی ہے- اور امن پسند لوگوں کے حقوق کی کماحقہ حفاظت نہیں کرتی- حالانکہ گورنمنٹ کی ضرورت ہی کمزورں کے لئے ہوتی ہے- زبردست تو خود لاٹھی سے اپنی حفاظت کر لیتے ہیں بلکہ ان کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں کوئی حکومت نہ رہے تا وہ اپنی من مانی کارروائیاں کریں- اگرچہ ہندوستانہ میں اس وقت بھی ایسے حکام موجود ہیں جو قانون کا احترام اور کمزورں کی اعانت کرتے اور حق و انصاف کو ہر حال میں قائم رکھتے ہیں- لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور اسے عمدہ پالیسی سمجھتا ہے- افسران بالا کے ساتھ گفتگو کرنے سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں- ان میں سے بعض مذبح کے موافق نہیں- بلکہ ڈپٹی کمشنر جس نے انگریزی انصاف کا پورا پورا نمونہ دکھایا ہے اور پوری پوری تحقیقات کے بعد دوسری جماعت کو بے صبر کرنے والی تھی اس کی اجازت دی ہے- افسران بالا نے اس کے بھی خلاف رائے دی ہے- حالانکہ سنا گیا ہے کہ پہلے کمشنر مسٹر کینوبے بھی اس سے متفق تھے- لیکن باوجود اس کے یہ دونوں افسر تجربہ کار` مقامی حالات سے واقف اور علاقہ کے ذمہ وار تھے- ان کی پراوہ نہیں کرتے اور جب تک پورے زور کے ساتھ کوشش نہیں کی گئی- افسران بالا نے واقعات کو معلوم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گویا وہ ایک ایسی قوم کو جو شروع سے وفاداری پر قائم رہی ہے- قانون توڑنے پر مجبور کر رہے تھے- اور دھتکار رہے تھے اور پوری کوشش کے بعد ہم صرف واقعات ان تک پہنچانے کے قابل ہو سکے ہیں- اب اس کا نتیجہ کیا ہوگا- اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا- پس ابھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہونے والا ہے- اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے ہی ایسا نظام قائم کر لیں کہ اگر فیصلہ ہہمارے خلاف ہو تو معاً اپنا کام شروع کر سکیں- میں نے بتایا ہے کہ ہم مذہباً پاپندی قانون کے لئے مجبور ہیں- اگر احمدیت کا جوا ہماری گردنوں پر نہ ہوتا تو یقیناً ہم بھی وہی طریقہ اختیار کرتے جو دوسرں نے کیا ہوا ہے اور یہ ہمارا گورنمنٹ پر کوئی احسان نہیں اور نہ اس کا بدلہ ہم اس سے چاہتے ہیں اگرچہ گورنمنٹ کا فرض تھا کہ اس انسان کا احترام کرتی جس نے اس کے لئے ایک وفادار جماعت پیدا کر دی ہے- ایسا نہ کرنا گورنمنٹ کی احسان فراموشی ہے- مگر بہرحال ہم پابندی قانون کے لئے مجبور ہیں- اور چاہے طبائع میں کتنا ہی جوش ہو` ہمارے دشمن شریک` ساتھی` واعظ سب ہمیں طعنے دیں- ہم نے بہرحال قانون کی پابندی کرنی ہے- لیکن قانون کے معنی ڈپٹی کمشنر` کمشنر یا گورنر کا حکم نہیں- بلکہ شہنشاہ معظم کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق گورنمنٹ کے معنی People the of Govt یعنی ملک کی آواز کے ہیں- یعنی گورنمنٹ رعایا کی رائے کا نام ہے- پس جب گورنمنٹ کے معنی یہ ہیں تو اگر ہم اپنی آواز بلند ہی نہ کریں تو ہم تعاون کرنے والے کیسے ٹھہر سکتے ہیں- پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی نمائندگی کو زیادہ مضبوط کریں- اور پورے زور کے ساتھ اپنی آواز افسران بالا تک پہنچائیں- لیکن شرط یہ ہے کہ قانون شکنی نہ ہو اور ہمیشہ آئین کا احترام کیا جائے- پس ہم نے قانون کے اندر رہتے ہوئے اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں- یہ اصل ہے جس کے ماتحت ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہئے- عجیب بات ہے کہ میں اپنے خط میں جو لیڈروں کے نام لکھا- جن الفاظ میں انہیں مخاطب کیا` وہی آج سے پچاس سال قبل گورنر جنرل لکھ چکا ہے- جنہیں میں نے بعد میں دیکھا- ملتان کے کمشنر نے حکومت سے دریافت کیا کہ مذبح کے متعلق کیا قوانین ہیں- اس کے جواب میں گورنر جنرل نے لکھا کہ اس میں اس حد تک روک ہونی چاہئے کہ ہندوئوں کی دل آزاری نہ ہو- اس جواب پر اس نے ملتان میں گوکشی بند کر دی- کیونکہ اس نے اس کے معنی یہی سمجھے کہ جہاں ہندوں ہوں وہاں چونکہ ان کی دلازاری ہوتی ہے` اس لئے گوکشی نہیں ہونی چاہئے اور اپنے اس فیصلہ سے لوکل گورنمنٹ کو اطلاع دی- جس نے اسے لکھا تمہارا یہ فیصلہ الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے- اور ساتھ ہی گورنر جنرل کو اطلاع دی کہ کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ آپ کے الفاظ کے خلاف معلوم ہوتا ہے جس پر گورنر جنرل نے لکھا نہ صرف یہ کہ ہمارے الفاظ کا ہی خیال نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی روح کے بھی خلاف ہے- گوکشی ¶مسلمانوں کا امتیازی نشان ہے اور اس کے بند کر دینے کے یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں ہندوئوں کی حکومت ہے- اور مسلمان ان کے غلام ہیں- پس کمشنر ملتان کا یہ فیصلہ غلط ہے- اور گوکشی کی عام اجازت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ غلامی کی بدترین قسم ہے- دیہات میں جو لوگ ڈرتے ہیں` وہ چونکہ کمزور ہیں- اگر وہ اسے برداشت کرتے ہیں تو کریں- نبیوں کی جماعتیں حر ہوتی ہیں اور حریت پیدا کرنے آتی ہیں- اس لئے ہم اسے قبول نہیں کرتے-
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم نے کہ میری جماعت گورنمنٹ کی وفادار ہے- ہمیں غلامی سے بچال یا- لوگ ہمیں غلام کہتے ہیں لیکن حقیقت میں غلام وہ ہیں جو اطاعت کو فرض نہ سمجھتے ہوئے مجبوراً اطاعت کرتے ہیں- اور ہم مذہب کی پابندی میں ایسا کرتے ہیں- وگرنہ ہم اسے کبھی برداشت نہ کرتے- اور فوراً ہتیھار لیکر نکل کھڑے ہوتے- ہماری شریعت نے تو ایمان میں بھی غلامی کو جائز نہیں رکھا- بظاہر یہ کمزوری معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے اس وقت کیوں سکھوں پر لٹھ نہیں چلایا- لیکن یہ بہت بہتر ہوا ہے کیونکہ جہاں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں- ہندو کہتے ہیں مسلمانوں نے ابتداء کی- لیکن یہاں ان کے ظلم کا خالص نمونہ نظر آ رہا ہے- اور ہندو لیڈر غصہ میں دانت پیس رہے ہیں کہ مسلمانوں نے کیوں مقابلہ نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی تعدی کا روشن ثبوت ہے- اور یہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ امن و امان سے رہنے کے متمنی نہیں- بلکہ چاہتے ہیں کہ مسلمان چوہڑے` چمار اور گونڈبھیل کی طرف ملک کے اندر رہیں- اب مسلمان دیکھ لیں کہ وہ ایسی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں- ہندو برابر چند سال سے ایسی حرکات کر رہے ہیں- ایک جگہ فساد کرتے ہیں وہاں کے مسلمان دو تین ماہ شور مچا کر خاموش ہو جاتے ہیں تو دوسری جگہ کر دیتے ہیں- پھر تیسری جگہ غرضیکہ فسادات کا ایک سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا ہے- جس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ مسلمان بزدل ہو جائیں اور خود بخود کہنے لگیں کہ ہمیں تمہاری غلامی منظور ہے-
غرضیکہ ہندو روز بروز دلیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مہابیر دل نے اعلان کیا ہے کہ ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے لیکن مذبح نہیں بننے دیں گے- پس اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے جس پر غور کرنا ہے- اس کے دو پہلو ہیں- ایک مقامی جس سے باہر والوں کا تعلق نہیں ہے- اور صرف قادیان یا اس کے ملحقہ دیہات سے جو ¶یہاں سے گوشت لے جا سکتے ہیں` تعلق رکھتا ہے- کیونکہ یہاں کے مذبح کا گوشت یہاں کے لوگ ہی کھائیں گے- اور دوسرا پہلو اس جبر کا ہے جو اس کے گرانے کے متعلق کیا گیا- اور وہ تعدی کی روح جس کا مظاہرہ ہوا- یہ ساری دنیا کے احمدیوں بلکہ سارے مسلمانوں بلکہ دوسری اقوام سے بھی تعلق رکھتا ہے- مقامی حصہ کے متعلق تمام اخراجات مقامی جماعت کو برداشت کرنے ہونگے- اگرچہ مرکزی نظام کے ماتحت ہی یہ کام ہوگا- لیکن باہر کے لوگوں سے اس کے لئے مدد نہیں لی جائے گی- لیکن اس ظالمانہ روح کو توڑنا جیسا قادیان سے تعلق رکھتا ہے- ویسا ہی دوسرے مقامات سے ہے- اس لئے لوگوں کے اندر نئی زندگی اور ایسا جوش پیدا کرنا جس سے وہ ثابت کر دیں کہ وہ اس جبر کو ماننے کے لئے تیار نہیں- یہ کام مرکز سے متعلق ہے- پس مرکزی حصہ کے متعلق تو باہر کی جماعتوں سے مدد لی جائے گی- لیکن مقامی پہلو کی ہر قسم کی ذمہ داری مالی` جانی` مقامی لوگوں کو برداشت کرنی چاہئے- اگرچہ اس میں بھی مرکزی جماعت مدد دے گی- لیکن وہ Subsidy قسم کی ہوگی- اصل بوجھ مقامی جماعت پر ہی ہوگا- یہ نہیں کہ اس کے لئے بھی باہر سے مدد مانگیں- اور خود مجاور بن کر بیٹھے رہیں- یہ سپر نہایت بری ہے- مقامی لوگوں کو تو ہرکام میں عملی نمونہ سے باہر والوں کو راہ نمائی کرنی چاہئے- اگر باہر کے لوگ بھی اس بوجھ کو بھی اٹھانے کے لئے تیار ہیں` لیکن ہمیں اپنی ذمہ واری کو خود محسوس کرنا چاہئے- پس آپ لوگ یہ سمجھ کر کہ اس رستہ میں آپ کو بہت سی قربانیاں کرنی پڈں گی- بھوکے` پیاسے` ننگے رہنا پڑے گا- سپاہیانہ زندگی کی مشق کرنی ہوگی- راتوں کو جاگنا ہوگا- پہرے دینے ہونگے- ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں اور اس کام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں-
حضور کے اس سوال پر تمام حاضرین نے بلا استثناء کھڑے ہو کر اس کام کو سرانجام دینے پر آمادگی کا اقرار کیا- پھر حضور نے دریافت فرمایا- جو لوگ اس معاملہ کو طول دینا مناسب نہ سمجھتے ہوں اور اسے یہیں ختم کر دینا چاہتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں- جس پر ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہوا-
کے بعد حضور نے فرمایا- ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کی تنظیم کریں- لوگوں کو قانون سے واقف کریں- اس علاقہ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے- اس ضلع میں کثرت مسلمانوں کی ہے- ذیلداروں اور آنریر مجسٹریٹیاں مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوئوں کے پاس بہت زیادہ ہیں- مسلمان قانون سے ناواقف ہیں- ہمارا کام ہے کہ انہیں واقف کریں- انہیں بتائیں بلکہ اشتہار دیں کہ گائے کھائیں- یہ کوئی جرم نہیں ہے- صرف یہ شرط ہے کہ پردہ کے اندر اسے ذبح کیا جائے- گائے کے ذبیحہ کرنے کی کہیں بھی ممانعت نہیں- سوائے اس جگہ کے جہاں دفہ ۴۳ ہو- صرف اتنی احتیاط چاہئے کہ نمائش نہ ہو- اس وقت یہاں دفعہ ۴۳ ہے- لیکن اگر کمشنر نے فیصلہ خلاف سنا دیا تو اسی دن یہ منسوخ ہو جائے گی- پس آج سے ہی سکیمیں بنانی چاہئیں کہ پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا-
‏po] ga[tاحمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ واریاں
)فرمودہ ۵-اکتوبر ۱۹۲۹ء(
۵- اکتوبر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو جو ایڈریس دیا گیا اس کے جواب میں حضور نے حسب ذیل تقریر فرمائی- سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
پہلے تو ممبرات لجنہ کا اپنی طرف سے اور اپنے خاندان اور اپنے ہمراہیوں کی طرف سے اس دعوت کے متعلق شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہماری آمد پر دی گئی ہے- اس کے بعد اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ لجنہ آہستگی کے ساتھ گو استقلال کے ساتھ اپنے لئے کام کے نئے میدان تلاش کر رہی ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر لجنہ اسی طرح کام کرتی چلی گئی تو حقیقاً نہ کہ نام کے طور پر اسے ہم ایک مرکزی لجنہ قرار دے سکیں گے-
اس کے بعد جو کچھ لجنہ اپنے کام کو وسیع کرنے کے متعلق کر رہی ہے اس کی نسبت ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انجمنوں کی زندگی دراصل قانون کی زندگی ہوتی ہے- کسی ایک فرد سے کام لے کر بہت سے افراد کے ہاتھوں میں کام دینے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ افراد متحد جدوجہد کر احترام کے عادی ہو جائیں اور ان کے اندر یہ ماہ پیدا ہو جائے کہ اگر کسی وقت ایک لیڈر سے انجمن محروم ہو جائے تو کام کے تسلسل میں فرق نہ پیدا ہو- اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ اہم اور ضروری بات ہوتی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے- اور قانون کی پابندی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ قانون مقررہ الفاظ میں موجود ہو- جہاں لجنہ کی ممبرات اپنے کام کو وسیع کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں` وہاں انہیں اپنے ہی قانون سے باہر نہیں نکلنا چاہئے- اسی ایڈریس میں جو اس وقت پڑھا گیا ہے` ایک سکول کا ذکر ہے- مگر میرے پاس لجنہ کی جو رپورٹ پہنچتی رہی ہے- اس میں اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں تھا- جس رنگ میں اس کا ایڈریس میں ذکر ہے` بلکہ اور رنگ میں تھا- لجنہ جب اپنے کام کی آپ ذمہ وار ہے تو وہ ایسا ریزولیوشن پاس کر سکتی تھی جس کے ماتحت یہ سکول آ جاتا- ممکن ہے لجنہ نے اس کے متعلق ریزولیوشن پا کیا ہو اور مجھے وہ ریزولیوشن نہ پہنچا ہو- مگر جو پہنچا اس میں اور جس بات کا اس وقت ذکر کیا گیا ہے بہت فرق ہے- اس قسم کی اور خامیاں بھی لجنہ کے کام میں ہو جاتی ہیں- جس کی وجہ یہ ہے کہ ممبرات لجنہ کو یہ احساس نہیں کہ پہلے قانون ہونا چاہئے اور پھر اس کے ماتحت کام کرنا چاہئے- خواہ کوئی کتنا اچھا کام ہو- لیکن اگر قانون سے پہلے شروع کیا جاتا تو اس سے انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح برباد ہو جاتی ہے- اس کے مقابلہ میں خواہ کتنا تھوڑا کام ہو لیکن اگر اس کے متعلق قانون پہلے وضع کیا جاتا ہے اور کام پیچھے کیا جاتا ہے تو اس طرح قربانی اور ایثار کا مادہ ترقی کرتا اور انتظام کے ماتحت کام کرنے کی روح پیدا ہوتی ہے- پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں لجنہ کی ممبرات کام کی طرف قدم بڑھاتی ہیں- وہاں کوئی ایسا کام نہ کریں نہ کوئی عہدہ دار ایسا کرے اور نہ ساری ممبرات کہ جس کام کے متعلق قانون نہ پاس ہو- اسے شروع کیا جائے- مجھے یاد ہے جب صدر انجمن کی بنیاد پڑی تو بعض ممبر ایسے کام خود بخود جاری کر لیتے جو انجمن کے اصول کے خلاف ہوتے- ہم ان کی اس بناء پر مخالفت کرتے کہ انجمن کے احصول کے خلاف کوئی کام نہ ہونا چاہئے- اس پر وہ کہتے- دیکھو یہ اچھا کام نہیں ہونے دیتے- ہم ان کو جواب دیتے- اگر کوئی اچھا کام ہے تو سو دفعہ اسے کرو مگر اس کے لئے قانون پاس کر لو- انجمن کے اصول کی خلاف ورزی کر کے کوئی کام کیوں شروع کرتے ہو-
پس ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے- قانون پاس کرنے سے قبل کوئی کام نہ شروع کریں- خواہ وہ کام کتنا بڑا اور کتنا مفید ہی کیوں نہ ہو اور میں تو کہوں گا اگر جہاد بھی لجنہ کے فیصلہ پر منحصر ہو تو اس کے فیصلہ سے قبل وہ بھی شروع نہیں ہونا چاہئے-
دوسری بات جس کی طرف میں لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں` وہ یہ ہے کہ جب کوئی جماعت نظام کے ماتحت کام کرنا شروع کرتی ہے تو چونکہ وہ پہلے نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادی نہیں ہوتی` اس لئے کام کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے- ایسے اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہئے- اس قسم کے اختلاف سے نظام کی وہ خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ابتدائی کاموں میں عموماً پائی جاتی ہیں- قانون کی خامیاں وکلاء کے بالمقابل کھڑے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہیں- اور اس طرح قانون مکمل ہوتا چلا جاتا ہے- پس اگر لجنہ کے کاموں میں اختلاف پیدا ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اختلاف تو نقائص کی طرف توجہ دلاتا اور دوسرے کی خامیاں ظاہر کرتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون مکمل ہوتا جاتا ہے- اور قانون کے مکمل ہونے سے کام کر پختگی حاصل ہوتی جاتی ہے- پس اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اس کی قدر کرنی چاہئے- دیکھ رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے-اختلاف امتی رحمہ میری امت میں اختلاف رحمت ہے- یہ ایسا ہی اختلاف ہے جو ایک نظام کے ماتحت` ایک انمجن کے ماتحت اور خلافت کے ماتحت کیا جائے- ہاں جو اختلاف اس کے مقابلہ میں اور اس کے باہر ہو کر کیا جائے` وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے- ہر فریق جب یہ کہے کہ ہمیں جو اختلاف ہوگا` وہ جب قانون اور نظام کے خلاف ہوگا ہم اسے چھوڑ دیں گے اور نظام کے ماتحت کام کریں گے- تو ایسا اختلاف نقصان کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فائدہ رسان ہوتا ہے- ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے ان کے سامنے کاموں کا بہت بڑا میدان پڑا ہے- اور ان کے کرنے کے ایسے ایسے کام ہیں جو ابھی ان کے ذہن میں بھی نہیں آ سکتے- ایک زمانہ تھا جب میں ممبرات لجنہ کے سامنے تقریر کرتا اور بتاتا کہ انہیں کیا کرنا چاہئے تو ممبرات کی تقریر سن کر کہتیں ہم خوب اچھی طرح تقریر سمجھ گئی ہیں- مگر یہ تو بتایا جائے ہم کام کیا کریں میں پھر تقریر کرتا- اور پھر ان کی طرف سے یہی سنتا کہ ہم نے سب باتیں سن لی ہیں- مگر جو کام ہمیں کرنا چاہئے وہ بتایا جاشے گویا وہی حالت ہوتی جو ساری رات زلیخا کا قصہ سنانے والے کے متعلق ہوئی تھی کہ ساری رات سن سن کر پوچھنے لگے- زلیخا مرد تھا یا عورت- میں ان کی بات پر حیران ہوتا کہ میں نے تو انہیں دنیا بھر کے کام بتا دیئے ہیں مگر یہ کہہ رہی ہیں بتائو ہم کیا کا کریں- لیکن اب میں دیکھتا ہوں ان میں کام کرنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے- اور انہوں نے جوش سے کام شروع کئے ہوئے ہیں- لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے ان امور کے ساتھ اختلاف کا ہونا بھی لازمی ہے ان کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے- وہ قوم جو ایسے اختلاف کو جو اصولی نہیں ہوتے برداشت نہیں کرتی اور اختلاف کرنے والوں کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی- بلکہ علیحدہ ہو جانے پر مجبور کرتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی-
مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا باعث یہی ہے کہ جسے کوئی اختلاف ہو اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے- حالانکہ اگر اختلاف اصولی نہیں نظام کو نہیں توڑتا اور اصل جڑ پر ضرب نہیں لگاتا تو اس کا ہونا ضروری ہے اور اسے برداشت کرنا چاہئے- ہاں اگر اختلاف اصولی ہو اسکا جڑ پر حملہ ہو تو ایسا اختلاف کرنے والے کو علیحدہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے- جیسے اس عضو کا کاٹنا ضروری ہوتا ہے جس میں ایسے جراثیم پیدا ہو جائیں جو سارے جسم کو تباہ کر دینے والے ہوں-
ان نصائح کے بعد میں سمجھتا ہوں لجنہ آہستہ آہستہ اپنے کام کو سمجھنے لگ جائے گی اور اس مقام پر پہنچ جائے گی کہ ہم فخر کر سکیں گے- کہ جس طرح ہماری جماعت کے مرد منظم ہیں اور قانون کے ماتحت کام کرنا جانتے ہیں اسی طرح ہماری جماعت کی عورتیں بھی منظم ہیں-
اس کے بعد چونکہ اس ایڈریس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہاں پیش آیا اور جو مذبح کا واقعہ ہے- اس کی طرف میں اپنی تقریر کا رخ پھیرتے ہوئے لجنہ کو مخاطب کرتا ہوں- لجنہ اماء اللہ میں گو ایسی عورتیں نہیں ہیں جن کی اولاد ہو` یا جوان اولاد ہو- الاماشاء اللہ- لیکن بوجہ اس کے کہ یہی عورتوں کی قائمقام ہیں- اس لئے میں انہیں اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس زمانہ میں عورتوں پر عائد ہوتا ہے- ہماری جماعت ہر موقعہ پر باامن جماعت رہی ہے- اب بھی باامن ہے اور باامن رہے گی- مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم کسی جبر سے اپنے حقوق چھوڑ دیں اور ان کی حفاظت نہ کریں- دنیا میں سب سے بڑھ کر باامن رسول کریم ~صل۲~ تھے- مگر آپ کی آخری عمر لڑائیوں میں ہی گذری- دراصل امن اور جنگ متضاد نہیں- بعض دفعہ امن اور جنگ ایک ہی ہوتا ہے بعض دفعہ جنگ امن کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنگ ایک جد تک ان کے خلاف ہوتی ہے- اور ایک حد تک اس کے موافق- بعض دفعہ امن کے قیام کے لئے جنگ کرنی پڑتی ہے- اور بعض دفعہ امن کی بربادی کے لئے جنگ کی جاتی ہے اور بعض دفعہ بین بین حالت ہوتی ہے- یعنی نیت تو امن قائم کرنے کی ہوتی ہے- لیکن فعل امن کو برباد کرنے والا ہوتا ہے- یا نیت تو امن کو برباد کرنے والی ہوتی ہے لیکن فعل امن قائم کر دیتا ہے- پس جب کہ قیام امن کے لئے جنگ بھی ضروری ہوتی ہے- تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری اولادیں بہادر اور مضبوط دل کی ہوں- ہمارے ملک میں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ جب مردوں کے لئے کوئی خاص کام کرنے کا وقت آتا ہے تو عورتوں میں شور پڑ جاتا ہے- کہ ہمار یبچے` ہمارے بھائی` ہمارے خاوند` ہمارے دوسرے رشتہ دار تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے- رسول کریم ~صل۲~ کو جہاں مرد جری اور بہادر ملے تھے- وہاں عورتیں بھی نہایت قوی دل اور مضبوط حوصلہ والی ملی تھیں- یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ اور آپ کے غلاموں نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے- ورنہ اگر میدان جنگ میں جانے کے لئے گھر سے نکلنے والا مرد گھر میں روتی ہوئی ماں- چلاتی ہوئی بیوی اور بے ہوش بہن کو چھوڑ کر جائے گا تو کوئی بہادرانہ کام نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کے دل پر غم کا بادل چھایا ہوا ہوگا اور اسے خیال ہوگا معلوم نہیں گھر میں کیا کہرام مچا ہوا ہوگا لیکن اگر وہ گھر والوں کو ہشاش بشاش چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کا دل خوش ہوگا- اور وہ سمجھے گا میں اپنے گھر میں کسی کو افسردہ دل نہیں چھوڑ آیا اور اس خوشی میں وہ پوری طرح جان بازی دکھا سکے گا-
ہماری جماعت جوں جوں ترقی کر رہی ہے- اس کے سامنے نہایت اہم کام آ رہے ہیں اور ہم نہیں جانتے ہمیں آگے قدم بڑھانے کے لئے کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی- اور خدا ہی جانتا ہے کتنے مستقبل قریب میں ہمارے سپرد حکومتوں کا انتظام ہوگا- اور اس کے لئے ہمیں کن حالات میں سے گزرنا پڑے گا- پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت کی عورتیں بہادر اور مضبوط دل ہوں- تا کہ ان کی اولاد بہادر اور جری ہو- میں جہاں اپنی جماعت کی عورتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم میں تربیت میں نظام میں خدمت دین میں ترقی کریں- وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ اولاد کو بہادر بنائیں- اور اس کے دل ایسے مضبوط کریں کہ جو بھی قربانی انہیں کرنی پڑے- وہ خوشی سے کریں- وہ جب قربانی کے لئے گھر سے نکلیں- تو خوش خوش نکلیں نہ کہ دل کو دکھ دینے والے نظارے دیکھتے ہوئے نکلیں- چونکہ اب مغرب کی اذان ہو گئی ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دوستوں میں ایسی روح پیدا کرے جس سے بہترین نظام قائم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی روحانیت بھی عطا کرے- تا ایسا نہ ہو کہ نظام باقی رہ جائے اور روحانیت نہ رہے- مجھے لجنہ کی طرف سے رقعہ دیا گیا ہے جس میں لکھا ہے- کہ جس سکول کا ایڈریس میں ذکر ہے- اس کے متعلق ریزولیوشن پاس کیا گیا ہے- مجھے کوئی ایسا ریزولیوشن نہیں پہنچا- اگر پاس ہوا ہو تو لکھ کر مجھے بھیج دیا جائے میں اسے دیکھ لوں گا- )الفضل۱۱-اکتوبر۱۹۲۹ء(
‏a.11.4
انوار العلوم جلد ۱۱
چند اہم اور ضروری امور
چند اہم اور ضروری امور

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏jmc-nsk] ga[tبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
چند اہم اور ضروری امور
)فرمودہ ۲۸- دسمبر ۱۹۲۹ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
حضور نے اول تو احباب کو ان ایام میں زیادہ عرصہ قادیان میں ٹھہرنے کی نصیحت فرمائی- پھر اس سال اپنے طویل عرصہ علیل رہنے کا ذکر کرتے ہوئے اس کام کا ذکر کیا جو قرآنکریم کے اردو نوٹوں کے مرتب کرنے اور ترجمہ انگریزی کے متعلق ہوا- اسی سلسلہ میں حضور نے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم اے کی تصنیف کردہ سیرت رسول کریم ~صل۲~ کا ذکر کیا اور اس کے جلد شائع ہونے کی توقع دلائی-
ان امور کے بعد حضور نے نہایت درد ناک الفاظ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی وفات کا ذکر کیا اور ان کی خوبیاں بیان فرمائیں حضور نے فرمایا-
میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفادار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بیانصافی کروں گا اگر اس موقع پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں- حافظصاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے- میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواہش تھی ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے- بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں` کام بھی اچھا کرتے ہیں مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں- یہ کام کرو تو وہ کریں- حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے- وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ وار سمجھتے تھے جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور وہ سمجھے- یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی اور اس کا انکار ناشکری ہوگی- یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے کہ سب کام مجھے کرنا ہے اور تمام کاموں کا میں ذمہ وار ہوں- میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے چالیس مومن میسر آ جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں- یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا مرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح ¶کرو- خدا کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش سے بہت بڑھ چڑھ کر ایسے لوگ ہوں- جیسا کہ نبیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت ہے ایسے چالیس آدمی نہیں بلکہ لاکھوں میسر کر دے جن میں سے ہر ایک یہ سمجھے کہ آسمان اور زمین کا بار اٹھانا اسی کا فرض ہے-
پھر اس سال افراد کے لحاظ سے جماعت نے جو ترقی کی- وہ بیان کی- سماٹرا میں احمدیت کی ترقی` وہاں کے احباب کا حصول` دین کی خاطر قادیان آنا اور احمدیہ مشن امریکہ کی کامیابی کا ذکر فرمایا-
پھر مذبح قادیان کے واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس کے متعلق احبابجماعت کے جوش کی تعریف فرمائی- سیاسی تحریکات کے متعلق فرمایا-
ایسی تمام تحریکات جو قانون شکنی کا موجب نہ ہوں` فساد اور بدامنی پیدا نہ کریں` ان میں ہم شریک ہو سکتے ہیں اور دوسروں سے بڑھ کر ان میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ مومن کا یہ بھی کام ہے کہ لوگوں کو ان کے حقوق دلائے- یہ اسلام کا حکم ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ شرارت نہ ہو` فساد نہ ہو` فتنہ نہ ہو- دنیا ہمیں خواہ کچھ کہے ہم سب کچھ برداشت کر لیں گے لیکن جو دین کا حکم ہے اسے ہم کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے- بعض لوگ گھبرا کر لکھتے ہیں اگر ہم دوسروں کے ساتھ ان کے ہر ایک کام میں شامل نہ ہوں تو وہ گالیاں دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے پہلے گالیاں نہیں کھائیں- اگر راستی اور امن کے قیام کے لئے لوگ برا بھلا کہیں تو کہہ لیں ہمیں اس کی پرواہ نہیں- ہاں ہم تمام ان تحریکوں میں جو قانون کے اندر ہوں ہر جائز خدمت اور جائز قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں اور بحیثیت جماعت ان میں شامل ہو سکتے ہیں- البتہ افراد کا حق نہیں کہ آپ ہی آپ کسی تحریک میں شامل ہو جائیں جو گورنمنٹ سرونٹ نہیں وہ اس میں بھی شامل ہو سکتے ہیں مگر اپنے آپ نہیں جماعت کے نمائندے بن کر جائیں- یہی حال مسلم لیگ اور دیگر سوسائٹیوں کا ہے کہ ان میں احمدی جماعت کے نمائندے ہو کر جائیں تا کہ ہماری پالیسی متحدہ طور پر ان کے سامنے آئے-
سوراج کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارا کیا خیال ہے؟ اس کا جواب میں نے پہلے بھی دیا ہوا ہے اور اب بھی دیتا ہوں کہ پہلے سوراج گھر سے شروع ہونا چاہئے اور نفس پر حکومت کرنا سیکھنا چاہئے- اگر یہ نہیں تو ملک تو الگ رہا ایک گائوں کے لئے سوراج حاصل نہیں کیا جا سکتا- جن لوگوں میں درندگی اور وحشت ہو ان کو حکومت ملے تو وہ ایک دوسرے کو ہی پھاڑیں گے- چونکہ روز بروز ایسی تحریکیں نکلتی رہتی اور ایسے امور پیش آتے رہتے ہیں جن میں جماعت کو راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے میں اپنی جماعت کے اخبارات کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہر ایسی بات کے متعلق فوراً مجھ سے پوچھ کر ہدایت شائع کر دیا کریں تا کہ لوگ دبدھا۱~}~ میں نہ رہیں- اس سے اخبارات کو بھی فائدہ ہوگا- وہ اپ ٹو ڈیٹ (UPTODATE) اور زیادہ دلچسپ بن جائیں گے اور لوگوں کو بھی فکر نہ رہے گی کہ کسی معاملہ کے متعلق انہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے- ہمارے اخبارات سمجھتے ہیں چونکہ دیگر امور کے متعلق ہم خبریں شائع نہیں کرتے اس لئے جماعت کو ان کا پتہ نہیں ہوتا- حالانکہ لوگ دوسرے اخبارات بھی پڑھتے ہیں اور وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے جماعت کا رویہ بیان کیا جائے-
اس کے بعد حضور نے بیمہ کے متعلق اظہار خیالات کرتے ہوئے فرمایا-
اس کے متعلق جماعت کے ایک خاص طبقہ میں ہیجان پایا جاتا ہے اور بڑی کثرت سے خطوط آتے ہیں کہ اس بارے میں فیصلہ کیا جائے- حضور نے اس کے متعلق جس قدر تحقیق کی- اس کا بالتفصیل ذکر کرنے اور بیمہ کی مختلف صورتیں بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو تحریروں کی بناء پر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ-:
بیمہ کی وہ ساری کی ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آ چکی ہیں ناجائز ہیں- ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا` تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے- مگر میں نے مختلف کمپنیوں کے نمائندوں سے گفتگو کر کے معلوم کیا ہے کہ موجودہ قواعد کے رو سے وہ اس قسم کا انتظام نہیں کر سکتے- لیکن چونکہ جماعت کی کاروباری ضرورتیں بڑھ رہی ہیں اور ان کا پورا کرنا ضروری ہے اس لئے میں چند دوستوں کے سپرد یہ کام کرنے والا ہوں کہ وہ ایسی سکیم بنائیں جس کی رو سے لوگ روپیہ جمع کر سکیں اور ضرورت کے وقت انہیں روپیہ مل سکے- اگر کوئی ایسی صورت نکل آئے اور کیوں نہ نکلے گی یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مومنین کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کوئی جائز صورت ہی نہ رہے- اگر قانون دان اصحاب توجہ کریں تو ایسی کمپنی بنائی جا سکتی ہے جس میں روپیہ جمع کرانا ناجائز نہ ہو اور ضرورت کے وقت اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے- اس کے متعلق میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے- میں اس کے متعلق قانون دان اصحاب کی رائے سن کر دیکھوں گا کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں- چونکہ یہ ضرورت بہت محسوس کی جا رہی ہے اس لئے اس کا ضرور انتظام ہونا چاہئے- ہاں ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبوراً کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کر دیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں- یہ چونکہ اپنے اختیار کی بات نہیں ہوتی اس لئے جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ موجود ہے- آپ نے فرمایا ہے پراویڈنٹ فنڈ جہاں مجبور کر کے جمع کرایا جاتا ہے وہاں اس رقم پر جو زائد ملے وہ لے لینا چاہئے-
اس کے بعد حضور نے مجلس مشاورت میں عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق فرمایا-:
ایک اور مسئلہ جس نے ہماری جماعت میں بہت شور برپا کر دیا ہے وہ مجلس مشاورت میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہے- میں نے مجلس مشاورت میں سوال پیش کیا تھا کہ عورتوں کو حقنمائندگی ملنا چاہئے یا نہیں میرے نزدیک کسی مسئلہ کے متعلق اتنا جوش` جوش نہیں بلکہ دیوانگی پیدا نہیں ہوئی جتنی اس بارے میں پیدا ہوئی ہے- عورتیں ہیں تو کمزور مگر معلوم ہوتا ہے ان میں مردوں کو بہادر بنانے کا خاص ملکہ ہے- بعض دوستوں میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر عورتوں کو حق نمائندگی مل گیا تو اسلام مردہ ہو جائے گا- اس کے مقابلہ میں دوسرے فریق میں جوش نہیں دیکھا گیا لیکن عورتوں میں جوش ہے- الفضل میں ایک مضمون ان کے حقنمائندگی کے خلاف جب چھپا تو لجنہ کی طرف سے میرے پاس شکایت آئی کہ اب ہم کیا کریں- جامعہ احمدیہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی اور وہاں حق نمائندگی کے مخالفین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے- میں نے کہا تم بھی میٹنگ کرو جس میں اس مسئلہ پر بحث کرو کہ مردوں کا مجلسمشاورت میں حق نمائندگی ہے یا نہیں اور پھر فیصلہ کر دو کہ نہیں- جامعہ احمدیہ میں تو بچوں کے مضامین کا فیصلہ کیا گیا ہے نہ کہ حق نمائندگی کا-
اگرچہ یہ معمولی سوال نہیں ہے- اس میں غلطی بہت خطرناک ہو سکتی ہے- تا ہم ایسا اہم بھی نہیں ہے کہ اگر عورتوں کو حق نمائندگی دے دیا جائے تو اسلام کو مردہ قرار دینا پڑے- بے شک یہ سوال بہت اہم ہے مگر اس کا شریعت سے تعلق نہیں- شریعت سے ثابت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے مرد سے بھی مشورہ لیا اور عورت سے بھی- باقی رہا یہ کہ کس طریق سے مشورہ لینا چاہئے یہ نہ مردوں کے متعلق بتایا نہ عورتوں کے متعلق- یہ بات عورتوں کو حقنمائندگی نہ ملنے کا کوئی بڑے سے بڑا ممد بھی ثابت نہیں کر سکتا- شریعت نے کہا ہے مشورہ کرو- آگے یہ کس طریق سے کیا جائے یہ ہم پر چھوڑ دیا کہ زمانہ کے حالات کے مطابق جس طرح مناسب ہو کرو- اگر رسول کریم ~صل۲~ کے وقت اس طرح مشورہ کیا جاتا کہ شام` یمن` حلب وغیرہ علاقوں کے نمائندے آتے اور مشورہ میں شریک ہوتے تو ہو سکتا تھا مدینہ میں مشورہ ہی ہو رہا ہوتا اور پیچھے حملہ ہو جاتا- اس لئے رسول کریم ~صل۲~ کا یہ طریق تھا کہ نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرتے اور پھر مشورہ کر لیتے- بعد میں اس طریق کو بدلنا پڑا- پس طریقمشورہ بدلا جا سکتا ہے- کیونکہ یہ شریعت میں موجود نہیں- یہ ہم نے حالات کے مطابق خود مقرر کرنا ہے- اس میں اگر غلطی کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے- مگر شریعت دفن نہ ہوگی` وہ زندہ ہی رہے گی-
یہ بات ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ آج وہ زمانہ نہیں کہ کھڑے ہو کر کہہ دیا جائے عورتیں ناقصات العقل والدین text] gat[ ہیں اور اس کے یہ معنی کر لئے جائیں کہ عورتوں میں کوئی عقل نہیں- یہ معنی خود رسولکریم ~صل۲~ کے عمل اور آپ سے بعد کے عمل سے غلط ثابت ہوتے ہیں- اگر اس کے یہی معنی ہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں تو رسول کریم ~صل۲~ نے ام سلمہؓ سے کیوں مشورہ لیا؟ اگر عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایسی عورتیں بھی ہوئی ہیں جنہوں نے کامل العقل مردوں کو عقل کے بارے میں شکست دی اور ان کے پایہ کے مرد نہیں ملتے- میں حضرت عائشہ ؓ کو پیش کرتا ہوں- قرآن کریم میں خاتم النبین کے الفاظ آئے تھے ادھر حدیثوں میں لا نبی بعدی ۲~}~ کے الفاظ موجود تھے- جوں جوں زمانہ نبوت سے بعد ہوتا جاتا` ان سے یہ نتیجہ نکالا جاتا کہ رسول کریم ~صل۲~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- اس خطرہ کے انسداد کیلئے کسی مرد کو توفیق نہ ملی سوائے حضرت علیؓ یا ایک دو اور کے- مگر حضرت عائشہؓ دھڑلے سے فرماتی ہیں-قولوا انہ خاتم الانبیاء ولاتقولوا لانبی بعدہ۳~}~]2 [rtf یہ تو کہو کہ رسول کریم ~صل۲~ خاتمالنبین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں- اب دیکھ لو اس زمانہ کے مامور نے کس کی تصدیق کی- ان کی جنہیں ناقصات العقل کہا جاتا ہے یا ان کی جو کامل العقل کہلاتے تھے- اگر اس وقت وہ یہ کہتیں کہ میں جسے ناقصات العقل میں شامل کیا جاتا ہے کیوں بولوں تو آج اس بارے میں کس قدر مشکلات پیش آتیں اور ہم کتنے میدانوں میں شکست کھاتے- جب ہم خاتم النبین کے یہ معنی پیش کرتے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے بعد آپ کی امت میں سے آپ کی ¶غلامی میں نبی آ سکتا ہے تو کہا جاتا پہلے کسی نے یہ معنی کیوں نہ سمجھے- اب جب یہ کہا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں دیکھو رسول کریم ~صل۲~ کی بیوی نے یہی معنی سمجھے تھے- دراصل ناقصاتالعقل والدین نسبتی امر ہے کہ مرد کے مقابلہ میں عورت کم عقل رکھتی ہے- یعنی کامل سے کاملمردسے کامل سے کامل عورت عقل میں کم ہوگی اور دوسرے درجہ کے مرد سے دوسریدرجہ کی عورت کم ہوگی اور اس سے کوئی انکار نہیں کرتا- بعض باتیں مردوں سے تعلق رکھنے والی ایسی ہیں جن میں عورتوں کو پیچھے رہنا پڑتا ہے جیسے لڑائیاں اور جنگیں ہیں- پس ناقصاتالعقل نسبتی امر ہے- اور اس سے عورتوں کا حق نمائندگی نہیں مارا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو سب کے سب اول درجہ کی عقل رکھنے والے مردوں کو حق نمائندگی ملنا چاہئے دوسروں کا حق نہیں ہونا چاہئے مگر مجلس مشاورت میں جو نمائندے آتے ہیں ان میں گو اعلیٰدرجہ کی عقل رکھنے والے بھی ہوتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے- ان سے بڑھ کر بیسیوں مرد دوسرے مقامات پر موجود ہوتے ہیں اور مرد ہی نہیں بیسیوں عورتیں بڑھ کر ہوتی ہیں- مثلاً ایک ایسا شخص جو کسی گائوں سے آتا ہے اور مجلسمشاورت کا نمائندہ ہوتا ہے اس سے زیادہ واقفیت رکھنے والے بہت سے ہماری جماعت کے مرد لاہور میں ہوتے ہیں مگر انہیں نمائندگی کا حق نہیں دیا جاتا- غرض عورتوں کو نمائندگی دینا ان کا حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح انہیں یہ حق دیں- میں سمجھتا ہوں الفضل کے مضامین پڑھ کر بعض لوگوں کو تو یہ خیال پیدا ہو گیا ہوگا کہ جہاد کا موقع آ گیا ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے عورتوں کا یہ حق ہے- ہاں سوال یہ ہے کہ کس طریق سے ان سے مشورہ لیا جائے تا کہ ان کا حق بھی زائل نہ ہو اور ان کے مشورہ سے ہم فائدہ بھی اٹھائیں-
اس کے بعد حضور نے شاردا ایکٹ ۴~}~ کے متعلق فرمایا-
بعض دوست سمجھتے ہیں اس نے شریعت پر حملہ کر دیا ہے اور بعض کہتے ہیں کوئی بھی خطرہ کی بات نہیں ہے- مگر میں کہتا ہوں دونوں افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں- وہ بھی جن کا خیال ہے کہ یہ اسلام پر حملہ کیا گیا ہے اور وہ بھی جو یہ کہتے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں- یہ اسلام پر ہر گز حملہ نہیں ہوا مگر یہ بھی صحیح نہیں کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں- بے شک اسلام پر حملہ نہیں ہوا مگر مسلمانوں پر حملہ ضرور ہوا ہے اور اس سے خطرہ ہے کہ اور بہت سے نقصان نہ پہنچ جائیں- اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور اور بے کس لڑکی کو نابالغی کی حالت میں بیاہ دینا بہت بڑا ظلم ہے اور اسے قوم اور جماعت کے لئے بیکار بنا دینا ہے- کوئی عقلمند اس کی تائید نہیں کرے گا اور نہیں کر سکتا لیکن نکاح اور میاں بیوی کے اجتماع میں فرق ہے- اجتماع تو نابالغی کی حالت میں کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا مگر دیکھنا یہ ہے کہ نکاح بھی کسی صورت میں جائز ہے یا نہیں- یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ عورت کا بلوغت کے بعد نکاح ہو کیونکہ نکاح سے عورت مرد کی رضا مندی کا تعلق ہے اور اگر بلوغت نہیں تو رضا مندی کیسی- پس اگر یہ کہا جائے کہ بلا ضرورت بھی نابالغ کا نکاح جائز ہے تو ہم کہیں گے نکاح کی غرض جو شریعت نے قائم کی ہے وہ باطل ہو جاتی ہے- نکاح سے غرض تو یہ ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے ممد ہونے کا عہد کریں اور یہ عہد نابالغی میں نہیں کیا جا سکتا- لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض حالات میں نابالغ کا نکاح کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے- مثلاً ایک ایسا شخص ہے جس کی ایک بیوی فوت ہو جائے اور دوسری سے اس کے نوجوان لڑکے ہوں اور وہ پسند نہ کرے کہ سوتیلی بہنوں کی ولایت سوتیلے بھائیوں کے سپرد کرے اور کسی اور کو ولی بنا کر وہ یہ بھی نہ چاہتا ہو کہ دوسروں پر ظاہر کرے کہ اس کے گھر میں تفرقہ ہے- وہ نابالغ لڑکی کا نکاح کر سکتا ہے- مگر شریعت نے اس لڑکی کے لئے یہ رکھا ہے کہ اگر اسے یہ رشتہ ناپسند ہو تو بالغ ہو کر انکار کر دے اس طرح گویا نابالغ کا صرف لفظی نکاح ہو- کئی حالتوں میں یہ نابالغی کا نکاح ہی پسندیدہ ہو جاتا ہے- میرے پاس کئی اس قسم کے بھی خطوط آتے ہیں کہ ماں باپ نے ہمارا نکاح فلاں جگہ کیا تھا ہمیں وہی جگہ پسند ہے لیکن دوسرے رشتہ دار وہ رشتہ چھڑانا چاہتے ہیں- اسی طرح اور کئی احتمالات ممکن ہیں جن میں چھوٹی عمر کی شادی مفید ہو سکتی ہے مگر یہ شاذ و نادر ہوتے ہیں- تا ہم یہ ضرورت ہے کہ نابالغ کی شادی کرنے کی اجازت ہو- مگر ایسی ضرورتوں کو بھی قربان کیا جا سکتا ہے اور شریعت نے یہ جائز رکھا ہے کہ جائز امر کا ناجائز استعمال اگر جائز کیا جائے تو اس میں روک ڈال دی جائے- حدیث میں آتا ہے حضرتعمرؓ کے زمانہ میں لوگ تین طلاقیں اکٹھی دے کر پھر مل جاتے- حضرت عمرؓ نے کہا یہ شریعت کے ساتھ ہنسی ہے- اب اگر کوئی تین طلاقیں اکٹھی دے گا تو اسے پھر ملنے کی اجازت نہ ہوگی تو یہ جائز ہے کہ اگر کسی جائز بات کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے تو اس سے روک دیا جائے مگر اس کا فیصلہ خود مسلمان کریں دوسروں کو اس کا حق حاصل نہیں ہے کیونکہ اگر اور دخل دیں گے تو دوسرے مسائل پر بھی اس کا اثر پڑے گا- مثلاً گائے کا ذبح کرنا مسلمانوں کیلئے جائز ہے- کل کو ہو سکتا ہے ہندو اس کے خلاف قانون پاس کر دیں- اسی طرح طلاق جائز ہے` ایک سے زائد بیویاں کرنا جائز ہے` ان کے خلاف بھی غیرمذاہب والے قانون پاس کر سکتے ہیں مگر ان مسائل میں دخل دینا کوئی مسلمان برداشت نہ کرے گا- ان وجوہات سے نابالغی کی شادی میں رکاوٹ خطرناک ہے- مگر اس کا علاج یہ نہیں جو بعض لوگوں نے تجویز کیا ہے کہ دس دس سال کی لڑکیوں کی شادیاں کر دیں گے- یہ اپنا نقصان آپ کرنے والی بات ہے-
اس کے بعد حضور نے یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کو ایسے قانون کی ضرورت نہیں کیونکہ ان میں بچپن کی شادی کا بہت کم رواج ہے اور وہ بھی روز بروز دور ہو رہا ہے- پھر حضور نے ان امور کی تشریح فرماتے ہوئے جن کی اسلام میں اجازت ہے بتایا کہ بعض ایسی اجازتیں ہیں جن کا شریعت نے ضمناً ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں شریعت کا جزو بنا لیا ہے اور کہہ دیا ہے یہ باتیں کرو تو ان کے متعلق یہ یہ حکم ہے- ان اجازتوں میں کسی کا دخل دینا بہت زیادہ برا ہے- بچپن کی شادی بھی انہی میں سے ہے- شریعت نے اس کی اجازت دی اور اس کے لئے بعض احکام بیان کئے کہ لڑکی بالغ ہو کر چاہے تو ایسی شادی سے انکار کر سکتی ہے- پھر اسی اجازت کی ایک قسم یہ ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے اس پر خود عمل کیا ہو اور بچپن کی شادی ایسی ہی اجازت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے اس پر عمل کیا- یعنی حضرت عائشہؓ کے ساتھ بچپن میں نکاح کیا- اور ۱۲ سال کی عمر میں ان کا رخصتانہ ہو گیا- یہ صحیح ہے کہ عرب میں بلوغت جلد ہو جاتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ حضرت عائشہؓ کے قویٰ اعلیٰ درجہ کے تھے لیکن ان کی عمر ۱۲ سال کی تھی- جب رسول کریم ~صل۲~ کے ہاں تشریف لے گئیں- اب اگر ان کی عمر کے متعلق یہ انتظار کیا جاتا کہ ۱۷` ۱۸ سال کی ہو جاتی تو صرف ایک سال انہیں رسول کریم ~صل۲~ کی صحبت میں رہنے کا موقع ملتا اور دین کی بہت سی باتیں نامکمل رہ جاتیں- مگر جو عرصہ انہیں ملا اس میں انہوں نے دین کی بڑی خدمت کی- اسی لئے ضروری تھا کہ رسول کریم ~صل۲~ کے پاس انہیں ایسے وقت میں خدا تعالیٰ لاتا کہ وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل کر کے دنیا کو فائدہ پہنچا سکتیں- اس لئے انہیں جلد بالغ کر دیا- تو جس بات پر رسول کریم ~صل۲~ نے عمل کیا اور جائز قرار دیا اس سے قطعاً روکنا بہت اہم ہے- میں تو اس کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ بچپن کی شادی سے روکو مگر عارضی جب تک کہ مسلمان اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں قطعی مت روکو-
اب اس کے متعلق طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ کو بتایا جائے کہ اس قانون میں کیا کیا نقائص ہیں اور اس سے مسلمانوں کو کیا کیا خطرات ہیں- اگر گورنمنٹ یہ اقرار کرے کہ ایسی باتوں میں آئندہ دخل نہ دیا جائے گا تو پھر اطمینان ہو سکتا ہے اور ہم اسے برداشت کر لیں گے-
اس کے بعد حضور نے مالی حالت کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا-
میں نے اپنی تحریک میں ذکر کیا تھا کہ سلسلہ پر مالی بوجھ پڑا ہوا ہے جو زمیندار جماعتوں کی وجہ سے ہے- اس لئے نہیں کہ ان کے اخلاص میں کمی ہے بلکہ اس لئے کہ پے در پے ایسے حادثات ہوئے ہیں جن سے فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے- مگر یہ بھی صاف بات ہے کہ سلسلہ کے کام جماعت نے ہی کرنے ہیں اس لئے باقاعدگی کے ساتھ چندہ ادا کرنا چاہئے- مجھے گمان نہیں بلکہ یقین ہے کہ پورے طور پر بعض جماعتیں اس طرف توجہ نہیں کرتیں کہ سب کو سلسلہ کا بوجھ اٹھانا چاہئے اس لئے سارا بوجھ چند جماعتوں پر پڑا ہوا ہے- میں سب دوستوں کو اور خصوصاً کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے طور پر جائزہ لیں اور دیکھیں کونسے دوست کمچندہ دیتے ہیں یا نہیں دیتے- اپنے آئندہ سال کے پروگرام میں ایسے لوگوں کی سستی اور کمزوری دور کرنا خاص طور پر رکھا جائے- جس طرح انہیں باقاعدگی کے ساتھ چندہ دینے کی عادت ہے اسی طرح دوسروں کو بھی ہو سکتی ہے- اگر ہمت اور استقلال سے دوست کام کریں تو خدا تعالیٰ برکت دے گا- ابھی دیکھا ہے چندہ جلسہ سالانہ کے لئے تحریک کی گئی- باوجود اس کے کہ سردیوں میں کئی قسم کے بوجھ ہوتے ہیں- پھر یہاں آنے کے لئے بھی خرچ کی ضرورت تھی مگر دوستوں نے پوری توجہ کی- ۱۶ ہزار کے قریب روپیہ آ چکا ہے اور اگر وعدے ملائے جائیں تو ۱۸ ہزار بن جاتا ہے- اس کے علاوہ دوسرے چندے بھی دوستوں نے ادا کئے ہیں- ایسی نظیر سوائے مخلصین کے اور کوئی نہیں پیش کر سکتا- بعض لوگوں کو ایک غلطی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں- یا جو سست ہیں انہیں چندہ کی تحریک نہ کرنی چاہئے- اس سے انہیں ابتلاء آئے گا حالانکہ ایسے لوگوں کو مضبوط کرنے کے لئے قربانی کرانے کی ضرورت ہے- اور یہ اپنے بھائیوں پر بدظنی ہے کہ اس طرح انہیں ابتلاء آ جائے گا- میں نے کئی لوگوں کو جب یہ غلطی دور کرنے کے لئے لکھا اور انہوں نے کوشش کی تو عمدہ نتیجہ نکلا- اور پھر انہوں نے لکھا کہ آپ کی تحریک کی برکت سے ایسا ہوا- بے شک خدا تعالیٰ برکت دیتا ہے مگر اس میں ان کی کوشش کا بھی دخل ہوتا ہے- بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا گیا تو انہوں نے سال سال کا اکٹھا لا دیا- تو یہ اپنے بھائیوں کے متعلق بدظنی ہے کہ اگر ان سے چندہ مانگا گیا تو انہیں ابتلاء آ جائے گا- پس میں جماعتوں کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور اگر وہ سست ہوں تو دوسروں سے کہتا ہوں کہ چندہ کی ادائیگی میں ہر شخص سے باقاعدگی اختیار کرائیں- اس میں شبہ نہیں کہ کامیابی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے- مگر جو ضرورتیں مال سے پوری ہو سکتی ہیں ان کے لئے مال کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا- بعض جگہ کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری خود سست ہوتے ہیں- جب کوئی تحریک کی جائے تو اسے اس لئے روک دیتے ہیں کہ اگر کسی کو چندہ دینے کے لئے کہا تو وہ کہے گا خود بھی لائو ایسی جگہ دوسرے دوستوں کو کھڑا ہو جانا چاہئے- ابھی میں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی مثال پیش کی تھی کہ ہر شخص اپنے آپ کو دین کا رکھوالا سمجھے- اگر دیکھیں سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سست ہے تو خود کام کریں- کئی جماعتیں ایسی ہیں جہاں اسی وجہ سے نقص ہے- اگر ان سست سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو بدل دیا جائے تو باقاعدہ چندہ آنے لگ جائے- پھر کئی جگہ چندہ میں کمی آپس کے فتنہوفساد کی وجہ سے ہے کیونکہ دلوں کی عدم صفائی سے ایمان میں کمزوری آ جاتی ہے- اول تو میں نصیحت کروں گا کہ ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں چاروں طرف دشمن ہی دشمن کھڑے ہوں آپس میں فتنہوفساد نہ کرو بلکہ اگر کسی سے کوئی غلطی یا کمزوری سرزد ہو تو اسے معاف کرو` معاف کرو` پھر معاف کرو- لیکن اگر معاف نہیں کر سکتے اور سزا ہی دینا چاہتے ہو تو محبت والی سزا دو- کوئی کہے محبت والی سزا کیسی ہوگی- تو یاد رکھنا چاہئے- اصل سزا یہی ہے کہ سزا دیتے وقت بھی محبت ہو` کینہ اور بغض نہ ہو- پس اول تو معاف کرو` ایک دوسرے کی کمزوری سے درگذر کرو اور اگر معاف نہیں کر سکتے تو محبت اور پیار سے جماعت میں فیصلہ کرالو اور پھر جو فیصلہ ہو اسے مان لو- اس طرح بھی جماعت کی بہت ترقی ہو سکتی ہے- مجھے یہ سن کر رونا آتا ہے کہ آپس کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی جاتی ہے- نماز اللہ تعالیٰ کا فرض ہے نہ کہ زید و بکر کا- اگر احمدیت میں غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہوتی` میں تو جا کر مولوی ثناء اللہ جیسے لوگوں کے پیچھے بھی نماز پڑھتا اور بتاتا کہ ہمیں ان سے کوئی بغض یا کینہ نہیں ہے- اگر کوئی اپنے بھائی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا جسے خدا نے ماں جائے بھائی سے بھی بڑھ کر تعلق والا بنایا ہے تو وہ اپنے ساتھ آپ دشمنی کرتا ہے- پس آپس کا تفرقہ دور کرو اور اتحاد پیدا کرو اس طرح بھی جماعت بہت ترقی کر سکتی ہے-
مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے الہام الہی سے مقرر فرمائی ہے اور وہ وصیت ہے- مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ عورت مرد ملا کر ابھی تک دو ہزار نے بھی وصیت نہیں کی حالانکہ جماعت کی تعداد بہت زیادہ ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے وصیت کو جزو ایمان قرار دیا ہے- احباب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے- اور یوں بھی بیت المال والے کسی نہ کسی طرح وصیت کے قریب قریب چندہ وصول کر ہی لیتے ہیں- مالی لحاظ سے ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے پارے اور رسول کریم ~صل۲~ کی لائف (LIFE) بھی شائع ہو گی- اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے- کم از کم تین ہزار تعداد چھپے تو سستی قیمت رکھی جا سکتی ہے- ابھی سے جماعتیں ذمہداری لے لیں کہ اتنی اتنی تعداد وہ خود خرید لیں گی یا بکوائیں گی- اس میں امداد کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بک ڈپو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب خریدی جائیں اس طرح فنڈ جمع ہو سکتا ہے- انہی دنوں حوالہ دیکھنے کیلئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی کتاب کشتی نوح نکالی تو اس پر لکھا تھا بار چہارم چھپی- اور ایک ہزار تعداد تھی- اس طرح گویا وہ چار ہزار چھپی- اگر ہر شخص ایک ایک کتاب اپنے پاس رکھتا تو کم از کم ایک لاکھ چھپ سکتی تھی- سب دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھنی چاہئیں کہ ان میں ہماری راہ نمائی کی گئی ہے-
اب میں اس اہم فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف کم توجہ ہے- اور وہ تبلیغ ہے- پچھلے سال میں نے تحریک کی تھی کہ احباب اس میں خاص طور پر حصہ لیں اور کم از کم اپنے پایہ کا ایک ایک آدمی سال میں احمدی بنانے کا وعدہ کریں- اس قسم کا وعدہ دو سو چھیاسی دوستوں نے کیا تھا- مجھے یقین ہے کہ بہت سے دوستوں نے یہ وعدہ پورا کیا مگر دفتر کے رجسٹر میں صرف سولہ آدمیوں کے نام درج ہیں- چونکہ ان کے نام جلسہ کے موقع پر سنانے کا میں نے وعدہ کیا تھا اس لئے سناتا ہوں- وہ نام یہ ہیں-
۱- منشی چراغ الدین صاحب گورداسپور- ۲- نواب بی بی صاحبہ اہلیہ محمد علی صاحب فیض اللہ چک- ۳- دولت خان صاحب بیری- ۴-الطاف حسین صاحب اودے پور کٹیا- ۵-بہادرصاحب کھریپڑ- ۶- دولت خان صاحب کاٹھ گڑھ- ۷- ملک اللہ رکھا صاحب- ۸-محمدعلی صاحب فیض اللہ چک- ۹- بابو احمد جان صاحب نینی تال- ۱۰- محمد عبدالرحیم صاحب رائیچور محبوب نگر- ۱۱- شیخ غلام حیدر صاحب تلونڈی راہوالی- ۱۲- خدا بخش صاحب جنرلسیکرٹری جماعت ہانڈو ضلع لاہور- ۱۳- نور دین صاحب احمدی ہانڈو- ۱۴-الہدادصاحب ہانڈو- ۱۵-مولوی امام الدین صاحب سیکھواں- ۱۶-میاں نانک صاحب سیکھواں-
یہ رپورٹ صحیح نہیں- بہت زیادہ دوستوں نے وعدہ پورا کیا لیکن اگر سب نے بھی پورا کیا تو بھی دو سو چھیاسی کی تعداد کتنی تھوڑی ہے- یہ بہت اہم فرض ہے اور ہر احمدی کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے- میں نے مسلمانوں میں زندگی پیدا کرنے کے لئے ان کی سیاسیات میں دخل دیا` ان کے تمدنی معاملات میں حصہ لیا` ان کے معاشرتی امور کی طرف توجہ کی` ان کی تمدنی اصلاح کی کوشش کی مگر میں آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمان اگر زندہ ہونگے تو احمدی ہو کر ورنہ ان کی زندگی کی کوئی صورت نہیں- ان میں اتحاد نہیں` ان میں تنظیم نہیں` ان میں کام کرنے کی روح نہیں` ان میں زندہ رہنے کی خواہش نہیں` ان میں دیانت نہیں` ان میں شجاعت نہیں` ان میں غیرت نہیں` ان کی حرص بڑھی ہوئی ہے` ان میں تفرقہ پھیلا ہوا ہے` وہ بغض و کینہ کا شکار ہو رہے ہیں` وہ ایک دوسرے کے حسد کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے- میں نے چاروں طرف ہاتھ مارے اور ہر ممکن کوشش کی کہ ان میں بیداری پیدا ہو` مگر میں مایوس ہو گیا اور آخر کار میری نظر اسی کمزور جماعت پر آ کر ٹکی جو احمدی جماعت ہے- میرا اندازہ ہے کہ اگر پچیس لاکھ افراد کی جماعت بھی منظم اور احمدی ہو جائے تو مجھے ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ اس پر پہلے دن کا سورج نکلنے پر ہی یقیناً یورپ کے تمام فرقے تسلیم کر لیں گے کہ اسلام کے غالب ہونے میں شبہ نہیں- اب بھی عیسائیوں کی ایک بہت بڑی انجمن انگلش چرچ مشنری سوسائٹی نے اپنے خاص اجلاس میں فیصلہ لکھا ہے کہ احمدی جماعت جہاں جہاں عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے اسے شکست دے رہی ہے- کتنا بڑا اقرار ہے- مگر ہماری ہستی کیا ہے- میرا یقین ہے کہ اگر صرف پچیس لاکھ بھی احمدی ہوں تو ساری دنیا پر اسلام کو غالب کر سکتے ہیں- ہم موجودہ حالت میں بھی غالب ہونگے لیکن اس قدر تعداد ہونے پر دشمن سے دشمن بھی اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں مگر ان ۷ کروڑ مسلمانوں میں کچھ بھی دم نہیں- پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ احمدیت کی اشاعت ہو- اب پھر ایک دفعہ میں اپیل کرتا ہوں- اس وقت یہاں نام نہیں لکھے جائیں گے کیونکہ اس طرح تقریر رہ جائے گی دفتر میں نام بھیج دیئے جائیں- میں اپیل کرتا ہوں اور میرا اپیل کرنا کیا خدا تعالیٰ نے یہ حق رکھا ہے- میں تو ثواب میں شامل ہونے کے لئے کہتا ہوں کہ سارے احباب قطع نظر اس سے کہ ان کی بڑی پوزیشن ہے یا چھوٹی` اگلے سال کم از کم اپنے رتبہ کے ایک ایک آدمی کو احمدی بنائیں- خدا تعالیٰ کے نزدیک تو ہر ایک کا درجہ بڑا ہے- یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ اس طرح تمام طبقوں میں احمدیت پھیل جائے ورنہ جو بھی احمدیت میں آتا ہے خدا کے نزدیک اس کا بڑا درجہ ہے- پھر چھوٹے بڑے اور بڑے چھوٹے ہو سکتے ہیں- ہو سکتا ہے جو بظاہر چھوٹا نظر آئے` اپنے علاقہ میں تغیر پیدا کرنے کے لحاظ سے بڑا ثابت ہو- پس دوست اپنے نام لکھا دیں ان کے نام اخبار میں درج کر دیئے جائیں گے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں- نام درج ہو جانے بھی بڑی بات ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے منارۃ المسیح کے متعلق اعلان کیا تھا کہ جو سو روپیہ دے گا اس کا نام منارہ پر لکھا جائے گا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام لکھا جانا بھی بڑی بات ہے تا کہ اگلی نسلیں ان کے نام یاد رکھیں اور جو لوگ روحانیمینار بنانے میں حصہ لیں گے ان کے نام کیوں نہ یاد رکھیں گے- پس اپنے اپنے نام دو تا کہ آئندہ نسلیں یاد رکھیں کہ انہوں نے روحانی مینار بنانے میں حصہ لیا تھا-
میں نے دیکھا ہے نئی جماعتیں بہت کم قائم ہو رہی ہیں اس لئے ارادہ ہے کہ نئے علاقوں میں مبلغ بھیجے جائیں جو وہاں رہیں اور تبلیغ کریں- دوست ان کی مدد کریں سیالکوٹ` گجرات` جالندھر` ہوشیار پور وغیرہ علاقوں کے دوست ایسے مقامات کے پتے دیں جہاں دس دس` پندرہپندرہ میل میں کوئی احمدی نہیں مگر وہاں ان کی رشتہ داریاں ہوں تا کہ وہ اخلاقی مدد مبلغوں کو دے سکیں- اگر ایسے علاقوں کے پتے آ جائیں تو مبلغوں کو وہاں بھیجا جائے- میں نے دیکھا ہے ہمارے مولویوں کو مخالفت برداشت کرنے اور گالیاں سننے کی عادت نہیں رہی- کیونکہ وہ ایسے ہی علاقوں میں جاتے ہیں جہاں احمدی ہیں مگر وہاں جلد ترقی نہیں ہو سکتی- جہاں نئی جماعتیں قائم ہوتی ہیں وہاں جلد احمدیت پھیل جاتی ہے- میں امید کرتا ہوں دوست جلد ایسے حلقوں کے متعلق مجھے اطلاع دیں گے-
یہ بھی ارادہ ہے کہ آنے والے سال میں اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا ٹور کروں- برہما کے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جانے سے اچھی تبلیغ ہو سکتی ہے- بنگال کے دوستوں کی بھی مدت سے خواہش ہے کہ میں وہاں جائوں- اگر یہ سفر تجویز ہو تو راستے کے بڑے بڑے شہروں میں بھی ٹھہر سکتے ہیں اور اگر یہ سفر کامیاب ہو تو اور علاقوں میں بھی جا سکتے ہیں- بھیرہ جانے کا ارادہ مدت سے ہے کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول کا وطن ہے- عام مسلمانوں کی حالت روز بروز افسوسناک ہو رہی ہے- اسلام کی ہتک ہو رہی ہے مگر انہیں کوئی پرواہ نہیں- ان میں مذہب کے متعلق کچھ بھی احساس نہیں ہے جو اسی طرح پیدا کیا جا سکتا ہے کہ تبلیغ احمدیت پر زور دیا جائے-
اس وقت میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مقامات کے متعلق شکایت آئی ہے کہ رسولکریم ~صل۲~ کی سیرت کے متعلق جلسوں کے انعقاد میں چونکہ غیر احمدیوں سے کام لینا پڑا` اس لئے بعض لوگوں میں مداہنت پیدا ہو گئی ہے- میں کسی کا نام نہیں لیتا مگر ایسے لوگ خود اپنے نفسوں میں غور کر لیں- اگر اصل چیز ہی مٹ جائے تو پھر ایسے جلسوں اور ان میں تقریروں کا کیا فائدہ- ایسے جلسوں کے لئے مسلمانوں کے پاس جائو اور انہیں کہو آئو یہ ہمارا متحدہ کام ہے تم بھی اس میں شامل ہو جائو- اگر وہ شامل ہوں تو بہتر ورنہ ان کی منتیں اور خوشامدیں نہ کرو- اگر وہ رسول کریم ~صل۲~ کی تعریف اور شان کے اظہار کے جلسوں میں شامل ہونگے تو برکات حاصل کریں گے اور اس کا فائدہ انہیں خود پہنچے گا- ہمارا ان کے شامل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں- لیکن یاد رکھو! ان کی بے جا رضا مندی کے لئے اپنا دین تباہ نہ کرو- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاری ہدایت میں کسی کے گمراہ ہونے کی وجہ سے فرق آتا ہے تو گمراہ ہونے والے کی پرواہ نہ کرو- تم میں اگر کسی جگہ کوئی اکیلا ہی ہو اور اس کے ساتھ کوئی شامل نہ ہو تو وہ جنگل کے درختوں کے سامنے جا کر محمد ~صل۲~ کی تعریف کرنا شروع کر دے- اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اپنی ذمہ داری سے بری سمجھا جائے گا اور اس کا نتیجہ بھی نکلے گا- لیکن کسی صورت اور کسی حالت میں بھی مداہنت نہیں اختیار کرنی چاہئے بلکہ احمدیت کی تبلیغ کھلے بندوں کرنی چاہئے-
اب کے سال یہ تجویز ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا طریق تھا کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد چھوٹے چھوٹے تبلیغی اشتہار شائع کرتے رہتے تھے- اب بھی اس طرح کیا جائے- ایسے اشتہارات دس` بیس` تیس ہزار شائع کئے جائیں- اس طرح امید ہے کہ نیا جوش پیدا ہو جائے گا- میرا ارادہ ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو جنوری میں ہی ایک اشتہار شائع کر دیا جائے تا کہ دوست جاتے ہی اس کام کو شروع کر دیں-
پچھلے سال میں نے قرآن کریم اور حدیث کے درس کی طرف احباب کو توجہ دلائی تھی اب پھر توجہ دلاتا ہوں- جہاں جہاں درس جاری ہوا وہاں نمایاں ترقی کے آثار نظر آتے ہیں- وہاں کے احمدیوں کی اولادوں پر نمایاں اثر ہے- ابھی تک جہاں درس جاری نہیں ہوئے وہاں ضرور جاری کئے جائیں- خواہ کوئی کتنا تھوڑا پڑھا ہوا ہو` درس جاری کرے تو خدا تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرے گا اور خود اسے معارف سکھلائے گا- اس طرح درس دینے والے کو خود بھی فائدہ پہنچے گا اور دوسروں کو بھی- جہاں جہاں درس جاری ہیں وہاں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ درس میں بڑے ہی شامل نہ ہوں بلکہ بچوں کو بھی شامل کیا جائے تا کہ بچپن سے ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا ہو- تھوڑی دیر درس ہو تا کہ وہ بے دل نہ ہوں اور اگر عام درس جاری نہ ہو سکے تو گھر میں بیوی بچوں کو ہی لے کر بیٹھ جانا چاہئے اور ایک رکوع اور اس کا ترجمہ سنا دیا جائے- احباب کم از کم تین ماہ ہی اس طرح کر کے دیکھیں کہ کیا اثر پیدا ہو جاتا ہے- اگر ترجمہ نہ آتا ہو تو مترجم قرآن سے ہی پڑھ دیا جائے-
اب میں اپنی جماعت کے دوستوں کی توجہ اس طرف دلاتے ہوئے تقریر ختم کرتا ہوں کہ دنیا میں ترقی کرنے کے دو ہی راستے ہیں- ایک دیوانگی اور دوسرا فرزانگی- بغیر ان کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی کہ یا تو انسان پاگل بن کر دنیا ومافیھا کو بھول جائے یا پھر عقل کے اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ کوئی غلطی اس سے سرزد نہ ہو- یورپ کے لوگوں کو دیکھو جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں اس کی سکیم تیار کرتے وقت باریک در باریک باتوں تک پہنچتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سوائے اس کام کے کوئی چیز ان کے پیش نظر ہی نہیں ہے- پس ترقی یا تو فرزانگی سے حاصل ہو سکتی ہے یا دیوانگی سے- دیوانگی کی ترقی وہ ہوتی ہے جو انبیاء کی جماعتیں حاصل کرتی ہیں- لوگ ان پر ہنستے ہیں کہ وہ اپنا مال برباد کر رہے ہیں- چنانچہ آتا ہیقالوا انومن کما امن السفھاء ۶~}~ کفار کہتے ہیں- کیا ہم بھی ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں جو اپنے اموال تباہ کر رہے ہیں- میں نے دوران خلافت میں اس بات کے لئے پورا زور لگایا کہ درمیانیراستہ پر جماعت کو چلائوں- کچھ کچھ دیوانگی ہو اور کچھ کچھ فرزانگی- مگر مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس میں مجھے کامیابی نہیں ہوئی- مجھے نہ وہ کامیابی نظر آئی جو دیوانگی سے حاصل ہوتی ہے اور نہ وہ نظر آئی جو فرزانگی سے ملتی ہے- بے شک کامیابی ہوئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی مگر وہ ایسی نہ تھی جو فرزانگی والی ہوتی یا جو دیوانگی والی ہوتی- آپ لوگ اپنے نفسوں میں غور کریں- جب ہم نے یہ کام کر کے چھوڑنا ہے جس کا ذمہ لیا ہے تو اب یا تو وہ راستہ اختیار کریں جو میں نے پیش کیا تھا اور میرے ساتھ تعاون کریں- یا پھر یہ فیصلہ کریں کہ پوری فرزانگی سے کام لینا ہے یا پوری دیوانگی سے- پھر جو بھی فیصلہ کریں اس پر سارے کاربند ہو جائیں- مگر اتنا یاد رکھیں فرزانگی کے لئے مال اور جتھے اور بہت بڑے نظام کی ضرورت ہے- بہرحال احباب اس بارے میں مشورہ دیں کہ وہ کس بات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں-
اس کے بعد میں اس بات پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں کہ ہمارے لئے سب سے بڑی چیز دعا ہے- مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے متعلق وہ روح کم نظر آتی ہے جو پہلے سالوں میں دیکھی جاتی تھی- کئی لوگ سمجھتے ہیں الحاح اور زاری کے ساتھ دعا کرنے سے ان کی بڑائی میں فرق آ جائے گا- کئی یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بھی مانگیں اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ غلاموں کی طرح فوراً دے دے اور اگر اس میں فرق پڑے تو پھر ان کے نزدیک دعا کچھ نہیں- انہی دنوں ایک صاحب آئے جو کہنے لگے اگر کسی مقصد کے لئے دعا بھی کریں اور اس کے لئے تدبیر بھی کریں تو پھر دعا کی کیا ضرورت ہے- وہ مستری تھے میں نے ان سے کہا آپ ایک دروازہ لکڑی کا بناتے ہیں اور پھر اس پر پالش کرتے ہیں اگر کوئی یہ سمجھے کہ بغیر دروازہ مکان محفوظ رہ سکتا ہے تو یہ غلط ہے اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ بغیر پالش دروازہ دیر تک محفوظ رہ سکتا ہے تو یہ بھی غلط ہے- جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا سے وہ کام لیا جائے جو دوا کا ہے وہ ایسے ہی ہیں جو یا تو صرف پالش سے دروازہ بنانا چاہتے ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ پالش کے بغیر دروازہ عرصہ تک محفوظ رہ سکتا ہے- غرض بعض کبر کی وجہ سے دعا نہیں کرتے اور بعض قبول نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں- لیکن یاد رکھو کوئی روحانیکامیابی بغیر دعا کے نہیں ہو سکتی اگر آپ لوگ روحانی کامیابی اور سلسلہ کی کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ دعائوں میں اپنے آپ کو لگائو- میں خیال نہیں کر سکتا کہ بغیر دعا کے کس طرح روحانیت قائم رہ سکتی ہے- میرا تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں میں دعا نہ کروں- پس ہر احمدی کو چاہئے کہ خداتعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تا کہ وہ اخلاص` روحانیت اور قوت پیدا کرے- دنیاوی چیزوں کی اس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے کہ خداتعالیٰ ہمیں مل جائے مگر خدا تعالیٰ سوائے دعائوں کے نہیں مل سکتا- بہت ہیں جو دروازہ پر پہنچ کر محروم رہتے ہیں- کیونکہ خدا تعالیٰ کو ملنے کا دروازہ بغیر دعا اور عاجزی کے نہیں کھل سکتا- ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنے محبوب کے دروازہ پر پہنچ کر دروازہ نہ کھٹکھٹائے- خدا تعالیٰ کے ملنے کے دروازہ تک پہنچنا ہمارا کام ہے آگے دروازہ کھولنا اس کا کام ہے- نماز` روزہ` حج` زکٰوۃ ایسے ہی امور ہیں جیسے کوئی اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور دعا ایسی ہے جیسے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے- پس دعائیں کرو` عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو- ورنہ یاد رکھو روحانیت کے قریب بھی پہنچنا ناممکن ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-قل مایعبوابکم ربی لولا دعاوکم۷~}~ کہ تمہارا ایمان لانا اور مال خرچ کرنا کسی کام نہیں آ سکتا اگر تم مجھے نہ پکارو گے- پکارنے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ تمہیں مجھ سے سچیمحبت ہے اور تمہیں ملنے کے بغیر چین نہیں آ سکتا- پس دعائوں پر زور دو مگر اس کے ساتھ تدبیریں بھی کرو-
حضور نے اس امر کا ذکر کرتے ہوئے کہ سب اصحاب کو تمام تقریریں باقاعدگی کے ساتھ سننی چاہئیں اور اگر کسی کو کوئی خاص ضرورت پیش آئے تو اسے چاہئے کہ جلد سے جلد ضرورت پوری کرکے جلسہ گاہ میں آ جائے فرمایا:
میرا خیال تھا کہ ہر ایک جماعت کے لئے جلسہ گاہ میں بلاک تقسیم کر دیئے جائیں اور جماعت کے امیر یا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری صاحب کو ذمہ وار قرار دیا جائے کہ وہ اپنی جماعت کو لے کر اس جگہ بیٹھیں- میں امید کرتا ہوں کہ ایسا انتظام کرنے کی ضرورت نہ پیش آنے دی جائے گی اور احباب جس مقصد کو لے کر یہاں آتے ہیں` اسے حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے- )الفضل ۷- جنوری ۱۹۳۰ء(

۱~}~
دبدھا: شک و شبہ` پریشانی` گھبراہٹ` شش و پنج
۲~}~
بخاری کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل
‏17] [p۳~}~
تکملہ مجمع البحار جلد۴ صفحہ۸۵ حرف الزا- مطبع نولکشور- لکھنو
۴~}~
شاردا ایکٹ: اجمیر کے ایک معروف شخص مسٹر شاردا رائے صاحب ہربلاس تھے- انہوں نے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف مسودہ قانون پیش کیا تھا جو شاردابل کے نام سے مشہور ہوا- اس بل سے مسلمان علماء نے شدید اختلاف کیا-
)اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۸۲۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء(
۵~~}
سنن ابی داود کتاب الطلاق باب بقیہ نسخ المراجعہ بعد الطلیقات الثلاث
۶~}~
البقرہ : ۱۴
۷~}~ الفرقان : ۷۸

‏a.11.4.b
انوار العلوم جلد ۱۱
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء
)فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۲۹ء(
تشہد` تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
آج چونکہ جمعہ ہے اور اس کے خطبہ میں مجھے پھر کچھ بولنا پڑے گا اس لئے میں نہایت اختصار کے ساتھ تمام احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان دنوں میں خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ اپنے فضل اور کرم سے اس حصہ عمل کو جو ہمارے اختیارات سے باہر ہے اور اس حصہ عمل کو جو ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہم سے سر انجام نہیں پا سکتا خود اپنے فضل اور لطف سے پورا کر دے- انسان کے ارادے بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں اور گھر میں بیٹھ کر ارادے کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن وہ حصہ جس سے نفع اور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے وہ وہی ہے جس کے ساتھ عمل شامل ہوتا ہے- ارادے ایمان کا جزو ہوتے ہیں اور ایمان کی تمثیل ایک کھیتی کی سی ہے اور عمل کی تمثیل خداوند کریم نے نہر اور پانی سے دی ہے- اور وہی کھیتی سرسبز اور شاداب ہو سکتی ہے جسے موقع پر پانی دیا جائے ورنہ خواہ بہتر سے بہتر بیج عمدہ سے عمدہ زمین میں ڈالا جائے لیکن اس زمین میں نمی اور تری نہ ہو اسے وقت پر پانی نہ دیا جائے تو وہ غلہ پیدا نہیں کر سکتی اور اپنے ثمرات نہیں دے سکتی- پس ہمارے ارادے` ہمارے خیالات اور ہماری جنگیں تبھی نفع دے سکتی ہیں جب استقلال کے ساتھ اعمال کا پانی شامل ہو- بیسیوں انسان کی کوتاہیاں` بیسیوں انسان کی مشکلات` بیسیوں انسان کی کمزوریاں اسے اپنے ان ارادوں کے مطابق عمل کرنے سے روکتی رہتی ہیں جو وہ ایک وقت نہایت خلوص سے اپنے دل میں قائم کرتا ہے- پس ہمیں دعا کرنی چاہئے خدا تعالیٰ ان کوتاہیوں کو دور کر دے جو ہمیں اپنے ارادوں کے مطابق کام کرنے سے روکتی ہیں- پھر وہ کمی پوری کر دے جس کا پورا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے- پھر وہ برکات جن کا نازل کرنا ہمارے قبضہ سے باہر ہے نازل کرے- رسول کریم ~صل۲~ فرماتے ہیں خدا اس مومن کی دعا قبول کرتا ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرتا ہے-۱~}~یہ کیا ہی آسان بات ہے دعا قبول کرانے کے متعلق کہ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے لئے دعا نہ کریں- کریں- لیکن دوسروں کے لئے بھی کریں تا کہ اگر اپنے لئے دعا میں وہ جوش پیدا نہ ہو کہ وہ پوری ہو جائے تو اپنے بھائی کے لئے جوش پیدا ہو جائے- اور اس کے متعلق جو دعا کرے وہ پوری ہو جائے- اسی طرح اس کے بھائی میں اگر اپنے لئے پورا جوش نہیں پیدا ہوا تو اس نے اس کے لئے جو دعا کی وہ قبول ہو جائے- گویا اس کی دعا ہمارے لئے قبول ہو جائے اور اس کے متعلق ہماری دعا مانی جائے- اس کے متعلق مجھے ایک رئویا یاد آیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہ میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی دیکھا تھا- میں نے دیکھا قیامت کا دن ہے اور خدا کے حضور لوگوں کو پیش کیا جا رہا ہے- خدا تعالیٰ ایک مضبوط خوبصورت جوان کی شکل میں کرسی پر بیٹھا ہے- دائیں طرف حضرت خلیفہ اول اور دوسرے کئی لوگ بیٹھے ہیں میں بھی انہی میں ہوں- وہاں ایک دائیں طرف کوٹھڑی ہے ایک بائیں طرف- اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور ایک شخص پیش کیا گیا جو بہت مضبوط اور تنومند تھا اس کا چہرہ سرخ تھا- یاد نہیں رہا خدا تعالیٰ نے اس سے کچھ پوچھا یا نہیں اور اگر پوچھا تو میں نے نہیں سنا مگر بغیر اس کے کہ وہ جواب دیتا اس کے چہرہ کی رنگت متغیر ہونے لگی اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے کوڑھ ہو گیا ہے- پھر اس کے جسم کا گوشت پوست پیپ بننے لگا آخر سر سے لے کر پیر تک وہ پیپ کا بن گیا- اس پر فرشتوں نے کہا یہ جہنمی ہے آئو اسے جہنم میں پھینکیں- چنانچہ اسے بائیں طرف کی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا- پھر ایک اور شخص لایا گیا- اللہ تعالیٰ نے اس سے سوال نہیں کیا یا مجھے یاد نہیں رہا اس کا چہرہ چمکنے لگا اور اس کا سارا جسم نور کا بن گیا- اس پر فرشتے بغیر خدا کے حکم کے کہنے لگے یہ جنتی ہے` چلو اسے جنت میں لے جائیں- چنانچہ اسے جنت میں لے گئے- اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا تم اپنی پیٹھوں کی طرف دیکھو جس کے پیچھے پختہ دیوار ہو` وہ جنتی ہے اور جس کے پیچھے دیوار کچی ہو وہ دوزخی ہے- یہ کہہ کر اللہتعالیٰ وہاں پھر دکھائی نہ دیا- اور ہم پر اتنی ہیبت طاری ہو گئی کہ کوئی ڈر کے مارے اپنے پیچھے نہ دیکھتا- ہر ایک ڈرتا کہ نہ معلوم اسے کیا نظر آئے- جب اسی حالت میں عرصہ گذر گیا تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا تم میرے پیچھے دیکھو میں تمھارے پیچھے دیکھتا ہوں- میں نے کہا بہت اچھا- میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے پیچھے دیکھا اور انہوں نے میرے پیچھے اور یکدم میں نے چلا کر کہا آپ کے پیچھے پکی دیوار ہے- انہوں نے بھی کہا آپ کے پیچھے پکی دیوار ہے- میرے نزدیک ایک دوسرے کے پیچھے دیکھنے کے معنی یہی ہیں کہ ایمان کی تکمیل ایک دوسرے کی مدد سے ہو سکتی ہے- جب مومن دوسروں کے لئے دعا کرتا اور اپنے آپ کو دوسرے کی خیرخواہی میں مصروف کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے برکت دیتا اور اس کی دعا سنتا ہے- پس احباب دعا کریں اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بھی دعا کریں ساری جماعت کے لئے دعا کریں بلکہ ساری دنیا کے لئے دعا کریں حتی کہ جو اشد ترین دشمن ہو اس کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا کا اس پر فضل ہو- اپنے دلوں کو ہر قسم کے کینہ اور عداوت سے اسی طرح پاک کر لو جس طرح اللہ پاک ہے- وہ جس طرح کافر اور مومن دونوں کو رزق دیتا اور اپنے فیوض نازل کرتا ہے` تم بھی تمام کدورتوں` تمام دشمنیوں اور تمام عداوتوں سے اپنے دلوں کو پاک کر کے دعا کرو- شاید رحم کرنے والی ہستی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہمارے قرضوں کو معاف کر دے جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو معاف کر دیتے ہیں- جب ہم اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے لئے دعا کریں تو وہ بھی ہم پر اس لئے فضل نازل کرے کہ آج میرا بندہ چھوٹے سے دل اور کمحوصلہ کے ساتھ اپنے دشمن کو معاف کرتا اور اس کے لئے دعا کرتا ہے تو میں جو سب کا بادشاہ ہوں اسے معاف کر دوں- پھر آپ لوگ مل کر سلسلہ کے کاموں میں کامیابی کے لئے دعا کریں تا کہ جس کام کو ہم اپنے عمل سے نہیں کر سکتے وہ خدا کے رحم سے ہو جائے- خصوصیت سے ان دوستوں اور جماعتوں کے لئے دعا کی جائے جو سلسلہ کا بوجھ اٹھانے میں خاص حصہ لیتی ہیں- آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جلسہ کی تحریک میں اس دفعہ ایک نقص کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا مگر میں نے جو تحریک کی اس میں خدا تعالیٰ نے برکت دی- احباب کے اخلاص میں جوش پیدا ہوا اور ایک قلیل عرصہ میں پندرہ ہزار سے زیادہ چندہ آ چکا ہے- گو اخراجات جلسہ کے لحاظ سے ابھی پانچ ہزار کی کمی ہے مگر معلوم ہوا ہے ابھی سو کے قریب جماعتیں چندہ دینے والی باقی ہیں- اگر ان جماعتوں کے دوست یہاں موجود ہوں تو میں ان سے کہوں گا وہ دوسری جماعتوں کے احباب کے اخلاص میں ترقی کے لئے دعا کریں کہ ان کا بوجھ بھی انہوں نے اٹھایا ہے- شاید اسی طرح خدا تعالیٰ ان کی سوئی ہوئی حالت کو بدل دے- پھر ان کے لئے بھی دعا کی جائے کہ انہیں بھی اخلاص سے حصہ نصیب ہو- پھر خواہ کسی میں چندہ کے لحاظ سے کمزوری ہو` خواہ تبلیغ کے لحاظ سے` خواہ انتظامی لحاظ سے` پھر خواہ مرکزی لوگ ہوں` خواہ بیرونی سب کے لئے دعا کی جائے- کیونکہ ہر ایک خدا کے فضل کا محتاج ہے- اور اس کے فضل کے سوا ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے- )الفضل۳- جنوری ۱۹۳۰ء(
۱~}~
ابن ماجہ کتاب المناسک باب فضل دعاء الحاج
‏a.11.5
‏a11.5
انوار العلوم جلد ۱۱


از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
ندائے ایمان
نمبر۳
اسلام کی سب سے بڑی خوبی اس کی وہ زندگی ہے جس کا جواب دوسرے کسی مذہب میں موجود نہیں- ماضی کے قصے ہر اک مذہب میں موجود ہیں- لیکن ذیل کے معیار پر سوائے اسلام کے کوئی پورا نہیں اترتا- مثلا کلمہ طبیہ شجرہ طیبہ اصلہا ثابت و فرعہا فی السماء توتی کلھا کل حین باذن ربھا )ابراھیم: صفحہ۲۵`۲۶( پاک کلام کی حالت پاک درخت کی طرح ہے- جس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں- اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا پھل ہر وقت دیتا ہے- یہ پھل صرف اسلام میں ہی موجود ہے- اور اس کی زندگی پر ایک زبردست شاہد ہے-
انہی پھلوں میں سے ایک پھل کا نام رسول کریم ~صل۲~ نے مسیح موعود اور مہدی معہود رکھا ہے- اور مسلمان تیرہ سو سال سے برابر اس زمانہ کا انتظار کرتے چلے آئے ہیں- جب اسلام کے درخت کو یہ پھل لگے اور دوسرے مذہبوں پر اس کی برتری ثابت کرے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ رسول کریم ~صل۲~ نے خود اس کے زمانہ کا ان الفاظ میں شوق دلایا ہے کہ اسلام کس طرح ہلاک ہو سکتا ہے- جب کہ اس کے شروع میں میں اور آخر میں مسیح موعود ہیں- اور پھر فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ اس امت کا ابتدائی حصہ اچھا ہے یا آخری-۱~}~ پس رسول کریم ~صل۲~ کی وفات کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے بڑھ کو خوش کن خواب مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کو پانا تھا- ان کے بڑے اور ان کے چھوٹے ان کے عالم اور ان کے جاہل سب شوق سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے- جب مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور ایک دفعہ پھر مسلمان رسول کریم ~صل۲~ کے صحابی کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کا نور ان میں چلتا پھرتا نظر آئے گا- ایک دفعہ پھر باوجود لمبے عرصہ کے گذر جانے کے وہ رسول کریم ~صل۲~ کے بروز اور آپ کے روحانی فرزند کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر گویا خود رسول کریم ~صل۲~ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے- پھر اسلام کفر پر فخر کرے گا اور کفر اسلام کے سامنے شرمندگی سے سرجھکا لے گا- اور مسلمان کفار کو دیکھ کر کہیں گے- اے جھوٹے مذاہب کے فریب میں آنے والو! دیکھو ہمارا رسول وہ کس طرح زندہ ہے- اور کس طرح اس کا فیض اس کے روحانی فرزندوں کے ذریعہ سے ہر زمانہ میں جاری ہے-
مسلمان اسی امید اور اسی آرزو میں بیٹھے تھے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا- سارے عالم اسلامی میں شور پڑ گیا کہ وہ جس نے آسمان پر سے آنا تھا` زمین پر سے کس طرح ظاہر ہو گیا- اور جس نے بنی اسرائیل میں ظاہر ہونا تھا` مسلمانوں میں کس طرح پیدا ہو گیا- تمام علماء نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے اور کہا کہ یہ شخص رسول کریم ~صل۲~ کی پیشگوئیوں کا منکر ہے- اور اسلام کا دشمن- لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں جب آپ نے اور آپ کی جماعت نے قرآن کریم سے ثابت کر دیا کہ مسیح ناصری علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اب کوئی مسیح آسمان سے آنے والا نہیں اور مسلمان علماء نے جن کی نسبت رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں وہ سب لوگوں سے بدتر ہوں گے- جب دیکھ لیا کہ مسیح زندہ رکھنا مشکل ہے اور اس میدان میں سلسلہ احمدیہ کا مقابلہ کرنا ناممکن- تو انہوں نے جھٹ پہلو بدلا اور اب عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمیں کسی مسیح اور مہدی کی ضرورت نہیں- رسول کریم ~صل۲~ ہمارے لئے کافی ہیں- آج سے تیس سال پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ آسمان پر سے مسیح کے آنے کے منکر ہیں- آج یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ رسول کریم ~صل۲~ کے بعد کسی مسیح کے آنے کے قائل ہیں- کیا رسول کریم ~صل۲~ ہمارے لئے کافی نہیں؟ جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ یہ شور اسلام کی خیر خواہی کی وجہ سے نہیں- بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی کے سبب سے ہے- جس طرح کسی نے کہا ہے کہ لا یجب علی بل ببغض معاویہ علی کی محبت کی وجہ سے نہیں` بلکہ معاویہ کے بغض کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے- وہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہو رہا ہے کہ محض مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی کی وجہ سے وہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو ہٹا رہے ہیں- اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے اور یہ نہیں خیال کرتے کہ اس طرح وہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی کو مٹا رہے ہیں اور اسلام کو کفر کے سامنے شرمندہ کر رہے ہیں-
سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہیھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایاتہ ویزکیھم و یعلمھم لکتاب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین- واخرین منھم لما یلحقوبھم وھوا العزیز الحکیم )الجمعہ: ۳`۴( وہ خدا ہی ہے- جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے` تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں پاک کرے- اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے- گو اس سے پہلے یہ لوگ کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے- اور اسی طرح یہ رسول ایک ایسی ہی امی قوم کو جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی یہی باتیں سکھائے گا- او اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے- اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی دو بعثتیں مقدر ہیں- ایک ظاہری اور ایک باطنی یا ایک حقیقی اور ایک ظلی- اور دونوں بعثتوں میں کام ایک ہی ہے- یعنی اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات لوگوں کو سنا کر اور ظاہری اور باطنی شریعت کی تعلیم دے کر لوگوں کو پاک کرنا- اب مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی میں گو ظاہری بعثت کے تو قائل ہیں لیکن باطنی کا انکار کر رہے ہیں- اور اس آیت کے صریح مفہوم کو جھٹلا رہے ہیں- اور اسی طرح اور بہت سی آیتوں کو جن کے ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں- اور صدہا حدیثوں کو اور ہزار ہا کشوف کو جو تیرہ سو سال میں مسلمان اولیاء آمد مسیح کے متعلق دیکھتے رہے ہیں-
یہ منکر ایک آیت کے مفہوم کی تاویل کر لیں گے- ایک حدیث کو بگاڑ لیں گے- لیکن وہ متعدد آیات اور صدہا حدیثوں اور ہزار ہا کشوف کو نہیں چھپا سکتے- مسیح کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق ایک بھی کشف کسی مسلمہ بزرگ کی پیش نہیں جا سکتی- لیکن اس کی آمد کے متعلق قریباً ہر ولی نے کچھ نہ کچھ خبر دی ہے- پس مسیح کی آمد کا انکار درحقیقت قرآن اور حدیث اور سب بزرگوں کا انکار ہے- اور اس قسم کے انکار کے بعد اسلام کا باقی ہی کیا رہ جاتا ہے-
میں ان تمام مسلمان سے جو اسلام کا درد رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس خطرناک فتنہ کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کا مقابلہ کریں- اگر وہ بانی سلسلہ کی صداقت کو ابھی نہیں سمجھے تو نہ سہی- وہ خدا تعالیٰ کے فضل کی گھڑی کا انتظار کریں- لیکن آپ کی دشمنی میں جو اسلام کو زندگی سے اور رسول کریم ~صل۲~ کو اجراء فیض سے محروم کیا جا رہا ہے وہ کم سے کم اس سے تو بچیں اور دوسروں کو بچائیں-
مسیح موعود کی آمد کے منکر لوگوں کو یوں دھوکہ دیتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ چونکہ کامل ہیں آپ کے بعد کسی شخص کی ضرورت نہیں- لیکن یہ نادان نہیں سمجھتے کہ کیا خدا تعالیٰ کامل نہیں- کیا خدا تعالیٰ نے اس وجہ سے کہ اس کا نور بندوں کی نگہ سے پوشیدہ ہو گیا- رسول کریم ~صل۲~ کو نہیں بھیجا پھر جب خدا تعالیٰ کے نور کو ظاہر کرنے کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کے ظہور کی ضرورت ہوئی تو کیوں رسول کریم ~صل۲~ کے نور کے ظہور کے لئے آپ کے کسی فیض یافتہ کی ضرورت نہیں ہو سکتی- یہ لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان خراب ہو گئے ہیں- لیکن یہ نہیں تسلیم کرتے کہ ان کے علاج کے لئے خدا تعالیٰ کوئی تدبیر کرے گا- ان کے نزدیک امت محمدیہ کے بگڑنے سے تو رسول کریم ~صل۲~ کے کمال میں فرق نہیں آتا- لیکن اس بگاڑ کی درستی کا سامان کرنے سے آپ کمال میں نقص آ جاتا ہے- شیطان کی ذریت جاری رہی تو آپ کی ہتک نہیں ہوتی لیکن آپ کے روحانی فرزند پیدا ہوں تو آپ کی ہتک ہوتی ہے- اگر غور کریں تو اس خیال کے لوگ دانستہ یا نادانستہ چہل کی نقل کرتے ہیں- جس نے کہا تھا کہ رسول اللہ صلعم نعوذ باللہ ابتر ہیں- حالانکہ قرآن کریم اللہ فرماتا ہے کہ ان شائنک ھوالابتر )الکوثر:۴(تیرے دشمن ہی بے اولاد ثابت ہوں گے- تیری اولاد تو جاری رہے گی- گویا جب کبھی کوئی شیطانی تحریک جاری ہو گی- رسول کریم ~صل۲~ کی روحانی اولاد میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر اسے تباہ کر دے گا- غرض یہ تحریک جو اس وقت مسلمانوں میں مسیح کی آمد کا انکار کرنے کے متعلق ہو رہی ہے- ایک شیطانی تحریک ہے اور دجالی بھی- کیونکہ دجال کا کام ہے کہ مسیح کا مقابلہ کرے- اور اس سے بڑھ کر اور کیا مقابلہ ہو گا کہ سرے سے اس کی آمد کا ہی لوگوں کو منکر بنا دیا جائے- اور گوبظاہر اس تحریک کو اسلام کی دوستی کا جامہ پہنایا جا رہا ہے- لیکن درپردہ یہ اسلام کی دشمنی ہے- اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمان یا تو یہ سمجھنے لگیں گے کہ اسلام خدا کا پیارا مذہب نہیں کہ اس کی خرابی کی اسے پرواہ نہیں اور یا پھر یہ سمجھنے لگیں گے کہ مسلمانوں کے عقیدہ اور عمل میں کوئی خرابی ہی نہیں آئی- اور ایک طرف تو اپنی اصلاح سے غافل ہو جائیں گے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کو ظالم سمجھنے لگیں گے کہ بغیر ہمارے قصور کے اس نے ہمیں آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیا ہے- اور ان دونوں خیالات میں سے کوئی بھی غالب آ جائے وہ مسلمانوں کو ترقی سے محروم کر دے گا- پس اب بھی وقت ہے کہ اس دجالی تحریک کا مقابلہ کیا جائے- اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی میں اسلام کی جڑ پر تبر نہ رکھا جائے- ورنہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا انکار رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا- وہ فرماتا ہے- لئن شکرتم لا زید نکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید )ابراھیم:۸( اگر تم شکر کرو تو میں تم کو اور بھی بڑھائوں گا اور اگر تم کفر کرو تو میرا عذاب بہت سخت ہے-
واخردعونا ان الحمد للہ رب العالمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفتہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ- قادیان-
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
ندائے ایمان
دوست نما دشمن
نمبر۴
اسلام کے بیرونی دشمن ہی کم نہیں- لیکن افسوس کہ اس کے اندرونی دشمن بھی بہت سے پیدا ہو گئے ہیں- وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں` دشمنان اسلام کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں اور اپنوں کو غفلت کی نیند سلانے کی درپے رہتے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں امت محمدیہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا- اور لوگ رسماً مسلمان رہ جائیں گے- اسلام اور قرآن کریم کے آثار مٹ جائیں گے اور قرآن کریم کے صرف لفظ باقی رہ جائیں گے- اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کی روحانی ذریت میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا جو اسلام کی عظمت کو از سر نو قائم کرے گا- اور ایمان اور قرآن کو دوبارہ واپس لا کر تجدید دین کی بنیاد رکھے گا- اس وقت علما دنیا میں سب سے بدترین مخلوق ہونگے اور سب سے زیادہ روحانیت سے محروم- اسلام جب شروع ہوا اس وقت بھی اس کی مسافرانہ حیثیت تھی کہ نہ اس کا کوئی مکان تھا نہ گھر نہ وطن نہ ملک- اور آخری زمانہ میں بھی اس کا یہی حال ہوگا- کہ وہ بے وطن اور بے دیار ہو جائے گا اور مسافرانہ حیثیت سے ادھر ادھر پھرے گا کوئی اسے اپنے گھر رکھنے پر تیار نہ ہوگا- ان حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا آنے والا ہے کہ ان کے ظاہر تو مسلمانوں والے ہونگے اور باطن کافروں والے- ان کی زبانیں اسلام کی مقر ہونگی لیکن اندرونے اسلام و قرآن کو دھکے دے رہے ہونگے- ان کے علماء ان کو اسلام کی طرف واپس لانے کی جگہ خود اسلام کو عملاً چھوڑ رہے ہونگے اور دنیا کے پردہ پر بدترین مخلوق ہونگے- ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں علماء سے اس قسم کی امید رکھنی کہ وہ صداقت اور حق کی تائید کریں گے خلاف عقل ہے- اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کیلئے اہل فارس میں سے ایک شخص کو اس وقت کھڑا کرے گا جو لوگوں کو اسلام کی طرف واپس لائے گا اور ایمان کو قائم کرے گا-
یہ بھی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی مستقبل میں سب سے بڑا فتنہ مسیحیت کا فتنہ ہے- حتیٰ کہ احادیث میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگ اپنی طاقت اور قوت سے سب دنیا پر چھا جائیں گے- بلکہ اس فتنہ کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے- جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوھم من کل حدب ینسلون ) الانبیاء: ۹۷( یعنی یاجوج ماجوج سب بلند و بالا مقاموں سے اتر کر دنیا پر چھا جائیں گے اور یاجوج ماجوج کے متعلق بائیبل سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی لوگ ہیں- چنانچہ لکھا ہے کہ یاجوج سے مراد روس اور ماجوج سے مراد ایک زبردست طاقت ہے جو امن سے جزیروں میں بیٹھ کر حکومت کرتی ہے- یعنی حکومت برطانیہ اور ان دونوں ملکوں کا شاہی مذہب مسیحیت ہے- پس یہ امر بالبداہت ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو جو خراب حالت رسول کریم2] f[st ~صل۲~ نے بیان فرمائی ہے وہ اسی فتنہ یعنی مسیحیت کی ترقی کے زمانہ میں ہی ہونی تھی اور چونکہ مسیحی فتنہ ظاہر ہو چکا ہے بلکہ اب تو اس میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے لگ گئے ہیں- جیسا کہ روس کی حالت سے ظاہر ہوتا ہے تو یہ امر ناممکن ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے فرمودہ کے مطابق مسلمانوں میں خرابی پیدا نہ ہو چکی ہو-
وہ لوگ جو دین اسلام کے دشمن ہیں اور اس کی سچائی دیکھنا نہیں چاہتے اس صداقت کو چھپانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو تسلی دے رہے ہیں کہ تمہاری حالت بالکل ٹھیک ہے تم نمازیں پڑھتے ہو رورے رکھتے ہو حج کرتے ہو پس تمہاری حالت بالکل درست ہے اور اگر کوئی خرابی ہو تو تمہارے علماء تمہاری اصلاح کے لئے کافی ہیں- حالانکہ اس سے زیادہ کوئی ظلم نہیں ہو سکتا کہ ایک بیمار کو اس کی بیماری سے ناواقف رکھا جائے یا یہ کہ علاج کا کام دشمن جان کے سپرد کیا جائے- رسول کریم ~صل۲~ تو فرماتے ہیں کہ مسیحیت کی ترقی کے وقت مسلمانوں کی حالت خراب ہو گی اور ان میں صرف ظاہری اسلام باقی رہ جائے گا- لیکن مسلمانوں کے لیڈر کہلانے والے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں اطمینان سے بیٹھے رہو تم میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوا- رسول کریم ~صل۲~ تو فرماتے ہیں اس وقت مسلمانوں کے علماء دنیا میں سب سے بدترین مخلوق ہونگے- لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ اول تو مسلمانوں میں کوئی نقص نہیں اور اگر ہے تو اس کا علاج یہ علماء کر لیں گے- گویا اول تو رسول کریم ~صل۲~ کی تشخیص مرض کو جھٹلایا جاتا ہے اور پھر فرض کر کے کہ مرض ہے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جسے رسول کریم ~صل۲~ نے دشمن جان قرار دیا ہے اسی سے علاج کرائو اور جو تھوڑا بہت دین یا ایمان باقی ہے اسے بھی برباد کرا لو-
اے بھائیو! خوب سمجھ لو کہ رسول کریم ~صل۲~ سے زیادہ کوئی آپ لوگوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا- وہ تو ہم سب کے روحانی باپ ہیں اور اس وجہ سے جسمانی ماں باپ سے بہت زیادہ خیر خواہ کونسا باپ ہے جو اپنے بچہ کی بدگوئی کرے گا اور جب وہ نہایت نیک ہے اسے بدقرار دے گا اور جب وہ تندرست ہے اسے بیمار قرار دے گا- سوائے اس باپ کے جو کسی وجہ سے اپنے بچہ کا دشمن ہو گیا ہو یا جو فاتر العقل ہو- مگر کیا آپ میں سے کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ جیسا باپ ایسی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے- یقیناً اگر مسلمانوں پر ایسا زمانہ نہیں آنے والا تھا تو آپ کبھی ایسے فقرے نہ کہتے کہ ان کے اندر صرف رسماً اسلام رہ جائے گا-
اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ جو علماء کی عزت قائم کرنے میں سب سے بڑھ کر تھے اور جنہوں نے علماء امتی کانبیا بنی اسرائیل فرما کر علماء اسلام کو وہ عزت بخشی ہے جو کبھی کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بخشی- وہ بلاوجہ ہر گز یہ نہ کہہ سکتے تھے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے علماء آسمان کے نیچے برترین مخلوق ہونگے- یقیناً آپﷺ~ کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے علماء کی بہت ہی بری حالت دکھائی ہوگی- تبھی آپﷺ~ نے ایسا فرمایا- ورنہ آپﷺ~ نے ایسا نہیں کیا بلکہ علماء کی حالت کو نہایت سخت الفاظ میں بیان فرمایا ہے- تو صاف ظاہر ہے کہ آپﷺ~ نے یہ کام امت کی ہمدردی سے مجبور ہو کر کیا ہے اور اس خوف سے کیا ہے تا مسلمان ایسی گھبراہٹ کے وقت میں ان سے اپنا علاج کرا کے اپنے آپ کو تباہ اور برباد نہ کر لیں اور رہی سہی روحانیت سے بھی انہیں ہاتھ نہ دھونے پڑیں-
پس اے بھائیو! رسول کریم ~صل۲~ کی بات کو یاد رکھو کہ آپﷺ~ سے بڑھ کر آپ لوگوں کا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا- اور ان دوست نما دشمنوں سے بچو جو تم کو بیمار دیکھ کر علاج کا مشورہ دینے کی بجائے الٹا غافل کرنا چاہتے ہیں اور آپ سے بھی دشمنی کرتے ہیں اور رسول کریم ~صل۲~ کی بھی تکذیب کرتے ہیں- مسلمانوں کی خراب حالت اظہر من الشمس ہے- ان کی حکومتیں جاتی رہیں ان کی تجارتیں برباد ہو گئیں ان کے دلوں سے علم اٹھ گیا ہے- تقویٰ مٹ گیا ہے ان کے قلوب سے خدا تعالیٰ کی یاد رہی ہے- رسول کریم ~صل۲~ کی اتباع کا جوش سرد ہو گیا ہے- ہمدردی عام کا خیال جاتا رہا ہے- قربانی اور ایثار کی روح مردہ ہو گئی ہے- غرض بقول اصدق الناس صرف رسم اسلام باقی رہ گئی ہے روح اسلام مٹ چکی ہے-
ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اگر مسلمانوں کی خبر نہ لیتا اور حسب وعدہ فارسی الاصل انسان کو یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کو مبعوث نہ فرماتا- تو یقیناً اس پر وعدہ خلافی کا الزام آتا- مگر اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے- اس نے وقت پر اپنا وعدہ پورا کر دیا- اور مرض کے پیدا ہوتے ہی طبیب بھی بھیج دیا- اب یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے تجویز کردہ اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طبیب سے علاج کرائیں اور اس کی اتباع میں داخل ہو کر اسلام کی شوکت بڑھائیں یا ان لوگوں سے علاج کرائیں کہ جن کو رسول کریم ~صل۲~ نے آسمان کے نیچے سب سے بدتر وجود قرار دیا ہے اور آپ لوگوں کے ایمان کا دشمن- مگر یہ یاد رکھیں کہ دوست سے بھاگ کر دشمن کی پناہ میں جانے والا کبھی فلاح نہیں پاتا اور اللہ تعالیٰ کے تجویز کردہ نسخہ کو رد کر کے بندوں کے ٹوٹکوں پر نگہ رکھنے والا کبھی صحت کا منہ نہیں دیکھتا-
وقت نازک ہے اور مصیبت بہت بڑی- پس اللہ تعالیٰ کی نصیحت کی قدر کرو- اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ اس نے عین مرض کے وقت طبیب روحانی بھیج دیا ہے- اس کے مامور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعووں پر ایمان لاتے ہوئے احمدیت کو قبول کرو تا کہ یہ مصیبت کے دن ٹال جائیں اور اسلام ایک دفعہ پھر فتح و کامرانی کے دن دیکھے- محمد رسول اللہ ~صل۲~ کا باغ خشک ہو رہا ہے- اگر وفادار ہو تو دیر نہ لگائو اٹھو اور پنے خونوں سے اس باغ کے درخت کو سیراب کرو- آسمانی باغ کنوئوں کے پانیوں سے نہیں بلکہ مومنوں کے خون سے سینچے جاتے ہیں- اس دن کا انتظار نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے تم کو غداروں کی فہرست میں شامل کر کے ابدی موت کے گھاٹ اتار دیں- بلکہ آگے بڑھ کر خود اپنے لئے قربانی کی موت قبول کرو تا کہ ابدی زندگی پائو- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ
قادیان- ضلع گورداسپور- پنجاب
۱~}~ یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من القران الا رسمہ مساجد ھم عارہ وھی خراب من الھدی علماء ھم شرمن تحت ادیھم السماء )مشکوۃ کتاب العلم(
۲~}~ وضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الایمان بالثریا لنالہ رجال او رجل من ھولاء )بخاری کتاب التفسیر زیر آیات واخرین منھم لما یلحقوابھم )سورہ الجمعہ( اور ترمذی میں ہے لوکان الدین عندالثریا یا لتناولہ رجال من الطرس مسلمان کو جو فارسی الاصل تھے آنحضرت ~صل۲~ نے سلمان منااھل البیت فرما کر اپنے اہل بیت میں ہی شمار فرمایا ہے-
۳~}~ ان الدین بدو غریبا وسیعود غریبا )مشکوہ باب الاعتصام بالکتاب والسنتہ بحوالہ ترمذی(
۴~}~ حزقیل باب ۳۸ آیت ۳` حزقیل باب ۳۹ آیت۶
۵~}~
‏a11.5,a
انوار العلوم جلد ۱۱
ندائے ایمان )۱(
ندائے ایمان )۱(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
ندائے ایمان
)نمبر۱(
اے بھائیو! آپ کو معلوم ہوگا کہ آج سے قریباً پچاس سال پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلٰوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر دنیا کی اصلاح کا کام شروع کیا تھا- آپ اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے اس بہادر نے اسلام کی خدمت کا بیڑا اٹھایا تھا` اس وقت کیا اپنے اور کیا پرائے سب کے سب اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تھے حتیٰ کہ خود اس کے عزیز اور نہایت قریبی رشتہ دار تک اس کو تباہ اور برباد کرنے کے لئے کوشاں تھے اور اسے ثواب کا موجب اور رضائے الہی کا باعث خیال کرتے تھے- ہر ایک جو اس زمانہ کے حالات سے آگاہ ہے بیان کرے گا کہ اس وقت لوگوں کا یہی خیال تھا کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دعویٰ سے توبہ نہ کی تو ان کی تباہی ایک قلیلعرصہ میں یقینی اور قطعی ہے- اور بہت تھے جنہوں نے اپنے خیالوں سے آپ کی تباہی کے متعلق وقت کی 2] mr[lتعیین بھی کر دی تھی اور علی الاعلان لاف زنی کرتے تھے کہ دو یا تین سال میں آپ کا نام و نشان تک مٹ جائے گا اور آپ کا دعویٰ ایک قصہ اور کہانی ہو جائے گا- یہ لافزنیاں اگر منہ کی باتوں تک رہتیں تب بھی بات تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے ان دعووں کو پورا کرنے کے لئے عملاً بھی سارا زور لگایا اور مخالفت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی- وہ لوگ جو ایک مجلس میں بیٹھنا حرام سمجھتے تھے آپ کی مخالفت میں سگے بھائیوں سے بھی زیادہ متحد نظر آنے لگے اور جن مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے نظر آتے تھے آپ کو نقصان پہنچانے کی خاطر ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکنے والے بن گئے- زمین جور اور ظلم سے بھر گئی اور آسمان انسان کی تعدی اور دست درازی کے قصے دیکھ کر تاریک ہو گیا اور تاریکی کے فرزندوں نے خیال کر لیا کہ وہ اس شمع کو جسے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جلایا تھا بجھانے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے لیکن باوجود تمام مذاہب کی متفقہ کوششوں کے اور حالات کی نامساعدت کے آپ ہر قسم کے گزند سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدم کو استوار اور مضبوط رکھا-
جس وقت آپ کے ہم قوموں اور ہم مذہبوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اس وقت خدا تعالیٰ جو تمام وفاداروں سے بڑھ کر وفا دار اور تمام دوستوں سے بڑھ کر دوست ہے آپ سے پہلے کی نسبت بھی زیادہ پیار کرنے گا- اور اس کی مصف¶ی وحی بارش کی طرح آپ پر نازل ہونے لگی- اور اس کے ذریعہ سے اس نے آپ کے دل کو مضبوط کرنا شروع کیا اور کہا کہ جس طرح تو میرے نام کے لئے تکلیف اٹھا رہا ہے اور بدنام کیا جا رہا ہے اور لوگ تجھ سے دشمنی کر رہے ہیں اور اپنے عزیز تجھے چھوڑ رہے ہیں اور کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اس لئے کہ تو اسلام کی عظمت دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے تیری عزت پر حملے کئے جاتے ہیں اور تیری عیب جوئی کے لئے ہر ایک ناواجب ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے میں تیرے نام کو بلند کروں گا اور ایک بڑی جماعت اسلام پر فدا ہونے والوں کی تجھے دوں گا- اور میرے فرشتے میری طرف سے درود اور سلام لیکر تجھ پر نازل ہونگے اور ایک بڑی قوم تجھ سے پیدا ہوگی اور آدم کی طرح ایک نئی دنیا کا تو باپ بنے گا اور تیرے دشمن ذلیل اور خوار ہونگے- اور جن جن راہوں سے وہ تجھ پر حملہ کریں گے انہیں راہوں سے اور ان کے علاوہ اور ایسی راہوں سے بھی جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہونگی ان پر حملہ کروں گا اور ان کے منصوبے ان کے منہ پر ماروں گا- اور ایک یار وفادار کی طرح تیرے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو کر تیرے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور جو تجھ پر وار کرے گا میں اس پر وار کروں گا لیکن وہ جو تیرا دوست اور ساتھی ہوگا میں اسے عزت دوں گا اور اس پر اپنا نور ڈالوں گا اور اپنی برکتوں سے اسے حصہوافر دوں گا- اور اپنے دین کا علم اسے عطا کروں گا- اور دین اسلام کا سپاہی اسے بنائوں گا اور ایسا ہوگا کہ تیرا نام دنیا میں سورج اور چاند کی طرح چمکے گا اور دن بدن تیرا اور تیری جماعت کا قدم ترقی کے زینہ پر بلند ہوتا چلا جائے گا-
جوں جوں یہ الہامات آپ کی طرف سے شائع ہوتے تھے مخالف اپنی مخالفت میں اور بھی بڑھتے چلے جاتے تھے اور ہر طرح کوشاں تھے کہ آپ کو جھوٹا ثابت کریں لیکن خدا کی باتوں کو کون ٹال سکتا تھا- باوجود ان سب مخالفانہ تدابیر کے جو آپ کے مخالفوں نے آپ کے خلاف استعمال کیں آپ کی صداقت لوگوں پر ظاہر ہونی شروع ہوئی اور روحانی مردے آپ کے ہاتھوں سے زندہ ہونے لگے- اور وہ جو پہلے بہرے تھے اب سننے لگے اور جو پہلے اندھے تھے اب دیکھنے لگے اور جو پہلے روحانی کوڑھ میں مبتلا تھے اب ان کے جسم چاند کی طرح منور نظر آنے لگے اور ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے اور ایک قریب سے اور ایک دور سے خدا کی قرناء کی آواز سن کر دوڑ پڑا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بالکل اسی طرح جس طرح کہ قدیم سے خدا کے نبیوں سے ہوتا چلا آیا ہے ایک جماعت اس خدا کے بہادر کے گرد جمع ہو گئی اور اسلام کا سپہ سالار اور محمد رسول اللہ ~صل۲~ کا جاں نثار اپنے فدائیوں کے جھرمٹ میں ایک جوان رعنا دولہا کی طرح اسلام کی حفاظت کے لئے آگے بڑھا- اور تم نے بھی دیکھا اور باقی دنیا نے بھی دیکھ لیا کہ وہی جسے کافر و زندیق کہا جاتا تھا اسلام کا علمبردار ثابت ہوا- اور وہی جسے اسلام کا دشمن کہا جاتا تھا اس کی حفاظت کا واحد ذمہ وار نظر آیا- جب عالم کہلانے والے اور تصوف کا دم بھرنے والے اپنی روٹیوں کی فکر میں اور اپنے آرام و آسائش کی جستجو میں تھے وہ اور اس کے ساتھی اسلام کی فکر میں اور اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں مشغول تھے- نہ معلوم اس نے اپنے پر ایمان لانے والوں کے دلوں میں کیا جادو پھونک دیا تھا کہ اسلام کی خدمت کے سوا اور رسول کریم ~صل۲~ کی شان کے بلند کرنے کے سوا ان کو اور کسی بات میں مزا ہی نہیں آتا تھا حتیٰ کہ وہ دن آ گیا جب اسلام کو اس کی پوری شان کے ساتھ قائم کر کے اور اس کے جاں نثاروں کی ایک جماعت بنا کر وہ خدا کا پیارا اپنے پیارے سے جا ملا اور اس کے دشمن جو اس کی تباہی کی خوابیں دیکھ رہے تھے منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے- مگر اب بھی ایک امید پر ان کا سہارا تھا اور وہ یہ کہ شاید اس کے مرنے کے بعد اس کا کام تباہ ہو جائے گا اور اس کی جماعت جو اس کی لسانی اور اس کی جادوبیانی کی وجہ سے اس کے گرد جمع ہو گئی تھی اب پراگندہ ہو جائے گی لیکن زمانہ نے ظاہر کر دیا کہ یہ خیال بھی ایک فریب سے زیادہ حقیقت نہ رکھتا تھا- جس طرح ایک مضبوط درخت روز بروز جڑیں پکڑتا جاتا ہے اس کی جماعت بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ مضبوط ہوتی چلی جائے گی- اور اسلام کی محبت رکھنے والے دل اور اس کی نیکی چاہنے والے دماغ اس زمانہ کے موعود کی عقیدت کی مہمان نوازی کے لئے اپنے دروازے کھول دیں گے تا کہ اسلام کے غلبہ پانے کا زمانہ جلد سے جلد آئے اور کفر ایک ناپاکچیز کی طرح دنیا سے اٹھا کر پھینک دیا جائے-
مبارک ہیں وہ جو اس دن کے لانے میں پیش قدمی کریں اور خدا کی آواز کو دوسروں سے پہلے قبول کریں- پس اے بھائیو! اس اشتہار کے ذریعہ سے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ حق کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور خدا کی آواز سے بے پرواہی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ کیا معلوم ہے کہ موت کب آ جائے گی اور ہمارے اعمال کے زمانہ کو ختم کر دے گی- اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا کہ آپ اس عظیم الشان کام کے متعلق آج اور کل ہی کرتے رہے اور ایمان کا وقت گذر گیا اور موت کی گھڑی آ گئی تو بتائیں کہ اس وقت کیا چارہ کار ہوگا- نہ پچھتانا کچھ مفید ہوگا اور نہ گریہ و زاری کچھ نفع دے گی- آخر کونسی دلیل ہے جس کے آپ منتظر ہیں اور کونسا نشان ہے جس کی آپ کو جستجو ہے- مسیح موعود کے متعلق جو کام بتایا گیا تھا وہ آپ کے ہاتھوں سے پورا ہو رہا ہے اور اسلام ایک نئی زندگی پا رہا ہے- پس جلدی کریں اور مسیح موعود کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں-
لیکن اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس معاملہ پر غور ہی نہیں کیا تو بھی میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد تحقیق کی طرف متوجہ ہوں اور مندرجہ طریقوں میں سے ایک کو اختیار کریں-
۱- جو سوالات آپ کے نزدیک حل طلب ہوں انہیں اپنے قریب کے احمدیوں کے سامنے پیش کر کے حل کرائیں-
۲- اگر آپ کے پاس کوئی احمدی جماعت نہ ہو تو مجھے اپنے سوالوں سے اطلاع دیں-
۳- اپنے علاقہ میں جلسہ کر کے احمدی مبلغ منگوا کر خود بھی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے دلائل سنیں اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے نور کے قبول کرنے کی توفیق عنایت فرمائے-
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ
قادیان- ضلع گورداسپور- پنجاب
۱۵- جنوری ۱۹۳۰ء
‏a11.5b
انوار العلوم جلد ۱۱
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۰ء(
تشہد ` تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اسلام جیسا مذہب ہمیں عطا فرمایا اور قرآن جیسی کتاب ہمیں بخشی- یہ وہ نعمت اور وہ خزانہ ہے جس کی نسبت وہی اصدق الصادقین خود فرماتا ہے اگر سب جن و انس بھی جمع ہو جائیں تب بھی اس قسم کا خزانہ تیار نہیں کر سکتے-۱~}~
معمولی انسانوں کی بنی ہوئی چیزیں دنیا میں بہت قیمت پاتی ہیں- ایک مصور چند رنگ جمع کر دیتا ہے جو قدرتی نظاروں کی خوبصورتی ظاہر کرتے ہیں- وہ خالق نہیں بلکہ وہ نقال ہوتا ہے مگر اس کی نقلیں بھی اچھی بنی ہوئی تیس چالیس لاکھ کو بک جاتی ہیں- ایک انسان جو تصویر بناتا ہے اس میں کچھ گھاس کے تنکے ہوتے ہیں` کچھ درخت ہوتے ہیں` کہیں کسی ندی کے بہنے کا نظارہ دکھایا جاتا ہے` کہیں پہاڑ کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی دکھائی جاتی ہیں` گویا خدا تعالیٰ کی پیدائش کے وہ حصے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں ان کا بھی اس تصویر میں کروڑواں حصہ بھی نہیں ہوتا- پھر نہ ان پہاڑوں کی برف ہمیں پانی پہنچاتی ہے` نہ ان پہاڑوں کی چوٹیاں ہمارے لئے گرمی سے بچنے کے لئے سرد مقامات پیش کرتی ہیں- نہ وہ سبزہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس سے پھول پھل پیدا ہو سکیں یا کسی قسم کا غلہ اس سے حاصل کیا جا سکے وہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ایک نہایت قلیل حصہ کی نقل اور تصویر یا نظارہ ہوتا ہے مگر وہ جتنا اصل نظارہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اتنی ہی اس کی قیمت بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ میں نے بتایا ہے کہ بعض تصاویر تیس تیس لاکھ روپیہ کو بک جاتی ہیں- لیکن انسانی صنعت جو محض نقل ہوتی ہے اور ایک نہایت ہی قلیل حصہ کی نقل ہوتی ہے وہ اگر اتنی قیمت پاتی ہے تو وہ چیز جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمام جن اور انس مل کر بھی کوشش کریں تو اس کے مقابلہ کی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے مقابلہ کی پیدا کرنا تو الگ رہا اس کے کسی حصہ کی نقل بھی نہیں کر سکتے- وہ کسقدر قیمتی ہو سکتی ہے- مثل کے معنی تصویر کے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روحانی سلسلہ جسمانی سلسلہ سے اعلیٰ ہے- تم جسمانی چیزوں کی تصویر کھینچ سکتے ہو مگر یہ ہم روحانی چیز پیش کرتے ہیں تمام کے تمام مل جائو اور اس کی تصویر بنائو- اصل کے مطابق بنانا تو تمہارے لئے جسمانی سلسلہ میں بھی ممکن نہیں ہے تم نقل ہی کر سکتے ہو مگر تم اس کی نقل بھی نہیں کر سکتے۲~}~ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسا مذہب اور قرآن جیسی کتاب عطا کی- اس پر مزید فضل یہ ہوا کہ ہمارے گناہوں` ہماری شامت اعمال` ہماری غفلتوں اور ہماری خطائوں کی وجہ سے جب یہ پاک کلام دنیا سے اٹھ گیا تو اس نے پھر عطا کیا- وہ کلام جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ جن و انس مل کر بھی اس کے کسی حصے کی تصویر اور نقل پیش نہیں کر سکتے- اس میں مسلمان کہلانے والوں اور مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والوں کو ہزاروں عیب دکھائی دینے لگے- اور وہ لوگ اچھے اور قابل مسلمان سمجھے جانے لگے جو قرآن کے متعلق اچھی معذرت پیش کر سکیں-
سرسید احمد صاحب علی گڑھ کالج کے بانی جن کی تعلیمی کوششوں کی ہم قدر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک حد تک خدمت کی ان کی مذہبی لحاظ سے پوزیشن یہی تھی کہ وہ قرآن کی طرف سے معذرت پیش کرنے میں قابل سمجھتے جاتے اور ان کی معذرت یہی ہوتی کہ وہ کہتے قرآن میں پرانے زمانہ کی باتیں ہیں- اور ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے کی گئی ہیں جو جاہل تھے- اہل یورپ کو ان کا کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے- اسی طرح سید امیر علی صاحب مسلمانوں کے دوسرے مشہور لیڈر تھے- ان کے متعلق بھی یہی بات کہی جاتی کہ وہ اسلام کی طرف سے بہت اچھی معذرت پیش کرتے ہیں- مثلاً قرآن کریم میں جہاں ملائکہ کا لفظ آیا اس کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ یورپ کے لوگوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے پہلے زمانہ کے لوگ اس قسم کی مخلوق مانا ہی کرتے تھے انہی کے خیالات کو مدنظر رکھ کر قرآن میں یہ ذکر آ گیا ہے- اسی طرح پردہ وغیرہ کے متعلق کہتے کہ یہ اس زمانے کے لئے تھا جب کہ تہذیب نے اتنی ترقی نہ کی تھی-
غرض اسلام کے بہترین خادم بلکہ محسن وہ لوگ سمجھے جاتے تھے جو قرآن کریم کی خیالیغلطیوں اور وہمی تقصیروں کا ازالہ اپنی باتوں سے کرتے تھے- اس ماحول اور ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک نبی بھیجا جس نے قرآن کریم کو اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور بتا دیا کہ جہاں چاہو اسے لے جائو کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے اور اس کے ایک لفظ کو بھی غلط ثابت کرنے کی جرات رکھے- یہ تو ایک بم ہے کہ باطل کی جتنی بھی بڑی سے بڑی عمارت پر اسے گرائو اسے پاش پاش کر دے گا- اس کی طرف سے کسی قسم کی معذرت کرنے کی ضرورت نہیں- معذرت تو بیمار اور ناکارہ کی طرف سے کی جاتی ہے مگر وہ کلام جو دنیا کے لئے ہدایت لے کر آیا اس کی طرف سے معذرت پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے- وہ تو خدا تعالیٰ کے نوراور اس کی برکتوں کا مجموعہ ہے- اس کے سامنے دنیا کو ضرورت ہے کہ معذرت پیش کرے جو ظلمت اور گمراہی میں پڑی ہوئی ہے- پھر اس کے سامنے دوسری مذہبی کتابوں کو ہاتھ جوڑنے چاہئیں اور کہنا چاہئے اب ہماری زیادہ پردہدری نہ کی جائے- پس اس کلام کا تو یہ مرتبہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے انسان آتے اور کہتے ہم جہالت میں مبتلا ہیں تم خدا تعالیٰ کا کلام ہو ہماری دستگیری کرو اور ہمیں ظلمت کے گڑھے سے نکالو- قرآن کو کسی قسم کی معذرت پیش کرنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے اس کا تو ایک ایک لفظ عقل` نقل` تاریخ` جغرافیہ` سائنس غرض دنیا کے ہر علم سے درست ثابت ہوتا ہے-
غرض خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل ہوا کہ اس نے ہمارے زمانہ میں ایک ایسا انسان بھیجا جو دوبارہ دنیا میں قرآن لایا پھر اس کا ایک فضل یہ ہوا کہ ہم لوگ جو علم کے لحاظ سے` عقل کے لحاظ سے` تجربہ کے لحاظ سے` ظاہری سامانوں کے لحاظ سے دنیا میں نہایت ہی کمزور ہیں بلکہ بغیرمبالغہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس چیز کو ہم سے جدا کر دیا جائے جو خدا تعالیٰ کے مامور نے ہمیں عطا کی ہے تو ہم دنیا میں بدترین خلائق کہلانے کے مستحق ہیں- مگر باوجود اس کے کہ ہم بدترین خلائق ہیں اور انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں آج کل کی متمدن کہلانے والی قومیں جاہل` وحشی اور بدتہذیب کہتی ہیں ہم میں ¶سے ہی خدا تعالیٰ نے ایسے آدمیوں کو چنا جنہوں نے مہذب کہلانے والی اقوام کو ہدایت` علم و عرفان دیا اور مہذب قومیں ہماری باتوں کے آگے سرتسلیم خم کر رہی ہیں- وہ قومیں جو ہمیں غیرمہذب کہتی تھیں اور اب بھی دوسروں کو غیرمہذب اور وحشی ہی کہتی ہیں وہ خواہش کرتی ہیں کہ ہم سے تہذیب اور روحانیت سیکھیں اور ہمانکیلئے علماء بھیجیں- یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور رحمت ہے- ہماری کوئی قربانی` کوئی ایثار` کوئی اخلاص اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا- یہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے ماتحت ہے شروع میں بھی اور آخر میں بھی- نہ ابتداء میں ہمارا کوئی عمل اس فضل کے نازل ہونے کا باعث ہوا اور نہ کوئی انتہائی عمل اس کا بدلہ ہو سکتا ہے- ان حالات میں آئو ہم خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں اور جہاں سے بے مانگے اتنا کچھ ملا ہے وہاں سے مانگ کر دیکھیں کہ کتنا ملتا ہے- آئو ہم سب مل کر دعا کریں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمیں اس کام کے لئے چنا ہے` اسی طرح اس کے کرنے کی اہمیت اور طاقت بھی عطا کرے اور توفیق بخشے- ہمارے کاموں میں برکت دے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ آسمان پر نہ چاہے زمین میں اس کے فرشتے لوگوں کے قلوب نہیں کھولتے- ہم لوگوں کے کانوں تک خدا اور اس کے رسول کا کلام پہنچا سکتے ہیں مگر دلوں تک نہیں پہنچا سکتے- حالانکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ لوگوں کے قلوب تک پہنچائیں- یہ خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے کرے اور اس کی مدد اور تائید سے ہی ایسا ہو سکتا ہے- پس پیشتر اس کے کہ جلسہ شروع ہو میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے اعمال اور اقوال میں برکت دے` ہمیں اپنے فضل کے سایہ کے نیچے رکھے` فرشتے آسمان سے ہماری تائید اور نصرت کے لئے نازل کرے` ہم کمزور ہیں ہمیں طاقت عطا کرے` ہم ضعیف ہیں ہمیں توانائی بخشے ہم جاہل ہیں ہمیں علم دے` ہم بے عمل ہیں ہمیں اعمال حسنہ کی توفیق دے` ہم دنیا کے مقابلہ میں نہتے ہیں وہ ہمیں کامیابی کے سامان عطا کرے تا کہ ہم اس عظیم الشان جنگ میں کامیاب ہوں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے- دنیا اس وقت ناپاکی اور غفلت میں مبتلا ہے` جہالت اور ظلمت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے` شیطان اپنی ساری فوجوں کے ساتھ مقابلہ میں کھڑا ہے` ہم باوجود نہایت کمزوری اور ناتوانی کے اس کے مقابلہ کے لئے منتخب کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ اپنا خاص فضل نازل کرے تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں- ہمیں اپنے فضل سے خدا تعالیٰ ایسی کامیابی عطا کرے کہ دنیا ہماری کمزوری اور ناتوانی کو دیکھتی ہوئی پکار اٹھے کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہی ہے اور اسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی اصلاح اور بہتری کے لئے بھیجا-
دعا سے پہلے میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں- یہ اجتماع کا موقع ہے اور اس پر اس بات کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق خداتعالیٰ کا الہام ہے لا نبقی لک من المخزیات ذکرا ۳~}~ کہ ہم تیرے لئے رسوائی والی کوئی بات باقی نہ چھوڑیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مخالفین کی طرف سے ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کے سلسلہ میں شامل نہیں- مخالف کہتے اگر مرزا صاحب سچے ہوتے تو ان کا اپنا بیٹا کیوں نہ انہیں مانتا- اگرچہ یہ کوئی ایسا اعتراض نہیں جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر حرف آ سکتا- حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی ان کو نہ مانا تھا اس سے حضرت نوح علیہ السلام کی صداقت باطل نہیں قرار دی جا سکتی- پس مخالفین کا یہ اعتراض محض جہالت اور نادانی کی وجہ سے تھا لیکن اللہتعالیٰ نے اسے بھی دور کر دیا اور ایسے لوگوں کا منہ بند کر دیا چنانچہ کل مرزا سلطان احمد صاحب میری بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور اس طرح بھی دشمن کا منہ بند ہو گیا- اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی بیٹا آپ کی جماعت میں داخل نہیں اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری کی ساری اولاد احمدیت میں داخل ہو گئی ہے-
)اس پر تمام مجمع نے نہایت بلند آواز سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور مبارکباد پیش کی- اور حضور نے >خیر مبارک< کہا(
ایک بات کا ذکر کرنا میں اپنی تقریر میں بھول گیا تھا اور وہ یہ کہ پچھلے ہفتہ دو دفعہ میں نے دو رئویا دیکھے ہیں- جن میں ایسے نظارے دکھائے گئے جو مخفی ابتلاء کا پتہ دیتے ہیں- ایک رئویا تو میں نے آج سے پانچ دن قبل دیکھا- ایک پرسوں- میں ان کی تشریح نہیں کرتا- یہ منع ہے کیونکہ منذر رئویا کا بیان کرنا بعض اوقات اس کے پورا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے لیکن اتنا بتا دیتا ہوں تا کہ دوستوں کی توجہ دعا کی طرف ہو کہ ایک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام پر کیا گیا اور ایک مجھ پر- اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے مبرم تقدیر بھی ٹل جایا کرتی ہے- احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہر قسم کی مشکلات دور فرمائے اور ہر قسم کے ابتلائوں سے جماعت کو محفوظ رکھے تا کہ ہم عمدگی اور آسانی سے اس کے سلسلہ کی خدمت کر سکیں- )الفضل یکم جنوری ۱۹۳۱ء(
۱`۲~}~
بنی اسرائیل:۸۹
۳~}~
تذکرہ صفحہ ۵۳۸ ایڈیشن چہارم
‏a11.5,c
انوار العلوم جلد ۱۲
ندائے ایمان)۲(
ندائے ایمان )۲(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
ندائے ایمان )۲(
رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر حملہ
رسول کریم ~صل۲~ کی ذات مبارک کچھ ایسی کفر توڑ ہے کہ ہر شخص جس کے دل میں کفر کی کوئی رگ ہو آپ سے دشمنی رکھتا ہے اور آپ کی مقدس ذات پر حملہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ کی ترقی میں اس کا زوال اور آپ کی زندگی میں اس کی موت ہے- اسی وجہ سے جس قدر حملے رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر ہوئے ہیں اور کسی نبی پر خواہ عرب کا ہو یا شام کا` ہندوستان کا ہو یا ایران کا نہیں ہوئے- لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے دشمنان اسلام آپ پر حملہ کرنے میں ایک حد تک معذور ہیں کیونکہ اسلام کے ذریعہ سے ان کے مکروں اور حیلوں کا تانا بانا ٹوٹتا ہے اور ہر ایک کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے- لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو اسلام سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں` قرآن کریم پر ایمان ظاہر کرتے ہیں` درود پڑھتے اور سلام بھیجتے ہیں` لیکن باوجود اس کے رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر حملہ کرنے سے نہیں ڈرتے اور ایسے عقائد پھیلاتے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارکذات کی سخت ہتک ہوتی ہے اور اس طرح عوام الناس کے دلوں سے آپ کی محبت کم کرتے ہیں- اس قسم کے لوگوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو آئے دن عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا وعظ کرتے پھرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چوتھے آسمان پر بہ جسد عنصری بیٹھے ہیں اور کسی زمانہ میں آسمان سے اتر کر لوگوں کو اپنا تابع بنائیں گے- آہ! یہ لوگ کبھی خیال نہیں کرتے کہ وہ رسول جس کے احسانوں تلے ان کا بال بال دبا ہوا ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے سب انسانوں سے افضل قرار دیا ہے اور جو اپنی قوت قدسیہ میں کیا ملائکہ اور کیا انسان سب پر فضیلت لے گیا ہے اس ذریعہ سے وہ اس کی ہتک کرتے ہیں اور ایک ایسے شخص کو جو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتا آپ کے وجود پر فضیلت دیتے ہیں-
یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی شخص نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے تکلیف نہیں اٹھائی- آپ مکہ میں تیرہ سال تک ایسی تکلیفات برداشت کرتے رہے ہیں کہ ایسی تکلیفات کا ایک سال تک برداشت کرنا بھی انسان کی کمر توڑ دیتا ہے اور آپ کے اتباع اور جاںنثار مرید بھی ناقابل برداشت ظلموں کا تختہ مشق بنے رہے ہیں- اس کے مقابل پر مسیح علیہالسلام اور ان کے حواریوں کی قربانیاں کیا ہستی رکھتی ہیں- وہ اپنی جگہ کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے مقابلہ میں کچھ بھی قیمت نہیں رکھتیں- اول تو حضرت مسیحؑ کا زمانہ تبلیغ ہی کل تین سال بتایا جاتا ہے- پھر اس قلیل زمانہ میں بھی سوائے دو چار گالیوں اور ہنسی مذاق کے اور کوئی تکلیف نہیں جو ان کے مخالفوں نے انہیں دی ہو- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی وقت میں تین سال تک ایک تنگ وادی میں محصور رکھا گیا` کھانا پینا بند کیا گیا` آپ سے خرید فروخت کرنیوالوں پر ڈنڈ مقرر کیا گیا- غرض اس قدر دکھ دیئے گئے کہ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ ان تکالیف کی سختی کی وجہ سے بیمار ہو کر فوت ہو گئیں- کھانے کی تنگی کی وجہ سے آپ کے صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہوتے تھے جس کی وجہ سے بکری کی مینگنیوں کی طرح ہمیں پاخانہ آتا تھا- بیسیوں دفعہ آپ کی اور آپ کے اتباع کی جانوں پر حملے کئے گئے` پتھر مارے گئے` گلا گھونٹا گیا` غلاظتیں پھینکی گئیں` غرض کون سی تکلیف تھی جو آپ پر نہ آئی ہو` لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہوتا رہا کہ فاصبر کما صبر اولوالعزم ۱~}~ جس طرح ہمارے پکے ارادے والے بندے صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تو بھی صبر سے کام لے اور استقلال کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر- لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود ان حالات سے واقف ہونے کے مسلمان کہلانے والے اور علم کا دعویٰ کرنے والے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جب سولی پر لٹکانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے جھٹ کسی اور شخص کو ان کی شکل کا بنا کر یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑوا دیا- اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا- اگر یہ امر صحیح ہے تو کیا مسیحیوں کا حق نہیں کہ وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا راہنما تمہارے نبی سے افضل تھا کہ تمہارے نبی کو تو تیرہ سال تک مکہ میں اور پانچ سال تک مدینہ میں زبردست تکالیف کا سامنا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مصیبت میں پڑا رہنے دیا اور کوئی خاص مدد نہ کی لیکن ہمارے راہنما پر ایک ہی دفعہ لوگوں نے ہاتھ ڈالنا چاہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے چوتھے آسمان پر جا بٹھایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی تکلیف برداشت نہ کرنے دی-
اے اسلام کا درد رکھنے والو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے والو! کبھی آپ نے سوچا بھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اس طرح آسمان پر بٹھا کر آپ کے علماء نے اسلام پر کس طرح ظلم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر ہتک کی ہے؟
اسی طرح کیا کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ حضرت مسیح کے اس قدر لمبے عرصہ سے آسمان پر زندہ موجود ہونے کے عقیدہ سے ان علماء نے مسیحیت کو کس قدر طاقت بخشی ہے؟ کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر زندہ رکھا ہوا ہے وہ یقیناً اس شخص سے افضل ہونا چاہئے جسے ایک معمولی سی عمر دے کر اللہ تعالیٰ نے وفات دی اور پھر جبکہ ساتھ یہ بھی مانا جائے کہ وہ صرف آپ ہی زندہ نہیں بلکہ دوسرے مردوں کو بھی زندہ کیا کرتا تھا جیسا کہ مسلمانوں میں اس وقت عام عقیدہ ہے تو پھر اس امر میں کوئی بھی شبہ نہیں رہتا کہ نعوذ باللہ من ذلک حضرت مسیحؑ حضرت نبی کریم ~صل۲~ سے افضل تھے- مگر کیا خداتعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم اس عقیدہ کی تائید کرتی ہے؟ ہر گز نہیں- قرآن کریم اس عقیدہ کو دھکے دیتا ہے اور سرتا پا اس کی تردید کرتا ہے- وہ تو کھول کھول کر بتاتا ہے کہ رسولکریم ~صل۲~ سب نبیوں کے سردار ہیں اور سب نبیوں سے یہ عہد لیا جاتا رہا ہے کہ اگر آپ کا عہد پائیں تو آپ کی مدد کریں اور تائید کریں اور آپ پر ایمان لائیں-۲~}~ پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ سرداری کی خلعت تو نسبتا چھوٹے درجہ کے آدمی کو دے دی جائے اور سردار کو اس سے محروم کر دیا جائے-
اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اگر فی الواقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں اور مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانی *** کا کام ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً سب نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں اور کوئی انسان اس زمین پر نہ پیدا ہوا ہے نہ ہوگا جو آپ کے درجہ کو پہنچ سکے باقی سب انسان آپ سے درجہ میں کم ہیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کا جو مقام آپ کو ملا ہے اور خدا تعالیٰ جو غیرت آپ کے لئے دکھاتا تھا وہ مقام کسی کو نہیں ملا اور وہ غیرت خدا تعالیٰ نے اور کسی کے لئے نہیں دکھائی- مسیح کیا تھا؟ وہ موسوی سلسلہ کے نبیوں میں سے ایک نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو تو موسوی سلسلہ کے سب نبی مل کر بھی نہیں پہنچ سکتے- پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام کو تو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کے لئے آسمان پر اٹھا لیتا اور رسول کریم کو چھوڑ دیتا کہ لوگ ان پر پتھر برسا برسا کر زخمی اور لہولہان کریں اور سنگ باری کر کے آپ کے دندان مبارک توڑ دیں حتی کہ آپ بے ہوش ہو کر گر جائیں جیسا کہ احد کی جنگ کے موقع پر ہوا؟ بخدا ایسا نہیں ہو سکتا اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو آسمان پر اٹھانا ہوتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاتا اور اگر اس نے کسی کو صدیوں تک زندہ رکھنا ہوتا تو وہ آپ کو زندہ رکھتا- پس نادان ہیں وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کو خدا تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اب تک زندہ موجود ہیں کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ہے بلکہ مسیحیت کو اس سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں ہتک ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ظالم ہے کہ جو اعلیٰ سلوک کا مستحق تھا اس سے تو اس نے ادنیٰ سلوک کیا اور جو ادنیٰ سلوک کا مستحق تھا اس سے اس نے اعلیٰ سلوک کیا- اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ زمین پر بے بس تھا تبھی تو اس نے مسیح علیہ السلام کو بچانے کیلئے آسمان پر اٹھا لیا- حالانکہ اگر مسلمان غور کرتے تو یہ آسمان پر اٹھانے کا عقیدہ تو مسیحیوں نے اپنی نادانی سے گھڑا ہے کیونکہ محرف مبدل کتاب میں لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت ابھی زمین پر نہیں آئی- ۳~}~چنانچہ مسیحی لوگ اب تک دعائیں کیا کرتے ہیں- کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہو- لیکن اسلام تو اس عقیدہ کو کفر قرار دیتا ہے- وہ تو صاف الفاظ میں سکھاتا ہے کہ للہ ملکالسموت والارض ۴~}~آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی کے قبضہ میں ہے- پس اگر مسیحی یہ عقیدہ رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا تو وہ تو مجبور ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ کی رو سے زمین پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت نہ تھی اس وجہ سے ان کے نزدیک وہ زمین پر مسیح کی حفاظت کرنے سے بے بس ہوگا- مگر مسلمانوں کو کیا ہوا کہ مسیحیوں کی نقل میں انہوں نے بھی خواہمخواہ مسیح علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا دیا حالانکہ ان کے خدا کی بادشاہت تو جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہے- اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ یہودیوں سے ڈر کر اپنے نبی کو آسمان پر اٹھا لیتا- وہ اسی زمین میں اس کی حفاظت کر سکتا تھا اور اس کے دشمنوں کو تباہ کر سکتا تھا-
غرض جس قدر بھی غور کیا جائے حضرت مسیح کو آسمان پر زندہ ماننے میں خدا تعالیٰ کی بھی اور رسول کریم کی بھی ہتک ہے اور مسیحیت نے اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا ہے اور لاکھوں مسلمان اس عقیدہ کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر مسیحی ہو گئے ہیں- پس اب بھی وقت ہے کہ مسلمان کچھ جانیں اور خلاف اسلام اور خلاف عقل عقیدہ کو چھوڑ کر توبہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی سمجھائیں ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا جرم معمولی جرم نہیں- انہیں سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کو سپرد کرنی ہیں نہ کہ مولویوں کو- پس پیشتر اس کے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے چاہئے کہ سب مسلمان ایک زبان ہو کر اس گندے اور ہتک رسول کرنے والے عقیدہ کو اپنے دل سے نکال دیں تا کہ مسیحیت کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور مسیح کو مرنے دیں کہ اس کے مرنے کے ساتھ ہی مسیحیت کی موت اور اسلام کی حیات ہے- کیا کوئی درد مند انسان ہے جو اپنے علاقہ میں مسیحؑ کو مار کر اسلام کو زندہ کرے- یقیناً جو ایمان کی وجہ سے نہ کہ نیچریت کی وجہ سے ایسا کرے گا خداتعالیٰ کی رحمت کو پا لے گا اور خداتعالیٰ اسے اپنی مرضی کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے گا- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خاکسار میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
اگر آپ اسلام کا درد اور اپنی قوم کی خیر خواہی مدنظر رکھتے ہیں تو ہر مسلمان کہلانے والے کی ہمدردی کرنا اپنا فرض سمجھیں- جہاں تک ہو سکے مسلمان تاجروں سے مال خریدیں اور اپنی اولادوں کے دل میں خیال پیدا کریں کہ مسلمان بہادر ہوتا ہے- وہ کسی قوم کے فرد یا مجموعہ سے نہیں ڈرتا- خاکسار مرزا محمود احمد
‏gap] ga[t ۱~}~
الاحقاف : ۳۶
۲~}~ ال عمران: ۸۲

۳~}~
متی باب ۶ آیت ۹`۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۴~}~
الجاثیہ : ۲۸` التفح: ۱۵

‏ ]2 [rtf
‏a11.6
انوار العلوم جلد ۱۱
بعض اہم اور ضروری امور
بعض اہم اور ضروری امور

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
بعض اہم اور ضروری امور
)فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ(
تشہد ` تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے اول تو اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے پھر اس سنت کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی جو اس کے مامور اور مرسل نے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اشارہ سے جلسہ سالانہ کے رنگ میں قائم کی- اس کے بعد فرمایا-:
ہم چونکہ اس وقت اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے فیوض حاصل کریں اس لئے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں ہمارے لئے ماضی میں کیا پیدا کیا گیا جس کی حفاظت کرنا اور جسے ترقی دینا ہمارا فرض ہے یا جسے دور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے- کئی باتیں ایسی پیدا کی جاتی ہیں جن کا دور کرنا مومن کا فرض ہوتا ہے اور کئی ایسی ہوتی ہیں جن کا حاصل کرنا مومن کے فرائض میں داخل ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ابتلاء لاتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ کس طرح خدا تعالیٰ کے افعال پر غور و تدبر کرتے ہیں- اللہ تعالیٰ بڑا غیور ہے جہاں وہ کسی کا محتاج نہیں` وہاں اس میں غیرت بھی کمال درجہ کی ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے افعال سچے عاشق کی طرح دیکھتے ہیں یا نہیں- ایک سچے عاشق کی کیا حالت ہوتی ہے یہ کہ ہر وقت اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی حرکات دیکھتا رہے` اس کی ہر بات پر نگاہ رکھے اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے- پس سچے مومنوں کو خدا تعالیٰ کے افعال پر نگاہ رکھنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کن امور میں انہیں ہوشیار کرنا چاہتا ہے اور کن میں آگے بڑھانا چاہتا ہے-
ایک بہت بڑا ابتلاء
اس سال ہماری جماعت پر ایک بہت بڑا ابتلاء آیا- گذشتہ مارچ میں چند لوگوں نے جو جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے جب دیکھا کہ جماعت ان کا پیدا کردہ فتنہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے وہی طریق اختیار کیا جو فتنہ پرداز لوگ اپنی شرارت کو انتہا تک پہنچانے کے لئے اختیار کیا کرتے ہیں- یعنی ایسی تحریریں شائع کرنی شروع کر دیں جن سے اشتعال آئے اور جن کو دیکھ کر صبر سے کام لینا محال ہو جائے- مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے ہماری جماعت کو ایک سبق دیا اور بتایا کہ وہ مومن کو ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے- خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو یہ سکھانا چاہا کہ ایسے واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں جب انسان اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکتا لیکن ادھر شریعت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نفس کو قابو میں رکھا جائے- میں سمجھتا ہوں ان انتہا درجہ کی اشتعال انگیزیوں کے مقابلہ میں جو فتنہ پردازوں نے شرارت کو بڑھانے کے لئے کیں سوائے چند کوتاہیوں کے ہماری جماعت کے لوگوں نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور لاکھوں انسانوں کی جماعت میں سے چند کوتاہیاں اس جماعت کے اعلیٰ اخلاق اور ضبط نفس پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ کسی قسم کا اس پر حرف لاتی ہیں- ان حالات میں جس عمدگی سے جماعت نے کام کیا اس کی نظیر کا کسی اور جگہ ملنا محال ہے- ایک طرف جماعت کے لوگوں کی غیرت اور حمیت کا امتحان تھا اور دوسری طرف اپنے نفس پر قابو رکھنے کا- گویا دو آگیں تھیں جن میں وہ کھڑے تھے اور جہاں یہ دونوں آگیں جمع ہو جائیں وہاں عقلمند سے عقلمند انسانوں کی عقل بھی ماری جاتی ہے- مگر خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جماعت پوری طرح کامیاب ہوئی- اس نے غیرت بھی دکھائی اور اپنے نفس پر قابو بھی رکھا اور اگر کسی سے کچھ کوتاہی ہوئی تو ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ باقی جماعت کے صبر` تحمل اور استقلال کی وجہ سے اور شریعت اور اسلام کی تکریم کے طور پر اپنے نفس پر قابو رکھنے کی وجہ سے کوتاہی کرنے والوں کو معاف کر دے-
وفات کی جھوٹی خبر
ہماری جماعت کی ایک اور آزمائش جو خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے ذریعہ کی اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک رنگ میں آزمائش تھی اور ایک رنگ میں انعام- اب میں اس کا ذکر کرتا ہوں- مستریوں نے جو فتنہ پھیلایا اس کے متعلق قدرتی طور پر کبھی یہ خدشہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید جماعت کا ایک حصہ اپنے اندر کمزوری محسوس کرے کیونکہ دشمن جو روز بروز شرارت میں بڑھتا جاتا ہے شاید اس کو اندر سے مدد ملتی ہو- یہ انسانی کمزوری کے ماتحت میرے دل میں خیال پیدا ہوتا- اللہ تعالیٰ نے اسے دور کرنے کے لئے دشمن سے ہی ہتھیار چلوایا- فتنہ پرداز لوگ بڑے دعویٰ کے ساتھ یہ کہتے تھے کہ جماعت کے لوگ انہیں مخفی طور پر مدد دیتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے اسے غلط اور محض جھوٹ ثابت کرنے کیلئے ایسا ذریعہ پیدا کرایا اور دشمن کے ہاتھ سے ہی پیدا کرایا کہ اس کا وہ انکار نہ کر سکتا تھا- یہ وہ خبر تھی جو میری موت کی شائع کرائی گئی- اس خبر نے جماعت کے اخلاص اور محبت کے جذبات کو نکال کر باہر رکھ دیا اور اخلاص کی ایسی نمائش ہوئی جو دنیا میں پچھلے سالوں میں بہت کم ہوئی ہوگی- اس خبر کے پھیلانے پر دشمن نے معلوم کر لیا کہ وہ اپنی شرارت میں بالکل ناکام ہو چکا ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ جماعت کے کسی حصہ میں بھی اخلاص کی کوئی کمی نہیں ہوئی- مجھے اس وقت تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں- اس خبر کے شائع ہونے پر جو خطوط آئے اور ہم نے جماعت کے لوگوں کی جو حالت دیکھی اس کی تفسیر الفاظ میں ممکن نہیں اس سے ظاہر ہو گیا کہ جماعت میں جو اخلاص ہے وہ ہمارے اندازہ سے باہر ہے- بہت سے خطوط ایسے آئے جن میں جماعت کے معزز افراد نے لکھا کہ اس خبر کے سنتے ہی انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ملازمتیں چھوڑ کر بقیہ عمر دین کی خدمت میں صرف کریں گے- یہ انتہائی قربانی تھی اور صحیح قربانی تھی- جس کا ارادہ کیا گیا-
انتخاب خلافت سب سے بڑی آزمائش ہے
جہاں خدا تعالیٰ نے جماعت کو اخلاص کے اظہار کا موقع دیا وہاں یہ بھی بتا دیا کہ انسان آخر انسان ہی ہے خواہ وہ کوئی ہو اور ایک نہ ایک دن اسے اپنے مخلصین سے جدا ہونا پڑتا ہے- اس بات کا احساس بھی خدا تعالیٰ نے جماعت کو کرا دیا- اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ خلیفہ سے جماعت کو جو تعلق ہے وہ جماعت ہی کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے اور جو بھی خلیفہ ہو اس سے تعلق ضروری ہے- یاد رکھو! اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہو جماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہو جائے گی- انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں- یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا- ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جا گرتا ہے- غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچاننی چاہئے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر شرمناک حملہ
پچھلے دنوں ایک شرمناک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں اس کا باعث وہی چند نادان منافق ہیں جو فتنہ پردازی میں حصہ لے رہے ہیں اور جس طرح جماعت کے مخلصین کا اخلاص ظاہر ہوا اسی طرح بعض منافقین کی منافقت ظاہر ہو گئی- اور تو اور اس قسم کے بھی سنگ دل معلوم ہوئے کہ قاضی محمد علی صاحب کا پیغام آیا ایک شخص مجھے کہتا رہا تم کیوں یہ نہیں کہہ دیتے کہ سازش کر کے مجھ سے قتل کرایا گیا ہے- ایسے ہی کچھ لوگ تھے جو مستریوں کے فتنہ کا ذکر کر کے کہتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیوں ایسے الزام نہ لگائے جاتے تھے- اب کوئی بات ہوگی تبھی الزام لگاتے ہیں- میں سمجھتا ہوں یہ رسالہ جس کا نام تائید اسلام رکھا گیا ہے لیکن دراصل بدترین کفری رسالہ ہے ایسے ہی لوگ اس کی اشاعت کا موجب ہوئے ہیں- اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کی ذات پر ایسے گندے اتہام لگائے گئے ہیں جیسے مستری مجھ پر لگاتے تھے-
میں وہ الفاظ نہیں پڑھ سکتا میں نے گھر پر ان کے پڑھنے کی کوشش کی- مگر نہ پڑھ سکا- چند سطور پڑھ کر چھوڑ دینے پر مجبور ہوا- بہرحال وہ ویسے ہی اعتراضات ہیں جیسے مجھ پر کئے گئے اور میں سمجھتا ہوں ہر گناہ کے نتیجہ میں گند نکلتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دشمن اس قسم کے اعتراضات کیا کرتے تھے- مگر مومن کا کام یہ ہے کہ ایسی باتوں کو پرے پھینک دے اس لئے ہم نے ان کو پھینک دیا- مگر بعد میں آنے والے چند نادانوں نے کہا ان کو کیوں پھینکا گیا- ہم نے ایسی باتوں کو اس لئے پرے پھینک دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے- لا نبقی لک من المخزیات ذکرا۱~}~ پس ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم لعنتوں کو جمع کرتے رہیں- یہ لعنتیوں کا کام ہے- ہمارا کام یہ ہے کہ ہم رحمتوں کو چنیں-
خدا تعالیٰ کی گرفت
جہاں ہماری غیرت یہ نہیں چاہتی کہ ہم ایسی باتوں پر طوالت سے بحث کریں وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پوری طرح ایسی باتوں کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار کر دیں- اس قسم کے اعتراضات کرنے والوں سے کہہ دیں کہ تم اپنی بہو بیٹیوں اور بیویوں کی فہرست بنا لو- میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ ہر ایک چیز حتیٰ کہ خلافت کو بھی پیش کر کے کہہ دوں کہ اگر ان میں وہی باتیں نہ پیدا ہو جائیں جن کا جھوٹا الزام ہم پر لگاتے ہیں تو ہم جھوٹے- یہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کی گرفت ہے جو پوری ہو کر رہے گی اور خدا تعالیٰ کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے- شیعوں کو دیکھ لو جتنی کنچنیاں ہوتی ہیں ان میں سے اکثر شیعہ کہلاتی ہیں- شیعوں نے خدا تعالیٰ کے پاک بندوں پر بعض اعتراضات کئے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزار سال سے اس قسم کے عیب ان میں پیدا ہو گئے-
گورنمنٹ سے مطالبہ
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ضرور بدلہ لیتا ہے اور اب بھی ضرور لے گا- مگر موجودہ گورنمنٹ نے جب یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ مذہبی پیشوائوں پر ناپاک حملے کرنے والوں کی گرفت کی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم گورنمنٹ سے اس قانون کے استعمال کرنے کا مطالبہ نہ کریں- جس حق کو گورنمنٹ خود تسلیم کرتی ہے ہمارا حق ہے کہ ہم اس کا مطالبہ کریں- میں امید کرتا ہوں کہ ساری جماعت اس بات پر متفق ہوگی کہ گورنمنٹ سے مطالبہ کیا جائے کہ اس قانون سے کام لے یا پھر اس قانون کو منسوخ کر دے- جب تک یہ قانون موجود ہے اس وقت تک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جماعت احمدیہ کے امام کو دوسرے فرقوں کے پیشوائوں سے کم درجہ دے-
اب میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی طرف سے گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے- ہم اپنے لئے کوئی خاص رعایت نہیں چاہتے- گورنمنٹ یا تو اس قانون کو منسوخ کر دے یا پھر اسی طرح ہمارے لئے اس کا اجرا کرے جس طرح اوروں کے مذہبی پیشوائوں کے متعلق کرتی ہے-
تازہ تصانیف
اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو کتابیں نہایت اعلیٰ پایہ کی تصنیف ہو چکی ہیں- ان کے مسودات کے بعض حصے میرے سامنے پیش ہو چکے ہیں- ان میں سے ایک تو رسول کریم ~صل۲~ کی سیرت پر ہے جو میاں بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے اور سیرت کی موجودہ کتابوں میں سے سب سے بہتر کتاب ہے- اس کے ذریعہ اسلام کی خدمت میں بہت آسانی پیدا ہو جائے گی- انشاء اللہ
دوسری کتاب ایک مخالف سلسلہ کی کتاب >عشرہ کاملہ< کا جواب ہے- جو مولوی اللہ دتا صاحب کو تبلیغ کے کام سے فارغ کر کے لکھائی گئی ہے- اس کا نام میں نے ہی >تفہیمات ربانیہ< رکھا ہے- اس کا ایک حصہ میں نے پڑھا ہے جو بہت اچھا تھا- اس کتاب کے لئے کئی سال سے مطالبہ ہو رہا تھا- کئی دوستوں نے بتایا کہ >عشرہ کاملہ< میں ایسا مواد ہے کہ جس کا جواب ضروری ہے- اب خدا کے فضل سے اس کے جواب میں اعلیٰ لٹریچر تیار ہوا ہے- دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کی اشاعت کرنی چاہئے-
تفسیر القرآن
گذشتہ جلسہ سالانہ پر ایک چیز کا میں نے وعدہ کیا تھا اور وہ قرآن کریم کی اردو تفسیر تھی- یہ تفسیر چار سو صفحہ تک چھپ چکی ہے اور اس سے زیادہ کا مسودہ تیار ہو چکا ہے- یہ درس کے نوٹ ہیں اور چونکہ نظر ثانی کرتے وقت مجھے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے اس کی اشاعت میں دیر ہو گئی اور جولائی کے بعد اور اہم وقتی کاموں کی وجہ سے میں یہ کام نہ کر سکا- میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے صحت اور توفیق بخشی تو چند ماہ تک یہ کتاب تیار ہو جائے گی-
انگریزی ترجمہ قرآن کی نظر ثانی بھی بہت کچھ ہو چکی ہے- تھوڑا سا حصہ باقی ہے وہ مارچ تک امید ہے ختم ہو جائے گا-
غیر مبائعین کی کذب بیانی
اس کے بعد حضور نے غیر مبائعین کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ جھوٹ اور غلط بیانی میں کس طرح حد سے گذر چکے ہیں- اور اس بات پر اظہار تعجب و افسوس فرمایا کہ ایسے ایسے جھوٹ دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں کیوں درد نہیں پیدا ہوتا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تعلیم دی کہ کسی حالت میں خفیف سے خفیف جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئے- حضور نے ان لوگوں کے حد سے بڑھے ہوئے جھوٹ کی مثال میں ۳۰- ستمبر کے پیغام کا ایک مضمون پڑھ کر سنایا- جس میں لکھا ہے کہ خلیفہ قادیان کو اپنے بعد کی خلافت کی فکر ابھی سے دامن گیر ہے اور اس منصب جلیلہ کے لئے اپنے لخت جگر میاں ناصر احمد کے نام قرعہ فال نکالا ہے- اس انتخاب کے بعد ولی عہد خلافت پرنس آف ویلز کی طرح دورہ پر نکلے- تمام قادیانی جماعتوں کو اپنے دیدارفیض آثار سے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور عطا فرمایا- ہدیے` نظرانے اور تحائف وصول کر کے کامیابی سے قادیان واپس تشریف فرما ہوئے- اس کامیاب دورہ کا اندازہ لگانے کے بعد کہ مریدوں نے میاں ناصر کو سر آنکھوں پر قبول کیا- اخباروں` پوسٹروں` اشتہاروں اور خطوط وغیرہ کی پیشانیوں کو ھوالناصر کے فقرہ سے مزین کیا جانے لگا اور یوں ایک رنگ میں اعلان کیا گیا کہ ہونے والا خلیفہ ناصر میاں ہے- تمام حاضرین نے *** اللہ علیالکاذبین کہتے ہوئے شہادت دی کہ میاں ناصر احمد صاحب نے کوئی دورہ نہیں کیا- حضور نے وضاحت کے ساتھ پیغام کے اس مضمون کی تردید کی اور بتایا کہ میاں ناصر احمد کو خلافت کے لئے دورہ کرانے کا الزام لگانے والے دیکھیں- میں تو وہ ہوں جس نے ۱۹۲۴ء کی مجلسمشاورت میں یہ بات پیش کی تھی کہ کوئی خلیفہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنا جانشین نہیں مقرر کر سکتا- چنانچہ میں نے پیش کیا تھا کہ-
>کوئی خلیفہ اپنے بعد اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی یا بہنوئی یا داماد کو یا اپنے باپ یا بیٹوں یا بیٹیوں یا ¶بھائیوں کے اوپر یا نیچے کی طرف کے رشتہ داروں کو اپنا جانشین مقرر نہیں کر سکتا- نہ کسی خلیفہ کی زندگی میں مجلس شوریٰ اس کے کسی مذکورہ بالا رشتہ دار کو اس کا جانشیں مقرر کر سکتی ہے- نہ کسی خلیفہ کے لئے جائز ہوگا کہ وہ وضاحتا یا اشارتا اپنے کسی ایسے مذکورہ بالا رشتہ دار کی نسبت تحریک کرے کہ اس کو جانشین مقرر کیا جائے- اگر کوئی خلیفہ مذکورہ بالا اصول کے خلاف جانشین مقرر کرے تو وہ جائز نہ سمجھا جائے گا اور مجلس شوریٰ کا فرض ہوگا کہ خلیفہ کی وفات پر آزادنہ طور سے خلیفہ حسب قداعد تجویز کرے اور پہلا انتخاب یا نامزدگی چونکہ ناجائز تھی` وہ مسترد سمجھی جائے گی<-۲~}~
اب دیکھو غیر مبائعین کی طرف سے یہ الزام اس شخص پر لگایا جاتا ہے جس نے خلافت کے متعلق پیش بندیاں پہلے سے ہی کر دی ہیں تا کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کر سکے اور اگر کرے تو اسے مسترد کر دیا جائے-
تبلیغی اشتہارات
میں نے پچھلے سال تبلیغی اشتہارات شائع کرنے کا اعلان کیا تھا- ایک اشتہار شائع بھی کیا گیا- اس کے بعد یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کس قسم کے اشتہار ہوں التواء کیا گیا- اسی دوران میں سیاسی تحریکات ملک میں بڑے زور سے پیدا ہو گئیں اور لوگ سیاسیات میں منہمک ہو گئے- خیال تھا کہ یہ تحریکات جلد ختم ہو جائیں گی مگر یہ لمبی ہوتی چلی گئی ہیں- اب ارادہ ہے کہ اشتہارات کا سلسلہ شروع کر دیا جائے- وہ لوگ اپنا راگ گاتے ہیں تو ہم بھی اپنا راگ گائیں-
سیاسیات میں دخل
جہاں تک ممکن ہو ہم سیاسیات سے الگ رہتے ہیں لیکن اس سال سیاسی حالات میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا اور ایسی باتیں رونما ہوئیں جو دین پر اثر انداز ہو سکتی ہیں- ان کی وجہ سے ہم خاموش نہیں رہ سکتے تھے- ہندوستان کے حالات ایسے ہیں کہ اگر ہندوستان والوں کو بغیر حد بندی کے ملکی اختیارات مل گئے تو وہ سب سے پہلے ہم پر ہی ہاتھ صاف کریں گے- اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسی قیود اور پابندیوں کا مطالبہ کریں جو ملک کے امن کو برباد نہ ہونے دیں- اس وجہ سے ہمیں ان معاملات میں دخل دینا پڑا اور ظاہر ہے کہ یہ دخل سیاسی لحاظ سے نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے ہے- اگر ہندو اس قسم کے قوانین نافذ کر دیں جن کی وجہ سے دین کی اشاعت بند ہو جائے جیسا کہ ہندو ریاستوں میں اب بھی اس قسم کی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے مسلمان ہونے والوں کو روکا جاتا ہے تو ہم ہندوستان کے لئے اس قسم کے قانون کس طرح برداشت کر سکتے ہیں اور ہمارا کس طرح گزارہ ہو سکتا ہے- جب کہ ہمارا اوڑھنا` بچھونا` جینا` مرنا دین ہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم کوشش کریں کہ دین کی اشاعت میں رکاوٹ پیدا کرنے والی کوئی بات نہ ہو- اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی سیاسی تحریک کا دین بااخلاق پر اثر پڑتا ہے تب ہم دخل دیتے ہیں- جیسے کل گورنر صاحب پر حملہ کے خلاف ہماری طرف سے اظہار نفرت کیا گیا-
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں سیاسیات میں بھی ایسی ہی برتری عطا کی ہے جیسی دوسرے امور میں- اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے- ہماری اپنی قابلیتوں کا اس میں کوئی دخل نہیں- اب بیسیوں بڑے بڑے سیاست دان یورپ اور ہندوستان کے لوگوں کی تحریریں موجود ہیں جن میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہم نے ہندوستان کے نظم و نسق کے متعلق جو رائے پیش کی ہے وہ بہت صائب ہے- اس قسم کی تحریروں میں سے کچھ سائمن رپورٹ پر تبصرہ کے اردو ایڈیشن میں شائع کر دی گئی ہیں اور بہت سی باقی ہیں جو بعد میں آئی ہیں- غرض خدا تعالیٰ نے اس طرح بھی ہماری برتری تسلیم کرا دی ہے- اس پر ہمیں کوئی فخر نہیں- ہم تو خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جب ہماری خدمت کے اچھے نتائج نکلیں تو اس کا اچھا اثر ضرور اہل ملک پر ہوگا- ہم تو اقلیت میں ہیں حکومت دوسری قومیں ہی کریں گی مگر باوجود اس کے ہم جو اتنی محنت اور مشقت برداشت کرتے اور روپیہ صرف کر رہے ہیں کیا اس سے شرفاء پر یہ اثر نہ ہوگا کہ ہم میں اتنی تڑپ کیوں ہے- ضرور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ملک اور اہل ملک کی خدمت کی یہ تڑپ حضرت مرزا صاحب نے ہی پیدا کی ہے- اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب اور عزت لوگوں میں بڑھے گی اور اس طرح آپس کا بعد دور ہوتا جائے گا- باقی جو دلائل کا کام ہے وہ کریں گے-
کتاب ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل
میری کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< اردو` انگریزی میں شائع ہو چکی ہے- اس کے لئے کچھ چندہ کیا گیا تھا مگر خرچ اندازہ سے زیادہ ہو گیا ہے- اس لئے کچھ قرضہ باقی ہے اسے جلد ادا کرنا ضروری ہے- اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب فروخت ہو جائے- میں احباب سے خواہش کرتا ہوں کہ شہروں میں رہنے والے اصحاب انگریزی ایڈیشن کے کئی کئی نسخے خرید لیں اور انگریزی خوانوں میں فروخت کریں اسی طرح اردو ایڈیشن کی اشاعت بھی کی جائے- مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ کتاب کثر ت سے شائع ہو مگر مفت نہیں بلکہ فروخت کی جائے یہ کتاب علیحدہ خرچ سے چھپوا کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رکھوا دی گئی ہے تا کہ اس کی آمد سے قرضہ ادا ہو سکے اور صدر انجمن احمدیہ پر بوجھ نہ پڑے-
انگریزی اخبار سن رائز
اسی سال میں نے اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی اخبار سن رائز کو ہفتہ وار کر دیا ہے- عام طور پر میری عادت ہے کہ میں مجلس شوریٰ کے مشورہ کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرتا لیکن حالات فوری طور پر ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ سن رائز کو ہفتہ وار کرنا پڑا- میں احباب سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اس کی اشاعت بڑھانے کے لئے کوشش کریں- اس کے ایڈیٹر ملک غلام فرید صاحب ہیں تو نوجوان مگر ان میں کام کرنیکی قابلیت ہے- اگر احباب مدد کریں تو صحیح سیاسی خیالات پھیلانے میں مفید کام کر سکتے ہیں-
مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریروں کا جواب
اس سال جب میں شملہ جانے لگا تو مجھے معلوم ہوا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے بالمقابل تفسیر نویسی کے متعلق ایک مضمون شائع کیا ہے- روانگی کے وقت وہ مضمون مجھے ملا- شملہ میں چونکہ اور بہت کام تھا اس لئے میں اس مضمون کی طرف توجہ نہ کر سکا- دوسرے یہ بھی خیال تھا کہ پہلے حوالے دیکھ کر جواب لکھوں- آخر میں نے میاں غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل سے حوالے منگوائے لیکن اتنے میں ولایت سے خطوط آئے کہ جس طرح نہرو رپورٹ پر تبصرہ کیا گیا تھا اسی طرح اگر سائمن رپورٹ پر بھی تبصرہ لکھا جائے تو بہت مفید ہو سکتا ہے- اس پر میں نے فیصلہ کیا کہ سائمن رپورٹ پر بھی تبصرہ لکھوں اور اس کے بعد مولویثناء اللہ صاحب کی تحریروں کا جواب لکھوں گا کیونکہ اگر پہلے ان کا جواب لکھا گیا اور مولویصاحب کو معلوم ہو گیا کہ میں سائمن رپورٹ پر تبصرہ لکھنے میں مصروف ہوں تو وہ کہیں گے ابھی آئو اور قرآن کی تفسیر لکھو- اس لئے اس وقت انہیں جواب دوں گا جب فرصت ہوگی کیونکہ دیکھا گیا ہے مولوی ایسے موقع کی تاک میں رہتے ہیں جب کہ انہیں مقابلہ سے بچنے کے لئے کوئی بہانہ مل سکے- مثلاً جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا کہ انہیں مباحثات سے روکا گیا ہے تو مولویوں نے جھٹ اعلان کر دیا آئو اب مباحثہ کر لو- اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر مباحثہ کرنے پر آمادہ ہو گئے تو کہہ دیں گے انہوں نے الہی ہدایات کے خلاف کیا اور اگر آمادہ نہ ہوئے تو کہہ دیں گے جھوٹے ہیں اس لئے مباحثہ نہیں کرتے-
اس وجہ سے میں نے خیال کیا کہ جب مجھے فرصت ہوگی` اسی وقت مولوی صاحب کو مخاطب کروں گا اس وقت تک جس قدر چاہیں ہنسی اڑا لیں- غرض میں نے سائمن رپورٹ کے متعلق کتاب لکھنی شروع کر دی اس کے بعد رائونڈٹیبل کانفرنس کا کام شروع ہو گیا- جس کے متعلق ہندوستان میں اور باہر بہت کچھ کرنا پڑا- اس وجہ سے بہت سی ڈاک بھی جمع ہو گئی اور شکایات آنی شروع ہو گئیں کہ خطوط کے جواب نہیں آتے- پس اس کام سے فارغ ہو کر ڈاک کی طرف زیادہ توجہ کرنی پڑی- ۱۵- دسمبر کو مجھے ڈاک اور دوسرے کاموں سے فراغت ہوئی- اس وقت میں نے خیال کیا کہ اگر اب جواب دوں تو مولوی صاحب جلسہ سالانہ کی تاریخوں میں کہیں گے تفسیر لکھو اس لئے یہی مناسب ہے کہ جلسہ سالانہ پر ان کے متعلق اعلان کروں- اس کے بعد جو وقت بھی وہ تفسیر نویسی کے لئے مقرر کریں گے ہم اسے انشاء اللہ منظور کر لیں گے-
اوپر کی وجہ کے علاوہ میں دسمبر میں بیمار بھی رہا- اور ناف کے قریب پھوڑا ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک بیٹھ کر نہ لکھ سکتا تھا- اب میں اصل بحث کو لیتا ہوں- ۷- مارچ ۱۹۳۰ء کے الفضل میں میرا ایک مکالمہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب سے جو بڑے سیاح تھے اور انہوں نے دنیا کے بڑے حصہ کا چکر لگایا تھا شائع ہوا- آخر انہوں نے بیعت کر لی اور حیدر آباد میں جا کر فوت ہو گئے- انہوں نے مجھ سے کئی سوالات کئے تھے جن کے میں نے جواب دیئے- اسی سلسلہ میں انہوں نے پوچھا- کیا علماء اندھے ہیں جو ایسے واضح دلائل کو نہیں مانتے اس کے جواب میں میں نے انہیں جو کچھ کہا- وہ الفضل ۷- مارچ ۱۹۳۰ء میں ان الفاظ میں شائع ہوا ہے-
>اس زمانہ کے علماء کو شرمن تحت ادیم السماء ۳~}~یعنی بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے اور دراصل کسی آنے والے کی ضرورت بھی اسی وقت ہوتی ہے جب علماء بگڑ جائیں- جب تک یہودی علماء میں علم باقی تھا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرتے تھے رسول کریم ~صل۲~ نہ آئے- اللہہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے آنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ علماء کی حالت بگڑ جاتی ہے- حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان علماء کو چیلنج دیا کہ میرے مقابل میں آ کر تفسیر لکھو- اگر ان علماء میں علم ہوتا تو وہ اسے قبول کیوں نہ کرتے- پھر حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے فرمایا ہے- یہ تفسیر قرآن کا کام میرا ہے یا اس کا جو مجھ سے ہو اور اس طرح یہ دروازہ اپنی جماعت کیلئے بھی کھلا رکھا- اب میں نے بھی کئی بار چیلنج دیا ہے کہ قرعہ ڈال کر کوئی مقام نکال لو- اگر یہ نہیں تو جس مقام پر تم کو زیادہ عبور ہو بلکہ یہاں تک کہ تم کو ایک مقام پر جتنا عرصہ چاہو غور کر لو اور مجھے وہ نہ بتائو- پھر میرے مقابل میں آ کر اس کی تفسیر لکھو- دنیا فوراً دیکھ لے گی کہ علوم کے دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا ان پر- مگر کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ سامنے آئے<
الفضل میں اس مکالمہ کے شائع ہونے پر غالباً بعض لوگوں کی تحریک پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا-
>پہلے بھی خلیفہ قادیان نے دیو بندیوں کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ تعلیمی حیثیت سے ہم بھی دیو بندی ہیں- پس ایک سادہ قرآن شریف لے کر بٹالہ کی جامع مسجد میں آکر بالمقابل تفسیر لکھئے- جس کے جواب میں آج تک ہاں نہ پہنچی بلکہ انکار کر گئے- گذشتہ را صلوۃ اب سہی- ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں- صرف یہ کہ سادہ قرآن اور کاغذ قلم دوات لیکر الگ الگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہوگا اور تفسیر اور معارف کیلئے ضروری ہو گا کہ علوم عربیہ کے ماتحت ہوں` بس<۴~}~
اس تحریر سے یہ امور ثابت ہوتے ہیں- اول یہ کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے تفسیرنویسی کے متعلق میرا وہ چیلنج منظور کر لیا تھا جو میں نے دیو بندیوں کو دیا تھا- دوم یہ کہ باوجود ان کے قبول کر لینے کے میری طرف سے ہاں نہ پہنچی بلکہ انکار کر دیا-
پہلی بات کہ مولوی صاحب نے چیلنج منظور کر لیا تھا- خود ان کی اپنی بات سے رد ہو جاتی ہے- وہ چیلنج منظور نہیں کرتے بلکہ ایک نیا چیلنج دیتے ہیں- چنانچہ باوجود یہ لکھنے کے کہ ان کی طرف سے کوئی شرط نہیں پھر شرطیں پیش کرتے ہیں حالانکہ شرطیں پیش کرنے کا حق چیلنج دینے والے کا ہوتا ہے چیلنج منظور کرنے والے کا نہیں ہوتا- چیلنج منظور کرنے والا یہ تو کہہ سکتا ہے کہ جو شرائط پیش کی گئی ہیں وہ معقول نہیں غلط ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی طرف سے یہ شرطیں پیش کرتا ہوں- مولوی صاحب کا کام یہ تھا کہ میرے چیلنج میں جو شرائط تھیں ان میں سے جنہیں درست سمجھتے ان کے متعلق اعلان کر دیتے کہ انہیں منظور کرتا ہوں اور جنہیں درست نہ سمجھتے ان کے متعلق ثابت کرتے کہ یہ معقول نہیں- نہ کہ خود شرائط پیش کرنا شروع کر دیتے- یا انہیں یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ جس رنگ میں میں نے چیلنج دیا ہے وہ خدا کی طرف سے موید ہونے کا ثبوت نہیں بن سکتا- پھر وہ خود اپنی طرف سے چیلنج دیتے اور شرائط پیش کرتے- اس پر یا تو میں ان کی شرائط کو غلط ثابت کرتا یا ان کے چیلنج کو قبول کر لیتا- مگر وہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے میرا چیلنج منظور کر لیا اور دوسری طرف اپنی شرائط پیش کر رہے ہیں-
یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی کہ یہاں کے ایک سادہ مزاج شخص نے جس کا عرف میاں بگا تھا حضرت خلیفہ المسیح الاول کے حضور میں کی تھی- اس نے ایک دن حضرت خلیفہ اول سے آ کر کہا کہ میری شادی خلیفہ اول کا بہت کچھ انتظام ہو گیا ہے تھوڑی سی بات ہے وہ آپ کر دیں- حضرت خلیفہ اول نے پوچھا کیا انتظام ہوا ہے؟ کہنے لگا میں اور میری ماں اس امر پر راضی ہو گئے ہیں کہ میرا نکاح ہو جائے اب آپ صرف کسی لڑکی اور روپیہ کا انتظام کر دیں-
مولوی ثناء اللہ صاحب کی منظوری بھی ایسی ہی ہے- وہ کہتے ہیں میں نے چیلنج منظور کر لیا مگر میری طرف سے یہ یہ شرط ہے- اس کی بجائے یہی کیوں نہ کہہ دیا کہ چیلنج منظور ہے مگر شرط یہ ہے کہ مقابلہ نہ ہو- جن امور کو وہ پیش کرتے ہیں ان کے متعلق وہ یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ تمہارا چیلنج مجھے منظور ہے مگر تم بھی میرا ایک چیلنج منظور کرو- جس کی یہ یہ شرائط ہیں-
مولوی صاحب نے یہ جو کہا ہے کہ ان کو جواب نہ دیا گیا تھا اور ہماری طرف سے خاموشی رہی یہ بھی درست نہیں- ان کو جواب دیا گیا تھا- چنانچہ ۲۷- اکتوبر ۱۹۲۵ء کے الفضل میں میری منظوری سے ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں یہ فقرے درج ہیں-
>حسب ارشاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ حضور کی طرف سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اگرچہ آپ نہ دیوبندی ہیں اور نہ دیو بندیوں نے آپ کو اپنا وکیل اور قائم مقام تسلیم کیا ہے تا ہم جیسا کہ الفضل مورخہ ۱۰- ستمبر ۱۹۲۵ء میں دیو بندیوں کے مقابلہ پر نہ آنے کی صورت میں آپ کو اجازت دی گئی ہے- اگر آپ تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ان دو صورتوں میں سے جو الفضل نے پیش کی ہیں- جو صورت چاہیں اختیار فرما لیں- حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو دونوں صورتیں منظور ہیں<-
پہلی صورت الفضل نے اپنے پرچہ ۱۰- ستمبر ۱۹۲۵ء میں یہ پیش کی ہے کہ چونکہ مولویثنائاللہ صاحب نے اپنے اخبار اہلحدیث ۲۱- اگست ۱۹۲۵ء میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفہالمسیحالثانی نہ علوم ظاہری کے عالم ہیں اور نہ کسی باطنی درجہ کے مدعی ہیں اس لئے انہیں اختیار ہوگا کہ اپنا شبہ دور کرنے کے لئے وہ بالمشافہ تفسیر نویسی کرنا چاہتے ہوں تو قادیان تشریف لے آئیں- ان کے تمام اخراجات مناسب ہم ادا کریں گے اور اگر کسی قسم کی جانی یا مالی حفاظت کی ذمہ داری بھی وہ ہم پر عائد کریں گے تو اس کے لئے بھی ہم تیار ہوں گے- یہ صورت حضرت خلیفہ المسیح منظور فرماتے ہیں-
دوسری صورت الفضل نے یہ پیش کی تھی کہ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان تشریف نہ لانا چاہیں تو مناسب انتظام کے ساتھ قرعہ اندازی ہونے کے بعد وہ اپنی جگہ قرآنشریف کے ان تین رکوع کی تفسیر لکھیں جو قرعہ اندازی سے منتخب ہونگے اور حضرتخلیفہ المسیح اپنی جگہ انہی منتخب شدہ تین رکوع کی تفسیر لکھیں اور پھر یہ دونوں تفسیریں مساوی خرچ کے ساتھ یکجا کر کے شائع کی جائیں تا کہ دنیا دیکھ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان نے کیا- قرعہ اندازی ایسے طریق سے ہوگی کہ کسی فریق کو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو اور مقام قرعہ اندازی امرتسر ہی ہوگا- اس دوسری صورت پر بھی حضرت خلیفہ المسیح کو کوئی اعتراض نہیں<- ][ یہ ہے حقیقت مولوی صاحب کے دوسرے دعویٰ کی کہ ہم نے ان کی منظوری کے بعد خاموشی اختیار کی بلکہ انکار- کیا صاف انکار ہے؟ انکار اسی کو کہتے ہیں کہ ہم نے کہا مولویصاحب کے اخراجات بھی ہم ادا کریں گے` جلسہ کا انتظام بھی ہم کریں گے` ان کی جانی اور مالی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم لیں گے- یہ ہے وہ انکار جو چودھویں صدی کے وارث انبیاء بننے کے دعویدار نے ہمارے متعلق بیان کیا ہے- جس کے متعلق اس زمانہ کے حمقاء بھی کہیں گے کہ اس سے ہماری مثال نہ دو-
میرا اصل چیلنج جو اس وقت دیا گیا تھا اور جو اب بھی قائم ہے ۱۶- جولائی ۱۹۲۵ء کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے-
>غیر احمدی علماء مل کر قرآن کریم کے وہ معارف روحانیہ بیان کریں جو پہلی کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی- پھر میں ان کے مقابلہ پر کم سے کم دگنے معارف قرآنیہ بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھے ہیں- اور ان مولویوں کو تو کیا سوجھنے تھے پہلے مفسرین و مصنفین نے بھی نہیں لکھے اگر میں کم سے کم دگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں- طریق فیصلہ یہ ہوگا کہ مولوی صاحبان معارف قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اس کے بعد میں اس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی- اس مدت میں جس قدر باتیں ان کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں ان کو میں پیش کروں گا- اگر ثالث فیصلہ دیں کہ وہ باتیں واقعہ میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ ان کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارف قرآنیہ ہوں جو پہلی کتب میں پائے نہیں جاتے- اس کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارف قرآنیہ حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی کتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنف اسلامی نے نہیں لکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ ان کی جرح کا منصف تسلیم کریں اس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ ان کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ آیا میرے بیان کردہ معارف قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود علیہالسلام کی تحریرات سے لئے گئے ہونگے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہونگے- ان علماء کے ان معارف قرآنیہ سے کم از کم دگنے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں- اگر میں ایسے دگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں- لیکن اگر مولوی صاحبان اس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا- یہ ضروری ہوگا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معاً بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھج دے- مولوی صاحبان کو میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دگنی چوگنی قیمت کا وی- پی میرے نام کر دیں- اگر مولوی صاحب اس طریق فیصلہ کو ناپسند کریں اور اس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے<-
یہ وہ چیلنج ہے جو دیو بندی مولویوں کو دیا گیا تھا جس کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا تھا کہ میں بھی دیو بند کا پڑھا ہوا ہوں- میں اسے منظور کرتا ہوں لیکن کہتے ہیں سادہ قرآن اور کاغذ قلم دوات لیکر الگ الگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہوگا- میں کہتا ہوں ترجمہ یا بے ترجمہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں- معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب کی عقل میں اتنی کمی آ گئی ہے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے میرے متعدد مضامین اور کتابیں پڑھی ہونگی- مخالفین پر میری تحریروں کا رعب بھی جانتے ہیں- مگر خیال کرتے ہیں کہ جب میرے ہاتھ میں بے ترجمہ قرآن آیا تو بس میں ان کے مقابلہ میں رہ جائوں گا- گویا جو کچھ میری طرف سے شائع ہوتا ہے وہ مولوی صاحب لکھ کر مجھے بھیج دیا کرتے ہیں اور میں اپنی طرف سے اسے شائع کر دیتا ہوں-
مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے میری طرف سے یہ چیلنج نہیں کہ میں بڑا عالم ہوں- اگر کوئی یہ دعویٰ کرے تو اس کے لئے ایسی بات پیش کر دینا جو اس کی ذاتی قابلیت کی نفی کرتی ہو اس کے دعویٰ کو رد کر سکتی ہے- مگر جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز پیش کرے جس میں خدا تعالیٰ کی تائید شامل ہو- میں نے یہ چیلنج نہیں دیا کہ میں مولوی نذیر احمد صاحب سے اچھا قرآن کا اردو ترجمہ کرونگا- اس ترجمہ کیلئے اردو کی ڈکشنریاں اور کتابیں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے- مگر میں نے اردو میں ترجمہ کرنے کا چیلنج نہیں دیا- پھر میں نے یہ چیلنج ساری دنیا کو دیا ہے- اگر ترجمہ کرنے کا ہی مقابلہ ہو تو میں چینی زبان جاننے والوں سے چینی میں ترجمہ کرنے کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہوں- فارسی جاننے والوں سے فارسی میں ترجمہ کرنے کا کیونکر مقابلہ کر سکتا ہوں` علیھذالقیاس دوسری زبانوں میں کس طرح ترجمے کر سکتا ہوں-
غرض میں نے ترجمہ کرنے کا چیلنج نہیں دیا اور نہ ترجمہ کر لینے سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہے- مولوی نذیر احمد صاحب کا اگر اردو ترجمہ اچھا ثابت ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کی طرف سے تھے بلکہ یہ کہ وہ اچھے اردودان تھے- صرف بلاترجمہ قرآن کی شرط لگانے سے مولوی صاحب کی یہ غرض ہوگی کہ میں تفسیروں اور دوسری کتابوں سے عبارتیں نہ نقل کر لوں- مگر یہ کتابیں تو ان کے پاس بھی ہوں گی- اگر میں ان میں سے لکھ سکوں گا تو وہ بھی ایسی کتابیں لا سکتے ہیں وہ ان کتابوں سے کیوں نہ لکھ سکیں گے لیکن اگر ان کے پاس ایسی کتابیں نہ ہوں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جو کتاب وہ دیکھنا چاہیں گے` ہم انہیں دکھا دیں گے-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ تفسیروں وغیرہ کے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے- زیر بحث یہ امر تھا کہ تفسیر لکھنے والے کی تفسیر میں کچھ ایسے معارف ہوں جو پہلی کتابوں میں نہ ہوں- مگر میں تفسیروں کا حافظ نہیں ہوں- پھر ان تفسیروں کو دیکھے بغیر یہ کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں بات ان میں آئی ہے یا نہیں آئی- میں نے یہ چیلنج نہیں دیا کہ میں تفسیروں کا حافظ ہوں بلکہ یہ کہا ہے کہ میں کچھ ایسے معارف بیان کروں گا جو پہلی کتابوں میں نہ ہوں گے اور اس کے لئے تفسیروں کا دیکھنا ضروری ہے- تا معلوم ہو سکے کہ جو کچھ لکھا گیا وہ پہلی کتابوں میں نہیں ہے- میری طرف سے کوشش تو یہی ہوگی کہ کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جو پہلی کتابوں میں ہو- مگر جب تک یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ پہلی کتابوں میں وہ باتیں نہیں کس طرح تسلی ہو سکتی ہے- ہاں اگر میں ان کتابوں میں سے کچھ نقل کروں گا تو اس سے میرا دعویٰ ہی غلط ہو جائے گا- پس نقل تو میرے دعویٰ کو باطل کرتی ہے پھر مجھے اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے-
کلید قرآن کی ضرورت
اسی طرح قرآن کریم کی کلید کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میں قرآن کریم کا حافظ ہوں اس لئے قرآن کریم کی کلید کی ضرورت ہوگی- وہ مضمون جو میرے ذہن میں ہوتا ہے وہ دوسروں کو معلوم نہیں ہوتا- مگر ساری آیت مجھے یاد نہیں ہوتی- حافظ روشن علی صاحب مرحوم خدا تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ایک دفعہ لاہور میرے ساتھ تھے- میری ایک تقریر بھی وہاں تھی اس کے لئے میں نوٹ لکھانے لگا تو آیتیں ان سے پوچھتا جاتا تھا- وہ کہنے لگے ان آیات کی بناء پر کیا تقریر ہوگی ان آیات کا تو کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا- میں نے کہا جوڑ جلسہ میں جا کر معلوم ہو گا جب میں تقریر کروں گا- غرض آیات کے نکالنے کے لئے کلید کی ضرورت ہوتی ہے-
اپنے لئے اور کڑی شرائط
پس میرا چیلنج اب بھی موجود ہے- ہاں میں اپنے لئے اس کی شرطوں کو اور کڑا کر دیتا ہوں- اور چند ایسے معارف کی شرط بھی جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں اڑا دیتا ہوں اور یہ ذمہ لیتا ہوں کہ میری تفسیر میں کوئی نکتہ بھی ایسا نہ ہوگا جو کسی پہلی تفسیر میں ہو- مولوی صاحب یہاں آئیں تو ان کا خرچ ہم خود دیں گے لیکن وہ یہاں نہ آنا چاہیں تو گورداسپور آ جائیں مگر کسی مسجد میں اجتماع نہ ہوگا کیونکہ ان لوگوں کی مسجدوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہم خوب جانتے ہیں- علیحدہ مکان میں اجتماع ہو جو فریقین کے لئے مساوی حیثیت رکھتا ہو- اگر وہ گورداسپور آ جائیں جہاں مکان متحدہ ہو تو ان کے کرایہ کے اخراجات ہم دیں گے اور اگر قادیان میں آئیں تو ان کے اور ان کے ساتھیوں کے کھانے پینے کا خرچ بھی ہم دیں گے- ہماری طرف سے صرف یہ شرط ہے کہ ایسے معارف بیان ہوں جن سے قرآن کریم کی افضلیت ثابت ہو` اسلام کی صداقت ثابت ہو- مولوی صاحب نے یہ شرط لگائی ہے کہ تفسیر اور معارف کے لئے ضروری ہوگا کہ علوم عربیہ کے ماتحت ہوں- مگر یہ صاف بات ہے اور ایسا ہی ہونا ضروری ہے- ورنہ مثلاً قرآن کریم میں جو ذالک الکتب ۵~}~ آیا ہے- میں- کتاب کے معنی کپڑا لکھوں` تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ غلط ہے- پھر اس شرط کے پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے- اگر علوم عربیہ کے خلاف کوئی بات ہوگی تو وہ فوراً رد ہو جائے گی-
کوئی اردو تفسیر پاس نہ ہوگی
مولوی صاحب کی تحریر میں ایک اور بھی لطیفہ ہے- وہ ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ اور کوئی کتاب پاس نہ ہو جس سے مراد ان کی تفاسیر ہیں اور دوسری طرف یہ شرط لگاتے ہیں کہ صرف سادہ یعنی بے ترجمہ قرآن ہو- گویا ان کے نزدیک اگر میرے پاس سادہ قرآن ہوا تو میں کچھ نہ لکھ سکوں گا- کیونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اور میں عربی نہیں جانتا- لیکن ساتھ ہی ان کے خیال میں میرے پاس رازی کی تفسیر نہیں ہونی چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ میں اس کے مطالب چرالوں- مولوی صاحب کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب خدا کسی کی عقل مار دیتا ہے تو وہ عام بیوقوفوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے- کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتاہے کہ جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتا وہ رازی اور ابن حیان کے مطالب کو سمجھ لے گا اور ان کی تفاسیر سے مضمون چرا لے گا- اگر مولوی صاحب کی عقل میں یہ بات آ گئی ہے تو گو یہ انتہائی درجہ کی احمقانہ بات ہے میں یہ شرط اپنے چیلنج میں اور بڑھا دیتا ہوں کہ کوئی اردو کی کتاب نہ رکھنی ہوگی اور نہ ترجمہ والا قرآن ہوگا- جب ان کا یہ خیال ہے کہ میں قرآن کریم بھی بغیر ترجمہ دیکھے نہیں سمجھ سکتا تو یہ ظاہر ہے کہ عربی کتب کی موجودگی سے صرف مولوی صاحب کو ہی فائدہ پہنچے گا میں تو ان سے فائدہ حاصل کر ہی نہیں سکتا- باقی رہیں ان کی شرائط سو وہ ایک علیحدہ چیلنج ہیں اگر مولوی صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ معقول ہیں اور ان سے کسی کا موید من اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ انہیں بطور چیلنج کے شائع کر کے دیکھ لیں- اللہ تعالیٰ ان کی ذلت کے اسی وقت سامان کرتا ہے یا نہیں- اگر انہیں عربیدانی کا دعویٰ ہے تو اعلان کر دیں کہ خدا تعالیٰ اس میں ان کی مدد کرے گا کوئی آئے اور مقابلہ کر لے- پھر ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہی ان کے اس چیلنج کو منظور کرنے کی توفیق عطا کر دے- مگر اب تو میرا چیلنج ہے کہ قرآن کریم کی پیشگوئی کے ماتحت جو جماعتیں راستی پر ہوں` ان پر معارف قرآنیہ خاص طور پر کھولے جاتے ہیں- پس کوئی مخالف احمدیت خواہ عرب کا ہو` خواہ مصر کا ہو` خواہ شام کا ہو` خواہ ہندوستان کا میرے مقابلہ پر قرعہ سے تین رکوع قرآن کریم کے چن کر تین دن میں تفسیر لکھ دے- اللہ تعالیٰ مجھے ضرور ایسے مطالب سمجھائے گا جو حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے باہر نہیں ملیں گے اور جو علوم عربیہ کے مخالف نہیں ہونگے انہیں جس امر میں دعویٰ ہو اسے وہ الگ شائع کر دیں-
غرض اگر انہوں نے میرا چیلنج منظور کر لیا ہے تو آئیں معارف لکھیں ان کا خرچ ہم دیں گے- اب میں چند کی شرط بھی نہیں رکھتا- تمام کے تمام نکات ایسے ہوں گے جو کسی پہلی کتاب میں نہ ہوں گے اور ان تفسیروں میں تو یقیناً نہ ہوں گے جو پاس رکھی جائیں گی وہ صرف اس لئے رکھی جائیں گی کہ تا معلوم ہو مفسرین نے کیا لکھا ہے- تا ہم ان کی لکھی ہوئی باتوں میں نہ پڑیں-
شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے امداد کا دعویٰ ہے تو تفسیروں کو دیکھنے کی کیا ضرورت ہے- یا کلید کی کیا ضرورت ہے- اللہ تعالیٰ خود بتا دے گا کہ فلاں مضمون تفسیر میں ہے یا نہیں- یا فلاں آیت کے الفاظ کیا ہیں- تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ محض نافہمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے- چیلنج یہ نہیں دیا گیا کہ تفسیر الہام سے لکھی جائے گی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ تائید الہی سے لکھی جائے گی اور تائید الہی الفاظ میں اور معین مضامین کی صورت میں نازل نہیں ہوا کرتی بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے دماغ کو خاص روشنی دے دی جاتی ہے اور اس پر خاص علوم کا دروازہ کھل جاتا ہے- مگر یہ نہیں کہ اس کو ساتھ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پہلی کتب میں ہے اور یہ نہیں ایسا صرف الہام سے ہو سکتا ہے- اور اس جگہ الہامی تفسیر کا دعویٰ نہیں- گو الہام بھی ہو تو بھی اس میں سنت اللہ نہیں ہوتی کہ حوالہ جات بھی بتائے جائیں-
میں امید کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے معارف لکھنے کے متعلق جو میرا چیلنج تھا اس کی میں پوری تشریح کر چکا ہوں- اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو اس کی قبولیت کا اعلان کر دیں- اگر ان کے نزدیک یہ چیلنج درست نہیں تو پھر ان کے نزدیک جو فیصلہ کا ذریعہ ہے` اسے اپنی طرف سے بطور چیلنج پیش کر دیں- خواہ سب دنیا سے زیادہ فصیح عربی لکھنے کا چیلنج دیں` خواہ سب دنیا سے بہتر ترجمہ قرآن کریم کرنے کا چیلنج دیں- وہ جو بھی چیلنج دیں اگر وہ شریعت کے خلاف نہ ہوا تو بیسیوں آدمی ان کے چیلنج کو قبول کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے- انشائاللہتعالی
سورۃ التحریم کی تفسیر
پھر حضور نے سورۃ التحریم کی آیتیایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا-۶~}~ کی تشریح فرماتے ہوئے اس آگ سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لئے سب سے ضروری چیز دعا ثابت کی- اس کے متعلق ضروری ہدایات دیں اور اس پر پوری طرح کاربند ہونے کا ارشاد فرمایا-
ہر احمدی کشتی نوح پڑھے یا سنے
اسی ضمن میں ایک بات یہ بیان فرمائی کہ اگلے سال تمام کے تمام احمدی پڑھے لکھے یا ان پڑھ حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کشتی نوح پڑھیں یا سنیں- اسی طرح ہر سال ایک کتاب مقرر کر دی جایا کرے تو سب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتب سے واقف ہو جائیں گے- آپ لوگ جو یہاں موجود ہیں سن لیں اور جو یہاں نہیں انہیں سنا دیں کہ اگلے سال کشتی نوح کا پڑھنا یا سننا ہر ایک احمدی کا فرض ہے- زیادہ سے زیادہ یہ تین گھنٹہ میں ختم ہو سکتی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے-
آخر میں حضور نے سورہ تحریم کے پہلے رکوع کی نہایت ہی پر معارف تفسیر بیان کی اور ثابت کیا کہ جس آگ سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کا حکم اس سورہ میں دیا گیا ہے اس کا ذکر اسی سورہ میں کر دیا گیا ہے اور وہ یہ آگیں ہیں- ۱- مسلم نہ ہونا- ۲-مومن نہ ہونا- ۳- قانت نہ ہونا- ۴- تائب نہ ہونا- ۵- عابد نہ ہونا- ۶- سائح نہ ہونا- ان کی نہایت لطیف تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ مسلمانوں کی دینی اور دنیوی کامیابی انہی چھ باتوں سے بچنے میں ہے-
)الفضل ۱۳`۳۱ جنوری ۱۹۳۰ء(
۱~}~
تذکرہ صفحہ ۵۳۸`۵۸۱- ایڈیشن چہارم` الوصیت صفحہ ۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱
۲~}~
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۹`۴۰
۳~}~
مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث جلد۱ صفحہ۵۳۱ مطبوعہ مکتبہ حقانیہ پشاور
۴~}~
الہدیت ۲۳ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۵ کالم ۳
۵~}~
‏b1] g[ta البقرہ:۳
۶~}~ التحریم:۷

‏a11.7
انوار العلوم جلد ۱۱
ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل
ہندوستان کے موجودہ
سیاسی مسئلہ کا حل

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
رائونڈ ٹیبل کانفرنس کو مدنظر رکھتے ہوئے سائمن کمیشن کی
رپورٹ پر تبصرہ
دیباچہ
سائمن کمیشن COMMISSION) (SIMON کی رپورٹ پر تبصرہ کرنا ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس وقت ہندوستان اور انگلستان میں پیدا ہو رہے ہیں کوئی معمولی امر نہیں ہے کیونکہ ایک طرف ہندوستان کا ایک طبقہ اسے رجعت قہقری قرار دے رہا ہے تو دوسری طرف انگریزی قوم کا ایک حصہ اسے اندھیرے کی چھلانگ بتا رہا ہے- طبائع جوش میں ہیں نوجوان ہندوستان آزادی کے خوشنما خواب دیکھ رہا ہے تو تجربہ کار انگلستان آہستگی اور احتیاط کا مشورہ دے رہا ہے- وہ اسے اپنی آزادی میں حائل قرار دے رہا ہے تو یہ اسے دیوانگی کے مرض میں مبتلا سمجھ رہا ہے ان حالات میں مشورہ دینا آسان کام نہیں- جب ایک خاص خیال انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے تو اچھی سے اچھی بات بھی اسے بری معلوم دینے لگتی ہے اور وہ اپنے خیر خواہ کو بدخواہ سمجھ لیتا ہے لیکن باوجود اس کے میں موجودہ صورت حالات کو دیکھتے ہوئے خاموش نہیں رہ سکتا- کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ حقیقت کو معلوم کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہے اور ایک دوسرے کی طرف سے دل اس قدر بغض و کینہ سے لبریز ہیں کہ حسنظنی نام کو بھی باقی نہیں رہی ہے- ایک عام ہندوستانی انگریز کی ہر بات میں منصوبہ بازی اور دھوکا دہی کی کوئی چال محسوس کرتا ہے اور ایک عام انگریز ہر آزادی کے خواہشمند ہندوستانی کو جاہپسند اور مفسد تصور کرتا ہے-
پس میں سمجھتا ہوں کہ گو ایک مذہبی آدمی ہونے کے لحاظ سے مجھے سیاست ملکی سے اسقدر تعلق نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو رات دن انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں لیکن اسیقدر میری ذمہ داری صلح اور آشتی پیدا کرنے کے متعلق زیادہ ہے- اور نیز میں خیال کرتا ہوں کہ شورش کی دنیا سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے میں شاید کئی امور کی تہہ کو زیادہ آسانی سے پہنچ سکتا ہوں بہ نسبت ان لوگوں کے کہ جو اس جنگ میں ایک یا دوسری طرف سے شامل ہیں- پس اس وقت جب کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے اعلان کی وجہ سے لوگوں کی توجہات مسئلہ ہندوستان کے حل کرنے میں لگی ہوئی ہیں میں بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات دونوں ملکوں کے غیر متعصب لوگوں کے سامنے رکھ دوں-
میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ کام مشکل ہے- ہندوستان جیسا وسیع ملک جس میں تینتیسکروڑ نفوس بستے ہیں اور جس میں بیسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں اس کے مستقبل کے متعلق کچھ لکھنا آسان کام نہیں ہے- پس میں اللہ تعالیٰ سے جو سب مخلوقات کا مالک اور خالق ہے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے کام لے کر اس نازک معاملہ کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائے اور ہمیں اس راستہ کو اختیار کرنے کی توفیق دے جو ہمارے حال اور مستقبل دونوں کے لئے اچھا ہو اور جس پر چل کر ہم نہ صرف اس قابل ہوں کہ اپنی دنیا کو اچھا کر سکیں- بلکہ اس کی رضا کے حصول کی بھی ہم میں قابلیت پیدا ہو- ہم کمزور ہیں لیکن وہ طاقت والا ہے` ہم مستقبل کی ضرورتوں سے ناواقف ہیں لیکن وہ واقف ہے پس اسی کی مدد سے ہم حقیقی خوشی اور حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں- اور اس کے آگے ہم جھکتے ہیں کہ وہ ہماری مدد اور نصرت کرے اور ہماری بہتری کے سامان پیدا کرے-
اس کے بعد میں انگریز افسران حکومت کو خواہ ہندوستان کے ہوں خواہ انگلستان کے خصوصاً اور باقی انگریزوں کو عموماً کہتا ہوں کہ آپ لوگوں پر ایک بہت بڑی ذمہ واری ہے- خداتعالیٰ نے آپ کے سپرد ایک امانت کی ہے اس امانت کو صحیح طور پر ادا کرنا آپ کا فرض ہے- مادیت کی ترقی نے خدا تعالیٰ پر ایمان بہت کمزور کر دیا ہے اور جو لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں وہ بھی اسے ایک بے تعلق شاہد کی طرح سمجھتے ہیں جو دنیا کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا لیکن یہ بات درست نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ نبیوں کا اتنا لمبا سلسلہ نہ جاری کرتا- اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا اس کی بہتری سے غافل نہیں رہ سکتا تم اس سیاسی امر میں اس کا ذکر کرنے پر ہنسو یا مجھے بیوقوف سمجھو لیکن حق یہی ہے کہ ایک دن سب کو اس کے حضور جوابدہ ہونا ہے- بہت ہیں جو اس زندگی میں اس کی ہستی کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن ان کی موت کے وقت کی گھڑیاں حسرت و اندوہ میں گزرتی ہیں- پس چاہئے کہ آپ اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی تینتیس کروڑ آدمی کی قسمت کے فیصلہ کے وقت اپنے قلیل اور بے حقیقت فوائد کو بالکل نظر انداز کر دیں کہ وہ روپیہ کی گنتی میں خواہ کروڑوں ہندسوں سے بھی اوپر نکل جائیں لیکن اخلاقوروحانیت کے لحاظ سے ایک آدمی کی آزادی کے برابر بھی ان کی قیمت نہیں ہے- اگر آپ لوگ انصاف سے کام لیں گے تو خواہ آپ کے بعض ابنائے وطن اس وقت آپ کو گالیاں دیں اور غدار کہیں لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ کی اپنی ہی نسلیں نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ آپ کے نام کو عزت سے لیں گے اور آپ کی یاد کے وقت ادب سے لوگوں کی گردنیں جھک جائیں گی اور آپ کا ذکر ہمیشہ کے لئے بابرکت ہو جائے گا-
اسی طرح میں اپنے اہل وطن سے کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اپنے دلوں کو تعصب اور کینہ سے خالی کر دو کہ گو یہ جذبات بظاہر میٹھے معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان سے زیادہ تلخ اور تکلیف دہ کوئی چیز نہیں- واقعات بتا رہے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا وقت آ گیا ہے- خدا تعالیٰ دلوں میں ایک نئی روح پھونک رہا ہے- تاریکی کے بادلوں کے پیچھے سے امید کی بجلی بار بار کوند رہی ہے- خواہ ہر آنے والی ساعت کی تاریکی پہلی تاریکی کی نسبت کس قدر ہی زیادہ کیوں نہ ہو ہر بعد میں ظاہر ہونے والی روشنی بھی پہلی روشنی سے بہت زیادہ روشن ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کی مشیت کا اظہار کر دیتی ہے- پس اپنے کینہ اور بغض سے خدا تعالیٰ کی رحمت کو غضب سے نہ بدلو اور اس کے فضل کو اس کے قہر میں تبدیل نہ کرو کہ وہ ضدی اور ہٹ دھرم اور سچائی کے منکر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے-
یہ حقیقت ہے کہ انگریزی قوم کا وجود ہندوستان میں خواہ کتنا ہی خود غرضی پر مبنی ہو پھر بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے- اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ کھویا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے- اگر دنیا کی مادی ترقی کی بنیاد اب جدید مغربی علوم پر رکھی جانے والی ہے جیسا کہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہونے والا ہے تو جو کچھ ہم نے کھویا ہے اسے ہم ایک تختی کے دھوئے جانے سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتے- اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر شکر کرنا چاہئے کہ اس نے ہمارے ملک کو دوسرے مشرقی ممالک کی نسبت زیادہ سہولت کے ساتھ ان علوم کا وارث بنا دیا ہے- اگر دیکھا جائے تو سوائے جاپان کے ہندوستان علومجدیدہ اور ان کے نتائج سے باقی سب ایشیائی ممالک کی نسبت زیادہ بہرہ ور ہوا ہے اور دانستہ یا نادانستہ جس طرح بھی ہو اس صورت حالات کے پیدا کرنے میں انگریزوں کا بہت کچھ دخل ہے- اسی طرح ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہندوستانی ہونے کا خیال اور ان کا آپس میں اتحاد بھی بہت کچھ انگریزی سیاست کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور قانون کا ادب اور کمسیکم ہندوستانیوں کے آپس کے اختلافوں میں انصاف بھی انہی کے عہد کا نتیجہ ہے-
پس ہمیں ان کے عیبوں کے ساتھ ان کے ہنروں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ جو شخص صداقت کے ایک حصہ کا انکار کرتا ہے وہ دوسرے حصوں کا انکار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے- جس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہماری بیداری کا موجب بنایا ہے ہمیں بھی اس کے ساتھ مجنونانہ سلوک نہیں کرنا چاہئے اور اس آخری فیصلہ کی گھڑیوں کو بلاوجہ تلخ کر کے دنیا میں ایک نئی جنگ کی بنیاد نہیں رکھنی چاہئے کہ ظلم جس طرح ایک انگریز کے ہاتھ سے برا ہے ویسا ہی ایک ہندوستانی کے ہاتھ سے بھی برا ہے- پس آپ لوگ نرمی اور محبت سے ایک ایسے فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کریں کہ جو دلوں کی کدورت اور کینہ کو دھو دے اور ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھیں جو محبت و اتحاد کا ایک نیا دور شروع کرنے والی ہو- یاد رکھیں کہ دنیا ایک جسم ہے اور تمام ممالک اس کے عضو ہیں اس وقت تک بہت سے لوگ اس کے اعضاء کو کاٹنے کی کوشش میں لگے رہے ہیں اب خدا چاہتا ہے کہ سب دنیا کو اس کی اصل شکل میں قائم کرے اور ملکیتوملوکیت کی قیدوں سے آزاد کرے- اس مقصد کے حصول کے لئے برطانوی حکومت کا ڈھانچہ ایک بہترین ڈھانچہ ہے اور اس میں یہ قابلیت ہے کہ مختلف الاحوال اور دور دراز کے ملکوں کو بغیر ان کی آزادی کو نقصان پہنچانے کے ایک سلسلہ میں منسلک کر دے-
پس ایسے ذرائع کو استعمال کرو کہ عمدگی اور مضبوطی کے ساتھ ہندوستان بھی اس اتحادعالم کی بنیاد کی ایک مکمل لیکن پیوست اینٹ ہو اور جھوٹی خواہشوں کے پیچھے پڑ کر ایسی راہیں تلاش نہ کرو کہ جو اس عجیب و غریب تجربہ کو جو مختلف ممالک کی آزادی کو قائم رکھتے ہوئے انہیں ملکیت کی قیدوں سے آزاد کرانے کے لئے کیا جا رہا ہے تباہ کر دے-
خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور ہر ایک جو اس فیصلہ میں حصہ لینے والا ہے` خواہ اس ملک کا` خواہ اس ملک کا` اس کے دل اور دماغ پر اپنے الہام کی روشنی ڈالے تا کہ وہ اس کی مرضی کے مطابق چلے یہاں تک کہ دنیا میں ہماری نہیں بلکہ اس کی مرضی کی حکومت ہو کہ اسی میں سب برکت اور اسی میں سب راحت ہے-
حصہ اول
باب اول
اصولی مباحث
تمہید
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اس امر کا فیصلہ کر چکی ہے کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں کوئی خاص سکیم غور کرنے کے لئے معین نہیں کی جائے گی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں سب سے زیادہ توجہ سائمن کمیشن کی رپورٹ حاصل کرے گی- میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستانیوں کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے غالباً برطانوینمائندے اس رپورٹ کا اس قدر کم نام لیں گے جس قدر کہ کام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لئے ممکن ہو اور ہندوستانی نمائندے بھی غالباً اس مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس رپورٹ کی ہندوستان میں ہوئی ہے اس کا ذکر بہت ہی کم کریں گے سوائے اس کے کہ مخالفت کے رنگ میں ہو- لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواہ برطانوی نمائندے ہوں خواہ ہندوستانی دونوں کے دماغوں پر یہ رپورٹ حکومت کر رہی ہوگی اور وہ اس کے اثر سے خواہ کس قدر بھی کوشش کریں آزاد نہیں ہو سکتے- اور اس کے دو سبب ہیں-
)۱( اول یہ کہ اس رپورٹ کے علاوہ کوئی اور مکمل رپورٹ نہیں ہے جس نے قانوناساسی کی تمام شاخوں پر روشنی ڈالی ہو اور ہر ایک امر کی دلیل دی ہو- نہرو رپورٹ ہے لیکن وہ )الف( ناقص اور نامکمل ہے- )ب( ایسی جماعت نے اسے تیار کیا ہے جو ہندوستانیوں میں سے خاص فوائد کی نمائندہ تھی- اور )ج( اس میں بعض دوسری اقوام کے فوائد کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے- )ہ( اس کے بہت سے اچھے حصے سائمن کمیشن کی رپورٹ میں شامل کر لئے گئے ہیں-
)۲( باوجود اس کے کہ سائمن رپورٹ کی شدید مخالفت ہوئی ہے لیکن اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس رپورٹ کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ اس میں مناسب اصلاح کر کے ایک مفید اور قابل عمل اساس حکومت بنایا جا سکتا ہے- اور بعض پیچیدہ مسائل اس میں ایسے طریق پر حل کر دیئے گئے ہیں کہ جن کے بغیر ہندوستان میں کبھی امن نہیں ہو سکتا اور وہ صورت جو سائمنکمیشن نے تجویز کی ہے غالباً ہندوستانیوں کے منہ سے نکلی ہوئی کبھی بھی انگلستان کے لئے قابل تسلیم نہ ہوسکتی- پس انگلستان کی رائے کو آسانی سے متاثر کرنے کے لئے بعض معاملات میں مسلمان اور بعض میں ہندو سائمن رپورٹ کا نام لئے بغیر اس کے دلائل سے فائدہ اٹھانے پر مجبور ہونگے-
پس ان حالات میں اس رپورٹ کو نظر انداز کرنا بالکل ناممکن ہے اور کسی چیز کے اچھے حصے کو بھی اس کے برے حصے کی وجہ سے خراب اور برا کہنا خلاف دیانت ہے- پس میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی کارروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سائمن کمیشن کی رپورٹ پر ریویو کروں-
سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ رپورٹ اس قدر بری نہیں جس قدر کہ اس خلاصہ سے ظاہر ہوتا تھا جو ہندوستان میں شائع کیا گیا- اس میں کئی جگہ غلطی بھی کی گئی تھی اور کئی جگہ اختصار کی وجہ سے مضمون واضح نہ ہوتا تھا- پس ان حالات میں ہر ایک شخص نے اس پر نہایت سختی سے تنقید کی اور انہی لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں- لیکن اصل کتاب کو پڑھنے کے بعد میری بھی رائے بدل گئی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی بھی رائے بدل گئی- اس کو غور سے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی نقطہ نگاہ سے اس میں بہت سے اچھے امور بھی ہیں اور بہت سے برے امور بھی ہیں لیکن باوجود کمیشن کی اس رائے کے کہ یہ رپورٹ ایسے رنگ میں لکھی گئی ہے کہ یا اسے کلی طور پر قبول کرنا ہوگا یا کلی طور پر رد کرنا ہوگا میرے نزدیک اس کی اصلاح آسانی سے ہو سکتی ہے اور یہ رائے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی انہوں نے صرف نہرو رپورٹ سے متاثر ہو کر لکھ دی ہے- میں نے اسے خوب غور سے پڑھا ہے اور میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بعض حصوں میں تبدیلی کر کے اور بعض کی جگہ پر بالکل اور قوانین تجویز کر کے ہم اس سکیم کو اختیار کر سکتے ہیں اور اس سے کسی صورت میں بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا-
یہ امر صرف سائمن کمیشن سے مخصوص نہیں کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں سے تعلق شدید رکھتے ہیں- دنیا کی ہر سکیم میں یہ بات پائی جاتی ہے اور یہ عقلمند آدمی کا کام ہے کہ جب وہ کسی ایک حصہ میں تبدیلی کرنا چاہے تو یہ بھی دیکھ لے کہ اس کا دوسرے حصوں پر کیا اثر پڑتا ہے- پھر اگر دوسرے حصوں میں تبدیلی کرنے سے وہ سکیم کسی مفید غرض کو پورا کرتی ہو تو اس تبدیلی کو اختیار کرے ورنہ موازنہ کرے کہ دوسرے حصوں میں تبدیلی سے زیادہ نقصان ہوتا ہے یا اس حصہ کو قائم رکھنے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے جس میں تبدیلی کا اسے خیال پیدا ہوا تھا اور یہی سلوک ہمیں سائمن کمیشن کی رپورٹ سے کرنا چاہئے- اور میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ خود سائمن رپورٹ کو ہی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں زیر بحث لانا چاہئے کہ اس میں زیادہ آسانی رہے گی اور کام جلدی سے ختم ہو جائے گا- ورنہ مختلف سکیمیں پیش ہونگی جن کے پیچھے وہ اخلاقی طاقت نہ ہو گی جو اس رپورٹ کے پیچھے ہے نہ وہ اس قدر غور اور مطالعہ کا نتیجہ ہوں گی- نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کی توجہ کو پوری طرح جذب نہ کر سکیں گی اور نامکمل غور کے نتیجے میں ان کے کئی اچھے نکتے رد کر دیئے جائیں گے اور کئی بری باتیں بظاہر خوشنما ہونے کی وجہ سے قبول کر لی جائیں گے- لیکن چونکہ اس سکیم کی سخت مخالفت ہو چکی ہے- شاید ممبران رائونڈ ٹیبل کانفرنس اسے مصلحت کے خلاف سمجھیں کہ اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر اس میں تبدیلی کی کوشش کریں اس لئے اس صورت میں میں تو انہیں یہ مشورہ دوں گا کہ خواہ اس رپورٹ کا ذکر وہ نہ کر سکیں لیکن اس کو خوب مطالعہ کر کے اس مجلس میں شامل ہوں اور ہمیشہ اس کے مضامین پر نگاہ رکھیں کہ باوجود بہت سے نقائص کے یہ رپورٹ ان کے بہت کام آئے گی- خصوصاً مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس رپورٹ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے انگریزوں کو ہندوستان کے لئے فیڈرل سسٹم کے قبول کرنے کی طرف مائل کر دیا ہے حالانکہ انگلستان اپنی قدیم روایات کے اثر کے ماتحت اس سسٹم کو آسانی سے قبول نہیں کر سکتا تھا-
مجھے اس جگہ یہ بھی لکھ دینا چاہئے کہ باوجود بہت محنت کے کمیشن کے ممبروں نے شاید جلدی کی وجہ سے بعض مقامات پر حسابی غلطی بھی نکالی ہے اور بعض جگہ بعض مضامین کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اصل مقام پر پھر اس اشارہ کے مطابق سکیم کو پیش نہیں کر سکے لیکن اس امر پر مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں- رائونڈ ٹیبل کانفرنس کو اگر اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا تو ڈرافٹ بنانے والے اس قسم کے نقائص کی خود اصلاح کر لیں گے-
باب دوم
ایشیائی ممالک میں نیابتی حکومت
کمیشن نے رپورٹ کے حصہ دوم کی تمہید میں اس کا ذکر کیا ہے کہ ہندوستان میں مغربی اصول پر آئین- حکومت کا تجویز کرنا بالکل درست نہیں کیونکہ جو آئین کہ سینکڑوں سال کے تجربہ کے بعد ایک مغربی ملک کے باشندوں نے تجویز کیا ہے وہ آسانی سے ایک ایسے مشرقی ملک پر چسپاں نہیں ہو سکتا جہاں کہ ہزاروں سال تک خود مختار حکومت کا دور دورہ رہا ہے- گو کمیشن نے کسی ایک جگہ اس مضمون پر تفصیلی بحث نہیں کی لیکن مختلف مقامات پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے- اور چونکہ علاوہ کمیشن کے بہت سے یورپین مصنف بھی اس کی طرف اپنی کتب میں توجہ دلاتے رہتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کے متعلق بھی کچھ لکھوں کیونکہ جب تک انسان کے دل کی وہ گرہیں نہ کھل جائیں جن کی وجہ سے وہ کسی خاص مضمون کو سمجھنے کے ناقابل ہو اس وقت تک خواہ وہ سمجھنے کی کوشش بھی کرے اس مضمون کو نہیں سمجھ سکتا-
اگر کمیشن کا یہ مطلب ہے کہ انگلستان کا نظام اپنی مکمل صورت میں ہندوستان میں جاری نہیں کیا جا سکتا تو میں اس میں کمیشن کی رائے سے بالکل متفق ہوں لیکن اس میں مشرقومغرب یا کسی پرانی یا نئی روایت کا ہر گز کوئی تعلق نہیں- کسی ملک کے تجویز کردہ آئین بھی کسی دوسرے ملک میں خواہ وہ کسی پرانی یا نئی روایت کا ہر گز کوئی تعلق نہیں- کسی ملک کے تجویز کردہ آئین بھی کسی دوسرے ملک میں خواہ وہ اس پہلے ملک سے خیالات میں انتہائی درجہ کا متحد ہی کیوں نہ ہو پوری طرح جاری نہیں ہو سکتے- انگلستان کا آئین ہندوستان کے لئے ہی ناقابلقبول نہیں بلکہ فرانس اور جرمنی نے بھی اسے اپنے ملک میں جاری نہیں کیا اور یونائیٹڈسٹیٹس (UNITEDSTATES) جس کے اکثر باشندے انگلستان کے رہنے والے ہیں وہ بھی اس کی نقل کرنے سے قاصر رہا ہے بلکہ خود انگلستان کے ماتحت جو نو آبادیاں ہیں ان میں بھی پوری طرح انگریزی آئین جاری نہیں- پس یہ تو ایسی واضح بات ہے کہ اس کا خاص طور پر ذکر کرنا یا اسے اہمیت دینا بالکل خلاف عقل ہے-
لیکن اگر کمیشن کی یہ مراد ہے کہ نیابتی حکومت کا طریق خواہ کسی صورت میں ہو مشرقیحالات کے منافی ہے اور اس کے جاری کرنے میں احتیاط چاہئے تو مجھے اس سے اختلاف ہے- اگر آج سے چند سو سال پہلے یہ بات کہی جاتی تو اور بات تھی لیکن آج جب کہ سب دنیا میں آئینی حکومت کا دور دورہ ہے اور ایران اور افغانستان بھی جو تعلیم کے لحاظ سے بھی اور مغربیممالک سے تعلقات کے لحاظ سے بھی ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں اس طریق کو جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایران اور ترکی تو ایک حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں اور جاپان بھی اس میں بہت کچھ ترقی کر چکا ہے یہ کہنا کہ ہندوستان جو دنیا کی اس نئی تحریک کا بہت حد تک مطالعہ کر چکا ہے اور تھوڑا بہت تجربہ بھی رکھتا ہے اس کے لائق نہیں بالکل درست نہیں ہو سکتا-
دنیا کی تاریخ بھی اس رائے کے مخالف ہے- انگلستان نے بے شک صدیوں میں نیابتیحکومت کا سبق سیکھا ہے لیکن فرانس اور جرمنی نے اس طریق کو یکدم ہی اختیار کر لیا تھا- یہی حال پولینڈ اور آسٹریا کا ہے- ان کی حکومتوں کے تغیر پر سینکڑوں نہیں بلکہ چند ہی سال لگے ہیں- اور اصل بات یہ ہے کہ نمونہ تیار کرنے میں دیر لگتی ہے لیکن نمونہ کی نقل میں اس قدر دیر نہیں لگتی- سٹیم انجن کی دریافت پر جس قدر دیر لگی تھی اتنی دیر اس کا دوسرا نمونہ بنانے میں نہیں لگی اور نہ ہر ملک کی ضرورتوں کے مطابق انجنوں کے نئے نمونوں کے بنانے میں دیر لگی پس یہ استدلال کمیشن کے ممبروں یا دوسرے یوروپین مصنفوں کا درست نہیں- اب زمانہ بدل چکا ہے خواہ مزاج مختلف ہوں` حالات مختلف ہوں لیکن وہ اصولی اتحاد جو سب دنیا کے لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہندوستان بے شک انگلستان کے آئین کی لفظبہلفظ نقل نہیں کر سکتا بالکل اسی طرح جس طرح انگلستان کے ہمسایہ ملک فرانس اور جرمن اس کی نقل نہیں کر سکتے لیکن اپنی ضرورتوں کے مطابق وہ ایک نیا ڈھانچہ ضرور تیار کر سکتا ہے اور اس پر عمل بھی کر سکتا ہے- گو ابتداء میں مشکلات ہونگی لیکن کونسا تجربہ بغیر خطرات کے قبول کرنے کے کیا جا سکتا ہے- ہمارا فرض ہے کہ ہم خطرات کو کم کرنے کی کوشش کریں لیکن خطرات کی وجہ سے ترقی کی طرف قدم نہ اٹھانا ہمیں خطرات سے تو شاید نہ بچاوے لیکن ترقی سے ضرور محروم کر دے گا-
باب سوم
کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے؟
اگر ہے تو کس حد تک؟
پیشتر اس کے کہ ہم ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت پر بحث کریں ہمیں اصولی طور پر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ہندوستان اخلاقا یا سیاستا آزادی کا مستحق ہے اور اگر ہے تو کس حد تک؟ کیونکہ بغیر اس کے کہ ہمارے خیالات اس سوال کے متعلق ایک اصل پر قائم ہوں ہماری بحثیں بالکل فضول اور لغو ہونگی اور سوائے اس کے کہ ہم اور زیادہ پیچیدگیوں میں پڑ جائیں ہمارے مباحثات کا کچھ فائدہ نہ ہوگا-
پس سائمن رپورٹ یا کسی اور رپورٹ پر غور کرنے سے پہلے یا انگریزوں اور ہندوستانی نمائندوں کے تفصیلی تبادلہ خیالات سے پہلے اس سوال کا حل کر لینا ضروری ہے- جب اس سوال کا حل ہو جائے گا تو اگلی بحثیں آسانی سے طے ہو سکیں گی ورنہ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہندوستان کو آزادی کا حق ہی حاصل نہیں وہ کس طرح اس بحث کے طے کرنے میں ممد ہو سکتا ہے کہ کس حد تک ہندوستان کو اختیارات دیئے جائیں؟ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو فوراً آزاد کر دیا جائے وہ کب اس بحث میں مدد دے سکتا ہے کہ آئندہ سکیم میں کن کن حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے؟ آزادی ہند کے سوال کو ان دو نقطئہ نگاہ سے دیکھنے والے افراد بھی کسی سمجھوتہ کی طرف آ ہی نہیں سکتے- اور اگر وہ ایک دوسرے کی دھمکیوں یا اصرار یا لوگوں کے مجبور کرنے سے کسی سمجھوتہ پر پہنچیں بھی تو یقیناً وہ سمجھوتہ کسی اصل پر مبنی نہ ہوگا بلکہ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے- اور ایک حصہ بجائے دوسرے حصے سے پیوست ہونے کے اس جبر یا مصلحت سے مطابقت رکھے گا جس کے اثر کے نیچے اس کا تصفیہ ہوا تھا اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی سکیم ملک کے لئے کس قدر خطرناک ہوگی؟
پس میرے نزدیک بہتر ہوگا کہ اصل مضمون کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے اسے قریبالفہم بنانے کے لئے اس سوال کو اپنے علم کے مطابق حل کرنے کی کوشش کروں کہ کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے اور اگر ہے تو کس حد تک؟ اور اس غرض کے لئے پہلے میں اس سوال کے پہلے حصہ کو لیتا ہوں-
کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے
اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے- مذہبی طور پر` اخلاقی طور پر اور سیاسی طور پر- مذہبی سوال سب سے مقدم ہے لیکن چونکہ انگلستان اور ہندوستان اور خود ہندوستان کی مختلف اقوام کا مذہب ایک نہیں اس لئے مذہب کی رو سے بحث اس سوال کے حل کرنے میں مدد نہیں دے سکتی- پس میں اسے چھوڑ کر اخلاقی پہلو کو لیتا ہوں-
۲۰- اگست ۱۹۱۷ء کو مسٹر مانٹیگو MONTAGUE)۔(MR نے ہائوس آف کامنز میں جو تقریر کی- اس میں ہندوستان کے آئندہ نظام حکومت کے متعلق ایک یہ فقرہ بھی تھا کہ-:
>حضور ملک معظم کی حکومت کی پالیسی جس کے ساتھ حکومت ہند کو بھی پورے طور پر اتفاق ہے یہ ہے کہ انتظام مملکت کے ہر شعبہ میں ہندوستانیوں کو بتدریج بڑھنے والا حصہ دیا جائے اور آہستہ آہستہ آزاد محکمے قائم کر دیئے جائیں تا کہ ترقی کرتے کرتے ہندوستان میں برطانوی تاج کے ماتحت ایک آزاد نیابتی حکومت قائم ہو جائے<-
اس کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کی تمہید میں اسی فقرہ کو لفظ بلفظ نقل کر کے برطانوی پارلیمنٹ بھی اس میں ظاہر کردہ خیالات سے اپنا اتفاق ظاہر کر چکی ہے-
یہ بیان کرنا بے محل نہ ہوگا کہ مسٹر مانٹیگو MONTAGUE)۔(MR کا اعلان ان کا اپنا ذاتی اعلان نہ تھا بلکہ برطانوی وزارت کا تسلیم شدہ اعلان تھا اور سائمن رپورٹ سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان میں(RESPONSIBLEGOVERNMENT) کے الفاظ لارڈکرزن (LORDCURZON) کے قلم سے لکھے ہوئے اب تک موجود ہیں-
پس اس اعلان سے حکومت ہند کے علاوہ جس کی رضا مندی صاف لفظوں میں ظاہر ہے برطانوی وزارت بھی اپنا اتفاق ظاہر کر چکی ہے- حکومت ہند` وزارت برطانیہ اور پارلیمنٹ کے بعد بادشاہ کی شخصیت ہی رہ جاتی تھی کہ جن کی تصدیق صاف لفظوں میں اس اعلان کے متعلق نہ تھی- لیکن ۱۵- مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور ملک معظم کی طرف سے گورنر جنرل ہندوستان کے نام جو ہدایت نامہ جاری کیاگیا اس میں صاف لفظوں میں اس اعلان کی طرف اشارہ کر کے نہ صرف اس کی تصدیق کی گئی ہے بلکہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے- ملک معظم تحریر فرماتے ہیں-
>دسویں- اوپر کے تمام امور کے لئے ہماری خواہش اور مرضی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے جو اصول ہندوستان میں ایسی نیابتی حکومت کے قیام کے لئے جو ہماری مملکت کا جزو رہے تجویز کئے ہیں- ان پر اس طرح عمل کیا جائے کہ آخر کار اس کے نتیجہ میں برطانوی ہندوستان ہماری ڈومینینز (DOMINIONS) میں اس مقام کو حاصل کر سکے جس کا وہ حقدار ہے<-
ان اعلانات سے ثابت ہوتا ہے کہ بادشاہ معظم` پارلیمنٹ` وزارت برطانیہ اور حکومتہند سب کے سب اس امر کا اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں ان کی حکومت کا طریق آئندہ ایسا ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے مختلف حﷺ سلف گورنمنٹ (SELFGOVERNMENT) حاصل کر لیں گے اور ہندوستان بحیثیت مجموعی نیابتی حکومت حاصل کر لے گا- یہ ایک وعدہ ہے جس سے انگلستان اخلاقاً کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا- اور اگر وہ >تدریجی< یا ایسے ہی الفاظ کی پناہ لے کر اس وعدہ کے پورا کرنے میں دیر کرے تو بھی گو وہ قانوناً زیر الزام نہ ہو لیکن اخلاقا وہ بہت بڑی ذمہ واری کے نیچے آ جائے گا اور اس چیز کو جو آخر میں حکومتوں کے نشان کے طور پر اکیلی باقی رہ جاتی ہے یعنی >نیک نامی< ناقابل تلافی طور پر نقصان پہنچا دے گا-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس اعلان میں درجہ نو آبادیات کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ نیابتیحکومت کا ہے اور ان دونو اصطلاحوں میں بہت بڑا فرق ہے- گو اس فرق کی طرف توجہ دلانے والے بعض ایسے انگریز ہیں جن کو میں اپنا دوست سمجھتا ہوں لیکن میں اس میں ان سے اختلاف کئے بغیر نہیں رہ سکتا- اعلان مذکور کے تین جملے قابل غور ہیں-
اول- >ہندوستانیوں کی بڑھنے والی شمولیت تمام محکمہ جات میں< اس جملہ میں >بڑھنے والی< کا لفظ کوئی حد نہیں رکھتا سوائے اس حد کے جو طبعی ہے یعنی جب کہ تعداد پوری ہو جائے- پس اس لفظ کے استعمال کرنے کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ ہندوستانیوں کو سب قسم کی ملازمتوں میں متواتر بڑھنے والا حصہ دیا جائے گا یہاں تک کہ سب ملازمتیں ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائیں گی- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ ایگزیکٹو (EXECUTIVE) پورے طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائیں گی-
دوسرا قابل توجہ جملہ >خود مختار محکموں کے تدریجی نشوونما< کا ہے- اس میں >خود مختار محکموں< سے مراد یقیناً میونسپل کمیٹیاں` ڈسٹرکٹس بورڈز اور صوبہ جاتی حکومتیں ہیں- ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹیاں بھی خود مختار محکمے نہیں کہلا سکتے جب تک کہ صوبہ جاتی حکومتیں ان پر حاکم نہ ہوں اور وہ خود مختار نہ ہوں کیونکہ لوکل بورڈ` بالا حکومت سے آزاد ہو کر کام نہیں کر سکتا- اور کوئی میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈ خود مختارانہ حکومت کرنے والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ جس حکومت سے اسے احکام ملتے ہوں اس کا قیام اس کے ووٹروں کی مرضی کے مطابق نہ ہو- پس میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کا خود مختار ہونا صوبہ جاتی حکومت کے خود مختار ہونے پر منحصر ہے- اور اس فقرہ میں یقیناً انہی تین حﷺ حکومت کا ذکر ہے- پس دوسرے لفظوں میں اس جملہ میں صوبہ جات کی آزادی کا وعدہ ہے-
تیسرا قابل توجہ جملہ وہ ہے جس میں اوپر کی پالیسی کا آخری نتیجہ بیان کیا گیا ہے یعنی >اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آخر برطانوی ہند میں ایک ایسی خود مختار حکومت بتدریج قائم ہو جائے جو برطانوی شاہنشاہی کا جزو ہو<-
اس جملہ میں بتایا گیا ہے کہ اوپر کی دونوں تجویزوں کی غرض یہ ہے کہ برطانوی ہند میں نیابتی حکومت تو قائم ہو جائے لیکن وہ برطانوی شاہنشاہیت کا حصہ رہے باہر نہ نکل جائے- اس جملہ کے صاف لفظوں میں معنی یہ ہیں کہ پارلیمنٹ نے اس آخری حد تک ہندوستان کو خود مختار حکومت دینے کا وعدہ کیا تھا کہ اگر اس سے زیادہ حق دیا جائے تو ہندوستان برطانوی ایمپائر (EMPIRE) کا حصہ رہ ہی نہیں سکتا- اور یہی چیز ہے جس کا دوسرا نام >ڈومینین سٹیٹس< (DOMINIONSTATUS) ہے- ڈومینین سٹیٹس اور کامل آزادی میں صرف ایک قدم کا فرق ہے وہ قدم اگر کوئی ڈومینین اٹھائے تو وہ برطانوی ایمپائر کا حصہ نہیں رہتی- اور چونکہ اس حد تک پہنچی ہوئی خود مختار حکومت کا ہندوستان سے وعدہ کیا گیا ہے اس لئے یہ کہنا کہ اس سے ڈومینین سٹیٹس مراد نہیں` درست نہیں-
اس وعدہ سے صاف ظاہر ہے کہ ایگزیکٹو بھی ہندوستانیوں کو دے دی جائے گی اور صوبہجات کو بھی پوری آزادی دے دی جائے گی- اور اس طرح آزادی دیتے دیتے مرکزیحکومت ہند کو بھی اس آزادی کے مقام پر پہنچا دیا جائے گا کہ تاج برطانیہ سے علیحدگی کے حق کے علاوہ سب اختیارات اسے حاصل ہونگے-
لیکن اگر ہم اس تفصیل میں نہ بھی پڑیں تو بھی خود مختار حکومت کے معنی ڈومینینسٹیٹس کے ہی ہیں- اور اصول آئین کے علماء اس کے یہی معنی کرتے چلے آئے ہیں- چنانچہ مثال کے طور پر میں D۔H۔P ۔A۔M ۔Strong۔J۔C Doctorکی کتاب ModernPoliticalConstitutionsکا ایک حوالہ نقل کرتا ہوں- وہ لکھتے ہیں-
>ایک خود مختار نو آبادی وہ ہے جسے نیابتی حکومت حاصل ہو اور جسے نیابتی حکومت کہتے ہیں وہ عملی سیاست میں صرف اس امر کا نام ہے کہ ان نو آبادیوں میں وزارت کو ملکی نمائندوں کے تابع کر دیا جائے جہاں کہ اس سے پہلے وہ برطانوی حکومت کے تابع ہوا کرتی تھی کیونکہ نیابتی حکومت کے صرف یہ معنی نہیں کہ وہ نوآبادی جسے اس قسم کی حکومت حاصل ہو اپنے لئے اپنے فائدے کے مطابق قانون وضع کرنے میں آزاد ہے بلکہ یہ بھی کہ اس کی وزارت آئندہ پوری طرح اور براہراست ملک کے منتخب نمائندوں کے ماتحت ہوگی- ۱~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اصول آئینی کے ماہرین کے نزدیک رسپانسیبل (RESPONSIBLE) گورنمنٹ کے صرف یہ معنی نہیں کہ کسی ملک کو اپنے معاملات کے متعلق قانون سازی کا اختیار کلی طور پر مل جائے بلکہ یہ بھی کہ ایگزیکٹو پوری طرح اور براہ راست ملک کے منتخب نمائندوں کے ماتحت ہو اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی ڈومینین کو اس سے زیادہ اختیار حاصل ہے-
دوسرا حوالہ میں مسٹر وڈروولسن سابق پریذیڈنٹ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کا پیش کرتا ہوں- جو سلف گورنمنٹ کے متعلق ہے- وہ اپنی کتاب
۔States United the in Government Constitutionalمیں لکھتے ہیں-:
>نیابتی حکومت آئینی طریق حکومت کی آخری منزل ہے<- ۲~}~
اور جب کہ انگلستان ہندوستان کو سلف گورنمنٹ دینے کا وعدہ کر چکا ہے جو کہ آئینیارتقاء کی آخری منزل ہے تو پھر ڈومینین سٹیٹس کی وہ کونسی بات رہ گئی جو اسے اس وعدہ کے مطابق نہیں مل سکتی-
اوپر کے حوالہ جات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ انگلستان صاف طور پر ہندوستان کو رسپانسیبل گورنمنٹ یا ڈومینین سٹیٹس دینے کا وعدہ کر چکا ہے اور اب اپنے اعلان سے پیچھے ہٹنا اس کے لئے اخلاقا بالکل ناجائز ہے اور اسے اس قسم کا مشورہ دینے والے لوگ اس کی عزت کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں-
اب میں دوسرے سوال کو لیتا ہوں کہ کیا ہندوستان سیاسی طور پر آزادی کا مستحق ہے؟
میرے نزدیک اس سوال کا جواب بھی اثبات میں ہے- سیاسی استحقاق دو طرح حاصل ہوتے ہیں- یا خدمت سے یا قابلیت سے- ہندوستان نے جنگ عظیم کے موقع پر انسانی آزادی کے قیام کے لئے ایک بے نظیر قربانی کر کے اپنے اس حق کو ثابت کر دیا ہے- جنگ کے دوران میں برطانیہ کے وزراء بار بار ہندوستانیوں سے اپیل کرتے تھے کہ دول متحدہ دنیا کی آزادی کو برباد کرنا چاہتی ہیں اور انہیں اس برے ارادہ سے روکنے کے لئے ہندوستان کو انگلستان کی مدد کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے- ہر اک شخص جانتا ہے کہ ہندوستان نے اس آواز کا جواب کس شاندار طور پر دیا- دس بارہ لاکھ آدمی کا مہیا کر دینا معمولی بات نہیں خصوصاً جب کہ ہندوستان کو اس جنگ سے کوئی ذاتی سرورکار نہ تھا- ایک محکوم قوم کو انتخاب کے لئے کوئی وسیع میدان حاصل نہیں ہوتا وہ ایک محکومی اور دوسری مملوکی میں چنداں فرق نہیں کرتی پس عام ہندوستانی اس امر کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتا تھا کہ انگریزی غلبہ اور جرمن غلبہ میں کچھ فرق ہے اس کے لئے یہ دونوں باتیں برابر تھیں- مگر پھر بھی پرانے تعلقات کو گو وہ محکومی کے تعلقات تھے اس نے محبت کی نگاہ سے دیکھا اور ان کے توڑنے کو پسند نہ کیا اور اپنا سب کچھ حکومت کے قدموں پر لا کر نثار کر دیا- اس قربانی کو آج کی اطمینان کی حالت کے اثر کے نیچے نہ دیکھو ان حالات کو سامنے لا کر دیکھو جب ہر وقت ڈوور۳~}~ کی بندرگاہ کی طرف انگلستان کی نگاہ لگی رہتی تھی اور جب انگلستان کی بہادر عورتیں ہر رات اس خوف میں سوتی تھیں کہ یہ رات ان محبانوطن کے لئے جو فرانس کے میدان میں اپنے وطن کی حفاظت کے لئے بیحفاظت کھلے میدان میں پڑے ہیں کیا پیغام لاتی ہے؟ جب ہر صبح شادی شدہ عورتیں دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ اٹھتی تھیں اور پہلا خیال ان کے دلوں میں یہ ہوتا تھا کہ کیا اب بھی وہ سہاگ کی حالت میں ہیں یا بیوہ ہو چکی ہیں- جب حیران و ششدر بچے اپنی مائوں کا منہ تکا کرتے تھے کہ کس مصیبت نے ان کے چہروں کو زرد اور ان کی آنکھوں کو بے کیف کر رکھا ہے اور حیران ہوتے تھے کہ ان کے والد کو کیا ہو گیا ہے کہ واپس ہونے کا نام ہی نہیں لیتا- جب مائیں اپنے بچوں کو حسرت و اندوہ سے تھپکی دیا کرتی تھیں جنہوں نے کبھی اپنے باپ کا منہ نہ دیکھا تھا اور نہ آئندہ دیکھنے کی امید تھی- جب ارباب حل و عقد جمع ہوتے تھے تو ان کا پہلا سوال یہ ہوتا تھا کہ اب آئندہ کیا ہونے والا ہے؟ جب انگلستان کی آزاد روح جس نے سات سو سال کی متواتر جدوجہد کے بعد حقیقی آزادی حاصل کی تھی اپنی سب سے عزیز چیز کو ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھتی تھی- ہاں جس وقت ایک مسکراہٹ خدمت اور ایک کلمہ تعریف وفاداری کہلاتا تھا- اس ماحول کو اپنے ذہن میں دوبارہ پیدا کر کے` ان خطرات کو سامنے لا کر` ان امیدوں کو جگا کر` ان بے کسیوں کی یاد کو تازہ کر کے پھر سوچو کہ محکوم ہندوستان جس پر اس جنگ کا کوئی بھی اثر نہیں تھا اس نے کس بہادری اور کس دلیری سے اس نازک موقع پر انگلستان کی مدد کی- جانے دو احمدیہ جماعت کو کہ وہ خوشامد پسند اور فطرتی وفادار مشہور ہے- گاندھی ہی کو دیکھو کہ وہ پیدائشی عدم تعاون کرنے والا شخص بھی اس وقت انگلستان کے لئے ریکروٹ مہیا کرنے کی خدمت میں لگا ہوا تھا اور ہندوستان کی جنگی قومیں اپنے جگر گوشے نکال نکال کر انگلستان کی آزادی کے قیام کے لئے دے رہی تھیں- اب جب کہ وہ خطرہ گزر گیا ہے بعض انگریز کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہندوستانیوں نے روپیہ کے لئے کیا- لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا انگریز فاقے کرکے لڑا کرتے تھے اور حکومت کا کوئی خرچ نہیں کرایا کرتے تھے؟ جو لڑے گا وہ کچھ خرچ بھی کرائے گا- باقی جان روپیہ سے نہیں خریدی جاتی- ہاں چند اپنی زندگی سے مایوس ہو کر روپیہ کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے لیکن ملکوں کے ملک کبھی روپیہ کے لئے اپنی جان بیچنے کو تیار نہیں ہوا کرتے- اور اگر تنخواہ لالچ کو ظاہر کرتی ہے تو ائتلافی ہوں یا اتحادی ان کے سب آدمی لالچ ہی سے کام کیا کرتے تھے-
ہندوستان نے کس جوش سے اس موقع پر انگلستان کا ساتھ دیا- اس کا جواب میں اپنے دوست سر مائیکل اوڈوائر (SIRMICHAELO`DWYER) کے الفاظ میں دیتا ہوں- جو اس وقت پنجاب کے جو درحقیقت ہندوستان کا ایک ہی جنگی صوبہ ہے لفٹیننٹ گورنر تھے-
>وہ شاندار جواب جو پنجاب نے برطانوی ایمپائر کی آواز کا دیا اور بھی زیادہ شاندار نظر آتا ہے جب ہم اس امر کو دیکھتے ہیں کہ پچھلی جنگوں کے مواقع پر عموماً اور دوسری افغانی جنگ کے موقع پر خصوصاً یہ ثابت ہو گیا تھا کہ جنگ کے موقع پر کسی بڑی تعداد میں ریکروٹ بھرتی کرنا خواہ ہندوستان کی سرحد پر ہی جنگ کیوں نہ ہو بہت مشکل ہوتا ہے<-
>سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنجاب کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور جن لوگوں کو دیہاتی مسلمانوں کا صرف سطحی علم تھا وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی جنگ کے لئے جو ترکوں کے خلاف تھی اور جو مصر` فلسطین اور عراق جیسے اسلامی ممالک میں جہاں کہ اسلامی مقدس مقامات ہیں لڑی جا رہی تھی مسلمان بھرتی نہیں ہوں گے-۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب مایوسانہ خیالات باطل ثابت ہوئے- جنگ کی ابتداء میں صرف ایک لاکھ پنجابی سپاہی تھا لیکن جنگ کے خاتمہ تک پانچ لاکھ آدمی فوجی خدمت کر چکا تھا- دوران جنگ میں اندازاً تین لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی بھرتی ہوا تھا- جو کہ کل ہندوستان کی بھرتی کے نصف سے بھی زائد تھا اور ان میں سے نصف پنجاب کے مسلمان تھے جو اس علم کے ساتھ بھرتی ہو رہے تھے کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کرنے جا رہے ہیں اور جن میں سے شاذو نادر کے سوا باقی سب باوجود سخت کوشش کے جو انہیں غدار بنانے کے لئے کی گئی حکومت کے وفادار رہے<- ۴~}~
آگے صفحہ ۲۱۹ پر وہ پنجابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ-:
>انہوں نے شروع جنگ سے ہی بغیر کسی جبر کے دلی شوق سے ہماری آواز پر شاندار طریق سے لبیک کہا<- ۵~}~
یہ اس شخص کی گواہی ہے جس نے میرے نزدیک انگلستان کے بچانے میں غالباً لارڈکچنر (LORDKITCHENER) اور مسٹر لائڈ جارج GEORGE) (L`ORD کے بعد سب سے زیادہ کام کیا تھا اور جس کی خدمات کا میرے نزدیک سوواں حصہ بھی اعتراف نہیں ہوا اور یہ اس ملک کی قربانی ہے جسے اس جنگ سے کسی حقیقی نقصان کا خطرہ نہ تھا-
کہا جاتا ہے کہ یہ خدمات پنجاب کی ہیں لیکن ہم پنجابی اپنے آپ کو باقی ہندوستان سے جدا نہیں سمجھتے- ہمارا صوبہ جنگی اقوام کا وطن ہے اس لئے اس نے لڑنے والی فوج دی- دوسرے صوبوں کی آبادی کے اخلاق اور ہیں انہوں نے مزدور اور روپیہ دیا ہر ایک سے جو کچھ ہو سکا اس نے دیا اور دل کھول کر دیا-
لیکن یہ بھی درست نہیں کہ باقی ملک نے لڑنے والے فوجی نہیں دیئے- سر اوڈوائر (SIRO'DWYER) تحریر کرتے ہیں کہ-:
>گورنمنٹ آف انڈیا نے خود اس طرف توجہ نہیں کی چنانچہ جب اپریل۱۹۱۸ء میں حضور ملک معظم نے اپیل کی تو اس پر سب صوبہ جات میں بیداری پیدا ہوئی اور جنگ کے آخری چھ ماہ میں باقی ہندوستان نے ایک لاکھ تراسی ہزار فوجیریکروٹ دیئے-<۶~}~
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کے بعد ملک میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن اس کا سبب یہ تھا کہ ہندوستان کے احساسات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا- ٹرکی جس کے فتح کرنے میں مسلمانوں کا بہت سا دخل تھا اس کے ساتھ مسلمانوں کے احساسات کو کچلتے ہوئے سب سے برا سلوک کیا گیا اور بعض انگریز ہندوستان کی خدمات کو یہ کہہ کر حقیر ثابت کرنے لگے کہ یہ سب کچھ روپیہ کی خاطر کیا گیا تھا-
غرض اس جنگ کے موقع پر جسے جنگ آزادی کہا جاتا ہے ہندوستان نے اپنی خدمات کے ذریعہ سے اپنے آپ کو مہذب دنیا میں برابری کے ساتھ شریک ہونے کا اہل ثابت کر دیا اور اس لحاظ سے وہ آزادی کا مستحق ہے- سوال کے پہلے حصہ کو حل کرنے کے بعد اب میں اس کا دوسرا پہلو لیتا ہوں-
کیا ہندوستان قابلیت کے لحاظ سے آزادی کا مستحق ہے؟
جہاں تک میں نے اس سوال پر غور کیا ہے میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ کوئی ملک بھی ایسا ممکن ہے جو آزادی کا مستحق نہ ہو- اگر کسی ملک کی تعلیم کم ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ جیسا وہ ملک ہے ویسے ہی اس کے حاکم ہوں گے- یہ سوال تبھی درست تسلیم کیا جا سکتا ہے جب کہ بقائے انسب ¶کے اصول کو پورے طور پر صحیح تسلیم کر لیا جائے لیکن جمہوریت کا اصول تو بقائے انسب کے اصول کے بالکل بر خلاف ہے جسے اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوائے چند پروفیسروں اور فلاسفروں کے کسی کو بھی ملک کی حکومت میں دخل نہیں حاصل ہونا چاہئے-
علاوہ ازیں قابلیت خود ایک مبہم لفظ ہے- اس کے معنی نہ کتابی علم کے ہیں اور نہ مختلف زبانیں جاننے کے- ایک شخص یا ایک قوم باوجود بالکل ان پڑھ ہونے کے حکومت کے قابل ہو سکتی ہے- چنانچہ لارڈ برائس جو آئین اساسی کے سب سے بڑے ماہر گزرے ہیں لکھتے ہیں کہ-:
>اس کی مثالیں مل سکتی ہیں کہ عوام الناس نے بعض ملکوں میں اسی طرح اپنے رائے دہندگی کے حق کو خوبی سے ادا کیا ہے جس طرح کہ ان لوگوں نے جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں<- ۷~}~
نیز تاریخ سے اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ ایسے ممالک جن میں تعلیم کم تھی ان میں اپنے ملک کے مناسب حال رسپانسیبل گورنمنٹ جاری تھی- پس محض اس وجہ سے کہ ہندوستان کے لوگ اس قدر تعلیم یافتہ نہیں ہیں جس قدر کہ اس زمانہ میں یورپ کے لوگ ہیں ہندوستان کو آزادی کے قابل نہ سمجھنا درست نہیں ہے- ہندوستانی گو دوسرے ملکوں کے لوگوں پر حکومت کرنے کے قابل نہ ہوں لیکن وہ اپنے ملک پر حکومت کرنے کے ضرور قابل ہیں- اور حق تو یہ ہے کہ اگر ان عارضی حالات کو نظر انداز کر دیا جائے جن کے ماتحت ایک قوم دوسری قوم کے ملک پر قبضہ کرنے کے لئے مجبور ہو جاتی ہے تو حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہ پیدا ہوئی ہے اور نہ جب تک سب اقوام انسانیت کے دائرے کے اندر محدود رہتی ہیں پیدا ہو سکتی ہے کہ جو دوسری اقوام پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے کے قابل ہو-
حقیقت یہ ہے کہ اصول سیاست کے مطابق قابلیت صرف حکومت کرنے کی خواہش کا نام ہے- یہی سب سے اہم امر ہے جسے ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے اور جب کسی ملک میں یہ خواہش زور کے ساتھ پیدا ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم کو آزادی دے دینی چاہئے- کیونکہ تعلیم سے بھی زیادہ یہ خواہش اہمیت رکھتی ہے- لارڈ برائس کی یہ تحریر صداقت سے پر ہے کہ-:
>یہ بات جو کہی جاتی ہے بالکل سچی ہے کہ علم اور تجربہ اور نیز ذہانت کسی قوم کو آزاد حکومت کا مستحق بنانے کے لئے نہایت ضروری امور ہیں- لیکن تجربہ نہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک نقص جو اس مقصد کے حصول کی راہ میں ہوتا ہے وہ افراد قوم میں آزادی کی خواہش کا موجود نہ ہونا ہے<- ۸~}~
یہ بالکل سچ ہے کہ سلف گورنمنٹ (SELFGOVERNMENT) بغیر عوام الناس میں خواہش آزادی کے نہیں حاصل ہو سکتی- اور یہ امر بھی ویسا ہی صحیح ہے کہ جب یہ خواہش کسی ملک کے باشندوں میں پیدا ہو جائے تو ان کو آزادی سے محروم رکھنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے-
ہندوستان کے گزشتہ واقعات سے یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ہندوستان میں اب یہ عام خواہش ہے کہ اسے آزادی حاصل ہو جائے- یہ تغیر اس قدر جلد ہوا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے- آج سے بارہ تیرہ سال پہلے میں تجربہ کی بناء پر کہا کرتا تھا کہ یہ خواہش صرف چند تعلیم یافتہ لوگوں میں ہے اور باقی لوگ اس سے ناآشنا ہیں- آج میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اب یہ خواہش عوام الناس میں بھی پیدا ہو گئی ہے- بوجہ ایک مذہبی راہنما ہونے کے مجھے کثرت سے گائوں کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ان گوشوں میں جہاں تعلیم کا نام و نشان نہیں زمیندار شوق سے اس دن کے آنے کے متعلق گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ ہندوستان کو کب آزادی ملے گی؟
میں اس سوال کو بالکل ان پڑھ زمینداروں کے منہ سے سن کر محو حیرت ہو جاتا ہوں کہ >کیا انگریز اب ہمارے ملک کو کچھ دیں گے بھی یا نہیں؟< اس سوال کا کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس قدر جلد پیدا ہو جانے کا احتمال آج سے بارہ سال پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا- اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا بڑا باعث جنگ عظیم ہے- ان دنوں میں برطانیہ نے ہندوستان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے بڑی کثرت سے ملک میں اپنی مظلومیت اور جرمنوں کے ہاتھوں مختلف ممالک کی آزادی کے تباہ ہو جانے کا پروپیگنڈا کیا تھا- اس پروپیگنڈا نے بعض ایسے اصول سے ہندوستانیوں کو واقف کر دیا جنہیں خود ان کے لیڈر ان کے کانوں میں نہیں ڈال سکے تھے- بے شک یہ امر ایک بہت بڑا دخل اس تغیر میں رکھتا ہے لیکن کونسا تغیر دنیا کا بلاوجہ ہوا کرتا ہے- ایک وجہ اس تغیر کی یہ بھی ہے کہ ہندوستانیوں کو کانگریس نے ان کے بعض حقوق کے تلف ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کے بدلنے سے ان کے وہ حقوق انہیں مل جائیں گے اور ان کے بوجھ کم ہو جائیں گے-
زمینداروں کی حالت پنجاب میں پچھلے چار سال سے بہت خراب ہے- فصلوں کی متواتر تباہی اور اس سال غلہ کا نرخ گر جانے کے سبب سے زمینداروں کی کمر بالکل ٹوٹ گئی ہے- انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت کے تغیر سے ان کی یہ مشکلات دور ہو جائیں گی اور اس کی وجہ سے وہ حکومت کے تغیر کے خواہاں ہو رہے ہیں گو ان میں سے ایک حصہ ابھی اس قدر دلیر نہیں کہ حکام کے سامنے بھی یہ بات کہے` لیکن اپنی مجالس میں وہ یہ باتیں ضرور کہتے ہیں-
کہا جا سکتا ہے کہ یہ خواہش عارضی اسباب کی وجہ سے ہے لیکن یہ دلیل اس خواہش کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتی- بالکل ممکن ہے کہ سلف گورنمنٹ میں ان مشکلات کا علاج نہ ہو سکے لیکن لوگ مشکلات میں یہ نہیں دیکھا کرتے کہ دوسری تدبیر کامیاب ہو گی یا نہیں- وہ صرف یہ دیکھا کرتے ہیں کہ موجودہ تدبیر ہماری مشکلات کو دور نہیں کر سکی اور وہ اسے توڑ کر کوئی اور تدبیر جو خواہ کتنی ہی خلاف عقل کیوں نہ ہو اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جایا کرتے ہیں- جس وقت انگلستان میں تحریک آزادی پیدا ہوئی ہے اس وقت بھی عارضی تکالیف ہی اس کی موجب تھیں- میگنا چارٹا (MAGNACHARTA) کا باعث اہالئی انگلستان کا آئین سیاست کا مطالعہ نہ تھا بلکہ کنگ جان (KINGJOHN) کے حقیقی یا خیالی مظالم سے بچنے کی خاطر انہوں نے میگناچارٹا حاصل کیا تھا- پس میگنا چارٹا آئین اساسی کے احساس سے پیدا نہیں ہوا بلکہ آئیناساسی میگنا چارٹا کی وجہ سے پیدا ہوئے-
غرض یہ دلائل اقوام کے تغیر میں کام نہیں آتے اور نہیں آ سکتے- آزادی کے سیاسی استحقاق کے لئے جس امر کو دیکھنا چاہئے وہ صرف ایک عام خواہش ہے اور وہ اس وقت ہندوستان میں پیدا ہو چکی ہے- اگر ہندوستان میں اس سوال کے متعلق عام رائے لی جائے تو جو لوگ اس صورت حالات کو تسلیم نہیں کرتے ان کی آنکھیں کھل جائیں گی- اور میرے نزدیک تو کانگریس کے بائیکاٹ کی تحریک نے بھی ایک حد تک ثابت کر دیا ہے کہ ملک میں ایک عام خواہش حصول آزادی کی پیدا ہو چکی ہے- اور جب یہ خواہش پیدا ہو چکی ہے تو انگلستان کا دیانتدارانہ فرض ہے کہ وہ اب اس سوال کو مناسب طریق پر حل کرے- یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اس نئے تجربے میں نقصان ہونگے- بے شک ہوں گے لیکن بقول لارڈ برائس-:
>غلطیاں ہونگی اور نقصان یقیناً اٹھانا پڑے گا لیکن جب تک کسی قوم کو اس کا کوئی مضبوط ہمسایہ غلام نہیں بنا لیتا یا اپنے اندر جذب نہیں کر لیتا` ناکامیاں شاذو نادر ہی ناقابل اصلاح ہوتی ہیں- لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خود مختار حکومت کی برکات میں سے یہ ایک برکت ہے کہ نقصان سے علم پیدا ہوتا ہے اور علم سے دانائی پیدا ہوتی ہے- جب کہ اس کے برخلاف غیر حکومت خواہ کس قدر ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو اس کے ماتحت لوگوں کا علم اول تو بڑھتا نہیں اور اگر بڑھتا ہے تو نہایت ہی سست رفتار سے<-۹~}~
انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس خواہش کے پیدا کرنے میں خود اس کا بھی بہت کچھ حصہ ہے اور دوسرے لوگ اس کی اس کوشش کی قدر کریں یا نہ کریں میں اس کیکوشش کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے لوگ اس کے ممنون ہوں- بہرحال جب کہ انگلستان نے یہ خواہش ہندوستانیوں کے دلوں میں پیدا کی ہے پھر ۱۹۱۹ء کے انڈیا ایکٹ کے ذریعہ اس خواہش کو اور بھی تیز کر دیا ہے تو وہ اب کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا- اسے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو اس کے سب سے بڑے آئین اساسی کے ماہر نے جس کے کئی حوالے میں پہلے نقل کر چکا ہوں کہے ہیں- وہ لکھتے ہیں-:
>قوموں پر ایسے وقت آیا کرتے ہیں کہ جب آگے بڑھنا کھڑے ہونے سے بہرحال بہتر ہوتا ہے جب کہ اختیارات دینا زیادہ دانشمندی کے مطابق ہوتا ہے- خواہ ان کے غلط استعمال کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو- بہ نسبت اس کے کہ اختیارات کو روک کر بے چینی پیدا کی جائے<-۱۰~}~
میں انگلستان کا ایک خیر خواہ ہونے کی حیثیت سے جس نے بمعہ اپنی جماعت کے ہر فتنہ اور فساد کے موقع پر قیام امن کی اہم خدمات انجام دی ہیں اور جو اس وقت بھی بائیکاٹ وغیرہ کا مقابلہ کر رہا ہے` اسے بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں یہ وقت آ گیا ہے اور اب اسے وہ تجربہ کرنے دینا چاہئے جس کے لئے وہ فی الحقیقت بے تاب ہو رہا ہے- اگر وہ وقت نہ آ چکا ہوتا تو کانگریس کی خلاف اخلاق اور خلاف عقل تجاویز کبھی بھی ملک میں کامیاب نہ ہوتیں- ان کی وسیع کامیابی بتا رہی ہے کہ ملک کے ایک کافی حصہ کی دماغی کیفیت ہندوستان کی آزادی کے سوال کے متعلق اپنا توازن کھو چکی ہے-
کیا ہندو مسلم اختلاف کی موجودگی میں ہندوستان کو آزادی دی جا سکتی ہے؟
جب کبھی ہندوستان کی آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے- بعض لوگ یہ سوال اٹھا دیا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مختلف اقوام میں اس قدر اختلاف ہے کہ انہیں حکومت دینا گویا انہیں تباہ کرنا ہے لیکن بعض لوگ اس کے مقابلہ میں یہ کہا کرتے ہیں کہ حکومت ہندوئوں اور مسلمانوں کو خود لڑواتی ہے تا کہ کبھی بھی ہندوستان آزاد نہ ہو سکے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں شدید اختلاف ہے- ایسا شدید کہ ہر بہی خواہ ملک اسے دیکھ کر تکلیف محسوس کرتا ہے- میں جب کبھی اس اختلاف پر غور کرتا ہوں تو میرا دل حسرت و اندوہ سے بھر جاتا ہے لیکن حسرت واقعات کو نہیں بدل سکتی- مگر یہ امر بھی درست نہیں کہ اس کا موجب انگریز ہیں اور یہ کہ وہ جان بوجھ کو ہندوئوں اور مسلمانوں کو لڑواتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزوں میں کوئی برا نہیں- ان میں بھی اسی طرح برے لوگ ہیں جس طرح ہندوستانیوں میں ہیں- بالکل ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ہندو مسلمان کو لڑواتے بھی ہوں جس طرح کہ بعض ہندوستانی اپنے بھائیوں کو لڑواتے ہیں- لیکن میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ ایک قوم کی قوم جو دانائی اور انسانی ہمدردی میں ایک قابل تقلید نمونہ دکھا رہی ہو اخلاق میں اس قدر گر گئی ہو کہ اس کے تمام افراد یا اکثر افراد دو قوموں میں لڑائی کروا کے تماشہ دیکھتے ہوں- اگر ہندوستان کے کسی ایک مقام پر ہندو مسلمان میں فساد ہوتا تو میں سمجھتا کہ کسی انگریز افسر کی کارروائی ہے- پھر اگر صرف ان علاقوں میں فساد ہوتا جو براہ راست انگریزوں کے ماتحت ہوتے ہیں تو میں ایسا سمجھ لیتا لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں فساد ہندوستانی افسروں کے ماتحت بھی ہوتا ہے بلکہ شاید زیادہ ہوتا ہے- اور ریاستوں میں بھی ہوتا ہے جن میں انگریزوں کی سیاست براہ راست کام نہیں کر رہی ہوتی- پھر باوجود ان حقائق کے انگریزوں پر فسادات کا الزام لگانا کسی طرح شرافت نہیں کہلا سکتا اور میرے نزدیک اس قسم کا الزام لگانے والے صرف اپنی گندی فطرت کا ثبوت دیتے ہیں- اگر یہ فساد انگریز کروا رہے ہیں تو وہ فسادات اور مظالم جو سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر سکھ حکومت کے زمانہ میں ہوتے تھے یا وہ خانہ جنگیاں جو سیواجی نے اورنگ زیب کے زمانہ میں کیں اور وہ قتل عام جو اس کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہوا اس کا ذمہ وار کون تھا؟ جب انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندومسلم فسادات شروع ہو چکے تھے- اور جب اسلامی حکومت کے تنزل کے زمانہ سے ہی ہندو مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کی فکر میں لگ گئے تھے تو اس الزام کو انگریزوں پر عائد کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟
یہ میں تسلیم کر لوں گا کہ جس طرح ہمارے مختلف میلان ہوتے ہیں انگریزوں کے بھی مختلف میلان ہوتے ہیں- جو انگریز شروع ملازمت میں ایسے علاقہ میں لگتا ہے کہ جس میں مسلمان مضبوط اور کام کرنے والے ہوں وہ مسلمانوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جو ہندوئوں کے علاقہ میں مقرر ہوتا ہے وہ زیادہ تر ہندوئوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے مگر یہ ایک ایسا طبعی امر ہے کہ جس سے کوئی قوم بچ نہیں سکتی- انسانی مدنی الطبع ہے اور جن لوگوں سے اسے زیادہ ملنے کا موقع ملتا ہے وہ ان کی طرف طبعاً زیادہ مائل ہوتا ہے- اس سے بڑھ کر بحیثیت قوم انگریزوں پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا اور یہ کوئی قصور نہیں- اور اگر ہے تو اس کا فائدہ زیادہ تر اس الزام کے لگانے والے یعنی ہندو ہی اٹھاتے ہیں کیونکہ انہی کی اس ملک میں کثرت ہے- اسی وجہ سے انگریز زیادہ تر انہی کی طرف مائل ہوتے ہیں-
اصل حقیقت یہ ہے کہ ان فسادات کا اصل موجب ہندو دماغ کی بناوٹ ہے- ہندو بوجہ چھوت چھات اور قومی برتری کے خیال کے دوسری اقوام سے مل کر کام کر ہی نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اسے یہ یقین ہو کہ یہ قوم مجھ پر برتری نہیں حاصل کر سکتی- یہ خیالات اسے ورثہ میں ملے ہیں اور ان کے دور کرنے کے لئے محنت درکار ہے جس کے لئے افسوس ہے کہ ہندولیڈر بوجہ غالباً اس سے زیادہ اہم امور یعنی ہندوستان کے لئے آزادی حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کے ابھی فرصت نہیں نکال سکے لیکن اپنے قصور کو دوسری قوم پر تھوپنا ایک صریح ظلم ہے- بہرحال میں اس سوال کے متعلق آگے چل کر تفصیل کے ساتھ لکھوں گا سردست میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اختلافات ضرور موجود ہیں اور نہایت خطرناک صورت میں- اور ان کی ذمہ واری انگریزوں پر نہیں بلکہ ہندئووں پر ہے لیکن باوجود اس کے ہندوستان کو آزادی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا-
اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلافات کی موجودگی میں رسپانسیبل گورنمنٹ (RESPONSIBLEGOVERNMENT) کے راستہ میں سخت روک ہوتی ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رسپانسیبل گورنمنٹ کے بغیر اس قسم کے اختلافات مٹ بھی نہیں سکتے- ہندوئوں میں اختلاف پیدا کرنے کا مادہ اس لئے ہے کہ وہ ہزار سال سے حکومت کے مفہوم سے ناواقف ہیں- جب کہ انگریز اس وقت حکومت کر رہے ہیں اور مسلمان ابھی قریب کے زمانہ میں حکومت کر چکے ہیں اور اب بھی ان کے بھائی بند آزاد ممالک میں حکومت کر رہے ہیں- پس وہ جانتے ہیں کہ ترقی جس قدر ایک ملک کے باشندوں میں صلح سے حاصل ہو سکتی ہے جنگ سے نہیں ہو سکتی- لیکن ہندو بوجہ ایک عرصہ سے حکومت سے محروم ہونے کے خیال کرتے ہیں کہ جب تک دوسروں کو پیس نہ دیا جائے ہم ترقی نہیں کر سکتے- وہ کامیابی کی وسیع راہوں سے بے خبر ہیں اور غالباً اس میں چھوت چھات اور قومی تفریق کا بھی بہت کچھ دخل ہے مگر اس کا ایک ہی علاج ہے کہ ہندوستان میں رسپانسیبل گورنمنٹ کی بنیاد رکھی جائے تا کہ ہندوستان کے باشندوں کو تجربہ سے صلح و آشتی کے فوائد معلوم ہوں اور ان کے اخلاق کی اصلاح ہو- اگر اس علاج کو اختیار نہ کیا گیا تو کبھی بھی یہ نقص دور نہ ہوگا اور کبھی بھی ہندوستان آزادی کا مستحق نہ بنے گا-
پس ہمیں یہ غور کرنا چاہئے کہ کس طرح آئندہ نظام حکومت میں اس فساد کے امکانات کو کم کیا جائے نہ یہ کہ اس اختلاف کی موجودگی میں ہندوستان کو آزاد حکومت دی ہی نہ جائے-
اگر ہندوستان آزادی کا مستحق ہے تو کس حد تک؟
سوال کے اس حصہ کا جواب دینے کے بعد کہ کیا ہندوستان آزادی کا مستحق ہے؟ میں سوال کے اس حصہ کو لیتا ہوں کہ اگر ہے تو کس حد تک؟
بعض لوگ اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہندوستان پوری آزادی کا مستحق ہے بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان کو برطانیہ سے الگ ہو کر اپنی حکومت قائم کرنی چاہئے- گو کانگریس کے نمائندے رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں نہیں لیکن چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کے نمائندوں میں ایسے شامل ہوں جو کانگریس کے اس مطالبہ کو پیش کر دیں اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کا یہ فعل نہ صرف ہندوستان سے دشمنی کا موجب ہوگا بلکہ دنیا سے دشمنی کا موجب ہوگا-
انگلستان پر آپ خواہ کتنے الزام لگا لیں- انگلستان نے ڈومینین سٹیٹس (DOMINIONSTATUS) کی ایجاد سے دنیا کے اتحاد کی جو راہ کھول دی ہے وہ میرے نزدیک ایک الہی اشارہ ہے جو آئندہ طریق عمل کی طرف ہماری راہنمائی کر رہا ہے- ہم قوموں اور ملکوں کے سوال میں اس قدر پھنس گئے ہیں کہ ہمارے ذہن سے یہ امر بالکل اتر گیا ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں اور جس طرح ایک باپ کی اولاد الگ الگ جائیداد رکھنے کے باوجود پھر ایک ہی رشتہ میں منسلک ہوتی ہے ہم بھی باوجود الگ الگ ملکوں میں بسنے کے پھر ایک ہی وجود کی طرح ہوں اور نہ تو ملکوں کا اختلاف اور نہ قوموں کا اختلاف ہمارے ان برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکے جو ہمارے پیدا کرنے والے نے ہم میں قائم کئے ہیں- بے شک لوگ مجھے مذہبی دیوانہ کہہ لیں لیکن میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ دنیا کو ایک مقام پر جمع کر دے بعد اس کے کہ وہ پراگندہ ہو رہی تھی اور یہ اس کا ارادہ آثار سے ظاہر ہے- میل جول کے سامان نئے سے نئے پیدا ہو رہے ہیں` قومیں آپس میں مل رہی ہیں` اتحاد امم کی خواہش ہی نہیں پیدا ہو رہی بلکہ دنیا ایسی مشکلات میں سے گذر رہی ہے کہ کسی نہ کسی قسم کے اتحاد کے لئے وہ مجبور ہو رہی ہے- ان تدابیر میں سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کو متحد کرنے کیلئے کی جا رہی ہیں ایک لیگ آف نیشنز (LEAGUEOFNATIONS) بھی ہے اور دوسرے برطانوی حکومت کا موجودہ ڈھانچہ ہے جو میرے نزدیک ابتدائی تدابیر میں سے سب سے مکمل صورت میں ہے اس کے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملک ایک خیالی زنجیر میں بندھے ہوئے اور ایک رشتہ میں منسلک نظر آتے ہیں- کوئی طاقت اور کوئی فوج اس اتحاد کا موجب نہیں` کوئی جبر اسے قائم نہیں رکھے ہوئے` ایک دلی ارادہ اور ایک دلی خواہش یہ سب کچھ کرا رہی ہے- ہر حصہ اپنے ملک میں آزاد ہے ویسا ہی آزاد جیسے کہ وہ ملک جو اس سلطنت سے باہر ہیں مگر پھر سب مل کر ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہیں` ایک دوسرے کی مشکلات میں ہمدردی کرتے ہیں` ایک کل کا اپنے آپ کو جزو سمجھتے ہیں- کوئی اسے خیال دنیا کہے یا قوتواہمہ کا حد سے بڑھ جانا خیال کرے میں تو اس سسٹم کو دنیا کے آئندہ اتحاد کے لئے بطور بیج کے خیال کرتا ہوں اور دنیا کے اتحاد کے خواب کی تعبیر سمجھتا ہوں- اگر ہندوستان اس سلسلہ کو اپنی شمولیت سے مضبوط کر دے تو یقیناً وہ اتحاد عالم کی ایک شاندار خدمت کرے گا- میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے مخفی اسباب پیدا کر کے یہ سلسلہ شروع کیا ہے- اور آہستہ آہستہ اس کے نقائص دور ہو کر ایک دن یہ ایسا مکمل ہو جائے گا کہ جو تھوڑا بہت شائبہ انگلستان کی برتری کا ہے وہ بھی جاتا رہے گا- اور اس وقت اس کی خوبیوں سے متاثر ہو کر کئی آزاد کہلانے والے ممالک بھی جب ان کے باشندوں کے دلوں سے قومیت کی تنگ دلی کم ہو جائے گی اس میں شمولیت کے خواہشمند ہو جائیں گے- اور غالباً اللہ تعالیٰ کی مشیت جو دنیا سے جنگ کو ایک وقت تک مٹا دینے کے متعلق ہے اسی صورت میں پوری ہوگی اور امن ایک مستحکم بنیاد پر قائم ہو جائے گا- اس وقت بہت سے ممالک جن میں انگلستان بھی ایک فرد ہوگا صرف ایک مرکزی نقطہ سے وابستگی پیدا کر کے ایک آزاد نظام کے حصے ہو جائیں گے اور یا تو ان کے باہم اتصال کے لئے کوئی ایسی وزارت قائم کی جائے گی جو براہ راست کسی ملک کے نظام سے تعلق نہ رکھتی ہوگی اور یا پھر تمام ممالک جو اس نظام کا حصہ ہونگے ان کے وزراء باری باری اس خدمت کو انجام دیں گے اور مساوات اپنی پوری صورت میں ظاہر ہو جائے گی- یہ محض وہم کی پرواز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فعل دنیا کو اس طرف لے جا رہا ہے اور محبت کی بنیاد پر اتحاد امم کی ہر سکیم اس کے کسی نظام کو اختیار کرنے پر مجبور ہے-
پس جب کہ دنیا کے تغیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو ملکیت اور قومیت کی قیدوں سے آزاد کرانے اور ایک پائیدار اتحاد میں جکڑنے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں تو کیا یہ ہماری بے وقوفی نہ ہوگی کہ ہم جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس راہ کے اختیار کرنے کی طاقت دی ہے اس موقع کو گنوا دیں اور بجائے دنیا میں اتحاد پیدا کرنے کے شقاق کی راہ کھولیں اور بجائے جوڑنے کے توڑنے لگیں- بے شک انسان کو خدا تعالیٰ نے بہت کچھ طاقتیں دی ہیں لیکن جو قوم اس رو کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہے جسے خدا تعالیٰ چلاتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور حوادث کے ساحل پر اس کے جہاز ٹکرا ٹکرا کر غرق ہو جاتے ہیں-
پس میں سب نمائندوں سے اور اپنے ملک کے دوسرے باشندوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اپنے جوشوں پر قابو پاتے ہوئے انگلستان سے علیحدگی کے خیال کو دل سے نکال دیں کہ اس طرح وہ اپنے ملک کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے لیکن دنیا سے دشمنی کے مرتکب ضرور ہو جائیں گے-
الغرض انگلستان سے علیحدہ ہونے کا خیال نہ صرف امکان کے خلاف ہے بلکہ قانونقدرت کے منشاء کے بھی خلاف ہے پس اسے ہمیں بالکل نظر انداز کر دینا چاہئے اور اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ انگلستان سے تعلق رکھتے ہوئے ہندوستان کس حد تک آزادی کا مستحق ہے؟
اگر اس سوال کا تعلق موجودہ زمانہ سے نہ ہو بلکہ آئندہ زمانہ سے ہو تو میں جواب دوں گا کہ ہندوستان ویسی ہی آزادی کا مستحق ہے جیسی آزادی کہ دوسری آزاد نو آبادیوں کو حاصل ہے اور جسے ڈومینین سٹیٹس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے- لیکن اگر اس سوال کا تعلق موجودہ زمانہ سے ہو تو میں ملامت گر کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر کہوں گا کہ ہندوستان ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ اسے اس وقت کامل آزادی مل جائے فوراً ڈومینین سٹیٹس مل جانے کو میں برکت نہیں بلکہ عذاب قرار دوں گا-
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تجربہ سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے لیکن تجربہ کی بھی ایک حد ہوتی ہے- جب اس حد سے زیادہ تجربہ کو لے جایا جائے تو پھر تجربہ ہلاکت کا بھی موجب ہو جاتا ہے- پس یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہمیں تجربہ کرنے دو ہم تجربہ سے سیکھ جائیں گے- اگر اس قسم کی آزاد حکومت جو ڈومینین سٹیٹس کہلاتی ہے ہندوستان کو یکدم دے دی جائے تو سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ اسے اس کا تجربہ کرنے کی مہلت بھی کوئی نہ دے گا- باہر کے ممالک کو جانے دو شاید ان کا خطرہ خیالی ہو لیکن ہمارے اپنے اندر لڑنے کی کافی روح موجود ہے- پیشتر اس کے کہ تجربہ ہندوستانیوں کو مضبوط کرے وہ تجربہ کی حد سے آگے نکل چکے ہوں گے اور دنیا تباہی اور بربادی کا ایک ایسا منظر دیکھے گی جو قرون وسطیٰ میں یورپ میں بھی نظر نہیں آیا- ہم ایک وطنیت کے خواہاں لیکن اس صورت میں ہماری قومیت بھی باقی نہیں رہے گی-
سٹیج پر کھڑے ہو کر یہ کہہ دینا یا قلم پکڑ کر یہ لکھ دینا کہ ہندوستان اس وقت مکمل آزادی کے قابل ہے آسان ہے لیکن حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- وہ بحری جہاز کہاں ہیں جو ہمارے ساحل کی حفاظت کریں گے اور ہماری تجارتوں کو بے خطرہ فروغ پانے دیں گے؟ اور وہ فوجیں کہاں ہیں کہ جو ہماری سرحدوں کو بچائیں گی اور ہمارے ملک کے امن کو قائم رکھیں گی؟ اور وہ درس گاہیں کہاں ہیں جو ہماری سیاسی اور ملکی ضرورتوں کو پورا کرنے والے نوجوان ہمیں دیں گی؟
بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیں گے کہ ان چیزوں کا نہ ہونا انگریزوں کا قصور ہے- میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ کس کا قصور ہے؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا ان حالات میں فوراً کاملآزاد حکومت مل سکتی ہے؟ کیا یہ کہہ کر کہ یہ انگریزوں کا قصور ہے ہندوستان اس قابل ہو جائے گا کہ فوراً اپنے ملک کے انتظام کو سنبھال لے؟
یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ مثلاً آئرلینڈ نے ایک دن میں آزاد گورنمنٹ حاصل کر لی تھی کیونکہ آئرلینڈ اور ہندوستان میں فرق ہے- آئرلینڈ انگلستان کا ایک جزو تھا اور آزادحکومت کی سب کلیں اس میں اسی طرح موجود تھیں جس طرح کہ آزاد ممالک کی ہوتی ہیں- اس کے باشندے اعلیٰ فوجی عہدوں پر مامور تھے اور نظام سلطنت کے ہر شعبہ میں آئرلینڈ کو تجربہ حاصل تھا- علاوہ ازیں آئرلینڈ کا ملک ایک چھوٹا جزیرہ ہے جسے بوجہ انگلستان سے ملحق ہونے کے کسی بحری طاقت سے خطرہ نہیں اور ملک میں صرف ایک ہی قوم بسنے کی وجہ سے کوئی زیادہ پریشانی کے سامان نہیں-
یہی حال دوسرے ممالک کا ہے جو جنگ عظیم کے بعد آزاد ہوئے ہیں- گو وہ نام کے لحاظ سے دوسری حکومتوں سے ملحق تھے لیکن کام کے لحاظ سے وہ اپنے حاکموں کے ساتھ شریک تھے اور ان کی جدائی صرف نام کی جدائی تھی لیکن یہ حال ہندوستان میں نہیں- ہندوستان میں اگر کوئی حصہ فوراً آزاد کیا جا سکتا ہے تو وہ صوبہ جات ہیں- جن کے سب کل پرزے پہلے ہی ہندوستانیوں کے قبضہ میں آ چکے ہیں- باقی رہا مرکز اس کے آزاد کرنے کے لئے بہت کچھ تیاری کی ضرورت ہے-
فلپائن کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس نے ان جزائر کو اور کیوبا کو آزاد کرانے کے لئے سپین سے جنگ کی لیکن باوجود ارادہ کے انہیں فوراً آزادی دینے کے قابل نہ ہوئیں اور کیوبا کے متعلق تو تھوڑی لیکن فلپائنز کے متعلق بہت زیادہ نگرانی اور حفاظت کی ضرورت انہیں محسوس ہوئی- چنانچہ فلپائنز کی حکومت تو اب تک بھی ان کی نگرانی کی محتاج ہے-
اس زمانہ میں کسی ملک کو پوری آزادی حاصل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل چیزوں کی ضرورت ہے-
۱
فوج کے انتظام کرنے کی اہلیت رکھنے والے افسروں کی-
۲
اس قسم کے کارخانوں کی جہاں اسلحہ جنگ تیار اور مرمت ہو سکیں-
۳
ہوائی جہازوں پر کام کرنے والے اور ان کے جنگی کام کی اہلیت رکھنے والے اعلیٰافسروں کی-
۴
بحری بیڑے کی جو ساحل کی حفاظت نہ صرف غنیم سے بلکہ بد دیانت تاجروں کی دخلاندازی سے بھی کرے-
یہ چار چیزیں تو ایسی ہیں کہ جن کی آزادی کے لئے فوری ضرورت ہے- باقی اور بیسیوں امور ہیں کہ جن کی تکمیل کی ضرورت ہے- گو انہیں ایک وقت تک نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مذکورہ بالا امور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہمارے ہندوستانی کمیشن والے فوجیافسروں یا نوجوان کنگز کمیشن والے افسروں کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک دن میں سب ذمہ داری کے عہدوں کو سنبھالنے کی قابلیت پیدا کر لیں گے- نہ ایک دن میں جنگیبیڑا اور اس پر کام کرنے والے یا ہوائی جہاز اور ان پر کام کرنے والے یا جنگی سامانوں کی مرمت کے ماہر پیدا ہو سکتے ہیں-
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم اپنے ہمسایوں سے صلح رکھیں گے- کیونکہ ہمسایوں سے صلح رکھنی ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہمارے ہمسایوں کے اختیار میں ہے- کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بھی ہم سے صلح رکھیں گے- ان کا موجودہ اظہار دوستی ہر گز ہمیں تسلی نہیں دلا سکتا- اٹلی نے جس دن ٹرکی کے افریقن علاقہ پر عملہ کرنا تھا اسی دن اس کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ٹرکی سے ہمارے تعلقات ایسے اچھے پہلے کبھی نہیں ہوئے- موجودہ زمانہ میں ہمیں نہ صرف افغانستان کی طرف سے خطرہ ہے بلکہ شمالی سرحد کی طرف سے روس اور نیپال دونوں حکومتوں سے خطرہ ہے- پہلے زمانوں میں شمالی لوگوں کو ہندوستان پر حملہ کا خیال نہیں پیدا ہوا تھا لیکن مغلیہ حکومت کے آخری دور میں نیپال کو ہندوستان کی فتح کا خیال پیدا ہو چکا ہے- ایک دفعہ انگریزوں کی وجہ سے اس کا حملہ ناکام ہوا تھا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ آزاد ہندوستان پر بھی اس کا حملہ اسی طرح ناکام ہوگا- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریز اس وقت ملک کو بچانے کے لئے آئیں گے اس قدر دور ملک سے جب کہ خود اس ملک میں جنگی تیاری کا مرکز موجود نہ ہو مدافعت بالکل ناممکن ہوتی ہے اس وقت جنگ کی مشینری یہاں موجود ہے- ہندوستان کو پوری آزادی دینے کے بعد یہ حالت نہیں رہ سکتی اور نئے سرے سے مرکز قائم کرنا بہت مشکل کام ہے- پس ان حالات کے ماتحت ہمیں ایک عرصہ تک انگریزی دخل ہندوستان کی مرکزیحکومت میں تسلیم کرنا ہوگا اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہندوستان کو آزادی کچھ مدارج طے کرنے کے بعد ہی مل سکتی ہے` یکدم نہیں-
‏a11.8
انوار العلوم جلد ۱۱
ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل

باب چہارم
آزادی کے مختلف مدارج کس طرح مقرر کئے جائیں؟
پہلے باب کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس سوال پر غور کریں کہ اگر کامل آزادی فوراً نہیں مل سکتی اور یہ عارضی روک انگلستان نہیں بلکہ ہندوستان کے فائدہ کیلئے ہے تو پھر وہ کونسا طریق اختیار کیا جائے کہ جس کے ذریعہ سے بغیر ناواجب دیر کے ہندوستان کو ہر قدم پر اس قدر آزادی ملتی جائے جس قدر آزادی کا کہ وہ اس وقت مستحق ہو-
اس سوال کے دو حل اس وقت تک تجویز کئے جا چکے ہیں- ایک حل مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ۱۱~}~ (MONTAGUECHELMSFORDREPORT) میں تجویز کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ایک رائل کمیشن بیٹھے جو یہ فیصلہ کرے کہ گذشتہ سالوں میں کس قدر ترقی ہندوستان نے کی ہے اور اب اس کے نظام اساسی میں کس قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے-
اس حل کو سائمن کمیشن نے رد کر دیا ہے اور ہندوستان کی موجودہ شورش کا بہت بڑا حصہ اس حل کی طرف منسوب کیا ہے- میرے نزدیک یہ درست نہیں- جن حالات میں مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ تیار ہوئی تھی ان کے ماتحت قیام امن کا بہترین علاج یہی تھا کہ ہندوستانیوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ سکیم آخری تجویز نہیں ہے بلکہ انہیں آئندہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اختیارات ملتے چلے جائیں گے- وہ بالکل نیا تجربہ کر رہے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا اور ان کے سامنے ان آنے والے دس سالوں کی تاریخ نہ تھی جو سائمن کمیشن کے سامنے تھی- پس ان حالات میں وہی سکیم بہتر تھی جو انہوں نے تجویز کی اور یہ بالکل درست نہیں کہ دوبارہ کمیشن کے قیام کی امید کی وجہ سے ہندوستان میں کوئی شورش ہوئی بلکہ حق یہ ہے کہ شورش کا موجب یہ تھا کہ ہندوستان کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھتا تھا کہ مانٹیگوچیمسفورڈسکیم نے ہندوستان کو اس قدر حق نہیں دیا جس قدر کہ اسے دینا چاہئے تھا بلکہ اس دس سال کے بعد دوبارہ غور ہونے کے خیال سے کئی وہ لوگ جو دوسری صورت میں شورش میں شامل ہو جاتے اس میں شامل نہیں ہوئے- ہاں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پچھلے دس سال میں ہندوستان میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں ان کی بناء پر زیر بحث سوال کا وہی حل بہتر ہے جو سائمن کمیشن نے تجویز کیا ہے-
سائمن کمیشن کا تجویز کردہ حل یہ ہے-:
>چاہئے کہ نیا اساس جس قدر ممکن ہو اپنے اندر ہی ترقی کا سامان رکھتا ہو- چاہئے کہ اس میں ناقابل تبدیل اور ہمہ گیر اصول نہ ہوں- بلکہ اس میں حسبضرورت ترقی اور اختلاف کی گنجائش ہو<-۱۲~}~
میری رائے میں یہ حصہ کمیشن کے بہترین نتائج میں سے ہے- اگر سائمن کمیشن حقیقتاً اس اصل کے مطابق سکیم پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو میرے نزدیک وہ ہمیشہ کے لئے ہندوستانیوں کے شکریہ کا مستحق ہے- کمیشن کے اس اصل کے ماتحت آئندہ ہندوستان کی آئینی ترقی کے لئے کسی اور کمیشن کی ضرورت نہیں ہوگی- ایک ہی دفعہ پارلیمنٹ ایک ایسا مسودہ پاس کر دے گی جس کے ماتحت ہندوستان آپ ہی آپ اپنے وقت پر اس آزادی کو حاصل کر لے گا جو اس کے لئے مقرر کی گئی ہے- مگر جہاں تک میں نے سکیم پر غور کیا ہے یا تو اس مقصد کو سائمن کمیشن اپنی تفصیل میں مدنظر نہیں رکھ سکا یا پھر ہندوستان کی آزادی کا مفہوم سمجھنے میں اسے دھوکا لگا ہے اور وہ ہندوستان کی آزادی کو دوسرے ملکوں کی آزادی سے مختلف چیز سمجھتا ہے-
پہلے میں صوبہ جات کو لیتا ہوں- صوبہ جات کا نظام حکومت کمیشن نے یہ مقرر کیا ہے-:
۱
کہ گورنر کو وزارت کی مجالس کا پریزیڈنٹ تجویز کیا ہے-
۲
گورنر کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو سول سروس کے کسی فرد کو یا کسی ایسے شخص کو جو نہ سروس میں ہو اور نہ کونسل کا ممبر ہو وزیر مقرر کر دے-
۳
اسے اختیار دیا ہے کہ خواہ ایک وزیر اعظم مقرر کر کے اس کے مشورہ سے وزارت مقرر کرے- خواہ مختلف اقوام میں سے وزیر چن لے-
ہر ایک شخص جو آئینی حکومت کے اصول سے واقف ہے سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حکومت ذمہ دار حکومت نہیں کہلا سکتی اور اس قسم کی تجویز زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر برداشت کی جا سکتی ہے لیکن رپورٹ خاموش ہے کہ اس طریق کو کس طرح بدلا جا سکے گا- آیا اس میں تغیر کرنا گورنمنٹ کے اختیار میں ہوگا` کونسلوں کے اختیار میں ہوگا` گورنر جنرل اور سیکرٹریآفسٹیٹ کے اختیار میں ہوگا` یا پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوگا` اگر گورنر کے اختیار میں ہوگا تو ایک گورنر کے فیصلہ کو دوسرا گورنر بدل سکے گا یا نہیں- اگر بدل سکے گا تو نظام حکومت ہمیشہ آگے پیچھے ہوتا رہے گا- اگر کونسلوں کے اختیار میں ہوگا تو وہ پہلے ہی سیشن میں اسے بدل دیں گی- اگر گورنر جنرل اور سیکرٹری آف سٹیٹ کے اختیار میں ہوگا تو اس کی بھی کوئی آئینی صورت نہیں بتائی اور اگر پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوگا تو وہی سوال نئے کمیشنوں کا پیدا ہو جائے گا- مگر اس سے بھی مشکل سوال مرکزی حکومت کا ہے جس میں کہ حکومت کو نیابتی اصول پر ابھی قائم ہی نہیں کیا گیا- وہاں موجودہ نظام کونسل کس طرح بدلا جا سکے گا- اس کا جواب کمیشن کی رپورٹ نہیں دیتی بلکہ وہ خود تسلیم کرتی ہے کہ اس کی کوئی تدبیر انہیں نہیں سوجھی- وہ اقرار کرتی ہے کہ-:
>یہ تو ممکن ہے کہ اس وقت ایک ایسا نظام حکومت مقرر کر دیا جائے جو آئندہ ترقی کے مخالف نہ ہو لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی قانون پارلیمنٹ میں ایسا پاس کر دیا جائے جس کے ذریعہ سے ہندوستان کی مرکزی حکومت اندرونی اصلاح اور ارتقاء کے ذریعہ سے آپ ہی آپ آزادی کی طرف قدم بڑھاتی جائے-۱۳<~}~
یہ خیال کرتے ہوئے کہ اصل سوال مرکزی حکومت کا ہی تھا صوبہ جات کے موجودہ نظام میں تو معمولی تغیرات کے ساتھ ایک معقول نظام حکومت جو ہر روز کی شورش سے نجات دے دے- ممکن تھا اس فقرہ کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جب کہ مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم نے کم سے کم یہ انتظام کیا تھا کہ وقتاً فوقتاً آئین حکومت پر نظر ثانی ہوتی رہے- سائمن کمیشن نے صرف اظہارحیرت کر دیا ہے اور پیش آنے والی مشکل کا کوئی علاج نہیں بتایا- وہ ایک اعلیٰ اصل قائم کرنے میں تو کامیاب ہوا ہے لیکن اس اصل سے کام لینے میں بری طرح ناکام رہا ہے- میں کوشش کروں گا کہ آئندہ تفصیلی بحث میں ضروری ضروری مقامات پر کمیشن کی رپورٹ کے اس نقص کی طرف توجہ دلائوں-

باب پنجم
ہندوستان کی دوہری مشکلات
انگلستان سے سمجھوتہ اور اقلیتوں کے سوال کا حل
اس امر پر اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد کہ سائمن کمیشن کی یہ سفارش کہ آئندہ ہندوستان کے لئے ایسا نظام تجویز کیا جائے کہ جس کے اندر ہی ترقی کی گنجائش ہو اب میں اس اہم سوال کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں جو ہندوستان کی آئینی ترقی کے راستہ میں بطور ایک چٹان کے حائل ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ بوجہ ایک لمبے عرصہ سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے انگلستان سے سمجھوتہ کرنا بھی بہت مشکل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یہ مشکل ہے کہ ہندوستان کے لئے کوئی ایسا طریق حکومت تجویز کیا جائے جس کے ذریعہ سے وہ لوگ برسرحکومت آئیں جو واقعہ میں حکومت کرنے کے مستحق ہوں اور وہ لوگ حکومت پر قائم نہ ہوں جو اسے نفاق و شقاق کا ذریعہ بنا لیں- کارلائل نے کیا سچ کہا ہے کہ
>فضیلت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے بعد بھی اصل سوال حل طلب رہ جاتا ہے جو یہ ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دی جائے جو واقعہ میں اس کے اہل ہیں- آہ! ہم اس سوال کا حل کس طرح کریں؟<
کار لائل کا یہ قول ہر ملک پر صادق آتا ہے لیکن ہندوستان کی حالت پر تو یہ بہت ہی چسپاں ہوتا ہے- ہمارے لئے انگریزوں سے سمجھوتہ اس قدر مشکل نہیں جس قدر کہ اپنے لئے ایک مناسب قسم کی گورنمنٹ تجویز کرنے کا سوال مشکل ہے- ہمارا ملک تعصب اور اختلاف کی آماجگاہ بن رہا ہے- اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کو ان دونوں خصلتوں کا گھر بنا دیا ہے- اس اختلاف کی موجودگی میں سیلف گورنمنٹ بجائے مفید ہونے کے ملک کے لئے سخت مضر ہو سکتی ہے-
بعض لوگ تو اس مشکل کا حل یہ بتاتے ہیں کہ جب تک یہ حالت دور نہ ہو جائے ہندوستان کو کسی قسم کی آزادی دی ہی نہ جائے لیکن جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں یہ علاج صحیح نہیں- اگر ہندوستان کو آزادی نہ ملی تو یہ اختلاف دور ہو ہی نہیں سکتا اور صورت حالات بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی-
کیا ڈیما کریسی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے منافی ہے؟
بعضدوسرے لوگ اس کا یہ علاج بتاتے ہیں کہ یہ کوئی مرض ہی نہیں اس کو مرض سمجھنا ہی مرض کو بڑھا رہا ہے- اگر ہندوستان >ڈیماکریسی< (DEMOCRACY) جس کے معنی اکثریت کی حکومت کے ہیں چاہتا ہے تو پھر اسے اقلیتوں کا سوال نظر انداز کر دینا چاہئے کیونکہ >ڈیماکریسی< کی غرضوغایت ہی یہ ہے کہ اکثریت حکومت کرے- اقلیت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اکثریت کے ساتھ وابستہ کرے یا پھر خود اکثریت بننے کی کوشش کرے مگر >ڈیماکریسی< کا مطالبہ کرتے ہوئے ساتھ ہی یہ مطالبہ کرنا کہ اکثریت کو حکومت نہ کرنے دو اور اسے پابندیوں میں جکڑ دو گویا ایک طرف >ڈیماکریسی< کے اصول کو رد کرنا ہے تو دوسری طرف فتنہ و فساد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولنا ہے- عام طور پر یہ سوال بعض انگریزوں یا دوسرے مغربی لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے اور سوال کرنے والوں میں سے بعض کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ نہ کریں اس میں ان کا نقصان ہے- اور بعض یہ اعتراض محض ہندوستان کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے کرتے ہیں-
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خیال >ڈیما کریسی< کے مفہوم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- ہر اکثریت کی حکومت کو >ڈیماکریسی< نہیں کہہ سکتے بلکہ اس اکثریت کی حکومت کو >ڈیماکریسی< کہتے ہیں جو خالص ملکی فوائد کو مدنظر رکھتی ہے نہ کہ کسی خاص قوم یا عقیدہ کے لوگوں کے فوائد کو اگر ایک ملک میں ایک قوم یا ایک مذہب کے دس لاکھ آدمی بستے ہوں اور دوسری قوم اور دوسرے مذہب کے ایک لاکھ اور وہ دس لاکھ اپنی قوم یا اپنے مذہب کے لوگوں کے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کریں تو یہ ہر گز >ڈیماکریسی< نہیں کہلائے گی- انگلستان کی رومن کیتھولک اکثریت جب پراٹیسٹنٹ (PROTESTANT) اقلیت کے خلاف قواعد بنا رہی تھی تو وہ ہر گز >ڈیماکریسی< کی عامل نہیں تھی- >ڈیماکریسی< اس اکثرت کی حکومت کو کہتے ہیں جس کا جتھا ان اصول پر بنا ہو جو حکومت سے متعلق ہیں- وہ اکثریت جس کا جتھا ملکی سیاست پر نہیں بلکہ کسی خاص مذہبی یا قومی فوائد کی بناء پر بنا ہو اس کی حکومت کو جمہوریحکومت نہیں کہا جا سکتا وہ فرقہ وار حکومت ہے- ڈاکٹر سی- ایف- سٹرانگ STRONG)۔F۔(C ایم- اے- پی- ایچ- ڈی >ڈیماکریسی< کی تعریف یہ کرتے ہیں-
>ڈیماکریسی سے ہماری مراد اس قسم کی حکومت ہے جس میں کہ حکومت کا اختیار قانوناً کسی خاص قوم کو نہ دیا گیا ہو- بلکہ تمام ملک کو بہحیثیت مجموعی دیا گیا ہو-۱۴<~}~
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر سٹرانگ نے یہ شرط لگائی ہے کہ حکومت قانوناً کسی فرقہ کے سپرد نہ ہو لیکن قانوناً سپرد ہونے یا عملاً ایسا ہونے میں کوئی فرق نہیں- اگر گورنمنٹ قانوناً کسی خاص قوم کے سپرد ہوگی تو ہم کہیں گے کہ یہ قانوناً ڈیماکریسی نہیں اگر عملا ایسا ہوگا تو ہم کہیں گے کہ وہ حکومت عملاً ڈیماکریسی نہیں- بہرحال حقیقی ڈیما کریٹک حکومت وہی ہے جس میں حکومت اس اکثریت کے قبضہ میں ہو جس کا جتھا سیاسی امور کی بناء پر بنا ہو نہ کہ قومی یا مذہبی امور کی بناء پر- لارڈ برائس ڈیما کریسی کے متعلق لکھتے ہیں-:
>جس طرح دوسری حکومتیں اس امر کی محتاج ہیں اسی طرح جمہوریت بھی اس امر کی محتاج ہے کہ فردی آزادی کا اس میں پوری طرح خیال رکھا جائے-۱۵<~}~
‏]txte [tag پس کوئی حکومت جس میں افراد کے حقوق محفوظ نہ ہوں ہر گز ڈیما کریسی نہیں کہلا سکتی- اور ڈیما کریسی کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ اس کے ذریعہ اقلیتوں کی قربانی کی جائے-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی ڈیماکریسی تحریر شدہ یا غیر تحریر شدہ آئین حکومت کے بغیر نہیں ہو سکتی- اور آئین حکومت کی ایک بہت بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ افراد یا جماعتوں کے حقوق کو تلف ہونے سے بچایا جائے پس اسی نقطہ نگاہ سے ہمیں ہندوستان کی اقلیتوں کے سوال کو دیکھنا چاہئے- اگر تو ہندوستان کی اقلیتیں سیاسی اور تمدنی ہیں اور اکثریت بھی سیاسی اور تمدنی ہے تو بے شک ڈیماکریسی کے ماتحت اقلیت کو اکثریت پر قربان ہو جانا چاہئے اور اکثریت کو حکومت کا پورا حق ہونا چاہئے- لیکن اگر اس کے برخلاف اکثریت سے مراد ہندوستان میں ایک خاص قوم اور مذہب کی اکثریت ہے تو وہ اکثریت ڈیماکریسی کے نقطہ نگاہ سے اکثریت نہیں بلکہ ایک فرقہ وارانہ جماعت ہے جسے کوئی حق نہیں کہ اقلیت پر بغیر حد بندی کے حکومت کرے-
اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے کہ اکثریت اقلیت پر بغیر حد بندی کے حکومت کرنے کی مجاز ہے تو اس سے دنیا کی تمام علمی ترقی رک جاتی ہے- ذہنی ترقی کی ہر نئی رو اور ہر جدید علم پہلے معدودے چند افراد کی توجہ کو ہی کھینچتا ہے اور اکثریت اس کی مخالف ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی جانی دشمن ہوتی ہے- اگر اکثریت کو غیر محدود حکومت کرنے کا اختیار ہو تو پھر وہ مختلف مظالم جو دنیا میں مذہب یا فلسفہ کے نام پر ہوتے چلے آئے ہیں انہیں جائز اور درست کہنا ہوگا لیکن کبھی بھی فطرت انسانی نے ان کے جواز کو قبول نہیں کیا- اگر اس اصل کو قبول کر لیا جائے تو دنیا کی تمام علمی` اخلاقی اور مذہبی ترقی رک جاتی ہے- یہ کبھی نہیں ہوا کہ دنیا ایک دن سوتے سوتے اٹھے اور اس کے اکثر افراد ایک نئے مذہبی` فلسفی یا تمدنی یا علمی نکتے کے قائل ہو گئے ہوں- ہر نئی تحقیق اقلیتوں میں نشوونما پاتی رہی ہے اور پاتی رہے گی پس دنیا کی نجات اقلیتوں کی حفاظت میں ہے- اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کر دو تو دنیا تمام علمی اور اخلاقی ترقیوں سے محروم ہو جائے گی-
پھر جو لوگ اقلیت کو ا کثریت کے رحم پر چھوڑ دینے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہر ایک اقلیت ایک قسم کی نہیں ہوتی اور نہ ہر ایک چیز قربان کر دینے کے قابل ہوتی ہے- اس دنیا میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو کسی صورت میں قربان نہیں کی جا سکتیں- اگر گلیلیو (GALILEO) اپنے وقت کی اکثریت سے ڈر کر سیاروں کی حرکات کے مسئلہ کو چھوڑ دیتا تو دنیا آج کہاں ہوتی؟ اس قسم کا مشورہ دینے والوں کو پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ ہندوستان کی اقلیتوں کی بنیاد کس امر پر ہے- اگر ان کی بنیاد ٹیرف ریفارم (TARIFFREFORM) یا انکمٹیکس کے اصول میں اختلاف رکھنے پر ہے تو بے شک انہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جب کہ ان کی بنیاد مذہب پر ہے جسے آزادی اور وطنیت سے بھی زیادہ متبرک سمجھا جاتا ہے اور اگر مذہب کوئی چیز ہے تو اسے ایسا ہی سمجھنا چاہئے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ اقلیت ایسی حکومت کو برداشت کرے جو مذہب کے اختلاف کی وجہ سے اس پر ظلم کرتی ہو- یا ایسے قوانین پاس کرتی ہو جس سے اس کی غرض اس مذہبی اقلیت کے افراد کو دق کر کے ملک سے نکل جانے یا اکثریت کے مذہب کو قبول کرنے یا دائمی طو رپر ایک ادنیٰ پوزیشن قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو- ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک اقلیت اور اکثریت کے درمیان مذکورہ بالا امور مابہالنزاع ہوں تو اقلیت ہر گز اکثریت کی مرضی پر چلنے کیلئے مجبور نہیں کی جا سکتی- اور میں آگے چل کر بتائوں گا کہ ہندوستان میں اقلیت اور اکثریت کا اختلاف اسی قسم کا ہے-
کیا تجربہ رواداری سکھا دے گا؟
مذکورہ بالا دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ بے شک اقلیت کے حقوق کی حفاظت ہونی چاہئے لیکن اس کا یہ طریق نہیں کہ قوانین کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی جائے- رواداری تجربہ اور ذمہ واری سے خود بخود آ جاتی ہے- پس بغیر کسی حفاظت کی تدبیر کے ملک میں ایک آزاد نظام حکومت قائم کر دینا چاہئے- اکثریت یا اقلیت جس میں بھی نقص ہو ایک دوسرے سے واسطہ پڑنے پر خود بخود اس کی اصلاح ہو جائے گی اور طبائع آپس میں مل جائیں گی- یہ نقطہ نگاہ ہندوئوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے-
اگر دو قوموں میں ادنیٰ سا اختلاف ہو اور وہ امور جن کی نسبت خطرہ ہو معمولی ہوں تو ایک طریق اصلاح کا وہ بھی ہے جو اوپر بیان ہوا- لیکن سوال یہ ہے کہ جب اقلیت اور اکثریت کا اختلاف اس قسم کا ہو کہ ایک دوسرے کو کچلنا چاہے تو کیا پھر بھی یہ علاج کامیاب ہو سکتا ہے؟ اگر تجربہ سے یہ معلوم ہو کہ ایک قوم دوسری قوم کو کھاتی جاتی ہے تو پھر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ اکٹھے رہنے سے ایک کو دوسری سے خطرہ نہیں ہوگا پھر اگر یہ بھی ثابت ہو جائے کہ اقلیت اور اکثریت زندگی کے کئی شعبوں میں اکٹھی رہتی چلی آئی ہیں لیکن باوجود اس اکٹھا رہنے کے اکثریت اقلیت کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئی تو کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ زیادہ اہم امور میں اکٹھا رہنے سے اکثریت اقلیت سے ایسا سلوک نہیں کرے گی- غرض اگر اختلاف معمولی ہو تو بے شک یہ جرات کی جا سکتی ہے کہ دونوں قوموں کو کچھ عرصہ کے لئے اکٹھا چھوڑ دیا جائے اور انتظار کیا جائے کہ سیاست خود مروت سکھا لے گی لیکن جب کہ اختلاف اہم ہو اور ایک قوم دوسری کو کھانے کی عادی ہو چکی ہو تو پھر محض امید موہوم پر ایک قوم کو تباہی کے گڑھے میں نہیں دھکیلا جا سکتا-
یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ جب اقلیت کو اہم امور میں اختلاف ہو جسے وہ قربان نہ کر سکتی ہو تو اس سے اکثریت کے حکم پر سر جھکانے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح جب اکثریت کے عمل سے اور ارادہ سے ثابت ہو جائے کہ وہ اقلیت کو نقصان پہنچاتی رہی ہے اور آئندہ نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو اس صورت میں اقلیت کو اکثریت کے سپرد کر کے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ آہستہ آہستہ رواداری کی روح پیدا ہو جائے گی- میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں اقلیت اور اکثریت کے تعلقات نہایت اہم ہیں اور اکثریت کا تعلق اقلیت سے گذشتہ تجربہ اور آئندہ ارادوں کی بناء پر ایسا نظر آتا ہے کہ اسے اکثریت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا-
ہندوئوں کا اقلیتوں سے سلوک
ہندوستان میں اس وقت اکثریت ہندو قوم کی ہے اور اس کے مقابلہ میں مسلمان` ادنیٰ اقوام اور انگریز اینگلوانڈین وغیرہ تعداد میں کم ہیں- ان میں سے ادنیٰ اقوام کا سوال تو اتنی دفعہ انگلستان کے لوگوں کے سامنے آ چکا ہے کہ اس کے متعلق میں کچھ زیادہ لکھنا پسند نہیں کرتا لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہندو دوسری اقلیتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں تا کہ ان لوگوں کو جو واقف نہیں ہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہندو لوگ دوسری اقلیتوں سے بھی جہاں تک ان کی طاقت ہے اچھوت اقوام کا سا ہی سلوک کرتے ہیں اور جب تک ان کی یہ حالت قائم ہے اس وقت تک کوئی عقلمند قوم ان پر اعتبار نہیں کر سکتی-
سب سے پہلے تو میں ایک دوسرے سے میل ملاقات کے معاملہ کو لیتا ہوں- دنیا میں محبت اور رواداری قائم کرنے کا اصل ذریعہ یہی ہے کہ افراد آپس میں ملتے جلتے رہیں- ایک دوسرے کے ساتھ ملنے جلنے سے دلوں کی کدورت دور ہوتی رہتی ہے اور ملنے میں ایک دوسرے کے قلب کی صفائی کا اظہار کرنے کے لئے بہترین طریق دنیا میں مصافحہ کا ہے- تمام اقوام ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مصافحہ کا طبیعت پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور یہ گویا ادنیٰ سے ادنیٰ ذریعہ ایک دوسرے سے اظہار محبت کا ہوتا ہے لیکن ہندو اپنی روایات میں اس قدر محصور ہے کہ دوسری اقوام سے اتنے سلوک کا بھی روادار نہیں- جب آپ کسی ہندو کو دیکھیں گے تو وہ خواہ آپ کا کیسا ہی واقف ہو اس کی تمام تر کوشش یہ ہوگی کہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ایک غیر قوم کے آدمی سے مصافحہ کرنے سے نجات حاصل کرے- وہ ہاتھ جوڑے گا سامنے جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگا لے گا لیکن جہاں تک اس کا بس چلے گا اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں لگائے گا کیونکہ اس کے نزدیک ایسا فعل اسے ناپاک کر دیتا ہے- شاید انگریزوں کو یہ عجیب بات معلوم ہوگی اور وہ خیال کریں گے کہ ہم سے تو ہندو مصافحہ کرتے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فعل ان میں سے اکثر کا بالکل بناوٹ اور ظاہر داری کے طور پر ہوتا ہے ورنہ دل میں وہ مسلمان کیا اور انگریز کیا سب کو سخت حقارت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ چھو جانے کو غلاظت سے بھر جانے کے برابر سمجھتے ہیں- اور یہ صرف قیاس نہیں بلکہ واقعہ ہے اس کے ثبوت میں میں ہندوئوں کے چوٹی کے لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ کا قول نقل کرتا ہوں- وہ فرماتے ہیں-
>میں جب کسی انگریز سے ملتا ہوں تو ملنے کے بعد پانی سے ہاتھ دھو لیتا ہوں<- ۱۶~}~
‏]ttex [tag اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ ان ہندوئوں کو چھوڑ کر جو مذہب سے بیزار ہیں باقی اصل ہندو صرف دکھاوے کے لئے دوسری اقوام کے لوگوں سے مصافحہ کرتے ہیں ورنہ وہ دل میں اسے ایک ناپاک فعل تصور کرتے ہیں-
دوسرا ذریعہ اقوام میں تعلق بڑھانے کا مل جل کر کھانا پینا ہے اس طرح بھی بہت کچھ اختلاف مٹتا ہے لیکن کوئی ہندو جو حقیقی ہندو ہے کبھی مسلمان یا انگریز یا اور کسی قوم کے ہاتھ کا چھوا ہوا نہیں کھاتا اور جو ہندو انگریزوں کی دعوتوں میں آ کر کھا لیتے ہیں درحقیقت وہ یا تو ہندو مذہب سے بیزار یا ناواقف ہیں اور یا پھر وہ انگریزوں کو دھوکا دیتے ہیں- اس بارہ میں ہندو قوم کا تعصب اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ پنڈت مدن موہن مالویہ جی تو اس مجلس میں جس میں کوئی غیرہندو بیٹھا ہو پانی پینا بھی پسند نہیں کرتے- چنانچہ ایک خاص مجلس )جو گاندھی جی کا روزہ تڑوانے کے لئے جو انہوں نے ہندو مسلم فساد کی بناء پر رکھا تھا( منعقد کی گئی تھی اور جس کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ہندو مسلمانوں میں شدھی کی وجہ سے جو فساد پیدا ہو گیا ہے اسے دور کیا جائے اس میں مجھ سے بھی خواہش کی گئی تھی کہ میں اپنی جماعت کے نمائندے بھیجوں- ان نمائندوں کا بیان ہے کہ پنڈت مالویہ جی پیاسے بیٹھے رہے اور اس وجہ سے پانی نہ پیا کہ اس مجلس میں کچھ مسلمان بیٹھے ہیں آخر ان کے لئے الگ کمرہ کا انتظام کیا گیا تو انہوں نے وہاں جا کر پانی پیا- جس قوم کے لیڈروں کے تعصب کا یہ حال ہے کیا اس کی نسبت یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے گی- ہر ایک شخص جو ہندوستان سے واقف ہے جانتا ہے کہ ہندو مسلمان دکاندار سے کبھی کوئی چیز لے کر نہیں کھاتے- بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ صفائی کا خیال ہے حالانکہ ایک غریب مسلمان بھی صفائی میں ہندو سے بہتر ہوتا ہے- ہندو مٹھائی بنانے والا جس کی مٹھائی شریف سے شریف ہندو شوق سے خرید کر کھا لیتا ہے ایسا غلیظ ہوتا ہے کہ شاید اس کے برابر غلیظ انسان تلاش کرنا مشکل ہوگا اور اس کے برتنوں کو دیکھ کر گھن آتی ہے- بسا اوقات کتے انہیں چاٹ جاتے ہیں اور وہ اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرتا لیکن جب ایک مسلمان پاس سے بھی گذر جاتا ہے تو وہ >دور رہنا` دور رہنا< کا شور مچا دیتا ہے اور اس فعل کی بنیاد ہر گز مذہب پر نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہندوئوں کا اقرار ہے یہ تدبیر صرف دوسری اقوام کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور ہندوئوں کی دولت بڑھانے کے لئے کی گئی ہے- چنانچہ ہندوئوں کا ایک مشہور مذہبی اخبار >مسافر آگرہ< چھوت چھات کے متعلق لکھتا ہے-:
>اگر یہ چھوت چھات نہ ہوتی تو آج کسی قسم کی تجارت بھی ہندوئوں کے ہاتھ میں نظر نہ آتی- ہم کہتے ہیں اگر ہماری تجارت کی کسی طاقت نے حفاظت کی تو وہ طاقت اس بائیکاٹ کی تھی-<
>اس تحریک سے ہندو قوم کو جو زبردست فوائد حاصل ہوئے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ جن میں کسی قسم کے مبالغہ کی گنجائش ہو- مثال کے طور پر آپ سب سے پہلے تجارت ہی کو لے لیجئے- آج ملک کی تمام خوردنی اور عمدہ اشیاء کی تجارت ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے<- ۱۷~}~
ایک مذہبی اخبار کا یہ بیان بالکل واضح کر دیتا ہے کہ چھوت چھات کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اقتصادی بائیکاٹ کی ہی ایک شکل ہے- اس کی اصل غرض یہ ہے کہ دوسری اقوام کے بائیکاٹ پر پردہ پڑا رہے اور انہیں یہ کہہ کر خاموش کرایا جا سکے کہ ہم جو تم سے چیزیں نہیں خریدتے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا مذہب اس سے روکتا ہے- اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ملک میں کھانے کی دکانیں ہندوئوں کی ہیں اور مسلمانوں کی قریباً نہ ہونے کے برابر ہیں- اور ہندوئوں کی اس چھوت چھات کی وجہ سے سٹیشنوں پر بھی کھانے کا ٹھیکہ عام طور پر ہندوئوں کو دیا جاتا ہے اس خیال سے کہ مسلمان ہندوئوں کے ہاتھ کا کھا لیتے ہیں اور ہندو مسلمان کے ہاتھ کا نہیں کھاتے- اب اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ فی کس سال میں ایک روپیہ کی مٹھائی یا کھانا بازار سے خریدا جا سکتا ہے- یہ اندازہ درحقیقت بہت تھوڑا ہے تو بھی بالغ مسلمانوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال مسلمانوں کی جیب سے چار کروڑ روپیہ ہندوئوں کو مل جاتا ہے جس کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی- جس قوم نے اپنی ہمسایہ قوم کے بائیکاٹ کی ایسی منظم صورت نکالی ہے کیا اس کی نسبت اقلیتوں کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس پر اعتبار کریں اور اپنی قسمت کی باگ ڈور اس کے سپرد کر دیں؟
یہ صورت صرف کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق نہیں ہے بلکہ اور تجارتوں کا بھی ایک تھوڑے فرق کے ساتھ یہی حال ہے- مسلمان عام طور پر ہندوئوں کی دکانوں پر سے سودا خریدتے ہیں لیکن ہندو شاذ و نادر ہی مسلمان کی دوکان سے سودا خریدتا ہے- کسی شہر میں` کسی بازار میں` کسی دن صبح سے شام تک پہرہ لگا کر دیکھ لو مسلمان کی دکان پر ہندو گاہگ بہت کم آتا دکھائی دے گا- اگر مسلمان سے کسی قدر ارزاں چیز بھی ملے گی تو بھی وہ ہندو سے ہی خریدے گا-
ہندوئوں کا یہ تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مکان بھی کرایہ پر نہیں دیتے- چنانچہ الہ آباد کے ایک مشہور ہندو لیڈر جو موجودہ گانگریسی تحریک میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیڈر کہلاتے ہیں ان کے بہت سے مکانات الہ آباد میں ہیں لیکن ان کا حکم ہے کہ مکان کسی مسلمان کو کرایہ پر نہ دیا جائے- اور یہ امر ان سے مخصوص نہیں ہندوئوں کے ایک بڑے طبقہ کا یہی حال ہے- میں ۱۹۱۷ء میں بوجہ بیماری بمبئی گیا سمندر کے کنارہ پر رہنے کا چونکہ مشورہ تھا باندرہ جو بمبئی کے مضافات کا ایک قصبہ ہے اس میں ایک بنگلہ کرایہ پر لیا- میری والدہ صاحبہ ہمراہ تھیں انہیں کاربنکل کی تکلیف ہو گئی اور ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ علاج کی سہولت کے لئے بمبئی میں مکان لے لیا جائے- مجھے چونکہ ڈاکٹری مشورہ سمندر کے کنارہ کے پاس رہنے کا تھا چوپاٹی پر مکان کی تلاش کی گئی لیکن کوئی مکان خالی نظر نہ آیا- آخر ایک ریاست کے وزیر اعظم جو بغرض تبدیلی آب و ہوا بمبئی میں آئے ہوئے تھے ان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ مکان خالی کرنے والے ہیں- ان سے دریافت کیا گیا تو اتفاقا وہ وطن کے لحاظ سے پنجابی نکلے اور وطنیت کے خیال سے انہوں نے وعدہ کر لیا کہ وہ مکان بقیہ ٹرم کے لئے ہمیں کرایہ پر دے دیں گے- کرایہ وغیرہ کا فیصلہ ان کے ساتھ ہو گیا مکان پر قبضہ کرنے کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی لیکن بعد میں انہوں نے انکار کر دیا- جب ہم نے زیادہ زور دیا تو انہوں نے بتایا کہ بمبئی میں ایک بڑی جماعت ہندوئوں کی ایسی ہے جس نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مکانات مسلمانوں کو کرایہ پر نہ دیئے جائیں- چنانچہ میں نے جب آپ سے وعدہ کر لیا تو بعض لوگ اس بات کو سن کر میرے پاس آئے اور کہا کہ اگر کسی مسلمان کو تم نے مکان کرایہ پر دیا تو آئندہ تم کو بھی کرایہ پر مکان اس علاقہ میں نہیں ملے گا- بے شک اس کی نظیریں مل جائیں گی کہ ہندوئوں نے مسلمانوں کو مکان کرایہ پر دیا ہوگا لیکن وہ مکان بنائے ہی اس غرض سے گئے ہونگے کہ کرایہ پر چڑھائے جائیں ورنہ ہندوئوں نے بڑے شہروں میں اپنے لئے الگ علاقے تجویز کر چھوڑے ہیں- ان میں کسی مسلمان کو نہیں آنے دیتے بالکل اسی طرح جس طرح سائوتھ افریقہ (SOUTHAFRICA)میں ہندوستانیوں سے اور اقوام کے لوگ سلوک کر رہے ہیں لیکن ان کے طریق عمل پر جہاں ہندو شور مچاتا ہے وہاں خود اسی کی نقل ہندوستان میں کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھ چکا ہے کہ اس طرح سگریگیشن (SEGREGATION) کرنے سے قوموں کو کمزور کیا جا سکتا ہے-
یہ سگریگیشن صرف مکانوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ جائدادوں کے متعلق بھی ہے اور ایک منظم صورت میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے جائیدادیں چھڑوا کر ہندوئوں کے قبضہ میں لائی جائیں- اگر ہندوستان کے بنیوں کے ان منصوبوں کو دیکھا جائے جو وہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لئے کرتے ہیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ان کی اصل غرض مالی فائدہ کے لئے جائیداد پر قبضہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ مسلمانوں کو کمزور کرنا ہوتی ہے- بسا اوقات جائیداد اس روپیہ کے مقابلہ میں حقیر ہوتی ہے جو انہوں نے قرض کے طور پر دیا ہوا ہوتا ہے لیکن ان کی اصل آمد ان جائیدادوں کے حصول کے بعد شروع ہوتی ہے- وہ اس علاقہ کے حاکم ہو جاتے ہیں اور اپنے مقروضوں پر ایک جابر بادشاہ کی طرف حکومت کرتے ہیں- یہ تو بھلا کسے توفیق ملے گی کہ وہ اصولی طور پر اس قرضہ کے سلسلہ کی تحقیق کرے مگر میں اس کے متعلق مسٹر تلک جو مشہور مرہٹہ لیڈر گذرے ہیں ان کی وصیت کا ذکر کرتا ہوں جس سے اس ارادہ کا پتہ لگ جائے گا- خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حکیم وارثی صاحب کا ایک بیان شائع کیا ہے- مسٹر وارثی صاحب تحریک آزادی میں جوش سے حصہ لینے والے تھے اور بطور والنٹیئر تلک صاحب کے مکان پر پہرہ دیتے رہے تھے- وہ کہتے ہیں کہ مسٹر تلک نے مرتے وقت اپنے ایک دوست سے کہا کہ مسٹر گاندھی کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ-:
>میری طرح ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ جس طرح بھی ہو سکے ہندوستان کی سب جائیدادیں ہندوئوں کے قبضہ میں آ جائیں- پھر صرف حکومت کا مسئلہ باقی رہ جائے گا جس کا حل بالکل آسان ہوگا- مقدم بات یہ ہے کہ ملکیت ہندوئوں کے قبضہ میں آ جائے<-
سرکاری ملازمتوں میں بھی یہ سگریگیشن (SEGREGATION) جاری ہے- پوری کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان اپنا جائز حق نہ لے سکیں- تمام محکمے ہندوئوں سے پر ہیں- ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان ملتے نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں نالائق قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے- مسلمان عرضی دیتے ہیں تو اسے پھاڑ دیا جاتا ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ کوئی جگہ نہیں- اسی دن یا دوسرے دن ہندو آ جاتا ہے تو اس کے لئے جگہ نکل آتی ہے- ایک معزز افسر تعلیم نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک مسلمان امیدوار ملازمت میرے پاس آیا اور میں نے اسے کہا کہ وہ دفتر میں عرضی دے دے- دوسرے دن اس نے مجھے آ کر کہا کہ ہیڈ کلرک نے اس پر یہ لکھ کر عرضی واپس کر دی ہے کہ کوئی گنجائش نہیں ہے- اسی دن یا دوسرے دن اس ہیڈ کلرک نے ایک ہندو کی عرضی میرے سامنے پیش کر دی کہ فلاں جگہ نکلی ہے اس پر اس شخص کو مقرر کیا جائے- میں نے اس سے پوچھا کہ فلاں مسلمان کی درخواست پر تو تم نے لکھا ہے کہ جگہ نہیں ہے اب اس ہندو کے لئے جگہ کہاں سے نکل آئی- تو کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ غلطی ہو گئی- اس کوشش کے علاوہ کہ مسلمان سروس میں نہ آ سکیں ایک منظم کوشش یہ بھی جاری ہے کہ مسلمان جو سروس میں آ چکے ہیں ان کو نکال دیا جائے- ہندو سنگھٹن کی ایک غرض یہ بھی تھی- چنانچہ سنگھٹن کی تحریک جو ۱۹۲۲ء سے شروع ہوئی اس کے معاً بعد پنجاب کے متعدد مسلمان افسروں کے خلاف مقدمات چلے اور انہیں ملازمتوں سے الگ کیا گیا- اور ان سب واقعات کی تہہ میں ہندو سنگھٹن کار فرما تھا- اگر کوئی مسلمان مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو یا گورنمنٹ کا ساتھ دینے والا ہو تو پھر اس کی شامت ہی آ جاتی ہے- اگر ایک آزاد کمیشن کے ذریعہ سے تحقیق کرائی جائے تو ناقابل تردید ثبوت اس امر کا مل جائے گا کہ اگر کسی مسلمان افسر نے چند مسلمانوں کو ملازمت دلائی ہو خواہ وہ ان کی تعداد کے حق کے لحاظ سے کم ہی کیوں نہ ہو تو اس مسلمان کے خلاف کیا اخبارات میں اور کیا دفاتر میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور خفیہ شکایات کی بھی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں رہتی- انہی چند ماہ میں احمدی چونکہ کانگریس کا مقابلہ کرتے رہے ہیں ہندوئوں کے ایک منظم پروپیگنڈا کے ذریعہ سے انہیں تکلیف پہنچائی جا رہی ہے- حال میں پنجاب کی ایک نہر کے ایک ڈپٹی کلکٹر اور ایک اسسٹنٹ انجنیئر کو ان کے ہندو آفیسر نے سزائیں دلوائی ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ الزام محکمانہ لگائے گئے ہیں لیکن ہر ایک شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ پندرہ بیس سالہ سروس کے بعد ایک ہی محکمہ میں ایک جماعت کے دو معزز افسر جو کانگریس کے پروپیگنڈا کی مخالفت کر رہے تھے ایک ہی ہندو افسر کے ذریعہ سے جو کانگریس کا موید ہے نالائق قرار پا جاتے ہیں تو ضرور اس میں کوئی بات ہوگی- آخر وجہ کیا ہے کہ ایک ہی کمیونٹی (COMMUNITY)کے دو افسر گرفت میں آ جاتے ہیں اور ایک ہی وقت میں گرفت میں آتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے اپنی سروس کے لمبے عرصہ میں وہ ترقیات حاصل کرتے چلے آئے تھے اور محکمہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے-
ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ یہ نتیجہ غلط نکالا گیا ہے ہندوئوں کی مقررہ پالیسی یہ نہیں ہو سکتی اس لئے میں اس وقت ہندوئوں کے مشہور لیڈر بھائی پر مانند ایم- اے کی شہادت اس بارہ میں پیش کرتا ہوں- وہ ہندوستان کی مختلف رنگ میں خدمت کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے جو ہندو گورنمنٹ سروس میں ہیں- ان کا نقطہ نگاہ یہ بیان کرتے ہیں-
>سرکاری مہربانی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں اور کچھ سرکاری عہدے اپنے ہاتھ میں رکھیں اور سرکار کے ساتھ مل کر پہلے مسلمانوں کو کمزور کریں اور ہندوئوں کی طاقت بڑھا لیں- جب اس طرح طاقت بڑھ جائے گی تو پھر سوراج حاصل کرنے کے لئے کوشش کی جا سکتی ہے<-۱۸~}~
یہ اس شخص کا بیان ہے جس نے لالہ لاجپت رائے کی زندگی کے آخری ایام میں ان سے بھی زیادہ ہندو قوم میں رسوخ اور طاقت پیدا کر لی تھی- تمدنی طور پر جو مسلمانوں کا بائیکاٹ ہو رہا ہے وہ بھی کم شدید نہیں- مسلمان ہندوئوں کو ملازم رکھتے ہیں لیکن ہندو مسلمان کو بہت ہی کم ملازمت دیتا ہے اور جب دیتا ہے تو صرف اپنے مطلب اور فائدہ کیلئے دیتا ہے- باجہ اور گائے کے سوال کو ایک عظیم الشان جھگڑے کا موجب بنایا ہوا ہے- وید کے زمانہ کے ہندو خود گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے اور قربانیاں کیا کرتے تھے- چنانچہ رگوید اور اتھروید سے اس کا ثبوت ملتا ہے- اتھر وید کانڈ ۹- سوکت ۳ کے نویں منتر میں لکھا ہے کہ -:
‏iqt] [tag >اہل خانہ گائے کا شیریں دودھ اور لذیذ گوشت مہمان کو کھلائے بغیر نہ کھائے<-
پنڈت ابناس چندر داس ایم- اے لکھتے ہیں-:
>قدیم آریوں کے ہاں گائے کے گوشت کھانے کی شہادت پائی جاتی ہے- لیکن دودھ نہ دینے والی گائیں شاذ و نادر ہی ماری جاتی تھیں<- ۱۹~}~
ہندوئوں میں قربانی کا اس قدر رواج تھا کہ بدھ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی وجہ یہ قرار دی گئی تھی کہ انہوں نے قربانی کو روک دیا تھا- چنانچہ مہامہوپادھیائے پنڈت ہرپرشاد شاستری لکھتے ہیں-:
>اس )اشوک کی ریاست کے خلاف ہندوئوں کی بغاوت( کا سبب جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے یہ تھا کہ اشوک نے اپنی حکومت میں جانوروں کی قربانی بند کر دی تھی- مگر پشیہ پتر نے تخت پر بیٹھتے ہی دارالخلافہ میں اشومیدھ یگیہ کیا<- )جانور کی قربانی کی عبادت گزاری( ۲۰~}~
اب یہ کیا تعجب کی بات نہیں کہ بدھوں کے زمانہ میں تو قربانی روکنے کو بغاوت کا ذریعہ بنایا گیا تھا اور اس زمانہ میں قربانی کی اجازت کو جنگ کا ذریعہ بنایا جاتا ہے- یقیناً مسلمانوں کے آخری زمانہ میں عوام الناس کو بھڑکانے کے لئے یہ ایک تدبیر ایجاد کی گئی تھی اور اسے ترقی دیتے دیتے اب ایک قومی خیال بنا لیا گیا ہے- گائے کے متعلق ہندو قوم کا ظلم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کوئی صوبہ ایسا نہیں جس میں گائے کی وجہ سے خون ریزی نہ ہو چکی ہو اور کوئی سال نہیں گزرتا کہ جس میں گائے کی قربانی کی وجہ سے فساد نہ ہو جاتا ہو حالانکہ مسلمان اپنے لئے گائے قربان کرتے ہیں اور خود کھاتے ہیں` ہندوئوں کو اس سے کیا تعلق- اور اس ظلم پر مزیدبرآں یہ بات ہے کہ ان فسادات پر ہندو قوم فساد کرنے والوں کو ڈانٹتی نہیں بلکہ ان کے لئے عذر تلاش کرتی ہے- پچھلے دس سال میں جس قدر فساد ہوئے ہیں ان کی اگر لسٹ بنائی جائے تو نوے فیصدی فسادوں کی بنیاد ہندوئوں کی طرف سے ثابت ہوگی- اور پھر ساتھ ہی یہ عجیب بات ثابت ہوگی کہ جو فساد مسلمانوں کی غلطی سے ہوئے ہیں ان پر مسلمانوں نے اپنی قوم کو بڑی سختی سے ڈانٹا ہے لیکن وہ نوے فیصدی فساد جو ہندوئوں کی طرف سے ہوئے ہیں ان پر ہندو قوم اور ہندو پریس نے یا تو الزام مسلمانوں پر لگانے کی کوشش کی ہے اور یا پھر فسادیوں کی تائید میں عذر تلاش کرنے لگ گئے ہیں- اب ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ڈیماکریسی جس کا پہلا اصل یہ ہے کہ دوسرے کے فعل میں دست اندازی نہ کی جائے` وہ اور یہ طریق عمل کسی صورت میں یکجا نہیں رہ سکتے-
جہاں جہاں ہندوئوں کا زور ہے وہاں میونسپل قواعد ایسے بنائے گئے ہیں کہ گائے کا ذبیحہ بند ہو جائے` گورنمنٹ بھی مذبحوں کے کھولنے میں روکاٹ ڈالتی ہے- جہاں چھائونی ہو وہاں تو فوجیوں کے لئے گائے کا گوشت مہیا کرنے کے لئے خود سرکاری طور پر انتظام کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی ضرورت کو فساد کا موجب سمجھا جاتا ہے- انگریزی علاقہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل برداشت ہے مگر ہندو ریاستوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ تو انتہاء سے بڑھا ہوا ہے اور اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان میں آزاد حکومت ہوئی تو ہندو اس بارے میں مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے- کشمیر جس میں پچانوے فیصدی مسلمانوں کی آبادی ہے اس میں گائے ذبح کرنے پر کہتے ہیں کہ سات سال قید کی سزا مقرر ہے- اس کا الزام موجودہ مہاراجہ صاحب پر نہیں وہ ایسے والد کے بیٹے ہیں کہ جن کو اسلام سے انس تھا- وہ سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ سے جب کہ وہ کشمیر میں شاہی طبیب تھے خاص انس رکھتے تھے اور انہیں بھائیوں کی طرح جانتے تھے- بلکہ ان کے والد کے تعلق کی وجہ سے ہی انہیں کشمیر چھوڑنا پڑا- پس میں انہیں خاص محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بے تعصب حکمران بننے کی توفیق دے گا اور وہ دوسرے ہندو راجوں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کریں گے- دوسری ریاستوں کا حال بھی کم خراب نہیں- ایک اعلیٰ انگریز پولیٹیکل افسر کی روایت ہے کہ میں ایک ریاست میں ریذیڈنٹ تھا- وہاں مسلمانوں نے گائے ذبح کر دی ان لوگوں سے ایک لاکھ روپیہ ریاست نے لے کر چھوڑا لیکن دوسرے ہی دن ایک بچہ کا قتل ہو گیا تو پچیسروپیہ پر معاملہ کو دبا دیا گیا وہ کہتے ہیں جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ریاست والوں کو ملامت کی-
اس سے بھی بڑھ کر اب یہ ظلم ہو رہا ہے کہ بعض ہندو ریاستوں میں تبلیغ اسلام کو بالکل روک دیا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ قانون بنا دیا گیا ہے کہ کوئی شخص عدالت میں حاضر ہوئے بغیر مذہب نہیں بدل سکتا- نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہندو ہونا چاہے تو اسے فوراً اجازت مل جاتی ہے لیکن اگر ہندو مسلمان ہونا چاہے تو بڑی لمبی تحقیقات ہوتی ہے- ان اشخاص کے نام دریافت کئے جاتے ہیں جنہوں نے اسے تبلیغ کی تھی- پھر انہیں بھی دق کیا جاتا ہے اور اس مسلمان ہونے کے خواہشمند کو بھی تکلیف دی جاتی ہے اور بعض دفعہ جھوٹے الزام لگا کر قید کر دیا جاتا ہے اور یہاں تک تنگ کیا جاتا ہے کہ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ اس ملک میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت نہیں ہے اور یا تو وہ شخص اس علاقہ کو چھوڑ دیتا ہے یا پھر ڈر کر اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے-
یہی ظلم مہذب دنیا کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہے لیکن بعض جگہ ظلم اس سے بھی بڑھ جاتا ہے- چنانچہ پچھلے دنوں یو-پی میں ہندوئوں نے کمزور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش شروع کی تو ایک ہندو ریاست جو اس علاقہ کے ساتھ تھی وہاں سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود کھڑے ہو کر اپنے سامنے ایک گائوں کے لوگوں کو جبراً شدھ کیا- ایک بوڑھی عورت جہیہ نامی )میں نے اس کا نام اس لئے لکھ دیا ہے تا آئندہ نسلوں میں اس کی یاد قائم رہے( ایسی تھی جس نے انکار کیا اور صاف کہہ دیا کہ میں مذہب کو ہر گز قربان نہیں کروں گی- اسے طرح طرح سے دکھ دیا گیا لیکن وہ ساٹھ ¶سالہ بڑھیا اپنے ایمان پر ثابت قدم رہی بلکہ ایک بڑی میٹنگ جو اس کی قوم نے شدھی کے متعلق غور کرنے کے لئے انگریزی علاقہ میں منعقد کی تھی` اس میں وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ میں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنا پسند کروں گی لیکن اسلام کو نہیں چھوڑوں گی- اگر تم مردوں نے اس ظلم کا مقابلہ نہ کیا تو ہم عورتیں اس کا مقابلہ کریں گی- نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کو پانی سے روک دیا گیا` اس کے کھیتوں کو کاٹنے سے روکا گیا` میں نے جب یہ واقعات سنے تو اپنی جماعت کے تعلیم یافتہ آدمیوں کو بھیجا کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس کے کھیت کاٹیں اور چونکہ اس کو رہائش کی بھی تکلیف تھی اس کے لئے ایک مکان بنوا دیا اور اس غرض سے وہاں مبلغ بھیجے کہ ان لوگوں کو ڈھارس دیں اور اسلام کی طرف واپس لائیں لیکن ریاست نے جھٹ قانون بنا دیا کہ کوئی انگریزی علاقہ کا آدمی اس علاقہ میں رات کو نہ رہے- اس پر ہمارے مبلغ انگریزی علاقہ میں خیمے لگا کر رہنے لگے- صبح کو وہ وہاں سے چلے جاتے تھے اور شام کو واپس آ جاتے تھے- شدید گرمی میں ناقابل برداشت تکالیف اٹھا کر انہوں نے اس ظلم کا مقابلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن حکومت برطانیہ کے دفاتر نے باوجود توجہ دلانے کے کوئی توجہ نہ کی کیونکہ ان کے خیال میں ریاستیں آزاد ہیں- جب کہ ریاستوں کے بارہ میں اس وقت ان کا یہ حال ہے تو کون امید کر سکتا ہے کہ آئینی گورنر آزاد صوبہ جات کے معاملات میں مسلمانوں کی خاطر دخل دے گا پس یہ حفاظتی تدبیر ہمیں کب تسلی دے سکتی ہے-
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ متعصبانہ خیالات صرف بعض لوگوں کے ہیں- ایسا نہیں بلکہ ہندو قوم بدقسمتی سے بہ حیثیت قوم اس مرض میں مبتلا ہو چکی ہے اور صرف ایک قلیل تعداد اس مرض سے بچی ہوئی ہے- چنانچہ اس وقت شہادت کے طور پر میں خود مسٹر گاندھی کو پیش کرتا ہوں- مسٹر گاندھی نے ۱۹۱۸ء میں ایک تقریر کے دوران میں بیان کیا-
>یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ یورپین کے لئے گائو کشی جاری رہنے کی بابت ہندو کچھ بھی محسوس نہیں کرتے- میں جانتا ہوں کہ ان کا غصہ اس خوف کے نیچے دب رہا ہے جو انگریزی عملداری نے پیدا کر دیا ہے- مگر ایک ہندو بھی ہندوستان کے طولوعرض میں ایسا نہیں ہے جو ایک دن اپنی سرزمین کو گائو کشی سے آزاد کرانے کی امید نہ رکھتا ہو- اور ہندو مذہب کو جیسا کہ میں جانتا ہوں` اس کی روح کے سراسر خلاف عیسائی یا مسلمان کو بزور شمشیر بھی گائو کشی چھوڑنے پر مجبور کرنے سے اغماض نہ کرے گا<- ۲۱~}~
مسٹر گاندھی کے اس بیان کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جذبہ تعصب صرف چند جاہل افراد میں ہے اور اس کی زیادہ پرواہ نہیں کرنی چاہئے-
ہندوئوں کے آئندہ ارادے اقلیت کے متعلق
اس امر کے ثابت کرنے کے بعد کہ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے لئے اکثریت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کی موجودگی میں صرف ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو حفاظت کا ذریعہ نہیں سمجھا جا سکتا- اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ہندوئوں کے آئندہ ارادے اقلیت کے متعلق کیا ہیں کیونکہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک اکثریت پہلے سے ارادہ کر کے آزادی کے حصول کو اقلیت کی ہر محبوب چیز کے قربان کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے تو یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ اس کا نقطہ نگاہ کسی قریب کے مستقبل میں بدل جائے گا-
انگریزی حکومت سے وفاداری کا مسلمانوں کو کیا صلہ ملے گا
ہندوئوں کے مشہور قومی لیکچرار ستیہ دیو صاحب اپنے ایک لیکچر میں بیان کرتے ہیں-:
>میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اگر وہ قوم پرست نہ بنیں بڑے خطرہ میں رہے گا- ہندوستان کے مسلمان اگر اپنے مذہبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوانہ پن میں ڈوبے رہے )یعنی ہندو نہ ہو گئے( تو ان کا کام صرف بدیشی گورنمنٹ کی مدد کر کے ہندوستان کو غلام رکھنا رہ جائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی آزادی کے موقع پر ملک کے سب لوگ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی ہستی بڑے خطرے میں پڑ جائے گی- مسلمانوں کی نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ قوم پرستی کا ہے<- ]2 [stf۲۲~}~
اس اعلان کے الفاظ کسی تشریح کے محتاج نہیں- آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو صرف اسلام کے جرم کی ہی سزا نہیں ملے گی بلکہ انگریزی حکومت سے تعاون کی بھی سزا ملے گی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ لارڈارون (LORDIRWIN) اور مسٹربن BEN)۔(MR نے جو پچھلے دنوں مسلمانوں کی وفاداری کے متواتر اعلان کئے ہیں اس میں انہوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں کی بلکہ مذکورہ بالا اعلان کی موجودگی میں ان کے موت کے وارنٹ (WARRANT) پر دستخط کئے ہیں-
مسلمان کن شرائط پر ہندوستان میں رہ سکیں گے
یہی ملکی خادم سا گر صوبہ سی-پی میں اپنی تقریر میں یہ بھی بیان کرتا ہے-:
>ہندوئو! سنگھٹن کرو اور مضبوط بنو اس دنیا میں طاقت ہی کی پوجا ہوتی ہے- اور جب تم مضبوط بن جائو گے تو یہی مسلمان خود بخود تمہارے قدموں پر اپنا سر جھکا دیں گے<- >جب ہم ہندو سنگھٹن کے ذریعہ سے خاطر خواہ طور پر مضبوط ہو جائیں گے- تو مسلمانوں کے سامنے یہ شرائط پیش کریں گے- )۱-( قرآن کو الہامی کتاب نہیں سمجھنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ )۲-( حضرت محمد کو رسول خدا نہ کہا جائے- )۳( عرب وغیرہ کا خیال دل سے دور کر دینا چاہئے- )۴( سعدی و رومی کی بجائے کبیر و تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے- )۵( اسلامی تہواروں اور تعطیلوں کی بجائے ہندو تہوار تعطیلات منائی جائیں- )۶( مسلمانوں کو رام و کرشن وغیرہ دیوتائوں کے تہوار منانے چاہئیں- )۷( انہیں اسلامی نام بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور ان کی جگہ رام دین` کرشن خاں وغیرہ نام رکھنے چاہئیں- )۸( عربی کی بجائے تمام عبادتیں ہندی میں کی جائیں<- ۲۳~}~
پھر یہی صاحب فرماتے ہیں-:
>بھارت ورش کی قومی زبان ہے سنسکرت- عربی اور فارسی کو میں بھارتورش سے باہر کر دینا چاہتا ہوں<-
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ہندو سوراج میں مسلمانوں سے یہ سلوک کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے ان کا مذہب` ان کا تمدن اور ان کی زبان اور ان کے نام تک چھڑوانا چاہتے ہیں-
شاید کوئی کہے کہ ستیہ دیو گو کتنے ہی بڑے آدمی ہوں لیکن ہندو قوم کے چوٹی کے لیڈر نہیں اس لئے میں چند چوٹی کے لیڈروں کے حوالہ جات نقل کرتا ہوں- ڈاکٹر مونجے جو رائونڈٹیبل کانفرنس CONFERENCE) TABLE (ROUND کے نمائندے مقرر ہوئے ہیں- ہندوئوں کو یوں نصیحت کرتے ہیں-
>ہندو اگر سنگھٹ ہو جائیں تو انگریزوں اور ان کے مسلمان پٹھوئوں کو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر نیچا دکھا کر سوراج حاصل کر سکتے ہیں- مسٹر جناح کی تجاویز فورٹین ڈیمانڈز آف مسلمز DEMONDSOFMUSLIMS) (FOURTEEN منتقمانہمقابلہ کی دھمکی دے رہی ہیں جن کی ہندوئوں کو کچھ پرواہ نہیں- ہندوئوں کو یہ پرانا خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر سوراج حاصل ہونا محال ہے<-
ڈاکٹر مونجے صاف لفظوں میں ظاہر کر رہے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں- وہ اپنے زور سے انگریزوں اور مسلمانوں دونوں کو درست کر کے رکھ دیں گے اور مسلمانوں سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگے- جن لوگوں کا شروع میں یہ حال ہے ان کا انجام کیا ہوگا؟
ایک اور ہندو لیڈر لالہ ہردیال ایم- اے جن سے یورپ و امریکہ کے لوگ خوب واقف ہیں لکھتے ہیں-
>جب انگلستان کچھ عرصہ بعد ہوم رول (HOMERULE) یعنی ۷۵فیصدی سوراجیہ ہمیں پیش کرے تو وہ ہندو قومی دل کے ساتھ عہدوپیمانکرے<- ۲۴~}~
پھر یہی صاحب لکھتے ہیں-:
>ہندو سنگھٹن کا آدرش یہ ہے کہ ہندو قومی سنتھائوں انسٹی چیوشنز (INSUITUTIONS) کی بنیادوں پر ہندو قومی ریاست قائم کی جائے- ہندو قومی سنتھائیں یہ ہیں- مثلاً سنسکرت بھاشا` ہندی بھاشا` ہندو قوم کا اتہاس` ہندو تہوار` ہندو مہاپرشوں کا سمرن` ہندوئوں کے دیش بھارت یا ہندوئوں کے ستھان کا پریم` ہندو قوم کے ساہتیہ کا پریم وغیرہ وغیرہ- پھر جو لوگ آج کل کے نیم عربی` نیم ایرانی مسلمانوں کو قومی تحریک میں خواہ مخواہ شامل کرنا چاہتے ہیں وہ اس صداقت کو نہیں سمجھتے کہ ہر ایک قومی ریاست پرانی قومی سنتھائوں پر قائم کی جاتی ہے جن سے لوگوں میں یگانگت کا بھائو پیدا ہوتا ہے<- ۲۵~}~
پھر یہی صاحب لکھتے ہیں-:
>جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا- تو ہماری جو نیتی )پالیسی( عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف ہوگی اس کا اعلان کر دیا جائے گا- اس وقت باہمی سمجھوتہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہندو مہاسبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی کہ نئی ہندو ریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے کیا فرائض اور حقوق ہونگے اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہونگی<- ۲۶~}~
اسی طرح یہ صاحب فرماتے ہیں-:
>سوراج پارٹی کا اصول ہونا چاہئے کہ ہر ہندوستانی بچہ کو قومی رتن دیئے جائیں خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی- اگر کوئی فرقہ ان کے لینے سے انکار کرے اور ملک میں دورنگی پھیلائے تو اس کی قانونی طور پر ممانعت کر دی جائے- یا اس کو عرب کے ریگستان میں کھجوریں کھانے کے لئے بھیج دیا جائے- ہمارے ہندوستان کے آم کیلئے اور نارنگیاں کھانے کا انہیں کوئی حق نہیں<- ۲۷~}~
یہی لالہ ہردیال صاحب ایک اور موقع پر فرماتے ہیں-:
>میں کہتا ہوں کہ ہندو قوم اور ہندوستان اور پنجاب کا مستقبل ان چار آدرشوں )نصب العین( پر منحصر ہے- یعنی )۱( ہندو سنگھٹن )۲( ہندو راج )۳( اسلام اور عیسائیت کی شدھی )۴( افغانستان اور سرحد کی فتح اور شدھی<-
>اگر ہندوئوں کو اپنی رکھشا کرنی منظور ہے تو خود ہاتھ پائوں ہلانے پڑیں گے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ اور سردار ہری سنگھ نلوہ کی یادگار میں افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے تمام پہاڑی قبیلوں کی شدھی کرنی ہوگی- اگر ہندو اس فرض سے غافل رہیں گے تو پھر اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے گی<- ۲۸~}~
پھر یہی صاحب فرماتے ہیں-:
>جب تک پنجاب اور ہندوستان بدیشی مذہبوں )یعنی عیسائیت اور اسلام( سے پاک نہ ہوگا تب تک ہمیں چین سے سونا نہیں ملے گا- جو ہندو اس آدرش )مقصد( کو نہیں مانتا وہ کپوت ہے` بے جان ہے` مردہ دل ہے` بے سمجھ ہے` ہر سچے ہندو کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ اپنے دیش کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کر دے<- ۲۹~}~
مہاشہ کرشن ورنیکلر پریس (VERNACULARPRESS)کے سب سے بڑے مالکوں میں سے ہیں- اور آریہ پرتی مذہبی سبھا کے اہم ترین ممبروں میں سے ہیں- وہ لکھتے ہیں-:
>اب وقت دور نہیں سمجھنا چاہئے جب کہ یہ اسلام ہمیشہ کے لئے سرزمین ہند سے غائب ہو جائے گا اور جو شخص خواہ وہ مہاتما گاندھی بھی کیوں نہ ہو- ایسے اسلام کی اشاعت یا ڈیفنس (DEFENCE) میں بالواسطہ یا غیر واسطہ مدد دے گا وہ ملک اور سوراجیہ کا دشمن سمجھا جائے گا اور کوئی سچا ہندو ایسے اشخاص کے ساتھ اپنا کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گا<-
>سب سے پہلے آپ کا یہ فرض ہوگا کہ ایسے اسلام کو ہمیشہ کے لئے گنگا جی کے سپرد کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک مسلمان تبلیغ کو ہندوستان کے اندر سے بند نہیں کریں گے دونوں قوموں میں اتحاد نہیں ہوگا اور جو لوگ وید بھگوان اور رام کرشن کا نام مٹا کر عرب کے ریگستان کی تہذیب اور حضرت محمد کا نام سرزمین ورت میں پھیلانا چاہتے ہیں ان کے ساتھ ہندوئوں کا اتحاد کبھی نہیں ہو سکتا<- ۳۰2]~}~ ftr[
پروفیسر رام دیو جو آریہ سماج کے بڑے لیڈر اور ان کے مرکزی کالج کے پرنسپل رہے ہیں اور بعد میں سیاسی کاموں میں پڑ گئے لکھتے ہیں-:
>ہندوستان کی ہر ایک مسجد پر ویدک دھرم یا آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گا<- ۳۱~}~
یہی صاحب آریہ سماج کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرما چکے ہیں-:
>اسی طرح اب ایک زمانہ آنے والا ہے کہ تمام مسجدیں آریہ مندر بنائے جائیں گے اور ان میں ہون ہوا کریں گے- میں سوچا کرتا ہوں کہ جب دہلی کی جامعمسجد آ جائے گی- ہم کیا کریں گے- ہم تمام ہندوستان کے آریہ نہیں بلکہ تمام دنیا کے آریہ جمع ہو کر ایک کانفرنس کیا کریں گے<-
ڈاکٹر گوکل چند نارنگ ایم-ایل-سی لاہور ہائی کورٹ کی بار کے پریزیڈنٹ جو سائمنکمیشن کی پنجاب کمیٹی کے ممبر بھی تھے- فرماتے ہیں-:
>مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی شرم نہیں آتی کہ اگر آپ کے ایک ہندو بھائی کو مسلمان بنانے میں آپ کسی کو روکتے نہیں اور وہ باز نہیں آتا تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کٹ کر مر جائیں<- 2] [stf۳۲~}~
یہ تو انگریزی علاقہ کے لوگوں کا حال ہے- اب ریاستوں کا حال دیکھیں- سر والٹر لارنس LAWRENCE) WALTER (SIR اپنی کتاب SERVED WE WHICH INDIA )انڈیا جس کی ہم نے خدمت کی( میں لکھتے ہیں کہ-:
لارڈ کرزن (LORDCURZON) نے میری دعوت کا انتظام کیا تھا- جنرلسر پرتاب سنگھ بہادر برادر مہاراجہ صاحب جودھ پور میرے بڑے دوست تھے- دیرتک مجھ سے باتیں کرتے رہے- دوران گفتگو میں کہنے لگے کہ >میرا مقصد یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو ہندوستان میں فنا کر دوں<- میں نے ان کے اس تعصب کی مذمت کی اور ان کے اور اپنے مسلمان دوستوں کا ذکر کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ >ہاں میں بھی انہیں پسند کرتا ہوں لیکن مجھے زیادہ اچھا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرجائیں<-۳۳~}~
ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر حصہ ہندو لیڈروں کا خواہ انگریزی علاقہ کے ہوں یا ریاستوں کے )۱( مسلمانوں سے شدید تعصب رکھتے ہیں- )۲( وہ علے الاعلان یہ ارادہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ان کو طاقت حاصل ہوئی تو وہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں گے )۳( وہ ہندوستان میں صرف ہندو راج قائم کریں گے- )۴( عیسائیوں اور مسلمانوں سے وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دیں گے- اور اس اجازت کے ساتھ یہ شرط ہوگی کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو ہو جائیں- )۵(وہ مسلمانوں کی زبان کو مٹا دیں گے- )۶( وہ اقلیتوں کے تہواروں کو قانونا ناجائز کر دیں گے- )۷( ان کی عبادتوں کو بدلائیں گے- )۸( گائے کے ذبیحہ کو بزور شمشیر روک دیں گے- )۹( تبلیغ کو ناجائز کر دیں گے- )۱۰( اگر کوئی ہندو اقلیت کے مذہب کو قبول کرنے لگے گا تو ہندو اس سے روکیں گے لیکن اگر وہ باز نہ آیا تو ہندو کٹ کر مر جائیں گے- )۱۱( افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے انہیں شدھ کر لیا جائے گا- )۱۲( مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کر دیا جائے گا- )۱۳( مسلمانوں کے اسلامی نام تک بدل دیئے جائیں گے- )۱۴( جو لوگ ہندو زبان` ہندو مذہب اور ہندو تہذیب اور ہندو تہوار اختیار کرنے کو تیار نہ ہوں گے انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے گا- )۱۵( اگر کوئی شخص خواہ مہاتما گاندھی ہی کیوں نہ ہوں اسلام اور مسلمانوں سے نرمی کی تعلیم دے گا تو اس کا بھی ہندو بائیکاٹ کر دیں گے-
یہ ارادے ہیں جو سوراج کے قیام پر ہندو مسلمانوں کے متعلق خصوصاً اور دوسری اقلیتوں کے متعلق عموماً رکھتے ہیں- جو ان کا موجودہ سلوک ہے اس کا ذکر پہلے کر آیا ہوں- کیا ان کی موجودگی میں کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے یا یہ کہ ایسا مطالبہ ڈیماکریسی (DEMOCRACY) کے اصول کے خلاف ہے- کیا اس قدر سخت سلوک اور اس قدر خطرناک ارادوں کی موجودگی میں دنیا کی کسی اور اقلیت نے بھی اس قدر نرم مطالبے کیے ہیں جس قدر کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش ہوتے ہیں؟ ][ میں اس جگہ یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز یہ نہیں سمجھتا کہ سب کے سب ہندو مذکورہ بالا خیالات میں مبتلا ہیں- ان میں یقیناً ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ان خیالات کو اسی طرح حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس طرح اقلیتوں کے لوگ- چنانچہ بعض ہندوصاحبان نے ان خیالات کے خلاف اظہار نفرت کیا بھی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ طبقہ بہت تھوڑا اور دوسرے گروہ کے مقابلہ میں کم اثر رکھنے والا ہے- ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا آ جائے کہ ہندوئوں کے دل سے تعصب اور کینہ نکل جائے اور وہ اپنے اس مرض سے صحت پا جائیں جس کی وجہ سے اپنی قوم کے سوا ہر قوم انہیں گردن زدنی نظر آتی ہے- لیکن جب تک وہ دن آئے اس وقت تک نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کا کوئی سامان ہو-
‏ a11.9
انوار العلوم جلد ۱۱
ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل
باب ششم
اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر کے اصول
سائمن کمیشن نے اس اختلاف کو تسلیم کیا ہے جو اکثریت اور اقلیت میں ہے لیکن بوجہ غیرملکی ہونے کے وہ لوگ اس کی پوری کیفیت کو معلوم نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے وہ اس کا صحیح علاج تجویز کرنے سے قاصر رہے ہیں- انہوں نے اختصار کے ساتھ ہندو مسلمانوں کو جھگڑے کا جو گائے اور باجہ کے متعلق ہوتا ہے ذکر کیا ہے لیکن وہ یہ معلوم نہیں کر سکے کہ یہاں صرف گائے کا سوال نہیں بلکہ اس اقتصادی اور تمدنی بائیکاٹ کا سوال ہے جو عرصہ دراز سے ہندومسلمانوں کا کرتے چلے آئے ہیں- کمیشن کو اس اختلاف کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کیونکہ اس کے اہم فرائض میں سے ایک یہ فرض بھی تھا کہ وہ ایسے قوانین تجویز کرے جو اس اختلاف کے برے نتیجوں سے دونوں قوموں کو محفوظ رکھیں- لیکن جب تک اختلاف کی حقیقت اور اس کی گہرائی کو اہل کمیشن معلوم نہ کرتے وہ علاج کس طرح تجویز کر سکتے تھے- انہوں نے صرف گائے اور باجے کے سوال کو لے لیا اور اس پر غور نہیں کیا کہ گائے کا سوال ہندو سنگھٹن کی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے اور یہ کہ اس سوال نے موجودہ صورت صرف اسلامی حکومت کے آخری ایام میں اختیار کی ہے بلکہ اب تک بھی بعض ہندو اقوام ہندوستان میں ایسی موجود ہیں جو گائے کا گوشت کھا لیتی ہیں گو اس سیاسی ایجی ٹیشن کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے- کمیشن کو اس منظم بائیکاٹ کی حقیقت کو معلوم کرنا چاہئے تھا جو مسلمانوں کا ہر شعبہ زندگی میں کیا جا رہا ہے- کیا تجارت اور کیا تمدن اور کیا ملازمت اور کیا اقتصادیات ایک بھی تو شعبہ ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کو مذہب یا حفظان صحت یا اقتصاد کے نام سے نقصان نہیں پہنچایا جاتا-
پس اصل غرض سیاسی برتری کا حصول ہے- گائے کے سوال کو ہی لے لو- اگر تو صرف جہلاء کا معاملہ ہوتا تو ہم کہتے کہ بوجہ گائے کو پوجنے کے انہیں جوش آ جاتا ہے لیکن یہ کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سوال میں ویسے ہی جوش سے حصہ لیتے ہیں جس طرح کہ جہلاء اور ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس موقع پر جوش میں آ جاتے ہیں جو گائے کے کھانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے-
اس وقت سیاسی تحریک کی باگ ڈور زیادہ تر غیر ممالک میں تعلیم پانے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور یورپین لوگ اس امر کو خوب جانتے ہیں کہ جس وقت یہ لوگ یورپ میں آتے ہیں تو ان میں سے اکثر بلکہ نوے فیصدی سے زیادہ گائے کا گوشت خوب کھاتے ہیں- میں نے جب ۱۹۲۴ء میں ولایت کا سفر کیا تو میرے ایک سیکرٹری صاحب نے یہ دیکھ کر کہ ویٹر (WAITER) ہمیشہ سور کا گوشت ہی سامنے لاتا ہے اور واپس کرنے پر بہت حیران ہوتا ہے- اسے سمجھایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ہمارے سامنے سور کا گوشت پیش ہی نہ کیا کرو- ان کے ساتھ ایک ہندو صاحب بیٹھا کرتے تھے اور ہندو مذہب کے متعلق خوب بحثیں کیا کرتے تھے ان کے متعلق بھی کہہ دیا کہ یہ صاحب گائے کا گوشت نہیں کھاتے ان کے سامنے گائے کا گوشت نہ لایا کرو- وہ صاحب اس وقت تو خاموش ہو رہے لیکن ایک دو دن میں ہی اس محرومی کی تاب نہ لا سکے اور صاف کہہ دیا کہ میں اپنے کھانے کے متعلق خود ہدایت دے لوں گا آپ کو اس سے کچھ تعلق نہیں اور پھر بڑے شوق سے گائے کا گوشت منگوا کر کھانے لگ گئے- لیکن کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جس وقت یہ لوگ ہندوستان آتے ہیں تو گائے کے سوال پر سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں- میں انسانی کمزوری کو تسلیم کرتا ہوں لیکن یہ کیسی انسانی کمزوری ہے کہ جس فعل کا انسان خود مرتکب ہوتا ہے اس کے ارتکاب پر دوسرے انسان کا خون بہانا بھی جائز قرار دیتا ہے- اسی طرح آریہ سماج جو اپنے آپ کو موحد قرار دیتی ہے وہ گائے کے معاملہ میں سب ہندوئوں سے بڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جب اس پر اس فعل کی حماقت ظاہر کی جاتی ہے تو وہ یہ جواب دیتی ہے کہ یہ سوال اقتصادی سوال ہے- کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پنجاب میں زمیندارہ تو زیادہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور ہندو شہری لوگ ہوں جن پر زمیندار کی مشکلات کا اثر سب سے کم پڑتا ہے لیکن سب سے زیادہ اس اقتصادی مسئلہ کے لئے جوش انہیں کو آتا ہے- اور پھر کون عقلمند اس امر کو تسلیم کرے گا کہ ایک گائے کا ذبح کرنا تو ملک کے اقتصادیات پر بہت برا اثر ڈالتا ہے لیکن اس کے بدلہ میں آدمیوں کو قتل کر دینا ملک کی اقتصادی حالت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا؟
غرض یہ عذر بالکل نامعقول ہے اور اصل بات یہی ہے کہ گائے کے سوال کو قوم کے جمع کرنے کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے- اس وجہ سے موحد اور گائے خور بھی اس امر پر جمع ہو جاتے ہیں بلکہ گائے خور اور موحد اس معاملہ میں دوسروں سے آگے رہتے ہیں اور گائے کی عبادت کرنے والوں کو بھڑکانے کا اصل موجب وہی ہوتے ہیں-
اگر کمیشن اس حقیقت کو معلوم کرتا تو وہ کبھی ہندو مسلم سوال کو اس سرسری نگاہ سے نہ دیکھتا جس سے کہ اس نے دیکھا ہے اور کبھی ان حفاظتی تدابیر کو جو اس اختلاف کے خطرناکنتائج سے بچنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں- اس طرح بغیر کافی توجہ دینے کے چھوڑ نہ دیتا-
جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقلیتوں اور اکثریت کا فیصلہ کرتے وقت ہمیں ان اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے جو حکومت کے قیام کا باعث ہوتے ہیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت کا اصل مقصد یہ ہے-:
۱
افراد کو ایک دوسرے کے حقوق میں دخل اندازی سے روکنا-
۲
افراد اور جماعت اور ملک کو حکومت سے باہر کے لوگوں کی دست اندازی سے بچانا اور ان پر دست اندازی کرنے سے روکنا-
‏in] [tag۳
ایسے ذرائع اختیار کرنا جو ملک کی مجموعی ترقی کا موجب ہوں-
۴
ان ذرائع کی تکمیل کیلئے ملک سے بحصہ رسدی بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکس وصول کرنا-
۵
ایسا انتظام کرنا کہ افراد یا حکومت کے خلاف قانون توڑنے والوں کے جرم کی صحیح طور پر اور انصاف سے تشخیص اور تعیین کی جا سکے- دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی غرض یہ ہے کہ وہ افراد کے فائدے کیلئے )۱( قانون سازی کرے- )۲( قانون کا نفاذ کرے- )۳( قانون شکن کی ذمہ واری کی تعیین کر کے اسے سزا دے- یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ حکومت کی غرض عدل و انصاف سے کام کرنے والی )۱( لیجسلیٹو )۲( ایگزیکٹو )۳( اور قضاء کا قیام ہے-
اس کے سوا حقیقی حکومت کی غرض اور کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ حقیقی حکومت وہ ہے جو افراد کی مرضی سے قائم ہو اور کونسا فرد ہے جو یہ کہے گا کہ ایسی حکومت قائم کرو جو میرے حقوق کو قانون سازی یا اطلاق قانون یا قضاء میں سے کسی شعبہ میں یا سب شعبوں میں تلف کر دے- پس ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی بناتے وقت ہمیں ملحوظ رکھنا ہوگا کہ آئین ایسا ہو کہ جس میں ناواجب طور پر افراد یا جماعتوں کے حقوق تلف نہ ہو سکیں اور حکومت کا فائدہ سب ملک کو پہنچے نہ کہ کسی خاص جماعت کو خواہ وہ اقلیت ہو یا اکثریت-
اگر مذکورہ بالا اصل صحیح ہے تو آئین اساسی مختلف ممالک کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہوں گے کیونکہ اس ملک کے افراد کے خاص حالات کو ان میں مدنظر رکھا جائے گا- اگر فرض کرو کہ ایک ملک میں بعض افراد کو اپنی زبان کے متعلق خطرہ ہے تو اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ ان کی زبان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے- اگر مذہب کو خطرہ ہے تو مذہب کا لحاظ رکھا جائے گا- اگر فرض کرو کہ نئی قائم ہونے والی حکومت کے افراد بحیثیت افراد نہیں بلکہ بحیثیت جماعت کے اس نظام میں شامل ہوئے ہیں اور انہیں اپنے اندرونی نظام کے متعلق خطرہ ہے تو ان کے اندرونی نظام کی حفاظت کا خیال رکھا جائے گا-
غرض چونکہ جمہوری حکومت افراد یا جماعتوں کی مرضی سے قائم ہوتی ہے حکومت کے نظام میں اس ملک کی ضرورت کے لحاظ سے ایسی حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں گی کہ جن سے افراد یا جماعتوں کے حقیقی یا جائز خوف کا ازالہ ہو سکے تا کہ وہ بشاشت قلب کے ساتھ نظامحکومت کو چلانے کیلئے تیار ہوں جس کے بغیر کوئی حکومت بھی کامیاب نہیں ہو سکتی-
اب اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہندوستان کی حالت کو دیکھتے ہیں کہ آیا اس میں آئین حکومت کے قیام کے وقت حفاظتی تدابیر کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کن کن تدابیر کی؟
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں بہت سی اقلیتیں ہیں جن میں سے سب سے زبردست مسلمان ہیں- اور دوسرے نمبر پر مسیحی اور قومی لحاظ سے انگریز- میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ اکثریت اور اقلیت کا اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اکثر اقلیتیں اسے نظر انداز کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں- پس اگر ہندوستان میں صحیح معنوں میں جمہوری حکومت قائم کرنی ہے تو افراد یا جماعتوں کی حفاظت ضروری ہے- اس امر کا فیصلہ کہ کس حد تک اور کن کن امور میں حفاظت ضروری ہے ان اصول پر ہونا چاہئے-
۱
کیا افراد یا مجموعہ افراد کا خوف حقیقی ہے یا وہمی یا بناوٹی؟
۲
اس خطرہ کے پیدا ہونے کی ذمہ داری اقلیت پر ہے یا اکثریت پر؟
۳
جن امور کے متعلق اقلیت خوف کرتی ہے کیا وہ قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں؟
۴
جن امور کے متعلق اقلیت خوف کرتی ہے کیا انہیں قربان نہیں کیا جا سکتا؟
۵
جن امور کے متعلق اقلیت حفاظت چاہتی ہے کیا ان کے متعلق حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا نظام کو باطل اور حکومت کو تباہ تو نہیں کرتا؟
۶
اقلیت جن حفاظتی تدابیر کا مطالبہ کرتی ہے کیا ان سے اکثریت یا دوسری اقلیتوں کے حقوق کو تو نقصان نہیں پہنچتا؟
یہ چھ اصول ہیں جنہیں میرے نزدیک اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق کے فیصلہ کے وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اب میں ان اصول کی روشنی میں اصولی طور پر ہندوستان کی اقلیتوں کے سوال کو لیتا ہوں-
پہلا اصل یہ ہے کہ کیا اقلیتوں کا خوف حقیقی یا وہمی یا بناوٹی تو نہیں؟ اس سوال کا حل اس لئے ضروری ہے کہ اگر خوف وہمی ہو تو اس وہم کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر ازالہ ہو جائے تو سب جھگڑا ختم ہو جاتا ہے- اگر ازالہ نہ ہو تو پھر ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ چونکہ خوف وہمی ہے ہم حفاظتی تدابیر کو کم سے کم درجہ تک اختیار کریں تا کہ آئین اساسی بلاوجہ پیچیدہ نہ ہو- )یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت میرے مدنظر یہ امر ہے کہ ہندوستان کا فیصلہ کرتے وقت ایک تیسری قوم بطور جج یا مشیر کار کے شامل ہوگی اس لئے لازماً اس بحث میں اس فریق کو مدنظر رکھنا پڑے گا(- اگر خوف بناوٹی ہو تو اس کی حقیقت معلوم کر کے ہمیں نظر انداز کر دینا چاہئے- اگر حقیقی ہو تو ہمیں اس کے دور کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے- کیونکہ اقلیت کی تباہی جمہوریت کے اصول کے ویسے ہی خلاف ہے جیسے کہ اکثریت کی تباہی-
ہندوئوں کے افعال اور ان کے ارادوں کو بالتفصیل لکھ کر میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں اور انگریزوں )میں ہر جگہ اینگلو انڈین کو اس لفظ میں شامل سمجھوں گا( کا خوف حقیقی ہے پس ان کے خوف کا علاج ضروری ہے- گو ہندوستانی مسیحیوں میں سے ایک معقول تعداد کسی حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں سمجھتی لیکن ان کے متعلق بھی خوف حقیقی ہے- لیکن وہ خود حفاظت نہ چاہیں تو زبردستی ان کے لئے ایسی تدابیر کا اختیار کرنا عقل کے خلاف ہوگا-
اب ایک اقلیت رہ گئی ہے جس کا میں نے اب تک ذکر نہیں کیا- اس اقلیت کے خوف میرے نزدیک بناوٹی ہیں اور صرف زائد حقوق لینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں یہ اقلیت سکھوں کی ہے- سکھ تمدنی طور پر ہندوئوں کا ایک حصہ ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں آپس میں چھوت چھات نہیں` ان میں سے بعض آپس میں رشتہ داریاں بھی کر لیتے ہیں` بہت سے ہندو تہواروں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں` بعض ان میں سے مقدس ہندو جگہوں کی زیارت کیلئے بھی جاتے ہیں- غرض تمدنی طور پر سکھ ہندوئوں کا حصہ ہیں گو مذہباً وہ بہ نسبت ہندوئوں کے مسلمانوں کے بہت زیادہ قریب ہیں-
ان کے تمدنی طور پر ہندوئوں کا حصہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ جبکہ ہندو ملازمتوں وغیرہ میں مسلمانوں کو باہر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں سکھوں سے ان کا یہ سلوک نہیں ہے- ہندو انجنیئروں کی بدولت مسلمان ریلوے اور نہروں اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے ٹھیکوں سے قریباً محروم ہیں لیکن ان محکمہ جات میں ٹھیکہ داری کا کام سکھوں کو اسی طرح مل جاتا ہے جس طرح ہندوئوں کو اور اس کی بدولت سکھ اکثر بڑے بڑے مالدار ہیں- غرض اقتصادی اور تمدنی بائیکاٹ سے یہ لوگ مستثنیٰ ہیں-
پس ان کا ہندوئوں سے الگ ایک اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں- اول تو یہ لوگ تمدنی` سیاسی یا اقتصادی طور پر اقلیت کہلا نہیں سکتے کیونکہ ان تینوں امور میں یہ ہندوئوں کے ساتھ کامل یگانگت رکھتے ہیں- دوسرے اس لئے کہ اگر یہ اقلیت ہوں بھی تو وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ کسی شعبہ زندگی میں ان سے بے انصافی ہوئی ہے اپنے حق سے زیادہ ہی ہر چیز ان کو مل رہی ہے- پنجاب کی آبادی میں یہ چودہ فیصدی ہیں لیکن بیس فیصدی حق لے رہے ہیں- ان حالات میں ان کا اپنی زیست کے متعلق خوف ظاہر کرنا میرے نزدیک درست نہیں- لیکن اگر یہ قوم بھی واقعات سے یا دوسری قوموں کے ارادوں سے یہ ثابت کر دے کہ ان کے ساتھ دشمنی کی جاتی ہے اور ان کے حقوق تلف کئے جاتے ہیں یا ان کے تلف کئے جانے کا حقیقی خوف ہے تو اپنے حق اور خوف کے مطابق حفاظت کے یہ بھی ویسے ہی حق دار ہیں جیسے کہ اور اقلیتیں ہیں اور کسی کا حق نہیں کہ انہیں ان کے جائز مطالبات سے محروم رکھنے کی کوشش کرے-
دوسرا اصل جسے آئین اساسی کے تجویز کرتے وقت مدنظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ اقلیتوں کو جو خطرہ پیدا ہوا ہے اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اس امر کی تحقیق اس لئے ضروری ہوتی ہے تا اقلیتیں جان بوجھ کر کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے اکثریتیں ان کے خلاف بھڑک اٹھیں اور اس طرح وہ یہ ثابت کرنا چاہیں کہ انہیں اکثریت سے صحیح طور پر خطرہ ہے اور اس وجہ سے وہ خاص حفاظت کی مستحق ہیں-
اگر اس اصل کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی بھی قومیت کی روح ملک میں پیدا نہ ہو سکے گی اور بعض خود غرض لوگ اقلیتوں کو بھڑکا بھڑکا کر ملک کے امن کو برباد کرتے رہیں گے- جیسا کہ ٹرکی کی حکومت میں ہوتا رہا ہے کہ پہلے تو بعض حکومتیں ذاتی اغراض کے ماتحت مسیحی اقلیتوں کو جوش دلا کر کوئی شرارت کروا دیتی تھیں پھر جب ترک انہیں سزا دیتے تھے تو وہی حکومتیں بیج میں آ کودتی تھیں کہ اقلیتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے ان کی حفاظت ہونی چاہئے- اس طرح حفاظتی تدابیر کراتے کراتے ایک دن ان علاقوں کو آزاد کروا دیا گیا-
میں گو مسلمانوں کی تائید میں لکھ رہا ہوں لیکن میں یہ کبھی پسند نہیں کروں گا کہ یہی صورت ہندوستان میں پیدا ہو اور کوئی اقلیت خواہ مسلمانوں کی ہی کیوں نہ ہو اپنے جائز حق سے متجاوز ہو کر اکثریت کو جوش دلا دے اور پھر اس امر کا مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں خاص حقوق ملنے چاہئیں تا کہ ہمارے حقوق کی حفاظت ہو-
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک ہندوستان کی اقلیتوں کو جو خطرات ہیں وہ ان کے اپنے پیدا کئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری اکثریت پر ہے- مثلاً ملازمتوں کو لے لیا جائے اس بارہ میں کوئی امکان ہی نہیں ہو سکتا کہ مسلمان ہندوئوں کو بھڑکائیں یا تعلیمی درسگاہوں کو لے لیا جائے ان میں جو مسلمانوں کو پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے یا بعض عدالتوں تک میں جو مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے` حتیٰ کہ اگر بعض ججوں کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو یہاں تک نظر آتا ہے کہ ایک ہی قانون اور ایک ہی قسم کے حالات کے ماتحت مسلمان مدعی ہے تو اور فیصلہ ہے اور ہندو مدعی ہے تو اور فیصلہ ہے- یا چھوت چھات کی جاتی ہے یا تجارتی بائیکاٹ جو کیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ مسلمان سات سو سال تک ہندوئوں کے ہاتھ کا کھاتے رہے ہیں اور ان سے سودے خریدتے رہے ہیں- اس ایذا دہی کی کوئی وجہ مسلمانوں کی طرف سے پیدا نہیں ہوئی- ذبح گائے پر جو شور کیا جاتا ہے اسے بھی جائز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ گائے کا ذبح کرنا یا کھانا مسلمانوں کا ذاتی فعل ہے- اس سے ہندوئوں کو کوئی تعلق نہیں ہے- اگر مسلمان ہندوئوں کی گائیں پکڑ کر ذبح کرتے یا ان کو ان کا گوشت کھانے پر مجبور کرتے تو اس صورت میں اس فساد کے موجب مسلمان کہلاتے اور ہندو ہر طرح حق بجانب ہوتے- جب ایسا نہیں تو گائے کے ذبح کرنے پر فساد کرنا مسلمانوں کے حق میں دخل اندازی کرنا ہے- اگر مسلمان جن کے مذہب میں سود لینا اور دینا سخت منع ہے یا سور کھانا منع ہے بنکوں کو گرانے یا سور کھانے والوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں تو اسے کون جائز قرار دے گا- اسی طرح اسلام کو اور بانی اسلام کو جو گالیاں ہندو مذہبی مصنفین کی طرف سے دی جاتی ہیں اور تبلیغ کو روکنے اور خالص ہندو راج کے قائم کرنے اور اسلامی زبانوں کو ہی نہیں بلکہ الفاظ کو بھی ملک سے نکال دینے کے جو منصوبے اکثر ہندو لیڈروں کی طرف سے ظاہر ہوئے ہیں ان کا باعث ہرگز مسلمان نہیں کہلا سکتے- غرض جو خطرات ہندوستان کی اقلیتوں کو ہیں وہ ان کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اکثریت کے ہیں اس لئے اقلیتوں کی شکایت بجا ہے اور خاص توجہ کی مستحق ہے- اگر اصولاً دیکھا جائے تو بھی ذمہ داری اکثریت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سائمن کمیشن نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ ہندو مسلم فسادات کی اصل وجہ پولیٹیکل ہے- وہ لکھتے ہیں-:
>ہمارے نزدیک اصل سبب )ان فسادات کا( سیاسی طاقت کے حصول کی کوشش اور ان فوائد کو حاصل کرنا ہے جو سیاسی طاقت کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں<- ۳۴~}~
اور یہی امر صحیح ہے جیسا کہ میں بھی ثابت کر چکا ہوں اور اگر یہ امر صحیح ہے تو ہر ایک یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ فسادات کا فائدہ اقلیت کو نہیں بلکہ اکثریت کو حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ اکثریت کے سامنے آزادی کا خیال ہوتا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اقلیت کو کمزور کر کے اپنی طاقت اس قدر بڑھائے کہ اقلیتیں اس کی آزادانہ حکومت میں روک نہ بن سکیں اور وہ پورے طور پر اپنے منشاء کے مطابق حکومت کر سکے-
تیسرا اصل میں نے یہ بتایا تھا کہ اقلیتوں اور اکثریت کا تصفیہ کرتے وقت اس امر کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اقلیت جن امور میں حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے کیا وہ امور قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں کیونکہ اگر وہ غیر ضروری امور ہوں تو انہیں آئین اساسی میں لانا اسے بلاوجہ پیچیدہ کر دیتا ہے- اس صورت میں ہمارا فرض ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اقلیت کو سمجھائیں کہ وہ خواہ مخواہ ان پر زور نہ دے اور ایسے چھوٹے امور جن میں تغیر سے نہ اقلیت کو نقصان ہے اور نہ اکثریت کو کوئی فائدہ ہے ان کے متعلق یونہی یہ شبہ نہ کرے کہ اکثریت ان میں جبر سے کام لے گی اور اگر اکثریت ایسا کرے بھی تو چونکہ وہ غیر ضروری ہیں اقلیت کو ان میں صبر سے کام لے کر ملک کی فضاء کو درست بنانے کی کوشش کرنی چاہئے-
اب میں مسلمانوں کے مطالبات پیش کرتا ہوں تا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا وہ امور قومی یا انفرادی ترقی کیلئے ضروری ہیں؟ مسلمانوں کے مطالبات یہ ہیں-:
۱-
ہندوستان کی آئندہ حکومت اشتراکی اصول پر ہو- یعنی مرکزی حکومت کو صوبہ جات سے اختیار ملیں نہ کہ مرکزی حکومت سے صوبہ جات کو اور سوائے ان امور کے جو سارے ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کا اختیار صوبہ جات مرکزی حکومت کو دیں باقی سب امور صوبہ جات کے قبضہ میں رہیں-
۲-
سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو بھی دوسرے آزاد صوبوں کی طرح حکومت دی جائے اور سندھ کو بمبئی سے آزاد کر کے نیا صوبہ بنایا جائے اور اسے بھی آزاد صوبوں کے برابر حقوق دیئے جائیں-
۳-
اس امر کا انتظام کر لیا جائے کہ تمام اقوام کی نمائندگی ان کی تعداد کے مطابق ہو- سوائے اس کے کہ کوئی اقلیت بہت کمزور ہو اور اس کے ہر قسم کے مفاد کی نمائندگی کے لئے ضروری ہو کہ اسے کچھ زائد نشستیں دے دی جائیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اکثریت کی اکثریت نہ جاتی رہے یا بے اثر نہ ہو جائے-
۴-
مرکزی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی اتنی ہو کہ ان کی مرضی کے خلاف قانوناساسی کو تبدیل نہ کیا جا سکے-
۵-
قوم وار نمائندوں کا انتخاب جاری رکھا جائے جب تک کہ حقیقی یا عملی اقلیتیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع نہ حاصل کر لیں-
۶-
گورنمنٹ` مذہب` تبلیغ یا تبدیلی مذہب کو کسی حد بندی یا پابندی کے نیچے نہ لائے- نہ یہ اجازت ہو کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جس کی غرض ہندوستان کی کسی خاص قوم کے افراد کے حقوق یا اس کی تمدنی یا اقتصادی یا ادبی آزادی کو محدود کرنا ہو- نہ وہ ایسا قانون بنائے جس کی غرض کسی خاص قوم کے افراد کو خاص اختیار دے کر کسی دوسری قوم یا اقوام سے ممتاز کرنا ہو-
۷-
گورنمنٹ کو کسی قوم کے اہلی قانون (PERSONALLAWS)میں اس وقت تک دخل دینے کی اجازت نہ ہو جب تک کہ اس قوم کے اپنے منتخب نمائندوں کی اکثریت اس کی تائید میں نہ ہو اس مزید شرط کے ساتھ کہ وہ نمائندے اس خاص مسئلہ کی تائید کا اظہار انتخاب کے وقت کر چکے ہوں-
۸-
اس امر کی حفاظت کر لی جائے کہ اقلیتوں کو مخفی یا ظاہر تدابیر کے ذریعہ سے ملازمت کے مناسب حق سے اکثریت محروم نہیں کرے گی اور اقلیتوں کو ان کا واجبی حصہ ملتا رہے گا-
۹-
ہندوستان کے آئین اساسی کو ایسی شکل دی جائے کہ اقلیتوں کے منشاء یا صوبہ جات کے منشاء کے خلاف اس میں تبدیلی نہ ہو سکے-
۱۰-
صوبہ جات کی حدود میں تبدیلی آئندہ بغیر صوبہ متعلقہ کی مرضی کے نہ ہو سکے-
یہ وہ دس مطالبات ہیں جو مختلف شکلوں میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور چونکہ ان میں سب اقلیتوں کے حقوق آ جاتے ہیں اس لئے جہاں تک میں سمجھتا ہوں قلیل تغیر کے ساتھ ان تمام اقلیتوں کے یہ مطالبات ہیں کہ جو اس وقت اکثریت سے خائف ہیں- چنانچہ کلکتہ میں پچھلے دنوں جو انگریزوں کی آل انڈیا کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی اوپر کے مطالبات میں سے اکثر کی تائید کی گئی ہے-
ان مطالبات پر ایک سرسری نظر ڈال کر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک مطالبہ قومی یا انفرادی ترقی کے لئے ضروری ہے- سوائے مذہبی یا تمدنی حصہ کے کہ شاید سیاسی نقطہ نگاہ سے اسے قومی یا فردی ترقی کا ذریعہ بعض لوگ تصور نہیں کرتے بلکہ اسے قومی ترقی میں روک سمجھتے ہیں لیکن اس حصہ کی حفاظت اگلے اصل میں آ جاتی ہے-
چوتھا اصل میں نے یہ بتایا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے وقت یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جن امور کی حفاظت کا وہ مطالبہ کرتی ہیں کیا انہیں ملک کے فائدہ کے لئے قربان نہیں کیا جا سکتا؟ اس اصل کو مدنظر رکھنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ جہاں بعض ایسے امور ہو سکتے ہیں کہ جنہیں قربان کیا جا سکتا ہے وہاں بعض ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں کہ خواہ دوسرے لوگوں کے نزدیک وہ قومی یا فردی ترقی کے لئے ضروری نہ ہوں لیکن جس قوم یا فرد سے وہ متعلق ہیں وہ اپنے عقیدہ کے مطابق انہیں کسی صورت میں قربان نہیں کر سکتا- مذہبی یا تمدنی مسائل بھی اس قسم کے ہیں کہ دوسرے لوگ انہیں ضروری نہ سمجھتے ہوں لیکن جن اقوام سے وہ تعلق رکھتے ہیں وہ انہیں اپنی روحانی یا اہلی زندگی کے لئے مادی امور سے بھی زیادہ ضروری سمجھتی ہیں اور وہ کبھی کسی ایسے نظام حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتیں جو ان مسائل میں دخل اندازی کرتا ہو- پس جب کسی اقلیت کو اکثریت سے یہ خطرہ ہو کہ وہ ایسے امور میں دخل اندازی کرے گی تو وہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ ان امور میں اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے- ہندوستان کے سوال کو حل کرتے ہوئے اس اصل کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ ہندوستان میں اقلیتوں کو ان امور میں بھی اکثریت کی دخل اندازی کا خطرہ ہے- وہ صاف طور پر آئندہ مذہبی تبلیغ یا تبدیلی مذہب میں دخل اندازی کی دھمکی دے چکی ہے اور بہت سی ہندو ریاستوں میں عملاً ایسا ہو رہا ہے جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں- اسی طرح گائے کی قربانی یا اس کے ذبیحہ کے متعلق بھی ریاستوں اور میونسپلٹیوں میں قواعد بن چکے ہیں اور آئندہ کیلئے دھمکی دی جا رہی ہے اور کل کو ممکن ہے کہ ورثہ` شادی وغیرہ کے متعلق بھی اکثریت قواعد تجویز کرنے لگے- پس ضروری ہے کہ ان امور کے متعلق بھی اقلیت کی حفاظت کا سامان کیا جائے-
پانچواں اصل جسے اقلیتوں کی حفاظت کا فیصلہ کرتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ اقلیتیں جن امور میں حفاظت چاہتی ہیں کیا ان کے متعلق حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا کسی نظام کو باطل اور حکومت کو تباہ تو نہیں ¶کر دیتا؟ اس اصل کو مدنظر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر اقلیتوں کی تدابیر حکومت کو ہی برباد کرنے والی ہوں تو پھر انہیں اختیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس صورت میں آئین اساسی تیار کرنے کے سوال کو ہی ترک کر دیا جائے گا- یا پھر اقلیتوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے دعویٰ کو حد سے آگے نہ بڑھائیں-
چھٹا اصل یہ ہے کہ کوئی اقلیت اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایسے مطالبات نہ کرے جن سے کسی اور قوم کا کوئی ایسا حق جو بحیثیت قوم اسے حاصل تھا` تلف ہوتا ہو- اس اصل کی اہمیت تو ظاہر ہی ہے- جس طرح اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اکثریت کے قومی حقوق کی بھی حفاظت کی جائے اور یہ کہ ایک اقلیت کے حق کی دوسری اقلیت کے حق کے مقابلہ میں حفاظت کی جائے- مسلمانوں کے مطالبات کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے کہ جس سے اکثریت یا دوسری اقلیتوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہو- بلکہ وہ سب ایسے مطالبات ہیں کہ اکثریت کو ان سے کوئی نقصان نہیں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کی بھی ان میں برابر کی حفاظت مدنظر رکھی گئی ہے-
باب ہفتم
ہندوستانی اقلیتوں کے مطالبات اصول آئینی کے خلاف نہیں
ان اصول کو بیان کرنے کے بعد جو اقلیتوں کے متعلق حفاظتی تدابیر کا فیصلہ کرتے ہوئے مدنظر رکھنے چاہئیں` میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی اقلیتوں کے جو مطالبات ہیں وہ اصولی طور پر ان آئینی اصول کے خلاف نہیں ہیں جو مختلف مہذب ممالک میں تسلیم کئے جا چکے ہیں اس لئے بادی الرائے میں انہیں رد نہیں کیا جا سکتا بلکہ مناسب طریق پر ان کا ہندوستان کے آئندہ آئین اساسی میں شامل کیا جانا ضروری ہے- میں اس وقت تفصیلی بحث میں نہیں پڑوں گا کیونکہ وہ بحث اسی وقت مناسب ہوگی جب ان اصول کو عملی شکل دینے کے متعلق جو تجاویز پیش ہو چکی ہیں یا میں خود پیش کروں گا ان کی خوبی یا برائی زیر بحث آئے گی- فی الحال میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر ایک مطالبہ جو ہندوستان کی اقلیتیں کرتی ہیں ان کی مثال مختلف ممالک کے آئین اساسی میں ملتی ہے جس کی وجہ سے ہم ان مطالبات کو خلاف اصول نہیں کہہ سکتے- ذاتی طور پر تو میں اس امر کا قائل نہیں کہ جو امر کسی پہلے آئین اساسی میں نہ پایا جاتا ہو وہ ضرور خلاف اصول اور مضر ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جو بات ہم سے پہلے لوگوں کو نہیں سوجھی وہ ہمیں بھی نہ سوجھے- لیکن چونکہ لوگوں نے یہ عادت بنا لی ہے کہ بجائے بات کی معقولیت دیکھنے کے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسلمہ معقول آدمیوں نے اسے قبول کیا ہے یا نہیں اس لئے میں دنیا کے مختلف آئینی مسودات سے یہ ثابت کرتا ہوں کہ یہ سب کے سب مطالبات معقول تسلیم کئے جا چکے ہیں اور حسب ضرورت مختلف ممالک کے آئین اساسی میں شامل ہیں-
اول مطالبہ مکمل فیڈرل کانسٹیٹیوشن (FEDERALCONSTITUTION) کا ہے- اس کے متعلق یہ کہہ دینا کافی ہے کہ دنیا کی قریباً سب نئی حکومتیں یا نئے نظام فیڈرل اصول پر ہی طے ہو رہے ہیں پس اس مطالبے کو ملک و حکومت کے مفاد کے خلاف نہیں کہا جا سکتا-
دوسرے مطالبہ کا ایک حصہ سرحدی صوبہ اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مطابق حق دینے کا ہے- یہ مطالبہ بھی ملک و حکومت کے مفاد کے خلاف نہیں کیونکہ دنیا کی کوئی آئینیحکومت ایسی نہیں جس میں سب حﷺ ملک کو یکساں حقوق نہ دیئے گئے ہوں-
دوسرا حصہ اس مطالبہ کا سندھ کی آزادی کا ہے- اس حصہ کو بھی نظام یا حکومت کی تباہی کا موجب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دس گیارہ صوبوں میں ایک اور صوبہ کی زیادتی ہر گز نظامحکومت کو تباہ نہیں کر سکتی اور نہ قانون اساسی کے اصول میں نئے صوبوں کے قیام کے خلاف کوئی بات پائی جاتی ہے-
تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہر قوم کے لئے اس کی تعداد کے مطابق نمائندگی کا انتظام کیا جائے- یہ مطالبہ بھی کسی صورت میں حکومت کو کمزور کرنے کا موجب نہیں ہے کیونکہ اصولنیابت کی تکمیل ہی اس اصل پر مبنی ہے کہ ہر جماعت اپنی تعداد کے مطابق حقوق حاصل کر سکے- چنانچہ آئے دن انتخاب کے نئے سے نئے قواعد جو تیار ہوتے رہتے ہیں تو ان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مختلف جماعتوں کی نیابت ان کی تعداد کے مطابق ہو سکے- چنانچہ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے پروپورشنل ریپریزنٹیشن (PEROPORTIONALREPRESENTATION) )یعنی نیابت مطابق تعداد( کا اصول ایجاد کیا گیا ہے اور اسے اس قدر ترقی دی گئی ہے کہ اس وقت تک کئی درجن طریق بلکہ ایک ماہر کے بیان کے مطابق قریباً تین سو طریق اس کے ایجاد ہو چکے ہیں-
دوسرا حصہ اس مطالبہ کا یہ ہے کہ جہاں اکثریت کی کونسلوں کی اکثریت کو نقصان نہ پہنچتا ہو وہاں قلیل التعداد جماعتوں کے ہر قسم کے مفاد کی نیابت کی خاطر ان کے اصل حق سے کچھ زائد دے دیا جائے- اس مطالبہ کی مثال مجھے اس وقت کوئی معلوم نہیں- لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ زیکو سلویکا کی کونسل اور سینٹ میں غالباً روتھیننیز (RUTHENIANS) کو ان کے اصل حق سے کچھ زائد حق ملا ہوا ہے-
چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ مرکزی اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی اس قدر ہو کہ ان کی مرضی کے خلاف کانسٹی ٹیوشن تبدیل نہ ہو سکے- یہ اصل بھی مسلمہ ہے اور مختلف حکومتوں میں اس کے لئے مختلف قواعد بنائے گئے ہیں- چنانچہ یورپ کی نئی حکومتوں میں جو جنگ کے بعد قائم ہوئی ہیں اقلیتوں کی حفاظت کے متعلق جو حفاظتی تدابیر آئین اساسی میں شامل کی گئی ہیں ان کے بدلنے کا حق اکثریت کو نہیں دیا گیا بلکہ انہیں ایک معاہدہ کی صورت دی گئی ہے یا ایک نہ بدل سکنے والے قانون کی صورت دی گئی ہے- پس یہ اصل مسلم ہے گو اس کی عملی شکل میں اختلاف ہو-
پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ جب تک حقیقی یا عملی اقلیتیں )جس سے میری مراد وہ اکثریت ہے جو سیاسی حالات کے ماتحت عملاً اقلیت بنا دی گئی ہو- اس کی تفصیل میں تفصیلات سکیم پر ریویو کرتے ہوئے کروں گا(- اپنے پائوں پر نہ کھڑی ہو جائیں` اس وقت تک جداگانہ انتخاب کا سلسلہ جاری رہے- یہ مطالبہ بھی حکومت کو کمزور کرنے والا نہیں ہے بلکہ اس کی مثال بھی دوسری اقوام کے قوانین اساسی میں ملتی ہے- چنانچہ زیکو سلویکا میں اوتھینیا میں کمیونل (COMMUNAL)انتخاب ہوتا رہا ہے- ۳۵~}~
چھٹے مطالبہ کا پہلا حصہ یہ ہے کہ گورنمنٹ` مذہب` تبلیغ یا تبدیلی مذہب کے بارہ میں پوری آزادی دے اور اقلیتوں یا افراد کی تمدنی` اقتصادی یا ادبی آزادی کو محدود نہ کرے- اس بارہ میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں- درحقیقت تو یہ حق ڈیماکریسی کے مفہوم کے نیچے ہی آ جاتا ہے لیکن یہ اصل زیکوسلویکا کی حکومت اپنے آئین اساسی میں شامل کر چکی ہے- اسی طرح پولینڈ نے اپنے معاہدہ کے آرٹیکل نمبر۱۰ میں یہودیوں کو نہ صرف اپنی زبان کے پڑھنے اور بولنے کی آزادی دی ہے بلکہ آرٹیکل نمبر۹ میں اس کے لئے پبلک فنڈ سے روپیہ مہیا کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے اور اس روپے کو خرچ کرنے کا حق یہودیوں کی مقرر کردہ کمیٹیوں کے سپرد کیا ہے- آرٹیکل نمبر۱۱ میں سبت کی حفاظت کا اقرار کیا ہے بلکہ پولینڈ نے یہودی سپاہیوں کے لئے کوشر (KOSHER) گوشت تک کے مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے-
یوگوسلیویا میں مسلمانوں کی اقلیت ہے اور اس حکومت نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی ان کے اوقاف کی حفاظت کی جائے گی` اور مذہبی یا خیراتی سوسائٹیوں کے بنانے میں کوئی روک پیدا ہونے نہیں دی جائے گی-
رومانیہ نے بھی اپنے معاہدہ کے آرٹیکل گیارہ میں وعدہ کیا ہے کہ سیکسنز اور زیکنسل کے لوگوں کو علمی اور مذہبی معاملات میں خود مختاری حاصل ہوگی-
غرض یہ امر مسلمہ ہے کہ مذہبی` تمدنی اور تبلیغی امور میں حکومت کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور مختلف حکومتوں میں رائج ہے اور بعض حکومتوں کے آئین اساسی میں شامل ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان جس کے حالات ان ملکوں سے زیادہ نازک ہیں اس میں ان امور کی حفاظت کا سامان نہ کیا جائے-
ساتواں سوال پرسنل لاء (PERSONALLAW) کا ہے- اس کی حفاظت کی ضرورت کو بھی دنیا تسلیم کر چکی ہے- چنانچہ یوگوسلیویا اپنے معاہدہ کے آرٹیکل دس میں اقرار کرتا ہے کہ-:
>سرب` کروٹ اور سلیویا کی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اہلی قانون اور شخصی درجہ کے متعلق وہ ایسی سہولتیں دے گی کہ جن سے وہ مسلمانوں کے رواج کے مطابق اپنے ان معاملات کو طے کرنے کے قابل ہو سکیں<-
آٹھواں مطالبہ ملازمتوں میں مناسب حصہ کے متعلق ہے گو کسی دوسرے قانون اساسی میں اس کی شمولیت نظر نہیں آتی لیکن پولینڈ کے یہودیوں اور وہاں کی گورنمنٹ میں جو صلح کا معاہدہ تجویز ہوا تھا اس میں یہ شرط بھی تھی کہ یہودیوں کو ان کی آبادی کی نسبت سے ملازمتوں میں حق ملے گا اور گو بوجہ سیاسی اسباب کے اس معاہدہ کی تکمیل نہیں ہو سکی لیکن اس سے اس قدر ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے باہر بھی اس احتیاط کی ضرورت اور معقولیت کو تسلیم کیا جا چکا ہے-
نواں مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین اساسی اقلیتوں اور صوبہ جات کی مرضی کے بغیر تبدیل نہ ہو سکے یہ اصل بھی تسلیم کیا جا چکا ہے- صوبہ جات کے متعلق اس کا اطلاق یونائیٹڈسٹیٹس میں ہوتا ہے اور اقلیتوں کی مرضی کے بغیر اس میں تبدیلی کی بندش نئی یورپین حکومتوں میں ہے جہاں اسے معاہدہ کی صورت دے کر لیگ آف نیشنز کی مرضی کے بغیر ان امور میں جو اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں` تبدیلی کا راستہ بند کر دیا گیا ہے-
دسواں مطالبہ یہ ہے کہ صوبہ جات کی حدود میں تغیر بغیر صوبہ متعلقہ کی مرضی کے نہ ہو سکے یہ امر اصل میں فیڈریشن کا حصہ ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس وغیرہ سب جگہ اس پر عمل ہو رہا ہے-
غرض جس قدر مطالبات ہندوستان کی اقلیتوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں وہ علاوہ معقول ہونے کے متعلق ممالک کے آئین دستوری میں پہلے شامل کئے جا چکے ہیں اس لئے وہ نہ صرف عقل کی تصدیق اپنے ساتھ رکھتے ہیں` بلکہ تجربہ کی تصدیق بھی انہیں حاصل ہے-
باب ہشتم
سائمن کمیشن کی حفاظتی تدابیر
میں بتا چکا ہوں کہ اہل کمیشن نے اقلیتوں کے لئے حفاظتی تدابیر کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے- چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ-:
> ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک کہ رواداری کی روح ہندوستان میں پیدا ہو جائے اور اس وقت تک کہ اقلیتیں اکثریت کے انصاف پر زیادہ اعتبار کرنے لگیں حفاظتی تدابیر کی ضرورت یقینی طور پر ثابت ہے<- ۳۶~}~
لیکن انہوں نے اس کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ گورنروں اور گورنر جنرل کے ہاتھ میں اختیارات دیئے جائیں تا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کر سکیں- وہ لکھتے ہیں کہ-:
>ہمارا خیال ہے کہ کمزور یا تعداد میں کم جماعتوں کی حفاظت کا عملی ذریعہ صرف یہی ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ دخل اندازی کی طاقت گورنر جنرل اور صوبہجات کے گورنروں کے ہاتھ میں قائم رکھی جائے جسے وہ حسب موقع اسی غرض کے لئے استعمال کیا کریں<- ۳۷~}~
اسی طرح وہ سنٹرل لیجسلیچر (CENTRALLEGISLATURE) کے نیچے لکھتے ہیں کہ-:
>اس )حفاظت( کو حاصل کرنے کا عملی طریقہ صرف یہ ہے کہ ایک غیرجانبدارانہ دخل اندازی کا حق گورنر جنرل اور صوبہ جات کے گورنروں کے ہاتھ میں محفوظ رکھا جائے<- ۳۸~}~
ممکن ہے کہ یہ ذریعہ حفاظت انگریزوں کے حقوق کی حفاظت کر سکے گو مجھے اس کے متعلق بھی شبہ ہے- لیکن یہ تو یقینی امر ہے کہ وہ دوسری اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اس طرح بالکل نہیں ہو سکتی اور مجھے یقین ہے کہ چند ہی سال میں خود انگریز بھی شکایت کرنے لگیں گے کہ اس طرح ان کے حقوق کی حفاظت نہیں ہو سکتی- کمیشن نے اس امر کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ جن امور میں اقلیتوں کو حفاظت کی ضرورت ہے ان میں پہلے بھی ضرورت رہتی تھی اور یہ کہ برطانیہ کے نمائندوں نے کیا گورنر اور کیا دوسرے افسر بہت ہی کم ان امور میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہے- مثلاً ملازمتوں کے متعلق مسلمانوں کو شکوہ ہے لیکن اس بارہ میں موجودہ اختیارات کے باوجود حکومت بہت ہی کم علاج کر سکتی ہے- کئی سال ہوئے ریلوے کی ملازمتوں کے متعلق گورنمنٹ نے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کی نگرانی کی جائے گی- لیکن نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ۱۹۲۶ء میں تو آٹھ فیصدی مسلمان ملازمت میں آئے تھے- مگر ۱۹۲۹ء میں کل دو فیصدی مسلمان ملازمت میں لئے گئے ہیں- ڈسٹرک بورڈوں وغیرہ میں نامزدگی کا حق اس لئے دیا گیا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہو لیکن اگر گورنمنٹ کبھی ان نامزدگیوں کو دیکھنے کی تکلیف گوارا کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ ہر گز اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ حکامضلع خواہ انگریز ہوں خواہ ہندوستانی اس حق کو اپنے ساتھ ملنے والوں کے لئے بطور صلہوانعام استعمال کرتے ہیں- میں کونسلوں کی نامزدگیوں کی نسبت یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ بطورانعام یا صلہ استعمال ہوتی ہیں لیکن یہ یقینی امر ہے کہ ان میں بھی توازن کا قیام ہر گز مدنظر نہیں رکھا جاتا اور بسا اوقات وہ اس طرح کی جاتی ہیں کہ جو اقوام پہلے ہی اپنے حق سے زائد لے رہی تھیں نامزدگیوں میں بھی وہ آکر شامل ہو جاتی ہیں- گائے کی قربانی کو گورنمنٹ حتیالامکان روکنے کی کوشش کرتی ہے اور نئے مذبحے کھولنے کی نہایت مشکل سے اجازت دیتی ہے حالانکہ غذا انسانی ضرورتوں میں سے اہم چیز ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی قوم کو اس کی غذا سے روکا جائے جب کہ وہ دوسرے کے احساسات کو صدمہ پہنچائے بغیر ایک الگ جگہ میں اپنی ضرورت کو پورا کرنے پر آمادہ ہو-
زبان کی یہ حالت ہے کہ مختلف صوبہ جات میں اردو کی جگہ ہندی لے رہی ہے اور گورنمنٹ بالکل خاموش ہے-
حقوق کی حفاظت کا یہ حال ہے کہ پنجاب کے ایک کالج میں ایک سرجن پروفیسر کا عہدہ ولایت کے پاس شدہ ایک قابل مسلمان کی بجائے جو اسی شرط پر نائب پروفیسر ہوا تھا کہ اس جگہ کے خالی ہونے پر اسے مقرر کر دیا جائے گا ایک ہندو اسسٹنٹ فزیشن کو دے دیا گیا اور باوجود اس کے کہ پرنسپل نے اعتراض بھی کیا کہ مجھے سرجن کی ضرورت ہے نہ کہ فزیشن کی غیرمسلموزیر نے اپنے فیصلہ کو نہ بدلا-
کالجوں میں مسلمان طالبعلموں کیلئے چالیس فیصدی کی حد بندی کر دی گئی ہے حالانکہ صوبہ میں ان کی آبادی نصف سے زیادہ ہے-
اسی طرح مسلمانوں کی درسگاہوں کو ان کے حق کی نسبت بہت کم ایڈ (AID) دی جاتی ہے- زیادہ تنخواہ والی نئی جگہوں میں سے اکثر پر ہندوئوں کو مقرر کر دیا گیا ہے- ہندو اور مسیحی اپنے مذہبی دن کی چھٹی مناتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے اجازت دی ہے پھر بھی اکثر محکموں میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کی چھٹی نہیں دی جاتی اور بعض دفاتر چھٹی دیتے ہیں تو بعد میں اتنا وقت کام لے لیتے ہیں حالانکہ یورپ میں جہاں یہودی اقلیت کافی ہے ان کے لئے سبت کی چھٹی کا انتظام کیا گیا ہے- مسلمان اس پر راضی تھے کہ جمعہ کے دن انہیں دو گھنٹہ کی چھٹی ہی دے دی جائے لیکن اس کا کوئی انتظام نہیں حالانکہ وہ آبادی میں سے پچیسفیصدی ہیں-
غرض یہ سب کچھ گورنروں کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے- یہ نہیں کہ وہ بددیانت ہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ کیریکٹر کے لوگ ہیں جن کے ذاتی چلن نے ہمارے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے لیکن ان معاملات میں وہ کچھ نہیں کر سکتے اس لئے کہ ساتھ مل کر کام کرنے والوں پر اس قسم کی نکتہ چینی انسانی طبیعت کے خلاف ہے-
یہ تو سلوک کے متعلق ہے- اب میں قانون کو لیتا ہوں- پنجاب میں زمینداروں کی حفاظت کے لئے زمیندارہ قانون بنا ہوا ہے- اس سے زمینداروں کو بہت کچھ نجات ساہوکاروں کے ظلموں سے حاصل ہوئی تھی لیکن پچھلے دنوں ہائی کورٹ کے چند فیصلوں کے ذریعہ سے اس قانون کا نفع قریباً باطل ہو گیا ہے- زمینداروں نے بہت زور دیا لیکن گورنمنٹ اپنے مصالح کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکی- زمینداروں نے خود مسودہ پیش کیا تو گورنمنٹ نے آفیشل بلاک (OFFICIALBLOCK) کی مدد سے اسے مسترد کرا دیا- ساہو کار اس ملک میں بعض دفعہ سو سو فیصدی سود لیتے ہیں اور عدالتیں نہایت نامعقول سود انہیں دلاتی ہیں- ایسے کیس موجود ہیں کہ بیس تیس روپیہ ایک شخص نے قرض لیا اور دس پندرہ سال میں تینچارسو روپیہ وہ ادا کر چکا ہے لیکن ابھی تین چار سو کا قرض موجود ہے باوجود واویلا کرنے کے ایسے لوگوں کی مشکل اب تک حل نہیں ہوئی-
میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب امور اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر سے حل ہو جائیں گے کیونکہ ان میں سے بعض تو اس مد میں آ ہی نہیں سکتے- میرا صرف یہ مطلب ہے کہ باوجود اس وقت تک پورے اختیارات ہونے کے اور آفیشل بلاک ہونے کے گورنر ان مصائب کو بھی نہیں دور کر سکے جن کی حقیقت سے وہ خوب آگاہ ہیں اور جن کی شناعت کو وہ تسلیم کرتے ہیں تو آئندہ تھوڑے اختیارات کے ساتھ وہ کب حقیقی یا سیاسی اقلیتوں کی مدد کر سکیں گے- )سیاسی اقلیت سے میری مراد بنگال اور پنجاب کے مسلمان ہیں جو اکثریت کے باوجود قانوناً اقلیت میں بدل دیئے گئے ہیں اور آہستہ آہستہ انہیں اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ خاص تدابیر کے بغیر اب وہ ابھر نہیں سکتے-(
غرض گورنروں کے ذریعہ سے اقلیتوں کی حفاظت کا طریق بہت ناقص ہے- گورنروں کو بے شک باقی ملکوں کے آئینی گورنروں کی طرح خاص اختیارات ملنے چاہئیں لیکن وہ خاص حالات کے متعلق ہونے چاہئیں نہ کہ ان امور کیلئے جو ہندوستان کا روز مرہ کا شغل بن رہے ہیں- ایسے امور کی اصلاح تو قانون اساسی ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے- گورنروں کا ان امور کے متعلق بااختیار ہونا یوں بھی مصلحت کے خلاف ہے کیونکہ آئندہ گورنر آئینی گورنر ہونگے اور ان کا اصل کام غیر جانبدارانہ رویہ سے اخلاقی اثر ڈال کر لوگوں سے کام لینا ہوگا- پس ان کے سپرد اقلیتوں کے جھگڑوں کو چکانے کا کام کر دینا ان کی پوزیشن کو کمزور کر دے گا اور وہ کبھی بھی اس رسوخ کو حاصل نہ کر سکیں گے جس کے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہوگی-
علاوہ ازیں اقلیتیں اس بات سے بھی جائز طور پر خائف ہیں کہ گورنر یقیناً زبردست اقوام کے ساتھ ہوں گے کیونکہ اس کے بغیر وہ حکومت کو صحیح طور پر چلا نہیں سکتے- اسی وجہ سے اگر اختیارات ان کے سپرد ہوں گے تو اقلیتیں خواہ حقیقی ہوں خواہ سیاسی سخت خطرہ میں رہیں گی-
نیز سیاسی طور پر بھی اس علاج پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گورنروں کے سپرد ان اختیارات کو کر دینے کے یہ معنی ہونگے کہ صوبہ جاتی آزادی کبھی مکمل ہی نہ ہو کیونکہ جب تک گورنروں کو براہ راست دخل دینے کا اختیار رہے گا اس وقت تک صوبہ جات کو مکملآزادی حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر اقلیتوں کی حفاظت کے لئے دخل دینے کی طاقت گورنروںکو دی گئی تو پھر وہ وقت نہ معلوم کب آئے گا جب کہ صوبہ جات پورے طور پر آزاد کہلا سکیں گے؟
کمیشن نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کو کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) میں شامل کرنے کے خلاف مندرجہ ذیل دلائل دیئے ہیں-
>مختلف اقلیتوں` مذاہب اور قوموں کے نمائندوں نے ہمارے سامنے زور دیا ہے کہ ہندوستانی مجلس قانون ساز کے اختیارات آئین اساسی میں اس طرح واضح کر دینے چاہئیں کہ وہ امتیازی قانون پاس نہ کر سکے اور اگر وہ ایسا کرے تو اس کا قانون ناجائز سمجھا جائے<- >ہمیں یقین ہے کہ قانون کے ذریعہ سے حفاظت خاصخاص اقلیتوں کو نہیں دی جا سکے گی اور نہ ہی ایسا قانون پاس کیا جا سکتا ہے کہ جس سے صرف تجارت کے متعلق طرفداری والے قانون کی ممانعت کی جائے- اس وجہ سے اگر قانون میں حفاظتی تدابیر کا ذکر کیا گیا تو اس کے الفاظ ایسے وسیع بنانے ہوں گے کہ انسانی حقوق کے گنوانے سے زیادہ اس میں کچھ نہ ہو سکے گا اور ان الفاظ سے ان عدالتوں کو جنہیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا شکایت کنندہ گروہ اقلیت کہلا سکتا ہے؟ یا یہ کہ کیا وہ قانون جس کی شکایت کی گئی ہے واقعہ میں ناجائز طرفداری والا قانون ہے؟ کوئی امداد نہ ملے گی<-
علاوہ ازیں یہ دیکھتے ہوئے کہ ہندوستان میں مقدمات جس طرح باریکدرباریک باتیں نکال کر کئے جاتے ہیں اور انہیں خاص طور پر لمبا کیا جاتا ہے ہمیں اس امر کی امید رکھنی چاہئے کہ عدالتوں میں ایسے مقدمات لے جائے جایا کریں گے جن کا تصفیہ عدالتوں میں اچھی طرح نہیں ہو سکتا-
>یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عدالت کو ایسے مقدمات میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہو جن کی بناء حقیقی شکایات ہوں تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ ان مقدمات کو بھی وہ سنے جن کی بنیاد دور از قیاس امور پر رکھی گئی ہو اور جن کے چلانے کی کوئی بھی معقول وجہ موجود نہ ہو- پس ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ حفاظتی قانون کے ذریعہ سے ناجائز طرفداری والے قانونوں کا ازالہ نہ کریں<- ۳۹~}~
ان اعتراضات کو بیان کر کے کمیشن کہتا ہے کہ-:
>پس حفاظت کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ایک غیر جانبدارانہ دخل اندازی کا اختیار گورنر جنرل اور صوبہ جات کے گورنروں کے ہاتھ میں اس غرض کیلئے قائم رکھا جائے اور انہیں جو ہدایات اپنے کام کو صحیح طور پر چلانے کے لئے دی جائیں ان میں یہ واضح کر دیا جائے کہ تمام مناسب موقعوں پر وہ اسی طاقت کو استعمال کریں<-
میں یہ تو ثابت کر چکا ہوں کہ یہ ذریعہ بھی کوئی ذریعہ نہیں- نہ تو اس سے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہو سکتی ہے اور نہ ہی گورنر کی پوزیشن ہی آئینی طور پر مضبوط رہتی ہے اور علاوہ ازیں اس طریق کے اختیار کرنے سے صوبہ جات کی آزادی بھی خطرہ میں پڑ جاتی ہے- پس میں صرف ان اعتراضات کا جواب دیتا ہوں جو کمیشن نے حفاظتی تدابیر کو آئین اساسی میں لانے کے متعلق کئے ہیں-:
)۱(
کمیشن کہتا ہے کہ چونکہ مختلف اقلیتوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا اس لئے ہندوستان میں مختلف اقلیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون بنانا پڑے گا اور وہ قانون لازماً بالکل مبہم الفاظ میں ہوگا-
کمیشن کے ممبروں نے یہ نہیں سوچا کہ اقلیتیں خواہ کس قدر ہوں وجوہ اختلاف بہت تھوڑے ہیں اور مشترک ہیں- قریباً وہی قانون مسلمانوں کے حق کی حفاظت کرے گا- جو مسیحیوں کے حق کی حفاظت کرے گا اور وہی ہندوئوں کے حق کی بھی کرے گا اور وہی سکھوں کے حق کی بھی کرے گا- مثلاً اگر آئین اساسی میں یہ دفعہ رکھ دی جائے کہ اپنی پرائیویٹ ملکیت کی جگہوں پر کسی قوم کو معبد بنانے سے نہیں روکا جائے گا تو اس کا فائدہ مسلمانوں کو ہی حاصل نہ ہوگا بلکہ مسیحیوں` انگریزوں` ہندوئوں` سکھوں اور پارسیوں سب کو ہوگا- یا مثلاً یہ دفعہ اس میں ہو کہ کوئی امتیازی قانون نہیں بنایا جائے گا تو اس کا فائدہ بھی سب فرقوں کو یکساں پہنچے گا- اسی طرح اگر یہ قانون ہو کہ تبلیغ سے کسی صورت میں نہیں روکا جائے گا نہ تبدیلی مذہب کے لئے کوئی حد بندی کی جائے گی- جیسے مثلاً مجسٹریٹ کی اجازت یا ایسی ہی کوئی شرط تو اس کا فائدہ بھی سب ہی اٹھائیں گے- غرض اکثر قوانین ایسے ہی ہونگے کہ کسی خاص اقلیت کی خاطر نہیں بنائے جائیں گے بلکہ سب اقلیتوں کے مفاد ان میں مشترک ہونگے- پس یہ کہنا کہ ہر ایک اقلیت کے حقوق کی حفاظت کا ذکر چونکہ تفصیلاً نہیں ہو سکتا اس لئے مبہم الفاظ میں قوانین بنانے پڑیں گے درست نہیں- لیکن اگر یہ صحیح بھی ہو کہ الگ الگ قوانین بنانے پڑیں گے تو لاکھوں کروڑوں آدمیوں کے مذہب اور جان اور مال کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ چند دفعات کی زیادتی کے خوف سے اسے چھوڑ دیا جائے- میرا سب سے بڑا سوال اس کے متعلق یہ ہے کہ گورنر کو جو ہدایات دی جائیں گی وہ مبہم ہونگی یا مفصل؟ اگر مبہم ہونگی تو کیا کمیشن یہ یقین کرتا ہے کہ نو دس کروڑ افراد اقلیتوں کے ان مبہم ہدایات کی وجہ سے مطمئن ہو جائیں گے؟ اور اگر وہ ہدایات مفصل ہونگی تو جن الفاظ میں گورنر کو ہدایت دی جا سکتی ہے انہیں الفاظ کو کیوں آئین اساسی میں شامل نہیں کیا جا سکتا؟ مبہم الفاظ میں گورنر کو ہدایت دینی تو ایک ایسا فعل ہے جس سے کچھ بھی نفع نہیں پہنچ سکتا بلکہ مضرت کا احتمال ہے- غرض ابہام کا اعتراض ایسا نہیں جو صرف آئین اساسی پر وارد ہوتا ہو- یہ اعتراض اسی زور سے بلکہ اس سے زیادہ زور سے گورنر کو اختیارات دینے پر وارد ہوتا ہے- کل کو ممکن ہے کہ اقلیت پر ایک حملہ ہو اور گورنر کہہ دے کہ قانون اساسی میں اس کا ذکر نہیں- میرے نزدیک اکثریت کو حق ہے کہ اس بارے میں قانون بنائے تو اس صورت میں اقلیتیں کیا کر سکتی ہیں- گورنر کے اختیارات بھی تو تبھی نفع دے سکتے ہیں کہ جب قانون اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کا تفصیلی ذکر ہو تا کہ ان کی بناء پر اقلیتیں مطالبہ کر سکیں اور ان کی روشنی میں گورنر فیصلہ کر سکے- پس گورنر کے ہاتھ میں اختیارات کا رکھنا ہمیں آئین اساسی کی تکمیل سے آزاد نہیں کر سکتا- گورنر کو زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ کا قائم مقام قرار دیا جا سکتا ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ کا قیام آئین اساسی کے مکمل ہونے کی ضرورت ثابت کرتا ہے نہ کہ اس کے غیر ضروری ہونے کی اسی طرح گورنروں کو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ہدایت دینا ان حقوق کے بالتفصیل بیان کرنے کا متقاضی ہے نہ کہ اسے بغیر بیان کئے چھوڑ دینے کا- جب حقوق ہی بیان نہ ہونگے تو گورنر فیصلہ کس امر کا کرے گا- غرض یہ دلیل کمیشن کی بالکل کمزور اور بودی ہے- فیصلہ گورنر کے ہاتھ میں ہو یا کسی اور کے ہاتھ میں` یہ لازم ہے کہ ان امور کو کہ جنہیں اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ضروری سمجھا جائے آئین اساسی میں بیان کر دیا جائے-
یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ اگر آئین اساسی میں وہ امور بیان نہ ہونگے جن میں دخل اندازی قانون ساز مجالس کیلئے جائز نہ ہوگی تو جو فیصلہ بھی وہ کرے گی وہ اصولاً آئینی ہوگا- اور اس صورت میں گورنر کا ان کے فیصلہ کو رد کرنا یا اسے تبدیل کرنا غیرآئینی ہوگا- اور اس کے دخل دینے کے معنی یہ ہونگے کہ قانون ساز مجلس تھی تو اپنے اختیارات کے دائرہ کے اندر لیکن گورنر نے بعض اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر اس کے بنائے ہوئے قانون کو رد کر دیا- لیکن کیا اس اصل پر کوئی آئینی حکومت چل سکتی ہے؟ اور کیا اس قسم کی غیرآئینی دخل اندازی دیر تک برداشت کی جا سکتی ہے؟ اس طرح اقلیتیں تو یہ محسوس کریں گی کہ وہ گورنر کے احسان پر زندہ ہیں اور صرف رحم کے طور پر ان سے سلوک کیا جا رہا ہے اور اکثریت بھی اس وجہ سے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھے گی اور ایک نیا آفیشل بلاک (OFFICIALBLOCK) بن جائے گا جو ایسا ہی ملک کے لئے مضر ہوگا جیسا کہ پہلا آفیشلبلاک مضر ہو رہا ہے-
لیکن اگر اس کے بر خلاف آئین اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کا ذکر آ جائے تو بالفرض اگر گورنر کے ہاتھ میں بھی اختیار رکھا جائے تو بھی اس کا دخل دینا آئینی سمجھا جائے گا اور اقلیتوں کو بھی یہ احساس نہ ہوگا کہ وہ کوئی احسان طلب کر رہی ہیں بلکہ وہ جب طلب کریں گی اپنا حق طلب کریں گی-
)۲(
دوسرا اعتراض کمیشن کا یہ ہے کہ اگر قانون اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کی دفعات کو شامل کیا گیا تو مقدمہ بازی بڑھ جائے گی کیونکہ عدالتوں میں کمزور اور مضبوط ہر قسم کے مقدمات چلائے جا سکتے ہیں-
اس کے متعلق میرا یہ سوال ہے کہ گورنر کا رویہ ایسے اوقات میں کیا ہوگا؟ کیا یہ ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے جس معاملہ کو چاہے گا رد کر دے گا اور جسے چاہے گا زیر غور لے آئے گا یا ہر معاملہ پر غور کر کے فیصلہ کرے گا- یا یہ کہ کسی دوسرے افسر سے رپورٹ لے کر اگر وہ سفارش کرے کہ درخواست قابل غور ہے تو وہ غور کرے گا ورنہ نہیں؟ اگر پہلی صورت ہوگی اور وہ بغیر درخواست پڑھنے کے صرف درخواست کنندوں کے نام دیکھ کر فیصلہ کر دیا کرے گا تو ایسے فیصلہ کی حقیقت کچھ بھی نہ ہوگی- اور اگر وہ کسی دوسرے افسر کی رپورٹ پر فیصلہ کرے گا کہ معاملہ قابل غور ہے یا نہیں تو اس کی دو صورتیں ممکن ہیں- اول یہ کہ وزیر متعلقہ کی رپورٹ پر فیصلہ کرے- یہ صورت ظاہر ہے کہ ایسی ہی ہے کہ کسی ملزم سے رائے لی جائے کہ تمہارے خلاف مقدمہ سنا جائے یا نہیں؟ اور اگر اس کے لئے کوئی اور محکمہ بنایا جائے گا تو ایسے آفیسر کہاں سے لائے جائیں گے جن کی رپورٹوں پر اطمینان کیا جا سکے کہ وہ گورنر کے آگے معاملہ کو صحیح طور پر رکھیں گے اور اسے دھوکا نہیں دیں گے- اور اگر یہ صورت اختیار کی جائے گی کہ گورنر خود ہر ایک ایسی درخواست کو جو حقوق کے اتلاف کے متعلق ہو سنے گا تو یہ صورت بھی دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگی- اگر تو ایسی درخواستیں زیادہ تعداد میں ہونگی جیسا کہ کمیشن کو خوف ہے تو ایسا گورنر کہاں سے لایا جائے گا جو علاوہ تمام انتظامی کام کی نگرانی اور صوبہ کے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے اور قانون ساز مجالس کے کام کی نگہداشت اور محکمانہ خط و کتابت کے ان کثیر التعداد درخواستوں کو بھی پوری طرح سنے گا اور کافی غور کے بعد ان کے بارہ میں فیصلہ دے گا- اس صورت میں تو ایک نہیں کئی گورنر مقرر کرنے پڑیں گے- اور اگر غرض یہ ہے کہ صرف اشک شوئی کی جائے اور درخواستیں لیکر کوئی سیکرٹری پڑھ لے اور خود ہی یہ فیصلہ لکھ کر ہمارے نزدیک معاملہ دخل اندازی کے قابل نہیں گورنر صاحب کے دستخطوں سے یا ان کی طرف سے دستخط کر کے درخواست کنندوں کو واپس بھیج دے تو کیوں کمیشن نے صاف طور پر یہی سفارش نہ کر دی کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضرورت نہیں- انہیں اکثریت کے رحم پر چھوڑ دیا جائے یا تو وہ ظلم سے تنگ آ کر ملک سے نکل جائیں گی یا تباہ اور برباد ہو کر اکثریت کے لئے راستہ خالی کر دیں گی-
ہندوستان کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس سکیم کی اصل غرض صرف یہ ہے کہ کمیشن نے جو حقوق ہندوستان کو بظاہر دیئے تھے وہ اس ترکیب سے انہیں واپس لینا چاہتا ہے- اور آفیشل بلاک کی جگہ ایک اقلیت کا بلاک بنانا چاہتا ہے جو گورنر کے رحم پر ہونے کے سبب موقع بے موقع اور جائز و ناجائز طور پر اکثریت کا مقابلہ گورنروں کے اشارہ پر کرتا رہے اور حکومت پھر بھی پہلے کی طرح ہندوستانیوں کے ہاتھ سے باہر ہی رہے- میں کمیشن کے ممبروں پر یہ الزام نہیں لگاتا لیکن یہ یقینی بات ہے کہ کوئی گورنر ہر گز اس طرح کام نہیں کر سکتا اور نتیجہ یہی ہوگا کہ جب کبھی کوئی اقلیت شور ڈال کر گورنر کو متوجہ کر سکے گی اس کی درخواست پر تو اس صورت میں کہ اکثریت کو کافی شور مچانے کا موقع نہ ملا ہو یا گورنر کے نزدیک انہیں کسی قدر تنبیہ کرنے کی ضرورت ہو کچھ توجہ ہو جائے گی` ورنہ گورنروں کو ایسی درخواستوں کی طرف بذات خاص توجہ کرنے کا نہ موقع ہوگا نہ وہ ایسا کر سکیں گے- کمیشن نے اس امر پر بھی غور نہیں کیا کہ گورنر ایگزیکٹو (EXECUTIVE) افسر ہوگا- اور اس وجہ سے لازماً وہ ایگزیکٹو حالات سے متاثر ہوگا اور خالص قانونی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگا اور جو فیصلے وہ کرے گا وہ ایگزیکٹو حالات اور اس کی وزارت کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہیں گے-
خلاصہ یہ ہے کہ کمیشن نے جس مشکل کی بناء پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئین اساسی میں اقلیتوں کے حقوق کی تفصیل نہیں ہونی چاہئے وہ مشکل گورنر کو ہدایت دینے کی صورت میں بھی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ شدت سے قائم رہتی ہے- اور جس مشکل سے بچنے کے لئے اس نے عدالتوں کی بجائے گورنر کے ذمہ اس کام کو لگایا ہے وہ مشکل گورنر کے راستہ میں اور بھی اہم صورت میں پیدا ہو جاتی ہے اور حقیقت حال پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچنا پڑتا ہے کہ یا تو گورنر یہ کام کر ہی نہیں سکے گا اور طبعی طور پر اس کے لئے اس کام کو کرنا ناممکن ہوگا اور کام یونہی پڑا رہے گا- اور یا پھر گورنر کا صرف نام ہوگا اور کریں گے دوسرے لوگ اور انصاف کا حاصل کرنا بالکل محال ہوگا-
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ کانسٹی ٹیوشن خود تو اپنے پر عمل کرا نہیں سکتی اور نہ انسان آئندہ کی ضرورتوں کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے- پھر کیا جائے تو کیا؟ میرا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان آئندہ کی سب ضرورتوں کو نہیں سمجھ سکتا لیکن اس وجہ سے کہ ہم آئندہ کی ضرورتوں کو نہیں سمجھ سکتے موجودہ ضرورتوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے- وہ طریقے جو اس وقت تک دنیا کی تاریخ سے اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کے معلوم ہو چکے ہیں اور وہ ارادے جو اکثریت آئندہ کے متعلق ظاہر کر چکی ہے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیتوں کی حفاظت کی دفعات آئین اساسی میں رکھ دی جائیں- ہندوستان ہی ایک ایسا ملک نہیں ہے کہ جس میں مختلف اقلیتیں پائی جاتی ہیں اور ممالک بھی ہیں اور انہوں نے یا معاہدات کے ذریعہ یا آئین اساسی کے ذریعہ سے مختلف اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی کوشش کی ہے اور یہ درست نہیں کہ سب کے سب اس میں ناکام رہے ہیں- بعض ممالک میں یہ حفاظتی طریق کامیاب ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں- چنانچہ زیکو سلویکا میں بہت حد تک کانسٹی ٹیوشن کی وجہ سے اقلیتوں کو اپنے حقوق کی حفاظت میں کامیابی ہو رہی ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون خالی کافی نہیں ہوتا جب تک اس کے صحیح استعمال کی روح بھی مجلس عاملہ میں موجود نہ ہو- لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا قانون اور مجلس عاملہ دونوں کی مخالفت زیادہ آرام دہ صورت ہے یا کم سے کم ایک طرف سے اطمینان بہتر حالت ہے- اگر قانون ہو تو اقلیتوں کو شور مچانے کا موقع ہوتا ہے اور ظالم قوم کے شریف الطبع لوگوں سے اپیل کرنے کا موقع ہوتا ہے- اگر قانون بھی نہ ہو پھر تو کوئی جگہ بھی سہارا لینے کے لئے باقی نہیں رہتی-
ہندو نقطئہ نگاہ اقلیتوں کی حفاظت کی تدابیر کے متعلق
اس جگہ میں ہندو نقطئہ نگاہ کو بھی پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی بہت کچھ انگریزوں کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے- انگریز فطرتا حفاظتی تدابیر کی ظاہری صورت کے مخالف ہے- جس کی وجہ سے وہ ہر اس رائے کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جو ایسی تدابیر کی ضرورت کو اڑا دے- وہ حفاظتی تدابیر کی ضرورت تسلیم کرنے میں اپنے قومی نظام کی شکست محسوس کرتا ہے- اور اسے یہ خیال نہیں آتا کہ ہر قوم کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور وہ اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اس کا نظام اپنے ارتقاء کے دوران میں ان حالات سے گزر چکا ہے جن میں سے ہندوستان اب گزر رہا ہے- اس تمام تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے جو گزر چکی ہے رومن کیتھولک اور پراٹسٹنٹ کی ایک دوسرے کے خلاف تدابیر کو یاد کرتے ہوئے آج کوئی انگریز یہ پسند نہ کرے گا کہ وہی جذبات اور وہی حالات اگر دوبارہ پیدا ہو جائیں تو بجائے آئینی حفاظت کے اس کے ملک کو دوبارہ پہلے سے حالات میں سے گزارا جائے- مگر انگریزی قوم اس تاریخ کو بھول جاتی ہے اور حفاظتی تدابیر کا ذکر آتے ہی سمجھنے لگتی ہے کہ اس سے اس کے نظام کا نقص بیان کرنا مطلوب ہے اور وہ جھٹ اس طرح ہوشیار ہو جاتی ہے کہ جس طرح اس کی عزت پر کوئی حملہ ہونے لگا ہو- پس اندریں حالات بھی ضروری ہے کہ ہندو نقطئہ نگاہ کی حقیقت بھی بیان کر دی جائے تا کہ کم سے کم وہ جو دلیل کی قوت کو تسلیم کرتے ہیں دھوکے میں نہ رہیں-
ہندو نقطئہ نگاہ )جس سے میری مراد ان ہندوئوں کا نقطئہ نگاہ ہے جو مہاسبھائی ذہنیت کے ہیں اور جن کا غلبہ اس وقت اپنی قوم پر ہے- ورنہ ہندوئوں میں بہت شریف الطبع اور منصف مزاج لوگ بھی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ سرسپرو جیسے اور بھی کئی آدمی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں موجود ہوں گے- جو اپنی قوم کے خاموش حصہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کی آزادی اور اس کے امن کے قیام کی راہ کھول دیں گے( یہ ہے کہ اقلیتوں کو کوئی خطرہ ہی نہیں ہے اور اقلیتیں جو مطالبات کرتی ہیں وہ قومیت کو کمزور کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کے مترادف ہے-
میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اقلیتوں کے مطالبات پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا- ان کے مطالبات دوسری اقوام کے حقوق کو تلف کرنے والے ہر گز نہیں ہیں اور نہ وہ ملکی مفاد کے مخالف ہیں لیکن میں اس جگہ اختصار سے پھر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس گروہ کے ہندوئوں کی یہ کوشش کہ اقلیتوں کے مطالبات آئین اساسی میں نہ آئیں اس لئے نہیں کہ یہ لوگ نیشنلسٹ (NATIONALIST) ہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں اقلیتیں بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ نہ لے لیں- ورنہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آئین اساسی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مختلف اقوام اس کے ذریعہ سے آپس میں ایک معاہدہ کرتی ہیں اور اقرار کرتی ہیں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کی ہمیشہ کے لئے محافظ رہیں گی- یا تو ہندو یہ ثابت کریں کہ اقلیتیں جن امور کا مطالبہ کرتی ہیں ان میں ہندوئوں کے حقوق کا اتلاف ہے ورنہ ان کے انکار کرنے کے سوائے اس کے کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کو ان کا حق دینا پسند نہیں کرتے-
مثلاً تبلیغی آزادی کو لے لو- اگر ہندو اقلیتوں کو تبلیغ سے روکنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو انہیں اس امر پر کیوں اعتراض ہے کہ قانون اساسی میں یہ شرط رکھی جائے کہ تبلیغ آزاد ہوگی؟ اور اگر ان کا یہ ارادہ نہیں تو وہ ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ کے ان الفاظ پر کہ-:
>اگر آپ کے ایک ہندو بھائی کو مسلمان بنانے میں آپ کسی کو روکتے ہیں اور وہ باز نہیں آتا تو بہتر ہے کہ آپ وہاں کٹ کر مر جائیں<
عمل کریں تو ان کا کیا حرج ہے کہ ہندوستان کے قانون اساسی میں یہ بات آ جائے کہ تبدیلی مذہب پر کسی قسم کی کوئی پابندی مقرر نہیں کی جائے گی- یا اگر ہندوئوں کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ انگریزوں کے خلاف خاص قواعد بنا کر ان کی ہندوستانی تجارت کو تباہ کریں تو ان کا کیا حرج ہے کہ آئین اساسی میں یہ بات آ جائے کہ ایسا کوئی قانون نہ بنایا جائے گا جس کا منشاء کسی خاص قوم کی تجارت کو جو ہندوستان کو وطن بنا چکی ہو تباہ کرنا ہو-
غرض جب کہ اقلیتیں کسی اور کا حق نہیں مارتیں صرف اپنے جائز حقوق کی حفاظت چاہتی ہیں تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مطالبات ملک کو کمزور کرنے والے اور ظالمانہ ہیں اور اکثریت کے لئے ایک دھمکی کے مترادف ہیں؟ جس چیز کے کرنے کا انسان ارادہ رکھتا ہے اس کا اقرار کرنے سے بھی وہ نہیں ڈرا کرتا اور کانسٹی ٹیوشن (CONSTITUTION) صرف دلی ارادہ کے اظہار کا نام ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں-
‏a11.10
انوار العلوم جلد ۱۱
ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل
حصہ دوم
باب اول
ہندوستان کا آئین اساسی
اب میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ ہندوستان کے آئندہ دستور اساسی کے متعلق اپنے خیالات کو ظاہر کر سکوں کیونکہ ابتدائی مراحل کو میں طے کر چکا ہوں اور اب مجھے صرف نتیجہ بیان کرنا ہے جو یہ ہے کہ ہندوستان کا آئندہ دستور اساسی محفوظ (RIGID) ہو اور اقلیتوں اور صوبوں کے حقوق کی حفاظت اس میں مدنظر رکھی جائے- اکثریت بے شک جو بات ملک کے لئے بہتر سمجھے اس کے مطابق عمل کرے لیکن جب تک اقلیتیں اس پر تسلی نہ پا جائیں اس وقت تک اکثریت کے اختیارات کو اس طرح محدود کر دیا جائے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو تلف نہ کر سکے اور اس حد بندی کو آئین اساسی میں شامل کر دیا جائے کیونکہ آئین اساسی اپنے ساتھ مادیطاقت نہیں رکھتا لیکن اخلاقی طاقت بہت کچھ رکھتا ہے اور اکثریت کا ایک حصہ ضرور معاہدہ کی خلاف ورزی سے پرہیز کرنے پر اصرار کرتا ہے جس کی مدد کے ساتھ اقلیت اپنے حقوق کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے-
دنیا میں حکومتیں معاہدات کو توڑتی ہی رہتی ہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیں کہتا کہ معاہدات کی کیا ضرورت ہے؟ جب کسی حکومت کی مرضی ہوگی وہ معاہدہ توڑ دے گی- اس میں کوئی شک نہیں کہ مرضی پر معاہدات ٹوٹ سکتے ہیں اور توڑے جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ معاہدات کو توڑ کر جس قدر ظلم ہوتا ہے اس سے بہت زیادہ بغیر معاہدہ کے ہوتا ہے- دنیا میں سب انسان یکساں نہیں ہوتے- بعض لوگ معاہدہ کا احترام کرتے ہیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو ان کے توڑنے سے روکتے ہیں اور اس طرح ظلم کا ایک حصہ مٹ جاتا ہے- پس کانسٹی ٹیوشن میں اقلیتوں کے جائز مطالبات کا آنا ضروری ہے تا کہ ملک کی بھی اور دنیا کی رائے عامہ بھی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی تائید میں استعمال کی جا سکے-
مگر میں یہ نہیں کہتا کہ صرف کانسٹی ٹیوشن میں ان حقوق کا ذکر آ جائے کیونکہ گو پبلکرائے بھی بہت کچھ مدد کرتی ہے لیکن بعض دفعہ دیانتدارانہ طور پر معاہدات کے معنی کرنے میں اختلاف ہو جاتا ہے- اس صورت میں کوئی اور نظام بھی ایسا ہونا چاہئے جو غیرجانبدار رہ کر اختلاف کا فیصلہ کر سکے- اس موقع پر کمیشن کی سفارش پھر سامنے آ جاتی ہے- کمیشن کا خیال ہے کہ اس کا فیصلہ گورنر کے ہاتھ میں رکھا جائے لیکن میں ثابت کر چکا ہوں کہ یہ طریق درست نہیں اور اس میں گورنروں کی پوزیشن کو بھی نقصان پہنچے گا اور اقلیتوں کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا-
میرے نزدیک اس کا بہترین طریق وہی ہے جسے دنیا تجربہ سے معلوم کر چکی ہے- یعنی عدالت کے سپرد یہ فیصلہ کیا جائے- کانسٹی ٹیوشن ایک معاہدہ ہے اور اسے وہی بدل سکتا ہے جس نے یہ معاہدہ کیا تھا- جو شخص یا اشخاص معاہدہ کرنے والوں کی رضا مندی کے بغیر اسے بدلتے ہیں وہ خلاف قانون کام کرتے ہیں- پس ایک ایسا محکمہ ہونا ضروری ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ آیا واقعہ میں معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں اور یہ فیصلہ ہو بھی اس طرح کہ کسی کو معقول طور پر اعتراض کی گنجائش نہ رہے اور یہ غرض صرف عدالت سے حاصل ہوتی ہے- عدالت کے جج بھی انسان ہوتے ہیں- وہ بھی خاص میلان رکھتے ہیں لیکن ان میں ایک بات ایسی ہوتی ہے جو انصاف کی طرف انہیں مائل کرتی رہتی ہے اور وہ عادت ہے- بہت سے ججوں کی زندگی میں ایسے مقدمات ضرور آتے رہتے ہیں کہ جن میں وہ ایک شدید میلان اور فریق کی طرف محسوس کرتے ہیں لیکن اگر وہ رشوت خور نہ ہوں تو اکثر مقدمات ان کے سامنے ایسے آتے ہیں جن سے انہیں ذاتی دلچسپی نہیں ہوتی اور اس طرح ان کا دماغ اسی رنگ میں نشوونما پاتا رہتا ہے کہ انہیں انصاف کی عادت ہو جاتی ہے- عادت کے علاوہ کچھ احتیاطیں عدالت کے متعلق قانون نے بھی اختیار کی ہیں جو اسے ایک حد تک انصاف پر مجبور کر دیتی ہیں اور وہ یہ کہ اس کی سب کارروائی کھلے بندوں ہوتی ہے اور اس کے سامنے دونو فریق اپنے دلائل پیش کر سکتے ہیں- اور وہ پہلے امور قابل تنقیح نکال کر قابل بحث امور کو ایک لحاظ سے واضح اور ایک لحاظ سے محدود کر دیتی ہے- پھر عدالت مجبور ہے کہ خود فیصلہ لکھے- اس طرح اس کے فیصلے اور اس کی سب کارروائی کی نقل لینے کا دونوں فریق کو حق ہے- یہ پانچوں امر بظاہر معمولی معلوم دیتے ہیں لیکن انصاف میں بہت ممد ہیں اور کم سے کم ایک بڑی حد تک فریقین کے لئے تسلی اور اطمینان کا موجب ہو جاتے ہیں- اس کے برخلاف ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کی کارروائی پس پردہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے رعایت کا شبہ لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے- اس میں فریقین کو ایک دوسرے کے بالمقابل جرح کرنے اور دلائل بیان کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے وہ امور جو ایگزیکٹو پر مشتبہ رہیں انہیں کھولنے کا موقع فریقین کو نہیں ملتا- وہ قابل تنقیح امور کو الگ نکال کر فریقین کو اس سے آگاہ نہیں کرتی کہ اسے معاملہ کی حقیقت سے واقف کرنے کے لئے کن کن امور پر روشنی ڈالنی ضروری ہے- پھر ضروری نہیں کہ وہ فیصلہ خود لکھے یا لکھوائے بلکہ عام طور پر ایگزیکٹو محکموں میں فیصلے دوسرے لوگ لکھتے ہیں اور افسر صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ فیصلہ درست ہے- حالانکہ سب مسل کو پڑھ کر خود فیصلہ لکھنا یا لکھوانا اور شئے ہے اور دوسرے کے فیصلہ پر نظر اصلاح ڈالنا اور شئے ہے اسی طرح ایگزیکٹو کی سب کارروائی ضروری نہیں کہ تحریر میں آئے اس کا ایک حصہ ضرور زبانی مشوروں پر مبنی ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا ریکارڈ نامکمل ہوتا ہے اور پھر اس نامکمل ریکارڈ کی نقل لینے کا فریقین کو اختیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے فریقین کو اس کے فیصلے کے صحت کے پرکھنے کا موقع نہیں ملتا- ان پانچوں اختلافوں کی وجہ سے حقوق کے تصفیہ کے لئے عدالت کے فیصلہ کو انتظامی حکام کے فیصلہ سے ممتاز کیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس بارے میں ممتاز ہے-
میرا یہ مطلب نہیں کہ عدالت خراب نہیں ہو سکتی- میں خود پہلے لکھ چکا ہوں کہ عدالتیں بھی خراب ہو سکتی ہیں لیکن جب دو چیزوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو دونوں کی اچھی یا دونوں کی بری یا دونوں کی اوسط حالت کا مقابلہ کیا جاتا ہے` نہ کہ ایک کی اچھی اور ایک کی بری حالت کا- اور اگر اس طرح ہم عدالت اور ایگزیکٹو کا مقابلہ کریں تو یقیناً ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ بری عدالت بری ایگزیکٹو سے کم نقصان پہنچا سکتی ہے اور اچھی ایگزیکٹو سے اچھی عدالت پر لوگ زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور اس کی یہ وجہ نہیں کہ عدالت پر زیادہ قابل لوگ مقرر کئے جاتے ہیں بلکہ اس کی وجہ وہ قوانین ہیں جن کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں اور جن کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں ایک اطمینان سا پیدا ہو جاتا ہے- اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ محبت کے جذبات ہمیشہ ایگزیکٹو سے تعلق رکھتے ہیں` عدالت سے نہیں- کیونکہ اس کی وجہ ایگزیکٹو کے فیصلوں کی خوبی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ عدالت کی بنیاد دلیل پر ہے اور ایگزیکٹو کی احساسات پر` اور محبت احساسات سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ اس کے مقابل پر یہ امر بھی دیکھا جائے گا کہ نسبتی طور پر لوگ عدالت سے اس قدر نفرت بھی نہیں کرتے جس قدر ایگزیکٹو سے` اور اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ ایگزیکٹو کا احساسات سے زیادہ تعلق ہے-
مجھے جن جن صاحب علم و تجربہ اور بارسوخ مسلمانوں سے اس بارہ میں تبادلہ خیالات کا موقع ملا ہے میں نے ان سب کو اس امر کے خلاف پایا ہے کہ اختلاف کی صورت میں عدالت پر آئین اساسی کی تشریح کو چھوڑا جائے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ جج کہاں سے لائے جائیں گے جو منصفانہ طور پر فیصلہ کریں گے- اگر تو وہ ہندوستان کی حکومت کی طرف سے مقرر شدہ ہونگے اور ہندو یا مسلمان ہونگے تو بوجہ اس کے کہ آئینی سوالوں کے ساتھ خود ان کے مفاد وابستہ ہوں گے ان کی رائے تعصب کیا ذاتیات سے بھی آزاد نہ ہوگی اور اگر وہ جج برطانیہ کی طرف سے مقرر کر کے بھیجے گئے تو بھی یہ سوال رہے گا کہ برطانیہ ضرور اکثریت کے خیالات سے مرعوب ہوگا اور وہ ایسے جج مقرر نہیں کرے گا جو تمام تعصبات سے بالا ہوں-
بے شک اس دلیل میں ایک حد تک وزن ہے- لیکن میرا سوال یہ ہے اور اس کا جواب اس وقت تک کوئی مجھے نہیں دے سکا کہ پھر فیصلہ کس طرح ہوگا؟ یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ میجاریٹی (MAJORITY) کبھی بھی آئین اساسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرے گی- تب بیشک کسی تیسرے محکمہ کی ضرورت نہ ہوگی جو اختلاف کی صورت میں آئین اساسی کے معنی کرے- لیکن اگر میجارٹی پر اس قدر حسن ظن ہے تو پھر حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن اگر یہ ممکن بلکہ قرین قیاس ہے کہ میجارٹی دانستہ یا نادانستہ ایسے فیصلے کرے گی جو آئین ا ساسی کے خلاف ہونگے- یا بعض حالات میں کوئی اقلیت یا کوئی صوبہ یا تمام صوبہ جاتی حکومتیں مرکزی حکومت کے کسی فیصلہ کو آئین اساسی کے خلاف قرار دیں گی تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس اختلاف کا فیصلہ کرنے والا بھی کوئی صیغہ ہو- اگر ایسا صیغہ کوئی نہ ہو تو آئین اساسی کا فائدہ کیا ہے- اس صورت میں وہ اقلیتوں کے لئے ایسا ہی غیر مفید ہے جیسا کہ عام قانون-
اگر ان لوگوں کا یہ مطلب ہے کہ سائمن کمیشن کی رپورٹ کی تجویز بہتر ہے یعنی ان امور کا گورنر یا گورنر جنرل فیصلہ کیا کرے تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کوئی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس صورت میں صرف یہ سمجھا جائے گا کہ وہ کوئی علیحدہ سپریم کورٹ نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ گورنروں اور گورنر جنرل کو ہی سپریم کورٹ کے اختیار دے دیئے جائیں لیکن اگر ان کا یہ مطلب ہو تو ان کا بیان متضاد ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے خلاف ان کی دلیل یہی ہے کہ ایسے جج کہاں سے آئیں گے جو انصاف سے فیصلہ کریں گے اور وہ کونسی طاقت ہوگی جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہو کہ وہ غیر جانبدار جج مقرر کرے گی؟ جب گورنروں اور گورنر جنرل کو یہ اختیار دینا وہ پسند کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک وہ طاقت بھی موجود ہے جس پر انتخاب کے بارہ میں اعتبار کیا جا سکتا ہے اور وہ آدمی بھی موجود ہیں جو انصاف سے فیصلہ کریں گے- پس جس دلیل پر وہ سپریم کورٹ کی مخالفت کرتے ہیں وہ باطل ہو گئی- صرف یہ سوال رہ گیا کہ آئین اساسی کے معنوں یا اس کے استعمال کے متعلق اگر اختلاف پیدا ہو تو اس کا فیصلہ کوئی مستقل عدالت کرے- یا گورنروں اور گورنر جنرل کو ہی اس غرض کے لئے عدالت فرض کر لیا جائے اور اگر یہی ان کا منشاء ہو تو میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ یہ علاج درست نہیں- اس سے نہ تو اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی اور نہ گورنروں کا وقار ہی قائم رہے گا- اور بہتر سے بہتر گورنر اپنی کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس آئینی نقص کی وجہ سے بدنام ہو کر ملک سے نکل جائے گا-
میرا یہ خیال ہے کہ وہ لوگ جو سپریم کورٹ کے مخالف ہیں وہ گورنروں کو بھی یہ اختیار دینا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان لوگوں سے میں نے یہ خیالات بھی سنے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق گورنروں کے سپرد کر کے سائمن کمیشن نے ہمیشہ کے لئے ہندوستان کو غلام بنانے کی تجویز کر دی ہے- پس میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی مخالفت وہ لوگ صرف ان مشکلات کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں جو اس کے متعلق نظر آتی ہیں- لیکن اس پر انہوں نے غور ہی نہیں کیا کہ مستقل آئین حکومت رجڈ کانسٹی ٹیوشن (RIGIDCONSTITUTION) جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں` لازمی طور پر کسی نہ کسی ایسے محکمہ کی محتاج ہے جو یہ فیصلہ کر سکے کہ اس کی صحیح تشریح اور اس کا صحیح استعمال ہو رہا ہے- اور وہ لوگ آئین اساسی کے اصول کو اسی طرح نظر انداز کر رہے ہیں جس طرح کہ سائمن کمیشن نے انہیں نظر انداز کر دیا ہے- سائمن کمیشن تو یہ کہتا ہے کہ صوبہجات کا آئین اساسی لچکدار )NOITU(FLEXIBLECONSTIT ہو- ہاں گورنر یہ خیال رکھے کہ اقلیتوں کے حقوق تلف تو نہیں کئے جاتے اور سپریم کورٹ کے ہندوستانی مخالف یہ کہتے ہیں کہ آئین اساسی تو مستقل ہو لیکن اس کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی عدالت کے سپرد اس کا فیصلہ نہ کیا جائے- گویا ایک اس کو لچکدار قرار دے کر اس کی لچک کو دور کر دیتا ہے اور دوسرا اسے مستقل قرار دے کر اس کے استقلال کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ دونوں حالتیں بالکل غیر آئینی اور خلاف عقل ہیں اور مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ جو رات دن سیاسیات میں مشغول رہتے ہیں` اس قسم کی غلطی کے مرتکب کس طرح ہو سکتے ہیں-
چونکہ میری غرض یہ ہے کہ میں نہ صرف ان لوگوں سے اپیل کروں کہ جو سیاسیاتحاضرہ کے ماہر ہیں بلکہ ان سے بھی جو عقل میں تو ان سے کم نہیں لیکن ان کی خودساختہ اصطلاحات سے واقف نہیں ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے سمجھانے کے لئے میں مذکورہبالاعبارت کی مزید تشریح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں- اس وقت تک سیاسیات کی جس قدر باریکیوں تک انسان کا دماغ پہنچ سکا ہے اس سے ماہرین سیاسیات اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آئینی حکومتوں میں یعنی ان حکومتوں میں جو کسی ایک شخص کی غیر محدود مرضی پر منحصر نہیں ہیں دو قسم کے قوانین ہوتے ہیں- ایک اساسی یعنی وہ قانون جو یہ بتاتے ہیں کہ حکومت خواہ شخصی ہو یا جماعتی` پھر جماعتی کا خواہ قانون ساز حصہ ہو` خواہ انتظامی` خواہ عدالتی` اپنے اختیارات کو کس رنگ میں اور کس حد کے اندر استعمال کرے گا اور دوسرا عام قانون جو حکومت کے عمل کی حدبندی یا تشریح نہیں کرتا بلکہ حکومت کے علاوہ جو افراد یا جماعتیں ہوں` ان کے اعمال کے متعلق قانون تجویز کرتا ہے-
دوسرے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ڈیما کریٹک (DEMOCRATIC) یعنی جمہوریحکومتیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں- ایک وہ جن کا قانون کلی طور پر اکثریت کی مرضی کے مطابق بنتا ہے- یعنی سب کے سب قوانین خواہ اساسی ہوں یا عام ایک ہی قاعدہ کے مطابق ملک کے منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت کی رائے کے مطابق بنائے جاتے ہیں چونکہ اس حکومت کے قوانین بلااستثناء منتخب کردہ نمائندوں کی اکثریت کی رائے کے مطابق بنتے ہیں اور جب کوئی دوسری اکثریت انہیں منسوخ کر دے یا اس میں تبدیلی کر دے تو وہ منسوخ ہو جاتے ہیں یا بدل جاتے ہیں- اس وجہ سے اس حکومت کے آئین اساسی کو لچکدار کہتے ہیں- یعنی اکثریت جب چاہے عام قانونوں کی طرح اپنے آئین اساسی کو بھی بدل سکتی ہے اور دوسرے قوانین کے مقابلہ میں انہیں کوئی خاص حفاظت حاصل نہیں ہوتی- اس حکومت کی مجلس یا مجالسواضعقوانین پوری طرح آزاد ہوتی ہے-
دوسری قسم جمہوری حکومت کی وہ ہوتی ہے کہ جس کے آئین اساسی عام قانونوں سے مختلف قرار دیئے جاتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس ملک کے باشندے افراد یا جماعتوں یا صوبوں یا ریاستوں کی صورت میں ایک معاہدہ کر کے اس حکومت کو قائم کرتے ہیں اور حکومت پر حد بندی لگاتے ہیں کہ تم کو ملک کے انتظام کیلئے یوں تو پورے اختیارات حاصل ہونگے لیکن فلاں فلاں معاملات میں جب تک معاہدہ کرنے والے افراد یا جماعتیں یا صوبے یا ریاستیں تم کو دوبارہ اختیار نہ دیں تم کوئی قانون نہیں بنا سکتے- گویا اس ملک کی حکومت کو اس ملک کے باشندے پورے اختیار نہیں دیتے بلکہ بعض اختیارات کو سب ملک یا صوبے یا افراد یا جماعتیں اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں تا کہ حکومت ان کے حق کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور ان کے مشورہ کے بغیر کام نہ کر سکے لیکن ان مخصوص امور کے علاوہ دوسرے امور کے متعلق حکومت کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ اکثریت کی مرضی کے مطابق جو قانون چاہے بنا دے- کسی فرد یا کسی جماعت یا کسی صوبہ یا کسی ریاست کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا اس قسم کی حکومت کے آئین اساسی کو مستقل کہتے ہیں- یعنی ان کے بدلنے کا حکومت کو خود اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ افراد یا جماعتیں یا صوبے یا ریاستیں جن کی مرضی کے مطابق وہ قانون بنا تھا` جب مقررہ اصول کے مطابق اپنی مرضی کا اظہار کریں` تبھی انہیں بدلا جا سکتا ہے- وہ طریق جن سے معاہدہ کرنے والی جماعتوں یا افراد یا صوبوں یا ریاستوں کی مرضی کا پتہ لیا جاتا ہے مختلف ہیں لیکن اس جگہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں-
حکومت اور قانون کی ان دونوں قسموں کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جن حکومتوں کا آئین اساسی لچکدار ہے انہیں کسی ایسے محکمہ کی ضرورت نہیں جو یہ فیصلہ کرے کہ ان کی حکومت کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط کیونکہ ایسی حکومت کو ہر امر میں فیصلہ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوتا ہے اور جسے پورا اختیار حاصل ہو اس کے فیصلہ کو کون غلط کہہ سکتا ہے لیکن اس کے برخلاف جن حکومتوں کا آئیناساسی مستقل یا غیر لچکدار ہو ان کے اختیارات چونکہ محدود ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی ایسے محکمہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو یہ فیصلہ کرے کہ انہوں نے اپنے حق سے باہر تو کوئی قانون نہیں بنا دیا- اس وجہ سے جس قدر آئیناساسی کے اصول کے چوٹی کے ماہر ہیں ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جس حکومت کا آئیناساسی مستقل یا غیر لچک دار ہو یعنی ملک نے اسے یہ آزادی نہ دی ہو کہ وہ جو چاہے کرے اس کے لئے ایک ایسے محکمہ کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی طرف سے اپیل دائر ہونے پر یہ فیصلہ کرے کہ حکومت نے قانون اساسی کی خلاف ورزی تو نہیں کی- چنانچہ لارڈ برائس کینیڈا کی کانسٹی ٹیوشن کا بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ-:
>جیسا کہ ان حکومتوں کے متعلق کہ جو کسی آئین اساسی کے ماتحت محدود اختیار رکھتی ہوں عقل کا تقاضا ہے )کینیڈا کی( عدالتوں کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ آیا کوئی قانون حکومت کا غیر آئینی تو نہیں<- ۴۰~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ لارڈ برائس کے نزدیک اس حکومت کے لئے جس کے آئین اساسی مستقل ہیں یا دوسرے لفظوں میں جس کی مجلس واضع قوانین محدود اختیارات رکھتی ہے- ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایک ایسا محکمہ ہو جو بصورت اپیل فیصلہ کر سکے کہ مجلس نے اپنے حقوق سے تجاوز تو نہیں کیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ لارڈ برائس کے بیان کے مطابق امریکن مصنفوں کے بر خلاف یورپ کے بہت سے قانون دان اس اصل کے مخالف ہیں اور ضروری نہیں سمجھتے کہ آئین اساسی کے متعلق اختلاف کی صورت میں مجلس قانون ساز کے سوا کوئی اور محکمہ فیصلہ کرے کہ کونسا فریق حق پر ہے- چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں-:
>یہ رائے یورپ کے براعظم میں صحیح تسلیم نہیں کی جاتی- وہاں سوئٹررلینڈ اور فرانس کی جمہوریتوں اور جرمن بادشاہت کے قانون دان اب تک مصر ہیں کہ مجلس عاملہ اور عدالت قانون ساز مجلس کے ماتحت ہونی چاہئے- چنانچہ دو نہایت ہی اعلیٰ پایہ کے سوئٹررلینڈ کے قانون دانوں نے میرے سامنے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ امریکن طریق زیادہ معقول ہے بیان کیا کہ )فیصلہ کرنے والی عدالت کے بغیر( سوئٹررلینڈ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور یہ بھی بیان کیا کہ افراد ملک کو اس طرح کوئی سخت نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ان کے سامنے معاملہ کو پیش کر کے ان کی حفاظت کا سامان کیا جا سکتا ہے<- ۴۱~}~
لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اختلاف جو سوئٹررلینڈ کے قانون دانوں نے کیا ہے حقیقی نہیں ہے اور سوئٹررلینڈ کے قانون اساسی سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سوئٹررلینڈ میں کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے بلکہ خود انہی دو ماہرین قانون کے بیان سے جو لارڈ برائس نے نقل کیا ہے ثابت ہے کہ وہاں بھی سپریم کورٹ ہے- کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی سوئٹررلینڈ میں اس لئے ضرورت نہیں کہ اگر آئین اساسی کے خلاف کوئی بات اسمبلی کرے تو ملک کے باشندے اپنے حق کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اس حفاظت سے ان کی مراد ریفرنڈم (REFERENDUM) ہے- یعنی ملک سے ووٹ لے کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک زیر اعتراض قانون کو آئین اساسی کے خلاف سمجھتا ہے یا نہیں- چنانچہ لارڈ برائس ان کے قول کی مزید تشریح مذکورہ بالا فقرہ سے اگلے فقرہ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ-:
>اگر قومی مجلس کے کسی قانون کے متعلق خیال کیا جائے کہ وہ قانون اساسی کے خلاف ہے تو اسی وقت یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے باشندوں کی اس کے متعلق رائے لی جائے- پھر ملک خود فیصلہ کر دے گا کہ قانون آئین اساسی کے خلاف ہے یا نہیں<- ۴۲~}~
اس طرح پروفیسر ڈبلیو- بی- منرو MUNROE)۔B۔(W پی- ایچ- ڈی- ایل- ایل- بی لکھتے ہیں کہ-:
>اس کے برخلاف اگر کسی معاملہ کے خلاف درخواست دی جائے کہ وہ قانون اساسی کے خلاف ہے اور ملک کی عام رائے اس کے بارہ میں حاصل کی جائے تو اگر اکثر رائے دہندگان اس کے خلاف ہوں تو وہ قانون منسوخ ہو جائے گا<- ۴۳~}~
ان دونوں حوالوں سے ثابت ہے کہ سوئٹررلینڈ میں بھی آئین اساسی کے ٹوٹنے کی صورت میں ایک ایسا محکمہ مقرر ہے جس کے سامنے اپیل کی جا سکے گو چند آدمیوں کی جماعت پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ملک کے سب افراد پر مشتمل ہے اور سب ملک کے باشندوں کا کورٹ بھی ویسا ہی سپریم کورٹ کہلا سکتا ہے جیسے کہ چند افراد کا کورٹ سپریم کورٹ کہلا سکتا ہے- غرض اصل بات یہ ہے کہ یورپ کے قانون دانوں نے اس امر کو سمجھا ہی نہیں کہ امریکن اور دوسرے ماہرین قانون کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ غیر لچکدار آئین اساسی کے لئے کسی خاص شکل کے سپریم کورٹ کا ہونا ضروری ہے- جو کچھ ان کا دعویٰ ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی حکومت کا آئین اساسی غیر لچکدار ہو یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا محکمہ بنایا جائے کہ جو اختلاف کے وقت اس امر کا فیصلہ کرے کہ آیا حکومت نے اپنے اختیارات سے باہر ہو کر تو کوئی قانون نہیں بنایا- کیونکہ اس امر کا فیصلہ مجلس واضع قوانین پر چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی ایک فریق مقدمہ کو خود اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے جج مقرر کر دیا جائے اور سوئٹررلینڈ نے جو صورت فیصلہ کی تجویز کی ہے یعنی سب ملک کی ریفرنڈم وہ اس ملک کے لحاظ سے بالکل معقول ہے اور یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ سوئٹررلینڈ میں کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے- ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوئٹررلینڈ کا سپریم کورٹ یونائیٹڈ سٹیٹس کے سپریم کورٹ سے مختلف ہے-
چونکہ بحث کے وقت یہ سوال بھی آ سکتا ہے کہ اگر ریفرنڈم بھی ایک قسم کا سپریم کورٹ ہے تو کیوں ہندوستان میں بھی ویسا ہی سپریم کورٹ نہ جاری کر دیا جائے- یعنی اگر کسی جماعت کو فیڈرل گورنمنٹ کے کسی فیصلہ یا قانون پر اعتراض ہو تو ملک کی عام رائے دریافت کر کے جو کثرت کی رائے ہو اس کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے اس لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اختلاف جو یورپ اور امریکہ کے ماہرین قانون میں ہوا ہے کہ آیا غیر لچکدار قانون اساسی کے لئے کسی سپریم کورٹ کا ہونا لازمی ہے یا نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ ہر ملک کے حالات کے لحاظ سے الگ قسم کے سپریم کورٹ کی ضرورت ہوا کرتی ہے- یہ موقع نہیں کہ میں تفصیلی طور پر بتائوں کہ کس طرح مختلف ممالک کی مختلف حالتوں کے مطابق مختلف شکلوں کے سپریم کورٹ کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن ہندوستان کے معاملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ غیر لچکدار قانون اساسی کی دو بڑی ضرورتیں ہوتی ہیں- ایک تو شخصی حکومت یا آلیگار کی (OLIGARCHY) یعنی بااثر لوگوں کی حکومت کے حملہ سے بچنا اور دوسرے اکثریت کی حکومت کے حملہ سے بچنا- پہلی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آئین اساسی کے بنانے والوں کے سامنے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کسی وقت کوئی خاص علمی یا مذہبی یا سرمایہ دار یا زمیندار جماعت ملک کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی جمہوریت کی شکل کو توڑ کر ایسے چند بااثر لوگوں کی حکومت )آلیگار کی( میں تبدیل نہ کر دے تب وہ لوگ اس خطرہ سے بچنے کیلئے ایک غیر لچکدار قانون اساسی بناتے ہیں اور اس کی تبدیلی کے متعلق ایسی شرطیں مقرر کرتے ہیں کہ جب تک اکثر افراد کی رائے اس کی تائید میں نہ ہو اس وقت تک اسے تبدیل نہ کیا جا سکے اور اس آئین کے توڑے جانے کے احتمال کے موقع پر بھی فیصلہ ملک کی اکثر آبادی پر چھوڑتے ہیں تا کہ معلوم ہوتا رہے کہ کوئی اقلیت غفلت میں ملک پر حکمران تو نہیں ہوگئی-
دوسری صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ آئین اساسی بنانے والوں کے سامنے یہ سوال ہوتا ہے کہ اکثریت ہی کہیں اقلیت کو نہ کھا جائے- اور بعض ایسی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ان کے مدنظر ہوتی ہے کہ جو اسی شرط پر اس نظام حکومت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوتی ہیں کہ ان کی جداگانہ ہستی معرض خطر میں نہ آئے- اس صورت میں آئین اساسی کے بنانے والے صرف یہ امر مدنظر نہیں رکھتے کہ اکثریت کے حقوق تلف نہ ہو جائیں بلکہ ایسے قواعد بناتے ہیں جن کی مدد سے اقلیتیں اکثریت کے حملہ سے محفوظ رہیں اور اس صورت میں قانون اساسی کے توڑے جانے کے احتمال کے وقت بھی فیصلہ اکثریت کے سپرد نہیں کیا جاتا بلکہ کسی اور محکمہ کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے-
یہ امر ظاہر ہے کہ جس ملک کے قواعد کی غرض چند بااثر افراد کی حکومت سے اپنے ملک کو بچانا ہو ان کے لئے بہترین سپریم کورٹ ملک کی اکثریت کی رائے ہی ہو سکتی ہے کیونکہ چند اشخاص کے فیصلہ سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ملک کا اکثر حصہ اس کا موید ہے لیکن ملک کے اکثر حصہ کا فیصلہ اگر حاصل ہو جائے تو پوری طرح تسلی ہو جاتی ہے کہ اکثریت کی حکومت کا مدعا پورا ہو رہا ہے- برخلاف اس کے جس ملک کا اساس اس اصل پر ہو کہ بعض جماعتوں یا صوبوں کی منفردانہ شخصیت کو نقصان سے بچایا جائے- اس میں اگر سپریم کورٹ ملک کی اکثریت کی رائے کو قرار دیا جائے تو یہ گویا اس غرض کو ہی باطل کرنا ہوگا جس کے لئے قانون اساسی بنایا گیا تھا- جس اکثریت کی دست اندازی سے بچنا مقصود تھا اسی کو جج بنا لینا ایک فریق مقدمہ کے اختیار میں فیصلہ کا اختیار دے دینے کے مترادف ہے- خلاصہ یہ کہ ان دونوں صورتوں میں الگ الگ قسم کے سپریم کورٹ کا ہونا ضروری ہے- پہلی صورت میں ملک کی اکثریت کا فیصلہ ہی قانون اساسی کی حفاظت کر سکتا ہے اور دوسری صورت میں اکثریت کے فیصلہ پر چھوڑ دینا قانوناساسی کی غرض کو باطل کر دیتا ہے- پس انہی مختلف حالات کے ماتحت سوئٹررلینڈ جس کے آئین اساسی بنانے والوں کے سامنے چند بااثر افراد کی حکومت کا خطرہ تھا انہوں نے اپنے ملک کے آئین اساسی کا مفہوم بتانے کا اختیار ایسے سپریم کورٹ کو دیا جس میں سب افراد ملک شامل تھے اور یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ جسے یہ خطرہ نہیں تھا بلکہ جس کے اجزائے ترکیبی یعنی مختلف ریاستوں کے اوپر ایک ہی خیال حکومت کر رہا تھا کہ یہ نیا نظام کہیں ہماری مستقل حیثیت کو نہ مٹا دے اور ہر ریاست ڈر رہی تھی کہ کہیں دوسری ریاستیں مل کر میری ہستی کو معدوم نہ کر دیں یا میری آواز کو کمزور نہ کر دیں اس نے اپنے لئے ایسا نظام تجویز کیا جس میں بعض خاص امور کو تو اکثریت کے فیصلہ سے بالکل باہر نکال لیا اور ایسی شرطیں لگا دیں کہ کسی صورت میں بھی اکثریت اقلیتوں کو قربان نہ کر سکے اور بعض امور کے فیصلہ کے لئے ایسی پابندیاں لگا دیں کہ صرف منتخب نمائندوں کی اکثریت فیصلہ نہ کر سکے بلکہ اقلیتیں جو یونائیٹڈ سٹیٹس کی صورت میں ریاستیں تھیں جب تک بحیثیت ریاستوں کے ایک بہت بڑی کثرت سے اس کی تائید نہ کریں ان امور کے متعلق فیصلہ نہ سمجھا جائے اور اپنے مخصوص حالات کے ماتحت ان لوگوں نے سپریمکورٹ بھی ملک کی تمام آبادی کو قرار نہ دیا کیونکہ اکثریت کے فیصلہ سے بچنے کے لئے ہی وہ تدبیریں کر رہے تھے بلکہ ایک آزاد کورٹ الگ تجویز کیا جس کے سامنے آئین اساسی کے سوال پیش ہوا کریں- چنانچہ اس کورٹ کے ججوں کے انتخاب کا انہوں نے یہ طریق مقرر کیا کہ پریذیڈنٹ ان کا انتخاب کیا کرے لیکن سینٹ کا اتفاق رائے ضروری ہو- سینٹ کے اتفاقرائے میں پھر وہی روح کام کر رہی ہے کہ ریاستوں کو بحیثیت ریاست اس امر کی نگرانی کا موقع مل جائے کہ ایسے جج مقرر نہ ہوں جو اقلیتوں یعنی ریاستوں کے حقوق کو نظر انداز کر دینے والے ہوں- غرض سوئٹررلینڈ اور یونائیٹڈ سٹیٹس دونوں ملکوں نے اپنے خاص حالات کے مطابق سپریم کورٹ تجویز کئے ہیں خواہ ایک نے اس کا نام سپریم کورٹ نہ رکھا ہو مگر آئیناساسی کی حفاظت اور ترجمانی کرنے والا محکمہ ضرور مرجود ہے اور اس مناسب شکل میں موجود ہے جس شکل میں کہ اس کی ضرورت تھی-
یہ جو میں نے کہا ہے کہ سوئٹررلینڈ میں چند بااثر افراد کی حکومت کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی تجویز کیا گیا ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس میں اکثریت کے غلبہ کے خوف کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اساسی تجویز کیا گیا ہے` یہ بے دلیل بات نہیں بلکہ تاریخ اور خود ان ممالک کے آئین اساسی سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس کے متعلق تو ہر تاریخ کے پڑھنے والے کو یہ بات معلوم ہے کہ اس کے آئین اساسی کے بناتے وقت سب سے بڑی دقت یہی تھی کہ ہر ایک ریاست ڈرتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ بعض دوسری ریاستوں کا جتھا مل کر مجھے تباہ کر دے اور اس وقت یونائیٹڈ سٹیٹس کا قانون اساسی بنانے والوں کے سامنے اصل سوال یہی تھا کہ اکثریت` اقلیت کو کچل نہ دے- چنانچہ اس وقت ان لوگوں کی جو کیفیت تھی وہ الگزنڈرہملٹن (ALEXANDERHAMILTON) کے خیالات سے جو اس قانون اساسی کے بنانے والوں میں سے ایک نمایاں شخصیت ہے ظاہر ہے- انہوں نے قانون ساز مجلس کے سامنے بیان کیا کہ-:
>سب اختیارات اکثریت کو دے دو تو وہ اقلیت کو کچل دے گی اور سب اختیارات اقلیت کو دے دو تو وہ اکثریت کو کچل دے گی اس لئے دونوں کو اس قسم کے اختیارات ہونے چاہئیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل پر اپنی حفاظت کر سکیں<- ۴۴~}~
مصنف کتاب کا بیان ہے کہ یہ روح سب مجلس پر غالب تھی- چنانچہ وہ لکھتے ہیں-:
>اس وقت کی بحثوں میں کثرت سے ایسے بیانات موجود ہیں جن سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے<- ۴۵~}~
اگر تاریخ کو نہ بھی دیکھا جائے تو خود سینٹ کی بناوٹ اس امر کو خوب واضح کر دیتی ہے کیونکہ سینٹ کے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ہر ریاست کے برابر نمائندے اس میں لئے جائیں خواہ اس کی آبادی زیادہ ہو یا کم اور اس امر پر بھی ریاستوں کو بہ مشکل راضی کیا گیا تھا ورنہ وہ تو کانگریس میں بھی برابر نمائندگی کی طالب تھیں- غرض یونائیٹڈ سٹیٹس کے کانسٹیٹیوشن اور تاریخ دونوں سے ثابت ہے کہ اس کے آئین میں اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کسی صوبہ کو مرکزی حکومت یا دوسرے صوبوں سے نقصان نہ پہنچے-
سوئٹررلینڈ کی حکومت کی تاریخ سے گو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا آئین خاص افراد یا جماعت کی دست برد سے بچنے کے لئے بنایا گیا تھا کیونکہ اس کا آئین درحقیقت ایک لمبے عرصہ میں تیار ہوا ہے- لیکن اس ملک کے حالات اور گردو پیش کے حالات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حکومتوں کے سامنے مقصد وحید یہ ہوتا تھا کہ چرچ کسی طرح حکومت پر قبضہ نہ کر لے- ہاں اس ملک کے آئین اساسی سے اس امر کا پتہ ضرور لگتا ہے کہ بعض خاص افراد کی حکومت سے بچنے کے لئے ایسی کوشش کی گئی تھی- چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس ملک میں بعض مسیحی فرقوں کی قانوناً بندش کر دی گئی ہے اور پادریوں پر پادری ہونے کی صورت میں بعض قیود لگائی گئی ہیں اور اسی قسم کے خوف کے ماتحت ودار تھرگ کے علاقہ کو سوئٹررلینڈ نے اپنے ساتھ ملانے سے انکار کر دیا ہے- ۴۶~}~
غرض ملک کا آئین اساسی جس خطرہ کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے- اسی کے مطابق سپریمکورٹ بھی تجویز کیا جاتا ہے- پس ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہندوستان میں جو مستقل آئین اساسی پر زور دیا جاتا ہے تو کیوں دیا جاتا ہے- آیا اقلیتوں کو خطرہ سے بچانے کے لئے یا کسی خاص بااثر جماعت کے ہاتھ سے اکثریت کو بچانے کے لئے- اگر اول الذکر صورت ہے جیسا کہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ وہی صورت ہے- تو پھر یونائیٹڈسٹیٹس کی طرح کا سپریم کورٹ ہی کام دے سکتا ہے اور اگر دوسری قسم کے خطرات ہیں جیسا کہ ہر اک جانتا ہے کہ نہیں ہیں تو پھر بیشک سوئٹررلینڈ جیسا سپریم کورٹ یعنی ریفرنڈم تجویز کیا جا سکتا ہے-
خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان کا آئین اساسی غیر لچک دار ہونا چاہئے اور اقلیتوں کی حفاظت کے لئے جن امور کو ضروری سمجھا جائے وہ اس میں بالتفصیل بیان کئے جائیں اور کوئی ایسا محکمہ ضرور تجویز ہونا چاہئے کہ جو فیصلہ کر سکے کہ قانون اساسی کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی- قانوناساسی کی دفعات کیا ہوں اس کی تبدیلی کی کیا ضرورت ہو سپریم کورٹ کس صورت میں عمل کرے میں اس وقت اس پر بحث نہیں کرتا- اس کا موقع میرے نزدیک فیڈریشن کی بحث کے بعد آئے گا- پس اب میں فیڈرل سسٹم (FEDERALSYSTEM) پر بحث کرتا ہوں-
باب دوم
ہندوستان میں اتحادی )فیڈرل( حکومت
سائمن کمیشن نے مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم کی اتباع میں ہندوستان کے لئے فیڈرل حکومت کی سفارش کی ہے اور میرے نزدیک یہ سفارش اس کی سب سے اہم سفارشوں میں سے ہے اور اسے مانٹیگوچیمسفورڈ پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ گو ثانی الذکر نے بطور تنزل کے تو اتحادی طرزحکومت کی سفارش کی تھی لیکن اپنی سفارشات کا ڈھانچہ ایسا تیار نہیں کیا تھا جو اتحادی طرزحکومت کے بالکل مطابق ہو- لیکن سائمن رپورٹ نے اپنی سکیم فیڈرل اصول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور آئندہ منازل کلی طور پر اس کے اصول کے مطابق مقرر کی ہیں-
ہندوستان کے حالات کو سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی درحقیقت اس کے سوا کوئی سفارش نہیں کر سکتا- ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ممالک کا مجموعہ ہے جس کے باشندوں میں آہستہ آہستہ اب جا کر قومیت کا احساس پیدا ہوا ہے- لیکن وہ احساس اس قدر مضبوط نہیں کہ اس پر توحیدی (UNITARY) حکومت کی بنیاد رکھی جا سکے- دوسرے اس کی زبان ایک نہیں- ہر صوبہ کی زبان دوسرے صوبہ سے مختلف ہے بلکہ بعض صوبوں کی بھی ایک زبان نہیں- ایک ہی صوبہ کے مختلف حصوں میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں- اور اسی قدر تعداد میں تقسیم ہیں کہ اس اختلاف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- پھر اقوام کا اختلاف بھی ہے- شمالی ہند کے ہندو جنوبی ہند کے ہندوئوں سے بالکل مختلف ہیں- جنوبی ہند کے باشندے اپنے آپ کو ویدک تہذیب سے پہلے کا مانتے ہیں- اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ویدوں نے ان کے منتروں سے اپنی تعلیم اخذ کی ہے- اس کے برخلاف شمالی ہند کے باشندے ویدوں کو نہ صرف مذہب کے لحاظ سے سب کتب پر مقدم کرتے ہیں بلکہ انہیں ابتدائے عالم میں قرار دے کر اپنی تہذیب کی بنیاد ہی ان پر رکھتے ہیں- پھر مذاہب کا اختلاف ہے- شمالی صوبہ جات میں ہندو مذہب کا زور ہے- لیکن اسلامی تہذیب کا بھی گہرا اثر ان علاقوں پر ہے- اس کے برخلاف وسطی ہند میں ہندو مذہب اور ہندو تہذیب اپنے پورے زور پر نظر آتے ہیں- جنوبی ہند میں جا کر ہندو مذہب تو رہ جاتا ہے لیکن تہذیب ڈریویڈین قوم کی آ جاتی ہے- جس نے باوجود براہمنوں کے کچل دینے والے اثر کے اپنی شخصیت کو ترک نہیں کیا اور ایک ادنیٰ اشارہ پر ابھرنے کے لئے تیار ہے- پھر قومی اخلاق کا اختلاف ہے- شمال مغربی ہند کے پٹھان اور شمال مشرقی ہند کے بنگالی میں کوئی جوڑ ہی نہیں- ان دونوں کے اخلاق میں اس قدر فرق ہے جس قدر کہ ایک مانٹی نیگرو کے باشندہ اور ایک شمالی فرانس کے باشندے میں فرق ہے- سندھی کو یو-پی کے باشندوں سے کوئی بھی مناسبت نہیں اور ایک پنجابی اور بہاری کے اخلاق آپس میں کوئی نسبت نہیں رکھتے- اختلاف ہر ملک میں ہوتا ہے مگر یہ اختلاف انتہائی درجہ کا ہے- ایسا اختلاف کہ وہ ایک دوسرے کی مقامی ضرورتوں کے لئے کسی صورت میں بھی مناسب قانون نہیں بنا سکتے- نہ ایک قانون ان سب صوبوں کے لوگوں کے لئے موجب امن و برکت ہو سکتا ہے- پھر سب سے بڑھ کر ہندوستان کی ریاستوں کا سوال ہے- وہ ابھی تک کم سے کم ظاہری طور پر مختار فردی حکومت کے ماتحت ہیں- اگر ہندوستان ترقی کرنا چاہتا ہے تو ان سے کسی نہ کسی رنگ میں اس کا تعلق ضروری ہوگا- لیکن بغیر اس کے کہ وہ اپنی خود مختارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکیں وہ کبھی بھی آزادہندوستان سے اتحاد کرنا پسند نہیں کریں گی- پس ان حالات کے ماتحت ہندوستان میں اگر کوئی طریق حکومت کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ اتحادی یعنی فیڈرل طرز حکومت ہے اور اس وجہ سے کمیشن کی سفارش اس بارہ میں بہت وقعت اور اہمیت رکھتی ہے-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائمن رپورٹ کس قسم کی فیڈرل حکومت ہندوستان کو دینا چاہتی ہے- اس بارہ میں اس کی سفارشات اس قدر مبہم ہیں کہ ہر شخص جس نے رپورٹ پڑھی ہے اس کا خیال دوسرے سے مختلف ہے- ایک طرف تو سائمن رپورٹ کہتی ہے کہ-:
>ایسے علاقوں کا اتحاد جیسے کہ ریاستیں اور صوبہ جات ہند ہیں کہ پہلے )یعنی ریاستیں( تو فردی حکومت کے ماتحت ہیں اور دوسرے جمہوری اصول کے ماتحت ہیں` مجبور کرتا ہے کہ اس کی بنیاد اس اصل پر رکھی جائے کہ ممکن سے ممکن اندرونی آزادی ان علاقوں کو دی جائے جو حکومت ہند کا حصہ بنیں گے<- ۴۷~}~
لیکن دوسری طرف وہ لکھتے ہیں-:
>معمولی قانون ساز اختیارات نئی کونسلوں کے بہت وسیع ہونگے کیونکہ انہیں صوبہ کے امن اور اچھی طرح حکومت چلانے کے لئے قانون بنانے کے موجودہ وقت کی طرح پورے اختیارات حاصل ہونگے اور صرف ان امور کے متعلق حد بندی ہوگی )جو حد بندی اس طرح عمل میں لائی جائے گی کہ ہر قانون کے پاس کرنے سے پہلے گورنر جنرل سے اجازت لینی پڑے گی( کہ جو مرکزی اسمبلی سے تعلق رکھتے ہونگے- ہم پورے زور سے اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ ایکٹ کی دفعات کو اس بارہ میں قائم رکھا جائے کیونکہ اس سے مرکزی اور صوبہ جات کے اختیارات کی اچھی تقسیم ہو گئی ہے- ان دفعات میں اس امر کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کسی قانون کو جو پاس ہو چکا ہو اور گورنر جنرل کی منظوری حاصل کر چکا ہو غلط قرار نہ دیا جا سکے اور اس طرح مقدمہ بازی کے دروازہ کو بند کر دیا گیا ہے جس کا اس صورت میں کہ مرکز اور صوبہ جات کے اختیارات کو زیادہ وضاحت سے تقسیم کر دیا جائے کھل جانا لازمی تھا<- ۴۸~}~
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آئندہ بھی کونسلوں کے وہی اختیارات رہیں گے جو اب ہیں اور وہ اختیارات نہایت ہی قلیل ہیں اور درحقیقت ان کی موجودگی میں صوبہ جات کی کونسلیں صوبہ جات کی کونسلیں کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہیں اور چونکہ گذشتہ اختیارات میں یہ شرط بھی لگی ہوئی ہے کہ صوبہ جات کے متعلق قوانین گورنر جنرل کی مرضی سے مرکزیاسمبلی بنا سکتی ہے- پس معلوم ہوا کہ سائمن رپورٹ کی سفارش کے مطابق آئندہ بھی مرکزیاسمبلی گورنر جنرل کی اجازت سے صوبہ جات کے متعلق قانون بنا سکے گی- گویا وہ اختیارات جو صوبہجات کو دیئے گئے تھے اس طرح وہ بھی عملاً چھینے گئے اور صرف گورنر جنرل کی مرضی کی حد بندی کے ماتحت صوبہ جات کے تمام اختیارات مرکزی اسمبلی کے ہاتھ میں چلے گئے- غرض جو اختیارات اس پیرہ میں صوبہ جات کی کونسلوں کو دیئے گئے ہیں وہ بالکل محدود ہیں اور عملاً سب اختیارات مرکز ہی میں رہے ہیں اور صوبہ جات کے نام نہاد اختیارات کو بھی ایک طرح کا مرکزی بنا دیا گیا ہے- یہ شکل کسی صورت میں اٹانومی (AUTONOMY) کہلانے کی مستحق نہیں- اور اسے اٹانومی کہنا اٹانومی کے دعویداروں کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے-
ان دو متضاد بیانوں کی وجہ سے مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہیں- بعض تو کہتے ہیں کہ پہلا حوالہ بطور اصول کے ہے اور دوسرا حوالہ صرف درمیانی وقت کے لئے عارضی احتیاط کا کام دیتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ دوسرا حوالہ کمیشن کے اصل خیالات کو ظاہر کرتا ہے اور اس نے صرف ہندوستانیوں کو یہ تسلی دلانے کے لئے کہ اگر مرکز میں ہم کو اختیار نہیں ملے تو صوبہجات میں تو اٹانومی مل گئی ہے- فیڈرل سسٹم اور اٹانومی کے الفاظ اختیار کئے ہیں ورنہ ان کی تجویز کردہ سکیم فیڈرل سسٹم کہلانے کی مستحق ہر گز نہیں کیونکہ صوبہ جات کو بالکل ایک بیمعنی سی کانسٹی چیوشن دی گئی ہے جس کی آئندہ ترقی کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی- اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دوسرے حوالہ کو ہم بطور اصل کے تسلیم کریں تو ہمیں ایسی ہی مایوسانہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے- لیکن میرا خیال ہے کہ کمیشن نے دیدہ دانستہ ایسا نہیں کیا- جس زور سے انہوں نے فیڈریشن اصول کو پیش کیا ہے اور جس طرح انہوں نے زور سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت کو طاقتیں دینی مناسب نہیں کیونکہ یہ کام اتحادی اصول کے ماتحت صوبہ جات کا ہے- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہی تھا کہ صوبہ جات کو حقیقی خود اختیاری حکومت ملے جیسے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاستوں کو حاصل ہے- مگر بہرحال خواہ ان کا مطلب کچھ بھی ہو اب جب کہ شبہ پیدا ہو گیا ہے یہ امر آئندہ آئین اساسی میں بوضاحت بیان ہونا چاہئے کہ ہندوستان کی حکومت کامل اتحادی ہوگی اور مرکزی حکومت کو صرف وہ اختیارات حاصل ہوں گے جو صوبہ جات اسے دیں یا جن اختیارات کو کہ وہ اپنی آزادی کے مکمل ہونے پر اس کے پاس رہنے دینے پر رضامندی ظاہر کریں اور تمام باقی اختیارات صوبہ جات کے قبضہ میں سمجھے جائیں گے اور ان کی مرضی کے بغیر مرکز ان میں کسی صورت میں دخل دینے کا مجاز نہ ہوگا-
فیڈرل سسٹم پر اعتراضات اور ان کے جواب
بعض ہندو صاحبان کی طرف سے فیڈرل سسٹم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس طرح ہندوستان کی قومیت کمزور ہو جائے گی اور کبھی بھی ہندوستان ایک قوم نہیں بن سکے گا اور بعض ان میں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ فیڈرل طریق کو جاری کر کے انگریزوں کا یہ منشاء ہے کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں رقابت پیدا کر دیں اور اس طرح ہمیشہ کے لئے ہندوستان پر قبضہ رکھیں- یہ اعتراض معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں ہے بلکہ مسٹر شاستری جیسے پرانے خادم ملک کی طرف بھی یہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے انگلستان میں ایک موقع پر فیڈرل سسٹم کے خلاف یہ اعتراض کیا ہے کہ اس سے ہندوستان میں کبھی بھی قومیت پیدا نہیں ہوگی- گو مجھے کبھی بھی مسٹر شاستری سے ملنے کا موقع نہیں ملا لیکن میرے دل میں ان کی بہت عزت ہے کیونکہ میرا ہمیشہ ان کی نسبت یہ خیال رہا ہے کہ وہ ان چند ہندوستانیوں میں سے ہیں کہ جو بات کرنے سے پہلے سوچ لیتے ہیں اور جانچ تول کر بات کرتے ہیں اور نسلی اور مذہبی جھگڑوں کی آگ کے بھڑکانے کے مرتکب نہیں ہوتے ایسے آدمی کی بات ضرور قابل غور ہوتی ہے اس وجہ سے میں نے نہایت غور سے اس سوال کے مختلف پہلوئوں کو دیکھا ہے- لیکن باوجود اس کے میں اس دلیل کے اندر کوئی بھی حقیقت پانے سے محروم رہا ہوں- میں تاریخعالم پر ایک گہری نظر ڈالنے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس طرح انسان آپس میں ایکدوسرے سے بحیثیت افراد کے اور بحیثیت اقوام کے مختلف ہیں اسی طرح وہ آپس میں بحیثیتزمانہ کے بھی اور بحیثیت جگہ کے بھی مختلف ہیں- یعنی انسانوں میں یہی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ ایک فرد دوسرے فرد سے اور ایک قوم دوسری قوم سے مختلف ہے بلکہ جس زمانہ میں کوئی شخص یا قوم ہے اگر اسے دوسرے زمانہ میں لے جایا جائے تو اس کے حالات بھی اپنے پہلے حالات سے مختلف ہو جائیں گے- اسی طرح ایک قوم کو اس کے موجودہ ملک سے نکال کر دوسرے ملک میں لے جائو تو اس کے حالات بھی وہاں جا کر مختلف ہو جائیں گے- مثال کے طور پر انگلستان کی نو آبادیوں کو دیکھ لو- وہاں کے قوانین انگلستان سے جدا ہیں حالانکہ وہ انگلستان سے جا کر وہاں بسے ہیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک کے تغیر کے ساتھ ان کی ضرورتیں بھی بدلتی گئی ہیں- پھر ان میں آپس میں بھی اتحاد نہیں- کینیڈا کی انگریزی نو آبادیوں نے اپنے لئے اور قوانین تجویز کئے ہیں تو آسٹریا نے اور نیوزی لینڈ نے اور- اور یہ اختلاف عام قوانین میں ہی نہیں ہے بلکہ قانون اساسی میں بھی ہے- اب اگر اس اختلاف کو دیکھ کرکوئی شخص یہ مقابلہ کرنے بیٹھے کہ ان قوانین میں سے کونسا بہتر ہے تو گو بعض غلطیاں وہ نکال لے گا لیکن ایسے مقابلہ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گا کیونکہ بہت سی باتیں جنہیں وہ دوسری باتوں پر ترجیح دے گا درحقیقت ترجیح کے قابل نہیں ہونگی جو جس ملک میں رائج ہے وہاں کے لئے وہی بہتر اور مفید ہوگی- غرض ملکوں کے حالات پر غور کئے بغیر اور قوموں کے حالات پر غور کئے بغیر ایک قاعدہ کلیہ بنا لینا کہ فلاں اصول حکومت فلاں سے بہتر ہے ایک نادانی کا فعل ہے اور اس کا مرتکب آپ بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے- مختلف ممالک میں مختلف طرز کی حکومتیں بلاوجہ نہیں ہیں بلکہ دانستہ یا قلبی شعور کے ماتحت نادانستہ طور پر ملک کی خاص ضرورتوں کے مطابق لوگوں نے قوانین بنائے ہیں اور ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ یونیٹری یعنی اتصالی حکومت بہتر ہوتی ہے یا فیڈرل یعنی اتحادی- نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتصالی حکومتوں میں سے شخصی یا حکومت خواص یا جمہوری حکومت اچھی ہوتی ہے- یا یہ کہ اتحادی حکومتوں میں سے مرکز کو مضبوط کرنے والی یا مرکز کو کمزور کرنے والی حکومت اچھی ہوتی ہے- جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ فلاں ملک کے لحاظ سے یا فلاں قوم کے لحاظ سے یا فلاں مذہب کے لحاظ سے فلاں حکومت اچھی ہو سکتی ہے اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قسم کی حکومت سے قومیت پیدا ہوتی ہے- ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں ملک یا فلاں قوم یا مذہب کے لوگوں میں فلاں قسم کی حکومت سے قومیت پیدا ہو سکتی ہے- پس یہ کہنا کہ فیڈرل اصول حکومت سے قومیت کمزور ہو جاتی ہے بالکل طفلانہ خیال ہے- نہ فیڈرل طرز حکومت قومیت پیدا کرتا ہے اور نہ یونیٹری طرز حکومت قومیت پیدا کرتا ہے- قومیت تو اس خیال سے پیدا ہوتی ہے کہ فلاں نظام حکومت ہمارا ہے اس کا قائم رکھنا اور اس کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے- جو نظام بھی یہ جذبات اپنے ملک کی آبادی میں پیدا کر سکتا ہے وہ قومیت پیدا کر دے گا خواہ کسی قسم کا ہو- اور جو نظام حکومت یہ جذبہ پیدا نہیں کر سکے گا وہ اس عمل میں ناکام رہے گا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو- پس قومیت صرف اس نظام سے پیدا ہو سکے گی جو اس ملک کے باشندوں کے دلوں کو اپنے قابو میں لا سکے- تاریخ سے بیسیوں مثالیں اس کی بھی مل سکتی ہیں کہ جب جمہوریت قومیت پیدا کرنے سے محروم رہی تو شخصی حکومت نے قومیت پیدا کر دی- تازہ مثال اٹلی ہی کی موجود ہے- اسی طرح اس کی بھی مثالیں موجود ہیں کہ فیڈرل حکومت نے اعلیٰ درجہ کی قومیت پیدا کر دی جیسے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ہوا یا آئرلینڈ میں ہوا کہ برطانوی طرز حکومت بھی ایک قسم کی فیڈریشن ہے- جب تک آئرلینڈ کو انگلستان نے اپنے ساتھ ملائے رکھا آئرلینڈ نے برطانوی قومیت کے قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب اس کی تکالیف کو دور کر کے آزاد کر دیا تو آج آئرلینڈ انگلستان کے ساتھ ہے- پس اگر ہم ہندوستان کے خیر خواہ ہیں اور ہندوستان میں قومیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ مختلف اقوام اور مختلف صوبوں کو جن میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے مطمئن کریں- اور ہندوستان کے معاملہ میں اس کا علاج صرف ایک کامل فیڈریشن ہے- جب تک فیڈریشن کے ذریعہ سے ان مختلف مذاہب اور مختلف زبانوں اور مختلف تہذیب کے لوگوں کو اس خوف سے آزاد نہیں کیا جائے گا کہ ہندوستان کی قومی حکومت انہیں تباہ کر دے گی اس وقت تک اقلیتوں کے دل کبھی بھی ہندوستانی حکومت کو اپنا نہیں سمجھیں گے- اور جب تک وہ نظام حکومت کو اپنا نہیں سمجھیں گے وہ کبھی بھی قومیت کے جذبات سے متاثر نہیں ہونگے خواہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں کتنا ہی اتصال کیوں پیدا نہ کر دو- ہر ایک شخص جس نے انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا ہو سمجھ سکتا ہے کہ جب اختلاف شدید ہو اور ایک دوسرے سے خوف حد سے بڑھا ہوا ہو تو بہترین علاج یہی ہوتا ہے کہ کسی قدر علیحدہ رکھ کر سوچنے کا موقع دیا جائے ورنہ ایسے دو شخص اگر اکٹھے رکھے جائیں تو کوئی تعجب نہیں کہ ایک دوسرے کو محض اس خوف سے قتل کر دے کہ یہ مجھے قتل کرنے لگا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے لوگوں نے دانائی سے اس حکمت کو سمجھا اور وہ ایک قوم بن گئے- ہم اگر اس کو سمجھ لیں گے تو ایک قوم بن جائیں گے اور اگر بغیر مختلف نظاموں کی حقیقت اور ان کے معنی سمجھنے کے طوطوں کی طرح اصطلاحات رٹتے رہے تو خدا جانے بدنصیب ہندوستان کا انجام کیا ہوگا-
اتحادی یعنی فیڈرل طرز حکومت پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں چونکہ ثنائی یعنی ڈویل (DUAL) طرز حکومت ہوتی ہے یعنی ایک ہی شخص دو حکومتوں کی رعایا ہوتا ہے اس لئے اختلاف کے مواقع زیادہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور دونوں حکومتیں اپنے اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں- میں اس سوال کی تفصیلات میں پڑ کر مضمون کو لمبا کرنا نہیں چاہتا لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب ڈویل حکومت ایسی ہو کہ ایک کا حکم دوسری کے حکم کے متضاد ہو تب یہ فساد پیدا ہوتے ہیں لیکن جب دونوں حکومتوں کے اختیارات الگ الگ ہوں` حکومت کا دائرہ الگ الگ ہو` تو پھر اختلاف کی کیا وجہ ہو سکتی ہے- جن امور کے متعلق حکومتمقامی نے قانون بنانا ہے ان میں حکومت مرکزی نے نہیں بنانا اور جن میں اس نے بنانا ہے اس نے نہیں بنانا پھر اختلاف اور جھگڑے کی کیا ضرورت ہے- ہاں اس صورت میں اختلاف دو طرح پیدا ہو سکتا ہے یا شرارت سے یا غلطی سے- غلطی کا علاج سپریم کورٹ کرے گا- باقی رہا شرارت کا سوال- سو اگر ایک دوسرے کے خلاف بعض کا موجود ہونا تسلیم کیا جائے تو ساتھ ہی فیڈریشن کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے- پس یہ صورت حالات فیڈریشن کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید میں ایک دلیل ہوگی-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے قانون اساسی میں بیرونی اور ریاستوں کی باہمی تجارت فیڈرل گورنمنٹ کے سپرد تھی اور اندرونی تجارت ریاستوں کے سپرد تھی- مگر ریلوں کی ایجاد نے اس فرق کو اڑا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کو بہت بڑی ہوشیاری سے اس قانون کو توڑ مروڑ کر صورت حالات کے مطابق کرنا پڑا- اگر فیڈرل طریق حکومت ہوا تو اسی قسم کی مشکلات ہندوستان کو بھی پیش آئیں گی- میرا جواب یہ ہے کہ ضرورت نے ساتھ ہی یہ عقل بھی تو سکھا دی کہ موجودہ زمانہ میں ہم کانسٹی چیوشن کو کیا رنگ دے سکتے ہیں پھر ڈر کس بات کا؟ دوسرے یہ اعتراض درحقیقت اعتراض ہی نہیں کیونکہ قانون اساسی بدلا بھی تو جا سکتا ہے- جب فیڈرل حکومت کے تمام حصوں کو نئے حالات کے ماتحت کوئی نقص معلوم ہوگا تو وہ خود خواہش کریں گے کہ قانون اساسی کو بدل دیا جائے اور صوبوں کو اپنی خواہش کے بعد اس قانون کے بدلنے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی-
غرض فیڈرل طرز حکومت پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ کوئی وقعت نہیں رکھتے- یہ نظام بھی جب اس ملک میں جاری کیا جائے جس میں ملک کے مختلف حصے یا اس کی مختلف اقوام آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار نہ رکھتی ہوں اور ایک دوسرے سے خائف ہوں تو بجائے اختلاف کی خلیج بڑھانے کے اتحاد قلبی کے پیدا کرنے کے لئے راستہ صاف کر دیتا ہے اور دلوں کو اس امر کے لئے آمادہ کر دیتا ہے کہ اگر ضرورت ہو تو کسی وقت زیادہ اتصالی کیفیت گورنمنٹ پیدا کر لی جائے اور جس ملک کے مناسب حال یہ طریق حکومت ہو اس میں اس کو جاری نہ کرنا بلکہ یونیٹری (UNITARY) طریق حکومت جاری کرنا اتحاد نہیں بلکہ فساد پیدا کرتا ہے- مسٹر جیمز بیک JAMESBECK)۔(MR یونائیٹڈ سٹیٹس کے سالٹر جنرل نے یونائٹیڈسٹیٹس کے متعلق جو مندرجہ ذیل فقرہ کہا ہے اس سے ہم ہندوستان کے آئندہ نظام کے متعلق فائدہ اٹھا سکتے ہیں- وہ لکھتے ہیں-:
>ایک ایسے ملک میں جو ایٹلانٹک سے پیسفک تک اور )شمالی امریکہ کی( جھیلوں سے لے کر )میکسیکو کی( خلیج تک پھیلا ہوا ہے- جس کا شمالی کونہ قطب شمالی کے سمندر سے زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے اور جس کا جنوبی حصہ خط استواء سے کچھ زیادہ بعید نہیں ہے- عادات` رسوم اور طبائع کے لحاظ سے لوگوں میں اس قدر اختلافات میں کہ اگر ثنائیت )ڈویل (DUAL کی قسم کی حکومت نہ ہوتی تو نظام حکومت کبھی کا تباہ اور برباد ہو چکا ہوتا<- ۴۹~}~
ہندوستان کے اختلافات یونائٹیڈسٹیٹس سے بہت زیادہ ہیں- پس اگر اس ملک میں یونیٹری حکومت اتحاد نہیں بلکہ فساد پیدا کر سکتی تھی تو یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان میں اس سے قومیت پیدا ہوگی- اگر اس طریق کو اختیار کیا گیا تو قومیت پیدا نہیں ہوگی بلکہ خرابی ہوگی-
ہندوستان کے لئے فیڈرل سسٹم کے فوائد
علاوہ زبان و رسوم وغیرہ کے اختلاف کے یہ امر بھی غور کے قابل ہے کہ ہندوستان میں حقیقی اتحاد کے لئے فیڈرل اصول حکومت کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس ملک کا ایک تہائی حصہ ریاستوں کے ماتحت ہے اور جب تک وہ حصہ ہندوستان سے ان امور میں مشترک ہو کر کام نہ کرے جو آل انڈیا حیثیت کے ہیں اس وقت تک ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا اور اس کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ فیڈریشن کے اصول پر کام کیا جائے- ورنہ نیم آزاد ریاستیں کبھی بھی برطانوی ہند سے مل کر کام کرنے پر تیار نہ ہونگی-
دوسرا فائدہ فیڈرل سسٹم کا یہ ہے کہ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور اس کے مختلف صوبوں کے باشندوں کے مزاج بوجہ مختلف آب و ہوا کے مختلف ہیں- پس یہ لازمی بات ہے کہ فیڈرل سسٹم کے اجراء پر ہر صوبہ اپنی ضرورت کے مطابق حکومت کے قواعد بنائے گا اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں ہندوستان میں متفرق قسم کے سیاسی تجربات ہونے لگ جائیں گے جن تجربات سے مرکزی حکومت فائدہ اٹھائے گی اور اسے آئینی اصول کے مطابق ایک ایسی مکمل صورت اختیار کرنے کا موقع ہوگا جو شاید دنیا کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہے-
فیڈرل انڈیا کے حصے
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ ملک کے کونسے حصے اور کس اصل پر فیڈرل انڈیا کا جزو بنیں گے- میں اس وقت ریاستہائے ہند کے سوال کو چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ مستقل بحث کا محتاج ہے اور صرف برطانوی ہند کو لیتا ہوں- اس وقت ہندوستان نو آئینی صوبوں اور چند غیر آئینی علاقوں میں منقسم ہے- سوال یہ ہے کہ اس موجودہ حالت میں اس کی فیڈریشن کس طرح بن سکتی ہے- کیونکہ فیڈریشن کے اصول کے یہ امر منافی ہے کہ اس کے بعض حصے مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں- اگر ایسا ہوا تو فیڈریشن ناقص ہو جائے گی- کیونکہ اس میں یونیٹری یعنی اتصالی اور فیڈرل یعنی اتحادی دونوں قسم کی حکومتیں ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں گی- ان علاقوں کے لحاظ سے جن میں مقامی حکومت نہ ہوگی` فیڈرل اسمبلی مقامی حکومت کا رنگ رکھے گی اور ان علاقوں کے لحاظ سے جن میں مقامی حکومت ہوگی` وہ فیڈرل اسمبلی کی حیثیت رکھے گی پھر اس کے ممبروں کے انتخاب کے بھی سائمنرپورٹ کے مطابق مختلف طریق ہونگے- صوبہ جاتی حکومتوں میں تو مقامی کونسلیں اس کے ممبر منتخب کریں گی اور غیر آئینی علاقہ کے لوگ براہ راست انتخاب کریں گے اور )غیرترقییافتہ( علاقوں کے نمائندے خود گورنر جنرل منتخب کیا کریں گے یہ صورت بالکل غیرآئینیہوگی اور اس سے فساد پیدا ہوگا- فیڈرل حکومت کا کوئی حصہ فیڈریشن سے آزاد نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ خاص ضرورتوں کے ماتحت کوئی حکومت نیا شہر بسا لے جس کے باشندے یہ جانتے ہوئے وہاں بسیں کہ ہمیں لوکل حکومت میں کوئی حق نہیں ملے گا- یا یہ کہ جو حصہ مقامی آزادی سے محروم ہو وہ فیڈرل حکومت کا حصہ ہی نہ ہو بلکہ اس کا ایک ماتحت علاقہ ہو جیسے کہ یونائٹیڈ سٹیٹس میں فلپائن ہے- ان دونوں صورتوں کے سوا کوئی حصہ ملک کا حقیقی فیڈرل حکومت میں مقامی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا- صرف اس لئے نہیں کہ یہ اس پر ظلم ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ امر فیڈرل اسمبلی کو ایک جہت سے مقامی کونسل کی شکل دے دیتا ہے- جو فیڈرل اصول کے بالکل بر خلاف اور یونیٹری اصول کے مطابق ہے- فیڈرل حکومت تبھی صحیح اصول پر چل سکتی ہے جب اس کے سب حصے برابر کی آزادی رکھتے ہوں- پس جب تک ہندوستان کی موجودہ تقسیم کو نہ بدلا جائے اس وقت تک فیڈرل نظام حکومت اس ملک میں صحیح طور پر جاری نہیں ہو سکتا اور صوبہ جات کا تغیر و تبدل صرف ایک سہولت کا ہی ¶سوال نہیں بلکہ ایک اصولی سوال ہے اور اس وجہ سے اس سے زیادہ قابل توجہ ہے جس قدر توجہ کہ سائمنکمیشن نے اسے دی ہے-
سائمن کمیشن کی رپورٹ یہ ہے کہ گورنروں کے صوبوں کے سوا باقی سب صوبوں کی باستثناء شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وہی حالت رہے جو پہلے تھی اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کو بھی وہ ایک نیم آزاد سی حکومت دینا چاہتے ہیں لیکن اگر ان کی اس سفارش کو تسلیم کر لیا جائے تو کبھی بھی ہندوستان صحیح طور پر فیڈرل سسٹم کے اصول پر نشوونما نہیں پا سکتا- تعجب ہے کہ وہ ایک طرف ان صوبوں کے موجودہ نظام کو خود ہی ناقص قرار دیتے ہیں پھر اس کے قیام کی بھی سفارش کرتے ہیں- قریباً ہر گورنر کے صوبہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی غیر ترقی یافتہ (BACKWARD) علاقہ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے گورنروں کو دہرے اختیار دینے پڑیں گے- پھر چھوٹے صوبے ہیں ان میں کوئی خاص نظام حکومت ہے ہی نہیں وہ براہراست گورنمنٹ آف انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں- اس وجہ سے ہندوستان کو مجموعی حیثیت سے کوئی آئینی شکل نہیں دی جا سکتی- پس میرے نزدیک اس سوال کو ایک ہی دفعہ حل کر دینا چاہئے-
پہلے میں بیک ورڈ (BACKWARD) علاقوں کو لیتا ہوں- کہا جاتا ہے کہ تعلیم میں پیچھے ہونے کے سبب سے وہاں کے باشندے اب تک عام سیاسیات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوئے- لیکن سوال یہ ہے کہ گورنمنٹ نے اب تک ان کے لئے کوشش کیا کی ہے- خواہ وہ کس قدر بھی وحشی ہوں پھر بھی وہ سو سال سے زائد عرصہ سے حکومت برطانیہ کے ماتحت ہیں- پس کون تسلیم کر سکتا ہے کہ اس قدر لمبے عرصہ میں ان کے اندر کوئی مفید تبدیلی نہیں کی جا سکتی تھی- یہ تو بالکل درست ہے کہ وہ سینکڑوں سال کی مہذب دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے مگر ان میں کچھ تو قابلیت آتی لیکن وہ اب تک ویسے کے ویسے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہذب دنیا کی دلکشیوں نے مقامی حکام کو ادھر توجہ نہیں کرنے دی اور نہ ہی حکامبالا نے ان سے وقتاً فوقتاً یہ رپورٹ طلب کی کہ ان کی تعلیمی اور تمدنی ترقی کی طرف تم نے گذشتہ سالوں میں کیا توجہ کی ہے- پھر حکومت کی خواہش بھی انسان پر سوار رہتی ہے کہ اس لئے حکام کو یہ بھی خیال رہا ہوگا کہ ان کے ترقی کرنے پر ہمارے وہ اختیار نہیں رہیں گے جو اب ہیں- ورنہ ایک اس قدر زبردست حکومت سے جب کہ وہ لوگ پوری طرح اس کے ماتحت تھے اس کی اصلاح نہ ہو سکنا عقل کے بالکل خلاف ہے- میں اب اس امر کا ذمہ لینے کے لئے تیار ہوں کہ گورنمنٹ پندرہ بیس سال تک ان علاقوں میں سے ایک علاقہ ہمارے سپرد کر کے دیکھ لے کہ ان کی اس قدر اصلاح ہو جاتی ہے یا نہیں کہ وہ باقی لوگوں کے ساتھ مل کر گزارہ چلانے کے قابل ہو جائیں- غرض میرے نزدیک ان لوگوں کی پچھلی کمزوری صرف اور صرف ان کے غیر ترقی یافتہ (BACKWARD) قرار دینے کی وجہ سے ہے- جب تک پنجاب کو آئینی صوبہ قرار نہ دیا گیا تھا وہ بھی پچاس سالہ انتظام کے باوجود سب صوبوں سے پیچھے تھا لیکن جونہی اسے آئینی حکومت ملی دس بارہ سال کے عرصہ میں پنجاب کی حالت ہی بدل گئی ہے اور وہ اب کسی صورت میں دوسرے صوبوں سے کم نہیں- تعلیم میں وہ کئی صوبوں سے آگے نکل چکا ہے- مادی ترقی میں بھی وہ چھلانگیں مارتا ہوا دوسرے صوبوں کو پیچھے چھوڑ رہا ہے- پس غیرترقی یافتہ علاقوں کی آفت سے ہندوستان کو بچانے کا یہی واحد ذریعہ ہے کہ وہ علاقے جو غیرترقی یافتہ کہلاتے ہیں انہیں بقیہ صوبوں کے ساتھ شامل کر دیا جائے- اگر ان کے رقبے بڑے ہوتے تو میں سمجھتا کہ خواہ کسی سبب سے بھی ان کی حالت خراب ہو` لیکن جب حالت خراب ہو چکی ہے تو کیوں دوسرے صوبوں سے ملا کر انہیں بھی ان کی وجہ سے خراب کیا جائے- لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف چھوٹے چھوٹے رقبے ہیں اور انہیں دوسری آبادی کے ساتھ باقاعدہ مدد دینے سے کوئی نقص پیدا نہیں ہو سکتا- وہ دوسرے لوگوں کو ترقی سے نہیں روکیں گے بلکہ ان سے مل کر خود ترقی کر جائیں گے اس لئے انہیں باقاعدہ طور پر آئینی حکومتوں کا جزو بنا دینا چاہئے- ہر صوبہ کی آئینی حکومتیں خود ہی اپنے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی ترقی کا سامان پیدا کر لیں گی- زیادہ سے زیادہ اس امر کا انتظام کر دیا جائے کہ ان کی تعلیمی یا صنعتی ترقی کے لئے خاص افسر مقرر ہو جائیں اور خاص رقوم ان کے لئے صوبہ کے فنڈ سے الگ کر دی جایا کریں اس طرح دس پندرہ سال میں ان کی اصلاح ہو جائے گی- بہرحال ہندوستان کا حصہ ہوتے ہوئے انہیں الگ رکھنا ہندوستان کے نظام کو کمزور کرنا ہے-
انہی غیر ترقی یافتہ علاقوں میں سے جزائر انڈمان کو بھی پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں چونکہ عمر قید کے سزا یافتہ رہتے ہیں اس وجہ سے ان جزائر کی بھی اصلاح نہیں ہو سکی- اب اس قانون کو موقوف کر دیا گیا ہے لیکن یہ دلیل بھی معقول نہیں- باوجود قیدیوں کے وہاں رہنے کے اس علاقہ کی اصلاح ہو سکتی تھی اور ہونی چاہئے تھی- قیدی صرف ایک محدود علاقہ میں رہتے تھے باقی علاقہ اسی طرح آزاد ہے- پس درحقیقت اس علاقہ کے غیر ترقی یافتہ رہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ مدراس گورنمنٹ جس کے ماتحت یہ علاقہ ہے اسے اپنے قریب کے زیادہ تعلیم یافتہ علاقوں کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں ہوئی اور یہ خدا کی مخلوق ڈیڑھ سو سال تک جہالت کے گڑھے میں گری رہی ہے- اب وقت ہے کہ انہیں دوسرے لوگوں کی طرح حقوق دے دیئے جائیں- اگر وہ آج ان حقوق کو پوری طرح استعمال نہ کر سکیں گے تو کل کریں گے- وہ کونسا ملک ہے جس کے سب حصوں نے ایک ہی وقت میں یکساں طور پر آئینی حقوق سے فائدہ اٹھایا ہے- پس راستہ کھولنا ہمارا کام ہے فائدہ ہر ایک شخص اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرے گا- اور راستہ کھلنے پر ہی دل میں نشوونما کی بھی خواہش پیدا ہوگی- ہاں اگر کوئی خاص خطرہ ہو تو بعض حفاظتی تدابیر سے اس کا علاج تجویز کر لیا جائے-
اب میں ان چھوٹے صوبوں کو لیتا ہوں جنہیں پراونشل گورنمنٹ (PROVINCIALGOVERNMENT) نہیں ملی- اول دہلی ہے اس کے متعلق کسی دلیل کے بغیر کمیشن نے رپورٹ کی ہے کہ اس کا سابق انتظام ہی قائم رہے اور وہ یہ ہے کہ پنجابکونسل جو قانون پاس کرتی ہے گورنر جنرل خاص اعلان کے ذریعہ سے اسے اس صوبہ میں نافذ کر دیتے ہیں- دوسرا صوبہ کورگ کا ہے- اس کی آبادی ایک لاکھ چھتیس ہزار اور رقبہ ایک ہزار پانچ سو اسی مربع میل ہے- ریاست میسور کا ریذیڈنٹ (RESIDENT) بحیثیت عہدہ اس کا چیف کمشنر ہوتا ہے- اور ایک کونسل اس صوبہ کو ملی ہے جس کا پریذیڈنٹ خود چیف کمشنر ہے- اس وقت تک اس کونسل نے دو قانون پاس کئے ہیں- اور سال میں اوسطاً چھ دن اس کے اجلاس ہوتے ہیں- کمیشن کی رائے میں اس علاقہ کے نظام میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں- تیسرا علاقہ بلوچستان کا ہے اس میں چیف کمشنر حاکم ہے جو جرگہ کی مدد سے وہاں حکومت کرتا ہے اور اس علاقہ کی ریاستوں کے لئے ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل GENERAL) GOVERNOR THE TO (AGENT کا عہدہ بھی اسی کے پاس ہوتا ہے- کمیشن وہاں کے لوگوں کی عادات کی وجہ سے اس ملک کے انتظام میں بھی تبدیلی کی سفارش نہیں کرتا- اس کا رقبہ ایک لاکھ چونتیس ہزار تین سو اڑتیس مربع میل ہے اور آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے- لیکن اکثر رقبہ ریاستوں کے ماتحت ہے اور نصف کے قریب آبادی بھی ان میں بستی ہے- انگریزی علاقہ قریباً دس ہزار مربع میل ہے- لیکن اس کے ساتھ دائمی ٹھیکہ کا علاقہ قریباً چوالیسہزار میل ہے- چوتھا صوبہ اجمیر مارواڑ ہے- یہ علاقہ ریاستوں میں گھرا ہوا ہے اور بوجہ دوسرے صوبوں سے دور ہونے کے کمیشن اس کی نئی تشکیل کی بھی سفارش نہیں کرتا- اس صوبہ کی آبادی پانچ لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور رقبہ دو ہزار سات سو گیارہ مربع میل ہے- موجودہ نظام حکومت یہ ہے کہ راجپوتانہ کی ریاستوں کے لئے گورنر جنرل کا جو ایجنٹ مقرر ہوتا ہے وہی اس کا چیف کمشنر ہوتا ہے- پانچواں صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ ہے جس کی آبادی قریباً چالیس لاکھ ہے- اور رقبہ تقریباً چالیس ہزار مربع میل ہے- اس کا موجودہ انتظام یہ ہے کہ ایک چیف کمشنر وہاں مقرر ہوتا ہے جو فارن آفس کی معرفت گورنر جنرل کے ماتحت ہے- اس صوبہ کے لئے خاص قوانین گورنر جنرل کی طرف سے مقرر ہیں- وہ یہ پانچ صوبے ہیں جو علاوہ ان علاقوں کے جو بیک ورڈ (BACKWARD) کہلاتے ہیں اس وقت تک اصلاحات سے محروم ہیں لیکن کوئی معقول وجہ نہیں کہ انہیں اصلاحات سے محروم رکھا جائے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں کورگ کو بڑی آسانی سے مدراس سے ملایا جا سکتا ہے- کمیشن کا یہ بیان کہ اس علاقہ کا مذہب اور اس کی قومیت مختلف ہے کوئی دلیل نہیں کیونکہ مذہب اور قومیت کا اختلاف دوسرے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے- اصل بات جو دیکھنے والی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ علاقہ جغرافیہ اور تاریخی حیثیت سے الگ حیثیت رکھتا ہو اور دوسرے علاقہ سے مل کر اس کی ترقی میں روک پیدا ہونے کا احتمال ہو اور اس میں الگ صوبہ بننے کی قابلیت ہو اور یہ باتیں کورگ میں نہیں پائی جاتیں- پس کوئی وجہ نہیں کہ اسے مدراس کے ساتھ شامل کر کے اس دو عملی کو جو ملک میں پیدا ہے دور نہ کیا جائے- زبان اور مذہب کے متعلق اس قسم کی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں جو دوسری اقلیتوں کو حاصل ہیں- جیسے کہ اس علاقہ میں ابتدائی تعلیم مقامی زبان میں ہوگی- یا یہ کہ اس علاقہ کے لوگوں کو تناسب آبادی کے لحاظ سے ملازمتیں وغیرہ ملتی رہیں گے- غرض ان کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کر کے مدراس کے ساتھ ملا دینا چاہئے-
اسی طرح اجمیر ماڑواڑہ کے علاقہ کو باوجود اس کے کہ وہ یو-پی سے کسی قدر فاصلہ پر ہے یو-پی میں ملا دینا چاہئے کیونکہ دونوں علاقوں کی زبان اور رسم و رواج بالکل ایک سے ہیں اور ان کے ملانے میں کوئی روک نہیں ہے- باقی رہا یہ کہ درمیان میں ریاستوں کا علاقہ ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے- کئی اور علاقے یو-پی کے ہیں جو مرکز سے قریباً اسی قدر فاصلہ پر ہیں- جس قدر کہ اجمیر ماڑواڑ کا علاقہ ہے- اور بعض مقامی ضرورتوں کے لئے الگ انتظام کیا جا سکتا ہے- جیسے مثلاً ایک جوڈیشنل کمشنر کی اسامی مقرر کر دی جائے-
تیسرا علاقہ بلوچستان کا ہے یہ علاقہ بھی آبادی اور آمدن کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے گو رقبہ کے لحاظ سے کافی ہے- کیونکہ خالص انگریزی علاقہ بھی قریباً سو میل لمبا اور سو میل چوڑا ہے لیکن اگر ایجنسی کا علاقہ جو براہ راست انگریزی افسروں کے انتظام کے ماتحت ہے شامل کر دیا جائے تو ترپین ہزار مربع میل کا رقبہ ہو جاتا ہے جو بہار اور اڑیسہ کے دو تہائی کے برابر ہے اور آسام سے تھوڑا ہی کم بنتا ہے- پس اس وجہ سے یہ علاقہ اس امر کا مستحق ہے کہ اس کو ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے- تو امید ہے کہ تھوڑے عرصہ میں اس علاقہ کی آبادی اور آمدن دونوں میں ترقی کی دی جائے گی کیونکہ اس وقت تک بوجہ غیر آئینی صوبہ ہونے کے اس علاقہ میں بسنے سے لوگ گھبراتے ہیں- اور جس قسم کا سلوک نو واردوں سے اس علاقہ میں ہوتا ہے وہ لوگوں کو جرات نہیں دلاتا کہ اسے اپنا وطن بنائیں- لیکن جونہی کہ اس صوبہ کو آئینی شکل دے دی گئی تو پنجاب اور سندھ کی آبادی کا کچھ حصہ شوق سے اس میں اپنے لئے ترقی کے نئے راستے نکالنے کی کوشش کرنے کے واسطے تیار ہو جائے گا- یہ خیال کہ اس صوبہ کی آمدن کم ہے اس تجویز کے راستہ میں روک نہیں بننا چاہئے کیونکہ اب بھی اس صوبہ پر امپیرئل گورنمنٹ (IMPERIALGOVERNMENT)ہی روپیہ خرچ کرتی ہے- اگر چند سال تک امپیریلگورنمنٹ اور خرچ کرے گی تو اس ملک کی آمدن خود بخود ترقی کرے گی اور وہ ملک کی عظمت اور ترقی کا موجب ہوگا- لیکن اگر کسی طرح اس تجویز پر عمل نہ کیا جا سکے تو پھر میری رائے میں بہتر ہوگا کہ یا تو اسے صوبہ سرحدی کے ساتھ ملا دیا جائے کہ ساری سرحد ایک نظام کے ماتحت آ جائے- یا پھر سندھ کے ساتھ ملا دیا جائے کہ اس ملک کے ساتھ باقی علاقوں کی نسبت بلوچستان کو زیادہ مشابہت ہے اور ریل کی وجہ سے آمدورفت میں بھی سہولت ہے- باقی جو علاقہ ریاستوں کا ہے وہ دوسری ریاستوں کی طرح پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ (POLITICALDEPARTMENT)سے تعلق رکھے گا-
دہلی کی نسبت بھی میں تو یہی کہوں گا کہ اگر اسے الگ رکھنا ہے تو اس کو بھی ایک صوبہ کی شکل دے دی جائے اور اس کا بہتر طریق یہ ہے کہ ایک دو تحصیلیں پنجاب اور ایک دو تحصیلیں یو-پی کے صوبہ سے لے کر اس کا علاقہ ذرا بڑا کر لیا جائے- چونکہ دہلی بوجہ صدر مقام ہونے کے جلد ترقی کر رہا ہے اور امید ہے کہ اپنے صوبہ کے اخراجات برداشت کرنے اس کے لئے مشکل نہ ہونگے نیز چونکہ اس کا بہت سا خرچ بوجہ صدر مقام ہونے کے ہوگا امپیریل گورنمنٹ کو اس کے اخراجات ادا کرنے میں کوئی دریغ نہیں ہونا چاہئے- لیکن اگر یہ تجویر کسی وجہ سے ناقابل عمل ہو تب بھی میں یہ کہوں گا کہ اسے صوبہ جاتی حکومت دینی چاہئے- اگر سوئٹررلینڈ کی کنٹنز (CANTONS) کو جو دہلی سے بہت چھوٹی ہے لوکل سیلف گورنمنٹ (LOCALSELFGOVERNMENT) کے اختیارات حاصل ہیں تو کیوں دہلی کو یہ اختیارات حاصل نہ ہوں-
اب صرف صوبہ سرحدی رہ جاتا ہے- میرے نزدیک وہ بھی اسی طرح آزادی کا مستحق ہے جس طرح اور صوبے- کمیشن نے ایک عجیب مثال دے کر اس صوبہ کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا چاہا ہے- وہ لکھتا ہے کہ ایک پائوڈر میگزین (POWDERMAGAZINE) میں کھڑا ہونے والا شخص اپنے لئے عمل کی آزادی کا مطالبہ کر کے سگریٹ نوشی کا لطف نہیں اٹھا سکتا- اس سرحد کے مقام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں کے باشندے بھی دوسرے صوبوں کی طرح اختیارات نہیں مانگ سکتے- اول تو یہ مثال ہی غلط ہے- گن پائوڈر میگزین میں جانے والا تو خود اس جگہ جاتا ہے لیکن یہاں تو آپ خود دوسرے کے گھر میں گن پائوڈر کی میگزین بنا دیتے ہیں- آپ کو یہ اجازت کہاں سے حاصل ہوئی کہ کسی کے گھر میں جا کر بارود رکھ دیں اور پھر اس سے مطالبہ کریں کہ اب تم آگ نہ جلائو کہ ہمارے پائوڈر کو آگ لگ جائے گی- صوبہ سرحد والے تو جواب دیں گے کہ یہ حالت تو آپ لوگوں کی اپنی پیدا کی ہوئی ہے ہمیں آزاد کر دو پھر دیکھو ہم اپنے وطن کا انتظام کر لیتے ہیں یا نہیں-
دوسرے یہ امر دیکھنا چاہئے کہ صوبہ سرحدی کے فساد کا اصل باعث ہی اس صوبہ کو حقوق کا نہ ملنا ہے- سرحد کا پٹھان دیکھتا ہے کہ اس کا بھائی ڈیورنڈلائن سے پرے ایک پوری آزاد حکومت چلا رہا ہے اور اس سے ورے بھی ایک اندرونی طور پر آزاد حکومت حاصل ہے لیکن یہ اس کا رشتہ دار اور اس سے زیادہ تعلیم یافتہ اپنے گھر کا انتظام کرنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمیشہ اپنے آزاد علاقہ کے بھائیوں کو شورش پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور وہ لوگ بھی اس کی ہمدردی میں حکام سرحد کو تنگ کرتے رہتے ہیں- یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب ان لوگوں کے دلوں میں بھی آزادی کا ولولہ اٹھنے لگے جو آزاد حکومتوں سے نہ مکانی قرب رکھتے ہیں اور نہ نسلی تو وہ لوگ جو آزاد حکومتوں کے ہمسایہ ہیں اور نسلا ان سے متحد ہیں حتیٰ کہ ان کی آپس میں کثرت سے شادیاں بھی ہوتی رہتی ہیں وہ آزادی کے جذبات سے خالی رہیں- اور پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ انہیں آزادی سے محروم کر کے امید کی جائے کہ وہ گنپائوڈر کے خیال سے دیا سلائی نہ جلائیں- وہ تو ضرور دیا سلائی جلائیں گے تا کہ گن پائوڈر اڑ جائے اور شاید اس طرح ان کے لئے آزادی کا راستہ کھل جائے-
کمیشن جس نتیجہ پر صوبہ سرحدی کے متعلق پہنچا ہے وہ بالکل نرالا ہے- دنیا کی دوسری اقوام اپنے سرحدی قبائل کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تا کہ وہ ملک کے لئے بطور سپر کے کام دیں- لیکن کمیشن یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ انہیں دوسروں کی طرح حقوق نہ دیئے جائیں کیونکہ یہ سرحد پر ہیں- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ کبھی مطمئن نہ ہوں اور ہمیشہ سرحدی قبائل کو اکساتے رہیں- انگلستان اگر جزیرہ ہے تو کیا ہوا کیا دنیا کی اور
‏a11.11
ہمیشہ سرحدی قبائل کو اکساتے رہیں- انگلستان اگر جزیرہ ہے تو کیا دنیا کی اور حکومتیں ایسی ہیں یا نہیں جن کی حدود دوسرے ممالک سے ملتی ہیں- پھر کیا وہ اپنے ان علاقوں کو آزادی سے محروم کر دیا کرتی ہیں؟
یہ بات کہ سرحد تبھی مضبوط ہو سکتی ہے جب کہ سرحدی صوبہ کے لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ ہمارا ملک ہے اور جو شخص حملہ کرتا ہے وہ ہماری آزادی میں دخل اندازی کرتا ہے ایسی موٹی بات ہے کہ ایک بچہ بھی اسے سمجھ سکتا ہے- سرحدیوں کو یہ یقین دلا دو کہ تم کو دوسرے صوبوں کی طرح حقوق نہیں مل سکتے تو دیکھو کہ وہ کس طرح آئے دن کوشش کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی ہمسایہ اقوام اور اپنے ہم قوم لوگوں سے مل جائیں- لیکن اس کے برخلاف ان کو اپنے صوبہ میں آزاد حکومت دو پھر دیکھو کہ وہ کس طرح سرحد کی حفاظت کرتے ہیں- اور اصل بات تو یہ ہے کہ اسی دن سے آزاد قبائل بھی دخلاندازی سے باز آ جائیں گے جس دن کہ سرحدی صوبہ کو اختیارات مل گئے کیونکہ وہ انگریزیعلاقہ کے پٹھانوں سے گہرے تعلق پیدا کر چکے ہیں اور اگر وہ ان پر حملہ آور ہوں گے تو انہیں ان تعلقات کو خیر باد کہنا پڑے گا اور پشاور کوہاٹ اور بنوں کے لوگوں سے ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اس لئے وہ ان حملوں سے باز رہیں گے- اور جب حملوں سے باز رہیں گے تو لازماً اپنے گزارہ کے لئے انہیں اور کوئی ذریعہ معاش کا تلاش کرنا پڑے گا اور اس طرح باہستگی وہ متمدن ہوتے چلے جائیں گے-
آخر میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کمیشن بھی اس امر کو تو تسلیم کرتا ہے کہ موجودہ انتظام چھوٹے صوبوں کا عارضی ہے لیکن اس نے یہ غور نہیں کیا کہ کم سے کم کورگ اور اجمیر مارواڑہ کے متعلق جو مشکلات ہیں وہ عارضی نہیں ہیں- نہ کورگ والوں کا مذہب اور زبان تبدیل ہونے کا کوئی سیاسی احتمال ہے اور نہ اجمیر مارواڑہ کا علاقہ کسی وقت کسی دوسرے صوبہ کے قریب ہو سکتا ہے پھر اس وقت ان کے متعلق قطعی فیصلہ نہ کرنے سے کونسا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے- آئندہ پر تو ان امور کا فیصلہ ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق احتمال ہوتا ہے کہ شاید کل کو حالات تبدیل ہو جائیں- جب حالات سیاستا وہی رہیں گے جو آج ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان کا فیصلہ بعد میں کیا جائے- پس یا تو یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان چھوٹے چھوٹے چند صوبوں کی وجہ سے ہندوستان کی فیڈریشن کبھی بھی مضبوط نہ کی جائے گی اور یا پھر انہیں کسی نہ کسی صوبہ کے ساتھ ملا دیا جائے-
اسی طرح وہ صوبے جنہیں مستقل شکل میں رکھنا ہے ان کے متعلق بھی ابھی فیصلہ ہونا چاہئے کہ انہیں بھی آزاد حکومت ملے گی کیونکہ بغیر اس کے فیڈریشن مضبوط نہیں ہو سکتی- ہاں آزاد حکومت سے مراد یہ نہیں کہ تمام صوبوں کو ایک ہی شکل کی حکومت ملے- میں اسے بالکل غیر معقول بات سمجھتا ہوں کہ ہمارے وزراء کی تنخواہیں بھی انگلستان مقرر کرے- اگر تنخواہوں تک کا سوال انگلستان نے حل کرنا ہے تو پھر آزادی کا کیا مطلب ہوا- اصل طریق فیصلہ کا تو یہ ہے کہ وہ آزادی کی مقدار جو اس وقت ہندوستان اور ہندوستانیوں کو ملتی ہے اس کا فیصلہ اب ہو جائے- اور پھر ہر صوبہ کی کونسل اپنا نظام حکومت خود تجویز کرے- یہی اتحادی حکومت کی غرض ہوتی ہے اور اگر یہ غرض پوری نہ ہو تو اتحادیت کی بنیاد یقیناً کمزور ہو گی- یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ریاستوں کے نظام آپس میں مختلف ہیں لیکن ان کی فیڈریشن میں کوئی نقص نہیں اسی طرح ہندوستان میں ہونا چاہئے- اگر پنجاب اپنے وزراء کو تین ہزار تنخواہ دینا چاہتا ہے اور بنگال چھ ہزار تو اس پر انگلستان کے باشندوں کو کیا اور کیوں اعتراض ہو سکتا ہے- اسی طرح اگر انتخاب کے طریقوں میں وہ فرق کرنا چاہتے ہیں بغیر اس کے کہ کسی قوم یا کسی جماعت کے حق کو نقصان پہنچے تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے- اسی طرح اگر وزارت کے متعلق مختلف صوبے آپس میں اختلاف کریں- کوئی صوبہ وزارت کا انتخاب کونسلوں کے سپرد کرے- لیکن کونسلوں کی عمر تک انہیں مستقل عہدہ دے دے- دوسرا ان کا عہدہ پر قائم رہنا کونسلوں کی مرضی کے تابع رکھے تو اس سے نہ تو حکومت ہی کمزور ہوتی ہے نہ فیڈریشن میں کوئی نقص آتا ہے- غرض بیسیوں طریق حکومت کے جو مختلف ملکوں کے تجربہ میں آ چکے ہیں` انہیں مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ جات اگر اپنی ضرورتوں کے مطابق کوئی نظام قائم کریں تو اس پر انگلستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے- جس بات کی حد بندی کی ضرورت ہے وہ صرف یہ ہے کہ بادشاہ معظم نے جو حقوق محفوظ رکھے ہوں یا جو حقوق مرکزی گورنمنٹ کو دیئے گئے ہوں یا جو حقوق اقلیتوں کے لئے محفوظ رکھے گئے ہوں انہیں تلف نہ کیا جائے- ان تینوں شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہر صوبہ کو اجازت ہو کہ اپنی ضرورت کے مطابق انتظام کرے اور اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو چھوٹے صوبوں کو اپنے صوبوں کا انتظام کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی- سوئٹررلینڈ اگر اپنے وزراء کو نہایت قلیل معاوضہ دیتا ہے اور اس کے نظام میں کوئی نقص نہیں آ جاتا تو اگر بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی ایسا ہی کریں تو اس میں کیا نقص ہے- آخر صوبہ سرحدی کا ہمسایہ افغانستان اپنے وزراء کو بہت کم تنخواہیں دیتا ہے اور اس بناء پر اس کے انتظام کو ناقص نہیں کہا جا سکتا- اگر کوئی نقص ہے تو اس کی وجوہ اور ہیں- اسی طرح موجودہ شکل گورنمنٹ کی جو سب صوبوں میں یکساں طور پر جاری ہے اس کے اندر بھی حسب ضرورت تبدیلی کر کے کام کو ہلکا اور اخراجات کو بہت کم کیا جا سکتا ہے- ہمارے ملک کی مثال ہے کہ جتنی چادر دیکھو اتنے پائوں پھیلائو-
غرض میرے نزدیک فیڈریشن کے اصل کو صحیح طور پر چلانے کیلئے ہندوستان کے تمام برطانوی علاقہ کا اسی وقت ایک مکمل فیصلہ ہو جانا چاہئے- ورنہ حکومت میں ثنائیت )دوشاخی( قائم رہے گی اور ہر ایک حکومت خواہ صوبہ جاتی ہو خواہ مرکزی اس میں یہ دہری صورت پائی جائے گی کہ ایک حصہ ملک کے لحاظ سے وہ آئینی اور ایک حصہ ملک کے لحاظ سے غیر آئینی حکومت رہے گی- بلکہ مرکزی حکومت میں تو یہ تین شاخیں پیدا ہو جائیں گی- آئینی مرکزی اور غیر آئینی مرکزی اور صوبہ جاتی- کیونکہ چھوٹے صوبوں کے لئے وہ صوبہ جاتی حکومت کی قائم مقام رہے گی- کانفرنس اگر اس امر کا فیصلہ کئے بغیر اٹھے گی تو وہ یقیناً ایک سخت غلطی کی مرتکب ہوگی اور دونوں فریق کچھ عرصہ کے بعد ان علاقوں کے ذریعہ سے نئے فتنے اٹھتے ہوئے دیکھیں گے-
اب میں ان صوبہ جات کو لیتا ہوں جنہیں صوبہ جاتی آزادی کی پہلی قسط مل چکی ہے- ان صوبہ جات کی دو حالتیں ہیں- ان میں سے بعض تو ہندوستان سے علیحدہ ہونا چاہئے ہیں- جیسے برما اور بعض پھٹ کر دو صوبے بننا چاہتے ہیں- جیسے سندھ` اڑیسہ اور کرناٹک وغیرہ- الگ ہونے کا مطالبہ صرف برما کا ہے اور میرے نزدیک یہ مطالبہ بالکل معقول ہے- برما کبھی بھی صحیح طور پر ہندوستان کا حصہ نہیں بنا بلکہ تاریخی اور جغرافیائی اور نسلی اور زبانی اور اقتصادی اور تمدنی طور پر وہ بالکل ہندوستان سے الگ ہے اور عملاً بھی اب تک الگ رہا ہے- چنانچہ گورنمنٹ آف انڈیا کے دفاتر میں تمام صوبہ جات کے افراد ملتے ہیں لیکن برمی نہیں ملتے- اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ہندوستان سے اپنے آپ کو الگ سمجھتے ہوئے اس کو ایک دوسرا ملک خیال کرتے ہیں اور اس کے مرکز میں آ کر اپنے حقوق لینے کو بھی ایک قسم کی جلاوطنی خیال کرتے ہیں- پس جو صوبہ اس طرح علیحدہ رہا ہے اور جو ہر شعبہ زندگی میں ہندوستان سے مختلف ہے اسے ہندوستان سے ملائے رکھنا اسے غلام بنانے کے مترادف ہے- برما کا اختلاف ہندوستان سے سیلون کی نسبت بھی زیادہ ہے- اور اگر سیلون کو اس سے الگ رکھا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ برما کو الگ نہ رکھا جائے- پس اس صوبہ کو تو الگ اور آزاد حکومت ملنی چاہئے- اور جب ہم یہ فیصلہ کر دیں تو برما کے سوال کے متعلق ہمیں کسی مزید توجہ کی ضرورت نہیں رہتی-
نئے صوبہ جات
‏]1ttex [tagدوسرا سوال صوبہ جات کی تقسیم کا ہے- جب سے بعض صوبہ جات کو ایک حد تک آزادی حاصل ہوئی ہے ملک کے کئی حصوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی مستقل صوبہ قرار دیا جائے- یہ علاقے مندرجہ ذیل ہیں- سندھ` اڑیسہ` کرناٹک` کیرالا اور آندھرا- نہرو رپورٹ نے کرناٹک اور سندھ کے دعویٰ کی تائید کی ہے اور سائمن رپورٹ نے اڑیسہ اور سندھ کے علاقہ کی- جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ تینوں صوبے الگ حکومت دیئے جانے کے قابل ہیں اور ایسا کر دینا چاہئے تا کہ ہندوستان کے صوبوں کی تقسیم کا ایک دفعہ ہی فیصلہ ہو جائے- بقیہ علاقے چھوٹے اور غیر اہم ہیں- ان تین نئے صوبوں کو بنانے سے بمبئی` مدراس اور بنگال اور بہار کے علاقے کاٹنے پڑیں گے- لیکن موخر الذکر علاقے کافی آباد ہیں اور کم سے کم آبادی کے لحاظ سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور بوجہ آبادی کی زیادتی کے ان میں مالی طور پر جلد مضبوط ہونے کی طاقت تسلیم کرنی چاہئے- باقی رہا مدراس` سو اس کا رقبہ تو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور آبادی بھی کافی ہے- دوسرے کرناٹک کو الگ کر کے کورگ کو اس میں شامل کر دیا جائے تو کسی قدر اس علاقہ کی تلافی ہو جائے گی- بمبئی میں سے ایک بہت بڑا حصہ یعنی سندھ نکل جاتا ہے لیکن پھر بھی ایک لاکھ چالیس ہزار مربع میل کے قریب اس کا رقبہ باقی رہ جاتا ہے اور دو کروڑ تیس لاکھ کے قریب آبادی جس سے اس صوبہ کی آبادی اور رقبہ دونوں پنجاب کے رقبہ اور آبادی کے قریب آ جاتے ہیں اور یہ حالت اس صوبہ کے لوگوں کے لئے ہر گز پریشان کن نہیں ہونی چاہئے-
ان سب صوبوں میں سے سندھ کا مطالبہ سب سے زبردست ہے- سندھ تاریخ کے لحاظ سے` جغرافیہ کے لحاظ سے` زبان کے لحاظ سے` عادات اور رسوم کے لحاظ سے` آب و ہوا کے لحاظ سے` لباس کے لحاظ سے غرض کسی لحاظ سے بمبئی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا- کبھی بھی تاریخی زمانہ میں یہ علاقہ بمبئی سے متحد نہیں ہوا بلکہ پرانے زمانہ میں تو اسے ہندوستان سے بھی الگ سمجھتے تھے اور اسلامی حملہ سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس ملک پر ہندوستانی راجوں نے حکومت کی ہے- پس جو علاقہ کہ بمبئی سے ہر رنگ میں جدا ہے اسے اس کے اکثر باشندوں کی خواہش کے خلاف بمبئی سے ملحق رکھنا کسی طرح جائز نہیں-
کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی مالی حالت اچھی نہیں اور اس وجہ سے یہ اپنا بوجھ خود نہیں اٹھا سکے گا- نہرو رپورٹ اور سائمنرپورٹ دونوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے مگر میرے نزدیک یہ اعتراض ان کا درست نہیں- اگر آسام اپنا بوجھ آپ اٹھا سکتا ہے تو کیوں سندھ جو پنجاب کے دریائوں کے دہانے پر ہے اور جو کراچی جیسی بندرگاہ رکھتا ہے ترقی نہیں کر سکتا- اصل بات یہ ہے کہ سندھ کی مالی حالت بمبئی سے ملحق ہونے کی وجہ سے کمزور ہے ورنہ جیسا کہ کئی تجربہکار انگریزوں اور ہندوستانیوں نے جو اس صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنی تحقیق بتائی ہے یہ صوبہ اب تک بہت ترقی کر چکا ہے بمبئی اور کراچی میں رقابت ہے اور اس کی وجہ سے کراچی کی ترقی کے راستہ میں ہمیشہ روک پیدا کی جاتی رہی ہے- اسی طرح اس کی زمینوں کے آباد کرنے اور اس میں سڑکوں اور ریلوں کے جاری کرنے کی طرف بہت کم توجہ ہوئی ہے- اسی طرح ملک میں تعلیم پھیلانے کی طرف بھی بہت کم توجہ ہوئی ہے اور جب کسی صوبہ کو ترقی کے سامان نہ دیئے جائیں گے تو وہ ترقی کس طرح کرے گا- بمبئی سے الگ ہوتے ہی خصوصاً اس کی نئی نہروں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ صوبہ جلد ترقی کر جائے گا اور اپنا بوجھ خود اٹھا سکے گا- اس وقت تک مرکزی حکومت سے اسے اپنے اخراجات کو چلانے کے لئے کچھ قرض دیا جا سکتا ہے- نیز اس کا نظام حکومت ایسا تیار کیا جا سکتا ہے کہ باوجود پوری آزادی کے اس کا خرچ زیادہ نہ ہو- گورنر اور وزراء کی تنخواہیں کم ہوں` وزراء کی تعداد کم ہو` کونسل کے ممبروں کی تعداد کم ہو` شروع میں اسے الگ ہائی کورٹ نہ دیا جائے بلکہ بمبئی یا پنجاب سے عدالتوں کا الحاق رہے` یونیورسٹی چند سال تک نہ بنے` غرض کئی طرح کفایت کر کے اس صوبہ کو جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے- باقی رہا وہ قرض جو نہروں کی وجہ سے بمبئی نے اس کیلئے لیا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ نہروں کے اجراء پر زمینوں کی فروخت سے ادا کیا جا سکے گا-
میرے نزدیک سب سے اہم بات جسے مدنظر رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں عام احساس ہے کہ جن علاقوں میں مسلمان زیادہ ہیں انہیں یا تو دوسرے علاقوں سے ملحق کر دیا جاتا ہے یا پھر حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے- پنجاب اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کی مثال ظاہر ہے- پنجاب بہت قریب زمانہ سے حقوق حاصل کر سکا ہے- بنگال کو بھی ناجائز تدابیر سے دیر تک ہندو صوبہ بنائے رکھا گیا ہے- چنانچہ باوجود اس کے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ۱۸۳۳ء میں آگرہ کا صوبہ بنانے کی اجازت لے چکی تھی اور یہ فیصلہ تھا کہ بہار کا علاقہ اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا لیکن اس پر عمل نہ ہوا اور آخر لارڈ کرزن (LORDCURZON) نے جن کا حسن سلوک وہ مسلمان جو تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے کی عادی ہیں کسی صورت میں نہیں بھلا سکتے- ۱۹۰۵ء میں مشرقی بنگال کو جدا کر کے مسلمانوں کی ترقی کا راستہ کھولا- مگر ان پر وہ لے دے ہوئی کہ آخر ملک معظم کو دربار دہلی میں اس تقسیم کو منسوخ کرنا پڑا- لیکن وہی غرض جو لارڈ کرزن کے ذہن میں تھی کہ مسلمانوں کو کسی طرح ترقی کا موقع ملے اس طرح پوری کی گئی کہ بہار اور اڑیسہ کو بنگال سے علیحدہ کر دیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کا عنصر بنگال میں زیادہ ہو گیا- غرض مسلمانوں کو یہ شکایت ہے اور مجموعی حیثیت میں نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجا شکایت ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اسلامی صوبوں کو حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے- پس صحیح طریق کار یہی ہے کہ ان کی اس دیرینہ اور جائز شکایت کو دور کر کے فتنہ و فساد کے سامانوں کو جس قدر ہو سکے کم کیا جائے-
خلاصہ یہ کہ جس قدر حصے ہندوستان کے آئینی نظام سے باہر ہیں ان کو کسی نہ کسی طرح نظام میں شامل کر دیا جائے اور کسی حصہ ملک کو دوسرے سے زائد آزادی نہ دی جائے تا کہ فیڈریشن اصولی طور پر مکمل ہو جائے اور صوبہ سرحدی اور بلوچستان کو آزادی میں برابر گو شکل کے لحاظ سے مختلف حکومت جس کی تدریجی ترقی کے سامان پورے طور پر خود ان صوبوں کے قانون اساسی میں موجود ہوں دی جائے- سندھ کو فوراً بمبئی سے الگ کر کے آزاد آئینی صوبہ کی شکل میں تبدیل کر دیا جائے اور اڑیسہ اور کرناٹک کو بھی الگ الگ صوبے بنا دیا جائے- اسی طرح اگر دہلی کو الگ صوبہ بنایا گیا تو چودہ صوبے ہو جائیں گے اور اگر اسے کسی اور علاقہ کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تو تیرہ صوبے ہندوستان کے ہو جائیں گے جن میں سے پانچ اسلامی صوبے ہونگے اور ۸ ہندو صوبے-
باب سوم
صوبہ جات کی حکومت
سائمن رپورٹ نے چونکہ موجودہ طریق حکومت کو قائم رکھنے کی سفارش کی ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دو علیحدہ علیحدہ باب باندھے ہیں- ایک میں گورنروں کے صوبوں پر بحث کی ہے- اور دوسرے میں چیف کمشنروں کے صوبوں کے متعلق بحث کی ہے- لیکن چونکہ میرے نزدیک یہ اصول ہی غلط ہے کہ ایک فیڈریشن کے مختلف حصے مختلف قسم کے اختیارات رکھتے ہوں کیونکہ فیڈریشن کے معنی ہی یہ ہیں کہ عملا یا ذہنا ہر ایک حصہ پورا آزاد ہو اور اپنی طرف سے مرکز کو بعض اختیارات اتحاد ملکی کی خاطر دے اس لئے میں نے پہلے باب میں یہ بتایا ہے کہ سب حﷺ ملک کو ایک ہی سطح پر لے آنا چاہئے اور جو حصے ملک کے گورنروں کے صوبوں سے باہر ہیں` انہیں یا تو کسی دوسرے صوبہ سے ملا دینا چاہئے یا پھر ان کو مستقل صوبہ کی شکل میں تبدیل کر دینا چاہئے- پس ان حالات میں میں نے اس باب کا عنوان >گورنروں کے صوبے< نہیں بلکہ >صوبہ جات کی حکومت< رکھا ہے- اس حکومت کے مختلف حصوں میں سے سب سے پہلے میں ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کو لیتا ہوں-
۱- صوبہ جات کی ایگزیکٹو
دو شاخی حکومت
سائمن رپورٹ نے مختلف تجاویز پر بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دوشاخی (DAIRCHY) حکومت کا طریق ہندوستان سے اب بالکل مٹا دیا جائے- عام حالات کے مطابق میرے نزدیک بھی اب وقت آ گیا ہے کہ ایسا ہی کیا جائے- گو میرے نزدیک دوشاخی حکومت کے خلاف جو الزامات ہیں وہ اس قدر اس طریق حکومت پر وارد نہیں ہوتے جس قدر کہ اس تشکیل پر جو اس طریق حکومت کو ہندوستان میں دی گئی تھی- جہاں تک مجھے یاد ہے پہلا شخص میں تھا جس نے اس طریق حکومت کی احمدیہ جماعت کے میموریل میں سفارش کی تھی لیکن میری سکیم مندرجہ ذیل اصل پر مبنی تھی کہ جو حصہ اختیارات کا ملک کے سپرد کیا جائے وہ پورے طور پر اس کے سپرد رہے اور جو حصہ سپرد نہ ہو وہ پورے طور پر سپرد نہ ہو- اس وقت مسٹر مانٹیگو MONTANGUE) ۔(MR اس سے متاثر معلوم ہوتے تھے لیکن دھلی کے بعد جہاں احمدیہ جماعت کا وفد پیش ہوا تھا کلکتہ میں یہی سکیم دوسری شکل میں مسٹر کرٹس کی مدد سے ان کے سامنے پیش کی گئی اور چونکہ وہ زیادہ مکمل صورت میں تھی مسٹر مانٹیگو اس کی طرف راغب ہو گئے- جب ان کی رپورٹ آئی تو پنجاب گورنمنٹ نے جس کے رئیس اس وقت سراوڈ وائر O'DWYER) (SIR تھے ایک کاپی اس کی میرے پاس بھی بھجوائی اور میری رائے اس کے متعلق دریافت کی- میں نے اس پر ایک تفصیلی تبصرہ لکھا اور بتایا کہ یہ طریق فساد پیدا کرے گا- بہتر یہ تھا کہ جو ا ختیارات انہوں نے دینے تجویز کئے ہیں ان سے تھوڑے اختیارات ہندوستانیوں کو دیئے جاتے لیکن مکمل طور پر دیئے جاتے اور جن امور میں اختیار نہیں دیا گیاان میں خواہ اظہار رائے کی اجازت دی جاتی یا نہ لیکن کونسل یا اسمبلی کو متفقہ طور پر اس بارہ میں کوئی ریزولیشن پاس کرنے کی اجازت نہ دی جاتی کیونکہ انسانی فطرت کے یہ خلاف ہے کہ وہ ایک حد تک چل کر درمیان میں کھڑا رہ سکے- اس وقت میری اس رائے کی طرف توجہ نہیں دی گئی غالباً اس وجہ سے کہ وہ ایک مذہبی امام کی طرف سے تھی نہ کہ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے` مجھے خوشی نہیں بلکہ افسوس ہے کہ وہی خطرات جن کو میں نے تفصیلا بیان کیا تھا ظاہر ہوئے اور ملک میں فساد کی ایک رو چل گئی- پس میرے نزدیک دوشاخی حکومت کی وہ شکل جو ہندوستان میں جاری کی گئی ناقص تھی- دوسری صورت میں وہی دوشاخی حکومت کامیاب ہو سکتی تھی- مگر بہرحال اب جب کہ اس طریق حکومت کا تجربہ کیا گیا ہے اب واپس لوٹ کر پھر نئے سرے سے تجربہ نہیں کیا جا سکتا- دوسری طرف پچھلے بارہ سال میں ملک کے حالات بھی بدل گئے ہیں اور اب ضرورت ہے کہ قدم آگے بڑھایا جائے اس لئے میں کمیشن کی رپورٹ کی تائید کرنے پر مجبور ہوں- گو میرا خیال ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کی پوری طرح تصدیق کرنا اب بھی ملک کو فسادات کا آماجگاہ بنا دے گا- مگر میری اپنی رائے جو کچھ بھی اس بارے میں ہے خواہ اسے میرے انگریز دوست ناپسند کریں یا ہندوستانی دوست اس پر ناراض ہوں میں آگے چل کر تفصیلات میں بیان کردوں گا گو بعض امور کے متعلق چونکہ دونوں فریق پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں میں ڈرتا ہوں کہ میری آواز صدا بہ صحرا نہ ثابت ہو-
گورنرز
ہر صوبہ جو ہندوستان میں پہلے سے موجود ہے یا نیا بنایا جائے گا اس کی حکومت کا سردار ایک گورنر ہو لیکن گورنروں کے موجودہ طریق انتخاب میں تبدیلی کی جائے- اس وقت یہ قاعدہ ہے کہ پریزیڈنسی گورنروں کے سوا سب گورنر سول سروس میں سے منتخب کئے جاتے ہیں اور اس طرح جب کہ مدراس` بمبئی اور کلکتہ کے گورنر انگلستان سے براہراست آتے ہیں بہار` آسام` یو-پی` پنجاب اور سنٹرل پراونسز (CENTRALPROVINCES) کے گورنر ہندوستان کی سول سروس میں سے ہی منتخب کئے جاتے ہیں- دونوں طرح کے انتخاب میں بعض نقائص بھی ہیں اور بعض خوبیاں بھی لیکن یہ امر کہ فلاں فلاں صوبہ کے گورنر براہراست آئیں اور فلاں فلاں کے وہیں سے منتخب ہوں بالکل غیر طبعی اور غیرمعقول ہے- اس کی آخر کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے کہ بنگال میں تو براہ راست آنے والا گورنر مفید ہو سکتا ہے اور بہار و اڑیسہ میں ہندوستان کی سول سروس سے چنا ہوا گورنر مفید ہو سکتا ہے- سب صوبوں میں ایک ہی اصل برتنا چاہئے تھا یا سب جگہ سول سروس سے گورنر چنا جاتا یا سب جگہ براہراست آتا- یا سب جگہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا جاتا جیسا مناسب ہوتا کر لیا جاتا- جب سول سروس میں قابل آدمی موجود ہوتا وہاں سے چن لیا جاتا جب وہاں سے خاص قابلیت کا آدمی نہ ملتا تو براہ راست انگلستان سے آدمی بھجوا دیا جاتا- مگر جو طریق اختیار کیا گیا ہے وہ کسی اصل پر بھی مبنی نہیں مگر جو کچھ پہلے ہو چکا سو ہو چکا- اب نئے تغیرات جن کی سفارش کمیشن نے کی ہے ان کے ماتحت لازماً اس طریق میں تغیر کرنا ہوگا- وہ تغیرات یہ ہیں کہ کمیشن سفارش کرتا ہے کہ ڈائی آر کی (DAIRCHY)اڑا دی جائے اور منسٹر اور ایگزیکٹو منسٹر کا فرق مٹا دیا جائے- جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ سروسز اطاعت کے لحاظ سے پوری طرح منسٹروں کے ماتحت آ جائیں گی- جب کہ اس سے پہلے منسٹروں کا اقتدار ان پر بہت ہی کم ہوتا تھا- اسی طرح کمیشن کی یہ بھی رپورٹ ہے کہ گورنر کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ چاہے تو سب منسٹر منتخب شدہ نمائندوں میں سے ہی مقرر کر دے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ممکن بلکہ غالب ہے کہ ایک وقت ایسا آ جائے کہ تمام سولسرونٹس وزراء کے ماتحت ہوں اور ان کی ہدایتوں کے ماتحت عمل کریں کیونکہ سب ایگزیکٹو ان کے قبضہ میں ہوگی- لیکن اگر قاعدہ یہ ہوا کہ پریزیڈنسی صوبوں کے سوا باقی سب جگہ گورنر سولسرونٹس میں سے مقرر ہونگے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک شخص منسٹر کے ماتحت کام کرتا ہوا یکدم گورنر بن کر اس کا حاکم ہو جائے گا جو اچھے انتظام کے منافی ہے-
موجودہ نظام کے ماتحت بھی مذکورہ بالا صوبوں میں ہر سول سرونٹ بالقوۃ گورنر ہوتا ہے- لیکن ساتھ ہی موجودہ نظام میں منسٹر اس کے اوپر براہ راست افسر نہیں ہوتا- اس وجہ سے وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو میں نے اوپر بیان کیا ہے- نئے تغیر کے بعد اگر اس نقص کی اصلاح نہ کی گئی تو کبھی بھی منسٹروں میں صحیح طور پر کام کرنے کی جرات نہ پیدا ہوگی اور نہ سول سرونٹس میں صحیح طور پر ان کے احکام کو بجا لانے کی روح پیدا ہوگی جس سے نظام ڈھیلا ہوتا چلا جائے گا- پس اگر دو شاخی حکومت کو دور کرنا ہے تو ساتھ ہی یہ فیصلہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آئندہ ان صوبوں کے گورنر بھی براہ راست آئیں گے-
اس تبدیلی پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ چونکہ اس طرح سول سرونٹس کے لئے ترقی کی گنجائش کم رہ جاتی ہے لائق آدمی اس طرف آنے سے گریز کریں گے لیکن میرے نزدیک یہ اعتراض درست نہیں- اگر مدراس` بمبئی اور بنگال کو لائق آدمی مل جاتے ہیں تو کیوں ان صوبوں کو نہ ملیں گے؟ ایک اور علاج بھی اس نقص کو رفع کرنے کا کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ بعض صوبوں میں سے ایسے افسروں کو جو اس وقت کام کر رہے ہوں گورنر بنایا جائے گورنر علاوہ انگلستان کے تجربہ کار سیاسیوں کے ایک حصہ گورنروں کا ہندوستان کے ایسے ریٹائرڈ افسروں میں سے بھی مقرر کیا جایا کرے جو کم سے کم پانچ سال پہلے ہندوستان کی ملازمت سے ریٹائر ہو چکا ہو- اس طرح اس ملازمت میں بھی پہلی سی کشش باقی رہے گی اور مذکورہ بالا نقص بھی دور ہو جائے گا بلکہ تجربہ کے ساتھ ساتھ وہ زائد فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے جو براہ راست گورنر مقرر کرنے کے بیان کئے جاتے ہیں-
وزارت
سائمن رپورٹ کی سفارش یہ ہے کہ-:
)۱(
منسٹری متفقہ طور پر کونسلوں کے سامنے ذمہ دار ہو-
)۲(
گورنمنٹ کے سب ممبر منسٹر کہلائیں- ایگزیکٹو ممبر اور منسٹر کی تفریق مٹا دی جائے-
)۳(
منسٹر کیلئے کوئی شرط نہ ہو کہ وہ منتخب شدہ یا نامزد شدہ ممبر ہی ہو بلکہ سرکاری افسر یا پبلک کے کسی آدمی کو جو کونسل کا ممبر نہ بھی ہو وزارت کے عہدہ پر مقرر کرنے کی گورنر کو اجازت ہو-
)۴(
وزارت کے خلاف صرف بحیثیت مجموعی اظہار ناراضگی ہو سکتا ہے ایک وزیر کے خلاف نہیں ہو سکتا-
)۵(
وزراء کے علاوہ نائب وزراء کی جگہیں بھی نکالی جائیں- اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جہاں مذہبی اختلاف شدت سے ہوگا وہاں دو مختلف مذاہب کے وزیر اور نائب وزیر مقرر کر کے ایک دوسرے کے ظلم سے حفاظت کی جا سکے گی-
مذکورہ بالا اصول کی اصل غرض یہ بتائی گئی ہے کہ وزارت ہر روز تبدیل نہ ہوگی بلکہ ایک حد تک مستقل عرصہ حیات اسے مل جائے گا اور اس طرح وہ اچھا کام کر سکے گی- دوسرے یہ کہ وسیع حلقہ انتخاب کی وجہ سے زیادہ اعلیٰ کارکنوں پر مشتمل وزارت تیار ہو سکے گی-
میرے نزدیک یہ سفارش کمیشن کی کہ نائب وزراء کی جگہیں بھی نکالی جائیں` بہت معقول ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کا حکومت کے بنیادی قوانین سے کیا تعلق ہے؟ یہ معاملہ صوبہ جاتی کونسلوں سے متعلق ہے اور انہی پر اسے چھوڑ دینا چاہئے- اس وقت قانون میں صرف یہ بات رکھ دینی چاہئے کہ نئے طریق پر مقرر ہونے والی صوبہ جاتی کونسلوں کے معاً بعد گورنر ایک شخص کے سپرد وزارت بنانے کا کام کرے اور وہ پہلے اجلاس میں پریزیڈنٹ کے انتخاب کے بعد اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے کونسل سے وزارتوں اور نائب وزارتوں کی تعداد مقرر کرا لے- اس طرح ہر صوبہ میں اس کی ضرورت کے مطابق وزراء مقرر ہوں گے- یہ طریق درست نہیں کہ بے تعلق اور بغیر تجربہ کئے کچھ لوگ انگلستان میں بیٹھ کر سب صوبوں کی ضرورتوں کا آپ ہی قیاس کر کے وزارتیں مقرر کر دیں- اور نہ گورنروں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے کیونکہ یہ کام کونسلوں کا ہے کہ وہ ان کاموں کی جو انہوں نے جاری کرنے ہیں تعیین کریں- پس انہی کا یہ کام بھی ہونا چاہئے کہ وہ کام کے مطابق عہدے بھی تجویز کریں اور اسی طرح تنخواہیں مقرر کرنا بھی ان کا کام ہے- ہاں وہ تنخواہیں ذاتی نہیں ہونی چاہئیں یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہر وزیر کے تعین پر تنخواہ بدلی جا سکے- ہاں یہ شرط ہونی چاہئے کہ اگر سول سروس میں سے کسی کو وزیر مقرر کیا جائے تو اس کی تنخواہ اگر وزیر کی تنخواہ سے زائد ہو تو اسے اس کی زائد تنخواہ ملتی رہے- باقی جو امور کمیشن نے وزارت کے متعلق مقرر کئے ہیں گو بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر میرے نزدیک ان کا مضر اثر صوبوں کی سیاسی ارتقاء پر پڑے گا کیونکہ یہ سب اصول پارٹی سسٹم کو کمزور کرنے والے ہیں- مثلاً یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کونسلوں میں پارٹیوں کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگ اپنے جزوی اختلافات کو اس لئے ترک کر دیتے ہیں کہ تا اصول متفقہ کو اپنی پارٹی کے زور سے اپنے ملک میں جاری کر سکیں- اور اصول کے جاری کرنے کا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایگزیکٹو پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں- لیکن کونسلوں سے باہر کے لوگوں کو بھی اگر وزارت پر مقرر کرنے کی اجازت ہوئی تو کونسلوں میں پارٹیوں کے بنانے کی کوئی غرض باقی نہیں رہے گی اور ممبر اس میں زیادہ فائدہ دیکھیں گے کہ وہ ہر ایک پارٹی سے الگ رہیں تا کہ پوری حریت سے رائے دے سکیں- اس صورت میں انہیں کوئی مجبوری نہ ہوگی کہ وہ اپنے خیالات کے ایک حصہ کو قربان کر کے کسی خاص جماعت سے اپنے آپ کو وابستہ کر دیں کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ پارٹی کی طاقت سے وزارت کا سوال وابستہ نہیں ہے- پس بہتر ہے کہ ہم الگ ہی رہ کر کام کریں تا کہ ہماری حریت پوری طرح قائم رہے- نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ سول سروس سے کسی وزیر کو لینے کی اجازت دینے کی وجہ تو موجود ہے` یعنی ایک غیر ملک کا شخص اور سرکاری عہدیدار کونسلوں میں نہ قانونا آ سکتا ہے` نہ اپنے رسوخ سے آ سکتا ہے ادھر اس کے تجربہ سے بھی ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں- پس اس کا یہی طریق ہو سکتا ہے کہ اسے ہم براہ راست وزارت پر مقرر کر دیں- لیکن ایک ایسا شخص جو ملازم بھی نہیں اور اس ملک کا باشندہ بھی ہے اور بالکل آزاد ہے کہ کوشش کر کے کونسلوں میں آ سکے وہ اگر کونسلوں میں آنے کی زحمت برداشت نہیں کرتا تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے وزارت کے کام پر مقرر کر کے اس سیاسی نظام کو جس پر کونسلوں کی زندگی کی بنیاد ہے تباہ کر دیا جائے-
باقی رہی یہ اجازت کہ گورنر چاہے تو سول سروس میں سے کسی شخص کو وزارت پر مقرر کر دے میں ذاتی طور پر اس کا موید ہوں کیونکہ میرے نزدیک ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کلی طور پر برطانوی حکام کے مشورہ سے ہندوستانی حکومت آزاد ہو سکے لیکن یہ اصول کہ گورنر اپنی مرضی سے ایک آدمی کو سول سرونٹس )STNAVRES(CIVIL میں سے وزارت کے لئے مقرر کر دیا کرے کسی طرح درست نہیں- اور اس متحدہ ذمہ داری کے اصول کے خلاف ہے` جسے سائمن کمیشن جاری کرنا چاہتا ہے- عقل اسے کسی طرح باور کر سکتی ہے کہ ایک شخص کو جو کونسلوں پر کوئی اثر نہیں رکھتا گورنر اپنی مرضی سے وزارت میں داخل کر دے اور پھر ساری وزارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ذمہ واری میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے- انسان ذمہداری تو اس کی لیتا ہے جس کے ساتھ کام کرنے کی رغبت وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے لیکن جس ساتھی کو دوسرا منتخب کرتا ہے اس کے ساتھ وہ ذمہ داری میں کس طرح شریک ہو سکتا ہے؟ دنیا کی مختلف وزارتوں کو دیکھ لو مشترکہ ذمہ داری انہی ملکوں میں ہے جہاں وزیر اعظم اپنی وزارت منتخب کرتا ہے- جہاں انتخاب دوسرے کے ہاتھ سے ہو وہاں گو سب مل کر کام کرنیکی کوشش کرتے ہیں لیکن ذمہ داری مشترکہ نہیں ہوتی- یعنی یہ نہیں ہوتا کہ ایک کے فعل پر نکتہ چینی ہونے پر سب ہی مستعفی ہو جائیں- انگلستان اور فرانس میں ایک وزیر اپنے ہمراہی منتخب کرتا ہے اس لئے وہاں وزارت کی ذمہ داری بھی مشترکہ ہے- لیکن یونائیٹڈ سٹیٹس اور سوئٹررلینڈ میں سب وزراء الگ الگ چنے جاتے ہیں- اول الذکر میں پریزیڈنٹ وزراء کا انتخاب کرتا ہے اور موخر الذکر میں دونو پارلیمنٹیں مل کر وزراء کا انتخاب کرتی ہیں- پس وہاں ذمہ داری بھی مشترکہ نہیں ہے- اگر ایک وزیر کو پریزیڈنٹ اپنی ذاتی یا ملک کی ناراضگی کی وجہ سے علیحدہ کرنا چاہے تو دوسرے وزراء پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا- اور نہ سوئٹررلینڈ میں اگر ایک وزیر کے کام پر اعتراض ہو اور وہ استعفاء دے تو سب پابند نہیں کہ وہ بھی ساتھ استعفاء دے دیں-
پس یہ عقل کے خلاف ہے کہ وزراء کا انتخاب تو گورنر کرے اور ذمہ داری سب کی مشترکہ ہو- ذمہ داری مشترکہ تبھی ہو سکتی ہے جب کہ پارٹی سسٹم پر ایک وزیر اپنی پارٹی یا اپنے ساتھ اتحاد رکھنے والی پارٹیوں میں سے باقی وزراء کو منتخب کرے پس کمیشن کی تجویز ہر گز قابلعمل نہیں- ہاں چونکہ سردست سول سروس کے افسروں سے کام لینا میرے نزدیک ضروری ہے اس لئے درمیانی راہ میرے نزدیک یہ ہو سکتی ہے کہ یہ شرط کر دی جائے کہ وزارت عالیہ کے لئے جس شخص کو چنا جائے اس کا فرض ہو کہ مثلاً آج سے پندرہ سال تک کمسیکم ایک یورپین سول سرونٹ کو وہ اپنی وزارت میں شامل کرے لیکن اس افسر کی تعیین گورنر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ¶اس کے اختیار میں ہو جس کے سپرد وزارت تیار کرنے کا کام کیا گیا ہے- میرا یہ مطلب نہیں کہ جس افسر کو وہ چنے اسے مجبور کیا جائے کہ وہ وزارت کے کام کو قبول کرے- بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے افسروں میں سے کسی کو اس کام کے لئے راضی کرے- پندرہ سال کے بعد ہر صوبہ کی کونسل کو اختیار ہو کہ وہ حقیقی (ABSOLUTE) اکثریت کے ساتھ اس امر کا فیصلہ کرے کہ آئندہ یہ سلسلہ جاری رہے یا بند کر دیا جائے اور وزارت کلی طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائے- اس طرح پارٹی سسٹم بھی ترقی کرے گا اور وزارت مشترکہ ذمہ داری بھی اٹھا سکے گی اور تجربہ کار افسروں کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا بھی ملک کو موقع مل جائے گا اور جس طرح سول سروس کے کسی ایک فرد کو وزارت دینے کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہو اسی طرح کونسلوں سے باہر کسی شخص کو منتخب کرنے کا اختیار بھی اسے ہو لیکن شرط یہ ہو کہ ایسا شخص وزارت کے عہدہ پر مامور ہونے کے چھ ماہ کے عرصہ کے اندر بذریعہ انتخاب کونسل کا ممبر ہو جائے- اگر اس عرصہ میں وہ ممبر منتخب نہ ہو سکے تو پھر وہ وزارت پر قائم نہ رہ سکے بلکہ استعفاء دینے پر مجبور ہو-
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کہ افسران میں سے بعض کا وزارت پر مقرر ہوتے رہنا بشرطیکہ وزیر اعظم کے انتخاب پر ایسا ہو ملک کے لئے ایک وقت تک مفید ہوگا بلکہ میری ذاتیرائے میں صحیح طریق پر حکومت کرنے کے لئے ضروری ہوگا- وہاں گورنر کی مرضی سے ایسے ہندوستانی وزراء کا تقرر جو کونسلوں کے منتخب ممبر نہ ہوں آئینی ترقی کے سخت منافی ہوگا- پس ہندوستانی نمائندوں کو اس امر کو کبھی تسلیم نہیں کرنا چاہئے-
سائمن رپورٹ نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ گورنر کو اختیار ہونا چاہئے کہ خواہ ایک پارٹی یا جماعت میں سے وزارت کا انتخاب کرے یا مختلف پارٹیوں میں سے- اس امر کا تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ آئین اساسی کے ماتحت گورنر ہی وزراء مقرر کرتا ہے مگر ساتھ ہی اس کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر صحیح طور پر پارٹیوں کے اصول پر حکومت کو چلانا مدنظر ہو تو اس انتخاب میں گورنر آزاد نہیں ہوتا بلکہ اس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اس بارے میں وہ اس وزیر کی رائے کو قبول کرے جسے وہ وزارت بنانے کے لئے مقرر کرلے وہ وزیر اعظم کو مشورہ دے سکتا ہے لیکن اصل ذمہ واری وزارت کے انتخاب کی وزیر اعظم پر ہی ہوتی ہے- اگر ایسا نہ کیا جائے تو ہر روز مصنوعی پارٹیاں محض وزارتوں کی خاطر بنتی رہیں گی اور آئینی طور پر کام کرنے کی عادت کبھی بھی پارٹیوں کے ممبروں کو نہیں پڑے گی- پس گورنر کو پابند کرنا چاہئے کہ وہ اس بارہ میں وزیر اعظم کے انتخاب کی تصدیق کرے- یا پھر وزارت بنانے کا کام کسی اور وزیر کے سپرد کرے- صرف اسی صورت میں پارٹیاں اپنے اثر کو محسوس کرا سکتی ہیں اور اسی صورت میں گورنر مجبور ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس پارٹی کو موقع دے جو اکثریت رکھتی ہو- ورنہ وہی ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے- یعنی گورنر چند اقلیتوں کو ملا کر ایک وزارت مقرر کر دیتے ہیں جو کسی پارٹی کی بھی نمائندہ نہیں ہوتی-
گورنر اور وزارت کے تعلقات
گورنروں اور وزارت کے تعلقات کے متعلق کمیشن کی رپورٹ یہ ہے کہ:
>گو عام طور پر گورنر کو اپنی وزارت کے فیصلوں میں دخل نہیں دینا چاہئے لیکن پانچ مواقع پر اسے اختیار ہوگا کہ وہ دخل دے- یعنی جب وہ سمجھے کہ اس کا دخل دینا ضروری ہے-
)۱(
صوبہ کے امن اور سلامتی کے قیام کیلئے-
)۲(
بعض قوموں یا جماعتوں کے مقابل پر بعض دوسری قوموں یا جماعتوں کے فوائد کو کسی سخت نقصان سے بچانے کے لئے-
)۳(
تا کہ گورنمنٹ کی اس ذمہ داری کی واجبی عہدہ برائی ہو سکے جو کہ ان اقوام کے خرچ سے تعلق رکھتی ہے جو مجلس واضع قوانین کے فیصلہ کے ماتحت نہیں-
)۴(
تا کہ ان احکام کی تعمیل ہو سکے جو کہ کسی صوبہ کی گورنمنٹ یا گورنمنٹ ہند یا وزیر ہند کی طرف سے پہنچیں-
)۵(
تا کہ ان فرائض کو ادا کیا جا سکے جو کہ قانونا گورنر پر ذاتی طور پر عائد ہوتے ہیں- مثلاً ایسے فرائض جو کہ ملازمتوں کے سوال یا بیک ورڈ (BACKWARD) یعنی غیرترقییافتہ علاقوں کے متعلق ذمہ داری سے تعلق رکھتے ہیں- ۵۰~}~
ان پانچ میں مواقع سے آخری تین تو کسی قدر اصلاح کے ساتھ بالکل درست ہیں اور وہ اصلاح میرے نزدیک یہ ہے کہ چوتھی صورت میں جو گورنمنٹ آف انڈیا کے الفاظ ہیں ان کی جگہ گورنر جنرل کے الفاظ رکھے جائیں اس لئے کہ بعض معاملات میں دخل اندازی کی اس وقت تک گورنر جنرل کو تو اجازت دی جا سکتی ہے جب تک کہ صوبہ جات اور مرکزی حکومت کا نظام پختہ نہیں ہوتا لیکن گورنمنٹ آف انڈیا کو جس سے مراد شروع میں یا کچھ دیر کے بعد وزارت منتخبہ ہو سکتی ہے صوبہ جات وہ اختیار دینے کو ہر گز تیار نہ ہونگے- کیونکہ احتمال ہے کہ وہ صوبہ جات کی آزادی کو کمزور کرنیکی کوشش کریں گے-
اسی طرح پانچویں استثناء میں بیک ورڈ علاقوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو میرے نزدیک درست نہیں- کیونکہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ اصولاً بھی ایسے علاقوں کی موجودگی فیڈریشن کے اصول کے خلاف ہے اور عملاً بھی اس سے گورنمنٹ میں اوپر سے نیچے تک ثنائیت (DUALITY) پیدا ہوتی ہے جو عمدہ گورنمنٹ کے اصول کے خلاف ہے اور جس کی اجازت صرف خاص صورتوں میں دی جا سکتی ہے-
اب دو پہلی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں- میرے نزدیک ان دونوں صورتوں میں گورنر کو اختیار دینا نظام حکومت کو پراگندہ کرنے والا ہوگا-
پہلی صورت میں حفاظت اور امن کے لفظ اس قدر مبہم ہیں کہ ان کے ماتحت ہر وقت گورنر دخل دے سکتا ہے اور وزارت کا حقیقی معنوں میں وزارت ہونا صرف گورنر کے مزاج پر منحصر ہوگا- اچھا گورنر اپنے آپ کو روکے رکھے گا برا گورنر جس طرح چاہے گا دخل دے گا اور کہے گا کہ یہ امن اور ملک کی حفاظت کی خاطر میں ایسا کرتا ہوں-
یہی حال دوسری شق کا ہے- اس میں اقلیتوں کو خطرناک نقصان پہنچنے کی صورت میں دخل اندازی کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایسی بیوقوف وزارت کم ہی ہوگی کہ جو اقلیتوں پر ظلم کو خطرناک صورت میں ظاہر ہونے دے- پس اقلیت کو تو اس شرط سے کچھ فائدہ نہیں- اکثریت ان کا گلا کاٹتی جائے گی اور گورنر خطرناک صورت کے انتظار میں بیٹھا رہے گا- ہاں جب کوئی گورنر ایسا آ جائے گا جو حکومت میں زیادہ حصہ لینے کا خواہشمند ہوگا تو وہ اس استثناء سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ضرور دخل اندازی کرے گا- حالانکہ اگر کوئی وزارت خطرناک طور پر اقلیتوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تو بجائے اس کے کہ گورنر اس کی غلطیوں کی اصلاح میں لگا رہے اس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس وزارت کو استعفاء دینے پر مجبور کرے اور اگر اس کی جگہ دوسری وزارت نہ کھڑی کی جا سکتی ہو تو اس کونسل کو برخواست کر دے جس کے افراد صرف انہی لوگوں کو وزیر مقرر کرنے کیلئے مصر ہوں جو اقلیتوں پر خطرناک قسم کے ظلم روا رکھتے ہوں اور نئی کونسل کا انتخاب کرائے-
میرے نزدیک یہ دونوں صورتیں جن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گورنر کو دخل اندازی کا اختیار دیا گیا ہے ان کی موجودگی میں گورنر کو یہ طریق اختیار کرنا چاہئے کہ وزارت کو سمجھائے- اگر وزارت اس کے مشورہ کو قبول نہ کرے اور وہ سمجھے کہ معاملہ اہم ہے تو اسے مجبور کرے کہ وہ استعفاء دے دے- اگر دوسری وزارت کھڑی نہ ہو یا اسی طریق عمل کو اختیار کرے تو اگر معاملہ اہم ہو تو گورنر اس کونسل کو برخواست کر کے نئی کونسل کے انتخاب کا حکم دے- اس طریق کو اختیار کرنے سے دونوں فریق یعنی وزارت بھی اور گورنر بھی اپنی حد کے اندر رہنے کی کوشش کریں گے- وزارت اس بات سے ڈرے گی کہ اگر وہ ناجائز اصرار کرے گی تو شاید کوئی دوسری وزارت اس کی جگہ لینے کو تیار ہو جائے- یا وہ اس امر سے ڈرے گی کہ اگر اس کے ظلموں کی وجہ سے کونسل کو برخواست کیا گیا تو شاید ملک اس کی امداد نہ کرے اور انتخاب میں اسے شکست حاصل ہو- اسی طرح گورنر بھی خیال رکھے گا کہ میں اس وقت اپنے پہلو پر زور دوں جب کہ ملک کا ایک طبقہ میرا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو- ورنہ بلاوجہ دخل اندازی وزارت کو اور زیادہ ہر دل عزیز کر دے گی- اگر مذکورہ بالا طریق کے باوجود بھی ظلم کی کوئی صورت باقی رہ جائے گی تو اس کا علاج سپریم کورٹ کے ذریعہ سے جس کی ضرورت میں پہلے ثابت کر آیا ہوں مظلوم گروہ کر سکتا ہے-
وزارت کے کام کے طریق کے متعلق جو کچھ کمیشن نے لکھا ہے میرے نزدیک درست ہے- بعض لوگ مجلس وزارت کا سیکرٹری مقرر کرنے کی جو کمیشن نے سفارش کی ہے تا وہ گورنر کو وزارت کی مجلس کی کارروائیوں سے اطلاع دیتا رہے اسے جاسوس قرار دے کر ناپسند کرتے ہیں لیکن جب کہ وزارت کی مجلس کا پریذیڈنٹ قانونا گورنر سمجھا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ گورنر حالات سے آگاہ نہ رہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کو حالات سے واقف رکھنے کا نام جاسوسی رکھا جائے-
خطرناک حالات کے متعلق گورنروں کے اختیارات
کمیشن نے ایسے خطرناک حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب کوئی صورت بھی آئینی طور پر حکومت چلانے کی باقی نہ رہے گورنروں کو خاص اختیارات دیئے ہیں جو یہ ہیں کہ ایسے حالات میں انہیں اختیار ہوگا کہ خواہ وہ سب کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں خواہ اپنے مددگار مقرر کر کے حکومت کا کام چلائیں- خطرناک صورت کی تشریح اس نے یہ کی ہے کہ ایسی وزارت کا بنانا یا قائم رکھنا مشکل ہو جائے جسے کونسل کی امداد حاصل ہو یا جب کہ گورنمنٹ کے کام کو چلانے سے عام طور پر انکار کر دیا جائے اور اس کے کام کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے- ان حالات میں جب گورنر حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لے کمیشن نے اسے اختیار دیا ہے کہ اپنی مرضی سے وزراء مقرر کرے اور انہیں کونسلوں کا ممبر مقرر کر دے اور اسے یہ بھی اختیار دیا ہے کہ وہ ضروری اخراجات کی منظوری دے یا ایسا نیا قانون پاس کر دے جس کی قیام امن کیلئے ضرورت ہو لیکن جب گورنر ان اختیارات کو برتنا چاہے تو پارلیمنٹ کو اس کی فوراً اطلاع دے اور بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے ان غیر معمولی اختیارات کو بارہ ماہ سے زائد استعمال نہ کرے-
‏]text [tag اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حکومت کا کام بند ہونے لگے تو اس قسم کا اختیار گورنر کے ہاتھ میں ضرور ہونا چاہئے کہ جس کی مدد سے وہ حکومت کا کام چلا سکے لیکن خطرہ کی جو تشریح کمیشن نے کی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے غیر معمولی خطرہ نہیں کہہ سکتے اس لئے اس کی وجہ سے غیرمعمولی اختیارات کو استعمال کرنیکی اجازت دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا- مثلاً اس کا یہ کہنا کہ جب کوئی ایسی وزارت بنائی یا قائم نہ رکھی جا سکے جسے کونسل کی امداد حاصل ہو تو اس وقت گورنر یہ اختیار برت سکتا ہے ہر گز درست نہیں- یہ حالت ہمیشہ متمدن ممالک میں پیش آتی رہتی ہے لیکن کبھی بھی اس کی وجہ سے آئینی حکومت کو معطل کر کے نیا نظام قائم نہیں کیا جاتا- اگر وزارت کا انتخاب یا اس کا قیام ناممکن نظر آئے تو گورنر کا یہ کام ہے کہ وہ مجلس واضع قوانین کو برخواست کر کے نیا انتخاب کرائے نہ کہ فوراً حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لے-
پس اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی موجودہ وزارت کام سے انکار کر دے اور اس کی جگہ لینے کے لئے منتخب نمائندوں میں سے کوئی شخص تیار نہ ہو تو پھر گورنر کو اختیار ہوگا کہ وہ وزارت کا کام اپنی مرضی کے مطابق بعض آدمیوں کے سپرد کر دے اور مجلس کو فوراً برخواست کر کے دوسرا انتخاب کرائے اور اگر وہ مجلس بھی وزارت بنانے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر وزارت کا کام اپنی نگرانی میں لے کر پارلیمنٹ کو اطلاع دے- یا اگر یہ حالت پیدا ہو جائے کہ موجودہ وزارت کام سے انکار کر دے اور بعض منتخب شدہ نمائندے وزارت کا عہدہ لینے کیلئے تیار ہوں تو منتخب شدہ نمائندوں میں سے قائم کی جا سکتی ہے- لیکن کونسل کسی وزارت سے بھی تعاون کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو مختلف پارٹیوں کو وزارت پیش کرنے کے بعد اگر کام کسی صورت میں نہ چل سکے تو گورنر کو چاہئے کہ مجلس کو برخواست کر کے نیا انتخاب کرائے اور اگر اس نئے انتخاب کے بعد بھی وزارت کو کثرت حاصل نہ ہو اور نہ دوسری کوئی پارٹی اکیلی یا دوسروں سے مل کر کونسل میں کثرت حاصل کر سکے اور نہ کثرت خود حکومت کا کام آئینی طور پر اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہو تو اس صورت میں کونسل کو برخواست کر کے گورنر پارلیمنٹ کو اطلاع دے-
پس ان قیدوں کے ساتھ یہ اختیارات گورنروں کو ملنے چاہئیں ورنہ جن الفاظ میں سائمن کمیشن نے لکھا ہے ان کی رو سے تو عام آئینی مظاہروں کی بناء پر بھی گورنر آئینی حکومت کو توڑ کر غیر آئینی حکومت کو قائم کر سکیں گے-

صوبہ جات کی مجالس واضع قوانین
کونسلوں کی عمر
کمیشن نے صوبہ جات کی مجالس واضع قانون کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ صوبہ جات کی کونسلوں کی عمر پانچ سال کر دی جائے اور گورنر کو اختیار ہو تا دوسرے صوبہ جات کے انتخاب سے اس کے انتخاب کے وقت کو برابر رکھنے کے لئے دو سال تک عمر بڑھا کر سات سال کر دے- اس تبدیلی کی وجہ اس نے یہ بتائی ہے کہ آئندہ ہم نے مرکزی مجلس کے متعلق یہ قاعدہ رکھا ہے کہ اس کے ممبر بالواسطہ طور پر کونسلوں کے ذریعہ سے منتخب ہوا کریں- اس وجہ سے اس قسم کا انتظام ہونا چاہئے کہ عام طور پر سب کونسلیں ایک وقت میں منتخب ہوں تا کہ اسمبلی کے ممبروں کے انتخاب میں دقت نہ ہو-
کاغذ پر یہ سکیم بے شک اچھی لگے لیکن اس کی تشریح کر کے دیکھیں تو یہ سکیم بالکل غیرمعقول معلوم ہوتی ہے- اول تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ فیڈرل اسمبلی کا انتخاب صوبہ جاتی کونسلوں کے ذریعہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا کر سکتا ہے- لیکن یہ سوال تو الگ زیر بحث آئے گا سردست تو میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ صوبہ جاتی کونسلوں کی عمر کو غیر طبعی قواعد کے ماتحت رکھنا انتظام کو خراب کرے گا- صوبہ جاتی کونسلوں کی عمر بے شک پانچ سال رکھی جائے میرے نزدیک یہ اچھا نتیجہ پیدا کرے گا لیکن اس سے زیادہ عمر کے بڑھانے کی اجازت دینی مناسب نہیں- دنیا کے اکثر نیابتی حکومتوں والے ممالک میں کونسلوں کی عمر پانچ سال یا اس سے کم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون سیاسی کے ماہروں کا خیال ہے کہ اس عرصہ میں اس قدر تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ملک دوبارہ انتخاب کا بے صبری سے انتظار کرنے لگتا ہے- انگلستان کا ہی تجربہ زیر نظر رکھ لو کہ وہ وزارتیں جو یہ کوشش کرتی ہیں کہ ہم پورے پانچ سال اپنی عمر پوری کر کے پھر جنرل الیکشن کا اعلان کریں الیکشن میں اکثر ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں-
پس جب ان ممالک میں جن کا نظام پرانا اور ٹھوس ہو چکا ہے پانچ سال کی عمر ایک کافی لمبی عمر سمجھی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک خیالی فائدہ کے لئے سات سال کے لمبے عرصہ تک کونسلوں کی عمر کو لمبا کیا جائے- جب ہندوستان میں صوبے زیادہ ہوگئے اور کونسلوں کو اختیارات زیادہ ملے تو دوسری جمہوری حکومتوں کی طرح یہاں بھی تغیرات جلدی پیدا ہونگے اور ہونے چاہئیں-
پس ان تغیرات کو نظر انداز کر کے یہ فرض کر لینا کہ ایسے تغیرات بہت کم ہونگے اور پھر یہ فرض کر لینا کہ وہ دو سال سے پہلے ہی ہونگے محض ایک قیاسی بات ہے- اگر چار پانچ صوبوں میں تغیرات ہوئے اور کسی میں پہلے الیکشن کے بعد دوسرے سال میں کسی میں تیسرے سال میں اور کسی میں چوتھے سال میں تغیر ہوا تو پھر کونسلوں اور اسمبلی کے انتخاب میں کس طرح موافقت قائم رکھی جا سکے گی؟ تو یہ قاعدہ ہونا چاہئے کہ پانچ سال کی مدت پر سب کونسلوں کا خواہ ان کا درمیان میں جدید انتخاب ہو چکا ہو دوبارہ انتخاب ہو- سوائے اس صورت کے کہ آخری سال کے دوران میں انتخاب ہو اس صورت میں انتخاب اگلے انتخاب کے آخر تک کام دے سکے گا- یا پھر آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جب کسی کا انتخاب ہو` ہو` ایسا علاج جو مرض کو تو دور نہیں کر سکتا صرف مزید پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے کس کام کا؟
میں اس جگہ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں گورنروں کو کونسلوں کے برخواست کرنے کا حق دیا گیا ہے وہاں خود کونسلوں کو بھی اپنے برخواست کرنے کا حق ملنا چاہئے- کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت ملک کی رائے ایک خاص پارٹی کی تائید میں بڑھ چکی ہو لیکن گورنر اپنے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسلوں کو برخواست نہ کرتا ہو- اس صورت میں اجازت ہونی چاہئے کہ کونسل کی کثرت رائے کونسل کے برخواست کرنے کا فیصلہ کر دے اور دوبارہ انتخاب کے ذریعہ سے اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرے-
ممبروں اور ووٹرونکی تعداد کی زیادتی
کمیشن کی ایک یہ تجویز بھی ہے کہ کونسلوں کے ووٹروں کی تعداد اور ممبروں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا جائے- یہ تجویز کمیشن کی نہایت معقول ہے- میرا تو خیال ہے کہ پہلے بھی ووٹروں کی تعداد ناکافی ثابت ہوئی ہے اور اس اصلاح کی دیر سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی- لیکن اس موقع پر میں ایک ضروری اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ووٹروں کی قابلیت کا موجودہ معیار ایک مصنوعی معیار ہے- اصل میں تو ہر عاقل و بالغ ووٹ کا مستحق ہے- پس ان حد بندیوں سے جو ووٹروں پر لگائی جائیں اور جس کے نتیجہ میں قوم کو نقصان پہنچتا ہو اس کی ذمہ دار حکومت ہے نہ کہ وہ قوم- پس اس قوم کے حقوق کے نقصان کا ازالہ کرنا بھی حکومت کا کام ہے-
گزشتہ سکھ حکومت کے وقت پنجاب میں مسلمانوں کی جائدادیں عام طور پر سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی تھیں اور بنگال کے برطانیہ کے ماتحت آنے کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں نے اپنے کام کی سہولت کے لئے بنگال کی اکثر زمینیں مستقل ٹھیکہ کے اصول پر چند ہندو عمال کے سپرد کر دی تھیں- اس وجہ سے پنجاب اور بنگال میں جائداد کی بنیاد پر مسلمان ووٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور اس امر کو ہمیشہ اس بات کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو نمائندگی ان کی تعداد کے حق سے کم ملنی چاہئے اور یہ مطالبہ انہی زبانوں سے سنا جاتا ہے جو جمہوریت کا وعظ کرتے کرتے خشک ہوتی چلی جاتی ہیں- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت انہیں اسی وقت پسند ہے جب وہ ان کے مطلب کی ہو- حالانکہ کسی قوم کو اس کی تعداد کے مطابق حق ملنا ایک ایسا معقول امر ہے کہ اس میں نہ کوئی رعایت کا پہلو ہے اور نہ کسی پر ظلم ہے-
پس چاہئے کہ اگر ووٹروں کے دائرہ کو ابھی کچھ عرصہ تک محدود رکھنے کی تجویز ہو تو اس امر کا انتظام ہو جائے کہ جس جس قوم کو اس سے نقصان پہنچتا ہو اس کا ازالہ کسی دوسری طرح کر دیا جائے یعنی خاص حقوق کے ذریعہ سے اس کے ووٹروں کی تعداد اس تعداد کے برابر )نہ کہ قریباً برابر جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے( کر دی جائے جو اسے تناسب آبادی کے لحاظ سے حاصل ہو سکتی تھی-
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشترکہ انتخاب پر جو زور دیا جاتا ہے اس کا راستہ بند کرنے کا الزام بھی اس قدر مسلمانوں پر نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ پر ہے- جس نے فرنچائز (FRANCHISE) کے ایسے اصول مقرر کئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹروں کی تعداد کم رہ جاتی ہے- اس وجہ سے وہ ڈرتے ہیں کہ جائنٹ الیکٹوریٹ )ETARO(JOINTELECT میں نہ معلوم ہمارا کیا حال ہوگا-
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ جائنٹ الیکٹوریٹ لے کر فرنچائز وسیع کرا لو جیسا کہ کانگریس والوں نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے تو یہ بات مسلمانوں کے شبہ کو اور بھی قوی کرتی ہے- کیونکہ اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ گو فرنچائز کی وسعت کی خوبی کو تو ہندو تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس سوال کا حل سودا کرنے کے لئے ملتوی کر رکھا ہے- حالانکہ اصل طریق یہ ہے کہ پہلے ہر نوجوان کے حق رائے دہندگی کو تسلیم کر کے اس کا اجراء کیا جائے پھر اس کا تجربہ ہو چکنے کے بعد مسلمانوں سے مشترکہ انتخاب کے متعلق سمجھوتہ کیا جائے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اگر مسلمانوں کے ووٹ ان کی تعداد کے مطابق ہو جائیں اور کچھ عرصہ تک انہیں الیکشن کا تجربہ کرنے کا بھی موقع دے دیا جائے تو مسلمانوں کا میلان خود بخود مشترکہ انتخاب کی طرف ہوتا چلا جائے گا- لیکن اگر ان کے اس حق کو ہندوئوں نے دوسرے امور کے لئے سودا کرنے کے طور پر محفوظ رکھا تو ان کے شبہات اور بھی بڑھتے چلے جائیں گے- لیکن اگر انتظام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً ہی ہر بالغ کو ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا تو بہتر ہے کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں کہ کمیشن کی تجویز کے مطابق ووٹروں کی موجودہ تعداد سے تین گنا زیادہ ووٹ ہو جائیں- لیکن اس امر کا خیال رکھ لیا جائے کہ مسلمانوں کا حق نہ مارا جائے اور ان کی تعداد کے مطابق ان کے ووٹروں کی تعداد ہو-
کونسلوں کے ممبروں کی تعداد میں اضافہ
ووٹروں کے متعلق اپنی رائے کے اظہار کے بعد میں ممبروں کی زیادتی کے سوال کو لیتا ہوں-
میرے نزدیک تمام اقوام کی صحیح نمائندگی کے لئے ضروری ہے کہ جن صوبوں کی آبادی ایک کروڑ سے کم ہو ان کی کونسل کم سے کم پچھتر ممبروں کی ہو- اور ایک کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے صوبوں میں دو سو سے اڑھائی سو تک ممبروں کی تعداد مقرر کی جائے- سوائے بنگال اور یو-پی کے کہ جن کی تعداد دوسرے صوبوں سے بہت زیادہ ہے- ان دونوں صوبوں میں تین سو ممبروں کی کونسلیں مختلف علاقوں کی نمائندگی کے لئے ضروری ہیں-
جداگانہ انتخاب
اور
مختلف اقوام کا حق نیابت
اب میں جداگانہ انتخاب کے سوال کو لیتا ہوں- یہ سوال اس وقت سیاسیات ہند میں اہمترین سوال بن رہا ہے اور مختلف اقوام کے حق نیابت کا سوال بھی اسی کے گرد چکر کھا رہا ہے- مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب اور تعداد سے زیادہ نیابت کا حق صاف الفاظ میں لارڈمنٹو (LORDMINTO) نے منظور کیا تھا- ان کے الفاظ سرآغا خان کی قیادت میں پیش ہونے والے ڈیپوٹیشن (DEPUTATION) کے جواب میں یہ تھے-
>آپ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ موجودہ قواعد کی بناء پر جو جماعتیں کونسلوں کے ممبر منتخب کرتی ہیں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی مسلمان امیدوار کو منتخب کریں گی اور یہ کہ اگر اتفاقا وہ ایسا کر بھی دیں تو یہ اسی صورت میں ہوگا کہ وہ امیدوار اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اکثریت کے ہاتھ فروخت کر دے اور اس وجہ سے وہ امید وار اپنی قوم کا نمائندہ نہیں ہوگا- اسی طرح آپ لوگ بالکل جائر طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا فیصلہ صرف آپ کی قوم کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس فیصلہ کے وقت آپ کی قوم کی سیاسی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو اس نے حکومت برطانیہ کی تائید میں کی ہیں- میں بالکل آپ کے اس خیال سے متفق ہوں-
میں اسی طرح اس امر پر یقین رکھتا ہوں جس طرح کہ میرا خیال ہے کہ آپ لوگ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان میں انتخاب کا حق اگر صرف ایک فرد رعایا ہونے کی حیثیت سے دیا گیا اور مذہب اور رسم و رواج کے اس فرق کو نظرانداز کر دیا گیا جو اس براعظم میں بسنے والی اقوام میں پایا جاتا ہے تو یہ انتظام یقیناً بری طرح برباد ہوگا اور ناکام رہے گا<-
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ لارڈ منٹو (LORDMINTO) نے تسلیم کیا تھا کہ-:
)۱( مسلمانوں کو مشترکہ انتخاب کے ذریعہ سے نہ تو ان کے حق کے برابر نیابت مل سکتی ہے اور نہ ان کے صحیح نمائندے ہی منتخب ہو سکتے ہیں-
)۲( مسلمانوں کو حق صرف تعداد کے مطابق ہی نہیں ملنا چاہئے بلکہ ان کی پولیٹیکل حیثیت کے لحاظ کو مدنظر رکھ کر ان کی تعداد سے زائد حق ملنا چاہئے-
چنانچہ اس اعلان کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا نے مارلے منٹو ریفامز سکیم SCHEME) REFORMS MINTO (MORLEY میں مسلمانوں کے حقوق کی علیحدہ نمائندگی کے متعلق کچھ قوانین تجویز کئے- جو ۱۹۱۰ء میں نافذ کئے گئے- ][ بہرحال حکومت برطانیہ کا ایک ذمہ وار افسر اس امر کا صریح طور پر اقرار کر چکا ہے کہ علیحدہ نمائندگی کے بغیر نہ کمیت کے لحاظ سے اور نہ کیفیت کے لحاظ سے مسلمانوں کا حق انہیں مل سکتا ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ اس ملک میں اکثریت اقلیت کے حقوق تلف کرنے کے لئے اپنی ساری قوت خرچ کر دیتی ہے- ایسی صورت میں جداگانہ انتخاب کے جس قدر نقائص بھی فرض کئے جائیں ان کی ذمہ داری ہندوئوں پر پڑتی ہے نہ کہ مسلمانوں پر- اور ان حالات میں علیحدہ نمائندگی کا حق کوئی رعایت نہیں جس کے بدلہ میں کوئی اور حق مسلمانوں سے لیا جائے یا ان سے کسی قسم کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے بلکہ یہ طریق صرف ان کے جائز حقوق کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے-
مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ (MONTAGUECHELMSFORDREPORT) نے بھی اس امر کا تذکرہ کیا ہے اور سائمن کمیشن نے بھی اسے تسلیم کیا ہے کہ علیحدہ نمائندگی ہندوستان کی موجودہ حالات میں ضروری ہے- پس کسی نتیجہ پر پہنچتے وقت پہلے اس امر کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ علیحدہ نمائندگی کی ضرورت مسلمانوں کے کسی فعل کے سبب سے نہیں بلکہ ہندوئوں کے افعال کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور یہ وہ صداقت ہے کہ اسے لارڈ منٹو (LORDMINTO) بھی تسلیم کر چکے ہیں اور اسی کتاب میں میں ثابت کر چکا ہوں کہ حالات اور عقل بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں-
سائمن رپورٹ کا بیان ہے کہ مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ باوجود اس کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے بیان کرتی ہے کہ جداگانہ انتخاب-
>فرقہ وارانہ امتیاز کو ہمیشہ کیلئے مستقل کرتا ہے اور اقوام کے موجودہ تعلقات کو ایک نہ بدل سکنے والی شکل دے دیتا ہے اور حکومت خود اختیاری کے اصول کی ترقی کے راستہ میں ایک سخت روک ہے<-
‏text] [tag خود سائمن کمیشن کے ممبر بھی اس رائے کی ان الفاظ میں تائید کرتے ہیں کہ-:
>اگر اوپر کے خیالات کو تسلیم کرنا تعصب ہے تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے خیالات بھی یہی ہیں<- ۵۱~}~
میرا خیال ہے کہ نہ مانٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ کے لکھنے والوں نے اور نہ سائمن رپورٹ (SIMONREPOT) کے لکھنے والوں نے اس امر کا خیال کیا ہے کہ جداگانہ اور مشترکہ انتخاب مختلف مواقع کے لحاظ سے مختلف اثر پیدا کرتے ہیں- انسانی دماغ سب شعبہ ہائے زندگی میں ایک ہی طرح عمل کرتا ہے- جس طرح میاں بیوی میں جب شقاق پیدا ہوتا ہے تو ایک حد تک صلح کی کوشش کر کے ہمیں انہیں علیحدہ کرنا پڑتا ہے اور وہ تعلقات جو اکٹھا رکھنے سے درست نہیں ہو سکتے اس طرح بسا اوقات درست ہو جاتے ہیں- یہی حال قوموں کا ہوتا ہے جب ان کا تنافر حد سے بڑھ جاتا ہے تو ان میں ایک حد تک علیحدگی بجائے نقصان کے فائدہ کا موجب ہوتی ہے- مانٹیگوچیمسفورڈ رپورٹ اور سائمن رپورٹ کے مصنفوں کے دل پر یہ خیال حاوی معلوم ہوتا ہے کہ صرف اس لئے کہ مسلمان اس کے چھوڑنے پر ناراض ہونگے علیحدہ نمائندگی کی ضرورت ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ صورت حالات میں یہی علاج ملک میں قیام امن کا موجب ہو سکتا ہے- جب ایک کمزور قوم جس میں بیداری پیدا ہو چکی ہو یہ دیکھتی ہو کہ وہ قوم جو پہلے سے مضبوط تھی اس کی ترقی کے راستہ میں پورا زور لگا کر روکیں پیدا کرتی ہے اور حکومت میں اپنے مناسب حصہ کے حصول کی بھی اسے اجازت نہیں دیتی تو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت کو دیکھ کر یکجائی الیکشن سے اس کے خیالات میں سکون اور محبت پیدا نہیں ہو گی بلکہ غصہ اور رنج بڑھے گا اور جب وہ دیکھے گی کہ جائز ذریعہ سے میرے حقوق نہیں ملتے تو وہ فساد اور لڑائی پر آمادہ ہو جائے گی- لیکن جب کسی قوم کے حقوق اسے ملجائیں گے تو وہ ان غم اور غصہ کے خیالات سے بہت کچھ آزاد ہو جائے گی چنانچہ اس کا ثبوت مسٹرچنتامونی کے اس بیان سے جو انہوں نے انڈین ریفارمز کمیٹی (INDIANREFORMSCOMMITTEE) کے سامنے دیا تھا ملتا ہے- مسٹر چنتا مونی لبرل لیڈر ہیں اور اس وقت رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے نمائندے ہو کر گئے ہیں- سر محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں-
>جیسا کہ انڈین ریفارمز کمیٹی کے سامنے مسٹر چنتا مونی نے بیان کیا تھا کہ جداگانہ انتخاب سے صوبہ جات متحدہ کے مسلمانوں کے قلوب میں اپنے حقوق کے محفوظ ہو جانے کی وجہ سے جو اطمینان پیدا ہوا اور اس کا جو اچھا نتیجہ ہندو مسلم تعلقات کے بہتر ہو جانے کی صورت میں نکلا وہ ایسا نمایاں تھا کہ مسٹر چنتا مونی اور ان کے ہم خیال ہندوئوں نے میونسپل کمیٹیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں میں بھی جداگانہ انتخاب کے طریق کو جاری کر دیا<-۵۲~}~
اس کے مقابلہ میں مشترکہ انتخاب نے ہندوستان کی فضاء میں جو اثر پیداکیا ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ایک ممبر متحدہ طور پر سب اقوام کی طرف سے منتخب ہوتا ہے- اس وقت تک کئی الیکشن ہو چکے ہیں لیکن مسلمان اس حلقہ انتخاب سے ایک دفعہ کوشش کرنے کے بعد اس قدر مایوس ہوئے ہیں کہ اب کوئی مسلمان اس حلقہ کی طرف سے کھڑا ہی نہیں ہوتا اور ان کی ساری کوشش اس امر میں مرکوز رہتی ہے کہ کوئی مسلمان اس حلقہ میں ووٹ نہ دے تا کہ ہندو ممبر مسلمانوں کا نمائندہ نہ سمجھا جا سکے- اگر مشترکہ انتخاب کا مطالبہ واقعہ میں ہندوئوں کی طرف سے قومی اتحاد کی خاطر ہوتا تو یہ خطرناک نتیجہ اس حلقہ میں جس کا ہر ووٹر یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہے کیوں نکلتا اور اگر یہ طریق ہر ملک میں قطع نظر وہاں کے مخصوص حالات کے ایسا ہی بابرکت ہوتا تو ہندوستان کے وہ حلقے جن میں اس طریق کو رائج کیا گیا ہے سب سے زیادہ تعصب بغض اور کینہ کے نظارے کیوں دکھاتے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشترکہ انتخاب کے طریق میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے ماتحت جو انتخاب ہوں ان میں ایسے مسائل کو نہیں چھیڑا جا سکتا جو ایک قوم کو دوسری قوم سے لڑوانے والے ہوں- مگر میرے نزدیک جہاں پہلے سے تعصب موجود ہو اور سیاسی سوالات زیر بحث نہ ہوں وہاں مشترکہ انتخاب میں سب سے زیادہ یہی سوال اٹھایا جائے گا کیونکہ اگر ہندو الگ حلقہ سے منتخب ہو رہا ہو اور مسلمان الگ حلقہ سے تو ہندو کی اپنے ہندو مدمقابل کے خلاف اور مسلمان کی اپنے مسلمان مدمقابل کے خلاف طاقت خرچ ہوگی لیکن اگر ایک ہی حلقہ سے ہندو اور مسلمان کھڑے ہونگے تو تعصب کی موجودگی کی وجہ سے ان کے لئے سب سے سہل طریق یہ ہوگا کہ اپنی اپنی قوم کے تعصب سے اپیل کر کے اس کی مدد حاصل کریں- اصل میں انگلستان کے لوگ اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ الیکشن کے وقت کسی نہ کسی چیز پر حصول امداد کا دارومدار ہوتا ہے- ووٹر کو جگانا آسان کام نہیں- اس کے جگانے کے لئے کوئی ایسا مقصد اس کے سامنے رکھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی غفلت کو ترک کر کے امیدوار کی مدد کے لئے تیار ہو جائے- انگلستان میں اور دوسرے ممالک میں خاص خاص سیاسی پالیساں ہیں جن کی خوشنمائی اور دلفریبی ظاہر کر کے امیدوار ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں تو اب تک کوئی سیاسی پالیسی سوائے انگریزوں کی مخالفت کے نہیں ہے- آزادی کے ساتھ ہی یہ جوش دلانے کا ذریعہ بھی ختم ہو جائے گا- باقی اور کونسی پالیسی ہے جس سے پبلک میں امیدوار جوش پیدا کر سکیں گے- سیاسی پارٹی کوئی ہے نہیں جس کے پروگرام کی تائید کر کے امیدوار لوگوں کی مدد حاصل کرے اور اگر کوئی پارٹی ہو بھی تو ابھی تک چونکہ پارٹی سسٹم پر حکومت کو قائم نہیں کیا گیا اور آئندہ کے لئے بھی سائمن رپورٹ نے اس کا دروازہ بند کر دیا ہے کوئی پارٹی سیاسی پروگرام نہیں تیار کر سکتی- پس کوئی امیدوار جو کسی حلقہ سے کھڑا ہو اپنے حلقہ کے ووٹروں کے سامنے پیش کرے تو کیا؟ کیا وہ اکیلا کوئی پالیسی تیار کر سکتا ہے اور اگر کرے تو کیا اپنے حلقہ کے لوگوں کو یقین دلا سکتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوا تو اس پالیسی پر عمل کرا سکے گا- پارٹی تو یہ امید دلاسکتی ہے کیونکہ وہ بوجہ ایک جماعت ہونے کے اس امر کی امید رکھتی ہے کہ اگر اس کی کثرت ہوئی تو وہ حکومت پر قابض ہو جائے گی اور اپنی پالیسی کے مطابق حکومت کرے گی لیکن ایک فرد کس برتے پر کوئی وعدہ کر سکتا ہے؟ اس کے لئے تو ان حالات میں سوائے قومی اور مذہبی تعصب کی پناہ لینے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہو سکتا پس وہ اسی حربہ کو استعمال کرے گا- پس اب جب کہ علیحدہ انتخاب کی صورت میں امیدوار کی قوم کے سوال پر یا حد سے حد اس کے کانگریسی یا مخالف کانگریس ہونے کی بنیاد پر الیکشن کا جھگڑا طے کیا جاتا ہے- اگر متحدہ انتخاب ہوگا تو مذہب کی بناء پر جنگ ہوگی- پس جب تک کہ حکومت حقیقی طور پر ہندوستانیوں کے ہاتھ میں نہیں آتی اور بجائے اس کے کہ گورنر مختلف پارٹیوں سے چن کر وزارت بنائے ایک وزیر اعظم کے ذریعہ سے وزارت نہیں بنائی جاتی پارٹی سسٹم کبھی ترقی نہیں پا سکتا اور کبھی بھی سیاسی اصول پر انتخابات میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا- ہاں جب صوبہ جات کو آزادی ملے گی اور لوگ یہ محسوس کریں گے کہ قوانین انگریزوں کی طاقت سے نہیں بلکہ وزارت کی مرضی سے بنتے ہیں تب وہ لوگ جن کو ان قانونوں سے تکلیف پہنچی اکٹھے ہونے شروع ہونگے اور اپنے لئے ایک الگ پالیسی مقرر کرلیں گے اور مشترکہ تکلیف کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ تمام ہندو` سکھ` مسلمان اور مسیحی ایک جتھہ بنا لیں گے جن کوان قانونوں سے تکلیف پہنچی ہوگی اور اس طرح آہستہ آہستہ مختلف سیاسی طریق کار ایسے تجویز ہو جائیں گے جن کی بناء پر لوگوں کو انتخاب کی جنگ لڑنا آسان ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ یہ لوگ اپنی پارٹیوں میں ہندو` مسلمان` سکھ` مسیحی ہر قسم کے لوگ شامل رکھتے ہونگے انتخاب کے موقع پر ہندو` مسلم یا سکھ` مسیحی کا سوال نہیں اٹھا سکیں گے اور نہ اس کی انہیں اس وقت ضرورت محسوس ہوگی تب اور صرف تب وہ وقت آئے گا جب ہندوستان کے مخصوص حالات کے لحاظ سے مخلوط طریق انتخاب بغیر فتنہ پیدا کرنے کے ملک کے لئے مفید ہو سکے گا- اس سے پہلے اسے جاری کر کے دیکھ لو` قومی تعصب کی آگ روزانہ تیز سے تیز تر بھڑکنے لگے گی اور یہ علاج جو یورپین نگاہ میں تریاق نظر آتا ہے ہندوستان کو زہر ہو کر لگے گا- پس علیحدہ انتخاب کے طریق کو مسلمانوں پر احسان کر کے نہیں بلکہ ہندوستان کی ترقی اور یہاں کے باشندوں کے اچھے تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری رکھنا چاہئے-
اب رہا یہ سوال کہ اگر اس طریق کو جاری کر دیا گیا تو کیا ہمیشہ کے لئے یہ انوکھا طریق ہندوستان کے گلے پڑا رہے گا؟ آخر اس کے دور کرنے کا بھی کوئی طریق ہوگا یا نہیں؟ مسلمانوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس کے دور کرنے کا طریق یہی ہے کہ وہ اقلیتیں جن کے حق میں اس طریق کو جاری کیا جائے اس کے بدلنے کی سفارش کریں- اس وقت تک حکومتہندوستان کا بھی یہی خیال ہے لیکن میرے نزدیک یہ حل کوئی ایسا آسان حل نہیں- >جن کے حق میں اس قانون کو جاری کیا گیا ہے< مبہم الفاظ ہیں اس کا کون فیصلہ کرے گا کہ یہ قانون کس کے حق میں جاری کیا گیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جن کو جداگانہ انتخاب کا حق دیاگیا ہے یعنی جن کے ووٹروں کی الگ فہرست بنائی جاتی ہے انہیں کے حق میں اس قانون کو سمجھا جائے گا- یہ تعریف بے شک ایک حد تک مشکل کو حل کر دیتی ہے لیکن بعض صوبوں میں اس تعریف سے بھی کام نہیں چلتا- مثلاً پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ ایک عام حلقہانتخاب ہے- پس معلوم ہوا کہ یہ حق پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کو ملا ہے- لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اوپر کی دونوں قوموں کو چھوڑ کر ہندوئوں اور مسیحیوں کے سوا کسی اور مذہب کے لوگ پنجاب میں نہیں ہیں اور مسیحیوں کی تعداد بھی اس قدر کم ہے کہ یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ نام کے سوا عام حلقہ انتخاب میں ہندوئوں کے سوا کوئی اور قوم بھی شامل ہے- پس ہندو میرے نزدیک جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں اور سکھوں کو الگ کر کے درحقیقت عام حلقہ انتخاب کا لفظ محض ایک نام کی حیثیت رکھتا ہے ورنہ اس سے مراد ہندو ہی ہیں اس لئے یہ حق پنجاب میں ہماری خاطر بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ مسلمانوں اور سکھوں کی خاطر اور کم سے کم میرے نزدیک ان کا یہ دعویٰ خلاف عقل نہیں ہوگا- پس ان حالات میں وہی ہندو جو آج اپنے فائدہ کے لئے مخلوط انتخاب کا دعویٰ کرتے ہیں کل کو مسلمانوں کا فائدہ دیکھ کر علیحدہ انتخاب پر زور دیں گے- اس وقت اس طریق کو جو درحقیقت ایک عارضی تدبیر کے طور پر ہے کس طرح چھوڑا جا سکے گا؟
ابھی چند دن ہوئے ایک مشہور مسلمان سیاسی لیڈر سے اس بارہ میں میری گفتگو ہوئی اور میں نے ان سے یہی سوال کیا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اس طریق انتخاب کو چھوڑنا پڑے گا- اس وقت ہم کس طرح اس طریق کو چھوڑ سکیں گے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے اختیار میں ہوگا کہ ہم چھوڑ دیں- میں نے کہا کہ سائمن رپورٹ نے پنجاب میں اسے ہمارے اختیار میں نہیں رکھا بلکہ ہندو` مسلمان` سکھ تینوں قوموں کی رضامندی پر اس کے منسوخ ہونے کو منحصر رکھا ہے- انہوں نے کہا کہ بے شک لیکن ہم یہ زور دیں گے کہ جس کی خاطر یہ قانون رکھا جائے اس کی مرضی پر یہ منسوخ ہونا چاہئے- میں نے کہا کہ اگر رائونڈٹیبل کانفرنس کے موقع پر ہماری اس دلیل کو کارگر ہوتے دیکھ کر سکھوں اور ہندوئوں نے بھی پنجاب میں اپنے لئے علیحدہ انتخاب کا مطالبہ پیش کیا تو پھر؟ انہوں نے جواب دیا کہ تب ہم مخلوط انتخاب کی طرف آ جائیں گے- سکھ اور ہندو جداگانہ انتخاب کو اختیار کر لیں گے اور مخلوط انتخاب ہمارے حصہ میں آ جائے گا جو کہ اس صورت میں بغیر جداگانہ انتخاب کا الزام اپنے سر لینے کے جداگانہ انتخاب کے برابر ہی مفید ہوگا- چونکہ چائے پر دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی اور کم سے کم میں اپنے دماغ پر پورا زور نہیں دے رہا تھا مجھے یہ تجویز معقول معلوم ہوئی- مگر بعد میں جب میں نے اس کے سب پہلوئوں پر غور کیا تو مجھے یہ تجویز بالکل نامناسب معلوم دی کیونکہ یہ امر میرے دوست کے ذہن سے اتر گیا تھا کہ جداگانہ انتخاب کا حق جسے دیا جائے اس کا چھوڑنا اسی کے اختیار میں ہے- سو اگر مسلمان اس پوزیشن کو اختیار کر لیں گے جو انہوں نے تجویز کی تھی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نئے نظام حکومت کے بعد دوسرے ہی الیکشن پر ہندو` سکھ اپنے اس حق کو چھوڑ کر ہم سے آ ملیں گے اور ہمارے پاس ان کے روکنے کے لئے کوئی دلیل نہ ہو گی کیونکہ مخلوط انتخاب والے کا حق نہیں کہ وہ علیحدہ حلقہ انتخاب والے کو جداگانہ انتخاب کا حق چھوڑنے سے روک سکے- پس نتیجہ یہ ہوگا کہ پیشتر اس کے کہ پنجاب مخلوط انتخاب کے لئے تیار ہو` وہ جداگانہ انتخاب کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اور نظام چونکہ قائم ہو چکا ہوگا مسلمان دوبارہ اس سوال کو نہیں اٹھا سکیں گے-
غرض کم سے کم پنجاب میں اس علاج سے ہماری مشکلات کا حل نہیں ہو سکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم کوئی نیا علاج تجویز کریں- میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس کا علاج ایک ہی ہے کہ علیحدہ انتخاب کا حق صرف محدود سالوں کے لئے ہو- اس عرصہ کے گذر جانے پر خود بخود سب ملک میں مخلوط انتخاب کا طریق رائج ہو جائے گا- ہاں اس عرصہ کے گذرنے سے پہلے بھی اگر اس جماعت کے تین چوتھائی منتخب نمائندے جس کے حق میں اس طریق کو جاری کیا گیا ہو یہ فیصلہ کر دیں کہ وہ اس حق کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور گورنرصوبہ کی رائے ہو کہ وہ اپنی قوم کی ترجمانی کر رہے ہیں تو اس قوم کے حق میں اس طریق انتخاب کو ترک کر دیا جائے- قوم کی ترجمانی معلوم کرنے کا ذریعہ یہ ہو کہ گورنر ان کی اس رائے کو شائع کر کے پبلک رائے کو معلوم کرلے-
‏a11.12
میں نے جہاں تک غور کیا ہے پچیس سال کا عرصہ اس انتخاب کے طریق کو جاری رکھنے کے لئے کافی ہے وہ اقوام جو ڈرتی ہیں کہ کہیں ہماری حق تلفی نہ ہو- اگر وہ اس عرصہ میں بھی اپنے آپ کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کر سکیں تو وہ مزید امداد کی مستحق نہیں ہیں لیکن یہ عرصہ نئے نظام سے شروع ہو- گذشتہ زمانہ اس میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اس زمانہ میں صوبہ جات کو آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی اور بیداری بغیر آزادی کے نہیں پیدا ہوتی-
اس پچیس سال کے عرصہ کے بعد جہاں جہاں اور جس جس قوم کے حق میں یہ طریق ابھی جاری ہو اسے موقوف کر دیا جائے لیکن شرط یہ ہو کہ صرف ان اقلیتوں کے حق میں اسے موقوف کیا جائے جو تین فیصدی سے زائد ہوں- جن اقلیتوں کی تعداد تین فیصدی سے کم ہو اور انہیں جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو ان کے اس حق کو بغیر ان کی مرضی کے خواہ کسی قدر عرصہ بھی گذر جائے- باطل نہ کیا جائے دوسری شرط یہ ہو کہ اس صورت میں اس حق کو باطل کیا جائے جب کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو چکا ہو- جن قوموں کے حق میں اس قانون کو پچیس سال بعد منسوخ کر دیا جائے ان کی بھی میرے نزدیک دو قسمیں ضروری ہیں- اگر تو وہ قوم جسے جداگانہ انتخاب کا حق دیا گیا ہو اس کی صوبہ میں اکثریت ہے تب تو کلی طور پر اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے- لیکن اگر وہ قوم اقلیت ہے تو جداگانہ انتخاب تو منسوخ ہو لیکن مخلوط انتخاب کے ساتھ اس کی تعداد یا اس کے مقررہ حق کے برابر نشستیں جو بھی ان میں سے زیادہ ہوں اس قوم کے لئے مقرر کر دی جائیں اور ان مقررہ نشستوں کو ترک کر کے کلی طور پر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا اس قوم کے تین چوتھائی افراد کے ریزولیوشن پر منحصر ہو- اور اس کے ساتھ بھی وہی شرطیں ہوں جو میں وقت سے پہلے جداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرنے کے متعلق بیان کر آیا ہوں-
مختلف اقوام کی نیابت کا تناسب
جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر ایک قوم کی نمائندگی کا تناسب کیا ہوگا- کیونکہ جس ملک میں یہ طریق جاری نہ ہو وہاں سوائے اس صورت کے کہ مخلوط انتخاب کے ساتھ نشستوں کا تعین کیا جائے یہ سوال بلاواسطہ طور پر پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب سب لوگ مل کر نمائندے منتخب کریں اور نشستوں کا تعین بھی نہ ہو تو جو قوم زیادہ جگہیں لے سکتی ہو لے جائے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا- پس یہ سوال خصوصیت کے ساتھ علیحدہ انتخاب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسی کے ساتھ اسے بیان کرنا مناسب ہے-
مسلمانوں کا مطالبہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں شروع سے یہ رہا ہے کہ چونکہ ان کی پولیٹیکل حیثیت اس ملک میں بہت زیادہ ہے- کیونکہ انگریزوں نے ان سے حکومت لی ہے اور اکثر حصے ملک کے ایسے ہیں جو مسلمان بادشاہوں سے بطور ٹھیکہ کے انہوں نے لئے تھے یا بطور انعام کے ان کو ملے تھے پس عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ جس قوم سے حکومت بطور مستاجری یا انعام میں لی گئی ہو اس کے حق کو وقعت دی جائے- اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مسلمان فوجی خدمات میں اپنی قومی تعداد سے زیادہ حصہ لیتے رہے ہیں اس لئے بھی انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہئے- یہ مطالبہ معقول ہے یا غیر معقول میں اس بحث میں نہیں پڑتا- بہرحال اس کو لارڈ منٹو تسلیم کر چکے ہیں اور مسٹر گوکھلے جیسا لیڈر اس کی تصدیق کر چکا ہے-
لارڈ منٹو کے اعلان کے بعد ہندو مسلم سمجھوتے کے لئے لکھنئو میں ایک مجلس ہوئی تھی جس میں ہندوئوں نے اس اصل کو قبول کر کے مسلمانوں سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہندو صوبوں میں ہندو مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد حق دے دیں گے لیکن اسی طرح مسلمان مسلمانصوبوں میں ہندوئوں کو ان کے حق سے زائد نشستیں دے دیں- مسلمانوں نے بدقسمتی سے اسے منظور کر لیا- میں اسے بدقسمتی کہتا ہوں کیونکہ تمام بعد میں ظاہر ہونے والے فسادات اسی سمجھوتہ پر مبنی ہیں- ایک طرف ہندو مسلمانوں کو یہ سمجھوتہ یاد دلاتے ہیں دوسری طرف برطانوی نمائندے اس سمجھوتہ کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان نمائندوں نے اپنی طرف سے تو اپنی قوم سے نیکی ہی کرنی چاہی تھی لیکن ہو گئی برائی- اگر لارڈ منٹو کے اعلان اور اس پر مسٹر گوکھلے اور دوسرے ہندو لیڈروں کی تصدیق تک ہی معاملہ ختم ہو جاتا تو مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہوتا- لیکن جہاں تک میرا خیال ہے بعض ہندوئوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمان اپنا حق لے چلے ہیں یہ چال چلی اور مسلمانوں سے میثاق لکھنو باندھ کر ہمیشہ کے لئے انہیں اپاہج کر دیا- لکھنئو پیکٹ کیا ہے ایک اقرار ہے کہ ہندوستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب نہ ہوگا- تعداد کے لحاظ سے بے شک مسلمانوں کو بہت کچھ مل گیا ہے لیکن قیمت کے لحاظ سے وہ سب کچھ کھو بیٹھے ہیں- سائمنرپورٹ نے بھی مسلمانوں کو یاد دلایا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی مسلمانوں کو ان کے حق سے بہت زیادہ ملے اور پنجاب اور بنگال میں بھی انہیں قانون کے ذریعہ سے کثرت دلا دی جائے-
میرے نزدیک لکھنئو پیکٹ ایک غلطی تھی لیکن اس کے پیش کرنے والوں کو ایک بات بھول جاتی ہے اور وہ یہ کہ لکھنئو پیکٹ کی کبھی بھی تصدیق نہیں کی گئی- وہ ہمیشہ کے لئے ایک منسوخ شدہ تحریر کی حیثیت میں رہا ہے اور اس امر کی تو سائمن رپورٹ بھی شہادت دیتی ہے کہ کم سے کم موجودہ زمانہ میں وہ قابل توجہ نہیں ہے- اس میں لکھا ہے-:
>اس )لکھنئو کے( معاہدہ کو اب دونوں ہی فریق نمائندگی کا صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں تسلیم کرتے<- ۵۳~}~
لیکن حق یہ ہے کہ کبھی بھی اس پیکٹ پر عمل نہیں ہوا کیونکہ اس میں ایک اہم شرط تھی جس کی بناء پر یہ فیصلہ تسلیم کیا گیا تھا اور اس شرط پر ایک دن کے لئے بھی عمل نہیں ہوا اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کے ممبروں کی تین چوتھائی یہ فیصلہ کر دے کہ کسی قانون کا ان کی قوم پر خاص طور پر مضر اثر پڑتا ہے تو وہ قانون پاس نہیں ہو سکے گا یہ قانون کبھی بھی قانون کی صورت میں نہیں آیا- پس جس اطمینان کی صورت کی امید دلانے پر مسلمان اس فیصلہ پر راضی ہوئے تھے جب کہ وہ صورت ہی پیدا نہیں ہوئی تو معاہدہ کی کیا ہستی رہی؟ غرض اس معاہدہ پر کسی فیصلہ کی بنیاد رکھنی بالکل درست نہیں اور جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے موجودہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہمیں کوئی اور راہ تلاش کرنی ہوگی-
سائمن کمیشن نے یہ راہ تجویز کی ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں تو انہیں وہی حقوق دے دیئے جائیں جو ان کو ملے ہوئے ہیں ]71 [p۵۴~}~ لیکن پنجاب اور بنگال جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں ان کے نزدیک مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق حقوق دینے کمیشن کے نزدیک درست نہیں- کیونکہ
>اس سے مسلمانوں کو دونوں صوبوں )بنگال اور پنجاب( میں ایک معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی<- ۵۵~}~
کمیشن کا خیال ہے کہ-:
>موجودہ زائد حق جو چھ صوبوں میں مسلمانوں کو حاصل ہے اس کی موجودگی میں بغیر دونوں قوموں میں کوئی نیا معاہدہ ہونے کے انصاف کے خلاف ہوگا کہ انہیں بنگال اور پنجاب میں موجودہ حق سے زائد دے دیا جائے<-
کمیشن پھر خود ہی ایک تجویز پیش کرتا ہے- جس کے قبول کرنے پر وہ امید دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے زائد حقوق دوسرے صوبوں سے نہیں چھینے جائیں گے اور جن صوبوں میں ان کی اکثریت ہے ان میں بھی انہیں زیادہ نمائندگی حاصل کرنے کا موقع رہے گا اور وہ یہ ہے کہ وہ بنگال میں مخلوط انتخاب کو مان لیں-
پنجاب کے متعلق بھی ان کا خیال ہے کہ اگر مسلمان سکھ اور ہندو تینوں مخلوط انتخاب پر راضی ہو جائیں تو اس سمجھوتے کے بعد وہ مسلمانوں کے باقی صوبوں سے زائد حق نہیں چھینیں گے-
ایک ایسی جماعت سے جس میں سرجان سائمن (SIRJOHNSIMON) جیسا قانوندان شامل ہو اس قسم کی غیر معقول تجویز کی میں ہر گز امید نہیں کر سکتا تھا- کمیشن نے اس تجویز کے پیش کرتے وقت کئی امور بالکل نظر انداز کر دیئے ہیں- اول یہ کہ جو چیز انسان کی اپنی نہ ہو اسے وہ کسی کو دینے کا حق نہیں رکھتا- وہ لکھتے ہیں کہ-:
>اگر باہمی سمجھوتے سے بنگال میں جداگانہ انتخاب کے طریق کو ترک کر دیا جائے تا کہ ہر اک جماعت ایک متحدہ حلقہ انتخاب سے اپیل کر کے جس قدر نشستیں لے جا سکے لے جائے- ہم اس بناء پر مسلمانوں سے ان دوسرے صوبوں میں کہ جہاں وہ اقلیت ہیں- جو زائد حق انہیں ملا ہوا ہے` نہیں چھینیں گے<- ۵۶~}~
جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر پنجاب اور بنگال دونوں مسلم صوبوں میں سے بنگال میں یہ سمجھوتہ ہو جائے کہ جداگانہ طریق انتخاب کو چھوڑ کر مخلوط انتخاب جاری کر لیا جائے تو وہ اس صورت میں دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کے حق سے کچھ کم نہیں کریں گے- لیکن سوال یہ ہے کہ جب ملک کی قوموں میں ¶آپس میں سمجھوتہ ہو جائے کہ وہ باوجود دوسری جگہ مسلمانوں کو زائد حق دینے کے اس صوبہ میں ان سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے جس میں وہ اکثریت ہیں تو اس میں سائمن کمیشن کا کیا دخل ہے- سائمن کمیشن کا دخل تو اس صورت میں ہو سکتا تھا اگر وہ یہ کہتا کہ اگر مسلمان بنگال میں مخلوط انتخاب کو ترک کر دیں تو ہم بغیر دوسرے صوبوں میں سے مسلمانوں کا حق کم کرنے کے بنگال میں عام مقابلہ کی انہیں اجازت دے دیں گے لیکن جب بنیاد انہوں نے مختلف قوموں کے اتفاق پر رکھی ہے تو ان کی دخل اندازی کا سوال ہی نہیں رہتا- اس قسم کی بات انہوں نے پنجاب کے متعلق بھی کہی ہے-
دوسری خلاف عقل بات ان کی اس تحریر سے یہ نکلتی ہے کہ ایک طرف تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں اس وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں بھی انہیں اس حق کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر انہیں حق دے دیا جائے اور دوسرے صوبوں میں بھی انہیں ان کی آبادی سے زیادہ حق دے دیا جائے- اور دوسری طرف وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر بنگال اور پنجاب میں مسلمان اور دوسری قومیں سمجھوتہ سے جداگانہ انتخاب کو چھوڑ دیں تب ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں ان کا حق کم کرنے کے بغیر انہیں ان دونوں صوبوں میں آزاد مقابلہ کی اجازت دے دی جائے- اب ایک ادنیٰ غور سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں دعوے متضاد ہیں- کیونکہ ایک طرف تو مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں میجارٹی (MAJORITY)سے اس لئے محروم کیا گیا ہے کہ جداگانہ انتخاب ان کے مطالبہ پر جاری کئے گئے ہیں اس وجہ سے انہیں مستقل اکثریت کا حق نہیں دیا جا سکتا- دوسری طرف کمیشن کہتا ہے کہ جداگانہ انتخاب کا طریق چھوڑ کر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں بلکہ دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے- اگر یہ تبدیلی دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے تو مسلمانوں کی وجہ سے اس قانون کا اجراء نہ ہوا بلکہ سب قوموں کے لئے ہوا- پس کمیشن کا جداگانہ انتخاب کی بناء پر مسلمانوں سے کسی قربانی کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوا- لیکن اگر یہ درست ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کی خاطر جاری کیا گیا ہے اور اس وجہ سے انہیں اکثریت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے تو پھر اس کا ترک کرنا بھی صرف انہی کی مرضی پر منحصر ہونا چاہئے نہ کہ دوسروں کی رضامندی پر-
تیسری بات جو کمیشن کے اس فیصلہ میں خلاف عقل نظر آتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے یہ غور نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں کو کیا دیتے ہیں اور ان سے کیا لیتے ہیں- وہ جو کچھ مسلمانوں کو دیتے ہیں وہ چند نشستیں ہیں اور جو لیتے ہیں وہ اکثریت ہے اور اقتصادیات کا یہ ایک موٹا اصل ہے کہ چیزوں کی قیمت ان کی تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان کے فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے- کیا سرجان سائمن اپنی پارٹی کی طرف سے یہ سمجھوتہ کسی دوسری پارٹی سے کرنے کو تیار ہونگے کہ جس دفعہ ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں میجارٹی حاصل ہو سکتی ہو وہ اس میجارٹی کو چھوڑ دیں- اور بجائے اس کے آئندہ مختلف پارلیمنٹوں میں مثلاً دس فیصدی نشستیں انہیں حاصل ہو سکتی ہوں تو پندرہ فیصدی نشستیں ان کی پارٹی کو بلا مقابلہ دوسری پارٹیاں دے دیا کریں- یہ ایک موٹیبات ہے کہ دس پارلیمنٹوں کی مینارٹی کی قلیل زیادتی بھی ایک دفعہ کی میجارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی- لیکن سائمن کمیشن اس ظلم اور اس تعدی کا نام برطانوی انصاف رکھتا ہے کہ مسلمانوں کو چھ صوبوں میں کچھ زائد حق دے کر وہ مسلمانوں کو دو صوبوں کی میجارٹی سے محروم کر دیتا ہے اور محروم بھی ابدی طور پر کیونکہ آئندہ میجارٹی کے امکان کو بھی وہ اس شرط سے مشروط کر دیتا ہے کہ دوسری پارٹیاں قواعد کو تبدیل کرنے پر راضی ہوں اور اتنا بھی نہیں سوچتا کہ ان پارٹیوں کو مستقل میجارٹی (MAJORITY) چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے-
چوتھی بات جو اس فیصلہ میں خلاف عقل ہے یہ ہے کہ سائمن رپورٹ مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں ان کی تعداد کے مطابق نیابت دینے سے اس وجہ سے انکار کرتی ہے کہ-:
>اس سے مسلمان کو دونوں صوبوں میں معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی<- ۵۷~}~
گویا سائمن کمیشن کی نگاہ میں کسی جماعت کو خواہ وہ اکثریت ہی کیوں نہ ہو- مستقل میجارٹی (MAJORITY) دینا درست نہیں اور حد سے بڑھا ہوا مطالبہ ہے لیکن اس حد سے بڑھے ہوئے مطالبہ کا علاج وہ یہ کرتا ہے کہ اقلیت کو مستقل میجارٹی دے دیتا ہے- کیونکہ وہ موجودہ طریق کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور موجودہ قانون میں بنگال اور پنجاب میں درحقیقت ہندوئوں کو اکثریت حاصل ہے- پنجاب کے معاملہ کو اگر مشتبہ بھی قرار دیا جائے تو بھی بنگال کا معاملہ تو بالکل واضح ہے- جنرل کانسٹیچیوانسی (GENERALCONSTITUENCY) میں چھیالیس ہندو ممبر ہیں اور انتالیس مسلمان ممبر ہیں- ادنیٰ اقوام میں سے جو ممبر ہوگا وہ بھی ہندو ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوتا ہے اس طرح ہندوئوں کو سینتالیس ممبریاں مل گئیں- لیبر کی طرف سے دو ممبر مقرر ہیں- جن میں سے کم سے کم ایک ہندو ہوگا تو اڑتالیس ہندو ہوں گے- اگر ایک لیبر کا ممبر مسلمان فرض کر لیا جائے- جو عام طور پر نہیں ہوتا تو چالیس مسلمان ہوئے- زمینداروں کی کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY)کی طرف سے پانچ ممبر ہوتے ہیں- عملاً وہ سب کے سب ہندو ہوتے ہیں لیکن اگر ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو فرض کر لیتے ہیں کہ چار ہندو اور ایک مسلمان ہوگا- اس طرح باون ہندو اور اکتالیس مسلمان ہوئے- یونیورسٹی کا ممبر بوجہ ہندو ووٹروں کی تعداد زیادہ ہونے کے لازماً ہندو ہوگا- بہرحال اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ ممبر باری باری ہندو مسلمانوں میں سے منتخب ہوتا رہے گا تو اس کو دونوں طرف نہیں ڈالتے- لیکن تجارت چونکہ پورے طور پر ہندوئوں کے قبضہ میں ہے- چار ہندوستانی ممبر سب کے سب ہندو ہونگے- یہ فرض کر کے شاید کبھی مسلمان بھی ہو جائے- ووٹروں کی تعداد کا ایک سرسری اندازہ لگا کر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ چار میں سے ایک مسلمان ہو جایا کرے گا اور اس طرح کل ہندو ممبر چون اور مسلمان بیالیس بنتے ہیں- یعنی بارہ کا فرق ہے- انگریز اینگلوانڈین (ANGLOINDIANS) اور ہندوستانی مسیحیوں کی تعداد آٹھ بنتی ہے- اور تجارت کے انگریزنمائندے ملا کر یہ تعداد انیس ہوتی ہے- گویا اکثریت جو چون فیصدی سے کچھ اوپر ہے اس کے کل نمائندے بیالیس اور اقلیت جو پینتالیس فیصدی سے کچھ کم ہے- اس کے کل نمائندے تہتر ہو جاتے ہیں- یعنی پچھتر فیصدی زیادہ حق اقلیت کو دے دیا گیا ہے- اگر انگریز اور مسیحینمائندوں کو نکال دیا جائے تب بھی ہندو ممبر اپنے حق سے ساٹھ فیصدی زیادہ لے گئے ہیں اور مسلمانوں سے قریباً پچیس فیصدی زیادہ ہیں حالانکہ آبادی میں وہ ان سے بیس فیصدی کم ہیں- یہ اندازے جو میں نے اوپر لکھے ہیں بہت نرم ہیں عملاً جو کچھ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوتا ہے- چنانچہ ۱۹۲۲ء میں منتخب شدہ ممبر چھیالیس ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- زمینداروں کی کانسٹیچیوانسی (CONSTITUENCY) میں سے پانچوں ہندو تھے` یونیورسٹی کا ممبر ہندو تھا` تجارتیممبریوں میں سے گیارہ انگریز اور چار ہندو تھے- ادنیٰ اقوام کا ممبر بھی ہندو تھا- گویا ستاون ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- پھر گورنر صاحب نے جو غیر سرکاری ممبر اپنے اختیار سے نامزد کئے وہ چار تھے لیکن انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ہندو اپنے حق سے بہت زیادہ لے چکے ہیں انہوں نے بھی بجائے مسلمانوں کی کمی کو پورا کرنے کے ایک مسلمان اور تین ہندو نامزد کئے گویا ساٹھ ہندو اور چالیس مسلمان مقرر ہو گئے اور وہ مسلمان جن کو ہندوئوں کے مقابل پر پچیس فیصدی کی اکثریت حاصل تھی ان پر ہندوئوں کو ساٹھ فیصدی کی اکثریت دے دی گئی-
خلاصہ یہ کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو توڑ کر بنگال میں قانونی طور پر غیر مبدل اکثریت ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف دے دی گئی ہے اور پنجاب میں بھی کم سے کم ۱۹۲۲ء میں ہندوئوں اور سکھوں کو مسلمانوں پر اکثریت حاصل تھی- اب ممکن ہے کہ مساوات حاصل ہو- پس غور کے قابل بات یہ ہے کہ اکثریت کو قانوناً اگر اکثریت دینی جائز نہیں تو اس کی اکثریت کو قانونا توڑ دینا یا کسی ایک اقلیت یا اقلیتوں کے مجموعہ کو قانونی اکثریت دے دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے- اور کیا اس ناواجب طریق کو جاری رکھتے ہوئے سائمن کمیشن کو یہ خیال نہیں گذرا کہ یہ طریق اکثریت کو اکثریت دینے سے زیادہ ظالمانہ ہے؟ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہندوئوں کی اکثریت خاص منافع کی نمائندگی کے سبب سے ہے نہ کہ عام حلقہ ہائے نیابت کی وجہ سے- کیونکہ بنگال میں تو عام حلقہ نیابت میں بھی ہندوئوں کو مسلمانوں کی انتالیس نشستوں کے مقابل پر چھیالیس نشستیں دی گئی ہیں زمینداری` تجارتی` یونیورسٹی اور ڈپرسڈ کلاسز (DEPRESSEDCLASSES) کے نام سے ان کی اکثریت کو صرف مزید تقویت دی گئی ہے- اور پنجاب میں بھی یہی بات ہے کہ خاص منافع کے نام سے ہندوئوں اور سکھوں کو اکثریت دے دی گئی ہے- مگر سوال یہ ہے کہ یہ خاص منافع کی نشستیں کس نے قائم کی ہیں- آیا قانون نے یا مسلمانوں نے- جو قانون اس قسم کی مصنوعی شاخیں پیدا کر کے ایک اکثریت کی اکثریت کو باطل کر دیتا ہے کیا وہ ظالمانہ نہیں اور کیا اس کا بدلنا کمیشن کا فرض نہ تھا کیا اس قسم کی خاص نشستیں انگلستان میں جاری ہیں وجہ کیا ہے کہ وہاں تو تجارت کے باوجود ہندوستان سے زیادہ اہم ہونے کے علیحدہ نمائندگی کی مستحق نہیں قرار پاتی اور ہندوستان میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- اگر انگریزی تجارت بوجہ غیر ملکی ہونے کے خاص نمائندوں کی مستحق تھی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ انگریزوں کو زائد نمائندگی دینے کے لئے ہندوئوں کو بھی زائد نمائندگی دے کر مسلمانوں سے بڑھایا جاتا ہے مگر میں اس سوال کے متعلق آگے چل کر زیادہ تفصیل سے لکھوں گا اس لئے یہاں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں-
پانچویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ ایک طرف تو وہ فیڈرل اصول کو جاری کر کے یہ اصل تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کے صوبہ جات ایک آزاد ہستی رکھتے ہیں یا لارڈ منٹو (LORDMINTO) کے الفاظ میں ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے- لیکن اس کے برخلاف جب مسلمانوں کے حقوق کا سوال آتا ہے تو وہی کمیشن یہ کہتا ہے کہ چونکہ دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کو زیادہ حق مل گیا ہے اس لئے پنجاب اور بنگال میں ان کی میجارٹی قائم نہیں رکھی جا سکتی- کیا وہ صوبہ جات جو فیڈریشن کے اصول پر زور دیتے ہیں اس امر کو پسند کر سکتے ہیں کہ ایک صوبہ کا حق دوسرے کو دے دیا جائے- کیا دنیا میں کسی اور جگہ بھی یہ قائدہ ہے کہ ایک پارٹی کو ایک صوبے میں زیادہ حق دے دیا جائے اور دوسری کو دوسرے میں- کیا اس قسم کا فیصلہ آسٹریلیا یا کینیڈا کے صوبوں کے متعلق کوئی کمیشن بغیر خطرناک نتائج پیدا کرنے کے کر سکتا ہے- پھر یہ قربانی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کس طرح جائز ہو سکتی ہے- کیا کبھی بھی بنگال اور پنجاب کے باشندوں نے سائمن کمیشن یا کسی اور کمیشن کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ان کے حقوق دوسرے صوبوں کے مسلمانوں میں تقسیم کر دے اور وہ بھی اس طرح کہ مسلمان ہر جگہ کمزور ہو جائیں- میں ذاتی طور پر تو اس امر کے لئے تیار ہو جائوں گا کہ اگر مثلاً یو-پی اور بہار میں مسلمانوں کو میجارٹی دے دی جائے تو بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو مائنارٹی (MINORITY) دے دی جائے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ دوسرے مسلمان بھی اس پر راضی ہوں- لیکن اس امر پر تو کوئی مسلمان جماعت راضی نہیں اور راضی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے صوبوں کی مسلمان اقلیتوں کو اس قدر حق زائد دے کر جن سے وہ پھر بھی اقلیت میں ہی رہیں مسلمانوں کی دو جگہ کی اکثریت کو اقلیت سے بدل دیا جائے- اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہندوئوں نے جو قربانی دوسرے صوبوں میں کی ہے` اس کا بہت بڑا بدلہ ان کو مل چکا ہے اور وہ یہ کہ صوبہ سرحد کے مسلمان صوبے کو ان کی شہہ اور ان کی خوشی کے لئے اب تک آزادی سے محروم رکھا گیا ہے-
بہرحال کسی کمیشن کا یہ حق نہیں کہ پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کا حق وہ اور کسی صوبہ کے لوگوں کی خاطر قربان کر دے- ان دونوں صوبوں کے مسلمان اس کو قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں اور میں جانتا ہوں کہ خواہ کس قدر قربانی ہی کیوں نہ کرنی پڑے وہ ہر گز اس کے لئے تیار نہیں ہونگے- اگر برطانیہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو کسی زائد حق کا حقدار نہیں سمجھتا تو وہ اس زیادتی کو جو دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو دی ہے واپس لے سکتا ہے- لیکن وہ ان صوبوں کو کوئی زیادتی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو کمزور کر کے کسی صورت میں نہیں دے سکتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی کوئی ایسی زیادتی قبول نہیں کریں گے جس کی ناقابل برداشت قیمت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں سے وصول کی جائے- اگر قیمت لینی ہے تو صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان اس قیمت کو ادا کرنے کو تیار ہیں- چنانچہ صوبہ سرحد کے مسلمان اس امر کو قبول کرتے ہیں کہ ہندوئوں کو پچیس فیصدی تک حق دے دیں گویا ان کی آبادی سے پانچ گنے زیادہ- اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے مسلمان بھی اگر انہیں آزادی ملے تو تیار ہیں کہ دوسرے صوبہجات کے مسلمانوں کی خاطر ہندوئوں کو ان ¶کے حق سے بہت زیادہ تعداد میں نیابت دے دیں-
چھٹی غلطی اس فیصلہ میں کمیشن سے یہ ہوئی ہے کہ باوجود اس امر کو تسلیم کرنے کے کہ لکھنئو پیکٹ پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا اور اب تو دونوں پارٹیاں اسے رد کرتی ہیں یہ خیال اس کے ذہن پر مستولی رہا ہے کہ مسلمانوں کو جو کچھ دوسرے صوبوں میں ملا ہے وہ لکھنئو پیکٹ کی وجہ سے ملا ہے اور اس وجہ سے لکھنئو پیکٹ کے مطابق پنجاب اور بنگال میں بھی عمل ہونا چاہئے لیکن یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے- نہ مسلمانوں کا دعویٰ لکھنئو پیکٹ پر مبنی ہے اور نہ اس کی بناء پر وہ کسی تبدیلی کے لئے تیار ہیں- مسلمانوں کو اگر ہندو اکثریت کے صوبوں میں کوئی حق ملا ہے یا اس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی بناء لارڈ منٹو کے اعلان پر ہے- جیسا کہ میں پہلے نقل کر چکا ہوں- لارڈ منٹو نے بحیثیت وائسرائے کے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں یہ اعلان کیا تھا کہ-:
>آپ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ موجودہ قوانین کی بناء پر جو جماعتیں کونسلوں کے ممبر منتخب کرتی ہیں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی مسلمان امیدوار کو منتخب کریں گی اور یہ کہ اگر اتفاقا وہ ایسا کر دیں تو یہ اسی صورت میں ہوگا کہ وہ امیدوار اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اکثریت کے ہاتھ فروخت کر دے اور اس وجہ سے وہ امید وار اپنی قوم کا نمائندہ نہیں ہوگا-
اسی طرح آپ لوگ بالکل جائز طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا فیصلہ صرف آپ کی قوم کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس فیصلہ کے وقت آپ کی قوم کی سیاسی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو اس نے حکومت برطانیہ کی تائید میں کی ہیں- میں آپ کے اس خیال سے بالکل متفق ہوں<-
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ لارڈ منٹو (LORDMINTO) تسلیم کرتے ہیں کہ- )۱( جداگانہ انتخاب کے طریق کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لئے کوئی احسان نہیں بلکہ صرف انہیں موت سے بچانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے-
)۲( مسلمانوں کا حق ہے کہ ان کی تعداد سے زیادہ ان کو نیابت دی جائے- پس جداگانہ انتخاب کو سائمن کمیشن یا کوئی اور جماعت احسان قرار دے کر اس کے بدلہ کی طالب نہیں ہو سکتی- وہ ایک ایسا طریق ہے جس کو لارڈ منٹو نے مسلمانوں کے حقوق کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ہے- اسی طرح مسلمانوں کو ان کی تعداد سے زائد نیابت کا دیا جانا بھی لارڈ منٹو کے اعلان کے مطابق کسی اور صوبے میں اپنا حق چھوڑ دینے کے بدلہ میں نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی اہمیت اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہے- پس اس زیادتی کے بدلہ میں پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حق کو تلف کرنا برطانیہ کے لئے ہر گز جائز نہیں ہو سکتا- برطانیہ کے نمائندے کہہ سکتے ہیں کہ لارڈمنٹو کا اعلان ایک پرزہ کاغذ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا- وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم اس امر کا خیال کریں کہ ہندوستان کا بڑا حصہ مسلمان حکومت سے بطور انعام یا بطور مستاجری ہمیں ملا تھا اس لئے مسلمانوں کو کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں- اور پھر وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی قیمت ادا ہو چکی- یا یہ کہ اب ان سے بڑھ کر خدمت کرنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں اس لئے ہم نے جن صوبہجات میں مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد نیابت دی تھی اسے اب واپس لیتے ہیں- لیکن وہ یہ بات کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کی قربانی کے بدلہ میں انہوں نے دوسریصوبہ جات کے مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد دیا تھا کیونکہ یہ امر حکومت ہند کے ریکارڈ کے خلاف ہے- اگر انہیں وہ زیادتی گراں معلوم ہوتی ہے تو وہ بے شک اسے واپس لے لیں لیکن وہ ہم سے اس قربانی کا مطالبہ نہ کریں جو قربانی ہم کسی صورت میں کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور جو مسلمان نمائندہ بھی اس فیصلے پر راضی ہو گیا کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو قربان کر دیا جائے تو مسلمان اسے یقیناً غدار سمجھیں گے اور میرے نزدیک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہونگے-
کمیشن کی یہ دلیل کہ کسی قوم کو مستقل میجارٹی نہیں دی جا سکتی بالکل بے حقیقت ہے- میجارٹی کو مستقل میجارٹی ہی دی جاتی ہے- اقلیت کو میجارٹی بے شک نہیں دی جاسکتی مگر اس مستقل اور غیر مستقل کی کوئی شرط نہیں- لیکن کمیشن کا فعل تو بالکل ہی عجیب ہے کہ اس نے اقلیت کو تو قانوناً اکثریت دے دی ہے لیکن اکثریت کو اکثریت دینے سے انکار کر دیا ہے-
ساتویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ آخر میں اس حقیقت کو بھی ظاہر کر دیا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ کن مخفی اغراض پر مبنی ہے- کمیشن پنجاب اور بنگال میں جائنٹالیکٹوریٹ (JOINTELECTORATE) کے چھوڑنے کی تحریک کے متعلق لکھتا ہے-
>ہم نے یہ آخری تجویز جو درحقیقت مسلمانوں کو دو راستوں میں سے ایک کے منتخب کرنے کا حق دیتی ہے اس لئے پیش کی ہے- کیونکہ ہم سچے دل سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جس قدر ذرائع ممکن ہو سکیں انہیں اختیار کر کے جداگانہ انتخاب کے طریق کو کم کیا جائے- اور دوسرے )یعنی مشترک( طریق انتخاب کے لئے عملی تجربہ کا موقع نکالا جائے<- ۵۸~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سائمن کمیشن کا اصل منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں کو مجبور کر کے جداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرایا جائے- گویا چونکہ حکومت ہند مسلمانوں سے جداگانہانتخاب کا وعدہ کر چکی ہے اب صاف لفظوں میں تو مسلمانوں سے کمیشن نہیں کہنا چاہتا کہ تم اس حق کو چھوڑ دو- ہاں وہ مخفی ذرائع سے زور دے کر انہیں مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس حق کو چھوڑ دیں- مگر میں کمیشن کے ممبروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وعدہ کے ایفاء کا یہ بہت ہی برا طریق ہے اور علم الاخلاق کے رو سے یہ وعدہ کا پورا کرنا نہیں بلکہ اس کا توڑنا سمجھا جاتا ہے-
کمیشن کے ممبروں کو لارڈ منٹو کا یہ اقرار نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ جو مسلمان نمائندے جداگانہ انتخاب کے ذریعہ سے چنے جائیں` وہ حقیقی طور پر مسلمان نمائندے نہیں ہو سکتے اور اس کی روشنی میں دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس قسم کے تجربے کا وقت آ گیا ہے؟ پھر کمیشن کو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ اب بھی انتخاب کا ایک حصہ مخلوط ہے کیا اس تجربہ میں وطنیت کا کوئی نمونہ نظر آتا ہے؟ کیا یونیورسٹیوں کی نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں اگر پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمان یونیورسٹیوں کی نشستیں حاصل نہیں کر سکے تو اس قسم کے انتخاب کی برکات کا انہیں کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے؟ اور جب تجربہ بتاتا ہے کہ ہندو وطنیت نہیں بلکہ مذہب کو ترجیح دیتا ہے تو پھر اس تجربہ کے لئے مسلمانوں کو مشورہ دینا نہیں بلکہ ان کی اکثریت کو تباہ کر کے مجبور کرنا کس طرح قرین انصاف ہو سکتا ہے-
میں گو تفصیل سے اس امر کو بیان نہیں کر سکتا لیکن اس جگہ مختصراً اس امر کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں کہ جداگانہ انتخاب کا اصول اس قدر برا نہیں ہے جس قدر کہ ظاہر کیا جاتا ہے بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اس اصل کو سیاسیات نے تسلیم کیا ہوا ہے- پس اس کی مخالفت بوجہ اصول کی خرابی کے نہیں ہے بلکہ اس کی شکل کے اختلاف کی وجہ سے ہے- ہندوستان کے جداگانہ انتخاب اور دوسرے ملکوں کے جداگانہ انتخاب میں فرق صرف یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں اس کی بنیاد نسل یا علاقہ یا پیشہ پر رکھی جاتی ہے اور ہندوستان میں اس کی بنیاد مذہب پر ہے- چنانچہ انگلستان میں ہائوس آف لارڈز (HOUSEOFLORD) کی بنیاد اسی اصل پر پڑی ہے- سیکنڈ چیمبر (SECONDCHAMBER) کی خوبیاں تو بعد میں معلوم ہوئی ہیں لیکن لارڈز پہلے سے اپنا حق سمجھتے تھے کہ انہیں حکومت کے مسائل میں عذر کرنے کا موقع دیا جائے اور یہ کہ ان کے انتخاب کو عام لوگوں کے ووٹ پر نہ رکھا جائے کیونکہ اس طرح ان کا انتخاب خطرہ میں ہوگا- بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ جب ایک شخص ذاتی حیثیت میں بادشاہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کیلئے بلایا جائے اور وہ اس دعوت کو قبول کر لے تو آئندہ اس کی اولاد کا بھی حق ہو جائے گا کہ اسے بھی اس غرض کیلئے بلایا جائے- ۵۹~}~ یونیورسٹی کی نشستیں بھی اسی اصل کے ماتحت ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو الگ ممبر دیئے جائیں- کیوں انہیں نہ کہا جائے کہ عام حلقہانتخاب سے اپنے آدمیوں کو بھیجیں- تجارت و صنعت کی نشستیں بھی ایسی ہی ہیں لیکن ان سب منافع کی حفاظت کیلئے اہمیت کے لحاظ سے بہت کم ہی علیحدہ انتخاب کی اجازت دی جاتی ہے لیکن مذہب خطرہ میں ہو تو اس طریق کو بے اصول سمجھا جاتا ہے- یہ واقعہ میں حیرت کی بات ہے اور سمجھ سے بالا ہے-
سائمن کمیشن کی تجویز کی غلطیاں ظاہر کرنے کے بعد اب میں وہ تجاویز بتاتا ہوں جو میرے نزدیک معقول ہیں اور جن پر عمل کر کے عدل و انصاف قائم ہو سکتا ہے- سو سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گو بنگال اور پنجاب میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن اکثریت سے مراد صرف تعداد کی اکثریت نہیں ہوتی بلکہ حقیقی اکثریت ہوتی ہے اور وہ اکثریت ان صوبوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے- شروع شروع میں تو مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں خود حکومت نے کمزور کیا تھا کیونکہ عذر کے بعد حکومت کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا حکومت کے مفاد کے خلاف ہوگا- قانون کوئی نہیں تھا لیکن عملاً حکام کی یہی پالیسی تھی کہ وہ مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے- یہ روح اس حد تک ترقی کر گئی تھی کہ ہمارے وطنیشاعر غالب کی سوانح میں اس بارہ میں ان کا ایک عجیب تجربہ لکھا ہے- وہ آخری شاہ دہلی کے درباری تھے اور خود نواب زادے تھے- غدر کے بعد تباہی آئی تو یہ بے چارے بھی فاقوں کو پہنچ گئے- آخر کسی نے مشورہ دیا کہ نوکری کر لیں- انہی دنوں انگریزی مدرسہ میں فارسی کی پروفیسری کی جگہ خالی ہوئی- یہ اس انگریز کے پاس جا پہنچے جس کے سپرد پروفیسر کا انتخاب تھا- وہاں پہنچے تو اس نے دیکھتے ہی کہا کہ >ہم مسلمان کو نہیں مانگتا< غالب سا حاضر جواب بھلا کہاں چوکتا تھا- بولے صاحب! مسلمان کہاں ہوں آپ کو دھوکا ہوا- اگر عمر بھر ایک دن شراب چھوڑی تو کافر اور ایک دن بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان- مگر ان کی حاضر جوابی کام نہ آئی اور صاحب نے گھر سے نکال کر دم لیا-
اس قسم کے واقعات ہر روز پیش آتے تھے اور اس وقت تک پیش آتے رہے جب تک لارڈ کرزن (LORDCURZON) نے اس ظلم کا ازالہ نہ کیا اور خاص سرکلر کے ذریعہ سے تاکید کی کہ آئندہ ملازمتوں میں مسلمانوں کے حق کو مقدم رکھا جائے کیونکہ یہ قوم بہت پیچھے رہ گئی ہے- لیکن لارڈ کرزن کی تجویز بھی کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ ہندو دفاتر پر بہت قبضہ کر چکے تھے- اب یہ حال ہے کہ دفاتر پر ان کا قبضہ ہے` بنکوں پر ان کا قبضہ ہے اور تجارت پر ان کا قبضہ ہے- پنجاب میں قانون زمیندارہ کے منظور ہونے سے پہلے قریباً تیس فیصدی زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان کے ہاتھ میں جا چکی تھیں- اور بنگال میں انگریزی عمل داری کے شروع ہی میں تحصیل داری کے ٹھیکوں میں وہ ملک کے مالک ہو چکے تھے- اب جو کچھ باقی ہے وہ رہن ہے یا قرضہ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کیونکہ زمیندار قرض لینے پر مجبور ہے اور ہندو ساہوکار اپنی زیادہ طلبی کے راستہ میں کسی قانون کو مانع نہیں پاتا-
پس ان حالات میں مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں حقیقی اکثریت کا مالک نہیں کہا جا سکتا حالانکہ جس اکثریت سے کوئی قوم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے وہ حقیقی اکثریت ہے نہ کہ خالی تعدادی اکثریت- پس جب تک مسلمانوں کو حقیقی اکثریت حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ان دونوں صوبوں میں بھی خاص حفاظت کے مستحق ہیں-
اوپر کے تمدنی نقص کے علاوہ ایک اور نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ فرنچائز (FRANCHISE) کے اصول ایسے بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں ووٹر دوسری اقوام سے تھوڑے رہ جاتے ہیں- چنانچہ پنجاب جس میں مسلمان ۲ء ۵۵ کی تعداد میں ہیں ان کے ووٹروں کی تعداد ۷ء۴۳ ہے اور بنگال جس میں مسلمان ۶ء۵۴ ہیں- اس میں مسلمان ووٹروں کی تعداد ۱ء۴۵ فیصدی ہے- پس جب کہ بناوٹی قوانین سے مسلمانوں کے ووٹروں کی تعداد کو کم رکھا جاتا ہے تو مسلمان اکثریت میں کس طرح سمجھے جا سکتے ہیں- اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ اس قسم کا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹر مل جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال تو جس قدر جلد ہو سکے حل ہونا چاہئے لیکن باوجود اس نقص کے دور کرنے کے مسلمان فوراً اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ووٹر فوراً اپنے کام اور اپنے فرض کو نہیں سیکھ جاتے- کچھ عرصہ مسلمانوں کو پھر بھی چاہئے ہوگا جس میں کہ وہ اپنے ووٹروں کو ووٹ دینے کا طریق سکھا سکیں اور ان میں سیاسیات سے دلچسپی پیدا کرا سکیں- کیونکہ شروع میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر یہ فوقیت ہو گی کہ ان کے ووٹروں کی زیادہ تعداد پچھلے بارہ سال کے تجربہ کے ماتحت اپنے کام سے واقف ہو چکی ہو گی اور سیاسی دلچسپی اس میں پیدا ہو چکی ہوگی- نئے ووٹر کو پوری دلچسپی نہیں ہوتی- چنانچہ انگلستان میں عورتوں نے کس زور سے ووٹ کا حق حاصل کیا تھا لیکن اس کے استعمال میں وہ شوق ظاہر نہیں کیا جس کی وجہ سے یہی تھی کہ انہیں ابھی ووٹ کے استعمال کا طریق نہیں آیا اور نہ سیاسیات کی تفصیلات سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے-
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں گو ظاہراً اکثریت میں ہیں لیکن طاقت کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں اور اس وجہ سے ویسے ہی حفاظت کے مستحق ہیں جس طرح کہ ظاہریاقلیتیں- کیونکہ زیادہ آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنا تھوڑے آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنے سے زیادہ برا اور ظالمانہ فعل ہے- لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک صداقت ہے کہ اکثریت ہمیشہ کے لئے حفاظت کی مستحق نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح دائمی حفاظت سے مطمئن ہو کر وہ کمزور ہونے لگتی ہے اور نہ صرف خود تباہ ہوتی ہے بلکہ ملک کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے- پس جہاں تک اکثریت کی حفاظت کا سوال ہے اس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ یہ بات صرف عارضی ہو سکتی ہے اور اس حفاظت کا عارضی رکھنا ملک کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ اکثریت کی اپنی زندگی کے قیام کے لئے بھی ضروری ہے-
اس اصل کو پیش کرنے کے بعد میں اب پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے سوال کو لیتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ میرے نزدیک اکثریت اسی وقت حفاظت کی مستحق ہوتی ہے جب وہ معنوی طور پر اقلیت ہو اور یہ کہ وہ اس صورت میں بھی دائمی حفاظت کی مستحق نہیں ہوتی- پس اس اصل کے ماتحت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو جن کی نسبت میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ معنوی طور پر وہ اقلیت ہی ہیں گو حفاظت تو مل سکتی ہے لیکن صرف عارضی حفاظت مل سکتی ہے-
پس ہمیں جہاں ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی حفاظت کا سامان مہیا کرنا چاہئے وہاں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس حفاظت کے سوال کو کب اور کس طرح ختم کیا جائے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اکثریت کہہ دے گی کہ اب ہمیں حفاظت کی ضرروت نہیں اس وقت حفاظتیتدابیر کو ختم کر دیا جائے گا- لیکن میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ تدبیر قابل عمل نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ جس وقت اکثریت کہے کہ اب ہمیں حفاظتی تدابیر کی ضرورت نہیں اس وقت دوسریاقوام یہ کہہ دیں کہ اب ہم ان کے چھوڑنے پر راضی نہیں اور اس طرح صرف ضد اور تعصب کی وجہ سے نہ کہ حقیقی ضرورت کے لحاظ سے حفاظتی تدابیر جو کہ درحقیقت وقتیعلاج ہوتی ہیں دائمی طور پر ملک کے گلے پڑ جائیں- اس کے علاوہ میرے نزدیک اس تدبیر کو اختیار کرنے میں یہ نقص بھی ہے کہ گو ہم یہ کہتے رہیں کہ یہ تدابیر وقتی ہیں لیکن جو قوم ان کے ذریعہ سے فائدہ اٹھا رہی ہو گی وہ اس خیال سے کہ ہمارے ہی اختیار میں تو بات ہے جب چاہیں گے ان تدابیر کو چھوڑ دیں گے` اپنی کمزوری کو دور کرنے کے لئے جلد کوشش نہیں کریں گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بجائے اپنے نفس میں بیداری پیدا کرنے یا دوسری قوم سے صلح کی کوشش کرتے رہنے کے حفاظتی قانون پر دارومدار رکھنے کی عادی ہو جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے ان کی تدابیر کی حفاظت کی آڑ لینے پر مجبور رہے گی-
پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا طریق ایجاد کریں جس کی مدد سے ہماری تینوں غرضیں پوری ہو جائیں- اول ان حفاظتی تدابیر کو بغیر از سر نو جھگڑا پیدا کرنے کے ختم کیا جا سکے- دوم اکثریت اپنی حالت کو جلد سے جلد اچھا کرنے پر مجبور ہو- سوم حفاظتی تدابیر فساد اور جھگڑے کر بڑھانے میں ممد نہ ہوں- سو ان تینوں غرضوں کو پورا کرنے کے لئے میرے نزدیک صرف ایک ہی تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ چند سال مقرر کر دیے جائیں کہ اس وقت تک یہ حفاظتی تدابیر رہیں گی` اس کے بعد خود بخود منسوخ ہو جائیں گی- اس طرح تینوں فائدے حاصل ہو جائیں گے کیونکہ سال مقرر ہونے کی وجہ سے کسی جماعت کو کسی وقت بھی یہ کہنے کا موقع نہ ملے گا کہ ہم انہیں ختم نہیں ہونے دیں گے- دوسرے اکثریت کو یہ خیال رہے گا کہ صرف فلاں وقت تک یہ حفاظت ہے اس کے بعد ختم ہو جائے گی اس لئے وہ اس قانون سے مطمئن نہیں ہو گی بلکہ پورا زور لگائے گی کہ اس سے پہلے پہلے وہ اپنے افراد کو بیدار کر لے تا کہ اس کے منسوخ ہونے پر وہ اپنی حفاظت خود کر سکے- تیسرے سب اقوام اپنے اندر صلح کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی کیونکہ ہر ایک فریق جان لے گا کہ وہ دوسرے کو اس کی غفلت کی حالت میں کمزور نہیں کر سکتا اور یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد سب کو مل کر کام کرنا ہوگا- پس آئندہ آنے والے مخلوط انتخاب کے خیال سے جب کہ ہر ایک امیدوار کو اپنی ہمسایہ قوم کی امداد کا خواہاں ہونا پڑے گا` سب قوموں کے افراد آپس کی رنجش اور کدورت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے- غرض عرصہ کی تعیین سے یہ تینوں فوائد حاصل ہو جاتے ہیں- اس لئے سب سے بہتر تدبیر یہی ہے کہ عرصہ کی تعیین ہو جائے-
اب رہا یہ سوال کہ کتنا عرصہ اکثریت کو بیدار کرنے کے لئے ملنا چاہئے سو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں- اس جگہ اصولی طور پر اس قدر اور کہنا چاہتا ہوں کہ کامل صوبہ جاتی آزادی کے حصول کے بعد پندرہ سال یعنی تین الیکشن کا عرصہ اس غرض کے لئے ضروری ہے اور صوبہ جاتی حکومت کی تکمیل کا عرصہ اگر ہم دس سال فرض کریں تو پچیس سال کا عرصہ اس غرض کے لئے بہت مناسب ہے- اس عرصہ کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ اس عرصہ سے کم میں قوم کی تعلیم اور اقتصادی حالت کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے-
جہاں اقلیتوں کو حفاظت دی گئی ہے ان کے متعلق بھی میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ اس عرصہ کے بعد جداگانہ انتخاب کا حق ان سے لے لیا جائے لیکن مقررہ نشستوں کے ساتھ مخلوطانتخاب کا حق ان کے پاس اس وقت تک رہے جب تک ان کی مرضی ہو-
اس کے بعد میں حق نیابت کی مقدار کے سوال کو لیتا ہوں- جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اقلیتیں دو قسم کی ہوتی ہیں- ایک تعداد کے لحاظ سے اور ایک ضعف اور کمزوری کے لحاظ سے- پس اگر اقلیتوں کے حق کی حفاظت کی ضرورت تسلیم کر لی جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو اقلیت ظاہری نہیں بلکہ معنوی ہے وہ بھی اسی طرح حفاظت کی محتاج ہے جس طرح کہ ظاہری- اور جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ معنوی اقلیت بھی حفاظت کی محتاج ہوتی ہے` تو اسے طاقت پہنچانے کے لئے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر زیادہ سے زیادہ حق اسے جائز طور پر دیا جا سکے اسے ملنا چاہئے تاکہ وہ طاقت حاصل کر سکے- اگر زیادہ سے زیادہ جائز حق اسے نہ دیا جائے تو جس غرض سے اسے حفاظت دی گئی ہے وہ پوری نہیں ہو سکے گی اور ایک اکثریت کا زیادہ سے زیادہ جائز حق وہ تناسب نیابت ہے جو اسے تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- پس عقلا ایک اکثریت جو اس قدر کمزور ہو کہ اقلیت سے بھی اسے خطرہ لاحق ہو اسے پورے طور پر وہ حق ملنا چاہئے کہ جو تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- اور اس دلیل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اگر واقعہ میں اپنی کمزوری دور کرنے کا موقع دینا ہے تو لازمی طور پر پچپن اور چون فیصدی حق نیابت دینا لازمی ہے-
چونکہ میرے مقرر کردہ اصول کے مطابق پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو صرف ایک معین مدت تک جو عقلاً ان کے لئے اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے ضروری ہے حفاظت حاصل ہو گی اس لئے کمیشن کا یہ اعتراض بھی دور ہو جاتا ہے کہ قانونا کسی کو مستقل اکثریت نہیں مل سکتی- کیونکہ یہ اکثریت مستقل نہیں ہو گی بلکہ عارضی ہو گی اور پچیس سال کے بعد سب فریق آزاد ہوں گے کہ ووٹروں کو اپنی پالیسی بتا کر اپنے حق میں کر لیں بلکہ اس عرصہ میں سیاسی پالیسیاں قائم ہو چکی ہوں گی- غالب امید ہے کہ مذہبی بنیاد پر الیکشن کی جنگ کا زمانہ بھی گذر چکا ہو گا اور سیاسی سوالات پر الیکشن کا مقابلہ شروع ہو چکا ہو گا اور ان احتیاطوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی جو آج نہایت اہم اور ضروری معلوم ہوتی ہیں-
کمیشن کے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کہ اکثریت کی اکثریت کو قانون کی مدد سے قائم رکھنا اصول کے خلاف ہے میں ایک تجویز بھی پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال کو دو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے- یعنی ایک وہ حلقہ ہائے انتخاب جن میں ایک مذہب کے پیرئووں کے ووٹ اسی فیصدی یا اس سے زائد ہوں- یعنی اکثریت اور اقلیتوں کے ووٹوں کی نسبت ایک اور چار کی ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو- ایسے تمام حلقہ ہائے انتخاب میں مخلوط انتخاب کر دیا جائے اور جن حلقہ ہائے انتخاب میں اس سے کم فرق ہو ان میں جداگانہ انتخاب رہے- اس طرح دونوں ملکوں میں بعض حصوں سے تو جداگانہ انتخاب پر ممبر آئیں گے اور بعض حصوں سے مخلوط انتخاب کے ذریعہ- لیکن چونکہ نسبت ووٹروں کی ایک اور چار کی ہو گی اس لئے جب تک اکتیسں فیصدی ووٹ اقلیت اکثریت سے نہیں چھینے گی اس وقت تک اس پر فتح نہیں پا سکے کی- اس ذریعہ سے ایک ہی وقت میں دونوں قسم کے تجربے شروع ہو جائیں گے اور اکثریت کو کوئی ایسا خطرہ بھی نہ ہو گا جس کا علاج نہ ہو سکے- جس حلقہ میں جداگانہ انتخاب رہے وہ انہیں شرائط کے ساتھ جو میں پہلے لکھ چکا ہوں پچیس سال کے بعد بند ہو جائے- اس طریق سے اکثریت قانونی اکثریت نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اس کا ایک حصہ مخلوط انتخاب سے بغیر کسی قانون کی مدد کے آیا ہو گا- اگر کہا جائے کہ ایک اور چار کا فرق ایسا بڑا فرق ہے کہ اس میں اکثریت کا کامیاب ہونا یقینی ہے پس یہ بھی ایک قسم کی قانونی مدد ہے- تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فائدہ دونوں قوموں کو یکساں ملے گا- دوسرے اگر یہ بات قانونی مدد کہلانے کی مستحق ہو گی تو کیوں سی-پی اور مدراس کے انتخاب جہاں مسیحی اور مسلمان مل کر بھی پندرہ فیصدی سے کم ہیں قانونی طور پر ہندئووں کو اکثریت دینے والے نہ قرار دیئے جائیں؟
دوسرا سوال ان صوبوں کا ہے جن میں مسلمانوں کی اقلیت ہے- سو صوبہ سرحد اور سندھ دونوں کے آزاد حکومت حاصل کرنے پر اس سوال کا حل خودبخود ہو جاتا ہے- اگر ہندوصاحبان بحیثیت مجموعی مسلمانوں سے سمجھوتہ کرنا چاہیں گے تو ان دونوں صوبوں کے مسلمانوں سے سمجھوتہ کر لیں گے- جو حق وہ اپنی اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو دیں گے وہی حق ان کو ان دونوں صوبوں میں اور بلوچستان میں مل جائے گا اور اگر ہندو صاحبان نے بحیثیت قوم سمجھوتہ نہ کرنا چاہا تو ان نئے اسلامی صوبوں میں بھی انہیں کوئی زائد حق نہیں مل سکے گا کیونکہ مسلمان بھی اپنی قوم کا ویسا ہی درد رکھتے ہیں جیسا کہ ہندو اپنی قوم کا رکھتے ہیں- اس صورت میں مسلمانوں کا دعویٰ لارڈ منٹو (LORDMINTO) کے اعلان کی بناء پر زائد نیابت کے لئے قائم رہے گا- لیکن ہندوئوں کو اسلامی صوبوں سے زائد حق مانگنے کا حق نہ ہو گا اس لئے کہ ان کے دعویٰ کی بنیاد کسی گورنمنٹ کے اعلان پر نہیں ہے بلکہ صرف سمجھوتہ پر ہے- پس سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں ان کا مطالبہ ناجائز ہو جائے گا-
اس سوال کو اصولی طور پر حل کر لینے کے بعد جب ہم تفصیلات کی طرف آتے ہیں تو ہمیں بہت سی مشکلات معلوم ہوتی ہیں- چنانچہ جب ہم پنجاب اور بنگال کے انتخاب کے حلقوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرح بنائے گئے ہیں کہ ان کی بناء پر مسلمانوں کی اکثریت خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ بہت سے حلقے مخصوص فوائد کے قرار دیئے گئے ہیں- اگر مسلمانوں کو عام حلقوں سے کافی نیابت مل بھی جائے تو مخصوص حلقے توازن کو خراب کر دیتے ہیں-
جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ سوال حکومت کو بہت پریشان کر رہا ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں تو یہ پریشانی خود اپنی پیدا کی ہوئی ہے کیونکہ جس قدر وسیع مخصوص فوائد ہندوستان میں ہیں دنیا بھر میں اور کسی جگہ نہیں ہیں- دوسرے ممالک میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑا زمیندار` بڑا تاجر` بڑا صناع اپنی دولت اور اپنے رسوخ کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت کونسلوں میں آنے کا زیادہ موقع حاصل کر سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں براہمنی طریق نے ہر شعبہ پر قبضہ کر رکھا ہے- اگر نسلی براہمن کو ہم اس کے مقام سے ہٹانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو بھی یہ نیا براہمن جو پیشوں یا کاموں کی وجہ سے اپنے آپ کو باقی دنیا سے بالا سمجھتا ہے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا او رہمارے ملک کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے-
پنجاب میں علاوہ عام حلقہ ہائے انتخاب کے مندرجہ ذیل حلقہ ہائے انتخاب میں ایک یونیورسٹی کا` ایک بلوچ سرداروں کا` ایک مسلمان زمینداروں کا` ایک ہندو زمینداروں کا` ایک سکھ زمینداروں کا` دو تجارتی` ایک مزدوروں کا` ایک مسیحیوں کا` ایک یوروپین کا` ایک اینگلوانڈین کا` ایک فوجی` گویا کل چہتر غیر سرکاری ممبروں میں سے بارہ حلقے مخصوص ہیں یعنی سولہ فیصدی اور یہ ظاہر ہے کہ جہاں سولہ فیصدی بھرتی مخصوص حلقوں سے ہوگی وہاں قوموں کا توازن کب قائم رہ سکتا ہے- دنیا کا اور کونسا ملک ہے جس میں اس سے نصف بھرتی بھی مخصوص حلقوں سے کی جاتی ہو؟
تفصیلا نگاہ ڈالنے کے لئے زمینداروں کا حلقہ ہی لے لو- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ زمیندار کو اپنے انتخاب کے لئے خاص حلقہ کی ضرورت ہے؟ خود سائمن کمیشن نے بھی اس امر پر حیرت ظاہر کی ہے کہ یہ حلقہ الگ کیوں ہے- اور ثابت کیا ہے کہ زمیندار علاوہ اپنے حلقہ کے دوسرے حلقوں سے بھی بہت زیادہ تعداد میں کونسلوں میں داخل ہوئے ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ ان حلقوں کو قائم رکھا جائے- خاص حلقے یا تو اس وجہ سے بنائے جاتے ہیں کہ کسی خاص گروہ کو دوسروں سے مل کر انتخاب کے ذریعہ سے حق نہ مل سکتا ہو- یا اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ملک میں دو کونسلیں ہوں- جیسے کہ ہائوس آف لارڈز (HOUSEOFLORDS)اور ہائوس آف کامنز (HOUSEOFCOMMONS) میں فرق کیا گیا ہے- لیکن جب کہ زمینداروں کو نہ خطرہ ہے اور نہ کسی دوسری مجلس کا سوال ہے پھر انہیں خاص حق کیوں دیا جائے- میری یہ تحریر اور بھی وزنی ہو جاتی ہے جب کہ اس امر کو یاد رکھا جائے کہ میں خود ان زمینداروں میں سے ہوں جنہیں اس خاص حق کا فائدہ پہنچتا ہے- اور اس حلقہ کے اڑانے پر میرے اور میرے چار بھائیوں کا یہ حق تلف ہوتا ہے- لیکن باوجود اس کے جو فضول بات ہے میں اسے فضول کہنے سے نہیں رک سکتا-
اسی طرح تجارتی حلقہ ہے- وجہ کیا ہے کہ اس حلقہ کو قائم رکھا جائے؟ کیا تاجروں کو دوسرے حلقہ میں کھڑا ہونے سے کوئی روک ہے؟ اگر روک نہیں تو بڑا تاجر جو بڑا رسوخ بھی رکھتا ہے کیوں دوسرے حلقہ سے کھڑا نہیں ہو سکتا؟ کیا انگلستان میں یا امریکہ میں تاجر کو حق دیا گیا ہے کہ ہندوستان میں دیا جائے؟ تاجر بے شک عام حلقہ سے کھڑے ہوں اور سب ممبریاں لے لیں لیکن انہیں خاص طور پر حق کیوں دیا جائے؟ اس طرح فوجی ممبر ہے- جنگ عظیم میں شامل ہونے والے فوجیوں کو خاص طور پر ووٹ کا حق دیا گیا ہے- پس اگر فوجی کوئی خاص فوائد کونسلوں سے وابستہ رکھتے ہیں تو اپنے حد سے بڑھے ہوئے ووٹنگ (VOTING) کے حق سے کام لیکر فوجیوں کو کونسلوں میں بھیج سکتے ہیں- الگ فوجی ممبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- یہی حال مزدور ممبر کا ہے کافی طور پر مزدور ووٹر ہر ایک صوبہ میں موجود ہیں وہ اپنے ووٹ سے کام لے کر اپنے آدمی بھیج سکتے ہیں- یہ ایک ایسی بین بات ہے کہ خود سائمن کمیشن کے ایک ایسے ممبر نے جو مزدور پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس پر اعتراض کیا ہے اور نامزدگی کو اور مزدوروں کے مفاد کے خلاف بتایا ہے- اگر یہ حلقہ ہائے مخصوص اڑا دیئے جائیں تو توازن کا قائم رکھنا آسان ہو جاتا ہے- بنگال کے زمینداروں کے حلقے اور تجارتی حلقے اگر اڑا دیئے جائیں تو مختلف اقوام کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹ دینا نسبتاً بہت آسان ہو جاتا ہے-
اب ایک انگریزوں کا سوال رہ جاتا ہے- میرے نزدیک اس وجہ سے کہ اس وقت بوجہ حکومت سے ناراضگی کے ان کے خلاف خاص جوش ہے وہ اس امر کے مستحق ہیں کہ انہیں خاص نیابت ملے لیکن ان میں بھی تجارتی اور عام حلقوں کی تقسیم فضول ہے- جس قدر تعداد کہ انگریزی فوائد کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھی جائے اس قدر تعداد ان کے لئے مقرر کر دی جائے- تاجر بھی اور دوسرے بھی اپنے اپنے اثر کے حلقے سے کھڑے ہو کر اپنی نیابت حاصل کر لیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- مگر ہمیں اس پر ضرور اعتراض ہے کہ انگریزوں کو خاص حصہ دینے کے لئے ایسے اصول ایجاد کئے جائیں جن کے ماتحت ہندوئوں کو بھی اپنے حق سے زائد لینے کا موقع مل جائے- جہاں تک میرا خیال ہے یہ فوائد صرف انگریزوں کی نیابت کو مضبوط کرنے کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں لیکن اب مسلمان اس طریق کی مضرتوں سے آگاہ ہو چکے ہیں- وہ انگریزوں کے خاص حق پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے اور انگریزوں کے لئے جو خطرات ہیں ان کو دیکھ کر انہیں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے- لیکن ایسے اصول تجویز کر کے انہیں حق نہ دیئے جائیں کہ ساتھ ہی مسلمانوں کے حق کا ایک ٹکڑا اسی اصل کے ماتحت ہندو بھی کاٹ لیں-
جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی ممبریوں کی تقسیم عمدگی سے اس طرح ہو سکتی ہے کہ دو فیصدی حق نیابت انگریزوں اور اینگلو انڈینز (ANGLOINDIANS) کو دے دیا جائے- ان کے تجارتی اور دوسرے سب فوائد بھی اس میں شامل ہوں لیکن تجارت کے نام سے علیحدہ حق نہ دیا جائے- ایک سیٹ یونیورسٹی کو ملے لیکن شرط یہ کر دی جائے کہ ایک دفعہ ہندو یا سکھ ممبر ہو اور دوسری دفعہ مسلمان ممبر گو انتخاب مخلوط ہو- یا پھر یہ کیا جائے کہ دو نشستیں یونیورسٹی کو دے دی جائیں لیکن ان میں سے ایک مسلمان کے لئے اور ایک ہندو یا سکھ کے لئے وقف ہو- انتخاب مخلوط ہی ہو- اور یا تو واحد قابل انتقال ووٹ سے انتخاب ہو لیکن شرط یہ ہو کہ دوسرا ممبر وہ نہیں ہوگا جسے دوسرے نمبر پر ووٹ ملیں بلکہ وہ مسلمان امیدوار ہوگا جسے مسلمانوں میں سے سب سے زائد ووٹ ملیں- یا ہر ووٹر کو دو ووٹ دیئے جائیں جن میں سے ایک وہ ہندو کو دینے کا اور ایک مسلمان کو دینے کا پابند ہو یا اور ایسا ہی کوئی طریق اختیار کیا جائے- خاص زمینداروں کو اگر الگ سیٹ دینی ہی ہے تو صرف ڈیرہ غازیخان کے تمنداروں کو جو چھوٹی قسم کے رولنگ چیفس (RULINGCHIEFS) ہیں ایک سیٹ دے دی جائے لیکن اس صورت میں ان کے لئے قاعدہ ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے حلقوں میں سے نہیں کھڑے ہو سکتے-
اگر ہم پنجاب کے دو سو ممبر فرض کریں جو ضرور ہونے چاہئیں تو یونیورسٹی کی دو اور تمنداروں کی ایک نشست فرض کر کے سات نشستیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک سو ترانوے )۱۹۳( نشستیں باقی رہ جاتی ہیں- آبادی کے لحاظ سے مسلمان پچپن فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- ہندو اکتیس فیصدی کے قریب ہیں اور سکھ بارہ فیصدی ہیں اور مسیحی اور ادنیٰ اقوام وغیرہ ایک فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- پس تعداد آبادی کے لحاظ سے ۱۶ء۲۳ سکھوں کو اور ۸ء۵۹ ہندوئوں کو اور ۵ء۲ مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کو ممبریاں ملنی چاہئیں- ہم ہندوئوں کی نشستیں پوری ساٹھ فرض کر لیتے ہیں اور اسی طرح سکھوں مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کی کسر پوری ممبری فرض کر کے چوبیس اور تین ممبر فرض کر لیتے ہیں- پس بقیہ ۱۹۳ ممبروں میں ایک سو چھ ممبر مسلمان ہوئے- چونکہ ایک یونیورسٹی کی اور ایک تمنداروں کی نشست ان کو مل چکی ہے اس لئے ایک سو آٹھ ممبر ان کے ہوئے- اپنی تعداد کے لحاظ سے انہیں ایک سو گیارہ ممبریاں ملنی چاہئیں تھیں- پس اس حساب کے رو سے انہوں نے تین ممبریاں انگریزوں اور دوسری اقوام کو دیں- اس کے مقابل پر ہندوئوں کی یونیورسٹی کی نشست ملا کر اکسٹھ ممبریاں ہوئیں اور انہیں ایک ممبری اقلیتوں کے لئے قربان کرنی پڑی-
جہاں تک میں غور کرتا ہوں اس امر کو دیکھ کر کہ سکھ اور ہندو تمدنی طور پر ایک ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابل پر اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ انتظام نہایت منصفانہ انتظام ہے اور اس میں کسی قوم کا حق نہیں مارا جاتا-
بنگال کی نسبت میرے نزدیک بہتر طریق یہ ہوگا کہ چھ فیصدی انگریزوں اور اینگلو ]2 [lrmانڈینز (ANGLOINDIANS) کو نشستیں دے دی جائیں- خواہ تجارت پیشہ ہوں یا دوسرے جو چارفیصدی مسلمانوں سے اور دو فیصدی ہندوئوں سے لی جائیں اور اس طرح مسلمانوں کو ۶ء۵۰ حق دیا جائے اور دوسری اقوام کو ۴ء۴۹ حق دیا جائے- یونیورسٹی کی دو نشستیں مقرر کی جائیں جن میں سے ایک ہندو کو اور ایک مسلمان کو ملے- زمینداروں کی الگ نمائندگی کی ضرورت نہیں- لیکن اگر انہیں علیحدہ نمائندگی دی جائے تو اس اصل پر ہو کہ ہر قوم کے حقنیابت کے برابر اس کی قوم کے زمینداروں کو حق نیابت ملے کیونکہ اگر زمینداروں کو صرف زمینداری کے حقوق کی نیابت کا خیال ہے تو ان کی نیابت اسی طرح ایک مسلمان زمیندار کر سکتا ہے جس طرح ایک ہندو-
پس اگر ان کی غرض صرف زمیندارہ حقوق کی حفاظت ہے تو انہیں اس بات پر راضی ہو جانا چاہئے کہ دونوں قوموں کی نیابت کے تناسب کو قائم رکھنے کے لئے زمینداروں کے حلقوں کا انتخاب مخلوط لیکن معین نشستوں کے ساتھ ہو اور تعین نشستوں کا آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہو- اسی طرح اگر ہندوستانی تجارتی حلقوں کو حق دینا ضروری سمجھا جائے تو اسی اصول پر دیا جائے- یعنی نشستوں کا تعین مذہب کے مطابق ہو جائے تا کہ تجارتی اور زمینداری حلقوں کو قومی برتری کا ذریعہ نہ بنایا جائے- آخر مسلمان تاجر بھی ہیں اور زمیندار بھی اور وہ اسی طرح ان مخصوص مفاد کی نگرانی کر سکتے ہیں جس طرح ہندو صاحبان- تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر ان حلقوں کو قائم رکھا جائے تو یہ شرط نہ کر دی جائے کہ تعداد آبادی کے مطابق ان حلقوں کے نمائندے منتخب ہونے چاہئیں- میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ انتخاب کن اصول پر ہوں کیونکہ انتخاب کے مختلف ذرائع میں سے کئی ذرائع ہماری غرض کو پورا کر سکتے ہیں- جو بھی مناسب ہو اسے اختیار کیا جائے- اصل غرض صرف یہ ہے کہ انگریزوں کی نمائندگی کے بعد جس میں چار فیصدی کی قربانی مسلمانوں سے اور دو فیصدی کی قربانی ہندوئوں سے کرائی جائے باقی سب حلقوں میں اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ خواہ مخصوص ہوں خواہ عام نسبت آبادی کی قائم رہے-
میں خیال کرتا ہوں کہ میرے کئی دوست مجھ پر اعتراض کریں گے کہ- اس وقت تک تو میں زور دیتا رہا ہوں کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق ووٹ ملیں لیکن اب میں نے خود پنجاب میں ساڑھے پچپن کی بجائے چون اور بنگال میں ساڑھے چون کی بجائے پچاس کی تجویز پیش کی ہے- سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں اب بھی اسی تجویز کی تائید میں ہوں لیکن علاوہ ہندوستانی اقوام کے ہمیں انگریزوں کے مخصوص مفاد کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جن کی آبادی بہت کم ہے لیکن تجارت اور صنعت بہت وسیع ہے- پس اگر انہیں کوئی حق دیا گیا تو لازماً دوسری اقوام کے حق میں سے دیا جائے گا اور یہ معقول بات نہیں ہو سکتی کہ ہم انگریزوں کے اس حق کو تو تسلیم کریں لیکن ساتھ ہی اپنی تعداد سے بحصہ رسدی انہیں نشستیں دینے کے لئے تیار نہ ہوں- پس ان حالات میں ہمیں دو اصل تسلیم کرنے پڑیں گے- ایک یہ کہ بنگالوپنجاب میں مسلمانوں کی حقیقی اکثریت قائم رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے حصہ کے مطابق بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ انگریزوں کو حق دے دیں تا کہ ان کے حقوق کی نمائندگی پوری طرح ہو سکے-
مسلمانوں کو یہ امر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال دونوں جگہوں میں انگریزوں نے اکثر اوقات مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے اور آل انڈیا برٹش ایسوسی ایشن ASSOCIATION) BRITISH INDIA (ALLنے تو حال کے کلکتہ کے اجلاس میں کلی طور پر مسلمانوں کے مطالبات کی تائید کی ہے- پس ہمیں بھی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے- اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی طرف ہمارا دوستانہ طور پر بڑھنا ان کے دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہے گا اور ہم آئند انہیں ایک خیر خواہ دوست پائیں گے- خصوصاً جب کہ ان کا زیادہ تر کام تجارت ہے اور اس وجہ سے ان کی رقابت ہندوئوں سے بہ نسبت مسلمانوں کے بہت زیادہ ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ پنجاب اور بنگال میں آپس میں سمجھوتہ کر کے ایک مستقل اکثریت کے ساتھ مسلمان اور انگریز نمائندے ان دونوں صوبوں کی ترقی کے لئے حکومت قائم کر سکیں گے اور اپنے منصفانہ رویہ سے دوسرے صوبوں کے لئے ایک نیک مثال قائم کر دیںگے-
میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ تقسیم جو میں نے اوپر بتائی ہے یہ فرض کر کے ہے کہ پنجاب اور بنگال کی آبادی ۴ء۵۵ اور ۶ء۵۶ ہے- اگر اس سے زائد آبادی مسلمانوں کو حاصل ہوئی جیسا کہ امید ہے کہ آئندہ مردم شماری میں انشاء اللہ حاصل ہوگی تو جو زیادتی اس وقت یا آئندہ مردم شماریوں میں ہوگی یہ سب کی سب مسلمانوں کو ملے گی- اسے کسی صورت میں بھی دوسری اقوام میں بانٹا نہیں جائے گا- مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ خوش آئند مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے قوموں کے سمجھوتے کی کوشش کریں اور اگر سکھوں کو خوش کرنے کے لئے کسی قدر اور قربانی کرنی پڑے تو پرواہ نہ کریں- میرا خیال ہے کہ اگر کسی طرح بھی صلح سے کام نہ نکلے تو پنجاب کے مسلمانوں کو باون فیصدی حق تمام دوسری اقوام کی مشترکہ طاقت کے مقابل پر قبول کر لینا چاہئے- کیونکہ انشاء اللہ آئندہ مردم شماری میں ستاون فیصدی تک مسلمانوں کی آبادی ہونے کی امید ہے جسے ملا کر فوراً ہی ساڑھے تریپن فیصدی حق مسلمانوں کو مل جائے گا- جسے ان کی بڑھتی ہوئی نسل انشاء اللہ ہر مردم شماری میں مضبوط کرتی چلی جائے گی-
فرنچائز اور عورتوں کی نمائندگی
اب میں فرنچائز (FRANCHISE)کے سوال کو لیتا ہوں لیکن چونکہ اس سوال کے صرف اس پہلو کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو عورتوں کے ووٹ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں نے اسی کے ساتھ عورتوں کی نمائندگی کو بھی شامل کر دیا ہے-
مجھے اس سوال کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کمیشن نے اس سوال کا فیصلہ کرتے وقت بہت بے احتیاطی سے کام لیا ہے اور اس مضمون کو چھیڑ دیا ہے جسے چھیڑنا اس کے منصب سے باہر تھا یعنی مسلمانوں کے مذہب پر حملہ کیا ہے- سرجان سائمن JOHNSIMON)۔(SIR اور ان کے ساتھی اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ پردہ اسلام کا ایک حکم ہے اور اس کے خلاف کچھ لکھنا براہ راست اسلام پر حملہ کرنا ہے-
میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنی رائے کے متعلق آزاد ہے- اس بارہ میں اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حریت نہیں سکھاتا اور اگر سر جان سائمن کوئی مذہبی کتاب لکھ رہے ہوتے تو میں ان کے خیالات کا دلچسپی سے مطالعہ کرتا اور ان کے دلائل کے حسن و قبح کو پرکھتا لیکن سر جان سائمن ایک سرکاری کمیشن کی رپورٹ لکھ رہے تھے اور اس وجہ سے انہیں مذہبیمسائل سے علیحدہ رہنا چاہئے تھا- وہ بار بار پردہ کو بہت سے مصائب کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں- مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں-:
)>مردوں اور عورتوں کی تعداد میں( فرق سب سے نمایاں دس سے بیس سال کی عمر کے افراد میں ہے اور تمدنی رسوم اور عادات جیسے کہ پردہ اور بچپن کی شادی ہیں اور نادان دائیوں کی حرکات کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے- کیونکہ ان امور کی وجہ سے ہندوستان کی عورتوں کی قوتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے<- ۶۰~}~
اسی طرح وہ لکھتے ہیں-:
>جب تک کہ ایک چھوٹی لڑکی کی قسمت میں پردہ اور پچپن کی شادی لکھی ہوئی ہے اس وقت تک نہ تو رائے عامہ اور نہ والدین کی امنگیں ہی روبکار ہو کر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے آواز اٹھائیں گی<- ۶۱~}~
بزعم خود ان نقائص کو دور کرنے کیلئے کمیشن نے عورتوں کی فرنچائز پر زور دیا ہے لیکن وہ اس اہم سیاسی اصل کو بھول گئے ہیں کہ سیاسی حقوق مانگنے پر ہی ملنے چاہئیں- جب کہ وہ مردوں کے لئے جو اپنا حق مانگ رہے ہیں فرنچائز کو وسیع کرنے سے گھبراتے ہیں` سرحد کے لوگوں کو براہ راست فرنچائز دینے سے انکار کرتے ہیں` بلوچستان کو اس لئے فرنچائز نہیں دیتے کہ ان کی عادات کے یہ طریق خلاف ہے وہ عورتوں کو فرنچائز دینے کے لئے بغیر ان کی مانگ کے اور ان کے حالات کا خیال کئے بغیر تیار ہو جاتے ہیں- کیا یہ بات ان کے افعال کے متضاد ہونے کا ثبوت نہیں؟ اور کیا یہ امر اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اس سوال کے حل کرنے میں اس قدر تمدنی ضرورتوں کا خیال نہیں کیا گیا جس قدر مغربی تمدن کی برتری کو ثابت کرنا مدنظر رکھا گیا ہے؟ اور ایک شاہی کمیشن کے ممبروں کا اس رویہ کو اختیار کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- مجھے افسوس ہے کہ کمیشن کے اس رویہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مسٹروجوڈبن بھی شامل ہیں- کیونکہ جیسا کہ مجھ سے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک ممبر اور ایک سیکرٹری نے بیان کیا تھا رائونڈٹیبل کانفرنس کے ممبروں کے انتخاب کے موقع پر باوجود گورنمنٹ آف انڈیا کے دو دفعہ کے انکار کے انہوں نے زور دے کر دو عورتوں کو ممبر مقرر کروایا ہے اور پھر یہ کہہ کر نامزد کروایا ہے کہ ان دو میں سے ایک ہندو اور ایک مسلمان ہو- مسلمان نمائندہ خاتون ہمارے ایک معزز ہم وطن کی بیٹی ہیں اور میرے ایک معزز ہم وطن دوست کی بیوی ہیں اور ان کی ذاتی لیاقت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں- پس میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تحریر کو کسی رنگ میں بھی اس معزز اور قابل احترام خاتون کے خلاف نہیں سمجھا جائے گا- مجھے اعتراض صرف سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس رویہ پر ہے کہ باوجود حکومت ہند کے انکار کے انہوں نے زور دے کر عورتوں میں سے نمائندے مقرر کروائے ہیں اور اس طرح ایک قوم کے اندرونی دستور العمل میں ناجائز دست اندازی کی ہے- ][ اب میں سائمن کمیشن کی جو رائے عورتوں کے پردہ کے بارہ میں ہے اس کی تغلیط کرتا ہوں- اول تو سائمن کمیشن نے یہ عجیب استدلال کیا ہے کہ عورتوں کی تعداد جو مردوں سے کم ہے اس کا ایک سبب پردہ ہے اس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتی ہیں- لیکن وہ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ انگلستان میں مردوں اور عورتوں کی نسبت میں فرق ہندوستان سے زیادہ ہے صرف اختلاف یہ ہے کہ وہاں مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں- اور ہندوستان میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہیں- کیا انگلستان کی نسبت بھی کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہاں مردوں پر کوئی خاص ظلم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں اور عورتیں زندہ رہتی ہیں؟ اگر سائمن کمیشن مختلف ممالک کی آبادیوں کا مقابلہ کرتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ عورت و مرد کی آبادی کے فرق کے اصول بالکل اور ہیں اور اکثر وجوہ نہایت باریک طبعی مسائل پر مبنی ہیں جن کی سائمن کمیشن کو کوئی واقفیت نہیں تھی- سائمن کمیشن کے ممبروں کے دلچسپ معائنے کے لئے میں انہیں بتاتا ہوں کہ آئرلینڈ کے شمالی حصہ میں یعنی السٹر کی حکومت میں چار فیصدی عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں- لیکن جنوبی حصہ یعنی آئرش فری سٹیٹ (IRISHFREESTATE) میں قریباً دو فیصدی مرد زیادہ ہیں- کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شمالی حصہ میں تو مردوں پر ظلم ہوتا ہے اور جنوبی حصہ میں عورتوں پر؟ لیکن اس فرق کا حل یہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ بعض باریک طبعی اسباب کی وجہ سے انگریزی قوم میں عورتوں کی زیادتی ہوتی ہے اس وجہ سے شمالی آئرلینڈ میں جس میں انگریزی نسل کے لوگ زیادہ بستے ہیں عورتیں زیادہ ہیں اور جنوبی آئرلینڈ میں جس میں آئرش نسل کی زیادتی ہے اس میں مرد زیادہ ہیں-
سائمن کمیشن نے اپنے اندازہ میں ایک اور بھی غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ اس نے غور نہیں کیا کہ عورتوں کی کمی سب سے زیادہ سکھوں اور پہاڑی نسلوں میں ہے اور یہ دونوں قومیں پردہ کی سخت مخالف ہیں اور سکھوں میں بچپن کی شادی کا رواج بھی دوسری قوموں سے کم ہے- سکھ عورت نہایت مضبوط ہوتی ہے- باوجود اس کے سکھوں میں عورتیں کم ہیں اور مرد زیادہ ہیں- پہاڑی قوموں میں عورتوں کی کمی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اب تک ایک عورت کے تین تین چار چار خاوند ہوتے ہیں اور سکھ قوم میں بوجہ رشتہ نہ ملنے کے دوسری قوموں کی عورتوں کو سکھ بنا کر ان سے شادیاں کرتے ہیں-
پھر اگر سائمن کمیشن واقعات پر نگاہ ڈالتا تو اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ پردہ کا رواج دسفیصدی سے زیادہ لوگوں میں نہیں ہے- دیہات کی عورتوں میں سے ننانوے فیصدی پردہ کے عام مفہوم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں- پس اگر عورتوں کی کمی کا فرق پردہ کی وجہ سے ہے تو اس فرق کو دیکھ کر جو مردوں اور عورتوں کی نسبت میں ہے فرض کر لینا چاہئے کہ پردہ دار حصہ جو صرف دس فیصدی ہے اس میں دو مردوں کے مقابلہ میں ایک عورت ہے جو بالبداہت غلط ہے- بچپن کی شادی جس سے میری مراد کسی خاص عمر سے نہیں ہے بلکہ قویٰ کے نشوونما پانے سے پہلے کی عمر کی شادی ہے بے شک نقصان دہ ہے لیکن مسلمانوں میں اس کا بہت کم رواج ہے اور سائمن کمیشن کا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں اس کے متعلق ایک روایت ہے بالکل خلاف واقعہ ہے- مسلمانوں میں بچپن میں شادی کر دینے کے متعلق کوئی روایت نہیں ہے- اور اگر شارداایکٹ کے خلاف مسلمانوں نے کوئی شور مچایا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ بچپن کی شادی کو ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی غیر مذہب کی اکثریت ان کے پرسنل لاء میں دخل اندازی کرے اور اس طرح آئندہ کے لئے راستہ کھل جائے- یہ عیب ہندوئوں میں ہی ہے اور انہی کو اس کا نقصان بھی پہنچتا ہے کیونکہ ان کے ہاں بیوہ کی شادی کا رواج نہیں- اور اس وجہ سے جو عورت بیوہ ہو جاتی ہے اس کی عمر برباد ہو جاتی ہے- مسلمانوں میں جس قدر یہ رواج ہے بوجہ ہندوئوں کے اثر کے ہے اور ہم لوگ اسے آہستگی سے دور کر رہے ہیں-
اب میں پردہ کے صحت اور تعلیم پر اثر کو لیتا ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ مسلمانوں میں ابتداء سے ہے- لیکن باوجود اس کے مسلمان عورتیں حکومتوں کے ہر قسم کے کاموں میں حصہ لیتی رہی ہیں- عورتیں مسلمانوں میں بادشاہ بھی ہوئیں ہیں` فوجوں میں بھی انہوں نے کام کیا ہے` قضاء وغیرہ کے عہدہ پر بھی انہیں مقرر کیا گیا ہے` پروفیسر بھی وہ رہی ہیں اور ان پردہ دار عورتوں کو اس زمانہ میں یہ طاقت اور علم کے کام کرنے پڑے ہیں جس وقت باقی اقوام کی بے پردہ عورتیں صحت اور علم دونوں میں ان کے مقابلہ سے عاجز تھیں- پس معلوم ہوا کہ پردہ نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کی کمزوری اور جہالت کے اس وقت اور اسباب ہیں-
میں حیران ہوں کہ کس طرح پردہ کو تعلیم کے لئے روک کہا جاتا ہے- ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی پردہ کی بھی عامل ہے اور باوجود اس کے عورتوں کی تعلیم اس میں باقی سب ہندوستان کی عورتوں سے زیادہ ہے- میں نے جماعت کی امامت پر مقرر ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور باوجود ہر قسم کے اعتراضات کے اس کو ترقی دیتا چلا گیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں نوے فیصدی سے بھی زیادہ لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں- اور پچھلے تین سال سے یونیورسٹی کے امتحانوں میں ہماری عورتیں شامل ہونے لگی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہماری جماعت کی کوئی نہ کوئی پردہ دار خاتون یونیورسٹی میں اول نمبر پر رہتی چلی آتی ہے- ہاں جو روک ہمارے راستہ میں ہے وہ پردہ کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ استانیاں تیار ہونے میں دیر لگی ہے اور گورنمنٹ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ مرد استاد پس پردہ عورتوں کو پڑھائیں- پس جب تک عورت استانیاں تیار نہ ہو جائیں ہمارے سکول یونیورسٹی سے باقاعدہ طور پر ملحق نہیں ہو سکتے- پس ہمارے تجربہ میں تو عورتوں کی تعلیم میں روک پردہ نہیں بلکہ گورنمنٹ کا رویہ ہے- جو یہ دیکھتے ہوئے کہ استانیاں نہیں مل سکتیں سوسائٹیوں کو اجازت نہیں دیتی کہ اس وقت تک کہ عورت استانیاں کافی تعداد میں میسر آ سکیں عمر رسیدہ اور قابل اعتبار مردوں سے لڑکیوں کو تعلیم دلوائیں-
غالباً میری یہ تحریر سر جان سائمن (SIRJOHNSIMON) کی نظر سے بھی گزرے گی- میں امید کرتا ہوں کہ وہ اسے ذاتیات پر مبنی نہیں سمجھیں گے بلکہ انہیں یہ امر یاد ہوگا کہ ان کے اور ان کے رفقاء کے ہندوستان کے ورود کے موقع پر سب سے زیادہ جوش کے ساتھ میری جماعت نے انہیں خوش آمدید کہا تھا اور ان کے بائیکاٹ کے خلاف نہایت زبردست پروپیگنڈا اشتہاروں` ٹریکٹوں` اخباروں اور لیکچروں کے ذریعہ سے کیا تھا- پس مجھے جو اس امر کے خلاف پروٹسٹ (PROTEST) کرنا پڑا تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ میرے نزدیک انہوں نے بغیر کافی تحقیق کے ایک اسلامی حکم پر حملہ کر دیا ہے-
‏a11.12
میں نے جہاں تک غور کیا ہے پچیس سال کا عرصہ اس انتخاب کے طریق کو جاری رکھنے کے لئے کافی ہے وہ اقوام جو ڈرتی ہیں کہ کہیں ہماری حق تلفی نہ ہو- اگر وہ اس عرصہ میں بھی اپنے آپ کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کر سکیں تو وہ مزید امداد کی مستحق نہیں ہیں لیکن یہ عرصہ نئے نظام سے شروع ہو- گذشتہ زمانہ اس میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اس زمانہ میں صوبہ جات کو آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی اور بیداری بغیر آزادی کے نہیں پیدا ہوتی-
اس پچیس سال کے عرصہ کے بعد جہاں جہاں اور جس جس قوم کے حق میں یہ طریق ابھی جاری ہو اسے موقوف کر دیا جائے لیکن شرط یہ ہو کہ صرف ان اقلیتوں کے حق میں اسے موقوف کیا جائے جو تین فیصدی سے زائد ہوں- جن اقلیتوں کی تعداد تین فیصدی سے کم ہو اور انہیں جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو ان کے اس حق کو بغیر ان کی مرضی کے خواہ کسی قدر عرصہ بھی گذر جائے- باطل نہ کیا جائے دوسری شرط یہ ہو کہ اس صورت میں اس حق کو باطل کیا جائے جب کہ ہر بالغ مرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو چکا ہو- جن قوموں کے حق میں اس قانون کو پچیس سال بعد منسوخ کر دیا جائے ان کی بھی میرے نزدیک دو قسمیں ضروری ہیں- اگر تو وہ قوم جسے جداگانہ انتخاب کا حق دیا گیا ہو اس کی صوبہ میں اکثریت ہے تب تو کلی طور پر اس قانون کو منسوخ کر دیا جائے- لیکن اگر وہ قوم اقلیت ہے تو جداگانہ انتخاب تو منسوخ ہو لیکن مخلوط انتخاب کے ساتھ اس کی تعداد یا اس کے مقررہ حق کے برابر نشستیں جو بھی ان میں سے زیادہ ہوں اس قوم کے لئے مقرر کر دی جائیں اور ان مقررہ نشستوں کو ترک کر کے کلی طور پر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا اس قوم کے تین چوتھائی افراد کے ریزولیوشن پر منحصر ہو- اور اس کے ساتھ بھی وہی شرطیں ہوں جو میں وقت سے پہلے جداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرنے کے متعلق بیان کر آیا ہوں-
مختلف اقوام کی نیابت کا تناسب
جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر ایک قوم کی نمائندگی کا تناسب کیا ہوگا- کیونکہ جس ملک میں یہ طریق جاری نہ ہو وہاں سوائے اس صورت کے کہ مخلوط انتخاب کے ساتھ نشستوں کا تعین کیا جائے یہ سوال بلاواسطہ طور پر پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب سب لوگ مل کر نمائندے منتخب کریں اور نشستوں کا تعین بھی نہ ہو تو جو قوم زیادہ جگہیں لے سکتی ہو لے جائے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا- پس یہ سوال خصوصیت کے ساتھ علیحدہ انتخاب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اسی کے ساتھ اسے بیان کرنا مناسب ہے-
مسلمانوں کا مطالبہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں شروع سے یہ رہا ہے کہ چونکہ ان کی پولیٹیکل حیثیت اس ملک میں بہت زیادہ ہے- کیونکہ انگریزوں نے ان سے حکومت لی ہے اور اکثر حصے ملک کے ایسے ہیں جو مسلمان بادشاہوں سے بطور ٹھیکہ کے انہوں نے لئے تھے یا بطور انعام کے ان کو ملے تھے پس عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ جس قوم سے حکومت بطور مستاجری یا انعام میں لی گئی ہو اس کے حق کو وقعت دی جائے- اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مسلمان فوجی خدمات میں اپنی قومی تعداد سے زیادہ حصہ لیتے رہے ہیں اس لئے بھی انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہئے- یہ مطالبہ معقول ہے یا غیر معقول میں اس بحث میں نہیں پڑتا- بہرحال اس کو لارڈ منٹو تسلیم کر چکے ہیں اور مسٹر گوکھلے جیسا لیڈر اس کی تصدیق کر چکا ہے-
لارڈ منٹو کے اعلان کے بعد ہندو مسلم سمجھوتے کے لئے لکھنئو میں ایک مجلس ہوئی تھی جس میں ہندوئوں نے اس اصل کو قبول کر کے مسلمانوں سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہندو صوبوں میں ہندو مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد حق دے دیں گے لیکن اسی طرح مسلمان مسلمانصوبوں میں ہندوئوں کو ان کے حق سے زائد نشستیں دے دیں- مسلمانوں نے بدقسمتی سے اسے منظور کر لیا- میں اسے بدقسمتی کہتا ہوں کیونکہ تمام بعد میں ظاہر ہونے والے فسادات اسی سمجھوتہ پر مبنی ہیں- ایک طرف ہندو مسلمانوں کو یہ سمجھوتہ یاد دلاتے ہیں دوسری طرف برطانوی نمائندے اس سمجھوتہ کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان نمائندوں نے اپنی طرف سے تو اپنی قوم سے نیکی ہی کرنی چاہی تھی لیکن ہو گئی برائی- اگر لارڈ منٹو کے اعلان اور اس پر مسٹر گوکھلے اور دوسرے ہندو لیڈروں کی تصدیق تک ہی معاملہ ختم ہو جاتا تو مسلمانوں کا حق ضائع نہ ہوتا- لیکن جہاں تک میرا خیال ہے بعض ہندوئوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمان اپنا حق لے چلے ہیں یہ چال چلی اور مسلمانوں سے میثاق لکھنو باندھ کر ہمیشہ کے لئے انہیں اپاہج کر دیا- لکھنئو پیکٹ کیا ہے ایک اقرار ہے کہ ہندوستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب نہ ہوگا- تعداد کے لحاظ سے بے شک مسلمانوں کو بہت کچھ مل گیا ہے لیکن قیمت کے لحاظ سے وہ سب کچھ کھو بیٹھے ہیں- سائمنرپورٹ نے بھی مسلمانوں کو یاد دلایا ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی مسلمانوں کو ان کے حق سے بہت زیادہ ملے اور پنجاب اور بنگال میں بھی انہیں قانون کے ذریعہ سے کثرت دلا دی جائے-
میرے نزدیک لکھنئو پیکٹ ایک غلطی تھی لیکن اس کے پیش کرنے والوں کو ایک بات بھول جاتی ہے اور وہ یہ کہ لکھنئو پیکٹ کی کبھی بھی تصدیق نہیں کی گئی- وہ ہمیشہ کے لئے ایک منسوخ شدہ تحریر کی حیثیت میں رہا ہے اور اس امر کی تو سائمن رپورٹ بھی شہادت دیتی ہے کہ کم سے کم موجودہ زمانہ میں وہ قابل توجہ نہیں ہے- اس میں لکھا ہے-:
>اس )لکھنئو کے( معاہدہ کو اب دونوں ہی فریق نمائندگی کا صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں تسلیم کرتے<- ۵۳~}~
لیکن حق یہ ہے کہ کبھی بھی اس پیکٹ پر عمل نہیں ہوا کیونکہ اس میں ایک اہم شرط تھی جس کی بناء پر یہ فیصلہ تسلیم کیا گیا تھا اور اس شرط پر ایک دن کے لئے بھی عمل نہیں ہوا اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کے ممبروں کی تین چوتھائی یہ فیصلہ کر دے کہ کسی قانون کا ان کی قوم پر خاص طور پر مضر اثر پڑتا ہے تو وہ قانون پاس نہیں ہو سکے گا یہ قانون کبھی بھی قانون کی صورت میں نہیں آیا- پس جس اطمینان کی صورت کی امید دلانے پر مسلمان اس فیصلہ پر راضی ہوئے تھے جب کہ وہ صورت ہی پیدا نہیں ہوئی تو معاہدہ کی کیا ہستی رہی؟ غرض اس معاہدہ پر کسی فیصلہ کی بنیاد رکھنی بالکل درست نہیں اور جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے موجودہ مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہمیں کوئی اور راہ تلاش کرنی ہوگی-
سائمن کمیشن نے یہ راہ تجویز کی ہے کہ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں تو انہیں وہی حقوق دے دیئے جائیں جو ان کو ملے ہوئے ہیں ]71 [p۵۴~}~ لیکن پنجاب اور بنگال جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں ان کے نزدیک مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق حقوق دینے کمیشن کے نزدیک درست نہیں- کیونکہ
>اس سے مسلمانوں کو دونوں صوبوں )بنگال اور پنجاب( میں ایک معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی<- ۵۵~}~
کمیشن کا خیال ہے کہ-:
>موجودہ زائد حق جو چھ صوبوں میں مسلمانوں کو حاصل ہے اس کی موجودگی میں بغیر دونوں قوموں میں کوئی نیا معاہدہ ہونے کے انصاف کے خلاف ہوگا کہ انہیں بنگال اور پنجاب میں موجودہ حق سے زائد دے دیا جائے<-
کمیشن پھر خود ہی ایک تجویز پیش کرتا ہے- جس کے قبول کرنے پر وہ امید دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے زائد حقوق دوسرے صوبوں سے نہیں چھینے جائیں گے اور جن صوبوں میں ان کی اکثریت ہے ان میں بھی انہیں زیادہ نمائندگی حاصل کرنے کا موقع رہے گا اور وہ یہ ہے کہ وہ بنگال میں مخلوط انتخاب کو مان لیں-
پنجاب کے متعلق بھی ان کا خیال ہے کہ اگر مسلمان سکھ اور ہندو تینوں مخلوط انتخاب پر راضی ہو جائیں تو اس سمجھوتے کے بعد وہ مسلمانوں کے باقی صوبوں سے زائد حق نہیں چھینیں گے-
ایک ایسی جماعت سے جس میں سرجان سائمن (SIRJOHNSIMON) جیسا قانوندان شامل ہو اس قسم کی غیر معقول تجویز کی میں ہر گز امید نہیں کر سکتا تھا- کمیشن نے اس تجویز کے پیش کرتے وقت کئی امور بالکل نظر انداز کر دیئے ہیں- اول یہ کہ جو چیز انسان کی اپنی نہ ہو اسے وہ کسی کو دینے کا حق نہیں رکھتا- وہ لکھتے ہیں کہ-:
>اگر باہمی سمجھوتے سے بنگال میں جداگانہ انتخاب کے طریق کو ترک کر دیا جائے تا کہ ہر اک جماعت ایک متحدہ حلقہ انتخاب سے اپیل کر کے جس قدر نشستیں لے جا سکے لے جائے- ہم اس بناء پر مسلمانوں سے ان دوسرے صوبوں میں کہ جہاں وہ اقلیت ہیں- جو زائد حق انہیں ملا ہوا ہے` نہیں چھینیں گے<- ۵۶~}~
جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر پنجاب اور بنگال دونوں مسلم صوبوں میں سے بنگال میں یہ سمجھوتہ ہو جائے کہ جداگانہ طریق انتخاب کو چھوڑ کر مخلوط انتخاب جاری کر لیا جائے تو وہ اس صورت میں دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کے حق سے کچھ کم نہیں کریں گے- لیکن سوال یہ ہے کہ جب ملک کی قوموں میں ¶آپس میں سمجھوتہ ہو جائے کہ وہ باوجود دوسری جگہ مسلمانوں کو زائد حق دینے کے اس صوبہ میں ان سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے جس میں وہ اکثریت ہیں تو اس میں سائمن کمیشن کا کیا دخل ہے- سائمن کمیشن کا دخل تو اس صورت میں ہو سکتا تھا اگر وہ یہ کہتا کہ اگر مسلمان بنگال میں مخلوط انتخاب کو ترک کر دیں تو ہم بغیر دوسرے صوبوں میں سے مسلمانوں کا حق کم کرنے کے بنگال میں عام مقابلہ کی انہیں اجازت دے دیں گے لیکن جب بنیاد انہوں نے مختلف قوموں کے اتفاق پر رکھی ہے تو ان کی دخل اندازی کا سوال ہی نہیں رہتا- اس قسم کی بات انہوں نے پنجاب کے متعلق بھی کہی ہے-
دوسری خلاف عقل بات ان کی اس تحریر سے یہ نکلتی ہے کہ ایک طرف تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے ہیں اس وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہاں بھی انہیں اس حق کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر انہیں حق دے دیا جائے اور دوسرے صوبوں میں بھی انہیں ان کی آبادی سے زیادہ حق دے دیا جائے- اور دوسری طرف وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر بنگال اور پنجاب میں مسلمان اور دوسری قومیں سمجھوتہ سے جداگانہ انتخاب کو چھوڑ دیں تب ہو سکتا ہے کہ دوسرے صوبوں میں ان کا حق کم کرنے کے بغیر انہیں ان دونوں صوبوں میں آزاد مقابلہ کی اجازت دے دی جائے- اب ایک ادنیٰ غور سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں دعوے متضاد ہیں- کیونکہ ایک طرف تو مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں میجارٹی (MAJORITY)سے اس لئے محروم کیا گیا ہے کہ جداگانہ انتخاب ان کے مطالبہ پر جاری کئے گئے ہیں اس وجہ سے انہیں مستقل اکثریت کا حق نہیں دیا جا سکتا- دوسری طرف کمیشن کہتا ہے کہ جداگانہ انتخاب کا طریق چھوڑ کر مخلوط انتخاب کو اختیار کرنا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں بلکہ دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے- اگر یہ تبدیلی دوسری قوموں کی رضامندی پر مبنی ہے تو مسلمانوں کی وجہ سے اس قانون کا اجراء نہ ہوا بلکہ سب قوموں کے لئے ہوا- پس کمیشن کا جداگانہ انتخاب کی بناء پر مسلمانوں سے کسی قربانی کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوا- لیکن اگر یہ درست ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کی خاطر جاری کیا گیا ہے اور اس وجہ سے انہیں اکثریت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے تو پھر اس کا ترک کرنا بھی صرف انہی کی مرضی پر منحصر ہونا چاہئے نہ کہ دوسروں کی رضامندی پر-
تیسری بات جو کمیشن کے اس فیصلہ میں خلاف عقل نظر آتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے یہ غور نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں کو کیا دیتے ہیں اور ان سے کیا لیتے ہیں- وہ جو کچھ مسلمانوں کو دیتے ہیں وہ چند نشستیں ہیں اور جو لیتے ہیں وہ اکثریت ہے اور اقتصادیات کا یہ ایک موٹا اصل ہے کہ چیزوں کی قیمت ان کی تعداد کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان کے فائدہ کے لحاظ سے ہوتی ہے- کیا سرجان سائمن اپنی پارٹی کی طرف سے یہ سمجھوتہ کسی دوسری پارٹی سے کرنے کو تیار ہونگے کہ جس دفعہ ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں میجارٹی حاصل ہو سکتی ہو وہ اس میجارٹی کو چھوڑ دیں- اور بجائے اس کے آئندہ مختلف پارلیمنٹوں میں مثلاً دس فیصدی نشستیں انہیں حاصل ہو سکتی ہوں تو پندرہ فیصدی نشستیں ان کی پارٹی کو بلا مقابلہ دوسری پارٹیاں دے دیا کریں- یہ ایک موٹیبات ہے کہ دس پارلیمنٹوں کی مینارٹی کی قلیل زیادتی بھی ایک دفعہ کی میجارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی- لیکن سائمن کمیشن اس ظلم اور اس تعدی کا نام برطانوی انصاف رکھتا ہے کہ مسلمانوں کو چھ صوبوں میں کچھ زائد حق دے کر وہ مسلمانوں کو دو صوبوں کی میجارٹی سے محروم کر دیتا ہے اور محروم بھی ابدی طور پر کیونکہ آئندہ میجارٹی کے امکان کو بھی وہ اس شرط سے مشروط کر دیتا ہے کہ دوسری پارٹیاں قواعد کو تبدیل کرنے پر راضی ہوں اور اتنا بھی نہیں سوچتا کہ ان پارٹیوں کو مستقل میجارٹی (MAJORITY) چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے-
چوتھی بات جو اس فیصلہ میں خلاف عقل ہے یہ ہے کہ سائمن رپورٹ مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں ان کی تعداد کے مطابق نیابت دینے سے اس وجہ سے انکار کرتی ہے کہ-:
>اس سے مسلمان کو دونوں صوبوں میں معین اور ناقابل تغیر اکثریت حاصل ہو جائے گی<- ۵۷~}~
گویا سائمن کمیشن کی نگاہ میں کسی جماعت کو خواہ وہ اکثریت ہی کیوں نہ ہو- مستقل میجارٹی (MAJORITY) دینا درست نہیں اور حد سے بڑھا ہوا مطالبہ ہے لیکن اس حد سے بڑھے ہوئے مطالبہ کا علاج وہ یہ کرتا ہے کہ اقلیت کو مستقل میجارٹی دے دیتا ہے- کیونکہ وہ موجودہ طریق کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور موجودہ قانون میں بنگال اور پنجاب میں درحقیقت ہندوئوں کو اکثریت حاصل ہے- پنجاب کے معاملہ کو اگر مشتبہ بھی قرار دیا جائے تو بھی بنگال کا معاملہ تو بالکل واضح ہے- جنرل کانسٹیچیوانسی (GENERALCONSTITUENCY) میں چھیالیس ہندو ممبر ہیں اور انتالیس مسلمان ممبر ہیں- ادنیٰ اقوام میں سے جو ممبر ہوگا وہ بھی ہندو ہی ہوگا اور ایسا ہی ہوتا ہے اس طرح ہندوئوں کو سینتالیس ممبریاں مل گئیں- لیبر کی طرف سے دو ممبر مقرر ہیں- جن میں سے کم سے کم ایک ہندو ہوگا تو اڑتالیس ہندو ہوں گے- اگر ایک لیبر کا ممبر مسلمان فرض کر لیا جائے- جو عام طور پر نہیں ہوتا تو چالیس مسلمان ہوئے- زمینداروں کی کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY)کی طرف سے پانچ ممبر ہوتے ہیں- عملاً وہ سب کے سب ہندو ہوتے ہیں لیکن اگر ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو فرض کر لیتے ہیں کہ چار ہندو اور ایک مسلمان ہوگا- اس طرح باون ہندو اور اکتالیس مسلمان ہوئے- یونیورسٹی کا ممبر بوجہ ہندو ووٹروں کی تعداد زیادہ ہونے کے لازماً ہندو ہوگا- بہرحال اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ ممبر باری باری ہندو مسلمانوں میں سے منتخب ہوتا رہے گا تو اس کو دونوں طرف نہیں ڈالتے- لیکن تجارت چونکہ پورے طور پر ہندوئوں کے قبضہ میں ہے- چار ہندوستانی ممبر سب کے سب ہندو ہونگے- یہ فرض کر کے شاید کبھی مسلمان بھی ہو جائے- ووٹروں کی تعداد کا ایک سرسری اندازہ لگا کر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ چار میں سے ایک مسلمان ہو جایا کرے گا اور اس طرح کل ہندو ممبر چون اور مسلمان بیالیس بنتے ہیں- یعنی بارہ کا فرق ہے- انگریز اینگلوانڈین (ANGLOINDIANS) اور ہندوستانی مسیحیوں کی تعداد آٹھ بنتی ہے- اور تجارت کے انگریزنمائندے ملا کر یہ تعداد انیس ہوتی ہے- گویا اکثریت جو چون فیصدی سے کچھ اوپر ہے اس کے کل نمائندے بیالیس اور اقلیت جو پینتالیس فیصدی سے کچھ کم ہے- اس کے کل نمائندے تہتر ہو جاتے ہیں- یعنی پچھتر فیصدی زیادہ حق اقلیت کو دے دیا گیا ہے- اگر انگریز اور مسیحینمائندوں کو نکال دیا جائے تب بھی ہندو ممبر اپنے حق سے ساٹھ فیصدی زیادہ لے گئے ہیں اور مسلمانوں سے قریباً پچیس فیصدی زیادہ ہیں حالانکہ آبادی میں وہ ان سے بیس فیصدی کم ہیں- یہ اندازے جو میں نے اوپر لکھے ہیں بہت نرم ہیں عملاً جو کچھ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوتا ہے- چنانچہ ۱۹۲۲ء میں منتخب شدہ ممبر چھیالیس ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- زمینداروں کی کانسٹیچیوانسی (CONSTITUENCY) میں سے پانچوں ہندو تھے` یونیورسٹی کا ممبر ہندو تھا` تجارتیممبریوں میں سے گیارہ انگریز اور چار ہندو تھے- ادنیٰ اقوام کا ممبر بھی ہندو تھا- گویا ستاون ہندو اور انتالیس مسلمان تھے- پھر گورنر صاحب نے جو غیر سرکاری ممبر اپنے اختیار سے نامزد کئے وہ چار تھے لیکن انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ہندو اپنے حق سے بہت زیادہ لے چکے ہیں انہوں نے بھی بجائے مسلمانوں کی کمی کو پورا کرنے کے ایک مسلمان اور تین ہندو نامزد کئے گویا ساٹھ ہندو اور چالیس مسلمان مقرر ہو گئے اور وہ مسلمان جن کو ہندوئوں کے مقابل پر پچیس فیصدی کی اکثریت حاصل تھی ان پر ہندوئوں کو ساٹھ فیصدی کی اکثریت دے دی گئی-
خلاصہ یہ کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو توڑ کر بنگال میں قانونی طور پر غیر مبدل اکثریت ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف دے دی گئی ہے اور پنجاب میں بھی کم سے کم ۱۹۲۲ء میں ہندوئوں اور سکھوں کو مسلمانوں پر اکثریت حاصل تھی- اب ممکن ہے کہ مساوات حاصل ہو- پس غور کے قابل بات یہ ہے کہ اکثریت کو قانوناً اگر اکثریت دینی جائز نہیں تو اس کی اکثریت کو قانونا توڑ دینا یا کسی ایک اقلیت یا اقلیتوں کے مجموعہ کو قانونی اکثریت دے دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے- اور کیا اس ناواجب طریق کو جاری رکھتے ہوئے سائمن کمیشن کو یہ خیال نہیں گذرا کہ یہ طریق اکثریت کو اکثریت دینے سے زیادہ ظالمانہ ہے؟ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہندوئوں کی اکثریت خاص منافع کی نمائندگی کے سبب سے ہے نہ کہ عام حلقہ ہائے نیابت کی وجہ سے- کیونکہ بنگال میں تو عام حلقہ نیابت میں بھی ہندوئوں کو مسلمانوں کی انتالیس نشستوں کے مقابل پر چھیالیس نشستیں دی گئی ہیں زمینداری` تجارتی` یونیورسٹی اور ڈپرسڈ کلاسز (DEPRESSEDCLASSES) کے نام سے ان کی اکثریت کو صرف مزید تقویت دی گئی ہے- اور پنجاب میں بھی یہی بات ہے کہ خاص منافع کے نام سے ہندوئوں اور سکھوں کو اکثریت دے دی گئی ہے- مگر سوال یہ ہے کہ یہ خاص منافع کی نشستیں کس نے قائم کی ہیں- آیا قانون نے یا مسلمانوں نے- جو قانون اس قسم کی مصنوعی شاخیں پیدا کر کے ایک اکثریت کی اکثریت کو باطل کر دیتا ہے کیا وہ ظالمانہ نہیں اور کیا اس کا بدلنا کمیشن کا فرض نہ تھا کیا اس قسم کی خاص نشستیں انگلستان میں جاری ہیں وجہ کیا ہے کہ وہاں تو تجارت کے باوجود ہندوستان سے زیادہ اہم ہونے کے علیحدہ نمائندگی کی مستحق نہیں قرار پاتی اور ہندوستان میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- اگر انگریزی تجارت بوجہ غیر ملکی ہونے کے خاص نمائندوں کی مستحق تھی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ انگریزوں کو زائد نمائندگی دینے کے لئے ہندوئوں کو بھی زائد نمائندگی دے کر مسلمانوں سے بڑھایا جاتا ہے مگر میں اس سوال کے متعلق آگے چل کر زیادہ تفصیل سے لکھوں گا اس لئے یہاں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں-
پانچویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ ایک طرف تو وہ فیڈرل اصول کو جاری کر کے یہ اصل تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کے صوبہ جات ایک آزاد ہستی رکھتے ہیں یا لارڈ منٹو (LORDMINTO) کے الفاظ میں ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک براعظم ہے- لیکن اس کے برخلاف جب مسلمانوں کے حقوق کا سوال آتا ہے تو وہی کمیشن یہ کہتا ہے کہ چونکہ دوسرے صوبوں میں مسلمانوں کو زیادہ حق مل گیا ہے اس لئے پنجاب اور بنگال میں ان کی میجارٹی قائم نہیں رکھی جا سکتی- کیا وہ صوبہ جات جو فیڈریشن کے اصول پر زور دیتے ہیں اس امر کو پسند کر سکتے ہیں کہ ایک صوبہ کا حق دوسرے کو دے دیا جائے- کیا دنیا میں کسی اور جگہ بھی یہ قائدہ ہے کہ ایک پارٹی کو ایک صوبے میں زیادہ حق دے دیا جائے اور دوسری کو دوسرے میں- کیا اس قسم کا فیصلہ آسٹریلیا یا کینیڈا کے صوبوں کے متعلق کوئی کمیشن بغیر خطرناک نتائج پیدا کرنے کے کر سکتا ہے- پھر یہ قربانی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حقوق کے متعلق کس طرح جائز ہو سکتی ہے- کیا کبھی بھی بنگال اور پنجاب کے باشندوں نے سائمن کمیشن یا کسی اور کمیشن کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ان کے حقوق دوسرے صوبوں کے مسلمانوں میں تقسیم کر دے اور وہ بھی اس طرح کہ مسلمان ہر جگہ کمزور ہو جائیں- میں ذاتی طور پر تو اس امر کے لئے تیار ہو جائوں گا کہ اگر مثلاً یو-پی اور بہار میں مسلمانوں کو میجارٹی دے دی جائے تو بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو مائنارٹی (MINORITY) دے دی جائے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ دوسرے مسلمان بھی اس پر راضی ہوں- لیکن اس امر پر تو کوئی مسلمان جماعت راضی نہیں اور راضی نہیں ہو سکتی کہ دوسرے صوبوں کی مسلمان اقلیتوں کو اس قدر حق زائد دے کر جن سے وہ پھر بھی اقلیت میں ہی رہیں مسلمانوں کی دو جگہ کی اکثریت کو اقلیت سے بدل دیا جائے- اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہندوئوں نے جو قربانی دوسرے صوبوں میں کی ہے` اس کا بہت بڑا بدلہ ان کو مل چکا ہے اور وہ یہ کہ صوبہ سرحد کے مسلمان صوبے کو ان کی شہہ اور ان کی خوشی کے لئے اب تک آزادی سے محروم رکھا گیا ہے-
بہرحال کسی کمیشن کا یہ حق نہیں کہ پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کا حق وہ اور کسی صوبہ کے لوگوں کی خاطر قربان کر دے- ان دونوں صوبوں کے مسلمان اس کو قبول کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں اور میں جانتا ہوں کہ خواہ کس قدر قربانی ہی کیوں نہ کرنی پڑے وہ ہر گز اس کے لئے تیار نہیں ہونگے- اگر برطانیہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو کسی زائد حق کا حقدار نہیں سمجھتا تو وہ اس زیادتی کو جو دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو دی ہے واپس لے سکتا ہے- لیکن وہ ان صوبوں کو کوئی زیادتی پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو کمزور کر کے کسی صورت میں نہیں دے سکتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی کوئی ایسی زیادتی قبول نہیں کریں گے جس کی ناقابل برداشت قیمت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں سے وصول کی جائے- اگر قیمت لینی ہے تو صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان اس قیمت کو ادا کرنے کو تیار ہیں- چنانچہ صوبہ سرحد کے مسلمان اس امر کو قبول کرتے ہیں کہ ہندوئوں کو پچیس فیصدی تک حق دے دیں گویا ان کی آبادی سے پانچ گنے زیادہ- اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے مسلمان بھی اگر انہیں آزادی ملے تو تیار ہیں کہ دوسرے صوبہجات کے مسلمانوں کی خاطر ہندوئوں کو ان ¶کے حق سے بہت زیادہ تعداد میں نیابت دے دیں-
چھٹی غلطی اس فیصلہ میں کمیشن سے یہ ہوئی ہے کہ باوجود اس امر کو تسلیم کرنے کے کہ لکھنئو پیکٹ پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا اور اب تو دونوں پارٹیاں اسے رد کرتی ہیں یہ خیال اس کے ذہن پر مستولی رہا ہے کہ مسلمانوں کو جو کچھ دوسرے صوبوں میں ملا ہے وہ لکھنئو پیکٹ کی وجہ سے ملا ہے اور اس وجہ سے لکھنئو پیکٹ کے مطابق پنجاب اور بنگال میں بھی عمل ہونا چاہئے لیکن یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے- نہ مسلمانوں کا دعویٰ لکھنئو پیکٹ پر مبنی ہے اور نہ اس کی بناء پر وہ کسی تبدیلی کے لئے تیار ہیں- مسلمانوں کو اگر ہندو اکثریت کے صوبوں میں کوئی حق ملا ہے یا اس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی بناء لارڈ منٹو کے اعلان پر ہے- جیسا کہ میں پہلے نقل کر چکا ہوں- لارڈ منٹو نے بحیثیت وائسرائے کے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں یہ اعلان کیا تھا کہ-:
>آپ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ موجودہ قوانین کی بناء پر جو جماعتیں کونسلوں کے ممبر منتخب کرتی ہیں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی مسلمان امیدوار کو منتخب کریں گی اور یہ کہ اگر اتفاقا وہ ایسا کر دیں تو یہ اسی صورت میں ہوگا کہ وہ امیدوار اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے اپنے خیالات کو اکثریت کے ہاتھ فروخت کر دے اور اس وجہ سے وہ امید وار اپنی قوم کا نمائندہ نہیں ہوگا-
اسی طرح آپ لوگ بالکل جائز طور پر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے حقوق کا فیصلہ صرف آپ کی قوم کی تعداد کو مدنظر رکھ کر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس فیصلہ کے وقت آپ کی قوم کی سیاسی اہمیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو اس نے حکومت برطانیہ کی تائید میں کی ہیں- میں آپ کے اس خیال سے بالکل متفق ہوں<-
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ لارڈ منٹو (LORDMINTO) تسلیم کرتے ہیں کہ- )۱( جداگانہ انتخاب کے طریق کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لئے کوئی احسان نہیں بلکہ صرف انہیں موت سے بچانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے-
)۲( مسلمانوں کا حق ہے کہ ان کی تعداد سے زیادہ ان کو نیابت دی جائے- پس جداگانہ انتخاب کو سائمن کمیشن یا کوئی اور جماعت احسان قرار دے کر اس کے بدلہ کی طالب نہیں ہو سکتی- وہ ایک ایسا طریق ہے جس کو لارڈ منٹو نے مسلمانوں کے حقوق کے قیام کا ذریعہ قرار دیا ہے- اسی طرح مسلمانوں کو ان کی تعداد سے زائد نیابت کا دیا جانا بھی لارڈ منٹو کے اعلان کے مطابق کسی اور صوبے میں اپنا حق چھوڑ دینے کے بدلہ میں نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی اہمیت اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہے- پس اس زیادتی کے بدلہ میں پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے حق کو تلف کرنا برطانیہ کے لئے ہر گز جائز نہیں ہو سکتا- برطانیہ کے نمائندے کہہ سکتے ہیں کہ لارڈمنٹو کا اعلان ایک پرزہ کاغذ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا- وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم اس امر کا خیال کریں کہ ہندوستان کا بڑا حصہ مسلمان حکومت سے بطور انعام یا بطور مستاجری ہمیں ملا تھا اس لئے مسلمانوں کو کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں- اور پھر وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی خدمات کی قیمت ادا ہو چکی- یا یہ کہ اب ان سے بڑھ کر خدمت کرنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں اس لئے ہم نے جن صوبہجات میں مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد نیابت دی تھی اسے اب واپس لیتے ہیں- لیکن وہ یہ بات کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کی قربانی کے بدلہ میں انہوں نے دوسریصوبہ جات کے مسلمانوں کو ان کے حق سے زائد دیا تھا کیونکہ یہ امر حکومت ہند کے ریکارڈ کے خلاف ہے- اگر انہیں وہ زیادتی گراں معلوم ہوتی ہے تو وہ بے شک اسے واپس لے لیں لیکن وہ ہم سے اس قربانی کا مطالبہ نہ کریں جو قربانی ہم کسی صورت میں کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور جو مسلمان نمائندہ بھی اس فیصلے پر راضی ہو گیا کہ پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو قربان کر دیا جائے تو مسلمان اسے یقیناً غدار سمجھیں گے اور میرے نزدیک وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہونگے-
کمیشن کی یہ دلیل کہ کسی قوم کو مستقل میجارٹی نہیں دی جا سکتی بالکل بے حقیقت ہے- میجارٹی کو مستقل میجارٹی ہی دی جاتی ہے- اقلیت کو میجارٹی بے شک نہیں دی جاسکتی مگر اس مستقل اور غیر مستقل کی کوئی شرط نہیں- لیکن کمیشن کا فعل تو بالکل ہی عجیب ہے کہ اس نے اقلیت کو تو قانوناً اکثریت دے دی ہے لیکن اکثریت کو اکثریت دینے سے انکار کر دیا ہے-
ساتویں غلطی سائمن کمیشن نے اس فیصلہ میں یہ کی ہے کہ آخر میں اس حقیقت کو بھی ظاہر کر دیا ہے کہ اس کا یہ فیصلہ کن مخفی اغراض پر مبنی ہے- کمیشن پنجاب اور بنگال میں جائنٹالیکٹوریٹ (JOINTELECTORATE) کے چھوڑنے کی تحریک کے متعلق لکھتا ہے-
>ہم نے یہ آخری تجویز جو درحقیقت مسلمانوں کو دو راستوں میں سے ایک کے منتخب کرنے کا حق دیتی ہے اس لئے پیش کی ہے- کیونکہ ہم سچے دل سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جس قدر ذرائع ممکن ہو سکیں انہیں اختیار کر کے جداگانہ انتخاب کے طریق کو کم کیا جائے- اور دوسرے )یعنی مشترک( طریق انتخاب کے لئے عملی تجربہ کا موقع نکالا جائے<- ۵۸~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سائمن کمیشن کا اصل منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں کو مجبور کر کے جداگانہ انتخاب کے طریق کو منسوخ کرایا جائے- گویا چونکہ حکومت ہند مسلمانوں سے جداگانہانتخاب کا وعدہ کر چکی ہے اب صاف لفظوں میں تو مسلمانوں سے کمیشن نہیں کہنا چاہتا کہ تم اس حق کو چھوڑ دو- ہاں وہ مخفی ذرائع سے زور دے کر انہیں مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس حق کو چھوڑ دیں- مگر میں کمیشن کے ممبروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وعدہ کے ایفاء کا یہ بہت ہی برا طریق ہے اور علم الاخلاق کے رو سے یہ وعدہ کا پورا کرنا نہیں بلکہ اس کا توڑنا سمجھا جاتا ہے-
کمیشن کے ممبروں کو لارڈ منٹو کا یہ اقرار نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ جو مسلمان نمائندے جداگانہ انتخاب کے ذریعہ سے چنے جائیں` وہ حقیقی طور پر مسلمان نمائندے نہیں ہو سکتے اور اس کی روشنی میں دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس قسم کے تجربے کا وقت آ گیا ہے؟ پھر کمیشن کو یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ اب بھی انتخاب کا ایک حصہ مخلوط ہے کیا اس تجربہ میں وطنیت کا کوئی نمونہ نظر آتا ہے؟ کیا یونیورسٹیوں کی نشستیں مسلمانوں کو مل رہی ہیں اگر پنجاب اور بنگال میں بھی مسلمان یونیورسٹیوں کی نشستیں حاصل نہیں کر سکے تو اس قسم کے انتخاب کی برکات کا انہیں کس طرح قائل کیا جا سکتا ہے؟ اور جب تجربہ بتاتا ہے کہ ہندو وطنیت نہیں بلکہ مذہب کو ترجیح دیتا ہے تو پھر اس تجربہ کے لئے مسلمانوں کو مشورہ دینا نہیں بلکہ ان کی اکثریت کو تباہ کر کے مجبور کرنا کس طرح قرین انصاف ہو سکتا ہے-
میں گو تفصیل سے اس امر کو بیان نہیں کر سکتا لیکن اس جگہ مختصراً اس امر کی طرف اشارہ کر دیتا ہوں کہ جداگانہ انتخاب کا اصول اس قدر برا نہیں ہے جس قدر کہ ظاہر کیا جاتا ہے بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اس اصل کو سیاسیات نے تسلیم کیا ہوا ہے- پس اس کی مخالفت بوجہ اصول کی خرابی کے نہیں ہے بلکہ اس کی شکل کے اختلاف کی وجہ سے ہے- ہندوستان کے جداگانہ انتخاب اور دوسرے ملکوں کے جداگانہ انتخاب میں فرق صرف یہ ہے کہ باہر کے ملکوں میں اس کی بنیاد نسل یا علاقہ یا پیشہ پر رکھی جاتی ہے اور ہندوستان میں اس کی بنیاد مذہب پر ہے- چنانچہ انگلستان میں ہائوس آف لارڈز (HOUSEOFLORD) کی بنیاد اسی اصل پر پڑی ہے- سیکنڈ چیمبر (SECONDCHAMBER) کی خوبیاں تو بعد میں معلوم ہوئی ہیں لیکن لارڈز پہلے سے اپنا حق سمجھتے تھے کہ انہیں حکومت کے مسائل میں عذر کرنے کا موقع دیا جائے اور یہ کہ ان کے انتخاب کو عام لوگوں کے ووٹ پر نہ رکھا جائے کیونکہ اس طرح ان کا انتخاب خطرہ میں ہوگا- بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ جب ایک شخص ذاتی حیثیت میں بادشاہ کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کیلئے بلایا جائے اور وہ اس دعوت کو قبول کر لے تو آئندہ اس کی اولاد کا بھی حق ہو جائے گا کہ اسے بھی اس غرض کیلئے بلایا جائے- ۵۹~}~ یونیورسٹی کی نشستیں بھی اسی اصل کے ماتحت ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو الگ ممبر دیئے جائیں- کیوں انہیں نہ کہا جائے کہ عام حلقہانتخاب سے اپنے آدمیوں کو بھیجیں- تجارت و صنعت کی نشستیں بھی ایسی ہی ہیں لیکن ان سب منافع کی حفاظت کیلئے اہمیت کے لحاظ سے بہت کم ہی علیحدہ انتخاب کی اجازت دی جاتی ہے لیکن مذہب خطرہ میں ہو تو اس طریق کو بے اصول سمجھا جاتا ہے- یہ واقعہ میں حیرت کی بات ہے اور سمجھ سے بالا ہے-
سائمن کمیشن کی تجویز کی غلطیاں ظاہر کرنے کے بعد اب میں وہ تجاویز بتاتا ہوں جو میرے نزدیک معقول ہیں اور جن پر عمل کر کے عدل و انصاف قائم ہو سکتا ہے- سو سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گو بنگال اور پنجاب میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن اکثریت سے مراد صرف تعداد کی اکثریت نہیں ہوتی بلکہ حقیقی اکثریت ہوتی ہے اور وہ اکثریت ان صوبوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے- شروع شروع میں تو مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں خود حکومت نے کمزور کیا تھا کیونکہ عذر کے بعد حکومت کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا حکومت کے مفاد کے خلاف ہوگا- قانون کوئی نہیں تھا لیکن عملاً حکام کی یہی پالیسی تھی کہ وہ مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے تھے- یہ روح اس حد تک ترقی کر گئی تھی کہ ہمارے وطنیشاعر غالب کی سوانح میں اس بارہ میں ان کا ایک عجیب تجربہ لکھا ہے- وہ آخری شاہ دہلی کے درباری تھے اور خود نواب زادے تھے- غدر کے بعد تباہی آئی تو یہ بے چارے بھی فاقوں کو پہنچ گئے- آخر کسی نے مشورہ دیا کہ نوکری کر لیں- انہی دنوں انگریزی مدرسہ میں فارسی کی پروفیسری کی جگہ خالی ہوئی- یہ اس انگریز کے پاس جا پہنچے جس کے سپرد پروفیسر کا انتخاب تھا- وہاں پہنچے تو اس نے دیکھتے ہی کہا کہ >ہم مسلمان کو نہیں مانگتا< غالب سا حاضر جواب بھلا کہاں چوکتا تھا- بولے صاحب! مسلمان کہاں ہوں آپ کو دھوکا ہوا- اگر عمر بھر ایک دن شراب چھوڑی تو کافر اور ایک دن بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان- مگر ان کی حاضر جوابی کام نہ آئی اور صاحب نے گھر سے نکال کر دم لیا-
اس قسم کے واقعات ہر روز پیش آتے تھے اور اس وقت تک پیش آتے رہے جب تک لارڈ کرزن (LORDCURZON) نے اس ظلم کا ازالہ نہ کیا اور خاص سرکلر کے ذریعہ سے تاکید کی کہ آئندہ ملازمتوں میں مسلمانوں کے حق کو مقدم رکھا جائے کیونکہ یہ قوم بہت پیچھے رہ گئی ہے- لیکن لارڈ کرزن کی تجویز بھی کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ ہندو دفاتر پر بہت قبضہ کر چکے تھے- اب یہ حال ہے کہ دفاتر پر ان کا قبضہ ہے` بنکوں پر ان کا قبضہ ہے اور تجارت پر ان کا قبضہ ہے- پنجاب میں قانون زمیندارہ کے منظور ہونے سے پہلے قریباً تیس فیصدی زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان کے ہاتھ میں جا چکی تھیں- اور بنگال میں انگریزی عمل داری کے شروع ہی میں تحصیل داری کے ٹھیکوں میں وہ ملک کے مالک ہو چکے تھے- اب جو کچھ باقی ہے وہ رہن ہے یا قرضہ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کیونکہ زمیندار قرض لینے پر مجبور ہے اور ہندو ساہوکار اپنی زیادہ طلبی کے راستہ میں کسی قانون کو مانع نہیں پاتا-
پس ان حالات میں مسلمانوں کو پنجاب اور بنگال میں حقیقی اکثریت کا مالک نہیں کہا جا سکتا حالانکہ جس اکثریت سے کوئی قوم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے وہ حقیقی اکثریت ہے نہ کہ خالی تعدادی اکثریت- پس جب تک مسلمانوں کو حقیقی اکثریت حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ان دونوں صوبوں میں بھی خاص حفاظت کے مستحق ہیں-
اوپر کے تمدنی نقص کے علاوہ ایک اور نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ فرنچائز (FRANCHISE) کے اصول ایسے بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں ووٹر دوسری اقوام سے تھوڑے رہ جاتے ہیں- چنانچہ پنجاب جس میں مسلمان ۲ء ۵۵ کی تعداد میں ہیں ان کے ووٹروں کی تعداد ۷ء۴۳ ہے اور بنگال جس میں مسلمان ۶ء۵۴ ہیں- اس میں مسلمان ووٹروں کی تعداد ۱ء۴۵ فیصدی ہے- پس جب کہ بناوٹی قوانین سے مسلمانوں کے ووٹروں کی تعداد کو کم رکھا جاتا ہے تو مسلمان اکثریت میں کس طرح سمجھے جا سکتے ہیں- اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ اس قسم کا انتظام کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹر مل جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال تو جس قدر جلد ہو سکے حل ہونا چاہئے لیکن باوجود اس نقص کے دور کرنے کے مسلمان فوراً اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ووٹر فوراً اپنے کام اور اپنے فرض کو نہیں سیکھ جاتے- کچھ عرصہ مسلمانوں کو پھر بھی چاہئے ہوگا جس میں کہ وہ اپنے ووٹروں کو ووٹ دینے کا طریق سکھا سکیں اور ان میں سیاسیات سے دلچسپی پیدا کرا سکیں- کیونکہ شروع میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر یہ فوقیت ہو گی کہ ان کے ووٹروں کی زیادہ تعداد پچھلے بارہ سال کے تجربہ کے ماتحت اپنے کام سے واقف ہو چکی ہو گی اور سیاسی دلچسپی اس میں پیدا ہو چکی ہوگی- نئے ووٹر کو پوری دلچسپی نہیں ہوتی- چنانچہ انگلستان میں عورتوں نے کس زور سے ووٹ کا حق حاصل کیا تھا لیکن اس کے استعمال میں وہ شوق ظاہر نہیں کیا جس کی وجہ سے یہی تھی کہ انہیں ابھی ووٹ کے استعمال کا طریق نہیں آیا اور نہ سیاسیات کی تفصیلات سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے-
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان پنجاب اور بنگال میں گو ظاہراً اکثریت میں ہیں لیکن طاقت کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں اور اس وجہ سے ویسے ہی حفاظت کے مستحق ہیں جس طرح کہ ظاہریاقلیتیں- کیونکہ زیادہ آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنا تھوڑے آدمیوں پر ظلم ہوتے رہنے سے زیادہ برا اور ظالمانہ فعل ہے- لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک صداقت ہے کہ اکثریت ہمیشہ کے لئے حفاظت کی مستحق نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح دائمی حفاظت سے مطمئن ہو کر وہ کمزور ہونے لگتی ہے اور نہ صرف خود تباہ ہوتی ہے بلکہ ملک کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے- پس جہاں تک اکثریت کی حفاظت کا سوال ہے اس کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ یہ بات صرف عارضی ہو سکتی ہے اور اس حفاظت کا عارضی رکھنا ملک کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ اکثریت کی اپنی زندگی کے قیام کے لئے بھی ضروری ہے-
اس اصل کو پیش کرنے کے بعد میں اب پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کے سوال کو لیتا ہوں- میں بتا چکا ہوں کہ میرے نزدیک اکثریت اسی وقت حفاظت کی مستحق ہوتی ہے جب وہ معنوی طور پر اقلیت ہو اور یہ کہ وہ اس صورت میں بھی دائمی حفاظت کی مستحق نہیں ہوتی- پس اس اصل کے ماتحت پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو جن کی نسبت میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ معنوی طور پر وہ اقلیت ہی ہیں گو حفاظت تو مل سکتی ہے لیکن صرف عارضی حفاظت مل سکتی ہے-
پس ہمیں جہاں ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی حفاظت کا سامان مہیا کرنا چاہئے وہاں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس حفاظت کے سوال کو کب اور کس طرح ختم کیا جائے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اکثریت کہہ دے گی کہ اب ہمیں حفاظت کی ضرروت نہیں اس وقت حفاظتیتدابیر کو ختم کر دیا جائے گا- لیکن میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ تدبیر قابل عمل نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ جس وقت اکثریت کہے کہ اب ہمیں حفاظتی تدابیر کی ضرورت نہیں اس وقت دوسریاقوام یہ کہہ دیں کہ اب ہم ان کے چھوڑنے پر راضی نہیں اور اس طرح صرف ضد اور تعصب کی وجہ سے نہ کہ حقیقی ضرورت کے لحاظ سے حفاظتی تدابیر جو کہ درحقیقت وقتیعلاج ہوتی ہیں دائمی طور پر ملک کے گلے پڑ جائیں- اس کے علاوہ میرے نزدیک اس تدبیر کو اختیار کرنے میں یہ نقص بھی ہے کہ گو ہم یہ کہتے رہیں کہ یہ تدابیر وقتی ہیں لیکن جو قوم ان کے ذریعہ سے فائدہ اٹھا رہی ہو گی وہ اس خیال سے کہ ہمارے ہی اختیار میں تو بات ہے جب چاہیں گے ان تدابیر کو چھوڑ دیں گے` اپنی کمزوری کو دور کرنے کے لئے جلد کوشش نہیں کریں گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بجائے اپنے نفس میں بیداری پیدا کرنے یا دوسری قوم سے صلح کی کوشش کرتے رہنے کے حفاظتی قانون پر دارومدار رکھنے کی عادی ہو جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے ان کی تدابیر کی حفاظت کی آڑ لینے پر مجبور رہے گی-
پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا طریق ایجاد کریں جس کی مدد سے ہماری تینوں غرضیں پوری ہو جائیں- اول ان حفاظتی تدابیر کو بغیر از سر نو جھگڑا پیدا کرنے کے ختم کیا جا سکے- دوم اکثریت اپنی حالت کو جلد سے جلد اچھا کرنے پر مجبور ہو- سوم حفاظتی تدابیر فساد اور جھگڑے کر بڑھانے میں ممد نہ ہوں- سو ان تینوں غرضوں کو پورا کرنے کے لئے میرے نزدیک صرف ایک ہی تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ چند سال مقرر کر دیے جائیں کہ اس وقت تک یہ حفاظتی تدابیر رہیں گی` اس کے بعد خود بخود منسوخ ہو جائیں گی- اس طرح تینوں فائدے حاصل ہو جائیں گے کیونکہ سال مقرر ہونے کی وجہ سے کسی جماعت کو کسی وقت بھی یہ کہنے کا موقع نہ ملے گا کہ ہم انہیں ختم نہیں ہونے دیں گے- دوسرے اکثریت کو یہ خیال رہے گا کہ صرف فلاں وقت تک یہ حفاظت ہے اس کے بعد ختم ہو جائے گی اس لئے وہ اس قانون سے مطمئن نہیں ہو گی بلکہ پورا زور لگائے گی کہ اس سے پہلے پہلے وہ اپنے افراد کو بیدار کر لے تا کہ اس کے منسوخ ہونے پر وہ اپنی حفاظت خود کر سکے- تیسرے سب اقوام اپنے اندر صلح کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی کیونکہ ہر ایک فریق جان لے گا کہ وہ دوسرے کو اس کی غفلت کی حالت میں کمزور نہیں کر سکتا اور یہ کہ کچھ عرصہ کے بعد سب کو مل کر کام کرنا ہوگا- پس آئندہ آنے والے مخلوط انتخاب کے خیال سے جب کہ ہر ایک امیدوار کو اپنی ہمسایہ قوم کی امداد کا خواہاں ہونا پڑے گا` سب قوموں کے افراد آپس کی رنجش اور کدورت کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے- غرض عرصہ کی تعیین سے یہ تینوں فوائد حاصل ہو جاتے ہیں- اس لئے سب سے بہتر تدبیر یہی ہے کہ عرصہ کی تعیین ہو جائے-
اب رہا یہ سوال کہ کتنا عرصہ اکثریت کو بیدار کرنے کے لئے ملنا چاہئے سو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں- اس جگہ اصولی طور پر اس قدر اور کہنا چاہتا ہوں کہ کامل صوبہ جاتی آزادی کے حصول کے بعد پندرہ سال یعنی تین الیکشن کا عرصہ اس غرض کے لئے ضروری ہے اور صوبہ جاتی حکومت کی تکمیل کا عرصہ اگر ہم دس سال فرض کریں تو پچیس سال کا عرصہ اس غرض کے لئے بہت مناسب ہے- اس عرصہ کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ اس عرصہ سے کم میں قوم کی تعلیم اور اقتصادی حالت کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے-
جہاں اقلیتوں کو حفاظت دی گئی ہے ان کے متعلق بھی میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ اس عرصہ کے بعد جداگانہ انتخاب کا حق ان سے لے لیا جائے لیکن مقررہ نشستوں کے ساتھ مخلوطانتخاب کا حق ان کے پاس اس وقت تک رہے جب تک ان کی مرضی ہو-
اس کے بعد میں حق نیابت کی مقدار کے سوال کو لیتا ہوں- جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اقلیتیں دو قسم کی ہوتی ہیں- ایک تعداد کے لحاظ سے اور ایک ضعف اور کمزوری کے لحاظ سے- پس اگر اقلیتوں کے حق کی حفاظت کی ضرورت تسلیم کر لی جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو اقلیت ظاہری نہیں بلکہ معنوی ہے وہ بھی اسی طرح حفاظت کی محتاج ہے جس طرح کہ ظاہری- اور جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ معنوی اقلیت بھی حفاظت کی محتاج ہوتی ہے` تو اسے طاقت پہنچانے کے لئے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس قدر زیادہ سے زیادہ حق اسے جائز طور پر دیا جا سکے اسے ملنا چاہئے تاکہ وہ طاقت حاصل کر سکے- اگر زیادہ سے زیادہ جائز حق اسے نہ دیا جائے تو جس غرض سے اسے حفاظت دی گئی ہے وہ پوری نہیں ہو سکے گی اور ایک اکثریت کا زیادہ سے زیادہ جائز حق وہ تناسب نیابت ہے جو اسے تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- پس عقلا ایک اکثریت جو اس قدر کمزور ہو کہ اقلیت سے بھی اسے خطرہ لاحق ہو اسے پورے طور پر وہ حق ملنا چاہئے کہ جو تعداد کے لحاظ سے اسے مل سکتا ہے- اور اس دلیل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اگر واقعہ میں اپنی کمزوری دور کرنے کا موقع دینا ہے تو لازمی طور پر پچپن اور چون فیصدی حق نیابت دینا لازمی ہے-
چونکہ میرے مقرر کردہ اصول کے مطابق پنجاب اور بنگال کی اکثریت کو صرف ایک معین مدت تک جو عقلاً ان کے لئے اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے ضروری ہے حفاظت حاصل ہو گی اس لئے کمیشن کا یہ اعتراض بھی دور ہو جاتا ہے کہ قانونا کسی کو مستقل اکثریت نہیں مل سکتی- کیونکہ یہ اکثریت مستقل نہیں ہو گی بلکہ عارضی ہو گی اور پچیس سال کے بعد سب فریق آزاد ہوں گے کہ ووٹروں کو اپنی پالیسی بتا کر اپنے حق میں کر لیں بلکہ اس عرصہ میں سیاسی پالیسیاں قائم ہو چکی ہوں گی- غالب امید ہے کہ مذہبی بنیاد پر الیکشن کی جنگ کا زمانہ بھی گذر چکا ہو گا اور سیاسی سوالات پر الیکشن کا مقابلہ شروع ہو چکا ہو گا اور ان احتیاطوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی جو آج نہایت اہم اور ضروری معلوم ہوتی ہیں-
کمیشن کے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے کہ اکثریت کی اکثریت کو قانون کی مدد سے قائم رکھنا اصول کے خلاف ہے میں ایک تجویز بھی پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال کو دو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے- یعنی ایک وہ حلقہ ہائے انتخاب جن میں ایک مذہب کے پیرئووں کے ووٹ اسی فیصدی یا اس سے زائد ہوں- یعنی اکثریت اور اقلیتوں کے ووٹوں کی نسبت ایک اور چار کی ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو- ایسے تمام حلقہ ہائے انتخاب میں مخلوط انتخاب کر دیا جائے اور جن حلقہ ہائے انتخاب میں اس سے کم فرق ہو ان میں جداگانہ انتخاب رہے- اس طرح دونوں ملکوں میں بعض حصوں سے تو جداگانہ انتخاب پر ممبر آئیں گے اور بعض حصوں سے مخلوط انتخاب کے ذریعہ- لیکن چونکہ نسبت ووٹروں کی ایک اور چار کی ہو گی اس لئے جب تک اکتیسں فیصدی ووٹ اقلیت اکثریت سے نہیں چھینے گی اس وقت تک اس پر فتح نہیں پا سکے کی- اس ذریعہ سے ایک ہی وقت میں دونوں قسم کے تجربے شروع ہو جائیں گے اور اکثریت کو کوئی ایسا خطرہ بھی نہ ہو گا جس کا علاج نہ ہو سکے- جس حلقہ میں جداگانہ انتخاب رہے وہ انہیں شرائط کے ساتھ جو میں پہلے لکھ چکا ہوں پچیس سال کے بعد بند ہو جائے- اس طریق سے اکثریت قانونی اکثریت نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اس کا ایک حصہ مخلوط انتخاب سے بغیر کسی قانون کی مدد کے آیا ہو گا- اگر کہا جائے کہ ایک اور چار کا فرق ایسا بڑا فرق ہے کہ اس میں اکثریت کا کامیاب ہونا یقینی ہے پس یہ بھی ایک قسم کی قانونی مدد ہے- تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فائدہ دونوں قوموں کو یکساں ملے گا- دوسرے اگر یہ بات قانونی مدد کہلانے کی مستحق ہو گی تو کیوں سی-پی اور مدراس کے انتخاب جہاں مسیحی اور مسلمان مل کر بھی پندرہ فیصدی سے کم ہیں قانونی طور پر ہندئووں کو اکثریت دینے والے نہ قرار دیئے جائیں؟
دوسرا سوال ان صوبوں کا ہے جن میں مسلمانوں کی اقلیت ہے- سو صوبہ سرحد اور سندھ دونوں کے آزاد حکومت حاصل کرنے پر اس سوال کا حل خودبخود ہو جاتا ہے- اگر ہندوصاحبان بحیثیت مجموعی مسلمانوں سے سمجھوتہ کرنا چاہیں گے تو ان دونوں صوبوں کے مسلمانوں سے سمجھوتہ کر لیں گے- جو حق وہ اپنی اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو دیں گے وہی حق ان کو ان دونوں صوبوں میں اور بلوچستان میں مل جائے گا اور اگر ہندو صاحبان نے بحیثیت قوم سمجھوتہ نہ کرنا چاہا تو ان نئے اسلامی صوبوں میں بھی انہیں کوئی زائد حق نہیں مل سکے گا کیونکہ مسلمان بھی اپنی قوم کا ویسا ہی درد رکھتے ہیں جیسا کہ ہندو اپنی قوم کا رکھتے ہیں- اس صورت میں مسلمانوں کا دعویٰ لارڈ منٹو (LORDMINTO) کے اعلان کی بناء پر زائد نیابت کے لئے قائم رہے گا- لیکن ہندوئوں کو اسلامی صوبوں سے زائد حق مانگنے کا حق نہ ہو گا اس لئے کہ ان کے دعویٰ کی بنیاد کسی گورنمنٹ کے اعلان پر نہیں ہے بلکہ صرف سمجھوتہ پر ہے- پس سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں ان کا مطالبہ ناجائز ہو جائے گا-
اس سوال کو اصولی طور پر حل کر لینے کے بعد جب ہم تفصیلات کی طرف آتے ہیں تو ہمیں بہت سی مشکلات معلوم ہوتی ہیں- چنانچہ جب ہم پنجاب اور بنگال کے انتخاب کے حلقوں کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرح بنائے گئے ہیں کہ ان کی بناء پر مسلمانوں کی اکثریت خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ بہت سے حلقے مخصوص فوائد کے قرار دیئے گئے ہیں- اگر مسلمانوں کو عام حلقوں سے کافی نیابت مل بھی جائے تو مخصوص حلقے توازن کو خراب کر دیتے ہیں-
جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ سوال حکومت کو بہت پریشان کر رہا ہے لیکن اگر غور سے دیکھیں تو یہ پریشانی خود اپنی پیدا کی ہوئی ہے کیونکہ جس قدر وسیع مخصوص فوائد ہندوستان میں ہیں دنیا بھر میں اور کسی جگہ نہیں ہیں- دوسرے ممالک میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑا زمیندار` بڑا تاجر` بڑا صناع اپنی دولت اور اپنے رسوخ کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت کونسلوں میں آنے کا زیادہ موقع حاصل کر سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں براہمنی طریق نے ہر شعبہ پر قبضہ کر رکھا ہے- اگر نسلی براہمن کو ہم اس کے مقام سے ہٹانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو بھی یہ نیا براہمن جو پیشوں یا کاموں کی وجہ سے اپنے آپ کو باقی دنیا سے بالا سمجھتا ہے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا او رہمارے ملک کے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے-
پنجاب میں علاوہ عام حلقہ ہائے انتخاب کے مندرجہ ذیل حلقہ ہائے انتخاب میں ایک یونیورسٹی کا` ایک بلوچ سرداروں کا` ایک مسلمان زمینداروں کا` ایک ہندو زمینداروں کا` ایک سکھ زمینداروں کا` دو تجارتی` ایک مزدوروں کا` ایک مسیحیوں کا` ایک یوروپین کا` ایک اینگلوانڈین کا` ایک فوجی` گویا کل چہتر غیر سرکاری ممبروں میں سے بارہ حلقے مخصوص ہیں یعنی سولہ فیصدی اور یہ ظاہر ہے کہ جہاں سولہ فیصدی بھرتی مخصوص حلقوں سے ہوگی وہاں قوموں کا توازن کب قائم رہ سکتا ہے- دنیا کا اور کونسا ملک ہے جس میں اس سے نصف بھرتی بھی مخصوص حلقوں سے کی جاتی ہو؟
تفصیلا نگاہ ڈالنے کے لئے زمینداروں کا حلقہ ہی لے لو- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ زمیندار کو اپنے انتخاب کے لئے خاص حلقہ کی ضرورت ہے؟ خود سائمن کمیشن نے بھی اس امر پر حیرت ظاہر کی ہے کہ یہ حلقہ الگ کیوں ہے- اور ثابت کیا ہے کہ زمیندار علاوہ اپنے حلقہ کے دوسرے حلقوں سے بھی بہت زیادہ تعداد میں کونسلوں میں داخل ہوئے ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ ان حلقوں کو قائم رکھا جائے- خاص حلقے یا تو اس وجہ سے بنائے جاتے ہیں کہ کسی خاص گروہ کو دوسروں سے مل کر انتخاب کے ذریعہ سے حق نہ مل سکتا ہو- یا اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ملک میں دو کونسلیں ہوں- جیسے کہ ہائوس آف لارڈز (HOUSEOFLORDS)اور ہائوس آف کامنز (HOUSEOFCOMMONS) میں فرق کیا گیا ہے- لیکن جب کہ زمینداروں کو نہ خطرہ ہے اور نہ کسی دوسری مجلس کا سوال ہے پھر انہیں خاص حق کیوں دیا جائے- میری یہ تحریر اور بھی وزنی ہو جاتی ہے جب کہ اس امر کو یاد رکھا جائے کہ میں خود ان زمینداروں میں سے ہوں جنہیں اس خاص حق کا فائدہ پہنچتا ہے- اور اس حلقہ کے اڑانے پر میرے اور میرے چار بھائیوں کا یہ حق تلف ہوتا ہے- لیکن باوجود اس کے جو فضول بات ہے میں اسے فضول کہنے سے نہیں رک سکتا-
اسی طرح تجارتی حلقہ ہے- وجہ کیا ہے کہ اس حلقہ کو قائم رکھا جائے؟ کیا تاجروں کو دوسرے حلقہ میں کھڑا ہونے سے کوئی روک ہے؟ اگر روک نہیں تو بڑا تاجر جو بڑا رسوخ بھی رکھتا ہے کیوں دوسرے حلقہ سے کھڑا نہیں ہو سکتا؟ کیا انگلستان میں یا امریکہ میں تاجر کو حق دیا گیا ہے کہ ہندوستان میں دیا جائے؟ تاجر بے شک عام حلقہ سے کھڑے ہوں اور سب ممبریاں لے لیں لیکن انہیں خاص طور پر حق کیوں دیا جائے؟ اس طرح فوجی ممبر ہے- جنگ عظیم میں شامل ہونے والے فوجیوں کو خاص طور پر ووٹ کا حق دیا گیا ہے- پس اگر فوجی کوئی خاص فوائد کونسلوں سے وابستہ رکھتے ہیں تو اپنے حد سے بڑھے ہوئے ووٹنگ (VOTING) کے حق سے کام لیکر فوجیوں کو کونسلوں میں بھیج سکتے ہیں- الگ فوجی ممبر مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- یہی حال مزدور ممبر کا ہے کافی طور پر مزدور ووٹر ہر ایک صوبہ میں موجود ہیں وہ اپنے ووٹ سے کام لے کر اپنے آدمی بھیج سکتے ہیں- یہ ایک ایسی بین بات ہے کہ خود سائمن کمیشن کے ایک ایسے ممبر نے جو مزدور پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اس پر اعتراض کیا ہے اور نامزدگی کو اور مزدوروں کے مفاد کے خلاف بتایا ہے- اگر یہ حلقہ ہائے مخصوص اڑا دیئے جائیں تو توازن کا قائم رکھنا آسان ہو جاتا ہے- بنگال کے زمینداروں کے حلقے اور تجارتی حلقے اگر اڑا دیئے جائیں تو مختلف اقوام کو ان کی تعداد کے مطابق ووٹ دینا نسبتاً بہت آسان ہو جاتا ہے-
اب ایک انگریزوں کا سوال رہ جاتا ہے- میرے نزدیک اس وجہ سے کہ اس وقت بوجہ حکومت سے ناراضگی کے ان کے خلاف خاص جوش ہے وہ اس امر کے مستحق ہیں کہ انہیں خاص نیابت ملے لیکن ان میں بھی تجارتی اور عام حلقوں کی تقسیم فضول ہے- جس قدر تعداد کہ انگریزی فوائد کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھی جائے اس قدر تعداد ان کے لئے مقرر کر دی جائے- تاجر بھی اور دوسرے بھی اپنے اپنے اثر کے حلقے سے کھڑے ہو کر اپنی نیابت حاصل کر لیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- مگر ہمیں اس پر ضرور اعتراض ہے کہ انگریزوں کو خاص حصہ دینے کے لئے ایسے اصول ایجاد کئے جائیں جن کے ماتحت ہندوئوں کو بھی اپنے حق سے زائد لینے کا موقع مل جائے- جہاں تک میرا خیال ہے یہ فوائد صرف انگریزوں کی نیابت کو مضبوط کرنے کے لئے ایجاد کئے گئے ہیں لیکن اب مسلمان اس طریق کی مضرتوں سے آگاہ ہو چکے ہیں- وہ انگریزوں کے خاص حق پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے اور انگریزوں کے لئے جو خطرات ہیں ان کو دیکھ کر انہیں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے- لیکن ایسے اصول تجویز کر کے انہیں حق نہ دیئے جائیں کہ ساتھ ہی مسلمانوں کے حق کا ایک ٹکڑا اسی اصل کے ماتحت ہندو بھی کاٹ لیں-
جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی ممبریوں کی تقسیم عمدگی سے اس طرح ہو سکتی ہے کہ دو فیصدی حق نیابت انگریزوں اور اینگلو انڈینز (ANGLOINDIANS) کو دے دیا جائے- ان کے تجارتی اور دوسرے سب فوائد بھی اس میں شامل ہوں لیکن تجارت کے نام سے علیحدہ حق نہ دیا جائے- ایک سیٹ یونیورسٹی کو ملے لیکن شرط یہ کر دی جائے کہ ایک دفعہ ہندو یا سکھ ممبر ہو اور دوسری دفعہ مسلمان ممبر گو انتخاب مخلوط ہو- یا پھر یہ کیا جائے کہ دو نشستیں یونیورسٹی کو دے دی جائیں لیکن ان میں سے ایک مسلمان کے لئے اور ایک ہندو یا سکھ کے لئے وقف ہو- انتخاب مخلوط ہی ہو- اور یا تو واحد قابل انتقال ووٹ سے انتخاب ہو لیکن شرط یہ ہو کہ دوسرا ممبر وہ نہیں ہوگا جسے دوسرے نمبر پر ووٹ ملیں بلکہ وہ مسلمان امیدوار ہوگا جسے مسلمانوں میں سے سب سے زائد ووٹ ملیں- یا ہر ووٹر کو دو ووٹ دیئے جائیں جن میں سے ایک وہ ہندو کو دینے کا اور ایک مسلمان کو دینے کا پابند ہو یا اور ایسا ہی کوئی طریق اختیار کیا جائے- خاص زمینداروں کو اگر الگ سیٹ دینی ہی ہے تو صرف ڈیرہ غازیخان کے تمنداروں کو جو چھوٹی قسم کے رولنگ چیفس (RULINGCHIEFS) ہیں ایک سیٹ دے دی جائے لیکن اس صورت میں ان کے لئے قاعدہ ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے حلقوں میں سے نہیں کھڑے ہو سکتے-
اگر ہم پنجاب کے دو سو ممبر فرض کریں جو ضرور ہونے چاہئیں تو یونیورسٹی کی دو اور تمنداروں کی ایک نشست فرض کر کے سات نشستیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک سو ترانوے )۱۹۳( نشستیں باقی رہ جاتی ہیں- آبادی کے لحاظ سے مسلمان پچپن فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- ہندو اکتیس فیصدی کے قریب ہیں اور سکھ بارہ فیصدی ہیں اور مسیحی اور ادنیٰ اقوام وغیرہ ایک فیصدی سے کچھ زیادہ ہیں- پس تعداد آبادی کے لحاظ سے ۱۶ء۲۳ سکھوں کو اور ۸ء۵۹ ہندوئوں کو اور ۵ء۲ مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کو ممبریاں ملنی چاہئیں- ہم ہندوئوں کی نشستیں پوری ساٹھ فرض کر لیتے ہیں اور اسی طرح سکھوں مسیحیوں اور ادنیٰ اقوام کی کسر پوری ممبری فرض کر کے چوبیس اور تین ممبر فرض کر لیتے ہیں- پس بقیہ ۱۹۳ ممبروں میں ایک سو چھ ممبر مسلمان ہوئے- چونکہ ایک یونیورسٹی کی اور ایک تمنداروں کی نشست ان کو مل چکی ہے اس لئے ایک سو آٹھ ممبر ان کے ہوئے- اپنی تعداد کے لحاظ سے انہیں ایک سو گیارہ ممبریاں ملنی چاہئیں تھیں- پس اس حساب کے رو سے انہوں نے تین ممبریاں انگریزوں اور دوسری اقوام کو دیں- اس کے مقابل پر ہندوئوں کی یونیورسٹی کی نشست ملا کر اکسٹھ ممبریاں ہوئیں اور انہیں ایک ممبری اقلیتوں کے لئے قربان کرنی پڑی-
جہاں تک میں غور کرتا ہوں اس امر کو دیکھ کر کہ سکھ اور ہندو تمدنی طور پر ایک ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق نہ صرف ادا کرتے ہیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابل پر اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ انتظام نہایت منصفانہ انتظام ہے اور اس میں کسی قوم کا حق نہیں مارا جاتا-
بنگال کی نسبت میرے نزدیک بہتر طریق یہ ہوگا کہ چھ فیصدی انگریزوں اور اینگلو ]2 [lrmانڈینز (ANGLOINDIANS) کو نشستیں دے دی جائیں- خواہ تجارت پیشہ ہوں یا دوسرے جو چارفیصدی مسلمانوں سے اور دو فیصدی ہندوئوں سے لی جائیں اور اس طرح مسلمانوں کو ۶ء۵۰ حق دیا جائے اور دوسری اقوام کو ۴ء۴۹ حق دیا جائے- یونیورسٹی کی دو نشستیں مقرر کی جائیں جن میں سے ایک ہندو کو اور ایک مسلمان کو ملے- زمینداروں کی الگ نمائندگی کی ضرورت نہیں- لیکن اگر انہیں علیحدہ نمائندگی دی جائے تو اس اصل پر ہو کہ ہر قوم کے حقنیابت کے برابر اس کی قوم کے زمینداروں کو حق نیابت ملے کیونکہ اگر زمینداروں کو صرف زمینداری کے حقوق کی نیابت کا خیال ہے تو ان کی نیابت اسی طرح ایک مسلمان زمیندار کر سکتا ہے جس طرح ایک ہندو-
پس اگر ان کی غرض صرف زمیندارہ حقوق کی حفاظت ہے تو انہیں اس بات پر راضی ہو جانا چاہئے کہ دونوں قوموں کی نیابت کے تناسب کو قائم رکھنے کے لئے زمینداروں کے حلقوں کا انتخاب مخلوط لیکن معین نشستوں کے ساتھ ہو اور تعین نشستوں کا آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہو- اسی طرح اگر ہندوستانی تجارتی حلقوں کو حق دینا ضروری سمجھا جائے تو اسی اصول پر دیا جائے- یعنی نشستوں کا تعین مذہب کے مطابق ہو جائے تا کہ تجارتی اور زمینداری حلقوں کو قومی برتری کا ذریعہ نہ بنایا جائے- آخر مسلمان تاجر بھی ہیں اور زمیندار بھی اور وہ اسی طرح ان مخصوص مفاد کی نگرانی کر سکتے ہیں جس طرح ہندو صاحبان- تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر ان حلقوں کو قائم رکھا جائے تو یہ شرط نہ کر دی جائے کہ تعداد آبادی کے مطابق ان حلقوں کے نمائندے منتخب ہونے چاہئیں- میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ انتخاب کن اصول پر ہوں کیونکہ انتخاب کے مختلف ذرائع میں سے کئی ذرائع ہماری غرض کو پورا کر سکتے ہیں- جو بھی مناسب ہو اسے اختیار کیا جائے- اصل غرض صرف یہ ہے کہ انگریزوں کی نمائندگی کے بعد جس میں چار فیصدی کی قربانی مسلمانوں سے اور دو فیصدی کی قربانی ہندوئوں سے کرائی جائے باقی سب حلقوں میں اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ خواہ مخصوص ہوں خواہ عام نسبت آبادی کی قائم رہے-
میں خیال کرتا ہوں کہ میرے کئی دوست مجھ پر اعتراض کریں گے کہ- اس وقت تک تو میں زور دیتا رہا ہوں کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق ووٹ ملیں لیکن اب میں نے خود پنجاب میں ساڑھے پچپن کی بجائے چون اور بنگال میں ساڑھے چون کی بجائے پچاس کی تجویز پیش کی ہے- سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں اب بھی اسی تجویز کی تائید میں ہوں لیکن علاوہ ہندوستانی اقوام کے ہمیں انگریزوں کے مخصوص مفاد کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جن کی آبادی بہت کم ہے لیکن تجارت اور صنعت بہت وسیع ہے- پس اگر انہیں کوئی حق دیا گیا تو لازماً دوسری اقوام کے حق میں سے دیا جائے گا اور یہ معقول بات نہیں ہو سکتی کہ ہم انگریزوں کے اس حق کو تو تسلیم کریں لیکن ساتھ ہی اپنی تعداد سے بحصہ رسدی انہیں نشستیں دینے کے لئے تیار نہ ہوں- پس ان حالات میں ہمیں دو اصل تسلیم کرنے پڑیں گے- ایک یہ کہ بنگالوپنجاب میں مسلمانوں کی حقیقی اکثریت قائم رہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے حصہ کے مطابق بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ انگریزوں کو حق دے دیں تا کہ ان کے حقوق کی نمائندگی پوری طرح ہو سکے-
مسلمانوں کو یہ امر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پنجاب اور بنگال دونوں جگہوں میں انگریزوں نے اکثر اوقات مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے اور آل انڈیا برٹش ایسوسی ایشن ASSOCIATION) BRITISH INDIA (ALLنے تو حال کے کلکتہ کے اجلاس میں کلی طور پر مسلمانوں کے مطالبات کی تائید کی ہے- پس ہمیں بھی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے- اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی طرف ہمارا دوستانہ طور پر بڑھنا ان کے دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہے گا اور ہم آئند انہیں ایک خیر خواہ دوست پائیں گے- خصوصاً جب کہ ان کا زیادہ تر کام تجارت ہے اور اس وجہ سے ان کی رقابت ہندوئوں سے بہ نسبت مسلمانوں کے بہت زیادہ ہے- اور میں امید کرتا ہوں کہ پنجاب اور بنگال میں آپس میں سمجھوتہ کر کے ایک مستقل اکثریت کے ساتھ مسلمان اور انگریز نمائندے ان دونوں صوبوں کی ترقی کے لئے حکومت قائم کر سکیں گے اور اپنے منصفانہ رویہ سے دوسرے صوبوں کے لئے ایک نیک مثال قائم کر دیںگے-
میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ تقسیم جو میں نے اوپر بتائی ہے یہ فرض کر کے ہے کہ پنجاب اور بنگال کی آبادی ۴ء۵۵ اور ۶ء۵۶ ہے- اگر اس سے زائد آبادی مسلمانوں کو حاصل ہوئی جیسا کہ امید ہے کہ آئندہ مردم شماری میں انشاء اللہ حاصل ہوگی تو جو زیادتی اس وقت یا آئندہ مردم شماریوں میں ہوگی یہ سب کی سب مسلمانوں کو ملے گی- اسے کسی صورت میں بھی دوسری اقوام میں بانٹا نہیں جائے گا- مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ خوش آئند مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے قوموں کے سمجھوتے کی کوشش کریں اور اگر سکھوں کو خوش کرنے کے لئے کسی قدر اور قربانی کرنی پڑے تو پرواہ نہ کریں- میرا خیال ہے کہ اگر کسی طرح بھی صلح سے کام نہ نکلے تو پنجاب کے مسلمانوں کو باون فیصدی حق تمام دوسری اقوام کی مشترکہ طاقت کے مقابل پر قبول کر لینا چاہئے- کیونکہ انشاء اللہ آئندہ مردم شماری میں ستاون فیصدی تک مسلمانوں کی آبادی ہونے کی امید ہے جسے ملا کر فوراً ہی ساڑھے تریپن فیصدی حق مسلمانوں کو مل جائے گا- جسے ان کی بڑھتی ہوئی نسل انشاء اللہ ہر مردم شماری میں مضبوط کرتی چلی جائے گی-
فرنچائز اور عورتوں کی نمائندگی
اب میں فرنچائز (FRANCHISE)کے سوال کو لیتا ہوں لیکن چونکہ اس سوال کے صرف اس پہلو کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو عورتوں کے ووٹ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں نے اسی کے ساتھ عورتوں کی نمائندگی کو بھی شامل کر دیا ہے-
مجھے اس سوال کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کمیشن نے اس سوال کا فیصلہ کرتے وقت بہت بے احتیاطی سے کام لیا ہے اور اس مضمون کو چھیڑ دیا ہے جسے چھیڑنا اس کے منصب سے باہر تھا یعنی مسلمانوں کے مذہب پر حملہ کیا ہے- سرجان سائمن JOHNSIMON)۔(SIR اور ان کے ساتھی اس امر سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ پردہ اسلام کا ایک حکم ہے اور اس کے خلاف کچھ لکھنا براہ راست اسلام پر حملہ کرنا ہے-
میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنی رائے کے متعلق آزاد ہے- اس بارہ میں اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حریت نہیں سکھاتا اور اگر سر جان سائمن کوئی مذہبی کتاب لکھ رہے ہوتے تو میں ان کے خیالات کا دلچسپی سے مطالعہ کرتا اور ان کے دلائل کے حسن و قبح کو پرکھتا لیکن سر جان سائمن ایک سرکاری کمیشن کی رپورٹ لکھ رہے تھے اور اس وجہ سے انہیں مذہبیمسائل سے علیحدہ رہنا چاہئے تھا- وہ بار بار پردہ کو بہت سے مصائب کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں- مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں-:
)>مردوں اور عورتوں کی تعداد میں( فرق سب سے نمایاں دس سے بیس سال کی عمر کے افراد میں ہے اور تمدنی رسوم اور عادات جیسے کہ پردہ اور بچپن کی شادی ہیں اور نادان دائیوں کی حرکات کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے- کیونکہ ان امور کی وجہ سے ہندوستان کی عورتوں کی قوتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے<- ۶۰~}~
اسی طرح وہ لکھتے ہیں-:
>جب تک کہ ایک چھوٹی لڑکی کی قسمت میں پردہ اور پچپن کی شادی لکھی ہوئی ہے اس وقت تک نہ تو رائے عامہ اور نہ والدین کی امنگیں ہی روبکار ہو کر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے آواز اٹھائیں گی<- ۶۱~}~
بزعم خود ان نقائص کو دور کرنے کیلئے کمیشن نے عورتوں کی فرنچائز پر زور دیا ہے لیکن وہ اس اہم سیاسی اصل کو بھول گئے ہیں کہ سیاسی حقوق مانگنے پر ہی ملنے چاہئیں- جب کہ وہ مردوں کے لئے جو اپنا حق مانگ رہے ہیں فرنچائز کو وسیع کرنے سے گھبراتے ہیں` سرحد کے لوگوں کو براہ راست فرنچائز دینے سے انکار کرتے ہیں` بلوچستان کو اس لئے فرنچائز نہیں دیتے کہ ان کی عادات کے یہ طریق خلاف ہے وہ عورتوں کو فرنچائز دینے کے لئے بغیر ان کی مانگ کے اور ان کے حالات کا خیال کئے بغیر تیار ہو جاتے ہیں- کیا یہ بات ان کے افعال کے متضاد ہونے کا ثبوت نہیں؟ اور کیا یہ امر اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اس سوال کے حل کرنے میں اس قدر تمدنی ضرورتوں کا خیال نہیں کیا گیا جس قدر مغربی تمدن کی برتری کو ثابت کرنا مدنظر رکھا گیا ہے؟ اور ایک شاہی کمیشن کے ممبروں کا اس رویہ کو اختیار کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- مجھے افسوس ہے کہ کمیشن کے اس رویہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مسٹروجوڈبن بھی شامل ہیں- کیونکہ جیسا کہ مجھ سے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک ممبر اور ایک سیکرٹری نے بیان کیا تھا رائونڈٹیبل کانفرنس کے ممبروں کے انتخاب کے موقع پر باوجود گورنمنٹ آف انڈیا کے دو دفعہ کے انکار کے انہوں نے زور دے کر دو عورتوں کو ممبر مقرر کروایا ہے اور پھر یہ کہہ کر نامزد کروایا ہے کہ ان دو میں سے ایک ہندو اور ایک مسلمان ہو- مسلمان نمائندہ خاتون ہمارے ایک معزز ہم وطن کی بیٹی ہیں اور میرے ایک معزز ہم وطن دوست کی بیوی ہیں اور ان کی ذاتی لیاقت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں- پس میں امید کرتا ہوں کہ میری اس تحریر کو کسی رنگ میں بھی اس معزز اور قابل احترام خاتون کے خلاف نہیں سمجھا جائے گا- مجھے اعتراض صرف سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس رویہ پر ہے کہ باوجود حکومت ہند کے انکار کے انہوں نے زور دے کر عورتوں میں سے نمائندے مقرر کروائے ہیں اور اس طرح ایک قوم کے اندرونی دستور العمل میں ناجائز دست اندازی کی ہے- ][ اب میں سائمن کمیشن کی جو رائے عورتوں کے پردہ کے بارہ میں ہے اس کی تغلیط کرتا ہوں- اول تو سائمن کمیشن نے یہ عجیب استدلال کیا ہے کہ عورتوں کی تعداد جو مردوں سے کم ہے اس کا ایک سبب پردہ ہے اس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتی ہیں- لیکن وہ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ انگلستان میں مردوں اور عورتوں کی نسبت میں فرق ہندوستان سے زیادہ ہے صرف اختلاف یہ ہے کہ وہاں مرد کم اور عورتیں زیادہ ہیں- اور ہندوستان میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہیں- کیا انگلستان کی نسبت بھی کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہاں مردوں پر کوئی خاص ظلم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں اور عورتیں زندہ رہتی ہیں؟ اگر سائمن کمیشن مختلف ممالک کی آبادیوں کا مقابلہ کرتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ عورت و مرد کی آبادی کے فرق کے اصول بالکل اور ہیں اور اکثر وجوہ نہایت باریک طبعی مسائل پر مبنی ہیں جن کی سائمن کمیشن کو کوئی واقفیت نہیں تھی- سائمن کمیشن کے ممبروں کے دلچسپ معائنے کے لئے میں انہیں بتاتا ہوں کہ آئرلینڈ کے شمالی حصہ میں یعنی السٹر کی حکومت میں چار فیصدی عورتیں مردوں سے زیادہ ہیں- لیکن جنوبی حصہ یعنی آئرش فری سٹیٹ (IRISHFREESTATE) میں قریباً دو فیصدی مرد زیادہ ہیں- کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شمالی حصہ میں تو مردوں پر ظلم ہوتا ہے اور جنوبی حصہ میں عورتوں پر؟ لیکن اس فرق کا حل یہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ بعض باریک طبعی اسباب کی وجہ سے انگریزی قوم میں عورتوں کی زیادتی ہوتی ہے اس وجہ سے شمالی آئرلینڈ میں جس میں انگریزی نسل کے لوگ زیادہ بستے ہیں عورتیں زیادہ ہیں اور جنوبی آئرلینڈ میں جس میں آئرش نسل کی زیادتی ہے اس میں مرد زیادہ ہیں-
سائمن کمیشن نے اپنے اندازہ میں ایک اور بھی غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ اس نے غور نہیں کیا کہ عورتوں کی کمی سب سے زیادہ سکھوں اور پہاڑی نسلوں میں ہے اور یہ دونوں قومیں پردہ کی سخت مخالف ہیں اور سکھوں میں بچپن کی شادی کا رواج بھی دوسری قوموں سے کم ہے- سکھ عورت نہایت مضبوط ہوتی ہے- باوجود اس کے سکھوں میں عورتیں کم ہیں اور مرد زیادہ ہیں- پہاڑی قوموں میں عورتوں کی کمی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اب تک ایک عورت کے تین تین چار چار خاوند ہوتے ہیں اور سکھ قوم میں بوجہ رشتہ نہ ملنے کے دوسری قوموں کی عورتوں کو سکھ بنا کر ان سے شادیاں کرتے ہیں-
پھر اگر سائمن کمیشن واقعات پر نگاہ ڈالتا تو اسے یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ پردہ کا رواج دسفیصدی سے زیادہ لوگوں میں نہیں ہے- دیہات کی عورتوں میں سے ننانوے فیصدی پردہ کے عام مفہوم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں- پس اگر عورتوں کی کمی کا فرق پردہ کی وجہ سے ہے تو اس فرق کو دیکھ کر جو مردوں اور عورتوں کی نسبت میں ہے فرض کر لینا چاہئے کہ پردہ دار حصہ جو صرف دس فیصدی ہے اس میں دو مردوں کے مقابلہ میں ایک عورت ہے جو بالبداہت غلط ہے- بچپن کی شادی جس سے میری مراد کسی خاص عمر سے نہیں ہے بلکہ قویٰ کے نشوونما پانے سے پہلے کی عمر کی شادی ہے بے شک نقصان دہ ہے لیکن مسلمانوں میں اس کا بہت کم رواج ہے اور سائمن کمیشن کا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں اس کے متعلق ایک روایت ہے بالکل خلاف واقعہ ہے- مسلمانوں میں بچپن میں شادی کر دینے کے متعلق کوئی روایت نہیں ہے- اور اگر شارداایکٹ کے خلاف مسلمانوں نے کوئی شور مچایا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ بچپن کی شادی کو ضروری سمجھتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی غیر مذہب کی اکثریت ان کے پرسنل لاء میں دخل اندازی کرے اور اس طرح آئندہ کے لئے راستہ کھل جائے- یہ عیب ہندوئوں میں ہی ہے اور انہی کو اس کا نقصان بھی پہنچتا ہے کیونکہ ان کے ہاں بیوہ کی شادی کا رواج نہیں- اور اس وجہ سے جو عورت بیوہ ہو جاتی ہے اس کی عمر برباد ہو جاتی ہے- مسلمانوں میں جس قدر یہ رواج ہے بوجہ ہندوئوں کے اثر کے ہے اور ہم لوگ اسے آہستگی سے دور کر رہے ہیں-
اب میں پردہ کے صحت اور تعلیم پر اثر کو لیتا ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ مسلمانوں میں ابتداء سے ہے- لیکن باوجود اس کے مسلمان عورتیں حکومتوں کے ہر قسم کے کاموں میں حصہ لیتی رہی ہیں- عورتیں مسلمانوں میں بادشاہ بھی ہوئیں ہیں` فوجوں میں بھی انہوں نے کام کیا ہے` قضاء وغیرہ کے عہدہ پر بھی انہیں مقرر کیا گیا ہے` پروفیسر بھی وہ رہی ہیں اور ان پردہ دار عورتوں کو اس زمانہ میں یہ طاقت اور علم کے کام کرنے پڑے ہیں جس وقت باقی اقوام کی بے پردہ عورتیں صحت اور علم دونوں میں ان کے مقابلہ سے عاجز تھیں- پس معلوم ہوا کہ پردہ نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کی کمزوری اور جہالت کے اس وقت اور اسباب ہیں-
میں حیران ہوں کہ کس طرح پردہ کو تعلیم کے لئے روک کہا جاتا ہے- ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلامی پردہ کی بھی عامل ہے اور باوجود اس کے عورتوں کی تعلیم اس میں باقی سب ہندوستان کی عورتوں سے زیادہ ہے- میں نے جماعت کی امامت پر مقرر ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے اور باوجود ہر قسم کے اعتراضات کے اس کو ترقی دیتا چلا گیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں نوے فیصدی سے بھی زیادہ لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں- اور پچھلے تین سال سے یونیورسٹی کے امتحانوں میں ہماری عورتیں شامل ہونے لگی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہماری جماعت کی کوئی نہ کوئی پردہ دار خاتون یونیورسٹی میں اول نمبر پر رہتی چلی آتی ہے- ہاں جو روک ہمارے راستہ میں ہے وہ پردہ کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ استانیاں تیار ہونے میں دیر لگی ہے اور گورنمنٹ اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ مرد استاد پس پردہ عورتوں کو پڑھائیں- پس جب تک عورت استانیاں تیار نہ ہو جائیں ہمارے سکول یونیورسٹی سے باقاعدہ طور پر ملحق نہیں ہو سکتے- پس ہمارے تجربہ میں تو عورتوں کی تعلیم میں روک پردہ نہیں بلکہ گورنمنٹ کا رویہ ہے- جو یہ دیکھتے ہوئے کہ استانیاں نہیں مل سکتیں سوسائٹیوں کو اجازت نہیں دیتی کہ اس وقت تک کہ عورت استانیاں کافی تعداد میں میسر آ سکیں عمر رسیدہ اور قابل اعتبار مردوں سے لڑکیوں کو تعلیم دلوائیں-
غالباً میری یہ تحریر سر جان سائمن (SIRJOHNSIMON) کی نظر سے بھی گزرے گی- میں امید کرتا ہوں کہ وہ اسے ذاتیات پر مبنی نہیں سمجھیں گے بلکہ انہیں یہ امر یاد ہوگا کہ ان کے اور ان کے رفقاء کے ہندوستان کے ورود کے موقع پر سب سے زیادہ جوش کے ساتھ میری جماعت نے انہیں خوش آمدید کہا تھا اور ان کے بائیکاٹ کے خلاف نہایت زبردست پروپیگنڈا اشتہاروں` ٹریکٹوں` اخباروں اور لیکچروں کے ذریعہ سے کیا تھا- پس مجھے جو اس امر کے خلاف پروٹسٹ (PROTEST) کرنا پڑا تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ میرے نزدیک انہوں نے بغیر کافی تحقیق کے ایک اسلامی حکم پر حملہ کر دیا ہے-
‏a11.13
خلاصہ یہ کہ پردہ اسلام کا ایک حکم ہے- یوروپین اثر کے ماتحت بعض مسلمان اس کا انکار کریں یا اس پر عمل چھوڑ دیں تو یہ اور بات ہے مگر بہرحال اس کے اسلامی حکم ہونے میں کوئی شبہ نہیں- خود رسول کریم ~صل۲~ کی بیویاں پردہ کرتی تھیں اور اس وقت بھی کرتی تھیں جب کہ اسلام کی حکومت اپنے عروج پر تھی اور کسی قسم کا کوئی خوف نہیں تھا- اور ہمارا یہ یقین ہے کہ آخر اس برے طور پر استعمال کئے جانے والے اور غلط طور پر سمجھا جانے والے حکم کا دن بھی اسی طرح آ جائے گا جس طرح کہ طلاق` شراب اور عورت کے مالی حقوق کا دن آ گیا ہے- پس ایسی تدابیر جن کا اصل مقصد مسلمانوں کو مجبور کر کے ان کے مذہبی احکام کا چھڑوانا ہو کسی صورت میں بھی مسلمانوں کو منظور نہیں ہو سکتیں- یہ ہماری عورتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کریں اور اسلامی اصول کے ماتحت اسے استعمال کریں- کسی دوسری قوم یا دوسری حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں مجبور کر کے اپنے منشاء کے مطابق ہماری قوم کو چلائے- پس اگر عورتوں کو فرنچائز (FRANCHISE) میں شامل کرنے کا نتیجہ یہ ہو کہ جو قوم اس پر عمل نہ کر سکے اس کے ووٹر کم رہ جائیں تو میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کی طرف سے کمیشن کو کہہ سکتا ہوں کہ اس امر کو مسلمانوں کے مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی تسلیم نہیں کریں گی-
میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو عورتوں کی ترقی کے مخالف ہیں بلکہ میں مذہباً انہیں ویسا ہی روحانی` علمی اور اخلاقی ترقی کا حق دار سمجھتا ہوں جیسا کہ مردوں کو- اور میں نے جس طرح اپنے زمانہ خلافت میں اپنی جماعت میں عورتوں کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے اور اس کا انتظام کیا ہے اسی طرح میں نے ان کو آرگنائز (ORGANIZE) بھی کیا ہے- ان کی انجمنیں قائم کی ہیں اور قومی معاملات میں ان کو رائے دینے کا حق دیا ہے- پس یہ رائے کسی تعصب اور قدامت پسندی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مخلصانہ مشورہ ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے برطانیہ ہندوستان میں ایسی فضاء پیدا کرنے کا مرتکب ہوگا کہ جو نہ اس کے لئے اور نہ ہندوستان کے لئے برکت کا موجب ہوگی- مسلمان عورت اس وقت سے اپنے حقوق کی مالک ہے جس وقت کہ دنیا عورت کو روح سے خالی سمجھتی تھی- اور صرف دوسری اقوام کے اثر سے وہ اپنے کئی حقوق سے محروم ہے- انشاء اللہ]text [tag وہ اپنے ہی بھائیوں اور باپوں کی مدد سے اپنے کھوئے ہوئے حق کو واپس لے لے گی- مگر اسی راہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے` جو نہ مرد ہے نہ عورت کہ اس پر ناجائز طرف داری کا الزام لگ سکے-
)۳( سیکنڈ چیمبرس
میں شروع سے سیکنڈ چیمبرس (SECONDCHAMBERS) کا مخالف رہا ہوں- اس وجہ سے نہیں کہ میں اس کی خوبیوں کا قائل نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز سکیم میں جو سیکنڈ چیمبر کا ڈھانچہ تیار کیا گیا تھا وہ میرے نزدیک فتنہ پیدا کرنے والا تھا اور سیکنڈ چیمبرس کی جو غرض ہے اس سے پوری نہ ہوتی تھی اسی وجہ سے میں مرکزی سیکنڈ چیمبر اور صوبہ جاتی سیکنڈ چیمبر دونوں کا مخالف رہا ہوں لیکن اب جب کہ دوبارہ غور ہو رہا ہے اور رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر ہندوستانیوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اصول پر مبنی اور معقول ڈھانچہ اپنی حکومت کیلئے تیار کریں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دوبارہ اس سارے سوال پر غور کرنا چاہئے- چنانچہ غور کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جو شکل موجودہ کونسل آف سٹیٹ کی ہے وہ درست نہیں- ایک تو اس میں نامزدشدہ عنصر بہت زیادہ ہے اور پھر نامزدگی بھی کسی مقررہ اصول پر نہیں ہے- دوسرے جو شرائط اس کی ممبری کے لئے مقرر ہیں وہ ایسی نہیں کہ ضرور لائق آدمی اس کے اندر آئیں- تیسرے فیڈریشن کا اصول اس میں مدنظر نہیں رکھا گیا- پس ان حالات میں تو نہ کونسلآفسٹیٹ کی ضرورت ہے اور نہ کسی صوبہ میں اس قسم کی کونسل کی ضرورت ہے- لیکن اگر ہندوستانی کونسل کی موجودہ شکل کو ہم نظر انداز کر دیں تو ہمیں اصولاً دیکھنا چاہئے کہ مجلس واضعقانون کے بعد ہمیں کسی اور مجلس کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کیوں؟
‏text] gat[ جن لوگوں نے دوسری چیمبرس کی مخالفت کی ہے ان کا سردار ABBESEIVES ایک فرانسیسی قانون دان ہے- اس کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر دوسری چیمبر پہلی کے مطابق فیصلہ کرے گی تو وہ غیر ضروری چیز ہے- اور اگر پہلی کے مخالف کرے گی تو وہ نقصان دہ ہے لیکن باوجود اس کے اکثر حکومتوں میں دو ہی مجالس مقرر ہیں- اور صرف بلقان روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں اور ترکی کے علاقہ میں ایک مجلس وضع قوانین کا کام کرتی ہے- پس مختلف الفوائد اور مختلف الاغراض اقوام کا تجربہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس امر پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا دوسری مجالس مفید ہیں یا نہیں؟
سو یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ دوسری چیمبر کے موید ہیں وہ اس کے مندرجہ ذیل کام بتاتے ہیں-:
)۱(
ایک مجلس چونکہ قانون کا مسودہ بناتی ہے اس وجہ سے اس جوش کی حالت میں جو مختلف فریقوں میں پیدا ہو جاتا ہے کئی سقم اس میں رہ جاتے ہیں- پس ان نقائص کو دور کرنے کے لئے ایک دوسری مجلس کی ضرورت ہوتی ہے- اس مجلس کے پاس چونکہ کافی غور کے بعد پاس شدہ قانون جاتا ہے وہ اس کے باریک نقائص کو معلوم کرنے پر زیادہ قادر ہوتی ہے- پس دوسری چیمبر کا ہونا ضروری ہے-
)۲(
چونکہ مجلس عام کے ممبر زیادہ ہوتے ہیں وہ اس قدر وقت بحث پر خرچ نہیں کر سکتے جس قدر کہ تھوڑی جماعت آزادی سے وقت خرچ کر سکتی ہے- پس پالیسی اور اصول کی بحیثیں زیادہ تر دوسری مجلس میں ہی کی سکتی ہیں-
)۳(
بعض تجربہ کار اور بوڑھے آدمی بوجہ اپنی خاص حیثیت یا اپنے مزاج یا اپنی صحت کے اس فضاء یا اس طریق کار کی برداشت نہیں کر سکتے جو مجلس عام میں اس کی ساخت کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے اس لئے دوسری مجلس میں ان لوگوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے-
)۴(
بوجہ قانون کی ابتدائی تشکیل کے مجلس عام میں جنبہ داری کے جذبات میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے قانون بناتے وقت ہر قسم اور ہر طبقہ کے فوائد کو مدنظر نہیں رکھا جا سکتا- اس فضاء سے محفوظ رہنے والی دوسری چیمبر میں اس نقص کا ازالہ ہو جاتا ہے اور ٹھنڈے دل سے ہر قسم کے فوائد پر نگاہ ڈالی جا سکتی ہے-
)۵(
ماہرین فنون اگر عام مجلس میں شامل ہوں تو ان کے مشورہ کی قیمت کم ہو جاتی ہے- کیونکہ وہ سینکڑوں میں سے ایک ہوتے ہیں لیکن دوسری چیمبر چونکہ تھوڑے آدمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس میں ان کا ووٹ زیادہ وزن رکھتا ہے اور اس طرح ملک ان کے تجربہ سے زائد فائدہ حاصل کر سکتا ہے- یہ ظاہر بات ہے کہ چار سو ممبر والی مجلس میں ایک شخص کے ووٹ کی قیمت ۴۰۰/۱ ہوگی- لیکن وہی شخص اگر اس پہلی مجلس کی نظرثانی کرنے والی کمیٹی میں جس کے پچاس ممبر ہوں شامل ہو جائے گا تو اس کے ووٹ کی قیمت ۴۰۰/۸ ہو جائے گی- پس ایسی مجلس میں ماہرین فن کا شامل ہونا ملک کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے جہاں وہ مجلس واضع قوانین کے ممبر بھی سمجھتے جاتے ہیں اور ان کی رائے کا وزن بھی زیادہ ہو جاتا ہے-
)۶(
اگر ایک مجلس ہو تو الیکشن کے وقت حکومت ملک کے نمائندوں سے بالکل خالی ہو جاتی ہے لیکن دو مجالس ہوں تو ہر وقت ایک نہ ایک مجلس ملک کی نمائندہ موجود رہتی ہے کیونکہ دونوں کا الیکشن الگ الگ وقتوں پر رکھا جا سکتا ہے اور عملاً بھی مختلف ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے-
)۷(
اگر ایک ہی مجلس ہو تو چونکہ ملک کی رائے کا جلدی جلدی اندازہ لگانے کے لئے اسے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد برخواست کرنا پڑتا ہے- بعض تجربہ کار لوگ جن کے شامل کرنے کی بڑی غرض ان کی لیاقت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے لیکن ان کی مالیحالت زیادہ اچھی نہیں ہوتی وہ بار بار کے خرچ سے ڈر کر اس میں حصہ نہیں لے سکتے- لیکن دو مجالس ہوں تو دوسری چیمبر کی عمر کو لمبا کر کے ایسے لوگوں کے لئے خدمت کا موقع پیدا کیا جا سکتا ہے- علاوہ ازیں دوسری مجلس کی عمر کو لمبا کر کے یہ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ایک تجربہ کار جماعت دیر تک حکومت کے کام میں ممد رہتی ہے-
)۸(
ملک کی مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں جن میں سے بعض بعض کے ساتھ مشترک نہیں ہو سکتیں- پس اگر ایک ہی جماعت ہو تو بعض فوائد ملک کے نظر انداز کرنے پڑتے ہیں- پس دو چیمبرس کا ہونا ضروری ہے کہ تا ایک مجلس کو ایک قسم کا کام سپرد کر دیا جائے اور دوسری کو دوسرا- جرمن ریچس ریٹ (REICHSRAT) یعنی دوسری مجلس کی یہی غرض رکھی گئی ہے کہ وہ وضع قانون میں حصہ نہیں لیتی بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ وہ مسودات کو مجلس عام میں پیش ہونے سے پہلے دیکھ کر رائے دے کہ آیا وہ پیش کئے جائیں یا نہیں وہ مجلس عام یعنی ریچس ٹیگ (REICHSTAG) کے بنائے ہوئے قانون کو رد بھی نہیں کر سکتی بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ اس کے پاس شدہ مسودہ کو دیکھے اور اگر قابل اعتراض پائے تو دو ہفتہ کے اندر گورنمنٹ کو اس کی اطلاع دے- اگر مجلس عام سے اس کا سمجھوتہ ہو جائے تو خیر ورنہ پریذیڈنٹ اس مسودہ کے متعلق ملک کی رائے عامہ حاصل کر لے- لیکن اگر پریزیڈنٹ تین ماہ کے اندر ایسا نہ کرے اور مجلس عام دو تہائی کثرت کے ساتھ اس بل کو دوبارہ پاس کر دے تو پھر پریزیڈنٹ کا فرض ہے کہ یا تو اسی قانون کو منظور کرے یا ملک کی رائے حاصل کرے- یہ کام جو جرمن دوسریچیمبر (SECONDCHAMBER) کے سپرد ہے نہایت ضروری ہے لیکن باوجود اس کے قانون ساز مجلس کے سپرد کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہی مجلس جو قانون بناتی ہے اپنے کام کی نگرانی نہیں کر سکتی-
)۹(
ایک فائدہ دوسری مجالس میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ملکوں میں حکومت کے دونوں حصے یعنی قانون ساز اور قانون کا اجراء کرنے والے الگ الگ رکھے جاتے ہیں- یعنی وزراء نہ منتخب ممبر ہوتے ہیں اور نہ مجلس قانون ساز کو ان پر کوئی تصرف حاصل ہوتا ہے پس دوسری مجلس دونوں حصوں میں تعلق قائم رکھنے کا کام دیتی ہے- چنانچہ امریکن (SENATE) کا ایک کام یہ ¶بھی ہے کہ وہ ایک طرف تو مجلس عام کے پاس شدہ قوانین کی نظر ثانی کرتی ہے دوسری طرف پریزیڈنٹ کو جو حکومت کے محکمہ تنفیذ کا رئیس ہے اس کے کام میں مشورہ دیتی ہے یعنی معاہدات کی منظوری کے متعلق سفیروں اور ججوں کے مقرر کرنے کے متعلق اور بعض ایسے ہی اور کاموں کے متعلق-
)۱۰(
دسواں فائدہ دوسری چیمبر کا جو فیڈرل حکومتوں میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ دوسری چیمبر فیڈرل حکومت کے صوبوں یا ریاستوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور مجلس عام کو جو افراد کی نمائندہ ہوتی ہے ریاستوں کے حقوق تلف نہیں کرنے دیتی- اس وجہ سے فیڈرل حکومتوں میں عام طور پر دوسری مجلس کا انتخاب ایسے اصول پر رکھا جاتا ہے کہ وہ افراد کی بجائے علاقوں کی نمائندہ ہوں تا کہ علاقوں کی آزادی کا خیال رکھ سکیں-
یہ دس موٹے موٹے فائدے سیکنڈ چیمبر (SECONDCHAMBER) کے ہیں- اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ بعض تو صرف خاص شکل کی دوسری مجلس میں پائے جا سکتے ہیں اور بعض ہر دوسری مجلس میں جمع ہو سکتے ہیں- ان فوائد کو مجموعی حیثیت سے دیکھنے کے بعد معلوم ہو سکتا ہے کہ دوسری چیمبر کا وجود بھی ¶بغیر مقصد کے نہیں ہے- اور اس کے مخالفین کا اعتراض کہ اگر وہ مجلس عام کے موافق ہے تو غیر ضروری ہے اور اگر مخالف ہے تو موجب تباہی ہے محض ایک ظاہر فریب دلیل ہے- دوسری چیمبر نہ پہلی کے موافق ہے نہ مخالف بلکہ وہ اس کا تتمہ ہے اور اس وجہ سے نہ زائد ہے نہ کام کو خراب کرنے والی-
مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم میں دوسری چیمبر کے خلاف تین اعتراض کئے گئے ہیں- ایک یہ کہ اس سے کام پیچیدہ ہو جائے گا- دوسرے یہ کہ اس قدر لائق آدمی نہ مل سکیں گے کہ دو چیمبرس کا کام چلایا جا سکے- تیسرے یہ کہ خاص فوائد والوں کو غیر ضروری حفاظت حاصل ہو جائے گی- مگر یہ تینوں اعتراض درست نہیں- پیچیدگی اس میں کوئی ہے نہیں- سب دنیا میں دوسری چیمبرس کام کر رہی ہے- آدمیوں کا سوال عارضی ہے- اگر دوسری مجلس کی ضرورت ثابت ہو تو اس کا اجراء دس پندرہ سال بعد کیا جا سکتا ہے- اور تیسرا اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ دوسری مجالس کی شکلیں کئی قسم کی ہیں- ایسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں جن سے اس امر کی حفاظت ہو جائے کہ جو کام ہم ان مجالس سے لینا چاہتے ہیں وہ بھی لئے جا سکیں اور بلاوجہ کسی کا حق بھی نہ مارا جائے- پس ان سب حالات کو مدنظر رکھ کر میرا خیال یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں فوراً سیکنڈ چیمبر جاری کی جائے مگر وہ کسی اصول کے ماتحت ہو- یہ نہ ہو کہ بجائے پہلی اور دوسری مجلس کے دو مجالس عام قائم ہو جائیں اور یونہی وقت اور روپیہ ضائع ہو-
صوبہ جات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ ابھی چونکہ نیابتی حکومت سے ہندوستان پورا واقف نہیں اس لئے قانون اساسی میں تو اس کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے لیکن شرط یہ کر دی جائے کہ پندرہ سال کے بعد ہر مقامی کونسل کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کثرت رائے سے دوسری مجلس کے قیام کا فیصلہ کر دے- لیکن قواعد دوسری چیمبر کے یا کم سے کم اس کے لئے اصول ابھی سے مقرر کر دیئے جائیں-
دوسری مجلس کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ اس کی ضرورت بہت اہم ہے اسے فوراً قائم کر دینا چاہئے مگر اس شکل میں نہیں جس میں مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم نے اسے قائم کیا ہے بلکہ اس کی اصل صورت جس کا بیان میں انشاء اللہ مرکزی حکومت کے ذکر میں کروں گا-
باب چہارم
عدالت
سائمن کمیشن کی رپورٹ کے کمزور ترین مقامات میں سے اس کی وہ سفارش ہے جو اس نے ہائی کورٹوں کو گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت کرنے کے متعلق کی ہے اس کی ساری دلیل یہ ہے کہ بنگال کا ہائی کورٹ چونکہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت ہے اور باقی سب ہائی کورٹ انتظامی لحاظ سے صوبہ جات کی حکومتوں کے ماتحت ہیں اس لئے سب ہائی کورٹوں کو ایک انتظام میں لانے کیلئے ضروری ہے کہ وہ سب گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت کر دیئے جائیں- حالانکہ ایک کورٹ کی خاطر باقی سب ہائی کورٹوں کا انتظام تبدیل کرنا بالکل خلاف عقل ہے اگر وہ یہ سفارش کرتے کہ بنگال ہائی کورٹ بھی گورنمنٹ بنگال کے ماتحت کر دیا جائے تو یہ زیادہ مناسب مشورہ ہوتا- کمیشن کی دلیل صرف یہ ہے کہ بنگال ہائی کورٹ کے ساتھ چونکہ آسام کی عدالتیں بھی ملحق ہیں اس وجہ سے ضروری ہے کہ حکومت ہند کے ماتحت وہ ہائی کورٹ ہو اور چونکہ آئندہ اور صوبہ جات کے بننے کا بھی احتمال ہے جو کہ ممکن ہے کہ الگ ہائی کورٹ کا خرچ برداشت نہ کر سکیں اس لئے ضروری ہے کہ اختلاف انتظام سے بچنے کیلئے سب کورٹ گورنمنٹ آف انڈیا کے پاس آ جائیں- یہ دلیلیں اپنی ذات میں بہت کمزور ہیں- آسام کی عدالتیں اگر بنگال کے ساتھ ملحق ہیں تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آسام کو کچھ رقم خرچ کیلئے بنگال کے حوالے کرنی پڑتی ہے- لیکن یہ کوئی ایسی وجہ نہیں کہ جس کی وجہ سے بنگال ہائیکورٹ کو گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ ملایا جائے- اصل بات یہ ہے کہ بنگال ہائی کورٹ کی گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت ہونیکی یہ وجہ ہی نہیں- یہ تو اس وقت سے چلا آتا ہے جب کہ گورنر جنرل براہ راست بنگال کا حاکم سمجھا جاتا تھا پس اس رسم دیرینہ کے بدلنے کی بجائے جس میں کوئی معقولیت نہیں باقی ہائی کورٹوں کو کیوں خراب کیا جائے- مختلف آزاد ممالک اگر آپس میں ڈاک کے اخراجات اور آمد کو تقسیم کر سکتے ہیں تو کیا ایک ملک کے دو صوبے ہائیکورٹوں کے اخراجات کی تقسیم نہیں کر سکتے؟
لیکن میں اس امر کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ کوئی صوبہ ہائی کورٹ کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو- یورپ اور امریکہ کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں اگر یہ سب خرچ برداشت کر سکتی ہیں تو کیوں ہندوستان کے صوبے یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے- یاد رکھنا چاہئے کہ صوبہ جاتی ہائیکورٹ درحقیقت صوبہ کی حکومت کا ایک حصہ ہوتے ہیں اور کسی صحیح فیڈرل حکومت کے ماتحت نہیں ہوتے اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صوبہ جات کے ہائی کورٹوں کے سپرد عدالت کا انتظامی کام بھی ہوتا ہے اور سب ماتحت عدالتیں انتظامی طور پر ان سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ انتظام اور بھی ناقص معلوم ہوتا ہے جب کہ صوبہ کی تمام عدالتیں صوبہ سے تنخواہیں پائیں گی` صوبہ ہی انہیں مقرر کرے گا` اسی کے ماتحت وہ سمجھی جائیں گی تو پھر ہائیکورٹ صوبہ کی طرف سے ان کی نگرانی کرے گا پھر وہ کس طرح کسی دوسری حکومت کا حصہ ہو سکتا ہے-
اس کے جواب میں شاید کہا جائے کہ آسام کی مثال موجود ہے کہ وہاں ہائیکورٹ کسی اور کے ماتحت ہے اور ماتحت عدالتیں کسی اور کے ماتحت- لیکن میرا جواب یہ ہے کہ ایک چیز مجبوری سے کی جاتی ہے اور ایک خوشی سے- ان دونوں حالتوں میں بہت فرق ہوتا ہے- اگر آسام کے لئے ہمیں مجبوراً ایسا کرنا پڑا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم سب جگہ جہاں ضرورت نہیں یہی انتظام کر دیں- فیڈریشن کی تکمیل میں ہائی کورٹوں کا صوبہ کے متعلق ہونا شرط ہے- پس ہائی کورٹ کسی صورت میں صوبوں کے اختیار سے باہر نہیں جانے چاہئیں بلکہ آئندہ یہ تغیر ہونا چاہئے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر بھی صوبہ کی طرف سے ہو-
ہاں ایک بات کی میں تصدیق کروں گا کہ چونکہ عدالتوں کا وقتی اور سیاسی اثرات سے بالا ہونا ضروری ہے اس لئے ججوں کے متعلق یہ قائدہ باقی رہے کہ جب کوئی شخص ایک دفعہ ہائیکورٹ کا جج مقرر ہو جائے تو اسے اس وقت تک کہ وہ قواعد کے مطابق ریٹائر نہ ہو یا قبلازوقت اپنی مرضی سے استعفاء نہ دے` الگ نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ اس کے خلاف رشوت وغیرہ کے الزامات یقینی طور پر ثابت ہو جائیں- اس صورت میں لیجسلیٹو کونسل (LEGISLATIVECOUNCIL) کی ساٹھ فیصدی کثرت کے ریزولیوشن کے بعد گورنر جج کو علیحدہ کر دے-
ججوں کے تقرر کے متعلق بھی ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ ملک کی عدالت پر حکومت کے اچھے یا برے ہونے کا بہت حد تک انحصار ہوتا ہے- اس لئے میری رائے تو یہی ہے کہ بہتر ہوگا کہ ججوں کے تقرر میں وزارت کا دخل بالکل نہ ہو بلکہ گورنر ہائیکورٹ سے مشورہ لے کر جج مقرر کیا کرے- اس کا طریق میرے نزدیک یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی نئے جج کے مقرر کرنے کی ضرورت ہو تو گورنر ہائی کورٹ سے ہر آسامی کے لئے تین تین آدمیوں کا پینل طلب کرے- ہائی کورٹ اپنی کثرت رائے سے فی آسامی تین تین آدمی کے نام تجویز کر کے رپورٹ کرے اور گورنر ان میں سے جس کو پسند کرے کام پر مقرر کر دے- گورنر کو یہ بھی اختیار ہو کہ اگر اس کے نزدیک کسی قوم کو ہائی کورٹ میں اس کے حق سے کم نمائندگی حاصل ہو تو وہ سفارشات طلب کرتے ہوئے ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ اس دفعہ صرف فلاں جماعت کے افراد کے نام تجویز کرے- مزید شرط یہ بھی ہو کہ اگر کسی جج کو یہ خیال ہو کہ فلاں شخص خاص طور پر قابل ہے اور اس کا نام پیش نہیں کیا گیا تو وہ اختلافی نوٹ کی شکل میں اپنی رائے گورنر کے پاس بھجوا دے جسے اختیار ہو کہ استثنائی صورتوں میں ان رپورٹوں کو بھی انتخاب میں مدنظر رکھ لے-
اسی طرح ایک اصلاح میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایک وزارت عدالت قائم کی جائے اور عدالتوں کا تمام انتظامی کام اس کی وساطت سے ہو تا کہ ایگزیکٹو اور عدالت میں اختلاف نہ ہو- دوسرے بہت سے ممالک میں ایک عدالت کا وزیر ہوتا ہے چنانچہ انگلستان میں بھی لارڈ چانسلر کے نام سے ایک وزیر ہوتا ہے- جس کا کام عدالتی محکمہ کا انتظام ہے- وہ کونٹیکورٹ جج (COUNTYCOURTJUDGE) نہ صرف مقرر کرتا ہے بلکہ انہیں ڈسمس (DISMIS) بھی کر سکتا ہے- ہائی کورٹ کے جج بھی اس کی سفارش پر مقرر ہوتیہیں- ۶۲~}~
‏0] f[st سپریم کورٹ
ہائی کورٹوں کو صوبہ جاتی کورٹ بنانے کے بعد علاوہ اس کانسٹی چیوشنل (CONSTITUTIONAL) سوال کے جس کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں` دوسری ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ضروری ہے کہ ایک سپریم کورٹ ہندوستان میں بنایا جائے جو فیڈرل کورٹ ہو- علاوہ قانون اساسی کے متعلق اختلافوں کا فیصلہ کرنے کے اس کورٹ کا یہ بھی کام ہو کہ وہ خاص طور پر بڑے مقدمات میں پریوی کونسل کی جگہ پر ہائی کورٹوں کی اپیلیں سنے- اسی طرح اس کا کام فیڈرل قانونوں کے متعلق آخری اپیل سننا ہو- ایسے مقدمات کی ابتداء کی کارروائی صوبہ جاتی عدالتوں کے ہی سپرد رہے- امریکہ کی طرح ضروری نہیں کہ چھوٹی فیڈرل عدالتیں بھی قائم کی جائیں- یہ کام صوبہ جاتی عدالتوں کے سپرد رہے صرف اپیل سپریم کورٹ کے پاس آئے-
چونکہ سپریم کورٹ کا کام قانون اساسی کی تشریح کرنا بھی ہوگا` اس لئے اس کے ججوں کے انتخاب کا سوال خاص اہمیت رکھتا ہے- شاید میرے بہت سے دوست میری اس رائے کو ناپسند کریں گے لیکن میرے نزدیک کم سے کم ابتدائی زمانہ میں اس امر کی ضرورت ہے کہ اس عدالت کے ججوں کا ایک معتدبہ حصہ انگلستان سے مقرر ہو کر آئے- اس کورٹ کے ججوں کے متعلق اگر یہ شرط ہو کہ پہلے پندرہ سال تک لازماً دو تہائی جج پریوی کونسل (PRIVYCOUNCIL) کی سفارش پر تاج کی طرف سے مقرر ہوں اور ایک تہائی ججوں کے تقرر کے لئے یہ قاعدہ ہو کہ پہلی دفعہ تو گورنر جنرل مختلف ہائی کورٹوں کے چیف ججوں سے مشورہ کر کے ایسے ججوں میں سے جو تین سے پانچ سال کے اندر ریٹائر ہونے والے ہوں سپریمکورٹ کا جج مقرر کر دیں اور آئندہ اس حصہ کی کمی جس کے لئے نامزدگی کا اختیار انہیں دیا گیا ہو وہ سپریم کورٹ سے پینل طلب کر کے جس میں ہر آسامی کے لئے کم سے کم تین آدمیوں کا نام پیش کیا گیا ہو` پوری کریں- اس طرح میرے نزدیک وہ سوال ایک معقول حد تک حل ہو جاتا ہے کہ وہ جج کہاں سے آئیں گے جن پر اعتبار کیا جا سکے- پریوی کونسل کے مقرر شدہ جج چونکہ غیر ملک سے آئیں گے اور ایسے لوگ انہیں مقرر کریں گے جن کا زیادہ تر تعلق عدالتوں سے ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ جہاں تک میں سمجھتا ہوں` عام طور پر قابل اعتبار ہونگے- اسی طرح وہ ایک تہائی جج جو سپریم کورٹ کی سفارش سے لیکن گورنر جنرل کے انتخاب سے مقرر ہونگے ان پر بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے-
کانسٹی چیوشن کے متعلق جو مقدمات اس کورٹ میں پیش ہوں گے وہ تین قسم کے ہو سکتے ہیں- ایک وہ جو حکومتوں کی طرف سے ہوں- یعنی صوبوں یا ریاستوں کی طرف سے )اگر ریاستیں فیڈریشن میں شامل ہوں-( دوسرے مقدمات قومی یا مذہبی اقلیتوں کی طرف سے- تیسرے افراد یا مجموعہ افراد یعنی کمپنیوں ٹرسٹوں وغیرہ کی طرف سے- جو مقدمات کہ حکومتوں یا قوموں کی طرف سے ہوں ان کے لئے شرط ہو کہ سات جج ان کا فیصلہ کریں- جن میں سے چار لازماً ان ججوں میں سے ہوں جنہیں پریوی کونسل کی سفارش پر تاج نے مقرر کیا ہو اور جو مقدمات افراد یا مجموعہ افراد کی طرف سے ہوں ان کے لئے تین جج کافی ہوں اور کوئی قید نہ ہو کہ وہ کس قسم کے ججوں میں سے ہوں-
کانسٹی چیوشن میں یہ قانون بھی رکھ دیا جائے کہ اگر پندرہ سال کے بعد صوبہ جاتی کونسلوں میں سے اسی فیصدی کونسلیں حقیقی اکثریت کے ساتھ یہ قانون پاس کر دیں کہ آئندہ سپریم کورٹ کے جج پریوی کونسل کی طرف سے مقرر نہ ہوں بلکہ کسی اور طریق سے جس پر وہ متفق ہوں` مقرر ہوں تو ان کے اس ریزولیوشن کے مطابق عمل ہو-
سپریم کورٹ کے پاس قانون اساسی کے متعلق کیس چلانے کا طریق
‏0] f[rtمیں پہلے لکھ چکا ہوں کہ قانون اساسی کے متعلق مقدمات تین قسم کے ہو سکتے ہیں- جو افراد یا مجموعہ افراد کی طرف سے ہوں- جو جماعتوں یا قوموں کی طرف سے ہوں- یا جو حکومتوں کی طرف سے ہوں- ان تینوں قسم کے مقدمات میں سے دو قسم کے یعنی افراد کی طرف سے یا جماعتوں کی طرف سے جو مقدمات ہوں وہ پھر دو قسم کے ہو سکتے ہیں- یعنی جو صوبہ جاتی قانون اساسی کے متعلق ہوں یا جو اتحادی قانون اساسی کے متعلق ہوں- ان میں سے جو تو صوبہ جاتی قانون اساسی کے متعلق ہوں` وہ صوبہ جاتی ہائی کورٹوں میں پیش ہوں- اور جو اتحادی قانون اساسی کے متعلق ہوں وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں-
سیاسی حقوق کے مقدمات کس طرح سپریم کورٹ میں جائیں؟
سائمن کمیشن نے لکھا ہے کہ اگر کورٹ کے ذمے مختلف قوموں کے حقوق کے تصفیہ کا سوال رکھا گیا تو مقدمات بہت بڑھ جائیں گے- گو تجربہ کے بعد ہی ایسی باتوں کا علم ہو سکتا ہے- لیکن کوئی حرج نہیں کہ اس کی روک کے لئے بھی کچھ قانون مقرر کر دیئے جائیں- میرا خیال ہے کہ مندرجہ ذیل قیود سے اس میں روک تھام ہو سکتی ہے-
)۱(
جب جھگڑا صوبہ جاتی حکومتوں یا ریاستوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ہو اور آپس میں سمجھوتہ نہ ہو سکے تب گورنر جنرل سے اپیل کی جائے جو دونوں فریق میں صلح کرانے کی کوشش کرے- لیکن اگر صلح نہ ہو سکے تو پھر دونوں فریق کو اجازت ہو کہ سپریمکورٹ میں اپنے حق کا فیصلہ کرائیں-
)۲(
اگر صوبہ جاتی حکومتوں کا آپس میں یا کسی ریاست سے )اگر ریاستیں فیڈریشن میں شامل ہوں( جھگڑا ہو تو پہلے گورنر جنرل ایک پنچایت کے ذریعہ سے جس میں ایک ایک نمائندہ فریقین کا ہو اور ایک گورنر جنرل کی طرف سے ہو فیصلہ کرنے کی کوشش کریں اگر اس طرح فیصلہ نہ ہو سکے تو پھر سپریم کورٹ میں جانے کی اجازت ہو-
)۳(
اگر کسی قوم یا مذہب کے افراد کو شکایت ہو کہ ان کے حقوق کو قانون اساسی کے خلاف نقصان پہنچایا گیا ہے تو اگر لیجسلیٹو کے خلاف انہیں شکایت ہو` تو وہ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے دو ہفتہ کے اندر صوبہ کے گورنر کے پاس یا بصورت اتحادی اسمبلی کا معاملہ ہونے کے گورنر جنرل کے پاس اپیل کریں- اگر گورنر یا گورنر جنرل سمجھے کہ لیجسلیٹو (LEGISLATIVE) نے فی الواقعہ اس جماعت کے قانون اساسی کے بتائے ہوئے حقوق کو توڑا ہے تو وہ اس قانون کو کونسل یا اسمبلی جس کا بھی معاملہ ہو اس کے پاس دوبارہ غور کرنے کے لئے بھیج دے- اگر گورنر جنرل یا گورنر کی تسلی کے مطابق اصلاح ہو جائے تو وہ اس پر دستخط کرے` ورنہ وہ اس قانون کی تصدیق کو التواء میں ڈال دے جب تک کہ دوسری کونسل یا اسمبلی کا انتخاب ہو- اس وقت اگر وہ اسمبلی یا کونسل جیسی بھی صورت ہو اس قانون کو دوبارہ پاس کر دے تو گورنر جنرل یا گورنر جیسی بھی صورت ہو اس قانون پر دستخط کر دے- اس کے بعد اگر اس فریق کو جسے اپنے حق کے نقصان پہنچنے کا خیال ہے ضرورت محسوس ہو` تو وہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جیسی بھی صورت ہو` اس میں جا کر اپیل کرے- اس طرح میرا خیال ہے کہ بہت سے قومی اور ملکی اختلافات سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے ہی طے ہو جایا کریں گے-
اب سوال افراد یا جماعتوں کا رہ جاتا ہے- سو ان کی شکایات عام طور پر مالی ہوں گی یا اصولی انسانی حقوق کے متعلق ہوں گی- مالی مقدمات تو بہر حال چلتے ہی رہتے ہیں- انہیں محدود نہیں کیا جا سکتا اور اصولی انسانی حقوق کے جو سوال ہیں` وہ کثرت سے نہیں ہو سکتے شاذ و نادر ہوں گے- سو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ ایک ایسا حق ہے کہ جس کے متعلق مقدمات علم میں کچھ اضافہ کریں گے اور بحیثیت مجموعی ملک کو کچھ فائدہ ہی ہو گا- پس ان کے راستہ میں روک ڈالنے کی میرے نزدیک کوئی ضرورت نہیں- دوسرے ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس قسم کے مقدمات بہت کم ہوتے ہیں-
گو اوپر کے مضمون کا بیشتر حصہ سنٹرل (CENTRAL) معاملات سے تعلق رکھتا تھا- لیکن اس خیال سے کہ عدالتوں پر ایک ہی جگہ بحث ہو جائے` میں نے دونوں حصوں کو اکٹھا ہی بیان کر دیا ہے اور اب آئندہ اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہ ہو گی-
باب پنجم
ملازمتیں
سائمن کمیشن نے اپنی رپورٹ کی جلد دو کے نویں باب میں ملازمتوں کے مستقبل پر بحث کی ہے- گو اس نے اس باب کو مستقل جگہ دی ہے لیکن میں جوخیالات ظاہر کرنا چاہتا ہوں ان کی رو سے اس بحث کی جگہ صوبہ جاتی کونسلوں کے ماتحت ہی آتی ہے-
کمیشن کی رپورٹ پر تمام منتقل شدہ محکموں کی بھرتی صوبہ جات کے سپرد کر دی گئی تھی سوائے طبی محکمہ کے کہ اس کی بھرتی کا ایک حصہ آل انڈیا بھرتی کے اصول پر قائم رکھا گیا تھا کیونکہ یہ کہا گیا تھا کہ جب تک انگریز اس ملک میں کام کرتے ہیں` یہ ضروری ہے کہ ان کا علاج کرنے کے لئے انگریز ڈاکٹر بھی رہیں اور دوسرے یہ خیال کیا گیا تھا کہ جنگ کے دنوں میں طبیمحکمہ پر بہت کچھ دارو مدار ہوتا ہے اگر آئندہ کوئی جنگ ہو اور اس وقت کافی تعداد میں لائقڈاکٹر نہ ملے تو جنگ کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا- پس ہر صوبہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ کچھ تعداد فوجی ڈاکٹروں کی ضرور ملازم رکھے-
لیکن محفوظ محکمہ جات کی بھرتی بدستور آل انڈیا بھرتی کے اصول پر رکھی گئی تھی- یعنی ان محکموں کی بھرتی اب تک وزیر ہند کی وساطت سے کی جاتی ہے اور صوبہ کے لئے ان کی تعداد گورنمنٹ آف انڈیا صوبہ جات کے مشورہ سے مقرر کرتی ہے اور اس تعیین میں وہ اپنی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھتی ہے کیونکہ گورنمنٹ آف انڈیا کے محکموں کے لئے کوئی الگ بھرتی نہیں ہوتی-
اس بھرتی کے طریق میں کئی فوائد سمجھے جاتے ہیں- ایک یہ کہ اس طرح ضرورت کے موقع پر ایک افسر کی خدمات بغیر اس کے حقوق وغیرہ کے جھگڑوں کے ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ کی طرف منتقل کی جا سکتی ہیں- دوسرے یہ کہ چھوٹے علاقوں کے لئے جو گورنروں کے صوبوں کے علاوہ ہیں الگ ملازم نہیں رکھے جا سکتے کیونکہ بوجہ صوبہ کی غربت کے انہیں ترقی دے کر اوپر نہیں لے جایا جا سکتا- پس ایسے صوبوں میں ضرورت کے مطابق بڑے صوبوں سے آدمی لے لئے جاتے ہیں اور جب ان کی ترقی کا وقت آتا ہے تو انہیں بدل کر ان کی جگہ اور افسر منگوا لئے جاتے ہیں- تیسرے یہ کہ گورنمنٹ آف انڈیا کو اپنے دفتروں میں اکثر تجربہ کار افسروں کی ضرورت رہتی ہے- اگر وہ اپنی الگ بھرتی کرے تو جب تک وہ اپنی ضرورت سے بہت زیادہ بھرتی نہ کرے اس وقت تک اس قدر تعداد اعلیٰ افسروں کی اسے نہیں مل سکتی جس قدر کہ اسے ضرورت ہوتی ہے- چوتھے اگر آل انڈیا بھرتی کے اصل پر ملازمتوں کا انتظام نہ ہو بلکہ صوبہ جات کی بھرتی الگ الگ ہو اور گورنمنٹ آف انڈیا کی الگ تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے افسروں کو صوبہ جات کی حالت کا کچھ علم نہ ہو گا اور وہ یگانگت جو مرکز اور صوبہ جات میں ہونی چاہئے` پیدا نہ ہو سکے گی-
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ضرورتیں جو اوپر مذکور ہوئی ہیں بہت اہم ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ باوجود ان ضرورتوں کے آل انڈیا بھرتی کو جاری رکھنا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا- اگر یہ درست ہے کہ آئندہ صوبہ جات کو آزادی دی جائے گی تو پھر یہ بھی لازمی ہے کہ تمام عہدوں کی بھرتی صوبہ جات کے ماتحت ہو- وہ آزادی کیسی جس میں عہدوں کی تعداد تک مقرر کر دی جائے- اس قسم کی اتحادی حکومت کو کوئی شخص اتحادی حکومت نہیں کہہ سکتا یہ تو کامل اتصالی حکومت ہو گی-
جو ضرورتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے بعض کی تو آئندہ ضرورت ہی نہ رہے گی مثلاً صوبہ جات کی واقفیت کی آئندہ اس قدر ضرورت نہ رہے گی- کیونکہ مقامی ضرورتوں سے تعلق رکھنے والے امور مرکز سے علیحدہ کر کے پورے طور پر صوبہ جات کے اختیار میں آ جائیں گے- مرکز سے صرف انہی امور کا تعلق رہ جائے گا جن کا مقامی ضرورتوں سے کچھ تعلق نہیں ہو گا- باقی رہے چھوٹے علاقے ان کے متعلق میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان کا علیحدہ باقی رکھنا صوبہ جاتی آزادی کے راستہ میں روک ہو گا- چنانچہ زیر بحث سوال ہی اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا وجود صوبہ جات کی آزادی کے منافی ہے کیونکہ ملازمتوں کو صوبہ جات کے اختیار سے باہر رکھنے کی ایک وجہ ان علاقوں کی موجودگی بتائی جاتی ہے- پس بجائے اس کے کہ ان علاقوں کی وجہ سے صوبہ جات کی آزادی میں فرق لایا جائے کیوں نہ ان صوبوں کو ہی دوسرے صوبوں سے ملا دیا جائے-
مگر میرا یہ مطلب نہیں کہ گورنمنٹ آف انڈیا آج ہی سے اپنے ملازم الگ بھرتی کرنے شروع کر دے- میرے نزدیک دونوں باتیں ممکن ہیں- یہ بھی کہ گورنمنٹ آف انڈیا اپنی ضرورتوں کے مطابق الگ بھرتی کرے اور یہ بھی کہ وہ صوبہ جات کی حکومتوں سے بطور قرض بعض افسران کی خدمات لے لیا کرے- دونوں صورتوں میں آل انڈیا اصول پر بھرتی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے صوبہ جات کے ساتھ ان کا کوئی ایسا سمجھوتہ ہو جائے جس سے وہ چند افسر اپنے کارکنوں کی تعداد میں زیادہ کر لیں- صوبہ جات پر اس سے کوئی بار نہیں پڑے گا کیونکہ اس قدر افسر گورنمنٹ آف انڈیا ان سے لے لیا کرے گی-
لیکن بہر حال یہ عارضی انتظام ہو گا- صوبہ جات کی آزادی کی صورت میں ایک نہ ایک دن گورنمنٹ آف انڈیا کو اپنے عہدوں کے لئے الگ بھرتی کرنی پڑے گی اور اس کو ابھی سے مدنظر رکھ لینا چاہئے-
ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور اس کے سب انتظام کو ایک دن میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا- منہ سے کامل آزادی کہہ دینا اور بات ہے اور عملاً اس قدر وسیع انتظام کو بغیر خرابی پیدا کرنے کے بدل دینا بالکل اور بات ہے- پس یہ تو لازمی بات ہے کہ ان سب تغیرات کا فیصلہ ابھی تو بطور پالیسی کے ہی ہو گا- عمل ان امور پر آہستگی اور تدریجی طور پر ہی کیا جا سکتا ہے- مثلاً جو افسر اس وقت ملازمت میں ہیں` ان کی ترقی کے راستوں کو بند نہیں کیا جا سکتا- پس ان کے لئے یہ حق تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ترقی کرتے کرتے گورنمنٹ آف انڈیا کے زیادہ تنخواہ والے عہدوں کو حاصل کریں- اسی طرح گورنمنٹ آف انڈیا بھی ایک دن میں اپنی ملازمتوں کا سلسلہ الگ نہیں کر سکتی- پس ایسے قواعد تجویز کرنے چاہئیں کہ موجودہ ملازمین کے حقوق بھی محفوظ رہیں اور آئندہ بھرتی دو طریق پر ہو- کچھ حصہ آل انڈیا اصول پر اور کچھ حصہ پراونشل اصول پر اور آہستہ آہستہ مثلاً دس سال میں صرف پراونشل اصول پر بھرتی رہ جائے- اسی طرح گورنمنٹ آف انڈیا بھی کچھ ملازم براہ راست بھرتی کرے کچھ صوبہ جات سے مستعار لیا کرے اور وہ بھی پندرہ بیس سال تک اپنے محکموں کو صوبہ جات سے بالکل آزاد کر لے-
میں اس امر کی تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہتا کہ یہ تبدیلی کن مدارج کو طے کر کے ہو کیونکہ یہ کام صوبہ جاتی اور مرکزی حکومتوں کے باہم طے کرنے کا ہے- لیکن میں اس امر کے متعلق اپنی رائے بوضاحت ظاہر کرنی چاہتا ہوں کہ فیڈرل اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ جاتی ملازمتوں اور مرکزی ملازمتوں کا الگ کیا جانا ضروری ہے- ہاں اس امر سے کوئی نہیں روک سکتا کہ بغیر اس کے کہ ان دونوں قسم کی ملازمتوں کو ایک سمجھا جائے` کسی وقت کسی خاص افسر کی خدمات گورنمنٹ آف انڈیا کسی صوبہ سے مستعار لے لے کیونکہ کلی طور پر آزاد حکومتیں بھی دوسری حکومتوں سے بعض افسر اس طرح مستعار طور پر لے لیتی ہیں-
میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہر صوبہ کی ملازمتوں کی بھرتی کو اسی صوبہ کے انتظام کے نیچے لانے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ بھرتی انگلستان میں نہ ہو کیونکہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے میرا یہ یقین ہے کہ ابھی کافی عرصہ تک انگریز افسروں کی ہندوستان کو ضرورت ہے- میرا مطلب صرف یہ ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے لئے سیکرٹری آف سٹیٹ (SECRETARYOFSTATE) بھرتی نہ کیا کرے بلکہ جس قدر انگریز افسروں کی بھرتی ضروری سمجھی جائے` اس قدر بھرتی ہر اک صوبہ کا گورنر وزیر ہند کی معرفت یا ہندوستان کے ہائی کمشنر کی معرفت خاص اس صوبہ کے لئے کرے اور بھرتی شدہ افسر خاص اس صوبہ کے ملازم سمجھے جائیں- ہاں وہ صوبہ اسی طرح وزیر ہند کی معرفت ان کے حقوق ادا کرنے کا ذمہوار ہو جس طرح اب حکومت ہند اس کی ذمہ وار ہوتی ہے اور چونکہ ان افسروں کی تسلی اور اطمینان پر صوبہ جات کی ترقی کا بہت کچھ دارو مدار ہوگا اس لئے میرے نزدیک اس امر کا پورا انتظام ہونا چاہئے کہ ان کی تنخواہوں اور درجوں کا معیار نہایت سختی کے ساتھ محفوظ رکھا جائے او راس تغیر سے انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے-
اس باب سے تو اس کا چنداں تعلق نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس امر کو اور کسی جگہ پر بیان کرنے کا موقع نہیں ملے گا کہ اگر ہندوستان کو برطانوی امپائر (EMPIRE) کا حصہ رکھنا ہے )اور کم سے کم میں تو اسے ایسا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر اس سوال پر اختلاف ہو تو میں شدید ترین سیاسی اتحاد کو بھی اس کی تائید میں توڑنے کے لئے تیار ہوں( تو پھر انگریزی عنصر کا کسی نہ کسی صورت میں ایک لمبے عرصہ تک اس ملک میں قائم رکھنا ضروری ہے- اس وقت تک جو برطانوی نو آبادیات ہیں` وہ یا تو کلی طور پر انگریزی نسل سے آباد ہیں جیسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ یا پھر جزوی طور پر انگریزی نسل سے آباد ہیں- جیسے کینیڈا اور سائوتھ افریقہ- اور ایسے ممالک باوجود دور ہونے کے بوجہ زبان کے اتحاد اور رشتہ داریوں کے تعلقات کے آسانی سے متحد رہ سکتے ہیں لیکن وہ ملک جو ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہو اور جس کی زبان بھی مختلف ہو` تہذیب بھی مختلف ہو` قومیت بھی مختلف ہو` مذہب بھی مختلف ہو` اس کی آزادی کے زمانہ میں اس میں برطانیہ سے وابستگی کا احساس پیدا کرانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ سامان رہے اور اس کا بہترین ذریعہ انگریزی عنصر کی موجودگی ہے- اگر یہ عنصر بھی اس آزادی کے شروع میں کمزور ہو گیا تو کبھی بھی ایک ایمپائر کے فرد ہونے کا وہ احساس ہندوستان میں پیدا نہیں ہو سکے گا جس کے بغیر مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کی آزادی آزادی نہیں بلکہ شدید ترین قید ثابت ہو گی-
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ رقابت کا سوال اسی وقت تک زیب دیتا ہے جب تک کہ خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ نے زور سے ہندوستان کو اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے لیکن جب برطانیہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ہندوستان کو نو آبادیوں والی آزادی دینے کے لئے تیار ہو جائے تو ہندوستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی قومیت کے نقطہ نگاہ کو بدل کر نہ صرف اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھیں بلکہ برطانوی دول متحدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا بھی ایک فرد سمجھیں اور جس طرح ایک قومیت کو عزیز سمجھیں` اسی طرح دوسری قومیت کو بھی عزیز سمجھیں- اور اس دن سے انگریز اپنے آپ کو ہندوستان میں ایک اجنبی کی حیثیت میں نہیں بلکہ ایک وطنی کی حیثیت میں محسوس کرے-
مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جس کا اس جگہ پر بیان کرنا میں ہندوستان اور انگلستان دونوں کے ایک وفات یافتہ دوست کے ذکر خیر کے قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہوں- وہ باہمی دوست اس وقت اپنے وطن میں اپنے ملک کے دشمنوں میں اگر نہیں سمجھا جاتا تو دوستوں میں بھی نہیں خیال کیا جاتا- میری مراد اس سے مسٹرمانٹیگو MONTAGUE)۔(MR ہے- جب وہ ۱۹۱۷ء میں بطور وزیر ہند کے ہندوستان کی حالت کا مطالعہ کر کے آئندہ سیلف گورنمنٹ کی سکیم بنانے کے لئے آئے تو میں نے بھی ان سے ملاقات کی خواہش کی تھی- انہوں نے جس دن احمدیہ وفد کو اپنا ایڈریس پڑھنے کا موقع دیا اسی شام کو مجھے بھی ملاقات کا وقت دیا- جب میں ملنے کے لئے گیا تو مسٹر رابرٹ ROBERT)۔(MR ممبر پارلیمنٹ جو ان کے ساتھ ہندوستان آئے تھے دروازہ پر آ کر مجھے اور میرے ہمراہی کو اندر لے گئے ¶اور گفتگو کے وقت برابر ساتھ رہے- ممکن ہے آئندہ جو واقعہ میں بیان کرتا ہوں انہیں بھی یاد ہو- ملتے ہی مسٹرمانٹیگو نے مجھ سے پوچھا کہ جو ایڈریس آج احمدیہ جماعت کی طرف سے پڑھا گیا ہے وہ کس کا لکھا ہوا ہے- میں نے انہیں بتایا کہ وہ لکھا ہوا تو میرا ہے لیکن انگریزی ترجمہ دوسرے لوگوں نے کیا ہے- اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے اس ایڈریس کو سن کر احمدیہ سلسلہ سے اس قدر دلچسپی پیدا ہوئی کہ میں نے فارغ ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہزایکسیلینسی وائسرائے کو (HisExcellencyViceroy) کو لکھا کہ اگر ان کی لائبریری میں کوئی کتاب احمدیت کے بارہ میں ہے تو مجھے بھجوا دیں- چنانچہ انہوں نے ایک کتاب مجھے بھجوا دی- جو میں ابھی ابھی پڑھ رہا تھا اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ کتاب بھی مجھے دکھائی- میرا خیال ہے کہ وہ مسٹر والٹر WALTER)۔(MR کی کتاب احمدیت تھی- اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میںآپ سے آپ کے سلسلہ کے متعلق باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک بات جو آپ کے ایڈریس میں مجھے غلط معلوم ہوئی ہے پہلے اس کا ذکر کر لوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایڈریس میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی ریلوں وغیرہ پر فارن کیپٹل لگا ہوا ہے- ایسا تو نہیں ہے ریلوں وغیرہ پر یا انگریزی سرمایہ ہے یا ہندوستانی- میں نے جواب دیا کہ انگریزیسرمایہ بھی تو اجنبی سرمایہ ہے- اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کم سے کم میں تو انگریزوں اور ہندوستانیوں کو ایک ہی سمجھتا ہوں اور ایک دوسرے کے مقابل میں اجنبی نہیں خیال کرتا- میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی آواز میں نہایت ملائمت اور گہرا سوز تھا- ان کی آواز اور ان کے چہرہ کی حالت کا جو میرے دل پر اثر ہوا وہ اس قدر گہرا ہے کہ آج تیرہ سال گذر جانے پر بھی وہ فراموش نہیں ہوا- اس وقت میرے عزیز چودھری ظفراللہہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء جو احمدیہ جماعت کے ایک فرد ہیں اور اس وقت رائونڈٹیبل کانفرنس کا نمائندہ مقرر ہو کر انگلستان گئے ہوئے ہیں` میرے ہمراہ تھے- تاکہ مسٹر مانٹیگو کے سامنے میری باتوں کا انگریزی میں ترجمہ کرتے جائیں- ممکن ہے ان کے دل پر بھی اس کا اثر ہوا ہو- مگر میرے دل پر تو آج تک ان کی اس بات کا اثر ہے اور جب کبھی میں انگریزی اخبارات میں انگریزوں کے قلم سے نکلا ہوا یہ فقرہ دیکھتا ہوں کہ >مسٹر مانٹیگو جن کی کوئی قومیت بھی نہ تھی<- انہوں نے ہندوستان کے متعلق سب خرابی پیدا کی ہے تو مجھے فور¶ا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں حیران ہو جاتا ہوں کہ انسانی علم کس قدر ناقص ہے- وہ شخص جس نے مذکورہ بالا فقرہ میں اپنے دل کی گہرائیوں کو میرے لئے روشن کر دیا- جو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ ہندوستانی انگریزوں کو اجنبی سمجھیں بلکہ چاہتا تھا کہ دونوں قوموں کو محبت کی مضبوط رسی سے اس طرح باندھ دیا جائے کہ وہ پیوندی درخت کی طرح ایک ہی درخت بن جائیں اسے انگریزی قوم کا دشمن قرار دیا جاتا ہے- بے شک بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے زمانہ کے لوگ ان کی قدر نہیں کرتے بعد میں آنے والے لوگ ان کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اسی قسم کے لوگوں میں سے مسٹر مانٹیگو تھے- ایک وقت وہ تھا کہ ہندوستانی خیال کرتے تھے کہ انہوں نے ہندوستانیوں کو دھوکا دیا ہے- پھر انگریزوں میں سے بہتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے فوائد کو قربان کر دیا ہے لیکن اب بہت سے ہندوستانی اپنی غلطی کو جان چکے ہیں اور بہت سے انگریز آئندہ جان لیں گے-
بہر حال اس واقعہ کے بیان کرنے سے میرا مطلب یہ تھا کہ اگر برطانوی نظام کی واقعہ میں کوئی قیمت ہے اور ہندوستان اس میں پرویا جانا چاہتا ہے تو ہمیں اس کے افراد کے اندر وہی احساس پیدا کرنا چاہئے جس کا اظہار مسٹر مانٹیگو نے میرے سامنے کیا- تب اور صرف تب ان مختلف المقام اقوام کے اتحاد کی اصل غرض پوری ہو سکتی ہے- جس کا نصب العین صرف چند اقوام کو جمع کرنا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کو محدود دائروں سے نکال کر انسانیت کے وسیع دائرہ میں لا کر کھڑا کرنا ہے- میں یہ نہیں کہتا کہ ہر انگریز اس حقیقت کو سمجھتا ہے نہ یہ کہتا ہوں کہ کوئی انگریر بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھتا- میں تو صرف قدرت کے اشارہ کی تشریح کرتا ہوں- دل خواہ منزل مقصود کی تڑپ سے خالی ہوں` دماغ خواہ اس کے خیال سے ناواقف ہوں` مگر ایک زبردست طاقت قدموں کو ادھر کی طرف اٹھا رہی ہے- ان باہمت لوگوں کا جو قدرت کے اشاروں کو سمجھتے ہیں کام ہے کہ اس بے مقصد بہنے والے پانی کی رو کو حدوں میں لا کر ایک آبشار کی صورت میں بدل دیں اور اس کی غیر محدود طاقت کو دنیا کے فائدہ کے لئے استعمال کریں- اے کاش! میری بات کو کوئی سمجھنے والا ہو-
شاید بعض لوگ خیال کریں کہ میں اپنے مضمون سے باہر چلا گیا ہوں لیکن میں اپنے مضمون سے باہر نہیں گیا- گو ممکن ہے بعض لوگ میرے ساتھ نہ مل سکے ہوں میرا مطلب یہ تھا کہ اگر کسی ا مپائر کا حقیقی طور پر ہم کو حصہ بننا ہے تو ہمیں قومیت کے متعلق بھی اپنے نقطہ نگاہ کو بدل دینا چاہئے اور جب تک نئے حالات ظاہر ہو کر اتحاد کی نئی صورتیں پیدا نہ کر دیں` اس وقت تک کسی نہ کسی صورت میں انگریزوں کی ایک تعداد کو اس ملک میں اپنا شریک کار رکھنا چاہئے- یہ سمجھتے ہوئے نہیں کہ وہ انگریز ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ہماری نئی قومیت کے افراد ہیں-
ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ تمام قومی بندھنوں کو توڑ دینے کے لئے بیتاب اسلامی روح کا ایک مظاہرہ ہے اور اس وجہ سے حب وطن کے جذبات سے سرشار لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا- ایسے لوگ جو چاہیں سمجھ لیں لیکن وہ یاد رکھیں کہ جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے` وہی راہ ہندوستان کی ترقی کی ہے- اسے نظر انداز کر کے دیکھ لو کہ ہندوستانی قومیت بھی کبھی پیدا نہیں ہو گی-
باب ششم
مرکزی حکومت
صوبہ جاتی حکومتوں` عدالتوں اور ملازمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اب میں مرکزی حکومت کو لیتا ہوں- گو مرکزی حکومت خواہ اتصالی طرز کی ہو یا اتحادی طرز کی اجزاء کی حکومت سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اس کی اہمیت صرف ملک کے قانون اساسی سے دوسرے درجہ پر ہوتی ہے- لیکن چونکہ اکثر مطالب جو صوبہ جات اور مرکز کے درمیان میں مشترک تھے بیان ہو چکے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب میرا کام بہت ہلکا ہو گیا ہے- کیونکہ بہت سے مطالب کی نسبت اب مجھے کچھ لکھنا نہیں پڑے گا صرف اشارہ کرنا کافی ہو گا-
سائمن رپورٹ نے فیڈرل اصول کو تسلیم کرنے کے بعد اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل طریق اتحادی حکومتوں کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے مختلف حﷺ مل کر ملک کے لئے ایک قانون اساسی تجویز کرتے ہیں کیونکہ اتحادی حکومت کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے حصوں نے مرکز کو قائم کیا ہے- پس جب تک ہندوستان کے صوبہ جات میں آزاد حکومت قائم نہ ہو جائے اس وقت تک مرکزی حکومت کا صحیح نظام قائم نہیں ہو سکتا- وہ لکھتے ہیں-
>یہ خیال کہ ہندوستان ترقی کر کے فیڈریشن کے اصول پر حکومت خود اختیاری حاصل کرے گا- اس سوال پر کئی لحاظ سے اہم اثر رکھتا ہے کہ مرکزیحکومت میں اس وقت کس حد تک تبدیلی کی جا سکتی ہے ہم اس بات کی طرف اوپر اشارہ کر چکے ہیں کہ صوبہ جات کی موجودہ حدود پر مزید غور ہونا چاہئے اور ہم اس امید کا بھی اظہار کر چکے ہیں کہ آئندہ کسی وقت ایسی ریاستیں بھی ہندوستانی فیڈریشن کا حصہ بن جائیں گی- اندریں حالات ہمارے سامنے یہ صورت درپیش ہے کہ ہم ایسے حصوں کو فیڈریشن کے اصول پر متحد کرنا چاہتے ہیں جن میں سے بعض نے تو ابھی تک اپنی آخری صورت اختیار نہیں کی اور بعض نے ابھی تک اس اتحاد میں شمولیت کی رضامندی کا اظہار نہیں کیا- اگر ہم ایسی ریاستوں کو نظر انداز بھی کر دیں اور صوبہ جات کو بھی ان کی موجودہ شکل و صورت میں لے لیں- تب بھی ابھی تک وہ حالات جو فیڈریشن کے مکمل قیام کے لئے ضروری ہیں ہندوستان میں میسر نہیں ہیں کیونکہ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے صوبہ جات مستقل خود اختیاری حکومت حاصل کریں<- ۶۳~}~
جہاں تک اصول کا تعلق ہے یہ امر بالکل درست اور صحیح ہے- اگر ہم اس لہر کو تسلیم کر لیں کہ ہندوستان میں اتحادی طرز کی حکومت ہو گی تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرکزیحکومت کا فیصلہ صوبہ جات کے اختیار میں ہونا چاہئے اور بجائے اس کے کہ ہم مرکزیحکومت کا ڈھانچہ بنائیں ہمیں اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب کہ صوبہ جات کی آزادی مکمل ہو جائے اور وہ مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ مرکزی حکومت کی کیا شکل ہو` اور اس کے کیا اختیارات ہوں` اور اس کا تعلق اس کے آزاد حﷺ سے کیا ہو- لیکن اگر ہم اس امر کو دیکھیں کہ ہندوستان میں اتحادی حکومت ان اصول پر طے ہی نہیں ہو رہی جن کی بناء پر اتحادیحکومتیں قائم ہوا کرتی ہیں تو پھر سائمن کمیشن کا بتایا ہوا اصل کچھ ایسا وزن دار نہیں رہتا- کیونکہ اگر اس عام طریق کو لیں جو اتحادی حکومتوں کے قیام کے لئے ہے تو پہلے ہمیں ہندوستان کی حکومت کو توڑ دینا چاہئے اور الگ الگ آزاد صوبے قائم کرنے چاہئیں جن کا کسی مرکز سے تعلق نہ ہو- پھر جب ان کی آزادی مکمل ہو جائے تو پھر انہیں باہم اکٹھا کرنا چاہئے اور ان سے مشورہ کروانا چاہئے کہ وہ کن اصول پر آپس میں ملنا چاہتے ہیں اور پھر جو سکیم وہ مقرر کریں اس کے مطابق ازسر نو ایک سکیم حکومت ہند کی تیار کر کے اس کے ماتحت ایک مرکزی حکومت قائم کرنی چاہئے- پھر ساتھ ہی اس احتمال کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ شاید صوبہ جات جب ملیں تو وہ یہی فیصلہ کریں کہ ہم الگ الگ ہی رہنا چاہتے ہیں- ہمیں کسی مرکزی حکومت کی ضرورت ہی نہیں لیکن کیا کوئی عقل مند خیال کر سکتا ہے کہ یہ طریق معقول ہو گا اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ پیدا ہو گا؟
ہم سائمن رپورٹ کے لکھنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا اب انہوں نے صوبوں کو جو اختیار دیئے ہیں وہ وہی ہیں جو ہر آزاد حکومت کو حاصل ہوتے ہیں- یا انہوں نے نہایت محدود اختیارات جو یونائیٹڈسٹیٹس کی ریاستوں سے بھی کم ہیں انہیں دیئے ہیں- پھر وہ بقیہ اختیارات جو ہر حکومت کے قبضہ میں ہوتے ہیں انہوں نے کس غرض کے لئے علیحدہ رکھے ہیں- کیا اسی لئے نہیں کہ وہ مرکز کے پاس رہیں گے- پس اس طرح کیا انہوں نے نادانستہ طور پر ایک کانسٹیچیوشن (CONSTITIUTION) تیار نہیں کر دی- وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عارضی انتظام ہے- کیونکہ ان کی سکیم میں ایسی کوئی تجویز نظر نہیں آتی کہ کسی وقت صوبہ جات الگ الگ ٹیکس لگا سکیں گے- یا ڈاک خانے نکال سکیں گے یا ریلیں جاری کر سکیں گے بلکہ جو کچھ صوبہ جات کے پاس اس وقت ہے اس میں سے بھی کچھ حصہ انہوں نے لے لیا ہے جیسے ہائیکورٹوں کا انتظام وغیرہ- پس آئندہ دس بیس سال کے بعد جب بھی ان کی سکیم کے مطابق صوبہ جات مشورہ کے لئے اکٹھے ہوں گے تو وہ کیا کریں گے- کیا وہ اپنے موجودہ اختیارات میں سے مرکز کو کچھ دیں گے ہرگز نہیں` وہ تو پہلے ہی نہایت محدود ہیں- یا کیا وہ اس لئے اکٹھے ہوں گے کہ مرکز کے اختیارات میں سے کچھ خود لے لیں- اگر یہ صورت مدنظر ہے تو کیوں ابھی سے ان چیزوں کو صوبہ جات کے حوالے نہیں کر دیا جاتا کیونکہ اتحادی اصول کے ماتحت تو تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوتے ہیں- یا کیا وہ صرف موجودہ حالات کی تصدیق ہی کریں گے- اگر یہ امر ہے تو پھر کانسٹی چیوشن کا تو فیصلہ ہو چکا بعد میں صوبہ جات نے اکٹھے ہو کر کیا کرنا ہے-
غرض گو عام حالات میں اسی طرح عمل ہوتا ہے جس طرح سائمن کمیشن نے لکھا ہے لکین چونکہ ہندوستان میں ایک پہلے سے قائم شدہ حکومت کو بغیر توڑنے کے ایک نئی شکل دینی ہے اس لئے کوئی اعتراض کی بات نہیں اگر ایک ہی وقت میں دونوں حصوں کے لئے سکیم تیار کی جائے بلکہ ہندوستان کے حالات کے لحاظ سے یہ امر ضروری ہے- کیونکہ اگر بغیر سکیم تیار کرنے کے اس وقت مرکز کو چھوڑ دیا گیا تو صوبہ جات تو یہ خیال کرتے رہیں گے کہ یہ انتظام عارضی ہے اور اسی وقت تک ہے جب تک کہ گورنر جنرل کے ہاتھ میں اختیارات ہیں اور ادھر اسمبلی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ کر سب اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لے گی اور اس وقت نہ برطانیہ صوبہ جات کا ساتھ دے سکے گا اور نہ صوبہ جات ہی میں طاقت ہو گی کہ مرکزی حکومت سے اختیارات تقسیم کرا سکیں- نتیجہ یہ ہو گا کہ لاعلمی میں ہی اتحادی حکومت اتصالی کی شکل اختیار کرے گی اور زیادہ سے زیادہ اس کی شکل سائوتھ افریقہ (SOUTHAFRICA) کی حکومت کی طرح کی ہو جائے گی- جسے مسلمان اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں` ہندوستان میں بسنے والے انگریز بھی کسی صورت میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں- پس مرکزی کانسٹی چیوشن کا اسی وقت فیصلہ ہو جانا چاہئے- تاکہ اقلیتیں اطمینان سے بیٹھ سکیں اور ان کا یہ خطرہ جاتا رہے کہ کل کو مرکزی حکومت کے تصفیہ کے وقت کہیں پھر ان کے حقوق تلف کرنے کی کوشش نہ کی جائے- لیکن جہاں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہندوستان کے قانون اساسی کو آئندہ وقت کیلئے ملتوی نہ کیا جائے وہاں ایک اور امر کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں صوبہ جات اور مرکز کو آزاد حکومت ملنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر اک اپنی اپنی جگہ انتظام کی درستی میں مشغول ہو جائے گا اور نہ مرکزی حکومت دیکھ سکے گی کہ صوبہ جات اس کی ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں- اور نہ صوبہ جات اس امر کی نگرانی کر سکیں گے کہ مرکز کہیں ان کے اختیارات کو تو غصب نہیں کر رہا- نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک دن یا تو مرکز یہ معلوم کر کے حیران رہ جائے گا کہ اس کی سب طاقتیں صوبہ جات چھین کر واپس لے گئے ہیں- یا صوبہ جات یہ معلوم کر کے حیران رہ جائیں گے کہ جس حکومت کا قیام ان کے مدنظر تھا اس کی جگہ ایک ایسی مرکزی حکومت قائم ہو گئی ہے جس نے ان کے سب اختیارات چھین لئے ہیں- ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ صرف قانون کے الفاظ کام نہیں دیتے جب تک ساتھ استعمال کی تشریح بھی موجود نہ ہو- پس یہ امر نہایت ضروری ہے کہ جو قانون بنے ابتداء میں اس کے عمل درآمد کی نہایت ہوشیاری سے نگرانی کی جائے ورنہ قانون کے لفظ تو رہ جائیں گے لیکن مفہوم غائب ہو جائے گا-
مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس امر کا انکار نہیں کر سکتا کہ ان حالات میں گو فیڈرل قانون اساسی تو اسی وقت تیار ہو جانا چاہئے لیکن اس پر عمل فوراً نہیں شروع ہونا چاہئے اور اتحادی طریق حکومت کے خواہشمندوں کو چاہئے کہ عارضی جوش کے ماتحت اس تجویز کو نظر انداز کر کے اپنے مقصود کو خطرہ میں نہ ڈالیں- انہیں لازم ہے کہ پہلے صوبہ جاتی نظام کو مکمل کریں اور مرکزی حکومت کے ڈھانچے کو مکمل کر کے اس پر عمل کو چند سالوں کے لئے ملتوی کر دیں جب صوبہ جاتی حکومتیں اپنا کام کرنے لگیں اور چند سال تک انہیں کام کا موقع مل جائے تب مرکزی حکومت کو آہستگی سے اختیارات ملنے شروع ہوں-
میری تحریر کا یہ مقصد نہیں کہ مرکز کے متعلق جو کچھ سائمن کمیشن نے لکھا ہے اسے پوری طرح ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے- یا یہ کہ موجودہ نظام حکومت کو ہی اس وقت تک قائم رکھنا چاہئے- کیونکہ جس طرح یہ بات اصول کے خلاف ہے کہ اتحادی حکومت کی تکمیل صوبہجات کی آزادی سے پہلے کی جائے اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ صوبہ جات اس وقت تک آزاد ہو سکیں جب تک ان کے لئے آزادی کا ماحول پیدا نہ ہو- اگر ایک ایسی گورنمنٹ مرکزی موجود ہو جس کو آئندہ فیڈرل حکومت سے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو اور اگر کوئی ایسا مقررہ راستہ نہ ہو جس پر چل کر آئندہ فیڈرل انتظام کو مکمل کیا جا سکے تو یقیناً اتحادی حکومت کا قیام ہندوستان کے لئے ناممکن ہو جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ صوبہ جاتی آزادی بھی خطرہ میں پڑ جائے- پس یہ نہایت ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کو ایسے اصول پر قائم کیا جائے کہ اس کے ماتحت صوبہ جاتی حکومت کو آزادی کے حصول کا کافی موقع ہو اور اتحادی حکومت کی اس طرح داغ بیل ڈال دی جائے کہ آئندہ نظام بغیر کسی مشکل کے خود بخود مکمل ہوتا چلا جائے-
)۱( ہندوستان کی درجہ نو آبادی والی حکومت
اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے کہ اتحادی اصول پر حکومت کی بنیاد بھی قائم ہو جائے اور یہ خطرہ بھی نہ رہے کہ آئندہ ہندوستان کی آزادی کی تکمیل یا اس کی حکومت کی تشکیل میں کوئی دقت پیدا ہو میرے نزدیک یہ تجویز بہترین ہوگی کہ ہندوستان کو نو آبادیات کا درجہ ملنے کا فیصلہ تو ابھی ہو جائے اور آئندہ کیلئے فیڈریشن (FEDERATION) کا ڈھانچہ بھی تیار ہو جائے لیکن بعض تفصیلی امور جن کے اس وقت طے ہونے یا نہ ہونے کو فیڈریشن پر کچھ اثر نہیں پڑتا ان کی جگہ ایک عارضی ڈھانچہ حکومت کا تیار کر لیا جائے جو موجودہ ضروریات کو پورا کرنے والا ہو- پھر جوں جوں صوبے اپنے اندرونی انتظامات کو مکمل کرتے چلے جائیں فیڈریشن کے طے شدہ اصول کے ماتحت مرکزی حکومت کو زائد اختیارات ملتے جائیں- اس طریق سے ہندوستان میں اصولی طور پر تو اتحادی حکومت شروع سے ہی قائم ہو جائے گی اور عملی طور پر آہستہ آہستہ اس کا نفاذ ہوگا-
مندرجہ بالا غرض کو پورا کرنے کیلئے میرے نزدیک یہ طریق اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جو مسودہ بھی رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے مشورہ کے بعد پارلیمنٹ میں پیش ہو اس میں صاف طور پر درج کر دیا جائے کہ اس قانون کے پاس ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان کو قانوناً نو آبادیوں والی حکومت خود اختیاری حاصل ہو جائے گی اور صرف عملی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اس کا نفاذ ان شرائط کے ساتھ جو ذیل میں بیان کی جاتی ہیں بتدریج ہوگا- اس کے بعد ان حفاظتی تدابیر اور موقت قیود کو بیان کر دیا جائے جو درمیانی عرصہ کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پہلے صوبہ جاتی نظام مکمل ہو جائے تو پھر مرکز کو مکمل کیا جائے ضروری سمجھی جائیں-
غرض اس وقت بوضاحت یہ امر بیان کر دیا جائے کہ ہندوستان کو اصولی طور پر درجہ نوآبادیات دے دیا گیا ہے گو حفاظتی تدابیر بھی ساتھ ہی بیان کر دی جائیں اور اسی طرح آئندہ نظام حکومت کی ترقی کی صورتیں بھی بتا دی جائیں-
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ جب نہ مرکزی حکومت کا نظام مکمل ہوا ہو اور نہ صوبہ جات کو ہی مکمل آزادی ملی ہو تو پھر اس قسم کے اعلان سے کیا فائدہ؟ کیونکہ کسی چیز کا بطور اصول کے مل جانا اس کے عملی حصول میں بہت کچھ ممد ہوتا ہے- ایک شخص اگر کسی سے وعدہ کرے کہ میں تجھے کچھ مال دوں گا- اس کی جائیداد میں اور اس یتیم کی جائیداد میں جس کی طرف سے دوسرے لوگ انتظام کر رہے ہوں بہت کچھ فرق ہوتا ہے- انتظام کے لحاظ سے تو دونوں برابر ہونگے- وہ بھی جس کے پاس کچھ نہیں اور کسی نے اسے کچھ جائیداد دینے کا وعدہ کیا ہے اور صاحب جائیداد یتیم بھی لیکن حقیقت میں دونوں میں بہت فرق ہوگا- اول الذکر ایک جائیداد کا وعدہ ہو جانے سے صاحب جائیداد نہیں کہلا سکتا اور ثانی الذکر صاحب جائیداد کہلاتا ہے- اگر یہ اعلان نہ کیا جائے کہ ہندوستان کو درجہ نو آبادیات دے دیا گیا ہے تو خواہ کس قدر اختیارات بھی ہندوستان کو مل جائیں پھر بھی اس کے لئے امید و بیم کی حالت باقی رہے گی لیکن اگر یہ اعلان ہو جائے تو خواہ اختیارات محدود ہی ہوں آزادی کی جنگ ختم ہو جائے گی اور صرف اندرونی انتظام کی مہم اس کے لئے باقی رہ جائے گی-
دونوں حالتوں میں ایک موٹا فرق جسے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ اس اعلان کے بعد ہندوستان کا تعلق پارلیمنٹ سے اسی طرح ختم ہو جائے گا جس طرح کہ دوسری نوآبادیوں کا- اور جو مراحل بھی عملی آزادی کے اس کو طے کرنے ہونگے ان کا طے کرنا ان ہدایات کے ماتحت جو اس اعلان کے ساتھ ہی دے دی جائیں گی صرف اس کا اپنا کام ہوگا یا پھر بعض امور کا تصفیہ ہندوستان کی حکومت تنفیذی اور انگلستان کی وزارت کے درمیان رہ جائے گا اور آئندہ نہ پارلیمنٹ کے کسی اور قانون کی ضرورت رہے گی اور نہ کسی شاہی کمیشن کی-
خلاصہ یہ کہ فیڈرل اصول کے ماتحت ہندوستان کی مرکزی حکومت کا ڈھانچہ اسی وقت تیار ہو جانا چاہئے اور ہندوستان کو درجہ نو آبادیات کے ملنے کا اسی وقت اعلان ہو جانا چاہئے- اس سے ایک تو ہندوستان کی بے چینی دور ہو جائے گی اور دوسرے اقلیتوں کو اطمینان ہو جائے گا- مذکورہ بالا فرق کے علاوہ قانونی لحاظ سے بھی ہندوستان کے درجہ میں مندرجہ ذیل فرق پیدا ہو جائے گا-
)۱(
برطانوی پارلیمنٹ قانونی طور پر اس کا فیصلہ کر دے گی کہ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت کلی طور پر آزاد ہے-
)۲(
صوبہ جات کی عملی آزادی کو تسلیم کر لیا جائے گا-
‏]ni )[tag۳(
آئندہ نظام حکومت کے فیصلہ کا حق برطانیہ سے منتقل ہو کر ہندوستان کے صوبوں کو حاصل ہو جائے گا جس سے گویا عملاً بھی ہندوستان کو آزادی حاصل ہو جائے گی-
)۴(
حقیقی آزادی کی جدوجہد جو اصل میں ملک کے انتظام کی اندرونی درستی کا ہی نام ہے بیخدشہ ہو جائے گی- کسی دوسری طاقت کے اس میں دخل انداز ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہے گا-
)۵(
ہندوستان کے نمائندے بطور ذاتی حق کے برطانوی ایمپائر کی کانفرنسوں میں شامل ہو سکیں گے-
)۶(
ہندوستان کا تعلق بجائے پارلیمنٹ کے وزارت کے توسط سے ملک معظم سے ہوگا-
)۷(
گورنروں کا عہدہ یا گورنر جنرل کا عہدہ سب کے سب آئینی ہو جائیں گے-
)۸(
چونکہ ہندوستان کی آزادی کی ترقی کا فیصلہ کسی اور طاقت کے ہاتھ میں نہیں رہے گا بلکہ ایک آئین کے ماتحت فی ذاتہ اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی اس لئے کسی افسر کو خواہ انگریز ہو خواہ ہندوستانی ہو اس کے راستہ میں روکیں پیدا کرنے کی جرات نہیں ہوگی اور سب کے سب مجبور ہوں گے کہ طوعا یا کرھا مقررہ راہ کی طرف قدم اٹھاتے چلے جائیں-
)۹(
گورنر جنرل آئندہ وزارت کا قائم مقام نہیں سمجھا جایا کرے گا بلکہ بادشاہ کا اور جب تک وزارت کونسلوں کے آگے جوابدہ نہیں ہوتی اس وقت تک وہ ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کا سردار ہونے کی حیثیت سے وزیر ہند سے جو خط و کتاب کرے گا وہ اس کا نائب ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہندوستان کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کرے گا-
غرض گو اس وقت درجہ نو آبادی دینے کا عملی نتیجہ یہ نکلے کہ فوراً ہی ہندوستان بہرجہت وہ آزادی حاصل کر لے جو ملک معظم کے ماتحت دوسری نو آبادیوں کو حاصل ہے لیکن بعض اصولی اور اہم فوائد اس سے حاصل ہونگے اور آئندہ کے لئے آخری مقام تک پہنچنے کے لئے کوئی روک باقی نہ رہے گی-
)۲( قانون اساسی
اس فیصلہ کے ساتھ ہی کہ ہندوستان کو آئندہ سے درجہ نو آبادیات حاصل ہے اس قانون کا بھی جو ہندوستان کی اتحادی حکومت کے لئے بمنزلہ اساس رہے گا فیصلہ کر دینا چاہئے- یہ کہنا کہ ہمارا کیا ہوا فیصلہ ہمیشہ کے لئے ملک کو پابند کیونکر کر سکتا ہے درست نہیں- کیونکہ سب دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے کہ ضرورت کے وقت کچھ لوگ مل کر ایک فیصلہ کر دیتے ہیں اور آئندہ کے لئے وہ قانون اساسی بن جاتا ہے- امریکہ کا قانون اساسی بھی چند ایسے لوگوں نے بنایا تھا جو ان معنوں میں ملک کے صحیح نمائندے نہیں کہلا سکتے تھے کہ ملک نے انہیں کثرت رائے سے اس غرض کے لئے منتخب کیا تھا لیکن ان کا بنایا ہوا قانون اساسی اب تک کام دے رہا ہے بلکہ آج تک امریکن قوم اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گو وہ لوگ اپنے زمانہ کے لوگوں کے بھی نمائندے نہ تھے لیکن انہوں نے قانون اساسی بناتے ہوئے دیانتداری سے اپنے ملک کی ضرورتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسا قانون بنا دیا جس سے وہ ضرورتیں پوری ہو سکتی تھیں- پس گو وہ لوگ ووٹوں کے ذریعہ سے نمائندے نہ تھے لیکن خیالات کی ترجمانی کے لحاظ سے وہ نمائندے بن گئے-
دوسری بات یہ ہے کہ قانون اساسی گو ہمیشہ کے لئے ملک کو پابند کر دیتا ہے لیکن اس کی تبدیلی کی گنجائش بھی اس میں موجود ہوتی ہے- پس اگر اس میں کوئی سخت نقص ہو گیا ہو تو ملک کے لوگ اس کی اصلاح کرنے پر ہر وقت قادر ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ ملک کے لئے مضر نہیں ہو سکتا- ہاں فائدہ اس سے بے شک پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس کے بننے سے ایک ایسی شاہراہ تیار ہو جاتی ہے جسے ملک کے لوگ اپنے سامنے رکھ کر بغیر پریشانی کے آگے کی طرف قدم اٹھا سکتے ہیں- تمام دنیا کا یہ تجربہ ہے کہ ناقص پروگرام` پروگرام کے بالکل نہ ہونے سے بہرحال اچھا رہتا ہے- پس ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ آج ہی ہندوستان کے لئے ایک قانون اساسی تیار ہو جائے-
ہندوستان کے قانون اساسی کے متعلق میں اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں تفصیل کے ساتھ لکھ آیا ہوں اس لئے اب مجھے ان بحثوں میں دوبارہ پڑنے کی ضرورت نہیں- اس جگہ میں صرف ان امور کو بالاختصار بیان کر دیتا ہوں جن کا ذکر ہندوستان کے قانون اساسی میں ضرور ہونا چاہئے-
)۱(
اصول حکومت مکمل اتحادی ہو یعنی صوبہ جات کے ہاتھ میں سب اختیار رہیں سوائے ان اختیارات کے جو وضاحتا مرکزی حکومت کو دیئے گئے ہوں اور وہ اختیارات انہی امور کے متعلق ہوں جن کا اثر کل ہندوستان پر پڑتا ہے-
)۲(
مجالس واضع قوانین دو ہوں- لیکن یہ نہیں کہ دونوں مجلسیں ایک ہی کام کرنے والی ہوں بلکہ دوسری مجلس ایسے رنگ کی ہو کہ اس قسم کی مجلسوں کی جو غرض ہوتی ہے اس سے پوری ہو یعنی ایک مجلس افراد کی نمائندہ ہو اور دوسری علاقوں کی-
)۳(
اس میں مرکز کے لئے بھی اور صوبہ جات کی حکومت کے لئے بھی یہ شرط رکھی جائے کہ وہ مذہب پر عمل یا اس کی تبلیغ یا تعلیم یا مذہب بدلنے پر کسی قسم کی قید نہیں لگائیں گے-
)۴(
کسی قوم کی زبان یا اس کی تہذیب یا اس کی خوراک پر کسی قسم کی حد بندی نہیں کی جائے گی-
)۵(
مختلف صوبوں کے ساتھ سلوک میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا نہ مختلف افراد اور اقوام میں کوئی فرق کیا جائے گا-
)۶(
وہ مذاہب جن میں ایک معین اہلی قانون ہے اس میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی سوائے اس کے کہ اس مذہب کے لوگ خود اپنے مذہب کی فقہ کو اس سوال کے متعلق قانون کے ماتحت لانا چاہیں-
)۷(
ہندوئوں` مسلمانوں` سکھوں اور مسیحیوں کو حتی الامکان ان کی تعداد کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دینے کی کوشش کی جائے گی اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا جس میں کسی قوم یا مذہب کے افراد کو جو ہندوستان کے باشندے ہوں کسی ملازمت یا فائدہ کے کام سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ہو-
)۸(
کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا جس کی غرض بعض افراد یا جماعتوں کو امتیازی طور پر فائدہ پہنچانا یا بعض افراد یا جماعتوں کو خاص طور پر نقصان پہنچانا ہو-
)۹(
جداگانہ انتخاب کو پچیس سال تک منسوخ نہ کیا جائے گا سوائے اس صورت کے کہ جو قوم اس سے فائدہ اٹھا رہی ہو اس کے ۸۰ فیصدی منتخب ممبر اسے ترک کرنے کی درخواست کریں لیکن یہ ضروری ہوگا کہ جس مجلس کے انتخاب میں جداگانہ انتخاب اڑانے کی درخواست ہو اس مجلس کے اسی فیصدی ممبروں کی درخواست ہو-
)۱۰(
اتحادی حکومت کے جو حﷺ پہلی دفعہ مقرر ہو جائیں ان کے توڑنے یا ایک کو دوسرے سے ملانے کا اس حصہ کی مرضی کے سوا جس کا توڑا جانا ان حصوں کی مرضی کے سوا جن کو ملانا مقصود ہو کسی کو حق نہ ہوگا-
)۱۱(
اگر سندھ (SIND) نارتھ ویسٹرن(NORTHWESTERN) فرنٹیئر پراونس (FRONTIERPROVINCE) اور بلوچستان کو نیا نظام جاری ہونے سے پہلے صوبہجاتی آزادی نہ ملے تو یہ بھی قانون اساسی میں درج ہونا چاہئے کہ پہلے پانچ سال کے اندر اندر ان صوبوں کو دوسرے صوبوں کی طرح خود اختیاری حکومت مل جائے گی اور یہ کہ اگر پانچ سال کے اندر مرکزی حکومت اس کا انتظام نہ کرے تو اس کا کوئی قانون اس وقت تک کہ وہ اس غرض کو پورا کرے جائز قانون نہ کہلا سکے گا کیونکہ اس کے وہ حﷺ جنہوں نے اسے اختیار دیئے ہیں رائے دینے میں آزاد نہ ہونگے-
)۱۲(
افراد کے حقوق کی فہرست دے دی جائے کہ ان میں حکومت کو دخل دینے کا حق نہ ہوگا- مثلاً جائیداد کا چھیننا` ووٹ کا حق چھیننا` بغیر مقدمہ کے گرفتار کرنا` قانون کے پاس ہونے سے پہلے جرائم پر گرفتار کرنا یا سزا دینا وغیرہ وغیرہ-
)۱۳(
کسی صوبہ کی اندرونی آزادی کو مرکز کسی وقت اور کسی صورت میں نہیں چھین سکتا اور نہ کم کر سکتا ہے-
)۱۴(
جو اختیارات مرکز کو نہیں دیئے گئے ان کے متعلق کوئی قانون اس کا جائز نہ ہوگا بلکہ اس کے متعلق صوبہ جات کے قانون ہی تنفیذ کے قابل ہونگے-
)۱۵(
سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی قانون اساسی کے متعلق اور صوبہ کے ہائیکورٹ کا فیصلہ صوبہ کے قانون اساسی کے متعلق آخری ہوگا اور اگر صوبہ جات یا مرکزی حکومت کو اس پر اعتراض ہو تو وہ صرف مقررہ قواعد کے رو سے قانون اساسی میں ترمیم کر سکتے ہیں-
)۱۶(
ہر ترمیم قانون اساسی کی جو مقررہ اصول کے مطابق نہ ہو جائز نہ ہوگی-
)۱۷(
عبادت گاہوں کا بنانا` مذہبی نظام کیلئے انجمنوں یا خاص نظام کا بنانا` مذہبی مدارس` اوقاف وغیرہ میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی جائے گی-
یہ چند امور میں نے ایسے گنائے ہیں کہ جن کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ورنہ کانسٹی چیوشن میں اور کئی امر لانے پڑیں گے لیکن یہ کام قانون سازوں کا ہے وہی کامل بحث و تمحیص کے بعد اس کی تفصیلات کو طے کر سکتے ہیں- ہاں میں اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ مرکزی حکومت کے اختیار مقرر کرتے وقت )۱( یہ نہ کیا جائے کہ جو اختیارات اس وقت مرکزی حکومت کو حاصل ہیں انہی کو قائم رہنے دیا جائے کیونکہ وہ اختیارات بہت زیادہ ہیں- چاہئے کہ امریکنکانسٹیچیوشن اور نہرو رپورٹ کے بتائے ہوئے مرکزی حقوق کو ملا کر اس کے درمیان میں راہ نکالی جائے- امریکن نظام حکومت میں بہت تنگی سے کام لیا گیا ہے اور نہرو رپورٹ میں مرکز کو بہت اختیار دیئے گئے ہیں- )۲( سول لاء اس وقت مرکزی حکومت کے ماتحت ہے نہرورپورٹ نے بھی اسے مرکز کے ماتحت رکھنے کی تجویز کی ہے لیکن کامل فیڈرل حکومتوں میں سول لاء (CIVILLAW) زیادہ تر ریاستی حکومتوں کے متعلق ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ سوللاء درحقیقت ملک کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے- اور تہذیب کا اختلاف ہی اتحادیحکومت کا باعث ہوتا ہے- پس عقلاً تو سول لاء صوبہ جات کے سپرد ہونا چاہئے لیکن چونکہ اس وقت تک سول لاء ہندوستان میں ایک ہی ہے اس لئے اس کا بدلنا بھی اب ٹھیک نہیں-
پس اگر یہ شرط کر دی جائے کہ شادی` بیاہ` ورثہ` طلاق وغیرہ معاملات کے متعلق جو اہلیقانون کہلاتا ہے قوانین بنانا مرکزی حکومت کے نہیں بلکہ صوبہ جاتی حکومتوں کے سپرد ہوگا تو اس طرح وہ حصہ قانون کا جس میں مختلف علاقوں کے لوگوں میں مختلف دستور ہیں مرکز کے اختیار سے باہر ہو جائے گا اور بغیر سارے سول لاء کو منسوخ کرنے کے فیڈرل اصول کی حفاظت بھی ہو جائے گی- پس اول تو اہلی قانون میں حکومت دخل ہی نہ دے گی اور اگر کسی جماعت کے اپنے کہنے پر دخل دے گی تو قانون صرف اس صوبہ کے لئے ہوگا اور اس وجہ سے اس علاقہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا اس میں پورا لحاظ رکھا جا سکے گا-
قانون اساسی کی تبدیلی
جس طرح قانون اساسی کا بنانا اقلیتوں اور صوبوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ضروری ہے اسی طرح اس میں تبدیلی کے قواعد بھی ان کے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں- ان کیلئے اس طرح کہ اگر قانوناساسی کا بدلنا حد سے زیادہ آسان ہو تو قانون اساسی کا سب فائدہ ان کیلئے باطل ہو جاتا ہے اور ملک کے لئے اس طرح کہ اگر اس کا بدلنا حد سے زیادہ مشکل ہو تو ملک بعض اوقات اپنی اشدضرورتوں کو بھی پورا نہیں کر سکتا اور اس کی ترقی رک جاتی ہے- پس ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون اساسی بنانا چاہئے اور دونوں نقصوں سے اسے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے-
میرے نزدیک وہ طریق جس سے یہ دونوں نقص پیدا نہیں ہو سکیں گے یہ ہے
)۱(
جو تبدیلی ایسی ہو کہ اس کا اثر کسی خاص صوبہ پر پڑتا ہو جیسے کسی صوبہ کے علاقہ میں تبدیلی کرنا اس کے لئے تو یہ شرط ہو کہ دو تہائی حقیقی اکثریت کے ساتھ اگر دونوں مرکزی مجالس اسے منظور کریں اور پھر اس صوبہ کی مجلس تین چوتھائی حقیقی اکثریت سے اسے منظور کرے تو وہ تبدیل ہو جائے-
)۲(
اگر وہ تبدیلی جو تجویز کی گئی ہو کسی خاص صوبہ سے تعلق نہ رکھتی ہو بلکہ اس کا اثر سب صوبوں پر پڑتا ہو تو مرکزی مجالس کی دو تہائی حقیقی اکثریت کے بعد دو تہائی صوبوں کی مجالس اگر دو دو تہائی حقیقی اکثریت سے اس تبدیلی کو قبول کر لیں تو قانون اساسی میں اس کے مطابق تبدیلی کر دی جائے لیکن مزید شرط یہ ہو کہ مرکزی مجالس کے فیصلہ کی تاریخ سے لے کر دو سال کے اندر صوبہ جاتی مجالس شرائط مذکورہ بالا کے مطابق تصدیق کر دیں- اگر دو سال کے اندر صوبہ جات کی طرف سے مقررہ قواعد کے مطابق تصدیق نہ ہو تو وہ قانون باطل سمجھا جائے اور جب تک اسمبلی کا دوبارہ انتخاب نہ ہو جائے تب تک اس سوال کو دوبارہ پیش کرنے کی اجازت بھی نہ ہو-
)۳(
کچھ ایسے حصے بھی قانون اساسی میں ہونگے جن کے مطابق قطعی طور پر یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ان کے متعلق کسی صورت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی جیسے کہ مذہب کی آزادی` تبدیلی مذہب کا اختیار` تبلیغ کی آزادی` زبان کی آزادی` قومی ترقی` مذہبی ترقی یا قومی نظام کی مجالس کی آزادی یا مثلاً تاج برطانیہ سے تعلق کا سوال ہے اس کے متعلق کسی اندرونی فیصلے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے- ہاں موخر الذکر سوال اگر کسی وقت برطانیہ کے سمجھوتہ سے طے ہو تو ہو سکتا ہے-
)۴(
جن امور کی تبدیلی کے لئے کوئی خاص قواعد قانون اساسی میں بیان ہو چکے ہوں یا حدبندیاں مقرر ہوں انہیں عام قواعد پر مقدم رکھا جائے گا-
)۵(
سندھ` صوبہ سرحدی اور بلوچستان کی آزادی سے پہلے قانون اساسی کی تبدیلی کے متعلق کوئی قانون پاس نہیں کیا جائے گا-
میں سمجھتا ہوں اگر ان قواعد کو منظور کر لیا جائے تو قانون اساسی میں تبدیلی زیادہ مشکل بھی نہ ہوگی اور ایسی آسان بھی نہ ہوگی کہ اقلیتوں یا صوبہ جات کے حقوق کو نقصان پہنچ جائے-
‏a11.14
باب ہفتم
مرکزی حکومت کا وقتی انتظام
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس وقت نہ ہندوستان کے حالات اجازت دیتے ہیں کہ حکومتخود اختیاری کے طریق کو پوری طرح ہندوستان کی مرکزی حکومت میں قائم کیا جائے اور نہ نئے انتظام کے ماتحت جب تک صوبہ جات اپنے اپنے علاقہ کے انتظام کو نہ سنبھال لیں` مناسب ہی ہے کہ ایسا کیا جائے اس لئے اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک وقتیحکومت کے قانون کے ڈھانچہ کی بنیاد کن اصول پر رکھنی چاہئے- میرے نزدیک اس نظام کے بناتے ہوئے ہمیں مندرجہ ذیل اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے-:
)۱(
ہم مرکزی حکومت کی بنیاد ایسے اصول پر رکھیں کہ بجائے اس کے کہ کسی وقت اسے بدل کر ایک نیا نظام اس کی جگہ قائم کرنا پڑے ہم اسی میں تغیر پیدا کرتے ہوئے اسے مکمل کر سکیں- کیونکہ جب کبھی ایک بالکل نیا نظام بنایا جاتا ہے تو اس میں کئی قسم کی خامیاں رہ جاتی ہیں جن کے دور کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے لیکن ایک نظام کو درجہ بدرجہ تبدیل کرتے ہوئے مکمل کرنے میں یہ خطرہ نہیں ہوتا-
‏in] gat)[۲(
ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جو نظام بھی قائم ہو اس کے ذریعہ سے ہندوستانیوں کی ایسی تربیت ہوتی جائے کہ جب بھی ان کے ہاتھ میں کام آئے تو وہ اسے سنبھال سکیں-
)۳(
ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ اس نظام میں یہ احتیاط کر لی جائے کہ وہ ہماری اصل سکیم کیلئے مددگار ثابت ہو-
)۴(
اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو مرکزی نظام میں ہندوستانیوں کے دخل کو موجودہ دخل سے کم کر دے کیونکہ اس سے بھی فتنہ کا احتمال ہے اور ڈر ہے کہ طبائع کی بے چینی مقصد کے پورا ہونے میں روک نہ بن جائے-
ان اصول کے ماتحت عارضی مرکزی نظام کیلئے مندرجہ ذیل سکیم کا اختیار کرنا بہتر ہوگا-
)۱( گورنر جنرل
نو آبادی کے درجہ کی حکومتوں میں حکومت کا محور گورنر جنرل ہوتا ہے کیونکہ وہ ملک معظم کا قائم مقام سمجھا جانے کی وجہ سے اس رشتہ اتحاد کی ظاہری کڑی ہوتا ہے جو برطانوی امپائر (EMPIRE) کے مفہوم میں مرکوز ہے- گورنر جنرل کی حیثیت ان نو آبادیات میں جو درمیانی مقام آزادی کے طے کر چکی ہیں کلی طور پر آئینی ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں چونکہ ابھی کچھ مدت تک کامل اختیارات مرکزی اسمبلی کو نہیں دیئے جا سکتے لازماً وہ محفوظ اختیارات ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کو حاصل ہونگے اور بوجہ اس کے گورنر جنرل ایگزیکٹو کا سردار بھی ہوگا اور ملک معظم کا نمائندہ بھی` اس لئے اس کے نام سے وہ اختیارات برتے جائیں گے- لیکن اس کے ساتھ ہی چونکہ وہ ہندوستان کے درجہ نو آبادی کے حصول کے ساتھ ہی ایک آئینی گورنر کی حیثیت میں بدل چکا ہوگا اس لئے میرے نزدیک گورنرجنرل کے اختیارات آئندہ تین قسم میں تقسیم ہونے چاہئیں-
)۱(
وہ اختیارات جو اسے مستقل طور پر حاصل ہونگے یعنی اس زمانہ میں بھی حاصل ہونگے جب کہ عملاً ہندوستان کی حکومت کا ہر حصہ درجہ مستعمرات کی آزادی کو حاصل کر چکا ہوگا- یہ اختیارات وہی ہوں گے جو دوسری نو آبادیوں کے گورنروں کو حاصل ہیں اور گورنر جنرل انہیں انہی قیود کے ساتھ استعمال کر سکے گا جن قیود کے ساتھ کہ نو آبادیوں کے گورنر انہیں استعمال کرتے ہیں-
)۲(
وہ اختیارات جو اسے عارضی طور پر حاصل ہونگے لیکن مرکزی اسمبلی کے برسراقتدار ہونے پر وہ اس کی طرف منتقل ہو جائیں گے جیسے آرڈیننس (ORDINANCE) وغیرہ قسم کے اختیارات یا وزارت مقرر کرنے کے یا اس کے کاموں میں تصرف کرنے کے اختیارات-
)۳(
کوئی ایسے اختیارات جو صوبہ جاتی معاملات کے متعلق اس کے ہاتھ میں کچھ عرصہ کیلئے رکھے جائیں- یہ اختیارات جس وقت ختم ہونگے یا تو باطل ہو جائیں گے یا صوبہ جاتی کونسلوں کے پاس چلے جائیں گے اسمبلی کو حاصل نہیں ہونگے-
اگر اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھا گیا تو لازماً گورنر جنرل کے وقتی اختیارات اسمبلی کے طاقت پکڑنے کے ساتھ ساتھ اس کی نمائندہ وزارت کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور اتحادیت خطرہ میں پڑ جائے گی-
ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ آرڈیننس وغیرہ قسم کے اختیارات بربریت کی علامت ہیں انہیں یک دم مٹا دینا چاہئے لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں- آئرلینڈ کی آزادی کے موقع پر وہ لوگ جنہوں نے انگلستان کے ساتھ سمجھوتے میں حصہ نہیں لیا تھا` انہوں نے اس خیال سے کہ اس طرح ان کے وقار کو صدمہ پہنچا ہے اس سمجھوتے کی قیمت کو کم کر کے دکھانے کی پوری کوشش کی تھی- اور ملک میں ایسے فسادات پیدا کر دیئے تھے کہ جن کی مثال غالباً آزادی سے پہلے زمانہ میں بھی نہیں ملتی- ہندوستان میں بھی یہی صورت پیش آنے والی ہے- وہ لوگ جو رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے مخالف ہیں` اگر انہوں نے دیکھا کہ کانفرنس کامیاب ہو گئی ہے تو اپنی عزت کو خطرہ میں دیکھ کر وہ ہر اک ممکن کوشش ملک میں فساد پیدا کرنے کی کریں گے اور جب تک غیر معمولی طاقت سے ان کا مقابلہ نہ کیا جائے گا` ان کا فتنہ فرو نہ ہو سکے گا- پس اس زمانہ تک کہ حکومت نو آبادیات کے اصول پر خود ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آ جائے غیرمعمولی حالات کے لئے غیر معمولی اختیارات کا گورنر جنرل کے ہاتھ میں رہنا ضروری ہے ورنہ خواہ کسقدر بڑا حصہ آزادی کا ہندوستان کو مل جائے اس کے دشمن اسے تباہ کر کے چھوڑیں گے-
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس وقت سے برطانیہ نے ہندوستان کے لئے درجہمستعمرات کا اعلان کیا` اسی وقت سے اس کے سیاسییں کا نقطئہ نگاہ بدل جائے گا اور وہ ایسے لوگوں کو ہندوستان کا گورنر جنرل کر کے بھیجیں گے کہ جو پوری طرح اسے درجہ مستعمرات کی طرف لے جانے والے ہونگے کیونکہ اس کے بعد خود اس کا فائدہ ہوگا کہ ہندوستان کی خوشنودی کو حاصل کرے- ][ )۲( قانون ساز مجالس
اس وقت ہندوستان میں دو مجلسیں ہیں- ایک اسمبلی (ASSEMBLY) کہلاتی ہے اور دوسری کونسل آف سٹیٹ- اس میں کوئی شک نہیں کہ کونسل آف سٹیٹ (COUNSILOFSTATE) تنفیذ کرنے اور قانون کے اسمبلی میں پاس ہونے اور نافذ ہونے کے درمیان کچھ دیر لگانے کا موجب ہو کر اس بات کا سامان مہیا کر دیتی ہے کہ اگر ملک کو قانون ناپسند ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جا سکے لیکن اتحادی حکومت کے جو اصول ہیں ان کی حفاظت کا مقصد اس سے پورا نہیں ہوتا- اسی طرح اسمبلی کی موجودہ صورت نہ تربیت کا موجب ہوتی ہے نہ ملک کی تسلی کا اس لئے ضرورت ہے کہ دونوں مجالس میں کچھ اصلاح کی جائے تا کہ وہ ان مقاصد کو پورا کر سکیں جن کے لئے انہیں قائم کیا گیا ہے-
اسمبلی
سائمن کمیشن کی رپورٹ ہے کہ )۱( اسمبلی آئندہ فیڈرل اسمبلی (FEDERALASSEMBLY) کہلائے- )۲( اس کے ممبروں کی تعداد اڑھائی سو سے دو سو اسی تک بڑھا دی جائے- )۳( اس کے ممبروں کا انتخاب بجائے براہ راست ہونے کے بالواسطہ ہو یعنی صوبہ جات کی کونسلوں کے ممبر اس کے ممبر منتخب کریں- خواہ اپنے ممبروں میں سے خواہ دوسرے لوگوں میں سے لیکن جس کو بھی وہ چنیں وہ کونسل کا ووٹر ضرور ہو- )۴( ان کا انتخاب >نمائندگی بلحاظ تناسب< کے اصول پر ہو- جس کی وجہ سے ہر اقلیت کو اس کا حق مل جائے گا- )۵( اگر کونسل کا کوئی ممبر اسمبلی کے لئے ممبر چنا جائے تو ضروری نہیں ہوگا کہ وہ کونسل کی ممبری سے استعفی دے- اگر کونسل کے ساتھ اسمبلی میں بھی کام کرنا چاہے تو کر سکتا ہے- )۶( ممبروں کے اخراجات صوبہ جات کے ہی ذمہ ڈالے جائیں گے-
اس تبدیلی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ:-
)۱(
اسمبلی کے ممبروں کی تعداد کو بڑھانے کے باوجود ان کا حلقہ انتخاب بہت بڑا ہوگا اس وجہ سے ممبر اپنے ووٹروں سے تعلق نہیں رکھ سکے گا-
)۲(
اتحادی اصول پر حکومت کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ صوبہ جات کی نمائندگی مرکز میں بہ حیثیت علاقہ کے ہو-
)۳(
عام ہندوستانی مرکزی کاموں کی نگرانی نہیں کر سکتا- جب اسمبلی کے ممبروں کو کونسل کے ممبر منتخب کریں گے جو زیادہ سمجھدار اور پڑھے لکھے ہوتے ہیں تو اسمبلی کے ممبروں کو خیال رہے گا کہ ہمارے کام کی نگرانی کی جا رہی ہے-
اسمبلی کا نام فیڈرل اسمبلی ہو تو اچھا ہے کیونکہ اس سے اسمبلی کے ممبروں کو یہ خیال رہے گا کہ آئندہ ہندوستان کی حکومت اتحادی اصول پر چلائی جائے گی- ممبروں کی تعداد کا بڑھانا بھی ضروری ہے اور میرے نزدیک دو سو اسی )۲۸۰( بھی نہیں تین سو ممبر ہونے چاہئیں بلکہ اگر اس سے بھی بڑھا دیئے جائیں تو کچھ حرج نہیں- ہندوستان سے بہت چھوٹے ممالک کی قانون ساز مجالس کے بہت زیادہ ممبر ہوتے ہیں- پس جس قدر زیادہ ممبر کام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں اتنا ہی اچھا ہے- لیکن اگر چار پانچ سو ممبر سردست بنانے مناسب نہ سمجھے جائیں تو تین ساڑھے تین سو ممبر ضرور ہونے چاہئیں اس سے کم تعداد سے ٹھیک طرح سے ملک کی نمائندگی نہیں ہو سکتی-
سائمن کمیشن کی یہ تجویز ہے کہ اسمبلی کے ممبروں کی تنخواہیں صوبہ جات کے بجٹ سے دی جائیں میرے نزدیک کسی طرح بھی مناسب نہیں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طریق دوسرے ملکوں میں رائج نہیں ہے کہ فیڈرل اخراجات صوبہ جات ادا کریں- گو ان کے اخراجات کو کمیشن نے نان ووٹیبل (NONVOTABLE) رکھا ہے لیکن پھر بھی یہ احساس کہ فیڈرل اسمبلی کے اخراجات مرکز ادا نہیں کرتا بلکہ صوبہ جات ادا کرتے ہیں ان کے درجہ میں تخفیف کر دیتا ہے اور یوں بھی یہی بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ جس جگہ کا کام کیا جائے وہیں سے تنخواہ ملے- جب مرکزی ایگزیکٹو کو مرکز کے بجٹ سے تنخواہ ملے گی تو کیوں مجلس واضعقوانین کے اخراجات مرکزی فنڈ سے نہ ملیں-
اب میں اس سوال کو جو سب سے اہم ہے لیتا ہوں یعنی اسمبلی کے ممبروں کا بالواسطہ طریق سے انتخاب- بعض لوگ اس طریق انتخاب کو دنیا کے مقررہ اصول سے بالکل نرالا دیکھ کر جب حیران رہ جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ طریق محض اس وجہ سے اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ کمیشن نے انگریز ممبروں کی نمائندگی ان کی تعداد سے تین سو گنا زیادہ مقرر کی ہے اور اس قدر قلیل جماعت اپنے میں سے اس قدر ممبر مہیا نہیں کر سکتی کہ وہ دونوں جگہ کام کریں اس لئے کمیشن نے اس طریق کو ایجاد کیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ انگریز ممبر اپنی نمائندگی کے برابر ممبر بھی مہیا نہ کر سکیں اس طرح ایک ہی جماعت کو دونوں جگہ کام کرنے کی اجازت دے کر کمیشن نے اس مشکل کو دور کیا ہے- میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی شخص کی طرف اپنے پاس سے محرکات بنا کر منسوب کریں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عجیب طریق نہ صرف بالکل خلاف عقل ہے بلکہ دنیا کے تجربہ کے بھی خلاف ہے اور جس قدر دلائل اس کی تائید میں دیئے گئے ہیں سب نہایت کمزور اور بودے ہیں-
پہلی دلیل جو کمیشن نے دی ہے یہ ہے کہ بلاواسطہ انتخاب کی صورت میں حلقہ انتخاب اس قدر بڑا ہو جاتا ہے کہ ممبر اپنے منتخب کرنے والوں سے تعلق نہیں رکھ سکتے اور انتخاب میں بہت تکلیف ہوتی ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمبلی کے حلقے بڑے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اتنے بڑے حلقوں میں کوشش کرنا نسبتا مشکل ہوتا ہے- لیکن سوال تو یہ ہے کہ بڑے ملک کے بڑے ہی حلقے ہو سکتے ہیں اور محض بڑے حلقوں کی وجہ سے لوگوں کو ان کے جائز حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا- کمیشن کو صرف انگلستان کے حلقوں کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ دوسرے بڑے بڑے ملکوں کے انتخاب کے حلقوں کو دیکھنا چاہئے- مثلاً آسٹریلین کامن ویلتھ (AUSTRALIANCOMMONWEALTH) کا رقبہ انیس لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو اکاسی مربع میل ہے اور آبادی چون لاکھ پینتیس ہزار ہے- اس کی مجلس میں بہتر )۷۲( ممبر ہیں اور سینٹ میں چھتیس )۳۶-( گویا اسمبلی کا ہر ممبر اوسطا ستائیس ہزار نو سو اسی میل رقبہ کی طرف سے اور پچھترہزار آدمیوں کی طرف سے اور سینٹ کا ہر ممبر پچپن ہزار مربع میل اور ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کی طرف سے ممبر ہوتا ہے- یونائیٹڈ سٹیٹس کا ملک تیس لاکھ چھبیس ہزار نوسواناسی مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے دس کروڑ ہے- ہائوس آف رپریزنٹیٹوز (HOUSEOFREPRESENTATIVES) کے ممبر چار سو پینتیس ہیں اور سینٹ کے چھیانوے- گویا ہر پہلی مجلس کا ممبر قریباً سات ہزار میل مربع کی طرف سے اور ایک لاکھ چوہتر ہزار آدمیوں کی طرف سے ہوتا ہے- اور ہر سینٹر قریباً تیس ہزار میل کی طرف سے اور قریباً تیسلاکھ آدمیوں کی طرف سے نمائندہ ہوتا ہے- اس کے مقابلہ میں ہندوستان کا کل رقبہ اٹھارہ لاکھ پانچ ہزار مربع میل ہے جس میں ریاستوں اور ایجنسیوں کا رقبہ نکال کر کل رقبہ دس لاکھ اکتالیس ہزار مربع میل رہ جاتا ہے- اور ریاستوں کی آبادی منہا کر کے انگریزی علاقہ کی آبادی چوبیس کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ہے- لیکن برما کو چونکہ ہندوستان سے علیحدہ کرنے کی تجویز ہے اس کا دو لاکھ تیس ہزار مربع میل رقبہ اور ایک کروڑ اکتیس لاکھ آبادی نکال کر ہندوستان کا رقبہ آٹھلاکھ گیارہ ہزار مربع میل رہ جائے گا اور آبادی تئیس کروڑ پینتیس لاکھ رہ جائے گی- اب اگر ہندوستان کی اسمبلی کے تین سو ممبر فرض کئے جائیں تو فی ممبر قریباً دو ہزار سات سو مربع میل رقبہ کی طرف سے اور سات لاکھ اٹھہتر ہزار تین سو تینتیس آدمیوں کی طرف سے نمائندہ ہو گا- گویا ہر ممبر یونائیٹڈ سٹیٹس کے ہر ممبر کے مقابلہ میں صرف تیسرے حصہ رقبہ کی طرف سے اور آسٹریلیا کے ہر ممبر سے دسویں حصہ رقبہ کی طرف سے نمائندہ ہو گا- لیکن آبادی کے لحاظ سے اسمبلی کا ہر ممبر یونائیٹڈسٹیٹس کے ممبر کی نسبت چار گنی تعداد کا نمائندہ اور آسٹریلین ممبر کے مقابلہ میں دس گنے زیادہ تعداد کا نمائندہ ہو گا- پس علاقہ کے لحاظ سے یونائیٹڈسٹیٹس اور آسٹریلیا کا ممبر زیادہ وسیع علاقہ کا نمائندہ ہوتا ہے اور آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا ممبر زیادہ لوگوں کا نمائندہ ہو گا- مگر یہ امر ظاہر ہے کہ اصل تکلیف رقبہ کے بڑا ہونے میں ہوتی ہے ورنہ نہ ہر ممبر ہر ووٹر کے پاس جاتا ہے نہ جا سکتا ہے- ضرورت اس کی ہوتی ہے کہ وہ اس علاقہ کے نمائندوں سے تعلق رکھ سکے اور یہ ظاہر ہے کہ جس قدر رقبہ چھوٹا ہو گا ممبر اس میں جلدی پھر سکے گا اور اس میں ہندوستانی ممبر یونائیٹڈسٹیٹس اور آسٹریلیا کے ممبر سے فائدہ میں رہے گا-
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کمیشن کے نزدیک موجودہ انتظام میں اس لئے تغیر کی ضرورت ہے کہ ممبر اپنے علاقہ کے لوگوں سے تعلق نہیں رکھ سکتا- لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ تعلق نہیں رکھ سکتا تو اس وقت اسے ووٹ کیونکر ملتے ہیں- تب تو چاہئے تھا کہ دور کے علاقے اسے ووٹ نہ دیتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر امیدوار کو ہر جگہ کے ووٹ مل جاتے ہیں- اس کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ اس کا علاقہ کے سرکردہ لوگوں کی امداد حاصل کرنا ہے اور یہی صحیح جواب ہے- لیکن اس صورت میں بالواسطہ انتخاب کا مخالف کہہ سکتا ہے کہ جن لوگوں کی وہ امداد حاصل کرتا ہے بہرحال ان سے تو وہ تعلق پیدا کرتا ہے اور کر سکتا ہے- پس کیا ہزار یا دو ہزار آدمی سے جو ملک کے بااثر لوگ ہیں اور جن کے پیچھے ملک کے ووٹر چلتے ہیں تعلق رکھنے والا شخص اس سے بہتر نہیں جو صرف کونسل کے دس یا پندرہ ممبروں سے تعلق رکھتا ہے- دوسرے وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ عام طور پر نمائندہ اسی علاقہ کا رہنے والا ہوتا ہے جس کا وہ باشندہ ہوتا ہے اور ضرور ایک کافی تعداد ووٹروں کی اس کی واقف بھی ہوتی ہے اور اس سے ملنے کا اسے موقع بھی ملتا رہتا ہے لیکن کونسل کا چنا ہوا نمائندہ اگر کونسل کے ممبروں میں سے نہ ہوا تو اسے ان سے ملتے رہنے کا کون سا موقع ملے گا- امرتسر کا نمائندہ امرتسر کے ووٹروں سے تو روزانہ ملنے کا موقع پاتا رہے گا- لیکن لاہور میں بیٹھنے والی کونسل کے ممبروں سے دہلی اور شملہ میں کام کرتے ہوئے اسے ملنے کا کونسا موقع مل سکتا ہے- اسی طرح مثلاً ملتان کا ممبر سارے ضلع میں تو نہیں پھرتا رہے گا لیکن ملتان شہر کے ووٹروں سے اسے روزانہ ہی ملنے کا موقع ملے گا اور ضلع کے لوگ بھی وہاں کام کے لئے آتے رہیں گے ان سے بھی وہ ملتا رہے گا- لیکن کونسل کے جن ممبروں نے اسے منتخب کیا ہو گا ان سے ملنے کا اسے بعض دفعہ سال میں ایک دفعہ بھی موقع نہیں ملے گا اور بالکل ممکن ہے کہ اسمبلی کی ساری عمر میں ہی موقع نہ ملے- پنجاب کے ممبر کو تو شاید شملہ میں کہ جہاں دونوں مجلسیں جمع ہوتی ہیں موقع مل بھی جائے لیکن دوسرے صوبوں کے ممبروں کو دہلی اور شملہ میں کام کرتے ہوئے اپنی مقامی کونسلوں کے ممبروں سے ملنے کا کوئی موقع ہی نہیں ہو سکتا-
غرض جو دلیل کمیشن نے تعلقات کے متعلق دی ہے وہ اس کے خلاف ہے` موید نہیں- بلاواسطہ انتخاب سے اسمبلی کے ممبر کا اپنے علاقہ سے بھی کوئی تعلق نہیں رہے گا اور کونسل سے بھی ہرگز تعلق پیدا نہ ہو گا-
دوسری دلیل کمیشن نے یہ دی ہے کہ جب حکومت اتحادی اصول پر ہو تو علاقوں کے لحاظ سے نمائندگی ضروری ہوتی ہے تاکہ اتحادیت کے اصول کی حفاظت ہو سکے- یہ دلیل بیشک وقیع ہے- اتحادی اصول کی نگرانی کرنے والے لوگ مرکز میں ضرور موجود رہنے چاہئیں لیکن اس کا وہ طریق جو کمیشن نے ایجاد کیا ہے کہیں بھی جاری نہیں ہے- دنیا کی تمام پہلی مجالس ملک کے نمائندوں کی طرف سے چنی جاتی ہیں کوئی فیڈریشن ایسی نہیں کہ جس کی پہلی اسمبلی کے نمائندے صوبہ جات کی طرف سے آتے ہوں- ہاں دوسری مجلس کے ممبر یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ میں ۱۹۱۳ء تک ریاستوں کی مجالس کی طرف سے منتخب ہو کر آتے تھے- اور سوئٹررلینڈ کی بعض کنٹنز (CANTONS) میں اب بھی بجائے بلاواسطہ کے بالواسطہ انتخاب ہوتا ہے مگر صرف دوسری مجلس کے لئے پہلی مجلس کے لئے نہیں- لیکن کمیشن یہ مشورہ دیتا ہے کہ دنیا کے دستور کے خلاف پہلی مجلس کو علاقوں کا نمائندہ بنایا جائے- حالانکہ اتحادی حکومت کا اصول یہ ہے کہ مرکز میں دونوں حصوں کے نمائندے ہونے چاہئیں علاقوں کے بھی- اور افراد ملک کے بھی اور اس کا صرف ایک ہی طریق دنیا میں اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ پہلی مجلس کو جو زیادہ اختیار رکھتی ہے افراد کا نمائندہ بنایا جاتا ہے اور دوسری مجلس کو جو کم اختیارات رکھتی ہے علاقوں کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے- جس کی یہ وجہ ہے کہ اصل حکومت کا حق افراد کے ہاتھ میں سمجھا جاتا ہے اور علاقوں کو صرف اقلیتوں کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے دوسری مجلس کے اختیارات حفاظتی تدابیر تک محدود رکھے جاتے ہیں اور پہلی مجلس کو اصل قانون ساز مجلس سمجھا جاتا ہے- لیکن کمیشن تمام اصول سیاست تمام اصول انصاف اور تمام دنیا کے تجربوں کے خلاف یہ عجیب مشورہ دیتا ہے کہ اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ دونوں کا انتخاب صوبہ جات کی کونسلیں کریں- جب ایک ہی منتخب کرنے والے ہونگے تو دو قسم کی مجالس کا فائدہ کیا ہے- پھر لطف یہ ہے کہ کمیشن اس امر کی بھی امید رکھتا ہے کہ کونسل آف سٹیٹ میں زیادہ قابلیت کے آدمی مثلاً سابق وزراء` سابق جج` اعلیٰ عہدہ دار وغیرہ لانے چاہئیں اور وہ اس طرح کہ اس کی ممبری کی شرائط ایسی رکھی جائیں کہ اسی قسم کے لوگ آ سکیں- لیکن کمیشن نے اس امر کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ صرف ایک ہی کونسل آف سٹیٹ دنیا میں ایسی ہے کہ جس کے ووٹر اور اسمبلی کے ووٹر ایک ہی ہوتے ہیں- لیکن یہ دوسری مجلس اپنے مقصد کے پورا کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور وہ آسٹریلیا کی دوسری مجلس ہے- لیکن چونکہ اختیارات اور فائدہ پہلی مجلس میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے آسٹریلیا کے تمام قابل لوگ اسی کی ممبری کی کوشش کرتے ہیں- باقی سب دنیا کی مجالس میں دونوں مجلسوں کے ووٹروں کی قابلیتیں الگ الگ رکھی جاتی ہیں یا دوسری مجالس کو بعض خاص اختیارات دیئے جاتے ہیں کہ تا قابل لوگ ادھر متوجہ ہوں- مگر جہاں یہ دونوں صورتیں نہ ہوں وہاں یہ امید کرنا کہ قابل امیدوار کام کا اچھا میدان چھوڑ کر اور اسمبلی کے امیدواروں کے برابر تکلیف اٹھا کر کونسل آف سٹیٹ میں جائیں گے ایک ایسی خلاف عقل بات ہے جسے کوئی عقل مند تسلیم نہیں کر سکتا اور کمیشن کے تجویز کردہ اصل پر اگر کام ہوا تو ہندوستان کی کونسل آف سٹیٹ میں وہی لوگ جائیں گے جو یا تو اسمبلی کے انتخاب سے مایوس ہو چکے ہوں گے یا جن کی غرض صرف کسی نہ کسی ملکی مجلس کا ممبر کہلانا ہو گی-
سائمن کمیشن نے اس امر کو بھی بالکل نظر انداز کر دیا ہے کہ دنیا کے تجربہ کردہ سیاسی اصول کے مطابق اتحادی طرز کی حکومت کے مرکز میں صرف علاقوں کے نمائندے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ افراد اور علاقوں دونوں کے نمائندے ہونے چاہئیں کیونکہ مرکزی حکومت کا کام صرف ایسے قوانین پاس کرنا نہیں جن کا تعلق علاقوں سے ہو بلکہ وہ ایسے قوانین بھی پاس کرتی ہے جو افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں- پس دونوں کے نمائندے اس میں ہونے چاہئیں تاکہ دونوں کے حقوق محفوظ رہیں- لیکن کمیشن نے افراد کی نمائندگی کو بالکل اڑا دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی قابل وقعت نظام میں نہیں ملتی اور اس امر کو بھی نظر انداز کر دیا ہے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد یونائیٹڈ سٹیٹس میں ۳۱-مئی ۱۹۱۳ء کو سترھویں اصلاح کے ذریعہ سے دوسری مجلس کے انتخاب بھی براہ راست کر دیئے گئے ہیں- پس جب کہ دوسری دنیا تجربہ کے بعد دوسری مجالس کے انتخاب بھی بلاواسطہ کر رہی ہے سائمن کمیشن ہندوستان کے لئے دونوں مجالس کے انتخاب بالواسطہ تجویز کرتا ہے-
تیسری دلیل کمیشن نے یہ دی ہے کہ عام ہندوستانی اسمبلی کے کاموں کی نگرانی نہیں کر سکتے- لیکن جب کونسل کے ممبر ہی اسمبلی کے ممبروں کو منتخب کریں گے تو انہیں خیال رہے گا کہ ہماری بھی کوئی نگرانی کر رہا ہے- یہ دلیل بھی اوپر کی دلیلوں کی طرح کمزور ہے کیونکہ کونسلوں کے ذریعہ سے انتخاب کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نگرانی اور بھی کم رہ جائے گی کیونکہ کونسلوں میں منتخب ہونے والوں کا نقطہ نگاہ بالکل اور ہوتا ہے اور اسمبلی میں منتخب ہونے والوں کا اور- کونسلوں کے ممبروں سے بہت زیادہ نگرانی وہ لوگ کر سکتے ہیں کہ جن کو مرکزی امور سے دلچسپی ہو- چنانچہ اس کا روزانہ تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ اسمبلی میں پیش ہونے والے معاملات کی طرف جب کہ کونسلوں کے ممبروں کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی عام پبلک میں سے ایک طبقہ میں اس کے متعلق ہیجان پیدا ہو رہا ہوتا ہے-
علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پروپورشنل ریپریزنٹیشن سسٹم (PROPORTIONALREPRESENTATIONSYSTEM) کے مطابق وہی قوم اپنے نمائندے بھیج سکتی ہے جس کے امیدوار اس کے ووٹوں کے مطابق کھڑے ہوں- اگر ووٹر زیادہ ہو جائیں تو اس قوم کی نمائندگی کم ہو جاتی ہے- اب ہم فرض کرتے ہیں کہ پنجاب کونسل سے نمائندے چنے جانے لگے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ اسمبلی کے لئے کل تیس ممبروں کا انتخاب صوبہ کی طرف سے ہونا ہے- پس بوجہ مسلمانوں کی آبادی پچپن فیصدی ہونے کے ان کے حصہ میں سولہ ممبریاں آنی چاہئیں لیکن مسلمانوں میں سے کچھ >زمیندارپارٹی< میں ہیں اور کچھ >نیشنلپارٹی< میں جس میں ہندو ممبروں کی تعداد زیادہ ہے- اب یہ انتخاب کس اصول پر ہو گا- کیا مسلمان مسلمان کو ووٹ دیں گے یا اپنی پارٹی کے ساتھ ووٹ دیں گے- اگر پارٹی کے ساتھ دیں گے تو مسلمان نمائندوں کی تعداد کم ہو جائے گی اور اگر اپنی پارٹی کے مخالف امیدوار کو دیں گے کیونکہ وہ مسلمان ہے تو ایک تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ مخلوطانتخاب کے ذریعہ سے ہم بجائے سیاسی اصول کی قیمت بڑھانے کے اس کی قیمت کو کم کر دیں گے کیونکہ محض اس خوف سے کہ میرے ہم مذہبوں کے نمائندے کم نہ ہو جائیں ایک شخص اپنے سیاسی خیالات کو قربان کر دینے پر مجبور ہو گا- دوسرے اس طریق سے چنے ہوئے اسمبلی کے ممبر کی نگرانی بالکل نہ رہے گی- کیونکہ جس امیدوار کو اس کے مخالف الخیال شخص نے صرف اس کے مذہب کی وجہ سے ووٹ دیا ہو گا وہ اس کی نگرانی کیونکر کر سکے گا- اسے تو امیدوار جواب دے گا کہ میاں تم نے اپنے ہممذہب کے نمائندوں کی تعداد پوری کرنے کے لئے ووٹ دیا تھا میں نے کب تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری پالیسی کی اتباع کروں گا- لیکن جو شخص جداگانہ انتخاب میں اپنے ہم مذہب کے مقابلہ میں جیتے گا اس کے ووٹر اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیوں ان کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتا- پس کمیشن کی تجویز پر عمل کر کے نگرانی ہرگز نہیں بڑھے گی بلکہ کم ہو گی-
کمیشن کے دلائل کو رد کرنے کے بعد میں چند اور دلائل دیتا ہوں- جن کی بناء پر میرے نزدیک بالواسطہ انتخاب کا طریق نہایت خطرناک ہے اور خصوصاً مسلمانوں کے فوائد کے تو بالکل ہی خلاف ہے-
)۱( سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں سے حکومت کا وعدہ ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر مخلوط انتخاب کو جاری نہیں کیا جائے گا اور اس وعدہ میں ہرگز کوئی شرط نہیں ہے کہ کونسلوں میں ان کو یہ حق ہو گا اسمبلی میں نہیں ہو گا- پس >انتخاب مطابق تعداد< جس کے معنی مخلوط انتخاب کے ہیں کسی صورت میں بھی مسلمانوں کی مرضی کے برخلاف جاری نہیں کیا جا سکتا اور اگر مسلمانوں کے نمائندے رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں اس کو تسلیم بھی کر آئے تب بھی مسلمان پبلک اس کو ہرگز نہیں مانے گی- کیونکہ وہ بحیثیت جماعت اس اصل کو فوراً جاری کرنے کے سخت مخالف ہے اور اگر سائمن رپورٹ کی اس تجویز کی وہ مخالفت نہیں ہوئی جو نہرورپورٹ کی ہوئی تھی تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عام طور پر مسلمان اس طریق انتخاب کو سمجھتے نہیں- وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ممبر مسلمان امیدواروں کو ووٹ دیں گے اور ہندو ہندوئوں کو- لیکن جس وقت مسلمان پبلک کو یہ معلوم ہوا جیسا کہ اب میری کتاب کے شائع ہونے پر ہو جائے گا کہ اس انتخاب کے معنی مخلوطانتخاب کے ہیں تو مسلمان ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی مخالفت کریں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ اسمبلی میں مخلوطانتخاب کا دروازہ کھول کر مسلمان کونسلوں میں بھی اپنے اس حق کو اصولاً کھو بیٹھتے ہیں-
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے مخلوط انتخاب میں وہ نقائص نہیں ہیں کہ جو عام مخلوط انتخاب میں ہیں کیونکہ اس میں ہر مذہب کے افراد مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے آدمیوں کو ووٹ دیں ورنہ ان کے اپنے ممبر کم ہو جائیں گے- لیکن یہ جواب درست نہیں کیونکہ اس طریق انتخاب کی رو سے بھی دوسری پارٹی کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس طریق انتخاب میں کسی جماعت کے عدد میں جو زائد کسر ہو اس کی امداد سے وہ دوسرے مذہب کے بعض اپنے زیر اثر آدمیوں کو ممبر کروا سکتے ہیں- اس طرح ان کی کسر بالواسطہ طور پر ان کے کام آ جائے گی اور دوسرے مذہب کی نمائندگی کمزور ہو جائے گی- پس یہ درست نہیں کہ اس صورت میں مسلمان کو خطرہ نہیں اس میں بھی ویسے ہی خطرات ہیں جیسے کہ عام مخلوط انتخاب میں-
علاوہ ازیں جہاں مسلمان بہت کم ہیں وہاں اس اصول کے ماتحت ان کے حقوق انہیں نہیں مل سکیں گے- مثلاً صوبہ جات وسطی میں مسلمانوں کی آبادی کل چار فیصدی ہے- گو ان کے ممبروں کی تعداد ۶۰ء۹ ہے- اب اگر فرض کر لیا جائے کہ اس صوبہ سے دس ممبر مرکزیانجمن کے لئے چنے جائیں گے تو اس صوبہ سے ایک بھی مسلمان نہیں چنا جا سکے گا- اسی طرح اور کئی جگہ پر تھوڑی تھوڑی کسر کی وجہ سے مسلمانوں کا سالم ممبر جاتا رہے گا- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوئوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ اسی بنیاد پر تو مخلوط انتخاب ہندو مانگ رہے ہیں کہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں` زیادہ مالدار ہیں` زیادہ تجربہ کار ہیں اور مسلمان ان کے مقروض ہونے کے سبب سے بہت کچھ ان کے زیر اثر رہتے ہیں- پس یہ امید کرنا کہ اس مخلوط انتخاب سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچے گا درست نہیں بلکہ یہ یقینی بات ہے کہ ہندو مالی دبائو سے بھی اور مسلمانوں کو پھاڑ کر بھی اسلامی نمائندگی کو کم کر دیں گے- یا پھر ایسے لوگوں کو نمائندہ بنائیں گے جو صحیح معنوں میں مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہو نگے- میں نے پنجاب کونسل کے بعض ممبروں سے سنا ہے کہ یہ طریق اچھا ہے اس سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ اس ذریعہ سے ہمارا حق مل جایا کرتا ہے- لیکن اس امر کی موجودگی میں کہ سائمن کمیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لئے جو صوبہ کی کمیٹی اسی اصل کے مطابق چنی گئی تھی اس میں دو مسلمان` تین ہندو اور ایک سکھ اور ایک انگریز چنا گیا تھا- کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ذریعہ کامیاب ہے- نیز مسلمانوں کا تجربہ پنجاب میں مذہب کی بناء پر نمائندگی کا نہیں ہے بلکہ زمیندار پارٹی کے لحاظ سے ہے اور اس میں شک نہیں کہ پارٹیوں کو ایک حد تک اپنی تعداد کے مطابق >انتخاب مطابق تعداد< کے اصول پر ان کا حق مل جاتا ہے- لیکن مذہب کی بناء پر جس قوم کو نمائندگی کا دعویٰ ہو اس کا حق محفوظ نہیں ہوتا- کیونکہ ایک مذہب کے آدمی ضروری نہیں کہ سیاسی طور پر بھی ایک ہی خیال کے ہوں- اور جب سیاسی اختلاف ہو تو یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ انسان صرف اس وجہ سے ایک امیدوار کو ووٹ دے کہ وہ اس کا ہم مذہب ہے-
دوسری دلیل اس طریق نمائندگی کے خلاف یہ ہے کہ اس سے حلقہ انتخاب بہت محدود ہو جاتا ہے یعنی مختلف صوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سو سے تین سو تک ممبر ہونگے جو اسمبلی کے نمائندے چنیں گے اور اس قدر قلیل تعداد ووٹروں کی ہو تو دوستیاں بھی اور رشوتیں بھی بہت اثر کرتی ہیں- پس یہ طریق انتخاب اخلاقی بگاڑ کا زیادہ موجب ہوگا- جب حلقہ وسیع ہو` تب بھی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن نہ کوئی انسان ہزاروں آدمیوں سے دوستانہ طور پر ووٹ لے سکتا ہے اور نہ ان کو لالچ دے سکتا ہے-
تیسرے کونسلوں اور اسمبلی کے فرائض بالکل جدا گانہ ہونگے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہی شخص کے ذریعہ سے دونوں امور کا ملک خیال رکھ سکے نتیجہ یہ ہوگا کہ اسمبلی کبھی بھی ملک کی صحیح نمائندہ نہیں ہوگی- یہ امر بالکل عقل میں نہیں آ سکتا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں مقامی اور مرکزی دونوں مجالس کی ضروریات کو ملک کے سامنے پیش کر سکے گا اور وہ کر بھی کب سکتا ہے جب کہ وہ خود دوسری مجلس کا امیدوار ہی نہیں- اور اگر کوئی امیدوار ہو بھی تو بھی وہ بسااوقات اپنے خیالات اسمبلی کے کام کے متعلق ظاہر نہیں کر سکے گا کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ اس کے خیالات مقامی کونسل کے کاموں کے متعلق تو اپنے علاقہ کے اکثر ووٹروں سے متفق ہوں لیکن اسمبلی کے معاملات کے متعلق مختلف ہوں- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ وہ اپنے اس اختلاف کو ظاہر کر کے اپنے انتخاب کے مواقع کو خراب کر لے گا؟ اور اگر وہ ظاہر بھی کرے تو اکثر ووٹر ایسے ہوں گے کہ اگر مقامی اور مرکزی سوالوں کا مقابلہ آ پڑے تو وہ مقامی سوال کو ترجیح دیں گے- پس اگر ایک مقامی کونسل کا مناسب امیدوار مرکزی امور میں خلاف رائے بھی رکھتا ہو تب بھی بہت سے ووٹر مقامی معاملات کے اتحاد کی وجہ سے اسی کے حق میں رائے دیں گے اور اس طرح اسمبلی ملک کی نمائندگی سے بالکل محروم رہ جائے گی اور صرف اس وجہ سے کہ مقامی کونسلوں کے ممبر اس کے ممبروں کا انتخاب کریں گے اسے ملک کا نمائندہ کہنا درست نہ ہوگا- اور کوئی شخص جو سیاسیات کے مبادی سے بھی واقف ہے اس طرح منتخب ہونے والی اسمبلی کو ملک کی نمائندہ اسمبلی نہیں کہہ سکے گا- ہندوستان تو ابھی تعلیم میں بہت پیچھے ہے مہذب ملکوں کا ابھی تک یہ حال ہے کہ لوکل معاملات کو لوگ مقدم رکھتے ہیں- چنانچہ میرے سفر انگلستان کے موقع پر ایک با اثر کانسر ویٹو ممبر پارلیمنٹ (CONSERVATIVEMEMBERPARLIAMENT) نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے یہاں اس قدر اس شخص کے سیاسی خیالوں کو نہیں دیکھا جاتا جس قدر اس امر کو کہ اس نے اپنے حلقہانتخاب کے لوگوں کے لئے کیا کیا ہے- اگر کوئی اپنے حلقہ کے لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوا ہو تو پھر بہت سے لوگ جو سیاسی اصول کی طرف سے بے پرواہ ہوتے ہیں اسے ووٹ دے دیتے ہیں- پس جب اس ملک میں جس میں اس قدر عرصہ سے نمائندہ حکومت چلی آ رہی ہے لوگوں کا یہ حال ہے تو ہندوستان کا کیا حال ہوگا-
چوتھا نقص اس طریق انتخاب سے یہ پیدا ہوگا کہ چونکہ کونسلوں کے ممبروں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ممبروں کو بھی اسمبلی کے لئے چن سکتے ہیں اور ایسے چنے ہوئے ممبر چاہیں تو دونوں مجالس کے ممبر رہ سکتے ہیں اکثر ایسا ہی ہوگا کہ ممبر آپس میں ہی ایک دوسرے کو اسمبلی کے لئے چن لیں گے اور پھر وہ دونوں عزتوں کو جمع رکھنے کے لئے دونوں ہی مجالس کے ممبر رہیں گے- جس سے یہ نقص پیدا ہو جائے گا کہ تمام حکومت دھڑا بندی کے اثر کے نیچے آ جائے گی اور لانگ پارلیمنٹ (LONGPARLIAMENT) کے ممبروں کی طرح ملک کا سب اختیار ایک خاص پارٹی کے قبضہ میں آ جائے گا- اور پھر ایک ہی وقت اگر اجلاس ہونگے اور ضرور اکثر اوقات ایسا ہی ہوگا تو دونوں مجالس یعنی صوبوں کی اور مرکزی نقصان اٹھائیں گی کیونکہ نہ ممبر اس طرف توجہ دے سکیں گے اور نہ اس طرف- اگر یہ شرط بھی کر دی جائے کہ جو صوبہ کی کونسل کا ممبر اسمبلی کے لئے چنا جائے وہ کونسل سے استعفیٰ دے دے تو پھر ہر انتخاب کے موقع پر فوراً ہی ایک معقول تعداد کے حلقوں میں ان لوگوں کی جگہ پر کرنے کے لئے دوبارا انتخاب کرنا پڑے گا جسے لوگ قدرتاً ناپسند کرتے ہیں-
غرض یہ طریق انتخاب نہ صرف خلاف عقل ہے اور اصول سیاست کے مخالف ہے ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے خصوصاً اور ملک کے لئے عموماً سخت مضر ہے- اس سے مرکزی حکومت بھی بہت کمزور ہو جائے گی اور یقیناً درجہ نو آبادیات کے حصول میں دیر واقع ہو گئی- پس اسمبلی کا انتخاب براہ راست پبلک کی طرف سے ہونا چاہئے اور اس میں مسلمانوں کا حق جداگانہ انتخاب کا قائم رہنا چاہئے-
میں اس موقع پر یہ امر بھی بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ اسمبلی میں مقامی کونسلوں کی نمائندگی کی تجویز سب سے پہلے میری طرف سے ہی سائمن کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھی- چنانچہ احمدیہ جماعت کی طرف سے جو میمورنڈم (MEMORANDUM) سائمن کمیشن کو بھیجا گیا تھا اس کے یہ الفاظ ہیں-
>علاوہ ازیں ہماری رائے میں یہ مناسب ہے کہ صوبہ جاتی کونسلوں کو مرکزیمجالس میں نیابت حاصل ہو کیونکہ اس سے فیڈریشن کے صحیح نشوونما میں مدد مل سکتی ہے- اس سے یقیناً صوبہ جاتی کونسلوں اور مرکزی اسمبلی میں زیادہ رابطہواتحاد پیدا ہو جائے گا جو دونوں کے لئے مفید ہو گا<- ۶۴~}~
میری اس رائے کو پنجاب سائمن کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں شامل کر لیا- پس اس خیال کا بانی میں ہی ہوں لیکن باوجود اس کے میں سائمن کمیشن کی سفارش کا مخالف ہوں- اس لئے کہ میری سفارش اس اصل پر مبنی تھی کہ-:
)۱(
کونسل آف سٹیٹ کی موجودہ شکل بے اصول ہے اس کو توڑ دیا جائے اور اس کی جگہ اسمبلی میں ایک حد تک کونسلوں کو نمائندگی دے کر دونوں ضرورتیں اسمبلی میں پوری کر لی جائیں-
)۲(
سب ممبر نہیں بلکہ کچھ ممبر کونسلوں سے لئے جائیں- باقی براہ راست منتخب ہوں- پس میری سفارش سیاسی اصول پر مبنی تھی لیکن سائمن کمیشن کی سفارش کسی اصل پر مبنی نہیں- اس نے کونسل آف سٹیٹ کو بھی قائم رکھا ہے اور اسمبلی کے قریباً سب ممبر کونسلوں سے بھیجنے کی سفارش کی ہے-
کونسل آف سٹیٹ
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کونسل آف سٹیٹ کی موجودہ شکل بالکل غیراصولی ہے- اس کا کوئی خاص کام نہیں جس کی وجہ سے اسے قائم رکھا جائے- اس وجہ سے میری رائے شروع سے یہ رہی ہے کہ اگر اس کی صورت بدلی نہ جائے تو اس کو توڑ دیا جائے- سائمن کمیشن نے اس میں کچھ اصلاح کی ہے لیکن ویسی ہی صورت اسمبلی کے متعلق پیدا کر کے بھی اس کی غرض کو باطل کر دیا ہے- پس میرے نزدیک ضرورت ہے کہ اسمبلی کی نشستیں تو براہ راست انتخاب کے ذریعہ سے پر کی جائیں اور کونسل آف سٹیٹ کا انتخاب اس سے مختلف ہو- میں اس کے لئے مندرجہ ذیل تجویز پیش کرتا ہوں-
)۱(
کونسل آف سٹیٹ کے ممبر اسمبلی سے ایک تہائی ہوا کریں-
)۲(
ان میں سے ۵/۴ ممبر صوبہ جات کی کونسلیں منتخب کیا کریں اور ۱۰/۱ ممبر گورنر جنرل انکونسل COUNCIL) IN GENERAL (GOVERNOR ایسے لوگوں میں سے جنہوں نے علمی یا عملی خدمت ملک کی کی ہو یا زمیندارہ` تجارت وغیرہ خاص مفاد کی نیابت کرنے والے لوگوں میں سے نامزد کریں- ان نامزد شدہ ممبروں میں قومی توازن کو قائم رکھا جائے- کونسلوں کی نمائندگی علاقہ کے اصول پر ہو اور ہر ایک صوبہ خواہ بڑا ہو` خواہ چھوٹا ہو اسے برابر کے ممبر بھیجنے کا اختیار ہو- ووٹنگ واحد قابل انتقال ووٹ کے اصول پر ہو- اگر اسے کسی وجہ سے پسند نہ کیا جائے تو >انتخاب مطابق تعداد< کے طریق کو اختیار کر لیا جائے- لیکن میرے نزدیک اقلیتوں کے فوائد کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے پہلا طریق زیادہ مفید ہو گا- مگر یہ امور مختلف اقوام کے نمائندے بحث کے بعد بہتر طور پر طے کر سکتے ہیں-
شاید اس پر اعتراض ہو کہ اب کیوں میں نے مخلوط انتخاب کے طریق کو پسند کر لیا ہے- تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری مجلس کا انتخاب علاقہ کے اصول پر ہوتا ہے اور پہلی کا افراد پر- اس لئے پہلی چیمبر کے انتخاب پر جو افراد کی نمائندہ تھی مجھے اعتراض تھا- دوسری چونکہ افراد کی نمائندہ ہی نہیں ہے- اس میں مخلوط انتخاب پر مجھے اعتراض نہیں- گو >انتخاب مطابق تعداد< پر اعتراض ہے کیونکہ اس طرح اسلامی صوبوں کے الگ بنانے میں جو زائد حفاظت مسلمانوں کے حقوق کی مدنظر رکھی گئی تھی وہ کمزور ہو جائے گی-
جو ممبر گورنر جنرل نامزد کریں ان کے متعلق انہیں اختیار ہو کہ خواہ ایک عرصہ انتخاب کے لئے منتخب کریں خواہ عمر بھر کے لئے مقرر کریں کیونکہ کچھ لائف ممبروں کا مقرر ہونا بھی ایسی کونسل میں مفید ہوتا ہے- اس سے قومی کاموں میں خاص طور پر حصہ لینے کا شوق بھی لوگوں میں پیدا ہو گا کیونکہ سمجھا جائے گا کہ خاص خدمت کرنے والوں کو ملک میں دائمی حق نیابت کی صورت میں اعزاز دیا جاتا ہے-
‏]ni )[tag۳(
کونسل آف سٹیٹ کی عمر سات سال ہوا کرے تاکہ جس وقت اسمبلی کا انتخاب ہو رہا ہو ایک مجلس ایگزیکٹو مدد دینے کے لئے موجود رہے-
قانون ساز مجالس کے اختیارات
میں یہ پہلے بتا چکا ہوں کہ قانون اساسی کے طے ہونے کے فوراً بعد مرکز میں اس پر عمل شروع نہ ہو بلکہ ایک وقتی انتظام پہلے قائم کیا جائے جو حسب قوانین تبدیل ہوتا ہوا قانون اساسی کے مطابق ہو جائے اس لئے جو کچھ میں اب لکھوں گا وہ اس امر کو مدنظر رکھ کر ہو گا کہ پہلی اسمبلی جو نئے نظام کے ماتحت منتخب ہو اس کے کیا اختیارات ہوں-
میرے نزدیک یہ مناسب نہیں کہ فوراً ہی ایگزیکٹو کو اسمبلی کے تابع کر دیا جائے- اس لئے میرے نزدیک مناسب یہ ہو گا کہ چند سال تک موجودہ تعلق اسمبلی اور ایگزیکٹو کا بہت حد تک قائم رکھا جائے- لیکن اس امر کا خیال رکھتے ہوئے کہ آئندہ حکومت خود اختیاری اصول پر چلائی جائے گی مندرجہ ذیل تغیر کر دیئے جائیں-
)۱(
اسمبلی کو آئندہ مالی معاملات میں پوری آزادی ہو اور اس کا فیصلہ اس امر میں ناطق ہو سوائے اس کے کہ گورنر جنرل کسی امر کو ملک کے مفاد کے خلاف دیکھ کر رد کر دیں- مالیبل جس قدر پیش ہوں ان کی اصلاح کا بھی اسمبلی کو اختیار ہو اور بغیر اس کی اجازت کے بل کو واپس لینے کا حکومت کو اختیار نہ ہو-
)۲(
اس وقتی نظام کے دوران میں اگر دونوں مرکزی مجالس تین چوتھائی کی کثرت سے کوئی فیصلہ کر دیں تو گورنمنٹ اس پر عمل کرنے کی پابند ہو- بشرطیکہ وہ امر کانسٹی چیوشن (CONSTITUTION) یا ایگزیکٹو (EXECUTIVE) کے اختیارات یا نان ووٹیبل (NONVOTABLE) امور سے تعلق نہ رکھتا ہو- گورنر جنرل کو بھی اس فیصلہ کو رد کرنے کا اختیار نہ ہو- صرف یہ اختیار ہو کہ وہ پہلے دونوں مجالس کے پاس اس فیصلہ کو واپس کریں اور دوبارہ غور کرنے کی ہدایت کریں اور اس کی وجوہ بیان کر دیں- اگر دونوں مجالس ان کی مرضی کے مطابق اصلاح کر دیں تو فبہا` ورنہ اگر اصلاح نہ ہو یا مرضی کے مطابق نہ ہو اور گورنر جنرل یہ سمجھیں کہ اس فیصلہ کا اجراء خطرناک ہے تو وہ دونوں مجالس کو برخاست کر کے نئی مجالس کا انتخاب کرائیں اور اس وقت تک اس فیصلہ کو ملتوی رکھیں- اگر دوسری منتخب شدہ مجالس بھی تین چوتھائی کی اکثریت سے اس فیصلہ کی تائید کریں تو پھر بہر حال اس کا اجراء کیا جائے-
)۳(
چونکہ یہ امر بھی ضروری ہے کہ ملکی عنصر کو حکومت کے طریق سے آگاہ کیا جائے اور ایک حد تک اس کا اثر ایگزیکٹو پر بھی ہو- دوسری طرف یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈائیآرکی (DIARCHY) کی موجودہ صورت کو جو فی الواقع مضر ہے دور کیا جائے اس لئے میرے نزدیک ایک درمیانی تجویز یہ مناسب ہو گی کہ ہر انتخاب کے بعد اسمبلی کے ممبر کونسل آف سٹیٹ کے ممبروں سے مل کر تیس آدمیوں کی ایک فہرست تیار کر کے گورنر جنرل کے پاس بھیج دیا کریں جو ان میں سے چند آدمیوں کو منتخب کر کے ان میں سے ایک ایک کو ہر ایگزیکٹو ممبر کے ساتھ پارلیمنٹری سیکرٹری کے طور پر لگا دیں- یہ سیکرٹری تنخواہ دار ہوں اور اسی طرح ڈسپلن کے پابند ہوں جس طرح دوسرے ملازم ہوتے ہیں اور ان کا فرض ہو کہ وہ محکمہ کی پالیسی کی پابندی کریں اور اس کے رازوں کو محفوظ رکھیں اور پورے طور پر اپنے افسر اور گورنر جنرل کے سامنے جوابدہ ہوں نہ کہ اسمبلی کے سامنے- ان کے ساتھ ایک مستقل آفیشل سیکرٹری بھی ہو لیکن یہ فرق نہ کیا جائے کہ چند محکمے مستقل طور پر ان منتخب سیکرٹریوں کے لئے مخصوص کر دیئے جائیں بلکہ دونوں سیکرٹریوں کے جو کام سپرد ہو ان پر باری باری منتخب اور مستقل کارکن لگتے رہیں تاکہ محکمہ کی تمام شاخوں کا منتخب سیکرٹریوں کو علم اور تجربہ ہوتا رہے- اسمبلی کے برخاست ہونے یا کئے جانے پر یہ لوگ بھی کام سے علیحدہ ہو جائیں- اور پھر نئے انتخاب پر نیا پینل تیار ہو جس سے گورنر جنرل نئے وزراء کا انتخاب کریں لیکن اسمبلی کے برخاست ہونے سے پہلے انہیں گورنر جنرل تو علیحدہ کر سکیں لیکن اسمبلی ان کے خلاف کوئی ووٹ پاس نہ کر سکے- اس طرح ایک تو ایگزیکٹو اپنا کام بغیر کسی قسم کی روک کے کر سکے گی دوسرے ایسے لوگ حکومت کا کام کرنے کی مشق پیدا کر لیں گے جن پر مجالس قانون ساز کو اعتبار ہو گا- تیسرے وہ لوگ جو سیکرٹری مقرر ہوں گے باوجود ایگزیکٹو کا جزو ہونے کے بوجہ منتخب مجالس میں سے آنے کے ملک کی صحیح ترجمانی ایگزیکٹو مشوروں کے وقت کر سکیں گے- اورایگزیکٹو پر اپنا اخلاقی اثر ڈال کر اسے ایک حد تک مجالس کے منشاء کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو سکیں گے- چوتھے یہ لوگ گورنمنٹ کے لئے بھی مفید ہوں گے کیونکہ بوجہ مختلف پارٹیوں کا نمائندہ ہونے کے اس پر ان کا اثر ہو گا اور منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو کے درمیان میں بطور ایک واسطہ کے بن جائیں گے کیونکہ ایک طرف ان کے سامنے حکومت کی مشکلات ہوں گی اور دوسری طرف پبلک کی خواہشات-
)۴(
چوتھے بعض محکمے ایسے نامزد کر دیئے جائیں- جیسے کہ مثلاً تعلیم ہے` حفظان صحت ہے` صنعت و حرفت ہے کہ ان محکموں کے متعلق اسمبلی کو حق ہو کہ وہ سال کے شروع میں ایک عام ہدایت طریق کار کے متعلق دے دیں اور وہ محکمے اس ہدایت کی حتی الوسع پابندی کریں- حتی الوسع سے مراد یہ کہ جب خاص وجوہ سے عمل نہ ہو سکتا ہو تب اسمبلی کے منشاء کے خلاف عمل ہو- ورنہ اسی کے مطابق ہو مجھے معلوم ہے کہ یہ محکمے اصل میں صوبہ جاتی ہیں لیکن کچھ کام ان کے ماتحت مرکز سے بھی متعلق ہے- نیز میں نے ان کا ذکر صرف بطور مثال کے کیا ہے ورنہ اگر یہ مناسب نہ ہوں تو اور ایسے محکمے اس غرض کے لئے چنے جا سکتے ہیں-
)۵(
فوج` فارن اور پولیٹیکل معاملات کے متعلق اسمبلی کو ریزولیوشن پاس کرنے کی اجازت نہ ہو عام اظہار رائے کر سکتی ہے-
کونسل آف سٹیٹ کا کام علاوہ پینل تجویز کرنے کے یہ ہو-:
)۱(
اسمبلی کے پاس شدہ مسودات پر نظر ثانی جس کے بعد مسودہ پھر پہلی مجلس میں جائے- اگر اسمبلی سفارشوں کو منظور کر لے تو فبہا اگر منظور نہ کرے تو دونوں مجلسوں کی جائنٹکمیٹی کے سپرد ہو- اگر پھر بھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے اور اسمبلی ساٹھ فیصدی حقیقیاکثریت سے اسے دوبارہ پاس کر دے تو وہ پاس شدہ سمجھا جائے ورنہ رد ہو جائے- لیکن نیا مسودہ پاس کرنے یا اس پر بحث کر کے اسے رد کرنے کی کونسل آفسٹیٹ کو اجازت نہ ہو- ہاں اسے ایگزیکٹو سے سفارش کرنے کا اختیار دیا جائے کہ فلاں امر کے متعلق قانون کی ضرورت ہے-
)۲(
‏]dni [tag مالی مسودات میں ترمیم کرنے کا اسے اختیار نہ ہو لیکن سفارش کر کے دوبارہ غور کرنے کے لئے وہ بجٹ یا مالی مسودہ کو بھیج سکے لیکن پورے طور پر بجٹ کو یا کسی اور مالی مسودہ کو رد کرنے کا اسے اختیار ہو- لیکن اس کا لازمی نتیجہ یہ سمجھا جائے کہ اگر اسمبلی ان کے ساتھ سمھجوتہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو دونوں مجالس برخاست ہو جائیں اور اگر نئے انتخاب کے بعد بھی اسمبلی اس مسودہ کو پاس کر دے تو پھر اسے پاس سمجھا جائے-
دونوں کو برخاست کرنے کی غرض یہ ہے کہ تابغیر کافی وجہ کے کونسل آف سٹیٹ بجٹ کو رد نہ کرے اور تا ممبروں کو احساس رہے کہ اگر ہم نے بلا وجہ ایسا کام کیا تو صوبہ جات ہمیں دوبارہ منتخب نہ کریں گے-
)۳(
کونسل آف سٹیٹ کو یہ بھی اختیار ہو کہ جس مسودہ کے متعلق وہ یہ فیصلہ کر دے کہ اس سے صوبہ جات کے ان حقوق پر زد پڑتی ہے جو قانون اساسی کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہیں تو وہ مسودہ کسی مزید کارروائی سے پہلے صوبہ جات کی کونسلوں کے پاس بھیجا جائے اور اگر کونسلوں کی اکثریت کا یہ فیصلہ ہو کہ اس سے ان کے حقوق پر زد پڑتی ہے تو وہ مسودہ رد کر دیا جائے- لیکن گورنر جنرل کو اختیار ہو کہ اگر وہ یہ دیکھیں کہ معاملہ اہم ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے تو کونسل کے فیصلہ کو رد کر کے مسودہ پر مزید کارروائی ہونے کی اجازت دے دیں- اس صورت میں جو صوبہ یہ سمجھتا ہو کہ اس سے اس کی یا صوبہ جات کی حق تلفی ہوئی ہے وہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں پیش کر کے فیصلہ کرا سکتا ہے یا اگر صوبہ جات اور مرکز کے درمیان یا صوبہ جات اور صوبہجات کے درمیان فیصلہ کے لئے ثالثی کا طریق زیادہ پسند کیا جائے تو امریکن شرائط اتحاد مابینالدول(ARTICLESOFCONFEDERATION) کی دفعہ ۹ کے مطابق کچھ اصول طے کر لئے جائیں اور اختلاف کے موقع پر ان کے ماتحت فیصلہ کیا جایا کرے-
مجلس عاملہ )ایگزیکٹو کونسل(
میرے نزدیک ڈومینین سٹیٹس (DOMINIONSTATUS) کے اصول پر کام چلانے کے لئے ایگزیکٹو کے موجودہ طریق میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے اس وقت ایگزیکٹو کونسل (EXECUTIVECOUNCIL) کا ایک ممبر کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے- یہ طریق جیسا کہ سائمن کمیشن نے لکھا ہے درست نہیں کیونکہ کمانڈر انچیف ایک مستقل عہدہ دار ہے اور بوجہ اپنے سیاسی خیالات کے نہیں بلکہ اپنے ماہر فن ہونے کے اپنے اس کام پر مقرر کیا جاتا ہے- پس اسے ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنانا درست نہیں- میرے نزدیک آئندہ اصلاحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جنگی وزیر مقرر کر دیا جائے جو سویلین (CIVILIAN) ہو تاکہ جب بھی حکومتخوداختیاری مکمل ہو آسانی سے اس صیغہ کو منتقل کیا جا سکے اور میری اوپر کی بیانکردہ سکیم کے ماتحت اس محکمہ میں بھی مرکزی مجالس کی سفارش پر ایک غیر سرکاری افسر مقرر کیا جا سکے- ہاں اس صیغہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات قانون میں ضرور آ جانی چاہئے کہ ایک تجربہ کار افسر سیکرٹری کے عہدہ کا وزیر جنگ کے ساتھ مقرر کیا جائے تا کہ فنی (TECHNICAL) معاملات میں وہ مشورہ دے سکے-
دوسری اصلاح میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ سائمن رپورٹ نے جو لیڈر آفدیہائوس (LEADEROFTHEHOUSE) ایک نیا عہدہ تجویز کیا ہے اس کی زیادتی کی جائے اور لیڈر آف دی ہائوس پر مقرر ہونے والا شخص صرف قانون ساز مجلس میں ہی لیڈر کا کام نہ دے بلکہ ایگزیکٹو کونسل کا بھی وائس پریزیڈنٹ ہو اور اس کی حیثیت وزارت میں وزیراعظم کی سی ہو- گورنر جنرل کو اختیار ہو کہ وہ اہم معاملات میں وزارت کو بلوا کر اپنے سامنے مشورہ کرے اور خود مجلس وزارت کی صدارت کرے- لیکن عام طور پر جیسا کہ آئینی حکومتوں میں دستور ہے صدارت کے کام کو وزیر اعظم پر چھوڑ دے- اس سے آہستہ آہستہ اسی راہ پر کام پڑ جائے گا جس پر اسے ڈالنا مقصود ہے-
تیسری اصلاح یہ ضروری ہے کہ سائمن کمیشن کی سفارش کے مطابق آئندہ انتخاب ممبروں کا وائسرائے کی مرضی پر رہے- یہ بھی اچھی اصلاح ہے اس سے آئندہ وزارت کے لئے داغ بیل پڑ جائے گی اور بغیر کسی تغیر کے آہستگی سے سروسز (SERVICES) کی بجائے اسمبلی کے ممبروں کی طرف وزارت منتقل ہو سکے گی-
چوتھی اصلاح یہ بھی مفید ہو سکتی ہے کہ ایگزیکٹو کے ممبر` ممبر کہلانے کی بجائے سیکرٹری یا منسٹر کہلائیں اس صورت میں اسمبلی کے منتخب ممبر جن کے بطور نائب مقرر کرنے کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں بجائے سیکرٹری کے نائب سیکرٹری کہلائیں- یہ اصلاح گو نام کی ہے لیکن نام کا بھی انسان کی طبیعت پر اثر ہو جاتا ہے اور نام اسے اس طریق عمل کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے جو اس کے لئے پسند کیا گیا ہے- ایگزیکٹو کونسل کے ممبر دونوں مرکزی مجلسوں کے بہ حیثیت عہدہ ممبر ہوں اور ان کے سوا اسمبلی میں کوئی نامزد شدہ ممبر نہ ہو-
مرکزی حکومت میں انتخابی عنصر کی ترقی
یہ انتظام میرے نزدیک پہلے پانچ سال تک کسی صورت میں تبدیل نہ ہو سکے- پانچ سال کے بعد دونوں مرکزی مجالس میں اگر تین چوتھائی ممبروں کی کثرت سے یہ ریزولیوشن پاس ہو جائے کہ اب دوسرا قدم آزادی کی طرف اٹھانے کا وقت آ گیا ہے تو اس ریزولیوشن کے بعد حکومت ہندوستان میں مزید تغیر کر دیا جائے اور وہ میرے نزدیک یہ ہو کہ علاوہ ان نائبسیکرٹریوں کے جو پہلی اسمبلی میں مقرر کئے گئے تھے- اس ریزولیوشن کے پاس ہونے کے بعد آٹھ میں سے )لیڈر آف دی ہائوس کو ملا کر آئندہ آٹھ ممبر ہو جائیں گے( پانچ ایگزیکٹو ممبر ہندوستانی کر دیئے جائیں- نیز ان کا تعین بجائے موجودہ طریق کے اسی طرح دونوں مجالس کے منتخب پینل سے ہو جس طرح کہ میں نے سیکرٹریوں یا ممبروں کا نام سیکرٹری ہو جانے کی صورت میں نائب سیکرٹریوں کے لئے تجویز کیا ہے لیکن اسمبلی اور ایگزیکٹو کے تعلقات وہی رہیں جو پہلی کونسل میں تھے- یعنی یہ سیکرٹری )میری مراد ایگزیکٹو ممبر سے ہے( بھی اسی طرح گورنر جنرل کے سامنے جوابدہ ہوں جس طرح ایگزیکٹو ممبر ہوتے ہیں صرف اپنے اخلاقی دبائو سے ملک کی رائے پر اثر ڈالیں-
اسی طرح یہ مزید اختیار مرکزی مجالس کو دیا جائے کہ پہلی کونسل میں جن امور کے متعلق ان کا فیصلہ تین چوتھائی ووٹ سے لازمی ہوتا تھا اب ساٹھ فیصدی حقیقی (ABSOLUTE) اکثریت سے جو فیصلہ دونوں مجالس کر دیں بشرطیکہ قانون اساسی نان ووٹیبل امور یا ایگزیکٹو کے اختیارات سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ فیصلہ انہی شرائط کے ساتھ جو پہلے بیان ہو چکی ہیں ایگزیکٹو کے لئے واجب العمل ہو- اس کے پانچ سال تک پھر کسی مزید امر کا فیصلہ کرنے کا مجالس کو اختیار نہ ہو- لیکن دوسرے پانچ سال کے گزرنے پر پھر دونوں مرکزی مجالس کو اختیار ہو کہ وہ تیسرے قدم کے اٹھانے کا ریزولیوشن تین چوتھائی ممبروں کی رائے سے پاس کریں جس کے بعد میرے نزدیک مزید اختیارات اسمبلی کو ملیں جو یہ ہوں-
آئندہ سے گورنر جنرل رسپانسیبل منسٹری (RESPONSIBLEMINISTERY) بنائیں جس میں یہ شرط ہو کہ جس کے سپرد وزارت کا کام کیا جائے وہ کم سے کم دو انگریز ممبر سروسز میں سے اپنے ساتھ شامل کرے جن میں سے ایک فوج کے محکمہ کا انچارج ہو- ان کا انتخاب اس کے اختیار میں ہو لیکن وہ پابند ہو کہ سول سروس کے دو انگریز ممبروں کو ضرور شامل کرے- اس وقت سے وزارت پوری طرح مجالس کے ماتحت ہو اور صرف گورنر جنرل کو ویٹو کا اختیار ہو- یا مسودہ کو واپس نظر ثانی کے لئے بھیجنے کا اختیار ہو- پولیٹیکل اور فارن معاملات گورنر جنرل سے براہ راست متعلق رہیں اور ملٹری بجٹ نان ووٹیبل (NONVOTABLE) رہے- باقی سب امور میں مرکزی مجالس کو پورا اختیار ہو-
اس کے بعد بہت چھوٹی اصلاحات باقی رہ جائیں گی جو آہستگی سے ہوتی چلی جائیں گی- اور قانون ساز مجلس کے زور دینے پر ان میں خود بخود اصلاح ہوتی چلی جائے گی کیونکہ اس موقع پر پہنچ کر اسمبلی کا زور اس قدر ہو جائے گا کہ ملک کی کوئی صحیح خواہش بغیر پوری ہونے کے نہیں رہے گی-
حکومت ہند اور صوبہ جات کا تعلق
صوبہ جاتی آزادی کے بعد مرکز کا دخل صوبہ جاتی معاملات میں نہیں رہنا چاہئے اور رہنا ممکن بھی نہیں- یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر انتظام میں خرابی ہو تو اس کا کیا علاج ہوگا؟ کیونکہ یہی سوال مرکزی حکومت کے متعلق کیا جا سکتا ہے کہ اگر اس کا انتظام خراب ہوا تو اس کا کیا علاج ہوگا؟ انسانی کاموں کا یہی حال ہے کہ آخر ایک جگہ پر یہ اعتبار کیا جاتا ہے کہ ذمہ وار ٹھیک طور پر کام کریں گے- جب کونسلیں مقرر ہو جائیں گی اور ملک کی براہ راست نگرانی میں حکومت آ جائے گی تو پھر یہی سمجھنا چاہئے کہ مرکز کی ذمہ داری ادا ہو گئی-
ہاں سوال ان امور کا رہ جاتا ہے جو مرکزی ہیں چونکہ ان میں سے بھی بہت سے امور کا عمل درآمد اگر فضول اخراجات سے بچنا ہو تو صوبہ جات کی حکومتوں کے ذریعہ سے ہوگا اس لئے صوبہ جات کی ایگزیکٹو ایسے تمام امور میں مرکزی حکومت کے ماتحت ہونی چاہئے اور ان احکام کی تعمیل میں اور ان کے متعلق معلومات بہم پہنچانے میں وہ پوری پابند ہونی چاہئے اور صوبہ جات کے گورنر اس امر کی نگرانی کے ذمہ وار ہونے چاہئیں کہ مرکزی امور کی تعمیل صوبہجات میں پوری طرح ہوتی ہے یا نہیں- یونائیٹڈ سٹیٹس میں اس غرض کے لئے مرکزیحکومت کی طرف سے الگ عہدہ دار ہیں- لیکن ہندوستان میں میرے نزدیک اس قدر علیحدگی کی ضرورت نہیں ہے-
باب ہشتم
فوج
تمام سوالات میں سے جو ہندوستان کے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں فوج کا سوال سب سے اہم ہے- کیونکہ اس محکمہ پر ملک کے اندرونی اور بیرونی امن کا دارو مدار ہے اور سب سے زیادہ اس محکمہ میں ہی ہندوستانیوں کی کمی ہے- فوجی اسلحہ کا بنانا اور ہر قسم کے ہتھیاروں کی درستی اور مرمت اور ہر محکمہ کے ماہرین فن کی موجودگی میں ہندوستان بہت ہی پیچھے ہے لیکن باوجود اس کے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وجہ سے ہندوستانیوں کو ان کے ملک میں آزادی نہ دی جائے- ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے- جاپان بے شک جزیرہ ہے اور اسے خشکی کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن دو بحری طاقتیں اس میں دخل پیدا کر چکی تھیں- ایک یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ اور دوسرے برطانیہ- باوجود اس کے جاپان نے نہایت سرعت سے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط کر لیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ جرنیل ایک دن میں نہیں بنتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ضرورت کے وقت جرنیلوں کے بنانے میں اس قدر دیر لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی جس قدر کہ امن کے دنوں میں- عام طور پر جرنیل پچیس تیس سال کی نوکری کے بعد بنتا ہے لیکن جنگ عظیم کے دنوں میں ہر قوم کے فوجی افسر کس طرح جلد جلد جرنیل اور کرنیل بنتے تھے- غرض موقع کی بات ہوتی ہے جیسا موقع ہوتا ہے ویسا انسان کام کر لیتا ہے- پس اگر ابتدائی دنوں میں بعض عام قواعد کو ترک کر کے ہندوستانی افسروں کو نسبتاً جلدی ترقی دے دی جائے اور بجائے عرصہ ملازمت کے دیکھنے کے لائق افسروں کی قابلیتوں کا امتحان لے کر انہیں ترقی دے دی جائے تو عام اندازے سے بہت جلد ہندوستانی فوج تیار ہو سکتی ہے-
سائمن کمیشن نے لکھا ہے کہ چونکہ ہندوستان کی فوج کا مقصد صرف ہندوستان کی حفاظت نہیں بلکہ ایمپائر (EMPIRE) کی حفاظت ہے اس لئے ہندوستانی فوج کو ایمپائر کے نقطہنگاہ سے ہی دیکھنا چاہئے اور اس دلیل کو قائم کر کے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ آئندہ ہندوستان سے ایک مقررہ رقم فوج کے اخراجات کی لی جائے باقی انگلستان ادا کرے لیکن باوجود پورا غور کرنے کے میں کمیشن کی اس دلیل کو نہیں سمجھا-
میں یہ تو تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوستان برطانوی ایمپائر کا ایک اہم حصہ ہے لیکن یہ امر کہ اس کی حفاظت کا سوال اس سے زیادہ امپیریل ہے جس قدر کہ آسٹریلیا یا کینیڈا کی حفاظت کا سوال میری سمجھ سے باہر ہے- کمیشن نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستان کے اعمال کا ہی ہندوستان کی سرحدوں پر اثر نہیں پڑے گا بلکہ دوسری جگہوں پر بھی اگر برطانوی امپائر کا کسی سے جھگڑا ہوا تو ہندوستان پر اس کا اثر پڑے گا- اس وجہ سے یہ امپیریل کا سوال ہے-
اگر اس وجہ سے یہ سوال امپیریل ہے تو پھر بجائے ہندوستان کو اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے یہ چاہئے تھا کہ سب برطانوی علاقے اس کی مالی امداد کرتے لیکن کمیشن تجویز یہ کرتا ہے کہ اس وجہ سے اس کی فوجیں برطانوی محکمہ جنگ کے ماتحت رہنی چاہئیں- یہ ایسی ہی دلیل ہے جیسے کہ ڈومینین (DOMINION) حکومتیں کسی وقت یہ کہہ دیں کہ چونکہ برطانویامپائر کی حفاظت میں بحری فوج کا بہت کچھ دخل ہے اس لئے اس کا بحری انتظام نوآبادیوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دینا چاہئے تاکہ وہ مطمئن رہے کہ انتظام ٹھیک ہے- اگر ہندوستان کو یہ یقین ہو جائے کہ برطانوی حکومت کا ایک قیمتی حصہ بننے کے یہ معنے ہیں کہ اسے آزادی سے محروم رکھا جائے تو ہندوستان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس تعلق کو قدر کی نگاہ سے دیکھے- ہندوستانی اسی وقت تک برطانوی تعلق کو قدر سے دیکھتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں جب تک وہ اسے ترقی اور آزادی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی وقت تک وہ برطانوی امپائر کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں- پس ایسی کوئی سکیم خواہ فوج کے متعلق ہو` خواہ کسی اور محکمہ کی نسبت جو عملاً ہندوستان کو آزادی سے محروم کر دے کسی صورت میں ہندوستان اور انگلستان میں اچھے تعلقات پیدا کرنے میں ممد نہیں ہو سکتی اور ایسی سکیم کو کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا-
پس میرے نزدیک ہندوستانی فوج کو بھی ایسے طریق پر چلانا چاہئے جس سے وہ ایک دن ہندوستان کی مجالس حکومت کے ماتحت لائی جا سکے- یہ یقینی بات ہے کہ جب ایسا دن آیا اس دن ہندوستان کی قیمت۔۔۔۔۔۔۔انگریزوں کی نسبت ہندوستانیوں کی نظر میں زیادہ ہو گی اور اس لئے وہ کبھی بھی پسند نہیں کریں گے کہ اس کی آزادی کو خطرہ میں پڑنے دیں-
میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستان میں فوج کا سوال حل کرنے کے لئے سکین کمیٹی (SCANCOMMITTEE) کی رپورٹ سے بہتر طریق کوئی نہیں ہو سکتا- اس کمیٹی میں برطانیہ کے بہترین جرنیلوں میں سے ایک جرنیل شامل تھا- یعنی آرمی سیکرٹری شامل تھا اور ہندوستانی رائے عامہ کے بہترین نمائندے بھی شامل تھے- پس وہ رپورٹ جو ایک طرف جنرلسکین (GENERALSCAN) جیسے آدمی کی تصدیق اپنے ساتھ رکھتی ہے اور دوسری طرف ہندوستانی رائے کی تائید رکھتی ہے نظر انداز کرنے کے قابل نہیں- اس رپورٹ میں تین باتوں کی خاص طور پر سفارش کی گئی ہے-
)۱(
ہندوستان میں ایک فوجی کالج سنڈھرسٹ کے نمونہ پر بنایا جائے-
)۲(
جب تک یہ بات حاصل نہ ہو ہندوستانیوں کو ہر سال بڑھنے والی تعداد میں سنڈھرسٹ میں داخل کیا جائے حتی کہ ۱۹۵۲ء تک فوج کے نصف عہدہ دار ہندوستانی ہو جائیں-
)۳(
وہ آٹھ رجمنٹس جن میں خالص ہندوستانی افسروں کو بھرتی کرنے کی کوشش ہو رہی ہے توڑ دی جائیں اور ہندوستانی افسروں کو سب قسم کے فوجی محکموں میں انگریزوں سے مل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے-
افسوس ہے کہ گورنمنٹ ہند نے اس سکیم کو رد کر دیا اور تینوں میں سے ایک تجویز کو بھی قبول نہ کیا- گو اب مجھے ایک نہایت ہی ذمہ وار اتھارٹی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان میں سنڈھرسٹ کی سکیم کے لئے گورنمنٹ آف انڈیا باوجود کمانڈر انچیف کی مخالفت کے زور دے رہی ہے مگر صرف یہی ایک سوال قابل غور نہیں اس سے تو صرف یہ فائدہ ہو گا کہ ہندوستانی افسر زیادہ جلدی تیار ہو سکیں گے اور مسلمانوں کو جو اب تک فوجی خدمات کرتے آئے ہیں اور جو بوجہ غربت انگلستان جا کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے اعلیٰ فوجی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن دوسرے دونوں امور بھی نہایت اہم ہیں- جب تک کالج کھلے ہندوستانیوں کو زیادہ تعداد میں سنڈھرسٹ میں بھیجنا چاہئے اور اگر وہاں زیادہ گنجائش نہ ہو تو زائد رقم خرچ کر کے بھی گنجائش نکالی جائے گو وہ بار ہندوستان پر ڈال دیا جائے- اسی طرح ہندوستانی اور انگریز افسروں کو اکٹھا ہی کام کرنے کا موقع دینا چاہئے تاکہ وہ ایک دوسرے کے مزاج شناس بھی ہوں اور ہندوستانیوں کا یہ وہم بھی دور ہو کہ ہمیں الگ فوج میں رکھ کر حکام کی غرض یہ ہے کہ ہم کو پورا موقع ترقی کا نہ دیا جائے-
میں حیران ہوں کہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اعتراض کیا گیا ہے- اس وقت تک میں نے ایک ہی اعتراض سنا ہے کہ انگریز افسر ہندوستانی کے ماتحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں- اگر یہ درست ہے تو ہندوستانی بھی انتہاء درجہ کے بے غیرت ہوں گے اگر انگریزوں کے ماتحت کام کرنے پر تیار ہوں- اگر اس دلیل کی وجہ سے حکومت دونوں کو الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو میرے نزدیک حکومت بھی اس جرم کی موید ہے اور ایسی صورت میں اسے ہرگز یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ہندوستانی اس کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس صورت میں کانگریس کے تمام مظاہرات محض قومی غیرت کا ثبوت ہیں اور اس پر کوئی الزام نہیں آ سکتا- لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ لارڈارون (LORDIRWIN) جیسا شریفانسان کبھی اس دلیل کا موید نہیں ہوگا- کیونکہ یہ طبیعت تو انتہائی درجہ کی بد اخلاقی پر دلالت کرتی ہے اور لارڈارون ایک اعلیٰ درجہ کے شریف انسان ہیں-
یاد رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں طبائع کے اختلاف کو دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا- کیونکہ باوجود اس اختلاف کے ہندوستانی افسر انگریزوں کی ماتحتی کرتے ہیں پھر انگریز افسر کیوں ہندوستانی کی ماتحتی نہیں کر سکتا اگر اس میں یہ برداشت نہیں تو وہ ہندوستانی سے بہت کم مہذب ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ حکومت اس کے ہاتھ میں دی جائے-
غرض سکین کمیٹی (SCANCOMMITTEE) کی رپورٹ کے خلاف جو کچھ سنا جاتا ہے وہ معقول نہیں اور اس پر جلد سے جلد عمل کر کے ہندوستانی افسروں کو اس قابل کر دینا چاہئے کہ وہ ہندوستانی فوجوں کا خود انتظام کر سکیں- لیکن اس وقت تک کہ وہ دن آئے جب خود ہندوستانی فوج کی تمام شاخوں کا چارج لے سکیں اور اس کی سب ضرورتوں کو سمجھ سکیں وہی طریق جاری کیا جائے جو میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ فوجی سیکرٹری الگ ہو اور اس کا نائب ایک ہندوستانی اسی پینل میں سے منتخب کیا جائے کہ جسے دونوں مرکزی مجالس نے اس غرض کے لئے گورنر جنرل کے سامنے پیش کیا ہو-
جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسی سکیم ہر خطرہ سے خالی ہو گی جس میں یہ انتظام ہو کہ فوج کا انتظام تیس سال تک کلی طور پر ہندوستان کی مجالس واضع قوانین کے ہاتھ میں آ جائے اور ہمیں فوجی سکیم اس امر کو مدنظر رکھ کر بنانی چاہئے-
میرے نزدیک سیکرٹری کے علاوہ ہمیں کچھ عرصہ کے بعد ایک ملٹری کمیٹی بھی مقرر کر دینی چاہئے جس میں کچھ والیان ریاست ہوں اور کچھ ہندوستانی جو فوجی تجربہ رکھتے ہوں اور شرط کر دی جائے کہ فوجی بجٹ وغیرہ ان کی منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش ہو- اس قسم کی کمیٹی فوراً نہیں بن سکتی کیونکہ گو تجربہ کار والیان ریاست فوراً مل سکتے ہیں لیکن تجربہ کار فوجی افسر اس وقت نہیں مل سکتے- لیکن آٹھ دس سال کے عرصہ تک جب موجودہ فوجی افسر تجربہ حاصل کر لیں گے ان سے کام لیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر مسٹرونسٹن چرچل (SIRWINSTONCHURCHILL) تھوڑے سے تجربہ کے بعد وزیر جنگ ہو سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان کے نوجوان پندرہ بیس سال کی جنگی خدمت کے بعد فوجی ضروریات کے متعلق ہمیں مشورہ نہ دے سکیں-
‏a11.15
باب نہم
ریاست ہائے ہند
اب میں ریاست ہائے ہند کا سوال لیتا ہوں کہ اس نئے نظام میں ان کا کیا درجہ ہو؟ ریاستیں ہندوستان کی آبادی کے قریباً چوتھے حصے اور اس کے رقبہ کے قریباً تیسرے حصے پر مشتمل ہیں- اس وجہ سے ان کا نظام حکومت سے الگ رہنا ہندوستان کی ترقی پر ضرور اثر ڈالے گا اس لئے ضرورت ہے کہ کسی نہ کسی اصول پر برطانوی ہندوستان اور ریاستوں میں تعلق پیدا کیا جائے-
ریاستوں کا نقطہ نگاہ جو مجھے معلوم ہے یہ ہے کہ وہ اصل میں تو براہ راست سیکرٹری آف سٹیٹ سے تعلق رکھنا پسند کرتی ہیں لیکن اگر اس کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو پولیٹیکل محکمہ سے تعلق قائم رہنے کو برطانوی ہند سے وابستہ ہونے پر ترجیح دیتی ہیں*-
میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ ریاستیں اس امر سے خائف ہیں کہ اگر ان کا برطانوی ہند سے تعلق ہو گیا تو برطانوی ہند زور دے گا کہ ان کے علاقہ میں بھی ویسے ہی آزاد نظام حکومت قائم ہو جائیں جس قسم کے برطانوی ہند میں ہوں گے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ صورت تو نہیں ہو گی لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ریاستوں کے باشندوں میں آزادی کی تحریک پیدا ہوئی تو برطانوی ہند کے باشندوں کو قدرتاً اس تحریک سے ہمدردی ہو گی- کیونکہ ایک انسان جن مشکلات میں سے خود گزر چکا ہو ویسی ہی مشکلات میں سے گزرنے والے دوسرے انسان سے اسے طبعا ہمدردی ہوتی ہے- مگر یہ ہمدردی بہر حالت پیدا ہو گی خواہ ریاستوں کا تعلق برطانوی ہند سے ہو- یا نہ ہو اور ریاستوں کو پہلے سے ہی سمجھ لینا چاہئے کہ
* بعض بہی خواہان ملک کے زور دینے پر ریاستوں کا نقطئہ نگاہ بدل گیا ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ راونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر اکثر والیان ریاست نے فیڈریشن میں شمولیت کو پسند کر لیا ہے-
جب ان کے چاروں طرف انسانیت آزادی سے متمتع ہو رہی ہو گی وہ اپنی رعایا کو اس تحریک سے غافل نہیں رکھ سکتے- اور ہندوستان کے نو آبادیوں والی حکومت کے حاصل کر لینے کے بعد وہ یہ امید نہیں کر سکتے کہ برطانیہ اس خواہش کے دبانے میں ان کی کچھ زیادہ مدد کرے گا-
پس جو واقعات کل سختی سے پیش آنے والے ہیں ان کا احساس آج ہی کر کے ان کی سختی کو کم کر دینا چاہئے- میسور اور بعض دوسری جنوبی ہند کی ریاستیں اس طرف قدم اٹھا رہی ہیں پس اگر دوسری ریاستیں بھی ان کے نقش قدم پر چلیں تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اس سے ان کو یہ بھی فائدہ ہو گا کہ پولیٹیکل افسر جو ان کے کاموں میں روزانہ دخل دیتے ہیں دخل نہیں دے سکیں گے کیونکہ آئینی حکومت میں بہت سے امور تمام ملک کے مشورہ سے طے ہوتے ہیں اور ایگزیکٹو کو دبانا آسان ہے لیکن ملک کی رائے کو دبانا آسان نہیں- اور ایسی حکومت جو ملک سے مشورہ لے کر کام کرتی ہو اسے کوئی کہہ بھی کیا سکتا ہے کیونکہ وہ حکومت ہر تجویز پر عمل کرنے سے پہلے مجبور ہوتی ہے کہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ لے لے پس اگر پولیٹیکل افسر اس حکومت سے کوئی کام لینا چاہے گا تو وہ حکومت مجبور ہو گی کہ اس کے مشورہ کو ملک کے نمائندوں کے سامنے پیش کرے اور یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی پولیٹیکل افسر اس کی برداشت کرے کہ اس کی ہدایت کو مجلس قانون ساز کے سامنے رکھ دیا جائے- مگر بہرحال یہ معاملہ ریاستوں کا ہے اور اس میں ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں- ہمارا تعلق تو اس وقت اس امر سے ہے کہ کیا ریاستیں ہندوستان کی اتحادی حکومت میں شامل ہو سکتی ہیں؟ میرا جواب افسوس کے ساتھ یہ ہے کہ موجودہ حالت میں نہیں-
ہاں مجھے یقین ہے کہ اگر ریاستیں ہندوستان فیڈرل سسٹم میں شامل نہیں ہوں گی تو انہیں سخت نقصان پہنچے گا- کیونکہ-:
)۱(
ریاستوں کا علاقہ بالکل پراگندہ ہے پھر سب ریاستیں ایک جیسی طاقتور نہیں- کوئی کمزور ہے تو کوئی طاقتور- پس اگر کسی وقت برطانوی ہند اور ریاستوں میں رقابت پیدا ہوئی تو ریاستیں کسی صورت میں برطانوی ہند کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی اور برطانیہ ہندوستان کو آزادی دینے کے بعد کسی صورت میں بھی اس جنگ میں دخل نہیں دے گا اور نہیں دے سکے گا کیونکہ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اقتصادی تدابیر سے ہو گی-
)۲(
ریاستوں میں سے صرف چند ساحل سمندر پر ہیں اور ان کا علاقہ باقی ریاستوں سے نہیں ملتا- اگر آپس میں اتحاد نہ ہوا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کسٹمز وغیرہ کے سوال میں برطانوی ہند ریاستوں کی خواہشات اور ضروریات کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس سے انہیں بہت مالی نقصان پہنچے گا-
)۳(
ریلوں وغیرہ کے معاملہ میں بوجہ پراگندہ ہونے کے برطانوی ہند ریاستوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے- برطانوی ہند کو صرف ایک ریل کی مشکل ہے ورنہ وہ بالکل آزاد ہے اور بالمقابل ریلیں جاری کر کے اور ریاستوں کی ریلوں سے تعلق قطع کر کے وہ انہیں سخت نقصان پہنچا سکتا ہے- غرض ریاستوں کا جائے وقوع ایسا ہے کہ بغیر ہندوستان کی فیڈریشن میں داخل ہونے کے ان کے لئے سخت مشکلات ہوں گی-
لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری طرف بھی مشکلات ہیں ریاستوں کے لئے بھی اور برطانوی ہند کے لئے بھی- ریاستوں کے لئے تو یہ دقت ہے کہ فیڈریشن میں شامل ہونے سے انہیں اور ان معاملات میں اپنے حق کو چھوڑنا پڑے گا جو مرکزی ہوں گے- دوسرے ان کے طے کرنے میں انہیں زیادہ سے زیادہ اپنی رعایا کی آبادی کے برابر اپنی آواز کی قیمت تسلیم کرنی ہو گی- اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں نہ تو وہ اس امر کے لئے تیار ہیں کہ مرکزی امور میں وہ ہندوستانی مجالس کے قانونوں کو تسلیم کر لیں اور نہ وہ اس امر کے لئے تیار ہیں کہ ایک چوتھائی نمائندگی حاصل کریں-
برطانوی ہند کے راستہ میں بھی ان کے شامل ہونے سے مشکلات ہیں- اول یہ کہ ریاستوں کی نمائندگی کس طرح پر اور کس مجلس میں ہو گی؟ اگر تو ان کے نمائندوں کا انتخاب پبلک کرے گی تو یہ ناممکن ہو گا کیونکہ اکثر ریاستیں ایسی ہیں کہ ان کی رعایا اتنی نہیں کہ آبادی کی بناء پر اپنا نمائندہ منتخب کر سکے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ مختلف ریاستوں کی آبادی مل کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرے کیونکہ بہت سی ریاستیں بالکل پراگندہ ہیں- دوسرے ابھی والیانریاست بھی اس امر کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے کہ تمام اہم امور ان کی رعایا کے نمائندے طے کر آئیں اور ان کا اس مشورہ میں دخل ہی نہ ہو-
دوسری صورت اب یہ رہ جاتی ہے کہ ریاستوں کے نمائندے والیان ریاست کی طرف سے مقرر ہوں اور والیان ریاست غالباً سردست اس کے بغیر اور کوئی صورت مانیں گے بھی نہیں- لیکن اس صورت کو برطانوی ہند کبھی قبول نہیں کر سکتا کہ دو تین سو ووٹر مل کر ایک چوتھائی ممبروں کو نامزد کریں- کیونکہ اول تو منتخب مجالس میں نامزد ممبروں کی جگہ ہی نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی برداشت بھی کر لی جائے تب بھی کسی مجلس کے ایک چوتھائی ممبروں کا چند افراد کا نمائندہ ہونا اور ان کے حکم کے ماتحت ہونا اصول سیاست کے خلاف ہے اور اس سے وہ مجالس ہرگز آزاد مجالس نہیں کہلا سکتیں اور ان کی آزادی بالکل وہمی ہو جاتی ہے-
نیز منتخب شدہ ممبر گو ووٹروں کی مرضی کا لحاظ کرتا ہے لیکن وہ ان کا نوکر نہیں ہوتا اور نہ ہر بات میں ان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن ریاستوں کے نمائندے ان کے ملازم اور ہر امر میں ان کے سامنے جواب دہ ہوں گے- پس وہ لوگ ووٹنگ مشینیں تو ہوں گے لیکن ایک منتخب مجلس قانون ساز کے ممبر کہلانے کے مستحق نہ ہوں گے اور مجلس کا توازن بالکل خراب کر دیں گے-
علاوہ ازیں برطانوی ہند کا جائز طور پر خوف ہو گا کہ ریاستوں کے نمائندے درحقیقت برطانوی ہند کے نمائندے ہوں گے اور ان کی مدد سے ایک نیا آفیشل بلاک (OFFICIALBLOCK) بن جائے گا کیونکہ جب تک ریاستیں پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ (POLITICALDEPARTMENT) کے ماتحت ہیں وہ اس کے اشارہ پر چلنے کے لئے مجبور ہیں- پس اگر برطانیہ نے ان کے نمائندوں کوہندوستانیوں کے مفاد کے خلاف آفیشل بلاک کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تو ہندوستانی گویا ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں جا پڑیں گے-
پھر یہ بھی سوال حل طلب ہے کہ ریاستیں اگر شامل ہوں تو کس مجلس میں؟ اگر کہو کہ اسمبلی میں تو اسمبلی افراد کی نمائندہ ہے نہ کہ علاقوں کی- پھر اسمبلی میں بجٹ وغیرہ بھی پاس ہوتے ہیں جن کے ساتھ ریاستوں کا کوئی تعلق نہ ہو گا- اگر کونسل آف سٹیٹ میں نمائندگی رکھی جائے تو ریاستوں کو قدرتاً اعتراض ہو گا کہ ان کو اس کونسل میں جگہ دی گئی ہے جس کے اختیارات محدود ہیں اور اس طرح ان کی رائے پر حد بندیاں لگا دی گئی ہیں- پس بوجہ اس کے کہ ان سے مشورہ پوری طرح نہیں لیا گیا وہ مرکزی مجلسوں کے فیصلوں کے پابند نہیں ہو سکتے-
پھر ایک اور دقت برطانوی ہندوستان کے لئے پیش آئے گی اور وہ یہ ہے کہ کونسل آف سٹیٹ کو بہر حال علاقوں کا قائم مقام رکھنا ہو گا لیکن اگر ریاستیں اس میں شامل ہوئیں تو صوبوں کا توازن خراب ہو جائے گا اور قانون اساسی بالکل خطرہ میں پڑ جائے گا کیونکہ صوبوں کے حقوق سے ریاستوں کو کوئی دلچسپی نہ ہو گی کیونکہ وہ خود معاہدات کے رو سے دخلاندازی سے محفوظ ہوں گی- پس ان کے نمائندے اگر ان لوگوں سے مل گئے جو اتصالی حکومت کی تائید میں ہوں گے تو صوبہ جات کی آزادی تباہ ہو جائے گی-
یہ اور ایسی ہی اور بہت سی مشکلات ہیں جن کی وجہ سے جب تک ریاستیں پولیٹیکل محکمہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک ان میں انتخابی حکومت کا طریق جاری نہیں ہوتا وہ ہندوستان کی اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ میں شامل ¶نہیں ہو سکتیں-
جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان دونوں امور میں تبدیلی ریاستوں کے لئے مفید ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس فائدہ کو ابھی تسلیم نہیں کرتیں اور جب تک وہ تسلیم نہ کریں انہیں نہ مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ اس صورت میں ہندوستان کے مفاد کو عموماً اور اقلیتوں کے مفاد کو خصوصاً خطرہ میں ڈالا جا سکتا ہے- پس ضرورت ہے کہ اس سوال کو کسی اور نقطہ نگاہ سے دیکھا اور حل کیا جائے-
میں نے جہاں تک غور کیا ہے اس کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے- اور وہ یہ ہے کہ اتحادی حکومت کا طریق برطانوی ہند اور ریاستی ہند میں الگ الگ جاری کیا جائے- ریاستی ہند کا اتحاد کس قسم کا اتحاد ہو ہمیں اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں- بہرحال چیمبر آف پرنسز (CHAMBEROFPRINCES) کے ذریعہ سے یا کسی اور ذریعہ سے وہ بھی اپنے نظام میں ایک یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور پھر ان دونوں نظاموں کی ایک کانفیڈریشن (CONFEDERATION) بنا دی جائے- وہ ہندوستان کی فیڈریشن (FEDERATION) میں تو شریک نہ ہوں لیکن کانفیڈریشن میں شریک ہوں اور انہیں ہندوستان کے قانون سے تو کچھ تعلق نہ ہو لیکن کسٹمز` ریلوے` سکہ` صرافی` پوسٹ آفس` تار` ہوائی جہاز` سڑکوں` بے تار برقی کا آلہ` تجارت` بنکنگ` ماوراء البحر ہندوستانیوں کے حقوق` افیون وغیرہ )یہ فہرست سائمنکمیشن رپورٹ سے لی گئی ہے(- قسم کے امور کے تصفیہ کے لئے سردست ریاستوں کی فیڈریشن برطانوی ہند کے ساتھ شریک ہو جائے-
سائمن کمیشن نے دونوں حصوں کے تعاون کے لئے ایک کمیٹی تجویز کی ہے جس میں کچھ لوگ تو برطانوی ہند سے شامل ہوں اور کچھ لوگ والیان ریاست کی طرف سے- حکومت ہند کے نمائندے کمیشن نے دو قسم کے تجویز کئے ہیں- یعنی کچھ تو مجالس قانون ساز سے چنے جائیں اور کچھ وائسرائے مقرر کریں- لیکن جو سب سے اہم سوال تھا کمیشن نے اسے حل نہیں کیا` یعنی ان کے آپس میں ملنے اور مشورہ کرنے کا فائدہ کیا ہو گا؟ اس نے صرف یہ ذکر کیا ہے کہ اس کمیٹی کے غور و خوض کا نتیجہ اسمبلی اور چیمبرز آف پرنسز دونوں کے سامنے پیش کر دیا جائے- لیکن گو اس سے بالواسطہ طور پر تو کچھ فائدہ ہو لیکن بلاواسطہ طور پر اس کا کچھ نتیجہ نہ نکلے گا- پس میرے خیال میں سائمن کی تجویز سے زیادہ اتحاد پیدا کرنے والی تجویز ہونی چاہئے تاکہ آپس میں اتحاد کا راستہ نکل آئے-
میں لکھ چکا ہوں کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ ریاستوں کا آپس میں کوئی نظام ہو- والیان ریاست کے دلوں میں عام طور یہ خیال ہے کہ یہ امر ان کے درجہ کے منافی ہے کہ وہ ہندوستان کے باشندوں سے مل کر کام کریں اور ان کا یہ احساس کسی زیادہ گہرے تعلق کے پیدا کرنے میں روک ہے- علاوہ ازیں یہ امر بھی کہ ایک علاقہ کی حکومت جمہوری ہے اور دوسری شخصی روک پیدا کرتا ہے- لیکن اگر ریاستوں کا آپس میں سمجھوتہ ہو جائے کہ ان کی چیمبرزآف پرنسز بجائے خالی غور کرنے والی مجلس کے ایک قسم کی اتحادی مجلس ہو تو پھر ہندوستانی اور ریاستی علاقوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہو جاتی ہے- کیونکہ اس صورت میں یہ انتظام کیا جا سکتا ہے کہ دونوں کی ایگزیکٹو آپس میں مشورہ کر لیا کرے لیکن یہ تدبیر تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب دونوں کا نظام نیابتی ہو- یعنی دونوں شاخوں کا نظام کثرت رائے کا آئینہ ہو تاکہ دونوں مجالس جو رائے مشورہ سے قائم کریں اسے اپنی اپنی مجالس میں منظور بھی کروا سکیں- گویا یہ اس قسم کا مشورہ ہو گا جیسا کہ برطانیہ کی امپیریل (IMPERIAL) کانفرنس ہوتی ہے کہ مجلس عاملہ کے ممبر آپس میں مل کر ایک پالیسی طے کر لیتے ہیں اور پھر اپنی اپنی مجالس میں اپنے اثر اور رسوخ سے اسے منظور کروا لیتے ہیں-
اگر اس قسم کے نظام کے بنانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو اس سے کئی قسم کے فوائد ہوں گے-
)۱(
ریاستوں کو آپس میں ایسے اتحاد سے دریغ نہ ہو گا جس میں والیان ریاست یا ان کے نمائندے شامل ہوں اور ایک ایسی مرکزی مجلس بنا لیں جس میں ایسے امور جو مرکزی کہے جانے کے مستحق ہیں- مشورہ سے طے کیا کریں اور اس مجلس کا فیصلہ ان مشترک امور میں سب ریاستوں کے لئے واجب الاطاعت ہو-
)۲(
ریاستوں کو اس طرح نیابتی حکومت کرنے کی عادت ہو جائے گی اور گو شروع شروع میں وہ صرف اپنے ہم رتبہ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے لیکن اس عادت کے پڑ جانے کے بعد امید ہے کہ برطانوی ہند کے نمائندوں سے مل کر کام کرنے میں بھی انہیں اعتراض نہ ہو گا- مل کر کام کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ اس مجلس کے فیصلوں کے ماننے سے انہیں انکار نہ ہو گا جس میں وہ اپنی تعداد کے مطابق نیابت رکھتے ہوں گے-
)۳(
اگر اس قسم کی فیڈریشن ریاستوں میں قائم ہو گئی تو ریاستوں کا انتظام بھی پہلے سے اچھا ہو جائے گا- اس وقت فرداً فرداً تو بعض ریاستوں کا بہت اچھا انتظام ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض ریاستوں سے برطانوی ہند بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن یکسانیت ریاستوں میں مفقود ہے- بعض ریاستوں کا انتظام ایسا خراب ہے کہ اسے حکومت نہیں کہہ سکتے صرف خدا تعالیٰ کا عذاب کہہ سکتے ہیں- پس اگر فیڈریشن قائم ہو جائے گی تو نیابتیحکومت کی عادت اندرونی معاملات پر بھی اثر انداز ہو گی اور مشترک تصفیہ سے ریاستوں میں ایک یکسانیت بھی پیدا ہو جائے گی-
)۴(
برطانوی ہند کا نظام خراب ہوئے بغیر برطانوی ہند اور ریاستی ہند مشترک ہو کر کام کر سکیں گے-
)۵(
اس اشتراک کے نتیجہ میں نوے فیصدی امید ہو گی کہ دونوں حصوں کی مجلسوں میں سمجھوتے کے مطابق قانون پاس ہو جائے-
)۶(
آئندہ کے لئے دونوں فریق کے فیڈریشن میں شامل ہونے کا راستہ صاف ہو جائے گا- یہ سوال کہ ریاستیں کوئی بڑی اور کوئی چھوٹی ہیں- ان کی فیڈریشن کس اصول پر بن سکتی ہے کوئی زیادہ اہم نہیں کیونکہ اس کا حل ہم پرانی امپیریل جرمن بنڈیسریٹ (BUNDESRAT) کے اصول پر کر سکتے ہیں جس میں کہ جرمن ریاستوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں- ان جرمن ریاستوں کے رقبے اور آبادی میں اس قدر فرق تھا کہ امریکہ کے پریزیڈیٹ مسٹر لاول نے ان کے اتحاد کے متعلق کہا تھا کہ یہ ایک اتحاد ہے جس میں
>ایک شیر` نصف درجن کے قریب لومڑیاں اور بیس کے قریب چوہیاں شامل ہیں<-
ہندوستان کی ریاستوں کا تفاوت بھی اسی قسم کا ہے- پس اسی اصل پر کہ جو جرمنریاستوں نے قبول کیا تھا ہندوستانی ریاستیں اپنا نظام قائم کر سکتی ہیں-
وہ اصل جو جرمن ریاستوں نے اپنی نیابت کے لئے تسلیم کیا تھا یہ تھا کہ کسی ریاست کو حق نیابت نہ اس کے رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے دیا جائے گا اور نہ چھوٹی بڑی ریاستوں کو یکساں حق ملے گا بلکہ دونوں امور کو مدنظر رکھ کر ایک نسبت نکال لی جائے گی جس کے مطابق مختلف ریاستوں کو حق دیا جائے گا- چنانچہ اس اصل کے مطابق انہوں نے پرشیا کو جس کی آبادی باقی سب ریاستوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ تھی اٹھاون میں سے کل سترہ ووٹ دیئے تھے- یہاں بھی اسی اصول پر ریاستوں کی نمائندگی رکھی جائے - یعنی چھوٹی ریاستوں کو اس لحاظ سے کہ وہ اپنے گھر میں ویسی ہی آزاد ہیں جیسے کہ بڑی ریاستیں کچھ زائد حق دیا جائے اور بڑی ریاستوں کو بوجہ اس کے کہ ان کی نمائندگی اگر ان کے رقبے اور آبادی کے مطابق ہو تو وہ چھوٹی ریاستوں کی آواز کو بالکل دبا دیں گی ان کے حق سے کم ملے-
اسی طرح ریاستوں کی مجلس کی ساخت بھی اس امپیریل بنڈسٹریٹ کے اصول پر ہو کیونکہ دوسری تمام دنیا کی مجالس سے اس میں یہ فرق ہو گا کہ اس میں یا والی ریاست ممبر ہو گا یا اس کا مقرر کردہ شخص اور جس ریاست کے زیادہ ممبر ہوں گے وہ سب کے سب ایک رائے دینے پر مجبور ہوں گے- کیونکہ وہ والی ریاست یا ریاست کے نمائندے ہوں گے نہ کہ افراد کے- اور یہی حال جرمن بنڈیسریٹ (BUNDESRAT) کا ۱۹۱۰ء سے پہلے تھا- پروفیسر ڈبلیو- بی مانرو MANROE)۔B۔(W اس کے متعلق لکھتے ہیں-
>جرمن کی فیڈرل مجلس بنڈیسریٹ (BUNDESRAT) کے ممبر معین میعاد کے لئے مقرر نہیں ہوتے تھے بلکہ ان ریاستوں کو جن کے وہ نمائندے تھے اختیار ہوتا تھا کہ جب چاہیں انہیں واپس بلا لیں- یہ ممبر ان ہدایات کے ماتحت رائے دیتے تھے جو ان کو ان کی ریاستوں کی طرف سے ملتی تھیں اور اسی لئے ہر ایک ریاست کے جملہ ممبر متحدہ صورت میں ووٹ دیتے تھے- بلکہ ہر ریاست کا ہر ممبر اپنی ریاست کی طرف سے ووٹ دے سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ کسی ریاست کے دوسرے ممبر بھی حاضر ہوں- اس جہت سے بنڈیسرہٹ گویا ایک سفراء کا مجمع تھی نہ کہ نمائندوں کی مجلس۔۔۔۔۔۔۔یہ محض ایک بین الاقوام مجلس شوریٰ نہیں تھی- بلکہ نظام اساسی کا حصہ تھی- جسے قانون سازی کا اختیار حاصل تھا<-۶۵~}~
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ جرمن سینٹ کی ساخت ایسی تھی جیسے کہ سفیروں کی کونسل کی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اسے قانون پاس کرنے کی بھی اجازت تھی اور اسی قسم کی کونسل کی اس وقت ریاستوں کو ضرورت ہے- یعنی اس کے نمائندے والیان ریاست کے نمائندے ہوں اور انہیں ووٹ کا حق ذاتی حیثیت میں حاصل نہ ہو بلکہ ریاست کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ہو اور جب ریاست چاہے پہلے نمائندہ کو واپس بلا لے اور نیا نمائندہ بھیج دے اور اگر ایک نمائندہ غیر حاضر ہو تو دوسرا اس کا ووٹ بھی دے دے کیونکہ ووٹ نمائندہ کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے-
اس طریق عمل کو اختیار کر کے ریاستیں پہلا قدم فیڈریشن کے اصول کی طرف اٹھا سکتی ہیں ورنہ ان کا اتحاد مشکل ہے کیونکہ حیدر آباد` میسور` کشمیر` بڑودہ وغیرہ بڑی ریاستیں جب قانون ساز مجالس کے بنانے کا سوال آئے گا ضرور اپنی بڑائی کا سوال اٹھائیں گی پس ان کے مطالبہ کا حل اور چھوٹی ریاستوں کے حقوق کی حفاظت مذکورہ بالا اصل کے ماتحت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اس نظام کے ماتحت بڑی ریاستوں کو ایک حد تک زائد نمائندگی بھی مل سکتی ہے اور پھر ریاستوں میں جو شخصی حکومت کا طریق ہے اس کے قائم رہتے ہوئے ایک نمائندہ مجلس بھی تیار ہو سکتی ہے-
مجھے معلوم ہے کہ بعض ریاستیں ہندوستانی فیڈریشن میں شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب تک ریاستیں پولیٹیکل سیکرٹری کے ماتحت ہیں اور جب تک ان کے نمائندوں کو والیان ریاست نے خود چننا ہے اور جب تک ان کے نمائندوں کی رائے والیانریاست کے تابع رہنی ہے اس وقت تک ہندوستان کی آزادی کو خطرہ میں ڈالے بغیر وہ ہندوستانی فیڈریشن میں شامل نہیں ہو سکتیں- ان سوالات کو وہ حل کر دیں تو پھر ان کے فیڈریشن میں شامل ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا- لیکن جب تک یہ نہ ہو تو صرف یہی طریق ہے کہ وہ بھی صوبہجاتی اور مرکزی اصول پر ایک تقسیم اپنے کاموں کی کریں- صوبہجاتی قسم کے کاموں میں ہر ریاست خود مختار ہو- مرکزی قسم کے کاموں میں وہ مرکزیمجلس کے فیصلوں کی پابند ہو- اس مرکزی مجلس کی ایگزیکٹو نمائندگی کے اصول پر ہو اور اکثریت کی نمائندہ ہو- وہ امور جن کے متعلق یہ مجلس اور برطانوی ہند اشتراک عمل کا فیصلہ کر لیں ان کے متعلق جب کوئی سوال ہو تو اس وقت کی برطانوی ایگزیکٹو اور ریاستی ایگزیکٹو مل کر ایک مسودہ تیار کر لیں- چونکہ دونوں کو اپنی اپنی مجلس میں اکثریت حاصل ہو گی اس لئے دونوں ان مسودات کے پاس کرانے میں کامیاب ہو سکیں گی- اگر مسودات کے پیش کرنے کے بعد ممبران مجلس میں زیادہ مخالفت نظر آئے تو دونوں پھر مل کر مشورہ کر لیں اور ایسے تغیرات کر لیں جو دونوں کے لئے تسلی کا موجب ہوں- اس طرح اکثر امور میں مشورہ کے ساتھ کام ہو سکے گا اور جب تک فیڈریشن مکمل نہ ہو یہی ہو سکتا ہے کہ جس قدر اتحاد ہو سکے اسے قبول کر لیا جائے-
لیکن ایک اور امر بھی غور طلب ہے اور وہ یہ کہ اوپر کی سکیم اسی وقت چل سکتی ہے جب کہ دونوں فیڈریشنوں کی ایگزیکٹو مجلسیں کونسلوں کے آگے جواب دہ ہوں- جب تک یہ بات نہ ہو ایگزیکٹو کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی اور وہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی- پس اس وقت تک کے لئے کیا انتظام ہو گا؟
میرے نزدیک اس وقت تک کے لئے یہ علاج ہو سکتا ہے کہ ایک سب کمیٹی اس قسم کی جیسی کہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی مجلس مندوبین میں ہوتی ہے بنا دی جائے- اس میں مجلس کی سب پارٹیوں کے ممبر شامل ہوں- اسی قسم کی ایک کمیٹی چیمبر آف پرنسز کی طرف سے ہو- ان دونوں کمیٹیوں کا یہ کام ہو کہ جو مسودہ بھی اگزیکٹو کی طرف سے ان امور کے متعلق پیش ہونا ہو- جن میں اشتراک کا فیصلہ کیا گیا ہو وہ پہلے ان کے مشترک اجلاس میں پیش ہو اور اس صیغہ کا سیکرٹری اور اسی طرح مجالس مرکزی کے پینل سے چنا ہوا اسسٹنٹ سیکرٹری ان لوگوں سے مشورہ کرے اور جس قدر اثر یہ کمیٹی ڈال سکے ڈال کر مسودہ ایسی شکل میں تجویز کیا جائے جو سب کے لئے قابل منظوری ہو- اس صورت میں چونکہ ایگزیکٹو کو مجلس میں اکثریت نہ ہو گی اس لئے اس قدر فائدہ تو نہ ہو گا جو اول الذکر صورت میں ہے لیکن بہر حال ایک حد تک تعاون کی صورت پیدا ہو جائے گی-
میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریاستوں کو ایک دفعہ سنجیدگی سے اور پھر زمانہ کی رفتار پر غور کر کے اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ہندوستانی فیڈریشن میں شامل ہو نے کے قابل ہو سکیں- اس میں ان کی بھی عزت اور ان کی رعایا اور ان کے ملک کی بھی بہتری ہے- انہیں غور کرنا چاہئے کہ ان سے بہت زیادہ صاحباقتدار اور بہت زیادہ اختیار رکھنے والی حکومتیں آخر میں نیابتی اور اتحادی اصول کی طرف مائل ہونے کے لئے مجبور ہوئی ہیں- پس جو کل ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہو گا اور خراب صورت میں ہو گا وہ کیوں آج عمدگی اور نظام کے ساتھ نہ ہو جائے- اگر وہ فوراً فیڈریشن میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں تو ہم پھر امپیریل جرمنی کانسٹی چیوشن کی نقل کر کے اپنی مشکلات کا حل سوچ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ مجلس مندوبین میں صوبوں اور ریاستوں کی رعایا کے افراد کے نمائندے ہوں اور دوسری مجلس کو بجائے کونسل آف سٹیٹ کے سٹیٹس کونسل قرار دے دیا جائے اور اس میں ریاستوں اور صوبہ جات کی حکومتوں کی نمائندگی کا طریق جاری کر دیا جائے- اس وقت یہ بات آسانی سے ہو سکتی ہے لیکن بعد میں اس قسم کے تغیرات مشکل ہوں گے-
باب دہم
متفرق
میں نے مالی امور کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور نہ اس مضمون کی مجھے اس قدر واقفیت ہے- لیکن صوبہ جات اور مرکزی خزانوں کی تقسیم میں یہ دو امور مدنظر رکھنے ضروری ہیں-:
)۱(
علمی اور تمدنی ترقی کے تمام کام صوبہ جات کے اختیار میں ہوں گے- اس لئے ضروری ہے کہ اموال کی تقسیم ایسی ہو کہ صوبہ جات ان اہم محکموں میں ترقی کر سکیں` ورنہ حکومت کے جو اصل مطلوب امر ہیں وہ بغیر کافی توجہ کے رہ جائیں گے-
)۲(
صوبہ جات کو اپنے اعتبار پر قرض لینے کی اجازت ہونی چاہئے گویہ شرط ہو جائے کہ ہر صوبہ صرف اپنے علاقے کے اندر قرض لے سکتا ہے- بیرون ہند کی منڈی سے یا دوسرے صوبوں سے بغیر اجازت مرکز قرض نہ لے تاکہ ناجائز مقابلہ نہ ہو- اس قسم کی اجازت دینے سے مرکز سے مقابلہ کی صورت پیدا ہونے کا ہرگز احتمال نہیں کیونکہ اول تو بڑے بڑے مالداروں کے تعلقات مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ہوں گے` کیونکہ بڑاگاہگ لوگوں کی توجہ کو زیادہ کھینچتا ہے` دوسرے ہندوستان سے باہر کی منڈیاں اسی کے اختیار میں رہیں گی-
)۳(
جن صیغوں کی آمد صوبہ جات کے اخراجات کی وجہ سے بڑھے ان کی آمد کی ترقی میں صوبہ جات کو بھی حصہ وار مقرر کیا جائے ورنہ آزادی کے حصول کے بعد تو مرکزیحکومت انہیں مجبور نہ کر سکے گی- پس وہ ان صیغوں کی طرف کم توجہ دیں گے اور مرکز کے مالیات کو نقصان پہنچے گا یا کم سے کم آپس کے تعلقات کشیدہ ہوں گے-
اب ایک اور بات ہے جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ مرکزی حکومت اور سیکرٹری آف سٹیٹ کا تعلق ہے- میرے نزدیک وزیر ہند کی کونسل کو تو فوراً منسوخ کر دینا چاہئے- اس کی کوئی ذمہ واری نہیں ہے اور وہ خواہ مخواہ وزیر ہند کے کام کو ایک کونسل کے کام کے مشابہ دکھا کر لوگوں کو غلطی میں ڈالتی ہے اور جب اصولاً ہندوستان کی نسبت حکومتخود اختیاری کا فیصلہ ہو گیا تو پھر اس مجلس کی ضرورت بھی نہیں- سیکرٹری آف سٹیٹ کا تعلق آئندہ حکومت ہند سے محدود ہو جانا چاہئے- یعنی صرف انہی معاملات میں اس کا تعلق گورنرجنرل سے رہے جو ابھی حکومت ہند کے قبضہ میں رہیں گے یعنی پولیٹیکل اور فوج اور فارن یا اس کام کے متعلق جو گورنر جنرل یا گورنروں کے سپرد بحیثیت گورنر جنرل یا گورنر کیا گیا ہو- باقی سب امور کا تصفیہ گورنر جنرل ہندوستان میں کریں اور زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ واری رپورٹ یا ماہواری وزیر ہند کو جایا کرے جس سے انہیں حالات سے آگاہی رہے-
تتمہ
میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے محض اس نیت سے لکھا ہے کہ شاید ان باتوں سے کوئی امر ہندوستان کے نمائندوں یا برطانیہ کے نمائندوں کی توجہ کو کھینچ لے اور اس عظیم الشان سوال کے حل کرنے میں جو اس وقت دو عظیم الشان ملکوں کے سامنے اور جس کے حل ہونے پر خدا تعالیٰ کی تینتیس کروڑ مخلوق کے آرام یا تکلیف کا انحصار ہے میں کچھ حصہ لے کر ثواب کا مستحق ہو جائوں- اور اگر میں کسی جگہ تفصیلات میں پڑا ہوں تو محض اس وجہ سے کہ ان سے میرے مقرر کردہ اصول کی تشریح ہو جائے ورنہ مجھے خوب معلوم ہے کہ سیاسی مسائل بھی دوسرے مسائل کی طرح سینکڑوں طریق پر حل کئے جا سکتے ہیں اور کسی شخص کا یہ کہنا کہ اس کی بتائی ہوئی تفصیل ہی کام کو درست کر سکتی ہے نرم سے نرم لفظوں میں بھی ایک بے دلیل بات کہلانے کا مستحق ہے- ہاں اصول ایک ایسی چیز ہیں جنہیں ہم دعویٰ کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں اور ان اصول کے متعلق جو میں نے پیش کئے ہیں میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت معقول اور منصفانہ ہیں اور ان کو نظر انداز کر کے ہندوستان میں عدل اور انصاف کا قائم کرنا قریباً ناممکن ہے-
میں آخر میں تمام نمائندگان رائونڈ ٹیبل کانفرنس` ممبران پارلیمنٹ اور ہندوستان اور انگلستان کے بارسوخ افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک اہم ذمہ واری کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہے- پس تمام قسم کے تعصبات سے بالا ہو کر اس کام کو کرنے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان کے نام کو یاد رکھیں اور ان کے فیصلوں سے سکھ پانے والوں کی دعائیں ان کو ہمیشہ پہنچتی رہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے مستحق ہو جائیں-
نفسانیت عارضی معاملات میں بھی بری ہے لیکن وہ فیصلے جن کا اثر شاید سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہنا ہے اور اربوں انسانوں پر پڑنا ہے ان پر پہنچتے وقت ذاتی رنجشوں یا دنیوی فوائد کی خواہش کو اپنے اوپر غالب آنے دینا ایک بہت بڑا ظلم ہے- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی نیتوں کو صاف اور ارادوں کو بلند اور عقلوں کو تیز کرے اور اس اجتماع اور اس اجتماع کے نتیجہ میں ہونے والے فیصلوں کو ہندوستان اور انگلستان اور ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان رشتہ اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب بنائے تاکہ ہم سب خدا تعالیٰ کی ذمہ واریوں سے بھی اور اپنے ہمعصروں اور اپنی آئندہ نسلوں کی ذمہ واریوں سے بھی عزت کے ساتھ سبکدوش ہوں اور تا اس وقت کہ ہم اس دنیا سے جدا ہوں دنیا اس وقت سے جب کہ ہم اس میں آئے تھے نیکی` محبت اور یگانگت میں ایک لمبا فاصلہ طے کر چکی ہو- آمین- ثم آمین واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین
‏a11.15,a
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
انگلینڈ اور ہندوستان کے چیدہ اصحاب کی آراء
چونکہ گول میز کانفرنس میں مسائل ہند کے متعلق گفتگو شروع ہو چکی تھی اس لئے مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات اور ان کی معقولیت سے سیاسی لیڈروں اور حکومت ہند اور برطانیہ کے ارکان کو آگاہ کرنے کے لئے اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن انگلستان اور ہندوستان میں بکثرت مفت تقسیم کیا گیا- اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر جو آراء ظاہر کی گئیں ہیں ان میں سے چند ایک بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں-:
لارڈ میسٹن سابق گورنر یو- پی-:
>میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے- میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں- مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہوگا-<
لفٹینٹ کمانڈر کینوردی ممبر پارلیمنٹ-:
>کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت ممنون ہوں- میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے-<
سر میلکم ہیلی (SIRMALCOLMHAILEY) گورنر صوبہ یو-پی و سابق گورنر
پنجاب-:
>میرے پیارے مولوی صاحب )امام مسجد لندن(
اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے- میں آپ کا بہت ممنون ہوں- جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں- اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے- مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے لئے مفید ہو گی اور میں اسے نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھوں گا-
سردار محمد اسماعیل بیگ دیوان ریاست میسور-:
>سر مرزا آپ کی کتاب پا کر بہت ممنون ہیں- وہ اسے بہت دلچسپی سے پڑھیں گے- علیالخصوص اس وجہ سے کہ وہ آپ کی جماعت کے امام سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں<-
آپ کا صادق
آئی- ایم- ایس- سیکرٹری
مسٹر اے- ایچ غزنوی آف بنگال-:
>کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے لئے مسٹر اے- ایچ غزنوی مولوی فرزند علی صاحب کے بہت ممنون ہیں- انہوں نے اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا ہے<-
مسٹر ڈبلیو- پی- بارٹن Barton) ۔P ۔W ۔(Mr
>میں جناب کا امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کرنے کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں- یہ ایک نہایت دلچسپ تصنیف ہے- میرے دل میں اس بات کی بڑی وقعت ہے کہ مجھے اس کے مطالعہ کا موقع ملا ہے<-
مسٹر آر- ای ہالینڈ )انڈیا آفس( Office) (India Holland ۔E ۔R ۔Mr
>جناب کے ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ- میں نے اسے بہت دلچسپ پایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے<-
سر ہون اوملر O`MILLAR) (SIRHONE
>اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کے لئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کے لئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں- میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں- سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے- میں ان تفصیلات کے متعلق کچھ عرض نہ کروں گا جن کے متعلق اختلاف رائے ایک لازمی امر ہے- لیکن میں اس اخلاص` معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہز ہولی نس (HISHOLINESS) )امام جماعت احمدیہ( نے آپ کی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہز ہولی نس کے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے اس امر کے متعلق بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں-
مجھے افسوس ہے کہ میں ابھی تک بارنس میں حاضر ہو کر آپ کی مسجد کو نہیں دیکھ سکا اور نہ آپ سے ملاقات کر سکا ہوں- کل امید ہے کہ اگر موسم نے مجھے اتنا سفر کرنے کی اجازت دی تو میں چوہدری ظفراللہ خان کی دعوت سے فائدہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آپ کے اپنے لوگوں میں ملاقات کروں گا<-
لارڈ کریو- سابق وزیر ہند
>لارڈ کریو مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف کردہ کتاب کے ارسال کے لئے امام مسجد لنڈن کے بہت ممنون ہیں- انہوں نے یہ کتاب دلچسپی سے پڑھی ہے<-
سرای گیٹ GATT)۔E۔(SIR
>میں جناب کا کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے ارسال کے لئے نہایت شکر گذار ہوں اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں<-
سر گریہم بوور
>میں مسئلہ ہند پر آپ کی ارسال کردہ کتاب کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں اور میں اسے نہایت دلچسپی سے پڑھوں گا- گول میز کے مندوبین نے ابتداء تو اچھی کی ہے- یوں تو میرا خیال ہے کہ فیڈرل سسٹم کو سبھی پسند کرتے ہیں لیکن تفاصیل کے متعلق دقتیں ہیں- مثلاً ہندوستان کی فوج اقوام کی اکثر مسلمان ہوں اور ہندی افواج میں اعلیٰ ترین رجمنٹیں مسلمانوں کی ہیں- تو کیا یہ تجویز ہے کہ انگریز افسروں کی بجائے ہندی افسر مقرر کر دئے جائیں؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نظام چل نہ سکے گا- یہی میری رائے پولیس کے متعلق ہے- فوج اور پولیس کا سوال ظاہراً تو بہت آسان ہے لیکن عملاً اتنا آسان نہیں- میں یہ کتاب سرجیمز-ارانز سابق چیفجسٹس جنوبی افریقہ کو بھیجوں گا اور اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار )کیپ ٹائمز( کے ایڈیٹر کو اس کا دیباچہ شائع کرنے پر آمادہ کریں-
جنوبی افریقہ میں یہودیوں کا بڑا اثر ہے اور ریاستہائے متحدہ کے یہودیوں کے علاوہ دوسرے درجہ پر صیہون فنڈ میں چندہ دینے والے یہیں کے یہودی ہیں- یہی صوبہ جاتی تحریک انہیں مسلمانوں کا دشمن بنائے ہوئے ہے- یورپین لوگ خاص کر انگریز مسلمانوں کے حق میں ہیں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ اخبار )کیپ ٹائمز( ہز ہولی نس کی اس تصنیف کا دیباچہ شائع کرے<-
سر جان کر KERR) JOHN ۔(SIR
کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کی ایک جلد ارسال فرمانے کے لئے میں آپ کا بہت مشکور ہوں اورمیں اسے بہت دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں<-
لارڈ ڈارلنگ (LORDDARLING)
>لارڈ ڈارلنگ امام مسجد لندن کی طرف سے مسئلہ ہند کے متعلق کتاب پا کر بہت مشکور ہیں- انہیں یقین ہے کہ اس کتاب سے انہیں بہت سی کار آمد معلومات اور تنقید ملے گی<-
سر جیمز واکر WALKER) GAMES ۔(SIR
>مجھے ایک جلد >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< مصنفہ جناب امام جماعت احمدیہ ملی ہے- میں اس کے لئے آپ کا بہت مشکور ہوں- میں نے اس کے بعض جستہ جستہ مقامات دیکھے ہیں- مجھے یقین ہے کہ یہ تصنیف قابل دید ہو گی<-
میجر آر- ای- فشر- سی- بی- ای FISHER)۔E۔(MAJORR
>آپ نے از راہ کرم مجھے مسئلہ ہند پر امام جماعت احمدیہ کی تصنیف ¶کردہ کتاب ارسال فرمائی- اس کا شکریہ مجھ پر واجب ہے- میں اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہا ہوں- مجھے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جو تجارب حاصل ہوئے ہیں ان کی بناء پر آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے- بطور ممبر انڈین ایمپائر سوسائٹی (INDIANEMPIRESOCIETY) کے میں یقیناً ہمیشہ اس بات کا حامی رہوں گا کہ اسلام کے متعلق جو برطانیہ کی ذمہ واری ہے وہ ہماری قوم کے اعلیٰ ترین اخلاقی فرائض میں سے ہے-
میں نے اپنی زندگی کے بہت سے سال مسلمانوں میں رہ کر گزارے ہیں- وہ روا داری اور مہمان نوازی اور سخاوت جو مسلمان دوسری موحد اقوام سے برتتے ہیں اسلام کے اعلیٰ معیار تعلیم کی شاہد ہے ہر دو مذاہب یعنی اسلام اور عیسائیت میں ایک مجانست ہے- اسلام عیسائیت کی روایات کو قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس سے دونوں مذاہب میں ایک مضبوط اتحاد پیدا ہو جانا چاہئے- اگرچہ میں خود عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں اسلامی روح کو جس نے ترقی اور تہذیب کے پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتا ہوں<-
آنریبل پیٹرسن- سی- ایس- آئی- سی- آئی- ای (HonourablePeterson)
کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے ارسال کا بہت بہت شکریہ- مجھے ابھی تک اس کے ختم کرنے کی فرصت نہیں ملی- امید ہے چند دنوں میں ختم کر لوں گا- لیکن جس قدر میں نے پڑھا ہے اس سے ضرور اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تصنیف موجودہ گھتی کے سلجھانے کے لئے ایک دلچسپ اور قابل قدر کوشش ہے- مسلمانوں کا نقطئہ نظر اس میں بہت وضاحت سے پیش کیا گیا ہے- امید ہے کہ میں آپ سے جلد ملوں گا<-
لارڈ ہیلشم (LORDHALISHAM)
>میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے وہ کتاب ارسال کی جس میں سائمنرپورٹ کے متعلق مسلمانوں کی رائے درج ہے- میں اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہوں کہ سائمنرپورٹ کو خالی الذہن ہو کر پڑھنا بہت ضروری ہے اور اسے ناحق ہدف ملامت بنانا یا غیرمعقول مطالبات پیش کرنا درست نہیں- اس لئے مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے متعلق ہندوستان کے ایک ذمہ وار طبقہ کی رائے پڑھنے کا موقع ملا ہے<-
لارڈ سڈنہم
>میں اس بات کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مہربانی فرما کر مجھے جماعت احمدیہ کے خیالات سے جو ہز ہولی نس نے بڑی خوبی سے بیان فرمائے ہیں آگاہ ہونے کا موقع دیا ہے- میں نے دیکھا ہے کہ ہز ہولی نس اس خیال سے متفق ہیں کہ ہندوستان ابھی درجہ نو آبادیات کے لائق نہیں اور یہ کہ بہت سے دوسرے مبصرین کی طرح ہزہولی نس بھی اس خیال کے ہیں کہ انگریزی (DEMOCRACY) کے نمونہ پر ہندوستان کی حکومت ہونی چاہئے- مگر شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا پریذیڈینٹ اپنے وزراء خود چنتا ہے اور یہ وزراء اس کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں نہ کہ ملک کی کانگریس کے سامنے- فیڈرل نظام پر عملدار آمد کرنے میں بعض خاصی دقتیں ہیں- اضلاع متحدہ امریکہ کو چار سال کی جنگ اور دس لاکھ آدمیوں کی جانوں کی قربانی کے بعد یہ درجہ ملا تھا- فی الحال جیسا کہ سائمن کمیشن کی رائے ہے ہندوستان فیڈرل حکومت کے قابل نہیں ہوا- کبھی ہندوستان کے سے حالات میں کسی ملک میں فیڈرل حکومت قائم نہیں ہوئی- فیڈریشنیں قدرتی طور پر خود بخود بن جایا کرتی ہیں جب لوگ ان کے لئے تیار ہوں-
ہندوستان کو جو بہت کافی حد تک حکومت خود اختیاری دی جا چکی ہے اس پر جو کچھ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے مستزاد کیا جا سکے اس میں دریغ نہیں ¶ہونا چاہئے- لیکن میرے خیال میں سب سے اہم معاملہ پبلک کی بہبودی کا ہے جسے کانگریس اور بالشویک خیال کے لوگ مزید نقصان پہنچا رہے ہیں<-
برطانیہ کا مشہور ترین اخبار ٹائمز آف لندن (TIMEOFLONDON)مورخہ ۲۰نومبر ۱۹۳۰ء کے نمبر میں فیڈرل آئیڈیل (FEDERALIDEAL) کے عنوان کے ماتحت ایک نوٹ کے دوران لکھتا ہے کہ-:
>ہندوستان کے مسئلہ کے متعلق ایک اور ممتاز تصنیف مرزا )بشیرالدین محمود( خلیفہالمسیح امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے<-
ایل- ایم ایمرسی- مشہور ممبر کنزرویٹو پارٹی
>میں نے اس کتاب کو بڑی دلچسپی سے پڑھا ہے اور میں اس روح کو جس کے ساتھ یہ کتاب لکھی گئی ہے- اور نیز اس محققانہ قابلیت کو جس کے ساتھ ان سیاسی مسائل کو حل کیا گیا ہے- نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں<-
ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب آف علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں-
>میں نے جناب کی کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی- میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی یورپ میں بہت اشاعت فرمائیں- ہر ایک ممبر پارلیمنٹ کو ایک ایک نقل ضرور بھیج دی جائے اور انگلستان کے ہر مدیر اخبار کو بھی ایک ایک نسخہ ارسال فرمایا جائے- اس کتاب کی ہندوستان کی نسبت انگلستان میں زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے- جناب نے اسلام کی ایک اہم خدمت سر انجام دی ہے<-
سیٹھ حاجی عبداللہ ہارون صاحب ایم- ایل- اے- کراچی
>میری رائے میں سیاسیات کے باب میں جس قدر کتابیں ہندوستان میں لکھی گئی ہیں ان میں کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< بہترین تصانیف میں سے ہے<-
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال لاہور تحریر فرماتے ہیں-
>تبصرہ کے چند مقامات کا میں نے مطالعہ کیا ہے- نہایت عمدہ اور جامع ہے<-
اخبار انقلاب لاہور اپنی اشاعت مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء میں رقطراز ہے-:
>جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے- یہ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا کام تھا جو مرزا صاحب نے انجام دیا<-
اخبار سیاست اپنی اشاعت مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۳۰ء میں رقمطراز ہے-:
>مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتداء کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حقشناسانسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے- آپ کی سیاسی فراست کا ایک زمانہ قائل ہے- اور نہرو رپورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطئہ نگاہ پیش کرنے میں` مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطئہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے کتابیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے-
زیر بحث کتاب سائمن رپورٹ پر آپ کی تنقید ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے- جس کے مطالعہ سے آپ کی وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے- آپ کا طرز بیان سلیس اور قائل کر دینے والا ہوتا ہے- آپ کی زبان بہت شستہ ہے<-
ایڈیٹر صاحب اخبار ہمت لکھنئو مورخہ ۵- دسمبر ۱۹۳۰ء کے پرچہ میں رقمطراز ہے-:
>ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا` انگریزی میں ترجمہ ہو کر طبع ہونا` اغلاط کی درستی` پروف کی صحت اور اس سے متعلقہ سینکڑوں دقتوں کے باوجود تکمیل پانا اور فضائی ڈاک پر لنڈن روانہ کیا جانا اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو اپنے نقطئہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ- غرضیکہ کتاب مذکور ظاہری اور باطنیخوبیوں سے مزین اور دیکھنے کے قابل ہے<-
۱~}~
‏D۔H۔P۔A۔M ۔Strong۔F۔C Dr, by Constitutions lacitPoli Modern
۔1930 London in Published 222 Page London
۲~}~
‏by States United the in Government Constitutional
۔54 Page, Wilson Woodrow ۔Mr
۳~}~
ڈوور: شہر اور بندر گاہ- کینٹ انگلستان کی کھریا مٹی کی ڈھلوان چٹان کے نیچے ایک خلیج کے کنارے واقع ہے- یہ پانچ بندرگاہوں میں سب سے بڑی ہے جسے انگلستان کی کلید کہا جاتا ہے- پہلی عالمی جنگ میں اہم بحری اڈہ تھا اور دوسری عالمی جنگ میں دور مار جرمن توپوں کا مسلسل نشانہ بنا رہا- ڈوور کا تاریخی حصار اور شیکسپیئر کی چٹان قابل دید مقامات ہیں- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ ۶۲۸ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور(
۴~}~
۔414,415 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
۵~}~
۔219 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
۶~}~
‏]haweng2 [tag۔225 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
۷~}~
۔89 Page Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published
۸~}~
‏ Vol,II Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 548,549 Page
۹~}~
‏II Vol, Bryce James Lord by seicarcoDem Modern
۔929 London in Published 566,567 Page
۱۰~}~
‏Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 568 Page
۱۱~}~
‏ REPORT CHELMSFORD -MONTAGUE جنگ عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجی ٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے- لارڈ چیمس فورڈ جو لارڈہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹرمانٹیگو MONTAGUE)۔(MR کی معیت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک رپورٹ تیار کی جو مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے نام سے مشہور ہے- پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ سکیم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی- اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا-
ملخص از نیوتاریخ انگلستان صفحہ۳۱۳ مطبوعہ لاہور` آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان صفحہ ۱۳۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۷ء یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۵` ۳۶۶ مطبوعہ لاہور(
۱۲~}~ سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۵
۱۳~}~ سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۸
۱۴~}~
‏STRONG۔F۔C Dr, by Constitutions Political Modern
‏haweng1] ga[t
۔1930 London in Published 163 Page London D۔H۔P۔A۔M
۱۵~}~
‏Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 67 Page
۱۶~}~
سناتن دھرم پرچارک ۱۸- اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۷~}~
مسافر آگرہ )اخبار( جلد نمبر۲ صفحہ۲۲
۱۸~}~
ہندو سنگھٹن اور آریہ سماج صفحہ۱۸۸
۱۹~}~
ویدک انڈیا طبع دوم صفحہ۹۷
۲۰~}~
گدھ کا پراچین اتھاس صفحہ۷۲` ۷۳
۲۱~}~
سٹیٹس مین کلکتہ
۲۲`۲۳~}~
اخبار وکیل ۹ دسمبر ۱۹۲۵ء
۲۴`۲۵`۲۶~}~
ملاپ لاہور ۲۵ مئی ۱۹۲۵ء
۲۷`۲۸~}~
ملاپ ۲۳ جون ۱۹۲۸ء
۲۹~}~
اخبار تیج دہلی
۳۰~}~
آریہ ویر
۳۱~}~
گروگھنٹال اشاعت ۱۰ جنوری ۱۹۲۷ء
۳۲~}~
پرتاب
۳۳~}~
۔Lawrance Walter Sir by served> we which <India
۳۴~}~
سائمن رپورٹ جلد اول صفحہ ۳۰
۳۵~}~
‏ 118 Page Mair۔P۔L by Minorities of noitprotec The
‏Surry Kingston Press River Chapel the at Printed
‏1928 in Published London
۳۶~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۴۳
۳۷~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۲۳
۳۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۱۳۰
۳۹~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۲۹`۱۳۰
۴۰~}~
‏]2gnewah Vol,I[tag Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 542 Page
۴۱~}~
‏Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 401 Page
۴۲~}~
‏Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 401`402 Page
‏۴۳2]~}~ f[rt
‏ William Professor by Europe of Goverments The
‏ 738 Page B۔L۔L۔D۔H۔P Munroe Bennett
‏1963 A۔S۔U the in Printed
۴۴~}~
‏James۔M ۔Mr by State United the of Constitution
۔117 Page General Saltus Beck
۴۵~}~
‏James۔M ۔Mr by State United the of Constitution
۔611 Page General Saltus Beck
۴۲~}~
‏Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 382`384 Page
۴۷~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۸
۴۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۸۲
۴۹~}~
‏James۔M ۔Mr by State United the of Constitution
‏127 Page General sutlSa Beck
۵۰~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۳۶
۵۱~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۵۶
۵۲~}~
‏Shafee Mohammad ۔Sir by problems indian Important
‏89 Page
۵۳~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۷۱
۵۴`۵۵~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۱
۵۶`۵۷~}~
‏h2] ga[t سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۱`۷۲
۵۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۶
۵۹~}~
‏ of lows and Administration Constitution The
۔172 Page Keth۔C۔B۔R ۔Mr by Impire the
۶۰~}~
سائمن رپورٹ جلد۱ صفحہ ۵۱
۶۱~}~
سائمن رپورٹ جلد۱ صفحہ ۵۲
۶۲~}~
۔22۔P Muse yaRoms ۔Mr by Governed is Briton How
۶۳~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۱۹
۶۴~}~
میمورنڈم پیش شدہ روبرو سائمن کمیشن صفحہ۴
۶۵~}~
‏Bennett William Professor by Europe of Goverments The
‏543 Page B۔L۔L۔D۔H۔P Munroe
۔1963 A۔S۔U the in Printed
‏a11.16
انوار العلوم جلد ۱۲
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksnjmc- [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر
دہلی کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو حتی الوسع ان تمام ذرائع کو استعمال کرتی ہیں- جن سے وہ کوشش کرتی ہیں کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھے- جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرتا ہے اور اخلاص سے کوشش کرتا ہے وہ اس کا نتیجہ ضرور دیکھ لیتا ہے- یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال صرف کرے` اپنا آرام اور وقت صرف کرے اور پھر اس کی کوششوں کا نتیجہ نہ نکلے- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا تعلق رکھتا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں-۱~}~ پس گو ان لوگوں کی کوششیں دنیا والوں کی نظروں میں بے کار معلوم ہوں لیکن خدا کے نزدیک وہ ضائع نہیں ہوتیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوششوں کے ساتھ خدا پر پورا توکل ہو تو پھر الل¶ہ تعالیٰ بھی عجیب رنگ میں اپنی قدرتوں کا اظہار کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں جب آتھم والی پیشگوئی کی نسبت شور اٹھا کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا تو انہی دنوں ایک دن نواب صاحب بہاولپور کی مجلس میں اس کا ذکر آیا- لوگوں نے حسب معمول تمسخر سے کہنا شروع کیا کہ آتھم نہیں مرا اور پیشگوئی جھوٹی نکلی- اس مجلس میں نواب صاحب کے پیر بھی بیٹے تھے- وہ خاموش سنتے رہے لیکن جب نواب صاحب بھی لوگوں کے ساتھ تمسخر میں شریک ہوئے تو ان کے پیر صاحب نے نہایت سختی کے ساتھ کہا- کون کہتا ہے کہ آتھم نہیں مرا میں تو اس کو مردہ دیکھتا ہوں- اصل بات یہ ہے کہ وہ انسان جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے وہ کبھی الہی کاموں کی نسبت یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ان کا نتیجہ نہیں نکلے گا- میں اس وقت چھوٹا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تھے- آپ یہاں کے اولیاء اللہ کے مزاروں پر گئے اور بہت دیر تک لمبی دعائیں کیں اور فرمایا- میں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں کی روحیں جوش میں آئیں تا ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی نسلیں اس نور کی شناخت سے محروم رہ جائیں جو اس زمانہ میں اللہہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے- اور فرمایا کہ یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا اور وہ حق کو قبول کریں گے- میں گو اس وقت چھوٹا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس قول کا اثر اب تک میرے دل پر باقی ہے- پس یہاں کی جماعت اپنی کوششوں کا اگر کوئی نیک نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ خدا پر بھروسہ رکھے- یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ جس چیز کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہے گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک نالی بہت لمبی کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے- میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں- ان کے نزدیک جا کر میں نے کہا- قل مایعبوابکم ربی لولا دعاوکم- انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیر دیں- جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو- گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو-۲~}~ ان ایام میں ستر ہزار آدمی ہیضہ سے مرا تھا- پس اگر کوئی توجہ نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے- اس کے کام رک نہیں سکتے وہ ہو کر رہیں گے-
بھلا کون شخص حضرت رسول کریم ~صل۲~ کی بعثت کے وقت یہ خیال کر سکتا تھا کہ آپ کو یہ ترقیاں حاصل ہو جائیں گی- حضرت مسیح ناصری کے تین سو سال بعد عیسائیت کو ترقی نصیب ہوئی لیکن اگر ہمارے حالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کے زمانہ سے بہت پہلے احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے گی- آپ نے جو مبلغ کے لئے درخواست کی ہے اس کے متعلق آپ ناظر صاحب کی وساطت سے لکھیں تو میں انشاء اللہ اس پر غور کروں گا کیونکہ میں نظام کو توڑنا نہیں چاہتا اور اگر میں ہی نظام کو توڑوں تو میں دوسروں سے کیا امید رکھ سکتا ہوں کہ وہ نظام کی پابندی کریں گے- لیکن ایک بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اس کو یاد رکھیں کہ مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ نہیں ہوا کرتی- حضرت رسول کریم ~صل۲~ نے اپنی زندگی میں کوئی مبلغ نہیں رکھا بلکہ افراد کے ذریعہ سے اسلام پھیلا- یہ مت خیال کرو کہ ہمیں علم نہیں کیونکہ دین کے لئے ظاہری علم کی ضرورت نہیں ہے- وہ لوگ جنہوں نے ہمیں اسلام پہنچایا وہ بڑے عالم نہ تھے- لیکن وہ ایران پہنچے` چین پہنچے` غرض کہ اطراف و اکناف عالم میں پہنچے اور جہاں گئے وہاں کے عالموں کو زیر کیا- یہ وہ نور تھا جو خدا نے انہیں بخشا تھا اور اس نور کو لے کر وہ جس طرف نکلے خدا نے انہیں کامیابی عطا کی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص پیرا نام یہاں آیا وہ کسی سخت مرض میں مبتلا تھا- لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ تو قادیان چلا جا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا- بعد میں اس کے رشتہ دار اس کو لینے کے لئے آئے تو اس نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا میں اب اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا- وہ شخص پیرا اس قدر سادہ طبع تھا کہ مٹی کا تیل دال میں ڈال کر روٹی کے ساتھ کھا جاتا ان دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بٹالہ کی سڑک پر جا کر لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتے تھے- ایک دن پیرا جو ادھر سے گزرا تو مولوی محمد حسین صاحب نے اسے بھی روکا اور قادیان جانے سے منع کیا- پیرا نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ مرزا صاحب تو ایک چھوٹے سے گمنام گائوں کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہیں` وہ گھر سے باہر بھی کم نکلتے ہیں` نہ لوگوں سے زیادہ ملتے جلتے ہیں لیکن پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ لوگ دیوانہ وار اس طرف کھچے چلے جاتے ہیں- اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے اس سڑک کے ہزاروں چکر کاٹے` آپ کی ایڑیاں گھس گئیں اور جوتیاں ٹوٹ گئیں لیکن پھر بھی آپ لوگوں کو قادیان جانے سے نہ روک سکے- پس دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ سچے سلسلہ میں ہونے والوں کے دلوں کو کھول دیتا ہے اور انہیں اس طرح باطنی علوم سے پر کر دیتا ہے کہ بڑے بڑے عالم ان کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں- پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی مبلغ تمہارے کام میں نہیں آئے گا جب تک تم میں سے ہر فرد مبلغ نہ بنے- یاد رکھو کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے- ہر انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے- ہاں راہنما ہوتے ہیں لیکن وہ اس راہ میں روک نہیں بلکہ وہ تو راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں اور اگر کسی کا وجود اس راہ میں روک ہو تو وہ دنیا کے لئے زحمت ہے نہ کہ رحمت- پس کوشش کرو کہ تم میں سے ہر فرد مبلغ بنے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق پیدا ہو-
آج ایک انجنیئر صاحب مجھ سے ملے- کہنے لگے ہمارے گائوں میں ایک شخص )حضرت( مرزا صاحب کا سخت مخالف تھا وہ اب دیوانہ ہو گیا ہے- آپ لوگ جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کا نتیجہ ہے- میں نے کہا دیکھو اگر دو چار واقعات ایسے ہوتے تو ہم اتفاق پر محمول کر لیتے- لیکن یہاں تو دس نہیں` بیس نہیں` سینکڑوں` ہزاروں واقعات اسی قسم کے ہیں- اب کہاں تک انہیں اتفاقیہ سمجھیں- جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تھے تو لکھنئو کا ایک مولوی ایک دن آپ کے مکان پر آیا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت کھانا کھا رہے تھے- خادم نے کہا آپ ٹھہریئے حضرت صاحب کھانا کھا رہے ہیں- اس مولوی نے کہا نہیں انہیں کہو کہ ایک پولیس آفیسر باہر کھڑا ہے اور وہ ابھی بلاتا ہے- حضرت صاحب نے یہ سن لیا اور خود ہی باہر تشریف لے آئے- اتفاق سے اس وقت آپ کا پائوں ایک مقام پر پھسل گیا اس پر اس نے تمسخر کیا کہ اچھے مسیح ہیں کہ پولیس آفیسر کے ڈر سے پائوں پھسل گیا- لیکن ابھی تین دن بھی نہیں گذرے تھے کہ وہ خود چھت کے زینہ سے گر کر مر گیا اور خدا نے اسے بتا دیا کہ خدا کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کا کیا نتیجہ ہوتا ہے- بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے مرزا صاحب کو کوڑھ ہو جائے گا- خدا نے انہیں ہی کوڑھ میں مبتلاء کر دیا- بہت کہتے تھے مرزا صاحب کو طاعون ہو جائے گا- خدا نے یہ کہنے والوں کو طاعون سے ہلاک کیا- جب ہزاروں مثالیں اسی قسم کی موجود ہیں تو ہم کہاں تک انہیں اتفاق پر محمول کریں- پس اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا اسے محسوس کرے- تمہاری حالت یہ ہو کہ تمہارے تقویٰ و طہارت` تمہاری دعائوں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں- یاد رکھو کہ احمدیت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہوگی اور اگر آپ لوگ اس مقام پھر یا اس کے قریب تک ہی پہنچ جائیں تو پھر اگر آپ باہر بھی قدم نہ نکالیں گے بلکہ کسی پوشیدہ گوشہ میں بھی جا بیٹھیں گے تو وہاں بھی لوگ آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے-
)الفضل ۴ جون ۱۹۳۱ء(
۱~}~
بخاری کتاب الرد علی الجھمیہ وغیرھم التوحید باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ
۲~}~
ملفظات جلد۴ صفحہ۱۲۵- ایڈیشن جدید
‏a11.16,b
انوار العلوم جلد ۱۱
تحفہ لارڈ ارون
تحفہ لارڈ ارون

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
دیباچہ
یہ رسالہ ان خدمات کے اعتراف میں جو ہندوستان کی آزادی کے حصول کے بارہ میں لارڈارون (LORDIRWIN) سے ظہور میں آئی ہیں اور اس اعلیٰ اخلاقی نمونہ کی یاد گار کو تازہ رکھنے کے لئے جو انہوں نے اپنے پانچ سالہ ولایت ہند کے زمانہ میں دکھایا ہے جماعت احمدیہ کے دس ہزار افراد نے جو ہندوستان کے سب صوبوں کے سو شہروں میں بسنے والے ہیں ہزایکسیلنسی لارڈارون کے ان کے اپنے عہدہ ولایت ہند سے فارغ ہونے کے موقع پر پیش کیا ہے اس امر کے اظہار کے لئے کہ اس رسالہ کا پیش کرنا ایک وسیع جماعت کے جذبات تشکر کی ترجمانی کرتا ہے یہ شرط کی گئی تھی کہ ہر شخص جو اس میں حصہ لینا چاہے صرف ایک آنہ چندہ ادا کر سکتا ہے- تاکہ یہ تحفہ بہت سے آدمیوں کی طرف سے پیش کیا جا سکے اور تا کہ اس کا مادی پہلو اخلاص کے پہلو کے پیچھے بالکل چھپ جائے- بجائے اس کے کہ اس تحریک کو عام کیا جاتا یہ مناسب سمجھا گیا کہ بشمولیت قادیان جو سلسلہ احمدیہ کا ¶مرکز ہے صرف ہندوستان کے سو شہروں کے احمدیوں کو اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے ورنہ اگر اس تحریک کو عام کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جماعت احمدیہ کے افراد اس اعتراف میں شمولیت کرتے-
خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ قادیان
۲۷ مارچ ۱۹۳۱ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ]2 [lrm ھوالناصر
باب اول
یورایکسیلنسی (YOUREXCELLENCY) دنیا کے دستور کے خلاف اور خود اپنے سلسلہ کے دستور کے خلاف میں اس وقت سلسلہ احمدیہ کی طرف سے آپ کے ہندوستان اور وائسرائیلٹی (VICEROYALTY) کے عہدہ کی عنان چھوڑتے وقت بجائے کسی ایڈریس کے یہ کتاب بطور تحفہ پیش کرتا ہوں- اس سے پہلے برطانوی حکومت میں سے کسی وائسرائے کے لئے سلسلہ احمدیہ کی طرف سے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی- ہاں ملکہ وکٹوریہ آنجہانی اور ہمارے موجودہ پرنس آف ویلز کے لئے کتب لکھی گئی ہیں- ملکہ وکٹوریہ کے لئے خود بانی سلسلہ احمدیہ نے کتاب لکھی تھی اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھا تھا- اور پرنس آف ویلز کے لئے ان کے ورود ہند کے موقع پر میں نے کتاب لکھی تھی جس کا نام تحفہ ویلز رکھا گیا تھا اور جسے انہوں نے لاہور کے مقام پر قبول فرمایا تھا- پس اس کتاب کی تحریر اور پیشکش میں سلسلہ احمدیہ آپ کی خدمات کا غیر معمولی رنگ میں اعتراف کرتا ہے-
دنیا کے دستور کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید یہ ایک عجیب سی بات معلوم ہو کہ بجائے کسی عمارت یا محکمہ کے ایک کتاب کی صورت میں یادگار قائم کی جائے اور بجائے ایڈریس کے رسالہ کے ذریعہ سے اعتراف خدمات کیا جائے- لیکن عمارات یا محکمہ جات مادی اشیاء ہیں اور ایک روحانی سلسلہ کی طرف سے بہترین یاد گار ایک علمی یاد گار ہی ہو سکتی ہے- علاوہ ازیں ہمارا یہ یقین ہے کہ ہر ایک تصنیف جو بانی سلسلہ احمدیہ نے کی ہے یا ان کے خلفاء کی طرف سے کی گئی ہے یا کی جائے گی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلعت دوام پائے گی- اور اس سلسلہ کی روزانہ بڑھنے والی تعداد اسے ہمیشہ کیلئے بطور یادگار محفوظ رکھے گی- پس سلسلہ احمدیہ کے امام کی طرف سے ایک کتاب کا لکھا جانا زیادہ مناسب اور زیادہ پائیدار یادگار ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس ذریعہ سے جب تک دنیا قائم ہے آپ کی ان مخلصانہ خدمات کی یاد تازہ رہے گی جو ہندوستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں کے ذریعہ سے آپ بجا لائے ہیں-
یورایکسیلنسی! اس میں کوئی شک نہیں کہ جس وقت ہندوستان کی حکومت کا کام ملک معظم نے آپ کے سپرد کیا تھا اس وقت ملک کی حالت نہایت خطرناک تھی اور بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ملک روز بروز شقاق و تفرقہ کا شکار ہوتا چلا جائے گا لیکن آپ نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملک کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کے باہمی مناقشات کے طے کرنے میں آپ کی مدد کریں اور آپ کی اس خواہش کے پورا کرنے میں مدد دینے کے لئے میں نے ایک لمبا خط آپ کو لکھا تھا جو وائسرائے کے نام ایک خط کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکا ہے مجھے افسوس ہے کہ اس خواہش کو آپ اپنے عہدہ کے ایام میں پورا نہیں کر سکے اور ملک اسی طرح فساد اور جنگ میں آج بھی مبتلا ہے جس طرح کہ پہلے مبتلا تھا- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ کے زمانہ میں یہ خیال ہندوستانیوں کے دل سے نکل گیا ہے کہ ہندو مسلم مناقشات کی بنیاد گورنمنٹ رکھتی ہے اور یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت برطانیہ کے دشمنوں کے دلوں میں بھی آپ نے اپنی دیانتداری کا سکہ جما لیا ہے اور یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہے-
یورایکسیلنسی! ہندوستان اور انگلستان کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ ہر شخص جو ہندوستان کا خیر خواہ بننا چاہے انگلستان کا دشمن کہلاتا تھا جیسا کہ مسٹر مانٹیگو سے ہوا اور جو انگلستان کا خیر خواہ بننا چاہے ہندوستان کا دشمن کہلاتا تھا جیسا کہ اکثر گورنروں اور گورنر جنرلوں سے ہوا- ایسے حالات میں یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا کہ اس نے آپ کو یہ توفیق دی کہ اپنے جلیل القدر عہدہ کی باگ ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے آپ نہ صرف اپنے ملک کے خیرخواہ تصور کئے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان کے خیر خواہ بھی سمجھے جاتے ہیں اور دونوں ملکوں کے قدر شناس اور واقف حال آدمی آپ کو حیرت` عزت اور محبت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں- یہ جو کچھ ہوا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل بھی انسان کی اندرونی نیکی ہی جذب کرتی ہے- پس اس عظیم الشان مقصد کے حصول پر میں اور جماعت احمدیہ آپ کو مبارکباد کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ کا طریق عمل آپ کے بعد آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گا-
یورایکسیلنسی! ایک مذہبی جماعت کے افراد ہونے کے لحاظ سے میں اور جماعت احمدیہ سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے آپ کے مذہبی جوش کو دیکھتے ہیں- اس دہریت اور مادیت کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس پر توکل بہت ہی مفقود ہو رہا ہے لیکن آپ کی تقریریں اور آپ کے گردو پیش رہنے والے لوگ اس امر کے شاہد ہیں کہ آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ پر یقین اور اس کی امداد پر بھروسہ رہا ہے اور ان مادی وسائل کے علاوہ جو قیام امن و امان کے لئے آپ استعمال کرتے رہے ہیں آپ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف بھی نگاہ رکھی ہے اور آپ کے اس طریق نے ہمارے دلوں میں خاص طور پر گھر کر لیا ہے- یہ قدرتی بات ہے کہ جو اپنے پیارے سے پیار کرے اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے- جہاں انگلستان کے لوگوں کو آپ سے اس لئے محبت پیدا ہو گئی ہے کہ آپ انگلستان سے محبت رکھتے ہیں اور ہندوستان کے لوگوں کو آپ سے اس لئے محبت ہو گئی ہے کہ آپ ہندوستان سے محبت رکھتے ہیں` وہاں ہماری جماعت کو آپ سے سب سے زیادہ اس وجہ سے محبت ہو گئی ہے کہ آپ ہمارے پیارے رب سے محبت رکھتے ہیں-
یورایکسیلنسی! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ مسیحی ہیں اور ہم مسلمان- اور ایک مسیحی اور ایک مسلمان کے الوہیت کے نقشہ میں بہت کچھ فرق ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو مختلف مذاہب کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ہیں سب مذاہب میں خدا تعالیٰ کے متعلق ایک ہی جذبہ کار فرما ہے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے سے خواہ وہ کوئی اور کیسی ہی صفات کا مالک کیوں نہ ہو تعلق پیدا کرنے کی خواہش ہے- پس اس خواہش میں آپ کو مشترک دیکھ کر باوجود مذہبی اختلاف کے ہم اپنے دلوں میں آپ سے ایک اتحاد دیکھتے ہیں اور اس سے زیادہ اتحاد کے اللہ تعالیٰ سے متمنی ہیں کہ جو اس سے کچھ بھی محبت رکھتے ہیں وہ انہیں ضائع نہیں کرتا اور ضرور ان کے لئے اپنی ہدایت کو مکمل کرتا ہے- ہم امید کرتے ہیں کہ ہندوستان کے امراء جن کی امارت اور ریاست نے انہیں خدا تعالیٰ اور اس کی عبادت سے مستغنی کر دیا ہے آپ کی مثال کو دیکھ کر ندامت محسوس کریں گے اور اپنی اور اپنی رعایا کی مادی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ کریں گے-
یورایکسیلنسی! اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کو پھر اس ملک میں واپس آنے کا موقع ملے گا یا نہیں اور بظاہر امام جماعت احمدیہ کے دوبارہ انگلستان جانے کا احتمال بھی کم ہی معلوم ہوتا ہے پس باوجود اس کے کہ انگلستان میں ہماری جماعت کی طرف سے ایک نائب رہتا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے سلسلہ سے عموماً اور انگلستان کی جماعت احمدیہ سے خصوصاً دلچسپی رکھیں گے ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے احمدی آپ کو کلی طور پر الوداع کہہ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر آپ کی عظیم الشان کامیابیوں پر آپ کو مبارک باد کہنے کے علاوہ چند خواہشات کا بھی اظہار کریں-
ہم امید کرتے ہیں کہ وہ کام جسے آپ نے بعض وقت اپنی سیاسی عزت کو خطرہ میں ڈال کر سر انجام دیا ہے اس کی تکمیل میں آپ انگلستان پہنچ کر پہلے سے بھی زیادہ سرگرم رہیں گے- ہماری مراد اس سے آزادی ہند کا کام ہے جس کی خواہش میں ہم کسی طرح کانگریس یا دوسری جماعتوں سے پیچھے نہیں کیونکہ اپنے ملک کی غلامی سوائے بیوقوف یا غدار کے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا- لیکن ایک امر ہے جس کی طرف ہم آپ کی توجہ پھرانی چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے-
برطانیہ سے دانستہ یا نادانستہ مسلمانوں کو اس ملک میں سخت نقصان پہنچا ہے- مسلمانوں کی حکومت انگریزی حکومت کے قیام سے طبعا تباہ ہو گئی ہے- اسلامی ریاستیں جیسے کرناٹک` بنگال` اودھ` میسور` جھجھر اور سندھ وغیرہ ہیں انگریزی حکومت کے قیام سے مٹ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں کا تمدن اور ان کی قومیت بھی انگریزی حکومت کے قیام سے تباہ ہو گئی ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے ہندوستان میں طاقت پکڑنے سے پہلے اسلامی مرکزی حکومت کمزور ہو گئی تھی اور جنوب میں مرہٹے سر اٹھا رہے تھے اور پنجاب میں سکھ لیکن مرہٹوں کو احمد شاہ ابدالی کچل چکا تھا اور سکھ تھوڑا عرصہ اپنی شان دکھا کر خانہ جنگی میں مصرورف ہو گئے تھے- میسور اور حیدر آباد نئی امنگوں کے ساتھ اٹھ رہے تھے اور غالب گمان تھا کہ اگر انگلستان کا قدم درمیان میں نہ آتا تو چند سال میں ایک نئی زبردست اسلامی حکومت اسی طرح ہندوستان میں قائم ہو جاتی جس طرح مغلوں سے پہلے بارہا ہو چکی تھی- پس انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب انگلستان ہندوستان کو آزادی دیتا ہے تو وہ ہندوئوں کو اس حالت سے سینکڑوں گنے قوی چھوڑ کر جاتا ہے جس حالت میں کہ اس نے انہیں پایا تھا اور مسلمانوں کو اس حالت سے سینکڑوں گنے کمزور کر کے جاتا ہے جس حالت میں کہ اس نے انہیں پایا تھا- کیا ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ امر بعید از عقل ہو گا اگر مسلمانوں کے دل انگلستان کی محبت سے اس قدر لبریز نہ ہوں جس قدر کہ وہ ان سے امید کرتا ہے؟ لیکن اگر باوجود ان واقعات کے مسلمان حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرنے پر آمادہ ہیں تو کیا یہ مسلمانوں کے وسعت حوصلہ کی علامت نہیں اور کیا انگلستان کا بھی اس وقت جب کہ وہ ہندوستان کی عنان حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کرنے لگا ہے یہ فرض نہیں کہ وہ دیکھے کہ اس تغیر کے نتیجہ میں مسلمان اور بھی تباہ نہ ہو جائیں بلکہ انہیں علمی` تمدنی اور مذہبی ترقی کرنے کا موقع حاصل رہے اور یقیناً مسلمانوں کے مطالبات میں اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں کی گئی- اور اگر انگلستان ایسا نہیں کرے گا تو مسلمانوں کو ہمیشہ انگریزوں سے یہ جائز شکایت رہے گی کہ انہوں نے ہندوستان میں آ کر یا اپنا فائدہ کیا یا ہندوئوں کا- مسلمانوں کا فائدہ کرنا تو درکنار ان کی طاقت کو اس نے توڑ کر ہمیشہ کے لئے انہیں نکما کر دیا- کیا آپ سا مذہب سے لگائو رکھنے والا انسان یہ پسند کرے گا کہ تاریخ انگلستان کے متعلق ان واقعات کا اظہار کرے جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں- پس میں اور تمام جماعت احمدیہ بلکہ ہر ایک مسلمان آپ سے امید کرتا ہے کہ آپ انگلستان پہنچ کر اپنے دوستوں کو خصوصاً اور عام انگلستان کی پبلک کو عموماً اسلامی نقطئہ نگاہ سے واقف کریں گے اور اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہونے سے انگلستان کو محفوظ رکھیں گے جس میں اس کے مبتلاء ہو جانے کے زبردست احتمالات پیدا ہو رہے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی اکثریت کی اچھی رائے کا حاصل کرنا انگلستان کے لئے نہایت ضروری ہے مگر اس سے بہت زیادہ ضروری اس کے لئے اپنی عزت کی حفاظت اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے جس کی ناراضگی انسان کو ادبار کے ایسے خطرناک راستہ پر چلا دیتی ہے جس سے واپس ہونا بہت مشکل ہوتا ہے-
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یورایکسیلنسی! میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ دوسروں کو تباہ کر کے اپنی قوم کو ترقی دیں- اگر کبھی بھی خدانخواستہ مسلمان ہندوئوں یا کسی اور قوم کے حقوق کے تلف کرنے پر آمادہ ہوئے تو میں اور میری جماعت سب سے پہلے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے اور کسی مخالفت یا نقصان کی پرواہ نہیں کریں گے- لیکن احمدی جماعت اس امر کو بھی کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے رحم پر چھوڑ دیا جائے اور ان کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد ان کی اجتماعی حیثیت کو بھی برباد کر دیا جائے اور ایک دوسری قوم کو ان کے سروں پر بٹھا دیا جائے اور اسلام کو آزادانہ طور پر پرامن طریق سے ترقی کرنے کے ذرائع سے محروم کر دیا جائے- احمدی جماعت نے ہندوستان سے باہر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتی اور جو قربانی ہم نے ہندوستان سے باہر کی ہے وہی قربانی ہم ہندوستان کے اندر بھی کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ عدل اور انصاف کے قیام کے لئے جو قربانی بھی کی جائے کبھی ضائع نہیں جاتی- لیکن ہم ساتھ ہی آپ سے اور آپ جیسے نیک ارادے رکھنے والے دوسرے دوستوں سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ایسی صورت پیدا نہیں ہونے دیں گے کہ ہندوستان ایک لمبے عرصہ تک کے لئے فتنہوفساد میں مبتلا ہو جائے اور اس کی آزادی اس کے لئے *** کا موجب ثابت ہو- اگر ایسا ہو تو یہ امر ہندوستان کے لئے تکلیف کا موجب ہو گا ہی انگلستان بھی علاوہ مورد الزام بننے کے اس فتنہ کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکے گا- پس میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات جو بالکل جائز اور مناسب ہیں اور ان کے جدا گانہ تمدن اور ان کی گری ہوئی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کی اخلاقی ذمہ واری انگلستان پر بھی ہے نہایت ضروری ہیں پورا کرنے کے لئے آپ انگلستان میں جا کر پوری کوشش کریں گے اور ثابت کر دیں گے کہ جہاں آپ ہندوستان کو ہومرول (HOMERULE) دلانے کی کوشش میں گلیڈسٹون (GLADSTONE) ثابت ہوئے ہیں وہاں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے آپ ڈی اسرائیلی سے کم جوش نہیں رکھتے تاکہ برطانوی افراد کا زور اس کے کمزور کرنے میں نہیں بلکہ اس کے مضبوط کرنے میں خرچ ہو- اس کے بدلہ میں میں جماعت احمدیہ اور اس کے دوستوں کی طرف سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ ہندوستان کی دوسری جماعتیں کچھ بھی کریں ہم لوگ ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھیں گے کہ برطانوی ایمپائر (EMPIRE) کو جو ہمارے نزدیک باوجود اپنی کمزوریوں کے دنیا کے اتحاد کا نقطہمرکزی بننے کی اہلیت رکھتی ہے مضبوط کرنے اور ہندوستان سے اس کے تعلق کو خوشگوار طور پر بڑھانے کے لئے کوشاں رہیں گے اور یہ ایک ایسی جماعت کا وعدہ ہے جس کے وعدوں کی قیمت اور سچائی پر گزشتہ پچاس سالہ تاریخ شاہد ہے-
‏A۔۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A
باب دوم
یورایکسیلنسی! آپ کو اس عظیم الشان کام پر مبارک باد دینے کے بعد جس کی وجہ سے مجھے امید ہے کہ آپ کا نام انگلستان کے بہترین آدمیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے یاد رکھا جائے گا میں آپ کے سامنے وہ بہترین تحفہ پیش کرتا ہوں جو دنیا کے خزانوں میں آپ کو نہیں مل سکتا اور جس کا ملنا محض خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور وہ تحفہ وہ پیغام حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترقی دینے اور اپنا قرب عطا کرنے کے لئے ارسال فرمایا ہے-
ممکن ہے کہ آپ پر یہ دعوت گراں گذرے یا آپ اسے ایک مجنونانہ خیال سمجھیں لیکن ہر انسان اپنے یقین کے مطابق عمل کرتا ہے اور ہم چونکہ آپ سے محبت رکھتے اور آپ کی قدر کرتے ہیں اس لئے اس امر پر مجبور ہیں کہ اپنے دل کے یقین کے مطابق وہ صداقت آپ کے سامنے پیش کریں جس سے بڑھ کر کوئی چیز اس دنیا میں قیمت نہیں رکھتی-
یورایکسیلنسی! وہ خدا جس نے آدم کو بھیجا اور نوح کو مبعوث کیا اور ابراہیم پر اپنا فضل کیا اور موسیٰ کو اپنا برگزیدہ بنایا اور مسیح علیہ السلام کو اپنے جلال کے تخت پر اپنے دائیں جگہ دی اسی نے حضرت مسیح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق محمد رسول اللہ ~صل۲~ کو آخری زمانہ کا نجات دہندہ کر کے مبعوث فرمایا ہے تاکہ آپ وہ سب کچھ سکھائیں جس کی برداشت اس سے پہلے دنیا نہیں رکھتی تھی اور تا آپ سے دنیا تسلی پائے اور دنیا کا سردار آپ کے ذریعہ سے ہمیشہ کے لئے قید کیا جائے- اور پھر اسی خدا نے اس زمانہ میں حضرت مسیح ناصری کی پیشگوئیوں کے تحت حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مسیح علیہ السلام کی بعثت قرار دے کر مبعوث فرمایا ہے کیونکہ لکھا تھا کہ اس کا آنا مشرق سے ہو گا اور اسی طرح طبعی سامانوں سے ہو گا جس طرح مشرق سے مغرب کی طرف روشنی پھیل جاتی ہے- ۱~}~اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس ملک سے واپسی پر اللہ تعالیٰ کے اس پیغام پر غور کریں گے جو غریب اور امیر` بادشاہ اور رعایا سب کے لئے برابر ہے اور بندوں کے ساتھ معاملہ میں ایک اعلیٰ نمونہ دکھانے کے بعد خالق کے تعلقات کو بھی اعلیٰ پیمانہ پر قائم کریں گے-
یورایکسیلنسی! آپ کی قوم پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا ہے- اگر آپ انگلستان کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انگلستان کی ترقی غیر معمولی مشکلات کے موقع پر ایسے حوادث کے ذریعہ سے ہوتی رہی ہے جسے گو بعض لوگ اتفاق حسنہ کہہ دیں لیکن بصیرت رکھنے والے انسان ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کا جلوہ دیکھتے ہیں- اتفاق حسنہ ایک منفرد واقعہ کا نام ہوتا ہے لیکن انگلستان کی پچھلی چھ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے غیرمعمولی حوادث جن کے ذریعہ سے انگلستان کی بعض تاریک ترین گھڑیاں بعد میں اس کی روشن ترین ساعتیں ثابت ہوئی ہیں ایک لمبے سلسلہ میں منسلک ہیں- جس کی کڑیوں کو الگ الگ دیکھ کر گو اتفاق حسنہ کہا جا سکے لیکن جنہیں مجموعی نظر سے دیکھ کر خدا تعالیٰ کی مشیت کے سوا کسی اور سبب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا- پس اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نگاہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انگلستان سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے اور وہ کام وہی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے بذریعہ الہام بتایا ہے- یعنی ایک دن انگلستان اسلام کو قبول کر کے اسی طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا وارث ہونے والا ہے جس طرح اس نے دنیا کی بادشاہت سے ورثہ پایا ہے-۲~}~
انگلستان جس قدر بھی خوش ہو بجاہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسند ٹھہرا- وہ ایک دلہن ہے جسے آسمانی دولہا نے اپنے لئے پسند کر لیا` ایک موتی ہے جو جوہری کی نگاہ میں جچ گیا` ایک درخت ہے جسے باغبان نے باغ کے وسط میں لگایا-
یورایکسیلنسی! بے شک سیاسی مسائل اپنے اندر دلوں کو جذب کر لینے کی طاقت رکھتے ہیں اور میدان سیاست میں کامیاب ہونے والا بہت عزت و شہرت پاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پانے کی کوشش کرنے والا اس سے بھی زیادہ عزت و شہرت پاتا ہے- یورپ و ایشیا میں بڑے بڑے سیاسی لوگ اور بادشاہ گزرے ہیں لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو گلیل و یروشلم کے چند ماہیگیروں اور محصول لینے والوں کے برابر شہرت و عزت کے مالک ہو سکے ہیں- یقیناً وہ گلیل کے ماہی گیر خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی بادشاہوں سے بھی زیادہ عزتوشہرت رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا تعلق ایک خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے پیدا کیا- اور اس میں کیا شک ہے کہ دنیا کے خادموں سے اللہ تعالیٰ کے خادم زیادہ مرتبہ پائیں گے- پس جس طرح آج سے انیس سو سال پہلے ایک خدا کے برگزیدہ سے تعلق نے دنیوی لحاظ سے ادنیٰ حیثیت کے آدمیوں کو شہرت و عزت کے بلند ترین مینار پر جا کھڑا کیا اسی طرح اس وقت بھی اس کے مثیل کے ساتھ تعلق انسان کو بلند ترین مقامات پر پہنچانے کا موجب ہوا ہے اور ہو گا- ہاں خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک چور کی طرح آتی ہے- ۳~}~
اور اس وجہ سے شروع شروع میں اس کے خادموں سے چوروی والا ہی سلوک کیا جاتا ہے- وہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں اور انہیں دکھ دیا جاتا ہے اور تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں اور دنیا سمجھ لیتی ہے کہ اب وہ یقیناً نیست و نابود ہو جائیں گے اور ان کا نام تک مٹ جائے گا- لیکن وہ نہیں جانتی کہ حقیقی عزت کے وہی لوگ مستحق ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے لئے ذلت کو برادشت کرتے ¶ہیں اور آسمانی تخت پر وہی لوگ بٹھائے جاتے ہیں جو صلیب پر لٹکائے جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ابدی بادشاہت کا تاج انہی کے سر پر رکھا جاتا ہے کہ جو کانٹوں کا تاج پہننے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کا جام انہی کو ملتا ہے جن کے ہونٹ بدگوئی اور *** کے تیز اور تلخ سرکہ سے آشنا ہو چکے ہوتے ہیں- اور درحقیقت ابدی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں مر جانے کا ہی نام ہے کیونکہ جو اس راہ میں مرتے ہیں اس کی غیرت انہیں پھر کبھی مرنے نہیں دیتی- اور یہ دروازہ جس طرح آج سے انیس سو سال پہلے کھلا تھا آج بھی کھلا ہے- مبارک وہ جو اس دروازہ سے داخل ہوتا ہے- مبارک وہ جو ھوشعنا ۴~}~کہتے ہوئے اس وقت داخل ہوتے ہیں جب دنیا داروں کی نگاہ میں وہ ایک دوزخ کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ وہی اپنے باپ کے دائیں اور بائیں تخت پر بٹھائے جائیں گے اور اس کی بادشاہت میں انہی کو حصہ دیا جائے گا-
یورایکسلنسی! آسمانی قانون دنیوی قانون سے مختلف ہوتا ہے- آسمانی قانون میں تمثیلوں میں کلام کیا جاتا ہے تا راستباز اور متکبر کا امتحان کیا جائے اور سچے اور جھوٹے کا تعلق ظاہر کیا جائے- ہر اک کو جو خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہے آسمانی نور دیا جاتا ہے تا وہ اس نور کی روشنی میں سچائی کی راہ کو معلوم کرے مگر جو لوگ دل کے کھوٹے ہوتے ہیں وہ لفظوں کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں اور اس وقت جب کہ خدا کا جلال عریان ہو کر سامنے آتا ہے وہ اپنی آنکھوں پر عبارتوں کا نقاب ڈال لیتے ہیں تب ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جس کے وہ مستحق تھے- لفظ ان کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں اور معنی ان کے جنہوں نے معنوں پر نگاہ کی اور اس امر کو یاد رکھا کہ پہلے نوشتوں میں لکھا گیا تھا کہ وہ تمثیلوں میں کلام کرے گا- اور اس میں کیا شک ہے کہ تمثیلی کلام اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے-
ہر دیکھنے والا دیکھ سکتا ہے اور سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ سورج اندھیرا ہو چکا ہے اور چاند کی روشنی جاتی رہی ہے اور ستارے گر رہے ہیں اور آسمان کی قوتیں ہلائی گئی ہیں- ۵~}~ کیونکہ آسمان اور زمین کا تعلق قطع ہو گیا ہے اور انسان نے اپنے پیدا کرنے والے کا خیال بالکل ترک کر دیا ہے اور اس سے منہ موڑ کر اپنی تمام تر توجہ دنیا ہی کی طرف پھیر دی ہے- اور تمثیلی زبان میں اس پیشگوئی کا یہی مطلب تھا کہ آسمان کا تعلق زمین سے قطع ہو جائے گا اور دین کی حکومت جاتی رہے گی اور خدا تعالیٰ کا نور رک جائے گا اور اس میں کیا شک ہے کہ جس قدر دین سے بعد اور خدا تعالیٰ سے بے پرواہی اس زمانہ میں ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی- پہلے بھی لوگ بے دین ہوتے تھے لیکن ان میں سے اکثر محسوس کرتے تھے کہ وہ غلطی کے مرتکب ہیں لیکن اس زمانہ میں جو لوگ دین چھوڑ رہے ہیں وہ اس یقین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں کہ وہ ظلمت سے نور کی طرف آ رہے ہیں اور پرانے وہموں کو ترک کر کے علم کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں-
اسی طرح کہا گیا تھا کہ قوم قوم پر چڑھے گی اور بادشاہت بادشاہت پر حملہ کرے گی اور کتنی جگہوں میں زلزلے ہونگے اور کال پڑیں گے ۶~}~ اور فساد اٹھیں گے سو ایسا ہی ہوا- اس زمانہ میں نہ صرف ایک عالمگیر جنگ میں بادشاہتوں نے بادشاہتوں پر حملہ کیا ہے بلکہ قومیں بھی دوسری قوموں پر چڑھ رہی ہیں- اس سے پہلے کوئی زمانہ نہیں گذرا جب کہ ایک ہی وقت میں بادشاہتیں دوسری بادشاہتوں پر حملہ آور ہوں اور قومیں قوموں پر حملہ آور ہوں لیکن اس زمانہ میں یہ دونوں قسموں کی جنگیں ایک ہی وقت میں جاری ہیں- حکومتیں ہی حکومتوں پر حملہ آور نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے مختلف گروہ بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں کہیں لیبر (LABOUR) اور کہیں کیپٹل (CAPITAL) کا سوال ہے` کہیں مشرق اور مغرب کا سوال ہے` کہیں تجارت اور زمیندارے کی بحث ہے` کہیں شہری اور دیہاتی کا جھگڑا ہے کہیں ہندو اور مسلم کی لڑائی ہے تو کہیں کنفیوشس کے ماننے والوں اور مسیحیوں میں فساد برپا ہے- غرض قوموں اور گروہوں اور حکومتوں حکومتوں میں ایک ہی وقت میں اس قدر اختلاف رونما ہو رہا ہے کہ دیکھنے والے دنگ ہیں کہ دنیا کو کیا ہو جائے گا-
اور یہ جو کہا گیا تھا کہ زلزلے ہونگے اور کال پڑیں گے سو زلزلے گزشتہ تیس سال میں اس قدر آئے ہیں کہ پچھلی سات آٹھ صدیوں کے زلزلے اس کے برابر اموات اور نقصان مال نہیں پیش کر سکتے اور کال باوجود ریلوں اور جہازوں کی ایجاد کے ایسا پڑا ہے کہ روس اور ہندوستان اور چین اور کئی علاقوں میں اس قدر تعداد میں لوگ اس کے باعث تباہ ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر تباہی نہ آئی تھی-
غرض جو کچھ خدا کے برگزیدہ مسیح نے اپنی دوبارہ بعثت کے وقت کے متعلق کہا تھا وہ لفظبلفظ پورا ہو چکا ہے اور اب مبارک ہے وہ جو وقت کو پہچانے اور اس کے ظہور کی تلاش کرے کیونکہ یہ ازل سے مقدر تھا کہ مسیح کی دوبارہ آمد اسی طرح پوشیدہ ہو جس طرح کہ پہلی دفعہ ہوئی تھی تا سچوں اور جھوٹوں میں فرق کیا جائے اور ہوشیار اور غافل میں امتیاز ہو-
وہ جس نے آنا تھا نوشتوں کے مطابق آدھی رات کو آیا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مامور ہمیشہ تاریکی کے زمانہ میں ہی آیا کرتے ہیں وہ لوگوں کے نور سے حصہ لینے نہیں آتے بلکہ لوگوں کو تاریکی سے نکالنے کے لئے آتے ہیں- پس ان کی آمد کا زمانہ وہی ہوتا ہے جب لوگ خدا تعالیٰ اور اس کے دین سے انتہائی درجہ غفلت میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان سے دوستی کر لیتے ہیں- پس اسی سنت اللہ کے مطابق اس زمانہ کا مسیح اور آسمانی بادشاہت کا دولہا ایسے ہی وقت میں آیا جب کہ کنواریاں سو چکی تھیں اور ان کی مشعلوں کا تیل ختم ہو چکا تھا سوائے چند کے جنہوں نے ہوشیاری سے تیل محفوظ رکھ چھوڑا تھا اور جو دولہا کے جلوس کے ساتھ شامل ہو گئیں-۷text]~}~ g[ta باقی سب نہ صرف جلوس میں شامل نہیں ہوئیں بلکہ افسوس کہ وہ تمثیل کی کنواریوں کی مانند تیل کی تلاش میں بھی نہیں گئیں اور سوتی ہی رہیں- مگر اللہ تعالیٰ کا رحم بہت وسیع ہے گو کہا گیا تھا کہ جو سوتی رہیں ان کے لئے شادی کے گھر کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کے رحم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر اک جو اپنی غفلت سے تائب ہو کر دولہا کی طرف قدم اٹھائے اسے قبول کیا جائے تا شیطان کی حکومت کو ختم کیا جائے اور دنیا کا سردار ہمیشہ کے لئے بعد میں ڈال دیا جائے- پس یورایکسیلنسی! اس تمنا کو دیکھ کر جو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے پائی جاتی ہے میں آپ کو بھی بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کر دی گئی ہے اور خدا کا مسیح بادلوں پر سے یعنی دنیا والوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہو کر اور صرف آسمان والوں کی نظروں کے سامنے دنیا میں نازل ہو گیا ہے- لیکن اس کی آمد پر وہی ہوا جو پہلے ایلیا کے نزول کے وقت میں ہوا تھا یعنی لوگوں نے آسمانی تمثیل کو نہیں سمجھا اور یہ کہہ کر منہ پھیر لیا کہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہی مسیح آسمان سے اترے گا جو انیس سو سال پہلے اترا تھا- پس جب تک وہ فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نہیں اترے گا ہم کسی مسیح کو نہیں مانیں گے- لیکن یورایکسیلنسی! اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے خود مسیح علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی پہلی بعثت میں حل کر دیا ہے اور مسیح کے نزول سے پہلے ایلیا کے دوبارہ نزول کی پیشگوئی میں اس قسم کے تمثیلی کلام کی حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے- پس آنے والا مسیح آسمان سے نہیں بلکہ اسی دنیا سے پیدا ہونا تھا اور بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں ظاہر ہو چکا لوگ چاہیں تو قبول کریں اور جس کسی کے کان سننے کے ہوں سنے- جو لوگ باوجود کل پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے اسے تسلیم نہیں کریں گے وہ انتظار کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ تھک کر ان میں سے بعض تو اس کی آمد ہی کے منکر ہو جائیں گے جس طرح یہود نے کیا اور بعض مایوسیوں کے گڑھوں میں گر جائیں گے اور امنگوں اور امیدوں سے جو اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ فضلوں میں سے ہیں محروم ہو کر زندگی کی ہر قسم کی دلچسپی کو کھو بیٹھیں گے-
کاش کہ دنیا دیکھتی کہ خدا تعالیٰ کا مقدس کس طرح باوجود مخالفت کے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے برگزیدوں کو زمین کی حد سے آسمان کی حد تک چاروں طرف سے اکٹھا کر رہے ہیں- ۸~}~ جب وہ ظاہر ہوا اس کے اہل وطن یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ چند دن میں اسے پیس ڈالیں گے لیکن آج اس کی طرف بلانے والے اور اس پر ایمان لانے والے ہندوستان سے باہر انگلستان` فرانس` جرمن` ہالینڈ` امریکہ شمالی اور جنوبی` آسٹریلیا` سماٹرا جاوا` چین` روس` ایران` افغانستان` عرب` عراق` شام` فلسطین` مصر` ٹرکی` الجزائر` مراکش نائیجیریا` گولڈ کوسٹ )گھانا`( سیرالیون` کینیا` یوگنڈا` ٹانگانیکا)تنزانیہ`( زنجبار` نٹال` کیپ کالونی وغیرہ ممالک میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور روز بروز بڑھ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ جب یہ ہلال` بدر ہو کر مطلع عالم پر چمکے گا- پس مبارک ہیں وہ جو اب بھی اس کی صداقت پر غور کر کے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے اور ابدی زندگی پاتے ہیں کیونکہ انسان روٹی سے نہیں بلکہ کلام سے زندہ رہتا ہے-۹~}~
‏A۔۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A
باب سوم
یور ایکسیلنسی! میں آپ کو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی دعوت دینے کے بعد اور یہ بتانے کے بعد کہ سلسلہ احمدیہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے جو اناجیل میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق مذکور ہیں اختصار کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کیا ہے تا کہ آپ اس کے مقصد اور اس کی غرض سے واقف ہو جائیں-
۱-
سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو اپنے دوبارہ آنے کی خبر دی تھی وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پوری ہو گئی ہے اور یہ کہ دنیا کا نیا دور اب اسی تعلیم پر مبنی ہوگا جو مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے-
۲-
سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق جس نجات دہندہ نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی آخری شریعت سکھانے کے لئے آنا تھا وہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ بانی مذہب اسلام تھے آپﷺ~ کے وجود میں گزشتہ انبیاء کی سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں- آپﷺ~ آخری شریعت لانے والے رسول تھے اور قرآن کریم آخری شریعت کی کتاب ہے- آنحضرت ~صل۲~ کے بعد کوئی اور ایسا رسول نہ نیا نہ پرانا آ سکتا ہے جس نے آپ سے فیض حاصل نہ کیا ہو اور جس کا کام آپﷺ~ کا کام نہ کہلا سکتا ہو کیونکہ دنیا کی ابدی استادی کا مقام صرف آپﷺ~ کو ہی حاصل ہے اور کوئی شخص اس میں آپﷺ~ کا شریک نہیں ہو سکتا` اور اسی وجہ سے آپﷺ~ >نبیوں کی مہر< کہلاتے ہیں-
۳-
مذکورہ بالا عقیدہ کے ماتحت سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح موعود کا کام صرف قرآن کریم کی تشریح اور اس کے مطالب کا ہی بیان تھا ورنہ اس نے کوئی جدید تعلیم نہیں دینی تھی بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا یہ کام تھا کہ وہ تورات کی تشریح کرتے جیسا کہ خود انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ-:
یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا- میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں-۱۰~}~
یور ایکسیلنسی! بعض تعلیمات سلسلہ احمدیہ کی آپ کو ایسی نظر آئیں گی جو بظاہر مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور جو اس مشہور تعلیم کے بھی خلاف ہیں جو قرآن کریم کی طرف منسوب کی جاتی ہے لیکن اس کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نئی تعلیم دی ہے بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے بعض غلط عقائد کا رواج ہو گیا تھا اور ان عقائد کے ماتحت وہ قرآن کریم کے بھی غلط معنی کرنے لگ گئے تھے- مسیح موعود علیہ السلام نے آکر ان غلط عقائد کی اصلاح کر دی اور قرآن کریم کی تفسیر قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے مطابق کر کے ان غلط تفسیروں کو رد کر دیا جو اس کی طرف زبردستی منسوب ہو رہی تھیں- پس حضرت مسیح موعود نے کوئی نئی تعلیم نہیں دی صرف مسلمانوں کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے- ہاں بعض باتیں آپ نے نئی بھی بیان کی ہیں لیکن وہ بھی قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ قرآن کریم سے ہی ہیں لیکن چونکہ وہ اس زمانہ سے مخصوص تھیں دنیا کو اس سے پہلے ان کی معرفت عطا نہیں کی گئی تھی-
۴-
سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اس نے دنیا کو اپنے ارادے اور اپنے حکم سے پیدا کیا ہے` وہ ازل سے ہے اور اس کے لئے فنا نہیں` وہ مالک ہے سب قدرتوں کا اور قادر ہے اپنی مشیت پر اور اس وجہ سے کسی بیوی یا بیٹے یا مددگار کا محتاج نہیں` واحد ہے لاشریک ہے بڑے سے بڑا انسان خواہ کوئی ہو اس کا بندہ اور اس کا فرمانبردار ہے` انسان کے لئے اس کی پرستش کے سوا کسی کی پرستش جائز نہیں خواہ وہ موسیٰ` عیسیٰ` محمد علیہم السلام والصلوۃ جیسی ہستیاں ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حضرت مسیح ناصری نے فرمایا ہے کہ سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن! وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر اول حکم یہی ہے<-۱۱~}~ سلسلہ احمدیہ کی بھی یہی تعلیم ہے کہ انسان کا دل اور اس کی جان کلی طور پر خدا کے لئے ہونے چاہئیں بندوں کو خدائی کا مقام دینا درست نہیں ہے-
۵-
سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے اور جس طرح پہلے نشان دکھاتا تھا اب بھی دکھاتا ہے اور جس طرح پہلے اس کے فرشتے اس کے بندوں پر نازل ہوتے تھے اب بھی اترتے ہیں اور یہ کہ وہ مذہب جس کی بنیاد قصوں پر ہو مذہب نہیں ایک کہانی ہے اور وہ عقیدے جن کی بنیاد صرف روایت پر ہو عقیدے نہیں بلکہ توہمات ہیں- پس سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ساتھ تازہ نشانات رکھتا ہو- اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہم نے اس قدر نشانات دیکھے ہیں کہ جو شمار میں نہیں آ سکتے اور آپ کے طفیل اور آپ سے تعلق رکھ کر ہم میں سے ہزاروں نے کلام الہی سے بقدر اپنے ظرف کے حصہ پایا ہے- چنانچہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں- میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے رئویا اور الہامات سے حصہ پایا ہے اور سینکڑوں امور قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائے ہیں جو اپنے وقت پر جا کر پورے ہوئے حالانکہ اس سے پہلے سامان ان امور کے وجود میں آنے کے بالکل مخالف تھے- پس یورایکسیلنسی! ہم لوگوں کا ایمان مشاہدہ پر جو عینی بھی ہے اور ذاتی بھی` مبنی ہے اور صرف پرانے قصوں اور گزشتہ کتابوں پر ہی مبنی نہیں- اور ہم یقین سے کہتے ہیں کہ کسی ملک کا آدمی ہو خواہ یورپ کا خواہ امریکہ کا خواہ افریقہ کا خواہ کسی اور ملک کا اگر قرآن کریم اور رسول کریم ~صل۲~ پر ایمان لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کرے تو اللہ تعالیٰ کے کلام سے اسے اپنے ایمان کے مطابق حصہ مل سکتا ہے-
۶-
سلسلہ احمدیہ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو پیدا کر کے بے دخل نہیں ہو گیا اور اب بھی سب کام اسی کے حکم اور اسی کے اشارہ سے چلتے ہیں- وہ قادر خدا ہے جس کا امر دنیا کے ہر فعل میں ہو رہا ہے- دنیا کا ایک ذرہ بھی اس کے اذن بغیر ہل نہیں سکتا- سائنس اور ہیئت کے قوانین کا ظہور صرف اس کے ازلی قانون کے ماتحت ہی نہیں ہے بلکہ ہر اک نتیجہ جو اب بھی نکل رہا ہے اس کے حکم سے اور اس کے ارادہ کے ماتحت نکلتا ہے- وہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور معجزانہ طاقتیں ان کے لئے ظاہر کرتا ہے- اور جب وہ کسی بندے کی تائید میں ہو جاتا ہے تو دنیا کی حکومتیں اور طاقتیں اس کے حکم کے مقابلہ سے عاجز آ جاتی ہیں اور تمام ظاہری سامان بے کار اور سب مادی طاقتیں بے اثر ہو جاتی ہیں- دنیا کے لوگ بے شک اس امر پر ہنسیں لیکن ہم نے ہزاروں لاکھوں اس امر کے مشاہدات کئے ہیں اور کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی اس قدرت نمائی کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ باوجود اس کے کہ دنیا کے سب مذاہب احمدیت کی مخالفت پر آمادہ ہیں اور دنیا کی سب طاقتیں اسلام کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں لیکن پر امن ذرائع سے اور معجزانہ حالات کے ماتحت سلسلہ احمدیہ دنیا میں پھیل جائے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو باقی سب ادیان پر علمی غلبہ حاصل ہو گا-
۷-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے- پس اسے کسی اور واسطہ کی ضرورت نہیں ہے- واسطہ کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس مقصد کے لئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ دوسروں کا احسان ہے کہ وہ ہمیں اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں اور اگر ہم یہ تسلیم کریں تو ماننا پڑتا ہے کہ انسانی پیدائش کا کوئی اعلیٰ مقصد ہے ہی نہیں مگر دنیا کا ذرہ ذرہ اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے- پس حق یہی ہے کہ انسان قرب الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہوما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۱۲~}~ میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں یعنی میری صفات کو اپنے اندر پیدا کریں- بائیبل نے بھی اس طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ >تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند بناویں< ۱۳~}~
۸-
سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ نجات کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لوگوں کا حق نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے فضل کے یکساں مستحق رہے ہیں اور اس وجہ سے یہ خیال کہ خدا تعالیٰ نے ہدایت کو صرف بنی اسرائیل میں یا عربوں میں یا ہندوستانیوں میں محصور کر دیا ایک لغو اور بیہودہ خیال ہے- سب انسان خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور جس طرح اس کا سورج سب کے لئے چڑھتا ہے اسی طرح اس کی ہدایت بھی سب کے لئے ہے- ہاں خود انسانوں کے فائدہ کے لئے اس نے پہلے مختلف اقوام کی طرف الگ الگ انبیاء ارسال کئے اور آخر میں جب انسان خدا تعالیٰ کی سب باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو گیا تو اس نے وہ >روح حق< بھیجی جس کا نام محمد2] [stf ~صل۲~ ہے اور جس کی نسبت انجیل میں آتا ہے کہ
>میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی<- ۱۴~}~
غرض سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اللہہ تعالیٰ کے نبی گذرے ہیں اور اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسری قوموں کے گزشتہ بزرگوں کو بھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ وہ سب خدا کی طرف سے تھے اور اس وجہ سے ہمارے لئے واجب ادب ہیں- پس ہم لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے پیرو ہیں جس طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہ السلام کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی طرح کرشنجی اور رام چندر جی اور گوتم بدھ اور زرتشت اور کنفیوشس علیہم السلام کو بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یورایکسیلنسی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دنیا میں امن و امان کے قائم کرنے میں کس قدر مدد دے سکتی ہے اور ایک عظیم الشان سچائی کا اقرار کروا کے ہمیں سچائی کے کس قدر قریب کر دیتی ہے- اور ان قوموں کے دلوں کو جو یہ سمجھتی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں چھوڑے رکھا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے-
۹-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں کیونکہ کسی کی کمزوری سے ہماری بڑائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کر سکتی ہے- پس دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنا ہماری جماعت کا طریق نہیں- ہاں جوابی طور پر جب ہم کو یہ معلوم ہو کہ ایک قوم برابر بد گوئی میں بڑھتی جاتی ہے دفاع کے طور پر ہمیں الزامی جوابوں کے دینے کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ تعلیم دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے اور قوموں میں صلح کرانے کے لئے نہایت ممد ہے- اور اس کا دوسرا پہلو کہ اگر کوئی قوم شرارت سے باز نہ آئے تو اس کے مقابل میں الزامی جواب دینا درست ہے درحقیقت پہلے پہلو کو مکمل کرتا ہے- کیونکہ بعض انسان اس قدر خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں کہ ان کے انسانی احساسات کو اکسانے کے لئے ایک ٹھیس کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کہ کبھی جسم انسانی کی حفاظت کے لئے ڈاکٹر کے نشتر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طریق قابل اعتراض نہیں بلکہ بگڑی ہوئی قوم کی خیر خواہی میں داخل ہے- چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی باوجود اس کے کہ آپ کی طبیعت نہایت حلیم تھی کبھی کبھی یہ طریق اختیار کرنا پڑا جیسا کہ فریسیوں کے حد سے بڑھ جانے پر آپ کو کہنا پڑا کہ >تم اپنے باپ شیطان سے ہو اور چاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہش کے موافق کرو<- ۱۵~}~
غرض اس قسم کی استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر جب خود دوسری قوم کی اصلاح کے لئے الزامی جواب دینا پڑے سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرو دوسرے مذاہب پر حملے نہ کرو تا کہ دنیا میں صلح اور آشتی قائم ہو اور لوگ اپنے رب کی طرف توجہ کرنے کا موقع پائیں-
۱۰-
سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ شریعت بطور سزا کے نہیں نازل ہوئی کیونکہ شریعت نام ہے ان احکام کا جو انسان کی روحانی` تمدنی اور اخلاقی ترقی کا موجب ہوتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اس کی ترقی کا بھی باعث ہوتے ہیں اور کسی کو وہ راہ بتانا جس پر چل کر وہ کامیاب ہو سکے کسی صورت میں بھی چٹی نہیں کہلا سکتا- ہم جب ایک بھولے ہوئے کو راہ دکھاتے ہیں تو وہ ہمارا ممنون ہوتا ہے یہ نہیں کہا کرتا کہ تم نے مجھ پر بوجھ لاد دیا ہے- ایک جہاز کا کپتان جسے سمندروں کا چارٹ مل جاتا ہے شکوہ نہیں کرتا بلکہ شکریہ ادا کرتا ہے- شریعت بھی درحقیقت انسانی سفر کے لئے ایک چارٹ ہے جس سے اسے راستہ کی مشکلات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور آسانی سے سفر طے کرنے کے طریق بتائے جاتے ہیں- وہ ایک گائیڈ ہے جو ہر منزل پر اس کے کام آتا ہے نہ کہ چٹی اور سزا- پس اس کی ضرورت ہر وقت انسان کو تھی اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے اسے بطور سزا نہیں نازل کیا بلکہ بطور احسان نازل کیا ہے اور اس سے زیادہ بدبختی کا دن انسان کے لئے نہیں آ سکتا جس دن کہ وہ اس راہنما سے محروم ہو جائے- مگر اللہ تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اپنے بندوں کو جو ابدی زندگی کے لئے سرگردان ہیں اس ضروری امداد سے محروم کر کے ہمیشہ کے لئے تاریکی اور ظلمت میں بھٹکتا رہنے دے-
‏]in [tag ۱۱-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ کھلا رہے اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی اور ہستی حائل نہ ہو اسی طرح ہر انسان اپنی نجات کے لئے اپنی ہی جدوجہد کا محتاج ہے کوئی دوسرا شخص اس کی نجات کے معاملہ میں سوائے راہنمائی اور ہدایت کے اور کسی کام نہیں آ سکتا- ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنے لئے نجات کا راستہ خود تیار کرے جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے نہایت خوبصورت الفاظ میں فرمایا ہے- >اگر کوئی چاہے کہ میرے پیچھے آوے تو اپناانکار کرے اور اپنی صلیب اٹھا کے میری پیروی کرے<-۱۶~}~
حق بھی یہی ہے کہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان کا ایمان اور اس کی وہ جدوجہد ہی کھینچ سکتی ہے جو وہ خدا سا بننے کے لئے کرتا ہے کیونکہ تب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ مجھ سے ملنے کی کوشش کر رہا ہے پھر میں کیونکر خاموش رہوں اور اس کی امداد کے لئے ہاتھ نہ بڑھائوں- پھر وہ ہاتھ بڑھاتا ہے اور اپنے بندے کو اٹھا لیتا ہے جس طرح روتے ہوئے بچے کو ماں اٹھاتی ہے وہ اپنے بچے کو اٹھانے کے لئے کسی کی سفارش کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑی سفارش اس کے بچے کی صحیح خواہش یا اس کی چیخ ہی ہوتی ہے-
۱۲-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں نہ تو کلی طور پر آزاد ہے اور نہ کلی طور پر مجبور- بلکہ وہ اس حد تک مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور اس حد تک آزاد ہے کہ اپنے اعمال کی جزاء سزا کا مستحق ہے- خدا تعالیٰ کسی کو بد اور کسی کو نیک نہیں قرار دیتا بلکہ وہ اعمال کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے ہدایت کرتا ہے اور اس زمانہ کے شروع ہو جانے پر ہدایت کرتا اور اعمال کے نتائج پیدا کرتا ہے- پس دنیا میں ہر واقعہ جو تقدیر کے ماتحت نظر آتا ہے درحقیقت کسی اختیاری فعل کے نتیجہ میں ہے اور ہر واقعہ جس میں انسان کلی طور پر مختار نظر آتا ہے وہ درحقیقت قانون قدرت` انسان کے پہلے اعمال اور اس کے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اسی وجہ سے ابتدائے دنیا سے مختلف مذاہب اور مختلف فلسفی اس امر پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ آیا انسان مجبور ہے یا مختار- اور تقدیر کے سوال نے انسان کو حیران کئے رکھا ہے- لیکن اگر لوگ اسلام کی تعلیم کو مدنظر رکھتے تو یہ جھگڑے پیدا ہی نہ ہوتے اور اگر ہوتے تو بہت جلد ختم ہو جاتے- اس میں کیا شک ہے کہ انسان اپنے اعمال پر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالے تو اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے افعال میں تقدیر و اختیار کے قانون ایک ہی وقت میں جاری ہیں-
بظاہر یہ مسئلہ ایک علمی مسئلہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت بہت اہم اور عملی مسئلہ ہے اور دنیا کی روحانی اور تمدنی ترقی کا اس پر بہت کچھ مدار ہے اور یہ مسئلہ خدا تعالیٰ کے وجود پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ انسانی اختیار اور اس کی مجبوریاں ایسی ملی ہوئی ہیں کہ سوائے ایک ایسی ہستی کے جو ذرہ ذرہ کا علم رکھتی ہو کوئی اور ہستی انسانی جدوجہد کی قیمت مقرر نہیں کر سکتی اور اسے حقیقی جزاء اور سزا نہیں دے سکتی- کیونکہ جب تک ہر انسان کے اختیار اور اس کی مجبوری کا صحیح اندازہ نہ لگایا جائے اس کی نیکی یا اس کی بدی کا بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا- ہزاروں ہیں جو بظاہر نیک نظر آتے ہیں لیکن ان کی نیکی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اندر بدی کی قابلیت نہیں- لیکن ہزاروں ہیں جو بظاہر بدنظر آتے ہیں لیکن وہ نیک ہیں کیونکہ ان کے لئے بدی کے بہت سے محرکات ہیں اور بہت سی مجبوریاں بھی ہیں لیکن وہ اپنے نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ کامیاب اور بعض دفعہ مغلوب ہو جاتے ہیں- پس ماننا پڑتا ہے کہ اگر انسانی اعمال نے منافقت کی چادر سے نکل کر کبھی اپنی صحیح شکل میں ظاہر ہونا ہے تو ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے جو ظاہر و پوشیدہ کو اور ماضی` حال اور مستقبل کو یکساں طور پر جانتی ہو تا کہ انسانوں کے متعلق عدل و انصاف سے فیصلہ کیا جائے-
۱۳-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اخلاق کا سوال حل نہیں ہو سکتا جب تک انسانی پیدائش کے سوال کو مدنظر نہ رکھا جائے علم الاخلاق کی تمام بحثیں آخر ایک چکر میں تبدیل ہو جاتی ہیں جو ہمیں کسی خاص فیصلہ تک نہیں پہنچاتا لیکن اگر ہم انسان کی فطرت پر غور کریں تو لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو برا سمجھتی ہے- پس اچھے اور برے کا سوال تو ایک طبعی تقاضا ہے لیکن یہ کہ فلاں چیز بری ہے یا اچھی ہے مختلف فیہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ مذاہب کا اثر` عادات کا اثر اور ماحول کا اثر ہے- پس اچھے اور برے اخلاق کا فیصلہ انسانوں کے میلانوں پر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مختلف ہیں- ان کا فیصلہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات سے مقابلہ کر کے کیا جا سکتا ہے- انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا ہے یعنی وہ طاقتیں اسے دی ہیں کہ الہی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکے اور اخلاق حسنہ انہی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے کا نام ہے اور اخلاق سیئہ انہی سے دوری کا- ہر اک جو اپنی طاقتوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں وہ اخلاق حسنہ پر عامل ہے اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ اخلاق سیئہ پر- پس انسان کے اندر جس قدر طاقتیں ہیں سب ہی اچھے مصرف کیلئے ہیں- جس طرح خدا تعالیٰ میں کوئی عیب نہیں انسان میں بھی کوئی عیب نہیں بلکہ اس کی سب طاقتیں ضروری ہیں ہاں ان کے استعمال کی درستی یا غلطی سے وہ اچھا یا برا ہو جاتا ہے- پس اگر ہم نیک ہونا چاہتے ہیں تو ہمارا یہ فرض نہیں کہ اپنی طاقتوں کو دبائیں اور مار دیں` بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں خدا تعالیٰ کی صفات کی طرح موقع اور محل پر استعمال کریں-
اس عقیدہ سے وہ جنگ جو قدیم سے دین اور دنیا میں چلی آئی ہے ختم ہو جاتی ہے- کیونکہ اس عقیدہ کے ماتحت مادی طاقتیں روحانی طاقتوں کے مخالف نہیں قرار پاتیں بلکہ روحانی طاقتوں کے پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہوئے انسان دین کا بھی کام کر سکتا ہے اور کرتا جاتا ہے-
۱۴-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ اوپر کے عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد اصلاح پر ہونی چاہئے نہ کہ کسی غیر لچکدار فلسفی اصل پر- کیونکہ انسان کے اعمال درحقیقت تبدیل ہونے والی شئے ہیں اور مختلف حالتوں میں ان کی قیمت مختلف ہوتی ہے- ایک وقت میں ایک کام برا اور دوسرے وقت میں وہی اچھا ہو سکتا ہے- ہم ایک تندرست کو جو غذا دے سکتے ہیں بیمار کو نہیں دے سکتے- اسی طرح ہم سب لوگوں سے ایک ہی قسم کا معاملہ نہیں کر سکتے کیونکہ کسی نے اپنے اخلاق کو کسی طرح ڈھالا ہے اور کسی نے کسی طرح- پس اگر ہم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ موقع اور محل کے مطابق ہمارے اعمال ظاہر ہوں اور ہماری اصل غرض اصلاح ہو اور اگر کوئی شخص پیار سے ماننے والا ہو تو ہم اسے باوجود ناراضگی کے اور غصہ میں آ جانے کے پیار سے سمجھائیں اور اگر کوئی شخص سزا سے ماننے والا ہو تو ہم اسے اس کے جرم اور اس کی طبیعت کی سختی کے مطابق سزا دے کر اسے سمجھائیں کیونکہ اصل غرض اصلاح ہے جو مریض کی حالت کے مطابق ہی ہو سکتی ہے اگر اس کی حالت کو نظر انداز کر دیں تو اصلاح ناممکن ہے-
۱۵-
سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جس قدر صفات پیدا کی ہیں ضروری ہیں اور ان صفات کے سرچشمے یعنی عقل اور جذبات کا ہر کام میں لحاظ رکھنا ضروری ہے- تمام تمدنی اور سیاسی خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں کہ باہمی معاملات میں یا عقل کو ترک کر دیا جاتا ہے یا جذبات کو یا ان کی صحیح نسبت قائم نہیں رکھی جاتی- عورت و مرد کے تعلقات کو عام طور پر جذبات پر مبنی رکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے حالانکہ کوئی عورت و مرد دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے- وہ دنیا کا ایک حصہ ہیں اور انہیں اپنے حصہ ہونے کی حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے- پس جہاں ان کے تعلقات کی بنیاد جذبات پر ہونی ضروری ہے وہاں اس کے ساتھ ہی اس کی بنیاد عقل پر بھی ہونی ضروری ہے- میاں بیوی کے حقوق` طلاق` کثرت ازدواج` بچوں کی تربیت اور ان پر ماں باپ کے تصرف کی حد بندی` ورثہ اس میں مختلف رشتہ داروں کے حقوق کی تعیین` یہ سب ایسے امور ہیں جن میں اس قانون کو ملحوظ رکھ کر ایک ایسا درمیانہ طریق اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے نہ جذبات کو ٹھیس لگے اور نہ عقل کو جواب دیا جائے اور اسلام نے ایسا ہی کیا ہے گو جذبات کے طوفان کے وقت اس تعلیم کو قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے لیکن سکون کی ساعتوں میں دنیا اس طریق کی برتری کو قبول کرنے پر مجبور ہوتی رہی ہے-
۱۶-
‏]ind [tag سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ عورت و مرد مشرقی اور مغربی سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہیں- سب کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب اور ابدی زندگی کے دروازے کھلے ہیں- پس ان کے تعلقات کی بنیاد ایسے اصول پر ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا موجب نہ ہوں اور ہر ایک کے لئے ترقی کے دروازے کھلے رہیں اور کوئی کسی پر ناجائز حکومت نہ کرے-
۱۷-
سلسلہ احمدیہ کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان کی جزاء کی اصل بنیاد اعمال پر نہیں بلکہ اس کی قلبی حالت پر ہے اس وجہ سے دنیا میں نیکی کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ دل کی پاکیزگی پر زور دیا جائے کیونکہ جب تک خیالات میں نیکی نہ ہو حقیقی نیکی حاصل نہیں ہو سکتی اور خیالات چونکہ جبر اور زور سے تبدیل نہیں ہو سکتے بلکہ دلیل اور مشاہدہ اور نمونہ سے تبدیل ہوتے ہیں اس لئے سلسلہ احمدیہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ مذہب کے لئے جنگ یا جبر بالکل جائز نہیں- کیونکہ جبر سے صرف ظاہر تبدیل ہو سکتا ہے اور جس کا ظاہر و باطن ایک نہ ہو وہ منافق ہے- پس جو شخص مذہب میں جبر سے کام لیتا ہے وہ منافقت پھیلانے کا موجب ہے اور بجائے نیکی کی اشاعت کے بدی کی اشاعت کا مرتکب ہے اور اپنے عمل سے اپنے مقصد کو نقصان پہنچاتا- ہے اس عقیدہ کے ماتحت ہماری جماعت نے ہر ملک میں مذہب کے بارہ میں جبر کی مخالفت کی ہے اور ہمارے بعض آدمیوں نے اس پاک تعلیم کی حفاظت میں جو نیکی کے قائم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں- اور گو جبر کے مویدین نے انہیں سنگسار کر کے نہایت تکلیف اور ایذاء سے قتل کیا مگر وہ آخر دم تک اپنے عقیدہ پر قائم رہے-
۱۸-
سلسلہ احمدیہ کی سیاسیات کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ حکومت اور رعایا کے تعلقات کی بنیاد قانون کے احترام اور پر امن جدوجہد پر ہونی چاہئے اور فساد سے دونوں کو پرہیز کرنا چاہئے اور حکومت اور رعایا دونوں کا فرض ہے کہ قانون کی جب تک وہ بدلے نہیں پیروی کریں اور اگر غلط قانون ہے تو جائز ذرائع سے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے- اس تعلیم کے ماتحت ہماری جماعت جس جس حکومت کے ماتحت بستی ہے ہمیشہ فتنہ کی راہوں سے الگ رہتی ہے- اور چونکہ اکثر حصہ جماعت احمدیہ کا انگریزی حکومت کے ماتحت ہے لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ جماعت انگریزوں کی جاسوس ہے لیکن آپ سے بہتر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ امر غلط ہے- ہم نے ہمیشہ دلیری سے ہندوستانیوں کے حقوق کا مطالبہ کیا ہے- ہمیں دوسرے محبان وطن سے صرف اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ عارضی فائدہ کے لئے اپنی قوم کے کیریکٹر کو شورش پیدا کر کے اور قانون کا احترام دل سے نکال کر خراب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ مادی فائدہ سے بہرحال اخلاقی فائدہ مقدم ہے- اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جب تک ہم کسی ملک میں رہیں اس کے قانون کی پابندی کریں لیکن جب ہم سمجھیں کہ کوئی حکومت ظلم میں حد سے بڑھ رہی ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ کر اس کا مقابلہ کریں اور اگر وہ حکومت نکلنے بھی نہ دے تو پھر ہمیں اجازت ہے کہ اسی کے ملک میں رہتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں` اس صورت میں قانون توڑنے کی وہ ذمہ دار ہے ہم نہیں-
ہم جس جس ملک میں رہتے ہیں اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور یقیناً یہی تعلیم ہے جس سے اخلاق اور مذہب کو قائم رکھتے ہوئے انسان آزادی کو حاصل کر سکتا ہے-
۱۹-
سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حکومت کے قیام کی غرض ملک کا فائدہ ہے اور ان کاموں کو بجا لانا ہے جنہیں افراد الگ الگ پورا نہیں کر سکتے- پس اسلامی تعلیم کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر فرد رعایا کے کھانے` لباس` مکان اور کام کا انتظام کرے- ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت اب تک اس فرض سے بالکل غافل رہی ہے- لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر افراد ملک کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ ملے اور پہننے کو کپڑا اور سرچھپانے کو مکان نہ ملے تو پھر کسی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے- اسلامی قانون کی رو سے حکومت ایک نکمے آدمی کو کام پر مجبور کر سکتی ہے لیکن اس کا فرض ہے کہ اول تو کام دے کر اس کے گزارہ کی صورت پیدا کرے اور اگر کام نہیں دے سکتی تو پھر خزانہ شاہی سے اس کی اقل ترین ضروریات کو پورا کرے اور جب تک حکومتیں اس اصول پر نہ چلائی جائیں گی یقیناً لیبر اور کیپیٹل اور امپریلزم اور شوشلزم اور بولشوزم کے جھگڑے کبھی ختم نہ ہونگے- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کبھی کوئی حکومت اپنے ملک سے باہر جا کر استبدادی حکومت نہیں کر سکتی- کیونکہ اس پر اپنے ملک کا بار ہی اس قدر ہوگا کہ وہ دوسرے ملک کے بوجھ کو برداشت ہی نہیں کر سکے گی سوائے اس کے کہ دوسرے ملک سے اس کی تعلقات کے بنیاد تعاون اور دوستی پر ہو-
۲۰-
سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے لئے بحیثیت مجموعی پیدا کیا ہے اور جس طرح کوئی شخص کسی کی زمین میں ہل چلا کر بوجہ ہل چلانے کے اس کی پیداوار کا واحد مالک نہیں ہو سکتا اسی طرح قدرت کے پیدا کردہ سامانوں سے کام لیکر کوئی شخص اس کے ثمرات کا واحد مالک نہیں ہو سکتا- اور چونکہ جس قدر دولت کمائی جاتی ہے خواہ زراعت سے ہو` خواہ تجارت سے` خواہ صنعت و حرت سے اس کے کمانے میں اس ذخیرہ کو کام میں لایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنینوع انسان کی مجموعی بہتری کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے اس لئے شریعت نے ہر سرمایہدار پر اس رقم کو چھوڑ کر جو وہ خرچ کر لیتا ہے ایک رائلٹی مقرر کی ہے اور حکومت کا فرض مقرر کیا ہے کہ اس رقم کو لے کر دوسرے مستحقوں پر خرچ کرے- اس اصل کے ذریعہ سے ایک طرف تو اسلام نے مختلف کاموں کے ساتھ افراد کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا ہے اور دوسری طرف قوم کے متفقہ حقوق کو بھی قائم رکھا ہے اور یہی ذریعہ فردی ترقی اور قومی ترقی کے توازن کو قائم رکھنے کا ہے-
۲۱-
‏ind] g[ta سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ تمام ایسے سمجھوتے یا کام یا احکام جو بنی نوع انسان کے کسی فرد کی جائز ترقی کے راستہ میں روک ہوں درست نہیں- اسی وجہ سے شریعت اسلام نے باپ کی جائیداد کو اولاد اور دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم کرنے پر زور دیا ہے تا کہ چند خاندانوں کے ہاتھ میں زمین نہ رہے اور کوئی خاندان اسی وقت تک زمین کا مالک رہے جب تک کہ وہ اپنی ذاتی لیاقت کے ساتھ اس کا مالک رہ سکتا ہے- اسی طرح سود کو روک دیا ہے تا چند ذہین لوگ مل کر تجارت اور صنعت و حرفت کو اپنے ہاتھ میں نہ کر لیں اور ہر اک شخص جسے خدا تعالیٰ نے خاص علم اور فہم دیا ہے مجبور ہو کر دوسروں کا روپیہ شامل کر کے انہیں بھی حصہ دار بنائے اور دولت صرف چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو جائے- اسی طرح زکوۃ مقرر کر کے ایسے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ کھولا ہے جن کے پاس علم اور قابلیت تو ہے لیکن روپیہ نہیں-
اسی اصل کے ماتحت احمدیت نسلی بادشاہتوں کی مخالف ہے کیونکہ اس طرح ایک خاندان محض وراثت کی بناء پر نہ کہ لیاقت کی بناء پر دوسرے لوگوں کی ترقی کے راستہ میں روک بنتا ہے- اسی طرح وہ قومی برتری اور امتیاز کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس طرح بھی بعض عہدوں` تجارتوں یا کاموں کے دروازے بعض خاص افراد کے لئے کھلے ہوتے ہیں اور دوسروں کے لئے بند اور یہ ہر گز درست نہیں کہ جو کام خدا تعالیٰ نے سب کے لئے کھلے رکھے ہیں انہیں بعض کے لئے مخصوص کر دیا جائے-
۲۲-
سلسلہ احمدیہ کی یہ بھی تعلیم ہے کہ موت انسانی زندگی کو ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ ایک لمبے سلسلہ حیات کی ایک تبدیلی کا نام ہے ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے- ہم میں سے ہر ایک جو مرتا ہے ایک نئی دنیا میں اور نئی قوتوں سے اپنے اس کام کو جسے اس نے اس دنیا میں شروع کیا تھا جاری رکھتا ہے- اگر وہ برے راستہ پر چلا تھا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی حالتوں میں سے گزارے گا جس سے اس کی حالت کی اصلاح ہو جائے اور وہ اپنی روحانی بیماریوں سے شفا پا کر خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکے اور اس کا دیدار اسے نصیب ہو سکے اور اسی زمانہ علاج کا نام دوزخ ہے جس میں انسان صرف ایک عارضی زمانہ کے لئے جو روحانی بیماریوں کی نوعیت کی وجہ سے گو بہت لمبا ہوگا مگر پھر بھی ختم ہو جانے والا ہوگا` داخل ہوگا` آخر سب انسان اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا لیں گے اور کوئی انسان بھی خواہ کس قدر گناہ گار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ کسی مذہب کا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں رہے گا- کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر شیطان کی فتح سمجھی جائے گی جس نے ان بندوں میں سے بعض کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے لئے پیدا کیا تھا گمراہ کر دیا- پس ضرور ہے کہ سب انسان آخر نجات پا جائیں اور جنت میں جائیں جو اس مقام کا نام ہے جس میں انسان نئی روحانی طاقتیں پا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو بدرجہ اتم اپنے وجود میں پیدا کرنا شروع کرے گا اور نہ ختم ہونے والی ترقیات کے حصول کی ابدی کوششوں میں مشغول ہوگا تا کہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر معلوم کر لے کہ خداتعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں جن کی انتہاء کو انسان غیر محدود کوشش سے بھی نہیں پہنچ سکتا اور ہر منزل کے بعد ایک اور منزل ظاہر ہو جاتی ہے جسے طے کرنا اس کے لئے ابھی باقی ہوتا ہے-
‏A۔۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A
‏a11.17
انوار العلوم جلد ۱۱

زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل
حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان
وہ معرکہ الارا مضمون جو زمیندارہ کانفرنس منعقدہ لائلپور
)۲۰`۲۱ جون ۱۹۳۱ء( میں پڑھا گیا اور جس میں زمینداروں کی مالی حالت
درست کرنے کے متعلق بہترین و قابل عملدرآمد تجاویز مندرج ہیں
جسے
مینیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے شائع کیا
اگست ۱۹۳۱ء
بار دوم تعداد پانچ ہزار
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‏]28 [pخدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
زمینداروں کی اقتصادی حالت
کس طرح درست ہو سکتی ہے؟
ملکی ترقی کیلئے نیک فال
بردران! مجھے اس بات کو معلوم کر کے نہایت ہی خوشی ہوئی ہے کہ زمیندار جو اس بات میں بدنام ہیں کہ انہیں سوائے اپنے قریبی ضروریات کے اور کسی بات کی طرف توجہ نہیں ہوتی` اب اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور میں آپ کی موجودہ کانفرنس کو اپنے ملک کی ترقی کے لئے ایک نہایت ہی نیک فال سمجھتا ہوں-
زمینداروں کے مقاصد اجتماع سے ہمدردی
گو میں اس علاقہ کا باشندہ نہیں ہوں جس علاقہ کے زمینداروں کی یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے لیکن بوجہ اس کے کہ میں خود زمیندار ہوں اور ہزار ہا آدمی میری جماعت کے اس علاقہ میں بستے ہیں جس کی طرف سے یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہے مجھے آپ لوگوں کے اجتماع کے مقاصد سے پوری دلچسپی اور ہمدری ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جس خلوص نیت سے میں آپ لوگوں کو اپنے علم اور تجربہ کے مطابق اپنی اقتصادی حالت کی درست کی طرف توجہ دلائوں گا اسی خلوص نیت کے ساتھ آپ لوگ بھی میری باتوں پر غور کریں گے- خواہ ان میں سے بعض باتیں آپ کے موجودہ خیالات کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں-
ہر شعبہ زندگی میں دیانتداری مقدم رہے
سب سے پہلے میں آپ لوگوں سے یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ ہمیں زندگی کے ہر شبہ میں دیانتداری اور سچائی کو مقدم رکھنا چاہئے اور خواہ ہمارا مخاطب ہم سے کس قدر ہی اختلاف رکھتا ہو اس کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے-
گورنمنٹ اور زمیندار
پس گو اس وقت ہمارے اجتماع کی غرض یہ ہے کہ گورنمنٹ کے سامنے اپنی موجودہ حالت کو پیش کرتے ہوئے اس سے معاملہ اور آبیانہ کی کمی کا مطالبہ کریں- لیکن ہمیں یہ امر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے پچھلے تمام دستوروں کے خلاف اس سال معاملے اور آبیانے میں ایسی کمی کی ہے جسے ہم خواہ اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے کتنا ہی تھوڑا سمجھیں- لیکن گورنمنٹ کے پچھلے عمل اور پچھلے طریق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی کمی ہے-
پس گو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کمی سے زمینداروں کی تکلیف دور نہیں ہو سکتی- لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس کمی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ نیک نیتی کے ساتھ زمینداروں کی تکالیف پر غور کرنے کیلئے تیار ہے-
پس جہاں ہمیں گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ معاملہ اور آبیانہ میں اور کمی کرے وہاں ہمیں ہزایکسلنسی دی گورنر ریونیو ممبر کا ممنون بھی ہونا چاہئے کہ انہوں نے قدیم روایات کے خلاف اور موجودہ حالت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک صحیح طرف قدم اٹھایا ہے- میں یقین رکھتا ہوں کہ اس نیت کی موجودگی میں جس کا گورنمنٹ نے اظہار کیا ہے اگر واقعات کو صحیح طور پر اور نڈر ہو کر گورنمنٹ کے سامنے رکھ دیا جائے تو گورنمنٹ ضرور موجودہ تکلیف کے دور کرنے کے لئے ایک اور قدم اٹھائے گی اور زمیندار اس تباہی سے دو چار ہونے سے محفوظ ہو جائیں گے جو فقر اور فاقہ کی صورت میں ان کے سامنے آ رہی ہے-
زمینداروں کی تکلیف کا اصلی باعث
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر گورنمنٹ معاملہ اور آبیانہ میں معتدبہ کمی کر دے تو زمینداروں کی موجودہ تکالیف میں ایک حد تک کمی آ جائے گی- لیکن ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ زمینداروں کی مشکلات عارضی مشکلات نہیں ہیں اور کم سے کم ہم اپنے صوبے کے زمینداروں کے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنگ اور جنگ کے بعد کے چند سالوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے زمینداروں کو کبھی بھی حقیقی خوشحالی نصیب نہیں ہوئی-
پس اگر ہم زمینداروں کی حقیقی خوشحالی چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اس امر پر غور کریں کہ اس تکلیف کو بواعث کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے؟ اس سال کے معاملے کی تخفیف کا نتیجہ صرف اتنا نکلے گا کہ بہت سے زمیندار اس سال تکلیف سے بچ جائیں گے- لیکن قوم کی موت بہرحال بری ہے- اگر کوئی قوم ایک سال کی بجائے دس سال میں تباہ ہو جاتی ہے تو ہم اس پر خوش نہیں ہو سکتے- پس اس سال معاملے یا آبیانہ کی تخفیف اس تباہی سے زمینداروں کو نہیں بچا سکتی جو آہستگی سے لیکن یقینی طور پر ہر سال زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ آ کر انہیں ہلاکت کی طرف پہنچا رہی ہے-
زمیندار قرض کی بلا میں
اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک کے زمینداروں کا بیشتر حصہ مقروش ہے اور مقروض بھی اس قدر کہ اس قرض سے بچنے کی ان کے پاس کوئی بھی صورت نہیں اور ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ زمینداروں نے یہ قرض صرف شوق کے طور پر بڑھا دیا ہے- میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ زمیندار بوجہ تعلیم کی کمی اور رسوم میں مبتلا ہونے کے قرضہ لینے میں بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں- لیکن یہ زمیندار کی کوئی خصوصیت نہیں ہے- ہمارا سارا ملک تعلیم میں پیچھے اور رسوم کی بلا میں گرفتار ہے- لیکن باوجود اس کے زمینداروں کے سوا دوسرے طبقے اس قدر مقروض نہیں ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمینداروں کے مقروض ہونے کے بواعث تعلیم کی کمی اور رسوم کی پابندی کے سوا کچھ اور بھی ہیں- اور جب تک ہم تمام اس بات پر غور نہیں کریں گے اور ان کا علاج نہیں کریں گے اس وقت تک زمیندار کبھی بھی ان تکالیف اور دکھوں سے نہیں بچ سکتے جن میں وہ آج کل ہر وقت مبتلا رہتے ہیں-
پس میں زمینداروں کی اقتصادی حالت کی خرابی کے متعلق بحث کرتے ہوئے ان تمام ضروری امور کے متعلق روشنی ڈالوں گا جو مستقل طور پر یا عارضی طور پر زمینداروں کی اقتصادی حالت کی خرابی کا موجب ہو رہے ہیں- اور پھر میں وہ علاج بتائوں گا جس کے ذریعہ سے ہم ان خرابیوں کو پورے طور پر یا ایک حد تک دور کر سکتے ہیں-
آج کی خرابی کے اسباب
یاد رکھنا چاہئے کہ نرخ کی خرابی کے اسباب میں دو بڑے سبب گاہک کی کمی یا جنس کی فراوانی ہوتے ہیں- یعنی یا تو چیز اس لئے سستی ہو جاتی ہے کہ اس کے گاہک کم ہوتے ہیں یا اس لئے سستی ہو جاتی ہے کہ گاہکوں کی ضرورت سے زیادہ اس کی پیداوار ہو جاتی ہے- اگر ان دونوں اسباب میں سے ایک سبب بھی پیدا ہو جائے تو زمینداروں کی مالی حالت کو بہت نقصان پہنچتا ہے- مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے زمینداروں کو ان دونوں مصیبتوں سے ایک ہی وقت میں پالا پڑا ہوا ہے- یعنی خریدار کی کمی بھی ان کی مالی حالت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور پیداوار کی زیادتی بھی-
خریداروں کی کمی کی وجہ
خریداروں کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سال سے ہندوستان نے انگلستان کا مال خریدنا بند کر دیا ہے اور اس وجہ سے انگلستان کے بنکوں کا قرضہ ہندوستان کے بنکوں کے نام تھوڑا ہو گیا ہے- شاید عام زمیندار اس بات سے واقف نہ ہوں کہ ایک ملک کے لوگ جب دوسرے ملک سے کوئی چیز خریدتے ہیں تو وہاں سے روپیہ نہیں جاتا- بلکہ اس مال کی خریداری صرف ہنڈیوں پر ہوتی ہے- مثلاً اگر ہندوستان کا کوئی تاجر ایک کروڑ روپیہ کا کپڑا انگلستان سے خریدے تو وہ ایک کروڑ روپیہ انگلستان نہیں بھیجے گا- بلکہ جب وہ مال ہندوستان پہنچے گا تو وہ شخص ایک کروڑ روپیہ یہاں کے کسی بنک کو اس مال کے بدلے میں ادا کر دے گا اور وہ بنک اپنی انگلستان کی شاخ کو ایک روڑ روپیہ ادا کرنے کی چھٹی لکھ دے گا اور اس طرح ہندوستان کی شاخ انگلستان کی شاخ کی ایک کروڑ روپیہ کی مقروض ہو جائے گی اور اس روپے کے بدلے میں انگلستان ایک کروڑ روپیہ تک کا مال ہندوستان سے خرید سکے گا اور اس طرح دونوں طرف کے قرضے ادا ہو جائیں گے- لیکن اگر ہندوستان انگلستان سے مال خریدنا بند کر دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انگلستان کے بنکوں کی ہندوستان کے بنکوں کے ذمہ کوئی رقم نہیں ہوگی- پس جب انگلستان کا روپیہ ہندوستان میں نہ ہوگا تو وہاں کے لوگ یہاں سے بھی مال خریدنے سے گریز کریں گے- کیونکہ اس صورت میں انہیں بجائے حساب فہمی کے نقد روپیہ ادا کرنا پڑے گا- اور یہ امر ملک کی اقصتادی حالت کے لئے نہایت مضر سمجھا جاتا ہے اور نسبتاً مہنگا پڑتا ہے-
پس انگریزی مال کے بائیکاٹ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ انگلستان نے ہندوستان سے مال خریدنا کم کر دیا اور اس طرح گاہکوں میں کمی آ گئی اور غلے اور کپاس کو نقصان پہنچا- کھانے والے اب بھی وہی موجود ہیں- دنیا کی آبادی کم نہیں ہو گئی- فرق یہ پڑا ہے کہ انگلستان جو پہلے ہندوستان سے زدیاہ مال خریدتا تھا اب وہ آسٹریلیا` کینیڈا اور دوسری امریکن حکومتوں سے مال خریدتا ہے- کیونکہ وہ ملک باہمی سمجھوتے کے ماتحت انگلستان سے مال خریدتے ہیں اور جبکہ انگلستان کی ضرورتیں ان ملکوں سے پوری ہو جاتی ہیں تو اسے ہندوستان سے پہلے کے برابر اجناس خریدنے کی ضرورت نہیں رہتی-
اجناس کی زیادتی کی وجہ سے نقصان
دوسرا نقصان ہندوستان کی اقتصادی حالت کو اجناس کی زیادتی کی وجہ سے ہوااس کے دو اسباب ہیں- اول یہ کہ جب جنگ عظیم کے دوران میں بہت سی اقوام نے یہ محسوس کیا کہ اگر کسی وقت کوئی زبردست بحری بیڑا ان کے تعلقات کو دوسرے ممالک سے قطع کر دے تو وہ نہایت سخت مشکلات میں پڑھ جائیں گے اور ان کے ملک کے لئے کافی غلہ مہیا نہیں ہو سکے گا- اس احساس کے اثر کے نیچے وہ ممالک جو صرف صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرتے تھے اور غلیہ پیدا کرنے کی طرف ان کی بہت کم توجہ تھی` انہوں نے بھی اپنے ملک میں زراعت پر زور دینا شروع کیا- تاکہ اگر آئیندہ کسی جنگ میں ان کا محاصرہ بھی کر لیا جائے تو بھی انہیں کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہ ہو- نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے ممالک جس قدر غلہ پہلے دوسرے ممالک سے منگواتے تھے اس قدر غلہ منگوانے کی انہیں حات نہ رہی-
روس میں غلہ کی افراط
دوسرا سبب اجناس کی زیادتی کا یہ پیدا ہو گیا ہے کہ روس کے ملک میں ایک ایس حکومت قائم ہے جس نے سب زمینداروں کی زمینیں لے کر سرکای ملکیت قرار دے دی ہیں- ہر زمیندار کے پاس اتنی ہی زمین رکھی جاتی ہے جتنی وہ خود کاشت کر سکتا ہے- اور کسی زمیندار کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے بوئے- بلکہ گورنمنٹ بتاتی ہے کہ زمیندار کیا بوئیں اور کیا نہ بوئیں- گورنمنٹ نے مختلف تجربوں کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ کس علاقے میں کون سی چیز اچھی ہو سکتی ہے- اس علم کے ماتحت وہ زمینداروں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ صرف وہی چیز بوئیں جو گورنمنٹ کے نزدیک اس علاقے کے مناسب ہے- جب غلیہ پیدا ہو جاتا ہے تو زمینداروں کو اس کے کھانے کے مطابق غلہ ملتا ہے- باقی ضرورتوں کے لئے گورنمنٹ خود انتظام کرتی ہے- یعنی کپڑے جوتی وغیرہ دوران سال میں خود مہیا کر کے دیتی ہے- اس طرح اجتماعی کاشت کے ذریعہ سے روس میں گیہوں کی پیدا وار بہت بڑھا لی گئی ہے- اور ایک دو سال میں کپاس کی پیدا وار بھی اسی طرح بڑھا لینے کا اعلان کیا گیا ہے-
چونکہ روس کی آبادی اتنا غلہ نہیں خرچ کر سکتی جتنا کہ ملک میں پیدا ہونے لگ گیا ہے- اس لئے کئی کروڑ من غلہ چو بچ گیا ہے وہ نہایت سستے داموں پر باہی فروخت کیا جا رہا- پچھلے سال پندرہ آنے من تک سنا گیا ہے فروخت ہوا ہے- اور اس سال اس سے بھی شاید سستا ہو- یہ زیادتی اتفاقی امر نہیں ہے- بلکہ روس کی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے- تاکہ اس سے دوسرے ملک کے زمینداروں کو نقصان پہنچے اور ان میں بغاوت پیدا ہو کر وہ کمزور ہو جائیں- سوائے روس کے اس قسم کی سکیم پر کوئی اور حکومت عمل نہیں کر سکتی- کیونکہ وہاں سب زمین حکومت کی ہے اور وہ زمینداروں کو مجبور کر کے جس طرح چائے کام لے سکتی ہے- پھر چونکہ حکومت زمینداروں کرو روٹی کپڑا دے دیتی ہے وہ غلہ کا بھائو گرنے پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتے- دوسرے ممالک میں چونکہ یہ انتظام نہیں ہے وہاں کے زمینداروں کو تکلیف ہوتی ہے-
ہندوستان کی سکہ کی گراں قیمت
تیسرا سبب جو اس وقت ہندوستان کی اقتصادی حالت کی خرابی کا موجب ہے وہ ہمارے سکہ کی قیمت ہے- گورنمنٹ نے روپیہ کی قیمت بڑھا دی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بیرونی ممالک کو اپنے سکے کے مقابلہ میں ہندوستان کا رویہ کم ملتا ہے اور اس وجہ سے ہندوستان میں غلہ یا کپاس خریدنا ان کو مہنگا پڑتا ہے-
قاعدہ یہ ہے کہ جس ملک کے سکے کی قیمت گراں ہو جائے اس ملک کا مال باہر کم جاتا ہے- اور جب سکہ کی قیمت گر جائے تو وہاں کا مال باہر زیادہ جاتا ہے- چنانچہ جنگ عظیم کے بعد جرمن حکومت نے جان بوجھ کر اپنے سکے کی قیمت اتنی گرا دی تھی کہ باہر کے ملکوں کو باقی ممالک کی نسبت جرمن کی چیزیں بہت سستی پڑنے لگ گئی تھیں- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باہر سے بہت آرڈر جرمن میں جانے لگ گئے اور جرمن کے کارخانے جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے- فرانس اور اٹلی نے بھی ایک حد تک اسی ترکیب سے فائدہ اٹھایا تھا- اب اگر ہندوستان کا روپیہ سستا ہو جائے تو گیہوں کے ریٹ بھی کسی قدر زیادہ ہو سکتے ہیں اور باوجود اس کے باہر سے آڈر بھی زیادہ آ سکتے ہیں-
بائیکاٹ دو دھاری تلوار ہے
یہ تو عارضی اسباب میں سے بعض ہیں جو اس وقت ہندوستان کی حالت کو خراب کر رہے ہیں- چونکہ بائیکاٹ ایک سیاسی سوال ہے میں اس کے متعلق زیادہ تفصیل سے کچھ نہیں کہنا چاہتا- صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے سا لجاپان کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور وہاں کے باشندوں میں سے ایک حصہ نے زور دینا شروع کیا تھا کہ باہر کے ممالک کی چیزیں خریدنی بند کر دی جائیں اس طرح ہمارا روپیہ محفوظ رہے گا- لیکن جاپانی وزیر مالیہ نے جن کے حب وطن کے جذبہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور جو جاپانی ہی ہیں غیر ملکی نہیں` ان لوگوں کے جواب میں یہ کہا تھا کہ بائیکاٹ دو دھاری تلوار ہوتی ہے- وہ انہی لوگوں کو نہیں کاٹتی جن کے خلاف تم اسے چلاتے ہو بلکہ ساتھ ہی تمہارا نقصان بھی کرتی ہے- اور یہ جو نہایت ہی صحیح ہے-
پس یہ میں نہیں کہتا کہ سودا خریدا جائے یا نہ خریدا جائے- لیکن میں اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم غیر ملکی سودا خریدنے کی لئے تیار نہیں تو ہمیں اس بات کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہئے کہ ہماری اجناس کے جریدار بھی ضرور کم ہو جائیں گے- پس اگر ہم غیر ملکی چیزوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیں تو ہمیں ایک عرصہ تک زمینداروں کی اقتصادی حالت کے بگڑے رہنے کو بھی قبول کر لینا چاہئے-
دوسرا موجب جو اجناس کی زیادتی کا ہے اس کے ایک حصے کا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں- یعنی ممالک جو اپنی ضرورتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ملک میں پوا کرنا چاہتے ہیں ان کو ہم اس فعل سے نہیں روک سکتے-
کیا روسی حکومت کا طریق اختیار کیا جائے
ہاں روسی حکومت کا فعل سرا سر اور محض سیاسی اغراض سے وابستہ ہے- اس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے- یا تو یہ کہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی روسی انتظام کو قبول کریں- یعنی سب زمیندار اپنے حقوق ملکیت ترک کر دیں- زمین کو نئے سرے سے برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جئے اور کاشت کا اختیار زمینداروں کے قبضہ میں نہ رہے- بلکہ حکومتت کے ہاتھ میں ہو- حکومت جس چیز کی چاہے کاشت کرائے اور زمینداروں کو کھانا کپڑا دینے کی ذمہ وار ہو- ممکن ہے کہ ان ممالک کے لوگ جہاں کی زمین صرف چند بڑے بڑے زمینداروں کے قبضے میں ہے اس قسم کی تبدیلی کو ماننے کے لئے تیار ہو جائیں- لیکن پنجاب جس کی زمینیں پہلے ہی تقسیم شدہ ہیں اور آبادی کا زیادہ حصہ زمیندارہ پر گزارہ کرتا ہے- وہاں کے زمیندار تو میں سمجھتا ہوں کبھی بھی اس سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے- پس یہ علاج تو ہمارے ملم کے لئے کافی نہیں ہو سکتا-
دوسرا علاج یہ ہے کہ تمام ممالک اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ روسی پیدا وار ان کے ملک میں داخل نہ ہو سکے- اگر دنیا کی تمام یا اکثر حکومتیں اس بات پر اتفاق کر لیں تو موجودہ تباہی کا بہت کچھ علاج ہو سکتا ہے- پس میرے نزدیک اگر ہم اس مصیبت کو دور کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ وہ دوسری گورنمنٹوں سے مل کر یا تو روس کے غلے کی پیدا وار کو محدود کرائے یا سب مل کر اس بات پر اتفاق کر لیں کہ روسی اجناس اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے- اگر اس قسم کی کوئی تدبیر نہ کی گئی اور دوسری طرف روس میں بھی زمینداروں کی بغاوت کامیاب نہ ہوئی جو کہ روسی حکومت کے موجودہ قوانین کے سخت مخالف ہیں تو پھر دنیا کے زمیندار ایک لمبے عرصہ تک مشکلات میں مبتلا رہیں گے-
پونڈ کی قیمت بڑھا دی جائے
تیسرا عارضی سبب جو اس وقت ہندوستان کی اقتصادی حالت پر اثر ڈال رہا ہے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ ہم سب لوگ مل کر حکومت پر زور دیں کہ وہ اپنی اس پالیسی کو بدل دے کہ پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ روپے رہے- بلکہ جس طرح پہلے ہوتا تھا وہ پونڈ کی قیمت پندرہ روپے کر دے- اس طرح ہندوستان کو گاہک زیادہ مل جائیں گے اور اجناس کی قیمت بڑھ جائے گی-
ریلوے کرائے کم کر دے
‏]1ttex [tagزمنداروں کی اقتصادی حالت کے درست ہونے کا ایک عارضی ذریعہ یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ ریلوے کے کرائے گرا دے اور جیسا کہ بعض دوسری گورنمنٹیں کرتی ہیں` جہازوں کو امداد دے کر ان کے کرائے بھی گروا دے- اس صورت میں بھی ہندوستان کو کے گاہگ زیادہ مل جائیں گے اور قیمت بڑھ جائے گی-
پس ہمیں ان امور کے متعلق بھی گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے- بظاہر گورنمنٹ پر یہ ایک بہت بیا بوجھ معلوم ہوتا ہے- لیکن عملاً اس صورت کو اختیار کرنے پر یہ بوجھ بہت کم ہو جائے گا کیونکہ غلہ کی قیمت فوراً بڑھ جائے گی اور گورنمنٹ کو معاملے میں اتنی تخفیف کی ضرورت نہ رہے گی جتنی کہ موجودہ حالات میں ہے اور اس میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا کہ معامے میں تخفیف کر کے زمینداروں کی تکلیف دور کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں کہ غلہ کی قیمت بڑھ جانے اور غلے کی منڈیوں پر ہندوستان کا قبضہ قائم رہے-
زمینداروں کے نقصان کے مستقل اسباب
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ عارضی اسباب اور عارضی علاج ہے- ان کے علاوہ بعض مستقل اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہندوستان کے زمیندار حصوصیت کے ساتھ نقصان اٹھا رہے ہیں اور جب ہم ان اسباب کا علاج نہیں کریں گے اس وقت تک ہندوستان کے زمینداروں کی اقتصادی حالت درست نہیں ہو سکتی- ہمارے ملک کی بہت بڑی بد قسمتی ہو گی اگر ہمارا زمیندار طبقہ موجودہ عارضی مشکلات کو دور کر کے پھر غافل ہو جائے- کینوکہ اس صورت میں وہ آج ایک چھوٹی تباہی کے بچ کر آج سے دس سال بعد ایک بہت بڑی تباہی میں مبتلا ہو جائے گا- پس ان اسباب کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو اباب کہ مستقل طور پر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو خراب کر رہے ہیں-
پہلا سبب
پہلا سبب تو ہی ہے کہ ہمارے ملک کی زمینوں کی پیدا وار اجتماعی کوشش سے حاصل نہیں کی جا سکتی- چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مختلف زمینداروں کے قبضے میں ہیں جس کی وجہ سے مشینوں سے کاشت کا کام نہیں لیا جا سکتا- عمدہ آلات استعمال نہیں کئے جا سکتے- اور ملک کی آبادی کا بہت سا حصہ ایسی زمینوں کے ساتھ چمٹا بیٹھا ہے جو اس کے گزارہ کے لئے کافی نہیں ہیں- میں چونکہ اس وقت نہری آبادی کے زمینداروں کو مخاطب کر رہا ہوں میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کس طرح غیر نہری علاقوں میں چند گھمائوں بلکہ چند کنال زمین کے اوپر لاکھوں خاندان گزارہ کر رہے ہیں- صرف اس وجہ سے کہ وہ زمینداروں کی اولاد ہیں اور صرف اس وجہ سے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے باپ دادے کے ترکے کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں- نتیجہ یہ ہو رہا کہ لاکھوں خاندان پنجاب کے جن مجموعی تعداد ۲۵-۳۰ لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں- اپنی طاقت کو بالک ضائع کر رہے ہیں اور خشک تھنوں سے دودھ دوہنے کی کوشش کر رہے ہیں- ان کی مقبوضہ زمینیں کسی صورت میں بھی ان کے لئے گرارہ کا موجب نہیں بن سکتیں- پس وہ قرض لینے پر مجبور ہیں اور اس قرض ¶کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں- اتنے بڑے گروہ کو جو قرض لینے پر مجبور رہے قرض لیتے ہوئے دیکھ کر ان کے ہمسائے بھی معمولی معمولی ضرورتوں پر قرض لینے لگ جاتے ہیں- وہ نہیں دیکھتے کہ ہمارا ہمسایہ قرض لینے پر مجبور ہے وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ بھی زمیندار رہے اور ہم بھی زمیندار ہیں- غرض اس طرح ملک روز بروز تباہی کہے گہرے گڑھے میں گرتا جاتا ہے-
میں خود اوپر لکھ چکا ہوں کہ پنجاب میں روس سکیم جاری نہیں کی جا سکتی- لیکن ہم اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا موجودہ طریق بھی ¶ہمیں تباہی سے بچا نہیں سکتا- پس اگر ہمارا ملک تباہی سے بچنا چاہتا ہے تو ہمیں روس کی سکیم اور ہمارے موجودہ دستور العمل کے درمیان میں کوئی سکیم ایجاد کرنی پڑے گی اور اگر ہمارے ملک کے زمیندار ایسا نہیں کریں گے تو آج نہیں تو کل ان کی اولادیں بھیک مانگنے پر مجبور ہوں گی- لیکن جس آبادی کا ایک معتدبہ حصہ بھیک مانگنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو وہاں بھیک دینے والے کہاں سے آئیں گے؟
زمینداروں کی کمپنی
جنوبی امریکہ میں ان دونوں طریق کے درمیان میں ایک سکیم پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ زمین تو ہر زمیندار کی سمجھی جاتی ہے- لیکن سارے گائوں کے زمیندار مل کر ایک کمپنی بنا لیتے ہیں- جس کا حصہ بجائے روپیہ کی صورت میں ادا کرنے کے زمین کی صورت میں ادا کرتے ہیں- چونکہ ایک بڑا ٹکڑا زمین کا اکٹھا مل جاتا ہے- اس کی کاشت مشترکہ کوشش کے ساتھ کی جاتی ہے اور نتائج قریباً ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ روس میں ہو رہے ہیں- مگر زمیندار اپنی زمین سے بھی محروم نہیں رہتا اور ہر ایک زمیندار کو اس کے مطابق حصہ مل جاتا ہے-
میں یہ جانتا ہوں کہ اس قسم کی سکیم پر پنجاب کے زمینداروں کے لئے عمل کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ کوئی قیامت خیر تغیر پیدا نہ ہو جائے- پس میں یہ نہیں کہتا کہ ہم کو فوراً یہ طریق اختیار کر لینا چاہئے فو کچھ میں کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طریق پر اب ہماری زمینوں کی کاشت ہو رہی ہے- اس طرح زمینداروں کا گزارہ بالکل نہیں چل سکتا اور جس قدر آدمی اس وقت زمین سے گزارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- اس قدر آدمیوں کا گزارہ پنجاب کی زمین سے نہیں ہو سکتا- پس ہمیں کوئی ایسی درمیانی راہ نکالنی چاہئے کہ جس کے ذریعہ سے زمینداروں کی حالت درست ہو سکے خواہ وہ جنوبی امریکہ والی تجویز ہو یا کوئی اور-
زمیندارہ انجمن بنائی جائے
میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہو گی کہ ایک زمیندار انجمن مستقل اصول پر بنائی جائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ وقتاً فوقتاً اجلاس کر کے زمینداروں کی مشکلات پر غور کرے اور ان کے علاج نکالے اور جن تدبیروں پر ملک کا اکثر حصہ اتفاق کرے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے- اگر زمینداروں کے بچے آج سے ایک یا دو پست کے بعد زمینداہ چھوڑ کر دوسرے کام پر مبجور ہوں گے تو کیوں دو نسلوں کو تباہ ہونے دیا جائے` کیوں نہ آج ہی سے اپنی اصلاح کی فکر کی جائے-
دوسرا سبب
دوسرا مستقل سبب جو ہمارے ملک کی اقتصادی حالت کو خراب کرنے کا موجب ہے یہ ہے کہ حکومت پیداوار پر نہیں بلکہ زمین پر اور پیداوار کے مطابق نہیں بلکہ مقررہ رقم کی صورت میں معاملہ لیتی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے زمیندار بالعموم معاملہ دنیے کی بھی توفیق نہیں پاتے- اگر پیداوار کے مطابق معاملہ ہوتا تو آج کسی عارضی انتنام کے لئے کسی زمیندارہ کانفرنس کی ضرورت نہ ہوتی- اگر دس روپے کی کاشت زمیندار کرتا تو گورنمنٹ اس میں سے اڑہائی روپیہ لے لیتی- مگر موجودہ صورت میں تو بعض جگہ پر گورنمنٹ کا آبیانہ اور معاملہ پیداوار سے زیادہ ہو جاتا ہے- زمیندار اب خود کہاں سے کھائے اور اپنے بیوی بچوں کو کہاں سے کھلائے-
گورنمنٹ کیا کرے
پس ہمیں گورنمنٹ کے سامنے یہ سوال پیش کرنا چاہئے کہ دو تجویزوں میں سے ایک کو وہ اختیار کرے- یا تو وہ یہ کرے کہ معاملہ مقرر نہ ہو بلکہ پیداوار کی قیمت کے لحاظ سے اس کی پر سال تعیین ہوا کرے- یعنی بٹائی کے اصول کے مطابق اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اس کو یہ چاہئے کہ معاملہ زمین کی پیداوار کے مطابق نہ ہو- بلکہ پہلے ہر زمیندار کو اس کے کھانے پینے کے لئے ایک حصہ زمین کا چھوڑ دیا جائے- مثلاً یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ اوسطاً ایک خاندان کے گزارہ کے لئے دس ایکٹر زمین کی ضرورت ہے- پس جو زمیندار دس ایکٹر سے کم زمین پر کاش کر رہے ہیں- ان سے کسی قسم کا کوئی معاملہ وصول نہ کیا جائے- جن زمینداروں کی کاشت اس سے زیادہ ہو ان کی زمین میں سے دس ایکٹر زمین پر کوئی معاملہ نہ ہو- اس سے زائد پر پھر معاملہ لیا جائے- میرا یہ مطلب نہیں کہ دس ایکٹر میرے نزدیک صحیح اندازہ ہے- میں نے صرف اس کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے- میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ ہم نصف مربع زمین کے لئے مطالبہ کریں کہ وہ زمیندار کے گزارے کے لئے چھوڑ دیا جائے- جو اس سے زائد زمین ہو اس پر معاملہ لیا جائے- کوئی وجہ نہیں کہ جب گورنمنٹ تاجر کو آمد میں سے ایک حصہ بغیر انکم ٹیکس کے چھوڑ دیتی ہے اور صرف دو ہزار روپیہ سے زائد آمد والے روپیہ والوں پر ٹیکس لگاتی ہے تو کیوں زمینداروں کے لئے وہی صورت بہم نہ پہنچائی جائے- جب تک ہم اس قسم کی کوئی سکیم گورنمنٹ سے منظور کرانے میں کامیباب نہیں ہوں گے` زمیندار مستقل طور پر اقصادی تباہی سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے-
تیسرا سبب
تیسرا سبب جو ہمارے ملک کے زمینداروں کو اقتصادی خرابی کا موجب ہے وہ یہ ہے ک زمیندار حساب نہیں رکھتے- وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ فلاں فلاں ضرورت ہمارے سامنے پیش آئی ہے اور اس کو ہم نے پورا کرنا ہے اور امر کے متعلق خیال نہیں کرتے کہ وہ ضرورتیں پوری انہوں نے کہاں سے کرنی ہیں- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک سال ان کو دس ہزار کی آمدن ہوتی ہے تو اس کو وہ اسی سال خرچ کر دیتے ہیں اور دوسرے سال اگر انہیں ایک ہزار روپیہ آمدن ہوتی ہے تو وہ اپنی قاقی پیش آمدہ ضرورتوں کے لئے قرض لے لیتے ہیں- حالانکہ صحیح طریق زندگی بسر کرنے کا یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اپنی پانچ سات سالہ حقیقی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اوسط آمد کا اندازہ نکال لیتے- اسی طرح وہ اپنی ضرورتوں میں اپنی مستقل اور عارضی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر اپنا ایک اوسط خرچ نکال لیتے- اس صورت میں وہ آسانی کے ساتھ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے ماتحت لا سکتے ہیں- لیکن زمینداروں میں سے غالباً ایک بھی ایسا نہیں کرتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قریباً ہر ایک زمیندار مقروض ہے-
عجیب بات ہے کہ مزدوروں میں سے اتنے مقروض نہیں نکلیں گے جتنی زمینداروں میں مقروض نکلیں گے- حالانکہ ہمارے ملک کے مزدور بھی بہت کم مزدوری پاتے ہیں- وجہ اس کی یہی ہے کہ مزدور کو اپنی مزدوری کا انذارہ معلوم ہوتا ہے- اس لئے وہ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے نیچے رکھتا ہے- لیک زمیندار کو اپنی آمد کا اندازہ معلوم نہیں ہوتا پس جو زمیندار کہ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے مطابق رکھ سکتا ہے` وہ بھی ایسا نہیں کرتا اور مقروض رہتا ہے-
پس اگر ہمارے ملک کے زمیندار آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی اوسط آمدنی نکالیں اس اوسط آمدن کے ماتحت اپنے اخراجات رکھیں اور اخراجات میں شادی بیاہ بیماری وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کر لیں- کیونکہ جس سال شادی یا بیاہ کا موقع پیش آئے گا` اس سال ان کی فصل خاص طور پر زیادہ نہیں ہو جائے گی اور یہ بھی مدنظر رکھیں کہ جس سال ان کی فصل زیادہ ہو جائے وہ ان کی آمد کی زیادتی نہیں- کیونکہ بعض سال ان کی عمر میں ایسے بھی آئیں گے جن میں ان کی فصل کم ہو گی- پس اوسط آمدن سے زائد آمدن کسی سال میں ہو جائے تو اس کو خرچ نہیں کرنا چائے- وہ تو کم پیداوار والے سالوں کی تکلیف دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے-
زمیندار کیا طریق عمل اختیار کریں
الغرض زمینداروں کو چاہئے کہ اول اپنی اوسط آمد نکالیں- دوم اپنا اوسط خرچ نکالیں اور اس خرچ میں اپنے عارضی اخراجات شادی بیاوہ وغیرہ بھی شامل کر لیں- سوم اگر کسی سال اوسط آمد سے زائد آمد ہو جائے تو اسے بالکل نہ چھوئیں- کیونکہ وہ صرف کم آمد والے سالوں کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے ہے- چہارم چونکہ اپنے پاس رقم جمع کرنی مشکل ہوتی ہے وہ ایسی سوسائیٹیاں بنائیں جن میں ہو ہر سال اپنی آمد کا وہ حصہ جو انہوں نے شادی بیاہ وغیرہ کی قسم کے وقتی اخراجات کے لئے مقرر کیا ہے جمع کراتے رہیں- جب اسی ضرورتیں پیش آئیں اس وقت وہاں سے رقم نکلوا کر اس کو خرچ کر لیں- یا اس قسم کی سوسائیٹیاں بنائیں جن کے ممبر اپنے اپنے طبقے کے مطابق ایک رقم مقرر کر لیا کریں- مثلاً یہ کہ اس سوسائٹی کا ہر ممبر دوسرے ممبر کی شادی وغیہر کی تقریبوں پر پانچ پانچ یا دس دس روپے دیا کرے گا- اس طرز پر بھی اس مشکل کا حل ہو سکتا ہے اور زمیندار قرض سے بچ سکتے ہیں-
ہمارے ملک میں اس سے پہلے اسی قسم کی تجویز پر عمل کیا جاتا رہا ہے جسے اردو میں نیوتا اور پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں- لیکن اس کی بنیاد رشتہ داری یا دوستی پر ہے` مالی حیثیت پر نہیں- جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب رشتہ دار یا برباد ہو جاتے ہیں یا ذلیل ہو جاتے ہیں- وہ رسم ترک کرنے کے قابل ہے- اس مشکل کا حل رشتہ داروں کا نیوتا نہیں- بلکہ ایک حیثیت کے آدمیوں کا اقصادی سوسائیٹیاں بنانا ہے- چونکہ سب لوگ اس میں ایک ہی قسم کی حیثیت کے ہوں گے اور امداد مقرر ہو گی-
چوتھا سبب
چوتھا سبب جو ہندوستان کے زمینداروں کو مستقل طور پر اقتصادی نقصان پہنچا رہا ہے وہ بدرسومات ہیں جن کی وجہ سے اپنی طاقت سے زیادہ انہیں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے-
میں نے اپنے مضمون کی ابتداء میں یہ کہا تھا کہ یہ رسوم ہی زمینداروں کی تباہی کا موجب نہیں- اس کے یہ معنی نہ تھے کہ رسوم کا زمینداروں کی تباہی میں کچھ دخل نہیں` بلکہ یہ مطلوب تھا کہ صرف یہی سبب ان کی تباہی کا نہیں ہے- مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ سبب بھی بہت کچھ زمینداروں کی تباہی کا موجب ہو رہا ہے- پس زمینداروں کو ایسی انجمنیں بھی بنانی چاہئیں جن کے ذریعہ سے رسوم کر مٹایا جائے اور شادی بیاہ کے اخراجات کم کئے جائیں- ان رسوم کے مٹانے سے بھی زمینداروں کی اقتصادی حالت بہت کچھ درست ہو سکتی ہے-
زمینداروں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب
سب سے آخر میں میں اس سبب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سب سے زیادہ زمینداروں کی اخلاقی اور اقتصادی حالت کی تباہی کا موجب ہو رہا ہے جو یہ ہے کہ زمیندار اس قدر قرض کے نیچے دبے ہوئے کہ وہ پیداوار سے اس کا سود بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکتے-
بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت زمینداروں پر ایک ارب تئیس کروڑ روپیہ کا قرض ہے- جس کے معنے یہ ہیں کہ قریباً ڈیڑھ کروڑ ایکٹر زمین فروخت کر کے اس قرض کو ادا کیا جا سکتا ہے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی صحیح طور پر قابل کاشت زمین اس سے کم ہی ہو گی- پس گو بظاہر زمیندار اپنی زمینوں کے مالک نظر آتے ہیں- لیکن اگر انہیں اپنے قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اپنی سب زمینیں فروخت کر کے بھی مقروض کے مقروض ہی رہیں گے- موجودہ حالات میں یہ قرض کسی طرح دور نہیں ہو سکتا بلکہ برابر بڑھتا چلا جائے گا اور کچھ عرصہ کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ زمیندار اپنی تمام زمینیں فروخت کر کے ایک سال کا سود بھی ادا نہیں کر سکیں گے-
یہ صورت حالات ایسی تشویشناک ہے کہ موجودہ غلے کی ارزانی اس کے مقابلہ میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی- پھر کیا تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے سمجھ دار زمیندار کہ جن کے دماغوں کے متعلق یورپ کے سیاح یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین دماغوں کے مشابہ ہیں` اس خرطرناک تباہی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی جدو جہد نہیں کرتے اور انہیں کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ سود خوروں کے ہاتھوں میں بھینسوں کی طرح ہیں- جن کا کام محض یہ ہے کہ وہ دودھ تو نہیں دیں اور خود صرف بھوسہ پر گزارہ کریں- بلکہ بعض حالات میں بھینسوں کی بھی حالت ان سے اچھی ہوتی ہے- کیونکہ بھینسیں عام طور پر زمینداروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں- جو تکلیف کے وقت میں اپنے آپ کو تکلیف دیتا ہے` اپنے جانور کو تکلیف نہیں دیتا- لیکن زمینداروں کی جان جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ایسے سنگدل ہیں کہ زمیندار کی موت اور اس کی ہلاکت کا ان کو کوئی بھی احساس نہیں- پس جب تک اس مصیبت کا علاج نہ کیا گیا زمینداروں کی سب کوششیں لغو اور برباد جائیں گی-
سودی قرض کی مصیبت کا علاج
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مصیبت کا علاج ہو سکتا ہے اور اگر زمیندار متفق ہو جائیں تو بہت جلد ہو سکتا ہے- اگر آپ لوگ اپنے اردگرد کے مقروضوں کی فہرستیں بنائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اکثر لوگوں نے سو روپیہ کی بجائے پانچ پانچ سو روپیہ ادا کیا اور پھر بھی ان کے قرضے ادا نہیں ہوئے- یہ قرض نہیں یہ قتل ہے جس کو کوئی انسان جائز قرار نہیں دے سکتا-
پس ضروری ہے کہ تمام کے تمام زمیندار متفق ہو کر یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ سود خوار لوگوں کے موجودہ قرض نہایت ہی ظالمانہ شرائط پر دئے گئے ہیں اور زمیندار کی مصیبت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر دئے گئے ہیں` اس لئے جو شخص اپنے قرض سے دو گنا ادا کر چکا ہے وہ اپنے آپ کو قرض سے سبکدوش سمجھ لے- آدھی ادائیگی اصل کی ادائیگی سمجھی جائے اور آدھی ادائیگی سود کی ادائیگی سمجھی جائے- ایسا شخص کوئی زائد رقم ادا نہ کرے- اس تحریک کے جاری کرنے سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ سود خواروں سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جائے- ان کے ہاں سنا گیا ہے کہ خود ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی رقم جب دوگنی ہو جائے تو اس سے زیادہ بڑھانی جائز نہیں-
اگر ایک تحصیل کے مقروض بھی تیار ہو جائیں
ہاں یہ ضروری ہے کہ اس تحریک کو قانونی اور اخلاقی حد کے اندر رکھنے کے لئے ایک متحدہ اور متفقہ کوشش کی جائے- اگر ایک تحصیل کے آدمی بھی اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دائمی غلامی سے بچانے پر آمادہ ہوں تو میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ ایسی تفصیلی سکیم ان کے سامنے پیش کر سکتا ہوں جس پر وہ عمل کر کے قرض سے نجات پا سکتے ہیں- لیکن یہ ضروری ہے کہ جس علاقہ میں وہ تحریک شروع ہو` خواہ وہ ایک تحصیل کے برابر ہو مگر اس کے تمام افراد یا اکثر افراد اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں اور عارضی طور پر وہ ہر قسم کی تکالیف اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں- اگر اس قسم کی کوئی تجویز زمینداروں نے نہ کی تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اور ان کی اولادیں کبھی بھی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتیں-
آئندہ کیلئے سود کی حد بندی کر دی جائے 0] [rtf
پچھلے قرضے کی ادائیگی کے علاوہ آئندہ کے لئے بھی زمینداروں کو گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ ۱۲ فیصدی سے زائد کسی صورت میں سود لینے کی اجازت نہ ہو- اس سے زائد سود عدالتیں بھی نہ دلوائیں- میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ رقم بھی بہت زیادہ ہے- لیکن چونکہ اس وقت تک کوئی حد بندی نہیں- اس لئے ہو سکتا ہے کہ فی الحال اس شرح پر اتفاق کر لیا جائے کیونکہ جب تجارتی کمیٹیاں رات دن محنت کرنے کے باوجود سات آٹھ فیصدی منافع کو کافی منافع سمجھتی میں تو کوئی وجہ نہیں کہ سود خوار کو اس سے زائد کا حق دار قرار دیا جائے- منافع تو وہی ہو سکتا ہے جو منافع میں سے ادا کیا جائے- اگر تجارت میں فرض کرو کہ دس فیصدی یا پندرہ فیصدی منافع زیادہ سے زیادہ آتا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرض لینے والا پانچ فیصدی سے ساڑھے سات فیصدی تک ہی قرضدار کو ادا کر سکتا ہے- کیونکہ منافع کا کچھ حصہ خود اس کے خرچ کے لئے بھی چاہئے- اور بارہ فیصدی قرضہ پر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ۲۴ فیصدی منافع قرض لینے والے کو آئے- لیکن زمیندارہ میں تو پانچ فیصدی سے زائد منافع نہیں آتا- اور وہ زمیندار جو پانچ فیصدی خود کماتا ہے` بارہ فیصدی سود خوار کو تبھی دے سکتا ہے جب سات فیصدی رقم وہ اپنی جائیداد میں سے ادا کرے- جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ بارہ فیصدی سالانہ پر قرض لے تو پندرہ سال میں اس کی اصل جائداد بھی سود خوار کے گھر چلی جائے- اور جو شرح اس وقت سود خوار لیتے ہیں وہ تو اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اگر زمیندار اپنی جائیداد کے مطابق قرض لے تو تین چار سال تک اس کی جائیداد صرف سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتی ہے-
پس جہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے پچھلے قرضوں کا فیصلہ کر لیا جائے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ گورنمنٹ پر زور دے کر آئندہ سود کی شرح بھی مقرر کرا لی جائے- جو زیادہ سے زیادہ ۱۲ فیصدی ہو- زور یہی دینا چاہئے کہ اس سے کم ہو-
زمینداروں کی متفقہ کوشش کی ضرورت
اگر زمیندار متفقہ طور پر کوشش کریں تو اس مطالبہ کو چند مہینوں کے اندر منوا لینا کچھ مشکل نہیں- کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک کی ۸۰ فیصدی آبادی کو غلاموں سے بدتر حالت میں رکھا جائے اور انسانیت کے تمام حقوق سے اس کو محروم کر دیا جائے اور کوئی حکومت جو انسانی حکومت کہلانے کی مستحق ہو ایسی نہیں ہو سکتی جو اس قسم کے جائز مطالبات کا انکار کرے- اور اگر کوئی حکومت اس کا انکار کرے تو وہ ۸۰ فیصدی آبادی جو جائز اور صحیح ذرائع سے ایسے شدید ظلم کا ازالہ نہ کروا سکے- یقیناً انسان کہلانے کی مستحق نہیں اور یقیناً اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی گردنیں پکڑ کر دوسرے لوگوں کے حوالے کر دی جائیں تا کہ وہ انہیں ہمیشہ کی غلامی میں رکھیں اور کوئی ذلت ایسی نہیں جو ایسے لوگوں کے لئے بری ہو کیونکہ وہ خود اپنی موت کو بلاتے ہیں اور وہ خود اپنے لئے رسوائی چاہتے ہیں اور عارضی آرام کے لئے دائمی غلامی کو پسند کرتے ہیں- مگر میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کے زمیندار خواہ مسلمان ہوں` ہندو ہوں` سکھ ہوں` اس خلاف انسانیت سلوک کی زیادہ برداشت نہیں کریں گے اور متفق ہو کر سود خواروں اور گورنمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں گے اور اس وقت تک آرام نہیں لیں گے جب تک وہ اپنے آپ کو اور بیوی بچوں کو غلامی سے آزاد نہ کرا لیں-
میں نے بیویوں کا لفظ بلاوجہ زائد نہیں کیا- پنجاب میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں زمینداروں نے سود کی ادائیگی کی ضمانت میں اپنی بیویوں کو سود خوار بینوں کے پاس گرو کیا ہوا ہے- جو قرض کہ ایک زمیندار جیسی ¶باغیرت قوم سے اس قسم کی حرکت کرا سکتا ہے اب وقت ہے کہ اس قرض کا کلی طور پر فیصلہ کر دیا جائے اور وہ فیصلہ ایسے رنگ میں ہونا چاہئے کہ نہ کوئی ہمارا حق مارے اور نہ ہم کسی کا حق ماریں-
ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے
میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ میرے خیالات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے- اور جو باتیں کہ ان میں سے آپ کو صحیح معلوم ہونگی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ تکالیف باتوں سے دور نہیں ہوتیں بلکہ عمل سے دور ہوتی ہیں-
اب آپ لوگوں کی تکلیفیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ زیادہ دیر لگانا علاج کو ناممکن بنا دینا ہے- خدا کرے کہ آپ لوگ وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور اس تکلیف دہ رندگی سے جو درحقیقت زندگی کہلانے کی مستحق نہیں اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچائیں-
پوری امداد کا وعدہ
میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اور احمدی جماعت کے تمام افراد اپنی طاقت کے مطابق ہر اس جائز کوشش میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے جو آپ زمینداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کریں-
ہر قسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہیں
لیکن یاد رکھیں کہ کوئی بڑا مقصد بڑی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور ملک کی ۸۰ فیصدی آبادی کو غلامی اور تباہی سے بچانے کی نسبت اور کوئی بڑا کام کیا ہوگا- پس اگر آپ لوگ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کو ہر وقت کی قربانیاں کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے- اگر آپ لوگ یہ سمجھیں کہ بغیر کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر اپنی پرانی عادتوں اور رسموں کو چھوڑنے کے` بغیر اپنے طرز رہائش کو بدلنے کے` بغیر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے آپ لوگ کامیابی حاصل کر لیں تو یہ ناممکن ہے اور بالکل ناممکن ہے-
مگر میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ جن کی بہادری کا ہر میدان جنگ شاہد ہے اور جو دوسروں کی جانیں بچانے کے لئے اپنی جانیں قربانی کرتے رہے ہیں اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے جائز حقوق کے حصول کے لئے کسی جائز کوشش سے دریغ نہ کریں گے-
‏a11.18
انوار العلوم جلد ۱۱

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مومنوں کیلئے قربانی کا وقت
من انصاری الی اللہ
اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے بندوں کے متعلق
اے بردران جماعت احمدیہ! اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پہلے ابتلائوں کے دریائوں میں سے گزارتا ہے- تب جا کر انہیں اپنے قرب سے مشرف کرتا ہے- چنانچہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی جماعت کو سخت سے سخت ابتلاء میں ڈال کر اس کا امتحان نہ لیا ہو یا مصائب کی بھٹی میں ڈال کر اسے صاف نہ کیا ہو- جب الل¶ہ تعالیٰ کے بندوں نے اپنے خون سے یا اپنے مال یا وطن کی یا عزیر و اقارب کی قربانی سے اپنے صدق پر مہر لگائی تبھی جا کر وہ خدا تعالیٰ کے مقبول ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور میں انہیں غیرت بخشی-
دو طرح کی قربانیاں
ہاں اس کی سنت کے مطابق یہ قربانیاں شروع سے دو طرح کی چلی آئی ہیں- ایک وہ جو پے در پے اور متواتر اور تمام اقسام کی ہوتی تھیں اور ایک وہ جو آہستگی سے لیکن لمبے عرصہ تک دینی پڑتی تھیں- مقصد دونوں قسم کی قربانیوں کا ایک ہی تھا گو طریق مختلف تھا- اس امت میں بھی ضرور تھا کہ دونوں قسم کی قربانیاں ہوں-
رسول کریم ~صل۲~ اور آپ کے صحابہ کی قربانیاں
چنانچہ رسول کریم ~صل۲~ آئے اور آپﷺ~ کو اور آپﷺ~ کے صحابہؓ کو شدید قربانیاں جو تمام قسم کی قربانیوں پر مشتمل تھیں اور جو اپنی نظیر آپﷺ~ ہی تھیں` ایک نہایت قلیل عرصہ میں ادا کرنی پڈں- اور خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کے مطابق اپنے فضل بھی اعلیٰ درجہ کے اور غیر معمولی ایک نہایت قلیل عرصہ میں نازل کئے جن کو دیکھ کر دنیا ا ب تک انگشت بدنداں ہے-
ایک بے کس یتیم زبردست بادشاہ بن گیا
ایک یتیم بچہ جس کو گائوں کی کوئی غریب دایہ بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھی- جس کی ساری پونجی ایک اونٹ تھا اور وہ بھی اس کی بلوغت سے پہلے نہ معلوم کس طرح ادھر ادھر ہو گیا تھا- جس نے چالیس سال کی عمر تک گوشہ تنہائی میں گزارے تھے- جو نہ پڑھنا جانتا تھا نہ لکھنا اور جس نے جب اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو سب سے زیادہ اس کے عزیز رشتہ دار ہی اس کے مخالف ہو گئے تھے- جس کے وطن کا ہر فرد اس کے خون کا پیاسا تھا- جو کچلا گیا` پیسا گیا اور دکھ دیا گیا- اور جس کے مٹانے کے لئے اپنے اور بیگانے سب جمع ہو گئے اور گویا بڑوں اور چھوٹوں نے متحدہ طور پر اسے مٹانے کا تہیہ کر لیا- جسے رات کی تاریکی میںاپنے وطن کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ خیر باد کہہ کر ایک اجنبی بستی میں جہاں اس کے دوستوں کی تعداد سو سوا سو آدمی سے زائد نہ تھی` جانا پڑا` ہاں وہی شخص صرف سات سال کے عرصہ میں ایک زبردست بادشاہ ہو گیا- جس نے نہ صرف عرب کے مختلف قبائل کو جمع کر دیا بلکہ عرب کے باہر بھی اس کی حکومت کا دامن وسیع ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ جو پہلے اس کے خون کے پیاسے تھے- ان کے دلوں پر اسے ایسی حکومت عطا فرمائی کہ وہ اپنی جانیں اور اپنے سب ہی کچھ اس پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانی
یہ تو وہ قربانی تھی جسے شدت کے ساتھ اور تھوڑے عرصہ میں ادا کرنا پڑا اور تھوڑے ہی وقت میں خدا تعالیٰ نے اس کا بدلہ بھی دے دیا- یہ قربانی بھی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تھی اور اس کا ثمر بھی آنکھوں کو چندھیا دینے والا تھا- لیکن ابھی اسلام نے دوسری قربانی پیش کرنی تھی- ایک دکھے ہوئے دل کی قربانی` ایک خاموش زبان کی قربانی` اس آہ کی قربانی جو لبوں سے نکلنے سے پہلے ہی دبا دی جاتی ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چنا ہوا تھا- ازل سے یہی مقدر تھا کہ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے وہ قربانیاں دلوائے جو آہستگی سے لیکن ایک لمبے عرصہ تک دلوائی جاتی ہیں-
ازلی تقدیر کا منشاء
پس ممکن ہی نہیں کہ بغیر ان قربانیوں کے ہماری جماعت ترقی کر سکے کیونکہ اگر ترقی مل جائے تو قربانی کا موقع باقی نہیں رہ سکتا- اور ایک ازلی تقدیر پوری ہوئے بغیر رہ جاتی ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے-احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنو )العنکبوت:۳( کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف اس قدر کہہ دیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اور اتنا کہنے پر اللہ تعالیٰ انہیں بغیر ابتلائوں میں ڈالنے کے چھوڑ دے اور مقدر ترقیات دے دے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا- انہیں وہ قربانیاں جو ترقیات کے لئے ضروری ہیں` ضروری دینی پڑیں گی اور تب جا کر انہیں کامیابی ہوگی-
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کی نوعیت یہ بیان فرماتا ہیولنبلونکم بشی من الخوف والجرع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصبرین ہم ضرور تم کو کسی قدر خوف اور بھوک اور اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ سے آزمائیں گے اور اے ہمارے رسول ~صل۲~ ! تو ان لوگوں کو جو ان ابتلائوں کے اوقات میں اپنے راستہ سے ہٹیں نہیں اور مضبوطی سے دین کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں- ہماری طرف سے بشارت اور خوشخبری پہنچا دے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے-
سب ترقیات قربانیوں سے وابستہ ہیں
ان آیات سے ظاہر ہے کہ سب ترقیات خواہ روحانی ہوں یا جسمانی قربانیوں کے ساتھ وابستہ ہیں- اور قربانیاں بھی وہ جو عام طور پر لوگوں کو متزلزل کر دیتی ہیں- پس جب تک اس حد تک ہماری جماعت کی قربانیاں نہ پہنچیں- حقیقی ترقیات نہیں ہو سکتیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی تھی ضرور ہے کہ ایسے سامان پیدا ہوں جن کی امداد سے ہماری کو ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں- چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ چند سال سے ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور مجھے نظر آتا ہے کہ ہماری جماعت کو مالی قربانیاں ایسی حد تک کرنی پڑیں گی جو واقع میں دل کی طہارت اور روح کی ترقی کا موجب ہو سکیں-
دنیا کی مالی حالت کی خرابی
تین سال سے متواتر دنیا کی مالی حالت خراب ہو رہی ہے اور سلسلہ کے کاموں کی زیر باری بھی لازماً بڑھ رہی ہے اور آئندہ اور بھی بڑھنے کا ڈر ہے کیونکہ ماہرین اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ چار پانچ سال تک دنیا کا مالی توازن درست ہوتا ہوا نظر نہیں آتا- غیب تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے لیکن یہ امر صاف ہے کہ احمدیہ جماعت کو حقیقی مالی قربانیاں کرنے کی توفیق دینے کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی سامان پیدا ہونے تھے- اور کوئی تعجب نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت کی بنیاد پر سات سال کی خطرناک مالی تنگی کا دنیا کو سامنا ہوا اور اسی مشابہت کے سامنے آپ کی جماعت کو بھی ایسی قربانیوں کی توفیق ملے جو انہیں دین و دنیا کی عزت دلانے کا موجب ہو-
قربانیوں کیلئے تیار ہو جائو
پس اے دوستو! آپ کو ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہئے کہ جو مومن اور منافق میں فرق کر دیتی ہیں- کئی دوست مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ہمیں جماعت کو ایسے طریق پر چلانا چاہئے کہ پوری قربانی کی روح ان میں پیدا ہو جائے- مگر میں ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کرتا تھا کہ قربانی نسبتی ہوتی ہے- اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ امارت اور غربت کو مٹا دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ امیر اور غریب سے یکساں قربانی کا مطالبہ کیا جائے- بلکہ یہ ہے کہ امیر اور غریب سے یکساں قربانی کا مطالبہ کیا جائے- پس اس اصل پر میں قربانیوں کا مطالبہ کرتا رہا ہوں- جیسا زمانہ آیا` اس کے مطابق قربانیوں کا مطالبہ کیا اور یہی طریق اسلامی ہے- چنانچہ اس وقت جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ خطرناک مالی مشکلات سامنے آ رہے ہیں- میں جماعت کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں تا کہ ضرورت کے موقع پر وہ الہی سلسلہ کی امداد سے پیچھے نہ رہ جائیں-
سلسلہ کا قرض اتار دیا جائے
اسی سلسلہ میں آئندہ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب کہ زمیندار طبقہ ایک عرصہ کے لئے قریباً دیوالیہ ہو گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فی الحال اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ سلسلہ کا پچھلا قرضہ اتار دیا جائے تا کہ آئندہ جدوجہد میں ہمیں مشکلات نہ پیش آئیں- یہ قرضہ تقریباً ۷۵ ہزار ہے اور اس کی وجہ سے سلسلہ کے روز مرہ کے کام بھی رک رہے ہیں- اگر ہم نے اس سال اس قرض کو نہ اتارا تو مجھے ڈر ہے کہ آئندہ اگر ملک کی حالت مزید خراب ہوئی تو اس کا اتارنا قریباً ناممکن ہو جائے گا-
قرض کوئی خاص قرض نہیں بلکہ سالانہ بجٹ چونکہ آمد سے پورا نہیں ہوتا رہا اس وجہ سے اسے پورا کرنے کے لئے کئی سال سے کچھ نہ کچھ رقم قرض لینے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے- یہ قرض کچھ تو دوستوں سے لیا گیا ہے` کچھ قادیان کے تاجروں کا ہے جن سے سلسلہ نے چیزیں ادھار خریدیں اور ان کی رقم ادا نہیں کی- اور کچھ سلسلہ کے کارکنوں کا ہے جن کو قریباً چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور مختلف مدات کا قرض نہیں جیسا کہ بعض دوستوں کا خیال ہے- اس سال زمینداروں کی آمد کم ہونے کے سبب سے آمد اور بھی کم ہو رہی ہے اور شائد سال کے آخر تک یہ قرض ایک لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے اور اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ سلسلہ کا سب کام رک جائے گا اور ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے حضور میں ایک بہت بڑی جواب دہی کے نیچے آ جائے گی اور بجائے ثواب کے خدانخواستہ عذاب کی مستحق بن جائے گی-
ایک ماہ کی آمد دو
پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور آئندہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا اہم فرض ہے کہ اس سال اس قرض کو ادا کر دیں تا کہ آئندہ اس کی ادائیگی ناممکن نہ ہو جائے اور اس کے لئے میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اس سال پھر جماعت کے تمام افراد اپنی ایک ماہ کی آمد سلسلہ کی ضروریات کے لئے دے دیں اور وہ اس طرح کہ ۳/۱ اپنی آمد کا ستمبر` اکتوبر اور نومبر میں ادا کر دیں اور جو ہندوستان سے باہر کے دوست ہیں وہ اکتوبر سے دسمبر تک اس رقم کو ادا کر دیں-
ایک رعایت
اس سے پہلے بھی ایک دو موقعوں پر احباب سے ایک ماہ کی تنخواہ کا مطالبہ کیا گیا ہے- لیکن اس دفعہ میں ایک اور رعایت بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اس چندہ خاص میں تین ماہ کا چندہ ماہواری یا چندہ وصیت اور چندہ جلسہ سالانہ بھی شامل سمجھا جائے- گویا ایک ماہ کی آمد ادا کرنے کے ساتھ ہی تین ماہ کا چندہ اور چندہ جلسہ سالانہ بھی ادا سمجھا جائے-
کس قدر روپیہ آسانی سے جمع ہو سکتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت بہت غریب ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر جماعت کے تمام احباب نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس رقم کو ادا کریں تو دو سے تین لاکھ تک کی رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے جس سے قرض بھی اتر سکتا ہے اور جلسہ سالانہ اور ماہواری اخراجات بھی ادا ہو سکتے ہیں- بلکہ کچھ رقم پس انداز بھی ہو سکتی ہے- لیکن چونکہ ہر جماعت میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور معذور بھی اور پھر کئی لوگ اس طرح پراگندہ ہیں کہ ان سے چندہ وصول کرنا مشکل ہے- اور کئی جماعتیں اور افراد نئے ہیں کہ ان پر ایسے بوجھ کو باصرار نہیں ڈالا جا سکتا- اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر احباب اخلاص سے کوشش کریں تو سوا لاکھ روپیہ آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے- جس میں سے سولہ ہزار جلسہ سالانہ کا خرچ اور اڑتالیس ہزار تین ماہ کا چندہ نکال کر اکسٹھ ہزار کی رقم قرضوں کی ادائیگی کے لئے بچ جاتی ہے- اگر کوشش کر کے صدر انجمن بعص جائیدادیں فروخت کر دے تو دس پندرہ ہزار روپیہ اس طرح بھی جمع کیا جا سکتا ہے- اور اس طرح کل قرض ادا کیا جا سکتا ہے- باقی رہی وہ کمی جو آمد کی غیر معمولی کمی سے اس سال واقع ہو رہی ہے اس کا تدارک بجٹ میں کمی کر کے کر دینا چاہئے تا کہ آئندہ قرض نہ بڑھے-
وہ جو تھک گیا ہمارا دوست نہیں
برادران! مجھ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بعض دوست چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں میں ان دوستوں کی رائے کو بالکل غلط سمجھتا ہوں- وہ جو تھک گیا وہ ہمارا دوست نہیں- ہم چندہ دے کر خدا تعالیٰ پر احسان نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ ہم پر احسان کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کو وصیت سے آزاد رکھا ہے- اس لئے میں وصیت کرنا خلاف شریعت سمجھتا ہوں- لیکن اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے اوسطاً پانچواں حصہ اپنی آمد کا چندوں اور للہی کاموں میں خرچ کرتا ہوں- بلکہ اس سے بھی زیادہ بلکہ میں تو گھر کے خرچ کے لئے جو قرض لیتا ہوں اس میں سے بھی چندہ ادا کرتا ہوں- کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی ضرورتوں کے لئے قرض لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے لئے قرض کیوں نہ لیں- حق یہی ہے کہ اگر ہم مالی قربانی جو سب سے ادنی قربانی ہے پوری طرح نہیں کر سکتے تو دوسری قربانیاں جو اس سے زیادہ ہیں کب کر سکیں گے-
ملازموں کیلئے آسانیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دن سخت تنگی کے ہیں- لیکن ملازموں کے لئے یہ دن آرام کے بھی ہیں کیونکہ ان کی آمدنیاں وہی اور اخراجات بوجہ ارزانی کے کم ہو گئے ہیں- پس اس طبقہ کو خصوصاً سلسلہ کی مالی خدمات میں پہلے سے زیادہ حصہ لینا چاہئے-
زمینداروں اور تاجروں سے
لیکن زمینداروں اور تاجروں کو بھی یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ وہ تنگی میں ہیں- اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں وہ بری ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیومارعوا الی مغفرہ من ربکم وجنہ غرضہا السموت والارض اعدت للمتقین- الذین ینفقون فی السراء والفراء )ال عمران: ۱۳۴`۱۳۵( اے لوگو اپنے رب کی مغفرت کے حصول کے لئے اور اس جنت کے حصول کے لئے جس کی قیمت آسمان اور زمین کے برابر ہے اور اس جنت کے حصول کے لئے جس کی قیمت آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو ان متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو تنگی اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں` جلدی سے قدم بڑھائو-
اسی طرح فرماتا ہیویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصہ )الحشر: ۱۰( انصار کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں- خواہ وہ خود تنگ حال ہی کیوں نہ ہوں-
پس اصل ایمان یہی ہے کہ انسان مشکلات کے وقت میں بھی اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرے کیونکہ اسی وقت تو اس کے امتحان کا وقت آتا ہے ورنہ کشادگی میں تو لوگ تماشوں اور کھیلوں پر بھی بڑی بڑی رقوم خرچ کر دیتے ہیں- میں امید کرتا ہوں کہ اس اعلان کے پہنچتے ہی ہر جگہ کی جماعتیں فوراً اس اعلان کے مطابق تین ماہ میں اپنی ماہوار آمد کا ۳/۱ حصہ برابر تین ماہ تک بیت المال میں بھجوا کر ثواب دارین حاصل کریں گی اور اس امر کی مستحق بنیں گی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی ایک اجر ہے اور ایک قربانی دوسری قربانی کے لئے راستہ کھول دیتی ہے-
دعا
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس تحریک کو ختم کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے میری بات میں اثر دے- اور احباب کے دلوں کو اخلاص اور ایمان سے بھر دے کہ میں جو ان کا امام ہوں اور وہ جو میرے مقتدی ہیں سب کمزور انسان ہیں اور غلطیوں کے شکار- اسی کا فضل ہمیں سلسلہ کے بار عظیم کو اٹھانے کی توفیق دے- اور اسی کے فضل سے ہم حقیقی مومن بننے کے قابل ہونگے- واخردعونا ان الحمدللہ رب العلمین
نوٹ-: ضروری ہے کہ پہلی قسط ہندوستان کی ہر جماعت کی پندرہ تاریخ تک دفتر میں پہنچ جائے اور آئندہ دونوں ماہ میں بھی پندرہ تاریخ تک قسط پہنچ جایا کرے-
خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۲۳ اگست ۱۹۳۱ء
دنیا میں ترقی کرنے کے گر
)فرمودہ ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء بمقام مسجد احمدیہ سیالکوٹ(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
ابھی ایک دوست نے قرآن کریم کا ایک رکوع تلاوت کیا ہے جس کی آخری آیت یہ ہیقل مایعبوا بکم ربی لولادعائو کم یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اے رسول ~صل۲~ تو ان لوگوں کو میری طرف سے یہ پکار کر سنا دے کہ تمہارے رب کو تمہاری پرواہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اگر تمہاری طرف سے دعا کا سلسلہ جاری نہ ہو- انسان اگر اپنی ہستی پر غور کرے تو آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں- عام طور پر بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا نماز پڑھنا صدقہ دینا` زکوۃ ادا کرنا` حج کرنا خدا تعالیٰ پر احسان ہے- چنانچہ دیکھا گیا ہے بعض نادان جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو کہتے ہیں معلوم نہیں خدا نے ہمیں کیوں مصبیت میں ڈالا- ہم تو نمازیں پڑھتے اور دوسرے مذہبی احکام پر عمل کرتے ہیں- گویا وہ اپنے دل میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سے بدسلوکی کی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے- کسی شخص کا بیٹا مر گیا اور اس کا ایک دوست تعزیت کیلئے اس کے پاس گیا- تو وہ چیخ مار کر رو پڑا اور اس سے کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے- گویا اس کے خیال میں اس کا کوئی حق خدا تعالیٰ نے مار لیا تھا- مگر سوچنا چاہئے وہ کونسا حق ہے جو بندہ نے خدا تعالیٰ پر قائم کیا ہے- مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نماز` روزہ` زکٰوۃ` حج اور تقویٰ طہارت پر فخر کیا کرتے ہیں وہ تو کسی تکلیف کے موقع پر چلا اٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا- لیکن ہندوستان کا وہ شرابی شاعر جو دین سے بالکل غافل تھا- ایک سچائی کی گھڑی میں باوجود شراب کا عادی ہونے کے خدا تعالیٰ کا الہام اس کے دل پر نازل ہوتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے-
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غور کرنا چاہئے جو چیز بھی انسان کے پاس سے جاتی ہے وہ آئی کہاں سے تھی- ذرا اپنی حیثیت کو تو دیکھو وہ کونسی چیز ہے جسے اپنی کہاں سے آئی بچے جسے اپنے کہا جاتا ہے` کہاں سے آئے ہیں- اسی طرح مکان زمین اور سب دوسری اشیاء جنہیں اپنی سمجھا جاتا ہے` کہاں سے آتی ہیں اگر ان چیزوں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو باسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیزیں انسان کی نہیں` بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موہبت اور عطیہ ہیں اور عطیہ دینے والے کا حق ہے کہ جب چاہے واپس بھی لے لے- بلکہ عطیہ بھی اسے کہتے ہیں جو کبھی واپس نہ لیا جائے- مگر دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے` وہ آخر لے لیا جاتا ہے- اس سے معلوم ہوا دنیا میں انسان کو حقیقی عطیہ بھی نہیں ملتا- بلکہ تمام اشیاء عاریہ استعمال کے لئے دی جاتی ہیں اور اس طرح چیز دینے والے کا حق ہوتا ہے کہ چاہے` واپس لے لے-
تو خدا تعالیٰ فرماتا ہیمایعبوا بکم ربی لولا دعائوکم یعنی تم اپنی ہستی کو سمجھتے کیا ہو- آخر انسان ہے کیا چیز کہ خدا تعالیٰ اس کی پرواہ کرے- دنیا میں جو چیز بھی ہے- اس کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہی جا کر ہوتی ہے- جیسا کہ فرمایا- الی ربک المنتھی یعنی کوئی چیز اور کوئی نفس ایسا نہیں جس کی کڑی خدا تعالیٰ پر جا کر نہ ختم ہوتی ہے- اور جب ہر چیز کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہے تو پھر اگر خدا تعالیٰ انسان کو خود ہی بطور احسان نہ بلائے تو انسان چیز کیا ہے کہ اس کی پرواہ کرے-لولادعائوکم کے دو معنی ہیں- یعنی اگر خدا تعالیٰ تم کو نہ پکارے اور یہ کہ اگر تم اس کو نہ پکارو- اگر پہلے معنی لئے جائیں- تو اس صورت میں اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر اس نے اپنی طرف سے یہ لازم نہ کر لیا ہو- کہ میں تمہیں پکاروں گا یعنی بڑھائوں گا اور ترقی دوں گا` تو تم پورا نہیں کر سکتے- اس نے خود بطور احسان اپنے پر یہ واجب کر رکھا ہے وگرنہ انسان کا کوئی حق نہیں- دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے- اگر تم عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے آگے جھک کر یہ نہ کہو کہ ہمارا کوئی حق تو نہیں- اگر تو احسان کر دے تو تیری ذرہ نوازی ہے-
دراصل یہی دو چیزیں ہیں جن سے انسان کو تقویٰ` ترقی اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے- اور دنیا میں ساری ترقیات انہی دو طریق سے حاصل ہوتی ہیں- یہ دعا نہیں کہ انسان ہاتھ اٹھائے اور کہہ دے یا اللہ مجھے فلاں ترقی عطا کر یا ساری عمر ہاتھ میں تسبیح لے کر بیٹھا اللہ اللہ کرتا رہے- بلکہ دعا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو ذرائع پیدا کئے ہیں ان کو استعمال کرے- مثلاً اولاد حاصل کرنے کے لئے اس نے یہ ذریعہ مقرر کیا ہے کہ انسان حسب پسند شادی کرے- اب اگر کوئی شخص شادی تو نہ کرے اور دعا کرتا رہے کہ خدایا مجھے اولاد عطا کر` تو یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی- کیونکہ دعا کے معنی ہی یہ ہیں کہ پہلے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع پر عمل کیا جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے کامیابی کے لئے مدد مانگی جائے- دیکھو حکومت نے منی آرڈر فارم مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ پہنچانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس فارم کو پر کرکے دے- یہ ایک مدد ہے جو گورنمنٹ اپنی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ بھیجنے کے لئے دیتی ہے- اس نے یہ طریق مقرر کر رکھا ہے- لیکن جو شخص اس طریق کو استعمال نہ کرے بلکہ خود ہی کوئی طریق ایجاد کر لے- مثلاً شعروں کی کسی کتاب میں نوٹ رکھ کر ڈاک خانہ میں دے آئے کہ اسے فلاں جگہ پہنچا دو- تو وہ گورنمنٹ کی امداد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا- کیونکہ حکومت سے روپیہ دوسری جگہ پہنچانے میں جو مدد حاصل کی جا سکتی ہے اس کا طریق یہی ہے کہ یا تو منی آرڈر کر دیا جائے اور یا بیمہ` ¶یا مثلاً عدالت میں دیوانی دعویٰ کے لئے ایک شروع کورٹ فیس کی مقرر ہے- فرض کرو ایک مقدمہ میں ۲۵ روپیہ کورٹ فیس لگتی ہے- لیکن کوئی شخص یہ تو نہ لگائے- لیکن پچاس روپیہ کے نوٹ جلا کر کہے میں نے تو دوگنا خرچ کر دیا میرے مقدمہ کی سماعت ہونی چاہئے- تو یہ درخواست ہر گز قبول نہ ہوگی- کیونکہ اس نے وہ طریق اختیار نہیں کیا- جو حکومت نے مقدمہ کی سماعت کا مقرر کر رکھا ہے- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ہر کام کے لئے علحیدہ علیحدہ ذرائع اور طریق رکھے ہیں- دعا کے الگ طریق ہیں تربیت اولاد کے الگ اور تجارت و ملازمت کے لئے علیحدہ علیحدہ- دعا کے لئے جو طریق ہیں` ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب بندہ خدا کو پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے- یعنی جب کوئی بندہ ان ذرائع کو جو خدا تعالیٰ نے ترقی کے لئے مقرر کر رکھے ہیں- استعمال میں لاتا ہے تو وہ اسے ترقی دیتا ہے اس کی مثال یورپ کے لوگوں میں مل سکتی ہے- انہوں نے علوم سیکھے` تحقیقاتیں کیں` محنت کی` ایجادیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو دنیوی ترقیات عطا کر دیں- کیونکہ ان کے لئے اس نے یہ ایک ذریعہ مقرر کر رکھا ہے کہ محنت کرو اور کوشش سے مخفی باتیں معلوم کرو- اہل یورپ نے اس ذریعہ سے اس سے مدد مانگی اور اس نے ان کی دعا کو سنا- یعنی حکومت` دولت` شہرت` رعب` شوکت سب کچھ ان کو عطا کر دیا کیونکہ انہوں نے اس ذریعہ پر عمل کیا جو ان چیزوں کے حصول کے لئے اس نے مقرر کر رکھا ہے- لیکن جو شخص اس ذریعہ پر عمل نہ کرے وہ خواہ کسی دوسرے طریق سے کتنی سخت مصیبت کیوں نہ اٹھائے اور محنت کیوں نہ کرے` اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا- ایک قلندر جو دن بھر دربدر بندر کو لئے پھرتا ہے- یقیناً ایک تاجر سے زیادہ محنت کرتا ہے- مگر اس کے برابر آمد پیدا نہیں کر سکتا کیوں اس لئے کہ دولت کمانے کا جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے وہ استعمال میں نہیں لاتا- تو دنیا میں ترقی کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ بندہ خدا کو پکارے- یعنی ان ذرائع کو کام میں لائے جو دنیوی ترقی کیلئے خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں-
پھر اس آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ بندہ کو نہ پکارتا تو اس کا کیا حشر ہوتا- بندوں کے خدا کو پکارنے کی مثال تو اہل یورپ میں دی جا چکی ہے یا ہندوستان میں ہندوئوں کی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی اور خدا کے بندوں کو پکارنے کی مثال اس کے نبیوں کی ہے- رسول کریم ~صل۲~ گوشہ گمنامی میں پڑے تھے اور غار حرا میں عبادتیں کیاکرتے تھے- آپ نے وہ تمام ذرائع جو دنیوی ترقی کے ہیں؟ ترک کر کے رکھے تھے- مگر آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہا اٹھ خدا تجھے بلاتا ہے- اور پھر اس گوشہ گمنامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادشاہ بنا دیا اور ایسی ترقی عطا کی کہ مذہب و ملک اور تمدن و معاشرت سب پر آپ کا رنگ چھا گیا- حتیٰ کہ آپ کے غلام یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کئے بغیر اور لیبارٹیریز میں تجربات کرنے کے بغیر ہی ہر فن میں دنیا کے استاد بن گئے اور جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا` تمام دنیا سے آگے بڑھ گئے- ایک صحابی کا بیان ہے رسول کریم ~صل۲~ نے مجھے ایک اشرفی دی کہ قربانی کے لئے بکری ہی لے آئو میں نے سوچا مدینہ میں تو اس رقم سے ایک ہی بکری ملے گی- مگر کسی گائوں سے دو مل جائیں گی اس لئے میں نے ایک گائوں سے ایک اشرفی میں دو بکریاں خریدیں- جب واپس آیا تو مدینہ میں کسی نے پوچھا- کیا بکری فروخت کرو گے میں نے کہا- ہاں- اور ایک بکری ایک اشرفی میں اس کے پاس فروخت کر دی- پھر رسول کریم ~صل۲~ ]2 [rtf کے پاس جا کر بری اور اشرفی بھی پیش کر دی اور آپﷺ~ کے دریافت فرمانے پر سب حال کہہ سنایا- آپﷺ~ نے اس کی ہوشیاری کو دیکھ کر اس کے لئے دعا فرمائی- نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود یہ کہ عرب ایرانیوں اور رومیوں جیسے تاجر نہ تھے مگر وہ صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر میں نے مٹی بھی خریدی تو وہ سونے کے بھائو بک گئی- لوگ زبردستی روپیہ میرے پاس تجارت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور میں لینے سے انکار کرتا رہتا تھا-
یہ لو لادعائو کم کے دوسرے معنی ہیں- اس میں اپنے کسی ہنر یا محنت کا دخل نہ تھا- یہ خدا تعالیٰ کی اپنی آواز تھی- جس کے ذریعہ رسول کریم ~صل۲~ بڑھے اور آپﷺ~ کے ساتھ ہی آپﷺ~ کے وابستگان دامن بھی بڑھتے چلے گئے- جیسے اگر کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اس کا کوٹ` پاجامہ اور دوسرے پارچات بھی سوار ہو جائیں گے- ان لوگوں نے یہاں تک ترقی کی کہ ایک واقعہ لکھا ہے- حضرت ابوہریرہؓ کسی علاقہ کے گورنر مقرر ہوئے- یہ کسریٰ کے خزانوں کی فتوحات کا زمانہ تھا- جس میں ابوہریرہؓ کو ایک رومال ملا جو کسریٰ دربار میں آتے ہوئے زینت کے طور پر ہاتھ میں رھتا تھا- ابوہریرہؓ کو جو چھینک آئی تو اس رومال سے ناک صاف کر لیا اور پھر فرمایا- وہ ابوہریرہؓ کبھی تو وہ دن تھے کہ تو بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مرگی کا دورہ ہو گیا ہے تیرے سر میں جوتیاں مارا کرتے تھے اور آج یہ دن ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تو تھوکتا ہے- حضرت ابوہریرہ بہت بعد میں ایمان لائے تھے- یعنی رسول کریم ~صل۲~ کی وفات سے صرف تین سال قبل- اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آپﷺ~ مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے- تا رسول کریم ~صل۲~ 2] ft[r کی ہر ایک بات سن سکیں- اس وجہ سے ان کو بعض اوقات سات سات فاقے آ جاتے- لوگ سمجھتے انہوں نے کھانا کھا لیا ہوگا- اور ان سے دریافت نہ کرتے- وہ شدت بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے اور لوگ مرگی کا دورہ سمجھ کو جوتیاں مارتے کیونکہ اہل عرب میں یہ رواج تھا- تو کبھی یہ حال تھا اور پھر اس قدر ترقی حاصل ہوئی کہ کسریٰ جیسے زبردست حکمران کی زینت و آرائش کا رومال آپ کے ناک صاف کرنے کے کام آتا تھا- یہلولادعائوکم کی دوسری مثال ہے- جب رسول کریم ~صل۲~ آگے بڑھے تو آپ کے وابستگان وامن بھی ترقی کر گئے- جیسے وائسرائے کے دربار میں بڑے بڑے رئوسا اور معززین بھی بعض اوقات نہیں جا سکتے لیکن اس کا بہرہ جا سکتا ہے- اسی طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والے بھی ترقی کر جاتے ہیں- یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے کونو مع الصادقین کی تاکید فرمائی ہے- کیونکہ جب صادقین کے لئے پھاٹک کھلتا ہے تو ساتھ ہی ان کے ساتھ رہنے والے داخل ہو جاتے ہیں- اس لئے دنیا میں ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یا تو انسان پوری پوری محنت اور کوشش کرے اور یا پھر خدا تعالیٰ سے ایسی لو لگائے کہ وہ اس کے لئے ترقی کے سامان خود بخود پیدا کر دے-
)الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۳۱ء(
احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی
)فرمودہ ۱۳ ستمبر ۱۹۳۱ء(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں سب سے پہلے اپنی اپنے ساتھیوں اور دوسرے مہانوں کی طرف سے لجنہ اماء اللہ کا اس چائے کی دعوت کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں- دعوتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں اور یہ ایسا رواج ہو گیا ہے جو شاید اپنی کثرت کی وجہ سے بہت سی خوبصورتی کھو بیٹھا ہے لیکن وہ دعوت جو حقیقی جوش اور اخلاق کے نتیجہ میں ہو وہ دل کے لئے نہایت ہی مسرت کا موجب اور قلب کے لئے فرحت کا باعث ہوتی ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے اپنے صحابہ کو محبت اور تعلق بڑھانے کا ایک یہ ذریعہ بھی بتایا ہے کہ اگر توفیق ہو تو ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا چاہئے- خود رسول ~صل۲~ بھی لوگوں کو دعوت پر بلاتے تھے اور اس کو اتنی اہمیت دیتے کہ فرماتے دعوت کا رد کرنا میری سنت کے خلاف ہے اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ لجنہ کی یہ دعوت اخلاص اور اسی روح کے ساتھ ہے جو رسول کریم ~صل۲~ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے` اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کھانوں کی قیمت کے مطابق نہیں بلکہ اس نیت کی قیمت کے مطابق ان سے فضل و برکت کا سلوک کرے- سیالکوٹ کی لجنہ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے مجھے انہیں مخاطب کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ان کے محترم اور مخلص کارکن جو یہاں کی جماعت کے امیر کی اہلیہ ہیں کے بعض خطوط اور بیانات سے پتہ لگتا ہے کہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کرنے والی اور بہت سی لجنہ کے لئے نمونہ ہے- بلکہ بسا اوقات مجھے سیالکوٹ کی لجنہ کے کام بتا کر مرکزی لجنہ کو بھی شرمندہ کرنا پڑا ہے- اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مرکزی لجنہ کے کام کی نوعیت مختلف ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں جس استقلال کے ساتھ سیالکوٹ کی لجنہ نے کام کیا ہے وہ ہر ایک کے لئے نمونہ ہے- عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے- میں نے محض اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی میں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا` اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا- لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں- میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو بھی فائدہ پہنچائے گی- لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہو گئیں- اس پر میں نے سمجھا کہ صرف ایک عورت کو تیار کرنے سے کام نہیں چلے گا- کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اگر وہ عورت فوت ہو جائے تو دوسری کو تیار کرنے کے لئے چھ سات سال کا مزید عرصہ درکار ہوگا- اس لئے میں نے یہ انتظام کیا کہ طالبات چکوں کے پیچھے بیٹھ کر استادوں سے تعلیم حاصل کریں- اس پر قادیان میں بھی اور باہر بھی اعتراض ہوئے کہ یہ اچھی تعلیم ہے` عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں- لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ ثابت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں ضرورت کے موقعہ پر عورت ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں- خود حضرت عائشہ ؓ صحابیوں اور نو مسلموں کو رسول کریم ~صل۲~ کے کلمات طیبات سکھاتی رہی ہیں- اور ہماری عورتوں کی عزت رسول کریم ~صل۲~ کی عورتوں کی عزت سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور جو فعل ان کی عرت کے مطابق ہے` اس لئے ہماری عزت میں کوئی فرق نہیں آ سکتا- پس میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا- یہاں تک کہ پچھلے سال عورتوں کی کافی تعداد نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا- گویا وہ ڈگری حاصل کی جو عربی میں ایف- اے کے برابر ہے- اس کے ساتھ ہی میں نے پرائمری سکول کو مڈل تک پہنچا دیا- اور چونکہ عربی کا امتحان دینے کے بعد صرف انگریزی کا امتحان دے کر انٹرنس پاس کیا جا سکتا ہے اس لئے مولوی پاس عورتوں نے اور کچھ باقاعدہ سکول میں پڑھنے والیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انٹرنس بھی پاس کر لیا اور اس سال سے قادیان میں عورتوں کے لئے کالج بھی جاری ہو چکا ہے- امید ہے دو سال تک کئی عورتیں ایف- اے پاس کر لیں گی اور میرا منشاء ہے کہ اسی طرح کم از کم پندرہ سولہ عورتوں کو بی- اے` ایم- اے تک تعلیم دلائی جائے تا عورتیں خود دوسری عورتوں کو تعلیم دے سکیں- مردوں کے لئے کالج قائم کرنے کی شرائط سخت ہیں- یعنی جب تک ایک خاص رقم جمع نہ کی جائے اور عمارت تعمیر نہ ہو` اس کی اجازت نہیں ہو سکتی- لیکن عورتوں کے لئے ایسی شرائط نہیں اس لئے ہمیں ان کے لئے انتظام کرنے میں تھوڑے سے خرچ پر بہت سی سہولتیں میسر ہیں- اور جب قادیان میں عورتیں ہی تعلیم دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو میرا ارادہ ہے وہاں ہوسٹل قائم کر کے باہر کی عورتوں کے لئے بھی وہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کر دیا جائے گا-
یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمانوں کا ایک بھی زمانہ کالج نہیں اور قادیان کا کالج پہلا زمانہ کالج ہے اور خدا کے فضل سے وہاں عورتوں کی تعلیم اس قدر زیادہ ہے کہ چند ماہ ہوئے میں علی گڑھ گیا- تو مجھے بتایا گیا صرف چار لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان دیا ہے لیکن قادیان میں پہلے ہی سال سولہ لڑکیوں نے امتحان دیا اور ہم نے انذارہ کیا ہے کہ قادیان میں قریباً سو فیصدی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں- گویا ان کی شرح لڑکوں سے بھی زیادہ ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں عورتوں کی تعلیم اس سرعت سے پھیل رہی ہے- خصوصاً قادیان میں کہ انشاء اللہ بہت جلد عورتوں کی جہالت کی بلا سے ہم لوگ بچ جائیں گے-
سیالکوٹ کی لجنہ نے جو کام جاری کیا ہے مجھے امید ہے ان کی کوشش سے یہاں بھی تعلیم کا چرچا وسیع ہو جائے گا- مجھے یہ سنکر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں کی احمدی مستورات نے اپنے حسن اخلاق سے دوسرے طبقوں میں بھی ایسی قبولیت حاصل کر لی ہے کہ سب کی لڑکیاں ان کے سکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور کسی قسم کی (Friction) نہیں- یہ ان کے کام کی روح کے متعلق ایک نہایت عمدہ شہادت ہے- اگر مردوں میں نہیں تو کم از کم عورتوں میں اس روح کا پیدا ہونا کہ اسلامی کاموں کو مل کر کرنا چاہئے نہایت مسرت بخش ہے اور جب عورتوں میں یہ روح پیدا ہو جائے تو پھر مرد بھی متحدہ جدوجہد کے لئے مجبور ہو جائیں گے- میں اس وقت زیادہ نہیں بول سکتا کیونکہ میں جب کبھی کسی شہر میں جاتا ہوں تو چونکہ میری صحت بھی خراب ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہم دیہات کے رہنے والے لوگ شہروں کا ناقص گھی کھانے کے عادی نہیں ہوتے` اس لئے لاہور میں تو پہلا ہی کھانا کھانے کے بعد میرا گلا خراب ہو جایا کرتا ہے- لیکن یہاں تیسرے کھانے کے بعد یہ تکلیف ہو گئی ہے- اس کے علاوہ شام کے بعد بھی مجھے ایک تقریر کرنی ہے اس لئے اختصار کے ساتھ یہ کہہ کر میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں کہ عورتوں کے اندر عام طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی کام کی نہیں- یہ خیال قطعاً بے بنیاد ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دل سے نکال دینا چاہئے- سیالکوٹ کی لجنہ نے ثابت کر دیا ہے کہ عورتیں بھی کام کر سکتی ہیں- عورتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مرد و عورت برابر ہیں- اور مردوں کی طرح وہ بھی ترقی کے مدارج طے کر سکتی ہیں- رسول کریم ~صل۲~ نے اپنی ایک بیوی کے متعلق فرمایا ہے]ksn [tagخذوانصف دینکم من ھذہ الخمیراء یعنی نصف دین عائشہؓ سے سیکھو اور ہم دیکھتے ہیں حضرت عائشہ ؓ نے ایسے ایسے اہم امور میں مردوں کی راہنمائی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے رسول کریم ~صل۲~ کی باتوں کے سمجھنے میں انہیں کمال حاصل تھا- بسا اوقات مردوں کی عقل وہاں تک نہ پہنچتی تھی` جہاں ان کا دماغ پہنچ جاتا تھا- ایک لطیفہ مشہور ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے خاندان میں ایک میت ہو گئی- اور غالباً حضرت علیؓ کے بھائی لڑائی میں شہید ہو گئے- عورتوں کو سخت صدمہ تھا` وہ بین کرنے لگیں اور چونکہ یہ بات منع ہے اس لئے کسی نے آکر رسول کریم ~صل۲~ سے ذکر کیا- آپ نے فرمایا جائو جا کر ان کو منع کرو- اس نے منع کیا مگر وہ نہ رکیں- اسلام اس وقت ابتدائی حالت میں تھا- اور عورتوں کی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی- اس نے پھر آ کر رسول کریم ~صل۲~ سے عرض کیا کہ وہ باز نہیں آتیں- آپ نے فرمایا-احثواتراب علی وجوھھن یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو- اس شخص نے واقعی مٹی اٹھائی اور جا کر ان پر ڈالنی شروع کر دی- حضرت عائشہ ؓ کو علم ہوا تو آپ نے اس شخص کو ڈانٹا اور فرمایا- تم مرد ہو لیکن اتنی عقل نہیں رکھتے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے اس ارشاد کا مطلب سمجھو- آپ کا مطلب یہ تھا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو- یہ نہیں کہ واقعی ان پر مٹی ڈالو- تو حضرت عائشہ ؓ نہایت فہیم عورت تھیں- اسی طرح حضرت فاطمہ ؓ تقویٰ اور طہارت میں بے نظیر تھیں حتی کہ رسول کریم ~صل۲~ بعص راز کی باتیں آپ سے کہہ دیتے تھے- یہی حال اور عورتوں کا بھی تھا- تو عورتوں کیلئے ترقی کے ذرائع ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کے لئے اور میں امید کرتا ہوں کہ احمدی مستورات کبھی یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں گی کہ ان کے لئے ترقی کی گنجائش نہیں- بلکہ ان کا ہر قدم آگے ہی بڑھے گا اور وہ مسلمانوں کی قوت و طاقت کو ترقی دینے دنیا میں اخلاص کی روح پھونکنے اور انسانوں کو انسایت کے مقام پر کھڑا کرانے کے لئے اسی طرح کام میں لگی رہیں گی جس طرح ہم مردوں سے امید رکھتے ہیں یا جس طرح ہمارا اللہ ہم سے امید رکھتا ہے- میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں جماعت` دین اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی ترقیات جن کا اس نے اپنی نبی سے وعدہ فرمایا ہے انہیں عطا کرے اور وہ دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ ہوں- آمین
)الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء(
جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۱ء(
بہترین افتتاح
ایک مذہبی مجلس کا الہی کلام سے ہی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور انابت اور تعبد اور عجز کے ذریعہ ہو سکتا ہے-
قرآن کریم کی تلاوت
تو مولوی غلام محمد صاحب نے فرمائی ہے- اس کے بعد میں چاہتا ہوں- دوست مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بابرکت بنائے- ہماری نیتوں اور اعمال کو اپنے منشاء کے مطابق چلائے- اور اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے- پھر جو احباب شریک جلسہ ہوئے اور ہو سکے ہیں ان پر اپنا فضل نازل کرے اور جو نہیں شریک ہو سکے ان پر بھی فضل کرے- یعنی جماعت کو وہ دوست جو کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آئے ان پر فضل کرے اور وہ لوگ جو باوجود توفیق کے اپنی سستی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے ان پر بھی اس کے بعد دعا ہوئی اور پھر حضور نے فرمایا- دعا کے بعد میں دوستوں کو اس امر کے متعلق نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے دوست ایسے ہیں- جنہیں علیحدہ علیحدہ رہنے کی وجہ سے سال بھر میں اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملتا اور جنہیں دوسرے اوقات میں موقع ملتا ہے انہیں بھی اتنی کثرت سے نہیں ملتا کہ روحانی پیاس بجھانے کے لئے جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ میسر آ جائے اس کے علاوہ یہ جلسہ شعائر اللہ میں سے ہے- اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس میں صحیح طور پر شمولیت` برکات اور انوار الہی کا موجب ہے اور اس میں نقص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور روحانی زنگ کا موجب ہے- اس لئے میں تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلسہ کے ایام میں جہاں تک ہو سکے اپنے اوقات کو صحیح طور پر استعمال کریں اور جو دوست ان کے ساتھ آئے ہیں انہیں بھی تحریک کریں اور توجہ دلاتے ہیں کہ وہ صحیح طور پر اپنے اوقات صرف کریں-
پھر جلسہ میں شریک ہونے کے لئے آنے والے احباب مسافر ہیں اور مسافر کو ایک حد تک معذور قرار دیا گیا ہے- یہاں تک کہ فرض عبادت بھی اس کے لئے صرف کر دی گئی ہے- لیکن اس مقام کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ خاص برکتوں کا موجب بنایا ہے اور ان ایام کو بھی خاص برکتوں کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اس لئے احباب کو چاہئے کہ باوجود سفر میں ہونے کے جہاں تک ہو سکے عبادت پر زیادہ سے زیادہ زور دیں- اور دعائوں کی طرف خاص طور پر توجہ کریں کیونکہ خاص مقام اور خاص ایام کی عبادتیں اور دعائیں بھی اپنے اندر خاص برکات رکھتی ہیں-
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ہر جگہ سے سنتا ہے مگر بندہ کو تحریک اور تحریص دلانے کے لئے کہتا ہے کہ فلاں اوقات اور فلاں جگہوں کی دعائیں زیادہ سنوں گا- چونکہ انسان پر غفلت کے اوقات آتے ہیں- اور غفلت کی وجہ سے اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے- اس لئے خدا تعالیٰ نے بندہ کے لئے خاص اوقات اور خاص مقام مقرر کر دیئے تا کہ ان سے فائدہ اٹھائے- اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی خاص وقت اور خاص مقام کی عبادت دوسرے اوقات اور دوسرے مقامات میں عبادت کرنے سے مستغنی کر دیتی ہے- قضا عمری کی ہماری شریعت میں کوئی حقیقت نہیں- اسلامی شریعت ضروری قرار دیتی ہے کہ باقی ایام میں بھی اور ہر مقام پر فرائض ادا کرنے ضروری ہیں اور کسی وقت انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہاں جو لوگ نوافل میں سست ہوں جن کی عبادتوں میں کمی رہ جائے اور جو روحانیت میں ترقی کی خواہش رکھتے ہوں` ان کے لئے دوسرے خاص اوقات مقرر کر دیئے گئے تا کہ ان اوقات کے نوافل ان کی کمی کو دور کر دیں ورنہ فرائض اپنے وقت پر ہی ادا کرنے ضروری ہیں-
غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فضل نازل کرنے اور انہیں اپنا قرب عطا کرنے کے لئے ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باعث برکات اور انوار کے خاص اوقات اور خاص مقامات مقرر کر دیئے ہیں ایسے مقامات میں سے سب سے اول درجہ کا مقام مکہ ہے اور وہاں کی خاص برکات حاصل کرنے کے لئے خاص ایام بھی مقرر ہیں-
دوسرا مقام مدینہ ہے- وہاں کے لئے کوئی خاص ایام مقرر نہیں- انسان جب چاہے وہاں جا سکتا ہے اس سے اتر کر قادیان کا مقام ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے-
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں قادیان کو مکہ بنا دیا گیا- مگر یہ عجیب بے وقوفی کی بات ہے کہ خود مکہ کی مسجد کی نقل میں مسجد تعمیر کرتے اور اس میں عبادت کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ چونکہ مکہ کے بیت اللہ کی نقل ہے اس لئے یہ بھی بیت اللہ ہے- گویا اپنی بنائی ہوئی مسجد کو تو بیت اللہ کہتے ہیں- مگر خدا تعالیٰ کے بابرکت بنائے ہوئے مقام کو ارض حرم جیسا کہنے پر اعتراض کرتے ہیں- آپ تو ہر جگہ کی مسجد کو وہی نام دیتے ہیں- جو خدا تعالیٰ نے ایک خاص مقام کو دیا ہے- اور اسے بیت اللہ کہا ہے- لیکن اللہ تعالیٰ ایک مقام کو اس کا مثیل قرار دیتا ہے اسے اپنے خاص برکات کا مورد بناتا ہے- اس میں اپنے انوار نازل کرتا ہے- مگر اس کے متعلق کہتے ہیں اسے اس مقام کا مثیل نہ کہا جائے- حالانکہ مثیل ہونا ایسا مسئلہ ہے جسے اسلام میں پیدا ہونے والے صوفیا نے بہت اہمیت دی ہے- اور یہاں تک قرار دیا ہے کہ انسان کو چاہئے اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرے- چنانچہ تمام صوفیا کہتے آئے ہیں- تخلقوا باخلاق اللہ کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو- اس بات پر تو کوئی اعتراض نہیں کرتا- اور اسے درست تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قادیان کو ارض حرم کا ¶مثیل قرار دینے پر معترض ہوتے ہیں- گویا ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کی صفات انسان کے اندر پیدا ہونا تو جرم نہیں لیکن قادیان کا مکہ کی مثیل ہونا جرم ہے مگر یہ جہالت ہے- جو رسول کریم ~صل۲~ سے بعد اور قرآن کریم کا مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے رسول کریم ~صل۲~ کے ارشادات اور آپ کے مقربین کے اقوال کا مطالعہ نہ کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہے- حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق جذب کرنے سے جس طرح انسان مکرم معظم بن جاتا ہے اسی طرح مکہ کے صفات جذب کر کے ایک مقام بھی متبرک اور مقدس بن جاتا ہے اور مکہ کی طرف اس مقام کے متبرک ہونے کی نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مستقل نہ سمجھا جائے بلکہ مکہ کے تابع سمجھا جائے- پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مکہ جو اصل ارض حرم ہے اس کے یہ تابع ہے تو اس پر اعتراض کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض نادان کہتے ہیں کلمہ شہادت میں رسول کریم ~صل۲~ کا نام لینا شرک ہے- اور مسلماناشھدان لا الہ الا اللہ کے ساتھ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ کہہ کر شرک کرتے ہیں- حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کلمہ میں رسول کریم]2 [stf ~صل۲~ کے نام کا شامل ہونا اور آپ کو عبدہ و رسولہ کہنا یہ بتانے کے لئے ہے کہ آپ خدا کے بندے ہیں- پس کملہ میں آپ کا نام کا اشتراک توحید کے قیام کے لئے ہے نہ کہ توحید کے خلاف- اسی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دینا مکہ کی ہتک کے لئے نہیں بلکہ اس کی عظمت اور تقدس کے اظہار کے لئے ہے- جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ ارض حرم کی طرف حقیقی طور پر توجہ نہیں کرتے اور اس کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھاتے چنانچہ ہندوستان سے ہی مسلمانوں کا وہ طبقہ جسے حج کے لئے جانا چاہئے نہیں جاتا- اس کی بجائے مفلس کنگال اور بھوکے مرتے ہوئے لوگ جن کے لئے حج پر جانا فرض نہیں` جاتے ہیں- جس کے یہ معنی ہیں کہ ۸۸ فیصدی ایسے لوگ حج کے لئے جاتے ہیں جن پر جانا فرض نہیں- دس فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق احتمال ہو سکتا ہے کہ ان پر فرض ہوگا- باقی ایک دو فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کے لئے حج فرض ہوتا ہے- اور وہ لوگ جن پر حج فرض ہے` وہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں- تو خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بتانے کے لئے یہاں ہندوستان میں ایک مقام مکہ کا مثیل بنایا اور کہا اس کو دیکھو کس طرح اس میں اللہ کا ذکر ہوتا اور اس کے دین کی عظمت بیان کی جاتی ہے- اس میں اخلاص کے ساتھ آنے والوں کو کس قدر روحانی برکات حاصل ہوتی ہیں- جب مثیل کو اتنی عظمت اور اتنی برکت حاصل ہے تو اس کے اصل کو کیسی برکت اور تقدیس حاصل ہوگی- اور اسے خدا نے کس قدر برکت والا بنایا ہے-
غرض ان لوگوں کو شرمندہ کرنے اور توجہ دلانے کے لئے جو حج کا فرض ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے ادا نہیں کرتے- قادیان کو عظمت عطا کی ایسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے حج نہیں کیا- مگر ان لوگوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سپاہی کسی ضروری کام کے لئے جا رہا تھا- کسی نے اسے آواز دی` ذرا ادھر آنا- نہایت ضروری کام ہے جب وہ گیا تو بلانے والا اسے کہنے لگا- میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اسے اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو- اس پر سپاہی کو غصہ آیا کہ اس نے کیوں میرا وقت ضائع کیا- پاس ہی ایک دوسرا شخص لیٹا ہوا تھا اس نے کہا آپ اس پر غصے کیوں ہوتے ہو اس کی تو یہی حالت ہے ساری رات کتا میرا منہ چاٹتا رہا مگر یہ ایسا سست ہے کہ ہش تک نہ کر سکا- یہی حال ان معترضین کا ہے- وہ جو میدان جنگ میں کھڑا کفر کا مقابلہ کر رہا ھا اس کے متعلق کہتے ہیں اس نے حج نہیں کیا مگر آپ آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہوئے حج کو نہیں جاتے- حج تو امن اور اطمینان کے موقع پر ہوتا ہے- جس شخص کا دن رات اور صبح و شام یہی کام ہو کہ کفار کا مقابلہ کرے- جس نے اپنی ساری عمر اسی جہاد میں صرف کر دی اس کے لئے حج اسی میں آ گیا- ہاں اگر یہ لوگ جہاد میں اس کی مدد کرتے` اسے موقع اور فرصت دیتے- تو اس پر حج فرض ہوتا ہے- مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ جب وہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا تھا اور اسلام کی حفاظت کر رہا تھا تو انہوں نے اس کی پیٹھ پر گولیاں چلانی شروع کر دیں-
غرض مکہ کی بزرگی اور فضیلت کی طرف توجہ دلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے اس مقام کو ارض حرم قرار دیا- اور اس سے اپنی برکات کو مخصوص کر دیا- دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں اور عبادتیں کریں کہ خاص برکات سے فائدہ اٹھا سکیں- پھر یہ بھی یاد رکھیں ان کے لئے اس طرح جہاد نہیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے تھا- اس لئے جو توفیق رکھتے ہوں وہ یہاں آکر یہ سبق بھی حاصل کریں کہ اصل مقام پر بھی جائیں اور معترضین پر ثابت کر دیں کہ جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ حج بھی کرتے ہیں- پس وہ لوگ جو من استطاع الیہ سبیلا )ال عمران:۹۸( کے مصداق ہوں- جو اپنے گھر والوں کو بھی رزق دے سکیں اور اپنے اخراجات کا بھی انتظام کر سکیں اور جن کے رستہ میں کوئی شرعی روک حائل نہ ہو` ان پر حج فرض ہے وہ ضرور یہ فرض ادا کریں-
پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے یہ ایام عبادتوں اور دعائوں میں صرف کریں- پھر جلسہ میں زیادہ سے زیادہ وقت لگانا اور ساری تقریریں توجہ سے سننی چاہئیں- اس نصیحت کے بعد میں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ گزشتہ ماہ نومبر میں امرت سر کے سٹیشن پر ایک بچہ گم ہو گیا ہے جس عورت کا بچہ گم ہوا ہے وہ احمدی نہیں- مگر اسے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ قادیان جائے اور بچہ کو تلاش کرے- دوست خیال رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس بچہ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں- چھوٹے بچوں کا گم ہونا اس ملک کی شرارتوں میں سے ایک بہت بڑی شرارت اور بدترین قسم کا جرم ہے جو دنیا میں کیا جاتا ہے- میں سمجھتا ہوں ساری اولاد کے فوت ہو جانے کا اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا جتنا ایک بچہ کے گم ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے- کیونکہ ساری عمر اس تڑپ میں گزرتی ہے کہ نہ معلوم وہ فوت ہو گیا ہے یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے تو کس حال میں ہے- میں سمجھتا ہوں اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو شدید سزا دینی چاہئے- لوگوں کے اخلاق ایسے بگڑ گئے ہیں کہ مذہبی تعصب اور عداوت کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے بچوں کو چرا لینا اچھا سمجھتے ہیں- حالانکہ یہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور قرآن کریم میں آتا ہیالفتنہ اشد من القتل )البقرہ: ۱۹۲(بعض شرارتیں قتل سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں- میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں- انہیں ہوشیار رہنا چاہئے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو خواہ وہ کسی مذہب اور کسی قوم کے ہوں` مقابلہ کرنا چاہئے- چند سال ہوئے یہاں سے بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک بچہ اٹھایا گیا تھا جسے اتفاقاً ایک احمدی نے دیکھ لیا- اور پکڑ کر لے جانے والا اسے چھوڑ کر بھاگ گیا- گم ہونے والے بچہ کے متعلق اشتہار بھی شائع کیا گیا ہے اور اس میں انعام بھی مقرر کیا گیا ہے مگر ایسی حالت میں کوئی مومن انعام کی پروا نہیں کر سکتا- امرتسر کے دوست اگر اس بچہ کے تلاش کرنے میں مدد کر سکیں تو میں ان کا بہت ممنون ہوں گا- بعض لوگ پولیس کے محکمہ میں ملازم ہیں وہ مدد کر سکیں تو ان کے لئے یہ بہترین ثواب کا کام ہوگا-
اس سلسلہ میں دوستوں کو میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں بھی وہ دیکھیں اس کے ساتھ نہیں جاتا` فوراً اس موقع پر دخل دیں خواہ کسی مذہب اور کسی قوم کا وہ بچہ ہو اور اسے ساتھ لے جانے والا خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو یہ ایسی گندی شرارت ہے کہ ایمان تو الگ رہا اس کا ارتکاب کرنے والا انسان بھی نہیں کہلا سکتا- پس مجرم خواہ کوئی ہو مسلمان ہو` سکھ ہو` عیسائی ہو` ہندو ہو` اس کی گرفتاری میں قطعاً پس و پیش نہیں ہونی چاہئے- جہاں کوئی بچہ رو رہا ہو اور معلوم ہو کہ اسے اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ساتھ لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں فوراً پوچھ لینا چاہئے کہ کیا بات ہے- پھر خواہ بچہ کے ساتھ اس کا باپ ہی ہو پوچھنے سے کوئی حرج نہیں ہوگا- مگر بسا اوقات معلوم ہو جائے گا کہ ساتھ لے جانے والا اجنبی تھا- اسی طرح عورتوں کے متعلق خیال رکھنا چاہئے بہت لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ انہیں ثواب حاصل کرنے کا کوئی کام بتایا جائے- میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ بہترین کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سزا دلا سکیں یا دے سکیں-
احمدیت کی کامیابی پر یقین رکھو اور محبت و اخلاق سے دلوں کو فتح کرو
)فرمودہ ۲۹ دسمبر ۱۹۳۱ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان برموقعہ تبلیغی کانفرنس انصار اللہ(
۲۹ دسمبر ۱۹۳۱ء قبل دوپہر نظارت دعوۃ تبلیغ کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں ایک تبلیغی کانفرنس منعقد کی گئی- جس میں مختلف جماعتوں کے انصار اللہ جو سالانہ جلسہ کے موقع پر جمع تھے- خصوصیت سے شامل ہوئے- ہر جماعت کے انصار اللہ کو ان کی جماعت کے نام کا جھنڈا دیا گیا اور اپنے اپنے جھنڈے کے پاس بٹھائے گئے- کئی دن کے بے حد مصروفیت کی وجہ سے نقاہت اور کثرت اشفال کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اس اجتماع کی اہمیت کے وجہ سے تشریف لائے اور وقت کی تنگی کو مدنظر رکھتے ہوئے چند منٹ حسب ذیل تقریر فرمائی-
رسول کریم ~صل۲~ سے کسی نے دریافت کیا تھا کہ اچھی عبادت کون سی ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- جس پر مداومت اختیار کی جائے اور اصل بات بھی یہی ہے کہ بہتر نیکی وہی ہے جسے انسان نبھا سکے- تبلیغ کا کام ایسا ہی ہے جیسے دریا کا پانی گر گر پتھروں کے کونوں کو رگڑ رگڑ کر گھسا دیتا ہے اور ظاہر ہے یہ کام ایک دو دن کا نہیں بلکہ سالہا سال کا ہے- قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مومن دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں اور جب پتھروں کو ٹھیک کرنے کے لئے سالہا سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے تو دلوں کے لئے ظاہر ہے کسی قدر لمبے عرصہ کی ضرورت ہو گی- بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے تبلیغ کر دی تو کیا وجہ ہے کہ سچی بات کو دوسرا قبول نہ کرے- یاد رکھنا چاہئے کہ حق کی مخالفت سوائے شاذو نادر لوگوں کے کوئی نہیں کیا کرتا- مخالفت لوگ اسی لئے کرتے ہیں کہ سے غیر حق یقین کرتے ہیں- بے شک حق کی مثال آفتاب کی ہے- لیکن جسے وہ نظر ہی نہ آئے اسے مار کر نہیں دکھایا جا سکتا بلکہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں کا ایک لمنے عرصہ تک علاج کیا جائے-
بعض دوست اس وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں کہ ہماری بات کوئی سنتا نہیں- لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا- تو یہ ضرور ہو کر رہے گا- اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ اسے سب لوگ مان لیں گے- پھر کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھنے والا ایک شخض اگر یہ کہے کہ لوگ مانتے نہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرے- اللہ تعالیٰ تو یہاں تک فرماتا ہے کہ ساری دنیا مان لے گی اور نہ ماننے والے چوہڑے چماروں کی طرح رہ جائیں- اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور یقیناً سچا ہے تو اس وقت لوگوں کا نہ مانتا ایک عارضی بیماری ہے اور دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اپنے بیمار بچہ یا بیمار عزیز کا علاج اس لئے چھوڑ دے کہ اسے جلد آرام نہیں آتا- لوگ علاج کرتے جاتے ہیں حتیٰ کہ یا موت واقعہ ہو جاتی ہے اور یا صحت اور جب جسمانی امراض میں یہ طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ مشیت الٰہی کا انتظار کیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے مایوس ہو کر روحانی امراض کے علاج میں سستی یا کوتاہی کی جائے- چاہئے کہ جب تک موت واقعہ نہ ہو جائے` اس وقت تک کوشش ترک نہ کی جائے-
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تبلیغ نہایت اہم کام ہے اور اس وقت کا جہاد ہے- تم میں سے کتنے ہیں جو خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمیں جہاد کا موقعہ نصیب ہوتا اور کتنے ہیں جو مخالفوں کی کامیابی سن کی پیچ و تاب کھاتے ہیں کہ کاش ہمیں اجازت ہوتی اور ہم بھی مقابلہ کرتے- میں ایسے دوستوں کو بتاتا ہوں کہ اس زمانہ کا جہاد یہی ہے- ہم مارنے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ مار کھانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور جب تک استقلال نہیں دکھائیں گے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور جو اپنے اندر استقلال پیدا کر لیں گے تو خدا تعالیٰ ان کے لئے غیر معمولی نصرت کی راہیں کھول دے گا اور پتھر سے بھی سخت دل موم سے بھی زیادہ نرم ہو جائیں گے-
احمدیت کی ترقی کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کلام پر اتنا تو ایمان رکھو کہ سال دو سال ہی اس پر عمل کر کے دیکھ لو- جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی ہے` وہ تو اس کے کلام اور اس کے نام پر اپنے آپ کو بھی تکذیب کر لیتے ہیں- حضرت عیٰسی علیہ السلام نے کسی کو چوری کرتے دیکھا اور اس سے دریافت کیا- لیکن اس نے کہا! خدا کی قسم ہے میں نے چوری نہیں کی- اس پر آپ نے کہا کہ تو سچا ہے` میری آنکھوں نے غلطی کی ہو گی- یہ صرف خدا کا نام درمیان میں آ جانے کی وجہ سے کہا- چہ جائیکہ اس کا کلام موجود ہو اور اس پر یقین نہ ہو- خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور آپ کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے- اس لئے یہ خیال کہ لوگ نہیں مانیں گے` بالکل غلط ہے- لوگ مانیں گے اور ضرور مانیں گے- شیطان کی روکاوٹیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں- وہ کچلا اور پیس ڈالا جائے گا- جو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں وہ شیطان کے ساتھی ہیں- پس استقلال کے ساتھ متواتر تبلیغ کرو- یقیناً اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو گی اور چند سالوں بلکہ چند مہینوں میں ترقی کے نمایاں آثار نظر آنے لگیں گے-
مبلغ کے لئے ایمان اور اخلاص بیشک ضروری ہیں- مگر علم سے بھی اسے مدد لینی چاہئے- ہفتہ میں دو تین دن ایسے مخصوص کر لئے جائیں کہ اہل علم لوگ دوسرے احمدیوں کو علمی مسائل سکھائیں- مختلف دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مختلف کتب لے لیں- مختلف حوالے وفات مسیح` ختم نبوت` خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کیا سامان کرتا ہے وغیرہ کے متعلق جمع کر کے دوسروں کو نوٹ کرا دیں- اسی طرح احادیث وغیرہ کے حوالے جمع کر کے مجلس میں سنا دیں اور خود بخود مطالعہ سے جتنی علمی ترقی سال بھر ہو سکتی ہے` اس طرح ہو دو ہفتوں میں ہو جائے گی- اگر ایک اکیلا آدمی سال بھر میں سو کتابیں پڑھ سکتا ہے تو اس طرح وہ ہفتہ میں ہی اتنا علم حاصل کیا جا سکتا ہے جتنا سال بھر میں- اس کے علاوہ جب کوئی شخص تبلیغ کے لئے جائے تو چاہئے اس کے دل میں رقت ہو` کیونکہ دل محبت سے نرم ہوتے ہیں- اپنے دلوں میں محبت پیدا کرو- جو انسان خالی فلسفہ اور دلیل سے کام لیتا ہے وہ ناکام رہتا ہے- دنیا محبت اور اخلاص سے جیتی جاتی ہے- پس جن لوگوں میں تبلیغ کے لئے جائو ان کے متلق دل میں یہ محسوس کرو کہ یہ ہمارے بچے یا بھائی ہیں اور مہلک مرض میں مبتلاء کسی عزیز کے خطرناک طور پر مریض ہونے کے وقت جو رقت دل میں ہوتی ہے` چاہئے کہ وہی درد ان کے لئے بھی ہو تب فائدہ ہو سکتا ہے` ورنہ خالی دلیلیں کچھ نہیں کر سکتیں-
اگر دوست ان باتوں کو مدنظر رکھ کر تبلیغ کریں تو ایسی ترقی ہو سکتی ہے کہ آئندہ سال انصاراللہ کی یہ چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے جھنڈے ہوں گے- بڑی جماعت ہو گی اور جلسہ اس چھوٹی جگہ میں نہیں بلکہ وسیع جگہ میں منعقد ہو گا- اس کے بعد حضور کے دعا فرمائی-
)الفضل ۳ جنوری ۱۹۳۲ء(
‏a11.19
انوار العلوم جلد ۱۱
تقریر جلسہ سالانہ
)فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۱ء(
تشہد` تعوز اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں نے اس سال کے متعلق ارادہ ظاہر کیا تھا- کہ بعض تبلیغی اشتہارات شائع کئے جائیں گے- اس ارادہ کے مطابق دو اشتہار شائع بھی کئے- لیکن باوجود اس کے کہ میں تیار تھا کہ اور اشتہار شائع کئے جائیں` ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کی طرف سے خواہش نہ کی گئی اور میں نے دریافت اس لئے نہ کیا کہ اخبار میں میں نے نظارت کی طرف سے اعلان دیکھا تھا کہ دوستوں نے ان اشتہارات کی اشاعت کے لئے جیسی کوشش کرنی چاہئے تھی ویسی نہیں کی- اور بہت سے اشتہارت دفتر میں پڑے ہیں- میرا ارادہ ان اشتہاروں کی اشاعت کو وسیع کرنے کا تھا- یہاں تک کہ ان کی اشاعت ایک لاکھ ہو جائے اور سال میں ۲۴-۲۵ لاکھ انسانوں تک سلسلہ کی آواز پہنچا سکیں- ایک لاکھ اشتہار کی چھپائی پر پانچ چھ سو روپیہ خرچ آ سکتا ہے اور شاید سو سوا سو روپیہ باہر بھیجنے پر خرچ آ جائے- کچھ اور اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپیہ کا یہ خرچ ہے اور اسے خرچ کر کے کئی لاکھ انسانوں تک سلسلہ کی آواز پہنچانے کے معنی یہ ہیں کہ ایک روپیہ میں تین سو سے اوپر افراد کو تبلیغ کر سکتے ہیں- گویا ایک پیسہ میں پانچ آدمیوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں- یہ تبلیغ ایسی سستی ہے کہ اس سے زیادہ سستی ممکن نہیں- مگر افسوس ہے کہ جماعت نے کارکنوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا- میں ساری ذمہ واری جماعت پر ہی نہیں ڈالتا- اس میں کارکنوں کی بھی سستی ہے- اگر وہ اور اشتہار شائع کرتے تو میرا خیال ہے جماعت کی سستی دور ہو جاتی- اب میں امید کرتا ہوں کہ کارکن اشتہاروں کی اشاعت کی کوشش کریں گے اور اگر اتنی تعداد میں ہی اشتہار شائع ہوں جس قدر پہلے شائع ہوئے- یعنی ۲۵ ہزار` تو بھی دو لاکھ انسانوں کو ہم تبلیغ کر سکتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی چھوٹے چھوٹے اشتہاروں پر بہت زور دیا تھا- کیونکہ عام لوگ انہیں باآسانی پڑھ لیتے ہیں اور باہر سے جو خطوط آتے رہے` ان سے بھی معلوم ہوا کہ اشتہار بہت مفید ثابت ہوئے- میں امید کرتا ہوں کہ دوست سستی ترک کر کے اشتہاروں کے پھیلانے کی کوشش کریں گے اور اس سلسلہ کو جاری رکھیں گے-
تبلیغ احمدیت
اس سال ایک اور کام بھی کیا گیا ہے اور وہ تبلیغ کا کام ہے- میں نے ایک پروگرام بنایا تھا کہ بعض خاص علاقوں میں خاص زور دیا جائے- اس سال اسی ضلع گورداسپور میں دریائے بیاس کا کنارہ منتخب کیا گیا تھا جہاں خصوصیت سے تبلیغ کی گئی اور قادیان اور گردو نواح کے حمدیوں سے جبری یا تحریک کر کے تبلیغ کا کام کرایا گیا- اسی طرح کئی جگہ نئی جماعتیں بن گئیں اور کئی لوگ اخلاص کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے جو دینی علوم سیکھنے کی جدو جہد کر رہے ہیں- اس کے علاوہ باہر کی جماعتوں کی میں انصار اللہ کا سلسلہ جاری کیا گیا- یعنی احباب کو خاص طور پر تبلیغ میں حصہ لینے کی تحریک کی گئی` اس میں بھی کامیابی ہوئی- جو جماعتیں مدت سے سست ہو چکی تھیں` وہ بھی بڑھنے لگیں اور احباب چستی سے کام کر رہے ہیں- میں سمجھتا ہوں ادھر تبلیغی اشتہاروں کا سلسلہ جاری رہے اور ادھر تبلیغ خاص اور تبلیغ عام پر زور دیا جائے تو بہت جلد جماعت بڑھ سکتی ہے- جب کام شروع کیا جائے تو آہستہ آہستہ طبائع پر اثر ہونے لگتا ہے- مگر اس سال کی بیعت گزشتہ سالوں کی نسبت دگنے سے بھی زیادہ ہے اور جب پہلے ہی سال اتنا میٹھا پھل حاصل ہوا ہے تو آئندہ کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ہم امید رکھتے ہیں کہ بہت اچھے چھل حاصل ہوں گے- میں امید رکھتا ہوں کہ احباب انصار اللہ کی تحریک میں شامل ہو کر نظارت دعوت و تبلیغ کے ذریعہ کوشش کریں گے- تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام جلد پورا ہو کہ >میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں گا<-
چندہ خاص
پچھلے دو تین سال سے مالی حالت ہمارے ملک کی بلکہ ساری دنیا کی خراب ہو رہی ہے- چونکہ ان مشکلات کی وجہ سے سالانہ کیٹ پورا نہ ہو سکتا تھا- اس لئے میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ اگر مالی بوجھ جلد دور نہ کر دیا گیا تو خطرہ ہے کہ کسی وقت بہت مشکل پیش آ جائے- اس غرض کی لئے چندہ خاص کا مطالبہ کیا گیا اور تین ماہ میں ایک مہینہ کی آمد دینے کی ہدایت کی گئی- ایسی تنگی کی حالت میں جب کہ ملازموں کی تخفیف اور ان کی کمی تنخواہ کا فیصلہ ہو چکا تھا` زمیندار اپنے کھانے کے لئے بھی غلہ گھر نہ لا سکتے تھے اور سرکاری مالیہ میں دے دینے پر مجبور تھے` اس تحریک کا کامیباب ہونا بہت مشکل تھا- مگر خدا تعالیٰ کے کام انسانوں کے خیالات کے ماتحت نہیں ہوتے- چنانچہ اس تحریک کانتیجہ ایسا خوشکن نکلا کہ جو لوگ اس کے متعلق مایوسی رکھتے تھے وہ تو الگ رہے جو امید رکھتے تھے ان کی امیدوں سے بھی بہت بڑھ کر ہے- اس وقت تک اس مد میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار روپیہ آ چکا ہے اور ابھی کئی دوستوں کے وعدے باقی ہیں کیونکہ بعض معذوریوں کی وجہ سے انہوں نے مقررہ میعاد کے بعد ادا کرنے کی مہلت مانگی ہے- اس چندہ کی وجہ سے ۷۲ ہزار روپیہ قرض جوہلوں کی رو سے تھا )اس کے علاوہ کچھ اور بھی قرض ہے( یہ بل قریباً قریباً ادا ہو گئے ہیں اور شائد چار پانچ ہزار کے بل باقی ہوں گے- میں ایمد کرتا ہوں کہ اس مہینہ کے ختم ہونے تک یہ بھی ادا کر دیئے جائیں گے- علاوہ اسی کے تین چار ماہ کا خرچ بھی ادا کر دیا گیا- جلس سالانہ کا خرچ بھی اسی چندہ سے نکلا- یہ ہماری جماعت کی قربانی موجودہ زمانہ میں ایسی اعلیٰ درجہ کے ہے کہ اس پر جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر کریں کم ہے- ایسے حالات میں کہ ہماری جماعت کے لوگ مالی تنگی میں مبتلاء تھے` خدا تعالیٰ کی راہ میں جو قربانی انہوں نے کی ہے اس کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے لئے خاص طور پر دعا کی جائے-
اس کے بعد حضور نے جنوری کے پہلے ہفتہ کی جمعرات کے دن روزہ رکھنے اور دعا کرنے کا وہ اعلان فرمایا جو گزشتہ پرچہ میں درج ہو چکا ہے اور پھر فرمایا-
ضروری نصیحت
میں آئندہ کے متعلق جماعت کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ مجلس مشاورت کے نمائندے سلسلہ کے کارکن اور نظارتیں کوشش کریں کہ آئندہ ہم پر قرض نہ ہو- میں نے اپنی ذات کے متعلق دیکھا ہے- چونکہ سلسلہ کے تمام کاموں کی ذمہ واری مجھ پر عائد ہوتی ہے- اس لئے قرضہ کی وجہ سے ہر شخص جو تنگی اور تکلیف محسوس کرتا ہے- اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ اس وجہ سے میری صحت درست نہیں رہ سکتی- میں امید کرتا ہوں کہ کارکن بجٹ ایسا بنائیں گے کہ سلسلہ پر قرض کا بار نہ ہو- جس حد تک خدا دے اس سے زیادہ قرض لے کر خرچ نہیں کرنا چاہئے- مجلس شوریٰ کے ممبروں کو میں نسیحت کرتا ہوں کہ بجٹ کے موقعہ پر یہ بات مدنظر رکھیں- مگر اس کے ساتھ ہی میں ایک نصیحت یہ بھی کرنی چاہتا ہوں کہ جو قوم ایک دفعہ پیچھے ہٹتی ہے` وہ پیچھے ہی ہٹتی جاتی ہے- پس کوشش یہ کریں کہ جو کام شروع ہیں وہ بند نہ ہوں- بلکہ ان کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اخراجات میں بچت نکالی جائے- دوسرے تربیت کے پہلو پر زور دینا چاہے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ہمارے مبلغ کثرت سے جماعتوں میں پھریں اور تعلیم و تریبت کا انتظام کریح-
تحریک مباہلہ
اب میں ایک اہم واقعہ کو لیتا ہوں جو اس سال ہوا- پچھلے دنوں ایک صاحب کی طرف سے جنہوں نے اپنے آپ کو الحدیثوں کا امیر لکھا` مباہلہ کی تحریک ہوئی جو ہمارے لئے بہت خوشی کی بات تھی- اس پر میں نے لکھا کہ ہماری جماعت کی طرف سے ایک ہزار آدمی مباہلہ میں شریک ہوں اور ایک ہزار اہلحدیثوں کی طرف سے- باوجود ان کے یہ اعلان کرنے کے وہ بہت زیادہ لوگ اپنی طرف سے پیش کر سکتے ہیں- انہوں یہ بات منظور نہ کی- مگر جب ہم نے اپنی جماعت کے لوگوں کے نام طلب کئے اور کہا کہ استخارہ کر کے اپنے آپ کو پیش کریں- تو اس کا ایسا اثر پیدا ہوا- جو بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں ایمان اس مضبوطی سے قائم ہے- تاروں کے ذریعہ شمولیت کی کئی درخواستیں میں ہوئیں اور ان میں لجاجت سے کہا گیا کہ انہیں شمولیت کا ضرور موقعہ دیا جائے- اس کثرت سے درخواستیں آئیں کہ لوگ ٹوٹے پڑتے تھے- بعض نے لکھا کہ شامل ہونے والوں کے لئے کڑی شرطیں لگائیں جائیں- مثلاً یہ کہ وہ دنی کے لئے زندگیاں وقف کریں- یا اپنی جائدادیں وقف کر دیں- اس طرح مقابلہ کرایا جائے اور پھر جو مقابلہ میں بڑھیں انہیں شامل کیا جائے-
میں نے بعض الٰہی حکمتوں کے ماتحت اشتہار کا جواب نہیں دیا تھا جو اب انشاء اللہ جنوری میں شائع ہو جائے گا- جن کے نام شمولیت کے لئے آ چکے ہیں- اگر فریق مخالف مان لے تو انہیں تیار رہنا چاہئے- تاکہ ہماری طرف سے ایک ہزار آدمی پیش ہو جائیں- وہ ایک ہزار سے جتنے کام لا سکیں لائیں مگر بہر حال جماعت ہونی چاہئے- جس قدر تعداد مانگی گئی تھی چونکہ نام اس سے زیادہ آ چکے تھے` اس لئے شرئط لگا کر ہی ان میں سے ایک ہزار کا انتخاب کیا جائے گا- اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کو اس موقعہ پر آنے کے اطاء دے دی جائے-
سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ دوم
اس سال ایک کتاب سلسلہ کی طرف سے بیش قیمت شائع ہوئی ہے جس کا نام سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ دوم ہے اور جو میاں بشیر احمد صاحب کی تصنیف ہے- میں نے اس کا بہت سا حصہ دیکھا ہے- اس کے متعلق مشورے بھی دئے ہیں اور جہاں مجھے شدید اختلاف ہوا ہے` وہاں میں نے اصلاح بھی کرائی ہے- میں سمجھتا ہوں رسول کریم ~صل۲~ کی جتنی سیرتیں شائع ہو چکی ہیں` ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے- اردو سیرتوں سے ہی نہیں بلکہ بعض لحاظ سے عربی سیرتوں کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی- کیونکہ اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پر تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ حاصل ہوئے- اور چونکہ وہ پہلے نہیں تھے اس لئے پہلی کتابوں میں خامیاں رہ گئیں- رسول کریم ~صل۲~ کے حالات کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے- اس لئے ہر دوست جو خرید سکے اسے نہ صرف یہ کتاب خریدنی چاہئے بلکہ پڑھنی چاہئے اور دوسروں تک پہنچانی چاہئے- اڑھائی روپے اس کی قیمت رکھی گئی ہے- چونکہ کسی زمانہ میں میں نے بھی طباعت کا کام کرایا ہے جب کہ اخبار الفضل جاری کیا تھا- اس لئے باوجود آج کل کی گرانی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کی قیمت دو روپے ہونی چاہئے- معلوم نہیں آٹھ آنے زائد کس طرح گائے گئے ہیں- بہرحال جماعتوں کو یہ کتاب خریدنی چاہئے- چونکہ یہ بھی قائدہ ہے کہ اکٹھی کتابیں خریدنے پر کمیشن دیا جاتا ہے- اس لئے اگر جماعتوں کے دوست مل کر دس` بیس` تیس` چالیس یا اس سے بھی زیادہ نسخے خریدیں تو کوئی وجہ نہیں قیمت میں رعایت نہ کی جائے- اس طرح ممکن ہے اور بھی رعایت ہو جائے- لیکن اگر شائع کرنے والے ثابت کر دیں کہ لاگت کے لحاظ سے اڑھائی روپے ہی قیمت ہونی چاہئے تو بھی اکٹھی کتابیں خریدنے پر قیمت میں کمی آ جائے گی- پس جماعتوں کو چاہئے کہ اکٹھی کتابیں خریدیں- ہر شخص جسے توفیق ہو یہ کتاب لے اور اپنے بیوی بچوں کو پڑھائے یا سنائے تاکہ رسول کریم ~صل۲~ کی پاکیزہ زندگی ان کے سامنے یئے-
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر بک ڈپو تالیف و اشاعت نے کتاب کی قیمت دو روپے کر دی ہے اور اکٹھی خریدنے پی فی کتاب ایک روپیہ بارہ آنے لئے جاتے ہیں- یہ قیمت علاوہ محصول ڈاک ہے-
مردم شماری اور جماعت احمدیہ پنجاب
اس سال مردم شماری کا اہم واقعہ ہوا ہے- سب لوگ چونکہ ہمارے مخالف ہیں` اس لئے سب نے ہماری تعداد کو کوٹنے اور کم کرنے کی کوشش کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری نقطہ نگاہ سے ہماری تعداد حوصلہ شکن ہے مگر گورنمنٹ کے نقظہ نگاہ سے بہت عظیم الشان ہے- پنجاب میں چونکہ ہماری تعداد باون ہزار قرار دی گئے ہے- اس لئے ہمارے نزدیک مایوسن کن ہے- مگر گوونمنٹ کے نزدیک اس طرح عظیم الشان ہے کہ ۱۹۲۱ء کی مردشم شماری میں ہماری تعداد اٹھائیس ہزار قرار دی گئی تھی- اور اب باون ہزار- گویا دس سال کے عرصہ میں ہم نے سو فیصدی ترقی کی ہے اور گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے آج سے پانچویں مردم شماری تک پنجاب میں احمدی اور سکھ برابر ہو جائیں گے- لیکن ہمارا نقطہ نگاہ اس سے بہت بلند ہے- ہماری نردیک چالیس پچاس سال بہت لمبا عرصہ ہے- اس عرصہ میں تو ہم ساری دنیا کو اپنے ساکتھ شامل کر لینے کی امید رکھتے ہیں-
گزشتہ مردم شماری میں ہماری جو تعداد قرار دی گئی ہے- وہ یقینی طور پر غلط ہے- مثلاً جالندھر اور ہوشیارپور میں احمدیوں کی تعداد بہت کم دکھائی گئی ہے- پھر ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ کسی جگہ تین چار سو مرد اور صرف چند عورتیں احمدی لکھی ہیں- حالانکہ یہ ناممکن ہے کہ جہاں اتنے مرد احمدی ہوں` وہاں ان کے قریب قریب ہی احمدی عورتیں نہ ہوں- اسی طرح کئی جگہ ایسا ہوا ہے کہ مرد چند لکھے لگئے ہیں اور عورتیں بہت زیادہ لکھی گئی ہیں- معلوم ہوتا ہے اس میں غلطی ہوئی ہے اور احمدیوں کے نام کسی اور لسٹ میں شامل ہو گئے- بہر حال گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے ہماری بہت بڑی ترقی ہوئے اور میں امید کرتا ہوں کہ دوست آئندہ دس سال میں کوشش کر کے اس زور سے تبلیغ کریں گے کہ اگر صحیح طور پر مردم شماری ہو تو تعداد دس لاکھ تک ہو جائے اور یہ کوئی بعید بات نہیں- خدا تعالیٰ نے ہمیں سچائی اور صداقت دی ہے- پس تبلیغ کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے-
تعمیر مذبح
ایک اور امر جو ہماری جماعت میں کھٹک رہا تھا اور جس کے متعلق مخالف یہ کہتے تھے کہ ہم نے بزدلی دکھائی ہے` وہ بھی حل ہو گیا یعنی قادیان میں مذنح بن گیا- ہمارے آباء کی رواداری کی وجہ سے جو یہاں کے حاکم تھے` ہم نے بھی مدبح بنانے کا ارادہ چھوڑ رکھا تھا- مگر بعض لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے ہماری کمزوری پر محمول کیا اور جب مذبح بنایا گیا تو انہوں نے گرا دیا- جماعت نے ان لوگوں کا مقابلہ اس لئے نہ کیا کہ میں قادیان میں موجود نہ تھا اور جماعت کے لوگوں نے خیال کیا کہ ہم پر کوئی الزام نہ آئے` نہ کہ حکومت یا کسی اور سے ڈر کر انہوں نے ایسا کیا- انہوں نے اطاعت کا موضانہ نمونہ دکھایا- مگر کہا گیا کہ انہوں نے بزدلی سے کام لیا- جب جماعت کی ہتک کا سوال پیدا ہوا تو میں نے اس کی اہمیت بیان کی اور ہندوئوں سے رعایت کرنی چاہی- میں نے انہیں کہا انتظار کریں` میں کوشش کروں گا کہ ایسی راہ نکل آئے جس میں ان کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے- مگر انہوں نے مجھ پر اعتماد نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ آپ تو مذبح کے بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں` حکام نے نہیں بننے دیا- اس پر میں نے کہا- چھا جائو` حکام سے ہی کہو کہ نہ بننے دیں- آخر اس سال مذبح بن گیا جس میں گائیں ذبح ہو رہی ہیں اور آپ لوگ کھا رہے ہیں- اگر ہندو مجھ پر اعتماد کرتے تو اب بھی مذبح نہ بنتا- آئندہ اگر ضرورت مجبور کرتی تو نہ معلوم کیا صورت ہوتی- لیکن اس وقت میرا یہی ارادہ تھا کہ ان کے ساتھ رعایت کروں- اب جو کچھ کیا انہوں نے خود کیا- اس لئے انہیں افسوس ہم پر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے آپ پر کرنا چاہئے-
‏]0 [stf مسلمان کشمیر کی امداد
اب میں اس کام کا ذکر کرتا ہوں جو نہایت اہم کام ہے اور جسے بعض مخلص اصحاب کے مجبور کرنے اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے میں نے شروع کیا اور وہ کشمیر کے متعلق کام ہے- ماہ مئی میں میں نے بعض مضامین ایسے پڑھے جن میں مسلمان جموں پر شختی کرن یکا ذکر تھا- میں کشمیر میں کئی دفعہ جا چکا ہوں- وہاں کے مسلمانوں کی دردناک حالت کا مجھے علم تھا- جس کی وجہ سے میرے دل میں زخم تھا اور یہ خواہش دل میں رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ توفیق دے تو ان کی مدد کی جائے- جب میں نے مسلمانان ریاست پر سختی کے حالات پڑھے تو وہ جوش ابل پڑا اور میں نے مضامین لکھے- اور جب سری نگر میں مسلمانوں پر گولیاں چلیں تو میں نے مسلمان لیڈروں کو چھٹیاں لکھیں اور انہیں مشورہ کرنے کے لئے شملہ بلایا- جب مسلمان لیڈر شلمہ میں جمع ہوئے تو معلوم ہوا کہ گورنمنٹ ریاستوں کے متعلق بیرونی لوگوں کی باتیں نہیں سنتی اس پر کہا گیا اس بارے میں کچھ نہ کیا جائے اور بعض نے تو یہ بھی کہا کہ جلسہ بھی نہ کریں- لیکن میں نے کہا! جلسہ ضرور کرنا چاہئے- اگر ناکام رہے تو اس میں ہماری کوئی ذلت نہیں کیونکہ نیک کام کا ہم نے ارادہ کیا ہے آخر جلسہ کیا گیا اور ایک کمیٹی بنائی گئی- مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو ڈکٹیٹر تجویز کرتے ہیں- آپ جو کہیں گے` وہ ہم کریں گے- مگر میں نے کہا مجھے اور بہت کام ہیں اور میرے لئے یہ کام کرنا مشکل ہے- اس پر کہا گیا یہ بھی ثواب کا کام ہے- تیس لاکھ مظلوم اور بے کس مسلمانوں کی خدمت ہے` آپ ضرور یہ کام کریں- ہمارا اصول تھا کہ خلیفہ دوسری انجمنوں میں شامل نہ ہو- مگر جب مجھ سے یہ کہا گیا تو میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکا- پھر خیال آیا یہ کہیں گے کہ ناکامی کے ڈر سے پیچھے ہٹتا ہے- اس پر میں نے کہا دوسری انجمنوں میں خلیفہ کے شامل نہ ہونے کا دستور ہم نے خود ہی بنایا ہے- اسے خدمت خلق کے لئے توڑ دیں تو کوئی حرج نہیں- چنانچہ میں نے ڈکٹیٹر بننے سے تو انکار کر دیالیکن کہا پریزیڈنٹ بننا قبول کر لیتا ہوں- اس کے بعد شملہ میں کام کرنا ضروع کیا- گورنمنٹ کو سمجھانے کی کوشش کی- میں نے وائسرائے سے ملاقات کی- مگر انہوں نے کشمیر کے ذکر پر ہی کہہ دیا کہ گورنمنٹ اس میں دخل نہیں دے سکتی- لیکن آخر میں نے دلائل سے منوا لیا کہ حکومت کو دخل دنیا پڑے گا- اس کے بعد حکومت کے اور بڑے بڑے افسروں سے ملنے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو بھیفا گیا اور انہیں مائل کیا کہ کشمیر کے متعلق بیرونی آدمیوں کی باتیں سننے کے لئے تیار ہوں- یہ پہلا کام تھا جو کشمیر کے متعلق کیا گیا اور اسے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے- پھر وائسرائے نے خود اس تجویز کو پسند کیا اور زور دیا کہ ریاست سے کہا جائے مسلمانوں کا وفد قبول کرے- لیکن ریاست کو بدقسمتی سے جب مہاراجہ صاحب کو وفد کے متعلق تار دیا گیا جس میں معزر اصحباب شامل تھے- نواب سر ذوالقار علی خان صاحب` نواب ابراہیم علی خاں صاف آف کنجپورہ` مولوی اسمعیل صاحب غرنوی تو وزیر اعظم کی طرف جواب آیا کہ صورت حالات پر پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے` اس لئے مہاراجہ صاحب وفد سے ملنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ وفد کے آنے سے ازسر نو جوش پیدا ہو جائے گا- اس پر میں نے حجت تمام کرنے کے لئے اپنے نام سے تار دیا- جس میں مہاراجہ صاحب کہ لکھا کہ اگرچہ کشمیر میں بظاہر امن نظر آتا ہے لیکن ایجی ٹیشن موجود ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں` آپ وفد منظور کریں-اس کا جواب یہ آیا کہ چونکہ آپ خود آگاہ ہیں کہ ایجی ٹیشن کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لئے وفد کو آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی-
پہلے تو کہا گیا تھا چونکہ امن قائم ہو گیا ہے- اس لئے وفد کے آنے کی ضرورت نہیں اور پھر کہا- ایجی ٹیشن کی جڑیں گہری ہیں` اس لئے منظور نہیں کیا جا سکتا- جب ان دونوں صورتوں میں وفد کو اجازت نہیں دی جا سکتی تھی تو پھر اور کون سا وقت وفد کے آنے کا ہو سکتا تھا- یہ پہلی غلطی تھی جو ریاست نے کی جس نے اسے کمزور اور ہمارے ہاتھوں کو مضبوط بنا دیا- اب ہم لوگوں کو آسانی سے سمجھا سکتے تھے کہ ریاست امن قائم نہیں کرنا چاہتی اور اس سے ایسے لوگوں کی ہمدردی حاصل کر سکتے تھے جو اور طرح ممکن نہ تھی- اس کے بعد >کشمیر ڈے< مقرر کیا گیا- جس کی کامیابی میں ہماری جماعت نے بہت کام کیا- ہر جگہ بڑے بڑے جلوس نکلے- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کشمیر کے مسلمانوں کی ہمدردی کا احساس پیدا ہو گیا- اس کے بعد برابر یہ کام جاری رہا اور موجودہ حالت ایسی ہے کہ مکمل کامیابی میں بعض روکیں نظر آتی ہیں- مگر میں نے اپنے نفس سے اقرار کیا ہے اور طریف بھی یہی ہے کہ مومن جب کوئی کام شروع کرے تو اسے ادھورا نہ چھوڑے- میں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے` خواہ سو سال لگیں` ہماری جماعت ان کی مدد کرتی رہے گی اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ کل` پرسوں` ترسوں` سال` دو سال` سو دو سو سال جب تک کام ختم نہ ہو جائے ہماری جماعت کام کرتی رہے گی- یہ ہمارا کشمیر کے مسلمانوں کے سے وعدہ ہے- حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا- کہ فلاں فلاں رعائتیں تمہیں دی جائیں گی- جب اسلامی فوج گئی تو اس قوم نے کہا` ہم سے تو یہ معاہدہ ہے- فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی- انہوں نے فرمایا- مسلمان کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے خواہ غلام ہی کی ہو- مگر یہ غلام کا نہیں بلکہ جماعت کے امام کا وعدہ ہے- پس ہماری جماعت کو مسلمانان کشمیر کی امداد رکھنی چاہئے- جب تک کہ ان کو اپنے حقوق حاصل نہ ہوں جائیں- خواہ اس کے لئے کتنا عرصہ لگے- اور خواہ مالی اور خواہ کسی وقت جانی قربانیاں بھی کرنی پڑیں-
ہم نے یہ کام مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے شروع کیا ہے- مگر بعض لوگوں نے اس کی کامیابی دیکھ کر کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے تبلیغ احمدیت کے لئے یہ کام شروع کیا ہے- اس کام کی وجہ سے اگر خدا تعالیٰ کسی کے دل میں ہماری محبت ڈالے تو ہم خدا تعالیٰ کے اس انعام کا انکار نہیں کر سکتے مگر اسے ہم تبلیغ احمدیت کا آلہ نہیں بنا سکتے- اس کام کو چونکہ ہماری جماعت نے ابتغاء لوجہ اللہ شروع کیا ہے تاہ ایک مظلوم قوم آزاد ہو- اس لئے کسی اپنے نفوذ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے-
مخالفین کی فتنہ انگیزیاں
لیکن بعض لوگ غصہ سے اس کام کو دیکھتے اور جماعت کی مخالفت کر رہے ہیں- چنانچہ ایک احرار کا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو ہر جگہ احمدیت کی مخالت کر رہا ہے- ان کے ایک لیڈر نے بیان کیا کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے- عوام میں کبھی ہمیں رسوخ حاصل نہ ہوتا- اگر ہم احمدیت کی مخالفت نہ کرتے-
ان لوگوں نے سخت مخالفت شروع کر دی ہے- اور پنجاب میں ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ جسے دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد آ جاتا ہے- خصوصاً سیالکوٹ میں سخت مخالفت کی جا رہی اور احمدیوں کو تکالیف پہنچائی جا رہی ہیں- اس طرح اور شہروں میں کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ہم قادیان کے جھتے لے جائیں گے- کسی نے کہا-
ایاز قدر خود بشناس
ہم ان سے کہتے ہیں- تم کیا اگر دنیا کی ساری حکومتوں اور ساری قوموں کو بلا کی بھی اپنے ساتھ لے آئو` پھر بھی تم جیت جائو تو ہم جھوٹے )سا پر مجمع نے اللہ اکبر کے نعر بلند کئے( اگر ان لوگوں نے ایسا کیا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس چیز سے ٹکراتے ہیں- اگر انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو چکنا چور ہو جائیں گے اور اگر ہم نے ان پر حملہ کیا تو بھی وہ چکنا چور ہو جائیں گے- یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور یہ اس کی مشیت اور ارادہ ہے کہ اسے کامیاب کرے- اس کے خلاف کوئی انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی- بیشک ہم کمزور ہیں` ضعیف ہیں` اس کے ہمیں اقرار ہے- مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ ہر ہمیں یقین ہے اور اس کے متعلق ہم کوئی ضعف نہیں دکھا سکتے- ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو کچل دیں گے- مگر یہ ضرور یقیناً اور حتمی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ان کو کچل دے گا- خواہ وہ کتین بڑی فوجوں کے ساتھ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں- )نعرہ اللہ اکبر( لڑائی کا نام اسلامی اصطلاع میں آگ رکھا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے-
آگ سے ہمیں مت ڈرا` آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے- پس ہم پر غالب آنے کا خیال ان کے محض و ہم و گمنان ہے- اگر ہم میں سے ہر ایک کو قتل کر دیں- پھر قتل کر کے جلا دیں اور پھر راکھ کو اڑا دیں تو بھی دنیا میں احمدیت قائم رہے گی- ہر قوم ہر ملک اور ہر براعظم میں پھیلے گی اور ساری دنیا میں احمدیت ہی احمدیت نظر آئے گی- یہ خدا کا لگایا ہوا پودا ہے اس کے خلاف جو زبان دراز ہو گی` وہ زبان کاٹی جائے گی- جو ہاتھ اٹھے گا وہ ہاتھ گرایا جائے گا- اگر انگریز` جرمن` امریکن` فرانسیسی سب مل جائیں تو تھی جس طرح مچھر مسلا جاتا ہے` اس طرح مسلے جائیں گے اور ساری قومیں احمدیت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی )نعرہ ہائے اللہ اکبر( مخالفت کے اسی جوش و خروش میں پچھلے دنوں میں جب سیالکوٹ گیا تو ان لوگوں نے ہمارا مظاہرہ بھی دیکھ لیا- ایک جلسہ میں میری تقیر کا انتظام کیا گیا تھا- جلسہ میں جانے سے قبل ہی ان لوگوں کی نیت کا پتہ لگ گیا- لیکن میں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا- سٹیج پر قبہ کر لیا جائے پھر جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا- چنانچہ ہماری جماعت کے لوگ جلسہ گاہ میں چلے گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ پندرہ سو کے قریب ہو گئی` اتنے ہی دوسرے مسلمانوں میں سے ہمارے ہمدرد تھے- فتنہ پردازوں نے کوشش کی کہ پتھر مار مار کر ہمیں جلس گاہ سے بھگا دیں- جب میں جلسہ گاہ کی طرف جا رہا تھا تو دو آدمی دوڑتے ہوئے آئے اور آ کر کہنے لگے- سٹیج والوں نے کہا ہے- وہاں پتھر پڑے رہے ہیں` آپ نہ جائیں- میں نے کہا میں ضرور جائوں گا- جب جلسہ گاہ کے قریب پہنچے تو تین لڑکے سخت گھبرائے ہوئے اور کہنے لگے وہاں تو پتھروں کی بارش ہو رہی ہے` آپ نہ جائیں- میں نے کہا! خواہ کچھ ہو میرا جانا ضروری ہے- جب میں وہاں پہنچا جو بہت وسیع میدان تھا تو دریا کے پانی کی طرح مخالفت کا سیلاب بہہ رہا تھا- فتنہ پردازوں نے کوشش کی کہ پتھر مار مار کر سٹیج والوں کو اٹھا دیں اور خود قبضہ کر لیں- اس وقت بعض رئوسار نے کہا- جلسہ ملتوی کر دیا جائے- لیکن میں نے کہا یہ ایمان کی خلاف ہے کہ مومن ڈر کر کسی مقام سے پیچھے ہٹے` جلسہ ضرور ہو گا- جب سٹیج پر پہنچا تو بہت ہی زیادہ سنگباری شروع ہو گئی- یہ دیکھنے کے قابل نظارہ تھا- میرے چاروں طرف نوجوان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے چھریاں تان لیں- مگر پتھر بے تحاشا آتے تھے- تین کی خراش مجھے بھی لگی ایک تو آدھی اینٹ تھی- وہ جب ے کر میری انگلی پر گرنے لگی تو میں نے سمجھا انگلی گو مس کر رکھ دے گی- مگر جب آئی تو یوں معلوم ہوا کہ انگلی کے ساتھ چھوا کر رکھ دی گی ہے- میں نے اس موقعہ پر اپنی جماعت کے لوگوں سے کہہ دیا کہ ہلنا نہیں- پتھر آتے اور ہمارے لوگ زخمی ہو گر گرتے- مگر اپنی جگہ سے کوئی نہ ہٹتا جو زخمی ہوتے وہ پٹی بندھوا کر پھر آ جاتے- ایک گھنٹہ دس منٹ تک مسلسل سنگ باری ہوتی رہی- مگر ہماری جماعت کا ایک فرد بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا- لیکن جب ڈپٹی کمشنر نے فتنہ پردازوں سے کہا- کہ بھاگ جائو ورنہ لاٹھی چارج کیا جائے گا تو بیس ہزار لوگوں میں سے پانچ منٹ کے اندر اندر وہاں ایک بھی نظر نہ آیا-
غرض ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ ہم نہ ڈرنے والے ہیں اور نہ گھبرانے والے- ہم تو مشکلات اور شدائد اٹھانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں- خدا تعالی دکھاتا ہے کہ میرے بندے آگ میں پی کر بھی سلامت رہتے ہیں اور میری راہ میں ہر مشکل اٹھانے کے لئے تیار ہیں-
مسلمانان کشمیر کی امداد کے لئے روپیہ کی ضرورت
غرض مسلمان کشمیر کی امداد کا کام جارہی ہے- اس کے لئے زیادہ تر روپے کی ضرورت ہے- جماعت کو تحریک کی گئی تھی کہ اس کام کے لئے دوسروں سے روپے وصول کریں- اس بارے میں جو کچھ معلوم ہوا اس سے مجھے افسوس بھی ہے اور خوشی بھی- افسوس تو اس لئے کہ کام کے رک جانے کا اندیشہ ہے اور خوش اس لئے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں غیرت پائی جاتی ہے- کئی دوستوں نے لکھا کہ کشمیر کے لئے ہم سے چندہ لے لیجئے مگر دوسروں سے نہ منگوائے- میں نے انہیں لکھا کہ خدا کے لئے مانگنا بھی ثواب کا کام ہے- ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ ثواب بھی حاصل کرنا چاہئے- پس دستوں کو چاہئے کہ دوسروں سے مسلمان کشمیر کی امداد کے لئے روپیہ وصول کریں- ہر جگہ کی جماعتیں یہ کوشش کریں اور چندے بھجوائیں تاکہ کام جاری رہے- بہرحال ہم نے یہ کام چلانا ہے اگر دوسرے لوگوں سے وصول نہ کریں گے تو خود دینا پڑے گا- مگر میں چاہتا ہوں اس کام میں دوسروں کی ہمدردی بھی حاصل کی جائے اور یہ اس طرح ہو سکتی ہے کہ ان سے چندہ لیا جائے- پس امراء سے اس کام کے لئے چندہ مانگو اور اس کام کی اہمیت ان پر ظاہر کرو- لیکن اگر کوئی چندہ نہ دے تو کہو ایک پیسہ ہی دے دو- اگر یہ بھی نہ دے تو کہہ دیا جائے میں آپ کی طرف سے دے دیتا ہوں` یہاں تک کہ اس کی چھپی ہوئی غیرت ظاہر ہو جائے اور اس کام میں حصہ لینے لگ جائے-
‏]txet [tagخطاب جلسہ سالانہ
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۲ء(
تشہد`تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
برادران! السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
بہترین افتتاحیہ تو وہ ہے جس سے خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کو شروع کیا اور جس کا نام خود اس نے سورہ فاتحہ رکھا- اس سے بہتر کوئی افتتاحی کلام نہیں ہو سکتا اور اس سے بہتر کوئی جامع دعا نہیں ہو سکتی- اس کے مطالب اتنے وسیع اور اس کے اندر مخفی اسرار اتنے لاتعداد ہیں کہ انسانی ذہن ان کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا- وہ ابدلا باد تک کی ترقیات جو بہتر سے بہتر انسان کے لئے نبیوں کے لئے ہی نہیں` بلکہ نبیوں کے سردار کے لئے مطر رہیں` وہ بھی اس سورہ فاتحہ کے اندر آ جاتی ہیں- کیونکہ انسانی سلوک کے انتہائی منازل اور ان کے متعلق ضروری ہدایات ساری کی ساری ان مختصر سی سات آیات میں اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہیں- پس سورہ فاتحہ کو میں اس جلسہ کے افتتاح کے لئے پڑھتا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ افتتاحیہ کو جو اس کی طرف سے عطا ہوا ہے` اس کے اندر جو ضروری ہدایات ہمارے متعلق ہیں` ان کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ان کے جواب میں جو اہم وعدے ہیں- اس کا فضل محض رحمت سے وہ وعدے پورے کر دے ہم لوگ جس بے سروسامانی کے ساتھ آج کل اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں` دنیا داروں کی نگاہوں میں وہ ترقی کی علامت نہیں- ہمارے کمروں اور جلسہ گاہ میں بچھی ہوئی کسیر کو دکھ کر` ہمارے کھلے ہوئے سٹیج کو دیکھ کر` ہمارے ان شہتیروں کو دیکھ کر جن کا نام ہم بنچ رکھ لیتے ہیں- وہ ہم پر مسکراتے اور کہتے ہیں` یہ ہے وہ جماعت جو دنیا کو خدا کے لئے فتح کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے- مگر ہماری حالت کے متعلق ان کی بنسی ویسی ہے جیسی عبداللہ بن ابی لیلیٰ کے ساتھ کوفہ والوں نے کی تھی- کوفہ کے لوگ بعض اسباب کی وجہ سے فتنہ کی طرف مائل ہو جاتے اور جلد جلد اپنے گورنر بدلوانے کے لئے عرضیاں دینے لگ جاتے- بعض صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا بھی کہ یہ لوگ شرارت کرتے ہیں` ان کی بات نہ مانی جائے- مگر انہوں نے فرمایا- جب ان کو اپنے حاکموں پر تسلی نہیں ہوتی- تو ہم بدل دیں گے- مگر اب کے ایسا حاکم بھیجا جائے گا جس کے بدلنے کی کوشش نہ کریں گے- انہوں نے عبدالرحمن بن ابلی لیلیٰ کو گورنر بنا کر بھیجا- ان کا ذکر اگرچہ مسلمانوں کی کتابوں میں کم آتا ہے لیکن ولایت میں ان کی خاص شہرت ہے- وہاں کی ریڈروں میں Sgactons قاضی ان کا نام آتا ہے- حضرت عمرؓ نے جب ان کو گورنر مقرر کیا تو ان کی عمر ۱۹-۲۰ سال کے قریب تھی- جب وہ گئے اور کوفہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک نوجوان لڑکا گورنر مقرر ہو کر آ رہا ہے تو انہوں نے کہا گربہ کشتن روز اول پر عمل کرنا چاہئے اور پہلے ہی دن ایسی خبر لینی چاہئے کہ اسے پتہ لگ جائے کہ کوفہ والوں پر حکومت کرنا آسان نہیں- اس بات کو مدنظر رکھ کر انہوں نے ایک بڑا جلوس تیار کیا جو کوفہ سے ایک منزل آگے جا ان سے ملا اس میں انہوں نے اپنے بڑے بڑے عمائدیں اور سرداروں کو شامل جنہوں نے بڑی بڑی جنگوں میں حصہ لیا تھا- انہوں نے بڑے مظاہرہ کے ساتھ ان کو پیش کیا اور بڑی تعظیم کے ساتھ ان کا نام لیتے اور بڑے ادب سے انہیں سلام کرتے- جس سے مطلب یہ تھا کہ ایسے بڑے بڑے سردار ہم میں ہیں` ان کے مقابلہ میں تمہاری کیا حیثیت ہے کہ ہم پر حکومت کر سکو- انہوں نے تجویز یہ کی کہ مجلس میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے عمر پوچھیں اور اس طرح انہیں مرعوب کریں- آخر جب دربار لگا- تو ایک شخص جس کو اس بات کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس نے پوعھا آپ کی عمر کیا ہے- عبدالرحمن ان کی بات سمجھ گئے- انہوں نے کہا میری عمر پوچھتے ہو- میری عمر جب رسول کریم ~صل۲~ نے اسامہ بن زید کو لشکر شام کا سردار مقرر کیا تھا جس میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے` اس وقت ان کی جو عمر تھی اس سے دو سال زیادہ ہے- اسامہ کی عمر اس وقت ۱۷-۱۸ سال کی تھی- اس طرح انہوں نے بتایا کہ اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہو کہ تم میں بڑے بڑے آدمی ہیں اور میں نوجوان ہوں- تو یاد رکھو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے بڑے لوگ تم میں نہیں ہیں اور اگر یہ خیال ہو کہ میں اتنی چھوٹی عمر کا انسان انتظام کس طرح کروں گا- تو سن لو اسی طرح کروں گا جس طرح اسامہ بن زید نے کیا تھا- اس بات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی وقت سے ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک یہ گورنر ہے اس وقت تک مخالفت میں کچھ نہ کیا جائے-
تو جو عبدالرحمن بن ابی لیلی نے جواب دیا تھا وہی میں اس وقت دوں گا- بے شک ہماری موجودہ حالت کمزوری اور ناتوانی کی حالت ہے اور دنیا جن کو زینت کے سامان سمجھتی ہے` وہ ہمارے پاس نہیں ہیں- لیکن ہماری جماعت کی کمزوری کی جو حالت ہے- اس سے زیادہ کمزور اس وقت تھی جب رسول کریم ~صل۲~ کو خدا تعالیٰ نے فتوحات کے وعدے دیئے اور اس سے زیادہ کمزوری ان مجالس میں پائی جاتی تھی- جن میں رسول کریم ~صل۲~ قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو فتح کرنے کا ذکر فرمایا کرتے تھے- اس حالت کا نقضہ ایک فرانسیسی مصنف نے نہایت ہی عجیب رنگ میں کھیچنا ہے- وہ لکھتا ہے- میں مذہب کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور نہ کسی مذہب کو مانتا ہوں- مگر جب میں ایک بات پر غور کرتا ہوں تو میرا دل کہتا ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے- وہ بات یہ ہے کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے سے پہلے ایک چھوٹی سی کچی مسجد میں جس پر کھجور کی شاخوں کی چھت پڑی تھی- اور ایسی چھت کہ ذرا پانی برسنے پر پانی اندر آجاتا اور جب وہ لوگ نماز پڑھتے تو کیچڑ میں سجدے کرتے- ان کے لباس کی یہ حالت تھی کہ کسی کے پاس اگر کرتہ ہے تو پاجامہ نہیں اور اگر پاجامہ ہے تو کرتہ نہیں- سامان جنگ سے بھی بالکل تہی دست ہیں- ایسی حالت میں ایک باوقار انسان کی وہ بھی ان ہی جیسا لباس پہنے ہوئے ہے` ان میں بیٹھا ہے اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے- سننے والے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ گویا وہ کوئی ایسی بات سن رہے ہیں جو مستقبل قربیب سے تعلق رکھتی ہے- وہ بات جب میں سنتا ہوں تو وہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو فتح کرنے کا ذکر ہے- جب میں یہ نقشہ دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے- اس وقت ان کو پاگل سمجھا جاتا مگر وہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں پر قابض ہو گئے- اور جو باتیں وہ نہایت کمزوری اور بے سرو سامانی کی حالت میں کرتے تھے وہ پوری ہو گئیں-
وہی وعدے خدا تعالیٰ نے اب پھر دوہرائے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلم ھم الکتاب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضل مبین واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم )الجمعہ:۳`۴(
وہی خدا جس نے رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں وعدے کئے- اسی نے اس زمانہ میں پھر وعدے کئے ہیں اور ان وعدوں میں یلحقوابھکم کو بھی شامل کر لیا ہے- ہم وہاں اسی یقین اور وثوق سے جمع ہوتے ہیں اور اسی یقین سے جمع ہونا چاہئے آپ لوگوں میں سے کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ یہاں آنا معمولی بات ہے- اور یہ مجلس دنیا کی مجالس کی طرح معمولی مجلس نہیں ہے- کیونکہ یہ خیال کرنے والا شخص خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان نہیں رکھتا اور وہ مومن نہیں ہو سکتا جو یہ یقین نہ رکھے کہ ہم یہاں نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کے لئے جمع ہوتے ہیں- یاد رکھو- تم وہ بیج ہو جس سے ایسا عظیم الشان درخت اگنے والا ہے- جس کے سایہ میں تمام دنیا آرام پائے گی- تمہارے قلوب وہ زمین ہے جس سے خدا تعالیٰ کی معفرت کا پودا پھوٹنے والا ہے- اگر دنیا یہ بات نہیں دیکھ سکتی تو وہ اندھی ہے- اور اگر خدا کے وعدوں کو نہیں سنتی تو بہری ہے- مگر تم نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کو سنا اور ان کو پورے ہوتے دیکھا- تم میں سے ہر فرد جس نے خدا کے مسیح کے ہاتھ پر بیعت کی- خواہ براہ راست کی` خواہ خلفاء کے ذریعہ` وہ آدم ہے جس سے آئندہ نئی نسلیں چلیں گی- تم خدا کی وہ خاص زمین ہو جس پر اس کی رحمت کی بارش برسے گی- تمہیں خدا تعالیٰ وہ درخت بنائے گا جس کے ساتھ ہر سعید بیٹھے گا اور جو تم کو چھوڑے گا وہ نہ دنیا میں آرام پائے گا نہ آخرت میں-
پس تمہارا کام معمولی کام نہیں- تم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھ کر اور دعا کر کے شروع کرو- اس چھوٹے سے اجتماع کو اس اجتماع کو جسے بارش کی چند بوندوں کے سامنے سر چھپانے کی جگہ نہیں- )جس وقت حضور یہ فرما رہے تھے- اس وقت مطلع اس طرح ابر آلود تھا کہ بارش برسنے کو تھی- لیکن جلسہ گاہ کھلے میدان میں بالکل غیر مسقف تھی( خدا تعالیٰ نے دنیا کی نجات کا موجب بنایا ہے- نادان ہنستے ہیں کہ ہم نے حج کی نقل لگائی ہے- مگر خدا جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے` گراتا ہے- عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے- دنیا کی ہنسی ہمیں بے دل نہیں کر سکتی- اور دنیا کا تمسخر ہماری ہمتوں کو پست نہیں کر سکتا- اللہ تعالیٰ نے ہمیں چنا ہے اور جب تک ہم اپنے آپ کو اس کے فضل کے مستحق رکھیں گے اس کا فضل ہم پر نازل ہوتا رہے گا- اسی کے فضل سے وہ بنیاد جو اس وقت بہت کمزور نظر آتی ہے- اس پر عظیم الشان عمارت تعمیر ہوگی- ایسی عظیم الشان کو ساری دنیا اس کے اندر آ جائے گی اور جو لوگ باہر رہیں گے ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی- جیسا کہ خدا تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی حیثیت چوہڑے چماروں کی سی ہوگی-
پس آئو ہم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کئے اور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کا جلوہ ہمارے سامنے رہے- خدا تعالیٰ ہر موقع پر ہماری مدد کرے وہ جس کے پیٹھ پر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے- اور جس کے آگے خدا کی تلوار ہوتی ہے وہ کاٹا جاتا ہے- پس آئو ہم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہاتھ ہماری پیٹھ پر ہو- وہ اپنی رحمتیں جلد ہم پر نازل کرے- اور ہماری کمزوریاں دور کر کے ہمارے دلوں کو ایسا مضبوط بنا دے جیسے پہاڑ ہوتے ہیں تا کہ دنیا کی تمام شرارتیں ہمارے ایمانوں کو ہلا نہ سکیں- پھر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس رنگ میں ہم پر نازل ہوں کہ وہ ان کمزوریوں کو دور کر دیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں اور ان کو بھی دور کر دے جو ہمارے دشمنوں کو نظر آتی ہیں- پھر ان کو بھی دور کر دے جو ہمیں بھی نظر آتی ہیں- خدا کا نور ہمارے آگے` پیچھے` ہمارے دائیں` ہمارے اوپر نیچے ہو- اس کے نور سے ہمارے اجسام روشن ہو ہم اس کے چاند بن جائیں جن سے دعا میں روشنی ہو- ہم اس کے ستارے بن جائیں جن سے دنا کو ہدایت اور رہنمائی ملے- اے خدا تو ایسا ہی کر-
اس کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کی- )الفضل یکم جنوری ۱۹۳۳ء(
‏po] gat[اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
امیر اہل حدیث کے چیلنج مباہلہ کا جواب
سید محمد شریف صاحب ساکن گھریالہ ضلع لاہور نے جو اپنے آپ کو امیر جماعت اہل حدیث لکھتے ہیں` ایک چیلنج مباہلہ کا شائع کیا ہے جسے انجمن اہل حدیث بٹالہ اور ناظم جماعت مرکزیہ امرتسر نے میرے نام بھی ارسال کیا ہے- اس چیلنج کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وفات مسیح پر اور بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی پر کافی مباحثات ہو چکے ہیں` اس لئے بموجب حکم قرآن اب جماعت احمدیہ کے امام کو ان سے مباہلہ کرنا چاہئے- مقام مباہلہ امرت سر کی عیدگاہ اور تاریخ مباہلہ ۱۲ جولائی انہوں نے قرار دی ہے- نتیجہ کی معیاد ایک سال تجویز کی ہے- اور شرط کی ہے کہ نتیجہ مباہلہ خرق عادت اور انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہونا چاہئے-
قطع نظر اس کے کہ مجھے اس اشتہار کی بعض باتوں سے اختلاف ہے میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس اشتہار کا لہجہ ان تمام اشتہارات سے اعلیٰ ہے- جو اس وقت تک جماعت احمدیہ کو دعوت مباہلہ دینے والوں کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس اشتہار کی عبارت کو دائمی مباہلہ کے دل کا آئینہ قرار دیا جائے تو مجھے امید کرنی چاہئے کہ آخر ایک مباہلہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مطابق احکام قرآنی قرار پا سکے گا-
میں سید محمد شریف صاحب سے اس امر میں متفق ہوں کہ امور مہمہ دینیہ میں مباہلہ جائز ہے- اور یہ کہ معیاد مباہلہ ایک سال ہونی چاہئے اور یہ بھی کہ دونوں مباہلہ کرنے والے فریقوں میں سے تبھی کسی فریق کو جیتا ہوا قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ نتیجہ مباہلہ اس کے مخالف کے حق میں حارق عادت طور پر ظاہر ہو- اور اشتباہ کو دور کرنے کے لئے میں اس شرط کو بالا ہو- لیکن مجھے ان کی دوباتوں سے اختلاف ہے- ایک تو یہ کہ انہوں نے خود ہی تاریخ مقرر کر دی ہے- اور دوسرے یہ کہ مقام مباہلہ بھی خود ہی مقرر کر دیا ہے- حالانکہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے فریق کے لئے یہ تاریخ مناسب نہ ہو- اور یہ مقام کسی وجہ سے موزوں نہ خیال کیا جائے- پس ان دو باتوں کے متعلق میں چاہتا ہوں کہ وہ دو آدمی اپنی طرف سے مقرر کر دیں اور دو آدمی میری طرف سے ہو جائیں- وہ چاروں مل کر تین اور مسلمہ فریقین آدمیوں کی موجودگی میں مقام مباہلہ اور تاریخ مباہلہ مقرر کریں تا کہ کسی فریق کو بلاوجہ تکلیف نہ ہو- تین آدمیوں کی موجودگی کی شرط میں نے اس لئے لگائی ہے تا کہ اگر کسی امر میں اختلاف ہو تو وہ گواہی دے سکیں-
اس علاوہ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم سے مباہلہ کے متعلق دو امور خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں- ایک تو یہ کہ مباہلہ سے پہلے حجت کا پورا ہونا ضروری ہے- اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ مباہلہ سے پہلے فریقین ایک دوسرے کے سامنے اپنے دعویٰ کے دلائل بیان کریں اور دوسرے کی غلطی کو ثابت کریں تا کہ ہر فریق یہ کہہ سکے کہ اس نے حجت پوری کرنے کے بعد مباہلہ کیا ہے اور حکم قرآنی پورا ہوا- رسول کریم ~صل۲~ نے بھی حجت اس کا نام نہیں رکھا تھا کہ پندرہ سولہ سال سے قرآن کریم شائع ہو رہا ہے- اور مباحثات ہو رہے ہیں- بلکہ مباہلہ سے پہلے مباہلہ کے مخاطبین سے گفتگو فرمائی تھی- پس ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے والے فریق مباہلہ سے چار گھنٹے پہلے مقرر کردہ مقام پر جمع ہو جائیں اور دو گھنٹہ میں تقریر کروں اور دو گھنٹہ سید محمد شریف صاحب تقریر کریں- اس کے بعد اگر فریقین مباہلہ پر مصر ہوں- تو مباہلہ کریں- ورنہ نہیں یہ شرط نہیں کہ ضرور ہر فریق دو گھنٹے بولے- اگر کوئی فریق اس سے کم بولنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے- اس سے زائد وقت کوئی فریق نہ لے-
دوسری زیادتی میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ اس مباہلہ میں صرف میں اور سید محمد شریف صاحب نہ ہوں بلکہ دونوں کے مبایعین میں سے ہزار ہزار آدمی اور شامل ہوں- جن کی فہرست اور ان کے پتے ہر فریق دوسرے کو پہلے سے مہیا کر دے- اگر اس تعداد کو سید محمد شریف صاحب زیادہ سمجھیں- تو اس میں کسی قدر کمی کی جا سکتی ہے- مثلاً کم سے کم پانچ سو آدمی کی شرط کی جا سکتی ہے- گو بوجہ اس کے کہ اہل حدیث کی تعداد ہم سے بہت ہی زیادہ ہے` ایک ہزار آدمی کا اپنے ساتھ لانا ان کے لئے مشکل نہیں- لیکن میں خواہ مخواہ روک بھی ڈالنا نہیں چاہتا- اگر وہ چاہیں تو اقل تعداد جس کا لانا ضروری ہو مقرر کی جا سکتی ہے- مباہلہ حسب ان کی تحریر کے وفات مسیح ناصری اور بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ مسیحیت کے متعلق ہوگا اور نتیجہ مباہلہ وہی ہوگا جو منطوق قرآنی سے ظاہر ہے-
باقی داخلہ وغیرہ کی شرائط اور مباہلہ کے وقت کی دعا اور اس کا طریق اور اس کا وقت اور اس طرح دیگر ضروری تفصیلات کا مذکورہ بالا نمائندے آپس میں فیصلہ کر سکتے ہیں- امید ہے کہ سید محمد شریف صاحب کو میری اوپر کی تجاویز پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور وہ جلد سے جلد اپنے دو نمائندے مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں گے- میری طرف سے مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نمائندے ہوں گے-
والسلام
خاکسار
میرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی قادیان
۶ جولائی ۱۹۳۱ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہلحدیث
کے
اشتہار مباہلہ کا جواب
میرے اس اشتہار کے جواب میں جو سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہلحدیث کے چیلنج مباہلہ کے متعلق پچھلے دنوں میں نے شائع کیا تھا- سید صاحب موصوف کی طرف سے ایک دوسرا اشتہار شائع ہوا ہے- اس اشتہار میں انہوں نے اول تو یہ سوال اٹھایا ہے کہ مباہلہ سے پہلے کسی تقریر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر دو فریق ایک دوسرے پر کافی حد تک اتمام حجت کر چکے ہیں پس بغیر تقریروں کے مباہلہ کے میدان میں آ جانا چاہئے-
مجھے سید صاحب موصوف کے اس بیان پر تعجب ہے- ہم لوگ اس بات کو نہیں بھول سکتے کہ نجران کے مسیحیوں کو مباہلہ کا چیلنج حضرت رسول ~صل۲~ نے اپنی مبارک زندگی کے آخری ایام میں آیا تھا- اس سے پہلے بیس سال سے زائد عرصہ تک قرآن کریم آپ پر نازل ہوتا اور شائع ہوتا رہا- خود علاقہ یمن میں جس سے یہ مسیحی لوگ آئے تھے اسلام کی اشاعت کافی طور پر ہو چکی ہوئی تھی- پس باوجود ایک لمبا عرصہ عقلی و نقلی دلائل پیش کرنے کے اور باوجود زبردست نشانات کے متواتر ظاہر ہونے کے پھر بھی آنحضرت ~صل۲~ نے نجران کے عیسائیوں کو فوراً ہی مباہلہ کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ بڑی لمبی بحث کے بعد انہیں مباہلہ کے لئے بلایا تھا- حتی کہ اس شدت بحث کی وجہ سے بقول عبداللہ بن الحراث بن جزء الزبیدی آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایالیت بینی وبین اھل نجران حجابا کاش میرے اور اہل نجران کے درمیان ایک پردہ ہوتا- یعنی انہوں نے بحث کو اس کی حدود سے بھی آگے گزار دیا تھا اور کج بخشی پر اتر آئے تھے- کیا بیس سالہ نزول و اشاعت قرآن کریم کے بعد کافی نہ تھا کہ آپ اس بحث میں نہ پڑتے اور فوراً مباہلہ کا چیلنج دے دیتے؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آخری وقت تک اسے موقع دیا جائے کہ وہ دلائل رحمت کو مان لے اور دلائل عقلیہ کا طالب نہ ہو- پس یہ مسنون طریق کسی صورت سے چھوڑا نہیں جا سکتا- اگر سید محمد شریف صاحب اپنی طرف سے حجت کو تمام شدہ سمجھتے ہیں- تو میری طرف سے ان کو اجازت ہے کہ وہ تقریر نہ کریں- میں اپنے عقیدے کی رو سے مجبور ہوں کہ مباہلہ سے پہلے اپنے عقائد اور دلائل بیان کر دوں تا کہ اس وقت بھی اگر کوئی شخص مباہلہ سے ہٹنا چاہے تو ہٹ جائے اور مباہلہ سے بچ جائے-
دوسری بات انہوں نے یہ لکھی ہے کہ میں ایک ہزار آدمی سے بھی زیادہ مباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لا سکتا ہوں- لیکن چونکہ آیت قرآنیہفقل تعالوا نذع ابناء نا وابناء کم و نساء کم و نساء کم وانفسنا و انفسکم )آل عمران:۶۲( ثابت ہے کہ دوسرے لوگ ساتھ نہ تھے` اس لئے میں قرآنی مباہلہ تبدیل نہیں کر سکتا- سید صاحب موصوف یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ کسی صاحب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ باوجود ایک لاکھ صحابہ کی موجودگی کے حضرت رسول کریم ~صل۲~ نے جو ایک صحابی کو بھی ساتھ نہیں لیا تھا- مجھے تعجب ہے کہ باوجود آیت قرآنیہ کے نقل کر دینے کے پھر بھی سید صاحب موصوف کا خیال ہے کہ مباہلہ میں حضرت رسول کریم ~صل۲~ کے ساتھ اور کوئی شخص نہ تھا- سید صاحب نے اپنے پہلے اشتہار میں اس آیت کا ترجمہ خود ہی یوں کیا ہے-:
>ہم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو بلائو<
میں پوچھتا ہوں کہ >ہم< اور >تم< کون ہیں- جن کی ایک ایک سے زیادہ جانیں ہیں؟ بیٹوں` بیٹیوں اور بیویوں کا ذکر تو پہلے آ چکا تھا- اب یہ انفسنا وانفسکم سے مراد کون لوگ ہیں؟ جب وہ خود اپنے ترجمہ میں اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے مباہلہ کرتی ہے تو اب وہ کس طرح اس بات کا انکار کر سکتے ہیں؟ ہر شخص جو عربی زبان سے ذرہ بھی مس رکھتا ہے- چنانچہ علامہ ابوحیان اپنی تفسیر >بحر محیط< میں تحریر فرماتے ہیں-قال قوم المباھلہ کانت علیہ وعلی المسلمین بدلیل ظاہر قولہ ندع ابناء نا وایناء کم پس عربی زبان کے محاورے کے مطابق آیت مباہلہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک جماعت کا مباہلہ دوسری جماعت سے ہو-
آپ یہ نہیں فرما سکتے کہ جمع کے الفاظ بیٹوں اور بیٹیوں کی شمولیت کی وجہ سے ہیں- یا یہ کہ دوسرے فریق کی شمولیت کی بناء پر نہیں کیونکہانفسنا و انفسکم سے پہلے بیٹے بیٹیوں کا ذکر ہو چکا ہے- اس لئے وہ ان الفاظ میں شامل نہیں- اور دوسرا فریق بھی ]kns [tag انفسنا شامل نہیں ہو سکتا- کیونکہ اس کا ذکر انفسکم میں علیحدہ کیا گیا ہے-
سید صاحب موصوف کو یاد رکھنا چاہئے کہ تمام احادیث اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت رسول کریم نے جس کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا` وہ کوئی ایک شخص نہ تھا بلکہ وہ ایک جماعت تھی مختلف حدیثوں اور تاریخوں سے ان لوگوں کی تعداد ساٹھ سے ستر تک ثابت ہوتی ہے- اور جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے` ایک حدیث بھی ایسی نہیں جس میں صرف کسی ایک شخص کو مباہلہ کے لئے بلانے کا ذکر ہو بلکہ تمام احادیث میں جماعت کو ہی بلانے کا ذکر ہے-
اب رہا یہ سوال کہ حضرت رسول کریم ~صل۲~ اکیلے ہی مباہلہ کے لئے نکلے تھے- سو اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جس طرح رسول تمام امت کی طرف سے کھڑا ہو سکتا ہے اسی طرح کوئی اور شخص کھڑا ہونے کا حق دار نہیں- لیکن احادیث اور تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ آنحضرت ~صل۲~ اکیلے مباہلہ کے لئے نکلے تھے-
آپ فرماتے ہیں کہ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ 2] f[rt کے ساتھ ایک صحابی بھی نہیں نکلا تھا` حالانکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت علیؓ بھی آپ کے ساتھ تھے- اور ابن عساکر کی ایک روایت ہیجاء بابی بکر و ولدہ و بعمر و ولد و بعثمان و ولدہ وبعلی و ولدہ یعنی حضرت رسول کریم ~صل۲~ ` حضرت ابوبکر صدیق اور ان کی اولاد- حضرت عمر اور ان کی اولاد- حضرت عثمان اور ان کی اولاد اور حضرت علی اور ان کی اولاد کو اپنے ساتھ لے کر نکلے تھے- لیکن اسی پر بس نہیں` علامہ ابو حیان ایک جماعت مسلمین کا قول تحریر فرماتے ہیں کہ لو عزم نصاری نجران علی المباھلہ رجاء والھا لامرا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم المسلمین ان یخرجوا الیھم للمباھلہ یعنی اگر نجران کے عیسائی مباہلہ کے لئے آمادہ ہو جاتے تو آنحضرت ~صل۲~ باقی مسلمانوں کو بھی حکم فرماتے کہ وہ اپنے اپنے اہل و عیال سمیت آپ کے ساتھ مباہلہ میں شامل ہوں- پس مسنون مباہلہ یہی ہے کہ جماعت کے ساتھ مباہلہ کرے-
تیسری بات سید صاحب موصوف نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا کہ اگر نصاریٰ میرے مقابل پر آ جاتے تو ان پر آگ برستی- اگر سید صاحب کی مراد یہ ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی پر آگ نہ برسے تو مباہلہ کو باطل سمجھا جائے؟ تو میں اس سے متفق نہیں- میں کسی عیسائی یا ہندو کو ان سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار کر دیتا ہوں- اگر اس پر آسمان سے آگ برسے یا وہ سور یا بندر ہو جائے جیسا کہ بعض دوسری احادیث میں آتا ہے تو پھر ان کا حق ہو گا کہ وہ مباہلہ کے اثر کو ان باتوں تک محدود رکھیں- ورنہ خدا تعالیٰ نے صرف لغت کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور یہی لفظ میاں بیوی کے کے لئے بھی استعمال ہوا ہے- لیکن ان میں سے کسی ایک مقام پر بھی خدا تعالیٰ کی سنت کو کسی خاص عذاب میں محودو اور محصور نہیں کیا گیا- پھر اس جگہ کیوں ایسا کیا جائے؟ میاں بیوی میں ملاعنہ امت محمدیہ میں سینکڑوں دفعہ ہو چکا ہے- اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا ہے- مگر نہ کبھی آگ برسی اور نہ کبھی کوئی بندر یا سور بنا- جب اللہ تعالیٰ ایک عام لفظ استعمال کرتا ہے تو کسی بندہ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے معنی کو محدود کر دے-
چوتھی بات سید صاحب موصوف نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ ان کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب روپڑوی اور مولوی اسد اللہ یوسف صاحب دینانگری مبادیات کے طے کرنے کے لئے مقرر ہونگے- میں سمجھتا ہوں کہ اتمام حجت اور مباہلہ میں ایک جماعت کا شامل ہونا قرآن کریم سے یقینی طور پر ثابت ہے اور احادیث اس کو موید ہیں اور ایک حدیث بھی اس کے مخالف نہیں- پس ان دونوں شرطوں کا پہلے طے ہو جانا ضروری ہے- اگر وہ ان دونوں شرطوں کو تسلیم کر لیں تو میرے نائب امیر جماعت احمدیہ امرت سر کے مکان پر ان کی تحریر کے بموجب آ جائیں گے اور جیسا کہ سید صاحب موصوف نے تحریر فرمایا ہے ان کی گفتگو تحریر میں آتی رہے گی تا کہ بعد میں اختلاف پیدا نہ ہو-
سید صاحب موصوف نے آخر میں اپیل کی ہے کہ غیر ضروری باتوں میں وقت ضائع نہ کیا جائے- میں بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی اس تحریر کے مطابق میرے اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں- جب اتمام حجت کے وہ بھی قائل ہیں- تو کیا وجہ ہے کہ مباہلہ سے پہلے اتمام حجت کا موقع دینا وہ پسند نہیں فرماتے؟ اور جب کہ آیت قرآنیہ اور تمام احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے ایک جماعت کو ہی مباہلہ کے لئے پیش کیا تھا اور کوئی حدیث اس کے مخالف نہیں- اور ان میں طاقت بھی ہے کہ وہ ایک جماعت کو مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لا سکیں` تو باوجود کسی روک کے موجود نہ ہونے کے وہ کیوں احکام قرآنیہ اور دلائل حدیثیہ کے مطابق اور دونوں فریق کے نمائندہ جماعتوں کے درمیان مباہلہ کئے جانے پر رضامند نہیں ہوتے- میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مباہلہ مسنونہ کے لئے تیار ہونے کی مجھے اطلاع دیں گے تا کہ میرے نمائندے ان کے نمائندوں سے مل کر بقیہ امور کا تصفیہ کر لیں- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العالمین
خاکسار
میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی و امام جماعت احمدیہ قادیان
)۱۲ جولائی ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سید محمد شریف صاحب کے اشتہار مباہلہ نمبر۳ کا جواب
میں نے جب اشتہار مباہلہ نمبر۲ شائع کیا تھا تو میرا خیال تھا کہ میں نے اپنے نقطہ نگاہ کو اس قدر واضح کر دیا ہے کہ اب غالباً سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہل حدیث صوبہ پنجاب کو میری پیش کردہ تجویز کے مطابق مباہلہ کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا- لیکن افسوس کہ میرا خیال غلط نکلا اور سید صاحب موصوف کی طرف سے ایک تیسرا اشتہار نکلا جس میں ایسے رنگ میں بحث کی گئی ہے جو ان کے پہلے اشتہاروں کے خلاف ہے- مگر مجھے سید صاحب پر حسن ظنی ہے اور میں اب بھی خیال کرتا ہوں کہ وہ ضرور غیر ضروری بحث کو چھوڑ کر مباہلہ کے انعقاد کے لئے راستہ کھول دیں گے-
تاخیر جواب کی وجہ
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد ان کے اشتہار کا جواب لکھ رہا ہوں- لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع میں میں بہت بیمار رہا اور بعد میں کشمیر کے متعلق بعض ایسے ضروری کاموں میں مشغول رہا کہ میں ڈرتا تھا کہ شاید فوراً مباہلہ کے لئے وقت نہ نکال سکوں- اور اس سے غلط فہمی پیدا ہو کہ میں گویا مباہلہ سے گریز کرتا ہوں- لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے ان کاموں سے ایک حد تک فراغت ہو گئی ہے اس لئے اب جواب شائع کر رہا ہوں-
دو اہم سوال
سید صاحب نے اس امر کو منظور کر لیا ہے کہ ان کے اور میرے نمائندہ مل کر تاریخ اور مقام مباہلہ کا فیصلہ کر لیں- سو اس کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- اب دو سوال رہ جاتے ہیں اور وہ سوال میرے نزدیک نہایت اہم ہیں- اول مباہلہ سے پہلے فریقین کا اپنے مقصدات اور ان کے دلائل کو بیان کرنا- اور دوسرے ہر ایک فریق کے ساتھ جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا-
میں نے گزشتہ اشتہار میں ثابت کیا تھا کہ یہ دونوں باتیں قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہیں اور مباہلہ کے نتائج کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ان کا ہونا نہایت ضروری ہے- سید صاحب نے ان دونوں باتوں سے اپنے تازہ اشتہار میں بھی انکار کیا ہے بلکہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ یہ دونوں امر غیر ضروری ہی نہیں خلاف سنت ہیں-
نقطہ نگاہ میں فرق
میں سمجھتا ہوں کہ میرے اور ان کے نقطہ نگاہ میں فرق ہونے کی وجہ سے یہ سب طوالت پیدا ہو رہی ہے اور سید صاحب دانستہ ایسا نہیں کر رہے- میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ قرآن کریم محفوظ اور اصل جڑ کے طور پر ہے اور احادیث خواہ انسانوں نے اپنی پوری کوشش سے ان کی تصحیح کی ہو` قرآن کریم پر حاکم نہیں ہیں- بلکہ اگر الفاظ قرآنیہ کے خلاف ہوں گو ظاہراً انہیں کس قدر بھی صحت کا مقام حاصل ہو قرآن کریم کو مقدم کرنا پڑے گا اور احادیث کو اس کے تابع کرنا ہوگا- سید صاحب کا نقطہ نگاہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے الفاظ سے خواہ کچھ نکلتا ہو اگر حدیث میں ایک مضمون آ گیا ہو تو قرآن کریم کے الفاظ کی تفسیر حدیث کے مطابق کرنی ہوگی- میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ کونسا نقطہ نگاہ صحیح ہے- کیونکہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو جائے گی اور ہم اصل مضمون سے دور جا پڑیں گے-
درمیانی راہ
پس میں ایک درمیانی راہ پیش کرتا ہوں جو یہ ہے کہ خواہ حدیث کو تفسیر میں مقدم درجہ دیا جائے تو بھی اس امر کے تسلیم کرنے میں تو کسی کو کوئی عذر ہوگا کہ حدیث ان الفاظ قرآنی کے مخالف نہ ہو- اور الفاظ قرآنی سے لغت عرب کے قواعد کے مطابق حدیث کے بیان کردہ مضمون سے بعض زائد باتیں نکلتی ہوں تو ان زائد باتوں کو تسلیم کرنا حدیث کے خلاف عمل کرنا نہیں کہلائے گا-
مباہلہ سے قبل فریقین کا اپنے اپنے دلائل بیان کرنا
اس اصل کے ماتحت سید صاحب اگر غور کریں گے تو دونوں سوال حل ہو جائیں گے- مثلاً پہلا سوال یہ ہے کہ مباہلہ سے پہلے دونوں فریق اپنے دلائل بیان کریں اور دلائل سننے کے بعد اگر دونوں فریق مباہلہ کرنا چاہتے ہوں تو مباہلہ ہو- سید صاحب کے نزدیک حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وفد نجران کے مدینہ پہنچنے کے بعد آیت مباہلہ نازل ہوئی ہے اور اس کے بعد کوئی بحث رسول کریم ~صل۲~ نے نہیں کی- بلکہ وفد نجران کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا- میں بحث کی خاطر تسلیم کر لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہوا- مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا بھی ہوا ہو تب بھی قبل مباہلہ بحث کی نفی ثابت ¶نہیں ہوتی- کیونکہ اصل غرض حکم الہی کی یہ ہے کہ مباہلہ کے معاً پہلے فریقین ایک دوسرے کے دلائل سن چکے ہوں تا کہ آخری وقت ایک دوسرے پر اتمام حجت ہو جائے- اب یہ تو سید صاحب کو تسلیم ہے کہ مباہلہ کے چیلنج سے معاً پہلے مباہلہ کے فریقین میں پوری طرح تبادلہ خیالات ہو چکا تھا- پس اصل غرض پوری ہو گئی- لیکن مجوزہ مباہلہ سے پہلے کوئی ایسی گفتگو چونکہ فریقین میں نہ ہو چکی ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ اس کی صورت بھی نکالی جائے جس کے لئے میں زور دے رہا ہوں-
سید صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے کافی مباحثات ہو چکے ہیں بلکہ مباہلہ سے پہلے بٹالہ میں بھی مباحثہ ہو چکا تھا لیکن یہ جواب درست نہیں اس لئے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے وہ دوسرے لوگوں کے درمیان ہوا ہے نہ کہ مباہلہ کے رئوساء کے درمیان- مجھے اور سید صاحب کو ایک دوسرے کے سامنے تبادلہ خیالات کا موقع اس طرح نہیں ملا جس طرح کہ رسول کریم ~صل۲~ اور وفد نجران کو ملا تھا- پس ضروری ہے کہ ہم دونوں بوجہ اصل مباہلین ہونے کے مباہلہ سے پہلے اپنے اپنے دلائل سے ایک دوسرے کو واقف اور آگاہ کر دیں تا کہ پوری طرح اتمام حجت ہو جائے-
آیت مباہلہ کے بعد تبادلہ خیالات کا ثبوت
میں نے اوپر جو کچھ لکھا ہے اس امر کو فرض کر کے لکھا ہے کہ سید صاحب کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ آیت مباہلہ کے بعد رسول کریم ~صل۲~ اور وفد نجران کے درمیان کوئی مباحثہ نہیں ہوا- مگر حق یہ ہے کہ آیت مباہلہ کے بعد تبادلہ خیالات کا ہونا تاریخ و حدیث سے ثابت ہے- چنانچہ ابن جویرؓ بن اسحقؓ اور ابن منذرؓ کی روایت محمد بن جعفر بن الزبیرؓ سے تفسیر در منثور میں درج ہے کہ وفد نجران جب رسول کریم ~صل۲~ کے پاس آیا تو انہیں رسول کریم ~صل۲~ نے اسلام کی دعوت دی- انہوں نے جواب دیا کہ ہم پہلے سے اسلام لا چکے ہیں- یعنی مسیح کو مان چکے ہیں- اس پر آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا کہ تم جھوٹے ہو- تمہیں اسلام لانے سے ابنیت کا عقدہ اور عبادت صلیب اور خنزیر کے گوشت کا کھانا روک رہا ہے- اس کے جواب میں مسیحوں نے کہا کہ آپ یہ فرمائیے کہ مسیح کا باپ کون تھا- آپ یہ سنکر خاموش ہو گئے- اور سورہ آل عمرن کی ۸۰ سے کچھ اوپر آیتیں نازل ہوئیں-
اس مضمون کی روایت ابن اسحقؓ نے محمدؓ بن سہلؓ ابن ابی امامہؓ سے بھی نقل کی ہے- اور بیہقی نے دلائل میں بھی اسی قسم کی روایت نقل کی ہے- )اس مضمون کی اور بھی کئی روایات ہیں(
اب سید صاحب قرآن کریم کو نکال کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ آیت مباہلہ اکسٹھویں آیت ہے- جس سے معلوم ہوا کہ آیت مباہلہ وفد نجران کی آمد سے پہلے دن ہی اور بحث ہونے سے پہلے ہی نازل ہو چکی تھی- چنانچہ جو دلائل بحث میں رسول کریم ~صل۲~ نے دیئے ہیں وہ وہی ہیں جو سورہ آل عمران کی ابتدائی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں- اور چونکہ دوسری روایات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وفد نجران نے دو دن مباحثہ کیا اور تیسرے دن مباہلہ کے لئے رسول کریم ~صل۲~ تشریف لائے- پس معلوم ہوا کہ اکثر حصہ بحث کا آیت مباہلہ کے نزول کے بعد اور اس کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے تھا- لیکن جب نصاریٰ نے حق کو تسلیم نہ کیا تو انہیں مباہلہ کا چیلنج دیا گیا-
اس امر کی مزید تائید کہ آیت کے نزول کے بعد بھی مباحثہ ہوتا رہا` اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن جریرؓ نے ابن عباسؓ سے اور ابن جریرؓ اور عبدؓ بن حمید نے قتادہؓ سے اور ابن جریرؓ نے سعدیؓ سے روایت کی ہے کہ وفد نجران نے جب رسول کریم ~صل۲~ سے حضرت مسیحؑ کے باپ کے متعلق سوال کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی-ان مثل عیسی عنداللہ کمثل ادم )درمثور( اور اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے نصاریٰ کے سوالات کے جواب دیئے-
اب چونکہ ان روایات سے جو میں پہلے نقل کر چکا ہوں- یہ ثابت ہے کہ یہ آیت اور آیت مباہلہ کے نزول کے بعد کم سے کم مسیح ابن اللہ ہونے کے متعلق ضرور مباحثہ ہوا ہے- اور یہی اصل مابہ النزاع نصاریٰ اور مسلمانوں میں ہے-
علاوہ ازیں جو تفاصیل نصاریٰ اور رسول کریم ~صل۲~ کے درمیان بحث کی احادیث میں آتی ہیں ان کا مضمون بھی سورہ آل عمران کی ابتدائی آیات کے بالکل مطابق ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مباحثہ کا بیشر حصہ ان آیات کے نزول کے بعد واقع ہوا ہے-
الغرض احادیث سے یہ ہر گز ثابت نہیں کہ آیت مباہلہ کے نزول کے بعد مباحثہ واقع نہیں ہوا- بلکہ جیسا کہ اوپر میں نے لکھا ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد مباحثہ ہوتا رہا- یہ آیات پہلے دن نازل ہوئیں اور مباہلہ کا چیلنج دوسرے دن شام کو دیا گیا ہے- اور اگر یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ ان آیات کے بعد مباحثہ نہیں ہوا تب بھی یہ امر یقیناً ثابت ہے کہ مباہلہ سے معاً پہلے وفد نجران سے مباحثہ ہوا- پس اس امر کو تسلیم کر کے بھی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مباہلہ سے پہلے مباحثہ ضروری ہے اور نیز یہ نتیجہ نکلے گا کہ چونکہ مباحثہ ہو رہا تھا` اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب کافی مباحثہ ہو چکا ہے` اب مباہلہ کرو- اور آئندہ کے لئے یہی حکم سمجھنا پڑے گا کہ جس وقت دو فریق میں مباحثہ کے باوجود فیصلہ نہ ہو سکے تو اس کے معاً بعد مباہلہ ہونا چاہئے-
بانی سلسلہ احمدیہ کا مولوی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ
سید صاحب نے لکھا ہے کہ اگر مباہلہ سے پہلے مباحثہ ضروری ہے تو بانی سلسلہ احمدیہ )علیہ الصلوۃ والسلام( نے کیوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی سے مباہلہ سے پہلے مباحثہ نہ کیا- سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بارہ میں جو میرا عقیدہ ہے وہی بانی سلسلہ احمدیہ کا تھا- چنانچہ آپ >ازالہ اوہام< میں مولوی عبدالحق صاحب کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں-:
>مباہلہ میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اول ازالہ شبہات کیا جائے- بجز اس صورت کے کاذب قرار دینے میں کوئی تامل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہو- لیکن میاں عبدالحق بحث مباحثہ کا تو نام تک بھی نہیں لیتے<- )ازالہ اوہام صفحہ ۶۳۹(
شبہ اور تامل کے ازالہ کی تعریف بھی آپ نے خود ہی کر دی ہے اور وہ یہ کہ جب الہام الہی سے کسی سوال کی حقیقت معلوم ہو جائے- چنانچہ اشتہار مباہلہ بمقابل مولوی عبدالحق صاحب مورخہ ۱۲ اپریل ۱۸۹۱ء میں آپ نے اس امر کو بیان فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے الہام سے آنحضرت صلعم کو مسیح علیہ السلام کی حقیقت سے آگاہ کر دیا تب مباہلہ کا چیلنج دیا-
اب رہا یہ سوال کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیوں مولوی عبدالحق صاحب سے بغیر مباحثہ کے مباہلہ کیا- تو اس کا جواب میں اگلے سوال کے ساتھ ملا کر اکٹھا دوں گا-
مباہلہ میں جماعت کی شمولیت
میری تیسری شرط کہ مباہلہ میں دونوں طرف سے جماعتیں ہونی چاہئیں- اس کے متعلق ایک تو سید صاحب یہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ ضروری ہے تو کیوں بانی سلسلہ احمدیہ نے مولوی عبدالحق صاحب سے اکیلے مباہلہ کیا اور دوسرے یہ کہ مباہلہ میں فریقین کے ساتھ جماعت کی شمولیت احادیث سے ثابت نہیں-
پہلے امر کا جواب یہ ہے کہ مباہلہ میں دونوں طرف سے جماعت ہونے کے متعلق بھی بانی سلسلہ احمدیہ کا وہی عقیدہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے- مولوی عبدالحق صاحب کو ہی مخاطب فرما کر آپ اپنے اشتہار مورخہ ۱۳ اپریل ۱۸۹۱ء میں فرماتے ہیں-:
>نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں- اگر جماعت سے کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اول مستحق ہمارے نبی ~صل۲~ تھے- یہ کیا انصاف کی بات ہے جو ہمارے نبی ~صل۲~ کے لئے جماعت کے محتاج ٹھیرائے جائیں اور میاں عبدالحق اکیلے کافی ہوں<-
پھر فرماتے ہیں-:
>اب ناظرین یہ یاد رکھیں کہ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائے جائیں تو عندالشرح مباہلہ ہر گز درست نہیں<-
مولوی عبدالحق صاحب سے مسنون مباہلہ نہیں کیا گیا
اب رہا یہ سوال کہ اس عقیدہ کے باوجود آپ نے مولوی عبدالحق صاحب سے اکیلے مباہلہ کیوں کیا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے ایسا ہر گز نہیں کیا- چنانچہ آپ کے آخری اشتہار میں لکھا ہے-:
>اے برادران اہل اسلام! کل دہم ذیقعدہ روز شنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبدالحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے` اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجال اور بے دین اور دشمن اللہ جلشانہ اور رسول اللہ ~صل۲~ کا سمجھتے ہیں<- )الخ(
اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت ایک جماعت علماء کی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ ہوگی- اب رہا یہ سوال کہ آپ نے جو مقابلہ مولوی عبدالحق صاحب سے کیا وہ کیا مباہلہ نہ تھا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مسنون مباہلہ نہ تھا بلکہ ایک دعا برنگ مباہلہ تھی- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو الفاظ اس دعا کے اس مقابلہ کے ہونے سے بھی پہلے شائع کئے تھے وہ یہ ہیں-:
>میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول ~صل۲~ کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں- اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں` تو خدا تعالیٰ وہ *** اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو<- )اشتہار ۹ ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق جولائی ۱۸۹۳ء(
اس دعا کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ آپ نے مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یا جو جھوٹا ہو` اس کے لئے بددعا کا اعلان نہیں کیا بلکہ صرف اپنے جھوٹا ہونے کی صورت میں اپنے لئے بددعا کرنے کا اعلان کیا تھا- یہ تو قبل از وقت کا اعلان تھا جو عملاً ہوا- اس کی حقیقت >حقیقہ الوحی< کے اس حوالہ سے ظاہر ہے- حضور فرماتے ہیں-:
>بہرحال مباہلہ میں جو اس نے چاہا کیا- مگر میری دعا کا مرجع میرا ہی نفس تھا اور میں جناب الہی میں بھی التجا کر رہا تھا کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جائو اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے<- )صفحہ۲۴۰(
‏a11.19,b
انوار العلوم جلد ۱۱

قادیان میں مکان بنانے کی تحریک
ترقی کے آثار کے ساتھ مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنا ضروری ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے لیکن پہلے بندہ کو کوشش کرنی چاہئے- قادیان ہمارا مرکز ہے اور اس پر دشمن کی نظر ہے- اس لئے قادیان کی ترقی کی کوشش کرنی چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں رہنے اور مکان بنانے پر بہت زور دیا ہے- پس میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا کہ قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو- اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ۱۲۰ رکھے گئے ہیں- ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے- چنانچہ ایک دوست نے دس حصے لئے ہیہ- اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر میہنے میں ایک دوست کو دے دیا جائے جو اس روپیہ سے مکان بنا لے- اس طرح ۱۲۰ حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے- یہ تحریک میں نے جولائی میں شائع کی تھی- اس کے ماتحت ۱۴۰ حصوں کی درخواستیں آ چکی ہیں اور چونکہ اس طرح مکان بنانے کے لئے ایک جگہ مخصوص کی گئی تھی کہ وہاں مکان بنائے جائیں اس لئے بعض شاکی ہیں کہ وہ اور جگہ زمین لے چکے ہیں` انہیں وہاں مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ وہ بھی شامل ہو سکے- اس پر غور کیا جا رہا ہے میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں- کوئی اور دوست بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہیں تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں نام بھیج دیں- جنوری سے انشاء اللہ یہ کام شروع ہو جائے گا- پہلے ڈیڑھ سال تک قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تا کہ اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے- اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہوگی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے کسی اور صورت پر خرچ نہ کیا جائے-
اقتصادی ترقی کی سکیم
ایک اور سکیم اقتصادی ترقی کے لئے بنائی گئی تھی- مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے تحریک کی تھی- ایک پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تجویز کی تھی کہ ہوزری فیکرٹری بنائی جائے جس کے لئے حصے فروخت کر کے سرمایہ جمع کیا جائے- اسے مجلس شوری نے پسند کیا تھا یہ اب بن گئی ہے اور رجسٹری کے لئے کاغذات گئے ہوئے ہیں- عنقریب اس کا کام شروع ہو جائے گا اس کے متعلق مجلس شوریٰ میں شامل ہونے والے دوستوں نے بشمولیت میرے یہ اقرار کیا تھا کہ جو چیزیں یہ فیکٹری بنائے گی اسی سے خریدیں گے- اس طرح اس کے گاہکوں کی تعداد مستقل پیدا ہو جائے گی- مگر شرط یہ ہو گی کہ مطلوبہ سائز کی اشیاء مہیا ہوں- یہ نہیں کہ چھوٹے سائز کی چیزیں ہوں یا چاہے جرابیں تین تین انچ لٹکتی رہیں گی تو بھی اس کی پہنیں گے- اس کا جب اعلان ہو تو میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ایک یا زیادہ حصے لے سکتے ہیں وہ ضرور لیں گے- اس کے حصہ کی شرح دس روپے فی حصہ ہے اور ایک شخص دس بیس سو حصے خرید سکتا ہے- اس سکیم کے متعلق مفصل اطلاع بیت المال سے حاصل کی جائے- اس سے بھی قادیان کی ترقی ہو سکتی ہے-
پس ماندگان کی امداد کی سکیم
تیسری بڑھتی ہوئی ضرورت امداد باہمی کی ہے- ہماری جماعت کے کئی ایک لوگ فوت ہو جاتے ہیں- جن کے لواحقین کے پاس کچھ نہیں ہوتا- اس کے متعلق میں نے قواعد بنائے تھے اور قانونی لحاظ سے وکلاء نے پاس کر دیئے تھے- مجلس شوریٰ میں اس کے متعلق ایک کمیٹی بنائی گئی تھی اور نوجوان بہت جوش میں نظر آتے تھے اور کہتے تھے دو ہفتہ کے اندر اندر کام ختم کر دیں گے مگر نہ معلوم ان کا ہفتہ کتنے دنوں کا ہے- احباب دعا کریں کہ وہ جلد کام ختم کریں- یہ نہایت ضروری کام ہے اور جلد سے جلد شروع کرنا چاہئے- افسوس ہے کہ یہ کام ایسے دوستوں کے ہاتھوں میں پھنس گیا جن کے ایام کسی اور ہی زبان کے ہیں- میں امید کرتا ہوں وہ اپنی لغت کو ہماری لغت کے مطابق بنا کر اب سے دو ہفتہ میں یہ کام کر دیں تا کہ پسماندگان کے لئے کچھ نہ کچھ انتظام ہو سکے- گو یہ سکیمیں اصل علاج نہیں- اصل سکیم وہی ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے یعنی زکوۃ کی مد مقرر کر دی ہے- یہ تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے- مگر یہ انتظام حکومت کے ذریعہ ہو سکتا ہے اور حکومت ابھی ہمارے پاس نہیں تا ہم میں امید کرتا ہوں دوست زکوۃ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں گے-
‏0] fts[ ہر قسم کا بیمہ ناجائز ہے
میں نے بیمہ کے متعلق گزشتہ سال کے جلسہ پر اپنے خیالات ظاہر کئے تھے مگر افسوس بعض دوستوں نے یاد نہیں رکھے- اور اب بھی خطوط آتے رہتے ہیں- حالانکہ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ جتنی سکیمیں اس قسم کی ہیں` وہ اسلام کے خلاف ہیں اور ان میں حصہ نہ لینا چاہئے- آج پھر میں اس بات کو دوہراتا ہوں- جو دوست موجود ہیں وہ یاد رکھیں اور دوسروں کو پہنچا دیں کہ ہم ہر قسم کے بیمہ کو ناجائز سمجھتے ہیں-
سلسلہ کے اخبارات اور بعض کتب کے متعلق ارشاد 0] f[rt
مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے اخبار پوری طرح ترقی نہیں کر رہے- مثلاً الفضل ہے- چھ سال سے اس کی تعداد پندرہ سو اور اڑھائی ہزار کے درمیان چلی آتی ہے- حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جس طرح جماعت بڑھتی ہے اخبار بھی بڑھتا- مگر جب کہ جماعت دوگنی ہو گئی ہے` اخبار کی تعداد اتنی ہی ہے- اس کے معنی یہ ہیں کہ جو دوست اخبار خرید سکتے ہیں وہ نہیں خریدتے اور وہ جو غریب ہیں وہ مل کر نہیں خریدتے جو افراد الگ الگ نہیں خرید سکتے وہ مل کر خرید لیں- اس طرح اخبار کی اشاعت تین چار ہزار تک چند ماہ میں ہو سکتی ہے- الفضل کے علاوہ نور اور فاروق ہیں- شائد کوئی تحریک اتنی ناکام نہ ہوئی ہوگی- جتنی ان کی اشاعت کے متعلق تحریک ہوئی ہے- مگر میں بھی نہیں تھکتا- شائد کوئی سال نور اور فاروق کے لئے بھی اچھا آ جائے- اور ان کی اشاعت ترقی کر جائے- یہ کام کے اخبار ہیں اور اچھا کام کر رہے ہیں-
پھر ایک کتاب ہماری نماز ہے- یہ بچوں کے لئے مفید ہے- ایک کتاب تفہیمات ربانیہ ابوالعطاء مولوی اللہ دتا صاحب کی لکھی ہوئی ہے- میں نے اسے دیکھا نہیں کہتے ہیں اچھی ہے- مولوی اللہ دتا صاحب ہونہار نوجوان ہیں اور اچھا لکھنے والے ہیں- یہ کتاب بھی مفید ہگی- ایک اہم کتاب مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج ہے- باوجود اس کے کہ جلسہ کے موقعہ کی علمی تقریر کے نوٹ لکھنے کا مجھے پہلے موقع نہ ملا تھا اور ۲۵ دسمبر کی رات کو میں نے نوٹ لکھنے شروع کئے- مگر جب میں نے اس پر نظر ڈالی تو اسے پڑھنے لگ گیا- یہ اچھی لکھی گئی ہے- گو کسی کسی جگہ بزدلی دکھائی گئی ہے یعنی کشمیر کمیٹی کے ساتھ اور لیڈروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے تا کہ احراری ناراض نہ ہوں- یہ کتاب بھی بہت مفید ہے-
روزانہ اخبار کی ضرورت ]0 [rtf
احباب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ گو رورانہ اخبار ہونا چاہئے تا کہ سیاسی اور ملکی معاملات کے متعلق جماعت کی پالیسی عمدگی سے ظاہر ہوتی رہے- ایسا اخبار اپنی جماعت کے لوگوں کے علاوہ دوسرے بھی جو ہمدردی رکھتے ہیں خریدیں گے- میں سمجھتا ہوں مخالفت کے موجودہ طوفان میں ایسے اخبار کی ضرورت ہے- مگر سوال روپیہ کا ہے- روزانہ احبار جاری کرنے کے لئے کم از کم دس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے- میں اس فکر میں ہوں کہ سو پچاس دوست ایسے ہوں جو یہ روپیہ مہیا کر سکیں تو اخبار جاری کر دیا جائے- لیکن جب تک ہم ایسا اخبار جاری کریں` انگریزی اخبارات کی امداد ضروری ہے- ہماری طرف سے انگریزی اخبار سن رائز ہے- احباب اسے خریدیں- انگریزی کے دو روزانہ اخبار مسلم اوٹ لک اور ایسٹرن ٹائمز لاہور سے نکلتے ہیں- میں نے دیکھا ہے کہ ان کی پالیسی بھی سلجھی ہوئی ہے ان میں اگر کوئی نوٹ ہمارے خلاف بھی نکل جائے تو اس کا خیال نہیں کرنا چاہئے- عام طور پر ان کی پالیسی اچھی ہے- جو دوست انگریزی پڑھتے ہوں اور اخباروں سے دلچسپی رکھتے ہوں` ان سے میں ان اخباروں کے خریدنے کی سفارش کروں گا- اور مفید تجویز یہ ہے کہ ان کی ایجنسیاں کھلوا دی جائیں- اس طرح اخباریں بیچنے والوں کے لئے بھی کام نکل آئے گا-
)الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۲ء(
‏a11.20
انوار العلوم جلد ۱۱

ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ حقیقی اور مسنون مباہلہ مولوی عبدالحق صاحب سے نہیں ہوا بلکہ مولوی صاحب کے ضد کرنے پر ایک دعا برنگ مباہلہ کی گئی یعنی گو دونوں فریق ایک مقام پر جمع ہوئے لیکن بد دعا صرف ایک فریق کے لئے ہوئی- دونوں نے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف یا جو جھوٹا ہو اس کے خلاف بد دعا نہیں کی-
یہ امر کہ اس قسم کی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک حقیقی اور مسنون مباہلہ نہیں` آپﷺ~ کے ایک اور قول سے جو رسالہ اربعین میں ہے` بالکل واضع ہو جاتا ہے- آپﷺ~ اربعین نمبر۲ میں اس قسم کی ایک دعا کا ذکر کر کے فرماتے ہیں-:
>یاد رہے کہ یہ طریقہ دعا مباہلہ میں داخل نہیں- کیونکہ مباہلہ کے معنی لغت عرب کی رو سے اور نیز شرعی اصطلاح کی رو سے یہ ہیں کہ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خدائی لغت چاہیں لیکن اس دعا میں تمام اثر دعا صرف میری ہی جان تک محدود ہے- دوسرے فریق کے لئے کوئی دعا نہیں<- حاشیہ صفحہ )۲۶(
خلاصہ یہ کہ جو مقابلہ مولوی عبدالحق صاحب سے ہوا` وہ شرعی اصطلاح کی رو سے مباہلہ نہ تھا اور محض مولوی صاحب کے اصرار پر اور لوگوں کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے ایک دعا برنگ مباہلہ کی گئی` اسے مجازاً تو مباہلہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریق نے جمع ہو کر بدعا کی لیکن حقیقتاً نہیں- کیونکہ بد دعا دونوں فریق میں سے جھوٹے کے لئے نہ تھی- بلکہ صرف ایک فریق کے لئے تھی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو تباہ ہو جائے- پس اس واقع سے مباہلہ کی شرائط کا اندازہ لگانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وقوعہ سے پہلی اور پچھلی تحریرات کو نظر انداز کر دینا کسی صورت میں جائر نہیں ہو سکتا-
مباہلہ میں جماعت کی شمولیت
اب سید صاحب کا یہ جواب رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث سے کسی جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا ثابت نہیں- سو اس کا جواب یہ ہے کہ جو روایات انہوں نے نقل کی ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے ذور نجران کو جن کی تعداد سات ہے لے کر کئی درجن تک بیان کی جاتی ہے` مباہلہ کی دعوت دی- اب اگر جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا خلاف سنت ہے- تو پھر کیا رسول کریم ~صل۲~ پر نعوذ باللہ من ذالک اعتراض نہیں آتا کہ آپﷺ~ نے ایک سے زیادہ لوگوں کو کیوں مباہلہ کے لئے بلایا- پس کم سے کم ان حوالوں سے سید صاحب کو یہ تو ماننا پڑے گا کہ گو جماعت کی شمولیت مباہلہ کے لئے ضروری نہیں لیکن جماعت کا شامل ہونا آیت اور احادیث کے مفہوم کے مخالف نہیں تو آپ کو جماعت کی شمولیت پر بلاوجہ اعتراض کیوں ہے- اس صورت میں آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ گو جماعت شامل ہو سکتی ہے- لیکن میری جماعت میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں- یا یہ کہ میں ہزار پانچ سو آدمی ساتھ لا سکتا- میرے ساتھ آدمی کم ہیں- میں صرف پچاس ساٹھ آدمی اپنے ساتھ لائوں گا اور اگر آپ اس قسم کے عذر رکھتے ہوں تو مجھے ہرگز اس شرط پر اصرار نہ ہو گا کہ آپ ضرور ہزار آدمی ہی ساتھ لائیں گو خود ہزار یا اس سے بھی زائد آدمی انشاء اللہ ہمراہ لائوں گا- کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے مباہلہ کا ذکر شروع ہوا ہے- سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے خطوط اور تار میرے پاس نہایت لجاجت کے آ رہے ہیں کہ انہیں اس مباہلہ میں شامل کیا جائے-
مسنون مباہلہ میں جماعت کی شمولیت ضروری ہے
میں نے اوپر کی بات بحث کو روکنے کے لئے فرضاً لکھی ہے- ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسنون مباہلہ میں جماعت کی شمولیت ضروری ہے اور الفاظ قرآنیہ سے یہی امر ثابت ہے- سید صاحب کا یہ لکھنا کہ جماع کے الفاظ اس لئے لکھے گئے ہیں کہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے اور بعض لوگوں کے اہل زیادہ ہوتے ہیں` درست نہیں- کیونکہ سوال یہ نہیں کہ آیت میں ]1nsk [tag ابناء و نساء کے الفاظ جمع آئے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مخاطبین کو تعالوا کہہ کر بلایا ہے- جو جمع کا صیغہ ہے- چونکہ مخاطب کے وجود میں متکلم کا وجود شامل نہیں ہوتا- اس لئے بہرحال تعالوا میں وہی لوگ شامل سمجھے جائیں گے- جنہیں مباہلہ کے لئے بلایا ہے اور چونکہ تعالوا جمع کا لفظ ہے` اس لئے مانتا پڑے گا کہ رسول کریم ~صل۲~ نے جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے-- وہ ایک جماعت ہے نہ کہ فرد اور واحد- دوسرا استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں ایک لفظ انفسنا کا بھی آتا ہے- یعنی آئو ہم اپنے نفوس کو بلائیں- اب یہ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو بلانے کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے اور خصوصاً جب کہ بیویوں اور بچوں کو بلوانے کا پہلے ذکر آ چکا ہے- اس کے بعد اپنے نفسوں کو بلانے کے کوئی معنی نہیں رہتے- پس انفس کے معنی یقیناً ساتھی اور ہم خیال لوگوں کے لینے پڑیں گے اور یہ قرآن کریم کے محاورہ کے عین مطابق بھی ہے- سورۃ نور میں - فاذا دخلتم بیوتا فسلمو اعلی انفسکم )النور ۲۶( یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آدمیوں اور ساتھیوں کو سلام کہا کرو- سید صاحب اس حکم کی تعمیل میں کسی گھر میں داخل ہوتے ہوئے یقیناً السلام علیکم ہی کہتے ہوں گے اور انفسکم کے لفظ کے یہ معنی نہ کرتے ہوں گے کہ گھر میں داخل ہو کر یہ کہیں- کہ السلام علے- غرض یہ کہ آیت زیر بحث میں انفسکم کے معنے ساتھیوں اور ہم خیال کے ہی لئے جا سکتے ہیں- اور یہ معنی دوسری آیات قرآنیہ کے عین مطابق ہیں- تیسرا استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں ابناء ناوا بناء کم ونساء ناونساء کم کہا گیا ہے- چونکہ ابناء کم اور نساء کم الگ کہا گیا ہے- اس لئے نا کی ضمیر میں مخاطب شامل نہیں اور نہ بچے بیویاں شامل ہیں- کیونکہ انہیں ابناء اور نساء کے الفاظ سے الگ بیان کر دیا ہے- پس بہرحال نا جو جمع کی ضمیر ہے- اس سے یہ معنی لینے ہوں گے کہ دعوت مباہلہ دینے والی بھی ایک جماعت ہے- اگر وہ جماعت نہ ہو تو نا بے معنی ہو جاتا ہے- اگر یہ کہو کہ رسول کریم ~صل۲~ بوجہ عظمت شان اپنے لئے جمع کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں- کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا یہ محاروہ کسی انسان کے متعلق قرآن کریم میں کبھی نہیں آیا اور نہ یہ رسول کریم ~صل۲~ کا طریق تھا کہ وہ اپنے آپ کو >ہم< کہہ کر بلایا کرتے ہوں اور پھر جب یہ حکم سب زمانوں کے لئے تھا تو اگلے لوگ جو اس شان کے نہ تھے` اس آیت پر کس طرح عمل کریں گے-
سید صاحب یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ کبھی مفرد کی جگہ جمع کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں- جیسا کہ آیت کریمہ الذین قالھم ان الناس قد جمعوالکم )آل عمران ۱۷۴( میں صرف ایک شخص کہنے والا تھا- لیکن جمع کا لفظ استعمال کیا گیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ کبھی روایت میں ایک شخص کی جگہ جمع کا لفظ بغرض ابہام استعمال کر لیتے ہیں- مثلاً ایک شخص بات کہے تو کہہ دیتے ہیں بعض لوگ یوں کہتے ہیں- لیکن احکام اور روایات میں فرق ہے- روایت میں اس موقعہ پر ابہام پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اور احکام میں وضاحت ہمیشہ مقصود ہوتی ہے- اگر وہاں اس طریق کو استعمال کیا جائے تو شریعت میں نقص لازم آتا ہے- نیز سید صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ >ہو سکتا ہے< اور> ہے< میں فرق ہے بے شک مفرد کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال ہو سکتاہے- لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اس آیت میں بھی ایسا ہے- مگر جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں` اس آیت کی بناوٹ بتا رہی ہے کہ یہاں ایسا نہیں ہے` تو پھر >ہو سکتا ہے< کا قاعدہ یہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا-
سورہ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت کے متعلق بھی سید صاحب کو یاد ہے کہ اس کے بارہ میں بھی احادیت میں اختلاف ہے- بہت سی احادیث میں ایک سے زائد لوگوں کا یہ بات کہنا ثابت ہے- چنانچہ ابن سعید بروایت ابن ایزی اور ابن جریر بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک سے زاہد لوگوں نے یہ بات کہی تھی وغیرہ )درمنشور(
ایک جواب سید صاحب نہ یہ دیا ہے کہ عربی کا قاعدہ ہے کہ مشاکلت کی وجہ سے بھی ایک کی جگہ دوسرا صیغہ استعمال کر دیتے ہیں- اس امر کو فرض کر کے کہ یہ قاعدہ اسی طرح ہے میں پھر کہتا ہوں کہ کسی قاعدہ کا ہونا اور بات ہے اور اس کا کسی خاص جگہ پر چسپاں ہونا اور بات ہے- کیا اس قاعدہ کے مطابق ہم قرآن کریم کی تمام ضمائر کو مشاکلت کے ماتحت مفرد سے جمع اور جمع سے مفرد بنا سکتے ہیں؟ آخر استثنائی قاعدہ کو چسپاں کرنے کی بھی تو کوئی وجہ ہونی چاہئے- جب الفاظ آیت سے ثابت ہے کہ اس جگہ ضمائر اپنے اصلی مفہوم میں ہیں تو سید صاحب کا بیان کردہ مشاکلت کا قاعدہ بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتا- جب آیت ہی دوسرے معنوں کو رد کر رہی ہے تو خلاف منطوق معنی کرنے جائز ہی نہیں ہو سکتے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں دو صیغی دو جماعتوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں ایک >قل< رسول کریم ~صل۲~ کے لئے اور ایک >تعالو< آپ کے مخالفوں کے لئے اب مشاکلت کا قاعدہ اگر سید صاحب کے بیان کے مطابق ہی سمجھا جائے تو بھی چاہئے تھا کہ جو ضمائر رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق آتیں` مفرد آتیں` کیونکہ پہلا لفظ مفرد تھا- واحد سے مشاکلت جمع کو کس طرح ہو سکتی ہے- اور اگر سید صاحب یہ کہیں کہ چونکہ ابناء اور نساء کا لفظ جمع ہے- اس لئے نا آیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ انفس کیوں جمع آیا کہ نساء ]txet [tag کا لفظ جمع تھا اور نا اس لئے جمع آیا کہ انفس جمع تھا- گویا پہلے ایک لفظ کو مشاکلت سے جمع کیا` اس کے مضاف الیہ کو اس کی مشاکلت کی وجہ سے جمع کیا-
اب اس فرضی جواب کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مشکالت کا قاعدہ عربی زبان میں اس طرح نہیں- جس طرح سید صاحب نے ذکر کیا ہے- مشاکلت کی تعریف علیم البدیع والوں نے یہ کی ہے- کہ ذکر الشی بلفظ غیرہ لوقوعہ بصجتہ ذالک الغیر ولو تقدیرا- ) ( یعنی کسی چیز کے لئے بجائے اصل لفظ کے دوسرا لفظ استعمال کریں- اس لئے کہ وہ چیز ایک اور چیز کے پاس واقع ہوتی ہے- پس اس دوسری چیز کی مناسبت سے اس کا نام بدل دیا گیا- مثال یہ دی ہے کہ قلت اطبخوالی جیتہ وقمیصا- میں نے کہا- میرے لئے ایک جیہ اور ایک قمیض پکا دو- جیہ اور قمیض پکائے نہیں جاتے- چونکہ پہلے شخص نے کہا تھا کہ ہم تیرے لئے کیا پکائیں اس کو لباس کی ضرورت تھی- اس نے کہا کہ جیہ اور قمیض پکا دو- یعنی مجھے کپڑے کی ضرورت ہے- اس تعریف سے ظاہر ہے کہ ضمائر کے بدلنے کا مشکالت سے کوئی تعلق نہیں- مشاکلہ تو یہ ہے کہ ایک بات کو زیادہ موثر بنانے کے لئے ایک پاس کے لفظ کے مطابق ایک دوسرا لفظ استعمال کر لیا جائے-
ایک جواب سید صاحب نے یہ دیا ہے کہ احادیث میں صرف یہ ذکر ہے- کہ حضرت علیؓ` حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر آنحضرت صلعم مباہلہ کے لئے نکلے تھے- مجھے ان احادیث سے انکار نہیں- میں تو یہ کہتا ہوں کہ ساتھ ہی احادیث میں آتا ہے- ھئولاء اھلی ) ( یہ میرے اہل ہیں نہ یہ کہ ہمارے اہل ہیں- پس ہم تو کہتے ہیں کہ مباہلہ ہوا نہیں- اگر مباہلہ ہوتا اور دوسرے صحابہ اور ان کے اہل شامل نہ ہوتے- تب ان احادیث سے استدلال ہو سکتا تھا- مگر مباہلہ تو ہوا نہیں` پھر استدلال کس طرح ہوا- اس وقت تک تو وفد بخران نے مباہلہ قبول کرنے کا اعلان ہی نہ کیا تھا- ہم کہتے ہیں اگر وفد بخران مباہلہ کو مان لیتا تو دوسرے لوگوں کو بھی آپﷺ~ بموجب حکم آیت جمع ہونے کا حکم دیتے- آپﷺ~ اس خیال سے کہ دوبارہ گھر نہ جانا پڑے اپنے اہل کو لے کر تشریف لے گئے- دوسرا جواب یہ ہے کہ آپﷺ~ خود بھی اس حدیث کا مفہوم نہیں تسلیم کرتے کہ ان لوگوں کے سوا دوسرے لوگ مباہلہ میں شامل نہ ہونے تھے- کیونکہ آپﷺ~ نے خود اس آیت کی تفسیر اہل وعیال کی ہے جو بیویوں پر مشتمل ہے- دوسرے آیت قرآنی میں نساء کا لفظ ہے- اور نساء کا لفظ اگر محدود کیا جائے تو اول اس میں بیویوں کا مفہوم ہوتا ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- یا نساء الانبی )احزاب ع ۴( جس جگہ صرف بیویوں کی شمولیت لازم ہے اور احادیث میں بیویوں کا ذکر نہیں- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں وہ سب تعداد میں جس نے مباہلہ میں شامل ہونا تھا- مذکور نہیں ہے-
سید صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ میری نقل کردہ روایت جس میں دوسرے صحابہ کی شمولیت کا ذکر ہے- ضعیف ہے اور حوالہ کننرالعمال صفحہ ۸`۹ کا دیا ہے- سید صاحب نے افسوس تو مجھ پر کیا ہے کہ میں نے ایک ضعیف حدیث کو نقل کیا ہے- لیکن افسوس درحقیقت ان پر ہے- کیونکہ کننرالعمال میں یہ نہیں لکھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے- بلکہ یہ لکھا ہے کہ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کتاب جن میں سے تاریخ ابن عساکر بھی ہے` ان کی روایات ضعیف ہیں- اس کے تو صرف یہ معنی ہیں- کہ علامہ سیوطی کے نزدیک اس کتاب میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا- لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں کہ اس میں کوئی حدیث بھی درست نہیں- اس میں کئی احادیث ایسی ہیں جو صحاح ستہ میں ہیں- بلکہ صحیحین میں بھی موجود ہیں اور بہت سی حدیثوں پر مسلمان عمل کرتے چلے آئے ہیں- محض کسی شخص کے کسی کتاب کو ضعیف کہہ دینے سے تو اس کی سب احادیث ضعیف نہیں ہو جاتیں- چنانچہ جن لوگوں نے مستدرک ابن عساکر کی مخالفت کی ہے- وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر بڑے پائے کے آدمی تھے- امام ذہبی بہت سے آئمہ کے اقوال ان کی تعریف میں لکھے ہیں- چنانچہ سمعانی کا قول انہوں نے یہ لکھا ہے- سمعانی کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں` متقی ہیں` نیک ہیں اور حافظ عبدالقادر کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن عساکر جیسا حدیث کا یاد رکھنے والا نہیں دیکھا- اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے- مگر سب سے مقدم امر تو یہ ہے کہ ان کی روایات الفاظ مخالفت نہیں کہلاتی- بلکہ اس سے مضمون کی تکمیل ہوتی ہے- اگر زیادتی کو مخالفت قرار دیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مباہلہ کا واقعہ جو دوسری احادیث میں بیان ہوا` سب غلط ہے- کیونکہ بخاری میں تو اس واقعہ کا صرف یہ ذکر ہے کہ دو آدمی بخران کے رسول کریم ~صل۲~ کے پاس مباہلہ کے لئے آئے تھے- لیکن بعد میں ایک کے سمجھانے پر دوسرا بھی رک گیا اور انہوں نے رسول کریم ~صل۲~ سے صلح کر لی- بخاری کی روایات میں نہ مباہلہ کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کے نکلنے کا ذکر ہے- نہ حضرت فاطمہؓ و حضرت حسنؓ حسینؓ کے ساتھ ہونے کا- پس اگر ترک ذکر شے سے عدم شے مراد ہوتی ہے- تو بخاری کی روایات سے دوسری رویات کی بھی تردید ہو جاتی ہے-
نا درست شکوہ
اب ایک سوال اور رہ جاتا ہے جو یہ کہ سید صاحب کو شکوہ ہے کہ میں نے ایک حوالہ نقل کرتے ہوئے اس کے ساتھ کی روایت کیوں نقل نہیں کی- جس میں لکھا تھا کہ رسول کریم ~صل۲~ حضرت علیؓ اور اپنے بچوں اور کو لے کر نکلے اور فرمایا- کہ ھولاء اھلی- یہ شکوہ درست نہیں- اس لئے کہ اس حوالہ سے نہ میرے استدلال کے خلاف نہ موافق اثر پڑتا تھا- اس لئے میں نے اسے نقل نہیں کیا- اگر یہ میرے خلاف اثر انداز ہوتا یا موافق تو میں اسے نقل کرتا-
مباہلہ مسنونہ سے پس پیش نہیں ہونا چاہئے
میں سجمھتا ہوں کہ میں بہت بسط کے ساتھ سید صاحب کے سوالات کا جواب دے چکا ہوں- اس لئے اب انہیں مباہلہ مسنونہ سے پس و پیش نہیں ہونا چاہیے- وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک کثیر جماعت ہے- پس اس جماعت میں سے پانچ سو ہزار آدمی کا ساتھ لانا ان کے لئے مشکل نہیں- احمدی جماعت تو اہلحدیث سے کم ہے- پس جب میں اپنے ساتھ آدمی لانے کو تیار ہوں تو انہیں بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے- آخر وہ خود مانتے ہیں کہ بخران کے لوگوں میں سے ایک شخص نہیں- بلکہ ایک جمات کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا تھا اور جو بات ایک فریق کے لئے جائز ہو` دوسرے کے لئے بھی جائر ہونی چاہئے- کم سے کم ان کے اپنے بیان کے مطابق بھی یہ امر تو ثابت ہے کہ مدعی نبوت نے اپنے مقابلہ پر ایک جمات کو بلوایا- پس میں جو مدعی نبوت کا خلیفہ ہوں مجھے بھی اجازت ہونی چاہئے کہ اپنے مقابل پر ایک جماعت کو بلوائوں-
میں امید کرتا ہوں کہ اب سید صاحب تقاریر اور جماعت کے ساتھ ہونے کی شرطوں کے خلاف زور نہ دیں گے- کیونکہ ان دونوں شرطوں سے فریقین پر کوئی ناجائز بوجھ نہیں پڑتا- بلکہ مزید تشریح اور وضاحت ہو جاتی ہے اور کوئی عقل یا نقلی دلیل اس کے خلاف نہیں ہے- اگر وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ سچے ہیں اور احمدی جھوٹے ہیں تو تقاریر بہرحال ان کے لئے مفید ہوں گی اور بہت سے لوگوں پر حق واضح ہو جائے گا اور کئی اور لوگ شاید مباہلہ میں شامل ہونے کو تیار ہو جائیں- اسی طرح جماعت کی شمولیت مباہلہ کے اثر کو بڑھائے گی اور ایک جگہ کے لوگوں کے سامنے نہیں بلکہ ہندوستان کے مختلف مقامات کے سامنے مباہلہ کا اثر آ جائے گا- پس ایسے اعلیٰ موقعہ کو ہاتھ سے نہ دیں اور اپنے مریدوں کو اس ثواب کے موقعہ سے محروم نہ کریں- آخر ہماری جماعت کے لوگ بھی تو شوق سے اس مباہلہ میں شامل ہونے کو تیار ہیں- میں نہیں سجمھتا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے انہیں فا ذھب انت وربک فقا تلا اناھھنا قاعدون )لامائدہ ۲۵( کہہ کر ان سے الگ ہو جائیں-
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب لعالمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱۹ مارچ ۱۹۳۲ء
جدید عمارت میں دفاتر صدرانجمن کے افتتاح کی تقریب
تشہد` تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس سنجیدہ تقریب کے لحاظ سے گو اس امر سے ابتدا جس سے کہ میں کرنا چاہتا ہوں- ایسی مناسب نہ ہو لیکن ایڈریس کے شروع میں ایک ایسا فقرہ لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے میں مجبور ہوں کہ اس کا ذکر کروں- ایڈریس کے شروع میں ایک فقرہ لکھا گیا ہے جو گو رسمی ہے اور بہت سی جگہوں میں صحیح بھی ہوتا ہے مگر اس موقعہ پر غلط ہے- اور یہ فقرہ ہے کہ میں نے باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اس دعوت میں شرکت اختیار کی ہے- چونکہ سلسلہ کے نظام کے لحاظ سے تمام کاموں کی بنیاد خلیفہ ہے` اس لئے یہ کہنا کہ میں اپنی مصروفیتوں کے باوجود یہاں آ گیا` درست نہیں ہے اتفاقاً آج صبح ہمارے گھر میں میاں بگا کا ذکر ہو رہا تھا- میری ایک بیوی جو بعد میں آئی ہیں ان سے میں ذکر کر رہا تھا کہ یہاں ایک شخص میاں بگا ہوتا تھا جو بہت سادہ تھا اور بعض لوگ اسے دمہوکہ دے کر ہنسی کی باتیں کرا لیتے تھے- ایک دفعہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا- کسی نے اسے کہا- اس موقعہ پر لوگوں سے مٹھائی کھائو- ان کا فرض ہے کہ تمہیں مٹھائی کھلائیں- اس پر اسے آمادہ کر کے اس کی طرف سے اشتہار لکھ دیا گیا کہ آپ لوگوں کی مہربانی سے میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے- اب آپ کا فرض ہے کہ مجھے مٹھائی کھلائیں-
‏]text [tag اصل بات یہ کہ میرے کام اور میری مصروفیتیں سلسلہ ہی کے لئے ہیں اور یہ میرا فرض ہے کہ سلسلہ کے کام عمدہ طور پر ہوتے دیکھوں- اس لحاظ سے اگر میں سلسلہ کی کسی تقریب میں شریک ہوتا ہوں تو اپنی مصروفیتوں کو ترک نہیں کرتا` بلکہ وہ بھی میری مصروفیتوں کا جزو ہے-
میں نے اس مکان کے دروازہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو الہام لکھنے کا مشورہ دیا تھا- اس وقت انہی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں- یہ الہام ایسے ہیں کہ ان میں سے ایک تو سلسلہ کے کاموں کی ابتداء کی طرف شارہ کرتا ہے اور دوسرا انتہاء کی طرف جب مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں کوئی ایسا الہام یا آیت بتائوں جسے اس مکا کے دروازہ پر لکھایا جائے تو معاً میرے دل میں یہ الہام ڈالے گئے- پہلا الہام یہ ہے ینصرک رجال نوحی الیھم من السمائاس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرماتا ہے- تیری مدد ایسے آدمی کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی کریں گے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام اس وقت ہوا جب کہ آپ اپنے خاندان میں بھی عضو معطل سمجھے جاتے تھے اور دنیا کے لحاظ سے بھی آپ کو کوئی مقبولیت حاصل نہ تھی- اس وقت خدا تعالیٰ نے یہ الہام نازل کیا جس میں بہت بڑے بڑے مطالب ہیں-
اول یہ کہ جب فرمایا- ینصرک رجال- تو اس میں یہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عظیم الشان کام کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں- کیونکہ معمولی کام جسے کوئی اکیلا کر سکے- اس کے سر انجام دینے کے لئے دوسرے آدمیوں کی ضرورت نہیں ہوتی- تو اس وقت جب کہ اپنے گائوں کے لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ جانتے تھے` خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آپ کو ایسے کام پر مامور کیا جائے گا جسے اکیلا نہ کر سے گا- بلکہ اس کے کرنے کے لئے بہت سے مددگاروں کی ضرورت ہو گی- یہ بات سلسلہ کے عظمت اور وسعت پر دلالت کرتی ہے-
دوسرا مفہوم ینصرک میں کی کی ضمیر میں یہ بتایا کہ قومی کارکن عام طور پر ایسے ملتے ہیں جو خود غرضی سے کام کرتے ہیں- ایک شخص جو فوج میں بھرتی ہوتا ہے بظاہر ملک کی خدمت کے لئے بھرتی ہوتا ہے مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سپاہی سے لیس لیس سے نائیک- نائیک سے حوالدار- حوالدار سے جمعدار اور جمعدار سے صوبیدار بن جائے- اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ ولسلام کو یہ فرمایا کہ ہم تمہاری امداد کے لئے ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیں گے جو اپنی ذات کے لئے کسی قسم کی بڑائی نہیں چاہیں گے بلکہ اس کام کو کریں گے- جس پر تجھے مقرر کیا گیا ہے- گویا اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے لوگ اس لئے پیدا کئے جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لگائی ہوئی داغ بیل کو قائم کریں- پھر فرماتا ہے-
ینصرک رجال یہاں رجال ]ttex [tag کا لفظ رفولیت کی طرف شارہ کرنے کے لئے رکھا گیا ہے- یعنی ایسے آدمی کھڑے کئے جائیں گے جو کام کرنے کی اہلیت اور قابلیت رکھیں گے- پھرفرمایا-
ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء اس میں چوتھی بات یہ بیان کی کہ آئندہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو الہام اور وحی سے کھڑے ہوں گے- من السماء اس لئے فرمایا کہ وحی کئی قسم کی ہوتی ہے- ایک قلبی وحی ہوتی ہے- جیسے مکھی کو ہوتی ہے- من السماء کہہ کر اس بات پر زور دیا کہ وہ وحی آسمان سے نازل ہو گی- کئی وحیوں کے سامان دنیا میں پیدا ہوتے ہیں- مگر اس کے متعلق فرمایا-
ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے- یعنی سلسلہ الہام کثرت سے جاری ہو گا-
اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام بھی ظاہر ہے- کسی مجدد کے ماننے والے الہام کے ذریعہ نہیں کھڑے ہوتے- یہ خصوصیت انبیاء کے ہی ماننے والوں کے لئے ہیں-
غرض اتنی باتیں اس الہام میں بتائی گئی ہیں- یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کے کام کے درجے ہوتے ہیں- اور جب اس کا درجہ بیان کیا جاتا ہے تو انتہائی بیان کیا جاتا ہے- اس الہام میں بھی انتہائی درجہ بیان کیا گیا ہے- فرمایا- نوحی الیھم من السماء ان پر آسمان سے وحی نازل ہو گی- مگر وہ بھی ہو سکتے ہیں- جنہیں وحی من السماء نہ ہو- لیکن وحی من الارض ہو ان کے دلوں میں تحریک ہو اور اس کام کے لئے کھڑے ہو جائیں-
غرض اس الہام میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے- اسے مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس الہام کو لکھنے کے لئے کہا تھا- تا کارکنوں کو معلوم ہو کہ جو کام وہ کرتے ہیں وہ وحی الہی کے ماتحت ہے- خواہ وہ وحی ان کو براہ راست نہ ہو بلکہ دوسروں کو ہو- حدیث میں آتا ہے- بعض کو وحی ہوتی ہے اور بعض کے لئے وحی کی جاتی ہے- غرض خدا تعالیٰ اپنے خاص کاموں کے لئے لوگوں کو تحریک کیا کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں یہی بات بیان کی گئی اور میں نے یہ الہام لکھا کر کارکنوں کو توجہ دلائی کہ ان کا کام کتنا مقدس اور کتنا اہم ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کس قسم کی امید رکھتا ہے اول تو یہ کہ ان کا کام لغو اور بے فائدہ نہ ہو- بلکہ ایسا ہو جس سے نصرت حاصل ہو- اگر ان کے کام سے سلسلہ کی نصرت نہیں ہوتی تو ایسے کام سے کوئی فائدہ نہیں- پس ان کے کام ایسے نہ ہوں جو دوسروں کے لئے ٹھوکر اور نقصان کا موجب ہوں-
دوم یہ کہ وہ اخلاص رکھتے ہوں- سلسلہ کے کام کو سب کاموں پر مقدم کرتے ہوں- سول یہ کہ رجال ہوں- یعنی قوت وطاقت عقل و فہم سے کام کرنے والے ہوں- چوتھے ایسے طرز سے کام کریں کہ وحی نازل ہونے لگ جائے- وحی کے لئے ضروری نہیں کہ آسمان سے ہی نازل ہو- یہ تو وحی کا انتہائی درجہ ہے- باقی ہر قسم کی وحی اس کے اندر شامل ہے- جب کہ ایم- اے کی ڈگری میں بی- اے اور ایف اے- سب امتحان شامل ہیں- تو آسمانی وحی سے نچلے درجہ کی سب وحیاں اس میں آ جاتی ہیں- جس قسم کا کوئی انسان کام کرتا ہے` اس کے مطابق خفی` جلی` قلبی وحی کے ذریعہ نئے نئے طریق اسے اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے-
آخری بات یہ ہے کہ وہ وحی ترقی کرتے کرتے من السماء کے درجے تک پہنچ جائے- اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جو سچے دل سے اور اخلاص سے کارکن کام کریں گے- ان پر وحی من السماء کا دروازہ کھول دے گا-
یہ تو کام کی ابتداء ہے کہ کس قسم کے لوگ سلسلہ میں آئیں گے اور کس طرح کام کریں گے- دوسرے الہام میں یہ مقصود بتایا کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا<-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد
خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ تیری تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے- اب اگر دنیا میں کوئی جگہ ایسی رہ جائے جہاں آپ کا پیغام نہ پہنچا ہو تو گویا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا- ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ پہنچائیں- امورعامہ` تعلیم و تربیت` قضاء وغیرہ کسی کا کام ہو` یہ سب دعوت و تبلیغ کے ماتحت آ جائیں گے- خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے متعلق تیری تبلیغ کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا کہ )۱( تیرے نام کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا- یعنی اس تبلیغ کو تیری طرف منسوب ہو گی- )۲( یہ بتایا کہ جو تبلیغ تو کر رہا ہے وہی تبلیغ اسلام ہے- اسے دنیا تک پہنچائوں گا- گویا اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہمارا فرض ہے-
پس ساری دنیا کو اسلام کا حقلہ بگوش بنانا ہمارا کام ہے- مگر قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ اسلام نہیں لائیں گے- ادھر ہمیں ہی حکم ہے کہ جب تک یہ سب نہ مان لیں` تمہارا کام ختم نہیں ہوتا- اس لئے مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک ہمیں کام کرنا ہے اور کسی وقت ہمیں اپنے کام کو ختم نہیں سجمھنا- کیونکہ کام کو ختم سجمھ لینے کی وجہ سے انسان سست ہو جاتا ہے- عام طور پر لوگ تکالیف اور مصائب سے گھبراتے ہیں- مگر ساری کامیابی اور سب ترقی مصائب اور تکالیف سے ہی وابستہ ہوتی ہے- اس دنیا میں انبیاء کے لئے بھی تکالف ہوتی ہیں- بلکہ ان زیادہ ہوتی ہیں-
پس ہمارا کام ایسا ہے جو مصائب اور تکالف کو زیادہ کرنے والا ہے مگر یہی بات جماعت میں زندگی اور بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے- جب دشمن اعتراض کرتا ہے- تو غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نئے نئے مصارف کھلتے ہیں- مسلمانوں نے جب تبلیغ اسلام چھوڑ دی تو سست ہو گئے- لیکن جب تک تبلیغ میں مصروف رہے- نئے نئے معارف کھلتے رہے اور اب بھی تبلیغ میں مصرورف رہنے پر کھلتے رہیں گے- پس ہماری جماعت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جت تک دنیا میں ایک آدمی بھی اسلام سے باہر رہتا ہے` ہمارا کام ختم نہیں ہوتا- یہ سمجھنے سے جرات اور دلیری پیدا ہوتی ہے- لیکن جب یہ مقصد سامنے نہ ہو گا` تنزل اور تباہی شروع ہو جائے گی-
عیسائیت کو دیکھ لو- اتنا بودا مذہب ہونے کے باوجود چونکہ عیسائی تحقیق و تدقیق جاری رکھتے ہیں- اس لئے ترقی کرتے جاتے ہیں- مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے- کیونکہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی اس لئے کرتے گئے- عیسائی اپنے مذہب کی جب تبلیغ کرتے ہیں اور ان پر اعتراض ہوئے ہیں تو وہ مسائل پر غور کرتے ہیں- لیکن مسلمان نہ دوسروں کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں نہ کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ انہیں غور کرنے کا موقع ملتا ہے-
ہمارا مقصد یہ رکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائیں- یعنی تمام دنیا میں تبلغ پھیلانا ہمارا فرض ہے- سب کارکنوں کو خواہ وہ کسی کام پر ہوں اسے مدنظر رکھنا چائے کہ تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچے-
اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
)الفضل ۳ مئی ۱۹۳۲ء(
الہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے کارکنوں کا مقام
)فرمودہ ۱۴ مئی ۱۹۳۲ء برموقعہ الوداعی پارٹی مرزا محمد اشرف صاحب
آج کی تقریب جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں- اس لحاظ سے ایک نئے دور کا افتتاح ہے- کہ وہ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے ایک نظام کے ماتحت سلسلہ کا کام کیا- ان سے کچھ لوگ ایام کارکردگی کو پورا کر کے سبکدوش ہو رہے ہیں- پہلا دوران لوگوں کا تھا جنہوں نے ابتدائی ایام میں انفرادی جدوجہد میں حصہ لیا اور ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوتے گئے- اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے نظام کے ماتحت ابتدائی ایام میں سلسلہ کی خدمات کیں` اب کارکردگی پورا ہونے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں- اس نئے دور کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ بعض ماتحت افسر ہو جائیں گے اور بعض افسر اور ترقی کریں گے- حتیٰ کہ نیچے کی طرف سے حرکت پیدا ہو کر آگے کی طرف بڑھتی جائے گی اور یہ چیز اپنے ساتھ امنگیں بھی لاتی ہے اور خطرات و فتنی بھی- کیونکہ جہاں ایک طرف اس سے ایک ماتحت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترقی کے رستے کھل رہے ہیں اور اس طرح اس کے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں- وہاں یہ بات بھی پیدا ہوتی ہے کہ نئے کارکن آگے آتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک لمبا عرصہ خدمت کی ہے اور یہ چیز جہاں فوائد اپنے اندر رکھتی ہے` وہاں خطرات سے بھی خالی نہیں- مگر بہرحال دنیا کے تجربہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم کی امنگوں کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ترقی کے راستے کھلے رکھے جائیں- کیونکہ جب یہ مسدود کر دیئے جائیں تو امنگیں مٹ جاتی ہیں اور جب امنگیں مٹ جائیں تو انسانی دماغ کی سرسبزی اور شادابی جس پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہے` کھوئی جاتی ہے-
جب سے میں نے سلسلہ کے کام اور نظام کو وسیع کرنے اور ایک نیا ڈھانچہ دینے کی کوشش کی ہے- اسی وقت سے یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ جو لوگ ماتحتی میں کام کر رہے ہیں` ان کی ترقی کے رستے کھلے رہیں- ہمارے سلسلہ کے کام دو صنقوں میں تقیسم کئے جا سکتے ہیں- ایک تو یہ کہ انسانوں کے تعاون پر ان کی بنیاد ہونی چاہئے- یعنی ایسے لوگ ہوں جو خیالات اور جذبات میں کام لینے والے سے متفق ہوں- ایسے کاموں کے لئے باہر سے آدمی چنے جاتے ہیں جو انہیں سر انجام دے سکیں- تمام حکومتوں کا یہی دستور ہے کہ وہ وزراء باہر سے مقرر کرتی ہیں- اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیرونی لوگوں کے خیالات ایسے تغیر پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں- جن سے قوم کی رگوں میں نیا خون پیدا ہوتا ہے- دوسرے دفتری کام کے نتیجہ میں دماغ کی ساخت ایک خاص قسم کی ہو جاتی ہے اور جدت کا مادہ قائم نہیں رہتا- اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ باہر سے ایسے لوگ لائے جائیں جو بیرونی خیالات قوم میں داخل کر کے نیا رنگ اور نیا جوش پیدا کریں- لیکن ایک حصہ ایسا بھی ضرور ہونا چاہئے- جو اس نظام کے قوانین اور آئین و ضوابط کی باریکیوں کو اچھی طرح جانتا ہو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کارکنوں کے لئے ترقی کے راستے کھلے ہوں- پس یہ دونوں باتیں ضروری ہیں- یہ بھی کہ ایسے لوگ باہر سے لائے جائیں جو ماتحت عملہ سے تعلق نہ رکھتے ہوں- تا وہ دماغ کا کام دیں اور ایسے لوگوں کو بھی ترقی دی جائے جو تفصیلات سے آگاہ ہوں اور شروع سے ترقی کر کے ایک مقام پر پہنچیں تا وہ دوسرے اعضاء کا کام دے سکیں- اس کے لئے میں نے مدت سے یہ سکیم مقرر کی ہوئے ہے کہ بعض عہدے جو ذمہ داری کے بھی ہوں اور جن کے ساتھ ایک لمبے دفتری تجربہ کا بھی تعلق ہو- خصوصاً محاسب اور آڈیٹر کا عہدہ ان لوگوں کے لئے محفوظ کر دیئے جائیں جو زینہ بہ زینہ ترقی کرتے ہیں-
اس وقت ہمارے تمام کام ایسے ہیں- جیسے آگرہ میں پتھر کے تاج محل بنائے جاتے ہیں- گویا ایک کھلونا ہے- لیکن کھلونے کی حیثیت اسی صورت میں قائم رہتی ہے جس میں وہ بنایا جاتا ہے- مگر ہمارسے سلسلہ کا کھلونا خدا تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس لئے اس کی مشابہت زیادہ تر اس کھلونے سے ہے جو ماں کے رحم میں تیار ہوتا ہے- وہ ایک نہایت چھوٹی سی چیز ہوتی ہے- اگرچہ اس کے اندر ویسا ہی سر` ناک` آنکھیں وغیرہ ہوتی ہیں- جیسی انسان کے جس میں- لیکن ابتدائی حالت میں وہ نہایت بے حقیقیت سی چیز ہوتی ہے- حتی کہ صرف خوردبین کی مدد سے ہی دیکھی جا سکتی ہے- پھر وہ اس قابل ہوتی ہے کہ آنکھوں سے نظر آتی ہے- لیکن نہایت ہی مضحکہ خیز شکل ہوتی ہے- پھر وہ آہستہ آہستہ کامل ہوتی ہے اور نہ صرف دنیا کی راہنمائی ہو جاتی ہے بلکہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی دنیا کا مقصود ہے اور دنیا پیدا ہی اس کے لئے کی گئی ہے-
اسی طرح اس وقت ہمارا نظام اگرچہ بہت قلیل اور محدود ہے- لیکن ایک وقت آئے گا- جب دنیا کی ترقی کا انحصار اس پر ہو گا اور روحانی ترقیات کی طرح مادی ترقیات بھی احمدیت کے قبضہ میں ہوں گی- جس طرح آج بنک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں- وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں- ایکسپینج میں تغیر ہو جاتا ہے- ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر رونما ہو گا- بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے- لکین یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دینوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقیت نہیں- یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہیں- جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے- دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشارہ دیئے جاتے ہیں` بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے` بندہ نہیں لگا سکتا اور جب یہ وقت آیا- اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپڑاسی ہو یا ناظر الا ماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے- بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ انتہائی ترقی کے مدارج ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا- لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے تغیرات جو مومن سے تعلق رکھتے ہیں` وہ اسے بتائے جاتے ہیں- حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے جو کوئی اس کی قبر پر جاتا ہے` اس کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے- اگرچہ اس کے کان آنے والے کے پائوں کی آہٹ نہیں سنتے- لیکن اللہ تعالیٰ اسے اسے اس کا علم ضرور دے دیتا ہے- اس لئے جب وہ تغیرات پیدا ہوں گے تو اس میں حصہ لینے والوں کو اس کا علم ہو گا اور گو وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گے- مگر پھر بھی سلسلہ کی ترقیات کو معلوم کر کے ان کی روح خوشی اور مسرت سے بھر جائے گی- اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے گی کہ اس نے مجھے بھی اپنے جسم کو اس میں استعمال کرنے کا موقعہ اور توفیق عطا فرمائی تھی- ہمارا نقطئہ نگاہ مالی نتائج پر نہیں جو کارکنوں کو خدمات کے صلہ میں ملتے ہیں- بلکہ ان تغیرات پر ہے جس کا اندازہ سوائے خدا کے کسی کو نہیں-
جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی- باغات ہوں گے- مگر پھر بھی رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا لاعین رئات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب لبشر- حالانکہ ¶قرآن پاک جنت کے نقشوں سے بھرا پڑا ہے- اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا نقشہ ہے اور آپ نے تفسیریں بھی کی ہیں- لیکن وہ ساری قبل از وقت ہیں اور الفاظ وہ حقیقی نقشہ کھینچ ہی نہیں سکتے جو آنے والا ہے- اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہ یہاں آئیں گے- لیکن اس کا قیاس نہیں کر سکتے کہ کس طرح ان کی گردنیں احمدیت کے ہاتھ میں دے دی جائیں گی- گویا جزئیات کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور وہ جذبات ہم اپنے اندر نہیں کر سکتے جو اس وقت ہوں گے-
پس جو بھی سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے وہ دراصل ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں کام کر رہا ہے اور اس کی مثال اس مونگے کی طرح ہے جو جزیرہ بنانے میں اپنی جان ضائع کر دیتا ہے- کورل آئلینڈ کی تیاری میں مونگا اپنی جان قربان کر دیتا ہے- لیکن اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے- اس جان ضائع ہونے سے جزیرہ تیار ہوتا ہے جس میں انسان بستے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث یا اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں- لیکن مونگے کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کر رہا ہے اور اس طرح ہو خدا تعالیٰ کا بروز ہو جاتا ہے- انبیاء بھی خدا تعالیٰ کا بروز ہوتے ہیں- مگر مونگہ بھی اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کا بروز ہے- تو جس طرح وہ مونگہ جزیرہ پیدا کرتا ہے` اس سے بہت زیادہ مقام ہے ان لوگوں کا جو الٰہی سلسلہ کے قیام کے ابتدائی ایام میں اس کے میں اپنی جان کو لگاتے ہیں- اس کے نتائج اس وقت تو ایک کھلونا ہے اور اس وقت ان پر نظر ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی منی کا کیڑا دیکھے تو اس کو گھن آئے گی اور نفرت کرے گا- قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ انسان کا ایک ذلیل قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے اور ابتدائی ایام کے نتائج کی بھی بعینہ یہی حالت ہے- اور بعض اوقات کام کرنے والا انسان خود بھی یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ عمر کو ضائع کر رہا ہے- لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ کہ کس طرح ایک رنگ میں دنیا کا خالق بن رہا ہے- پس ابتدائی ایام میں کام کرنے والوں کا یہ مستقبل ہے اور یہ ارادہ ہے جو ہمارے کارکنوں کو رکھنا چاہئے- اگر وہ اس کام کی عظمت کو سمجھیں تو ان کا نقطہ نگاہ ایسا بلند ہو کہ جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا-
مرزا محمد اشرف صاحب نے بھی اس نظام میں کام کیا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی یہ ترقی نہیں کہ وہ مثلاً تیس روپیہ تنخواہ سے شروع ہو کر سو روپیہ پر پہنچ جائیں- یہ بھی بے شک ترقی ہے- لیکن اصل چیز کے مقابلہ میں یہ بالکل ہیچ ہے- ہر کارکن خواہ وہ اپنی حیثیت کو سمجھے یا نہ سمجھے برحال اگر اس نے اخلاص سے کام کیا ہے تو وہ اس عظیم الشان عمارت میں بمنزلہ بنیاد کے ہے- جس کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا- بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا اس قدر بھی اندازہ کر سکیں- جس قدر بیان کی جا چکی ہے اور اس لئے بعض لوگ اس عظمت کو بھی محسوس نہیں کر سکتے- جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے- جنت کا جو نقشہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے- اس کا کسی قدر اندازہ وہ شخص تو کر سکتا ہے جس نے شالا مار باغ یا اور دوسرے فرحت افزار باغات دیکھے ہیں- لیکن عرب کا وہ وحشی جس کا باغ کھجور کے دو درختوں سے زیادہ نہیں ہوتا- وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے- تو زیادہ سے زیادہ نہیں ہوتا- وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے تو زیادہ سے زیادہ پانچ دس کھجوروں کے درخت پر جا کر اس کا تخیل ختم ہو جائے گا- اسی طرح بعض لوگ باوجود بنیاد کی اینٹ ہونے کے ظاہری علوم سے بے بہرہ ہونے کے باعث محوس نہیں کر سکتے کہ ان کی خدمات کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں- وہ اس کام کی عظمت کو سجمھتے نہیں یا سمجھ سکتے نہیں کہ وہ کتنے عظیم الشان کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے اس دنیا میں اور اگلے جہاں میں کس قدر زبردست نتائج نکلنے والے ہیں- لیکن بہرحال نہ جاننے سے کام کی عظمت میں فرق نہیں آ سکتا-
مرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے رہے ہیں- جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے- وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے- اور وہ اس سے کس طرح بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں ہی سب کام نپٹالوں- ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی روح بھی اسی طرف ہے` اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ مالیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اسے صحیح طریق پر چلا رہا ہے- انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے ان سے بھی ہوئی ہیں لیکن ایسے شخص کے کاموں میں جو درد رکھتا ہے اور جو اس روح کے ساتھ کام کرتا ہے- اس کی غلطیوں کے باوجود نتائج اچھے نکلیں گے- اگر تمام کارکن اس روح کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے- اگرچہ ہمارا نظام اس وقت کھلونا سا ہے- لیکن اس میں بڑی جان ہے اور ذرا سی بات سے بھی ترقی کر سکتا ہے- بعض مائیں بے احتیاطی سے بچے کی صحت کو خراب کر لیتی ہیں اور وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکتا- لیکن عقلمند ماں کا اتنی ہی عمر کا بچہ اس سے کئی گنا مضبوط ہو جاتا ہے- اور ہمارے سلسلہ کے کارکن بھی اگر عقلمند ماں والی کوشش کریں تو یہ بچہ موجودہ سامانوں میں ہی بہت ترقی کر سکتا ہے- اور اس کی صحت موجودہ صحت سے بدرجہا زیادہ بہتر ہو سکتی ہے-
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرزا صاحب کو اس آرام کی توفیق عطا کرے- جس کے لئے وہ کام سے سبکدوش ہو رہے ہیں- اگرچہ اسلام کی تعلیم تو یہی ہے کہ مومن مرتے دم تک کام کرتا جائے اور اس کے نزدیک آرام کا یہی مفہوم ہے کہ عمر کے لحاظ سے کام کی نوعیت میں تبدیلی ہو جائے- اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا کرے اور ان کے بعد آنے والوں کو اور دوسرے کارکنوں کو سچا اخلاص عطا کرے اور اتنی بصیرت بخشے کہ وہ ان آنکھوں سے ہی جو اس وقت ہمیں ملی ہوئی ہیں` دیکھ سکیں کہ وہ کتنی بڑی عمارت ہے جس کی بنیاد کی اینٹ کے طور پر کام کرنے کے لئے انہیں چنا گیا ہے-
)الفضل ۲۲ مئی ۱۹۳۲ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان
][از قلم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا فیصلہ
گزشتہ سال آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں کے حقوق کا حسب دلخواہ فیصلہ نہ ہو تو رائونڈٹیبل کانفرنس کے مسلمان نمائندے سنٹرل گورنمنٹ کے اختیارات کے تصیفہ میں کوئی حصہ نہ لیں- اس وقت مجھے صحیح الفاظ یاد نہیں لیکن فیصلہ قریباً قریباً یہی تھا-
گول میز کانفرنس کے مسلمان نمائندوں کا رویہ0] ftr[
رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقعہ پر اس ہدایت پر عمل کرتے کرتے نہ معلوم مسلمانوں کو کیا ہوا کہ ایک وقت وہ اس ہدایت کے مفہوم کو پورا کرنے سے قریباً قاصر رہے- اس وقت کئی پر جوش ممبران لنڈن سے روانہ ہو چکے تھے- لیکن جو باقی تھے میں انہیں بھی الزام نہیں دیتا- بالکل ممکن ہے کہ وہاں کے حالات ہی کچھ ایسے ہوں کہ مسلمان ممبروں کے لئے اس طریق عمل کے سوا کوئی اور راستہ ہی کھلا نہ رہا ہو- لیکن اس میں کوشی شک نہیں کہ ہم لوگ جو ہندوستان میں تھے ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلمان ممبر ایک اچھے موقعہ سے فائدہ اٹھانے سے چوک گئے ہیں-
مجھے بعد میں اپنے انگلستان کے نمائندہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب امام مجسد لنڈن سے معلوم ہوا کہ سر آغا خان صاحب پر بھی یہی اثر تھا کہ مسلمانوں نے ایک قیمتی موقعہ کو ہاتھ سے کھو دیا ہے-
مشاورتی کمیٹی میں مسلمانوں کی شرکت
لنڈن میں تو جو کچھ ہوا سو ہوا` رائونڈٹیبل کانفرنس کی ایک سب کمیٹی جو جناب وائسرائے کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہو رہی ہے` اب اس کے متعلق بھی مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا اس میں شمولت مسلمانوں کے لئے مفید ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں اسے بائیکاٹ کرنا چاہئے بعض دوسروں کے نزدیک ہمیں اس سے پوری طرح تعاون کرنا چاہئے- اول الذکر کے دلائل مجھے معلوم ہیں- اور وہ یہ ہیں کہ جب تک ہمارے حقوق کا فیصلہ نہیں ہوتا` مرکزی حکومت کے اختیارات پر بحث کرنے سے ہم ایک رنگ میں اس کے قیام میں ممد ہوتے ہیں اور اس طرح خود اپنے ہاتھ کاٹ لیتے ہیں- دوسرے گروہ کا خیال غالباً اس امر پر مبنی ہے کہ اس وقت جب کہ ہندو حکومت کا بائیکاٹ کر رہے ہیں- ہمارا حکومت سے تعاون اچھے نتیجے پیدا کرے گا اور انگریزوں اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتا ہوں- لیکن میرے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں اور اس نازک موقعہ پر ہمیں اس سے زیادہ غور اور فکر کی ضرورت ہے جس قدر کہ اس وقت مسلمان کر رہے ہیں-
میں اس امر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق کے طے کرنے کا موقعہ دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹے تو ہمماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں` ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کر کے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں- یقیناً اس سے زیادہ بدقسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر *** کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے-
مسلمانان ہندو کے حقوق کی اہمیت
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال چار ہزار آدمیوں کا سوال نہیں- بلکہ آٹھ نو کروڑ آدمیوں کا سوال ہے- اور پھر صرف ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کا سوال ہے- کیونکہ اس وقت دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ بیداری ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے اور ان کی موت سے عالم اسلام کی سیاسی موت اور ان کی زندگی سے عالم اسلام کی سیاسی زندگی وابستہ ہے- کیا اس قدر عظیم الشان ذمہ واری کی طرف سے ہم لا پرواہی کر سکتے ہیں- اسلام تو کیا اگر ہم میں انسانیت کا ایک خفیف سا اثر بھی باقی ہے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے-
صحیح طریق عمل
اس تمہید کے بعد میں اپنا خیال ظاہر کرتا ہوں- میرے نزدیک ہمیں ہر ایک مخالفت پر بائیکاٹ کا حربہ نہیں اختیار کرنا چاہئے- کیونکہ بائیکاٹ جب کہ صرف تبادلہ خیال تک محدود ہو` صرف ذہنی نشوو نما کو روکنے کا ہی موجب ہوتا ہے اس سے زیادہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا- میرے نزدیک صحیح طرف عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقصود کے حصول کو تو اصل قرار دیں اور جائز ذرائع کو فرع- پس جو جائز ذریعہ ہمیں حاصل ہو ہم اس کو استعمال کر لیں اور ذریعہ کو مقصد کا قائم مقام بنا کر اپنی سب توجہ اسی کی طرف نہ لگا دیں- ایک وکیل اگر دیکھے کہ اس کے مئوکل کو اس کے نقطہ نگاہ کے سوا کوئی اور نقطہ نگاہ فائدہ پہنچا سکتا ہے تو اسے اس کے اختیار کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہئے- پس ہمیں اس امر سے زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارے مدعا کے حاصل کرنے کے لئے کون سا ذریعہ مفید ہو سکتا ہے اور کسی جائز راستہ کو اپنے لئے بند نہیں کرنا چاہئے- اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے اگر رائونڈٹیبل کانفرنس کی بس کمیٹیوں کی شرکت ہمارے لئے مفید ہو تو ہمیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے اور اگر مضر ہو تو حتی الوسع ہمیں اس سے بچنا چاہئے-
مشاورت میں شرکت
سب سے پہلے مشاورت میں شرکت کے سوال کو میں لیتا ہوں- شرکت عام طور پر مفید ہوتی ہے- کیونکہ انسان کو اپنے خیالات کے پیش کرنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے- اگر وہ پوری طرح کامیاب نہ بھی ہو تب بھی وہ یہ تو روشن کر دیتا ہے کہ میری رائے کے برخلاف اور صحیح دلائل نظر انداز کرتے ہوئے میرے مخالفوں نے فیصلہ کر دیا ہے- لیکن اس موقعہ پر اس قسم کا تعاون مفید ہوتا ہے- جب کہ دوسرا گروہ یہ سجمھتا ہو کہ یہ تعاون کسی مقررہ پالیسی کے ماتحت ہے- جب اس کا یہ خیال ہو اور جب یہ واقعہ بھی ہو کہ شرکت یا ذاتی مفاد کی خاطر ہو یا کسی مقررہ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے` تو ایسی شرکت کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں میں شرکت اگر کلی طور پر مئوخر الذکر قسم میں داخل نہ ہو تو اس کے مشابہ ضرور ہے- مسلمانوں کی ایک ذمہ وار انجمن نے یہ اعلان کر دیا ہوا ہے کہ جب تک مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ نہ ہو` اس وقت تک مرکزی ذمہ واری کے اصول کے طے کرنے میں ہمیں حصہ نہیں لینا چاہئے- میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ یہی فیصلہ معقول ہے-
پس اس فیصلہ کی موجودگی میں بغیر کسی شرط کے رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں میں مسلمانوں کی شرکت انگریزوں کے دل میں یہ خیال ہزگز نہیں ¶پیدا کر سکتی کہ مسلمان ہم سے تعاون کرتے ہیں- آئو ہم بھی ان سے تعاون کریں- یہ شرکت انگریزوں کے دل میں یہ احساحس پیدا کرے گی کہ مسلمان بے اصولے ہیں ان کی قوم کوئی پالیسی نہیں اور اگر کوئی ہے تو اس پر قائم نہیں رہ سکتے- ایسے بے اصولے لوگوں سے تعاون کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا- آئو ہم ظاہر میں ان سے فائدہ اٹھائیں اور اس موقعہ کے منتظر رہیں جب کہ ہندئووں سے جو اپنے اصول کے پکے ہیں- ہمارا مناسب سمجھوتہ ہو سکے- انگریزوں کے ذہن میں اس قسم کے خیالات کا پیدا ہونا یقیناً مسلمانوں کے لئے مضر اور ان کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر دینے والا ہو گا-
مسلمانوں کی سیاسی کمزوری
یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ ہماری سیاسی کمزوری سے انگریز واقف نہیں- ایسا خیال ہمیں اس کبوتر کے مشابہ کر دے گا جو بلی کے حملہ کے وقت آنکھیں بند کر لیتا اور خیال کرتا ہے کہ میرے آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی بھی آنکھیں بند ہو گئی ہیں- انگریزوں کو حکومت کا لمبا تجربہ ہے اور مختلف اقوام کی کمزوریوں کو خود ان اقوام سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں- پس میرے نزدیک ہمارا موجودہ تعاون انگریزوں کے دل پر کبھی بھی اچھا اثر نہیں پیدا نہیں کرے گا- وہ ظاہر میں اس سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن دل میں ہمیں نکما اور ناقابل التفات سجمھیں گے-
بائیکاٹ کی پالیسی
تعاون کے بعد میں بائیکاٹ کی پالیسی کو لیتا ہوں- میں خوب سجمھتاہوں کہ دنیا کے اکثر افراد کو میرے اس خیال سے اختلاف ہے- لیکن میں اس امر کا سختی سے یقین رکھتا ہوں کہ بائیکاٹ ننانویں فیصدی جہالت اور اپنی کمزوری کے چھپانے کے لئے ہوتا ہے- وہ ایک سزا تو کہلا سکتا ہے- لیکن آلہ اصلاح ہرگز نہیں- ہم جبر سے نہیں بلکہ دلیل سے دوسرے کی اصلاح کر سکتے ہیں- پس بائیکاٹ بطور ایک اصلاحی آلہ کے نہ صرف بیکار ہے بلکہ مضر ہے- اس وجہ سے بائیکاٹ کا بھی میں سختی سے مخالف ہوں- میرے نزدیک نہ صرف اس وقت بلکہ ہمیشہ ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے اور بائیکاٹ کے طریق کو اصلاحی آلہ کے طور پر کبھی استعمال نہیں کرنا چاہئے-
جہاں تک مسلمانوں کے حقوق کا سوال ہے- مسلمانوں کی اکثریت اس کے متعلق متفق ہے- ہم نے اسلامی سادگی سے کام لے کر اقل ترین ضروریات کو مختصر الفاظ میں بیان کر دیا ہے- ان میں خفیف تبدیلی صرف تزئین و تحسین کے لئے تو کی جا سکتی ہے- لیکن ان میں کوئی اصولی تبدیلی کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے- کیونکہ اس سے ہماری قومی زندگی پر تیر چل جاتا ہے جس ہم برداشت نہیں کر سکتے-
مسلمانوں کے مطالبات انگریزوں سے ہیں
یہ ہمارے مطالبات انگریزوں سے ہیں` ہندئووں سے نہیں ہیں- کیونکہ اس وقت حکومت انگریزوں کی ہاتھ میں ہے اور قانوناً سب سیاسی حقوق ان کے قبضہ میں ہیں- پس ہم اپنے حقوق کا مطالبہ انہیں سے کر سکتے ہیں- ہمارے ان مطالبات کے شائع ہونے پر انگریزوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہندئووں سے بھی سمجھوتہ کی کوشش کرو- اگر ان سے آپ لوگوں کا اتفاق ہو جائے تو اس میں آپ لوگوں کا نفع ہے نقصان نہیں- باوجود اس کے کہ قانونی نقطہ نگاہ سے ہندئووں کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہ تھا` ہمارے نمائندوں نے صلح پسندی کے خیال سے ہندئووں سے سمجھوتہ کی متواتر کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے- میں یہ بحث نہیں کرتا کہ کیوں؟ مگر بہرحال مسلمان اس کوشش میں ناکام رہے اور اس قدر مرتبہ ناکام رہے کہ اب کوئی عقلمند مسلمانوں کو اس تجربہ کے دہرانے کا مشورہ نہیں دے سکتا- پس جب یہ طریق جو قانونی لحاظ سے درست نہ تھا کیونکہ اختیارات اس وقت برطانیہ کے قبضہ میں ہیں نہ کہ ہندئووں کے` ناکام ثابت ہوا تو اب ہمارے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے یعنی انگریزوں سے جن کے ہاتھ میں حکومت ہے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا اور پیشتر اس کے کہ مرکزی حکومت کی کوئی معین صورت قرار پائے` ہمارا فرض ہے کہ ہم برطانیہ سے اپنے حقوق کا تصفیہ چاہیں- ہمیں صاف اور واضع طور پر حکومت ہند سے کہہ دینا چاہئے کہ مسلمانوں کے یہ یہ مطالبات ہیں- پیشتر اس کے کہ ہم آگے چلیں ہمیں آپ بتا دیں کہ ان میں سے کس قدر مطالبات آپ منظور کر سکتے ہیں اور کس قدر نہیں اور کیوں- ہم نے ہندئووں سے آپ کے کہنے کے مطابق فیصلہ چاہا- لیکن انہوں نے ہم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا- چونکہ اس وقت گورنمنٹ آپ کے ہاتھ میں ہے اس لئے ان اختیارات کے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ آپ ہی سے ہو سکتا ہے- پس ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنا آخری فیصلہ اس بارے میں دیں کیونکہ ہم زیادہ دور تک اندھیرے میں چلنا پسند نہیں کرتے-
مطالبہ حقوق کے دو طریق
اس امر کے پیش کرنے کے دو طریق ہیں- ایک یہ کہ ایک آل انڈیا وفد جناب وائسرائے کے سامنے جا کر مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ پیش کرے اور ساتھ ہی درخواست کے کہ جس عرصہ تک آپ کو یہ فیصلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہو اس عرصہ تک مرکزی اختیارات اور مرکزی اور صوبہ جاتی تعلقات کے سوالوں کے کا فیصلہ ملتوی رکھا جائے-
دوسرا طریق یہ ہے کہ رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹی کے مسلمان ممبر ہی اس مطالبہ کو پیش کر دیں-
اگر حکومت مطالبہ منظور نہ کرے
چونکہ ضروری نہیں کہ ہمارے اس مطالبہ کو حکومت تسلیم کر لے- اس لئے ہمیں اس صورت حالات کا علاج بھی سوچ لینا چاہئے- میری رائے میں اگر حکومت اس مطالبہ کو منظور نہ کرے اور مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق اپنا قطعی فیصلہ شائع نہ کرے- جس سے ہمیں یہ معلوم ہو سکے کہ وہ اصطلاحات جن کے پردہ میں ہم سے وعدے کئے گئے ہیں` ان کے اصلی معنی کیا ہیں- تو اس صورت میں مسلمان ممبران رائونڈٹیبل کانفرنس کانفرنس کو سب کمیٹیوں میں شامل تو ہونا چاہئے تاکہ تعاون کا دروازہ کھلا رہے اور تا ایسے مواقع جن میں مشورہ میں شامل ہونا مفید ہو سکتا ہو ہاتھ سے نہ جاتے رہیں- لیکن جب بھی کوئی سوال مرکزی اختیارات کے متعلق یا مرکز اور صوبہ جات کے تعلق کے متعلق آئے` انہیں کہہ دینا چاہئے کہ چونکہ ہمارے حقوق کا تصفیہ نہیں ہوا` ہم اس بحث میں حصہ نہیں لینا چاہتے- اس امر کی روزانہ تکرار بائیکاٹ سے یقینی زیادہ مفید ثابت ہو گی اور چند ہی دنوں میں حکومت اس امر کی ضرورت محسوس کرنے لگے گی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق اپنا فیصلہ سنا دے-
بائیکاٹ میں ایک بہت بڑا نقص
بائیکاٹ میں علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے یہ نقص بھی ہے کہ حکومت وفادار ممبروں کی جگہ ایسے غدار ممبر مقرر کر سکتی ہے- جو مسلمانوں کے مفاد کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں- پس اگر موجودہ مسلمان مبر مذکورہ بالا طریق پر اپنی وفاداری کا ثبوت دیں تو ان کا ممبر رہنا مسلمانوں کے لئے ان کے علیحدہ ہونے سے بدرجہا بہتر ہو گا-
سارے ہندوستان میں جلسے منعقد کئے جائیں
ایک اور امر بھی میرے نزدیک ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایک خاص دن مقرر کر کے سارے ہندوستان میں مسلمان جلسے کر کے اس امر کے ریزولیشن پاس کریں کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے حقوق کے متعلق اپنا آخری فیصلہ شائع کرے- پس ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کا فیصلہ مخالف وہ یا موافق- مرکزی حکومت کے ڈھانچہ کے تیار ہونے سے پہلے شائع کر دیا جائے- مسلمانوں کے نمائندوں کو بھی چاہیے کہ وہ فوراً سب کے سب مل کر یا ان میں سے جس قدر بھی اپنی قوم کی ترجمانی کے لئے تیار ہوں حکومت تک ہمارا یہ خیال پہنچا دیں اور اگر حکومت اس کے بعد بھی اپنا فیصلہ شائع نہ کرے تو انہیں چاہئے کہ ایسے تمام سوال جو مرکزی اختیارات کے متعلق ہوں یا جن میں مرکز اور صوبجاتی حکومت کے اختیارات کی حد بندی کی جانی ہو- ان کے متعلق احتجاج کر کے خاموش بیٹھے رہیں اور صرف کاروائی سنتے رہیں تاکہ ان کا علم کامل رہے اور صورت حالات کی تبدیلی کی صورت میں فوراً کام شروع کر سکیں- تمام ہندوستان میں ان قرار دادوں کے پاس ہونے کے بعد وفادار مسلمان نمائندوں کی ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور وہ جو اپنی قوم کی ترجمانی کرنا پسند نہیں کریں گے ان کے متعلق ظاہر ہو جائے گا کہ وہ اس کانفرنس ذاتی اعزاز کے حصول نیت سے شامل ہوئے ہیں نہ کسی قومی فائدہ کو مدنظر رکھ کر اگر مسلمان نمائندے سب کے سب یا ان میں بعض باوجود اپنی قوم کے مطالبہ کے بلا قید شرکت کو جاری رکھیں تو مسلمانوں چاہئے کہ ان کے متلعق عدم اعتماد کے ریزولیشن پاس کر کے حکومت کو بھجوا دیں اور تمام ہندوستان میں دوبارہ جلسے کر کے اس امر کا اعلان کر دیا جائے کہ مسلمانوں کی نمائندگی رائونڈٹیبل کانفرنس میں بالکل نہیں ہے یا ناکافی ہے-
برطانیہ کے لئے مسلمانوں سے سمجھوتہ ضروری ہے
میں سمجھتا ہوں کہ خواہ کوئی کیسی ہی زبردست نمائندہ انجمن ہو` اس کے فیصلہ کی نسبت یہ تمام ہندوستان کے جلسے زیادہ با اثر اور زیادہ مفید ثابت ہوں گے- اور حکومت ہند اچھی طرح معلوم کر لے گی کہ مسلمانوں کے اصل خیالات کیا ہیں اور چونکہ یہی حق ہے کہ اس وقت برطانیہ کا اپنی گزشتہ شان و شوکت کو قائم رکھنا مسلمانوں سے اتحاد کے بغیر ناممکن ہے اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ انگریزوں سے جو مسلمانوں کی طرف سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں باوقار سمجھوتہ کر لیں- اس لئے جب مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ حکومت تک پہنچ جائے گا تو برطانیہ ضرور اس کی طرف توجہ کرے گا اور اگر وہ ایسا کرے گا تو ہماری طرف سے اس پر حجت تمام ہو جائے گی-
اظہار خیالات کی دعوت
وہ مسلمانوں جو میرے اس خیال سے سے متفق ہوں - اگر اپنے خیالات پبلک میں یا خطوط کے ذریعہ سے ظاہر کریں تو ہو سکتا ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد کوئی خاص دن اس غرض کے لئے مقرر کر دیا جائے- جس میں سب ہندوستان میں مذرکور بلا غرض کے لئے جلسے منعقد کئے جائیں- میں امید کرتا ہوں کہ اس نازک موقعہ پر مسلمان اپنے فوائد کو یوں کچلتا ہوا یوں دیکھنا پسند نہیں کریں گے اور موقعہ کی اہمیت کے مطابق بیداری اور قربانی کا ثبوت دیں گے- )نوٹ تمام درد مند مسلمانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس مضمون سے اپنے علاقہ کے لوگوں کو آگاہ کر دیں(-
خاکسار
مرزا محمود احمد
‏a11.21
انوار العلوم جلد ۱۱
امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت
امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏gap] gat[
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت
)تحریر فرمودہ ۱۳- دسمبر ۱۹۳۰ء(
بلا اجازت استعفیٰ
پچھلے دنوں چوہدری ابوالہاشم خان صاحب جنرل سیکرٹری صوبہ بنگال نے اپنے کام سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس وجہ سے صوبہ بنگال کے کام میں نقص پیدا ہونے لگا تھا- چونکہ پراونشل انجمن کے کارکن مرکز کی منظوری سے مقرر ہوتے ہیں اس وجہ سے چوہدری صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ انہوں نے کیوں بلااجازت استعفیٰ دیا ہے- ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ وہ موجودہ امیر کے کام سے خوش نہیں ہیں اور ان کے نزدیک بہتر یہی تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں تا کہ اس وجہ سے امیر صاحب کو کام کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو- میرے نزدیک یہ جواب ان کا بالکل ناکافی تھا- جب ایک افسر خلیفہ کی طرف سے منظور کیا جائے تو وہ صرف خلیفہ کے پاس ہی استعفیٰ پیش کر سکتا ہے اور خلیفہ کے پاس اس کی منظوری لینے سے پہلے استعفیٰ پیش کرنا اسلامی اصول کے مطابق درست نہیں ہے- مگر بہرحال چونکہ کام خراب ہونا شروع ہو گیا تھا اور چونکہ امیر کی تعیین موقت ہوتی ہے اس لئے میں نے صوبہ بنگال کے آئندہ نظام کے متعلق جماعت بنگال سے مشورہ لیا اور دریافت کیا کہ مرکز کہاں ہو اور بنگال کا امیر کسے مقرر کیا جائے-
منصب امارت کی حقیقت
جو جوابات موصول ہوئے ہیں ان سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنگال کے دوست ابھی پوری طرح امارت کے منصب کی حقیقت اور اس کی غرض کو نہیں سمجھے کیونکہ بہت سے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم لوگ کسی ایک امیر پر متفق نہیں ہو سکتے اس لئے امیر اگر کم سے کم کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے آئے تو بہتر ہوگا یا یہ کہ اس وجہ سے ہم رائے نہیں دے سکتے لیکن اگر مجبور ہی کیا جائے تو فلاں یا فلاں شخص امیر ہوں- اس ناواقفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ بتا دوں کہ اسلامی طریق کے مطابق ہر ملک یا علاقہ میں ایک شخص نبی یا خلیفہ کا نائب ہوتا ہے جسے امیر کہتے ہیں- یہ شخص خلیفہ کی طرف سے اس علاقہ کا نگران ہوتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق مقامی لوگوں کے مشورہ سے اس صوبہ کے ان امور کا انتظام کرتا ہے جن کا انتظام صوبہ کے سپرد کیا گیا ہو- یا ان احکام کی تنفیذ کرتا ہے جو براہ راست خلیفہ یا خلفاء کے مقرر کردہ امراء کی طرف سے جاری کئے گئے ہوں- پس یہ عہدہ حقیقتاً انتخابی نہیں بلکہ تعیینی ہے- لیکن چونکہ ہر اہم معاملہ میں خلیفہ کے لئے حکم ہے کہ وہ پہلے مشورہ لے لیا کرے اس وجہ سے مقامی لوگوں سے اس کے متعلق مشورہ کر لیا جاتا ہے اور ان کے مشورہ کو مشورہ کی حد تک محدود رکھنے کے لئے یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ وہ ایک نام پیش نہ کریں بلکہ دو تین نام پیش کریں تا کہ مشورہ کی صورت قائم رہے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ امیر کثرت رائے سے مقرر ہوا ہے-
احباب بنگال کی تجویز
اس تفصیل کے بعد اب میں اصل معاملہ کو لیتا ہوں ناظر صاحب اعلیٰ نے ایک لمبی خط وکتابت کے بعد جو رپورٹ میرے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگال کے دوستوں میں امارت اور اس کے مرکز کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے- مختلف آراء کا مطالہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف احباب مندرجہذیل تجاویز پیش کرتے ہیں-
۱-
امیر قادیان سے مقرر ہو کر آئے-
۲-
چوہدری ابوالہاشم خان صاحب امیر ہوں-
۳-
پروفیسر عبداللطیف صاحب امیر ہوں-
۴-
مولوی ابوطاہر صاحب امیر ہوں-
۵-
پروفیسر عبدالقادرصاحب امیر ہوں-
۶-
امیر سرکاری آدمی نہ ہو-
۷-
امیر بنگالی ہو-
۸-
مقامی امراء میں سے کوئی شخص امیرہو-
۹-
مرکز کلکتہ ہو-
۱۰-
مرکز براہمن بڑیہ ہو-
۱۱-
مقامی امیر کا مرکز جب وہ صوبہ کا امیر مقرر ہو صوبہ کا مرکز ہو-
۱۲-
کسی صوبہ کے امیر کی ضرورت نہیں- ہر اک انجمن براہ راست قادیان سے تعلق رکھے اور اگر ضرور ہی صوبہ کا امیر مقرر کیا جائے تو اس کے اختیارات اور صوبہ کی انجمن کے اختیارات مقامی جماعتوں سے محدود ہوں اور پھر بھی بعض امور میں ان کا تعلق قادیان سے براہ راست رہے-
ضروری امور
ان سب آراء پر غور کرنے کے بعد اور ان اصول پر غور کرنے کے بعد جو میرے نزدیک اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی طرف سے نظام جماعت کے چلانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں میں بعض ایسے امور کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اصولی طور پر بنگال اور دوسرے ممالک یا صوبہ جات کے انتظام میں ممد ہونگے اور جن پر میرے آئندہ فیصلہ کی بنیاد ہوگی-
سلسلہ کے مالی کام کا انتظام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور احکام سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کا مالی کام براہ راست ایک شخص کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ انجمن کے ذریعہ سے- یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقرر ایگزیکٹو کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں- یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام اور آپ کی تحریرات سے ثابت ہے کہ آپ اس ایگزیکٹو کو تمام دنیا کی جماعت کے لئے نقطئہاتحادی قرار دیتے ہیں اور پھر یہ بھی آپ کی تحریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس انجمن کے لئے قادیان کا مرکز رہنا ضروری قرار دیتے ہیں لیکن مختلف ممالک کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اس انجمن کی آمد کا ایک حصہ مقامی صوبوں یا ملکوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے-
خلافت سے وابستگی کی ضرورت
دوسری طرف آپ کی تحریرات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس جماعت کی ترقی خلافت سے وابستگی کے ساتھ مشروط رکھتے ہیں- خلیفہ کو واجب الاطاعت قرار دیتے ہیں اور اس کے وجود کو خدا تعالیٰ کے فضل کا نشان اور ذریعہ فرماتے ہیں جس کے فقدان کے ساتھ سلسلہ کی برکات بھی ختم ہو جائیں گی اور اس سے بغاوت کو شقاوت اور طغیانی قرار دیتے ہیں-
خلافت کیلئے مشورہ کی ضرورت
تیسری طرف اسلام سے یہ امر بوضاحت ثابت ہے کہ کوئی خلافت بغیر مشورہ کے نہیں چل سکتی اور یہ کہ جہاں تک ہو خلیفہ کو کثرت رائے کا احترام کرنا چاہئے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے- سوائے اس صورت کے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی خلاف ورزی کثرت رائے میں پائے- یا اسلام کو کوئی واضح نقصان پہنچتا دیکھے یا مشورہ کو جماعت کی کثرت رائے کا آئینہ نہ سمجھے- وغیرہ وغیرہ-
مجلس عاملہ کی حیثیت
ان تینوں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک خلیفہ کو سب کام اپنے ہاتھ سے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ایک مجلس عاملہ کے ذریعہ سے کرنے چاہئیں تا کہ اس کی رائے میں کوئی خاص تعصب نہ پیدا ہو جائے- وہ مجلس عاملہ اپنے دائرہ عمل میں سب دنیا کی جماعتوں کے لئے واجب الاطاعت ہونی چاہئے- خلیفہ کو جماعت سے مشورہ لے کر اپنی پالیسی کو طے کرنا چاہئے اور اس مشورہ کا انتہائی حد تک لحاظ کرنا چاہئے اور اس سے یہ امر خودبخود نکل آیا کہ جب جماعت کے مشورہ سے کوئی امور طے ہوں تو مجلس عاملہ اس کی پابند ہو- وہ افراد جماعت کے لئے واجب الاطاعت ہے نہ کہ بہ حیثیت جماعت جماعت پر-
بہترین نظام
جب قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس عاملہ کا مرکز قرار دیا ہے تو بدرجہ اولیٰ خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے لئے اس مرکز کی پابندی ضروری ہے- حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر نظام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا- اس نظام میں بغیر کسی حصہ ملک کو تکلیف میں ڈالنے کے ترقی کی بے انتہاء گنجائش ہے اور باوجود مختلف صوبہ جات کی مخصوص ضرورتوں کو پورا کرنے کے قومیت کے تنگ بندھنوں سے نکالنے کی بھی پوری صورت موجود ہے-
خلیفہ کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کا باشندہ ہو- انجمن عاملہ کیلئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس ملک کے باشندوں سے چنی جائے- مجلس شوریٰ اپنی بناوٹ کے لحاظ سے لازماً سب دنیا کی طرف سے چنی جانی چاہئے اور چونکہ بیشتر حصہ اصولیتجاویز کا ایسی مجلس کے ہاتھوں سے گزرنا ہے اس وجہ سے ہر ملک اور قوم کے افراد کو سلسلہ کے کام میں اپنی رائے دینے کا موقع ہوگا اور یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ مسیحی پاپائیت کی طرح کسی خاص قوم کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام چلا جائے گا- کیونکہ رومن کیتھولک نظام میں مجلس شوریٰ پوپ کے مقرر کردہ نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اسلامی مجلس شوریٰ میں سب مسلمانوں کو نمائندگی کا کافی موقع ملتا ہے- پس اس نظام کے ذریعہ سے ہر ملک کو یکساں نمائندگی سلسلہ کے کام میں حاصل ہونے کے لئے راستہ کھلا ہے اور اس کے ماتحت سب دنیا کو ایک نقطہ پر جمع کیا جانا ممکن ہے اور یہی مقصد اسلام کا ہے جو قومیت کے تنگ دائرہ سے دنیا کو نکالنا چاہتا ہے-
قومیت کی روح
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومیت کی روح دنیا پر اس قدر غالب ہے کہ لوگ اس کے احساسات اور جذبات میں لذت محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور بجائے اسے ایک خراب شدہ زخم کے ایک نعمت سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن- باوجود اس کے اس احساس کی اسلام میں گنجائش نہیں اور اس کا قلع قمع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے خواہ اس کے لئے کیسی ہی قربانی کیوں نہ کرنی پڑے- اپنے قریب کے فوائد کو ترجیح دینے کی بجائے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دائمی فائدہ کو مدنظر رکھیں جو اسلام دنیا کو پہنچانا چاہتا ہے ورنہ ہم اسلام کا ایک ہتھیار بننے کی بجائے اسلام کے خلاف ایک ہتھیار بن جائیں گے- اور اپنے وجود کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنائیں گے-
امیر کے فرائض
اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور وہ وہ نظام ہے جو باوجود صوبہ جاتی نظام کے تمام افراد اور جماعتوں کا تعلق مرکز سے قائم رکھے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک تو امیر ہو جو خلیفہ کا نائب ہو- جس کا فرض ہو کہ وہ یہ دیکھے کہ ایک طرف تو صوبہ یا ملک کی جماعت خلیفہ اور صدر انجمن احمدیہ کے احکام کی پیروی کرتی ہے اور دوسری طرف یہ دیکھے کہ صوبہجات کی اکثریت کی طے کردہ پالیسی پر اس کے مقامی عمال عمل کرتے ہیں- گویا ایک طرف اس کا فرض ہے کہ صوبہ میں مرکز کے احکام کی پابندی کرائے اور دوسری طرف اس کا فرض ہے کہ یہ دیکھے کہ صوبہ کے عمال صوبہ کی جماعت کی اکثریت کے تابع چلتے ہیں- اور اپنے فرائض کو خود سری سے نظر انداز نہیں کرتے اور اسلامی مساوات اور جمہوریت کی روح کو کچلتے نہیں- تیسری طرف یہ دیکھنا بھی اس کا فرض ہے کہ اکثریت اسلام کے منشاء کے خلاف تو نہیں چلتی اور اگر اسے ایسا نظر آئے تو وہ اس کی اصلاح کر کے خلیفہ وقت کے پاس رپورٹ کرے-
غرض بہترین نظام جسے اگر صحیح طور پر چلایا جائے تو تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے امارت کا انتظام ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے مقامی انتظام اور مرکز کی ضرورتیں دونوں پوری ہوتی رہتی ہیں-
امیر خلیفہ کا نمائندہ ہے
امیر کے لئے ہر گز یہ شرط نہیں کہ وہ اسی ملک کا باشندہ ہو- اسلام کے شروع زمانہ میں نوے فیصدی امراء مرکز سے مقرر ہو کر جاتے تھے اور اب بھی ضرورت پر ایسا کیا جا سکتا ہے- چونکہ ہمارے پاس روپیہ نہیں کہ ہم تنخواہیں دے سکیں اس لئے ہم ایسا نہیں کرتے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ضرورت پر ایسا نہ کیا جائے- ہاں یہ ضروری ہے کہ امراء کے تقرر کے وقت مقامی لوگوں کے احساسات کا خیال رکھ لیا جایا کرے- پس اگر مقامی جماعت کے مشورہ کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ مقرر کردہ امیر پر انہیں کوئی خاص اعتراض نہیں ہے باہر سے بھی امیر مقرر کیا جائے تو اس میں اسلامی نکتہ نگاہ سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے- گو میرا طریق عمل یہ ہے کہ مقامی لوگوں میں سے ہی امیر مقرر کرتا ہوں- اور میری انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ امیر لوگوں کی رائے کے مطابق ہی مقرر کیا جائے مگر اس امر کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امیر پبلک کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ خلیفہوقت کا نمائندہ ہے- اس لئے خواہ لوگ کتنا بھی اصرار کریں یہ عہدہ درحقیقت خلیفہوقت کا اعتماد رکھنے والے شخص کو مل سکتا ہے اور اس میں وہی حکمت ہے کہ اسلامی نظام اتحاد عالم پر مبنی ہے نہ کہ قومیت پر- خلیفہ کے انتخاب کے ذریعہ سے جمہور کی رائے کو ظاہر کرنے کا موقع دے دیا جاتا ہے اور پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ تمام عالم اسلام ایک سلک میں منسلک رہے اور قومیت کا سوال پیدا ہو کر اس میں رخنہ اندازی نہ کرے-
احمدی یاد رکھیں
یہ اصول ہیں جن پر سلسلہ کا آئندہ نظام چلایا جائے گا اور سب صوبوں اور ملکوں کے احمدیوں کو انہیں یاد رکھنا چاہئے تا وہ دھوکا نہ کھائیں اور انہیں کوئی دوسرا شخص دھوکا نہ دے سکے-
بنگال کا سوال
اصولی بحث کے بعد میں بنگال کے سوال کو لیتا ہوں- جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے نزدیک کلکتہ چونکہ اس وقت بنگال کا سیاسی مرکز ہے ہمارے کام تبھی سہولت سے چل سکتے ہیں کہ اسی کو ہم اپنا مذہبی مرکز قرار دیں- اگر ہمارے لئے ممکن ہوتا کہ ہم پورے وقت کا امیر مقرر کر سکتے اور اس کے ساتھ عملہ بھی پورے وقت کا دے سکتے تو ہم کلکتہ کو مرکز بنانے پر مجبور نہ ہوتے لیکن موجودہ حالات میں یہی مناسب ہے کہ سردست کلکتہ ہی بنگال کا مرکز رہے- پس میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ حکیم ابوطاہر صاحب جنہوں نے اپنے گزشتہ رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ امارت کے منصب کو خوب سمجھتے ہیں انہیں علاوہ کلکتہ کا مقامی امیر ہونے کے تمام بنگال کا بھی امیر مقرر کیا جائے اور آئندہ کے لئے میں انہیں بنگال کا بھی امیر مقرر کرتا ہوں-
امیر صوبہ کی مجلس شوریٰ
چونکہ صوبہ کے کام کے لئے وہ صرف کلکتہ کے احباب کے مشورہ پر انحصار نہیں کر سکتے اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ امیر صوبہ کی ایک مجلس شوریٰ ہو جس میں صوبہ کے تمام مقامی امراء شامل ہوں اور علاوہ اس کے مبلغین سلسلہ بھی اس کے ممبر ہوں- علاوہ ان کے اگر کسی شخص کو خاص طور پر مرکز کی طرف سے اس غرض سے چنا جائے یا صوبہ کی انجمنیں اپنے سالانہ اجتماع میں بعض لوگوں کو خاص طور پر اس کام کے لئے تجویز کریں تو ان لوگوں کو بھی اس مجلس کا ممبر سمجھا جائے- سردست میں علاوہ امراء اور مبلغین کے چوہدری ابوالہاشم خان صاحب` مولوی مبارک علی صاحب اور پروفیسر عبدالقادر صاحب کو اس مجلس کا ممبر مقرر کرتا ہوں-
چندہ کے متعلق فیصلہ
بنگال کا جس قدر چندہ ہو سوائے خاص تحریکات کے باقی سب چندہ میں سے ۳/۱ )ایک تہائی( بنگال میں رکھا جانے کی میں اجازت دیتا ہوں کہ اس تینتیس فیصدی میں سے پچیس فیصدی تو مرکزی صوبہ کی انجمن کے سپرد ہو اور بقیہ آٹھ فیصدی ہر اک مقام کی انجمن کو اپنے طور پر مقامی تبلیغ پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہو- صدقات اور زکٰوۃ میں سے بھی ۳/۱ حصہ بنگال کو وہیں رکھنے کا اختیار ہو اور یہ رقم وہاں کے مستحق غرباء پر خرچ کی جائے اور اس کا اختیار صرف امیر کے ہاتھ ہو کیونکہ ان رقوم کے خرچ کرنے کا انتظام شروع زمانہ اسلام سے خلفاء کے ہاتھ میں چلا آیا ہے-
صوبہ کی انجمن فوراً کام شروع کر دے
صوبہ کی انجمن کو چاہئے کہ اپنے عہدہ دار مقرر کر کے فوراً صوبہ کے تبلیغی اور تعلیمی کام کو چلانے کے لئے کوشش کرے اور زیادہ تر روپیہ تبلیغ پر خرچ کرے- کیونکہ تعلیم کا خاص انتظام اس وقت غالباً صوبہ کے لئے مشکل ہوگا- جوں جوں جماعت ترقی کرتی چلی جائے گی یہ انتظامات خود بخود پختہ ہوتے چلے جائیں گے اور سہولتیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی- تعلیم کا کام سردست مذہبی تعلیم اور تربیت تک محدود رہے تو اچھا ہوگا- لیکن میں اس بارہ میں کوئی حکم نہیں دینا چاہتا- صرف مشورہ دیتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک بہت سا نقصان اس وقت تک ناتجربہ کاری سے صوبہ کی انجمن کو ہوا ہے-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۱۳- دسمبر ۱۹۳۰ء
نوٹ-: مقامی مجلس شوریٰ کے مشورہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حسب ذیل نوٹ تحریر فرمایا-:
>چونکہ استعفیٰ سے بعض دفعہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے استعفیٰ دینے سے پہلے بالا افسر سے مشورہ کر لینا ضروری ہے اور میرے نزدیک استعفیٰ کو استئذان سمجھنا موجب شرہوگا- نیز میں اس امر سے بھی متفق نہیں ہوں کہ شوریٰ کے متعلق تفصیلی احکام موجود نہیں ہیں- میرے نزدیک شوریٰ کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ کا تعامل واضح ہے- چنانچہ جو مشورہ ایگزیکٹو ہوتا اس میں صرف اپنے انتخاب کردہ لوگوں سے رسول کریم ~صل۲~ مشورہ لیتے تھے اور جو معاملہ تمام قوم پر اثر انداز ہوتا اس میں براہ راست سب لوگوں سے یا ان کے مقرر کردہ نمائندوں سے مشورہ لیتے- پس میرے نزدیک غور اور فکر سے ان سب امور کی تفصیل اسلام سے مل سکتی ہے- گو یہ امر صحیح ہے کہ مکان اور زمان کے تغیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے ایک حد تک ان امور میں تغیر کرنے کی بھی اجازت دی ہے- مگر اصول ضرور واضح اور معین ہیں اگر وہ نہ ہوں تو ہم ہدایت کہاں سے حاصل کریں-
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
مورخہ ۲۵- جنوری ۱۹۳۲ء
)الفضل ۱۱- فروری ۱۹۳۲ء(
‏a11.22
انوار العلوم جلد ۱۱
نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ
نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ
نہرو کمیٹی نے میرے تبصرے کی اشاعت کے بعد اپنی رپورٹ کا ایک تتمہ لکھا ہے اور اس میں اپنی پہلی پیش کردہ تجاویز میں بعض اصلاحیں کی ہیں- میرے نزدیک گو اس اصلاح کے باوجود میرا تبصرہ بہت ہی کم تغیر کا محتاج ہے لیکن چونکہ ممکن ہے بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال گذرے کہ شاید میری تنقید کے بعض حصے تتمہ رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد غیرضروری ہو گئے ہیں اس لئے میں اختصار کے ساتھ اس اصلاح کے ان حصوں کے متعلق جو مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں-
تعلیم کے متعلق اصلاح
سپلیمنٹری رپورٹ کے عنوان اصولی حقوق (FUNDAMENTALRIGHTS) کے مادہ نمبر۴ کے حصہ نمبر۵ میں تعلیم کے متعلق ایک اصلاح کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>جہاں جہاں اقلیتوں کی معقول تعداد ہوگی وہاں ان کی زبان اور انہی کی تحریر میں تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے گا<-
یہ اصلاح بے شک ایک مفید اصلاح ہے لیکن اس کے الفاظ نہایت ہی مبہم ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ اس اصلاح کے باوجود مسلمان بہت سے صوبوں میں اپنی زبان میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں- اگر یورپ کی بعد از جنگ پیدا ہونے والی ریاستوں کے قوانین کے مطابق معقول تعداد کی کوئی تشریح کر دی جاتی تو مسلمان اس سے تسلی پا سکتے تھے- معقول کا لفظ اتنا مبہم ہے کہ بالکل ممکن ہے کہ کسی جگہ کے مسلمان بھی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں اور صرف پنجاب کے سکھ اور ہندو ہی اس سے نفع حاصل کر سکیں-
اجارہ زمین کے متعلق قانون
اسی عنوان کے حصہ سترہ میں ایک زیادتی کی گئی ہے اور میرے نزدیک وہ زیادتی بجائے مفید ہونے کے مسلمانوں کے لئے مضر ہو سکتی ہے` وہ زیادتی یہ ہے:
>پارلیمنٹ ایسے بھی قوانین بنائے گی کہ جن کے ذریعہ سے کسان کو اجارہدائمی حاصل ہو جائے گا اور مناسب شرح لگان مقرر ہو جائے گی<-
اول تو جہاں تک میں خیال کرتا ہوں ایسے قانون کا بنانا سنٹرل گورنمنٹ کے دائرہ عمل سے باہر ہے کیونکہ جن امور کے متعلق مرکزی حکومت کو قوانین بنانے کا اختیار دیا گیا ہے اور جو نہرو رپورٹ کے شیڈول نمبر۱ 1)۔No (Schedule کے عنوان کے نیچے درج ہیں ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کو زمیندار اور کسان کے باہمی حقوق کے متعلق کوئی قانون بنانے کا اختیار حاصل نہیں ہے یہ اختیارات مقامی حکومتوں کے سپرد ہیں- قطع نظر اس کے یہ سوال اپنی ذات میں بھی ایسا ہے کہ سارے ہندوستان کے لئے اس کا حل بالکل ناممکن ہے اور جو حکومت اس کے لئے عام قانون بنائے گی وہ ضرور ملک کو سخت نقصان پہنچائے گی- پس میرے نزدیک اس سوال کے حل کو صوبہ جات پر ہی چھوڑنا چاہئے ورنہ چونکہ مسلمان اپنی نسبت آبادی کے لحاظ سے زمیندارہ کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتے ہیں` وہ اس قانون سے بہت نقصان اٹھا سکتے ہیں-
حکومت کی زبان
دوسرا تغیر جس کے متعلق میں کچھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں وہ زبان کے عنوان کے نیچے مادہ چار الف کے حصہ اول میں یوں بیان کیا گیا ہے-:
>حکومت کی زبان ہندوستانی ہوگی خواہ وہ ناگری میں یا اردو میں لکھی جائے<-
یہ >خواہ< کا لفظ ایسا مشکوک ہے کہ بالکل ممکن ہے سرکاری رپورٹیں ساری کی ساری ناگری میں ہی شائع ہوتی رہیں اور اس طرح اردو کی ترقی کو نقصان پہنچا دیا جائے- اور یہ لازمی بات ہے کہ اگر سرکاری طور پر ناگری حروف کو رائج کیا گیا تو آہستہ آہستہ عربی اور فارسی کے حروف زبان سے نکل کر موجودہ اردو کی بجائے ہندی بھاشہ ہی کانام اردو ہو جائے گا- خصوصاً اس وجہ سے کہ ناگری کے حروف عربی اور فارسی کے الفاظ کے پوری طرح متحمل نہیں ہو سکتے- پس لازماً آہستہ آہستہ ایسے الفاظ متروک ہوتے چلے جائیں گے اور صرف بھاشا ہی کے الفاظ رہ جائیں گے جن کی کہ ناگری زبان پوری طرح متحمل ہو سکتی ہے- میرے نزدیک یہ زیادتی مسلمانوں کے لئے ہر گز نفع رساں نہیں بلکہ اس کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے-
صوبہ جاتی حکومتوں پر مرکزی حکومت کا قبضہ
تیسرا پارلیمنٹ کے عنوان کے نیچے مادہ نمبر۱۳- الف میں ایک اور جزو بڑھایا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں-:
>اشد ضرورتوں کے وقت اور ایسے معاملات میں جو کہ دو صوبوں کے درمیان ہوں ہر قسم کی طاقتیں حاصل ہونگی حتیٰ کہ یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کی گورنمنٹ کے قانونی یا انتظامی فیصلوں کو موقوف کر دے یا معرض التواء میں ڈال دے<-
)ب( >عدالت اعلیٰ کو ایسے معاملات میں جن کا فیصلہ پارلیمنٹ یا مرکزیحکومت نے اوپر کے قانون کے دیئے ہوئے اختیارات کے ماتحت کیا ہو دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہوگا<-
یہ قاعدہ بھی نہایت ہی خطرناک ہے- اس قاعدہ کے ابتدائی الفاظ کہ >اشد ضرورت کے وقت حکومت اختیاری کو صوبہ جات کی حکومتوں کے قانون کو بدلنے کا حق حاصل ہوگا-< یہ صوبہ جات کی حکومت کو بالکل فضول اور لغو کر دیتے ہیں- بقیہ حصہ قانون کا بے شک اگر قانونی زبان میں اور ایسے الفاظ میں رکھا جائے کہ اس کے الفاظ کی کئی تاویلات نہ ہو سکیں تو بیشک مفید ہو سکتا ہے- لیکن پہلا حصہ نہایت ہی خطرناک ہے اور اس کی موجودگی میں مرکزیحکومت جس میں ہندوئوں کی کثرت ہوگی ہر وقت مسلمانوں کی کثرت والے صوبوں میں دخلاندازی کر کے نقصان پہنچا سکتی ہے- پس میرے نزدیک >اشد ضرورت کے وقت< کے الفاظ اڑا دینے چاہئیں اور باقی حصے کے الفاظ یوں کر دینے چاہئیں کہ کسی صوبے کی حکومت کو کوئی ایسا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہوگا جو دوسرے حصے کی حکومت یا اس کے افراد پر براہراست اثر انداز ہو- اگر کسی صوبے کی حکومت کوئی ایسا قانون بنائے گی تو مرکزیحکومت کو ایسے قانون کو منسوخ کرنے یا معرض التواء میں ڈال دینے کا پورا اختیار ہوگا-
)ب( اگر اس صوبے کی گورنمنٹ کو جس کے قانون کو منسوخ کیا گیا ہو مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف غیر منصفانہ ہونے کا احتمال ہو تو اسے حق ہوگا کہ وہ عدالت عالیہ میں اس کے خلاف اپیل کرے-
صوبوں کے گورنروں کا تقرر
چوتھا تغیر صوبہ جاتی مجالس واضع قوانین کے عنوان کے نیچے مادہ نمبر۲۹ میں کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>نہرو رپورٹ میں صوبہ جاتی گورنروں کا تقرر شہنشاہ معظم کے ہاتھ میں رکھا گیا تھا لیکن اب تتمہ میں یہ اختیار گورنر جنرل ان کونسل کو دے دیا گیا ہے<-
یہ تغیر نہایت ہی خطرناک ہے- اس کے ذریعہ سے مرکزی حکومت نے صوبہ جاتی حکومتوں پر پورے طور پر تصرف کر لیا ہے- گورنروں کا تقرر براہ راست ملک معظم کی طرف سے ہونا چاہئے اور موجودہ پریزیڈنسی گورنروں کی طرح گورنر جنرل کے مشورہ کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے-
نئے صوبوں کی تجویز
پانچواں تغیر مادہ نمبر ۷۲ کے جزو۶ میں کیا گیا ہے- اس تغیر سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نئے صوبوں کے بنانے کی سفارش کی گئی ہے جن میں ہندو میجارٹی ہوگی- اس تغیر پر اصولاً اعتراض کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں- لیکن اس تغیر سے ہم اتنا ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ اس کمیٹی کے ممبروں کے دماغ پر ہر وقت یہ بات غالب رہتی ہے کہ انفرادی لحاظ سے بھی اور صوبہ جاتی لحاظ سے بھی ہندو عنصر مسلمان عنصر پر غالب رہنا چاہئے-
قانون کا بدلنا
چھٹا تغیر مادہ نمبر۸۷ میں کیا گیا ہے جو یہ ہے-
>قانون اساسی کے بدلنے کیلئے حاضر الوقت ممبروں کے ۵/۴ ممبروں کا اتفاق ضروری ہوگا- اصل رپورٹ میں ۳/۲ کے اتفاق کی شرط لگائی گئی تھی<-
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تغیر کی وجہ سے یہ قانون پہلے سے بہت اچھا ہو گیا ہے- لیکن پھر بھی اقلیتوں کے حقوق کی اس سے پوری طرح نگہداشت نہیں ہوتی- قانون اساسی کے بدلنے کے لئے یہ ضروری ہونا چاہئے کہ کل منتخب شدہ ممبروں کی تعداد سے ۵/۴ حصہ کے اتفاق سے اس میں تغیر کیا جائے نہ کہ حاضر الوقت ممبروں میں سے ۵/۴ کے اتفاق سے کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت کسی اختلاف کی وجہ سے ایک حصہ ممبروں کا اسی طرح عدم تعاون میں مشغول ہو جس طرح آج کانگریسی لوگ مشغول ہیں- اور اس سے فائدہ اٹھا کر کثیر التعداد جماعت اپنے مطلب کے مطابق قانون اساسی میں تغیر کرے- حاضر الوقت ممبروں میں سے ۵/۴ کے اتفاق کے ساتھ قانون اساسی کا بدل جانا اس قانون کو نہایت ہی بودی بنیادوں پر قائم کر دیتا ہے-
فرقہ وارانہ انتخاب
ساتواں تغیر فرقہ وارانہ انتخاب کے عنوان کے نیچے مادہ۳ کے حصہالف کے نیچے کیا گیا ہے اور اس میں یہ الفاظ بڑھائے گئے ہیں-:
>پنجاب اور بنگال میں کسی قوم کی نشستیں محفوظ نہیں کی جائیں گی مگر یہ شرط ہوگی کہ فرقہ وارانہ انتخاب کا سوال اگر کسی قوم نے اٹھایا تو دس سال کے تجربے کے بعد پھر دوبارہ زیر بحث آ سکے گا<-
یہ زیادتی بالکل بے معنی زیادتی ہے- نیابتی حکومت میں بہرحال کثرت رائے کا فیصلہ جاری ہوگا- اس قانون میں اقلیتوں کو بالکل یہ حق نہیں دیا گیا کہ اگر وہ اصرار کریں تو دسسال کے بعد انہیں محفوظ نشستوں کا حق دے دیا جائے گا- بلکہ صرف یہ ہے کہ یہ سوال پھر زیربحث آ سکتا ہے- زیر بحث آنے کے بعد اگر مرکزی حکومت کی ہندو میجارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس قانون میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں تو نہرو کمیٹی کے ممبر ہمیں سمجھائیں کہ مسلمانوں کے لئے اپنے حقوق کے واپس لینے کا کونسا رستہ کھلا ہوگا- پس یہ زیادتی بالکل دھوکا دینے والی ہے اور لفظی فریب سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی-
آٹھواں تغیر اصل فرقہ وارانہ عنوان کے نیچے ساتویں مادے میں کیا گیاہے- اس مادے کے الفاظ یہ تھے-
>جس جس جگہ پر بعض قوموں کے لئے نشستوں کو محفوظ کر دیا گیا ہے ان مقامات پر صرف دس سال کے لئے یہ قانون جاری رہے گا<-
اس میں اب یہ زیادتی کی گئی ہے کہ-:
>بایں شرط کہ یہ سوال اس عرصے کے گذرنے کے بعد پھر زیر غور آ سکتا ہے اگر کوئی قوم اس کا مطالبہ کرے<-
یہ زیادتی بھی بالکل بے معنی ہے- >زیر غور آ سکتا ہے< میں کوئی معین پالیسی ظاہر نہیں ہوتی- اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس اقلیت کو محفوظ نسشتوں کا زیادہ تر حق دیا گیا ہے وہ مسلمان ہی ہیں- اگر یہ قانون مفید ہے تو یہ صاف بات ہے کہ مسلمان اس کے تغیر کا مطالبہ نہیں کریں گے- جب بھی اس تغیر کا مطالبہ کریں گے ہندو ہی کریں گے- ان حالات میں دوسرے الفاظ میں زیادتی یوں کی گئی ہے کہ اگر دس سال کے گزرنے کے بعد ہندو لوگ یہ مطالبہ کریں گے کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے تو اس سوال پر دوبارہ غور کیا جائے گا- یہ بات تو ظاہر ہے کہ یہ غور مرکزی حکومت میں ہی ہوگا جہاں ہندو اکثریت ہوگی- پس وہ فیصلہ جو مرکزی حکومت کرے گی اس کا بھی ابھی سے قیاس کیا جا سکتا ہے-
اس مختصر تنقید کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو تغیرات نہرو کمیٹی نے تجویز کئے ہیں ان میں فائدے کی باتیں بہت کم اور نقصان کی باتیں بہت زیادہ ہیں- اگر کوئی بات میں اس کمیٹی کے حق میں کہہ سکتا ہوں تو صرف یہ کہ یہ کمیٹی ایسے الفاظ کے استعمال کرنے میں بڑی ماہر ہے جو ظاہر میں اور معنی رکھتے ہوں اور باطل میں اور` مگر یہ توصیف قابل تعریف توصیف نہیں-
مسلمانوں اور انگریزوں سے اپیل
آخر میں میں پھر مسلمان پبلک اور اپنے ماورائالبحر کے رہنے والے انگریز بھائیوں سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ اس رپورٹ کو سمجھے بغیر اس کی تائید نہ کریں- انگریزوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی قوم بے شک اس وقت ہندوستان کی حاکم ہے لیکن وہ اس کی مالک نہیں ہے وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندوئوں کاغلام بنا دینے کا کوئی حق نہیں رکھتے- وہ قوم جو غلامی کو مٹانے کے لئے اس قدر دعویدار ہے وہ آئندہ نسلوں کی نظر سے ہمیشہ کے لئے گر جائے گی- اگر وہ اس آزادی کے زمانے میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ایک قلم کی جنبش سے ایک ایسی قوم کا غلام بنانے کا فیصلہ کر دے گی جس نے اپنے غلاموں کے ساتھ دنیا کی تمام اقوام سے بدتر سلوک کیا ہے- ہر ایک قوم کے غلام تھوڑے یا زیادہ عرصہ میں آزاد ہوگئے ہیں- لیکن ہندووں کے غلام ہزاروں سال کے گزرنے کے بعد آج بھی اچھوت اقوام کے نام سے ہندووں کے ظالمانہ دستور غلامی پر شہادت دے رہے ہیں- انگلستان کو یاد رکھنا چاہے کہ جس وقت وہ ہندوستان کو آزادی دینے پر آمادہ ہوگا اسی وقت سے مسلمان آزاد ہوں گے اور ان کا حق ہو گا کہ وہ یہ مطالبہ کریں کہ یا تو ان کے حقوق کی نگرانی کی جائے یا وہ اپنی آزاد ہستی کے برقرار رکھنے کے لئے مجبور ہوں گے کہ ہر ایک ایسے نئے نظام سے وابستہ ہونے سے انکار کر دیں جو ان کی آزادی کو کچل دینے والا ہو اور اپنے لئے خود کوئی ایسا نظام قائم کریں جس کے ماتحت وہ اپنی آزادی اور حریت قائم رکھ سکیں- مسلمان ایک خدا کا ماننے والا ہے وہ کبھی بھی اچھوتاقوام کا بہروپ بھرنے کے لئے طیار نہیں ہو گا- خواہ اس مصیبت سے بچنے کے لئے اس کو کتنی ہی قربانی کیوں نہ کرنی پڑے-
)الفضل۱۱- مئی ۱۹۳۰ء(
‏a11.22,a
انوار العلوم جلد ۱۱
گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی
گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی
نہایت نازک معاملہ
میں یہ مضمون پیر اور منگل کی درمیانی رات کو لکھ رہا ہوں- اخبار والوں کو اس وقت تک سائمن کمیشن رپورٹ (SimonCommissionReport) کی دوسری جلد مل چکی ہوگی اور وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہوں گے- مگر ہمیں ابھی تک اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں سوائے اس کے جو پہلی جلد کو پڑھ کر ہم نے قیاس کیا ہے اور وہ قیاس کچھ ایسا خوش کن نہیں ہے- ایک رات صرف درمیان میں ہے لیکن یہ معاملہ ایسا نازک ہے کہ اس میں ایک رات کے انتظار کو بھی میں درست نہیں سمجھتا- جس وقت میرا یہ مضمون لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچے گا` اس وقت تک رپورٹ شائع ہو چکی ہوگی اور غالباً ملک میں ایک جوش کی حالت پیدا ہو چکی ہوگی- لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر سائمن کمیشن کی رپورٹ ہماری امیدوں کے خلاف بھی ہو تب بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس (RoundTableConference) کا مطالبہ تھا ہی اسی وجہ سے کہ اہل ہند کے خیال میں اس کمیشن کی رپورٹ ملکی نقطئہ نگاہ سے قابل تسلیم نہ تھی- پس اگر وہ رپورٹ واقعہ میں ہماری امیدوں کے خلاف ہو تو اس سے صرف اہل ہند کے خیالات کی تائید ہوگی- نہ کہ کوئی ایسی نئی بات جس سے انہیں اپنے رویہ کے بدلنے کی ضرورت محسوس ہو-
اگر سائمن رپورٹ مسلمانوں کی خواہشات کے خلاف ہو؟
میرے نزدیک سائمن کمیشن کی رپورٹ اگر ہماری خواہشات کے خلاف ہو تو اس سے صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس میں مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اگر اس میں ہمارے خیالات کی صحیح ترجمانی نہ کی جائے اور فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو تو اس کے بعد سوائے اس کے کہ ملک میں انار کی کا دور شروع ہو جائے ہمارے اختیار میں کچھ باقی نہیں رہتا- پس اس سوال کے متعلق ہمیں پوری طرح غور کر لینا چاہئے اور اپنے لئے ایک ایسا طریق راہ تجویز کر لینا چاہئے جس پر چلنا ہمارے لئے موجب فلاح و کامیابی ہو نہ موجب خسران و ناکامی-
اگر سائمن کمیشن کی سفارشات مسلمانوں کے منشاء کے مطابق ہوں
اور اگر بالفرض سائمن کمیشن کی سفارشات ہمارے منشاء کے مطابق بھی ہوں تب بھی گول میز کانفرنس کا سوال کماہم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ جب جملہ سوالات از سر نو کانفرنس کے سامنے آئیں گے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی کہ کمیشن کی سفارشات میں کوئی تبدیلی نہ ہو- پس بہرحال گولمیزکانفرنس کا سوال ایک خاص اہمیت رکھتا ہے- خصوصاً ایسی صورت میں کہ مسزاینیبسینٹ نے جو اس کانفرنس کی ممبر مقرر ہو چکی ہیں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ نہرو رپورٹ کو اس کانفرنس میں غور کرنے کیلئے پیش کریں گی-
مسلمانوں کو اتحاد کی بے حد ضرورت
پیشتر اس کے کہ میں اصل مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں` میں مسلمانوں کو عام طور پر ایک نصیحت کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی جس قدر اس وقت ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی- ہر ایک قوم خواہ وہ کس قدر بھی چھوٹی ہو اس کے تعاون کے وہ محتاج ہیں- اور اگر اس وقت تفرقہ اور شقاق کا بیج انہوں نے بویا تو یقیناً یہ امر ان کے لئے سخت مشکلات کا موجب ہوگا- گول میز کانفرنس کی نمائندگی کے متعلق اگر مسلمانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اس کا فلاں فلاں نمائندہ فلاں فلاں فرقہ میں سے کیوں چنا گیا ہے تو ان سے لازماً ان فرقوں کی ہمدردی ان سے ہٹ جائے گی اور قلیل التعداد جماعتیں اپنے نظام اور اپنی قوت عملیہ میں یقیناً کثیر التعداد جماعتوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں- پس بلاوجہ قومی تفریق کا سوال اٹھانا کسی صورت میں بھی مسلمانوں کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اور اس سے انہیں ہر طرح مجتنب رہنا چاہئے اور نمائندگی کے سوال کو صرف اپنے خیالات کی موافقت یا مخالفت کے معیار پر پرکھنا چاہئے-
مسئلہ نمائندگی کی مشکلات
اس مختصر نصیحت کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نمائندگی کا سوال اس قدر آسان نہیں جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت تک کوئی بھی ملکی انجمن ایسی نہیں ہے کہ جس کی نسبت یہ کہا جا سکے کہ وہ ملک کی صحیحترجمان ہے اور جس کے سب ممبر قوم کے تمام افراد کی رائے سے اس کام کے لئے چنے گئے ہوں- پس سوال یہ ہے کہ کس ذریعہ سے گورنمنٹ معلوم کر سکتی ہے کہ فلاں شخص ملک کی اکثریت کا نمائندہ ہے؟
رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں صحیح نمائندگی نہ ہونے سے خطرہ
مگر ساتھ ہی اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گورنمنٹ کو اگر بغیر کسی ایسے ذریعہ کے اختیار کرنے کے جس سے قطعی طور پر نہیں تو کم سے کم غالب طور پر یہ معلوم ہو سکے کہ ملک اس وقت کس امر کا مطالبہ کرتا ہے اور کونسے لوگ اس کی رائے کے نمائندے کہلا سکتے ہیں` گول میز کانفرنس کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرے گی تو وہ لوگ گورنمنٹ کے نمائندے کہلائیں گے ملک کے نہیں- اور کیا گورنمنٹ موجودہ جوش کے زمانہ میں خیال کر سکتی ہے کہ اس کے اس فعل کو ہندو یا مسلمان ایک منٹ کے لئے بھی برداشت کر سکیں گے؟ اگر سائمن کمیشن کے مقرر کرنے پر ملک میں شورش پیدا ہوئی تھی تو رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے انعقاد پر اگر اس میں مختلف اقوام کی صحیحنمائندگی نہ ہوئی تو زیادہ شور و فساد برپا ہونے کا خطرہ ہے- اور میں ڈرتا ہوں کہ کانگریس کو اس مرحلہ پر ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی جو اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی-
گورنمنٹ خود نمائندے منتخب نہ کرے
گورنمنٹ کے ذمہ دار عہدہ دار اس میں شک نہیں کہ ایک اجنبی ملک کے باشندے ہیں اور اس ملک کے لوگوں کی ملکی حالت سے پوری طرح واقف نہیں لیکن وہ ان جذبات سے ناواقف نہیں ہو سکتے جو سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں- وہ یہ امر اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر رائونڈ ٹیبل کانفرنس نے واقعہ میں کوئی مفید اور مستقل کام کرنا ہے تو کوئی قوم بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کہ چند گورنمنٹ کے نامزد کردہ ممبران کی قسمت کا فیصلہ ہمیشہ کے لئے کر آئیں- قوموں کی آزادی ایسی چیز نہیں جس سے خطرناک عواقب میں مبتلا ہوئے بغیر کوئی گورنمنٹ خواہ وہ کس قدر ہی زبردست کیوں نہ ہو کھیل سکے- میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ پوری دیانتداری سے کام کرے گی اور احتیاط سے ممبروں کا انتخاب کرے گی- مگر بہرحال اگر گورنمنٹ نے نیابت کا کوئی صحیح طریق اختیار نہ کیا تو وہ گورنمنٹ کے منتخب کردہ ممبر ہوں گے نہ کہ قوم کے نمائندے- اور اگر کوئی قوم اس امر پر راضی نہیں ہو سکتی کہ اسمبلی یا کونسل میں جس کا کام بالکل محمدود ہے کوئی شخص گورنمنٹ کی طرف سے نامزد ہو کر اس کا نمائندہ کہلائے تو رائونڈٹیبل کانفرنس جس نے ایک مستقل فیصلہ کرنا ہے اور حکومت کے اصول طے کرنے ہیں اس کے ممبروں کے متعلق کس طرح کوئی قوم اس کو خوشی سے قبول کر لے گی کہ گورنمنٹ ہی اس کی طرف سے اس کے نمائندوں کو تجویز کر دے- پس میں امید کرتا ہوں کہ گورنمنٹ پچھلی شورشوں سے سبق حاصل کر کے ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گی جس کا کوئی علاج اس کے ہاتھ میں باقی نہ رہے گا-
نمائندوں کا انتخاب کس طرح کیا جائے
گورنمنٹ کو اس کے فرض کی طرف توجہ دلانے کے بعد یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اگر اس کانفرنس کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہی ہو تو کس طرح کیا جائے- کیونکہ کوئی ایسی مشینری ہمارے پاس موجود نہیں جس سے مدد لے کر ہم ملک کی صحیح رائے معلوم کر سکیں- میرے نزدیک گو یہ صحیح ہے کہ اس قسم کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں لیکن پھر بھی موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض ذرائع ایسے اختیار کئے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے مختلف اقوام کی نمائندگی ایک حد تک رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں ہو سکے اور وہ ذرائع یہ ہیں-
کونسلوں سے نمائندے طلب کئے جائیں
گورنمنٹ تمام صوبہ جات کی کونسلوں کے ہندو` سکھ اور مسلمان ممبروں سے خواہش کرے کہ وہ اپنی کثرت رائے سے ایک یا دو نمائندے )جو تعداد بھی گورنمنٹ مقرر کرے( ایسے تجویز کریں جو ان کی طرف سے رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں پیش ہوں- اور اسی طرح مرکزی مجالس سے بھی وہ اس امر کی درخواست کرے- آگے ہر ایک قوم کی کونسلوں یا مرکزی مجالس کے ممبروں کو چاہئے کہ وہ اس شخص کو اپنا نمائندہ منتخب کریں جو اس امر کا اقرار کرے کہ وہ اپنے آپ کو ان کا نمائندہ سمجھے گا نہ کہ اپنے ذاتی حق پر جانے والا- جہاں تک میرا خیال ہے پنجاب سائمن کمیٹی کے ممبروں کو بھی یہی دھوکا لگا تھا کہ وہ اپنے ذاتی حق کے طور پر اس کمیٹی کے ممبر مقرر کئے گئے ہیں نہ کہ بطور اپنی قوم کے نمائندہ کے اور اس وجہ سے جو بات بھی ان کے نزدیک درست تھی وہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھ دی اور اس امر کا خیال نہ کیا کہ کوئی انسان خواہ کس قدر ہی لائق کیوں نہ ہو محض اپنی انفرادی حیثیت میں کسی ملک یا قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور جب بھی وہ اس کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے بطور نمائندہ کے مقرر کیا جاتا ہے نہ کہ اپنی مرضی کے مطابق قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے-
اس کے ساتھ ہی ممبروں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہر ایک شہر اور ہر قصبہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے اسمبلی یا کونسلوں کے ممبروں کو اس امر کی طرف صاف الفاظ میں توجہ دلا دیں کہ اگر انہوں نے اس امر میں اپنے نمائندے سے صاف لفظوں میں یہ عہد لے کر کہ وہ گول میز کانفرنس میں اپنی قوم کے خیالات کی ترجمانی کرے گا اس کام کے لئے منتخب نہ کیا تو وہ آئندہ انتخاب میں ہر گز ان کی مدد نہیں کریں گے-
سیاسی پارٹیوں کے نمائندے لئے جائیں
کونسلوں سے نمائندے طلب کرنے کے علاوہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ ان سیاسی جماعتوں سے بھی جو ایک عرصہ سے ملک میں کام کر رہی ہیں اور جن کی اہمیت ایک ثابت شدہ اور مسلمہ امر ہے کچھ نمائندے طلب کرے- اس طرح اس طبقہ کی نمائندگی بھی ہو جائے گی جو گو کونسلوں یا اسمبلی میں شامل نہیں لیکن ملک میں سیاسی اثر کے لحاظ سے کونسلوں یا اسمبلی سے کم بھی نہیں- اس طرح منتخب شدہ نمائندے گو پورے طور پر منتخب نمائندے نہ کہلا سکیں لیکن یہ ضرور ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے وہ بہترین نمائندے کہلانے کے مستحق ہوں گے- ہاں اگر گورنمنٹ یہ دیکھے کہ ملک کے کسی اہم طبقہ کی نمائندگی اس طریق سے حاصل نہیں ہوئی تو وہ اس کمی کو نامزدگی سے پورا کر سکتی ہے- لیکن محض اپنی مرضی سے چند آدمیوں کو مقرر کر دینا خواہ وہ چوٹی کے لیڈر ہی کیوں نہ ہوں ہر گز ملک کو تسلی نہیں دے سکتا اور ایسے انتخاب کا نتیجہ مضر ہی نکلے گا-
گورنمنٹ کو غلطی پر متنبہ کیا جائے
چونکہ اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ اس غلطی کا ارتکاب کرنے کو تیار بیٹھی ہے اس لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ کونسلوں کے مسلمان ممبر اگر جمع ہو سکیں تو جمع ہو کر ورنہ فرداً فرداً گورنمنٹ کو اطلاع دے دیں کہ اس کے مقرر کردہ نمائندے ان کے یا ان کی قوم کے نمائندے نہ ہوں گے- پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کو اس غلطی سے متنبہ کر دیں اور ان اعلیٰ عہدیداروں کو محض اس امر پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ان سے مشورہ کر کے نمائندے مقرر کرے تا کہ وہ لوگ ان کے خیالات کی نمائندگی کے پابند ہوں اور اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کہہ کر نہ آ جائیں- اسی طرح دونوں مسلم لیگوں اور خلافت کمیٹی کو بھی چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کو اس غلطی سے متنبہ کر دیں اور ان اعلیٰ عہدیداروں کو محض اس امر پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے نام رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں آ گئے ہیں- ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اصول کا سوال ہے اور ان کی قوم کی عزت کا سوال ہے- پس انہیں چاہئے کہ جب ان سے رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک ہونے کی درخواست کی جائے تو وہ یورپ کے سیاسیین کے دستور کے مطابق گورنمنٹ کو یہی جواب دیں کہ جب تک وہ اپنی اپنی انجمنوں کی مجالسعاملہ سے گفتگو نہ کر لیں وہ اپنی شرکت کا فیصلہ نہیں کر سکتے- اور پھر ان انجمنوں سے اپنی شرکت اور اپنے طریق عمل کے متعلق مشورہ لینے کے بعد اپنی منظوری سے گورنمنٹ کو اطلاع دیں- یہ امر واضح ہے کہ اپنی قوم کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں ان کی بات میں جو اثر ہو سکتا ہے اور ان کی آواز میں جو طاقت ہو سکتی ہے وہ گورنمنٹ کے انتخاب میں ہر گز نہیں ہو سکتی گورنمنٹ کے انتخاب کی وجہ سے وہ بڑے آدمی تو کہلا سکتے ہیں لیکن وہ ایک جماعت نہیں کہلا سکتے- اور آدمی خواہ کتنا بھی بڑا ہو جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتا- پھر انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ گورنمنٹ سے صاف کہہ دیں کہ ہم اپنی قوم کے نمائندے ہو کر جا سکتے ہیں ورنہ نہیں تو اس سے گورنمنٹ کی نگاہ میں بھی اور پبلک کی نگاہ میں بھی ان کی عزت بڑھے گی- اور خود مسلمانوں کا بھی رعب قائم ہوگا کیونکہ گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے گا کہ اب یہ قوم ایکجان ہو گئی ہے اور اس کی آواز میں ایک شوکت پیدا ہو گئی ہے-
گورنمنٹ کے تجویز کردہ ممبروں سے مطالبہ
اگر گورنمنٹ اس امر کو قبول نہ کرے تو پھر میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ جن لوگوں کو گورنمنٹ نمائندہ تجویز کرے ان سے مطالبہ کیا جائے وہ اعلان کریں کہ وہ اپنے آپ کو اپنی قوم کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ اس متفقہ قومی فیصلے کے پابند رہیں گے جو کہ آلپارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں ہو چکا ہے اور ان حقوق کو ہر گز قربان نہیں کریں گے جن کا مطالبہ اس کانفرنس کے ذریعہ سے مسلمان کر چکے ہیں- جو لوگ اس امر کے لئے تیار نہ ہوں` ان کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ملک کے اعتبار کے قابل نہیں ہیں- اور ان کے متعلق ان کے صوبہ کے لوگ ہر قصبہ اور ہر شہر سے یہ ریزولیوشن پاس کریں کہ وہ ہمارے نمائندے نہیں ہیں- اور ان ریزولیوشنوں کی کاپی لوکل گورنمنٹ ہند کے علاوہ وزیر ہند اور وزیر اعظم برطانیہ کو بھی بھیجی جائے- تا کہ یہ معاملہ پردہ اخفاء میں نہ رہے- نیز یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ان نامزدگان میں سے جو لوگ کونسلوں یا اسمبلی کے ممبر ہوں انہیں اگلے الیکشن کے موقع پر ہر گز ووٹ نہ دیئے جائیں بلکہ ایسے لوگوں کی تائید کی جائے جو ایسے اہم امور میں قومی نمائندگی کے اصول کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں-
رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلمان ممبروں کا طریق عمل
اب ایک سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی دنیا میں دو جماعتیں فیصلہ کے لئے اکٹھی ہوتی ہیں تو انہیں کچھ نہ کچھ بات دوسروں کی ماننی پڑتی ہے- اب اگر کل یا بعض ممبر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ تسلیم کر لیں اور اس کے نقطئہ نگاہ کی وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ بھی اس قاعدہ کلیہ سے آزاد نہیں ہو سکتے- پس سوال یہ ہے کہ وہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر کیا کریں- اگر وہ اپنے مطالبات پیش کر کے یہ کہیں گے کہ ان کو ماننا ہے تو مانو نہیں تو ہم جاتے ہیں تو سب دنیا ان پر ہنسے گی اور وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے- لیکن اگر وہ بعض باتوں کو کانفرنس کے موقع پر چھوڑ دیں گے تو ان کی قوم ان سے ناراض ہو گی- پس اس کا بھی کوئی علاج سوچ لینا چاہئے-
مسلمان ممبروں کا نظام اور ان کیلئے ہدایات کا انتظام
میرے نزدیک اس کا بہترین علاج یہ ہو سکتا ہے کہ تمام ممبروں کو جو قوم کے نمائندے ہوں یا قوم کی نمائندگی کو تسلیم کر لیں ایک نظام میں منسلک کر دیا جائے اور ان کا ایک سیکرٹری بنا دیا جائے- اس کے بعد آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا اجلاس کیا جائے اور اس میں ایک دفعہ اصلاحات کے سوال پر قومی اور ملکی دونوں نقطئہ نگاہ سے غور کر لیا جائے اور ایک مکمل سکیم تجویز کر کے جس میں حکومت کی تمام جزئیات پر بحث ہو انہیں دے دی جائے- جو امور کہ ملکی ہوں ان کے متعلق انہیں ہدایت کر دی جائے کہ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے نمائندوں سے تعاون کر کے کام کریں- اور صرف موٹی موٹی ہدایتیں ایسی دے دی جائیں کہ ان میں تغیر نہ ہو- لیکن جو امور قومی ہوں یا جن ملکی سوالات کا اثر خاص طور پر قوم پر پڑتا ہو ان کے متعلق ایک ایسی سکیم تجویز کر لی جائے جس میں سے بوقت ضرورت کچھ چھوڑا جا سکے اور ساتھ ہی مخفی طور پر یہ ہدایات دے دی جائیں کہ اس سکیم میں اس قدر تغیر آپ لوگ حسب ضرورت کرنے کے مجاز ہونگے مگر اس سے زائد تغیر پر اگر آپ لوگ مجبور ہوں تو آل مسلم پارٹی کانفرنس سے مشورہ کئے بغیر کارروائی نہ کریں- پھر اگر ایسی صورت پیش آئے اور یہ لوگ کسی امر میں مشورہ طلب کریں تو فوراً آل مسلم پارٹی کانفرنس کا اجلاس کر کے مشورہ کر لیا جائے اور نمائندوں کو بذریعہ تار اطلاع دے دی جائے- ہاں یہ امر مدنظر رکھا جائے کہ جو لوگ نمائندہ ہو کر گئے ہوں جہاں تک ہو سکے ان کی تجاویز کو اہمیت دی جائے اور بلاکافی وجہ کے ان کے مشورہ کو رد نہ کیا جائے کیونکہ موقع پر موجود ہونے والا آدمی بعض ایسی باتوں کو جانتا ہے جنہیں دوسرے نہیں جانتے-
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت
اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت بہت آسانی سے ہوگی- میرے نزدیک آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے لئے کام کا وقت ابھی آیا ہے- خالی اس امر کو شائع کر دینا کہ مسلمانوں کے یہ مطالبات ہیں کافی نہیں ہے- اگر ایسے لوگ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں گئے جنہوں نے ان مطالبات کو پس پشت ڈال دیا تو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کی قیمت کچھ بھی باقی نہیں رہتی- پس یہی وقت ہے کہ وہ ایک طرف گورنمنٹ کو غلط انتخاب کے بد نتائج سے آگاہ کرے اور دوسری طرف پبلک کو اس کے خطرات سے واقف کرے اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصلہ مسلمانوں کے منتخب نمائندوں اور ان کی اہم سیاسی انجمنوں کے ذریعہ سے نہ ہو اور منتخب شدہ ممبر قومی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں-
احساس ذمہ داری
میں سمجھتا ہوں کہ اس تھوڑے سے وقت میں اور اس جوش کی حالت میں جو کمیشن سفارشات کی اشاعت پر ملک میں پیدا ہو جائے گی صحیحراہنمائی بہت مشکل کام ہے- لیکن باوجود اس امر کے جاننے کے میں اس ذمہ داری کے ادا کرنے سے نہیں رک سکتا جس کے صدابصحراء ثابت ہونے کا احتمال ہے مگر جو اس وقت ہر فرد قوم پر عائد ہے اور اس یقین کے ساتھ اپنی رائے کو شائع کرتا ہوں کہ حق کی آواز ضائع نہیں جاتی- اگر آج دبا بھی دی گئی تو کل ضرور بلند ہو کر رہے گی- واخر دعونا انالحمد للہ رب العلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
۲۳- جون ۱۹۳۰ء
)الفضل ۲۸- جون ۱۹۳۰ء(
‏a11.23
انوار العلوم جلد ۱۱
مستورات سے خطاب
مستورات سے خطاب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مستورات سے خطاب
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ(
تشہد` تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
عورتوں کی موجودہ علمی قابلیت
میں نے ہر سال جماعت کی مستورات کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تک تعلیم نہ ہو خدا سے ان کا اپنا معاملہ درست نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ ذمہ داریاں پوری ہو سکتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور خاندان اور اپنی قوم اور ملک کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں- شاید یہ الفاظ جو اس وقت میں نے بیان کئے ہیں آپ کو بوجھل معلوم ہوتے ہوں کیونکہ ان میں یہ کہا گیا ہے کہ تم میں تعلیم نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک تم دوسری زبانیں تو درکنار خود اپنی زبان سے بھی ناواقف ہو مجھے عورتوں میں تقریر کرتے وقت یہ دقت پیش آتی ہے-
تقریر میں مشکلات
میں کوشش کرتا ہوں کہ میری تقریر میں ایسے الفاظ نہ آئیں جن کو تم سمجھ نہ سکو حالانکہ میں کسی غیر زبان میں تقریر نہیں کیا کرتا- جب قوم کی ایسی گری ہوئی حالت ہو کہ وہ اپنے ملک کی زبان میں بھی بات سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتی ہو تو اس کی کمزور حالت کا اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے- تقریر میں روز مرہ ہی کی زبان ہوتی ہے- مثلاً اگر دین کا ذکر آئے تو اس میں قیامت` تقدیر وغیرہ کے الفاظ ضروری ہیں- پھر جو نہ سمجھے تو واعظ کے لئے کتنی مشکلات ہیں- اس کی دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں- یا تو وہ آسان آسان لفظ لا کر عام فہم طریق کے لفظوں ہی کے خیال میں پڑا رہے اور اپنے مضمون کو خراب کر لے یا اصطلاحی لفظ استعمال کر کے اپنے مضمون کو تو ادا کر دے مگر سامعین اس کو نہ سمجھ سکیں- پس ہر ایک عورت کو تعلیم کی ترقی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے- میں مردوں میں ایک آیت کے موضوع پر کئی کئی گھنٹے بول سکتا ہوں مگر عورتوں میں ادھر ہی توجہ رہتی ہے کہ مضمون عام فہم ہو- اسی وجہ سے عورتوں میں درس` وعظ وغیرہ بہت آسان رہ جاتا ہے اور اصل مضمون ذہن سے اتر جاتا ہے- میں جب عورتوں میں درس دیتا ہوں تو بعض اوقات ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو رکوع کا درس تھوڑے سے وقت میں دے دیتا ہوں- حالانکہ مردوں میں اتنا وقت بعض دفعہ صرف ایک آیت کی تشریح میں لگ جاتا ہے- میں پھر اور بار بار تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کی زبان سیکھو-
اپنی ترقی کی طرف توجہ کرو
اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے- کس طرح سمجھائوں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو- اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث` قطب` ولی` صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا- ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبے کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکرؓ اور کوئی عثمانؓ` کوئی علیؓ` کوئی زبیرؓ` کوئی طلحہؓ ہے- تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں- اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا- پھر خدا نے مجھ کو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ` نصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی ان میں وہ روح پیدا نہ ہو سکی جس کی مجھے خواہش تھی- اور کوئی عورت تم میں سے اس قابل نظر نہیں آتی جو کسی وقت تمہاری لیڈری اور راہنمائی کر سکے- افسوس وہ کونسی کوشش ہے جس سے میں تمہیں بیدار کروں- دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے مگر تم خواب غفلت میں سوتی ہو-
کیا تم میں کوئی قرآن مجید جانتی ہے؟
پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتائو جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟ حالانکہ مردوں میں سے عالم کے علاوہ کئی ایسے لوگ ہیں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے جاہل یا معمولی سے علم کے شہر کے رہنے والے یا گائوں کے رہنے والے ہیں جو باوجود عدم علم ظاہری کے یا کمی علم کے قرآن کے کئی معرفت کے نکتے بتا سکیں گے جو لوگوں کو پہلے معلوم نہ ہوں گے- قادیان کے کئی عربی سے ناواقف بھی عجیب معرفت اور نکات کی باتیں قرآن سے بیان کرتے ہیں- تم ایک عورت کی مثال پیش کرو جس نے قرآن کریم سے کوئی نئی بات نکالی ہو اور ایسی بات پیش کی ہو جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھی اور اب تو آپ میں کچھ ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو مولوی کہلاتی ہیں- میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کون ہے جسے قرآن شریف کی معرفت نصیب ہوئی ہو؟
اس کمی کی وجہ کیا ہے؟
تم میں سے کئی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ مردوں کی طرفداری کی جاتی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کو بھی تم سے دشمنی ہے کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرتا- کیوں خدا کے کلام کا دروازہ تم پر بند ہے اور کیوں فرشتے خدائی دربار تک تمہاری رسائی نہیں کراتے- آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے- فوائد ہیں- حکمت ہے- بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے اسی لئے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے- قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہفیہ ذکر کم- ۱~}~ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں- قرآن ٹونہ نہیں- یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے- جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآنکریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا- تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہو گا- لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں` رسائل` ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب ہو گی- تم سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجے میں معلوم کی ہے- کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنینوعانسان کے لئے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو- اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہو تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے؟
ایک عورت نے کس طرح ترقی کی
میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سناتا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا- اس کے لکھنے کے متعلق مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن بات ضرور تھی کہ اسے پڑھنا آتا تھا- اس نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا- جنت کی طمع اور دوزخ کے خوف سے نہیں` عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر اس کے اندر دنیا کے تمام علوم ہیں اسے پڑھا- اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اس نے کسی کے پاس زانوئے شاگردی طے نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی- وہ عورت کون تھی؟ اس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا ہے-
وہ بیبی فہمقرآن میں اکثر مردوں سے بڑھ گئی
اس نے قرآن کو جیسا کہ سمجھنے کا حق تھا سمجھا- ان کی صرف ایک مثال سے دنیا کے مرد شرمندہ ہیں کہ وہ بایں ہمہ عقل و دانش اس فہم و فراست کو حاصل نہ کر سکے- وہ آیت یہ ہے ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبین- ۲~}~ یعنی محمدﷺ~ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں دنیا نے سمجھا کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- اور ادھر چونکہ آنحضرت ~صل۲~ نے بھی فرما دیا کہ لا نبی بعدی ۳)~}~جس سے آپ کی مراد تھی کہ میری شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نبی نہ آئے گا( یہ امر ایسے خیال کے لوگوں کے لئے اور بھی موید ثابت ہوا- اور سب نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپﷺ~ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا- مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنے اس خیال کی خوب اشاعت کی- ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کی باتیں ایک مجلس میں ہو رہی تھیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں سے گزریں اور آپ نے سن کر فرمایا >قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الا نبی بعدہ<۴~}~ دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن پر غور کرنے سے کس قدر صحیح نتیجہ نکالا کہ آج اس زمانہ کے نبی نے اس سے فائدہ اٹھایا- وہ خیالات جو تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو مغالطہ میں ڈالے ہوئے تھے ان کو کس صفائی کے ساتھ رد فرمایا ہے- تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قرآن پر غور کرنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فائدہ اٹھایا اور احمدی جماعت ان کی ممنوناحسان ہے- انہوں نے ان کی مشکلات کو آسان کر دیا- یہ تو ایک واقعہ ان کے فہمقرآن کا ہے-
اسی بیبی کی فہم حدیث کی ایک مثال
دوسرا واقعہ یہ ہے جس سے ان کے کمالفراست اور غور و فکر کا ثبوت ملتا ہے وہ حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفر~رضی۱~ کی شہادت کا واقعہ ہے- جب ان کی اطلاع گھر پر آئی تو عورتیں رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے لگیں جیسا کہ عرب کا رواج تھا- اسلام چونکہ نیا نیا تھا اس لئے اسلامی عادات ابھی پوری طرح لوگوں میں پیدا نہ ہو سکی تھیں اور جاہلیت کے زمانے کے اثرات باقی تھے اسی کی پیروی ان عورتوں نے کی- آنحضرت ~صل۲~ کو جب کسی نے آ کر اس کی اطلاع دی تو آپﷺ~ نے فرمایا کہ انہیں منع کرو- منع کرنے سے بھی وہ باز نہ آئیں- پھر آ کر کسی نے شکایت کی- آپﷺ~ نے فرمایا احثوا التراب فی وجوھھن ۵~}~ یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو- وہ لوگ جنہوں نے آپﷺ~ کے اس ارشاد کو سنا فی الواقعہ مٹی ڈالنے کے لئے دوڑے- حضرت عائشہؓ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ تم رسولکریم ~صل۲~ کو ایسا بداخلاق سمجھتے ہو کہ اس مصیبت کے وقت بھی تکلیف پہنچانے کا حکم دیں- آپﷺ~ کا تو یہ مطلب تھا کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو-
قال اللہ و قال الرسول کا صحیح فہم اسی خاتون کو تھا
اب دیکھو جس بات کو مردوں نے نہ سمجھا اسے ایک عورت یعنی حضرت عائشہؓ نے سمجھا اور یہی دنیا میں ایک عورت ہے جس نے قرآن کو اور خداتعالیٰ کے رسول کے کلام کو صحیح معنوں میں سمجھا- اس کا ایک ثبوت افک کے واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ جب آنحضرت ~صل۲~ نے آپ سے فرمایا کہ عائشہ سچی سچی بات بتا دو کہ کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ میرا کام نہیں خدا تعالیٰ خود جواب دے گا- چنانچہ قرآن کی بعد کی وحی سے یہی ثابت ہوتا ہے- ان کا یہ خیال درست تھا کیونکہ قرآن نے یہی کہا ہے کہ الزام دینے والا گواہ لائے نہ کہ جس پر الزام ہو وہ اپنی بریت کے لئے قسمیں کھاتا پھرے- حضرتعائشہؓ نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا اس لئے مردوں سے زیادہ معرفت حاصل کی- اگر آپ بھی اسی طرح اس پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گی تو ایسا ہی فائدہ حاصل کریں گی اور کسی علم کے حاصل کرنے میں کسی کی محتاج نہ ہوں گی- قرآن شریف ہر ایک زمانے کے علوم اپنے اندر رکھتا ہے- اگر کوئی اس پر غور کرے تو دنیا کو حیران کر دینے والے علوم کا دروازہ اہلدنیا پر خدا کی تائید سے کھول سکتا ہے-
قرآن مجید علوم کا خزانہ ہے
قرآن کے متعلق ایک موٹی مثال کو لو کہ کس طرح تیرہسو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے حالات بیان کئے ہیں- فرمایا و اذا العشا رعطلت ۶~}~یعنی اونٹنیوں کی سواریاں بے کار ہو جائیں گی- دنیا نے آج ریل نکالی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ قرآن نے سالہا سال پہلے بتا دیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا یعنی ایسی سواریاں پیدا ہو جائیں گی کہ ان سواریوں کو ضرورت نہ رہے گی-
و اذا الوحوش حشرتtext]- [tag ۷~}~یعنی ادنیٰ و جاہل قومیں عزت والی بن جائیں گی اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ بھی بیدار ہو کر اپنا حق مانگیں گی اور دنیا کو ان کے حقوق دینے پڑیں گے- اب الیکشن کے سوال کو ہی دیکھو کس زبردست طور پر اس پیشگوئی کی تصدیق کر رہا ہے کہ بڑے بڑے عزت والے برہمن چوہڑوں کے دروازوں پر ووٹ مانگنے کے لئے جاتے ہیں-
و اذا النفوس زوجت ۸~}~یعنی لوگ ملا دئے جائیں گے- یعنی ادنیٰ اور اعلیٰ ایک جگہ پر اکٹھے ہوں گے- اس کا ایک نمونہ آج کا جلسہ ہی ہے-
تم میں سے کئی ہیں کہ جن کی مائیں اور دادیاں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے کو اپنی ہتک خیال کرتی ہوں گی مگر تم خدا کی وحی کے مطابق مل کر بیٹھی ہو اور خدا نے سب کو برابر بنا دیا-
زمانہ بدل چکا اس لئے تم بھی تبدیلی پیدا کرو
آج تمام سرداریاں ختم ہو گئیں- پہلے زمانہ میں جو حال تھا اس کا نقشہ اس مثال سے خوب ظاہر ہو جا تا ہے- کہتے ہیں کہ ایک چوہدری ایک مراثی کو ساتھ لے کر سفر کو جا رہا تھا راستے میں سرائے میں ٹھہرا جس چار پائی پر وہ بیٹھا اس کے نیچے بارش کی وجہ سے سخت کیچڑ تھا- ناچار بیچارہ مراثی چوہدری کے پاس بیٹھ گیا- چوہدری نے اسے خوب جوتے لگائے اور کہا کہ تم ہماری برابری کرتے ہو- دوسری منزل پر انہیں چار پائی نہ ملی اور چوہدری کو زمین پر بیٹھنا پڑا- تب مراثی پھائوڑے سے زمین کھودنے لگا اور قبر کی طرح ایک گڑھا بنانے لگا- چوہدری نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا برابر کیسے بیٹھوں؟ اب وہ زمانہ نہیں رہا- آج کئی ادنیٰ اقوام کے ڈپٹی ہیں- اہل غرض سید` پٹھان` مغل سلام کرنے ان کے دروازے پر جاتے ہیں- اب وہ معزز اور بڑا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن اور متقی ہے- اس زمانے میں یاد رکھو کہ اب تم بھی گھروں میں بیٹھ کر حکومت نہیں کر سکو گی- وہ راج کا زمانہ چلا گیا- ساری بڑائیوں کو مٹا کر خدا تعالیٰ اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے- فیصلہ قرآن کے مطابق آج وہ بڑھایا جائے گا جو نیک ہو گا- ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۹~}~ کے مطابق متقی عالم ہوتا ہے-
قرآن مجید امیوں کو اعلم الناس بنا دیتا ہے
‏text1] gat[دنیاوی لحاظ سے دیکھو حضرت صاحب کو کوئی ایسا دینوی علم حاصل نہ تھا گو ہم اعتقادی طور پر آپ کو عالم مانتے ہیں- آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ معجزانہ رنگ میں لکھی ہیں مگر ظاہری طور پر آپ عالم نہ تھے اسی لئے مخالف مولوی آپ کو طعن کے طور پر منشی لکھا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے علوم کے دروازے آپ پر کھول دیئے- میرا اپنا حال دیکھو زمانہ طالب علمی میں فیل ہی ہوتا رہا- ایک جماعت بھی پاس نہ کر سکا- اسی بناء پر حضرت صاحب سے لوگوں نے شکایت کی کہ یہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے طلب کیا اور ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کو بلایا- میں ڈر رہا تھا کہ دیکھئے میرے لئے کیا سزا تجویز ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عبارت لکھ کر مجھے دی کہ اسے نقل کر دو- جب میں نے اسی طرح نقل کر دی تو مولوی صاحب کو دکھا کر فرمایا کہ شکایت تو غلط معلوم ہوتی ہے- یہ میرا امتحان ہوا- پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے مجھے پڑھایا- ان کے پڑھانے کا یہ طریق تھا کہ آپ ہی ایک ایک سپارہ پڑھتے جاتے- سوال کرنے پر فرماتے کہ میاں آپ ہی آ جائے گا-
علمائے زمانہ کو بالمقابل تفسیر القرآن کا چیلنج
میرے ظاہری علم کو لیا جائے تو میں کسی صورت میں بھی عالم نہیں کہلا سکتا مگر میں نے قرآن کو قرآن سمجھ کر پڑھا اور اس سے فائدہ اٹھایا- اور اب اس قابل ہوا کہ میں تمام مخالف علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ کوئی آیت لے کر مجھ سے تفسیر کلام الہی میں مقابلہ کر لیں میں انشاء اللہ تعالیٰ تائید الہی سے اس کے ایسے معنے بیان کروں گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی- کوئی مضمون ہو بغیر سوچنے کے کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے- خدا تعالیٰ نے مجھ پر قرآن کریم کے ایسے ایسے نکات ظاہر کئے ہیں جو رسول کریم ~صل۲~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مستثنیٰ کر کے اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے- پس تمام علوم اخلاص اور تقویٰ سے پیدا ہوتے ہیں ظاہر سے نہیں- تم خود اس کو آزمائو- اخلاص سے قرآن کو پڑھو خدا خود تمہیں اس کا علم عطا کرے گا- بسا اوقات مختلف امور کے ماہر میرے پاس آتے ہیں اور وہ اس کے متعلق مجھ سے اس بارے میں سوال کرتے ہیں- جب میں ان کے سوالوں کا ٹھیک جواب دیتا ہوں تو اس وقت حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کے متعلق آپ نے کون سی کتاب پڑھی ہے- میرے یہ کہنے پر کہ کوئی نہیں- وہ کہتے ہیں کہ جواب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس علم کی کتابیں پڑھی ہیں- میں جواب دیتا ہوں کہ میں نے علوم کی جامع کتاب پڑھی ہے- قرآن کے ہر ایک لفظ اور بات پر غور کرو- پھر تم پر قرآن کے علوم کا دروازہ کھولا جائے گا- معمولی لیاقت کی عورت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے- میں نے سالہا سال وعظ کیا لیکن تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا- خدا کرے کہ اس دفعہ میں دیکھ لوں کہ میری اس نصیحت سے تم کیا فائدہ حاصل کرتی ہو-
قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے
دینی علوم کے لئے سب سے پہلے قرآن کی ضرورت ہے اس کے پڑھنے میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ یہ خدا کی کتاب ہے- سارا علم اس میں موجود ہے- ہر ہر لفظ پر اعتراض پیدا کرو خدا تعالیٰ خود اس کا حل بتائے گا- غور کرو کہ صرف الحمد للہ کہنے سے کوئی نکتہ نہیں معلوم ہو سکتا لیکن اگر تم یہ اعتراض پیدا کرو کہ ہمارے والدین اور ہمارے استاد کیوں قابل تعریف نہیں تو آگے ربالعالمین میں خود اس کا جواب موجود ہے کہ تمہارے احسان کرنے والوں کا رب بھی تو وہی ہے- فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کیوں سب تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں- اسی طرح پر معارف آپ پر کھلیں گے- لیکن اگر نیت صرف یہ ہو کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر برکت حاصل کی جائے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا-
قرآن کے بعد سنت رسول کا علم حاصل کرو
دوسری چیز جس کا پڑھنا دینی تعلیم کے لئے ضروری ہے وہ سنت رسولﷺ~ کا علم ہے یعنی احادیث نبی کریم ~صل۲~ - دینی تعلیم اس کے بغیر ناقص ہے- اگرچہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے مگر اس کا علم حاصل کرنے کے لئے کامل تقویٰ کی ضرورت ہے- وہ باتیں جو تقویٰ کے کامل ہونے پر منحصر ہیں ان کو قرآن نے چھپایا ہوا ہے- وہ پڑھنے والے پر اس وقت تک نہیں کھلیں گی جب تک وہ درجہ حاصل نہ ہو جائے- انتہائی تقویٰ سب کو نہیں مل سکتا- اس لئے آنحضرت ~صل۲~ نے شریعت کے اہم مسائل اور ابتدائی علوم نکال کر لوگوں پر خود ظاہر کر دیئے ہیں- جیسے نماز` روزہ` حج` زکٰوۃ وغیرہ اور چونکہ ایمان کے لئے عمل اور عمل کے لئے ان مسائل کا جاننا ضروری ہے اس لئے آپ لوگ سنت و حدیث کا علم بھی ضرور حاصل کریں- ضروری ہے کہ عورتیں قرآن و حدیث سے واقف ہو کر دوسروں کو پڑھائیں- اپنے گھروں` شہروں اور محلوں میں اس کی تعلیم کا انتظام کریں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو
تیسرے ضروری دینی تعلیم کے لئے وہ چیز جس کا پڑھنا ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں-
اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت پر رحم کر کے اس زمانے کے نبی سے اردو کی کتابیں لکھوائیں تا تم انہیں آسانی سے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکو- اب تمہیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا- قرآن کا اس زمانے کے متعلق ضروری علم آب آپ کی کتابوں میں موجود ہے- اگر تم اس کے پڑھنے یا سننے کی کوشش کرو تو تم میں وہ قابلیتیں پیدا ہو سکتی ہیں کہ باریک در باریک مسئلوں کو حل کر سکتی ہو-
حضرت صاحب کی کتابوں کا امتحان لوں گا
اس وقت میں حضرت صاحب کی دو کتابیں مقرر کرتا ہوں جن کو ہر ایک عورت پڑھے یا سنے آئندہ سال میں ان کا امتحان لوں گا تا پتہ لگ جائے تم نے میری نصیحت پر عمل کیا ہے یا نہیں- میں وعظ کر کر کے تھک گیا ہوں مگر تم پر ابھی کوئی اثر نہ ہوا- اب میں چاہتا ہوں کہ تم عملی زندگی کی طرف قدم اٹھائو- وہ کتابیں کشتی نوح اور شہادت القرآن ہیں- ان کو پڑھنے کی کوشش کریں اور جو نہیں پڑھ سکتیں وہ اپنی اپنی انجمن کے سیکرٹری کی معرفت اس کے سننے کا انتظام کریں- میں اس طرح سوال کروں گا کہ ان پڑھ عورتیں بھی جواب دے سکیں- مثلاً اس طرح سوال کروں گا کہ فلاں کتاب میں فلاں بات ہے یا نہیں؟ تم میں سے ہر ایک کھڑی ہو سکتی اور بیٹھ بھی سکتی ہے- تو میں یہ کہوں گا کہ جس کے نزدیک اس سوال کے متعلق اس کتاب میں یہ ہے وہ کھڑی ہو جائے- یہ معلوم کر لوں گا کہ آپ لوگوں نے وہ کتاب پڑھی ہے یا نہیں- کیونکہ جو بات اس کتاب میں نہ ہو گی جو اس پر کھڑی ہو گی اس کا نہ پڑھنا ظاہر ہو جائے گا- جیسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی یونہی حاجی بن بیٹھا تھا اور حج کے متعلق سنی سنائی باتیں بیان کیا کرتا تھا- حجر اسود ایک پتھر ہے جسے ہاتھ لگانے` چومنے یا اس کی طرف اشارہ کرنے کا طواف کے وقت حکم ہے- یہ حاجی اس سے ناواقف تھا- ایک دانا آدمی وہاں آ گیا اور اس نے اس سے امتحان کے طور پر چند ایک اہل مکہ کے نام پوچھے وہ کیسے تھے؟ پوچھتے کہا کہ حجر اسود صاحب کا کیا حال ہے؟ جواب دیا اچھے ہیں مگر اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور اس سے اس کا جھوٹ کھل گیا - اس طرح میں اس بات کا علم حاصل کر لوں گا کہ آپ نے وہ کتابیں پڑھی ہیں یا نہیں- مثلاً یہ کہ کشتی نوح میں حضرت مسیح ناصری کا ذکر ہے یا نہیں؟ یا شہادت القرآن میں نماز کا ذکر ہے یا نہیں؟ اتنی بات تو جاہل سے جاہل عورت بھی کر سکتی ہے- تمہیں چاہئے کہ ان کتابوں کو اچھی طرح پڑھو تا وقت پر شرمندہ نہ ہونا پڑے- ہماری جماعت کی عورتوں کو دوسری عورتوں سے دینی تعلیم میں زیادہ ہونا چاہئے- رسول کریم ~صل۲~ کے زمانے میں ایک مرد و عورت بھی انپڑھ نظر نہ آتا تھا- یہ بہت بڑے اخلاص کا ثبوت ہے- حالانکہ عرب میں تعلیم کا بالکل رواج نہ تھا- اس زمانے میں تعلیم کے متعلق بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے-
عام اخبارات بھی پڑھا کرو
سب سے آسان ذریعہ کتاب ہے یا تازہ اخبار کا مطالعہ- ہفتہواری یا دوسرے اخبار گو مفید ہوتے ہیں مگر اس سے معلومات روزانہ اخبار کی طرح نہیں ہو سکتے- میرے پاس پانچ روزانہ اخبار` پندرہ سولہ رسالے آتے ہیں مگر میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ روزانہ اخبار کے مطالعہ کی طرف بہت کم توجہ ہے- رسالے تو پڑھ لیتی ہیں حالانکہ رسالوں سے زیادہ اخباروں میں معلومات ہوتی ہیں- علم کی ترقی خبروں سے ہوتی ہے نہ کہ مضمونوں سے- رائے پڑھنا بیوقوفی ہے خبریں زیادہ مفید ہوتی ہیں- میں نے اخبار والوں کی رائے کو کبھی نہیں پڑھا کیونکہ میں خود رائے رکھتا ہوں- چاہئے کہ ہم اپنی رائے رکھیں- خبروں کی طرف خاص توجہ ہو- دوسروں کے رائوں پر کبھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے- رائیں تو مختلف بھی ہوا کرتی ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ہی الہام سے کوئی کافر ہو جاتا ہے کوئی مومن- یعنی کسی کی رائے ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے` کوئی کہتا ہے کہ یہ درست ہے- اس پر صداقت کھل جاتی ہے- غرض دونوں رائیں اپنی اپنی طرز کی ہوں گی- رائے پڑھنے والا رائے سے متاثر ہو گا نہ اصل حقیقت سے- میں اس کی مثال کے طور پر غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح کی ایک خبر بتاتا ہوں- میری خلافت کے شروع ایام میں اس میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے عنوان اس قسم کے تھے کہ >حقیقت کھل گئی<- >راز طشت ازبام ہو گیا<- >محمود کی سازش ظاہر ہو گئی<- لیکن نیچے میری نسبت خبر درج تھی کہ میں رات کو لوگوں کو جگاتا پھرتا تھا کہ اٹھو اور نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ جماعت کو فتنہ سے بچائے- اس پر کئی دوستوں کے میرے پاس خط آئے کہ کیا یہ صحیح بات ہے- میں نے لکھا کہ گھبراتے کیوں ہو- کیا دعا کرنا گناہ ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ چوری کرو` ڈاکے ڈالو` تو اخباروں کی ہیڈنگ سے ڈرنا نہیں چاہئے-
الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے
خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے- اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا- بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے اور اونچے اور مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی- اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں- یہ دونوں خیالات غلط ہیں- حضرت امام ابوحنیفہ~رح~ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے- ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا- اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں- اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا- میاں کہیں پھسل نہ جانا- اس نے جواب دیا امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی- پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو- قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھا ضروری ہے-
مصباح کو مفید بنانے کی تجویز
اکثر کہا جاتا ہے کہ مصباح میں کوئی علمی مضمون نہیں ہوتا- میں اسے دیکھتا ہوں تو بہت مفید پاتا ہوں- ہاں مضمونوں کی ایک ترتیب چاہئے- سو یہ نقص اخباروں میں عام ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی- اگر کہیں خدا تعالیٰ کے رزاق ہونے کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کشیدہ کا ذکر آ جاتا ہے اور اس قسم کے مضامین سے ذہنی تربیت نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے اخباروں میں مضامین کی ایک ترتیب ہونی چاہئے- اگر تم وعدہ کرو کہ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرو گی تو اس ترتیب کا وعدہ میں کرتا ہوں اس کی ابتدا پیدائش عالم سے شروع کی جائے گی اور ترتیب وار مفید اور کارآمد معلومات کا سلسلہ جاری رہے گا- ہم ان سبقوں کو ایسا آسان کر دیں گے کہ کسی مجلس میں تم شرمندہ نہ ہو گی- اگر کسی جگہ ویدانتی اور زرتشتی فرقوں کا ذکر ہو رہا ہو تو ان کے الفاظ تمہارے لئے موجب حیرت نہ ہوں گے کیونکہ سارے علوم کا تذکرہ اس میں موجود ہو گا-
احمدی خواتین مصباح کو باقاعدہ پڑھنے کا اہتمام کریں
لجنہ والیاں یہ کریں اپنے اپنے جائے قیام میں جا کر ریزولیوشن پاس کرائیں کہ ہم مصباح کو باقاعدہ پڑھیں گی یا سنیں گی اور اس کی اشاعت کریں گی- تو دو سو لجنہ یا مقامات کی طرف سے اس ریزولیوشن کے متعلق اطلاع آنے پر میں اس سلسلہ مضامین کا انتظام کروں گا- گزشتہ سے گزشتہ سال کا ذکر ہے کہ میں نے اسی جلسہ میں آپ لوگوں سے کہا تھا کہ اگر بیرونجات کی پندرہ عورتیں یہاں آنے کی کوشش کریں تو میں آسان طریقوں سے تمام سلسلہ کے متعلق ضروری مسائل انہیں پندرہ دن کے اندر سکھا دوں گا مگر سوائے ایک عورت کے کسی نے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ دی- اگر اب بھی تمہارا یہی حال ہوا تو پھر تمہاری قسمت-
تیسری نصیحت یہ ہے کہ لجنہ کا قیام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہا ہے- اس وقت تین لجنائیں نہایت عمدہ کام کر رہی ہیں یعنی قادیان` سیالکوٹ` امرتسر کی- اور ان سے اتر کر لاہور` پشاور وغیرہ کی لجنائیں- میں امید کرتا ہوں کہ دوسری جگہوں کی لجنائیں بھی مفید کام کرنے کی کوشش کریں گی- قادیان کی لجنہ کا کام ابھی مرکز تک محدود ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ باہر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گی-
عورتیں اپنا کام آپ سنبھالیں
عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کام آپ سنبھالیں تبھی وہ ترقی کر سکتی ہیں- ہم نہیں جانتے کہ تمھارے دلوں میں کیا ہے؟ عورتوں کی ضروریات کا علم عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے- جس طرح ہمیں مردوں کی ضروریات کا علم ہوتا ہے عورتوں کا نہیں ہو سکتا- ہم نہیں جانتے تمہارے دلوں میں کیا ہے تم خود اپنے خیالات کا اظہار کرو اور جو تمہارے دلوں میں ہے اس کو بیان کرو- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے- ایک بوڑھی عورت کا جو اگر کسی پہاڑ کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے - سبحان اللہ- اگر کسی ولی کا حال سنتی ہے تب بھی سبحان اللہ کہتی ہے- اگر اس کو کہا جائے کہ فلاں ولی کی بات سے درندے تابع ہو گئے تھے تو وہ اسے بھی مان لے گی- اس نے تو ایک بات پکائی ہوئی ہے کہ اللہ میاں کی تو ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں- حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ عوام الناس میں مشہور ہے کہ رسولکریم ~صل۲~ جب معراج کو گئے تو ایک پہاڑ راستے میں آ جانے کی وجہ سے راستہ نہ ملا- آسمان سے آوازوں پر آوازیں آ رہی تھیں کہ جلدی آئو جلدی آئو- وہ ادھر ادھر دوڑتے پھرتے مگر راستے کا کچھ پتہ نہ چلتا- آخر ایک جگہ دو فقیر بیٹھے ہوئے ملے جو بھنگ گھوٹ رہے تھے- ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھہرو ہمیں بھنگ پینے دو- حضرت جبرائیل اور رسول کریم ~صل۲~ تو جلدی کر رہے تھے لیکن فقیر آرام سے بھنگ پیتے رہے- آخر انہوں نے اسے نچوڑ کر اس کے فضلے کا ایک گولہ بنایا اور یا علی کہہ کر پکار کر پہاڑ کو مارا تو پہاڑ پھٹ گیا اور ان کے گزرنے کے لئے راستہ بن گیا- ایسے واقعات کو بھی سن کر عورتیں سبحان اللہ کہہ دیتی ہیں- جاہل اور بیوقوف اسے سچ مان لیتے ہیں- وہ خیال نہیں کرتے کہ اس میں خدا اور رسول سب کی عزت پر حملہ ہے اور علی پر بھی حملہ ہے- علیؓ کو عزت رسول کریم ~صل۲~ کی وجہ سے نصیب ہوئی تھی- جب ان کی بے عزتی کی گئی تو علیؓ کی عزت کس طرح قائم رہ سکتی ہے- ہماری قوم کو دیکھ لو ہم پر کسی نے غلبہ پا کر ہمیں اسلام نہیں سکھایا بلکہ ہمارے آباء نے اسلامی ممالک کو فتح کیا اور اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے- آج ہم کیوں حضرت علیؓ کی عزت کرتے ہیں محض رسول کریم ~صل۲~ کی وجہ سے ہم ان پر ایمان نہ لاتے تو علیؓ محض ایک سردار سے زیادہ ہماری نظروں میں عزت نہ پاتے- غرض ایسا جاہلانہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے- یہ شیر خواروں کا سا ایمان ہے کہ ہر وقت دوسروں کے قبضہ میں ہیں-
دوسرا ایمان فرماتے تھے کہ فلسفیوں کا ہوتا ہے جو ہر بات میں شک پیدا کرتے ہیں- یہ گویا ذرا بڑے لڑکوں کا سا ایمان ہے جو دوڑتے اور گرتے ہیں-
تیسرا ایمان و لیوں کا ایمان ہے جو گویا بالغ و عاقل کا سا ایمان ہے کہ نہ وہ دوسرے کے ہاتھ میں ہوتے اور نہ حرکت سے معذور اور نہ حرکت کرتے وقت گرتے نہ زخمی ہوتے ہیں بلکہ حرکت بھی کرتے ہیں اور نقصان سے بھی محفوظ رہتے ہیں- ہاں تو یاد رکھو کہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح نصیحت کر سکتی ہیں اس لئے لجنہ کا ہونا ضروری ہے- انہیں عورتوں کی ضروریات کا علم ہو گا اور اس علم کے ماتحت ان کی باتوں کا ان پر زیادہ گہرا اثر پڑ سکتا ہے-
لجنہ کے فرائض
لجنہ کے یہ فرائض ہونے چاہئیں- اول دیکھیں کہ ان کے حلقہ کی ساری احمدی عورتوں کو کلمہ اور نماز آ گئی ہے یا نہیں- اس کے متعلق وہ ہر سال امتحان لیں اور رپورٹ بھیجیں- اس کام میں غفلت نہ ہو- دوم یہ کہ تبلیغ کریں- ہر جگہ جلسہ کر کے عورتوں کو بلائیں- لجنہ کو اس کی طرف جلد اور فوراً توجہ کرنی چاہئے- غیر احمدی عورتوں کو جب تبلیغ کی جائے گی اور ان کی اصلاح ہو جائے گی تو وہ اپنے مردوں کو بھی مجبور کریں گی کہ وہ احمدیت کو قبول کریں- تیسرا کام چندے کا انتظام ہے چندہ اس لئے نہیں ہوتا کہ اس سے ضروریات پوری ہوں گی- خدا کے کام رکے نہیں رہتے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ایمان پختہ ہو- دیکھو دنیا میں بہت سے خزانے مدفون ہیں اگر خدا چاہے تو ہو اپنے نیک بندوں کو جہاں ہزارہا غیب کے علم سے مطلع کرتا ہے وہاں انہیں یہ بھی بتا سکتا ہے کہ فلاں جگہ خزانہ مدفون ہے اسے دینی ضروریات پر صرف کرو- اللہ تعالیٰ نے بارہا مجھے غیب کی خبریں بتائی ہیں وہ یہ بھی بتا سکتا تھا- مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہارے ایمان پختہ ہوں اور تم میں زندگی کی روح پیدا ہو- رسول کریم ~صل۲~ نے ایک شخص سے زکٰوۃ طلب کی اس نے دینے میں عذر کیا- آپﷺ~ نے ممانعت کر دی کہ آئندہ اس سے زکٰوۃ نہ لی جائے- اس کے بعد وہ بے شمار اونٹ اور بکریاں لاتا اس سے قبول نہ کئے جاتے اور وہ روتا ہوا واپس جاتا- چندے میں زیادہ کی شرط نہیں صرف نیت نیک ہونی چاہئے- تم اپنے ایمانوں میں ترقی کرو اور جہاں جہاں اب تک لجنہ قائم نہیں ہوئی وہاں لجنہ قائم کرو- اور اپنے حقوق خود حاصل کرو- جو حقوق لینے کھڑا ہوتا ہے خدا اس کے حقوق خود دلاتا ہے- نیند سے جاگو` دین کی خدمت کرو- تا مردوں کی طرح تم پر بھی خدا کی برکات نازل ہوں اور خدا کے حضور ان افضال کی مالک بنو جن کا تمہارے آبائواجداد کو وارث بنایا گیا- )مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۰ء(
۱~}~
الانبیاء: ۱۱
‏2] fts[ ۲~}~ الاحزاب : ۴۱

۳~}~
بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل
۴~}~
تکملہ مجمع البحار جلد ۴ صفحہ ۸۵ حرف الزاء مطبوعہ نولکشور لکھنو-
۵~}~
شرح مواھب اللدنیہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۴ باب غزوہ موتہ میں یہ الفاظ ہیں >فاحث فی افواھھن من التراب<
۶~}~
التکویر: ۵
۷~}~ التکویر : ۶
۸~}~ التکویر: ۸
۹~}~
الحجرت: ۱۴


‏a11.24
انوار العلوم جلد ۱۱
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ملہم کی حیثیت میں
رسول کریم ~صل۲~ ایک ملہم کی حیثیت میں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
رسول کریم ~صل۲~ ایک ملہم کی حیثیت میں
ہر انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کی کئی حیثیتیں ہوتی ہیں- مثلاً ایک نبی کی` ایک رسول کی` ایک ملہم کی` ایک مامور کی` ایک آمر کی` ایک معلم کی اور ایک مربی کی- ہر ایک حیثیت اپنی ذات میں ایک قیمتی جوہر اور دلفریب چیز ہوتی ہے- جسے دیکھ کر انسان بیاختیار ہو جاتا ہے اور اس کا دل اس اقرار پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے تمام افعال کسی زبردست طاقت کے تصرف کے ماتحت ہیں- میں اس وقت رسول کریم ~صل۲~ کے ملہم ہونے کی حیثیت کو لیتا ہوں کہ اس میں بھی آپ نہ صرف دوسری دنیا سے بلکہ سب نبیوں سے بڑھے ہوئے تھے- ملہم ہونے کی حیثیت میں جس چیز کو ہمیں دیکھنا چاہئے وہ نبی پر نازل ہونے والا کلام ہے- اس کلام کی حیثیت کے مطابق ہم نبی کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں- کیونکہ کلام اسی قدر طاقتیں اپنے ساتھ لے کر آتا ہے جس قدر کام کی اس سے امید کی جاتی ہے- اگر یہ صحیح ہے کہ نبی کا ہتھیار اس کا کلام ہوتا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ضرورت کے مطابق ہی ہتھیار اسے دیا جائے گا- اگر بڑے دشمن کا مقابلہ ہے اور بہت بڑی فتوحات اس کے ذمہ لگائی گئی ہیں تو یقیناً بہت کاری ہتھیار اسے دینا ہوگا تا کہ وہ اپنا کام کر سکے- لیکن تعجب ہے کہ دنیا نے اس صاف اور سیدھی صداقت کو نہیں سمجھا اور کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی کریم ~صل۲~ کو سوائے قرآن کریم کے کوئی معجزہ نہیں ملا اور اس سے انہیں یہ بتانا مطلوب ہوتا ہے کہ قرآنکریم نے بھلا کیا معجزہ ہونا تھا- پس اگر اس کے سوا کوئی معجزہ نہیں ملا تو گویا کوئی معجزہ ہی نہیں ملا- لیکن یہ خیال ان لوگوں کا محض ناسمجھی یا حماقت پر مبنی ہے- اول تو یہ درست نہیں کہ قرآن کریم کے سوا رسول کریم ~صل۲~ کو کوئی اور نشان نہیں ملا- آپ کی زندگی کا تو ہر پہلو ایک معجزہ تھا- اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر معجزات دیئے کہ سب انبیاء کو مجموعی طور پر بھی اس قدر معجزات نہ ملے ہوں گے- لیکن اگر ہم فرض کر لیں کہ اور کوئی معجزہ آپ کو نہیں ملا` تب بھی قرآنکریم کا معجزہ سب معجزات سے بڑھ کر ہے- اور وہ ایک ہی آپ کے سب نبیوں پر برتر ہونے کا ثبوت ہے-
چونکہ بعض لوگوں کو یہ خیال ہے کہ جب قرآن کریم کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کی زبان بہت فصیح ہے- اس وجہ سے یہ لوگ قرآن کریم کے مختلف عیوب بیان کرتے رہتے ہیں اور اس کوشش میں ایسی ایسی احمقانہ حرکات کر بیٹھتے ہیں کہ ہنسی آ جاتی ہے-
چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب >سوانح محمد< )صلی اللہ علیہ وسلم( میں لکھتے ہیں کہ پانچویں سال سے دسویں سال قبل ہجرت میں رسول کریم ~صل۲~ نے قرآن کریم میں یہودی کتب کے مضامین بیان کرنے شروع گئے اور اس وجہ سے قرآن کریم کا وہ پہلا اندازبیان نہ رہا اور بڑی مشکل سے یہودی روایات کو عربی زبان میں داخل کرنے کے آپ قابل ہوئے اور چونکہ دن کو تو آپ کو فرصت نہیں ہوتی تھی- اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر آپ محنت سے وہ ٹکڑے تیار کرتے ہوں گے-
پھر وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات یایھا المزمل قم الیل الا قلیلا- نصفہ اوانقص منہ قلیلا- اوزد علیہ ورتل القران ترتیلا- انا سنلقی علیک قولاثقیلا- ان ناشئہ الیل ھی اشد وطا و اقوم قیلا- ان لک فی النھار سبحا طویلا- واذ کراسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا- ۱~}~غالباً اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں-
سرمیور محقق تو بہت ہیں لیکن تعجب ہے کہ انہیں اس قدر بھی خیال نہیں آیا کہ یہ آیات مسلمہ طور پر پہلے سال نبوت کی ہیں اور سورۃ مزمل جس کا وہ حصہ ہیں نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض محققین تو اس سورۃ کو ابتدائی سورتوں میں سے سمجھتے ہیں- پس جو سورۃ کہ ابتدائی زمانہ میں اتری ہے- اس میں اس محنت کا ذکر جو پانچویں یا دسویں سال میں بقول ان کے رسول کریم ~صل۲~ کو کرنی پڑی خود ایک معجزہ ہے- کیونکہ کون شخص پانچ چھ سال بعد کی ایسی بات بنا سکتا ہے جو اس کے اختیار میں نہ ہو-
خلاصہ یہ کہ دشمنان اسلام اس معجزہ کو ہلکا کرنے کے دکھانے کے لئے اس قدر کوشش کرتے ہیں رہتے ہیں کہ خود وہ کوشش ہی اس امر کا ثبوت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے اس معجزہ کو وہ دل میں تسلیم کرتے ہیں- ورنہ اس قدر گھبراہٹ اور تشویش کی کیا ضرورت تھی؟
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی کتاب اپنی ذات میں معجزہ نہیں ہے- بلکہ اس کے نزول سے پہلے وہ بے شک اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے معجزہ ہوں گی لیکن اس سورج کے طلوع کے بعد وہ ستاروں کی طرح مدہم پڑ گئیں- اب حال یہ ہے کہ جو قصے ان کتب میں پائے جاتے ہیں` ان کے ذریعہ سے تو وہ اسلام کا مقابلہ کر لیتے ہیں- کیونکہ قصوں میں جس قدر کوئی چاہے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لے لے- اگر رسول کریم ~صل۲~ کے ذریعہ سے کسی شفاء کا ذکر کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں ایک مسیحی دس قصے سنا دے گا اور اگر اس پر استعجاب کا اظہار کیا جائے تو جھٹ کہہ دے گا کہ اگر تمہاری روایت قابل تسلیم ہے تو میری کیوں نہیں؟ لیکن اگر اس سے یہ کہا جائے کہ رسول کریم ~صل۲~ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے اور یہ زندہ معجزہ ہے- اس کی بنیاد روایتوں پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہے- تو اس کے جواب میں سوائے خاموشی کے اور ان کے پاس کچھ نہیں رہتا- وہ اپنی کتابوں کو پیش نہیں کر سکتے- کیونکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کتب محرف و مبدل ہیں اور اگر بعض ضدی اسے تسلیم نہیں کرتے تو کم سے کم تاریخی ثبوت اس قدر زبردست موجود ہیں کہ ان انکار نہیں کیا جا سکتا-
وید کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے کہ مختلف نسخے مل کر کئی نئے وید بن جاتے ہیں- آخر کانٹ چھانٹ کر ایک نسخہ تیار کیا گیا ہے- توریت کا یہ حال ہے کہ اس میں یہاں تک لکھا موجود ہے کہ پھر موسیٰؑ مر گیا اور آج تک اس جیسا کوئی نبی پیدا نہیں ہوا- حالانکہ اس کتاب کی نسبت کہا جاتا ہے کہ خود موسیٰؑ پر نازل ہوئی تھی- دوسری کتب بائبل کی ایسی ہیں کہ اختلافات کی وجہ سے ایک حصہ کی دوسرے حصہ سے شکل نہیں پہچانی جاتی- انجیل میں خود مسیحی آئے دن تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں- اور کبھی کسی آیت کو صحیح قرار دے کر اس میں داخل کر لیتے ہیں- دوسرے وقت میں اسے ردی قرار دے کر پھینک دیتے ہیں- اور اب تو بعض بابوں تک کی صفائی ہونے لگی ہے- اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ الحاقی باب ہیں- مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر انجیل کسی معتبر ذریعہ سے پہنچی تھی تو الحاق کا زمانہ انیس سو سال تک کس طرح لمبا ہو گیا؟ معنوں کے فرق کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلوں نے معنی نہیں سمجھے ہم نے سمجھ لئے ہیں- لیکن ظاہر الفاظ کے متعلق ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ پچھلوں نے ان کو داخل کر دیا اور اب موجودہ نسلوں نے انیس سو سال بعد حقیقت کو معلوم کر لیا- جو لوگ ان بابوں اور آیتوں پر عمل کرتے رہے ان کی زندگیاں تو برباد گئیں اور ان کا عرفان تو تباہ ہوا- وہ کتاب آسمانی جس میں دو ہزار سال تک زائد ابواب اور زائد آیات شامل رہیں- اس پر بنی نوع انسان کی کیا یقین کر سکتے ہیں؟ اور آئندہ کے لئے کیا اعتبار ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ابواب خارج نہ کر دیئے جائیں؟ ممکن ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ جس طرح بعض محققین کا خیال ہے کہ ساری انجیل میں صرف >ایلی ایلی لما سبقتانی< یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا- کا ایک فقرہ ہے جسے مسیح کے منہ سے نکلا ہوا کہا جا سکتا ہے- اس فقرہ کو انجیل قرار دے کر سب حصوں کو اڑا دیا جائے- مگر یہ >چھوڑ دیا< والا فقرہ ملانے کا موجب کب ہو سکتا ہے؟
غرض دوسرے سب مذاہب کی الہامی کتب ایسی مخدوش حالت میں ہیں کہ اس مقابلہ کی طرف آنے سے ان کے مبلغوں کی روح کانپتی ہے- اور یہی حال دوسری کلام کی خوبیوں کا ہے- اس وجہ سے کلام کے معجزہ کی طرف یہ لوگ کبھی نہیں آتے- حالانکہ کلام کا معجزہ دوسرے معجزوں سے زبردست ہوتا ہے کیونکہ اس کا ثبوت ہر وقت پیش کیا جا سکتا ہے- جب کہ دوسرے معجزات ایسے ہیں کہ روایات کے غبار میں غائب ہو جاتے ہیں- اور جب تک دوسرے شواہد ساتھ نہ ہوں سچے اور جھوٹے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے-
کلام کا معجزہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے` کئی شاخیں رکھتا ہے اور قرآن کریم کا معجزہ ان تمام شاخوں میں مکمل اور اکمل ہے- لیکن ایک اخبار کے مضمون میں اس قدر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ ہر ایک بات بیان کر دی جائے- نہ ہر امر تفصیل سے بیان ہو سکتا ہے- اس لئے میں صرف اس معجزہ کے دو پہلوئوں کو اختصار سے بیان کرتا ہوں- اور چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی اور کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی مدعی ہے تو اس کے پیرو اس معجزہ کے مقابلہ میں اسے پیش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کی کتاب ایک ذرہ بھر بھی اس کتاب کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
پہلی مثال جو میں پیش کرنی چاہتا ہوں الفاظ قرآنیہ ہیں- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون ۲~}~ ہم ہی نے اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں-
یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو چیز اپنی غرض کو پورا کر رہی ہوتی ہے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں- اور جب وہ اس غرض کو پورا کرنے سے جس کے لئے اسے بنایا یا اختیار کیا گیا تھا رہ جاتی ہے تو ہم اسے پھینک دیتے ہیں- پس اس میں کیا شک ہے کہ اگر کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب تک اس کی ضرورت دنیا میں ہو اس کی حفاظت ہونی چاہئے اور جب اس کی حفاظت بند ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی ضرورت دنیا میں با قی نہیں رہی اس لئے اسے پھینک دیا گیا ہے- قرآن کریم جس قوم میں نازل ہوا وہ علم سے خالی تھی- اس کے مقابلہ میں دوسری کتب سماویہ ایسی اقوام میں نازل ہوئیں کہ جن میں لکھنے پڑھنے کا کافی رواج موجود تھا- لیکن باوجود اس کے وہ کتب محفوظ نہ رہ سکیں- لیکن قرآن کریم اب تک اسی طرح موجود ہے جس طرح کہ وہ رسول کریم ~صل۲~ کی وفات کے وقت تھا اور یہ حفاظت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اس کے لئے خاص آسانیاں حاصل تھیں جو دوسری کتب کو حاصل نہیں تھیں- نہ یہ حفاظت اس وجہ سے ہے کہ اب تک اس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا گیا- جس سے یہ امکان باقی رہ جائے کہ شاید جب اس کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو اس کے نقائص معلوم ہو جائیں- کیونکہ ایک سو سال سے مسیحی مبشرین بائبل کی بدنامی دھونے کیلئے قرآن کریم کی تاریخ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور اس قسم کی عرق ریزی سے کام لے رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی نسبت معلوم نہ ہو تو شاید وہ یہ خیال کرے کہ قرآن کریم کی محبت مسیحیمبشروں کو عام مسلمانوں سے زیادہ ہے- لیکن باوجود اس عرق ریزی کے وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اس کی عبارت میں ایک لفظ بھی ایسا ثابت کر سکیں کہ جو زائد ہو اور اصل قرآن کریم میں نہ ہو-
ہزاروں قوموں اور سینکڑوں ملکوں میں مسلمان بستے ہیں اور سب کے پاس قرآن کریم ہوتا ہے- لیکن آج تک ایک بھی ایسی مثال نہیں نکل سکی کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو- ڈاکٹر منگانا نے اپنی طرف سے بڑی کوشش کر کے تین قدیم نسخے قرآن کریم کے تلاش کئے تھے لیکن ان کے بعض اوراق چھاپنے سے ان کی ایسی پردہ دری ہوئی کہ مزید اشاعت کا خیال ہی انہوں نے دل سے نکال دیا- کیونکہ ان کے شائع کردہ ورقوں سے ثابت ہو گیا کہ وہ کوئی صحیح نسخے نہ تھے- بلکہ کسی جاہل نو آموز کی طرز تحریر کی غلطیاں تھیں اور اس کو غلطی نہیں کہتے- غلطی وہ ہوتی ہے جسے قوم صحیح تسلیم کر کے دھوکے میں آ جائے- اس قسم کے نسخوں کی تلاش کسی قدیم زمانہ میں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لئے تو آسان راہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کی خراب چھپی ہوئی کتاب میں سے غلط آیات نکال کر کہہ دیا جائے کہ دیکھو قرآن کریم میں اختلاف ہے- چنانچہ ایک پادری سیالکوٹ میں ایسا تھا بھی جو مختلف نسخے قرآن کریم کے اپنے پاس رکھتا تھا اور جو کوئی غلطی اسے ملتی اس پر نشان لگا لیا کرتا تھا- پھر جو مسلمان اسے ملتا اسے دکھاتا تھا کہ تم تو کہتے ہو کہ قرآن کریم محفوظ ہے حالانکہ اس قرآن میں یہ لفظ یوں لکھا ہے اور اس دوسرے میں یوں لکھا ہے- اس کا دماغ اس طرح نہیں کیا کہ ایک توتلے آدمی کو نوکر رکھ چھوڑتا اور اس سے قرآن پڑھوا کر سنواتا اور کہتا کہ دیکھو قرآن کریم میں تغیر ہو سکتا ہے اس نادان نے یہ نہیں سوچا کہ غلطی وہ ہوتی ہے جس سے قوم دھوکا کھا جائے- ورنہ وہ بھول چوک جس کو خود لکھنے والا بھی دوبارہ پڑھنے سے معلوم کر لے کہ یہ غلطی تھی حفاظت کے خلاف نہیں- اس کی حفاظت تو آسانی دماغ میں اور دوسرے نسخوں میں موجود ہے اور اس سے کوئی نقصان عقیدہ یا تفسیر کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس غلطی کی بناء پر کوئی شخص ترجمہ یا تفسیر غلط نہیں کر سکتا-
قرآن کریم کو اس بارے میں جو حفاظت حاصل ہے اس کے متعلق میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا- میں صرف ان لوگوں کی شہادت پیش کرتا ہوں کہ جو پکے مسیحی ہیں اور جنہوں نے پورا زور لگایا ہے کہ کسی طرح قرآن کریم کی حفاظت پر وہ کوئی اعتراض کر سکیں- لیکن آخر مجبور ہو کر ان کو ماننا پڑا ہے کہ سب اعتراض فضول اور لغو ہیں قرآن کریم آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح کہ اس وقت محفوظ تھا جب رسول کریم ~صل۲~ دنیا سے جدا ہوئے تھے-
سرولیم میور کی شہادت
سرولیم میور اپنی کتاب >دی کران< )القرآن( میں لکھتے ہیں-:
>زید کا نظر ثانی کیا ہوا قرآن آج تک بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے- اس احتیاط سے اس کی نقل کی گئی ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ قرآن کا استعمال کیا جاتا ہے<-۳~}~
>جو اختلاف قرآن کریم کے نسخوں میں نظر آتا ہے وہ قریباً سب کا سب زیروں زبروں اور وقف وغیرہ کے متعلق ہے لیکن چونکہ زیر زبر اور وقف کی علامت سب بعد کی ایجاد ہیں وہ اصل قرآن کریم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ اس کا جو زید نے جمع کیا تھا-< ۴~}~
>یہ بات یقینی ہے کہ زید نے جمع قرآن کا کام پوری دیانتداری سے کیا تھا اور علی اور ان کی جماعت کا جو بدقسمت عثمان کے مخالف تھے اس قرآن کو تسلیم کر لینا ایک یقینی ثبوت ہے کہ وہ قرآن اصلی تھا<- ۵~}~
>یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی )صلی اللہ علیہ وسلم( نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا<-۶~}~
ایک مومن کی دلیل خواہ کس قدر ہی زبردست ہو لیکن دل میں شبہ رہتا ہے کہ شاید اس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا- لیکن یہ اس شخص کی تحریر ہے جس نے پورا زور لگایا ہے کہ اسلام اور بانی اسلام کی شان کو گرا کر دکھائے- خدا ہی جانتا ہے کہ اس اقرار صداقت کے وقت سرمیور کا دل کس قدر غم و غصہ کا شکار ہو رہا ہوگا- لیکن چونکہ انہیں گریز کا کوئی موقع نہ ملا- اس لئے انہیں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا اقرار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا-
اس شہادت کو دیکھنے کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ دشمن بھی اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کریم ہر قسم کے دخل سے پاک ہے اور انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون کی پیشگوئی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی ہے اور یہ اس کی عبارت کا معجزہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کی مثال کوئی اور کتاب پیش نہیں کر سکتی-
قرآن کریم کے مفہوم کی حفاظت کا معجزہ
دوسری مثال کے طور پر میں اسی آیت کے ایک دوسرے مفہوم کو پیش کرتا ہوں-:
کلام کی حفاظت کئی طرح ہوتی ہے- اس کے لفظوں کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے مفہوم کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے اثر کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی- میں لفظوں کے علاوہ اس کے مفہوم کی حفاظت کے معجزہ کو پیش کرتا ہوں- بالکل ممکن ہے کہ ایک کتاب کے لفظ تو ایک حد تک موجود ہوں لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے والے لوگ نہ مل سکیں- جیسے کہ وید ہیں کہ خواہ بگڑے ہوئے نسخے ہوں لیکن بہرحال اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ تو موجود ہے- لیکن ویدوں کی زبان اب دنیا سے اس قدر مٹ چکی ہے کہ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وید کی عبارت کا مطلب کیا ہے؟ شرک اور توحید` توہم پرستی اور ستارہ پرستی اور طب اور شہوانی تعلقات کی باریکیاں اور ہر قسم کی متضاد باتیں اس سے نکالی جاتی ہیں- لفظ ایک ہوتے ہیں` معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے- ایک قوم دام مارگ کی تعلیم اس سے نکالتی ہے تو دوسری ویدانت کی- اور اختلاف مفہوم میں نہیں بلکہ ترجمہ میں ہوتا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک سارے ہی وید میں اختلاف ہوتا ہے- لیکن قرآن کریم کی زبان ایسی محفوظ ہے کہ گو بعض جگہ پر ایک لفظ کے مختلف معانی کی وجہ سے معنوں کا اختلاف ہو جائے لیکن اول تو وہ اختلاف محدود ہوتا ہے- دوسرے اس کا حل خود قرآن کریم میں موجود ہوتا ہے- یعنی اس کے غلط معنی کرنے ممکن ہی نہیں ہیں- کیونکہ قرآنکریم اپنی تفسیر خود کرتا ہے اور اگر کوئی شخص غلط معنی کرے تو دوسری جگہ کسی اور آیت سے ضرور اس کے معنوں کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے اور اس طرح وانا لہ لحفظون کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں-
قرآن کریم کی ایک آیت دوسری کی حفاظت کرتی ہے
یعنی قرآن کریم کے مفہوم کے سمجھنے کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی- ہم نے خود ہی اس کے اندر ایسا سامان پیدا کیا ہوا ہے کہ غلطی فوراً پکڑی جاتی ہے اور غلطی کرنے والا اپنے معنوں کی قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے تطبیق پیدا نہیں کر سکتا- یہ قرآن کریم کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کی مثال بھی کسی اور کتاب میں نہیں مل سکتی- دوسری کتب اس طرح لکھی ہوئی ہیں کہ اگر ایک حصہ کے معنوں کو بدل دیا جائے تو دوسرے حصے ہر گز اس غلطی کو ظاہر نہیں کرتے لیکن قرآن کریم کی ہر آیت کی حفاظت کرنے والی دوسری آیتیں موجود ہوتی ہیں- جب کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو فوراً وہ دوسری آیات اس غلطی کو ظاہر کر دیتی ہیں اور اس طرح غلطی کرنے والا پکڑا جاتا ہے-
غرض رسول کریم ~صل۲~ بطور ملہم بھی سب ملہموں سے افضل ہیں- کیونکہ آپ کا الہام زندہ ہے- اور اس قدر زبردست معجزانہ اثرات اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی اور الہام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کوئی اور کتاب آپ کی کتاب کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی!!
) الفضل ۲۵- اکتوبر ۱۹۳۰ء(
۱~}~
المزمل : ۲ تا ۹
۲~}~ الحجر : ۱۰

۳~}~
دی کران مصنفہ سرولیم میور
۴~}~
دی کران مصنفہ سرولیم میور صفحہ۳۹
۵~}~
دی کران مصنفہ سرولیم میور ۳۹`۴۰
۶~}~
دی کران مصنفہ سرولیم میور صفحہ۴۰
‏a11.24,a
انوار العلوم جلد ۱۱
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں
آنحضرت ~صل۲~ ایک دشمن کی نظر میں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
آنحضرت ~صل۲~ ایک دشمن کی نظر میں
سرولیم میور کے- سی- ایس- آئی- جو یو-پی کے ایک سولین تھے اور آخر ترقی کرتے کرتے یو- پی کے لفٹیننٹ گورنر ہو گئے- انہوں نے ایک کتاب آنحضرت ~صل۲~ کے سوانح پر لکھی ہے جو اس موضوع پر مغربی لوگوں کی کتابوں میں سے اگر بہترین نہیں تو بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے- سرولیم میور اسلام اور بانی اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے ہیں- مسلمانوں کے ساتھ مراسم اور حکومت کے ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اپنے قلم کو بہت حد تک روکے رکھتے ہیں- لیکن ان کے متعصبانہ خیالات پھر بھی ان کی تحریر میں سے چھن چھن کر نکل ہی آتے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق جو زہر انہوں نے اگلا ہے اور جو نیش زنی انہوں نے کی ہے وہ قابل تعجب نہیں کیونکہ برتن میں سے وہی ٹپکتا ہے جو کچھ اس کے اندر ہوتا ہے مگر اس امر پر حیرت ضرور ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کا حسن کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں بھی شناخت و عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی اس حسن دلآویز کی دید میں محو ہوتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں- مسیحیت کا یہ تیر انداز مجنونانہ طور پر آنحضرت ~صل۲~ کی ذات پر تیر پھینکنے کے بعد جب والہانہ رنگ میں زمین کی طرح جھکتا ہوا نظر آتا ہے کہ انہی خون کے قطروں کو جو اسی کے تیروں سے زمین پر گرے تھے ادبواحترام کے ساتھ چاٹ لے تو دل میں گدگدیاں ہوئے بغیر نہیں رہتیں- اس وقت یہ شخص عداوتواستعجاب کے متضاد جذبات کا مجسمہ نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ بادل کی طرح قدرت نے آگ اور پانی ایک ہی جگہ پر جمع کر دیئے ہیں- جب وہ حالت جاتی رہتی ہے تو پھر یہ شخص پہلے کی طرح تیر اندازی میں مشغول ہو جاتا ہے-
بہت سے دشمنان اسلام کہتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ زمانہ کی پیدائش تھے- یعنی آپ نے زمانہ کو متغیر نہیں کیا- بلکہ اس زمانہ کے حالات نے آپ کے وجود کو پیدا کیا- عرب کے لوگ اپنی حالت سے تنگ آ چکے تھے- عیسائیت ان کی ارواح کو گرما رہی تھی- وہ ایک نئی شکل اختیار کرنے کے لئے تیار تھے- ضرورت صرف ایک سانچے کی تھی جس میں وہ پڑ جائیں اور ڈھل جائیں- وہ سانچہ بھی حالات زمانہ کے ماتحت آپ ہی آپ تیار ہو رہا تھا- وہ سانچہ ~صل۲~ کی ذات تھی- عرب کے قلوب اس میں پڑے اور ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک نیا نام پا کر دنیا میں پھیل گئے` نہ محمد ~صل۲~ نے کوئی نیا قانون دنیا میں پیش کیا نہ دنیا نے ان کے ذریعہ سے کوئی نیا تغیر پیدا کیا- میور بھی اپنی جبلی حالت کے ماتحت اسی خیال کی تائید کرتا چلا جاتا ہے- لیکن کبھی نسیم محمدی جہالت کی سرزمین سے اس کے پائوں اکھیڑ دیتی ہے اور وہ لرزتے ہوئے` کانپتے ہوئے` غوطے کھاتے ہوئے` مگر بہرحال زمین سے اوپر ایک نئی دنیا میں پرواز کرنے لگتا ہے- ایسی ہی گھڑیوں میں سے ایک گھڑی میں اس کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں-
>یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لازمی نتیجہ تھی` ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے باریک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالی شان کپڑا تیار ہو گیا ہے یا یہ کہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں میں سے ایک شاندار جہاز تیار ہو گیا ہے- یا پھر یہ کہنا کہ کھردری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیار ہو گیا ہے- اگر محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جاتے- اور اپنے متبعین کو ان دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کاربند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جاتا- جو عرب کے گرجا کی بنیاد رکھنے والا قرار پاتا- لیکن جہاں تک انسانی عقل کام دیتی ہے- کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کوئی معقول حصہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا- لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ نے اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ایسی کل ایجاد کی کہ جس کی موقع کے مناسب ڈھل جانے والی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پراگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میں بدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں- ایک عیسائی کو وہ ایک عیسائی نظر آتے تھے- ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے- ایک مکہ کے بت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یافتہ عبادتگذار تھے اور اسی طرح ایک لاثانی ہنر اور ایک بے مثال دماغی قابلیت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کوئی بت پرست تھا` یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبور کر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے- یہ فعل اس صناع کا ہوتا ہے جو اپنا مصالح آپ تیار کرتا ہے اور یہاں اس مصالح کی مثال چسپاں نہیں ہوتی جو کہ آپ ہی آپ بن جاتا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں- جو اپنے صناع کو خود تیار کرتا ہے- یہ محمد کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا- یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلامی روح تھی جس نے محمد کو بنایا<-۱~}~
میور خواہ ہوا میں اڑے یا زمین پر چلے- پھر میور ہی ہے- اس کا ڈنگ اس کے ساتھ ہے- لیکن باغ محمدﷺ~ کے پھولوں سے چوسا ہوا شہد بھی اس کی زبان سے ٹپک رہا ہے- وہ لاکھ کہے کہ اسلام آنحضرت ~صل۲~ کا تیار کردہ ہے- وہ دشمن ہے اور دشمنی اس کا شیوہ- لیکن یہ صداقت جو اس کے قلم سے نکل گئی ہے- اب ہزار کوشش سے بھی وہ اور اس کے ساتھی اس کو لوٹا نہیں سکتے کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا نہیں کیا- بلکہ محمد ~صل۲~ نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے- اور یہ کام سوائے خدا کے فرشتوں کے اور کوئی نہ کر سکتا- زمینی راہنما زمین کی پیدائش ہوتے ہیں- یہ انسانی راہنما ہی ہوتے ہیں جو نئی زمین پیدا کر جاتے ہیں- کیونکہ جو خالق کی طرف سے آتا ہے` وہی نئی خلق پر قدرت پاتا ہے-
)الفضل ۲۵- اکتوبر ۱۹۳۰ء(
‏17] [p ۱~}~
‏ a11.24,b
انوار العلوم جلد ۱۱
عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ
جس پر رسول کریمﷺ~ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]op [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ
جس پر رسول کریمﷺ~ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے
)فرمودہ ۲۶- اکتوبر ۱۹۳۰ء بر موقع جلسہ سیرت النبی- قادیان(
حضور نے تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
گو میری صحت تو مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں آج کوئی تقریر کروں- لیکن چونکہ اس دن سارے ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بعض مقامات پر مسلمان رسول کریم ~صل۲~ کے اوصاف بیان کرنے کے لئے جمع ہوں گے اور چونکہ یہ دن آج نہیں تو کل ساری دنیا کے لئے نہیں تو کم از کم ہندوستان کی قوموں کے لئے صلح کا پیش خیمہ بننے والا ہے اور ہندوستان میں سے کم از کم بنگال میں تو ابھی سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ہر سال غیر مذاہب کے لوگ اس دن کے منانے میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہے اور زیادہ حصہ لے رہے ہیں- میں امید کرتا ہوں کہ جوں جوں غیر مذاہب کے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہ کوئی مذہبی تبلیغ کا دن نہیں بلکہ مختلف اقوام میں صلح و اتحاد پیدا کرنے کا دن ہے- دلی منافرت اور بغض جو کہ بعض اسباب کی وجہ سے عرصہ داراز سے چلا آتا ہے` اس کے ازالہ کا ذریعہ ہے تو لوگوں میں خود بخود اس دن کا احترام شوق پیاد ہوتا جائے گا- ہمیشہ ایک نیک قدم اٹھانے سے دوسرا نیک قدم اٹھانے کی توفیق ملتی ہے- اور ایک نیک خیال پیدا ہونے سے دوسرا نیک خیال پیدا ہوتا ہے- اس تحریک کے سلسلہ میں میں دیکھتا ہوں کہ اب دوستوں کی طرف سے ایک اور تحریک پیش کی جا رہی ہے جو بہت معقول ہے اور میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد اس تحریک کے ماتحت بھی جلسے منعقد کرائے جائیں- وہ تحریک یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جو پرافٹ ڈے (PROPHETDAY) نہ ہو بلکہ پرافٹس ڈے (PROPHETSDAY) ہو- یعنی رسول کریم ~صل۲~ کی ذات کے لئے ہی جلسے نہ منعقد کئے جائیں بلکہ تمام انبیاء کی شان کے اظہار کے لئے اس دن جلسے کئے جائیں- ایسے جلسوں میں ایک مسلمان کھڑا ہو جو رسول کریم ~صل۲~ کی شان کے اظہار کی بجائے کسی دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرے- اسی طرح ایک عیسائی کھڑا ہو کر بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے حضرت بدھ علیہ السلام یا حضرت کرشن علیہ السلام کی خوبیاں بیان کرے- ایک ہندو کھڑا ہو کر بجائے حضرت کرشنؑ اور رام چندر جیؑ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوبیاں پیش کرے- ایک زرتشتی کھڑا ہو کر بجائے زرتشت کی خوبیاں بیان کرنے کے رسول کریم ~صل۲~ کی خوبیاں بیان کرے- یہ ایک نہایت ہی معقول تجویز ہے- مگر فی الحال دقت یہ ہے کہ اگر ایک ادھورے کام میں دوسرا کام شروع کر دیا جائے تو پہلے کام میں نقص پیدا ہو جاتا ہے- میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد ایسے جلسے منعقد کرانے کی تجویز کی جائے جن میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے دوسرے مذاہب کے بانیوں کی خوبیاں بیان کرے- اس قسم کے جلسے ہندوستان جیسے ملک سے بہت سے تفرقے اور رنجشیں دور کر سکتے ہیں- میں امید کرتا ہوں اللہتعالیٰ توفیق دے تو کسی ایک بزرگ کا نہیں بلکہ بزرگوں کا دن منانے کے لئے ہم کھڑے ہوں گے- اس میں شرط یہ رکھی جائے کہ کوئی شخص اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں نہ بیان کرے بلکہ دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں پیش کرے-
اس کے بعد میں یہ بات بھی کہنا چاتا ہوں کہ رسول کریم ~صل۲~ کی تعریف کرنا بے شک ایک مسلمان اپنے مذہب کے لحاظ سے ثواب کا کام سمجھتا ہے اور غیر مذاہب والے بھی جنہیں رسول کریم ~صل۲~ کے حالات پڑھنے کا موقع ملا ہو اور جو صداقت کے اظہار کی جرات رکھتے ہوں- اظہار صداقت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ کی تعریف و توصیف کریں- مگر ایک چیز ہے جسے ہم کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتے اور کسی کے لئے بھی قربان نہیں کر سکتے` خواہ وہ رسول کریم ~صل۲~ کی ذات ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے- اس لئے کوئی بات ایسی نہیں کہنی چاہئے جس میں شرک کا ایک شائبہ بھی پایا جاتا ہو- ہمیں محمد ~صل۲~ کی ذات سے محبت اس لئے ہے کہ آپ کی ذات خدا نما ہے- اگر خدا نمائی کو آپ کی ذات سے علیحدہ کر دیا جائے- تو پھر آپ بھی ایسے ہی انسان ہیں جیسے دوسرے انسان- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعض اشعار میں بے شک ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں رسول کریم ~صل۲~ کی روح کو مخاطب کیا ہے مگر ملہم اور غیر ملہم کے کلام میں فرق ہوتا ہے- ملہم جسے مخاطب کرتا ہے اسے اپنی آنکھ سے اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرماتے ہیں- کہ میں نے جاگتے ہوئے حضرت علیؓ حضرت حسینؓ اور حضرت فاطمہؓ سے باتیں کیں- پس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اے رسولاللہﷺ!~ یہ بات یوں ہو تو یہ سچ ہے لیکن وہ جسے یہ حالت حاصل نہیں وہ اگر یہ کہتا ہے کہ اے رسول اللہ! آپ کی مجھ پر نظر عنایت ہو- تو غلط کہتا ہے- نظر عنایت خدا ہی کی ہوتی ہے- ہم مشرک نہیں اس لئے ہم خداتعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں- خواہ محمد ~صل۲~ کی ذات ہی کیوں نہ ہو- ہماری جماعت کے شاعروں کو اپنے کلام میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے اگر حفظمراتب نہ کنی زندیقی-
حفظ مراتب کرنا ہمارا فرض ہے- پس ضروری ہے کہ جس امر کی حفاظت کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں ہر حال میں اس کی حفاظت کریں- لیکن اگر وہی چیز جس کی حفاظت کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کھڑے ہوئے اسے ضائع کر دیتے ہیں تو پھر رسول کریم ~صل۲~ کی شان کے اظہار سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے- اس کے بعد میں اصل مضمون کو لیتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے خصوصیت سے مقرر کیا گیا ہے اور جو یہ ہے کہ >عرفان الہی اور محبتباللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریم ~صل۲~ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے<- عرفان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہچاننے اور شناخت کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت کمازکم ایک مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ وراء الوراء ہستی ہے اور مجسم نہیں- اس لئے ممکن نہیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ سکیں- یا انسانی ہاتھ اسے چھو سکیں- یا دوسرے ظاہری حواس اسے محسوس کر سکیں- پس وہ ذات جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے- نہ ہاتھوں سے چھوئی جا سکتی ہے اس کے پہچاننے کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے- اس صورت میں یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پہچاننے کا وہ مفہوم نہیں ہو سکتا جو دوسری چیزوں کے پہچاننے کا ہوتا ہے-
مادی چیزوں کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ ہم انہیں آنکھوں سے دیکھتے یا زبانوں سے چکھتے یا کانوں سے سنتے یا ہاتھوں سے چھوتے ہیں- مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں جو دیکھنے سننے` سونگھنے یا چکھنے سے معلوم ہو سکے- چنانچہ وہ ذات خود اپنے متعلق فرماتی ہے- لا تدرکہ الابصار وھویدرک الابصار- وھو اللطیف الخبیر ۱~}~ کہ وہ ایسی ذات ہے جسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مگر وہ خود آنکھوں تک پہنچ جاتی ہے- پس جب ہم اسے دیکھ نہیں سکتے تو پھر پہچاننے کے لئے کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا ہوگا اور وہ ذریعہ یہی ہے کہ جو ہستی خالق ہے اور جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ وہ سارے جہان کی خالق ہے- اس کی پہلی شناخت اپنی ذات سے ہوگی- کیونکہ جو چھوا` چکھا` دیکھا اور سنا نہ جا سکے- اس کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ اس کے کام دیکھیں- اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز ہماری اپنی ذات ہی ہے- پس سب سے پہلی شناخت خدا تعالیٰ کی اپنی ذات میں ہی انسان کر سکتا ہے- اور جو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسے پہچان لیتا ہے- اسی لئے صوفیاء کہتے ہیں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہنچان لیا- دوسری شناخت کی صورت یہ ہے کہ دوسری کامل چیزوں میں خدا کو دیکھا جائے- میں نے خدا تعالیٰ کی شناخت کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے کامل چیزوں کو مقدم رکھا ہے- حالانکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی زیادہ آسانی کے ساتھ دیکھی جا سکے گی- مگر یہ درست نہیں کیونکہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی وراء الوراء ہوتی چلی جائے گی- اس لئے کامل چیزوں میں خدا کا دیکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ کی پہچان کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ نظر آ جائے- یہ سب سے بالاوبلند مقام ہے- اس سے دوسرا مقام یہ ہے کہ کامل انسانوں میں خدا نظر آ جائے اور تیسرا مقام یہ ہے کہ باقی انسانوں میں خدا نظر آئے- کامل انسان میں خدا تعالیٰ کا دیکھنا مشکل ہے- مگر عام انسانوں میں خدا کو دیکھنا بھی آسان نہیں- ایک انسان اگر جنگل میں کوئی خوشکن سبزہ زار دیکھے تو بیاختیار سبحان اللہ کہے گا اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ پھر جائے گی- لیکن اس سے بہتر اس کا ہمسایہ ہوگا مگر اس سے لڑتا جھگڑتا رہے گا- وہ سبزہ میں تو خدا کو دیکھ لے گا لیکن ہمسایہ میں اسے نظر نہ آئے گا- وہ گانے والی چڑیا کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کا جلوہ محسوس کرے گا- مگر بولنے والے انسان میں اسے کچھ نہ نظر آئے گا کیونکہ رقابت کی وجہ سے اس میں دیکھنا مشکل ہوتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے- اس سے اتر کر چوتھا درجہ باقی مخلوق میں خدا تعالیٰ کو دیکھنا ہے- اس میں بھی خدا تعالیٰ کی رئویت کے اعلیٰ مقامات ہیں- پھر پانچواں مقام یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھائے- ہر کمال جو انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے دو درجے ہوتے ہیں- ایک یہ کہ انسان خود اسے سمجھے- دوسرے یہ کہ دوسروں کو سمجھا سکے- ایک طالب علم خود جس قدر جغرافیہ اور تاریخ سمجھ سکتا ہے اسے اگر کہا جائے کہ اسی قدر دوسرے لڑکوں کو سمجھا دو تو وہ نہیں سمجھا سکے گا- پس پانچواں مقام یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھا سکے-
وقت کی کمی کی وجہ سے میں مضمون کو مختصر کر رہا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کی شناخت کے اور بھی مقام ہیں- اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو پہچان لینے کی علامتیں کیا ہوتی ہیں- بعض لوگ دوسروں کو پہچان لیتے ہیں مگر وہ خود نہیں پہچانے جاتے- انسانوں میں اس قسم کا معاملہ روز ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اور بندہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا- کیونکہ بندہ کا علم محدود ہوتا ہے وہ پہچاننے والوں کو پہچاننے سے محروم ہو سکتا ہے- مگر خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے- اس لئے جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لے تو خدا تعالیٰ بھی اپنی پہچان فوراً اس پر ظاہر کر دیتا ہے- خداتعالیٰ سب کو پہچانتا ہے مگر بندوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لئے اپنے مقام کو ان سے مخفی رکھتا ہے- لیکن جب بندہ اس کی تلاش کرتا اور اسے پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی بندے پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں- پس خدا تعالیٰ کو بندہ کے پہچاننے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بندہ کو پہچان لے- جب بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے جواب میں پہچانتا ہے-
عام عرفان کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ نے ایک آیت پیش فرمائی ہے- اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں- میں پہلے وہ پیش کرنا چاہتا ہوں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۲~}~کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا- اس آیت میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں- اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو انسان پا سکتا ہے- پہلے جتنے بزرگ گذرے ہیں جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدا کو پا لیا تو انہوں نے غلط نہ کہا بلکہ بالکل درست کہا کیونکہ انسان خدا کو پا سکتا ہے- چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریم ~صل۲~ کو فرماتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ اگر تم خدا تعالیٰ کو ملنے کی خواہش رکھتے ہو تو آئو اس کا ذریعہ میں تمہیں بتائوں کہ کس طرح مل سکتے ہو- اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ انسان کو مل سکتا ہے- دوسری جگہ اس بات کی اس طرح تصدیق کی گئی کہ فرمایاوالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ۳~}~جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں- ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ ہمیں پا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور زمانہ میں ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے کہا کہ خدا مل گیا- مثلاً ایران میں حضرت زرتشت نے کہا- ہندوستان کے کئی بزرگوں حضرت کرشن` حضرت رام چندر` حضرت بدھ کے کلام کو دیکھا جائے گا تو صاف طور پر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کو ہم نے پا لیا- چین میں کنفیوشس ایسے ہی بزرگ گذرے ہیں- شام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مل جاتے ہیں- عرب میں حضرت صالح اور حضرت ہود پائے جاتے ہیں-
غرض جہاں بھی جائیں ایسے انسان وہاں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ خدا کو مل گئے اور خدا انہیں مل گیا- یہ ایسی پختہ اور اتنی عام فہم بات ہے کہ اگر اس کا انکار کیا جائے تو دنیا میں کوئی صداقت رہتی ہی نہیں- کیونکہ اگر یہ لوگ جھوٹے ہو سکتے ہیں تو پھر دنیا میں اور کوئی سچا نہیں ہو سکتا- غرض الذین جاھدوا فینالنھدینھم سبلنا میں خدا تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو مجھ سے ملنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے- پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے-یدبرالامر یفصل الایات لعلکم بلقاء ربکم توقنون ۴~}~ خدا اپنی باتوں کو اندازہ سے رکھتا ہے اور جہاں جہاں کے متعلق کوئی چیز ہوتی ہے وہاں کھولتا اور تشریح کرتا ہے- تا کہ اس کے بندوں کو اپنے رب کے لقاء پر یقین ہو جائے-
پس پہلی بات جو رسول کریم ~صل۲~ نے اس آیت کے ذریعہ دنیا کو بتائی وہ یہ ہے کہ خدا بندوں کو مل سکتا ہے-
دوسری بات یہ فرمائی کہ عرفان حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی اور کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ فرمایا فاتبعونی خدا کے ملنے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا-
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ عرفان کے حصول کے لئے صحیح راہ کی ضرورت ہوتی ہے- اور اس کے لئے عارف کی اتباع کی ضرورت ہے چنانچہ دوسری جگہ آتا ہیکونوا معالصادقین ۵~}~صادقین کے ساتھ مل جائو-
چوتھی بات یہ فرمائی کہ وہ صحیح راہنما محمد رسول اللہ ہیں- اس کا اشارہ >نی< میں کیا گیا ہے کہ میری اتباع کرو تب خدا ملے گا-
پانچویں بات یہ بتائی یحببکم اللہ کہ انسان اللہ کا محبوب ہو جائے گا- انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کا پیدا ہونا اور بات ہے لیکن جب تک خدا کی محبت انسان کی محبت کے جواب میں نہ اترے وہ عارف نہیں کہلا سکتا- خواہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی کتنی محبت ہو- کیونکہ محبوب کا مل جانا اس کی محبت کی علامت ہوتی ہے- پس خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو مل جاتا اور ان سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسا اپنے مقرب سے کیا جاتا ہے- اس طرح بندہ کو اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کے صحیح ہونے کا علم ہو جاتا ہے- لیکن اگر خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور مقربین جیسا سلوک نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہمارے دل میں بھی خدا کی سچی محبت نہیں ہے- بھلا یہ کبھی ممکن ہے کہ دو دلوں میں سچی محبت بھی ہو اور ان کے ملنے میں کوئی روک بھی نہ ہو اور پھر وہ آپس میں نہ ملیں- پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں خدا تعالیٰ کی سچی محبت ہو- جس کے پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ بھی اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ اسے نہ ملے- جب خدا تعالٰی کسی بندہ سے محبت کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ اپنے بندہ تک آ سکے تو پھر ناممکن ہے کہ وہ نہ آئے- اسی محبت کا نام عرفان ہے جس کے بعد خدا تعالیٰ مل جاتا ہے اور انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے-
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم ~صل۲~ کو کیسا عرفان حاصل تھا- پہلا عرفان یہ ہے کہ اپنی ذات میں انسان خدا تعالیٰ کو دیکھے- یہ سب سے کامل عرفان ہے گو اس کے بھی آگے بڑے بڑے درجے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ کو خدا تعالیٰ نے جو عرفان دیا تھا اس کی ایک مثال بتاتا ہوں- اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی پہچان کیسی حاصل تھی- جب مکہ کے لوگوں نے رسول کریم ~صل۲~ پر انتہا درجہ کے مظالم شروع کر دیئے اور ان کی وجہ سے دین کی اشاعت میں روک پیدا ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں- آپ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ چھوڑنے کیلئے تیار ہو گئے- اس سے پہلے کئی دفعہ انہیں جانے کے لئے کہا گیا مگر آپ رسول کریم ~صل۲~ کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار نہ ہوئے- جب رسول کریم ~صل۲~ جانے لگے تو حضرت ابوبکرؓ کو بھی آپ نے ساتھ لے لیا- جب آپ رات کے وقت روانہ ہوئے تو ایک جگہ جو میں نے بھی دیکھی ہے- پہاڑ میں معمولی سی غار ہے- جس کا منہ دو تین گز چوڑا ہوگا- اس میں جا کر ٹھہر گئے جب مکہ کے لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو انہوں نے آپ کا تعاقب کیا- عرب میں بڑے بڑے ماہر کھوجی ہوا کرتے تھے- ان کی مدد سے تعاقب کرنے والے عین اس مقام پر پہنچ گئے- جہاں رسول کریم ~صل۲~ اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے تھے- خدا کی قدرت کہ غار کے منہ پر کچھ جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی تھیں- اگر وہ لوگ شاخوں کو ہٹا کر اندر دیکھتے تو رسول کریم ~صل۲~ اور حضرت ابوبکر ؓ بیٹھے ہوئے نظر آ جاتے- جب کھوجی وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں اس سے آگے نہیں گئے- خیال کرو اس وقت کیسا نازک موقع تھا- اس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرائے مگر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم ~صل۲~ کیلئے- اس وقت رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایالا تحزن ان اللہ معنا- ۶2]~}~ ft[rگھبراتے کیوں ہو- خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے- اگر رسول کریم ~صل۲~ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں نہ دیکھتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے نازک وقت میں گھبرا نہ جاتے- قوی سے قوی دل گردہ کا انسان بھی دشمن سے عین سر پر آ جانے سے گھبرا جاتا ہے- مگر رسول کریم ~صل۲~ کے بالکل قریب بلکہ سر پر آپ کے دشمن کھڑے تھے اور دشمن بھی وہ جو تیرہ سال سے آپ کی جان لینے کے درپے تھے اور جنہیں کھوجی یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو وہ آسمان پر چڑھ گئے ہیں یا یہاں بیٹھے ہیں- اس جگہ سے آگے نہیں گئے- اس وقت رسول کریم ~صل۲~ فرماتے ہیں-لاتحزن اناللہ معنا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے- یہ خدا تعالیٰ کا عرفان ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے یہ کہا- آپ خدا تعالیٰ کو اپنے اندر دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ میری ہلاکت سے خدا تعالیٰ کے عرفان کی ہلاکت ہو جائے گی اس لئے کوئی مجھے ہلاک نہیں کر سکتا- ایک دوسرے موقع پر رسول کریم ~صل۲~ کا عرفان اس طرح ظاہر ہوا کہ مکہ کے قریب کا ایک آدمی تھا جس کا ابوجہل کے ذمہ کچھ قرضہ تھا- اس نے ابوجہل سے قرضہ مانگنا شروع کیا مگر وہ لیت و لعل کرتا رہا- اس زمانہ میں مکہ کے شرفاء نے ایک سوسائٹی بنائی ہوئی تھی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مظلوم ہوں ان کی امداد کرے- اس میں رسول کریم ~صل۲~ بھی شامل تھے- وہ شخص رسول کریم ~صل۲~ کے پاس آیا اور کہا کہ ابوجہل نے میرا روپیہ مارا ہوا ہے آپ مجھے اس سے حق لے دیں- رسول کریم ~صل۲~ نے اسے یہ نہ کہا کہ ابوجہل میرا دشمن ہے میرے خلاف شرارتیں کرتا رہتا ہے بلکہ کہا آئو میرے ساتھ چلو- آپ ابوجہل کے ہاں گئے اس وقت مخالفین کی شرارتیں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ جب رسول کریم ~صل۲~ گھر سے باہر نکلتے تو آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے- بیہودہ آوازے کستے- ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس آدمی کو لے کر ابوجہل کے محلہ میں گئے اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دی- جب ابوجہل نے دروازہ کھولا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں وہ یہاں کس طرح آ گیا- اس نے پوچھا- آپ کس طرح آئے ہیں- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا روپیہ دینا ہے؟ ابوجہل نے کہاں ہاں دینا ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا- دے دو- اس پر اتنا رعب طاری ہوا کہ وہ دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور فوراً روپیہ لا کر دے دیا- اس کے بعد کسی نے اس سے پوچھا- تم تو کہا کرتے تھے کہ محمد کو جس قدر ذلیل کیا جائے اور جتنا دکھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے- پھر تم نے اس سے ڈر کر روپیہ کیوں دے دیا اس نے کہا- آپ لوگ جانتے نہیں میری اس وقت یہ حالت تھی کہ گویا میرے سامنے شیر کھڑا ہے- اگر میں نے ذرا انکار کیا تو مجھے پھاڑ ڈالے گا- اس لئے میں ڈر گیا اور فوراً روپیہ دے دیا-۷~}~
اب دیکھو رسول کریم ~صل۲~ کا اشد ترین دشمن کے گھر چلے جانا اور اس سے روپیہ کا مطالبہ کرنا اسی لئے تھا کہ آپ سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کی ذات مجھ میں جلوہ گر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی مجھ پر حملہ کر سکے- تیسرے موقع کی مثال یہ ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ ایک جنگ سے واپس آ رہے تھے کہ دوپہر کے وقت جنگل میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے- دوسرے صحابی علیحدہ علیحدہ جگہوں میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص جس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ آپ کو قتل کئے بغیر واپس نہ لوٹوں گا اور جسے دوران جنگ میں حملہ کرنے کا موقع نہ ملا تھا- آیا اور درخت سے لٹکی ہوئی تلوار اتار کر رسول کریم ~صل۲~ کو جگا کر کہنے لگا- اتنی مدت سے میں تمہاری تلاش میں تھا اب مجھے موقع ملا ہے بتائو اب تمہیں کون بچا سکتا ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے اسی طرح لیٹے لیٹے بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کئے فرمایا- مجھے اللہ بچا سکتا ہے- ۸~}~ یہ الفاظ بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں اور کئی لوگ ان کی نقل کر کے یہ کہہ سکتے ہیں مگر ان کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان میں کیسی صداقت تھی- جب آپ نے فرمایا- مجھے اللہ بچا سکتا ہے تو حملہ آور کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار گر گئی- اس وقت آپ اٹھے اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہا- اب بتائو تمہیں کون بچا سکتا ہے- اس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو میں بچ سکتا ہوں- اسے رسول کریم ~صل۲~ سے سن کر بھی اللہ یاد نہ آیا- مگر رسول کریم ~صل۲~ نے اسے کہا جائو اور چھوڑ دیا- یہ عرفان الہی کا ہی نتیجہ تھا اور جب تک کامل عرفان حاصل نہ ہو اس وقت تک اس طرح نہیں کیا جا سکتا-
اسی طرح ایک اور جنگ کے موقع پر جسے حنین کی جنگ کہتے ہیں اور جس میں کچھ نو مسلم اور کچھ غیر مسلم بھی شامل تھے- جب لڑائی شروع ہوئی تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد ۱۲ ہزار تھی اور دشمن کی تعداد چار ہزار- مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ایسی شکست ہوئی کہ وہ کہتے ہم اونٹوں کو پیچھے کی طرف موڑتے اور نکیل کھینچنے سے ان کے سر پیٹھ کے ساتھ جا لگتے- مگر جب چلاتے تو آگے کی طرف ہی دوڑتے- اس وقت رسول کریم ~صل۲~ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے- بعض صحابہ نے اس وقت رسول کریم ~صل۲~ کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور واپسی کے لئے کہا- مگر آپ نے انہیں جھڑک دیا اور حضرت عباس کو کہا لوگوں کو آواز دو کہ جمع ہو جائیں اور خود دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے-
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ۹~}~
میں جھوٹا نبی نہیں ہوں- میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں- یہ ایسا وقت تھا جب کہ وہ جانباز مسلمان سپاہی جو نہایت قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے سارے عرب کو شکست دے چکے تھے- بارہ ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے چار ہزار کے مقابلہ سے بھاگ نکلے تھے- جب رسول کریم ~صل۲~ کے اردگرد صرف چند آدمی رہ گئے تھے- جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے- آپ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے- اس وقت آپ نے یہ سمجھا کہ میرا یہ فعل دیکھ کر لوگ مجھے ہی خدا نہ سمجھ لیں- اس لئے آپ نے فرمایا- میں نبی ہوں- ہاں اپنے اندر خدا کو دیکھ رہا ہوں- لوگ مجھے خدا دیکھ رہے ہونگے- اس لئے میں کہتا ہوں کہانا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں نبی ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں- خدا نہیں ہوں- یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفان کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے-
پھر کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر دھوکا میں مبتلا رہتا ہے مگر موت کے وقت اس پر اصل بات کھل جاتی ہے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملہم جو دماغ کی خرابی کی وجہ سے الہام کا دعویٰ کرتے ہیں- مرنے سے قبل معانی کے خط لکھ دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے- مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفان اس درجہ کمال پر تھا کہ آپ کی آخری گھڑیوں کے متعلق لکھا ہے- اس وقت آپ کی زبان پر اس مفہوم کے الفاظ تھے کہ خداتعالیٰ یہود اور عیسائیوں پر *** کرے- انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اس موقع سے یہود اور عیسائیوں کا کیا تعلق تھا- سننے والے تو مسلمان تھے پھر رسول کریم ~صل۲~ نے یہ کیوں فرمایا- اس لئے کہ مسلمان آپ کی قبر کو ایسا نہ بنا لیں اور اس کا خطرہ اس وجہ سے تھا کہ آپ کو معلوم تھا کہ لوگوں نے مجھ میں خدا کو دیکھا ہے- اور اس بات کا یقین آپ کو آخر وقت میں بھی تھا-
غرض رسول کریم ~صل۲~ عرفان الہی کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے اندر خدا تعالیٰ کا ایسا جلال دیکھتے تھے کہ سمجھتے تھے آپ پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا- بیسیوں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں مگر اختصار کے لئے انہیں چھوڑتا ہوں- اس موقع پر میں یہ بھی بتا دوں کہ ایک قسم کی دلیری کا اظہار سنگ دلی کی وجہ سے بھی بعض لوگ کر دیا کرتے ہیں- ایک ڈاکٹر نے سنایا کہ ایک زمیندار کو آپریشن کرنے کیلئے کلورافارم دینا چاہا تو اس نے کہا اس کی ضرورت نہیں میں یونہی آپریشن کرا لوں گا- چنانچہ اس نے بغیر کلورافارم کے آپریشن کرا لیا تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تکلیف اور دکھ باسانی برداشت کر لیتے ہیں مگر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں رحمت کا مادہ نہیں ہوتا اس بارے میں جب ہم رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق دیکھتے ہیں تو آپ کی طبیعت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپ کی طبیعت پر بہت بڑا اثر ہوتا تھا- حدیثوں میں آتا ہے جب کبھی زور کی آندھی یا بارش آتی تو رسول کریم ~صل۲~ گھبرا جاتے-
پس ایک طرف تو رسول کریم ~صل۲~ اللہ تعالیٰ کے استغناء اور صفات کو دیکھتے تو آپ کے قلب کی نرمی آندھی اور بارش آنے پر بھی ظاہر ہو جاتی اور دوسری طرف بڑی سے بڑی تکلیف کی بھی کوئی پرواہ نہ کرتے- غرض رسول کریم ~صل۲~ کے دل میں نرمی اور رافت تھی اور اس کثرت سے تھی کہ معمولی معمولی واقعات پر آپ کے آنسو نکل آتے تھے- پس آپ نے مصائب اور شدائد کے مقابلہ میں جس قوت اور حوصلہ کا اظہار کیا اس کی وجہ قساوت قلبی نہ تھی بلکہ وہ عرفان الٰہی کا نتیجہ تھا-
دوسرا درجہ عرفان کا یہ ہوتا ہے کہ کامل ذاتوں میں خدا تعالیٰ کو پہچانا جائے- یہ بھی بہت بڑا کام ہے- دنیا میں کئی لوگ عارف ہوتے ہیں مگر ان کی پہچان اپنے تک ہی رہ جاتی ہے- کامل عارف کی مثال تیز نظر وا لے کی ہوتی ہے- ایک انسان دس گز پر کوئی چیز دیکھ سکتا ہے- دوسرا بیس گز پر دیکھ سکتا ہے- کوئی سو گز پر کوئی دو سو گز اور بعض میل میل دور سے ایک چیز کو پہچان لیتے ہیں- ان میں سے کس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تیز نظر والا ہے- اسی کے متعلق جو زیادہ دور سے ایک چیز کو پہچان لیتا ہے- خدا تعالیٰ چونکہ مجسم نہیں اس لئے وہ دوسری چیزوں میں نظر آتا ہے- اور ان چیزوں میں سے ایک کامل انسان ہے- اب ہم دیکھتے ہیں- خدا تعالیٰ کی ذات جن کامل بندوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ان میں دیکھنے کی رسول کریم]2 [stf ~صل۲~ کی نظر کیسی تھی- دنیا کے جس ملک کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے- اسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کے ماننے والے ہوتے ہیں- مگر وہ اپنے بزرگوں تک ہی ساری بزرگی ختم قرار دے دیتے ہیں- ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر جی کو خدا کا اوتار مانتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوا اور کسی مالک میں کوئی اوتار نہیں ہوا- اسی طرح چین` ایران کے لوگ اور یہودی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے ہیں- باقی سب جھوٹے ہیں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں کو دیکھتے تو ہیں مگر قریب والوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں- ان میں عرفان تو ہے مگر بالکل قریب کی چیز کو دیکھنے کا- غرض تمام قوموں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دوسری کامل ذاتوں میں دیکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کا یہ دیکھنا محدود ہے- یا تو وہ بالکل قریب کے بزرگ کو یا اپنے ہی حلقہ کے بزرگ کو دیکھتی ہیں اس سے باہر نہیں دیکھ سکتیں- لیکن خدا تعالیٰ ساری دنیا کا خدا ہے اور تمام کے تمام انسان اسی کے بندے ہیں تو ضروری ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم میں وہ ظاہر ہوا ہو- اور ہر قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے جلوہ نمائی کی ہو- ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ کہ جس چیز کو انسان ایک جگہ دیکھ کر پہچان لیتا ہے اسی قسم کی چیز اگر دوسری جگہ ہو تو اسے بھی پہچان سکتا ہے- اگر کوئی شخص ملیحآباد میں آم کو دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے تو وہ کابل میں آم کو دیکھ کر بھی پہچان لے گا اور ایران میں بھی- لیکن اگر کسی کے سامنے انگلستان میں آم رکھا جائے اور وہ کہے یہ آم نہیں ہے تو کون کہے گا کہ اس شخص کو آم کی پہچان ہے- پہچان لینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ جہاں وہ چیز نظر آئے پہچان لی جائے- کسی نے کہا ہے-
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت رامے شناسم
اپنے معشوق سے کہتا ہے- تم کسی قسم کے بھی کپڑے پہن لو- میری نظر سے تم چھپ نہیں سکتے- مجھے تمہارے قد کا اندازہ ہے- اس لئے میں تمہیں ہر قسم کے کپڑوں میں پہچان لیتا ہوں- جب ایک مجازی عاشق اپنے معشوق کی محبت میں اتنی ترقی کر جاتا ہے- اور معشوق کے قد کا اندازہ ایسا صحیح طور پر لگا لیتا ہے کہ ایک بال بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی عاشق اپنے معشوق کو جہاں دیکھے نہ پہچان لے- غرض عرفان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارف جہاں بھی خدا تعالیٰ کاجلوہ دیکھے پہچان لے- یہ کیا پہچان ہوئی کہ اگر خدا کو اللہ کہا جائے تو پہچان لے- لیکن کوئی گاڈ یا پرمیشور کہے تو نہ پہچانے- حقیقی عرفان یہی ہے کہ کسی نام` کسی شکل اور کسی لباس میں وہ چیز ہو تو اسے پہچان لیا جائے- خدا تعالیٰ کا حسن اس کا جلال اور اس کے کرشمے ہر گوشہ اور ہر حصہ دنیا میں نظر آنے چاہئیں- اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں تو پرانے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک انسان جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سیاہ فام تھا- سیاہ فام ہو- اس سے ہمیں کیا- ہمیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دل گورا تھا- وہ ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے اور ملک کی حالت خراب دیکھ کر کڑھتا ہے- اہل ملک کو جوئے` شراب اور دوسرے گندوں میں مبتلا پا کر ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کے لئے تیار کرتا ہے کہ خون سے ہر قسم کے گندے اور ناپاک داغوں کو دھو دیں- لوگ اس کی باتیں سنتے اور اس پر ہنستے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار کہتا ہے مگر انسانوں کی گردنوں پر تلواریں چلا کر ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے- حتیٰ کہ اس کو ماننے والے بھی اسے کہتے ہیں- کیا خدا خون سے خوش ہوتا ہے کہ انسانوں کے خون بہائے جائیں- مگر وہ انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور سارے ہند میں وہ آگ لگا دیتا ہے کہ اس وقت ۳۳کروڑ نہ سہی لیکن لاکھوں انسان تو بستے ہوں گے اس آگ میں کود پڑتے ہیں اور وہ ایسی جنگ کراتا ہے- جو آج تک نہایت ہولناک جنگ سمجھی جاتی ہے- اسے اپنے ملک کے لوگ نہیں پہچان سکتے لیکن دور عرب میں جہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا جہاں کے بسنے والے اس کی قوم کو برا سمجھتے تھے- مکہ کی چھوٹی سی بستی میں بیٹھا ہوا انسان آنکھ اٹھا کر مشرق کی طرف دیکھتا ہے تو اسے ایک ایسا چہرہ نظر آتا ہے جسے لوگ سیاہ کہتے ہیں- مگر اسے وہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے- اور کہتا ہے اس دور ملک میں اپنے محبوب کو اس میں جلوہ گر دیکھا- وہاں بھی میرا خدا ظاہر ہوا اور اس جگہ بھی اس نے جلوہ نمائی کی- ایک ایسے ملک میں جس سے اس کی قوم کو نہ صرف کوئی تعلق نہ تھا بلکہ عداوت تھی اور ایسے انسان میں جسے اس کی اپنی قوم گمراہ خیال کرتی تھی- رسولکریم ~صل۲~ نے خدا کا نظارہ دیکھ لیا- اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلوہ کو دیکھنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے- پھر اسی ہندوستان میں ایک اور مثال دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا ہے- اسے ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں- باپ پیدا ہوتے ہی اسے الگ محل میں بند کرا دیتا ہے کیونکہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس کا لڑکا حکومت کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل جائے گا- اس وجہ سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس بچہ کی نظر سے کوئی دکھ اور مصیبت کا نظارہ نہ گذرے- آخر وہ بچہ ایک دن کسی طرح اس محل سے باہر نکلا- اور بادشاہ نے حکم دے دیا کہ جدھر سے گذرے وہاں کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے- مگر خدا کی مرضی راستہ میں ایک اپاہج پڑا ہوا مل گیا- لوگوں نے اسے الگ ڈال دیا- مگر شہزادہ اسے دیکھ کر ٹھہر گیا اور پوچھا یہ کیا چیز ہے- میں نے تو ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی- مصاحبین نے شاہزادہ کی توجہ اس سے ہٹانی چاہی مگر اس پر بڑا اثر ہوا اور اس نے اصرار سے اپاہج کی حالت دریافت کی اور کہا ایسی چیز ہمارے محل میں تو نہیں ہوتی- آخر وہ محل میں گیا اور اپاہج کے متعلق سوچتا رہا- کئی دن کے بعد پھر سیر کے لئے نکلا- بادشاہ نے مصاحبین کو تاکید کر دی کہ کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے- مگر جس طرف سے گزر رہا تھا ادھر سے ایک جنازہ نکلا- جس پر اس کی نظر پڑ گئی- اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ ساتھ والوں نے بتایا- ایک انسان مر گیا ہے- یہ اس کی لاش ہے- یہ سن کر وہ پھر فکر میں پڑ گیا- تیسری بار پھر جب سیر کے لئے نکلا تو ایک بڈھا دیکھا جو بہت کمزور اور ضعیف ہو چکا تھا- اس نے جب پوچھا یہ کیا ہے تو اسے بتایا گیا کہ انسان بڑی عمر کا ہو کر اس طرح ہو جاتا ہے- ان نظاروں کے دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سمجھا- اس دنیا کا آرام و آسائش سب ہیچ ہے- کوئی ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ انسان ان دکھوں سے بچ جائے- اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا- مگر ایک رات وہ بیوی اور بچہ کو سوتے چھوڑ کر محل سے باہر نکل گیا اور مدتوں خدا تعالیٰ کی تلاش میں پھرتا رہا- آخر اس نے خدا تعالیٰ کو پا لیا اور اس کا نام بدھ یعنی عقل مجسم ہوا- اس وقت اس کے ملک کے لوگوں نے اس کی صداقت بھری باتوں کا انکار کیا اور اب بھی کئی لوگ انکار کرتے ہیں- مگر اس عارف نے جو عرب کی سرزمین میں پیدا ہوا بتا دیا- ان من امہ الا خلا فیھا نذیر-۱۰~}~اس انسان میں بھی خدا کا جلوہ تھا-
غرض دنیا کے ہر حصہ میں ایسے وجود ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان میں خداتعالیٰ کا حسن جلوہ گر تھا اور خدا ان کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوا- مگر انسانوں کے دلوں کے بعض اور کینے عداوتیں اور دشمنیاں دوسری قوموں کے خدا رسیدہ لوگوں کے دیکھنے میں روک بن رہی ہیں- ان سب روکوں کو دور کرتے ہوئے محمد ~صل۲~ فرماتے ہیں- یہ غلط ہے کہ خدا نے صرف ہندوستان میں اپنے آپ کو ظاہر کیا- یا صرف ایران میں اپناجلوہ دکھایا بلکہ خدا ہر جگہ اور ہر ملک میں ظاہر ہوا- ایسا عرفان کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھایا- وہ محمد ~صل۲~ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا- وہ بے نظیر عرفان ہے- جس کی مثال نہیں ملتی- محمد ~صل۲~ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دور شمال میں خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھا- اور جنوب میں خدا تعالیٰ کے پیاروں کو پایا- دور مشرق اور مغرب میں خدا نما انسان دیکھے اور سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد دیکھے- یہ ہے وہ عرفان جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے-
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت رامے شناسم
خواہ خدا بدھ کی شکل میں یا کنفیوشس کی شکل میں یا زرتشت کی شکل میں یا کرشن اور رام چندر کی شکل میں یا موسیٰ اور عیسیٰ کی شکل میں یا کسی اور شکل میں جلوہ گر ہوا رسول کریم ~صل۲~ نے دیکھ لیا-
بعض لوگ کہتے ہیں محمد ~صل۲~ گذشتہ انبیاء سے آخر میں پیدا ہوئے تو اس سے انہیں کیا فضیلت حاصل ہو سکتی ہے- میں کہتا ہوں ذرا سوچو تو سہی ساری دنیا خدا کی اولاد کی طرح ہے- اگرچہ باپ بیٹے کے نقشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے- مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں ضروری جھلک پائی جاتی ہے- اور بیٹے کی باپ سے مشابہت ظاہر ہوتی ہے- اللہ تعالیٰ کی جو تمام انسانوں کا خالق ہے اس کی مشابہت بھی مخلوق سے ہونی چاہئے- اور اعلیٰ درجہ کے بندوں سے زیادہ اس کی مشابہت ہونی چاہئے- یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک چھوٹا بھائی گم ہو جائے اور جب کہیں ملے تو بڑا بھائی اسے پہچان لے مگر اس سے چھوٹا جو گم ہونے والے کے بعد پیدا ہوا- وہ اگر گم ہونے والے بھائی کو پہچان لے تو ان سے میں کون بڑا عارف ہو گا- یقیناً وہی بڑا عارف ہو گا جس کے دیکھنے سے بھی پہلے اس کا بھائی گھر سے نکل گیا تھا- مگر جب اس نے دیکھا تو اسے فوراً پہچان لیا- ایک بھائی دوسرے بھائی کو کس طرح پہچانتا ہے- اسی طرح کہ اس میں اپنے باپ کی کچھ نہ کچھ مشابہت پا لیتا ہے- اور اس طرح بھائی کا پہچاننا باپ کا پہچاننا ہوتا ہے- جب محمد ~صل۲~ نے اپنے بعض نبی بھائیوں کو بعد میں آ کر پہچان لیا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس جس میں بھی یہ مشابہت پائی جائے گی اسے رسول کریم ~صل۲~ نے پہچان لیا - اس میں صرف محمد ~صل۲~ نے پہچان لیا- اس میں صرف محمد ~صل۲~ ہی مخصوص ہیں اور انبیاء نے اپنے اندر خدا تعالیٰ کو پہچانا- مگر رسولکریم ~صل۲~ نے اپنے ہی اندر خدا تعالیٰ کو نہ پہچانا بلکہ دوسروں میں بھی پہچانا اور اپنے زمانہ سے بہت عرصہ قبل آنے والوں میں پہچانا- اس سے بڑھ کر عارف اور کون ہو سکتا ہے-
چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے- اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں- ذکر حبیب جتنا بھی ہو حبیب ہی ہوتا ہے- اب میں دعا کرتا ہوں کہ محمد ~صل۲~ میں ہو کر ہم بھی دنیا میں صلح اور امن قائم کر سکیں- اور جس طرح رسول کریم ~صل۲~ نے ہر چیز میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اسی طرح ہم بھی ہر چیز میں خدا کو دیکھیں اور پہچان لیں- )الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ء(
۱~}~
الانعام: ۱۰۴
۲~}~ ال عمران :۳۲
۳~}~ العنکبوت :۷۰
۴~}~
الرعد: ۳
۵~}~ التوبہ :۱۱۹
‏ 11] p[
۶~}~
بخاری کتاب الانبیاء باب مناقب المھاجرین و فضلھم
۷~}~
سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۱۳۵` ۱۳۶ مطبوعہ ۱۲۹۵ء
۸~}~
بخاری کتاب الجھاد باب من علق سیفہ بالشجر فی السفر عندالقائلہ
۹~}~
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالی >دیور حسنین<
۱۰~}~
فاطر : ۲۵
‏ 2] f[rt

‏a11.25
انوار العلوم جلد ۱۱
مستورات سے خطاب
مستورات سے خطاب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مستورات سے خطاب
)فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ(
تشہد`تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد آیاتو اذ قال ربک للملئکہ انی جاعل فیالارض خلیفہ- قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک و نقدس لک- قال انی اعلم مالا تعلمون- ۱~}~
تلاوت کر کے فرمایا-:
دنیا میں خلیفہ دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک وہ جنہیں انسان بناتا ہے دوسرے جنہیں خدا الہام کے ذریعہ بناتا ہے- الہام کی بناء پر ہونے والے خلیفہ کو نبی کہتے ہیں جو ملہم خلیفے ہوتے ہیں ان کے آنے پر دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ خود فسادی ہوتے ہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ طبائع ناموافق ہوتی ہیں- اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیدائش کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ اس وقت فرشتوں نے بھی یہی کہا کہ آپ دنیا میں ایسے شخص کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد کرے- یعنی فرشتوں نے سوال کیا کہ آپ کی غرض تو اصلاح معلوم ہوتی ہے ¶مگر درحقیقت یہ فساد کا موجب ہے- اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے- میں خلیفہ اس لئے بناتا ہوں کہ تا اچھے اور خراب علیحدہ کئے جائیں- قرآن میں پہلے اسی سوال کو لیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک نبی کی بعثت پر فساد برپا ہوئے اور نبیوں کو ان کا موجب بنایا گیا- دیگر نبیوں کے علاوہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے وقت بھی یہی عام مقولہ تھا کہ اس نے بھائی بھائی کو الگ کر دیا- اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ آپ بانی فساد ہیں- بہتر )۷۲( فرقے تو پہلے ہی تھے اب آپ نے احمدیوں کا تہترواں )۷۳( فرقہ نکال دیا- چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تفرقے کم کئے جاتے الٹا ایک زائد کر دیا- شائد تمہارے خیال میں بھی جو غیر احمدی ہیں ان کا یہی خیال ہو اس لئے پہلے میں اسی مسئلہ کو صاف کرتا ہوں-
پہلا سوال خون و فساد کا ہے اس کے متعلق یاد رکھو کہ قرآن کریم نے نبی کی آمد سے پہلے کی حقیقت یوں واضح کی ہے کہ ظھر الفساد فی البرو البحر-۲~}~ یعنی اس وقت خشکی وتری میں فساد تھے اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے- اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے پہلے کیا دنیا ایک ہی فرقہ پر تھی یا یہ فساد موجود پہلے ہی تھے؟ شیعہ حنفی پہلے ہی موجود تھے یا نہیں؟ گیارھویں` آمین` رفع یدین کے قضیے پہلے ہی تھے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ- غور کرو تو معلوم ہو گا کہ اتنا فساد تھا جس کی حد نہیں اور جس کے سننے سے بھی شرم آتی ہے- افغانستان میں سینکڑوں آدمیوں کی انگلیاں مروڑ دی گئیں صرف اس لئے کہ التحیات میں تشہد کے وقت وہ شہادت کی انگلی کو اٹھاتے تھے اور حنفی اپنے عقیدہ کے مطابق ایسی نماز کو ضائع سمجھتے تھے-
ایک دوست نے سنایا کہ ایک مرتبہ ایک اہلحدیث حنفیوں کی مسجد میں ان کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ رہا تھا- التحیات میں اس نے انگلی اٹھائی- اس کا انگلی اٹھانا تھا کہ تمام مقتدی نمازیں توڑ کر اس پر ٹوٹ پڑے اور ّ*** ّ*** کہنا شروع کر دیا-
چنانچہ یہ فساد حضرت مسیح موعود کے آنے سے پہلے ہی تھے- مسیح موعود نے تو آ کر اصلاح کی- چوٹ لگانے والا فسادی ہوتا ہے یا ڈاکٹر جو نشتر لے کر علاج پر آمادہ ہوتا ہے؟ ایک شخص کا بخار سے منہ کڑوا ہو ڈاکٹر کونین دے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ظالم نے منہ کڑوا کر دیا- اگر ڈاکٹر بلغم کو نہ نکالتا تو جسم کی خرابی بڑھ جاتی- بلغم نکال دینے پر اعتراض کیسا؟ ہڈی ٹوٹی رہتی اگر زخم کو نشتر سے صاف نہ کیا جاتا اس پر جلن آمیز دوائی نہ چھڑکی جاتی تو مریض کی حالت کس طرح بہتر ہو سکتی- اس کی تو جان خطر میں پڑ جاتی- اس صورت میں کس طرح کوئی ڈاکٹر کو ملزم بنا سکتا ہے-
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اسی تفرقے کے متعلق سوال کیا- آپ نے فرمایا- اچھا بتائو- اپنا اچھا دودھ سنبھالنے کے لئے دہی کے ساتھ ملا کر رکھتے ہیں یا علیحدہ؟ ظاہر ہے کہ دہی کے ساتھ اچھا دودھ ایک منٹ بھی اچھا نہیں رہ سکتا- پس فرستادہجماعت کا درماندہ جماعت سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا- جس طرح بیمار سے پرہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماروں سے فرستادہ جماعت کو علیحدہ رکھے اسی لئے اللہتعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ` شادی` نماز وغیرہ ہو کیونکہ اکثر عورتیں ہی اس میں اختلاف کرتی ہیں- اس لئے میں عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح مریض کے ساتھ تندرست کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے یاد رکھو یہی حالت تمہاری غیر احمدیوں سے تعلق رکھنے میں ہو گی- اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ بہن یا بھائی کا رشتہ ہوا چھوڑا کس طرح جائے- میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر زلزلہ آ جائے یا آگ لگ جائے تو ایک بہن بھائی کی پروا نہ کر کے بلکہ اس کو پیچھے دھکیل کر خود اس گرتی ہوئی چھت سے جلدی نکل بھاگنے کی کوشش کرے گی تو پھر دین کے معاملہ میں کیوں یہ خیال کیا جاتا ہے؟ دراصل یہ آرام کے وقت کے جذبات ہیں مصیبت کے وقت کے نہیں- اگر خدا رات کو تم میں سے کسی کے پاس فرشتہ ملک الموت بھیجے جو کہے کہ حکم تو تیرے بھائی یا دوسرے عزیز کی جان نکالنے کا ہے- مگر خیر میں اس کے بدلے تیری جان لیتا ہوں تو کوئی عورت بھی اس کو قبول نہ کرے گی- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-یا ایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا-۳~}~ یعنی بچائو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کو آگ سے- اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیرو اگر دوسرے غیراحمدی سے بیاہی گئی تو خاوند کی وجہ سے یقیناً وہ احمدیت سے دور ہو جائے گی یا کڑھ کڑھ کر مر جائے گی- اپنے رشتہ داروں سے الگ کی جائے گی بوجہ تعصب مذہبی کے- تو یہ ایک آگ ہے- کیا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کو آگ میں ڈالتی؟ مگر اس طرح ایک تھوڑے سے تعلقات کے لئے اسے دائمی آگ میں ڈال دیا- پس اس سے بچو-
مسیح موعود کے آنے پر جو تفرقے اٹھے یہ پہلے ہی تھے نئے نہیں- لیکن اگر تم قربانیاں کرو تو دوسروں کو تحریک ہو کہ اس طرح یہ تفرقے مٹ سکتے ہیں- مثلاً احمدی ہو کر غیروں سے رشتے نہ کرو- اپنا نمونہ اچھا دکھائو تو ان کو بھی ترغیب ہو- اور اگر احمدی ہو کر بھی تم ان سے رشتے برابر قائم رکھتی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ رشتے تو ہم کو یوں بھی مل جاتے ہیں پھر احمدی ہو کر کیا کرنا- یاد رکھو کہ یہ قومی گناہ ہے اگر تم ان سے بکلی ایسے تعلقات قطع کر لو اور خدا کے لئے اس قربانی کو اختیار کرو تو ادھر تو خدا خود ان رشتہ داروں کی بجائے تم کو بہتر رشتے دے گا اور پھر تمھارے اس استقلال کے صلے میں تمہارے وہ رشتہ دار بھی واپس ملا دے گا مگر شرط یہی ہے کہ تم استقلال کو ہاتھ سے نہ دو- یہ مت سمجھو کہ خدا تمہیں ہمیشہ کے لئے جدا ہی رکھے گا- نہیں ہرگز نہیں- وہ تمہیں ملائے گا اور دائمی طور پر ملائے گا- وہ تمہارا استقلال دیکھتا ہے- پس اپنے تعلقات خدا کے لئے قطع کرو اور راضی برضاء ہوتا تمہارے رشتہ دار بھی تم سے بالاخر دائمی مل جائیں-
میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کبڈی ہو رہی ہے احمدی اور غیر احمدی دو پارٹیاں ہیں- احمدیوں کی پارٹی فریق مخالف کو پکڑ پکڑ کر لا رہی ہے یہاں تک کہ سب ختم ہو گئے- فریقمخالف میں سے صرف ایک بڑا سا آدمی رہ گیا جو دیوار کے ساتھ لگ کر رینگتا ہوا آخر احمدیوں میں مل کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ جب سارے ادھر آ گئے تو میں تنہا ادھر کیا کروں- اس میں تمہارے لئے سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ تمہارے رشتہ داروں کو تم سے ملائے گا- لیکن اگر تم خود اس کے فیصلوں کو توڑ کر یہ قرابتیں قائم کرو تو یاد رکھو کہ ہمیشہ کے لئے وہ تم سے دور کئے جائیں گے کیونکہ تمہارا یہ فعل خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوگا- پس اس کی ناراضگی ہمیشہ کے لئے تمہیں جدا کر دے گی-
حضرت عمرؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ آنحضرت ~صل۲~ کے سخت مخالف تھے اتنے سخت کہ ایک مرتبہ اپنی ایک لونڈی کو محض اسلام لانے کی وجہ سے اتنا مارا کہ اس کی آنکھیں ضائع ہو گئیں اور ایک دفعہ جب آنحضرت ~صل۲~ کو مارنے کا کفار نے منصوبہ کیا تو آپ نے اس بیڑے کو اٹھانے کا تہیہ کیا- کسی نے آپ کا ارادہ معلوم کر کے کہا کہ پہلے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تو محمدﷺ~ کے حلقہ بگوش ہیں- اسی وقت بہن کے گھر گئے- بہن بہنوئی ایک صحابیؓ سے قرآن شریف سن رہے تھے- قرآن چھپا دیا گیا- عمر نے ان سے دریافت کرنے کے بعد اپنے بہنوئی پر تلوار کا حملہ کیا- بہن آڑے آ گئی اور زخمی ہو گئی- عورت کو مارنا چونکہ بزدلی کی علامت سمجھی جاتی ہے عمرؓ شرمندہ ہو گئے- بہن کا خون بہتا دیکھ کر اس ندامت کو مٹانے کے لئے پوچھا بتائو تو کیا پڑھ رہے تھے- بہنوئی نے چاہا کہ قرآن شریف دکھاویں مگر بہن نے جوش سے کہا تو ناپاک ہے وہ مقدس کتاب کیونکر تجھے دکھائی جا سکتی ہے- عمرؓ چونکہ اپنے فعل اور بہن کی قوت ایمانی سے بے حد متاثر ہو چکے تھے نرم ہو گئے اور جھٹ ایمان لے آئے-۴~}~ یہ اس لئے کہ عورت نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے اس معزز بھائی کو قطعی چھوڑ دیں گے مگر اس مقدس دین کو نہ چھوڑیں گے- پس ان کے اس استقلال پر اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کے دل کو نرم کر دیا- وہ مسلمان ہو کر اسلام کے جاں نثار بن گئے- اگر عورت یہ ہمت نہ دکھاتی تو عمرؓ پر اتنا اثر نہ ہوتا اور نہ بہن بھائی ابدی طور پر یوں ملتے کہ ذرا بھی جدائی نہ ہوئی- یاد رکھو کہ یہ محض قربانی کا ثمرہ تھا-
پس اگر تم اپنے رشتہ داروں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہو تو قربانی کرو- اللہ تعالیٰ کا نشتر فائدہ کے لئے اور اس کی سزا رحم کے لئے ہوتی ہے- وہ کبھی ظلم سے کسی کو سزا نہیں دیتا- اس کا رحم بے پایاں ہے- خود فرماتا ہے رحمتی وسعت۵~}~ کہ میری رحمت وسیع ہے- تو وسیع رحمت والے سے کس طرح ظلم کی توقع ہو سکتی ہے اس کے کسی فعل سے ظلم ظاہر نہیں ہوتا- دوزخ محض سزا دہی اور تادیب کے لئے ایک ہسپتال ہے جہاں کوئی چند دن رہا- کوئی چند ہفتے` کوئی چند مہینے` کوئی چند سال مگر جس طرح کوئی ہمیشہ دنیوی ہسپتالوں میں نہیں رہتا اسی طرح وہ ہسپتال )دوزخ( بھی دائمی نہیں- جنت گھر ہے اور دوزخ ہسپتال- اللہ تعالیٰ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اپنے بندوں کو دائمی دکھ میں ڈال دے- حدیث میں آتا ہے کہ آخر ایک دن دوزخ کے دروازے جنت کی ہوائیں ہلائیں گی اور اسے ٹھنڈا کر دیں گی- یہ بھی وسیع رحمت کی دلیل ہے-
پس تمہارے اقرباء کی جدائیاں تادیب و ترقی کے لئے ہیں نہ ظلم و جور کی وجہ سے- جیسے ماں کے پیٹ سے بچے کا جدا ہونا اس کی ترقیات کے لئے مفید اور ضروری ہے- تو کیا کوئی ماں اپنے بچے کا پیٹ سے جدا ہونا ناپسند کرتی ہے؟ کیا وہ کبھی کہتی ہے کہ ہائے کیوں میرا بچہ میرے پیٹ سے الگ کیا گیا؟ ہرگز نہیں کہتی- کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس علیحدگی میں اس کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے راستے نکلیں گے- وہ پیٹ میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا تھا-
پس خدا تعالیٰ بھی تمہارے رشتہ داروں کو اسی لئے جدا کرتا ہے کہ تا وہ ہمیشہ کے لئے تم سے آملیں-
علم ادم الاسماء۶~}~ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا ہے کہ اس تفرقے میں )جو تمہارے نزدیک ہے( مدرسہ ہے اور اس طرح الگ کر کے علوم سے بہرہ ور کرنا مقصود ہے-
دیکھو اگر اگر بہن بھائی ماں باپ سب اکٹھے ہوں تو تعلیم کیونکر پوری ہو سکتی ہے- لیکن سکول علیحدہ ہوتا ہے تو تعلیم کا انتظام بھی مکمل ہو سکتا ہے- ایک لڑکا جو خاص طور پر سکول بھیجا جائے خیال کرتا ہے کہ میں تمام رشتہ داروں سے محض تعلیمی غرض سے علیحدہ کیا گیا ہوں- اس طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کو اس فرض کا احساس رہتا ہے اور غرض بھی پوری ہوتی ہے- اکٹھا رہ کر یہ احساس ناممکن ہے پس علم ادم الاسمائکا یہ مطلب ہوا کہ ہم نے تعلیم کے تمام پہلوئوں یا شعبوں کو مکمل کرنے کے لئے خلیفہ بنایا کہ تا وہ اس طرح لوگوں کو علیحدہ کر کے تعلیم دے اور خدا تعالیٰ کی صفتوں کا علم مخلوق کو دے- پس یہ علیحدگی زحمت نہیں رحمت ہے- روحانی بیماروں سے علیحدگی کے بغیر خدا کو پا لینا تمہارے لئے ناممکن تھا- اب علیحدہ ہو کر تم نے خدا کو پا لیا- تو یہ تم کو نہایت بیش قیمت نعمت مل گئی جس کا جتنا شکر کرو تھوڑا ہے نہ کہ الٹا ان اقرباء کی جدائیوں پر گھبرائو یا لغرش دکھائو- میں مکرر نصیحت کرتا ہوں کہ ان رشتہ داروں سے جن کا روحانی طور پر تم سے قطع تعلق ہو چکا` رشتہ داریاں قائم نہ کرو- ان کے جنازوں وغیرہ میں شرکت نہ کرو- اپنے آپ کو ان تعلقات کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب کے مورد نہ بنائو- اب اس کے بعد میں خدا تعالیٰ کے علم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں-
سب سے ضروری چیز خدا کا علم ہے
بہت عورتیں سمجھتی ہوں گی کہ ہمیں خدا کا علم ہے- مگر نہیں وہ خدا کو نہیں جانتیں- اگر جانتیں تو اس پر پورا پورا ایمان ہوتا- نہ جاننے کے سبب سے ہی عورتیں جھٹ ہر کام اور ہر انجام پر تقدیر کو لے بیٹھتی ہیں- یہ ثبوت ہے خدا کا علم نہ ہونے کا اور اس کی صفات سے بے خبری کا-
یاد رکھو یہ تمہارا تقدیر کا مسئلہ غلط ہے- اپنی کوتاہیوں کے صلہ میں جو بدانجامیاں ظاہر ہوتی ہیں ان کا نام تم تقدیر رکھ کر خدا تعالیٰ پر الزام رکھتی ہو- یہ نہیں خیال کرتیں کہ خدا جو اتنا بڑا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اس کو کیا ضرورت ہے کہ تم میں سے کسی کو دکھ دے کسی کو سکھ- کسی کو رلائے کسی کو ہنسائے اس کا اس میں کیا فائدہ ہے- کیا کوئی ماں پسند کرتی ہے کہ ایک بیٹا جئے ایک مر جائے- ایک اندھا ہو ایک سوجاکھا- ایک بیمار ہو ایک تندرست؟ یہ جاہلانہ خیال ہے- ہماری قوم کی بہت سی تباہی یہی تقدیر کا مسئلہ ہے- اسی مسئلہ کے طفیل ہماری کوششیں ضائع ہو گئیں- ہماری محنتیں برباد ہو گئیں اور ہماری تمام سرگرمیاں بے ثمر رہ گئیں-
تم خوب یاد رکھو کہ یہ تقدیری مسئلہ بالکل غلط ہے- اللہ تعالیٰ نے قانون بنائے ہیں جو ان پر سیدھے چلے انہوں نے کامیابی پائی جو الٹے چلے وہ ناکام رہ گئے- مثلاً یہی جلسہ ہے جس میں کئی پیچھے بیٹھی ہیں کئی آگے- لیکن کیا اس طرح ان کو خدا نے بٹھلایا ہے؟ مانا کہ منتظمات کا بھی ایک حد تک اس میں دخل ہو گا مگر پھر بھی پہلے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے- پہلے آنے والی کو اچھی اور قریب جگہ مل گئی پیچھے آنے والی کو دور- اس میں تقدیر کا کیا دخل ہے-
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک دفعہ طاعون کے موقع پر لوگوں نے کہا یہاں سے چلے جانا چاہئے حضرت عمرؓ کی بھی یہی رائے تھی- مگر آج کل مسئلہ کے مطابق اس وقت بھی چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اختلاف کیا اور اسی تقدیر کو پیش کر کے کہا اتفرون من قدر اللہ ۷~}~یعنی کیا تم تقدیر سے بھاگتے ہو؟ مگر اس کا جواب حضرت عمرؓ نے کیا ہی لطیف دیا- فرمایا افر من قدر اللہ الی قدر اللہ-۸~}~ سوچو! کہ اگر یہ تقدیر ہے کہ ایک کیڑے کے کاٹنے سے آدمی بیمار ہو تو یہ بھی تو تقدیر ہے کہ ڈاکٹر دوائی دے اور وہ اچھا ہو جائے- تم ایک تقدیر پر ایمان لاتی ہو دوسری پر نہیں-
تمہاری مثال اس مراثی کی سی ہے جو نکھٹو تھا- بیوی معاش کے لئے مجبور کرتی تھی اور وہ عذر کرتا تھا کہ کوئی کام ہی نہیں ملتا- آخر ایک دفعہ فوج میں بھرتی ہوئی بیوی نے کہا کہ تو اس میں ہی شامل ہو جا- کہنے لگا شاید تو میری موت کی خواہشمند ہے کیونکہ بھرتی جنگ کے لئے ہے اور جنگ میں موت ہی ہے- بیوی نے اس کو سبق دینے کے لئے چکی میں دانے پیسے جن میں کچھ ثابت رہے کچھ پس گئے اور خاوند سے کہا کہ دیکھ سارے ہی دانے چکی میں پس نہیں جاتے ثابت بھی تو رہتے ہیں- پس تو نے کیونکر کہا کہ جنگ میں سب کی موت ہی ہے- وہ کہنے لگا تو مجھے پسے ہوئے دانوں میں شمار کر-
کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ بچہ ماں کی پھٹکار سے بیمار ہوا یا ماں کی بدعا سے مرا؟ مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق تم نہایت بے باکی اور بے خوفی سے کہہ دیتی ہو کہ یہ ظلم خدا کی تقدیر ہے- تم خدا کو مالک خیال کرتی ہو تو ساتھ رحیم بھی خیال کرو ظالم کیوں خیال کرتی ہو- خدا کا کیا فائدہ ہے کہ تمہارے بچے کو بیمار کرے تم نے اس کو ننگا رکھا تم نے بے احتیاطی کی تم نے بد پرہیزی کی وہ نمونیا میں مبتلا ہو گیا اب تم خدا پر الزام رکھتی ہو اپنی غفلت نہیں کہتیں- تمہارا بچہ جاہل رہا اس لئے کہ تم نے اسے پڑھنے کا شوق نہ دلایا- اس کی تادیب نہ کی- اس کو آوارگی سے نہ بچایا مگر اپنے اس قصور پر اب تقدیر کا حوالہ دیتی ہو- بھلا کب خدا کے فرشتوں نے تمہارے بچے کو جاہل رہنے کی ترغیب دی؟ کب انہوں نے تمہارے بچے کی کتابیں چھین لیں؟ کب اس کے سکول کے راستے کو روکا- یہی وہ تقدیر کا مسئلہ ہے کہ جس پر ایمان لا کر ہمارا ملک خدا کے فضلوں سے محروم ہو گیا- دیکھو اسی ملک کے انگریز بچے تندرست اور تمہارے بیمار ہیں- اس میں انگریز تعلیم یافتہ اور تم جاہل` انگریز آسودہ حال تم فلاکت زدہ وہ عالی مرتبہ اور بشاش تم سراپا نکبت اور غمگین- اس کی وجہ یہ نہیں کہ تقدیر کی ان سے دوستی اور تم سے دشمنی ہے بلکہ وجہ محض یہ ہے کہ انہوں نے قانون قدرت کے مطابق کام کیا یا یوں کہو کہ دنیا کی مشینری کا صحیحاستعمال کیا اور فائدہ اٹھایا مگر تم نے نافرمانی اور خلاف قاعدگی سے نقصان پایا- جب بچہ بیمار ہو جاتا ہے تمہاری غفلت کی وجہ سے` تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے` تمہاری جہالت کی وجہ سے` تو تم اس کو تقدیر سے وابستہ کرتی ہو اپنی غلطی کو نہیں مانتیں اور نہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتی ہو- خود تربیت کا خیال نہیں رکھتیں مگر جب وہ خراب اور اوباش ہو جاتا ہے تو کہتی ہو >جیتقدیر-< یاد رکھو یہ تمام باتیں غفلت اور قانون شکنی کی ہیں- خدا نے قانون بنائے ہیں ان پر چلنے والے کامیاب ہوں گے خلاف ورزی کرنے والے تباہ- پس میں پھر کہتا ہوں کہ اس تقدیر کی آڑ میں خدا پر الزام نہ رکھو-علم ادم الاسمائکا یہی مطلب ہے کہ خدا کا علم یعنی اس کی صفات سے واقفیت- تم خدا کی فرستادہ جماعت کا حصہ ہو- تم کو اس کی ذات کا علم ہونا ضروری ہے- تم تقدیر کو چھوڑو تقدیر خدا کے ساتھ اچھے موقعوں پر منسوب کرو- جانو کہ وہ قادر ہے وہ رحیم ہے` وہ کریم ہے` وہ رحمن ہے` وہ عقدہ کشا ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسئلہ تقدیر کو کیسی لطیف شان دی ہے- فرماتے ہیں بیمار میں پڑتا ہوں شفاء خدا دیتا ہے- جاہل میں رہتا ہوں علم خدا دیتا ہے- غفلت میں کرتا ہوں ہوش میں وہ لاتا ہے- پس تم بھی ظالمانہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرو- اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دور کرو- اس کے بنائے ہوئے قوانین کو صحیح طریق سے عمل میں لائو تا یہ ادبار تم سے دور ہو- اور یہ بات یاد رکھو کہ آئندہ ہماری جماعت میں یہ مسئلہ نہ اٹھے-
دوسرا مسئلہ دعا کا ہے
یہ ایسا ہتھیار ہے کہ جہاں پڑے کاٹ دیتا ہے- اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ~ سے فرماتا ہے کہ اے میرے رسول! ہمارے بندوں سے کہدے کہ میرا رب تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم دعا سے اس کے ساتھ تعلق نہ رکھو-۹~}~ مگر افسوس ہمارے ملک میں دعا کی ایسی بے قدری ہوئی ہے کہ ٹوٹی جوتی کی بھی نہ ہوتی ہو- حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو یہ ایک ایسا ہتھیار دیا ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کرتے کم تھا- دعا خالق اور مخلوق کے مابین راستے کی سیڑھی ہے-
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ ایک کھائی کھدی ہوئی ہے اور بھیڑیں لیٹی ہوئی ہیں گویا ذبح کرنی ہیں- جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے منتظر تھے کہ ان کو ذبح کریں- اس وقت کشفی طور پر آپ کو معلوم ہوا کہ بھیڑیں گناہگار انسان ہیں- پھر آواز آئی کہ قل مایعبوابکم ربی لو لا دعاء کم-۱۰~}~ خدا سے دعا کرو کہ تمہاری سختیاں معاف ہوں گویا سخت سے سخت مشکلات کا حل دعا سے ہو سکتا ہے- اگر دعا نہ ہوتی تو انسان زندگی بالکل بے کیف رہتی-
حضرت مسیح ناصری نے کیا لطیف فرمایا کہ >انسان روٹی سے نہیں خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے<-۱۱~}~ پس خدا کا علم اور اس کے بعد دعا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں اس کے بغیر تمہاری زندگیاں بیکار` تمھارے کام بے ثمر ہیں` یہ مت خیال کرو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ خدا کو نہیں مانتے اور وہ پھر بھی بڑے خوش نصیب ہیں- یہ صحیح ہے مگر بادشاہت کوئی کامیابی نہیں- اگر کوئی اس پر گھمنڈ کرتا ہے تو اس کی بیوقوفی ہے- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس طرح ایک کسمپرس چوڑا جان کندنی یا تکلیف جسمانی کے وقت درد و کرب سے کراہتا ہے اسی طرح ایک طاقت ور مگر خدا کو نہ ماننے والا بادشاہ بھی-
نبیوں کی زندگی دیکھو کہ جن کو زمانہ کے شدو مد کی کچھ پروا نہیں` دکھو کا غم نہیں- مصائب میں سینہ سپر بھی ہیں بے فکر بھی- غرض ان کا دل اس طرح مطمئن ہے کہ تمام جہان کی بادشاہت حاصل کر کے ایک دنیاوی بادشاہ کو بھی نہیں ہو سکتا- وجہ یہ کہ دنیاوی بادشاہ کا بھروسہ اسباب مادی پر ہوتا ہے مگر خدا کے فرستادہ کا چونکہ خدا کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے پس وہ اپنے اس حامی کی حمایت میں ہر طرح بے فکر رہتا ہے- گو اس کے پاس مادی اسباب کی قلت ہو بلکہ نہ ہونے کے برابر- مگر اس کی مسرت اور اس کے اطمینان کو کوئی نہیں پا سکتا-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کونسی سلطنت یا طاقت تھی مگر آپ مصائب اور شدائد زمانہ سے بے فکر تھے- زار روس جو ایک نہایت بلند بادشاہ تھا اس کے متعلق آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ وہ نہایت بے کسی کی حالت میں تباہ ہو گا- پھر اسی طرح ہوا- اب شہنشاہ زار کی پہلی قوت دیکھو پھر اس پیشگوئی کے بعد اس کے بعد بے کسی- پس معلوم ہوا کہ دنیا کے بادشاہوں کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی- وہ بالکل مردہ بدست زندہ کی مثال ہیں مگر خدا کے پیارے ہر طرح بااقتدار-
ایک ولی بزرگ کا واقعہ ہے جو دہلی میں رہتے تھے بادشاہ وقت ان سے ناراض ہو گیا- کہیں دہلی سے باہر گیا ہوا تھا- دشمن نے کوئی چغلی لگائی اور بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ دہلی پہنچتے ہی اس بزرگ کو سزائے موت دوں گا- لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ بادشاہ کے آنے سے پہلے ہی یہاں سے کہیں چلے جائیں یا معافی مانگیں- مگر آپ خاموش رہے یہاں تک کہ بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ گیا- خبریں آتی تھیں کہ بادشاہ ان بزرگ پر غضب ناک ہو رہا ہے اور آتے ہی عبرت ناک سزا دے گا- خیر خواہوں نے پھر وہی مشورہ دیا مگر آپ نے کہا >آنے دو ہوا کیا آخر باشادہ ہے خدا تو نہیں< یہاں تک کہ سنا گیا کہ کل صبح بادشاہ کی سواری کشمیر میں داخل ہو گی- بادشاہ اب دہلی کے بہت نزدیک ہے مگر ان بزرگ نے بڑے اطمینان سے فرمایا >ہنوز دلی دور است<- سننے والے حیران تھے کہ بادشاہ چند لمحوں میں آیا چاہتا ہے یہ دلی دور بتاتے ہیں مگر اسی رات کو بادشاہ قولنج سے مر گیا اور اسے دلی میں داخل ہونا نصیب ہی نہ ہوا-
آنحضرت ~صل۲~ کے متعلق واقعہ ہے کہ دنیوی حالت نہایت غربت میں تھی- ہاں ظاہری حالت بے بسی کی سی- مگر باوجود اس ظاہری بے سرو سامانی کے ایران کے بادشاہ کے پاس آپ کی نبوت اور ترقی کی رپورٹیں برابر پہنچتی تھیں اور وہ آپ سے باوجود بادشاہ ہونے کے خائف تھا آخر اس نے عرب کے گورنر کو آپ کی گرفتاری کا حکم بھیجا- آدمی شاہی حکم لے کر آپ کے پاس آئے اور صاف صاف عرض کر دیا اور کہا کہ نافرمانی نہ کیجئے بے چون و چرا ہمارے ہاتھ اپنے آپ کو دے دیجئے- باشادہ بہت بڑا ہے اس کے حکم کی تعمیل میں ایران چلئے اسی میں آپ کا بھلا ہے- آپ نے فرمایا کہ کل اس کا جواب دوں گا- دوسرے دن آپ نے ان سے فرمایا- سنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا- جائو واپس- انہوں نے واپس جا کر من و عن گورنر کو کہہ دیا- گورنر حیران ہو گیا- وہ ایران کی ڈاک کا منتظر رہا یہاں تک کہ وہی اطلاع اس کو پہنچی کہ خود اس کے بیٹے نے اس کو قتل کر دیا اور اسی رات جس رات آپ نے فرمایا تھا- خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارا باپ بڑا ظالم تھا ہم نے اس کو مار دیا- اب ہم خود بادشاہ ہیں- ہمارے باپ نے از راہ ظلم عرب کے ایک شخص کو قتل کا حکم دیا ہے- اب چونکہ وہ مار دیا گیا ہم اس کے حکم کو منسوخ کرتے ہیں-۱۲~}~
تو اب دیکھو بادشاہت دنیا میں کوئی چیز نہیں- اصل مقصود تو یہ ہے کہ خطروں سے محفوظ ہو جائیں اور خطروں سے وہی محفوظ ہو سکتے ہیں جو خدا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں- خدا کی صفات پر ایمان لاتے اور دعائوں سے اس کی مدد کو پاتے ہیں- ہاں تو یاد رکھو کہ خدا سنتا ہے مگر قاعدے سے قانون قدرت کے مطابق- کیا دیوار پر آٹا دے مارنے سے روٹی پک سکتی ہے؟ بلکہ روٹی اسی قاعدے سے پکے گی جو قداعد اس کے لئے بنائے گئے ہیں- پس دعا بھی اسی قاعدے سے قبول ہو گی جو اس کے لئے مقرر ہے-
اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھنے کو توفیق دے- آمین<
)مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۱ء(
۱~}~
البقرہ: ۳۱
۲~}~ الروم : ۴۲
۳~}~ التحریم :۷
۴~}~
السیرہ النبوتہ لابن ھشام جلد۱ صفحہ۳۶۶ تا ۳۸۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵~}~
الاعراف: ۱۵۷
۶~}~ البقرہ : ۳۲

۷~}~
مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرہ والکھانہ میں تفرون کی بجائے >افرارا< کے الفاظ ہیں-
۸~}~
مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرہ والکھانہ میں >افر< کی بجائے >نفر< ہے-
۹~}~
‏b1] g[ta الفرقان :۷۸


۱۰~}~
ملفوظات جلد ۴ صفحہ۱۲۵` ۱۲۶ )جدید ایڈیشن(
۱۱~}~
متی باب ۴ آیت ۴ )مفہوما(
۱۲~}~
طبری جلد ۳ صفحہ ۱۵۷۱ تا ۱۵۷۵ مطبوعہ ۱۸۸۱ء
‏a11.26
فضائل القرآن
)نمبر۳(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحمن نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۳(
ہر خوبی اور ہر وصف میں یکتا کتاب
صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان(
تشہد` تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ عبس کی حسب ذیل آیات کی تلاوتفرمائی-
عبس و تولی- ان جائہ الا عمی- وما یدریک لعلہ یزکی- او یذکر فتنفعہ الذکری- اما من استغنی- فانت لہ تصدی- وما علیک الا یزکی- وامامن جائک یسعی- وھو یخشی- فانت عنہ تلھی- کلا انھا تذکرہ- فمن شاء ذکرہ- فی صحف مکرمہ مرفوعہ- مطھرہ- بایدی سفرہ- کرامبررہ- ۱~}~
اس کے بعد فرمایا-:
مجھے کھانسی تو پہلے ہی سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسہ کے پچھلے دو دن کام کی توفیق عطا فرما دی- اس وقت بھی آواز اونچی نہیں نکلتی لیکن امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب حلق میں گرمی پیدا ہو گئی تو آواز بلند ہو جائیگی اور سب احباب تک پہنچنی شروع ہو جائیگی- دوست گھبرائیں نہیں بلکہ اطمینان سے بیٹھے رہیں-
ایک دوست کے چند سوالات کے جوابات
پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں میں ایک دوست کے چند سوالات کے جواب دینا چاہتا ہوں جو میری کل کی تقریر کے متعلق ہیں- یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تقریر سے پیدا ہوئے ہیں- سوال تو ایسے ہیں کہ بجائے خود لمبی تقریر چاہتے ہیں- لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جس مضمون کو میں اس موقع پر بیان کرنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں اسے نظر انداز کر دوں اور ان سوالات کا اور ان کے علاوہ دوسرے سوالوں کا تفصیلی جواب دینا شروع کر دوں- اگر میں ایسا کروں تو میری مثال اس ہر دلعزیز کی سی ہو جائیگی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھا رہتا تھا اور جو لوگ اسے دریا سے پار اتارنے کے لئے کہتے انہیں پار لے جاتا- ایک دفعہ وہ ایک شخص کو اٹھا کر لے جا رہا تھا اور ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ ایک اور شخص نے اسے آواز دی کہ مجھے بہت ضروری کام ہے مجھے جلدی لے جائو- اس نے پہلے شخص کو اسی جگہ دریا میں کھڑا کیا اور دوسرے کو لینے کے لئے واپس آ گیا- جب اسے لے کر گیا تو ایک تیسرے نے کہا کہ مجھے بہت جلدی جانا ہے مجھے لے چلو- اس پر دوسرے کو بھی پانی میں کھڑا کر کے واپس آ گیا اور تیسرے کو لے کر چلا- ان میں سے تیرنا کوئی بھی نہ جانتا تھا- اچانک پانی کا ایک ریلا آیا تو پہلے نے کہا- میاں ہر دلعزیز مجھے بچانا- یہ سن کر اس نے جس شخص کو اٹھایا ہوا تھا اسے پانی میں کھڑا کر کے پہلے کو بچانے کیلئے لپکا- اس تک ابھی پہنچا نہ تھا کہ تینوں ڈوب گئے-
پس یہ طریق اختیار کرنا کہ مقررہ لیکچر سے ہٹ کر ہر قسم کے سوالات کا جواب دینا شروع کر دیا جائے اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے- گو ممکن ہے اس طرح ہر دلعزیزی تو حاصل ہو جائے لیکن فائدہ کسی کو نہیں پہنچے گا- پس میں اس وقت سوالات کا مفصل جواب نہیں دے سکتا- البتہ مختصر طور پر چند باتیں بیان کر دیتا ہوں-
مسلمان محکوم ہو سکتا ہے یا نہیں؟
سائل کا ایک سوال یہ ہے کہ مسلم کو کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہئے- اگر احمدی حقیقی مسلمان ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا میں کوئی مسلمان بھی آزاد نہیں- یہ صورت حالات کیوں ہے؟
اس سوال کے پہلے حصہ کا جواب تو یہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی محکوم ہوتا ہی نہیں- مسلم کے معنی ہی فرمانبردار کے ہیں- پس مسلم محکوم ہوتا ہے مگر اصول کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر راستی کا- مسلم محکوم ہوتا ہے مگر حق کا- پس جب ہم کسی مسلم کی محکومی کو دیکھیں گے تو یہ معلوم کریں گے کہ اس کی محکومی اسلام کے مطابق ہے یا خلاف- اگر اس کی محکومی خلاف اسلام ہو تو ہم کہیں گے ایسا نہیں ہونا چاہئے- لیکن اگر اسلام کے مطابق ہو تو ہم کہیں گے کہ سچا مومن یہی ہے- پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے اصول کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ انگریزوں کے ماتحت احمدیوں کا رہنا بھی خلاف شریعت ہے- لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غیرمسلم حکومت کے ماتحت رہنا اسلام کے خلاف نہیں تو ماننا پڑے گا کہ احمدیوں کا انگریزی حکومت کے ماتحت رہنا بھی خلاف شریعت نہیں بلکہ ماتحت رہنا اسلام کے عین مطابق ہے-
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس مذہب کا ہی نام نہیں جو رسول کریم ~صل۲~ لائے بلکہ ہر نبی جو مذہب بھی لایا وہ اسلام ہی تھا- چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے- اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین ۲~}~یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اسلم مسلمان ہو جائو- تو انہوں نے کہا اسلمت لرب العلمین میں تو رب العلمین کے لئے پہلے ہی اسلام لا چکا ہوں- غرض پہلے تمام انبیاء جو دین لائے وہ بھی اسلام ہی تھا- ان ہی انبیاء میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ماتحت اس کی حکومت میں رہے- حالانکہ فرعون کا نام اب گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے- پھر ان ہی انبیاء میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جو رومی حکومت کے ماتحت رہے جو مشرک تھی- پس جب ان انبیائؑ کے اسلام کو غیر مسلموں کے ماتحت رہنے سے کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا تو ہم جن کے ماتحت رہتے ہیں وہ تو اہل کتاب ہیں جو ان لوگوں سے اقرب ہیں- رومی کسی شریعت کے پابند نہ تھے اور نہ فرعون کے پاس کوئی شریعت تھی- اب اگر ان کی اور ہماری محکومیت میں کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہم کم محکوم ہیں اور وہ زیادہ محکوم تھے- اگر اس محکومیت سے ان کے اسلام میں فرق نہ آیا تو پھر ہمارے اسلام میں بھی فرق نہیں آ سکتا- اسلام میں کہیں یہ حکم نہیں کہ کسی مسلمان کو کسی غیرمسلم حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہئے- خود رسول کریم ~صل۲~ ۱۳ سال تک مکہ میں مشرکوں کے قوانین کے ماتحترہے-
باقی رہا یہ کہنا کہ احمدی اگر حقیقی مسلمان ہیں تو گویا ایک مسلمان بھی دنیا میں آزاد نہیں ہے- میں اس کا بھی قائل نہیں ہوں- میرا یہ عقیدہ ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوتا- بھلا اس شخص کو کون غلام کہہ سکتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ دنیا کی ساری حکومتیں اور بادشاہتیں بھی اسلام کے خلاف کچھ منوائیں گی تو میں نہیں مانوں گا` وہ غلام کس طرح کہلا سکتا ہے- اور جو شخص یہ کہے کہ میں بڑی سے بڑی طاقت کی اسلام کے خلاف بات مان لوں گا وہ احمدی نہیں- پس کوئی احمدی غلام نہیں بلکہ ہر احمدی آزاد ہے-
عیسائیوں کو کیوں حکومت ملی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتیں چھن گئیں- لیکن عیسائی بھی حضرت مسیح ؑ کی کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں پھر ان کو کیوں حکومتیں ملی ہوئیہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سزا اسی کو دی جاتی ہے جو خزانہ کا محافظ ہو کر غفلت اور سستی کرتا ہے- عیسائی روحانی خزانہ کے محافظ نہ تھے- رسول کریم ~صل۲~ کے آنے کے بعد عیسائی اس خزانہ کی محافظت سے برخاست کر دیئے گئے- اور رسول کریم ~صل۲~ کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ محافظت مسلمانوں کے سپرد ہو چکی تھی- اب وہ غفلت کریں تو ان کو سزا دی جائیگی عیسائیوں کو نہیں-
مسیح موعود کی بعثت سے مسلمانوں کو کیا طاقت حاصل ہوئی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے برے افعال کے نتیجہ میں مسلمانوں سے حکومت اور شوکت چھن گئی تو مسیح موعود نے آکر مسلمانوں کو کیا شوکت دی- ان کے دعویٰ پر چالیس سال کے قریب گذر چکے ہیں مگر انہوں نے کوئی حکومت نہ دلائی؟ ][ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت اس لئے نہ ملی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام` حضرت یوسف علیہ السلام` حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کئی اور انبیاء کے زمانہ میں بھی حکومت نہیں ملی تھی- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک ان کے ماننے والوں میں حکومت نہیں آئی- اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شرعی نبی ہوتے ہیں اور ایک غیر شرعی- شرعی نبی نے چونکہ شریعت کے احکام پر جو اسے دیئے جاتے ہیں عمل کرانا ہوتا ہے اس لئے اس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ حکومت دے دیتا ہے- اور غیر شرعی نبی نے چونکہ کسی ایسے حکم پر عمل نہیں کرانا ہوتا جس سے پہلے عمل نہ ہو چکا ہو اس لئے اس کے زمانہ میں خدا تعالیٰ قلوب کی فتح رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے یہی فتح عطا کی ہے-
علیؓ اور خالدؓ کے مثیل
چوتھا سوال یہ کیا گیا ہے کہ چالیس پچاس سال کے عرصہ میں احمدیت کیوں ایک بھی علیؓ یا خالدؓ پیدا نہ کر سکی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کی مثیل ہے- اور یہ وہی کام کرنے آئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے کیا- اس لئے اس میں خالدؓ اورعلیؓ کی مثال تلاش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ شرعی نبی کے ماننے والے تھے- شریعت کے مغز کو جاری کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے- اور اس کے لئے نفس کی قربانی کی ضرورت تھی جس میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گئی ہے- پس ہم سے اگر کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو یہ کہ چالیس سال میں کتنے پطرس پیدا کئے؟ اس کے جواب میں ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ پطرس کیا ان سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں پیدا ہوئے- پطرس تو جب پکڑا گیا اس نے صاف کہہ دیا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ماننے والا جب پکڑا گیا تو اس نے پتھروں کی بوچھاڑ کے نیچے جان دے دی لیکن ایمان ہاتھ سے نہ دیا- پھر ہم تو حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے ایسے لوگ پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرتمسیحؑ کی طرح قربانیاں کیں- جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے صداقت نہ چھوڑی اور صلیب پر چڑھنا گوارا کر لیا- اسی طرح ہماری جماعت کے پانچ آدمیوں نے کابل میں صداقت کیلئے اپنی جان قربان کر دی- پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں حضرت مسیح علیہالسلام کے حواریوں جیسے افراد پیدا نہیں کئے بلکہ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے حضرت مسیح علیہالسلام جیسی قربانی کے نظارے دکھائے-
احمدیت کا پیغام ابھی تک ساری دنیا میں نہیں پہنچا
پانچواں سوال یہ کیا گیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بعد خلیفہ اول کا زمانہ بھی گذر گیا- اب خلیفہ دوم کا زمانہ ہے مگر ابھی تک ساری دنیا میں مرزاصاحب کا نام نہیں پہنچا لیکن گاندھی جی کا پہنچ گیا ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ نام پھیلنے میں حقیقی عظمت نہیں ہوتی- مشہور ہے کہ کسی شخص نے چاہ زمزم میں پیشاب کر دیا- لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب مارا- اس نے کہا خواہ کچھ کرو میری جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی ہے- اس سے جب پوچھا گیا کہ تمہاری کیا غرض تھی؟ تو اس نے کہا- مجھے شہرت کی خواہش تھی- یہاں چونکہ ساری دنیا کے لوگ آئے ہوئے تھے اس لئے جب میری اس حرکت کا علم سب کو ہوگا تو خواہ مجھے گالیاں دیں لیکن جہاں جہاں بھی جائیں گے اس بات کا ذکر کریں گے اور اس طرح ساری دنیا میں میری شہرت ہو جائے گی- غرض نام اس طرح بھی پھیل جاتا ہے لیکن حقیقی نام وہ ہوتا ہے جو دنیا کی مخالفت کے باوجود پیدا کیا جائے- گاندھی جی نے کھڑے ہو کر کیا کہا؟ وہی جو ہر ہندوستانی کہتا تھا- قدرتی طور پر ہر ہندوستانی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کا ملک آزاد ہو- یہی گاندھی جی نے کہا- لیکن حضرت مرزا صاحب وہ منوانا چاہتے تھے جسے دنیا چھوڑ چکی تھی اور جس کا نام بھی لینا نہیں چاہتی تھی- گاندھی جی کی مثال تو اس تیراک کی سی ہے جو ادھر ہی تیرتا جائے جدھر دریا کا بہائو ہو- لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال اس تیراک کی سی ہے جو دریا کے بہائو کے مخالف تیر رہا ہو- اس وجہ سے آپ کا ایک میل تیرنا بھی بہائو کی طرف پچاس میل تیرنے والے سے بڑھ کر ہے- دنیا الہام کی منکر ہو چکی تھی- حضرت مرزا صاحبؑ اسے یہ مسئلہ منوانا چاہتے تھے- دنیا مذہب کو چھوڑ چکی تھی- آپ مذہب کی پابندی کرانے کے لئے آئے- پھر آپ کا اور گاندھی جی کا کیا مقابلہ- ابھی دیکھ لو- میرے مضامین چونکہ عام لوگوں کی خواہشات کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے دوسرے اخبارات میں نہیں چھپتے- لیکن ابھی میں انگریزوں کے خلاف وہی روش اختیار کر لوں جو دوسرے لوگوں نے اختیار کر رکھی ہے تو تمام اخبارات میں شور مچ جائے کہ خلیفہصاحب نے یہ بات کہی ہے جو بڑے عقلمند اور محب وطن ہیں- لیکن چونکہ ان کے منشاء کے مطابق اور ان کی خواہشات کے ماتحت ہمارے مضامین نہیں ہوتے اس لئے خواہ ان میں کیسی ہی پختہ اور مدلل باتیں ہوں انہیں شائع نہیں کرتے- سوال کرنے والے دوست نے شاید اس پوربی عورت کا قصہ نہیں سنا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب اس کا خاوند مر گیا تو وہ یہ کہہ کر رونے لگی کہ اس کا اتنا قرضہ فلاں فلاں کے ذمہ ہے وہ کون وصول کرے گا- اس کے رشتہ کے مردوں میں سے ایک نے اکڑ کر کہا اری ہم ری ہم- اسی طرح وہ وصولیاں گناتی گئی اور وہ کہتا چلا گیا- اری ہم ری ہم- لیکن جب اس نے کہا کہ اس نے فلاں کا اتنا قرض دینا ہے وہ کون دے گا- تو کہنے لگا- >ارے میں ہی بولتا جائوں یا کوئی اور بھی بولے گا<- اسی طرح گاندھی جی تو وصولیوں کی بات کہہ رہے ہیں- اور سارا ہندوستان ان کی آواز پر کہتا جاتا ہے- >ہم ری ہم< لیکن حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا اس پر اپنے پاس سے دینا پڑتا ہے- اس لئے اس آواز پر لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ >ارے ہم ہی بولیں یا کوئی اور بھی بولے گا<- کہا گیا ہے کہ گاندھی جی کے کارنامے دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ان کے نام سے کانپ رہی ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت گاندھی جی سے نہیں بلکہ ہندوستان سے کانپ رہی ہے- وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ ۳۳ کروڑ کی آبادی پر چند لاکھ افراد کی حکومت کس قدر مشکل ہے- انگریز اس بات سے ڈر رہا ہے نہ کہ گاندھی جی سے-
شفارشات
سوالات کے جواب دینے کے بعد اب ایک تو میں سفارش بچوں کے متعلق کرتا ہوں- جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء نے اپنے اپنے رسالوں کے سالنامے نکالے ہیں- چونکہ ملک میں رسالوں کے سالنامے نکالنے کا مرض پیدا ہو چکا ہے اس لئے بچے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے- انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے پرچوں کی خریداری کے متعلق سفارش کروں- جب یہ رسالے جاری کرنے لگے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر سکول اور جامعہ ان کو چلائے تو شوق سے نکالو لیکن اگر کہو کہ جماعت میں ان کے متعلق تحریک کی جائے تو یہ خواہش نہ کرنا- لیکن اب چونکہ یہ پٹھان والی بات ہو گئی ہے کہ اس کا بچہ اپنے استاد پر تلوار سے وار کرنے لگا- تو اس نے کہا کہ اس کا پہلا وار ہے کر لینے دو- اس لئے گو اس سے ہماری ہی جیبوں پر اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے بچوں کا پہلا وار ہے اس لئے میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ ان کے رسالے خریدے جائیں- ایک تو اس لئے کہ یہ لڑکے پہلے وار کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے وار کی قدر کی جائے- دوسرے انہوں نے ایک رنگ میں احسان بھی جتایا ہے- وہ کہتے ہیں- ہم جلسہ کے کاموں میں لگے رہے اور رسالے نہ بیچ سکے- اب تو گویا ایک وجہ بھی ان کے ہاتھ آگئی ہے- دوست ان کے رسالے خرید کر ان کی حوصلہ افزائی کریں-
‏text] gat[ اب میں ان باتوں میں سے دو چار اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں جو کل بیان کی تھی-
احمدی تاجروں کے ساتھ ہر رنگ میں تعاون کی ضرورت
میں نے بیان کیا تھا کہ مومن کے لئے دینی اور دنیوی طور پر ہر قسم کی آگ سے بچنا نہایت ضروری ہے- لیکن چونکہ وقت کم تھا میں نے اس آگ سے بچنے کے صرف اصول بیان کر دیئے تھے تفصیل چھوڑ دی تھی- اب میں ان میں سے ایک بات کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں- دنیا میں بہت سے کام جو انفرادی طور پر نہیں ہو سکتے باہمی تعاون سے ہو سکتے ہیں- ہم نے دنیا میں جو عظیم الشان کام کرنے ہیں ان کے متعلق جب تک ہم ہر رنگ میں جماعت کی نگرانی نہ کریں وہ صحیح طور پر سرانجام نہیں دیئے جا سکتے- رسول کریم ~صل۲~ نے ان قیدیوں کا جو جنگ بدر میں گرفتار ہو کر آئے تھے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں- وہ لوگ کوئی دینی تعلیم نہ دے سکتے تھے بلکہ صرف مروجہ علوم ہی سکھا سکتے تھے مگر رسول کریم ~صل۲~ نے اس کا بھی انتظام فرمایا- اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی ضروری سمجھی- ہمیں بھی دین کے ساتھ جماعت کی دنیوی ترقی کا بھی خیال رکھنا چاہئے- ہاں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے اور جہاں دنیا دین میں روک ثابت ہو وہاں اسے ترک کر دینا چاہئے-
دنیوی ترقی کے لئے بہترین چیز تعاون ہے- یورپ کے لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور ترقی حاصل کر لی- لیکن مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑے رہے- جب سارا یورپ اکٹھا ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو مسلمان اس وقت بھی آپس میں لڑ رہے تھے- اس وقت عیسائیوں سے باطنی حکومت نے یہ سازش کی کہ ہم سلطان صلاح الدین کو قتل کر دیتے ہیں تم باہر سے مسلمانوں پر حملہ کر دو- اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہے- پس تعاون سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں وہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتے- اسی طریق سے ہماری جماعت بھی ترقی کر سکتی ہے اور اس کے لئے بہترین صورت تاجروں کے ساتھ تعاون کرنا ہے- بیشک زمیندار بھی مالدار ہو سکتے ہیں لیکن بڑے بڑے مالدار مل کر بھی غیر ملکوں پر قبضہ نہیں کر سکتے- اس کے مقابلہ میں تجارت سے غیر ممالک کی دولت پر بھی قبضہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ تجارت دور دور تک پھیل سکتی ہے اس لئے تاجروں کی امداد نہایت ضروری چیز ہے- اس کے لئے سردست میری یہ تجویز ہے کہ کوئی ایک چیز لے لی جائے اور اس کے متعلق یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم نے وہ چیز صرف احمدی تاجروں سے ہی خریدنی ہے کسی اور سے نہیں- اس طرح ایک سال میں اس چیز کی تجارت میں ترقی ہو سکتی ہے اور دوسرے تاجروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے- مثلاً سیالکوٹ کا سپورٹس کا کام ہے- یہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر انگلستان` آسٹریا اور جرمنی وغیرہ میں بھی جاتا ہے- اور یہ ایسی انڈسٹری ہے جس سے دوسرے ملکوں کا روپیہ کھینچا جا سکتا ہے- سیالکوٹ میں چار پانچ احمدیوں کی فرمیں ہیں- اس لئے اس سال کے لئے ہم یہ کام اختیار کر سکتے ہیں کہ تمام وہ احمدی جو صاحبرسوخ ہوں` سکولوں میں ہیڈ ماسٹر یا ماسٹر ہوں` کھیلوں کی کلبوں سے تعلق رکھتے ہوں` کھیلوں کے سامان کی تجارت کرتے ہوں یا ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھتے ہوں- وہ یہ مدنظر رکھیں کہ جتنا کھیلوں کا سامان منگوایا جائے وہ سیالکوٹ کی احمدی فرموں سے منگوایا جائے- میں ان فرموں کے مالکوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سارے مل کر ایک مال فروخت کرنے والی کمیٹی بنا لیں- جس کے صرف وہی حصہ دار ہوں جو یہ کاربار کرتے ہیں تا کہ سب کو حصہ رسدی منافع مل سکے- اس وقت میں صرف یہ تحریک کرتا ہوں- جب تاجر ایسی کمیٹی قائم کر لیں گے` اس وقت اخبار میں میں اعلان کر دونگا کہ اس کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جائے- اس طرح ایک دو سال میں پتہ لگ جائے گا کہ کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ان لوگوں نے کوئی ترقی کی تو وہ ہماری جماعت ہی کی ترقی ہوگی-
تعاون باہمی کے اصول پر ایک کمپنی قائم کرنے کی تجویز
اسی طرح ایک کمپنی تعاون کرنیوالی قائم کرنی چاہئے جس میں تاجر` زمیندار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوں- میں نے اس کے لئے کچھ قواعد تجویز کئے تھے جنہیں قانونی لحاظ سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے پسند کیا تھا- اب ان کو شائع کر دیا جائے گا- یہ اس قسم کی کمپنی ہوگی کہ اس میں شامل ہونے والے ہر ایک ممبر کے لئے ایک رقم مقرر کر دی جائے گی جو ماہوار داخل کراتا رہے- اس طرح جو روپیہ جمع ہو گا اس سے رہن باقبضہ جائیداد خریدی جائے گی- اعلیٰ پیمانہ پر تجارت کرنا چونکہ احمدی نہیں جانتے اس لئے اس میں روپیہ نہیں لگایا جائے گا بلکہ رہن با قبضہ جائیداد خرید لی جائے گی- جیسا کہ انجمن کے کارکنان کے پراویڈنٹ فنڈ کے متعلق کیا جاتا ہے- اس طرح جو نفع حاصل ہوگا اس کا نصف یا ثلث اس ممبر کے وارثوں کو دیا جائے گا- جو فوت ہو جائے اور اس کی جمع کردہ رقم بھی اس کے وارثوں کا حق ہوگی- میں فی الحال اس سکیم کا مختصر الفاظ میں اعلان کر دینا چاہتاہوں- پھر مشورہ کر کے مفصل سکیم اخبار میں شائع کر دی جائے گی- دوست اس کے لئے تیاری کر رکھیں-
اب میں وہ مضمون شروع کرتا ہوں جسے میں نے اس سال کے منتخب کیا ہے-
فضائل القرآن کے مضمون کی اہمیت
میں نے پچھلے سال کے سالانہ جلسہ پر فضائلقرآن کریم کے متعلق ایک مضمون بیان کیا تھا- یہ مضمون جس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ احباب اس سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ قرآن کریم دنیا کی ساری مذہبی اور الہامی کتابوں سے افضل ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر رسول کریم ~صل۲~ کی بعثت کی غرض ہی کچھ نہیں ہو سکتی- آپ کی بعثت سے پہلے بھی دنیا میں مذاہب موجود تھے اگر آپﷺ~ ان سے کوئی افضل چیز نہیں لائے تو پھر آپﷺ~ کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی! لیکن اگر قرآن کریم کے افضلیت ثابت ہو جائے تو پھر دوسرے مذاہب کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی- ان کی وہی مثال ہو جاتی ہے کہ >آب آمد تیمم برخاست<- اگر یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن آب کی حیثیت رکھتا ہے تو واضح ہو جائے گا کہ پہلی کتابیں متروک ہو چکی ہیں اور اب صرف قرآن ہی قابل عمل کتاب ہے-
میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ایک چیز کو لے کر ہم فضیلت ثابت کریں تو شبہ رہ سکتا ہے کہ فلاں چیز جس کا ذکر نہیں کیا گیا اس کے لحاظ سے نہ معلوم وہ افضل ہے یا نہیں لیکن اگر اصولیطور پر ہم افضلیت ثابت کر دیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن کریم کلی طور پر تمام کتب الہیہ سے افضل ہے-
میں نے گذشتہ سال کے لیکچر میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق چھبیس وجوہ بیان کی تھیں- مگر ان چھبیس میں سے صرف چھ کی رو سے ہی میں نے قرآن کریم کی افضلیت ثابت کی تھی- اور باقی بیس میرے ذمہ قرض رہ گئی تھیں- بلکہ ان چھ میں سے بھی آخری دو وقت کی قلت کی وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوئی تھیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج ان دو کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کر دوں-
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارادہ کو پورا کرنے کی کوشش
‏text1] g[taیہ مضمون دراصل اس عہد کا ایفاء ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق تین سو دلائل پیش کرنے کے بارہ میں فرمایا تھا- ۳~}~اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے آخر میں ہی لکھ دیا تھا کہ-:
>ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی- پھر بعد اس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی- یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سیانی انا ربک کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی- سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے- اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں<-
۴~}~
پھر بعد میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا کہ-:
>میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل )یعنی سچے مذہب کا اپنے عقائد اور تعلیم میں کامل ہونا اور اس کی زندہ برکات اور معجزات( ہزار ہا نشانوں کے قائم مقام ہیں- پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا<-۵~~}
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی افضلیت کے وہ دلائل جن کا براہین احمدیہ میں وعدہ کیا تھا اپنی دوسری کتابوں میں بیان فرما دیئے- مگر ہر ایک نظر ان تک نہیں پہنچ سکتی اس لئے میں نے انہیں ایک ترتیب سے بیان کرنا ضروری سمجھا-
پچاس وجوہ فضیلت
لیکن جب میں اس قرضہ کی ادائیگی کا سامان کرنے کیلئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ قرضہ اور بڑھ گیا ہے- کیونکہ میں نوٹ کرنے لگا تو ۲۶ کی بجائے ۵۰ فضیلت کی وجوہات مجھے معلوم ہوئیں اور اس طرح ۲۰ کی بجائے ۴۴ میرے ذمہ نکلیں- اس پر مجھے خیال آیا کہ جب گذشتہ سال لمبا وقت صرف کر کے بمشکل چھ وجوہات پیش کی جا سکی تھیں تو اس سال ۴۴ کس طرح بیان کی جا سکیں گی- اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ بعض لوگوں کی طبیعت چونکہ وہمی ہوتی ہے اس لئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اصولی طور پر فضیلت کے گر بیان کر کے جو قرآن کریم کی فضیلت ثابت کی گئی ہے اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تو اس میں ضرور کوئی بات ہوگی- اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کو پوری طرح ثابت نہیں کر سکتے ہونگے- اس وجہ سے مجھے خیال آیا کہ جو تفصیل بیان نہیں ہو سکی تھی اس کو بھی لے لوں- اس طرح میرا کام اور بھی وسیع ہو گیا جسے اس سال تو میں یقینی طور پر ختم نہیں کر سکتا- اور اگلے سال کے متعلق میں نہیں جانتا کہ خداتعالیٰ میرے دل میں کیا ڈالے- اس لئے جتنا ہو سکے گا اتنا بیان کر دوں گا-
قرآن کریم اپنی ہر بات میں افضل ہے
میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کو جو افضلیت حاصل ہے وہ انہی باتوں میں نہیں جو اس میں دوسری الہامی کتابوں سے زائد ہیں بلکہ جو باتیں پہلی کتابوں میں موجود ہیں ان کے لحاظ سے بھی قرآن کریم ان سے افضل ہے- میں غور کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر پہلی کتابوں میں کپڑے بدلنے کا کوئی طریق بتایا گیا ہے تو قرآن کریم نے اس سے بہتر اور عمدہ طریق پیش کیا ہے- اگر ان میں کھانا کھانے کے متعلق حکم دیا گیا ہے تو اس کا بھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیا ہے- گویا کوئی معمولی سے معمولی بات بھی قرآن کریم نے ایسی نہیں بتائی جس میں اس کے برابر کوئی اور کتاب ہو- اور خواہ کوئی موٹی سے موٹی بات لے لی جائے اس میں بھی قرآن کریم دوسری کتابوں سے افضل ثابت ہوگا- بلکہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے جو پہلی بات سامنے آئے اگر اسی کو لے لیا جائے تو میں اس کے متعلق بھی بتا دوں گا کہ کس طرح معمولی سے معمولی بات کے متعلق بھی پہلی کتابوں میں تعلیم موجود ہونے کے باوجود قرآن کریم نے ان سے اعلیٰ تعلیم پیش کی ہے- پس ان لوگوں کا شبہ دور کرنے کیلئے جنہیں یہ خیال ہو کہ شاید تفصیل کی رو سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت نہ ہو سکتی ہو میں دو مثالیں لے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے کس طرح انہیں نئے اور علمی رنگ میں پیش کیا ہے-
صدقہ و خیرات کے بارہ میں اسلامی تعلیم کی جامعیت
پہلی مثال میں میں صدقہوخیرات کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں- یہ کوئی روحانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے- ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ حیوانوں تک میں موجود ہے- ایک حیوان دوسرے حیوانوں سے ہمدردی کرتا ہے- ایک پرندہ دوسرے پرندہ سے ہمدردی کرتا ہے- اگر ایک کوا مارو تو بیس کوے کائیں کائیں کر کے جمع ہو جاتے ہیں- وہ ایک کوے کے مرنے پر غم بھی کریں گے- اور اگر کسی نے مرا ہوا کوا اٹھایا ہوا ہو تو اس پر حملہ بھی کریں گے تا کہ اسے چھڑا لیں- غرض ہمدردی اور ایک دوسرے سے احسان کا مادہ حیوانوں اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے- ان کے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا بلکہ چونچ اور زبان ہوتی ہے اس لئے وہ اسی سے اس جذبہ کا اظہار کرتے ہیں- انسانوں کے پاس مال و دولت اور دوسری اشیاء ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ دوسروں کی امداد کرتے ہیں- بہرحال صدقہ اور خیرات کا مسئلہ اتنا موٹا اور اتنا عام ہے کہ کسی مذہب میں اس کے متعلق نامکمل اور ناقص تعلیم نہیں ہونی چاہئے- بلکہ ہر مذہب میں مکمل تعلیم ہونی چاہئے تھی- کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر آدمؑ سے لیکر اس وقت تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس کے متعلق اسلامی تعلیم افضل ثابت ہو تو باقی مسائل کی تفصیلات میں اس کی تعلیم افضل ثابت نہیں ہو سکتی-
صدقہ کے متعلق انجیل کی تعلیم
صدقہ کے متعلق جب ہم مختلف مذاہب کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو عجیب و غریب باتیں نظر آتی ہیں- انجیل میں آتاہے-:
>یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا- میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے- اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہوا-<۶~}~
گویا انجیل کی رو سے جب تک کوئی شخص اپنا سب کا سب مال خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ دے دے اس وقت تک اس کا دیا ہوا مال خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہو سکتا- اسی طرح آتاہے-
>اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا<-۷~}~
پھر صدقہ کے متعلق حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں-
>جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے- اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلا دیگا<-۸~}~
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نے صدقہ و خیرات کے متعلق یہ بتایا ہے کہ اول جو کچھ تمہارے پاس ہو سارے کا سارا دے دو- دوم جب خیرات دو تو ایسی پوشیدگی سے دو کہ تمہارے اپنے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو- یعنی قریب ترین رشتہ داروں یا ماتحتوں یا افسروں کو بھی پتہ نہ لگے- ][ یہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دو- گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو وہ دے دے گا تو پھر لے گا کون- یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ملانوں نے ایک رسماسقاط بنائی ہوئی ہے- چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے- یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے- اس طرح پھرتا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آ جاتا ہے- پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آ جائے گا- پس یہ تعلیم عمل کے قابل ہی نہیں ہے- عمل کے قابل تعلیم وہی ہو سکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جا سکے-
اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ-:
>جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے<- ۹~}~
یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے- مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جا رہے ہیں- انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا ہے- اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا- کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے- اب وہ کیا کرے- وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کیلئے ادھر ادھر بھیجتا ہے تا کہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے یہ اپنا بخل چھپانے کیلئے مجھے علیحدہ کرنا چاہتا ہے- اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے- علاوہ ازیں اس کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی- لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے- ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بے رحم ہے- اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے- کئی ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے- خواہ کوئی ہمارے سامنے بھوکا مر جائے- غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کیلئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہے-
صدقہ کے متعلق تورات کی تعلیم
اب تورات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر اس کی تکلیف کو دور کرنا چاہئے- گویا تورات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے- پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے ایک واجبی اور دوسرا نفلی- یہ انجیل سے یقیناً اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں- بیشک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا برا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے- جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح کبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے- حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے- دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی سمجھی جاتی ہے- لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں- اور یہ خیال کہ میں بڑا ہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لوگ میرے محتاج ہیں اس کی روحانی زندگی کو کچل دینے اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دینے والا خیال ہے- اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے- اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا- یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کیلئے دیا گیا ہے- دیکھو ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذبہ کے ماتحت پلاتی ہے- ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے- کئی ایسی مائیں ہونگی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا- یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلانا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی- کیونکہ ماں بچہ کو فطری محبت سے دودھ پلاتی ہے` رحم کے طور پر نہیں پلاتی-
صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم
اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں- وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھتے ہونگے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہونگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں- تا ہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے- وید کہتے ہیں- جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہئے- جو نہ دے وہ گنہگار ہو گا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گنہگار ہوگا- گویا )۱(ایک طرف تو مانگنا سکھایا )۲(اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا- )۳(اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ ہو اسے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں- یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے- چونکہ ہندوئوں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے- چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اسی گائے کے دودھ پر ہو رہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فوراً دے دے- اگر نہ دے گا تو سخت گنہگار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا- ۱۰~}~
ان ساری تعلیموں کو دیکھو- ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی- اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی راہنما ہوتی ہے- کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا- گویا انسان کے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا- بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے- ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے- اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے- اور اگر ان مذاہب کے پیروئوں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص ہیں-
اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے
صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی ہے اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے- سوائے اس کے اور کوئی بات صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی- ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں- فی الحال ہم اس کے متعلق اتنا مان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے- مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے- اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقے کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے- اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے- کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں- اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے-
صدقہ کے مختلف پہلوئوں پر اسلام کی روشنی
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنا دیا ہے-
صدقہ کی مقدار
پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہئے- انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو- وید کہتا ہے برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چون و چرا دے دو- مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے- اسلام کہتا ہے- لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا- ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا- ۱۱~}~یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کو تو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں- )مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں( اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے- گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہئے- گویا پادری تو یہ کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا- اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہئے- بہرحال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں- قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے اور پھر کہتاہے لا تجعل یدک مغلولہ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسطنہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو- یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں- ان میں سستی پیدا ہوتی ہے` وہ محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دیدو- اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے دو نتائج ہوں گے- فتقعد ملوما محسورا- قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے- فرمایا- اگر تو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہئے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا فتقعد ملوما محسورا تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب تجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے برا کیا- بھوکے کو کچھ نہ دیا محتاج کی مدد نہ کی- حاجتمند کی امداد نہ کی-
اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہئے- اس سے اختلاف کیوں کیا- اس کی دلیل یہ دی فتقعد ملوما محسورا- حسرالشیء کے معنی ہوتے ہیں کشفہ ۱۲~}~اس نے کھول دیا- اور حسرا الغصن کے معنی ہیں قشرہ- ]17 [p۱۳~}~ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اتار دیا- گویا درخت کی چھال اتار دینے کو حسر کہتے ہیں- اسی طرح حسر البعیر کے معنی ہیں ساقہ حتی اعیاہ۱۴~}~ اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا- جس طرح درخت کی اوپر کی موٹی چھال اتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح جانور کو اتنا چلایا جائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا- پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دو دنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے- اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اونٹ کی طرح بن جائو گے یا چھال اترے ہوئے درخت کی طرح ہو جائو گے تو کل کیا کرو گے- جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے- پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تا کہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے- پھر بڑھے اور پھر دے- یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں- اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں- اگر وہ اپنا سارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے- پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سرسبز ہونے کے سامان نہ رہیں- یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کیلئے مرغی مار ڈالی تھی- کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی- اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو ہر روز دو انڈے دے دیا کرے گی- اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مر گئی-
پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا-
پھر حسر کے معنی ننگے ہو جانے کے بھی ہیں- ۱۵~}~اس لئے محسورا کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ ننگا ہو جائے گا- اور جو ننگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے- پس فرمایا- اگر تم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہو کر بیٹھنا پڑے گا- اور تم کسی کام کے قابل نہ رہو گے-
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا کریں- کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے- ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے- اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کر دیا جائے تو دنیا میں تباہی آ جائے-
جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے- اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اسی قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے- اور اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے- چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے- وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی- وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی- اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے- غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے- لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے- اور نفع میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرتا ہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے- رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا ہم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے- تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کر سکتے- ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنا دیئے ہیں-
اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہو جاتی ہے- یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہو سکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہئے- پھر جب تک غرباء کو اٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہو جاتے ہیں- گویا غرباء کے نہ ابھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں- اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہو جاتے ہیں- پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو ان پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے- اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتا دی اور اس کی دلیل بھی دے دی-
اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت
دوسری جگہ فرماتا ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولمیقتروا وکان بین ذلک قواما۱۶~}~اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے- جنہیں ہم مالودولت دیں ان کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کر دیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو- وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر-
اس میں اسلام نے کچھ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن` مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں- آپ ان کے جواب میں سید عبدالقادر جیلانی~رح~ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے- گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا- اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا- تو انہوں نے فرمایا- میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا- اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو فلاں کپڑا پہن- ۱۷~}~حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اور کیلئے نہیں ہو سکتی- ایسا انسان اگر اپنے اوپر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا- ایک دفعہ رسول کریم ~صل۲~ جہاد کے لئے گئے- رمضان کا مہینہ تھا- کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے یہ دیکھ کر رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا- آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے- ۱۸~}~ پس اسلام کہتا ہے- جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا- دیکھو رسول کریم ~صل۲~ جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں- وہ باری باری رات کو آپ کے مکان کا پہرہ دیتے- اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم ~صل۲~ کا کام تھا- اور صحابہ ؓ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپﷺ~ کی حفاظت کا انتظام کرتے- کیونکہ رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعوذ باللہ رسول کریم ~صل۲~ اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے- پہرہ آپﷺ~ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفتہوتا-
صدقہ و خیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وات ذاالقربی حقہ والمسکین و ابنالسبیل ولا تبذر تبذیرا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن وکانالشیطن لربہ کفورا-۱۹~}~ اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں-
اول- انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لٹا دے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی رکھ لے- گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں سے کچھ خیرات کرے-
دوم- اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے- تبذر تبذیرا کے معنی ہیں- بکھیر دینا- اگر دس بھوکے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہو تو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی- وہی روٹی اگر ایک کو دیدو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا- یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کونین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہوگا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہو سکے گی- تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال تقسیم نہ کر دو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے- جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا- ان المبذرین کانوا اخوان الشیطن- وکان الشیطن لربہ کفورا ایسا انسان شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے- اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا- اور ناشکری پیدا کرے گا-
اخوان الشیطین ]bus [tag کہنے میں حکمت
یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان نہیں کہا بلکہ شیطان کا بھائی کہا ہے- جس کی وجہ یہ ہے کہ دینے والے نے تو اپنی طرف سے اچھی بات ہی سمجھی تھی کہ ایک کی بجائے بہتوں کو دے دیا- لیکن حقیقتاً اس کا یہ فعل اچھا نہ تھا- اس لئے اس کا یہ فعل حقیقی ناشکری تو نہیں لیکن اس کے مشابہ ضرور ہے- پھر تھوڑی چیز کو بہتوں میں اس طرح بانٹ دینے کو کہ کسی کے بھی کام نہ آئے اللہ تعالیٰ نے ناشکری قرار دینے کی یہ وجہ بتائی کہ ہم نے جو نعمت دی تھی وہ کسی غرض کے لئے ہی دی تھی مگر تم نے اس کو بے فائدہ طور پر بانٹ دیا اور اس طرح اس غرض کو باطل کر دیا- وہ غرض یہی ہے کہ مال قابلیت رکھنے والوں کے پاس آتا ہے اور قابلیت رکھنے والوں کو کام کرنے کے قابل بنائے رکھنا قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے- اگر ایک اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہو اور وہ اپنے اوزار دوسروں میں بانٹ دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا اپنا کام بھی نہ چلے گا- اور دوسروں کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن اگر وہ اپنے اوزار اپنے پاس رکھ کر ان سے کام کرے اور پھر جو کچھ کمائے اس میں سے دوسروں کی مدد کرے تو یہ بہت مفید بات ہوگی-
صدقہ دینے کا صحیح طریق
پھر اسلام نے صدقہ دینے کا طریق بتایا ہے- جو یہ ہے کہ الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سرا و علانیہ ۲۰~}~یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے اموال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں- اس آیت میں یہ احکام بیان کئے گئے کہ اول پوشیدہ صدقہ دو- دوم علانیہ صدقہ دو-
یہاں مال کے طریق تقسیم میں انجیل کی تعلیم کا مقابلہ ہو گیا- انجیل میں تو یہ کہا گیا ہے کہ-:
>جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تا کہ تیری خیرات پوشیدہ رہے<-
لیکن قرآن کہتا ہے کہ کبھی اس طرح صدقہ دو کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں کو پتہ نہ لگے اور کبھی اس طرح دو کہ سب کو پتہ لگے- اور اس کی وجہ بتائی کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ ظاہر طور پر بھی صدقہ دو- اور پوشیدہ طور پر بھی- فرمایا ان تبدوا الصدقت فنعما ھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم ویکفر عنکم من سیئاتکم واللہ بما تعملون خبیر ۲۱~}~یعنی اگر تم صدقہ دکھا کر دو تو یہ بڑی اچھی بات ہے- لیکن وان تخفوھا وتوتوھاالفقراء فھو خیر لکم اگر تم چھپا کر دو تو یہ تمہارے اپنے لئے بہتر ہے- گویا دوسرے طریق صدقہ میں پہلے طریق کی بھی وجہ بتا دی- کیونکہ جب یہ بتایا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا تو یہ بھی فرما دیا کہ اگر ظاہری طور پر صدقہ دو گے تو یہ دوسروں کیلئے بہتر ہوگا- کیونکہ جب لوگ کسی کو صدقہ دیتے دیکھیں گے تو کہیں گے یہ بڑا اچھا کام ہے اور پھر وہ خود بھی اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے- دیکھو جو لوگ یورپ کے دلدادہ ہیں وہ سر سے پیر تک وہی لباس پہنچتے ہیں جو یورپین لوگوں کا ہے- ایک زمانہ میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو بھی مسلمانوں کی طرح جبے پہنے پھرتے تھے- اب بھی جن علاقوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں کے ہندوئوں کا لباس مسلمانوں جیسا ہی ہوتا ہے- جیسا کہ سرحد میں یا سندھ میں ہے- ایک دفعہ ایک سندھی تاجر ہمارا ہم سفر تھا- اس نے بالکل مسلمانوں جیسا لباس پہنا ہوا تھا- میں اسے مسلمان ہی سمجھتا رہا- جب کھانا کھانے لگے تو ہمارے نانا جان بھی ساتھ تھے- انہوں نے اس تاجر کو کہا کہ آئیے آپ بھی کھانا کھائیں- مگر اس نے نہ کھایا- جب وہ اترنے لگا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر دوسرے لوگ برا مناتے ہیں- تب پتہ لگا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھا- تو دوسروں کو دیکھ کر انسان ان کی باتیں اختیار کر لیتاہے-
رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے کہ کلکم راع وکلم مسئول عن رعیتہ ۲۲~}~تم میں سے ہر ایک کی مثال گڈریا کی سی ہے- ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھیڑیں لگی ہوئی ہیں جو اس کی نقل کرتی ہیں- پس اگر کوئی ظاہرہ طور پر صدقہ دے گا تو اس کے بیٹے` بھائی یا دوسرے رشتہ دار` مرید` ملازم` دوست اور آشنا بھی اس کی نقل میں صدقہ دیں گے-
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ نسل کو اس سے فائدہ پہنچے گا- بچوں کو صدقہ دینے کی عادت پڑے گی- جب وہ اپنے بڑوں کو دیکھیں گے کہ وہ صدقہ دیتے ہیں تو سمجھیں گے کہ یہ اچھی بات ہے اور خود بھی صدقہ دینے لگ جائیں گے اس طرح آہستہ آہستہ ان کی تربیت ہوتی جائے گی-
تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بعض دفعہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں شخص امداد کا محتاج ہے- ہو سکتا ہے کہ مجھے اپنے محلہ یا اپنے قصبہ یا اپنے شہر کے کسی آدمی کے متعلق پتہ ہو کہ وہ محتاج ہے لیکن دوسروں کو پتہ نہ ہو- ایسی صورت میں اگر میں ایک دوست کو کچھ دوں کہ فلاں کو دے دینا تو بغیر یہ اعلان کرنے کے کہ فلاں کی مدد کرو اسے خود بھی دینے کا خیال آ جائے گا- یہ ظاہری طور پر صدقہ دینے کے فوائد ہیں-
اسی طرح اگر مخفی طور پر خیرات دی جائے تو وہ دینے والے کے اپنے نفس کیلئے اچھی ہے اس سے اس میں ریاء پیدا نہیں ہوگا جو ظاہر طور پر دینے سے پیدا ہو سکتا ہے- لیکن جو شخص مخفی خیرات اس لئے دیتا ہے کہ اس کے دل میں ریاء پیدا نہ ہو وہ جب ظاہر طور پر دے گا تب بھی ریاء کا جذبہ اس میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے نفس کو ریاء سے بچانے کیلئے پوشیدہ طور پر دے کر مشق کرتا رہتا ہے- ریاء کا جذبہ اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جو صرف ظاہرہ خیرات دیتا ہے-
پھر لکم کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ پوشیدہ دینے میں تمہارے لئے بھی نفع ہے اور فقراء کے لئے بھی یعنی جنہیں دیتے ہو ان کے لئے بھی کیونکہ اس طرح ان کی عزت نفس محفوظ رہتی ہے اور وہ شرمندہ نہیں ہوتے- غرض مخفی طور پر صدقہ دینا` دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے کیونکہ اس میں ریاء پیدا نہیں ہوتا اور لینے والے کے لئے بھی کہ اس کی خفت نہیں ہوتی-
صدقہ کی مختلف اقسام
صدقہ کے متعلق تیسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام نے اس کی اقسام مقرر کی ہیں- صدقہ کی ایک قسم تو لازمی ہے جس کے متعلق فرمایا- واقیموا الصلوہ واتواالزکوہ ۲۳~}~تم نماز باشرائط جماعت کے ساتھ ادا کرو اور زکٰوۃ دو- آگے اس لازمی صدقہ کی دو قسمیں بتائیں- اول لازمی وقتی جیسے جہاد ہے- جب جہاد کا موقع پیش آ جائے اس وقت قوم کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے اموال پیش کر دے- دوم لازمی مقررہ جیسے فرمایا خذمن اموالھم صدقہ ۲۴~}~یہ زکٰوۃ ہے- لیکن ایک صدقہ وقتی غیرمقررہ ہے اس میں شریعت یہ نہیں کہتی کہ کتنا دو بلکہ یہ کہتی ہے کہ اس وقت ضرور دو- مقررہ میں تو حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیسواں حصہ یا جانوروں میں سے اتنا حصہ دیا جائے مگر جہاد کے لئے کہا جاتا ہے کہ دو جتنا دے سکتے ہو- چنانچہ ایک جہاد کے موقع کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں- مجھے خیال آیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ مجھ سے بڑھ جاتے ہیں- آج میں ان سے بڑھوں گا- یہ خیال کر کے میں گھر گیا اور اپنے مال میں سے آدھا مال نکال کر رسول کریم ~صل۲~ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے لے آیا- وہ زمانہ اسلام کے لئے انتہائی مصیبت کا دور تھا- لیکن حضرت ابوبکر رضیاللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے اور رسولکریمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا- رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابوبکرؓ! گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا- اللہ اور اس کا رسولﷺ-~ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں- یہ سن کر مجھے سخت شرمندگی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ آج میں نے سارا زور لگا کر ابوبکرؓ سے بڑھنا چاہا تھا مگر آج بھی مجھ سے ابوبکرؓ بڑھ گئے- ۲۵~}~ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کے لئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا- وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے-
جہاد کے موقع پر مال دینے کا ذکر سورۃ بقرہ رکوع ۲۴ میں ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ ۲۶~}~تم جنگی کاموں میں اپنا روپیہ صرف کرو- اگر نہیں کرو گے تو دشمن جیت جائے گا اور تم تباہ ہو جائو گے-
پھر ایک صدقہ اختیاری ہوتا ہے- اس کے متعلق بقرہ رکوع ۲۶ میں آتا ہے- ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین والیتمی والمسکین وابن السبیل ۲۷~}~جب کوئی دینے کا موقع ہو اور اس وقت تم خدا کے لئے خرچ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو- اپنے والدین کیلئے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے` یتامی اور مساکین اور مسافروں کیلئے- یہ صدقہ اختیاری رکھا- ایک اور جگہ اختیاری اور لازمی صدقہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے- فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم-۲۸~}~معلوم کے لفظ میں بتا دیا کہ یہ مقررہ صدقہ ہے- کیونکہ معلوم کے معنی ہیں مقرر کر دیا گیا- یعنی رقم مقرر کر دی کہ اتنا دینا ضروری ہے- یا یہ کہ خرچ کا وقت مقرر ہوتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ دینا تم پر فرض ہے- پس فرمایا فی اموالھم حق معلوم- ان کے مال میں ایک مقرر حق ہوتا ہے- للسائل والمحروم-سوال کرنے والے اور محروم کا- گویا بتایا کہ اتنا دینا تمہارے لئے ضروری ہے اور غیر مقررہ کے لئے فرمایا- و فی اموالھم حق للسائل والحمروم ۲۹~}~یہاں معلوم کا لفظ نہیں رکھا گیا بعض لوگ کہتے ہیں قرآن میں قافیہ بندی کی گئی ہے- حالانکہ اگر صرف قافیہ بندی ہوتی تو محروم کے ساتھ معلوم قافیہ تھا جو سورۃ معارج میں آیا- مگر سورۃ ذاریات میں معلوم کا لفظ اڑا دیا- کیونکہ یہاں دوسری قسم کے صدقہ کا ذکر تھا- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں قافیہ کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ مضمون کا خیال رکھا جاتا ہے-
‏a11.27
صدقہ ایک قسم کے قرض کی ادائیگی ہے
صدقہ کے متعلق چوتھا پہلو اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ صدقہ کی حقیقت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ صدقہ ایک قسم کے قرضہ کی ادائیگی ہے- بعض لوگ کہتے ہیں صدقہ ملنے کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ان میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے- مگر اسلام کہتا ہے و فی اموالھم حق معلوم- للسائل والمحروم- فی اموالھم حق للسائل والمحروممحتاج اور مساکین کا حق ہے کہ تم انہیں اپنے مال میں سے دو- اگر تم کسی محتاج کو دیتے ہو تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ اس کا حق ادا کرتے ہو- دوسری جگہ اس حق کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض جمیعا منہ۳۰~}~ یعنی زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اے بنی نوع انسان اسے ہم نے بغیر تمہاری محنت اور بغیر کسی قسم کی اجرت کے تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے- اب اگر زمین اور آسمانوں کی چیزیں صرف زید یا بکر کی خدمت میں لگی ہوئی ہوں تو ان کا وہ مالک ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ چیزیں غریب اور امیر سب کی خدمت کر رہی ہیں تو معلوم ہوا کہ سب چیزیں سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں صرف زید یا بکر کیلئے نہیں پیدا کی گئیں- اگر سورج صرف بادشاہ کے لئے پیدا کیا جاتا تو چاہئے تھا کہ اسی کو نظر آتا اور اسی کو فائدہ پہنچاتا مگر سورج بادشاہ کو بھی اسی طرح روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے جس طرح ایک فقیر کو- یہی حال دوسری چیزوں کا ہے- اس سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے بنی نوع انسان کی مشترکہ جائیداد ہے اور سب دولت اسی کے ذریعہ کمائی جاتی ہے- سخر لکم کے ماتحت ہی انسان دنیا میں مال و دولت حاصل کرتا ہے- پس ساری کی ساری کمائی پبلک پراپرٹی سے ہی ہو رہی ہے جو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کیلئے پیدا کی ہے- بے شک جو محنت و مشقت کر کے اس سے کماتا ہے اس کا زیادہ حق ہے مگر پراپرٹی میں حصہ رکھنے والے کا بھی توحق ہوتا ہے- جو محنت کرتا ہے اس کا زیادہ حق ہوتا ہے- لیکن جس چیز میں محنت کرتا ہے وہ چونکہ مشترک ہے اس لئے اس کے لینے میں وہ بھی شریک ہے جس کی اس میں شراکت ہے- یہ حق صدقہ اور زکٰوۃ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے-
اب دیکھو یہ نکتہ بیان کر کے کس طرح امراء اور دولت مندوں کا تکبر توڑا گیا ہے- جب غرباء کا بھی امراء کے مال و دولت میں حق ہے تو اگر کوئی امیر ان کو دیتا ہے تو ان کا حق ادا کرتا ہے نہ کہ ان پر احسان کرتا ہے- ادھر غرباء اور محتاجوں کو شرمندگی سے یہ کہہ کر بچا لیا کہ مالداروں کے مال میں تمہارا بھی حق ہے- ہم نے ان کو ساری رقم دے کر ان کا فرض مقرر کر دیا ہے کہ ہمارے محتاج بندوں کو بھی دیں ساری کی ساری کمائی خود ہی نہ کھا جائیں-
صدقہ کے محرکات
پانچواں پہلو صدقات کے متعلق اسلام نے یہ بیان کیا کہ صدقہ کے محرکات کیا ہونے چاہئیں؟ محرکات کے ذریعہ ایک اعلیٰ درجہ کی چیز بھی بری ہو جاتی ہے- مثلاً ہمارے ہاں کوئی مہمان آئے اور ہم اس کی خاطر اس لئے کریں کہ اس سے ہمیں فلاں فائدہ حاصل ہو جائے گا تو خواہ ہم کتنی خاطر کریں اس میں اپنی ذاتی غرض پنہاں ہو گی- لیکن اگر ہم مہمان کی تواضع اس لئے کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو یہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہو گی- پس برے محرکات کے ذریعہ ایک چیز ادنیٰ ہو جاتی ہے اور اگر اچھے محرکات ہوں تو اعلیٰ ہو جاتی ہے- یہود میں صدقہ کی غرض رحم بتائی گئی ہے- یہ ایک لحاظ سے تو اچھی ہے مگر اس میں نقص بھی ہے- اسلام نے محرکات کے متعلق بھی بحث کی ہے- اور بتایا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالھمابتغاء مرضات اللہ وتثبیتا من انفسھم ۳۱~}~یہاں صدقہ کی دو اغراض بتائی گئی ہیں- ایک یہ کہ ابتغاء مرضات اللہ محض یہ غرض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل ہو دوسری یہ کہ تثبیتا من انفسھمکبھی یہ غرض ہو کہ اپنی قوم مضبوط ہو جائے- پس اسلام کے نزدیک صدقہ کی دو ہی اغراض ہیں- ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے اور دوسری یہ کہ غرباء کی مدد اپنی مدد ہوتی ہے- جس قوم کے افراد گرے ہوئے ہونگے وہ قوم بھی کمزور ہو جائیگی- کیونکہ گرے ہوئے افراد اس کے لئے بوجھ ہونگے اور قوم ترقی نہ کر سکے گی- اسی لئے یورپین قومیں بھی جنہیں خدا سے کوئی تعلق نہیں محض اس لئے صدقہ و خیرات کرتی ہیں کہ قوم کے غرباء کی ترقی سے قوم بڑھتی اور ترقی کرتی ہے- پس صدقہ کی ایک غرض اسلام نے یہ بتائی کہ تثبیتا من انفسھماس کے ذریعہ قوم مضبوط ہو جاتی ہے-
اسی طرح نیک لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-واتی المال علی حبہ یعنی نیک وہ ہوتا ہے جوعلی حبہمال دیتا رہے- کتنے مختصر الفاظ ہیں- لیکن ان میں نہایت وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں-علی حبہ کے معنے یہ ہیں کہ اول اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے- چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر موجود ہے- گویا وہ مال دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کی خاطر- انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس لئے وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرتے ہیں- ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لئے ہم بھی ان سے محبت کریں-
۲- حبہکی ضمیر اس شخص کی طرف بھی جاتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے- اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جسے مال دیتے ہیں اسے ذلیل سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دیتے ہیں- وہ مال دیتے تو دوسرے کو ہی ہیں لیکن اسے ذلیل سمجھ کر نہیں بلکہ اس کا حق سمجھ کر دیتے ہیں- اسے اپنا بھائی اور اپنا پیارا سمجھ کر دیتے ہیں-
۳- حبہ کی ضمیر مال دینے کی طرف بھی جاتی ہے- اس لحاظ سے یہ معنے ہوئے کہ وہ مال دینے کی محبت کی وجہ سے دیتے ہیں- کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینا انتہائی مرغوب ہوتا ہے- وہ چٹی سمجھ کر نہیں دیتے بلکہ اس لئے دیتے ہیں کہ انہیں مال دینے سے ایک روحانی سرور اور ذوق حاصل ہوتا ہے- اسی حبہ کے متعلق دوسری جگہ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی۳۲~}~ کہہ کر بتایا کہ ان کی محبت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم ماں باپ ہیں اور غریب اور محتاج لوگ ہمارے بچے ہیں- جیسے ماں اپنے بچہ کو محبت سے دودھ پلاتی ہے نہ کہ کسی طمع سے اسی طرح یہ لوگ محتاجوں کو اپنا مال دیتے ہیں- دودھ کیا ہوتا ہے ماں کا خون ہوتا ہے- مگر پھر بھی جن عورتوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ کڑھتی رہتی ہیں- جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسا بچہ نہیں ملتا جسے وہ اپنا خون پلائیں- تو فرمایا- وہ لوگ مال دیتے دیتے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ نہیں سمجھتے کہ مال دے کر ہم کسی پر احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا احسان ہے جو ہم سے مال لیتے ہیں- جیسے بچہ جب روٹھ جائے تو ماں اسے مناتی اور کہتی ہے >میں صدقے جاواں- میں واری جاواں< حالانکہ وہ بچہ کو کھانے کے لئے دیتی ہے نہ کہ اس سے کچھ لیتی ہے- تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے- تمہارا وہ درجہ ہونا چاہئے کہ تم دے کر یہ سمجھو کہ لینے والوں نے ہم پر احسان کیا ہے نہ کہ تم نے ان پر کوئی احسان کیا ہے-
صدقات کی غرض و غایت
چھٹے اسلام نے صدقہ دینے کی غرض بیان کی ہے- ایک غرض تو اسی آیت میں آئی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے یعنیnsk1] [tagاتیالمال علی حبہ جو شخص مال دے اس کی محبت کی وجہ سے دے- دشمنی سے نہ دے کسی کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ اچھے کاموں میں لگے- جسے دیا جائے اسے فائدہ ہو- ایسی حالت نہ ہو جائے کہ مال لینے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے-
صدقات سے معذوری کے اصول
ساتویں اسلام نے صدقہ نہ دینے کے مواقع بھی بیان کئے ہیں- یعنی بتایا ہے کہ فلاں مواقع پر صدقہ نہ دو- یا تم صدقہ نہ دینے میں معذور ہو- جیسے فرمایا- واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا ۳۳~}~اس آیت میں تین مواقع بتائے کہ ان میں صدقہ نہ دینے میں حرج نہیں- اول جب کہ تمہارے پاس کچھ نہ ہو- ابتغاء رحمہ من ربک جب تم خود تکلیف میں ہونے کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہو- دوم- جب تمہارا دل تو چاہتا ہو کہ صدقہ دو اور دینے کے لئے مال بھی تمہارے پاس موجود ہو- لیکن عقل کہتی ہو کہ اگر مال دونگا تو خدا کا غضب نازل ہوگا اور اگر نہ دونگا تو خدا کی رحمت کا نزول ہوگا-اما تعرضن عنھم ابتغاء رحمہ من ربک ترجوھا-بخل سے نہیں بلکہ یہ خیال ہو کہ نہ دونگا تو خدا کا فضل نازل ہوگا ایسی صورت میں صدقہ نہ دینا اچھا ہے- مثلاً کوئی شخص عیاشی میں روپیہ برباد کر دیتا ہو تو اسے نہ دینا ہی رضائے الٰہی کا موجب ہو گا- یا ایک شخص آئے اور آکر کہے کہ مجھے اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس میں چندہ دیجئے تو اس سے اعراض کرنے والا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کی جستجو میں انکار کرے گا- اب ایک اور مثال دیتا ہوں اس بات کی کہ انسان کا دل تو چاہتا ہے کہ دے مگر ابتغاء رحمہ من ربکنہیں دیتا- ایک بچہ ہے جو ہماری تربیت کے نیچے ہے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے- وہ خواہش ہم پوری بھی کر سکتے ہیں وہ بری بھی نہیں ہوتی مگر ہم سمجھتے ہیں اس کی تربیت کے لحاظ سے یہ برا اثر ڈالے گی- اس لئے اسے پورا نہیں کرتے- تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے مانگے مثلاً کسی کو مارنے کے لئے ریوالور خریدنا چاہے تب بھی نہیں دیں گے-
صدقات سے انکار کرنے کا طریق
آٹھویں- اسلام نے یہ بتایا ہے کہ صدقہ نہ دینے سے انکار کرنے کا کیا طریق ہونا چاہئے- یعنی بتایا کہ انکا کرو تو کس طرح کرو- فرمایا-اما السائل فلا تنھر۳۴~}~ جب انکار کرو تو سائل کو ڈانٹ کر نہ کرو- تم انکار کر سکتے ہو مگر سائل پر سختی نہیں ہونی چاہئے-
پھر فرمایا-قل لھم قولا میسوراایسی بات کرو جس سے مانگنے والے کو ذلت محسوس نہ ہو- لوگ کہتے ہیں سائل کو نرمی سے جواب دینا چاہئے- یہ اما السائل فلا تنھر میں آچکا ہیقولا میسوراکے یہ معنے ہیں کہ اس طرح جواب نہ دو کہ اسے ذلت اور شرمندگی محسوس ہو-
صدقات میں کیا چیز دی جائے
نویں- اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے- یہ بھی ایک اہم سوال ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ- اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوا دیئے جائیں تو زیادہ اچھا ہو گا- یا مثلاً ایک شخص کو پلائو کھانے کی بجائے دس کو آٹا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے- لیکن یہ ان کی غلطی ہے- اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے- اسلام جانتا ہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے ہیں اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں- اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہئے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہو سکیں- اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے- ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے- قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لایا کرتا تھا- ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جا رہا تھا- اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیا اس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو- اس نے کہا- یہ بڑا قیمتی کھانا ہے- تمہیں کس طرح دیا جا سکتا ہے- کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے- یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے- لکڑ ہارے نے پوچھا- یہ کتنا قیمتی ہے- اسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے- اس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا- پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا- پھر دو لانے لگا- ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا- اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا- آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا- جب وہ اسے لے کر گھر گیا- تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا- لکڑ ہارے کی بیوی نے کہا- یہی کھانا اسے دیدو- کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا- لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا-
اسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا- اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی- یہ تھی ایک سقہ کے دل کو خواہش تو خدا تعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے- فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہو سکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ ومما رزقنھم ینفقون۳۵~}~کہ جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرو- روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے کبھی اچھا کپڑا بھی دو- اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو-
اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا- کلوا من ثمرہ اذا اثمر و اتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا-۳۶~}~اے باغوں والے مسلمانو! جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو- کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گذرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گذرتا ہے- کلوا من ثمرہ اذا اثمرہجب پھل پکیں تو خوب کھائو مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھو- اور وہ یہ کہ و اتوا حقہ یوم حصادہ جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تاکہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں- یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھا لیں- مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ولا تسرفواہاں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہو- مگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونیچاہئے-
پھر بتایا کہ جو کچھ دو حلال مال سے دو- فرمایا- یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم2] f[st۳۷~}~اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اٹھتا ہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں- وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں ہوتے` وہ کہتے ہیں فلاں ڈاکو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ انفقوا من طیبت ماکسبتمغریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دیدو اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو- کسی کی خاطر ناجائز فعل کرنا درست نہیں- لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو >حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ< کا مصداق بننا ہے- اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں- تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپرد کرو-
ایک تاریخی لطیفہ ہے- لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا- میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیتالمال سے تنخواہ لوں- میں آئندہ تنخواہ نہیں لونگا- اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گذارہ کرو گے- اس نے کہا- میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے- میں اس کی کمائی سے گذارہ کر لوں گا- گویا اس نے اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھلیا-
غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے
دسویں بات اسلام نے یہ بتاتی ہے کہ صدقہ دے کون- کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہئے غرباء کو نہیں دینا چاہئے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہئے- کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- الذین ینفقون فیالسراء والضراء۳۸text1]~}~ g[taمومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں- اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تاکہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہو جائیں- صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کر دیتا ہوں-
اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں- ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہو اسے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے- میں کسے صدقہ دوں؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا ہے- اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جو کئی وقت کا بھوکا ہو-
دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے- اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر ہی نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں- اور پھر وہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو تنگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے-
سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے- جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں- اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے- اسی لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تا کہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں- اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے- یعنی رمضان کے بعد صدقہ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا- حتیٰ کہ رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے-
صدقہ کے متسحقین
گیارھویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے- میں نے بتایا ہے- وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے- بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے- مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے- بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے اپنے لوگوں کے لئے نہیں- مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دینا چاہئے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے- بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے-قل ما انفقتم من خیر فللوالدین و الا قربین والیتمی و المسکین و ابن السبیل یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی دور نہ ہو سکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو- پھر اقربین کو دو- یتامی کو دو مساکین کو دو- مسافروں کو دو- پھر فرماتا ہے-انما الصدقت للفقراء والمسکین والعملین علیھا و المولفہ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ و ابن السبیل فریضہ من اللہ واللہ علیم حکیم ۳۹~}~یعنی صدقات غریبوں کے لئے` مسکینوں کے لئے اور جو ان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں- اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کیلئے یعنی ان کے کھانے پینے کیلئے` ان کی رہائش کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کے لئے- پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے- قرض داروں کے لئے جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں- یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے-
اسی طرح فرمایا- لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین ۴۰~}~یعنی اللہ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دو ان کو جو تم سے لڑتے نہیں- جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا- تم ان سے نیکی اور انصاف کرو- اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے-
اسی طرح فرماتا ہے-فی اموالھم حق للسائل والمحروممسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے-
پھر فرماتا ہے- ولا یاتل اولو الفضل منکم والسعہ ان یوتوا اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون انیغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم- ۴۱~}~یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو صدقہ نہ دوں گا چاہئے کہ تم درگذر سے کام لو- کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق درگذر سے کام لے- پس کسی سے ناراض ہو کر اسے صدقہ سے محروم نہیں کرنا چاہئے-
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کا ارشاد فرمایا ہے- کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا- نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے-
دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا- اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی- اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو )الف(اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں- )ب(جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو ہی صدقہ شمار کر لیاہے-
سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے )الف(مثلاً ایک لکھ پتی ہو مگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں- اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ کوئی لٹیرا ہو اور دغا باز ہے یا ٹھگ ہے- لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھگ اور دغا باز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا- )ب(مساکین- مسکین سے مراد غریب نہیں- کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوتے تو پھر للفقرائکیوں فرمایا- دراصل مسکین سے مراد ایسا شخص ہے جو سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے- مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایسا ہے کہ دس ہزار روپے سے کام چل سکتا ہے- ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلا سکتا- وہ بہر حال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا- اگر اسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے- ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد- )ج(ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو- مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہو- اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں- تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کر دے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے ایسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جا سکتی ہے- یا مثلاً زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے- اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدد دی جا سکتی ہے-
چہارم- صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے- کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں گی- یہ ایک سوال ہے` جس کی طرف اور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی- یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کابھی حق ہے-
پنجم- یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہئے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انہیں دینا چاہیے- کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے` یا نہیں- اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اسے دے دینا چاہئے-
ششم- اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں مشغول ہوں تاکہ وہ نقصان نہ پہنچائیں-
ہفتم- انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کر کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی- صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کر دیا ہے- گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا- گئوشالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں-
صدقات کی تقسیم کے اصول
بارھویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے- اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں- فرمایا تطھر ھم و تزکیھم بھا ۴۲~}~ یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چائیں-
اول- تطھرھم-قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے-
دوم- یزکیھم بھا-قوم کو بلند کرنے کے لئے-زکیکے معنے اٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں-
صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث
تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں؟ )۱(شریعت نے ایسے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے- ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے- اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے- یا میرا روپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی-
)۲(حق للسائل والمحرومکہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے-
)۳(لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دیئے- چنانچہ فرمایا-یایھا الذین امنو لا تبطلوا صد قتکم بالمن و الاذی۴۳~}~ایمومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو-
)۴(پھر ایک اور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا- فرمایا-یمحقاللہ الربوا ویربی الصدقت ۴۴~}~اللہ تعالیٰ سود کر مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کو بڑھائے گا- اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے-
صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت
چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی- چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیمھم لایسئلون الناس الحافا ۴۵~}~یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے- لیکن جو اس سے واقف ہے- وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے-
اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا- یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہو جاتا ہے- چنانچہ رسول کریم ~صل۲~ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا- اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں- آپﷺ~ نے دیا- اس نے پھر مانگا- آپﷺ~ نے پھر دیا- اس نے پھر مانگا آپﷺ~ نے پھر دیا- پھر آپﷺ~ نے فرمایا- میں تمہیں ایک بات بتائوں؟ اور وہ یہ کہ مانگنا ¶اچھا نہیں ہوتا- اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد میں کسی سے نہیں مانگوں گا- ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا- دوسرا شخص اٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو- میں نے رسول اللہ ~صل۲~ سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہیں لوں گا- اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا- تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ لیں- وہاں یہ بھی بتا دیا کہ مانگنا نہیں چاہئے- یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے-
یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہو گی- اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائیگی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے-
عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث
اب میں مثال کے طور پر ایک اور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے- اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی- ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا- گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے- غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے- پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے- کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے- مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے- حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے-
عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے- میں اس وقت کثرت ازدواج` حقوق نسواں ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں` مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں- میں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مرد و عورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں- اور بتائوں گا کہ اس ¶تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے- اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنا دیا ہے-
دوسرے مذاہب کی مقدس کتب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ابتدائی مسئلہ کے متعلق بھی خاموش ہیں- مثلاً انجیل کو لیں تو اس میں عورت اور مرد کے تعلق کے متعلق لکھا ہے-:
>شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں- اس نے ان سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جنہیں یہ قدرت دی گئی ہے- کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہیں آدمیوں نے خوجہ بنایا- اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہت کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا- جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے<-۴۶~}~
گویا حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ مرد عورت کا تعلق ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا کام ہے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا انسان بننا چاہے اور آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ خوجہ بن جائے- مطلب یہ کہ اصل نیکی شادی نہ کرنے میں ہے- ہاں جو برداشت نہ کر سکے وہ شادی کر لے اسی طرح ۱- کرنتھیوں باب ۷ میں لکھا ہے-:
>مرد کے لئے اچھا ہے کہ عورت کو نہ چھوئے لیکن حرام کاریوں کے اندیشے سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے<- ۴۷~}~
>میں بے بیاہوں اور بیوہ عورتوں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ ان کے لئے ایسا ہی رہنا اچھا ہے جیسا میں ہوں لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں<-۴۸~}~ گویا عورت مرد اگر بن بیاہے رہیں تو پسندیدہ بات ہے-
یہود میں یوں تو نہیں لکھا لیکن مرد اور عورت کے تعلقات کے متعلق کوئی صاف حکم بھی نہیں- تورات میں صرف یہ لکھا ہے کہ-:
>خداوند نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا- اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی- اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا- اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے- اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی- کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی- اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے<-۴۹~}~
ان الفاظ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عورت چونکہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے- اس وجہ سے وہ اس سے مل کر ایک بدن ہو جائے گا- اور مرد کو طبعاً عورت کی طرف رغبت رہے گی- یہ کہ ان کا مل کر رہنا اچھا ہو گا یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا صرف فطری تعلق کو لیا گیا ہے-
ہندو مذہب نے شادی کی ضرورت پر کچھ نہیں لکھا- صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ شادی ان کے دیوتا بھی کرتے تھے پھر بندے کیوں نہ کریں گے- مگر ساتھ ہی بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ نجات کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ انسان سب دنیا سے الگ ہو کر عبادت کرے- منوجی نے جن کی تعلیم ہندو مانتے ہیں یہ بھی بتایا ہے کہ پچیس سال تک کنوارا رہنا چاہئے پھر پچیسسال تک شادی شدہ رہے- لیکن وید اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں جو ہندوئوں کی اصلمقدس کتاب ہے- شادی کی ضرورت- اس کی حقیقت اور اس کے نظام وغیرہ کے متعلق منووغیرہ بھی خاموش ہیں- بدھمذہب نے شادی نہ کرنے کو افضل قرار دیا ہے کیونکہ پاکیزہ اور اعلیٰ خادمان مذہب کے لئے شادی کو منع کیا ہے- خواہ عورت ہو خواہ مرد- یہی جین مذہب کی تعلیم ہے-
اب اسلام کو دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو اس نے کس طرح نہایت اعلیٰ مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دین کا جزو اور روحانی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے-
اسلام شادی کو ضروری قرار دیتا ہے
اس بارہ میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کا تعلق ہونا چاہئے- اور کیا انہیں اکٹھے زندگی بسر کرنی چاہئے؟ قرآن کریم اس کے متعلق کہتا ہے کہ شادی ضروری ہے- نہ صرف یہ کہ ضروری ہے بلکہ جو بیوہ ہوں ان کی بھی شادی کر دینی چاہئے- اور شادی کرنے کی دلیل یہ دیتا ہے کہ یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا ۵۰~}~یعنی اے انسانو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو- جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی قسم کا جوڑا بنایا-
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انسانیت ایک جوہر ہے- یہ کہنا کہ انسانیت مرد ہے یا یہ کہنا کہ انسانیت عورت ہے غلط ہے- انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے- وہ نفسواحدہ ہے اس کے دو ٹکڑے کئے گئے ہیں- آدھے کا نام مرد ہے اور آدھے کا نام عورت- جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہو گی- وہ تبھی کامل ہو گی جب اس کے دونوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے-
یہ اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کا اصل الاصول بتایا ہے کہ مرد اور عورت علیحدہ علیحدہ انسانیت کے جوہر کے دو ٹکڑے ہیں- اگر انسانیت کو مکمل کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں ٹکڑوں کو ملانا پڑے گا ورنہ انسانیت مکمل نہ ہو گی- اور جب انسانیت مکمل نہ ہو گی تو انسان کمال حاصل نہ کر سکے گا-
حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پسلی سے نہیں ہوئی
اس آیت پر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ معلوم ہوا حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی جیسا کہ بائیبل میں ہے- لیکن یہ درست نہیں- کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے-ومن کل شیی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ۵۱~}~یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے- تو کیا انسان کا جوڑا بنانا نعوذباللہ اسے یاد نہ رہا تھا کہ آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا گیا؟ قرآن تو کہتا ہے کہ خواہ خیالات ہوں` عقلیات ہوں` احساسات ہوں` ارادے ہوں ان کے بھی جوڑے ہوتے ہیں- کوئی ارادہ` کوئی احساس` کوئی جذبہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو مقابل کے ارادے اور دو مقابل کے احساسات اور دو مقابل کے جذبات نہ ملیں- اسی طرح کوئی جسم مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو جسم نہ ملیں- کوئی حیوان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو حیوان نہ ملیں- کوئی انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دو انسان نہ ملیں- پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں تو کون تسلیم کرے گا کہ پہلے آدم کو بنایا گیا اور پھر اسے اداس دیکھ کر اس کی پسلی سے حوا کو بنایا- قرآن تو کہتا ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں- اس لئے جب خدا نے پہلا ذرہ بنایا تو اس کا بھی جوڑا بنایا- پھر خود انسان کے متعلق آتا ہے وخلقنکم ازوجا ۵۲~}~ہم نے تم سب لوگوں کو جوڑا جوڑا بنایا ہے- پھر آدم کس طرح اکیلا پیدا ہوا- اس کا جوڑا کہاں تھا؟ دوسرے یہی الفاظ کہ خلقکم من نفس واحدہ و خلق منھا زوجھا تمہیں نفسواحدہ سے پیدا کیا گیا اور اس میں سے تمہارا جوڑا بنایا سارے انسانوں کے متعلق بھی آئے ہیں لیکن ان کے یہ معنے نہیں کئے جاتے خدا تعالیٰ فرماتا ہیواللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا-۵۳~}~ کہ اے بنی نوع انسان! اللہ نے تمہارے نفسوں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں- اب کیا ہر ایک بیوی اپنے خاوند کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو پہلی آیت کے بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان کا جوڑا اس میں سے پیدا کیا گیا- اسی طرح سورۃ شوریٰ رکوع ۲ میں آتا ہیجعل لکم من انفسکم ازوجا و من الانعام ازواجا۵۴~}~ تمہارے نفسوں سے تمہارا جوڑا اور چوپایوں میں سے ان کا جوڑا بنایا گیا- اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا پیدا کی گئی تھی تو چاہئے تھا کہ پہلے گھوڑا پیدا ہوتا اور پھر اس کی پسلی سے گھوڑی بنائی جاتی- اسی طرح جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو فرشتہ آتا اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکال کر اس سے لڑکی بنا دیتا- مگر کیا کسی نے کبھی ایسا دیکھا ہے؟ تیسرے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ھو الذی خلقکم من نفس واحدہ وجعل منھا زوجھا لیسکنالیھا۵۵~}~ وہ خدا ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا وجعل منھا زوجھا اور اس سے اس کا جوڑا بھی بنایا ہیلیسکن الیھا تاکہ وہ اس سے تعلق پیدا کر کے تسکین حاصل کرے-
وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں کہ انسان کا جوڑا پسلی سے بنایا گیا ہے وہ بھی صرف یہی کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حوا کو بنایا گیا- یہ کوئی نہیں کہتا کہ حوا کی پسلی سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا- لیکن اس آیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی پسلی سے عورت نہیں بنی بلکہ عورت کی پسلی سے مرد بنا ہے کیونکہ اس میں زوجھا کی ضمیر نفس واحدہ کی طرف جاتی ہے جو مونث ہے- اسی طرح منھامیں بھی ضمیر مونث استعمال کی گئی ہے- اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نفس واحدہ سے اس کا زوج بنایا اور زوج کے لئیلیسکنمیں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زوج نر تھا جو ایک مادہ سے پیدا ہوا- پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت مرد کی پسلی سے نہیں بلکہ مرد عورت کی پسلی سے پیدا ہوا ہے جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا-
ان آیات کا اصل مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کا اور مرد عورت کا ٹکڑا ہے اور دونوں مل کر ایک کامل وجود بنتے ہیں- الگ الگ رہیں تو مکمل مرد نہیں ہو سکتے- مکمل اسی وقت ہوتے ہیں جب دونوں مل جائیں- اب دیکھو! یہ کتنی بڑی اخلاقی تعلیم ہے جو اسلام نے دی- اس لحاظ سے جو مرد شادی نہیں کرتا وہ مکمل مرد نہیں ہو سکتا- اسی طرح جو عورت شادی نہیں کرتی وہ بھی مکمل عورت نہیں ہو سکتی- پھر جو مرد اپنی عورت سے حسن سلوک نہیں کرتا اور اسے تنگ کرتا ہے وہ بھی اس تعلیم کے ماتحت اپنا حصہ آپ کاٹتا ہے- اسی طرح جو عورت مرد کے ساتھ عمدگی سے گذارہ نہیں کرتی وہ بھی اپنے آپ کو نامکمل بناتی ہے اور اس طرح انسانیت کا جزو نامکمل رہ جاتا ہے-
پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کے مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مردوعورت کا ملنا ضروری ہے اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے- اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقیناً مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا- اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعیفعل کو برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقیناً انسانیتکمیلکے راستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے-
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی- اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودہ ورحمہ- ۵۶~}~اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تا کہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو- گویا انسان میں ایک اضطراب تھا- اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے- اور ان کو آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا گیا- اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورتومرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی الست بربکم قالوا بلی ۵۷~}~والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے- اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے- جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تجسس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے- خدا تعالیٰ بھی فرماتاہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کر دی ہے- جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اسے پا لیتا ہے- جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو- تب اس کی زبان سے بلیکی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں- اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں- تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بلییقیناً آپ ہی اصل مقصود ہیں- اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجسس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اسے پالیتے ہیں-
خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا
اب سوال ہو سکتا ہے- کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہراً محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا- ثواب کے لئے اخفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کیلئے اور عورت کے پیچھے مرد کیلئے اپنی محبت کو چھپا دیا تا کہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں- مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے- اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں- اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کیلئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے- لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے- اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو- جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے- پس خدا تعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کیلئے مرد اور مرد کیلئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کیلئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا- اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی- دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے- پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا- جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے- اسی کی طرف رسول کریم ~صل۲~ نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ حبب الی من الدنیا النساء والطیب وجعل قرہ عین فی الصلوہ-۵۸~}~]2 [rtfایک روایت میں من الدنیا کی بجائے من دنیا کم کے الفاظ بھی آتے ہیں- یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں- النساء عورتیں الطیب خوشبو وجعل قرہ عینی فی الصلوہ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے- یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں- اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور عاجزانہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں- وہ بھی انسان کیلئے سکون کا موجب ہوتی ہیں-
مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہیں
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کیلئے عورت سکون کا باعث ہے یہ ذکر نہیں کہ عورت کیلئے بھی مرد سکون کا باعث ہے- یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کیلئے سکون کا موجب ہوں- اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ۵۹~}~یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو- پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں- عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کیلئے-
مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے- اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا- کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندا ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے- پس ھن لباس لکم و انتم لباس لھن میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے- اس طرح بھی لتسکنوا الیھا کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں-
روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستی
حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ ہیں- اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے- یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے- نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں- اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے- حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں- جہاں اللہ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے- جب جسم ان کے تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا- کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے- مگر ایسا نہیں ہوتا- یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم ~صل۲~ نے مرفوع القلم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا- اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بلی تو کہہ ہی چکی تھی- مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے- جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں-
رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق
انہیں قوتوں میں سے جو انسان کو ابدیت کے حصول کیلئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو رجولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں- یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا- پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں- بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے- رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض درحقیقت بقا کی حس پیدا کرنے کی خواہش ہے- اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں- یعنی نسل کشی- گویا نسلانسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے- اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنا دیا اور یہ بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے- روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے- اس لئے بقائے پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا-
اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی پیداش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے- پہلے چھوٹا جانور بنا- پھر بڑا- پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا- چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- مالکم لا ترجون للہ وقارا- ۶۰~}~تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے- وقد خلقکم اطوارا ۶۱~}~تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے- غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے- اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں- پس تمام حیوانات درحقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں- اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کیلئے بننی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے- اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے- اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں-
غرض حق یہ ہے کہ شہوانی طاقتوں کے پیدا کرنے والے آلات کا اصل کام اخلاق کی درستی ہے لیکن چونکہ اصل کام کے بعد کچھ بقائے ضرور رہ جاتے ہیں جو بطور زائد سٹیم کے ہوتے ہیں- اگر انہیں نہ نکالا جائے تو انجن کے ٹوٹنے کا ڈر ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اس سے دوسرا کام بقائے نسل کا لے لیا- اور بجائے نسل انسانی کے چلانے کے کسی اور ذریعہ کے اس ذریعہ کو اختیار کیا- یہ ایک حقیقت ہے جسے دنیا ابھی تک پوری طرح نہیں سمجھی مگر آہستہ آہستہ سمجھ رہی ہے- اور طبی دنیا مان رہی ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان غدودوں سے کام لئے جاتے ہیں- چنانچہ یورپ کا ایک ماہر مانتا ہے کہ ان غدودوں میں نقائص کی وجہ سے ہی مایوسی اور کئی دوسرے جسمانی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں- ایک امریکن مصنف نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق لکھتا ہے کہ آپ پر کئی شادیاں کرنے کا اعتراض فضول ہے- کیونکہ آپ خدا تعالیٰ کے عشق اور اس کے ذکر میں محو رہتے تھے اور ایسے آدمی کی قوت رجولیت ساتھ ہی نشوونما پا جاتی ہے- گو اس شخص نے صحیح الفاظ میں حقیقت کو بیان نہیں کیا لیکن حق یہی ہے کہ بقائے دوام کی خواہش کا ذریعہ غدود شہوانیہ ہیں- اور بقائے نسل ان کا ایک ضمنی اور ماتحت فعل ہے- پس ضروری تھا کہ اس اضطراب کو کم کرنے کیلئے جو خدا تعالیٰ نے غدود شہوانیہ کے ذریعہ سے انسان کے اندر پیدا کیا تھا اور اس طرح اپنی طرف بلایا تھا ایک ایسی صورت کی جاتی کہ اضطراب اپنے اصل رستہ سے ہٹ جانے کا موجب نہ ہوتا- اور طاقت کے بقیہ حصہ کو استعمال بھی کر لیا جاتا جس کے لئے مرد و عورت کے تعلقات کو رکھا گیا ہے- اور مرد کو عورت کے لئے اور عورت کو مرد کیلئے موجب سکون بنا دیا-
حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے- آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے بیماری کی حالت میں روزہ رکھ لیا تو اس سے شہوانی طاقت کو بہت ضعف پہنچ گیا- بیسیوں لوگوں کو میرے علاج سے فائدہ ہوتا تھا مگر مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا- آخر میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ کا ذکر شروع کرنا چاہئے- چنانچہ میں نے کثرت سے تسبیح و تمحید کی تو شفا ہو گئی- پس یہ بہت باریک تعلقات ہیں جنہیں ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا-
روحانیت میں بھی رجولیت اور نسائیت کی صفات
یہ سلسلہ کہ ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑوں میں پیدا کیا ہے تا کہ غفلت میں کمال غلط اطمینان کا باعث ہو کر باعث تباہی نہ ہو اور تا کہ ہر ایک چیز اپنی ذات میں کامل نہ ہو اور اس کامل وجود کی طرف اس کی توجہ رہے جس سے کمال حاصل ہوتا ہے یہ ظاہری حالات کے علاوہ روحانیات میں بھی چلتا ہے- اور اس سے بھی اس ظاہری سلسلہ کی حقیقت کھل جاتی ہے- چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کافر پر ابتداء رجولیتایمان کی حالت غالب ہوتی ہے اور ہر مومن پر رجولیت کفر کی حالت غالب ہوتی ہے- مثلاً جب کوئی شخص جاہل ہوگا تو جہالت کی وجہ سے اس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی اور وہ علم حاصل کرے گا- لیکن جب کوئی علم حاصل کر لے گا تو اسے اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ علم حاصل کر لیا- ہر جگہ یہی بات چلتی ہے- قرآن کریم میں مومن کی مثال فرعون کی بیوی سے دی گئی ہے- کیونکہ ابتداء میں مومن پر کفر غلبہ کرنا چاہتا ہے لیکن آخر کفر مغلوب ہو جاتا ہے- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر انسان کا ایک گھر جنت میں ہوتا ہے اور ایک دوزخ میں- اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعہ میں ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں- کفر کی طرف کفر والی طاقت کھینچتی ہے اور ایمان کی طرف ایمان والی طاقت- اور انسان ایک یا دوسری کی طرف پھر جاتا ہے- درحقیقت قرآنی اصطلاح میں رجولیت چیکنگ پاور کا نام ہے اور نسائیت فیضان کا- لیکن بعد میں ایک یا دوسرے کی طرف انسان پھر جاتا ہے- البتہ بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں- اور ایسے انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- یعنی شروع سے ہی ان کی رجولیت اور نسائیت ایک رنگ میں رنگین ہوتی ہے اور وہ تقدس کے مقام پر ہوتے ہیں- یعنی بعض لوگوں میں فطرتاً ایسا مادہ ہوتا ہے کہ تاثیر کا مادہ بھی ان کے اندر ہوتا ہے اور تاثر کا مادہ بھی- جب ان کی رجولیت اور نسائیت کامل ہو جاتی ہیں تو ان سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جو قدوسیت یا مسیحیت کا رنگ رکھتا ہے لیکن باقی لوگ کسبی طور پر یہ بات حاصل کرتے ہیں- جس انسان کے اندر ہی یہ دونوں مادے ہوں اس کو نیا مرتبہ ملتا اور اس کی ایک نئی ولادت ہوتی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے سورۃ تحریم سے جب یہ استدلال کیا کہ بعض انسان مریمی صفت ہوتے ہیں- تو اس پر نادانوں نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب کبھی عورت بنتے ہیں- کبھی حاملہ ہوتے ہیں اور کبھی بچہ جنتے ہیں- حالانکہ تمام ¶صوفیاء یہ لکھتے چلے آئے ہیں- چنانچہ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی~رح~ اپنی کتاب >عوارف المعارف< میں حضرت مسیحؑ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ لن یلج ملکوت السماء منلم یولد مرتین ۶۳~}~یعنی کوئی انسان خدائی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا- جب تک دو دفعہ پیدا نہ ہو- ایک وہ پیدائش جو خدا کے ہاتھوں سے ہوئی- اور دوسری مریم والی پیدائش- پھر اپنی طرف سے کہتے ہیں- و صرف الیقین علی الکمال یحصل فی ھذہ الولادہ وبھذہ الولادہ یستحق میراث الانبیاء ومن لم یصلہ میراث الانبیاء ماولد وان کان علی کمال من الفطنہ والذکاء لان الفطنہ والذکاء نتیجہ العقل والعقل اذا کان یا بسا من نور الشرع لایدخل الملکوت ولایزال مترددا فی الملک ۶۳~}~یعنی یقین کے کمالات کے درجہ تک پہنچنا ایسی ولادت کے بعد ہوتا ہے جو دوسری ولادت ہوتی ہے- اس کے بعد انبیاء کا ورثہ ملتا ہے- پھر کہتے ہیں جسے یہ میراث نہ ملے نہ انبیاء والے علوم ملیں وہ سمجھے کہ اس کی دوسری ولادت نہیں ہوئی- اگرچہ عقلی طور پر اسے بڑے بڑے لطیفے سوجھیں اور اگرچہ اس میں بڑی ذکاء ہو- یہ عقل کا نتیجہ ہوگا- روحانیت کا نتیجہ نہیں ہوگا اور عقل جب تک خدا کی طرف سے نور نہ آئے روحانیت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ نیچر میں ہی رہتی ہے-
پس روحانیات میں بھی یہ جوڑے ہوتے ہیں- اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ما من مولود یولد الا والشیطن یمسہ حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطن ایاہ الا مریم وابنھا-۶۴~}~ یعنی ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اسے شیطان چھوتا ہے جس سے وہ روتا ہے سوائے مسیح اور اس کی ماں مریم کے-
اس سے مراد صرف مریم اور عیسیٰ نہیں بلکہ ہر وہ آدمی جو مریمی صفات والا ہوتا ہے مراد ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ شیطان نے رسول کریم ~صل۲~ کو بھی چھوا تھا- اس حدیث میں دراصل رسول کریم ~صل۲~ نے یہ بتایا ہے کہ دو کامل پیدائشیں ہوتی ہیں- ایک مریمی پیدائش اور دوسری مسیح والی پیدائش- جو انسان مریمی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ مسیح بنتا ہے اور جو مسیحیت کی صفت لے کر پیدا ہوتا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنتا ہے- مسیحیت کی صفت پر پیدا ہونے والے جلالی نبی تھے اور مریمیت کی صفت رکھنے والے جمالی نبی- ایک میں عکس کی صفت کامل تھی اور دوسرے میں انعکاس کی- ایک وہ ہیں جن کی اصل صفت نسوانی ہے اور رجولیت بعد میں کامل ہوتی ہے یعنی ماتحت اور جمالی نبی اور ایک وہ ہیں جو مسیحیت کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی نسوانیت مکمل ہوتی ہے- یہ جلالی نبی یا شرعی نبی ہیں-
غرض روحانی سلسلہ میں بھی جوڑے پائے جاتے ہیں اور کبھی بھی کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی رجولیت اور نسائیت کی صفات آپس میں ملیں نہیں اور دونوں صفات مکمل نہ ہوں- جنہیں ہم دوسرے الفاظ میں اخلاق کا تاثیری یا تاثری پہلو کہہ سکتے ہیں- جب یہ دونوں پہلو پیدا ہوں تب جا کر وہ نئی روح پیدا ہوتی ہے جو ایک نئی پیدائش کہلاتی ہے اور تاثیر اور تاثر کے ملنے سے ہی روحانیت کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان اپنے قلب میں اطمینان پاتا ہے یہاں تک کہ اسے ایک نئی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے-
یہ روحانی علم النفس کا ایک وسیع مسئلہ ہے کہ انسان کے جتنے اخلاق ہیں ان میں سے بعض رجولیت کی قوت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نسائیت کی قوت سے- جب یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں- مگر یہ مضمون چونکہ اس وقت میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا اس لئے میں نے اس کی طرف صرف اشارہ کر دیا ہے-
مرد و عورت میں مودت کا مادہ
دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بتائی کہ وجعل بینکم مودہ اس ذریعہ سے تم میں مودت پیدا کی گئی ہے- مودت محبت کو کہتے ہیں- لیکن اگر اس کے استعمال اور اس کے معنوں پر ہم غور کریں تو محبت اور ]1ksn [tagمودت میں ایک فرق پایا جاتا ہے- اور وہ یہ کہ مودت اس محبت کو کہتے ہیں جو دوسرے کو اپنے اندر جذب کر لینے کی طاقت رکھتی ہے- لیکن محبت میں یہ شرط نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مودت کا لفظ بندوں کی آپس کی محبت کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو جیت لینا چاہتی ہے- ان میں سے جو دوسرے کو جیت لیتا ہے وہ مرد ہوتا ہے اور جسے جیت لیا جاتا ہے وہ عورت ہوتی ہے- مگر اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ نہیں رکھا گیا- کیونکہ بندہ کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو جذب کر سکے- چنانچہ قرآنکریم میں یہ نہیں آیا کہ بندہ خدا کے لئے ودودہے مگر خدا تعالیٰ کیلئے آیا ہے کہ وہ ودود ہے- وہ بندہ کو جذب کر لیتا ہے مگر مرد و عورت کیلئے مودہ کا لفظ استعال فرمایا ہے- چونکہ انسانوں کو کامل کرنا مقصود تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے احساسات مرد اور عورت میں رکھے کہ مرد چاہتا ہے عورت کو جذب کرے اور عورت چاہتی ہے مرد کو جذب کرے- لیکن خداتعالیٰ کو بندہ جذب نہیں کر سکتا- اس لئے بندوں کیلئے یحبھم و یحبونہ ۶۵~}~ یا اشد حباللہ ۶۶~}~ آتا ہے یودون اللہ نہیں آتا-
مرد و عورت میں اللہ تعالیٰ نے مودت کا تعلق رکھ کر بتایا کہ ہم نے اس طرح ایک نفس کے دو ٹکڑے بنا کر ایک دوسرے کی طرف کشش پیدا کر دی ہے- اور ہر ٹکڑا دوسرے کو اپنی طرف کھینچتا ہے- اس طرح طبعا تکمیل انسانیت کی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ اگر اللہتعالیٰ یہ مودت پیدا نہ کرتا تو شادی بیاہ کے جھمیلوں سے ڈر کر کئی لوگ شادیاں بھی نہ کرتے اور کہتے کہ کیوں خرچ اٹھائیں- اور ذمہ واریوں کے نیچے اپنے آپ کو لائیں- لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت میں مودہ پیدا کر دی ہے اس لئے شادی بیاہ کے جھمیلے برداشت کر لیتے ہیں-
‏a11.28
مرد و عورت کے ذریعہ ایک مدرسہ رحم کا اجراء
تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ اس ذریعہ سے رحمہ پیدا کی گئی ہے- کیونکہ نفس جس چیز کے متعلق یہ محسوس کرے کہ یہ میری ہے اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے- مرد جب عورت کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ میرا ہی ٹکڑا ہے تو پھر اس ٹکڑے کی حفاظت بھی کرتا ہے- ممکن ہے کوئی کہے کہ بعض مردوں عورتوں میں ناچاقی اور لڑائی جھگڑا بھی تو ہوتا ہے- اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت اسی جگہ ہوتی ہے جہاں اصل ٹکڑے آپس میں نہیں ملتے- جہاں اصل ٹکڑے ملتے ہیں وہاں نہایت امن اور چین سے زندگی بسر ہوتی ہے اور کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا- کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مرد و عورت کی آپس میں ناچاقی رہتی ہے اور آخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے- لیکن اس مرد کی کسی اور عورت سے اور اس عورت کی کسی اور مرد سے شادی ہو جاتی ہے تو وہ بڑی محبت اور پیار سے زندگی بسر کرنے لگتے ہیں- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت مرد کا ٹکڑا تو ہے لیکن جب صحیح ٹکڑا ملتا ہے تب امن اور آرام حاصل ہوتا ہے- پس مرد عورت کو اپنا ٹکڑا سمجھ کر اس پر رحم کرتا ہے اور اس طرح اسے رحم کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہر جگہ اس عادت کو استعمال کرتا ہے- وہ لوگ جو ڈاکے ڈالتے اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ بھی اگر بیوی بچوں میں رہیں تو رحمدل ہو جاتے ہیں- لیکن علیحدہ رہنے کی وجہ سے ان میں بے رحمی کا مادہ بڑھ جاتا ہے- اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مجرموں کو جیلوں میں رکھنے کی وجہ سے جرم بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ علیحدہ رہتے ہیں اور اس طرح سنگ دل ہو جاتے ہیں- گویا مرد عورت کے تعلق کے ذریعہ انسان کو رحم کا ایک مدرسہ مل جاتا ہے جس میں تربیت پا کر وہ ترقی کرتا ہے اور خدا کے رحم کو کھینچ لیتا ہے- غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عورت و مرد کا تعلق ایک پر حکمت تعلق ہے- اس کو توڑنا انسانیت کو ناقص اور سلوک کو ادھورا کر دیتا ہے اور اسے قائم کرنے سے خدا تعالیٰ کی طرف رغبت میں سہولت پیدا ہوتی ہے نہ کہ روک-
عورت کو کھیتی قرار دینے میں حکمت
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد و عورت کس اصل پر تعلق رکھیں؟ یورپ کے بعض فلاسفر ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تربیت اخلاق کیلئے شادی تو ضروری ہے لیکن تعلقات شہوانی مضر ہیں- یہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں- اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے- فرمایا ہے- نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لا نفسکم ۶۷~}~تمہاری بیویاں تمہارے لئے بطور کھیتی کے ہیں تم جس طرح چاہو ان میں آئو- اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا ہے کہ ہم جس طرح چاہیں کریں تو اچھا ہم تو چاہتے ہیں کہ عورتوں سے تعلق نہ رکھیں- اللہتعالیٰ فرماتا ہے کہ وقد موا لانفسکم اس طرح آئو کہ آگے نسل چلے اور یاد گار قائم رہے- پس تم اس تعلق کو برا نہ سمجھنا- اس آیت میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں-
۱-نر و مادہ کے تعلق کی اجازت دی ہے لیکن ایک لطیف اشارہ سے- یعنی عورت کو کھیتی کہہ کر بتایا کہ انسانی عمل محدود ہے- اسے غیر محدود بنانے کیلئے کیا کرنا چاہئے- یہی کہ نسل چلائی جائے- پس جس طرح زمین ہو تو اسے کاشتکار نہیں چھوڑتا- تم کیوں اس ذریعہ کو چھوڑتے ہو جس سے تم پھل حاصل کر سکتے ہو- اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارا بیج ضائع ہو گا-
۲-دوسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ ان کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری- اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پیدرپے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے- پس اس میں بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے- جس طرح عقلمند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے اور کس حد تک کھیت سے فضل لینی چاہئے اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے-
اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط ¶کہتے ہیں- کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معاً دوسری بو دی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوگی اور تیسری اس سے زیادہ خراب ہوگی- اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ اس کا حکم دیا ہے- لیکن ساتھ ہی بتایا ہے کہ کھیتی کے متعلق خدا کے جس قانون کی پابندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں مدنظر رکھو- جس طرح ہوشیار زمیندار اس قدر زمین سے کام نہیں لیتا کہ وہ خراب اور بے طاقت ہو جائے یا اپنی ہی طاقت ضائع ہو جائے اور کھیت کاٹنے کی بھی توفیق نہ رہے یا کھیت خراب پیدا ہونے لگے- اسی طرح تمہیں بھی اپنی عورتوں کا خیال رکھنا چاہئے- اگر بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو اور عورت کی صحت خطرہ میں پڑتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو-
تیسری بات یہ بتائی کہ عورتوں سے اچھا سلوک کرو تو اولاد پر اچھا اثر ہوگا- اور اگر ظالمانہ سلوک کرو گے تو اولاد بھی تم سے بے وفائی کرے گی- پس ضروری ہے کہ تم عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ اولاد اچھی ہو- اگر بدسلوکی سے کھیت خراب ہوا تو دانہ بھی خراب ہوگا- یعنی عورتوں سے بدسلوکی اولاد کو بداخلاق بنا دے گی- کیونکہ بچہ ماں سے اخلاق سیکھتا ہے-
چوتھی بات یہ بتائی کہ عورت سے تمہارا صرف ایسا تعلق ہو جس سے اولاد پیدا ہوتی ہو- بعض نادان اس سے خلاف وضع فطری فعل کی اجازت سمجھنے لگ جاتے ہیں- حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے- اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وہ عمل کرو جس سے کھیتی پیدا ہو- قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے- اس میں خدا تعالیٰ ایک بات کو اسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کیلئے اس کا عریاں کرنا ضروری ہوتا ہے باقی حصہ کو اشارہ سے بتا جاتا ہے- پس انی شئتم میں تو اللہتعالیٰ نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو- لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے- یہ ایک طریق کلام ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے- مثلاً ایک شخص کو ہم رہنے کیلئے مکان دیں اور کہیں کہ اس مکان کو جس طرح چاہو رکھو تو اس کا مطلب اس شخص کو ہوشیار کرنا ہوگا کہ اگر احتیاط نہ کرو گے تو خراب ہو جائے گا اور تمہیں نقصان پہنچے گا- اسی طرح جب لوگ اپنی لڑکیاں بیاہتے ہیں تو لڑکے والوں سے کہتے ہیں کہ اب ہم نے اسے تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے جیسا چاہو اس سے سلوک کرو- اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اسے جوتیاں مارا کرو بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کر رکھنا- پس انی شئتم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر اس سے خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے برا ہوگا اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہوگا- دراصل اس آیت سے غلط نتیجہ نکالنے والے انی کو پنجابی کا >اناہ< سمجھ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں کہ >انھے واہ< کرو-
تکمیل روحانیت کا زوجیت سے تعلق
پھر قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جنت میں بھی بیویاں ہونگی- اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کا تعلق اسلام میں روحانیت کی تکمیل کیلئے ضروری ہے ورنہ اس جگہ بیویوں کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی- وہاں تو اولاد پیدا نہیں ہونی- اس سے صاف معلوم ہوا کہ رجولیت اور نسائیت کی اصل غرض تکمیل انسانی ہے اولاد ایک ضمنی فائدہ رکھا گیا ہے-
غرض قرآن کریم کاکوئی حکم لے لو- خواہ وہ کس قدر ہی ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی- نرو مادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا- باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا- پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو- خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو خواہ لین دین کے متعلق ہو خواہ اور معاملات کے متعلق ہو- اس کے لئے ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لے کر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے- انشاء اللہ تعالی-
پس قرآن کریم بعض باتوں میں ہی افضل نہیں بلکہ ہر بات میں افضل ہے- حتیٰ کہ قرآن زبان کے لحاظ سے بھی افضل ہے- لیکن بوجہ اس کے کہ تفصیلات سے صرف جزئیات کا علم حاصل ہوتا ہے میں اب اصول کی طرف آتا ہوں-
میں نے پچھلے سال سالانہ جلسہ پر قرآن کریم کی فضیلت کے چھ اصول بتائے تھے- اور ثابت کیا تھا کہ ان میں سے ہر امر میں قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے- وہ چھاصول یہ تھے- اول- جس کا منبع افضل ہو- دوم- ظاہری حسن- سوم- وہ اس غرض کو پورا کرے جس کے لئے اس کی ضرورت سمجھی گئی ہو- چہارم- اس کا فائدہ دوسروں سے زائد ہو- پنجم- جس میں ملاوٹ نہ ہو- ششم- وہ چیز اپنی ہو-
اب میں چند اور فضیلت کے اصول بیان کر کے بتاتا ہوں کہ قرآن کریم وجہ فضیلت کے لحاظ سے دوسری تمام الہامی اور غیر الہامی تعلیمات سے افضل ہے-
قرآنی فضیلت کی ساتویں وجہ
ساتویں وجہ فضیلت کی یہ ہوا کرتی ہے کہ کوئی چیز اپنی جنس کی چیزوں کی نسبت ٹوٹ پھوٹ سے زیادہ محفوظ ہو- جب ہم کپڑا خریدتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا کپڑا زیادہ چلے گا- جو جلد پھٹ جانے والا ہو وہ نہیں لیتے بلکہ جو زیادہ دیر چلنے والا ہو وہ لیتے ہیں- یہی حال اور چیزوں کا ہوتا ہے- زیادہ چلنے والی چیز خریدی جاتی ہے اور کم چلنے والی چیز چھوڑ دی جاتی ہے- تعلیمات کے متعلق بھی یہ سوال لازماً ہوتا ہے- اگر دو تعلیمیں برابر ہوں لیکن ایک بگڑنے سے محفوظ ہو تو اسے یقیناً تقدم حاصل ہوگا- اس اصل کے ماتحت ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ یہ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہے یا دوسری کتابیں- الہامی کتابوں میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں یہی کہ الہامی تعلیم بگڑنے سے محفوظ ہو- اس میں نہ ملاوٹ ہو اور نہ ہو سکتی ہو- پہلے بتایا گیا تھا کہ دوسری کتابوں میں ملاوٹ ہے لیکن قرآن کریم میں نہیں ہے- گو جو کچھ بیان ہوا تھا وہ بھی اختصار سے ہوا تھا اور دلائل بھی ساتھ بیان ہونے سے رہ گئے تھے- مگر اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن ایسا محفوظ ہے کہ اس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی- ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہو سکتی ہو میں بڑا فرق ہے- قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں ملاوٹ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ-:
)۱( قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے- اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی ہر وقت ایک قادر ہستی حفاظت کر رہی ہو وہ ٹوٹ نہیں سکتی- پھر جس چیز کی حفاظت کا ذمہ غیر محدود طاقت والا لے اس میں کوئی ملاوٹ بھی نہیں ہو سکتی- لیکن یہ صرف دعویٰ ہے- میں ابھی اسے دلیل کے طور پر پیش نہیں کر رہا- اس دعویٰ میں بھی قرآن دوسری کتب سے افضل ہے کیونکہ کسی اور کتاب کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ خدا اس کا محافظ ہے- نہ انجیل کا نہ تورات کا نہ وید کا اور نہ کسی اور کتاب کا- قرآن کریم نے اس دعویٰ کے ساتھ وجہ بھی بتائی ہے- اور وہ یہ کہ (i)یہ کامل ذکر ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم نے اس کامل ذکر کو اتارا ہے اور کامل ذکر میں خرابی پیدا ہونے سے چونکہ دنیا تباہ ہوتی ہے اس لئے ہم خود اس کے محافظ ہیں- نئی چیز تب بنائی جاتی ہے جب پہلی سے اعلیٰ بنائی جائے- لیکن قرآن چونکہ کامل ہے اس لئے اس کو توڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہو سکتی-
‏ (ii) دوسری وجہ یہ بیان کی کہ ہم نے خود قرآن کو کمال عطا کیا ہے- اور جب ہم نے خود اس کو کمال دیا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے کمال کو ضائع ہونے دیں-
حفاظت قرآن کے ذرائع
پھر وہ ذریعہ جو اس کے محفوظ رکھنے کا ہے وہ بھی بتایا- سورۃ حجر میں جب فرمایا کہ تلک ایت الکتب و قرانمبین ۶۸~}~یہ کامل کتاب کی آیات ہیں ایسی کتاب کی جو ]1ksn [tagمبین ہے یعنی تمام حقائق کو ظاہر کرنے والی ہے- تو چونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کے متعلق یہ فرمایا تھا یہ کامل کتاب ہے اور اس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ یہ محفوظ رہے گی اس لئے کفار نے اعتراض کیا کہ لو ماتاتینا بالملئکہ ان کنت من الصدقین ۶۹~}~اگر یہ کتاب محفوظ رکھی جائے گی تو پھر اس کے محفوظ رکھنے کے ذرائع کیوں نہیں بتائے گئے- چاہئے تھا کہ فرشتے اس کے ساتھ اترتے- یہ ان کے نقطہ نگاہ سے معقول اعتراض تھا- اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا ماننزل الملئکہ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین ۷۰~}~فرشتے تو پیغامبر ہوتے ہیں یا عذاب کی خبریں لاتے ہیں یا بشارت کی- فرشتوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کی حفاظت کر سکیں- فرشتوں کو تو کامل علم نہیں ہوتا- وہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی حفاظت کر سکتے ہیں مطالب کی حفاظت نہیں کر سکتے- حفاظت تو سوائے ہماری ذات کے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا- سو ہم بتاتے ہیں کہ انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ہم اس کی حفاظت کا فیصلہ کر چکے ہیں ہم ہی اس کے ذمہ دار ہیں- اب تم اور آئندہ کفار زور لگا کر دیکھ لو تم کچھ نہیں کر سکتے- اور آئندہ بھی کوئی کچھ نہیں کر سکے گا-
پھر فرمایا ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاولین- وما یاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزون- کذالک نسلکہ فی قلوب المجرمین- لا یومنون بہ وقد خلت سنہ الاولین- ۷۱~}~یعنی ہنسی اور انکار تو پہلے انبیاء کا بھی ہوتا چلا آیا ہے- لیکن پہلے انبیاء تو اس کتاب کے متعلق جو ان پر نازل ہوتی تھی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی- پھر لوگ ان سے کیوں ہنسی کرتے رہے- ان لوگوں کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ اعتراض کریں ورنہ جو کچھ یہ کہتے ہیں قطعاً معقول بات نہیں ہے- یہ تو صرف جرم کا نتیجہ ہے جو ہر زمانہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے-
اب رہا اس کے محفوظ ہونے کا ثبوت- سو اس کے متعلق فرماتا ہے- ولو فتحنا علیھم بابا من السماء فظلوا فیہ یعرجون- لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون- ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین- و حفظنھا من کل شیطن رجیم- الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین ۷۲~}~فرمایا- یہ بے وقوف لوگ اپنی ناواقفی سے کہتے ہیں کہ قرآن بھی لفظوں میں لکھی ہوئی کتاب ہے- جب ایسی ہی اور کتابیں بگڑ گئیں تو یہ کیوں نہیں بگڑ سکتی- انہیں آسمانی سامان نظر نہیں آتے- اگر ہم آسمانی دروازوں میں سے ایک بھی ان کے لئے کھولتے اور یہ آسمان پر چڑھ جاتے- یعنی ان سامانوں سے آگاہ ہوتے جو اس کتاب کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں تو یہ ایسی بے ہودہ بات نہ کرتے- ایک راہ بھی اگر انہیں نظر آتی تو حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ہماری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں اور ہم کچھ دیکھ نہیں سکتے جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا- پس معلوم ہوا کہ ہم نابینا ہو گئے ہیں اور یہ خواب ہے یا ہم پر اس شخص نے کوئی جادو کر دیا ہے کہ اس کلام کی پشت پر اس قدر سامان ہے-
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک سامان کا ذکر بھی کرتا ہے- چنانچہ فرماتا ہے- ان سامانوں میں سے ایک یہ سامان ہے کہ ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینھا للنظرین- ہم نے اس کلام کے آسمان میں روشن ستارے بنائے ہیں یا یہ کہ ہم نے آسمان میں کچھ ستارے مقدر کر چھوڑے ہیں جو اس کے محافظ ہیں- اور ہم نے اس کے آسمان کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے- یعنی کثرت سے ستارے ہیں نہ کہ کوئی کوئی- وحفظنھا من کل شیطن رجیم اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان رجیم سے جو اسے بگاڑنا چاہتا ہے ان ستاروں کے ذریعہ سے محفوظ کر دیاہے- پس اب اس کلام کو کوئی شریر چھو نہیں سکتا- الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین- ہاں دور سے اس کی باتیں سن کر مطلب بگاڑنے کی کوشش کر سکتا ہے جیسے عیسائی کرتے ہیں- مگر جو دور سے سن کر باتیں بنانے والے ہونگے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے- ان کے لئے بھی ہم ایسا شہاب مقرر کر دیں گے جو ان کی حقیقت کو ظاہر کر دے گا- یعنی ہم نے ایسے آدمی رکھے ہیں کہ جب کوئی قرآن کی کسی آیت کاغلط مفہوم بیان کرے گا تو وہ ایک شہاب بن کر اسے تباہ کر دیں گے-
یہ وہ ذریعہ ہے جو قرآن کی حفاظت کیلئے اختیار کیا گیا ہے- زینھا میں بتایا ہے کہ ہم نے روشنی کا جو سامان بنایا ہے وہ ایک آدھ نہیں بلکہ کثرت سے ہے اور مبین میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ شہاب سے مراد ٹوٹنے والے تارے نہیں- بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہی شہاب ہوگا جو قرآن کے مطالب کھول کر بیان کر دے گا-
اس آیت میں بتایا کہ اس آسمان کو کوئی شیطان چھو نہیں سکتا- دوسری جگہ اس کی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے کہ لا یمسہ الا المطھرون ۷۳~}~یعنی اس کو وہی لوگ چھو سکتے جو مطہر اور خادم دین ہوں- دوسرے لوگ جو گندے ارادوں سے اور بگاڑنے کی نیت سے اس کو چھونا چاہیں نہیں چھو سکتے- پس یہ قرآن ہی کے متعلق ہے کہ شیطان اسے چھو نہیں سکتا- ورنہ آسمان کو اگر شیطان نہیں چھو سکتا- تو کیا مومن چھو سکتا ہے؟ مگر اس آسمان کو صرف شیطان نہیں چھو سکتا اور مومن چھو سکتا ہے- پس یہ قرآن ہی ہے جسے مومن چھو سکتا ہے-
ایک اور جگہ بھی اس کی تشریح آئی ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن سن کر جب کچھ جنات واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا-انا لمسنا السماء فوجدنھا ملئت حرسا شدیدا وشھبا- وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجدلہ شھابا رصدا۷۴~}~یعنی پہلے تو آسمان کو ہم چھو لیا کرتے تھے لیکن اب جو گئے تو دیکھا کہ اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے پہرہ دار بیٹھے ہیں- اور آسمان کو ہم نے شھب سے بھرا ہوا پایا پھر پہلے تو ہم آسمان میں بیٹھ بیٹھ کر باتیں سنا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننے کے لئے جاتا ہے تو اسے پتھر پڑتے ہیں-
اس سے بات بالکل واضع ہو جاتی ہے- یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ تو جو ہے- اور ایسی چیز نہیں جس میں کوئی بیٹھ سکے- اور اگر فرض کو لو کہ کوئی بیٹھ سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول کریم ~صل۲~ سے پہلے تو شیطان آسمان پر بیٹھا کرتے تھے مگر پھر نہ بیٹھے- حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کافرہ بھی آسمان پر نہیں جا سکتیں- پھر ہم کہتے ہیں رسولکریم ~صل۲~ سے پہلے جب شیطان اوپر بیٹھتا تھا تو اب کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے غیب کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی- پھر وہ کون تھے جو خدا تعالیٰ کا غیب سن کر زمین پر آجایا کرتے تھے- حالانکہ قرآن صاف طور پر ان معنوں کو رد کرتا ہے- قرآن کہتا ہے کہ نہ آسمان پر کوئی جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو غیب معلوم ہو سکتا ہے- پھر ان معنوں کے لحاظ سے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذباللہ خدا تعالیٰ کو بھی علم غیب نہیں تھا کیونکہ ایسی ہستیاں آسمان پر جا کر بیٹھتی تھیں جو غیب کی باتیں سن لیتی تھیں مگر خدا تعالیٰ کو ان کے بیٹھنے کا پتہ نہیں لگتا تھا- اب اس نے پتہ لگانے کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے ہیں-
دراصل ان آیات کے یہ معنے ہیں کہ آسمان روحانیت سے آنے والی پہلی کتابیں ایسی تھیں کہ جنہیں مخالف چھو سکتے یعنی انہیں بگاڑ دیتے تھے اور ان میں تبدیلیاں کر لیا کرتے تھے لیکن اب جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ اسے کوئی چھو نہیں سکتا- یعنی اسے کوئی بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی حفاظت کا خاص سامان کیا گیا ہے- اور پہلے تو ہم لوگ یعنی ہم میں سے بعض لوگ کلام کو سن کر جس طرح چاہتے تھے توڑ مروڑ کر بات سنا دیا کرتے تھے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے اور جو کتاب آئی ہے وہ ایسی ہے کہ کوئی بگاڑے والا اسے چھو نہیں سکتا- بلکہ اگر کوئی بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو فوراً اس پر ایک شعلہ مارتا ہوا ستارہ آ گرے گا- گویا لمستو بالکل بند ہے لیکن سمعہو سکتا ہے مگر اس میں بھی یہ انتظام ہے کہ جو جھوٹ ملا کر بات کرے اور بدنیتی سے سنے اس کی فوراً تردید ہو جاتی ہے-
غرض قرآن کریم کی ایسی کامل حفاظت کر دی گئی ہے کہ اسے لفظاً بھی کوئی شخص بگاڑ نہیں سکتا- اور مفہوم بگاڑنے والوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان رکھے ہیں کہ ان سے اس بگاڑ کی اصلاح ہوتی رہے گی-
شاید کوئی خیال کرے کہ اس جگہ تو آسمان کا لفظ ہے- پس آسمان کو چھونا ہی مراد ہو سکتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو- سو یاد رکھنا چاہئے کہ
)۱(وہ آسمان جس سے کلام نازل ہوتا ہے یہ مادی آسمان نہیں ہو سکتا ورنہ الل¶ہ تعالیٰ کو مادی ماننا پڑے گا- پھر یہ آسمان تو مادہ لطیف ہے کوئی ٹھوس چیز تو نہیں جس کو چھونے اور بیٹھنے کا کچھ مطلب ہو- پس آسمان جس سے کلام اترا ہے اس کے معنے کچھ اور ہی کرنے پڑیں گے-
)۲(عربی زبان کے محاورہ کے رو سے سبب اور مقام کے لفظ کو استعارۃ سبب اور مقام سے نکلی ہوئی چیز کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں- چنانچہ یہی سماء کا لفظ بارش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے- بارش چونکہ اوپر سے نازل ہوتی ہے اس لئے اسے بھی سماء کہہ دیتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہیوارسلنا السماء علیھم مدرارا۷۵~}~ہم نے ان پر بادلوں کو موسلادھار بارش برساتے ہوئے بھیجا- اسی طرح سبزی ترکاری کو بھی سماء کہتے ہیں کیونکہ وہ پانی سے پیدا ہوتی ہے- کہتے ہیں-ما زلنا نطاء السماء حتی اتیناکمہم سماء یعنی سبزی کو کچلتے ہوئے تمہارے گھر تک آئے- پس اس جگہ سمائسے مراد آسمانی کتاب ہے- ورنہ یہ کہنا بے جا ہوگا کہ ہم پہلے وہاں بیٹھ کر سنا کرتے تھے اب ایسا نہیں کر سکتے- پہلے کیوں سنتے تھے اور اب کیوں نہیں سنتے- ہمیں کوئی ایسا سماء نکالنا پڑے گا جسے پہلے چھو لیا کرتے تھے اور اب نہیں چھو سکتے- سو اس کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماء آسمانی کتابوں کا ہے کہ پہلے لوگ ان کو بگاڑ لیتے تھے - چنانچہ سورۃ بینہ میں آتا ہے-لم یکن الذین کفروامن اھل الکتب و المشرکین منفکین حتی تاتیھم البینہ- رسول من اللہ یتلوا صحفا مطھرہ- فیھا کتب قیمہ- ۷۶~}~فرمایا یہ اہل کتاب اور مشرکین اپنی جہالت کو کبھی چھوڑ نہ سکتے تھے جب تک کہ ان کے پاس ایک بینہ نہ آ جاتی- بینہ کیا ہے؟ وہ خدا کا رسول ہے جو ان پر کئی پاکیزہ صحیفوں والی کتاب پڑھتا ہے- کئی ایسی تعلیمیں تھیں جو بگڑ گئی تھیں- قرآن کریم میں ان کو اصل حالت میں پیش کیا گیا ہے- پس چونکہ اب اس میں کتب قیمہ جمع ہو گئی ہیں اس لئے اب یہ کتاب نہیں بگڑ سکتی-
قرآن کے متعلق فیھا کتب قیمہ کہہ کر بتایا کہ پہلی تعلیموں میں دو قسم کی خرابیاں تھیں- ایک وہ خرابی جس کی اصلاح کی ضرورت بوجہ نسخ نہ رہی تھی اسے چھوڑ دیا- دوسری وہ خرابی جو ایسی تعلیم میں تھی جو قائم رہنی تھی سو اسے دور کر کے اخذ کر لیا- غرض اگر تو کوئی ایسی تعلیم بگڑ گئی تھی جس کی دنیا کو اب ضرورت نہ تھی تو اسے چھوڑ دیا گیا ہے- اور اگر اس تعلیم میں خرابی پیدا ہو گئی تھی جو قائم رہنی چاہئے تھی تو اس خرابی کو دور کر کے صحیح تعلیم کو اخذ کر لیا گیا ہے-
سمائے روحانی حیی و قیوم کی صفات پر بنیاد
اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآن کے ذریعہ بنا اس کی بنیاد حیی و قیوم کی صفات پر رکھی گئی ہے- مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات الہیہ کے ماتحت نازل ہوتے رہے ہیں- چانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- کل یوم ھو فی شان یعنی ہر زمانہ نبوت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہوتا ہے- اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے- جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے- یدبر الامر من السماء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنہ مما تعدون ۷۷~}~یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو- پس یوم سے مراد زمانہ نبوت ہے- اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سماء بھی بلندی کا نام ہے- پس اس روحانی آسمان کو بھی سماء کہہ سکتے ہیں اور اس کے لئے صفت حیی و قیوم کو استعمال کیا گیا ہے-
یہ ثبوت کہ قرآن حیی و قیوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے حدیث میں آتا ہے- کہ رسول کریم ~صل۲~ سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا- آیت الکرسی-۷۸~}~ اور آیت الکرسی کی بنیاد حیی و قیوم پر ہے- یہ روایت ابی بن کعب ؓ` ابن مسعود ؓ` ابوذر غفاری ؓ` ابوہریرہ ؓ اور چار پانچ صحابہ ؓ سے مروی ہے اور اکثر کتب حدیث میں ہے-
اعظم ایہ سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں- اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں جو بطورام کے ہو- یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے- چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی- ۷۹~}~یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا اور وہ صفات حیی و قیوم کی ہی ہیں- چنانچہ سورۃ آلعمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے- حیی ]txte [tagکے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا- اور قیوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا- پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے- یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا- اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے- پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا- آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے- ۸۰~}~ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے-
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لا یمسہ الاالمطھرون پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا- حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا صاف ظاہر ہے کہ اسی کلام کی طرفانا لمسنا والی آیت میں اشارہ ہے- نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر حفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں شھب کے نزول کے ذکر کے کیا معنے ہیں؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جا سکتا اور اگر جاتا ہے تو اس پر شہاب گرتا ہے-
کتب سابقہ میں تحریف
اب عملاً دیکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں- تورات میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰؑ کی موت کا ذکر ہے- اسی طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کی موت کا ذکر ہے- ژنداوستا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اسے بگاڑ دیا- میں کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھا جائے گا کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی کتاب بگڑ چکی ہے- ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ وہ بگڑ چکے ہیں- وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دعائیں سکھائی گئی ہیں- اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چاہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے- جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دعائیں ہوں وہ کیونکر لمس شیطانی سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے- اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھوا- لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعویٰ طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لا یمسہ الا المطھرون- کوئی اسے بگاڑ ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی اسے خراب کرنا چاہے گا تو اس پر شھب گریں گے- یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں- حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا ہے کہ-:
>بائیبل سوسائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلدیں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں<- ۸۱~}~
اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے تھے- تو اب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہوگیا- مگر ہم کہتے ہیں اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مس کیا مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا- آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے- اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے- روسی حکومت نے ایک دفعہ چاہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے لیکن ملک میں اتنا شور پڑا کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے بازرہنا پڑا- یہ بھی شھب ہی تھے جو اس پر گرے- انجیل کے متعلق کیوں ایسا نہیں ہوتا- پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چاہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آ گئی-
حفاظت قرآن اور یوروپین مستشرقین
دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیروتبدل نہیں ہو سکتا- اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں- یعنی اس کے نگران ہیں- اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی- اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- کلا انھا تذکرہ- فمن شاء ذکرہ- فی صحف مکرمہ- مرفوعہ مطھرہ- بایدی سفرہ- کرام بررہ- یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلند شان رکھنے والے اور پاک ہیں- اور یہ صحیفے دور دور سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں-
یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مدنظر رکھ کر اتاری گئی ہے- میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہوتے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے اور وہ یہ کہ )۱(یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی- اس کا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اور لوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے- اس ادب کو سرولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے-
‏each with closely correspond would sources two The Prophet the while even Coran, the for other; as awe superstitious a with regarded was alive, yet bewas would variations any that so God; of words very the containing and himself, Mahomet to reference direct a by copiesreconciled or existed, they where originals the to death his Prophet'safter the of memory the to end same, the from۸۲~}~۔amanuenses and friends confidential
یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے- خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے-
دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مرفوعہ یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کوئی خرابی نہیں آ سکتی کیونکہ اس کے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے- اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ انہیں خدا کا کلام یقین نہ کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے- اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائیگی- غرض فرمایا- قرآن کے مطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ انہیں سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں- اور جو دشمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے- سرولیم میور اس بارے میں لکھتا ہے-
‏Coran the of arrangement the and contents The fragments the All ۔authenticity its for forcibly have,speak obtained could joinedthat been simplicity, artless with designing a of marks no bears patchwork The ۔rehtegot]2 [stf۸۳~}~۔hand moulding or genius
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں- تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا- اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جرات ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے- جو سمجھتے ہیں وہ بررہ ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے-
تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقص سے پاک بنائی گئی ہے اور ایسی اعلیٰ چیز میں جو دخل دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے- اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو- سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے اس کا فوراً پتہ لگ جاتا ہے- اسی طرح تاج محل کی حالت ہے- معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ چھپ سکتا ہے لیکن اگر تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے- پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوبصورتی میں دخل نہیں دے سکتے- کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے- اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جرات ہی نہیں ہوتی-
قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان
پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں- جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے- اول فرمایا بایدی سفرہ- سفرہ کے ایک معنی لکھنے والے کے ہوتے ہیں- اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہوتی گئی لکھی جاتی رہی- اور جو بات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے-
پھر فرمایا- یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کرام بررہ ہیں- یعنی معزز لوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں- پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہوں گے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہونگے اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہونگے- وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے- اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے- پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑ ہی ناممکن ہوجائے گا-
اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے- بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو- اور پھر مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے- ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اورنگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے- اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے- اس میں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے- چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے ۴۳ قرآن موجود تھے-
دوسرے معنی سفرہ کے سفر کرنے والے کے ہیں- ان معنوں کی رو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا بلکہ فوراً دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا- اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چاہے گا تو عرب` شام` ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہوگا وہ بگاڑ کو رد کر دے گا- غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تا کہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں- چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم رسول اللہ ~صل۲~ کے زمانہ میں ہی تمام عرب` افریقہ اور ابی سینا میں پہنچ گیا تھا- پھر رسول کریم ~صل۲~ کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین` شام` عراق` فارس اور افغانستان` چین` اناطولیہ` مصر` ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا- پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہو گیا- اور پھر اس میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا- کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں- اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی-
پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا موید ہو گیا- سفرہ کے معنی اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں- اس لحاظ سے اس کے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈروں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہوگا جو سب کے سب نیک ہونگے- اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا- اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی- کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی-
یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا- سرولیممیور لکھتا ہے-
‏when party, his or Ali, that,either conceivable is It mutilated a tolerated have would power, at arrived wethus Yet ￿claims his destroy to expressly raisedCoran-mutilated and opponents, their as Coran same the used they that againstfind objection an of shadow no۸۴~}~]51 [p ۔it
یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیر کیا گیا ہے- مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہوئی تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے- اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا- اسی طرح لکھتا ہے-
‏multiplied Ali revision, Othman's to objecting from for So have to Supposed ۔MSS other among edition the of copies at preserved been have to said is one Ali, by written borebeen which century, fourteenth the as late as Ali 2]Mashed ft[s۸۵~}~۔signature his
یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہونے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن بتایا ہے-
مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبردست نشان ہے- قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا- دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا- مسلمانوں میں جنگیں ہونگی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا- اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا-
سفرہ کے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اٹھا دینے کے بھی ہوتے ہیں- اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہونگے کہ اس کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس و خاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کا موجب ہو سکتا تھا دور کرتے رہیں گے- اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کرتے رہیں گے- اور اس کے بلند مطالب کو لوگوں کے سامنے لا کر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کرام ہوں گے- یعنی ماہرین فن ہونگے اور بررہ ہونگے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہونگے- اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے- لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتاب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں- لیکن کرم کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے- کتاب کیلئے مرفوعہ اور مطھرہ فرمایا ہے اور انسانوں کیلئے سفرہ بررہ- لیکن اگر ہم غور کریں تو درحقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے- سفرہ کا جوڑا مرفوعہ سے ہے- کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے- اور سفر کے معنی خفاء کو دور کرنے کے ہوتے ہیں- چنانچہ جب سفرہ الریح الفیح عن وجہ السماء کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں کشفتہ یعنی ہوا نے گرد و غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا- اسی طرح مطھرہ کے مقابلہ میں بررہ فرمایا ہے- کیونکہ مطھرہ کے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بررہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں- پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے-
اللہ اللہ!! کیسا زبردست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعویٰ کو زبردست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے- سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم ~صل۲~ کی وفات پر اٹھنے لگا تھا جب کہ آپﷺ~ کی وفات میں شبہ پیدا ہو گیا اور گویا آپﷺ~ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا- مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے یہ اختلاف دور کر دیا- انہوں نے قرآن کریم ہی کی یہ آیت پیش کی کہ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ۸۶~}~]2 [rtfاور اس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے نہ رہ سکے اور گر گئے- مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیح کے بعد کیا ہوا- ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ شروع ہو گیا- اور حضرت موسیٰؑ کی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاں حضرت ہارونؑ جیسے اور مسیحؑ کے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجودگی میں گمراہی شروع ہو گئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے- جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آتی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی جو اباحت کے رنگ میں تھی-
اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہو گئی- اور ہمیشہ امت محمدیہﷺ~ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دور کرتے رہے- اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی حالت بدلتی چلی گئی اور اصلاح کرنے والے کوئی پیدا نہ ہوئے- اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا ہے- موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کرنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے آکر دور کر دیا- اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں تھا-
حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ
پس قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا- اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر- اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا- خدا تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ۸۷~}~آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے- پس جب مکمل دین آ گیا اور نعمت کامل ہو گئی تو اب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی- اب جو بھی مامور آئے گا اسی کی تائید میں آئے گا- اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا- اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے لیکن خدا نے اپنے متعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے- اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کی متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں- پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا-
دوستوں کو ایک نصیحت
میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں- جنہیں مجبوری ہو ¶رخصت ختم ہو چکی ہو وہ تو جا سکتے ہیں لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں انہیں ضرور ٹھہرنا چاہئے- کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقع پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے انہیں چاہئے کہ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ٹھہرا کریں- یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں- یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں- یہاں کا کاروبار دیکھیں- بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دعائیں کریں-
اب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
۱~}~
عبس: ۲ تا ۱۷
۲~}~ البقرہ : ۱۳۲

۳~}~
براہین احمدیہ چہار حﷺ- روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۱۲۹
۴~}~
اشتہار بعنوان ہم اور ہماری کتاب- براہین احمدیہ چہار حﷺ جلد۱ صفحہ۶۷۳
۵~}~
دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۶
۶~}~
متی باب ۱۹ آیت ۲۳`۲۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۷~}~
متی باب ۱۹ آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۸~}~
متی باب ۶ آیت ۳`۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۹~}~
متی باب ۶ آیت ۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۱۰~}~
‏XII Book 120 ۔P II Vol, Atharra-Veda, the of Hymns The
۔1917 Published Benares, IV Hymn
۱۱~}~
بنی اسرائیل : ۳۰`۳۱


۱۲تا۱۵~}~
اقرب الموارد جلد۱ صفحہ۱۹۰ زیر لفظ >حسر< مطبوعہ بیروت ۱۸۹۹ء
‏a1] [tag ۱۶~}~
الفرقان : ۶۸


۱۷~}~
تذکرۃ الاولیاء
۱۸~}~
مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم والفطرفی شھر رمضان للمسافر
۱۹~}~
بنی اسرائیل: ۲۷`۲۸
۲۰~}~ البقرہ : ۲۷۵
۲۱~}~ البقرہ: ۲۷۲
۲۲~}~
بخاری کتاب الجمعہ باب الجمعہ فی القری والمدن
۲۳~}~
البقرہ : ۱۱۱
۲۴~}~ البقرہ : ۱۰۳

۲۵~}~
ترمذی کتاب المناقب مناقب ابی بکر الصدیق
۲۶~}~
البقرہ: ۱۹۶
‏]17 [p ۲۷~}~ البقرہ : ۲۱۶
۲۸~}~ المعارج: ۲۵`۲۶
۲۹~}~
الذریت: ۲۰
۳۰~}~ الجاثیہ : ۱۴
۳۱~}~ البقرہ : ۲۶۶
۳۲~}~
النحل : ۹۱
۳۳~}~ بنی اسرائیل : ۲۹
۳۴~}~ الضحی : ۱۱
۳۵~}~
البقرہ :۴
۳۶~}~ الانعام : ۱۴۲
۳۷~}~ البقرہ: ۲۶۸
۳۸~}~
ال عمران : ۱۳۵
۳۹~}~ التوبہ : ۶۰
۴۰~}~ الممتحنہ : ۹
۴۱~}~
النور : ۲۳
۴۲~}~ التوبہ : ۱۰۳
۴۳~}~ البقرہ : ۲۶۵
۴۴~}~
البقرہ :۲۷۷
۴۵~}~ البقرہ:۲۷۴

۴۶~}~
متی باب ۱۹ آیت ۱۰ تا ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۴۷~}~
کرنتھیوں ۱- باب ۷ آیت ۲`۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۴۸~}~
کرنتھیوں ۱- باب ۷ آیت ۸ تا ۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۴۹~}~
پیدائش باب ۲ آیت ۲۱تا ۲۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۵۰~}~
النساء : ۲
۵۱~}~ الذریت: ۵۰
۵۲~}~ النبا : ۹
‏17] p[ ۵۳~}~
النحل : ۷۳
۵۴~}~ الشوری : ۱۲
۵۵~}~ الاعراف : ۱۹۰
۵۶~}~
الروم : ۲۲
۵۷~}~ الاعراف : ۱۷۳

۵۸~}~
الجامع الصغیر للسیوطی جلد۱ صفحہ۱۲۲ مطبوعہ مصر ۱۳۰۶ھ+ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۱۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۵۹~}~
البقرہ : ۱۸۸
۶۰~}~ نوح : ۱۴
۶۱~}~ نوح : ۱۵
۶۲`۶۳~}~
عوارف المعارف مولفہ حضرت شہاب الدین سہروردی صفحہ۴۵`۴۶

احیاء علوم الدین للغزالی صفحہ۷۴- مطبوعہ بیروت ۱۴۰۴ھ
۶۴~}~
بخاری کتاب التفسیر- ]2h [tag تفسیر سورہ ال عمران زیر آیت انی اعیذ ھابک۔۔۔۔۔
۶۵~}~
المائدہ : ۵۵
۶۶~}~ البقرہ: ۱۶۶
۶۷~}~ البقرہ : ۲۲۴
۶۸~}~
الحجر : ۲
۶۹~}~ الحجر : ۸
۷۰~}~ الحجر :۹
‏ ۷۱2]~}~ ftr[
الحجر :۱۱ تا ۱۴
۷۲~}~ الحجر : ۱۵ تا ۱۹
۷۳~}~ الواقعہ : ۸۰
۷۴~}~
الجن : ۹` ۱۰
۷۵~}~ الانعام : ۷
۷۶~}~ البینہ : ۲ تا ۴
۷۷~}~
السجدہ :۶
‏ 2] ft[r

۷۸~}~
ابو دائود کتاب الصلوہ باب ماجاء فی آیہ الکرسی
۷۹~}~
درمنثور جلد۱ صفحہ ۳۲۵` ۳۲۶
۸۰~}~
بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل البقرہ
۸۱~}~
اخبار نور افشاں ۲۸ نومبر ۱۹۳۰ء
‏۸۲~}~][ Published 555 ۔P Muir William By Mahomet of Life The
۔1877 London in
۸۳~}~
‏ Published 561 ۔P Muir William By Mahomet of Life The
۔1877 London in
۸۴`۸۵~}~
‏ Published 559 ۔P Muir William By Mahomet of Life The
۔1877 London in
۸۶~}~
ال عمران15] p:[ ۱۴۵
۸۷~}~ المائدہ: ۴

‏a11.29
انوار العلوم جلد ۱۱
اردو زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو رسائل زبان کی کس طرح
خدمت کر سکتے ہیں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک دقت یہ ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لئے اصطلاحیں مقرر ہیں- مولوی فتح محمد صاحب جالندھری نے قواعد کے بارے میں اچھی خدمت کی ہے اور مولانا شبلی اور مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے کام کو جلا دینے میں حصہ لیا ہے- لغت کا کام مولوی نذیر احمد دہلوی نے کیا ہے اور اصطلاحات کے لئے ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے ممنون ہیں- انجمن ترقی اردو انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے- لیکن کام اس قدر ہے کہ کسی ایک شخص یا ایک انجمن یا ایک ادارہ سے یہ ہونا ناممکن ہے-
اردو کے بہی خواہوں نے میرے نزدیک بعض مشکلات کو جو اردو زبان سے مخصوص ہیں نظر انداز کر دیا ہے- مثلاً
۱-
وہ سب زبانوں میں عمر میں چھوٹی ہے-
۲-
حقیقی شاہی گود میں پلنے کا اسے کبھی موقع نہیں ملا- جو زبان کی ترقی کیلئے ضروری ہے-
۳-
اصل میں تو تین لیکن کم سے کم دو مائیں اس کی ضرور ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ دونوں سگی ہیں- ہر ایک اپنی تربیت کا رنگ اس پر چڑھانا چاہتی ہے- اور جب ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہو سکا تو دونوں اپنا غصہ اس معصوم پر نکالتی ہیں- میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت جھگڑا یہ نہیں کہ اہل سنسکرت اردو کو اپنا بنانے کو تیار نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے صرف اپنا ہی بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور عربی فارسی والوں کے سایہ سے اس نونہال کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے-
۴-
ہمارا علمی طبقہ غیر زبانوں میں سوچنے کا عادی ہو گیا ہے- اور اس وجہ سے اس کی تحقیقوتفتیش سے اردو نفع نہیں اٹھا سکتی-
۵-
ٹائپ نہ ہونے کے سبب آنکھوں کو اس کے حروف سے وہ موانست نہیں پیدا ہوتی جو ٹائپ پر چھپنے والی زبانوں کے حروف سے ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے لوگوں میں شوق تعلیم سرعت سے ترقی نہیں کر سکا اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر نہیں ہو سکی- انسان بارہ تیرہ قسم کے ٹائپوں کا عادی تو ہو سکتا ہے لیکن ہزاروں قسم کا نہیں اور اردو زبان کے جتنے کاتب ہیں گویا اتنے ہی ٹائپ ہیں جس کی وجہ سے طبیعتوں پر ایک غیرمحسوس بوجھ پڑتا ہے اور تعلیم کا ذوق کم ہو جاتا ہے-
ان مشکلات کی وجہ سے اردو کی ترقی کے رستے میں دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ مشکلات حائل ہیں مگر میرے نزدیک وہ ایسی نہیں کہ دور نہ کی جا سکیں- اب تک نقص یہی رہا ہے کہ مرض کی تشخیص نہیں کی گئی اور اس کی وجہ سے لازماً علاج بھی صحیح نہیں ہوا- اگر اردو عمر میں اپنی بہنوں سے چھوٹی تھی تو اس کے لئے اس قسم کی غذا کا بھی انتظام ہونا چاہئے تھا- اور اگر وہ شاہی گود سے محروم تھی تو کیوں نہ اسے جمہوریت کی گود میں ڈال دیا گیا جس کی حفاظت شاہی حفاظت سے کسی صورت میں کم نہیں بلکہ اصل بادشاہت تو اس کی ہے- اگر اس کی تربیت کے متعلق اختلاف تھا تو یہ صورت حالات پیدا کرنے کی بجائے کہ جس کا بس چلا وہ اسے اپنے گھر لے گیا وہی کیوں نہ کیا گیا جو حضرت محمد ~صل۲~ نے اس وقت کیا تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیرجدید کے موقع پر حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کے سوال پر مختلف قریش خاندانوں میں جھگڑا پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے ایک چادر بچھا دی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ کر سب قوموں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑ لیں اور اس طرح سب کے سب اس کے اٹھانے میں برابر کے شریک ہو جائیں- اسی طرح اگر اردو` سنسکرت اور عربی کی مشترک تربیت میں دے دی جاتی تو یہ جھگڑا ختم ہو سکتا تھا-
ٹائپ کا سوال مختلف قسم کا سوال ہے لیکن اگر مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ ہوتی تو بہت سے لوگ اسے حل کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے- اور الحمدللہ کہ اس وقت حیدر آباد میں بہت سے ارباب بصیرت اس کے لئے بھی کوشش کر رہے ہیں-
میری ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ترقی کیلئے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننے کی بجائے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو- خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں- اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں- قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں اور اصطلاحیں علماء اردو بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہو سکتی-
پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوئوں پر بحثیں ہوں تا کہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج کا ہی سامان نہ ہو بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں- اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں- اگر ان رسائل میں چند صفحات` مستقل طور پر اس بات کے لئے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہوا کریں گی تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہوگا عام لوگ بھی اس کو قبول کر لیں گے- کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گذرتے رہیں گے- ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں- اس قسم کے مضامین کی اشاعت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارے ہندو بھائی بھی ان بحثوں میں حصہ لے سکیں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ بغیر ان کی مدد کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے- کیونکہ اردو میں بہت سے لفظ سنسکرت اور ہندی بھاشا کے ہیں اور ان کی اصلاح یا ان میں ترقی بغیر ہندوئوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی- ان کی شمولیت کے بغیر یا تو وہ حصہ زبان کا نامکمل رہ جائے گا یا اسے بالکل ترک کر کے اس کی جگہ عربی الفاظ اور اصطلاحیں داخل کرنی پڑیں گی اور یہ دونوں باتیں سخت مضر اور اردو کی ترقی کے راستہ میں روک پیدا کرنے والی ہوں گی-
اس تمہید کے بعد میں ایڈیٹر صاحب ادبی دنیا اور دوسرے ادبی رسائل سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان باتوں میں مجھ سے متفق ہوں تو اپنے رسائل میں ایک مستقل باب اس غرض کے لئے کھول دیں لیکن انہیں ان مشکلات کا بھی اندازہ کر لینا چاہئے جو اس کام میں پیش آئیں گی- مثلاً یہ کہ جو سوالات اٹھائے جائیں گے انہیں حل کون کرے گا؟ بالکل ممکن ہے کہ جواب دینے والے ایسے لوگ ہوں جن کا کلام سند نہ ہو یا جن کے جواب تسلی بخش نہ ہوں یا کوئی شخص جواب کی طرف توجہ ہی نہ کرے- اگر صرف رسالہ کے ادارہ نے جواب دیئے تو پھر اول تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا- دوم ممکن ہے کہ اس سے وہ اثر پیدا نہ ہو سکے جو اصل مقصود ہے لہذا اس مشکل اور اس قسم کی دوسری مشکلات کے حل کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے- ادارہ کی طرف سے متعدد بار تحریک کر کے رسالہ کے خریداروں کے نام ظاہر کریں جو خریدار مستند ادیب ہیں ان سے اصرار کر کے اپنا نام پیش کرنے کے لئے کہا جائے- ایسے تمام خریداروں کے نام ایک رجسٹر میں جمع کر لئے جائیں اور انہیں ادبی کلب کا ممبر سمجھا جائے چونکہ بالکل ممکن ہے کہ بہت سے ادیب اور علماء جن کی امداد کی ضرورت سمجھی جائے رسالہ کے خریدار نہ ہوں اس لئے ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے اور رسالہ کے مستطیع خریداروں کی امداد سے ان کے نام رسالہ مفت ارسال کیا جائے اور ان کا نام اعزازی ممبر کے طور پر کلب کے رجسٹر میں درج کر لیا جائے-
تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال
)۱( اردو لغت کے متعلق-
)۲( نحوی قواعد کے متعلق
)۳( بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق
)۴( محاورات کے متعلق-
)۵( تذکیر و تانیث اور جمع کے قواعد کے متعلق-
)۶( پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصہ میں شائع کرائیں- خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں-
ان سے یہ بھی امید کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال شائع ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں-
ملک اردو علم و ادب کے لحاظ سے چند حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے- مثلاً
)۱( دھلی اور اس کے مضافات
)۲( لکھنئو اور اس کے مضافات
)۳( پنجاب
)۴( رامپور اور اس کے مضافات
)۵( بھوپال اور اس کے مضافات
)۶( آگرہ اور اس کے مضافات
)۷( اعظم گڑھ اور الہ آباد اور اس کے مضافات
)۸( بہار
)۹( حیدر آباد
اس طرح علمی لحاظ سے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے-
۱-
اسلامی یعنی عربی اور فارسی اثر
۲-
ہندو یعنی سنسکرت اور ہندی بھاشا اثر
جب سوالات رسالہ کے دفتر میں آئیں تو ادارہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دے مثلاً جو سوال کسی لفظ کے استعمال` اس کی شکل` اس کی تذکیر و تانیث کے متعلق ہوں انہیں ایک جگہ جمع کر کے شائع کرے اور ان کے متعلق مذکورہ بالا حلقوں کے احباب سے درخواست کرے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی تحقیق بتائیں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے علاقہ میں وہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں` اگر ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کن کن معنوں میں؟ اس طرح دو فائدے حاصل ہونگے ایک تو اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس خاص لفظ یا محاورہ کے متعلق اردو بولنے والوں کی اکثریت کس طرف جا رہی ہے اور اس سے اردو کی ترقی کی رو کا اندازہ ہو سکے گا- دوسرے علمی تحقیق بھی ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کی طبائع فیصلہ کر سکیں گی کہ اس بارہ میں اردو کے حق میں کونسی بات مفید ہے- آیا تحقیق کی پیروی کرنی چاہئے یا غلط العام کی تصدیق کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں- اسی طرح جس لفظ کے متعلق بحث ہو اگر سنسکرت یا ہندی بھاشا اس کا ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اور عربی فارسی ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اس پروشنی ڈالنے کی طرف توجہ دلائی جائے- اس طرح اور بہت سی تقسیمیں کی جا سکتی ہیں جو اس کلب کو زیادہ دلچسپ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں- کلب کا کام فیصلہ کرنا نہ ہو بلکہ ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو-
اسی طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے اور بحث کی طرح اس طریق پر نہ ڈالی جائے کہ خالص عربی یا خالص سنسکرت اصطلاحات لے لی جائیں بلکہ تحریک یہ کی جائے کہ وہ خیال جس کے ادا کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے اس کے متعلق کلب کے ممبر پہلے یہ بحث کریں کہ اس خیال کا کس اردو لفظ سے تعلق ہے- پھر یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے اور آیا اس لفظ سے جدید اصطلاح کا بنانا آسان ہوگا- اگر عام رائے اس کی تائید میں ہو تو پھر اس زبان کے ماہروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں- کیونکہ جس زبان کا لفظ ہو اس کے ماہر اس کے صحیح مشتقات پر روشنی ڈال سکتے ہیں-
ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ اردو رسائل کے ادارے تو پہلے ہی بوجھوں تلے دبے پڑے ہیں وہ اتنی پیچیدہ سکیم پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں- لیکن اول تو یہ سکیم عمل میں اس قدر پیچیدہ اور توجہ طلب نہ ہوگی جس قدر کاغذ پر نظر آتی ہے-
دوسرے اس قسم کے کلب جیسا کہ یورپ کا تجربہ ہے ہمیشہ رسائل و اخبارات کی دلچسپی اور خریداری بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں` اس لئے جو رسالہ اس کام کو شروع کرے گا وہ میرے نزدیک مالی پہلو سے فائدہ میں رہے گا- تیسرے یہ بھی ضروری نہیں کہ فوراً اس ساری سکیم پر عمل کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کلب جاری کر کے صفحات مقرر کئے بغیر اور اس طرح مضامین تقسیم کئے بغیر جس طرح میں نے بیان کیا ہے کام شروع کر دیا جائے- پھر جوں جوں ادارہ اور کلب کے ممبروں کو مشق ہوتی جائے کام اصول کے ماتحت لایا جائے تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے اور بس- ادبی دنیا کے لئے اور اگر کوئی اور رسالہ اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لئے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بشرط فرصت اور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں-
)رسالہ ادبی دنیا مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸(
‏a11.30
انوار العلوم جلد ۱۱
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
میرا ۲۷- مارچ کا خطبہ
حصہ اول
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب
میرے ۲۷- مارچ کے خطبہ کے شائع ہونے پر اپنوں اور بیگانوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا ہے اور علاوہ اس کے کہ مختلف قسم کے خطوط میرے پاس آ رہے ہیں آریہ اخبارات بھی اس پر بہت کچھ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق کسی قدر اور تشریح کر دوں تاکہ دوست اور دشمن دونوں کو اصل حقیقت معلوم ہو جائے اور کوئی شخص دھوکے میں نہ رہے-
میرا نقطئہ نگاہ سمجھ لیا جائے
سب سے پہلے تو میں آریہ اخبارات اور حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے میرا نقطئہ نگاہ اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ کسی بے اصولے پن کا ارتکاب آخر انہیں شرمندہ نہ کرے- میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس قدر عمر پبلک کے سامنے گزاری ہے کہ حکومت بھی اور ابنائے وطن بھی اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ میں جلد بازی سے قدم اٹھانے کا عادی نہیں ہوں- جہاں تک ہو سکتا ہے سوچ کر اور غور اور فکر کے بعد میں فیصلہ کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک سترہ سالہ پبلک زندگی میں ایک دفعہ بھی مجھے شرمندہ ہونے کا موقع پیش نہیں آیا اور مجھے اپنے فیصلہ کے بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور جلد یا بدیر لوگوں کو میرے نقطئہ نگاہ کی صحت تسلیم کرنی پڑی ہے- اپنے علم اور اپنے تجربہ کو دیکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے ورنہ چونکہ میری صحت خراب ہے اس کے اثر کے نیچے بالکل ممکن تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو میری تقریر اور تحریر میں جلد بازی اور چڑ چڑے پن کا اثر پایا جاتا- بہرحال دوست اور دشمن اس امر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ میں محتاط آدمی ہوں اور اندھا دھند اعلان کرنے کا عادی نہیں حتیٰ کہ بعض دوست مجھ پر کمزوری کا الزام لگاتے ہیں- پس حکومت اور دشمنان اسلام کو میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ میرے نقطئہ نگاہ کو اچھی طرح سمجھ لیں- جو یہ ہے-
بین الاقوام معاملات میں حکومت کا رویہ
میرا خطبہ بیان کردہ ۲۷- مارچ ۱۹۳۱ء اس امر کے متعلق ہے کہ حکومت کا رویہ بینالاقوامی معاملات میں انصاف پر مبنی نہیں بلکہ ضرورت وقتی پر مبنی ہے اور یہ بات نہایت قابل افسوس ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو مصلحت وقت کے مطابق کام کرنا ایک حد تک ضروری ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت تک جائز ہے جب تک کہ کسی قوم یا فرد پر ظلم نہ ہوتا ہو- جب کسی فعل سے کسی فرد یا قوم پر ظلم ہوتا ہو تو ایسا فعل مصلحت وقت کے ماتحت نہیں بلکہ سیاسی پالیسی کے ماتحت کہلائے گا اور مجھے افسوس ہے کہ بین الاقوام میں گورنمنٹ کا رویہ دلیرانہ اور منصفانہ نہیں بلکہ سیاسی پالیسی کے ماتحت ہوتا ہے- جو قوم زیادہ شور مچائے اور گورنمنٹ کو زیادہ تنگ کر سکے گورنمنٹ اس کے ساتھ مل جاتی ہے- آریہ لوگ پنجاب میں زیادہ شور مچاتے ہیں اور حکومت ہمیشہ ان سے دبتی ہے اور اس وقت حکومت کے دفاتر اور اس کی پالیسی پر وہی قابض ہیں- کانگریس نے شور مچایا اور حکومت اس کے آگے اس قدر گری کہ اس کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ اپنے دلوں میں شرمندگی اور ذلت محسوس کرتے ہیں-
انگریزوں کی خوبیاں
میرا ہمیشہ سے یہ خیال ہے اور اب تک ہے کہ انگریزوں میں بہت سی خوبیاں ہیں اور ان کی وجہ سے میں ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ انگریز ابھی اس ملک میں بہت سے مفید کام کریں گے اور ہندوستان ابھی پوری طرح ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا-
انگریز اپنے دوستوں کا حلقہ تنگ کر رہے ہیں
لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انگریزی حکومت کو مذکورہ بالا کمزوری اس کے دوستوں کا حلقہ روز بروز تنگ کرتی جاتی ہے اور اگر حکومت نے وقت پر اپنی اصلاح نہ کی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک قوم ان سے تاجرانہ یا خود غرضانہ تعلق رکھے گی- انگریز کی دوستی اور اس سے مخلصانہ تعلق رکھنے والا ایک فرد بشر بھی نہ ہو گا اور اس تغیر کی ذمہ واری حکومت پر اور صرف حکومت پر ہو گی-
مذبح قادیان کا معاملہ
میں اپنے ہی سلسلہ کی مثال لیتا ہوں- قادیان کا مذبح گرایا گیا اور ایسے حالات میں گرایا گیا کہ کوئی انصاف پسند انسان اس کو جائز نہیں قرار دے سکتا- ایک طرف ظلم` تعدی` بغاوت اور شرارت کا مظاہرہ تھا تو دوسری طرف نرمی` عفو` امن پسندی اور شرافت کا مظاہرہ تھا- پولیس کی موجودگی میں مذبح گرایا گیا- ایک سب انسپکٹر اور کئی کانسٹیبل وہاں موجود تھے انہوں نے ان حملہ آوروں کو روکا نہیں بلکہ کھڑے دیکھتے رہے اور پھر مقدمہ میں ایک شخص بھی مجرموں میں سے اپنے کیفر کردار کو نہیں پہنچا- دوسری طرف احمدیوں نے نہایت بردباری اور امن پسندی کا ثبوت دیا اور باوجود طاقت کے اس خوف کی وجہ سے ان شریروں کا مقابلہ نہ کیا کہ کہیں وہ امن شکنی کا موجب نہ ہو جائیں اور اسی یقین کی وجہ سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ حکومت ان مفسدوں کو خود سزا دے گی لیکن ان کا اعتماد بے محل ثابت ہوا- حکومت نے ایک مفسد کو بھی سزا نہیں دی- میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ علاقہ کے تھانہ دار اور پولیس کی موجودگی میں ایک مجرم کی بھی شناخت صحیح طور پر نہ ہو سکی ہو- پس سب مجرموں کا چھٹ جانا بتاتا ہے کہ یا تو اصل مجرموں کو پکڑا ہی نہ گیا تھا- یا یہ کہ مقدمہ کو جان بوجھ کر اس طرح چلایا گیا تھا کہ وہ لوگ بری ہو جائیں تاکہ دنیا یہ خیال کر لے کہ گورنمنٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور سکھ بھی گورنمنٹ سے ناراض نہ ہوں- اس وقت ایک ہی سوال حکام کے سامنے تھا اور وہ یہ تھا کہ سکھوں کو دسمبر ۱۹۲۹ء کی کانگریس کے اجلاس میں شامل ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے لیکن اگر حکومت وفادار رعایا کے حقوق کو تلف کر کے اس قسم کی کارروائی کرے تو اسے کب یہ امید ہو سکتی ہے کہ آئندہ مشکلات کے وقت میں اس کی تائید کی جائے گی-
کانگرس کی شورش کے ایام میں کام
مگر میں نے پھر بھی کانگرس کی شورش کے وقت میں ایسا کام کیا ہے کہ کوئی انجمن یا فرد اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا- اگر میں اس وقت الگ رہتا تو یقیناً ملک میں شورش بہت زیادہ ترقی کر جاتی اور یہ صرف میری ہی راہنمائی تھی جس کے نتیجہ میں دوسری اقوام کو بھی جرات ہوئی اور ان میں سے کئی کانگرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئیں-
ہم نیلام ہونے کے لئے تیار نہیں
لیکن باوجود اس کے مذبح کے معاملہ میں حکومت ہمارے احساسات کے ساتھ کھیلتی رہی ہے- اس نے جان بوجھ کر اس معاملہ کو اس قدر لمبا کیا ہے کہ کوئی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا- وہ ہماری جیبوں سے سکھوں کو عارضی طور پر روکے رکھنے کی قیمت دلوانا چاہتی ہے لیکن ہم نیلام ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں- ذمہ وار افسر دو سال سے ہمیں یہ کہتے چلے آتے ہیں کہ مذبح کا فیصلہ ہو گیا ہے بس اب جاری ہوتا ہے کچھ دن آپ لوگ اور صبر کریں- اپنے حقوق چھوڑ کر بھی سکھوں کو خوش رکھیں تاکہ مذبح کے کھولنے میں دقت نہ ہو- یہی آواز ہے جو ڈیڑھ سال سے ہمارے کانوں میں پڑ رہی ہے لیکن ہنوز روز اول والا معاملہ ہے- مذبح ہمارا حق ہے` اس حق کے لینے کے لئے زائد قیمت ادا کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے-
قادیان کی تعزیری چوکی
لطف یہ ہے کہ جو تعزیری چوکی بٹھائی گئی ہے علاوہ اس کے کہ اس کا رویہ نہایت قابل اعتراض ہے اس کے آنے پر چوریاں بڑھ گئی ہیں اور لوگ شبہ کرتے ہیں کہ یہ چوریاں خود بعض پولیس کے آدمی اس لئے کروا رہے ہیں تاکہ تعزیری چوکی کی معیاد بڑھائی جا سکے- نیت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیان میں پچھلی سردیوں میں اس قدر چوریاں ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے کئی سال میں بھی اس قدر نہ ہوئی ہوں گی- پس اگر بددیانتی نہیں تو بعض لوکل افسروں کی نالائقی اس سے ضرور ثابت ہوتی ہے-
تغزیری چوکی کا خرچ ][دوسری عجیب بات یہ ہے کہ اس چوکی کا خرچ جو علاقہ پر تقسیم کیا گیا ہے اس میں مسلمانوں پر خاص ظلم کیا گیا ہے حالانکہ قصور سکھوں کا تھا- کمین لوگ جو بچارے نہایت محنت سے مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں ان پر بار بہت زیادہ ڈالا گیا ہے اور سکھ زمینداروں پر بہت کم ڈالا گیا ہے- یہ ظلم برابر جاری ہے اور باوجود توجہ دلانے کے اس کی اصلاح نہیں ہوئی-
گورنمنٹ کا قابل تعریف فعل
ہم اس قدر ممنون ضرور ہیں کہ احمدی جماعت کو اس ٹیکس سے بری رکھا گیا ہے اور اسی طرح قادیان کے دوسرے باشندوں کو بھی اور میں اس ناراضگی کے وقت میں بھی گورنمنٹ کے اس فعل کے تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا- لیکن یہ امر ایسا تھا جس میں کسی دوسری قوم کی ناراضگی کا سوال نہ تھا اور یہ میں مانتا ہوں کہ جب سیاسی پالیسی کا سوال نہ ہو اس وقت انگریز افسر ہندوستانی سے زیادہ اعتماد کے قابل ہوتا ہے اور باجود ان لوگوں کے برا منانے کے میں اس خوبی کے اعتراف سے باز نہیں رہ سکتا-
ہمارا شکوہ
ہمیں اگر شکوہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت جب کہ کسی کثیرالتعداد قوم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوتا ہے اس وقت حکومت کے بعض افسران انصاف کی جگہ سیاسی نقطئہ نگاہ سے حالات کو دیکھنے لگتے ہیں اور اگر کثیرالتعداد لوگ ناراض ہوتے ہوں تو عدل اور انصاف کو ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں- اور یہ امر ہے جس کی اصلاح کی ضرورت ہے-
الفضل کو گورنمنٹ کی تنبیہہ
اسی قسم کی ایک تازہ مثال میں نے اپنے خطبہ میں پیش کی تھی اور وہ یہ کہ آریوں نے ابتداء کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ کو لیکھرام کا قاتل لکھا لیکن حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور ایسے شخصوں کو کوئی سزا نہیں دی- لیکن الفضل نے جب جواب دیا تو اس کو تنبیہہ کی گئی کہ اس میں لیکھرام کے خلاف مضامین کیوں لکھے گئے ہیں اور ایک وجہ تنبیہہ کی یہ بتائی گئی کہ لیکھرام کو لیکھو کیوں لکھا گیا ہے- حالانکہ جیسا کہ میں نے اپنے خطبہ میں بیان کیا ہے پنڈت لیکھرام کا اصل نام لیکھو ہی تھا- پس لیکھو کو لیکھو کہنا کوئی جرم نہیں تھا- لیکن حکومت نے اس پر تو اظہار ناراضگی کیا کہ لیکھو کو لیکھو کیوں لکھا ہے اور ان آریہ اخبارات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قاتل لکھتے ہیں- حالانکہ جب الفضل نے جوابی طور پر آریوں پر حملہ کیا تھا تو حکومت کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہئے تھا اور اپنے نفس میں شرمندہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم نے وقت پر ان شریروں کی زبان بندی نہیں کی جنہوں نے ایک ایسے شخص پر جو گورنمنٹ کا بھی محسن تھا ایسا گندہ الزام لگایا ہے-
آریوں کی دھمکی کا جواب
میرے اس خطبہ پر حکومت تو نہ معلوم کیا کارروائی کرے لیکن آریہ صاحبان بہت ناراض ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ اگر لیکھو کو لیکھو لکھا گیا تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مرزو یا غلمو لکھیں گے- میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ میرا نقطئہ نگاہ پہلے خوب سمجھ لیں- میرا نقطئہ نگاہ یہ ہے کہ-:
)۱( جب آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قاتل لکھا تو اپنی گندگی اور شرارت کا ثبوت دیا اور ہمارے پیشوا اور امام کو بلا وجہ گالیاں دیں- پس ہمارا حق ہے کہ ہم ان کو اسی رنگ میں جواب دیں اور ابتداء کرنے کے بعد آریوں کو ناراض ہونے کا ہرگز کوئی حق نہیں- ہاں وہ اپنی شرارت پر ندامت کا اظہار کریں اور آئندہ کے لئے توبہ کریں تو وہ ہم سے نیک سلوک کی امید رکھ سکتے ہیں- ورنہ اگر وہ گالیوں میں بڑھیں گے تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں` انہیں ایسے جواب سننے پڑیں گے جو ان کے لئے بہت تلخ ہوں گے اور دنیا بھی انہی پر الزام رکھے گی کیونکہ انہوں نے ظلم کی ابتداء کی ہے-
ایک اور آریہ اخبار کا بے ہودہ نوٹ
مجھے ایک آریہ اخبار کا یہ نوٹ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ ہم نے تو مرزا صاحب کو کچھ بھی برا نہیں کہا- ہم نے تو صرف انہیں قاتل لکھا ہے اور یہ تو ہر قوم کے آدمیوں کا خیال ہے- اول تو یہ امر غلط ہے کہ سب اقوام کے لوگ ایسا سمجھتے ہیں سوائے چند خبیث لوگوں کے سب شریف آدمی یہی سمجھتے ہیں کہ لیکھرام یا اپنے کسی شخص کے ہاتھ سے مارا گیا یا اس کے مارنے والا کوئی بے تعلق شخص تھا جس نے اسے مذہبی جوش میں قتل کر دیا- اور جو لوگ زیادہ دلیر ہیں اور لوگوں سے نہیں ڈرتے وہ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یہی کہتے ہیں کہ لیکھرام کے قتل کا واقعہ ایسا ہے کہ اسے الہی فعل کے سوا کسی اور امر کے طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا-
آریہ اخبارات کی دنایت
دوسرے یہ امر ان آریہ اخبارات کی دنایت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کسی کو قاتل کہنا معمولی بات سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں کوئی گالی نہیں ہے- جب کوئی قوم اخلاق سے عاری ہو جاتی ہے تو نہ صرف یہ کہ اس سے بد اخلاقی کے کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے بلکہ وہ بداخلاقی کو بداخلاقی بھی نہیں سمجھتی- یہی حال معلوم ہوتا ہے آریوں میں سے ایک گروہ کا ہے کہ وہ ایک مقدس ہستی کو قاتل کہہ کر پھر خیال کرتے ہیں کہ ہم نے گالی نہیں دی- گویا کہ وہ اس لفظ کو بہت اچھا سمجھنے لگے ہیں- شاید کانپور` بنارس وغیرہ مقامات پر عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے بعد اب وہ اپنی فطرتوں کو تسلی دینے کے لئے اس عیب کو عیب نہ قرار دیتے ہوں لیکن انہیں یاد رہے کہ احمدی اور ہر شریف انسان قتل کو گناہ اور عیب سمجھتا ہے اور اپنے بزرگوں کی نسبت اس لفظ کے استعمال کو گالی قرار دیتا ہے- پس جب انہوں نے یہ لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسبت استعمال کیا اور اب تک کر رہے ہیں تو احمدی جو کچھ شائع کریں گے جوابی ہو گا اور اخلاقی ذمہ داری خود آریوں پر یا حکومت پر ہو گی-
اعزازی خطاب استعمال کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا
)۲( دوسری بات میرے نقطئہ نگاہ کے متعلق انہیں اور حکومت کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ میرے نزدیک حکومت یا کسی قوم کا یہ حق نہیں کہ ہم کسی دوسری قوم کے اعزازی خطاب اس کے افراد کے متعلق استعمال کریں- اخلاقی طور پر ہم سے یہ تو امید رکھی جا سکتی ہے کہ ہم ظاہری آداب کو ملحوظ رکھیں لیکن یہ نہیں کہ ہم ان کے خود ساختہ خطابات کو بھی استعمال کیا کریں- لالہ منشی رام جی بعد میں سوامی شردھانند بن گئے اب ہم سے یہ تو توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم لالہ اور جی کا لفظ ان کے نام کے ساتھ لگائیں یا اور کوئی ادب کا لفظ ان کے نام کے ساتھ بڑھا دیں جو عام گفتگو میں استعمال ہوتا ہو لیکن اس امر پر ہمیں مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ ہم منشی رام کا نام چھوڑ کر انہیں شردھانند لکھا کریں- اسی طرح گاندھی جی کو جی کہہ کر یا صاحب کہہ کر پکارنے کی تو ہم سے امید کی جا سکتی ہے اور اخلاقا ہمیں ایسا کرنا چاہئے لیکن ہم سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ ہم انہیں مہاتما بھی کہیں- چنانچہ اسمبلی میں ایک دفعہ ایک گورنمنٹ ممبر نے جب مسٹر گاندھی کہا اور لوگوں نے شور مچایا تو اس نے نہایت زور سے کہا کہ مہاتما میں نہیں کہہ سکتا میں مسٹر ہی کہوں گا اور اسی طرح ایک دفعہ غالباً مسٹرجناح کے ساتھ بھی ہوا-
غرض عرف عام کے مطابق اخلاقاً ایک دوسرے کے نام کے ساتھ صاحب وغیرہ کے الفاظ لگانے تو ضروری سمجھے جاتے ہیں لیکن ماں باپ کے رکھے ہوئے نام کے سوا دوسرے اختیار کردہ یا عطاء کردہ نام لینے ہرگز ضروری نہیں اور اس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا-
لیکھو نام والدین نے رکھا
پس میرے نقطئہ نگاہ کے مطابق پنڈت لیکھرام کو لیکھو لکھنا ہرگز خلاف اخلاق نہیں کیونکہ ان کا نام ان کے والدین نے لیکھو ہی رکھا تھا جیسا کہ لالہ منشی رام جی المعروف سوامی شردھانند جی کی تحریر کردہ سوانح عمری سے ظاہر ہے- سوامی شردھانند پنڈت لیکھو صاحب سے بڑی حیثیت کے آدمی تھے اور خود ان کی پارٹی کے تھے اور پھر ان کے ہم وطن تھے- پس ان کی تحریر کو دشمن کی تحریر نہیں کہا جا سکتا اور ان کی شہادت اس لئے زیادہ معتبر ہے کہ انہوں نے یہ بات پنڈت لیکھو صاحب کے چچا سے سن کر لکھی ہے- پس اب آریہ صاحبان اور حکومت کے لئے اصولا صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ یہ ثابت کر دیں کہ سوامی شردھانند جی نے جو کچھ لکھا ہے عداوت سے اور جھوٹ لکھا ہے- تب بے شک وہ ہم سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پنڈت لیکھرام کو لیکھرام لکھا کرو اور اگر وہ ایسا ثابت کر دیں تو گورنمنٹ سے پہلے میں الفضل کو تنبیہہ کروں گا- لیکن اگر سوامی شردھانند جی نے سچ لکھا ہے اور پنڈت جی کا نام لیکھو ہی تھا تو لیکھو کو لیکھو لکھنے پر وارننگ دینے میں حکومت نے نہایت بے انصافی سے کام لیا ہے اور اس پر شور مچانے والے آریوں نے حماقت سے-
مسیح موعود کا نام والدین نے کیا رکھا
اب اوپر کی بات کو سمجھ کر آریہ اخبارات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مرزو لکھیں یا غلمو یا سندھی جیسا کہ انہوں نے نوٹس دیا ہے- لیکن اگر انہیں شرافت انسانی سے کوئی بھی حصہ ملا ہے تو انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام ان کے والد نے غلاماحمد نہیں بلکہ مرزو یا غلمو رکھا تھا غلام احمد بعد میں انہوں نے خود یا ان کی جماعت نے رکھ لیا- اگر وہ یہ ثابت کر دیں گے تو ہمیں ہرگز ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ ہم انہیں حق بجانب سمجھیں گے-
اسلامی بادشاہوں کی ہتک
میں نے اپنے خطبہ میں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ مسلمانوں کے بزرگوں کی طرح مسلمانوں کے بادشاہوں کے خلاف بھی ہندوئوں کا ایک طبقہ خصوصاً آریہ بد کلامی اور دشنام دہی سے کام لیتا رہتا ہے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی- لیکن اسلامی بادشاہوں کے باغی جو بھگتسنگھ وغیرہ کے طریق پر چلتے رہے ہیں جیسے سیواجی وغیرہ- جب بعض اسلامی اخبارات نے ان کی اصلیت کو بے نقاب کرنا چاہا ہے تو حکومت اس میں دخل دیتی رہی ہے- لیکن یہ بے اصولاپن ہے اور اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ حکومت بعض موقعوں پر عدل اور انصاف کے ماتحت نہیں بلکہ ضرورت اور ذاتی اغراض کے ماتحت کام کرتی ہے- اگر یہ نہیں تو حکومت اس امر میں امتیاز کر کے دکھاوے کہ کیوں سیوا جی کو برا کہنے پر وہ قانون کو جنبش دیتی ہے لیکن اورنگ زیب کو برا کہنے پر کچھ نہیں کہتی اور کیوں وہ سیواجی کے خلاف لکھنے والوں پر اظہار ناراضگی کرتی ہے جب کہ وہ بھگت سنگھ کی تائید میں جو یقیناً سیواجی سے بڑھ کر حب وطنی کے جذبہ سے معمور تھا مضمون لکھنے والوں کو ملک کے امن کا برباد کرنے والا قرار دیتی ہے-
سیواجی اور بھگت سنگھ کا مقابلہ
یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر سیواجی اور بھگتسنگھ کا مقابلہ کیا جائے تو بھگت سنگھ یقیناً سیواجی سے زیادہ حب وطن کے جذبات سے معمور تھا کیونکہ سیواجی کو لوٹ مار کی بھی خواہش تھی جو بھگت سنگھ کو نہ تھی- سیواجی کو احتمال تھا کہ اگر میں جیتا تو ملک کا بادشاہ ہو جائوں گا لیکن بھگتسنگھ جانتا تھا کہ میں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں کامیاب بھی ہو جائوں تب بھی حکومت گاندھی جی اور نہرو جی کے قبضہ میں جائے گی اس کے نام صرف شاباش ہی شاباش لکھی جائے گی- سیواجی جانتا تھا کہ وہ بھی اورنگ زیب کی طرح تلوار چلا سکتا ہے اور مقابلہ کر کے ہوس نکال سکتا ہے- لیکن بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اسے چوری چھپے حملہ کرنے کے سوا برسر پیکار آنے کا موقع میسر نہیں- سیواجی کے پیچھے اس کی قوم کی امداد تھی اور بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اس کی قوم کے بزدل مخفی طور پر شاباش دینے کے سوا اس کی کوئی امداد نہیں کریں گے- بلکہ ظاہر میں اس کے فعل برائت کا اظہار کرتے رہیں گے- سیواجی جانتا تھا کہ مسلم بادشاہ اپنی قدیم روایات کے مطابق اس سے نرمی کا سلوک کرے گا- بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اسے انگریزی قانون کے ماتحت ایک فوجی کی موت مرنے کا بھی موقع نہیں دیا جائے گا بلکہ ایک مجرم کی موت مرنے پر مجبور کیا جائے گا- سب سے آخر میں یہ کہ سیواجی اس بادشاہ کے مقابل پر کھڑا ہوا تھا جس نے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا تھا اور جسے غیر ملکی بادشاہ نہیں کہا جا سکتا تھا- لیکن بھگت سنگھ ایک غیرملکی حکومت کے خلاف کھڑا تھا- پس ان سب امتیازوں اور ان کے علاوہ اور بہت سے امتیازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیواجی یقیناً بھگت سنگھ سے بہت ادنیٰ تھا اور اگر اس کا فعل قابل تعریف تھا اور اس کے خلاف لکھنا جرم ہے تو یقیناً بھگت سنگھ کا فعل اس سے سینکڑوں گنے زیادہ قابل تعریف ہے اور اس کے خلاف لکھنا اور بھی جرم ہے-
ملک معظم کے بعض نمائندوں کی غداری
حقیقت یہ ہے کہ ملک معظم کے ان نمائندوں میں سے جو ہندوستان میں مقرر ہیں بعض نے اورنگ زیب کے خلاف مضمون لکھوا کر اور سیواجی کی تعریف کر کے اس اعتماد کو جو ملک معظم نے ان پر کیا تھا غلط ثابت کر دیا ہے اور حکومت برطانیہ سے غداری کی ہے اور فسادات اور بغاوت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے کہ کانگریس پر بھی اس سے بڑھ کر الزام نہیں لگایا جا سکتا- وہ خیال کر رہے تھے کہ ہم اورنگ زیب کو برا بھلا کہلوا کر اور سکول کے کورسوں میں اس کی مذمت لکھوا کر ہندوستان کے ماضی کو مٹا رہے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہندوستان کا بے حد چالاک پنڈت اسی ذریعہ سے اپنے لئے ایک شاندار مستقبل تیار کر رہا ہے اور برطانیہ کی ہندوستانی حکومت کے عین دل پر اسی طرح ایک خنجر مار رہا ہے جس طرح سیواجی نے افضل خان کے دل پر خنجر مارا تھا- سچ ہے چاہ کن را چاہ درپیش-
مسلمانوں کا گورنمنٹ سے مطالبہ
اورنگ زیب کا بدلہ حکومت برطانیہ نے لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے بدلہ لیا اور بہت عبرتناک طور پر لیا- یعنی سیواجی کو بھگت سنگھ کے بھیس میں کھڑا کر کے حکومت سے اس کے رویہ کی مذمت کروا دی اور اس کی پالیسی کی غلطی کا اس سے اعتراف کروا لیا- لیکن مسلمانوں کا حق ابھی موجود ہے وہ حق رکھتے ہیں کہ حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ یا تو اورنگ زیب اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بے معنی پروپیگنڈا کو بند کروایا جائے کہ جو اول انگریزوں نے شروع کیا اور اب اسے مہاسبھائی ذہنیت کے ہندو جاری رکھے جا رہے ہیں- یا پھر مسلمان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت کے نزدیک بھگت سنگھ کا یہ فعل بھی قابل تحسین ہے- اور اگر بعض لوگ اپنی اولادوں کے دلوں میں اس نیک فعل کی یاد تازہ رکھنے کے لئے بھگتسنگھ کی برسی منایا کریں تو یقیناً مسلمان ان سے ہمدردی رکھیں گے- لیکن کیا حکومت اس فعل کو جائز رکھے گی؟
سیواجی اور بھگت سنگھ دونوں قاتل اور باغی تھے
قتل اور بغاوت بہرحال قتل اور بغاوت ہیں خواہ گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے انہیں برکت حاصل ہو یا کانگریس کی طرف سے- ہم تو بااصول آدمی ہیں ہم تو سیواجی اور بھگت سنگھ دونوں کو قاتل اور باغی سمجھتے ہیں اور دونوں کے فعل کو قابل ملامت خیال کرتے ہیں اور انگریزی حکومت کو سیواجی کی پشت پناہی اور کانگریس کو بھگت سنگھ کی تائید کے لئے یکساں مجرم خیال کرتے ہیں- ان دونوں نے ملک کے اخلاق بگاڑ دیئے ہیں اور دونوں خدا اور مخلوق کے سامنے جواب دہ ہیں- کاش گورنمنٹ سیواجی کی حمایت اور اورنگزیب کی مذمت کر کے بھگت سنگھ پیدا نہ کرتی اور کانگریس بھگت سنگھ کی تائید کر کے آئندہ نسلوں کے قاتل اور غارت گر بننے کے لئے راستہ نہ کھولتی-
‏]bsu [tag ایک آریہ اخبار اور اورنگ زیب
ایک آریہ اخبار اپنی عادی ناسمجھی سے کام لے کر میرے خطبہ کے اس حصہ کے متعلق یہ لکھتا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے باپ کو قید کیا اس کی تائید کس طرح کی جا سکتی ہے- گویا سیواجی اس کے خیال میں اس لئے قابل تعریف ہے کہ اس نے اورنگ زیب کا مقابلہ اس کے اپنے باپ سے بغاوت کرنے کے سبب سے کیا تھا لیکن یہ درست نہیں- سیواجی خود ہی اپنے والد کا فرمانبردار نہ تھا وہ اورنگ زیب کے خلاف اس لئے کیونکر کھڑا ہو سکتا تھا اور اگر اس کے اس طرح کھڑے ہونے کی یہی وجہ تھی تو اس نے حاجیوں کو لوٹنے کا ارتکاب کس جرم کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا تھا اور اگر یہ درست ہے کہ سیواجی اس لئے بغاوت پر آمادہ ہوا تھا کہ شاہجہان کا بدلہ لے تو جہانگیر اور شاہ جہان کے اس قسم کے فعل کا مقابلہ کرنے کے لئے کون سا ہندوسورما کھڑا ہوا تھا-
مغل شہزادوں کی بغاوت کی وجہ
اصل بات یہ ہے کہ مغل شہزادوں کی بغاوت جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہندو راجائوں کی ریشہ دوانی کی وجہ سے تھی- ہر مغل شہزادہ جو بغاوت پر آمادہ ہوا وہ ہندو راجائوں کی مخفی تائید رکھتا تھا- پس یہ بغاوتیں درحقیقت ہندوئوں کی چالاکیوں سے اور اسلامی حکومت کی تباہی کی غرض سے ہوئی تھیں اور شاہزادوں کا یہ قصور تھا کہ وہ اپنے ہندو مشیروں کے فریب میں آ گئے اور ان کی چکنیچپڑی باتوں کو انہوں نے قبول کر لیا- صرف اورنگ زیب ہی ایک مغل شہزادہ تھا جس نے اپنے بھائیوں کا مقابلہ اصول کے ماتحت کیا- یعنی اس نے صرف اس وجہ سے اپنے بھائیوں سے جنگ کی کہ وہ ہندو اثر سے متاثر ہو کر جن اصول پر اس وقت حکومت کی بنیاد قائم تھی انہی کو توڑنے لگے تھے- پس اورنگ زیب نے اس وقت کی کانسٹی ٹیوشن کی تائید کی اس وجہ سے وہ باغی نہ تھا بلکہ اس کا مقابلہ کرنے والے باغی تھے اور اس کے خلاف لکھنے والے آریہ مصنف صرف اس وجہ سے اس کے خلاف لکھتے ہیں کہ اس نے ان کی سازشوں کو تباہ کر دیا اور دوسرے مغل بادشاہوں کے خلاف اس لئے نہیں لکھتے کہ وہ خود ہندو راجائوں کا آلہ کار تھے-
ہندو ریاستوں کے صریح مظالم
اگر آریہ اخبارات سیواجی کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ اس نے ظالم حکومت کا مقابلہ کیا تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ صریح ظلم جو اس وقت بہت سی ہندو ریاستوں میں ہو رہا ہے کیا وہ پسند کریں گے کہ مسلمان بھی سیواجی کی اتباع کر کے اسی کے اصول کو اختیار کر کے ان ریاستوں کے حکام سے وہی معاملہ کریں جو سیواجی نے اورنگ زیب اور اس کے جرنیل افضل خان سے کیا تھا اگر وہ بااصول ہیں اور محض شرارت سے سیواجی کی تعریف نہیں کرتے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اس امر کا کھلے طور پر اعلان کریں کہ سیواجی نے جو کچھ کیا وہ درست تھا اور ویسا ہی معاملہ کرنا ہر اس شخص کے لئے جائز ہے جو خیال کرتا ہو کہ حکومت ظلم کر رہی ہے اور پھر وہ تمام لوگ جو بعض ہندو ریاستوں کے ان شدید مظالم کا جواب دینے کے لئے سیواجی کے اصول پر کھڑے ہوں ان کی تائید کریں اور سیواجی کی طرح ان کی بھی عزت قائم کریں- تب بیشک میں سمجھوں گا کہ ان کا یہ فعل شرافت پر مبنی ہے-
آریہ اخبارات اور بھگت سنگھ
میں ان آریہ اخبارات سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ اگر سیواجی کا فعل درست تھا تو کیوں وہ بھگت سنگھ کی کھلے طور پر تعریف نہیں کرتے- اس کے معاملہ میں وہ یا تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے حکومت کے خلاف قتل کا کوئی ارادہ ہی نہیں کیا اور یا پھر یہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کا یہ فعل برا تھا گونیت نیک تھی- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ سیواجی کی تعریف جھوٹے طور پر کرتے ہیں اور یا پھر وہ بھگت سنگھ کے فعل کو برا قرار دینے میں منافقت سے کام لیتے ہیں- ان دونوں صورتوں سے باہر اور کوئی صورت نہیں ہے- اگر اور کوئی صورت ممکن ہے تو وہ اسے پیش کریں- لیکن وہ یاد رکھیں کہ گالیاں دینا اور بات ہے لیکن دلائل سے وہ ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ثابت نہیں کر سکتے- پس آریہ یقیناً یا تو سیواجی کی تعریف کرنے میں منافقت سے کام لے رہے ہیں یا بھگت سنگھ کے فعل کو برا قرار دینے میں- لیکن حق یہی ہے کہ دوسرے فعل میں وہ منافقت سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اورنگ زیب زندہ نہیں لیکن حکومت ہند باوجود خود کشی کی پالیسی اختیار کرنے کے پھر بھی انہیں سزا دینے کے قابل ہے اور آریوں کا سیواجی اور بھگت سنگھ کے متعلق متضاد رویہ محض ڈر سے ہے نہ کسی اصل کی پابندی کی وجہ سے لیکن ہر شریف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق کیسا گندہ اور کیسا مکروہ ہے-
اب میں اپنا نقطئہ نگاہ بیان کر چکا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ حکومت اور آریہ جو بھی میرے مضامین کے متعلق کوئی قدم اٹھانا چاہے اس کو اچھی طرح سمجھ لے تابعد میں انہیں ندامت نہ اٹھانی پڑے اور آریہ صاحبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خواہ کس قدر بھی گالیاں دیں اس سے ہمیں نقصان نہیں پہنچ سکتا- میں جانتا ہوں کہ جس بنیاد پر میں نے اپنے دعویٰ کو رکھا ہے وہ نہایت مضبوط ہے اور آریہ باوجود پورا زور لگانے کے اس کو رد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے-
الفضل کو تنبیہہ
میرا کام واضح ہے- ہمارے سلسلہ کے بانی کا احترام ہماری نظر میں اس سے ذرہ بھر بھی کم نہیں جس قدر کہ سناتن دھرمیوں کے دل میں کرشن جی اور رام چندر جی کا احترام ہے اور مسیحیوں کے نزدیک حضرت مسیح کا- پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی عزت کی حفاظت کے لئے پورا زور لگائیں- میں کسی صورت میں خلاف اخلاق اور جھوٹ پر مشتمل مضمون کی اجازت نہیں دوں گا- چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک مضمون پر میں الفضل کو تنبیہہ کر چکا ہوں-
گورنمنٹ اور آریہ رویہ بدلیں!
لیکن جب تک کہ حکومت آریوں کو اس گندے الزام کے لگانے سے جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگاتے ہیں نہیں روکے گی میں اور جماعت احمدیہ ہرگز دوسری جماعتوں کے بزرگوں کا ادب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے- بزرگوں کا احترام ایک سودا ہوتا ہے اور اس کی قیمت دونوں فریق کے لئے ادا کرنی ضروری ہے- پس ہم برابر ایسے سامان پیدا کرتے چلے جائیں گے جن کی وجہ سے ایک طرف حکومت مجبور ہو کر اپنے رویہ کو بدلے اور دوسری طرف آریہ لوگ بھی مجبور ہوں کہ اخلاق کے معنی سیکھیں اور اخلاقی تعلیم پر عمل کریں- اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے تو اسے چاہئے کہ آئندہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مسلمانوں کے دوسرے بزرگوں اور بادشاہوں کی عزت کی حفاظت کرے- اس کے بعد اگر ہم کوئی تحریر ایسی شائع کریں کہ جس میں آریوں یا کسی اور قوم کے بزرگ کی ذاتی ہتک ہو تو بے شک ہم قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی مجرم ہوں گے لیکن اس سے پہلے نہیں اور ہرگز نہیں-
مضمون کا دوسرا حصہ
میرے مضمون کا ایک حصہ ابھی باقی ہے اور وہ ان غلط فہمیوں کے متعلق ہے جو میرے خطبہ سے خود احمدی جماعت یا دوسرے مسلمانوں کو پیدا ہوتی ہیں میں اس کے متعلق کچھ دوسرے مضمون میں بیان کروں گا لیکن سردست تو آشوب چشم کی وجہ سے یہ مضمون بھی میں نے تکلیف سے لکھا ہے اور کئی دن میں جا کر ختم کیا ہے-
)الفضل ۲۸- مئی ۱۹۳۱ء(
‏A۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A۔۔۔۔۔A
٭٭٭
انوار العلوم جلد ۱۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
انگلینڈ اور ہندوستان کے چیدہ اصحاب کی آراء
چونکہ گول میز کانفرنس میں مسائل ہند کے متعلق گفتگو شروع ہو چکی تھی اس لئے مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات اور ان کی معقولیت سے سیاسی لیڈروں اور حکومت ہند اور برطانیہ کے ارکان کو آگاہ کرنے کے لئے اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن انگلستان اور ہندوستان میں بکثرت مفت تقسیم کیا گیا- اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر جو آراء ظاہر کی گئیں ہیں ان میں سے چند ایک بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں-:
لارڈ میسٹن سابق گورنر یو- پی-:
>میں آپ کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی نہایت دلچسپ تصنیف ارسال فرمائی ہے- میں نے قبل ازیں بھی ان کی چند تصنیفات دلچسپی سے پڑھی ہیں- مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا پڑھنا میرے لئے خوشی اور فائدے کا موجب ہوگا<-
لفٹینٹ کمانڈر کینوردی ممبر پارلیمنٹ-:
>کتاب ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کے ارسال فرمانے پر آپ کا بہت ممنون ہوں- میں نے اسے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے<-
سر میلکم ہیلی گورنر صوبہ یو-پی و سابق گورنر پنجاب-:
>میرے پیارے مولوی صاحب )امام مسجد لنڈن(
اس کتاب کے لئے جو آپ نے امام جماعت احمدیہ کی طرف سے میرے نام بھیجی ہے- میں آپ کا بہت ممنون ہوں- جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں اور میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں- اور اس روح کو خوب سمجھتا ہوں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں- جسے لیکر وہ ہندوستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے کام کر رہی ہے- مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب میرے
٭٭٭
۱~}~
‏D۔H۔P۔A۔M ۔Strong۔F۔C Dr, by Constitutions Political Modern
‏ 1930 London in Published 222 Page London
۲~}~
‏by States United the in Government Constitutional
‏ 54 Page, Wilson Woodrow ۔Mr
۳~}~
ڈوور: شہر اور بندر گاہ- کینٹ انگلستان کی کھریا مٹی کی ڈھلوان چٹان کے نیچے ایک خلیج کے کنارے واقع ہے- یہ پانچ بندرگاہوں میں سب سے بڑی ہے جسے انگلستان کی کلید کہا جاتا ہے- پہلی عالمی جنگ میں اہم بحری اڈہ تھا اور دوسری عالمی جنگ میں دور مار جرمن توپوں کا مسلسل نشانہ بنا رہا- ڈوور کا تاریخی حصار اور شیکسپیئر کی چٹان قابل دید مقامات ہیں-
)اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ ۶۲۸ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور(
۳~}~
۴~}~
‏414,415 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
‏haweng1] [tag۵~}~
‏219 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
۶~}~
‏225 Page O`Dwyer Michael Sir, by it Know I is India
۷~}~
‏89 Page Vol,I Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published
۸~}~
‏ Vol,II Bryce James Lord by Democracies Modern
‏haweng2] [tag۔1929 London in Published 548,549 Page
۹~}~
‏Bryce James Lord by Democracies Modern
۔929 London in Published 566,567 Page Vol,II
۱۰~}~
‏ Bryce James Lord by Democracies Modern
۔1929 London in Published 568 Page Vol,I
۱۱~}~
‏ Report Chelmsford -Montague جنگ عظیم اول میں حکومت برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا جب جنگ ختم ہوئی تو ہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجی ٹیشن کا رنگ اختیار کر گئے- لارڈ چیمس فورڈ جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے نے مسٹر مانٹیگو Montague)۔(MR کی معیت سے ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کر کے ایک رپورٹ تیار کی جو مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے نام سے مشہور ہے- پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ سکیم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی- اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا-
ملخص از نیوتاریخ انگلستان صفحہ۳۱۳ مطبوعہ لاہور` آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان صفحہ ۱۳۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۷ء یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۵` ۳۶۶ مطبوعہ لاہور(
۱۲~}~ سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۵
۱۳~}~ سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۸
۱۴~}~
‏Strong۔F۔C Dr, by Constitutions Political Modern
‏1930 London in Published 163 Page London D۔H۔P۔A۔M
۱۵~}~
‏ Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 67 Page Vol,I
۱۶~}~
سناتن دھرم پرچارک ۱۸- اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۷~}~
‏h2] ga[t مسافر آگرہ )اخبار( جلد نمبر۲ صفحہ۲۲
۱۸~}~
ہندو سنگھٹن اور آریہ سماج صفحہ۱۸۸
۱۹~}~
ویدک انڈیا طبع دوم صفحہ۹۷
۲۰~}~
گدھ کا پراچین اتھاس صفحہ۷۲` ۷۳
۲۱~}~
سٹیٹس مین کلکتہ
۲۲`۲۳~}~
اخبار وکیل ۹ دسمبر ۱۹۲۵ء
۲۴`۲۵`۲۶~}~
ملاپ لاہور ۲۵ مئی ۱۹۲۵ء
۲۷`۲۸~}~
ملاپ ۲۳ جون ۱۹۲۸ء
۲۹~}~
اخبار تیج دہلی
۳۰~}~
آریہ ویر
۳۱~}~
گروگھنٹال اشاعت ۱۰ جنوری ۱۹۲۷ء
۳۲~}~
پرتاب
۳۳~}~
‏ Lawrance Walter Sir by served> we which <India
۳۴~}~
سائمن رپورٹ جلد اول صفحہ ۳۰
۳۵~}~
‏ 118 Page Mair۔P۔L by Minorities of protection The
‏Press River Chapel the at Printed
‏1928 in Published London Surry Kingston
۳۶~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۴۳
۳۷~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۲۳
۳۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۱۳۰
‏]1h [tag۳۹~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۲۹`۱۳۰
۴۰~}~
‏Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 542 Page Vol,I
۴۱~}~
‏ Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 401 Page Vol,I
۴۲~}~
‏Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 401`402 Page Vol,I
۴۳~}~
‏ William Professor by Europe of Goverments The
‏ 738 Page B۔L۔L۔D۔H۔P Munroe Bennett
‏1963 A۔S۔U the in Printed
۴۴~}~
‏James۔M ۔Mr by State United the of Constitution
‏117 Page General Saltus Beck
۴۵~}~
‏James۔M ۔Mr by State United the of Constitution
‏116 Page General Saltus Beck
۴۲~}~
‏ Bryce James Lord by Democracies Modern
‏1929 London in Published 382`384 Page Vol,I
۴۷~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۸
۴۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۸۲
۴۹~}~
‏]2gnehaw James[tag۔M ۔Mr by State United the of Constitution
‏116 Page General Saltus Beck
۵۰~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۳۶
۵۱~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۵۶
۵۴~}~
‏James۔Mr by State United the of Constitution
‏127 Page General Saltus Beck
۵۳~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۱۷۱
۵۴`۵۵~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۱
۵۶`۵۷~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۱`۷۲
۵۸~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ ۷۶
۵۹~}~
‏ of lows and Administration Constitution The
‏172 Page Keth۔C۔B۔R ۔Mr by Impire The
۶۰~}~
سائمن رپورٹ جلد۱ صفحہ ۵۱
‏2] f[st۶۱~}~
سائمن رپورٹ جلد۱ صفحہ ۵۲
۶۲~}~
22۔P Muse Romsay ۔Mr by Governed is Briton How
۶۳~}~
سائمن رپورٹ جلد۲ صفحہ۱۹
۶۴~}~
میمورنڈم پیش شدہ روبرو سائمن کمیشن صفحہ۴
۶۵~}~
‏ William Professor by Europe of Goverments The
‏ 604,605 Page B۔L۔L۔D۔H۔P Munroe Bennett
‏]1haweng [tag
‏1963 A۔S۔U the in Printed
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۵ء(
دنیا کا ہر ایک کام ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہوتا ہے اور ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ خدا انسان سے جبراً کوئی کام کراتا ہے` پھر بھی یہ اس کی صفات کا عین تقاضا ہے کہ دنیا کا ایک ذرہ بھی اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتا جب تک خدا کا اذن نہ ہو- اگر کوئی زندہ خدا نہیں- تو پھر کوئی زندہ مذہب بھی نہیں اور اگر زندہ مذہب نہیں تو اس کی خاطر تکلیف برداشت کرنا اموال اور اوقات صرف کرنا بھی عقل کے خلاف ہے- مگر اصل بات یہ ہے کہ زندہ خدا ہے اور اسی کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے اور علاوہ اس کے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے` خدا تعالیٰ کے امر اور اس کے حکم اور اس کے فیصلہ سے ہو رہا ہے- ہماری جماعت کے کاموں میں ایک خاص خصوصیت ہے- اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے کام تقدیر عام کے ماتحت نہیں بلکہ تقدیر خاص کے ماتحت ہوتے ہیں- ہر انسان جو سانس لیتا ہے تقدیر عام کے ماتحت لیتا ہے- اسی طرح ہر قوم جو دنیا میں ترقی اور تنزل کرتی ہے تقدیر عام کے ماتحت کرتی ہے- مگر ہم جو قدم اٹھاتے ہیں تقدیر خاص کے ماتحت اٹھاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عام تقدیر اس کی موید ہوتی ہے- پس میں سالانہ جلسہ کے شروع کرنے سے قبل جس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت اس کے مرسل نے رکھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے تمام کاموں میں برکت دے` ہماری نیتوں میں برکت دے` ہمارے قلوب درست کرے` ہماری کمزوریوں کو معاف کر کے اپنے فضل سے اس کام کو بلند کرے جس کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا- میں احباب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ دعا میں شامل ہوں تاکہ جو کام ہم شروع کرنے والے ہیں وہ خدا کا کام ہو نہ کہ ہمارا- اور اس کی ابتدا ہمارے نفوس سے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے اذن سے ہو-
)اس کے بعد لمبی دعا کی گئی اور پھر حضور نے فرمایا:)
اب پروگرام کے مطابق انشاء اللہ جلسہ کی کارروائی شروع ہوگی مجھے چونکہ اور کام ہے اس لئے میں جاتا ہوں- دوستوں کو چاہئے کہ دور دراز سے ہمت کر کے آئے ہیں تو جلسہ کے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں اور لیکچر دینے والے جو بات کہیں اسے غور سے سنیں کیونکہ جب تک غور سے کوئی بات نہ سنی جائے اس کا فائدہ نہیں ہوتا اور مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے خدا کی بات کی جائے تو ڈھیلا ہو کر خدا کے حضور گر پڑتا ہے- پس احباب ہر ایک بات غور اور توجہ سے سنیں-
)الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۶ء(
فسادات لاہور پر تبصرہ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ -ھوالناصر
برادران! السلام علیکم
پچھلے منگل ` بدھ اور جمعرات کو لاہور میں جو فساد ہوا ہے اس کے واقعات سے تو آپ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ واقف ہیں` اس لئے ان کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- ہاں میں اس امر پر افسوس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بے گناہ مسلمانوں کو جو نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے` بعض ہندئووں اور سکھوں نے ہندئووں کے اشتعال دلانے پر بے دردی سے قتل کر دیا اور پھر ان کے جنازہ کے وقت بلا کسی انگیخت کے سنگ باری کر کے جلتی ہوئی آگ پر اور تیل ڈالا- ہاں میں اس موقع پر ان لوگوں کی موت پر بھی افسوس کرتا ہوں جو سکھوں یا ہندئووں میں سے اس جوش و فساد کے موقع پر مارے گئے- میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے اکثر اسی طرح بیگناہ تھے جس طرح کہ مسلمان کیونکہ ان کا جرم ثابت نہیں کیا گیا- جس طرح سوامی شردھانند کے مارے جانے پر قاضی محبوب علی صاحب کا مارا جانا جائز نہ تھا اسی طرح مسلمان مقتولین کے بدلہ میں ان لوگوں کا مارا جانا درست نہ تھا اور گو البادیاظلم کے ماتحت ہندو اور سکھ صاحبان یقیناً ظالم ہیں جنہوں نے ابتداء کی اور بے دردانہ ابتداء کی اور پھر اپنے ظلم پر اصرار کیا اور اس کو جاری رکھا- لیکن باوجود اس کے ہندئووں اور سکھوں کے مقتولین پر بھی ہمیں اخلاقاً اور شرعاً اظہار افسوس کرنا چاہئے اور چاہئے کہ ایسے مواقع پر آئندہ اس قسم کا بدلہ نہ لیا جائے- اسلام کا فخر اس کی مظلومیت میں ہے اور ہمیں رسول کریم ~صل۲~ فداہ نفسی و روحی کے اسوہ حسنہ پر چل کر بتا دینا چاہئے کہ مسلمان کے جذبات ہمیشہ اس کے قابو میں رہتے ہیں-
ہمیں اپنا بدلہ اس تعلیم سے اور اس تعصب سے لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں یہ واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اور ہمیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ ہندوستان کے ہر گھر میں اسلامی تعلیم کو قائم کر دیں- تا نہ یہ اختلاف مذاہب رہے اور نہ یہ خونریزیاں ہوں- ان تمام فسادات کا علاج صرف تبلیغ اسلام ہے اور اس کام کے لئے ہمیں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے- عارضی جوش اسلام کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا- اسلام ہم سے اس قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر روز کی جائے` دن کو بھی اور رات کو بھی- وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنے آرام اور اپنی آسائش کو اس کے لئے قربان کر دیں- ہم اس کی اشاعت کے لئے اپنے سارے ذرائع کو استعمال کریں اور سانس نہ لیں` آرام کی نیند نہ سوئیں جب تک اس امر میں کامیاب نہ ہو جائیں- پس پچھلے واقعات سے سبق حاصل کر کے آپ لوگوں کو چاہئے کہ اشاعت اسلام کی طرف توجہ کریں- اور اپنے اموال اور اپنے اوقات اس راہ میں خرچ کریں-
میں آپ لوگوں کو یہ بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سکھ صاحبان کے گرو اسلام کے بہت بڑے مداح تھے- اور مسلمان اولیاء سے ان کے گہرے تعلقات تھے بلکہ ہماری تحقیق کی رو سے تو حضرت باوا نانک رحمہ اللہ علیہ مسلمان تھے- تبھی تو انہوں نے مکہ کا حج کیا اور باوا فرید صاحب رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور ان کے جانشینوں نے میاں میر صاحب رحمہ اللہ علیہ سے امرتسر کے گوردوارہ کا پتھر رکھوایا- لیکن بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے ہندئووں کی نسبت زیادہ تھے اور صرف بعد میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے سکھ صاحبان ہندو صاحبان سے مل گئے- لیکن اب بھی توحید کے مسئلہ میں وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے- پس مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھائیں اور اس شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندئووں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں- بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذرا سی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے- خصوصاً جب کہ ان کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے- کیونکہ ہندئووں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعداد ہی رہتے ہیں لیکن مسلمانوں سے مل کر وہ ایک زبردست پارٹی بنا سکتے ہیں جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید ہو سکتی ہے-
اس کے بعد میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جگہ ہر قصبہ اور ہر شہر کے مسلمانوں کو جلسے کر کے گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے کہ وہ یا تو سب کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دے یا پھر کسی کو بھی اجازت نہ دے- ورنہ ہر وقت کے خوف کی وجہ سے مسلمانوں کی اخلاقی حالت بہت ہی گر جائے گی- لیکن جب تک گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی کارروائی نہ کرے` جہاں قانون اجازت دیتا ہے` وہاں کے مسلمانوں کو اپنے پر فرض کر لینا چاہئے کہ ہر ایک شخص اپنے گھر میں ایک سونٹا رکھے اور جب بھی وہ گھر سے باہر نکلے سونٹا لے کر نکلے خواہ وہ نماز کے لئے ہی کیوں نہ جاتا ہو- اگر اس امر کی طرف پہلے توجہ کی جاتی تو اس قدر جان کا نقصان نہ ہوتا- ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک مسلمان کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق کبھی حملہ میں ابتداء نہیں کرے گا بلکہ صرف مجبوری کی حالت میں جب اپنی جان کو خطرہ میں دیکھے گا` سونٹے کو استعمال کرے گا اور وہ بھی اس وقت تک کہ حملہ آور بے کار ہو جائے اور انسانی جان کے لینے سے بکلی اجتناب کرے گا-
ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ مسلمان مقتولین و مجروحین اور ان کی جو بے قصور گرفتار کئے گئے ہیں خصوصاً اور ہندو اور سکھ مقتولین و مجروحین کی عموماً مدد کریں- تا ان گھروں پر جن کے آدمی مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں` دوہری مصیبت نازل نہ ہو- ایک مصیبت جان کی اور دوسری فاقہ کشی کی- ہمیں اس امداد میں اسلامی تعلیم کے مطابق اس قدر وسیع الحوصلہ ہونا چاہئے کہ ہندو اور سکھ مقتولین اور مجروحین کی امداد سے بھی غفلت نہ کی جائے- مسلمان ہمیشہ مصیبت زدہ دشمن کی مدد کرتے چلے آئے ہیں حتیکہ ترک اس گئے گذرے زمانہ میں بھی جنگی قیدیوں کو آپ بھوکا رہ کر کھانا کھلاتے رہے ہیں- پس ہماری ہمدردی کی بنیاد قرآن کریم کے پیش کردہ خدا کی طرح ربوبیت عالمین پر ہونی چاہئے- میں اس غرض کے لئے اپنی جماعت کی طرف سے دو سو روپیہ کا وعدہ کرتا ہوں- اور امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے احباب اپنے اپنے حلقہ اثر میں دوسرے بہی خواہان بنی آدم سے بھی مناسب رقوم جمع کر کے اس غرض کیلئے بھجوائیں گے تاکہ جلد سے جلد مصیبت زدگان کی مناسب امداد کی جائے-
میں نے اپنے چیف سیکرٹری خان ذوالفقار علی خان صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر و مالک ہمدرد دہلی اور فارن سیکرٹری ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب سابق مبلغ امریکہ کو جو دونوں کہ اس وقت لاہور میں ہیں` ہدایت کی ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس مشکل کے وقت میں مسلمانوں کی امداد کریں اور جماعت کے دوسرے دوستوں سے بھی مدد دلوائیں-
مجھے نہایت افسوس ہے کہ لاہور میں جہاں کے باشندوں کو میں نے ہمیشہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور حوصلہ مند پایا ہے` اس قسم کا فساد ہوا اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ فساد آخری فساد ہوگا- اور اس سے سبق حاصل کر کے وہ لوگ جو ہندوستان میں فساد کی آگ بھڑکانے میں خاص لذت حاصل کر رہے ہیں- اور جن میں سے بعض بدقسمتی سے لاہور کے باشندے ہیں آئندہ اپنے رویہ میں تبدیلی کریں گے اور غور کریں گے کہ کس طرح اس فساد کے موقع پر وہ ہندو جو احمدیوں کے درمیان رہتے تھے` ہر ایک شر سے محفوظ رہے ہیں اور نصیحت حاصل کریں گے کہ تبلیغ کے جوش کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ انسان انسانیت سے بھی خارج ہو جائے- ان ہندو صاحبان کا جوش تبلیغ` احمدیوں سے زیادہ نہیں ہو سکتا- پس جس طرح باوجود انتہائی درجہ کا جوش تبلیغ رکھنے کے ایک احمدی ایک ہندو پر ہاتھ نہیں اٹھاتا` ایک ہندو کیوں ایک مسلمان پر ہاتھ اٹھائے-
میں اس امر کا اظہار کر کے اس اشتہار کو ختم کرتا ہوں کہ میں نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ اس وقت مسلمان اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کس طرح کر سکتے ہیں- تمام احباب سے درخواست ہے کہ دو پیسہ کا ٹکٹ بھیج کر یہ رسالہ صیغہ ترقی اسلام قادیان سے مفت طلب کریں- شاید کہ خدا تعالیٰ ان کے ہاتھ سے کوئی خدمت لے لے اور ان کے لئے دین و دنیا کی بہتری کے سامان جمع ہو جائیں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان گورداسپور
)الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال
)تحریر فرمودہ ۷ جولائی ۱۹۲۷ء بمقام کنگزلے شملہ(
برادران! السلام علیکم
کچھ عرصہ ہوا میرے پاس قادیان کے کچھ سکھ صاحبان بطور وفد آئے- اور انہوں نے شکایت کی کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے کی کتاب >گورونانک صاحب کا مذہب< میں ان کے پیشوائوں پر حملہ کیا گیا ہے- میں یہ یقین نہیں کر سکا تھا کہ کوئی احمدی ایسا کرے- لیکن چونکہ بعض حوالے مجھے ایسے سنائے گئے جو میرے نزدیک واقعہ میں قابل اعتراض تھے` اس لئے میں نے انہیں تسلی دلائی کہ اس کتاب کے متعلق تحقیق کر کے میں مناسب کارروائی کروں گا- اس وعدہ کے مطابق میں نے صیغہ تالیف و تصنیف کو توجہ دلائی کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کر کے رپورٹ کرے- صیغہ کی رپورٹ کو پڑھنے اور ان عبارتوں کے دیکھنے کے بعد جو رپورٹ میں نقل کی گئی ہیں` میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گو یہ کتاب قانون کی زد میں نہ آتی ہو مگر سکھوں کا دل دکھانے کے لئے کافی ہے-
میں اس امر کا قائل نہیں ہوں کہ ہمیں صرف اس بات سے بچنا چاہئے جو قانون کی زد میں آتی ہو بلکہ ہمارے لئے گورنمنٹ انگریزی کے قانون سے بھی بڑا قانون ایک اور ہے اور وہ شریعت اسلام کا قانون ہے- اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم بدگوئی اور سخت کلامی سے احتراز کریں اور بچیں- اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں ایسی تحریر و تقریر سے بچنا چاہئے جو بدگوئی پر مشتمل ہو- مزید برآں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت باوا نانک رحمہ اللہ علیہ کی نسبت تحقیق سے لکھا ہے کہ وہ ایک ولی اللہ اور خدا رسیدہ بزرگ تھے اور اسلام کے ماننے والے تھے- پس ایسے بزرگ کے جانشینوں کو بغیر کسی قطعی ثبوت کے سخت الفاظ سے یاد کرنا حضرت مسیحموعود علیہ السلام کی تحقیق پر پانی پھیرنا ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہے- لیکن اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ سکھ مذہب گورئووں کے زمانہ میں ہی بگڑ گیا تھا تب بھی کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کے احساسات کا لحاظ نہ کرتا ہوا ایسے الفاظ استعمال کرے جو خواہمخواہ ایک حصہ بنی نوع انسان کا دل دکھانے والے ہوں- خصوصاً ایک تبلیغی جماعت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ سخت کلامی سے کام نہ لے تا وہ دوسروں اقوام متنفر ہو کر اس کی بات سننے سے احتراز نہ کرنے لگیں- پس ان حالات میں جب کہ مجھ پر قطعی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ اس کتاب کے صفحہ۶۵ تک بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو سکھ صاحبان کے دل کے دکھانے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہیں-
میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ سلسلہ کے نام پر میں اس کتاب کو ضبط کرتا ہوں- آئندہ کسی سلسلہ کے اخبار میں اس کا اشتہار نہ چھپے` کوئی احمدی اسے نہ خریدے اور جو خرید چکے ہیں وہ فوراً اس کتاب کو تلف کر دیں اور جب تک اس کتاب کے سخت الفاظ بدل کو مہذب طریق سے مضمون کو پیش نہ کیا جائے` اس کتاب کی بندش رہے- اور نہ احمدی اسے خود خریدیں اور نہ دوسروں کو خریدنے کی تحریک کریں چونکہ اس سے پہلے بھی ماسٹر صاحب کو کہا جا چکا تھا کہ وہ ایسے طریق سے باز رہیں جس سے اقوام میں منافرت پھیلتی ہو لیکن انہوں نے احتیاط کا طریق اختیار نہیں کیا- اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ انہیں کسی اشتہار یا کتاب کے شائع کرنے کی اس وقت تک اجازت نہ ہوگی جب تک کہ صیغہ تالیف و تصنیف اسے دیکھ نہ لے اور اگر وہ بغیر منظوری کے کوئی تحریر شائع کریں گے تو فوراً اس کے متعلق جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا کہ اسے کوئی نہ خریدے- میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے جماعت کے بعض لوگوں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ سکھ صاحبان کی طرف سے بھی ایسے مضمون شائع ہو رہے ہیں جن میں اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی جاتی ہے- چونکہ مجھے ایسے مضمون دکھائے نہیں گئے میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی تازہ واقعہ ایسا ہوا ہے یا نہیں- لیکن اگر کوئی ایسا تازہ واقعہ ہوا ہے تو اس کو میرے سامنے پیش کرنا چاہئے- اگر سکھ صاحبان ہمارے رسولﷺ~ اور ہمارے مذہب کی توہین اور ہتک کرتے ہیں تو میں اس کے خلاف اسی طرح آواز بلند کروں گا کہ جس طرح آریہ کتب کے خلاف میں نے آواز بلند کی تھی- لیکن ایسے امور میرے سامنے پیش کرنے چاہئیں- ہر ایک شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اپنے خیال سے ہی ایسا کام شروع کر دے جو فساد کا موجب ہو سکتا ہو- رسول کریم ~صل۲~ کی عزت کی حفاظت میں ہمیں ہر ایک قربانی سے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے دریغ نہیں ہو سکتا اور اس معاملہ میں ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں- لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ بغیر اس کے کہ خلیفہ وقت کے سامنے جو ان کاموں کا ذمہ وار ہے معاملہ کو پیش کیا جائے` آپ ہی آپ حقیقی یا خیالی مظالم کا بدلہ لینا شروع کر دیا جائے- اگر احمدیوں میں بھی اسی طرح ہونا ہے تو پھر کسی خلیفہ کی ضرورت ہی کیا ہے-
میرا تجربہ یہ ہے کہ گو بہت سے سکھ پچھلی شورش میں دھوکا کھا کر ظلم کرنے والوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے لیکن بعض بڑے لیڈروں نے اس طریق کو ناپسند کیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ ہم ان لوگوں کی تائید میں جنہوں نے ظلم کیا ہے` مسلمانوں سے لڑنے پر تیار نہیں ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جلد یہ فریق دوسروں کی آواز کو دبادے گا-
میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے مصنف اور لیکچرار آئندہ مجھے اس قسم کے اعلان کے شائع کرنے کا موقعہ نہ دیں گے- نہ صرف سکھوں کے متعلق بلکہ تمام دوسرے مذاہب کے متعلق بھی-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح
کنگزلے - شملہ
۱۹۲۷ء-۷-۷
)الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے
)تحریر فرمودہ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۷ء بمقام قادیان(
میں متواتر اعلان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی حفاظت صرف اس امر میں ہے کہ وہ ان امور میں کہ جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں` متحد ہو کر کام کریں اور اپنی طاقت کو ضائع نہ ہونے دیں- اس جدوجہد کے نتیجہ میں جو ہم نے پچھلے دنوں کی ہے خدا کے فضل سے مسلمانوں میں اس قدر بیداری پیدا ہو چکی ہے کہ اہل ہنود دل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں اور ایسی تجاویز سوچ رہے ہیں جن کے ذریعہ سے مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کر دیں- میں نے پہلے بھی مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں تمام ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دیں اور ہماری طاقت کو پراگندہ کر دیں-
تمام احباب جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے تمام مسلمان کہلانے والوں کے ایک مشترکہ جلسہ کرنے کی تحریک ایک ماہ سے کی جا رہی ہے- اور خدا کے فضل سے اس کام میں جو ہمارا ذاتی نہیں ہے بلکہ اسلام کا ہے` تمام بہی خواہان اسلام ہم سے مل کر کام کر رہے ہیں- ان جلسوں کے لئے شروع دن سے بائیس جولائی کی تاریخ اور نماز جمعہ کے بعد کا وقت مقرر تھا- لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلافت کمیٹی کی طرف سے حال ہی میں ایک اعلان ہوا ہے کہ ان کی طرف سے بھی بائیس جولائی کو اسی وقت جلسے کئے جائیں-
)انقلاب مورخہ ۱۷ جولائی صفحہ۷ ب کالم۴(
میرا خیال ہے کہ اس تاریخ کے مقرر کرتے وقت کارکنان خلافت کے ذہن میں یہ بات نہ ہوگی کہ ایسے جلسے پہلے مقرر ہو چکے ہیں- ورنہ وہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں میں پورے اتحاد کی ضرورت ہے بائیس جولائی کو الگ جلسے مقرر نہ کرتے مگر اب جب کہ ان کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے` میں مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے خواہش کرتا ہوں کہ چونکہ ہماری طرف سے ایک ماہ سے اعلان ہو رہا تھا اور تیاری مکمل ہو چکی ہے اور متواتر اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعہ سے تحریک ہوتی رہی ہے اور بعض اہم مقامات کی طرف واعظ بھی بھیجے جا چکے ہیں اور ہزاروں روپیہ کا خرچ برداشت کیا جا چکا ہے` اس لئے خلافت کمیٹی مہربانی فرما کر اپنے جلسوں کو یا تو کسی دوسرے دن پر ملتوی کر دے یا کم سے کم وقت ہی بدلا دے- مثلاً یہ کہ جن جلسوں کا انتظام ہم نے کیا ہے` وہ جمعہ اور عصر کے درمیان ہونگے تو وہ بعد از مغرب اپنے جلسے مقرر کر دے- اگر اس قدر خرچ اور محنت سے اور نیز سب فرقوں کے سربرآوردہ لوگوں کے مشورہ کے ساتھ جلسوں کا انتظام نہ ہو چکا ہوتا تو میں خود ہی جلسہ کی تاریخیں بدل دیتا- کیونکہ وقت اور دن کی نسبت اتحاد بہت زیادہ اہم شے ہے- لیکن ایک ماہ کی مسلسل تیاری کے بعد ہمارے لئے اس قدر مجبوریاں ہیں کہ ہمارے لئے دن اور وقت کا بدلنا بہت مشکل ہے- خصوصاً اس لئے کہ جو جلسے بائیس کو ہماری تحریک پر مقرر ہوئے ہیں` وہ صرف ہماری جماعت کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ شیعہ` سنی` اہلحدیث` حنفی` احمدی سب کی طرف سے مشترکہ جلسے ہیں-
دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں
بائیس تاریخ کوئی مذہبی تاریخ نہیں کہ اس سے جلسے ادھر ادھر نہ کئے جا سکتے ہوں- اس لئے بجائے اس کے کہ طاقت کو منتشر کیا جائے اور دشمنوں کو ہنسی کا موقع دیا جائے` کیوں نہ دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں اور طاقت کو پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے-
اگر ایک ہی وقت میں مسلمانوں کی کچھ جماعت ایک طرف اور کچھ دوسری طرف جاتی ہوئی نظر آئی تو ہندو لوگ کہیں گے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی حفاظت کے معاملہ میں بھی یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے- اور اس سے اسلام کی عزت کو جو صدمہ پہنچے گا` اس کا اندازہ ہر اک اسلام کا درد رکھنے والا انسان خود ہی لگا سکتا ہے- ہندئووں کو جو دلیری اور جرات اس سے حاصل ہوگی` اس کا خیال کر کے میرا دل کانپ جاتا ہے اور میری روح لرز جاتی ہے-
‏0] f[st اسلام کیلئے کربلا کا زمانہ
اس آفت و مصیبت کے زمانہ میں کہ اسے کربلا کا زمانہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ کفر و ضلالت کے لشکر محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے لائے ہوئے دین کو اسی طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے گھیرا ہوا تھا- آہ! آج اسلام کی وہی حالت ہے جو ذیل کے شعر میں بیان ہوئی ہے کہ
ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین
اشتراک عمل کی دعوت
پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی خلافت کمیٹی اپنے فیصلہ میں مندرجہ بالا تبدیلی کر کے دشمنان اسلام کے دلوں پر ایک کاری حربہ چلائے گی اور ان کی تازہ امیدوں کو خاک میں ملا دے گی اور مقامی انجمن ہائے خلافت بھی اپنے جلسوں کو کسی اور وقت اور دن پر ملتوی کر دیں گی اور ان جلسوں کو جو تمام اسلامی فرقوں اور سوسائیٹیوں کی طرف سے مشترک طور پر ہونے والے ہیں` ان میں اپنے مقرر وقت پر منعقد ہونے میں مزاحم نہ ہوں گی بلکہ مددگار اور شریک بنیں گی-
سول نافرمانی کے تباہی خیز نقصانات
پھر ان احباب کو جو سول نافرمانی کو اس وقت کی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں- مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ یہ خیال درحقیقت گاندھی جی کا پھیلایا ہوا ہے اور اس کے عیب و ثواب پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا- میرے نزدیک اگر غور کیا جائے تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے موجودہ حالات میں سول نافرمانی سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی- اور یقیناً اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت پہلے سے بھی خراب ہو جائے گی- اور عدم تعاون کے دنوں میں ہندئووں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا تھا اور جس کے اثر کو وہ کئی سالوں میں جا کر بہ مشکل دور کر سکے ہیں اس سے بھی زیادہ اب نقصان پہنچ جائے گا-
اس وقت ہمارا مقابلہ ہندئووں سے ہے
اے بھائیو! ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس وقت ہمارا مقصد کیا ہے اور پھر اس کے مطابق ہمیں علاج کرنا چاہئے کیونکہ دانا وہی ہوتا ہے جو تشخیص کے بعد مرض کا علاج شروع کرتا ہے- اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارا اس وقت مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی جو ہتک کی جاتی ہے` اس کا سدباب کریں اور آپ کی عزت کی حفاظت کا مقدس فرض جو ہم پر عائد ہے اس کو بجا لائیں- اگر میرا یہ خیال درست ہے تو کیا پھر پہلی بات کی طرح یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ ہتک ہندئووں کی طرف سے کی جا رہی ہے نہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے- پس ہمارا مقابلہ ہندئووں سے ہے نہ کہ گورنمنٹ سے- گورنمنٹ تو اس وقت حتی الوسع ہماری مدد پر کھڑی ہے اور ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کے ماتحت جو اسلام نے ہم پر عائد کی ہیں` ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے نہ کہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائیکورٹ کے ایک جج کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہندئووں کو اور بھی دلیری ہو گئی ہے اور انہوں نے پہلے سے بھی سخت حملے اسلام پر شروع کر دیئے ہیں- لیکن پھر کیا یہ بھی درست نہیں کہ گورنمنٹ اس فیصلہ کو بدلوانے کی پوری کوشش کر رہی ہے- اور غیر معمولی ذرائع سے جلد سے جلد اس مفسدہ پردازی کا ازالہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ہزایکسلینسی HISEXCELLENCY) ( گورنر پنجاب نے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں نہایت پر زور الفاظ میں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان گندے مصنفوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے- جب حالات یہ ہیں تو پھر کیا اخلاق` کیا عقل اور کیا فوائد اسلام ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم سول نافرمانی کو جو ہندئووں کے خلاف نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہے` اختیار کریں اور کیا اس ذریعہ سے ہندو رسول کریم ~صل۲~ کو گالیاں دینے سے باز آ جائیں گے-
سول نافرمانی اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے خلاف ہے
مگر علاوہ اس کے کہ سول نافرمانی اس موقع پر اخلاق کے خلاف ہے` وہ اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے بھی خلاف ہے- سولنافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار نہ ہوں- سول نافرمانی دو غرضوں کیلئے ہو سکتی ہے-
۱- جب کہ ہم کوئی کام کرنا چاہیں جسے گورنمنٹ منع کرتی ہو-
۲- جب کہ ہم گورنمنٹ کو کسی کام کے کرنے سے روکیں یا اس سے کوئی کام کروانا چاہیں-
صورت اول میں اس قدر کافی ہوتا ہے کہ بہت سے آدمی اس کام کو کرنے لگیں کہ جس سے گورنمنٹ روکتی ہو- اگر گورنمنٹ ان کو روکے تو وہ نہ رکیں حتیٰکہ گورنمنٹ مجبور ہو جائے کہ انہیں گرفتار کرے- چونکہ گورنمنٹ لاکھوں آدمیوں کو قید میں ڈال نہیں سکتی` اس لئے جو امور معمولی ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کے قیام کا ان سے تعلق نہیں ہوتا` وہ ان میں لوگوں کے مطالبہ کو پورا کر کے اپنے حکم کو واپس لے لیتی ہے- اس صورت میں کامیابی کیلئے اس قدر تعداد آدمیوں کی چاہئے کہ جن کو گورنمنٹ جیل خانوں میں رکھ ہی نہ سکے- جب گورنمنٹ کی طاقت سے قیدی بڑھ جاتے ہیں تو اسے دینا پڑتا ہے- مگر یہ صورت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب کسی ایسے کام کے کرنے کا ہم ارادہ کریں جس کی گورنمنٹ اجازت نہیں دیتی-
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ سے لوگ کوئی مطالبہ پورا کرانا چاہیں یا دوسرے لوگوں کو کسی کام سے روکنا چاہیں- اس صورت میں چونکہ ان کا کام کچھ ہوتا ہی نہیں` انہیں سول نافرمانی کے لئے کوئی اور چیز تلاش کرنی پڑتی ہے- مثلاً وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب تک گورنمنٹ ہمارا مطالبہ پورا نہیں کرے گی` ہم اسے لگان نہیں دیں گے یا ٹیکس نہیں دیں گے- اس صورت میں بھی قریباً ساری کی ساری قوم کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جن کی جائدادیں گورنمنٹ اپنے حق کے لئے قرق کرائے` اگر ان کی جائدادوں کو دوسرے لوگ خریدنے پر تیار ہو جائیں تو گورنمنٹ کا کیا نقصان ہوگا` انہی لوگوں کا اپنا نقصان ہوگا-
غرض کوئی صورت بھی ہو` سول نافرمانی بغیر سارے ملک کے اتفاق کے یا کم سے کم ایک بڑے حصہ کے اتفاق کے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی- پچھلے چند سالوں میں جرمنی کے لوگوں نے فرانسیسیوں کے خلاف اس علاقہ میں جو فرانس والوں نے لے لیا تھا` سول نافرمانی کی تھی- مگر وہ باوجود ایک قوم اور بڑے تعلیم یافتہ ہونے کے کامیاب نہ ہو سکے- اور آخر مجبوراً انہیں اپنا رویہ بدلنا پڑا- مگر جو سامان جرمنوں کو حاصل تھے` وہ مسلمانوں کو حاصل نہیں- اور پھر سب ملک میں صرف وہی آباد نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد سکھوں اور ہندئووں کی بھی ہے- پس سول نافرمانی سے گورنمنٹ کے کام نہیں رکیں گے- بلکہ صرف یہ نتیجہ ہوگا کہ جو تھوڑی بہت تجارت اور زمیندارہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے وہ بھی ہندئووں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور یہی اس وقت ہندئووں کی خواہش ہے- ہم سول نافرمانی کی صورت میں رسول کریم ~صل۲~ کی عزت کی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ اپنی طاقت کو کمزور کر کے اور اپنے دشمن بڑھا کر لوگوں کو آپ کی ہتک کا اور موقع دیں گے-
سول نافرمانی کیلئے لاکھوں آدمی کہاں سے آئیں گے
جیسا کہ میں بتا آیا ہوں` سول نافرمانی بغیر لاکھوں آدمیوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی- پس اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ لاکھوں آدمی سول نافرمانی کرنے والے کہاں سے آئیں گے- کیا اپنے نوجوانوں کو جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں` ہم اس کام کیلئے پیش کریں گے یا اپنے تاجروں کو یا اپنے زمینداروں کو یا اپنے پیشہ وروں کو- ان میں سے کسی ایک کو اس کام کے لئے پیش کرو نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک پیدا ہوگا- طالب علم اگر اس کام کے لئے آگے بڑھے تو مسلمان جو تعلیم میں آگے ہی پیچھے ہیں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ہماری ایک نسل بالکل بے کار ہو جائے گی- اگر تاجروں یا پیشہوروں کو جیل خانہ بھجوایا گیا تو ہندئووں کو اس سے اور بھی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان اور بھی زیادہ سختی سے اقتصادی طور پر ان کے غلام بن جائیں گے- اور دس مسلمان جو روٹی کھاتے ہیں` وہ بھی اپنے کام سے جائیں گے- اگر زمیندار قید خانوں میں بھیجے گئے` تب بھی ہندئووں کو عظیمالشان فائدہ پہنچے گا- غرض بغیر لاکھوں آدمیوں کو سول نافرمانی پر لگانے سے کام نہیں چل سکتا اور اس قدر تعداد میں مسلمان اگر سول نافرمانی کے لئے تیار بھی ہو جائیں تو یقیناً مسلمانوں کی طاقت پنجاب میں بالکل ٹوٹ جائے گی اور ہم جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہندئووں کی غلامی سے آزاد ہوں تاکہ ہماری آواز میں اثر پیدا ہو اور بھی زیادہ پست حالت کو پہنچ جائیں گے اور کہیں ہمارا ٹھکانہ نہیں رہے گا-
بے شک اگر صرف شغل کرنا ہمارا مقصد ہو تو چند ہزار آدمی اس کام پر لگ کر شور پیدا کر سکتے ہیں- لیکن اگر ہمارا مقصد اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے تو یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی- جب تک کہ سب ملک میں مسلمان ہی نہ بستے ہوں اور جب تک سب کے سب سول نافرمانی پر آمادہ نہ ہو جائیں- اور چونکہ صورت حالات اس کے برخلاف ہے` اس لئے سول نافرمانی سے کامیابی کی امید رکھنا بالکل درست نہیں-
جیل میں جانے والوں کے بال بچے کیا کریں گے
پھر ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جو لوگ جیل خانوں میں جائیں گے` ان کے رشتہ داروں کا گذارہ کس طرح ہوگا- مسلمانوں کے پاس حکومت نہیں کہ وہ جبریہ ٹیکس سے سب کے گذارہ کی صورت پیدا کر لیں گے- جو لوگ قید ہوں گے ان کے رشتہ دار یقیناً قرض پر گذارہ کریں گے اور وہ قرض ہندو بنئے کے پاس سے انہیں ملے گا جس کی وجہ سے وہی لوگ جو اسلام کی مدد کیلئے نکلیں گے درحقیقت اسلام کو اور زیادہ کمزور کر دینے کے موجب ہو جائیں گے-
عدم تعاون کے بعد سول نافرمانی ہونی چاہئے
یہ امر بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ سولنافرمانی ہمیشہ عدم تعاون کے بعد ہوتی ہے- تعاون اور سول نافرمانی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے- میں مسٹر گاندھی سے بہت اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کی یہ بات بالکل درست تھی کہ انہوں نے پہلے عدم تعاون جاری کیا اور اس کا دوسرا قدم سول نافرمانی رکھا- ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ مدد نہ کرنے اور نافرمانی کرنے میں فرق ہے- مدد نہ کرنا ادنیٰ درجہ کا انقطاع ہے اور نافرمانی اعلیٰ درجہ کا انقطاع ہے- اور یہ ممکن نہیں کہ ہم ادنیٰ انقطاع کئے بغیر اعلیٰ انقطاع کر دیں- جو لوگ سول نافرمانی کریں گے جب ان کو گورنمنٹ سزا دینے لگے گی تو کیا پچاس ساٹھ ہزار مسلمان جو سرکاری ملازمت میں ہے وہ سرکاری حکم کے ماتحت سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا یا نہیں- اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو سب کو ملازمت چھوڑی پڑے گی اور عدم تعاون شدید صورت میں شروع ہو جائے گا اور میدان بالکل ہندئووں کیلئے خالی رہ جائے گا اور اگر ملازم طبقہ سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا تو کیا یہ جنگ گھر میں ہی نہ شروع ہو جائے گی- پولیس فوج اور عدالتوں کے ملازم اگر خود مسلمانوں پر دست درازی کریں گے تو کیا آپس میں ایک دوسرے سے تنافر پیدا ہوگا یا نہیں- اور کیا ان چالیس پچاس ہزار ملازموں کے رشتہ دار جو چالیس پچاس لاکھ سے کم نہ ہوں گے` دوسرے لوگوں سے جو ان کو برا بھلا کہیں گے برسرپیکار ہوں گے یا نہیں- اور کیا اس کے نتیجہ میں ہر گائوں اور ہر شہر میں مسلمانوں میں ایک خطرناک جنگ شروع ہو جائے گی کہ نہیں؟ غرض سول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پہلے عدم تعاون نہ جاری کیا جائے- سول نافرمانی جاری کرنے سے پہلے سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ فوج سے پولیس اور ایگزیکٹو اور جوڈیشل غرض ہر قسم کی ملازمتوں سے علیحدہ ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنا نہ پڑے- اور سب ملک کے مسلمان آپس میں دست و گریبان نہ ہو جائیں- لیکن کیا حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کا اس میں فائدہ نہ ہوگا` ہاں ہندئووں کا فائدہ ہوگا- ایک مسلمان کی جگہ دس ہندو اور سکھ بھرتی ہونے کے لئے تیار ہوں گے اور مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی-
سول نافرمانی کیلئے تیار ہونیوالوں کو کیا کرنا چاہئے
خلاصہ یہ کہ سول نافرمانی کا تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار ہوں اور جب کہ پہلے عدم تعاون کا فیصلہ کر لیا جائے` ورنہ سوائے شور کرنے کے کچھ فائدہ نہ ہوگا- پس جو لوگ سول نافرمانی کیلئے تیار ہوں` میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ ذرا زیادہ ہمت دکھائیں اور جو وقت ان کے پاس فارغ ہو` اسے تبلیغ اسلام پر خرچ کریں- اگر دو چار ہزار آدمی تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہو اور ادنیٰ اقوام کے گھروں پر جا کر شفقت اور ہمدردی سے ان کو اسلام کی دعوت دے تو اسلام کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے- اگر یہ لوگ ملک میں پھر کر زمینداروں کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں اور ہندو بنئے سے سودی قرض لینے سے منع کریں تو اسلام کو کس قدر تقویت پہنچ سکتی ہے- اگر وہ اپنے فارغ وقت کو اپنے جاہل بھائیوں کو دین کی باتیں سمجھانے اور قومی ضروریات سے واقف کرانے پر لگائیں تو قومیت کو کس قدر نفع حاصل ہو سکتا ہے- پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فارغ ہیں تو ہزاروں گائوں جن میں سب سودا ہندو بنئے سے لیا جاتا ہے` وہاں جا کر وہ ایک دکان کھول لیں اور اس طرح مسلمانوں کو ہندو دکاندار کے ذلت آمیز سلوک سے محفوظ کریں تو قومی احساس میں کس قدر ترقی ہو سکتی ہے-
کام کرنے کا وقت ہے نہ جیل خانہ جانے کا
پس اے دوستو! یہ کام کا وقت ہے` جیل خانہ میں جانے کا وقت نہیں ہے- اللہتعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے` اس بیداری سے فائدہ حاصل کرو- یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے` پس ان کی ناقدری نہ کرو- خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے دشمن کے ہاتھوں آپ لوگوں کو بیدار کر دیا- اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے کاموں میں لگ جائو- اس وقت ہر ایک جو مسلمان کہلاتا ہے` اس کے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے- جیل خانہ میں لوگوں کو بھرنے کا موقع نہیں بلکہ ان کو ان میں سے نکالنے کا موقع ہے- دشمن آپ لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر گھبرا رہا ہے- وہ محسوس کر رہا ہے کہ اب آپ نے اس کے مخفی حملہ سے بچنے کا صحیح ذریعہ معلوم کر لیا ہے- پس وہ تلملا رہا ہے اور اپنے شکار کو ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر سٹ پٹا رہا ہے- ایک تھوڑی سی ہمت` ایک تھوڑی سی کوشش ایک تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے کہ صدیوں کی پہنی ہوئی زنجیریں کٹ جائیں گی اور اسلام کا سپاہی اپنے مولیٰ کی خدمت کیلئے پھر آزاد ہو جائے گا اور ہندئووں کی غلامی کے بند ٹوٹ جائیں گے-
اے بھائیو! ہمت اور استقلال سے اور صبر سے اپنی دینی اور تمدنی اور اقتصادی حالت کی درستی کی فکر کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سچے دل سے جھک جائو اور اس کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کر دو اور اس کے ارادوں کے سامنے اپنے ارادوں کو چھوڑ دو- اور اس کے کلام کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دو اور اس کی شریعت کو اپنا شعار بنائو- اور اس کے ہر ایک اشارہ پر عمل کرنے کیلئے تیار رہو اور اپنے نفس کو بالکل مار دو- تب وہ اپنا وعدہالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلناکے ماتحت آپ کو اس راستہ پر چلائے گا جو اس کی مرضی کے مطابق ہے- اور اپنی نصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھائے گا اور آپ کے بازو کو قوت بخشے گا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کرے گا اور ہر اک میدان میں خواہ علمی ہو` خواہ تمدنی ہو` خواہ اقتصادی ہو` آپ کو فتح دے گا-
متواتر قربانی کی ضرورت
ہاں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ متواتر اور لگا تار قربانی کی جائے اور عقل سے کام لیا جائے اور خدا تعالیٰ کی نصرت پر نظر رکھی جائے اور بے فائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ دشمن کے تیار کردہ گڑھوں میں نہ گرا جائے- وہ لوگ جو مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں` وہ گورنمنٹ سے ہمیں لڑوا کر ہماری طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں- اور اس وقت جو مسلمانوں کی توجہ مذہبی` اقتصادی` تمدنی آزادی کی طرف ہو رہی ہے` اس کا رخ دوسری طرف پھیرنا چاہتے ہیں- مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان اس دھوکے میں نہیں آئیں گے- گورنمنٹ نے پیچھے جو کچھ بھی کیا ہو` اس وقت وہ مسلمانوں کی جائز مدد کر رہی ہے اور اگر کسی جگہ بعض مجسٹریٹ مسلمانوں کی تکلیف کا موجب ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مجسٹریٹوں کے دل ان ہندئووں کی باتوں سے متاثر ہیں کہ جو ملک میں امن دیکھنا پسند نہیں کرتے- پس ہمیں وقتی جوش سے متاثر ہو کر اپنے اصل کام کو نہیں بھولنا چاہئے- آج سے ہمارا فرض ہو کہ تبلیغ کریں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت کو درست کریں اور جس حد تک ممکن اور مذہبا جائز ہو مسلمانوں میں سے اختلاف کے مٹانے کی اور مستقل جدوجہد کے ساتھ ان جائز حقوق کو جن کے ہم اس ملک کے باشندہ ہونے کے لحاظ سے مستحق ہیں` حاصل کریں- اور اس کے لئے پہلا قوم آپ کا ۲۲ جولائی کے جلسوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب بنانا ہے- میں اب اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک دوسری بات کو فراموش کر کے آپ صرف اس امر کو مدنظر رکھیں گے کہ آج اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
)الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۲۷ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد
برادران اسلام! السلام علیکم
‏text] g[ta آج آپ لوگ جو نصرت اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے ہیں` میں آپ کے سامنے اسلام کی ترقی کے متعلق کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ ان پر مناسب غور فرمائیں گے- آپ لوگ اس امر سے ناواقف نہیں ہیں کہ اسلام کو اس وقت کس قدر نقصانات پہنچ رہے ہیں اور ہر میدان میں مسلمان کمزور ہو رہے ہیں- اس کی وجہ جیسا کہ آپ لوگ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں یہی ہے کہ کبھی بھی مستقل اور مدبرانہ جدوجہد مسلمانوں کی بہتری کی نہیں کی گئی- جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تجارت میں مسلمان پیچھے ہیں` ٹھیکیداری میں مسلمان پیچھے ہیں` صنعت و حرفت میں مسلمان پیچھے ہیں` تعلیم میں مسلمان پیچھے ہیں` آڑھت میں مسلمان پیچھے ہیں` تنظیم میں مسلمان پیچھے ہیں` اعلیٰ پیشوں میں مسلمان پیچھے ہیں` تبلیغ جو مسلمانوں کا ابتدائی فرض رکھا گیا تھا` اس میں بھی وہ سب قوموں سے پیچھے ہیں- زراعت بعض صوبوں میں ان کے قبضہ میں ہے مگر صرف نام کے طور پر- زمینیں مسلمانوں کے نام درج ہیں لیکن پیداوار ہندئووں کے گھر جاتی ہے- اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کی آواز بے اثر اور ان کی کوشش بے سود جا رہی ہے- اغیار نے ان کے تمدن اور اقتصاد پر اس قدر قبضہ پا لیا ہے کہ وہ مسلمان جو غلاموں کے آزاد کرنے کیلئے پیدا کیا گیا تھا` آج خود غلام بن رہا ہے- وہ گردوپیش کے حالات سے اس قدر مجبور ہو رہا ہے کہ گو وہ سب سے زیادہ شور مچائے مگر حقیقی آزادی نصیب ہونی اس کے لئے مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب لوگ اس کی سب سے محبوب چیز یعنی اس کے مذہب کی بھی عزت کرنے کیلئے تیار نہیں- انا للہ و انا الیہ راجعون
اے بھائیو! ان تاریک حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک روشنی کی صورت پیدا کر ¶دی ہے- یعنی دشمنان اسلام کے دلی ارادوں کو شدھی اور سنگھٹن کی شکل میں ظاہر کر دیا ہے- جن کا سب سے گندہ پہلو وہ ناپاک اور گندہ لٹریچر ہے جو اسلام اور مقدس بانی اسلام کے خلاف لکھا جا رہا ہے- ہندئووں کی عداوت کے اس خطرناک اظہار سے سوئے ہوئے مسلمان بھی بیدار ہو رہے ہیں- اور ان میں بھی صحیح اصول پر کام کرنے کا جوش پیدا ہو رہا ہے چنانچہ پچھلے دو ماہ میں اقتصادی غلامی سے آزادی کے لئے چھوت چھات کی تحریک مسلمانوں میں بڑے زور سے جاری ہے اور اس کا زبردست اثر پیدا ہو رہا ہے- اس وقت تک ہزاروں دکانیں مسلمانوں کی کھل چکی ہیں اور لاکھوں روپے کا فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہو چکا ہے- ہندو ساہوکار سے سود پر روپیہ لینے کے خلاف ایک عام رو جاری ہے جو اگر کامیاب ہو گئی تو انشاء اللہ کلی طور پر مسلمانوں کو ہندئووں کے قبضہ سے آزاد کرا دے گی- کفایت شعاری کی تحریک مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہے- تنظیم کی طرف وہ متوجہ ہو رہے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے حقوق لینے کی بھی انہیں فکر پیدا ہونے لگی ہے-
اس تحریک کو دیکھ کر ہندو کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ تحریک دب جائے اور اس کے لئے انہوں نے دو تدبیریں اختیار کی ہیں- ایک تو وہ مسلمانوں کو جوش دلا کر گورنمنٹ سے لڑوانا چاہتے ہیں` دوسرے فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر ہم میں آپس میں پھوٹ ڈلوانی چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ گورنمنٹ میں بھی اور پبلک میں بھی انتہائی کوشش کر رہے ہیں- خفیہ ہی خفیہ حکام اور بعض مسلمانوں کے ذریعہ سے ایسی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں کہ مسلمان ایک طرف تو گورنمنٹ سے الجھ جائیں اور دوسری طرف آپس میں لڑنے لگیں- اگر اس وقت آپ لوگوں نے ان کی چالوں کو نہ سمجھا اور ان کے دھوکے میں آ گئے تو پھر سمجھ لیجئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں گے اور اسلام کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے-
ان کی ان کوششوں کو باطل کرنے کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ پورے جوش اور مستقل ارادہ کے ساتھ تبلیغ اور اتحاد باہمی کی تحریکات کو جاری رکھا جائے- چھوت چھات` بنئے کے سود سے پرہیز کی تلقین کی جائے- گورنمنٹ سے اپنی تعداد کے مطابق حقوق کا مطالبہ کیا جائے- سرحدی صوبہ جس میں اسی فیصدی مسلمان بستے ہیں اور ذکاوت اور عقل میں ہندوستان کے کسی صوبہ سے پیچھے نہیں ہیں اور جنہیں محض ہندئووں کی مخالفت کی وجہ سے حقوق نیابت سے محروم رکھا گیا ہے` اس کو نیابتی حقوق دلوانے کی کوشش کی جائے اور جب تک ان تحریکات میں پوری طرح کامیابی حاصل نہ ہو جائے اس جدوجہد کو ترک نہ کیا جائے-
اے بھائیو! یہ جلسہ اس جدوجہد کا پہلا مظاہرہ ہے نہ کہ اس کا اختتام` اس قدر عظیمالشان کام ایک دن میں نہیں ہو جاتے` وہ مہینوں یا سالوں کی کوشش چاہتے ہیں اور بہترین دماغوں کی خدمات اور بہت بڑی وقتی اور مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں- پس آپ لوگ اس جلسہ میں شامل ہو کر یہ خیال نہ کریں کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے- اس جلسہ میں تو جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائیوں کے سامنے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم اسلام کی ترقی کیلئے ہر ایک قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں- مگر صرف اقرار کر دینے سے کام نہیں ہو جاتے- اصل کام اس جلسہ کے بعد شروع ہوگا- جب کہ آپ کی آزمائش ہوگی کہ آپ اپنے عہد کو اپنے عمل سے پورا بھی کرتے ہیں یا نہیں- عہد خواہ کس قدر ہی جوش سے کیا جائے` نفع نہیں دیتا لیکن کام خواہ کتنا بھی تھوڑا ہو مفید ہوتا ہے- خالی ریزولیوشن پاس کر دینا سچائی کی ہتک کرنا ہے- سچائی ہمارے منہ کے تحفوں کو قبول نہیں کرتی- وہ ہماری عملی قربانی چاہتی ہے پس آج کے ریزولیوشن درحقیقت عہد ہیں جو آپ نے کئے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ ان ریزولیوشنوں کے مطابق جدوجہد شروع کریں اور اپنے ملنے والوں اور ہمسایوں کو اپنا ہم خیال بنا کر انہیں بھی اس جدوجہد میں شریک کریں یہاں تک کہ ایک مسلمان بھی باقی ایسا نہ رہے جو آپ کے خیالات کے مخالف ہو اور اس جدوجہد میں شریک نہ ہو- ہاں یہ مدنظر رہے کہ فساد اور دنگا اسلام کو پسند نہیں- امن کے ساتھ لیکن بہادری کے ساتھ اپنا کام کریں اور دلیل کے زور سے اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنی بات منوائیں نہ کہ زبردستی- ہاں جو لوگ بلاوجہ آپ کے کام میں روک ڈالنا چاہیں` ان سے بھی نہ ڈریں کہ بزدل دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتا ہے- اگر آپ اس تجویز کے مطابق عمل کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپ لوگ کامیاب ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی تائید آپ کو حاصل ہوگی-
اس کام کے لئے ہر شہر` ہر قصبہ اور ہر گائوں میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جن میں ہر ایک فرقہ کے آدمی شامل کئے جائیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں- یاد رکھیں کہ وہ معاملات جو دشمنان اسلام سے تعلق رکھتے ہیں یا سیاسی ہیں` ان میں اسلام کی تعریف یہی ہے کہ ہر اک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے` وہ مسلمان ہے- دشمن بھی یہی تعریف اسلام کی سمجھتا ہے اور وہ اس تعریف کے مطابق ہم سے سلوک کرتا ہے- پس اس تعریف کے مطابق ہی ہمیں مشترکہ معاملات میں کام کرنا چاہئے- اور اپنی اپنی تعریفوں کو خالص مذہبی معاملات تک محدود رکھنا چاہئے کہ یہی ایک راہ صلح کی ہے- یاد رکھئے کہ کوئی ایک حصہ مسلمان کہلانے والوں کا اکیلا اس عظیم الشان کام کو نہیں کر سکتا جو ہمارے سامنے ہے- اور نہ کوئی ایک سوسائٹی جس کا دائرہ محدود ہو` اس کام کو کر سکتی ہے- وہی کمیٹی اس عظیم الشان کام کو کر سکتی ہے جس میں سب فرقوں کے لوگ شامل ہوں اور جس کا دروازہ کامل طور پر سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے کھلا ہو- بے شک ہر مجلس یا کمیٹی کا حق ہے کہ وہ ایسا کام اپنے ذمہ لے جو اس کے دائرہ عمل کے اندر ہو- لیکن اس کام کو جو سب مسلمان کہلانیوالوں کے ساتھ وابستہ ہے اور امتیاز کی اجازت نہیں دیتا کسی ایسی کمیٹی کا اپنے ہاتھ میں لینا جس میں ہر اک فرقہ کو آزادی کے ساتھ شمولیت کا حق نہ ہو اور جو صرف چند آدمیوں کی رائے کے ماتحت سب لوگوں کو ملانا چاہے کبھی اور کبھی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتا- پہلے اس قسم کے تدابیر سے اسلام کو نقصان پہنچ چکا ہے اور مسلمانوں کی تجارتیں تباہ ہو چکی ہیں` کالج برباد ہو چکے ہیں` ملازمتیں کھوئی گئی ہیں` زمینیں نیلام ہو چکی ہیں اور آئندہ اس قسم کی کوشش پھر مسلمانوں کو تباہ اور برباد کر دے گی- پس ناجائز جوش پیدا کر کے قوم کو تباہی کے رستہ پر ڈالنے اور الگ الگ جدوجہد کرنے کی بجائے ہر اک شہر اور قصبہ میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں پر مشتمل ہوں اور جو دلیری اور جرات سے اسلامی حقوق کے لئے مناسب کوشش کرنے کیلئے تیار ہوں- اور کام کا پروگرام ایسا بنایا جائے جس میں وہ مسلمان بھی شامل ہو سکیں جو کہ گورنمنٹ میں رسوخ رکھتے ہیں- کیونکہ اگر عمدگی سے ان سے کام لیا جائے تو یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی بہت کچھ مدد کر سکتے ہیں اور پچھلی ناکامیوں کا سبب ہی یہی تھا کہ کام ایسے رنگ میں شروع کیا گیا تھا کہ گورنمنٹ کے ملازم یا گورنمنٹ کے ساتھ رسوخ رکھنے والے لوگ مسلمانوں کی مدد نہیں کر سکتے تھے بلکہ انہیں ان کی مخالفت کرنی پڑتی تھی- اس طرح یہ نقص بھی تھا کہ طریق عمل ایسا چنا گیا تھا کہ بعض نہایت کار آمد اور زبردست سوسائیٹیاں 1] [lrm اور جماعتیں اپنے مذہبی عقیدوں کی وجہ سے اس طریق عمل کو اختیار ہی نہیں کر سکی تھیں- پس اب پھر جو اللہ تعالیٰ نے محض رحم فرما کر اتحاد کا موقع نکالا ہے` اسے ضائع نہ کیا جائے اور تمام مسلمان کہلانے والوں کی مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ایک دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دیا جائے اور طریق عمل ایسا چنا جائے کہ گورنمنٹ ملازم اور گورنمنٹ میں رسوخ رکھنے والے مسلمان بھی اس میں حصہ لے سکیں یا کم سے کم ان کو اس کام کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے- میں امید کرتا ہوں کہ اگر اس طرح کام کیا گیا تو انشاء اللہ ضرور کامیابی ہوگی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے دشمنوں کو ہوش آ جائے گا- پس کیا ہی اچھا ہو کہ آج آپ لوگ اس امر کا بھی عہد کر کے اٹھیں کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر آپ ایک ایسی کمیٹی تیار کر لیں گے اور اپنے علاقہ میں آج کے پاسشدہ ریزولیوشنوں کے مطابق عملدرآمد شروع کر دیں گے- میں نے آئندہ کام کے متعلق ایک تفصیلی سکیم سوچی ہے جسے میں اگر ایسی کمیٹیاں بن گئیں تو آہستہ آہستہ ان کے سامنے پیش کروں گا تاکہ جو امور انہیں پسند ہوں وہ ان پر عمل کر کے اسلام کی خدمت کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں پسند ہی کریں گے کیونکہ وہ ایسی تدابیر ہیں کہ جو ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے قابل عمل ہیں- اور ان پر عمل کر کے آئندہ کا پروگرام باحسن وجوہ پورا ہو سکتا ہے- میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دستگیری فرمائے اور انہیں ایسی سمجھ دے کہ وہ ان امور میں مشترک ہو کر کام کرنے لگیں جن پر عمل کرنا مسلمانوں کی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے-واخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
)الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
سرحد سے ہندئووں کا اخراج ملاپ کی شر انگیز تحریر
)تحریر فرمودہ مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۲۷ء(
سرحد کی خبر ہے کہ راجپال کی کتاب اور ورتمان کی تحریرات کی وجہ سے وہاں کے خوانین نے ان ہندئووں کو جو تجارت کرتے تھے اپنے اپنے علاقہ سے نکل جانے کا حکم دیا ہے- اس پر ملاپ کا ایڈیٹر نہایت سخت ناراض ہے- اور اس تمام فعل کا الزام خصوصیت سے میری تحریرات پر رکھتا ہے- اس امر میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب سے ہمدردی رکھتا ہوں- اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان ہندئووں کی حفاظت میں جو سرحد پر رہتے ہیں ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اور درحقیقت ہم حیران ہیں کہ سرحد کے پر جوش افغان جن کی تربیت پنجاب سے بالکل جداگانہ ہے` کس طرح اپنے جوشوں کو خلاف معمول دبائے ہوئے ہیں- ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرحدی افغان اسلامی شعار کی اس قدر غیرت رکھتے ہیں کہ چند سال ہوئے ایک سپاہی نے ایک انگریز افسر کو صرف اس لئے مار دیا تھا کہ اس نے قبلہ کی طرف پائوں کئے ہوئے تھے- ہم اس فعل کو خواہ احکام شریعت کے خلاف سمجھیں لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک یہ امر شریعت کے مطابق تھا- پس اس قدر جلد ان لوگوں میں یہ تغیر پیدا ہو جانا کہ رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک کے موقع پر بجائے جوش میں آکر خون کرنے کے انہوں نے مہلت دے کر ہندو دکانداروں کو اپنی زمینوں سے چلے جانے کاحکم دیا` ایک بہت بڑی بات ہے اور گو میرے نزدیک ابھی انہیں اور ترقی کی ضرورت ہے- مگر یہ تبدیلی خوش کن تبدیلی ہے جس کے لئے میں خوانین سرحد کو مبارک باد دیتا ہوں- میں خوش ہوں کہ اس تبدیلی میں ہماری جماعت کا بھی حصہ ہے- کئی علاقوں کی نسبت جب معلوم ہوا کہ وہاں کے افغان جوش میں ہیں تو ہمارے آدمیوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ اسلام کی عزت کے خیال سے قتل و غارت سے پرہیز کریں- چنانچہ انہوں نے اقرار کیا- اور کیا ہندو صاحبان اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ لوگ جو تھوڑے تھوڑے جوش پر قتل کر دیا کرتے تھے` ان کا رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کے معاملہ میں اس قدر صبر سے کام لینا کوئی معمولی بات ہے اور کیا یہ قابل قدر تبدیلی نہیں؟ ہمارے آدمیوں نے مزید کوشش کی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی جگہ سے نکالا بھی نہ جائے اور بعض بااثر علماء نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لئے بھی کوشش کریں گے- اور اگر اس امر میں ان علماء کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو موجودہ ایجیٹیشن کا یہ سب سے خوشگوار نتیجہ ہوگا اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ عالم اسلام کس طرح آناً فاناً خوشگوار تبدیلی پیدا کر رہا ہے-
میں ہندو اخبارات کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ بعض ہندئووں نے اس موقع پر نہایت اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا ہے اور باوجود سرحد کے مخصوص حالات سے واقف ہونے کے اور وہاں پشت ہا پشت سے رہنے کے بجائے اس امر پر اظہار افسوس کرنے کے کہ بعض خبیث الطبع لوگوں نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ~صل۲~ کی ہتک کی ہے` الٹا ان لوگوں کے خیالات کی تائید کر کے سرحد کے باغیرت مسلمانوں کو اور جوش دلایا- اگر بعض لوگ ایسا نہ کرتے تو شاید معاملات اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک کہ اب پہنچ گئے ہیں- بہرحال ہم اب بھی کوشش کر رہے ہیں اور سرحد کے خوانین سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہندئووں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا ایک اور موقع نہیں دیں گے- انہیں سب سے زیادہ چھوت چھات اور مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے اور ہندئووں سے سودا نہ لینے کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور اس کے نتیجہ میں اگر وہاں کے ہندو آپ ہی آپ کام نہ ہونے کے سبب سے اس ملک کو چھوڑ دیں تو اس کا الزام ان پر نہ ہوگا- لیکن انہیں چاہئے کہ خود ہندئووں کو اپنے علاقہ سے نکل جانے کے لئے نہ کہیں- میں سرحد کے بااثر اصحاب کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ افغانستان` روس اور ہزارہ کی تجارت کروڑوں روپیہ کی ہے اور یہ سب کی سب ہندئووں کے قبضہ میں ہے- مسلمانوں کو چاہئے کہ جلد سے جلد اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسلام کی مدد کریں- اس قدر روپیہ سالانہ ان کے ہاتھوں سے جا کر اسلام کی بیخ کنی کی کوششوں پر یا مسلمانوں کے کمزور کرنے پر خرچ ہوتا ہے- پس انہیں چاہئے کہ وہ اپنی دکانیں کھولیں اور کم سے کم اسلامی ممالک کی تجارت تو اپنے ہاتھ میں لیں اور اگر وہ اس سال کوشش کر کے اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو یقیناً اگلے سال اس کا اثر پنجاب کی تجارت پر پڑے گا اور پنجاب میں بھی مسلمانوں کی تجارت مضبوط ہو جائے گی-
اس کے بعد میں پھر ایڈیٹر ملاپ اور ان کے ہم آواز لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اوپر جو مشورہ میں نے دیا ہے` وہ اپنے مذہب کے مطابق دیا ہے- ہمارا مذہب سختی کا حکم نہیں دیتا- اس لئے اس نازک وقت میں بھی جب کہ ہمارے احساسات کو نہایت بری طرح کچلا گیا ہے` ہم امن اور صلح کی تعلیم دے رہے ہیں- لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ آریہ سماج کے کسی ممبر کا کوئی حق نہیں کہ وہ سرحدی افغانوں کے اس فعل پر کوئی اعتراض کرے- آریہ سماج کی اپنی تعلیم یہ ہے کہ مذہب کی ہتک کرنے والے کو ملک سے نکال دیا جائے- دیکھئے پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں کیا لکھتے ہیں-
>جو شخص وید اور عابد لوگوں کی وید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے- اس وید کی برائی کرنے والے منکر کو ذات` جماعت اور ملک سے نکال دینا چاہئے<- )ستیارتھ پرکاش صفحہ۵۹- ایڈیشن چہارم(
اگر پنڈت دیانند صاحب کے نزدیک وید ہی نہیں بلکہ وید کے مطابق لکھی ہوئی کتابوں کی برائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے- )اور شاید اس قانون کے مطابق ملاپ اور پرکاش وغیرہ کی برائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے کیونکہ ان اخبارات کو بھی ویدوں کے مطابق ہی لکھنے کا دعویٰ کیا ہے(- تو کیا وجہ ہے کہ جس جگہ رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک کی جائے اور اس ہتک پر دوسرے ہندو رضامندی کا اظہار کریں تو وہی سلوک جو پنڈت دیانند صاحب نے مذہب کی ہتک کرنے والوں کے لئے مقرر کیا ہے` ان سے نہ کیا جائے- کیا صرف وید کی ہتک کرنے والا ہی اس امر کا مستحق ہے کہ اسے ملک سے نکالا جائے- دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی اپنے مذہب کی ہتک کرنے والوں کو ملک سے نکال دیں- مگر میں باوجود پنڈت صاحب کی اس تعلیم کے سرحد کے خوانین سے یہی کہوں گا کہ ہم قرآن کریم کے ماننے والے ہیں جو رحم اور صلح کی تعلیم دیتا ہے- پس وہ اپنے خدا داد رسوخ سے کام لے کر اپنے بھائیوں کے جوشوں کو ٹھنڈا کریں اور اقتصادی تدابیر کے اختیار کرنے سے زیادہ کچھ نہ کریں- اور جو ہندو مسلمانوں کے چھوت چھات اختیار کرنے اور سود ترک کرنے کے باوجود بھی ان کے ملک میں رہنا چاہیں انہیں اپنے ملک میں امن سے زندگی بسر کرنے دیں جیسا کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں-
آخر میں میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کی اس شر انگیز تحریر کی طرف خود ہندو صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن علاقوں سے ہندئووں کو جلا وطن کیا گیا ہے- ان علاقوں پر چڑہائی کر کے ان علاقوں کو انگریزی علاقہ کے ساتھ شامل کر لینا چاہئے<-
اس وقت جب کہ سرحد پر پہلے سے ہی جوش پھیلا ہوا ہے` یہ الفاظ سوائے فساد کی آگ بھڑکانے کے اور کیا اثر کر سکتے ہیں- افغانان سرحد جو سینکڑوں سال سے اپنی آزادی کیلئے سربکف رہے ہیں اور گورنمنٹ برطانیہ نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے سرحد پر امن قائم کیا ہے` اس تحریر کا اثر سرحد کے افغانوں پر اور گورنمنٹ کی پالیسی پر کیا ہوگا- کیا افغان اس تحریر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہ نکالیں گے کہ ہندو ہماری آزادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور کیا ان کا جوش ان کے ہم مذہبوں کے خلاف آگے سے بھی تیز نہ ہو جائے گا اور کیا اس تحریر کے نتیجہ میں انگریزی سیاست کو جو نہایت قیمتی جانیں قربان کرنے اور کروڑوں روپیہ خرچ کے بعد وہاں قائم ہوئی ہے` ایک زبردست ٹھیس نہ لگے گی- میں ہندو صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس قسم کے غیر ذمہ دار اشخاص کو روکیں کہ سارے فساد کے یہی بانی ہیں- یہ لوگ موقع کی نزاکت اور کام کرنے والوں کی مشکلات کو نہیں دیکھتے اور نادان دوست کی طرح اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کو نقصان پہنچا دیتے ہیں- اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ نوجوانان سرحد اس موقع پر نہایت بردباری سے کام لے رہے ہیں- اور ہر اک معقول بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں- پس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس قسم کے فتنہ انگیز مضامین کی روک تھام کی جائے-
میں ہندو صاحبان سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ جس طرح وہ سرحد کے بھائیوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ ہیں اسی طرح وہ چمبہ اور دوسری ریاستوں میں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے` اس کی طرف بھی توجہ کریں اور اس ظلم کو جو کمزور مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے دور کریں- ورنہ ان کا کوئی حق نہیں کہ ابتداء خود کر کے اس کے انجام سے محفوظ رہنے کیلئے واویلا کریں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۸-۷-۱۹۲۷ء
)الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۷ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ہندو مسلم اتحاد کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کی تجاویز
مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کی حفاظت کا انتظام
)تحریر فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۲۷ء بمقام کنگزلے شملہ(
)شملہ میں ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تمام فرقوں کے لیڈروں کی جو کانفرنس مسئلہ اتحاد کے متعلق غور و خوض کرنے کے لئے منعقد ہوئی اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی- اس موقع پر اتحاد کے بارہ میں حضور نے جو بیس امور پیش فرمائے ان کا ترجمہ درج ذیل ہے(-
۱- ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے لیکن ناجائز ذرائع نہیں استعمال کرنے چاہئیں-
۲- کسی جماعت کے مذہب یا بانی مذہب یا دوسرے پاکباز لوگوں کے متعلق جن کو کوئی فرقہ قابل تعظیم سمجھتا ہو` گندی اور معاندانہ تحریروں اور تقریروں کا سدباب ہونا چاہئے اور کسی قوم کے مذہب پر کسی ایسے عقیدہ یا دستور کی بناء پر جس کو وہ قوم اپنے مذہب کا جزو نہ سمجھتی ہو` کوئی اعتراض نہ کیا جائے- متعلقہ جماعتیں اس کے متعلق ذمہ دار سمجھی جائیں اور ایسا کرنے والے کا اس کی قوم کی طرف سے بائیکاٹ ہونا چاہئے یا کوئی دوسری مناسب سزا اس کو ملنی چاہئے حتیٰکہ وہ اپنی قابل اعتراض تصنیف یا تحریر کو علانیہ تلف کر دے اور غیر مشروط معافی مانگے-
۳- ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کر سکے اور کہ ان کو کاروبار کرنے یا دکانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سرپرستی کی تحریک کرے- یہ بات خصوصیت سے مسلمانوں کی حالت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس میدان میں بہت پیچھے ہیں اور اقتصادی آزادی کیلئے ان کا تجارت کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے-
۴- ممکن ہے کہ ہندو مسلمانوں سے اپنے بعض مذہبی عقائد کی بناء پر چھوت چھات کرتے ہوں- مگر مسلمانوں کی اقتصادی حالت پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا ہے جو کہ آزادانہ ہندو دکانداروں سے تمام اشیاء خریدتے ہیں- حالانکہ ہندو اکثر اشیاء مسلمانوں سے نہیں خریدتے- لہذا کسی دشمنی کے جذبات سے متاثر ہو کر یا انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اقتصادی اصلاح کیلئے ہم ان میں اس تحریک کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان اشیاء کی دکانیں کھولیں جو ہندو ان سے نہیں خریدتے اور مزید برآں ہم اپنے ہم مذہب لوگوں کو یہ بھی تلقین کر رہے ہیں کہ وہ ایسی اشیاء صرف مسلم دکانداروں سے لیں- چونکہ یہ تحریک مسلم قوم کیلئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک ہندوستان کے لئے سمجھی جاتی ہے- اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کسی انتقام یا دشمنی کی بناء پر نہ سمجھی جائیں-
۵- کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعرض نہ ہونا چاہئے- اگر مسلمان گائے ذبح کرنا چاہیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے- اسی طرح عیسائیوں` سکھوں` ہندئووں کو سور مارنے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو- مگر کوئی فعل بھی ایسی طرز میں نہ ہونا چاہئے جس سے دوسری قوم کے احساسات کے مجروح ہونے کا احتمال ہو- مثلاً مسلمانوں کو قربانی کی گایوں کا جلوس نہ نکالنا چاہئے یا کسی اور طرح بھی ان کی خواہ مخواہ نمائش نہ کرنی چاہئے اور یہی طریق سور یا جھٹکے کے متعلق ہونا چاہئے- ہمارے خیال میں مسلمانوں کو باجہ بجائے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے- مگر یہ نہایت انسب ہوگا کہ اگر قانون کی رو سے عبادت کے وقت معابد کے سامنے باجہ بجانا ممنوع قرار دیا جا سکے-
۶- مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور اس اصل کو ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزو قرار دینا چاہئے- بدقسمتی سے اس وقت بھی بہت سی ایسی جگہیں ہیں- خاص کر پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی قلیل آبادی کو اذان دینے یا مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں- اسی طرح بعض دیسی ریاستوں میں تبلیغ کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں-
۷- پرائیویٹ بینکرز کا مروجہ ساہوکارہ طریق نہایت قابل اعتراض ہے اور اگرچہ ایسے ساہو کار ہندو اور مسلم میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے مگر پھر بھی زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے اور اس وجہ سے سینکڑوں ہزاروں خاندان تباہ ہو گئے ہیں- بدقسمتی سے جب بھی ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو`گورنمنٹ کوآپریٹو بنکوں کے ساتھ لین دین کی تلقین کی تو ہمیشہ ہم پر ہندئووں سے بائیکاٹ کرانے کا الزام لگایا گیا- لہذا اس کے متعلق ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہندئووں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی رو سے پرائیویٹ ساہوکارہ باضابطہ ہو سکے ہماری مدد کرنی چاہئے اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقبوں میں مسلمانوں کے فائدہ کیلئے کوآپریٹو بنک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں` فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ذریعہ نہ بنائیں-
۸- مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں- اس لئے وہ سرکاری ملازمتوں میں اپنا جائز حصہ نہیں حاصل کر سکتے اور یہ ظاہر ہے کہ ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے راستہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں- جس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں پر تمام ترقیوں کے دروازے عملی طور پر بند ہو گئے ہیں- اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جہاں تک ہمسایہ اقوام کی طاقت میں ہے- اس معاملہ میں تناسب اعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور جس طرح کہ ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے` مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے بھی ملازمتوں میں ان کی نیابت منظور کی جائے- اور ہر صوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہونی چاہئے-
۹- یہ بات بطور اصل تسلیم کی جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کونسل میں قلیل تعداد نہ رکھے- اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خاص مراعات دینا ہوں تو یہ مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے-
۱۰- یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبہ کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو-
۱۱- صوبہ سرحدی میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہونا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ہے اور اس صوبہ میں ہندئووں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں- جہاں وہ قلیل التعداد ہیں-
۱۲- سندھ اور بلوچستان ایک علیحدہ صوبے کی صورت میں تبدیل کر دیئے جائیں اور ہندئووں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں جہاں وہ قلیل التعداد ہیں-
۱۳- چونکہ دیسی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہونا چاہئے- اس لئے یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کسی ریاست میں وہاں کی حکمراں قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے جائیں اور اس کی فوقیت ہونی چاہئے- بنا بریں حیدر آباد ہمیشہ ایک مسلم ریاست رہے- جس میں مسلمانوں کو فوقیت ہو اور کشمیر ایک ہندو ریاست رہے جہاں کہ ہندئووں کو فوقیت حاصل ہو- میرے خیال میں حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے ۶۰ فیصدی حقوق ملنا چاہئے-
۱۴- مختلف صوبہ جات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کرنا چاہئے کہ ایسے صوبہ جات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قواعد و آئین کے اندر رہیں گے-
۱۵- مخلوط انتخاب کا طریقہ اصولاً صحیح ہے مگر ہندوستان کی موجودہ حالت کے مطابق نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطرناک ہے- بہرحال جماعت احمدیہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فی الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کیلئے تیار نہیں- اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چاہئے- اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں` ملنا چاہئے اس اصل کو کانسٹیٹیوشن (CONSTITUTION) میں اس طرح شامل کیا جاوے کہ جب تک منتخب مسلم ممبران اسمبلی میں سے ۴/۳ متواتر ۳- اسمبلیوں میں اس کی تنسیخ کے لئے رائے نہ دیں` نہ بدلا جائے- اور پھر مخلوط انتخاب کا طریقہ اس وقت تک اس صوبہ میں رائج نہ کیا جائے جب تک ممبران کی کثیر تعداد اس کے مخالف ہو- اور کانسٹی ٹیوشن میں ایسی دفعہ موجود ہونی چاہئے جس کی رو سے مخلوط انتخاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی اگر کسی وقت مسلم ممبروں کی تین چوتھائی اس کو اپنے حق میں مضر خیال کرنے لگے اور پھر جداگانہ انتخاب کی طرف عود کرنا چاہئے تو اس معاملہ کا تصفیہ مسلمان رائے دہندگان کے مشورے پر چھوڑا جائے- تا ہم مخلوط انتخاب بطور تجربہ ایک ایسے صوبہ میں رائج کیا جائے جس کی قلیل التعداد اقوام اس کے رواج کو پسند کریں- مثلاً بمبئی میں یہ ہو سکتا ہے اگر سندھ کو اس سے علیحدہ کر دیا جائے-
۱۶- مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جس پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہئے تو اس کو چھوڑ دیا جائے-
۱۷- اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری قوم کو پیشدستی کا الزام دیتی ہے- اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کانفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہو جائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے- یا پھر یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجیدہ واقعہ ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی- ورنہ فطرتاً یہ خیال پیدا ہوگا کہ ذمہ داری کے اظہار کے ڈر سے صلح کی جا رہی ہے-
۱۸- ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں اور جب کبھی کوئی فرقہ وارانہ مخاصمت پیدا ہو تو لوکل بورڈ کے ممبروں کو فوراً جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنی چاہئے اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈروں کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہر ممکن طریق سے مدد دینی چاہئے-
۱۹- انڈین نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف وفاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہئے کہ-:
‏iqt] g[ta >میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو مدنظر رکھوں گا<-
اس کے سوا ممبری کیلئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں- بے شک کثیر التعداد جماعت کو کانگریس کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہئے- مگر جیسا کہ برٹش پارلیمنٹ میں دستور ہے مخالف پارٹیوں کو اپنے خیال کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے- ہمارے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے جس سے کہ ہندوستانی متحد ہو سکتے ہیں-
۲۰- ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے مفاد کی حفاظت کر سکے-
خاکسار
مرزا بشیر الدین محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
کنگزلے شملہ
یکم ستمبر ۱۹۲۷ء
)الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
موجودہ بے چینی کے چند شاخسانے
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
موجودہ بے چینی کے چند شاخسانے
جیسا کہ قاعدہ ہے کہ ہر ایک اہم امر کے ساتھ چند ضمنی امور پیدا ہو جایا کرتے ہیں جو بعض وقت اصل معاملہ سے بھی زیادہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں` اسی طرح موجودہ بے چینی میں بھی ہوا ہے- راجپال کی کتاب کے متعلق مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی- گورنمنٹ اس کے علاج کی فکر میں تھی کہ کنور دلیپ سنگھ صاحب کا فیصلہ ہوا- ملک کی بدقسمتی سے وہ فیصلہ گورنمنٹ اور مسلمانوں کے خیالات کے خلاف ہوا- اس پر طبعا مسلمانوں کے بے چینی اور بڑھی- اتنے میں ورتمان میں ایک مضمون شائع ہوا جو مسلمانوں کے نزدیک پہلے سب مضامین سے بڑھ گیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ گورنمنٹ اپنی طرف سے مسلمانوں کی دلجوئی کے لئے ہر ایک ممکن کوشش کر رہی تھی بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج سرہیلی کی جگہ کوئی مسلمان گورنر ہوتا تو وہ بھی ہتک رسول کریم ~صل۲~ کے مضامین کے معاملہ میں سرہیلی سے زیادہ کچھ نہ کرتا اور کچھ نہ کر سکتا- مگر بعض طبائع جوش کے انتہائی اثرات کے ماتحت اس خدمت کا اندازہ نہ کر سکیں اور شورش اور بڑھ گئی-
اس شورش کے متعلق اب دو اور شاخسانے پیدا ہو گئے ہیں- پنجاب کونسل میں لاہور کے پچھلے جلسوں کے ذکر کے دوران میں سر جیفرے مانٹ مورنسی وزیر مالیہ نے بیان کیا کہ جس وقت ایک جلسہ کو منتشر کرنے کا حکم دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب اس جلسہ میں پہنچ گئے تو چوہدری افضل حق صاحب جو اس جلسہ کے پریذیڈنٹ تھے اور اس وقت نہایت سخت تقریر کر رہے تھے انہوں نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو دیکھتے ہی اپنی تقریر کا لہجہ بدل لیا اور نرم الفاظ استعمال کرنے لگے- دوسری بات سر جیفرے مانٹ مورنسی نے یہ بیان فرمائی کہ گورنمنٹ برطانیہ نے مسلمانوں کی خاطر اس وقت جب کہ مسلمان بالکل مردہ کی طرح ہو گئے تھے` معاہدہ لوزین میں بہت کچھ قربانیاں کر کے ان کی مدد کی- پس اس وقت جب کہ خطرہ معمولی ہے مسلمانوں کو گورنمنٹ پر اعتبار کرنا چاہئے-
سر جیفرے مانٹ مورنسی کی تقریر کے ان دونوں حصوں پر ایک حصئہ رعایا میں اس قدر جوش پیدا ہو گیا ہے کہ وہ پہلے مظاہرات سے کم نہیں ہے- لیکن میرے نزدیک اس قضیئہنامرضیہ میں دونوں فریق کی غلطی ہے- اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرجیفرے مانٹ مورنسی نے جن الفاظ میں چوہدری افضل حق صاحب کا ذکر کیا ہے` وہ الفاظ نامناسب تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے الفاظ پر جن الفاظ میں گرفت کی گئی ہے` وہ بھی نامناسب ہیں- ہمیں اپنی تحریر و تقریر میں اخلاق کے قوانین کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اخلاق کے قوانین حکومت اور رعایا دونوں پر یکساں طور پر حاوی ہیں- گورنمنٹ اپنی تمام شان کے باوجود ان قوانین سے بالا نہیں- اور رعایا اپنی تمام بے بسی کے باوجود ان قوانین سے بری نہیں- سرجیفرے مانٹ مورنسی کا عہدہ گورنر کے بعد ممتازترین عہدوں میں سے ہے اور غالباً وہ کچھ عرصہ کے بعد گورنری کے عہدہ پر مقرر ہونے والے ہیں- پس انہیں اپنی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی طنز آمیز گفتگو میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ دلوں میں بل پڑے ہوئے بہت مشکل سے نکلتے ہیں- چوہدریافضلحق صاحب کے متعلق اگر انہیں کوئی ایسی رپورٹ آئی بھی تھی جو ان کے اخلاق پر اعتراض کا موجب ہوتی تھی تو انہیں برسر اجلاس ان پر اس طرح حرف گیری مناسب نہ تھی- کیونکہ اس قسم کی باتوں کے نتیجہ میں اصلاح نہیں بلکہ فساد پیدا ہوتا ہے- مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں` انہیں اصل معاملہ میں غلطی لگی ہے اور اس کے متعلق میں دوسرے مضمون میں روشنی ڈالوں گا- میرے نزدیک جن الفاظ میں انہوں نے معاہدہ لوزین کا ذکر کیا ہے` وہ بھی ایک مدبر کی شان کے خلاف ہیں- انہوں نے مسلمانوں کی حالت کو ایسا ذلیل کر کے دکھایا ہے اور پھر ان کی نجات کو اس طرح کلی طور پر گورنمنٹ برطانیہ کے احسان پر مبنی قرار دیا ہے کہ ایک مسلمان اس کو پڑھ کر ذلت محسوس کرتا ہے اور بجائے شکریہ کے افسردگی اور اپنی انتہائی بے بسی کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے مگر میں اس مضمون میں بھی ان سے اختلاف رکھتا ہوں- اور بعد میں اس کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں گا-
سر جیفرے کو مخلصانہ مشورہ دینے کے بعد میں ان صاحبان کو بھی جنہوں نے سرجیفرے کی تقریر کے مذکورہ بالا حصہ پر سختی سے اعتراض کئے ہیں کہتا ہوں کہ کیا سخت زبانی سے دنیا میں کبھی بھی نفع ہوا ہے- الفاظ کی سختی سے مقصد کی بلندی کبھی ثابت نہیں ہوتی- بلکہ الفاظ کی سختی سے ہمدردوں کی ہمدردی میں کمی پیدا ہو جاتی ہے- ہمیں اسلام نرمی کا حکم دیتا ہے اور ہمیں اپنے جوشوں کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے اور ہر ایک بات کو دلیل سے ثابت کرنا چاہئے کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس وقت تک کسی ایک شخص نے بھی گورنمنٹ کے اس اعتراض کو جو اس نے چوہدری افضل حق صاحب کے لہجہ کے متعلق کیا ہے` صحیح طور پر دور کرنے کی کوشش نہیں کی- اصل جواب یہ تھا کہ وہ تقریر لکھ دی جاتی جو چوہدری افضل حق صاحب کر رہے تھے اور بتایا جاتا کہ اس تقریر کے فلاں حصہ کے موقع پر ڈپٹی کمشنر صاحب آئے تھے- اس طریق سے ہر ایک شخص آسانی سے سمجھ جاتا کہ گورنمنٹ کا نکالا ہوا نتیجہ غلط ہے یا درست- لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا اور پھر جب کہ ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سرجیفرے مانٹ مورنسی مجبور تھے کہ اس رپورٹ پر اعتبار کرتے جو ان کو بھیجی گئی تھی- اور گو ہم ان کے رویہ کو غلط کہیں مگر ہم ان کی طرف غلط بیانی کا گندہ الزام لگانے کا ہر گز حق نہیں رکھتے- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سر جیفرے جو کچھ کہہ رہے تھے اپنے نزدیک صحیح سمجھ کر کہہ رہے تھے` ان کے الفاظ پر مجھے اعتراض ہے- ان کے اس واقعہ کی طرف کونسل میں اشارہ کرنے پر بھی مجھے اعتراض ہے- مگر یہ بات ہر گز ثابت نہیں بلکہ اس کا امکان بھی ثابت نہیں کہ وہ یہ بات اپنے پاس سے بنا کر کہہ رہے تھے- وہ ان رپورٹوں کے مطابق جو انہیں پہنچیں` تقریر کر رہے تھے- اور باوجود اس کے کہ ہم ان رپورٹوں کو غلط کہیں ہمارا حق نہیں کہ ہم ان کی طرف جھوٹ یا بدنیتی کو منسوب کریں- اس طرح ہر ایک بات پر نیت اور راستبازی پر حملہ کر دینے سے ملک میں ہر گز امن قائم نہیں ہو سکتا- اور یہ طریق خود ہمیں بدنام اور ذلیل کر دیتا ہے- اور ہماری کم حوصلگی کو ظاہر کرتا ہے-
اے بھائیو! ادب اور احترام کسی کے لئے ذلت کا موجب نہیں ہوتا بلکہ ہماری عزت نفس پر دلالت کرتا ہے- پس ہمیں ہمیشہ دوسروں کے ادب اور احترام کا خیال رکھنا چاہئے-
علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ سرجیفرے آج پہلی دفعہ ہندوستان نہیں آئے انہوں نے اپنی عمر اس جگہ گزاری ہے- اور سب لوگ ان کے اخلاق اور ان کے رویہ سے واقف ہیں- اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کے ملنے والے ان کے اخلاق کی تعریف اور ان کی خیر خواہی کی مدح کرتے ہیں- پس صرف ایک ایسی بات کی وجہ سے جس میں ہم ان سے اختلاف رکھتے ہوں` ان پر حملہ آور ہونا آئین اخلاق کے خلاف ہے- دنیا آگے ہی مسلمانوں کو وحشی قرار دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اخلاق سے اس اعتراض کو دور کریں اور اپنی زبانوں اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیں کہ اسلام کی تعلیم نے ہمارے اخلاق میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی اور قوموں میں نہیں ملتی-
)الفضل ۲- اگست ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فائونڈیشن کو حضرت المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کی پر معارف تصنیفات کی نویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے- الحمدللہ علی ذلک
اس جلد میں جو کتب شامل ہیں وہ دسمبر ۱۹۲۴ء تا ستمبر ۱۹۲۷ء کے زمانہ کی ہیں- علوم ظاہری و باطی سے پر اس وجود کی تحریرات و تقاریر نے جماعت کی روحانی ترقی اور تزکیہ نفوس میں بھرپور کردار ادا کیا- یہ رشد و ہدایت کا ایک ایسا یادگار خزانہ ہے جس کی افادیت اور عظمت دائمی حیثیت رکھتی ہے-
زیر نظر مجموعہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قلب صافی کی ایک نہایت خوبصورت جھلک سامنے آتی ہے وہ ہے سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق اور شیفتگی کے جذبات- یہ جذبات ایسے ہیں جو گہری عقل و دانش مندی اور پوری سنجیدگی سے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں- اور محض سطحی جوش یا جذباتیت کا نتیجہ نہیں ہیں- یہ وہ وقت تھا جب بعض نادان ہندئووں نے مسلمانوں کے پاک نبی حضرت محمد ~صل۲~ کی شان میں گستاخی کی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل چھلنی ہو گئے- عدالت عالیہ نے بھی ان کی تائید کی اور ایک مخلص احمدی سید دلاور علی شاہ صاحب نے اس عدالت کے فیصلہ پر تنقید کی تو ان ¶کو اور ان کے ساتھی کو توہین عدالت کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی- انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مشورہ کی تعمیل میں کسی قسم کی معذرت کرنے سے انکار کر دیا اور نبی کریم ~صل۲~ کی شان کو بلند رکھنے کے معاملہ میں قید و بند کی صعوبت گوارا کر لی-
جب بعد میں ان گستاخان رسول ہندئووں کو بھی سزا ہو گئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس پر کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ فرمایا جیسا کہ مسلمانان ہند کر رہے تھے- بلکہ فرمایا-:
>میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا اپنے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ~صل۲~ کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو قرار نہیں دیتا میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ~صل۲~ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے- ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا` میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا- میں ایک دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا بلکہ میں اگلے اور پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جلا دینے کیلئے آیا تھا نہ کہ مارنے کیلئے` وہ لوگوں کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کیلئے` وہ زمین کو آباد کرنے کیلئے آیا تھا نہ کہ ویران کرنے کیلئے<- )فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض صفحہ۱(
چشم فلک نے حضرت محمد مصطفیٰ ~صل۲~ کا ایسا بے نظیر عاشق کہاں دیکھا ہوگا؟ کہیں نہیں ہر گز کہیں نہیں- ان باتوں میں عشق کی والہانہ شیفتگی بھی ہے اور گہری محبت بھی مگر کسی بھی مرحلے پر یہ غیر معمولی محبت عقل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی- یہ مقام اس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جس کا راہنما خود خدا ہو جس کو خدا نے اپنی تقدیر خاص سے اس وقت دنیا کی اصلاح پر خود مقرر فرمایا ہو- بلاشبہ حضرت مصلح موعود کا یہی مقام تھا-
اس جلد میں ایک اہم کتاب >منہاج الطالبین< ہے جو جلسہ سالانہ ۱۹۲۵ء کی دو تقاریر پر مشتمل ہے اس میں حضور نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں وہ طریق بتائے ہیں جن سے انسان گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اور نیکیوں کی راہ پر چل پڑتا ہے-
ایک خاص کتاب >مذہب اور سائنس< ہے یہ لیکچر حضور نے سائنس یونین اسلامیہ کالج لاہور کی درخواست پر ۳ مارچ ۱۹۲۷ء کو حبیبہ ہال میں دیا- تقریب کی صدارت علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے کی- حضور نے یہ بنیادی نکتہ بتایا ہے کہ مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے اور سائنس خدا کا فعل اور کسی عقل مند کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا-
اس جلد میں >مذہبی رواداری کی ایک بے نظیر مثال< کے نام سے ایک واقعہ کا ذکر ہے- قادیان کے کچھ سکھ صاحبان نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب )سابق مہر سنگھ( کی کتاب >گروبابا نانک کا مذہب< میں ان کے پیشوائوں پر حملہ کیا گیا ہے- حضور نے معاملہ کی تحقیق فرمائی تو فرمایا کہ اگرچہ یہ کتاب قانون کی زد میں نہیں آتی مگر سکھوں کا دل دکھانے کیلئے کافی ہے- لہذا سکھوں کی دلداری کیلئے حضور نے یہ غیر معمولی اور تاریخی اہمیت کا قدم اٹھایا کہ جماعتی طور پر اس کتاب کو ضبط کرنے کا حکم فرما دیا اور حکم فرمایا کہ کوئی احمدی اس کتاب کو اپنے پاس نہ رکھے- دنیائے مذاہب کی تاریخ میں اس قسم کے نادر واقعہ کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے-
اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں بہت سے بزرگوں اور مربیان سلسلہ نے دلی محبت اور اخلاص سے خدمات انجام دی ہیں- مکرم مولانا فضل الہی صاحب بشیر` مکرم چوہدری رشید الدین صاحب` مکرم عبدالرشید صاحب طاہر` مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ اور مکرم منصور احمد صاحب ناصر مربیان سلسلہ نے مسودات کی ترتیب` پروف ریڈنگ` حوالہ جات کی تلاش اور نظر ثانی کے سلسلہ میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے- فجزاھم اللہ احسن الجزاء
تعارف کتب مکرم عبدالستار صاحب اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب مربیان سلسلہ کا تحریر کردہ ہے- خاکسار ان کا بھی دلی شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان سب احباب کو اپنے افضال اور برکات سے نوازے- ان کے علم و معرفت میں برکت ڈالے- بے انتہا فضلوں اور رحمتوں سے نوازے اور ہمیں اس اہم ذمہ داری سے صحیح طور پر عہدہ برا ہونے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۵ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۵ء(
‏]txet [tag دنیا کا ہر ایک کام ہی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہوتا ہے اور ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ خدا انسان سے جبراً کوئی کام کراتا ہے` پھر بھی یہ اس کی صفات کا عین تقاضا ہے کہ دنیا کا ایک ذرہ بھی اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتا جب تک خدا کا اذن نہ ہو- اگر کوئی زندہ خدا نہیں- تو پھر کوئی زندہ مذہب بھی نہیں- اور اگر زندہ مذہب نہیں تو اس کی خاطر تکلیف برداشت کرنا اموال اور اوقات صرف کرنا بھی عقل کے خلاف ہے- مگر اصل بات یہ ہے کہ زندہ خدا ہے اور اسی کے حکم سے سب کچھ ہوتا ہے اور علاوہ اس کے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے` خدا تعالیٰ کے امر اور اس کے حکم اور اس کے فیصلہ سے ہو رہا ہے- ہماری جماعت کے کاموں میں ایک خاص خصوصیت ہے- اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے کام تقدیر عام کے ماتحت نہیں بلکہ تقدیر خاص کے ماتحت ہوتے ہیں- ہر انسان جو سانس لیتا ہے تقدیر عام کے ماتحت لیتا ہے- اسی طرح ہر قوم جو دنیا میں ترقی اور تنزل کرتی ہے تقدیر عام کے ماتحت کرتی ہے- مگر ہم جو قدم اٹھاتے ہیں تقدیر خاص کے ماتحت اٹھاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عام تقدیر اس کی موید ہوتی ہے- پس میں سالانہ جلسہ کے شروع کرنے سے قبل جس کی بنیاد خدا تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت اس کے مرسل نے رکھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے تمام کاموں میں برکت دے` ہماری نیتوں میں برکت دے` ہمارے قلوب درست کرے` ہماری کمزوریوں کو معاف کر کے اپنے فضل سے اس کام کو بلند کرے جس کیلئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا- میں احباب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ دعا میں شامل ہوں تاکہ جو کام ہم شروع کرنے والے ہیں وہ خدا کا کام ہو نہ کہ ہمارا- اور اس کی ابتدا ہمارے نفوس سے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے اذن سے ہو-
)اس کے بعد لمبی دعا کی گئی اور پھر حضور نے فرمایا:)
اب پروگرام کے مطابق انشاء اللہ جلسہ کی کارروائی شروع ہوگی مجھے چونکہ اور کام ہے اس لئے میں جاتا ہوں- دوستوں کو چاہئے کہ دور دراز سے ہمت کر کے آئے ہیں تو جلسہ کے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں اور لیکچر دینے والے جو بات کہیں اسے غور سے سنیں کیونکہ جب تک غور سے کوئی بات نہ سنی جائے اس کا فائدہ نہیں ہوتا اور مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے خدا کی بات کی جائے تو ڈھیلا ہو کر خدا کے حضور گر پڑتا ہے- پس احباب ہر ایک بات غور اور توجہ سے سنیں-
)الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۶ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
فسادات لاہور پر تبصرہ
فسادات لاہور پر تبصرہ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
برادران! السلام علیکم
پچھلے منگل ` بدھ اور جمعرات کو لاہور میں جو فساد ہوا ہے اس کے واقعات سے تو آپ لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ واقف ہیں` اس لئے ان کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- ہاں میں اس امر پر افسوس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بے گناہ مسلمانوں کو جو نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل رہے تھے` بعض ہندئووں اور سکھوں نے ہندئووں کے اشتعال دلانے پر بے دردی سے قتل کر دیا اور پھر ان کے جنازہ کے وقت بلا کسی انگیخت کے سنگ باری کر کے جلتی ہوئی آگ پر اور تیل ڈالا- ہاں میں اس موقع پر ان لوگوں کی موت پر بھی افسوس کرتا ہوں جو سکھوں یا ہندئووں میں سے اس جوش و فساد کے موقع پر مارے گئے- میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے اکثر اسی طرح بیگناہ تھے جس طرح کہ مسلمان کیونکہ ان کا جرم ثابت نہیں کیا گیا- جس طرح سوامی شردھانند کے مارے جانے پر قاضی محبوب علی صاحب کا مارا جانا جائز نہ تھا اسی طرح مسلمان مقتولین کے بدلہ میں ان لوگوں کا مارا جانا درست نہ تھا اور گو البادیاظلم text] gat[کے ماتحت ہندو اور سکھ صاحبان یقیناً ظالم ہیں جنہوں نے ابتداء کی اور بے دردانہ ابتداء کی اور پھر اپنے ظلم پر اصرار کیا اور اس کو جاری رکھا- لیکن باوجود اس کے ہندئووں اور سکھوں کے مقتولین پر بھی ہمیں اخلاقاً اور شرعاً اظہار افسوس کرنا چاہئے اور چاہئے کہ ایسے مواقع پر آئندہ اس قسم کا بدلہ نہ لیا جائے- اسلام کا فخر اس کی مظلومیت میں ہے اور ہمیں رسول کریم ~صل۲~ فداہ نفسی و روحی کے اسوہ حسنہ پر چل کر بتا دینا چاہئے کہ مسلمان کے جذبات ہمیشہ اس کے قابو میں رہتے ہیں-
ہمیں اپنا بدلہ اس تعلیم سے اور اس تعصب سے لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں یہ واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اور ہمیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ ہندوستان کے ہر گھر میں اسلامی تعلیم کو قائم کر دیں- تا نہ یہ اختلاف مذاہب رہے اور نہ یہ خونریزیاں ہوں- ان تمام فسادات کا علاج صرف تبلیغ اسلام ہے اور اس کام کے لئے ہمیں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے- عارضی جوش اسلام کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا- اسلام ہم سے اس قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر روز کی جائے` دن کو بھی اور رات کو بھی- وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنے آرام اور اپنی آسائش کو اس کے لئے قربان کر دیں- ہم اس کی اشاعت کے لئے اپنے سارے ذرائع کو استعمال کریں اور سانس نہ لیں` آرام کی نیند نہ سوئیں جب تک اس امر میں کامیاب نہ ہو جائیں- پس پچھلے واقعات سے سبق حاصل کر کے آپ لوگوں کو چاہئے کہ اشاعت اسلام کی طرف توجہ کریں- اور اپنے اموال اور اپنے اوقات اس راہ میں خرچ کریں-
میں آپ لوگوں کو یہ بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سکھ صاحبان کے گرو اسلام کے بہت بڑے مداح تھے- اور مسلمان اولیاء سے ان کے گہرے تعلقات تھے بلکہ ہماری تحقیق کی رو سے تو حضرت باوا نانک رحمہ اللہ علیہ مسلمان تھے- تبھی تو انہوں نے مکہ کا حج کیا اور باوا فرید صاحب رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور ان کے جانشینوں نے میاں میر صاحب رحمہ اللہ علیہ سے امرتسر کے گوردوارہ کا پتھر رکھوایا- لیکن بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے ہندئووں کی نسبت زیادہ تھے اور صرف بعد میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے سکھ صاحبان ہندو صاحبان سے مل گئے- لیکن اب بھی توحید کے مسئلہ میں وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے- پس مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھائیں اور اس شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندئووں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں- بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذرا سی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے- خصوصاً جب کہ ان کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے- کیونکہ ہندئووں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعداد ہی رہتے ہیں لیکن مسلمانوں سے مل کر وہ ایک زبردست پارٹی بنا سکتے ہیں جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید ہو سکتی ہے-
اس کے بعد میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جگہ ہر قصبہ اور ہر شہر کے مسلمانوں کو جلسے کر کے گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے کہ وہ یا تو سب کو ہتھیار رکھنے کی اجازت دے یا پھر کسی کو بھی اجازت نہ دے- ورنہ ہر وقت کے خوف کی وجہ سے مسلمانوں کی اخلاقی حالت بہت ہی گر جائے گی- لیکن جب تک گورنمنٹ اس بارہ میں کوئی کارروائی نہ کرے` جہاں قانون اجازت دیتا ہے` وہاں کے مسلمانوں کو اپنے پر فرض کر لینا چاہئے کہ ہر ایک شخص اپنے گھر میں ایک سونٹا رکھے اور جب بھی وہ گھر سے باہر نکلے سونٹا لے کر نکلے خواہ وہ نماز کے لئے ہی کیوں نہ جاتا ہو- اگر اس امر کی طرف پہلے توجہ کی جاتی تو اس قدر جان کا نقصان نہ ہوتا- ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک مسلمان کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق کبھی حملہ میں ابتداء نہیں کرے گا بلکہ صرف مجبوری کی حالت میں جب اپنی جان کو خطرہ میں دیکھے گا` سونٹے کو استعمال کرے گا اور وہ بھی اس وقت تک کہ حملہ آور بے کار ہو جائے اور انسانی جان کے لینے سے بکلی اجتناب کرے گا-
ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ مسلمان مقتولین و مجروحین اور ان کی جو بے قصور گرفتار کئے گئے ہیں خصوصاً اور ہندو اور سکھ مقتولین و مجروحین کی عموماً مدد کریں- تا ان گھروں پر جن کے آدمی مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں` دوہری مصیبت نازل نہ ہو- ایک مصیبت جان کی اور دوسری فاقہ کشی کی- ہمیں اس امداد میں اسلامی تعلیم کے مطابق اس قدر وسیع الحوصلہ ہونا چاہئے کہ ہندو اور سکھ مقتولین اور مجروحین کی امداد سے بھی غفلت نہ کی جائے- مسلمان ہمیشہ مصیبت زدہ دشمن کی مدد کرتے چلے آئے ہیں حتیکہ ترک اس گئے گذرے زمانہ میں بھی جنگی قیدیوں کو آپ بھوکا رہ کر کھانا کھلاتے رہے ہیں- پس ہماری ہمدردی کی بنیاد قرآن کریم کے پیش کردہ خدا کی طرح ربوبیت عالمین پر ہونی چاہئے- میں اس غرض کے لئے اپنی جماعت کی طرف سے دو سو روپیہ کا وعدہ کرتا ہوں- اور امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے احباب اپنے اپنے حلقہ اثر میں دوسرے بہی خواہان بنی آدم سے بھی مناسب رقوم جمع کر کے اس غرض کیلئے بھجوائیں گے تاکہ جلد سے جلد مصیبت زدگان کی مناسب امداد کی جائے-
میں نے اپنے چیف سیکرٹری خان ذوالفقار علی خان صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر و مالک ہمدرد دہلی اور فارن سیکرٹری ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب سابق مبلغ امریکہ کو جو دونوں کہ اس وقت لاہور میں ہیں` ہدایت کی ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس مشکل کے وقت میں مسلمانوں کی امداد کریں اور جماعت کے دوسرے دوستوں سے بھی مدد دلوائیں-
مجھے نہایت افسوس ہے کہ لاہور میں جہاں کے باشندوں کو میں نے ہمیشہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور حوصلہ مند پایا ہے` اس قسم کا فساد ہوا اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ فساد آخری فساد ہوگا- اور اس سے سبق حاصل کر کے وہ لوگ جو ہندوستان میں فساد کی آگ بھڑکانے میں خاص لذت حاصل کر رہے ہیں- اور جن میں سے بعض بدقسمتی سے لاہور کے باشندے ہیں آئندہ اپنے رویہ میں تبدیلی کریں گے اور غور کریں گے کہ کس طرح اس فساد کے موقع پر وہ ہندو جو احمدیوں کے درمیان رہتے تھے` ہر ایک شر سے محفوظ رہے ہیں- اور نصیحت حاصل کریں گے کہ تبلیغ کے جوش کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ انسان انسانیت سے بھی خارج ہو جائے- ان ہندو صاحبان کا جوش تبلیغ` احمدیوں سے زیادہ نہیں ہو سکتا- پس جس طرح باوجود انتہائی درجہ کا جوش تبلیغ رکھنے کے ایک احمدی ایک ہندو پر ہاتھ نہیں اٹھاتا` ایک ہندو کیوں ایک مسلمان پر ہاتھ اٹھائے-
میں اس امر کا اظہار کر کے اس اشتہار کو ختم کرتا ہوں کہ میں نے ایک رسالہ لکھا ہے کہ اس وقت مسلمان اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کس طرح کر سکتے ہیں- تمام احباب سے درخواست ہے کہ دو پیسہ کا ٹکٹ بھیج کر یہ رسالہ صیغہ ترقی اسلام قادیان سے مفت طلب کریں- شاید کہ خدا تعالیٰ ان کے ہاتھ سے کوئی خدمت لے لے اور ان کے لئے دین و دنیا کی بہتری کے سامان جمع ہو جائیں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان گورداسپور
)الفضل ۱۳ مئی ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے
)تحریر فرمودہ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۲۷ء بمقام قادیان(
میں متواتر اعلان کر چکا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کی حفاظت صرف اس امر میں ہے کہ وہ ان امور میں کہ جو سب مسلمانوں میں مشترک ہیں` متحد ہو کر کام کریں اور اپنی طاقت کو ضائع نہ ہونے دیں- اس جدوجہد کے نتیجہ میں جو ہم نے پچھلے دنوں کی ہے خدا کے فضل سے مسلمانوں میں اس قدر بیداری پیدا ہو چکی ہے کہ اہل ہنود دل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں اور ایسی تجاویز سوچ رہے ہیں جن کے ذریعہ سے مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کر دیں- میں نے پہلے بھی مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں تمام ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دیں اور ہماری طاقت کو پراگندہ کر دیں-
تمام احباب جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے تمام مسلمان کہلانے والوں کے ایک مشترکہ جلسہ کرنے کی تحریک ایک ماہ سے کی جا رہی ہے- اور خدا کے فضل سے اس کام میں جو ہمارا ذاتی نہیں ہے بلکہ اسلام کا ہے` تمام بہی خواہان اسلام ہم سے مل کر کام کر رہے ہیں- ان جلسوں کے لئے شروع دن سے بائیس جولائی کی تاریخ اور نماز جمعہ کے بعد کا وقت مقرر تھا- لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلافت کمیٹی کی طرف سے حال ہی میں ایک اعلان ہوا ہے کہ ان کی طرف سے بھی بائیس جولائی کو اسی وقت جلسے کئے جائیں-
)انقلاب مورخہ ۱۷ جولائی صفحہ۷ ب کالم۴(
میرا خیال ہے کہ اس تاریخ کے مقرر کرتے وقت کارکنان خلافت کے ذہن میں یہ بات نہ ہوگی کہ ایسے جلسے پہلے مقرر ہو چکے ہیں- ورنہ وہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں میں پورے اتحاد کی ضرورت ہے بائیس جولائی کو الگ جلسے مقرر نہ کرتے مگر اب جب کہ ان کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے` میں مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے خواہش کرتا ہوں کہ چونکہ ہماری طرف سے ایک ماہ سے اعلان ہو رہا تھا اور تیاری مکمل ہو چکی ہے اور متواتر اخباروں اور پوسٹروں کے ذریعہ سے تحریک ہوتی رہی ہے اور بعض اہم مقامات کی طرف واعظ بھی بھیجے جا چکے ہیں اور ہزاروں روپیہ کا خرچ برداشت کیا جا چکا ہے` اس لئے خلافت کمیٹی مہربانی فرما کر اپنے جلسوں کو یا تو کسی دوسرے دن پر ملتوی کر دے یا کم سے کم وقت ہی بدلا دے- مثلاً یہ کہ جن جلسوں کا انتظام ہم نے کیا ہے` وہ جمعہ اور عصر کے درمیان ہونگے تو وہ بعد از مغرب اپنے جلسے مقرر کر دے- اگر اس قدر خرچ اور محنت سے اور نیز سب فرقوں کے سربرآوردہ لوگوں کے مشورہ کے ساتھ جلسوں کا انتظام نہ ہو چکا ہوتا تو میں خود ہی جلسہ کی تاریخیں بدل دیتا- کیونکہ وقت اور دن کی نسبت اتحاد بہت زیادہ اہم شے ہے- لیکن ایک ماہ کی مسلسل تیاری کے بعد ہمارے لئے اس قدر مجبوریاں ہیں کہ ہمارے لئے دن اور وقت کا بدلنا بہت مشکل ہے- خصوصاً اس لئے کہ جو جلسے بائیس کو ہماری تحریک پر مقرر ہوئے ہیں` وہ صرف ہماری جماعت کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ شیعہ` سنی` اہلحدیث` حنفی` احمدی سب کی طرف سے مشترکہ جلسے ہیں-
دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں
بائیس تاریخ کوئی مذہبی تاریخ نہیں کہ اس سے جلسے ادھر ادھر نہ کئے جا سکتے ہوں- اس لئے بجائے اس کے کہ طاقت کو منتشر کیا جائے اور دشمنوں کو ہنسی کا موقع دیا جائے` کیوں نہ دو مختلف تاریخوں میں جلسے ہوں اور طاقت کو پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے-
اگر ایک ہی وقت میں مسلمانوں کی کچھ جماعت ایک طرف اور کچھ دوسری طرف جاتی ہوئی نظر آئی تو ہندو لوگ کہیں گے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی حفاظت کے معاملہ میں بھی یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے- اور اس سے اسلام کی عزت کو جو صدمہ پہنچے گا` اس کا اندازہ ہر اک اسلام کا درد رکھنے والا انسان خود ہی لگا سکتا ہے- ہندئووں کو جو دلیری اور جرات اس سے حاصل ہوگی` اس کا خیال کر کے میرا دل کانپ جاتا ہے اور میری روح لرز جاتی ہے-
اسلام کیلئے کربلا کا زمانہ
اس آفت و مصیبت کے زمانہ میں کہ اسے کربلا کا زمانہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ کفر و ضلالت کے لشکر محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے لائے ہوئے دین کو اسی طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے گھیرا ہوا تھا- آہ! آج اسلام کی وہی حالت ہے جو ذیل کے شعر میں بیان ہوئی ہے کہ
ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین
اشتراک عمل کی دعوت
پس میں امید کرتا ہوں کہ مرکزی خلافت کمیٹی اپنے فیصلہ میں مندرجہ بالا تبدیلی کر کے دشمنان اسلام کے دلوں پر ایک کاری حربہ چلائے گی اور ان کی تازہ امیدوں کو خاک میں ملا دے گی اور مقامی انجمن ہائے خلافت بھی اپنے جلسوں کو کسی اور وقت اور دن پر ملتوی کر دیں گی اور ان جلسوں کو جو تمام اسلامی فرقوں اور سوسائیٹیوں کی طرف سے مشترک طور پر ہونے والے ہیں` ان میں اپنے مقرر وقت پر منعقد ہونے میں مزاحم نہ ہوں گی بلکہ مددگار اور شریک بنیں گی-
سول نافرمانی کے تباہی خیز نقصانات
پھر ان احباب کو جو سول نافرمانی کو اس وقت کی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں- مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ یہ خیال درحقیقت گاندھی جی کا پھیلایا ہوا ہے اور اس کے عیب و ثواب پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا- میرے نزدیک اگر غور کیا جائے تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے موجودہ حالات میں سول نافرمانی سے زیادہ خطرناک اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی- اور یقیناً اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت پہلے سے بھی خراب ہو جائے گی- اور عدم تعاون کے دنوں میں ہندئووں نے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا تھا اور جس کے اثر کو وہ کئی سالوں میں جا کر بہ مشکل دور کر سکے ہیں اس سے بھی زیادہ اب نقصان پہنچ جائے گا-
اس وقت ہمارا مقابلہ ہندئووں سے ہے
اے بھائیو! ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس وقت ہمارا مقصد کیا ہے اور پھر اس کے مطابق ہمیں علاج کرنا چاہئے کیونکہ دانا وہی ہوتا ہے جو تشخیص کے بعد مرض کا علاج شروع کرتا ہے- اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارا اس وقت مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی جو ہتک کی جاتی ہے` اس کا سدباب کریں اور آپ کی عزت کی حفاظت کا مقدس فرض جو ہم پر عائد ہے اس کو بجا لائیں- اگر میرا یہ خیال درست ہے تو کیا پھر پہلی بات کی طرح یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ ہتک ہندئووں کی طرف سے کی جا رہی ہے نہ کہ گورنمنٹ کی طرف سے- پس ہمارا مقابلہ ہندئووں سے ہے نہ کہ گورنمنٹ سے- گورنمنٹ تو اس وقت حتی الوسع ہماری مدد پر کھڑی ہے اور ہمیں ان اخلاقی ذمہ داریوں کے ماتحت جو اسلام نے ہم پر عائد کی ہیں` ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے نہ کہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائیکورٹ کے ایک جج کے فیصلہ کے نتیجہ میں ہندئووں کو اور بھی دلیری ہو گئی ہے اور انہوں نے پہلے سے بھی سخت حملے اسلام پر شروع کر دیئے ہیں- لیکن پھر کیا یہ بھی درست نہیں کہ گورنمنٹ اس فیصلہ کو بدلوانے کی پوری کوشش کر رہی ہے- اور غیر معمولی ذرائع سے جلد سے جلد اس مفسدہ پردازی کا ازالہ کرنے پر تلی ہوئی ہے اور ہزایکسلینسی HISEXCELLENCY) ( گورنر پنجاب نے مسلمانوں کے وفد کے جواب میں نہایت پر زور الفاظ میں مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان گندے مصنفوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے- جب حالات یہ ہیں تو پھر کیا اخلاق` کیا عقل اور کیا فوائد اسلام ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم سول نافرمانی کو جو ہندئووں کے خلاف نہیں بلکہ گورنمنٹ کے خلاف ہے` اختیار کریں اور کیا اس ذریعہ سے ہندو رسول کریم ~صل۲~ کو گالیاں دینے سے باز آ جائیں گے-
سول نافرمانی اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے خلاف ہے
مگر علاوہ اس کے کہ سول نافرمانی اس موقع پر اخلاق کے خلاف ہے` وہ اسلام اور مسلمانوں کے فوائد کے بھی خلاف ہے- سولنافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار نہ ہوں- سول نافرمانی دو غرضوں کیلئے ہو سکتی ہے-
۱- جب کہ ہم کوئی کام کرنا چاہیں جسے گورنمنٹ منع کرتی ہو-
۲- جب کہ ہم گورنمنٹ کو کسی کام کے کرنے سے روکیں یا اس سے کوئی کام کروانا چاہیں-
صورت اول میں اس قدر کافی ہوتا ہے کہ بہت سے آدمی اس کام کو کرنے لگیں کہ جس سے گورنمنٹ روکتی ہو- اگر گورنمنٹ ان کو روکے تو وہ نہ رکیں حتیٰکہ گورنمنٹ مجبور ہو جائے کہ انہیں گرفتار کرے- چونکہ گورنمنٹ لاکھوں آدمیوں کو قید میں ڈال نہیں سکتی` اس لئے جو امور معمولی ہوتے ہیں اور گورنمنٹ کے قیام کا ان سے تعلق نہیں ہوتا` وہ ان میں لوگوں کے مطالبہ کو پورا کر کے اپنے حکم کو واپس لے لیتی ہے- اس صورت میں کامیابی کیلئے اس قدر تعداد آدمیوں کی چاہئے کہ جن کو گورنمنٹ جیل خانوں میں رکھ ہی نہ سکے- جب گورنمنٹ کی طاقت سے قیدی بڑھ جاتے ہیں تو اسے دینا پڑتا ہے- مگر یہ صورت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے کہ جب کسی ایسے کام کے کرنے کا ہم ارادہ کریں جس کی گورنمنٹ اجازت نہیں دیتی-
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ سے لوگ کوئی مطالبہ پورا کرانا چاہیں یا دوسرے لوگوں کو کسی کام سے روکنا چاہیں- اس صورت میں چونکہ ان کا کام کچھ ہوتا ہی نہیں` انہیں سول نافرمانی کے لئے کوئی اور چیز تلاش کرنی پڑتی ہے- مثلاً وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب تک گورنمنٹ ہمارا مطالبہ پورا نہیں کرے گی` ہم اسے لگان نہیں دیں گے یا ٹیکس نہیں دیں گے- اس صورت میں بھی قریباً ساری کی ساری قوم کی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جن کی جائدادیں گورنمنٹ اپنے حق کے لئے قرق کرائے` اگر ان کی جائدادوں کو دوسرے لوگ خریدنے پر تیار ہو جائیں تو گورنمنٹ کا کیا نقصان ہوگا` انہی لوگوں کا اپنا نقصان ہوگا-
غرض کوئی صورت بھی ہو` سول نافرمانی بغیر سارے ملک کے اتفاق کے یا کم سے کم ایک بڑے حصہ کے اتفاق کے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی- پچھلے چند سالوں میں جرمنی کے لوگوں نے فرانسیسیوں کے خلاف اس علاقہ میں جو فرانس والوں نے لے لیا تھا` سول نافرمانی کی تھی- مگر وہ باوجود ایک قوم اور بڑے تعلیم یافتہ ہونے کے کامیاب نہ ہو سکے- اور آخر مجبوراً انہیں اپنا رویہ بدلنا پڑا- مگر جو سامان جرمنوں کو حاصل تھے` وہ مسلمانوں کو حاصل نہیں- اور پھر سب ملک میں صرف وہی آباد نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد سکھوں اور ہندئووں کی بھی ہے- پس سول نافرمانی سے گورنمنٹ کے کام نہیں رکیں گے- بلکہ صرف یہ نتیجہ ہوگا کہ جو تھوڑی بہت تجارت اور زمیندارہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے وہ بھی ہندئووں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور یہی اس وقت ہندئووں کی خواہش ہے- ہم سول نافرمانی کی صورت میں رسول کریم ~صل۲~ کی عزت کی حفاظت نہیں کریں گے بلکہ اپنی طاقت کو کمزور کر کے اور اپنے دشمن بڑھا کر لوگوں کو آپ کی ہتک کا اور موقع دیں گے-
سول نافرمانی کیلئے لاکھوں آدمی کہاں سے آئیں گے
جیسا کہ میں بتا آیا ہوں` سول نافرمانی بغیر لاکھوں آدمیوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی- پس اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ لاکھوں آدمی سول نافرمانی کرنے والے کہاں سے آئیں گے- کیا اپنے نوجوانوں کو جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں` ہم اس کام کیلئے پیش کریں گے یا اپنے تاجروں کو یا اپنے زمینداروں کو یا اپنے پیشہ وروں کو- ان میں سے کسی ایک کو اس کام کے لئے پیش کرو نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے نہایت خطرناک پیدا ہوگا- طالب علم اگر اس کام کے لئے آگے بڑھے تو مسلمان جو تعلیم میں آگے ہی پیچھے ہیں اور بھی پیچھے رہ جائیں گے اور ہماری ایک نسل بالکل بے کار ہو جائے گی- اگر تاجروں یا پیشہوروں کو جیل خانہ بھجوایا گیا تو ہندئووں کو اس سے اور بھی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان اور بھی زیادہ سختی سے اقتصادی طور پر ان کے غلام بن جائیں گے- اور دس مسلمان جو روٹی کھاتے ہیں` وہ بھی اپنے کام سے جائیں گے- اگر زمیندار قید خانوں میں بھیجے گئے` تب بھی ہندئووں کو عظیمالشان فائدہ پہنچے گا- غرض بغیر لاکھوں آدمیوں کو سول نافرمانی پر لگانے سے کام نہیں چل سکتا اور اس قدر تعداد میں مسلمان اگر سول نافرمانی کے لئے تیار بھی ہو جائیں تو یقیناً مسلمانوں کی طاقت پنجاب میں بالکل ٹوٹ جائے گی اور ہم جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ہندئووں کی غلامی سے آزاد ہوں تاکہ ہماری آواز میں اثر پیدا ہو اور بھی زیادہ پست حالت کو پہنچ جائیں گے اور کہیں ہمارا ٹھکانہ نہیں رہے گا-
بے شک اگر صرف شغل کرنا ہمارا مقصد ہو تو چند ہزار آدمی اس کام پر لگ کر شور پیدا کر سکتے ہیں- لیکن اگر ہمارا مقصد اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کو طاقتور بنانا ہے تو یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی- جب تک کہ سب ملک میں مسلمان ہی نہ بستے ہوں اور جب تک سب کے سب سول نافرمانی پر آمادہ نہ ہو جائیں- اور چونکہ صورت حالات اس کے برخلاف ہے` اس لئے سول نافرمانی سے کامیابی کی امید رکھنا بالکل درست نہیں-
جیل میں جانے والوں کے بال بچے کیا کریں گے
پھر ہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جو لوگ جیل خانوں میں جائیں گے` ان کے رشتہ داروں کا گذارہ کس طرح ہوگا- مسلمانوں کے پاس حکومت نہیں کہ وہ جبریہ ٹیکس سے سب کے گذارہ کی صورت پیدا کر لیں گے- جو لوگ قید ہوں گے ان کے رشتہ دار یقیناً قرض پر گذارہ کریں گے اور وہ قرض ہندو بنئے کے پاس سے انہیں ملے گا جس کی وجہ سے وہی لوگ جو اسلام کی مدد کیلئے نکلیں گے درحقیقت اسلام کو اور زیادہ کمزور کر دینے کے موجب ہو جائیں گے-
عدم تعاون کے بعد سول نافرمانی ہونی چاہئے
یہ امر بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ سولنافرمانی ہمیشہ عدم تعاون کے بعد ہوتی ہے- تعاون اور سول نافرمانی کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے- میں مسٹر گاندھی سے بہت اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کی یہ بات بالکل درست تھی کہ انہوں نے پہلے عدم تعاون جاری کیا اور اس کا دوسرا قدم سول نافرمانی رکھا- ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ مدد نہ کرنے اور نافرمانی کرنے میں فرق ہے- مدد نہ کرنا ادنیٰ درجہ کا انقطاع ہے اور نافرمانی اعلیٰ درجہ کا انقطاع ہے- اور یہ ممکن نہیں کہ ہم ادنیٰ انقطاع کئے بغیر اعلیٰ انقطاع کر دیں- جو لوگ سول نافرمانی کریں گے جب ان کو گورنمنٹ سزا دینے لگے گی تو کیا پچاس ساٹھ ہزار مسلمان جو سرکاری ملازمت میں ہے وہ سرکاری حکم کے ماتحت سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا یا نہیں- اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو سب کو ملازمت چھوڑی پڑے گی اور عدم تعاون شدید صورت میں شروع ہو جائے گا اور میدان بالکل ہندئووں کیلئے خالی رہ جائے گا اور اگر ملازم طبقہ سول نافرمانی کرنے والوں کا مقابلہ کرے گا تو کیا یہ جنگ گھر میں ہی نہ شروع ہو جائے گی- پولیس فوج اور عدالتوں کے ملازم اگر خود مسلمانوں پر دست درازی کریں گے تو کیا آپس میں ایک دوسرے سے تنافر پیدا ہوگا یا نہیں- اور کیا ان چالیس پچاس ہزار ملازموں کے رشتہ دار جو چالیس پچاس لاکھ سے کم نہ ہوں گے` دوسرے لوگوں سے جو ان کو برا بھلا کہیں گے برسرپیکار ہوں گے یا نہیں- اور کیا اس کے نتیجہ میں ہر گائوں اور ہر شہر میں مسلمانوں میں ایک خطرناک جنگ شروع ہو جائے گی کہ نہیں؟ غرض سول نافرمانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پہلے عدم تعاون نہ جاری کیا جائے- سول نافرمانی جاری کرنے سے پہلے سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ فوج سے پولیس اور ایگزیکٹو اور جوڈیشل غرض ہر قسم کی ملازمتوں سے علیحدہ ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنا نہ پڑے- اور سب ملک کے مسلمان آپس میں دست و گریبان نہ ہو جائیں- لیکن کیا حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کا اس میں فائدہ نہ ہوگا` ہاں ہندئووں کا فائدہ ہوگا- ایک مسلمان کی جگہ دس ہندو اور سکھ بھرتی ہونے کے لئے تیار ہوں گے اور مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی-
سول نافرمانی کیلئے تیار ہونیوالوں کو کیا کرنا چاہئے
خلاصہ یہ کہ سول نافرمانی کا تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب لاکھوں آدمی اس کے لئے تیار ہوں اور جب کہ پہلے عدم تعاون کا فیصلہ کر لیا جائے` ورنہ سوائے شور کرنے کے کچھ فائدہ نہ ہوگا- پس جو لوگ سول نافرمانی کیلئے تیار ہوں` میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ ذرا زیادہ ہمت دکھائیں اور جو وقت ان کے پاس فارغ ہو` اسے تبلیغ اسلام پر خرچ کریں- اگر دو چار ہزار آدمی تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہو اور ادنیٰ اقوام کے گھروں پر جا کر شفقت اور ہمدردی سے ان کو اسلام کی دعوت دے تو اسلام کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے- اگر یہ لوگ ملک میں پھر کر زمینداروں کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں اور ہندو بنئے سے سودی قرض لینے سے منع کریں تو اسلام کو کس قدر تقویت پہنچ سکتی ہے- اگر وہ اپنے فارغ وقت کو اپنے جاہل بھائیوں کو دین کی باتیں سمجھانے اور قومی ضروریات سے واقف کرانے پر لگائیں تو قومیت کو کس قدر نفع حاصل ہو سکتا ہے- پھر میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فارغ ہیں تو ہزاروں گائوں جن میں سب سودا ہندو بنئے سے لیا جاتا ہے` وہاں جا کر وہ ایک دکان کھول لیں اور اس طرح مسلمانوں کو ہندو دکاندار کے ذلت آمیز سلوک سے محفوظ کریں تو قومی احساس میں کس قدر ترقی ہو سکتی ہے-
کام کرنے کا وقت ہے نہ جیل خانہ جانے کا
پس اے دوستو! یہ کام کا وقت ہے` جیل خانہ میں جانے کا وقت نہیں ہے- اللہتعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے` اس بیداری سے فائدہ حاصل کرو- یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے` پس ان کی ناقدری نہ کرو- خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے دشمن کے ہاتھوں آپ لوگوں کو بیدار کر دیا- اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے کاموں میں لگ جائو- اس وقت ہر ایک جو مسلمان کہلاتا ہے` اس کے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے- جیل خانہ میں لوگوں کو بھرنے کا موقع نہیں بلکہ ان کو ان میں سے نکالنے کا موقع ہے- دشمن آپ لوگوں کی کوششوں کو دیکھ کر گھبرا رہا ہے- وہ محسوس کر رہا ہے کہ اب آپ نے اس کے مخفی حملہ سے بچنے کا صحیح ذریعہ معلوم کر لیا ہے- پس وہ تلملا رہا ہے اور اپنے شکار کو ہاتھوں سے جاتا دیکھ کر سٹ پٹا رہا ہے- ایک تھوڑی سی ہمت` ایک تھوڑی سی کوشش` ایک تھوڑی سی قربانی کی ضرورت ہے کہ صدیوں کی پہنی ہوئی زنجیریں کٹ جائیں گی اور اسلام کا سپاہی اپنے مولیٰ کی خدمت کیلئے پھر آزاد ہو جائے گا اور ہندئووں کی غلامی کے بند ٹوٹ جائیں گے-
اے بھائیو! ہمت اور استقلال سے اور صبر سے اپنی دینی اور تمدنی اور اقتصادی حالت کی درستی کی فکر کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف سچے دل سے جھک جائو اور اس کی مرضی پر اپنی مرضی کو قربان کر دو اور اس کے ارادوں کے سامنے اپنے ارادوں کو چھوڑ دو- اور اس کے کلام کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دو اور اس کی شریعت کو اپنا شعار بنائو- اور اس کے ہر ایک اشارہ پر عمل کرنے کیلئے تیار رہو اور اپنے نفس کو بالکل مار دو- تب وہ اپنا وعدہالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلناکے ماتحت آپ کو اس راستہ پر چلائے گا جو اس کی مرضی کے مطابق ہے- اور اپنی نصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھائے گا اور آپ کے بازو کو قوت بخشے گا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کرے گا اور ہر اک میدان میں خواہ علمی ہو` خواہ تمدنی ہو` خواہ اقتصادی ہو` آپ کو فتح دے گا-
متواتر قربانی کی ضرورت
ہاں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ متواتر اور لگا تار قربانی کی جائے اور عقل سے کام لیا جائے اور خدا تعالیٰ کی نصرت پر نظر رکھی جائے اور بے فائدہ جوش سے اپنی قوتوں کو ضائع نہ کیا جائے اور خواہ مخواہ دشمن کے تیار کردہ گڑھوں میں نہ گرا جائے- وہ لوگ جو مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں` وہ گورنمنٹ سے ہمیں لڑوا کر ہماری طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں- اور اس وقت جو مسلمانوں کی توجہ مذہبی` اقتصادی` تمدنی آزادی کی طرف ہو رہی ہے` اس کا رخ دوسری طرف پھیرنا چاہتے ہیں- مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسلمان اس دھوکے میں نہیں آئیں گے- گورنمنٹ نے پیچھے جو کچھ بھی کیا ہو` اس وقت وہ مسلمانوں کی جائز مدد کر رہی ہے اور اگر کسی جگہ بعض مجسٹریٹ مسلمانوں کی تکلیف کا موجب ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مجسٹریٹوں کے دل ان ہندئووں کی باتوں سے متاثر ہیں کہ جو ملک میں امن دیکھنا پسند نہیں کرتے- پس ہمیں وقتی جوش سے متاثر ہو کر اپنے اصل کام کو نہیں بھولنا چاہئے- آج سے ہمارا فرض ہو کہ تبلیغ کریں مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی حالت کو درست کریں اور جس حد تک ممکن اور مذہبا جائز ہو مسلمانوں میں سے اختلاف کے مٹانے کی اور مستقل جدوجہد کے ساتھ ان جائز حقوق کو جن کے ہم اس ملک کے باشندہ ہونے کے لحاظ سے مستحق ہیں` حاصل کریں- اور اس کے لئے پہلا قوم آپ کا ۲۲ جولائی کے جلسوں کو غیر معمولی طور پر کامیاب بنانا ہے- میں اب اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک دوسری بات کو فراموش کر کے آپ صرف اس امر کو مدنظر رکھیں گے کہ آج اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
‏jml] ga)[tالفضل ۲۰ جولائی ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
‏gap] ga[tاسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد
برادران اسلام! السلام علیکم
آج آپ لوگ جو نصرت اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے ہیں` میں آپ کے سامنے اسلام کی ترقی کے متعلق کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ ان پر مناسب غور فرمائیں گے- آپ لوگ اس امر سے ناواقف نہیں ہیں کہ اسلام کو اس وقت کس قدر نقصانات پہنچ رہے ہیں اور ہر میدان میں مسلمان کمزور ہو رہے ہیں- اس کی وجہ جیسا کہ آپ لوگ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں یہی ہے کہ کبھی بھی مستقل اور مدبرانہ جدوجہد مسلمانوں کی بہتری کی نہیں کی گئی- جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تجارت میں مسلمان پیچھے ہیں` ٹھیکیداری میں مسلمان پیچھے ہیں` صنعت و حرفت میں مسلمان پیچھے ہیں` تعلیم میں مسلمان پیچھے ہیں` آڑھت میں مسلمان پیچھے ہیں` تنظیم میں مسلمان پیچھے ہیں` اعلیٰ پیشوں میں مسلمان پیچھے ہیں` تبلیغ جو مسلمانوں کا ابتدائی فرض رکھا گیا تھا` اس میں بھی وہ سب قوموں سے پیچھے ہیں- زراعت بعض صوبوں میں ان کے قبضہ میں ہے مگر صرف نام کے طور پر- زمینیں مسلمانوں ¶کے نام درج ہیں لیکن پیداوار ہندئووں کے گھر جاتی ہے- اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کی آواز بے اثر اور ان کی کوشش بے سود جا رہی ہے- اغیار نے ان کے تمدن اور اقتصاد پر اس قدر قبضہ پا لیا ہے کہ وہ مسلمان جو غلاموں کے آزاد کرنے کیلئے پیدا کیا گیا تھا` آج خود غلام بن رہا ہے- وہ گردوپیش کے حالات سے اس قدر مجبور ہو رہا ہے کہ گو وہ سب سے زیادہ شور مچائے مگر حقیقی آزادی نصیب ہونی اس کے لئے مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب لوگ اس کی سب سے محبوب چیز یعنی اس کے مذہب کی بھی عزت کرنے کیلئے تیار نہیں- انا للہ و انا الیہ راجعون
اے بھائیو! ان تاریک حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک روشنی کی صورت پیدا کر دی ہے- یعنی دشمنان اسلام کے دلی ارادوں کو شدھی اور سنگھٹن کی شکل میں ظاہر کر دیا ہے- جن کا سب سے گندہ پہلو وہ ناپاک اور گندہ لٹریچر ہے جو اسلام اور مقدس بانی اسلام کے خلاف لکھا جا رہا ہے- ہندئووں کی عداوت کے اس خطرناک اظہار سے سوئے ہوئے مسلمان بھی بیدار ہو رہے ہیں- اور ان میں بھی صحیح اصول پر کام کرنے کا جوش پیدا ہو رہا ہے چنانچہ پچھلے دو ماہ میں اقتصادی غلامی سے آزادی کے لئے چھوت چھات کی تحریک مسلمانوں میں بڑے زور سے جاری ہے اور اس کا زبردست اثر پیدا ہو رہا ہے- اس وقت تک ہزاروں دکانیں مسلمانوں کی کھل چکی ہیں اور لاکھوں روپے کا فائدہ مسلمانوں کو حاصل ہو چکا ہے- ہندو ساہوکار سے سود پر روپیہ لینے کے خلاف ایک عام رو جاری ہے جو اگر کامیاب ہو گئی تو انشاء اللہ کلی طور پر مسلمانوں کو ہندئووں کے قبضہ سے آزاد کرا دے گی- کفایت شعاری کی تحریک مسلمانوں میں پیدا ہو رہی ہے- تنظیم کی طرف وہ متوجہ ہو رہے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے حقوق لینے کی بھی انہیں فکر پیدا ہونے لگی ہے-
اس تحریک کو دیکھ کر ہندو کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح یہ تحریک دب جائے اور اس کے لئے انہوں نے دو تدبیریں اختیار کی ہیں- ایک تو وہ مسلمانوں کو جوش دلا کر گورنمنٹ سے لڑوانا چاہتے ہیں` دوسرے فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر ہم میں آپس میں پھوٹ ڈلوانی چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ گورنمنٹ میں بھی اور پبلک میں بھی انتہائی کوشش کر رہے ہیں- خفیہ ہی خفیہ حکام اور بعض مسلمانوں کے ذریعہ سے ایسی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں کہ مسلمان ایک طرف تو گورنمنٹ سے الجھ جائیں اور دوسری طرف آپس میں لڑنے لگیں- اگر اس وقت آپ لوگوں نے ان کی چالوں کو نہ سمجھا اور ان کے دھوکے میں آ گئے تو پھر سمجھ لیجئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں گے اور اسلام کو ذلیل کرنے کی کوشش کریں گے-
ان کی ان کوششوں کو باطل کرنے کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ پورے جوش اور مستقل ارادہ کے ساتھ تبلیغ اور اتحاد باہمی کی تحریکات کو جاری رکھا جائے- چھوت چھات` بنئے کے سود سے پرہیز کی تلقین کی جائے- گورنمنٹ سے اپنی تعداد کے مطابق حقوق کا مطالبہ کیا جائے- سرحدی صوبہ جس میں اسی فیصدی مسلمان بستے ہیں اور ذکاوت اور عقل میں ہندوستان کے کسی صوبہ سے پیچھے نہیں ہیں اور جنہیں محض ہندئووں کی مخالفت کی وجہ سے حقوق نیابت سے محروم رکھا گیا ہے` اس کو نیابتی حقوق دلوانے کی کوشش کی جائے اور جب تک ان تحریکات میں پوری طرح کامیابی حاصل نہ ہو جائے اس جدوجہد کو ترک نہ کیا جائے-
اے بھائیو! یہ جلسہ اس جدوجہد کا پہلا مظاہرہ ہے نہ کہ اس کا اختتام` اس قدر عظیمالشان کام ایک دن میں نہیں ہو جاتے` وہ مہینوں یا سالوں کی کوشش چاہتے ہیں اور بہترین دماغوں کی خدمات اور بہت بڑی وقتی اور مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں- پس آپ لوگ اس جلسہ میں شامل ہو کر یہ خیال نہ کریں کہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے- اس جلسہ میں تو جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائیوں کے سامنے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم اسلام کی ترقی کیلئے ہر ایک قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں- مگر صرف اقرار کر دینے سے کام نہیں ہو جاتے- اصل کام اس جلسہ کے بعد شروع ہوگا- جب کہ آپ کی آزمائش ہوگی کہ آپ اپنے عہد کو اپنے عمل سے پورا بھی کرتے ہیں یا نہیں- عہد خواہ کس قدر ہی جوش سے کیا جائے` نفع نہیں دیتا لیکن کام خواہ کتنا بھی تھوڑا ہو مفید ہوتا ہے- خالی ریزولیوشن پاس کر دینا سچائی کی ہتک کرنا ہے- سچائی ہمارے منہ کے تحفوں کو قبول نہیں کرتی- وہ ہماری عملی قربانی چاہتی ہے پس آج کے ریزولیوشن درحقیقت عہد ہیں جو آپ نے کئے ہیں اور اب آپ کا فرض ہے کہ ان ریزولیوشنوں کے مطابق جدوجہد شروع کریں اور اپنے ملنے والوں اور ہمسایوں کو اپنا ہم خیال بنا کر انہیں بھی اس جدوجہد میں شریک کریں یہاں تک کہ ایک مسلمان بھی باقی ایسا نہ رہے جو آپ کے خیالات کے مخالف ہو اور اس جدوجہد میں شریک نہ ہو- ہاں یہ مدنظر رہے کہ فساد اور دنگا اسلام کو پسند نہیں- امن کے ساتھ لیکن بہادری کے ساتھ اپنا کام کریں اور دلیل کے زور سے اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنی بات منوائیں نہ کہ زبردستی- ہاں جو لوگ بلاوجہ آپ کے کام میں روک ڈالنا چاہیں` ان سے بھی نہ ڈریں کہ بزدل دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتا ہے- اگر آپ اس تجویز کے مطابق عمل کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپ لوگ کامیاب ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی تائید آپ کو حاصل ہوگی-
اس کام کے لئے ہر شہر` ہر قصبہ اور ہر گائوں میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جن میں ہر ایک فرقہ کے آدمی شامل کئے جائیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں- یاد رکھیں کہ وہ معاملات جو دشمنان اسلام سے تعلق رکھتے ہیں یا سیاسی ہیں` ان میں اسلام کی تعریف یہی ہے کہ ہر اک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے` وہ مسلمان ہے- دشمن بھی یہی تعریف اسلام کی سمجھتا ہے اور وہ اس تعریف کے مطابق ہم سے سلوک کرتا ہے- پس اس تعریف کے مطابق ہی ہمیں مشترکہ معاملات میں کام کرنا چاہئے- اور اپنی اپنی تعریفوں کو خالص مذہبی معاملات تک محدود رکھنا چاہئے کہ یہی ایک راہ صلح کی ہے- یاد رکھئے کہ کوئی ایک حصہ مسلمان کہلانے والوں کا اکیلا اس عظیم الشان کام کو نہیں کر سکتا جو ہمارے سامنے ہے- اور نہ کوئی ایک سوسائٹی جس کا دائرہ محدود ہو` اس کام کو کر سکتی ہے- وہی کمیٹی اس عظیم الشان کام کو کر سکتی ہے جس میں سب فرقوں کے لوگ شامل ہوں اور جس کا دروازہ کامل طور پر سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے کھلا ہو- بے شک ہر مجلس یا کمیٹی کا حق ہے کہ وہ ایسا کام اپنے ذمہ لے جو اس کے دائرہ عمل کے اندر ہو- لیکن اس کام کو جو سب مسلمان کہلانیوالوں کے ساتھ وابستہ ہے اور امتیاز کی اجازت نہیں دیتا کسی ایسی کمیٹی کا اپنے ہاتھ میں لینا جس میں ہر اک فرقہ کو آزادی کے ساتھ شمولیت کا حق نہ ہو اور جو صرف چند آدمیوں کی رائے کے ماتحت سب لوگوں کو ملانا چاہے کبھی اور کبھی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتا- پہلے اس قسم کے تدابیر سے اسلام کو نقصان پہنچ چکا ہے اور مسلمانوں کی تجارتیں تباہ ہو چکی ہیں` کالج برباد ہو چکے ہیں` ملازمتیں کھوئی گئی ہیں` زمینیں نیلام ہو چکی ہیں اور آئندہ اس قسم کی کوشش پھر مسلمانوں کو تباہ اور برباد کر دے گی- پس ناجائز جوش پیدا کر کے قوم کو تباہی کے رستہ پر ڈالنے اور الگ الگ جدوجہد کرنے کی بجائے ہر اک شہر اور قصبہ میں ایسی کمیٹیاں بننی چاہئیں جو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں پر مشتمل ہوں اور جو دلیری اور جرات سے اسلامی حقوق کے لئے مناسب کوشش کرنے کیلئے تیار ہوں- اور کام کا پروگرام ایسا بنایا جائے جس میں وہ مسلمان بھی شامل ہو سکیں جو کہ گورنمنٹ میں رسوخ رکھتے ہیں- کیونکہ اگر عمدگی سے ان سے کام لیا جائے تو یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی بہت کچھ مدد کر سکتے ہیں اور پچھلی ناکامیوں کا سبب ہی یہی تھا کہ کام ایسے رنگ میں شروع کیا گیا تھا کہ گورنمنٹ کے ملازم یا گورنمنٹ کے ساتھ رسوخ رکھنے والے لوگ مسلمانوں کی مدد نہیں کر سکتے تھے بلکہ انہیں ان کی مخالفت کرنی پڑتی تھی- اس طرح یہ نقص بھی تھا کہ طریق عمل ایسا چنا گیا تھا کہ بعض نہایت کار آمد اور زبردست سوسائیٹیاں اور جماعتیں اپنے مذہبی عقیدوں کی وجہ سے اس طریق عمل کو اختیار ہی نہیں کر سکی تھیں- پس اب پھر جو اللہ تعالیٰ نے محض رحم فرما کر اتحاد کا موقع نکالا ہے` اسے ضائع نہ کیا جائے اور تمام مسلمان کہلانے والوں کی مشترکہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ایک دوسرے کے مذہبی امور میں دخل نہ دیا جائے اور طریق عمل ایسا چنا جائے کہ گورنمنٹ ملازم اور گورنمنٹ میں رسوخ رکھنے والے مسلمان بھی اس میں حصہ لے سکیں یا کم سے کم ان کو اس کام کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے- میں امید کرتا ہوں کہ اگر اس طرح کام کیا گیا تو انشاء اللہ ضرور کامیابی ہوگی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے دشمنوں کو ہوش آ جائے گا- پس کیا ہی اچھا ہو کہ آج آپ لوگ اس امر کا بھی عہد کر کے اٹھیں کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر آپ ایک ایسی کمیٹی تیار کر لیں گے اور اپنے علاقہ میں آج کے پاسشدہ ریزولیوشنوں کے مطابق عملدرآمد شروع کر دیں گے- میں نے آئندہ کام کے متعلق ایک تفصیلی سکیم سوچی ہے جسے میں اگر ایسی کمیٹیاں بن گئیں تو آہستہ آہستہ ان کے سامنے پیش کروں گا تاکہ جو امور انہیں پسند ہوں وہ ان پر عمل کر کے اسلام کی خدمت کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں پسند ہی کریں گے کیونکہ وہ ایسی تدابیر ہیں کہ جو ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے قابل عمل ہیں- اور ان پر عمل کر کے آئندہ کا پروگرام باحسن وجوہ پورا ہو سکتا ہے- میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دستگیری فرمائے اور انہیں ایسی سمجھ دے کہ وہ ان امور میں مشترک ہو کر کام کرنے لگیں جن پر عمل کرنا مسلمانوں کی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے-واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
)الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
سرحد سے ہندئووں کا اخراج
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
‏]txet [tagسرحد سے ہندئووں کا اخراج ملاپ کی شر انگیز تحریر
)تحریر فرمودہ مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۲۷ء(
سرحد کی خبر ہے کہ راجپال کی کتاب اور ورتمان کی تحریرات کی وجہ سے وہاں کے خوانین نے ان ہندئووں کو جو تجارت کرتے تھے اپنے اپنے علاقہ سے نکل جانے کا حکم دیا ہے- اس پر ملاپ کا ایڈیٹر نہایت سخت ناراض ہے- اور اس تمام فعل کا الزام خصوصیت سے میری تحریرات پر رکھتا ہے- اس امر میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب سے ہمدردی رکھتا ہوں- اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان ہندئووں کی حفاظت میں جو سرحد پر رہتے ہیں ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے اور درحقیقت ہم حیران ہیں کہ سرحد کے پر جوش افغان جن کی تربیت پنجاب سے بالکل جداگانہ ہے` کس طرح اپنے جوشوں کو خلاف معمول دبائے ہوئے ہیں- ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ سرحدی افغان اسلامی شعار کی اس قدر غیرت رکھتے ہیں کہ چند سال ہوئے ایک سپاہی نے ایک انگریز افسر کو صرف اس لئے مار دیا تھا کہ اس نے قبلہ کی طرف پائوں کئے ہوئے تھے- ہم اس فعل کو خواہ احکام شریعت کے خلاف سمجھیں لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک یہ امر شریعت کے مطابق تھا- پس اس قدر جلد ان لوگوں میں یہ تغیر پیدا ہو جانا کہ رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک کے موقع پر بجائے جوش میں آکر خون کرنے کے انہوں نے مہلت دے کر ہندو دکانداروں کو اپنی زمینوں سے چلے جانے کاحکم دیا` ایک بہت بڑی بات ہے اور گو میرے نزدیک ابھی انہیں اور ترقی کی ضرورت ہے- مگر یہ تبدیلی خوش کن تبدیلی ہے جس کے لئے میں خوانین سرحد کو مبارک باد دیتا ہوں- میں خوش ہوں کہ اس تبدیلی میں ہماری جماعت کا بھی حصہ ہے- کئی علاقوں کی نسبت جب معلوم ہوا کہ وہاں کے افغان جوش میں ہیں تو ہمارے آدمیوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ اسلام کی عزت کے خیال سے قتل و غارت سے پرہیز کریں- چنانچہ انہوں نے اقرار کیا- اور کیا ہندو صاحبان اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ لوگ جو تھوڑے تھوڑے جوش پر قتل کر دیا کرتے تھے` ان کا رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کے معاملہ میں اس قدر صبر سے کام لینا کوئی معمولی بات ہے اور کیا یہ قابل قدر تبدیلی نہیں؟ ہمارے آدمیوں نے مزید کوشش کی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی جگہ سے نکالا بھی نہ جائے اور بعض بااثر علماء نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لئے بھی کوشش کریں گے- اور اگر اس امر میں ان علماء کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو موجودہ ایجیٹیشن کا یہ سب سے خوشگوار نتیجہ ہوگا اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ عالم اسلام کس طرح آناً فاناً خوشگوار تبدیلی پیدا کر رہا ہے-
میں ہندو اخبارات کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ بعض ہندئووں نے اس موقع پر نہایت اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا ہے اور باوجود سرحد کے مخصوص حالات سے واقف ہونے کے اور وہاں پشت ہا پشت سے رہنے کے بجائے اس امر پر اظہار افسوس کرنے کے کہ بعض خبیث الطبع لوگوں نے پاکبازوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ]2 [stf ~صل۲~ کی ہتک کی ہے` الٹا ان لوگوں کے خیالات کی تائید کر کے سرحد کے باغیرت مسلمانوں کو اور جوش دلایا- اگر بعض لوگ ایسا نہ کرتے تو شاید معاملات اس حد تک نہ پہنچتے جس حد تک کہ اب پہنچ گئے ہیں- بہرحال ہم اب بھی کوشش کر رہے ہیں اور سرحد کے خوانین سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہندئووں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا ایک اور موقع نہیں دیں گے- انہیں سب سے زیادہ چھوت چھات اور مسلمانوں کی دکانیں کھلوانے اور ہندئووں سے سودا نہ لینے کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور اس کے نتیجہ میں اگر وہاں کے ہندو آپ ہی آپ کام نہ ہونے کے سبب سے اس ملک کو چھوڑ دیں تو اس کا الزام ان پر نہ ہوگا- لیکن انہیں چاہئے کہ خود ہندئووں کو اپنے علاقہ سے نکل جانے کے لئے نہ کہیں- میں سرحد کے بااثر اصحاب کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ افغانستان` روس اور ہزارہ کی تجارت کروڑوں روپیہ کی ہے اور یہ سب کی سب ہندئووں کے قبضہ میں ہے- مسلمانوں کو چاہئے کہ جلد سے جلد اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسلام کی مدد کریں- اس قدر روپیہ سالانہ ان کے ہاتھوں سے جا کر اسلام کی بیخ کنی کی کوششوں پر یا مسلمانوں کے کمزور کرنے پر خرچ ہوتا ہے- پس انہیں چاہئے کہ وہ اپنی دکانیں کھولیں اور کم سے کم اسلامی ممالک کی تجارت تو اپنے ہاتھ میں لیں اور اگر وہ اس سال کوشش کر کے اس تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں تو یقیناً اگلے سال اس کا اثر پنجاب کی تجارت پر پڑے گا اور پنجاب میں بھی مسلمانوں کی تجارت مضبوط ہو جائے گی-
اس کے بعد میں پھر ایڈیٹر ملاپ اور ان کے ہم آواز لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اوپر جو مشورہ میں نے دیا ہے` وہ اپنے مذہب کے مطابق دیا ہے- ہمارا مذہب سختی کا حکم نہیں دیتا- اس لئے اس نازک وقت میں بھی جب کہ ہمارے احساسات کو نہایت بری طرح کچلا گیا ہے` ہم امن اور صلح کی تعلیم دے رہے ہیں- لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ آریہ سماج کے کسی ممبر کا کوئی حق نہیں کہ وہ سرحدی افغانوں کے اس فعل پر کوئی اعتراض کرے- آریہ سماج کی اپنی تعلیم یہ ہے کہ مذہب کی ہتک کرنے والے کو ملک سے نکال دیا جائے- دیکھئے پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں کیا لکھتے ہیں-
>جو شخص وید اور عابد لوگوں کی وید کے مطابق بنائی ہوئی کتابوں کی بے عزتی کرتا ہے- اس وید کی برائی کرنے والے منکر کو ذات` جماعت اور ملک سے نکال دینا چاہئے<- )ستیارتھ پرکاش صفحہ۵۹- ایڈیشن چہارم(
اگر پنڈت دیانند صاحب کے نزدیک وید ہی نہیں بلکہ وید کے مطابق لکھی ہوئی کتابوں کی برائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے- )اور شاید اس قانون کے مطابق ملاپ اور پرکاش وغیرہ کی برائی کرنے والے کو بھی ملک سے نکال دینا چاہئے کیونکہ ان اخبارات کو بھی ویدوں کے مطابق ہی لکھنے کا دعویٰ کیا ہے(- تو کیا وجہ ہے کہ جس جگہ رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک کی جائے اور اس ہتک پر دوسرے ہندو رضامندی کا اظہار کریں تو وہی سلوک جو پنڈت دیانند صاحب نے مذہب کی ہتک کرنے والوں کے لئے مقرر کیا ہے` ان سے نہ کیا جائے- کیا صرف وید کی ہتک کرنے والا ہی اس امر کا مستحق ہے کہ اسے ملک سے نکالا جائے- دوسرے مذاہب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی اپنے مذہب کی ہتک کرنے والوں کو ملک سے نکال دیں- مگر میں باوجود پنڈت صاحب کی اس تعلیم کے سرحد کے خوانین سے یہی کہوں گا کہ ہم قرآن کریم کے ماننے والے ہیں جو رحم اور صلح کی تعلیم دیتا ہے- پس وہ اپنے خدا داد رسوخ سے کام لے کر اپنے بھائیوں کے جوشوں کو ٹھنڈا کریں اور اقتصادی تدابیر کے اختیار کرنے سے زیادہ کچھ نہ کریں- اور جو ہندو مسلمانوں کے چھوت چھات اختیار کرنے اور سود ترک کرنے کے باوجود بھی ان کے ملک میں رہنا چاہیں انہیں اپنے ملک میں امن سے زندگی بسر کرنے دیں جیسا کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں-
آخر میں میں ملاپ کے ایڈیٹر صاحب کی اس شر انگیز تحریر کی طرف خود ہندو صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>گورنمنٹ کا فرض ہے کہ جن علاقوں سے ہندئووں کو جلا وطن کیا گیا ہے- ان علاقوں پر چڑہائی کر کے ان علاقوں کو انگریزی علاقہ کے ساتھ شامل کر لینا چاہئے<-
اس وقت جب کہ سرحد پر پہلے سے ہی جوش پھیلا ہوا ہے` یہ الفاظ سوائے فساد کی آگ بھڑکانے کے اور کیا اثر کر سکتے ہیں- افغانان سرحد جو سینکڑوں سال سے اپنی آزادی کیلئے سربکف رہے ہیں اور گورنمنٹ برطانیہ نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے سرحد پر امن قائم کیا ہے` اس تحریر کا اثر سرحد کے افغانوں پر اور گورنمنٹ کی پالیسی پر کیا ہوگا- کیا افغان اس تحریر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہ نکالیں گے کہ ہندو ہماری آزادی کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور کیا ان کا جوش ان کے ہم مذہبوں کے خلاف آگے سے بھی تیز نہ ہو جائے گا اور کیا اس تحریر کے نتیجہ میں انگریزی سیاست کو جو نہایت قیمتی جانیں قربان کرنے اور کروڑوں روپیہ خرچ کے بعد وہاں قائم ہوئی ہے` ایک زبردست ٹھیس نہ لگے گی- میں ہندو صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس قسم کے غیر ذمہ دار اشخاص کو روکیں کہ سارے فساد کے یہی بانی ہیں- یہ لوگ موقع کی نزاکت اور کام کرنے والوں کی مشکلات کو نہیں دیکھتے اور نادان دوست کی طرح اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کو نقصان پہنچا دیتے ہیں- اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ نوجوانان سرحد اس موقع پر نہایت بردباری سے کام لے رہے ہیں- اور ہر اک معقول بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں- پس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس قسم کے فتنہ انگیز مضامین کی روک تھام کی جائے-
میں ہندو صاحبان سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ جس طرح وہ سرحد کے بھائیوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ ہیں اسی طرح وہ چمبہ اور دوسری ریاستوں میں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے` اس کی طرف بھی توجہ کریں اور اس ظلم کو جو کمزور مسلمانوں پر کیا جا رہا ہے دور کریں- ورنہ ان کا کوئی حق نہیں کہ ابتداء خود کر کے اس کے انجام سے محفوظ رہنے کیلئے واویلا کریں- واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۸-۷-۱۹۲۷ء
)الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
انوار العلوم جلد۹
ہندو مسلم اتحاد کے متعلق تجاویز
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ہندو مسلم اتحاد کے متعلق حضرت امام جماعت احمدیہ کی تجاویز
مسلمانوں کے مذہبی و سیاسی حقوق کی حفاظت کا انتظام
)تحریر فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۲۷ء بمقام کنگزلے شملہ(
)شملہ میں ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تمام فرقوں کے لیڈروں کی جو کانفرنس مسئلہ اتحاد کے متعلق غور و خوض کرنے کے لئے منعقد ہوئی اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی- اس موقع پر اتحاد کے بارہ میں حضور نے جو بیس امور پیش فرمائے ان کا ترجمہ درج ذیل ہے(-
۱- ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کی اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے لیکن ناجائز ذرائع نہیں استعمال کرنے چاہئیں-
۲- کسی جماعت کے مذہب یا بانی مذہب یا دوسرے پاکباز لوگوں کے متعلق جن کو کوئی فرقہ قابل تعظیم سمجھتا ہو` گندی اور معاندانہ تحریروں اور تقریروں کا سدباب ہونا چاہئے اور کسی قوم کے مذہب پر کسی ایسے عقیدہ یا دستور کی بناء پر جس کو وہ قوم اپنے مذہب کا جزو نہ سمجھتی ہو` کوئی اعتراض نہ کیا جائے- متعلقہ جماعتیں اس کے متعلق ذمہ دار سمجھی جائیں اور ایسا کرنے والے کا اس کی قوم کی طرف سے بائیکاٹ ہونا چاہئے یا کوئی دوسری مناسب سزا اس کو ملنی چاہئے حتیٰکہ وہ اپنی قابل اعتراض تصنیف یا تحریر کو علانیہ تلف کر دے اور غیر مشروط معافی مانگے-
۳- ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کر سکے اور کہ ان کو کاروبار کرنے یا دکانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سرپرستی کی تحریک کرے- یہ بات خصوصیت سے مسلمانوں کی حالت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس میدان میں بہت پیچھے ہیں اور اقتصادی آزادی کیلئے ان کا تجارت کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے-
۴- ممکن ہے کہ ہندو مسلمانوں سے اپنے بعض مذہبی عقائد کی بناء پر چھوت چھات کرتے ہوں- مگر مسلمانوں کی اقتصادی حالت پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا ہے جو کہ آزادانہ ہندو دکانداروں سے تمام اشیاء خریدتے ہیں- حالانکہ ہندو اکثر اشیاء مسلمانوں سے نہیں خریدتے- لہذا کسی دشمنی کے جذبات سے متاثر ہو کر یا انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اقتصادی اصلاح کیلئے ہم ان میں اس تحریک کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان اشیاء کی دکانیں کھولیں جو ہندو ان سے نہیں خریدتے اور مزید برآں ہم اپنے ہم مذہب لوگوں کو یہ بھی تلقین کر رہے ہیں کہ وہ ایسی اشیاء صرف مسلم دکانداروں سے لیں- چونکہ یہ تحریک مسلم قوم کیلئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک ہندوستان کے لئے سمجھی جاتی ہے- اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کسی انتقام یا دشمنی کی بناء پر نہ سمجھی جائیں-
۵- کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعرض نہ ہونا چاہئے- اگر مسلمان گائے ذبح کرنا چاہیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے- اسی طرح عیسائیوں` سکھوں` ہندئووں کو سور مارنے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو- مگر کوئی فعل بھی ایسی طرز میں نہ ہونا چاہئے جس سے دوسری قوم کے احساسات کے مجروح ہونے کا احتمال ہو- مثلاً مسلمانوں کو قربانی کی گایوں کا جلوس نہ نکالنا چاہئے یا کسی اور طرح بھی ان کی خواہ مخواہ نمائش نہ کرنی چاہئے اور یہی طریق سور یا جھٹکے کے متعلق ہونا چاہئے- ہمارے خیال میں مسلمانوں کو باجہ بجائے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے- مگر یہ نہایت انسب ہوگا کہ اگر قانون کی رو سے عبادت کے وقت معابد کے سامنے باجہ بجانا ممنوع قرار دیا جا سکے-
۶- مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور اس اصل کو ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزو قرار دینا چاہئے- بدقسمتی سے اس وقت بھی بہت سی ایسی جگہیں ہیں- خاص کر پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی قلیل آبادی کو اذان دینے یا مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں- اسی طرح بعض دیسی ریاستوں میں تبلیغ کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں-
۷- پرائیویٹ بینکرز کا مروجہ ساہوکارہ طریق نہایت قابل اعتراض ہے اور اگرچہ ایسے ساہو کار ہندو اور مسلم میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے مگر پھر بھی زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے اور اس وجہ سے سینکڑوں ہزاروں خاندان تباہ ہو گئے ہیں- بدقسمتی سے جب بھی ہم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو`گورنمنٹ کوآپریٹو بنکوں کے ساتھ لین دین کی تلقین کی تو ہمیشہ ہم پر ہندئووں سے بائیکاٹ کرانے کا الزام لگایا گیا- لہذا اس کے متعلق ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہندئووں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی رو سے پرائیویٹ ساہوکارہ باضابطہ ہو سکے ہماری مدد کرنی چاہئے اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقبوں میں مسلمانوں کے فائدہ کیلئے کوآپریٹو بنک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں` فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا ذریعہ نہ بنائیں-
۸- مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں- اس لئے وہ سرکاری ملازمتوں میں اپنا جائز حصہ نہیں حاصل کر سکتے اور یہ ظاہر ہے کہ ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے راستہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں- جس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں پر تمام ترقیوں کے دروازے عملی طور پر بند ہو گئے ہیں- اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جہاں تک ہمسایہ اقوام کی طاقت میں ہے- اس معاملہ میں تناسب اعداد کے لحاظ سے مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور جس طرح کہ ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے` مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے بھی ملازمتوں میں ان کی نیابت منظور کی جائے- اور ہر صوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہونی چاہئے-
۹- یہ بات بطور اصل تسلیم کی جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کونسل میں قلیل تعداد نہ رکھے- اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خاص مراعات دینا ہوں تو یہ مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے-
۱۰- یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبہ کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو-
۱۱- صوبہ سرحدی میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہونا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ہے اور اس صوبہ میں ہندئووں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں- جہاں وہ قلیل التعداد ہیں-
۱۲- سندھ اور بلوچستان ایک علیحدہ صوبے کی صورت میں تبدیل کر دیئے جائیں اور ہندئووں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں جہاں وہ قلیل التعداد ہیں-
۱۳- چونکہ دیسی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہونا چاہئے- اس لئے یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کسی ریاست میں وہاں کی حکمراں قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے جائیں اور اس کی فوقیت ہونی چاہئے- بنا بریں حیدر آباد ہمیشہ ایک مسلم ریاست رہے- جس میں مسلمانوں کو فوقیت ہو اور کشمیر ایک ہندو ریاست رہے جہاں کہ ہندئووں کو فوقیت حاصل ہو- میرے خیال میں حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے ۶۰ فیصدی حقوق ملنا چاہئے-
۱۴- مختلف صوبہ جات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کرنا چاہئے کہ ایسے صوبہ جات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قواعد و آئین کے اندر رہیں گے-
۱۵- مخلوط انتخاب کا طریقہ اصول¶ا صحیح ہے مگر ہندوستان کی موجودہ حالت کے مطابق نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطرناک ہے- بہرحال جماعت احمدیہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فی الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کیلئے تیار نہیں- اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چاہئے- اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں` ملنا چاہئے اس اصل کو کانسٹیٹیوشن (CONSTITUTION) میں اس طرح شامل کیا جاوے کہ جب تک منتخب مسلم ممبران اسمبلی میں سے ۴/۳ متواتر ۳- اسمبلیوں میں اس کی تنسیخ کے لئے رائے نہ دیں` نہ بدلا جائے- اور پھر مخلوط انتخاب کا طریقہ اس وقت تک اس صوبہ میں رائج نہ کیا جائے جب تک ممبران کی کثیر تعداد اس کے مخالف ہو- اور کانسٹی ٹیوشن میں ایسی دفعہ موجود ہونی چاہئے جس کی رو سے مخلوط انتخاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی اگر کسی وقت مسلم ممبروں کی تین چوتھائی اس کو اپنے حق میں مضر خیال کرنے لگے اور پھر جداگانہ انتخاب کی طرف عود کرنا چاہئے تو اس معاملہ کا تصفیہ مسلمان رائے دہندگان کے مشورے پر چھوڑا جائے- تا ہم مخلوط انتخاب بطور تجربہ ایک ایسے صوبہ میں رائج کیا جائے جس کی قلیل التعداد اقوام اس کے رواج کو پسند کریں- مثلاً بمبئی میں یہ ہو سکتا ہے اگر سندھ کو اس سے علیحدہ کر دیا جائے-
۱۶- مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جس پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہئے تو اس کو چھوڑ دیا جائے-
۱۷- اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری قوم کو پیشدستی کا الزام دیتی ہے- اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کانفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہو جائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے- یا پھر یہ طے ہو جانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجیدہ واقعہ ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی- ورنہ فطرتاً یہ خیال پیدا ہوگا کہ ذمہ داری کے اظہار کے ڈر سے صلح کی جا رہی ہے-
۱۸- ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں اور جب کبھی کوئی فرقہ وارانہ مخاصمت پیدا ہو تو لوکل بورڈ کے ممبروں کو فوراً جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنی چاہئے اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈروں کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہر ممکن طریق سے مدد دینی چاہئے-
۱۹- انڈین نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف وفاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہئے کہ-:
>میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو مدنظر رکھوں گا<-
اس کے سوا ممبری کیلئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں- بے شک کثیر التعداد جماعت کو کانگریس کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہئے- مگر جیسا کہ برٹش پارلیمنٹ میں دستور ہے مخالف پارٹیوں کو اپنے خیال کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے- ہمارے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے جس سے کہ ہندوستانی متحد ہو سکتے ہیں-
۲۰- ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے مفاد کی حفاظت کر سکے-
خاکسار
مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ
کنگزلے شملہ
یکم ستمبر ۱۹۲۷ء
)الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۷ء(
٭٭٭
ماہانہ پروگرام مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ماہ جولائی 1999ء
مکرم زعیم صاحب محلہ
شعبہ اعتماد
دوران ماہ کم از کم اجلاس عام اور دو اجلاس عاملہ منعقد کئے جائیں- دفتر مقامی روزانہ مغرب کی نماز سے پہلے کھل جاتا ہے زعما اپنے محلہ کی حاضری کا انتظام کریں- زعما کی میٹنگ مورخہ 5-7-99 کو بوقت پونے آٹھ بجے ہو گی- نمار مغرب ساڑھے سات بجے دفتر مقامی میں ادا کریں-
شعبہ تعلیم
جن محلہ جات نے ابھی تک پرچہ جات واپس نہیں بھجوائے وہ فوری طور پر واپس بھجوائیں- دوران ماہ خدام کے لئے مقررہ کتاب جنگ مقدس نصف دوم مقرر ہے زیادہ سے زیادہ خدام سے مطالعہ کروائیں-
شعبہ اصلاح و ارشاد
ہر روز وفود ضرور بھجوائیں اسی طرح یوم وفود والے دن زیادہ سے زیادہ خدام کو دورہ جات کے لئے بھجوائیں- جو پھل حاصل ہو ساتھ کے ساتھ اس کی تصدیق بھی کروائیں نیز اپنی مساعی کی روزانہ رپورٹ دیں- دوران ماہ حاصل ہونے والے پھلوں کی تصدیق لازماً اٹھارہ تاریخ تک دفتر مقامی میں پہنچا دیں-
شعبہ خدمت خلق
بلڈ گروپنگ کا پروگرام جاری ہے زیادہ سے زیادہ خدام کو آپ کے بلاک میں ہونے والی بلڈ گروپنگ کے پروگرام میں شامل کروائیں- ہر ماہ دو میڈیکل کیمپ ضرور لگائیں اور ساتھ کے ساتھ ضمیمہ کی صورت میں رپورٹ بھجوائیں- جنازہ جات کے لئے مقررہ تاریخوں میں دارلضیافت میں رابطہ کریں-
شعبہ وقار عمل
ہر ماہ کم از دو وقار عمل ضرور کروائیں- وقار عمل کی رپورٹ دفتر مقامی میں اگلے روز بھجوائیں- اجتماعی وقار عمل کے دن زیادہ سے زیادہ خدام کو وقار عمل میں شامل کریں-
شعبہ مال
اکثر محلہ جات تدریجی وصولی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں- اس کمی کو پورا کریں نیز کوشش کریں کہ بجٹ اگست تک سو فیصد ہو جائے- اسی طرح دس تاریخ تک جو بھی وصولی ہو وہ 11 تاریخ کو دفتر میں جمع کروا دیں تاخیر بالکل نہ کریں-
شعبہ اشاعت
رسالہ خالد کا بقایا فوری طور پر ادا کریں- نیز نئے خریدار بھی بنائیں-
شعبہ صحت جسمانی
سوئمنگ کے مقابلہ جات انشاء اللہ 29`28 جولائی کو فیکڑی ایریا سوئمنگ پول پر ہوں گے خدام اور اطفال کو ابھی سے تیاری کے لئے بھجوائیں نیز سوئمنگ پول کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ خدام اور اطفال کو پول پر بھجوائیں-
آل ربوہ باسکٹ بال ٹورنامنٹ بہت جلد شروع ہو رہا ہے- کھلاڑیوں سے تیاری کروائیں یہ ٹورنامنٹ بلاک کی سطح پر کھیلا جائے گا-
شعبہ محاسبہ
آڈٹ کا شیڈیول بعد میں بھجوا دیا جائے گا- جس دن آپ کے محلہ کا آڈٹ ہو اس دن لازماً اپنے محلہ کے منتظم مال کو آڈٹ کے لئے بھجوائیں-
شعبہ عمومی
رات کا پہرہ ہر حال میں جاری رکھیں- کسی بھی غیر معمولی واقعہ کی فوری رپورٹ دفتر مقامی بھجوائیں-
والسلام
خاکسار معتمد مقامی
حبیب الرحمن غوری
٭٭٭
‏tarif.11
انوار العلوم جلد ۱۱
تعارف کتب

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی گیارہویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی کی ستمبر۱۹۲۹ء سے دسمبر ۱۹۳۰ء تک کی تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے-
)۱( مسئلہ ذبیحہ گائے
قادیان کے احمدی اور دوسرے مسلمان اپنی ضرورت کیلئے عید اور دوسرے مواقع پر گائے ذبح کیا کرتے تھے- جب یہاں حکومت کی طرف سے سمال ٹائون کمیٹی قائم ہو گئی تو اس کام کو ایک باضابطہ شکل دینے کیلئے کمیٹی کی معرفت مذبح خانہ بنانے کیلئے درخواست دی گئی- چنانچہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی منظوری کے بعد بھینی متصل قادیان میں منظور شدہ جگہ پر مذبح تعمیر کیا گیا- جب اس میں باقاعدہ کام شروع ہوا تو قادیان کے بعض ہندوئوں اور سکھوں نے اردگرد کے سادہ مزاج دیہاتی سکھوں کو اس کے خلاف اکسانا اور بھڑکانا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں ۷-اگست ۱۹۲۹ء کو شوریدہ سکھوں کا ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا اور انہوں نے مذبح خانہ مسمار کر دیا- پھر انہی فتنہ پرداز عناصر نے سکھوں کو آلہ کار بنا کر ڈپٹی کمشنر صاحب کی اجازت کے خلاف کمشنرصاحب کے پاس اپیل دائر کر دی- ڈپٹی کمشنر نے مرعوب ہو کر مذبح کا لائسنس منسوخ کر دیا-
مذبح کے متعلق جب یہ فتنہ برپا کیا گیا اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی سرینگر میں قیامپذیر تھے- وہاں حضور کو جب ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے سرینگر سے ہی ۹ ستمبر ۱۹۲۹ء کو یہ مفصل خط ہندو` سکھ اور مسلمان لیڈروں کے نام تحریر فرمایا جو روزنامہ الفضل ۲۰ستمبر۱۹۲۹ء میں شائع ہوا-
شروع میں حضور نے قادیان کے مختصر تاریخی حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قصبہ میرے آبائو اجداد کا آباد کردہ ہے- یہاں کی ساری زرعی زمین کے مالک ہم ہیں- غیر مسلم بطورمزراع یا غیر مالکان یہاں آباد ہیں- آبادی کے لحاظ سے بھی ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے- اس کے باوجود ہم ہمیشہ ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے آئے ہیں- مسلمان آبادی کی ضرورت اور خواہش کے باوجود لمبا عرصہ میں نے صرف غیر مسلم لوگوں کے احساسات کا خیال کرتے ہوئے مذبح کی اجازت نہ دی- لیکن اب جب کہ اقتصادی حالات کے لحاظ سے ضرورت شدت اختیار کر گئی تو میں نے مذبح کے لئے درخواست کی اجازت دے دی- چنانچہ سب قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کمیٹی نے مذبح خانہ بنوایا جسے انتہائی ظالمانہ طریق پر مسمار کر دیا گیا اور اس طرح ہمارے جذبات اور وقار کو ٹھیس پہنچائی گئی- حضور نے غیر مسلم لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا-:
>ان حالات کو آپ کے سامنے پیش کر کے میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اگر کوئی ایسی راہ ہے کہ مسلمان اپنی ضروری غذا کو بھی حاصل کر سکیں اور ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بھی درست رہے اور ان کے ہمسایوں کے جذبات بھی ناواجب طور پر زخمی نہ ہوں تو آپ مجھے اس سے مطلع کریں میں ہر معقول تجویز پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہوں<
حضور نے اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی ضرورت اور قانون کے لحاظ سے مذبح خانہ بنانا ہمارا حق ہے- ہم اسے آج نہیں تو کل لے کے رہیں گے سوال صرف یہ ہے کہ جو فتنہ برپا کیا جا رہا ہے اس کا اثر ہندوستان کی تین قوموں پر کیا پڑے گا- اس کے ازالہ کی صورت ہونی چاہئے تا کہ سب لوگ یہاں امن و امان اور محبت و پیار سے رہ سکیں-
)۲( ہدایت کے متلاشی کو کیا کرنا چاہئے
کشمیر میں کچھ عرصہ قیام کے بعد سرینگر سے واپس آتے ہوئے حضور ایک دن کے لئے جموں میں ٹھہرے- احباب جماعت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۳۰ ستمبر ۱۹۲۹ء کو حضور کی تقریر کا انتظام کیا- غیر از جماعت احباب کثرت سے تشریف لائے- حسب موقع حضور نے ایک اہم تبلیغی تقریر فرمائی جس میں طالبان حق کو توجہ دلائی کہ وہ سچے مذہب اور سچیجماعت کی تلاش میں خدا تعالیٰ سے بذریعہ دعا راہنمائی حاصل کریں- آپ نے فرمایا میرے نزدیک بہترین ذریعہ سچائی طلب کرنے کا یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرے کہ میں سچے مذہب کو تلاش کر کے صرف تیری خاطر ماننا چاہتا ہوں اس لئے تو ہی مجھے سچے مذہب کا علم دے- جب کوئی یہ طریق اختیار کرے گا تو ضرور خدا اس کی راہنمائی کرے گا-
اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا-:
>حضرت مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس غرض کیلئے مبعوث فرمایا ہے- میں مسیح موعود ہوں اور خدا کی طرف سے مامور و مرسل ہوں- میرا کام یہ ہوگا کہ میں اسلام کو دنیا میں قائم کروں گا اور غیر مذاہب کے حملوں سے اسے بچائوں- اعتراضات کا قلع قمع کروں اور حقیقت اسلام پیش کروں<-
حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کام احسن طریق پر پورا کر دیا مخالفین اسلام کے سب اعتراضات کا مسکت جواب دیا اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کر کے اسے سب ادیان پر غالب کر دکھایا- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دشمنوں کا یہ الزام کہ آپ نے بزور شمشیر اپنا دین پھیلایا کی پر زور تردید کی اور ثابت کیا کہ آپ کا دین آپ کی اعلیٰ قوتقدسیہ کی وجہ سے پھیلا فرمایا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آپ کو آنحضرت صلیاللہ علیہ وسلم کا ادنیٰ غلام قرار دیا ہے- آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار تھے- آپ نے فرمایا-:
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
آخر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے پھر سامعین کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہدایت کیلئے بذریعہ مخلصانہ دعا خدا تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کریں-
)۳( مذبح قادیان کے انہدام کے متعلق
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کشمیر کے سفر کے بعد جب واپس قادیان تشریف لائے تو مقامی جماعت احمدیہ نے حضور کو خوش آمدید کہنے کیلئے یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء کو ایک تقریب منعقد کی اور آپ کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا- اس میں دیگر باتوں کے علاوہ انہدام مذبح کا بھی ذکر تھا- اس ایڈریس کے جواب میں حضور نے یہ تقریر ارشاد فرمائی- آپ نے فرمایا کہ دنیا جانتی ہے کہ ہم امن اور آشتی قائم رکھنے کیلئے ہر قسم کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ لوگوں کے طعنے سن کر بھی اشتعال سے بچتے ہیں لیکن ایک بات میں اپنے دوستوں کو بھی اور دوسرے لوگوں کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مومن اگر ایک وقت دینی نرمی` آشتی اور صلح جوئی کی خاطر قربانی کرتا ہے تو دوسرے وقت جب کہ اس کی آزمائش اور امتحان کو آخری حد تک پہنچا دیا جاتا ¶ہے تو اس وقت اس سے بڑھ کر بہادر اور جری بھی کوئی نہیں ہوتا- اس وقت بہادری اور شجاعت دکھانے سے کوئی نہیں روک سکتا- کیونکہ خدا کے بندے کبھی بزدل نہیں ہوتے- آپ نے فرمایا-:
>مذبح کے سوال پر میں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سوال یہ نہیں کہ سکھوں اور ہندوئوں نے اینٹوں کی ایک چار دیواری گرا دی- یا یہ کہ ایک خاص غذا کھانے سے مسلمانوں کو روک دیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کوئی قوم اپنی نجابت اور شرافت کو ثابت کرنے کیلئے کبھی ایسی زندگی برداشت نہیں کر سکتی کہ ایک دوسری قوم اسے کہے کہ جو میں کہوں وہ کرے اور جس کی میں اجازت دوں وہ کھائے- اس قوم سے بڑھ کر بے غیرت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی جو اپنے کھانے پینے کو دوسری قوم کے اختیار میں دے دے<-
حضور نے وضاحت فرمائی کہ موجودہ حالات میں ذبیحہ گائے کا سوال مسلمانوں کیلئے ایسا اہم ہے کہ اس پر ان کی اولادوں کی غلامی اور آزادی کا انحصار ہے اس وجہ سے ہم اسے حل کرنے کیلئے مجبور ہیں حضور نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں ایک سکیم میرے ذہن میں ہے ارادہ ہے کہ لوگوں کو جمع کر کے یہ سکیم ان کے سامنے پیش کروں اور پھر کارروائی شروع کی جائے-
اس غرض کیلئے ۶- اکتوبر ۱۹۲۹ء کو بعد نماز عصر مسجد نور میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں احباب قادیان کثرت سے شامل ہوئے- اس موقع پر حضور نے بصیرت افروز تقریر فرمائی آپ نے فرمایا کہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہاں دو قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں- بعض لوگ تو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مذبح کا معاملہ اب ختم ہو چکا ہے اور مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں- اور بعض کا خیال یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے سستی ہو رہی ہے- فرمایا کہ یہ دونوں خیال غلط ہیں- دراصل کام کا وقت اب شروع ہونے والا ہے- ہم نے تمام ضروری باتیں اور حالات کمشنر تک پہنچا دیئے ہیں- اب دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں-
حضور نے فرمایا کہ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ہندو امن و امان سے رہنے کے متمنی نہیں- ان کی خواہش ہے کہ مسلمان چوہڑے چمار اور گونڈبھیل کی طرح بن کر رہیں- ان حالات میں اب مسلمان سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ وہ ایسی زندگی بسر کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں- اگر نہیں تو انہیں باوقار زندگی گزارنے کیلئے قربانیاں دینی ہونگی-
حضور نے مذبح کے سلسلہ میں مقامی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ-:
آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس راہ میں کئی مشکلات ہونگی- آپ کو بھوکا پیاسا رہنا پڑے گا- سپاہیانہ زندگی کی مشق کرنی ہوگی- راتوں کو جاگنا ہوگا پہرے دینے ہونگے- حضور نے فرمایا کہ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیار ہیں اور اس کام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ حضور کے اس سوال پر تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ وہ پوری طرح اس کام کیلئے تیار ہیں-
حضور نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے احباب کو نصیحت فرمائی کہ چونکہ مسلمان قانون سے ناواقف ہیں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ انہیں واقف کریں- انہیں بتائیں بلکہ اشتہار دیں کہ گائے کا گوشت کھائیں- یہ کوئی جرم نہیں- صرف یہ شرط ہے کہ پردہ کے اندر ذبح کیا جائے اور نمائش نہ ہو- نیز فرمایا کہ ہمیں ابھی سے سکیم تیار کر لینی چاہئے کہ اگر کمشنر صاحب نے خلاف فیصلہ دیا تو پھر ہمیں کیا کرنا ہے-
)۴( احمدی خواتین کے فرائض اور ذمہ واریاں
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی کشمیر سے واپسی پر ۵- اکتوبر ۱۹۲۹ء کو لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا اس کے جواب میں آپ نے یہ خطاب فرمایا اور لجنہ کو اس کی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی- فرمایا مجھے خوشی ہے کہ لجنہ استقلال کے ساتھ اپنے لئے کام کے نئے میدان تلاش کر رہی ہے- اب جب کہ کام میں وسعت ہو رہی ہے تو میں ایک نہایت اہم بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں- فرمایا-:
>انجمنوں کی زندگی دراصل قانون کی زندگی ہوتی ہے- کسی ایک فرد سے کام لے کر بہت سے افراد کے ہاتھوں میں کام دینے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ افراد متحدہجدوجہد کے احترام کے عادی ہو جائیں اور ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ اگر کسی وقت ایک لیڈر سے انجمن محروم ہو جائے تو کام کے تسلسل میں فرق نہ پیدا ہو- اس غرض کو پورا کرنے کیلئے یہ اہم اور ضروری بات ہوتی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے اور قانون کی پابندی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ قانون مقررہ الفاظ میں موجود ہو۔۔۔۔۔ پس ممبرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ قانون پاس کرنے سے قبل کوئی کام نہ شروع کریں خواہ کتنا بڑا اور کتنا مفید ہی کیوں نہ ہو-<
لجنہ کی توجہ کیلئے دوسری اہم بات حضور نے یہ بیان فرمائی کہ اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہئے- کیونکہ جب کوئی جماعت نظام کے ماتحت کام شروع کرتی ہے تو کام کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے- اس قسم کے اختلاف سے نظام کی خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ابتدائی کاموں میں عموماً پائی جاتی ہیں- ان خامیوں کو دور کرنے سے اصلاح ہو جاتی ہے نیز قانون مکمل ہوتا جاتا ہے- اور قانون کے مکمل ہونے سے کام کو پختگی حاصل ہوتی ہے- رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے-:
اختلاف امتی رحمہ کہ میری امت میں اختلاف رحمت ہے- یہ ایسا ہی اختلاف ہے جو ایک نظام کے ماتحت` ایک انجمن کے ماتحت اور خلافت کے ماتحت کیا جائے- ہاں جو اختلاف اس کے مقابل اور اس کے باہر ہو کر کیا جائے وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے-
آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ ہماری عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے نمونہ اور تربیت سے اپنے بچوں کو دلیر اور بہادر بنائیں تا کہ وہ بڑے ہو کر بوقت ضرورت جرات سے قربانیاں پیش کر سکیں-
)۵( افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء
جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے یہ تقریر ۲۷ دسمبر ۱۹۲۹ء کو ارشاد فرمائی- فرمایا کہ چونکہ آج جمعہ کا دن ہے- خطبہ جمعہ میں بھی مجھے بولنا پڑے گا اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان ایام میں خصوصیت سے دعائوں میں مشغول رہیں-
حضور نے فرمایا کہ ہمارے ارادے تب ہی مفید ہو سکتے ہیں جب ان کے ساتھ عمل بھی ہو- ارادے ایمان کا جزو ہوتے ہیں اور ایمان کی تمثیل کھیتی سے دی جاتی ہے اور عمل کی پانی سے- جس طرح کھیتی کے سرسبز و شاداب ہونے کیلئے پانی دینا ضروری ہے اسی طرح ایمان کی ترقی کیلئے عمل کی ضرورت ہے- فرمایا کہ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ عمل کے لحاظ سے جو ہم سے سستی اور کوتاہی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے دور کر دے اور ہمیں اپنے نیکارادوں میں کامیاب و کامران فرمائے-
حضور نے اپنا ایک پرانا رئویا بیان کر کے احباب جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ دعائوں سے ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ یہی کامیابی کی راہ ہے- آپ فرماتے ہیں-
>ایمان کی تکمیل ایک دوسرے کی مدد سے ہو سکتی ہے- جب مومن دوسروں کیلئے دعا کرتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں کی خیر خواہی میں مصروف کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے برکت دیتا اور اس کی دعا سنتا ہے- پس احباب دعا کریں- اپنے علاوہ دوسروں کیلئے بھی دعا کریں- ساری جماعت کیلئے دعا کریں بلکہ ساری دنیا کیلئے دعا کریں حتی کہ جو اشد ترین دشمن ہو اس کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا کا اس پر فضل ہو- اپنے دلوں کو ہر قسم کے کینہ اور عداوت سے اسی طرح پاک کر لو جس طرح اللہ پاک ہے- وہ جس طرح کافر اور مومن دونوں کو رزق دیتا اور اپنے فیوض نازل کرتا ہے تم بھی تمام کدورتوں` تمام دشمنیوں اور تمام عداوتوں سے اپنے دلوں کو پاک کر کے دعا کرو-<
‏]daeh )[tag۶( مستورات سے خطاب
حضور نے یہ تقریر ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات کے اجلاس میں فرمائی- آپ نے فرمایا کہ عورتوں کیلئے تعلیم نہایت ضروری ہے اس کے بغیر نہ خدا سے ان کا معاملہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہیں- تعلیم کے سلسلہ میں حضور نے عورتوں کو توجہ دلائی کہ وہ سب سے اول قرآن مجید پڑھیں اور اس پر غور کریں- اس کے مضامین کو سمجھیں تا کہ ترقی کی راہیں ان کے لئے کھل جائیں- فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھو کہ کس طرح انہوں نے قرآن کریم غور سے پڑھا اور اس پر تدبر کیا- یہاں تک کہ وہ مردوں کی بھی استاد بن گئیں- ان کے اقوال سے بڑے بڑے علماء راہنمائی حاصل کرتے رہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے- فرمایا کہ دوسری چیز جس کا جاننا دینی تعلیم کیلئے ضروری ہے وہ سنت رسولﷺ~ اور حدیث کا علم ہے- آنحضرت ~صل۲~ نے خود احکام قرآن پر عمل کر کے دکھایا اور شریعت کے اہم مسائل کی وضاحت فرمائی- پس اعمال کی درستی کیلئے اسوہ رسول اور احادیث کا علم حاصل کرنا لازمی ہے-
حضور نے فرمایا کہ دینی تعلیم کیلئے تیسری ضروری چیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں- اللہ تعالیٰ نے ہماری حالت پر رحم کرتے ہوئے اس زمانہ کے مامور سے اردو میں کتابیں لکھوائیں تا کہ انہیں پڑھ کر ہم فائدہ اٹھا سکیں- قرآن مجید کا اس زمانہ کے متعلق علم آپ کی کتب میں موجود ہے- ان کے پڑھنے سے تمام دینی مسائل کے حل کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے-
لجنہ اماء اللہ کو ترقی کی طرف خاص توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ عورتوں کو اپنے کام خود سنبھالنے چاہئیں تب ہی وہ ترقی کر سکتی ہیں- عورتوں کی ضروریات کا علم عورتوں کو زیادہ ہوتا ہے- اس لئے انہیں کام خود کرنے چاہئیں-
آخر میں حضور نے انہیں نصیحت فرمائی کہ-:
>اپنے حقوق خود حاصل کرو جو حقوق لینے کھڑا ہوتا ہے خدا اس کے حقوق خود دلاتا ہے- نیند سے جاگو- دین کی خدمت کرو تا مردوں کی طرح تم پر بھی خدا کی برکات نازل ہوں اور خدا کے حضور ان افضال کی مالک بن جن کا تمہارے آبائواجداد کو وارث بنایا گیا-<
)۷( چند اہم اور ضروری امور
جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء کو حضور نے دوران سال پیش آنے والے چند اہم اور ضروری امور کے متعلق اظہار خیال فرمایا تا کہ احباب جماعت کو ان متفرق امور کے بارہ میں علم اور راہنمائی حاصل ہو- ابتداء آپ نے حضرت حافظ روشنی علی صاحب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے- میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی ہے جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواہش تھی- وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے ہر کام کا ذمہ دار سمجھتے تھے- فرمایا کہ جماعت کے ہر فرد کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس میں بھی یہی روح اور احساس ذمہ داری پیدا ہو جائے- جماعتی ترقی کیلئے یہ بات نہایت ضروری ہے-
بیمہ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ بیمہ کی وہ ساری اقسام جو اس وقت تک ہمارے علم میں آ چکی ہیں ناجائز ہیں ہاں اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے نفع اور نقصان میں شامل ہوگا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے- فرمایا کہ ایک طرح کا بیمہ جائز ہے اور وہ یہ کہ مجبوراً کرانا پڑے جیسے بعض محکموں میں گورنمنٹ نے ضروری کر دیا ہے کہ ملازم بیمہ کرائیں- حضور نے احباب جماعت کو بتایا کہ اس مسئلہ کے بارہ میں مزید غور وفکر کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی جا رہی ہے-
مجلس مشاورت میں عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق فرمایا کہ شریعت سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے بھی مشورہ لیا اور عورت سے بھی- فرمایا کہ عورتوں کو نمائندگی دینا ان کا حق ہے- ہاں سوال یہ ہے کہ کس طریق سے ان سے مشورہ لیا جائے- یہ بات شریعت نے ہم پر چھوڑ دی ہے کہ زمانہ کے حالات کے مطابق جس طرح مناسب ہو کر لو-
سلسلہ پر مالی بوجھ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے احباب جماعت کو نصیحت کی کہ وہ چندوں کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دیں اور اس میں باقاعدگی اختیار کریں تا کہ سلسلہ کے کاموں میں رکاوٹ نہ ہو- فرمایا کہ جماعت میں اخلاص ہے اگر عہدیدار سستی نہ کریں اور احبابجماعت کو توجہ دلائیں تو ضرور عمدہ نتائج پیدا ہوں گے- فرمایا کہ مالی حالت درست کرنے کی اچھی صورت وصیت ہے جو حضرت مسیح موعود نے الہام الہی کے تحت جاری فرمائی اور اسے جزو ایمان قرار دیا- اس طرح خاص توجہ کی ضرورت ہے-
دعوت الی اللہ کی اہمیت واضح کر کے حضور نے تحریک فرمائی کہ سارے احباب اگلے سال کم از کم ایک ایک آدمی کو احمدی بنائیں- اس سلسلہ میں نئے علاقوں کی طرف توجہ دیں- وہاں جلد اور زیادہ ترقی ہوتی ہے-
آخر میں حضور نے فرمایا کہ-:
>ہمارے لئے سب سے بڑی چیز دعا ہے- یاد رکھو کوئی کامیابی دعا کے بغیر نہیں ہو سکتی- اگر آپ لوگ روحانی کامیابی اور سلسلہ کی کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ دعائوں میں اپنے آپ کو لگا دو- ہر احمدی کو چاہئے خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تا کہ وہ اخلاص` روحانیت اور قوت پیدا کرے<-
)۸( فضائل القرآن )۲(
‏]txet [tag جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء پر حضور نے فضائل القرآن کے موضوع پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو چھ سال تک چلتا رہا- ان عظیم الشان تقریروں میں آپ نے قرآن مجید کی خوبیاں بیان فرمائیں ہیں اور بدلائل ثابت کیا ہے کہ الہامی کتب میں سب سے افضل کتاب قرآنمجید ہی ہے- یہ تقریر اس سلسلہ کی دوسری تقریر ہے جو حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۹دسمبر ۱۹۲۹ء کو قادیان میں فرمائی- اس میں آپ نے قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد بیان فرمائے ہیں-
فرمایا کہ سب سے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے کمال سے یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں- کچھ خوبیاں تو سب میں ہو سکتی ہیں- لیکن افضل کتاب وہی کہلائے گی جو سب خوبیوں کی جامع ہو اور تمام وجوہ کمال میں سب سے بڑھ کر ہو- قرآن مجید اس معیار پر پورا اترتا ہے حضور فرماتے ہیں-
>جب میں نے اس رنگ میں غور کیا تو قرآن کریم کا سمندر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ ہر فضیلت کی وجہ جو دنیا میں پائی جاتی ہے اور جس کی بناء پر ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے وہ بدرجہ اتم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور فضیلت دینے والی خوبیوں کے سارے رنگ قرآن کریم میں موجود ہیں- میں نے اس وقت سرسری نگاہ سے دیکھا تو قرآن کریم کی فضیلت کی چھبیسوجوہات میرے ذہن میں آئیں بالکل ممکن ہے کہ یہ وجوہات اس سے بڑھ کر ہوں-<
اس کے بعد حضور نے قرآنی فضیلت کی چھبیس وجوہات بیان فرمائی ہیں- اور ان امور پر تفصیلی بحث کر کے روشن دلائل پیش فرمائے ہیں- اس تقریر میں آپ وقت کے لحاظ سے کتبسابقہ پر قرآن مجید کی فضیلت کی صرف چھ وجوہات بیان فرما سکے- آخر میں حضور نے فرمایا-:
>میں نے فضیلت قرآن کی چھبیس وجوہات میں سے اس وقت صرف چھ کا ذکر کیا ہے اور ان کی بھی ایک ایک مثال دی ہے خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو باقیوں کے متعلق پھر بحث کروں گا- فی الحال اسی پر بس کرتا ہوں اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی افضل اور بے نظیر کتاب پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو حرز جان بنانے کی کوشش کرو- اس وقت میں قرآن کریم کے جن مطالب کو واضح کر سکا ہوں ان کے مقابلہ میں اور کوئی کتاب ایسے مطالب پیش نہیں کر سکتی- دوستوں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اس کتاب کی طرف خاص طور پر توجہ دیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں-<
)۹( ندائے ایمان )۱(
جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء کے موقع پر حضور نے احباب جماعت کو دعوت الی اللہ کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا کہ آئندہ سال ہر احمدی کوشش کرے کہ اس کے ذریعہ کم از کم ایک شخص ضرور ہدایت پائے- اس سلسلہ میں حضور نے اپنے قلم سے >ندائے ایمان< کے عنوان سے اشتہارات کا ایک نہایت مفید سلسلہ شروع فرمایا تا کہ سب لوگوں تک پیغام احمدیت پہنچایا جا سکے- اس سلسلہ کا پہلا اشتہار آپ نے ۱۵ جنوری ۱۹۳۰ء کو تحریر فرمایا جو چھیاسٹھ ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ملک بھر میں شائع کیا گیا-
حضور نے تحریر فرمایا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے پچاس سال قبل جب خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اصلاح کا کام شروع کیا تو اپنے اور پرائے سب آپ کے مخالف ہو گئے- ان کا خیال تھا کہ اگر مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دعویٰ سے توبہ نہ کی تو ایک قلیل عرصہ میں ان کی تباہی قطعی اور یقینی ہے- جب کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اس لئے میں اس کی تائید سے کامیاب ہوں گا اور میرے مخالف ناکامی کا منہ دیکھیں گے- حضور تحریر فرماتے ہیں کہ اتنا عرصہ گزرنے پر حالات کا جائزہ لیں تو صاف واضح ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت دنبدن ترقی کر رہی ہے اور بیرونی ملکوں میں پھیل گئی ہے- اس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں اور خدا تعالیٰ کی تائید آپ کے ساتھ ہے- حضور اہل ملک کو مخاطب کرتے ہوئے دردمندانہ انداز میں فرماتے ہیں-:
>اے بھائیو! اس اشتہار کے ذریعہ میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ حق کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور خدا کی آواز سے بے پرواہی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ کیا معلوم کہ موت کب آ جائے گی اور ہمارے اعمال کے زمانہ کو ختم کر دے گی- اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا کہ آپ اس عظیم الشان کام کے متعلق آج اور کل ہی کرتے رہے اور ایمان کا وقت گزر گیا اور موت کی گھڑی آ گئی تو بتائیں کہ اس وقت کیا چارہ کار ہوگا- نہ پچھتانا کچھ مفید ہوگا اور نہ گریہ و زاری کچھ نفع دے گی<-
)۱۰( نہرو کمیٹی کی تتمہ رپورٹ پر مختصر تبصرہ
>نہرورپورٹ< پر جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا بصیرت افروز تبصرہ شائع ہوا تو اسے پڑھ کر جہاں مسلمان زعماء کی آنکھیں کھلیں اور انہیں اپنے مستقبل کے سلسلہ میں تشویش لاحق ہوئی وہاں نہرو کمیٹی کو بھی مسلمانوں کی اشک شوئی کیلئے اپنی رپورٹ کی بعض شقوں میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی جسے انہوں نے تتمہ نہرورپورٹ کی صورت میں شائع کیا- حضور نے اس کا بروقت جائزہ لیا اور ان کی اصلاح شدہ جن شقوں کا تعلق مسلمان قوم سے تھا ان پر مندرجہ بالا عنوان کے ماتحت ایک مختصر اور جامع تبصرہ فرمایا- آپ نے تعلیم` اجارہزمین` سرکاری زبان` قانون سازی اور فرقہ وارانہ انتخاب وغیرہ کے بارہ میں نہرو کمیٹی کی تتمہرپورٹ پر زبردست تنقید فرمائی اور آخر میں مسلمانوں اور برطانوی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے واضح الفاظ میں فرمایا-
>میں پھر مسلمان پبلک اور اپنے ماوراء البحر کے رہنے والے انگریز بھائیوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اس رپورٹ کو سمجھے بغیر اس کی تائید نہ کریں- انگریزوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی قوم بے شک اس وقت ہندوستان کی حاکم ہے لیکن وہ اس کی مالک نہیں ہے وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ہندوئوں کا غلام بنا دینے کا کوئی حق نہیں رکھتے<- ])[۱۱( گول میز کانفرنس اور مسلمانوں کی نمائندگی
حکومت برطانیہ کے قائم کردہ سائمن کمیشن کی رپورٹ اہل ہند کی توقعات پر پوری نہ اتری اس لئے وہ انہیں قابل قبول نہ تھی- ان حالات میں حکومت کی طرف سے گولمیزکانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا تا کہ برطانیہ اور ہندوستان کے نمائندگان ایک جگہ جمع ہو کر ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کے بارہ میں غور وفکر کر سکیں-
اس موقع پر حضور نے مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے فوری طور پر یہ مضمون تحریر فرمایا اور انہیں نصیحت کی کہ وہ باہمی تفرقہ اور اختلافات کو ترک کر دیں اور قومی مفاد کی خاطر اتفاق اور اتحاد سے کام کریں- صرف اسی طریق پر وہ مخالف قوم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے- انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ کانفرنس میں ایسے نمائندے جائیں جو قوم کی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں- حضور نے اس موقع پر گورنمنٹ کو بھی مشورہ دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے مشورہ سے نمائندوں کا انتخاب کرے تا کہ کانفرنس کے فیصلوں کو لوگ خوش دلی سے قبول کرلیں-
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا-:
>میرے نزدیک آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے لئے کام کا وقت ابھی آیا ہے- خالی اس امر کو شائع کر دینا کہ مسلمانوں کے یہ مطالبات ہیں کافی نہیں ہے- اگر ایسے لوگ رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں گئے جنہوں نے ان مطالبات کو پس پشت ڈال دیا تو آلپارٹیز کانفرنس کے فیصلہ کی قیمت کچھ بھی باقی نہیں رہتی- پس یہی وقت ہے کہ وہ ایک طرف گورنمنٹ کو غلط انتخاب کے بدنتائج سے آگاہ کرے اور دوسری طرف پبلک کو اس کے خطرات سے واقف کرے- اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک مسلمانوں کی نمائندگی کا فیصلہ مسلمانوں کے منتخب نمائندوں اور ان کی اہم سیاسی انجمنوں کے ذریعہ نہ ہو<-
)۱۲( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ملہم کی حیثیت میں
یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہر حیثیت میں سب سے بلندوبالا ہے- اس مضمون میں حضور نے بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ملہم ہونے کی حیثیت میں بھی سب انبیاء سے افضل ہیں- ملہم کی حیثیت کا اندازہ اس کلام سے ہوتا ہے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کلام دیا گیا یعنی قرآن مجید وہ ایک عظیم معجزہ ہے- دوسرے مذاہب کی کتب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں نہ ان کی حفاظت کا کوئی وعدہ تھا اور نہ وہ عملاً محفوظ رہیں- لیکن قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا اور وہ اب تک اسی طرح محفوظ ہے جس صورت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا- اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دشمنوں کو بھی اس کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں- چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب >دی قرآن< میں لکھتے ہیں-:
>یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی )صلی اللہ علیہ وسلم( نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا<-
پس قرآن کریم ایک منفرد اور افضل کتاب ہے اس طرح وہ رسول جس پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ بھی دیگر سب رسولوں سے افضل ٹھہرتا ہے- حضور فرماتے ہیں-:
>غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور ملہم بھی سب ملہموں سے افضل ہیں کیونکہ آپ کا الہام زندہ ہے اور اس قدر زبردست معجزانہ اثرات اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی اور الہام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کوئی اور کتاب آپ کی کتاب کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی-<
)۱۳( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دشمن کی نظر میں
نبی کریم ~صل۲~ کی شان اور عظمت اتنی بلند اور آپ کا کردار اور اخلاق اتنا اعلیٰ اور مسحور کن تھا کہ وہ دشمن جنہوں نے صرف آپ کے خلاف لکھنے کیلئے قلم اٹھایا وہ بھی حالات پڑھ کر آپ کی عظیم شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ بعض اوقات آپ کے حق میں لکھنے پر مجبور ہو گئے- اس مضمون میں حضور فرماتے ہیں کہ سرولیم میور مصنف >لائف آف محمد< انہی دشمنوں میں سے ایک تھے- یہ صاحب ہندوستان کی سول سروس کے ایک افسر تھے جو ترقی کر کے آخر صوبہ یو-پی کے گورنر بن گئے تھے-
یہ اسلام اور آنحضرت ~صل۲~ کے متعصب دشمن تھے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں آپ کے خلاف بہت نیش زنی کی ہے تا ہم کئی موقعوں پر وہ اس حسن دلاویز سے اتنے مسحور ہوئے کہ اچھی باتیں بھی لکھ گئے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں-:
>اس کا ڈنگ اس کے ساتھ ہے لیکن باغ محمد کے پھولوں سے چوسا ہوا شہد بھی اس کی زبان سے ٹپک رہا ہے- وہ لاکھ کہے کہ اسلام آنحضرت ~صل۲~ کا تیار کردہ ہے وہ دشمن ہے اور دشمنی اس کا شیوہ- لیکن یہ صداقت جو اس کے قلم سے نکل گئی ہے اب ہزار کوشش سے بھی وہ اور اس کے ساتھی اس کو لوٹا نہیں سکتے کہ دنیا نے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے- اور یہ کام سوائے خدا کے فرستادوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا<-
)۱۴( عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریم ﷺ~ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے
جب ہندئووں کی طرف سے آنحضرت ~صل۲~ کے متعلق انتہائی دل آزار کتب >رنگیلارسول< اور رسالہ >ورتمان< وغیرہ شائع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء کے ماتحت ۱۹۲۷ء میں حضرت مصلح موعود نے جلسہ ہائے سیرۃ النبی ~صل۲~ کی تحریک جاری فرمائی تاکہ ہندوستان بھر میں جگہ جگہ ایک ہی دن جلسے منعقد کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی جائے-
آپ نے فرمایا-:
>لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک یہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھی لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کی جرات نہ رہے-<
)تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء(
حضور کی یہ بابرکت تحریک بفضل خدا بہت کامیاب ہوئی اور مسلمان ملک بھر میں مقررہ تاریخ پر ہر سال جلسوں میں آنحضرت ~صل۲~ کی پاک سیرت بیان کرنے لگے- اس تحریک کے مطابق ۱۹۳۰ئی میں >سیرۃ النبی< کے جلسوں کیلئے ۲۶- اکتوبر کا دن مقرر ہوا- چنانچہ اس دن قادیان میں جو جلسہ منعقد ہوا اس میں حضور نے یہ تقریر فرمائی اور عرفان الہی اور محبت باللہ کا وہ بلند مقام بیان فرمایا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے-
حضور نے عرفان الہی کے پانچ مقام بیان کر کے فرمایا کہ ان کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہے کہ ہم رسول کریم ~صل۲~ کی مکمل پیروی کریں- آپ کو اللہ تعالیٰ کا کامل عرفان حاصل تھا- اب وہی شخص عرفان الہی حاصل کر سکتا ہے جو مکمل طور پر آنحضرت ~صل۲~ کی اطاعت اور پیروی کرے-
)۱۵( امیر جماعت اور منصب امارت کی حقیقت
۱۹۳۲ء میں جماعت احمدیہ صوبہ بنگال کے عہدیداروں میں اختلاف کی وجہ سے جماعتی کام میں نقص پیدا ہونے لگا- اس پر حضور نے صوبہ کے آئندہ نظام کے بارہ میں احباب جماعت بنگال سے مشورہ طلب کیا- حصول مشورہ کے بعد آپ نے یہ فیصلہ تحریر فرمایا- ابتداء حضور نے منصب امارت کی وضاحت فرمائی نیز نظام جماعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بیان فرمائے- اس کے بعد تحریر فرمایا-:
>صرف ایک ہی نظام ہے جو صوبہ جات میں قائم کیا جا سکتا ہے اور وہ وہ نظام ہے جو باوجود صوبہ جاتی نظام کے تمام افراد اور جماعتوں کا تعلق مرکز سے قائم رکھے اور ایسا نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک تو امیر ہو جو خلیفہ کا نائب ہو- جس کا فرض ہو کہ وہ دیکھے کہ ایک طرف تو صوبہ یا ملک کی جماعت خلیفہ اور صدر انجمن احمدیہ کے احکام کی پیروی کرتی ہے اور دوسری طرف یہ دیکھے کہ صوبہ جات کی اکثریت کی طے کردہ پالیسی پر اس کے مقامی عمال عمل کرتے ہیں؟ گویا ایک طرف اس کا فرض ہے کہ صوبہ میں مرکز کے احکام کی پابندی کرائے اور دوسری طرف اس کا فرض ہے کہ یہ دیکھے کہ صوبہ کے عمال صوبہ کی جماعت کی اکثریت کے تابع چلتے ہیں اور اپنے فرائض کو خود سری سے نظر انداز نہیں کرتے اور اسلامی مساوات اور جمہوریت کی روح کو کچلتے نہیں- تیسری طرف یہ دیکھنا بھی اس کا فرض ہے کہ اکثریت اسلام کے منشاء کے خلاف تو نہیں چلتی اور اگر ایسا نظر آئے تو وہ اس کی اصلاح کر کے خلیفہوقت کے پاس رپورٹ کرے<-
حضور فرماتے ہیں کہ امارت کا نظام خلافت کے ماتحت بہترین نظام ہے جسے اگر صحیح طور پر چلایا جائے تو تمام ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں- مقامی کام بھی اچھے طریق پر چلتے ہیں اور مرکزی بھی-
)۱۶( ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل
سائمن کمیشن کی رپورٹ چھپنے کے کچھ دیر بعد حکومت برطانیہ نے لندن میں گولمیزکانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تا کہ ہندوستان کے سیاسی ارتقاء کے مختلف پہلوئوں پر غور کر کے آئندہ کیلئے لائحہ عمل تجویز کیا جائے- چونکہ سائمن کمیشن نے مسلمانوں کے حقوق کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا تھا اس لئے حضور کو تشویش تھی اور آپ چاہتے تھے کہ آئندہ مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز نہ کیا جائے اس لئے حضور نے مناسب سمجھا کہ اس موقع پر سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ کر کے اس کے نقائص واضح کئے جائیں اور ہندوستان کے مسائل کا ایسا حل پیش کیا جائے کہ آئندہ زمانہ میں سب قومیں صلح و آشتی سے بامن زندگی گزار سکیں- چنانچہ حضور فرماتے ہیں-:
>میں سمجھتا ہوں کہ گو ایک مذہبی آدمی ہونے کے لحاظ سے مجھے سیاست ملکی سے اس قدر تعلق نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو رات دن انہی کاموں میں پڑے رہتے ہیں- لیکن اسی قدر میری ذمہ داری صلح اور آشتی پیدا کرنے کے متعلق زیادہ ہے اور نیز میں خیال کرتا ہوں کہ شورش کی دنیا سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے میں شاید کئی امور کی تہہ کو زیادہ آسانی سے پہنچ سکتا ہوں بہ نسبت ان لوگوں کے کہ جو اس جنگ میں ایک یا دوسری طرف سے شامل ہیں- پس اس وقت جب کہ رائونڈٹیبل کانفرنس کے اعلان کی وجہ سے لوگوں کی توجہات مسئلہ ہندوستان کے حل کرنے میں لگی ہوئی ہیں میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے خیالات دونوں ملکوں کے غیرمتعصب لوگوں کے سامنے رکھ دوں-<
حضور نے اپنے تبصرہ میں مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات پر سیر حاصل بحث کی اور ان کی معقولیت کو اجاگر کیا- اس کے ساتھ ہی آپ نے ہندوستان کے سیاسی مسائل کا نہایت معقول اور تسلی بخش حل پیش کیا- اس کے جامع و مانع تبصرہ کا انگریزی ایڈیشن فوراً شائع کر کے انگلستان پہنچا دیا گیا تا کہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے والے اسے پڑھ کر فائدہ اٹھا سکیں- مسلمان نمائندوں کو خاص طور پر اس سے فائدہ پہنچا- چنانچہ انہوں نے پہلی بار متفقہ طور پر کامیابی سے اپنے مطالبات کانفرنس میں پیش کئے- جس کا انگلستان کے صاحب رائے لوگوں پر گہرا اثر ہوا- اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خصوصی حیثیت کے قائل ہو کر ان کے مطالبات کی معقولیت اور افادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے- حضور کی یہ کتاب ہندوستان اور انگلستان دونوں جگہ بہت مقبول ہوئی اور اسے بڑی دلچسپی اور توجہ سے پڑھا گیا- اور کئی مدبر سیاستدانوں اور صحافیوں نے شاندار الفاظ میں حضور کو خراج تحسین پیش کیا- چنانچہ سرہون او ملر (SIRHONEO`MILLAR) نے تحریر فرمایا-:
>اس چھوٹی سی کتاب کے ارسال کرنے کیلئے جس میں مسئلہ ہند کے حل کیلئے امام جماعت احمدیہ کی تجاویز مندرج ہیں میں تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں- سائمن کمیشن کی تجاویز پر یہی ایک مفصل تنقید ہے جو میری نظر سے گزری ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس اخلاص` معقولیت اور وضاحت کی داد دیتا ہوں جس سے کہ ہزہولینس )یعنی امام جماعت احمدیہ( نے اپنی جماعت کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور میں ہزہولینس )SS(HISHOLLYNE کی بلند خیالی سے بہت متاثر ہوا ہوں-<
)۱۷( افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۰ء
جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے یہ تقریر ۲۶ دسمبر ۱۹۳۰ء کو قادیان میں فرمائی- آپ نے احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر عظیم الشان فضل فرمائے ہیں- اس نے ہمیں اسلام جیسا مذہب اور قرآن جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی- پھر جب ہماری شامت اعمال اور گناہوں کی وجہ سے یہ کلام دنیا سے اٹھ گیا تو اسے دوبارہ واپس لانے اور دینحق کو زندہ کرنے کیلئے اس زمانہ میں اپنا مامور بھیجا اور ہمیں اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی- اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسولﷺ~ کا کلام سب لوگوں تک پہنچائیں- یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور ہم نہایت کمزور ہیں- خدا تعالیٰ کی توفیق کے بغیر یہ کام پورا کرنا ممکن نہیں اس لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے مدد اور توفیق طلب کرنی چاہئے- آپ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا-:
>میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے اعمال اور اقوال میں برکت دے- ہمیں اپنے فضل کے سایہ کے نیچے رکھے- فرشتے آسمان سے ہماری تائید اور نصرت کیلئے نازل کرے- ہم کمزور ہیں ہمیں طاقت عطا کرے- ہم ضعیف ہیں ہمیں توانائی بخشے- ہم جاہل ہیں ہمیں علم دے- ہم بیعمل ہیں ہمیں اعمال حسنہ کی توفیق دے- ہم دنیا کے مقابلہ میں نہتے ہیں وہ ہمیں کامیابی کے سامان عطا کرے تا کہ ہم اس عظیم الشان جنگ میں کامیاب ہوں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے<-
آخر میں حضور نے دوستوں کو یہ خوشکن خبر سنائی کہ آپ کے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزاسلطان احمد صاحب کل آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں- الحمدللہ کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری اولاد احمدیت میں داخل ہو گئی ہے- اور دشمن کا یہ اعتراض بھی ختم ہو گیا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کی جماعت میں داخل نہیں-
)۱۸( مستورات سے خطاب
یہ تقریر حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین میں فرمائی- فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی مامور آتا ہے تو دنیا میں ایک ہلچل شروع ہو جاتی ہے- لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے ماننے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں- وہ کہتے یہ ہیں کہ اس کے آنے سے ایک فساد برپا ہوگیا ہے- بیٹا باپ سے اور بیوی خاوند سے الگ ہو گئے ہیں اور تفرقہ پیدا ہو گیا ہے- جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مامور تو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت پر قائم کرتا ہے- وہ اتحاد کی بنیاد رکھ کر لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے- ان کے تفرقے مٹا کر انہیں ایک جماعت کی لڑی میں پرو دیتا ہے- ہاں وہ اپنی اصلاح شدہ جماعت کو خالص اور پاک رکھنے کیلئے کچھ پابندیاں ان پر لگاتا ہے تا کہ وہ ان میں مل کر دوبارہ خراب نہ ہو جائیں یہ ایسی ہی احتیاط ہے جیسے انسان اچھے دودھ کی حفاظت کیلئے اسے دہی وغیرہ میں ملنے سے دور رکھتا ہے- فرمایا کہ غیر از جماعت لوگوں میں بچیوں کی شادی سے اسی غرض سے روکا گیا ہے کہ وہ ان سے مل کر انہی جیسی نہ بن جائیں- حضور احمدی مستورات کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں-
>مسیح موعود کے آنے پر جو تفرقے اٹھے یہ پہلے ہی تھے نئے نہیں-<
)۱۹( بعض اہم اور ضروری امور
یہ تقریر حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ء کو دوران سال وقوع پذیر ہونے والے متفرق واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمائی- اول تو حضور نے اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے پھر جماعت کو اس سنت کو پورا کرنے کی توفیق دی جو بانی سلسلہ احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء سے جلسہ سالانہ کی صورت میں قائم کی- پھر فرمایا کہ اس سال جماعت پر بہت بڑا ابتلاء آیا چند فتنہ پردازوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ایک طرف جماعت کے لوگوں کی غیرت اور حمیت کا امتحان تھا اور دوسری طرف اپنے نفس پر قابو رکھنے کا مشکل کام تھا- گویا دو آگیں تھیں جن میں وہ کھڑے تھے- اور جہاں یہ دو آگیں جمع ہو جائیں وہاں بڑے بڑے عقلمندوں کی عقل بھی ماری جاتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت ان حالات میں پوری طرح کامیاب ہوئی- اس نے غیرت بھی دکھائی اور اپنے نفس کو بھی قابو میں رکھا- اس سال دشمن نے یہ جھوٹی خبر اخبارات میں شائع کروا دی کہ امام جماعت احمدیہ وفات پا گئے ہیں- اس سے احباب جماعت کو سخت صدمہ اور تکلیف ہوئی تا ہم اس خبر نے جماعت کے اخلاص اور محبت کے جذبات کو نکال کر باہر رکھ دیا اور اخلاص و فدائیت کا غیر معمولی اظہار ہوا- اس پر حضور نے خوشنودی ظاہر کی نیز احباب جماعت کو انتخاب خلافت کے سلسلہ میں خاص نصیحت کی- آپ نے فرمایا-:
>یاد رکھو! اسلام اور احمدیت کی امانت کی حفاظت سب سے مقدم ہے اور جماعت کو تیار رہنا چاہئے کہ جب بھی خلفاء کی وفات ہو جماعت اس شخص پر جو سب سے بہترین خدمت دین کر سکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے الہام پانے کے بعد متفق ہو جائے گی- انتخاب خلافت سے بڑی آزمائش مسلمانوں کے لئے اور کوئی نہیں- یہ ایسی ہے جیسے باریک دھار پر چلنا- ذرا سا قدم لڑکھڑانے سے انسان دوزخ میں جا گرتا ہے- غرض انتخاب خلافت سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہے- جماعت کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری پہچاننی چاہئے<-
تازہ تصانیف کے سلسلہ میں حضور نے >سیرۃ خاتم النبین< مصنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور >تفہیمات ربانیہ< مصنفہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کی تعریف فرمائی اور احباب کو تلقین کی کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کی اشاعت کریں- حضور نے اپنی تازہ تحریر فرمودہ کتاب >ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل< کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ انگریزی اور اردو میں شائع ہو چکی ہے- مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی کثرت سے اشاعت ہو- دوستوں کو اس طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے-
اس تقریر میں حضور نے مقابلہ میں قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کرنے کے متعلق مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تحریروں کا بھی مفصل جواب دیا اور آخر میں فرمایا-:
>میں امید کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے معارف لکھنے کے متعلق جو میرا چیلنج تھا اس کی پوری تشریح کر چکا ہوں اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو اس کی قبولیت کا اعلان کر دیں<-
)۲۰( فضائل القرآن نمبر )۳(
جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء پر حضور نے فضائل القرآن کے موضوع پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو ۱۹۳۶ء تک جاری رہا- اس عرصہ میں آپ نے چھ عظیم الشان تقاریر فرمائیں جن میں قرآنی معارف اور دقائق سلیس اور نہایت موثر رنگ میں بیان فرمائے- نیز دلائل سے ثابت کیا کہ قرآن مجید ہی دیگر سب مذہبی کتب سے افضل کتاب ہے-
یہ تقریر اس سلسلہ کی تیسری تقریر ہے جو حضور نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء کو قادیان میں فرمائی- اس میں آپ نے صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم بیان کی ہے-
اولاً حضور نے صدقہ و خیرات کے بارہ میں دیگر مذاہب کی تعلیم بیان کر کے اس کا اسلامی تعلیم سے موازنہ کیا اور بتایا کہ ہر پہلو سے قرآن کی بیان کردہ تعلیم جامع اور افضل ہے- آپ نے اس سلسلہ میں تعلیم اسلامی کی چودہ باتیں بیان کر کے فرمایا-:
>یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھی لو ان کی بحث ان میں نہ ہوگی- اور میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائے گی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے-<
مضمون کے دوسرے حصہ کے متعلق حضور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مرد اور عورت کا تعلق ایک فطری تعلق ہے- اس لئے اس بارہ میں تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے- لیکن ساری مذہبی کتب اس کی تکمیل سے محروم رہیں- صرف قرآن کریم نے اسے مکمل کیا ہے- اس سلسلہ میں حضور نے کثرت ازدواج` حقوق نسواں` باہمی ذمہ داریاں اور طلاق وغیرہ مسائل کا ذکر کر کے بتایا کہ تمام مسائل کے بارہ میں اسلام مکمل تعلیم دیتا ہے- انسان اس پر عمل کر کے اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب اور اپنے گھر کو جنت بنا سکتا ہے- کوئی اور مذہبی کتاب اس تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتی- حضور فرماتے ہیں-
>غرض قرآن کریم کا کوئی حکم لے لو خواہ وہ کس قدر ابتدائی امر کے متعلق ہو اس میں بھی اسلام کی تعلیم افضل ہی نظر آئے گی- نرو مادہ کے تعلقات کا مسئلہ کتنا ابتدائی مسئلہ تھا لیکن قرآن کریم نے اسے کتنا علمی بنا دیا- باقی کتب میں اس کا ذکر بھی نہ ہوگا- پس ہمارا یہی دعویٰ نہیں کہ قرآن میں ایسی باتیں ہیں جو اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں بلکہ یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی بات نہیں جو دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں سے افضل نہ ہو- خواہ وہ کھانے پینے کے متعلق ہو` خواہ لین دین کے متعلق ہو` خواہ اور معاملات کے متعلق ہو- اس کے متعلق ہم چیلنج دے سکتے ہیں کہ کوئی عیسائی یا ہندو یا کسی اور مذہب کا پیرو کھڑا ہو اور کسی مسئلہ کا نام لیکر کہے کہ اسے قرآن سے افضل ثابت کرو تو یقیناً ہم اسے افضل ثابت کر دیں گے- انشائاللہتعالی< ][
٭٭٭
‏tatif.9
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی آٹھویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی کی فروری۱۹۲۴ء سے ۲۷ نومبر۱۹۲۴ء تک کی تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے-
)۱( تائید دین کا وقت ہے
ہندوئوں کی تحریک شدھی کے مقابل پر جماعت احمدیہ کی طرف سے زبردست تبلیغی کوششیں جاری تھیں اور ملکانا قوم اور دیگر ہندو اقوام میں بھی زور سے تبلیغی کارروائیاں عمل میں آ رہی تھیں جس کی خاطر غیر معمولی مالی قربانی کی ضرورت تھی- چنانچہ ۱۵ فروری ۱۹۲۴ء کو حضرت مصلح موعود نے جماعت کے سامنے مالی قربانی کی یہ تحریک رکھی- جس میں آپ نے فرمایا کہ ہندو اقوام میں تبلیغ کی خاطر پہلے کم از کم سو روپیہ چندہ دینے کی شرط تھی مگر بہت سے احباب یہ رقم ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے سخت دکھ محسوس کر رہے تھے اس لئے اب میں اس تحریک کو عام کرتا ہوں-
نیز فرمایا کہ مرکزی تعمیرات` جرمن مشن` بخارا مشن اور افریقہ میں تعلیمی اور تربیتی مقاصد کی خاطر چالیس ہزار روپیہ خاص چندہ کی ضرورت ہے- اس لئے آپ نے تحریک فرمائی کہ تمام احمدی ماہوار چندوں کے علاوہ اپنی ماہوار آمد کا ایک تہائی اس سال ان ضروریات کے پورا کرنے کیلئے یکمشت ادا کریں- زمینداروں کو آپ نے ۲۵ روپے فی مربع ادائیگی کا ارشاد فرمایا-
آپ نے فرمایا کہ یہ چندے تمہاری ہی بہتری اور فلاح کے لئے ہیں- میں اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں مانگتا- آخر پر تحریر فرمایا-
>اے عزیزو! فتح کا زمانہ آگیا- کامیابی دروازے پر ہے- خوشی کی گھڑیاں ناچتی ہوئی چلی آتی ہیں- اور تمہارے قدموں کے چومنے کی مشتاق ہیں- وہ دن قریب ہیں جب فوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت کو قبول کریں گے پس اس زمانہ کی نسبت سے اپنی قربانیوں کو بھی بڑھا دو<-
حضور کی یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہوئی آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں- nsk] ga[t فالحمدللہ علی ذالک
)۲( بہائی فتنہ انگیزوں کا راز کیونکر فاش ہوا
قادیان میں بعض بہائی اپنے آپ کو احمدی ظاہر کرتے ہوئے خفیہ طریق سے فتنہ انگیزی کرتے رہے- مخفی طور پر اپنی تعلیمات کو پھیلاتے رہے اور ایسے جماعتی عہدوں پر اور اداروں میں کام کرتے رہے جن کا مقصد احمدیت کی خدمت اور اشاعت ہے-
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ان کے متعلق اطلاع ملنے پر تحقیقاتی کمیشن مقرر فرمایا اور اس کی مفصل رپورٹ آنے کے بعد ۱۸ مارچ ۱۹۲۴ء اور ۲۰ مارچ ¶۱۹۲۴ء کو مسجد اقصیٰ میں دو مفصل خطاب ارشاد فرمائے- جس میں آپ نے کمیشن کی رپورٹ اور معین گواہیاں پڑھ کر سنائیں اور فرمایا کہ ہم مذہبی آزادی کے قائل ہیں اور کئی مذاہب کے لوگ قادیان میں ہماری دعوت پر لیکچر دیتے رہتے ہیں مگر ان لوگوں نے ہمارے کہلا کر` ہماری جماعت کا پردہ اوڑھ کر اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے خلاف ناپاک کارروائیاں کی ہیں اور یہ امر ہر مذہب سے ہی نہیں بلکہ انسانی شرافت اور اخلاق سے بھی بعید ہے اس لئے میں ان کے اخراج از جماعت کا اعلان کرتا ہوں-
آپ نے بہائیوں کے شریعت اسلامی کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بیان کرتے ہوئے اپنی غیرت کا یوں اظہار فرمایا-
>وہ غیر احمدی جنہوں نے ہمارے بزرگوں کو قتل کیا ہم ان کو ان سے ہزار درجہ اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ وہ محمد ~صل۲~ کا نام عزت سے لیتے ہیں- مگر جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کہتا ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت منسوخ ہو گئی اور بہاء اللہ کا درجہ آپ سے بڑا ہے اس کے ساتھ ہمارا ذرا بھی تعلق نہیں ہو سکتا<-
آپ نے بڑے پر جلال انداز میں بہاء اللہ کے خلیفہ کو کلام الہی اور قبولیت دعا کا چیلنج دیا اور بہائی مذہب کی تباہی کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا-
>آج تک جو قوم ہمارے مقابلہ میں آئی اس کو خدا نے تباہ کیا- اب اس کو خدا نے لا کھڑا کیا ہے- اب بھی ویسی ہی مثال ہوگی کہ ہم کونے کا پتھر ہیں جو اس پر گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور جس پر یہ گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا- ہم اللہ کے دعوئوں اور نصرتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ قوم احمدیہ جماعت کے ذریعہ تھوڑے سے عرصہ میں مٹائی جائے گی اور اس کا سارا گند ظاہر ہو جائے گا<-
‏]ttex [tag حضور نے اپنی تقریر کے آخر میں فرمایا-
>آج میں کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی مذہب دعا سے مقابلہ کر لے- میرے مقابلہ میں دعا کر کے دیکھ لے کہ خدا میری مدد کرتا ہے یا اس کی- اور میں یہ اپنے متعلق نہیں کہتا میرے مرنے کے بعد بھی لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ میں ایسے انسان ہونگے کہ جو نشان دکھائیں گے<-
)۳( قول الحق
یکم تا تین اپریل ۱۹۲۴ء کو غیر احمدی علماء نے قادیان میں جلسہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف انتہائی بدزبانی کر کے احمدیوں کی سخت دل آزاری کی- حضرت المصلح الموعود نے ۳-اپریل کو مسجد اقصیٰ میں ایک بڑے مجمع کے سامنے تقریر میں ان کی بدزبانیوں کی قلعی کھولی- یہ تقریر بعد میں >قول الحق< کے نام سے شائع ہوئی-
حضرت المصلح الموعود نے ان مولویوں کے موٹے موٹے بائیس اعتراضات کے اپنی تقریر میں مفصل و مدلل جواب پیش فرمائے اور بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا کہ کس طرح اللہتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے پر اٹھنے والی ہر چیز کو مٹاتا رہا اور حضرتمسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ثابت فرماتا رہا-
حضور نے فرمایا-
>پس میں پوچھتا ہوں آخر صداقت کا کوئی ثبوت بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ اگر ہوتا ہے تو جو بھی ہے وہ سارے کا سارا حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کیلئے موجود ہے- حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے ذریعہ اسلام زندہ ہوا` قرآن کریم زندہ ہوا` محمد ~صل۲~ کا نام زندہ ہوا- خدا تعالیٰ کی توحید زندہ ہوئی` ہر نیکی زندہ ہوئی` ہر نبی زندہ ہوا` ہر راستباز نے دوبارہ حیات پائی- پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی معمولی انسان نہ تھے آپ نے رسولوں اور ان کی تعلیمات کو زندہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ اس نے کیا کیا ہے؟ وہ کون سی خوبی اور وہ کون سی صداقت ہے جو کسی نبی میں پائی جاتی ہے مگر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام میں نہیں- تم لوگ اعتراض کی زبان دراز کرتے ہو- کرو- مگر یہ تو بتائو کہ تمہارا کون سا اعتراض ہے جو پہلے نبیوں پر نہیں پڑتا<-
حضرت مصلح موعود نے ان مخالفوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا-
>تمہارے پاس نہ آنحضرت ~صل۲~ کا علم ہے نہ روحانیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایک بھی ہے تم میں سے جسے دعویٰ ہو کہ خدا تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوتا ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہماری چھوٹی سی جماعت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے آدمی ہیں کہ جن سے خدا نے کلام کیا<-
اپنے اس پر شوکت خطاب کے آخر میں احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا-
>خدا نے ہم کو اس مقام پر کھڑا نہیں کیا کہ ہم ان لوگوں کی دل آزاریوں اور تکلیفوں سے گھبرا جائیں- خدا کے ہو کر` خدا کے بن کر اسلام کی خدمت کیلئے کھڑے ہو جائو۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر نہ ڈرو جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے پھر وہ کسی سے نہیں ڈرا کرتا<-
)۴(اساس الاتحاد
استقبالیہ کمیٹی و نمائندگان مسلم لیگ کا اجلاس مورخہ ۲۳ مئی ۱۹۲۴ء کو لاہور میں منعقد ہوا- اس کا مقصد مسلمانوں کے قومی حقوق کی نگرانی اور ہندو مسلم اتحاد کے متعلق غور کرنا تھا- سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی اس لئے آپ نے ان امور کے متعلق اپنا مشورہ طبع کروا کر اپنے نمائندوں کے ذریعہ اجلاس میں بھجوایا-
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے حضور نے فرمایا کہ سب سے پہلے مسلمان اپنی جداگانہ ہستی کا احساس کریں اور ایک مستقل تنظیم (Organisation) بنائیں- حضور نے اس آرگنائیزیشن یا مسلم لیگ کیلئے کہا کہ وہ سب مسلمان کہلانے والوں کی نمائندہ ہو خواہ وہ کسی سیاسی نقطہ نگاہ کے موید ہوں کیونکہ غیر مسلم بھی سیاستاً ان میں فرق نہیں کرتے- دعویٰ اسلام کرنے والے ہر شخص کیلئے اس کے دروازوں کو کھلا رکھا جائے نیز لفظ >مسلم< کا وسیع تر سیاسی مفہوم بھی واضح فرمایا- ہندو مسلم اتحاد کے متعلق گذشتہ صلح نامہ میں چار نقائص بیان کر کے حضور نے فرمایا-
>میں ان امور کی طرف شروع سے توجہ دلاتا رہا ہوں اور اس نتیجہ سے ڈارتا رہا ہوں جو اب نکلا ہے<-
ہندو مسلم اتحاد کو پائیدار اور موثر بنانے کیلئے حضرت المصلح الموعود نے تفصیل کے ساتھ دس نکاتی حتمی تجاویز پیش فرمانے کے بعد تحریر فرمایا-
>اے برادران! یہ مختصر خاکہ ہے اس سکیم کا جس پر عمل کرنے سے میرے نزدیک مسلمانوں کے اپنے حقوق بھی محفوظ ہو سکتے ہیں اور دوسری قوموں سے بھی ان کے تعلقات درست ہو سکتے ہیں- میں نے باوجود کم فرصتی اور کاموں کی کثرت کے آپ لوگوں کے سامنے اس سکیم کو پیش کر دیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جس اخلاص سے یہ لکھی گئی ہے اسی اخلاص سے آپ اس پر غور فرمائیں گے- مسلمانوں کی بہتری اور ہندوستان کیا کل دنیا کے امن کا خیال جس زور سے میرے دل میں موجزن ہے آپ لوگ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے- اللہ تعالیٰ اس امر پر شاہد ہے کہ میرا سینہ آپ لوگوں کی خیر خواہی کے جذبات سے پر ہے اور میرا دماغ ان خیالات سے معمور<-
نیز فرمایا-
>میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کی حقیقت اور اس کا مغز بالکل درست ہے اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ آپ لوگ دیکھیں گے کہ ہوگا اس طرح جس طرح میں نے لکھا ہے<-
)۵( احمدیت یعنی حقیقی اسلام
۱۹۲۴ء کے سال کو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی سال لندن میں ویمبلے نمائش منعقد ہوئی جس کے پروگرام میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ ایک مذہبی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں دنیا کے تمام مذاہب کے چوٹی کے علماء کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بارے میں لیکچر دیں- اس کانفرنس میں امام جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی-
حضرت مصلح موعود نے اس کانفرنس کے لئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نام سے )۲۴ مئی تا ۶ جون ۱۹۲۴ء( دو ہفتہ سے بھی کم عرصہ میں ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی- پھر اس کا خلاصہ حضور کی موجودگی میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا- یہ لیکچر ایسا منفرد اور اچھوتا تھا کہ عیسائیت کے بڑے بڑے لیڈر بھی بے اختیار بول اٹھے کہ بلاشبہ اس مضمون میں جو خیالات بیان کئے گئے ہیں وہ تربیت` دلائل اور اپنی خوبی و حسن کے لحاظ سے اچھوتے اور منفرد ہیں- چنانچہ اس لیکچر کے ذریعہ خدا نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیائے مذاہب کے بڑے بڑے لیڈروں کو اس طرح پہنچانے کا موقع دیا کہ وہ بھی اسلام کی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے-
مضمون کے خاتمہ پر اس مجلس کے پریذیڈنٹ نے کہا کہ مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے- ایک اور صاحب جو فرانس سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا کہ آپ کا مضمون سن کر میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی اسلام سب سے بالا مذہب ہے- ایک جرمن جو لندن میں پروفیسر ہیں انہوں نے جلسہ سے واپسی پر سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کو مبارک باد دی اور کہا کہ میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے تھے میں نے دیکھا کہ بعض زانوئوں پر ہاتھ مارتے اور کہتے کہ
>۔day every addresses such hear not can one address, <Rare
یعنی یہ ایک اچھوتا اور نادر خطاب ہے اور ایسے خطاب ہر روز سننے میں نہیں آتے- غرض اسلام کی حسین تعلیم کے بارے میں یہ ایسا عظیم الشان اور معرکہ الاراء لیکچر تھا جسے سن کر سبھی نے دل کھول کر داد دی-
اس کتاب میں حضرت مصلح موعود نے اسلام کی حسین تعلیم کی مختلف جہات پر نہایت شاندار انداز میں روشنی ڈالی ہے- سب سے پہلے آپ نے سورۃ الصفت کی آیات سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جو مذہبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اس قسم کی کانفرنسوں کے انعقاد کی خبر آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے دے دی تھی- اس کے بعد آپ نے جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا اور دلائل قاطعہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ احمدیت اور حقیقی اسلام ایک ہی چیز کے نام ہیں- اس کے بعد آپ نے مذہب کے چار مقاصد بیان کئے ہیں اور اس ذیل میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے بارے میں اسلام کا جو تصور ہے اسے کھول کر بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اسلام انسان سے اپنے خدا کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھنے کی امید کرتا ہے- اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد کی گئیں ہیں- اور حضرت مصلح موعود نے اس شبہ کا ازالہ بھی کیا کہ اسلام اس طرح کی تعلیم دیتا ہے کہ اسباب سے کام ہی نہ لیا جاوے بلکہ سب کام خدا پر چھوڑ دینے چاہئیں- حضور نے قرآن کریم کی آیات سے ثابت کیا ہے کہ اسلام کی ہر گز یہ تعلیم نہیں- بلکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ اسباب سے بھرپور کام لیا جاوے- پھر خدا پر توکل کیا جاوے تو کل ہر گز ترک اسباب کا نام نہیں بلکہ اس امر پر یقین کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ ایک زندہ خدا ہے-
پھر حضرت مصلح موعود نے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ اس وقت صرف اسلام ہی ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے ملا سکتا ہے- کیونکہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جو بھی اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق عمل کرتے ہوئے خدا سے وصال کی تڑپ رکھے خدا ضرور اس کو مل جاتا ہے- حضور فرماتے ہیں کہ-:
>اس شبہ کا ازالہ صرف اسلام ہی کرتا ہے کہ اس کی تعلیم پر چل کر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو کہ صفات الہیہ کے مظہر ہوتے ہیں اور جو پہلے خود اپنی ذات پر صفات الہیہ کا پرتو ڈالتے اور پھر دوسروں کو اس کا نشان دکھاتے ہیں- اور ہستی باری کا کامل عرفان بخشتے ہیں چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے کہ لوگ اس کے وجود کو پہچانیں اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہوں حضرت مسیح موعود کو بھیجا تھا<-
اس کے بعد حضرت مصلح موعود نے اخلاق کی مختلف جہات کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیم ہی سب سے کامل ہے اور کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا- پھر آپ نے اخلاق حسنہ کے حصول اور اخلاق سیئہ سے بچنے کے ذرائع کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اخلاق کی درستگی کے بارے میں اسلام کی جو تعلیم ہے اس کو بیان کیا ہے-
اس کے بعد آپ نے تمدن کے بارے میں اسلام کی تعلیم بیان کی ہے اور نہایت لطیف پیرایہ میں اخلاق اور تمدن کے فرق کو واضح کیا ہے آپ فرماتے ہیں-:
>اخلاق اور تمدن میں درحقیقت یہی فرق ہے کہ علم اخلاق تو افراد کی پاکیزگی سے بحث کرتا ہے اور علم تمدن قومی پاکیزگی سے بحث کرتا ہے<-
اس ذیل میں انسان کے معاشرہ میں مختلف لوگوں سے جو تعلقات ہیں وہ کن خطوط پر استوار ہونے چاہئیں اس پر روشنی ڈالی ہے- اس کے بعد حضور نے عام شہریت کے اصول بیان کئے ہیں-
اس کے بعد آپ نے حکومت اور رعایا کے فرائض اور حقوق تفصیل سے بیان کئے ہیں اور پھر اس مضمون کو مزید وسیع کرتے ہوئے حکومتوں کے آپس کے تعلقات کس قسم کے ہونے چاہئیں اس پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف ملکوں میں تنازعات کے حل کے لئے آپ نے قرآن کریم کے زریں اصول بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ اگر لیگ آف نیشنز کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جائے گی تو وہ کامیاب ہوگی-
کتاب کے آخر پر حضور نے حالات مابعد الموت کے بارے میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اگلے جہان میں جو ثواب و عذاب ملیں گے ان کی حقیقت کیا ہوگی- سب سے دلچسپ امر یہ کہ حضور نے اس کتاب میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے ان تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی مثالیں بھی دی ہیں اور انہوں نے کس طرح اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کئے اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کا ان پر اس قدر اثر ہوا کہ ان میں بعض نے اپنی جانیں قربان کر دی لیکن حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو چھوڑنا پسند نہیں کیا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیمات کی برکات سے احمدی آج دین و دنیا میں فلاح پا رہے ہیں- آخر پر حضرت مصلح موعود نے تمام دنیا میں بسنے والوں کو قبول احمدیت کی دعوت دیتے ہوئے خوشخبری دی ہے کہ ان کے مصائب کے دور ہونے کا وقت آ گیا ہے اور ا گر وہ اس دور کے فرستادہ کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں گے تو وہ دین و دنیا کی فلاح پائیں گے-
)۶( یاد ایام
یہ مختصر رسالہ حضرت فضل عمر کی ابتدائی زندگی )۱۹۱۴ء تک( کے حالات کا ایک حسین خود نوشت مرقع ہے- جس میں حضور نے اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے والے اہم واقعات کا ذکر فرمایا ہے- ۱۹۰۰ء میں پیش آنے والی ایک روحانی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں-
>۱۹۰۰ء نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے- وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا<-
گیارہ سال کی عمر میں آپ نے نماز نہ چھوڑنے کا عزم کیا اس تاریخی لمحہ میں آپ کی آنکھوں میں جو آنسو آئے ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں-
>وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے وہ مسیح موعود علیہ السلام کے کسی فقرہ یا کسی نظریہ کا نتیجہ- اور اگر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے<-
۱۹۰۶ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات کے بعد آپ کی زندگی میں جو غیر معمولی تغیر واقع ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں-
>مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات نے میری زندگی کے ایک نئے دور کو شروع کیا اس دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں میں اور سلسلہ کی ضروریات میں دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا ان کی روح مجھ پر آن پڑی ہے<-
اخبار الفضل کے اجراء کا ذکر کرتے ہوئے اپنی حرم محترم حضرت ام ناصر کے ایثاروقربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں-
>کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے- جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا- میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو اس وقت میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روزمرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جاتا<-
)۷( دورہ یورپ
امام جماعت احمدیہ کا عزم یورپ
۱۹۲۴ء میں انگلستان میں ویمبلے کے مقام پر منعقد ہونے والی مذہبی کانفرنس کے منتظمین نے حضرت مصلح موعود کو بھی شرکت کی دعوت دی- حضور نے اس بارہ میں مشورہ کے لئے جماعتوں کو خطوط لکھے اور چالیس سے زیادہ آدمیوں سے استخارہ کروایا- کثرت رائے حضور کے جلسہ میں بنفس نفیس شرکت کے حق میں تھی- اس پر حضور نے اپنے فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے جو مضمون رقم فرمایا- اس میں آپ نے مشکلات اور نامساعد حالات اور دوسری طرف سفر کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دینی فرائض مقدم ہیں اور اس سفر سے رسول کریم ~صل۲~ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں پوری ہوں گی اور اس بارہ میں آپ کو بھی رئویا دکھائی گئی ہیں- آپ نے اپنے اس بیرونی سفر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا-
>ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اور چونکہ ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا ہمارا فرض ہے- اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نظام کے مقرر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خلیفہ مغربی ممالک کے حالات کو وہاں جا کر دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کرے-۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ان ضروریات کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کانفرنس کی تحریک کو ایک خدا کی تحریک سمجھ کر اس وقت باوجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں- مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کے لئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لئے- کیونکہ وہ ممالک اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا توڑنا ہمارا مقدم فرض ہے۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے کام بڑی قربانیاں چاہتے ہیں- وہ مذہب جو ایک ملک میں بند رہتے ہیں کبھی دنیا میں غالب نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔ مذاہب کی ترقی کا راز ان کا دنیا میں پھیل جانا ہے- ایک تھوڑی تعداد رکھنے والے لیکن دنیا میں پھیلے ہوئے مذہب کے لئے زیادہ موقع ہے کہ وہ دنیا میں پھیل جائے بہ نسبت اس مذہب کے جس کی تعداد زیادہ ہے لیکن وہ ایک ملک سے تعلق رکھتا ہے<-
مجمع البحرین
۱۹۲۴ء کی مشہور مذہبی ویمبلے کانفرنس جو ایمپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن میں منعقد ہوئی- اس کانفرنس میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۲۴ مئی تا ۶ جون ۱۹۲۴ء جو مضمون تحریر فرمایا وہ >احمدیت یعنی حقیقی اسلام< کے نام سے شائع شدہ ہے- اس کانفرنس کیلئے چونکہ منتظمین کی طرف سے محدود وقت مقرر تھا اس لئے اس موقع پر اس کتاب کا خلاصہ )۲ تا ۹ جولائی ۱۹۲۴ء تیار کیا گیا( وہاں پیش کیا گیا جو بعد میں کتابی صورت میں >مجمع البحرین< کے نام سے ۲۶ دسمبر ۱۹۲۴ء کو شائع کیا گیا-
حضور نے ابتداء میں جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ ۱۸۸۹ء میں حضرتمرزا غلام احمد علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اس کی بنیاد رکھی- مسیح و مہدی اور موعود مصلح اقوام عالم ہونے کا دعویٰ کیا- ابتداء میں آپ کو تمام مذہبی جماعتوں اور فرقوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا- لیکن ہر قسم کی مخالفت کے باوجود لوگوں کے قلوب سلسلہ احمدیہ کی طرف کھینچے جانے لگے اور ۱۹۰۸ء میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران اس دنیا سے رحلت فرما گئے- اس وقت آپ کے پیرئووں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں تک پہنچ چکی تھی- آپ کی وفات کے بعد حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب آپ کے جانشین منتخب ہوئے اور ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب امامت عطا فرمایا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہو چکی ہے- احمدیت کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتی بلکہ حقیقی اسلام کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرتی ہے-
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دعویٰ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات کے حامل وجود ہیں اور مسیح کی آمد ثانی کے متعلق زمینی و آسمانی نشانات و پیشگوئیاں اور زمانے کے تقاضے آپ کے وجود میں پورے ہوئے-
حضور نے فرمایا کہ کامل اخلاق کے بغیر کامل روحانی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اخلاق کے متعلق حیرت انگیز اصل پیش کیا- اخلاق کی تعریف بیان کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ مناسب موقع پر تمام طبعی جذبات کا ارادہ یا قصداً استعمال کرنا اور نامناسب موقع پر ان کو دبا لینا اصل اخلاق ہیں-
دوسرا اصل اخلاق کے متعلق یہ ہے کہ مذہب ہر ایک اخلاقی قوت کے استعمال کیلئے مناسب موقع بتانے کے علاوہ برے اور اچھے اخلاق کے مختلف مدارج بھی بیان کرے- تیسرا اصل یہ کہ مذہب کو ان وجوہ کی تشریح کرنی چاہئے جن پر اس کے احکام اخلاق کی بناء ہے- اخلاق کے متعلق چوتھا اصل یہ ہے کہ مذہب کیلئے ضروری ہے کہ نیکی اور بدی کے منبع کا علم دے یعنی بتائے کہ بدی کی طرف میلان کی راہوں کو کس طرح بند کیا جائے اور نیکی کی راہوں کو کس طرح کھولا جائے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ قرآن کریم نے انسانی اخلاق کی نشوونما کی ان تمام صورتوں کی وضاحت فرمائی ہے اور اسلام کی پیش کردہ اخلاقی تعلیم کا مقابلہ کوئی مذہب نہیں کر سکتا- اس کے بعد حضور نے حقوق العباد کے متعلق اسلامی تعلیم بڑے دلنشیں انداز میں تفصیل سے بیان فرمائی-
حضور نے فرمایا کہ مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ آپ دنیا میں قیام امن کیلئے بھیجے گئے ہیں اس سلسلہ میں آپ نے درج ذیل تجاویز پیش فرمائیں-
)۱(
تمام مذہبی راہنمائوں کا احترام کیا جائے-
)۲(
اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی جائیں دوسرے مذاہب پر حملہ نہ کیا جائے کیونکہ مذہب کی صداقت اس کی خوبیاں بیان کرنے سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے نہ کہ دوسروں کے نقائص بیان کرنے سے-
)۳(
ہر مذہب اپنا دعویٰ اور دلیل اپنی الہامی کتب سے پیش کرے-
)۴(
مذہب کی تعلیم کو مجمل بیان تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس پر عمل کرکے اس کے نتائج واضح کرنے چاہئیں-
مذہب کا ایک اہم جزو حیات مابعد الموت ہے- اس ضمن میں درج ذیل سوالات کے جوابات بھی حضور نے بیان فرمائے-
)۱(
موت کے بعد زندگی کس طرح ظہور پذیر ہوگی؟
)۲(
مرنے کے بعد کب زندگی شروع ہوگی؟
)۳(
بہشت اور دوزخ کی کیا حقیقت ہے؟
)۴(
کیا بہشت و دوزخ ابدی ہیں؟
اسلام کی برتری اور مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض بیان کرنے کے بعد حضور نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی صداقت کے ٹھوس دلائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جن دلائل سے گذشتہ انبیاء کرام کی صداقت ثابت ہوتی ہے انہی دلائل سے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے-
حضور نے آخر پر نہایت موثر انداز میں فرمایا!
>بہنو اور بھائیو! خدا کی روشنی تمہارے لئے چمک اٹھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ تم اس روشنی کو قبول کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش ہو جائو اے دلہن کی سہیلیو! اور خوشی کے گیت گائو کیونکہ دلہا آ پہنچا- وہ جس کی تلاش تھی مل گیا ہے- وہ جس کا انتظار کیا جا رہا تھا یہاں تک کہ انتظار کرنے والوں کی آنکھیں مدھم پڑ گئی تھیں اب تمہاری آنکھوں کو منور کر رہا ہے- مبارک وہ جو خدا کے نام پر آیا- ہاں مبارک وہ جو خدا کے نام پر آیا- وہ جو اس کو پا لیتے ہیں سب کچھ پا لیتے ہیں اور وہ جو اس کو نہیں دیکھ سکتے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے<-
پاکیزگی اختیار کرو تا تمہارے ذریعہ خدا اپنا قدس ظاہر کرے
یہ وہ خط ہے جو حضور نے ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو اپنے سفر انگلستان کے دوران اپنے خدام کے نام اس وقت تحریر فرمایا جب کہ جہاز متلاطم سمندر کو عبور کر کے عدن کے قریب پہنچ رہا تھا- خط کے ایک ایک لفظ سے اس بے پایاں محبت و الفت کا اظہار ہوتا ہے جو حضور کے دل میں اپنے پیارے خدام کیلئے جوش مار رہی ہے- رات ڈھل چکی ہے لوگ محو استراحت ہیں لیکن حضور اپنے محبوب اہل جماعت کو یاد کرنے میں مصروف ہیں- آپ کو مشورہ دیا گیا کہ گذشتہ رات آپ نیند پوری نہیں کر سکے اب آرام فرمائیں لیکن آپ اپنے آرام کو تیاگ کر خط لکھنے میں مشغول ہو گئے تاکہ عدن سے سپرد ڈاک کیا جا سکے اور جلد قادیان پہنچ جائے- چنانچہ فرماتے ہیں اور کس جذبہ محبت سے فرماتے ہیں:
>مجھے چھوڑو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی نائو پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور راہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت` دوستوں کی جماعت رہتی ہے- ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا کہ میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں<-
امام جماعت اور احمدی احباب کے باہمی تعلق اور محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
>اس سفر نے اس پوشیدہ محبت کو جو احمدی جماعت کو مجھ سے تھی اور جو مجھے ان سے تھی نکال کر باہر کر دیا اور ہمارے چھپے ہوئے راز ظاہر ہو گئے اور ان کا ظاہر ہونے کا حق بھی تھا-
نہاں کے ماند آں رازے کذو ساز ند محفلہا
اے عزیزو! میں آپ سے دور ہوں مگر جسم دور ہے روح نہیں- میرے جسم کا ذرہ ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت تمہارے لئے دعا میں مشغول ہے اور سوتے جاگتے میرا دل تمہاری بھلائی کی فکر میں ہے<-
آخر میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
>اپنے آپ کو صاف رکھو تا قدوس خدا تمہارے ذریعے سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے- اتحاد` محبت` ایثار` قربانی` اطاعت` ہمدردی بنی نوع انسان` عفو` شکر` احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بنائو- یاد رکھو تمہاری سلامتی سے ہی آج دین کی سلامتی ہے<-
اغراض سفر کی اہمیت اور مشکلات
انگلستان جاتے ہوئے سفر کے دوران جماعت احمدیہ کے نام لکھا جانے والا حضور کا یہ دوسرا خط ہے جو آپ نے پورٹ سعید کے قریب جہاز سے ۲۷/۲۸ جولائی ۱۹۲۴ء کو تحریر فرمایا- ابتداء وقت کی کمی کے باعث افراتفری میں سفر کی تیاری` کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضمون کی تیاری میں غیر معمولی مصروفیت` سمندر میں شدید طوفان کے باعث جہاز میں حضور کے ساتھیوں کی بیماری اور دیگر مشکلات کا ذکر ہے- اس کے بعد حضور نے احباب جماعت کو یورپ میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں بہت بڑے خطرے سے متنبہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ یورپ سے واقف کار لوگوں کا خیال ہے کہ یورپین لوگ اسلام کو شاید قبول تو کر لیں لیکن وہ اسلام میں تغیر و تبدل کر کے اس کی شکل بگاڑ دیں گے- عقیدہ کے لحاظ سے وہ مسلمان ہونگے لیکن وہ اپنا تمدن تبدیل نہیں کر سکیں گے- وہ گرجوں کی جگہ مسجدیں بنا لیں گے لیکن تمدن کے لحاظ سے ان میں وہی ناچ گھر` وہی شراب اور سامان عیش نظر آئیں گے- اس سلسلہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
>سینکڑوں دقتیں ہیں جو مغرب کی تبلیغ کے راستہ میں ہیں اور جن میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ ان میں مغربی نو مسلم مجبور معلوم ہوتا ہے- پس یہی ہوگا کہ وہ اسلام کو قبول کر کے بھی اپنی رسموں کو نہیں چھوڑے گا- اور مسلمان ہونے کے بعد جب وہ وہی کام کرتا رہے گا جو وہ پہلے کرتا تھا تو آہستہ آہستہ اس میں یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام ایک بدلی ہوئی صورت میں یورپ میں قائم ہو جائے گا اور ان سے آگے وہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا- جس طرح یورپ نے مسیحیت کو تباہ کیا تھا-العیاذ باللہ وہ اسلام کو بھی دوستی کے جامہ میں تباہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوائے خدا تعالیٰ کی مدد کے ہم اس مشکل کو حل نہیں کر سکتے- مسلمان بنانا آسان ہے مگر اسلام کو ان سے بچانا مشکل ہے اور اس وقت میرے سفر کی یہی غرض ہے<-
پھر آپ احباب جماعت کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
>اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا- اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم! میں ایک نذیر عریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا- اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا- جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا- پس کوشش نہ چھوڑنا` نہ چھوڑنا` نہ چھوڑنا` آہ نہ چھوڑنا- میں کس طرح تم کو یقین دلائوں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا<-
آخر میں حضور نے تحریر فرمایا کہ:
>یہ سفر درحقیقت ذوالقرنین کے بارہ میں ایک قرآنی پیشگوئی کے ماتحت ہوا ہے- اس لئے اس کی اہمیت عیاں ہے<-
سمندر پار کی آواز
یہ تیسرا خط ہے جو حضور نے سفر انگلستان کے دوران جہاز سے احباب جماعت کے نام تحریر فرمایا- اس میں مصر` فلسطین اور شام کے حالات جو حضور کو خود ملاحظہ کرنے کا موقع ملا بیان کر کے ان کا حیرت انگیز تجزیہ کیا گیا ہے- حضور نے اس علاقہ کے مسلمانوں کو ان کے مستقبل کے سلسلہ میں قیمتی نصائح سے نوازا ہے- آپ نے فرمایا کہ مسلمان صرف روحانی خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو سکتے ہیں- مصر کے متعلق حضورنے ایک خاص بات بیان کی ہے- فرماتے ہیں:
>میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے- مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے` میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے<-
اس سفر میں حضور حیفا اور عکہ بھی تشریف لے گئے جنہیں بہائی اپنے مراکز قرار دیتے ہیں- وہاں ان کی بے مائیگی اور کسمپرسی کے حالات خود ملاحظہ فرمانے کے بعد آپ نے بہائیوں کے مبالغہ آمیز دعوئوں کی حقیقت خوب کھولی ہے- آخر میں فرمایا:
>غرض حیفا اور عکہ جانے سے ہمیں بہت کچھ فائدہ ہوا- ہمارے کئی دوست کہتے تھے جس شخص کو بہائیت کی طرف میلان ہو اس کو یہاں لانا چاہئے اور پھر پوچھنا چاہئے کہ اسی سال میں تمہاری تو یہ ترقی ہے- اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیس سال میں وہ جو تم قادیان میں دیکھتے ہو<-
اہل لندن کے نام پیغام
یہ پیغام ۷ ستمبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لندن میں پڑھا گیا- جس میں حضور نے اپنے سفر کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا-
>جس کام کیلئے آیا ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایسے طریقوں کو دریافت کروں جن کی مدد سے اپنے مغربی بھائیوں اور بہنوں کو وہ پیغام پہنچا سکوں جو خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کیلئے بھیجا ہے<-
مزید فرمایا-
>ہمارا مشن یہ ہے کہ جس طرح ہم نے خدا کو پا لیا ہے ہمارے دوسرے بھائی بھی اس کو پا لیں- انسان کی پیدائش کی غرض جیسا کہ تمام مذاہب نے بیان کی ہے یہی ہے کہ خدا کو پا لیا جائے- خدا کا فیضان ہمیشہ کیلئے جاری ہے- بے شک ہماری باتیں اس زمانہ کی عقل نہیں مانتی مگر خدا تعالیٰ کی جب بھی کوئی آواز اٹھتی ہے تو ایسے ہی حالات میں اٹھتی ہے- پس مبارک وہ جو کان دھرتے ہیں<-
پہلا انگریزی لیکچر
حضور نے ۹ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین کے اجلاس منعقدہ گلڈ ہائوس میں انگریزی میں ایک تقریر فرمائی- آپ نے ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین سوسائٹی کی اغراض سے اتفاق کیا اور فرمایا کہ-
>میں جس بزرگ کی پیروی پر فخر کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب دنیا کو سلامتی دینے آیا تھا-۔۔۔۔۔۔۔۔ پس طبعاً مجھے آپ کی ایسوسی ایشن سے ایک انس ہے<-
اس موقع پر آپ نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ ہمیں ایک مرکز کی طرف بڑھنا چاہئے پھر ہم میں ساری جدائیاں ختم ہو جائیں گی اور اس تمام عالم خلق کا مرکز خدا تعالیٰ ہے- جو لوگ اللہ کی محبت کو دوسری محبتوں پر ترجیح دیتے ہیں وہی رحمت کے سائے میں رہتے ہیں-
>دنیا میں صلح اور امن ایسی ہستی کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے جو جہات سے پاک ہو اور جو اس کی طرف سے آئے وہی ہم کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ وہ جو آسمان سے آتا ہے وہ مشرقی یا مغربی نہیں کہلا سکتا<-
نیز فرمایا-
>دنیا میں مذہبی` تمدنی یا علمی ترقی میں اختلافات پائے جاتے ہیں ایک گرے ہوئے بھائی یا ملک کی حالت دیکھ کر نفرت نہیں بلکہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے- دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم باری باری کبھی شاگردی اور کبھی استادی اختیار کرتی ہے- پھر یہ منافرت کیوں؟ پس جس دن دنیا کا نقطہ نگاہ بدلا اسی دن سے صلح اور امن کا دور دورہ شروع ہو جائے گا- ہمارا کام یہ ہے کہ خلق خدا کو اس مرکز پر جمع کریں جو سب کو جمع کرنے والا ہے<-
انگلستان کی روحانی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے
سفر انگلستان میں لکھا جانے والا یہ چوتھا مکتوب گرامی ہے جو حضور نے ۱۱- ستمبر کو احباب جماعت کے نام لندن سے ارسال فرمایا- شروع میں حضور نے لندن پہنچ کر تقاریر اور دیگر کاموں میں اپنی غیر معمولی مصروفیت کا ذکر کر کے بیان فرمایا کہ چونکہ یہ سفر الہی پیش خبریوں کے مطابق ہے اس لئے انشاء اللہ تعالی نمایاں طور پر کامیاب ہوگا- فرماتے ہیں:
>حضرت مسیح موعودؑ کی رئویا سے مراد بھی ان کے جانشین کے انگلستان جانے سے تھی- اور میری رئویا سے مراد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ولایت جانے سے تھی- پس جب کہ مسیح موعود اپنے روحانی جانشین کے ذریعہ سے انگلستان پہنچ گئے تو اب انشاء اللہ اس فتح کا دروازہ بھی کھول دیا جائے گا جو کہ ہمیشہ سے مقدر ہے<-
پھر حضور نے حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کی افغانستان میں شہادت کا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ ان کی یہ قربانی معمولی بات نہیں- جماعت کو ان لوگوں کی یاد کو تازہ رکھنا چاہئے تا کہ تمام افراد جماعت کے دلوں میں قربانی کیلئے جوش پیدا ہو-
پیغام آسمانی
سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے دورہ انگلستان کے دوران ۱۴ستمبر۱۹۲۴ء کو پورٹ سمتھ کے مقام پر ایک لیکچر دیا جو >پیغام آسمانی< کے نام سے شائع ہوا-
حضرت مصلح موعود نے اپنے لیکچر کے شروع میں متی باب ۱۲ آیت ۳۱`۳۲ کے حوالہ سے سامعین کو بتایا کہ ہر زمانہ میں نبی کے ذریعہ جو الہی پیغام آیا اس کا انکار کرنے والوں کو سزا ملتی رہی- چونکہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنا پیغام بھیجتا رہا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کہتا ہیوان من امہ الا خلافیھا نذیر یعنی ہر قوم میں نبی آیا اور آج لوگوں کے دلوں میں الہی محبت کی بجائے مادی محبت ہے اس لئے دنیا کو آج بھی ایسے ہی پیغام کی ضرورت ہے-
حضرت المصلح الموعود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے متعدد حوالہ جات دے کر ان سے آٹھ ایسے امور کا استنباط کیا جو آپ کے پیغام کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں- حضور نے فرمایا- ماضی کی طرح آج بھی لقائے الہی کیلئے نشانات کی ضرورت ہے- الہی ہدایت کی خواہش کے پیش نظر ہی آج ہزاروں Spiritual سوسائٹیاں قائم ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ خدا خود ہمیں ہدایت دینا چاہتا ہے اور اس سے تعلق ممکن ہے مگر اس کیلئے بعض شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے- آپ کے ذریعہ ہزاروں انسانوں نے اللہ تعالیٰ سے عملاً تعلق قائم کیا- آپ کے پیغام پر تمام مذہبی اور دنیاوی طاقتوں نے مخالفت کی تاہم اب ۵۰ ممالک میں ایک ملین )دس لاکھ( کے قریب لوگ آپ کو قبول کر چکے ہیں- اور اس کے لئے انہوں نے محیرالعقول قربانیاں پیش کی ہیں- حضور نے فرمایا میں نے خود اس پیغام کی بدولت الہی کلام سنا اور اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور مجھے پیش خبریاں دیں جو پوری ہوئیں یہ چیز میری طرح ہر شخص حاصل کر سکتا ہے-
حضور نے انگریز سامعین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کے پیغام کے مقابل میں دنیاوی فوائد ترک کر کے خدا تعالیٰ کی رحمت حاصل کرو- آپ نے اہل پورٹ سمتھ کو بتایا کہ خدائی خبر کے مطابق آپ کے ہاتھ پر انگلستان کی روحانی فتح ہوگی- اس لئے انہیں اس سلسلہ میں پہل کر کے اس ہدایت کو قبول کرنا چاہئے- آپ نے فرمایا- حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہزاروں پیش گوئیوں میں سے جو پوری ہو چکی ہیں ایک یہ ہے کہ انگلستان میں آپ کی تعلیم پھیلنی شروع ہو گئی ہے- آج مسیح موعود علیہ السلام ہی لقائے الہی کا یقینی ذریعہ ہیں- آپ نے بتایا کہ یسعیاہ نبی نے بھی مشرق سے ایک راستباز کے برپا ہونے کی پیش گوئی کی تھی اور آپ ہی اس کے مصداق ہیں-
پس اب یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ خدا کے اس فرستادہ کے پیغام کو قبول کر کے خدا کے ان راستباز بندوں میں شامل ہو جائو جو دوسروں کے بھی ایمان لانے کا محرک بنتے ہیں- اپنے اس نہایت موثر اور پر شوکت خطاب کے آخر پر آپ نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا-
>کیا میں امید کروں کہ تم اس کو دلی شوق سے قبول کرو گے اور اس کے پیغام کیلئے مغربی ممالک میں پہلے جھنڈا بردار ہوگے اور میں تم کو اس علم کے ماتحت جو خدا نے مجھے دیا ہے یقین دلاتا ہوں کہ سب قومیں تم سے برکت پائیں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں تم پر برکت بھیجیں گی اور تم خدا میں ہو کر غیر فانی ہو جائو گے<-
>اسلام ہی سچا اور عالمگیر مذہب ہے جو دین فطرت ہے- خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ اصول بتایا ہے کہوالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان پر اپنی راہوں کو کھول دیتے ہیں<-
ہندوستانی طلباء کا ایڈریس اور اس کا جواب
۱۵ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ہندوستانی طلباء کی چائے کی دعوت میں شرکت فرمائی اس موقع پر ہندوستانی طلباء نے اپنے ایڈریس میں آپ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا نیز بتایا کہ آج یورپ عالمگیر مذہب کی تلاش میں ہے- نیز یہ کہ یورپ میں صداقت مذہب کیلئے بہت بڑی تلاش ہے- اس کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ-
>آپ نے جن خواہشات کا اظہار کیا ہے ان کی روح کے ساتھ مجھے ہمدردی اور اتفاق ہے<-
آپ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا-
>اسلام کی سچائی عقل اور تجربہ سے ثابت ہے اگر اسلام کو اصلی صورت میں پیش کیا جائے تو وہ ساری دنیا میں پھیلے گا- قرآن شریف میں پیشگوئی ہے-ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ- آپ نے فرمایا کہ
ہماری غرض یہی ہے کہ اسلام کا سچا چہرہ دنیا کو دکھایا جائے اور یہ بھی کہ ہم تو اشاعت اسلام کیلئے پیدا ہوئے ہیں<-
آخر میں آپ نے فرمایا کہ-:
>کوئی شخص کبھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے گورنمنٹ سے کبھی کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی خواہش کی ہو<-
مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی عظیم قربانی
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ابھی لندن میں ہی قیام فرما تھے کہ آپ کو افغانستان میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کی خبر ملی- حضور نے مختلف ممالک کے سفراء و حکام کو حکومت افغانستان کی طرف سے مذہب کے نام پر ہونے والے اس ظلم سے آگاہ کیا- آپ کا ایک مضمون ۲۵-اکتوبر ۱۹۲۴ء کے الفضل میں شائع ہوا جس میں آپ نے اس بہیمیت و درندگی کے متعلق تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے ہوئے بتایا کہ افغان حکام مختلف مواقع پر مکمل مذہبی رواداری اور امن و امان قائم رکھنے کا اعلان کر چکے تھے اور یہ بھی کہ افغانستان میں سب احمدی محفوظ ہیں اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جا رہی-
جولائی ۱۹۲۴ء میں حکام نے مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کو بلا کر ان کا بیان لیا- ۱۶-اگست ۱۹۲۴ء کو علماء کونسل نے مرتد قرار دے کر قتل کا فتویٰ جاری کیا- ۳۱-اگست کو پابہجولاں کابل کی گلیوں میں پھرایا گیا اور پھر کمر تک زمین میں گاڑ کر پتھر مار مار کر شہید کر دیا- مرحوم نے اپنے عقائد پر ثابت قدمی اور راہ حق میں جان قربان کرنے کی بہت اچھی مثال قائم کی- آپ نے آخری خواہش اپنے والدین سے ملاقات کی بجائے اپنے رب کی عبادت کر کے پوری کی-
لندن میں ہندوستانی طلباء سے گفتگو
لندن میں ہندوستان کے مسلمان طلباء نے حضور کے اعزاز میں دو دفعہ ٹی پارٹی کا انتظام کیا- جواباً حضور نے بھی انہیں ۲۰ ستمبر۱۹۲۴ء کو دعوت پر بلایا- چنانچہ بڑی تعداد میں نوجوان طلباء اس میں شامل ہوئے- چائے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو رات کے کھانے تک جاری رہا- طلباء نے غیر معمولی دلچسپی لی اور حضور کی شخصیت اور وسعت علم سے بہت متاثر ہوئے- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے یہ گفتگو مرتب کر کے الفضل ۳۰- اکتوبر ۱۹۲۴ء میں شائع کروا دی- جزاہ اللہ خیرا
سوال کرنے والوں میں خلیفہ عبدالحکیم صاحب نمایاں نظر آتے ہیں- یہ حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے-
کانفرنس مذاہب میں کامیاب لیکچر اور اس کا اثر
۲۵ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے احباب جماعت کے نام پانچواں مکتوب گرامی لندن سے تحریر فرمایا- اس میں آپ نے اپنے خدام کو یہ خوشکن خبر دی کہ کانفرنس مذاہب میں لیکچر بہت کامیاب رہا ہے- صدر اور دیگر معززین نے مبارکبادیں دیں- اس لیکچر سے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی بہت شہرت ہوئی- خط کے دوسرے حصہ میں حضور نے حضرت میر صاحب کی وفات اور مرکز سے ملنے والی دیگر پریشان کن خبروں کا ذکر فرمایا ہے جو حضور کے ایک رئویا کے مطابق تھیں-
ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع
سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ لیکچر ڈنچ ہال لندن میں ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے انگریزی زبان میں پڑھا- اس لیکچر میں حضور نے ہندوستان کے حالات کا تجزیہ کر کے مختلف طبقوں میں اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع بیان فرمائے ہیں- حضور نے اپنے اس لیکچر میں مندرجہ ذیل نکات پر روشنی ڈالی ہے-
‏ (i)
ہندوستان کے جغرافیائی` قومی اور مذہبی حالات
‏ (ii)
ہندوستان میں اردو اور ہندی کا مسئلہ
‏ (iii)
رواداری کا فقدان جس سے قومی فوائد کو نقصان پہنچ رہا ہے-
‏ (iv)
اہل مغرب سے میل جول اور اس کے اثرات` مغرب کی آزادی اور اقتصادی و علمی ترقی دیکھ کر یہاں کے لوگوں میں بھی ترقی کی امنگ پیدا ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں یورپ کی قوموں کی طرح حکومت میں دخل حاصل ہو اور ہمارے ملک میں بھی مغربی طرز حکومت قائم ہو-
‏ (v)
گذشتہ جنگ کا ہندوستان پر اثر-
‏ (vi)
آزادی کے حصول کی خواہش-
‏ (vii)
ریفارم سکیم-
‏ (viii)
انگریز افسر کیسے ہوں-
‏ (ix)
انگلستان کے پریس اور اخبارات کا کردار
حضور نے اپنے لیکچر کے آخر میں برطانوی حکومت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا-
>جس قوم کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ہو اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی طبائع کا گہرا مطالعہ کرے ان سے ہمدردانہ سلوک کرے اور ٹھنڈے دل سے اختلافات کو دور کرنے کیلئے باہم مل کر غور کریں اس سے امن کی راہ ہموار ہوگی<-
رسول کریم ~صل۲~ کی زندگی اور تعلیم
انگلستان میں نوجوانوں کی ایک انجمن نے حضور کی خدمت اقدس میں درخواست کی کہ آپ حضرت رسول کریم ~صل۲~ کی زندگی اور تعلیم کے بارہ میں ان کے اجلاس میں تقریر فرمائیں- اسے قبول کرتے ہوئے حضور نے یہ مضمون لکھا جو ۲۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو سائوتھ فیلڈ لندن میں بزبان انگریزی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے پڑھا- نوجوانان انگلستان کو مخاطب کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:
>مجھے نہایت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے اس شخص کے حالات اور تعلیم بیان کرنے کا موقع دیا ہے جو انسانوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور عزیز ہے اور جو نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کا راہنما ہے بلکہ چھوٹے بچوں کا بھی راہنما ہے- ہر انسان کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور کئی نقطئہ نگاہ کو مدنظر رکھ کر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے- میں آج رسول کریم ~صل۲~ کی زندگی اور آپ کی تعلیم کے متعلق اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے روشنی ڈالوں گا کہ نوجوان اور بچے اس سے کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں<-
حضور نے اپنی خدا داد لیاقت کے مطابق نہایت کامیابی سے اس اہم مضمون کہ جس پر اسلام کی صداقت کا دارومدار ہے کے دونوں پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے- اختصار کے باوجود یہ مشکل مضمون ایسے انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ بچے بھی اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں-
کانفرنس مذاہب کے اختتام پر لیکچر
۳- اکتوبر ۱۹۲۴ء ویمبلے کی مذہبی کانفرنس میں حضور کا مضمون پڑھے جانے کے بعد منتظمین کی خواہش پر حضور نے یہ مختصر خطاب فرمایا جس میں اس کانفرنس کا انتظام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ مذہب کی دو ہی اغراض ہیں- ایک بندوں کا خدا سے اتحاد اور دوسرے بندوں کا خدا کے بندوں سے تعلق- میں دعا کرتا ہوں کہ ہم میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہوں اور اللہ کرے کہ اتحاد کی بدولت مشرق و مغرب باہم مل جائیں-
لندن مشن کے متعلق ہدایات
۳-اکتوبر ۱۹۲۴ء مجلس مشاورت میں یہ طے پایا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد کو احباب پٹنی )مشن ہائوس( جا کر چھوڑ آئیں- ۴-اکتوبر کی صبح حضرت خود بھی تشریف لے گئے- علاقہ پٹنی پہنچ کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسجد کی سکیم کا مختصر ذکر فرمایا اور مشن کی صفائی وغیرہ کیلئے ہدایات دیں- پھر حضور نماز والے کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں دعا کرائی-
حضرت صاحب نے اپنے دست مبارک سے مولانا درد صاحب کو کلید عطا فرمائی- یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو آج تک کسی مبلغ کے حصہ میں نہیں آیا تھا- اس موقع پر حضور نے مبلغین کو باہم مل کر کام کرنے کے متعلق نہایت مفید نصائح سے نوازا اور آخر پر مبلغوں کے فرائض اور ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرمایا-
وہ سوشل ہو اور لوگوں سے اپنے تعلقات بڑھائے-
تعلقات بڑھانے میں سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں کو چھوڑنا نہیں چاہئے- اعلیٰ طبقہ سے تعلقات ہونے چاہئیں-
دوسرے درجہ پر پولیٹیکل طبقہ سے تعلقات پیدا کرو-
اخباری` علمی اور منصف مزاج لوگوں سے` نیوز ایجنسیوں سے تعلقات بڑھائے جائیں-
خوش مذاق ہو- چڑے نہیں` Humorous )زندہ دل( ہو-
ناراض نہ ہو اختلاف کو بھی سنے- اپنے کریکٹر کو مضبوط رکھے کہ اعتراض نہ کیا جا سکے-
اپنے اخلاق سے متاثر کرے-
طالب علموں کو شریعت کی پابندی کرائے-
مکتوب بنام ایڈیٹر الفضل
یہ خط حضور نے لندن سے ایڈیٹر صاحب الفضل قادیان کے نام ۸- اکتوبر ۱۹۲۴ء کو تحریر فرمایا- مکرم ایڈیٹر صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا تھا جس میں یہ ذکر تھا کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی کابل میں سنگساری کے متعلق حضور نے جو تار یورپ کی بعض حکومتوں اور جمیعہ الاقوام کو بھجوائے تھے اس پر چند غیر احمدی اخبارات نے اعتراض کیا ہے اور کابل کی حمایت میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر واجب القتل ٹھہرایا ہے- مکرم ایڈیٹر صاحب نے یہ اطلاع بھی دی کہ بہائیوں کے اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں حضور کے حیفا )فلسطین( تشریف لے جانے کا ذکر کر کے کچھ شکایات بیان کی گئی ہیں- اس خط کے جواب میں حضور نے اصل واقعات بیان کر کے معترضین کو مسکت جواب دیئے ہیں-
لندن کے نو مسلموں کو پیغام احمدیت
۱۲- اکتوبر ۱۹۲۴ء کو لندن کے نو مسلم حضرات کے نام حضور کا ایک پیغام سنایا گیا- جس کا رواں ترجمہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے بڑی عمدگی سے کیا- اس پیغام میں حضور نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ` آپ پر ایمان لانے کی ضرورت اور جماعت کی دینی خدمات پیش فرمائیں- اس کے بعد ایک مجلس سوال و جواب بھی ہوئی جس میں حضور نے مختلف سوالات کا نہایت موثر انداز میں جواب دیا-
مذہبی مسائل پر گفتگو
ایک نو مسلمہ کی دعوت پر حضور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے ہاں تشریف لے گئے- اس خاتون اور ایک اور معزز تعلیم یافتہ خاتون سے حضور کی مندرجہ ذیل اہم سوالات کے متعلق نہایت مفید اور موثر گفتگو ہوئی-
آپ دوسرے مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
اسلام کیا ہے؟
اسلام کے اصول کیا ہیں؟
آخری سوال کے جواب میں حضور نے اسلام کی اخلاقی تعلیم کا دوسرے مذاہب سے مختصر موازنہ کرتے ہوئے فرمایا-:
>۔۔۔۔۔۔۔ یہ حقیقی تعلیم ہے جو علم النفس اور اصول اصلاح کے موافق عملاً جاری ہو سکتی ہے- اب آپ مقابلہ کر کے دیکھیں کہ انجیل کی تعلیم کو اس سے کیا نسبت- میں کہتا ہوں کہ ایسی جامع تعلیم دنیا کی کسی کتاب میں نہیں<-
تختہ جہاز پر لیڈی لٹن سے گفتگو
لندن سے واپسی پر حضور جس جہاز میں سفر کر رہے تھے اسی جہاز میں تھیوسافیکل سوسائٹی انگلستان کی صدر لیڈی لٹن صاحبہ اپنی بچیوں اور چند مدراسی طلباء کے ساتھ ہندوستان آ رہی تھیں- ان کی درخواست پر ۱۳- نومبر ۱۹۲۴ء کو ساڑھے پانچ بجے شام حضور سے ان کی ملاقات ہوئی- ان کے ساتھ تین طالبعلم بھی تھے جب کہ حضور کے ساتھ اس مجلس میں حضرتحافظروشن علی صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحب` حضرت چوہدری ظفراللہخانصاحب اور حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی کو شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا- اس موقع پر جو گفتگو ہوئی وہ حضرت عرفانی صاحب نے سوال و جواب کی صورت میں مرتب فرما کر الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۲۴ء میں شائع کروا دی- اس ملاقات میں حضور نے اختصار کے ساتھ موثر رنگ میں لیڈی لٹن صاحبہ اور ان کے ساتھیوں کو پیغام حق پہنچایا نیز سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بارہ میں معلومات بہم پہنچائیں-
سفر یورپ میں غیر معمولی کامیابی
۲۴ نومبر ۱۹۲۴ء کو قادیان واپسی پر اہل قادیان کی طرف سے سپاس نامہ کے جواب میں حضور نے شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا-
>اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں جماعت کی وہ محبت رکھی ہے کہ اسے باپ کی محبت سے نسبت نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کا ظل ہے<-
حضور نے فرمایا اس سفر سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے اپنے قلوب کو پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے جس طرح پہلے کبھی نہیں پڑھا تھا اور اس مطالعہ سے ہمارے ایمان میں بھی ترقی ہوئی ہے اور جماعت کے اتحاد میں بھی- حضور نے احباب کو اپنے حالاتسفر سناتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ دمشق میں جہاز کا ڈاکٹر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا >مسیح اور اس کے بارہ حواری<
اس سفر کے نتائج و برکات بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا-
>غرض اس سفر میں ایسی کامیابی حاصل ہوئی کہ جو انسانی وہم و خیال سے بالا تر ہے اور جس بات کی طرف میں سرزمین ہند پر قدم رکھتے ہوئے جماعت کو توجہ دلاتا آیا ہوں آج بھی دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ساری کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور وہی حقیقی شکریہ کا مستحق ہے اور جماعت کو تیار ہو جانا چاہئے کہ خدا نے جو بیج بویا ہے اس کی آب پاشی کریں- یہ بیج میسر نہ آ سکتا تھا اگر ہم اس سفر کے بغیر کوشش کرتے رہتے<-
جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا-
>پس میں آپ لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سفر میں جو کامیابیاں ہوئی ہیں ان کے شکریہ کو عملی جامہ پہنائیں- اس وقت جو مالی مشکلات درپیش ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کریں- اب پہلے سے بھی زیادہ توجہ` اخلاص` محبت اور اتحاد کی ضرورت ہے<-
احمدی افغانان قادیان کے ایڈریس کا جواب
احمدی افغانان قادیان نے بھی ۲۶ نومبر کو حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا اس کے جواب میں آپ نے افغان بھائیوں کا شکریہ ادا کیا- مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا-
>قیام انگلستان کے دوران بعض پادریوں نے مولوی صاحب کی شہادت کے واقعہ کے بعد کہا کہ اسی طرح کے حالات یا مسیحؑ کے متبعین پر آئے تھے یا آپ کی جماعت پر آئے ہیں گویا مسیح اول سے مشابہت دی گئی ہے<-
آپ نے فرمایا کہ-
>انتقام لینے کا طریق یہ ہے کہ ہم ان غلط خیالات اور بد عقائد کو مٹائیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تذکرۃالشہادتین میں اپنے الہام میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے- اس علاقہ کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے- ہماری غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان برائیوں کو مٹا دیں- چار حرف ک- ا- ب- ل ہماری آنکھوں کے سامنے رہنے چاہئیں<-
کارکنان نظارت اور صدر انجمن احمدیہ کے ایڈریس کا جواب
۲۶ نومبر ۱۹۲۴ء کو کارکنان نظارت اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے بھی ایڈریس پیش کیا گیا حضور نے ایڈریس پیش کرنے والوں کو جزاکم اللہ تعالی احسن الجزاء کہتے ہوئے بڑے موثر اور دلنشیں انداز میں یہ نصیحت فرمائی کہ-:
>تم لوگ اپنے کاموں میں اخلاص اور نیتوں میں پاکیزگی اختیار کرو اور یہ کبھی خیال نہ کرو کہ لوگ تمہارے کاموں کو دیکھتے ہیں یا نہیں- سب کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہوگی- جس نیت اور جس اخلاص سے کوئی کام کیا ہوگا اس کا بدلہ ویسا ہی ملے گا اور کسی کی محنت ضائع نہیں کی جائے گی<-
اپنے اس خطاب کو حضور نے اس دعا پر ختم کیا کہ-:
>خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر ایک شخص کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اخلاص اور پاکیزہ نیت سے پورا کرے تا کہ جب وہ خدا کے حضور پیش ہو تو کہہ سکے کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا تھا اسے میں نے کیا جہاں تک میری طاقت تھی<-
ساکنان محلہ دارالرحمت کے سپاس نامہ کا جواب
۲۷- نومبر ۱۹۲۴ء کی شام محلہ دارالرحمت کے ایڈریس کے جواب میں آپ نے اہل محلہ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا کہ محلوں کی آبادی کا خیال میرے دل میں آیا تھا اور یہ اس وجہ سے تھا کہ اس طرح جو آمد ہو اس سے قرآن مجید کا پہلا مترجم پارہ ہمارے خاندان کی طرف سے شائع ہو اور اس کی آمد سے دوسرا پارہ شائع ہو اور اس طرح سارا قرآن مجید ہمارے خاندان کی طرف سے شائع ہو جائے اور یہ وجہ بھی تھی کہ اس طرح قادیان کی ترقی اور وسعت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو جائے-
اپنے خطاب کے آخر میں حضور نے طاعون سے بچائو کے بارہ میں احباب جماعت کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بارہ میں نصائح فرمائیں-
٭٭٭
‏tarif.8
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی نویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی کی ۱۳ دسمبر ۱۹۲۴ء سے ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء تک کی تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے-
)۱( افراد سلسلہ کی اصلاح و فلاح کیلئے دلی کیفیت کا اظہار
۱۳ دسمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے مسجد اقصیٰ میں ایک پر اثر اور درد انگیز خطاب فرمایا- حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ کی وفات پر غیر معمولی رنج اور صدمہ کی وجہ بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مرحومہ کے وجود سے اس سکیم پر بہت اثر پڑا ہے جو میں نے یورپ میں تبلیغ و اشاعت اور سلسلہ کی مستورات کی ترقی اور تربیت کیلئے تیار کی تھی-
بعض لوگوں نے حضور کے صدمہ اور غم کو دیکھتے ہوئے اسے ایک غیر معمولی بات سمجھا- تا ہم حضور نے کسی غلط فہمی اور وہم کے ازالہ کیلئے اپنی بعض مثالیں پیش فرمائیں اور بتایا کہ باوجودیکہ آپ پر غم کی کیفیات تھیں تا ہم جذبات پر پورا قابو تھا- فرمایا کہ جماعت کے غموں اور خوشیوں میں شامل ہونا میرا فرض ہے- غم کرنا اسلام کی تعلیم کے عین مطابق ہے-
حضور ~صل۲~ کا اپنے چچا کی وفات پر غم` حضرت خدیجہؓ کو ساری عمر یاد کرتے رہنا` صحابہؓ کی شہادت پر رقت و غم- اسی طرح ایک غزوہ میں جب چار علم بردار صحابہؓ شہید ہوئے اور بالاخر حضرت خالدؓ بن ولید کے ہاتھوں فتح ہوئی اس کیفیت پر حضور ~صل۲~ پر غمورقت کی کیفیت طاری ہو گئی- آنسوئوں سے رونا انبیاء کی سنت ہے- حضرت یعقوبؑ کی مثال سامنے ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کی زندگیوں سے آپ نے مثالیں پیش فرمائیں- نیز صبر کی تعلیم پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے بعض تربیتی مسائل کی طرف توجہ دلائی-
)۲( مستورات سے خطاب
۲۸ دسمبر ۱۹۲۴ء جلسہ سالانہ مستورات میں حضور انور نے عورتوں کو تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ ہماری عورتیں خدمت دین کا جذبہ رکھتی ہیں اور وہ عورتیں جو پہلے اپنے وقت کو لڑائی جھگڑوں یا غیبت میں گنواتی تھیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر کے خدمت دین میں صرف کرتی ہیں-
حضور نے یورپ کی عورتوں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا-
>وہاں ہر ایک عورت تعلیم یافتہ ہے کوئی عورت ایسی نہ ہوگی جو تعلیم یافتہ نہ ہو اور کوئی عورت اس قسم کی نہیں مل سکتی جو اس بات کو سمجھتی نہ ہو کہ تعلیم کی کیا قدر ہوتی ہے<-
حضور نے احمدی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ-
>وہ اپنی کمزوریوں کے خیال کو چھوڑ کر دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوشش کریں- وہ یاد رکھیں کہ محض جوش کام نہیں آتے جب تک اس کے ساتھ علم و ہنر نہ ہو- بہتوں کے دل میں جوش ہے کہ وہ خدمت دین کریں مگر یہ جوش اس وقت کام آئے گا جب علم و تربیت کے ساتھ ہو- اگر تعلیم و تربیت نہ ہو تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا<-
)۳( من انصاری الی اللہ
۱۹۲۴ء میں اشاعت اسلام کی غرض سے جو سفر ولایت اختیار کیا گیا اس میں تبلیغی کوششوں` کتب کی اشاعت اور سفر پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے- اسی طرح اس سفر کے نتیجہ میں کام بڑھ جانے کی وجہ سے بھی اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا- حضور نے اس سلسلہ میں ۱۲ فروری ۱۹۲۵ء کو بعد از نماز عصر مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا-
>اے بھائیو! میں اس سفر سے پہلے کئی دفعہ یہ خیال کرتا تھا کہ جماعت سے کام لیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ لوگ کام سے ملول نہ ہو جائیں اور ان کے دل تھک نہ جاویں لیکن اس سفر میں جو نازک حالت اسلام کی میں نے دیکھی ہے اور جو طاقت اور قوت اور ہوشیاری اس کے دشمنوں میں پائی ہے اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ زمانہ ڈرنے کا زمانہ نہیں اور یہ وقت ادھوری کوششوں کا وقت نہیں جو بزدل ہے اسے واپس جانے دینا چاہئے اور صرف بہادروں کو لیکر جو اسلام کیلئے ہر ایک شے کو قربان کرنے کیلئے تیار ہیں آگے بڑھنا چاہئے<-
اپنے خطاب کے آخر میں حضور نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا-
>اے بھائیو! آپ لوگوں نے اس شخص کا زمانہ پایا ہے جس کے زمانہ کی خبر نوح سے لے کر رسول کریم ~صل۲~ تک سب رسولوں نے دی تھی- ہاں اس کا زمانہ جو دنیا کیلئے منجی ہے اور سارے جہان کو ایک دین پر جمع کرنے کیلئے آیا ہے- جس کا زمانہ قیامت کا زمانہ ہے کیونکہ اس میں سب دنیا کو اکٹھا کرنے کیلئے خدا کی قرنا پھونکی گئی ہے- وہ آدم ثانی ہے کیونکہ اس کی قدسی تاثیرات سے اب دنیا کو ایک نئی پیدائش حاصل ہونے والی ہے- جس طرح پہلے آدم کے ذریعہ سے اس کو جسمانی پیدائش ملی تھی اب اس آدم ثانی کے ذریعہ سے ایک روحانی پیدائش ملے گی- دل بدل جائیں گے- علوم و عرفان کے دروازے کھول دئے جائیں گے- خدا تعالیٰ کے زندہ اور قدیر ہونے کے ثبوت اس طرح مہیا کئے جائیں گے کہ گویا انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ لے گا<-
اسلام کی اشاعت کے بارہ میں فرماتے ہیں-
>یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اشاعت کا زمانہ سخت مالی قربانیوں کو چاہتا ہے پس نہ صرف یہ کہ آپ کو ہر سال مالی امداد میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لینا چاہئے بلکہ چاہئے کہ آپ لوگ کوشش کریں کہ اپنی آمدنوں کو بڑھائیں اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں- ہر ایک احمدی کو چاہئے کہ وہ خود بھی کام کرے اور گھر کے ہر ممبر سے اس کی حیثیت اور اس کے علم کے مطابق کام لے کوئی شخص فارغ نہ رہے- تا کہ دین کو طاقت حاصل ہو- اور اسلام دوسرے دینوں پر غالب آ جائے- اور وہ کیسی خوش گھڑی ہوگی جب ایسا ہوگا<-
)۴( حکومت کابل کی ظالمانہ کارروائیوں پر صبر سے کام لو
کابل افغانستان میں اوائل ۱۹۲۵ء میں دو احمدی )مولوی نعمت اللہ صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب( شہید کر دیئے گئے اس سلسلہ میں قادیان میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی اس میں حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا!
>یہ بات متواتر تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ ظالم کے ظلم کا وبال آخر ظالم پر ہی پڑتا ہے آج تک کوئی ایک نظیر ایسی دنیا میں نہیں ملتی کہ کوئی ظالم ظلم کر کے پھر کامیاب ہو گیا ہو- ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں<-
نیز فرمایا!
>یہ زمانہ نہیں رہے گا امیر بھی مٹ جائے گا اور اس کے معاون و مددگار بھی نہیں رہیں گے لیکن جس عقیدہ کی بناء پر انہوں نے ظلم کئے وہ عقیدہ دنیا میں رہے گا<-
خطاب کے آخر میں احباب جماعت کو نصیحت فرمائی کہ-
>میں آئندہ آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ طاقت اور قوت کے زمانہ میں اخلاق کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ اخلاق اصل وہی ہیں جو قوت اور طاقت کے وقت ظاہر ہوں- اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری حقیر خدمات کے بدلہ میں حکومت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں- وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں<-
)۵( جماعت احمدیہ کے عقائد
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے عقائد جماعت احمدیہ کے بارہ میں ایک پر معارف مضمون تحریر فرمایا جو الفضل ۱۲/۱۴ مئی ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا- اس مضمون میں آپ نے احمدیت` ہستی باری تعالیٰ` ملائکہ اللہ` کلام الہی` قرآن کریم` رسول کریم ~صل۲~ اور انبیاء علیھم السلام وغیرہ کے بارہ میں اپنے عقائد بیان فرمائے- رئویت الہی کے عنوان کے تحت آپ فرماتے ہیں-
>ہمارا یہ یقین اور وثوق ہے کہ انسانی روح ترقی کرتے کرتے ایسے درجے کو حاصل کر لے گی جب کہ اس کی طاقتیں موجودہ طاقتوں کی نسبت اتنی زیادہ ہونگی کہ اسے ایک نیا وجود کہا جا سکتا ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت روح اس قابل ہو جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے جلوے کو دیکھے اور ایسی رئویت اس کو حاصل ہو کہ باوجود اس کے کہ وہ حقیقی رئویت نہ ہوگی مگر پھر بھی اس دنیا کے مقابلہ میں رئویت اور یہ دنیا اس کے مقابلہ میں حجاب کہلانے کی مستحق ہوگی<-
)۶( حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز
۱۹۲۵ء میں عرب کے حالات خانہ جنگی کی وجہ سے خراب تھے- امیر ابن سعود حاکم نجد مکہ مکرمہ پر قابض تھے اور جدہ کی بندرگاہ جہاں حاجیوں کے جہاز آ کر ٹھہرتے تھے پر شریف علی کا قبضہ تھا- اور دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار تھے- ان مخدوش حالات کی وجہ سے ہندوستان میں علمائے اسلام کے سامنے اس سال حج بیت اللہ کے جواز یا عدم جواز کا سوال پیش تھا- اس پر جون ۱۹۲۵ء میں مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے حضور نے یہ مضمون لکھا- آپ نے فرمایا-:
>میں اپنے تمام دوستوں کو شروع مضمون میں ہی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس سال حج کرنا فتنہ کا موجب ہے اور شریعت کے حکم کے ماتحت اس حج کے ارادہ میں التواء کرنا بہتر ہے- یاد رکھنا چاہئے کہ حج بہر صورت اور ہر حالت میں فرض نہیں ہے بلکہ اسی وقت اور اسی پر فرض ہوتا ہے جب اور جس شخص میں بعض شرائط پائی جائیں اور انہی شرائط میں سے ایک امن کا وجود بھی ہے<-
۱۹۲۵ء میں حجاز عرب کی حالت اور امیر ابن سعود اور شریف علی کی باہم چپقلش اور اس کی وجوہ بیان کرنے کے بعد حضور نے ترکی کے جنگ عظیم میں شامل ہونے کے اثرات اور مغربی اقوام کے ردعمل کو عام فہم انداز میں بیان کرتے ہوئے آخر میں شریف مکہ اور انگریزوں کے تعلقات پر سیر حاصل بحث فرمائی- خاندان ابن سعود کے تاریخی حالات اور اس ضمن میں مشہور عرب رہنما محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک کا ذکر کرکے فرمایا-:
>مندرجہ بالا حالات سے یہ امور بخوبی روشن ہو جاتے ہیں کہ موجودہ جنگ حجاز کوئی نئی جنگ نہیں بلکہ یہ ایک ڈیڑھ سو سالہ پرانا قصہ ہے اور سنیوں وہابیوں کی جنگ ہے- پچھلے ڈیڑھ سو سال میں قریباً بغیر وقفے کے وہابیوں نے سب عرب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر سنیوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے<-
آخر میں حضور نے دعا فرمائی کہ-:
>اللہ تعالیٰ اس فتنہ و فساد میں سے ایسے خیروخوبی کے پہلو پیدا کرے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور حجاز مسیحی اثر سے بالکل پاک رہے اور دجال کا رعب خانہ خدا میں رہنے والے لوگوں کے دلوں سے دور رہے<-
)۷( مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت
یہ کتاب حضرت مصلح موعود کی ایک تقریر پر مشتمل ہے جو حضور نے مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے اوائل جولائی ۱۹۲۵ء میں ارشاد فرمائی- حضور نے فرمایا کہ اگر ہم صداقت اور راستی کے سچے حامل بن جائیں- ہماری اپنی اصلاح ہو` ہمارے قلب صاف ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اور مخلوق خدا کی ہمدردی ہمارے اندر جوش مارنے لگ جائے تو یقیناً کسی مخالف کی مخالفت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی- صداقت اور راستی ایک ایسا حربہ ہے جو ہزاروں پردوں کو چیر کر سینوں کے اندر داخل ہو جاتی ہے- اور کوئی چیز اسے روک نہیں سکتی- خواہ کیسے ہی مضبوط قلعے ہوں اور کیسی ہی سخت دیواریں کیوں نہ ہوں- حضور نے فرمایا کہ میں اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ صداقت اور راستی کے سچے حامل بن سکیں- پس اگر آپ اپنے قلوب کی اصلاح کریں اپنے اندر جوش و اخلاص پیدا کریں تو یہ ناممکن ہے کہ تمہارے کلام میں وہ طاقت اور وہ تاثیر خدا تعالیٰ پیدا نہ کرے جو دلوں کو مسخر کرنے والی ہوتی ہے-
اس کے بعد حضور نے غیر احمدیوں کے ایک مولوی کے بیان کا ذکر کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ عیسائیوں سے` یہودیوں سے` آریوں سے` سکھوں سے ہماری صلح ہو سکتی ہے مگر احمدیوں کے ساتھ ہم کسی طرح صلح نہیں کر سکتے کیونکہ یہ کافر اور مرتد ہیں- آریہ` سکھ` یہودی اور عیسائی ان سے بدرجہا بہتر ہیں- اس پر حضور نے فرمایا کہ یہ بیان سن کر مجھے سخت حیرت ہوئی اور میرا دل اس بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا کہ کوئی کس طرح ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جھوٹا تسلیم کرتے ہیں اور حضور کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ان کو اس جماعت سے کیسے بہتر قرار دے سکتا ہے جو رسول کریم ~صل۲~ کے دین کی سچی خادم ہو` آپ کا کلمہ پڑھنے والی ہو- یہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل بالکل سیاہ ہو چکا ہو` جو سخت تاریکی اور ظلمت میں پڑ گیا ہو-
حضور نے فرمایا کہ اس کے مقابل ہماری یہ حالت ہے کہ گو عیسائیوں کی حکومت اور ان کے ملک میں ہمارے لئے بہت امن اور انصاف ہے اس کے بالمقابل افغان حکومت میں ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی ہوتی ہے لیکن جب مذہب کا سوال آئے گا تو میں امیر امان اللہ کو کروڑوں درجے کنگ جارج سے بڑھ کر سمجھوں گا- کیونکہ امیر امان اللہ ہمارے اس رسول کی عزت کرتے ہیں جو ہمیں جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں اور انہیں خدا کا سچا رسول مانتے ہیں جب کہ کنگ جارج رسول اللہ کی صداقت کے قائل نہیں- حضور نے فرمایا کہ میں مذھباً امیر امان اللہ کو کنگ جارج سے زیادہ معزز سمجھتا ہوں- اس کے بعد حضور نے غیر از جماعت احباب کے بعض اعتراضات کے نہایت مدلل جوابات دیئے- اور آخر پر دیو بندیوں کے اس چیلنج کا ذکر کیا کہ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے کوئی بھی نئے معارف قرآنیہ بیان نہیں کئے- حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ اگر دیوبندی اس دعویٰ پر قائم رہیں اور اس کو سچائی کا معیار سمجھیں تو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے ایسے قرآنی حقائق اور معارف پیش کروں جو ان مولوی صاحبان نے کبھی بیان نہیں کئے اور نہ حضرت مسیح موعود سے پہلے کسی نے لکھے ہیں-
حضرت مصلح موعود نے مولویوں کو یہ بھی چیلنج دیا کہ میں جو مسیح موعود علیہ السلام کا خادم ہوں مجھ سے مقابلہ کر لیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے- پھر دنیا خود دیکھ لے گی حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے- حضور نے فرمایا-:
>ان مولویوں کو میں اپنے مقابلہ پر بلاتا ہوں اگر وہ آئے تو دیکھیں گے کہ حضرت مرزا صاحب کے ایک ادنیٰ غلام کے مقابلہ میں ان کا کیا حشر ہوتا ہے- ان کی قلمیں ٹوٹ جائیں گی` ان کے دماغوں پر پردے پڑ جائیں گے- اور وہ کچھ نہیں لکھ سکیں گے اگر ان میں ہمت اور جرات ہے تو مقابلہ پر آئیں<-
)۸( آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے پروگرام پر ایک نظر
یہ پمفلٹ حضور نے آل انڈیا مسلم پارٹیز کانفرنس کے اجلاس میں پیش کرنے کیلئے ۱۳جولائی ۱۹۲۵ء کو تحریر فرمایا-:
منتظمین کانفرنس کی خواہش تھی کہ امام جماعت احمدیہ بنفس نفیس اس میں شریک ہوکر اپنے خیالات کا اظہار فرماویں- حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمایا کہ میں خود اس میں شمولیت سے معذور ہوں لیکن اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنے خیالات تحریراً پیش کر دیتا ہوں- اس پمفلٹ میں حضور نے سب سے پہلے اسلام کی مذہبی اور سیاسی تعریف بیان فرمائی اور فرمایا کہ اسلام کی ایک تو مذہبی تعریف ہے جس کا ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے اس کی تعریف کرے- دوسری اسلام کی سیاسی تعریف ہے- سیاسی طور پر کون لوگ مسلمان ہیں؟ اس کا جواب صرف ہندو` عیسائی اور سکھ ہی دے سکتے ہیں جن سے مسلمانوں کا سیاسی واسطہ پڑتا ہے- کیونکہ اگر ایک جماعت کے پیرو جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں ان کو دوسرے فرقہ کے لوگ خواہ غیر مسلم ہی سمجھیں لیکن سیاست میں ہندو اور سکھ جب ان سے معاملہ کریں گے تو ان سے ایک ہی معاملہ کریں گے اور جو کارروائی وہ ایک قوم کے خلاف کریں گے وہی دوسری قوم کے خلاف بھی کریں گے- پس سیاستا ان کے مفاد ایک ہیں اور مسلمانوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا تو دوسرے ایک ایک کر کے ان کو کھا جائیں گے اور ان کو اس وقت ہوش آئے گی جب ہوش آنے کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا- اس لئے حضور نے تمام مسلمان فرقوں کے سامنے یہ زریں اصول پیش کیا کہ سیاسی معاملات میں مسلمان مکمل اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں- کیونکہ سیاسی لحاظ سے اگر آپ کسی قوم کو الگ کر دیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے وہ دوسری قوموں کی طرف رجوع نہ کرے-
اس کے بعد اسلام کی ترقی اور ترویج اور اس کے سیاسی استحکام کے لئے بعض تجاویز دیں اور فرمایا کہ اسلام کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ تمام ملک ہند میں اسلام کی ترویج کے لئے تبلیغی نظام مقرر کیا جائے اور تبلیغی انجمنوں کے باہم اتحاد کی کوئی راہ نکالی جائے- کیونکہ اسلام کی زندگی تبلیغ پر ہی موقوف ہے- اور اس کے لئے مکمل نظام وضع کرنا ضروری ہے- نیز مسلمانوں کی صنعتی اور تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے باقاعدہ صیغہ جات قائم کئے جائیں- ہر صیغہ کا ایک مطمع نظر ہو اور سال کے آخر پر بتایا جائے کہ مطمع نظر کو کس حد تک پورا کیا گیا ہے- نیز اس وقت فوری طور پر ایک ایسی کمیٹی کا قیام بھی ضروری ہے جو اس امر کا جائزہ لے کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے اثر سے کس طرح آزاد کروایا جا سکتا ہے- اور کون کون سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جن میں ماہر مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے پھر وہ کمیٹی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرے- اسی طرح حضرت مصلح موعود نے مسلم بنک کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ اگر بلا سود بنک کی صورت نکل سکے جو کہ نکل سکتی ہے تو ہماری جماعت بھی اس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے اور آپ نے بیت المال اور مسلم چیمبر آف کامرس کے قیام کی بھی تجویز دی- نیز فوجداری مقدمات کے علاوہ مسلمانوں کے دیگر تنازعات کو عدالتوں میں لے جانے کی بجائے باہم مل کر تصفیہ کے لئے بھی پنچائتی نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا-
آپ نے فرمایا کہ قیام امن کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے- وسعت حوصلہ کے ساتھ دوسروں کو ان کے عقیدہ کے مطابق کام کرنے دیں اور خود اپنے عقیدہ کے مطابق کام کریں- حضور نے تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق فرمایا کہ تجارت ایسا شعبہ ہے جس سے مسلمانوں نے سب سے زیادہ تغافل برتا ہے اور تجارتی لحاظ سے وہ ہندوئوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں- تجارت اور صنعت و حرفت میں بھی مسلمانوں کی ترقی کے لئے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے- آخر پر حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کے باہمی تنازعات کو ختم کر کے باہم اتحاد اور یگانگت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ-:
>پھر ایک دفعہ اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ سب محنت رائیگاں اور سب تدبیریں عبث جائیں گی اگر اس امر کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا گیا کہ ہم باوجود ایک دوسرے کو کافر کہنے کے اغیار کی نظروں میں مسلمان ہیں- اور ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان ہے- پس سیاسی میدان میں ہمیں مذہبی فتوئوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے- کیونکہ وہ ان کے دائرہ عمل سے خارج ہیں- اسلام ہر گز یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی سیاسی ضروریات کے لئے ان لوگوں سے مل کر کام نہیں کر سکتے جن کو تم مسلمان نہیں سمجھتے- اگر رسول کریم ~صل۲~ مشرکوں کے مقابلہ میں یہود سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان کہلانے والے فرقے اسلام کی سیاسی برتری بلکہ کہو کہ سیاسی حفاظت کے لئے اس میں مل کر کام نہ کر سکیں- اگر ہم اس موقعہ پر اتحاد نہ کر سکیں گے تو یقیناً اس سے یہ ثابت ہوگا کہ ہمارا اختلاف اسلام کے لئے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لئے ہے- اپنے نفسوں کے لئے ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں اس بدبختی سے محفوظ رکھے<- آمین
)۹( جماعت احمدیہ کا جدید نظام عمل
۱۹- اکتوبر ۱۹۲۵ء کو کارکنان سلسلہ احمدیہ کے ایک اجتماع میں جماعت کے جدید نظام عمل کے بارہ میں حضور نے ایک مفصل تقریر فرمائی جس میں مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق مجلس معتمدین اور صیغہ ہائے نظارت کے باہمی الحاق کا اعلان فرمایا- کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا-:
>اس وقت سلسلہ کے کام دو طریق پر چل رہے ہیں- کچھ حصہ کاموں کا مجلس معتمدین کے ذریعہ جو انجمن احمدیہ کہلاتے ہے` انجام پاتا ہے اور کچھ نظارت کے ذریعہ ہوتا ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ کیلئے یہ کیا گیا ہے کہ نظارت کے کام مجلس معتمدین کے قواعد میں تبدیلی کر کے اس میں شامل کر دئے گئے ہیں اور صدر انجمن اس جماعت کا نام رکھا گیا ہے جس میں تمام جماعت کے نمائندے شامل ہونگے- پہلے صدر انجمن ایک ذہنی وجود تھا مگر آئندہ اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امور جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہونگے اور جن کی ذمہ داری ساری جماعت پر عائد ہوگی وہ اس کے مشورہ کے بغیر نہ ہونگے<-
حضور نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ دونوں طریقوں کے علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے جو نقصانات ہو رہے تھے اب وہ انشاء اللہ تعالیٰ دور ہو جائیں گے اور سلسلہ کا کام بہتر طریق پر چلے گا- آخر میں حضور نے فرمایا-:
>ہمیں سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے اور کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے- پھر یہ کام چونکہ سب کے اتحاد سے ہو سکتے ہیں اس لئے میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپس میں اتحاد اور محبت بڑھانے کی کوشش کریں- پھر چونکہ یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہیں اس لئے میں دوستوں سے چاہتا ہوں کہ اپنی اور سب کی روحانی ترقی` سلسلہ کے کاموں اور ترقی کیلئے دعائیں کرتے رہیں<-
)۱۰( افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۵ء
۲۶ دسمبر ۱۹۲۵ء کو جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے کاموں میں ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ ہماری جماعت کے کام تقدیر عام کے ماتحت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے ماتحت ہوتے ہیں- اس لئے ہمیں اپنی ترقی اور کامیابی کے لئے اسی سے مدد مانگنی چاہئے- دعائیں کرتے ہوئے جلسہ کی کارروائی میں شامل ہوں اور جلسہ کے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں بلکہ ان سے پورا فائدہ اٹھائیں-
)۱۱( منہاج الطالبین
یہ کتاب حضرت مصلح موعود کی دو تقاریر پر مشتمل ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ستائیس اور اٹھائیس دسمبر ۱۹۲۵ء کو قادیان میں فرمائیں- ابتداء حضور نے احباب جماعت کو چند متفرق امور کی طرف توجہ دلائی جو جماعت کی اصلاح اور ترقی کے لئے ضروری ہیں- اس کے بعد آپ نے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ پر شرح و بسط سے روشنی ڈالی ہے جو ہمیشہ انسان کی توجہ اپنی طرف کھینچتا رہا ہے- یعنی وہ کونسے ذرائع ہیں جن پر عمل کر کے انسان گناہوں سے پاک ہو جائے اور نفس میں نیکیاں پیدا ہو جائیں- تزکیہ نفس ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں لوگوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں- ہندو جوگی جنگلوں میں مارے مارے پھرے اور شدید ریاضتیں کر کے اپنے اعضاء بے کار کر بیٹھے لیکن حاصل کچھ نہ ہوا- مسلمانوں میں سے بھی بعض صوفی کہلانے والے افراد نے لمبے لمبے اذکار اور وظیفے ایجاد کئے لیکن منزل سے دور ہی رہے- حضرت مصلح موعود نے اسلامی تعلیمی کی روشنی میں اس مضمون کی سادہ اور عام فہم طریق پر ایسی وضاحت فرمائی ہے کہ عام انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے اور ان ذرائع پر آسانی سے عمل کر سکتا ہے- یہ کتاب انسان کے اپنے نفس کی اور آئندہ نسلوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کیلئے اہم اور مفید ترین معلومات پر مشتمل ہے- شروع میں حضور نے اس مضمون کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اپنی ایک رئویاء کا ذکر کیا ہے- فرماتے ہیں-
>رئویا یہ تھی کہ ایک مصلی ہے جس پر میں نماز پڑھ کر بیٹھا ہوں میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی کی ہے اس کا نام منہاج الطالبین ہے یعنی خدا تعالیٰ تک پہنچنے والوں کا راستہ- میں نے اس کتاب کو پڑھ کر رکھ دیا کہ پھر یکدم خیال آیا کہ یہ کتاب حضرت خلیفہ اول کو دینی ہے- اس لئے میں اسے ڈھونڈنے لگا ہوں مگر وہ ملتی نہیں- ہاں اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک اور کتاب مل گئی- اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے-وما یعلم جنود ربک الا ھو اور تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا- اس کے بعد میں نے اس خیال سے کہ اگر شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی کی کوئی کتاب اس نام کی ہو تو اسے تلاش کروں حضرت خلیفہ المسیح اول سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کی اس نام کی تو کوئی کتاب نہیں البتہ غنیہ الطالبین نام کی کتاب ہے- پھر معلوم ہوا کہ اس نام کی کسی اور کی کتاب بھی نہیں ہے- پھر خیال آیا کہ ممکن ہے کہ کسی وقت مجھے ہی اس نام کی کتاب لکھنے کی توفیق ملے- اور عبدالقادر سے یہ مراد ہو کہ اس میں جو کچھ لکھا جائے وہ میرے دماغ کا نتیجہ نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی سمجھائی ہوئی باتیں ہوں- اس وجہ سے میں نے اس مضمون کا نام منہاج الطالبین رکھا ہے<-
حضور انور نے گناہوں سے بچنے کیلئے بنیاد تزکیہ نفس اور تقویٰ کو قرار دیا ہے- پھر انسان کامل بننے کے لئے فرمایا کہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان کا تعلق مخلوق سے بھی درست ہو اور خدا سے بھی درست ہو- حضور نے یہ نکتہ بیان فرمایا کہ دین دو شقوں میں منقسم ہے- )۱(اخلاق )۲(روحانیت- انسان کے اعمال کا وہ حصہ جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے اخلاق کہلاتا ہے اور وہی معاملہ جب خدا تعالیٰ سے کیا جائے تو اسے روحانیت کہتے ہیں- اسی حوالے سے اخلاق پر بحث کرتے ہوئے آپ نے اخلاق کی تعریف` اعلیٰ اخلاق کا خیال کیوں رکھا جائے با اخلاق کسے کہتے ہیں؟ اور کیا اخلاق کی اصلاح ممکن ہے؟ جیسے موضوعات پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے- پھر گناہ کیا ہے؟ گناہ کے اقسام` گناہ کہاں سے آتا ہے گناہ آلود حالتیں اور اسلام نے گناہ کا کیا علاج بیان فرمایا جیسے مضامین مدلل بیان فرمائے- اس ضمن میں حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ گناہ کا سلسلہ روکنا چاہتے ہیں تو جس طرح سیگریگیشن کیمپ (SegregationCamp) ہوتا ہے اس طرح بنائو اور آئندہ اولاد سے گناہ کی بیماری دور کر دو تا کہ آئندہ نسلیں محفوظ رہیں- اولاد سے گناہ کی بیماری کو دور کرنے کے لئے حضور نے تربیت کے ۲۷ عظیم الشان طریق بیان فرمائے-
نیز فرمایا کہ اصل نیکی دل کی پاکیزگی ہے اور جس فطرت پر زنگ نہ ہو اس کے لئے گناہوں سے بچنے کے تین علاج ہیں- )۱(یہ کہ اسے بدیوں کا علم اور نیکیوں کی خبر ہو- )۲(اسے معلوم ہو کہ بدیوں سے اجتناب اور نیکیوں پر عمل کرنے کے مواقع کیا کیا ہیں- )۳(اسے معلوم ہو کہ کونسی بدیاں میرے اندر ہیں جنہیں میں نے دور کرنا ہے- اس کے بعد حضور نے بڑی بڑی بدیوں کی ایک لسٹ بیان فرمائی جس میں ان بدیوں کی جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی جو انسانوں کے سوا دوسری مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں کی تفصیلات ہیں تا کہ ان کے ذہن میں آنے سے ان سے بچنے کی طاقت پیدا ہو- اس کے ساتھ ہی حضور نے نیکیوں کی تفصیلی لسٹ بیان فرما دی تا کہ ان پر عمل کیا جا سکے-
آخر میں حضور نے فرمایا-:
>کوشش کے علاوہ ایک اور گر ہے اور وہ دعا کا گر ہے- جب انسان سے اپنی کوششوں کے ذریعہ کچھ نہ بنے تو اسے بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے- پہلی چیز اپنی کوشش ہوتی ہے جو اندرونی امداد ہوتی ہے اور دوسری بیرونی امداد ہوتی ہے- انسان اپنی طرف سے کوشش کرے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ مجھ سے تو جو کچھ ہو سکتا ہے کر رہا ہوں- اب آپ ہی مدد دیں تو کامیاب ہو سکتا ہوں<-
)۱۲( مستورات سے خطاب
)فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۵ء برموقع جلسہ سالانہ(
اس تقریر میں حضور نے سورۃ الدھر کی ابتدائی آیات کی پرمعارف تفسیر بیان فرمائی ہے- احمدی مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے ابتدائی` درمیانی اور آخری انجام بتائے ہیں- گویا اس کی کمزور ہستی کا مکمل نقشہ کھینچ کر رکھ دیا- انسان اگر اس پر غور کرے تو وہ تکبر کر ہی نہیں سکتا جس کی وجہ سے انسان دنیا میں گناہ کا مرتکب ہوتا ہے-
آخر میں حضور نے احمدی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا-:
>جب تک تم احمدیت کی تعلیم کو پورا نہیں کرو گی احمدی کہلانے کی مستحق نہیں- میں چاہتا ہوں کہ تم پوری احمدی بنو تا کہ اگر ایسا وقت آئے جب ہمیں خدا کے دین کے لئے تم سے جدا ہونا پڑے تو تم ہمارے بچوں کی پوری پوری تربیت کر سکو- دنیا اس وقت جہالتوں میں پڑی ہوئی ہے- تم قرآن کو سمجھو اور خدا کے حکموں پر چلو<-
)۱۳( احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت
][ مئی ۱۹۲۶ء میں مبلغ امریکہ حضرت مولوی محمد الدین صاحب کی کامیاب مراجعت پر لجنہ اماء اللہ قادیان کی طرف سے ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا- اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے یہ تقریر فرمائی- عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا-:
>ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کیلئے کوئی باہر کا کام کرنا یا ملازمت کرنا ناجائز ہے- مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ عورتوں کے کثیر حصہ کا کام گھر میں ہی ہے- یورپ میں جہاں اتنی آزادی اور اتنی تعلیم ہے وہاں بھی نوے فی صدی عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جب یورپ کی عورتیں انتہائی تعلیم پا کر بھی زیادہ تر گھر کا ہی کام کرتی ہیں تو معلوم ہوا عورتوں کی تعلیم کا جزو اعظم تربیت اولاد اور گھر کا کام ہی ہے- اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کے کپڑے سینا اور پہنانا ہی عورتوں کا کام ہے بلکہ بچوں کو تعلیم دینا بھی ان کا فرض ہے اور اس کے لئے ان کا خود تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے<-
)۱۴( حق الیقین
ایک شیعہ مرزا احمد سلطان صاحب نے ایک کتاب مسمی بہ >ہفوات المومنین< لکھی جو لکھنئو سے شائع ہوئی- مصنف کا مقصد حق جوئی اور صداقت طلبی معلوم نہیں ہوتا بلکہ درپردہ وہ آئمہ اسلام اور بزرگان دین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں- کتاب کے مضمون سے جس میں بعض روایات کو بنیاد بنایا گیا ہے رسول کریم ~صل۲~ ` آپ کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کی ذات پر ناپاک حملے ہوتے ہیں- اس کی اشاعت سے سارے ملک میں اسلام کے خلاف خطرناک زہر پھیل رہا تھا- اس لئے اس کا تدارک ضروری تھا- اخبار >اہلحدیث< نے اس کا جواب لکھنا شروع کیا لیکن جلد ہی خاموشی اختیار کر لی- ان حالات میں حضرت مصلح موعود نے مناسب سمجھا کہ حضور خود اس کا جواب لکھیں- چنانچہ ۱۹۲۶ء میں آپ نے اس کا جواب لکھا- آپ فرماتے ہیں-:
>اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تصنیف کے اصل مخاطب اہلحدیث صاحبان ہیں اور اگر وہی مسلک ہم اختیار کرتے جو وہ لوگ ہمارے متعلق اختیار کیا کرتے ہیں تو شاید ہمارا طریق بھی یہ ہوتا کہ ہم اس جنگ کا لطف دیکھتے اور ایک دوسرے کی فضیحت اور تحقیر کو خاموشی سے ملاحظہ کرتے- لیکن چونکہ ہمارا رویہ تقویٰ پر مبنی ہے اور اسلام کی محافظت اور اس کے خزائن کی نگرانی کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس لئے میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ یہ کتاب بلا جواب کے رہے اور اسلام کے چھپے دشمن اسلام کے ظاہری دشمنوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر رخنہ اندازی کرنے کا کام بلا روک ٹوک کرتے چلے جائیں<-
مصنف ہفوات نے بعض روایات کو بنیاد بنا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا احادیث کے تمام مجموعے اعتبار کے قابل نہیں- حضور نے ابتداء علم حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے- احادیث کی صحت ان کی ضرورت اور فوائد تفصیل سے بیان فرمائے ہیں- حدیث کی اہمیت واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں-
‏iqt] gat[ >غرض بعض روایات کی غلطی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کام ہی عبث تھا اور نہ محدثین کی خدمت اسلام میں کوئی شبہ لاحق ہوتا ہے اور نہ ان کی شان میں کوئی کمی آتی ہے- انہوں نے فوق العادت محنت سے رسول کریم ~صل۲~ کی مجلس کے نقشہ کو ہمارے لئے محفوظ کر دیا ہے- اور اگر ہم میں سے کوئی ان کی بشری غلطیوں سے ٹھوکر کھاتا ہے تو یہ اس کی بدقسمتی ہے- اگر وہ اس قسم کی غلطیوں سے ڈر کر اس کام کو چھوڑ دیتے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے حضور میں مجرم ہوتے اور ان سے پوچھا جاتا کہ کیوں انہوں نے ایک مفید علم کو زندہ گاڑ دیا<-
مصنف ہفوات نے لکھا ہے کہ چونکہ بعض ایسی احادیث مروی ہیں جو رسول کریم ~صل۲~ کی شان کے خلاف ہیں اس لئے ان کتب کو جلا دینا چاہئے اور مٹا دینا چاہئے- حضور نے ان کے اس خیال کی تردید کی ہے اور اسے ان کی کم علمی اور جہالت پر مبنی قرار دیا ہے- فرمایا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسا قاعدہ نہیں کہ جس کتاب میں کوئی غلطی ہو جائے اسے جلا دیا جائے یا اس حصہ کو کتاب سے نکال دیا جائے- اگر اس طریق پر عمل کیا جائے تو دنیا سے علوم کا خاتمہ ہو جائے اور کسی کتاب پر اعتبار باقی نہ رہے-
پس غلطیوں اور کمیوں کے باوجود احادیث کی اہمیت اور افادیت کم نہیں ہوتی- کتب احادیث مخلص خادمان اسلام کی دیانتدارانہ اور ان تھک کوششوں کا خوبصورت اور شیریں پھل ہیں جن سے مسلمانوں کو خصوصاً اور دوسرے لوگوں کو عموماً بہت فائدہ پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا- اس اصولی بحث کے بعد حضور نے مصنف ہفوات کے اعتراضات کی نمبر وار تردید کی ہے اور ایسی عمدہ کہ سب اعتراضات کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا ہے- جن احادیث کو قابل اعتراض سمجھا گیا ہے حضور نے ان کی ایسی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ معارف کا خزانہ نظر آنے لگتی ہیں- آپ کی یہ تحریر علم و عرفان کا ایک دلکش مرقع ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے-
)۱۵( تقاریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء
حسب معمول حضور نے جلسہ سالانہ کے دوسرے دن ۲۷ دسمبر کی تقریر میں احباب جماعت کے سامنے بعض متفرق امور بیان کئے- یادرفتگان کے سلسلہ میں آپ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہرشیدالدین صاحب اور حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب کی وفات کا ذکر کر کے ان کے بلند مقام اور صفات حسنہ کا تذکرہ فرمایا اور احباب کو ان کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی نصیحت فرمائی- جماعتی لحاظ سے اس سال کا ایک اہم واقعہ یعنی افتتاح مسجد فضل لندن کی تفصیل حضور نے بیان فرمائی کہ کس طرح شاہ ابن سعود کے بیٹے امیر فیصل مسجد کے افتتاح کے لئے لندن پہنچ گئے لیکن بعد میں ہندوستان اور مصر کے مخالف مولویوں کے شور سے ڈر کر انہیں افتتاح سے روک دیا گیا- حضور نے فرمایا کہ اس امر کو بھی خدا تعالیٰ نے مسجد اور جماعت احمدیہ کی شہرت کا موجب بنا دیا- اخبارات نے خوب خبریں دیں اور تبصرے لکھے- اس طرح جماعت کا ذکر یورپ کے دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ تک پہنچ گیا- حضور نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے تقویٰ کی طرف توجہ دلائی- آپ نے تقویٰ کی تعریف` اس کے حصول کے ذرائع اور اس کے فوائد پر تفصیل سے روشنی ڈالی- نیز فرمایا-:
>پس پورے جوش اور پوری ہمت کے ساتھ تقویٰ پر نہ صرف خود قائم ہو جائو بلکہ اسے دنیا میں قائم کرو اور دین کی نصرت کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرو- مل کر کام کرو- ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے پیش آئو- ہر بھائی کے ساتھ محبت کا سلوک کرو- جھگڑوں کو چھوڑ دو اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کے کام آئو<-
جلسہ سالانہ کے تیسرے دن ۲۸ دسمبر ۱۹۲۶ء کو حضور نے جو تقریر فرمائی اس میں بھی اصل مضمون سے پہلے آپ نے بعض متفرق امور کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی- آپ نے جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ پوری دلجمعی اور انہماک سے تقاریر سنا کریں اور ان سے فائدہ اٹھائیں- ادھر ادھر پھر کر وقت ضائع نہ کریں- اگر کسی وقت ضروری حاجت کیلئے باہر جانا پڑے تو فارغ ہوتے ہی جلسہ گاہ میں واپس آ جانا چاہئے- اس کے بعد حضور نے اسی سال شائع ہونے والی اپنی دو کتب >منہاج الطالبین< ]1 [lrm اور >حق الیقین< کا تعارف کروایا کہ یہ نہایت اہم مضامین پر مشتمل ہیں اور بہت مفید علمی معلومات کا ذخیرہ اپنے رکھتی ہیں- احباب کو چاہئے کہ وہ انہیں خرید کر خود بھی مطالعہ کریں اور کثرت سے شائع کریں تا کہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں- حضور نے بعض احمدی مصنفین کی کتب کا بھی تعارف کروایا اور انہیں خریدنے کی تلقین فرمائی-
حضرت خلیفہ المسیح نے احباب جماعت کو وصیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص وصیت نہیں کرتا اس کے ایمان میں نفاق کا حصہ ہے اس لئے دوستوں کو وصیت کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے تا کہ جماعت کے بڑھتے ہوئے کاموں کیلئے روپیہ مہیا ہو سکے- حضور نے فرمایا کہ جماعت کے سب افراد کو کام کرنا چاہئے اور کوئی دوست بے روز گار نہیں رہنا چاہئے- جلسہ سالانہ کے موقع پر انتظام ضیافت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ قادیان کی آبادی محدود ہے اس لئے مہمانوازی کے سلسلہ میں باہر سے آنے والے دوستوں کو بھی شامل کر لینا چاہئے تا کہ سب مہمانوں کو وقت پر کھانا مہیا کیا جا سکے اور وہ بروقت جلسہ کی کارروائی میں شامل ہو سکیں- آخر میں حضور نے مسجد لندن کے افتتاح کے سلسلہ میں ایک تازہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا-:
>آج مسجد لندن کے متعلق ایک اور شہادت ملی ہے کہ ولایت کے ایک بڑے آدمی نے لکھا ہے کہ ابن سعود نے ایک نادر موقع ہاتھ سے کھو دیا اس کے لئے موقع تھا کہ وہ یہ دکھاتا کہ اس کا تعلق اس جماعت سے ہے جو اسلام کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے- میرے نزدیک اس کے بیٹے کو جو ولایت سے دنیوی فوائد پہنچے ہیں وہ آپ کی جماعت کے طفیل ہی پہنچے ہیں- اگر آپ اسے نہ بلاتے تو اس کو یہ فوائد کیسے پہنچتے<-
‏text] [tag یاد رہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ ابن سعود کے بیٹے شہزادہ فیصل )جو بعد میں شاہ فیصل ہوئے( مسجد لندن کے افتتاح کی خاطر لندن پہنچ گئے تھے لیکن پھر مولویوں کی مخالفت اور شور کی وجہ سے انہیں مسجد کا افتتاح کرنے سے شاہ ابن سعود نے روک دیا تھا-
)۱۶( ہندو مسلم فسادات` ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل
ہندوستان میں فرقہ وارانہ نزاع بڑھ رہا تھا- کلکتہ` الہ آباد` سہارنپور اور کوہاٹ میں فسادات ہو چکے تھے- ان کشیدہ حالات میں بجائے اصلاح اور امن قائم کرنے کے بعض لوگ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر مذہبی تعصب کو مزید بڑھا رہے تھے- ان حالات میں حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر کر کے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا فرمایا- حضور کی یہ تقریر ۲مارچ ۱۹۲۷ء کو بریڈلا ہال` لاہور میں ہوئی- صدارت کے فرائض ایک اہم مسلمان لیڈر سر محمد شفیع صاحب نے ادا کئے- آپ نے اپنے ابتدائی ریمارکس میں فرمایا-:
>حضرات! ہمارے محترم مرزا صاحب نے آج اپنی تقریر کے لئے ایک ایسا عنوان تجویز کیا ہے جس کے ساتھ قدرتاً موجودہ حالات میں ہر بہی خواہ ملک کو دلچسپی ہے-۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں وقت آ گیا ہے کہ ایسے خیر خواہ اور ہمدرد لوگ اپنی آواز بلند کریں اور بتائیں کہ ہندوستان میں جو لوگ قوموں کو لڑا رہے ہیں وہ ملک کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں- چونکہ اس وقت ہندوستان میں اس قسم کی مشکلات ہیں اس لئے مرزا صاحب آج آپ کو ان سب کا صحیح حل بتائیں گے جس سے امید ہے کہ ملک کے حالات درست ہو جائیں گے<-
حضور نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے ہندو مسلم فساد کی وجوہات بیان کیں- آپ نے فرمایا کہ سیاسی اور مذہبی رواداری کا فقدان اس فساد کی بنیادی وجہ ہے- جب تک یہ نقص دور نہ ہو دونوں قوموں میں امن قائم نہیں ہو سکتا- فرمایا کہ اسلام رواداری کی تعلیم دیتا ہے- ہندو بھی رواداری پر عمل کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں- جو لوگ دوسروں کے بزرگوں کو برا کہتے ہیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا- باہمی رواداری پیدا کرنے کا یہی طریق ہے- حضور نے اس خیال کی تفصیل سے تردید فرمائی کہ اسلام جبر سے پھیلا ہے یا جبر کی تائید کرتا ہے- آخر میں آپ نے مسلمانوں کو اپنی اصلاح` اتحاد اور تبلیغ کی طرف توجہ دلائی کہ یہ امور ان کی حفاظت اور ترقی کے لئے ضروری ہیں-
)۱۷( مذہب اور سائنس
یہ لیکچر حضور نے سائنس یونین اسلامیہ کالج لاہور کی درخواست پر ۳ مارچ ۱۹۲۷ء کو حبیبیہ ہال میں زیر صدارت ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب دیا- عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے متصادم ہیں- حضور نے اس خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ سچے مذہب اور درست سائنس میں کوئی تصادم نہیں- فرمایا-
>مذہب اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں- کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے اور سائنس خدا کا فعل اور کسی عقلمند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا- ہاں اگر کوئی جھوٹا ہو یا پاگل ہو تو اختلاف ہوگا خدا کے متعلق دونوں باتیں ممکن نہیں- کیونکہ خدا ناقص العقل یا ناقص الاخلاق نہیں- پس خدا کے قول اور فعل میں فرق نہیں- اس لئے مذہب اور سائنس میں بھی تصادم نہیں<-
حضور نے مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ-:
>دراصل بعض دفعہ انسان کا دماغ خدا تعالیٰ کے فعل کو اور بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے قول کو سمجھنے میں غلطی کر جاتا ہے جس سے سائنس اور مذہب میں اختلاف نظر آتا ہے- ورنہ حقیقت میں تو سائنس ہمیشہ مذہب کی تائید کرتی ہے- حضور نے مثالیں دے کر واضح کیا کہ اسلامی تعلیم کی سائنس سے تائید ہوتی- صفائی اور صحت کے سلسلہ میں اسلام نے جو تعلیم چودہ سو سال قبل دی آج سائنس اسے درست تسلیم کر رہی ہے-
مثال کے طور پر حضور فرماتے ہیں-:
>حدیث شریف میں آتا ہیاذا ولغ الکلب فی اناء احدکم فلیغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب-
یعنی جس برتن کو کتا چاٹ جائے اس کو سات دفعہ مٹی سے مل کر دھونا چاہئے- ڈاکٹر کاخ جو جرمنی کے مشہور پیتھالوجسٹ ہیں انہوں نے Institute Postwar میں جب کام شروع کیا تو انہیں چونکہ اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا شوق تھا اس لئے خیال آیا کہ حدیث میں جو آتا ہے کہ کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو مٹی سے ملنا چاہئے اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی- محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( دانا آدمی تھے انہوں نے ضرور اچھی بات کہی ہوگی- پس انہوں نے تحقیقات شروع کی تو معلوم کیا کہ مٹی کے اندر ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو Rabies )کتے کا زہر( کیلئے مفید ہیں اور اس کے مصلح ہیں گویا ان کو حدیث نے اس طرف توجہ دلائی<-
آخر میں حضور نے طلباء کو نصیحت کی کہ وہ اسلام کا خود مطالعہ کریں- قرآن ہاتھ میں لیں اور اس پر غور کریں انہیں خود یقین آ جائے گا کہ سائنس اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تعلیم کو سچا ثابت کرتی ہے-
)۱۸( فسادات لاہور پر تبصرہ
مئی ۱۹۲۷ء میں ایک دن جب کہ مسلمان لاہور کی ایک مسجد میں نماز پڑھ کر باہر نکلے تو بلا اشتعال بعض ہندوئوں اور سکھوں نے انہیں قتل کر دیا- نتیجہ دونوں قوموں میں فساد شروع ہو گیا- اس موقعہ پر حضور نے یہ اشتہار لکھا جو لاہور میں کثرت سے تقسیم کیا گیا- حضور نے دونوں فریق کو جذبات پر قابو پانے کی اور فساد سے بچنے کی تلقین کی- نیز مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا-:
>ہمیں اپنا بدلہ اس تعلیم سے اور اس تعصب سے لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں یہ واقعات ظاہر ہو رہے ہیں- اور ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہندوستان کے ہر گھر میں اسلامی تعلیم کو قائم کر دیں تا نہ یہ اختلاف مذاہب رہے اور نہ یہ خونریزیاں ہوں- ان تمام فسادات کا علاج صرف تبلیغ اسلام ہے<-
)۱۹( آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں
ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دن بدن کمزور ہو رہی تھی- ان کے معاشی اور تمدنی حالات روبہ تنزل تھے- تجارت اور صنعت و حرفت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی- ہر شعبہ زندگی میں وہ ناکام ہو رہے تھے اور ہندو ترقی پر ترقی کر رہے تھے- ہندوئوں نے معاشی` تمدنی اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے بعد اب مسلمانوں کے مذہب پر بھی دست درازی شروع کر دی- شدھی اور سنگھٹن کی تحریک جاری کر کے ہندو لیڈروں نے صاف اعلان کر دیا کہ ہندوستان میں ہندو ہی رہ سکتے ہیں مسلمان ہندو ہو جائیں یا ملک چھوڑ جائیں- ان کٹھن حالات میں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے حضور نے مسلمانوں کو بیدار کرنا ضروری سمجھا- اس غرض کے لئے آپ نے >صیغہ ترقی اسلام قادیان< قائم کیا- محترم چوہدری فتح محمد سیال صاحب اس کے سیکرٹری تھے- مسلمانوں کی فلاح و بہود کیلئے حضور نے بتیس نکات پر مشتمل ایک سکیم تیار کی جو ۱۷ اور ۲۴ مئی ۱۹۲۷ء کے الفضل میں شائع ہوئی- اس سکیم کی روشنی میں مسلمانوں سے رابطہ رکھنا اور ان کی راہنمائی کرنا اس صیغہ کا کام تھا- مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا-:
>وقت نازک ہے اور حالات دم بدم بدل رہے ہیں- ایک ایک منٹ کی دیر خطرناک ہے- آپ سوچ لیں کہ کیا آپ سپین کی طرح اسلام اور مسلمانوں کا نام ہندوستان سے مٹ جانے پر راضی ہیں- اگر نہیں تو پھر اس جدوجہد کیلئے تیار ہو جائیں<-
)۲۰( اسلام کی آواز
ہندوئوں کی تحریک شدھی کے مقابلہ کے سلسلہ میں ہی یہ پمفلٹ حضور نے ۵ مئی ۱۹۲۷ء کو لکھ کر شائع کیا- فرمایا کہ مسلمانوں کو صرف اس صورت میں امن نصیب ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں کی تربیت کریں اور انہیں مرتد ہونے سے بچائیں نیز دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں- اس سلسلہ میں لٹریچر صیغہ ترقی اسلام قادیان سے حاصل کریں-
)۲۱( رسول کریم ~صل۲~ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے
ایک ہندو دیوی شرن شرما نے رسالہ ورتمان امرتسر میں رسول کریم ~صل۲~ کے بارہ میں ایک لغو اور انتہائی ہتک آمیز مضمون لکھا- ۲۹ مئی ۱۹۲۷ء کو حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کو اس مضمون کے بارہ میں مطلع کر کے نصیحت فرمائی کہ اگر وہ اب بھی بیدار نہ ہوئے تو یہاں بھی سپین کے سے حالات پیدا ہو جائیں گے- انہیں وقتی جوش دکھانے کی بجائے بیدار مغز ہو کر مستقل عمل اور قربانی سے ہندوئوں کا مقابلہ کرنا چاہئے- اس کے لئے ضروری ہے کہ اول وہ اپنی اصلاح کریں اور دین کے سلسلہ میں بے پرواہی چھوڑ دیں- دوم پوری دلچسپی سے اسلام کی تبلیغ کریں- سوم- مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کریں- تب ہی وہ کامیاب ہو سکتے ہیں-
)۲۲( رسول کریم ~صل۲~ کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض
۱۹۲۷ء میں ایک دریدہ دہن شخص راجپال نے ایک کتابچہ بنام >رنگیلا رسول< شائع کیا جس میں رسول کریم ~صل۲~ کی سیرت پر ناپاک حملے کئے گئے- اس سے مسلمانوں کو شدید ذہنی اور روحانی اذیت پہنچی- حکومت کی طرف سے مصنف پر مقدمہ چلایا گیا- ابتدائی عدالت سے اسے کچھ قید کی سزا ہوئی جو اپیل میں بھی قائم رہی لیکن ہائی کورٹ میں نگرانی کی درخواست پر جج کنور دلیپ سنگھ نے قرار دیا کہ نبی اکرم ~صل۲~ کی توہین قانون کی زد میں نہیں آتی اور ملزم کو بری کر دیا- ان دنوں لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ >مسلم آئوٹ لک< میں ایک اداریہ شائع ہوا جس میں جج کے فیصلہ پر تنقید کی گئی- اس پر اخبار کے مالک مولوی نور الحق صاحب اور پرنٹر سید دلاور شاہ صاحب )احمدی( کے نام توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا- سماعت کے بعد انہیں چھ ماہ قید اور جرمانہ کی سزا ہوئی- حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا یہ مضمون )تحریر فرمودہ ۲۳ جون ۱۹۲۷ء( اس واقعہ کے متعلق ہے- حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے اس سزا کو نا درست قرار دیا کیونکہ مسلم آئوٹ لک کا اداریہ جائز تنقید سے تجاوز نہ تھا-
حضور نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وقتی جوش سے کام نہیں چلتے- استقلال کے ساتھ کام کر کے ہی مسلمان موجودہ حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں- آپ نے فرمایا ایک تو تبلیغ کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے تا کہ ہماری تعداد بڑھے- دوسرے جس طرح ہندو ہم سے چھوت چھات کرتے ہیں ہمیں بھی ان سے یہی سلوک کرنا چاہئے اور ان کی دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں خریدنی چاہئیں- بلکہ خود ایسی دکانیں بنائیں تا کہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو سکے- تیسری بات اپنے سیاسی حقوق کا مطالبہ اور ان کا حصول ہے- اس کے لئے بھی پوری کوشش کی ضرورت ہے- تب ہی مسلمان ترقی کر سکتے ہیں-
)۲۳( مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال
قادیان کے کچھ سکھ صاحبان حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب )سابق مہر سنگھ( کی کتاب >گورو نانک صاحب کا مذہب< میں ان کے پیشوائوں پر حملہ کیا گیا ہے- اس پر حضور نے صیغہ تالیف و تصنیف سے رپورٹ طلب فرمائی- رپورٹ پڑھ کر حضور اس نتیجہ پر پہنچے کہ گو یہ کتاب قانون کی زد میں نہیں آتی مگر سکھوں کا دل دکھانے کیلئے کافی ہے- اس پر حضور نے اس کتاب کو ضبط کر کے بے نظیر رواداری کی مثال قائم کی- آپ نے مورخہ ۷ جولائی ۱۹۲۷ء کو >مذہبی رواداری کی بے نظیر مثال< کے عنوان پر ایک مضمون تحریر فرمایا آپ فرماتے ہیں-:
>میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ سلسلہ کے نام پر میں اس کتاب کو ضبط کرتا ہوں آئندہ کسی سلسلہ کے اخبار میں اس کا اشتہار نہ چھپے کوئی احمدی اسے نہ خریدے اور جو خرید چکے ہیں وہ فوراً اس کتاب کو تلف کر دیں اور جب تک اس کتاب کے سخت الفاظ بدل کر مہذب طریق سے مضمون کو پیش نہ کیا جائے` اس کتاب کی بندش رہے<-
)۲۴( کیا آپ اسلام کی زندگی چاہتے ہیں
راجپال کی کتاب >رنگیلا رسول< اور اس کے بعد کے واقعات کی وجہ سے ہندوستان میں جو حالات پیدا ہو گئے تھے حضور ان کے بارہ میں متواتر مسلمانوں کی راہنمائی فرماتے رہے- یہ اور اس کے بعد آنے والے چند مضامین آپ نے اسی سلسلہ میں تحریر فرمائے- مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں-
>پس اے مسلمانو! اپنے حال پر غور کرو اور اپنے مشکلات پر نظر ڈالو- ایک دن وہ تھا کہ خدا کی نصرت تم کو کرہ ارض کے کناروں تک لے جا رہی تھی اور آج تم دوسری قوموں کا فٹ بال بن رہے ہو- جس کا جی چاہتا ہے پیر مار کر تمہیں کہیں کا کہیں پھینک دیتا ہے<-
پھر فرمایا کہ بغیر عقل اور تدبیر سے کام لینے کے مسلمانوں کی موجودہ مشکلات دور نہیں ہو سکتیں- جوش کی بجائے ہمیں ہوش سے کام لے کر اپنے قیدیوں کو چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے- ہمارا فرض ہے کہ عدالت کے فیصلہ کو جلد بدلوائیں نیز قانون کی اصلاح کروائیں تا کہ آئندہ ایسے مجرم بری نہ کئے جا سکیں-
)۲۵( اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ کس امر میں ہے
۱۷ جولائی ۱۹۲۷ء کو حضور نے یہ مضمون تحریر فرمایا جس میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ سب متحد ہو کر اپنے مشترکہ کام کریں اور اختلافات میں اپنی طاقت کو ضائع نہ کریں- اس وقت ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہندوئوں نے کی ہے اس لئے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ گورنمنٹ کا- گورنمنٹ تو ہماری مدد کے لئے کھڑی ہے اس لئے ہمیں اس سے تعاون کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہئے- فرمایا-:
>پس اے دوستو یہ کام کا وقت ہے` جیل خانہ میں جانے کا وقت نہیں ہے- اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اس وقت بیداری پیدا کر دی ہے- اس بیداری سے فائدہ حاصل کرو` یہ دن روز نصیب نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جلد سے جلد اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبودی کے کاموں میں لگ جائو<-
)۲۶( اسلام کے غلبہ کیلئے ہماری جدوجہد
کچھ عرصہ قبل حضور نے یہ تحریک فرمائی کہ مسلمانوں کو بیدار کرنے کیلئے ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو ملک بھر میں جلسے کئے جائیں- یہ مضمون حضور نے اس غرض کیلئے تحریر فرمایا کہ ان جلسوں میں مسلمانوں کو سنایا جائے تا کہ ان میں بیداری پیدا ہو اور وہ ترقی کے راستوں پر گامزن ہوں- فرمایا کہ ہندو مسلمانوں کو اس ملک میں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں- ان کے مقابلہ کیلئے ضروری ہے کہ پورے جوش اور مستقل ارادہ کے ساتھ تبلیغ اور اتحاد باہمی کی تحریکات کو جاری رکھا جائے- اس کام کے لئے ہر شہر` قصبہ اور گائوں میں کمیٹیاں بنائی جائیں جن میں ہر فرقہ کے آدمی شامل ہوں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تا کہ متحد ہو کر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کام ہو سکیں-
)۲۷( سرحد سے ہندوئوں کا اخراج
صوبہ سرحد کے متعلق اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ راجپال کی کتاب اور ورتمان کی تحریرات کی وجہ سے وہاں کے خوانین نے ان ہندوئوں کو جو سرحد پر تجارت کرتے ہیں اس علاقہ سے نکل جانے کا حکم دیا ہے- اس پر اخبار ملاپ کے ایڈیٹر نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا- حضور نے اس کے جواب میں ۲۸ جولائی ۱۹۲۷ء کو یہ مضمون تحریر فرمایا کہ ہم ان ہندوئوں کی حفاظت کے سلسلہ میں پوری کوشش کر رہے ہیں- حضور نے سرحد کے خوانین سے اپیل کی کہ وہ ہندوئوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا ایک اور موقع فراہم نہ کریں- ہاں مسلمانوں کی ترقی کیلئے ٹھوس کام کریں- نیز آپ نے تحریر فرمایا کہ ہندوئوں کو بھی چاہئے کہ وہ اشتعال انگیزی سے کام نہ لیں بلکہ حالات کو پرسکون بنانے میں گورنمنٹ کی مدد کریں-
)۲۸( موجودہ بے چینی کے چند شاخسانے
راجپال کی دل آزار کتاب کے متعلق مسلمانوں میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ قدرتی تھی- پھر اس کے ساتھ چند ضمنی امور بھی پیدا ہو گئے- سر جیفرے مانٹ مورنسی وزیر مال نے چوہدری افضل حق صاحب کی تقریر کے بارہ میں کچھ طنزیہ ریمارکس دئے- اس پر ان کے حامیوں میں سخت جوش پیدا ہو گیا- اس موقع پر حضور نے یہ مضمون لکھ کر حالات کو پر سکون بنانے کی تلقین کی- فرمایا-:
>میرے نزدیک اس قضیہ نامرضیہ میں دونوں فریق کی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی تحریر و تقریر میں اخلاق کے قوانین کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے<-
‏]26 )[p۲۹( فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض
ہندو رسالہ >ورتمان< میں ایک مضمون >سیر دوزخ< کے عنوان سے چھپا جو حضرت رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک عزت پر مشتمل تھا- مسلمانوں کے احتجاج پر ایڈیٹر رسالہ اور مضمون نگار پر مقدمہ چلا اور عدالت سے انہیں سزا ہوئی- اس موقع پر ۱۰-اگست ۱۹۲۷ء کو حضور نے مسلمانوں کی راہنمائی کیلئے یہ مضمون تحریر فرمایا- آپ نے لکھا کہ بعض لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن میرا دل غمگین ہے-
>کیونکہ میں اپنے آقا اپنے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ~صل۲~ کی ہتک عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانہ کو نہیں قرار دیتا- میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ~صل۲~ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے` ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے- کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جلا دینے کے لئے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لئے وہ لوگوں کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے اور وہ زمین کو آباد کرنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ویران کرنے کے لئے<-
حضور نے فرمایا کہ مسلمانوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ تبلیغ کر کے سب لوگوں کو مسلمان بنا لیں تا کہ ہمارے پیارے رسول ~صل۲~ کو گالی دینے والا کوئی باقی ہی نہ رہے بلکہ سب آپ پر درود بھیجنے والے بن جائیں-
آپ نے تحریر فرمایا کہ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ گورنمنٹ موجودہ قانون کے نقائص دور کر دے تا کہ آئندہ کسی کو ایسی جرات نہ ہو-
)۳۰( ہندو مسلم اتحاد کے متعلق تجاویز
۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو شملہ میں تمام فرقوں کے راہنمائوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تا کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو دور کرنے اور باہمی اتحاد قائم کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کیا جائے اور ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جس سے امن قائم ہو سکے- اس تقریب میں حضور نے اختصار کے ساتھ بیس امور پیش فرمائے جو باہمی اتحاد اور امن کے لئے نہایت مفید ہو سکتے تھے- یہ مضمون انہی امور پر مشتمل ہے- حضور نے یہ مضمون یکم ستمبر ۱۹۲۷ء کو تحریر فرمایا-
………
 
Top