• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 12

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 12

‏a12.1
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
تحریک آزادی کشمیر

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

‏jmc-nsk] g[taاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ریاست کشمیر و جموں میں مسلمانوں کی حالت
)تحریر فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۲ جون ۱۹۳۱ء(
میں متواتر کئی سال سے کشمیر میں مسلمانوں کی جو حالت ہو رہی ہے اس کا مطالعہ کر رہا ہوں اور لمبے مطالعہ اور غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ جب تک مسلمان ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار نہ ہوں گے یہ زرخیز خطہ جو نہ صرف زمین کے لحاظ سے زرخیز ہے بلکہ دماغی قابلیتوں کے لحاظ سے بھی حیرت انگیز ہے‘ کبھی بھی مسلمانوں کیلئے فائدہ بخش تو کیا آرام دہ ثابت نہیں ہو سکتا-
زمینداروں میں بیداری کی روح
میں ۱۹۲۹ء میں جب کشمیر گیا تو مجھے یہ بات معلوم کر کے نہایت ہی خوشی ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک عام بیداری پائی جاتی تھی- حتی کہ کشمیری زمیندار جو کہ لمبے عرصہ سے ظلموں کا تختہ مشق ہونے کی وجہ سے اپنی خود داری کی روح بھی کھو چکے تھے ان میں بھی زندگی کی روح داخل ہوتی ہوئی معلوم دیتی تھی- اتفاق حسنہ سے زمینداروں کی طرف سے جو جدوجہد کی جا رہی تھی اس کے لیڈر ایک احمدی زمیندار تھے- زمینداروں کی حالت کے درست کرنے کے لئے جو کچھ وہ کوشش کر رہے تھے اس کی وجہ سے ریاست انہیں طرح طرح سے دق کر رہی تھی- وہ ایک نہایت ہی شریف آدمی ہیں‘ معزز زمیندار ہیں‘ اچھے تاجر ہیں اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی اپنے علاقہ میں معزز چلا آیا ہے اور وہ بھی اپنی گزشتہ عمر میں نہایت ہی معزز اور شریف سمجھے جاتے رہے ہیں لیکن محض کسانوں کی حمایت کی وجہ سے ان کا نام بدمعاشوں میں لکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی- جب مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم- اے کو اس بارہ میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ریاست جموں و کشمیر سے ملاقات کے لئے بھیجا- گفتگو کے بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ جائز کوشش بے شک کریں لیکن زمینداروں کو اس طرح نہ اکسائیں جس سے شورش پیدا ہو اور اس کے مقابلہ میں وہ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو جو ناجائز تکلیفیں پولیس کی طرف سے پہنچ رہی ہیں وہ ان کا ازالہ کر دیں گے- اور اسی طرح یہ یقین دلایا کہ جو جائز تکالیف کسانوں کو ہیں ان کا ازالہ کرنے کے لئے ریاست تیار ہے- ہم نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ وعدے اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتے ہیں ان صاحب کو جو اس وقت کسانوں کی رہنمائی کر رہے تھے یہ یقین دلایا کہ ان کی جائز شکایات پر ریاست غور کرے گی اس لئے وہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے شورش اور فتنہ کا خوف ہو- لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداروں کی جائز شکایات کا دور ہونا تو الگ رہا برابر دو سال سے ان صاحب کے خلاف ریاست کے حکام کوششیں کر رہے ہیں اور باوجود مقامی حکام کے لکھنے کے کہ وہ صاحب نہایت ہی شریف انسان ہیں‘ ان کا نام بدمعاشوں میں درج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے- یہ معاملہ مسٹر ویک فیلڈ WAKEFIELD)۔(MR کے سامنے بھی لایا جا چکا ہے لیکن افسوس ہے وہ بھی اس طرف توجہ نہیں کر سکے-
مسٹر ویک فیلڈ کا تازہ وعدہ
اس تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ تازہ خبر جو >انقلاب< مورخہ ۱۲- جون کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے کہ مسٹر ویکفیلڈ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی تکالیف کو مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں گے اور ان کے دور کرنے کی کوشش کریں گے اس پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا-
مسٹر ویک فیلڈ کی شخصیت
وہ لوگ جن کو مسٹر ویک فیلڈ سے ملنے کا موقع حاصل ہوا ہے یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں نہایت اچھے آدمی ہیں اور جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہیں لیکن مسٹر ویک فیلڈ بہرحال ایک ہندو ریاست کے ملازم ہیں اور ریاست بھی وہ جس میں آج سے ساٹھ‘ ستر سال پہلے یہ سکیم بنائی گئی تھی کہ کس طرح مسلمانوں کو شدھ کر کے ہندو بنا لیا جائے- ہم سب کو اس بات کی امید تھی کہ سر ہری سنگھ بہادر مہاراجہ کشمیر کے گدی نشین ہونے پر ریاست کی حالت اچھی ہو جائے گی لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے بدتر ہو گئی ہے- نہ اس لئے کہ مہاراجہ ہری سنگھ بہادر اپنے پیش رو سے زیادہ متعصب ہیں کیونکہ واقعہ اس کے خلاف ہے- بلکہ اس وجہ سے کہ ریاست میں ایک ایسا عنصر اس وقت غالب ہو رہا ہے جو نہایت ہی متعصب ہے اور آریہ راج کے قائم کرنے کے خیالی پلائو پکا رہا ہے- یہ عنصر چونکہ مہاراجہ صاحب بہادر کے گردوپیش رہتا ہے اور ریاست کی بدقسمتی سے اس وقت ریاست کے سیاہ و سفید کا مالک بن رہا ہے اس لئے مہاراجہ صاحب بہادر جموں و کشمیر بھی یا تو اس عنصر کے بڑھے ہوئے نفوذ سے خوف کھا کر یا بوجہ ناواقفیت کے ان کی پالیسی کو نہ سمجھتے ہوئے کسی مخالف آواز کے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں- ہر ایک شخص اس بات کو جانتا ہے کہ مسٹر ویک فیلڈ چند سال پہلے ریاست میں سب سے بڑی طاقت سمجھے جاتے تھے لیکن یہ امر بھی ہر شخص کو معلوم ہے کہ مسٹر ویک فیلڈ کی اب وہ حالت نہیں ہے- کشمیر میں مسلمانوں کو حقوق دینے کے متعلق جو تجاویز تھیں ان کا جو حشر ہوا‘ اس سے مسٹر ویک فیلڈ کی طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے- پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک مسٹر ویک فیلڈ کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہوئے خواہ ہم ان کی نیت کو کتنا ہی صحیح سمجھیں ہمیں اپنی کوششوں کو ترک نہیں کرنا چاہئے-
تمام مسلمانوں کا فرض
کشمیر ایک ایسا ملک ہے جسے صنعت و حرفت کا مرکز بنایا جا سکتا ہے- اس ملک کے مسلمانوں کو ترقی دے کر ہم اپنی صنعتی اور حرفتی پستی کو دور کر سکتے ہیں- اس کی آب و ہوا ان شدید تغیرات سے محفوظ ہونے کی وجہ سے جو پنجاب میں پائے جاتے ہیں‘ بارہ مہینے کام کے قابل ہے- ہندوستان کی انڈسٹریل ترقی میں اس کا موسم بہت حد تک روک ہے لیکن کشمیر اس روک سے آزاد ہے اور پھر وہ ایک وسیع میدان ہے جس میں عظیم الشان کارخانوں کے قائم کرنے کی پوری گنجائش ہے- پس تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کو اس تباہی سے بچانے کی کوشش کریں جس کے سامان بعض لوگ پوری طاقت سے پیدا کر رہے ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اخبارات جیسے >انقلاب‘< >مسلم آئوٹ لک‘< >سیاست< اور >سن رائز< اور اسی طرح نیا اخبار >کشمیری مسلمان< جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں بہت کچھ حصہ لے رہے ہیں- لیکن خالی اخبارات کی کوششیں ایسے معاملات کو پوری طرح کامیاب نہیں کر سکتیں- ضرورت ہے کہ ریاست کشمیر کو اور گورنمنٹ کو پوری طرح اس بات کا یقین دلا دیا جائے کہ اس معاملہ میں سارے کے سارے مسلمان خواہ وہ بڑے ہوں یا کہ چھوٹے ہوں کشمیر کے مسلمانوں کی تائید اور حمایت پر ہیں اور ان مظالم کو جو وہاں کے مسلمانوں پر جائز رکھے جاتے ہیں کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں- جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریاست پر اور گورنمنٹ پر زور ڈالنے کے سامان مفقود نہیں ہیں‘ ہم دونوں طرف زور ڈال سکتے ہیں- ضرورت صرف متحدہ کوشش اور عملی جدوجہد کی ہے-
مسلمانوں کے مطالبات
میں نے ان مطالبات کو جو مسلمانان کشمیر کی طرف سے مسٹرویکفیلڈ کے پیش ہوئے ہیں دیکھا ہے- میرے نزدیک وہ نہایت ہی معقول اور قلیل ترین مطالبات ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان میں اس مطالبہ کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے علاقہ میں انجمنیں قائم کرنے پر جو روک پیدا کی جاتی ہے اس کو بھی دور کیا جائے- جہاں تک مجھے علم ہے یہی پونچھ کے علاقہ میں بھی روک ہوتی ہے اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے- یعنی جس طرح تحریر و تقریر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا ہے اسی طرح اجتماع کی مکمل آزادی کا بھی مطالبہ کیا جائے- اور میرے نزدیک علاقہ کشمیر کے مسلمانوں کے زمیندارہ حقوق جو ہیں ان پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی ہونا چاہئے- کشمیر کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ زمیندار ہے لیکن وہ لوگ ایسے قیود میں جکڑے ہوئے ہیں کہ سر اٹھانا ان کے لئے ناممکن ہے- عام طور پر کشمیر کے علاقہ میں کسی نہ کسی بڑے زمیندار کے قبضہ میں جائدادیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دو چار مسلمان زمیندار بھی ہیں- لیکن دو چار مسلمانوں کی وجہ سے کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو غلام نہیں بنے رہنے دینا چاہئے-
‏0] f[st مسٹر ویک فیلڈ کے وعدوں کے نیچے خطرہ کا احتمال
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں کشمیر و جموں کے مسلمانوں کی آزادی کا سوال حل کرنا مطلوب ہے تو اس کا وقت اس سے بہتر اور نہیں ہو سکتا- ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نتیجہ میں قدرتی طور پر انگلستان اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے ریاستوں کو آئندہ بہت زیادہ آزادی دینے پر آمادہ ہے- اگر اس وقت کے آنے سے پہلے جموں اور کشمیر کے مسلمان آزاد نہ ہو گئے تو وہ بیرونی دبائو جو جموں اور کشمیر ریاست پر آج ڈال سکتے ہیں کل نہیں ڈال سکیں گے- پس میرے نزدیک اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک کانفرنس جلد سے جلد لاہور یا سیالکوٹ یا راولپنڈی میں منعقد کی جائے- اس کانفرنس میں جموں اور کشمیر سے بھی نمائندے بلوائے جائیں اور پنجاب اور اگر ہو سکے تو ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمان لیڈروں کو بھی بلایا جائے- اس کانفرنس میں ہمیں پورے طور پر جموں اور کشمیر کے نمائندوں سے حالات سن کر آئندہ کے لئے ایک طریق عمل تجویز کر لینا چاہئے- اور پھر ایک طرف حکومت ہند پر زور ڈالنا چاہئے کہ وہ کشمیر کی ریاست کو مجبور کرے کہ مسلمانوں کو حقوق دیئے جائیں- دوسری طرف مہاراجہ صاحب کشمیر و جموں کے سامنے پورے طور پر معاملہ کو کھول کر رکھ دینے کی کوشش کی جائے تا کہ جس حد تک ان کو غلط فہمی میں رکھا گیا ہے وہ غلط فہمی دور ہو جائے- اور اگر ان دونوں کوششوں سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ جن کے نتیجہ میں مسلمانان جموں و کشمیر وہ آزادی حاصل کر سکیں جو دوسرے علاقہ کے لوگوں کو حاصل ہے- چونکہ ریاست ہندو ہے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ ہم اپنے حقوق میں سے کچھ حصہ رئیس کے خاندان کے لئے چھوڑ دیں لیکن یہ کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ۹۵ فیصدی آبادی کو پانچ فیصدی بلکہ اس سے بھی کم حق دے کر خاموش کرا دیا جائے- میرے خیال میں کشمیری کانفرنس نے جو کچھ کام اس وقت تک کیا ہے وہ قابل قدر ہے لیکن یہ سوال اس قسم کا نہیں کہ جس کو باقی مسلمان کشمیریوں کا سوال کہہ کر چھوڑ دیں- مسلمانان جموں و کشمیر کو اگر ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو اس کا اثر صرف کشمیریوں پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ سارے مسلمانوں پر پڑے گا اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے مسلمان تماشائی کے طور پر اس جنگ کو دیکھتے رہیں- میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کی دعوت کشمیریکانفرنس کی طرف سے جاری ہونی چاہئے لیکن دعوت صرف کشمیریوں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ تمام مسلمانوں کو جو کوئی بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ اس مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دینی چاہئے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر متحدہ کوشش کی جائے تو اس سوال کو جلد سے جلد حل نہ کیا جا سکے- )الفضل ۱۶- جون ۱۹۳۱ء(
معاملات کشمیر کے حل کے متعلق جلسہ شوری
)تحریر فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی(
ابھی ابھی میری نظر سے اخبار >سیاست< کا مضمون >کشمیر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز< گزرا ہے- میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ مضمون خود عملہ سیاست کی طرف سے ہے یا کسی نامہ نگار کی طرف سے کیونکہ نیچے کسی کا نام نہیں ہے مگر بہرحال مجھے خوشی ہے کہ اہل کشمیر کی توجہ کام کی طرف پھر رہی ہے- مجھے مکرمی خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کا بھی ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے سیالکوٹ کو جلسہ شوریٰ کے لئے پسند فرمایا ہے اور ہر طرح امداد کرنے کا وعدہ کیا ہے- میں نے انہیں جوابا یہی تحریر کیا ہے کہ اب اس تجویز کی اشاعت کے بعد پہلا حق کشمیری کانفرنس کا ہے کہ وہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دعوت نامہ شائع کرے اور مقام اجتماع کا اعلان کرے- لیکن اگر مصلحت کی وجہ سے وہ اس کام کو ہاتھ میں نہ لینا چاہے تو پھر ہم لوگوں میں سے کوئی اس کا محرک ہو سکتا ہے-
کشمیری کانفرنس متوجہ ہو
اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ کشمیری کانفرنس کے سیکرٹریصاحب کو اس کام کے لئے کھڑا ہونا چاہئے- مجھے اچھی طرح معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب ہیں- مگر میں امید کرتا ہوں کہ کام کو سہولت سے چلانے کے لئے وہی اس مجلس کے انعقاد کی کوشش کریں گے کیونکہ ہر کام کے لئے بلا ضرورت و مصلحت الگ الگ انجمنوں کا بنانا تفرقہ اور انشقاق پیدا کرتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے وہ اس کام کو کرنا پسند نہ فرماتے ہوں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اخبار کے ذریعہ سے اس کی اطلاع کر دیں تا کہ کوئی دوسرا انتظام کیا جائے-
>سیاست< کے مضمون نگار صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ کشمیر کے نمائندوں کا طلب کرنا ناممکن ہوگا لیکن میرے نزدیک یہ ناممکن نہیں مجھے جو اطلاعات کشمیر سے آ رہی ہیں‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں سینکڑوں آدمی اس امر کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں کہ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے مسلمانوں کو اس ذلت سے بچائیں جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں اور کشمیر والوں نے ایک انجمن سات آدمیوں کی ایسی بنائی ہے جس کے ہاتھ میں سب کام دے دیا گیا ہے- ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنے میں سے کسی کو یا اپنے حلقہ سے باہر سے کسی شخص کو نمائندہ مقرر کر کے بھیج دے- اسی طرح گائوں کے علاقوں سے بھی نمائندے بلوائے جا سکتے ہیں- اگر ریاست کشمیر کی طرف سے روک کا احتمال ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان نمائندوں کا علم بھی کسی کو نہ دیا جائے- لیکن اگر بفرض محال ہم کشمیر سے نمائندے طلب نہ بھی کر سکیں تو پھر ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ایک دو معتبر آدمیوں کو اپنی طرف سے کشمیر بھجوا دیں- وہ بہت معروف نہ ہوں اور نہ ان کے نام شائع کئے جائیں- کشمیر پہنچ کر وہ کشمیر کی انجمن اور دوسرے علاقوں کے سربرآوردہ لوگوں سے مشورہ کر کے ان کے خیالات کو نوٹ کر کے لے آئیں اور کانفرنس میں ان سے فائدہ اٹھا لیا جائے-
کانفرنس کی ہیئت ترکیبی
بہرحال کشمیر کے حقیقی مطالبات کا علم ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ مختلف علاقوں میں مختلف طور سے ظلم ہو رہا ہے اور ہم دور بیٹھے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے- لیکن باوجود اس کے میرا یہ مطلب نہیں کہ اگر کشمیر کے نمائندے نہ آ سکیں تو ہم کوئی کام ہی نہ کریں- اگر ان سب تجاویز میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو تو بھی ہمیں کانفرنس کرنی چاہئے- جو باشندگان کشمیر‘ کشمیر سے باہر ہیں وہ کم کشمیری نہیں ہیں- ہم ان کی مدد سے جس حد تک مکمل ہو سکے‘ اپنی سکیم تیار کر سکتے ہیں-
یہ ضروری ہے کہ یہ کانفرنس تمام فرقوں اور تمام اقوام کی نمائندہ کانفرنس ہو تا کہ متفقہ کوشش سے کشمیر کے سوال کو حل کیا جائے- اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس غرض کے لئے ان مسلمانوں کو بھی ضرور دعوت دینی چاہئے جو کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ لوگ اس کام میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے رہیں گے-
پبلسٹی کمیٹی کی ضرورت
>سیاست< کے مضمون نگار صاحب نے ایک پبلسٹی کمیٹی کشمیر کے قیام کی بھی تجویز کی ہے‘ میں اس سے بالکل متفق ہوں- اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں میں کشمیر کے دوستوں کو پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لئے ہندوستان اور اس کے باہر بھی پروپیگنڈا کی ضرورت ہوگی- اور میں اس کام میں سے یہ حصہ اپنے ذمہ لیتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے ممبروں اور گورنمنٹ ہند کو کشمیر کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرتا رہوں اور کشمیر کے حالات کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرواتا رہوں- اس کے جواب میں مجھے یہ اطلاع بھی آ گئی ہے کہ وہاں بعض دوست ایسے حالات جمع کرنے میں مشغول ہیں جن سے ان مظالم کی نوعیت ظاہر ہو گی جو اس وقت کشمیر کے مسلمانوں پر روا رکھے جاتے ہیں- اس فہرست کے آتے ہی میں ایک اشتہار میں ان کا مناسب حصہ درج کر کے پارلیمنٹ کے ممبروں میں اور دوسرے سربرآوردہ لوگوں میں تقسیم کرائوں گا اور گورنمنٹ ہند کو بھی توجہ دلائوں گا-
غلاموں کو آزاد کرائو
اس وقت غلامی کے خلاف سخت شور ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کی لاکھوں کی آبادی بلا قصور غلام بنا کر رکھی جائے- آخر غلام اسی کو کہتے ہیں جسے روپیہ کے بدلے میں فروخت کر دیا جائے- اور کیا یہ حق نہیں کہ کشمیر کو روپیہ کے بدلے میں حکومت ہند نے فروخت کر دیا تھا- پھر کیا ہمارا یہ مطالبہ درست نہیں کہ جب کہ انگریز عرب اور افریقہ کے غلاموں کے آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ ان غلاموں کو بھی آزاد کرائیں جن کی غلامی کا موجب وہ خود ہوئے ہیں- میں سمجھتا ہوں ہر ایک دیانتدار آدمی اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہوگا- بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ خود مہاراجہ سر ہری سنگھ صاحب بھی اگر ان کے سامنے سب حالات رکھے جائیں تو اس ظلم کی جو ان کے نام سے کیا جا رہا ہے‘ اجازت نہ دیں گے اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دے کر اس فیڈریشن کے اصل کو مضبوط کریں گے جس کی وہ تائید کر رہے ہیں- ورنہ کشمیر جیسے غلام ملک اور آزاد ہندوستان میں فیڈریشن کیسی؟ مہاراجہ صاحب خواہ کس قدر عقلمند ہوں وہ یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہم باشندگانہندوستان اس امر کو پسند کریں گے کہ مہاراجہ صاحب خود ہی چار پانچ ممبر اپنی طرف سے مقرر کر کے بھجوا دیں اور ہم لوگ ان کی رائے کو اہل کشمیر کی رائے قرار دے کر اس کو وہی عظمت دیں جو کئی لاکھ آبادی والے ملک کے نمائندوں کی رائے کو حاصل ہونا چاہئے-
)الفضل ۲- جولائی ۱۹۳۱ء(
مسلمانان جموں و کشمیر کی حالت اور
مسلمانوں کا فرض
اس سے پہلے میں دو مضامین میں اس مسئلہ کی طرف مسلمانوں کی توجہ کو پھیر چکا ہوں لیکن جہاں تک میرا خیال ہے اب تک اس مسئلہ کی اہمیت اور اس کی باریکی کو مسلمان نہیں سمجھے- یہ تو شکر کا مقام ہے کہ عام طور پر مسلمانوں میں کشمیر کے مسلمانوں کی حالت کی طرف توجہ پیدا ہو گئی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑ دینا چاہئے اور سب مسلمانوں کو آزادی کی جدوجہد میں برادران کشمیر کی امداد کرنی چاہئے لیکن ابھی تک کوئی ایسا نظام قائم نہیں ہوا جس کے ماتحت کام کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلایا جا سکے-
یوم کشمیر منانے کی تحریک
پچھلے دنوں ایک تحریک پشاور سے کی گئی کہ دس جولائی کو یومکشمیر منایا جائے- دوسری تحریک کان پور سے کی گئی کہ اٹھائیس جولائی کو یوم کشمیر منایا جائے- اب ایک تیسری تحریک لاہور سے کی گئی ہے کہ ۲۴ تاریخ کو یوم کشمیر منایا جائے- اس قسم کے اختلاف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی کوئی تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکے گی اور ہر ایک تحریک کے محرکوں سے تعلق رکھنے والے الگ الگ دنوں میں جلسے کر کے اس حقیقی فائدہ سے جو مظاہروں میں مقصود ہوتا ہے‘ محروم رہ جائیں گے نیز آپس میں شقاق بھی پیدا ہوگا ہر ایک محرک کو یہ احساس ہوگا کہ چونکہ دوسروں نے میری بات نہیں مانی‘ اس لئے میں ان کی کیوں مانوں-
ایک اور بڑا بھاری نقص یہ ہوگا کہ چونکہ ابھی تک کام کا کوئی پروگرام مقرر نہیں ہوا- اس لئے سوائے جوش و خروش کے اور کوئی حقیقی فائدہ ان مظاہروں سے حاصل نہیں کیا جا سکے گا- اور انگریزی علاقہ میں جوش و خروش کا خالی مظاہرہ سینکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے ریاستی حکام پر کسی صورت میں اثر نہیں ڈال سکتا- میں نے تو اس مشکل کا حل یہ کیا کہ دس جولائی کو اپنی جماعت کا جلسہ کرا دیا تا کہ ہمارے پشاور کے دوستوں کی تحریک رائیگاں نہ جائے اور دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی بات کا احترام کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن چوبیس اور اٹھائیس جولائی کی تاریخوں کی مشکل ابھی سامنے ہے- میں نہیں سمجھتا کہ جب جمعیہ العلماء کانپور نے ۲۸- تاریخ مقرر کر دی تھی تو لاہور کی لوکل کمیٹی کو کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ وہ نئی تاریخ مقرر کرتی- اگر حقیقی مشکل ہمارے رستے میں ہو سکتی تھی تو یہ کہ تاریخ بہت قریب مقرر کی گئی- مگر حقیقت یہ ہے کہ کانپور کی تاریخ پہلے مقرر ہو چکی تھی اور پھر وہ لاہور کی مقررہ تاریخ سے چار دن پیچھے کی تھی- اب اگر یو- پی والے ۲۸ کو اور پنجاب والے ۲۴ کو جلسے کریں یا خود پنجاب میں بھی مختلف اوقات میں جلسے ہوں تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا-
نظام کار تجویز کیا جائے
ان حالات میں میں تمام ان ذمہ وار اشخاص کو جو یا تو نسلا کشمیری ہیں یا مسئلہ کشمیر سے ہمدردی رکھتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کام کے کرنے کے لئے ایک نظام تجویز کریں- کوئی لوکل کمیٹی خواہ کتنے ہی بااثر آدمیوں پر مشتمل ہو‘ اس کام کو نہیں کر سکتی جب تک ایک آل انڈیا کانفرنس مسلمانوں کی اس مسئلہ پر غور نہ کرے گی اور اس کے لئے ایک متفقہ پروگرام تجویز نہ کرے گی اس سوال کا حل ناممکن ہے-
ضروری باتیں
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ سوال براہ راست برطانوی ہند کے باشندوں سے تعلق نہیں رکھتا اور ہمارے یہاں کے مظاہرے ریاست کشمیر پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے-
دوسرے باشندگان کشمیر ابھی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور بوجہ اس کے کہ ان کو کسی قسم کی بھی آزادی حاصل نہیں‘ عوام الناس میں باقاعدہ جدوجہد کی بھی ہمت کم ہے-
تیسرے ریاستوں میں اس طرح کی آئینی حکومت نہیں ہوتی جس طرح کی حکومت برطانوی علاقہ میں ہے- نہ ان کا کوئی قانون مقرر ہے نہ ان کا کوئی ریکارڈ ہوتا ہے- وہ جس طرح چاہتی ہیں کرتی ہیں اور پھر اپنے منشاء کے مطابق اپنے فعل کی تشریح کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتی ہیں-
چوتھے حکومت ہند ریاستوں کے معاملہ میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر چکی ہے اور ان کی اس پالیسی کی تائید مسلمان بھی کر چکے ہیں- پس حکومت ہند پر اس معاملہ میں زور دینا کوئی معمولی کام نہیں ہوگا اور ہمیں نہایت غور کے بعد کوئی ایسی راہ تلاش کرنی پڑے گی کہ ہمارا اصول بھی نہ ٹوٹے اور ہمارا کام بھی ہو جائے-
پس ان حالات میں ہمیں اپنا پروگرام ایسی طرز پر بنانا ہوگا کہ کشمیر کے مسلمانوں کی ہمت بھی قائم رہے اور حکومت ہند پر بھی ہم زور دے سکیں اور کوئی ایسی بات بھی ہم سے صادر نہ ہو جس کا اثر ہمارے بعض دوسرے اصولوں پر جو مسئلہ کشمیر سے کم اہم نہیں ہیں پڑتا ہے اور ایسا پروگرام آل انڈیا کانفرنس کے بعد ہی مقرر کیا جا سکتا ہے-
ہندوستان بھر کے چوٹی کے لیڈروں کی کانفرنس کی ضرورت
میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض دوست یہ خیال کر رہے ہیں کہ محض ان شکایات کو پیش کر دینا اور کرتے رہنا جو جموں اور کشمیر کے مسلمانوں کو ریاست سے ہیں‘ ہمارے لئے کافی پروگرام ہے حالانکہ یہ درست نہیں- اس سوال میں بعض ایسی پیچیدگیاں ہیں کہ اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ان کو نہیں لا سکتے- اور میں ان مسلمانوں کو جو جوش تو رکھتے ہیں لیکن کسی نظام کے ماتحت کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں‘ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کافی غور و فکر کے بعد اور وسیع مشورہ کے بعد اس کا پروگرام تیار نہ کیا گیا تو آئندہ بعض ایسے سوالات پیدا ہو جائیں گے جن کا حل ان کے امکان سے باہر ہوگا- لیکن اس وقت پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا اور مسلمانوں کو بعض ایسے نقصانات پہنچ جائیں گے جن کا خیال کر کے بھی دل کو تکلیف ہوتی ہے- پس میں پھر ایک دفعہ ان ذمہ دار لیڈروں کو جو برطانوی ہند کی کشمیری برادری میں رسوخ رکھتے ہیں‘ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک نہایت محدود لیکن ہندوستان بھر کے چوٹی کے لیڈروں کی ایک کانفرنس کسی ایسے مقام پر جہاں جموں اور کشمیر کے مسلمان بھی آ سکیں منعقد کریں تا کہ اس موقع پر ان تمام مشکلات پر غور کر کے جو ہمارے رستے میں حائل ہیں‘ ایک ایسا پروگرام تیار کیا جائے جس پر عمل کر کے بغیر کسی نئی پیچیدگی کے پیدا ہونے کے ہم مسلمانان کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کو حل کر سکیں-
کشمیر ڈے اور فراہمی چندہ کی تحریک
اس پروگرام کے بعد ہی میرے نزدیک کشمیرڈے کی کوئی تاریخ مقرر کرنی چاہئے اور اتنا عرصہ پہلے سے وہ تاریخ مقرر ہونی چاہئے کہ سارے ہندوستان میں جلسوں کی تیاری کی جا سکے- اس دن علاوہ کشمیر کے حالات سے مسلمانوں کو واقف کرنے کے پروگرام کا وہ حصہ بھی لوگوں کو سنایا جائے جس کا شائع کرنا مناسب سمجھا جائے اور ہر مقام پر چندہ بھی کیا جائے- اگر فیگائوں پانچ پانچ روپیہ بھی اوسطاً چندہ کے ہو جائیں تو قریباً تین لاکھ روپیہ پنجاب میں ہی جمع ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جدوجہد میں بہت کچھ روپیہ بھی صرف کرنا پڑے گا اور بغیر ایک زبردست فنانشل کمیٹی کے جس پر ملک اعتبار کر سکے کسی بڑے چندہ کی تحریک کرنا یقیناً مہلک ثابت ہوگا-
میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب‘ شیخ دین محمد صاحب‘ سید محسن شاہ صاحب اور اسی طرح دوسرے سربرآوردہ ابنائے کشمیر جو اپنے وطن کی محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں‘ اس موقع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے موجودہ طوائف الملوکی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سب طاقت ضائع ہو جائے گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا- )الفضل ۱۶- جولائی ۱۹۳۱ء(
مسلمانان سرینگر پر گولی چلانے کا اندوہناک حادثہ
)حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تار وائسرائے ہند کو(
یورایکسیلنسی کشمیر میں مسلمانوں کی خستہ حالی سے ناواقف نہیں- تازہ ترین اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت ہی خلاف انسانیت اور وحشیانہ مظالم کا ارتکاب شروع ہو گیا ہے- ۱۳- جولائی کو سرینگر میں جو کچھ ہوا‘ وہ فی الواقعہ تاسف انگیز ہے- ایسوسی ایٹیڈ پریس کی اطلاع کے مطابق نومسلمان ہلاک اور متعدد مجروح ہوئے ہیں لیکن پرائیویٹ اطلاعات سے پایا جاتا ہے کہ سینکڑوں مسلمان ہلاک اور مجروح ہوئے ہیں- ریاست سے آنے والی تمام خبروں پر سخت سنسر ہے- یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو تار موصول ہوا وہ سیالکوٹ سے دیا گیا ہے- ہزہائینس مہاراجہ کشمیر کے تازہ اعلان کے معاً بعد جس میں انہوں نے اپنی مسلم رعایا کو کئی طرح کی دھمکیاں دی ہیں‘ اس قسم کی واردات کا ہونا صاف بتاتا ہے کہ یا تو غریب مسلمانوں پر بلاوجہ حملہ کر دیا گیا ہے اور یا ایک نہایت ہی معمولی سے بہانہ کی آڑ لے کر ان بے چاروں کو سفاکی کے ساتھ ذبح کر دیا گیا ہے-
کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن ان کے حقوق بے دردی سے پامال کئے جا رہے ہیں- اس وقت وہاں مسلم گریجوایٹوں کی تعداد بہت کافی ہے- مگر انہیں کوئی ملازمت نہیں دی جاتی- یا اگر بہت مہربانی ہو تو کسی ادنیٰ سے کام پر لگا دیا جاتا ہے اور جب ایک ملک کی ۹۵ فیصدی آبادی کو اس کے جائز حقوق سے صریح نا انصافی کر کے محروم رکھا جائے‘ اس کے دل میں ناراضگی کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے- لیکن نہایت ہی افسوس ہے کہ ریاست کے ذمہ دار حکام بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے جائز مطالبات منظور کریں‘ ان کی خفگی کو رائفلوں اور بک شاٹ (BUCKSHOT)۱~}~ سے دور کرنا چاہتے ہیں- جموں کے حکمرانوں نے کشمیر کو فتح نہیں کیا تھا بلکہ انگریزوں نے اسے ان کے ہاتھ ایک حقیر سی رقم کے بدلے فروخت کر دیا تھا- لہذا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے‘ حکومت برطانیہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی- مزید برآں ریاست آخر کار برطانیہ کے ماتحت ہے اور موجودہ حکمران جو محض ایک چیف تھا‘ ریاست اور اختیارات کے لئے حکومت برطانیہ کا ممنون احسان ہے اس لئے حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی شکایات کے ازالہ کے لئے جو کچھ کر سکتی ہے کرنے سے دریغ نہ کرے-
کشمیر کی اپنی علیحدہ زبان ہے اور اس کا تمدن اور مذہب وغیرہ جموں سے بالکل جداگانہ ہے- اس لئے ڈوگرا وزراء سے کشمیری مسلمانوں کے حق میں کسی بہتری کی توقع نہیں ہو سکتی اور انہیں اس وقت تک امن حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان کی اپنی وزارت کے ذریعہ مہاراجہ جموں ان پر حکومت نہ کریں- لہذا انسانیت کے نام پر میں یورایکسیلنسی سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ آپ کشمیر کے لاکھوں غریب مسلمانوں کو جنہیں برٹش گورنمنٹ نے چند سکوں کے عوض غلام بنا دیا‘ ان مظالم سے بچائیں تا کہ ترقی اور آزاد خیالی کے موجودہ زمانہ کے چہرہ سے یہ سیاہ داغ دور ہو سکے-
کشمیر بے شک ایک ریاست ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ ناانصافی سے پنجاب سے علیحدہ کیا گیا ہے اور دوسرے صوبہ جات کے مسلمانوں کی طرح پنجاب کے مسلمان کشمیری مسلمانوں پر ان مظالم کو کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے اگر حکومت ہند اس میں مداخلت نہ کرے گی تو مجھے خطرہ ہے مسلمان اس انتہائی ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شمولیت سے انکار نہ کر دیں اور انتہائی مایوسی کے عالم میں کانگریسی رو میں نہ بہہ جائیں-
)الفضل ۱۸- جولائی ۱۹۳۱ء(
کشمیر ڈے کا پروگرام
تمام احباب نے پڑھ لیا ہوگا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ۱۴- اگست کو ایک >کشمیرڈے< منانے کا فیصلہ کیا ہے- میں اسی سلسلہ میں تمام مسلمان انجمنوں‘ سوسائٹیوں‘ لیڈروں اور ہر قسم کے بااثر لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ۱۴-اگست کو یاد رکھیں اور آج ہی سے مسلمانوں میں اس کے متعلق احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں-
مسلمانان کشمیر پر مظالم
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے تیس لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں- جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے‘ ان کو ریاست کشمیر میں اپنی ملکیت قرار دے کر ناقابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے- درخت کاٹنے‘ مکان بنانے‘ بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں- اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل و عیال بھی اس سے زبرستی چھین کر الگ کر دیئے جاتے ہیں- ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں‘ انجمن بنانے کی اجازت نہیں‘ اخبار نکالنے کی اجازت نہیں‘ غرض اپنی اصلاح اور ظلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی ان سے چھین لئے گئے ہیں- وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کی مصداق ہے-
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
جب اس صورت حالات کے خلاف جموں کے مسلمانوں نے ادب و احترام سے نہ کہ شرارت و شوخی سے مہاراجہ صاحب کے پاس شکایت کی تو بذریعہ تار جموں کے مسلمانوں کے نمائندوں کو بلوایا گیا کہ مہاراجہ صاحب کے پاس اپنی معروضات کو پیش کریں- لیکن کئی دن تک آج نہیں کل کرتے ہوئے ان کی شکایات سننے کی بجائے انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا گیا اور اس وقت تک جیل میں پڑے سڑ رہے ہیں- کشمیر کے مسلمانوں کو جو ایک ہمدرد کشمیر کے مقدمے کی کارروائی سننے کی خواہش کے مجرم تھے‘ گولیوں اور چھروں سے زخمی کیا گیا- ان غریب قیدیوں اور بے کس مجروحوں اور خاموشی سے جان دینے والوں کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ مسلمان کہلاتے تھے اور انہیں یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ ہم بھی آدمی ہیں-
ہر ایک مسلمان سے امید
پس آج ہر ایک مسلمان جو ہندوستان کے کسی گوشے میں رہتا ہو‘ اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ۱۴- اگست کو جلسہ کرائے یا جلسے میں شامل ہو اور اس صورت حال کے خلاف احتجاج کرے کیونکہ جموں اور کشمیر کے تیس لاکھ مسلمانوں کی آواز جو غلامی کے طوق کے بوجھ کے نیچے کراہ رہے ہیں کسی خیرخواہملت کو آرام و چین سے سونے نہیں دے سکتی-
اس جلسہ کا پروگرام مندرجہ ذیل قرار پایا ہے-
جلوس
۱- جس قدر زیادہ سے زیادہ آدمی شامل ہو سکیں‘ ان کا ایک جلوس اس طرح نکالا جائے کہ مسلمانوں میں کشمیر کے معاملات کے متعلق دلچسپی پیدا ہو اور دوسری اقوام اور حکومت پر اس بارہ میں مسلمانوں کے دلی جذبات کا انکشاف ہو جائے اور وہ معلوم کر لیں کہ اس بارہ میں مسلمان جب تک ظلم کا ازالہ نہ کیا جائے صبر نہیں کریں گے-
جلسہ
۲- ایک جلسہ وسیع پیمانے پر کیا جائے اور ہر فرقہ کے لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے- اس جلسہ میں کشمیر کے حالات سنائے جائیں جن کے متعلق ایک مختصر رسالہ مولویاے- آر- درد صاحب ایم- اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے اصل لاگت پر مل سکتا ہے- اس رسالہ کو فروخت یا تقسیم کیا جائے تو اور بھی مفید ہوگا-
دوسری ریاستوں سے کشمیر کے سوال کا تعلق نہیں
۳- حکومت کشمیر کی طرف سے دوسری ریاستوں میں یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان مہاراجہ صاحب کو تخت سے اتروانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد وہ باری باری دوسری ہندو ریاستوں پر ہاتھ صاف کریں گے حالانکہ یہ واقعات کے بالکل بر خلاف ہے- مسلمان صرف کشمیر کے مسلمانوں کو ابتدائی حقوق انسانیت دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بس- دوسری ریاستوں سے کشمیر کے سوال کا کوئی تعلق نہیں- صرف بعض حکام کشمیر کی یہ چال ہے جس سے وہ دوسری ریاستوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر کے گورنمنٹ پر دبائو ڈالنا چاہتے ہیں بلکہ سنا گیا ہے کہ بعض ریاستیں حکومت ہند پر دبائو ڈال بھی رہی ہیں اس امر کو خوب واضح کیا جائے-
ہندو مسلم سوال نہیں
۴- حکومت کشمیر بڑے زور سے موجودہ تحریک کو ہندو مسلم تحریک ثابت کرنا چاہتی ہے حالانکہ باوجود اس کے کہ ریاست نے ہندوئوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے مسلمانان کشمیر ان کے خلاف کچھ نہیں کرتے کیونکہ مسلمانوں کے حقوق ریاست نے ہی غصب کئے ہوئے ہیں- اس امر کو اور بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہ ریاست کی چال ہے کہ وہ اسے ہندو مسلم سوال بنا کر ہندوستان کے دوسرے ہندوئوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے-
گورنمنٹ ہند اور ریاست کشمیر
۵- بعض حکام کشمیر بعض لوگوں کو رشوتیں دے کر پراپیگنڈا کرا رہے ہیں کہ گویا مسٹر ویک فیلڈ WAKEFIELD)۔(MR کے ذریعہ سے حکومت برطانیہ مسلمانوں کو اکسا کر کشمیر پر قبضہ کرنا چاہتی ہے- چنانچہ >پرنسلی انڈیا< نامی دہلی کے انگریزی اخبار میں اس قسم کے مضامین لکھوائے گئے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت برطانیہ اس وقت تک ریاست کی تائید میں ہے‘ چنانچہ ریزیڈنٹ کا یکطرفہ بیان اس پر دلالت کرتا ہے- ریاست کی غرض یہ ہے کہ اس طرح حریتپسند مسلمانوں کی ہمدردی کشمیر کے مسلمانوں سے ہٹا دے- اس سے بھی مسلمانوں کو واقف کرنا چاہئے-
آزاد تحقیقاتی کمیٹی کا مطالبہ
۶- جموں میں قرآن کریم اور خطبے کے واقعہ اور سری نگر میں گولی چلانے کے واقعہ کے خلاف ریزولیوشن پاس کیا جائے اور حکومت برطانیہ سے آزاد تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کیا جائے اور اس امر کا بھی کہ ہندوستانی بیرسٹروں کو سرینگر کے موجودہ مقدمہ کے متعلق پیروی کی اجازت دی جائے-
مذہبی آزادی
۷- کشمیر میں اسلام لانے پر جو رکاوٹیں ہیں کہ جائیداد ضبط کی جاتی ہے اور بیوی بچے چھین لئے جاتے ہیں‘ اس کے خلاف ریزولیوشن پاس کیا جائے-
انجمنیں بنانے کی آزادی
۸- کشمیر میں انجمنیں بنانے کی آزادی نہیں اور درخواست دینے پر اکثر ریاست توجہ نہیں کرتی- اس سے نہ مسلمان اپنی مذہبی‘ علمی‘ اقتصادی اور تمدنی تنظیم کر سکتے ہیں اور نہ ترقی کی راہیں سوچ سکتے ہیں اس کے خلاف ریزولیوشن ہو-
اخبار نکالنے کی آزادی
۹- کشمیر میں اخبار نکالنے کی بھی آزادی نہیں- اس کے خلاف بھی ریزولیوشن ہو کہ انگریزی علاقہ کی طرح وہاں بھی اجازت مل جایا کرے-
تقریر کرنے کی آزادی
۱۰- کشمیر میں تقریر کرنے کی بھی آزادی نہیں- اس کے خلاف بھی ریزولیوشن پاس کیا جائے-
زمین کے مالکانہ حقوق کا مطالبہ
۱۱- کشمیر میں زمین کی ملکیت کے حقوق زمینداروں کو حاصل نہیں ہیں حالانکہ کشمیر انگریزوں سے مہاراجہ کو ملا ہے- پس وہاں کے زمینداروں کے حق پنجاب کے مطابق ہونے چاہئیں- وہاں نہ لوگ بلااجازت زمین فروخت کر سکتے ہیں‘ نہ مکان بنا سکتے ہیں‘ نہ درخت کاٹ سکتے ہیں اور اس طرح غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں- اس کے خلاف بھی ریزولیوشن ہونا چاہئے-
ملازمتوں میں حصہ
۱۲- کشمیر میں مسلمان پچانوے فیصدی ہیں اور سب ریاست میں سترفیصدی مگر ملازمتوں میں ان کو تین فیصدی بھی حصہ نہیں مل رہا- اس کے خلاف ریزولیوشن پاس کئے جائیں اور مسلمانوں کے لئے کم از کم ستر فیصدی ملازمتوں کا مطالبہ کیا جائے- اس وقت ریاست بہانہ یہ کرتی ہے کہ مسلمان تعلیم یافتہ نہیں ملتے حالانکہ تعلیم کی کمی کی ذمہ داری ریاست پر ہے نیز یہ بھی غلط ہے کہ مسلمان تعلیم یافتہ نہیں ملتے- بہت سے گریجوایٹ ریاست میں بیکار پھر رہے ہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ ریاست میں عہدے لیاقت پر ملتے ہیں- ریاست میں کئی ڈوگرے اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور وہ مڈل پاس بھی نہیں ہیں-
‏sub] ga[t مجلس قانون ساز کا مطالبہ
۱۳- چونکہ مسلمانوں کو جائز طو رپر ریاست کے معاملات میں مشورہ دینے کا موقع حاصل نہیں اور نہ مہاراجہ صاحب تک پہنچنے کا موقع حاصل ہے- وہاں ایک قانون ساز مجلس قائم کی جائے تا کہ مسلمان اپنی آواز مہاراجہ صاحب تک پہنچا سکیں- اور قانون سازی کے وقت ان کی رائے ریاست کو معلوم ہو سکے- اس کے متعلق بھی ریزولیوشن کیا جائے-
کشمیر کیلئے علیحدہ وزارت
۱۴- چونکہ کشمیر کا صوبہ زبان‘ تاریخ‘ تمدن اور مذہب کے لحاظ سے جموں سے بالکل علیحدہ ہے- اس لئے مطالبہ کیا جائے کہ کشمیر کے لئے علیحدہ وزارت ہو جو براہ راست مہاراجہ صاحب کے ساتھ کام کرے اور اس میں کشمیر کی آبادی کے لحاظ سے مسلمان وزراء لئے جائیں-
چندہ جمع کیا جائے
۱۵- چونکہ کشمیر میں سخت ظلم ہو رہا ہے اور مسلمان بے بس ہیں اور کشمیر کے حالات سے انگریزی حکومت کو واقف کرنا اور مہذب دنیا کو ان حالات سے آگاہ کرنا از بس ضروری ہے ان سب امور کے لئے نہایت کثیر رقم کی ضرورت ہے اس لئے اس دن جلسوں میں خاص طور پر اس غرض کے لئے چندہ جمع کیا جائے- اس رقم کا ایک حصہ جموں کے مسلمانوں کی امداد کے لئے‘ ایک حصہ کشمیر کے مسلمانوں کی امداد کے لئے اور ایک حصہ ہندوستان اور بیرون ہند کے پراپیگنڈا کے لئے خرچ کیا جائے گا- مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے تیس لاکھ بھائیوں کو غلامی سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں بہت سی قربانی کرنی پڑے گی- مونہہ کی ہمدردی سے کشمیر کے مسلمانوں کی تکالیف دور نہیں ہو سکتیں- پس اگر سچی ہمدردی ہے تو اس کے مطابق قربانی کریں اور اس امر کو مدنظر رکھیں کہ یہ جنگ چند دن کی نہیں- ممکن ہے کہ ایک دو ماہ میں ہی فیصلہ ہو جائے اور ممکن ہے سالوں تک اس کے لئے جدوجہد کرنی پڑے- پس ہمت کر کے اس طرف قدم اٹھائیں تا کہ دنیا معلوم کر لے کہ مسلمان پر بے استقلالی کا الزام غلط ہے- ایسی تمام رقوم مسلم بنک لاہور میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام پر بھجوانی چاہئیں-
مسلمان انشاء اللہ کامیاب ہونگے
برادران! میں نے اس مقصد کے حصول کے لئے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر اپنی کوشش شروع کر دی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند دن کی جدوجہد کے بعد ہی بعض ایسے حلقوں میں دلچسپی اور ہمدردی پیدا ہو گئی ہے جہاں سے اس قسم کی کوئی امید نہ تھی- اگر مسلمان جوش سے اور استقلال سے کام لیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ کام مشکل اور منزل دور ہے‘ ہم انشاء اللہ کامیاب ہونگے اور کشمیر کے تیس لاکھ مسلمانوں اور ان کی اولادوں اور اولادوں کی اولادوں کی دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی- کسی کا ایک بھائی غلام ہو تو وہ صبر نہیں کر سکتا کیا آپ لوگ تیس لاکھ بھائیوں کی غلامی کے باوجود خوشی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ میرا دل کہتا ہے کہ ہر گز نہیں- میں امید بھرے دل کے ساتھ آپ کو آپ کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۴- اگست کو تمام ہندوستان کے مسلمان ایک پر امن مظاہرے سے مستقل جدوجہد اور مناسب حال قربانی کے عہد اور عملی نمونہ کے ذریعہ سے دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ وہ موت نہیں بلکہ زندگی کو پسند کرتے ہیں-
جلسوں کی رپورٹ
جلسوں کی رپورٹ فوراً بذریعہ تار مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم- اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیان کے نام بھیج دیں تا کہ جلسوں کے بعد مناسب طور پر حکومت انگلستان کو صورت حالات سے واقف کیا جا سکے اور جلسہ کی تفصیلی کارروائی کہ کون پریزیڈنٹ تھا؟ کس کس نے تقریر کی؟ حاضرین کی تعداد کیا تھی؟ جلوس کس قسم کا نکلا؟ اخبارات اور سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو مندرجہ بالا پتہ پر بھیجی دیں تمام ریزولیوشنز کی ایک ایک کاپی اپنے اپنے صوبے کے گورنر وائسرائے ہند اور مہاراجہ کشمیر کے نام ضرور ارسال کریں-
خاکسار
مرزا محمود احمد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
ریاست کشمیر و مسلم نمائندگان کے درمیان
شرائط صلح پرایک نظر
حیرت
اٹھائیس تاریخ کے اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی کہ مسلمانان کشمیر اور ریاست میں باہم سمجھوتہ ہو گیا ہے- اس حیرت کی وجہ یہ نہ تھی کہ صلح کیوں ہو گئی؟ کیونکہ میں تو صلح دل سے چاہتا ہوں بلکہ اس وجہ سے کہ جو شرائط صلح کی بیان کی گئی تھیں‘ ان میں بعض بڑے بڑے نقائص تھے اور میں یہ امر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا کہ مسلمنمائندگان نے ان شرائط پر سمجھوتہ کیا ہوگا- اور اس وجہ سے گو ضرورت چاہتی تھی کہ میں فوراً ان شرائط پر تبصرہ کروں لیکن مصلحتا میں نے اس وقت تک انتظار کرنا مناسب سمجھا جب تک کہ خط کے ذریعہ سے ریاست کے اعلان کی تصدیق نہ ہو جائے- آخر آج خط کے ذریعہ سے تصدیق ہو گئی اور میں آج ہی یعنی اکتیس اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو ان شرائط پر تبصرہ کرنے کے لئے بیٹھا ہوں-
مسلم نمائندگان کے متعلق
مگر پیشتر اس کے کہ میں تبصرہ کروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری تنقید سے کوئی صاحب یہ نتیجہ نہ نکالیں کہ میں مسلم نمائندگان کو بددیانت یا غدار ثابت کرنا چاہتا ہوں- میرا یہ ہر گز منشاء نہیں کیونکہ ان لوگوں نے اپنے گزشتہ عمل سے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں قوم کا درد اور قربانی کی روح ہے- پس جو کچھ میں ان شرائط کے خلاف لکھوں گا‘ اس کا صرف یہ مطلب ہوگا کہ ان صاحبان سے بوجہ ناتجربہ کاری غلطی ہوئی- یہ مطلب نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ریاست کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے- پس میں سب لوگوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ بجائے ان سے لڑنے یا تفرقہ پیدا کرنے‘ وہ اب یہ کوشش کریں کہ جو غلطی ہو گئی ہے‘ اس کے بدنتائج سے جس قدر ہو سکے بچا جائے- اور نمائندگان کو بھی چاہئے کہ وہ آئندہ زیادہ احتیاط سے کام لیا کریں اور ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھنے سے پرہیز کریں-
نمائندگان کی غلطی اپنی شرکت
میں یہ بات بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلطی میں کسی حد تک میں بھی شریک ہوں اور وہ اس طرح کہ مجھے شملہ میں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ بعض لوگ مہاراجہ صاحب کشمیر کو تاریں دے رہے ہیں کہ اگر ہمیں اجازت دیں‘ تو ہم آ کر کشمیر کی شورش کو دور کر سکتے ہیں چنانچہ ایک تار اس مطلب کی ڈیویکو کے چائیخانہ میں گورنمنٹ کالج کے ایک پروفیسر سے لکھوائی گئی- اتفاقا ان پروفیسر صاحب کے میزبان ایک کلکٹر صاحب تھے جو اپنے مہمان کے دیر تک غیر حاضر رہنے کی وجہ سے کسی حاجت کے پورا کرنے کے لئے اٹھے اور چلتے ہوئے ان کی نظر اس تار پر پڑ گئی اور انہوں نے مجھے بتا دیا- اگر میں اسی وقت اخبارات میں اس واقعہ کو شائع کر دیتا تو شاید یہ صورت حالات پیدا نہ ہوتی- مگر میں نے تفرقہ کے خوف سے اس ذکر کو اخبارات میں لانا مناسب نہ سمجھا اور نتیجہ یہ ہوا جو نظر آ رہا ہے-
سب سے بڑی غلطی
سب سے پہلی غلطی جو درحقیقت باقی سب غلطیوں کا موجب ہوئی ہے یہ ہے کہ نمائندگان نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مشورہ نہیں کیا- اگر وہ ایسا کرتے تو جن امور کا انہیں تجربہ تھا‘ ان میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی انہیں مشورہ دے سکتی تھی- میرا یہ منشاء نہیں کہ کشمیر کے نمائندے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی رائے کے پابند ہوتے کیونکہ اصل معاملہ ریاست اور رعایا کے درمیان ہے- ہم لوگ تو صرف بلوانے پر آئے ہیں پس ہمارا یہ حق نہیں کہ اہل کشمیر سے یہ مطالبہ کر سکیں کہ ہم جو کہیں وہ مانو لیکن اتنا حق ہمارا ضرور قائم ہو چکا ہے کہ ہم سے مشورہ کر لیا جایا کرے کیونکہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خود اہالیان کشمیر کے خطوط اور زبانی شکایات کی بناء پر مسئلہ کشمیر کو ہم نے ہاتھ میں لیا ہے- اور باتوں کو جانے دیا جائے صرف کشمیر ڈے پر ہی ہندوستان میں قریباً پچاس ہزار روپیہ کا خرچ ہوا ہے کیونکہ ہزاروں جگہوں پر کشمیر ڈے منایا گیا ہے- اور بعض بڑے بڑے شہروں میں اس دن پانچ پانچ‘ چھ چھ سو روپیہ خرچ ہوا ہے- اس کے علاوہ ہندوستان اور انگلستان میں زبردست پروپیگنڈا کیا گیا ہے- اور بعض لوگوں نے اس کام میں دخل دینے کی وجہ سے اپنی پوزیشن کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے- غرض وقت‘ عزت اور مال کی قربانی چاہتی تھی کہ ہمارے کشمیر کے بھائی آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مشورے لیتے خواہ اسے قبول نہ کرتے کیونکہ عقلاً اور اخلاقا کوئی باہر کا آدمی انہیں اپنے مشورہ کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور اگر وہ ایسا کرتے تو ضرور ان نقائص سے بچ جاتے جو موجودہ معاہدہ میں رہ گئے ہیں-
اب میں اصل معاہدہ کو لیتا ہوں‘ اس میں مندرجہ ذیل غلطیاں ہوئی ہیں-
مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست نے وعدہ نہیں کیا
۱- معاہدہ میں مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست کی طرف سے ایک لفظ بھی درج نہیں ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمنمائندگان کی طرف سے جو شرائط ہیں ان میں یہ ذکر ہے کہ-:
>وہ ہمارے ان مطالبات کے فیصلہ تک جو ہماری طرف سے آئندہ پیش ہوں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے کہ جو پرامن فضاء کو خراب کر کے مطالبات پر ہمدردانہ غور میں مشکلات پیدا کر دے<-
)ترجمہ از اعلان ریاست(
لیکن ریاست کی طرف سے جن امور کا اعلان ہوا ہے اس میں ایک لفظ بھی اس بارہ میں نہیں ہے کہ آیا ریاست مسلمانوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں ہے-
یہ امر بالکل واضح ہے کہ مسلم نمائندگان کے بیان کی ریاست پابند نہیں اس کے پابند صرف وہی ہیں ریاست پابند انہی باتوں کی ہو سکتی ہے جن کا وہ خود وعدہ کرے- پس اس معاہدہ کے رو سے اگر ریاست مسلمانوں کے مطالبات پر غور کرنے سے انکار کر دے یا غور کر کے ان کو پوری طرح رد کر دے تو اخلاقا ریاست پر کوئی حرف نہیں آتا- وہ معاہدہ کو سامنے رکھ دے گی کہ بتائو کہاں ہم نے مطالبات پر غور کرنے کا یا کوئی حق دینے کا وعدہ کیا تھا- اس صورت میں مسلمانوں کی گزشتہ قربانی بالکل ضائع ہو جائے گی-
ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ حقوق کے سوال میں فیصلہ اس شخص کے وعدہ سے ہوتا ہے جس نے کچھ دینا ہو نہ اس شخص کے قول سے جس نے لینا ہو- زید نے بکر سے اگر کچھ روپیہ لینا ہو تو زید کے یہ کہہ دینے سے کہ میں روپیہ لوں گا فیصلہ نہیں ہو سکتا- ہاں بکر جس نے دینا ہے اگر کہے کہ میں روپیہ دے دوں گا تب فیصلہ ہوگا- رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں ایک ایسا ہی واقعہ گزرا ہے جس سے اس امر کی حقیقت خوب کھل جاتی ہے- صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک شرط یہ ہوئی تھی کہ عرب کے جو قبائل چاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جائیں اور جو چاہیں مکہ والوں سے- دونوں فریق کا فرض ہے کہ نہ صرف آپس میں لڑائی سے بچیں بلکہ جو لوگ دوسرے فریق کے ساتھ مل جائیں ان سے بھی نہ لڑیں- مکہ والوں نے اس میں بدعہدی کی اور ایک قبیلہ جو مسلمانوں کا حلیف بن گیا تھا اس پر انہوں نے اپنے دوست قبیلہ کی حمایت میں رات کو حملہ کر دیا- ان لوگوں نے رسول کریم ~صل۲~ سے شکایت کی اور آپ نے اپنے دوست قبیلہ کی حمایت میں مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا- ادھر مکہ والے چونکہ معاہدہ توڑ چکے تھے اس لئے انہیں بھی فکر ہوئی اور انہوں نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو جو اب تک اسلام نہ لائے تھے مدینہ روانہ کیا کہ جا کر کسی طرح رسول کریم ~صل۲~ کی ناراضگی کو دور کریں- انہوں نے آ کر مسجد نبویﷺ~ میں یہ اعلان کر دیا کہ چونکہ میں صلح حدیبیہ کے وقت مکہ میں موجود نہ تھا اور معاہدہ پر میرے دستخط نہ تھے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ معاہدہ آج سے سمجھا جائے گا- چونکہ دوسرے فریق یعنی رسول کریم ~صل۲~ کی طرف سے تصدیق نہ تھی سب صحابہ اس پر ہنس پڑے کہ یہ کیسا بے وقوفی کا اعلان ہے- جب تک ہم لوگ بھی اس امر کو تسلیم نہ کریں صرف ان کے کہنے سے کیا بنتا ہے اور ابوسفیان سخت شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے-۲~}~ نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس اعلان کے رسول کریم ~صل۲~ نے مکہ پر چڑھائی کی اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق مکہ فتح ہو گیا- یہی صورت موجودہ معاہدہ میں ہوئی ہے- مسلم نمائندگان کہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات پیش ہوں گے- ریاست اس کے جواب میں کوئی وعدہ نہیں کرتی صرف یہ کہتی ہے کہ مقدمات ملتوی کر دیئے جائیں گے اور جو ملازم ایام شورش میں علیحدہ کئے گئے تھے ان سے آئندہ اجتناب کا وعدہ لے کر بحال کر دیا جائے گا- یہ بات تو موجودہ ہیجان سے پہلے ہی حاصل تھی- اگر سب قربانیوں کے بعد ہمیں یہ حق ملے کہ جس طرح تمہاری حالت پہلے تھی ویسی ہی اب کر دی جائے گی تو ہماری قربانی کا کیا فائدہ؟
انگریزی علاقہ میں گورنمنٹ اور رعایا کی صلح تبھی ہوئی ہے جب کہ حکومت نے پہلے اس امر کو اصولا تسلیم کر لیا کہ ہندوستان کو آزادی دی جائے گی- رائونڈ ٹیبل کانفرنس صرف اس کی تفصیلات کے لئے منعقد ہوئی ہے- اسی طرح ریاست سے یہ عہد لینا ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کو کامل مذہبی اور انسانی آزادی دے گی‘ ہاں تفصیلات بعد میں طے ہوں گی-
عارضی صلح کا وقت مقرر نہیں کیا گیا
)۲( اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ریاست نے زبانی طور پر کوئی ایسا وعدہ کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دے دے گی تو بھی ایک سخت غلطی یہ ہوئی ہے کہ عارضی صلح کا وقت مقرر نہیں کیا گیا- اگر اس معاہدہ کے رو سے ریاست سالہا سال تک اپنے فیصلہ کو پیچھے ڈالتی جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- اور حق یہ ہے کہ رعایا کو اگر کوئی حق آسانی سے مل سکتا ہے تو اگلے پانچ چھ ماہ میں ہی مل سکتا ہے اس کے بعد غیر معمولی قربانیاں کر کے کچھ ملے تو ملے- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں انگلستان میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس ہو رہی ہے اور اس موقع پر بیس کے قریب مسلمان نمائندے وہاں گئے ہوئے ہیں- بوجہ روزانہ ساتھ کام کرنے کے انہیں وزرائے انگلستان پر اثر ڈالنے کا خاص موقع ہے- اسی طرح وہاں کی پبلک پر بھی اثر ڈالنے کا خاص موقع ہے- یہ موقع آئندہ لاکھوں روپیہ خرچ کرنے سے بھی نہیں مل سکتا- میں جہاں تک سمجھتا ہوں‘ ریاست کی غرض ہی یہ ہے کہ یہ دن کسی طرح گزر جائیں اور انگلستان کے پروپیگنڈا کے اثر سے وہ بچ جائیں-
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معاہدہ ریاست والوں نے کیا ہے نہ کہ باہر والوں نے‘ کیونکہ معاہدہ کی صورت میں خصوصاً جب کہ اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ مسلمانان کشمیر اپنے باہر کے دوستوں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ایجی ٹیشن سے بچیں گے‘ باہر کے لوگوں کی بات کا بھی اثر بہت کمزور ہو جاتا ہے- اور ہر سننے والا جو حقیقت سے آگاہ ہو گا صاف کہے گا کہ جب خود باشندگان کشمیر معاہدہ کر کے خاموشی کا اقرار کر چکے ہیں تو تم کون ہو جو خواہ مخواہ شور مچا رہے ہو- غرض لازماً اس طرح باہر کے ایجی ٹیشن کا اثر نہایت ہی کمزور بلکہ بے اثر ہو جائے گا-
یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ رائونڈٹیبل کانفرنس کے فیصلہ سے پہلے پہلے انگریزی اثر حکومت ہند میں زیادہ ہے اور اس کو مسلمان اپنی امداد کے لئے زیادہ آسانی سے متحرک کر سکتے ہیں بہ نسبت ہندو عنصر کے جو لازماً رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے بعد بڑھ جائے گا کیونکہ اس وقت مرکزی حکومت میں ہندوستانیوں کو دخل مل جائے گا جس کا بیشتر حصہ ہندو ہوگا- دوسرے موجودہ تجویز کے مطابق خود ریاستوں کو بھی مرکزی حکومت میں اختیارات ملیں گے پس اس وقت ریاست پر اثر ڈالنا بہت ہی مشکل ہو جائے گا- پس ریاست نے اس وقت عارضی صلح کر کے معاملہ کو پیچھے ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور اس میں سراسر مسلمانوں کا نقصان ہوا ہے-
اگر انہی شرائط پر صلح کرنی تھی تو بھی مسلمان نمائندگان کو چاہئے تھا کہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر کرتے کہ ہمارے اور ریاست کے درمیان یہ صلح مثلاً ایک ماہ تک رہے گی- اس عرصہ میں ریاست کا فرض ہوگا کہ ہمارے مطالبات پر غور کر کے کسی نتیجہ پر پہنچے اگر وہ نتیجہ ہمارے لئے مفید ہوا تو یہ صلح مستقل ہو جائے گی اور اگر ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ریاست معاملہ کو بلاوجہ لمبا کرنا چاہتی ہے یا دبانا چاہتی ہے تو ایک ماہ کے بعد دونوں فریق آزاد ہوں گے کہ حسب موقع جو تدابیر چاہیں‘ اختیار کریں-
دہلی پیکٹ اور ریاست سے عارضی صلح میں فرق
میں اس جگہ پھر یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس صلح کو دہلی پیکٹ سے کوئی مناسبت نہیں ہے- دہلی پیکٹ دو صریح اور اہم امور پر مبنی تھا- اول اس پیکٹ کی بنیاد لارڈ ارون (LORDIRWIN) کے اس حتمی وعدہ پر تھی کہ حکومت برطانیہ ہندوستان کو کامل آزادی دینے کا فیصلہ کر چکی ہے دیر صرف تفصیلات کے طے کرنے کی ہے- اور اس قسم کا کوئی وعدہ ریاست کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے- ریاست تو اس سے بڑھ کر یہ کرتی ہے کہ اپنی شرائط میں حقوق کا کوئی ذکر تک بھی نہیں کرتی-
دوسرا فرق یہ ہے کہ دہلی پیکٹ میں جس طرح گورنمنٹ کو اجازت دی گئی ہے کہ اپنے مروجہ قانون کو استعمال کرے اسی طرح کانگرس کو بھی اجازت ہے کہ قانون کے اندر رہ کر اپنا پروپیگنڈا کرے اور اپنی جماعت کو منظم کرے- چنانچہ ان دنوں میں کانگرس نے خاص طور پر اپنے آپ کو منظم کر لیا ہے اور دوبارہ جنگ کے لئے خوب تیار ہو گئی ہے- لیکن اس معاہدہ میں صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ ایجی ٹیشن قطعی طور پر بند کیا جائے گا- گویا جس حد تک موجودہ قانون اجازت دیتا ہو اس حد تک بھی ایجی ٹیشن جائز نہ ہوگا- مثلاً اگر کوئی شخص اسلام آباد۳~}~ جا کر مسلمانوں کو یہ بتائے کہ ان کے کون کون سے حقوق تلف ہو رہے ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے انہیں کوشش کرنی چاہئے تو یہ موجودہ معاہدہ کے برخلاف ہوگا اور ریاست اس پر معترض ہوگی- کانگرس پر ایسی کوئی پابندی نہیں- وہ صرف اس امر کی پابند ہے کہ گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسائے نہیں لیکن وہ ہندوستانیوں کو اپنے حقوق کے سمجھانے اور ان کے حصول کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین کرنے میں پوری طرح آزاد ہے اور اس وجہ سے صلح کے دنوں میں اس پر مردنی کی حالت نہیں آ سکتی- لیکن ریاست جموںوکشمیر کا معاہدہ ایسا ہے کہ اس قسم کے ذکر اس میں بالکل روک دیئے گئے ہیں- اور اگر آج وہاں کے لیڈر مسجد میں کھڑے ہو کر یا کسی گھر میں ہی صرف یہ تقریریں کریں کہ مسلمانوں کے کون کون سے حق مارے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کے حصول کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے تو ریاست اسے ضرور قابل اعتراض قرار دے گی- نتیجہ یہ ہوگا کہ اہالیانریاست میں مردنی پیدا ہو جائے گی اور سب گزشتہ کوشش برباد اور تباہ ہو جائے گی-
ریاست سے باہر کا ایجی ٹیشن
)۳( ریاست کی شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ ریاست کے لوگ تو پرامن ہیں باہر کے لوگ فساد پیدا کر رہے ہیں اور انہیں اکسا رہے ہیں- اس سمجھوتہ میں نمائندگان نے ایک ایسا فقرہ لکھ دیا ہے جس کی بناء پر ریاست کہہ سکتی ہے کہ اس کے اس قسم کے اعلانات صحیح تھے- وہ فقرہ یہ ہے-
>مسلمان باشندگان ریاست باہر کے ایجی ٹیشن سے متاثر نہیں ہوئے اور وہ اب تک اپنے حاکم کے پہلے ہی کی طرح وفادار اور مخلص ہیں-<
اس فقرہ کے صاف معنی یہ ہیں کہ ریاست سے باہر کوئی پروپیگنڈا غیر وفا دارانہ ہوتا رہا ہے لیکن یہ درست نہیں کوئی پروپیگنڈا ریاست سے باہر ایسا نہیں ہوا جس کا موجب خود مظلومان کشمیر کی فریاد نہ ہو- ہم نے کشمیر کے آمدہ خطوط کی بناء پر سب کام شروع کیا تھا اور کبھی بھی عدم وفاداری کا سبق نہیں دیا بلکہ باقاعدہ لکھتے رہے ہیں کہ رعایا اپنے فرمانروا کی وفادار ہے اور خود مطلب حکام مہاراجہ صاحب کو بلاوجہ اکسا کر یہ فساد پیدا کر رہے ہیں- نمائندگان کے اس اقرار کی وجہ سے جو انہوں نے یقیناً دھوکا میں آ کر کیا ہے ریاست ایک ناجائز فائدہ اٹھائے گی اور ان مسلم لیڈروں کو بدنام کرے گی جنہوں نے اہالیاں کشمیر کے کہنے پر اور اپنے کسی ذاتی نفع کی خواہش کے بغیر محض ہمدردی کے طور پر اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا-
)۴( آخر میں سر ہری کشن صاحب کول کا جو شکریہ ادا کیا گیا ہے وہ بالکل ہی عجیب ہے اور صاف بتاتا ہے کہ اس معاہدہ کی اصل غرض سر ہری کشن کول کو مہاراجہ صاحب کی نظر میں مقبول کرانا ہے- میں نہیں سمجھتا کہ نمائندگان کو اس امر کے لکھنے کی کیا ضرورت تھی- وہ پندرہ دن پہلے یہ اعلان کر چکے تھے کہ سب فتنہ کول صاحب کی وجہ سے ہوا تھا- پندرہ دن بعد وہ ان کی پر زور تعریف کرتے ہیں- مہذب دنیا دونوں بیانات میں سے ایک کو ضرور غلط قرار دے گی اور اگر آئندہ کول صاحب مسلمانوں پر کوئی تشدد کریں گے تو ان کے خلاف آواز نہایت بے اثر ہوگی- اور یہی سمجھا جائے گا کہ باہر کے لوگوں نے جوش دلا کر احتجاج کرایا ہے-
ایک فائدہ
خلاصہ یہ کہ یہ معاہدہ اصولاً سخت مضر ہے اور ریاست اس کے ذریعہ سے تمام گزشتہ کوشش کو برباد کر سکتی ہے- ہاں ایک فائدہ اس معاہدہ کا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ریاست نے ایک دفعہ مسلمانوں کی ہستی کو تسلیم کر لیا ہے لیکن اس فائدہ کے مقابلہ میں نقصان بہت زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کے بد اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے-
سنا گیا ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کی طرح ہے لیکن یہ درست نہیں- صلح حدیبیہ کی شرائط بظاہر بری نظر آتی تھیں لیکن گہرے غور پر ان میں مسلمانوں کا فائدہ نظر آتا تھا- اس معاہدہ کی صورت اس کے برخلاف یہ ہے کہ بظاہر مسلمانوں کے حق میں نظر آتا ہے لیکن بہ باطن اس میں ان کے لئے سخت نقصانات ہیں-
ہنستے ہوئے نمائندوں کی غلطی کو منظور کر لیا جائے
مگر خیر اب جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا- ہمیں گرے ہوئے دودھ پر بیٹھ کر رونے کی ضرورت نہیں- اب ہمارا فرض یہ ہے کہ موجودہ حالت سے جس قدر فائدہ اٹھا سکیں اٹھائیں اور اس کے ضرر سے جس قدر بچ سکیں بچیں- بہرحال مسلمانوں کے نمائندوں نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی پوری طرح اتباع کریں کیونکہ مسلمان دھوکے باز نہیں ہوتا اور جو قوم اپنے لیڈروں کی خود تذلیل کرتی ہے وہ کبھی عزت نہیں پاتی- نیز مسلمانوں میں قحط الرجال ہے اور کام کرنے کے قابل آدمی تھوڑے ہیں پس انہی سے کام لیا جا سکتا ہے اور لینا چاہئے- پس یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کوئی جوشیلا شخص جموں اور کشمیر کے لیڈروں کی مخالفت شروع کر دے- انہوں نے دیانتداری سے کام کیا ہے اور ہمیں ان کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہئے- اور ہنستے ہوئے ان کی غلطی کو قبول کرنا چاہئے اور اس کے ضرر سے بچنے کا بہترین طریق سوچنا چاہئے-
اب کیا کرنا چاہئے
وہ طریق میرے نزدیک یہ ہے کہ وقت کی تعیین سے اس معاہدہ کے ضرر کو محدود کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو آزاد کرا لیا جائے- میرے نزدیک اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دستخط کرنے والے نمائندگان ریاست کو ایک دوسری یادداشت یہ بھجوا دیں کہ چونکہ عارضی صلح کا وقت کوئی مقرر نہیں اور یہ اصول کے خلاف ہے- اس فروگزاشت کا علاج ہونا چاہئے- پس ہم لوگ یہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک ماہ تک اس کی معیاد ہوگی- اگر ایک ماہ کے اندر مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ریاست نے کوئی فیصلہ کر دیا یا کم سے کم جس طرح انگریزی حکومت نے ہندوستان کے حقوق کے متعلق ایک اصولی اعلان کر دیا ہے‘ کوئی قابل تسلی اعلان کر دیا تب تو اس عارضی صلح کا زمانہ یا لمبا کر دیا جائے گا یا اسے مستقل صلح کی شکل میں بدل دیا جائے گا- لیکن اگر ایک ماہ کے عرصہ میں ریاست نے رعایا کو ابتدائی انسانی حقوق نہ دیئے یا ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کیا تو یہ صلح ختم سمجھی جائے گی اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پر آزاد ہونگے- اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ کام کا وقت گزر جانے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ فیصلہ ہو جائے گا- یا پھر اہالیان کشمیر کے لئے اور ان کے بیرونی دوستوں کے لئے کام کا وقت موجود رہے گا- ہم فوراً رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے نمائندوں کے ذریعہ سے اور دوسرے ذرائع سے کام لے کر انگلستان اور دوسرے مہذب ممالک میں پروپیگنڈا شروع کر سکیں گے- نیز اس طرح وقت مقرر کرنے سے ہندوستان کے مسلمانوں کا جوش بھی قائم رہے گا اور وہ کام سے غافل نہ ہونگے- ورنہ بالکل ممکن ہے کہ اس صلح کا باہر ایسا برا اثر پڑے کہ دوبارہ لوگوں کو تیار کرنا مشکل ہو جائے-
میں امید کرتا ہوں کہ نمائندگان خود بھی اس طرف فوراً توجہ کریں گے اور عام مسلمان بھی ان پر زور دیں گے کیونکہ جو کچھ بھی اس معاہدہ کے نتیجہ میں پیدا ہوا آخر اس کا اثر نمائندگان پر نہیں بلکہ ان تیس لاکھ مسلمانوں پر ہوگا جن کی نسبت سرایلبینبینر جی لکھتے ہیں کہ وہ بے زبان جانوروں کی طرح ہانکے جا رہے ہیں- واخر دعوئنا انالحمد للہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
‏a12.2
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام اور اس کا کام

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]txet [tag
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام اور اس کا کام
)سیالکوٹ کے جلسہ عام میں تقریر(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
ہماری پاک اور مقدس کتاب کی ابتداء ایک ایسے جملہ سے ہوتی ہے کہ ایک دفعہ ہی اسے دہرانے سے تمام کلفت اور تکلیف دور ہو جاتی ہے- کس شان کا یہ فقرہ ہے اور کس قسم کے ہمت بندھانے والے خیالات دل میں پیدا کر دیتا ہے جب انسان منہ سے کہتا ہے الحمدللہ رب العلمین یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں- بندے غلطیاں کرتے ہیں‘ انسانوں سے کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں جس ہستی میں تمام خوبیاں جمع ہیں وہ محض ذات باری تعالیٰ ہی ہے- جب یہ چیز ہمارے دلوں میں داخل ہو جائے تو اپنے خلاف قصور کرنے والے کو جلد معاف کیا جا سکتا ہے- اصل میں غصہ اسی وقت آتا ہے جب امید کے خلاف کوئی بات سرزد ہو- اگر ایک شخص جنگل میں جا رہا ہو اور اسے یقین ہو کہ مجھے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں مل سکتی تو اگر اسے سوکھی ہوئی روٹی اور لسی بھی مل جائے تو وہ اسے نہایت خوشی سے کھا لے گا لیکن ایک اعلیٰ درجہ کے ہوٹل میں جہاں سے اسے اچھے اچھے کھانے ملنے کی امید ہو ذرا سا نقص‘ نمک کی معمولی سی کمی‘ میٹھے کی زیادتی یا پکانے میں کوتاہی اس کے دل میں رنجش پیدا کر دے گی کیونکہ اسے وہاں سے اچھے کھانے ملنے کی امید تھی-
جس کام کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تیس لاکھ انسان ایک دو‘ تین نہیں‘ تیس لاکھ آج سے نہیں‘ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے- اگر کسی شخص سے اس کا گدھا یا خچر چھیننے کی کوشش کی جائے تو وہ کتنا لڑتا ہے- جب وہ اپنے گدھے کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تو تیس لاکھ انسانوں کو جو گدھے سے بھی زیادہ غلام ہیں آزاد کرانا کوئی آسان کام نہیں- انہیں اپنی غلامی میں رکھنے کے لئے ان کا مالک اپنی طاقت کے مطابق انتہائی زور لگائے گا اور مالی‘ جانی قربانی اور تدبیر کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گا کہ اس کے غلام اس کے قبضہ میں رہیں-
امریکہ میں بھی ایک وقت میں غلامی کا زور تھا- جب وہاں اس کی ممانعت کا اعلان کیا گیا تو دو سال تک وہاں ایسی خوفناک خونریزی ہوئی کہ کوئی گھر باقی نہ رہا جس کا کوئی نہ کوئی فرد مارا نہ گیا ہو- حتی کہ جب کامیابی ہو گئی تو لوگوں نے کہا اس خوشی میں مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن پریزیڈنٹ جمہوریہ نے جواب دیا کہ ہمارے لئے خوشی کا کونسا موقع ہے جب کہ ہمارے ملک کے ہر گھر میں ماتم بپا ہو رہا ہے- پس کشمیر میں جو غلامی ہے اسے دور کرنا کوئی معمولی کام نہیں- ہم لوگوں میں سے کوئی خواہ سلسلہ احمدیہ سے تعلق رکھتا ہو یا حنفی المذہب ہو‘ یا اہلحدیث ہو ہر ایک کے دل میں یہی جذبہ ہوگا کہ کشمیری مسلمانوں کے مصائب میں ان کی امداد کی جائے اور جو لوگ اس کمیٹی میں شامل ہوئے ہیں وہ ایک بہت بڑے مقصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور بڑے مقصد کے لئے قربانی بھی ہمیشہ بڑی ہی کرنی پڑتی ہے- اگر میں ایک چھڑی کو اٹھانا چاہوں تو معمولی قوت درکار ہوگی لیکن ایک بڑے پتھر کو اٹھانے کے لئے زیادہ قوت درکار ہوگی اور اگر ایک میز اٹھانی چاہوں تو سینہ کے تمام (MUSCLES) اکڑ جائیں گے اور اس کے لئے پوری توجہ درکار ہوگی- اسی طرح جس مقصد کیلئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں کہ معمولی سی قربانی سے اس میں کامیاب ہو جائیں-
چار کروڑ سالانہ آمدنی رکھنے والی ریاست سے ہمارا مقابلہ ہے- وہ یقیناً پورا زور لگائے گی کہ ہم کامیاب نہ ہو سکیں اور دوسری تدبیروں کے علاوہ ہم میں تفرقہ پیدا کرنے کی بھی کوشش کرے گی- انگریزی کی مثل ہے DivideandRule تفرقہ پیدا کرو اور حکومت کرو یعنی حکومت رعایا میں تفرقہ پیدا کر کے مضبوط ہو جاتی ہے اور اسے کوئی خوف نہیں رہتا- ہمارے ملک میں بھی ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی زمیندار کے باغ میں تین شخص داخل ہو گئے اور پھل توڑ توڑ کر کھانے لگے- ان میں سے ایک عام آدمی تھا‘ ایک علم کا مدعی اور ایک سیاست کا دعویدار تھا- باغ کے مالک نے سوچا کہ اگر میں ان سے لڑتا ہوں تو یہ تینوں مل کر مجھے کچل ڈالیں گے اس لئے حکمت سے کام لینا چاہئے- چنانچہ وہ پہلے سید اور عالم کے پاس گیا اور کہا- حضرت آپ تو ہمارے سردار ہیں ہماری چیز آپ کی اپنی ہے لیکن اس جاہل کا کیا حق تھا کہ ایسا کرتا انہوں نے کہا درست ہے اس نے کہا تو پھر آپ میری مدد کریں کہ اسے سزا دوں- پھر دونوں کی مدد سے اس عام آدمی کو اس نے خوب مارا اور ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا- اس کے بعد اس نے سید صاحب سے کہا آپ کا تو حق تھا مگر اس عالم نے ایسا کیوں کیا- سید نے پھر اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو اس نے کہا- آپ اسے سزا دینے میں میری مدد کریں- چنانچہ اس کی مدد سے مولوی کو بھی خوب اچھی طرح پیٹ کر درخت کے ساتھ باندھ دیا- پھر سید صاحب اکیلے ہی رہ گئے انہیں بھی اچھی طرح مارا اور درخت سے باندھ دیا- تو یہ تدبیر عام سیاست دان استعمال کرتے ہیں اور اسی اصل کے ماتحت تفرقہ اندازی ہم میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پورا زور لگایا جائے گا کہ کسی طرح مسلمانوں میں لڑائی ہو- میں نے چاہا تھا کہ کشمیر کے سوال میں کوئی تفرقہ پیدا نہ ہو لیکن افسوس کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہو سکا- جس وقت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پہلا اجلاس شملہ میں منعقد ہوا تو جو ممبر اس وقت موجود تھے اور جن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور خواجہ حسن نظامی صاحب اور خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب بھی تھے اس وقت تجویز کی گئی کہ اس کمیٹی کو آل انڈیا حیثیت دینی چاہئے اور صدر کو اختیار دیا جائے کہ وہ اور ممبروں کو کمیٹی میں شامل کریں- اس اختیار سے کام لے کر پہلا کام جو میں نے کیا یہ تھا کہ مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب کو خطوط لکھوائے کہ مجھے امید ہے آپ اس میں شامل ہو کر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے اور نہ صرف خطوط لکھوائے بلکہ ان کے ایک دوست مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی سے کہ جن کے بھائی ان لوگوں کے صدر ہیں اور جو خود کانگریسی خیالات کے ہیں وعدہ لیا کہ وہ ان لوگوں سے مل کر انہیں مجبور کریں کہ اس میں شامل ہو جائیں-
میرا منشاء یہ تھا کہ اس کمیٹی میں کانگریس کے موید مسلمانوں کی بھی نمائندگی ہو اور سب جماعتیں مل کر کام کریں- احمدیہ جماعت کے متعلق میں نے یہ احتیاط کی کہ سوائے ایکصاحب کے جو لاہور کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور اس جماعت کی بھی نمائندگی ضروری تھی ایک احمدی بھی اس کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا تا یہ الزام نہ ہو کہ اپنے آدمی بھر لئے گئے بلکہ ملک کے بہترین اور مشہور لوگوں کو دعوت دی لیکن افسوس کہ باوجود میری اس کوشش کے مظہر علی صاحب اظہر اور چوہدری افضل حق صاحب نے ہماری دعوت کا جواب تک نہیں دیا- ہاں ہمیں دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان کا جواب یہی تھا کہ ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرنا پسند نہیں کرتے- اس کے بعد >کشمیرڈے< کی تحریک ہوئی اور لاہور سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر احمدیہ جماعت کا امام ہے اس لئے ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار نہیں- قطع نظر اس سے کہ یہ سوال درست تھا یا نہیں مجھے جب یہ بات پہنچی تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہمارا مقصد کشمیر کے لوگوں کی حالت کو درست کرنا ہے اور ان جھگڑوں میں پڑنا نہیں اس لئے میں نے تین خط لکھے ایک ڈاکٹر سر محمداقبال صاحب کو دوسرا مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کو اور تیسرا مولوی غلام رسول صاحبمہر کو کہ اگر احرار کی مجلس کا یہی اعتراض ہے کہ میں صدر ہوں تو آپ انہیں تیار کریں کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبر ہو جائیں اور مسلمانوں کی کثرت رائے کے ماتحت چلنے کا اقرار کریں اگر وہ اس امر کے لئے تیار ہوں تو میں فوراً مستعفیٰ ہو جائوں گا بلکہ بعض صاحبان کو تو میں نے یہ بھی لکھا کہ اس صورت میں وہ میرے اس خط کو ہی استعفیٰ سمجھ لیں- مجھے ان خطوط کے جو جواب آئے ہیں ان میں سے دو کا تو میں ذکر نہیں کرتا کہ شاید ان کے لکھنے والے سمجھیں ہمارے دوستوں سے ہمیں لڑوایا گیا ہے لیکن ایک کا جواب میں بیان کر دیتا ہوں- جو خط میں نے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو لکھا تھا وہ انہوں نے سید محسن شاہ صاحب کو دیا تا ان لوگوں کو دکھائیں- جب انہوں نے یہ خط ان کے پیش کیا تو انہوں نے کہا اس کمیٹی کو کس نے نمائندہ بنایا ہے کہ اس کی اتباع کریں- ہم تو الگ کام کریں گے حالانکہ یہ اعتراض ان کا درست نہ تھا- اس کمیٹی کو آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے اپنی شاخ قرار دیا ہے- اور آل مسلم پارٹیز کانفرنس وہ ہے جس کے ممبر تمام کونسلوں کے منتخب شدہ‘ ممبر اسمبلی کے منتخب شدہ ممبر اور کونسل آف سٹیٹ کے منتخب شدہ ممبر ہیں- اس کے علاوہ اس میں بیس ممبر مسلم لیگ کے‘ بیس جمیعہ العلماء کے‘ بیس خلافت کمیٹی کے اور تیس ہندوستان کے عام شہرت رکھنے والے لیڈر ہیں- سوچنا چاہئے کہ اگر یہ مجلس بھی نمائندہ نہیں تو اور کون ہوگی- اس میں ہر خیال کے لوگ ہیں- پھر سارے کے سارے انتخاب کے ماتحت ممبر بنتے ہیں- یوں نہیں کوئی خود بخود ہی لیڈر بن جائے- ایک چمار کو بھی اگر کوئی جماعت منتخب کر دے تو وہ اس کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے- اس میں سیالکوٹ کے بھی منتخب شدہ نمائندے ہیں- دیہاتی حلقہ کی طرف سے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب اور شہری حلقہ کی طرف سے شیخ دین محمد صاحب- اور جب تمام مسلمانوں کے منتخب شدہ نمائندے جو فیصلہ کریں وہ اکثریت کا فیصلہ نہیں کہلا سکتا تو کیا پندرہ لوگوں کی اس کمیٹی کا جو ایک گھر میں بیٹھ کر بنا ئی گئی ہو اکثریت کا فیصلہ کہلائے گا- پس یہ اعتراض قطعی طور پر حقیقت سے دور ہے کہ وہ میری وجہ سے شامل نہیں ہوئے- یہ دیکھ کر کہ وہ کسی طرح بھی اس کمیٹی میں شامل نہیں ہوتے نیز بعض اور باتوں سے جو ان سے تعلق رکھنے والوں نے بیان کیں‘ یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ ان کی اصل غرض کچھ اور ہے- اور چونکہ عوام احمدیوں کے خلاف بھڑک اٹھتے ہیں اس لئے نشانہ ہم کو بنا لیا ہے- لیکن جوش کی باتیں عارضی ہوتی ہیں- دنیا میں جو شخص کام کرنے کے لئے کھڑا ہو آج جو اسے پتھر مارتے ہیں کل کو ضرور وہی اس پر پھول برسائیں گے- جون آف آرک ایک فرانسیسی عورت تھی جس نے اپنے ملک کو آزاد کرایا تھا- اس کو اپنے زمانہ میں اس قدر تکلیف دی گئی کہ خود اس کے ابنائے وطن نے اسے پکڑ کر انگریزوں کے حوالہ کر دیا اور انگریزوں نے اس کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ آگ میں زندہ ڈال کر اسے جلا دیا جائے- لیکن آج وہ ولیہ سمجھی جاتی ہے حالانکہ اس کا کام روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا- تو جو لوگ دوسروں کی خاطر پتھر کھاتے ہیں ان پر ضرور پھول برستے ہیں- یہ جو پتھر آج پھینکے گئے ہیں ان کے کھانے کی ہم میں اہلیت نہیں- یہ خدا تعالیٰ نے اس لئے پھینکوائے ہیں کہ کل کو پھول بن کر ہمیں لگیں- ان سے سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر آزاد ہو گیا-
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کی ایران سے جنگ ہو رہی تھی- کسریٰ نے ان کا ایک وفد بلایا کہ آ کر بتائے مسلمان کیا چاہتے ہیں- چنانچہ صحابہ کا ایک وفد گیا- کسریٰ نے اس سے باتیں کیں اور کہا تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو- تم وحشی اور جاہل ہو اور نہیں جانتے کہ میں تمہیں پیس ڈالوں گا- مسلمانوں کے رئیس وفد نے جواب دیا بے شک ہم لوگ ایسے ہی تھے مگر خدا تعالیٰ نے ہم میں ایک نبی مبعوث کیا جس نے ہماری حالت کو بدل دیا- باتوں ہی باتوں میں کسریٰ کو طیش آ گیا اور اس نے کہا یہ شخص گدھا ہے- مٹی کا ایک بورا لا کر اس پر رکھ دیا جائے- چنانچہ بورا لایا گیا- دوسرے صحابی منتظر تھے کہ وہ آگے سے ہٹ جائیں گے لیکن وہ نہایت اطمینان سے کھڑے رہے اور مٹی کا بورا لا کر ان کے کندھوں پر رکھ دیا گیا- اس پر انہوں نے چلا کر کہا کہ کسریٰ نے ایران کی زمین اپنے ہاتھوں سے ہمارے سپرد کر دی اور وہ بورا اٹھائے ہوئے دربار سے نکل گئے- مشرک چونکہ بزدل ہوتا ہے- کسریٰ کانپ اٹھا اور گھبرا کر آدمی بھیجے کہ مٹی ان سے چھین لائیں- لیکن وہ صحابی اور ان کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہو کر بھاگ چکے تھے-۴~}~ اسی طرح میں کہتا ہوں یہ پتھر بھی جن لوگوں نے مارے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ کشمیر کی طرف سے مارے ہیں- جس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست نے علاقہ پر رعایا کو قبضہ دے دیا ہے- سو اللہ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں وہ مظلوم جو سینکڑوں سال سے ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان پر جا پہنچیں اور خدا تعالیٰ نے ظالموں سے ظلم کی آخری اینٹیں پھینکوائیں تا اس ملک پر اپنا فضل نازل کرے-
ہم نے چاہا کہ مہاراجہ اور حکومت کے ادب کو قائم رکھتے ہوئے امن کے ساتھ بغیر اس کے مہاراجہ کی عزت میں فرق آئے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ کشمیر کی تمام رعایا کو اس کے حقوق دلائیں مگر اس کے نادان وزراء نے ایسا نہ چاہا- ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم باہر رہیں گے اور اس کے گھر پر جا کر پتھر نہیں پھینکیں گے- مگر ریاست نے ہمارے علاقہ میں ہم پر پتھر پھینکوائے اور ابتداء کی- اور یہ مسلمہ ہے کہ البادی اظلم یہ پتھر کوئی چیز نہیں- بعض دوستوں کو زخم آئے ہیں یہ بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتے- ایک صحابی کی روایت ہے- جنگ احد کے دن میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اکیلا تھا اور چاروں طرف سے اس پر حملے ہو رہے تھے- پتھر‘ نیزے اور تلواریں برس رہی تھیں پاس پہنچ کر جب میں نے دیکھا تو وہ رسول کریم ~صل۲~ تھے- اگر دنیا میں سیادت حق اور روحانیت کے قیام کے لئے ہمارے آقا سردارﷺ~ نے اس مقدس وجود نے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے چنا‘ جسے اپنے قرب میں بلند ترین جگہ عطاء کی- اگر دنیا کو آزاد کرانے کے جرم میں اس آزادی کے بانی حریت کے قائم کرنے والے اور حسن کی مورت پر پتھر پھینکے گئے تو ہم لوگ جو اس کے خاک پا کے برابر بھی نہیں‘ کیا حیثیت رکھتے ہیں- جب چاند نظر نہیں آیا تو چاند کا عکس کہاں نظر آ سکتا ہے- میں بتا رہا تھا کہ یہ فتنہ پردازی خواہ کسی کے ہاتھ سے ہوئی ہو اصل محرک اور ہے- لیکن ہمارا قلب وسیع ہے ہم ان ہاتھوں کو جنہوں نے پتھر برسائے‘ ان زبانوں کو جنہوں نے اس کے لئے تحریک کی اور اس کنجی کو جو اس کا باعث ہوئی‘ معاف کرتے ہیں کیونکہ جس کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف جو ہمیں پہنچائی گئی بالکل معمولی ہے-
جنگ عظیم میں بیلجیئم کو غلامی سے بچانے کیلئے جس ¶کی آبادی کشمیر کی طرح تیس لاکھ کے قریب ہے‘ دو کروڑ آدمی مارا گیا- پس کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے اگر ہم نے چند پتھر کھا لئے تو یہ کیا ہے- ہم نے شروع سے کوشش کی ہے کہ امن کے ساتھ کام کریں- اور آئندہ بھی یہی کوشش کرتے رہیں گے-
اب میں اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس وقت تک کیا کام کیا ہے- پہلا کام اس کا یہ ہے کہ پہلے حکومت برطانیہ پورے طور پر مسلمانوں کے خلاف تھی اور وائسرائے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے افسر تک کی یہی رائے تھی کہ یہ صرف چند ایک مسلمانوں کی شرارت ہے اور میں جس وقت شملہ پہنچا تو فضاء مسلمانوں کے سخت خلاف تھی- ہم نے ہر افسر سے مل کر اس مسئلہ کے متعلق اس سے بحثیں کیں اور آخر اکثر کی رائے میں تبدیلی پیدا ہو گئی حتی کہ حکومت کی طرف سے ریاست پر زور ڈالا گیا اور ریاست نے دبتے ہوئے مسلمانوں سے صلح کی خواہش کی- خود میں اسی غرض سے وائسرائے سے ملا- گورنر پنجاب سے بھی بوجہ ملحقہ صوبہ کا گورنر ہونے کے گفتگو کی- اسی طرح ایک اور ممبرحکومت سے اس بارہ میں تبادلہ خیال کیا- بقیہ لوگوں سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم-اے ملتے رہے- اس کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ہیں لیکن سب کا بیان کرنا خلاف مصلحت ہے- اور چاہئے کسی کی تسلی ہو یا نہ ہو‘ تمام باتوں کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا- ہاں یہ امر ہر اک جان سکتا ہے کہ ہماری اس کوشش کے نتیجہ میں حکومت ہند میں ایسی حرکت پیدا ہوئی جو مسلمانوں کے حق میں مفید تھی- پھر >کشمیرڈے< کا اعلان کیا گیا جس کی غرض یہ تھی کہ شملہ میں جب کانفرنس ہوئی تو بعض اصحاب کی رائے تھی وائسرائے کے پاس ایک وفد لے جایا جائے لیکن بعد غور یہ فیصلہ ہوا کہ اس وقت وفد لے جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر وہ یہ دریافت کریں کہ آپ لوگوں کو نمائندگی کا حق کس نے دیا ہے تو ہم کیا جواب دے سکتے ہیں اس لئے پہلے >کشمیر ڈے< منایا جانا چاہئے- ہر جگہ سے حکومت کو تار دیئے جائیں کہ کشمیری مسلمانوں سے ہمیں ہمدردی ہے اور ان کی امداد کے لئے کشمیر کمیٹی جو کچھ کر رہی ہے ہم اس سے متفق ہیں- جب ہر جگہ سے جلسے ہو کر حکومت کو اطلاعات دی جائیں گی تو پھر ہماری آواز آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آواز سمجھی جائے گی- گو وقت بہت تھوڑا تھا مگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی کوشش سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں نہایت شاندار اور کامیاب جلسے ہوئے- خود سیالکوٹ کے لوگ گواہ ہیں کہ مقامی کشمیر کمیٹی کی کوشش سے یہاں ایسا کامیاب اور شاندار جلوس اور جلسہ ہوا کہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا- یہ ایک ایسا کام ہے جسے ہر شخص نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے- اندازہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا اس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ ہوا- یہ کوئی فضول کام نہیں بلکہ نہایت دیرپا اور مفید تحریک تھی- جس کے پھل مدتوں تک نکلتے رہیں گے اور اس سے گورنمنٹ کے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ اس تحریک میں سب مسلمان متفق و متحد ہیں- اگر اسے تفرقہ کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جاتا تو یقیناً بہت فائدہ ہو سکتا تھا- پھر جس وقت تار آئی کہ سرینگر میں گولی چلی ہے ہم نے فوراً ایک وکیل وہاں بھیجا جو آج تک وہیں ہے- مظلومین کے لئے روپیہ بھجوایا گیا‘ وہاں کی کمیٹی کے کام کے لئے بھی کچھ امداد ارسال کی گئی- کشمیر کے علاقہ کی بعض کمیٹیوں کی حالت تو ایسی ہے کہ بعضاوقات تار دینے کے لئے بھی ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے- اس لئے نہیں کہ وہ لوگ قربانی کا مادہ نہیں رکھتے بلکہ اس لئے کہ بائیکاٹ وغیرہ کی وجہ سے بعض جگہ کے لوگ جہاں مسلمان کم ہیں سخت اقتصادی نقصان اٹھا رہے ہیں- اور نان شبینہ کے محتاج ہیں- جس وقت یہ امداد کی گئی ہے اس وقت کشمیر فنڈ میں ایک پیسہ بھی نہ تھا لیکن ہم برابر انہیں روپیہ بھیجتے رہے اور پانچ صد روپیہ تو پہلے ہی دن بھیجا تھا- اس کے علاوہ تین کشمیری نوجوانوں کو بھیجا گیا کہ وہ جا کر دیہات میں بیداری پیدا کریں کیونکہ معلوم ہوا تھا حکومت کشمیر کوآپریٹو بنکوں کے کارکنوں کے ذریعہ ناواقف دیہاتیوں سے انگوٹھے لگوا رہی ہے- انہیں کہا تو یہ جاتا ہے کہ سب انگوٹھے لگا دو تمہارے ہاں بنک قائم کر دیا جائے لیکن لکھ یہ لیا جاتا ہے کہ ہم سرکار کے سچے وفادار ہیں- اور سرینگر وغیرہ کے شورش کرنے والوں سے متفق نہیں اور ان کی حرکات کو ناپسند کرتے ہیں حالانکہ سارا کشمیر سوائے چند غداروں یا ناواقفوں کے ریاست کے موجودہ انتظام میں تبدیلی چاہتا ہے- پس اس خوف سے کہ ان کے ان پڑھ ہونے سے فائدہ نہ اٹھایا جائے انہیں اصل حقیقت بتانا ضروری تھا- چنانچہ مجھے شملہ میں ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ ہمارے پاس تو وہاں سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ لوگ انگوٹھے لگا کر بھجوا رہے ہیں کہ ہم کو ریاست میں پورا امن حاصل ہے- پس اس بلا کو روکنے کے لئے ہم نے تین آدمی مقرر کئے جو دیہات میں پھر پھر کر لوگوں کو ہوشیار کریں کہ ریاست کے افسروں کے اس قسم کے دھوکوں میں نہ آئیں- پھر جموں میں پولیس کے حملہ کے متعلق جب تار آیا تو اسی وقت ہم نے اپنا نمائندہ وہاں بھجوا دیا- فوٹوگرافر کو بھیجا گیا تا وہ زخمیوں کے فوٹو لے- اور اب ہمارے پاس ڈوگرا حکومت کے مظالم کا زبردست ثبوت ہے- پہلے جب میں نے وائسرائے کو تار دیا کہ وہاں مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے تو حکومت ہند نے ریاست کو اس کے متعلق تار دیا- اس کے بعد پولیٹیکل سیکرٹری نے مجھے بذریعہ تار اطلاع دی کہ حکومت کشمیر اس سے انکار کرتی ہے- لیکن ہمارے پاس اب فوٹو ہیں اور اس طرح ہم نے حکومت کشمیر کا جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کافی مسالہ جمع کر لیا ہے- پھر نہ صرف یہ امداد دی بلکہ زخمیوں کے علاج کے لئے ڈاکٹر اور ادویہ وغیرہ بھجوائے- پھر جب پتہ لگا کہ لوگ بہت غریب ہیں تو پسماندگان کو امدادی رقوم بھجوائیں- بعض گھروں کی تو یہ حالت تھی کہ ادھر ان کے آدمی قید ہو گئے اور ادھر ان کے ہاں کھانے کو کچھ بھی نہ تھا- ہم نے اس کے لئے روپیہ بہم پہنچایا- اس وقت مجلس احرار قائم ہو چکی تھی مگر کیا انہوں نے بھوکوں کا پیٹ بھرا- نہیں اور ہر گز نہیں- ہاں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ایسا کیا- پھر مقدمات شروع ہوتے ہی انہوں نے قانونی امداد طلب کی اور ہم نے فوراً وہاں وکیل بھجوا دیا- مولوی مظہر علی صاحب اظہر تحقیقات کے لئے سرینگر تو پہنچ گئے مگر جموں میں مقدمات کی پیروی کے لئے نہ پہنچ سکے- پھر ہم نے ولایت میں پروپیگنڈا کیا ہے اور وہاں کے بعض لارڈز کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وزراء اور پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں پر زور دیں کہ اس معاملہ میں مداخلت کی جائے اور ان سب باتوں کا اتنا اثر ہوا ہے کہ اندازاً چھوسوروپیہ ماہوار تنخواہ پر لنڈن میں ایک ایجنٹ مقرر کیا گیا ہے جو ہمارے پروپیگنڈا کا مقابلہ کرے اور ریاست کے حق میں پروپیگنڈا کے لئے بعض اخبارات کو مائل کرے- اگر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی یہ مساعی معمولی ہیں تو کیا ضرورت تھی کہ اس قدر خرچ کیا جاتا- پھر ہم نے عرب‘ امریکہ‘ سماٹرا‘ جاوا‘ مصر شام وغیرہ تمام مشرقی و مغربی ممالک میں انتظام کیا ہے کہ وہاں کے اخبارات میں حکومت کشمیر کے مظالم کی داستانیں شائع کی جائیں- غلامی کو دور کرنے والی لیگوں کو لکھا گیا ہے کہ انگریزی حکومت کے اندر اس وقت بھی تیس لاکھ انسان بدترین غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں-
غرضیکہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں ہم نے اس تحریک کو نہ پہنچایا ہو کیونکہ ہر جگہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے موجود ہے- ہاں ہم نے جو کچھ نہیں کیا وہ یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود شور نہیں مچایا کہ ہم یہ کر رہے ہیں اور وہ کر رہے ہیں- ایک مخلص لیڈر نے مجھے لکھا کہ آپ اور میں کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کریں- حکومت لازماً ہمیں گرفتار کرے گی اور اس سے تمام ملک میں شور مچ جائے گا- میں نے انہیں لکھا یہ صحیح ہے کہ میری اور آپ کی گرفتاری پر شور پڑ جائے گا کیونکہ ہمارے لئے اپنی جان اور مال قربان کرنے والے لاکھوں آدمی موجود ہیں مگر ریاست اتنی بے وقوف نہیں کہ ہمیں گرفتار کرے- میں خوب جانتا ہوں کہ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گی- پس اس فعل میں ہماری کوئی قربانی نہیں ہوگی صرف ایک نمائش ہو جائے گی جس سے فائدہ اٹھانا ہماری شان کے خلاف ہے چنانچہ انہوں نے بھی مجھ سے اتفاق کیا-
احرار کا ایک ہی کام بیان کیا جاتا ہے یعنی جتھوں کا بھیجنا- لیکن یہ تحریک بھی آلانڈیاکشمیر کمیٹی نے ہی شروع کی ہے اور سب سے پہلے جتھوں کے متعلق ہمارے اعلانوں میں ہی ذکر آیا ہے لیکن بعد میں جب میں نے اس پر اچھی طرح غور کیا تو میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ یہ تجویز ریاستی مسلمانوں کے لئے نقصان رساں ہے- خود کشمیر کے بعض سرکردہ لوگوں کے جن کے نام ظاہر کرنا مناسب نہ ہوگا‘ خطوط ہمارے پاس موجود ہیں جن میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ تحریک ہمارے لئے مضر ہے ہمیں تو صرف یہ ضرورت ہے کہ یہاں کے بیکس لوگوں کے لئے روپیہ بھیجا جائے جو اس مصیبت کے ایام میں فاقوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں- حقیقت یہ ہے کہ قید ہونے کے لئے تو کشمیر کے بہت آدمی تیار ہیں- آخر اپنے گھر کا جو دکھ انہیں ہو سکتا ہے باہر والوں کو تو نہیں ہو سکتا- جو مشکل ان کے راستہ میں ہے یہ ہے کہ جب اس قسم کی تحریک شروع ہو تو ہزاروں غریب پس جاتے ہیں ان کی کچھ نہ کچھ امداد حوصلہ افزائی کے لئے ضروری ہوتی ہے- پس جس طرح یورپ کے لوگ آرمینیا وغیرہ کے لوگوں کی روپیہ سے امداد کرتے تھے اور انہیں کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا اسی طرح برطانوی ہند کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے مظلومین کی مالی امداد کریں-
جتھوں کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں اول تو انگریزی حکومت ہی روکے گی- چنانچہ یہاں کے لوگوں کو معلوم ہے کہ احرار کے جتھوں کے ساتھ انگریزی افسر سیالکوٹ سے جموں گئے تھے تا اگر حکومت جموں اجازت نہ دے تو وہ ان لوگوں کو واپس لے آئیں- انٹرنیشنللاء کے مطابق ہر حکومت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اگر اس کی رعایا میں سے کوئی لوگ دوسری سرحد پر جا کر شورش پیدا کرنا چاہیں تو وہ انہیں روکے- اس لئے پنجاب سے بمبئی‘ کلکتہ‘ مدراس بلکہ برہما میں بھی جتھ جا سکتا ہے لیکن انگریزی رعایا کا کوئی جتھا کشمیر میں نہیں جا سکتا- پس جتھے بھیجنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حکومت انگریزی انہیں روکے گی اور طبائع میں جوش ہونے کی وجہ سے لڑائی کا رخ انگریزوں کی طرف ہو جائے گا- وہاں ڈوگرہ حکومت ریاست کے مسلمانوں کو کچلتی رہے گی اور یہاں انگریزوں سے مسلمان پٹ رہے ہونگے- پس جتھے بھیجنا ریاست کے مسلمانوں سے دشمنی کے مترادف ہے‘ خیر خواہی ہر گز نہیں- جو اشخاص یہ جانتے ہوئے کہ ہمیں پکڑا نہیں جائے گا وہاں جاتے ہیں وہ محض نمائش کرتے ہیں اور جسے اس کا شوق ہو بے شک کرے ہم تو ٹھوس کام کرنا چاہتے ہیں- شروع میں لوگ بے شک ہنگامہخیزی سے متاثر ہو جائیں مگر آخر ایک نہ ایک دن دنیا یہ محسوس کر ہی لیتی ہے کہ کام کون کر رہا ہے؟ اور دراصل ٹھوس کام کر ہی وہ سکتا ہے جس کے اندر صبرو استقلال کے ساتھ حوادث کا مقابلہ کرنے کی سپرٹ ہو- ابھی دیکھ لو ہمیں تو یہ لوگ بزدل اور ٹودی۵~}~ کہتے ہیں اور خود بڑے حریت پسند‘ آزادی کے شیدا اور مجاہد ہونے کے دعوے کرتے ہیں- لیکن ہم تو ایک گھنٹہ سے زیادہ عرصہ تک پتھروں کی شدید بارش کے باوجود یہاں ڈٹے رہے ہیں لیکن یہ صرف ایک دھمکی سن کر ہی بھاگ گئے ہیں- حق کو اختیار کرنے سے ہی صبرو استقلال اور دلیری و جرات پیدا ہوتی ہے- جس وقت انسان اپنی نیت بدل لے اسی وقت اس کی روحانی حالت میں بھی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے- اگر یہ لوگ بھی آج فیصلہ کر لیں کہ نمائش‘ ہنگامہ آرائی اور ذاتی اغراض و مقاصد کو چھوڑ کر حق کی حمایت کریں گے خواہ نتیجہ کچھ ہو تو ان کے اندر بھی دلیری اور بہادری پیدا ہو سکتی ہے-
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ فرض کرو میں نے جو کچھ اس وقت تک بیان کیا وہ کسی کی نظر میں سب فضول ہے تو بھی کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ جو چیز اس کی نظر میں لغو ہے وہ دوسروں کو بھی لغو سمجھنے پر مجبور کرے- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے- ھل شققت قلبہ ۶~}~ یعنی کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا ہے- فرض کر لو آل انڈیا کشمیر کمیٹی چند ایک ٹوڈیوں کا مجموعہ ہے- گو اس میں مولانا حسرت موہانی‘ مولانا شفیع دائودی جیسے مسلم رہنما مشیر حسین صاحب قدوائی جیسے کانگریسی لیڈر بھی شامل ہیں اور ہندوستان کے اندر سب لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مولانا حسرت موہانی بزدلوں میں نہیں بلکہ قیدو بند کے شوق میں کانگریس کے لیڈروں سے بھی دس قدم آگے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ کانگریس کے دشمن ہی اس وجہ سے ہیں کہ وہ مکمل آزادی کی خواہاں نہیں- اگر تو ٹوڈی کی یہی علامت ہے کہ جو شخص چاہے کسی کو ٹوڈی کہہ لے‘ تب تو الگ بات ہے- لیکن اگر اصول کو بھی کوئی عزت حاصل ہے اور اگر ٹوڈی لفظ کے بھی کوئی معنی ہیں- )اگرچہ مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس لفظ کے کیا معنی ہیں( اور پھر عقل بھی دنیا میں کوئی چیز ہے تو اس کمیٹی میں ایسے ایسے ممبر ہیں جو تحریک حریت کے زبردست رہنما تسلیم کئے گئے ہیں اور جو مدتوں جیل خانوں میں رہ چکے ہیں- چنانچہ مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی‘ مولوی غلام رسول صاحب مہر اور دیگر کئی ممبر اس کے ایسے ہیں جو جیل خانوں میں ہو آئے ہیں- لیکن احرار کہہ رہے ہیں کہ ابھی تک ان کی ٹوڈیت نہیں گئی- اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جاپان کے ایک سیاست دان نے لکھا تھا کہ یورپ کے لوگ ہمیں غیر مہذب کہتے تھے- ہم نے خیال کیا شاید تہذیب تعلیم حاصل کرنے سے آتی ہے اس لئے ہم نے مدرسے جاری کئے مگر پھر بھی غیر مہذب ہی کہلاتے رہے- پھر خیال کیا شاید انڈسٹری کی ترقی سے تہذیب حاصل ہو سکے گی اس لئے اسے فروغ دینے کی پوری کوشش کی مگر پھر بھی ہمیں مہذب نہ سمجھا گیا- پھر ہم نے سوچا شاید یورپین ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کا نام تہذیب ہے اور ہم نے کثرت سے نوجوان دوسرے ممالک میں اس غرض کیلئے بھیجے مگر پھر بھی اہل یورپ ہمیں غیر مہذب ہی سمجھتے رہے- پھر ہم نے فوجوں کی درستی کی‘ کئی جہاز بنائے‘ مگر سب چیزیں اکارت گئیں اور ہم بدستور غیر مہذب سمجھے جاتے رہے حتی کہ منچوریا۷~}~ کے میدان میں ہم نے ایک لاکھ سفید چمڑے والے روسیوں کو تہہ تیغ کر دیا اور پھر اہل مغرب ہمیں مہذب سمجھنے لگے مگر دقت یہ ہے کہ وہاں تو پھر بھی مہذب کی تعریف معلوم ہو گئی تھی مگر یہاں تو ٹوڈی کی کوئی بھی تعریف اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکی- بعض اخبارات ایسے لوگوں کو بھی ٹوڈی لکھتے ہیں جو ان سے زیادہ عرصہ تک جیل خانوں میں رہ چکے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ منہ سے کہہ دینا اور بات ہے لیکن دلائل اور حقائق سے ثابت کرنا اور بات ہے-
میں مولوی میرک شاہ صاحب جیسے دیو بندی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی جیسے اہل حدیث اور پیروں میں سے خواجہ حسن نظامی صاحب‘ مولانا ابوالحمید ظفر صاحب بنگالی جیسے‘ سیاست دانوں میں سے مولانا حسرت موہانی‘ مولانا شفیع دائودی‘ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب کانگریسیوں میں سے ملک برکت علی اور مشیر حسین صاحب قدوائی‘ تعلیم جدید کے ماہرین میں سے ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب جیسے اور فلسفیوں اور شاعروں میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جیسے کشمیر کے مسلمانوں کے دیرینہ خادموں میں سے سیدمحسن شاہ صاحب جیسے لوگ شامل ہیں- آخر سوچنا چاہئے یہ کیا ہوا چلی کہ مذہبی لیڈر علوم دینیہ کے ماہر‘ آزادی و حریت کے رہنما‘ فلسفہ و شعر میں کمال رکھنے والے سب کے سب نے مل کر یکدم فیصلہ کر لیا کہ آئو ایسا دھوکا کریں کہ سب دنیا احمدی ہو جائے- میرے پاس وہ کونسا جادو تھا کہ ان سب کو میں نے اس سازش میں شامل کر لیا- مولوی میرک شاہ صاحب اور خواجہحسننظامی صاحب بھی میرے ساتھ اس میں شامل ہو گئے- پھر ابوبکر صاحب کو بنگال میں مذہبی لحاظ سے جو پوزیشن حاصل ہے‘ وہ پنجاب میں ایک شخص کو بھی نہیں- بیس تیس لاکھ کے درمیان ان کے مرید ہیں- انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو اس سازش میں شریک کر دیا اور اگر یہ صحیح ہے کہ میں نے مسلمانوں کے ان تمام لیڈروں پر جادو کر دیا ہے تو کیا میں ایسا جادو سیالکوٹ کے عوام پر ہی نہیں کر سکتا وہ میرے افسوں۸~}~ سے بچ جانے کی امید کس طرح کر سکتے ہیں- میں تو اس صورت میں سیالکوٹ کی گلی گلی میں احمدیت پھیلا دوں گا- جو قوم یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس کے چوٹی کے لیڈروں پر میرا جادو چل گیا ہے وہ کس طرح یہ گمان کر سکتی ہے کہ اس کے عوام محفوظ رہ سکتے ہیں- مگر یہ کہنا میری نہیں خود ان لوگوں کی اپنی ہتک ہے جو ایسا کہتے ہیں-
یہ بات بالکل غلط ہے اگر ان لوگوں کو اس تحریک میں احمدیت کا ذرا بھی اثر نظر آتا تو ان کو کیا مجبوری تھی کہ میرے ساتھ اس طرح شامل ہو جاتے- اگر مخالفت کا موقع ہوتا تو یقیناً یہی لوگ مخالفت کرتے جو اس وقت میرے ساتھ ہیں- سو یہ محض وہم ہے- بلکہ وہم بھی نہیں ہنگامی جوش کی وجہ سے جنون کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جس کے باعث خلاف حقیقت باتیں ان لوگوں کی طرف سے کہی جا رہی ہیں- اصل بات یہ ہے کہ موجود الوقت سب لوگوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں اس کمیٹی کی صدارت منظور کر لوں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے کہا یہ کمیٹی نئی قائم ہوئی ہے اور اس کی اساس کو قائم کرنے میں ہی ہمارے کئی ماہ صرف ہو جائیں گے لیکن آپ کی جماعت منظم ہے اور آپ ایک ہفتہ کے اندر اندر ہی کام شروع کر سکتے ہیں- میں نے اس سے انکار کیا لیکن بعض دوستوں کی طرف سے اصرار ہوا بلکہ بعض نے تو کہا کہ آپ ڈکٹیٹر بننا منظور کریں- لیکن میں نے اس سے انکار کیا اور کہا اگر بننا ہی ہوا تو میں پریذیڈنٹ ہی رہوں گا ڈکٹیٹر نہیں بننا چاہتا- اس پر مجھے یہ کہہ کر مجبور کیا گیا کہ قوم کی خدمت سے آپ انکار نہ کریں اور کوئی بے وقوف ہی کہہ سکتا ہے کہ ان تمام لیڈروں نے یہ سازش کی- اور یہ جانتے ہوئے کہ میں غیر احمدیوں کو اس طرح احمدی بنا سکوں گا اور میرے ساتھ شامل ہو گئے- دراصل یہ لوگ خیال کرتے ہیں ساری عقل ہمارے ہی اندر ہے باقی سب لوگ پاگل ہیں- مجھے یہ لوگ اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ اگر میرے ذریعہ سے اسلام کی تائید ہو جائے تو ان کا کیا حرج ہے؟ اور یہ خوشی کا مقام ہے یا رنج کا؟ رسول کریم ~صل۲~ فرماتے ہیں کہ کبھی خدا تعالیٰ اسلام کی ایک فاسق شخص کے ذریعہ سے مدد کرتا ہے-۹~}~ پس یہ باوجود مذہبی مخالفت کے اگر یہی کچھ سمجھ لیتے کہ خدا تعالیٰ ایک دشمن سے کام لے رہا ہے تو ان کا کوئی حرج نہ تھا- آخر یہ لوگ گاندھی جیسے کافر کی اتباع بھی تو کر ہی رہے ہیں حالانکہ اس کے عقائد اسلام کے سخت خلاف ہیں- اس کی لائف پڑھ کر دیکھو کس طرح شروع سے آخر تک اسلام کی ہتک کی گئی ہے- ہندو دھرم کے وہ مسائل جو اسلام کے مقابل ہیں ان میں خاص طور پر اس نے ہندو دھرم کی فضیلت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے- اس کے اندر تو انہیں کوئی عیب نظر نہیں آتا لیکن ہمارے اندر جن کا عقیدہ ہے-
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفرایں بود بخدا سخت کافرم
عیوب کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا-
عقائد کا اختلاف سہی اور پچاس نہیں پچاس ہزار امور میں اختلاف سہی- ہر ایک کا حق ہے کہ دوسرے کے عقائد کو غلط سمجھے- لیکن اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ حنفی غلطی پر ہیں تو یہ میرا حق نہیں کہ کہہ دوں یہ خدا تعالیٰ کے بھی منکر ہیں- یہ بدترین قسم کی بددیانتی ہے- انگریزی میں ایک مثل مشہور ہےdue his devil the Giveیعنی شیطان کو بھی اس کا حق ملنا چاہئے- جب ہمار دعویٰ ہے کہ ہم رسول کریم ~صل۲~ کے خادم ہیں تو خواہ ہمیں غلطی پر سمجھا جائے لیکن اتنا تو ماننا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں اور ہماری طرف غلط باتیں تو منسوب نہیں کرنی چاہئیں-
مولوی میرک شاہ صاحب جانتے ہیں کہ کشمیر میں احمدیوں کی تعداد سو میں سے ایک بھی نہیں لیکن یہاں تک مشہور کیا گیا ہے کہ میں وہاں کی بادشاہت حاصل کرنی چاہتا ہوں بلکہ تاج بھی تیار کیا جا چکا ہے- لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ جو رعایا راجہ کو نکالے گی وہ ہمیں کس طرح بادشاہ بنا لے گی- یہ تو ممکن ہے کہ مولانا انور شاہ صاحب یا میر واعظ شاہ صاحب یا مولوی میرکشاہ صاحب کو بنائے لیکن ہم میں سے کسی کے بننے کی کیا صورت ہو سکتی ہے- یہ سب جوش پیدا کرنے والی اور خلاف عقل باتیں ہیں- کشمیر ایجی ٹیشن ایک سیاسی کام ہے مسلمان یا غیرمسلمان کا سوال نہیں- جب انسان ایک گدھے کو مارتا ہے اور ہمیں درد محسوس ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے اپنے جیسے انسان کو بدترین مصیبت میں دیکھ کر کچھ احساس نہ ہو- میں نے وہاں خود دیکھا ہے کہ مسلمان زمیندار کو ایک بنیا پیٹتا جاتا ہے اور وہ آگے سے ہاتھ جوڑتا ہے- میں چھوٹا تھا کہ ہم سری نگر جاتے ہوئے ایک گائوں میں سے گزرے- اس وقت موٹریں نہ تھیں ٹانگوں پر جاتے تھے- گائوں والوں سے ہم نے مرغ مانگا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا اس گائوں میں تو وبا پڑی تھی اور سب مرغ مر گئے- میرے چھوٹے بھائی بھی میرے ساتھ تھے جن کی عمر اس وقت تیرہ سال کی تھی- وہ ایک گھر میں گھس گئے اور واپس آ کر کہا اس میں چالیس سے زیادہ مرغ ہیں- میں نے سمجھا بچہ ہے‘ غلطی لگی ہوگی لیکن پاس ہی صحن تھا‘ میں نے جو ادھر نظر کی تو واقعی صحن مرغوں سے بھرا ہوا تھا- میں نے جب گھر والے سے پوچھا تو اس نے کہا یہ تو ہم نے نسل کشی کے لئے رکھے ہوئے ہیں- اتنے میں ایک اور ساتھی نے آ کر کہا- قریباً سب گھروں میں کثرت سے مرغ موجود ہیں- آخر گائوں والوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ سرکاری آدمی آتے ہیں اور بغیر پیسہ دیئے ہمارے گھر اجاڑ کر چلے جاتے ہیں اس لئے ہر سفید پوش کو سرکاری آدمی سمجھ کر انکار کر دیتے ہیں-
ایک دفعہ میں پہلگام گیا- ریاست کا اس وقت قانون تھا کہ بوجھ اٹھانے کیلئے اگر آدمی کی ضرورت ہو تو تحصیلدار کو چٹھی لکھی جائے- چنانچہ میں نے بھی چٹھی لکھی- مزدور آ گئے اور بوجھ اٹھا کر چل پڑے- تھوڑی دور جا کر میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک آہیں بھر رہا اور کراہ رہا ہے میں چونکہ جانتا تھا- کشمیری مزدور بوجھ بہت اٹھاتے ہیں اس لئے اس کے کراہنے پر مجھے حیرت ہوئی اور کہا تم لوگ تو بوجھ اٹھانے میں بہت مشاق ہو پھر اس طرح کیوں کراہ رہے ہو- اس نے کہا مشاق وہی ہوتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہو- میں تو برات کے ساتھ جا رہا تھا کہ پکڑ کر یہاں بھیج دیا گیا- وہ ایک معزز زمیندار تھا جس نے کبھی یہ کام نہ کیا تھا- میں نے اسے کہا میں ٹرنک خود تو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا پہلے گائوں میں ہی چل کر خواہ مجھے کتنی رقم خرچ کرنی پڑے‘ میں وہاں سے مزدور لے کر تمہیں چھوڑ دوں گا‘ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا-
اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ مجھے ایک افسر نے جو پونچھ میں وزارت کے عہدہ پر فائز رہا ہے بتایا انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے مزدوروں کی ضرورت تھی میں نے حاکم مجاز کو اس کے متعلق خط لکھا اس نے کچھ مزدور بھیجے جن کے متعلق مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بھی مزدور نہ تھا بلکہ سب کے سب براتی تھے جن میں دولہا بھی شامل تھا- ذرا غور کرو- یہ کس قدر درد ناک واقعہ ہے- ان لوگوں کے لئے کھانے پکے ہوئے ہوں گے اور لڑکی والے ان کی راہ دیکھ رہے ہوں گے‘ دولہن دولہا کا انتظار کر رہی ہوگی- اس واقعہ سے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے- ذرا اسے اپنے اوپر قیاس کر کے دیکھو- لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری مسلمانوں پر ایسی ایسی آفتیں اور مصائب نازل ہو رہے ہوں اور یہاں یہ جھگڑے پیدا کئے جائیں حالانکہ چاہئے تھا کہ متحدہ کوشش سے ان کی تکلیف کو دور کیا جاتا- حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں شدید اختلاف تھا- جس سے جرات پا کر روم کے بادشاہ نے اسلامی سلطنت پر حملہ کا ارادہ کیا- لیکن حضرتمعاویہؓ نے اسے لکھا- اگر تم نے ایسا کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علیؓ کی طرف سے تمہارے مقابل پر آئے گا وہ معاویہ ہوگا- تو جہاں درد ہوتا ہے وہاں انسان شخصیتوں کا خیال کئے بغیر قربانی کیلئے تیار رہتا ہے-
ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک خاوند کی دو عورتیں تھیں وہ باہر گیا ہوا تھا پیچھے دونوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوئے مگر ایک کا لڑکا مر گیا- اس نے خیال کیا اب میری سوکن کی وقعت خاوند کی نظر میں بڑھ جائے گی اس لئے اس نے دوسری کے بچہ کو اپنا کہنا شروع کر دیا اور یہ جھگڑا اس قدر طول پکڑ گیا کہ حضرت دائود علیہ السلام کے پاس مقدمہ گیا- وہ حیران تھے کہ اس کا کیا فیصلہ کریں- حضرت سلیمان ان دنوں میں نوجوان تھے انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ میں کرتا ہوں اور کہا کہ ایک تلوار لائو تا کہ اس بچہ کو آدھا آدھا کر کے دنوں میں بانٹ دیا جائے- جس کا بچہ نہیں تھا اس نے تو کہا بے شک ایسا کر دیں لیکن جس کا تھا وہ کہنے لگی آپ ایسا نہ کریں یہ بچہ اس دوسری عورت کا ہے اس لئے اسے ہی دے دیا جائے- غرض جب حقیقی خیر خواہی دل میں ہو انسان ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا بلکہ کام کو دیکھتا ہے- چاہئے تو یہ تھا ان تفرقوں کو بھلا دیا جاتا- اگر کبھی مذہبی مخالفت کا موقع آیا اور کشمیریوں کے لئے ہماری وجہ سے مذہبی خطرہ پیدا ہو گیا تو یاد رکھو وہی لوگ اس کی مخالفت کے لئے اٹھیں گے جو آج میرے ساتھ ہیں کیونکہ یہی اس کے اہل ہیں- ان لوگوں نے اپنی زندگیاں علمی تحقیقاتوں میں صرف کی ہیں اور یہ اپنے اپنے سلسلوں کے لیڈر ہیں- میں احرار والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہاں بیٹھا ہو تو جا کر اپنے دوستوں کو سنا دے کہ میں ان پتھروں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتا اور اس وجہ سے ان پر کوئی غصہ نہیں- انہیں چاہئے کشمیر کے مظلوم بھائیوں کی خاطر اب بھی ان باتوں کو چھوڑ دیں- وہ آئیں میں صدارت چھوڑنے کیلئے تیار ہوں لیکن وہ عہد کریں کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کی اتباع کریں گے- ان کے اخلاق آج ہم نے دیکھ لئے ہیں وہ آئیں اور ہمارے اخلاق بھی دیکھیں- میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ صدارت چھوڑ دینے کے بعد بھی میں اور میری جماعت ان کے ساتھیوں سے بھی زیادہ ان کا ہاتھ بٹائیں گے- صدارت میرے لئے عزت کی چیز نہیں- عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے- سیدالقوم خادھم ۱۰~}~ اگر کام نہ کیا جائے تو صرف صدر بننے سے کیا عزت ہو سکتی ہے- وہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مجنون کہے میں بادشاہ ہوں بغیر خدمت کے اعزاز حاصل نہیں ہو سکتا- میرے ذمہ تو پہلے ہی بہت کام ہے- اتنی عظیم الشان جماعت کا میں امام ہوں اور اس قدر کام- پڑتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے شاید ہی کبھی سونا نصیب ہوتا ہو- میں نے تو یہ بوجھ صرف اس لئے اٹھایا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آئندہ نسلیں دعائیں دیں گی اور کہیں گی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھلا کرے جن کی کوشش سے آج ہم آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں- ان کے لئے بھی موقع ہے کہ کشمیریوں سے دعائیں لیں- ان کی دعائیں عرش الہی کو ہلا دیں گی- وہ کہیں گے الہی! جن لوگوں نے ہمیں آزاد کرایا ہے تو بھی ان کو آزاد کر دے-
دیکھو رسول کریم ~صل۲~ نے دنیا کو آزادی دلائی- جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کروڑوں انسان آپ کے نام پر اپنا سب کچھ نثار کر دینے پر آمادہ ہیں- وہی مغل جنہوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے بغداد کو تباہ کیا آخر آ کر آپ کے قدموں پر گر گئے- اور آپ کی محنت ایسی بابرکت ثابت ہوئی کہ آج ساڑھے تیرہ سو سال گذرنے پر بھی آپ کا نام بلند ہو رہا ہے- یہ خدمت کا نتیجہ ہے- دنیا کی چند روزہ واہ واہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی- آخر ایک دن خدا کے سامنے جانا ہے اور وہاں کوئی چالاکی اور ہوشیاری کام نہ آ سکے گی- اگر کسی شخص نے دیانتداری سے کام کیا ہے تو خواہ وہ مجرم بھی ہو‘ خدا تعالیٰ ضرور اس پر رحم کر دے گا لیکن جس نے دیانتداری سے کام نہیں کیا‘ اس کا کام خواہ اچھا ہی ہو‘ خدا تعالیٰ یہی کہے گا کہ تیری نیت نیک نہ تھی-
آخر میں سب حاضرین سے اور ان سب سے جن تک میرا یہ پیغام پہنچے کہتا ہوں کہ اٹھو اپنے بھائیوں کی امداد کرو- اپنے کام بھی کرتے رہو مگر کچھ نہ کچھ یاد ان مظلوموں کی بھی دل میں رکھو- جہاں اپنے خانگی معاملات اور ذاتی تکالیف کے لئے تمہارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتی ہیں‘ وہاں ایک ٹیس ان مظلوموں کے لئے بھی پیدا کرو- اور ان آنسوئوں کی جھڑیوں میں سے جو اپنے اپنے متعلقین کیلئے برساتے ہو اور نہیں تو ایک آنسو ان ستم رسیدہ بھائیوں کے لئے بھی ٹپکائو- مجھے یقین ہے کہ تمہاری آنکھوں سے ٹپکا ہوا ایک ایک آنسو جن کی محرک سچی ہمدردی ہوگی‘ ایک ایسا دریا بن جائے گا جو ان غریبوں کی تمام مصائب کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جائے گا اور اس ملک کو آزاد کر دے گا-
)الفضل ۲۴- ستمبر ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھھوالناصر
آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام
معزز جریدہ >انقلاب< میں ۲۳-تاریخ کو ایک مقالہ افتتاحیہ اوپر کے عنوان کے نیچے شائع ہوا ہے- اس میں >انقلاب< کی خدمات اسلام‘ کشمیر کے سوال کی اہمیت‘ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار اسلام کو مل کر کام کرنے کی نصیحت اور دونوں کے بعض معاونین کی ناگوار چھیڑ چھاڑ کا ذکر اور اس سے بچنے کی نصیحت ہے-
>انقلاب< کی اسلامی خدمات
>انقلاب< کی اسلامی خدمات کا تو میں سمجھتا ہوں کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا- جب مجھے>انقلاب< کی پالیسی سے اختلاف بلکہ اختلاف شدید بھی ہوا ہے ¶تب بھی میرا دل اس امر کو محسوس کرتا رہا ہے کہ انقلاب کا عملہ اپنی رائے میں دیانتداری سے کام کر رہا ہے اور کوئی ناجائز مقصد اس کے پیش نہیں ہے- اور اس کی شہادت میرے احباب کا وسیع حلقہ دے سکتا ہے جو ہر فرقہ و جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور ہر حصہ ملک میں پھیلا ہوا ہے- میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ >انقلاب< کو اسی نیک نیتی سے آئندہ بھی قومی خدمت کی توفیق دے کہ اخبارات کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے- ہاں بدقسمتی سے ہمارا ملک ان چند مستثنیات میں سے ہے کہ جہاں اخبارات کی اکثریت ابھی تک اس معیار پر پوری نہیں اترتی اور قومی خدمت اخبارات کی امتیازی خوبی سمجھی جاتی ہے-
آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار کا مل کر کام کرنا
مسئلہ کشمیر کی اہمیت اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار کو مل کر کام کرنے کی نصیحت سے بھی مجھے کلی طور پر اتفاق ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاوجہ اختلاف ایک *** ہے جس سے بچنا ہر قوم کے لئے ضروری ہے- اور بہت سی اقوام کی تباہی کا موجب اندرونی اختلاف ہی ہوا کرتا ہے لیکن آخری امر یعنی دونوں طرف سے ناگوار چھیڑ چھاڑ کا جو ذکر >انقلاب< میں کیا گیا ہے میں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں-
ناگوار چھیڑ چھاڑ کا ذکر
>انقلاب< کا یہ مقالہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے- کہ )۱( >الفضل< وغیرہ میں مجلس احرار کے خلاف بعض قابل اعتراض باتیں شائع ہو رہی ہیں- )۲( احمدی جماعت کے کسی سر برآوردہ شخص نے بعض سرکردہ اشخاص کے نام ایک گشتی مراسلت بھیجی ہے کہ مجلس احرار والے کانگرسی مسلمان ہیں کشمیر کے معاملہ میں ان کی کوئی امداد نہ کی جائے- )۳( احرار کے خلاف میرے مداح اور حمایتی حملے کرتے ہیں-
کسی سرکردہ احمدی نے کوئی گشتی مراسلہ نہیں بھیجا
سب سے پہلے میں نمبر۲ کو لیتا ہوں- اور بتانا چاہتا ہوں کہ یہ امر بالکل خلاف واقعہ ہے کہ کسی سرکردہ احمدی نے ایسا گشتی مراسلہ بھیجا ہے- ہمارے سلسلہ کے نظام سے جو شخص ادنیٰ واقفیت بھی رکھتا ہو جانتا ہے کہ ہمارے ہاں سرکردگی گشتی مراسلات بھیجنے کے لئے کافی نہیں- صرف اور صرف وہی شخص گشتی مراسلات بھیج سکتا ہے جو سلسلہ کی طرف سے کسی کام پر مقرر ہو اور وہ بھی صرف اپنے محکمہ کے متعلق- وہ محکمے جو مسئلہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں‘ امور خارجیہ اور امور عامہ کے ہیں- ان محکموں کا کام سیاسی مسائل سے ہے- باقی سب محکمے تبلیغ اور جماعت کی تربیت وغیرہ کاموں سے متعلق ہیں- ان محکموںکو بھی کشمیر کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ کشمیر کا کام ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے کرتے ہیں نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے لیکن پھر بھی احتیاط کے طور پر میں نے ان دونوں محکموں سے دریافت کیا ہے اور وہ قطعی طور پر کسی ایسی گشتی چھٹی کے بھیجنے سے انکار کرتے ہیں جس کا ذکر >انقلاب< میں ہے- اب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا دفتر رہ جاتا ہے- میں نے بہحیثیت صدر اس دفتر سے بھی دریافت کیا ہے اور وہ بھی کسی ایسی گشتی چھٹی کے بھیجنے سے انکار کرتا ہے- ہاں بعض لوگوں کے دریافت کرنے پر کہ احرار کے کارکن بیان کرتے ہیں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی ٹوٹ گئی ہے اور کام ہمارے سپرد کر دیا گیا ہے یہ لکھا گیا ہے کہ یہ بات غلط ہے- نہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی ٹوٹ گئی ہے اور نہ اس نے اپنا کام احرار کے سپرد کیا ہے-
اسی خیالی سرکلر کا ذکر کرتے ہوئے معزز >انقلاب< نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کشمیر کے معاملہ میں بہت سے غیر احمدی احمدیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو غیر کانگریسی کانگرسیوں سے مل کر کیوں کام نہیں کر سکتے- مجھے اس دلیل پر بھی اعتراض ہے- مسئلہ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے نہ مذہبی- پس جس طرح سالہا سال سے احمدی غیر احمدی لیڈروں کی قیادت میں کام کرتے رہے ہیں اگر ایک امر میں اتفاقاً احمدی صدر ہو جائے تو غیر احمدی بھی ان کی قیادت میں کام کر سکتے ہیں- لیکن کانگرسی اور غیر کانگریسی سیاسی تقسیمیں ہیں- پس اگر سیاسی اختلاف موجود ہو تو غیر کانگریسی کانگریسی کی ماتحتی میں کام نہیں کر سکے گا- گو وہی کانگریسی ایک دوسرے فرقہ کے سیاسی طور پر متحد الخیال آدمی کی ماتحتی میں کام کر سکے گا-
کسی حمایتی نے احرار پر حملہ نہیں کیا
تیسرے امر کا جواب یہ ہے کہ یہ امر واقعی طور پر درست نہیں کہ میرے حمائتی احرار کے خلاف حملے کرتے ہیں- ایسا بے شک ہوا ہے کہ احرار کے مخالف پروپیگنڈا کا جواب دیا گیا ہو لیکن حملہ اب تک میرے علم میں ایک بھی نہیں ہوا- انقلاب کے عملہ کو جس شخص نے یہ اطلاع دی ہے‘ بالکل غلط ہے- لیکن پھر بھی میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی تصدیق ہو جائے تو میں اپنے حمائیتوں کو تنبیہ کرنے کے لئے تیار ہوں-
>الفضل< میں احرار کا ذکر
اب رہا پہلا سوال- سو الفضل کے سوا سلسلہ احمدیہ کے کسی اخبار میں احرار کا ذکر نہیں آتا- اس لئے صرف >الفضل< ہی کا سوال باقی رہ جاتا ہے کیونکہ میں ذمہ وار اسی کا ہو سکتا ہوں- اگر سلسلہ کے باہر کا کوئی اخبار ہو تو اس کی ذمہ واری مجھ پر نہیں ہو سکتی- اور جہاں تک مجھے علم ہے ایسا کوئی اسلامی اخبار ہے بھی نہیں جس نے احرار پر ان کے حملہ کے بغیر کوئی حملہ کیا ہو-
وہ تحریرات جو اخبارات میں احرار کے متعلق شائع ہوئی ہیں ان کی حقیقت سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کا علم نہایت ضروری ہے-
)۱( آل انڈیا کشمیر کمیٹی سب سے پہلے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے منظم صورت میں ظاہر ہوئی ہے وہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی تسلیم کردہ کمیٹی ہے- اور تمام ہندوستان کے سربرآوردہ مسلمان اس میں شامل ہیں جن میں ہر قسم اور ہر خیال کے لوگ شامل ہیں-
)۲(احرار نے اس سوال کو ہاتھ میں لیتے ہی لاہور میں تقریروں میں بیان کیا کہ لوگوں کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی پر اعتبار نہیں اور انہوں نے یہ کام ہمارے سپرد کر دیا ہے اور سربرآوردہ لوگ اس کمیٹی سے الگ ہو گئے ہیں-
)۳( وزیر آباد‘سیالکوٹ اور دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا کہ خواجہ حسن نظامی صاحب کہتے ہیں کہ میں مرزا محمود احمد صاحب کی صدارت کا مخالف تھا- اور ڈاکٹر سر اقبال صاحب کی طرف یہ امر منسوب کیا گیا کہ وہ اس کام سے علیحدہ ہو گئے ہیں-
)۴( سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں بیان کیا گیا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر ایسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے جس نے کبھی کسی اسلامی کام میں حصہ نہیں لیا اور صرف اس کام کو خراب کرنے کے لئے اس کام میں شامل ہوا ہے- جو لوگ اور اس کے ساتھ ہیں وہ ٹوڈی ہیں اور قوم کو فروخت کر دیں گے-
)۵( سیالکوٹ اور دوسرے شہروں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کشمیر کمیٹی کی صدارت کو امام جماعت احمدیہ نے اپنی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ہے اور لوگوں کو لکھتے ہیں کہ سب ہندوستان نے مجھے امام مان لیا ہے‘ اب تم بھی میری بیعت کر لو-
)۶( سیالکوٹ میں صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے متعلق ہزاروں کے مجمع میں کہا گیا کہ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ جہاں ملے جوتی نکال کر اس کے سر پر مارو- تمہاری جوتی اور اس کا سر- تمہاری جوتی اور اس کا سر- تمہاری جوتی اور اس کا سر-
)۷( سیالکوٹ میں احمدیہ جماعت کے متعلق کہا گیا کہ ان لوگوں نے کشمیر کی حفاظت کیا کرنی ہے جو اپنی مائوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکے- ان کی تو ماں بھی دوسروں کے قبضہ میں ہے-
)۸( کشمیر کی تائید میں سیالکوٹ میں جو جلسہ کیا گیا اس کے متعلق ساتھ کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ وہاں احرار کا جلسہ ہوگا- جلسہ کے موقع پر پندرہ بیس ہزار آدمی حملہ آور ہو کر شور کرتا رہا اور ایک حصہ ایک گھنٹہ سے زائد تک سنگ باری کرتا رہا- تا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جلسہ منتشر ہو جائے اور احرار کا جلسہ ہو سکے- سنگ باری کا یہ حال تھا کہ باوجود چاروں طرف لوگوں کے ہجوم کے حلقہ میں آ کر پتھر گرتے تھے اور تین پتھر مجھے آ کر لگے- پچیس آدمی سخت زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو معمولی چوٹیں آئیں-
صدر کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اسے نظر انداز کر کے وہ محض ذاتی سوال ہے‘ دوسرے امور کے متعلق میں پوچھتا ہوں کہ وہ سوال اگر بغیر جواب کے رہیں تو کیا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کوئی بھی کام کر سکتی ہے- اگر پبلک کو یہ کہا جائے کہ یہ لوگ بددیانت ہیں‘ قوم کو فروخت کرنے والے ہیں‘ کمیٹی کے سربرآوردہ ممبر مستعفی ہو چکے ہیں‘ کمیٹی اصل میں ٹوٹ چکی ہے‘ اس کے اصل روح رواں ممبر سب کام احرار کے سپرد کر چکے ہیں‘ تو اس کے بعد کمیٹی کے لئے دائرہ عمل کونسا رہ جاتا ہے- پبلک کے ہی ذریعہ سے اس نے کام کرنا ہے- جب پبلک کو مندرجہ بالا امور کا یقین دلا دیا جائے تو سیکرٹری یا صدر کی طرف سے جو اعلان ہوگا‘ لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ فریب ہے‘ کمیٹی تو ٹوٹ چکی ہے‘ اب چندہ کیسا اور کام کیسا- آخر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندے پبلک کو جا کر کیا کہیں کیا یہ کہ صاحبان ہم ایک ٹوڈیوں کی جماعت ہیں جو ہر وقت قوم کو فروخت کرنے کے لئے تیار رہتی ہے- ہمارا صدر کبھی کسی اسلامی کام میں شریک نہیں ہوا- ہمارے اکثر ممبر مستعفی ہو چکے ہیں- کیونکہ وہ کمیٹی کے پروگرام پر خوش نہیں- ہم لوگ چندہ کشمیر کے لوگوں یا کشمیر کی آزادی کیلئے نہیں خرچ کریں گے بلکہ احمدیت کی تبلیغ پر‘ اب آپ لوگ بھی چندہ دیں- اور ہر جگہ کمیٹیاں بنا کر اور ہمارے پروگرام پر عمل کر کے ہماری تقویت کا موجب بنیں-
لیکن باوجود اس کے کہ یہ سب امور بالکل غلط تھے اور باوجود اس کے کہ ان کی اشاعت نے کمیٹی کے کام میں سخت روک پیدا کر دی تھی محض اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ایک ماہ تک بالکل خاموشی رکھی اور کوئی جواب نہیں دیا- لیکن جب باہر سے کثرت سے شکایات آنے لگیں اور بہت سی جگہوں پر کشمیر کمیٹیاں یا ٹوٹ گئیں یا معطل ہو گئیں تو ان امور کا جواب دینا پڑا اور اس جواب کو جو ایک ماہ کے متواتر حملوں کے بعد اور کام کے بند ہونے کے خطرہ کے بعد دیا گیا‘ اگر حملہ یا قابل اعتراض کہا جائے تو میں معزز انقلاب سے اختلاف کئے بغیر نہیں رہ سکتا-
آئندہ کا سوال
اب رہا آئندہ کا سوال- اس کے متعلق میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی تمام حملوں کے باوجود جو گزشتہ ایام میں اس پر کئے گئے ہیں‘ اختلاف کو پسند نہیں کرتی اور ان تمام کاموں میں احرار کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے جو مشترک ہوں‘ بشرطیکہ یہ تعاون دو طرفہ ہو- ہاں جن امور میں دونوں کمیٹیوں کی پالیسی متضاد ہو وہ مجبور ہے کہ اپنے پسند کردہ طریق عمل کو اختیار کرے- اور اس صورت میں وہ اس امر پر بھی مجبور ہے کہ اپنی کمیٹیوں کو ہدایت کرے کہ اس حصہ میں وہ احرار کے ساتھ تعاون نہ کریں گو وہ ایسے امور میں بھی احرار کو مخاطب کر کے ان کی مخالفت نہ کرے گی‘ صرف اپنے اصول پر زور دیتی رہے گی- کیا میں امید رکھوں کہ عملہ >انقلاب< یا اور کوئی صاحب اس قسم کے سمجھوتہ کی کوشش کریں گے؟
احرار کے خوش کرنے کی انتہائی کوشش
میں آخر میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ احرار کو خوش کرنے کے لئے میں انتہائی کوشش کر چکا ہوں- اور اس بارہ میں خصوصیت سے ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب‘ مکرمی مولوی غلام رسول صاحب مہر اور مولانا محمد اسماعیل صاحب غزنوی سے خط و کتابت کرتا رہا ہوں- اسے صرف اس لئے شائع نہیں کرتا کہ چونکہ وہ پرائیویٹ تھی- شاید ان صاحبان کو اس کی اشاعت پر اعتراض ہو- اس بارہ میں جو ان احباب سے میں نے خط و کتابت کی ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں میں کس حد تک اتفاق قائم رکھنے کی جدوجہد کر چکا ہوں-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۴ ستمبر ۱۹۳۱ء
)الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء(
‏a12.3
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
قضیہ کشمیر کے متعلق چند تلخ و شیریں باتیں
قضیہ کشمیر اس قدر جلد جلد صورت میں بدل رہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق ایک مجموعی نظر کی اشد ضرورت ہے ورنہ بالکل ممکن ہے کہ یہ کام بالکل خراب ہو جائے اور امیدوں کے بالکل الٹ نتیجہ نکلے-
ہندوستان کے مسلمان عام طور پر سیاسیات سے ناواقف ہیں اور اس وجہ سے وہ زیادہتر نقل کرتے ہیں لیکن ریاستوں کے مسلمان تو بیچارے اور بھی ناواقف ہیں ان کے لئے دوسروں سے بہت زیادہ خطرات ہیں- اور جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے اس کا فرض ہے کہ انہیں حقیقت سے آگاہ کرے تا کہ وہ تکالیف سے محفوظ ہوں اور کامیابی کا منہ دیکھیں-
سب سے بڑا خطرہ غلط امیدیں- خوشامد اور چاپلوسی کا مرض
اس زمانہ میں خوشامد اور چاپلوسی کا مرض اور اسی طرح فخر و خود پسندی کا مرض اس قدر عام ہو گیا ہے کہ جو لوگ اس سے بچنا چاہتے ہیں وہ دشمن یا بزدل قرار دیئے جاتے ہیں- اور اس وجہ سے بہت سے سچے مخلص مایوس ہو کر اپنے گھر بیٹھ رہتے ہیں اور مظلوم اپنی مظلومیت میں بڑھتا جاتا ہے- یہی مرض مسئلہکشمیر کو بھی لاحق ہو رہا ہے اور میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مسلمانان کشمیر اور ہندوستان کو اس مرض کے خطرات سے آگاہ کر دوں-
یہ بالکل آسان ہے کہ میں یہ دعویٰ کروں کہ چند ایام میں میں کشمیر کے لوگوں کو ان مظالم سے بچا لوں گا جو ریاست کی طرف سے ہو رہے ہیں لیکن یہ امر بالکل اور ہے کہ میں ایسا کر بھی دوں- اسی طرح یہ امر بالکل اور ہے کہ میں یہ دعویٰ کروں کہ میری جان و مال اہل کشمیر کے لئے قربان ہے اور یہ بالکل اور امر ہے کہ میں اپنے مال کا سواں حصہ بھی اس غرض کیلئے قربان کر دوں- لیکن آج کل کچھ ایسا رواج ہو گیا ہے کہ وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لیکن ساتھ یہ کہتا ہے کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا میں امداد کروں گا‘ دشمن اور بزدل قرار دیا جاتا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں اپنا مال اور اپنی جان تمہارے لئے قربان کر دوں گا اور سب دنیا سے مقابلہ کروں گا خواہ ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرے‘ دوست اور حقیقی خیر خواہ سمجھا جاتا ہے-
مخلصانہ مشورہ
میں اہالیان کشمیر اور ان لوگوں کو جو کشمیر کے لوگوں سے دلچسپی رکھتے ہیں مخلصانہ طور پر مشورہ دوں گا کہ اگر وہ کشمیر کے مسئلہ کو کامیاب طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں خوشامد‘ چاپلوسی اور فخر و تکبر سے متاثر نہیں ہونا چاہئے‘ بلکہ حقیقت کو ننگا کر کے دیکھنا چاہئے اور اپنے دوستوں سے بھی یہی امید رکھنی چاہئے کہ وہ اسی طرح معاملات کو ان کے سامنے پیش کریں تا کہ اصل حالات سے انہیں آگاہی رہے اور سیدھے راستہ سے وہ پھر نہ جائیں-
میں نے جو مشورہ اوپر دیا ہے اس کے مطابق سب سے پہلے میں کشمیر کے دوستوں کو اپنی رائے سے اطلاع دیتا ہوں اور جہاں تک میرا خیال ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اکثر ممبر بھی اس رائے میں مجھ سے متفق ہیں-
مسلمانان کشمیر میں بیداری
یاد رکھنا چاہئے کہ کشمیر کے لوگ اپنے لئے آزادی کے لئے کھڑے ہوئے ہیں- ایک لمبا عرصہ تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد اب ان میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے اور ان کے آباء نے غلامی میں زندگی بسر کی ہے تو ان کی اولاد کم سے کم اس عذاب سے نجات پا جائے- چونکہ زیادہ تر ظلم کا شکار مسلمان ہوئے ہیں اس وجہ سے یہ بیداری بھی زیادہ تر انہی میں پیدا ہو رہی ہے- دوسری اقوام کے لوگ گو اس آزادی سے اتنا ہی فائدہ اٹھائیں گے جس قدر کہ مسلمان لیکن بوجہ اس کے کہ وہ ظلم کی چکی میں مسلمانوں جتنے نہیں پیسے گئے ان میں بیداری کا احساس ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ ابھی وہ مسلمانوں کی آزادی کی کوشش کو اپنی دشمنی سمجھ رہے ہیں اور اس وجہ سے بجائے ہاتھ بٹانے کے مسلمانوں کا ہاتھ روک رہے ہیں-
حکام ریاست آسانی سے قبضہ نہیں چھوڑیں گے
اس کا انکار نہیں ہو سکتا کہ حکامریاست اپنے قبضہ اور تصرف کو آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے اور جب کہ غیر مسلم آزادی کی تحریک کو آزادی کی تحریک نہیں بلکہ ایک مذہبی تحریک سمجھ رہے ہیں‘ اس وجہ سے رعایا کا ایک حصہ بھی ضرور حکام کی مدد کرے گا اور مقابلہ کی مشکلات گویا دگنی ہو جائیں گی- پس ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ دو چار ہفتہ میں کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا یا چند جتھوں کے لے جانے سے ریاست رعایا کو آزادی دے دی گئی ایک غلط خیال ہے اور اس خیال کی موجودگی میں کبھی بھی کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس خیال کا نتیجہ مایوسی ہوگا اور مایوسی انسان کے ارادہ کو پست اور اس کی کوشش کو کمزور کر دیتی ہے-
ہر باشندہ کشمیر کو کس ارادہ سے کھڑا ہونا چاہئے
میرے نزدیک اپنی اور اپنے ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ ہر باشندہ کشمیر جو آزادی کی خواہش رکھتا ہے یہ ارادہ کر لے کہ خواہ میری ساری عمر آزادی کی کوشش میں خرچ ہو جائے‘ میں اس کام میں اسے خرچ کر دوں گا اور آگے اپنی اولاد کو بھی یہی سبق دوں گا کہ اسی کوشش میں لگی رہے- اور اسی طرح قربانی کے متعلق ہر اک شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آزادی جیسی عزیز شے کے لئے جو کچھ بھی مجھے قربان کرنا پڑے میں قربان کر دوں گا- اگر اس قسم کا ارادہ رکھا جائے گا تو لازماً درمیانی مشکلات معمولی معلوم ہوں گی اور ہمت بڑھی رہے گی- لیکن اگر یہ خیال پیدا ہو گیا کہ بس دو چار ہفتوں میں ہمارا کام ختم ہو جائے گا اور دو چار ہڑتالوں یا دو چار جتھوں سے یہ مہم سر ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب کام اس سے لمبا ہوا لوگوں میں بد دلی پیدا ہونے لگے گی اور لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمارے لیڈروں نے ہم سے دھوکا کیا اور بالکل ممکن ہے کہ مہم سربام پہنچ کر ناکام ہو جائے اور گوہر مقصود ہاتھ میں آ کر پھسل جائے-
چند ماہ کی جدوجہد سے کیا نتیجہ نکلے گا
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر مسلمانان کشمیر کہ سردست آزادی کی مہم میں وہی قربانی کر رہے ہیں صحیح راستہ پر گامزن رہے تو انشاء اللہ نتیجہ مندرجہ ذیل صورت میں نکلے گا-
اول کچھ عرصہ کی جدوجہد کے بعد جو میرے نزدیک تین چار ماہ کی جدوجہد سے زائد نہ ہوگی‘ کچھ حقوق رعایا کو مل جائیں گے- لیکن بعض اہم حقوق جن کے بغیر رعایا حقیقی طور پر ترقی کی طرف قدم نہیں اٹھا سکتی‘ اس پہلی منزل پر نہیں مل سکیں گے اور اس کے لئے ایک لمبی اور نہ تھکنے والی جدوجہد کرنی پڑے گی- اس کی تفصیل کیا ہوگی؟ میں اس سوال کو یہاں نہیں چھیڑ سکتا کیونکہ اس کو بیان کرنے سے کام کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے- اسے میں انشاء اللہ دوسرے وقت ایسے لوگوں پر ظاہر کروں گا جن کو اس کے معلوم کرنے کی ضروررت ہوگی-
کشمیر کو آزادی کس طرح مل سکتی ہے
ہاں میں اس وقت یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کو آزادی صرف اہالیان کشمیر کی کوشش سے مل سکتی ہے- باہر کے لوگ صرف دو طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں- )۱( روپیہ سے )۲(حکومتبرطانیہ اور دوسری مہذب اقوام میں اہالیان کشمیر کی تائید میں جذبات پیدا کر کے- پس ایک طرف تو اہل کشمیر کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ باہر کے لوگ آ کر ان کی کوئی جسمانی مدد کر سکتے ہیں- ان کی مدد اول بے اثر ہوگی دوسرے اس کا آزادی کی کوشش پر الٹا اثر پڑے گا اور جدوجہد کی باگ اہل کشمیر کے ہاتھ سے نکل کر ایسے ہاتھوں میں چلی جائے گی جو بالکل ممکن ہے کہ کسی وقت انہیں فروخت کر ڈالیں اور خود الگ ہو جائیں- پس خود اہل کشمیر کا فائدہ اس میں ہے کہ باہر سے مشورہ لیں‘ مالی امداد لیں لیکن کسی صورت میں بھی جنگ میں شریک ہونے کے لئے انہیں نہ بلائیں تا کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے- عارضی جوش ان کے کام نہ آئے گا بلکہ مستقل قربانی ان کے کام آئے گی اور مستقل قربانی ملک کے باشندے ہی کر سکتے ہیں- انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جنگ عظیم میں باوجود اس کے کہ امریکہ جنگ میں شامل ہونے کو تیار تھا‘ خود انگریز اور فرانسیسی اسے جنگ سے روکتے تھے اور آخری ایام میں جب حالت بہت ہی خطرناک ہو گئی تب مجبور ہو کر امریکہ کو شامل ہونے دیا گیا- لیکن بعد میں پھر پچھتاوا پیدا ہوا اور آج تک اتحادی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ امریکہ کے شامل ہونے سے انہیں بہت نقصان ہوا کیونکہ امریکہ نے انہیں اس قدر فائدہ نہیں اٹھانے دیا جس قدر وہ اٹھانا چاہتی تھیں-
مسلمانان ہند کو قربانی کی نصیحت
میں اس موقع پر مسلمانان ہند کو بھی جو کشمیر کے مسئلہ سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ کچھ نصیحت کرنی چاہتا ہوں-
مالی امداد کی ضرورت
میں لکھ چکا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کے لئے عملی جدوجہد صرف اہل کشمیر کو کرنی پڑے گی- لیکن کشمیر ایک غریب ملک ہے اور وہ اس وقت تک آزادی کی جدوجہد کو جاری نہیں رکھ سکتا جب تک اسے کافی مالی امداد باہر سے نہ ملے- اور جب تک زبردست پروپیگنڈا اس کی تائید میں کشمیر سے باہر نہ کیا جائے- اور اس کام کے لئے معقول رقم چاہئے جس کا مہیا کرنا ان لوگوں کا فرض ہے جو کشمیر سے باہر رہتے ہوئے اس کے مظلوم باشندوں کی ہمدردی کا احساس رکھتے ہیں- منہ سے قربانی کا دعویٰ کرنا یا جلسہ کر دینا یا ریزولیوشن پاس کر دینا گو ایک حد تک مفید ہو لیکن حقیقی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا اس لئے انہیں چاہئے کہ مالی قربانی کی طرف قدم اٹھائیں کہ اس وقت یہی سب سے بڑا کام ہے-
دوسرا کام آل انڈیا کشمیر کمیٹی خود کر سکتی ہے لیکن اس قدر روپیہ جو اس کام کے لئے ضروری ہوگا‘ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے لوگ خود جمع نہیں کر سکتے- پس ہر گائوں اور قصبہ میں اس کے لئے چندہ جمع کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو بھجوانا چاہئے جو آگے اس رقم کو حسب ضرورت جموں اور کشمیر میں تقسیم کرے گی اور اسی طرح ہندوستان اور بیرون ہند بھی پروپیگنڈا کو جاری رکھے گی-
کم از کم ایک لاکھ روپیہ
میرا جہاں تک خیال ہے اگر کام کو صحیح طور پر چلایا جائے تو ایک لاکھ روپیہ سالانہ تک خرچ کرنے کیلئے ہمیں تیار رہنا چاہئے کیونکہ اگر ریاست سے سمجھوتہ نہ ہو سکا اور تازہ اطلاعات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کرنے کے لئے ریاست تیار نہیں تو اس صورت میں از سر نو پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے گی اور ہزاروں غریب اور نادار خاندانوں کو فاقوں سے بچانے کے لئے ایک معقول رقم ماہوار ہم کو خرچ کرنی پڑے گی-
سردست ۱۲ ہزار کا بجٹ
سردست آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سامنے قریباً بارہ ہزار روپیہ کا بجٹ پیش ہے- لیکن کام کے لحاظ سے یہ بجٹ بالکل حقیر اور بالکل ناکافی ہے- سال بھر کے لئے اس سے آٹھ دس گنا زیادہ بجٹ ہونا چاہئے- لیکن آلانڈیاکشمیر کمیٹی نے اس وجہ سے ابھی زیادہ جرات نہیں کی کہ اسے اس وقت تک کل آمد پندرہ سولہ سو روپیہ ہوئی ہے-
جلد امدادی رقوم بھجوائی جائیں
پس جو لوگ اس مسئلہ سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ انہیں جلد سے جلد اپنے علاقوں میں چندہ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حساب میں مسلم بنک آف انڈیا لاہور کے پتہ پر بھجوانا چاہئے- جو لوگ بنک کو بھیجنے میں دقت محسوس کریں‘ وہ براہ راست سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیان کے نام بھجوا دیں- مگر انسب پہلا ہی پتہ ہے- اگر سیکرٹری کے نام بھیجیں تو رسید ضرور منگوا لیں-
ہندوستان اور دوسرے ممالک میں پروپیگنڈا
ضرورت پروپیگنڈا
بعض لوگ ہندوستان اور دوسرے ممالک میں پروپیگنڈا کو غیرضروری خیال کرتے ہیں- لیکن یہ خیال ان کا غلط ہے- ہندوستان کی حکومت بہرحال کشمیر پر نگران ہے اور اس کے اعلیٰ حکام کی رائے کو اگر اپنی تائید میں حاصل کر لیا جائے تو یقیناً اس سے بہت کچھ فائدہ ہو سکتا ہے اور ہوا ہے- اسی طرح ہندوستان کی حکومت حکومت برطانیہ کے ماتحت ہے اگر انگلستان میں زبردست پروپیگنڈا کیا جائے تو یقیناً اس کا اثر حکومت ہند پر پڑے گا اور وہ زیادہ ہوشیاری سے حکومت کشمیر کی نگرانی کرے گی اور اس طرح بہت تھوڑی قربانی سے وہ کام ہو سکے گا جو دوسری صورت میں بہت بڑی قربانی کو چاہتا ہے-
پروپیگنڈا کی اہمیت کا ثبوت
اس امر کا مزید ثبوت کہ یہ ایک اہم کام ہے یہ ہے کہ خود ریاست اس کی عظمت کو قبول کرتی ہے- چنانچہ باہر سے لوگوں کو بلا کر ان پر اثر ڈالنا‘ اخبارات کے نمائندوں کو خریدنے کی کوشش کرنا‘ حکومت ہند کے پاس بااثر لوگوں کو بھجوانا‘ ولایت میں پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لئے ایجنٹ مقرر کرنا‘ یہ سب امور اس کو ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست اس تجویز کے موثر ہونے کو قبول کرتی ہے اور اسے بے اثر بنانے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کو تیار ہے- چنانچہ مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ہندوستانی لیڈر کے ذریعہ سے ریاست نے انگلستان میں ایک شخص کو چھسو روپیہ ماہوار کے قریب معاوضہ دینے کا وعدہ کر کے ہمارے پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کی تحریک کی ہے اور انگلستان کے دو زبردست اخبارات کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی تجویز کی ہے- لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک اخبار کا تو زور توڑ دیا ہے اور دوسرا اخبار انشاء اللہ ان کے ہاتھ فروخت نہیں ہو سکے گا-
مسلمانوں کا زور توڑنے کی تدابیر
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے مسلمانوں کا زور توڑنے کے لئے ریاست کے ایماء پر یا اپنے طور پر کچھ اور تدابیر بھی اختیار کی جا رہی ہیں- جن میں سے بعض یہ ہیں-
مخالفانہ تدابیر
)۱( کشمیری مال کا بائیکاٹ کر کے- تمام پنجاب میں اندر ہی اندر یہ تحریک کی جا رہی ہے کہ کشمیری مال چونکہ بدیشی تاگہ یا بدیشی کپڑا سے تیار ہوتا ہے اس لئے اس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے- یہ جواب ہے بعض مسلمانوں کی اس تحریک کا کہ ریاستی کارخانہ کے ریشم کو نہ خریدا جائے- )۲( ریاست کے تعمیری پروگرام کو بند کر کے- تا کہ مسلمان ٹھیکیدار معطل ہو جائیں اور مالی نقصان اٹھائیں- )۳( مسلمان کاریگروں کا بائیکاٹ کر کے-
مخالفانہ تدابیر کا جواب دینے کی ضرورت
یہ سب کام اس طرح ہو رہے ہیں کہ ان میں ریاست کا ہاتھ نظر نہ آئے لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریاست اس میں شامل ہے- اور اس کا جواب دینے کی مسلمانوں کو ضررت ہے- )۱( کشمیری مال جو مسلمانوں کا تیار کردہ خرید کر )۲( بیکار مزدوروں اور کاریگروں کو کام دے کر )۳( خصوصیت کے ساتھ ان کارخانوں کا مال بند کر کے جو ان ہندو افسروں کی ملکیت ہیں جو اس کام میں نمایاں ہیں- مثال کے طور پر میں دیکھتا ہوں کہ کول خاندان کی بنائی ہوئی دیا سلائیاں پنجاب میں کثرت سے بکتی ہیں- اگر مسلمان ان کو خریدنا بند کر دیں تو اس سے ان کارخانہ داروں کو معلوم ہو جائے گا کہ بائیکاٹ کی تلوار دو دھاری ہوتی ہے اور صرف ایک ہی طرف نہیں کاٹتی-
میں امید کرتا ہوں کہ مختلف شہروں کے پر جوش مسلمان اور مسلمان دوکاندار ان امور کو اپنے ہاتھ میں لیں گے کیونکہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اس قسم کے کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی کیونکہ اس کی توجہ تعمیری اور اصلی کام سے ہٹ کر دوسری طرف لگ جاتی ہے-
انکوائری کمیٹی
ایک اہم نقص موجودہ کام میں یہ ہو رہا ہے کہ اہالیاں کشمیر کی طرف سے کوئی انتظام مسلمانوں کی تکالیف کی تحقیق کے متعلق نہیں ہے- اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ افواہیں بہت کثرت سے پھیلتی رہتی ہیں- یہ افواہیں بعض دفعہ مفید ہوتی ہیں اور بعض دفعہ مضر بھی ہوتی ہیں- پس فائدہ کو دیکھ کر ان کے ضرر سے ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے-
تحقیقاتی کمیٹی کا کام
اور چاہئے کہ مجلس نمائندگان کشمیر ایک تحقیقاتی کمیٹی مستقل طور پر مقرر کر دے جس کا یہ کام ہو کہ جب کوئی شکایت مسلمانوں پر ظلم کی ان کے سننے میں آئے- خواہ ریاست کی طرف سے ہو خواہ دوسرے لوگوں کی طرف سے‘ وہ اس کی باقاعدہ تحقیقات کرے اور عدالتوں کی طرح جرح کر کے اور گواہیاں لے کر مثل مکمل کرے اور پھر اس سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو اور پریس کو مطلع کرے- اس طرح ایک تو افواہوں کا سدباب ہو جائے گا- دوسرے نمائندگان کشمیر کی وقعت مہذب دنیا میں بہت بڑھ جائے گی کہ وہ کوئی بات غیر ذمہ دارانہ طور پر نہیں کرنا چاہتے اور ان کی بات اس قدر پکی سمجھی جائے گی کہ اس کی تردید کی کسی کو جرات نہ ہو سکے گی- سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ریکارڈ مکمل ہوتا چلا جائے گا- اب یہ نقص ہوتا ہے کہ ایک صریح ظلم کے خلاف شور مچایا جاتا ہے لیکن بوجہ شہادت محفوظ نہ ہونے کے کچھ دن کے بعد اس واقعہ کے یا تو شاہد ہی نہیں ملتے اور اگر شاہد ملیں تو انہیں شہادت یاد نہیں رہتی-
بیرونی مدد سے گھبرانا نہیں چاہئے
ریاست کے بعض باشندے اس بات کے کہنے سے گھبراتے ہیں کہ باہر کے لوگ ان کی امداد کرتے ہیں-
مدد اور تحریک میں فرق
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ مدد اور تحریک میں فرق ہے- اگر باہر والوں کے اکسانے سے کشمیر میں شورش ہو تو بیشک یہ عیب ہے- لیکن اگر اندر کی شورش اور ظلم دیکھ کر باہر والے روپیہ اور مشورہ سے مدد کرنے کے لئے آ جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اس قسم کی مدد سے یا اس کا اقرار کرنے سے اہالیان ریاست کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا-
ریاست باہر والوں سے مدد لے رہی ہے
خود ریاست بھی تو باہر کے لوگوں سے مدد لے رہی ہے- کئی آدمی اس نے باہر سے اس لئے منگوائے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو پھسلا کر ان سے دب کر صلح کروا دیں- پس یہ قدرتی امر ہے کہ شور سن کر ہر اک کے ہمدرد اس کے اردگرد جمع ہو جائیں گے- اس کے اقرار میں نہ کوئی نقصان ہے اور نہ ایسی امداد میں کوئی ہرج‘ ہرج تب تھا کہ بے چینی کے اسباب نہ ہوتے لیکن باہر والوں کی انگیخت کی وجہ سے ریاست کے باشندے فساد کرتے- لیکن جب لوگوں کی تکلیف کے بہت سے اسباب موجود ہیں تو پھر باہر والوں پر ناجائز دخل اندازی کا اعتراض کس طرح آ سکتا ہے- ریاست اپنی اصلاح کرے‘ باہر والے خود خاموش ہو جائیں گے-
اہالیان ریاست کو نصیحت
آخر میں میں پھر اہالیان ریاست کو نصیحت کرتا ہوں کہ اتحاد اور جذبہ ایثار سے اور اپنے لیڈروں کی اطاعت اور ان کے احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کریں-
ہر ایک جائز مدد دینے کا وعدہ
میں اپنی طرف سے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے اقرار کرتا ہوں کہ ہر اک جائز مدد ہم انشاء اللہ ان کی کریں گے- اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جب تک اور جس حد تک ہم سے ہو سکے گا ریاست اور ان کے درمیان وقار والی صلح کرانے کے لئے کوشش کریں گے- اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل سے آپ لوگوں کو بھی اور مہاراجہ صاحب کو بھی ایسے راستہ پر چلنے کی توفیق دے گا جس سے ریاست اور اہل ریاست دونوں کی عزت بڑھے گی اور کشمیر اپنے طبعی ذرائع کے مطابق اپنے ہمسایہ ممالک کے دوش بدوش عزت و اکرام کے مقام پر کھڑا ہوگا- واخر دعوئنا ان الحمدللہ رب العلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
)الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۳۱ء(
مظالم کشمیر کے متعلق جدوجہد
امام صاحب بیت الفضل لندن کو بذریعہ تار احکام
قادیان ۳۰- ستمبر: کشمیر کے حالات سخت نازک ہو رہے ہیں- مارشل لاء جاری کر دیا گیا ہے- تشدد اور مظالم کی انتہاء ہو گئی ہے- اپنے مکانات کی دوسری منزل پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو سپاہیوں کو سلام نہ کرنے کے جرم میں مارا پیٹا جاتا ہے- مسلمانوں کو جھنڈے کی سلامی پر مجبور کیا جاتا ہے جو خلاف اسلام ہے- بعض لوگوں کو >مہاراجہ کی جے< نہ پکارنے پر مارا گیا- ایک مسلمان نے خدا کی قسم کھائی کہ اس نے سلام کر دیا ہے لیکن فوجیوں نے پھر بھی اسے زدوکوب کیا اور مسلمانوں کے خدا کو غلیظ گالیاں دیں- دو مسلمانوں نے رسول کریم ~صل۲~ کی قسم کھا کر کہا انہوں نے سلام کیا ہے لیکن سپاہیوں نے سرورکائنات ~صل۲~ اور آپ کی مقدسہ والدہ کی شان میں بدزبانی کی اور گالیاں دیں- نہتے اور پرامن لوگوں پر گولیاں چلائی گئی ہیں- ایک بے گناہ سلاخیں لگی ہوئی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا کہ اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ یہ شخص پتھر مارنے کا ارادہ رکھتا تھا- بیسیوں مسلمان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں- پریس اور حکومت کو اس طرف متوجہ کریں- گول میز کانفرنس کے مندوبین سے اپیل کریں کہ وہ اس بارہ میں کچھ کوشش کریں جو شخص ایسے مظالم اور رسول کریم ~صل۲~ کی شان میں بے ہودہ سرائیوں سے بھی متاثر نہیں ہوتا‘ مسلمانوں کے لئے اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے-
پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی- قادیان
)الفضل ۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
مظالم کشمیر کے متعلق وائسرائے ہند کو تار
قادیان ۳۰- ستمبر: ہز ایکسی لنسی وائسرائے ہند شملہ- کشمیر کے حالات بہت نازک ہو گئے ہیں حکومت کی مداخلت ضروری ہے- مسلمان ان مظالم کی وجہ سے بے حد مشتعل ہیں- اس سلسلہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی یور ایکسی لنسی کی خدمت میں ایک چھوٹا سا وفد بھیجنا چاہتی ہے- مہربانی فرما کر اس کی اجازت مرحمت فرمائیں- مفصل خط بھیجا جا رہا ہے-
پریزیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی- قادیان
)الفضل ۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
امریکہ کے مبلغ کو بذریعہ تار احکام
قادیان ۳۰ ستمبر: کشمیر میں مظالم اور تشدد روز افرزوں ہے- اس کے متعلق امریکہ میں پر زور پروپیگنڈا کیا جائے- اخبارات کے ایڈیٹروں‘ مدیروں اور غلامی کا انسداد کرنے والی انجمنوں کے کار پردازوں سے ملاقاتیں کریں اور دورہ کر کے اس موضوع پر لیکچر دیں- چونکہ کشمیری بنی اسرائیل ہیں- اس لئے یہودی انجمنوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں اور اپنی سرگرمیوں سے بذریعہ تار اطلاع دیتے رہے-
)الفضل ۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
مظلومین کشمیر کے متعلق مسلمانان ہندوستان
اپنا فرض ادا کریں
ریاست کے تشدد پر اظہار مذمت
کشمیر کی تازہ خبروں نے تمام مہذب دنیا کو حیرانوششدر کر دیا ہے- باوجود عارضی سمجھوتہ کے ریاست نے مسلمانوں کے کئی مقتدر لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے اور جو لوگ اس فعل پر اظہارناراضگی کرنے کے لئے جمع ہوئے گولی کا نشانہ بنا کر بہت سے آدمی قتل اور زخمی کر دیئے گئے ہیں- یہ وقت ہے کہ ہندوستان کے ہر گوشہ سے ریاست کے اس فعل پر اظہار مذمت ہو تاکہ ریاست کو معلوم ہو جائے کہ ریاست کے باہر کے مسلمان اپنے بھائیوں کے درد میں شریک ہیں- پس میں ہر اک انجمن سے درخواست کرتا ہوں کہ اس فعل پر مذمت کا ووٹ پاس کر کے ریاست کو اطلاع دے-
مسلمان لیڈروں کی رہائی کا مطالبہ
اسی طرح چاہئے کہ جناب وائسرائے سے اپیل کی جائے کہ وہ دخل دے کر مسلم لیڈروں کو قید سے چھڑائیں تا کہ مسلمانان کشمیر اپنے مطالبات پیش کر سکیں- جب تک مسلم لیڈر نہ چھوڑے جائیں گے‘ مسلمان اپنے مطالبات پیش نہ کریں گے- اور اگر کوئی شخص بغیر اس کے سمجھوتہ کرے گا تو قومی غدار سمجھا جائے گا-
کشمیر کے مظلومین کی امداد کی ضرورت
اسی طرح ضرورت ہے کہ کشمیر کے مظلوموں کی امداد کے لئے ہر جگہ پر چندہ جمع کیا جائے‘ منہ کی ہمدردی کچھ چیز نہیں- جان تو بڑی چیز ہے پہلے کچھ قربانی کر کے دکھانی چاہئے تاکہ اہل کشمیر کو یقین آ سکے کہ ہمارے ہندوستانی بھائی ہم سے سچی ہمدردی رکھتے ہیں- افسوس ہے کہ باوجود بار بار توجہ دلانے کے کل اڑھائی ہزار روپیہ کے قریب چندہ ہوا ہے- جس کا اکثر حصہ ختم ہو چکا ہے- حالانکہ جس طرح جلدی جلدی کشمیر میں حادثات ہو رہے ہیں‘ وہاں کے لوگوں کے لئے ہزاروں روپیہ ماہوار کی امداد کی ضرورت ہے- اگر ہندوستان کے مسلمان بیوائوں‘ یتیموں اور زخمیوں کی امداد کے لئے روپیہ نہ بھیج سکیں گے تو مسلمان کے دشمنوں کو یقین ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو ایک ایک کر کے مار لینا آسان کام ہے- پس میری ہر اس شخص سے جس تک میرا یہ اعلان پہنچے‘ درخواست ہے کہ اپنے علاقہ میں اس غرض کے لئے چندہ کر کے مسلم بنک آف انڈیا لاہور کے نام پر ارسال کر دے- اور کوپن پر لکھ دے کہ یہ روپیہ آلانڈیا کشمیر کمیٹی کے حساب میں جمع کیا جائے- اس وقت کی ذرا سی سستی کشمیر کے لوگوں کے لئے سخت تباہی کا موجب ہو گی- پس اگر بھکاریوں کی طرح دروازوں پر بھیک مانگ کر بھی چندہ جمع کرنا پڑے تو چندہ کریں اور جلد ارسال کریں- اس وقت تک شہروں میں سے صرف شملہ‘ مری‘ سیالکوٹ‘ رانی کھیت اور قادیان نے اپنا فرض ادا کیا ہے- باقی شہر یا بالکل خاموش ہیں یا بہت کم توجہ انہوں نے کی ہے حالانکہ یہ وقت سستی کا نہیں ہے-
یاد رہے کہ اگر کوئی رقم اس تحریک کے ختم ہونے پر بچ رہی تو وہ کشمیر مسلمان کالج یا کشمیری مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم یا کسی اور ایسے کام پر جو ان کے فائدہ کا ہو‘ انہیں سے مشورہ لے کر خرچ کی جائے گی-
رضا کاروں کی ضرورت
چونکہ اس کام کے لئے رضا کاروں کی بھی ضرور ت ہے- اس لئے میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو ہر قسم کی تکلیف میں ڈال کر کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور پیدل سفر اور بھوک پیاس کی تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نیک کام میں حصہ لینا چاہتے ہوں‘ انہیں چاہئے کہ جلد اپنے نام آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دفتر میں رجسٹر کرا دیں- ہر شخص کو کم سے کم ایک ماہ کے لئے وقف کرنا ہو گا- اور جس وقت آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے اطلاع جائے‘ فوراً حاضر ہونا ہو گا- جو کام ان سے لیا جائے گا آئینی ہو گا- لیکن ضروری نہیں کہ ریاست کا نقطہ نگاہ ہم سے متفق ہو اس لئے جو لوگ اپنے آپ کو پیش کریں‘ وہ اس امر کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر انہیں قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑیں تو وہ گھبرائیں گے نہیں- مختلف جگہوں کی لوکل کشمیر کمیٹیاں امید ہے کہ جلد اس طرف توجہ کریں گی-
خاکسار
مرزا محمود احمد
)الفضل یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء(
برادران کشمیر کے نام پیغامات
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
برادران کشمیر کے نام پہلا پیغام
برادران! السلام علیکم و رحمہ اللہ وبرکاتہ
ریاست کشمیر میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں‘ ان کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل دکھ رہا ہے اور ہر اک شخص کا دل ہمدردی سے آپ کی طرف کھنچا جا رہا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم لوگوں کی طاقت میں جو کچھ بھی ہے اس سے دریغ نہیں کریں گے اور اگر آپ کو تکالیف سے بچانے کے لئے سو سال بھی کوشش کرنی پڑے تو انشاء اللہ وفاداری اور نیک نیتی سے اس کو جاری رکھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حالات جلد بہتر ہو جائے گی کیونکہ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور خدا تعالیٰ زبردست دوست ہمیں عنایت کر رہا ہے-
برادران! اس موقع پر آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ظلم کی شدت کے وقت انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن کامیابی کا گر صبر ہے- صبر انسان کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے اس کی قابلیت کو ترقی دیتا ہے- خدا تعالیٰ رسول کریم ~صل۲~ کو پہلے دن ہی فتح بخش سکتا تھا لیکن اس نے تیرہ سال آپ کو اہل مکہ کے ظلموں تلے اسی وجہ سے رکھا کہ وہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں میں حکومت کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے- اس میں شک نہیں کہ آپ مدتوں سے مظلوم ہیں لیکن حق یہ ہے کہ پہلے آپ کے دل میں آزادی کا خیال ہی پیدا نہ تھا اس لئے اس وقت آپ کی خاموشی صبر نہ تھی بلکہ کمزوری تھی- صبر اسی حالت کا نام ہے کہ انسان کا دل مقابلہ کو چاہے لیکن پھر وہ اپنے آپ کو کسی اصول کے ماتحت روک لے‘ یہ حالت انسان کی اعلیٰ درجہ کی تربیت کرتی ہے اور اس میں بڑی قابلیتیں پیدا کر دیتی ہے اور اس کاموقع آپ کو ابھی ملا ہے-
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ کس قدر ظلم ہو آپ لوگ اس کا جواب تشدد سے نہ دیں بلکہ صبر اور قربانی سے دیں اور اس وقت کو تنظیم اور ایثار ا ور قربانی سے خرچ کریں- تب اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے بھی نازل ہو گا یعنی اس کی براہ راست مدد بھی آپ کو حاصل ہو گی اور زمین سے بھی ظاہر ہو گا یعنی اس کے بندوں کے دل بھی آپ کی مدد اور ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہو جائیں گے-
دوسری بات میں یہ کہنی چا ہتا ہوں کہ آپ لوگ قطعی طور پر صلح سے انکار کر دیں جب تک کہ آپ کے گرفتار شدہ لیڈر رہا نہ ہو جائیں- یہ مصلحت کے بھی خلاف ہو گا اور غداری بھی ہو گی کہ آپ کے لئے قربانی کرنے والے جیل خانہ میں ہوں اور آپ ان سے بالا بالا صلح کرلیں- جس وقت تک ایک نمائندہ بھی قید میں ہو اس وقت تک صلح کی گفتگو نہیں ہونی چاہئے- جب سب آزاد ہو جائیں پھر سب مل کر اور مشورہ سے اور اتحاد سے اپنی قوم کی ضرورتوں کو مہاراجہ صاحب کے سامنے پیش کریں- تو میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب جن پر میں اب تک بھی حسن ظن رکھتا ہوں‘ آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کریں گے- اور آپ لوگوں کو موقع مل جائے گا کہ اپنے پیار ملک کی ترقی کے لئے دل کی خواہش کے مطابق کام کر سکیں-
آخر میں میں پھر سب مسلمانوں کی ہمدردی کا یقین دلاتے ہوئے اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہم لوگ اپنی طاقت کے مطابق آپ لوگوں کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ تیار رہیں گے‘ اس کے لئے کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
)تاریخ احمدیت جلد۲ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۱‘۲ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ریاست کی جلد بازی اور بے تدبیری نے حالات بہت خراب کر دیئے
اخبارات کے ایک نمائندہ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے کشمیر کے تازہ قیامت خیز حالات کے متعلق اظہار رائے کی درخواست کی- تو حضور نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی فرمایا-
ہمیں ان فسادات کا ریاست سے کم افسوس نہیں لیکن ہمیں رنج اس بات کا ہے کہ ریاست کی جلد بازی سے دائمی امن کے قیام میں رخنہ پڑ گیا ہے- اگر وہ کچھ دن صبر سے کام لیتی تو یقیناً اس کے لئے مفید ہوتا-
ریاست کے ناقابل تسلیم بیانات
آپ نے فرمایا کہ مجھے افسوس ہے کہ ریاست ایسے بیانات شائع کر رہی ہے جنہیں کوئی عقلمند تسلیم نہیں کر سکتا- کہا جاتا ہے کہ مسلم لیڈر خفیہ طور پر حکومت کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں- ہر شخص جانتا ہے کہ تمام ہندوستانی ریاستیں حکومت برطانیہ کی حفاظت میں ہیں اور ان کے خلاف بغاوت برطانیہ کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے- پس یا تو ریاست کے اس اعلان کا یہ مطلب ہے کہ حکومت برطانیہ شورش برپا کرا رہی ہے- یا اس کے یہ معنے ہیں کہ کشمیر کے مسلمان اس قدر بہادر اور جنگجو ہو گئے ہیں کہ جس کام کو سرانجام دینے کی کانگرس بھی جرات نہ کر سکی‘ وہ اس کا ارادہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت برطانیہ اور ریاست دونوں کو برباد کریں دیں کیونکہ ریاست کی حکومت یا تو برطانیہ کی مرضی سے یا خود برطانیہ کو تباہ کر کے تباہ کی جا سکتی ہے کیا کوئی عقل مند اس قسم کی باتیں تسلیم کر سکتا ہے؟
مطالبات پیش کرنے میں کیوں دیر ہوئی
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کرنے میں جو دیر ہوئی ریاست کی کمیونک (COMMUNIQUE) میں اسے بھی اشارۃ سازش کا ثبوت قرار دیا گیا ہے- چونکہ مطالبات کی تیاری کے بارے میں مجھے ذاتی علم ہے‘ میں اس کی بھی تردید کرنی چاہتا ہوں-اصل بات یہ ہے کہ مطالبات اور شے ہے اور ان کا صحیح قانونی زبان میں لکھنا اور شے ہے- ۲۶-اگست کو صلح ہوئی ہے اور اسی وقت سے نمائندگان قوم پبلک کی شکایات جمع کرنے میں مصروف ہو گئے- ان کے سامنے دو زبردست کام تھے- ایک یہ کہ ضروری مطالبات باقی نہ رہ جائیں اور دوسرے یہ کہ غیر ضروری مطالبات فہرست میں شامل نہ ہو جائیں- عوام کو اس امر پر مائل کرنا کہ وہ اپنے کم ضروری مطالبات کو فی الحال نظر انداز کر دیں‘ کوئی معمولی بات نہیں- اگر سب کے سب مطالبات پیش کر دیئے جاتے تو کئی سو ہو جاتے اور انہیں رد کرنے سے ریاست کے لئے سخت مشکل پیدا ہو جاتی- نمائندوں نے ریاست کی خدمت کی اور اس پر احسان کیا کہ ایسے مطالبات کو جو زیادہ اہم نہ تھے نظر انداز کر دیا- اس کے بعد انہوں نے آئین اساسی کے ماہرین سے قانونی زبانی میں اپنے مطالبات کو لکھوایا- یہ دونوں کام قریباً تین ہفتے میں ختم ہوئے- جو عرصہ بجائے زیادہ ہونے کے اس قدر کم ہے کہ ہر عقلمند اسے استعجاب کی نگاہ سے دیکھے گا لیکن ریاست نمائندوں کی اس خدمت پر شکر گزار ہونے کی بجائے اسے قابل اعتراض اور سازش کا ثبوت قرار دیتی ہے- چونکہ مطالبات کے آخری ڈرافٹ کا کام اور قانون دان لوگوں سے مشورہ میرے ہی ذریعہ سے ہوا ہے‘ اس لئے میں پبلک کے سامنے واقعات کو پیش کر کے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ توقف ناجائز تھا اور کیا اس بارہ میں نمائندوں کی کوشش قابل تحسین تھی یا قابل مذمت-
ریاست کے بے تدبیر مشیر
ہم لوگوں کو جو ریاست سے باہر ہیں اس قسم کے اعلانات کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ ریاست کا کام اس وقت ایسے ہاتھوں میں ہے جو مہاراجہ بہادر کو کم فہمی کی وجہ سے بدنام کر رہے ہیں- کاش وہ ہزہائی نس مہاراجہ کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے اور بتاتے کہ ان کی مسلم رعایا دوسری رعایا سے کم وفادار نہیں اور مستقل امن کی صورت پیدا کرتے- آج کل ساری دنیا کی نگاہ اس قضیہ پر لگی ہوئی ہے اور حکام کی غلطی مہاراجہ صاحب کی طرف منسوب کی جاتی ہے-
اب کس طرح صلح ہو سکتی ہے
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اب بھی صلح کی کوئی صورت ہے؟ آپ نے فرمایا‘ بلاوجہ خون ریزی اور لیڈروں کی گرفتاری نے حالات بہت خراب کر دیئے ہیں اور پبلک میں اس حد تک جوش پیدا کر دیا ہے کہ اندیشہ ہے بعض لوگ اپنے آپ کو تباہ کر لینے پر تیار ہو جائیں اور کہہ دیں کہ مر جائیں گے مگر صلح نہیں کریں گے- لیکن اگر فی الفور قید شدہ لیڈروں کو آزاد کر دیا جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ کشمیر کے نمائندے ہر ممکن کوشش صلح کی فضاء پیدا کرنے اور مطالبات کو فوراً پیش کرنے کے لئے کریں گے-
)الفضل ۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
برادران ریاست کشمیر کے نام دوسرا پیغام
برادران کشمیر! آپ لوگوں سے جو سلوک اس وقت ہو رہا ہے اسے سن کر ہر مسلمان کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے اور تمام ہندوستان میں غم و غصہ کی ایک لہر پھیل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی پورا زور لگا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ جلد اس کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مشکلات دور فرما کر بہتری کی صورت پیدا کر دے گا-
برادران! اس وقت بعض خود پرست لوگ مہاراجہ صاحب کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی زبان بن رہے ہیں اور ان تک جھوٹی رپورٹیں کر کے انہیں آپ لوگوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں- کہیں ایک باتصویر جھنڈے کو مشرکانہ طریق پر سلام کروایا جا رہا ہے اور کہیں ٹکٹکیوں پر کس کر بید لگائے جا رہے ہیں اور کہیں بانی اسلام ~صل۲~ اور اسلام کو گالیاں دلوائی جا رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ عارضی مصیبتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ میں دور ہو جائیں گی- ایک طالب علم‘ علم کے حصول کے لئے پندرہ سال رات دن محنت کرتا ہے- ایک نان پز ایک روٹی پکانے کے لئے تین دفعہ آگ میں جھکتا ہے- پھر آپ لوگ جو صدیوں کی تیار کردہ غلامی کی زنجیریں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان تکالیف کو جو آپ کو پیش آ رہی ہیں کب خاطر میں لا سکتے ہیں- یہ تکلیفیں تو کچھ نہیں ان سے ہزاروں گنے تکالیف بھی اس کام میں پیش آئیں تو ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے- ایک بات ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنی طبائع میں جوش پیدا نہ ہونے دیں اور اگر پبلک میں آپ کو بولنے کی اجازت نہیں تو اس وقت اپنے گھروں میں ظلموں کی داستانیں بیان کریں اور رات کو سونے سے پہلے اپنی بیویوں‘ بہنوں اور بچوں کو نصیحت کریں کہ غلامی کی زندگی سخت ذلت کی زندگی ہے انہیں اپنے باپ دادوں کی مصیبتوں کو یاد رکھنا چاہئے اور ان غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کرنی چاہئے- یاد رکھیں کہ مظلومیت آخر کامیاب ہوتی ہے اور بچپن میں کان میں ڈالی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر کی طرح ثابت ہوتی ہیں- پس جن تقریروں سے آپ کو باہر روک دیا گیا ہے وہ تقریریں آپ میں سے ہر شخص رات کے وقت اپنے اپنے گھر میں گھر کی عورتوں اور بچوں کے سامنے کرے کہ اس سے سارے ملک کی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی اور باہر کی تقریروں کا جو مقصد تھا اس طرح اور بھی زیادہ عمدگی سے پورا ہوتا رہے گا- بلکہ میں تو کہوں گا کہ جو شخص اکیلا ہے اسے چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے خواہ اونچی آواز سے خواہ دل میں ایک دفعہ ان ظلموں کا ذکر کر لیا کرے جو امن کے قیام کے نام سے گذشتہ دنوں میں کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں-
دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ رات کو سونے سے پہلے سب گھر والوں کو جمع کر کے اپنے ان لیڈروں کی آزادی کے لئے جو اپنے کسی جرم کے بدلے میں نہیں‘ بلکہ صرف آپ لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے جیل خانوں میں پڑے ہوئے ہیں‘ رو رو کر دعائیں کریں- تاکہ آپ کی دعائیں عرش عظیم کو ہلائیں اور وہ شاہنشاہ جو سب بادشاہوں پر حکمران ہے آپ کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنے فرشتوں کو بھیجے- اصل میں تو زبردست بادشاہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہر وقت محتاج ہوتے ہیں لیکن مظلوم اور کمزور کا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے- پس روز رات کو اپنے اپنے گھروں میں اسے پکاریں اور بچوں کو ساتھ شامل کریں تا ان کے دل میں بھی درد پیدا ہو- اور تا شاید ان معصوموں کی دعائوں سے ہی اللہ تعالیٰ آپ کے مظلوم لیڈروں اور دوسرے قومی خادموں کو قید و بند کی تکالیف سے بچائے-
اسی طرح وہ لیڈر جو ابھی تک آزاد ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کیا کریں کہ خدا تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل کرے اور انہیں ان کی قومی خدمتوں کا بہت بڑا اجر دے- آپ لوگ اگر سمجھیں تو اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا فضل ہے کہ دونوں میرواعظان کو اس نے قومی درد عطا فرمایا اور وہ سب جھگڑے بھلا کر دوش بدوش ہر اک قسم کی تکلیف برداشت کر کے آپ لوگوں کے لئے کام میں لگے ہوئے ہیں- ان کا یہ اتحاد اور ان کی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی اور اللہ تعالیٰ جہاں انہیں نیک بدلہ دے گا وہاں اس قربانی کے بدلہ میں آپ لوگوں کو بھی کامیاب کرے گا-
ہم لوگوں سے جس قدر ہو سکتا ہے کام کر رہے ہیں- میں نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی اب پہلے سے بہت زیادہ کام کرنا شروع کر دیا ہے- چاروں طرف آدمی مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھجوا دیئے ہیں اور چندہ پر بھی آگے سے بہت زیادہ زور دینا شروع کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہر قسم کی مالی اور جانی امداد آپ کو بہم پہنچاتے رہیں گے- آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے تجویز کی ہے کہ پہلے اچھی طرح حکومت ہند پر اتمام حجت کر دے اور اس کے لئے حضور وائسرائے کو توجہ دلائی جا رہی ہے- چنانچہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے تار سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت حکومت ہند اور ریاست میں تازہ مظالم کے متعلق خط و کتابت ہو رہی ہے- ہم چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہند فوراًدخل دینے کے لئے تیار نہ ہو تو ہم لوگ خود ایسی تدابیر اختیار کریں جن سے حکومت ہند اور ریاست آپ لوگوں کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو-
ہر ایک کام میں تب ہی کامیابی ہوتی ہے جب پورے نظام سے کیا جائے اس لئے تمام پہلوئوں کو سوچ کر قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے- پس میں آپ کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ریاست کو خواہ مخواہ دخل دینے کا موقع ملے اور وہ بیرونی دنیا کو کہے کہ ہم تو مجبور ہو کر سختی کرتے ہیں ورنہ ابتداء مسلمانوں کی طرف سے ہے- اب بھی وہ یہی کہتی ہے‘ چنانچہ ایک معزز صاحب نے مجھ خط لکھا ہے کہ میں گاندھی جی کے ساتھ جہاز میں تھا میں نے انہیں کشمیر کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میری یہ تحقیق ہے کہ سب شرارت مسلمانوں کی ہے اور ریاست مظلوم ہے- وہ صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے سختی سے گاندھی جی کو توجہ دلائی کہ اس قدر بڑے لیڈر ہو کر آپ اس قدر تعصب سے کام لیتے ہیں اور بغیر تحقیق کے مسلمانوں کو ظالم قرار دیتے ہیں- تو اس پر انہوں نے کہا کہ میں بھی تم کو قسم دیتا ہوں کہ کشمیریوں کا مظلوم ہونا ثابت کرو ورنہ تم کو میں سخت بددیانت سمجھوں گا- آپ لوگ دیکھ لیں کہ گاندھی جی جیسے انسان کو جنہیں ہر دلعزیز بننے کا نہایت شوق ہے بعض حکام ریاست نے دھوکا دے کر اس قدر متعصب بنا دیا ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہو گا- پس آپ کو چاہئے کہ اپنے مظلوم ہونے کی حالت کو بالکل نہ بدلیں- بید بیشک تکلیف دہ ہیں‘ قید بے شک ایک مصیبت ہے لیکن ان تکلیفوں سے بہت زیادہ رسول کریم ~صل۲~ نے اور آپﷺ~ کے صحابہؓ نے برداشت کی تھیں- ظلم کے پائوں نہیں ہوتے ظلم بھی دیر تک قائم نہیں رہ سکتا- کانٹوں کے ساتھ ہی پھول ہوتے ہیں گلاب کے درخت میں پھول کانٹے لگتے ہیں پھر پھول آتا ہے- پس ان کانٹوں کو صبر سے برداشت کرو تا گلاب کا پھول آپ کو دیا جائے- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو- اس خط کے مضمون کو جہاں تک ہو سکے اپنے دوستوں تک پہنچائو- حتی کہ کشمیر کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ اس کے مضمون سے آگاہ ہو جائے- میں انشاء اللہ جلد ہی تیسرا خط آپ لوگوں کو لکھوں گا- خدا کرے اس خط میں میں آپ لوگوں کو کوئی بشارت دے سکوں اور اس وقت تک آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں-
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۳ تا ۵ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
)۴- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
برادران ریاست کشمیر کے نام تیسرا پیغام
برادران کشمیر! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
میرا دوسرا مطبوعہ خط آپ کو مل گیا ہو گا- مجھے خوشی ہے کہ چار تاریخ کی صبح کو جو میں نے لکھا تھا کہ جب میرا تیسرا خط آپ کو پہنچے گا تو انشاء اللہ آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے ہوں گے وہ بات صحیح ثابت ہوئی- اور اب میں ایسے ہی وقت میں خط لکھ رہا ہوں جبکہ ہمارے بھائی آپ کے لیڈر آزاد ہو چکے- برادران! یہ وقت آپ پر نہایت نازک ہے احتیاط کی سخت ضرورت ہے اور ذرہ سی لغزش خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے- پس ان دنوں خاص طور پر اتحاد عمل اور خلوص نیت کی ضرورت ہے- چنانچہ میں نے باوجود اس کے کہ احرار کی طرف سے ہمارے خلاف متواتر حملے ہوئے صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے اس کی تمام شاخوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جس قسم کی امداد اپنے پروگرام کو قائم رکھتے ہوئے کر سکیں کر دیں جیسے مثلاً طبی امداد- پس کشمیر میں جہاں اصل جنگ ہو رہی ہے اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے- دشمن ہمیشہ تفرقہ پیدا کر کے فائدہ اٹھایا کرتا ہے- اور یقیناً مسلمانوں کے بدخواہ احمدی‘ غیر احمدی‘ سنی‘ شیعہ‘ وہابی‘ حنفی‘ دیوبندی اور بریلوی اور اس قسم کے اور سوال پیدا کر کے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہیں گے لیکن یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں- سیاسی معاملات میں آپس کا اتفاق نہایت ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے- پس آپ کو دشمنوں کے اس قسم کے فریبوں میں نہیں آنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنی آزادی کے لئے پوری کوشش کریں- میں آپ سے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی اور بحیثیت امام جماعت احمدیہ ہونے کے بھی پورا وعدہ کرتا ہوں کہ ہم لوگ انشاء اللہ آپ کی ہر طرح مدد کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ آپ کی تکالیف دور ہو جائیں اور آپ کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہو اور خدا تعالیٰ آپ کو دشمنوں کے شر سے بچائے-
میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کامیابی کے سامان پیدا ہو چکے ہیں لیکن میں آپ کو اس امر کے لئے ہوشیار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی ترقی خود آپ کی قربانی پر منحصر ہے- جب تک آپ لوگ خود ایک لمبی قربانی کیلئے تیار نہ ہوں گے باوجود ریاست سے حقول مل جانے کے آپ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے- لیکن اگر آپ اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار ہوں تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی ہر طرح آپ کی امداد انشاء الل¶ہ کرتی چلی جائے گی- اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے انگلستان کی وزارت پر اور ہندوستان کی حکومت پر اس نے اس قدر اثر ڈالا ہے کہ ریاست کو فکر پڑ گئی ہے اور وہ توجہ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور آئندہ انشاء اللہ ہم کو اس سے بھی زیادہ امید ہے- میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ریاست کے گوشہ گوشہ میں کمیٹیاں بنا لیں گے تا کہ آئندہ تعاون میں دقت نہ ہو اور اپنے لیڈروں کی اطاعت کا مادہ پیدا کریں گے تا کہ کامیابی میں روک نہ ہو-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۵‘۶ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مسلمانان کشمیر کے مطالبات کے متعلق
مہاراجہ بہادر کے اعلان پر تبصرہ
قادیان ۳۰-اکتوبر- مہاراجہ صاحب کشمیر نے مسلم نمائندگان کو جو جواب دیا ہے اسے میں نے بہت دلچسپی سے پڑھا ہے- اس میں کئی ایک ایسی باتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ صاحب کے دل میں اپنی رعایا کو مطمئن کرنے کی پوری خواہش ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں کوئی تعمیری پروگرام نہیں بیان کیا گیا اور بہت کچھ تفصیلات پر منحصر ہے جو ابھی پردہراز میں ہیں-
کیا ہی اچھا ہوتا اگر مہاراجہ صاحب فوری اعلان کر دیتے کہ ان کی رعایا کو بغیر کسی مزید تاخیر کے انسانیت کے وہ تمام ابتدائی حقوق عطا کر دیئے جائیں گے جو میموریل کی ابتداء میں درج ہیں اور جن سے وہ اس وقت تک محروم چلی آتی ہے- ایسے اعلان کے لئے کسی لمبیچوڑے غور و خوض کی ضرورت نہ تھی کیونکہ یہ حقوق نہ صرف برٹش انڈیا میں بلکہ تمام متمدن ممالک میں خواہ وہ تہذیب کے کسی درجہ پر کیوں نہ ہوں رعایا کو حاصل ہیں-
مہاراجہ صاحب کے لئے بہترین طریق یہ تھا کہ ان تمام قوانین کو منسوخ کر دیتے جو غیرمتعلق اشخاص کے نزدیک بھی ان کی رعایا کی ذہنی و اقتصادی ترقی کے لئے مضر ہیں- ایسے امور کے تصفیہ کیلئے جو زیادہ غور و فکر کے محتاج ہیں‘ کشمیر میں ایک گول میز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کر دیتے اور ساتھ ہی مسلم نمائندوں کی ایک کمیٹی مقرر کر دیتے جو وزراء کے سامنے اپنی شکایات پیش کرتی- جن کا دور کرنا رعایا کا اعتماد حاصل کرنے میں بہت ممد ہوگا-
مہاراجہ صاحب کی طرف سے دلال کمیشن کی رپورٹ کی تائید نے اس اعلان کے مفید اثر کو بہت حد تک کمزور کر دیا ہے کیونکہ اس رپورٹ کی نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ انگریزوں کے اخبارات نے بھی مذمت کی ہے اور یہ بعض صحیح‘ بعض نیم صحیح اور بعض بالکل بے بنیاد بیانات کے ایک مرقع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی- اور اگر اب بھی ایسے ہی کمیشن مقرر کئے گئے تو ان کا نتیجہ ابھی سے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ ان سے نہ مسلمانوں کو اطمینان ہوگا اور نہ ہی غیر متعلق بیرونی دنیا کو-
مہاراجہ صاحب کے دل میں اپنی رعایا کو مطمئن کرنے کی حقیقی خواہش موجود ہے اور ان کے جواب میں بعض نقائص اس عجلت کا نتیجہ ہیں جس میں یہ جواب تیار کیا گیا- گہرے غور کے بعد ہز ہائی نس ان کوتاہیوں کو دور کر دیں گے تا کہ ان کی رعایا امن و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکے-
یہ میری ذاتی رائے ہے اور باقاعدہ اعلان اس وقت کیا جائے گا جب کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک فوری اجلاس میں تمام معاملہ پر غور کر لیا جائے گا)-الفضل ۲۲- اکتوبر ۱۹۳۱ء(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے بعض اہم مکتوبات
مکتوب نمبر۱: الفیض لاہور- ۲۵ اکتوبر ۱۹۳۱ء
مکرمی درد و غزنوی صاحب- السلام علیکم ورحمہ اللہ- آپ لوگوں کے کام سے نہایت خوش ہوں- اللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے- میں نے کل تار دیا تھا کہ بدھ تک کام بند کر دیں- جواب بھی مل گیا ہے- اس عرصہ میں احرار نے اعلان کیا ہے کہ جیون لال کی تار آئی ہے کہ میں آپ لوگوں سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکام دو طرفہ چال چل رہے ہیں- میں نے صاف کہہ دیا ہے کہ معاملہ کو صاف کریں- واللہ اعلم کیا بات ہے- ابھی ان کا پیغام آیا ہے کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ جیون لال وہاں سے چلے ہیں‘ وہ اب تک وہیں ہیں-
کل کی تار کا موجب وزیر اعظم کی تار تھی کہ تقریریں رکوائیں- رات کو یہ سمجھوتہ ہوا تھا کہ میں جائوں اور میری موجودگی میں نمائندوں سے ریاست فیصلہ کرے اور ابتدائی حقوق کا اعلان کرے اور کمیشن میں مناسب تبدیلی کرے- لیکن جب میں صبح اس غرض سے آدمی بھیجنے والا تھا تو وہ دوست جن کی معرفت کام ہو رہا تھا آئے اور خواہش ظاہر کی کہ مہاراجہ صاحب سردی سے تکلیف میں ہیں‘ وقت لمبا کر دیا جائے وہ جموں تشریف لے آئیں تو آسانی ہوگی- میں نے کہا کہ بغیر اس کے کہ حقوق کا اعلان ہو اور میعاد بڑھانے کو تیار نہیں- جموں ہمارے لئے مضر ہے کہ وہاں ہندوئوں کا زور ہے- انہوں نے کہا کہ وہ کونسے امور ہیں جن کا اعلان ضروری ہے- میں نے وہ امور لکھوا دیئے- اس پر انہوں نے کہا کہ اگر وہ نہ مانیں- میں نے جواب دیا کہ پھر ریاست سے مقابلہ ہوگا- اور کہا- ہاں وہ تبدیلیاں پیش کریں تو بے شک میں غور کرنے کو تیار ہوں- انہوں نے کہا کہ اگر مہاراجہ خود بلا کر نمائندوں سے کہیں کہ کچھ دن کی اور مہلت دے دو- میں نے کہا کہ اس میں ان کی فتح ہے- میں سفارش کروں گا کہ کچھ دن اور بڑھا دو باقی اپنی مصلحت وہ خود سمجھ سکتے ہیں- اس پر انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہو کہ کچھ مہلت مل جائے اور اس عرصہ میں وقت مقرر ہو کہ راجہ ہری کشن کول صاحب باہر آ کر آپ سے ملیں- میں نے کہا کہ مجھے ان سے ملنے کا شوق نہیں- اصل سوال تو اہل کشمیر کے خوش ہونے کا ہے اگر وہ ساتھ ہوں اور خوش ہو جائیں تو مجھے کچھ اعتراض نہیں- اس پر وہ تینوں تجویزیں لے کر گئے ہیں- لیکن جیون لال صاحب کی تار نے اور آپ کی تار نے شبہ ڈال دیا ہے اس لئے آپ لوگ بھی ہوشیار رہیں-
گلنسی صاحب کے متعلق الگ ہدایات میں ذکر کروں گا- نہایت مخفی بات ہے- احرار باہر یہ مشہور کر رہے ہیں کہ قادیانی پروپیگنڈا کی وجہ سے ہمیں آنا پڑا- لیڈروں نے روپیہ کھا لیا ہے اور مصنوعی تاریں دلوا رہے ہیں کہ نمائندوں پر ہمیں اعتبار نہیں آپ لوگ اس سے بھی ہوشیار رہیں-
خاکسار
مرزا محمود احمد
)اوپر جن تجاویز کا ذکر آیا ہے- ان کا مسودہ حضور کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے(-
عارضی معاہدہ کی شرائط
۱-
‏]din [tag میر پور‘ کوٹلی‘ راجوری‘ کشمیر و پونچھ وغیرہ کے فسادات کے متعلق ایک کمیشن جس میں ایک جج مسلمان ایک ہندو اور ایک انگریز ہو مقرر کر دیا جائے- ایسے جج ہوں جن پر فریقین کو اعتماد ہو-
۲-
ان علاقوں میں فوراً کم سے کم پچاس فی صدی افسر یعنی وزیر وزارت‘ سپرنٹنڈنٹ پولیس‘ انسپکٹران پولیس‘ مجسٹریٹ درجہ اول و دوم مسلمان مقرر کر دیئے جائیں اور موجودہ تمام افسر وہاں سے بدل دیئے جائیں- گورنر کشمیر کو بھی وہاں سے فوراً بدل دیا جائے-
۳-
قانون‘ پریس اور ایسوسی ایشنز انگریزی اصول پر فوراً جاری کر دیئے جائیں- قانون‘ آزادی تقریر ابھی جاری ہو جائے- لیکن اگر اس کا اجراء دو تین ماہ کیلئے بعض قیود کے ماتحت ہو تو معقول قیود پر اعتراض نہ ہوگا-
۴-
معاملہ وکاہ چرائی و ٹیکس درختاں وغیرہ کے متعلق ایک کمیشن مقرر کر کے مزید کمی کی جائے اور جہاں مناسب چراگاہیں نہیں وہاں کاہ چرائی کا ٹیکس بالکل اڑا دیا جائے- جہاں چراگاہیں ہیں وہاں اس میں معقول تخفیف کی جائے-
۵-
معاملہ کے لگانے میں جو زیادتیاں اور بے قاعدیاں ہوئی ہیں اور مسلمانوں پر زائد بوجھ ڈالا گیا ہے اس کی اصلاح کی جائے-
۶-
جن جن علاقوں کے لیڈر سول نافرمانی بند کرنے کا اعلان کریں اور جہاں لوگ معاملہ دینے لگ جائیں یا دے چکے ہوں‘ وہاں سے آرڈیننس ہٹا دیا جائے- بعض افراد کے جرم قوم کی طرف منسوب نہ ہوں کثرت دیکھی جائے کہ کدھر ہے-
۷-
چونکہ مسلمانوں کو واقع میں روپیہ نہیں ملتا- جن لوگوں کے پاس روپیہ نہیں معقول شرائط پر معاملہ کی ادائیگی کے لئے انہیں قرض دلوایا جائے- ورنہ جب ان کے پاس ہو ہی نہ تو انہیں مجرم قرار نہ دیا جائے-
۸-
فیصلہ کر دیا جائے کہ دس سال کے عرصہ میں کم سے کم پچاس فیصدی افسر اور ماتحت عملہ قریباً مسلمانوں میں سے مقرر کیا جائے گا اور اس کیلئے ایسے قواعد تجویز ہو جائیں گے کہ اس فیصلہ پر عمل ہونا یقینی ہو جائے-
۹-
جو سیاسی قیدی اس سمجھوتہ پر دستخط کر دیں ان کو رہا کر دیا جائے اور جن ملزموں کے متعلق مسلمانوں کو شبہ ہو کہ ان کا اصل جرم سیاسی ہے صرف ظاہر میں کوئی اور الزام لگایا گیا ہے ان کے کیس پر غور کرنے کے لئے ایک ایسا جج جس پر مسلمانوں کو اعتماد ہو مقرر کیا جائے-
۱۰-
جو مستقل مطالبات ۱۹ اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان نمائندوں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں‘ ان کے متعلق چھ ماہ کے اندر ریاست اپنا آخری فیصلہ شائع کر دے-
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۲ صفحہ ۵۱ تا ۵۳(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں مکتوب نمبر۲
مکرمی درد صاحب- السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ-
ایک خط ابھی غزنوی صاحب کو لکھا ہے اس کے ضروری مطالب سے وہ آپ کو آگاہ کر دیں گے- جموں کے واقعات سخت قابل افسوس ہیں- بالا بالا کام سے سب کوشش کے تباہ ہونے کا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے- اگر اس طرح ایک جگہ کام شروع نہ کیا جاتا تو اس طرح بے دردی سے حملہ کرنے کی ریاست کے عمال کو جرات نہ ہوتی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نظام کی پابندی کی توفیق دے-
سیاہ نشان کے پروگرام کے متعلق اطلاع نہیں ملی- اس طرح کشمیر کے لوگوں کی حقیقی تعداد کا جو اس تحریک سے دلچسپی لیتی ہے خوب پتہ لگ جاتا- اور دلوں میں ہر وقت آزادی کی لہر دوڑتی رہتی- نہ معلوم ابھی تک عمل شروع ہوا یا نہیں- یہ پروگرام بہترین تعمیری پروگرام ہے اور ایک رنگ میں مردم شماری- کیونکہ ہر سیاہ نشان لگانے والا بغیر ایک لفظ بولنے کے اپنے مقصد کی تبلیغ بھی کرتا اور دوسرے ایک نظر سے معلوم ہو سکتا کہ کس حد تک لوگ ہمدردی رکھتے ہیں- گویا دل بھی مضبوط ہوتے‘ پروپیگنڈا ہوتا‘ اپنوں کو اپنے اثر کا علم ہوتا اور ریاست پر رعب پڑتا- اگر عمل نہیں ہوا تو اب توجہ دلائیں- ظاہری نشانات باطنی حالتوں پر خاص روشنی ڈالتے ہیں-
کل آپ کی تار قانونی امداد کے متعلق ملی ہے- پہلے لکھ چکا ہوں کہ قانونی امداد تیار ہے- لیکن سوال تو یہ ہے- )۱( مقدمات کب شروع ہوں گے- )۲( کوشش ہو کہ ایک مجسٹریٹ متواتر سنے- ) ( کمیشن کا اس وقت تک بائیکاٹ ہو جب تک پہلے کمیشن کی رپورٹ رد نہ ہو اور نئے کمیشن کو مسلمانوں کی مرضی کے مطابق نہ بنایا جائے- ورنہ دوسرا کمیشن بھی مضر ہوگا- اور جب تک مسلمانوں کی مظلومیت ثابت نہ ہو کانسٹی ٹیوشنل کمیشن پر زور سفارش نہیں کر سکتا-
اسلامی کمیشن کا بھی اس وقت تک بائیکاٹ ہونا چاہئے جب تک کہ اس کی ہیئت ترکیبی درست نہ ہو- پس بغیر ان امور کے تصفیہ کے آپ وکیل کیوں طلب کر رہے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آیا- بہرحال دوستوں کو یقین دلائیں کہ انشاء اللہ وکلاء پہنچ جائیں گے )آپ وزیر اعظم سے مل کر یہ کوشش کریں کہ ایڈووکیٹ اور بیرسٹر کے بغیر بھی دوسرے وکلاء کو اجازت مل جائے- اس میں سہولت رہے گی-
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد ششم ضمیمہ نمبر۲ صفحہ۵۳(
‏a12.4
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جموں میں مسلمانوں کے کشت و خون کے متعلق
مہاراجہ صاحب کشمیر کو تار
جموں سے یہ دل گداز خبریں موصول ہوئی ہیں کہ فوج نے درجنوں مسلمانوں کو قتل کر دیا اور سینکڑوں زخمی ہوئے- مہاراجہ صاحب کو اپنی ذاتی توجہ فی الفور اس طرف منعطف کرنی چاہئے- یہ دلال کمیشن کی رپورٹ کا نتیجہ ہے جس میں افسران کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے- اور اس بارے میں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جن کا مقصد وحید قانون کا احترام کرنا ہے- اس قسم کے واقعات قیام امن و امان کو زائل کر رہے ہیں- اور مجھے خوف ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کی محبت جو رعایا کے دل میں ہے اٹھ رہی ہے- میں مہاراجہ صاحب سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنی شایان شان فیاضی سے کام لے کر ریاست کی رعایا اور جتھوں کے ممبروں کو جو سیاسی جرائم میں گرفتار اور سزا یاب ہوئے رہا کر دیں- نیز دلالرپورٹ کو منسوخ کر دیں اور تمام فسادات کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن مقرر کیا جائے- کمیشن کا صدر باہر کے ہائی کورٹ کا غیر جانبدار جج ہو جس کو حکومت ہند مقرر کرے اور اس میں مسلمانوں کی کافی نمائندگی ہو- نیز بہت جلد ان کی شکایات کے ازالہ اور ابتدائی حقوق کے متعلق اعلان کیا جائے-
اگر ریاست جتھوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے‘ دلال کمیشن کی رپورٹ کو منسوخ کر دے اور ایک نئے آزاد کمیشن کا تقرر کرے تو مسلمان مطمئن ہو سکتے ہیں- اور ایک نامزد افسر نمائندگان کشمیر سے ابتدائی حقوق‘ امتیازی قانون اور دوسری شکایات کے متعلق گفتگو کر کے اپنی رپورٹ ۳۰- نومبر سے پیشتر پیش کرے اور مہاراجہ صاحب نومبر کے آخری ہفتہ تک اپنے فیصلے سے مطلع کر دیں-
میں آپ کی مسلم رعایا اور باہر کے سمجھدار مسلمانوں سے متوقع ہوں کہ وہ فضائیامنوامان کو بہتر بنانے اور مستقل تصفیہ میں امداد دیں گے- اگرچہ میرے اور کشمیر کمیٹی کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے تا ہم کمیٹی اور میں خود پر امن ذرائع کو پسند کرتا ہوں- میں مہاراجہ صاحب سے متوقع ہوں کہ آپ فوری اقدام عمل کریں گے تا کہ دنیا کو یقین ہو جائے کہ آپ کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا خیال ہے اور ریاست صلح اور آئینی ذرائع کی خواہشمند ہے-
)پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی(
)الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۳۱ء(
برطانوی افواج کے جموں میں داخلہ کے متعلق
وائسرائے ہند کو تار
جموں میں انتہائی بربریت واقعہ ہونے کے بعد برطانوی افواج ریاست میں داخل ہو گئی ہیں لیکن تا حال آزادانہ تحقیقات کے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا گیا- جب تک کہ پہلی دلالرپورٹ کو کالعدم قرار دے کر نئے آزاد کمیشن کا تقرر نہیں کیا جاتا‘ مسلمان یہ یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ برطانوی افواج کا ریاست میں داخلہ یا تو مسلمانوں کے خلاف اقدام ہے اور یا پھر حکومت برطانیہ کے مفاد کی غرض سے ہے- لہذا میں ہز ایکسی لنسی سے اپیل کرتا ہوں کہ مزید خطرات کے انسداد کے لئے مداخلت کریں-
)پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی(
)الفضل ۱۲- نومبر ۱۹۳۱ء(
مہاراجہ بہادر کشمیر کے بیان پر اظہار اطمینان
مہاراجہ بہادر کو مبارکباد
قادیان ۱۳- نومبر- میں نے آج ہز ہائی نس مہاراجہ کشمیر کا اعلان بہت دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کیا- اگرچہ مجھے پہلے ہی علم تھا کہ ایسا اعلان ہونے والا ہے لیکن پھر بھی میں اس کے مطالعہ سے بہت اثر پذیر ہوا ہوں- میں ہزہائینس کو ان کے صحیح فیصلہ اور ان کے وزیر اعظم کو دانشمندانہ مشورہ پر مبارکباد دیتا ہوں- انہوں نے ایک نہایت اہم مسئلہ کے تصفیہ کا دروازہ کھول دیا ہے-
حکومت ہند اور گورنر پنجاب کا شکریہ
میری رائے میں حکومت ہند اور ہز ایکسی لنسی گورنر پنجاب ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بدامنیوں کے اسباب کی تحقیقات کے لئے مسٹر مڈلٹن کو مقرر کیا ہے کیونکہ ان سے بہتر آدمی منتخب نہیں ہو سکتا تھا-
ایک شدید نقص
لیکن اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس کمیشن کو دلال کمیشن کے تحقیق کردہ واقعات کے صرف بعد کے حالات کی تحقیقات کا اختیار دیا گیا ہے- یہ ایک شدید نقص ہے اس کی فوری تلافی ہونی چاہئے کیونکہ دلال کمیشن کا مسلمانوں نے مقاطعہ کر رکھا تھا اور دو غیر سرکاری مسلمان ارکان نے اس میں شرکت نہیں کی تھی اس لئے اس بات کا احتمال ہے کہ کہیں دلال کمیشن کی رپورٹ جس میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا گیا تھا‘ جدید کمیشن کی کارروائی پر اثر انداز نہ ہو جائے-
گلینسی کمیشن میں ایک نقص
گلینسی کمیشن کی ہیئت ترکیبی میں بھی ایک نقص ہے- اس میں ایک ایسا مسلم رکن شامل نہیں جو آئینی مسائل کا ماہر ہو- ایسے رکن کی شمولیت مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ اطمینان کا موجب ہوگی-
مبارک عزم
اعلان میں سب سے نمایاں بات ریاست کے قوانین میں تبدیلی کر کے برطانوی ہند کے قوانین کے مطابق بنانے کا ارادہ اور تحریر و تقریر کی آزادی دینے کا مبارک عزم ہے- یہ ایک بہت بڑی پیش قدمی ہے اور مجھے اس پر بہت خوشی حاصل ہوئی ہے کیونکہ سب سے پہلے میں نے اس بات کو پیش کیا تھا-
نیکی ارادوں کو عملی جامہ پہنایا جائے
خاتمہ پر مجھے یہ کہنا ہے کہ ہم اس فیصلہ پر کتنے بھی خوش ہوں لیکن ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم نے مقصد حاصل کر لیا ہے- صحیح راستہ کی طرف قدم اٹھایا گیا ہے- لیکن چونکہ تفصیلات کا ابھی تصفیہ ہونا ہے اس لئے ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ کوئی حقیقی ترقی ہوگی یا نہیں- ہم امید کرتے ہیں کہ ہز ہائی نس مہاراجہ صاحب اپنے نیک ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور کشمیر کے اچھے دن آ جائیں گے اور یہ ملک دوسری ریاستوں کے لئے مثال ثابت ہوگا-
)پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی(
)الفضل ۱۷- نومبر ۱۹۳۱ء(
‏po] [tagمسلمانان کشمیر کی فوری ضروریات
اگر آپ آج امداد نہیں کرتے تو کل پچھتائیں گے
مسلمانان کشمیر کی قربانیاں اور مسلمانان ہند کی ہمدردی
مسلمانان کشمیر کی بے نظیر قربانیوں اور اس کے ساتھ مسلمانان پنجاب و دیگر صوبہ جات ہند کی ویسی ہی بے نظیر ہمدردی ایک ایسا دل خوشکن نظارہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل کو خوشی کے جذبات سے لبریز کر رہا ہے اور وہ لوگ جو صورتحالات سے آگاہ اور واقف ہیں جانتے ہیں کہ قربانی کے ان شاندار مظاہروں کے نتیجہ میں اللہتعالیٰ کے فضل سے مسلمانان کشمیر کی غلامی کی زنجیریں کٹنے والی ہیں اور مسلمانان ہند کی عظمت ان کے مخالفین کے دلوں میں قائم ہو رہی ہے- لیکن اس خوشی کے وقت میں ہمیں ایک بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جو یہ ہے کہ جنگ ابھی جاری ہے اور ایک تھوڑی سی غفلت اور سستی فتح کو شکست میں بدل سکتی ہے-
مسئلہ کشمیر کی موجودہ حالت اور اس کا اقتضاء
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر ہونے کے لحاظ سے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ تمام مسلمانوں کو کھول کر اس وقت کی حالت بتا دوں اس وقت ریاست کی طرف سے دو کمیشن مقرر ہیں- ایک مڈلٹن کمیشن فسادات کی وجہ اور ذمہ داری دریافت کرنے کے لئے اور ایک گلینسی کمیشن مسلمانوں کی تمام شکایات اور حق تلفیوں کی تحقیقات کے لئے- ان دو کمیشنوں کے علاوہ ایک کثیر تعداد مقدمات کی جموں و کشمیر اور میرپور میں مسلمانوں کے خلاف دائر ہے- ان تینوں کاموں کے لئے اور مسلمان مظلومین کی امداد کے لئے جن میں مقتولین کی بیوائیں اور یتامی اور ماخوذین کے غریب رشتہ دار شامل ہیں اور ہندوستان اور انگلستان میں پراپیگنڈے کے لئے ایک کثیر رقم کی ضرورت ہے-
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شاندار اور وسیع کام
اس وقت ہندوستان کے ایک مشہور عالم اہالیان کشمیر کی امداد کے لئے سری نگر میں کشمیر کمیٹی کی طرف سے تشریف رکھتے ہیں- دو وکیل اور ایک گریجویٹ دفتری کام کے لئے اور ایک کلرک سری نگر میں اور ایک وکیل جموں میں کام کر رہے ہیں- ایک اور وکیل دو تین دن تک جموں پہنچ جائیں گے اور ایک وکیل کا میر پور کے لئے انتظام ہو رہا ہے- اور ایک یا دو وکیل زائد گلینسی کمیشن کے کاموں کی نگرانی کے لئے جلد بھیجنے اور ضروری ہیں- اس وقت تک جو وکلاء جا رہے ہیں وہ مفت کام کر رہے ہیں لیکن ان کے اخراجات خور و نوش مکان اور کرایوں کا انتظام‘ گواہیاں جمع کرنے اور ہر قسم کی معلومات کمیشن کے لئے مہیا کرنے کا خرچ نہایت کثرت سے اس وقت پڑ رہا ہے اور کچھ ماہ تک یہ خرچ بجائے کم ہونے کے بڑھتا جائے گا- جموں میں سینکڑوں مسلمان گھر فاقے کر رہے ہیں‘ ان کے لئے ریلیف کی الگ ضرورت ہے اور پروپیگنڈا مزید برآں ہے- ان دنوں میں گورنمنٹ اور پریس کی تاروں کا خرچ ہی تین چار سو روپیہ ماہوار تک پہنچ جاتا ہے- انگلستان کی تاریں جو وہاں کے نمائندوں کو صورت حالات سے آگاہ کرنے کیلئے دی جاتی ہیں‘ بہت سا خرچ چاہتی ہیں-
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی آمد و اخراجات
یہ کل اخراجات تین چار ہزار روپیہ ماہوار تک پہنچ جاتے ہیں اور ان سب اخراجات کی ادائیگی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ذمہ ہے جو اس وقت تک سب اخراجات ادا کرتی رہی ہے- اس وقت تک مسلم بنک آف انڈیا کے ذریعہ سے کل آمد اس کمیٹی کی ۴۶۰۰ کے قریب ہے- اور براہ راست آمد ایک ہزار کے قریب ہے- اس میں بھی ایک ہزار کے قریب رقم میری طرف سے اور انجمن احمدیہ کی طرف سے ہے- میں ان سفروں پر جو اس کام پر مجھے کرنے پڑے ہیں ذاتی طور پر اور اپنی جماعت کے دفتر کی طرف سے چار ہزار سے زائد رقم خرچ کر چکا ہوں- جو رقم نقدی کی صورت میں اس وقت تک کشمیر اور جموں بھیجی جا چکی ہے‘ وہ پانچ ہزار سے اوپر ہے اور جو کرایوں وغیرہ کی صورت میں یا مطبوعات کی صورت میں وہاں گئی ہے‘ اسے ملا کر سات ہزار کے قریب رقم کشمیر اور جموں پہنچ چکی ہے- تاروں‘ اشتہاروں‘ ٹریکٹوں‘ سفرخرچ اور انگلستان کے پروپیگنڈا کا خرچ ملا کر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا خرچ بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور اس وقت اس کا فنڈ ۴۳۰۰ روپے کا مقروض ہے لیکن اس وقت جب کہ کام کا یکدم زور آ پڑا ہے‘ مزید قرض لینے کی بالکل گنجائش نہیں-
بہی خواہان کشمیر سے اپیل
پس ان حالات کو پبلک کے سامنے لا کر میں تمام بہی خواہان کشمیر سے اپیل کرتا ہوں کہ اس وقت کی نزاکت کو سمجھ کر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی امداد کی طرف متوجہ ہوں چونکہ کشمیر میں خرچ کئی جگہ پر ہو رہا ہے- یعنی سری نگر میں‘ جموں میں اور عنقریب میرپور میں بھی شروع ہوگا اور پھر ہندوستان‘ انگلستان میں بھی‘ اس لئے سب روپیہ مرکزی فنڈ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں آنا چاہئے اور اس کے حساب میں مسلم بنک آف انڈیا لمیٹیڈ لاہور میں جمع ہونا چاہئے- اگر دس پندرہ دن کے اندر دس پندرہ ہزار روپیہ جمع نہ ہو سکا تو کمیٹی کو افسوس کے ساتھ امداد کا کام بند کرنا پڑے گا- وکلاء اور دوسرے کارکن حسرت اور افسوس سے واپس آ جائیں گے اور دونوں کمیشنیں یقیناً مسلمانوں کے لئے بجائے مفید کے مضر ثابت ہونگی- اب بھی روپیہ کے نہ ہونے کی وجہ سے سخت نقصان ہو رہا ہے لیکن اگر فوراً روپے کی آمد شروع نہ ہوئی تو کام بالکل بند ہو جائے گا اور اس کی ذمہداری مسلمانوں کے سر پر ہوگی-
میں ہر بہی خواہ سے کہتا ہوں کہ یہ حساب نہ لگائیں کہ باقی شہروں کی رقم سے مل کر آپ کی رقم کافی ہو جائے گی کیونکہ ممکن ہے میری تحریک نے صرف آپ کے دل میں اور آپ کے شہر کے لوگوں میں ہی اثر کیا ہو- پس ہر شخص اس ہمت سے کام کرے کہ گویا سب کام اسی کے ذمہ ہے- آئندہ انشاء اللہ سب آمد کی اطلاع بذریعہ اخبارات بھی شائع ہوتی رہے گی تا کہ سب کو آمد کا اندازہ لگانے کا موقع ملتا رہے-
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات
گو مجھے افسوس ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کو باقاعدہ اخبارات میں شائع نہیں کیا جاتا رہا لیکن ان بہت سے ریزولیشنوں کو پڑھ کر جو متواتر سری نگر اور جموں کے پبلک اجلاسوں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے شکریہ کے طور پر پاس ہوتے رہے ہیں‘ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا کام نہایت مفید اور ضروری ہے اور اوپر کی تشریح سے اس کی ضرورت خود آپ پر بھی واضح ہو گئی ہو گی-
مسلم نمائندگان کشمیر کی طرف سے اپیل
میں یہ لکھ کر اس تحریر کو ختم کرتا ہوں کہ ریاست کشمیر کے نمائندوں کی مجلس کے فنانشل سیکرٹری کی طرف سے بھی ایک اپیل آئی ہے جس میں کشمیر کے مسلمانوں کی امداد کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مالی امداد کی اپیل کی گئی ہے- یہ اپیل الگ شائع کی جائے گی- سردست میں اس اعلان کی اشاعت سے اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں- اب مسلمانوں کا کام ہے کہ اس کام کو ادھورا چھوڑ کر سب قربانیوں کو ضائع کر دیں یا پورا کر کے اپنے بھائیوں کو آزاد اور اپنی عزت کو قائم کریں-
خاکسار
میرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
)الفضل مورخہ ۶ دسمبر ۱۹۳۱ء(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں مکتوب نمبر۳
مکرمی و معظمی راجہ سرہری کشن صاحب کول- آپ کا خط مجھے ملا- اگر ہزہائینس مہاراجہ صاحب جموں و کشمیر خیال فرماتے ہیں کہ میری ملاقات سے کوئی بہتر صورت پیدا ہو سکتی ہے اور امن کے قیام میں مدد مل سکتی ہے تو مجھے ان کی ملاقات کے لئے کسی مناسب مقام پر آنے پر کوئی اعتراض نہیں میں بڑی خوشی سے اس کام کو کروں گا- حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا فائدہ مہاراجہ صاحب کے منشاء پر منحصر ہے کیونکہ فائدہ تبھی ہو سکتا ہے اگر مہاراجہ صاحب مجھ سے اس امر پر گفتگو کرنے کو تیار ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات میں سے کون سے ایسے امور ہیں جن کے متعلق خود مہاراجہ صاحب اعلان کر سکتے ہیں اور کون سے ایسے امور ہیں جن کا اصولی تصفیہ اس وقت ہو سکتا ہے لیکن ان کی تفصیلات کو گلینسی کمیشن کی رپورٹ تک ملتوی رکھنا ضروری ہے اور کون سے ایسے امور ہیں کہ جن کے لئے کلی طور پر گلینسی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے- اگر مہاراجہ صاحب اس قسم کی گفتگو کرنے پر تیار ہوں اور اس امر کو پسند فرما لیں کہ وہ کسی مناسب مقام پر جیسے چھائونی سیالکوٹ میں تشریف لے آئیں تو میں چند ممبران کشمیر کمیٹی کو ہمراہ لے کر وہاں آ جائوں گا تاکہ جو گفتگو ہو میں فوراً اس کے متعلق ممبروں سے گفتگو کر لوں اور فیصلہ بغیر ناواجب دیر کے ہو سکے- مجھے یقین ہو کہ اگر ایسا انتظام ہو گیا تو یقیناً ریاست اور مسلمانوں دونوں کے لئے مفید ہو گا- کیونکہ میرا یا میرے ساتھیوں کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ فساد پھیلے- ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی صورت پیدا ہو جائے- اس صورت میں ہم پوری طرح امن کے قیام کے لئے کوشش کریں گے- والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد ششم ضمیمہ نمبر۳ صفحہ۵۴ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں مکتوب نمبر۴
مکرمی راجہ سرہری کشن کول صاحب! آپ کا خط مورخہ ۳۱- دسمبر ۱۹۳۱ء ملا- جس کا شکریہ ادا کرتا ہوں- چونکہ مقدم چیز یہ ہے کہ ہزہائی نس مہاراجہ صاحب سے میری ملاقات کوئی مفید نتیجہ پیدا کرے اس لئے سردست میں ملاقات کی جگہ کے سوال کو نظر انداز کرتا ہوں اور اصل سوال کو لیتا ہوں جو مسلمانوں کے حقوق کے تصفیہ کے متعلق ہے- اگر ان امور کے متعلق ہزہائی نس مہاراجہ صاحب ہمدردانہ طور پر غور فرمانا چاہیں تو میں انشاء اللہ پوری کوشش کروں گا کہ مناسب سمجھوتہ ہو کر ریاست میں امن قائم ہو جائے-
مسلمانان کشمیر کے مطالبات کے جواب میں جو اعلان ہزہائی نس مہاراجہ بہادر نے ۱۲- نومبر ۱۹۳۱ء کو فرمایا وہ بحیثیت مجموعی بہت قابل قدر تھا اور اسی لئے مسلمانان کشمیر اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے اس کے متعلق قدردانی اور شکریہ کا اظہار کیا- مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے جو مطالبات ریاست کے سامنے نمائندگان نے پیش کئے تھے ان میں نو امور ایسے تھے جن کے متعلق ان کا مطالبہ تھا کہ ان کا مناسب فیصلہ فوراً کیا جائے- میں سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق فوری فیصلہ کرنے میں کوئی روک نہیں- اور وہ ہرگز کسی قسم کے کمیشن کے قیام کے محتاج نہیں ہیں- مگر میں افسوس کرتا ہوں کہ اب تک ان مطالبات کے متعلق کوئی کارروائی اس رنگ میں نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کی تسلی کا موجب ہو-
سب سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ جن حکام نے مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچایا ہے انہیں مناسب سزا دی جائے- دلال کمیشن حالانکہ مسلمان اس پر خوش نہیں تسلیم کرتا ہے کہ ایک انسپکٹر پولیس نے خطبہ سے امام کو روک کر فساد کی آگ بھڑکائی لیکن اس وقت تک اسے کوئی سزا نہیں دی گئی اور نہ اس شخص کو جس نے قرآن کریم کی ہتک کی تھی کوئی سزا دی گئی ہے- اس کا ریٹائر ہونا طبعی وقت پر ہوا ہے اور وہ کوئی سزا نہیں-
دوسرا مطالبہ جو مقدس مقامات کے متعلق تھا وہ ایک حد تک پورا ہو رہا ہے لیکن اول تو ابھی بہت سے مقدس مقامات واگذار ہونا باقی ہیں- علاوہ ازیں جو مسجد واگذار کی گئی ہے- یعنی پتھر مسجد وہ ایسی خراب حالت میں ہے کہ مسلمانوں پر اس کی مرمت کا بوجھ ڈالنا ایک سزا ہو گا- اس کے متعلق ضروری ہے کہ مسجد کے گرد کا علاقہ بھی اگر اب تک واگذار نہیں ہوا‘ واگذار کیا جائے- نیز ریاست کو چاہئے کہ مسجد کی مرمت کے لئے بھی ایک معقول رقم دے تا کہ مسجد کے احترام اور تقدس کے مطابق اس کی واجبی مرمت کرائی جا سکے-
تیسرا مطالبہ بھی مکمل طور پر پورا نہیں کیا گیا کیونکہ بعض ایسے ملازم ہیں کہ جن کو گواہیاں دینے یا مسلمانوں کی ہمدردی کے جرم میں دور یا خراب مقامات پر تبدیل کر دیا گیا ہے اور ابھی تک انہیں اپنے مقامات پر واپس نہیں لایا گیا-
چوتھا مطالبہ تازہ فسادات میں مقتولوں کے وارثوں اور زخمیوں کو معاوضہ اور گذارہ دینے کا تھا- جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے اس کو بھی اب تک عملاً پورا نہیں کیا گیا اور اکثر غرباء اب تک فاقوں مر رہے ہیں حالانکہ یہ کام جس قدر جلد ہوتا خود ریاست کے حق میں مفید ہوتا اور رعایا کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کا موجب-
مطالبہ نمبر۵ کے متعلق بھی مناسب کارروائی نہیں ہوئی اور اب تک بعض سیاسی قیدی جیسے میاں عبدالقدیر قید ہیں- اگر ہزہائی نس ایسے قیدیوں کو چھوڑ دیں تو یقیناً اچھی فضا پیدا ہو جائے گی-
مطالبہ نمبر۶ کے متعلق کمیشن بیٹھ چکا ہے اور اس کے لئے ہم ریاست کے ممنون ہیں-
مطالبات نمبر سات‘ آٹھ‘ نو درحقیقت ایسے مطالبات ہیں کہ جن کا مسلمانوں کے حقیقی مفاد سے تعلق ہے بلکہ سات اور نو کا ریاست کی تمام رعایا کو فائدہ پہنچتا ہے- ان میں سے نو کے سوا دوسرے دونوں مطالبات کو ابھی عملاً پورا نہیں کیا گیا حالانکہ ان کے فوری طور پر پورا ہونے میں کوئی مشکل نہ تھی- ریاست اور انگریزی علاقہ میں اس بارہ میں ایک سے حالات ہیں اور جو قانون انگریزی علاقہ میں ہے کوئی وجہ نہیں کہ ریاست میں فوراً جاری نہ ہو سکے-
مطالبہ نمبر۷ کے متعلق سنا گیا ہے کہ مسٹر گلینسی رپورٹ کر چکے ہیں کہ پریس اور انجمنوں اور تقریر کی آزادی دی جائے- اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ امر اور بھی قابل افسوس ہے کہ اب تک اس کے متعلق فیصلہ نہ کر کے فضا کو خراب ہونے دیا گیا ہے-
مطالبہ نمبر آٹھ بھی ایسا مطالبہ ہے کہ جس کے متعلق انگریزی حکومت کہ جہاں ہندوآبادی کی اکثریت ہے ایک فیصلہ کر چکی ہے اگر اس قانون کو ریاست کشمیر میں کہ جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے جاری کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا-
مطالبہ نمبر نو کے متعلق ہزہائی نس نے مہربانی فرما کر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ اپنی رعایا کو زیادہ سے زیادہ حکومت میں حصہ لینے کا موقع دیں گے لیکن یہ الفاظ اصل مطالبہ پر حاوی نہیں- ہزہائی نس کی رعایا کا مودبانہ مطالبہ یہ تھا کہ حکومت کے انتظام کی ترتیب ایسی ہو کہ آہستہ آہستہ حکومت نمائندہ ہو جائے ہزہائی نس مہاراجہ صاحب بہادر کے وعدہ کے الفاظ ایسے ہیں کہ اگر صرف ملازمتیں مسلمانوں کو زیادہ دے دی جائیں تو ان الفاظ کا مفہوم ایک گونہ پورا ہو جائے گا- حالانکہ اصل مطالبہ اور ہے- پس اگر اس امر کی تسلی دلا دی جائے کہ <INCREASINGASSOCIATION> سے مراد نمائندہ حکومت کے اصول پر حکومت کو قائم کرنا ہو گا- خواہ اس کی پہلی قسط آخری قسط کو پورا کرنے والی نہ ہو تو یہ امر یقیناً رعایا کی تسلی کا موجب ہو گا-
مطالبا ت کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں یہ زائد کرنا چاہتا ہوں کہ بعض حالات ان مطالبات کے تیار ہونے کے بعد حوادث زمانہ کی وجہ سے یا ریاست کے بعض اعلانات کی وجہ سے نئے پیدا ہو گئے ہیں ان کے متعلق ہمدردانہ غور بھی ضروری ہے کیونکہ ان کے تصفیہ کے بغیر فساد کا مٹنا مشکل ہے-
سب سے پہلا سوال زمینداروں کی اقتصادی حالت تباہ ہو جانا ہے- آپ جانتے ہیں کہ ریاست جموں کی سرحد اس حکومت سے ملتی ہے جس نے اس زمانہ میں جمہوریت کا ایک نیا مفہوم پیدا کرنا ہے اور اس سے تمام دنیا میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے- زمینداروں کی موجودہ تباہی نے ان خیالات کو رائج کرنے میں بے انتہا مدد دی ہے- انگریزی حکومت نے باوجود قیام امن کی خاطر کثیر رقوم خرچ کرنے کے اس وقت زمینداروں کا بوجھ کم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے- ریاست جموں نے بھی اپنے مالیہ میں تخفیف کی ہے لیکن وہ تخفیف بہت کم ہے- زمیندار پر جو بار ریاست میں اس وقت ہے وہ انگریزی علاقہ کے زمیندار کے بار سے بہت زیادہ ہے حالانکہ جو قیمت انگریزی علاقہ کے زمیندار کو اپنی پیدا وار پر ملتی ہے اس سے بہت کم ریاست کے زمیندار کو اپنی پیداوار پر ملتی ہے- پس ان حالات کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے- اگر ریاست ایک سال کے لئے عارضی طور پر جب تک کہ گلینسی کی رپورٹ پیش ہو کر اس پر غور کیا جا سکے‘ ریاست کے زمینداروں کا بار تمام ٹیکسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی علاقہ کے بار کے مطابق کم کر دے تو نہ صرف یہ ایک انصاف کا کام ہو گا بلکہ اس سے رعایا اور راعی کے تعلقات کے درست ہونے میں یقیناً بہت کچھ مدد ملے گی-
دوسرا تغیر جو بعد کے حالات سے پیدا ہوا ہے وہ جموں اور میرپور کے سیاسی قیدیوں کا سوال ہے- جب گاندھی ارون پیکٹ ہوا تھا تو تمام سیاسی قیدی حکومت برطانیہ نے بغیر کوئی معاہدہ لینے کے چھوڑ دیئے تھے- ریاست نے رعایا سے صلح تو کی لیکن قیدیوں کو نہیں چھوڑا- اس کی وجہ سے ان قیدیوں کے دوستوں اور ساتھیوں کا دبائو لیڈروں پر پڑ رہا ہے اور تعاون کی کارروائی پوری طرح نہیں ہو سکتی- میرے نزدیک یقیناً ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ وہ ان قیدیوں کو چھوڑ دے- اگر وہ لوگ نئی فضا سے فائدہ نہ اٹھائیں تو انہیں پھر گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اس وقت یقیناً رعایا کا سمجھدار طبقہ ریاست کے ساتھ ہو گا-
ایک نیا تغیر گلینسی کمیشن کے قیام کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اس کی موجودہ ترکیب سے مطمئن نہیں لیکن جو کچھ پہلے ہو چکا وہ تو خیر ہو چکا آئندہ ایک نئی کمیشن قانوناساسی کے متعلق مقرر کی جائے گی- اس کی ترکیب سے پہلے مسلمانوں کے احساسات کو معلوم کر کے ان کا خیال رکھ لینا ضروری امر ہے-
دلال کمیشن کے مسلمان مخالف تھے لیکن دلال کمیشن کی رپورٹ کا جو حصہ مفید تھا اب تک اس پر بھی عمل نہیں ہوا- یعنی )۱( مسلمانوں کی ملازمتوں کے متعلق کوئی معین احکام جاری نہیں ہوئے- )۲( اس قسم کے غیر تعلیم یافتہ افسروں کو جن کے بے فائدہ ہونے کے متعلق کمیشن نے رائے ظاہر کی تھی اب تک ہٹایا نہیں گیا-
یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ جن پر گفتگو ہو کر کسی مفید نتیجہ کی امید ہو سکتی ہے اور اگر ہزہائی نس ان کے متعلق تبادلہ خیال کا مجھے موقع دیں تو میں ہزہائی نس کی ملاقات کو ایک مبارک بات سمجھوں گا جس سے لاکھوں آدمیوں کے فائدہ کی امید ہو گی- اور اگر کوئی مفید صورت نکلے تو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سامنے اس ملاقا کا نتیجہ رکھ کر کوشش کروں گا کہ کوئی ایسی صورت نکلے جس سے جلد سے جلد امن قائم ہو سکے- لیکن اگر ہزہائی نس کسی مصلحت کی وجہ سے ان امور پر غور کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو محض ایک رسمی ملاقات باوجود اس ادب و احترام کے جو میرے دل میں ہزہائی نس کا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی-
میں خط ختم کرنے سے پہلے یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ ہر امر جس صورت میں نمائندوں نے پیش کیا ہے اسی صورت میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے- وہ صرف ایک بنیاد ہے لیکن اگر کوئی ایسی راہ نکل آئے جو رعایا کے حقوق کی حفاظت کرتی ہو اور ساتھ ہی والئی ملک کے احساسات اور ریاست کے حقیقی مفاد بھی اس میں ملحوظ رہتے ہوں تو ایسے تصفیہ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور میں ایسے تغیرات کو ملک سے منوانے میں ہر طرح ہزہائی نس کی حکومت کی امداد کروں گا-
میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہزہائی نس کو ایسا مشورہ دیں گے کہ کوئی راہ ملک میں قیامامن کی نکل آئے گی- ورنہ مجھے ڈر ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک ایجی ٹیشن کے جاری رہنے کے بعد ایک طبقہ کو ایجی ٹیشن کی عادت ہی نہ پڑ جائے- جس کے بعد کوئی حق بھی ایسے لوگوں کو تسلی نہیں دے سکتا- یہ حالت ملک اور حکومت دونوں کے لئے نہایت خطرناک ہوتی ہے اور عظیم الشان انقلابات کے بغیر ایسی حالت نہیں بدلا کرتی- اللہ تعالیٰ ایسے ناگوار تغیرات سے مہاراجہ صاحب بہادر اور ان کی رعایا کو محفوظ رکھے-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱۹۳۲ء-۱-۳
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۲ صفحہ۵۴ تا ۵۷ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
کشمیر کے لیڈر مسٹر عبداللہ کی گرفتاری
اور
اہل کشمیر کا فرض
برادران کشمیر! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ-
گذشتہ کئی ماہ کے عرصہ میں میں خاموش رہا ہوں اور اپنا مطبوعہ خط آپ کے نام نہیں بھیج سکا- اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ لوگوں کے قابل فخر لیڈر مسٹر عبداللہ آزاد ہو کر آ گئے تھے اور آزادی کی جدوجہد کو نہایت خوبی اور قابلیت سے چلا رہے تھے- پس میں ضرورت نہیں سمجھتا تھا کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ جاری رکھوں- لیکن اب جبکہ ریاست نے پھر مسٹر عبداللہ اور دوسرے لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے مطبوعہ خطوں کا سلسلہ پھر جاری کر دوں- تاکہ آپ لوگوں کی کام کرنے کی روح زندہ رہے اور مسٹر عبداللہ کی گرفتاری کی وجہ سے آپ میں پراگندگی اور سستی پیدا نہ ہو-
اے عزیز بھائیو! ریاست کے بعض حکام ایک عرصہ سے کوشش کر رہے تھے کہ مسٹرعبداللہ کو گرفتار کریں لیکن انہیں کوئی موقع نہیں ملتا تھا- چنانچہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ کوشش کی کہ مسٹر عبداللہ جس جگہ ہوں وہاں لڑائی کروا دی جائے- اور پھر مسٹر عبداللہ کو پکڑوا دیا جائے کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھے- اسی طرح بعض خبیثوں نے یہ بھی کوشش کی کہ کسی ہندو فاحشہ عورت کو سکھا کر ان کے گھر پر بھیج دیں اور ان پر جبریہ بداخلاقی کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کروا دیں- میں یہ نہیں جانتا کہ کسی ذمہ وار ریاستی افسر کا اس میں دخل تھا یا نہیں لیکن یہ یقینی امر ہے کہ اس قسم کی کوششیں بعض لوگ کر رہے تھے- لیکن چونکہ میں نے ان ارادوں کا ذمہ وار حلقوں میں افشاء کر دیا تھا‘ اس لئے وہ لوگ ڈر گئے اور ان ارادوں کے پورا کرنے سے باز رہے- آخر اب مفتی ضیاء الدین صاحب کی جلاوطنی کے موقع پر کہ یہ صاحب بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مخلص قومی خادم ہیں‘ ایک لغو بہانہ بنا کر مسٹرعبداللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے حالانکہ مسٹر عبداللہ امن کے قیام کے لئے کوشاں تھے نہ کہ فساد پیدا کرنے کے لئے-
عزیز بھائیو! چونکہ انسان حالات سے واقف ہو کر مخالف کے حملوں سے بچ جاتا ہے بلکہ مشہور ہے کہ دشمن کے منصوبوں سے واقف ہونا آدھی فتح ہوتی ہے- میں آپ کو بتا نا چاہتا ہوں کہ ریاست کے حکام کن چالوں سے آپ کو پھنسانا اور آپ کے حقوق کو تلف کرنا چاہتے ہیں تا کہ آپ لوگ فریب میں نہ آئیں اور اپنے اعلیٰ درجہ کے کام کو کامیابی کے ساتھ فتح کر سکیں-
آپ کو معلوم رہنا چاہئے کہ پچھلے مظالم کے وقت میں اور دوسرے ہمدردان کشمیر اس امر میں کامیاب ہو گئے تھے کہ حکومت ہند کی توجہ کو آپ لوگوں کی ناگفتہ بہ حالت کی طرف پھرا سکیں اور اوپر کے دبائو کی وجہ سے ریاست مجبور ہو گئی تھی کہ اس ظلم کا راستہ ترک کر کے انصاف کی طرف مائل ہو لیکن وہ حکام ریاست جن کا دلی منشاء یہ تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو حقوق نہ ملیں‘ انہوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ کسی اہل کشمیر کی طرف سے ایسے مطالبات پیش کرا دیں جو بالکل غیر معقول ہوں- یا ایسے فسادات کروا دیں جنہیں انگریز ناپسندیدہ سمجھیں- وہ اس کا یہ فائدہ سمجھتے تھے کہ اس طر ح انگریزوں کی ہمدردی مسلمانوں سے ہٹ کر ریاست کے ساتھ ہو جائے گی- دوسری کوشش انہوں نے یہ کرنی شروع کر دی کہ فرقہ وارانہ سوال پیدا کر کے مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کر دیں-
پہلے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے بعض مسلمان ذمہ وار لوگوں کو انگریزوں سے لڑوانے کی کوشش کی- چنانچہ جب گلینسی کمیشن مقرر ہوا تو باوجود اس کے کہ مسٹر عبداللہ اور ان کے ساتھی اس امر کا فیصلہ کر چکے تھے کہ جب تک کوئی خلاف بات ظاہر نہ ہو وہ اس سے تعاون کریں گے اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا‘ ریاست کا ایک ایجنٹ جسے اسی قسم کے کاموں کے لئے باہر سے بلوایا گیا تھا‘ مسٹر گلینسی سے ملا اور انہیں اس نے کہا کہ مسلمان تم سے تعاون کرنا نہیں چاہتے- اور اس طرح انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا- مگر چونکہ مسلمان تعاون کرنے کے لئے تیار تھے‘ اس کا علاج اس شخص نے یہ کیا کہ مسلمانوں سے کہا کہ مسٹر گلینسی تم سے ملنا نہیں چاہتے‘ میں انہیں سمجھا کر منوا دیتا ہوں- اور پھر مسٹر گلینسی کو یہ بتا کر کہ میں نے بڑی محنت سے مسلمانوں کو منوایا ہے اپنے جرم پر پردہ ڈالا اور ساتھ ہی مسٹرگلینسی کی طبیعت میں شروع میں ہی مسلمان لیڈروں سے بغض پیدا کر دیا- چنانچہ مولوی عبدالرحیم درد ایم-اے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی جو کہ عرصہ سے آپ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں‘ انہیں ایک رات گیارہ بجے بلا کر ریذیڈنٹ صاحب اور مسٹر گلینسی نے صبح کے تین بجے تک جو گفتگو کی اس سے صاف ظاہر تھا کہ دونوں صاحبان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی-
اسی سلسلہ میں ایک کوشش یہ کی گئی کہ بعض اہالیان کشمیر سے جو درحقیقت ریاست کے بعض حکام سے ساز باز رکھتے ہیں اور ان کی خفیہ چھٹیاں معتبر لوگوں نے دیکھی ہیں‘ یہ اعلان کروایا کہ وہ لوگ کشمیر کے لئے آزاد اسمبلی چاہتے ہیں- یہ امر کہ یہ لوگ بعض حکام ریاست کے سکھانے پر ایسا کر رہے تھے‘ اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ ساتھ کے ساتھ کہے جاتے ہیں کہ وہ مہاراجہ صاحب کے اقتدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے- حالانکہ آزاد اسمبلی کے معنی ہی یہ ہیں کہ مہاراجہ صاحب کے کل اختیار لے کر اسمبلی کو دے دیئے جائیں سب اختیار مہاراجہ صاحب سے لے لئے جائیں تو پھر ان کا اقتدار کہاں باقی رہا- غرض یہ دونوں باتیں ایسی متضاد اور ایک دوسرے سے مخالف ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کا مطالبہ خود حکام ریاست انگریزوں کو یہ بتانے کے لئے کہ اہل کشمیر کے مطالبات خلاف عقل اور باغیانہ ہیں کرواتے تھے- اصل میں یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے- تبھی تو یہ کہتے تھے کہ ہم مہاراجہ صاحب کے اقتدار میں کوئی فرق نہیں لانا چاہتے- دوسرا ثبوت کہ یہ لوگ ریاست کی طرف سے اس کام پر مقرر ہوئے تھے یہ ہے کہ یہ لوگ ریاست کی موٹروں میں ریاست کے خرچ پر سفر کرتے رہے ہیں اور حکام ریاست نے تاریں دے دے کر انہیں بلوایا ہے اور ان کو اپنے کاموں پر بھجوایا ہے- اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ کامل آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے- دوسری طرف ریاست جو مسلمانوں کو سردست کچھ بھی دینے کو تیار نہیں معلوم ہوتی‘ ان لوگوں سے دوستانہ برتائو کر رہی تھی اور مسٹر عبداللہ جیسے آدمی کو جن کے مطالبات نہایت معقول تھے‘ اپنا دشمن قرار دے رہی تھی- ریاست کا یہ سلوک صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کے ایجنٹ تھے اور مسٹر عبداللہ رعایا کے حقیقی خیر خواہ تھے-
دوسرا کام یعنی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالوانے کا کام بھی ریاست نے خود مسلمانوں سے لیا اور انہی میں سے بعض لوگوں کو اس کام کے لئے کھڑا کیا کہ فرقہ بندی کا سوال اٹھائیں- حالانکہ فرقہ بندی مذہبی شے ہے اور کشمیر کی آزادی کا سوال مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے- کیا اگر ہندو اٹھ کر آج مسلمانوں کے مطالبات کی تصدیق کرنے لگیں اور کہیں کہ ان حقوق کے ملنے سے ہمارا بھی فائدہ ہے‘ تو کیا کوئی مسلمان ہے جو کہے گا کہ ہندوئوں کا ہم سے کیا تعلق؟ بلکہ ہر مسلمان شوق سے ان ہندوئوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا اور ہندوئوں کی امداد کو امداد غیبی سمجھے گا- یا مثلاً مہاراجہ صاحب اختیار دینے کو تیار ہوں تو کیا کوئی کہے گا کہ وہ ہندو ہیں ہم ان سے کچھ نہیں مانگتے- یا جب سرینگر کے مظالم کے موقع پر بعض انگریزوں نے بعض مسلمانوں کو مارنے پیٹنے سے بچانے کے لئے کوشش کی تھی تو کیا وہ مسلمان انہیں یہ کہتے تھے کہ ہم عیسائی کافر سے مدد نہیں لیتے ان ڈوگروں کو مارنے دو تم ہمیں نہ بچائو- غرض یہ ایک بالکل خلاف عقل سوال تھا اور اصل بات یہ تھی کہ ریاست کے حکام جانتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے آئینی جدوجہد میں میرا بہت سا دخل ہے اور وہ اسی جدوجہد سے زیادہ خائف تھے- پس ریاست نے یہ کوشش شروع کی کہ مجھے تنگ کرے اور کشمیر کمیٹی سے استعفاء دینے پر مجبور کر دے- لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ایک ارادہ کر کے اس سے پیچھے ہٹ جائیں- مجھے اگر کشمیر کمیٹی سے استعفاء دینا پڑتا تو بھی میں اہل کشمیر کی مدد سے دست کش نہ ہوتا- اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے امید ہے کہ اہلکشمیر کے آزاد ہونے تک مجھے ان کی خدمت کی برابر توفیق ملتی رہے گی- اے میرے رب! تو ایسا ہی کر اور مجھے اس مظلوم قوم کی مدد کرنے کی اور بے غرض اور بے نفس خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما- آمین اللھم آمین
اس تفرقہ ڈلوانے کے کام پر اس قدر زور دیا گیا کہ ریاست کے بعض حکام نے خود بلوا کر میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب کو لاہور بھجوایا جہاں انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ میں صدارت سے مستعفی ہو جائوں لیکن بعض معززین کا بیان ہے کہ جب انہوں نے میر واعظ صاحب سے پوچھا کہ اگر موجودہ صدر استعفاء دے دیں تو کیا آپ مسٹر عبداللہ صاحب سے مل کر کام کرنے لگ جائیں گے اور ان کی تائید کرنے لگیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں ایسا پھر بھی نہیں کروں گا- اس پر ان معززین نے کہا کہ اگر صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اسعتفاء کی غرض اتحاد پیدا کرنا ہے تو اتحاد تو اس صورت میں بھی نہ ہوا- پھر ہم خواہ مخواہ کیوں کوشش کریں کہ وہ استعفاء دیں-
غرض یہ کہ ریاست کے بعض حکام نے پورا زور لگایا کہ مذہبی فرقہ بندی کا سوال اٹھا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں- لیکن مسٹر عبداللہ کی دور اندیشی اور اہل کشمیر کی وہ طبعی ذہانت جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہے ان کے منشاء کے راستہ میں روک بن گئی اور اہل کشمیر نے صاف کہہ دیا کہ وہ اس سیاسی سوال میں مذہبی تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے- فالحمدللہ ثم الحمدللہ
ان حالات کے بیان کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ آپ لوگ پوری طرح ان کوششوں سے آگاہ رہیں جو ریاست آپ کے کام کو نقصان پہنچانے کیلئے کر رہی ہے- اور آئندہ بھی کرے گی اور اس کے ایجنٹوں کے دھوکا میں آ کر غصہ کی حالت میں کوئی فساد نہ کر بیٹھیں یا فرقہ بندی کے سوال کو سیاسی مسائل میں داخل نہ کرلیں-
اے بھائیو! اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر عبداللہ جیسے لیڈر کے بلاوجہ گرفتار کئے جانے پر جنہوں نے اپنی زندگی اپنے پیارے وطن اور اپنے پیارے وطنی بھائیوں کی خدمت کیلئے وقف کر چھوڑی تھی‘ آپ لوگوں کو جس قدر بھی غصہ ہو کم ہے- میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے اکثر اس جگہ خون بہانے کے لئے تیار ہیں جہاں مسٹر عبداللہ کا پسینہ گرے لیکن آپ لوگوں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ مسٹر عبداللہ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کام کو جاری رکھا جائے- پس آپ لوگ ریاست کے اس ظلم کا جواب جو انہوں نے مسٹر عبداللہ صاحب‘ مفتی ضیاء الدین صاحب اور دیگر لیڈران کشمیر کو گرفتار یا جلاوطن کر کے کیا ہے یہ دیں کہ اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے جو مسٹر عبداللہ نے شروع کر رکھی تھی‘ پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہو جائیں- نیز جو مطالبات انہوں نے پیش کئے تھے‘ ان پر آپ لوگ اڑے رہیں اور جو شخص ان مطالبات کے خلاف کہے خواہ آپ کا ظاہر میں دوست بن کر یہی کہے کہ ان مطالبات سے زیادہ سخت مطالبات ہونے چاہئیں‘ اس کی بات کو رد کر دیں اور صاف کہہ دیں کہ مسٹر عبداللہ کی پیٹھ پیچھے ہم کسی اور کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں- مجھے اس نصیحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خود ریاست کا اس میں فائدہ ہے کہ بعض لوگوں سے زیادہ سخت مطالبات پیش کرائے کیونکہ اس سے ایک طرف مسٹر عبداللہ کی لیڈری میں فرق آتا ہے‘ دوسری طرف انگریزوں کو بھڑکانے کا اسے موقع ملتا ہے- پس آپ نہ صرف اس خوشامدی سے ہوشیار رہیں جو نقصان کا خوف دلا کر آزادی کی تحریک سے آپ لوگوں کو ہٹانا چاہے بلکہ اس دوست نما دشمن سے بھی ہوشیار رہیں جو بظاہر آپ کی خیر خواہی کا دعویٰ کر کے اور سبز باغ دکھا کر آپ کو آپ کے حقیقی لیڈر سے پھرانا چاہتا ہے- مجھے اس بات پر زور دینے کی اس لئے بھی ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض لیڈر جو ظاہر میں جوشیلے نظر آتے ہیں مجھے ان کی نسبت یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ ریاست سے روپیہ لیتے ہیں اور مسٹر عبداللہ کا اثر گھٹانے کے لئے ریاست کی طرف سے مقرر ہیں-
یہ امر بھی یاد رکھیں کہ کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ پبلک کی ہمدردی اس کے ساتھ نہ ہو اور پبلک اس کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار نہ ہو- عزت کی موت ذلت کی زندگی سے ہزار درجہ اچھی ہوتی ہے- پس جہاں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں‘ وہاں میں یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے نفسوں کو ملک اور قوم کے لئے قربانی کی خاطر تیار رکھنا چاہئے یہ اور بات ہے کہ آپ اپنے ملک کے فائدہ کیلئے اعتدال کا طریق اختیار کریں اور یہ بات اور ہے کہ آپ اس امر کے لئے تیار ہوں کہ اگر ملک کے لئے جان دینی پڑے گی تو خوشی سے جان دے دیں گے- یہ دونوں باتیں جدا جدا ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں حق ہیں- پس ¶چونکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسا وقت آ جائے کہ بغیر اخلاق یا مذہب کو ہاتھ سے دینے کے آپ کو اپنے ملک کیلئے جان دینی پڑے‘ اس لئے اس وقت کیلئے بھی آپ کو تیار رہنا چاہئے اور اپنے اندر قربانی کی روح اور بہادری کا احساس پیدا کرنا چاہئے- اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہر کشمیری کو آپ لوگ اس جنگ کیلئے تیار رکھیں جو اس وقت آزادی کے لئے آپ لوگ کر رہے ہیں- قید ہونا صرف مسٹر عبداللہ کا فرض نہیں‘ آپ لوگوں کا بھی فرض ہے- مسٹرعبداللہ آسمان سے نہیں گرے‘ ان کے بھی ماں باپ بھائی بند ہیں- ان کا بھی ایک دل اور ایک جسم ہے- جس طرح آپ کے قید ہونے پر آپ کے عزیزوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے اور جس طرح قید ہونے سے خود آپ لوگوں کے دل اور جسم کو تکلیف پہنچ سکتی ہے‘ اسی طرح مسٹرعبداللہ کے عزیزوں کو بھی اور ان کیدل اور جسم کو بھی تکلیف پہنچتی ہے- پس اس پر خوش نہ ہوں کہ آپ کا لیڈر آپ کے لئے قید میں ہے کیونکہ یہ غداری اور بے وفائی کی کمینہ مثال ہوگی بلکہ اس امر کے لئے تیار رہیں کہ اگر موقع آئے تو آپ بھی اور آپ کے عزیز بھی بلکہ آپ کی عورتیں بھی قید ہونے کو تیار رہیں گی-
یہ بھی مت خیال کریں کہ جب ہمیں امن کی تعلیم دی جاتی ہے تو ہمیں قید ہونے کا موقع کس طرح مل سکتا ہے کیونکہ مسٹر عبداللہ کو بھی ریاست نے بلاوجہ اور بلاقصور گرفتار کیا ہے- اور اسی دفعہ نہیں پہلے بھی اسی طرح بلاوجہ انہیں قید کرتی رہی ہے- اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی کسی وقت ریاست بلاوجہ قید کر لے- پس اپنے نفسوں کو تیار رکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سمجھاتے رہیں کہ ملک کی خاطر قید ہونا کوئی بری بات نہیں‘ بلکہ عزت ہے-
میں نے اپنے ایک پہلے خط میں لکھا تھا کہ مسٹر عبداللہ اور دوسرے لیڈر جب تک آزاد نہ ہوں- آپ لوگ روزانہ ان کے لئے دعا کرتے رہا کریں اور اپنی اولادوں کو بھی اس میں شامل کیا کریں- میں اس بات کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے آپ لوگ متواتر رات کو سونے سے پہلے خدا تعالیٰ سے اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق مسٹر عبداللہ کیلئے اور اہل کشمیر کو انسانی حقوق ملنے کیلئے دعا کیا کریں- نیز میں مساجد کے اماموں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر جمعہ کے دن تمام نمازیوں سمیت مناسب موقع پر کشمیر کی آزادی اور مسٹر عبداللہ اور دیگر لیڈران کشمیر کی حفاظت اور رہائی کیلئے دعا کیا کریں- اس کا فائدہ ایک تو یہ ہوگا کہ اللہ تعالٰی کی غیرت جوش میں آ کر ان ظلموں کا خاتمہ جلد کر دے گی جو اہل کشمیر پر روا رکھے جاتے ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر گھر میں اور بچوں تک بھی یہ تحریک پہنچ جائے گی- یاد رکھیں کہ ریاست یہ قانون تو بنا سکتی ہے کہ گذرگاہوں یا مساجد میں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اور آپ کی عورتوں کو کوئی شخص ملک کے صحیح حالات نہ بتائے- لیکن کوئی ریاست خواہ کس قدر زبردست کیوں نہ ہو‘ اس امر کا انتظام نہیں کر سکتی کہ ہر گھر میں اپنے سپاہی بٹھا دے- پس اگر قانون نے مجلسوں کا دروازہ آپ کے لئے بند کر دیا ہے تو اپنے گھروں میں اپنی عورتوں اور بچوں کو بٹھا کر دعائوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو اور اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی قومی تربیت بھی کرو-
اور بھی کئی باتیں ہیں جو میں کہنی چاہتا ہوں لیکن سردست میں اپنے اس خط کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ اے اہل کشمیر! آپ کو یہ امر ایک منٹ کے لئے بھی نہیں بھلانا چاہئے کہ مسٹر عبداللہ جو آپ سے زیادہ نازو نعم میں پلے ہوئے ہیں- جو ظاہری تعلیم کی آخری ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور جو اگر کسی مہذب ملک میں ہوتے اور کسی منصف حکومت سے ان کا واسطہ پڑتا تو کسی نہایت ہی اعلیٰ عہدہ پر ہوتے‘ آج قید خانہ کی تاریک کوٹھڑی میں بند ہیں- کسی اپنے جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اے اہل کشمیر! آپ لوگ غلامی سے آزاد ہو جائیں اور آپ کی اولادیں عزت کی زندگی بسر کریں-
خاکسار
میرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
قادیان- ضلع گورداسپور )پنجاب(
۲۷-۱-۱۹۳۲ء
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۷ تا ۱۲ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
مسلمان لیڈران کشمیر کی گرفتاری پر وائسرائے ہند کو تار
‏text] gat[ قادیان ۲۷- جنوری ۱۹۳۲ء-
یورایکسی لینسی کے یقین دلانے پر مجھے اطمینان ہو گیا تھا کہ کشمیر کے مسلمانوں کی شکایات دور کر دی جائیں گی اور کہ ریاست اپنی متشددانہ پالیسی ترک کر دے گی- یہ اطمینان دلائے جانے پر میں نے ریاست کے اندر اور باہر اس امر کے لئے پوری پوری کوشش کی کہ مسلمان پر امن رہیں اور گلینسی اور مڈلٹن کمیشنوں‘ نیز مسٹرجنکنز اور مسٹر لاتھر سے تعاون کریں اس لئے میں بالکل خاموش تھا اور سری نگر و جموں کے نمائندگان کو بھی پر امن رکھنے کی کوشش میں مصروف تھا- کشمیر کے مشہور و معروف رہنما مسٹرعبداللہ اور موچھ کے مفتی ضیاء الدین صاحب اس پر امن کام میں ہمارے ممدو معاون تھے- اس وقت بھی سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی بعض دوسرے مقتدر راہنمائوں کے ساتھ جموں میں اس امر کی کوشش کر رہے ہیں کہ ریاست اور علاقہ میرپور کے مسلمانوں کے درمیان صلح کرا دیں اور سول نافرمانی کی تحریک کو بند کرا دیں-
لیکن ہماری مصالحانہ مساعی کے باوجود ریاستی حکام مسلمانوں پر انتہائی تشدد میں مصروف رہے اور جلسوں کی ممانعت‘ پانچ افراد سے زیادہ کے اجتماع کی ممانعت وغیرہ کے لئے ان مقامات پر بھی آرڈیننس جاری کر دیئے گئے جہاں بالکل امن و امان تھا- اب خبر آئی ہے کہ مفتی ضیاء الدین صاحب کو جبراً حدود ریاست سے نکال دیا گیا ہے اور مسٹر عبداللہ کو ان کے رفقاء سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے- جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی حکام خود ہی فتنہ انگریزی کرنا چاہتے ہیں تا حکومت برطانیہ کی ہمدردی حاصل کر سکیں اور مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے بہانہ بنا سکیں-
اس لئے میں ایک بار پھر یورایکسی لنسی سے اپیل کرتا ہوں کہ فوری مداخلت کر کے حالات کو بدتر صورت اختیار کرنے سے بچا لیں اگر یورایکسی لنسی کے لئے اس میں مداخلت ممکن نہ ہو تو مہربانی فرما کر مجھے اطلاع کرا دیں تا میں مسلمانان کشمیر کو اطلاع دے سکوں کہ اب ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو جدوجہد میں ہی اپنے آپ کو فنا کر دیں اور یا دائمی غلامی پر رضا مند ہو جائیں-
مرزا محمود احمد
پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی
مہاراجہ صاحب کشمیر کو تار
اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مسٹر عبداللہ کو سرینگر میں گرفتار کر لیا گیا ہے حالانکہ صرف وہی ایسا آدمی تھا جس کے مشورے ریاست میں قیام امن کا موجب رہے ہیں- اور اس کی گرفتاری سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی حکام امن کے خواہشمند نہیں بلکہ بدامنی چاہتے ہیں-
میں یورہائی نس سے آخری بار التماس کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر حکام کو اس تشدد اور سختی سے روک دیں- وگرنہ باوجود ہماری انتہائی کوشش کے مجھے خطرہ ہے کہ خواہ کتنے بھی آرڈیننس جاری کئے جائیں‘ امن قائم نہ ہو سکے گا اور اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ہوگی-
مرزا محمود احمد
پریذیڈنٹ آل انڈیا کشمیر کمیٹی
)الفضل ۳۱- جنوری ۱۹۳۲ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اہل کشمیر کے دو اہم فرض
میرا دوسرا خط )سلسلہ دوم(
بردران کشمیر! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ-
میرا پہلا خط آپ کو مل گیا ہے اور گورنر کشمیر نے اسے ضبط شدہ بھی قرار دے دیا ہے- یہ ریاست کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ اس میں گورنر جیسے عہدہ پر جاہلوں اور ناقابلوں کا تقرر ہوتا ہے اور مہاراجہ صاحب کی حکومت کے چلانے کے لئے لوگ مقرر ہوتے ہیں جو ان خطوط کو ضبط کرتے ہیں جن میں پر امن رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے- افسوس کہ مہاراجہ صاحب ان امور سے ناواقف ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے افسر خود ان کی حکومت کی جڑ پر تبر رکھ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے کھا کر انہی کے ہاتھ کو کاٹ رہے ہیں- ممکن ہے یہ لوگ دل سے خیال کرتے ہوں کہ مہاراجہ صاحب کی وفاداری کرتے ہیں لیکن مجھے تو شبہ ہے کہ یہ لوگ دل سے بھی مہاراجہ صاحب کے بدخواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ امن کی تعلیم دینے والوں کی کوششوں کو کمزور کر کے ریاست میں بغاوت پھیلائیں- بہرحال اگر یہ لوگ مہاراجہ صاحب اور ریاست کے دشمن نہیں تو نہایت بیوقوف دوست ضرور ہیں-
عزیز دوستو! جو میرے پہلے خط کا حشر ہوا وہی اس خط کا بھی ہو سکتا ہے اس لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ آپ لوگ یہ احتیاط کیا کریں کہ میرا مطبوعہ خط ملتے ہی فوراً اسے پڑھ کر دوسروں تک پہنچا دیا کریں تا کہ ریاست کے ضبط کرنے سے پہلے وہ خط ہر اک کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہو اور تا کہ ہر مسلمان اپنے فرض سے آگاہ ہو چکا ہو اور بہتر ہو گا کہ جس کے ہاتھ میں میرا خط پہنچے وہ اس کا مضمون ان مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو سنا دے جو پڑھنا نہیں جانتے اور اگر ہو سکے تو اس کی کئی نقلیں کر کے دوسرے گائوں کے دوستوں کو بھجوا دے اگر پورا خط نقل نہ ہو سکے تو اس کا خلاصہ ہی لکھ کر دوسرے دوستوں کو اطلاع کر دے-
ان ہدایات کے بعد میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو خط لکھنے کے علاوہ میں نے اپنے نائبوں کو انگلستان میں بھی تاریں دیں کہ وہ کشمیر کے مظالم کی طرف وہاں کے حکام کو توجہ دلائیں اور کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری کو دہلی بھیجا تا کہ وہ حکومت ہند میں بھی آپ لوگوں کی تکالیف کو پیش کر کے داد خواہی کریں اور اسی طرح اپنے عزیز چوہدری ظفراللہ خان صاحب ممبر رائونڈ ٹیبل کانفرنس کو بھی تار دی کہ وہ بھی حکام سے ملیں- چنانچہ یہ لوگ وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری اور دوسرے سکرٹریوں اور حکام سے ملے اور انہیں صورت حالات سے آگاہ کیا- اسی طرح ولایت میں خان صاحب فرزند علی خان صاحب امام مسجد لنڈن نے میری ہدایت کے مطابق کوشش کی نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کو دہلی اور لندن دونوں جگہ اصل حقیقت سے آگاہی ہو گئی اور ولایت کے اخبارات نے بڑے ز ور سے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ریاست کا نظام پوری طرح بدل کر مسلمانوں کی داد خواہی کرنی چاہئے- اور حکومت ہند نے بھی اس طرف توجہ کرنی شروع کی چنانچہ تازہ اطلاعات مظہر ہیں کہ اگر وزیراعظم صاحب نے اپنا رویہ نہ بدلا تو شاید وہ چند دن میں اپنے عہدہ سے الگ کر دیئے جائیں گے اور جلد ہی دوسرے افسروں میں بھی مناسب تبدیلی ہو جائے گی جس کے لئے میں میرپور‘ کوٹلی‘ راجوری اور بھمبر کے دوستوں کی خواہش کے مطابق کوشش کر رہا ہوں- میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ جلد کوئی آپ لوگوں کی بہتری کے سامان ہو جائیں گے- میں نے ولایت پھر تار دی ہے کہ وہاں پہلے سے بھی زیادہ پراپیگنڈا کیا جائے اور اصل حالات سے انگریزوں کو واقف کیا جائے- کیونکہ ریاست میں اس قدر ظلم ہوئے ہیں کہ اس انصاف پسند قوم کو اگر ان کا علم ہو گیا تو یقیناً ایک شور پڑ جائے گا اور وہ حکومت پر بے انتہا زور دے گی- میں نے اس سلسلہ میں ایک ولایتی خطوں کا سلسلہ بھی شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے- یعنی جس طرح میں آپ کو خط لکھتا ہوں اسی طرح ایک خط پارلیمنٹ کے ممبروں‘ وزراء‘ امراء اور ولایتی اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام بھی لکھا کروں گا تا کہ انہیں بھی سب حالات کا علم ہوتا رہے اور ہندوئوں کے غلط پروپیگنڈا سے وہ واقف ہوتے رہیں- مجھے امید ہے کہ میرے ایک دو خطوں سے وہاں شور پڑ جائے گا اور فریب کی چادر جو ریاستی ہندوئوں نے بنی ہے تار تار ہو جائے گی-
اس کے بعد میں آپ لوگوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سول نافرمانی کا لفظ جو بدقسمتی سے بعض لوگوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور جس کے سبب انگریزی حکومت نے دھوکا کھا کر ریاست کو سختی کرنے کی اجازت دے دی تھی اسے بالکل ترک کر دیں اور ہر اک شخص کو سمجھائیں کہ غلط لفظ استعمال کرنے سے بھی سخت نقصان ہے- وہ ایسے لفظوں کا استعمال ترک کر دیں اور ایسے طریقوں سے بچیں کہ جن کے ذریعہ سے انگریزی حکومت کو ریاستی حکام دھوکا دے سکیں- یاد رکھیں کہ آزادی یا تلوار کے زور سے حاصل ہو سکتی ہے یاانگریزوں کی امداد سے- اور تلوار سے آزادی کا حصول آپ لوگوں کے لئے ناممکن ہے پس ایسے طریقے اختیار کرنے جن سے انگریزوں کی ہمدردی بھی جاتی رہے ہرگزعقلمندی کا شیوہ نہیں- اس لفظ کے استعمال سے دیکھ لو کہ پہلے کس قدر نقصان ہوا ہے- صرف میرپور کے علاقہ میں چند نوجوانوں نے غلطی سے سول نافرمانی سوال اٹھایا اور وہاں کے علاوہ تمام ریاست کشمیر پر ظلم کی انتہاء ہوگئی- کارکن گرفتار ہوگئے‘ عورتوں کی بے عزتی ہوئی اور بچے بلاوجہ پیٹے گئے- جس سول نافرمانی نے اب تک انگریزی علاقہ میں جہاں رعایا پہلے سے آزاد ہے کچھ نفع نہیں دیابلکہ مسٹر گاندھی اس کے بانی اب تک قید ہیں اور سب مسلمان اس کا تجربہ کرکے اس کی مخالفت کر رہے ہیں اس نے وہاں کیا نفع دینا ہے سوائے اس کے کہ مہذب دنیا اس کی وجہ سے مسلمانوں کو باغی کہنے لگے اور ریاست کا دلی منشاء پورا ہوا اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا- ہاں ابتدائی انسانی حقوق کے متعلق اگر کسی وقت سب لیڈروں کے مشورہ سے ریاست کے ظالمانہ اور خلاف شریعت احکام کے ماننے سے انکار کیا جائے تو دہ سول نافرمانی نہ ہوگی کیونکہ ابتدائی حقوق سے محروم کرنیوالی حکومت عرفعام میں خود باغی کہلاتی ہے اس احکام کے نہ مانے والے لوگ باغی نہیں کہلاتے مگر اس کے متعلق میں تفصیل سے بعد میں لکھوں گا-
اس وقت سب سے اہم بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ گلینسی کمیشن اس وقت جلد جلد اپنا کام ختم کر رہا ہے- اس کمیشن کی رپورٹ پر انگریزی حکومت کی آئندہ امداد کا بہت کچھ انحصار ہے- میں خود بھی اس کمیشن کے سامنے پیش کرنے کو ایک بیان لکھ رہا ہوں لیکن آپ لوگوں کی کئی تکالیف ہوں گی جو مجھے معلوم نہیں اس لئے جس جس علاقہ میں میرا یہ خط پہنچے وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنی شکایات اور ان کے ثبوت لکھ کر جلد سے جلد مفتی جلال الدین صاحب کو جو مسٹر عبداللہ صاحب کے جانشین ہیں‘ سری نگر بھجوا دیں تا کہ وہ کمیشن کے آگے ان شکایت کو رکھ سکیں- اس معاملہ میں سستی ہوئی تو بعد میں پچھتانا پڑے گا کیونکہ ایسے کمیشن روز روز نہیں بیٹھا کرتے-
مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ آپ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ اس کمیشن سے تعاون کا کوئی فائدہ نہ ہو گا لیکن یاد رکھیں کہ آپ کے لیڈر شیخ عبداللہ صاحب اور دوسرے سب آپ کے خیر خواہوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کمیشن سے تعاون کیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کمیشن سے تعاون مفید ہو گا- پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اس کمیشن کی بدولت پریس اور تقریر اور انجمنوں کی آزادی کا سوال پیش ہو چکا ہے اور تھوڑے دنوں میں اس کے متعلق کارروائی شروع ہو جائے گی اس کے علاوہ بھی امید ہے کہ اور بہت سے فوائد انشاء اللہ حاصل ہوں گے اور جن امور میں اس کمیشن کی رپورٹ نامکمل یا غلط ہوئی ہمارے لئے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا پھر بھی راستہ کھلا ہے- علاوہ ازیں اس وقت یہ کمیشن ایک طرح روک بن رہا ہے- جب انگریزی حکومت کو توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کے ذمہ وار حکام کہتے ہیں کہ مہاراجہ صاحب ایک کمیشن بٹھا چکے ہیں پس اس کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے- پس ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے جلد اس کمیشن کا کام ختم کرائیں اور پوری کوشش کریں کہ اس کمیشن کی کارروائی اس رنگ میں تکمیل کو پہنچے کہ کمیشن مجبور ہو کہ کاغذات کی بناء پر مسلمانوں کے حق میں رپورٹ کرے-
دوسرا ضروری امر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ریاست نے اس وقت پرامن لوگوں کے جلسے اور جلوس روک رکھے ہیں- سول نافرمانی کے پروگرام والوں اور ہندوئوں کے جلسے اور جلوس کھلے ہیں جیسا کہ گذشتہ دنوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔کا جلوس نکلا اور اس میں احرار زندہ باد اور قادیانی مردہ باد کے نعرے لگائے گئے- کسی کے مردہ باد کہنے سے ہم مر نہیں جاتے پس میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہمیں مردہ باد کہہ کر کسی کا دل خوش ہوتا ہو تو چلو یہ بھی ایک ہماری خدمت ہے وہ اسی طرح اپنا دل خوش کر لیں- ہم بھی خوش ہیں کہ ہمارے ایک بھائی کا دل اس طرح خوش ہو گیا- مگر ایک سبق ہمیں ان جلسوں اور جلوسوں سے ملتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست کا ان لوگوں کو جلسوں اور جلسوں کی اجازت دینا صاف بتاتا ہے کہ ریاست کے لئے اس میں فائدے ہیں اور وہ فائدے میرے نزدیک دو ہیں- )۱(اول فائدہ یہ ہے کہ ریاست اس طرح حکومت انگریزی کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ ریاست کے مسلمان باغی ہو گئے ہیں اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ایجنٹ مقرر کر رہی ہے- )۲(دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ریاست لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ مسٹر عبداللہ لیڈر کشمیر کی پارٹی کمزور اور تھوڑی ہے اور ان کے مخالف زور پر ہیں- ریاست کے ہاتھ میں فوج ہے اور حکومت ہے- وہ ظلم کے ساتھ ایک ہی قانون کو دو طرح استعمال کر سکتی ہے- لیکن اللہتعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے اور ہم بغیر فساد پیدا کرنے کے اس کی تجویز کو رد کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ریاست نے جلسوں سے تو آپ لوگوں کو روک دیا ہے لیکن وہ لباس پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتی اس لئے میرے نزدیک آپ لوگ لباس کے ذریعہ سے اپنے خیالات کو ظاہر کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ جس قدر لوگ مسٹر عبداللہ کے ہم خیال ہیں اور امن پسندی کے ساتھ اپنے حق لینا چاہتے ہیں اور سول نافرمانی کے حامی نہیں وہ اس امر کے ظاہر کرنے کے لئے کہ مسٹر عبداللہ اور دوسرے لیڈروں کی قید سے انہیں تکلیف ہے اور دوسرے اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ بہرحال پرامن ذریعہ سے اپنے حقوق طلب کریں گے اور ریاست کے حکام کو جوش دلانے کے باوجود اپنے طریق کو نہیں چھوڑ دیں گے اپنے بازو پر ایک سیاہ رنگ کا چھوٹا سا کپڑا باندھ لیں یا اپنے سینہ پر ایک سیاہ نشان لٹکا لیں-ایسے نشان سے بغیر ایک لفظ منہ سے نکالنے کے‘ بغیر تقریر کرنے کے‘ بغیر جلوس نکالنے کے‘ آپ حکومت اور دوسرے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ آپ مسٹر عبداللہ کے ہم خیال ہیں- اگر یہ تحریک ہر جگہ کے لیڈر کامیاب کر سکیں اور ملک کے ہر گوشہ میں ہر شخص خواہ مرد ہو‘ خواہ عورت‘ خواہ بچہ اس سیاہ نشان کا حامل ہو تو آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ بغیر جلسوں اور جلوس کے آپ لوگوں کی طرف سے اس امر کا اظہار ہوتا رہے گا کہ ایک طرف تو آپ لوگ مسٹر عبداللہ کی قید پر احتجاج کرتے ہیں اور دوسری طرف ریاست کے ان ایجنٹوں کی پالیسی کے خلاف اظہار رائے کرتے ہیں جو اندر سے تو ریاست سے ملے ہوئے ہیں اور بظاہر کامل آزادی کا مظاہرہ پیش کر کے تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں- اگر مختلف علاقوں کے لیڈر اس تحریک کو جاری کریں تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی دنوں میں ریاست اور اس کے ایجنٹ مرعوب ہونے لگیں گے- اور ہر راہ چلتے آدمی کو معلوم ہو جائے گا کہ کشمیر کا بچہ بچہ شیر کشمیر اور دوسری لیڈروں کے ساتھ ہے اور یہ کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حقوق کا مطالبہ صرف چند لوگوں کی طرف سے ہے یایہ کہ ریاست کشمیر کے لوگ فساد کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں- اس تحریک میں سب اہل کشمیر شامل ہیں اور وہ باغی نہیں بلکہ آئینی طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ہیں اور یہ وہ حق ہے جس سے کوئی شخص کسی کو محروم نہیں کر سکتا-
اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں جو میں اپنے اگلے خط میں ظاہر کروں گا- سردست میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ جلد سے جلد ان امور کے متعلق کوشش کریں گے اور ایسے سامان پیدا کر دیں گے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری کوششیں بار آور ہوں اور آپ لوگوں کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہو اور آپ کے لیڈر پھر آپ لوگوں میں آ کر شامل ہوں اور آپ کی خدمت میں مشغول ہوں-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
نوٹ: )۱( جن صاحبان کو یہ خط پہنچے ان سے درخواست ہے کہ اس کے اثر کو وسیع کرنے کے لئے وہ اپنے دوسرے دوستوں اور واقفوں کے نام اور پتے جو دوسرے گائوں کے ہوں میرے نام یا سیکرٹری کے نام بھجوا دیں تا کہ آئندہ خطوط اور بھی وسیع علاقوں میں پھیلائے جا سکیں-
)۲( چونکہ میرا ارادہ ہے کہ میں باقاعدہ انگلستان کے لوگوں کو اور ہندوستان کے حکام کو ایک رسالہ کے ذریعہ سے حالات کشمیر سے واقف کرتا رہوں میں ممنون ہوں گا اگر اپنے علاقہ کے حالات سے اور حکام کے رویہ سے مجھے آپ لوگ اطلاع دیتے رہا کریں- واقعات بالکل سچے اور بیان حلفیہ ہونے چاہئیں-
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۱۲ تا ۱۶ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
‏a12.5
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
‏]dhea [tagاہل کشمیر کے نام
میرا تیسرا خط )سلسلہ دوم(
مڈلٹن کمیشن رپورٹ
برادران! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
گو اب تک مڈلٹن رپورٹ مکمل صورت میں شائع نہیں ہوئی لیکن اس کا خلاصہ اخبارات میں شائع ہوا ہے اس خلاصہ کو دیکھ کر مسلمانوں میں سخت جوش اور غضب کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ ریاست کے ہندو افسروں کی طرح انگریزی افسروں نے بھی ان سے دھوکا کیا ہے اور یہ کہ وہ آئندہ انگریزوں سے بھی کسی انصاف کی امید نہیں کر سکتے-
گو اس قسم کی منافرت اور مایوسی کے جذبات میرے دل میں پیدا نہ ہوئے ہوں جو بعض دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن میں اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے نزدیک ہر انصاف پسند انسان کے نزدیک یہ رپورٹ موجب حیرت ثابت ہوئی ہوگی- اور تو اور سول اینڈ ملٹری گزٹ اخبار تک اس رپورٹ کے متعلق شبہات کا اظہار کرتا ہے اور اس کے حیرت انگیز یکطرفہ فیصلہ کو ایسوسی ایٹیڈ پریس کے خلاصہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اصل رپورٹ کے شائع ہونے کی انتظار کا مشورہ دیتا ہے-
وہ لوگ جو اس امید میں تھے کہ مڈلٹن کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کی مظلومیت کو روزروشن کی طرح ثابت کر دے گی بے شک اس وقت مایوسی محسوس کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ نہ افراد اقوام کے قائم مقام ہوتے ہیں اور نہ قومی جنگیں آسانی سے ختم ہوا کرتی ہیں وہ باوجود خلاف امید نتیجہ کے مایوس نہیں- اگر مسلمان مظلوم ہیں جیسا کہ ہمارے نزدیک مظلوم ہیں‘ تو ہزار مڈلٹن رپورٹ بھی ان کو ظالم نہیں بنا سکتی- وہ مظاہرات جو برطانوی علاقہ کے مظاہرات کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے تھے‘ لیکن جن کو بجائے لاٹھیوں کے گولیوں سے پراگندہ کیا گیا اور گولیاں بھی اس بیدردی سے چلائی گئیں کہ کثیر تعداد آدمیوں کی ان کا نشانہ بنی ایسا واقعہ نہیں ہیں کہ مڈلٹن رپورٹ ان کی حقیقت پر پردہ ڈال سکے- اگر مڈلٹن رپورٹ کا کوئی اثر دنیا پر ہوگا تو صرف یہ کہ لاکھوں آدمی جو اس سے پہلے برطانوی انصاف پر اعتماد رکھتے تھے‘ اب برطانوی قوم کو بھی ظالم اور جابر قرار دینے لگیں گے- پس میرے نزدیک مڈلٹن رپورٹ کا نہ ریاست کو فائدہ پہنچا ہے اور نہ مسلمانوں کو نقصان بلکہ انگریزوں کو نقصان پہنچا ہے- پس نہ ہندوئوں کے لئے خوشی کا موقع ہے اور نہ مسلمانوں کے لئے گھبراہٹ کا- اگر کسی کے لئے گھبراہٹ کا موقع ہے تو عقلمند اور سمجھ دار انگریزوں کے لئے جو اس میں اپنے وقار پر ایک شدید ضرب محسوس کریں گے-
مجھے یقین ہے کہ مسٹر مڈلٹن بددیانت نہیں اور معاملہ وہ نہیں جو ریاست کے بعض اعلیٰ کارکن کئی ماہ سے بیان کر رہے تھے- یعنی یہ کہ انہوں نے مسٹر مڈلٹن کی رائے کو خرید لیا ہے- کیونکہ گو میں مسٹر مڈلٹن کو ذاتی طور پر نہیں جانتا‘ لیکن ان کے جاننے والے سب مسلمان یہی کہتے ہیں کہ خواہ ہائی کورٹ کے جج خریدے جا سکتے ہوں‘ لیکن مسٹر مڈلٹن نہیں خریدے جا سکتے- اور کوئی وجہ نہیں کہ واقفوں کی رائے کو جو خود ہماری قوم کے فرد ہیں ہم نظر انداز کر دیں- پس میں یہ تو نہیں مان سکتا کہ مسٹر مڈلٹن نے بددیانتی سے کام لیا ہے‘ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی رائے یک طرفہ ہے اور ان کی طبیعت کا میلان ان کے فیصلہ سے پھوٹا پڑتا ہے-
جب ایک کمیشن کے تقرر کی ہم کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اس امر کی توقع رکھنی چاہئے کہ ممکن ہے اس کا فیصلہ ہمارے خلاف ہو- ہزاروں مقدمات میں سچے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں اور جھوٹے سچے ثابت ہو جاتے ہیں- پس اگر صرف مڈلٹن کمیشن کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوتا اور مسلمان اس پر ناراض ہوتے تو میں اسے بچپن کا فعل قرار دیتا اور باوجود اس فیصلہ سے اختلاف رکھنے کے اس پر ناراضگی کا اظہار نہ کرتا- لیکن یہ فیصلہ اس رنگ میں لکھا گیا ہے کہ صرف خلاف ہی فیصلہ نہیں ہے بلکہ متعصبانہ رنگ رکھتا ہے- چنانچہ ہر اک بات جو مسلمانوں کے منہ سے نکلی ہے‘ اسے خلاف عقل‘ بالبداہت باطل‘ کھلی کھلی دروغ بیانی کا قرار دیا گیا ہے اور جو کچھ ریاست کی طرف سے کہا گیا ہے‘ اسے معقول اور درست قرار دیا گیا ہے اور متعدد گواہوں کی گواہیوں کو اپنے ذاتی میلان پر قربان کر دیا گیا ہے- بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کی گواہی کو من حیث القوم ناقابل اعتبار قرار دے کر ایک ایسی قومی ہتک کی گئی ہے کہ اس کا خمیازہ اگر خطرناک سیاسی بے چینی کی صورت میں پیدا ہو تو برطانیہ کو سوائے اس بات کے کہنے کے چارہ نہ ہوگا کہ خدا مجھے میرے بے احتیاط فرزندوں سے بچائے-
مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں‘ اکثر انگریز دلوں میں خوب سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے- پس اس رپورٹ کا مسلمانوں پر تو کیا اثر ہوگا‘ خود انگریزوں پر بھی اس کا کوئی اثر نہ ہوگا- یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ اپنے سیاسی فوائد کی وجہ سے اپنے دلی خیال کا اظہار نہ کریں-
مجھے حیرت ہے کہ جب مسٹر مڈلٹن کے نزدیک سب کشمیری مسلمان جھوٹے ہیں تو انہیں اس قدر عرصہ تک تحقیقات کی ضرورت کیا پیش آئی تھی- انہیں تو شروع میں ہی کہہ دینا چاہئے تھا کہ میں کسی مسلمان کی گواہی نہیں سنوں گا- اس قدر روپیہ اپنی ذات پر اور اپنے عملہ پر خرچ کروانے کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کا روپیہ بھی جنہوں نے دور دور سے گواہ منگوا کر پیش کئے تھے کیوں ضائع کرایا-
مڈلٹن رپورٹ پر اپنے خیالات ظاہر کرنے کے بعد میں اس امر پر بھی اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے پر بعض لوگ اس طرح مایوس ہو گئے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک مڈلٹن کمیشن ہی ہمارا معبود ہے- اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کام کرنے کے کئی راستے تجویز کئے ہیں- اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان راستوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کریں- اگر ان میں سے بعض بند نظر آئیں تو ہمیں مایوسی کی ضرورت نہیں- ہم نے اگر ایک کوشش کی اور اس میں ہم ناکام رہے تو مایوسی کی کونسی بات ہے- ہمیں پھر کوشش کرنی چاہئے اور پھر کوشش کرنی چاہئے‘ یہاں تک کہ ہم کامیاب ہو جائیں-
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مڈلٹن کمیشن خود مسلمانوں کی کوششوں کے نتیجہ میں مقرر ہوا تھا- کشمیر سے متواتر یہ آواز آ رہی تھی کہ آزاد کمیشن مقرر کرایا جائے اور باہر کے مسلمانوں نے اس کی تائید کی- پس اس قسم کے نتائج سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں- مڈلٹن کمیشن پر نہ آپ کو کوئی ناقابل برداشت قربانی کرنی پڑی ہے اور نہ اس رپورٹ سے ہماری پہلی پوزیشن میں کوئی نقص واقع ہوا ہے- اس کمیشن کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے اس خیال سے تھا کہ اگر وہ انصاف پر مبنی ہوا تو مسلمانوں کی طرف غیر جانبدار لوگوں کی توجہ ہو جائے گی- اب اگر خلاف فیصلہ ہوا ہے تو حالت وہیں کی وہیں آ گئی‘ جہاں پہلے تھی- پس نقصان کچھ نہیں ہوا- ہاں اگر فیصلہ درست ہوتا تو فائدہ ہو سکتا تھا- پس مایوسی کی کوئی وجہ نہیں- قومی جنگوں میں اتارچڑھائو ہوتے رہتے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ کے متعلق بھی آتا ہے کہ لڑائی ڈول کی طرح تھی- کبھی کسی کا ڈول کوئیں میں پڑتا اور کبھی کسی کا- پس اگر فی الواقع مسلمانان کشمیر کا ارادہ آزادی حاصل کرنا ہے تو انہیں اپنے دل وسیع اور مضبوط کرنے چاہئیں اور اپنی ہمتیں بلند اور اس قسم کی تکلیفوں اور ناکامیوں کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے- ورنہ وہ یاد رکھیں کہ بڑے کام چھوٹے حوصلوں سے نہیں ہوتے- اور اگر ان کا منشاء صرف تکلیفوں سے بچنے کا ہے تو اس کا آسان علاج ہے کہ ہتھیار ڈال دیں- اس صورت میں کچھ دنوں تک یہ ظاہری ظلم بند ہو کر اسی سابقہ کند چھری سے ہندو افسر انہیں قربان کرنے لگیں گے جس سے پہلے قربان کیا کرتے تھے- لیکن اس موت میں نہ کوئی شان ہوگی نہ مسلمانوں کی ان سے ہمدردی ہوگی- ہم لوگ آپ لوگوں کے بلانے پر آئے ہیں اگر آپ لوگ خاموش ہونا چاہیں تو ہم بھی خاموش ہو جائیں گے- مگر مجھے یقین ہے کہ مایوسی صرف چند لوگوں کا حصہ ہے مسلمانوں کی کثرت اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے آزادی حاصل کرنے کے لئے جان و دل سے مستعد ہے اور یہی کثرت ہے جو آخر باوجود ہمت ہارنے والوں اور مایوس ہونے والوں کے انشاء اللہ کامیاب ہو کر رہے گی-
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں گلینسی کمیشن پر کیا اعتبار رہا- اس میں کوئی شک نہیں کہ گلینسی کمیشن سے بھی خطرہ ہے جس طرح مڈلٹن کمیشن میں خطرہ تھا- لیکن اگر اس کمیشن نے بھی ہماری امیدوں کے خلاف فیصلہ کیا تو ہمارا کیا نقصان ہوگا- کیا انگریز کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہمارے مذہب کا جزو ہے- اگر مسٹر گلینسی نے مسٹر مڈلٹن والا طریق اختیار کیا تو ہم مڈلٹن رپورٹ کی طرح اس کی غلطیوں کا بھی پردہ فاش کریں گے- اور اگر اس میں مسلمانوں کے حق میں کوئی سفارش کی گئی تو یقیناً اس سے ہم کو فائدہ پہنچے گا- بعض افسر اور بعض دوسرے لوگ بہت پہلے سے گلینسی رپورٹ کے متعلق بھی کہہ رہے ہیں کہ مسٹر گلینسی نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ ان کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوگا- اگر یہ سچ ہے تو بھی میرے نزدیک ہمیں اس سے مایوسی کی ضرورت نہیں- ہر اک غیر منصفانہ رپورٹ جو انگریز کریں گے‘ اس سے مسلمانوں کی ہمدردی کھو کر اپنی قوم کے لئے مشکلات پیدا کریں گے- پس ایسی رپورٹ سے ہمارا نقصان نہیں‘ خود ان کا نقصان ہے- ہمارے مطالبات پھر بھی قائم رہیں گے- ہم نے اپنے حقوق کے متعلق کیا یہ تسلیم کیا ہے کہ جو کچھ انگریز کہہ دیں گے‘ اسے ہم تسلیم کر لیں گے- اگر وہ معقول بات ہوگی تو ہم اسے مانیں گے‘ ورنہ کہیں گے کہ عطائے تو بلقائے تو-
براردان! یاد رکھیں کہ مایوسی کی لہر دو طرف سے چلائی جا رہی ہے- ایک ریاست کے ہندو افسروں کی طرف سے جو بعض انگریزوں کی غلطیاں گنوا کر مسلمانوں کو اس طرف لانا چاہتے ہیں کہ وہ خود ریاست کے ہندو افسروں سے فیصلہ چاہیں- حالانکہ جو کچھ ہندو افسروں نے سلوک کیا ہے وہ اس قدر پرانا نہیں کہ اسے مسلمان بھول جائیں- ایک شخص کے فیصلہ سے انگریزی طبیعت کا حال نہیں معلوم ہو سکتا- نہ مسٹر مڈلٹن اور مسٹر گلینسی انگریزی حکومت کا نام ہے- لیکن ہندوئوں نے تو ریاست میں افراد کی حیثیت میں نہیں حکومت کی حیثیت میں مسلمانوں کو بیدردی سے کچلا ہے- پس جو کچھ ان سے ظاہر ہوا ہے‘ کیا مسلمان اسے اس قدر جلد بھول جائیں گے؟ اب اس وقت بھی کہ مڈلٹن رپورٹ شائع ہو چکی ہے‘ میرے پاس درخواستیں آ رہی ہیں کہ میرپور کی طرح دوسرے علاقوں میں بھی انگریزی مداخلت کی کوشش کی جائے- اگر انگریزوں اور ریاستی حکام میں فرق نہیں تو یہ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سخت بے وقوفی ہوگی کہ ہم ایک شخص سے یا ایک فعل سے ناراض ہو کر عقل کو ہی چھوڑ دیں اور اپنی موت کے سامان خود کرنے لگیں- پس مڈلٹن رپورٹ کی غلطی کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے کہ ہم ہندو حکام کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں- ان باتوں میں آنے والے لوگوں کو چاہئے کہ ان وسوسوں کے پیدا کرنے والوں سے دریافت کریں کہ فرض کرو کہ مڈلٹن صاحب کوئی رقم کھا گئے ہیں )جسے میں تسلیم نہیں کرتا( تو یہ بتائو وہ رقم کس نے کھلائی ہے اور کس غرض سے؟ اگر ہندو حکام نے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تو اس جھوٹ کو تسلیم کر کے بھی تو اصل دشمن وہی رشوت کھلانے والے ثابت ہوتے ہیں-
دوسرے لوگ جو اس وقت مایوسی پیدا کر رہے ہیں‘ وہ لوگ ہیں جو اس امر سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دوسری مسلمان ریاستوں میں شورش نہ پیدا کی جائے- یہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں- اول تو کشمیر اور مسلمان ریاستوں کے حالات یکساں نہیں دوسرے یہ بھی غلط ہے کہ ہندو مسلمانوں کے کشمیر کے معاملات میں دلچسپی لینے کی وجہ سے مسلمان ریاستوں کے خلاف شورش کریں گے وہ پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں- مسلمان کشمیر کے متعلق دلچسپی لیں یا نہ لیں انہوں نے مسلم ریاستوں میں بغیر وجہ کے بھی ضرور شورش پیدا کرنی ہے- پس ہمیں ان لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے اور استقلال سے کشمیر کی آزادی کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ایک سبب پر توکل نہیں کرنا چاہئے‘ ہر جائز وسیلہ جس سے کام کے ہونے کی امید ہو ہمیں اختیار کرنا چاہئے اور اگر کسی کوشش کا نتیجہ حسب دلخواہ نہ نکلے تو ناامید نہیں ہونا چاہئے- اس وقت سب سے بڑا آلہ آزادی کا سول نافرمانی سمجھا جاتا ہے- پھر کیا یہ آلہ گزشتہ آٹھ سال میں کامیاب ہو گیا؟ اگر وہ آٹھ سال میں کامیاب نہیں ہوا تو ہم نو ماہ میں اپنی کوششوں سے کیوں مایوس ہوں-
یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے خود ہی ہمارے لئے ایک راستہ مقرر کر چھوڑا ہے- اور ہمیں درمیانی روکوں کی وجہ سے اس سے ادھر ادھر نہیں ہونا چاہئے- اور وہ توکل اور تبلیغ ہے- خدا تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھنا اور انسانی فطرت پر یقین رکھنا کہ وہ زیادہ دیر تک دلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی یہی اصل کامیابیوں کی جڑ ہے اور یہی کمزوروں کا حربہ ہے جس سے وہ بغیر فوجوں کے جیت جاتے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ کو دیکھ لو- آپ باوجود انتہائی کوشش کر چکنے کے اپنے مخالفوں سے ناامید نہیں ہوئے کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھی یقین تھا اور آپ اس امر پر بھی یقین رکھتے تھے کہ انسانی فطرت زیادہ دیر تک معقولیت سے آنکھیں بن نہیں کر سکتی- آخر ایک دن وہی لوگ جو آپ کے دشمن تھے آپ کے تابع فرمان ہو گئے- پس ہمارے آقا کا اسوہ ہمارے سامنے موجود ہے- ہمیں کسی اور کی نقل کی ضرورت نہیں ہمارا فرض ہے کہ ایک طرف ہر مسلمان کے دل میں خواہ وہ کشمیر کا ہو یا باہر کا کشمیر کے مسئلہ سے دلچسپی پیدا کریں اور دوسری طرف ریاست کے حکام کو بھی اور انگریزوں کو بھی اپنے دعاوی کی معقولیت کا قائل کریں- اور یہ نہ شبہ کریں کہ یہ لوگ ہماری بات نہیں مانیں گے- کیونکہ جب ہم اپنی طاقت پر خود شک کرنے لگ جائیں تو ہماری بات کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہوتا- ہمیں چاہئے کہ یقین رکھیں کہ ضرور ہماری بات اثر کرے گی- دیکھو مسمریزم کرنے والا ایک جاگتے شخص کو کہنے لگتا ہے کہ تم سو گئے تم سو گئے‘ اور وہ سو جاتا ہے- پھر وہ اس سے جو کچھ چاہتا ہے منوا لیتا ہے- اگر وہ دوسرے سے جھوٹ منوا لیتا ہے تو کیا ہم سچ نہ منوا سکیں گے؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ ضرور ہے کہ ایک دن یا ریاست کے حکام ہماری بات مان لیں اور مسلمانوں کو حق دے دیں اور یا انگریز ہی ہماری بات مان لیں اور ہمارے حق دلا دیں- اسی طرح اگر ہم ریاست اور اس کے باہر مسلمانوں کو بیدار کرتے رہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ ہم سے مرعوب ہوں گے کیونکہ بیدار قوم کو کوئی نہیں دبا سکتا- غرض اگر دوسرے لوگ دیکھیں گے کہ کشمیر کے مسلمان اور دوسرے مسلمان اس امر پر تل گئے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ان کے جائز حق حاصل کریں‘ تو جو لوگ دلیل سے ماننے والے نہیں وہ رعب سے مان لیں گے- مگر رعب دھمکیوں سے اور مارنے سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ پختہ ارادہ اور اپنے کام کے لئے مستقل قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جانے سے پیدا ہوتا ہے- مجھے یقین ہے کہ اگر یہ باتیں اہلکشمیر پیدا کر لیں تو نہ ریاست ان کے حق کو دبا سکتی ہے نہ انگریز اس میں اس کی مدد کر سکتے ہیں- کوئی حکومت اپنے سب ملک کو تباہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی- اور کوئی توپ پختہ ارادہ کو زیر نہیں کر سکتی- پس ہمارا راستہ کھلا ہے اندرونی تنظیم اور اپنے معاملہ کو بار بار دلیل کے ساتھ پبلک میں لانا ان دونوں تدبیروں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اثر کرے گی- یا تنظیم رعب پیدا کرے گی یا دلیل دل کو صاف کر دے گی‘ خواہ ریاست کے حکام کے دلوں کو خواہ انگریزوں کے دلوں کو- اور جس طرح سے بھی ہمیں حق مل جائے‘ ہم اسے خوشی سے قبول کریں گے- اور نہ ریاست سے گفتگو کا دروازہ بند کریں گے نہ انگریزوں سے- جو بھی ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا‘ اس کی طرف ہم بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے- اگر آج ریاست ہمارے بھائیوں کے حقوق دینے کو تیار ہو جائے تو ہم اس کے ساتھ مل کر انگریزوں سے کہیں گے کہ ہم لوگوں کی صلح ہو گئی ہے- اب آپ لوگ یہاں سے تشریف لے جائیے- اور اگر انگریزوں کی معرفت ہمیں حق ملے گا تو ہم کہیں گے کہ ہمارے وطنی بھائیوں سے یہ غیر اچھے ہیں جنہوں نے انصاف سے کام لیا- یہی اور صرف یہی عقلمندی کا طریق ہے- اور جو شخص غصہ میں اور درمیانی مشکلات سے ڈر کر اپنے لئے خود ایک دروازہ کو بند کر لیتا ہے‘ وہ نادان ہے اور قوم کا دشمن ہے- آج ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا حق ریاست سے ملے گا یا انگریزوں سے- اور دلیل سے ملے گا یا قربانی کے رعب سے- پس ¶ہم دونوں دروازوں کو کھلا رکھیں گے- اور دونوں طریق کو اختیار کئے رہیں گے- یعنی انگریزوں اور ریاست دونوں سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں گے- اسی طرح علاوہ دلیل کے اپنی تنظیم کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے- پھر اللہ تعالیٰ کے علم میں جس طرح ہماری کامیابی مقدر ہے اسے قبول کر لیں گے اور اس کی قضاء پر خوش ہو جائیں گے-
میں امید کرتا ہوں کہ میں نے حقیقت کو خوب واضح کر دیا ہے اور بیدار مغز اہل کشمیر مایوسی پیدا کرنے والے لوگوں کی باتوں میں نہیں آئیں گے- بلکہ ہمت اور استقلال سے اپنے کام میں مشغول رہیں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ مڈلٹن رپورٹ ہماری قسمت کا فیصلہ نہیں وہ فیصلہ ہمارے مولا نے کرنا ہے اور وہ ضرور اچھا ہی فیصلہ کرے گا- مڈلٹن کمیشن مختلف سامانوں میں سے ایک سامان تھا- اگر فی الواقع وہ سامان مفید بھی ثابت نہیں ہوا ) گو میرے نزدیک یہ فیصلہ بھی مفید ہوگا اور بوجہ اپنے کھلے ہوئے تعصب کے شریف طبقہ کو اور بھی ہمارا ہمدرد بنا دے گا( تو ہمیں نہ مایوسی کی کوئی وجہ ہے اور نہ اپنا طریق عمل بدلنے کی- ہمارا اصل پروگرام اسی طرح قائم ہے اور ہم اس کے ذریعہ سے کامیاب ہونے کی کامل امید رکھتے ہیں‘ لیکن ہتھیلی پر سرسوں جما کر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اور سچی قربانیوں اور تنظیم اور دلیل کے ذریعہ سے- واخر دعوئنا ان الحمدللہ ربالعلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۱۶ تا ۲۲ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں کی
طرف سے ایک اہم علان
برادران! ]kns [tag السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ-
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا کام ایک ٹھوس کام ہے- اس کمیٹی نے اس وقت ہندوستان میں کشمیر سے دلچسپی پیدا کرا دی جبکہ پنجاب سے باہر کے لوگ اس مسئلہ کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھے- اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ انگلستان‘ امریکہ‘ شام‘ مصر‘ جاواسماٹرا وغیرہ ممالک میں بھی لوگوں کو کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سے واقف کر کے ان سے ہمدردی کا مادہ پیدا کیا اور ریاست کو اس کی اصلی صورت میں ظاہر کیا- پھر کشمیر کمیٹی نے وزارت برطانیہ اور حکومت ہند کو متواتر حقیقت حال سے آگاہ کر کے اور ممبران پارلیمنٹ میں ایجی ٹیشن پیدا کر کے اس امر میں دلچسپی لینے کے لئے آمادہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست اب مسلمانوں کو حقوق دینے پر آمادہ ہے- کشمیر کے تختہ مشق مظلوموں کی مالی امداد‘انہیں صحیح مشورہ‘ طبیامداد‘ علمی امداد اور ہر قسم کی ضروری امداد کا انتظام کیا اور کر رہی ہے- لیکن بعض لوگ بعد میں آ کر اس کام کو اپنی طرف منسوب کرنا چاہتے ہیں- مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ کوئی اور بھی یہ کام کرے بلکہ خوشی ہے اور نہ اس پر اعتراض ہے کہ کوئی اپنے طریق کو بہتر قرار دے- لیکن یہ امر ضرور قابل اعتراض ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی احمدیوں یا قادیانیوں کی تحریک ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا صدر احمدی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اتنے ممبروں میں سے صرف تین احمدی ہیں جن میں سے دو قادیان اور ایک صاحب لاہور کے مرکز سے تعلق رکھتے ہیں باقی سب حنفی یا اہلحدیث ہیں- چنانچہ اہلحدیث کی انجمن کے ناظم مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی‘ علماء میں سے مولانا سید میرک شاہ صاحب اور مولانا مظہر علی صاحب ایڈیٹر الامان‘ صوفیاء میں سے جناب خواجہ حسن نظامی صاحب اور ان کے خلیفہ سید کشفی شاہ صاحب نظامی اور پیروں میں سے مولانا ابوبکر صاحب بنگالی کے صاحبزادے مولوی ابو ظفر صاحب‘ بوہرہ قوم کے اعلیٰ رکن سیٹھ محمد علی صاحب‘ اسی طرح سیاسی لیڈروں میں سے ہر حلقہ کے لوگ اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی عمریں مسلمانوں کی خدمت میں خرچ کر دی ہیں- پس باوجود ان لیڈروں اور علماء کی شمولیت کے یہ کہنا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی قادیانی تحریک ہے‘ بہت بڑا ظلم ہے- اور اس سے سوائے اس کے کہ مظلوم کشمیریوں کے کام کو نقصان پہنچے اور کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا-
اسی طرح افسوس ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سب ممبروں نے استعفاء دے دیا ہے- یہ امر بھی درست نہیں- چنانچہ میں ذیل میں ایک تحریر شائع کرتا ہوں جس سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اب بھی آل انڈیا حیثیت رکھتی ہے اور اس کے ممبر اس پوزیشن کے ہیں کہ گورنمنٹ اور ملک پر اثر ڈال سکتے ہیں اور ایسا اہم کام کر سکتے ہیں جس سے زیادہ کام کوئی اور شاید نہ کر سکے- یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ڈاکٹر سرمحمداقبال صاحب‘ مولانا شفیع دائودی سیکرٹری آل انڈیا مسلم کانفرنس‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب بھی اس کے ممبر ہیں اور اس کے کام کو نہایت تن دہی سے انگلستان میں سرانجام دے رہے ہیں- بوجہ ہندوستان سے باہر ہونے کے ان کے دستخط نہیں کرائے جا سکے- ہندوستان کے بعض ممبراں کے بھی بوجہ گھر پر نہ ہونے کے دستخط نہیں کرائے جا سکے-
والسلامخاکسار
مرزا محمود احمد
اعلان
ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ کمیٹی ٹوٹ گئی ہے- اس کے ممبران مستعفی ہو گئے ہیں اور یہ کہ کمیٹی کی کسی قسم کی مدد نہ کی جائے وغیرہ- اس لئے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی ٹوٹ گئی ہے- یہ کمیٹی خدا کے فضل سے اسی طرح قائم ہے اور اپنا کام پوری کوشش سے کر رہی ہے-جب تک ہمارے ۳۰ لاکھ مظلوم بھائی کشمیر میں آزاد نہ ہوں گے یہ کمیٹی انشاء اللہ کام کرتی جائے گی اور ہر ممکن طریق سے ان کی مدد کرے گی- یہ کمیٹی اس کام کو ہر گز درمیان میں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں-
خاکساران
۱- ملک برکت علی )صاحب ایڈووکیٹ- سابق ایڈیٹر آبزرو رکن نیشنلسٹ مسلم پارٹی لاہور(- ۲- مولانا سید حبیب شاہ )صاحب ایڈیٹر سیاست لاہور( ۳- )مولانا( محمد یعقوب )صاحب ایڈیٹر لائٹ لاہور( ۴- )نواب سر( محمد ذوالفقار علی خان )صاحب ایم- ایل- اے رئیس لاہور( ۵- )ڈاکٹر( ضیاء الدین احمد )صاحب ایم-ایل- اے علیگڑھ( ۶- )مولان( سید محمد اسمعیل )صاحب غزنوی ناظم جمعیہ اہلحدیث امرتسر( ۷- )نواب( محمد ابراہیم علی خان )صاحب نواب آف کنج پورہ- ایم- ایل- اے( ۸- )مولانا( سید کشفی شاہ )صاحب نظامی رنگون( ۹- )جناب( عبدالرحیم )صاحب ڈسٹمکار- بمبئی( ۱۰- )جناب( محمد علی اللہ بخش )صاحب مختار کار جناب پیر صاحب بوہرہ قوم ۔۔۔( ۱۱- )جناب( محمد اسماعیل حاجی احمد )صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری کھچی میمن یونین کلتہ( ۱۲- )مولانا( ابوظفر وجہہ الدین )صاحب ولد مولانا ابوبکر صاحب بنگال( ۱۳- )جناب( احمد عبدالستار )صاحب اعزازی سیکرٹری کلکتہ مجلس( ۱۴- )مسٹر( ایچ ایس سہروردی )بیرسٹر ایٹ لاء کلکتہ ایم ایل سی(
نوٹ-: بعض ممبران نے اعلان کے ساتھ کچھ نوٹ بھی لکھے ہیں- چنانچہ بنگال کے مشہور لیڈر مسٹر ایچ ایس شہید سہروردی جو کسی زمانہ میں کانگریسی پارٹی کے چوٹی کے لیڈر تھے- یہ لکھتے ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض خود غرض لوگ اس قسم کی باتیں مشہور کر رہے ہیں کہ ممبران کشمیر کمیٹی نے استعفا دے دیا ہے- میری رائے میں یہ کمیٹی نہایت عمدہ اور ضروری کام سرانجام دے رہی ہے اور ہمارے مظلوم کشمیری بھائیوں کی امداد میں کوشاں ہے- اس کمیٹی کو چاہئے کہ وہ اپنے اس نہایت اہم کام کو جس کو اس نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے جاری رکھے-
ریاست کے حکام کا رویہ دن بدن خراب ہو رہا ہے- اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلمانان کشمیر کو اس طرح ریاست کے حکام کے رحم پر نہ چھوڑیں- مسلمانوں کو امید ہے کہ کشمیری بھائیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آخر کار حق و انصاف کی فتح ہوگی- چونکہ میری رائے میں کشمیر کمیٹی کی پہلے سے بھی زیادہ ضروریت ہے- اس لئے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کمیٹی سے ہر گز استعفاء نہیں دیا-
)اشتہار شائع کردہ عبدالرحیم درد- ایم اے- سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل کشمیر کے نام چوتھا خط
)سلسلہ دوم(
برادران! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ-
میں نے اس امر کو دیکھ کر کہ حکام کشمیر بغیر اس امر کا خیال کئے کہ میرے خطوط ان کے فائدہ کے ہیں یا نقصان کے‘ خطوط کو ضبط کرتے رہے ہیں آئندہ خط لکھنے میں وقفہ ڈال دیا تھا لیکن جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے میں آپ لوگوں کے کام کے لئے دہلی گیا تھا اور جموں میں بھی مناسب کوشش کرتا رہا ہوں- سو الحمدلل¶ہ کہ سر راجہ ہری کشن کول صاحب تو ریاست کو چھوڑ گئے ہیں اور نیا انتظام امید ہے کہ مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا- گو میرے نزدیک آدمیوں کی تبدیلی نہیں بلکہ قانون اور نیت کی تبدیلی سے رعایا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے- آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کچھ کوششیں کی ہیں‘ اس کے نتیجہ میں مجھے امید ہے کہ بہت جلد اہل کشمیر کی اکثر تکالیف دور ہو جائیں گی اور ان کی آئندہ ترقی کا سامان پیدا ہو جائے گا- یہ کس رنگ میں ہو گا اور کب ہو گا اس سوال کا جواب دینے سے میں ابھی معذور ہوں- ہاں آپ لوگ تسلی رکھیں کہ انشاء اللہ ایک ماہ یا اس کے قریب عرصہ میں ایسے امور ظاہر ہوں گے جو آپ لوگوں کے لئے خوشی کا موجب ہوں گے اور آپ گذشتہ تکالیف کو بھول جائیں گے لیکن اصل کام اسی وقت سے شروع ہو گا کیونکہ حق کا ملنا اور اس سے فائدہ اٹھانا الگ الگ امور ہیں- اگر ریاست کشمیر کے مسلمانوں نے حقوق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی تو سب قربانی ضائع جائے گی-
آپ لوگوں کو گذشتہ ایام میں سخت تکالیف کا سامنا ہوا ہے اور اب تک ہو رہا ہے- لیکن یہ امر آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ بڑے کاموں کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے- اگر میرا علم صحیح ہے اور آپ لوگوں کو جلد بہت سے حقوق ملنے والے ہیں‘ تو یہ کامیابی آپ کی ایسی ہو گی کہ اس کی نظیر ہندوستان میں اور کہیں نہیں ملتی اور کامیابی کے مقابلہ میں تکالیف بہت کم رہ جائیں گی-
مجھے افسوس ہے کہ پوری طرح میرے منشاء کے مطابق کام نہیں ہوا- ورنہ مجھے یقین ہے کہ اس قدر تکا لیف بھی نہ ہوتیں- لیکن آپ لوگوں کو چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ حقوق دلا دے تو سب گزشتہ ظلموں کو بھول کر آئندہ ترقی کے سامان پیدا کرنے میں لگ جائیں- ورنہ اگر اس وقت گزشتہ بدلے لینے کی طرف آپ متوجہ ہوئے تو بدلہ تو نہ معلوم آپ لے سکیں یا نہ لے سکیں‘ حقوق سے فائدہ اٹھانے سے آپ لوگ محروم رہ جائیں گے‘ یاد رکھیں کہ مسلمان نہایت وسیع الحوصلہ ہوتا ہے-
میں انشاء اللہ جس وقت خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو کامیاب کیا‘ ایک ا یسا پروگرام آپ لوگوں کے سامنے اور آپ کے ہندوستان کے خیرخواہوں کے سامنے رکھوں گا جس پر چل کر مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اپنے حقوق سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے اور اپنی ہمسایہ قوموں سے بھی آپ کے تعلقات خوشگوار رہیں گے-
میں اپنی طرف سے بھی یہ وعدہ کرتا ہو کہ انشاء اللہ ہر ممکن امداد آپ کی آئندہ ترقی کے لئے دیتا رہوں گا- وما تو فیقی لا باللہ
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۲۲‘۲۳ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
اہل جموں و کشمیر کی طرف میرا پانچواں خط
)سلسلہ دوم(
برادران! میرے گذشتہ خط کے بعد بعض حالات میرے علم میں ایسے آئے ہیں کہ جن کی وجہ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض امور کی تشریح جس قدر جلد ہو سکے کر دوں-
پہلی بات یہ ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جموں میں یہ بات مشہور کی جا رہی ہے کہ سرظفر علی خان صاحب کو میں نے کوشش کر کے نکلوایا ہے اور میری غرض یہ ہے کہ چوہدریظفراللہ خان صاحب کو ان کی جگہ وزیر مقرر کروائوں- مجھے افسوس سے یہ معلوم ہوا کہ بعض ذمہ وار لیڈروں نے بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے اور عوام الناس میں بھی اس بات کا چرچا ہے- میں سمجھتا تھا کہ جس اخلاص اور محبت سے میں نے اہل کشمیر کا کام کیا تھا اس کے بعد اس قسم کی بدظنیاں پیدا نہ ہو سکیں گی‘ لیکن افسوس کہ میرا یہ خیال غلط نکلا- اگر محض اختلافرائے ہوتا تو میں بالکل پرواہ نہ کرتا لیکن اس الزام میں میری نیت اور دیانت پر چونکہ حملہ کیا گیا ہے میں اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی نام نہ لوں گا تا کہ دوسروں کی بدنامی کا موجب نہ ہو-
اصل واقعہ یہ ہے کہ سر ظفر علی صاحب کے کشمیر پہنچنے کے معاً بعد بعض نمائندگان کشمیر نے مجھے ایسے واقعات لکھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ سر ظفر علی صاحب مسلمانوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے اور ایک واقعہ میر واعظ یوسف شاہ صاحب کے ساتھ ان کے سلوک کا خاص طور پر بیان کیا گیا تھا اس پر میں نے ولایت تار دیئے اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ممبروں اور ہمدردوں نے وہاں کوشش کی اور بعض ذمہ وار حکام نے بتایا کہ احرار کی تحریک کے کمزور ہوتے ہی سر ہری کشن کول اور مرزا سر ظفر علی صاحب کو کشمیر سے علیحدہ کر دیا جائے گا- یہ غالباً اکتوبر کا واقعہ ہے اس واقعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے اخراج کی تحریک خود کشمیر سے ہوئی اور اکتوبر میں اس کا فیصلہ بھی درحقیقت ہو چکا تھا- گو خاص حالات کی وجہ سے اس پر عمل بعد میں ہوا- پس اس کا الزام مجھ پر لگانا درست نہیں-
باقی رہا یہ الزام کہ میں نے یہ کوشش عزیز مکرم چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو وزیر بنانے کے لئے کی ہے- اس کا جواب میں یہی دے سکتا ہوں کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کا میرے دل میں بہت احترام ہے لیکن مجھے یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ کشمیر کی وزارت کی خواہش رکھتے ہیں تو میری رائے ان کی نسبت بدل جائے کیونکہ میں ان کو اس سے بہت بڑے کاموں کا اہل سمجھتا ہوں- پس اس وجہ سے اس عہدہ کو ان کی ترقی کا نہیں بلکہ ان کے تنزل کا موجب سمجھوں گا- علاوہ ازیں کشمیر کے وزیر کی تنخواہ غالباً تین ہزار کے قریب ہے لیکن چوہدری ظفراللہ خان صاحب- اس وقت بھی چار اور پانچ ہزار کے درمیان حکومت ہند سے وصول کر رہے ہیں- پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ زیادہ آمد والے کام سے ہٹا کر میں انہیں ایک تھوڑی تنخواہ والے کام پر لگنے کا مشورہ دوں خصوصاً جبکہ اس میں کوئی مزید ترقی اور مزید عزت کا بھی سوال نہیں- پس جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ان کی عقل ویسی ہی ہے جیسی کہ اس فقیر کی جس نے ایک ڈپٹی کو خوش ہو کر دعا دی تھی کہ خدا تعالیٰ تجھے تھانے دار بنائے- کاش وہ بدظنی کر کے گنہگار نہ بنتے اور سمجھ سے کام لیتے اور سوچتے کہ عزیزم ظفراللہ خان صاحب وزارت کشمیر سے زیادہ اہم کام کر رہے ہیں اور اس سے بہت زیادہ ترقی کے سامان ان کے لئے خدا تعالیٰ کے محض فضل سے میسر ہیں-
دوسرا اعتراض مجھ پر یہ کیا گیا ہے کہ میں نے کوشش کر کے انگریزوں کو ریاست میں داخل کیا ہے--- انگریزوں کے داخلہ کا واقعہ بھی اس طرح ہے کہ جب کشمیر میں شورش زیادہ ہوئی اور مجھے یہ آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ انگریز کشمیر میں گھس جائیں تو اچھا ہے تو میں نے اپنے ہاتھ سے ایک خط شیخ عبداللہ صاحب ایم-ایس-سی لیڈر کشمیر کو لکھا اور رجسٹری کر کے بھیجا کہ انگریز افسروں کا آنا مفید نہیں مضر ہو گا‘ اس لئے آپ لوگ اس قسم کا مطالبہ ہرگز نہ کریں- اور یہی خیال میرا شروع سے ہے کیونکہ گو انگریز افسر بالعموم انصاف اور قواعد کی پابندی میں بہت سے ہندوستانیوں سے بڑھ کر ہوتا ہے لیکن انگریز انگریزی حکومت میں ہی مفید ہوتا ہے ریاستوں میں نہیں- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں میں بوجہ ان کی اپنے قومی کیریکٹر کے اعلیٰ ہونے کے یہ نقص ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی بات کو زیادہ مانتے ہیں- انگریزی علاقہ میں یہ بات چنداں مضر نہیں ہوتی کیونکہ یہاں انگریزی طریق ایک عرصہ سے جاری ہے اور نگرانی اس شدت سے ہوتی ہے کہ دیسی افسروں کو بھی قواعد کی پابندی اور محکمانہ دیانت کی عادت ہو گئی ہے‘ ریاستوں میں یہ بات نہیں ہوتی- پس وہاں کے جھوٹ سے جب انگریز کا اعتماد ملتا ہے تو بجائے ملک کو نفع پہنچنے کے نقصان پہنچتا ہے انگریز اسی وقت مفید ہوتے ہیں جب سب نظام انگریزی ہو- اس نظام میں ان کی عادات بالکل پیوست ہو جاتی ہیں اور کام اچھا چلنے لگتا ہے- پس اس خطرہ کی وجہ سے میرا ہمیشہ یہ خیال ہے کہ انگریزوں کے کشمیر میں چلے جانے پر ہندو افسر زیادہ ظلم کر سکیں گے کیونکہ وہ ظلم کر کے جھوٹی رپورٹ دیں گے اور انگریز افسر کو اگر دھوکا لگ گیا اور اس جھوٹ پر اس کے سامنے پردہ پڑ گیا تو حکومت ہند اس انگریز افسر کے مقابلہ میں کسی اور کی بات نہیں سنے گی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ ایک غیر جانبدار آدمی کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے اور اس سے ہمارے کام کو نقصان پہنچے گا- یہ میرا خطرہ اب صحیح ثابت ہو رہا ہے چنانچہ مسلمانوں کی آواز حکومت ہند میں پہلی سی موثر نہیں رہی اور آئندہ کامیابی کے لئے ہمیں بہت زیادہ عقل اور بہت زیادہ علم اور آہستگی کی ضرورت ہے- غرض شیخ عبداللہ صاحب کے نام میرا خط اس امر کا شاہد ہے کہ انگریزوں کے لانے کی مجھے کوئی خواہش نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔-
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ ایک دو ماہ میں کشمیر کے متعلق کوئی ایسا فیصلہ ہو جائے گا جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہو گا یہ فیصلہ کیا ہے اور کس حد تک مسلمانوں کے لئے مفید ہے- میں ان دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے جو علم ہوا ہے وہ پانچ ذرائع سے ہے اور وہ سب ہی مخفی ہیں پس میں تفصیلات نہیں بتا سکتا- ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انشاء اللہ مسلمانوں کی حالت پہلے سے اچھی ہو جائے گی- باقی سیاسی جدوجہد ایسی ہی ہوتی ہے کہ آج ایک طاقت کو انسان حاصل کرتا ہے کل دوسرا قدم اٹھاتا ہے- اہل کشمیر دوسری ریاستوں سے غیر معمولی طور پر آگے قدم نہیں اٹھا سکتے- ریاستوں کی آزادی ہندوستان کی طرح تدریجی ہو گی- لیکن ہو گی ضرور یہ ناممکن ہے کہ ریاستیں اب بھی پرانی چا ل پر چلتی جائیں- زمانہ انہیں مجبور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا- پس یہ خیال غلط ہے کہ سب کچھ ایک وقت میں حاصل ہو جائے جس طرح یہ خیال بھی غلط ہے کہ ریاستیں اپنی پرانی حالت پر قائم رہ سکیں گی-
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گو آئینی کمیشن کی ترکیب قابل اعتراض ہے اس میں نہ مسلمانوں کی کافی تعداد ہے اور نہ مسلمانوں سے مشورہ کر کے ممبر مقرر کئے گئے ہیں- پس یہ تو ہمارا فرض تھا کہ اس کے خلاف پروٹسٹ کریں لیکن پروٹسٹ کرنے کے بعد میرے نزدیک اس کا بائیکاٹ مسلمانوں کے لئے مفید نہیں- اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کا پہلو کمزور ہو جائے گا- اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اسمبلی کسی نہ کسی شکل میں دینے کا فیصلہ مہاراجہ صاحب کر چکے ہیں- اب سوال صرف تفصیلات کا ہے پس اگر مسلمان شامل نہ ہوئے تو کام تو رکے گا نہیں صرف نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کا مشورہ کمزور ہو گا جو نقصان دہ ہو گا- گو میری رائے تو یہی ہے کہ پروٹسٹ کر کے اس میں مسلمان ممبر حصہ لیں اور کوشش کریں کہ بہتر سے بہتر صورت اسمبلی کی بن سکے- کیونکہ گو اصول میرے نزدیک پہلے سے طے شدہ ہیں اور اس پر کمیشن کا کوئی اثر نہیں ہو گا لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اچھی باتوں کو زیادہ اچھا بنا دیتی ہیں یا اور خراب کر دیتی ہیں- پس اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے- جب ہم نے پروٹسٹ کر دیا تو دنیا پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ہم اس بے انصافی کو ناپسند کرتے ہیں- اس کے بعد ہماری شمولیت قطعاً غلط فہمی نہیں پیدا کر سکتی کیونکہ سیاسی امور میں اس قسم کی شمولیت ہوتی ہی رہتی ہے اور لوگ اس کی حقیقت خوب سمجھتے ہیں- پس جو فائدہ آپ لوگ اس وقت اٹھا سکتے ہیں کمیشن میں شامل ہو کر اٹھا لیں جو نقص رہ جائے گا اسے انشاء اللہ آئندہ درست کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی- اور ابھی تو اہل کشمیر کے سامنے اپنی تعلیم اور تربیت کا اس قدر کام ہے جو کئی سال تک ان کی توجہ کو اپنی طرف لئے رہے گا-
چوتھی بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کئی ہزار آدمی علاقہ کھڑی سے مقامی حکام کے ظلموں سے تنگ آ کر جہلم میں آ گئے ہیں- مجھے ان مصیبت زدوں سے ہمدردی ہے لیکن میرے نزدیک فوراً نکل آنے کی بجائے بہتر ہوتا کہ پہلے ہم لوگوں کو کوشش کرنے دی جاتی- اب بھی میں ان بھائیوں کویہی نصیحت کروں گا کہ وہ اس اپنے علاقہ میں چلے جائیں اور ہمیں اپنی بہتری کے لئے کوشش کرنے دیں- اگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا تو ہم خود ان سے کہہ دیں گے کہ اب آپ لوگوں کے لئے ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے- مگر پوری کوشش کئے بغیر اور حکومت کو اصلاح کا موقع دینے سے پہلے نکلنا زیادہ مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا-
میں ایک دفعہ پھر برادران ریاست کشمیر کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبر ان کے پورے خیر خواہ ہیں اور انشاء اللہ جہاں تک ان کی طاقت میں ہے‘ وہ اس کام کو معقول اصول پر جاری رکھیں گے اور نہ میں اور نہ کوئی اور ممبر انشاء اللہ اس قسم کے اعتراضات سے بد دل ہو گا کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم میں سچا قومی درد نہیں- ہم انشاء اللہ آپ لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے میں پوری سعی کریں گے اور کر رہے ہیں- چار تاریخ کو کمیٹی کی طرف سے ایک وفد ہزایکسی لنسی وائسرائے کی خدمت میں کشمیر کے متعلق پیش ہونے والا ہے- وکلاء کے لئے بھی ہم اجازت طلب کر رہے ہیں اور جس حد تک ممکن ہو گا ہم لوگ انشاء اللہ ریلیف کا کام کریں گے- ہاں آپ لوگوں سے ہم یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ ہمارے تجربہ سے جہاں تک ہو سکے فائدہ اٹھائیں اور ایسے رنگ میں کام کریں کہ غریبوں اور کمزوروں کا نقصان نہ ہو اور ملک تباہ نہ ہو بلکہ ترقی کرے-
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۲ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۲۳ تا ۲۶ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
‏]ttex [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام
میرا چھٹا خط )سلسلہ دوم(
برادران!
میں اپنے پچھلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق پوری کوشش کر رہی ہے اور میں نے یہ ذکر بھی کیا تھا کہ ایک وفد چار تاریخ کو جناب وائسرائے صاحب کی خدمت میں پیش ہونے والا ہے- جو آپ لوگوں کی تکالیف کے متعلق آپ سے تفصیلی گفتگو کرے گا- یہ وفد چار تاریخ کو پیش ہوا اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل اصحاب تھے-
)۱(نواب عبدالحفیظ صاحب ڈھاکہ )۲(خواجہ حسن نظامی صاحب )۳(مولانا شفیع دائودی صاحب )۴(نواب صاحب کنجپورہ )۵(سید مسعود احمد شاہ صاحب بہار )۶(اے ایچ غزنوی صاحب بنگال )۷(سید محسن شاہ صاحب )۸(خان بہادر رحیم بخش صاحب )۹(ڈاکٹر مرزایعقوب بیگ صاحب لاہور )۱۰(سید حبیب صاحب )۱۱(ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب یوپی )۱۲(شیخفضل حق صاحب بھیرہ )۱۳(کپتان شیر محمد صاحب دومیلی )۱۴(چوہدری ظفراللہ خان صاحب )۱۵(مولوی عبدالرحیم صاحب درد- ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے وفد میں شامل نہ ہو سکے- وفد نے جو ایڈریس حضور وائسرائے کی خدمت میں پیش کیا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے-:
کشمیر کی ریاست میں ایک لمبے عرصہ سے عملاً ہندوئوں کو ہی حکومت میں حصہ دیا جاتا ہے- مسلمان بہت کم اور النادر کالمعدوم کی حیثیت میں ہیں- حالانکہ ان کی آبادی ستانوے فیصد ہے- نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو انتظامی اور قانونی دونوں شکنجوں میں اس طرح کس دیا گیا ہے کہ وہ ترقی نہیں کر سکتے- ایک لمبے عرصہ تک صبر کرنے کے بعد اب مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے بالکل جائز طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہند اس بارہ میں ان کی امداد کرے گی-
اسی غرض کے پورا کرنے کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا ہے- ہمیں افسوس ہے کہ اس میں مسلمانوں کی نہ تو صحیح نمائندگی ہے اور نہ کافی نمائندگی ہے‘ اس کا تدارک ہونا چاہئے- مگر صرف اسی قدر اصلاح سے کام نہیں چلے گا- چاہئے کہ کشمیر کے مسلم لیڈروں کو آزاد کر کے اس مشورہ میں شریک کیا جائے اور دوسرے سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کر کے فضاء صاف کی جائے-
موجودہ فسادات میں جو مقدمات چلائے جا رہے ہیں‘ اس پر مسلمانوں میں بے چینی ہے ریاست کے افسر جس پر خود الزام ہے‘ آزاد تحقیقات نہیں کر سکتے اس لئے ریاست کے باہر سے قابل اعتماد جج بلوا کر مقدمات ان کے سامنے پیش کرنے چاہئیں-
ہمیں مختلف ذرائع سے رپورٹیں ملی ہیں کہ بعض حکام نے سخت مظالم کئے ہیں اور فسادات کو اپنے بغض نکالنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کھڑی کے علاقہ سے ہزاروں آدمی نکل کر انگریزی علاقہ میں چلے آئے ہیں‘ اس کا علاج ہونا چاہئے- جس کے لئے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ فوراً وہاں سے ان افسروں کو جن کے خلاف مسلمانوں کو شکایت ہے تبدیل کر دیا جائے اور ایک آزاد تحقیقات ان کے افعال کے متعلق کرائی جائے- اس بارہ میں خصوصیت سے کشمیر‘ کوٹلی‘ راجوری اور تحصیل مینڈر‘ پونچھ کے افسر قابل ذکر ہیں- ہم درخواست کرتے ہیں کہ کشمیر میں ہمیشہ سردیوں میں مسلمان گورنر اور مسلمان یا انگریز افسر پولیس رہنا چاہئے-
مہاراجہ صاحب کی وزارت میں کم سے کم دو مسلمان وزراء جن پر مسلمانوں کو اعتبار ہونے چاہئیں- مسلمان موجودہ مسلمان وزیر کے خلاف سخت مشتعل ہیں کیونکہ وہ ہر گز مسلمانوں کے فوائد کی حفاظت نہیں کر سکتے-
موجودہ فسادات کے متعلق جو مقدمات ہیں‘ ان میں باہر سے مسلمان وکیلوں کو پیش ہونے کی اجازت ہونی چاہئے- اور ان سے بائیس روپیہ کی خاص فیس نہیں لینی چاہئے- اس بارہ میں چیف جسٹس صاحب کشمیر نے سفارش کی ہے اور حکومت ہند کی سفارش مزید سہولت پیدا کر سکتی ہے-
کشمیر میں قیدیوں کے ساتھ سلوک اچھا نہیں ہوتا‘ اس کی اصلاح کی جائے- اور آئندہ کے لئے ہر قوم میں سے کچھ معتمد علیہ غیر سرکاری آدمی مقرر کئے جائیں جو جیل خانوں کا معائنہ کیا کریں تا کہ اگر کوئی ظلم ہو رہا ہو تو اس کا علم ہو جائے- ہم یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ آزاد تحقیقات جیل خانوں کے انتظام کے متعلق کروائی جائے اور قانون جیل خانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی بہتر کیا جائے-
یہ ایڈریس چار تاریخ کو حضور وائسرائے کے پیش ہوا اور تمام ممبران کے اتفاق سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب گفتگو کیلئے مقرر ہوئے ایک گھنٹہ تک وائسرائے صاحب سے جن کے ساتھ وزیر ریاست اور پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے گفتگو ہوئی اور علاوہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے مناسب موقعوں پر دوسرے ممبران وفد نے بھی حضور وائسرائے کو مسلمانوں کی تکالیف اور صورت حالات سے آگاہ کیا- میرے پاس گفتگو کی تفصیلات آ چکی ہیں لیکن چونکہ ایسی گفتگو پرائیویٹ سمجھی جاتی ہے میں اسے شائع نہیں کر سکتا- مگر اس قدر بتا دینا چاہتا ہوں کہ سب گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت ہند اور ریاست دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ اصلاح کی کافی گنجائش ہے اور دونوں آمادہ ہیں کہ اصلاح کی جائے- تجاویز پر غور ہو رہا ہے اور امید ہے کہ جلد ترتیب وار مختلف تکالیف کا ازالہ شروع ہو جائے گا-
پس ان حالات میں میں یہ دو نصیحتیں کروں گا- اول یہ کہ جس جس جگہ کوئی غیر آئینی کارروائی ہو رہی ہو اسے ترک کر دینا چاہئے تا کہ اس پروگرام کے پورا کرنے میں روک پیدا نہ ہو- دوسری یہ کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آئینی جدوجہد چھوڑ دیں- آئینی کوششوں کو بہ سہولت اور پر امن ذرائع سے برابر جاری رکھنا چاہئے- یہاں تک کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب‘ قاضی گوہر رحمن صاحب‘ مفتی جلال الدین صاحب اور دوسرے قومی لیڈر اور قومی کارکن آزاد ہو کر ملک کی رہنمائی کر سکیں- جن لوگوں نے خود تکلیف اٹھا کر اپنی قوم کو بیدار کیا ہے خواہ وہ قید میں ہیں یا آزاد ہم ان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے-
ایک خوشخبری میں اور دیتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف لوگوں کو مقدمات کی تھی کیونکہ باہر سے وکیل آنے کی اجازت نہ تھی اور ریاستی وکلاء میں مسلمان بہت کم تھے اور ان میں سے تجربہ کار اور بھی کم تھے- میں نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر برادرخورد چوہدری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹر کو اس کام کیلئے جموں بھجوایا تھا- جنہوں نے آنریبل مسٹر دلال چیف جسٹس ریاست جموں و کشمیر سے گفتگو کی اور چیف جسٹس صاحب نے اجازت کی ضرورت کو تسلیم کر کے حکومت کے پاس اس قید کے اڑانیکی سفارش کی- مہاراجہ صاحب نے عنایت فرما کر پہلے قانون میں تبدیلی کر دی ہے اور اب چیف جسٹس صاحب کی اجازت سے باہر کے وکلاء بغیر کسی خاص فیس ادا کرنے کے مقدمات میں پیش ہو سکیں گے- اس سے امید ہے کہ وہ بے اطمینانی جو پیدا ہو رہی تھی دور ہو جائے گی اور لوگوں کو ان الزامات کے دور کرنے کا کافی موقع مل جائے گا جو بعض متعصب افسروں نے بلاوجہ ان پر لگائے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس غرض کیلئے قومی درد رکھنے والے وکلاء انشاء اللہ میسر آ جائیں گے-
میں امید کرتا ہوں کہ جلد بعض دوسری تکالیف کا بھی ازالہ ہو جائے گا اور آپ لوگوں کو آرام کا سانس لینا میسر ہوگا- خدا کرے کہ میری یہ امید ٹھیک ہو-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۲۶ تا ۲۸ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
مسلمانان ریاست جموں و کشمیر کے نام
میرا ساتواں خط )سلسلہ دوم(
گلینسی رپورٹ کے متعلق اظہار رائے
برادران!
میں اپنے گزشتہ خطوں میں لکھ چکا ہوں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے مطالبات کا ایک حصہ پورا ہونے والا ہے چنانچہ اس وقت تک آپ لوگوں کو گلینسی کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ معلوم ہو چکا ہوگا- اس رپورٹ کے متعلق میں تفصیلا لکھنا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ گو مجھے اس کے مضمون سے پہلے سے آگاہی تھی بلکہ اس کے لکھنے جانے سے بھی پہلے مجھے اس کے بعض مطالب سے آگاہی تھی لیکن پھر بھی اس کی مطبوعہ شکل میں چونکہ ابھی میں نے اسے پوری طرح نہیں پڑھا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خاص اجلاس میں بھی اس پر غور نہیں ہوا اس لئے اس پر تفصیلی رائے کا اظہار کرنا ابھی مناسب نہیں-
مسلمانوں کی خوشی کیلئے کافی مواد
ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گو یہ رپورٹ میری خواہشات کو کلی طور پر پورا کرنے والی نہیں لیکن پھر بھی اس میں کافی مواد ایسا موجود ہے جس پر مسلمانوں کو بھی خوش ہونا چاہئے اور مہاراجہ صاحب بہادر کو بھی کیونکہ انہوں نے اپنی رعایا کے حقوق کی طرف توجہ کر کے اپنی نیک نفسی کا ثبوت دیا ہے- اسی طرح اس رپورٹ کے لکھنے پر مسٹر گلینسی بھی خاص مبارک باد کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے نمائندے بھی کہ انہوں نے رعایا کے حقوق ادا کرنے کی سفارشات کی ہیں خواہ وہ مسلمانوں کے مرض کا پورا علاج نہ بھی ہوں-
مسلمان نمائندوں کا شکریہ
میں خصوصیت سے اپنے باہمت نوجوان چوہدری غلام عباس صاحب اور دیرینہ قومی کارکن خواجہ غلام احمد صاحب اشائی کو شکریہ کا مستحق سمجھتا ہوں کہ انہوں نے نہایت محنت اور تکلیف برداشت کر کے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو پیش کرنے کی کوشش کی- چوہدری غلام عباس صاحب نے اس نیک کام میں اپنوں اور بیگانوں سے جو برا بھلا سنا ہے‘ میں امید کرتا ہوں کہ ان کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں رہے گا کیونکہ انہوں نے خلوص سے قومی خدمت کی ہے- اور یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو ضائع نہیں کرے گا- اگر موجودہ نسل ان کی قربانی کی داد نہ بھی دے تو بھی آئندہ نسلیں انہیں ضرور دعائوں سے یاد کریں گی- انشاء اللہ تعالی
دوسری گلینسی رپورٹ
میں امید کرتا ہوں کہ دوسری گلینسی رپورٹ ایک نیا دروازہ سیاسی میدان کا مسلمانوں کے لئے کھول دے گی- اور گو وہ بھی یقیناً مسلمانوں کی پورے طور پر داد رسی کرنے والی نہ ہوگی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی ان کی زندگی کے نقطہ نگاہ کو بدلنے والی اور آئندہ منزل کی طرف ایک صحیح قدم ہاں مگر ایک چھوٹا قدم ہوگی-
ابھی بڑا کام باقی ہے
میں اس وقت نہ تو یہ کہتا ہوں کہ ہمیں ان رپورٹوں پر افسوس کرنا چاہئے کیونکہ ان میں یقیناً اچھے امور ہیں اور ایسی باتیں ہیں کہ اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یقیناً مسلمان آزادی حاصل کرنے کے قریب ہو جائیں گے اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ ہمیں خوش ہونا چاہئے کیونکہ ابھی ہمارا بہت سا کام پڑا ہے اور اسے پورا کئے بغیر ہم دم نہیں لے سکتے- نیز ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف قانون سے ہم خوش نہیں ہوسکتے کیونکہ قانون کا غلط استعمال اچھے قانون کو بھی خراب کر دیتا ہے- پس دیکھنا یہ ہے کہ ان فیصلہ جات پر مہاراجہ صاحب کی حکومت عمل کس طرح کرتی ہے- ہمیں امید ہے کہ اب جب کہ انگریز وزراء آ گئے ہیں اور انہوں نے ایک حد تک حقیقت کو بھی سمجھ لیا ہے پہلے کی نسبت اچھی طرح ان اصلاحات پر عمل ہوگا- لیکن غیب کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس لئے جب کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ ساتھ ہی ہم اس سے عاجزانہ طور پر دعا بھی کرتے ہیں کہ وہ ان رپورٹوں کے اچھے حصوں کو نافذ کرنے کی وزراء اور حکام کو مناسب توفیق بخشے- اللھم آمین
مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے صحیح طور پر اس تحریک کی راہنمائی کا موقع ملتا اور بعض امور ایسے پیدا نہ ہو جاتے کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا تو نتائج اس سے بھی شاندار ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے آگے کوئی چارہ نہیں اور پھر ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں- شاید جو کچھ ہوا اس میں ہمارا نفع ہو کیونکہ علم غیب تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے-
زمینوں کی ملکیت کا فیصلہ
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس امر کی ہے کہ زمینوں کی ملکیت ریاست سے لے کر زمینداروں کو دے دی گئی ہے- اگر سوچا جائے تو یہ کروڑوں روپیہ کا فائدہ ہے اور گو بظاہر یہ صرف ایک اصطلاحی تغیر معلوم ہوتا ہے لیکن چند دنوں کے بعد اس کے عظیم الشان نتائج کو لوگ محسوس کریں گے اور یہ امر کشمیر کی آزادی کی پہلی بنیاد ہے اور اس کی وجہ سے اہل کشمیر پر زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوگا- مجھے اس تغیر پر دہری خوشی ہے کیونکہ اس مطالبہ کا خیال سب سے پہلے میں نے پیدا کیا تھا اور زور دے کر اس امر کی اہمیت کو منوایا تھا- بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ مطالبہ مانا نہیں جا سکتا مگر اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ آخر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا-
پریس کی آزادی وغیرہ
اسی طرح پریس کی آزادی کے متعلق جدید قوانین کا وعدہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے- شاملاتوں کی ناواجب تقسیم کا انسداد‘ اخروٹ کا درخت کاٹنے کی مکمل اور چنار کی مشروط آزادی‘ لکڑی کے مہیا کرنے کے لئے سہولتیں‘ بعض علاقوں میں چرائی کا ٹیکس معاف ہونا‘ تعلیم اور ملازمتوں میں سہولتیں‘ انجمنوں کی مشکلات کا ازالہ اور ایسے ہی اور بہت سے امور ہیں کہ جن میں اصلاح ایک نہایت خوشکن امر ہے اور انشاء اللہ اس سے ریاست کشمیر کی رعایا کو بہت فائدہ پہنچے گا-
‏0] ft[s بقیہ باتیں
بعض باتیں ابھی باقی ہیں- جیسے وزارت کے متعلق فیصلہ‘ انجمنوں اور تقریر کی آزادی‘ مالیہ کو صحیح اصول پر لانا‘ آرڈیننسوں کو اڑانا‘ اور قیدیوں کی عام آزادی کا اعلان‘ مسلمان ہونے والی کی جائیدادوں کی ضبطی‘ جن کے متعلق فیصلہ یا نہیں ہوا یا ناقص ہوا ہے یا بالکل خلاف ہوا ہے مجھے ان کا خیال ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آخر ان امور میں بھی انشاء اللہ ہمیں کامیابی حاصل ہوگی-
لیڈروں سے وفاداری کا تقاضا
قیدیوں کی آزادی گو سیاسی حقوق سے تعلق نہیں رکھتی لیکن ہر قوم جو زندہ رہنا چاہتی ہو‘ اس کا فرض ہے کہ اپنے لیڈروں اور کارکنوں سے وفاداری کا معاملہ کرے اور اگر قومی کارکن قید رہیں اور لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں تو یہ امر یقیناً خطرناک قسم کی بیوفائی ہوگا- مسلمانان جموں و کشمیر کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو وہ بہت سے ظلموں کے تلے دبے چلے آتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حالت یتیموں والی نہ تھی کیونکہ جب تک ان کے لئے جان دینے والے لوگ موجود تھے وہ یتیم نہ تھے- لیکن اگر وہ آرام ملنے پر اپنے قومی کارکنوں کو بھول جائیں گے تو یقیناً آئندہ کسی کو ان کے لئے قربانی کرنے کی جرات نہ ہوگی اور اس وقت یقیناً وہ یتیم ہو جائیں گے- پس انہیں اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ملک کی خاطر قربانی کرنے والوں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم رکھنا چاہئے- پس ان کا یہ فرض ہے کہ جب تک مسٹر عبداللہ‘ قاضی گوہر رحمن اور ان کے ساتھی آزاد نہ ہوں‘ وہ چین سے نہ بیٹھیں- اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کام میں میں ان کی ہر ممکن امداد کروں گا اور اب بھی اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں- مشکلات ہیں لیکن مسلمان کو مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے-
قومی غداروں کے مقابلہ کیلئے تیاری کی ضرورت
یہ بھی یاد رہے کہ بعض غدار آئندہ اصلاحات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں- اہل کشمیر اگر اس فریب میں آ گئے اور آئندہ کونسلوں میں مسٹرعبداللہ کے دشمن اور قومی تحریک کے مخالف ممبر ہو گئے تو سب محنت اکارت جائے گی اور مسٹر عبداللہ اور دوسرے قومی کارکنوں کی سخت ہتک ہوگی- پس اس امر کے لئے آپ لوگ تیار رہیں کہ اگر خدانخواستہ قومی کارکنوں کو جلدی آزادی نہ ملی اور ان کی آزادی سے پہلے اسمبلی کے انتخابات ہوئے )گو مجھے امید نہیں کہ ایسا ہو( تو ان کا فرض ہونا چاہئے کہ قومی غداروں کے مقابلہ میں قومی کام سے ہمدردی رکھنے والوں کو امیدوار کر کے کھڑا کر دیں- اور یہ نہ کریں کہ کانگرس کی نقل میں بائیکاٹ کا سوال اٹھاویں- بائیکاٹ سے کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ آخر کوئی نہ کوئی ممبر تو ہو ہی جائے گا- اور قومی خیر خواہوں کی جگہ قومی غداروں کو ممبر بننے کا موقع دینا ہر گز عقلمندی نہ کہلائے گا- پس گو یہ ایک بہت طویل عمل ہے کہ قومی کارکنوں کی آزادی سے پہلے اسمبلی کا انتخاب ہو-
اختلاف چھوڑ دیں
لیکن چونکہ بعض قومی غدار اندر ہی اندر اس کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ اہل جموں و کشمیر کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی خواجہسعدالدین صاحب شال‘ خواجہ غلام احمد صاحب اشائی اور دوسرے کارکنوں کو جن کی گزشتہ قومی خدمات کا انکار نہیں ہو سکتا توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت ہے وہ قومی تحریکات کو مضبوط کرنے کے لئے اختلاف چھوڑ دیں- میں ہمیشہ ان کا خیر خواہ رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کی گزشتہ خدمات قومی تحسین کا انعام حاصل کئے بغیر نہ رہیں- پس میں ان سے اور ان کے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ قومی کارکنوں کی خدمت میں آ کر شامل ہو جائیں اور یقین رکھیں کہ اس طریق کو اختیار کر کے انہیں ذلت نہیں بلکہ عزت حاصل ہوگی-
ظلم کے روکے جانے کے سامان
ایک دو اور باتیں ہیں جن کا ذکر کر کے میں اس خط کو ختم کرنا چاہتا ہوں- اول یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گو اصلاحات کا اعلان ہو گیا ہے لیکن ظلم تو ابھی تک جاری ہے- اس شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوڑتے ہوئے گھوڑے کو یکدم نہیں روکا جا سکتا- طوفان بھی تھمتے ہوئے کچھ وقت لیتا ہے- پس ظلم گو جاری ہے لیکن ایسے سامان ہو رہے ہیں کہ انشاء اللہ ظلموں کا بھی انسداد ہو جائے گا- میں ابھی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے عقل سے کام لیا گیا تو تھوڑے سے عرصہ میں ظلم کے روکے جانے کے بھی سامان ہو جائیں گے- انشاء اللہ تعالیٰ
وکلاء کے متعلق اعلان
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ وکلاء کے متعلق جو اعلان میں نے کیا تھا‘ اس میں بعض غلط فہمیوں سے کچھ الجھن پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کے ¶لئے میں کوشش کر رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتری کی توقع رکھتا ہوں- اور اگر لوگوں کو پوری طرح ڈیفنس کا موقع نہ دیا گیا تو میں انشاء اللہ اور ایسی تدابیر اختیار کروں گا کہ جن سے لوگوں کے اس اہم حق کی طرف حکومت کو توجہ ہو-
سیاہ نشان
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو سیاہ نشان لگانے کا اعلان کیا تھا‘ اس کے متعلق مجھے سری نگر سے شکایات موصول ہوئی تھیں کہ سیاہ نشان لگانے کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس نشان کے لگانے کے سبب سے بعض لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا ہے- میں نے اس کے متعلق حکومت کشمیر سے خط و کتابت کی ہے اور جو جواب وزیر اعظم صاحب کی طرف سے آیا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بارہ میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ ان کے جواب میں اس لہر سے قطعاً انکار کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ نہ کسی شخص کو سیاہ نشان لگانے پر سزا دی گئی ہے اور نہ مقدمہ ہی چلایا گیا ہے- اگر یہ بیان درست ہے تو مجھے تعجب ہے کہ رپورٹ دینے والوں کو اتنا بڑا مغالطہ کیونکر لگ گیا- بہرحال یہ سوال حل ہو گیا ہے کہ سیاہ نشان لگانے کو ریاست کشمیر میں جرم نہیں قرار دیا گیا-
میں اس خواہش کے اظہار پر اس خط کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس موسم گرما میں توفیق دے کہ خواہ چند دن کے لئے ہو کشمیر آ کر خود صورت حالات کا معائنہ کر سکوں اور اس ملک کے مرض کو بذات خود دیکھ کر اس کے علاج کی پہلے سے زیادہ تدبیر کرنے کی توفیق پائوں- وما توفیقی الا باللہ واخر دعوئنا ان الحمدللہ رب العلمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
)الفضل یکم مئی ۱۹۳۲ء(
)تاریخ احمدیت جلد۲ ضمیمہ نمبر۱ صفحہ۲۹ تا ۳۲ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
کشمیر کے پریس ایکٹ کے خلاف احتجاج
ڈیرہ دون ۳- مئی- حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی حسب ذیل بیان اخبارات کو دیا-
مجھے پریس کے متعلق ریاست کشمیر کے جدید قوانین کو دیکھ کر بے حد صدمہ ہوا ہے بعض حالتوں میں وہ برطانوی ہند کے ہنگامی قانون سے بھی زیادہ سخت ہیں- ایک ایسے علاقہ میں جہاں فی الحال اخبارات ستر روپے کے لیتھو پریس میں چھپیں گے اور جن کے چند سو سے زیادہ خریدار نہ ہونگے‘ ایک ہزار سے دس ہزار روپے تک کی ضمانت طلب کرنا مضحکہ خیز ہے- ان قوانین کے ماتحت کوئی اسلامی اخبار جاری نہیں ہو سکتا- اس سے تو یہی بہتر تھا کہ پرانے قواعد ہی برقرار رکھے جاتے- پریس کے متعلق ان قوانین سے صاف پتہ لگتا ہے کہ جب گلینسی کمیشن کی سفارشات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا تو ان کی حقیقت کچھ بھی نہ رہے گی- مجھے افسوس ہے کہ مسٹر کالون نے موقع کے مطابق مناسب کارروائی نہیں کی اور اپنے آپ کو ہندو حکام کے ہاتھوں میں دے دیا ہے- مجھے اس بات کا خوف ہے کہ قانون شکنی کے جذبہ میں مٹ رہا تھا ریاست نے نئی زندگی پیدا کر دی ہے تا ہم مجھے امید ہے کہ مسلمان پریشان نہ ہونگے اور یاد رکھیں گے کہ ہم اپنا مقصد صرف آئینی ذرائع سے ہی حاصل کر سکتے ہیں-
)الفضل ۸ مئی ۱۹۳۲ء(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں مکتوب نمبر۵
مکرمی ماسٹر محمد الدین صاحب- السلام علیکم ورحمہ اللہ-
سید ولی اللہ شاہ صاحب بیمار ہیں اور درد صاحب وائسرائے کے ڈیپوٹیشن کے انتظام میں ہیں- یہ دونوں صاحب کشمیر کا کام کیا کرتے تھے اس لئے ایک ضروری امر کے لئے جس کا پیچھے ڈالنا مصلحت اور ضرورت کے خلاف ہے آپ کو تکلیف دیتا ہوں-
تھراراد کا علاقہ )نام پوری طرح حافظہ میں نہیں ہے( جموں کی ریاست کا حصہ ہے اور ٹھیکہ پر پونچھ کو ملا ہوا ہے اس علاقہ کے لوگوں کی حالت ریاست کشمیر سے بھی خراب ہے- پونچھ کے لوگوں کو جو آزادیاں ہیں مثلاً بعض اقوام کو کاہ چرائی معاف ہے اس سے یہ لوگ محروم ہیں کہ تم جموں کے باشندے ہو- جموں میں درختوں وغیرہ کے متعلق جو میر پور کی تحصیل کو آزادی ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے کہ تم پونچھ کے ماتحت ہو-
پھر عجیب بات یہ ہے کہ پونچھ سے مال جموں میں لاتے وقت ریاست پونچھ ان سے کسٹمز وصول کرتی ہے اور جب جموں میں آتے ہیں تو پھر درآمد کا ٹیکس انہیں دینا پڑتا ہے- اس طرح باہر سے لانے والے مال پر پہلے جموں والے اور پھر پونچھ والے کسٹمز لیتے ہیں حالانکہ یہ اصل میں جموں سے وابستہ ہیں اور کسٹم کی چوکیاں پونچھ میں ہونی چاہئے تھیں- جموں کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں سے لے جانے پر کوئی ڈیوٹی نہیں ہونی چاہئے تھی- اس تکلیف سے گھبرا کر ان لوگوں نے پروٹسٹ کیا اور حسب قواعد میرپور جس کے ساتھ اصولاً یہ وابستہ ہیں‘ بعض درخت کاٹے اور بوجہ جموں ریاست کے باشندے ہونے کے ڈیوٹی دینے سے انکار کیا تو موجودہ شورش سے فائدہ اٹھا کر ان لوگوں کے فعل کو پونچھ کی حکومت نے سول نافرمانی قرار دیا- حالانکہ انہوں نے حکومت جموں کے جس کے یہ باشندے ہیں قانون نہیں توڑے بلکہ ان پر اس کے مطابق عمل کیا- زیادہ سے زیادہ ان پر دیوانی نالشیں کر کے حکومت کو اپنا حق ثابت کرنا چاہئے تھا-
پھر ان پر یہ ظلم ہے کہ یہ جموں کے باشندے ہیں وہیں ان کی رشتہ داریاں ہیں لیکن باوجود جموں کے ساتھ وابستہ ہونے کے ان کے مقدمات پونچھ میں سنے جاتے ہیں حالانکہ زمینداری اگر ٹھیکے پر دے دی جائے تو یہ کسی حکومت کو حق نہیں کہ اپنی رعایا کے سول حقوق کسی اور حکومت کو دے دے- یہ بیل گائے نہیں ہیں کہ ان سے ایسا سلوک روا رکھا جائے- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسٹر کالون نے ان لوگوں کو مسٹر جارڈین کے پاس شکایات سنانے کو بھیجا تو انہوں نے انکار کر دیا- اس بناء پر کہ یہ علاقہ جموں میں نہیں پونچھ میں ہے حالانکہ حقیقتاً یہ جموں کا علاقہ ہے-
آپ نے ان امور کو مسٹر کالون پر روشن کر کے یہ کوشش کرنی ہے کہ اس ردعمل کو دور کیا جائے- اگر پونچھ کو جموں نے امداد دینی ہے تو روپیہ دے لیں یہ لوگ اپنے فروخت کئے جانے پر راضی نہیں-
)۱(ان کے مقدمات جموں کورٹس میں ہوں-
)۲(کسٹمز جموں اور اس علاقہ کے درمیان میں نہ ہوں بلکہ پونچھ کی کسٹمز کی چوکیاں ان کے علاقہ کے پرے پونچھ کے علاقہ میں ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ پونچھ کے علاقہ سے ان کے علاقہ میں مال لانے یا وہاں لے جانے پر کسٹمز لی جائیں-
)۳(اس وقت جو مقدمات خواہ مخواہ سول نافرمانی کے اٹھائے گئے ہیں محض اس وجہ سے کہ پونچھ دربار اور جموں دربار میں جھگڑا ہے اور یہ لوگ جموں کے ساتھ ہیں ان مقدمات کے سننے کیلئے عارضی طور پر جموں سے جج جائیں اور اپیل جموں کورٹ میں ہو-
)۴(کوئی انگریز افسر مسٹر لاتھر یا مسٹر جارڈین یا اور کوئی افسر ریاست کا خواہ انگریز نہ ہو ان امور کی تحقیق کے لئے جائے اور علاقہ کے لوگوں کو سب حالات اور ثبوت اس کے پاس پیش کرنے کی اجازت ہو- سرسری کارروائی نہ ہو-
)۵(اس وقت تک مقدمات کی کارروائی ملتوی رہے-
مسٹر کالون کے علاوہ ریذیڈنٹ سے بھی ملیں اور اسے یہ وجہ بتائیں کہ چونکہ یہ دو جھگڑا درباروں میں ہے جو دونوں آپ کے ماتحت ہیں اس لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں آپ ان واقعات کو دیکھ لیں کہ ناقابل برداشت ہیں- اس علاقہ میں گویا کوئی بھی حکومت نہیں- یہ اپنے حق کسی سے بھی مانگ نہیں سکتے- نہ ملازمتوں کا راستہ ان کے لئے پوری طرح کھلا ہے-
کوشش کر کے مسٹر گلینسی کو بھی ملیں اور انہیں بھی سب حالات بتا کر مشورہ لیں- وہ آئندہ وزیر ریاست ہائے حکومت ہند میں ہونے والے ہیں-
)۲( دوسرا امر ایک اور ہے اس کی تشریح کیلئے خط بھجوا رہا ہوں اسے پڑھ لیں- اس کے متعلق بھی مسٹر کالون وزیر اعظم ریاست جموں اور ریزیڈنٹ کو ملیں- اس بارہ میں اول بدعنوانی ہوئی ہے کہ جموں کی رعایا پر پونچھ والوں نے چھاپہ مارا ہے اور پھر انہیں پکڑ کر لے گئے ہیں-
دوم- ان لوگوں نے ہندوئوں کو پناہ دی اور فساد کے وقت انہیں بچایا‘ لیکن الٹا ان پر ظلم کیا جا رہا ہے- کہیں کہ اس بارہ میں ہم بہ حیثیت جماعت پروٹسٹ کرتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کی مدد کریں اور اگر اس قدر ظلم ریاست نے روا رکھا اور فوراً تحقیق کر کے شریروں کو سزا نہ دی تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آئندہ ہماری جماعت بھی بجائے فسادات سے بچنے کے ان میں حصہ لے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظلم ہو رہا ہے اور ریاست کے اعلیٰ حکام کوئی خبر نہیں لیتے- اس بارہ میں بھی ریذیڈنٹ سے ذکر کریں-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ صفحہ۵۷‘ ۵۸ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
‏a12.5,c
انوار العلوم جلد ۱۲
ندائے ایمان)۲(
ندائے ایمان )۲(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
ندائے ایمان )۲(
رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر حملہ
رسول کریم ~صل۲~ کی ذات مبارک کچھ ایسی کفر توڑ ہے کہ ہر شخص جس کے دل میں کفر کی کوئی رگ ہو آپ سے دشمنی رکھتا ہے اور آپ کی مقدس ذات پر حملہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ کی ترقی میں اس کا زوال اور آپ کی زندگی میں اس کی موت ہے- اسی وجہ سے جس قدر حملے رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر ہوئے ہیں اور کسی نبی پر خواہ عرب کا ہو یا شام کا‘ ہندوستان کا ہو یا ایران کا نہیں ہوئے- لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے دشمنان اسلام آپ پر حملہ کرنے میں ایک حد تک معذور ہیں کیونکہ اسلام کے ذریعہ سے ان کے مکروں اور حیلوں کا تانا بانا ٹوٹتا ہے اور ہر ایک کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے- لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو اسلام سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ قرآن کریم پر ایمان ظاہر کرتے ہیں‘ درود پڑھتے اور سلام بھیجتے ہیں‘ لیکن باوجود اس کے رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر حملہ کرنے سے نہیں ڈرتے اور ایسے عقائد پھیلاتے ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارکذات کی سخت ہتک ہوتی ہے اور اس طرح عوام الناس کے دلوں سے آپ کی محبت کم کرتے ہیں- اس قسم کے لوگوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو آئے دن عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا وعظ کرتے پھرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چوتھے آسمان پر بہ جسد عنصری بیٹھے ہیں اور کسی زمانہ میں آسمان سے اتر کر لوگوں کو اپنا تابع بنائیں گے- آہ! یہ لوگ کبھی خیال نہیں کرتے کہ وہ رسول جس کے احسانوں تلے ان کا بال بال دبا ہوا ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے سب انسانوں سے افضل قرار دیا ہے اور جو اپنی قوت قدسیہ میں کیا ملائکہ اور کیا انسان سب پر فضیلت لے گیا ہے اس ذریعہ سے وہ اس کی ہتک کرتے ہیں اور ایک ایسے شخص کو جو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتا آپ کے وجود پر فضیلت دیتے ہیں-
یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی شخص نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے تکلیف نہیں اٹھائی- آپ مکہ میں تیرہ سال تک ایسی تکلیفات برداشت کرتے رہے ہیں کہ ایسی تکلیفات کا ایک سال تک برداشت کرنا بھی انسان کی کمر توڑ دیتا ہے اور آپ کے اتباع اور جاںنثار مرید بھی ناقابل برداشت ظلموں کا تختہ مشق بنے رہے ہیں- اس کے مقابل پر مسیح علیہالسلام اور ان کے حواریوں کی قربانیاں کیا ہستی رکھتی ہیں- وہ اپنی جگہ کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے مقابلہ میں کچھ بھی قیمت نہیں رکھتیں- اول تو حضرت مسیحؑ کا زمانہ تبلیغ ہی کل تین سال بتایا جاتا ہے- پھر اس قلیل زمانہ میں بھی سوائے دو چار گالیوں اور ہنسی مذاق کے اور کوئی تکلیف نہیں جو ان کے مخالفوں نے انہیں دی ہو- لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی وقت میں تین سال تک ایک تنگ وادی میں محصور رکھا گیا‘ کھانا پینا بند کیا گیا‘ آپ سے خرید فروخت کرنیوالوں پر ڈنڈ مقرر کیا گیا- غرض اس قدر دکھ دیئے گئے کہ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ ان تکالیف کی سختی کی وجہ سے بیمار ہو کر فوت ہو گئیں- کھانے کی تنگی کی وجہ سے آپ کے صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہوتے تھے جس کی وجہ سے بکری کی مینگنیوں کی طرح ہمیں پاخانہ آتا تھا- بیسیوں دفعہ آپ کی اور آپ کے اتباع کی جانوں پر حملے کئے گئے‘ پتھر مارے گئے‘ گلا گھونٹا گیا‘ غلاظتیں پھینکی گئیں‘ غرض کون سی تکلیف تھی جو آپ پر نہ آئی ہو‘ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہوتا رہا کہ فاصبر کما صبر اولوالعزم ۱~}~ جس طرح ہمارے پکے ارادے والے بندے صبر کرتے رہے ہیں اسی طرح تو بھی صبر سے کام لے اور استقلال کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر- لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود ان حالات سے واقف ہونے کے مسلمان کہلانے والے اور علم کا دعویٰ کرنے والے یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جب سولی پر لٹکانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے جھٹ کسی اور شخص کو ان کی شکل کا بنا کر یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑوا دیا- اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا- اگر یہ امر صحیح ہے تو کیا مسیحیوں کا حق نہیں کہ وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا راہنما تمہارے نبی سے افضل تھا کہ تمہارے نبی کو تو تیرہ سال تک مکہ میں اور پانچ سال تک مدینہ میں زبردست تکالیف کا سامنا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مصیبت میں پڑا رہنے دیا اور کوئی خاص مدد نہ کی لیکن ہمارے راہنما پر ایک ہی دفعہ لوگوں نے ہاتھ ڈالنا چاہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے چوتھے آسمان پر جا بٹھایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی تکلیف برداشت نہ کرنے دی-
اے اسلام کا درد رکھنے والو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے والو! کبھی آپ نے سوچا بھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اس طرح آسمان پر بٹھا کر آپ کے علماء نے اسلام پر کس طرح ظلم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر ہتک کی ہے؟
اسی طرح کیا کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ حضرت مسیح کے اس قدر لمبے عرصہ سے آسمان پر زندہ موجود ہونے کے عقیدہ سے ان علماء نے مسیحیت کو کس قدر طاقت بخشی ہے؟ کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر زندہ رکھا ہوا ہے وہ یقیناً اس شخص سے افضل ہونا چاہئے جسے ایک معمولی سی عمر دے کر اللہ تعالیٰ نے وفات دی اور پھر جبکہ ساتھ یہ بھی مانا جائے کہ وہ صرف آپ ہی زندہ نہیں بلکہ دوسرے مردوں کو بھی زندہ کیا کرتا تھا جیسا کہ مسلمانوں میں اس وقت عام عقیدہ ہے تو پھر اس امر میں کوئی بھی شبہ نہیں رہتا کہ نعوذ باللہ من ذلک حضرت مسیحؑ حضرت نبی کریم ~صل۲~ سے افضل تھے- مگر کیا خداتعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم اس عقیدہ کی تائید کرتی ہے؟ ہر گز نہیں- قرآن کریم اس عقیدہ کو دھکے دیتا ہے اور سرتا پا اس کی تردید کرتا ہے- وہ تو کھول کھول کر بتاتا ہے کہ رسولکریم ~صل۲~ سب نبیوں کے سردار ہیں اور سب نبیوں سے یہ عہد لیا جاتا رہا ہے کہ اگر آپ کا عہد پائیں تو آپ کی مدد کریں اور تائید کریں اور آپ پر ایمان لائیں-۲~}~ پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ سرداری کی خلعت تو نسبتا چھوٹے درجہ کے آدمی کو دے دی جائے اور سردار کو اس سے محروم کر دیا جائے-
اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اگر فی الواقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں اور مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کی جھوٹی قسم کھانی *** کا کام ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً سب نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں اور کوئی انسان اس زمین پر نہ پیدا ہوا ہے نہ ہوگا جو آپ کے درجہ کو پہنچ سکے باقی سب انسان آپ سے درجہ میں کم ہیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کا جو مقام آپ کو ملا ہے اور خدا تعالیٰ جو غیرت آپ کے لئے دکھاتا تھا وہ مقام کسی کو نہیں ملا اور وہ غیرت خدا تعالیٰ نے اور کسی کے لئے نہیں دکھائی- مسیح کیا تھا؟ وہ موسوی سلسلہ کے نبیوں میں سے ایک نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کو تو موسوی سلسلہ کے سب نبی مل کر بھی نہیں پہنچ سکتے- پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح علیہ السلام کو تو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کے لئے آسمان پر اٹھا لیتا اور رسول کریم کو چھوڑ ¶دیتا کہ لوگ ان پر پتھر برسا برسا کر زخمی اور لہولہان کریں اور سنگ باری کر کے آپ کے دندان مبارک توڑ دیں حتی کہ آپ بے ہوش ہو کر گر جائیں جیسا کہ احد کی جنگ کے موقع پر ہوا؟ بخدا ایسا نہیں ہو سکتا اگر خدا تعالیٰ نے کسی کو آسمان پر اٹھانا ہوتا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھاتا اور اگر اس نے کسی کو صدیوں تک زندہ رکھنا ہوتا تو وہ آپ کو زندہ رکھتا- پس نادان ہیں وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کو خدا تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اب تک زندہ موجود ہیں کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ہے بلکہ مسیحیت کو اس سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں ہتک ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ ظالم ہے کہ جو اعلیٰ سلوک کا مستحق تھا اس سے تو اس نے ادنیٰ سلوک کیا اور جو ادنیٰ سلوک کا مستحق تھا اس سے اس نے اعلیٰ سلوک کیا- اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ زمین پر بے بس تھا تبھی تو اس نے مسیح علیہ السلام کو بچانے کیلئے آسمان پر اٹھا لیا- حالانکہ اگر مسلمان غور کرتے تو یہ آسمان پر اٹھانے کا عقیدہ تو مسیحیوں نے اپنی نادانی سے گھڑا ہے کیونکہ محرف مبدل کتاب میں لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت ابھی زمین پر نہیں آئی- ۳~}~چنانچہ مسیحی لوگ اب تک دعائیں کیا کرتے ہیں- کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہو- لیکن اسلام تو اس عقیدہ کو کفر قرار دیتا ہے- وہ تو صاف الفاظ میں سکھاتا ہے کہ للہ ملکالسموت والارض ۴~}~آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی کے قبضہ میں ہے- پس اگر مسیحی یہ عقیدہ رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا تو وہ تو مجبور ہیں کیونکہ ان کے عقیدہ کی رو سے زمین پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت نہ تھی اس وجہ سے ان کے نزدیک وہ زمین پر مسیح کی حفاظت کرنے سے بے بس ہوگا- مگر مسلمانوں کو کیا ہوا کہ مسیحیوں کی نقل میں انہوں نے بھی خواہمخواہ مسیح علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا دیا حالانکہ ان کے خدا کی بادشاہت تو جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہے- اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ یہودیوں سے ڈر کر اپنے نبی کو آسمان پر اٹھا لیتا- وہ اسی زمین میں اس کی حفاظت کر سکتا تھا اور اس کے دشمنوں کو تباہ کر سکتا تھا-
غرض جس قدر بھی غور کیا جائے حضرت مسیح کو آسمان پر زندہ ماننے میں خدا تعالیٰ کی بھی اور رسول کریم کی بھی ہتک ہے اور مسیحیت نے اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا ہے اور لاکھوں مسلمان اس عقیدہ کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر مسیحی ہو گئے ہیں- پس اب بھی وقت ہے کہ مسلمان کچھ جانیں اور خلاف اسلام اور خلاف عقل عقیدہ کو چھوڑ کر توبہ کریں اور اپنے دوستوں کو بھی سمجھائیں ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا جرم معمولی جرم نہیں- انہیں سمجھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی جانیں خدا تعالیٰ کو سپرد کرنی ہیں نہ کہ مولویوں کو- پس پیشتر اس کے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے چاہئے کہ سب مسلمان ایک زبان ہو کر اس گندے اور ہتک رسول کرنے والے عقیدہ کو اپنے دل سے نکال دیں تا کہ مسیحیت کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور مسیح کو مرنے دیں کہ اس کے مرنے کے ساتھ ہی مسیحیت کی موت اور اسلام کی حیات ہے- کیا کوئی درد مند انسان ہے جو اپنے علاقہ میں مسیحؑ کو مار کر اسلام کو زندہ کرے- یقیناً جو ایمان کی وجہ سے نہ کہ نیچریت کی وجہ سے ایسا کرے گا خداتعالیٰ کی رحمت کو پا لے گا اور خداتعالیٰ اسے اپنی مرضی کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے گا- واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خاکسار- میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
اگر آپ اسلام کا درد اور اپنی قوم کی خیر خواہی مدنظر رکھتے ہیں تو ہر مسلمان کہلانے والے کی ہمدردی کرنا اپنا فرض سمجھیں- جہاں تک ہو سکے مسلمان تاجروں سے مال خریدیں اور اپنی اولادوں کے دل میں خیال پیدا کریں کہ مسلمان بہادر ہوتا ہے- وہ کسی قوم کے فرد یا مجموعہ سے نہیں ڈرتا- خاکسار مرزا محمود احمد
۱~}~
الاحقاف : ۳۶
۲~}~ ال عمران: ۸۲

۳~}~
متی باب ۶ آیت ۹‘۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۴~}~
الجاثیہ : ۲۸‘ التفح: ۱۵
‏ a12.6
انوار العلوم جلد ۱۲
تحریک آزادی کشمیر
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
برادران ریاست جموں و کشمیر کے نام
میرا آٹھواں خط
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
مجھے اپنے ساتویں خط کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ اس پر بعض دوستوں کو اعتراض ہے- چنانچہ اس بارہ میں ایک دو خط بھی مجھے جموں سے ملے ہیں اور ایک دوست جو گذشتہ جلسہ آلانڈیا کشمیر کمیٹی میں جموں کے نمائندوں میں سے شامل ہوئے تھے انہوں نے بھی ان غلط فہمیوں کا ذکر کیا تھا جو اہل جموں کے دلوں میں اس بارہ میں پیدا ہو رہی ہیں- وہ غلط فہمیاں یہ ہیں-
)۱(
گلینسی کمیشن نے اچھی رپورٹ نہیں لکھی اور بلاوجہ اس کی تعریف کر دی گئی ہے-
)۲(
بعض امور میں گلینسی رپورٹ نے پہلے سے بھی بدتر حالات پیدا کر دیئے ہیں-
)۳(
ارتداد کا مسئلہ نہایت اہم مسئلہ تھا- اس کو میں نے اپنے خط میں بالکل نظر انداز کر دیا ہے-
)۴(
وائسرائے اور مہاراجہ صاحب کی خوشنودی کو مسلمانوں کی خیر خواہی پر مقدم رکھا گیا ہے-
)۵(
جب تک وہی حالت نہ پیدا ہو جائے جو انگریزی ہندوستان کے باشندوں کی ہے اس جدوجہد کو نہیں چھوڑنا چاہئے-
)۶(
ان سفارشات پر عمل نہ ہوگا-
مجھے ان اعتراضات کو سن کر تعجب بھی ہوا اور حیرت بھی- انسان کا حافظہ کس قدر کمزور ہے ابھی چند ماہ ہوئے ان اعتراض کرنے والوں میں سے کئی اس سے بھی کم اختیارات کو بڑی کامیابی سمجھتے تھے- آج گلینسی رپورٹ ان کی نگاہوں میں حقیر نظر آتی ہے-
میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے گلینسی کمیشن کی رپورٹ کو کلی طور پر تسلیم نہیں کیا نہ ارتداد کے مسئلہ پر خاموشی کی ہے نہ جدوجہد بند کرنے کا مشورہ دیا ہے- میرے خط پر ایک نگاہ ڈالنے سے ثابت ہو سکتا ہے کہ میں گلینسی رپورٹ کو ناقص سمجھتا ہوں- ارتداد کے مسئلہ کو اہم اور آئندہ جدوجہد کو ضروری بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ خود مختار حکومتوں میں بھی آزادی کی جدوجہد کا جاری رہنا ضروری ہوتا ہے جس دن یہ جدوجہد بند ہو اسی دن سے غلامی کی روح قوم میں داخل ہونے لگتی ہے اور بظاہر آزاد نظر آنے والی قوم باطن میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے-
میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ ہے کہ گلینسی رپورٹ میں بہت سے امور مسلمانوں کے فائدہ کے ہیں- اگر مسلمان ان سے فائدہ اٹھائیں تو بہت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ کہ ارتداد کے مسئلہ کے متعلق اور دوسرے امور کے متعلق جو ناقص ہیں ہم جدوجہد جاری رکھیں گے- لیکن جو اچھا کام گلینسی کمیشن نے کیا ہے اس کے بارہ میں ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہئے- اور اس کے ذریعہ سے جو طاقت ہمیں حاصل ہوئی ہے اس سے کام لے کر ترقی کی نئی راہیں نکالنی چاہئیں- اور جدوجہد کو کامیاب بنانے کیلئے حالات کے مطابق اس کی صورت بدل دینی چاہئے- میں نے جو کچھ لکھا اس پر اب تک قائم ہوں اور میرے نزدیک کشمیر کے لوگوں کا اس میں فائدہ ہے- میں نے یہ کام لوگوں کی خوشنودی کیلئے نہیں کیا تھا کہ ان کے اعتراض سے ڈر جائوں میں نے بلا غرض یہ کام کیا ہے اور بلا غرض ہی اسے جاری رکھنا چاہتا ہوں- اگر میں لوگوں کے اعتراض سے ڈر کر اس بات کو چھوڑ دوں جو میرے نزدیک حق ہے تو میں یقیناً خود غرض ہوں گا اور میرا سب پہلا کام برباد ہو جائے گا-
وائسرائے صاحب کو خوش کرنا یا مہاراجہ صاحب کو خوش کرنا کوئی بری بات نہیں- میں مہاراجہ صاحب سے کبھی نہیں ملا اور نہ اس وقت تک خواہش ہے جب تک کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق دبائو سے نہیں بلکہ دلی رغبت سے غور کرنے کو تیار نہیں- سرہریکشنکول صاحب نے مجھے متواتر مہاراجہ صاحب سے ملنے کی دعوت دی لیکن میں نے نہیں مانا اور یہی اصرار کیا کہ مہاراجہ صاحب مسلمانوں کے حقوق کے متعلق میرے ساتھ گفتگو کرنا چاہیں تو میں مل سکتا ہوں ورنہ نہیں- یہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے ان کی خوشنودی کی اس حد تک مجھے ضرورت ہے جس حد تک ہر انسان کی کیونکہ میں سب انسانوں کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور کسی بھائی سے لڑنا پسند نہیں کرتا- باقی مجھے ان سے کوئی غرض نہیں کیونکہ خاندانی لحاظ سے میں ایک ایسے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ جس نے ایک ہزار سال تک دنیا کی تاریخ کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے اور وجاہت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر جان فدا کرنے والے لوگ میرے ماتحت ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی مہاراجہ صاحب کو حاصل نہیں- پس مہاراجہ صاحب تو کسی وقت میری مدد کے محتاج ہو سکتے ہیں میں ان کی امداد کا محتاج خدا تعالیٰ کے فضل سے نہیں اور نہ انشاء اللہ ہوں گا-
وائسرائے صاحب کی میں قدر کرتا ہوں وہ مجھ سے عمر میں زیادہ ہیں دوسرے وہ نہایت زیرک اور پھر خلیق ہیں تیسرے وہ ہمارے بادشاہ کے نائب ہیں اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جو خواہ اسے بدقسمتی کہہ لو اس امر کا قائل ہوں کہ برٹش امپائر دنیا میں اتحاد کے قیام کی بہت بڑی اہلیت رکھتی ہے اور حضور ملک معظم اس امپائر کی ایک ظاہری علامت ہیں- پس میں ان کے نمائندوں کا احترام نہایت ضروری سمجھتا ہوں اور خواہ ذاتی طور پر ان سے اختلاف ہو ان کے ادب و احترام کو ایک اخلاقی اور سیاسی فرض خیال کرتا ہوں لیکن مجھے ان کی خوشنودی کی بھی کوئی پروا نہیں- اگر میں اپنا فرض ادا کر دوں اور ان کا مناسب ادب کروں ان کے ساتھ جائز حد تک تعاون کروں اور اس کے باوجود بعض قومی کاموں کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہوں تو میں ایک ذرہ بھر بھی ان کی اس ناراضگی کی پرواہ نہیں کروں گا بلکہ ان پر رحم کروں گا کہ وہ اپنے ذاتی خیالات کو قومی مفاد پر قربان کرتے ہیں- مگر اس وقت تک مجھے اس کا تجربہ نہیں ہوا- کشمیر کے بارہ میں مجھے حکومت سے اختلاف ہوا بعض دیرنہ دوست ناراض ہیں لیکن مجھے اس کی پروا نہیں- میں جانتا ہوں وہ ایک دن شرمندہ ہوں گے اور میری اخلاقی برتری کو تسلیم کریں گے اور اگر زمانہ ان کے ناجائز رنج کو دور نہ کر سکے تو میں سمجھوں گا کہ وہ میرے احترام کے مستحق نہ تھے-
یہ تو حکومت کے متعلق ہے اب میں اہل کشمیر کو لیتا ہوں- میں اپنے ان بھائیوں سے بھی صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا ان سے تعلق اخلاقی ہے- جب تک وہ مظلوم ہیں میں اپنا پورا زور ان کی تائید میں خرچ کروں گا- لیکن اگر انہوں نے ایسی راہ اختیار کیا جو اخلاقاً درست نہ ہو گا تو میں اس وقت یقیناً اسی کی تائید کروں گا کہ جو حق پر ہوگا- اور انہیں غلطی سے روکوں گا- میں نے جو کچھ کام کیا ہے وہ ان کے لئے نہیں اپنے مولیٰ کیلئے کیا ہے- پس میرا ان پر احسان نہیں نہ میں ان سے کسی شکریہ کا طالب ہوں- ہاں میں انہی کے فائدہ کے لئے انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ انسان کو ہر اچھی چیز کی خوبی تسلیم کرنی چاہئے- گلینسی کمیشن کی رپورٹ یقیناً بہت سی خوبیاں رکھتی ہے اس میں یقیناً مسلمانوں کی ترقی کا بہت سا مادہ موجود ہے- اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے ہماری حالت پہلے سے بدتر ہو جائے گی‘ درست نہیں- اگر یہ درست ہے تو کیا یہ لوگ اس امر کا اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ اس کمیشن کی سفارشات کو واپس لے لیا جائے-
باقی رہا یہ وہم کہ گلینسی کمیشن کی اس لئے تعریف کی جاتی ہے کہ وہ انگریز ہیں تو یہ بالبداہت غلط ہے- اب جن صاحب پر ذمہ واری ہے وہ بھی انگریز ہیں یعنی مسٹر کالون اور ان کے کاموں کو ہم خوب غور سے دیکھ رہے ہیں- اور اگر ثابت ہوا کہ گلینسی کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے میں انہوں نے سستی کی ہے تو ہم یقیناً ان کا مقابلہ کریں گے- پس میں سب اہل کشمیر کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہموں کو چھوڑ کر عمل کی طرف توجہ کریں-
ایک ضروری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی کامیابی کو دیکھ کر ہندوئوں نے بھی ایجی ٹیشن شروع کیا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو جو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں وہ بھی انہیں حاصل رہیں- اگر اس موقع پر مسلمانوں نے غفلت سے کام لیا تو ہندو یقیناً اپنا مدعا حاصل کر لیں گے- پس اس وقت ضرورت ہے کہ مسٹر عبداللہ کی عدم موجودگی میں ایک انجمن مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت میں بنائی جائے اور وہ انجمن اپنی رائے سے حکومت کو اطلاع دیتی رہے- ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن کے اصول پر اگر ایک انجمن تیار ہو تو یقیناً اس کے ذریعہ سے بہت سا کام کیا جا سکتا ہے- یہ مت خیال کریں کہ بغیر اجازت کے انجمن نہیں بن سکتی- انجمنوں کی ممانعت کا کوئی قانون دنیا کی کوئی حکومت نہیں بنا سکتی- آخر ہندو انجمنیں بنا رہے ہیں- آپ کی انجمن خفیہ نہ ہوگی نہ باغیانہ- پھر حکومت اس بارہ میں کس طرح دخل دے گی- میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان فوراً اس طرف قدم اٹھائیں گے اور اس ضرورت کو پورا کریں گے- ورنہ سخت نقصان کا خطرہ ہے اور بعد میں پچھتائے کچھ نہ ہوگا-
ایک ضروری امر جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جب تک خود اہل کشمیر اپنے آپ کو منظم نہ کریں گے کچھ کام نہیں ہوگا- باہر کے لوگ کبھی کسی نظام کو سنبھال نہیں سکتے- پس ضرورت ہے ایسے والنٹیئروں کی جو اپنی خدمات کو قومی کاموں کے لئے وقف کرنے کیلئے تیار ہوں- ایسے لوگ اگر ایک ایک دو دو درجن بھی ہر شہر اور قصبہ میں مل جائیں تو ہندو ایجی ٹیشن کو بے اثر بنایا جا سکتا ہے-
مجھے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ حکومت مسٹر عبداللہ کی قید کو لمبا کرنے کی فکر میں ہے- اس میں کیا شک ہے کہ ہندو اس بارہ میں پورا زور لگائیں گے- لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں بعض حلقوں میں یہ سوال زیر غور ہے وہاں بعض حلقوں میں سیاسی قیدی چھوڑ کر اچھی فضاء پیدا کرنے کا خیال بھی پیدا ہو رہا ہے- اور کیا تعجب ہے کہ دوسری تحریک پہلی پر غالب آ جائے- پس ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم ہوشیاری سے سب حالات کو دیکھیں اور جس رنگ میں ہمارا فائدہ نظر آتا ہو اس کے مطابق کام کریں-
بعض لوگوں کو وزارت کے متعلق بھی شکایات ہیں- میں اس کے متعلق بھی آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کی اصلاح کے متعلق بھی ہم کوشش کر رہے ہیں- اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک ایک کام کرنے والی وزارت مقرر نہ ہوگی‘ ہم انشاء اللہ صبر نہیں کریں گے اور ایسے آثار ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس امر میں ہمیں کامیابی ہوگی-
میں نے گذشتہ خط میں لکھا تھا کہ میں کشمیر آنے کا ارادہ رکھتا ہوں- بعض دوستوں کو اس سے غلط فہمی ہوئی ہے- میں قریب زمانہ میں وہاں آنے کا ارادہ نہیں رکھتا- بلکہ میرا ارادہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہمارے قیدی بھائیوں کو آزاد کرے تو آئندہ تنظیم کے پروگرام پر مشورہ کرنے کے لئے وہاں آئوں تا کہ جو فوائد گذشتہ سیاسی جنگ میں ہم نے حاصل کئے ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے- اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی
۲۷-۵-۱۹۳۲ء
)پمفلٹ شائع شدہ- اللہہ بخش سٹیم پریس قادیان(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مسئلہ کشمیر >پیغام صلح< اور >الفضل<
گذشتہ ایام میں >پیغام صلح< میں ایک مضمون کسی صاحب زیرک شاہ صاحب کا شائع ہوا تھا- اس مضمون میں زیرک شاہ صاحب نے مولانا سید میرک شاہ صاحب پر اعتراض کیا ہے کہ وہ قادیان کیوں جاتے ہیں اور کیوں مجھ سے مل کر کشمیر کا کام کرتے ہیں؟ اگر کشمیر کی خدمت کرنی ہی مدنظر ہوتی تو احرار سے مل کر کام کرتے- مضمون نہایت نامناسب‘ زبان ناپسندیدہ اور مقصد نہایت غلط تھا- مولانا میرک شاہ صاحب نے اگر باوجود اختلاف عقیدہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے مجھ سے مل کر کام کیا تو وہ اس میں منفرد نہ تھے- اہل حدیث‘ شیعہ‘ حنفی‘ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے ممبر غرض ہر قسم کے لوگ اس امر میں آلانڈیا کشمیر کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں- اور یہ ایک نہایت اعلیٰ علامت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب مسلمان ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے ہیں کہ اپنے ذاتی اختلافات کو قربان کر کے اپنی ملی بہبود کو مقدم کرنے لگے ہیں- اس حالت پر جس قدر خوشی کا اظہار کیا جائے کم ہے-
میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو مجھے خطرہ ہوا کہ اس کو بنائے مخاصمت بنا کر ایک نیا فتنہ پیدا کر دیا جائے گا اس لئے میں نے درد صاحب سے کہا کہ وہ مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈیٹر لائٹ سے کہیں کہ یہ مضمون ناپسندیدہ تھا‘ وہ اس کا کچھ علاج کریں اور خود کوئی ایسا جواب نہ دیا جائے جو فتنہ کو لمبا کر کے ہماری کشمیر کے مسلمانوں کے متعلق گزشتہ محنت کو برباد کر دے- مجھے افسوس ہے کہ باوجود میری ہدایت کے >الفضل< میں ایک جواب اس مضمون کا شائع ہوا ہے جو درگزر کی روح اور عفو کا نمونہ پیش کرنے کی بجائے غصہ اور غضب کی روح کو ظاہر کرتا ہے- مزید افسوس یہ ہے کہ یہ مضمون ایڈیٹوریل ہے- ہم غصہ سے کینہ کو دور نہیں کر سکتے- محبت اور عفو کی روح ہی دلوں کی اصلاح کر سکتی ہے- میں اسے نہایت ناپسند کرتا ہوں کہ بیغیرتی یا غضب ہم پر غالب آ جائیں- مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار سمجھانے کے کہ بے غیرتی اور غصہ دو انتہائی مقام ہیں‘ ہمیں ان سے بچ کر غیرت اور عفو کے مقام پر جو وسطی مقام ہے‘ کھڑا ہونا چاہئے- ہماری جماعت کے بہت سے لوگ اس حکمت کو وقت پر بھول جاتے ہیں- کاش ہم اپنے نفس کو خدا اور انسانیت کے لئے قربان کرنے کا ملکہ پیدا کر سکیں کیونکہ یہی کنجی سب روحانی ترقی کی ہے-
میں اس مضمون پر گو یہ جواباً لکھا گیا ہے‘ اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا- اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد مولوی محمد یعقوب صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے جلسہ میں شامل ہوئے- ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب محض علالت کی وجہ سے )اللہ تعالیٰ انہیں شفا عطا فرمائے( شامل نہیں ہوئے- ورنہ وہ شروع سے سچی ہمدردی کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں- اور بغیر کسی ملامت کے خوف کے احرار کے بارہ میں مضمون لکھتے رہے ہیں- اس سے صاف ظاہر ہے کہ زیرک شاہ صاحب کا مضمون احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا پسند کردہ مضمون نہ تھا- اور ایک آدمی کی غلطی سب کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی- محض انجمن کے اخبار میں کسی مضمون کا شائع ہونا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ انجمن اس سے متفق ہے- اس قسم کے مضامین کا تسلسل اور بلا تردید تسلسل اس امر پر دلالت کر سکتا ہے لیکن ابھی تک یہ بات ثابت نہیں- پس اس قدر جلدی جواب میں جوش و غضب کا رویہ اختیار کرنا ہر گز مناسب نہ تھا- الفضل میں بھی کئی ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں کہ جو میرے منشاء کے خلاف ہوتے ہیں- ان کی ذمہ داری مجھ پر یا صدر انجمن احمدیہ پر نہیں ہو سکتی کیونکہ بسا اوقات مضمون نظر سے ہی نہیں گزرتا یا گزرے تو اس غلطی کو انفرادی یا معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے- گو میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ غلطی بہت اہم غلطی تھی اور چاہئے تھا کہ >پیغام صلح< کے ایڈیٹر اس سے اختلاف ظاہر کر دیتے کیونکہ اس مضمون سے خود ان کی ا نجمن کے ممبر جو کشمیر میں رہتے ہیں‘ ناراض ہوئے ہیں- لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا رویہ اس بارہ میں وہی ہونا چاہئے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں- ہمارا فرض مولانا میرک شاہ صاحب کی برائت تک ختم ہو جانا چاہئے تھا دوسرے پہلو کو خود احمدیہ انجمن اشاعت اسلام پر یا اس کے ممبروں پر چھوڑ دینا چاہئے تھا-
خاکسار- مرزا محمود احمد
)الفضل ۲۹ مئی ۱۹۳۲ء(
تحریک آزادی کشمیر کے تعلق میں مکتوب نمبر۶
مولوی جلال الدین صاحب- السلام علیکم-
گوہر الرحمن صاحب کا جرمانہ اب تک ادا نہیں ہوا اس وجہ سے ان کی قید بڑھ جانے کا اندیشہ ہے اس کی طرف فوری توجہ کریں- قاضی صاحب کی مراد دو سو ہے ایک سو گھر کے لئے اور ایک سو جرمانہ کی معلوم ہوتی ہے- اس حساب سے روپیہ ارسال کر دیا جائے-
مرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
۲۵-۶-۱۹۳۲ء
)تاریخ احمدیت جلد۶ ضمیمہ نمبر۲ صفحہ۵۹ مطبوعہ ۱۹۶۵ء(
مسلمانان ریاست کشمیر کے نام پیغام
آل کشمیر مسلم کانفرنس کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی مسلمانان ریاست کے نام ایک پیغام بھجوایا تھا جسے صدر کانفرنس جناب شیخ محمد عبداللہ صاحب ایم-ایس-سی شیر کشمیر نے اجلاس عام میں نمائندگان کانفرنس اور ہزارہا لوگوں کے مجمع میں پڑھ کر سنایا- پیغام حسب ذیل ہے-
>سب سے پہلے میں اپنی طرف سے‘ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے‘ آلکشمیر مسلم کانفرنس کے مندوبین کو ان قربانیوں پر جو انہوں نے اور ان کے اہل وطن نے کی ہیں اور اس کامیابی پر جو انہوں نے آزادی کی تازہ جدوجہد میں حاصل کی ہے- مبارکباد دیتا ہوں- مجھے اس بات کا فخر ہے کہ بحیثیت صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی مجھے ان کے ملک کی خدمت کرنے کی خوشی خاصل ہوئی ہے جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک خستہ حالت میں رہا ہے-
برادران! میں آپ کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ کانفرنس کی کارروائی میں سچی حب الوطنی کے جذبہ کے ماتحت جرات‘ میانہروی‘ رواداری‘ تشکر‘ دانائی اور تدبر کے ذریعہ آپ ایسے نتائج پر پہنچیں گے جو آپ کے ملک کی ترقی میں بہت ممد ہوں گے اور اسلام کی شان کو دوبالا کرنے والے ہوں گے-
برادران! میرا آپ کے لئے یہی پیغام ہے کہ جب تک انسان اپنی قوم کے مفاد کے لئے ذاتیات کو فنا نہ کر دے وہ کامیاب خدمت نہیں کر سکتا بلکہ نفاق اور انشقاق پیدا کرتا ہے- پس اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو نفسانی خیالات کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دو اور اپنے قلوب کو صاف کر کے قطعی فیصلہ کر دو کہ خالق ہدایت کے ماتحت آپ ہر چیز اپنے اس مقصد کے لئے قربان کر دیں گے جو آپ نے اپنے لئے مقرر کیا ہے-
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم یعنی مسلمانان ہندوستان آپ کے مقصد کے لئے جو کچھ ہماری طاقت میں ہے‘ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا کے فضل سے آپ ضرور کامیاب ہوں گے اور امیدوں سے بڑھ کر ہوں گے اور آپ کا ملک موجودہ مصیبت سے نکل کر پھر جنت نشان ہو جائے گا- اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو<-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱~}~
بک شاٹ: BUCKSHOT سیسے کا چھرا جو جانوروں خصوصاً ہرن کو شکار کرنے کیلئے استعمال کیا جائے- )قومی انگریزی اردو لغبت جلد۱ صفحہ۲۴۴‘ ۴۴۵ مطبوعہ دہلی ۱۹۹۴ء(
۲~}~
شرح مواھب اللدنیہ جلد۲ صفحہ۹۲۹۲ تا ۲۹۴ مطبوعہ الازھریہ المصریہ ۱۳۲۵ھ
۳~}~
اسلام آباد- وادی کشمیر میں سرینگر کے بعد دوسرا بڑا شہر جو سرینگر سے ۳۴ میل جنوب مشرق میں دریائے جہلم سے ایک میل دور واقع ہے- زمانہ قدیم میں اسے اننت ناگ کہتے تھے-
۴~}~
طبری الجزء الرابع صفحہ ۳۲۴‘ ۳۲۵ دارالفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء
۵~}~
ٹوڈی: خوشامدی- جی حضوری
۶~}~
>الاشققت عن قبلہ< مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۰۷ العکتب الاسلامی بیروت-
۷~}~
منچوریا: -Manchuria شمال مشرقی چین کا علاقہ
۸~}~
افسوں: جادو- منتر- حیلہ- مکر- فریب
۹~}~
بخاری کتاب الجھاد والسیر باب ان اللہ لیوید الذین بالرجل الفاجر-
۱۰~}~
الجامع الصغیر جلد۲ صفحہ۲۹ مطبوعہ ۱۳۲۱ھ
‏a12.7
انوار العلوم جلد ۱۲
سلسلہ احمدیہ کی تعلیم
سلسلہ احمدیہ کی تعلیم

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

‏jmc-nsk] gat[بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سلسلہ احمدیہ کی تعلیم
۱- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو اپنے دوبارہ آنے کی خبر دی تھی وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پوری ہو گئی ہے اور یہ کہ دنیا کا نیا دور اب اسی تعلیم پر مبنی ہوگا جو مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے-
۲- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق جس نجات دہندہ نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی آخری شریعت سکھانے کے لئے آنا تھا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بانی مذہب اسلام تھے- آپ کے وجود میں گذشتہ انبیاء کی سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں- آپ آخری شریعت لانے والے رسول تھے اور قرآن کریم آخری شریعت کی کتاب ہے آنحضرت صلعم کے بعد کوئی اور ایسا رسول نہ نیا نہ پرانا آ سکتا ہے جس نے آپ سے فیض حاصل نہ کیا ہو اور جس کا کام آپ کا کام نہ کہلا سکتا ہو کیونکہ دنیا کی ابدی استادی کا مقام صرف آپ کو ہی حاصل ہے اور کوئی شخص اس میں آپ کا شریک نہیں ہو سکتا اور اسی وجہ سے آپ نبیوں کی مہر کہلاتے ہیں-
۳- مذکورہ بالا عقیدہ کے ماتحت سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کا کام صرف قرآن کریم کی تشریح اور اس کے مطالب کا ہی بیان تھا ورنہ اس نے کوئی جدید تعلیم نہیں دینی تھی- بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا یہ کام تھا کہ وہ تورات کی تشریح کرتے-
)۴( سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے- اس نے دنیا کو اپنے ارادے اور اپنے حکم سے پیدا کیا ہے- وہ ازل سے ہے اور اس کے لئے فنا نہیں- وہ مالک ہے سب قدرتوں کا اور قادر ہے اپنی مشیت پر اور اس وجہ سے کسی بیوی یا بیٹے یا مددگار کا محتاج نہیں- واحد ہے‘ لاشریک ہے- بڑے سے بڑا انسان خواہ کوئی ہو‘ اس کا بندہ اور اس کا فرمانبردار ہے- انسان کے لئے اس کی پرستش کے سوا کسی کی پرستش جائز نہیں خواہ وہ موسیٰ‘ عیسیٰ‘ محمد علیہم السلام والصلوۃ جیسی ہستیاں ہی کیوں نہ ہوں- جیسا کہ حضرت مسیح ناصری علیہالسلام نے فرمایا ہے کہ سب حکموں میں اول یہ ہے کہ-:
>اے اسرائیل سن! وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خداوند ہے- اور تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر- اول حکم یہی ہے-< ۱~}~
سلسلہ احمدیہ کی بھی یہی تعلیم ہے کہ انسان کا دل اور اس کی جان کلی طور پر خدا کے لئے ہونے چاہئیں- بندوں کو خدائی کا مقام دینا درست نہیں ہے-
۵- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے اور جس طرح پہلے نشان دکھاتا تھا‘ اب بھی دکھاتا ہے- اور جس طرح پہلے اس کے فرشتے اس کے بندوں پر نازل ہوتے تھے‘ اب بھی اترتے ہیں- اور یہ کہ وہ مذہب جس کی بنیاد قصوں پر ہو مذہب نہیں ایک کہانی ہے اور وہ عقیدے جن کی بنیاد صرف روایت پر ہو عقیدے نہیں بلکہ توہمات ہیں- پس سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ساتھ تازہ نشان رکھتا ہو-
۶- سلسلہ احمدیہ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو پیدا کر کے بے دخل نہیں ہو گیا اور اب بھی سب کام اسی کے حکم اور اسی کے اشارہ سے چلتے ہیں- وہ قادر خدا ہے جس کا امر دنیا کے ہر فعل میں ہو رہا ہے- دنیا کا ایک ذرہ بھی اس کے اذن کے بغیر ہل نہیں سکتا- سائنس اور ہیئت کے قوانین کا ظہور صرف اس کے ازلی قانون کے ماتحت میں نہیں ہے بلکہ اب ہر اک نتیجہ جو اب بھی نکل رہا ہے‘ اس کے حکم سے اور اس کے ارادہ کے ماتحت نکلتا ہے- وہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور معجزانہ طاقتیں ان کے لئے ظاہر کرتا ہے اور جب وہ کسی بندے کی تائید میں ہو جاتا ہے تو دنیا کی حکومتیں اور طاقتیں اس کے حکم کے مقابلہ سے عاجز آ جاتی ہیں اور تمام ظاہری سامان بے کار اور سب مادی طاقتیں بے اثر ہو جاتی ہیں- دنیا کے لوگ بے شک اس امر پر ہنسیں لیکن ہم نے ہزاروں لاکھوں اس امر کے مشاہدات کئے ہیں اور کر رہے ہیں- اور خدا تعالیٰ کی اس قدرت نمائی کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ باوجود اس کے کہ دنیا کے سب مذاہب احمدیت کی مخالفت پر آمادہ ہیں اور دنیا کی سب طاقتیں اسلام کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں لیکن پر امن ذرائع سے اور معجزانہ حالات کے ماتحت سلسلہ احمدیہ دنیا میں پھیل جائے گا اور اس کے ذریعہ اسلام کو باقی سب ادیان پر علمی غلبہ حاصل ہوگا-
۷- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے- پس اسے کسی اور واسطہ کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس مقصد کے لئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ دوسروں کا احسان ہے کہ وہ ہمیں اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں- اور اگر ہم یہ تسلیم کریں تو ماننا پڑتا ہے کہ انسانی پیدائش کا کوئی اعلیٰ مقصد ہے ہی نہیں مگر دنیا کا ذرہ ذرہ اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے- پس حق یہی ہے کہ انسان قرب الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۲~}~میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں- یعنی میری صفات کو اپنے اندر پیدا کریں- بائبل نے بھی اس طرح ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے >تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بنا دیں-<۳~}~
۸- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ نجات کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لوگوں کا حق نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے فضل کے یکساں مستحق رہے ہیں اور اس وجہ سے یہ خیال کہ خدا تعالیٰ نے ہدایت کو صرف بنی اسرائیل میں یا عربوں میں یا ہندوستانیوں میں محصور کر دیا ایک لغو اور بیہودہ خیال ہے- سب انسان خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور جس طرح اس کا سورج سب کے لئے چڑھتا ہے‘ اسی طرح اس کی ہدایت بھی سب کے لئے ہے- ہاں خود انسانوں کے فائدہ کے لئے اس نے پہلے مختلف اقوام کی طرف الگ الگ انبیاء ارسال کئے اور آخر میں جب انسان خدا تعالیٰ کی سب باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو گیا تو اس نے وہ روح حق بھیجی جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس کی نسبت انجیل میں آتا ہے کہ
>میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی-<۴~}~
غرض سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ کے نبی گذرے ہیں اور اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسری قوموں کے گذشتہ بزرگوں کو بھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ وہ سب خدا کی طرف سے تھے اور اس وجہ سے ہمارے لئے واجب ادب ہیں- پس ہم لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے پیرو ہیں جس طرح حضرت نوع اور حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ‘ حضرت مسیح علیہم السلام کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی طرح کرشن جی اور رامچندر جی اور گوتم بدھ اور زرتشت اور کنفوشس علیہم السلام کو بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں-
۹- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں کیونکہ کسی کی کمزوری سے ہماری بڑائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کر سکتی ہے- پس دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنا ہماری جماعت کا طریق نہیں- ہاں جوابی طور پر جب ہم کو یہ معلوم ہو کہ ایک قوم برابر بد گوئی میں بڑھتی جاتی ہے تو دفاع کے طور پر ہمیں الزامی جوابوں کے دینے کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ تعلیم دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے اور قوموں میں صلح کرانے کے لئے نہایت ممد ہے- اور اس کا دوسرا پہلو کہ اگر کوئی قوم شرارت سے باز نہ آئے تو اس کے مقابل میں الزامی جواب دینا درست ہے درحقیقت پہلے پہلو کو مکمل کرتا ہے کیونکہ بعض انسان اس قدر خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں کہ ان کے انسانی احساسات کو اکسانے کے لئے ایک ٹھیس کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کہ کبھی جسم انسانی کی حفاظت کے لئے ڈاکٹر کے نشتر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طریق قابل اعتراض نہیں بلکہ بگڑی ہوئی قوم کی خیر خواہی میں داخل ہے- چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی باوجود اس کے کہ آپ کی طبیعت نہایت حلیم تھی- کبھی کبھی یہ طریق اختیار کرنا پڑا کہ
>تم اپنے باپ شیطان سے ہو اور چاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہش کے موافق کرو-<۵~}~
غرض اس قسم کی استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر جب خود دوسری قوم کی اصلاح کے لئے الزامی جواب دینا پڑے سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرو دوسرے مذاہب پر حملے نہ کرو تا کہ دنیا میں صلح اور آشتی قائم ہو اور لوگ اپنے رب کی طرف توجہ کرنے کا موقع پائیں-
۱۰- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ شریعت بطور سزا کے نہیں نازل ہوئی کیونکہ شریعت نام ہے ان احکام کا جو انسان کی روحانی تمدنی اور اخلاقی ترقی کا موجب ہوتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اس کی ترقی کا بھی باعث ہوتے ہیں اور کسی کو وہ راہ بتانا جس پر چل کر وہ کامیاب ہو سکے کسی صورت میں بھی چٹی نہیں کہلا سکتا- ہم جب ایک بھولے ہوئے کو راہ دکھاتے ہیں تو وہ ہمارا ممنون ہوتا ہے یہ نہیں کہا کرتا کہ تم نے مجھ پر بوجھ لاد دیا ہے- ایک جہاز کا کپتان جسے سمندروں کا چارٹ مل جاتا ہے شکوہ نہیں کرتا بلکہ شکریہ ادا کرتا ہے- شریعت بھی درحقیقت انسانی سفر کے لئے ایک چارٹ ہے جس سے اسے راستہ کی مشکلات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور آسانی سے سفر طے کرنے کے طریق بتائے جاتے ہیں- وہ ایک گائیڈ ہے جو ہر منزل پر اس کے کام آتا ہے نہ کہ چٹی اور سزا- پس اس کی ضرورت ہر وقت انسان کو تھی اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے اسے بطور سزا نہیں نازل کیا بلکہ بطور احسان نازل کیا ہے- اور اس سے زیادہ بدبختی کا دن انسان کے لئے نہیں آ سکتا جس دن کہ وہ اس راہنما سے محروم ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اپنے بندوں کو جو ابدی زندگی کے لئے سرگردان ہیں اس ضروری امداد سے محروم کر کے ہمیشہ کے لئے تاریکی اور ظلمت میں بھٹکتا رہنے دے-
۱۱- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ کھلا رہے اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی اور ہستی حائل نہ ہو- اسی طرح ہر انسان اپنی نجات کیلئے اپنی ہی جدوجہد کا محتاج ہے کوئی دوسرا شخص اس کی نجات کے معاملہ میں سوائے راہنمائی اور ہدایت کے اور کسی کام نہیں آ سکتا- ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنے لئے نجات کا راستہ خود تیار کرے- جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے نہایت خوبصورت الفاظ میں فرمایا ہے-
>اگر کوئی چاہے کہ میرے پیچھے آوے تو اپنا انکار کرے اور اپنی صلیب اٹھا کے میری پیروی کرے-< ۷~}~
اور حق بھی یہی ہے کہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے- اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان کا ایمان اور اس کی وہ جدوجہد ہی کھینچ سکتی ہے جو وہ خدا سا بننے کیلئے کرتا ہے کیونکہ تب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ مجھ سے ملنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنے بندے کو اٹھا لیتا ہے- جس طرح روتے ہوئے بچے کو ماں اٹھاتی ہے وہ اپنے بچے کو اٹھانے کے لئے کسی کی سفارش کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑی سفارش اس کے بچے کی صحیح خواہش یا اس کی چیخ ہی ہوتی ہے-
۱۲- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ا نسان اپنے اعمال میں نہ تو کلی طور پر آزاد ہے اور نہ کلی طور پر مجبور- بلکہ وہ اس حد تک مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور اس حد تک آزاد ہے کہ اپنے اعمال کی جزاء سزا کا مستحق ہے- خدا تعالیٰ کسی کو بد اور کسی کو نیک نہیں قرار دیتا- بلکہ وہ اعمال کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے ہدایت کرتا اور اعمال کے نتائج پیدا کرتا ہے- پس دنیا میں ہر واقعہ جو تقدیر کے ماتحت نظر آتا ہے درحقیقت کسی اختیاری فعل کے نتیجہ میں ہے اور ہر واقعہ جس میں انسان کلی طور پر مختار نظر آتا ہے وہ درحقیقت قانون قدرت‘ انسان کے پہلے اعمال اور اس کے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے- اسی وجہ سے ابتدائے دنیا سے مختلف مذاہب اور مختلف فلسفی اس امر پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ آیا انسان مجبور ہے یا مختار- اور تقدیر کے سوال نے انسان کو حیران کئے رکھا ہے- لیکن اگر لوگ اسلام کی تعلیم کو مدنظر رکھتے تو یہ جھگڑے پیدا ہی نہ ہوتے- اور اگر ہوتے تو بہت جلد ختم ہو جاتے- اس میں کیا شک ہے کہ انسان اپنے اعمال پر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالے تو اس نتیجہ تک پہنچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے افعال میں تقدیر و اختیار کے قانون ایک ہی وقت میں جاری ہیں-
بظاہر یہ مسئلہ ایک علمی مسئلہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت بہت اہم اور عملی مسئلہ اور دنیا کی روحانی اور تمدنی ترقی کا اس پر بہت کچھ مدار ہے اور یہ مسئلہ خدا تعالیٰ کے وجود پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ انسانی اختیار اور اس کی مجبوریاں ایسی ملی ہوئی ہیں کہ سوائے ایک ایسی ہستی کے جو ذرہ ذرہ کا علم رکھتی ہو کوئی اور ہستی انسانی جدوجہد کی قیمت مقرر نہیں کر سکتی اور اسے حقیقی جزاء اور سزا نہیں دے سکتی کیونکہ جب تک ہر انسان کے اختیار اور اس کی مجبوری کا صحیح اندازہ نہ لگایا جائے‘ اس کی نیکی یا اس کی بدی کا بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا- ہزاروں ہیں جو بظاہر نیک نظر آتے ہیں لیکن ان کی نیکی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اندر بدی کی قابلیت نہیں- لیکن ہزاروں ہیں جو بظاہر بدنظر آتے ہیں لیکن وہ نیک ہیں کیونکہ ان کے لئے بدی کے بہت سے محرکات ہیں اور بہت سی مجبوریاں بھی ہیں لیکن وہ اپنے نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ کامیاب ا ور بعض دفعہ مغلوب ہو جاتے ہیں- پس ماننا پڑتا ہے کہ اگر انسانی اعمال نے منافقت کی چادر سے نکل کر کبھی اپنی صحیح شکل میں ظاہر ہونا ہے تو ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے جو ظاہر و پوشیدہ کو اور ماضی و حال اور مستقبل کو یکساں طور پر جانتی ہو تا کہ انسانوں کے متعلق عدل و انصاف سے فیصلہ کیا جائے-
۱۳- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اخلاق کا سوال حل نہیں ہو سکتا جب تک انسانی پیدائش کے سوال کو مدنظر نہ رکھا جائے- علم الاخلاق کی تمام بحثیں آخر ایک چکر میں تبدیل ہو جاتی ہیں جو ہمیں کسی خاص فیصلہ تک نہیں پہنچاتا- لیکن اگر ہم انسان کی فطرت پر غور کریں تو لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو برا سمجھتی ہے- پس اچھے اور برے کا سوال تو ایک طبعی تقاضا ہے لیکن یہ کہ فلاں چیز بری ہے یا اچھی ہے مختلف فیہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ مذاہب کا اثر ہے- پس اچھے اور برے اخلاق کا فیصلہ انسانوں کے میلانوں پر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مختلف ہیں ان کا فیصلہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات سے مقابلہ کر کے کیا جا سکتا ہے- انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا ہے- یعنی وہ طاقتیں اسے دی ہیں کہ الہی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکے اور اخلاق حسنہ انہی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے کا نام ہے اور اخلاق سیئہ انہی سے دوری کا- ہر ایک جو اپنی طاقتوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں وہ اخلاق حسنہ پر عامل ہے اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ اخلاق سیئہ پر- پس انسان کے اندر جس قدر طاقتیں ہیں سب ہی اچھے مصرف کے لئے ہیں جس طرح خدا تعالیٰ میں کوئی عیب نہیں‘ انسان میں بھی کوئی عیب نہیں بلکہ اس کی سب طاقتیں ضروری ہیں- ہاں ان کے استعمال کی درستی یا غلطی سے وہ اچھا یا برا ہو جاتا ہے- پس اگر ہم نیک ہونا چاہتے ہیں تو ہمارا یہ فرض نہیں کہ اپنی طاقتوں کو دبائیں اور مار دیں بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں خدا تعالیٰ کی صفات کی طرح موقع اور محل پر استعمال کریں-
اس عقیدہ سے وہ جنگ جو قدیم سے دین اور دنیا میں چلی آئی ہے ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس عقیدہ کے ماتحت مادی طاقتیں روحانی طاقتوں کے مخالف نہیں قرار پاتیں بلکہ روحانی طاقتوں کے پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہوئے انسان دین کا بھی کام کر سکتا ہے اور کرتا جاتا ہے-
۱۴- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ اوپر کے عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد اصلاح پر ہونی چاہئے نہ کہ کسی غیر لچکدار فلسفی اصل پر- کیونکہ انسان کے اعمال درحقیقت تبدیل ہونے والی شئے ہیں- اور مختلف حالتوں میں ان کی قیمت مختلف ہوتی ہے- ایک وقت میں ایک کام برا اور دوسرے وقت میں وہی اچھا ہو سکتا ہے- ہم ایک تندرست کو جو غذا دے سکتے ہیں بیمار کو نہیں دے سکتے- کیونکہ کسی نے اپنے اخلاق کو کسی طرح ڈھالا ہے اور کسی نے کسی طرح- پس اگر ہم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے موقع اور محل کے مطابق ہمارے اعمال ظاہر ہوں اور ہماری اصل غرض اصلاح ہو اور اگر کوئی شخص پیار سے ماننے والا ہو تو ہم اسے باوجود ناراضگی کے اور غصہ میں آ جانے کے پیار سے سمجھائیں اور اگر کوئی شخص سزا سے ماننے والا ہو تو ہم اسے اس کے جرم اور اس کی طبیعت کی سختی کے مطابق سزا دے کر اسے سمجھائیں- کیونکہ اصل غرض اصلاح ہے جو مریض کی حالت کے مطابق ہی ہو سکتی ہے- اگر اس کی حالت کو نظر انداز کر دیں تو اصلاح ناممکن ہے-
۱۵- سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جس قدر صفات پیدا کی ہیں‘ ضروری ہیں- اور ان صفات کے سرچشمے یعنی عقل اور جذبات کا ہر کام میں لحاظ رکھنا ضروری ہے- اور ان صفات کے سرچشمے یعنی عقل اور جذبات کا ہر کام میں لحاظ رکھنا ضروری ہے- تمام تمدنی اور سیاسی خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں کہ باہمی معاملات میں یا عقل کو ترک کر دیا جاتا ہے یا جذبات کو- یا ان کی صحیح نسبت قائم نہیں رکھی جاتی- عورت و مرد کے تعلقات کو عام طور پر جذبات پر مبنی رکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے حالانکہ کوئی عورت و مرد دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے- وہ دنیا کا ایک حصہ ہیں اور انہیں اپنے حصہ ہونے کی حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے- پس جہاں ان کے تعلقات کی بنیاد جذبات پر ہونی ضروری ہے وہاں اس کے ساتھ ہی اس کی بنیاد عقل پر بھی ہونی ضروری ہے- میاں بیوی کے حقوق‘ طلاق‘ کثرت ازدواج‘ بچوں کی تربیت اور ان پر ماں باپ کے تصرف کی حد بندی‘ ورثہ اس میں مختلف رشتہ داروں کے حقوق کی تعیین‘ یہ سب ایسے امور ہیں جن میں اس قانون کو ملحوظ رکھ کر ایک ایسا درمیانہ طریق اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے نہ جذبات کو ٹھیس لگے اور نہ عقل کو جواب دیا جا سکتا ہے اور اسلام نے ایسا ہی کیا ہے- گو جذبات کے طوفان کے وقت اس تعلیم کو قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے لیکن سکون کی ساعتوں میں دنیا اس طریق کی برتری کو قبول کرنے پر مجبور ہوتی رہی ہے-
۱۶- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ عورت و مرد مشرقی اور مغربی سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہیں سب کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب اور ابدی زندگی کے دروازے کھلے ہیں- پس ان کے تعلقات کی بنیاد ایسے اصول پر ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا موجب نہ ہوں اور ہر اک کے لئے ترقی کے دروازے کھلے رہیں اور کوئی کسی پر ناجائز حکومت نہ کرے-
۱۷- سلسلہ احمدیہ کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان کی جزاء کی اصل بنیاد اعمال پر نہیں بلکہ اس کی قلبی حالت پر ہے- اس وجہ سے دنیا میں نیکی کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ دل کی پاکیزگی پر زور دیا جائے کیونکہ جب تک خیالات میں نیکی نہ ہو‘ حقیقی نیکی حاصل نہیں ہو سکتی- اور خیالات چونکہ جبر اور زور سے تبدیل نہیں ہو سکتے بلکہ دلیل اور مشاہدہ اور نمونہ سے تبدیل ہوتے ہیں‘ اس لئے سلسلہ احمدیہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ مذہب کے لئے جنگ یا جبر بالکل جائز نہیں- چونکہ جبر سے صرف ظاہر تبدیل ہو سکتا ہے اور جس کا ظاہر و باطن ایک نہ ہو‘ وہ منافق ہے- پس جو شخص مذہب میں جبر سے کام لیتا ہے‘ وہ منافقت پھیلانے کا موجب ہے اور بجائے نیکی کی اشاعت کے بدی کی اشاعت کا مرتکب ہے اور اپنے عمل سے اپنے مقصد کو نقصان پہنچاتا ہے- اس عقیدہ کے ماتحت ہماری جماعت نے ہر ملک میں مذہب کے بارہ میں جبر کی مخالفت کی ہے اور ہمارے بعض آدمیوں نے اس پاک تعلیم کی حفاظت میں جو نیکی کے قائم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں- اور گو جبر کے مویدین نے انہیں سنگسار کر کے نہایت تکلیف اور ایذاء سے قتل کیا مگر وہ آخر دم تک اپنے عقیدہ پر قائم رہے-
۱۸- سلسلہ احمدیہ کی سیاسیات کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ حکومت اور رعایا کے تعلقات کی بنیاد قانون کے احترام اور پرامن جدوجہد پر ہونی چاہئے اور فساد سے دونوں کو پرہیز کرنا چاہئے- اور حکومت اور رعایا دونوں کا فرض ہے کہ قانون کی جب تک وہ بدلے نہیں پیروی کریں اور اگر غلط قانون ہے تو جائز ذرائع سے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے- اس تعلیم کے ماتحت ہماری جماعت جس جس حکومت کے ماتحت بستی ہے‘ ہمیشہ فتنہ کی راہوں سے الگ رہتی ہے- اور چونکہ اکثر حصہ جماعت احمدیہ کا انگریزی حکومت کے ماتحت ہے‘ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ جماعت انگریزوں کی جاسوس ہے لیکن آپ سے بہتر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ امر غلط ہے- ہم نے ہمیشہ دلیری سے ہندوستانیوں کے حقوق کا مطالبہ کیا ہے- ہمیں دوسرے محبان وطن سے صرف اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ عارضی فائدہ کے لئے اپنی قوم کے کیرکٹر کو شورش پیدا کر کے اور قانون کا احترام دل سے نکال کر خراب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ مادی فائدہ سے بہرحال اخلاقی فائدہ مقدم ہے- اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جب تک ہم کسی ملک میں رہیں‘ اس کے قانون کی پابندی کریں لیکن جب ہم سمجھیں کہ کوئی حکومت ظلم میں حد سے بڑھ رہی ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ کر اس کا مقابلہ کریں اور اگر وہ حکومت نکلنے بھی نہ دے تو پھر ہمیں اجازت ہے کہ اسی کے ملک میں رہتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں اس صورت میں قانون توڑنے کی وہ ذمہ دار ہے‘ ہم نہیں-
ہم جس ملک میں رہتے ہیں‘ اس تعلیمی پر عمل کرتے ہیں اور یقیناً یہی تعلیم ہے جس سے اخلاق اور مذہب کو قائم رکھتے ہوئے انسان آزادی کو حاصل کر سکتا ہے-
۱۹- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حکومت کے قیام کی غرض ملک کا فائدہ ہے اور ان کاموں کو بجا لانا ہے جنہیں افراد الگ الگ پورا نہیں کر سکتے- پس اسلامی تعلیم کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر فرد رعایا کے کھانے‘ لباس‘ مکان اور کام کا انتظام کرے- ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت اب تک اس فرض سے بالکل غافل رہی ہے- لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر افراد ملک کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ ملے اور پہننے کو کپڑا اور سر چھپانے کو مکان نہ ملے تو پھر کسی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے- اسلامی قانون کے رو سے حکومت ایک نکمے آدمی کو کام پر مجبور کر سکتی ہے لیکن اس کا فرض ہے کہ اول تو کام دے کر اس کے گزارہ کی صورت پیدا کرے اور اگر کام نہیں دے سکتی تو پھر خزانہ شاہی سے اس کی اقل ترین ضروریات کو پورا کرے- اور جب تک حکومتیں اس اصول پر نہ چلائی جائیں گی یقیناً لیبر اور کیپٹل اور امپریلزم اور سوشلزم اور بولشوزم کے جھگڑے کبھی ختم نہ ہونگے- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کبھی کوئی حکومت اپنے ملک سے باہر جا کر استبدادی حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ اس پر اپنے ملک کا بار ہی اس قدر ہوگا کہ وہ دوسرے ملک کے بوجھ کو برداشت ہی نہیں کر سکے گی- سوائے اس کے کہ دوسرے ملک سے اس کے تعلقات کی بنیاد تعاون اور دوستی پر ہو-
۲۰- سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ نے تمام بنینوع انسان کے لئے بحیثیت مجموعی پیدا کیا ہے اور جس طرح کوئی شخص کسی کی زمین میں ہل چلا کر بوجہ ہل چلانے کے اس کی پیداوار کا واحد مالک نہیں ہو سکتا‘ اسی طرح قدرت کے پیدا کردہ سامانوں سے کام لے کر کوئی شخص اس کے ثمرات کا واحد مالک نہیں ہو سکتا- اور چونکہ جس قدر دولت کمائی جاتی ہے‘ خواہ زراعت سے ہو‘ خواہ تجارت سے‘ خواہ صنعت و حرفت سے‘ اس کے کمانے میں اس ذخیرہ کو کام میں لایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی مجموعی بہتری کے لئے دنیا میں پیدا کیا ہے- اس لئے شریعت نے ہر سرمایہ دار پر اس رقم کو چھوڑ کر جو وہ خرچ کر لیتا ہے‘ ایک رائلٹی مقرر کی ہے اور حکومت کا فرض مقرر کیا ہے کہ اس رقم کو لیکر دوسرے مستحقوں پر خرچ کرے- اس اصل کے ذریعہ سے ایک طرف تو اسلام نے مختلف کاموں کے ساتھ افراد کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا ہے اور یہی ذریعہ فردی ترقی اور قومی ترقی کے توازن کو قائم رکھنے کا ہے-
۲۱- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ تمام ایسے سمجھوتے یا کام یا احکام جو بنی نوع انسان کے کسی فرد کی جائز ترقی کے راستہ میں روک ہوں درست نہیں- اسی وجہ سے شریعت اسلام نے باپ کی جائیداد کو اولاد اور دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم کرنے پر زور دیا ہے تا کہ چند خاندانوں کے ہاتھ میں زمین نہ رہے اور کوئی خاندان اسی وقت تک زمین کا مالک رہے جب تک کہ وہ اپنی ذاتی لیاقت کے ساتھ اس کا مالک رہ سکتا ہے- اسی طرح سود کو روک دیا ہے تا چند ذہین لوگ مل کر تجارت اور صنعت و حرفت کو اپنے ہاتھ میں نہ کر لیں اور ہر اک شخص جسے خدا تعالیٰ نے خاص علم اور فہم دیا ہے‘ مجبور ہو کر دوسروں کا روپیہ شامل کر کے انہیں بھی حصہ دار بنائے اور دولت صرف چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو جائے- اسی طرح زکٰوۃ مقرر کر کے ایسے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ کھولا ہے جن کے پاس علم اور قابلیت تو ہے لیکن روپیہ نہیں-
اسی اصل کے ماتحت احمدیت نسلی بادشاہتوں کی مخالف ہے کیونکہ اس طرح ایک خاندان محض وراثت کی بناء پر نہ کہ لیاقت کی بناء پر دوسرے لوگوں کی ترقی کے راستہ میں روک بنتا ہے- اسی طرح وہ قومی برتری اور امتیاز کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس طرح بھی بعض عہدوں‘ تجارتوں یا کاموں کے دروازے بعض خاص افراد کے لئے کھلے ہوتے ہیں اور دوسروں کے لئے بند اور یہ ہر گز درست نہیں کہ جو کام خدا تعالیٰ نے سب کے لئے کھلے رکھے ہیں انہیں بعض کے لئے مخصوص کر دیا جائے-
۲۲- سلسلہ احمدیہ کی یہ بھی تعلیم ہے کہ موت انسانی زندگی کو ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ ایک لمبے سلسلہ حیات کی ایک تبدیلی کا نام ہے- ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے- ہم میں سے ہر ایک جو مرتا ہے‘ ایک نئی دنیا میں اور نئی قوتوں سے اپنے اس کام کو جسے اس نے اس دنیا میں شروع کیا تھا جاری رکھتا ہے- اگر وہ برے راستہ پر چلا تھا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی حالتوں میں سے گزارے گا جس سے اس کی حالت کی اصلاح ہو جائے اور وہ اپنی روحانی بیماریوں سے شفا پا کر خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکے اور اس کا دیدار اسے نصیب ہو سکے- اور اسی زمانہ علاج کا نام دوزخ ہے جس میں انسان صرف ایک عارضی زمانہ کے لئے جو روحانی بیماریوں کی نوعیت کی وجہ سے گو بہت لمبا ہو گا مگر پھر ختم ہو جانے والا ہوگا‘ داخل ہوگا- آخر سب انسان اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا لیں گے اور کوئی انسان بھی خواہ کس قدر گنہگار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ کسی مذہب کا کیوں نہ ہو‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں رہے گا کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر شیطان کی فتح سمجھی جائے گی جس نے ان بندوں میں سے بعض کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے لئے پیدا کیا تھا‘ گمراہ کر دیا- پس ضرور ہے کہ سب انسان آخر نجات پا جائیں اور جنت میں جائیں جو اس مقام کا نام ہے جس میں انسان نئی روحانی طاقتیں پا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو بدرجہ اتم اپنے وجود میں پیدا کرنا شروع کرے گا- اور نہ ختم ہونے والی ترقیات کے حصول کی ابدی کوششوں میں مشغول ہوگا تا کہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر معلوم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں جن کی انتہا کو انسان غیر محدود کوشش سے بھی نہیں پہنچ سکتا- اور ہر منزل کے بعد ایک اور منزل ظاہر ہو جاتی ہے جسے طے کرنا اس کے لئے ابھی باقی ہوتا ہے-
)ریویو آف ریلیجنز جولائی ۱۹۳۱ء(
۱~}~
مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹‘ ۳۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء
۲~}~
الذریت:۵۷
۳~}~
پیدائش باب۱ آیت ۲۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴~}~
یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ تا ۱۵ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵~}~
یوحنا باب ۸ آیت ۴۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۶~}~
متی باب ۱۶ آیت ۲۴ پیدائش باب۱ آیت ۲۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
‏a12.8
انوار العلوم جلد ۱۲
حریت انسانی کا قائم کرنے والا رسول ~صل۲~
حریت انسانی کا قائم کرنے والا رسول ~صل۲~

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
حریت انسانی کا قائم کرنے والا رسول ~صل۲~
رقم فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی
غلامی کا سوال ایسا پیچیدہ سوال ہے کہ بہت ہی کم لوگوں نے اس کو سمجھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے- بلکہ افسوس ہے کہ اکثر لوگوں نے اس سوال کی پیچیدگی کو بھی محسوس نہیں کیا اور بغیر غور اور فکر کے اس کے متعلق رائے قائم کرنی شروع کر دی ہے- غلامی نہ ہر زمانہ اور ہر ماحول میں بری قرار دی جا سکتی ہے اور نہ اسے کوئی شخص ایک جنبش قلم سے روک سکتا ہے- جو شخص بھی نیچر کا یا ماضی کے ایک لمبے سلسلے کے پیدا کئے ہوئے ماحول کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے‘ بغیر اس کے کہ اصولی طور پر اس کی تمام جزئیات کا علاج کرے ‘ وہ یقیناً اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی کی بنیاد رکھتا ہے-اور عارضی طور پر اگر وہ دنیا کی نگاہوں میں مقبول بھی ہو جائے تو ہو جائے لیکن ضرور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس کا حسن بدصورتی اور اس کی کامیابی ناکامی نظر آنے لگے گی-
انسانی تمدن کے مدارج کا ایک درجہ
اگر ہم غلامی کے سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اس بات کو نظر انداز کر دیں کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے اور ناموں پر فدا ہونے والے لوگ جو حقیقت پر غور کرنے کے عادی نہیں ہم پر کیا فتویٰ لگائیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ غلامی درحقیقت انسانی تمدن کے مدراج کے وسیع سلسلے میں سے ایک درجہ ہے اور اسے کلی طور پر دنیا سے مٹایا نہیں جا سکتا-
غلامی کا مفہوم
غلامی کا کیا مفہوم ہے؟ یہی کہ ایک شخص دوسرے کی مرضی کے پورے طور پر تابع ہو جاتا ہے یا تابع کر دیا جاتا ہے- اب اگر ایک شخص کا دوسرے کی مرضی کے تابع ہو جانا ایک برا فعل ہے تو جس طرح کلی طور پر تابع ہونا برا فعل ہے اسی طرح جزئی طور پر تابع ہونا بھی برا فعل ہو گا-
جزئی غلامی
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا سب کارخانہ اس جزئی غلامی پر قائم ہے- بچہ جس وقت سکول میں جاتا ہے‘ سکول کے نظام کے ماتحت ہوتا ہے- اس نظام کے قائم کرنے میں اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی‘ اس کے اوقات کے متعلق اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی‘ اس کے استادوں کے انتخاب میں اس سے کوئی رائے نہیں لی جاتی‘ اگر وہ اس نظام کو توڑتا ہے تو اسے بدنی سزا تک بھی دی جاتی ہے- اب اس بچہ میں اور ایک غلام میں کیا فرق ہے- یہی نہ کہ غلام چوبیس گھنٹے کا غلام ہوتا ہے اور یہ صرف پانچ چھ گھنٹے کے لئے غلام بنتا ہے- اور یا یہ فرق ہے کہ غلام کی خدمات کا نفع دوسرا شخص اٹھاتا ہے اور اس طالب علم کی خدمت کا نفع خود اسی کو پہنچتا ہے- مگر جبر اور نظام کی اندھا دھند پابندی جو غلامی کے مفہوم کا جزو اعلیٰ ہے‘ وہ یہاں بھی موجود ہے-
غلامی کی تمام صورتیں بری نہیں
پس ہم اس نظارہ کو دیکھ کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سارے وقت کی غلامی اور وہ غلامی جو دوسرے کے فائدہ کیلئے ہو بری ہے لیکن وہ غلامی جو عارضی ہو اور اس کا فائدہ خود ہم کو پہنچتا ہو‘ وہ بری نہیں- لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ غلامی اپنی ذات میں تمام صورتوں میں بری ہے-
بچہ کی غلامی
لیکن طالب علم سے بھی بڑھ کر ہم کو ایک اور غلامی معلوم ہوتی ہے اور وہ وہ غلامی ہے جو بچوں سے ماں باپ کراتے ہیں- ہر بچہ اپنی جوانی کے زمانہ تک کلی طور پر اپنے ماں باپ کی مرضی کے تابع ہوتا ہے- اگر کماتا ہے تو اس کے مالک اس کے ماں باپ ہوں گے‘ اگر وہ گھر کے کام کاج میں مدد دیتا ہے تو اس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاتی‘ گھر کے نظام میں اس کی کوئی آواز نہیں ہوتی‘ کھانے‘ پینے‘ پہننے کے متعلق وہ اپنے ماں باپ کا تابع ہوتا ہے‘ اس کی آئندہ زندگی کی داغ بیل ڈالنے کے لئے اس سے کوئی رائے نہیں پوچھی جاتی‘ اس کے ماں باپ ہی اس کے لئے ایک پروگرام بناتے ہیں اور اس پر اسے چلاتے ہیں- غرض کیا اطاعت کے لحاظ سے‘ کیا حریت ضمیر کے لحاظ سے‘ کیا ملکیت کے لحاظ سے اور کیا آزادی اعمال کے لحاظ سے‘ ہر انسان دس بارہ سال کی عمر تک کلی طور پر اپنے ماں باپ کے ماتحت ہوتا ہے اور اس میں اور ایک غلام میں کوئی فرق نہیں ہوتا-
کونسی غلامی بری ہوتی ہے
اگر کوئی شخص کہے کہ بچہ کو ماں باپ نہایت پیار اور محبت سے رکھتے ہیں جو خود کھاتے ہیں‘ اس کو کھلاتے ہیں- جو خود پہنتے ہیں‘ اس کو پہناتے ہیں- پھر بچہ کا بچپن کا زمانہ سمجھ کا زمانہ نہیں ہوتا- اگر اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کے لئے اور دنیا کے لئے نقصان کا موجب ہو گا- اس کے ماں باپ اسے جن باتوں کے لئے مجبور کرتے ہیں وہ خود اس کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں- تو میں کہوں گا کہ معلوم ہوا‘ غلامی اسی وقت بری ہوتی ہے جب اپنے میں اور غلام میں کوئی فرق کیا جائے اور جب غلام کے فائدہ کا پروگرام مدنظرنہ رکھا جائے‘ جب غلام کی عقل پختہ اور فہم صحیح ہو مگر باوجود اس کے اس کو مجبور کیا جائے‘ ورنہ بچے اور ماں باپ کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے بغیر قید کے غلامی کو برا نہیں کہا جا سکتا-
ملازموں کی غلامی
تیسری قسم کی غلامی کی مثال ملازمتوں میں ملتی ہے- ملازمتوں میں بھی انسان بعض دفعہ یا بعض اعمال میں کلی طور پر دوسرے کے ماتحت ہوتا ہے- یا بعض اوقات میں کلی طور پر دوسرے کے تابع ہوتا ہے- مگر اس کا نام کوئی غلامی نہیں رکھتا حالانکہ ملازمت اور غلامی میں کوئی فرق نہیں ہے- شائد یہ کہا جائے کہ ملازم اپنی مرضی سے دوسرے کی ملازمت اختیار کرتا ہے اس لئے وہ غلام نہیں ہوتا- اور غلام پر جبراً قبضہ کیا جاتا ہے اس لئے ہم اس کو ملازم سے الگ سمجھتے ہیں- لیکن یہ امتیاز صحیح نہیں- اس لئے کہ اس امتیاز کے ماتحت یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اپنی مرضی سے فروخت کر دے تو ایسے شخص کا غلام بنانا جائز ہے لیکن اگر یہ بھی ناجائز ہے تو ماننا پڑے گا کہ مرضی کی غلامیاں بھی غلامیاں ہی ہوتی ہیں- اگر کوئی کہے کہ غلام اور ملازم میں یہ فرق ہے کہ نوکر اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑ سکتا ہے لیکن غلام ایسا نہیں کر سکتا- تو پھر ہمیں یوں کہنا پڑے گا کہ وہ غلامی بری ہے جس کا طوق اپنی مرضی سے اتارا نہ جا سکے- لیکن وہ غلامی حقیقی نہیں ہے جس کا طوق ہم اپنی مرضی سے اپنی گردن سے اتار سکیں-
غلامی تمدن انسانی کا جزو لاینفک ہے
بہرحال اوپر کی مثالوں سے یہ ضرور ثابت ہو گا کہ غلامی تمدن انسانی کا ایک جزو لاینفک ہے اور یہ کہ غلامی کا مفہوم اس وقت تک دنیا میں نہایت مبہم رہا ہے- اگر ہم اس کی تشریح کریں تو ہمیں دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑے گی- یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا میں غلامی موجود ہے اور موجود رہے گی اور اس کے بغیر دنیا کا گزارہ چل نہیں سکتا اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ غلامی بھی دنیا کی اور چیزوں کی طرف بعض حالات میں اچھی ہوتی ہے اور بعض حالات میں بری- بعض شرطوں کے ساتھ جائز اور ان شرطوں کے بغیر ناجائز- ہم بغیر قیود کے نہ اس کی مذمت کے سکتے ہیں اور نہ اس کو جائز قرار دے سکتے ہیں-
دنیا میں غلامی کی بنیاد کس طرح پڑی
اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ غلامی کی بنیاد دنیا میں کس طرح پڑی- انسانی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی پیدائش کی ابتداء میں جبکہ انسانی دماغ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اور جبکہ اخلاق کی باریکیوں سے بھی انسان واقف نہ ہوا تھا اور ان کی عادت اس میں نہ پڑی تھی- اس وقت جبکہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے رستہ میں روک پاتا تھا تو اس روک کے دور کرنے کا وہ صرف ایک علاج سمجھتا تھا- وہ علاج یہ تھا کہ اپنے مدقابل کو قتل کر ڈالے- کیونکہ اس دور میں ابھی انسان میں یہ سمجھنے کی قابلیت نہ تھی کہ جب ایک دوسرا شخص مجھے اپنے رستہ سے ہٹانا چا ہتا ہے تو بغیر اس کے کہ میں اس شخص کو اپنے رستہ سے ہٹا دوں میری حفاظت کا اور کونسا رستہ ہو سکتا ہے- پس اس زمانہ میں قتل ایک علاج تھا جو خود حفاظتی کا ایک انتہائی کامل ذریعہ سمجھا جاتا تھا- اس زمانہ میں وہ قتل جو لڑائی کے نتیجہ میں ہو کسی صورت میں بھی معیوب نہ تھا کیونکہ جو شخص اپنے دشمن کو قتل نہ کرتا‘ وہ یقیناً خود قتل کیا جاتا سوائے اس صورت کے کہ باہمی صلح ممکن ہو- پس اس زمانہ میں نیک اور بد اقوام جب کسی دوسری قوم سے جنگ کرنے پر مجبور ہوتی تھیں تو جب صلح کا امکان نہ ہوتا تھا تو نہ صرف جنگ میں اپنے دشمنوں کو مارتی تھیں بلکہ جنگ کے بعد بھی جو دشمن ہاتھ آ سکتے- ان کو قتل کر دیتی تھیں- اس وقت کے حالات کے ماتحت یہ باتیں بری نہ تھیں بلکہ خود حفاظتی کے قانون کے ماتحت نہایت ضروری تھیں- اور اس وقت کے معیار اخلاق کے ماتحت صرف وہی اقوام ظالم کہلاتی تھیں جو عورتوں اور بچوں کو بھی مار ڈالتی تھیں-
اس کے بعد ایک نیا دور چلا اور اخلاق کا معیار بلند ہو گیا- اب یہ فرق کیا جانے لگا کہ صرف وہی شخص مارے جانے چاہئیں جو فتنوں کے بانی ہوں باقی لوگوں کو اگر ایسی صورت میں زندہ رکھا جا سکے کہ وہ ہماری تباہی کا موجب نہ ہوں تو انہیں زندہ رہنے کا موقع دینا چاہئے- چونکہ ابھی دنیا کا تمدن کامل نہیں ہوا تھا اور نظام حکومت ایسا پیچیدہ نہ تھا جیسا کہ اس زمانہ میں ہے- اس زمانہ میں یہ انتظام کیا گیا کہ جس قوم سے جنگ ہو‘ اس کے افراد کو قید کر لیا جائے اور چونکہ نہ حکومت قیدیوں کا خرچ برداشت کر سکتی ہے اور نہ ان کے لئے قید خانے مہیا کر سکتی ہے‘ اس لئے انہیں ملک کے مختلف افراد کے قبضہ میں دے دیا جائے کہ وہ ان کی نگرانی رکھیں- اور اس خرچ کے بدلہ میں جو انہیں ان قیدیوں پر کرنا پڑے‘ ان سے کام لیا جائے- چونکہ اس وقت کا نقطہ نگاہ یہی تھا کہ ہمارا ہر دشمن درحقیقت ہمارا آئندہ قاتل ہے اس لئے جب کوئی اس قسم کا قیدی بھاگتا تھا تو اس کے معنی یہی لئے جاتے تھے کہ یہ اپنے علاقہ میں جا کر پھر ہمارے خلاف لڑائی کا جوش پیدا کرے گا اور ہمیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا اس لئے اس زمانہ کے نقطہ نگاہ سے ہر قیدی جو بھاگتا تھا‘ اسے قتل کیا جاتا تھا- اور اگر ہم اس وقت کے نقطہ نگاہ سے اس سوال پر نظر ڈالیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ گو آج یہ فعل ظالمانہ نظر آئے مگر اس وقت کے حالات کے ماتحت سوسائٹی کی حفاظت کے لئے یہ ایک ضروری فعل تھا-
صنعت و حرفت کی داغ بیل کس طرح رکھی گئی
دنیا نے اس کے اوپر پھر ترقی کی اور غلاموں کے وجود کو تمدن کا ایک جزو بنا لیا- یعنی وہ پیشے جن میں مشاقی صبر‘ استقلال اور لمبی محنت کے نتیجے میں پیدا ہوتی تھی ان قیدیوں یعنی غلاموں کے سپرد کئے گئے اور اس طرح صنعت و حرفت جو اس وقت تمدن و ترقی کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں‘ داغ بیل رکھی گئی- یہی وجہ ہے کہ قدیم الایام سے صنعت و حرفت ذلیل پیشے خیال کئے جاتے ہیں اور اہل صنعت و حرفت دوسروں قوموں کی نسبت اونیٰ خیال کئے جاتے ہیں- کیونکہ جو کام کلی طور پر غلاموں کے سپرد ہوں گے‘ وہ لازماً غلاموں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حقیر خیال کئے جائیں گے-][ اس زمانہ میں صنعت و حرفت سے تعلق رکھنا گویا اپنے غلام ہونے کا ثبوت دینا تھا- جب غلامی کا دور کم ہوا اور صنعت و حرفت کو آزاد لوگوں نے بھی اختیار کر لیا تو بوجہ اس کے کہ اکثر پیشہ ور جوگو خود غلام نہ تھے مگر غلاموں کی اولاد تھے حقیر خیال کئے جاتے تھے اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی جو ان کی طرح پیشہ اختیار کرتے تھے‘ ذلیل سمجھے جاتے تھے-
غلامی کی بنیاد ظلم پر نہیں بلکہ رحم پر رکھی گئی
مذکورہ بالا تاریخی واقعات سے یہ معلوم ہو گا کہ غلامی کی بنیاد ظلم پر نہیں بلکہ رحم پر رکھی گئی ہے اور اس کے قیام کا اصل محرک جنگ میں شامل ہونے والے لوگوں کو قتل ہونے سے بچانے کا خیال تھا- جس وقت تک لوگوں کی یاد میں پہلا نقطہ نگاہ تازہ رہا اس وقت تک تو لوگ اس تحریک کو نیک اور شاہراہ ترقی کی طرف ایک صحیح قدم سمجھتے رہے- جب ایک لمبے عرصہ کے بعد پہلا نقطہ نگاہ بھول گیا تو پھر یہی فعل ایک سزا سمجھا جانے لگا- خصوصاً جبکہ انسانی دماغ ترقی کر رہا تھا اور اخلاق کی مزید باریکیاں معلوم ہونے کے سبب سے ایک حصہ انسانوں کا اس بات کی طرف مائل تھا کہ اپنے دشمن کے ضرر سے بچنے کے لئے اور ذرائع بھی اختیار کئے جا سکتے ہیں‘ پس ہمیں ان کی تلاش کرنی چاہئے-
غلامی کی ناجائز صورتیں
غلامی کی ان صورتوں کے علاوہ جو کہ اپنے اپنے وقت میں جائز تھیں‘ بعض ناجائز صورتیں بھی پیدا ہو گئیں مثلاً یہ کہ جب لوگوں نے دیکھا کہ لوگوں کو غلاموں سے کام لینے کی عادت ہو گئی ہے اور وہ ان کے لئے بڑی بڑی رقمیں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے آزاد لوگوں کو یا ان کے بچوں کو پکڑ پکڑ کر بیچنا شروع کیا اور ایک ملک سے پکڑ کر دوسرے ملک میں لے جا کر بیچ دیتے تھے اور اس طرح لاکھوں روپیہ کماتے تھے- یہ صورت انسانی تمدن کے مختلف دوروں میں کبھی بھی معقول نہیں سمجھی گئی اور ہمیشہ اسے ناپسندیدہ اور نامناسب ہی قرار دیا گیا-
چونکہ غلامی کی ابتداء اس خیال پر تھی کہ انسان کو غلام اس کے فائدہ کے لئے بنایا جاتا ہے یعنی اس کو قتل سے بچانے کے لئے اس لئے اس نقطہ نگاہ کے ماتحت دنیا میں ایک اور طریق غلامی کا بھی ایجاد ہو گیا کہ بعض لوگ خود اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو بیچ ڈالتے تھے- کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک مالدار آدمی کے پاس فروخت ہو جانے پر ان کی یا ان کے بچوں کی حالت اچھی ہو جائے گی- جہاں تک میں خیال کرتا ہوں‘ اس زمانہ کے نقطہ نگاہ کے ماتحت یہ بات بھی کوئی معیوب نہ تھی کیونکہ عمر بھر بھوکے رہنے‘ بیماریوں میں مبتلا رہنے اور اپنے بیوی بچوں کو بھوکا تڑپتے دیکھنے سے یہ بات اس وقت کے تمدن کے لحاظ سے بہتر معلوم ہوتی تھی کہ کوئی شخص اپنی ساری عمر کی خدمت کااقرار ایک شخص سے کر لے اور اس کے بدلہ میں کوئی دوسرا شخص اس کی رہائش اور اس کے کھانے پینے کا ذمہ وار ہو-
میری یہ تمہید اور غلامی کی تاریخ پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ انسانی سوسائٹی پر بعض دور ایسے آتے ہیں جبکہ غلامی ضروری ہو جاتی ہے اور یہ کہ غلامی کے اصل نقائص یہ ہیں-:
)۱( کہ انسان کی آزادی بالکل مسلوب ہو جائے-
)۲( اس کی قید اس کے فائدہ کے لئے نہ ہو-
)۳( جبکہ انسان کو اس وقت مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی برائی اور بھلائی پہچان سکتا ہو-
)۴( جبکہ آزادی کا حصول اس کے اختیار میں نہ ہو-
)۵( جبکہ غلام اور آقا کے تعلقات کی بنیاد حسن سلوک پر نہ ہو-
غلای کس طرح مٹ سکتی ہے
اگر کوئی ایسا قانون ہو جو ان سب باتوں کا لحاظ کرے تو وہی قانون صحیح طور پر غلامی کو دنیا سے مٹا سکے گا- کیونکہ جب تک غلامی کی ضرورتوں کو جو بعض دفعہ ایک آزاد انسان کو بھی غلام بننے پر مجبور کر دیتی ہیں‘ دور نہ کیا جائے اس وقت تک غلامی کلی طور پر دنیا سے نہیں مٹ سکتی- اور جب تک ایسے لوگوں کو جو اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھ سکیں اور دنیا کے تمدن کے تختے کو الٹنے کی کوشش میں ہوں ان کو خطرناک جرائم کی سزا میں بعض قیود اور حد بندیوں کے نیچے نہ لایا جائے‘ اس وقت تک نہ غلامی مٹ سکتی ہے نہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے-
غلامی کو مٹانے کے لئے اصول رسول کریمﷺ~ نے بیان کئے
افسوس کہ ان امور کو مدنظر رکھے بغیر دنیا نے غلامی کو مٹانا چاہا ہے اور بغیر مغز کے ایک قشر تیار کر کے اس پر خوش ہو رہی ہے حالانکہ غلامی اب بھی موجود ہے اور موجود رہے گی- اس کی بعض صورتیں مٹائی نہیں جا سکتیں اور مٹائی نہیں جا سکیں گی کیونکہ وہ اچھی صورتیں ہیں‘ بری نہیں- اور بعض صورتیں ظاہراً مٹادی گئی ہیں‘ حقیقتاً موجود ہیں اور اس وقت تک موجود رہیں گی جب تک کہ سوسائٹی کے تمدن کی بنیاد ان اصول پر نہ رکھی جائے گی جن سے غلامی کی روح مٹ سکتی ہے اور وہ اصول صرف اور صرف اسلام نے بیان کئے ہیں- اور حضرت محمد رسول اللہ ~صل۲~ نے ان کی بنیاد رکھی ہے-
سرولیم میور کا اعتراض
باوجود اس کے سرولیممیور جیسے ناواقف لوگ یہ کہتے ہیں کہ-:
>معمولی اہمیت والے معاملات کو نظر انداز کر کے اسلام سے تین بہت بڑے عیب پیدا ہوئے ہیں جو ہر ملک اور ہر زمانہ میں رائج رہے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ قرآن پر مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے- اول کثرت ازدواج‘ طلاق اور غلامی کے مسائل- یہ پبلک کے اخلاق کی جڑ پر تبر رکھتے ہیں اور اہلی زندگی کو زہر آلود بناتے ہیں- اور سوسائٹی کے نظام کو تہ دبالا کرتے ہیں<-۱~}~
مگر حقیقت یہی ہے- کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے ذریعہ سے ہی ان تینوں عیوب کے دور کرنے کا طریق بتایا ہے- اس طریق کو نظر انداز کر دو تو یقیناً ایک عیب کی اصلاح کرتے ہوئے دوسرا عیب پیدا ہو جائے گا- اور اس کی اصلاح کرتے ہوئے پھر تیسرا پھر چوتھا- اور ایک گڑھے سے بچنے کی کوشش میں انسان دوسرے گڑھے میں گرے گا جو پہلے سے بھی زیادہ گہرا ہو گا- یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر اس طریق کی طرف لوٹے گا جسے محمد رسول اللہ ~صل۲~ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے قائم کیا-
غلامی کے متعلق اسلام کی کامل تعلیم
میں وہ اصول بیان کر چکا ہوں جن کی بناء پر انسانی آزادی پر قید لگانی پڑی ہے اور وہ اصول بھی بیان کر چکا ہوں جن کی بناء پر انسانی آزادی پر قید لگانا ضروری ہے- اور میں یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ غلامی کی حقیقی تعریف یہی ہے کہ انسان کی آزادی کو سلب کر کے اس کو بعض قیود کا پابند کر دیا جائے- اگر ان تینوں امور کے متعلق میری رائے صحیح ہے اور جہاں تک میرا مطالعہ اور میرا علم جاتا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ غلامی کے متعلق اصولی طور پر غور کرنے والے تمام لوگ ان تینوں باتوں میں مجھ سے متفق ہیں‘ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ رسول اللہ ~صل۲~ نے غلامی کے متعلق جو تعلیم دی ہے‘ اس کے کامل اور اکمل ہونے کے متعلق کسی شخص کو ئی اعتراض نہیں ہو سکتا-
غلامی کو اسلام نے کس طرح مٹایا
پہلے میں غلامی کی ان اقسام کو لیتا ہوں جو غلامی کے مشہور طریق سے جدا ہیں- پہلا طریق یہ ہے کہ کسی آزاد کو زبردستی پکڑ کر بیچ ڈالا جائے- اس کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ نے یہ تعلیم دی ہے کہ آزاد کو فروخت کرنے والا واجب القتل ہے- چنانچہ نجد کے کچھ عیسائیوں نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ ہمیں بعض ہماری ہمسایہ قوموں نے بغیر کسی جنگ کے قید کر کے غلام بنایا ہوا ہے- حضرت عمرؓ نے ان کو آزاد کر دیااور فرمایا کہ اگر یہ جرم اسلام سے پہلے کا نہ ہوتا تو میں اسلامی احکام کے مطابق ان آزادوں کے قید کرنے والوں کو قتل کی سزا دیتا- جو شخص اس قسم کی غلامی کے نتائج پر غور کرے وہ اس بات کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس رنگ میں انسان کو قید کر کے اس کے بیوی بچوں اور وطن سے جدا کر دینا ایک نہایت ہی قبیح فعل ہے- اور اس کی سزا یقیناً قتل ہی ہونی چاہیئے- کیونکہ ایسا شخص ہزاروں جانوں کو قتل کرتا ہے-
دوسرا طریق
دوسرے ایک ناجائز طریق دنیا میں غلامی کا یہ تھا کہ غلام بنانے کے لئے اپنی ہمسایہ قوم پر حملہ کر دیتے یا مال و دولت لوٹنے کے لئے حملے کرتے تھے اور ساتھ ہی آدمیوں کو غلام بنا لیتے تھے- اسلام نے اس کو بھی رد کیا اور یہ قاعدہ بنا دیا کہ کسی قوم کو دوسری قوم پر اس وقت تک حملہ کرنے کا حق نہیں جب تک کہ وہ یہ ثابت نہ کر دے کہ اس کے بعض حقوق اس قوم نے تلف کر دیئے ہیں اور جب تک کہ ہمسایہ قوموں کو اس بات کا موقع نہ دے دیا جائے کہ وہ دونوں فریق میں اصلاح کی کوشش کریں لیکن ایسی جنگ کے بعد بھی غلام بنانے کی اجازت نہیں- صرف اس بات کی اجازت ہے کہ جس حق پر لڑائی تھی وہ اس کو دلا دیا جائے- یا جو اخراجات وغیرہ اس پر ہوئے ہیں وہ اس کو کلی طور پر یا ان کا کچھ حصہ دلا دیا جائے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-:
و ان طائفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفی الی امر اللہ فان فائت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحبالمقسطین۲~}~
اور اگر مومنوں سے دو قومیں آپس میں لڑنے پر آمادہ ہوں تو ان میں صلح کرا دو- پھر اگر اس صلح کے بعد بھی ایک دوسری کے خلاف زیادتی سے کام لے تو جو قوم زیادتی کرتی ہے اس کے خلاف سب قوموں کو مل کر جنگ کرنی چاہیئے- یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئے- پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو دوبارہ ان میں عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو- اللہ تعالیٰ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے-
اس آیت سے صاف ظاہرہے کہ اسلام نے دنیوی جھگڑوں میں یونہی حملہ کر دینے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ سب سے پہلے دوسری اقوام کو بیچ میں ڈال کر صلح کرنے کا حکم دیا ہے- اگر کوئی قوم دوسری قوم کا حق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر سب قوموں کو اس کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور لڑائی کا انجام پھر صلح پر رکھا ہے- جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ غلامی یا دوسرے کے حقوق کے تلف کرنے کی صورت با لکل ناممکن ہو جائے گی-
یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ اس جگہ مومنوں کے متعلق احکام ہیں- مومنوں کا لفظ صرف اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ مومن ہی قرآن کریم کے احکام کو مانیں گے- ورنہ اصولی طور پر دنیا کی سب قومیں ان احکام پر عمل کر سکتی ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں-
تیسرا طریق
تیسری صورت جو غلامی کے عام مشہور قاعدہ کے علاوہ دنیا میں رائج ہو گئی تھی‘ یہ تھی کہ لوگ اپنے آپ کو یا اپنے بیوی بچوں کو بیچ ڈالا کرتے تھے- اسلام نے اس طریق کو بھی بالکل روک دیا ہے اور ایک عام حکم دے دیا ہے کہ کسی آزاد کو غلام نہیں بنایا جا سکتا خواہ اس کی مرضی سے یا بغیر مرضی کے- لیکن میں بتا چکا ہوں کہ بعض حالات میں آزادی سے غلامی بہتر ہوتی ہے- ایک آزاد شخص جو بیمار ہے یا جسے کوئی ملازمت کا کام نہیں مل سکتا یا اور کوئی اسی قسم کی بات پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ روزی نہیں کما سکتا‘ وہ آزاد رہتے ہوئے جو تکلیف اٹھائے گا بعض حالات میں غلامی میں اس سے کم تکلیف پہنچے گی- اسی طرح جو تکلیف اس کے بچے اس کے پاس اٹھائیں گے‘ بالکل ممکن ہے کہ بعض حالات ایسے پیدا ہو جائیں کہ غلامی میں اس سے کم تکلیف اسے پہنچے- پس یہ حکم کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو نہیں بیچ سکتا اس وقت تک مفید اور قابل عمل نہیں کہلا سکتا جب تک کہ ان مشکلات کا بھی علاج نہ سوچا جائے جو اس حالت میں پیدا ہوتی ہیں- اس زمانہ میں تمدنی ترقی کے ماتحت اس حکم کو تو لوگوں نے اختیار کر لیا ہے لیکن اس کے ساتھ جو مشکلات وابستہ ہیں‘ ان کا کوئی علاج نہیں کیا- مگر محمدﷺ~ رسول اللہ ~صل۲~ نے اس کا علاج بھی بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر فرد کا کھانا مہیا کرنا اور اس کا ضروری لباس اور اس کے لئے رہائش کا انتظام حکومت پر یا بالفاظ دیگر ساری قوم پر واجب قرار دیا گیا ہے- اور اس طرح اس ضرورت کو جو آزاد کو غلام بنانے پر مجبور کرتی ہے‘ باطل کر کے غلامی کی ایک شق کا قلع قمع کر دیا گیا ہے-
دنیوی جنگوں میں کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا
اس کے بعد اب میں وہ صورت لیتا ہوں جو غلامی کی جائز صورت سمجھی جاتی رہی ہے- اور جو یہ ہے کہ کسی شکوہ یا شکایت پر دو قومیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے غالب آنے والی قوم مغلوب کے افراد کو قید کر کے اپنا غلام بنا لے- اس قسم کی غلامی میں سے اسلام نے اس غلامی کو تو اڑا دیا ہے جو دنیوی جنگوں کے نتیجے میں رائج تھی- اور اس کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اول تو دنیوی جنگیں نہ ہی ہوں اور اگر ہوں تو ان کا اختتام صلح پر ہونا چاہیئے اور محض حقوق کے لقفیہ پر ہونا چاہیئے اور غلام وغیرہ نہیں بنانے چاہئیں- ان جنگوں کا اصول اسلام نے یہ رکھا ہے کہ دوسری بے تعلق قوموں کو بھی ان میں حصہ لینا چاہیئے تا کہ کوئی قوم بھی تعدی نہ کر سکے-
مذہبی جنگوں میں غلام بنانے کی ممانعت
دوسری قسم کی جنگیں مذہبی جنگیں ہیں- ان کے متعلق اسلام نے جو حکم دیا ہے وہ یہ ہے- لکم دینکم ولی دین ۳~}~ اور فرمایا ہے- لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی- ۴~}~ یعنی ہر ایک کا دین اس کے ساتھ ہے- اور دلیل اور صحیح طریق عمل واضح کر دینے کے بعد کسی کو ایک دوسرے پر جبر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی- اگر ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی کوئی شخص ہدایت کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا نقصان اس کو پہنچے گا- دوسروں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر زور دیں اور اسے مجبور کر کے اپنے مذہب میں داخل کریں- پس اپنا مذہب منوانے کے لئے جنگ کرنے کا سلسلہ اسلام نے بالکل روک دیا ہے- اور اس طرح حملہ کر کے غلام بنانے کا طریق دنیا سے مٹا دیا ہے-
مظلوم قوم کے لئے اجازت
مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اسلام کی تعلیم پر عمل کرے‘ اور چونکہ مذہبی حملے عام طور پر کمزور قوموں پر ہوا کرتے ہیں - خصوصاً ایسے مذاہب کے پیروئوں پر جو جدید ہوتے ہیں اور ان سے ہمدردی حملہ آور قوم کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی نہیں ہوتی‘ اس لئے دنیوی جنگوں کے متعلق جو قانون تھا وہ یہاں پر چسپاں نہیں ہو سکتا- ایسے موقع پر حملہ آور قوم کی ہم مذاہب اقوام یا وہ اقوام جو اس کی ہم مذہب تو نہ ہوں لیکن دوسری قوم کے مذہب سے شدید اختلاف رکھتی ہوں‘ اس مظلوم قوم کی تائید کے لئے کبھی نہیں نکلیں گی- پس ضروری تھا کہ اس مظلوم قوم کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار دیا جاتا جس سے وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتی اور حملہ آور قوم کے دل میں بھی کوئی ڈر باقی رہتا- پس اس کے لئے اسلام نے یہ اجازت دی کہ اگر ایک قوم اپنا مذہب منوانے کے لئے کسی دوسری قوم پر حملہ کرے تو اس کے قیدیوں کے ساتھ عام جنگی قیدیوں کی نسبت کسی قدر مختلف سلوک کیا جائے- اور وہ یہ سلوک ہے کہ اس کے قیدیوں کو فروخت کرنے کی اجازت ہو تا کہ وہ مظلوم قوم جس پر حملہ کی وجہ ہی اس کا کمزور ہونا تھا‘قیدیوں کی پرورش کے بار کے نیچے دب کر اور بھی تباہ نہ ہو جائے- اس صورت کا نام خواہ غلامی رکھ لو خواہ قید کی کوئی دوسری نوعیت قرار دے لو بہرحال اسلام نے اس کو جائز رکھا ہے- مگر کوئی عقل مند انکار نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور قوم پر اس غرض سے حملہ کرنے والا کہ اسے اس کی واحد دولت یعنی تعلق باللہ سے محروم کر دے اور شیطان کی ابدی غلامی میں دے دے‘ یقیناً اس بات کا مستحق ہے کہ اسے بتایا جائے کہ آزادی کا چھن جانا کیسا تکلیف دہ ہے- جو شخص حریت ضمیر انسان سے چھینتا ہے اگر اسے کچھ عرصہ کے لئے جسمانی حریت سے محروم رکھا جائے تو یقیناً یہ سزا اس کے فعل سے کم ہے-
ضروری شرائط
باوجود اس کے کہ جس جرم کی سزا میں اسلام نے فردی قید کو جائز رکھا ہے‘ وہ بہت شدید ہے اور اس کی سزا بہت کم ہے- پھر بھی اس نے ایسی قیود مقرر کر دی ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ قید غلامی کے اس مفہوم سے باہر نکل جاتی ہے جو عام طور پر دنیا میں سمجھا جاتا ہے- کیونکہ اسلام نے ان قیدیوں کے لئے یہ شرائط مقرر کی ہیں-:
)۱(ہر شخص جس کے پاس وہ قیدی رہیں‘ وہ انہیں وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے- اور وہی کچھ پہنائے جو خود پہنتا ہے-
)۲( کوئی شخص انہیں بدنی سزا نہ دے-
)۳( ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو وہ کر نہ سکتے ہوں-
)۴( ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس کے کرنے سے مالک خود کراہت کرتا ہو- بلکہ مالک کو چاہیئے کہ وہ کام میں ان کے ساتھ شریک ہو-
)۵(اگر وہ آزادی کا مطالبہ کریں تو انہیں فوراً آزادی دی جائے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر دیں-
)۶(فدیہ کی ادائیگی میں بھی یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی گھر سے مالدار نہیں ہے اور اس کے رشتہ دار فدیہ دے کر اسے نہیں چھڑا سکتے تو وہ مالک سے ٹھیکہ کر لے کہ فلاں تاریخ تک اتنی قسطوں میں‘ میں یہ رقم ادا کر دوں گا- اس سمجھوتے پر مالک مجبور ہوگا اور اسی دن سے یہ قیدی اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا اور جو کچھ کمائے گا‘ اس کا ہو گا- صرف اپنے وقت معین پر مقررہ قسط ادا کرتا رہے گا- جس دن اصل رقم ادا ہو جائے گی یہ پورے طور پر آزاد سمجھا جائے گا-
)۷( غلام کو حق دیا گیا ہے کہ جب کوئی مالک اس کے ساتھ نامناسب سلوک کرتا ہو تو وہ مجبور کر کے اپنے آپ کو فروخت کرا لے-
آزادی سلب کرنے کی اجازت کس صورت میں دی
ان قوانین سے یہ بات ثابت ہے کہ اول اسلام نے انسانی آزادی سلب کرنے کی اسی وقت اجازت دی ہے جبکہ اس میں اپنی خیرو شر سمجھنے کی طاقت باقی نہ رہی ہو گویا کہ اس کی مثال ایک بچہ کی سی ہے کیونکہ جو شخص تلوار کے ذریعہ سے دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانا چاہتا ہے وہ انسان کی ذہنی ترقی کوجو اس کی پیدائش کا اصل مقصود ہے‘ روکتا ہے- اور بنی نوع انسان کو اس عظیم الشان مقصد سے محروم کرنا چاہتا ہے جس مقصد کے حصول کے لئے کروڑوں جانوں کو ضائع کر دینا بھی وہ معمولی قربانی سمجھے ہیں- پس اس قسم کی نادانی کرنے والا انسان یقیناً بچوں سے بدتر ہے اور یقیناً اس امر کا مستحق ہے کہ ایک عرصہ تک اسے قید و بند میں رکھا جائے-
لیکن جس وقت حکومت ایسی کمزور ہو کہ وہ باقاعدہ سپاہی نہ رکھ سکتی ہو اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ واری فرداً فرداً پڑتی ہو اس وقت قیدیوں کے رکھنے کا بہترین طریق یہی ہو سکتا ہے کہ ان کو افراد میں تقسیم کر دیا جائے تا کہ وہ ان سے اپنے اخراجات جنگ وصول کر لیں- جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فرداً فرداً نہ پڑتا ہو تو اس وقت جنگی قیدی تقسیم نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے-
اسلام نے غلامی کے نقائص کس طرح دور کئے
ماتحتی کی بری صورتوں میں سے ایک یہ صورت تھی کہ ماتحت کے ساتھ ذلت کا سلوک کیا جائے اور اس وجہ سے غلامی بری کہلاتی ہے- لیکن جب اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ مالک جو خود کھائے وہ غلام کو کھلائے اور جو پہنے وہ غلام کو پہنائے اور اس سے وہ کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو- اور وہ کام نہ لے جو آقا اس کے ساتھ خود مل کر کرنے کے لئے تیار نہ ہو اور اسے مارے نہیں اگر مارے تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گا- تو ایسے غلام کی حالت ایک چھوٹے بھائی یا بچہ کی طرح ہے- اگر چھوٹا بھائی یا بچہ غلام نہیں کہلا سکتا تو یہ شخص بھی غلامی کی عام تعریف سے باہر نکل آتا ہے-
تیسرا نقص غلامی میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انسان ہمیشہ کے لئے ایک بات کا پابند ہو جاتا ہے- اس کا بھی اسلام نے علاج کر دیا ہے کیونکہ غلام کا حق رکھا ہے کہ وہ اپنا فدیہ دے کر آزاد ہو جائے- اور اگر وہ اپنا فدیہ یکدم ادا نہیں کر سکتا تو اپنے مالک سے قسطیں مقرر کر لے- اور جس وقت وہ قسطیں مقرر ہو جائیں‘ اسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہو گا جیسا دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا- پس ہر ایسا قیدی جو مذہبی جنگ میں گرفتار ہوتا ہے‘ اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ آزادی حاصل کر لے- اور جب آزادی کا حصول اس کے اپنے اختیار میں ہے تو اس قسم کی قید‘ غلامی کی ناجائز شقوں میں کس طرح شامل کی جا سکتی ہے- قرآن کریم نے غلام کے لئے دو ہی صورتیں رکھی ہیں- اما منا بعد و اما فداء-۵~}~ مذہبی جنگ میں جب کوئی شخص قید ہو تو یا اس کو بطور احسان چھوڑ دیں یا فدیہ لے کر چھوڑ دیں- پس یہ صورت اسلام میں جائز ہی نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر اس کو غلام رکھا جائے- ہاں یہ ایک صورت رہ جاتی ہے کہ نہ تو کوئی شخص فدیہ دے سکتا ہو اور نہ مالک بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہو- کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ جو رقم اس نے جنگ میں خرچ کی تھی‘ اس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو- ایسی صورت کے لئے قرآن کریم نے یہ اصول مقرر کیا ہے- کہ-:
والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکا تبوھم ان علمتم فیھم خیرا- واتوھم من مال اللہ الذی اتکم- ۶~}~
یعنی وہ لوگ جو کہ تمہارے قیدیوں میں سے چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ قسطیں مقرر کر لی جائیں اور انہیں آزاد کر دیا جائے تو ان کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو- اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں- بلکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جوکچھ تمہیں دیا ہے‘ اس میں سے ان کی مدد کرو- یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تا کہ اس کے ذریعہ سے روپیہ کما کر وہ اپنا فدیہ ادا کرنے کے قابل ہو جائیں-
جو لوگ اس کی بھی قابلیت نہ رکھتے ہوں‘ ان کے لئے اسلام نے نصیحت فرمائی ہے کہ مالدار لوگ انہیں آزاد کرائیں- اور حکومت انہیں آزاد کرائے- لیکن جو لوگ کسی طرح بھی کمائی نہ کر سکتے ہوں اور آزاد ہو کر سوال کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو‘ ان کے متعلق مالک کو یہی حکم ہے کہ وہ انہیں پاس رکھے اور ان کی خبر گیری کرے- اپنے کھانے میں سے اسے کھلائے اور اپنے کپڑے میں سے انہیں پہنائے-
اسلام میں کوئی غلامی نہیں
ہر شخص جو ان احکام کو پڑھے‘ معلوم کر سکتا ہے کہ غلامی کا جو مفہوم دنیا میں پایا جاتا ہے‘ اس کے رو سے اسلام میں کوئی غلامی رائج نہیں- ہاں فلسفیانہ اصول پر جو غلامی کی تشریح کی جاتی ہے اور جس کے ماتحت غلامی اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی اور ضروری بھی ہو سکتی ہے اور غیر ضروری بھی اس غلامی کی بعض قسمیں اسلام نے جائر رکھی ہیں- یعنی وہ جو اچھی ہیں اور ضروری ہیں اور جن کا ترک کرنا کوئی عقلمند انسان پسند نہیں کر سکتا اور جن کے ترک کرنے سے دنیا میں فساد اور فتنہ پیدا ہوتا ہے اور حقیقی آزادی مٹتی ہے اور دنیا کی ترقی میں روک پیدا ہوتی ہے اور جو غلامی کے برے طریق ہیں ان سے اسلام نے روکا ہے اور دوسرے لوگوں کی طرح صرف روکا ہی نہیں بلکہ غلامی کے ان طریقوں کے موجبات اور محرکات کا بھی علاج کیا ہے تا کہ انسان مجبور ہو کر ان غلامیوں میں مبتلا نہ ہو-
حقیقی آزادی دینے والا انسان
پس مبارک ہے محمد رسول اللہ ~صل۲~ کا وجود جنہوں نے اس غلامی کو جو دنیا کے لئے مضر تھی‘ مٹایا اور دنیا کو حقیقی آزادی عطا کی- وہ نادان جو لفظاً غلامی کو مٹاتے ہیں اور عملاً اسے قائم کرتے ہیں‘ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چاند پر تھوکتا ہے- لیکن چاند پر تھوکا خود ان کے اپنے منہ پر پڑتا ہے- عقلمند آدمی محسوس کرتے ہیں- کل سب دنیا معلوم کر لے گی کہ حقیقی آزادی اس تعلیم میں ہے جو محمد رسول اللہ ~صل۲~ نے دی ہے اور دنیا کو نجات دینے والی ہستی صرف محمد رسول اللہ ~صل۲~ کی ذات ہے- واخر دعوئنا ان الحمد للہ رب العلمین
)الفضل ۸- نومبر ۱۹۳۱ء(
۱~}~

۲~}~
الحجرات : ۱۰
‏c1] g[ta ۳~}~ الکفرون: ۷
۴~}~ البقرہ: ۲۵۷
۵~}~
محمد : ۵
۷~}~ النور: ۳۴
‏ a12.9
انوار العلوم جلد ۱۲
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی
)رقم فرمودہ حضرت خلیفہ المیسح الثانی(
اسوہ حسنہ
ہمارے ہادی اور رہنما آنحضرت ~صل۲~ چونکہ رحمہ للعالمین ہو کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کل دنیا کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اس لئے آپ نے ہمارے لئے جو نمونہ قائم کیا وہی سب سے درست اور اعلیٰ ہے اور اس قابل ہے کہ ہم اس کی نقل کریں- آپ نے اپنے طریق عمل سے ہمیں بتایا ہے کہ جذبات نفس جو پاک اور نیک ہیں ان کو دبانا تو کسی طرح جائز ہی نہیں بلکہ ان کو تو ابھارنا چاہئے اور جو جذبات ایسے ہوں کہ ان سے گناہوں اور بدیوں کی طرف توجہ ہوتی ہو ان کا چھپانا نہیں بلکہ ان کا مارنا ضروری ہے- پس اگر تکلف سے بعض ایسی باتیں نہیں کرتے جن کا کرنا ہمارے دین اور دنیا کے لئے مفید تھا تو ہم غلط کار ہیں اور اگر وہ باتیں جن کا کرنا دین اسلام کے رو سے ہمارے لئے جائز ہے صرف تکلف اور بناوٹ سے نہیں کرتے‘ ورنہ دراصل ان کے شائق ہیں‘ تو یہ نفاق ہے اور اگر لوگوں کی نظروں میں عزت و عظمت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو خاموش اور سنجیدہ بناتے ہیں تو یہ شرک ہے- آنحضرت ~صل۲~ کی زندگی میں ایسا ایک بھی نمونہ نہیں پایا جاتا جس سے معلوم ہو کہ آپ نے ان تینوں اغراض میں سے کسی کے لئے تکلف یا بناوٹ سے کام لیا بلکہ آپ کی زندگی نہایت سادہ اور صاف معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی عزت کو لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ عزت و ذلت کا مالک خدا کو ہی سمجھتے تھے-
دینی پیشوائوں میں تصنع
جو لوگ دین کے پیشوا ہوتے ہیں انہیں یہ بہت خیال ہوتا ہے کہ ہماری عبادتیں اور ذکر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوں اور خاص طور پر تصنع سے کام لیتے ہیں تا لوگ نہایت نیک سمجھیں- اگر مسلمان ہیں تو وضو میں خاص اہتمام کریں گے اور بہت دیر تک وضو کے اعضا کو دھوتے رہیں گے اور وضو کے قطروں سے پرہیز کریں گے‘ سجدہ اور رکوع لمبے لمبے کریں گے‘ اپنی شکل سے خاص حالت خشوع و خضوع ظاہر کریں گے اور خوب وظائف پڑھیں گے- مگر آنحضرت ~صل۲~ باوجود اس کے کہ سب سے اتقی اور اورع تھے اور آپ کے برابر خشیت اللہ کوئی انسان پیدا نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے آپ ان سب باتوں میں سادہ تھے اور آپ کی زندگی بالکل ان تکلفات سے پاک تھی-
بچہ کے رونے پر نماز میں جلدی
ابی قتادہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا- انی لاقوم فی الصلوہ ارید ان اطول فیھا فاسمع بکاء الصبی فاتجوز فی صلوتی کراھیہ ان اشق علی امہ ۱~}~ یعنی میں بعض دفعہ نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور ارادہ کرتا ہوں کہ نماز کو لمبا کر دوں مگر کسی بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو اپنی نماز کو اس خوف سے کہ کہیں میں بچہ کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں‘ نماز مختصر کر دیتا ہوں- کس سادگی سے آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا کہ ہم بچہ کی آواز سن کر نماز میں جلدی کر دیتے ہیں- آج کل کے صوفیاء تو ایسے قول کو شائد اپنی ہتک سمجھیں کیونکہ وہ تو اس بات کے اظہار میں اپنا فخر سمجھتے ہیں کہ ہم نماز میں ایسے مست ہوئے کہ کچھ خبر ہی نہیں رہی اور گو پاس ڈھول بھی بجتے رہیں تو ہمیں کچھ خیال نہیں آتا- مگر آنحضرت ~صل۲~ ان تکلفات سے بری تھے- آپ کی عظمت خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تھی نہ کہ انسانوں نے آپ کو معزز بنایا تھا- یہ خیال وہی کر سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنا عزت دینے والا سمجھتے ہوں-
جوتیوں سمیت نماز پڑھنا
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ انہ سئل اکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی نعلیہ قال نعم- ۲~}~یعنی آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم ~صل۲~ جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے- آپ نے جواب دیا کہ ہاں پڑھ لیتے تھے- اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح تکلفات سے بچتے تھے اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ وہ مسلمان جو ایمان اور اسلام سے بھی ناواقف ہیں اگر کسی کو اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھتے دیکھ لیں تو شور مچا دیں اور جب تک کوئی ان کے خیال کے مطابق کل شرائط کو پورا نہ کرے وہ دیکھ بھی نہیں سکتے- مگر آنحضرت ~صل۲~ جو ہمارے لئے اسوہحسنہ ہیں آپ کا یہ طریق تھا بلکہ آپ واقعات کو دیکھتے تھے نہ تکلفات کے پابند تھے- اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے طہارت اور پاکیزگی شرط ہے- اور یہ بات قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے پس جو جوتی پاک ہو اور عام جگہوں پر جہاں نجاست کے لگنے کا خطرہ ہو پہن کر نہ گئے ہوں تو اس میں ضرورت کے وقت نماز پڑھنے میں کچھ حرج نہیں اور آپ نے ایسا کر کے امتمحمدیہ پر ایک بہت بڑا احسان کیا کہ انہیں آئندہ کے لئے تکلفات اور بناوٹ سے بچا لیا- اس اسوہ حسنہ سے ان لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے جو آج کل ان باتوں پر جھگڑتے ہیں اور تکلفات کے شیدا ہیں- جس فعل سے عظمت الہی اور تقویٰ میں فرق نہ آئے‘ اس کے کرنے پر انسان کی بزرگی میں فرق نہیں آ سکتا-
بن بلائے دعوت میں آنے والے کیلئے اجازت طلب کرنا
حضرت ابو مسعود الانصاریؓ سے روایت ہے-قال کان من الانصار رجل یقال لہ ابو شعیب وکان لہ غلام لحام فقال اصنع لی طعاما ادعو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خامس خمسہ فدعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خامس خمسہ فتبعھم رجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انک دعوتنا خامس خمسہ وھذا رجل قدتبعنا فان شئت اذنت لہ وان شئت ترکتہ قال بل اذنت لہ ۳~}~ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص انصار میں تھا اس کا نام ابوشعیب تھا اور اس کا ایک غلام تھا جو قصائی کا پیشہ کرتا تھا- اسے اس نے حکم دیا کہ تو میرے لئے کھانا تیار کر کہ میں رسول اللہ ~صل۲~ کو چار اور آدمیوں سمیت کھانے کیلئے بلائوں گا- پھر اس نے رسول اللہ ~صل۲~ سے بھی کہلا بھیجا کہ حضورﷺ~ کی اور چار اور آدمیوں کی دعوت ہے- جب آپ اس کے ہاں چلے تو ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا- جب آپ اس کے گھر پر پہنچے تو اس سے کہا کہ تم نے ہمیں پانچ آدمیوں کو بلایا تھا اور یہ شخص بھی ہمارے ساتھ آ گیا ہے- اب بتائو کہ اسے بھی اندر آنے کی اجازت ہے یا نہیں- اس نے کہا یا رسول اللہ ~صل۲~ اجازت ہے- تو آپ اس کے سمیت اندر چلے گئے-
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس طرح بے تکلفی سے معاملات کو پیش کر دیتے- شائد آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو چپ ہی رہتا مگر آپ دنیا کے لئے نمونہ تھے اس لئے آپ ہر بات میں جب تک خود عمل کر کے نہ دکھاتے‘ ہمارے لئے مشکل ہوتی- آپ نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ سادگی ہی انسان کے لئے مبارک ہے اور ظاہر کر دیا کہ آپ کی عزت تکلفات یا بناوٹ سے نہیں تھی اور نہ آپ ظاہری خاموشی یا وقار سے بڑا بننا چاہتے تھے بلکہ آپ کی عزت خدا کی طرف سے تھی-
گھر کے اخراجات میں سادگی
آپ کی زندگی بھی نہایت سادہ تھی اور وہ اسراف اور غلو جو امراء اپنے گھر کے اخراجات میں کرتے ہیں آپ کے ہاں نام کو نہ تھا بلکہ ایسی سادگی سے زندگی بسر کرتے کہ دنیا کے بادشاہ اسے دیکھ کر ہی حیران ہو جائیں اور اس پر عمل کرنا تو الگ رہا یورپ کے بادشاہ شائد یہ بھی نہ مان سکیں کہ کوئی ایسا بادشاہ بھی تھا جسے دین کی بادشاہت بھی نصیب تھی اور دنیا کی حکومت بھی حاصل تھی مگر پھر بھی وہ اپنے اخراجات میں ایسا کفایت شعار اور سادہ تھا اور پھر بخیل نہیں بلکہ دنیا نے آج تک جس قدر سخی پیدا کئے ہیں ان سب سے بڑھ کر سخی تھا-
امراء کی حالت
جن کو اللہ تعالیٰ مال و دولت دیتا ہے ان کا حال لوگوں سے پوشیدہ نہیں- غریب سے غریب ممالک میں بھی نسبتا امراء کا گروہ موجود ہے- حتیٰ کہ جنگلی قوموں اور وحشی قبیلوں میں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ امراء کا ہوتا ہے اور ان کی زندگیوں میں اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں جو فرق نمایاں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں- خصوصاً جن قوموں میں تمدن بھی ہو ان میں تو امراء کی زندگیاں ایسی پر عیش و عشرت ہوتی ہیں کہ ان کے اخراجات اپنی حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں-
عرب سرداروں کی حالت
آنحضرت ~صل۲~ جس قوم میں پیدا ہوئے وہ بھی فخر و خیلاء میں خاص طور پر مشہور تھی اور حشم و خدم کو مایہ ناز جانتی تھی- عرب سردار باوجود ایک غیر آباد ملک کے باشندہ ہونے کے بیسیوں غلام رکھتے اور اپنے گھروں کی رونق کے بڑھانے کے عادی تھے-
عرب کی دو ہمسایہ قوموں کے بادشاہوں کی حالت
عرب کے اردگرد دو قومیں ایسی بستی تھیں کہ جو اپنی طاقت و جبروت کے لحاظ سے اس وقت کی کل معلومہ دنیا پر حاوی تھیں- ایک طرف ایران اپنی مشرقی شان و شوکت کے ساتھ اپنے شاہانہ رعب و داب کو کل ایشیاء پر قائم کئے ہوئے تھا تو دوسری طرف روم اپنے مغربی جاہ و جلال کے ساتھ اپنے حاکمانہ دست تصرف کو افریقہ اور یورپ پر پھیلائے ہوئے تھا- اور یہ دونوں ملک عیش و طرب میں اپنی حکومتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور آسائش و آرام کے ایسے ایسے سامان پیدا ہو چکے تھے کہ بعض باتوں کو تو اب اس زمانہ میں بھی کہ آرام و آسائش کے سامانوں کی ترقی کمال درجہ کو پہنچ چکی ہے‘ نگاہ حیرت سے دیکھا جاتا ہے- دربار ایران میں شاہان ایران جس شان و شوکت کے ساتھ بیٹھنے کے عادی تھے اور اس کے گھروں میں جو کچھ سامان طرب جمع کئے جاتے تھے اسے شاہ نامہ کے پڑھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور جنہوں نے تاریخوں میں ان سامانوں کی تفصیلوں کا مطالعہ کیا ہے وہ تو اچھی طرح سے ان کا اندازہ کر سکتے ہیں- اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ دربار شاہی کے قالین میں بھی جواہرات اور موتی ٹنکے ہوئے تھے اور باغات کے نقشہ کو زمردوں اور موتیوں کے صرف سے تیار کر کے میدان دربار کو شاہی باغوں کا مماثل بنا دیا جاتا تھا- ہزاروں خدام اور غلام شاہ ایران کے ساتھ رہتے- اور ہر وقت عیش و عشرت کا بازار گرم رہتا تھا-
رومی بادشاہ بھی ایرانیوں سے کم نہ تھے اور وہ اگر ایشیائی شان و شوکت کے شیدا نہ تھے تو مغربی آرائش و زیبائش کے دلدادہ ضرور تھے- جن لوگوں نے رومیوں کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ رومیوں کی حکومتوں نے اپنی دولت کے ایام میں دولت کو کس کس طریق پر خرچ کیا ہے-
پس عرب جیسے ملک میں پیدا ہو کر جہاں دوسروں کو غلام بنا کر حکومت کرنا فخر سمجھا جاتا تھا اور جو روم و ایران جیسی مقتدر حکومتوں کے درمیان واقعہ تھا کہ ایک طرف ایرانی عیش و عشرت اسے لبھا رہی تھی تو دوسری طرف رومی زیبائش و آرائش کے سامان اس کا دل اپنی طرف کھینچ رہے تھے- آنحضرت ~صل۲~ کا بادشاہ عرب بن جانا اور پھر ان باتوں میں سے ایک سے بھی متاثر نہ ہوتا اور روم و ایران کے دام تزویر سے صاف بچ جانا اور عرب کے بت کو مار کر گرا دینا کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے دیکھ کر پھر بھی کوئی دانا انسان آپ کے پاک بازوں کے سردار اور طہارت النفس میں کامل نمونہ ہونے میں شک کر سکے‘ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا-
گھر کا کام خود کرنا
علاوہ اس کے آپ کے اردگرد بادشاہوں کی زندگی کا نمونہ تھا وہ ایسا نہ تھا کہ اس سے آپ وہ تاثرات حاصل کرتے جن کا اظہار آپ کے اعمال کرتے ہیں- یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا درجہ دے دیا تھا کہ اب آپ تمام مخلوقات کے مرجع افکار ہو گئے تھے اور ایک طرف روم آپ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اور دوسری طرف ایران آپ کے ترقی کرنے والے اقبال کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور دونوں متفکر تھے کہ اس سیلاب کو روکنے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جائے اس لئے دونوں حکومتوں کے آدمی آپ کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ شروع تھا- ایسی صورت میں بظاہر ان لوگوں پر رعب قائم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ آپ بھی اپنے ساتھ ایک جماعت غلاموں کی رکھتے اور اپنی حالت ایسی بناتے جس سے وہ لوگ متاثر اور مرعوب ہوتے مگر آپ نے کبھی ایسا نہ کیا- غلاموں کی جماعت تو الگ رہی گھر کے کام کاج کے لئے بھی کوئی نوکر نہ رکھا اور خود ہی سب کام کر لیتے تھے-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت لکھا ہے کہانھا سئلت عن النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ماکان یصنع فی بیتہ قالت کان یکون فی مھنہ اھلہ تعنی فی خدمہ اھلہ فاذا حضرت الصلوہ خرج الی الصلوہ ۴~}~ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم ~صل۲~ گھر میں کیا کرتے تھے- آپ نے جواب دیا- کہ آپ اپنے اہل کی مہنت کرتے تھے- یعنی خدمت کرتے تھے- پس جب نماز کا وقت آ جاتا تو آپ نماز کے لئے باہر چلے جاتے تھے-
اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کس سادگی کی زندگی بسر فرماتے تھے اور بادشاہت کے باوجود آپ کے گھر کا کام کاج کرنے والا کوئی نوکر نہ ہوتا بلکہ آپ اپنے خالی اوقات میں خود ہی اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مل کر گھر کا کام کاج کروا دیتے- اللہ اللہ کیسی سادہ زندگی ہے‘ کیا بے نظیر نمونہ ہے‘ کیا کوئی انسان بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بادشاہ ہو کر یہ نمونہ دکھایا ہو کہ اپنے گھر کے کام کے لئے ایک نوکر بھی نہ ہو- اگر کسی نے دکھایا ہے تو وہ بھی آپ کے خدام میں سے ہوگا- کسی دوسرے بادشاہ نے جو آپ کی غلامی کا فخر نہ رکھتا ہو یہ نمونہ کبھی نہیں دکھایا- ایسے بھی مل جائیں گے جنہوں نے دنیا سے ڈر کر اسے چھوڑ ہی دیا- ایسے بھی ہونگے جو دنیا میں پڑے اور اسی کے ہو گئے- مگر یہ نمونہ کہ دنیا کی اصلاح کے لئے اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر بھی اٹھائے رکھا اور ملکوں کے انتظام کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھی مگر پھر بھی اس سے الگ رہے اور اس سے محبت نہ کی اور بادشاہ ہو کر فقر اختیار کیا- یہ بات آنحضرت ~صل۲~ اور آپ کے خدام کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی- جن لوگوں کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ اپنے رہنے کے لئے مکان بھی نہ پاتے تھے اور دشمن جنہیں کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے تھے کبھی کہیں اور کبھی کہیں جانا پڑتا تھا ان کے ہاں کی سادگی کوئی اعلیٰ نمونہ نہیں- جس کے پاس ہو ہی نہیں اس نے شان و شوکت سے کیا رہنا ہے- مگر ملک عرب کا بادشاہ ہو کر لاکھوں روپیہ اپنے ہاتھ سے لوگوں میں تقسیم کر دینا اور گھر کا کام کاج بھی خود کرنا یہ وہ بات ہے جو اصحاب بصیرت کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہ سکتی-
)الفضل ۶ نومبر ۱۹۳۲ء(
۱~}~
بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوہ عبد بکاء الصبی
۲~}~
بخاری کتاب الصلوہ باب الصلوہ فی النعال
۳~}~
بخاری کتاب الاطعمہ باب الرجل یتکلف الطعام لاخوانہ
۴~}~
بخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجہ اھلہ فاقیمت الصلوہ فخرج
نے پوچھا کون ہے- آپ نے فرمایا محمدﷺ-~ وہ گھبرا گیا کہ کیا معاملہ ہے- فوراً آ کر دروازہ کھولا- اور پوچھا کیا بات ہے- آپ نے فرمایا- اس غریب کا روپیہ کیوں نہیں دیتے- اس نے کہا ٹھہرے ابھی لاتا ہوں- اور اندر سے روپیہ لا کر فوراً دے دیا- لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ یہ ڈر گیا ہے- مگر اس نے کہا میں تمہیں کیا بتائوں کہ کیا ہوا- جب میں نے دروازہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا ہوا کہ محمدﷺ~ )صلی اللہ علیہ والہ وسلم( کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں جو مجھے نوچ کر کھا جائیں گے- کوئی تعجب نہیں یہ معجزہ ہو- مگر اس میں بھی شک نہیں کہ صداقت کا بھی ایک رعب ہوتا ہے غرض کہ ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا- اور اس طرح اپنے عمل سے دکھا دیا کہ غربت میں بھی انسان کے اندر کیسی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے-
جب آپ نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو اس وقت کوئی مال آپ کے پاس نہ تھا- بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے والد نے پانچ بکریاں اور ایک دو اونٹ آپ کے لئے چھوڑے اور بعض اس سے بھی انکار کرتے ہیں- بہرحال اگر ورثہ میں آپ کو کوئی جائداد ملی بھی تو وہ ایسی قلیل تھی کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے- مگر پھر بھی آپ کی طبیعت میں حرص بالکل نہ تھی اور سیر چشمی کمال کو پہنچی ہوئی تھی- اپنے حالات کے لحاظ سے آپ کے لئے کی گنجائش تھی لیکن آپ کا لقب امین تھا اس وقت بھی ممکن ہے یہاں لاہور میں ہی سینکڑوں ایسے لوگ ہوں جن کے پاس اگر کوئی امانت رکھی جائے تو وہ اسے واپس کر دیں گے مگر دنیا انہیں امین نہیں کہتی- کیونکہ امین وہی کہلا سکتا ہے جو خطرناک امتحانوں سے گزر کر بھی امانت کو قائم رکھے- اگر ایک شخص کے پاس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارا ایک ہزار اگر وہ واپس کر دے تو یہ کوئی خوبی نہیں مگر رسول کریم ~صل۲~ کو سخت مالی امتحانوں سے گزرنا پڑتا تھا اور باوجود اس کے آپ کے پاس سب
‏a12.10
انوار العلوم جلد ۱۲
رسول کریم ~صل۲~ نے صحیح تمدن کی بنیاد رکھی
رسول کریم ~صل۲~ نے صحیح تمدن کی بنیاد رکھی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
رسول کریم ~صل۲~ نے صحیح تمدن کی بنیاد رکھی
۶- نومبر کو سیرت النبی کا جلسہ جو قادیان میں ہوا اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب ذیل تقریر فرمائی-
تشہد و تعوذ اور بسم اللہ کے بعد یہ آیات فرمائیں-
یسج للہ ما فی السموت وما فی الارض الملک القدوس العزیز الحکیم ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین و اخرین منھم لمایلحقوبھم وھوالعزیز الحکیم ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم- ۱~}~
پیچش کی وجہ سے مجھے طبی اجازت تو نہیں تھی کہ اس موقع پر کچھ کہتا لیکن دنیا میں انسان ہر وقت دلیل کے تابع نہیں ہوتا بلکہ کبھی جذبات کے تابع بھی ہوتا ہے اور یہ جذبات اور عقل کا جال ایسے رنگ میں پھیلا ہوا ہے کہ اس میں صحیح امتیاز اور فرق کرنا بہت ہی مشکل ہے- پس میرے جذبات نے عقل کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اسے یہی جواب دیا کہ تیرے لئے ایسے حکم چلانے کے اور بہت سے مواقع ہیں آج ہمیں اپنا کام کرنے دو- تم اپنے لئے کوئی اور موقع تلاش کر لینا- اور اس میں شبہ کیا ہے کہ ایسے وجود کے ذکر کے موقع پر جس کی زندگی جہاں ایک طرف عقل و خرد کی بہترین مثال ہے وہاں اس کے ذریعہ جذبات کا بھی نہایت پاکیزہ طور پر ظہور ہوا اور یہ جذباتی تمثال ایسی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
دنیا میں خالی عقل نے کبھی زندگی نہیں پائی- زندگی ہمیشہ عشق نے پائی ہے‘ جذبات نے پائی ہے- دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر اور عاشق گزرے ہیں لیکن جو حکومت عشاق نے لوگوں کے دلوں پر کی وہ فلاسفروں کو حاصل نہ ہوئی- انبیاء میں حقیقی عشق کی جو مثالیں ہیں انہیں نظرانداز کردو اور مجازی عشق ہی کو لے لو- دنیا میں کتنے آدمی ہیں جو ارسطو یا افلاطون کی باتوں کو جانتے ہیں یا ان کا نام بھی جانتے ہیں مگر کتنے ہیں جو مجنوں اور لیلی کو جانتے ہیں اور کتنے ہیں جو ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں- کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہ ہوگا جہاں شاعر نہ ہوں اور یہ شاعر کون ہیں؟ لیلیٰ اور مجنوں کے شاگرد- اور ان میں سے ان کو الگ کر کے جن کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں علیحدہ کر دیا ہے اور جو دین کی خدمت یا اسے تازہ کرنے کے لئے شعر لکھتے ہیں باقی تمام وہی ہیں جو لیلیٰ و مجنوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں- اگرچہ وہ لیلیٰ و مجنوں نہیں ہوتے لیکن تم جس وقت ان کا کلام سنو گے تو ایسا معلوم ہوگا گویا انہوں نے کبھی کھانا ہی نہیں کھایا‘ کبھی تکیہ سے سر نہیں اٹھایا کہ ساری رات ان کی آنکھیں نہ کھلی رہی ہوں اور ان کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں‘ جگر اور دل ان کے جسم میں ہے ہی نہیں‘ مدتیں ہوئیں کچھ خون بن کر اور کچھ پانی بن کر بہہ چکا ہے اور وہ جیتا جاگتا وجود ہے جو تمہارے سامنے بیٹھا ہوگا‘ کئی دفعہ مرا اور دفن ہو چکا اور اس کے معشوق نے آ کر اس کی قبر کو ٹھکرا دیا‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لیلیٰ و مجنوں کو بھی عشق میں پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے- تو جتنے دلوں پر عشق نے قبضہ کیا ہے عقل نے نہیں کیا- پس ایسا انسان جس نے عقل کے میدان میں ہی اپنی برتری ثابت نہیں کی بلکہ جذبات کے میدان میں بھی سب عاشقوں سے آگے بڑھ گیا حتیٰ کہ کوئی بھی عاشق عشق میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ اس کے ذکر کے موقع پر عقل کی بات ماننے سے آج اس نے انکار کر دیا-
خدا تعالیٰ کے عشق کو جانے دو کیونکہ وہ عام لوگوں کی رسائی سے بالا ہوتا ہے‘ انسانی عشق کو لے لو- مجنوں کیا تھا ایک عورت کا عاشق تھا- اس کا عشق باغرض تھا وہ اس سے متمتع ہونا چاہتا تھا- اس کے حسن سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا- مگر اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ کا عشق جو دنیا سے تھا‘ وہ کسی فائدہ کی غرض سے نہ تھا‘ تمتع کے خیال سے نہ تھا اور پھر وہ ایک دو سے نہیں‘ دوستوں اور پیاروں سے نہیں‘ حسینوں سے نہیں بلکہ سب سے تھا بلکہ بدصورتوں سے زیادہ تھا- قرآن کریم میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین ۲~}~اے محمد ) ~صل۲~ ( شائد تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا- ان خوبصورتوں کے لئے نہیں جنہوں نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کی طرح ایمان لا کر اپنے چہروں کو منور کر لیا تھا بلکہ ان بدصورت اور بھونڈی شکل کے لوگوں کے لئے جنہیں دیکھ کر گھن آتی تھی- جنہیں دیکھ کر روحانی شخص کو متلی ہو جاتی تھی جیسے عتبہ‘ شیبہ‘ ابوجہل وغیرہ تو ان کے عشق میں مرا جاتا ہے کہ کیوں ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا- مجنوں کا عشق اس کے مقابلہ میں کیا ہے- اس نے اس سے محبت کی جس کی شکل اسے پسند تھی لیکن محمد رسول اللہ کا عشق ان لوگوں سے بھی تھا جن کی روحانی شکل آپ کو ناپسند تھی- پس ایسا جذباتی انسان جس کا عشق کسی ایک سے نہیں ساری دنیا سے وابستہ ہے آج ہی کے لوگوں سے نہیں بلکہ آئندہ زمانوں سے بھی ہے جیسا کہ فرمایاواخرین منھم لما یلحقوابھم یعنی محمد رسول اللہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانا نہیں چاہتا بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے مفید بننا چاہتا ہے-
پس غور کرو جذباتی دنیا میں اس کا وجود کتنا عظیم الشان ہے اس کے عشق کی انتہا ہی نہیں- وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سلگاتا ہے- پھر اس سے آسمانوں کی طرف پرواز کرتا ہے اور اس کی روح خدا کے آستانہ پر جا گرتی ہے اور اس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے چنگاری لیتی ہے گویا محدود محبت غیر محدود محبت کو کھینچتی ہے اور پھر دنیا میں آتی ہے اور بعینہ اسی طرح جس طرح مشرق سے نکل کر آفتاب کی شعائیں روئے زمین پر پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں اس کی محبت بھی پھیلتی ہے- مشرق و مغرب‘ گورے اور کالے‘ خوبصورت اور بدصورت سب کو اپنے دامن میں سمیت لیتی ہے- پھر وہ مکان کی حد بندیوں کو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی ہیں مگر وہ محبت ختم نہیں ہوتی اور نہ ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو دنیا سے اٹھا لے- پھر یہ ایک وقت کی بات نہیں یوں تو ہر نیک بندے پر محبت کے ایام کبھی کبھی آتے ہیں- حضرت نظام الدین اولیاء کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے ساتھ جا رہے تھے راستہ میں ایک خوبصورت لڑکا گزرا آپ نے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لیا- اس پر شاگردوں نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا کہ شاید اس میں جلوہ الہی ہو- ایک شاگرد جو آپ کے خاص منظور نظر تھے انہوں نے ایسا نہ کیا باقیوں نے اس پر چہ میگوئیاں شروع کیں- آگے چلے تو ایک بھٹیاری بھٹی میں آگ جلا رہی تھی اور پتوں کی آگ کے شعلے جیسا کہ بہت بلند ہوتے ہیں نکل رہے تھے جو ایک خوبصورت نظارہ پیش کر رہے تھے- آپ کھڑے ہو کر اسے دیکھتے رہے پھر جھکے اور شعلہ کو بوسہ دیا- اس وقت اس شاگرد نے بھی شعلہ کو چوما جس نے لڑکے کو نہیں چوما تھا لیکن باقی شاگرد کھڑے رہے اور کسی کو جرات نہ ہوئی- اس پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے خوبصورت بچے کو چوما تھا کیونکہ چوٹا بچہ سب کو پیارا لگتا ہے‘ حالانکہ خواجہ صاحب کو اس میں خدا کا جلوہ نظر آتا تھا‘ اس لئے انہوں نے اسے چوما تھا لیکن مجھے چونکہ نظر نہ آیا‘ اس لئے میں نے نہ چوما- اب اس آگ میں مجھے نظر آیا اور میں نے اسے چوم لیا اور یہاں آپ کی اتباع کی لیکن وہاں میری آنکھیں نہ کھلیں‘ اس لئے نہ کی لیکن تم نے ہوائو ہوس کے ماتحت بچہ کو چوما تھا- تو وقتی طور پر ہر بزرگ پر ایسا وقت آتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت سے وہ لبریز ہو جاتا ہے مگر محمد رسول اللہ کی محبت وقتی نہ تھی- وہ آپ کی روح اور جسم کا ایک حصہ تھی جس کا پتہ اس سے لگتا ہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھیلعن اللہ الیھود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مسجدا ۳~}~یعنی خدا یہود و نصاریٰ پر *** کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا- گویا آپ کے دل میں تڑپ تھی کہ یہود و نصاریٰ کیوں اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں اور پھر اپنے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسا نہ کریں- گویا سکرات موت کے وقت بھی آپ کے اندر مسلمان اور کفار دونوں کی محبت کا جلوہ تھا- ایک طرف یہود و نصاریٰ کو شرک سے بچانے کا درد تھا اور دوسری طرف یہ درد تھا کہ یہی غلطی میرے ماننے والے بھی نہ کریں- غرض آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لئے ہمدردی رکھتے تھے-
آج کے لئے جو مضامین مقرر کئے گئے ہیں وہ دو ہیں ایک یہ کہ آنحضرت ~صل۲~ نے تمدن کی بنیاد مستحکم اصول پر رکھی اور دوسرے یہ کہ آپ نے احکام کی حکمتیں بیان کیں- یہ دونوں اکٹھے بھی بیان ہو سکتے ہیں اور الگ الگ بھی- لیکن میں اکٹھا ہی بیان کروں گا- میرے نزدیک تو وہ شخص جس کے دل میں انسان کی محبت ہے یعنی بنی نوع انسان کی‘ ایک فرد یا بعض افراد کی نہیں بلکہ سب کے سب کی ہو اس کے کام یقیناً ایسی حکمت پر مبنی ہوں گے جو فائدہ کا موجب ہو- انسان تبھی بے عقلی کا کام کرتا ہے جب وہ اپنے خود ساختہ اصول کو مقدم رکھے اور بنی نوع انسان کے فائدہ کو موخر کرے- ایسا شخص جب بھی کوئی فیصلہ کرے گا ضرور نامعقول باتیں کرے گا- لیکن جو بنی نوع انسان کا فائدہ چاہتا ہے اس کے اصول میں بعض اوقات تغیر و تبدل بھی ہوگا- مثلاً ایک بچہ بیمار ہے طبیب اور ماں باپ دونوں کا اس سے تعلق ہے- اگر ڈاکٹر کی دوائی سے فائدہ نہیں پہنچتا تو ماں باپ چاہیں گے کہ کسی طبیب کو بھی مشورہ کے لئے بلا لیں لیکن ڈاکٹر کہے گا کہ اگر طبیب کو بلاتے ہو تو میں جاتا ہوں- کیوں؟ اس لئے کہ اسے بچہ کی جان بچانے سے کوئی غرض نہیں وہ صرف اپنے اصول کی برتری منوانا چاہتا ہے- یہی حال اطباء کا ہے- حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے- اب تو اطباء بھی انگریزی ادویہ کا استعمال کرنے لگ گئے ہیں مگر پہلے ان کا تعصب ڈاکٹروں سے بھی بڑھا ہوا تھا- ایک رئیس کا بچہ بیمار تھا اس نے آپ کو بھی بلایا- آپ فرماتے میں گیا تو سول سرجن بھی وہاں موجود تھا- وہ تھرما میٹر لگا کر ٹمپریچر دیکھنا چاہتا تھا مگر ان کا خاندانی طبیب کہہ رہا تھا میں جاتا ہوں- انگریزی ادویہ تمام گرم خشک ہوتی ہیں تھرمامیٹر سے بچہ مر جائے گا- رئیس نے آپ سے کہا حکیم صاحب کو سمجھائیں- آپ نے کہا- حکیم صاحب بے شک انگریزی ادویہ گرم خشک ہوتی ہیں مگر یہ دوائی نہیں‘ یہ تو آلہ ہے لیکن حکیم صاحب کہاں مانتے تھے- کہنے لگے انگریزوں کی ہر چیز گرم خشک ہوتی ہے‘ میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا- اب کوئی ماں باپ ایسا نہیں کر سکتے- انہیں اس سے غرض نہیں ہوگی کہ طب یونانی جیتتی ہے یا انگریزی- ان کا مقصود تو یہ ہوگا کہ جس طرح بھی ہو بچے کی جان بچ جائے اس لئے ماں باپ کی رائے زیادہ صحیح ہوتی ہے اور الا ماشاء اللہ عام طور پر لوگ اس بات کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اچھا ڈاکٹر اور اچھا وکیل کونسا ہوتا ہے- تو جو شخص بنی نوع انسان کی محبت اپنے دل میں رکھے گا اس کے اصول یقیناً صحیح ہوں گے- قطع نظر اس سے کہ الہی کلام صحیح ہونا چاہئے اگر فلسفیانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ وسیع ہے- کیونکہ جتنی محبت ہو‘ اتنا ہی زیادہ اس چیز کا مطالعہ ہوگا اور اس لئے اس کا فائدہ بھی زیادہ ملحوظ رہے گا اور جس کے دل میں بنی نوع انسان کا عشق ہوگا اس کے اصول کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوگی اور وہی بات ہوگی کہ
ہر گز نہ نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
جس کے دل میں عشق کی لو لگی ہوگی اسے ہر دم یہی خیال ہوگا کہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے اور یہی مقصد پیش نظر رہے گا کہ اپنے معشوقوں کو دکھ درد سے بچایا جائے- اس وقت یہ بات ہوگی کہ
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
اور ایسا شخص جس کا دل عشق سے زندہ ہو‘ وہ اپنے پیچھے ایسی باتیں چھوڑے گا جو کبھی مٹ نہیں سکتیں-
پس رسول کریم ~صل۲~ نے جو اصول الہاماً بتائے یا الہام سے استنباط کر کے بتائے‘ ان کا استحکام عشق کے مطابق ہے اور عشق چونکہ غیر محدود استحکام رکھتا ہے‘ اس لئے ان اصوال کا استحکام بھی غیر محدود ہے اور چونکہ ان کی بنیاد عشق ہے اس لئے کہنا پڑے گا کہ اسلامی اصول کی بنیاد حکمت پر ہے- مثلاً ایک شخص کہتا ہے سیدھے چلتے جائو وہاں تمہیں فلاں چیز ملے گی- اب سیدھے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرف بھی انسان منہ کرے آگے سیدھا ہی ہوگا لیکن ایک اور شخص ہے جو ایک راستہ بتاتا ہے اور ساتھ ہی نقشہ دے دیتا ہے کہ اس کے مطابق چلے جائو اب اس پر عمل کرنے سے کامیابی ہوگی- لیکن غیر معین بات کبھی کامرانی کا موجب نہیں ہو سکتی- فرض کرو- ایک جرنیل حکم دیتا ہے کہ بہرحال تم نے فلاں جگہ پہنچنا ہے لیکن ایک جرنیل ساتھ ہی مزید راہنمائی کیلئے یہ بھی بتا دیتا ہے کہ پیش آمدہ متوقع مشکلات پر کس طرح قابو پایا جائے نتیجہ یہ ہوگا کہ بہرحال پہنچنے کا حکم دینے والے کی فوج کو جہاں کوئی روک پیش آئے گی مشکل میں پڑ جائے گی لیکن دوسرے کو زیادہ کامیابی ہوگی کیونکہ اس کے احکام حکمت پر مبنی ہوں گے اور دوام ہمیشہ حکمت سے ہی حاصل ہوتا ہے- پس یہ دونوں مضمون مشترک ہیں اس لئے میں تمدن کی بعض باتوں کو لے لیتا ہوں اور ان کے اندر ہی دوسری باتیں بھی آ جائیں گی-
تمدن کے معنی ہیں- مدنیت‘ شہریت‘ چند آدمیوں کا مل کر رہنا- جب چند آدمی مل کر رہیں تو کئی قسم کی دقتیں پیش آتی ہیں کیونکہ ہر شخص کی خواہشات دوسرے کے تابع نہیں ہوتیں اور بسا اوقات ٹکرا جاتی ہیں- مثلاً ایک پھول ہے- دو آدمیوں کی خواہش ہے کہ اسے حاصل کریں- اب اگر وہ مل کر رہنا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا قانون ہونا چاہئے جو یہ بتائے کہ وہ کون لے- اکٹھے مل کر رہنے کے لئے کوئی اصول مقرر کر کے ان پر چلنا ہوگا- وگرنہ سرپھٹول جاری ہو جائے گی اور اسی غرض سے دنیا نے کئی انتظام کئے ہیں- تمدن کے دوام کیلئے عورت مرد مل کر رہتے ہیں جو میاں بیوی کہلاتے ہیں وہ آئندہ نسل کی ذمہ داری اپنے سر پر لیتے ہیں اسے خاندان کہا جاتا ہے- پھر محلہ والوں کے ساتھ تعلقات کو نظام میں لانے کے لئے اور قوانین کی ضرورت ہے- پھر ان قوانین پر عمل کرانے کے لئے راجہ یا نواب یا بادشاہ کی ضرورت ہوتی ہے- پھر ایک دوسرے سے لین دین‘ شادی غمی‘ موت پیدائش وغیرہ معاملات کے لئے آئین و ضوابط ضروری ہیں اس کے لئے قضاء یا ججوں وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے- گویا ان قوانین کا نام جن سے بنی نوع انسان آرام سے رہ سکیں اور باہمی جھگڑے دور ہو جائیں تمدن ہے-
اس کے متعلق پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس انتظام کو لوگ قبول کیوں کریں- کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون فلاں نے اس لئے بنایا ہے کہ مجھے نقصان پہنچائے میں اسے نہیں مانتا- تمدن قائم کرنے والے کہتے ہیں ایسی مشکلات کو دور کرنے کیلئے بادشاہ چاہئے جس کے پاس فوج اور پولیس ہو تا کہ لوگوں کو سزا دے کر ٹھیک کر دے- مگر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جن کے پاس زیادہ زور ہوگا وہی حکومت کرے گا- اگر یہ اصول صحیح مان لیا جائے تو رعایا میں سے جس کا زور چلے گا وہ بھی چلائے گا اسے پھر ہم کس اصول کی بناء پر روک سکیں گے- اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تک دنیا نہیں دے سکی- یہی وجہ ہے کہ بغاوت کو دور کرنے یا اسے ناجائز منوانے کیلئے دنیا کے پاس کوئی دلیل نہیں- جو دلیل دی جائے باغی وہی بادشاہ پر چسپاں کر دیتے ہیں- گویا جو تمدن کی بنیاد ہے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ کیوں ایک دوسرے کی بات مانیں اور کیوں اپنا حق چھوڑ دیں- اس کا جواب دنیا معلوم نہیں کر سکی لیکن رسول کریم ~صل۲~ نے اس سوال کا جواب دیا ہے- فرمایا دیکھو تمہارے تمدنی اختلافات کی بنیاد یہ ہے کہ ہم کیوں کر یہ مان لیں کہ جس کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے کا کام ہے وہ منصف اور عادل ہے ممکن ہے وہ دشمن سے سختی اور دوست سے نرمی کا برتائو کرے پھر کس طرح تسلیم کر لیں کہ وہ صحیح فیصلہ کرے گا- آپ نے فرمایا یہ دلیل ٹھیک ہے- واقعہ میں لوگوں کے فوائد اس طرح ہیں‘ کوئی کسی کا رشتہ دار ہے‘ کسی کی کسی سے دوستی اور کسی سے دشمنی اور بعض سے منافرت اس لئے ان حالات کی موجودگی میں انسانوں کے قواعد قابل اعتماد نہیں ہو سکتے اور وہ یقیناً غلط ہیں- دراصل تمدن کی بنیاد الہام پر ہونی چاہئے اور تمدنی قوانین اس ذات کی طرف سے ہونے چاہئیں جس کی نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ کسی سے دشمنی- عورتوں سے پوچھو کہتی ہیں مردوں کے ہاتھ میں چونکہ قانون بنانا ہے اس لئے جس طرح چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں- ہندوستانی کہتے ہیں ملکی قوانین انگریزوں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائے ہوئے ہیں اس لئے ہم سول نافرمانی کرتے ہیں- گاندھی جی کہتے ہیں ہم انگریزوں کا قانون نہیں مانتے وہ ہمارے مخالف ہیں- مگر خدا تعالیٰ کے قوانین کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا- خدا تعالیٰ کو اس سے غرض نہیں کہ لنکا شائر کا کپڑا فروخت ہو یا نہ ہو اور ہندوستان کی روئی بکے یا نہ بکے‘ نہ اسے کسی ملک کے نمک سے سروکار ہے اس کے نزدیک سب یکساں ہیں اس لئے رسول کریم ~صل۲~ نے آ کر فرمایااللہ نور السموت والارض ۴~}~خدا ہی آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے- سب چیزیں اسی سے طاقت پاتی ہیں- وہ جس قانون کو جاری کرتا ہے وہ ایسے سرچشمہ سے نور حاصل کرتا ہے کہ جو لا شرقیہ ولا غربیہ ۵~}~جو نہ شرقی ہے نہ غربی- گویا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آ کر بتایا کہ دنیا میں کبھی امن نہیں ہو سکتا جب تک تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو- باقیوں نے کہا ہم تمدنی قوانین بنائیں گے اور اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے تمدنی امور میں دخل دیا ہے- اب وہ لوگ دھکے کھا کھا کر وہیں آ رہے ہیں جہاں اسلام لانا چاہتا ہے- تعلقات خواہ میاں بیوی کے ہوں یا ماں باپ کے‘ بھائی بھائی کے ہوں یا بہن بھائی کے‘ رعایا اور راعی کے ہوں یا مختلف حکومتوں کے سب میں دنیا اسلام کی طرف آ رہی ہے- پس پہلی بنیاد جو تمدن کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ نے رکھی وہ یہ تھی کہ تمدن کی بنیاد الہام پر ہونی چاہئے والا بعض کو شکوہ رہے گا کہ بعض کی رعایت کی گئی ہے- اب صرف یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جو تمدن رسول کریم ~صل۲~ نے پیش کیا وہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں- لیکن یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ واقعی خدا کی طرف سے ہے اس پر رعایت کا شبہ نہیں ہو سکتا- دنیا میں جو قوانین لوگ بناتے ہیں ان کے متعلق تو یہ خیال ہو سکتا ہے کہ بنانے والے کو اس کا حق بھی تھا یا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا- اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قانون فی الواقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا- اسلام سے جملہ تمدنی امور کے متعلق ایسے قوانین بنائے ہیں کہ ان میں کوئی رخنہ یا نقص نہیں نکالا جا سکتا اور ایسی تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ انسانوں کا باہم مل کر بیٹھنا ممکن ہو گیا ہے-
دنیا میں تمدنی امور میں پہلی چیز شادی یعنی میاں بیوی کے تعلقات ہیں اسی سے نسل انسانی چلتی ہے اس کے متعلق ہی اسلامی تعلیم کو اگر دیکھ لیا جائے تو ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہو جاتی ہے- دنیا میں شادی عام طور پر یا تو زور سے کی جاتی ہے یا محبت سے- زور سے شادی دو قسم کی ہوتی ہے یا تو مرد زبردستی کسی عورت سے شادی کرلے اور یا لڑکی کے والدین زبردستی جس سے چاہیں شادی کر دیں-
بابل کی حکومت میں یہی قانون رائج تھا کہ لڑکیاں جب جوان ہو جاتیں تو والدین انہیں مارکیٹ میں لا کر اس لئے کھڑا کر دیتے کہ ہم نے اسے پال پوس کر جوان کیا ہے اب کون اس کی زیادہ قیمت دیتا ہے اور جو ان کی منشاء کے مطابق قیمت دے دیتا وہ لے جاتا لڑکی کو اس میں کوئی اختیار نہ تھا- ہمارے ملک میں بھی یہی رواج ہے- یہاں اگرچہ مارکیٹ میں تو نہیں لے جاتے مگر گھر میں قیمت لے لیتے ہیں- اگر کہو کہ لڑکی کو مارکیٹ میں لے جائو تو کہیں گے استغفراللہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے لیکن یوں گھر میں روپیہ لے لیں گے حالانکہ یہ حماقت ہے- اگر قیمت ہی لینی ہے تو زیادہ سے زیادہ لینی چاہئے- غالب نے کہا ہے-
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
یعنی اگر مجھے سر ہی پھوڑنا ہے تو اے معشوق تیرے دروازہ پر ہی کیوں پھوڑوں- جہاں چاہوں پھوڑ سکتا ہوں- اسی طرح اگر لڑکیوں کو بیچنا ہی ہو تو زیادہ قیمت پر مارکیٹ میں کیوں نہ لے جائیں- ہمارے ملک میں نوے فیصدی زمیندار لڑکیوں کو بیچتے ہیں اس کے لئے باقاعدہ سودا کرتے ہیں اور دو سو چار سو پانچ سو‘ ہزار غرض کہ جس قدر بھی قیمت مل سکے وصول کرتے ہیں- وہ اپنی لڑکیوں کے لئے اچھا خاوند تلاش نہیں کرتے بلکہ جو زیادہ پیسہ دے اور اس طرح بسا اوقات جوان لڑکیاں بوڑھوں سے‘ شریف بدمعاشوں سے‘ لائق نالائقوں سے اور عقلمند بیوقوفوں سے بیاہ دی جاتی ہیں- گویا ایک طریق زور سے شادی کر دینے کا تو یہ ہے کہ ماں باپ قیمت لے کر جہاں چاہیں لڑکی کو بیاہ دیں- اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے خاوند کی اگر موت بھی ہو جائے تو لڑکی آزاد نہیں ہو سکتی اسے خاوند کے بھائی یا کسی اور رشتہ دار سے بیاہ دیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے قیمت ادا کر کے اسے خریدا ہوتا ہے- اور بیوہ ہو جانے کی صورت میں اگر ماں باپ اسے اپنے گھر لاتے ہیں تو چوری یا کسی حیلہ سے کیونکہ بصورت دیگر جہاں لڑکی بیاہی ہوتی ہے وہ ادا کردہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس طرح ایسی لڑکی نہ صرف خاوند کی زندگی میں بلکہ اس سے آزادی کے بعد بھی قید ہی ہوتی ہے- دوسرا طریق یہ ہے جو ہندوئوں یا انگریزوں میں بھی رائج تھا کہ مرد جبر سے لے جائے- بڑے بڑے راجے مہاراجے اپنی لڑکیوں کو پیش کر دیتے کہ کون اسے چھین کر لے جاتا ہے اسے سوئمبر کی رسم کہا جاتا- بڑے بڑے راجے مہاراجے امیدوار ہو کر آتے- طاقتوں کا مظاہرہ کرتے اور جو سب کو مغلوب کر لیتا وہ اس لڑکی کا خاوند ہو جاتا- خواہ وہ بدصورت ہی ہو یا جاہل یا نقائص اخلاقی اپنے اندر رکھتا ہو- انگریزوں میں لڑکی کی مرضی سے شادی کا دستور ہے مگر وہ مرضی بھی غیر مرضی کے برابر ہے- وہاں یہ طریق ہے کہ لڑکی لڑکا آپس میں ملیں ایک دوسرے سے محبت کریں اور جب پسند آ جائے تو شادی کر لیں- کسی اور کا اس میں دخل نہیں ہوتا- اور جیسا کہ میں نے کہا ہے چونکہ جذبات کی دنیا سب پر غالب ہے اس طریق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہنگامی جذبات کے ماتحت وہ اخلاق و شرافت وغیرہ تمام اوصاف بھول جاتے ہیں- صرف مال اور حسن وغیرہ کو دیکھ کر شادی کر لیتے ہیں اور جذبات جب ابھرتے ہیں تو عقل اور ہوش و حواس کھو دیتے ہیں- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے چور‘ ڈاکو اپنے آپ کو شریف اور امیر زادہ ظاہر کر کے امراء کی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور پھر تباہ کر دیتے ہیں- سات آٹھ سال کا عرصہ ہوا اخباروں میں ایک شادی کا بہت چرچا رہا- جرمنی میں ایک شخص آیا اور اس نے اپنے آپ کو روس کا شہزادہ ظاہر کر کے قیصر جرمنی کی ہمشیرہ سے شادی کر لی حالانکہ وہ فی الواقع کسی باورچی خانہ میں برتن مانجھنے والا تھا جس نے کسی نہ کسی طریق سے روپیہ حاصل کر کے یہ فریب کیا جو جلد ہی ظاہر ہو گیا- تو محض اپنی مرضی کی شادی کا انجام بھی اچھا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس حالت میں اخلاق اور شرافت وغیرہ امور کو کوئی نہیں دیکھتا- مال و دولت یا حسن پر لٹو ہو جاتے ہیں- اسلام نے شادی کے متعلق جو تعلیم دی اس سے پہلے شادی کی حکمت بتائی اور پھر یہ بتایا کہ شادی کیونکر کرنی چاہئے- میاں بیوی کی ذمہ داریاں کھول کھول کر بیان کیں نتائج بتائے اور پھر بتایا کہ شادی دونوں کی مرضی سے ہونی چاہئے مگر اس طرح کہ اس میں ماں باپ کی مرضی بھی شامل ہو- اکیلے ماں باپ بھی اپنی مرضی سے اپنی لڑکی کی شادی نہیں کر سکتے مگر لڑکی بھی صرف اپنی مرضی سے ان کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتی- اگر صرف ماں باپ کی مرضی ہو تو بعض ماں باپ ایسے بھی ہوں گے جو صرف روپیہ دیکھیں گے لیکن لڑکی تو یہ بھی دیکھے گی کہ میری ساری ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتا ہے یا نہیں- بعض شکلوں کو ہی بعض لڑکیاں برداشت نہیں کر سکتیں- رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں ایک لونڈی تھی جس نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے خاوند کی شکل اچھی نہیں لگتی- پھر ایک اور عورت کے متعلق آتا ہے کہ اس نے کہا- یا رسول اللہ) ~صل۲~ ( میں اس شخص کے ساتھ جس سے میری شادی کی گئی ہے‘ رہنا گوارا نہیں کر سکتی- چنانچہ آپ نے علیحدگی کا حکم دے دیا-۶~}~ تو بسا اوقات بعض آدمیوں کی شکل سے عورتوں کو طبعاً نفرت ہوتی ہے- لڑکی ان باتوں کو دیکھ سکتی ہے اس لئے رسول کریم ~صل۲~ نے شادی کی بنیاد اس امر پر رکھی کہ دونوں کی مرضی سے ہو ماں باپ کی بھی اور لڑکی کی بھی- اب سوال یہ ہے کہ اگر دونوں کی مرضی نہ ملے تو کیا کیا جائے- اگر لڑکی کو وہ پسند ہو مگر ماں باپ اپنے اغراض کے ماتحت وہاں اس کی شادی نہ کریں تو اسلام نے لڑکی کو اختیار دیا ہے وہ عدالت میں جا کر درخواست دے سکتی کہ میرے والد اپنے اغراض کے ماتحت مجھے اچھے رشتہ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور عدالت تحقیقات کے بعد اسے اجازت دے سکتی ہے کہ شادی کر لے- گویا اس طرح سب کے حقوق محفوظ کرنے کا انتظام کر دیا گیا- لڑکی اور ماں باپ دونوں کی مرضی کو ضروری رکھا اور اس طرح کا رشتہ یقیناً مبارک ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی شادیاں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں- یورپ میں نوے فیصدی شادیاں ناکام ہوتی ہیں- حتیٰ کے وہاں یہ لطیفہ مشہور ہے کہ اگر کوئی مرد و عورت اکٹھے جا رہے ہوں تو کہتے ہیں یا تو یہ میاں بیوی نہیں یا ان کی شادی پر ابھی ایک ماہ نہیں گزرا- لیکن مسلمانوں میں نویفیصدی شادیاں کامیاب ہوتی ہیں- ہندوستان میں دیکھ لو‘ غیر قوموں کی عورتیں زیادہ نکلتی اور اغوا ہوتی ہیں سوائے ان قوموں کی عورتوں کے جن کی مالی یا اخلاقی حالت لوگوں نے خراب کر دی ہے- غرض اسلام نے زوجیت کے تعلق کی ابتداء ایسے اصول پر رکھی کہ اس کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی- پھر دھوکے بازی سے بچنے کیلئے یہ حکم دیا کہ نکاح علی الاعلان ہو- جو علی الاعلان نہیں وہ نکاح ہی نہیں- اس سے بھی بہت سے فسادات کا انسداد ہو جاتا ہے- پوشیدہ طور پر تو کوئی غلط بات ظاہر کر کے دھوکا بھی دے سکتا ہے لیکن اعلان سے عام طور پر عیوب کھل جاتے ہیں- پھر تمدنی خرابیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مرد چونکہ کماتا ہے دولت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے وہ ناجائز طور پر عورت کو خرچ وغیرہ سے تنگ کر سکتا ہے اور عورت کو اس کا محتاج رہنا پڑتا ہے- یورپ نے اس کا یہ علاج تجویز کیا ہے کہ وہ نوکریاں کرنے لگ گئی ہیں نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بعض ملکوں کی نسلیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں اور بعض ملکوں میں دس سال کے اندر چار‘ پانچ فیصدی نسل کم ہو گئی ہے- اسلام نے اس کا علاج یہ رکھا ہے کہ ہر شخص کی حیثیت کے مطابق عورت کا مہر مقرر کر دیا علاوہ اخراجات کے- گویا مہر عورت کا جیب خرچ ہے دوسری سب ضرورتیں پھر بھی خاوند کے ذمہ ہیں اور مہر اس کے علاوہ ہے- جس سے وہ ان ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے جو وہ خاوند کو نہیں بتانا چاہتی- مثلاً اس کے والدین غریب ہیں اور وہ ان کی مدد کرنا چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی خاوند پر اپنی یہ خواہش ظاہر کر کے اس کی نظروں میں خود ذلیل ہونا اور والدین کو ذلیل کرنا نہیں چاہتی- یا مثلاً اس کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے بھائیوں کو تعلیم دلانا چاہتی ہے اور ساتھ ہی اس کی غیرت یہ بھی برداشت نہیں کرتی کہ خاوند کا احسان برداشت کرے اس لئے اسلام نے پہلے دن سے عورت کے ہاتھ میں مال دے دیا- جس دن شادی ہوتی ہے خاوند کا مال کم ہو جاتا ہے کیونکہ اسے مہر کے علاوہ اور بھی اخراجات کرنے پڑتے ہیں لیکن نکاح کے ساتھ ہی عورت کا مال بڑھ جاتا ہے- گویا وہ اسی دن سے اس لحاظ سے خاوند کے بے جا تصرف سے آزاد ہو جاتی ہے اور اس طرح جو جھگڑے وغیرہ یورپ میں پیدا ہو رہے ہیں اسلام نے پہلے دن سے ہی ان کا انسداد کر دیا-
پھر مرد و عورت کے تعلقات میں ایک وجہ فساد یہ ہوتی ہے کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں میرا بچہ نہیں اور یہ ایک ایسا نازک معاملہ ہے جس کا علاج کوئی نہیں کیونکہ اس بات کا کسی کے پاس کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی فی الواقعہ باہم ملے- بعض لوگوں نے اس کے لئے بعض ذرائع تجویز کئے لیکن وہ نہایت گندے ہیں- مثلاً بعض اقوام میں یہ رواج ہے کہ ملوث پارچات دکھاتے ہیں لیکن یہ نہایت ہی خطرناک طریق ہے اور اس میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ بعض عورتوں کا خون نکلتا ہی نہیں اور چونکہ سب لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے گندے کپڑوں کی نمائش سے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ عورت بدکار تھی حالانکہ وہ ایسی نہیں ہوتی- شریعت اسلامیہ نے اس کے لئے کیا لطیف طریق رکھا ہے اور وہ یہ کہ جب میاں بیوی ملیں تو اگلے روز ولیمہ کی دعوت کی جائے- اس طرح بغیر ایک لفظ منہ سے نکالے یہ اعلاج ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی آپس میں مل گئے ہیں-
پھر ایک بات اسلام نے یہ رکھی کہ نکاح سے قبل استخارہ کر لو- رسول کریم ~صل۲~ نے ہر اہم امر میں استخارہ کا حکم دیا ہے بالخصوص شادی کے بارے میں-۷~}~ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلد بازی کے برے انجام سے انسان بچ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کر سکتا ہے- جلد بازی سے بھی کئی جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ بڑا اچھا رشتہ ہے آج ہی کر لو لیکن مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے عیوب ظاہر نہ ہونے پائیں- لیکن اگر سات روز تک استخارہ کیا جائے تو اس عرصہ میں اور لوگوں سے بھی شادی کا ذکر آئے گا اور اس طرح بات کھل جائے گی- پھر استخارہ کی وجہ سے جذبات دب جاتے ہیں اور انسان روحانی تصرف کے ماتحت ہوتا ہے- خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اس کے علاوہ ہے-
شادی کے بعد پھر میاں بیوی کے تعلقات شروع ہو جاتے ہیں- اس میں بھی اسلام کا دیگر مذاہب کی تعلیم سے تصادم ہوتا ہے- باقی سب مذاہب اسے ناپاک قرار دیتے ہیں وہ اس کی اجازت بھی دیتے ہیں مگر اس کے باوجود اسے ادنیٰ اور ذلیل قرار دیتے اور شادی نہ کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں- اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فطرت سے مجبور ہو کر ان تعلقات کو قائم بھی کیا جاتا ہے مگر چونکہ دل میں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ناپاک تعلقات ہیں اس لئے دل پر زنگ لگتا رہتا ہے کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں- گاندھی جی نے لکھا ہے- میں جب بھی بیوی کے پاس جاتا تو میرے دل پر ایک بوجھ ہوتا کہ میں برا کام کر رہا ہوں- آخر ہم نے قسم کھائی کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے یہ ہندو دھرم کی تعلیم کا اثر تھا- ایک طرف تو فطرت میں ایسا جذبہ ہے- پھر اولاد کی خواہش ہوتی ہے- صحت کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے لیکن دوسری طرف یہ خیال ہوتا ہے کہ بری بات ہے- نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کام کرتے بھی ہیں اور دل سیاہ ہوتا جاتا ہے کہ ہم برا کام کر رہے ہیں- اسلام نے بتایا کہ یہ خیال غلط ہے- اگر اس خیال کے ماتحت تعلقات قائم کرو گے تو بچہ کے دل میں بھی یہ خیال ہوگا اور گناہ کی مہر لے کر رحم مادر سے نکلے گا- اس کی بنیاد ہی گناہ پر ہوگی اور وہی مثال ہوگی کہ
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا مے رود دیوار کج
بچے کی پیدائش کی بنیاد ہی جب گند پر ہوگی تو اس کا دل کبھی پاک نہ ہو سکے گا-
رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا یہ تعلقات پاکیزہ ہیں اور جو شادی نہیں کرتا وہ غلطی کرتا ہے- رہبانیت پسندیدہ چیز نہیں جس شخص نے شادی نہ کی اور وہ مر گیا- فھو بطال ۸~}~اس کی عمر ضائع گئی-
غرض آپ نے بتایا کہ یہ تعلق گندہ نہیں بلکہ انسانی صحت اور دماغی ترقی کا منبع ہے- میاں بیوی گویا پاکیزہ محبت کا مدرسہ اور محبت کی پہلی کڑی ہیں اور اسلام نے یہ کہہ کر کہ یہ پاکیزہ تعلقات ہیں گناہ کے احساس کو مٹا دیا- گناہ کے احساس کی وضاحت کے لئے ایک مثال دے دیتا ہوں- فرض کرو کہ ایک شخص کہیں سفر پر جا رہا ہے سٹیشن پر آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا بعد میں بیوی کو خیال آیا کہ میاں کو کھانے کی تکلیف ہوگی اس نے کھانا تیار کر کے کسی کے ہاتھ سٹیشن پر بھیج دیا- گاڑی روانہ ہو رہی تھی اور وہ بمشکل کھانے کو اس ڈبہ میں رکھ سکا جس میں میاں بیٹھا ہے لیکن اسے اطلاع نہ دے سکا- دوران سفر میں اسے بھوک لگتی ہے اور وہ کھانا کھانے لگ جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے یہ احساس ہے کہ ممکن ہے یہ کسی اور کا ہو- اس صورت میں اگرچہ کھانا اسی کا ہے لیکن اس احساس کی وجہ سے اس کے دل پر چوری کا زنگ لگتا جائے گا- تو اصل چیز احساس ہوتا ہے اور اسلام نے ان تعلقات سے گناہ کے احساس کو مٹا دیا- اور پھر یہ بتایا کہ شادی محبت کے اجتماع کا نام ہے اور چونکہ محبت جب پورے جوش پر ہو تمام دوسرے تعلقات دب جاتے ہیں اس لئے شریعت نے حکم دیا کہ جب میاں بیوی ملیں تو دعا کریںاللھم جنبنا الشیطن وجنب الشیطن ما رزقتنا ۹~}~یعنی اے اللہ ہمیں بھی شیطان سے بچا اور اس میل کے نتیجہ میں اگر کوئی اولاد ہونے والی ہے تو اسے بھی بچا- میاں بیوی کی محبت پاک ہی سہی مگر ایسا نہ ہو کہ ادنیٰ خیالات اعلیٰ پر غالب آ جائیں اور اس طرح محبت کے جذبات کے غلبہ کے باعث جس نقصان کا احتمال ہو سکتا تھا اس کا بھی انسداد کر دیا- پھر اس موقع پر جس قدر توجہ ایک دوسرے کی طرف یہ ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں روحانی طاقتیں باہر کی طرف جاتی ہیں- میاں بیوی کا یہ تعلق ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے میں جذب ہونے کی کوشش کرتا ہے- اس کے نتیجہ میں ایسی رو پیدا ہوتی ہے کہ دماغی توجہات کو ایک ہی طرف بدل دیتی ہے اس کے لئے اسلام نے غسل رکھا تا ایسا نہ ہو کہ دماغ اس طرف لگا رہے بلکہ جسم ٹھنڈا ہو کر بھاپ بند ہو جائے- گویا غسل ان نقائص کو دور کرنے کے لئے ہے جو باہم ملنے سے قدرتی طور پر پیدا ہو سکتے تھے- اور غسل کے ذریعہ پھر ان طاقتوں کو مجتمع کر دیا تا دوسری طرف ان کو لگایا جا سکے- پھر ان تعلقات کو محدود کیا- بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں میاں بیوی کا آپس میں ملنا درست نہیں ہوتا- بعض شرائع نے ایسی حالت کو گند قرار دیا ہے اور تورات کا حکم ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو اسے الگ رکھا جائے اور ہاتھ تک نہ لگایا جائے- بعض نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر وقت مرد و عورت مل سکتے ہیں لیکن یہ دونوں باتیں تمدن کے لئے تباہ کن ہیں- اگر بالکل علیحدہ کر دیا جائے تو عورت حقیر اور ذلیل خیال کی جائے گی اور اگر ملنے کی اجازت ہو تو یہ دونوں کی صحت کے لئے تباہ کن ہے اس لئے اسلام نے یہ تعلیمی دی کہ ھواذی ۱۰~}~ تکلیف کی چیز ہے- اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے- لیکن عورت ایسی ہی پاک ہے جیسے تم- گویا ایک طرف تو علیحدگی کا حکم دیا تا قوتیں پھر نشوونما پائیں اور دوسری طرف گند کے نقصانات سے آگاہ کر دیا-
پھر بہت سے فتنے اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ بعض مذاہب میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کی روح اور ہے اور مرد کی اور بلکہ بعض عیسائیوں میں تو یہ خیال بھی ہے کہ عورت کی روح ہوتی ہی نہیں- مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایامن انفسکم ۱۱~}~ جیسی روح تمہاری ہے ویسی عورتوں کی ہے- اب دیکھو‘ کیسی امن کی تعلیم ہے عام طور پر اس لئے لڑائی جھگڑا ہوتا ہے کہ مرد سمجھتے ہیں عورت میں حس ہوتی ہی نہیں اچھا کھانا‘ پہننا‘ سیرو تفریح سب اپنے لئے ہے- ایسے لوگ عورت کو جب چاہیں مارپیٹ لیں گے اور بلاوجہ اپنی سیادت جتاتے رہیں گے کیونکہ کہ وہ سمجھتے ہیں عورت میں حس نہیں- حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے پنجاب میں تو عام طور پر عورت کو جوتی سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن کریم نے بتایا کہ من انفسکم تم میں اور عورت میں کوئی فرق نہیں- جس طرح بری بات تمہیں بری لگتی ہے اس طرح اس کو بھی بری محسوس ہوتی ہے اور اسے بھی تمہاری طرح ہی اچھی باتوں کی خواہش ہے-
یہ مضمون تو بہت لمبا ہے اور ابھی میں نے اس کا پہلا حصہ ہی بیان کیا ہے مگر چونکہ مغرب کا وقت ہو چکا ہے اس لئے اسے بند کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی اصلی شان کو دنیا میں پیش کر سکیں- تا وہ لوگ بھی جو اس سے اس وقت دور ہیں قریب ہو جائیں اور ساری دنیا اس اخوت میں پروئی جائے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور وہ لڑائی جھگڑے دور ہو جائیں جنہوں نے ایک آدم کی اولاد کو دو کیمپوں میں تقسیم کر رکھا ہے-
۱~}~
الجمعہ : ۲ تا ۵


‏ ۲2]~}~ f[rt
الشعراء : ۴


۳~}~
بخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور
۴‘۵~}~
النور : ۳۶


۶~}~
ابن ماجہ کتاب النکاح باب من زوج ابنتہ وھی کارھہ بخاری کتاب الحیل باب فی النکاح
‏]1h [tag۷~}~
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالا ستخارہ
۸~}~

۹~}~
بخاری کتاب الدعوات باب مایول اذاتی اھلہ
۱۰~}~
البقرہ : ۲۲۳
۱۱~}~ النحل : ۷۳
‏ a12.10,a
انوار العلوم جلد ۱۲
مستورات سے خطاب
مستورات سے خطاب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مستورات سے خطاب
)فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۳۲ء برموقع جلسہ سالانہ(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
جس طرح اعصاب اور رگوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے اسی طرح عورتوں اور مردوں کے تعاون کے ساتھ دنیا کا نظام چلتا ہے- مگر آج کل کے زمانہ میں ہر طرف جنگ شروع ہے- آپس میں نااتفاقی بڑھ رہی ہے اور پیشگوئی ہے کہ قیامت کے قریب سب نعمتیں مٹا دی جائیں گی- سب و حوش یعنی غیر تعلیم یافتہ قومیں اور ادنیٰ قومیں ملائی جائیں گی اور ان کو اٹھایا جائے گا تمام بنی آدم مساوات چاہیں گے- اس واسطے بنی آدم کے اس حصہ کو بھی یعنی عورتوں کو احساس ہوا کہ ہم بھی مساوات وغیرہ میں حصہ لیں اس لئے عورتوں نے بھی جنگ اور جھگڑوں میں حصہ لینا شروع کیا- ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور اس کا نام بھیڑ چال بھی رکھا ہے- گویہ ملکہ اور جذبہ ہر ایک ملک میں پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ بہت زیادہ ہے- جس طرح ایک گیدڑ بھاگا جاتا تھا کسی نے پوچھا کہاں بھاگے جاتے ہو- کہنے لگا بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے کہ شہر کے تمام اونٹ پکڑ لئے جائیں- اس نے کہا تم تو گیڈر ہو اور حکم اونٹوں کیلئے ہے- کہنے لگا شاید گیڈر بھی پکڑے جائیں- تو بعینہ یہی طریقہ ہمارے ملک کی عورتوں نے اختیار کیا کہ عیسائی اور ہندو وغیرہ عورتوں کی ریس میں آ کر کہہ دیا کہ ہمیں ہمارے حقوق دیئے جائیں حالانکہ مرد کون ہوتے ہیں ان کو حقوق دینے والے ان کو خود خدا تعالیٰ نے حقوق دیئے ہیں- قرآن کریم میں جس طرح مسلمان عورت کی تعریف آئی ہے کسی کتاب یا مذہب میں نہیں پائی جاتی- عیسائیوں کا مذہب ہے کہ عورت میں روح ہی نہیں- دوسرے مذاہب میں کہیں تو عورت کو شیطان کا آلہ اور کہیں شر کی جڑ اور کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ دیا ہے مگر اسلام نے قرآن نے جہاں مومن مرد کا ذکر فرمایا وہیں مومنات عورتوں کا ذکر بھی فرمایا- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رسولکریم ~صل۲~ کی بیوی کی حیثیت سے ہی قدر نہیں بلکہ عائشہ‘ عائشہ ہو کر مشہور ہوئیں- پھر عیسائیت میں عورت کا حق کوئی نہیں رکھا گیا بلکہ ماں کا بھی حق نہیں رکھا ہے کیونکہ حضرت مسیح کو جب یہ کہا گیا کہ مریم ملنے آئی ہے تو کہا مریم کون ہے؟ جا اے عورت! میں تجھ کو نہیں جانتا-۱~}~ سو جب کہ ماں کا حق نہیں جانا تو بیوی کا حق بھلا کیا جانے گا- تو عیسائی جب کہ عورت میں روح ہی نہیں مانتے تو حق کیا دیں گے اور مسلمان عورتوں نے ان کی ریس کی- عقلمند آدمی کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی کے زیر اثر نہ ہو- اسلام نے عورت کو مساوی حقوق دیئے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر- دیکھو عورت کے نکاح پر مہر پہلے دلواتا ہے اور وہ محض اس کی ملکیت قرار دیا گیا جس پر کسی اور کا تصرف نہیں ہو سکتا- فرانس ایسا ملک ہے کہ وہاں کی تہذیب و تمدن سب یورپ میں آزادانہ ہے- چونکہ عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا اس لئے وہاں کی عورتوں نے اپنے حقوق لینے کیلئے جنگ شروع کی اور محض بھیڑ چال کے طور پر ہماری مسلم عورتوں نے بھی اپنے حقوق لینے کا مطالبہ کیا حالانکہ ان کو خدا نے سب حقوق دیئے تھے مگر خدا جانے وہ کیوں مانگنے لگیں-
ہاں انہوں نے اپنے ملے ہوئے حقوق کو استعمال نہیں کیا- غیر مسلم عورتوں کو تو حقوق ملے ہی نہیں تھے تب ان کا مطالبہ تھا مگر مسلم عورت کو تو خود خدا نے حقوق دیئے- اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کو استعمال کرنا نہیں سیکھا اور نہ ان کو استعمال کرنے آتے ہیں-
سو تم بجائے جھگڑے اور حقوق طلبی کی جدوجہد کے اپنے حقوق کو جو اسلام نے تم کو دیئے ہیں استعمال کرنا سیکھو- یونہی غلطی کھا کر شوروغل کرنا تو پھر وہی مثال ہوگی جیسا کہ ایک بادشاہ کے کسی قابل سپاہی کو تلوار چلانا عمدگی سے آتی تھی اور شہزادہ صاحب کو ریس آئی کہ بادشاہ سلامت کی اس پر اتنی مہربانی اور شفقت ہے کہ ہر روز انعامات دیتے اور قدر افزائی کرتے ہیں بادشاہ کے حضور عرض کیا کہ مجھے ایک عمدہ تلوار دی جائے- بادشاہ نے سپاہی کو بلایا کہ تلوار شہزادہ کو دے دو- بہادر سپاہی نے بہتیرا عرض کیا کہ حضور ان کو چلانی نہیں آتی کہیں ٹیڑھی اور غلط چلا کر الٹا نقصان کریں گے مگر شہزادہ کی ضد برابر جاری رہی- آخر تلوار حاصل کر لی اور غلط انداز سے چلا کر اپنا بازو کاٹ لیا اس پر بادشاہ نے ڈانٹا اور وہ مورد عتاب ہوا- تو ٹھیک اسی طرح مسلمان عورتوں کو حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا- دیکھو اسلام میں بچے کو ماں کا دودھ چھڑانے کے متعلق بھی حکم ہے کہ آپس کے مشورے سے چھڑائو-
مہر کے متعلق فرمایا تمہاری ملکیت ہے چاہے جس طرح استعمال کرو- تو لوگوں نے اس پر غلطی یہ کی کہ مہر دس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ باندھنے شروع کئے- کیا فائدہ اگر کسی کی آمدنی ایک پیسہ کی بھی نہ ہو اور مہر باندھ لے لاکھ دو لاکھ تا کہ وہ ادا نہ ہو سکے- یہ کوئی فخر یا اظہار دولتمندی کا طریقہ نہیں- ایسی ایسی مشکلات لوگوں نے صحیح طور پر حقوق کا استعمال نہ سیکھنے کی وجہ سے خود بخود اپنے اوپر ڈال لی ہیں- الغرض مسلمان عورت کو خدا نے تو ہر طرح کے حقوق دیئے ہیں چاہئے کہ ان کا صحیح طور سے استعمال کرنا سیکھے- اگر انسان کے پاس ایک بہت عمدہ گھوڑا ہے مگر وہ اس پر چڑھنا نہیں جانتا تو گھوڑا بے فائدہ ہے- صحیح استعمال کے بعد ارادہ کی ضرورت ہے اگر انسان کو علم بھی ہو‘ قابلیت بھی ہو‘ ارادہ نہ ہو تو وہ قابلیت بھی کچھ مفید نہیں- بعض لوگ عالم اور قابل ہوتے ہیں مگر ارادہ نہیں ہوتا تو وہ کچھ بھی کام نہیں کر سکتے- پھر نیت پختہ اور عمل ہو جب کام کا ارادہ کرے اس پر عمل کرے- بعض لوگ کسی کام کا علم رکھتے ہیں‘ قابلیت بھی ہوتی ہے‘ ارادہ بھی کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے تو ان کی مثال اس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس نے اپنے گھر کا دروازہ لگوا کر بھی اسے کتوں کے لئے کھلا چھوڑ دیا تھا- ہمارے ملک میں عورتوں نے غلظی سے ¶سمجھ لیا ہے کہ ہمارے حقوق پر مردوں نے قبضہ مخالفانہ کر رکھا ہے- سو مسلمان عورتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے اسلام کے دیئے ہوئے حقوق کا استعمال کرنا نہ سیکھیں گی تو شکوہ بے فائدہ ہوگا-
اسلام میں دیئے ہوئے حقوق اگر دریافت کرنے ہوں تو قرآن پڑھو حدیث کا مطالعہ کرو پھر اس کی صحیح تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام کی کتب سے ملے گی- دیکھو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک دفعہ اپنی بیوی سے کوئی سخت بات کی تو الہام ہوا کہ مسلمانوں کے لیڈر سے کہہ دو کہ یہ بات اچھی نہیں۲~}~ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل اور عمدہ معاشرت سے سبق سیکھو کہ آپ نے اصل اسلام کے طریقہ پر عمل کر کے دکھا دیا کہ عورت کی کتنی قدر اسلام نے رکھی ہے- بے شک لوگ دعویٰ کرتے ہیں اور بڑے بڑے لیڈران ملک حامی حقوق نسواں بھی ہیں اور سر سید احمد خاں وغیرہ بہت لائق لیڈر تھے مگر ان کی جماعت خود اسلام پر اعتراض کرتی ہے- دوسرے مذہب عیسائی تو خیر ہیں ہی دشمن اسلام ان کا تو کام ہی یہی ہے مگر ہماری عورتیں اگر اپنا دین سیکھیں‘ قرآن مجید کو پڑھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ غیر مذہب کے اعتراضات کا کیا جواب ہو سکتا ہے- قرآن شریف ایک جامع کتاب ہے اس میں سے سب کچھ معلوم ہو سکتا ہے بشرطیکہ تدبر اور غور سے پڑھا جائے- دیکھو میں چونکہ صحت کا کمزور تھا اور شروع سے ہی مدرسہ میں میرا لحاظ کیا جاتا تھا اس لئے پرائمری سے انٹرنس تک میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا- مگر میں نے صرف قرآن مجید پڑھا- فلسفہ منطق وغیرہ میں نے نہیں پڑھا- مگر اب تک میں خدا کے فضل سے اور صرف قرآن مجید پڑھنے کے باعث ہر ایک بڑے انسان سے‘ غیر مذاہب کے پیشوائوں سے‘ بڑے بڑے لیکچراروں اور مدبروں سے گفتگو کرنے پر کبھی بھی نہیں جھجکا اور نہ کسی بڑے سے بڑے لیکچرار‘ پرنسپل‘ بشپ تک نے میرے سامنے کبھی گفتگو کی جرات کی- میں یورپ میں گیا تو بھی انگریزی میں برابر مضمون بیان کرتا اور بڑے بڑے فلسفیوں کی مجالس میں برابر گفتگو کرتا اور دل میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی- مگر یہ میرے ذہن کی کوئی خوبی نہیں بلکہ میرے پاس قرآن کی تلوار ہے- پس اگر تم بھی قرآن‘ حدیث اور احمدیت کی کتابیں پڑھو گی تو پتہ لگے گا کہ اسلام کیسا عمدہ مذہب ہے- کوئی عیسائی جرات نہیں کر سکتا کہ احمدیوں کے سامنے آئے- تمہارے پاس قرآن کا ہتھیار ہونا چاہئے- دیکھو کوئی ڈاکٹر کامیاب نہیں ہو سکتا محض اپنی دوائوں یا عمدہ چمکدار اوزاروں سے بلکہ خود اس کی دماغی قابلیت ہونی چاہئے- اگر قابلیت نہ ہو تو اوزار یا دوائیں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتیں-
چند اخلاق کے ساتھ قابلیت پیدا ہوتی ہے- ایک شکر ہے- شکر گزاری کے ساتھ بہت سے نیک اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور شکر گزاری کے ساتھ ترقی اور بہتری کے سامان پیدا ہوتے ہیں- شکریہ ادا کرنے کا فعل قوم کے اندر محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے- جب کسی نیک تحریک پر شکریہ ادا کر کے اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو بہت سے نیک اخلاق پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں- حضرت جنید~رح~۳~}~ )یا شبلی فرمایا( رحمہ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں- وہ پہلے کسی صوبہ کے گورنر تھے- ایسے نیک اور صالح بزرگ تھے کہ اولیاء کرام میں سے ہوئے- چنانچہ ان کے نام پر لوگ بچوں کے نام رکھتے ہیں )چنانچہ ہمارے قاضی اکمل صاحب کے بچوں کے نام جنید و شبلی ہیں( ان کا ذکر ہے کہ بادشاہ نے ان کو زمانہ گورنری میں ان کی حسن خدمات کے صلہ میں بہت اعلیٰ درجہ کا خلعت بخشا- جب وہ خلعت پہن کر دربار میں بادشاہ کے حضور بیٹھے تو چھینک آ گئی تو اپنی ناک اسی خلعت فاخرہ کے دامن سے پونچھ لی- بادشاہ نے دیکھ لیا اور سمجھا کہ ہماری خلعت کی بے حرمتی کی ہے- غلاموں کو حکم دیا فوراً ان سے چھین لو- چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور دربار سے نکال دیا کہ جائو تم میں اعزاز شاہی کے شکریہ کی قابلیت نہیں- کہتے ہیں کہ یہ بہت سخت حاکم اور ظالم گورنر تھے مگر پھر ایسے نرم دل اور عاجز بندے خدا کے ہو گئے کہ جن جن افراد رعیت کو ستایا تھا ان کے دروازے پر جا کر معافی طلب کی اور تقصیریں معاف کروائیں اور توبہ کی اور عبادت الہی میں مصروف ہوئے-۴~}~ text] [tag یہ اس خلعت کے واقعہ کا اثر تھا- آپ سمجھ گئے کہ اے مولا! جب انسان کے ایک خلعت کی تحقیر کر کے ایسی سزا پائی ہے تو تو نے جو نعمتیں بخشیں ان کا شکریہ ادا نہ کرنے پر تو بہت زیادہ مستحق سزا ہوں گا- چنانچہ پھر وہ شکریہ رب ادا کرنے سے اولیاء کرام میں سے ہو گئے- سو تم زیادہ شکر گزار بنو- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے میں نے دوزخ میں زیادہ حصہ عورتوں کا دیکھا کیونکہ وہ ناشکری ہوتی ہیں-۵~}~
پھر عورتوں میں تعاون نہیں ہوتا اور یہ ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ یورپ کی عورتیں بھی تعاون نہیں کر سکتیں- میں یورپ میں گیا تو ایک عورت نے سوال کیا کہ کیا تمہارے ملک میں دروازے ہوتے ہیں )یورپ کے لوگ عموماً دروازے بند رکھتے ہیں( تو میں نے کہا دروازے ہوتے ہیں اور پھر کھلے رہتے ہیں تو اس عورت نے غلطی سے سمجھا کہ ہم پر اعتراض کیا ہے کہ یورپ کے لوگ مہمان نواز نہیں ہوتے اور ہم مہمان نواز ہیں- پھر شکر کے ساتھ آپس میں ہمدردی ہونی چاہئے-
پھر عورتوں کو بہت زیادہ صبر کرنے کی بھی مشق چاہئے جو ان میں بہت کم ہے- صبر کا جذبہ مشق کرنے سے پیدا ہوتا ہے جو ہمارے ملک کی عورتوں میں بہت ہی نایاب ہے کیونکہ ان کو عادت نہیں اور یہ محنت اور بہادری سے آتا ہے- یہاں تو اگر کوئی ذرا بھی تکلیف پہنچ جائے تو یہ رونے لگ جاتی ہیں حالانکہ ملکوں کے ساتھ جنگ ہو تو رونا کیسا؟ تحمل‘ برداشت اور صبر کی صحابیات میں بہت مشق تھی- ایک صحابیہؓ کا ذکر ہے کہ ان کا جنگ میں باپ‘ بیٹا‘ خاوند شہید ہوئے تو کچھ پرواہ نہ کی اور بار بار رسول اللہ ~صل۲~ کی خیریت دریافت فرماتیں اور پھر حضور کی زندگی کی خوشخبری سن کر کہا رسول اللہ زندہ ہیں تو کچھ پرواہ نہیں-]71 [p۶~}~ اسی طرح ایک صحابیہ بی بی نے جنگ میں دشمنوں میں گھرے ہونے پر خیموں کے ڈنڈے اکھاڑ کر اتنی جنگ کی کہ دشمن کا ناطقہ بند کر دیا اور ان کو بھگا دیا۷~}~ مگر ہمارے ملک کی عورتیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگ جاتی ہیں کہ میرا صبر‘ یہ صبر کوئی صبر نہیں ہوتا- چنانچہ رسول کریم ~صل۲~ کی نسبت آیا ہے آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے ایک عورت بے تابی سے رو رہی تھی- آپ نے دریافت فرمایا کیوں روتی ہے؟ عرض کیا گیا حضورﷺ~ اس کا بچہ فوت ہو گیا ہے- آپ نے اس عورت کے پاس جا کر فرمایا صبر کرو- وہ جواب دیتی ہے کہ جس کے دل کو لگے وہی جانے- اے شخص )اس نے رسول کریمﷺ~ کو پہچانا نہ تھا( تیرا بھی کوئی بچہ مرتا تو جانتا کتنا دکھ ہوتا- آپ نے فرمایا میرے تو کئی بچے مر گئے ہیں- پیچھے جب اس کو کسی نے بتایا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو وہ عورت دوڑی آئی کہ یا رسول اللہﷺ~ میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا اب صبر کرتی ہوں معاف فرمائیں- آپ نے فرمایا اب کیا صبر ہے! صبر تو پہلے کرنا تھا رو دھو کر صبر کرنا بے فائدہ ہے-۸2]~}~ f[rt تو تم بھی اگر صحابیات کی طرح صبر کرنے کی مشق کرو گی تب کچھ ملکی معاملات اور حقوق کو استعمال کرنے کی قابلیت پیدا کرو گی- ورنہ جو آدمی ذرا ذرا بات میں صبر اور تحمل‘ برداشت کی عادت نہیں رکھتا وہ ملکی معاملات میں کیا ہمت دکھلا سکتا ہے- تمہارا دماغ غم و الم وغیرہ سے خالی ہوگا تب کچھ کام کر سکو گی ورنہ یوں ہی زبانی واویلا بے کار ہے-
پھر جرات ہے یاد رکھو انسان سے جرات سب کام کرواتی ہے- اگر دل میں جرات ہو تو انسان بہادری سے کام کر سکتا ہے ورنہ کچھ نہیں کر سکتا- اپنی دلی جرات جس طرح کام کرواسکتی ہے کسی دوسرے کی امداد سے وہ کام ہر گز نہیں ہو سکتا-
ایک واقعہ کشمیریوں کا لکھا ہے کہ کشمیری قوم کے لوگ ایک فوج میں بھرتی ہوئے- جب جنگ ہونے لگی جرنیل نے حکم دیا کہ فلاں جگہ فوج کھڑی ہو- تو ایک دو سپاہی افسر کے پاس جا کر عرض کرنے لگے کہ حضور ہمارے ساتھ کوئی پہرہ دار ہونا چاہئے جو ہماری حفاظت کرے- افسر نے سمجھ لیا کہ یہ بزدل ہیں- چنانچہ اب کشمیریوں کو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا- مگر ہمارے ایک بزرگ بادشاہ ہوئے ہیں انہوں نے چیونٹی سے سبق لیا کہ وہ کئی بار ان کے سامنے دیوار پر سے گری اور پھر چڑھی- آخر پوری دیوار طے کر کے کامیاب ہو گئی تو اس سے بادشاہ نے سبق لیا اور کئی بار ہارنے پر آخر فاتح شہنشاہ بن گئے- یہ جرات اور ہمت تھی-
کہتے ہیں رستم ایک بار کسی پہلوان سے شکست کھا کر نیچے گر پڑا- مگر اس کی بہادری اور ہمت کا رعب مشہور تھا تو اس نے سوچا کہ آئو ہمت کر کے چھوٹ جائوں- چنانچہ جب کہ دشمن اس کی پیٹھ پر سوار تھا اور گردن دبائے بیٹھا تھا اس نے جرات کر کے اسے زور کی آواز سے ڈرایا کہ رستم آ گیا- رستم آ گیا تو دشمن یہ نام سن کر سہم گیا اور بھاگ گیا- اپنے نام کی آڑ لے کر رستم زندہ و سلامت رہ گیا- تو جرات اور ہمت کے بغیر بھی انسان ناکام رہتا ہے-
پھر انکسار اور تواضع ہے- ہمارے ملک میں تواضع بہت اچھا لفظ رائج ہے مگر اس کے معنی کم لوگ جانتے ہیں- اگر کوئی کسی کو اچھی طرح روٹی کھلا دے تو کہتے ہیں بھئی بڑی تواضع کی- یا کوئی حاکم تھانہ دار کسی گائوں میں چلا جائے تو اس کی خاطر تواضع کرنا بولتے ہیں مگر اصل ترجمہ تواضع کا نہیں جانتے- ذکر ہے کہ ایک بادشاہ بذات خود بھیس بدل کر شہروں میں پھرا کرتا ایک دن کسی ایسے مقام پر جا نکلا جہاں ایک جمعدار پہرہ پر کھڑا تھا- اس نے بادشاہ کو بھی جو بھیس بدلے ہوئے تھا معمولی آدمی سمجھ کر نخوت اور غرور سے گزرنے نہ دیا اور کہا تو جانتا نہیں میرا کیا عہدہ ہے؟ بادشاہ نے پوچھا حضور آپ کا کیا عہدہ ہے- کیا سپاہی؟ کہا ذرا اوپر چڑھو- اس نے کہا کیا جمعدار؟ کہا ہوں- پھر سپاہی نے پوچھا تو کون ہے تھانہ دار؟ بادشاہ نے بھی کہا ذرا اور اوپر بڑھو- پھر اس نے کہا اور اوپر بڑھو- سپاہی نے کہا ڈپٹی؟ اس نے کہا ذرا اور اوپر بڑھو- اسی طرح سوال و جواب سے بادشاہ کے عہدہ تک پہنچا- آخر سپاہی نے شرمندہ ہو کر معافی طلب کی تو بعض لوگ تواضع اور انکسار کرنا نہیں جانتے- کسی کو ذرا دنیاوی قدر مل جائے پھر نخوت اور تکبر سے بھر جاتے ہیں غرور سے پائوں زمین پر رکھنا بھول جاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ بڑے لوگ اگر انکسار کریں تو ان کی قدر افزائی ہوتی ہے اور عزت بڑھتی ہے- دیکھو زار روس کی تباہی قیصر جرمنی کی شکست محض غرور اور نخوت اور انکسار نہ کرنے کے سبب سے ہوئی- مگر بادشاہ جارج پنجم کی بہت بڑی عزت ہے- رعیت کو اگر انکسار اور تواضع سے پیش آئیں تو ہزار گنا زیادہ عزت ہوتی ہے- شہنشاہ معظم کی رعایا ان کے انکسار کے طرز عمل سے قدر کرتی ہے- بڑے لوگ اگر انکسار کریں تو لوگ ان کو آنکھوں پر بٹھاتے‘ ان کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں- قوم کا امیر ان کا خادم ہوتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عین اسلام پر عمل درآمد فرماتے ہوئے ایک فارسی شعر لکھا ہے-
>منہ از بہرما کرسی کہ ماموریم خدمت را<
یعنی میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں ایک غریب اور عاجز انسان ہوں- تو بہت سے فوائد انکسار کرنے اور عاجز بننے میں ہوتے ہیں- یہ ایک نفس کی اصلاح اور اپنی قدر کروانے کا طریقہ ہے-
پھر ایک قابل قدر چیز قربانی ہے اگر اپنے حقوق سے فائدہ لینا چاہتی ہو تو قربانیاں کرو‘ نفس کی قربانیاں‘ مال کی قربانیاں‘ اپنی خواہشات کی قربانیاں‘ دوسروں کی خدمت کرو‘ خدمت کرنے والا آدمی بڑا ہوتا ہے دوسرے سب چھوٹے ہیں- دیکھو اگر یورپ کی کوئی بڑی شہزادی خدمت کرتی ہے‘ ہسپتال میں جا کر بیماروں‘ معذوروں کو دیکھتی ہے‘ ان کو کچھ دیتی یا پوچھتی ہے تو کتنا بڑا رتبہ پاتی ہے- سو تم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہو جو اپنے آپ کو خادم اسلام سمجھتے تھے- تم بھی ہر قسم کی قربانی کر کے خدمت خلق میں مصروف ہو جائو تا کہ دین و دنیا کی کامیابیاں حاصل کرو-
آخر میں ضروری نصیحت کرتا ہوں کہ اتحاد کے لئے ایک نظام اور پابندی کی ضرورت ہے- عورتوں میں نظام اور پابندی قوانین بالکل نہیں یہ بہت ضروری بات ہے کوشش سے اس پر عامل ہونا چاہئے- دیکھو اسلام میں جب شراب کی حرمت کا حکم ہوا ہے فوراً صحابہ کرامؓ نے تعمیل کی- پھر ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت رسول کریم ~صل۲~ نے بلند آواز سے فرمایا کہ بیٹھ جائو تو سب لوگ جہاں بھی آپ کی آواز پہنچی بیٹھ گئے- کسی صحابی نے دوسرے کو ایک راستہ میں غیر مانوس سی جگہ پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا- یہاں کیوں بیٹھے ہو تو اس نے کہا- میں نے رسول اللہ ~صل۲~ کی آواز سنی تو تعمیل ارشاد کے لئے یہیں بیٹھ گیا- مجھے یہ نہیں معلوم کہ کیا بات ہے میں نے صرف تعمیل ارشاد کی-۹~}~ سو تم بھی یہ ضروری اور نہایت ضروری بات سیکھو کہ نظام اور پابندی قوانین کے لئے ہر ایک حکم ماننا ضروری ہے-
اس کے بعد میں عورتوں کو دو کام بتاتا ہوں چاہئے کہ کوشش کر کے سوچیں اور مجھے نتیجہ سے اطلاع دیں تا کہ پھر ہم اپنی ساری جماعت میں اس کو رائج کریں- اس میں اول تو برقعہ اور پردہ کا سوال ہے- شرعی پردہ کے لئے نہ تو وہ پرانا برقعہ کچھ مفید ہوا کیونکہ پردہ کے علاوہ عورت کو تازہ ہوا اور صحت کی بھی ضرورت ہے جو اس برقعہ میں نہیں اور نہ اس میں بچہ گود میں اٹھایا جا سکتا ہے- اگر آگے سے ہوا سے کھل جائے یا اٹھانا پڑے تو صرف پچھلا حصہ ہی چھپ سکتا ہے سامنے کا سب لباس نظر آتا ہے اور نئے فیشن کا برقعہ بھی بعض کو پسند نہیں- شاید اس لئے بھی کہ اس میں زینت اور خوبصورتی نمایاں پائی جاتی ہے اس لئے ردی سمجھتے ہیں اور چادر سے بھی دقت ہوتی ہے-
اس لئے میں سلسلہ کی قابل خواتین اور سلائی کی ماہر بہنوں سے خواہش رکھتا ہوں کہ وہ اپنے لئے کوئی ایسا برقعہ سوچیں کہ جو صحت اور شرعی پردہ کے لحاظ سے آرام دہ ہو- پھر ہمیں بتائیں- میں تو سینا پرونا نہیں جانتا خواتین خود ہی بہتر طور سے جانتی ہیں- امید ہے کہ وہ سوچ کر ہمیں اطلاع دیں گی اور ہم اس پر غور کر کے پھر اسے رائج کر دیں گے-
دوسری بات زنانہ نمائش کی نسبت ہے جو صنعت و حرفت کے لحاظ سے ہو- ہر قسم کے نمونے کی اشیاء جو آپ کے شہروں میں بنتی ہوں وہ مرکز میں لانی چاہئیں- موجودہ نمائش تو بجائے اشیاء کی نمائش کے خود لجنہ کی نمائش ہو جاتی ہے- سو ہماری خواتین کو اس پر توجہ کرنی چاہئے کہ ہر ایک چیز جو ان کے شہر میں عمدہ بنتی ہے اس کے بھیجنے کا انتظام کریں یا مجھے بتلائیں پھر میں اس کا انتظام کر کے لجنہ کو بتائوں گا کہ نمائش کس کو کہتے ہیں- دو تین سال سے تو تجربہ کر کے دیکھا ہے یہ کچھ نہیں کر سکتیں- سو ہماری خواتین کو ضرور اس کی کوشش کرنی چاہئے- یہ دو کام ان کے ذمہ ہیں- امید ہے کہ آئندہ سال ان پر عمل درآمد ہوگا- اخیر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
)مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۳ء(
۱~}~
مرقس باب ۳ آیت ۳۱ تا ۳۵ )مفہوما(
۲~}~
تذکرہ صفحہ ۳۹۶- ایڈیشن چہارم
۳‘۴~}~
یہ واقعہ حضرت ابوبکر سبلیؓ کا ہے جو بعد میں حضرت جنید بغدادی کے مرید بنے- )تذکرہ الاولیاء اردو ترجمہ ۳۷۱ تا ۳۷۳ مطبوعہ کشمیری بازار لاہور(
۵~}~
بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیر
۶~}~
السیرہ النبویہ لابن ہشام الجزء الثالث صفحہ۱۰۵ مطبع مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۳۶ء
۷~}~
۸~}~
بخاری کتاب الجنائز باب زیادہ القبور
۹~}~
‏a12.11
بعض اہم اور ضروری امور

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
بعض اہم اور ضروری امور
)تقریر فرمودہ ۲۷- دسمبر ۱۹۳۲ء برموقع جلسہ سالانہ(
تشہد‘ تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
عورتوں کیلئے ناکافی جلسہ گاہ
آج میرا گلا قریباً پہلے ہی دن بیٹھ گیا ہے کیونکہ ہمارے منتظمین نے عورتوں کی جلسہ گاہ اس دفعہ بڑھائی نہیں تھی اور جس قدر خواتین آئیں ان کی تعداد گزشتہ سال کی نسبت قریباً ڈیوڑھی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں تقریر کرنے کیلئے جلسہ گاہ میں پہنچا تو اس میں تل دھرنے کی بھی جگہ باقی نہ تھی اور سینکڑوں عورتیں باہر کھڑی تھیں- میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح خواتین سمٹ کر بیٹھ جائیں تا کہ باقی خواتین کیلئے جگہ نکل سکے مگر تمام کوشش کرنے کے باوجود اتنی جگہ نہ نکل سکی کہ سب خواتین سما سکیں اور سینکڑوں ہی باہر کھڑی رہیں حالانکہ اردگرد کے مکانات کی چھتیں بھی عورتوں سے پر ہو چکی تھیں- آخر آدھ گھنٹہ کی جدوجہد کے بعد میں نے سوچا اب ایک ہی تجویز ہے جس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ قادیان کی جتنی خواتین ہیں وہ جلسہ سے چلی جائیں اور اپنی جگہ باہر سے آنے والی خواتین کو دے دیں- اس پر قادیان کی عورتوں کو جن کی تعداد کئی سو تھی جلسہ گاہ سے نکال کر مہمان خواتین کو جگہ دی گئی تب بھی خواتین بمشکل سما سکیں نتیجہ یہ ہوا کہ اس افراتفری میں بہت شور پڑ گیا- عورتیں باوجود سمجھانے کے بچوں کو ساتھ لے آئیں ہیں اور مہمان عورتوں کیلئے مشکل بھی ہے کہ اپنے بچوں کو کہاں چھوڑیں اس لئے انہیں ساتھ لانے ہی پڑتے ہیں- جب عورتیں جلسہ گاہ میں جگہ کی گنجائش نکالنے کیلئے کھڑی ہوئیں تو بچے رونے لگ گئے ان کے ساتھ عورتوں کے چیخنے چلانے کا شور بھی مل گیا اور پھر یہ شور بند نہ ہوا اس وجہ سے تقریر کرتے ہوئے مجھے بھی بہت چیخنا پڑا اس لئے بجائے اس کہ کل میرے گلے پر اثر پڑتا میں آج ہی مائوف گلے کے ساتھ یہاں آیا ہوں- میں امید کرتا ہوں کہ منتظمین جلسہ آئندہ انتظام کے سلسلہ میں عورتوں کو بھی مدنظر رکھا کریں گے اور انہیں اس طرح نذر تغافل نہ کر دیای کریں گے تا کہ اس قسم کی مشکلات ان کی جلسہ گاہ کے متعلق پیش نہ آئیں-
یاد رکھنا چاہئے کہ جب عورتوں میں بیداری نہ پیدا ہو اس وقت تک مردوں کیلئے ترقی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے- عورتوں کا ایمان بہت مستقل ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ نے عورت کو اتنا فکر نہیں دیا جتنے جذبات دیئے ہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان تو بڑھیا کا سا ہونا چاہئے- سارا دن دلائل دیتے رہو سب کچھ سن سنا کر کہہ دے گی وہی بات ٹھیک ہے جو میں مانتی ہوں- مومن کو بڑھیا کی طرح تو نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بات تسلیم ہی نہ کرے لیکن اس کا ایمان ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے- غرض عورتوں کا ایمان قابل تعریف ہوتا ہے ان میں جہالت بھی زیادہ ہوتی ہے مگر ایمان میں بھی بہت پختہ ہوتی ہیں- میں نے کئی بار سنایا ہے میراثی قوم کی ایک عورت تھی جو گانے بجانے کا کام کرتی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ یہاں اپنے لڑکے کو لائی جو عیسائی ہو گیا تھا اور گفتگو میں مولویوں کے منہ بند کر دیتا تھا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے نصیحت کی مگر وہ بھی کچھ ایسا پکا تھا کہ ایک دن موقع پا کر باوجودیکہ مسلول تھا رات کو بھاگ گیا- جب اس کی ماں کو پتہ لگا تو اس کے پیچھے گئی اور بٹالہ سے پکڑ کر پھر لے آئی- وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے رو رو کر کہتی کہ ایک بار اسے کلمہ پڑھا دیں‘ پھر خواہ مر ہی جائے- آخر خدا تعالیٰ نے اس کی زاری کو قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کا لڑکا مسلمان ہو گیا اور پھر مر گیا-
تو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا طبقہ یونہی نہیں بنایا- جہاں فکر‘ جرات اور بہادری کا تعلق مرد کے دماغ سے ہے‘ وہاں صبرو استقلال کا تعلق عورت کے دماغ سے ہے- یہی دیکھ لو کتنے صبر و استقلال سے عورت بچے پالتی ہے- مرد تو اس طرح کر کے دکھائے بچے ذرا شور ڈالیں تو مرد چیخ اٹھتا ہے کہ کام خراب ہو رہا ہے بچوں کو روکو مگر عورت رات دن سنتی ہے اور اس شور سے لذت حاصل کرتی ہے- غرض عورتیں مردوں کی تکمیل کا جزو ہیں بغیر ان کی تربیت کے سچائی قائم نہیں ہو سکتی- اولاد کی تربیت بھی ان کے ذمہ ہوتی ہے اگر ان کی اپنی تربیت ہی نہ ہو تو اولاد کی کیا کر سکیں گی ان کیلئے جلسہ گاہ کو بھی ہر سال وسیع کیا جایا کرے-
لائوڈسپیکر کی ضرورت
اس کے ساتھ ہی ان کیلئے لائوڈسپیکر ضروری ہے کیونکہ ان کے ساتھ بچے ہوتے ہیں جو شور مچاتے ہیں- اس قدر مرد جو یہاں بیٹھے ہیں ان سے نصف تعداد کی عورتوں کیلئے لائوسپیکر چاہئے- عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت نصف ہوگی مگر میں تقریر کرتے ہوئے جدھر سے منہ پھیرتا ادھر سے ہی کہنے لگ جاتیں کچھ سنائی نہیں دیتا حالانکہ میں پورے زور سے گلا پھاڑ پھاڑ کر بول رہا تھا- تو عورتوں کیلئے لائوڈسپیکر کی جلد ضرورت ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ مردوں سے جلد اس کیلئے چندہ جمع کر دیں گی- مردوں کیلئے بھی لائوڈ سپیکر کی ضرورت ہے- بہت سے لیکچرار اس لئے جلسہ میں لیکچر دینے کیلئے مقرر نہیں کئے جاتے کہ ان کی آواز سارے مجمع میں نہ پہنچ سکے گی- اگر لائوڈ سپیکر کا انتظام ہو جائے تو ان کو بھی لیکچر دینے کا موقع دیا جا سکتا ہے-
سفارشات
میں لیکچر شروع کرنے سے پہلے کچھ سفارشات کرنا چاہتا ہوں جو میں من یشفع شعاعہ حسنہ یکن لہ نصیب منھا 2] fts[۱~}~ کے ماتحت ہمیشہ کیا کرتا ہوں-
پہلی سفارش
پہلی سفارش تو ایک صاحب کے متعلق ہے جن کا لڑکا گم ہو گیا ہے- وہ دوست جموں کے رہنے والے ہیں اور گم شدہ لڑکے کا نام عبدالکریم ہے- وہ دوست غریب آدمی ہیں- وہ لڑکے کی زیادہ تصاویر نہیں چھپوا سکتے- ایک تصویر انہوں نے دی ہے جس کے متعلق میں انتظام کر دوں گا کہ جو دوست ملاقات کے لئے آئیں ان کو دکھاتے جائیں اور کمروں میں بھی دکھا دی جائے- تصویر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کے چہرہ کے نقوش ایسے ہیں کہ ان سے جلد شناخت کیا جا سکتا ہے- دوست خیال رکھیں اگر اس شکل و شباہت کا لڑکا انہیں کہیں ملے تو وہ قادیان میں اطلاع دیں- یہاں سے لڑکے کے رشتہ داروں کو اطلاع دے دی جائے گی-
دوسری سفارش
دوسری سفارش میں سید دلاور شاہ صاحب کے متعلق کرنا چاہتا ہوں- وہ جو کام پہلے کرتے تھے اس میں بعض وجوہات کے باعث نقص پیدا ہو گیا ہے یعنی پریس وغیرہ کی دقتیں درپیش ہیں- انہوں نے کتب خانہ جاری کیا ہے اور وہ خواہش کرتے ہیں کہ جو دوست کتابیں منگوانا چاہیں وہ ان سے منگوایا کریں اور جو کتابیں ان کے پاس موجود ہیں وہ خرید کر ان کی مدد کریں- مینیجر اسلامیہ پریس بک ڈپو لاہور ان کا پتہ ہے ان کے پاس سلسلہ سے تعلق رکھنے والی کتابیں بھی ہیں- مثلاً مباحثہ لاہور جو مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے کیا تھا- عام طور پر لوگ مولوی صاحب کا کلام پسند کرتے ہیں‘ وہ خریدیں- دوسری کتاب >تحقیق واقعات کربلا< ہے- جو ہمارے دوست اور میرے استاد منشی خادم حسین صاحب خادم بھیروی نے لکھی ہے اور بہت اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے- خادم صاحب کا طرز تحریر ایسا ہے کہ شیعہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے سخت لکھا بلکہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت نرم اور میٹھا ہوتا ہے وہ جو کچھ لکھتے ہیں احمدیت کی روشنی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں- جو دوست سید دلاور شاہ صاحب کی کتابیں خریدنا چاہیں وہ ان سے لاہور کے پتہ سے منگوا لیں-
تیسری سفارش
تیسری سفارش سلسلہ کی ان کتب کے متعلق کی جاتی ہے جو اس سال نئی شائع ہوئیں یا دوبارہ شائع ہوئیں‘ مسئلہ کشمیر‘ ہندو راج کے منصوبے‘ مقدمہ بہاولپور میں بیان وغیرہ بک ڈپو نے شائع کی ہیں اور منشی فخر الدین صاحب نے مترجم قرآن درس القرآن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور بعض اور کتابیں شائع کی ہیں اسی طرح دوسرے کتب فروشوں کی کتابیں ہیں- ہماری جماعت خدا کے فضل سے علمی جماعت ہے احباب کو چاہئے کہ کتب شائع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کیا کریں تا کہ وہ جلدی جلدی اور کتب شائع کرتے رہیں-
اس سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو کتابیں تحفہ گولڑویہ‘ اور کتاب البریہ بھی شائع ہوئی ہیں- ان کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے متعلق سفارش کرنا ایک قسم کی ہتک ہے اس لئے ان کے متعلق تو میں سفارش کا لفظ نہیں کہہ سکتا ہاں احباب کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ کتابیں جو نایاب تھیں‘ دوبارہ چھپ گئی ہیں احباب ان سے فائدہ اٹھائیں-
چوتھی سفارش
چوتھی سفارش سید ممتاز علی صاحب مالک اخبار تہذیب النسواں لاہور کی ایک کتاب مضامین قرآن کے متعلق ہے- سید صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لاہور گئے تو اس کتاب کا مسودہ منگوا کر اس کے ذریعہ بعض حوالے نکالے تھے- میں سمجھتا ہوں یہ بات صحیح ہوگی اور اس طرح کتاب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت بھی حاصل ہے- میں نے دیکھا ہے اس قسم کی پہلی کتابوں سے یہ بہتر کتاب ہے- مختلف مضامین کی آیتیں اس کے ذریعہ باسانی نکالی جا سکتی ہیں کیونکہ ہر مضمون کے متعلق آیات یک جا کر دی گئی ہیں- اس کتاب سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے- اس وقت تک اس کی چند جلدیں شائع ہو چکی ہیں جو بہت خوشخط اور عمدہ ہیں-
پانچویں سفارش
پانچویں سفارش اخبار ایسٹرن ٹائمز کے متعلق ہے- میں نے گزشتہ سال کے جلسہ کے موقع پر بھی اس کی طرف توجہ دلائی تھی- مسلمانوں کو اپنے انگریزی پریس کو مضبوط کرنے کی بے حد ضرورت ہے مگر مسلمانوں کی بے توجہی سے مسلم آئوٹ لک تو بند ہو گیا اب ایسٹرن ٹائمز جاری ہے مگر اس کی بھی وہی حالت ہے- افسوس ہے کہ مسلمانوں نے ابھی تک یہ بات محسوس نہیں کی کہ علمی طور پر بھی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے- ہندوئوں کے متعلق میں نے دیکھا ہے ان کے اخبارات کو سمجھنے کیلئے خاص ہی دماغ کی ضرورت ہوتی ہے- جب کبھی مجھے >ملاپ< یا >پرتاب< دیکھنے کا اتفاق ہوا میں نے دیکھا بعض اوقات ایک فقرہ کو سمجھنے کیلئے کئی کئی منٹ لگتے ہیں- پھر جتنی کتابت وغیرہ کی غلطیاں ان اخباروں کے ایک ایک پرچہ میں ہوتی ہیں اتنی مسلمان اخبارات کے ایک مہینہ کے پرچوں میں بھی نہیں ہوتیں- مگر باوجود اس کے جس ہندو کو دیکھو اس کے ہاتھ میں >ملاپ< یا >پرتاب< یا کوئی اور ہندو اخبار ہوگا- ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ابتداء میں ہی تکمیل چاہتے ہیں اور جب تک ان کے نزدیک کوئی کام مکمل نہ ہو اس کی طرف متوجہ ہونا ضروری نہیں سمجھتے- میں نے اپنی جماعت میں بھی دیکھا ہے کوئی کام سپرد کرو جب اس کے متعلق پوچھا جائے تو یہی کہا جاتا ہے کہ ابھی مکمل نہیں ہوا حالانکہ انسانی کام کبھی مکمل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ جس بات کو مکمل سمجھ لیا جائے وہ بھی مکمل نہیں ہوتی- ایک دفعہ میں نے دعا قبول ہونے کے طریق کے متعلق خطبے پڑھے جب میں آخری خطبہ پڑھ کر آیا تو خیال پیدا ہوا کہ شائد اب کوئی طریق باقی نہیں رہ گیا- اس دن میں نے گھر آ کر سنتیں پڑھیں- سنتیں پڑھتے ہوئے قرائت پڑھ کر جب میں رکوع میں گیا تو اتنے سے قلیل وقت میں دو نئے طریق مجھے معلوم ہوئے اس پر مجھے بہت شرم آئی کہ میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ تمام طریق ختم ہو گئے بدظنی سے کام لیا- مجھے ایک سیکنڈ میں دو زبردست طریق بتا دیئے گئے-
مسلمانوں میں تکمیل کا غلط خیال پایا جاتا ہے- کوئی انسان مکمل نہیں اور نہ کسی انسانی کام کو تکمیل حاصل ہے- تکمیل صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے- اگر کسی انسان کو مکمل سمجھا جاتا ہے تو وہ بھی نسبتی تکمیل ہے ہم رسول کریم ~صل۲~ کو کامل انسان سمجھتے ہیں مگر کیا یہ کہتے ہیں کہ آپ کی روحانی ترقی اب جاری نہیں- اگر کوئی یہ کہتا ہے تو وہ رسول کریم ~صل۲~ کی ہتک کرتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کی روحانی ترقی جاری ہے تو معلوم ہوا کہ آپ کے مکمل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تمام انسانوں سے آپ مکمل ہیں- نہ یہ کہ آپ میں ترقی کی کوئی گنجائش نہیں- ہم ہر روز اللھم صل علی محمد کہتے ہیں- اگر سب کچھ رسول کریم ~صل۲~ کو مل چکا ہے تو پھر یہ کہنے کے کیا معنی- اس کا مطلب تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے خزانے اتنے وسیع ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ کی ترقی بھی ہمیشہ ہوتی رہے گی-
مسلمان اسلامی انگریزی اخبارات کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں کہ ان میں سٹیٹسمین کی سی خوبیاں نہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ ابتداء میں ایسی خوبیاں کس طرح پیدا کی جا سکتی ہیں- میں کہتا ہوں کہ اگر سٹیٹسمین میں خوبیاں ہیں تو اسے بھی خریدو لیکن کم از کم ایک مسلمان اخبار بھی ضرور خریدو- میں چودہ پندرہ اخبارات خریدتا ہوں اگر میں ایک ہی اخبار خریدتا تو بھی ایسٹرن ٹائمز یا کوئی اور اسلامی پرچہ ضرور خریدتا خواہ اس کے پڑھنے میں کتنی ہی تکلیف ہوتی- جو صاحب ایک ہی اخبار خرید سکتے ہیں انہیں میں کہتا ہوں ایسٹرن ٹائمز خریدیں- خریداروں کے بڑھنے سے ہی اخبارات ترقی کر سکتے ہیں اور مکمل بن سکتے ہیں-
‏]sub [tag چھٹی سفارش
ایک سفارش میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے متعلق منشی محمد دین صاحب فوق ایڈیٹر کشمیری اخبار لاہور نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں- ان میں عمدہ عمدہ کتابیں بھی ہیں- کشمیر کے متعلق حالات معلوم کرنے والے اصحاب وہ کتابیں خریدیں-
ساتویں سفارش
ایک ضروری سفارش میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ منشی احمد دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی ہیں‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جو مقدمات مخالفین نے دائر کئے تھے ان کے دوران میں بڑی خدمت کرتے رہے ہیں‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ان سے انس تھا‘ وہ آج کل بیکار ہیں ان کی آنکھوں میں نقص پیدا ہو گیا ہے اور ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں- ان کو کتابوں کا عشق رہا ہے اور انہوں نے سلسلہ کی اور دوسری دس ہزار مالیت کے قریب کی کتابیں جمع کی ہوئی ہیں بیسیوں ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی شائع شدہ آپ کی تصانیف حاصل کرنے کا شوق ہو جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کی شائع شدہ کتب کی قدر جانتے ہوں وہ خرید سکتے ہیں- دس ہزار کی کتابیں اگر تھوڑی تھوڑی بکتی رہیں تو ان کا گزارہ ہو سکتا ہے- مفتی محمد صادق صاحب کے پاس ان کتب کی فہرست ہے دوست ان سے معلوم کر سکتے ہیں-
آٹھویں سفارش
ایک اور سفارش میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے صحابی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ہیں- ان کے لڑکے نے فوٹو کی دوکان نکالی ہے میں اپنے آپ کو مستثنی کرتا ہوا کہتا ہوں مکان سجانے کیلئے کیمرے کے فوٹو رکھنا ناجائز نہیں اگرچہ یہ ڈر ہو سکتا ہے کہ کوئی بری صورت نہ پیدا ہو جائے مگر فوٹو کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا فوٹو شائع کیا بھائی جی کے لڑکے نے فوٹو بنائے ہیں جو دوست دوسروں کو دکھانے کیلئے یا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا آپ کی شکل دیکھنے کیلئے وہ فوٹو خرید سکتے ہیں- میں نے اپنے آپ کو مستثنی اس لئے کیا ہے کہ میرے کمرہ میں جو فوٹو ہوتے ہیں وہ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کوئی صاحب دے جاتے ہیں کہ یہاں رکھ دو وہ کمرے میں پڑے رہتے ہیں پھر صفائی کرنے والے اٹھا کر کہیں رکھ دیتے ہیں ورنہ میں نے کبھی کوئی فوٹو نہیں رکھا نہ مجھے کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی-
پروگرام جلسہ میں تبدیلی
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال جلسہ سالانہ کے پروگرام میں کچھ تغیرات کئے گئے تھے- میرے پاس شکایتیں آئیں کہ ہر سال ایک ہی قسم کے مضامین کی تکرار کی جاتی ہے- گو بیان کرنے والوں کا پیرایہ مختلف ہو‘ استدلالات میں فرق ہو مگر چیز وہی ہوتی ہے جو پہلے کئی بار پیش کی جاتی ہے- مثلاً وفات مسیح‘ صداقت مسیح موعود علیہ السلام وغیرہ کے مسائل- ان حالات کو دیکھ کر اب کے میں نے پروگرام میں بعض اصلاحات کیں اور نظارت دعوت و تبلیغ کو بتایا کہ ایک ہی مضمون کو کئی طریق سے بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس کے عنوان مقرر کر دیئے جائیں اور ہر سال وہ عنوان بدلتے رہیں- اس طرح لیکچر دینے والا مجبور ہو گا کہ مطالعہ کرے تحقیق کرے اور غور و فکر سے اپنے مضمون کی تیاری کرے- اب کے میں نے مضامین کے ہیڈنگس خود مقرر کر دیئے- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنے لیکچرار مقرر کئے گئے‘ وہ گھبرا گئے- ان میں سے بعض کی تو میں نے مدد کر دی اور انہیں مضامین کے متعلق ضروری اصول بتا دیئے- اگر اس طرح مضامین بیان کئے جائیں تو سالہا سال تک ایک ہی موضوع پر لیکچر دیئے جا سکتے ہیں- آئندہ انشاء اللہ اسی طرح مضامین مقرر کئے جایا کریں گے- یعنی مضامین تو وہی ہونگے- لیکن ان کے ہیڈنگس مختلف اور نئے مقرر کئے جایا کریں گے-
ایک اور فیصلہ
اسی سلسلہ میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا سٹیج جلسہ سالانہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت میں ہوتا ہے اس لئے اس سٹیج پر پرانے صحابہ اور پرانے کارکنوں کو بولنا چاہئے اور نئے آدمیوں کیلئے یہ رکھا تھا کہ کم از کم سات آٹھ سال انہیں خدمت دین کا موقع ملا ہو اور ان کی رائے سلجھ چکی ہو-
فیصلہ میں حکمت
میں نے یہ فیصلہ ایک حکمت کے ماتحت کیا تھا اور وہ حکمت یہ ہے کہ دنیا میں صرف علم ہی رائے کو پختہ کرنے کیلئے کافی نہیں ہوتا بلکہ تجربہ بھی رائے کو سلجھاتا ہے اور نوجوانوں کے مقابلہ میں عمر رسیدہ لوگوں کی رائے بہت پختہ ہوتی ہے- ادھر نوجوانوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ آگے بڑھیں اگر اس کیلئے کوئی حد بندی نہ ہو تو وہ بوڑھے جنہوں نے علم اور تجربہ تو حاصل کیا ہوا ہے مگر ان میں جنگی سپرٹ نہیں ہوتی ان کو ایسے نوجوان پیچھے کر دیں گے- اس حکمت کے ماتحت میں نے کہا ہمیں ابھی سے یہ انتظام کر دینا چاہئے کہ تجربہ کار بوڑھوں کو پیچھے نہ ڈالا جا سکے- اس پر نوجوانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں آج نہیں تو آج سے چند سال بعد ان کو بولنے کا موقع مل سکے گا اور اگر وہ گھبراتے ہیں تو پھر رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا ہے جو شخص خود کسی عہدہ کا طلب گار ہوتا ہے اسے عہدہ نہ دو-۲~}~ اس لحاظ سے الل¶ہ تعالیٰ بھی احتیاط کرتا ہے چنانچہ نبوت کے سٹیج پر چالیس سال کی عمر کے بعد ہی لاتا ہے ورنہ کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی جب پندرہ بیس سال کی عمر تھی اس وقت نعوذ باللہ آپ میں کوئی نقص تھا- نبی کی طبیعت تو بچپن میں ہی سلجھی ہوئی ہوتی ہے- مگر اللہ تعالیٰ چونکہ انبیاء کو دنیا کیلئے مثال بنانا چاہتا ہے اس لئے پختہ عمر کے بعد نبوت کے درجہ پر فائز کرتا ہے- خادم صاحب کو جو یہ شکوہ پیدا ہوا ہے کہ کسی نقص کی وجہ سے ان کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا یہ درست نہیں- نقص ان کا نہیں بلکہ ان کی عمر کا ہے اور جو شکایت انہوں نے پیش کی ہے وہ میرے علم کے بغیر وقوع پذیر ہوئی ہے- وہ منتظمین کی غلطی تھی ان کا فرض تھا کہ جو اصل میں نے قرار دیا تھا اس کے مطابق کام کرتے- باقی اللہ تعالیٰ اگر کسی کو نیابت کا درجہ عطا کر دے تو اور بات ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیابت عطا ہوتی ہے تو کوئی بندہ اسے روک نہیں سکتا-
علمی مضمون کے متعلق اطلاع
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ طریق ہے کل کی تقریر کیلئے میں نے علمی مضمون رکھا ہے اس کیلئے دوست کاغذ پنسل لے کر آئیں اور منتظمین روشنی کا انتظام کریں تا کہ اندھیرا ہو جانے پر دوست آسانی سے تقریر کے نوٹ لے سکیں- بعض دوست تقریر کے نوٹ لینے میں اس لئے سستی کرتے تھے کہ تقریر چھپ جائے گی لیکن خدا تعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت چار سال سے سالانہ جلسہ کی تقریریں چھپی ہی نہیں- میں امید کرتا ہوں کہ کل کے لیکچر میں بعض حصے ایسے ہوں گے کہ وہ نوجوان طبقہ جو عیسائیوں کے اثر سے متاثر ہے اس کیلئے بہت مفید ہونگے اور عیسائیت کے فتنہ کے مقابلہ میں ان سے بہت کچھ مدد ملے گی-
‏sub] gat[ جلسہ سالانہ کی اہمیت
اس کے بعد جلسہ سالانہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں- اس جلسہ کو خدا تعالیٰ نے بڑی اہمیت دی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص نشان ہے- جماعت کو چاہئے کہ اسے پوری شان کے ساتھ قائم رکھے اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ آج تک جماعت نے اس جلسہ کی شان قائم رکھی ہوئی ہے- آج )۲۷- دسمبر( کی رپورٹ مظہر ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت آج چار ہزار مہمانوں کی زیادتی ہے- یعنی چار ہزار زائد مہمانوں کو کھانا دیا گیا- جلسہ گاہ کے لحاظ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ بھری ہوئی ہے اور ابھی لوگ باہر کھڑے ہیں حالانکہ اس دفعہ گزشتہ سال کی نسبت ۳x۳ فٹ بڑھ گئی ہے- یعنی منتظمین کو تو بڑھانے کا خیال نہ تھا لیکن اتنی بڑھ گئی- احباب کو کوشش کرنی چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے تو سالانہ جلسہ میں حاضری بھی بڑھے- باقی رہا یہ کہ پھر خرچ کی کیا صورت ہوگی اس کے متعلق لا تخش عن ذی العرش اقلالا ۳~}~ کو پیش نظر رکھنا چاہئے- یعنی خدا تعالیٰ کے متعلق کمی کا خیال کبھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ زیادتی کی امید رکھنی چاہئے- اسی طرح یہ خیال کہ بہت زیادہ لوگ آ گئے تو پھر وہ تقریریں کس طرح سن سکیں گے- اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب لوگ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتیں سننے کیلئے آئیں گے تو خدا تعالیٰ ان کو سنانے کا انتظام بھی کر دے گا- اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک آلہ لائوڈ سپیکر بنوا دیا ہے چونکہ تبلیغ کی تکمیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے مخصوص تھی اور اس کیلئے جلسہ رکھا گیا اور جب یہ زمانہ آیا کہ کثیر مجمع کو سنانا مشکل ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے لائوڈسپیکر نکال دیا- اگر حضرت مسیحؑ کی جماعت تبلیغی جماعت تھی تو ان کے وقت لائوڈسپیکر کیوں نہ بنائے گئے- اس آلہ کا اب ایجاد ہونا بھی بتاتا ہے کہ یہ کام رسول کریم ~صل۲~ کی امت سے وابستہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے وابستہ تھا- پس کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سال زیادہ سے زیادہ لوگ سالانہ جلسہ میں شامل ہوں-
ایک قسم کا ظلی حج
اس جلسہ میں شمولیت معمولی بات نہیں بلکہ بہت سی برکات کا موجب ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مشہور شعر ہے جسے بچے بھی پڑھتے پھرتے ہیں-
زمین قادیاں اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
میں نے ایک خطبہ جمعہ میں جلسہ سے پہلے سالانہ جلسہ میں شمولیت کی تحریک کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں شمولیت ایک قسم کا ظلی حج ہے- الفضل میں جب یہ خطبہ شائع ہوا تو ہیڈنگ میں تو ایک قسم کا ظلی حج کے الفاظ شائع کئے گئے لیکن خطبہ کے اندر سے >ایک قسم< کے الفاظ اڑ گئے جو میں نے کہے تھے-
غیر مبائعین کے مذہب کا خلاصہ
میں کہتا ہوں اگر یہ الفاظ نہ بھی ہوں تو بھی جب ظلی حج کہا گیا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اصل حج قائم ہے- دیکھو جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ظلی نبی کہتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی رسالت نعوذ باللہ مٹ گئی- مگر بعض لوگوں کی فطرت گندی ہوتی ہے اور وہ محض اعتراض کرنا ہی جانتے ہیں- ہمارے ایسے ہی دوستوں نے )میں انہیں دوست ہی کہوں گا( جن کے عقائد کا اگر کوئی خلاصہ پوچھے تو دو لفظوں میں یہ ہوگا کہ عداوت محمود- اگر میں خدا تعالیٰ کی توحید پر بھی زور دوں تو وہ اس کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں مخالفت شروع کر دیں گے- انہوں نے اعتراض کر دیا کہ قادیان کے جلسہ کو حج کا مرتبہ دے دیا گیا-
غیر مبائعین کا فتویٰ
حالانکہ خود انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہوا ہے کہ قادیان مکہ ہے جب اختلاف پیدا ہوا تو غیر مبائعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو بناء قرار دیتے ہوئے کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘ لا ہور کو مدینہ ٹھہرایا اور قادیان کو مکہ- چنانچہ لاہور کو عرصہ تک مدینہ المسیح لکھتے بھی رہے- جب انہوں نے اپنے لئے مدینہ تجویز کر لیا تو یقیناً مکہ جہاں حج ہوتا ہے‘ ہمیں دے چکے- اس وقت چونکہ ان کے خیال میں فائدہ یہ کہنے میں تھا کہ قادیان مکہ ہے تا کہ وہ لاہور کو مدینہ کہہ سکیں اس لئے انہوں نے قادیان کو مکہ کہا لیکن اب اس میں مکہ کی برکات کا ذکر کیا گیا تو اپنی ہی بات کے خلاف کہنے لگ گئے- ان کی مثال شترمرغ کی سی ہے جب اسے کہا گیا کہ آئو تم پر بوجھ لادیں تو اس نے کہہ دیا کیا مرغ پر بھی بوجھ لادا جاتا ہے اور جب کہا گیا کہ اڑو تو اس نے کہہ دیا کیا شتر بھی اڑ سکتا ہے- جب لاہور کو مدینہ کہنے میں انہوں نے فائدہ سمجھا اس وقت قادیان کو مکہ کہہ دیا لیکن جب یہ کہا گیا کہ قادیان میں خدا تعالیٰ نے ایک قسم کے ظلی حج کی برکات رکھی ہیں تو اسے کفر قرار دینے لگ گئے-
حضرت مسیح موعود کے دو شعر
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو نہایت ہی لطیف اشعار ہیں- اگر انہی پر غیر مبائعین غور کرتے تو انہیں سمجھ آ جاتی- حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-
کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا
حاذق طبیب پاتے ہیں‘ تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
فرماتے ہیں- طبیبوں کو تم مسیح الملک کہتے ہو- پھر جسے خدا کوئی خطاب دے اس پر کیوں برا مناتے ہو-
حج کو بھی شاعروں نے باندھا ہے- چنانچہ کہا گیا ہے-
دل بدست آور کہ حج اکبر است
کسی کا دل ہاتھ میں لینے کو حج اکبر کہا گیا ہے لیکن میں نے تو حج بھی نہیں کہا تھا بلکہ ظلی حج کہا- مگر شاعر جو کچھ کہیں اسے تو بخوشی سن لیتے ہیں لیکن میں جو بات کہوں اسے کفر اور ضلالت قرار دینے لگ جاتے ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو یہ الہام ہے کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں اس کے متعلق ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام قادیان کے ہیں- مگر غیر مبائعین مدینہ لاہور کو اور مکہ قادیان کو قرار دیتے ہیں- اسی بات پر وہ قائم رہیں تو قادیان کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کو ظلی حج کہنا کوئی ناجائز نہیں- اگر میں یہ کہتا کہ مکہ معظمہ کا حج موقوف ہو گیا اور اس کی بجائے قادیان آنا حج کا درجہ رکھتا ہے تب وہ اعتراض کر سکتے تھے- مگر مکہ معظمہ کا حج تو قائم ہے-
مسئلہ حج اور حضرت مسیح موعود ؑ
میں نے جب غیر مبائعین کے اعتراض کے متعلق غور کیا تو معلوم ہوا کہ مجھے غلطی لگی ہے- جو کچھ میں نے کہا وہ غلط تھا لیکن یہ غلطی اس پلڑے کے لحاظ سے نہ تھی جس میں غیر مبائعین بیٹھے ہیں‘ بلکہ دوسرے پلڑے کی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئینہ کمالات اسلام میں نواب محمد علی خاں صاحب کو جو ہمارے بہنوئی ہیں‘ قادیان آنے کی تحریک کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں-
>لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر- کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی-< ۴~}~
شیخ یعقوب علی صاحب بھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں آنے کو حج قرار دیا ہے- ایک واقع مجھے بھی یاد ہے- صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم شہید حج کے ارادہ سے کابل روانہ ہوئے تھے- وہ جب یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حج کرنے کے متعلق اپنے ارادہ کا اظہار کیا- اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا- اس وقت اسلام کی خدمت کی بے حد ضرورت ہے اور یہی حج ہے- چنانچہ پھر صاحبزادہ صاحب حج کے لئے نہ گئے اور یہیں رہے کیونکہ اگر وہ حج کیلئے چلے جاتے تو احمدیت نہ سیکھ سکتے-
پس غیر مبائعین کا اعتراض فضول ہے- خدا تعالیٰ نے قادیان میں جو برکات رکھی ہیں اور خاص کر سالانہ جلسہ کی برکات ان کے لحاظ سے جلسہ میں شمولیت کو ایک قسم کا ظلی حج کہنا بالکل درست ہے-
ذکر الہی اور دعائوں کی تاکید
اب میں جلسہ پر آنے والے دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے بھی کچھ آداب ہیں- دوستوں کو چاہئے ان کو مدنظر رکھیں- اس بارے میں پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں کا آنا سیر و تماشا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ عبادت کیلئے ہوتا ہے- دوسرے سفروں میں تو عبادت میں تخفیف ہو جاتی ہے مگر یہاں کا سفر چونکہ عبادت کیلئے کیا جاتا ہے اس لئے یہاں عبادت زیادہ کرنی چاہئے- پس جلسہ پر آنے والے دوست ان ایام میں ذکر الہی اور دعائوں پر بہت زور دیں تا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بابرکت ثابت کرے-
مقبرہ بہشتی میں جانا
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو دوست آتے ہیں وہ مقبرہ بہشتی میں ضرور جایا کریں- اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقبرہ بہشتی اسی لئے قائم کیا گیا کہ ہمیشہ آنے والی نسلیں وہاں جائیں اور دین کیلئے قربانی کرنے والوں کیلئے دعائیں کریں- میں امید کرتا ہوں کہ بہت سے دوست وہاں جاتے ہوں گے مگر میرا خیال ہے بہت سے اصحاب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں یہ بات بھول جاتی ہوگی کہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے والے سب کیلئے دعا کریں- وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کر کے واپس آ جاتے ہوں گے- مقبرہ بہشتی میں دفن کر کے کتبے لگانے کا مطلب یہی ہے کہ ان سب کیلئے دعائیں کی جائیں- باقی رہا یہ کہ دعا کس طرح کی جائے- اس کا طریق یہ ہے کہ ایک جگہ کھڑے ہو کر سب مدفون اصحاب کیلئے دعا کی جائے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر جا کر دعائیں کرنے کے متعلق بعض ہدایات بھی بیان کرتا ہوں- جس سے زیادہ محبت ہوتی ہے اس کے متعلق لوگ غلطی سے مشرکانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ دعا کرتے وقت ایسا رنگ نہ ہو- مثلاً اس طرح مخاطب کر کے دعا نہ کرنی چاہئے کہ اے خدا کے مسیح فلاں بات ہو جائے- اگر خدا تعالیٰ مکاشفہ کرادے تو چاہے جتنی باتیں کر لی جائیں لیکن عام حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقاصد پورے کرنے اور آپ کے درجات بلند کرنے کیلئے دعائیں کرنی چاہئیں- میں یہ دعا ہمیشہ کیا کرتا ہوں کہ ہمارے لئے حکم ہے جب رسول سے کوئی مشورہ لے تو صدقہ کرے مگر ہم ان تک کچھ پہنچا نہیں سکتے اس لئے میں جو آیا ہوں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ الہی تو ہی ان کو ایسا روحانی تحفہ عطا کر جو پہلے عطا نہ کیا ہو- اسی طرح رسول کریم ~صل۲~ کیلئے دعا کو پہلے رکھ لیتا ہوں- مجھے خیال آیا کرتا تھا کہ جنازہ کی نماز میں درود کیوں پڑھا جاتا ہے اس کا پہلے ایک جواب خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سمجھایا کہ شاعر نے کہا تھا-
کنت السواد لناظری فعمی علی الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر۵~}~
‏]text [tag میں تو رسول کریم ~صل۲~ کی وفات سے ڈرتا تھا جب آپ فوت ہو گئے تو اب جو چاہے مرے- اس جذبہ کے ماتحت جب کوئی کسی کا جنازہ پڑھتا ہے تو درود پڑھتے وقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجھے رسول کریم ~صل۲~ کی وفات کا غم بھولا نہیں وہ ابھی تک تازہ ہے اس لئے جنازہ کی نماز میں رسول کریم ~صل۲~ پر درود پہلے رکھا-
پھر ایک اور بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کوئی مسلمان مرتا ہے تو امت محمدیہ میں کمی آ جاتی ہے اس وقت جنازہ پڑھنے والا کہتا ہے اللھم صل علی محمد خدایا اس کمی کو پورا کر دے- پس مقبرہ بہشتی میں جا کر دعا کرتے وقت رسول کریم ~صل۲~ پر درود پڑھنا اور آپ کو دعا میں شامل کرنا ایک اہم چیز ہے-
شعائر اللہ کی زیارت
پھر شعائر اللہ کی زیارت بھی ضروری ہے- یہاں کئی ایک شعائر اللہ ہیں- مثلاً یہی علاقہ ہے جہاں جلسہ ہو رہا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رئویا میں دیکھا کہ شمالی اور مشرقی طرف قادیان بڑھتی بڑھتی دریائے بیاس تک چلی گئی ہے- ادھر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کرتے ہوئے تشریف لائے تو جہاں مدرسہ ہائی کی عمارت ہے اس جگہ کے قریب فرمایا لوگ کہتے ہیں یہاں جن رہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے جو خبر دی ہے اس کے ماتحت بتاتا ہوں کہ یہاں آبادی ہی آبادی ہوگی-
اسی طرح شعائر اللہ میں مسجد مبارک‘ مسجد اقصیٰ‘ منارۃ المسیح شامل ہیں- ان مقامات میں سیر کے طور پر نہیں بلکہ ان کو شعائر اللہ سمجھ کر جانا چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ ان کی برکات سے مستفیض کرے- منارۃ المسیح کے پاس جب جائو تو یہ نہ سمجھو کہ یہ منارہ ہے بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں مسیح موعود اترا‘ اسی طرح مسجد اقصیٰ میں جب جائو تو یہ نہ سمجھو کہ وہ اینٹوں اور چونے کی ایک عمارت ہے بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے دنیا میں خدا کا نور پھیلا‘ پھر جب مسجد مبارک میں جائو تو یہ سمجھو کہ یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمازیں پڑھا کرتے تھے- اسی طرح قادیان کی آبادی کو دیکھو کہ پہلے پرانی آبادی کتنی تھی اور اب کس قدر پھیل چکی ہے اور کس طرح ترقیات ہو رہی ہیں-
اسی طرح ایک زندہ نشان حضرت ام المومنین ہیں- صحابہ کا یہ طریق تھا کہ جب آتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور باقی امہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتے اور ان کی دعائوں کے مستحق بنتے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اور پھر بعد میں بھی کئی لوگ حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے- نئے آنے والے لوگوں کو چونکہ اس قسم کی باتیں معلوم نہیں ہوتیں- پھر اتنے ہجوم میں یہ بھی خیال ہو سکتا ہے کہ شائد حاضر ہونے کا موقع نہ مل سکے اس لئے میں نے یہ بات یاد دلا دی ہے-
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سے ملنا چاہئے کئی ایسے ہونگے جو پھٹے پرانے کپڑوں میں ہونگے اور ان کے پاس سے کہنی مار کر لوگ گزر جاتے ہونگے مگر وہ ان میں سے ہیں جن کی تعریف خود خدا تعالیٰ نے کی ہے ان سے خاص طور پر ملنا چاہئے- اسی لئے میں نے منتظمین جلسہ سے کہا ہوا ہے کہ صحابہ مسیح موعود علیہ السلام میں سے کسی کا لیکچر ذکر حبیبؑ پر رکھنا چاہئے مگر اب کے نہیں رکھا گیا- یہاں ذکر حبیب کا جلسہ ہفتہ وار ہوتا ہے جو بہت مفید ہے-
امام وقت سے ملاقات اور مصافحہ
‏]1text [tagجلسہ کے موقع پر خلیفہ سے ملاقات بھی ضروری چیز ہے مگر اس کے متعلق بعض ضروری باتیں ہیں جو یاد رکھنی چاہئیں- پہلی بات تو یہ ہے کہ خلفاء کی اپنی طرف سے بیعت نہیں ہوتی بلکہ رسول کی نیابت میں ہوتی ہے- ہمارے سلسلہ میں رسول کریم ~صل۲~ کی نیابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت خلیفہ کو حاصل ہوتی ہے- ادھر رسول کریم ~صل۲~ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پر بیعت کرنا قرار دیا ہے- چونکہ خلیفہ کے ہاتھ کو رسول کی نیابت حاصل ہوتی ہے اس لئے امام وقت سے مصافحہ کرنا بھی برکت رکھتا ہے- مگر وہ مصافحہ نہیں جو سخت ہجوم اور بھیڑ میں اس طرح کیا جاتا ہے کہ کچھ خود ٹھوکر کھائی اور کچھ مجھے زخم کر دیا- یہ مصافحہ ملاقات کے وقت کا مصافحہ ہوتا ہے اس وقت اگرچہ مصافحہ کیلئے بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے خدا تعالیٰ مامورین اور خلفاء کے برکات کو مختصر وقت میں پورا کر دیتا ہے- اگر یہ بات ان کو حاصل نہ ہو تو وہ اپنا کام پورا ہی نہ کر سکیں- تو مصافحہ کے وقت خاص طور پر دعا کی جاتی ہے مگر آداب کو مدنظر رکھنا چاہئے- اس طرح نہیں ہونا چاہئے کہ ایک نے آگے سے ہاتھ کھینچا ہوا ہو تو دوسرا پیچھے سے کھینچنے لگ جائے- اگر مصافحہ کرنے کا موقع نکل گیا ہو تو جانے دینا چاہئے اور آگے سے مصافحہ کرنا چاہئے اسی لئے میں نے ملاقات کیلئے وقت رکھا ہوا ہے تا کہ ہر ایک کو مصافحہ کا موقع مل سکے-
پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں مصافحہ یا ملاقات کیلئے نذر ضروری ہے مگر یہ گندہ خیال ہے- اس کا ملاقات یا مصافحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کونوا مع الصادقین ۶~~} اور جو مصافحہ کرتا ہے وہ ایک رنگ میں معیت حاصل کر لیتا ہے- دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے ملاقات کیا کریں اور یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں کہ ملاقات کیلئے یا بیعت کیلئے نذر ضروری ہے- معلوم ہوتا ہے عورتوں کو یہ باتیں نہیں بتائی جاتیں- اس دفعہ عورتوں نے جب بیعت کی تو ایک عورت کھڑی ہو کر کہنے لگ گئی تم نے بیعت کی ہے نذر کیوں نہیں دیتیں- میں نے اسے بہتیرا کہا بیٹھ جائو یہ کہنا گناہ ہے مگر وہ یہی کہتی گئی کہ یہ کس طرح گناہ ہے نذر دینی ضروری ہے- اس قسم کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں-
ملاقات کرنے والے دوستوں کو میں ایک بات یہ کہنی چاہتا ہوں کہ ناخن کٹانا اسلام کی سنت ہے- مگر میں نے دیکھا کئی لوگ اچھی طرح ناخن نہیں کٹواتے- ایک صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا تو ان کے ناخن سے میرا ہاتھ زخمی ہو گیا- یہ تو میں نہیں کہتا کہ مصافحہ نہ کرو یہ بھی نہیں کہتا کہ مصافحہ کرتے وقت جھپٹا نہ مارو- جلدی میں جھپٹا مارنا ہی پڑتا ہے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ ناخن اچھی طرح کٹانے چاہئیں تا کہ مجھے زخم نہ لگے-
میں نے ایک نصیحت یہ کی ہوئی ہے کہ ہماری جماعت کے دوست سونٹا رکھا کریں- یہ نصیحت اب بھی قائم ہے مگر اس میں میں ایک ترمیم کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مصافحہ کرتے وقت سونٹا ساتھ نہ ہو- سونٹا ہاتھ میں یا بغل میں دبائے ہوئے مصافحہ کرنے سے وہ سیدھا میرے منہ کی طرف ہوتا ہے اور اس کے لگنے کا خطرہ ہوتا ہے-
قادیان آنا اور مکان بنوانا
ایک نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ کے بغیر بھی دوستوں کو قادیان آتے رہنا چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جو بار بار قادیان نہیں آتا اس کے ایمان کے متعلق مجھے خطرہ ہے- ادھر یہاں کی بودوباش کو آپ نے ضروری قرار دیا ہے- پس احباب کو چاہئے کہ قادیان کو زندگی میں وطن بنانے اور مر کر مدفن بنانے کی کوشش کریں اسی کے ماتحت میں نے ایک تحریک کی ہے کہ مکانات بنوانے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں شامل ہونے والوں کیلئے پچیس روپیہ کا ایک حصہ رکھا گیا ہے- دوست اس کمیٹی میں شریک ہوں حصہ ڈالیں اور یہاں مکان بنوائیں- میں نے یہ بھی تحریک کی ہے کہ دس دس بارہ بارہ روپیہ کے حﷺ کی کمیٹی بھی بنائی جائے تا کہ کم آمدنی والے بھی مکان بنوا سکیں- اس طرح ایک تو قادیان میں دوستوں کے مکانات بنیں گے دوسرے قادیان کی مشرقی طرف آبادی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی پوری ہوگی- میں خود اس کمیٹی کا حصہ دار ہوں مگر میں نے قرض لے کر ایک مکان بنوایا ہے کیونکہ اب ہمارے گھر میں اتنی تنگی ہے کہ ایک ایک کمرہ میں جیل کی اتنی جگہ کے مقابلہ میں دو گنے افراد رہتے ہیں اس کمیٹی میں دوست شامل ہو سکتے ہیں- مجھے مکان بنوانے سے ہمیشہ آتا ہے- جو مکان بنوایا گیا ہے اس کے متعلق بھی میرے دل پر بوجھ ہے اس لئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس مکان کو بابرکت کرے- میں تو اس میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا میرے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مکان ہی بہترین ہے مگر جو نسل اس میں جا کر رہے اس کیلئے دعا کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے اسے حصہ ملے-
سلسلہ کی مالی حالت
میں نے اس سال اعلان کیا تھا کہ چندہ خاص نہ لیا جائے گا باوجودیکہ مجلس مشاورت کے وقت جو بجٹ پیش ہوا اس میں چندہ خاص کی مد رکھی گئی تھی اور احباب نے اس کے رکھنے پر زور بھی دیا تھا مگر میں نے اس سال کے لئے چندہ خاص نہ رہنے دیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجٹ میں ۵۵ ہزار کی کمی ہو گئی ہے اور اس وقت کارکنوں کی تین تین ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں تا ہم ارادہ یہی ہے کہ سال کے آخر تک چندہ خاص کی تحریک نہ کی جائے گی-
مجلس مشاورت کے نمائندے
مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ہر سال جماعتوں کے نمائندے مجلس شوریٰ کے موقع پر بجٹ پر غور کر کے اسے پاس کرنے کی سفارش کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ اس بجٹ کو پورا کریں گے- مگر پھر صدائے برنخواست کا معاملہ ہوتا ہے- ایسی حالت میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو جماعتیں ایسے لوگوں کو مجلس مشاورت میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتی ہیں جو انہیں جا کر کچھ بتاتے ہی نہیں- یا پھر ایسے لوگوں کو بھیجا جاتا ہے جن کا جماعتوں میں کوئی اثر نہیں ہوتا- یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو دور ہونی چاہئیں- مجلس شوریٰ میں وہی لوگ آنے چاہئیں جن کے تسلیم کردہ فیصلوں پر جماعتیں عمل کرنے کیلئے تیار ہوں-
جماعتیں بجٹ پورا کریں
خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے-امر ھم شوری بینھم ۷~}~مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے- جب رسول یا امام کوئی فیصلہ کر دے تو خواہ اپنی رائے کے خلاف ہی ہو تو بھی مان لینا چاہئے- مگر میں نے کبھی مالی معاملات میں نمائندگان مجلس مشاورت کے مشورہ کے خلاف نہیں کیا- پس جب وہی بجٹ منظور کیا جاتا ہے جو جماعتوں کے نمائندے پیش کرتے ہیں تو احباب کو چاہئے کہ اپنا اپنا بجٹ پورا کیا کریں- اس وقت تک جو بقائے ہیں‘ وہ ادا کر دیں اور آئندہ کیلئے باقاعدگی اختیار کریں-
مشکلات
میں جانتا ہوں کہ جماعت کیلئے بھی مجبوری ہے کیونکہ بجٹ تو اتنے ہی رکھے گئے جتنے پہلے ہوتے تھے- مگر گورنمنٹ نے ملازموں کی تنخواہیں کم دی ہیں- اس کا اثر چندہ کی کمی پر پڑنا لازمی تھا- اسی طرح زمینداروں نے جب غلہ بیچا اس وقت سستا تھا اور جب مہنگا ہوا تو بنیوں کے گھر جا چکا تھا اس طرح فائدہ بنیوں نے اٹھایا- یہ مشکلات ہیں مگر وہ مومن ہی کیا جو مشکلات سے گھبرا جائے اور انہیں دور کرنے میں پوری طاقت نہ صرف کر دے-
ریزرو فنڈ
میں سمجھتا ہوں کہ اب سلسلہ کی ایسی حیثیت ہے کہ ضروری ہے ہم ایک مستقل فنڈ جاری کریں- رسول کریم ~صل۲~ کے وقت بھی بعض جائدادیں اسلامی کاموں کیلئے وقف کر دی گئی تھیں- اسی طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کیا گیا- ہمیں بھی ریزرو فنڈ قائم کرنا چاہئے- میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور سندھ میں زمین خریدی گئی ہے- زمین اعلیٰ درجہ کی ہے‘ وہاں اجناس کے ریٹ بھی اچھے ہیں- بیس سال کی قسطوں پر ساری قیمت ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے- تیس ہزار روپیہ سلسلہ کی طرف سے داخل کر دیا گیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کام مفید ثابت ہوگا کیونکہ فوراً ہی غیر مبائعین کا اعتراض پہنچا کہ لو اب جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں- دراصل میں نے یہ سلسلہ کیلئے بطور ریزروفنڈ زمین خریدی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اسی کی آمدنی سے اگلی قسطیں ادا ہو سکیں گی- یہ پانچ لاکھ کا سودا ہے جو بیس سال میں ادا کرنا ہے ۲۵ ہزار سالانہ قسط کا دینا ہوگا مگر امید کی جاتی ہے کہ تیس چالیس ہزار سالانہ آمدنی ہو سکے گی- اس طرح قسطیں باسانی ادا کی جا سکیں گی اور شائد بعض حالات میں کچھ رقم بچ بھی سکے- غیر مبائعین نے ایک زمین چالیس مربعے خریدی تھی اور اس پر بڑا فخر کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں سو مربع دے دیا ہے-
جماعت احمدیہ کی اقتصادی حالت
کوئی احمدی بے کار نہ ہو
اب میں جماعت کی اقتصادی حالت کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں- پہلے فردی حالت کو لیتا ہوں- اسلام قطعاً یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی انسان نکما رہے ہر شخص کو کچھ نہ کچھ کام کرنا چاہئے مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے ہزاروں افراد نکمے بیٹھے رہتے ہیں اور جب ان سے پوچھو تو کوئی نہ کوئی عذر پیش کر دیتے ہیں- کبھی کہتے ہیں کوئی ملازمت نہیں ملتی‘ کبھی کہہ دیتے ہیں تجارت کرنا چاہتے ہیں مگر روپیہ نہیں- حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان تجارت کرنا نہیں جانتے وہ بڑا سرمایہ چاہتے ہیں- نہ انہیں وہ مل سکتا ہے اور نہ کام کر سکتے ہیں- لیکن ہندو تھوڑے سے تھوڑے سرمایہ سے تجارت شروع کر دیتے ہیں اور پھر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں- ہماری جماعت کے لوگوں کو اپنے اس طریق عمل کی اصلاح کرنی چاہئے‘ اپنا رویہ بدلنا چاہئے اور ہر حال میں بے کاری سے بچنا چاہئے- میرے نزدیک بیکار رہنا خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ ایک سال بھی جو بے کار رہا اسے اگر کوئی عمدہ ملازمت مل جائے تو بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکے گا کیونکہ بے کاری کی زندگی انسان کو بالکل نکما کر دیتی ہے اور کوئی کام کرنے کی ہمت باقی نہیں چھوڑتی- اس حالت سے بچنے کیلئے چاہئے کہ خواہ کوئی بی- اے ہو یا ایم- اے- ایل- ایل- بی ہو یا بیرسٹر ہو یا ولایت کی کوئی اور ڈگری رکھتا ہو‘ اگر اسے کوئی ملازمت نہیں ملتی یا حسب منشاء کام نہیں ملتا تو وہ معمولی سے معمولی کام حتیٰ کہ ایک جگہ سے مٹی اٹھا کر دوسری جگہ پھینکنا ہی شروع کر دے لیکن بے کار اور نکما ہر گز نہ رہے- اگر وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھے گا‘ خواہ وہ کام کتنا ہی معمولی ہو تو اس سے امید کی جا سکے گی کہ مفید کام کر سکے گا-
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کے متعلق تحقیقات کریں کہ ان میں سے کتنے بے کار ہیں اور پھر انہیں مجبور کریں کہ وہ کوئی نہ کوئی کام کیا کریں- لیکن اگر وہ کوئی کام نہ کر سکیں تو انہیں قادیان بھیج دیا جائے تا کہ یہاں آ کر وہ آنریری کام کریں- جب تک یہ حالت نہ ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی انسان بے کار نہ ہو‘ اس وقت تک جماعت کی اقتصادی حالت درست نہ ہوگی-
مسلمانوں کے بزرگوں کا طریق عمل
کسی شخص کو کوئی کام کرنے میں کسی قسم کی عار نہیں ہونی چاہئے مسلمانوں میں یہ کتنی خوبی کی بات تھی کہ ان کے بڑے بڑے بزرگوں کے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے رسی بٹنے والا یا ٹوکریاں بنانے والا‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علماء اور امام عملاً کام کرتے تھے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے- میں نے ایک دفعہ تجویز کی تھی کہ ایک کلب بنائی جائے جس کا کوئی ممبر راج کا‘ کوئی معمار کا‘ کوئی لوہار کا کام کرے تا کہ اس قسم کے کام کرنے میں جو عار سمجھتی جاتی ہے وہ لوگوں کے دلوں سے نکل جائے اب بھی میرا خیال ہے کہ اس قسم کی تجویز کی جائے-
دوسروں کی امداد کرو
پھر جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد کام کرے- جو بے کار ہے وہ اپنے لئے کام تلاش کرے اگر کوئی اعلیٰ درجہ کا کام نہیں ملتا تو ادنیٰ سے ادنیٰ کام کرنے میں بھی عار نہ سمجھے اگر دوست ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ جماعت میں اتنی قوت اور طاقت پیدا ہو جائے گی کہ کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا وہاں دوسری طرف میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے جو لوگ ملازم ہیں‘ انہیں چاہئے کہ دوسروں کو ملازم کرائیں‘ جو تاجر ہیں انہیں چاہئے دوسروں کو تجارت کرنا سکھائیں‘ جو پیشہ ور ہیں انہیں چاہئے دوسروں کو اپنے پیشہ کا کام سکھائیں- یہ صرف دنیوی طور پر عمدہ اور مفید کام نہ ہوگا بلکہ دینی خدمت بھی ہوگی اور بہت بڑے ثواب کا موجب ہوگا-
ایک طریق
ایک طریق کام چلانے کا وہ بھی ہے جو بوہروں میں رائج ہے ان میں سے اگر کوئی بے کار ہو جائے‘ تجارت نہ چلتی ہو اور اس کے پاس سرمایہ نہ ہو‘ تو بوہرے اس طرح کرتے ہیں کہ پنچائت کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں فلاں چیز فلاں کے سوا اور کوئی نہ بیچے- دوسرے دکاندار وہ مال اسے دے دیں گے- مثلاً دیا سلائی کی ڈبیاں ہیں جب یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ فلاں کے سوا اور کوئی دیا سلائی کی ڈبیاں نہ بیچے تو جتنے بوہروں کے پاس یہ مال ہوگا وہ سب اس کو دے دیں گے اس طرح اس کا کام چل جاتا ہے مگر اس کیلئے بڑی جماعت کی ضرورت ہے- جہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہوں وہ اس طرح کر سکتی ہیں کہ ایک دکان کھلوا دی جائے اور یہ عہد کر لیا جائے کہ تکلیف اٹھا کر بھی سب کے سب اسی سے سودا خریدیں گے- مسلمانوں میں تجارت کبھی ترقی نہ کر سکے گی جب تک وہ اس قسم کی پابندی اپنے اوپر عائد نہ کریں گے- ہماری جماعت اگر اس طریق کو چلائے تو بیسیوں لوگ تاجر بن سکتے ہیں-
قومی نقطہ نگاہ سے اقتصادی حالت
پھر قومی نقطہ نگاہ سے بھی اپنی اقتصادی حالت کا اندازہ کرنا چاہئے اس کے متعلق پہلی نصیحت میں نے یہ کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے مسلمان اپنی ضروریات کی چیزیں مسلمان دوکانداروں سے خریدیں اور کھانے پینے کی چیزیں جو ہندو کسی مسلمان سے نہیں خریدتے وہ تو قطعاً مسلمانوں کو ہندوئوں سے نہ خریدنی چاہئیں- یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ وہ چیزیں جو مسلمان کا ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے ہندوئوں کے نزدیک ناپاک ہو جاتی ہیں‘ وہ مسلمان ہندوئوں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی خرید کر استعمال کریں- کئی دوست اس تحریک پر عمل کرتے ہیں مگر کئی نہیں بھی کرتے اور دوسرے مسلمان تو بالکل نہیں کرتے- ہماری جماعت کے جو دوست اس پر عمل نہیں کرتے وہ خود عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو عمل کرنے کی تحریک کریں اور جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں نہیں ہیں‘ وہاں احمدیوں کی دوکانیں کھلوا دیں اور ان کی مدد اس طرح کریں کہ ضروریات کی چیزیں انہی سے خریدیں-
ہوزری کمپنی کی تحریک
دوسرا طریق یہ ہے کہ مشترک سرمایہ سے کام کیا جائے وہ کام جو افراد نہیں کر سکتے‘ قوم کر سکتی ہے- اسی سلسلہ میں میں نے مجلس شوریٰ میں یہ تجویز منظور کی تھی کہ جرابیں وغیرہ بننے کیلئے کمپنی بنائے جائے اس کے کچھ حصے قادیان اور باہر کے لوگوں نے خریدے ہیں- لیکن کام شروع کرنے کیلئے کم از کم بائیس ہزار روپیہ ضروری ہے- افسوس کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی- حالانکہ مجلس مشاورت میں شریک ہونے والے دوست یہ عہد کر کے گئے تھے کہ ہم اس کمپنی کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں گے اور میں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اس کمپنی کی جرابیں پورے سائز کی نہ ہونگی تو خواہ وہ کتنی ہی خراب ہوں ہم وہی پہنیں گے اور ان پر اعلیٰ درجہ کی جرابوں کو ترجیح نہ دیں گے- تمام جماعتوں کو چاہئے کہ اس ہوزری فیکٹری کے حصے خریدیں- اس رنگ میں عمدگی سے تجارتی کام چلایا جا سکتا ہے- ہوزری کے کام کو اس لئے چنا گیا ہے کہ یہ تھوڑے سرمایہ سے چلایا جا سکتا ہے جب یہ تجویز کی گئی تھی‘ اس وقت بارہ ہزار سرمایہ کی ضرورت تھی لیکن اب بائیس ہزار کی ہے- اور اگر اب بھی کام نہ چلایا گیا تو ممکن ہے پھر پچاس ہزار کی ضرورت پیش آئے- اگر سرمایہ زیادہ ہو جائے تو اس کام کو اور زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے یعنی بنیانیں اور کپڑا بننے کا کام شروع کیا جا سکتا ہے-
قومی سرمایہ سے کام جاری کرنے کی ضرورت
اس وقت مسلمانوں میں بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں اور وہ ابھرنا چاہتے ہیں مگر ہندئووں نے تجارت کا ایک ایسا حلقہ قائم کر رکھا ہے کہ مسلمان ابھر نہیں سکتے- ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ ہم اپنی تنظیم کے ذریعہ ابھر سکتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو سہارا دیکر کھڑا کر سکتے ہیں میری غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو اقتصادی طور پر جو کچلا جا رہا ہے اس کا انسداد ہو جائے‘ مسلمان محفوظ ہو جائیں اور ارتداد کے گڑھے میں نہ گریں- اس کے علاوہ کئی ادنیٰ اقوام مسلمان ہونے کیلئے تیار ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ کام دو ہم کام کہاں سے دیں جب تک قومی طور پر کام شروع نہ کئے جائیں-
میں اس کام کی مثال ایسی سمجھتا ہوں جیسے مظہر جان جاناں کا لڈو کھانا تھا- اس کے پاس ایک دفعہ بالائی کے لڈو لائے گئے جو بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں- ان کے ایک مخلص مرید تھے انہیں انہوں نے دو لڈو دیئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد پوچھا تمہیں لڈو دیئے تھے کہاں ہیں- انہوں نے کہا وہ تو میں نے اسی وقت کھا لئے تھے- کہنے لگے کیا دونوں کھا لئے- انہوں نے کہا اتنے چھوٹے چھوٹے تو تھے ذرا سی دیر میں کھا لئے ان کے کھانے میں کونسی بات تھی- انہوں نے کہا کیا تمہیں لڈو کھانا نہیں آتا- مرید نے جواب دیا مجھے تو اسی طرح کھانا آتا ہے کہ منہ میں ڈال لیا اور کھا لیا اگر کوئی اور طریق ہو تو آپ بتا دیں- انہوں نے کہا اچھا پھر کبھی لڈو آئے تو بتائیں گے- ایک دن پھر کوئی مرید لڈو لایا اس پر مظہر جان جاناں نے اس مرید کو بلا کر کہا- دیکھو- اس طرح لڈو کھانا چاہئے یہ کہہ کر انہوں نے رومال بچھایا اور اس پر دو لڈو رکھ کر کہنے لگے غور کرو اس میں کیا کیا چیزیں پڑی ہیں اور پھر ان کو کتنے آدمیوں نے تیار کیا ہے اس لئے کہ مظہر جان جاناں لڈو کھائے سبحان اللہ یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے- یہ کہہ کر ایک ذرا سا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور پھر خدا تعالیٰ کے احسانات پر تقریر کرنے لگ گئے- اسی طرح کرتے رہے کہ اذان ہو گئی اور آپ نماز کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے- اس طرح انہوں نے بتایا کہ لڈو کھانا بھی عبادت ہے- اگر اسے صحیح طور پر کھایا جائے یعنی لڈو نفس کیلئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھانے کیلئے کھانا چاہئے-
ہمارا فرض ہے کہ جماعت کی چاردیواری کو ہر طرف سے مضبوط کریں- اس کی ایک طرف کی دیوار اقتصادی حالت ہے اسے اگر مضبوط نہ کیا جائے تو سخت نقصان ہوگا- فی الحال جو چھوٹا سا کام شروع کرنے کی تجویز ہے اس میں احباب کو شرکت اختیار کرنی چاہئے- جب ہم اس کام میں روپیہ اس نیت سے لگا رہے ہیں کہ جماعت کی طاقت اور قوت بڑھے‘ جو بے کار لوگ ہیں وہ کام پر لگ جائیں‘ مسلمانوں کی اقتصادی حالت درست ہو سکے‘ اچھوت اقوام میں تبلیغ کر سکیں تو انشائاللہ اس کمپنی کو کسی صورت میں بھی نقصان نہیں ہوگا اور اگر خدانخواستہ مالی لحاظ سے نقصان ہو تو خدا تعالیٰ دوسری طرح اسے پورا کر دے گا- بعض لوگ سٹور کے فیل ہونے سے ڈرے ہوئے ہیں مگر وہ منافع کیلئے کام شروع کیا گیا تھا اور اب جو کام شروع کیا جانے والا ہے اس کی غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ترقی حاصل ہو اور اقتصادی پہلو سے ان کی حفاظت کر سکیں- پھر ترقی کرنے والی قوم کو اس طرح کی باتوں سے ڈرنا نہیں چاہئے کہ فلاں کام میں نقصان ہو گیا تھا اس قسم کا ڈر ترقی کے رستہ میں بہت بڑی روک ہے- انگریزوں نے جب ایسٹ انڈین کمپنی بنائی تو پہلے اس میں گھاٹا پڑتا رہا مگر انہوں نے استقلال کے ساتھ کام جاری رکھا آخر ہندوستان کی بادشاہت انہیں مل گئی- غرض قومی طور پر جو کام شروع کیا جائے وہ گو ابتداء میں معمولی نظر آئے‘ اس میں مشکلات ہوں‘ اس میں نقصان اٹھانا پڑے لیکن اگر قوم ہمت اور استقلال سے اسے جاری رکھے تو آخر کار عظیم الشان نتائج رونما ہوتے ہیں ہماری جماعت کو ایسی ہی ہمت دکھانی چاہئے-
مسلمانان کشمیر کی امداد
اقتصادی حالت کی اصلاح کے ماتحت میں ایک اور سوال کو لیتا ہوں وہ مسلمانان کشمیر کا مسئلہ ہے- میں اس کو بھی سیاسی سوال نہیں بلکہ اقتصادی سوال سمجھتا ہوں کیونکہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا حصہ اقتصادی غلامی میں مبتلا ہے اور اگر یہ حصہ اقتصادی طور پر غلام رہے تو اس لحاظ سے مسلمانوں میں کمزوری پائی جائے گی- اسی وجہ سے میں نے اس معاملہ میں حصہ لیا ورنہ میں حصہ لینے کا کوئی حق نہ سمجھتا اور آج بھی نہیں سمجھتا ہوں مگر میں نے دیکھا مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی اقتصادی غلامی میں مبتلا ہے اسی لئے میں نے دوستوں کو مسلمانان کشمیر کی امداد کی طرف توجہ دلائی اور چندہ دینے کی تحریک کی- میں خوش ہوں کہ دوستوں نے توجہ کی اور ڈیڑھ ہزار کے قریب ہندوستان اور بیرون ہند سے ماہوار چندہ آ جاتا ہے مگر اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے دس ہزار کے قریب قرض ہو گیا ہے- اگر اس وقت کشمیر کے مسلمانوں کی امداد کا کام بند بھی کر دیا جائے تو بھی دس ماہ تک چندہ جاری رکھنا پڑے گا تا کہ قرض ادا ہو جائے- مگر ابھی کام ختم نہیں ہوا بلکہ بڑھ رہا ہے اور ابھی کم از کم ڈیڑھ دو سال تک جاری رکھنے کی ضرورت ہے- خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا خاصہ ہے کہ جس کام کو وہ ہاتھ میں لیتی ہے اسے مکمل کر کے چھوڑتی ہے اور اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں- اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس حد تک اس کام کو مکمل کریں جس حد تک تکمیل کی ضرورت ہے- پس میں توجہ دلاتا ہوں کہ دوست نہ صرف اس امداد کو جاری رکھیں بلکہ اسے دوگنی تگنی کر دیں اور کوشش کریں کہ نہ صرف ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ اس کام کیلئے ماہوار جمع ہو بلکہ دو اڑھائی ہزار تک آمد ماہوار ہو اور دو ڈیڑھ سال تک جاری رہے جب تک کہ وہاں کے لوگ کام کو سنبھالنے کے قابل نہ ہو جائیں اس امداد کو جاری رکھیں-
میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ اس کام میں خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے- میں نے اپنا ایک رئویا بھی سنایا تھا اب چند ہی دن ہوئے میں نے ایک اور رئویا دیکھا- میں نے دیکھا دروازہ پر آواز دی گئی ہے کہ باہر آئیں ایک ضروری کام ہے- جب میں باہر آیا تو دیکھا کہ دروازہ پر شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی اور منشی برکت علی صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک پارسل ہے- پارسل رسیوں سے بندھا ہوا ہے اور اوپر مہریں لگی ہوئی ہیں وہ کاغذات کا بنڈل معلوم ہوتا ہے انہوں نے بڑے ادب سے کاغذات پیش کئے- میرا ہی ادب نہیں کیا بلکہ کاغذات کا بھی ادب کیا- کہا- یہ پارسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بصیغہ راز بھیجا ہے اور اس میں تاکیدی ارشاد فرمایا ہے اور یہ بھی کہ حاجی نبی بخش کو بھی شامل کر لیا جائے-
منشی برکت علی صاحب کے سپرد میں نے چندہ کشمیر کا کام کیا ہوا ہے اس وقت میرا ذہن اس طرف گیا کہ اس پارسل میں کشمیر کے متعلق خاص ہدایایت ہیں تو میں اس کام میں خدائی ہاتھ سمجھتا ہوں- پہلے جب ایک دفعہ میں نے تقریر کی اور بتایا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ کشمیریوں کو آزادی حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ اس کام میں ہے تو ادھر میں نے خطبہ پڑھا اور ادھر کشمیر کے حالات میں سخت خرابی پیدا ہو گئی- بڑے زور سے مسلمانوں پر تشدد شروع ہو گیا انگریزی فوجیں ریاست میں داخل ہو گئیں اور حالات نہایت ہی خطرناک ہو گئے- اس وقت بعض لوگ حیران ہو گئے کہ اب کیا ہوگا- مگر ایک مہینہ کے اندر اندر حالات بالکل بدل گئے اور وہ لوگ جو سختی کرنے والے تھے ریاست سے نکلوا دیئے گئے-
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہاں جا کر اس کام کو پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور کوشش سے کریں اور کم از کم اڑھائی تین ہزار روپیہ ماہوار چندہ جمع کرنے کی کوشش کریں اور کم از کم اڑہائی تین ہزار روپیہ ماہوار چندہ جمع کرنے کی کوشش کریں- دو ڈیڑھ سال تک غالباً اسے جاری رکھنے کی ضرورت ہوگی اس وقت تک جاری رکھا جائے-
)الفضل ۱۰-جنور ی ۱۹۳۳ء(
‏a12.12
سلطنت مغلیہ کا آخری دور اور مسلمانوں کی حالت
اب میں سیاسی حالت کی طرف آتا ہوں- موجودہ زمانہ ہندوستان میں ایسا ہی ہے جیسا کہ حکومت مغلیہ کے آخر میں آیا تھا- اس وقت ایک طرف سے سکھ اٹھے اور دوسری طرف سے مرہٹے جنہوں نے مسلمانوں کو جو خانہ جنگیوں اور بے انتظامیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے کچل کر رکھ دیا اور پنجاب میں تو سکھوں نے حد ہی کر دی ان کے دور میں کہیں اذان نہ دی جاتی تھی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے- امرتسر میں کسی سکھ نے ایک مسلمان کو خط دیا کہ پڑھ دو- اس وقت سکھ کی قابلیت یہ سمجھی جاتی تھی کہ وہ پڑھا ہوا نہ ہو اور سکھ مختلف بہانوں سے لوگوں سے خط پڑھواتے تا کہ اگر کوئی پڑھ دے تو یہ اس کے مسلمان ہونے کی علامت ہوگی اور اسے مار دیا جائے- جسے خط پڑھنے کیلئے دیا گیا اس نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں- سکھ نے کہا- نہیں- ضرور پڑھ دو- اس نے کہا- میں بالکل نہیں پڑھا ہوا- سکھ نے کہا- اگر تم پڑھے ہوئے نہیں تو یہ بالکل کا لفظ کہاں سے سیکھ لیا تم ضرور پڑھے ہوئے ہو یہ کہہ کر اس نے تلوار سے اس کا سر اڑا دیا-
حضرت مسیح موعود کی بعثت
دراصل یہ عذاب تھا جو اس رنگ میں مسلمانوں پر نازل ہوا جس نے مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیا- آخر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مبعوث کیا اور مسلمان جب بے حد کمزور ہو گئے تو روحانی طور پر ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا-
ہندوئوں کی منظم سازش
اب ایک اور زمانہ آ رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز ایک حد تک حکومت کر کے تھک گئے ہیں- لایودہ حفظھما ۸~~}تو خدا تعالیٰ کی شان ہے- انگریزوں نے زبانی نہیں تو عملی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم تھک گئے ہیں‘ ہندوستانی ہندوستان کی حکومت سنبھال لیں- ان حالات میں نہایت ہی نازک وقت آیا ہوا ہے ایسا نازک کہ اگر ذرا کوتاہی کی گئی تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک ایسی منظم قوم جسے سالہا سال سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں‘ وہ مسلمانوں کے خلاف کھڑی ہو جائے گی- >ہندو راج کے منصوبے< کتاب میں جو مہاشہ فضل حسین صاحب نے شائع کی ہے‘ بڑے بڑے ہندو لیڈروں کے بہت سے اس قسم کے بیانات درج کر دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو کچل کر رکھ دو یا اپنے اندر شامل کرلو اور ہندوستان میں ہندو راج قائم کرلو-
نہایت ہی تاریک مستقبل
ان حالات میں نہایت ہی تاریک مستقبل نظر آتا ہے- جس سے ڈر آتا ہے اور خطرناک ڈر اس لئے نہیں کہ اسلام کو مٹا دیا جائے گا یہ تو ناممکن ہے بلکہ اس لئے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری کے انکار کی وجہ سے رومیوں کو کچل دیا گیا تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے مسلمانان ہند کو نہ کچل کر رکھ دیا جائے- خدا تعالیٰ نے ان کی امداد اور اصلاح کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا آپ نے ایک جماعت قائم کی‘ عقل و سمجھ رکھنے والے لوگ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اچھا کام کیا اور آپ کی جماعت اچھا کام کر رہی ہے مگر اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتے- یہ مانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ بڑی منظم جماعت ہے اس نے بڑا کام کیا ہے مگر ساتھ ہی کہتے ہیں اسے کچل دینا چاہئے- ان حالات میں مسلمانان ہندوستان کے متعلق جس قدر خطرات ہو سکتے ہیں‘ ان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک طرف مسلمانوں کی پراگندگی اور آپس کے لڑائی جھگڑے اور دوسروی طرف ہندوئوں کی ان کے خلاف تنظیم کوئی معمولی خطرہ کی بات نہیں-
مسلمانان کشمیر پر مظالم
مسلمانان کشمیر پر جو مظالم کئے گئے وہ بھی ہندوئوں کی اسی سکیم کے ماتحت کئے گئے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف تجویز کر رکھی ہے- موجودہ مہاراجہ صاحب نے پہلے جب حکومت ہاتھ میں لی تو ان کی توجہ مسلمانوں کی کمزور حالت کی اصلاح کی طرف تھی وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ترقی کریں مگر ہندو لیڈروں نے جب یہ طے کیا کہ پہلے ہندو ریاستوں میں مکمل ہندو راج قائم کرنا چاہئے تو انہوں نے راجوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا- کشمیر میں بھی یہی کیا گیا اس کے بعد الور میں کیا جا رہا ہے-
ہماری مشکلات
ہمارے لئے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے اصول ایسے ہیں جن کے لحاظ سے ہم دوسرے مسلمانوں سے بعض باتوں میں تعاون نہیں کر سکتے- مثلاً ہمارا ایک اصل یہ ہے کہ کسی حکومت کے خلاف بغاوت اور قانون شکنی میں دوسرے مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں تو اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے والے اور کوئی کام نہ کرنے والے ہمیں قومی غدار قرار دینے لگ جاتے ہیں اور عوام کو ہمارے خلاف بھڑکانا شروع کر دیتے ہیں- پھر جس حکومت سے مقابلہ ہو اس کے افسر ضد اور تعصب کی وجہ سے احمدیوں پر بے جا تشدد اور ظلم شروع کر دیتے ہیں- کشمیر میں ایسے واقعات ہوئے- مثلاً ایک احمدی کو سخت مارنے پیٹنے کے علاوہ بالکل ننگا کر کے اس کی عورت کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور عورت کو بھی ننگا کیا گیا- ہمیں اس قسم کے جہالت اور وحشت کے واقعات بھی دیکھنے پڑیں گے مگر باوجود اس کے ہم کام کئے جائیں گے-
ہر قدم پر خطرہ
ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ہمیں ہر قدم پر خطرہ ہے- ہم مسلمانوں کے لئے خواہ کتنی قربانیاں کریں ایسا موقع آئے گا جب وہ کہیں گے ان کو مارو اور کچلو اس وقت کمزور دل کہیں گے کیا ہمیں اس قوم کی مدد کرنے کے لئے کہا جاتا ہے جو ہماری ہی دشمن ہے اور ہمیں ہی کچلنا چاہتی ہے- مگر یاد رکھنا چاہئے ہم اس خدا کے بندے ہیں جو کافروں اور دہریوں کی بھی ربوبیت کرتا ہے ہمیں اس قسم کے نظاروں سے گھبرانا نہیں چاہئے اگر ہم رب العالمین کے بندے ہیں تو ہمارے حوصلے بہت وسیع اور ہماری ہمتیں بہت بلند ہونی چاہئیں-
مسلمانان ہند کی سیاسی نجات
میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی نجات بھی احمدیوں سے ہی وابستہ ہے- مسلمانوں میں بعض دیانتدار لیڈر ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں مگر وہ استقلال سے کام نہیں کر سکتے جلد گھبرا جا تے ہیں اور کہہ اٹھتے ہیں لڑ مرو حالانکہ مسلمان کا کام لڑ مرنا نہیں بلکہ لڑ مارنا ہے- خدا کا بندہ مقابلہ میں کیوں مرے‘ مرنا تو دشمن کے لئے ہے-
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت
ہمیں سیاسی معاملات میں حصہ لیتے ہوئے تین مشکلات کو مدنظر رکھنا چاہئے- پہلی مشکل مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق ہے- ہماری ذمہ واری ہو گی کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کریں مگر مشکل یہ ہے کہ اس میں خود مسلمان روک بنیں گے- مسلمانوں میں چونکہ تعلیم کم ہے اور عام لوگ سیاسیات سے واقف نہیں اس لئے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس بات میں ان کا نقصان ہوتا ہے اسے اپنا حق قرار دے لیتے ہیں جیسا کہ ایک جماعت کہتی ہے مشترکہ انتخاب ہمارا حق ہے یہ ہمیں ملنا چاہئے-
ایک گرو اور چیلے کا قصہ
‏text1] [tagایک قصہ مشہور ہے- کہتے ہیں ایک گرو اپنے چیلے کو لے کر جگہ بہجگہ پھر رہا تھا- ایک مقام پر جب وہ گئے تو وہاں انہیں معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی ہے- چیلے نے کہا یہاں ٹھہرنا چاہئے یہ خوب مزا ہے کہ جو چیز چاہو ٹکے سیر لے لو- گرو نے سمجھایا کہ جہاں ایسا اندھیر ہو وہاں نہ معلوم اور کیا کچھ ہو گا مگر چیلے نے کہا اور کیا ہو سکتا ہے یہاں ہی ٹھہریئے- کچھ عرصہ کے بعد راجہ کو رپورٹ کی گئی کہ ایک آدمی دیوار کے نیچے آ کر مر گیا ہے- راجہ نے کہا یہ خون ہوا ہے اس کے بدلے دیوار کو پھانسی دے دی جائے- کہا گیا دیوار کو کس طرح پھانسی دی جائے- راجہ نے کہا دیوار کو نہیں تو دیوار کے مالک کو پھانسی دے دو- اس پر دیوار کے مالک کو پکڑ لائے- جب اسے پیش کیا گیا تو اس نے کہا مہاراج میرا کیا قصور ہے‘ دیوار راج نے خراب بنائی تھی اس لئے گر گئی- راجہ نے کہا ٹھیک ہے قصور راج کا ہے‘ اسے پکڑ کر لاو- جب اسے لایا گیا تو اس نے کہا میرا کیا قصور ہے گارا خراب تھا اس میں سقہ نے پانی زیادہ ڈال دیا تھا- راجہ نے کہا سقہ گرفتار کر کے لایا جائے- جب وہ لایا گیا تو اس نے کہا اس وقت پاس سے ایک عورت گزر رہی تھی جسے ایک مرد اشارے کر رہا تھا‘ میں ان کی طرف دیکھنے لگ گیا اور مشک کا مونہہ بند کرنا بھول گیا- اس پر عورت کو لایا گیا- اس نے کہا میرا کیا قصور ہے‘ مجھے فلاں مرد اشارے کر رہا تھا- اس مرد کو پکڑ کر منگایا گیا اسے کوئی عذر نہ سوجھا- اس پر فیصلہ کیا گیا کہ اسے پھانسی دے دی جائے- جب پھندا اس کے گلے میں ڈالا گیا تو وہ کھلا تھا- اس کی اطلاع راجہ صاحب کو دی گئی- انہوں نے کہا اسے چھوڑ دیا جائے اور کوئی موٹا آدمی پکڑ لیا جائے جس کی گردن پھندے میں پوری آ سکے- وہ چیلا مٹھائیاں کھا کھا کر بہت موٹا ہو چکا تھا اسے پکڑ لیا گیا- اس نے پوچھا- کوئی قصور بتائو- کہا گیا- یہی قصور ہے کہ تمہاری گردن پھندے میں پوری آئے گی- اس نے کہا- اچھا جس طرح مرضی ہو کرو مگر مجھے اپنے گرو سے مل لینے دو- جب وہ گر و سے ملنے گیا تو اس نے کہا- میں نہ کہتا تھا یہاں نہ ٹھہرو- چیلے نے کہا- اب تو میں پھنس گیا کسی طرح نکالیں- گرو نے کہا- اچھا چلو میں بھی وہیں آتا ہوں- جب چیلے کو پھانسی پر لٹکانے لگے تو گرو دوڑتا ہوا جا کر کہنے لگا- میرا حق ہے‘ پھانسی میں چڑھوں گا- میں اسی دن کے لئے تو عبادت کرتا رہا ہو- چیلا کہے- نہیں میں چڑھوں گا- ان دونوں کو راجہ صاحب کے پاس لے گئے- کہ یہ کہتے ہیں آج جو پھانسی پر چڑھے گا سیدھا سورگ میں جائے گا- راجہ نے کہا- یہ میرا حق ہے میں پھانسی پر چڑھوں گا- اس طرح راجہ پھانسی پا گیا-
اسی قسم کا حق وہ مسلمان مانگتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مشترکہ انتخاب ہمارا حق ہے- جہاں مسلمانوں میں ا یسا طبقہ ہو جو پھانسی کو اپنا حق سمجھے اس کے متعلق سمجھ سکتے ہو‘ اس کی کتنی درد ناک حالت ہے- بہرحال مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ خواہ ہم کتنی خدمت کریں وہ یہی کہیں گے کہ یہ قومی غدار ہیں- مگر ہمیں ایسی باتوں کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے بلکہ دیانت داری کے ساتھ اپنے کام پر قائم رہنا چاہئے اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کوشش کا کوئی وقیقہ فروگزاشت نہ کرنا چاہئے-
تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت
دوسرے ہمارا یہ بھی فر ض ہو گا کہ اگر تمام کے تمام مسلمان مل کر بھی چاہئیں کہ غیر قوموں کے متعلق عدل و انصاف کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ہم بالکل انکار کر دیں- ہم رب العالمین کے خلیفہ ہیں اس نے ہماری جماعت کو اس لئے قائم کیا ہے کہ ہم دنیا میں حق اور عدل کو قائم کریں اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت کریں خواہ وہ ہم سے لڑ ہی رہی ہوں- ہو سکتا ہے کہ کسی وقت کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہو لیکن کسی دوسری قوم سے ناانصافی ہو تی ہو اس وقت گو ہمیں بہت مشکل پیش آئے گی لیکن ہمارا فرض ہو گا کہ ناانصافی کرنے والوں کا ساتھ نہ دیں بلکہ جن کا حق مارا جاتا ہو ان کی امداد کریں-
قانون شکنی کرنے والوں سے مقابلہ
تیسری مشکل یہ ہے کہ بغاوت اور قانون شکنی کرنے والوں کے جب ہم خلاف ہوں گے تو وہ ہمارے بھی دشمن ہو جائیں گے اور کہیں گے یہ غدار ہیں- مگر ان تمام مشکلات سے گزرتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ راستی کو قائم کریں- ہم خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ماننے والے ہیں اور وہ کسی خاص قوم سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ساری دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور ساری دنیا کے فائدہ کے لئے معبوث ہوا ہے-
مسلم کانفرنس اور الہ آباد کانفرنس
میرے نزدیک موجودہ حالات میں مسلمانوں کے مطالبات انصاف پر مبنی ہیں- الہ آباد کی کانفرنس نے غلطی کی وہ مسلمانوں میں شقاق پیدا کر رہی ہے اور عملاً نظر آ رہا ہے کہ لڑائی جھگڑے زیادہ بڑھ رہے ہیں مگر ہم کسی ایک فریق پر الزام نہیں لگا سکتے- وجہ یہ کہ جہاں مسلم کانفرنس کے مطالبات ٹھیک ہیں وہاں وہ الہ آباد کانفرنس کے خلاف ایک غلطی کر رہی ہے اور وہ یہ کہ اس میں شریک ہونے والے مسلمان لیڈروں نے ابھی کوئی فیصلہ کیا ہی نہیں تھا کہ انہیں غدار قرار دے دیا گیا- یہ طریق کام کرنے کا نہیں- چاہئے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کریں- میرے نزدیک مناسب نہ تھا کہ اس موقعہ پر ہندو مسلمانوں کی کانفرنس ہو مگر جب ہوئی تو ہمارا فرض تھا کہ اس میں شریک ہونے والوں کو ان کی غلطی دلائل سے سمجھاتے نہ کہ سوٹے سے- اس طریق عمل سے ہم بہت نقصان اٹھا چکے ہیں- اس کانفرنس میں شریک ہونے والے مسلمان لیڈروں کو غدار کہنا ٹھیک نہیں ان میں دیانت دار اور خدمت گزار لوگ بھی موجود ہیں مگر اسی طرح پھانسی پر چڑھ رہے ہیں جس طرح راجہ چڑھا تھا-
احمدیوں کو نصیحت
ہماری جماعت کے جو دوست سیاسی امور میں حصہ لیتے ہیں وہ مسلمانوں کے حقوق اور مطالبات کے متعلق میرے مضامین پڑھیں اور اپنے اپنے علاقہ کے لوگوں کو ان کے مطالب سمجھائیں- میرے نزدیک مسلم کانفرنس جو مطالبات پیش کر رہی ہے وہ صحیح ہیں اور الہ آباد کانفرنس میں حصہ لینے والے جس رنگ میں سیاسی امور طے کر رہے ہیں وہ غلط ہیں اور مسلمان کے لئے نقصان رساں-
قتل و غارت کی خطرناک تحریک
ایک اور خطرناک تحریک ملک میں جاری ہے اور وہ قتل و غارت کا سلسلہ ہے- ایک جماعت ایسی ہے جو کہتی ہے کہ انگریزوں کو اور ان سے تعاون کرنے والوں کو مار دیں گے- میرے نزدیک یہ تحریک انگریزوں کے خلاف اتنی نقصان رساں نہیں ہے جتنی مسلمانوں کے لئے ہے- جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں ہی یہ تحریک زوروں پر ہے مگر مسلمان اس میں شامل نہیں ہیں-
مسلمانوں کے لئے خطرات
پنجاب میں‘ بنگال میں اور صوبہ سرحد میں یہ تحریک زیادہ پائی جاتی ہے اور انہی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے مگر مسلمان اس میں شامل نہیں صرف ہندو ہی اس میں حصہ لے رہے ہیں- اس کے معنی کیا ہیں یہ کہ مسلمان کو ڈرایا جا رہا ہے کہ دیکھو جب انگریزوں سے ہم یہ سلوک کر رہے ہیں جو ہر قسم کی طاقت رکھتے اور ہندوستان میں حکمران ہیں تو تمہاری کیا حقیقت ہے کہ ہندوئوں کے مقابلہ میں ٹھہر سکو- مسلمان چونکہ بے حد غیر منظم اور پراگندہ ہیں اس لئے اس تحریک کے خطرات مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ ہیں بہ نسبت انگریزوں کے اس وجہ سے مسلمانوں کے لئے سیاسی لحاظ سے بھی اس تحریک کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور مذہبی لحاظ سے اس سے بھی زیادہ ضروری ہے- ہماری جماعت اس لئے کھڑی ہوئی ہے کہ شرارت کو دور کرے خواہ کوئی شرارت کرے‘ انگریز کرے یا ہندو-
کانگرسی اور تحریک تشدد
میں نے قتل و غارت کی اس خطرناک تحریک کے متعلق بڑا مطالعہ کیا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ کئی کانگرسی اس میں شامل ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے روپیہ کانگرس مہیا کرتی ہے بحیثیت جماعت نہیں بلکہ ذمہ وار کانگرسی افراد روپیہ سے مدد کرتے ہیں- قتل و خونریزی کے حادثات کے متعلق جب بھی کانگرسیوں کی طرف سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے تو دو رخی طریق اختیار کیا جاتا ہے- بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ کانگرس تشدد کو پسند نہیں کرتی لیکن دوسری طرف تشدد کا ارتکاب کر کے سزا پانے والوں کو قوم کے لئے قربانی کرنے والے قرار دیا جاتا ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان پر رحم کرنا چاہئے- لیکن اگر ان کو رحم کا مستحق سمجھا جاتا ہے تو انگریزوں پر کیوں نہ رحم کرنا چاہئے- جب قاتلوں اور خونریزی کرنے والے کے مقابلہ کے لئے کوئی تجویز کی جاتی ہے تو کانگرس والے بے چین ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر وہ شخص جو ہندوستان کا خیرہ خواہ کہلاتا ہے‘ اسے قتل و غارت کرنے والوں کا مقابلہ کرنا چاہئے- کیونکہ جو طریق عمل ایسے لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے اس سے کبھی حکومت نہیں مل سکتی-
خونریزی کرنے والوں کی جماعت
خونریزی کرنے والوں کو خون بہانے کی عادت ہو جاتی ہے اور وہ خون کرتے جاتے ہیں جس سے ان کے اخلاق مٹ جاتے ہیں اور وہ عقل کی حدود سے گزر کر جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں- یاد رکھنا چاہئے- عقل اور جنون کے درمیان بہت باریک پردہ ہوتا ہے- ایک وفعہ کوئی شخص کسی برے قتل کا ارتکاب کر لے تو دوسری دفعہ اس کے کرنے میں اس کے لئے اتنا حجاب نہ رہے گا جتنا پہلے ہو گا اسی طرح جو لوگ قتل کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے نفس پر دوسروں کا خوں بہانا قابو پا لیتا ہے اور پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل کرنے لگ جاتے ہیں-
‏sub] ga[t اسلام کا حکم اور بانی اسلام کا عمل
اس نقص کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے دشمن پر حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اندفاع کا حکم دیا ہے- ساری عمر رسول کریمﷺ~ نے صرف ایک دفعہ دشمن پر حملہ اور وہ بھی اس وقت جبکہ وہ آپ کے سر پر پہنچ گیا- صحابہؓ نے اس کا مقابلہ کرنا چاہا مگر آپ نے ان کو روک دیا اور فرمایا- اسے آنے دو- جب وہ قریب آیا تو آپ نے اسے نیزہ ذرا سے چھبو دیا- اس پر وہ بھاگا اور جب اس سے پوچھا گیا کہ کیوں بھاگے- تو اس نے کہا- ساری دنیا کی آگ اس چھوٹے سے زخم میں بھر دی گئی ہے- تو رسول کریمﷺ~ نے ساری عمر میں کبھی کسی کی جان نہ لی بلکہ جب مجرموں کے قتل کا سوال سامنے آیا تو آپ نے فرمایا- اگر یہ لوگ معانی مانگ لیتے یا سفارش کراتے تو میں انہیں چھوڑ دیتا-
پوری طرح مقابلہ کرنے کی ضرورت
میرے نزدیک انارکسٹ قوم کے اخلاق کو کچلنے والے ہیں اور اس چیز کو کچلنے والے ہیں جسے قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اس لئے انگریزوں سے زیادہ ہمیں اس تحریک کے متعلق فکر کرنا چاہئے- انگریزوں کو تو اپنی جان ہی کی فکر ہے- لیکن ہمیں لوگوں کی روح کی فکر ہے پس ہمیں اس تحریک کا پوری طرح مقابلہ کرنا چاہئے-
قاتل اور ڈاکو حکومت نہیں کر سکتے
پھر یاد رکھنا چاہئے دنیا میں قاتل اور ڈاکو حکومت نہیں کر سکتے- اگر فاتح ہو جائیں تو ان کی فتح عارضی ہوتی ہے وہ حکومت ہرگز قائم نہیں رکھ سکتے اس لئے جن لوگوں نے قتل و خونریزی کی راہ اختیار کر رکھی ہے وہ ہندوستان کے دوست نہیں بلکہ بہت بڑے دشمن ہیں- ان کے ذریعہ ہندوستان میں قومی حکومت قائم نہ ہو گی بلکہ ہندوستان کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا-
انگریزوں کا قصور
میرے نزدیک اس بارے میں انگریزوں کا بھی قصور ہے- وہ ایسی پالیسی پر چلے ہوئے ہیں کہ صحیح طریق عمل اختیار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں- میں نے کئی بار ذمہ وار انگریزوں کو بتایا ہے کہ جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہوا ہے اس کے ذریعہ کامیابی نہ ہو گی- اس وقت انارکسٹوں کا مقابلہ صوبجاتی حکومتیں کرتی ہیں لیکن جب ایک صوبہ میں آرڈیننس جاری کیا جاتا ہے تو وہ دوسرے صوبہ میں چلے جاتے ہیں اور وہاں شرارت کا بیج بو دیتے ہیں- پھر اگر سارے ہندوستان میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو بھی کامیابی نہ ہوگی کیونکہ جس کو مارنے کا منصوبہ کیا جائے وہ اگر مارنے والوں کو کہے کہ ایسا نہ کرو تو ان پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا- یہ کوشش غیر جانبدار لوگوں کی طرف سے ہونی چاہئے- دیکھو جسے قتل کیا جانے والا ہو وہ اگر قاتل سے کہے قتل نہ کرو تو اس کا کوئی اثر نہ ہو گا لیکن اگر غیر جانبدار کہے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ایسی شرارت نہ کرو تو اس کا زیادہ اثر ہو سکتا ہے- اسی طرح ریاستوں میں بھی جب تک اس تحریک کی روک تھام نہ کی جائے یہ تحریک رک نہیں سکتی-
کیا کرنا چاہئے
میں نے جہاں یہ کہا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کے خلاف تمام صوبوں اور ریاستوں میں یکدم کام شروع کیا جائے اور یہ کام حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی طرف سے ہونا چاہئے وہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ حکومت کی طرف سے اس کام کی ابتداء ہونی چاہئے- اس کی طرف سے اس کام کے لئے جب دعوت دی جائے گی تو ریاستیں بھی شامل ہو جائیں گی- اس طرح ایک مجلس کی جائے جس میں سب پارٹیوں کے نمائندے شریک ہوں حکومت کا صرف یہ کام ہو کر مختلف گروہوں کے نمائندوں کو ایک جگہ جمع کر دے- پھر وہ مجلس حکومت سے آزاد ہو کر کام کرے- لارڈ ارون سابق وائسرائے ہند کے سامنے میں نے یہ تجویز پیش کی تو انہوں نے کہا- تجویز بہت اچھی ہے مگر ابھی شورش ہے‘ ذرا امن ہو لے تو اس پر عمل کیا جائے گا- لارڈو ۹~}~ ولنگڈن موجودہ وائسرائے ہند سے جب میں ملا اور یہ تجویز پیش کی تو انہوں نے کہا- میں سمجھ نہیں سکتا کہ لارڈارون نے کس طرح کہا کہ ابھی اس تجویز پر عمل کرنے کا وقت نہیں یہی تو اس پر عمل کرنے کا وقت ہے اور یہ بہت مفید تجویز ہے میں جلد مشورہ کر کے اس پر عمل کروں گا- مگر ابھی تک مشورہ نہیں ہو سکا حالانکہ اس تحریک کا مقابلہ کرنے کا یہی طریق ہے کہ ایک ایسی مجلس قائم کی جائے جس میں تمام قوموں کے نمائندے شریک کئے جائیں- کانگرس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے پھر ہر علاقہ میں اس کی شاخیں قائم کی جائیں اور کام شروع کیا جائے-
عباد اللہ کی تحریک
ہمارا فرض ہے کہ اس تحریک کا مقابلہ کریں اور خدا کے فضل سے ہمارے پاس ایسے سامان ہیں کہ ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں- اسی سلسلہ میں میں نے عباداللہ کی تحریک کی ہے اور اس کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ ۱۶ سے ۳۵ سال تک کے لوگ اس میں شامل ہوں- اس انتظام کو اگر اچھی طرح چلایا جائے تو بہت کچھ کامیابی ہو سکتی ہے- جس طرح ہماری جماعت خدا کے فضل سے منظم ہے اس طرح سکھ بھی منظم نہیں اور ہندو بھی نہیں- ہم ہر جگہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور امن کے قیام میں حصہ لے سکتے ہیں-
اخلاقی فرض
یہ سیاسی کام ہی نہیں بلکہ ہمارا اخلاقی فرض بھی ہے کہ ایسا کریں- قوموں میں خرابی نوجوانوں کی وجہ سے پیدا ہوا کرتی ہے اور نوجوانوں میں خرابی بیکاری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے- جب نوجوانوں کے لئے اس قسم کا شغل پیدا کر دیا جائے جیسا کہ عباداللہ کے لئے تجویز کیا گیا ہے اور ہر نوجوان کو یہ احساس کرایا جائے کہ وہ قومی سپاہی ہے اور اس کا فرض ہے کہ ملک میں جو فتنہ و فساد رونما ہو اسے دور کرے تو اس طرح نوجوانوں کو اپنی اصلاح کا موقعہ بھی ملتا رہے گا اور ان کی اخلاقی حالت بہتر ہو جائے گی-
احباب کو نصیحت
پس میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ پورے طور پر اپنے اپنے علاقہ میں کوشش کریں کہ عباداللہ کی کمیٹیاں مقرر کی جائیں- ابھی تک اس قسم کی بہت تھوڑی کمیٹیاں بنی ہیں اگر انتظام مکمل ہو جائے تو اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے- ملک سے کامیابی کے ساتھ بدامنی دور ہو سکے گی‘ قتل و غارت کی تحریک کا مقابلہ کیا جا سکے گا اور اہل ملک کے اخلاق کو اعلیٰ درجہ کا بنایا جا سکے گا-
سلسلہ کی تمدنی ضرورت
اب میں سلسلہ کی تمدنی ضروریات کو لیتا ہوں- بظاہر تمدن ایک معمولی چیز نظر آتا ہے مگر دراصل اس کی تفصیل کی حد نہیں- بعض لوگ کہتے ہیں ایک بات کو یوں کر لیا تو کیا اور ووں کر لیا تو کیا‘ معمولی بات ہے مگر ان معمولی باتوں کا مجموعہ بہت بڑی با ت بن جاتی ہے- کسی کے متعلق کہتے ہیں- اسے خیال تھا کہ میں بڑا بہادر ہوں اس کے اظہار کے لئے وہ شیر کی تصویر اپنے بازو پر گدوانے لگا- جب گودنے والے نے سوئی ماری تو اس نے پوچھا- کیا گودنے لگے ہو- اسے بتایا گیا شیر کا دایاں کان گودنے لگا ہوں- اس نے کہا اس کے بغیر شیر بن سکتا ہے یا نہیں- کہا گیا بن سکتا ہے- اس نے کہا اسے چھوڑو اور آگے چلو- گودنے والے نے پھر سوئی ماری تو اس نے کہا کیا گودنے لگے ہو- بتایا گیا شیر کابایاں کان- اس نے کہا اسے بھی چھوڑو‘ آگے چلو- اسی طرح جو عضو بھی گودنے لگتا کہہ دیتا اسے رہنے دو- آخر گودنے والے نے کہا- ایک آدھ چیز نہ ہو تب تو شیر رہ سکتا ہے لیکن اگر سب کے سب اعضاء چھوڑ دیئے جائیں تو پھر شیر کہاں رہ سکتا ہے- اسی طرح گو تمدن کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مجموعی طور پر ان کا اخلاق پر بڑا بھاری اثر ہوتا ہے- اصل بات یہ ہے کہ تمام کمزوریاں تمدن سے شروع ہوتی ہیں- مذہب میں بھی اسی سے خرابی پیدا ہوتی ہے- عام لوگوں کو اس سے بحث نہیں ہوتی کہ ملائکہ ہیں یا نہیں‘ اگر ہیں تو کیا چیز ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاملات کیسے ہیں- غیر مبائعین کو ہی دیکھ لو- جن لوگوں نے مرکز سے علیحدگی اختیار کی‘ ان کا ابتداء میں کوئی مذہبی جھگڑا نہ تھا ان کے مدنظر صرف یہ بات تھی کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے بعد کون خلیفہ ہو گا- مجھے یاد ہے- حضرت خلیفہ اول کے وقت جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ انجمن خلیفہ کے ماتحت ہے یا خلیفہ انجمن کے ماتحت تو لوگوں کو باہر سے بلایا گیا- اس دن میں نماز کے انتظار میں اپنے صحن میں اندر ٹہل رہا تھا اور بہت سے لوگ مسجد میں جمع تھے ان میں بہت جوش پایا جاتا تھا اور ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے- میں نے سنا- اس وقت کہا جا رہا تھا حضرت مولوی صاحب جو چاہیں کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ کوئی بچہ نہ خلیفہ بن جائے- اس وقت میری سمجھ میں نہ آتا کہ بچہ سے کون مراد ہے- پھر معلوم ہوا کہ وہ میرے متعلق کہتے ہیں- اس کے بعد انہوں نے مسائل میں اختلاف پیدا کر لیا-
اس طرح شیعہ‘سنی کا جو جھگڑا ہے‘ اس کی وجہ بھی ذاتی معاملات بنے- مسائل میں اختلاف بعد میں پیدا کر لیا گیا- اصل جھگڑا اسی بات سے شروع ہوا کہ حضرت علیؓ کیوں پہلے خلیفہ نہ بنے-
غرض چھوٹے چھوٹے تمدنی جھگڑے ہوتے ہیں جو بعد میں بڑی باتیں بن جاتی ہیں اور مذہبی عقائد میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے- ہمیں اس اختلاف سے جماعت کو بچانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے- اس کے لئے میں چند باتیں بیان کرتا ہوں-
بیاہ شادی میں قومیت کی پابندیاں دور کرو
پہلی بات یہ ہے کہ اب تک ہماری جماعت میں بیاہ شادی کے متعلق قومی سوال سختی سے اٹھایا جاتا ہے حتی کہ ہم تو قوم در قوم کے اختلاف سن کر چکرا جاتے ہیں- ہماری جماعت کو چاہئے نیچے والوں کو اوپر اٹھایا جائے اور اوپر والوں کو نیچے لایا جائے- اصل بات تو یہ ہے کہ نہ کوئی اوپر ہے اور نہ کوئی نیچے سب برابر ہیں لیکن سمجھا جاتا ہے کہ قومیت کے لحاظ سے بعض لوگ اوپر ہیں اور بعض نیچے اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ آپس میں مل جائیں- یہ دو بھائیوں میں لڑائی والا معاملہ ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں بھائی چل کر دوسرے کے گھر جائے- بلکہ مشہور شاعر ذوق کی طرح یہ کہتے ہیں-
بعد مدت کے گلے ملتے ہوئے آتی ہے شرم
اب مناسب ہے یہی کچھ تم بڑھو کچھ ہم بڑھیں
جن قوموں کو ایک دوسرے کے قریب سمجھا جاتا ہے انہیں چاہئے کہ آپس میں شادیاں شروع کر دیں تا کہ قومیت کے بیجا پابندیاں کسی قدر تو ڈھیلی ہو جائیں اور اس طرح قومیت کی اونچ نیچ کو مٹانے کی کوشش کی جائے-
لڑکی والوں کا شادی سے قبل کچھ لینا حرام ہے
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شادی کے موقعہ پر روپیہ وغیرہ لینے کی رسم بھی پائی جاتی ہے اور یہ بات بردہ فروشی سے کم نہیں ہے- جو شخص لڑکی کی شادی کے سلسلہ میں روپیہ وغیرہ لیتا ہے اس کی عقل پر پردہ پڑ جاتااور اس کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے وہ لڑکے کی خوبیاں نہیں دیکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ مجھے کتنا روپیہ ملتا ہے- ہم کہتے ہیں- وہی روپیہ نہیں جو لڑکی کی ملکیت ہو بلکہ وہ بھی جو داماد کی ملکیت ہو لے لے مگر شادی کے بعد- شادی سے قبل کچھ لینا قطعاً ناجائز ہے- بردہ فروشی ہے اور یہ حرام ہے-
بٹہ کی مذموم رسم
دوسری رسم بٹہ کی ہے- ملتان‘ جھنگ وغیرہ اضلاع جن میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے‘ وہاں یہ مرض جاری ہے اس کا نتیجہ بھی بردہ فروشی ہے- لڑکی کے لئے اچھا رشتہ ہو تو اس لئے نہیں لیتے کہ لڑکے کے لئے بھی رشتہ ملنا چاہئے اور جہاں سے لڑکے کے لئے رشتہ مل جائے‘ وہاں لڑکی کا رشتہ کر دیتے ہیں خواہ وہ لڑکی کے لئے رشتہ موزون نہ ہو- یہ بات بھی بہت بری ہے اسے بھی دور کرنا چاہئے-
بیاہ شادی میں سادگی اختیار کرو
تیسری بات یہ ہے کہ بیاہ شادی میں سادگی نہیں اختیار کی جاتی اس سے بھی خطرناک نقصان ہوتا ہے- اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ شادی ہونے میں دیر لگتی ہے- لڑکی والوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کتنا زیور اور کتنا کپڑا دیا جائے گا- اگر یہ چیزیں ان کی منشاء کے مطابق نہ ہوں تو رشتہ نہیں کیا جاتا- ایسے لوگوں کی مثال اس پیر کی سی ہوتی ہے جو اپنے ایک مرید کے گھر گیا اور کہنے لگا- دیکھو! کسی قسم کا تکلف نہ کرنا- پلائو تو آپ پکائیں گے ہی اور ملک کا دستور ہے ساتھ زردہ بھی ہو‘ کچھ حلوا بھی پکا لینا- اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں- ہم احمدی ہیں ہم نے سب رسمیں چھوڑ دی ہیں مگر اتنا ضرور ہو کہ کم از کم آٹھ سو کا زیور اور چھ سو کا کپڑا بنا لیا جائے- ہم نے رشتہ دار چھوڑے اپنی قوم کو چھوڑا‘ کیا اب بھی ہم تکلف کریں- گویا ان کے نزدیک اتنے زیور اور کپڑے کا مطالبہ تکلف نہیں ہوتا- شادی کے موقعہ پر زیور اور کپڑے بطور تحفہ ہوتے ہیں- کوئی شخص یہ بے حیائی نہ کرتا ہو گا کہ کسی سے تحفہ مانگ کر لے مگر شادی بیاہ کے متعلق چونکہ یہ عادت ہو گئی ہے‘ اس لئے اس کا حسن و قبح نہیں دیکھا جاتا- اگر کسی شخص سے کہو‘ فلاں دوست سے جا کر کہے مجھے تحفہ کے طور پر کشمیر کی شال منگا دیجئے یا اوورکوٹ بنوا دیجئے تو وہ کہے گا کیا تم مجھے ایسا بے حیا سمجھتے ہو کہ میں اس قسم کی بات کہوں- مگر لڑکی کے رشتہ کے سلسلہ میں زیور کپڑا وغیرہ کا مطالبہ کرنے میں وہ یہی کرتا ہے اور اپنی لڑکی کے نام پر کرتا ہے یہ نہایت ہی شرمناک بات ہے- اس طرح بیاہ شادی میں روکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور لڑکے لڑکی کی جوانی اور ان کے جذبات کو تباہ کیا جاتا ہے- کفو کا خیال ضروری ہے مگر اس کی حد بندی ہے اور وہ یہ کہ اپنی حیثیت کے قریب قریب کے خاندان میں رشتہ کر لیا جائے نہ کہ اپنے سے بہت اعلیٰ خاندان تلاش کیا جائے- اس قسم کی سختیوں کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بیاہ شادی کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں- چونکہ ہماری جماعت کے لوگ ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے پہلے ہی رشتوں کا پتہ نہیں لگتا اور اگر کسی جگہ پتہ لگے تو پھر اس قسم کے سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ لڑکے کی تنخواہ کیا ہے‘ جائیداد کتنی ہے‘ زیور کتنا ہو گا‘ کپڑا کتنا- اگر یہ باتیں اپنی خواہش اور منشاء کے مطابق نہ ہوں تو انکار کر دیا جاتا ہے- اس قسم کی باتیں عیب ہیں اور ان کی اصلاح نہایت ضروری ہے- جو لوگ خدا تعالیٰ کا توکل چھوڑ کر ایسی باتیں کرتے ہیں‘ خدا تعالیٰ بھی ان کی تجاویز میں برکت نہیں ڈالتا اور ہمیشہ ان میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں-
‏sub] g[ta معاملات کی صفائی اور معاہدات کی پابندی
ایک اور اہم بات معاملات کی صفائی ہے- اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جس طرح ہمیں تکلیف ہوتی ہے اسی طرح اس کو بھی ہوتی ہے جس کا روپیہ دینا ہوتا ہے‘ تو پھر لین دین کے معاملات میں اتنی مشکلات نہ رونما ہوں- اگر کسی کے لئے آمدنی کی بالکل کوئی صورت نہیں تو اور بات ہے ایسی حالت میں لینے والے کو بھی اس پر رحم کرنا چاہئے لیکن اگر کچھ نہ کچھ آمدنی ہو اور وہ اپنے اوپر تو خرچ کی جائے لیکن جس کا قرض دینا ہو اسے کچھ نہ دیا جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے- شریعت نے معاہدات کی پابندی نہایت ضروری قراردی ہے- پابندی اختیار نہ کرنے والوں کی وجہ سے ضرورت مند اور وعدہ کا ایفا کرنے والوں کو بھی کوئی قرض نہیں دیتا- رسول کریم ~صل۲~ معاہدات کی اس قدر پابندی کرتے تھے کہ جب آپ جنگ بدر کے لئے تشریف لے گئے تو صرف تین سو سپاہی آپ کے ساتھ تھے- اس وقت دو مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے لشکر میں آ ملے- جو بڑے جری اور بہادر تھے- تین سو کی تعداد کے لحاظ سے ان دو کی شمولیت بہت بڑی امداد تھی لیکن جب انہوں نے کہا کہ جس وقت ہم آ رہے تھے اس وقت کفار نے ہمیں پکڑ لیا تھا اور پھر اس عہد پر چھوڑا کہ ہم ان کے مقابلہ پر نہ لڑیں گے مگر وہ کفار تھے ان سے معاہدہ کیا‘ حقیقت رکھتا ہے تو رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا- نہیں اس کی پابندی ضروری ہے اور ان کو لڑائی میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی-۱۰~}~ اسی طرح رسول کریم ~صل۲~ کے ایک داماد جب مسلمان ہو گئے تو وہ مکہ گئے اور جن کا مال ان کے پاس تھا ان سب کو واپس دے کر پھر آئے- انہوں نے کہا- میں اگر چاہتا تو مدینہ میں ہی رہ جاتا مگر میں اس لئے آیا کہ تم یہ نہ کہو مسلمان ہو گیا ہے اور دیانت سے کام نہیں لیا-۱۱~}~ تو معاہدات کو نہایت تکلیف اٹھا کر بھی پورا کرنا چاہئے حتی کہ موت قبول کر کے بھی پورا کرنا چاہئے تا کہ جماعت کی اقتصادی حالت درست ہو-
دوسری بات یہ ضروری ہے کہ مال میں خواہ ذرا سا بھی نقص ہو‘ تاجر کو چاہئے خریدار کو بتا دے تا کہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو- اس طرح نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی رہتا ہے- جب انسان دھوکا کی چیز بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تو مال خریدتے وقت خود بھی احتیاط نہیں کرتا لیکن اگر ناقص چیز گاہک اس سے نہ خریدے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی پڑے گی- پھر معاملہ کی صفائی سے ایک قومی کیریکٹر بنتا ہے جو ساری قوم کے لئے نہایت مفید ہوتا ہے-
تعلیم و تربیت
ایک اور ضروری معاملہ تعلیم و تربیت ہے- عام طور پر لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کرتے- سینکڑوں بچے ایسے ہیں خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے کہ جب ان کے ماں باپ فوت ہو گئے تو وہ خراب ہو گئے کیونکہ ان کی تربیت نہ کی گئی تھی- غور کرو ادھر اگر ہم لوگوں کو اپنی جماعت میں داخل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور ادھر ہماری جماعت کے بچے تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے نکلتے رہیں تو فائدہ کیا ہوا- کیا جس مشک میں سوراخ ہو‘ اس میں پانی ٹھہر سکتا ہے- پس ایک تبلیغی جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھے ورنہ وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی- میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ پوری کوشش کریں- یہ کوشش ماں باپ ہی کر سکتے ہیں اور ضروری ہے کہ سارے کے سارے لوگ اس میں لگے رہیں- اگر سارے مصروف نہ ہوں تو پھر کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک دوسرے بچوں کی اصلاح نہ ہو اپنے بچوں کی بھی کوئی اصلاح نہیں کر سکتا- پھر تعلیم کا مفہوم صرف لکھنا پڑھنا سمجھا جاتا ہے مگر صحابہ کے نزدیک یہ نہ تھا- حضرت عمرؓ سے جب پوچھا گیا کہ تعلیم کیا ہے تو آپ نے فرمایا- لکھنا‘ پڑھنا‘ حساب‘ تیرنا اور تیر چلانا‘ علم کے استعمال کرنے کے لئے طاقت اور ہمت نہایت ضروری چیز ہے-۱۲~}~ میں نے بہت سے صحابہ کے حوالے دیکھے ہیں جو تیرنا اور تیر چلانا تعلیم میں شامل کرتے ہیں- ہمارے بچے فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ تو کھیلتے ہیں مگر ان باتوں میں کوشش نہیں کرتے- فٹ بال وغیرہ اچھی کھیلیں ہیں مگر زندگی میں کام آنے والی نہیں اور تیرنا اور تیر چلانا ایسی باتیں ہیں جو ساری زندگی سے تعلق رکھتی ہیں ان کے ذریعہ طاقت آتی ہے‘ صحت حاصل ہوتی ہے اور ساتھ ہی یہ فن زندگی میں کام آتے ہیں- پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ بچوں کو لکھنے پڑھنے کے ساتھ تیرنا‘ غلیل چلانا وغیرہ بھی سکھائیں- زمانہ تو بندوق چلانے کا ہے مگر جب تک بندوق چلانے کے لئے نہ ملے اس وقت تک جو کچھ میسر ہو اسی سے کام لینا چاہئے- ہاں اپنے بچوں کو یہ ضرور بتا دینا کہ غلیل وغیرہ کسی انسان پر نہ چلائیں یہ بہت اہم بات ہے- رسول کریم ~صل۲~ بہت احتیاط کیا کرتے تھے- چنانچہ فرمایا- جب کسی کو چھری پکڑانے لگو تو سرا اس کی طرف نہ کیا جائے بلکہ دستہ کیا جائے۱۳~}~ بچوں کو جب اس قسم کی تعلیم دو تو ساتھ احتیاطیں بھی ضرور سکھائو کہ کسی کو ضرر نہ پہنچانا-
تمدنی ضرورتوں میں سے ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے- پہلے میں ذکر کر آیا ہوں کہ ایک دوسرے کی امداد کی جائے مگر جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو وہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس بات کا انتظار نہ کرو کہ میں کسی کی سفارش کروں تب مدد کی جائے- کہتے ہیں- اس طرح آپ کو دعا کرنے کی تحریک ہو گی مگر میں کسی مومن کے متعلق یہ توقع ہی نہیں رکھتا کہ جب وہ اپنے کسی بھائی کے کام آ سکتا ہو تو کام نہ آئے- لیکن ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو سفارش میں خلافت کو بھی کھینچ کر لانا چا ہتا ہے- یہ بہت گری ہوئی اور نہایت قابل نفرت بات ہے- خلافت نبوت کی نیابت ہے اور نبوت خدا کی نیابت ہے پس خلیفہ کو ایسی جگہ کھڑا کرنا جہاں اس کی گردن نیچی ہو‘ بہت بڑی ہتک ہے- ہم دنیوی لحاظ سے بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں مگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خلیفہ کا درجہ تمام دنیا کے بادشاہوں سے بڑا ہے- اگر کوئی یہ نہیں یقین رکھتا تو وہ محمد ~صل۲~ کی رسالت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسیحیت سے واقف نہیں- خلیفہ کے پاس اس لئے آنا کہ ڈپٹی کمشنر یا کسی مجسٹریٹ کو سفارش کرائی جائے- اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ کی ان حکام کے سامنے نظر نیچی کرائی جائے اور اگر اس حد تک خلیفہ کی سفارش لے جائیں تو پھر خدا تعالیٰ پر توکل کہاں رہا- جو شخص کسی مجسٹریٹ کے لئے سفارش چاہتا ہے اسے تو میں مجرم سمجھتا ہوں- میں نے جب یہ رکھا ہے کہ اپنی جماعت کے کسی قاضی کے متعلق اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے کسی معاملہ میں کسی کی سفارش قبول کی ہے تو میں اسے نکال دوں گا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی مجسٹریٹ سے خود سفارش کروں- بعض دفعہ کر دیتا ہوں مگر وہ اور رنگ کی سفارش ہوتی ہے- مثلاً یہ کہ مقدمہ کا جلدی تصفیہ کر دیا جائے- اس قسم کی سفارش میں نقص نہیں مگر یہ کہ فلاں کے حق میں فیصلہ کیا جائے یہ نہیں ہو سکتا- ایک شخص نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میرا کیس اتنا اہم ہے کہ خلیفہ کو خود گورنر کے پاس جا کر کہنا چاہئے کہ فیصلہ میرے حق میں ہو- ایک شخص نے کہا- ہمارے علاقہ میں تبلیغ کا بڑا موقعہ نکلا ہے اور وہ یہ کہ مجھے نمبردار بنوا دیا جائے- میں متنبہ کرتا ہوں کہ اس قسم کی سفارشات چاہنا خلافت کی ہتک ہے اور اسے جاری نہیں رہنا چاہئے- اس قسم کے کاموں کے لئے مجھے مت کہا کرو بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو نہ کہا کرو اور خدا تعالیٰ پر توکل کرو- جب ہمارے آپس کے ایسے تعلقات نہ تھے اس وقت کون حفاظت کرتا تھا- خدا پر ہی توکل کرو تا کہ کسی مشکل اور مصیبت کے وقت خود خدا تمہاری سفارش کرنے والا ہو-
سلسلہ کی مذہبی ضروریات
اب میں مذہبی ضروریات کو لیتا ہوں- یہ ضرورتیں دو قسم کی ہیں- اول بلاواسطہ اثر ڈالنے والی اور دوم بالواسطہ اثر ڈالنے والی-
انگلستان میں تبلیغ اسلام کے اثرات
ابھی چند دن ہوئے‘ میں لاہور گیا تو مسلمانوں کے ایک لیڈر مجھ سے ملنے آئے- عبداللہ یوسف علی صاحب ان کا نام ہے‘ بہت قابل اور سمجھ دار آدمی ہیں‘ مسلمانوں میں جو اعلیٰ طبقہ ہے اس سے تعلق رکھتے ہیں- انہوں نے کہا میں انگلستان میں رہتا ہوں- آپ کے مشن میں بھی جاتا ہوں- میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے مشن کے ذریعہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے ہیں مگر وہ بہت غریب طبقہ کے ہیں- کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ یورپ کو مسلمان کر لیں گے- میں نے کہا ہاں میں مانتا ہوں کہ نو مسلم غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں- انہوں نے کہا- پھر آپ اس مشن پر اتنا روپیہ کیوں صرف کرتے ہیں- میں نے کہا اس لئے کہ جب ہم ہندوستان میں تبلیغ اسلام کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں مذہب کو کیا لئے پھرتے ہو‘ یورپ کے فلسفہ نے مذہب کو مٹا دیا ہے لیکن جب کوئی انگریز مسلمان ہوتا ہے اور ہندوستان میں اس کا اعلان ہوتا ہے تو وہ لوگ جو اہل یورپ کی تقلید میں مذہب کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے‘ انہیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بھی مذہب کے متعلق غور کرنا چاہئے- اس پر کہنے لگے میں سمجھ گیا آپ اس مشن سے بلاواسطہ فائدہ اٹھاتے ہیں-
ہر احمدی کو ڈاڑھی رکھنی چاہئے
غرض بعض باتیں بلا واسطہ فائدہ دیتی ہیں- انہی میں سے ایک ڈاڑھی رکھنا ہے- ایک صاحب میرے پاس آئے اور آ کر کہنے لگے کیا ڈاڑھی رکھنے سے خدا ملتا ہے- میں نے کہا- ڈاڑھی رکھنے سے نہیں مگر محمد ~صل۲~ کی اطاعت کرنے سے خدا ملتا ہے آپﷺ~ نے چونکہ ڈاڑھی رکھی اس لئے ہمیں بھی آپ کی تقلید میں ڈاڑھی رکھنی چاہئے-
ہم نے حکم دیا تھا کہ ایسے لوگ سلسلہ کے کاموں میں افسر نہ بنائے جائیں گے جو ڈاڑھی منڈائیں اور فیصلہ کیا تھا کہ امپیریل سروس وغیرہ میں جہاں ڈاڑھی منڈانے کی مجبوری ہو‘ وہاں بھی ہم اجازت نہیں دیں گے کیونکہ ہم شریعت بدل نہیں سکتے- ہاں اتنا کریں گے کہ ان کو عہدہ سے محروم نہ کریں گے مگر اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا جا رہا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مخلص نوجوانوں نے بھی ڈاڑھی منڈانی شروع کر دی ہے- ڈاڑھی رکھنا ایک ضروری امر ہے اور ہر احمدی کو اس کا احترام کرنا چاہئے-
اوہام کا مقابلہ کیا جائے
دوسری ضروری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اوہام کا مقابلہ کیا جائے نبی اس لئے آتے ہیں کہ دنیا سے اوہام مٹائیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں پائے جاتے ہیں- کل ہی ایک سوال پیش کیا گیا کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو تعویذ اور ٹونے کرتے ہیں‘ کیا یہ جائز ہے- میرے نردیک یہ نہایت ہی کمزوری ایمان کی علامت ہے- بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام نے بھی ایک تعویذ دیا تھا- اس میں شبہ نہیں کہ دیا تھا مگر وہ واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ نورالدین صاحب جموں والے کے ہاں کوئی لڑکا نہ تھا انہوں نے مجھے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ان کو تعویذ لے دوں- میری اس وقت بہت چھوٹی عمر تھی میں حضرت صاحب کے پیچھے پڑ گیا آپ نے دعا لکھ کر دی جو میں نے خلیفہ صاحب کو دے دی وہ دعا قبول ہو گئی اور خلیفہ صاحب کو خدا تعالیٰ نے نرینہ اولاد دی- دراصل وہ دعا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام نے لکھی اسی وقت قبول ہو چکی تھی- آگے اس تعویذ کو باندھنا خلیفہ صاحب کا کام تھا اس کا دعا کی قبولیت سے کوئی تعلق نہ تھا-
پس لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ اگر دعا کو لکھ لیا جائے اور لٹکا دیا جائے تب وہ قبول ہوتی ہے بیہودہ وہم پیدا کرتا اور ذکر الہی کرنے کی جڑ کاٹتا ہے- دعا لکھنا تو منع نہیں لیکن جس کی دعا میں یہ اثر نہیں کہ ایک سیکنڈ میں قبول ہو اس سے دعا لکھا کر یہ سمجھنا کہ اب ہم دعا کرنے سے فارغ ہو گئے بہت بڑی غلطی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے محروم کر دینے والی بات ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی جو مثال پیش کی جاتی ہے- اس کے متعلق یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کی وہ شان تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی دعا ایک سیکنڈ میں قبول کر لے مگر آپ نے بھی اپنے طور پر کبھی دعا لکھ کر نہ دی تا کہ غلط مثال نہ قائم ہو جائے بلکہ میرے اصرار پر ایک بار لکھی-
دراصل تعویذ ایک قسم کا خیالی مسمریزم ہے اور اگر دعا ہے تو دعا لکھوا کر یہ سمجھ لینا کہ اب ہم فارغ ہو گئے دعا کرنے کی ضرورت نہیں رہی ایک بیہودہ بات ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام سے تو خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا اجیب کل دعائک الا فی شرکائک۱۴~}~ اور خلیفہ نورالدین صاحب آپ کے شرکاء میں سے نہ تھے ان کے متعلق آپ نے جو دعا کی وہ قبول ہوگئی مگر یہ کسی اور کو تو نہیں کہا گیا پھر وہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کی مثال اپنے لئے قرار دے سکتا ہے- غور کرو- کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام عادتا تعویذ نہ لکھا کرتے تھے- نہ رسول کریم ~صل۲~ نے ایسا کیا نہ آپ کے خلفاء نے پھر نہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے کیا اور نہ میں کرتا ہوں- اگر کسی کو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا تعویذ لکھنا موثر ہو سکتا ہے تو وہ آئے اور لکھے میں اس کے مقابلہ میں صرف ہاتھ لگا دوں گا اور خدا تعالیٰ اس سے فضل کرے گا- دراصل دعا کی جڑ انکساری اور تذلل ہے اور تعویذ اس کی جڑ کو کاٹ دیتا ہے- اگر کوئی بات پوری بھی ہو جائے تو تعویذ لکھنے لکھانے والے یہ نہیں کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی بلکہ یہی کہیں گے کہ تعویذ کی برکت سے ایسا ہوا اور یہ شریک ہے- خدا تعالیٰ نے جو تعویذ دیا ہے اس پر کیوں عمل نہیں کیا جاتا- مثلاً ہر قسم کی تکلیف بیماری وغیرہ کے وقت یہ پڑھا کرو- قل اعوذ برب الفلق من شرما خلق و من شر غاسق اذا وقب ومن شرالنفثت فی العقد ومن شر حاسد اذا حسد- ۱۵~}~ ایک دفعہ دعا لکھ کر یہ سمجھ لینا کہ اس کا اثر ہوتا رہے گا وہی بات ہے جو ایک ہندو کے نہانے کے متعلق مشہور ہے جس نے سردی کے موسم میں دریا سے واپس آتے ہوئے پنڈت سے یہ کہہ کر تور اشنان سومور اشنان سمجھ لیا تھا کہ میرا بھی اشنان ہو گیا- تعویذ بھی یہی ہوتا ہے کہ لکھا کر رکھ لیا اور سمجھ لیا کہ اب دعا کرنے سے فراغت حاصل ہو گئی- اس قسم کی گندی باتوں کو مٹانا ہمارے فرائض میں داخل ہے کیونکہ یہ اس صحیح سپرٹ کو مٹانے والی ہوتی ہیں جسے پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے نبی آتے ہیں- اگر ان باتوں سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو وہم کی وجہ سے ہوتا ہے مگر وہم کو ترقی دینا سخت نقصان رساں ہے-
تبلیغ احمدیت
تیسری چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ تبلیغ ہے- اس سال یوم التبلیغ کا اعلان کیا گیا تھا یہ اتنا بابرکت ثابت ہوا ہے کہ کئی لوگ جنہوں نے سالہا سال سے تبلیغ نہ کی تھی انہوں نے بھی اس دن تبلیغ کی- ابھی چند دن ہوئے ایک نواب صاحب آئے تھے ان کے ساتھ ایک معزز صاحب تھے جنہوں نے بچت کی اور کہا یہ نواب صاحب کے یوم التبلیغ منانے کا نتیجہ ہے- دس بارہ سل سے ان سے میرا تعلق تھا لیکن کبھی انہوں نے تبلیغ نہ کی تھی- اس دن جو میں ان کے پاس گیا تو کہا آج ہمیں تبلیغ کرنے کا حکم ہے اور خوب تبلیغ کی اسی دن میں نے بیعت کر لی-
اس دن ایسی مزیدار تبلیغ ہوئی کہ کئی دوستوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ دن بار بار آنا چاہئے- میں ابھی ایسا تو نہیں کر سکتا مگر اسی دن پر نہیں رہنا چاہئے بلکہ جب تک دوسری دفعہ یوم التبلیغ آئے‘ اپنے طور پر بھی تبلیغ کرتے رہنا چاہئے مگر یاد رکھنا چاہئے صرف مونہہ کی باتوں سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی تبلیغ کرو- تبلیغ اپنے اعمال میں درستی بھی پیدا کرتی ہے- جب دوسروں کو انسان تبلیغ کرتا ہے تو اسے اپنے متعلق شرم آ جاتی ہے کہ مجھے بھی اصلاح کرنی چاہئے- پس تبلیغ کرنا نہ صرف جماعت کی ترقی کا موجب ہے بلکہ اپنی اصلاح کا بھی موجب ہے-
عبادات
چوتھی بات جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ عبادات ہیں- عبادت انسان کا خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرتی ہے- خدا کے فضل سے جماعت کی اس طرف توجہ ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگوں میں کمزوری ہے- ایک احمدی کا بھی نماز نہ پڑھنا- یا نماز پڑھنے میں سستی کرنا میرے نزدیک قومی ہلاکت کے مترادف ہے- ہر ایک احمدی کو نہ صرف نماز کا بلکہ باجماعت نماز کا خیال رکھنا چاہئے- رسول کریم ~صل۲~ نے با جماعت نماز کا بہت زیادہ ثواب بتایا ہے-۱۶~}~ ہر احمدی کو چاہئے کہ نماز کی پابندی کرے اور کرائے اور بھی عبادات ہیں- مثلاً رمضان کے روزے ہیں- ذکر الہی بھی بہت ضروری اور مفید چیز ہے- ایک صحابی کہتے ہیں ذکر الہی دل کو صیقل کرتا ہے- اس کی طرف ہماری جماعت کے لوگوں کو اتنی توجہ نہیں جتنی ہونی چاہئے-
سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے کی تاکید
مذہبی طور پر‘ میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مذہبی روح کے لئے سلسلہ کا لٹریچر نہایت ضروری چیز ہے مگر افسوس کہ جماعت کی عدم توجہی کی وجہ سے لٹریچر اتنا شائع نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہئے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کی کئی کتابیں ایسی ہیں کہ جن کے اس وقت تک صرف ایک ایک دو دو ایڈیشن شائع ہوئے ہیں- یہ خطرناک علامت ہے- دوستوں کو چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہ والسلام کی کتب خصوصیت سے زیادہ پڑھا کریں اور بکثرت اپنے گھروں میں رکھیں یہ ان کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے نہایت قیمتی خزانہ ہے- پھر سلسلہ کے اخبارات بھی خریدنے چاہئیں >الفضل< کی پندرہ سال قبل جتنی اشاعت تھی اتنی ہی اب بھی ہے حالانکہ پچھلے دس سال کے متعلق ہمارا اندازہ نہیں بلکہ گورنمنٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ جماعت دوگنی ہو گئی ہے- مگر الفضل کی اشاعت اتنی ہی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے الفضل کے متعلق اپنی ذمہ واری کو محسوس نہیں کیا- مذہب کو قائم رکھنے کے لئے مذہبی روح کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کے لٹریچر سے پیدا ہو سکتی ہے- احباب اسے پڑھا کریں-
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق دے-
)الفضل ۳‘۵‘۸‘۱۰‘۱۲‘۱۵‘ ۱۷- جنوری ۱۹۳۳ء
۱~}~
النساء: ۸۶
۲~}~
بخاری کتاب الاحکام باب من لم یسال الامارہ اعانہ اللہ علیھا
۳~}~
۴~}~
آئینہ کمالات اسلام صفحہ۳۵۲ روحانی خزائن جلد۵ مطبوعہ ۱۹۸۵ء
۵~}~
شروح دیوان حسان بن ثابت صفحہ۲۲۱ کتب خانہ آرام باغ کراچی
۶~}~
التوبہ : ۱۱۹
۷~}~ الشوری :۳۹
۸~}~ البقرہ : ۲۵۶
۹~}~
لارڈ ولنگڈن: مدراس اور بمبئی کا گورنر- ۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۶ء وائسرائے ہند رہا- دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس اسی کے عہد میں لندن میں ہوئی- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۸۱۰ء مطبوعہ ۱۹۸۸ء(
۱۰~}~
مسلم کتاب الجھاد والسیر باب الوفاء بالعھد
۱۱~}~

۱۲~}~

۱۲~}~

۱۴~}~
تذکرہ صفحہ۲۶- ایڈیشن چہارم
۱۵~}~
العلق : ۲ تا ۶
۱۶~}~
بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوہ الجماعہ
‏a12.13
انوار العلوم جلد ۱۲
بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے من کی حقیقت
بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے من کی حقیقت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے من کی حقیقت
)رقم فرمودہ حضرت خلیفہ المیسح الثانی(
ادبی دنیا کے جنوری نمبر میں مولوی نعیم الرحمن صاحب ایم- اے پروفیسر الہ آباد یونیورسٹی کا ایک مضمون من کی ماہیت کے عنوان سے شائع ہوا ہے- پروفیسر صاحب نے اس امر پر بحث کی ہے کہ بنی اسرائیل پر جو من نازل ہوا تھا- اس کی حقیقت کیا تھی- انہوں نے اول تو تورات کے بعض حوالے نقل کر کے بتایا ہے کہ تورات کی رو سے من اور اس کے نزول کی حقیقت کیا تھی- پھر طبی طور پر من کی جو ماہیت بتائی جاتی ہے‘ وہ بیان کر کے بتایا ہے کہ تورات میں من کی بیان کردہ حقیقت طبی تفصیلات کے مطابق نہیں-
مجھے یہ مضمون پڑھ کر خوشی ہوئی کہ مسلمانوں میں بھی علمی تحقیق کا ذوق پیدا ہو رہا ہے اور وہ اس حالت جمود سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں جو >یہ کیا ہے< کہنے سے باز رکھ رہی تھی اور اسی خوشی میں اس مضمون کے متعلق میں بھی بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں-
بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر کنعان کی طرف آئے تو جس علاقہ میں سے انہیں گزرنا پڑا وہ بہت غیر آباد تھا اور دور دراز فاصلہ پر بعض شہر آباد تھے- اب تک یہ علاقہ ایسا ہی ہے اور اب بھی اس علاقہ سے گزرنا آسان نہیں- فلسطین پر انگریزی قبضہ کی وجہ سے اب اس علاقہ میں ریل جاری ہو گئی ہے اور سفر میں سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں لیکن اس غیر آبادی میں کوئی فرق نہیں آتا- کیونکہ یہ علاقہ آبادی کے قابل زمینوں سے خالی ہے اور بے آب و گیاہ میدانوں پر مشتمل ہے- ترکوں نے جنگ عظیم میں بہت کوشش کی کہ کسی طرح مصر میں داخل ہو کر انگلستان اور ہندوستان کے تعلقات قطع کر دیں لیکن پانی کی دقت اور سامان خورونوش کی کمی کے سبب عقلوں کو حیرت میں ڈال دینے والی قربانی کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے- انگریزوں نے بھی شروع میں بہت زور مارا لیکن خشک اور چٹیل میدانوں کی وجہ سے وہ بھی سویز کے راستہ سے فلسطین میں داخل نہ ہو سکے- آخر جنرل ایلنبی نے نیل سے پانی لے کر سویز کے اوپر سے نلوں کے ذریعہ سے پانی گزارا اور اس علاقہ کو جو بڑے شہروں کے لئے ناقابل تھا‘ قابل سکونت بنا دیا- صلیبی جنگوں کے وقت جب فلسطین اور شام کے محاذ پر یورپ کی تمام اقوام کے منتخب بہادر اس نیت سے ڈیرے ڈالے پڑے تھے کہ اسلام کے بڑھنے والے سیلاب کو روک دیں ‘ اس وقت بھی دشت سینا مسلمانوں اور مسیحیوں سے رستہ دینے کا ٹیکس لیتا رہا تھا- نویں صدی کے آخر اور دسویں صدی کے ابتدائی حصہ میں نامعلوم کتنے اسلامی اور مسیحی لشکر پانی نہ ملنے اور کھانے کی کمی کے سبب اس دشت میں تباہ ہو گئے تھے-
پانی کی کمی کے سبب گزرنے والے قافلوں کو لازماً ان چشموں یا تالابوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا جو کہیں کہیں اس دشت میں پائے جاتے تھے اور اس وجہ سے جو فریق بھی غالب ہوتا تھا اسے دوسرے فر یق کے آدمیوں کو مارنے کا ایک آسان بہانہ مل جاتا تھا- کیونکہ تھوڑے آدمی ان چشموں یا تالابوں پر مقرر کر دینے سے اس بات کی کافی ضمانت ہو جاتی تھی کہ حریف کے آدمی نقصان اٹھائے بغیر مصر سے فلسطین کی طرف نہیں جا سکتے- چنانچہ اسامہ بن منقذ اپنی کتاب >الاعتبار< میں لکھتے ہیں کہ الجعفر نامی چشمہ جو مصر اور فلسطین کے درمیان تھا کبھی کسی وقت فرنگیوں سے خالی نہیں ہوتا تھا- ہمیشہ اس جگہ سے لوگوں کو بچ کر جانا پڑتا تھا- ایک دفعہ انہیں سیف الدین ابن سالار وزیر مصر نے شاہ نور دین کے پاس بھیجا کہ وہ طبریہ پر حملہ کریں تو ہم مصر سے غزہ پر حملہ کر کے فرنگیوں کو وہاں قلعے بنانے سے روک دیں- وہ کہتے ہیں کہ ہم الجعفر چشمہ پر پہنچے تو اتفاقاً فرنگی اس وقت موجود نہ تھے لیکن طے قبیلہ میں سے بنوابی خاندان کے کچھ لوگ وہاں تھے- جن کے جسم پر چمڑے کے سوا گوشت کا نام و نشان نہ تھا- آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور بالکل بدحال ہو رہے تھے- وہ کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا تم لوگ یہاں کس طرح گزارہ کرتے ہو- تو انہوں نے جواب دیا کہ مردار کی ہڈیاں ابال کر اس پر گزارہ کرتے ہیں اور کوئی چیز کھانے کی یہاں نہیں ہے- ان کے کتے بھی اسی پر گزارہ کرتے تھے- ہاں گھوڑے چشمہ کے ارد گرد کی گھاس پر گزارہ کرتے تھے- اسامہ لکھتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں اس حالت میں کیوں پڑے ہو‘ دمشق کی طرف کیوں نہیں چلے گئے- تو انہوں نے جواب دیا کہ اس خیال سے کہ وہاں کی وبائوں سے ہمیں نقصان نہ پہنچے- اسامہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کیسے بیوقوف لوگ تھے ان کی اس وقت کی حالت سے بڑھ کر وباء کیا نقصان پہنچا سکتی تھی-
بنی اسرائیل اور دشت سینا
میری غرض اس واقعہ کے ذکر سے یہ ہے کہ دشت سینا ایک ایسا خطرناک علاقہ ہے کہ بڑی جماعتوں کے لئے بھی بغیر خاص انتظام کے اس میں سے گزرنا مشکل ہے اور اس میں قیام کرنا تو اور بھی مصیبت ہے- پھر بنی اسرائیل میں جن کے بیس سال سے زائد کے جوانوں میں سے جنگی خدمت کے قابل مردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے اور جو بے سروسامانی کی حالت میں مصر سے بھاگے تھے اس علاقہ میں سے کس طرح گزرے اور کس طرح اڑتیس سال تک اس علاقہ میں انہوں نے بسر کیا- یہ ایک ایسا سوال ہے جو صدیوں سے دنیا کو حیرت میں ڈال رہا ہے- بائیبل نے اس کا جواب من کے نزول اور حورب کی چٹان میں بارہ چشموں کے پھوٹنے کے معجزہ سے دیا ہے- وہ بتاتی ہے کہ اس مظلوم قوم کی خدا تعالیٰ نے مدد کی اور اپنے فضل سے اس نے ان کے لئے کھانے اور پینے کا سامان مہیا کیا- میں اس وقت پانی کی تحقیق کو چھوڑتا ہوں اور من کی تحقیق کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ اس کی حقیقت زیر بحث ہے-
بائیبل کا بیان پڑھنے کے بعد طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ-:
)۱( من کیا چیز تھی
)۲( کیا اس کا وجود معجزانہ تھا
)۳( کیا بنی اسرائیل اسے کھا کر ایک طویل مدت تک زندگی بسر کر سکتے تھے-
پہلے سوال کا جواب دیتے وقت خود بخود یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس غذا کو من کا نام بنی اسرائیل نے دیا تھا یا پہلے سے اس کا یہ نام تھا اگر بنی اسرائیل نے اسے اسی نام سے پکارا تو کیوں؟ کیا اس غذا کی اندرونی خاصیت کی وجہ سے یا کسی اور دوسری وجہ سے‘ حروج باب ۱۶ آیت ۱۵ میں >من< کا سب سے پہلے ذکر ہے- اس میں لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل ایلیم روانہ ہوئے تو راستہ میں خوراک نہ ملنے کے سبب انہوں نے شور مچایا- چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان سے گوشت اور روٹی کا وعدہ کیا- شام کو بے شمار بٹیر جنگل میں آ گئے- جنہیں پکڑ کر انہوں نے گوشت کھایا اور صبح کے وقت ایک چیز زمین پر پڑی ملی- جو چھوٹی چھوٹی سفید رنگ کی تھی- جسے دیکھ کر بنی اسرائیل نے آپس میں کہا یہ من ہے؟ کیونکہ انہوں نے نہ جانا کہ وہ کیا ہے- اس پر موسیٰ نے ان سے کہا- یہ روٹی ہے جو خدا نے کھانے کو تم کو دی ہے<-
اس آیت کی بناء پر بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ >من< کا لفظ اس جگہ بطور استفہام استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کیا چیز ہے- بعد میں یہی لفظ نام کے طور پر بنیاسرائیل میں استعمال ہونے لگا- چنانچہ اس باب )۱۶( کی آیت ۳۱ میں لکھا ہے-
>اور اسرائیل کے گھرانے نے اس کا نام >من< رکھا<-
بعض محققین جارج ایبرز ۲~}~ کی اتباع میں اصل تشریح کو غلط سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ لفظوں کی مشابہت سے مغالطہ ہو گیا ہے- اصل میں یہ لفظ >منو< ہے اور قبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی قبطی زبان میں کھانے کے ہیں- اس لئے بنی اسرائیل نے من سوال اور استفہام کے طور پر اس کا نام نہیں رکھا بلکہ چونکہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ موعودہ روٹی ہے- انہوں نے اس کا نام >منا< یعنی خوراک رکھ دیا- کیونکہ اس کا کوئی اور نام انہیں معلوم نہ تھا- ان کا یہ خیال ہے کہ من استفہامیہ کا استعمال ارمیک زبان میں نہیں اور یہ قابل تعجب امر ہے کہ اس معنی میں جس میں ارمیک زبان کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں ہوا‘ یہ لفظ مستعمل ہو جاتا- مگر مسٹر فیلڈ نے اس حیرت کو بائیبل کے ایک قدیم یونانی نسخہ سے دور کرنے کی کوشش کی- نیز اس نسخہ میں خروج باب۱۶ آیت۱۵ کے الفاظ >من ہے< کی بجائے >کیا یہ من ہے<- ہیں اور اگر یہ فرق صحیح تسلیم کر لیا جائے تو من خوراک کے معنی میں درست ثابت ہوتا ہے اور استفہام کے الفاظ کا علیحدہ موجود ہونا واضح کر دیتا ہے کہ >من< کا لفظ اس جگہ استفہام کے طور پر استعمال نہیں ہوا تھا-
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عبرانی کا لفظ جو اس جگہ استعمال ہوا ہے‘ اس کے معنی استفہام کے بھی ہوتے ہیں- لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ یہ لفظ بنی اسرائیل کی جلا وطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں ان معنوں میں صرف عزرا اور دانیال کی کتب میں استعمال ہوا ہے- جلا وطنی سے پہلے کے زمانہ میں اس کا استعمال ان معنوں میں نظر نہیں آتا اور اس وجہ سے بعض اہل نظر نے اسے ارمیک قرار دیا-
ہم جب اس لفظ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے تورات کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ بے جان چیزوں کے متعلق سوال کرنے کا کیا طریق ہے‘ تو وہاں ہمیں ایک ایسی بات مل جاتی ہے جو اس سوال کو ہمارے لئے قطعی طور پر حل کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ تورات میں جہاں بے جان چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا ہے- وہاں >منہ< کا لفظ استعمال کیا گیا ہے نہ کہ >من< کا اور جہاں جاندار چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا ہے وہاں >ری< کا لفظ استعمال کیا گیا ہے- چنانچہ خروج باب ۴ آیت ۲ میں ہے-
>پھر خدا نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے- پھر وہ بولا عصا< اس جگہ عبرانی میں لفظ >مزہ< ہے- یعنی یہ کیا ہے- یہ الفاظ عربی کے الفاظ >ماذا< سے ملتے ہیں >مزہ< کا یہ استعمال غیر معمولی ہے- ورنہ احبارباب ۲۵- آیت۲۰- شمار باب ۱۳ آیت۱۹‘ ا- سمویل باب ۳ آیت۱۷- زبور باب ۳ آیت۱۲۰- امثال باب ۳۰ آیت۴ اور دیگر مقامات میں >کیا< کے لئے لفظ >منہ< استعمال کیا گیا ہے- اس کے مقابلہ میں جاندار کے متعلق صوال کے موقع پر >کون< کے لئے پیدائش باب ۲۷ آیت۱۸ ایضاً باب ۳۳ آیت۵- خروج باب ۱۵ آیت۱۱‘ ۱- سمویل باب ۲۵ آیت۱۰- زبور باب ۴ آیت۶ وغیرہ میں عبرانی کا لفظ >رمی< استعمال ہوا ہے- اس فرق کو دیکھ کر صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے- کہ خروج باب ۱۶ میں جو >من< کا استعمال ہوا ہے وہ >کیا< کے معنوں میں نہیں- کیونکہ پرانی عبرانی زبان میں کیا کے لئے >من< نہیں بلکہ >منہ< کا لفظ استعمال کرتے تھے-
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جلا وطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں جب >من< کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگا تو اس سے بے جان نہیں بلکہ جاندار کے متعلق سوال کیا جاتا تھا- چنانچہ عزرا باب ۵ آیت۳‘۹ اور دانیال باب ۲ آیت۱۵ میں >من< کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہوا ہے- لیکن وہاں سوال جانداروں کے متعلق ہے پس معلوم ہوا کہ اول تو تورات کے نزول کے وقت >من< کا لفظ سوال کے لئے استعمال نہیں ہوتا تھا- دوم بنی اسرائیل کی جلا وطنی کے زمانہ سے جب یہ لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگا ہے- اس وقت بھی یہ لفظ قاعدہ کے طور پر جاندار چیزوں کے متعلق سوال کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا‘ نہ یہ کہ بے جان چیزوں کے متعلق اور استثناء کے طور پر اگر کہیں اس کے خلاف استعمال ہوا ہے تو اسے بطور سند پیش نہیں کیا جا سکتا- لہذا خروج باب ۱۵ آیت۱۶ میں >من ہے< کے معنی >کیا ہے< کے کرنا اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ >من< کو >من< اس لئے کہا گیا تھا کہ بنی اسرائیل نے اسے پہچاننے کی وجہ سے >من< کے لفظ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا‘ درست نہیں-
اور یہ غلط فہمی یورپی مصنفوں کو اس لئے ہوئی ہے کہ وہ عبرانی جیسی مردہ زبان کی تحقیق کرتے وقت اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ عبرانی کی ماں عربی زبان زندہ موجود ہے- عبرانی الفاظ کی حقیقت کے سمجھنے میں جب مشکلات ہوں تو وہ عربی زبان سے مدد لے لیا کریں- اس موقع پر اگر وہ عربی سے مدد لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ عربی زبان میں >ما< غیر ذی روح کیلئے اور ]kns >[tagمن< ذی روح کے لئے استعمال ہوتا ہے اور پھر اس علم کی روشنی میں بائیبل کے الفاظ کو دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ یہی قاعدہ بائیبل کی عبرانی میں بھی مدنظر رکھا گیا ہے اور اس طرح اس لغزش سے بچ جاتے- مگر اتنی تعریف ان کی ضرور کرنی پڑتی ہے کہ انہوں نے یہ فرق ضرور محسوس کیا ہے کہ من کا لفظ سوال کے معنوں میں جلاوطنی کے زمانہ اور اس کے بعد استعمال ہوا ہے- ۳~}~ پہلے نہیں اور اس کی بناء پر بعض نے من کے معنے استفہام کے سوا کچھ اور لینے کی کوشش کی ہے- چنانچہ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں‘ جارج ایبرز نے اس لفظ کو قبطی لفظ >منو< سے ماخوذ قرار دیا- جس کے معنی خوراک کے ہیں- اسی طرح Jesenius نے اپنی لغت میں من کی وجہ تسمیہ عربی لفظ من سے بیان کی ہے- جس کے معنی فضل اور احسان کے ہیں- اس مصنف کے خیال کے مطابق اس چیز کا نام من اس لئے رکھا گیا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی تھی اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ وجہ زیادہ قرین قیاس ہے-
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ من کیا چیز تھی؟ جیسا کہ پروفیسر نعیم الرحمن صاحب نے کہا ہے بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شبنم کے ساتھ گرتی تھی اور سفید سفید گول دھنیے کے بیجوں کی طرح ہوتی تھی اور لوگ اسے چکی میں پیس کر یا اوکھلی میں کوٹ کر توے پر پکاتے تھے یا پھلکیاں بناتے تھے اور اس کا مزا تازہ تیل کا سا تھا- جب دھوپ نکل آتی- تو من پگھل جایا کرتا تھا- خروج باب۱۶ آیت۱۴ و گنتی باب۱۱ آیت۷- یہ چیز سبت کے دن نہیں گرتی تھی اور اگر لوگ جمع کرتے تھے تو سٹر جاتی تھی- سوائے سبت کے دن کے جو اس کے لئے جمع رکھی جاتی تھی وہ نہ سٹرتی تھی- یہ من برابر اڑتیس سال تک بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا- گنتی باب ۲۱ اور اس وقت بند ہوا جب انہوں نے موجودہ زمین میں قدم رکھا اور وہاں کا دانہ کھایا- یشوع باب۵ آیت۱۲-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو بائیبل کی بیان کردہ صفات کے مطابق ہو اور سینا مقام میں پائی جاتی ہو؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر معجزانہ امور کو نظر انداز کر دیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقعہ ایک ایسی چیز سینا کے علاقہ میں پائی جاتی ہے جو شبنم کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور دھوپ کی گرمی میں پگھل جاتی ہے اور تیل سا اس کا مزا ہوتا ہے اور سفید رنگ کی ہوتی ہے- جس کی ایک قسم کو ہمارے ملک میں شیر خشت کہتے ہیں اور دوسری کو ترنجبین اور ہندی میں اسے یورس- شرط کڑا یعنی جواسے کی شکر کہتے ہیں- کیونکہ ہندوستان میں یہ چیز جواسے کے درخت سے نکالی جاتی ہے- لاطینی میں اسے >منا< کہتے ہیں اور اس چیز کی ماہیت پوری طرح طبی کتب میں بھی درج ہے- انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں بھی درج ہے- چنانچہ اسے پروفیسر نعیم الرحمن صاحب نے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے اس لئے میں اس مضمون کو چھوڑتا ہوں- ہاں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یورپی سیاحوں نے شہادت دی ہے کہ اب تک اس علاقہ میں من ملتا ہے گو وہ شبنم کے ساتھ نہیں گرتا بلکہ ٹیمرکسگیلیکا نامی درخت کا رس ہوتا ہے- جس کی چھال کو جب ایک کیڑا جسے اب گاسپیریامینیفیرا کہتے ہیں چھیدتا ہے تو اس سے یہ رس ٹپکتا ہے بغیر کیڑے کے انسانی ہاتھوں سے درخت کی چھال میں شگاف کرنے سے بھی یہ رس گر کر جم جاتا ہے اور مختلف ممالک میں اس درخت سے مختلف طریقوں سے رس کو جمع کیا جاتا ہے- سسلی اور خراسان کا من مشہور ہے- ہندوستان میں بھی جواسے کے درخت سے وید من بناتے ہیں- مصر سے مصنوعی من بنا ہوا آتا ہے لیکن اطباء اسے پہچان لیتے ہیں- بزمارڈٹ جرمن سیاح کا بیان ہے کہ سینا میں موجودہ درختوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سالانہ اڑھائی تین سو سیر تک من تیار ہو سکتا ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ پہلے زمانہ میں جنگل زیادہ وسیع ہوتا تھا اور اس سے بہت زیادہ من تیار ہو سکتا تھا- لیکن جیسا کہ پروفیسر نعیم الرحمن صاحب نے لکھا ہے بائیبل میں بنیاسرائیل کی جو تعداد لکھی ہے اس کے مطابق انہیں روزانہ چھبیس ہزار سات سو پچاس من کے قریب من کی ضرورت ہوتی ہوگی اور سالانہ ایک کروڑ من کے قریب- لیکن چھ سات سو من سالانہ جو اب وہاں پیدا ہوتا ہے اور ایک کروڑ من جس کی انہیں ضرورت ہوتی تھی‘ ان دونوں اندازوں میں اس قدر فرق ہے کہ خواہ قوت واہمہ کو کتنا ہی آزاد چھوڑ دیا جائے‘ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ کسی زمانہ میں اس علاقہ میں اس قدر جنگل تھا کہ ایک کروڑ من من پیدا ہو جاتا تھا- خصوصاً جب ہم اس امر کو مدنظر رکھیں کہ اس علاقہ کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ اس میں درخت پیدا ہی نہیں ہو سکتے-
ایک حل تو اس مشکل کا یہ ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ بائیبل میں جو تعداد بنی اسرائیل کی لکھی ہے‘ وہ مبالغہ آمیز نہیں ہے- گنتی باب ۱‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمر سے لڑنے کے قابل مردوں کی تعداد بارہویں قبیلہ کو چھوڑ کر جن کی گنتی نہیں کی گئی چھ لاکھ تین ہزار اور پانچ سو پچاس تھی اگر بارہویں قبیلہ کا اندازہ کر لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل لڑنے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے- عورتوں بچوں اور جنگ کے ناقابل بوڑھوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گنا زیادہ کر لیتے ہیں کیونکہ یہ ایک عاماندازہ ہے کہ چھ فیصدی سے لے کر دس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل ہوتی ہے- ہم خیال کر لیتے ہیں کہ بنیاسرائیل میں سختی سے جنگی خدمت لی جاتی تھی اور کل تعداد بنی اسرائیل کی جنگی سپاہیوں سے صرف دس گنی تھی- یعنی ۶۰ لاکھ-
مگر عقل اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ تھے کیونکہ اتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میں نکل ہی نہیں سکتے- پھر یردن پار کی بستی جس میں آ کر وہ بسے ہیں‘ اس قدر آبادی کی حامل نہیں ہو سکتی- فلسطین کی آبادی کا اندازہ ۱۹۲۶ء میں آٹھ لاکھ باون ہزار دو سو اڑسٹھ تھا-۴~}~
اس ملک کا کل رقبہ ۹ ہزار مربع میل ہے- یعنی پنجاب کے کل رقبہ کا قریباً چودھواں حصہ اور پھر اس کا ایک بڑا حصہ ناقابل سکونت ہے‘ صرف ریت کے میدان ہیں جنہیں آباد نہیں کیا جا سکتا- پس اس ملک میں جو پہلے سے آباد تھا‘ ساٹھ لاکھ آدمیوں کا آ کر بس جانا بالکل خلاف عقل ہے-
ایک اور دلیل سے بھی یہ امر خلاف عقل معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ تو درکنار چند لاکھ بھی ہوں اور وہ اس طرح کہ حضرت اسحٰق کی پیدائش سے لے کر حضرت یعقوب کے مصر میں داخل ہونے تک تقریباً دو سو سال کا عرصہ بائیبل کے مطابق گزرا ہے- اس عرصہ میں حضرت ابراہیم کی نسل کے افراد بارہ تک پہنچے ہیں- عیسو کی اولاد کو بھی اگر اسی قدر فرض کر لیا جائے تو دو سو سال میں چوبیس افراد تک ان کی نسل پہنچی ہے- اس کے بعد مصر سے نکلنے کے زمانہ تک دو سو سال گزرے ہیں- پس عام اندازہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں کی نسل اس دو سو سال میں چھ سات سو افراد تک پہنچ گئی ہوگی لیکن اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ وہ بہت شادیاں کرتے تھے اور اولاد زیادہ ہوتی تھی جب بھی پندرہ بیس ہزار سے زائد تو کسی صورت میں ان کی تعداد نہیں ہو سکتی اور اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بنیاسرائیل اپنے سفر کے دوران میں معمولی شہر کے آدمیوں سے بھی ڈرتے تھے اور ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے یہ امر یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو اڑھائیہزار سپاہیوں سے زائد نہ تھے- اس اندازہ کے ماتحت nsk] [tagمن کی وہ مقدار جو بنی اسرائیل کے لئے ضروری ہوتی ہو گی بہت کم رہ جاتی ہے- لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ کیا بنیاسرائیل من پر گزارہ کر سکتے تھے- من جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ایک گوند ہے جو ہے بھی مسہل- اس غذا پر انسان چند دن سے زائد گزارہ نہیں کر سکتا- پھر بنی اسرائیل نے اڑتیس سال تک اس پر کیونکر گزارہ کیا- نئے یورپی محققین بھی اس سوال کی معقولیت کے قائل ہو گئے ہیں اور اب ان کا یہ خیال ہے کہ >من< کی جو ماہیت بائیبل میں بتائی گئی ہے‘ اس میں مبالغہ اور تداخل ہو گیا ہے من ان کے نزدیک لچن (Lichen) کے دانوں کا نام ہے جو قحط کے دنوں میں لوگ کھانے لگتے ہیں- لچن ایک بوٹی ہے جو سطح کے اوپر ہی اگ آتی ہے- جڑ کے لئے اسے زمین کی ضرورت نہیں ہوتی- اس لئے چٹانوں کی سطح اور درختوں کی چھال پر بھی اگ آتی ہے- اس کی بعض قسمیں پتھروں پر اگتی ہیں- خصوصاً چولے کے پتھروں پر اور جب اسے پتھر سے الگ کیا جائے- تو جوار کے کچلے ہوئے دانہ کے مشابہہ ہو جاتی ہے- جب یہ بوٹی پک جائے تو اس کے چھلکے جڑ سے الگ ہو کر گول شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہلکا ہونے کی وجہ سے ہوا انہیں اڑا کر دور دور لے جاتی ہے-۵~}~
علمائے نباتات کے نزدیک یہ بوٹی کھمب کی قسموں میں سے ہے- اگر نئے یورپی محقیقین کی رائے تسلیم کر لی جائے تو پھر یہ سوال حل ہو جاتا ہے کہ بنی اسرا ئیل نے اس کھانے پر گزارہ کس طرح کیا؟ لیکن وہ سوال پھر پیدا ہو جاتا ہے کہ بائیبل کی بیان کردہ من کی ماہیت کے ساتھ اس بوٹی کی کوئی مناسبت نہیں- نہ یہ بوٹی میٹھی ہوتی ہے نہ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا ہوتا ہے اور نہ یہ بوٹی دوپہر کو پگھل جاتی ہے-
قرآن کریم و حدیث شریف سے استمداد
میرے نزدیک اس سوال کا جواب ہمیں بائیبل اور ان کی متعلقہ کتب سے نہیں مل سکتا- یورپین محققین خواہ کتنا ہی زور لگائیں‘ وہ اس سوال کا پوری طرح جواب نہیں دے سکتے کیونکہ وہ اس سرچشمہ سے دور ہیں جس سے حقیقی علم عطا ہوتا ہے پس اگر ہمیں صحیح جواب کی ضرورت ہے تو ہمیں چاہیئے کہ قرآن اور حدیث سے استمداد حاصل کریں-
قرآن کریم اور حدیث میں من کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق بیان ہوئے ہیں-
)۱( الم ترالی الذین خرجوا من دیار ھم وھم الوف حذر الموت فقال لھم اللہ موتوا ثم احیاھم۶~}~
کیا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے اس حال میں نکلے تھے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ مر جائو پھر انہیں اس نے زندہ کر دیا-
)۲( وانزلنا علیکم المن والسلوی کلوامن طیبت مارزقنکم ۷~}~
اور ہم نے تم پر من اور سلویٰ اتارا تھا اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے‘ اس میں سے اعلیٰ اور پاکیزہ چیزوں کو کھائو-
)۳( بخاری میں سعید بن زید کی روایت ہے- قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکماہ من المن۸~}~ رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا کہ کھمب بھی >من< کی اقسام میں سے ہے- ترمذی میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے- ان ناسا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالوا الکماہ جدری الارض فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکماہ من المن ۹~}~ نبی کریم ~صل۲~ کے صحابہ میں سے بعض لوگ اعراب کے توہمات کے مطابق باتیں کر رہے تھے کہ کھمب زمین کی چیچک ہے- نبی کریم ~صل۲~ نے اس بات کو سن کر فرمایا کہ کھمب >من< کی اقسام میں سے ہے-
اوپر کی آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نہیں نکلے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے-
)۴( جو چیز ان کے کھانے کے لئے مہیا کی گئی تھی وہ غذا کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تھی اور ایسی نہ تھی جو غذائیت یا مزے کے لحاظ سے تکلیف دہ ہو-
)۵( جو چیز بنی اسرائیل کو کھانے کے لئے ملی تھی وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزیں تھیں اور ان کئی چیزوں میں سے ایک کھمب بھی تھی-
یہ ایک نہایت عجیب بات ہے کہ >من< کا ذکر قرآن کریم میں تین جگہ پر آیا ہے ایک سورہ بقرہ میں ایک اعراف میں اور طہ میں اور تینوں جگہ اس کے ذکر کے بعد کلوامن الطیبت ۱۰~}~ کا فقرہ ہے- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس خیال کی تردید کرنا مقصود ہے کہ وہ کھانا طبیعت پر بوجھ ڈالنے والا یا غذائیت کے لحاظ سے ادنیٰ قسم کا تھا-
>جیسا کہ ہم لچن (LICHEN) کی جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے‘ تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کھمب کی قسم کا پودہ ہے- چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے- >لچن اور کھمب کے اقسام بالکل آپس میں ملتے جلتے ہیں اور یہ امر ان اقسام کی مشابہت سے جو ایک دوسرے کی طبعی سرحد پر واقع ہیں بالکل ظاہر ہو جاتا ہے-<۱۱~}~
لیکن یہ امر ظاہر ہے کہ لچن خود اچھا کھانا نہیں ہے بلکہ قحط کے ایام میں مجبوراً اسے لوگ کھاتے ہیں- اس کے برعکس کھمب اعلیٰ درجہ کے کھانوں میں سے ہے اور گراں قیمت پر فروخت ہوتی ہے اور خاص طور پر اسے امراء کے لئے بویا جاتا ہے اور فرانس میں تو اس کی اس قدر کھپت ہے کہ پیرس میں ایک زمیندار دن میں تین سے تین ہزار پونڈ تک کھمب منڈی میں فروخت کرنے کے لئے بھیجتا ہے- اور پھر یہ ہے بھی جلد اگنے والی چیز- چنانچہ انگریزی میں اس چیز کو جو جلد ہو جائے- مشروم گروتھ (MASHROOMGROWTH) یعنی کھمب کی طرح پیدا ہونے والی کہتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو کھانے سے تنگ ہوں ایسی ہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جلد اگ آئیں اور جلد استعمال میں آ سکیں- اب کیا یہ صاحبان بصیرت کے لئے عجیب بات نہیں کہ بائیبل کے کثیر نسخوں اور علم طبیعات کے ماہروں کی امداد کے باوجود یورپ بیسویں صدی میں جس نتیجہ پر >من< کے متعلق پہنچا ہے اور وہ بھی ناقص صورت میں‘ اس کی اب سے تیرہ سو سال پہلے نہایت جامعیت کے ساتھ توضیح کر دی گئی تھی-
احسان الٰہی سے ملنے والی غذا
میں جہاں تک مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے سمجھ چکا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دشتسیناء میں کھمب ترنجبین اور ایسی ہی اور چیزیں جو جلد تیار ہو جاتی ہیں‘ پیدا کر دیں جن سے بنیاسرائیل کو باسانی غذا ملنے لگی اور چونکہ اس کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی تھی اس غذا کا نام من یعنی احسان الٰہی سے ملنے والی غذا رکھا گیا- وہ ایک قسم کی غذا نہ تھی بلکہ کئی قسم کی غذائیں تھیں- کیونکہ حدیث کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ کئی طرح کا من تھا- وہاں سب میں ایک مشابہت تھی اور وہ یہ کہ غذائیں ہل چلا کر اور محنت کر کے بنی اسرائیل کو پیدا نہیں کرنی پڑتی تھیں- لیکن چونکہ غذائیں اور بٹیر جو اس وقت کثرت سے اس جنگل میں آ گئے تھے شکم میں قبض پیدا کرتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ترنجبین بھی کثرت سے پیدا کر دی- جسے دوسری غذائوں میں ملا کر کھانے سے ان کی صحت درست رہتی تھی- لہذا یہ حقیقت ہے کہ من جس کا کثرت سے ان ایام میں پیدا ہونا ایک معجزہ تھا‘ لیکن خود اس کا وجود اس دنیا مکی چیزوں میں سے تھا وہ ایسی غذا تھی جسے ایک عرصہ تک کھایا جا سکتا تھا اور اس کی مصلح ترنجبین بھی ساتھ پیدا کر دی گئی تھی تا کہ جنگل کی خشک غذا صحت کو نقصان نہ پہنچائے-
اس تشریح کے ساتھ سب سوال حل ہو جاتے ہیں- یہ بھی کہ من کو لوگ دیر تک کس طرح کھاتے رہے اور یہ بھی کہ وہ سال بھر کس طرح ملتی رہتی تھی اور یہ بھی کہ وہ تیل کی طرح بھی تھی اور اس سے روٹیاں بھی پکتی تھی اور پھلکیاں بھی بنائی جاتی تھیں- کیونکہ وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزوں کا نام من تھا اور اس تشریح کو تسلیم کر کے کوئی خلاف عقل بات بھی تسلیم نہیں کرنی پڑتی- بٹیر وغیرہ کی قسم کی چیزوں پر ایک ایسی قوم جسے اہم سیاسی اغراض کے لئے جنگل میں رہنا ضروری ہے گذارہ کر سکتی ہے اور قرآن کریم کی بتائی مقدار کے مطابق قوم کا اس جنگل میں آسانی سے بسر اوقات کر سکنا ناممکنات میں سے نہیں ہے- )ابن الفارس(
)الفضل ۲۲‘۲۳ مارچ ۱۹۴۶ء(
۱~}~
خروج باب۱۶ آیت۳۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوساٹی انارکلی لاہور- ۱۹۲۲ء
۲~}~
جارج ایبرز EBERSGEORGMORITZ یکم ۱۸۳۷ء کو برلن میں پیدا ہوا- ۷- اگست ۱۸۹۸ء BAVARIA TUTZINDG جرمنی میں وفات پائی- یہ جرمنی کا ناول نویس اور ماہر مصریات تھا- اس نے قانون فقہ کی تعلیم حاصل کی- پھر برلن میں مشرقی زبانوں اور آثار قدیمہ کا مطالعہ کیا- ۱۹۶۵ء میں یونیورسٹی آف جینا (JENA) میں مصری زبان اور آثار قدیمہ کا استاد مقرر ہوا- ۱۸۷۰ء میں اس شعبہ میں جرمنی کے شہر LEIPZID میں پروفیسر مقرر ہوا-
1۔vol Yourk New Namas of Encylopedia contury The
‏1825 in published 13099 1388, ۔p
۳~}~
انسائیکلوپیڈیا ببلیکا جلد۳ زیر لفظ >منا<
۴~}~
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا چودھواں ایڈیشن
۵~}~
انسائیکلوپیڈیا ببلیکا جلد ۳
۶~}~
البقرہ : ۲۴۴
۷~}~ البقرہ:۸۵

۸~}~
بخاری کتاب الطب باب المن شفاء للجین میں یہ روایت اس طرح ہے قال سمعت النبی ¶صلی اللہ علیہ وسلم یقول الکماہ من المن
۹~}~
ترمذی ابواب الطب باب ماجاء فی الکماہ والعجوہ
۱۰~}~
البقرہ : ۵۸‘ الاعراف: ۱۶۱‘ طہ : ۸۱

۱۱~}~
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد۱۴ صفحہ۲۹ ایڈیشن۱۴
‏a12.14
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم جلد ۱۲
اردو زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو رسائل زبان کی کس طرح
خدمت کر سکتے ہیں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک دقت یہ ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لئے اصطلاحیں مقرر ہیں- مولوی فتح محمد صاحب جالندھری نے قواعد کے بارے میں اچھی خدمت کی ہے اور مولانا شبلی اور مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے کام کو جلا دینے میں حصہ لیا ہے- لغت کا کام مولوی نذیر احمد دہلوی نے کیا ہے اور اصطلاحات کے لئے ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے ممنون ہیں- انجمن ترقی اردو انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے- لیکن کام اس قدر ہے کہ کسی ایک شخص یا ایک انجمن یا ایک ادارہ سے یہ ہونا ناممکن ہے-
اردو کے بہی خواہوں نے میرے نزدیک بعض مشکلات کو جو اردو زبان سے مخصوص ہیں نظر انداز کر دیا ہے- مثلاً
۱-
وہ سب زبانوں میں عمر میں چھوٹی ہے-
۲-
‏]ind [tag حقیقی شاہی گود میں پلنے کا اسے کبھی موقع نہیں ملا- جو زبان کی ترقی کیلئے ضروری ہے-
۳-
اصل میں تو تین لیکن کم سے کم دو مائیں اس کی ضرور ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ دونوں سگی ہیں- ہر ایک اپنی تربیت کا رنگ اس پر چڑھانا چاہتی ہے- اور جب ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہو سکا تو دونوں اپنا غصہ اس معصوم پر نکالتی ہیں- میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت جھگڑا یہ نہیں کہ اہل سنسکرت اردو کو اپنا بنانے کو تیار نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے صرف اپنا ہی بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور عربی فارسی والوں کے سایہ سے اس نونہال کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے-
۴-
ہمارا علمی طبقہ غیر زبانوں میں سوچنے کا عادی ہو گیا ہے- اور اس وجہ سے اس کی تحقیقوتفتیش سے اردو نفع نہیں اٹھا سکتی-
۵-
ٹائپ نہ ہونے کے سبب آنکھوں کو اس کے حروف سے وہ موانست نہیں پیدا ہوتی جو ٹائپ پر چھپنے والی زبانوں کے حروف سے ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے لوگوں میں شوق تعلیم سرعت سے ترقی نہیں کر سکا اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر نہیں ہو سکی- انسان بارہ تیرہ قسم کے ٹائپوں کا عادی تو ہو سکتا ہے لیکن ہزاروں قسم کا نہیں اور اردو زبان کے جتنے کاتب ہیں گویا اتنے ہی ٹائپ ہیں جس کی وجہ سے طبیعتوں پر ایک غیرمحسوس بوجھ پڑتا ہے اور تعلیم کا ذوق کم ہو جاتا ہے-
ان مشکلات کی وجہ سے اردو کی ترقی کے رستے میں دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ مشکلات حائل ہیں مگر میرے نزدیک وہ ایسی نہیں کہ دور نہ کی جا سکیں- اب تک نقص یہی رہا ہے کہ مرض کی تشخیص نہیں کی گئی اور اس کی وجہ سے لازماً علاج بھی صحیح نہیں ہوا- اگر اردو عمر میں اپنی بہنوں سے چھوٹی تھی تو اس کے لئے اس قسم کی غذا کا بھی انتظام ہونا چاہئے تھا- اور اگر وہ شاہی گود سے محروم تھی تو کیوں نہ اسے جمہوریت کی گود میں ڈال دیا گیا جس کی حفاظت شاہی حفاظت سے کسی صورت میں کم نہیں بلکہ اصل بادشاہت تو اس کی ہے- اگر اس کی تربیت کے متعلق اختلاف تھا تو یہ صورت حالات پیدا کرنے کی بجائے کہ جس کا بس چلا وہ اسے اپنے گھر لے گیا وہی کیوں نہ کیا گیا جو حضرت محمد ~صل۲~ نے اس وقت کیا تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیرجدید کے موقع پر حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کے سوال پر مختلف قریش خاندانوں میں جھگڑا پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے ایک چادر بچھا دی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ کر سب قوموں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑ لیں اور اس طرح سب کے سب اس کے اٹھانے میں برابر کے شریک ہو جائیں- اسی طرح اگر اردو‘ سنسکرت اور عربی کی مشترک تربیت میں دے دی جاتی تو یہ جھگڑا ختم ہو سکتا تھا-
ٹائپ کا سوال مختلف قسم کا سوال ہے لیکن اگر مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ ہوتی تو بہت سے لوگ اسے حل کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے- اور الحمدللہ کہ اس وقت حیدر آباد میں بہت سے ارباب بصیرت اس کے لئے بھی کوشش کر رہے ہیں-
میری ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ترقی کیلئے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننے کی بجائے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو- خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں- اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں- قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں اور اصطلاحیں علماء اردو بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہو سکتی-
پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوئوں پر بحثیں ہوں تا کہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج کا ہی سامان نہ ہو بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں- اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں- اگر ان رسائل میں چند صفحات‘ مستقل طور پر اس بات کے لئے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہوا کریں گی تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہوگا عام لوگ بھی اس کو قبول کر لیں گے- کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گذرتے رہیں گے- ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں- اس قسم کے مضامین کی اشاعت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارے ہندو بھائی بھی ان بحثوں میں حصہ لے سکیں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ بغیر ان کی مدد کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے- کیونکہ اردو میں بہت سے لفظ سنسکرت اور ہندی بھاشا کے ہیں اور ان کی اصلاح یا ان میں ترقی بغیر ہندوئوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی- ان کی شمولیت کے بغیر یا تو وہ حصہ زبان کا نامکمل رہ جائے گا یا اسے بالکل ترک کر کے اس کی جگہ عربی الفاظ اور اصطلاحیں داخل کرنی پڑیں گی اور یہ دونوں باتیں سخت مضر اور اردو کی ترقی کے راستہ میں روک پیدا کرنے والی ہوں گی-
اس تمہید کے بعد میں ایڈیٹر صاحب ادبی دنیا اور دوسرے ادبی رسائل سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان باتوں میں مجھ سے متفق ہوں تو اپنے رسائل میں ایک مستقل باب اس غرض کے لئے کھول دیں لیکن انہیں ان مشکلات کا بھی اندازہ کر لینا چاہئے جو اس کام میں پیش آئیں گی- مثلاً یہ کہ جو سوالات اٹھائے جائیں گے انہیں حل کون کرے گا؟ بالکل ممکن ہے کہ جواب دینے والے ایسے لوگ ہوں جن کا کلام سند نہ ہو یا جن کے جواب تسلی بخش نہ ہوں یا کوئی شخص جواب کی طرف توجہ ہی نہ کرے- اگر صرف رسالہ کے ادارہ نے جواب دیئے تو پھر اول تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا- دوم ممکن ہے کہ اس سے وہ اثر پیدا نہ ہو سکے جو اصل مقصود ہے لہذا اس مشکل اور اس قسم کی دوسری مشکلات کے حل کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے- ادارہ کی طرف سے متعدد بار تحریک کر کے رسالہ کے خریداروں کے نام ظاہر کریں جو خریدار مستند ادیب ہیں ان سے اصرار کر کے اپنا نام پیش کرنے کے لئے کہا جائے- ایسے تمام خریداروں کے نام ایک رجسٹر میں جمع کر لئے جائیں اور انہیں ادبی کلب کا ممبر سمجھا جائے چونکہ بالکل ممکن ہے کہ بہت سے ادیب اور علماء جن کی امداد کی ضرورت سمجھی جائے رسالہ کے خریدار نہ ہوں اس لئے ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے اور رسالہ کے مستطیع خریداروں کی امداد سے ان کے نام رسالہ مفت ارسال کیا جائے اور ان کا نام اعزازی ممبر کے طور پر کلب کے رجسٹر میں درج کر لیا جائے-
تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال
)۱( اردو لغت کے متعلق-
)۲( نحوی قواعد کے متعلق
)۳( بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق
)۴( محاورات کے متعلق-
)۵( تذکیر و تانیث اور جمع کے قواعد کے متعلق-
)۶( پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصہ میں شائع کرائیں- خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں-
ان سے یہ بھی امید کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال شائع ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں-
ملک اردو علم و ادب کے لحاظ سے چند حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے- مثلاً
)۱( دھلی اور اس کے مضافات
)۲( لکھنئو اور اس کے مضافات
)۳( پنجاب
)۴( رامپور اور اس کے مضافات
)۵( بھوپال اور اس کے مضافات
)۶( آگرہ اور اس کے مضافات
)۷( اعظم گڑھ اور الہ آباد اور اس کے مضافات
)۸( بہار
)۹( حیدر آباد
اس طرح علمی لحاظ سے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے-
۱-
اسلامی یعنی عربی اور فارسی اثر
۲-
ہندو یعنی سنسکرت اور ہندی بھاشا اثر
جب سوالات رسالہ کے دفتر میں آئیں تو ادارہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دے مثلاً جو سوال کسی لفظ کے استعمال‘ اس کی شکل‘ اس کی تذکیر و تانیث کے متعلق ہوں انہیں ایک جگہ جمع کر کے شائع کرے اور ان کے متعلق مذکورہ بالا حلقوں کے احباب سے درخواست کرے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی تحقیق بتائیں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے علاقہ میں وہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں‘ اگر ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کن کن معنوں میں؟ اس طرح دو فائدے حاصل ہونگے ایک تو اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس خاص لفظ یا محاورہ کے متعلق اردو بولنے والوں کی اکثریت کس طرف جا رہی ہے اور اس سے اردو کی ترقی کی رو کا اندازہ ہو سکے گا- دوسرے علمی تحقیق بھی ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کی طبائع فیصلہ کر سکیں گی کہ اس بارہ میں اردو کے حق میں کونسی بات مفید ہے- آیا تحقیق کی پیروی کرنی چاہئے یا غلط العام کی تصدیق کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں- اسی طرح جس لفظ کے متعلق بحث ہو اگر سنسکرت یا ہندی بھاشا اس کا ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اور عربی فارسی ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اس پروشنی ڈالنے کی طرف توجہ دلائی جائے- اس طرح اور بہت سی تقسیمیں کی جا سکتی ہیں جو اس کلب کو زیادہ دلچسپ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں- کلب کا کام فیصلہ کرنا نہ ہو بلکہ ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو-
اسی طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے اور بحث کی طرح اس طریق پر نہ ڈالی جائے کہ خالص عربی یا خالص سنسکرت اصطلاحات لے لی جائیں بلکہ تحریک یہ کی جائے کہ وہ خیال جس کے ادا کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے اس کے متعلق کلب کے ممبر پہلے یہ بحث کریں کہ اس خیال کا کس اردو لفظ سے تعلق ہے- پھر یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے اور آیا اس لفظ سے جدید اصطلاح کا بنانا آسان ہوگا- اگر عام رائے اس کی تائید میں ہو تو پھر اس زبان کے ماہروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں- کیونکہ جس زبان کا لفظ ہو اس کے ماہر اس کے صحیح مشتقات پر روشنی ڈال سکتے ہیں-
ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ اردو رسائل کے ادارے تو پہلے ہی بوجھوں تلے دبے پڑے ہیں وہ اتنی پیچیدہ سکیم پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں- لیکن اول تو یہ سکیم عمل میں اس قدر پیچیدہ اور توجہ طلب نہ ہوگی جس قدر کاغذ پر نظر آتی ہے-
دوسرے اس قسم کے کلب جیسا کہ یورپ کا تجربہ ہے ہمیشہ رسائل و اخبارات کی دلچسپی اور خریداری بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں‘ اس لئے جو رسالہ اس کام کو شروع کرے گا وہ میرے نزدیک مالی پہلو سے فائدہ میں رہے گا- تیسرے یہ بھی ضروری نہیں کہ فوراً اس ساری سکیم پر عمل کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کلب جاری کر کے صفحات مقرر کئے بغیر اور اس طرح مضامین تقسیم کئے بغیر جس طرح میں نے بیان کیا ہے کام شروع کر دیا جائے- پھر جوں جوں ادارہ اور کلب کے ممبروں کو مشق ہوتی جائے کام اصول کے ماتحت لایا جائے تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے اور بس- ادبی دنیا کے لئے اور اگر کوئی اور رسالہ اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لئے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بشرط فرصت اور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں-
)رسالہ ادبی دنیا مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸(
‏a12.15
انوار العلوم جلد ۱۲
اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو رسائل زبان کی کس طرح
خدمت کر سکتے ہیں

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]op [tag
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں
اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک دقت یہ ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمیمضامین کے ادا کرنے کے لئے اصطلاحیں مقرر ہیں- مولوی فتح محمد صاحب جالندھری نے قواعد کے بارے میں اچھی خدمت کی ہے ¶اور مولانا شبلی اور مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے کام کو جلا دینے میں حصہ لیا ہے- لغت کا کام مولوی نذیر احمد دہلوی نے کیا ہے اور اصطلاحات کے لئے ہم عثمانیہ یونیورسٹی کے ممنون ہیں- انجمن ترقی اردو انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے- لیکن کام اس قدر ہے کہ کسی ایک شخص یا ایک انجمن یا ایک ادارہ سے یہ ہونا ناممکن ہے-
اردو کے بہی خواہوں نے میرے نزدیک بعض مشکلات کو جو اردو زبان سے مخصوص ہیں نظر انداز کر دیا ہے مثلاً-:
۱-
وہ سب زبانوں میں عمر میں چھوٹی ہے-
۲-
حقیقی شاہی گود میں پلنے کا اسے کبھی موقع نہیں ملا جو زبان کی ترقی کیلئے ضروری ہے-
۳-
اصل میں تو تین لیکن کم سے کم دو مائیں اس کی ضرور ہیں اور مصیبت یہ ہے کہ دونوں سگی ہیں- ہر ایک اپنی تربیت کا رنگ اس پر چڑھانا چاہتی ہے- اور جب ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہو سکا تو دونوں اپنا غصہ اس معصوم پر نکالتی ہیں- میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت جھگڑا یہ نہیں کہ اہل سنسکرت اردو کو اپنا بنانے کو تیار نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے صرف اپنا ہی بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور عربی فارسی والوں کے سایہ سے اس نونہال کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے-
۴-
ہمارا علمی طبقہ غیر زبانوں میں سوچنے کا عادی ہو گیا ہے- اور اس وجہ سے اس کی تحقیقوتفتیش سے اردو نفع نہیں اٹھا سکتی-
۵-
ٹائپ نہ ہونے کے سبب آنکھوں کو اس کے حروف سے وہ موانست نہیں پیدا ہوتی جو ٹائپ پر چھپنے والی زبانوں کے حروف سے ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے لوگوں میں شوقتعلیم سرعت سے ترقی نہیں کر سکا اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر نہیں ہو سکی- انسان بارہ تیرہ قسم کے ٹائپوں کا عادی تو ہو سکتا ہے لیکن ہزاروں قسم کا نہیں اور اردو زبان کے جتنے کاتب ہیں گویا اتنے ہی ٹائپ ہیں جس کی وجہ سے طبیعتوں پر ایک غیرمحسوس بوجھ پڑتا ہے اور تعلیم کا ذوق کم ہو جاتا ہے-
ان مشکلات کی وجہ سے اردو کی ترقی کے رستے میں دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ مشکلات حائل ہیں مگر میرے نزدیک وہ ایسی نہیں کہ دور نہ کی جا سکیں- اب تک نقص یہی رہا ہے کہ مرض کی تشخیص نہیں کی گئی اور اس کی وجہ سے لازماً علاج بھی صحیح نہیں ہوا- اگر اردو عمر میں اپنی بہنوں سے چھوٹی تھی تو اس کے لئے اس قسم کی غذا کا بھی انتظام ہونا چاہئے تھا- اور اگر وہ شاہی گود سے محروم تھی تو کیوں نہ اسے جمہوریت کی گود میں ڈال دیا گیا جس کی حفاظت شاہی حفاظت سے کسی صورت میں کم نہیں بلکہ اصل بادشاہت تو اس کی ہے- اگر اس کی تربیت کے متعلق اختلاف تھا تو یہ صورت حالات پیدا کرنے کی بجائے کہ جس کا بس چلا وہ اسے اپنے گھر لے گیا وہی کیوں نہ کیا گیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیرجدید کے موقع پر حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھنے کے سوال پر مختلف قریش خاندانوں میں جھگڑا پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے ایک چادر بچھا دی اور اس پر حجر اسود اپنے ہاتھ سے رکھ کر سب قوموں کے سرداروں سے کہا کہ وہ اس چادر کے کونے پکڑ لیں اور اس طرح سب کے سب اس کے اٹھانے میں برابر کے شریک ہو جائیں- اسی طرح اگر اردو‘ سنسکرت اور عربی کی مشترک تربیت میں دے دی جاتی تو یہ جھگڑا ختم ہو سکتا تھا-
ٹائپ کا سوال مختلف قسم کا سوال ہے لیکن اگر مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ ہوتی تو بہت سے لوگ اسے حل کرنے کی طرف بھی مائل ہو جاتے- اور الحمدللہ کہ اس وقت حیدرآباد میں بہت سے ارباب بصیرت اس کے لئے بھی کوشش کر رہے ہیں-
میری ان معروضات کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ترقی کیلئے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننے کی بجائے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو- خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں- اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں- قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں اور اصطلاحیں علماء‘ اردو بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں ہو سکتی-
پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوئوں پر بحثیں ہوں تا کہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج کا ہی سامان نہ ہو بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں- اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں- اگر ان رسائل میں چند صفحات مستقل طور پر اس بات کے لئے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہوا کریں گی تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہوگا عام لوگ بھی اس کو قبول کر لیں گے- کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گذرتے رہیں گے- ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں- اس قسم کے مضامین کی اشاعت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہمارے ہندو بھائی بھی ان بحثوں میں حصہ لے سکیں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ بغیر ان کی مدد کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے- کیونکہ اردو میں بہت سے لفظ سنسکرت اور ہندی بھاشا کے ہیں اور ان کی اصلاح یا ان میں ترقی بغیر ہندوئوں کی مدد کے نہیں ہو سکتی- ان کی شمولیت کے بغیر یا تو وہ حصہ زبان کا نامکمل رہ جائے گا یا اسے بالکل ترک کر کے اس کی جگہ عربی الفاظ اور اصطلاحیں داخل کرنی پڑیں گی اور یہ دونوں باتیں سخت مضر اور اردو کی ترقی کے راستہ میں روک پیدا کرنے والی ہوں گی-
اس تمہید کے بعد میں ایڈیٹر صاحب ادبی دنیا اور دوسرے ادبی رسائل سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان باتوں میں مجھ سے متفق ہوں تو اپنے رسائل میں ایک مستقل باب اس غرض کے لئے کھول دیں لیکن انہیں ان مشکلات کا بھی اندازہ کر لینا چاہئے جو اس کام میں پیش آئیں گی- مثلاً یہ کہ جو سوالات اٹھائے جائیں گے انہیں حل کون کرے گا؟ بالکل ممکن ہے کہ جواب دینے والے ایسے لوگ ہوں جن کا کلام سند نہ ہو یا جن کے جواب تسلی بخش نہ ہوں یا کوئی شخص جواب کی طرف توجہ ہی نہ کرے- اگر صرف رسالہ کے ادارہ نے جواب دیئے تو پھر اول تو اصل مطلب فوت ہو جائے گا- دوم ممکن ہے کہ اس سے وہ اثر پیدا نہ ہو سکے جو اصل مقصود ہے لہذا اس مشکل اور اس قسم کی دوسری مشکلات کے حل کے لئے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے- ادارہ کی طرف سے متعدد بار تحریک کر کے رسالہ کے خریداروں کے نام ظاہر کریں جو خریدار مستند ادیب ہیں ان سے اصرار کر کے اپنا نام پیش کرنے کے لئے کہا جائے- ایسے تمام خریداروں کے نام ایک رجسٹر میں جمع کر لئے جائیں اور انہیں ادبی کلب کا ممبر سمجھا جائے چونکہ بالکل ممکن ہے کہ بہت سے ادیب اور علماء جن کی امداد کی ضرورت سمجھی جائے رسالہ کے خریدار نہ ہوں اس لئے ایسے لوگوں کی ایک فہرست تیار کی جائے اور رسالہ کے مستطیع خریداروں کی امداد سے ان کے نام رسالہ مفت ارسال کیا جائے اور ان کا نام اعزازی ممبر کے طور پر کلب کے رجسٹر میں درج کر لیا جائے-
تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال-:
)۱(
اردو لغت کے متعلق-
)۲(
نحوی قواعد کے متعلق
)۳(
بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق
)۴(
محاورات کے متعلق-
)۵(
تذکیر و تانیث اور جمع کے قواعد کے متعلق-
)۶(
پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصہ میں شائع کرائیں- خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں-
ان سے یہ بھی امید کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال شائع ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں-
ملک اردو علم و ادب کے لحاظ سے چند حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے مثلاً-:
)۱(
‏]din [tag دھلی اور اس کے مضافات
)۲(
لکھنئو اور اس کے مضافات
)۳(
پنجاب
)۴(
رامپور اور اس کے مضافات
)۵(
بھوپال اور اس کے مضافات
)۶(
آگرہ اور اس کے مضافات
)۷(
اعظم گڑھ اور الہ آباد اور اس کے مضافات
)۸(
بہار
)۹(
حیدر آباد
اس طرح علمی لحاظ سے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے-
۱-
اسلامی یعنی عربی اور فارسی اثر
۲-
ہندو یعنی سنسکرت اور ہندی بھاشا اثر
جب سوالات رسالہ کے دفتر میں آئیں تو ادارہ انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کر دے مثلاً جو سوال کسی لفظ کے استعمال‘ اس کی شکل‘ اس کی تذکیر و تانیث کے متعلق ہوں انہیں ایک جگہ جمع کر کے شائع کرے اور ان کے متعلق مذکورہ بالا حلقوں کے احباب سے درخواست کرے کہ وہ نہ صرف اپنی علمی تحقیق بتائیں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ ان کے علاقہ میں وہ لفظ اردو میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں‘ اگر ہوتا ہے تو کس شکل میں اور کن کن معنوں میں؟ اس طرح دو فائدے حاصل ہونگے ایک تو اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس خاص لفظ یا محاورہ کے متعلق اردو بولنے والوں کی اکثریت کس طرف جا رہی ہے اور اس سے اردو کی ترقی کی رو کا اندازہ ہو سکے گا- دوسرے علمی تحقیق بھی ہو جائے گی اور پڑھنے والوں کی طبائع فیصلہ کر سکیں گی کہ اس بارہ میں اردو کے حق میں کونسی بات مفید ہے- آیا تحقیق کی پیروی کرنی چاہئے یا غلط العام کی تصدیق کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے موقع پر زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں- اسیطرح جس لفظ کے متعلق بحث ہو اگر سنسکرت یا ہندی بھاشا اس کا ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اور عربی فارسی ماخذ ہو تو اس کے علماء کو اس پروشنی ڈالنے کی طرف توجہ دلائی جائے- اس طرح اور بہت سی تقسیمیں کی جا سکتی ہیں جو اس کلب کو زیادہ دلچسپ بنانے کا باعث ہو سکتی ہیں- کلب کا کام فیصلہ کرنا نہ ہو بلکہ ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو-
اسی طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے اور بحث کی طرح اس طریق پر نہ ڈالی جائے کہ خالص عربی یا خالص سنسکرت اصطلاحات لے لی جائیں بلکہ تحریک یہ کی جائے کہ وہ خیال جس کے ادا کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے اس کے متعلق کلب کے ممبر پہلے یہ بحث کریں کہ اس خیال کا کس اردو لفظ سے تعلق ہے- پھر یہ دیکھا جائے کہ وہ لفظ کس زبان کا ہے اور آیا اس لفظ سے جدید اصطلاح کا بنانا آسان ہوگا- اگر عام رائے اس کی تائید میں ہو تو پھر اس زبان کے ماہروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں- کیونکہ جس زبان کا لفظ ہو اس کے ماہر اس کے صحیح مشتقات پر روشنی ڈال سکتے ہیں-
ممکن ہے یہ خیال کیا جائے کہ اردو رسائل کے ادارے تو پہلے ہی بوجھوں تلے دبے پڑے ہیں وہ اتنی پیچیدہ سکیم پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں- لیکن اول تو یہ سکیم عمل میں اس قدر پیچیدہ اور توجہ طلب نہ ہوگی جس قدر کاغذ پر نظر آتی ہے-
دوسرے اس قسم کے کلب جیسا کہ یورپ کا تجربہ ہے ہمیشہ رسائل و اخبارات کی دلچسپی اور خریداری بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں‘ اس لئے جو رسالہ اس کام کو شروع کرے گا وہ میرے نزدیک مالی پہلو سے فائدہ میں رہے گا- تیسرے یہ بھی ضروری نہیں کہ فوراً اس ساری سکیم پر عمل کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کلب جاری کر کے صفحات مقرر کئے بغیر اور اس طرح مضامین تقسیم کئے بغیر جس طرح میں نے بیان کیا ہے کام شروع کر دیا جائے- پھر جوں جوں ادارہ اور کلب کے ممبروں کو مشق ہوتی جائے کام اصول کے ماتحت لایا جائے تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے اور بس- ادبی دنیا کے لئے اور اگر کوئی اور رسالہ اس تحریک پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لئے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بشرط فرصت اور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں-
)رسالہ ادبی دنیا مارچ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۸۶ تا ۱۸۸(
‏a12.16
انوار العلوم جلد ۱۱
تحفہ لارڈ ارون
تحفہ لارڈ ارون

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم][بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
دیباچہ
یہ رسالہ ان خدمات کے اعتراف میں جو ہندوستان کی آزادی کے حصول کے بارہ میں لارڈارون (LORDIRWIN) سے ظہور میں آئی ہیں اور اس اعلیٰ اخلاقی نمونہ کی یاد گار کو تازہ رکھنے کیلئے جو انہوں نے اپنے پانچ سالہ ولایت ہند کے زمانہ میں دکھایا ہے جماعت احمدیہ کے دس ہزار افراد نے جو ہندوستان کے سب صوبوں کے سو شہروں میں بسنے والے ہیں ہزایکسیلنسی لارڈارون کے ان کے اپنے عہدہ ولایت ہند سے فارغ ہونے کے موقع پر پیش کیا ہے اس امر کے اظہار کیلئے کہ اس رسالہ کا پیش کرنا ایک وسیع جماعت کے جذبات تشکر کی ترجمانی کرتا ہے یہ شرط کی گئی تھی کہ ہر شخص جو اس میں حصہ لینا چاہے صرف ایک آنہ چندہ ادا کر سکتا ہے- تاکہ یہ تحفہ بہت سے آدمیوں کی طرف سے پیش کیا جا سکے اور تا کہ اس کا مادی پہلو اخلاص کے پہلو کے پیچھے بالکل چھپ جائے- بجائے اس کے کہ اس تحریک کو عام کیا جاتا یہ مناسب سمجھا گیا کہ بشمولیت قادیان جو سلسلہ احمدیہ کا مرکز ہے صرف ہندوستان کے سو شہروں کے احمدیوں کو اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے ورنہ اگر اس تحریک کو عام کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جماعت احمدیہ کے افراد اس اعتراف میں شمولیت کرتے-
خاکسار مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ قادیان
۲۷ مارچ ۱۹۳۱ء

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
باب اول
یورایکسیلنسی (YOUREXCELLENCY) دنیا کے دستور کے خلاف اور خود اپنے سلسلہ کے دستور کے خلاف میں اس وقت سلسلہ احمدیہ کی طرف سے آپ کے ہندوستان اور وائسرائلٹی (VICEROYALTY) کے عہدہ کی عنان چھوڑتے وقت بجائے کسی ایڈریس کے یہ کتاب بطور تحفہ پیش کرتا ہوں- اس سے پہلے برطانوی حکومت میں سے کسی وائسرائے کیلئے سلسلہ احمدیہ کی طرف سے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی- ہاں ملکہ وکٹوریہ آنجہانی اور ہمارے موجودہ پرنس آف ویلز کیلئے کتب لکھی گئی ہیں- ملکہ وکٹوریہ کیلئے خود بانی سلسلہ احمدیہ نے کتاب لکھی تھی اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھا تھا- اور پرنس آف ویلز کیلئے ان کے ورود ہند کے موقع پر میں نے کتاب لکھی تھی جس کا نام تحفہ ویلز رکھا گیا تھا اور جسے انہوں نے لاہور کے مقام پر قبول فرمایا تھا- پس اس کتاب کی تحریر اور پیشکش میں سلسلہ احمدیہ آپ کی خدمات کا غیر معمولی رنگ میں اعتراف کرتا ہے-
دنیا کے دستور کو مدنظر رکھتے ہوئے شاید یہ ایک عجیب سی بات معلوم ہو کہ بجائے کسی عمارت یا محکمہ کے ایک کتاب کی صورت میں یادگار قائم کی جائے اور بجائے ایڈریس کے رسالہ کے ذریعہ سے اعتراف خدمات کیا جائے- لیکن عمارات یا محکمہ جات مادی اشیاء ہیں اور ایک روحانی سلسلہ کی طرف سے بہترین یاد گار ایک علمی یاد گار ہی ہو سکتی ہے- علاوہ ازیں ہمارا یہ یقین ہے کہ ہر ایک تصنیف جو بانی سلسلہ احمدیہ نے کی ہے یا ان کے خلفاء کی طرف سے کی گئی ہے یا کی جائے گی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلعت دوام پائے گی- اور اس سلسلہ کی روزانہ بڑھنے والی تعداد اسے ہمیشہ کیلئے بطور یادگار محفوظ رکھے گی- پس سلسلہ احمدیہ کے امام کی طرف سے ایک کتاب کا لکھا جانا زیادہ مناسب اور زیادہ پائیدار یادگار ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس ذریعہ سے جب تک دنیا قائم ہے آپ کی ان مخلصانہ خدمات کی یاد تازہ رہے گی جو ہندوستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں کے ذریعہ سے آپ بجا لائے ہیں-
یورایکسیلنسی! اس میں کوئی شک نہیں کہ جس وقت ہندوستان کی حکومت کا کام ملکمعظم نے آپ کے سپرد کیا تھا اس وقت ملک کی حالت نہایت خطرناک تھی اور بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ملک روز بروز شقاق و تفرقہ کا شکار ہوتا چلا جائے گا لیکن آپ نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملک کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کے باہمی مناقشات کے طے کرنے میں آپ کی مدد کریں اور آپ کی اس خواہش کے پورا کرنے میں مدد دینے کیلئے میں نے ایک لمبا خط آپ کو لکھا تھا جو >وائسرائے کے نام ایک خط< کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکا ہے مجھے افسوس ہے کہ اس خواہش کو آپ اپنے عہدہ کے ایام میں پورا نہیں کر سکے اور ملک اسی طرح فساد اور جنگ میں آج بھی مبتلا ہے جس طرح کہ پہلے مبتلا تھا- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ کے زمانہ میں یہ خیال ہندوستانیوں کے دل سے نکل گیا ہے کہ ہندو مسلم مناقشات کی بنیاد گورنمنٹ رکھتی ہے اور یہ کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت برطانیہ کے دشمنوں کے دلوں میں بھی آپ نے اپنی دیانتداری کا سکہ جما لیا ہے اور یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہے-
یورایکسیلنسی! ہندوستان اور انگلستان کے تعلقات اس حد تک خراب ہو چکے تھے کہ ہر شخص جو ہندوستان کا خیر خواہ بننا چاہے انگلستان کا دشمن کہلاتا تھا جیسا کہ مسٹر مانٹیگو سے ہوا- اور جو انگلستان کا خیر خواہ بننا چاہے ہندوستان کا دشمن کہلاتا تھا جیسا کہ اکثر گورنروں اور گورنرجنرلوں سے ہوا- ایسے حالات میں یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا کہ اس نے آپ کو یہ توفیق دی کہ اپنے جلیل القدر عہدہ کی باگ ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے آپ نہ صرف اپنے ملک کے خیرخواہ تصور کئے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان کے خیر خواہ بھی سمجھے جاتے ہیں اور دونوں ملکوں کے قدر شناس اور واقف حال آدمی آپ کو حیرت‘ عزت اور محبت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں- یہ جو کچھ ہوا یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل بھی انسان کی اندرونی نیکی ہی جذب کرتی ہے- پس اس عظیم الشان مقصد کے حصول پر میں اور جماعت احمدیہ آپ کو مبارکباد کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ کا طریق عمل آپ کے بعد آنے والوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گا-
یورایکسیلنسی! ایک مذہبی جماعت کے افراد ہونے کے لحاظ سے میں اور جماعت احمدیہ سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے آپ کے مذہبی جوش کو دیکھتے ہیں- اس دہریت اور مادیت کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس پر توکل بہت ہی مفقود ہو رہا ہے لیکن آپ کی تقریریں اور آپ کے گردو پیش رہنے والے لوگ اس امر کے شاہد ہیں کہ آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ پر یقین اور اس کی امداد پر بھروسہ رہا ہے اور ان مادی وسائل کے علاوہ جو قیام امن و امان کیلئے آپ استعمال کرتے رہے ہیں آپ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف بھی نگاہ رکھی ہے اور آپ کے اس طریق نے ہمارے دلوں میں خاص طور پر گھر کر لیا ہے- یہ قدرتی بات ہے کہ جو اپنے پیارے سے پیار کرے اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے- جہاں انگلستان کے لوگوں کو آپ سے اس لئے محبت پیدا ہو گئی ہے کہ آپ انگلستان سے محبت رکھتے ہیں اور ہندوستان کے لوگوں کو آپ سے اس لئے محبت ہو گئی ہے کہ آپ ہندوستان سے محبت رکھتے ہیں‘ وہاں ہماری جماعت کو آپ سے سب سے زیادہ اس وجہ سے محبت ہو گئی ہے کہ آپ ہمارے پیارے رب سے محبت رکھتے ہیں-
یورایکسیلنسی! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ مسیحی ہیں اور ہم مسلمان- اور ایک مسیحی اور ایک مسلمان کے الوہیت کے نقشہ میں بہت کچھ فرق ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے جو مختلف مذاہب کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ہیں سب مذاہب میں خدا تعالیٰ کے متعلق ایک ہی جذبہ کار فرما ہے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے سے خواہ وہ کوئی اور کیسی ہی صفات کا مالک کیوں نہ ہو تعلق پیدا کرنے کی خواہش ہے- پس اس خواہش میں آپ کو مشترک دیکھ کر باوجود مذہبی اختلاف کے ہم اپنے دلوں میں آپ سے ایک اتحاد دیکھتے ہیں اور اس سے زیادہ اتحاد کے اللہ تعالیٰ سے متمنی ہیں کہ جو اس سے کچھ بھی محبت رکھتے ہیں وہ انہیں ضائع نہیں کرتا اور ضرور ان کیلئے اپنی ہدایت کو مکمل کرتا ہے- ہم امید کرتے ہیں کہ ہندوستان کے امراء جن کی امارت اور ریاست نے انہیں خدا تعالیٰ اور اس کی عبادت سے مستغنی کر دیا ہے آپ کی مثال کو دیکھ کر ندامت محسوس کریں گے اور اپنی اور اپنی رعایا کی مادی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ کریں گے-
یورایکسیلنسی! اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کو پھر اس ملک میں واپس آنے کا موقع ملے گا یا نہیں اور بظاہر امام جماعت احمدیہ کے دوبارہ انگلستان جانے کا احتمال بھی کم ہی معلوم ہوتا ہے پس باوجود اس کے کہ انگلستان میں ہماری جماعت کی طرف سے ایک نائب رہتا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے سلسلہ سے عموماً اور انگلستان کی جماعت احمدیہ سے خصوصاً دلچسپی رکھیں گے ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے احمدی آپ کو کلی طور پر الوداع کہہ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر آپ کی عظیم الشان کامیابیوں پر آپ کو مبارک باد کہنے کے علاوہ چند خواہشات کا بھی اظہار کریں-
ہم امید کرتے ہیں کہ وہ کام جسے آپ نے بعض وقت اپنی سیاسی عزت کو خطرہ میں ڈال کر سر انجام دیا ہے اس کی تکمیل میں آپ انگلستان پہنچ کر پہلے سے بھی زیادہ سرگرم رہیں گے- ہماری مراد اس سے آزادی ہند کا کام ہے جس کی خواہش میں ہم کسی طرح کانگریس یا دوسری جماعتوں سے پیچھے نہیں کیونکہ اپنے ملک کی غلامی سوائے بیوقوف یا غدار کے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا- لیکن ایک امر ہے جس کی طرف ہم آپ کی توجہ پھرانی چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے-
برطانیہ سے دانستہ یا نادانستہ مسلمانوں کو اس ملک میں سخت نقصان پہنچا ہے- مسلمانوں کی حکومت انگریزی حکومت کے قیام سے طبعا تباہ ہو گئی ہے- اسلامی ریاستیں جیسے کرناٹک‘ بنگال‘ اودھ‘ میسور‘ جھجھر اور سندھ وغیرہ ہیں انگریزی حکومت کے قیام سے مٹ گئی ہیں بلکہ مسلمانوں کا تمدن اور ان کی قومیت بھی انگریزی حکومت کے قیام سے تباہ ہو گئی ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے ہندوستان میں طاقت پکڑنے سے پہلے اسلامی مرکزی حکومت کمزور ہو گئی تھی اور جنوب میں مرہٹے سر اٹھا رہے تھے اور پنجاب میں سکھ لیکن مرہٹوں کو احمدشاہ ابدالی کچل چکا تھا اور سکھ تھوڑا عرصہ اپنی شان دکھا کر خانہ جنگی میں مصرورف ہو گئے تھے- میسور اور حیدر آباد نئی امنگوں کے ساتھ اٹھ رہے تھے اور غالب گمان تھا کہ اگر انگلستان کا قدم درمیان میں نہ آتا تو چند سال میں ایک نئی زبردست اسلامی حکومت اسی طرح ہندوستان میں قائم ہو جاتی جس طرح مغلوں سے پہلے بارہا ہو چکی تھی- پس انگلستان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب انگلستان ہندوستان کو آزادی دیتا ہے تو وہ ہندوئوں کو اس حالت سے سینکڑوں گنے قوی چھوڑ کر جاتا ہے جس حالت میں کہ اس نے انہیں پایا تھا اور مسلمانوں کو اس حالت سے سینکڑوں گنے کمزور کر کے جاتا ہے جس حالت میں کہ اس نے انہیں پایا تھا- کیا ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ امر بعید از عقل ہو گا اگر مسلمانوں کے دل انگلستان کی محبت سے اس قدر لبریز نہ ہوں جس قدر کہ وہ ان سے امید کرتا ہے؟ لیکن اگر باوجود ان واقعات کے مسلمان حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرنے پر آمادہ ہیں تو کیا یہ مسلمانوں کے وسعت حوصلہ کی علامت نہیں اور کیا انگلستان کا بھی اس وقت جب کہ وہ ہندوستان کی عنان حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کرنے لگا ہے یہ فرض نہیں کہ وہ دیکھے کہ اس تغیر کے نتیجہ میں مسلمان اور بھی تباہ نہ ہو جائیں بلکہ انہیں علمی‘ تمدنی اور مذہبی ترقی کرنے کا موقع حاصل رہے اور یقیناً مسلمانوں کے مطالبات میں اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں کی گئی- اور اگر انگلستان ایسا نہیں کرے گا تو مسلمانوں کو ہمیشہ انگریزوں سے یہ جائز شکایت رہے گی کہ انہوں نے ہندوستان میں آ کر یا اپنا فائدہ کیا یا ہندوئوں کا- مسلمانوں کا فائدہ کرنا تو درکنار ان کی طاقت کو اس نے توڑ کر ہمیشہ کیلئے انہیں نکما کر دیا- کیا آپ سا مذہب سے لگائو رکھنے والا انسان یہ پسند کرے گا کہ تاریخ انگلستان کے متعلق ان واقعات کا اظہار کرے جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں- پس میں اور تمام جماعت احمدیہ بلکہ ہر ایک مسلمان آپ سے امید کرتا ہے کہ آپ انگلستان پہنچ کر اپنے دوستوں کو خصوصاً اور عام انگلستان کی پبلک کو عموماً اسلامی نقطئہ نگاہ سے واقف کریں گے اور اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہونے سے انگلستان کو محفوظ رکھیں گے جس میں اس کے مبتلاء ہو جانے کے زبردست احتمالات پیدا ہو رہے ہیں- اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی اکثریت کی اچھی رائے کا حاصل کرنا انگلستان کے لئے نہایت ضروری ہے مگر اس سے بہت زیادہ ضروری اس کیلئے اپنی عزت کی حفاظت اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے جس کی ناراضگی انسان کو ادبار کے ایسے خطرناک راستہ پر چلا دیتی ہے جس سے واپس ہونا بہت مشکل ہوتا ہے-
یورایکسیلنسی! میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ دوسروں کو تباہ کر کے اپنی قوم کو ترقی دیں- اگر کبھی بھی خدانخواستہ مسلمان ہندوئوں یا کسی اور قوم کے حقوق کے تلف کرنے پر آمادہ ہوئے تو میں اور میری جماعت سب سے پہلے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے اور کسی مخالفت یا نقصان کی پرواہ نہیں کریں گے- لیکن احمدی جماعت اس امر کو بھی کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ مسلمانوں کو دوسری قوموں کے رحم پر چھوڑ دیا جائے اور ان کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد ان کی اجتماعی حیثیت کو بھی برباد کر دیا جائے اور ایک دوسری قوم کو ان کے سروں پر بٹھا دیا جائے اور اسلام کو آزادانہ طور پر پرامن طریق سے ترقی کرنے کے ذرائع سے محروم کر دیا جائے- احمدی جماعت نے ہندوستان سے باہر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتی اور جو قربانی ہم نے ہندوستان سے باہر کی ہے وہی قربانی ہم ہندوستان کے اندر بھی کرنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ عدل اور انصاف کے قیام کیلئے جو قربانی بھی کی جائے کبھی ضائع نہیں جاتی- لیکن ہم ساتھ ہی آپ سے اور آپ جیسے نیک ارادے رکھنے والے دوسرے دوستوں سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ایسی صورت پیدا نہیں ہونے دیں گے کہ ہندوستان ایک لمبے عرصہ تک کیلئے فتنہوفساد میں مبتلا ہو جائے اور اس کی آزادی اس کیلئے *** کا موجب ثابت ہو- اگر ایسا ہوا تو یہ امر ہندوستان کیلئے تکلیف کا موجب ہو گا ہی انگلستان بھی علاوہ مورد الزام بننے کے اس فتنہ کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکے گا- پس میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات جو بالکل جائز اور مناسب ہیں اور ان کے جدا گانہ تمدن اور ان کی گری ہوئی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کی اخلاقی ذمہ واری انگلستان پر بھی ہے نہایت ضروری ہیں پورا کرنے کے لئے آپ انگلستان میں جا کر پوری کوشش کریں گے اور ثابت کر دیں گے کہ جہاں آپ ہندوستان کو ہومرول (HOMERULE) دلانے کی کوشش میں گلیڈسٹون (GLADSTONE) ثابت ہوئے ہیں وہاں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے آپ ڈی اسرائیلی سے کم جوش نہیں رکھتے تاکہ برطانوی افراد کا زور اس کے کمزور کرنے میں نہیں بلکہ اس کے مضبوط کرنے میں خرچ ہو- اس کے بدلہ میں میں جماعت احمدیہ اور اس کے دوستوں کی طرف سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ خواہ ہندوستان کی دوسری جماعتیں کچھ بھی کریں ہم لوگ ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھیں گے کہ برطانوی ایمپائر (EMPIRE) کو جو ہمارے نزدیک باوجود اپنی کمزوریوں کے دنیا کے اتحاد کا نقطہمرکزی بننے کی اہلیت رکھتی ہے مضبوط کرنے اور ہندوستان سے اس کے تعلق کو خوشگوار طور پر بڑھانے کیلئے کوشاں رہیں گے اور یہ ایک ایسی جماعت کا وعدہ ہے جس کے وعدوں کی قیمت اور سچائی پر گزشتہ پچاس سالہ تاریخ شاہد ہے-
باب دوم
یورایکسیلنسی! آپ کو اس عظیم الشان کام پر مبارک باد دینے کے بعد جس کی وجہ سے مجھے امید ہے کہ آپ کا نام انگلستان کے بہترین آدمیوں کے ساتھ ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائے گا میں آپ کے سامنے وہ بہترین تحفہ پیش کرتا ہوں جو دنیا کے خزانوں میں آپ کو نہیں مل سکتا اور جس کا ملنا محض خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور وہ تحفہ وہ پیغام حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترقی دینے اور اپنا قرب عطا کرنے کیلئے ارسال فرمایا ہے-
ممکن ہے کہ آپ پر یہ دعوت گراں گذرے یا آپ اسے ایک مجنونانہ خیال سمجھیں لیکن ہر انسان اپنے یقین کے مطابق عمل کرتا ہے اور ہم چونکہ آپ سے محبت رکھتے اور آپ کی قدر کرتے ہیں اس لئے اس امر پر مجبور ہیں کہ اپنے دل کے یقین کے مطابق وہ صداقت آپ کے سامنے پیش کریں جس سے بڑھ کر کوئی چیز اس دنیا میں قیمت نہیں رکھتی-
یورایکسیلنسی! وہ خدا جس نے آدم کو بھیجا اور نوح کو مبعوث کیا اور ابراہیم پر اپنا فضل کیا اور موسیٰ کو اپنا برگزیدہ بنایا اور مسیح علیہ السلام کو اپنے جلال کے تخت پر اپنے دائیں جگہ دی اسی نے حضرت مسیح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری زمانہ کا نجات دہندہ کر کے مبعوث فرمایا ہے تاکہ آپ وہ سب کچھ سکھائیں جس کی برداشت اس سے پہلے دنیا نہیں رکھتی تھی اور تا آپ سے دنیا تسلی پائے اور دنیا کا سردار آپ کے ذریعہ سے ہمیشہ کیلئے قید کیا جائے- اور پھر اسی خدا نے اس زمانہ میں حضرتمسیح ناصری کی پیشگوئیوں کے تحت حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مسیح علیہ السلام کی بعثتثانی قرار دے کر مبعوث فرمایا ہے کیونکہ لکھا تھا کہ اس کا آنا مشرق سے ہو گا اور اسی طرح طبعیسامانوں سے ہو گا جس طرح مشرق سے مغرب کی طرف روشنی پھیل جاتی ہے- ۱~}~اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس ملک سے واپسی پر اللہ تعالیٰ کے اس پیغام پر غور کریں گے جو غریب اور امیر‘ بادشاہ اور رعایا سب کیلئے برابر ہے اور بندوں کے ساتھ معاملہ میں ایک اعلیٰ نمونہ دکھانے کے بعد خالق کے تعلقات کو بھی اعلیٰ پیمانہ پر قائم کریں گے-
یورایکسیلنسی! آپ کی قوم پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا ہے- اگر آپ انگلستان کی تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انگلستان کی ترقی غیر معمولی مشکلات کے موقع پر ایسے حوادث کے ذریعہ سے ہوتی رہی ہے جسے گو بعض لوگ اتفاق حسنہ کہہ دیں لیکن بصیرت رکھنے والے انسان ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کا جلوہ دیکھتے ہیں- اتفاق حسنہ ایک منفرد واقعہ کا نام ہوتا ہے لیکن انگلستان کی پچھلی چھ سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے غیرمعمولی حوادث جن کے ذریعہ سے انگلستان کی بعض تاریک ترین گھڑیاں بعد میں اس کی روشن ترین ساعتیں ثابت ہوئی ہیں ایک لمبے سلسلہ میں منسلک ہیں- جس کی کڑیوں کو الگ الگ دیکھ کر گو اتفاق حسنہ کہا جا سکے لیکن جنہیں مجموعی نظر سے دیکھ کر خدا تعالیٰ کی مشیت کے سوا کسی اور سبب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا- پس اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نگاہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انگلستان سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے اور وہ کام وہی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے بذریعہ الہام بتایا ہے- یعنی ایک دن انگلستان اسلام کو قبول کر کے اسی طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا وارث ہونے والا ہے جس طرح اس نے دنیا کی بادشاہت سے ورثہ پایا ہے-۲~}~
انگلستان جس قدر بھی خوش ہو بجاہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسند ٹھہرا- وہ ایک دلہن ہے جسے آسمانی دولہا نے اپنے لئے پسند کر لیا‘ ایک موتی ہے جو جوہری کی نگاہ میں جچ گیا‘ ایک درخت ہے جسے باغبان نے باغ کے وسط میں لگایا-
یورایکسیلنسی! بے شک سیاسی مسائل اپنے اندر دلوں کو جذب کر لینے کی طاقت رکھتے ہیں اور میدان سیاست میں کامیاب ہونے والا بہت عزت و شہرت پاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پانے کی کوشش کرنے والا اس سے بھی زیادہ عزت و شہرت پاتا ہے- یورپ و ایشیا میں بڑیبڑے سیاسی لوگ اور بادشاہ گزرے ہیں لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو گلیل و یروشلم کے چندماہیگیروں اور محصول لینے والوں کے برابر شہرت و عزت کے مالک ہو سکے ہیں- یقیناً وہ گلیل کے ماہی گیر خدا تعالیٰ کی نظر میں بھی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی بادشاہوں سے بھی زیادہ عزتوشہرت رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا تعلق ایک خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے پیدا کیا- اور اس میں کیا شک ہے کہ دنیا کے خادموں سے اللہ تعالیٰ کے خادم زیادہ مرتبہ پائیں گے- پس جس طرح آج سے انیس سو سال پہلے ایک خدا کے برگزیدہ سے تعلق نے دنیوی لحاظ سے ادنیٰحیثیت کے آدمیوں کو شہرت و عزت کے بلند ترین مینار پر جا کھڑا کیا اسی طرح اس وقت بھی اس کے مثیل کے ساتھ تعلق انسان کو بلند ترین مقامات پر پہنچانے کا موجب ہوا ہے اور ہو گا- ہاں خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک چور کی طرح آتی ہے- ۳~}~اور اس وجہ سے شروع شروع میں اس کے خادموں سے چوروں والا ہی سلوک کیا جاتا ہے- وہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں اور انہیں دکھ دیا جاتا ہے اور تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں اور دنیا سمجھ لیتی ہے کہ اب وہ یقیناً نیست و نابود ہو جائیں گے اور ان کا نام تک مٹ جائے گا- لیکن وہ نہیں جانتی کہ حقیقی عزت کے وہی لوگ مستحق ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کیلئے ذلت کو برادشت کرتے ہیں اور آسمانی تخت پر وہی لوگ بٹھائے جاتے ہیں جو صلیب پر لٹکائے جانے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ابدی بادشاہت کا تاج انہی کے سر پر رکھا جاتا ہے کہ جو کانٹوں کا تاج پہننے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کا جام انہی کو ملتا ہے جن کے ہونٹ بدگوئی اور *** کے تیز اور تلخ سرکہ سے آشنا ہو چکے ہوتے ہیں- اور درحقیقت ابدی زندگی خدا تعالیٰ کی راہ میں مر جانے کا ہی نام ہے کیونکہ جو اس راہ میں مرتے ہیں اس کی غیرت انہیں پھر کبھی مرنے نہیں دیتی- اور یہ دروازہ جس طرح آج سے انیس سو سال پہلے کھلا تھا آج بھی کھلا ہے- مبارک وہ جو اس دروازہ سے داخل ہوتا ہے- مبارک وہ جو >ہوشعنا< ۴~}~کہتے ہوئے خدا کے برگزیدہ کو قبول کرتا ہے- مبارک وہ جو خدا کی بادشاہت میں اس وقت داخل ہوتے ہیں جب دنیا داروں کی نگاہ میں وہ ایک دوزخ کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ وہی اپنے باپ کے دائیں اور بائیں تخت پر بٹھائے جائیں گے اور اس کی بادشاہت میں انہی کو حصہ دیا جائے گا-
یورایکسیلنسی! آسمانی قانون دنیوی قانون سے مختلف ہوتا ہے- آسمانی قانون میں تمثیلوں میں کلام کیا جاتا ہے تا راستباز اور متکبر کا امتحان کیا جائے اور سچے اور جھوٹے کا تعلق ظاہر کیا جائے- ہر اک کو جو خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھتا ہے آسمانی نور دیا جاتا ہے تا وہ اس نور کی روشنی میں سچائی کی راہ کو معلوم کرے مگر جو لوگ دل کے کھوٹے ہوتے ہیں وہ لفظوں کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں اور اس وقت جب کہ خدا کا جلال عریان ہو کر سامنے آتا ہے وہ اپنی آنکھوں پر عبارتوں کا نقاب ڈال لیتے ہیں تب ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جس کے وہ مستحق تھے- لفظ ان کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں اور معنی ان کے- جنہوں نے معنوں پر نگاہ کی اور اس امر کو یاد رکھا کہ پہلے نوشتوں میں لکھا گیا تھا کہ وہ تمثیلوں میں کلام کرے گا- اور اس میں کیا شک ہے کہ تمثیلی کلام اس زمانہ کے لوگوں کیلئے نہیں بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کیلئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے-
ہر دیکھنے والا دیکھ سکتا ہے اور سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ سورج اندھیرا ہو چکا ہے اور چاند کی روشنی جاتی رہی ہے اور ستارے گر رہے ہیں اور آسمان کی قوتیں ہلائی گئی ہیں- ۵~}~ کیونکہ آسمان اور زمین کا تعلق قطع ہو گیا ہے اور انسان نے اپنے پیدا کرنے والے کا خیال بالکل ترک کر دیا ہے اور اس سے منہ موڑ کر اپنی تمام تر توجہ دنیا ہی کی طرف پھیر دی ہے- اور تمثیلی زبان میں اس پیشگوئی کا یہی مطلب تھا کہ آسمان کا تعلق زمین سے قطع ہو جائے گا اور دین کی حکومت جاتی رہے گی اور خدا تعالیٰ کا نور رک جائے گا اور اس میں کیا شک ہے کہ جس قدر دین سے بعد اور خدا تعالیٰ سے بے پرواہی اس زمانہ میں ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی- پہلے بھی لوگ بے دین ہوتے تھے لیکن ان میں سے اکثر محسوس کرتے تھے کہ وہ غلطی کے مرتکب ہیں لیکن اس زمانہ میں جو لوگ دین چھوڑ رہے ہیں وہ اس یقین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں کہ وہ ظلمت سے نور کی طرف آ رہے ہیں اور پرانے وہموں کو ترک کر کے علم کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں-
اسی طرح کہا گیا تھا کہ قوم قوم پر چڑھے گی اور بادشاہت بادشاہت پر حملہ کرے گی اور کتنی جگہوں میں زلزلے ہونگے اور کال پڑیں گے اور فساد اٹھیں گے ۶~}~ سو ایسا ہی ہوا- اس زمانہ میں نہ صرف ایک عالمگیر جنگ میں بادشاہتوں نے بادشاہتوں پر حملہ کیا ہے بلکہ قومیں بھی دوسری قوموں پر چڑھ رہی ہیں- اس سے پہلے کوئی زمانہ نہیں گذرا جب کہ ایک ہی وقت میں بادشاہتیں دوسری بادشاہتوں پر حملہآور ہوں اور قومیں قوموں پر حملہ آور ہوں لیکن اس زمانہ میں یہ دونوں قسموں کی جنگیں ایک ہی وقت میں جاری ہیں- حکومتیں ہی حکومتوں پر حملہآور نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے مختلف گروہ بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں کہیں لیبر(LABOUR) اور کہیں کیپٹل (CAPITAL) کا سوال ہے‘ کہیں مشرق اور مغرب کا سوال ہے‘ کہیں تجارت اور زمیندارے کی بحث ہے‘ کہیں شہری اور دیہاتی کا جھگڑا ہے کہیں ہندو اور مسلم کی لڑائی ہے تو کہیں کنفیوشس کے ماننے والوں اور مسیحیوں میں فساد برپا ہے- غرض قوموں اور گروہوں اور حکومتوں حکومتوں میں ایک ہی وقت میں اس قدر اختلاف رونما ہو رہا ہے کہ دیکھنے والے دنگ ہیں کہ دنیا کو کیا ہو جائے گا-
اور یہ جو کہا گیا تھا کہ زلزلے ہونگے اور کال پڑیں گے سو زلزلے گزشتہ تیس سال میں اس قدر آئے ہیں کہ پچھلی سات آٹھ صدیوں کے زلزلے اس کے برابر اموات اور نقصانمال نہیں پیش کر سکتے اور کال باوجود ریلوں اور جہازوں کی ایجاد کے ایسا پڑا ہے کہ روس اور ہندوستان اور چین اور کئی علاقوں میں اس قدر تعداد میں لوگ اس کے باعث تباہ ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر تباہی نہ آئی تھی-
غرض جو کچھ خدا کے برگزیدہ مسیح نے اپنی دوبارہ بعثت کے وقت کے متعلق کہا تھا وہ لفظبلفظ پورا ہو چکا ہے اور اب مبارک ہے وہ جو وقت کو پہچانے اور اس کے ظہور کی تلاش کرے کیونکہ یہ ازل سے مقدر تھا کہ مسیح کی دوبارہ آمد اسی طرح پوشیدہ ہو جس طرح کہ پہلی دفعہ ہوئی تھی تا سچوں اور جھوٹوں میں فرق کیا جائے اور ہوشیار اور غافل میں امتیاز ہو-
وہ جس نے آنا تھا نوشتوں کے مطابق آدھی رات کو آیا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مامور ہمیشہ تاریکی کے زمانہ میں ہی آیا کرتے ہیں وہ لوگوں کے نور سے حصہ لینے نہیں آتے بلکہ لوگوں کو تاریکی سے نکالنے کیلئے آتے ہیں- پس ان کی آمد کا زمانہ وہی ہوتا ہے جب لوگ خدا تعالیٰ اور اس کے دین سے انتہائی درجہ غفلت میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان سے دوستی کر لیتے ہیں- پس اسی سنت اللہ کے مطابق اس زمانہ کا مسیح اور آسمانی بادشاہت کا دولہا ایسے ہی وقت میں آیا جب کہ کنواریاں سو چکی تھیں اور ان کی مشعلوں کا تیل ختم ہو چکا تھا سوائے چند کے جنہوں نے ہوشیاری سے تیل محفوظ رکھ چھوڑا تھا اور جو دولہا کے جلوس کے ساتھ شامل ہو گئیں-]71 [p۷~}~ باقی سب نہ صرف جلوس میں شامل نہیں ہوئیں بلکہ افسوس کہ وہ تمثیل کی کنواریوں کی مانند تیل کی تلاش میں بھی نہیں گئیں اور سوتی ہی رہیں- مگر اللہ تعالیٰ کا رحم بہت وسیع ہے گو کہا گیا تھا کہ جو سوتی رہیں ان کے لئے شادی کے گھر کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کے رحم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر اک جو اپنی غفلت سے تائب ہو کر دولہا کی طرف قدم اٹھائے اسے قبول کیا جائے تا شیطان کی حکومت کو ختم کیا جائے اور دنیا کا سردار ہمیشہ کیلئے بعد میں ڈال دیا جائے- پس یورایکسیلنسی! اس تمنا کو دیکھ کر جو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کیلئے پائی جاتی ہے میں آپ کو بھی بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کر دی گئی ہے اور خدا کا مسیح بادلوں پر سے یعنی دنیا والوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہو کر اور صرف آسمان والوں کی نظروں کے سامنے دنیا میں نازل ہو گیا ہے- لیکن اس کی آمد پر وہی ہوا جو پہلے ایلیا کے نزول کے وقت میں ہوا تھا یعنی لوگوں نے آسمانی تمثیل کو نہیں سمجھا اور یہ کہہ کر منہ پھیر لیا کہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہی مسیح آسمان سے اترے گا جو انیس سو سال پہلے اترا تھا- پس جب تک وہ فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نہیں اترے گا ہم کسی مسیح کو نہیں مانیں گے- لیکن یورایکسیلنسی! اس سوال کو اللہ تعالیٰ نے خود مسیح علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی پہلی بعثت میں حل کر دیا ہے اور مسیح کے نزول سے پہلے ایلیا کے دوبارہ نزول کی پیشگوئی میں اس قسم کے تمثیلی کلام کی حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے- پس آنے والا مسیح آسمان سے نہیں بلکہ اسی دنیا سے پیدا ہونا تھا اور بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں ظاہر ہو چکا لوگ چاہیں تو قبول کریں اور جس کسی کے کان سننے کے ہوں سنے- جو لوگ باوجود کل پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے اسے تسلیم نہیں کریں گے وہ انتظار کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ تھک کر ان میں سے بعض تو اس کی آمد ہی کے منکر ہو جائیں گے جس طرح یہود نے کیا اور بعض مایوسیوں کے گڑھوں میں گر جائیں گے اور امنگوں اور امیدوں سے جو اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ فضلوں میں سے ہیں محروم ہو کر زندگی کی ہر قسم کی دلچسپی کو کھو بیٹھیں گے-
کاش کہ دنیا دیکھتی کہ خدا تعالیٰ کا مقدس کس طرح باوجود مخالفت کے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے برگزیدوں کو زمین کی حد سے آسمان کی حد تک چاروں طرف سے اکٹھا کر رہے ہیں- ۸~}~ جب وہ ظاہر ہوا اس کے اہل وطن یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ چند دن میں اسے پیس ڈالیں گے لیکن آج اس کی طرف بلانے والے اور اس پر ایمان لانے والے ہندوستان سے باہر انگلستان‘ فرانس‘ جرمن‘ ہالینڈ‘ امریکہ شمالی اور جنوبی‘ آسٹریلیا‘ سماٹرا جاوا‘ چین‘ روس‘ ایران‘ افغانستان‘ عرب‘ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ مصر‘ ٹرکی‘ الجزائر‘ مراکش‘ نائیجیریا‘ گولڈ کوسٹ )گھانا‘( سیرالیون‘ کینیا‘ یوگنڈا‘ ٹانگانیکا)تنزانیہ‘( زنجبار‘ نٹال‘ کیپکالونی وغیرہ ممالک میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور روز بروز بڑھ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ جب یہ ہلال‘ بدر ہو کر مطلع عالم پر چمکے گا- پس مبارک ہیں وہ جو اب بھی اس کی صداقت پر غور کر کے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے اور ابدی زندگی پاتے ہیں کیونکہ انسان روٹی سے نہیں بلکہ کلام سے زندہ رہتا ہے-۹~}~
باب سوم
یورایکسیلنسی! میں آپ کو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی دعوت دینے کے بعد اور یہ بتانے کے بعد کہ سلسلہ احمدیہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے جو اناجیل میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق مذکور ہیں اختصار کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کیا ہے تا کہ آپ اس کے مقصد اور اس کی غرض سے واقف ہو جائیں-
۱- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو اپنے دوبارہ آنے کی خبر دی تھی وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پوری ہو گئی ہے اور یہ کہ دنیا کا نیا دور اب اسی تعلیم پر مبنی ہوگا جو مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے-
۲- سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق جس نجات دہندہ نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی آخری شریعت سکھانے کیلئے آنا تھا وہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ بانی مذہب اسلام تھے آپﷺ~ کے وجود میں گزشتہ انبیاء کی سب پیشگوئیاں پوری ہو گئیں- آپﷺ~ آخری شریعت لانے والے رسول تھے اور قرآن کریم آخری شریعت کی کتاب ہے- آنحضرت ~صل۲~ کے بعد کوئی اور ایسا رسول نہ نیا نہ پرانا آ سکتا ہے جس نے آپ سے فیض حاصل نہ کیا ہو اور جس کا کام آپ کا کام نہ کہلا سکتا ہو کیونکہ دنیا کی ابدی استادی کا مقام صرف آپ~صل۳~کو ہی حاصل ہے اور کوئی شخص اس میں آپﷺ~ کا شریک نہیں ہو سکتا‘ اور اسی وجہ سے آپﷺ~ >نبیوں کی مہر< کہلاتے ہیں-
۳- مذکورہ بالا عقیدہ کے ماتحت سلسلہ احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح موعود کا کام صرف قرآنکریم کی تشریح اور اس کے مطالب کا ہی بیان تھا ورنہ اس نے کوئی جدید تعلیم نہیں دینی تھی بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا یہ کام تھا کہ وہ تورات کی تشریح کرتے جیسا کہ خود انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ-:
یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا- میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں-۱۰~}~
یورایکسیلنسی! بعض تعلیمات سلسلہ احمدیہ کی آپ کو ایسی نظر آئیں گی جو بظاہر مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور جو اس مشہور تعلیم کے بھی خلاف ہیں جو قرآن کریم کی طرف منسوب کی جاتی ہے لیکن اس کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نئی تعلیم دی ہے بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں زمانہ نبوت سے بعد کی وجہ سے بعض غلط عقائد کا رواج ہو گیا تھا اور ان عقائد کے ماتحت وہ قرآن کریم کے بھی غلط معنی کرنے لگ گئے تھے- مسیح موعود علیہ السلام نے آکر ان غلط عقائد کی اصلاح کر دی اور قرآن کریم کی تفسیر قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے مطابق کر کے ان غلط تفسیروں کو رد کر دیا جو اس کی طرف زبردستی منسوب ہو رہی تھیں- پس حضرت مسیح موعود نے کوئی نئی تعلیم نہیں دی صرف مسلمانوں کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے- ہاں بعض باتیں آپ نے نئی بھی بیان کی ہیں لیکن وہ بھی قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ قرآن کریم سے ہی ہیں لیکن چونکہ وہ اس زمانہ سے مخصوص تھیں دنیا کو اس سے پہلے ان کی معرفت عطا نہیں کی گئی تھی-
۴- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اس نے دنیا کو اپنے ارادے اور اپنے حکم سے پیدا کیا ہے‘ وہ ازل سے ہے اور اس کیلئے فنا نہیں‘ وہ مالک ہے سب قدرتوں کا اور قادر ہے اپنی مشیت پر اور اس وجہ سے کسی بیوی یا بیٹے یا مددگار کا محتاج نہیں‘ واحد ہے لاشریک ہے بڑے سے بڑا انسان خواہ کوئی ہو اس کا بندہ اور اس کا فرمانبردار ہے‘ انسان کیلئے اس کی پرستش کے سوا کسی کی پرستش جائز نہیں خواہ وہ موسیٰ‘ عیسیٰ‘ محمدعلیھم السلام والصلوۃ جیسی ہستیاں ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حضرت مسیح ناصری نے فرمایا ہے کہ-:
سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن! وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خداوند ہے اور تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر اول حکم یہی ہے-۱۱~}~ سلسلہ احمدیہ کی بھی یہی تعلیم ہے کہ انسان کا دل اور اس کی جان کلی طور پر خدا کیلئے ہونے چاہئیں بندوں کو خدائی کا مقام دینا درست نہیں ہے-
۵- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے اور جس طرح پہلے نشان دکھاتا تھا اب بھی دکھاتا ہے اور جس طرح پہلے اس کے فرشتے اس کے بندوں پر نازل ہوتے تھے اب بھی اترتے ہیں اور یہ کہ وہ مذہب جس کی بنیاد قصوں پر ہو مذہب نہیں ایک کہانی ہے اور وہ عقیدے جن کی بنیاد صرف روایت پر ہو عقیدے نہیں بلکہ توہمات ہیں- پس سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ساتھ تازہ نشانات رکھتا ہو- اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہم نے اس قدر نشانات دیکھے ہیں کہ جو شمار ¶میں نہیں آ سکتے اور آپ کے طفیل اور آپ سے تعلق رکھ کر ہم میں سے ہزاروں نے کلام الہی سے بقدر اپنے ظرف کے حصہ پایا ہے- چنانچہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں- میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے رئویا اور الہامات سے حصہ پایا ہے اور سینکڑوں امور قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائے ہیں جو اپنے وقت پر جا کر پورے ہوئے حالانکہ اس سے پہلے سامان ان امور کے وجود میں آنے کے بالکل مخالف تھے- پس یورایکسیلنسی! ہم لوگوں کا ایمان مشاہدہ پر جو عینی بھی ہے اور ذاتی بھی‘ مبنی ہے اور صرف پرانے قصوں اور گزشتہ کتابوں پر ہی مبنی نہیں- اور ہم یقین سے کہتے ہیں کہ کسی ملک کا آدمی ہو خواہ یورپ کا خواہ امریکہ کا خواہ افریقہ کا خواہ کسی اور ملک کا اگر قرآن کریم اور رسول کریم ~صل۲~ پر ایمان لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کرے تو اللہ تعالیٰ کے کلام سے اسے اپنے ایمان کے مطابق حصہ مل سکتا ہے-
۶- سلسلہ احمدیہ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو پیدا کر کے بے دخل نہیں ہو گیا اور اب بھی سب کام اسی کے حکم اور اسی کے اشارہ سے چلتے ہیں- وہ قادر خدا ہے جس کا امر دنیا کے ہر فعل میں ہو رہا ہے- دنیا کا ایک ذرہ بھی اس کے اذن بغیر ہل نہیں سکتا- سائنس اور ہیئت کے قوانین کا ظہور صرف اس کے ازلی قانون کے ماتحت ہی نہیں ہے بلکہ ہر اک نتیجہ جو اب بھی نکل رہا ہے اس کے حکم سے اور اس کے ارادہ کے ماتحت نکلتا ہے- وہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور معجزانہ طاقتیں ان کیلئے ظاہر کرتا ہے- اور جب وہ کسی بندے کی تائید میں ہو جاتا ہے تو دنیا کی حکومتیں اور طاقتیں اس کے حکم کے مقابلہ سے عاجز آ جاتی ہیں اور تمام ظاہری سامان بے کار اور سب مادی طاقتیں بے اثر ہو جاتی ہیں- دنیا کے لوگ بے شک اس امر پر ہنسیں لیکن ہم نے ہزاروں لاکھوں اس امر کے مشاہدات کئے ہیں اور کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی اس قدرت نمائی کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ باوجود اس کے کہ دنیا کے سب مذاہب احمدیت کی مخالفت پر آمادہ ہیں اور دنیا کی سب طاقتیں اسلام کو مٹانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن پر امن ذرائع سے اور معجزانہ حالات کے ماتحت سلسلہ احمدیہ دنیا میں پھیل جائے گا اور اس کے ذریعہ سے اسلام کو باقی سب ادیان پر علمی غلبہ حاصل ہو گا-
۷- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنے قرب کیلئے پیدا کیا ہے- پس اسے کسی اور واسطہ کی ضرورت نہیں ہے- واسطہ کو تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس مقصد کیلئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ دوسروں کا احسان ہے کہ وہ ہمیں اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں اور اگر ہم یہ تسلیم کریں تو ماننا پڑتا ہے کہ انسانی پیدائش کا کوئی اعلیٰ مقصد ہے ہی نہیں مگر دنیا کا ذرہ ذرہ اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے- پس حق یہی ہے کہ انسان قرب الہی کیلئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہوما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ۱۲~}~ میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں یعنی میری صفات کو اپنے اندر پیدا کریں- بائیبل نے بھی اس طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ-:
>تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند بناویں< ۱۳~}~
۸- سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ نجات کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لوگوں کا حق نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے فضل کے یکساں مستحق رہے ہیں اور اس وجہ سے یہ خیال کہ خدا تعالیٰ نے ہدایت کو صرف بنی اسرائیل میں یا عربوں میں یا ہندوستانیوں میں محصور کر دیا ایک لغو اور بیہودہ خیال ہے- سب انسان خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور جس طرح اس کا سورج سب کیلئے چڑھتا ہے اسی طرح اس کی ہدایت بھی سب کیلئے ہے- ہاں خود انسانوں کے فائدہ کیلئے اس نے پہلے مختلف اقوام کی طرف الگ الگ انبیاء ارسال کئے اور آخر میں جب انسان خدا تعالیٰ کی سب باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو گیا تو اس نے وہ >روح حق< بھیجی جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس کی نسبت انجیل میں آتا ہے کہ-:
>میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی<- ۱۴~}~
غرض سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ کے نبی گذرے ہیں اور اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسری قوموں کے گزشتہ بزرگوں کو بھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ وہ سب خدا کی طرف سے تھے اور اس وجہ سے ہمارے لئے واجب ادب ہیں- پس ہم لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے پیرو ہیں جس طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیھم السلام کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی طرح کرشنجی اور رام چندر جی اور گوتم بدھ اور زرتشت اور کنفیوشس علیھم السلام کو بھی عزتواحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یورایکسیلنسی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دنیا میں امن و امان کے قائم کرنے میں کس قدر مدد دے سکتی ہے اور ایک عظیم الشان سچائی کا اقرار کروا کے ہمیں سچائی کے کس قدر قریب کر دیتی ہے- اور ان قوموں کے دلوں کو جو یہ سمجھتی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں چھوڑے رکھا ہے کس قدر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے-
۹- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں کیونکہ کسی کی کمزوری سے ہماری بڑائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کر سکتی ہے- پس دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنا ہماری جماعت کا طریق نہیں- ہاں جوابی طور پر جب ہم کو یہ معلوم ہو کہ ایک قوم برابر بد گوئی میں بڑھتی جاتی ہے دفاع کے طور پر ہمیں الزامی جوابوں کے دینے کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ تعلیم دنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے اور قوموں میں صلح کرانے کیلئے نہایت ممد ہے- اور اس کا دوسرا پہلو کہ اگر کوئی قوم شرارت سے باز نہ آئے تو اس کے مقابل میں الزامیجواب دینا درست ہے درحقیقت پہلے پہلو کو مکمل کرتا ہے- کیونکہ بعض انسان اس قدر خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں کہ ان کے انسانی احساسات کو اکسانے کیلئے ایک ٹھیس کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح کہ کبھی جسم انسانی کی حفاظت کیلئے ڈاکٹر کے نشتر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طریق قابل اعتراض نہیں بلکہ بگڑی ہوئی قوم کی خیر خواہی میں داخل ہے- چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی باوجود اس کے کہ آپ کی طبیعت نہایت حلیم تھی کبھی کبھی یہ طریق اختیار کرنا پڑا جیسا کہ فریسیوں کے حد سے بڑھ جانے پر آپ کو کہنا پڑا کہ-:
>تم اپنے باپ شیطان سے ہو اور چاہتے ہو کہ اپنے باپ کی خواہش کے موافق کرو<- ۱۵~}~
غرض اس قسم کی استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر جب خود دوسری قوم کی اصلاح کیلئے الزامی جواب دینا پڑے سلسلہ احمدیہ کی تعلیم ہے کہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرو دوسرے مذاہب پر حملے نہ کرو تا کہ دنیا میں صلح اور آشتی قائم ہو اور لوگ اپنے رب کی طرف توجہ کرنے کا موقع پائیں-
۱۰- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ شریعت بطور سزا کے نہیں نازل ہوئی کیونکہ شریعت نام ہے ان احکام کا جو انسان کی روحانی‘ تمدنی اور اخلاقی ترقی کا موجب ہوتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اس کی ترقی کا بھی باعث ہوتے ہیں اور کسی کو وہ راہ بتانا جس پر چل کر وہ کامیاب ہو سکے کسی صورت میں بھی چٹی نہیں کہلا سکتا- ہم جب ایک بھولے ہوئے کو راہ دکھاتے ہیں تو وہ ہمارا ممنون ہوتا ہے یہ نہیں کہا کرتا کہ تم نے مجھ پر بوجھ لاد دیا ہے- ایک جہاز کا کپتان جسے سمندروں کا چارٹ مل جاتا ہے شکوہ نہیں کرتا بلکہ شکریہ ادا کرتا ہے- شریعت بھی درحقیقت انسانی سفر کیلئے ایک چارٹ ہے جس سے اسے راستہ کی مشکلات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور آسانی سے سفر طے کرنے کے طریق بتائے جاتے ہیں- وہ ایک گائیڈ ہے جو ہر منزل پر اس کے کام آتا ہے نہ کہ چٹی اور سزا- پس اس کی ضرورت ہر وقت انسان کو تھی اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے اسے بطور سزا نہیں نازل کیا بلکہ بطور احسان نازل کیا ہے اور اس سے زیادہ بدبختی کا دن انسان کیلئے نہیں آ سکتا جس دن کہ وہ اس راہنما سے محروم ہو جائے- مگر اللہ تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اپنے بندوں کو جو ابدی زندگی کیلئے سرگردان ہیں اس ضروری امداد سے محروم کر کے ہمیشہ کیلئے تاریکی اور ظلمت میں بھٹکتا رہنے دے-
۱۱- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کہ اس کیلئے خدا تعالیٰ کے قرب کا دروازہ کھلا رہے اور اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی اور ہستی حائل نہ ہو اسی طرح ہر انسان اپنی نجات کیلئے اپنی ہی جدوجہد کا محتاج ہے کوئی دوسرا شخص اس کی نجات کے معاملہ میں سوائے راہنمائی اور ہدایت کے اور کسی کام نہیں آ سکتا- ہر انسان کا فرض ہے کہ اپنے لئے نجات کا راستہ خود تیار کرے جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے نہایت خوبصورت الفاظ میں فرمایا ہے-
>اگر کوئی چاہے کہ میرے پیچھے آوے تو اپناانکار کرے اور اپنی صلیب اٹھا کے میری پیروی کرے<-۱۶~}~
حق بھی یہی ہے کہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو انسان کا ایمان اور اس کی وہ جدوجہد ہی کھینچ سکتی ہے جو وہ خدا سا بننے کیلئے کرتا ہے کیونکہ تب خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ مجھ سے ملنے کی کوشش کر رہا ہے پھر میں کیونکر خاموش رہوں اور اس کی امداد کیلئے ہاتھ نہ بڑھائوں- پھر وہ ہاتھ بڑھاتا ہے اور اپنے بندے کو اٹھا لیتا ہے جس طرح روتے ہوئے بچے کو ماں اٹھاتی ہے وہ اپنے بچے کو اٹھانے کیلئے کسی کی سفارش کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑی سفارش اس کے بچے کی صحیح خواہش یا اس کی چیخ ہی ہوتی ہے-
۱۲- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں نہ تو کلی طور پر آزاد ہے اور نہ کلی طور پر مجبور- بلکہ وہ اس حد تک مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے آزاد نہیں ہو سکتا اور اس حد تک آزاد ہے کہ اپنے اعمال کی جزاء سزا کا مستحق ہے- خدا تعالیٰ کسی کو بد اور کسی کو نیک نہیں قرار دیتا بلکہ وہ اعمال کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے ہدایت کرتا ہے اور اس زمانہ کے شروع ہو جانے پر ہدایت کرتا اور اعمال کے نتائج پیدا کرتا ہے- پس دنیا میں ہر واقعہ جو تقدیر کے ماتحت نظر آتا ہے درحقیقت کسی اختیاری فعل کے نتیجہ میں ہے اور ہر واقعہ جس میں انسان کلی طور پر مختار نظر آتا ہے وہ درحقیقت قانون قدرت‘ انسان کے پہلے اعمال اور اس کے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اسی وجہ سے ابتدائے دنیا سے مختلف مذاہب اور مختلف فلسفی اس امر پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ آیا انسان مجبور ہے یا مختار- اور تقدیر کے سوال نے انسان کو حیران کئے رکھا ہے- لیکن اگر لوگ اسلام کی تعلیم کو مدنظر رکھتے تو یہ جھگڑے پیدا ہی نہ ہوتے اور اگر ہوتے تو بہت جلد ختم ہو جاتے- اس میں کیا شک ہے کہ انسان اپنے اعمال پر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالے تو اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے افعال میں تقدیر و اختیار کے قانون ایک ہی وقت میں جاری ہیں-
بظاہر یہ مسئلہ ایک علمی مسئلہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت بہت اہم اور عملی مسئلہ ہے اور دنیا کی روحانی اور تمدنی ترقی کا اس پر بہت کچھ مدار ہے اور یہ مسئلہ خدا تعالیٰ کے وجود پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ انسانی اختیار اور اس کی مجبوریاں ایسی ملی ہوئی ہیں کہ سوائے ایک ایسی ہستی کے جو ذرہ ذرہ کا علم رکھتی ہو کوئی اور ہستی انسانی جدوجہد کی قیمت مقرر نہیں کر سکتی اور اسے حقیقی جزاء اور سزا نہیں دے سکتی- کیونکہ جب تک ہر انسان کے اختیار اور اس کی مجبوری کا صحیح اندازہ نہ لگایا جائے اس کی نیکی یا اس کی بدی کا بھی صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا- ہزاروں ہیں جو بظاہر نیک نظر آتے ہیں لیکن ان کی نیکی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے اندر بدی کی قابلیت نہیں- لیکن ہزاروں ہیں جو بظاہر بدنظر آتے ہیں لیکن وہ نیک ہیں کیونکہ ان کیلئے بدی کے بہت سے محرکات ہیں اور بہت سی مجبوریاں بھی ہیں لیکن وہ اپنے نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ کامیاب اور بعض دفعہ مغلوب ہو جاتے ہیں- پس ماننا پڑتا ہے کہ اگر انسانی اعمال نے منافقت کی چادر سے نکل کر کبھی اپنی صحیح شکل میں ظاہر ہونا ہے تو ایک ایسی ہستی ہونی چاہئے جو ظاہر و پوشیدہ کو اور ماضی‘ حال اور مستقبل کو یکساں طور پر جانتی ہو تا کہ انسانوں کے متعلق عدل و انصاف سے فیصلہ کیا جائے-
۱۳- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اخلاق کا سوال حل نہیں ہو سکتا جب تک انسانی پیدائش کے سوال کو مدنظر نہ رکھا جائے علم الاخلاق کی تمام بحثیں آخر ایک چکر میں تبدیل ہو جاتی ہیں جو ہمیں کسی خاص فیصلہ تک نہیں پہنچاتا لیکن اگر ہم انسان کی فطرت پر غور کریں تو لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو برا سمجھتی ہے- پس اچھے اور برے کا سوال تو ایک طبعی تقاضا ہے لیکن یہ کہ فلاں چیز بری ہے یا اچھی ہے مختلف فیہ مسئلہ ہے اور اس کی وجہ مذاہب کا اثر‘ عادات کا اثر اور ماحول کا اثر ہے- پس اچھے اور برے اخلاق کا فیصلہ انسانوں کے میلانوں پر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مختلف ہیں- ان کا فیصلہ صرف خدا تعالیٰ کی صفات سے مقابلہ کر کے کیا جا سکتا ہے- انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا ہے یعنی وہ طاقتیں اسے دی ہیں کہ الہی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکے اور اخلاق حسنہ انہی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے کا نام ہے اور اخلاق سیئہ انہی سے دوری کا- ہر اک جو اپنی طاقتوں کو اسی طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں وہ اخلاق حسنہ پر عامل ہے اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ اخلاق سیئہ پر- پس انسان کے اندر جس قدر طاقتیں ہیں سب ہی اچھے مصرف کیلئے ہیں- جس طرح خدا تعالیٰ میں کوئی عیب نہیں انسان میں بھی کوئی عیب نہیں بلکہ اس کی سب طاقتیں ضروری ہیں ہاں ان کے استعمال کی درستی یا غلطی سے وہ اچھا یا برا ہو جاتا ہے- پس اگر ہم نیک ہونا چاہتے ہیں تو ہمارا یہ فرض نہیں کہ اپنی طاقتوں کو دبائیں اور مار دیں‘ بلکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم انہیں خدا تعالیٰ کی صفات کی طرح موقع اور محل پر استعمال کریں-
اس عقیدہ سے وہ جنگ جو قدیم سے دین اور دنیا میں چلی آئی ہے ختم ہو جاتی ہے- کیونکہ اس عقیدہ کے ماتحت مادی طاقتیں روحانی طاقتوں کے مخالف نہیں قرار پاتیں بلکہ روحانی طاقتوں کے پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کرتے ہوئے انسان دین کا بھی کام کر سکتا ہے اور کرتا جاتا ہے-
۱۴- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ اوپر کے عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسانوں کے باہمی معاملات کی بنیاد اصلاح پر ہونی چاہئے نہ کہ کسی غیر لچکدار فلسفی اصل پر- کیونکہ انسان کے اعمال درحقیقت تبدیل ہونے والی شئے ہیں اور مختلف حالتوں میں ان کی قیمت مختلف ہوتی ہے- ایک وقت میں ایک کام برا اور دوسرے وقت میں وہی اچھا ہو سکتا ہے- ہم ایک تندرست کو جو غذا دے سکتے ہیں بیمار کو نہیں دے سکتے- اسی طرح ہم سب لوگوں سے ایک ہی قسم کا معاملہ نہیں کر سکتے کیونکہ کسی نے اپنے اخلاق کو کسی طرح ڈھالا ہے اور کسی نے کسی طرح- پس اگر ہم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ موقع اور محل کے مطابق ہمارے اعمال ظاہر ہوں اور ہماری اصل غرض اصلاح ہو اور اگر کوئی شخص پیار سے ماننے والا ہو تو ہم اسے باوجود ناراضگی کے اور غصہ میں آ جانے کے پیار سے سمجھائیں اور اگر کوئی شخص سزا سے ماننے والا ہو تو ہم اسے اس کے جرم اور اس کی طبیعت کی سختی کے مطابق سزا دے کر اسے سمجھائیں کیونکہ اصل غرض اصلاح ہے جو مریض کی حالت کے مطابق ہی ہو سکتی ہے اگر اس کی حالت کو نظر انداز کر دیں تو اصلاح ناممکن ہے-
۱۵- سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جس قدر صفات پیدا کی ہیں ضروری ہیں اور ان صفات کے سرچشمے یعنی عقل اور جذبات کا ہر کام میں لحاظ رکھنا ضروری ہے- تمام تمدنی اور سیاسی خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں کہ باہمی معاملات میں یا عقل کو ترک کر دیا جاتا ہے یا جذبات کو یا ان کی صحیح نسبت قائم نہیں رکھی جاتی- عورت و مرد کے تعلقات کو عام طور پر جذبات پر مبنی رکھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے حالانکہ کوئی عورت و مرد دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے- وہ دنیا کا ایک حصہ ہیں اور انہیں اپنے حصہ ہونے کی حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے- پس جہاں ان کے تعلقات کی بنیاد جذبات پر ہونی ضروری ہے وہاں اس کے ساتھ ہی اس کی بنیاد عقل پر بھی ہونی ضروری ہے- میاں بیوی کے حقوق‘ طلاق‘ کثرت ازدواج‘ بچوں کی تربیت اور ان پر ماں باپ کے تصرف کی حد بندی‘ ورثہ اس میں مختلف رشتہ داروں کے حقوق کی تعیین‘ یہ سب ایسے امور ہیں جن میں اس قانون کو ملحوظ رکھ کر ایک ایسا درمیانہ طریق اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جس سے نہ جذبات کو ٹھیس لگے اور نہ عقل کو جواب دیا جائے اور اسلام نے ایسا ہی کیا ہے گو جذبات کے طوفان کے وقت اس تعلیم کو قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے لیکن سکون کی ساعتوں میں دنیا اس طریق کی برتری کو قبول کرنے پر مجبور ہوتی رہی ہے-
۱۶- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ عورت و مرد مشرقی اور مغربی سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ہیں- سب کیلئے خدا تعالیٰ کے قرب اور ابدی زندگی کے دروازے کھلے ہیں- پس ان کے تعلقات ¶کی بنیاد ایسے اصول پر ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے کیلئے تکلیف کا موجب نہ ہوں اور ہر ایک کیلئے ترقی کے دروازے کھلے رہیں اور کوئی کسی پر ناجائز حکومت نہ کرے-
۱۷- سلسلہ احمدیہ کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان کی جزاء کی اصل بنیاد اعمال پر نہیں بلکہ اس کی قلبی حالت پر ہے اس وجہ سے دنیا میں نیکی کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے زیادہ دل کی پاکیزگی پر زور دیا جائے کیونکہ جب تک خیالات میں نیکی نہ ہو حقیقی نیکی حاصل نہیں ہو سکتی اور خیالات چونکہ جبر اور زور سے تبدیل نہیں ہو سکتے بلکہ دلیل اور مشاہدہ اور نمونہ سے تبدیل ہوتے ہیں اس لئے سلسلہ احمدیہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ مذہب کیلئے جنگ یا جبر بالکل جائز نہیں- کیونکہ جبر سے صرف ظاہر تبدیل ہو سکتا ہے اور جس کا ظاہر و باطن ایک نہ ہو وہ منافق ہے- پس جو شخص مذہب میں جبر سے کام لیتا ہے وہ منافقت پھیلانے کا موجب ہے اور بجائے نیکی کی اشاعت کے بدی کی اشاعت کا مرتکب ہے اور اپنے عمل سے اپنے مقصد کو نقصان پہنچاتا- ہے اس عقیدہ کے ماتحت ہماری جماعت نے ہر ملک میں مذہب کے بارہ میں جبر کی مخالفت کی ہے اور ہمارے بعض آدمیوں نے اس پاک تعلیم کی حفاظت میں جو نیکی کے قائم کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں- اور گو جبر کے مویدین نے انہیں سنگسار کر کے نہایت تکلیف اور ایذاء سے قتل کیا مگر وہ آخر دم تک اپنے عقیدہ پر قائم رہے-
۱۸- سلسلہ احمدیہ کی سیاسیات کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ حکومت اور رعایا کے تعلقات کی بنیاد قانون کے احترام اور پر امن جدوجہد پر ہونی چاہئے اور فساد سے دونوں کو پرہیز کرنا چاہئے اور حکومت اور رعایا دونوں کا فرض ہے کہ قانون کی جب تک وہ بدلے نہیں پیروی کریں اور اگر غلط قانون ہے تو جائز ذرائع سے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے- اس تعلیم کے ماتحت ہماری جماعت جس جس حکومت کے ماتحت بستی ہے ہمیشہ فتنہ کی راہوں سے الگ رہتی ہے- اور چونکہ اکثر حصہ جماعت احمدیہ کا انگریزی حکومت کے ماتحت ہے لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ جماعت انگریزوں کی جاسوس ہے لیکن آپ سے بہتر اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ امر غلط ہے- ہم نے ہمیشہ دلیری سے ہندوستانیوں کے حقوق کا مطالبہ کیا ہے- ہمیں دوسرے محبانوطن سے صرف اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ عارضی فائدہ کیلئے اپنی قوم کے کیریکٹر کو شورش پیدا کر کے اور قانون کا احترام دل سے نکال کر خراب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ مادی فائدہ سے بہرحال اخلاقی فائدہ مقدم ہے- اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ جب تک ہم کسی ملک میں رہیں اس کے قانون کی پابندی کریں لیکن جب ہم سمجھیں کہ کوئی حکومت ظلم میں حد سے بڑھ رہی ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ کر اس کا مقابلہ کریں اور اگر وہ حکومت نکلنے بھی نہ دے تو پھر ہمیں اجازت ہے کہ اسی کے ملک میں رہتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں‘ اس صورت میں قانون توڑنے کی وہ ذمہ دار ہے ہم نہیں-
ہم جس جس ملک میں رہتے ہیں اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور یقیناً یہی تعلیم ہے جس سے اخلاق اور مذہب کو قائم رکھتے ہوئے انسان آزادی کو حاصل کر سکتا ہے-
۱۹- سلسلہ احمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حکومت کے قیام کی غرض ملک کا فائدہ ہے اور ان کاموں کو بجا لانا ہے جنہیں افراد الگ الگ پورا نہیں کر سکتے- پس اسلامی تعلیم کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر فرد رعایا کے کھانے‘ لباس‘ مکان اور کام کا انتظام کرے- ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت اب تک اس فرض سے بالکل غافل رہی ہے- لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر افراد ملک کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ ملے اور پہننے کو کپڑا اور سرچھپانے کو مکان نہ ملے تو پھر کسی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے- اسلامی قانون کی رو سے حکومت ایک نکمے آدمی کو کام پر مجبور کر سکتی ہے لیکن اس کا فرض ہے کہ اول تو کام دے کر اس کے گزارہ کی صورت پیدا کرے اور اگر کام نہیں دے سکتی تو پھر خزانہ شاہی سے اس کی اقل ترین ضروریات کو پورا کرے اور جب تک حکومتیں اس اصول پر نہ چلائی جائیں گی یقیناً لیبر اور کیپیٹل اور امپریلزم اور شوشلزم اور بولشوزم کے جھگڑے کبھی ختم نہ ہونگے- اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو کبھی کوئی حکومت اپنے ملک سے باہر جا کر استبدادی حکومت نہیں کر سکتی- کیونکہ اس پر اپنے ملک کا بار ہی اس قدر ہوگا کہ وہ دوسرے ملک کے بوجھ کو برداشت ہی نہیں کر سکے گی سوائے اس کے کہ دوسرے ملک سے اس کے تعلقات کے بنیاد تعاون اور دوستی پر ہو-
۲۰- سلسلہ احمدیہ کا ایک یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کیلئے بحیثیت مجموعی پیدا کیا ہے اور جس طرح کوئی شخص کسی کی زمین میں ہل چلا کر بوجہ ہل چلانے کے اس کی پیداوار کا واحد مالک نہیں ہو سکتا اسی طرح قدرت کے پیدا کردہ سامانوں سے کام لیکر کوئی شخص اس کے ثمرات کا واحد مالک نہیں ہو سکتا- اور چونکہ جس قدر دولت کمائی جاتی ہے خواہ زراعت سے ہو‘ خواہ تجارت سے‘ خواہ صنعت و حرت سے اس کے کمانے میں اس ذخیرہ کو کام میں لایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنینوع انسان کی مجموعی بہتری کیلئے دنیا میں پیدا کیا ہے اس لئے شریعت نے ہر سرمایہدار پر اس رقم کو چھوڑ کر جو وہ خرچ کر لیتا ہے ایک رائلٹی مقرر کی ہے اور حکومت کا فرض مقرر کیا ہے کہ اس رقم کو لے کر دوسرے مستحقوں پر خرچ کرے- اس اصل کے ذریعہ سے ایک طرف تو اسلام نے مختلف کاموں کے ساتھ افراد کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا ہے اور دوسری طرف قوم کے متفقہ حقوق کو بھی قائم رکھا ہے اور یہی ذریعہ فردی ترقی اور قومی ترقی کے توازن کو قائم رکھنے کا ہے-
۲۱- سلسلہ احمدیہ کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ تمام ایسے سمجھوتے یا کام یا احکام جو بنی نوع انسان کے کسی فرد کی جائز ترقی کے راستہ میں روک ہوں درست نہیں- اسی وجہ سے شریعت اسلام نے باپ کی جائیداد کو اولاد اور دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم کرنے پر زور دیا ہے تا کہ چند خاندانوں کے ہاتھ میں زمین نہ رہے اور کوئی خاندان اسی وقت تک زمین کا مالک رہے جب تک کہ وہ اپنی ذاتی لیاقت کے ساتھ اس کا مالک رہ سکتا ہے- اسی طرح سود کو روک دیا ہے تا چند ذہین لوگ مل کر تجارت اور صنعت و حرفت کو اپنے ہاتھ میں نہ کر لیں اور ہر اک شخص جسے خدا تعالیٰ نے خاص علم اور فہم دیا ہے مجبور ہو کر دوسروں کا روپیہ شامل کر کے انہیں بھی حصہ دار بنائے اور دولت صرف چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو جائے- اسی طرح زکوۃ مقرر کر کے ایسے لوگوں کیلئے ترقی کا راستہ کھولا ہے جن کے پاس علم اور قابلیت تو ہے لیکن روپیہ نہیں-
اسی اصل کے ماتحت احمدیت نسلی بادشاہتوں کی مخالف ہے کیونکہ اس طرح ایک خاندان محض وراثت کی بناء پر نہ کہ لیاقت کی بناء پر دوسرے لوگوں کی ترقی کے راستہ میں روک بنتا ہے- اسی طرح وہ قومی برتری اور امتیاز کے بھی مخالف ہے کیونکہ اس طرح بھی بعض عہدوں‘ تجارتوں یا کاموں کے دروازے بعض خاص افراد کیلئے کھلے ہوتے ہیں اور دوسروں کیلئے بند اور یہ ہر گز درست نہیں کہ جو کام خدا تعالیٰ نے سب کیلئے کھلے رکھے ہیں انہیں بعض کیلئے مخصوص کر دیا جائے-
۲۲- سلسلہ احمدیہ کی یہ بھی تعلیم ہے کہ موت انسانی زندگی کو ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ ایک لمبے سلسلہ حیات کی ایک تبدیلی کا نام ہے ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے غیر متناہی ترقیات کیلئے پیدا کیا ہے- ہم میں سے ہر ایک جو مرتا ہے ایک نئی دنیا میں اور نئی قوتوں سے اپنے اس کام کو جسے اس نے اس دنیا میں شروع کیا تھا جاری رکھتا ہے- اگر وہ برے راستہ پر چلا تھا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی حالتوں میں سے گزارے گا جس سے اس کی حالت کی اصلاح ہو جائے اور وہ اپنی روحانی بیماریوں سے شفا پا کر خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکے اور اس کا دیدار اسے نصیب ہو سکے اور اسی زمانہ علاج کا نام دوزخ ہے جس میں انسان صرف ایک عارضی زمانہ کے لئے جو روحانی بیماریوں کی نوعیت کی وجہ سے گو بہت لمبا ہوگا مگر پھر بھی ختم ہو جانے والا ہوگا‘ داخل ہوگا- آخر سب انسان اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا لیں گے اور کوئی انسان بھی خواہ کس قدر گناہ گار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ کسی مذہب کا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم نہیں رہے گا- کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر شیطان کی فتح سمجھی جائے گی جس نے ان بندوں میں سے بعض کو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کیلئے پیدا کیا تھا گمراہ کر ¶دیا- پس ضرور ہے کہ سب انسان آخر نجات پا جائیں اور جنت میں جائیں جو اس مقام کا نام ہے جس میں انسان نئی روحانی طاقتیں پا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو بدرجہ اتم اپنے وجود میں پیدا کرنا شروع کرے گا اور نہ ختم ہونے والی ترقیات کے حصول کی ابدی کوششوں میں مشغول ہوگا تا کہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر معلوم کر لے کہ خداتعالیٰ کی صفات غیر محدود ہیں جن کی انتہاء کو انسان غیر محدود کوشش سے بھی نہیں پہنچ سکتا اور ہر منزل کے بعد ایک اور منزل ظاہر ہو جاتی ہے جسے طے کرنا اس کیلئے ابھی باقی ہوتا ہے-
‏head] [tagخاتمہ
یورایکسیلنسی! احمدیت کی تعلیم کے خلاصہ کے بعد میں ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ کو اس طرف پھراتا ہوں کہ بے شک یہ سلسلہ اس وقت کمزور ہے لیکن سب الہی سلسلے شروع میں کمزور ہوتے ہیں- شام‘فلسطین اور روم کے شہروں میں پھرنے والے حواریوں کو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی وقت دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیں گے- وہی حال ہمارے سلسلہ کا ہے اس کی بنیادیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور دنیا کی روکیں اس کی شان کو کمزور نہیں بلکہ دو بالا کرتی ہیں کیونکہ غیر معمولی مشکلات پر غالب آنا اور غیر معمولی کمزوری کے باوجود ترقی کرنا الہی مدد اور الہی نصرت کا نشان ہوتا ہے اور بصیرت رکھنے والوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب- پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے خاندان کو اور آپ کے ملک کے چھوٹے اور بڑے سب لوگوں کو اور اسی طرح باقی دنیا کو اس نور کے قبول کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوا ہے اور جس کا انتظار سب دنیا ہزاروں سال سے کر رہی تھی مگر افسوس کہ جب وہ ظاہر ہوا تو اکثروں نے اس سے آنکھیں بند کر لیں اور تاریک کونوں سے باہر نہ آئے- الل¶ہ تعالیٰ ہمارے سب بھائیوں کو ہدایت دے اور اپنے فضل سے ان کی راہنمائی فرمائے کیونکہ ہم سب کمزور ہیں اور اس کی مہربانی کے محتاج- آمین
یورایکسیلنسی! میں اس کتاب کو ختم کرنے سے پہلے پھر ایک دفعہ آپ کو اور لیڈی ارون کو جو اس اہم کام میں آپ کے شریک رہی ہیں جو دنیا کی بہت بڑی ذمہ داریوں میں سے تھا اس کام کے کامیابی کے ساتھ ختم کرنے پر اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی آئندہ زندگی کو گذشتہ سے بھی زیادہ کامیاب اور مفید بنائے- الوداع- واخر دعوئنا ان الحمدللہ رب العلمین-
خاکسار
مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ
قادیان-۳۱- مارچ ۱۹۳۱ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا مکتوب لارڈ ارون کے نام
)تحفہ لارڈ ارون کے ساتھ حسب ذیل مکتوب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے لارڈ ارون کی خدمت میں پیش کیا گیا(-
‏]txet [tag جیسا کہ یورایکسیلنسی کو قبل ازیں اطلاع دی جا چکی ہے- ہندوستان کے لئے یورایکسیلنسی کی شاندار خدمات کے اعتراف نیز ان کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے میں نے ایک مختصر سی کتاب لکھی ہے- اور میں چوہدری فتح محمد خان ایم اے‘ چوہدری ظفراللہ خان بارایٹلا ایم- ایل- سی اور مولوی عبدالرحیم درد ایم- اے اس پر مشتمل ایک وفد کو اس غرض سے بھیج رہا ہوں کہ ہندوستان سے روانگی سے پیشتر میری نیز جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ کتاب یورایکسیلنسی کے پیش کرے-
اس کتاب میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے علاوہ میں اس مکتوب کے ذریعہ بھی یورایکسیلنسی کو الوداع کہتا ہوں- اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ مستقبل کو ماضی سے بھی زیادہ شاندار اور بابرکت بنائے- مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ میں ذاتی طور پر یورایکسیلنسی کو الوداع نہ کہہ سکا-
لارڈارون کا جواب
جناب محترم!
آپ نے نہایت مہربانی سے مجھے جو کتاب بھجوائی ہے اور جو یور ہولی نس کے نمائندہ وفد نے کل مجھے دی- اس کے نیز اس خوبصورت کاسکٹ کیلئے جس میں کتاب رکھی ہوئی تھی‘ میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں- یہ ان تمام کاسکٹوں سے جو میں نے آج تک دیکھے ہیں بے نظیر ہے- اور جماعت احمدیہ کے ممبروں کے ساتھ مختلف مواقع پر میری جو ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں یہ کاسکٹ ان کیلئے ایک خوشگوار یاد گار کا کام دے گا- یہ امر میرے لئے بے حد دلچسپی کا باعث ہے کہ آپ کے قریباً دس ہزار پیروئوں نے اس خوبصورت تحفہ کی تیاری میں حصہ لیا ہے-
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کو خدا حافظ کہتا ہوں- آپ یقین رکھیں کہ ہندوستان سے جانے کے بعد آپ کی جماعت سے میری دلچسپی اور ¶ہمدردی کا سلسلہ منقطع نہ ہوگا بلکہ بدستور جاری رہے گا- اور میری ہمیشہ یہ آرزو رہے گی کہ مسرت و خوشحالی پوری طرح آپ نیز آپ کے متبعین کے شامل حال رہے-
۱~}~
متی: باب ۴۴ آیت ۲۷ )مفہوماً(
۲~}~
تذکرہ: ایڈیشن ۴ صفحہ ۴۱۰ رئویا کا ذکر ہے
۳~}~
مکاشفہ: باب ۳ آیت ۳ نیز لوقا: باب ۱۲ آیت۱۹‘۴۰ )مفہوماً(
۴~}~
متی: باب ۲۱
۶~}~
متی: باب ۲۴ آیت ۲۹ )مفہوماً(
۶~}~
متی: باب ۲۴ آیت ۷‘۸ )مفہوماً(
۷~}~
متی : باب۲۵ آیت ۱ تا ۱۱ )مفہوماً(
۸~}~
رقس: باب ۱۳ آیت ۲۷ )مفہوماً(
۹~}~
متی: باب ۴ آیت ۴ )مفہوماً(
۱۰~}~
متی: باب۵ آیت ۱۷ )مفہوماً(
۱۱~}~
رقس: باب ۱۲ آیت ۲۹‘۳۰ )مفہوماً(
۱۲~}~
الذلویت: ۵۷
۱۳~}~
پیدائش: باب ۱۶ آیت۱۲ تا ۱۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۴~}~
یوحنا: باب ۸ آیت ۱۲ تا۱۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۵~}~
یوحنا: باب ۸ آیت ۴۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
۱۶~}~
متی: باب ۱۶ آیت ۲۴ برٹش اینڈ فارن سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء
‏a12.17
انوار العلوم جلد ۱۲
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
میرا ۲۷- مارچ کا خطبہ
حصہ اول
گورنمنٹ اور آریوں سے خطاب
میرے ۲۷- مارچ کے خطبہ کے شائع ہونے پر اپنوں اور بیگانوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا ہے اور علاوہ اس کے کہ مختلف قسم کے خطوط میرے پاس آ رہے ہیں آریہ اخبارات بھی اس پر بہت کچھ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کے متعلق کسی قدر اور تشریح کر دوں تاکہ دوست اور دشمن دونوں کو اصل حقیقت معلوم ہو جائے اور کوئی شخص دھوکے میں نہ رہے-
میرا نقطئہ نگاہ سمجھ لیا جائے
سب سے پہلے تو میں آریہ اخبارات اور حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے میرا نقطئہ نگاہ اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ کسی بے اصولے پن کا ارتکاب آخر انہیں شرمندہ نہ کرے- میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس قدر عمر پبلک کے سامنے گزاری ہے کہ حکومت بھی اور ابنائے وطن بھی اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ میں جلد بازی سے قدم اٹھانے کا عادی نہیں ہوں- جہاں تک ہو سکتا ہے سوچ کر اور غور اور فکر کے بعد میں فیصلہ کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک سترہ سالہ پبلک زندگی میں ایک دفعہ بھی مجھے شرمندہ ہونے کا موقع پیش نہیں آیا اور مجھے اپنے فیصلہ کے بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور جلد یا بدیر لوگوں کو میرے نقطئہ نگاہ کی صحت تسلیم کرنی پڑی ہے- اپنے علم اور اپنے تجربہ کو دیکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے ورنہ چونکہ میری صحت خراب ہے اس کے اثر کے نیچے بالکل ممکن تھا کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو میری تقریر اور تحریر میں جلدبازی اور چڑ چڑے پن کا اثر پایا جاتا- بہرحال دوست اور دشمن اس امر کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ میں محتاط آدمی ہوں اور اندھا دھند اعلان کرنے کا عادی نہیں حتیٰ کہ بعض دوست مجھ پر کمزوری کا الزام لگاتے ہیں- پس حکومت اور دشمنان اسلام کو میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ میرے نقطئہ نگاہ کو اچھی طرح سمجھ لیں- جو یہ ہے-
بین الاقوام معاملات میں حکومت کا رویہ
میرا خطبہ بیان کردہ ۲۷- مارچ ۱۹۳۱ء اس امر کے متعلق ہے کہ حکومت کا رویہ بینالاقوامی معاملات میں انصاف پر مبنی نہیں بلکہ ضرورت وقتی پر مبنی ہے اور یہ بات نہایت قابل افسوس ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو مصلحت وقت کے مطابق کام کرنا ایک حد تک ضروری ہوتا ہے لیکن یہ اسی وقت تک جائز ہے جب تک کہ کسی قوم یا فرد پر ظلم نہ ہوتا ہو- جب کسی فعل سے کسی فرد یا قوم پر ظلم ہوتا ہو تو ایسا فعل مصلحت وقت کے ماتحت نہیں بلکہ سیاسی پالیسی کے ماتحت کہلائے گا اور مجھے افسوس ہے کہ بین الاقوام معاملات میں گورنمنٹ کا رویہ دلیرانہ اور منصفانہ نہیں بلکہ سیاسی پالیسی کے ماتحت ہوتا ہے- جو قوم زیادہ شور مچائے اور گورنمنٹ کو زیادہ تنگ کر سکے گورنمنٹ اس کے ساتھ مل جاتی ہے- آریہ لوگ پنجاب میں زیادہ شور مچاتے ہیں اور حکومت ہمیشہ ان سے دبتی ہے اور اس وقت حکومت کے دفاتر اور اس کی پالیسی پر وہی قابض ہیں- کانگریس نے شور مچایا اور حکومت اس کے آگے اس قدر گری کہ اس کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ اپنے دلوں میں شرمندگی اور ذلت محسوس کرتے ہیں-
‏sub] gat[ انگریزوں کی خوبیاں
میرا ہمیشہ سے یہ خیال ہے اور اب تک ہے کہ انگریزوں میں بہت سی خوبیاں ہیں اور ان کی وجہ سے میں ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ انگریز ابھی اس ملک میں بہت سے مفید کام کریں گے اور ہندوستان ابھی پوری طرح ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا-
انگریز اپنے دوستوں کا حلقہ تنگ کر رہے ہیں
لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انگریزی حکومت کو مذکورہ بالا کمزوری اس کے دوستوں کا حلقہ روز بروز تنگ کرتی جاتی ہے اور اگر حکومت نے وقت پر اپنی اصلاح نہ کی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک قوم ان سے تاجرانہ یا خود غرضانہ تعلق رکھے گی- انگریز کی دوستی اور اس سے مخلصانہ تعلق رکھنے والا ایک فرد بشر بھی نہ ہو گا اور اس تغیر کی ذمہ واری حکومت پر اور صرف حکومت پر ہو گی-
مذبح قادیان کا معاملہ
میں اپنے ہی سلسلہ کی مثال لیتا ہوں- قادیان کا مذبح گرایا گیا اور ایسے حالات میں گرایا گیا کہ کوئی انصاف پسند انسان اس کو جائز نہیں قرار دے سکتا- ایک طرف ظلم‘ تعدی‘ بغاوت اور شرارت کا مظاہرہ تھا تو دوسری طرف نرمی‘ عفو‘ امن پسندی اور شرافت کا مظاہرہ تھا- پولیس کی موجودگی میں مذبح گرایا گیا- ایک سب انسپکٹر اور کئی کانسٹیبل وہاں موجود تھے انہوں نے ان حملہ آوروں کو روکا نہیں بلکہ کھڑے دیکھتے رہے اور پھر مقدمہ میں ایک شخص بھی مجرموں میں سے اپنے کیفر کردار کو نہیں پہنچا- دوسری طرف احمدیوں نے نہایت بردباری اور امن پسندی کا ثبوت دیا اور باوجود طاقت کے اس خوف کی وجہ سے ان شریروں کا مقابلہ نہ کیا کہ کہیں وہ امن شکنی کا موجب نہ ہو جائیں اور اسی یقین کی وجہ سے ہاتھ نہ اٹھایا کہ حکومت ان مفسدوں کو خود سزا دے گی لیکن ان کا اعتماد بے محل ثابت ہوا- حکومت نے ایک مفسد کو بھی سزا نہیں دی- میں ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہیں کر سکتا کہ علاقہ کے تھانہ دار اور پولیس کی موجودگی میں ایک مجرم کی بھی شناخت صحیح طور پر نہ ہو سکی ہو- پس سب مجرموں کا چھٹ جانا بتاتا ہے کہ یا تو اصل مجرموں کو پکڑا ہی نہ گیا تھا- یا یہ کہ مقدمہ کو جان بوجھ کر اس طرح چلایا گیا تھا کہ وہ لوگ بری ہو جائیں تاکہ دنیا یہ خیال کر لے کہ گورنمنٹ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور سکھ بھی گورنمنٹ سے ناراض نہ ہوں- اس وقت ایک ہی سوال حکام کے سامنے تھا اور وہ یہ تھا کہ سکھوں کو دسمبر ۱۹۲۹ء کی کانگریس کے اجلاس میں شامل ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے لیکن اگر حکومت وفادار رعایا کے حقوق کو تلف کر کے اس قسم کی کارروائی کرے تو اسے کب یہ امید ہو سکتی ہے کہ آئندہ مشکلات کے وقت میں اس کی تائید کی جائے گی-
کانگرس کی شورش کے ایام میں کام
مگر میں نے پھر بھی کانگرس کی شورش کے وقت میں ایسا کام کیا ہے کہ کوئی انجمن یا فرد اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا- اگر میں اس وقت الگ رہتا تو یقیناً ملک میں شورش بہت زیادہ ترقی کر جاتی اور یہ صرف میری ہی راہنمائی تھی جس کے نتیجہ میں دوسری اقوام کو بھی جرات ہوئی اور ان میں سے کئی کانگرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئیں-
ہم نیلام ہونے کے لئے تیار نہیں
لیکن باوجود اس کے مذبح کے معاملہ میں حکومت ہمارے احساسات کے ساتھ کھیلتی رہی ہے- اس نے جان بوجھ کر اس معاملہ کو اس قدر لمبا کیا ہے کہ کوئی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا- وہ ہماری جیبوں سے سکھوں کو عارضی طور پر روکے رکھنے کی قیمت دلوانا چاہتی ہے لیکن ہم نیلام ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں- ذمہ وار افسر دو سال سے ہمیں یہ کہتے چلے آتے ہیں کہ مذبح کا فیصلہ ہو گیا ہے بس اب جاری ہوتا ہے کچھ دن آپ لوگ اور صبر کریں- اپنے حقوق چھوڑ کر بھی سکھوں کو خوش رکھیں تاکہ مذبح کے کھولنے میں دقت نہ ہو- یہی آواز ہے جو ڈیڑھ سال سے ہمارے کانوں میں پڑ رہی ہے لیکن ہنوز روز اول والا معاملہ ہے- مذبح ہمارا حق ہے‘ اس حق کے لینے کے لئے زائد قیمت ادا کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے-
قادیان کی تعزیری چوکی
لطف یہ ہے کہ جو تعزیری چوکی بٹھائی گئی ہے علاوہ اس کے کہ اس کا رویہ نہایت قابل اعتراض ہے اس کے آنے پر چوریاں بڑھ گئی ہیں اور لوگ شبہ کرتے ہیں کہ یہ چوریاں خود بعض پولیس کے آدمی اس لئے کروا رہے ہیں تاکہ تعزیری چوکی کی معیاد بڑھائی جا سکے- نیت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیان میں پچھلی سردیوں میں اس قدر چوریاں ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے کئی سال میں بھی اس قدر نہ ہوئی ہوں گی- پس اگر بددیانتی نہیں تو بعض لوکل افسروں کی نالائقی اس سے ضرور ثابت ہوتی ہے-
تغزیری چوکی کا خرچ
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ اس چوکی کا خرچ جو علاقہ پر تقسیم کیا گیا ہے اس میں مسلمانوں پر خاص ظلم کیا گیا ہے حالانکہ قصور سکھوں کا تھا- کمین لوگ جو بچارے نہایت محنت سے مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں ان پر بار بہت زیادہ ڈالا گیا ہے اور سکھ زمینداروں پر بہت کم ڈالا گیا ہے- یہ ظلم برابر جاری ہے اور باوجود توجہ دلانے کے اس کی اصلاح نہیں ہوئی-
گورنمنٹ کا قابل تعریف فعل
ہم اس قدر ممنون ضرور ہیں کہ احمدی جماعت کو اس ٹیکس سے بری رکھا گیا ہے اور اسی طرح قادیان کے دوسرے باشندوں کو بھی اور میں اس ناراضگی کے وقت میں بھی گورنمنٹ کے اس فعل کے تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا- لیکن یہ امر ایسا تھا جس میں کسی دوسری قوم کی ناراضگی کا سوال نہ تھا اور یہ میں مانتا ہوں کہ جب سیاسی پالیسی کا سوال نہ ہو اس وقت انگریز افسر ہندوستانی سے زیادہ اعتماد کے قابل ہوتا ہے اور باجود ان لوگوں کے برا منانے کے میں اس خوبی کے اعتراف سے باز نہیں رہ سکتا-
ہمارا شکوہ
ہمیں اگر شکوہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت جب کہ کسی کثیرالتعداد قوم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوتا ہے اس وقت حکومت کے بعض افسران انصاف کی جگہ سیاسی نقطئہ نگاہ سے حالات کو دیکھنے لگتے ہیں اور اگر کثیرالتعداد لوگ ناراض ہوتے ہوں تو عدل اور انصاف کو ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں- اور یہ امر ہے جس کی اصلاح کی ضرورت ہے-
الفضل کو گورنمنٹ کی تنبیہہ
اسی قسم کی ایک تازہ مثال میں نے اپنے خطبہ میں پیش کی تھی اور وہ یہ کہ آریوں نے ابتداء کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ کو لیکھرام کا قاتل لکھا لیکن حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور ایسے شخصوں کو کوئی سزا نہیں دی- لیکن الفضل نے جب جواب دیا تو اس کو تنبیہہ کی گئی کہ اس میں لیکھرام کے خلاف مضامین کیوں لکھے گئے ہیں اور ایک وجہ تنبیہہ کی یہ بتائی گئی کہ لیکھرام کو لیکھو کیوں لکھا گیا ہے- حالانکہ جیسا کہ میں نے اپنے خطبہ میں بیان کیا ہے پنڈت لیکھرام کا اصل نام لیکھو ہی تھا- پس لیکھو کو لیکھو کہنا کوئی جرم نہیں تھا- لیکن حکومت نے اس پر تو اظہار ناراضگی کیا کہ لیکھو کو لیکھو کیوں لکھا ہے اور ان آریہ اخبارات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قاتل لکھتے ہیں- حالانکہ جب الفضل نے جوابی طور پر آریوں پر حملہ کیا تھا تو حکومت کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہئے تھا اور اپنے نفس میں شرمندہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم نے وقت پر ان شریروں کی زبان بندی نہیں کی جنہوں نے ایک ایسے شخص پر جو گورنمنٹ کا بھی محسن تھا ایسا گندہ الزام لگایا ہے-
آریوں کی دھمکی کا جواب
میرے اس خطبہ پر حکومت تو نہ معلوم کیا کارروائی کرے لیکن آریہ صاحبان بہت ناراض ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ اگر لیکھو کو لیکھو لکھا گیا تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مرزو یا غلمو لکھیں گے- میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ میرا نقطئہ نگاہ پہلے خوب سمجھ لیں- میرا نقطئہ نگاہ یہ ہے کہ-:
)۱( جب آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قاتل لکھا تو اپنی گندگی اور شرارت کا ثبوت دیا اور ہمارے پیشوا اور امام کو بلا وجہ گالیاں دیں- پس ہمارا حق ہے کہ ہم ان کو اسی رنگ میں جواب دیں اور ابتداء کرنے کے بعد آریوں کو ناراض ہونے کا ہرگز کوئی حق نہیں- ہاں وہ اپنی شرارت پر ندامت کا اظہار کریں اور آئندہ کے لئے توبہ کریں تو وہ ہم سے نیک سلوک کی امید رکھ سکتے ہیں- ورنہ اگر وہ گالیوں میں بڑھیں گے تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں‘ انہیں ایسے جواب سننے پڑیں گے جو ان کے لئے بہت تلخ ہوں گے اور دنیا بھی انہی پر الزام رکھے گی کیونکہ انہوں نے ظلم کی ابتداء کی ہے-
ایک اور آریہ اخبار کا بے ہودہ نوٹ
مجھے ایک آریہ اخبار کا یہ نوٹ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ ہم نے تو مرزا صاحب کو کچھ بھی برا نہیں کہا- ہم نے تو صرف انہیں قاتل لکھا ہے اور یہ تو ہر قوم کے آدمیوں کا خیال ہے- اول تو یہ امر غلط ہے کہ سب اقوام کے لوگ ایسا سمجھتے ہیں سوائے چند خبیث لوگوں کے سب شریف آدمی یہی سمجھتے ہیں کہ لیکھرام یا اپنے کسی شخص کے ہاتھ سے مارا گیا یا اس کے مارنے والا کوئی بے تعلق شخص تھا جس نے اسے مذہبی جوش میں قتل کر دیا- اور جو لوگ زیادہ دلیر ہیں اور لوگوں سے نہیں ڈرتے وہ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یہی کہتے ہیں کہ لیکھرام کے قتل کا واقعہ ایسا ہے کہ اسے الہی فعل کے سوا کسی اور امر کے طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا-
آریہ اخبارات کی دنایت
دوسرے یہ امر ان آریہ اخبارات کی دنایت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ کسی کو قاتل کہنا معمولی بات سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس میں کوئی گالی نہیں ہے- جب کوئی قوم اخلاق سے عاری ہو جاتی ہے تو نہ صرف یہ کہ اس سے بد اخلاقی کے کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے بلکہ وہ بداخلاقی کو بداخلاقی بھی نہیں سمجھتی- یہی حال معلوم ہوتا ہے آریوں میں سے ایک گروہ کا ہے کہ وہ ایک مقدس ہستی کو قاتل کہہ کر پھر خیال کرتے ہیں کہ ہم نے گالی نہیں دی- گویا کہ وہ اس لفظ کو بہت اچھا سمجھنے لگے ہیں- شاید کانپور‘ بنارس وغیرہ مقامات پر عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے بعد اب وہ اپنی فطرتوں کو تسلی دینے کے لئے اس عیب کو عیب نہ قرار دیتے ہوں لیکن انہیں یاد رہے کہ احمدی اور ہر شریف انسان قتل کو گناہ اور عیب سمجھتا ہے اور اپنے بزرگوں کی نسبت اس لفظ کے استعمال کو گالی قرار دیتا ہے- پس جب انہوں نے یہ لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسبت استعمال کیا اور اب تک کر رہے ہیں تو احمدی جو کچھ شائع کریں گے جوابی ہو گا اور اخلاقی ذمہ داری خود آریوں پر یا حکومت پر ہو گی-
اعزازی خطاب استعمال کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا
)۲( دوسری بات میرے نقطئہ نگاہ کے متعلق انہیں اور حکومت کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ میرے نزدیک حکومت یا کسی قوم کا یہ حق نہیں کہ ہم کسی دوسری قوم کے اعزازی خطاب اس کے افراد کے متعلق استعمال کریں- اخلاقی طور پر ہم سے یہ تو امید رکھی جا سکتی ہے کہ ہم ظاہری آداب کو ملحوظ رکھیں لیکن یہ نہیں کہ ہم ان کے خود ساختہ خطابات کو بھی استعمال کیا کریں- لالہ منشی رام جی بعد میں سوامی شردھانند بن گئے اب ہم سے یہ تو توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم لالہ اور جی کا لفظ ان کے نام کے ساتھ لگائیں یا اور کوئی ادب کا لفظ ان کے نام کے ساتھ بڑھا دیں جو عام گفتگو میں استعمال ہوتا ہو لیکن اس امر پر ہمیں مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ ہم منشی رام کا نام چھوڑ کر انہیں شردھانند لکھا کریں- اسی طرح گاندھی جی کو جی کہہ کر یا صاحب کہہ کر پکارنے کی تو ہم سے امید کی جا سکتی ہے اور اخلاقا ہمیں ایسا کرنا چاہئے لیکن ہم سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ ہم انہیں مہاتما بھی کہیں- چنانچہ اسمبلی میں ایک دفعہ ایک گورنمنٹ ممبر نے جب مسٹر گاندھی کہا اور لوگوں نے شور مچایا تو اس نے نہایت زور سے کہا کہ مہاتما میں نہیں کہہ سکتا میں مسٹر ہی کہوں گا اور اسی طرح ایک دفعہ غالباً مسٹرجناح کے ساتھ بھی ہوا-
غرض عرف عام کے مطابق اخلاقاً ایک دوسرے کے نام کے ساتھ صاحب وغیرہ کے الفاظ لگانے تو ضروری سمجھے جاتے ہیں لیکن ماں باپ کے رکھے ہوئے نام کے سوا دوسرے اختیار کردہ یا عطاء کردہ نام لینے ہرگز ضروری نہیں اور اس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا-
لیکھو نام والدین نے رکھا
پس میرے نقطئہ نگاہ کے مطابق پنڈت لیکھرام کو لیکھو لکھنا ہرگز خلاف اخلاق نہیں کیونکہ ان کا نام ان کے والدین نے لیکھو ہی رکھا تھا جیسا کہ لالہ منشی رام جی المعروف سوامی شردھانند جی کی تحریر کردہ سوانح عمری سے ظاہر ہے- سوامی شردھانند پنڈت لیکھو صاحب سے بڑی حیثیت کے آدمی تھے اور خود ان کی پارٹی کے تھے اور پھر ان کے ہم وطن تھے- پس ان کی تحریر کو دشمن کی تحریر نہیں کہا جا سکتا اور ان کی شہادت اس لئے زیادہ معتبر ہے کہ انہوں نے یہ بات پنڈت لیکھو صاحب کے چچا سے سن کر لکھی ہے- پس اب آریہ صاحبان اور حکومت کے لئے اصولا صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ یہ ثابت کر دیں کہ سوامی شردھانند جی نے جو کچھ لکھا ہے عداوت سے اور جھوٹ لکھا ہے- تب بے شک وہ ہم سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پنڈت لیکھرام کو لیکھرام لکھا کرو اور اگر وہ ایسا ثابت کر دیں تو گورنمنٹ سے پہلے میں الفضل کو تنبیہہ کروں گا- لیکن اگر سوامی شردھانند جی نے سچ لکھا ہے اور پنڈت جی کا نام لیکھو ہی تھا تو لیکھو کو لیکھو لکھنے پر وارننگ دینے میں حکومت نے نہایت بے انصافی سے کام لیا ہے اور اس پر شور مچانے والے آریوں نے حماقت سے-
مسیح موعود کا نام والدین نے کیا رکھا
‏]1txet [tagاب اوپر کی بات کو سمجھ کر آریہ اخبارات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مرزو لکھیں یا غلمو یا سندھی جیسا کہ انہوں نے نوٹس دیا ہے- لیکن اگر انہیں شرافت انسانی سے کوئی بھی حصہ ملا ہے تو انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام ان کے والد نے غلاماحمد نہیں بلکہ مرزو یا غلمو رکھا تھا غلام احمد بعد میں انہوں نے خود یا ان کی جماعت نے رکھ لیا- اگر وہ یہ ثابت کر دیں گے تو ہمیں ہرگز ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ ہم انہیں حق بجانب سمجھیں گے-
اسلامی بادشاہوں کی ہتک
میں نے اپنے خطبہ میں ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ مسلمانوں کے بزرگوں کی طرح مسلمانوں کے بادشاہوں کے خلاف بھی ہندوئوں کا ایک طبقہ خصوصاً آریہ بد کلامی اور دشنام دہی سے کام لیتا رہتا ہے لیکن حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی- لیکن اسلامی بادشاہوں کے باغی جو بھگتسنگھ وغیرہ کے طریق پر چلتے رہے ہیں جیسے سیواجی وغیرہ- جب بعض اسلامی اخبارات نے ان کی اصلیت کو بے نقاب کرنا چاہا ہے تو حکومت اس میں دخل دیتی رہی ہے- لیکن یہ بیاصولاپن ہے اور اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ حکومت بعض موقعوں پر عدل اور انصاف کے ماتحت نہیں بلکہ ضرورت اور ذاتی اغراض کے ماتحت کام کرتی ہے- اگر یہ نہیں تو حکومت اس امر میں امتیاز کر کے دکھاوے کہ کیوں سیوا جی کو برا کہنے پر وہ قانون کو جنبش دیتی ہے لیکن اورنگ زیب کو برا کہنے پر کچھ نہیں کہتی اور کیوں وہ سیواجی کے خلاف لکھنے والوں پر اظہارناراضگی کرتی ہے جب کہ وہ بھگت سنگھ کی تائید میں جو یقیناً سیواجی سے بڑھ کر حبوطنی کے جذبہ سے معمور تھا مضمون لکھنے والوں کو ملک کے امن کا برباد کرنے والا قرار دیتی ہے-
سیواجی اور بھگت سنگھ کا مقابلہ
یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر سیواجی اور بھگتسنگھ کا مقابلہ کیا جائے تو بھگت سنگھ یقیناً سیواجی سے زیادہ حب وطن کے جذبات سے معمور تھا کیونکہ سیواجی کو لوٹ مار کی بھی خواہش تھی جو بھگت سنگھ کو نہ تھی- سیواجی کو احتمال تھا کہ اگر میں جیتا تو ملک کا بادشاہ ہو جائوں گا لیکن بھگتسنگھ جانتا تھا کہ میں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں کامیاب بھی ہو جائوں تب بھی حکومت گاندھی جی اور نہرو جی کے قبضہ میں جائے گی اس کے نام صرف شاباش ہی شاباش لکھی جائے گی- سیواجی جانتا تھا کہ وہ بھی اورنگ زیب کی طرح تلوار چلا سکتا ہے اور مقابلہ کر کے ہوس نکال سکتا ہے- لیکن بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اسے چوری چھپے حملہ کرنے کے سوا برسر پیکار آنے کا موقع میسر نہیں- سیواجی کے پیچھے اس کی قوم کی امداد تھی اور بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اس کی قوم کے بزدل مخفی طور پر شاباش دینے کے سوا اس کی کوئی امداد نہیں کریں گے- بلکہ ظاہر میں اس کے فعل سے برائت کا اظہار کرتے رہیں گے- سیواجی جانتا تھا کہ مسلم بادشاہ اپنی قدیم روایات کے مطابق اس سے نرمی کا سلوک کرے گا- بھگت سنگھ جانتا تھا کہ اسے انگریزی قانون کے ماتحت ایک فوجی کی موت مرنے کا بھی موقع نہیں دیا جائے گا بلکہ ایک مجرم کی موت مرنے پر مجبور کیا جائے گا- سب سے آخر میں یہ کہ سیواجی اس بادشاہ کے مقابل پر کھڑا ہوا تھا جس نے ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا تھا اور جسے غیر ملکی بادشاہ نہیں کہا جا سکتا تھا- لیکن بھگت سنگھ ایک غیرملکی حکومت کے خلاف کھڑا تھا- پس ان سب امتیازوں اور ان کے علاوہ اور بہت سے امتیازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیواجی یقیناً بھگت سنگھ سے بہت ادنیٰ تھا اور اگر اس کا فعل قابلتعریف تھا اور اس کے خلاف لکھنا جرم ہے تو یقیناً بھگت سنگھ کا فعل اس سے سینکڑوں گنے زیادہ قابل تعریف ہے اور اس کے خلاف لکھنا اور بھی جرم ہے-
ملک معظم کے بعض نمائندوں کی غداری
حقیقت یہ ہے کہ ملک معظم کے ان نمائندوں میں سے جو ہندوستان میں مقرر ہیں بعض نے اورنگ زیب کے خلاف مضمون لکھوا کر اور سیواجی کی تعریف کر کے اس اعتماد کو جو ملک معظم نے ان پر کیا تھا غلط ثابت کر دیا ہے اور حکومت برطانیہ سے غداری کی ہے اور فسادات اور بغاوت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے کہ کانگریس پر بھی اس سے بڑھ کر الزام نہیں لگایا جا سکتا- وہ خیال کر رہے تھے کہ ہم اورنگ زیب کو برا بھلا کہلوا کر اور سکول کے کورسوں میں اس کی مذمت لکھوا کر ہندوستان کے ماضی کو مٹا رہے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہندوستان کا بے حد چالاک پنڈت اسی ذریعہ سے اپنے لئے ایک شاندار مستقبل تیار کر رہا ہے اور برطانیہ کی ہندوستانی حکومت کے عین دل پر اسی طرح ایک خنجر مار رہا ہے جس طرح سیواجی نے افضل خان کے دل پر خنجر مارا تھا- سچ ہے چاہ کن را چاہ درپیش-
مسلمانوں کا گورنمنٹ سے مطالبہ
اورنگ زیب کا بدلہ حکومت برطانیہ نے لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے بدلہ لیا اور بہت عبرتناک طور پر لیا- یعنی سیواجی کو بھگت سنگھ کے بھیس میں کھڑا کر کے حکومت سے اس کے رویہ کی مذمت کروا دی اور اس کی پالیسی کی غلطی کا اس سے اعتراف کروا لیا- لیکن مسلمانوں کا حق ابھی موجود ہے وہ حق رکھتے ہیں کہ حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ یا تو اورنگ زیب اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بے معنی پروپیگنڈا کو بند کروایا جائے کہ جو اول انگریزوں نے شروع کیا اور اب اسے مہاسبھائی ذہنیت کے ہندو جاری رکھے جا رہے ہیں- یا پھر مسلمان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گے کہ حکومت کے نزدیک بھگت سنگھ کا یہ فعل بھی قابل تحسین ہے- اور اگر بعض لوگ اپنی اولادوں کے دلوں میں اس نیک فعل کی یاد تازہ رکھنے کے لئے بھگتسنگھ کی برسی منایا کریں تو یقیناً مسلمان ان سے ہمدردی رکھیں گے- لیکن کیا حکومت اس فعل کو جائز رکھے گی؟
سیواجی اور بھگت سنگھ دونوں قاتل اور باغی تھے
قتل اور بغاوت بہرحال قتل اور بغاوت ہیں خواہ گورنمنٹ آف انڈیا کی طرف سے انہیں برکت حاصل ہو یا کانگریس کی طرف سے- ہم تو بااصول آدمی ہیں ہم تو سیواجی اور بھگت سنگھ دونوں کو قاتل اور باغی سمجھتے ہیں اور دونوں کے فعل کو قابل ملامت خیال کرتے ہیں اور انگریزی حکومت کو سیواجی کی پشت پناہی اور کانگریس کو بھگت سنگھ کی تائید کے لئے یکساں مجرم خیال کرتے ہیں- ان دونوں نے ملک کے اخلاق بگاڑ دیئے ہیں اور دونوں خدا اور مخلوق کے سامنے جواب دہ ہیں- کاش گورنمنٹ سیواجی کی حمایت اور اورنگزیب کی مذمت کر کے بھگت سنگھ پیدا نہ کرتی اور کانگریس بھگت سنگھ کی تائید کر کے آئندہ نسلوں کے قاتل اور غارت گر بننے کے لئے راستہ نہ کھولتی-
ایک آریہ اخبار اور اورنگ زیب
ایک آریہ اخبار اپنی عادی ناسمجھی سے کام لے کر میرے خطبہ کے اس حصہ کے متعلق یہ لکھتا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے باپ کو قید کیا اس کی تائید کس طرح کی جا سکتی ہے- گویا سیواجی اس کے خیال میں اس لئے قابل تعریف ہے کہ اس نے اورنگ زیب کا مقابلہ اس کے اپنے باپ سے بغاوت کرنے کے سبب سے کیا تھا لیکن یہ درست نہیں- سیواجی خود ہی اپنے والد کا فرمانبردار نہ تھا وہ اورنگ زیب کے خلاف اس لئے کیونکر کھڑا ہو سکتا تھا اور اگر اس کے اس طرح کھڑے ہونے کی یہی وجہ تھی تو اس نے حاجیوں کو لوٹنے کا ارتکاب کس جرم کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا تھا اور اگر یہ درست ہے کہ سیواجی اس لئے بغاوت پر آمادہ ہوا تھا کہ شاہجہان کا بدلہ لے تو جہانگیر اور شاہ جہان کے اس قسم کے فعل کا مقابلہ کرنے کے لئے کون سا ہندوسورما کھڑا ہوا تھا-
مغل شہزادوں کی بغاوت کی وجہ
اصل بات یہ ہے کہ مغل شہزادوں کی بغاوت جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہندو راجائوں کی ریشہ دوانی کی وجہ سے تھی- ہر مغل شہزادہ جو بغاوت پر آمادہ ہوا وہ ہندو راجائوں کی مخفی تائید رکھتا تھا- پس یہ بغاوتیں درحقیقت ہندوئوں کی چالاکیوں سے اور اسلامی حکومت کی تباہی کی غرض سے ہوئی تھیں اور شاہزادوں کا یہ قصور تھا کہ وہ اپنے ہندو مشیروں کے فریب میں آ گئے اور ان کی چکنیچپڑی باتوں کو انہوں نے قبول کر لیا- صرف اورنگ زیب ہی ایک مغل شہزادہ تھا جس نے اپنے بھائیوں کا مقابلہ اصول کے ماتحت کیا- یعنی اس نے صرف اس وجہ سے اپنے بھائیوں سے جنگ کی کہ وہ ہندو اثر سے متاثر ہو کر جن اصول پر اس وقت حکومت کی بنیاد قائم تھی انہی کو توڑنے لگے تھے- پس اورنگ زیب نے اس وقت کی کانسٹی ٹیوشن کی تائید کی اس وجہ سے وہ باغی نہ تھا بلکہ اس کا مقابلہ کرنے والے باغی تھے اور اس کے خلاف لکھنے والے آریہ مصنف صرف اس وجہ سے اس کے خلاف لکھتے ہیں کہ اس نے ان کی سازشوں کو تباہ کر دیا اور دوسرے مغل بادشاہوں کے خلاف اس لئے نہیں لکھتے کہ وہ خود ہندو راجائوں کا آلہ کار تھے-
ہندو ریاستوں کے صریح مظالم
اگر آریہ اخبارات سیواجی کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ اس نے ظالم حکومت کا مقابلہ کیا تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ صریح ظلم جو اس وقت بہت سی ہندو ریاستوں میں ہو رہا ہے کیا وہ پسند کریں گے کہ مسلمان بھی سیواجی کی اتباع کر کے اسی کے اصول کو اختیار کر کے ان ریاستوں کے حکام سے وہی معاملہ کریں جو سیواجی نے اورنگ زیب اور اس کے جرنیل افضل خان سے کیا تھا اگر وہ بااصول ہیں اور محض شرارت سے سیواجی کی تعریف نہیں کرتے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اس امر کا کھلے طور پر اعلان کریں کہ سیواجی نے جو کچھ کیا وہ درست تھا اور ویسا ہی معاملہ کرنا ہر اس شخص کے لئے جائز ہے جو خیال کرتا ہو کہ حکومت ظلم کر رہی ہے اور پھر وہ تمام لوگ جو بعض ہندو ریاستوں کے ان شدید مظالم کا جواب دینے کے لئے سیواجی کے اصول پر کھڑے ہوں ان کی تائید کریں اور سیواجی کی طرح ان کی بھی عزت قائم کریں- تب بیشک میں سمجھوں گا کہ ان کا یہ فعل شرافت پر مبنی ہے-
آریہ اخبارات اور بھگت سنگھ
میں ان آریہ اخبارات سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ اگر سیواجی کا فعل درست تھا تو کیوں وہ بھگت سنگھ کی کھلے طور پر تعریف نہیں کرتے- اس کے معاملہ میں وہ یا تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے حکومت کے خلاف قتل کا کوئی ارادہ ہی نہیں کیا اور یا پھر یہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کا یہ فعل برا تھا گونیت نیک تھی- جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ سیواجی کی تعریف جھوٹے طور پر کرتے ہیں اور یا پھر وہ بھگت سنگھ کے فعل کو برا قرار دیتے ہیں منافقت سے کام لیتے ہیں- ان دونوں صورتوں سے باہر اور کوئی صورت نہیں ہے- اگر اور کوئی صورت ممکن ہے تو وہ اسے پیش کریں- لیکن وہ یاد رکھیں کہ گالیاں دینا اور بات ہے لیکن دلائل سے وہ ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ثابت نہیں کر سکتے- پس آریہ یقیناً یا تو سیواجی کی تعریف کرنے میں منافقت سے کام لے رہے ہیں یا بھگت سنگھ کے فعل کو برا قرار دینے میں- لیکن حق یہی ہے کہ دوسرے فعل میں وہ منافقت سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اورنگ زیب زندہ نہیں لیکن حکومت ہند باوجود خود کشی کی پالیسی اختیار کرنے کے پھر بھی انہیں سزا دینے کے قابل ہے اور آریوں کا سیواجی اور بھگت سنگھ کے متعلق متضاد رویہ محض ڈر سے ہے نہ کسی اصل کی پابندی کی وجہ سے لیکن ہر شریف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق کیسا گندہ اور کیسا مکروہ ہے-
اب میں اپنا نقطئہ نگاہ بیان کر چکا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ حکومت اور آریہ جو بھی میرے مضامین کے متعلق کوئی قدم اٹھانا چاہے اس کو اچھی طرح سمجھ لے تابعد میں انہیں ندامت نہ اٹھانی پڑے اور آریہ صاحبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خواہ کس قدر بھی گالیاں دیں اس سے ہمیں نقصان نہیں پہنچ سکتا- میں جانتا ہوں کہ جس بنیاد پر میں نے اپنے دعویٰ کو رکھا ہے وہ نہایت مضبوط ہے اور آریہ باوجود پورا زور لگانے کے اس کو رد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے-
الفضل کو تنبیہہ
میرا کام واضح ہے- ہمارے سلسلہ کے بانی کا احترام ہماری نظر میں اس سے ذرہ بھر بھی کم نہیں جس قدر کہ سناتن دھرمیوں کے دل میں کرشنجی اور رام چندر جی کا احترام ہے اور مسیحیوں کے نزدیک حضرت مسیح کا- پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی عزت کی حفاظت کے لئے پورا زور لگائیں- میں کسی صورت میں خلاف اخلاق اور جھوٹ پر مشتمل مضمون کی اجازت نہیں دوں گا- چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک مضمون پر میں الفضل کو تنبیہہ کر چکا ہوں-
گورنمنٹ اور آریہ اپنا رویہ بدلیں!
لیکن جب تک کہ حکومت آریوں کو اس گندے الزام کے لگانے سے جو وہ حضرت مسیح موعود علیہالسلام پر لگاتے ہیں نہیں روکے گی میں اور جماعت احمدیہ ہرگز دوسری جماعتوں کے بزرگوں کا ادب کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے- بزرگوں کا احترام ایک سودا ہوتا ہے اور اس کی قیمت دونوں فریق کے لئے ادا کرنی ضروری ہے- پس ہم برابر ایسے سامان پیدا کرتے چلے جائیں گے کہ جن کی وجہ سے ایک طرف حکومت مجبور ہو کر اپنے رویہ کو بدلے اور دوسری طرف آریہ لوگ بھی مجبور ہوں کہ اخلاق کے معنی سیکھیں اور اخلاقی تعلیم پر عمل کریں- اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے تو اسے چاہئے کہ آئندہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور مسلمانوں کے دوسرے بزرگوں اور بادشاہوں کی عزت کی حفاظت کرے- اس کے بعد اگر ہم کوئی تحریر ایسی شائع کریں کہ جس میں آریوں یا کسی اور قوم کے بزرگ کی ذاتی ہتک ہو تو بے شک ہم قانونی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی مجرم ہوں گے لیکن اس سے پہلے نہیں اور ہرگز نہیں-
مضمون کا دوسرا حصہ
میرے مضمون کا ایک حصہ ابھی باقی ہے اور وہ ان غلط فہمیوں کے متعلق ہے جو میرے خطبہ سے خود احمدی جماعت یا دوسرے مسلمانوں کو پیدا ہوتی ہیں میں اس کے متعلق کچھ دوسرے مضمون میں بیان کروں گا لیکن سردست تو آشوب چشم کی وجہ سے یہ مضمون بھی میں نے تکلیف سے لکھا ہے اور کئی دن میں جا کر ختم کیا ہے-
)الفضل ۲۸- مئی ۱۹۳۱ء(
‏a12.18
انوار العلوم جلد ۱۲
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏gap] [tag
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جماعت احمدیہ دہلی کے ایڈریس کا جواب
دہلی کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جو حتی الوسع ان تمام ذرائع کو استعمال کرتی ہیں- جن سے وہ کوشش کرتی ہیں کہ جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھے- جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرتا ہے اور اخلاص سے کوشش کرتا ہے وہ اس کا نتیجہ ضرور دیکھ لیتا ہے- یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال صرف کرے‘ اپنا آرام اور وقت صرف کرے اور پھر اس کی کوششوں کا نتیجہ نہ نکلے- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا تعلق رکھتا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں-۱~}~ پس گو ان لوگوں کی کوششیں دنیا والوں کی نظروں میں بیکار معلوم ہوں لیکن خدا کے نزدیک وہ ضائع نہیں ہوتیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوششوں کے ساتھ خدا پر پورا توکل ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی عجیب رنگ میں اپنی قدرتوں کا اظہار کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں جب آتھم والی پیشگوئی کی نسبت شور اٹھا کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا تو انہی دنوں ایک دن نوابصاحببہاولپور کی مجلس میں اس کا ذکر آیا- لوگوں نے حسب معمول تمسخر سے کہنا شروع کیا کہ آتھم نہیں مرا اور پیشگوئی جھوٹی نکلی- اس مجلس میں نواب صاحب کے پیر بھی بیٹے تھے- وہ خاموش سنتے رہے لیکن جب نواب صاحب بھی لوگوں کے ساتھ تمسخر میں شریک ہوئے تو ان کے پیر صاحب نے نہایت سختی کے ساتھ کہا- کون کہتا ہے کہ آتھم نہیں مرا میں تو اس کو مردہ دیکھتا ہوں- اصل بات یہ ہے کہ وہ انسان جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے وہ کبھی الہی کاموں کی نسبت یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ان کا نتیجہ نہیں نکلے گا- میں اس وقت چھوٹا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تھے- آپ یہاں کے اولیاء اللہ کے مزاروں پر گئے اور بہت دیر تک لمبی دعائیں کیں اور فرمایا- میں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں کی روحیں جوش میں آئیں تا ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی نسلیں اس نور کی شناخت سے محروم رہ جائیں جو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے- اور فرمایا کہ یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا اور وہ حق کو قبول کریں گے- میں گو اس وقت چھوٹا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس قول کا اثر اب تک میرے دل پر باقی ہے- پس یہاں کی جماعت اپنی کوششوں کا اگر کوئی نیک نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ خدا پر بھروسہ رکھے- یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ جس چیز کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہے گی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک نالی بہت لمبی کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے- میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں- ان کے نزدیک جا کر میں نے کہا- قل مایعبوابکم ربی لولا دعاوکم- انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیر دیں- جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا کہ تم چیز کیا ہو- گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو-۲~}~ ان ایام میں ستر ہزار آدمی ہیضہ سے مرا تھا- پس اگر کوئی توجہ نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے- اس کے کام رک نہیں سکتے وہ ہو کر رہیں گے-
بھلا کون شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہ خیال کر سکتا تھا کہ آپ کو یہ ترقیاں حاصل ہو جائیں گی- حضرت مسیح ناصری کے تین سو سال بعد عیسائیت کو ترقی نصیب ہوئی لیکن اگر ہمارے حالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کے زمانہ سے بہت پہلے احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے گی- آپ نے جو مبلغ کے لئے درخواست کی ہے اس کے متعلق آپ ناظر صاحب کی وساطت سے لکھیں تو میں انشاء اللہ اس پر غور کروں گا کیونکہ میں نظام کو توڑنا نہیں چاہتا اور اگر میں ہی نظام کو توڑوں تو میں دوسروں سے کیا امید رکھ سکتا ہوں کہ وہ نظام کی پابندی کریں گے- لیکن ایک بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اس کو یاد رکھیں کہ مبلغوں کے ذریعہ تبلیغ نہیں ہوا کرتی- حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کوئی مبلغ نہیں رکھا بلکہ افراد کے ذریعہ سے اسلام پھیلا- یہ مت خیال کرو کہ ہمیں علم نہیں کیونکہ دین کے لئے ظاہری علم کی ضرورت نہیں ہے- وہ لوگ جنہوں نے ہمیں اسلام پہنچایا وہ بڑے عالم نہ تھے- لیکن وہ ایران پہنچے‘ چین پہنچے‘ غرض کہ اطراف و اکناف عالم میں پہنچے اور جہاں گئے وہاں کے عالموں کو زیر کیا- یہ وہ نور تھا جو خدا نے انہیں بخشا تھا اور اس نور کو لے کر وہ جس طرف نکلے خدا نے انہیں کامیابی عطا کی- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص پیرا نام یہاں آیا وہ کسی سخت مرض میں مبتلا تھا- لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ تو قادیان چلا جا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا- بعد میں اس کے رشتہ دار اس کو لینے کے لئے آئے تو اس نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا میں اب اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا- وہ شخص پیرا اس قدر سادہ طبع تھا کہ مٹی کا تیل دال میں ڈال کر روٹی کے ساتھ کھا جاتا ان دنوں میں مولویمحمدحسین صاحب بٹالوی بٹالہ کی سڑک پر جا کر لوگوں کو قادیان آنے سے روکا کرتے تھے- ایک دن پیرا جو ادھر سے گزرا تو مولوی محمد حسین صاحب نے اسے بھی روکا اور قادیان جانے سے منع کیا- پیرا نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ مرزا صاحب تو ایک چھوٹے سے گمنام گائوں کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہیں‘ وہ گھر سے باہر بھی کم نکلتے ہیں‘ نہ لوگوں سے زیادہ ملتے جلتے ہیں لیکن پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ لوگ دیوانہ وار اس طرف کھچے چلے جاتے ہیں- اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے اس سڑک کے ہزاروں چکر کاٹے‘ آپ کی ایڑیاں گھس گئیں اور جوتیاں ٹوٹ گئیں لیکن پھر بھی آپ لوگوں کو قادیان جانے سے نہ روک سکے- پس دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ سچے سلسلہ میں ہونے والوں کے دلوں کو کھول دیتا ہے اور انہیں اس طرح باطنی علوم سے پر کر دیتا ہے کہ بڑے بڑے عالم ان کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں- پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی مبلغ تمہارے کام میں نہیں آئے گا جب تک تم میں سے ہر فرد مبلغ نہ بنے- یاد رکھو کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے- ہر انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے- ہاں راہنما ہوتے ہیں لیکن وہ اس راہ میں روک نہیں بلکہ وہ تو راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں اور اگر کسی کا وجود اس راہ میں روک ہو تو وہ دنیا کے لئے زحمت ہے نہ کہ رحمت- پس کوشش کرو کہ تم میں سے ہر فرد مبلغ بنے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق پیدا ہو-
آج ایک انجنیئر صاحب مجھ سے ملے- کہنے لگے ہمارے گائوں میں ایک شخص )حضرت( مرزا صاحب کا سخت مخالف تھا وہ اب دیوانہ ہو گیا ہے- آپ لوگ جھٹ کہہ دیں گے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کا نتیجہ ہے- میں نے کہا دیکھو اگر دو چار واقعات ایسے ہوتے تو ہم اتفاق پر محمول کر لیتے- لیکن یہاں تو دس نہیں‘ بیس نہیں‘ سینکڑوں‘ ہزاروں واقعات اسی قسم کے ہیں- اب کہاں تک انہیں اتفاقیہ امر سمجھیں- جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تھے تو لکھنئو کا ایک مولوی ایک دن آپ کے مکان پر آیا- حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اس وقت کھانا کھا رہے تھے- خادم نے کہا آپ ٹھہریئے حضرت صاحب کھانا کھا رہے ہیں- اس مولوی نے کہا نہیں انہیں کہو کہ ایک پولیس آفیسر باہر کھڑا ہے اور وہ ابھی بلاتا ہے- حضرت صاحب نے یہ سن لیا اور خود ہی باہر تشریف لے آئے- اتفاق سے اس وقت آپ کا پائوں ایک مقام پر پھسل گیا اس پر اس نے تمسخر کیا کہ اچھے مسیح ہیں کہ پولیس آفیسر کے ڈر سے پائوں پھسل گیا- لیکن ابھی تین دن بھی نہیں گذرے تھے کہ وہ خود چھت کے زینہ سے گر کر مر گیا اور خدا نے اسے بتا دیا کہ خدا کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کا کیا نتیجہ ہوتا ہے- بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے مرزا صاحب کو کوڑھ ہو جائے گا- خدا نے انہیں ہی کوڑھ میں مبتلاء کر دیا- بہت کہتے تھے مرزا صاحب کو طاعون ہو جائے گا- خدا نے یہ کہنے والوں کو طاعون سے ہلاک کیا- جب ہزاروں مثالیں اسی قسم کی موجود ہیں تو ہم کہاں تک انہیں اتفاق پر محمول کریں- پس اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا اسے محسوس کرے- تمہاری حالت یہ ہو کہ تمہارے تقویٰ و طہارت‘ تمہاری دعائوں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں- یاد رکھو کہ احمدیت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہوگی اور اگر آپ لوگ اس مقام پر یا اس کے قریب تک ہی پہنچ جائیں تو پھر اگر آپ باہر بھی قدم نہ نکالیں گے بلکہ کسی پوشیدہ گوشہ میں بھی جا بیٹھیں گے تو وہاں بھی لوگ آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے-
)الفضل ۴ جون ۱۹۳۱ء(
۱~}~
بخاری کتاب الرد علی الجھمیہ وغیرھم التوحید باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ
۲~}~
ملفوظات جلد۴ صفحہ۱۲۵- جدید ایڈیشن
‏a12.19
انوار العلوم جلد ۱۲
زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل
زمینداروں کی اقتصادی مشکلات کا حل
حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی ][اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
زمینداروں کی اقتصادی حالت
کس طرح درست ہو سکتی ہے؟
وہ معرکہ الارا مضمون جو زمیندارہ کانفرنس منعقدہ لائلپور)۲۰‘۲۱ جون ۱۹۳۱ء( میں پڑھا گیا اور جس میں زمینداروں کی مالی حالت درست کرنے کے متعلق بہترین و قابل عملدرآمد تجاویز مندرج ہیں
ملکی ترقی کیلئے نیک فال
بردران! مجھے اس بات کو معلوم کر کے نہایت ہی خوشی ہوئی ہے کہ زمیندار جو اس بات میں بدنام ہیں کہ انہیں سوائے اپنے قریبی ضروریات کے اور کسی بات کی طرف توجہ نہیں ہوتی‘ اب اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور میں آپ کی موجودہ کانفرنس کو اپنے ملک کی ترقی کے لئے ایک نہایت ہی نیک فال سمجھتا ہوں-
زمینداروں کے مقاصد اجتماع سے ہمدردی
گو میں اس علاقہ کا باشندہ نہیں ہوں جس علاقہ کے زمینداروں کی یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے لیکن بوجہ اس کے کہ میں خود زمیندار ہوں اور ہزار ہا آدمی میری جماعت کے اس علاقہ میں بستے ہیں جس کی طرف سے یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہے مجھے آپ لوگوں کے اجتماع کے مقاصد سے پوری دلچسپی اور ہمدری ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جس خلوص نیت سے میں آپ لوگوں کو اپنے علم اور تجربہ کے مطابق اپنی اقتصادی حالت کی درستی کی طرف توجہ دلائوں گا اسی خلوص نیت کے ساتھ آپ لوگ بھی میری باتوں پر غور کریں گے- خواہ ان میں سے بعض باتیں آپ کے موجودہ خیالات کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں-
ہر شعبہ زندگی میں دیانتداری مقدم رہے
سب سے پہلے میں آپ لوگوں سے یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں دیانتداری اور سچائی کو مقدم رکھنا چاہئے اور خواہ ہمارا مخاطب ہم سے کس قدر ہی اختلاف رکھتا ہو اس کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے-
گورنمنٹ اور زمیندار
پس گو اس وقت ہمارے اجتماع کی غرض یہ ہے کہ گورنمنٹ کے سامنے اپنی موجودہ حالت کو پیش کرتے ہوئے اس سے معاملہ اور آبیانہ کی کمی کا مطالبہ کریں لیکن ہمیں یہ امر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے پچھلے تمام دستوروں کے خلاف اس سال معاملے اور آبیانے میں ایسی کمی کی ہے جسے ہم خواہ اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے کتنا ہی تھوڑا سمجھیں لیکن گورنمنٹ کے پچھلے عمل اور پچھلے طریق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑی کمی ہے-
پس گو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کمی سے زمینداروں کی تکلیف دور نہیں ہو سکتی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس کمی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ گورنمنٹ نیک نیتی کے ساتھ زمینداروں کی تکالیف پر غور کرنے کیلئے تیار ہے-
پس جہاں ہمیں گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ معاملہ اور آبیانہ میں اور کمی کرے وہاں ہمیں ہزایکسی ژلنسی دی گورنر ریونیو ممبر کا ممنون بھی ہونا چاہئے کہ انہوں نے قدیم روایات کے خلاف اور موجودہ حالت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک صحیح طرف قدم اٹھایا ہے- میں یقین رکھتا ہوں کہ اس نیت کی موجودگی میں جس کا گورنمنٹ نے اظہار کیا ہے اگر واقعات کو صحیح طور پر اور نڈر ہو کر گورنمنٹ کے سامنے رکھ دیا جائے تو گورنمنٹ ضرور موجودہ تکلیف کے دور کرنے کے لئے ایک اور قدم اٹھائے گی اور زمیندار اس تباہی سے دو چار ہونے سے محفوظ ہو جائیں گے جو فقر اور فاقہ کی صورت میں ان کے سامنے آ رہی ہے-
زمینداروں کی تکلیف کا اصلی باعث
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر گورنمنٹ معاملہ اور آبیانہ میں معتدبہ کمی کر دے تو زمینداروں کی موجودہ تکالیف میں ایک حد تک کمی آ جائے گی- لیکن ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ زمینداروں کی مشکلات عارضی مشکلات نہیں ہیں اور کم سے کم ہم اپنے صوبے کے زمینداروں کے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنگ اور جنگ کے بعد کے چند سالوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے زمینداروں کو کبھی بھی حقیقی خوشحالی نصیب نہیں ہوئی-
پس اگر ہم زمینداروں کی حقیقی خوشحالی چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اس امر پر غور کریں کہ اس تکلیف کے بواعث کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے؟ اس سال کے معاملے کی تخفیف کا نتیجہ صرف اتنا نکلے گا کہ بہت سے زمیندار اس سال تکلیف سے بچ جائیں گے لیکن قوم کی موت بہرحال بری ہے- اگر کوئی قوم ایک سال کی بجائے دس سال میں تباہ ہو جاتی ہے تو ہم اس پر خوش نہیں ہو سکتے- پس اس سال معاملے یا آبیانہ کی تخفیف اس تباہی سے زمینداروں کو نہیں بچا سکتی جو آہستگی سے لیکن یقینی طور پر ہر سال زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ آ کر انہیں ہلاکت کی طرف پہنچا رہی ہے-
زمیندار قرض کی بلا میں
اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک کے زمینداروں کا بیشتر حصہ مقروض ہے اور مقروض بھی اس قدر کہ اس قرض سے بچنے کی ان کے پاس کوئی بھی صورت نہیں اور ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ زمینداروں نے یہ قرض صرف شوق کے طور پر بڑھا دیا ہے- میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ زمیندار بوجہ تعلیم کی کمی اور رسوم میں مبتلا ہونے کے قرضہ لینے میں بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ زمیندار کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ہمارا سارا ملک تعلیم میں پیچھے اور رسوم کی بلا میں گرفتار ہے- لیکن باوجود اس کے زمینداروں کے سوا دوسرے طبقے اس قدر مقروض نہیں ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمینداروں کے مقروض ہونے کے بواعث تعلیم کی کمی اور رسوم کی پابندی کے سوا کچھ اور بھی ہیں- اور جب تک ہم تمام اس بات پر غور نہیں کریں گے اور ان کا علاج نہیں کریں گے اس وقت تک زمیندار کبھی بھی ان تکالیف اور دکھوں سے نہیں بچ سکتے جن میں وہ آج کل ہر وقت مبتلا رہتے ہیں-
پس میں زمینداروں کی اقتصادی حالت کی خرابی کے متعلق بحث کرتے ہوئے ان تمام ضروری امور کے متعلق روشنی ڈالوں گا جو مستقل طور پر یا عارضی طور پر زمینداروں کی اقتصادی حالت کی خرابی کا موجب ہو رہے ہیں- اور پھر میں وہ علاج بتائوں گا جس کے ذریعہ سے ہم ان خرابیوں کو پورے طور پر یا ایک حد تک دور کر سکتے ہیں-
نرخ کی خرابی کے اسباب
یاد رکھنا چاہئے کہ نرخ کی خرابی کے اسباب میں دو بڑے سبب گاہک کی کمی یا جنس کی فراوانی ہوتے ہیں- یعنی یا تو چیز اس لئے سستی ہو جاتی ہے کہ اس کے گاہک کم ہوتے ہیں یا اس لئے سستی ہو جاتی ہے کہ گاہکوں کی ضرورت سے زیادہ اس کی پیداوار ہو جاتی ہے- اگر ان دونوں اسباب میں سے ایک سبب بھی پیدا ہو جائے تو زمینداروں کی مالی حالت کو بہت نقصان پہنچتا ہے- مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے زمینداروں کو ان دونوں مصیبتوں سے ایک ہی وقت میں پالا پڑا ہوا ہے- یعنی خریدار کی کمی بھی ان کی مالی حالت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور پیداوار کی زیادتی بھی- ¶
خریداروں کی کمی کی وجہ
خریداروں کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سال سے ہندوستان نے انگلستان کا مال خریدنا بند کر دیا ہے اور اس وجہ سے انگلستان کے بنکوں کا قرضہ ہندوستان کے بنکوں کے نام تھوڑا ہو گیا ہے- شاید عام زمیندار اس بات سے واقف نہ ہوں کہ ایک ملک کے لوگ جب دوسرے ملک سے کوئی چیز خریدتے ہیں تو وہاں سے روپیہ نہیں جاتا بلکہ اس مال کی خریداری صرف ہنڈیوں پر ہوتی ہے- مثلاً اگر ہندوستان کا کوئی تاجر ایک کروڑ روپیہ کا کپڑا انگلستان سے خریدے تو وہ ایک کروڑ روپیہ انگلستان نہیں بھیجے گا بلکہ جب وہ مال ہندوستان پہنچے گا تو وہ شخص ایک کروڑ روپیہ یہاں کے کسی بنک کو اس مال کے بدلے میں ادا کر دے گا اور وہ بنک اپنی انگلستان کی شاخ کو ایک کروڑ روپیہ ادا کرنے کی چھٹی لکھ دے گا اور اس طرح ہندوستان کی شاخ انگلستان کی شاخ کی ایک کروڑ روپیہ کی مقروض ہو جائے گی اور اس روپے کے بدلے میں انگلستان ایک کروڑ روپیہ تک کا مال ہندوستان سے خرید سکے گا اور اس طرح دونوں طرف کے قرضے ادا ہو جائیں گے- لیکن اگر ہندوستان انگلستان سے مال خریدنا بند کر دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انگلستان کے بنکوں کی ہندوستان کے بنکوں کے ذمہ کوئی رقم نہیں ہوگی- پس جب انگلستان کا روپیہ ہندوستان میں نہ ہوگا تو وہاں کے لوگ یہاں سے بھی مال خریدنے سے گریز کریں گے- کیونکہ اس صورت میں انہیں بجائے حساب فہمی کے نقد روپیہ ادا کرنا پڑے گا- اور یہ امر ملک کی اقتصادی حالت کے لئے نہایت مضر سمجھا جاتا ہے اور نسبتاً مہنگا پڑتا ہے-
پس انگریزی مال کے بائیکاٹ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ انگلستان نے ہندوستان سے مال خریدنا کم کر دیا اور اس طرح گاہکوں میں کمی آ گئی اور غلے اور کپاس کو نقصان پہنچا- کھانے والے اب بھی وہی موجود ہیں- دنیا کی آبادی کم نہیں ہو گئی- فرق یہ پڑا ہے کہ وہ انگلستان جو پہلے ہندوستان سے زیادہ مال خریدتا تھا اب وہ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور دوسری امریکن حکومتوں سے مال خریدتا ہے کیونکہ وہ ملک باہمی سمجھوتے کے ماتحت انگلستان سے مال خریدتے ہیں اور جبکہ انگلستان کی ضرورتیں ان ملکوں سے پوری ہو جاتی ہیں تو اسے ہندوستان سے پہلے کے برابر اجناس خریدنے کی ضرورت نہیں رہتی-
اجناس کی زیادتی کی وجہ سے نقصان
دوسرا نقصان ہندوستان کی اقتصادی حالت کو اجناس کی زیادتی کی وجہ سے ہوااس کے دو اسباب ہیں- اول یہ کہ جب جنگ عظیم کے دوران میں بہت سی اقوام نے یہ محسوس کیا کہ اگر کسی وقت کوئی زبردست بحری بیڑا ان کے تعلقات کو دوسرے ممالک سے قطع کر دے تو وہ نہایت سخت مشکلات میں پڑھ جائیں گے اور ان کے ملک کے لئے کافی غلہ مہیا نہیں ہو سکے گا- اس احساس کے اثر کے نیچے وہ ممالک جو صرف صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرتے تھے اور غلہ پیدا کرنے کی طرف ان کی بہت کم توجہ تھی‘ انہوں نے بھی اپنے ملک میں زراعت پر زور دینا شروع کیا تاکہ اگر آئندہ کسی جنگ میں ان کا محاصرہ بھی کر لیا جائے تو بھی انہیں کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہ ہو- نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے ممالک جس قدر غلہ پہلے دوسرے ممالک سے منگواتے تھے اس قدر غلہ منگوانے کی انہیں حاجت نہ رہی-
روس میں غلہ کی افراط
دوسرا سبب اجناس کی زیادتی کا یہ پیدا ہو گیا ہے کہ روس کے ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جس نے سب زمینداروں کی زمینیں لے کر سرکاری ملکیت قرار دے دی ہیں- ہر زمیندار کے پاس اتنی ہی زمین رکھی جاتی ہے جتنی وہ خود کاشت کر سکتا ہے اور کسی زمیندار کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے بوئے بلکہ گورنمنٹ بتاتی ہے کہ زمیندار کیا بوئیں اور کیا نہ بوئیں- گورنمنٹ نے مختلف تجربوں کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ کس علاقے میں کون سی چیز اچھی ہو سکتی ہے- اس علم کے ماتحت وہ زمینداروں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ صرف وہی چیز بوئیں جو گورنمنٹ کے نزدیک اس علاقے کیلئے مناسب ہے جب غلہ پیدا ہو جاتا ہے تو زمینداروں کو اس کے کھانے کے مطابق غلہ ملتا ہے- باقی ضرورتوں کے لئے گورنمنٹ خود انتظام کرتی ہے- یعنی کپڑے جوتی وغیرہ دوران سال میں خود مہیا کر کے دیتی ہے- اس طرح اجتماعی کاشت کے ذریعہ سے روس میں گیہوں کی پیدا وار بہت بڑھا لی گئی ہے اور ایک دو سال میں کپاس کی پیدا وار بھی اسی طرح بڑھا لینے کا اعلان کیا گیا ہے-
چونکہ روس کی آبادی اتنا غلہ نہیں خرچ کر سکتی جتنا کہ ملک میں پیدا ہونے لگ گیا ہے اس لئے کئی کروڑ من غلہ چو بچ گیا ہے وہ نہایت سستے داموں پر باہمی فروخت کیا جا رہا- پچھلے سال پندرہ آنے من تک سنا گیا ہے فروخت ہوا ہے- اور اس سال اس سے بھی شاید سستا ہو- یہ زیادتی اتفاقی امر نہیں ہے بلکہ روس کی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تاکہ اس سے دوسرے ملک کے زمینداروں کو نقصان پہنچے اور ان میں بغاوت پیدا ہو کر وہ کمزور ہو جائیں- سوائے روس کے اس قسم کی سکیم پر کوئی اور حکومت عمل نہیں کر سکتی کیونکہ وہاں سب زمین حکومت کی ہے اور وہ زمینداروں کو مجبور کر کے جس طرح چاہے کام لے سکتی ہے- پھر چونکہ حکومت زمینداروں کو روٹی کپڑا دے دیتی ہے وہ غلہ کا بھائو گرنے پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتے- دوسرے ممالک میں چونکہ یہ انتظام نہیں ہے وہاں کے زمینداروں کو تکلیف ہوتی ہے-
ہندوستانی کی سکہ کی گراں قیمت
تیسرا سبب جو اس وقت ہندوستان کی اقتصادی حالت کی خرابی کا موجب ہے وہ ہمارے سکہ کی قیمت ہے- گورنمنٹ نے روپیہ کی قیمت بڑھا دی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بیرونی ممالک کو اپنے سکے کے مقابلہ میں ہندوستان کا روپیہ کم ملتا ہے اور اس وجہ سے ہندوستان میں غلہ یا کپاس خریدنا ان کو مہنگا پڑتا ہے-
قاعدہ یہ ہے کہ جس ملک کے سکے کی قیمت گراں ہو جائے اس ملک کا مال باہر کم جاتا ہے اور جب سکہ کی قیمت گر جائے تو وہاں کا مال باہر زیادہ جاتا ہے- چنانچہ جنگ عظیم کے بعد جرمن حکومت نے جان بوجھ کر اپنے سکے کی قیمت اتنی گرا دی تھی کہ باہر کے ملکوں کو باقی ممالک کی نسبت جرمن کی چیزیں بہت سستی پڑنے لگ گئی تھیں- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باہر سے بہت آرڈر جرمن میں جانے لگ گئے اور جرمن کے کارخانے جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے- فرانس اور اٹلی نے بھی ایک حد تک اسی ترکیب سے فائدہ اٹھایا تھا- اب اگر ہندوستان کا روپیہ سستا ہو جائے تو گیہوں کے ریٹ بھی کسی قدر زیادہ ہو سکتے ہیں اور باوجود اس کے باہر سے آڈر بھی زیادہ آ سکتے ہیں-
بائیکاٹ دو دھاری تلوار ہے
یہ تو عارضی اسباب میں سے بعض ہیں جو اس وقت ہندوستان کی حالت کو خراب کر رہے ہیں- چونکہ بائیکاٹ ایک سیاسی سوال ہے میں اس کے متعلق زیادہ تفصیل سے کچھ نہیں کہنا چاہتا- صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے سال جاپان کی اقتصادی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور وہاں کے باشندوں میں سے ایک حصہ نے زور دینا شروع کیا تھا کہ باہر کے ممالک کی چیزیں خریدنی بند کر دی جائیں اس طرح ہمارا روپیہ محفوظ رہے گا- لیکن جاپانی وزیر مالیہ نے جن کے حب وطن کے جذبہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور جو جاپانی ہی ہیں غیر ملکی نہیں‘ ان لوگوں کے جواب میں یہ کہا تھا کہ بائیکاٹ دو دھاری تلوار ہوتی ہے- وہ انہی لوگوں کو نہیں کاٹتی جن کے خلاف تم اسے چلاتے ہو بلکہ ساتھ ہی تمہارا نقصان بھی کرتی ہے- اور یہ جواب نہایت ہی صحیح ہے-
پس یہ میں نہیں کہتا کہ سودا خریدا جائے یا نہ خریدا جائے- لیکن میں اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہم غیر ملکی سودا خریدنے کی لئے تیار نہیں تو ہمیں اس بات کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہئے کہ ہماری اجناس کے خریدار بھی ضرور کم ہو جائیں گے- پس اگر ہم غیر ملکی چیزوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیں تو ہمیں ایک عرصہ تک زمینداروں کی اقتصادی حالت کے بگڑے رہنے کو بھی قبول کر لینا چاہئے-
دوسرا موجب جو اجناس کی زیادتی کا ہے اس کے ایک حصے کا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں- یعنی ممالک جو اپنی ضرورتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ملک میں پورا کرنا چاہتے ہیں ان کو ہم اس فعل سے نہیں روک سکتے-
کیا روسی حکومت کا طریق اختیار کیا جائے
ہاں روسی حکومت کا فعل سرا سر اور محض سیاسی اغراض سے وابستہ ہے- اس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے- یا تو یہ کہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی روسی انتظام کو قبول کریں- یعنی سب زمیندار اپنے حقوق ملکیت ترک کر دیں- زمین کو نئے سرے سے برابر حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور کاشت کا اختیار زمینداروں کے قبضہ میں نہ رہے بلکہ حکومت کے ہاتھ میں ہو- حکومت جس چیز کی چاہے کاشت کرائے اور زمینداروں کو کھانا کپڑا دینے کی ذمہ وار ہو- ممکن ہے کہ ان ممالک کے لوگ جہاں کی زمین صرف چند بڑے بڑے زمینداروں کے قبضے میں ہے اس قسم کی تبدیلی کو ماننے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن پنجاب جس کی زمینیں پہلے ہی تقسیم شدہ ہیں اور آبادی کا زیادہ حصہ زمیندارہ پر گزارہ کرتا ہے- وہاں کے زمیندار تو میں سمجھتا ہوں کبھی بھی اس سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے- پس یہ علاج تو ہمارے ملک کیلئے کافی نہیں ہو سکتا-
دوسرا علاج یہ ہے کہ تمام ممالک اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ روسی پیدا وار ان کے ملک میں داخل نہ ہو سکے- اگر دنیا کی تمام یا اکثر حکومتیں اس بات پر اتفاق کر لیں تو موجودہ تباہی کا بہت کچھ علاج ہو سکتا ہے- پس میرے نزدیک اگر ہم اس مصیبت کو دور کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ وہ دوسری گورنمنٹوں سے مل کر یا تو روس کے غلے کی پیدا وار کو محدود کرائے یا سب مل کر اس بات پر اتفاق کر لیں کہ روسی اجناس اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے- اگر اس قسم کی کوئی تدبیر نہ کی گئی اور دوسری طرف روس میں بھی زمینداروں کی بغاوت کامیاب نہ ہوئی جو کہ روسی حکومت کے موجودہ قوانین کے سخت مخالف ہیں تو پھر دنیا کے زمیندار ایک لمبے عرصہ تک مشکلات میں مبتلا رہیں گے-
پونڈ کی قیمت بڑھا دی جائے
تیسرا عارضی سبب جو اس وقت ہندوستان کی اقتصادی حالت پر اثر ڈال رہا ہے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ ہم سب لوگ مل کر حکومت پر زور دیں کہ وہ اپنی اس پالیسی کو بدل دے کہ پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ روپے رہے بلکہ جس طرح پہلے ہوتا تھا وہ پونڈ کی قیمت پندرہ روپے کر دے- اس طرح ہندوستان کو گاہک زیادہ مل جائیں گے اور اجناس کی قیمت بڑھ جائے گی-
ریلوے کرائے کم کر دے
زمینداروں کی اقتصادی حالت کے درست ہونے کا ایک عارضی ذریعہ یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ ریلوے کے کرائے گرا دے اور جیسا کہ بعض دوسری گورنمنٹیں کرتی ہیں‘ جہازوں کو امداد دے کر ان کے کرائے بھی گروا دے- اس صورت میں بھی ہندوستان کو غلے کے گاہگ زیادہ مل جائیں گے اور قیمت بڑھ جائے گی-
پس ہمیں ان امور کے متعلق بھی گورنمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے- بظاہر گورنمنٹ پر یہ ایک بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتا ہے- لیکن عملاً اس صورت کو اختیار کرنے پر یہ بوجھ بہت کم ہو جائے گا کیونکہ غلہ کی قیمت فوراً بڑھ جائے گی اور گورنمنٹ کو معاملے میں اتنی تخفیف کی ضرورت نہ رہے گی جتنی کہ موجودہ حالات میں ہے اور اس میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا کہ معاملے میں تخفیف کر کے زمینداروں کی تکلیف دور کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں کہ غلہ کی قیمت بڑھ جائے اور غلے کی منڈیوں پر ہندوستان کا قبضہ قائم رہے-
زمینداروں کے نقصان کے مستقل اسباب
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ عارضی اسباب اور عارضی علاج ہے- ان کے علاوہ بعض مستقل اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہندوستان کے زمیندار خصوصیت کے ساتھ نقصان اٹھا رہے ہیں اور جب تک ہم ان اسباب کا علاج نہیں کریں گے اس وقت تک ہندوستان کے زمینداروں کی اقتصادی حالت درست نہیں ہو سکتی- ہمارے ¶ملک کی بہت بڑی بد قسمتی ہو گی اگر ہمارا زمیندار طبقہ موجودہ عارضی مشکلات کو دور کر کے پھر غافل ہو جائے- کیونکہ اس صورت میں وہ آج ایک چھوٹی تباہی سے بچ کر آج سے دس سال بعد ایک بہت بڑی تباہی میں مبتلا ہو جائے گا- پس میں ان اسباب کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو اسباب کہ مستقل طور پر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو خراب کر رہے ہیں-
پہلا سبب
پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی زمینوں کی پیدا وار اجتماعی کوشش سے حاصل نہیں کی جا سکتی- چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مختلف زمینداروں کے قبضے میں ہیں جس کی وجہ سے مشینوں سے کاشت کا کام نہیں لیا جا سکتا- عمدہ آلات استعمال نہیں کئے جا سکتے اور ملک کی آبادی کا بہت سا حصہ ایسی زمینوں کے ساتھ چمٹا بیٹھا ہے جو اس کے گزارہ کے لئے کافی نہیں ہیں- میں چونکہ اس وقت نہری آبادی کے زمینداروں کو مخاطب کر رہا ہوں میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کس طرح غیر نہری علاقوں میں چند گھمائوں بلکہ چند کنال زمین کے اوپر لاکھوں خاندان گزارہ کر رہے ہیں- صرف اس وجہ سے کہ وہ زمینداروں کی اولاد ہیں اور صرف اس وجہ سے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے باپ دادے کے ترکے کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں- نتیجہ یہ ہو رہا کہ لاکھوں خاندان پنجاب کے جن کی مجموعی تعداد ۲۵-۳۰ لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں اپنی طاقت کو بالکل ضائع کر رہے ہیں اور خشک تھنوں سے دودھ دوہنے کی کوشش کر رہے ہیں- ان کی مقبوضہ زمینیں کسی صورت میں بھی ان کے لئے گزارہ کا موجب نہیں بن سکتیں- پس وہ قرض لینے پر مجبور ہیں اور اس قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں- اتنے بڑے گروہ کو جو قرض لینے پر مجبور ہے قرض لیتے ہوئے دیکھ کر ان کے ہمسائے بھی معمولی معمولی ضرورتوں پر قرض لینے لگ جاتے ہیں- وہ نہیں دیکھتے کہ ہمارا ہمسایہ قرض لینے پر مجبور ہے وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ بھی زمیندار ہے اور ہم بھی زمیندار ہیں- غرض اس طرح ملک روز بروز تباہی کے گہرے گڑھے میں گرتا جاتا ہے-
میں خود اوپر لکھ چکا ہوں کہ پنجاب میں روس والی سکیم جاری نہیں کی جا سکتی لیکن ہم اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارا موجودہ طریق بھی ہمیں تباہی سے بچا نہیں سکتا- پس اگر ہمارا ملک تباہی سے بچنا چاہتا ہے تو ہمیں روس کی سکیم اور ہمارے موجودہ دستور العمل کے درمیان میں کوئی سکیم ایجاد کرنی پڑے گی اور اگر ہمارے ملک کے زمیندار ایسا نہیں کریں گے تو آج نہیں تو کل ان کی اولادیں بھیک مانگنے پر مجبور ہوں گی- لیکن جس آبادی کا ایک معتدبہ حصہ بھیک مانگنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو وہاں بھیک دینے والے کہاں سے آئیں گے؟
زمینداروں کی کمپنی
جنوبی امریکہ میں ان دونوں طریق کے درمیان میں ایک سکیم پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ زمین تو ہر زمیندار کی سمجھی جاتی ہے لیکن سارے گائوں کے زمیندار مل کر ایک کمپنی بنا لیتے ہیں- جس کا حصہ بجائے روپیہ کی صورت میں ادا کرنے کے زمین کی صورت میں ادا کرتے ہیں- چونکہ ایک بڑا ٹکڑا زمین کا اکٹھا مل جاتا ہے- اس کی کاشت مشترکہ کوشش کے ساتھ کی جاتی ہے اور نتائج قریباً ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ روس میں ہو رہے ہیں مگر زمیندار اپنی زمین سے بھی محروم نہیں رہتا اور ہر ایک زمیندار کو اس کے مطابق حصہ مل جاتا ہے-
میں یہ جانتا ہوں کہ اس قسم کی سکیم پر پنجاب کے زمینداروں کے لئے عمل کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ کوئی قیامت خیز تغیر پیدا نہ ہو جائے- پس میں یہ نہیں کہتا کہ ہم کو فوراً یہ طریق اختیار کر لینا چاہئے جو کچھ میں کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طریق پر اب ہماری زمینوں کی کاشت ہو رہی ہے- اس طرح زمینداروں کا گزارہ بالکل نہیں چل سکتا اور جس قدر آدمی اس وقت زمین سے گزارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس قدر آدمیوں کا گزارہ پنجاب کی زمین سے نہیں ہو سکتا- پس ہمیں کوئی ایسی درمیانی راہ نکالنی چاہئے کہ جس کے ذریعہ سے زمینداروں کی حالت درست ہو سکے خواہ وہ جنوبی امریکہ والی تجویز ہو یا کوئی اور-
زمیندارہ انجمن بنائی جائے
میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہو گی کہ ایک زمیندارہ انجمن مستقل اصول پر بنائی جائے جس کا کام یہ ہو کہ وہ وقتاً فوقتاً اجلاس کر کے زمینداروں کی مشکلات پر غور کرے اور ان کے علاج نکالے اور جن تدبیروں پر ملک کا اکثر حصہ اتفاق کرے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے- اگر زمینداروں کے بچے آج سے ایک یا دو پشت کے بعد زمینداہ چھوڑ کر دوسرے کام پر مجبور ہوں گے تو کیوں دو نسلوں کو تباہ ہونے دیا جائے‘ کیوں نہ آج ہی سے اپنی اصلاح کی فکر کی جائے-
دوسرا سبب
دوسرا مستقل سبب جو ہمارے ملک کی اقتصادی حالت کو خراب کرنے کا موجب ہے یہ ہے کہ حکومت پیداوار پر نہیں بلکہ زمین پر اور پیداوار کے مطابق نہیں بلکہ مقررہ رقم کی صورت میں معاملہ لیتی ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے زمیندار بالعموم معاملہ دینے کی بھی توفیق نہیں پاتے- اگر پیداوار کے مطابق معاملہ ہوتا تو آج کسی عارضی انتظام کیلئے کسی زمیندارہ کانفرنس کی ضرورت نہ ہوتی- اگر دس روپے کی کاشت زمیندار کرتا تو گورنمنٹ اس میں سے اڑہائی روپیہ لے لیتی- مگر موجودہ صورت میں تو بعض جگہ پر گورنمنٹ کا آبیانہ اور معاملہ پیداوار سے زیادہ ہو جاتا ہے- زمیندار اب خود کہاں سے کھائے اور اپنے بیوی بچوں کو کہاں سے کھلائے-
گورنمنٹ کیا کرے
پس ہمیں گورنمنٹ کے سامنے یہ سوال پیش کرنا چاہئے کہ دو تجویزوں میں سے ایک کو وہ اختیار کرے- یا تو وہ یہ کرے کہ معاملہ مقرر نہ ہو بلکہ پیداوار کی قیمت کے لحاظ سے اس کی ہر سال تعیین ہوا کرے- یعنی بٹائی کے اصول کے مطابق اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اس کو یہ چاہئے کہ معاملہ زمین کی پیداوار کے مطابق نہ ہو بلکہ پہلے ہر زمیندار کو اس کے کھانے پینے کے لئے ایک حصہ زمین کا چھوڑ دیا جائے- مثلاً یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ اوسطاً ایک خاندان کے گزارہ کے لئے دس ایکٹر زمین کی ضرورت ہے پس جو زمیندار دس ایکٹر سے کم زمین پر کاشت کر رہے ہیں ان سے کسی قسم کا کوئی معاملہ وصول نہ کیا جائے- جن زمینداروں کی کاشت اس سے زیادہ ہو ان کی زمین میں سے دس ایکٹر زمین پر کوئی معاملہ نہ ہو اس سے زائد پر پھر معاملہ لیا جائے- میرا یہ مطلب نہیں کہ دس ایکٹر میرے نزدیک صحیح اندازہ ہے- میں نے صرف اس کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے- میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ ہم نصف مربع زمین کے لئے مطالبہ کریں کہ وہ زمیندار کے گزارے کے لئے چھوڑ دیا جائے جو اس سے زائد زمین ہو اس پر معاملہ لیا جائے- کوئی وجہ نہیں کہ جب گورنمنٹ تاجر کی آمد میں سے ایک حصہ بغیر انکم ٹیکس کے چھوڑ دیتی ہے اور صرف دو ہزار روپیہ سے زائد آمد والے روپیہ والوں پر ٹیکس لگاتی ہے تو کیوں نہ زمینداروں کے لئے وہی صورت بہم نہ پہنچائی جائے- جب تک ہم اس قسم کی کوئی سکیم گورنمنٹ سے منظور کرانے میں کامیباب نہیں ہوں گے‘ زمیندار مستقل طور پر اقتصادی تباہی سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے-
تیسرا سبب
‏text1] ga[tتیسرا سبب جو ہمارے ملک کے زمینداروں کی اقتصادی خرابی کا موجب ہے وہ یہ ہے کہ زمیندار حساب نہیں رکھتے- وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ فلاں فلاں ضرورت ہمارے سامنے پیش آئی ہے اور اس کو ہم نے پورا کرنا ہے اور اس امر کے متعلق خیال نہیں کرتے کہ وہ ضرورتیں پوری انہوں نے کہاں سے کرنی ہیں- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک سال ان کو دس ہزار کی آمدن ہوتی ہے تو اس کو وہ اسی سال خرچ کر دیتے ہیں اور دوسرے سال اگر انہیں ایک ہزار روپیہ آمدن ہوتی ہے تو وہ اپنی باقی پیش آمدہ ضرورتوں کے لئے قرض لے لیتے ہیں- حالانکہ صحیح طریق زندگی بسر کرنے کا یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اپنی پانچ سات سالہ حقیقی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اوسط آمد کا اندازہ نکال لیتے- اسی طرح وہ اپنی ضرورتوں میں اپنی مستقل اور عارضی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر اپنا ایک اوسط خرچ نکال لیتے- اس صورت میں وہ آسانی کے ساتھ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے ماتحت لا سکتے تھے لیکن زمینداروں میں سے غالباً ایک بھی ایسا نہیں کرتا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قریباً ہر ایک زمیندار مقروض ہے-
عجیب بات ہے کہ مزدوروں میں سے اتنے مقروض نہیں نکلیں گے جتنے زمینداروں میں مقروض نکلیں گے- حالانکہ ہمارے ملک کے مزدور بھی بہت کم مزدوری پاتے ہیں- وجہ اس کی یہی ہے کہ مزدور کو اپنی مزدوری کا انذارہ معلوم ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے نیچے رکھتا ہے- لیکن زمیندار کو اپنی آمد کا اندازہ معلوم نہیں ہوتا پس جو زمیندار کہ اپنے خرچ کو اپنی آمد کے مطابق رکھ سکتا ہے وہ بھی ایسا نہیں کرتا اور مقروض رہتا ہے-
پس اگر ہمارے ملک کے زمیندار آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنی اوسط آمدنی نکالیں اس اوسط آمدن کے ماتحت اپنے اخراجات رکھیں اور اخراجات میں شادی‘ بیاہ‘ بیماری وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کر لیں کیونکہ جس سال شادی یا بیاہ کا موقع پیش آئے گا اس سال ان کی فصل خاص طور پر زیادہ نہیں ہو جائے گی اور یہ بھی مدنظر رکھیں کہ جس سال ان کی فصل زیادہ ہو جائے وہ ان کی آمد کی زیادتی نہیں کیونکہ بعض سال ان کی عمر میں ایسے بھی آئیں گے جن میں ان کی فصل کم ہو گی- پس اوسط آمدن سے زائد آمدن کسی سال میں ہو جائے تو اس کو خرچ نہیں کرنا چاہئے- وہ تو کم پیداوار والے سالوں کی تکلیف دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے-
‏sub] g[ta زمیندار کیا طریق عمل اختیار کریں
الغرض زمینداروں کو چاہئے کہ اول اپنی اوسط آمد نکالیں- دوم اپنا اوسط خرچ نکالیں اور اس خرچ میں اپنے عارضی اخراجات شادی بیاہ وغیرہ بھی شامل کر لیں- سوم اگر کسی سال اوسط آمد سے زائد آمد ہو جائے تو اسے بالکل نہ چھوئیں کیونکہ وہ صرف کم آمد والے سالوں کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے ہے- چہارم چونکہ اپنے پاس رقم جمع کرنی مشکل ہوتی ہے وہ ایسی سوسائٹیاں بنائیں جن میں وہ ہر سال اپنی آمد کا وہ حصہ جو انہوں نے شادی بیاہ وغیرہ کی قسم کے وقتی اخراجات کے لئے مقرر کیا ہے جمع کراتے رہیں- جب ایسی ضرورتیں پیش آئیں اس وقت وہاں سے رقم نکلوا کر اس کو خرچ کر لیں- یا اس قسم کی سوسائٹیاں بنائیں جن کے ممبر اپنے اپنے طبقے کے مطابق ایک رقم مقرر کر لیا کریں- مثلاً یہ کہ اس سوسائٹی کا ہر ممبر دوسرے ممبر کی شادی وغیرہ کی تقریبوں پر پانچ پانچ یا دس دس روپے دیا کرے گا- اس طرز پر بھی اس مشکل کا حل ہو سکتا ہے اور زمیندار قرض سے بچ سکتے ہیں-
ہمارے ملک میں اس سے پہلے اسی قسم کی تجویز پر عمل کیا جاتا رہا ہے جسے اردو میں نیوتا اور پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں لیکن اس کی بنیاد رشتہ داری یا دوستی پر ہے مالی حیثیت پر نہیں- جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب رشتہ دار یا برباد ہو جاتے ہیں یا ذلیل ہو جاتے ہیں- وہ رسم ترک کرنے کے قابل ہے- اس مشکل کا حل رشتہ داروں کا نیوتا نہیں بلکہ ایک حیثیت کے آدمیوں کا اقیصادی سوسائٹیاں بنانا ہے- چونکہ سب لوگ اس میں ایک ہی قسم کی حیثیت کے ہوں گے اور امداد مقرر ہو گی- اس لئے کسی پر نہ زائد بوجھ پڑے گا اور نہ اسے اپنے ہم جنسوں میں شرمندہ ہونا پڑے گا-
چوتھا سبب
‏text1] ga[tچوتھا سبب جو ہندوستان کے زمینداروں کو مستقل طور پر اقتصادی نقصان پہنچا رہا ہے وہ بدرسومات ہیں جن کی وجہ سے اپنی طاقت سے زیادہ انہیں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے-
میں نے اپنے مضمون کی ابتداء میں یہ کہا تھا کہ یہ رسوم ہی زمینداروں کی تباہی کا موجب نہیں اس کے یہ معنی نہ تھے کہ رسوم کا زمینداروں کی تباہی میں کچھ دخل نہیں‘ بلکہ یہ مطلب تھا کہ صرف یہی سبب ان کی تباہی کا نہیں ہے- مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ سبب بھی بہت کچھ زمینداروں کی تباہی کا موجب ہو رہا ہے- پس زمینداروں کو ایسی انجمنیں بھی بنانی چاہئیں جن کے ذریعہ سے بد رسوم کر مٹایا جائے اور شادی بیاہ کے اخراجات کم کئے جائیں- ان رسوم کے مٹانے سے بھی زمینداروں کی اقتصادی حالت بہت کچھ درست ہو سکتی ہے-
زمینداروں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب
سب سے آخر میں میں اس سبب کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سب سے زیادہ زمینداروں کی اخلاقی اور اقتصادی حالت کی تباہی کا موجب ہو رہا ہے جو یہ ہے کہ زمیندار اس قدر قرض کے نیچے دبے ہوئے ہیں کہ وہ پیداوار سے اس کا سود بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکتے-
بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت زمینداروں پر ایک ارب تئیس کروڑ روپیہ کا قرض ہے- جس کے معنے یہ ہیں کہ قریباً ڈیڑھ کروڑ ایکٹر زمین فروخت کر کے اس قرض کو ادا کیا جا سکتا ہے- جہاں تک میں سمجھتا ہوں پنجاب کی صحیح طور پر قابل کاشت زمین اس سے کم ہی ہو گی- پس گو بظاہر زمیندار اپنی زمینوں کے مالک نظر آتے ہیں لیکن اگر انہیں اپنے قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اپنی سب زمینیں فروخت کر کے بھی مقروض کے مقروض ہی رہیں گے- موجودہ حالات میں یہ قرض کسی طرح دور نہیں ہو سکتا بلکہ برابر بڑھتا چلا جائے گا اور کچھ عرصہ کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ زمیندار اپنی تمام زمینیں فروخت کر کے ایک سال کا سود بھی ادا نہیں کر سکیں گے-
یہ صورت حالات ایسی تشویشناک ہے کہ موجودہ غلے کی ارزانی اس کے مقابلہ میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی- پھر کیا تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے سمجھ دار زمیندار کہ جن کے دماغوں کے متعلق یورپ کے سیاح یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین دماغوں کے مشابہ ہیں‘ اس خطرناک تباہی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی جدو جہد نہیں کرتے اور انہیں کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ سود خوروں کے ہاتھوں میں بھینسوں کی طرح ہیں- جن کا کام محض یہ ہے کہ وہ دودھ تو انہیں دیں اور خود صرف بھوسہ پر گزارہ کریں بلکہ بعض حالات میں بھینسوں کی بھی حالت ان سے اچھی ہوتی ہے- کیونکہ بھینسیں عام طور پر زمینداروں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو تکلیف کے وقت میں اپنے آپ کو تکلیف دیتا ہے‘ اپنے جانور کو تکلیف نہیں دیتا- لیکن زمینداروں کی جان جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ ایسے سنگدل ہیں کہ زمیندار کی موت اور اس کی ہلاکت کا ان کو کوئی بھی احساس نہیں- پس جب تک اس مصیبت کا علاج نہ کیا گیا زمینداروں کی سب کوششیں لغو اور برباد جائیں گی-
سودی قرض کی مصیبت کا علاج
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مصیبت کا علاج ہو سکتا ہے اور اگر زمیندار متفق ہو جائیں تو بہت جلد ہو سکتا ہے- اگر آپ لوگ اپنے اردگرد کے مقروضوں کی فہرستیں بنائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اکثر لوگوں نے سو روپیہ کی بجائے پانچ پانچ سو روپیہ ادا کیا اور پھر بھی ان کے قرضے ادا نہیں ہوئے- یہ قرض نہیں یہ قتل ہے جس کو کوئی انسان جائز قرار نہیں دے سکتا-
پس ضروری ہے کہ تمام کے تمام زمیندار متفق ہو کر یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ سود خوار لوگوں کے موجودہ قرض نہایت ہی ظالمانہ شرائط پر دیئے گئے ہیں اور زمیندار کی مصیبت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر دیئے گئے ہیں اس لئے جو شخص اپنے قرض سے دو گنا ادا کر چکا ہے وہ اپنے آپ کو قرض سے سبکدوش سمجھ لے- آدھی ادائیگی اصل کی ادائیگی سمجھی جائے اور آدھی ادائیگی سود کی ادائیگی سمجھی جائے ایسا شخص کوئی زائد رقم ادا نہ کرے- اس تحریک کے جاری کرنے سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ سود خواروں سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جائے- ان کے ہاں سنا گیا ہے کہ خود ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی رقم جب دوگنی ہو جائے تو اس سے زیادہ بڑھانی جائز نہیں-
اگر ایک تحصیل کے مقروض بھی تیار ہو جائیں
ہاں یہ ضروری ہے کہ اس تحریک کو قانونی اور اخلاقی حد کے اندر رکھنے کے لئے ایک متحدہ اور متفقہ کوشش کی جائے- اگر ایک تحصیل کے آدمی بھی اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دائمی غلامی سے بچانے پر آمادہ ہوں تو میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ میں ایسی تفصیلی سکیم ان کے سامنے پیش کر سکتا ہوں جس پر وہ عمل کر کے قرض سے نجات پا سکتے ہیں- لیکن یہ ضروری ہے کہ جس علاقہ میں وہ تحریک شروع ہو خواہ وہ ایک تحصیل کے برابر ہو مگر اس کے تمام افراد یا اکثر افراد اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں اور عارضی طور پر وہ ہر قسم کی تکالیف اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں- اگر اس قسم کی کوئی تجویز زمینداروں نے نہ کی تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اور ان کی اولادیں کبھی بھی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتیں-
آئندہ کیلئے سود کی حد بندی کر دی جائے
پچھلے قرضے کی ادائیگی کے علاوہ آئندہ کے لئے بھی زمینداروں کو گورنمنٹ پر زور دینا چاہئے کہ ۱۲ فیصدی سے زائد کسی صورت میں سود لینے کی اجازت نہ ہو اس سے زائد سود عدالتیں بھی نہ دلوائیں- میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ رقم بھی بہت زیادہ ہے- لیکن چونکہ اس وقت تک کوئی حد بندی نہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ فی الحال اس شرح پر اتفاق کر لیا جائے کیونکہ جب تجارتی کمیٹیاں رات دن محنت کرنے کے باوجود سات آٹھ فیصدی منافع کو کافی منافع سمجھتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سود خوار کو اس سے زائد کا حق دار قرار دیا جائے- منافع تو وہی ہو سکتا ہے جو منافع میں سے ادا کیا جائے- اگر تجارت میں فرض کرو کہ دس فیصدی یا پندرہ فیصدی منافع زیادہ سے زیادہ آتا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرض لینے والا پانچ فیصدی سے ساڑھے سات فیصدی تک ہی قرضدار کو ادا کر سکتا ہے کیونکہ منافع کا کچھ حصہ خود اس کے خرچ کے لئے بھی چاہئے- اور بارہ فیصدی قرضہ پر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ۲۴ فیصدی منافع قرض لینے والے کو آئے لیکن زمیندارہ میں تو پانچ فیصدی سے زائد منافع نہیں آتا- اور وہ زمیندار جو پانچ فیصدی خود کماتا ہے بارہ فیصدی سود خوار کو تبھی دے سکتا ہے جب سات فیصدی رقم وہ اپنی جائیداد میں سے ادا کرے- جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ بارہ فیصدی سالانہ پر قرض لے تو پندرہ سال میں اس کی اصل جائداد بھی سود خوار کے گھر چلی جائے- اور جو شرح اس وقت سود خوار لیتے ہیں وہ تو اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اگر زمیندار اپنی جائیداد کے مطابق قرض لے تو تین چار سال تک اس کی جائیداد صرف سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتی ہے-
پس جہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے پچھلے قرضوں کا فیصلہ کر لیا جائے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ گورنمنٹ پر زور دے کر آئندہ سود کی شرح بھی مقرر کرا لی جائے- جو زیادہ سے زیادہ ۱۲ فیصدی ہو- زور یہی دینا چاہئے کہ اس سے کم ہو-
زمینداروں کی متفقہ کوشش کی ضرورت
اگر زمیندار متفقہ طور پر کوشش کریں تو اس مطالبہ کو چند مہینوں کے اندر منوا لینا کچھ مشکل نہیں- کوئی وجہ نہیں ہے کہ ملک کی ۸۰ فیصدی آبادی کو غلاموں سے بدتر حالت میں رکھا جائے اور انسانیت کے تمام حقوق سے اس کو محروم کر دیا جائے اور کوئی حکومت جو انسانی حکومت کہلانے کی مستحق ہو ایسی نہیں ہو سکتی جو اس قسم کے جائز مطالبات کا انکار کرے- اور اگر کوئی حکومت اس کا انکار کرے تو وہ ۸۰ فیصدی آبادی جو جائز اور صحیح ذرائع سے ایسے شدید ظلم کا ازالہ نہ کروا سکے یقیناً انسان کہلانے کی مستحق نہیں اور یقیناً اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی گردنیں پکڑ کر دوسرے لوگوں کے حوالے کر دی جائیں تا کہ وہ انہیں ہمیشہ کی غلامی میں رکھیں اور کوئی ذلت ایسی نہیں جو ایسے لوگوں کے لئے بری ہو کیونکہ وہ خود اپنی موت کو بلاتے ہیں اور وہ خود اپنے لئے رسوائی چاہتے ہیں اور عارضی آرام کے لئے دائمی غلامی کو پسند کرتے ہیں- مگر میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کے زمیندار خواہ مسلمان ہوں‘ ہندو ہوں‘ سکھ ہوں‘ اس خلاف انسانیت سلوک کی زیادہ برداشت نہیں کریں گے اور متفق ہو کر سود خواروں اور گورنمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں گے اور اس وقت تک آرام نہیں لیں گے جب تک وہ اپنے آپ کو اور بیوی بچوں کو غلامی سے آزاد نہ کرا لیں-
میں نے بیویوں کا لفظ بلاوجہ زائد نہیں کیا- پنجاب میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں زمینداروں نے سود کی ادائیگی کی ضمانت میں اپنی بیویوں کو سود خوار بنیوں کے پاس گرو کیا ہوا ہے- جو قرض کہ ایک زمیندار جیسی باغیرت قوم سے اس قسم کی حرکت کرا سکتا ہے اب وقت ہے کہ اس قرض کا کلی طور پر فیصلہ کر دیا جائے اور وہ فیصلہ ایسے رنگ میں ہونا چاہئے کہ نہ کوئی ہمارا حق مارے اور نہ ہم کسی کا حق ماریں-
ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے
میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ میرے خیالات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور جو باتیں کہ ان میں سے آپ کو صحیح معلوم ہونگی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ تکالیف باتوں سے دور نہیں ہوتیں بلکہ عمل سے دور ہوتی ہیں-
اب آپ لوگوں کی تکلیفیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ زیادہ دیر لگانا علاج کو ناممکن بنا دینا ہے- خدا کرے کہ آپ لوگ وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور اس تکلیف دہ زندگی سے جو درحقیقت زندگی کہلانے کی مستحق نہیں اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچائیں-
پوری امداد کا وعدہ
میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اور احمدی جماعت کے تمام افراد اپنی طاقت کے مطابق ہر اس جائز کوشش میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے جو آپ زمینداروں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کریں-
ہر قسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہیں
لیکن یاد رکھیں کہ کوئی بڑا مقصد بڑی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور ملک کی ۸۰ فیصدی آبادی کو غلامی اور تباہی سے بچانے کی نسبت اور کوئی بڑا کام کیا ہوگا- پس اگر آپ لوگ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کو ہر وقت کی قربانیاں کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے- اگر آپ لوگ یہ سمجھیں کہ بغیر کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر اپنی پرانی عادتوں اور رسموں کو چھوڑنے کے‘ بغیر اپنے طرز رہائش کو بدلنے کے‘ بغیر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے آپ لوگ کامیابی حاصل کر لیں تو یہ ناممکن ہے اور بالکل ناممکن ہے-
‏]txet [tag مگر میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ جن کی بہادری کا ہر میدان جنگ شاہد ہے اور جو دوسروں کی جانیں بچانے کے لئے اپنی جانیں قربانی کرتے رہے ہیں اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے جائز حقوق کے حصول کے لئے کسی جائز کوشش سے دریغ نہ کریں گے-
‏a12.20
انوار العلوم جلد ۱۲
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

‏jmc-nsk] g[taبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت
)فرمودہ یکم جولائی ۱۹۳۱ء برموقع افتتاح ایف اے کلاس گرلز ہائی سکول قادیان(
۱۹۲۵ء میں میں نے اس نیت سے کہ عورتوں کی تعلیم ایسے اصول پر ہو کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی بھی تکمیل ہو سکے- اور اس خیال سے کہ مذہبی تعلیم اپنے ساتھ دلچسپی اور دلکشی کے زیادہ سامان نہیں رکھتی اور بعد میں اس کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے‘ مذہبی تعلیم کو پہلے رکھا تا کہ ایک حد تک دینی تعلیمی حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں انگریزی تعلیم حاصل کر سکیں- اور چونکہ اس سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس لئے یہ بڑی عمر میں بھی اگر حاصل کرنی پڑے تو گراں نہ گزرے گی لڑکیوں کیلئے پہلے عربی کی کلاسیں کھولیں- اس وقت قادیان میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس پر معترض تھے اور باہر بھی- خاص کر پیغامی سیکشن نے بہت ہنسی اڑائی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس کثرت سے مولوی کا امتحان ہماری جماعت کی لڑکیوں نے پاس کیا- میرا خیال ہے سارے ہندوستان میں اتنے عرصہ میں مولوی کا امتحان پاس کرنے والی اتنی لڑکیاں نہ ہوں گی جتنی ایک سال میں ہماری لڑکیوں نے یہ امتحان پاس کیا- اس کے بعد زنانہ سکول کی لڑکیاں چونکہ ہائی کلاسوں کی تعلیم پا سکتی تھیں اس لئے مدرسہ ہائی کے استادوں کی امداد سے ہائی کلاسیں کھولی گئیں- ان میں بھی خدا کے فضل سے اچھی کامیابی ہوئی اور اس سال سات طالبات انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں- یہ بھی اپنی ذات میں پہلی مثال ہے کیونکہ کسی سکول سے سات مسلمان لڑکیاں آج تک ایک سال میں کامیاب نہیں ہوئیں- اور چونکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہم اپنی جماعت کو بھی تحریک کرتے رہتے ہیں اس لئے قادیان سے باہر بھی کئی لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اچھے نمبروں پر پاس کیا ہے- چنانچہ ایک احمدی لڑکی لڑکیوں کے مقابلہ میں سیکنڈ رہی اور لڑکوں کے مقابلہ میں اس کا تیرہواں یا چودھواں نمبر ہے-
میرا منشاء یہ ہے کہ اس تعلیم کو جاری رکھا جائے حتیٰ کہ اتنی کثیر تعداد گریجوایٹ خواتین کی پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ سٹاف رکھ سکیں اور کالج بھی قائم کر سکیں- گورنمنٹ نے اب مردوں کے لئے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ پرائیوٹ امتحان نہیں دے سکتے لیکن عورتوں کیلئے یہ شرط نہیں- پیشتر اس کے کہ عورتوں کے لئے بھی پرائیوٹ امتحان نہ دینے کی شرط پنجاب یونیورسٹی عائد کرے‘ ہم اتنی تعداد پیدا کر لیں جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کو تعلیم دینے اور ہماری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کافی ہو-
میں نے جہاں تک غور کیا ہے جب تک عورتیں ہمارے کاموں میں شریک نہ ہوں‘ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے- زیادہ تر امور ایسے ہیں جن میں عورتوں کا سوال پیش آتا ہے- اسی طرح تربیت اولاد کا سوال ہے جو عورتوں سے خاص طور پر تعلق رکھتا ہے- اور یہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں اور یہ کام ان کے سپرد نہ کر دیا جائے- کسی گھر میں کتنی ہی تعلیم یافتہ عورت ہو اور وہ بچوں کی کتنی ہی اعلیٰ تربیت کرتی ہو اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ اولاد پر اردگرد کے بچوں کا بھی اثر پڑتا ہے اور تمام بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں مل جائیں- اور چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈنگس بنا کر ان کا انتظام عورتوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاص پیدا کریں- اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں- بغیر ایسی اجتماعی جدوجہد کے کامیابی نہیں ہو سکتی نہ تقریروں سے نہ وعظوں سے نہ درس سے- اس میں کامیابی کی یہی صورت ہے اور قومی کیریکٹر اسی طرح بن سکتا ہے کہ ایسے ہومز قائم کئے جائیں اور جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ان میں اپنے بچوں کو داخل کریں عورتیں ان کی نگران ہوں- بچے چھوٹی عمر سے لے کر سات آٹھ سال تک ان میں رہیں- اور اس عرصہ میں ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جائیں- پھر یہ جماعت دوسروں کو اپنے رنگ میں ڈھالے- یہ لڑکے اور لڑکیاں جن کے سات آٹھ سال تک کی عمر میں ایک جگہ تربیت پانے میں کوئی حرج نہیں قوم کے لئے بہت مفید ہو سکتے ہیں- اگر ہم ایسے ہومز قائم کر سکیں تو اس کے ذریعہ اخلاق پیدا کئے جا سکتے اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کر دے- مگر یہ بات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کافی تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں- اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں زنانہ کالج مردانہ کالج سے بھی زیادہ اہم ہے- اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مردانہ کالج کی ضرورت نہیں- ضرورت ہے- مگر اس کے متعلق سرکاری طور پر جو شرائط ہیں وہ ہم ابھی پورے نہیں کر سکتے- لیکن اگر ہم ان شرائط کو پورا کر سکیں تو بھی میرے نزدیک لڑکیوں کے لئے کالج ضروری ہے کیونکہ لڑکے تو باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لئے باہر رہنا مشکل ہے- ان حالات کو مدنظر رکھ کر جیسا کہ ناظر صاحب نے بیان کیا ہے بیسروسامانی کی حالت میں کام شروع کیا جا رہا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ ہائی سکول کے اساتذہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق جیسے پہلے محنت کی ہے اب بھی کریں گے- مجھے معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کی ایف- اے کلاس کے لئے مضمون جیاگریفی (GEOGRAPHY) مقرر کیا گیا ہے- میں نے سنا ہے- عام طور پر طالب علم یہ مضمون نہیں لیتے- شائد اس لئے کہ اسے مفید نہیں سمجھا جاتا- یا اس لئے کہ اس میں امتحان سخت ہوتا ہے اور لڑکے کم پاس ہوتے ہیں- دراصل یہ ایسا علم ہے جس کی زنجیر نہیں ہوتی اور اس وجہ سے یہ مشکل سے یاد ہوتا ہے جن علوم میں زنجیر ہوتی ہے وہ جلد یاد ہوتے ہیں کیونکہ ایک بات سے دوسری بات یاد آ جاتی ہے- مجھے معلوم ہوا ہے- فلاسفی میں امتحان دینے والے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں کیونکہ اس میں زنجیر چلتی ہے- میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اس مضمون کے لئے آدمی تیار کر لیا جائے- ہمارے قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر اس میں ماہر ہیں- سکول میں اب جو چھٹیاں ہونے والی ہیں‘ ان میں ان سے یا کسی اور سے ضروری ضروری باتیں پڑھا لی جائیں- اور یہ مضمون لڑکیوں کے لئے رکھا جائے- اس میں کامیابی کی زیادہ توقع ہو سکتی ہے- چونکہ یہ ہماری پہلی کوشش ہے اس لئے ایسی راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے کامیابی کی زیادہ توقع ہو- فلاسفی تربیت اولاد میں بھی بہت امداد دیتی ہے- اس لئے یہی پڑھانی چاہئے- میں امید کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے کوشش کریں گے اس کے بعد میں دعاء کرتا ہوں جس میں سب احباب شامل ہوں- اللہ تعالٰی ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے- ہمارے اسباب میں جو کمزوری ہے اسے دور کر کے اعلیٰ درجہ کا نتیجہ پیدا کرے- اور ایسے فوائد عطا کرے کہ جن سے نہ صرف عورتوں کی ذہنی ترقی ہو بلکہ آئندہ اولاد کی تربیت کے لئے بہتر سے بہتر سامان پیدا ہوں-
)الفضل مورخہ ۷ جولائی ۱۹۳۱ء(
‏a12.21
انوار العلوم جلد ۱۲
مدیر اخبار >وفا العرب< سے گفتگو
مدیر اخبار >وفا العرب< سے گفتگو

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]txet [tag
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مدیر اخبار >وفاء العرب< )دمشق( سے گفتگو
نوٹ: دمشق کے ایک مشہور ادیب محمود خیرالدین مدیر جریدہ >وفاء العرب< ہندوستان آئے- تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ملاقات اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے قادیان بھی تشریف لائے اور تین دن ٹھہرے- ہندوستان سے واپس جا کر انہوں نے اپنے اخبار >وفاء العرب< مورخہ ۲۹- ذی الحج ۱۳۳۹ھ میں ایک مفصل مضمون لکھا جس کا ترجمہ الفضل مورخہ ۲۰-اکتوبر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا- مدیر سے حضور کی گفتگو سوال اور جواب کی صورت میں درج ذیل ہے-
سوال: ہندوستان کی سیاسی شورش کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے؟ اور کیا حکومت برطانیہ اس تگ و دو کے بعد آپ کے تمام حقوق دے دے گی؟
جواب: یقیناً ایسے حقوق جو طرفین کے لئے مناسب ہوں حکومت کو دینے پڑیں گے- حکومت کی یہ زبردست خواہش ہے کہ آپس کی غلط فہمی و عدم اعتمادی کا ازالہ کیا جائے- چنانچہ راہنمایان ملک کی ایک مجلس اس امر کے لئے منعقد کی گئی ہے تا کہ ہندوستانی معاملات اور ملکی مفاد کے متعلق بحث و تمحیص اور پھر تصفیہ کریں جس کا نتیجہ یقیناً مفید ہی ہوگا-
سوال: ہم اکثر ہندو مسلم تنازعات و مناقشات کے متعلق سنتے رہتے ہیں اس باہمی اختلافات کے کیا اسباب ہیں؟
جواب: ہندو مسلم معاملہ اس معاملہ سے زیادہ خطرناک ہے جو عہد فرعون میں اقباط اور بنی اسرائیل کے درمیان تھا-
جب ہم عربی اخبارات میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں تو ہمیں حیرانی ہوتی ہے- دراصل بات یہ ہے کہ وہ ہماری مشکلات و مصائب سے واقف نہیں- ورنہ وہ یقیناً ہمارے ساتھ ان حالات میں اظہار ہمدردی اور تعاون کرتے- دیکھئے تو ہندوستان میں ہندوئوں کی اس وقت اکثریت ہے جس کی وجہ سے حکومت کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھ میں ہے- انگریزوں کی مدد سے انہیں بڑے بڑے عہدے ملے جن سے انہوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا- انگریزوں کو بھی یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں مسلمان طاقت پکڑ کر دیگر ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عام ملی اتحاد پیدا نہ کر لیں جو مغرب کا مقابلہ کرے اس لئے وہ بھی ایسے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے مسلمانوں کا شیرازہ کمزور ہوتا چلا جائے- ہم تو اپنے ہندو بھائیوں سے اتفاق کی پوری پوری خواہش رکھتے ہیں لیکن ایک طرف ان کی بے جا طمع اور حرص اور دوسری طرف حکومت کی سیاست دونوں اس اتحاد میں حائل ہیں- اور اب حالت یہ ہے کہ حکومت روز بروز ہندوئوں کی طاقت کو ہمارے خلاف بڑھا رہی ہے اور اس میں ہماری حالت ویسی ہی ہے جیسے عربوں اور فلسطین کے یہودیوں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے-
سوال: مشترکہ خدمت وطن کے لئے کیا اس وقت اتحاد ممکن نہیں؟
جواب: اس وقت تک جب تک کہ ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہے بظاہر یہ خیال موہوم نظر آتا ہے- بالفرض اتحاد ہو بھی جائے تو بھی ہندوئوں کی ہمارے لئے تباہ کن اکثریت انہیں ہی قوت و طاقت کا وارث بنائے گی اور پھر مسلمانوں کی صدائے استحقاق و احتجاج ان کے لئے چنداں مفید نہ ہوگی کیونکہ ملک کی تمام تجارت‘ صنعت و حرفت پر ہندوہی قابض ہیں- مثلاً ہندوستان کی آبادی ۳۵ کروڑ ہے جس میں ۴/۱ مسلمان ہیں مگر آج مسلمانوں کی اقتصادی حالت یہ ہے کہ ہندوئوں کا مسلمان تاجروں پر جو قرض ہے اس کا سوداڑھائی کروڑ سالانہ سے بھی زیادہ ہے اور یہ سود ایسا ہے کہ اگر مسلمان اپنے سارے کے سارے املاک بیچ کر بھی ادا کرنا چاہیں تو بھی ادا نہ کر سکیں- اقتصادی حالت بھی ایک بہت بڑا سبب ہے- جو نفرت کی خلیج کو روز بروز بڑھارہی ہے- حکومت اس اقتصادی خرابی کے دور کرنے کے لئے کوئی معقول طریق اختیار نہیں کر رہی-
مسلمانوں کا مقاطعہ
سوال : حکومت برطانیہ کی مدافعت کے لئے کیاباطنی طور پر ہندو مسلم متحد ہیں؟
جواب: بھلا اتفاق کیسے ہو جبکہ حالت یہ ہے کہ اعلانیہ ہمارا مقاطعہ کیا جاتا ہے- اگر کوئی مسلمان بدقسمتی سے کسی ہندو کی چیز کو ہاتھ لگاوے- تو اس کے ساتھ نہایت حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے‘ حکومت کے قوانین بھی ایسے امور میں ان کے موید ہیں-
سوال :اگر حالات اس درجہ تک پہنچے ہوئے ہیں تو پھر آپ اس کے دفعیہ کے لئے منظم مقابلہ کیوں نہیں فرماتے؟
جواب: ہم نے اپنی جماعت کی تنظیم اس بارے میں بھی مکمل کر لی ہے اور ہر فرد جماعت احمدیہ کو ہدایت ہے کہ وہ اپنی ضروریات مسلمانوں سے خریدا کرے اور وہ اس پر عمل پیرا ہیں- ایسا ہی کھانے پینے کے معاملہ کے متعلق بھی اصولی ہدایت ان کو یہ دی گئی ہے کہ ان کے ساتھ جو شخص جیسا برتائو کرے ویسا ہی وہ بھی کریں اور یہی عین انصاف ہے- اس وجہ سے ہندو خصوصاً احمدیوں کے خون کے پیاسے ہوئے ہیں لیکن ان کی اکثریت ہمارے لئے ہرگز درخوراعتنار نہیں-
سوال : ہندوئوں کے مذہبی اعتقادات کیاہیں؟
جواب: ہندوئوں کے لاتعداد فرقے ہیں جن میں سے اکثر بت پرست ہیں- بعض گائے کو بھی قابل پرستش تصور کرتے ہیں- اور ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ہر جاندار چیز کا کھانا حراموممنوع خیال کرتا ہے- چنانچہ یہ لوگ سبزی وغیرہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں ہندوبالاتفاق تناسخ پر اعتقادرکھتے ہیں-
سوال : ہم آپ کے سلسلہ موقرہ کے متعلق اکثر سنا کرتے ہیں- لیکن متعدد امور کے متعلق ہمیں کچھ علم نہیں- کیا آپ مجھے ایسے حقائق سے مطلع فرمائیں گے جو میں اہل وطن کو ہدیہ پیش کرسکوں-
جواب: ہماری جماعت شریعت حقہ قرآن اور احادیث نبویہ پر سختی سے عامل ہے اور ان سے سرمومنحرف نہیں- اور سچ تو یہ ہے کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہی حضرت مسیحموعود کے ظہور پر دلائل قاطعہ ہیں- آپ ہمارے سامنے ظاہر ہوئے اور حقیقی دین اسلام کی اشاعت فرمائی- nsk] g[taالحمدللہ کہ اکثر بلادعربیہ وغربیہ میں سے عقل مند لوگ وعلماء ہمارے مبلغین کے ذریعہ اس سلسلہ حقہ میں داخل ہو چکے ہیں- اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ اعدائے اسلام کے شر انگیز پروپیگنڈا کی مدافعت کریں- جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر تلے ہوئے ہیں اور تمام جہان کو دین واحد پر جمع کریں- ہمارا اور تمام ملت اسلامیہ کا فرض ہے کہ تمام مخالفین اسلام کا مقابلہ کریں-
سوال: جماعت احمدیہ کی تعداد کتنی ہوگی-
جواب: صحیح اعدادوشمار تو میں بتا نہیں سکتا لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ قریباً سات لاکھ سے زیادہ ہے اور اس وقت بھی تیز رفتاری کیساتھ ترقی پذیر ہے- اور اکثر افراد جماعت احمدیہ اپنی زندگیاں تبلیغ وتبشیر کے لئے وقف کر چکے ہیں- ہمیں خدا کے فضل سے امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ بلادعربیہ وغیرہ میں جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد پیداکر سکیں -
سوال : آپ کا بلادشام کے دیکھنے کابھی کوئی ارادہ ہے؟
جواب: کثرت اشغال اور دیگر امور اس میں مانع ہیں- اگرچہ شامیوں کے حسن اخلاق کا مجھ پر گہرا اثر ہے-
)الفضل ۲۰- اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ۶-۷(
‏a12.22
انوار العلوم جلد ۱۲
امیر اہلحدیث کے چیلنج مباہلہ کا جواب
امیر اہلحدیث کے چیلنج مباہلہ کا جواب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏gap] [tag
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
امیر اہل حدیث کے چیلنج مباہلہ کا جواب
سید محمد شریف صاحب ساکن گھریالہ ضلع لاہور نے جو اپنے آپ کو امیر جماعت اہل حدیث لکھتے ہیں‘ ایک چیلنج مباہلہ کا شائع کیا ہے جسے انجمن اہل حدیث بٹالہ اور ناظم جماعت مرکزیہ امرتسر نے میرے نام بھی ارسال کیا ہے- اس چیلنج کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وفات مسیح پر اور بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی پر کافی مباحثات ہو چکے ہیں اس لئے بموجب حکم قرآن اب جماعت احمدیہ کے امام کو ان سے مباہلہ کرنا چاہئے- مقام مباہلہ امرت سر کی عیدگاہ اور تاریخ مباہلہ ۱۲- جولائی انہوں نے قرار دی ہے- نتیجہ کی معیاد ایک سال تجویز کی ہے- اور شرط کی ہے کہ نتیجہ مباہلہ خرق عادت اور انسانی ہاتھوں سے بالا تر ہونا چاہئے-
قطع نظر اس کے کہ مجھے اس اشتہار کی بعض باتوں سے اختلاف ہے میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس اشتہار کا لہجہ ان تمام اشتہارات سے اعلٰی ہے جو اس وقت تک جماعت احمدیہ کو دعوت مباہلہ دینے والوں کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس اشتہار کی عبارت کو داعی مباہلہ کے دل کا آئینہ قرار دیا جائے تو مجھے امید کرنی چاہئے کہ آخر ایک مباہلہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مطابق احکام قرآنی قرار پا سکے گا-
میں سید محمد شریف صاحب سے اس امر میں متفق ہوں کہ امور مہمہ دینیہ میں مباہلہ جائز ہے- اور یہ کہ معیاد مباہلہ ایک سال ہونی چاہئے اور یہ بھی کہ دونوں مباہلہ کرنے والے فریقوں میں سے تبھی کسی فریق کو جیتا ہوا قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ نتیجہ مباہلہ اس کے مخالف کے حق میں خارق عادت* طور پر ظاہر ہو اور اشتباہ کو دور کرنے کے لئے میں اس شرط کو بھی معقول سمجھتا ہوں کہ نتیجہ مباہلہ انسانی ہاتھوں سے بالا ہو- لیکن مجھے ان کی دوباتوں سے اختلاف ہے- ایک تو یہ کہ انہوں نے خود ہی تاریخ مقرر کر دی ہے اور دوسرے یہ کہ مقام مباہلہ بھی خود ہی مقرر کر دیا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ دوسرے فریق کے لئے یہ تاریخ مناسب نہ ہو اور یہ مقام کسی وجہ سے موزوں نہ خیال کیا جائے- پس ان دو باتوں کے متعلق میں چاہتا ہوں کہ وہ دو آدمی اپنی طرف سے مقرر کر دیں اور دو آدمی میری طرف سے ہو جائیں وہ چاروں مل کر تین اور مسلمہ فریقین آدمیوں کی موجودگی میں مقام مباہلہ اور تاریخ مباہلہ مقرر کریں تا کہ کسی فریق کو بلاوجہ تکلیف نہ ہو- تین آدمیوں کی موجودگی کی شرط میں نے اس لئے لگائی ہے تا کہ اگر کسی امر میں اختلاف ہو تو وہ گواہی دے سکیں-
اس کے علاوہ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم سے مباہلہ کے متعلق دو امور خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں- ایک تو یہ کہ مباہلہ سے پہلے حجت کا پورا ہونا ضروری ہے اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ مباہلہ سے پہلے فریقین ایک دوسرے کے سامنے اپنے دعویٰ کے دلائل بیان کریں اور دوسرے کی غلطی کو ثابت کریں تا کہ ہر فریق یہ کہہ سکے کہ اس نے حجت پوری کرنے کے بعد مباہلہ کیا ہے اور حکم قرآنی پورا ہوا رسول کریم ~صل۲~ نے بھی حجت اس کا نام نہیں رکھا تھا کہ پندرہ سولہ سال سے قرآن کریم شائع ہو رہا ہے اور مباحثات ہو رہے ہیں بلکہ مباہلہ سے پہلے مباہلہ کے مخاطبین سے گفتگو فرمائی تھی- پس ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے والے فریق مباہلہ سے چار گھنٹے پہلے مقرر کردہ مقام پر جمع ہو جائیں اور دو گھنٹہ میں تقریر کروں اور دو گھنٹہ سید محمد شریف صاحب تقریر کریں- اس کے بعد اگر فریقین مباہلہ پر مصر ہوں تو مباہلہ کریں ورنہ نہیں- یہ شرط نہیں کہ ضرور ہر فریق دو گھنٹے بولے اگر کوئی فریق اس سے کم بولنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے- اس سے زائد وقت کوئی فریق نہ لے-
دوسری زیادتی میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ اس مباہلہ میں صرف میں اور سید محمد شریف صاحب نہ ہوں بلکہ دونوں کے مبائعین میں سے ہزار ہزار آدمی اور شامل ہوں جن کی فہرست اور ان کے پتے ہر فریق دوسرے کو پہلے سے مہیا کر دے- اگر اس تعداد کو سید محمد شریف صاحب زیادہ سمجھیں تو اس میں کسی قدر کمی کی جا سکتی ہے- مثلاً کم سے کم پانچ سو آدمی کی شرط کی جا سکتی ہے- گو بوجہ اس کے کہ اہل حدیث کی تعداد ہم سے بہت ہی زیادہ ہے ایک ہزار آدمی کا اپنے ساتھ لانا ان کے لئے مشکل نہیں لیکن میں خواہ مخواہ روک بھی ڈالنا نہیں چاہتا اگر وہ چاہیں تو اقل تعداد جس کا لانا ضروری ہو مقرر کی جا سکتی ہے- مباہلہ حسب ان کی تحریر کے وفات مسیح ناصری اور بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ مسیحیت کے متعلق ہوگا اور نتیجہ مباہلہ وہی ہوگا جو منطوق ¶قرآنی سے ظاہر ہے-
باقی داخلہ وغیرہ کی شرائط اور مباہلہ کے وقت کی دعا اور اس کا طریق اور اس کا وقت اور اس طرح دیگر ضروری تفصیلات کا مذکورہ بالا نمائندے آپس میں فیصلہ کر سکتے ہیں- امید ہے کہ سید محمد شریف صاحب کو میری اوپر کی تجاویز پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اور وہ جلد سے جلد اپنے دو نمائندے مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں گے- میری طرف سے مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نمائندے ہوں گے-
والسلام
خاکسار
میرزا محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی قادیان
۶- جولائی ۱۹۳۱ء
)الفضل ۹- جولائی ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر
سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہلحدیث
کے
اشتہار مباہلہ کا جواب
میرے اس اشتہار کے جواب میں جو سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہلحدیث کے چیلنج مباہلہ کے متعلق پچھلے دنوں میں نے شائع کیا تھا سید صاحب موصوف کی طرف سے ایک دوسرا اشتہار شائع ہوا ہے- اس اشتہار میں انہوں نے اول تو یہ سوال اٹھایا ہے کہ مباہلہ سے پہلے کسی تقریر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر دو فریق ایک دوسرے پر کافی حد تک اتمام حجت کر چکے ہیں پس بغیر تقریروں کے مباہلہ کے میدان میں آ جانا چاہئے-
مجھے سید صاحب موصوف کے اس بیان پر تعجب ہے- ہم لوگ اس بات کو نہیں بھول سکتے کہ نجران کے مسیحیوں کو مباہلہ کا چیلنج حضرت رسول ~صل۲~ نے اپنی مبارک زندگی کے آخری ایام میں دیا تھا- اس سے پہلے بیس سال سے زائد عرصہ تک قرآن کریم آپ پر نازل ہوتا اور شائع ہوتا رہا- خود علاقہ یمن میں جس سے یہ مسیحی لوگ آئے تھے اسلام کی اشاعت کافی طور پر ہو چکی ہوئی تھی- پس باوجود ایک لمبا عرصہ عقلی و نقلی دلائل پیش کرنے کے اور باوجود زبردست نشانات کے متواتر ظاہر ہونے کے پھر بھی آنحضرت ~صل۲~ نے نجران کے عیسائیوں کو فوراً ہی مباہلہ کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ بڑی لمبی بحث کے بعد انہیں مباہلہ کیلئے بلایا تھا- حتیٰ کہ اس شدت بحث کی وجہ سے بقول عبداللہ بن الحراث بن جزر الزبیدی آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایالیت بینی وبین اھل نجران حجابا ۱~}~کاش میرے اور اہل نجران کے درمیان ایک پردہ ہوتا- یعنی انہوں نے بحث کو اس کی حدود سے بھی آگے گزار دیا تھا اور کج بخشی پر اتر آئے تھے- کیا بیس سالہ نزول و اشاعت قرآن کریم کے بعد کافی نہ تھا کہ آپ اس بحث میں نہ پڑتے اور فوراً مباہلہ کا چیلنج دے دیتے؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آخری وقت تک فریق مخالف پر حجت تمام کی جائے اور مباہلہ کے وقت تک اسے موقع دیا جائے کہ وہ دلائل رحمت کو مان لے اور دلائل عقلیہ کا طالب نہ ہو- پس یہ مسنون طریق کسی صورت سے چھوڑا نہیں جا سکتا- اگر سید محمد شریف صاحب اپنی طرف سے حجت کو تمام شدہ سمجھتے ہیں تو میری طرف سے ان کو اجازت ہے کہ وہ تقریر نہ کریں- میں اپنے عقیدے کی رو سے مجبور ہوں کہ مباہلہ سے پہلے اپنے عقائد اور دلائل بیان کر دوں تا کہ اس وقت بھی اگر کوئی شخص مباہلہ سے ہٹنا چاہے تو ہٹ جائے اور مباہلہ سے بچ جائے-
دوسری بات انہوں نے یہ لکھی ہے کہ میں ایک ہزار آدمی سے بھی زیادہ مباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لا سکتا ہوں لیکن چونکہ آیت قرآنیہفقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء نا و نساء کم و نساء کم وانفسنا و انفسکم ۲~}~ سے ثابت ہے کہ دوسرے لوگ ساتھ نہ تھے‘ اس لئے میں قرآنی مباہلہ تبدیل نہیں کر سکتا- سید صاحب موصوف یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ کسی صاحب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ باوجود ایک لاکھ صحابہ کی موجودگی کے حضرت رسول کریم ~صل۲~ نے ایک صحابی کو بھی ساتھ نہیں لیا تھا- مجھے تعجب ہے کہ باوجود آیت قرآنیہ کے نقل کر دینے کے پھر بھی سید صاحب موصوف کا خیال ہے کہ مباہلہ میں حضرت رسول کریم ~صل۲~ کے ساتھ اور کوئی شخص نہ تھا- سید صاحب نے اپنے پہلے اشتہار میں اس آیت کا ترجمہ خود ہی یوں کیا ہے-:
>ہم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو بلائو<
میں پوچھتا ہوں کہ >ہم< اور >تم< کون ہیں- جن کی ایک ایک سے زیادہ جانیں ہیں؟ بیٹوں‘ بیٹیوں اور بیویوں کا ذکر تو پہلے آ چکا تھا- اب یہ انفسنا وانفسکم سے مراد کون لوگ ہیں؟ جب وہ خود اپنے ترجمہ میں اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ایک جماعت دوسری جماعت سے مباہلہ کرتی ہے تو اب وہ کس طرح اس بات کا انکار کر سکتے ہیں؟ ہر شخص جو عربی زبان سے ذرہ بھی مس رکھتا ہے- وہ جانتا ہے کہ اس آیت میں جماعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- چنانچہ علامہ ابوحیان اپنی تفسیر >بحر محیط< میں تحریر فرماتے ہیں-قال قوم المباھلہ کانت علیہ وعلی المسلمین بدلیل ظاھر قولہ ندع ابناء نا وابناء کم ۳~}~پس عربی زبان کے محاورے کے مطابق آیت مباہلہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک جماعت کا مباہلہ دوسری جماعت سے ہو-
آپ یہ نہیں فرما سکتے کہ جمع کے الفاظ بیٹوں اور بیٹیوں کی شمولیت کی وجہ سے ہیں- یا یہ کہ دوسرے فریق کی شمولیت کی بناء پر ہیں کیونکہانفسنا و انفسکم سے پہلے بیٹے بیٹیوں کا ذکر ہو چکا ہے اس لئے وہ ان الفاظ میں شامل نہیں- اور دوسرا فریق بھی انفسنا میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا ذکر انفسکم میں علیحدہ کیا گیا ہے-
سید صاحب موصوف کو یاد رکھنا چاہئے کہ تمام احادیث اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا وہ کوئی ایک شخص نہ تھا بلکہ وہ ایک جماعت تھی مختلف حدیثوں اور تاریخوں سے ان لوگوں کی تعداد ساٹھ سے ستر تک ثابت ہوتی ہے- اور جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے ایک حدیث بھی ایسی نہیں جس میں صرف کسی ایک شخص کو مباہلہ کے لئے بلانے کا ذکر ہو بلکہ تمام احادیث میں جماعت کو ہی بلانے کا ذکر ہے-
اب رہا یہ سوال کہ حضرت رسول کریم ~صل۲~ اکیلے ہی مباہلہ کے لئے نکلے تھے- سو اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جس طرح رسول تمام امت کی طرف سے کھڑا ہو سکتا ہے اسی طرح کوئی اور شخص کھڑا ہونے کا حق دار نہیں- لیکن احادیث اور تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ آنحضرت ~صل۲~ اکیلے مباہلہ کے لئے نکلے تھے-
آپ فرماتے ہیں کہ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ کے ساتھ ایک صحابی بھی نہیں نکلا تھا حالانکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت علیؓ بھی آپ کے ساتھ تھے- اور ابن عساکر کی ایک روایت ہیجاء بابی بکر و ولدہ و بعمر و ولدہ و بعثمان و ولدہ وبعلی و ولدہ ]ttex [tag۴~}~یعنی حضرت رسول کریم ~صل۲~ ‘ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کی اولاد- حضرت عمر اور ان کی اولاد- حضرت عثمان اور ان کی اولاد اور حضرت علی اور ان کی اولاد رضی اللہ عنھم کو اپنے ساتھ لے کر نکلے تھے- لیکن اسی پر بس نہیں‘ علامہ ابو حیان ایک جماعت مسلمین کا قول تحریر فرماتے ہیں کہ لو عزم نصاری نجران علی المباھلہ رجاوا لھا لامرا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم المسلمین ان یخرجوا باھلیھم للمباھلہ ۵~}~ یعنی اگر نجران کے عیسائی مباہلہ کے لئے آمادہ ہو جاتے تو آنحضرت ~صل۲~ باقی مسلمانوں کو بھی حکم فرماتے کہ وہ اپنے اپنے اہل و عیال سمیت آپ کے ساتھ مباہلہ میں شامل ہوں- پس مسنون مباہلہ یہی ہے کہ جماعت کے ساتھ مباہلہ کرے-
تیسری بات سید صاحب موصوف نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا کہ اگر نصاریٰ میرے مقابل پر آ جاتے تو ان پر آگ برستی-۶~}~ اگر سید صاحب کی مراد یہ ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی پر آگ نہ برسے تو مباہلہ کو باطل سمجھا جائے گا؟ تو میں اس سے متفق نہیں- میں کسی عیسائی یا ہندو کو ان سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار کر دیتا ہوں- اگر اس پر آسمان سے آگ برسے یا وہ سور یا بندر ہو جائے جیسا کہ بعض دوسری احادیث میں آتا ہے تو پھر ان کا حق ہو گا کہ وہ مباہلہ کے اثر کو ان باتوں تک محدود رکھیں ورنہ خدا تعالیٰ نے صرف *** کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور یہی لفظ میاں بیوی کے ملاعنہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے- لیکن ان میں سے کسی ایک مقام پر بھی خدا تعالیٰ کی سنت کو کسی خاص عذاب میں محدود اور محصور نہیں کیا گیا- پھر اس جگہ کیوں ایسا کیا جائے؟ میاں بیوی میں ملاعنہ امت محمدیہ میں سینکڑوں دفعہ ہو چکا ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا ہے- مگر نہ کبھی آگ برسی اور نہ کبھی کوئی بندر یا سور بنا- جب اللہ تعالیٰ ایک عام لفظ استعمال کرتا ہے تو کسی بندہ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے معنی کو محدود کر دے-
چوتھی بات سید صاحب موصوف نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ ان کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب روپڑوی اور مولوی اسد اللہ یوسف صاحب دینانگری مبادیات کے طے کرنے کے لئے مقرر ہونگے- میں سمجھتا ہوں کہ اتمام حجت اور مباہلہ میں ایک جماعت کا شامل ہونا قرآن کریم سے یقینی طور پر ثابت ہے اور احادیث اس کی موید ہیں اور ایک حدیث بھی اس کے مخالف نہیں- پس ان دونوں شرطوں کا پہلے طے ہو جانا ضروری ہے اگر وہ ان دونوں شرطوں کو تسلیم کر لیں تو میرے نائب امیر جماعت احمدیہ امرت سر کے مکان پر ان کی تحریر کے بموجب آ جائیں گے اور جیسا کہ سید صاحب موصوف نے تحریر فرمایا ہے ان کی گفتگو تحریر میں آتی رہے گی تا کہ بعد میں اختلاف پیدا نہ ہو-
سید صاحب موصوف نے آخر میں اپیل کی ہے کہ غیر ضروری باتوں میں وقت ضائع نہ کیا جائے- میں بھی ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی اس تحریر کے مطابق میرے اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں- جب اتمام حجت کے وہ بھی قائل ہیں- تو کیا وجہ ہے کہ مباہلہ سے پہلے اتمام حجت کا موقع دینا وہ پسند نہیں فرماتے؟ اور جب کہ آیت قرآنیہ اور تمام احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے ایک جماعت کو ہی مباہلہ کے لئے پیش کیا تھا اور کوئی حدیث اس کے مخالف نہیں- اور ان میں طاقت بھی ہے کہ وہ ایک جماعت کو مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لا سکیں‘ تو باوجود کسی روک کے موجود نہ ہونے کے وہ کیوں احکام قرآنیہ اور دلائل حدیثیہ کے مطابق دونوں فریق کے نمائندہ جماعتوں کے درمیان مباہلہ کئے جانے پر رضامند نہیں ہوتے- میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس بحث کو ختم کرتے ہوئے مباہلہ مسنونہ کے لئے تیار ہونے کی مجھے اطلاع دیں گے تا کہ میرے نمائندے ان کے نمائندوں سے مل کر بقیہ امور کا تصفیہ کر لیں- واخر دعوئنا ان الحمد للہ رب العلمین
خاکسار
میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی و امام جماعت احمدیہ- قادیان
)۱۲- جولائی ۱۹۳۱ء(
)الفضل ۱۸- جولائی ۱۹۳۱ء(
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
سید محمد شریف صاحب کے اشتہار مباہلہ
نمبر۳ کا جواب
میں نے جب اشتہار مباہلہ نمبر۲ شائع کیا تھا تو میرا خیال تھا کہ میں نے اپنے نقطہ نگاہ کو اس قدر واضح کر دیا ہے کہ اب غالباً سید محمد شریف صاحب امیر جماعت اہل حدیث صوبہ پنجاب کو میری پیش کردہ تجویز کے مطابق مباہلہ کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا لیکن افسوس کہ میرا خیال غلط نکلا اور سید صاحب موصوف کی طرف سے ایک تیسرا اشتہار نکلا جس میں ایسے رنگ میں بحث کی گئی ہے جو ان کے پہلے اشتہاروں کے خلاف ہے مگر مجھے سید صاحب پر حسن ظنی ہے اور میں اب بھی خیال کرتا ہوں کہ وہ ضرور غیر ضروری بحث کو چھوڑ کر مباہلہ کے انعقاد کے لئے راستہ کھول دیں گے-
تاخیر جواب کی وجہ
مجھے افسوس ہے کہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد ان کے اشتہار کا جواب لکھ رہا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع میں میں بہت بیمار رہا اور بعد میں کشمیر کے متعلق بعض ایسے ضروری کاموں میں مشغول رہا کہ میں ڈرتا تھا کہ شاید فوراً مباہلہ کے لئے وقت نہ نکال سکوں اور اس سے غلط فہمی پیدا ہو کہ میں گویا مباہلہ سے گریز کرتا ہوں لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے ان کاموں سے ایک حد تک فراغت ہو گئی ہے اس لئے اب جواب شائع کر رہا ہوں-
دو اہم سوال
سید صاحب نے اس امر کو منظور کر لیا ہے کہ ان کے اور میرے نمائندہ مل کر تاریخ اور مقام مباہلہ کا فیصلہ کر لیں- سو اس کے متعلق مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں- اب دو سوال رہ جاتے ہیں اور وہ سوال میرے نزدیک نہایت اہم ہیں- اول مباہلہ سے پہلے فریقین کا اپنے معنقدات اور ان کے دلائل کو بیان کرنا- اور دوسرے ہر ایک فریق کے ساتھ جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا-
میں نے گزشتہ اشتہار میں ثابت کیا تھا کہ یہ دونوں باتیں قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہیں اور مباہلہ کے نتائج کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ان کا ہونا نہایت ضروری ہے- سید صاحب نے ان دونوں باتوں سے اپنے تازہ اشتہار میں بھی انکار کیا ہے بلکہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ یہ دونوں امر غیر ضروری ہی نہیں خلاف سنت ہیں-
نقطہ نگاہ میں فرق
میں سمجھتا ہوں کہ میرے اور ان کے نقطہ نگاہ میں فرق ہونے کی وجہ سے یہ سب طوالت پیدا ہو رہی ہے اور سید صاحب دانستہ ایسا نہیں کر رہے- میرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ قرآن کریم محفوظ اور اصل جڑ کے طور پر ہے اور احادیث خواہ انسانوں نے اپنی پوری کوشش سے ان کی تصحیح کی ہو قرآن کریم پر حاکم نہیں ہیں- بلکہ اگر الفاظ قرآنیہ کے خلاف ہوں گو ظاہراً انہیں کس قدر بھی صحت کا مقام حاصل ہو قرآن کریم کو مقدم کرنا پڑے گا اور احادیث کو اس کے تابع کرنا ہوگا- سید صاحب کا نقطہ نگاہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے الفاظ سے خواہ کچھ نکلتا ہو اگر حدیث میں ایک مضمون آ گیا ہو تو قرآن کریم کے الفاظ کی تفسیر حدیث کے مطابق کرنی ہوگی- میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ کونسا نقطہ نگاہ صحیح ہے کیونکہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو جائے گی اور ہم اصل مضمون سے دور جا پڑیں گے-
درمیانی راہ
پس میں ایک درمیانی راہ پیش کرتا ہوں جو یہ ہے کہ خواہ حدیث کو تفسیر میں مقدم درجہ دیا جائے تو بھی اس امر کے تسلیم کرنے میں تو کسی کو کوئی عذر نہ ہوگا کہ اگر حدیث الفاظ قرآنی کے مخالف نہ ہو اور الفاظ قرآنی سے لغت عرب کے قواعد کے مطابق حدیث کے بیان کردہ مضمون سے بعض زائد باتیں نکلتی ہوں تو ان زائد باتوں کو تسلیم کرنا حدیث کے خلاف عمل کرنا نہیں کہلائے گا-
مباہلہ سے قبل فریقین کا اپنے اپنے دلائل بیان کرنا
اس اصل کے ماتحت سید صاحب اگر غور کریں گے تو دونوں سوال حل ہو جائیں گے- مثلاً پہلا سوال یہ ہے کہ مباہلہ سے پہلے دونوں فریق اپنے دلائل بیان کریں اور دلائل سننے کے بعد اگر دونوں فریق مباہلہ کرنا چاہتے ہوں تو مباہلہ ہو- سید صاحب کے نزدیک حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وفد نجران کے مدینہ پہنچنے کے بعد آیت مباہلہ نازل ہوئی ہے اور اس کے بعد کوئی بحث رسول کریم ~صل۲~ نے نہیں کی- بلکہ وفد نجران کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا- میں بحث کی خاطر تسلیم کر لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہوا- مگر میں کہتا ہوں کہ اگر ایسا بھی ہوا ہو تب بھی قبل مباہلہ بحث کی نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اصل غرض حکم الہی کی یہ ہے کہ مباہلہ کے معاً پہلے فریقین ایک دوسرے کے دلائل سن چکے ہوں تا کہ آخری وقت ایک دوسرے پر اتمام حجت ہو جائے- اب یہ تو سید صاحب کو تسلیم ہے کہ مباہلہ کے چیلنج سے معاً پہلے مباہلہ کے فریقین میں پوری طرح تبادلہ خیالات ہو چکا تھا پس اصل غرض پوری ہو گئی- لیکن مجوزہ مباہلہ سے پہلے کوئی ایسی گفتگو چونکہ فریقین میں نہ ہو چکی ہوگی اس لئے ضروری ہے کہ اس کی صورت بھی نکالی جائے جس کے لئے میں زور دے رہا ہوں-
سید صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے کافی مباحثات ہو چکے ہیں بلکہ مباہلہ سے پہلے بٹالہ میں بھی مباحثہ ہو چکا تھا لیکن یہ جواب درست نہیں اس لئے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہو چکا ہے وہ دوسرے لوگوں کے درمیان ہوا ہے نہ کہ مباہلہ کے رئوساء کے درمیان- مجھے اور سید صاحب کو ایک دوسرے کے سامنے تبادلہ خیالات کا موقع اس طرح نہیں ملا جس طرح کہ رسول کریم ~صل۲~ اور وفد نجران کو ملا تھا- پس ضروری ہے کہ ہم دونوں بوجہ اصل مباہلین ہونے کے مباہلہ سے پہلے اپنے اپنے دلائل سے ایک دوسرے کو واقف اور آگاہ کر دیں تا کہ پوری طرح اتمام حجت ہو جائے-
آیت مباہلہ کے بعد تبادلہ خیالات کا ثبوت
میں نے اوپر جو کچھ لکھا ہے اس امر کو فرض کر کے لکھا ہے کہ سید صاحب کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ آیت مباہلہ کے بعد رسول کریم ~صل۲~ اور وفد نجران کے درمیان کوئی مباحثہ نہیں ہوا- مگر حق یہ ہے کہ آیت مباہلہ کے بعد تبادلہ خیالات کا ہونا تاریخ و حدیث سے ثابت ہے- چنانچہ ابن جریرؓ بن اسحقؓ اور ابن منذرؓ کی روایت محمد بن جعفر بن الزبیرؓ سے تفسیر درمنثور میں درج ہے کہ وفد نجران جب رسول کریم ~صل۲~ کے پاس آیا تو انہیں رسول کریم ~صل۲~ 2] ft[r نے اسلام کی دعوت دی- انہوں نے جواب دیا کہ ہم پہلے سے اسلام لا چکے ہیں- یعنی مسیح کو مان چکے ہیں- اس پر آنحضرت ~صل۲~ نے فرمایا کہ تم جھوٹے ہو- تمہیں اسلام لانے سے ابنیت کا عقیدہ اور عبادت صلیب اور خنزیر کے گوشت کا کھانا روک رہا ہے- اس کے جواب میں مسیحیوں نے کہا کہ آپ یہ فرمائیے کہ مسیح کا باپ کون تھا؟ آپ یہ سنکر خاموش ہو گئے- اور سورہ آل عمرن کی ۸۰ سے کچھ اوپر آیتیں نازل ہوئیں- ۷~}~
اسی مضمون کی روایت ابن اسحقؓ نے محمدؓ بن سہلؓ ابن ابی امامہؓ سے بھی نقل کی ہے- اور بیہقی نے دلائل میں بھی اسی قسم کی روایت نقل کی ہے- )اس مضمون کی اور بھی کئی روایات ہیں(
اب سید صاحب قرآن کریم کو نکال کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ آیت مباہلہ اکسٹھویں آیت ہے- جس سے معلوم ہوا کہ آیت مباہلہ وفد نجران کی آمد کے پہلے دن ہی اور بحث ہونے سے پہلے ہی نازل ہو چکی تھی- چنانچہ جو دلائل بحث میں رسول کریم ~صل۲~ نے دیئے ہیں وہ وہی ہیں جو سورہ آل عمران کی ابتدائی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں- اور چونکہ دوسری روایات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وفد نجران نے دو دن مباحثہ کیا اور تیسرے دن مباہلہ کے لئے رسول کریم ~صل۲~ تشریف لائے- پس معلوم ہوا کہ اکثر حصہ بحث کا آیت مباہلہ کے نزول کے بعد اور اس کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے تھا- لیکن جب نصاریٰ نے حق کو تسلیم نہ کیا تو انہیں مباہلہ کا چیلنج دیا گیا-
اس امر کی مزید تائید کہ آیت کے نزول کے بعد بھی مباحثہ ہوتا رہا‘ اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن جریرؓ نے ابن عباسؓ سے اور ابنجریرؓ اور عبدؓ بن حمید نے قتادہؓ سے اور ابنجریرؓ نے السعدیؓ سے روایت کی ہے کہ وفد نجران نے جب رسول کریم ~صل۲~ سے حضرت مسیحؑ کے باپ کے متعلق سوال کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی-ان مثل عیسی عنداللہ کمثل ادم اور اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے نصاریٰ کے سوالات کے جواب دیئے-۹~}~
اب چونکہ ان روایات سے جو میں پہلے نقل کر چکا ہوں یہ ثابت ہے کہ یہ آیت اور آیت مباہلہ اکٹھی نازل ہوئی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت مباہلہ کے نزول کے بعد کم سے کم مسیح کے ابن اللہ ہونے کے متعلق ضرور مباحثہ ہوا ہے- اور یہی اصل مابہ النزاع نصاریٰ اور مسلمانوں میں ہے-
علاوہ ازیں جو تفاصیل نصاریٰ اور رسول کریم ~صل۲~ کے درمیان بحث کی احادیث میں آتی ہیں ان کا مضمون بھی سورہ آل عمران کی ابتدائی آیات کے بالکل مطابق ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مباحثہ کا بیشتر حصہ ان آیات کے نزول کے بعد واقع ہوا ہے-
الغرض احادیث سے یہ ہر گز ثابت نہیں کہ آیت مباہلہ کے نزول کے بعد مباحثہ واقع نہیں ہوا- بلکہ جیسا کہ اوپر میں نے لکھا ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد مباحثہ ہوتا رہا- یہ آیات پہلے دن نازل ہوئیں اور مباہلہ کا چیلنج دوسرے دن شام کو دیا گیا ہے- اور اگر یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ ان آیات کے بعد مباحثہ نہیں ہوا تب بھی یہ امر یقیناً ثابت ہے کہ مباہلہ سے معاً پہلے وفد نجران سے مباحثہ ہوا- پس اس امر کو تسلیم کر کے بھی نتیجہ یہی نکلے گا کہ مباہلہ سے پہلے مباحثہ ضروری ہے اور نیز یہ نتیجہ نکلے گا کہ چونکہ مباحثہ ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب کافی مباحثہ ہو چکا ہے اب مباہلہ کرو- اور آئندہ کے لئے یہی حکم سمجھنا پڑے گا کہ جس وقت دو فریق میں مباحثہ کے باوجود فیصلہ نہ ہو سکے تو اس کے معاً بعد مباہلہ ہونا چاہئے-
بانی سلسلہ احمدیہ کا مولوی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ
سید صاحب نے لکھا ہے کہ اگر مباہلہ سے پہلے مباحثہ ضروری ہے تو بانی سلسلہ احمدیہ )علیہ الصلوۃ والسلام( نے کیوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی سے مباہلہ سے پہلے مباحثہ نہ کیا- سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بارہ میں جو میرا عقیدہ ہے وہی بانی سلسلہ احمدیہ کا تھا- چنانچہ آپ >ازالہ اوہام< میں مولوی عبدالحق صاحب کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں-:
>مباہلہ میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اول ازالہ شبہات کیا جائے- بجز اس صورت کے کاذب قرار دینے میں کوئی تامل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہو- لیکن میاں عبدالحق بحث مباحثہ کا تو نام تک بھی نہیں لیتے<-۱۰~}~
شبہ اور تامل کے ازالہ کی تعریف بھی آپ نے خود ہی کر دی ہے اور وہ یہ کہ جب الہام الہی سے کسی سوال کی حقیقت معلوم ہو جائے- چنانچہ اشتہار مباہلہ بمقابل مولوی عبدالحق صاحب مورخہ ۱۲- اپریل ۱۸۹۱ء میں آپ نے اس امر کو بیان فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے الہام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسیح علیہ السلام کی حقیقت سے آگاہ کر دیا تب مباہلہ کا چیلنج دیا-
اب رہا یہ سوال کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیوں مولوی عبدالحق صاحب سے بغیر مباحثہ کے مباہلہ کیا- تو اس کا جواب میں اگلے سوال کے ساتھ ملا کر اکٹھا دوں گا-
مباہلہ میں جماعت کی شمولیت
میری تیسری شرط کہ مباہلہ میں دونوں طرف سے جماعتیں ہونی چاہئیں- اس کے متعلق ایک تو سید صاحب یہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ ضروری ہے تو کیوں بانی سلسلہ احمدیہ نے مولوی عبدالحق صاحب سے اکیلے مباہلہ کیا اور دوسرے یہ کہ مباہلہ میں فریقین کے ساتھ جماعت کی شمولیت احادیث سے ثابت نہیں-
پہلے امر کا جواب یہ ہے کہ مباہلہ میں دونوں طرف سے جماعت ہونے کے متعلق بھی بانیسلسلہ احمدیہ کا وہی عقیدہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے- مولوی عبدالحق صاحب کو ہی مخاطب فرما کر آپ اپنے اشتہار مورخہ ۱۲-اپریل ۱۸۹۱ء میں فرماتے ہیں-:
>نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں- اگر جماعت سے کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اول مستحق ہمارے نبی ~صل۲~ تھے- یہ کیا انصاف کی بات ہے جو ہمارے نبی ~صل۲~ مباہلہ کیلئے جماعت کے محتاج ٹھیرائے جائیں اور میاں عبدالحق اکیلے کافی ہوں<-۱۱~}~
پھر فرماتے ہیں-:
>اب ناظرین یہ یاد رکھیں کہ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائے جائیں تو عندالشرع مباہلہ ہر گز درست نہیں<-۱۲~}~
‏]0 [stf مولوی عبدالحق صاحب سے مسنون مباہلہ نہیں کیا گیا
اب رہا یہ سوال کہ اس عقیدہ کے باوجود آپ نے مولوی عبدالحق صاحب سے اکیلے مباہلہ کیوں کیا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے ایسا ہر گز نہیں کیا- چنانچہ آپ کے آخری اشتہار میں لکھا ہے-:
>اے برادران اہل اسلام! کل دہم ذیقعدہ روز شنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبدالحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے‘ اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کافر اور دجال اور بے دین اور دشمن اللہ جلشانہ اور رسول اللہ ~صل۲~ کا سمجھتے ہیں<- ۱۳~}~
اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اس وقت ایک جماعت علماء کی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ ہوگی- اب رہا یہ سوال کہ آپ نے جو مقابلہ مولوی عبدالحق صاحب سے کیا وہ کیا مباہلہ نہ تھا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مسنون مباہلہ نہ تھا بلکہ ایک دعا برنگ مباہلہ تھی- چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو الفاظ اس دعا کے اس مقابلہ کے ہونے سے بھی پہلے شائع کئے تھے وہ یہ ہیں-:
>میں یہ دعا کروں گا کہ جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول ~صل۲~ کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں- اور نہ میں کافر ہوں اور اگر میری کتابیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ سے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں‘ تو خدا تعالیٰ وہ *** اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو<-۱۴~}~
اس دعا کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ آپ نے مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یا جو جھوٹا ہو‘ اس کے لئے بددعا کا اعلان نہیں کیا بلکہ صرف اپنے جھوٹا ہونے کی صورت میں اپنے لئے بددعا کرنے کا اعلان کیا تھا- یہ تو قبل از وقت کا اعلان تھا جو عملاً ہوا- اس کی حقیقت >حقیقہالوحی< کے اس حوالہ سے ظاہر ہے- حضور فرماتے ہیں-:
>بہرحال مباہلہ میں جو اس نے چاہا کہا- مگر میری دعا کا مرجع میرا ہی نفس تھا اور میں جناب الہی میں بھی التجا کر رہا تھا کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جائوں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے<-۱۵~}~
‏text] [tag ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ حقیقی اور مسنون مباہلہ مولوی عبدالحق صاحب سے نہیں ہوا بلکہ مولوی صاحب کے ضد کرنے پر ایک دعا برنگ مباہلہ کی گئی یعنی گو دونوں فریق ایک مقام پر جمع ہوئے لیکن بد دعا صرف ایک فریق کے لئے ہوئی- دونوں نے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف یا جو جھوٹا ہو اس کے خلاف بد دعا نہیں کی-
یہ امر کہ اس قسم کی دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک حقیقی اور مسنون مباہلہ نہیں‘ آپﷺ~ کے ایک اور قول سے جو رسالہ اربعین میں ہے‘ بالکل واضع ہو جاتا ہے- آپﷺ~ اربعین نمبر۲ میں اس قسم کی ایک دعا کا ذکر کر کے فرماتے ہیں-:
>یاد رہے کہ یہ طریقہ دعا مباہلہ میں داخل نہیں کیونکہ مباہلہ کے معنی لغت عرب کی رو سے اور نیز شرعی اصطلاح کی رو سے یہ ہیں کہ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خدائی *** چاہیں لیکن اس دعا میں تمام اثر دعا صرف میری ہی جان تک محدود ہے- دوسرے فریق کے لئے کوئی دعا نہیں<-۱۶~}~
خلاصہ یہ کہ جو مقابلہ مولوی عبدالحق صاحب سے ہوا‘ وہ شرعی اصطلاح کی رو سے مباہلہ نہ تھا اور محض مولوی صاحب کے اصرار پر اور لوگوں کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے ایک دعا برنگ مباہلہ کی گئی‘ اسے مجازاً تو مباہلہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریق نے جمع ہو کر بددعا کی لیکن حقیقتاً نہیں- کیونکہ بد دعا دونوں فریق میں سے جھوٹے کیلئے نہ تھی- بلکہ صرف ایک فریق کے لئے تھی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو تباہ ہو جائے- پس اس واقع سے مباہلہ کی شرائط کا اندازہ لگانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وقوعہ سے پہلی اور پچھلی تحریرات کو نظر انداز کر دینا کسی صورت میں جائر نہیں ہو سکتا-
مباہلہ میں جماعت کی شمولیت
اب سید صاحب کا یہ جواب رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث سے کسی جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا ثابت نہیں- سو اس کا جواب یہ ہے کہ جو روایات انہوں نے نقل کی ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نے ذفدنجران کو جن کی تعداد سات سے لے کر کئی درجن تک بیان کی جاتی ہے‘ مباہلہ کی دعوت دی- اب اگر جماعت کا مباہلہ میں شامل ہونا خلاف سنت ہے- تو پھر کیا رسول کریم ~صل۲~ پر نعوذ باللہ من ذالک اعتراض نہیں آتا کہ آپﷺ~ نے ایک سے زیادہ لوگوں کو کیوں مباہلہ کے لئے بلایا- پس کم سے کم ان حوالوں سے سید صاحب کو یہ تو ماننا پڑے گا کہ گو جماعت کی شمولیت مباہلہ کے لئے ضروری نہیں لیکن جماعت کا شامل ہونا آیت اور احادیث کے مفہوم کے مخالف نہیں تو آپ کو جماعت کی شمولیت پر بلاوجہ اعتراض کیوں ہے- اس صورت میں آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ گو جماعت شامل ہو سکتی ہے لیکن میری جماعت میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں- یا یہ کہ میں ہزار پانچ سو آدمی ساتھ نہیں لا سکتا- میرے ساتھ آدمی کم ہیں- میں صرف پچاس ساٹھ آدمی اپنے ساتھ لائوں گا اور اگر آپ ¶اس قسم کے عذر رکھتے ہوں تو مجھے ہرگز اس شرط پر اصرار نہ ہو گا کہ آپ ضرور ہزار آدمی ہی ساتھ لائیں گو میں خود ہزار یا اس سے بھی زائد آدمی انشاء اللہ ہمراہ لائوں گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے مباہلہ کا ذکر شروع ہوا ہے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے خطوط اور تار میرے پاس نہایت لجاجت کے آ رہے ہیں کہ انہیں اس مباہلہ میں شامل کیا جائے-
مسنون مباہلہ میں جماعت کی شمولیت ضروری ہے
میں نے اوپر کی بات بحث کو روکنے کے لئے فرضاً لکھی ہے- ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسنون مباہلہ میں جماعت کی شمولیت ضروری ہے اور الفاظ قرآنیہ سے یہی امر ثابت ہے- سید صاحب کا یہ لکھنا کہ جمع کے الفاظ اس لئے لکھے گئے ہیں کہ یہ آیت قیامت تک کے لئے ہے اور بعض لوگوں کے اہل زیادہ ہوتے ہیں‘ درست نہیں- کیونکہ سوال یہ نہیں کہ آیت میں ابناء و نساء کے الفاظ جمع آئے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مخاطبین کو تعالوا کہہ کر بلایا ہے- جو جمع کا صیغہ ہے- چونکہ مخاطب کے وجود میں متکلم کا وجود شامل نہیں ہوتا- اس لئے بہرحال تعالوا میں وہی لوگ شامل سمجھے جائیں گے جنہیں مباہلہ کے لئے بلایا ہے اور چونکہ تعالوا جمع کا لفظ ہے‘ اس لئے ماننا پڑے گا کہ رسول کریم ~صل۲~ نے جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے- وہ ایک جماعت ہے نہ کہ فردواحد- دوسرا استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں ایک لفظ انفسنا کا بھی آتا ہے- یعنی آئو ہم اپنے اپنے نفوس کو بلائیں- اب یہ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو بلانے کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے اور خصوصاً جب کہ بیویوں اور بچوں کو بلوانے کا پہلے ذکر آ چکا ہے اس کے بعد اپنے نفسوں کو بلانے کے کوئی معنی نہیں رہتے- پس انفس کے معنی یقیناً ساتھی اور ہم خیال لوگوں کے لینے پڑیں گے اور یہ قرآن کریم کے محاورہ کے عین مطابق بھی ہے- سورۃ نور میں - فاذا دخلتم بیوتا فسلمو اعلی انفسکم ۱۷~}~ یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آدمیوں اور ساتھیوں کو سلام کہا کرو- سید صاحب اس حکم کی تعمیل میں کسی گھر میں داخل ہوتے ہوئے یقیناً السلام علیکم ہی کہتے ہوں گے اور انفسکم ]text1 [tag کے لفظ کے یہ معنی نہ کرتے ہوں گے کہ گھر میں داخل ہو کر یہ کہیں- کہ السلام علی- غرض یہ کہ آیت زیر بحث میں انفسکم کے معنے ساتھیوں اور ہم خیال کے ہی لئے جا سکتے ہیں- اور یہ معنی دوسری آیات قرآنیہ کے عین مطابق ہیں- تیسرا استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں ابناء ناوا بناء کم ونساء ناونساء کم کہا گیا ہے- چونکہ ابناء کم اور نساء کم الگ کہا گیا ہے- اس لئے نا کی ضمیر میں مخاطب شامل نہیں اور نہ بچے بیویاں شامل ہیں- کیونکہ انہیں ابناء اور نساء کے الفاظ سے الگ بیان کر دیا ہے- پس بہرحال نا جو جمع کی ضمیر ہے- اس سے یہ معنی لینے ہوں گے کہ دعوت مباہلہ دینے والی بھی ایک جماعت ہے اگر وہ جماعت نہ ہو تو نا بے معنی ہو جاتا ہے- اگر یہ کہو کہ رسول کریم ~صل۲~ بوجہ عظمت شان اپنے لئے جمع کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا یہ محاروہ کسی انسان کے متعلق قرآن کریم میں کبھی نہیں آیا اور نہ یہ رسول کریم ~صل۲~ کا طریق تھا کہ وہ اپنے آپ کو >ہم< کہہ کر بلایا کرتے ہوں اور پھر جب یہ حکم سب زمانوں کے لئے تھا تو اگلے لوگ جو اس شان کے نہ تھے اس آیت پر کس طرح عمل کریں گے-
سید صاحب یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ کبھی مفرد کی جگہ جمع کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں- جیسا کہ آیت کریمہ الذین قال ھم الناس ان الناس قد جمعوالکم ۱۸~}~ میں صرف ایک شخص کہنے والا تھا لیکن جمع کا لفظ استعمال کیا گیا- اس میں کوئی شک نہیں کہ کبھی روایت میں ایک شخص کی جگہ جمع کا لفظ بغرض ابہام استعمال کر لیتے ہیں- مثلاً ایک شخص بات کہے تو کہہ دیتے ہیں بعض لوگ یوں کہتے ہیں- لیکن احکام اور روایات میں فرق ہے- روایت میں اس موقع پر ابہام پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے اور احکام میں وضاحت ہمیشہ مقصود ہوتی ہے- اگر وہاں اس طریق کو استعمال کیا جائے تو شریعت میں نقص لازم آتا ہے- نیز سید صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ >ہو سکتا ہے< اور> ہے< میں فرق ہے بے شک مفرد کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال ہو سکتاہے- لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اس آیت میں بھی ایسا ہے- مگر جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں‘ اس آیت کی بناوٹ بتا رہی ہے کہ یہاں ایسا نہیں ہے‘ تو پھر >ہو سکتا ہے< کا قاعدہ یہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا-
سورہ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت کے متعلق بھی سید صاحب کو یاد رہے کہ اس کے بارہ میں بھی احادیت میں اختلاف ہے- بہت سی احادیث میں ایک سے زائد لوگوں کا یہ بات کہنا ثابت ہے- چنانچہ ابن سعید بروایت ابن ایزی اور ابن جریر بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک سے زائد لوگوں نے یہ بات کہی تھی وغیرہ
ایک جواب سید صاحب نے یہ دیا ہے کہ عربی کا قاعدہ ہے کہ مشاکلت کی وجہ سے بھی ایک کی جگہ دوسرا صیغہ استعمال کر دیتے ہیں- اس امر کو فرض کر کے کہ یہ قاعدہ اسی طرح ہے میں پھر کہتا ہوں کہ کسی قاعدہ کا ہونا اور بات ہے اور اس کا کسی خاص جگہ پر چسپاں ہونا اور بات ہے- کیا اس قاعدہ کے مطابق ہم قرآن کریم کی تمام ضمائر کو مشاکلت کے ماتحت مفرد سے جمع اور جمع سے مفرد بنا سکتے ہیں؟ آخر استثنائی قاعدہ کو چسپاں کرنے کی بھی تو کوئی وجہ ہونی چاہئے- جب الفاظ آیت سے ثابت ہے کہ اس جگہ ضمائر اپنے اصلی مفہوم میں ہیں تو سید صاحب کا بیان کردہ مشاکلت کا قاعدہ بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتا- جب آیت ہی دوسرے معنوں کو رد کر رہی ہے تو خلاف منطوق معنی کرنے جائز ہی نہیں ہو سکتے- یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں دو صیغے دو جماعتوں کے لئے استعمال ہوئے ہیں ایک >قل< رسول کریم ~صل۲~ کے لئے اور ایک >تعالوا< آپ کے مخالفوں کے لئے اب مشاکلت کا قاعدہ اگر سید صاحب کے بیان کے مطابق ہی سمجھا جائے تو بھی چاہئے تھا کہ جو ضمائر رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق آتیں‘ مفرد آتیں‘ کیونکہ پہلا لفظ مفرد تھا- واحد سے مشاکلت جمع کو کس طرح ہو سکتی ہے- اور اگر سید صاحب یہ کہیں کہ چونکہ ابناء اور نساء کا لفظ جمع ہے- اس لئے نا آیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ انفس کیوں جمع آیا اس صورت میں تو یہ ماننا پڑے گا کہ انفس اس لئے جمع آیا کہ نساء کا لفظ جمع تھا اور نا اس لئے جمع آیا کہ انفس جمع تھا- گویا پہلے ایک لفظ کو مشاکلت سے جمع کیا‘ پھر اس کے مضاف الیہ کو اس کی مشاکلت کی وجہ سے جمع کیا-
اب اس فرضی جواب کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مشاکلت کا قاعدہ عربی زبان میں اس طرح نہیں جس طرح سید صاحب نے ذکر کیا ہے- مشاکلت کی تعریف علم البدیع والوں نے یہ کی ہے- کہ ذکر الشی بلفظ غیرہ لوقوعہ بصحبہ ذالک الغیر ولو تقدیرا-۱۹~}~ یعنی کسی چیز کے لئے بجائے اصل لفظ کے دوسرا لفظ استعمال کریں اس لئے کہ وہ چیز ایک اور چیز کے پاس واقع ہوتی ہے- پس اس دوسری چیز کی مناسبت سے اس کا نام بدل دیا گیا- مثال یہ دی ہے کہ قلت اطبخوالی جبتہ وقمیصا- میں نے کہا- میرے لئے ایک جبہ اور ایک قمیض پکا دو- جبہ اور قمیض پکائے نہیں جاتے- چونکہ پہلے شخص نے کہا تھا کہ ہم تیرے لئے کیا پکائیں اس کو لباس کی ضرورت تھی اس نے کہا کہ جبہ اور قمیض پکا دو- یعنی مجھے کپڑے کی ضرورت ہے- اس تعریف سے ظاہر ہے کہ ضمائر کے بدلنے کا مشاکلت سے کوئی تعلق نہیں- مشاکلہ تو یہ ہے کہ ایک بات کو زیادہ موثر بنانے کے لئے ایک پاس کے لفظ کے مطابق ایک دوسرا لفظ استعمال کر لیا جائے-
ایک جواب سید صاحب نے یہ دیا ہے کہ احادیث میں صرف یہ ذکر ہے- کہ حضرت علیؓ‘ حضرت فاطمہؓ اور حسنؓ اور حسینؓ کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کیلئے نکلے تھے- مجھے ان احادیث سے انکار نہیں- میں تو یہ کہتا ہوں کہ ساتھ ہی احادیث میں آتا ہے- ھولاء اھلی ۲۰~}~ یہ میرے اہل ہیں نہ یہ کہ ہمارے اہل ہیں- پس ہم تو کہتے ہیں کہ مباہلہ ہوا نہیں- اگر مباہلہ ہوتا اور دوسرے صحابہ اور ان کے اہل شامل نہ ہوتے تب ان احادیث سے استدلال ہو سکتا تھا- مگر مباہلہ تو ہوا نہیں‘ پھر استدلال کس طرح ہوا- اس وقت تک تو وفد بخران نے مباہلہ قبول کرنے کا اعلان ہی نہ کیا تھا- ہم کہتے ہیں اگر وفد بخران مباہلہ کو مان لیتا تو دوسرے لوگوں کو بھی آپﷺ~ بموجب حکم آیت جمع ہونے کا حکم دیتے- آپﷺ~ اس خیال سے کہ دوبارہ گھر نہ جانا پڑے اپنے اہل کو لے کر تشریف لے گئے- دوسرا جواب یہ ہے کہ آپﷺ~ خود بھی اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں تسلیم کرتے کہ ان لوگوں کے سوا دوسرے لوگ مباہلہ میں شامل نہ ہونے تھے کیونکہ آپ نے خود اس آیت کی تفسیر اہل وعیال کی ہے جو بیویوں پر مشتمل ہے- دوسرے آیت قرآنی میں نساء کا لفظ ہے- اور نساء کا لفظ اگر محدود کیا جائے تو اول اس میں بیویوں کا مفہوم ہوتا ہے- قرآن کریم میں آتا ہے- یا نساء النبی ۲۱~}~ جس جگہ صرف بیویاں مراد ہو سکتی ہیں- پس آیت مباہلہ میں نساء نا کے لفظ کے ماتحت بیویوں کی شمولیت لازم ہے اور احادیث میں بیویوں کا ذکر نہیں- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں وہ سب تعداد جس نے مباہلہ میں شامل ہونا تھا مذکور نہیں ہے-
سید صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ میری نقل کردہ روایت جس میں دوسرے صحابہ کی شمولیت کا ذکر ہے ضعیف ہے اور حوالہ کنزالعمال صفحہ ۸‘۹ کا دیا ہے- سید صاحب نے افسوس تو مجھ پر کیا ہے کہ میں نے ایک ضعیف حدیث کو نقل کیا ہے لیکن افسوس درحقیقت ان پر ہے- کیونکہ کنز العمال میں یہ نہیں لکھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کتاب جن میں سے تاریخ ابن عساکر بھی ہے‘ ان کی روایات ضعیف ہیں-۲۲~}~ اس کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ علامہ سیوطی کے نزدیک اس کتاب میں احتیاط سے کام نہیں لیا گیا لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں کہ اس میں کوئی حدیث بھی درست نہیں- اس میں کئی احادیث ایسی ہیں جو صحاح ستہ میں ہیں بلکہ صحیحین میں بھی موجود ہیں اور بہت سی حدیثوں پر مسلمان عمل کرتے چلے آئے ہیں- محض کسی شخص کے کسی کتاب کو ضعیف کہہ دینے سے تو اس کی سب احادیث ضعیف نہیں ہو جاتیں- چنانچہ جن لوگوں نے مستدرک ابن عساکر کی مخالفت کی ہے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر بڑے پائے کے آدمی تھے- امام ذہبی نے بہت سے آئمہ کے اقوال ان کی تعریف میں لکھے ہیں- چنانچہ سمعانی کا قول انہوں نے یہ لکھا ہے- سمعانی کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں‘ متقی ہیں‘ نیک ہیں اور حافظ عبدالقادر کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن عساکر جیسا حدیث کا یاد رکھنے والا نہیں دیکھا- اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے- مگر سب سے مقدم امر تو یہ ہے کہ ان کی روایت الفاظ قرآن کے مطابق ہے اور دوسری حدیثوں کے مخالف نہیں کیونکہ جس حدیث میں زیادتی ہو وہ مخالف نہیں کہلاتی بلکہ اس سے مضمون کی تکمیل ہوتی ہے- اگر زیادتی کو مخالفت قرار دیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مباہلہ کا واقعہ جو دوسری احادیث میں بیان ہوا‘ سب غلط ہے- کیونکہ بخاری میں تو اس واقعہ کا صرف یہ ذکر ہے کہ دو آدمی نجران کے رسول کریم ~صل۲~ کے پاس مباہلہ کے لئے آئے تھے لیکن بعد میں ایک کے سمجھانے پر دوسرا بھی رک گیا اور انہوں نے رسول کریم ~صل۲~ سے صلح کر لی- بخاری کی روایت میں نہ مباہلہ کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کے نکلنے کا ذکر ہے- نہ حضرت فاطمہؓ و حضرت حسنؓ حسینؓ کے ساتھ ہونے کا- پس اگر ترک ذکر شئے سے عدم شئے مراد ہوتی ہے تو بخاری کی روایت سے دوسری رویت کی بھی تردید ہو جاتی ہے-
نا درست شکوہ
اب ایک سوال اور رہ جاتا ہے جو یہ کہ سید صاحب کو شکوہ ہے کہ میں نے ایک حوالہ نقل کرتے ہوئے اس کے ساتھ کی روایت کیوں نقل نہیں کی- جس میں لکھا تھا کہ رسول کریم ~صل۲~ حضرت علیؓ اور اپنے بچوں اور نواسوں کو لے کر نکلے اور فرمایا- کہ ھولاء اھلی- یہ شکوہ درست نہیں اس لئے کہ اس حوالہ سے نہ میرے استدلال کے خلاف نہ موافق اثر پڑتا تھا اس لئے میں نے اسے نقل نہیں کیا- اگر یہ میرے خلاف اثر انداز ہوتا یا موافق تو میں اسے نقل کرتا-
مباہلہ مسنونہ سے پس و پیش نہیں ہونا چاہئے
میں سمجھتا ہوں کہ میں بہت بسط کے ساتھ سید صاحب کے سوالات کا جواب دے چکا ہوں اس لئے اب انہیں مباہلہ مسنونہ سے پس و پیش نہیں ہونا چاہئے- وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک کثیر جماعت ہے پس اس جماعت میں سے پانچ سو یا ہزار آدمی کا ساتھ لانا ان کے لئے مشکل نہیں- احمدی جماعت تو اہلحدیث سے کم ہے- پس جب میں اپنے ساتھ آدمی لانے کو تیار ہوں تو انہیں بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے- آخر وہ خود مانتے ہیں کہ نجران کے لوگوں میں سے ایک شخص نہیں بلکہ ایک جماعت کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا تھا اور جو بات ایک فریق کے لئے جائز ہو‘ دوسرے کے لئے بھی جائر ہونی چاہئے- کم سے کم ان کے اپنے بیان کے مطابق بھی یہ امر تو ثابت ہے کہ مدعی نبوت نے اپنے مقابلہ پر ایک جماعت کو بلوایا- پس میں جو مدعی نبوت کا خلیفہ ہوں مجھے بھی اجازت ہونی چاہئے کہ اپنے مقابل پر ایک جماعت کو بلوائوں-
میں امید کرتا ہوں کہ اب سید صاحب تقاریر اور جماعت کے ساتھ ہونے کی شرطوں کے خلاف زور نہ دیں گے کیونکہ ان دونوں شرطوں سے فریقین پر کوئی ناجائز بوجھ نہیں پڑتا بلکہ مزید تشریح اور وضاحت ہو جاتی ہے- اور کوئی عقلی یا نقلی دلیل اس کے خلاف نہیں ہے- اگر وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ سچے ہیں اور احمدی جھوٹے ہیں تو تقاریر بہرحال ان کے لئے مفید ہوں گی اور بہت سے لوگوں پر حق واضح ہو جائے گا اور کئی اور لوگ شاید مباہلہ میں شامل ہونے کو تیار ہو جائیں- اسی طرح جماعت کی شمولیت مباہلہ کے اثر کو بڑھائے گی اور ایک جگہ کے لوگوں کے سامنے نہیں بلکہ ہندوستان کے مختلف مقامات کے سامنے مباہلہ کا اثر آ جائے گا- پس ایسے اعلیٰ موقع کو ہاتھ سے نہ دیں اور اپنے مریدوں کو اس ثواب کے موقع سے محروم نہ کریں- آخر ہماری جماعت کے لوگ بھی تو شوق سے اس مباہلہ میں شامل ہونے کو تیار ہیں- میں نہیں سمجھتا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے انہیں فا ذھب انت وربک فقاتلا اناھھنا قاعدون ۲۳~}~ کہہ کر ان سے الگ ہو جائیں- واخر دعوئنا ان الحمد للہ رب لعلمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱۹ مارچ ۱۹۳۲ء
)الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۳۲ء(
‏]enil [tag ۱~}~
درمنثور جلد۲ صفحہ۳۸ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت لبنان
۲~}~
ال عمران : ۶۲
۳~}~
تفسیر بحرالمحیط جلد۲ صفحہ۷۴۹ ناشر مکتبہ و مطالع النصر الحدیثیہ الریاض
۴~}~
درمنثور جلد۲ صفحہ۴۰ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت لبنان
۵~}~
بحرالمحیط جلد۲ صفحہ۷۴۹ مطبعہ السعادہ بجوار محافظ مصر الطبعہ الاولی ۱۳۲۸ھ-
۶~}~
درمنثور جلد۲ صفحہ۶۸ مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء
۷~}~
درمنثور جلد۲ صفحہ۶۷تا ۶۹ مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء
۸~}~
اسماعیل بن عبدالرحمن السعدی- تابعی- )الاعلام جلد۱ صفحہ۳۱۳ مطبوعہ بار سوم بیروت ۱۹۶۹ء خیر الدین الزرکلی(
۹~}~
درمنثور جلد۲ صفحہ۶۶ مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء
۱۰~}~
ازالہ اوہام صفحہ ۳۴۴ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۴۴
۱۱‘۱۲~}~
مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۲۱۵ ناشر الشرکہ الاسلامیہ ۱۹۷۱ء
۱۳‘۱۴~}~
مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۴۲۶‘ ۴۲۷ ناشر الشرکہ الاسلامیہ ۱۹۷۱ء آخری اشتہار ۹ ذیعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷ جولائی ۱۸۹۳ء کو تحریر فرمایا-
۱۵~}~
حقیقہ الوحی صفحہ۲۵۲ روحانی خزائن جلد۲۲
‏ ۱۶2]~}~ [rtf
اربعین نمبر۲ صفحہ۲۹ حاشیہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۳۷۷ حاشیہ
۱۷~}~
النور : ۶۲
۱۸ ال عمران : ۱۷۴

۱۹~}~

۲۰~}~
بحرالمحیط جلد۲ صفحہ۴۷۹ مکتبہ و مطابع النصر الحدیثیہ بیروت
۲۱~}~
الاحزاب : ۳۳
‏2] f[st ۲۲~}~
کنزالعمال جلد۱ صفحہ۸ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن الھند ۱۹۴۵ء
۲۳~}~
المائدہ: ۲۵
‏ a12.23
انوار العلوم جلد ۱۲
مومنوں کیلئے قربانی کا وقت
مومنوں کیلئے قربانی کا وقت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر
مومنوں کیلئے قربانی کا وقت
من انصاری الی اللہ
اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے بندوں کے متعلق
اے بردران جماعت احمدیہ! اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پہلے ابتلائوں کے دریائوں میں سے گزارتا ہے تب جا کر انہیں اپنے قرب سے مشرف کرتا ہے- چنانچہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی جماعت کو سخت سے سخت ابتلاء میں ڈال کر اس کا امتحان نہ لیا ہو یا مصائب کی بھٹی میں ڈال کر اسے صاف نہ کیا ہو- جب اللہ تعالیٰ کے بندوں نے اپنے خون سے یا اپنے مال یا وطن کی یا عزیر و اقارب کی قربانی سے اپنے صدق پر مہر لگائی تبھی جا کر وہ خدا تعالیٰ کے مقبول ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور میں انہیں عزت بخشی-
دو طرح کی قربانیاں
ہاں اس کی سنت کے مطابق یہ قربانیاں شروع سے دو طرح کی چلی آئی ہیں- ایک وہ جو پے در پے اور متواتر اور تمام اقسام کی ہوتی تھیں اور ایک وہ جو آہستگی سے لیکن لمبے عرصہ تک دینی پڑتی تھیں- مقصد دونوں قسم کی قربانیوں کا ایک ہی تھا گو طریق مختلف تھا- اس امت میں بھی ضرور تھا کہ دونوں قسم کی قربانیاں ہوں-
رسول کریم ~صل۲~ اور آپ کے صحابہ کی قربانیاں
چنانچہ رسول کریم ~صل۲~ آئے اور آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو شدید قربانیاں جو تمام قسم کی قربانیوں پر مشتمل تھیں اور جو اپنی نظیر آپ ہی تھیں‘ ایک نہایت قلیل عرصہ میں ادا کرنی پڈیں- اور خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کے مطابق اپنے فضل بھی اعلیٰ درجہ کے اور غیر معمولی ایک نہایت قلیل عرصہ میں نازل کئے جن کو دیکھ کر دنیا ا ب تک انگشت بدنداں ہے-
ایک بے کس یتیم زبردست بادشاہ بن گیا
ایک یتیم بچہ جس کو گائوں کی کوئی غریب دایہ بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھی- جس کی ساری پونجی ایک اونٹ تھا اور وہ بھی اس کی بلوغت سے پہلے نہ معلوم کس طرح ادھر ادھر ہو گیا تھا- جس نے چالیس سال کی عمر تک گوشہ تنہائی میں گزارے تھے- جو نہ پڑھنا جانتا تھا نہ لکھنا اور جس نے جب اپنی ماموریت کا اعلان کیا تو سب سے زیادہ اس کے عزیز رشتہ دار ہی اس کے مخالف ہو گئے تھے- جس کے وطن کا ہر فرد اس کے خون کا پیاسا تھا- جو کچلا گیا‘ پیسا گیا اور دکھ دیا گیا- اور جس کے مٹانے کے لئے اپنے اور بیگانے سب جمع ہو گئے اور گویا بڑوں اور چھوٹوں نے متحدہ طور پر اسے مٹانے کا تہیہ کر لیا- جسے رات کی تاریکی میںاپنے وطن کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ خیر باد کہہ کر ایک اجنبی بستی میں جہاں اس کے دوستوں کی تعداد سو سوا سو آدمی سے زائد نہ تھی جانا پڑا‘ ہاں وہی شخص صرف سات سال کے عرصہ میں ایک زبردست بادشاہ ہو گیا- جس نے نہ صرف عرب کے مختلف قبائل کو جمع کر دیا بلکہ عرب کے باہر بھی اس کی حکومت کا دامن وسیع ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ جو پہلے اس کے خون کے پیاسے تھے ان کے دلوں پر اسے ایسی حکومت عطا ہوئی کہ وہ اپنی جانیں اور اپنے مال سب ہی کچھ اس پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانی
یہ تو وہ قربانی تھی جسے شدت کے ساتھ اور تھوڑے عرصہ میں ادا کرنا پڑا اور تھوڑے ہی وقت میں خدا تعالیٰ نے اس کا بدلہ بھی دے دیا- یہ قربانی بھی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تھی اور اس کا ثمر بھی آنکھوں کو چندھیا دینے والا تھا لیکن ابھی اسلام نے دوسری قربانی پیش کرنی تھی- ایک دکھے ہوئے دل کی قربانی‘ ایک خاموش زبان کی قربانی‘ اس آہ کی قربانی جو لبوں سے نکلنے سے پہلے ہی دبا دی جاتی ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چنا ہوا تھا- ازل سے یہی مقدر تھا کہ آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے وہ قربانیاں دلوائے جو آہستگی سے لیکن ایک لمبے عرصہ تک دلوائی جاتی ہیں-
‏]sub [tag ازلی تقدیر کا منشاء
پس ممکن ہی نہیں کہ بغیر ان قربانیوں کے ہماری جماعت ترقی کر سکے کیونکہ اگر ترقی مل جائے تو قربانی کا موقع باقی نہیں رہ سکتا اور ایک ازلی تقدیر پوری ہوئے بغیر رہ جاتی ہے- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے-احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنون ۱~}~کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف اس قدر کہہ دیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اور اتنا کہنے پر اللہ تعالیٰ انہیں بغیر ابتلائوں میں ڈالنے کے چھوڑ دے اور مقدر ترقیات دے دے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا- انہیں وہ قربانیاں جو ترقیات کیلئے ضرور ہیں‘ ضروری دینی پڑیں گی اور تب جا کر انہیں کامیابی ہوگی-
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کی نوعیت یہ بیان فرماتا ہیولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس الثمرت وبشر الصبرین ۲~}~ ہم ضرور تم کو کسی قدر خوف اور بھوک اور اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ سے آزمائیں گے اور اے ہمارے رسول2] [stf ~صل۲~ ! تو ان لوگوں کو جو ان ابتلائوں کے اوقات میں اپنے راستہ سے ہٹیں نہیں اور مضبوطی سے دین کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں ہماری طرف سے بشارت اور خوشخبری پہنچا دے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے-
سب ترقیات قربانیوں سے وابستہ ہیں
ان آیات سے ظاہر ہے کہ سب ترقیات خواہ روحانی ہوں یا جسمانی قربانیوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور قربانیاں بھی وہ جو عام طور پر لوگوں کو متزلزل کر دیتی ہیں- پس جب تک اس حد تک ہماری جماعت کی قربانیاں نہ پہنچیں حقیقی ترقیات نہیں ہو سکتیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دی تھی ضرور ہے کہ ایسے سامان پیدا ہوں جن کی امداد سے ہماری جماعت کو ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں- چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ چند سال سے ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں اور مجھے نظر آتا ہے کہ ہماری جماعت کو مالی قربانیاں ایسی حد تک کرنی پڑیں گی جو واقع میں دل کی طہارت اور روح کی ترقی کا موجب ہو سکیں-
دنیا کی مالی حالت کی خرابی
تین سال سے متواتر دنیا کی مالی حالت خراب ہو رہی ہے اور سلسلہ کے کاموں کی زیر باری بھی لازماً بڑھ رہی ہے اور آئندہ اور بھی بڑھنے کا ڈر ہے کیونکہ ماہرین اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ چار پانچ سال تک دنیا کا مالی توازن درست ہوتا ہوا نظر نہیں آتا- غیب تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے لیکن یہ امر صاف ہے کہ احمدیہ جماعت کو حقیقی مالی قربانیاں کرنے کی توفیق دینے کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی سامان پیدا ہونے تھے- اور کوئی تعجب نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت کی بنیاد پر سات سال کی خطرناک مالی تنگی کا دنیا کو سامنا ہو اور اسی مشابہت کے سامنے آپ کی جماعت کو بھی ایسی قربانیوں کی توفیق ملے جو انہیں دین و دنیا کی عزت دلانے کا موجب ہو-
قربانیوں کیلئے تیار ہو جائو
پس اے دوستو! آپ کو ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہئے کہ جو مومن اور منافق میں فرق کر دیتی ہیں- کئی دوست مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ہمیں جماعت کو ایسے طریق پر چلانا چاہئے کہ پوری قربانی کی روح ان میں پیدا ہو جائے- مگر میں ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کرتا تھا کہ قربانی نسبتی ہوتی ہے- اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ امارت اور غربت کو مٹا دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ امیر اور غریب سے یکساں قربانی کا مطالبہ کیا جائے- پس اس اصل پر میں قربانیوں کا مطالبہ کرتا رہا ہوں- جیسا زمانہ آیا‘ اس کے مطابق قربانیوں کا مطالبہ کیا اور یہی طریق اسلامی ہے- چنانچہ اس وقت جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ خطرناک مالی مشکلات سامنے آ رہی ہیں- میں جماعت کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں تا کہ ضرورت کے موقع پر وہ الہی سلسلہ کی امداد سے پیچھے نہ رہ جائیں-
سلسلہ کا قرض اتار دیا جائے
‏]1ttex [tagاسی سلسلہ میں آئندہ مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب کہ زمیندار طبقہ ایک عرصہ کے لئے قریباً دیوالیہ ہو گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فی الحال اس امر کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ سلسلہ کا پچھلا قرضہ اتار دیا جائے تا کہ آئندہ جدوجہد میں ہمیں مشکلات نہ پیش آئیں- یہ قرضہ تقریباً ۷۵ ہزار ہے اور اس کی وجہ سے سلسلہ کے روز مرہ کے کام بھی رک رہے ہیں- اگر ہم نے اس سال اس قرض کو نہ اتارا تو مجھے ڈر ہے کہ آئندہ اگر ملک کی حالت مزید خراب ہوئی تو اس کا اتارنا قریباً ناممکن ہو جائے گا-
قرض کوئی خاص قرض نہیں بلکہ سالانہ بجٹ چونکہ آمد سے پورا نہیں ہوتا رہا اس وجہ سے اسے پورا کرنے کے لئے کئی سال سے کچھ نہ کچھ رقم قرض لینے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے- یہ قرض کچھ تو دوستوں سے لیا گیا ہے‘ کچھ قادیان کے تاجروں کا ہے جن سے سلسلہ نے چیزیں ادھار خریدیں اور ان کی رقم ادا نہیں کی اور کچھ سلسلہ کے کارکنوں کا ہے جن کو قریباً چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی- اور مختلف مدات کا قرض نہیں جیسا کہ بعض دوستوں کا خیال ہے- اس سال زمینداروں کی آمد کم ہونے کے سبب سے آمد اور بھی کم ہو رہی ہے اور شاید سال کے آخر تک یہ قرض ایک لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے اور اس صورت میں یہ یقینی امر ہے کہ سلسلہ کا سب کام رک جائے گا اور ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے حضور میں ایک بہت بڑی جواب دہی کے نیچے آ جائے گی اور بجائے ثواب کے خدانخواستہ عذاب کی مستحق بن جائے گی-
ایک ماہ کی آمد دو
پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور آئندہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا اہم فرض ہے کہ اس سال اس قرض کو ادا کر دیں تا کہ آئندہ اس کی ادائیگی ناممکن نہ ہو جائے اور اس کے لئے میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اس سال پھر جماعت کے تمام افراد اپنی ایک ماہ کی آمد سلسلہ کی ضروریات کے لئے دے دیں اور وہ اس طرح کہ ۳/۱ اپنی آمد کا ستمبر‘ اکتوبر اور نومبر میں ادا کر دیں اور جو ہندوستان سے باہر کے دوست ہیں وہ اکتوبر سے دسمبر تک اس رقم کو ادا کر دیں-
ایک رعایت
اس سے پہلے بھی ایک دو موقعوں پر احباب سے ایک ماہ کی تنخواہ کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن اس دفعہ میں ایک اور رعایت بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اس چندہ خاص میں تین ماہ کا چندہ ماہواری یا چندہ وصیت اور چندہ جلسہ سالانہ بھی شامل سمجھا جائے- گویا ایک ماہ کی آمد ادا کرنے کے ساتھ ہی تین ماہ کا چندہ اور چندہ جلسہ سالانہ بھی ادا سمجھا جائے-
کس قدر روپیہ آسانی سے جمع ہو سکتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت بہت غریب ہے- لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر جماعت کے تمام احباب نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس رقم کو ادا کریں تو دو سے تین لاکھ تک کی رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے جس سے قرض بھی اتر سکتا ہے اور جلسہ سالانہ اور ماہواری اخراجات بھی ادا ہو سکتے ہیں بلکہ کچھ رقم پس انداز بھی ہو سکتی ہے- لیکن چونکہ ہر جماعت میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور معذور بھی اور پھر کئی لوگ اس طرح پراگندہ ہیں کہ ان سے چندہ وصول کرنا مشکل ہے اور کئی جماعتیں اور افراد نئے ہیں کہ ان پر ایسے بوجھ کو باصرار نہیں ڈالا جا سکتا اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر احباب اخلاص سے کوشش کریں تو سوا لاکھ روپیہ آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے- جس میں سے سولہ ہزار جلسہ سالانہ کا خرچ اور اڑتالیس ہزار تین ماہ کا چندہ نکال کر اکسٹھ ہزار کی رقم قرضوں کی ادائیگی کے لئے بچ جاتی ہے- اگر کوشش کر کے صدر انجمن بعض جائیدادیں فروخت کر دے تو دس پندرہ ہزار روپیہ اس طرح بھی جمع کیا جا سکتا ہے- اور اس طرح کل قرض ادا کیا جا سکتا ہے- باقی رہی وہ کمی جو آمد کی غیر معمولی کمی سے اس سال واقع ہو رہی ہے اس کا تدارک بجٹ میں کمی کر کے کر دینا چاہئے تا کہ آئندہ قرض نہ بڑھے-
وہ جو تھک گیا ہمارا دوست نہیں
برادران! مجھ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بعض دوست چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں میں ان دوستوں کی رائے کو بالکل غلط سمجھتا ہوں- وہ جو تھک گیا وہ ہمارا دوست نہیں- ہم چندہ دے کر خدا تعالیٰ پر احسان نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ ہم پر احسان کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کو وصیت سے آزاد رکھا ہے اس لئے میں وصیت کرنا خلاف شریعت سمجھتا ہوں لیکن اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے اوسطاً پانچواں حصہ اپنی آمد کا چندوں اور للہی کاموں میں خرچ کرتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ بلکہ میں تو گھر کے خرچ کے لئے جو قرض لیتا ہوں اس میں سے بھی چندہ ادا کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی ضرورتوں کیلئے قرض لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ کیلئے قرض کیوں نہ لیں- حق یہی ہے کہ اگر ہم مالی قربانی جو سب سے ادنیٰ قربانی ہے پوری طرح نہیں کر سکتے تو دوسری قربانیاں جو اس سے زیادہ ہیں کب کر سکیں گے-
ملازموں کیلئے آسانیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دن سخت تنگی کے ہیں لیکن ملازموں کے لئے یہ دن آرام کے بھی ہیں کیونکہ ان کی آمدنیاں وہی اور اخراجات بوجہ ارزانی کے کم ہو گئے ہیں- پس اس طبقہ کو خصوصاً سلسلہ کی مالی خدمات میں پہلے سے زیادہ حصہ لینا چاہئے-
زمینداروں اور تاجروں سے
لیکن زمینداروں اور تاجروں کو بھی یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ وہ تنگی میں ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں وہ بری ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیوسارعوا الی مغفرہ من ربکم وجنہ غرضھا السموت والارض اعدت للمتقین- الذین ینفقون فی السراء والضراء ۳~}~ اے لوگو اپنے رب کی مغفرت کے حصول کے لئے اور اس جنت کے حصول کے لئے جس کی قیمت آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو ان متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو تنگی اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‘ جلدی سے قدم بڑھائو-
اسی طرح فرماتا ہیویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصہ ۵~}~ انصار کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں- خواہ وہ خود تنگ حال ہی کیوں نہ ہوں-
پس اصل ایمان یہی ہے کہ انسان مشکلات کے وقت میں بھی اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرے کیونکہ اسی وقت تو اس کے امتحان کا وقت آتا ہے ورنہ کشادگی میں تو لوگ تماشوں اور کھیلوں پر بھی بڑی بڑی رقوم خرچ کر دیتے ہیں- میں امید کرتا ہوں کہ اس اعلان کے پہنچتے ہی ہر جگہ کی جماعتیں فوراً اس اعلان کے مطابق تین ماہ میں اپنی ماہوار آمد کا ۳/۱ حصہ برابر تین ماہ تک بیت المال میں بھجوا کر ثواب دارین حاصل کریں گی اور اس امر کی مستحق بنیں گی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی ایک اجر ہے اور ایک قربانی دوسری قربانی کے لئے راستہ کھول دیتی ہے-
دعا
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے اس تحریک کو ختم کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے میری بات میں اثر دے اور احباب کے دلوں کو اخلاص اور ایمان سے بھر دے کہ میں جو ان کا امام ہوں اور وہ جو میرے مقتدی ہیں سب کمزور انسان ہیں اور غلطیوں کے شکار- اسی کا فضل ہمیں سلسلہ کے بار عظیم کو اٹھانے کی توفیق دے- اور اسی کے فضل سے ہم حقیقی مومن بننے کے قابل ہونگے- واخردعوئنا ان الحمدللہ رب العلمین
نوٹ-: ضروری ہے کہ پہلی قسط ہندوستان کی ہر جماعت کی پندرہ تاریخ تک دفتر میں پہنچ جائے اور آئندہ دونوں ماہ میں بھی پندرہ تاریخ تک قسط پہنچ جایا کرے-
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی
۲۳- اگست ۱۹۳۱ء
)الفضل ۲۹- اگست ۱۹۳۱ء(
۱~}~
العنکبوت : ۳
۲~}~ البقرہ:۱۵۶
۳~}~ ال عمران:۱۳۴‘۱۳۵
۴~}~
الحشر:۱۰
‏a12.24
انوار العلوم جلد ۱۲
دنیا میں ترقی کرنے کے گر
دنیا میں ترقی کرنے کے گر

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
دنیا میں ترقی کرنے کے گر
)فرمودہ ۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء بمقام مسجد احمدیہ سیالکوٹ(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
ابھی ایک دوست نے قرآن کریم کا ایک رکوع تلاوت کیا ہے جس کی آخری آیت یہ ہیقل مایعبوا بکم ربی لولادعاو کم یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اے رسول ~)صل۲(~ تو ان لوگوں کو میری طرف سے یہ پکار کر سنا دے کہ تمہارے رب کو تمہاری پرواہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اگر تمہاری طرف سے دعا کا سلسلہ جاری نہ ہو- انسان اگر اپنی ہستی پر غور کرے تو آسانی سے معلوم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں- عام طور پر بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا نماز پڑھنا‘ صدقہ دینا‘ زکوۃ ادا کرنا‘ حج کرنا خدا تعالیٰ پر احسان ہے- چنانچہ دیکھا گیا ہے بعض نادان جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو کہتے ہیں معلوم نہیں خدا نے ہمیں کیوں مصبیت میں ڈالا ہم تو نمازیں پڑھتے اور دوسرے مذہبی احکام پر عمل کرتے ہیں- گویا وہ اپنے دل میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سے بدسلوکی کی ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے- کسی شخص کا بیٹا مر گیا اور اس کا ایک دوست تعزیت کیلئے اس کے پاس گیا تو وہ چیخ مار کر رو پڑا اور اس سے کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے- گویا اس کے خیال میں اس کا کوئی حق خدا تعالیٰ نے مار لیا تھا- مگر سوچنا چاہئے وہ کونسا حق ہے جو بندہ نے خدا تعالیٰ پر قائم کیا ہے- مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نماز‘ روزہ‘ زکٰوۃ‘ حج اور تقویٰ و طہارت پر فخر کیا کرتے ہیں وہ تو کسی تکلیف کے موقع پر چلا اٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا لیکن ہندوستان کا وہ شرابی شاعر جو دین سے بالکل غافل تھا ایک سچائی کی گھڑی میں باوجود شراب کا عادی ہونے کے خدا تعالیٰ کا الہام اس کے دل پر نازل ہوتا ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے-
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غور کرنا چاہئے جو چیز بھی انسان کے پاس سے جاتی ہے وہ آئی کہاں سے تھی- ذرا اپنی حیثیت کو تو دیکھو وہ کونسی چیز ہے جسے اپنی کہہ سکتے ہو- انسان کہتا ہے میری بیوی ہے مگر وہ کہاں سے آئی‘ بچے جسے اپنے کہا جاتا ہے کہاں سے آئے ہیں- اسی طرح مکان‘ زمین اور سب دوسری اشیاء جنہیں اپنی سمجھا جاتا ہے کہاں سے آتی ہیں؟ اگر ان چیزوں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو باسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیزیں انسان کی نہیں‘ بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موہبت اور عطیہ ہیں اور عطیہ دینے والے کا حق ہے کہ جب چاہے واپس بھی لے لے- بلکہ عطیہ بھی اسے کہتے ہیں جو کبھی واپس نہ لیا جائے- مگر دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے‘ وہ آخر لے لیا جاتا ہے- اس سے معلوم ہوا دنیا میں انسان کو حقیقی عطیہ بھی نہیں ملتا بلکہ تمام اشیاء عاریتا استعمال کے لئے دی جاتی ہیں اور اس طرح چیز دینے والے کا حق ہوتا ہے کہ جب چاہے‘ واپس لے لے-
تو خدا تعالیٰ فرماتا ہیمایعبوا بکم ربی لولا دعاوکم یعنی تم اپنی ہستی کو سمجھتے کیا ہو- آخر انسان ہے کیا چیز کہ خدا تعالیٰ اس کی پرواہ کرے- دنیا میں جو چیز بھی ہے اس کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہی جا کر ہوتی ہے- جیسا کہ فرمایا- الی ربک منتھھا ۱~}~یعنی کوئی چیز اور کوئی نفس ایسا نہیں جس کی کڑی خدا تعالیٰ پر جا کر نہ ختم ہوتی ہے اور جب ہر چیز کی انتہاء خدا تعالیٰ پر ہے تو پھر اگر خدا تعالیٰ انسان کو خود ہی بطور احسان نہ بلائے تو انسان چیز کیا ہے کہ اس کی پرواہ کرے-لولادعاوکم کے دو معنی ہیں- یعنی اگر خدا تعالیٰ تم کو نہ پکارے اور یہ کہ اگر تم اس کو نہ پکارو- اگر پہلے معنی لئے جائیں- تو اس صورت میں اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر اس نے اپنی طرف سے یہ لازم نہ کر لیا ہو کہ میں تمہیں پکاروں گا یعنی بڑھائوں گا اور ترقی دوں گا‘ تو تم کچھ نہیں کر سکتے- اس نے خود بطور احسان اپنے پر یہ واجب کر رکھا ہے وگرنہ انسان کا کوئی حق نہیں- دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے اگر تم عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے آگے جھک کر یہ نہ کہو کہ ہمارا کوئی حق تو نہیں اگر تو احسان کر دے تو تیری ذرہ نوازی ہے-
دراصل یہی دو چیزیں ہیں جن سے انسان کو تقویٰ‘ ترقی اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے- اور دنیا میں ساری ترقیات انہی دو طریق سے حاصل ہوتی ہیں- یہ دعا نہیں کہ انسان ہاتھ اٹھائے اور کہہ دے یا اللہ مجھے فلاں ترقی عطا کر یا ساری عمر ہاتھ میں تسبیح لے کر بیٹھا اللہ اللہ کرتا رہے- بلکہ دعا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو ذرائع پیدا کئے ہیں ان کو استعمال کرے- مثلاً اولاد حاصل کرنے کے لئے اس نے یہ ذریعہ مقرر کیا ہے کہ انسان حسبپسند شادی کرے- اب اگر کوئی شخص شادی تو نہ کرے اور دعا کرتا رہے کہ خدایا مجھے اولاد عطا کر‘ تو یہ دعا قبول نہیں ہو سکتی کیونکہ دعا کے معنی ہی یہ ہیں کہ پہلے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع پر عمل کیا جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے کامیابی کے لئے مدد مانگی جائے- دیکھو حکومت نے منی آرڈر فارم مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ پہنچانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس فارم کو پر کرکے دے- یہ ایک مدد ہے جو گورنمنٹ اپنی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ بھیجنے کے لئے دیتی ہے اس نے یہ طریق مقرر کر رکھا ہے- لیکن جو شخص اس طریق کو استعمال نہ کرے بلکہ خود ہی کوئی طریق ایجاد کر لے- مثلاً شعروں کی کسی کتاب میں نوٹ رکھ کر ڈاک خانہ میں دے آئے کہ اسے فلاں جگہ پہنچا دو- تو وہ گورنمنٹ کی امداد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ حکومت سے روپیہ دوسری جگہ پہنچانے میں جو مدد حاصل کی جا سکتی ہے اس کا طریق یہی ہے کہ یا تو منی آرڈر کر دیا جائے اور یا بیمہ‘ یا مثلاً عدالت میں دیوانی دعویٰ کے لئے ایک شرح کورٹ فیس کی مقرر ہے- فرض کرو ایک مقدمہ میں ۲۵ روپیہ کورٹ فیس لگتی ہے لیکن کوئی شخص یہ تو نہ لگائے لیکن پچاس روپیہ کے نوٹ جلا کر کہے میں نے تو دوگنا خرچ کر دیا میرے مقدمہ کی سماعت ہونی چاہئے تو یہ درخواست ہرگز قبول نہ ہوگی کیونکہ اس نے وہ طریق اختیار نہیں کیا جو حکومت نے مقدمہ کی سماعت کا مقرر کر رکھا ہے- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ہر کام کے لئے علیحیدہ علیحدہ ذرائع اور طریق رکھے ہیں- دعا کے الگ طریق ہیں‘ تربیت اولاد کے الگ اور تجارت و ملازمت کے لئے علیحدہ علیحدہ- دعا کے لئے جو طریق ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب بندہ خدا کو پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے- یعنی جب کوئی بندہ ان ذرائع کو جو خدا تعالیٰ نے ترقی کیلئے مقرر کر رکھے ہیں استعمال میں لاتا ہے تو وہ اسے ترقی دیتا ہے- اس کی مثال یورپ کے لوگوں میں مل سکتی ہے- انہوں نے علوم سیکھے‘ تحقیقاتیں کیں‘ محنت کی‘ ایجادیں کیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو دنیوی ترقیات عطا کر دیں کیونکہ ان کے لئے اس نے یہ ایک ذریعہ مقرر کر رکھا ہے کہ محنت کرو اور کوشش سے مخفی باتیں معلوم کرو- اہل یورپ نے اس ذریعہ سے اس سے مدد مانگی اور اس نے ان کی دعا کو سنا- یعنی حکومت‘ دولت‘ شہرت‘ رعب‘ شوکت سب کچھ ان کو عطا کر دیا کیونکہ انہوں نے اس ذریعہ پر عمل کیا جو ان چیزوں کے حصول کے لئے اس نے مقرر کر رکھا ہے- لیکن جو شخص اس ذریعہ پر عمل نہ کرے وہ خواہ کسی دوسرے طریق سے کتنی سخت مصیبت کیوں نہ اٹھائے اور محنت کیوں نہ کرے‘ اسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا- ایک قلندر جو دن بھر دربدر بندر کو لئے پھرتا ہے یقیناً ایک تاجر سے زیادہ محنت کرتا ہے- مگر اس کے برابر آمد پیدا نہیں کر سکتا کیوں؟ اس لئے کہ دولت کمانے کا جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے وہ استعمال میں نہیں لاتا- تو دنیا میں ترقی کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ بندہ خدا کو پکارے- یعنی ان ذرائع کو کام میں لائے جو دنیوی ترقی کیلئے خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں-
پھر اس آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ بندہ کو نہ پکارتا تو اس کا کیا حشر ہوتا- بندوں کے خدا کو پکارنے کی مثال تو اہل یورپ میں دی جا چکی ہے یا ہندوستان میں ہندوئوں کی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی- اور خدا کے بندوں کو پکارنے کی مثال اس کے نبیوں کی ہے- رسول کریم ~صل۲~ گوشہ گمنامی میں پڑے تھے اور غار حرا میں عبادتیں کیاکرتے تھے- آپ نے وہ تمام ذرائع جو دنیوی ترقی کے ہیں؟ ترک کر رکھے تھے- مگر آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہا اٹھ خدا تجھے بلاتا ہے- اور پھر اس گوشہ گمنامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادشاہ بنا دیا اور ایسی ترقی عطا کی کہ مذہب و ملک اور تمدن و معاشرت سب پر آپ کا رنگ چھا گیا- حتی کہ آپ کے غلام یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کئے بغیر اور لیبارٹیریز میں تجربات کرنے کے بغیر ہی ہر فن میں دنیا کے استاد بن گئے اور جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا‘ تمام دنیا سے آگے بڑھ گئے- ایک صحابی کا بیان ہے رسول کریم ~صل۲~ نے مجھے ایک اشرفی دی کہ قربانی کے لئے بکری لے آئو- میں نے سوچا مدینہ میں تو اس رقم سے ایک ہی بکری ملے گی مگر کسی گائوں سے دو مل جائیں گی اس لئے میں نے ایک گائوں سے ایک اشرفی میں دو بکریاں خریدیں- جب واپس آیا تو مدینہ میں کسی نے پوچھا کیا بکری فروخت کرو گے میں نے کہا- ہاں- اور ایک بکری ایک اشرفی میں اس کے پاس فروخت کر دی- پھر رسول کریم ~صل۲~ کے پاس جا کر بکری بھی اور اشرفی بھی پیش کر دی اور آپ کے دریافت فرمانے پر سب حال کہہ سنایا- آپ نے اس کی ہوشیاری کو دیکھ کر اس کے لئے دعا فرمائی- نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود یہ کہ عرب ایرانیوں اور رومیوں جیسے تاجر نہ تھے مگر وہ صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر میں نے مٹی بھی خریدی تو وہ سونے کے بھائو بک گئی- لوگ زبردستی روپیہ میرے پاس تجارت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور میں لینے سے انکار کرتا رہتا تھا-۳~}~
‏]text [tag یہ لو لادعائو کم کے دوسرے معنی ہیں- اس میں اپنے کسی ہنر یا محنت کا دخل نہ تھا- یہ خدا تعالیٰ کی اپنی آواز تھی- جس کے ذریعہ رسول کریم ~صل۲~ بڑھے اور آپ کے ساتھ ہی آپ کے وابستگان دامن بھی بڑھتے چلے گئے- جیسے اگر کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اس کا کوٹ‘ پاجامہ اور دوسرے پارچات بھی سوار ہو جائیں گے- ان لوگوں نے یہاں تک ترقی کی کہ ایک واقعہ لکھا ہے- حضرت ابوہریرہؓ کسی علاقہ کے گورنر مقرر ہوئے- یہ کسریٰ کے خزانوں کی فتوحات کا زمانہ تھا- جس میں ابوہریرہؓ کو ایک رومال ملا جو کسریٰ دربار میں آتے ہوئے زینت کے طور پر ہاتھ میں رکھا کرتا تھا- ابوہریرہؓ کو جو چھینک آئی تو اس رومال سے ناک صاف کر لیا اور پھر فرمایا- واہ ابوہریرہؓ کبھی تو وہ دن تھے کہ تو بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مرگی کا دورہ ہو گیا ہے تیرے سر میں جوتیاں مارا کرتے تھے اور آج یہ دن ہے کہ کسریٰ کے رومال میں تو تھوکتا ہے-۴~}~ حضرت ابوہریرہ بہت بعد میں ایمان لائے تھے یعنی رسول کریم ~صل۲~ 2] ftr[ کی وفات سے صرف تین سال قبل- اس کمی کو پورا کرنے کیلئے آپ مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے- تا رسول کریم ~صل۲~ کی ہر ایک بات سن سکیں- اس وجہ سے ان کو بعض اوقات سات سات فاقے آ جاتے- لوگ سمجھتے انہوں نے کھانا کھا لیا ہوگا- اور ان سے دریافت نہ کرتے- وہ شدت بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے اور لوگ مرگی کا دورہ سمجھ کو جوتیاں مارتے کیونکہ اہل عرب میں یہ رواج تھا- تو کبھی یہ حال تھا اور پھر اس قدر ترقی حاصل ہوئی کہ کسریٰ جیسے زبردست حکمران کی زینت و آرائش کا رومال آپ کے ناک صاف کرنے کے کام آتا تھا- یہلولادعاوکم کی دوسری مثال ہے- جب رسول کریم ~صل۲~ آگے بڑھے تو آپ کے وابستگان وامن بھی ترقی کر گئے- جیسے وائسرائے کے دربار میں بڑے بڑے رئوسا اور معززین بھی بعض اوقات نہیں جا سکتے لیکن اس کا بیرا جا سکتا ہے- اسی طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والے بھی ترقی کر جاتے ہیں- یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے کونوا مع الصادقین ۵~}~کی تاکید فرمائی ہے- کیونکہ جب صادقین ]txet [tagکے لئے پھاٹک کھلتا ہے تو ساتھ ہی ان کے ساتھ رہنے والے داخل ہو جاتے ہیں- اس لئے دنیا میں ترقی کے لئے ضروری ہے کہ یا تو انسان پوری پوری محنت اور کوشش کرے اور یا پھر خدا تعالیٰ سے ایسی لو لگائے کہ وہ اس کے لئے ترقی کے سامان خود بخود پیدا کر دے-
)الفضل- ۲۷ ستمبر ۱۹۳۱ء(
۱~}~
الفرقان: ۷۸
۲~}~ النزعت:۴۵

۳~}~
صحابی کا نام عروہ- بخاری کتاب المناقب باب۲۸ حدیث نمبر۳۶۴۲ صفحہ۶۱۱ مطبوعہ مکتبہ دارالسلام الریاض ۱۹۹۹ء
۴~}~
ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء فی معیشہ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ
۵~}~
التوبہ : ۱۱۹
‏a12.25
انوار العلوم جلد ۱۲
احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی
احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏jmc-nsk] gat[بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی
)فرمودہ ۱۳- ستمبر ۱۹۳۱ء(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں سب سے پہلے اپنی‘ اپنے ساتھیوں اور دوسرے مہانوں کی طرف سے لجنہ اماء اللہ کا اس چائے کی دعوت کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں- دعوتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں اور یہ ایک ایسا رواج ہو گیا ہے جو شاید اپنی کثرت کی وجہ سے بہت سی خوبصورتی کھو بیٹھا ہے لیکن وہ دعوت جو حقیقی جوش اور اخلاق کے نتیجہ میں ہو وہ دل کے لئے نہایت ہی مسرت کا موجب اور قلب کے لئے فرحت کا باعث ہوتی ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے اپنے صحابہ کو محبت اور تعلق بڑھانے کا ایک یہ ذریعہ بھی بتایا ہے کہ اگر توفیق ہو تو ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا چاہئے- ۱~}~ خود رسول کریم ~صل۲~ بھی لوگوں کو دعوت پر بلاتے تھے اور اس کو اتنی اہمیت دیتے کہ فرماتے دعوت کا رد کرنا میری سنت کے خلاف ہے۲~}~ اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ لجنہ کی یہ دعوت اخلاص اور اسی روح کے ساتھ ہے جو رسول کریم ~صل۲~ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے‘ اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کھانوں کی قیمت کے مطابق نہیں بلکہ اس نیت کی قیمت کے مطابق ان سے فضل و برکت کا سلوک کرے-
سیالکوٹ کی لجنہ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے مجھے انہیں مخاطب کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ان کے محترم اور مخلص کارکن جو یہاں کی جماعت کے امیر کی اہلیہ ہیں کے بعض خطوط اور بیانات سے پتہ لگتا ہے کہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کرنے والی اور بہت سی لجنہ کیلئے نمونہ ہے بلکہ بسا اوقات مجھے سیالکوٹ کی لجنہ کے کام بتا کر مرکزی لجنہ کو بھی شرمندہ کرنا پڑا ہے- اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مرکزی لجنہ کے کام کی نوعیت مختلف ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں جس استقلال کے ساتھ سیالکوٹ کی لجنہ نے کام کیا ہے وہ ہر ایک کے لئے نمونہ ہے- عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے- میں نے محض اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی میں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی- جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا‘ اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا- لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں- میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کیلئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو بھی فائدہ پہنچائے گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہو گئیں- اس پر میں نے سمجھا کہ صرف ایک عورت کو تیار کرنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ اگر وہ عورت فوت ہو جائے تو دوسری کو تیار کرنے کیلئے چھ سات سال کا مزید عرصہ درکار ہوگا اس لئے میں نے یہ انتظام کیا کہ طالبات چکوں کے پیچھے بیٹھ کر استادوں سے تعلیم حاصل کریں- اس پر قادیان میں بھی اور باہر بھی اعتراض ہوئے کہ یہ اچھی تعلیم ہے‘ عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں- لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ ثابت ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں ضرورت کے موقع پر مرد و عورت ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں- خود حضرت عائشہ ؓ صحابیوں اور نو مسلموں کو رسول کریم ~صل۲~ کے کلمات طیبات سکھاتی رہی ہیں-۳~}~ اور ہماری عورتوں کی عزت رسول کریم ~صل۲~ کی عورتوں کی عزت سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور جو فعل ان کی عزت کے مطابق ہے‘ اس سے ہماری عزت میں کوئی فرق نہیں آ سکتا- پس میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا- یہاں تک کہ پچھلے سال عورتوں کی کافی تعداد نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا- گویا وہ ڈگری حاصل کی جو عربی میں ایف- اے کے برابر ہے- اس کے ساتھ ہی میں نے پرائمری سکول کو مڈل تک پہنچا دیا- اور چونکہ عربی کا امتحان دینے کے بعد صرف انگریزی کا امتحان دے کر انٹرنس پاس کیا جا سکتا ہے اس لئے مولوی پاس عورتوں نے اور کچھ باقاعدہ سکول میں پڑھنے والیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انٹرنس بھی پاس کر لیا اور اس سال سے قادیان میں عورتوں کیلئے کالج بھی جاری ہو چکا ہے- امید ہے دو سال تک کئی عورتیں ایف- اے پاس کر لیں گی- اور میرا منشاء ہے کہ اسی طرح کم از کم پندرہ سولہ عورتوں کو بی- اے‘ ایم- اے تک تعلیم دلائی جائے تا عورتیں خود دوسری عورتوں کو تعلیم دے سکیں- مردوں کیلئے کالج قائم کرنے کی شرائط سخت ہیں- یعنی جب تک ایک خاص رقم جمع نہ کی جائے اور عمارت تعمیر نہ ہو‘ اس کی اجازت نہیں ہو سکتی- لیکن عورتوں کیلئے ایسی شرائط نہیں اس لئے ہمیں ان کیلئے انتظام کرنے میں تھوڑے سے خرچ پر بہت سی سہولتیں میسر ہیں- اور جب قادیان میں عورتیں ہی تعلیم دینے کیلئے تیار ہو جائیں تو میرا ارادہ ہے وہاں ہوسٹل قائم کر کے باہر کی عورتوں کیلئے بھی وہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کر دیا جائے گا-
یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمانوں کا ایک بھی زنانہ کالج نہیں اور قادیان کا کالج پہلا زنانہ کالج ہے اور خدا کے فضل سے وہاں عورتوں کی تعلیم اس قدر زیادہ ہے کہ چند ماہ ہوئے میں علی گڑھ گیا تو مجھے بتایا گیا صرف چار لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان دیا ہے- لیکن قادیان میں پہلے ہی سال سولہ لڑکیوں نے امتحان دیا اور ہم نے اندازہ کیا ہے کہ قادیان میں قریباً سو فیصدی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں- گویا ان کی شرح لڑکوں سے بھی زیادہ ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں عورتوں کی تعلیم اس سرعت سے پھیل رہی ہے- خصوصاً قادیان میں کہ انشاء اللہ بہت جلد عورتوں کی جہالت کی بلا سے ہم لوگ بچ جائیں گے-
سیالکوٹ کی لجنہ نے جو کام جاری کیا ہے مجھے امید ہے ان کی کوشش سے یہاں بھی تعلیم کا چرچا وسیع ہو جائے گا- مجھے یہ سنکر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں کی احمدی مستورات نے اپنے حسناخلاق سے دوسرے طبقوں میں بھی ایسی قبولیت حاصل کر لی ہے کہ سب کی لڑکیاں ان کے سکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور کسی قسم کی (FRICTION) نہیں- یہ ان کے کام کی روح کے متعلق ایک نہایت عمدہ شہادت ہے- اگر مردوں میں نہیں تو کم از کم عورتوں میں اس روح کا پیدا ہونا کہ اسلامی کاموں کو مل کر کرنا چاہئے نہایت مسرت بخش ہے اور جب عورتوں میں یہ روح پیدا ہو جائے تو پھر مرد بھی متحدہ جدوجہد کیلئے مجبور ہو جائیں گے- میں اس وقت زیادہ نہیں بول سکتا کیونکہ میں جب کبھی کسی شہر میں جاتا ہوں تو چونکہ میری صحت بھی خراب ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہم دیہات کے رہنے والے لوگ شہروں کا ناقص گھی کھانے کے عادی نہیں ہوتے‘ اس لئے لاہور میں تو پہلا ہی کھانا کھانے کے بعد میرا گلا خراب ہو جایا کرتا ہے لیکن یہاں تیسرے کھانے کے بعد یہ تکلیف ہو گئی ہے- اس کے علاوہ شام کے بعد بھی مجھے ایک تقریر کرنی ہے اس لئے اختصار کے ساتھ یہ کہہ کر میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں کہ عورتوں کے اندر عام طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی کام کی نہیں- یہ خیال قطعاً بے بنیاد ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دل سے نکال دینا چاہئے- سیالکوٹ کی لجنہ نے ثابت کر دیا ہے کہ عورتیں بھی کام کر سکتی ہیں- عورتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مرد و عورت برابر ہیں- اور مردوں کی طرح وہ بھی ترقی کے مدارج طے کر سکتی ہیں- رسول کریم ~صل۲~ نے اپنی ایک بیوی کے متعلق فرمایا ہیخذوانصف دینکم من ھذہ الخمیراء ۴~}~یعنی نصف دین عائشہؓ سے سیکھو اور ہم دیکھتے ہیں حضرت عائشہ ؓ نے ایسے ایسے اہم امور میں مردوں کی راہنمائی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے- رسول کریم ~صل۲~ کی باتوں کے سمجھنے میں انہیں کمال حاصل تھا- بسا اوقات مردوں کی عقل وہاں تک نہ پہنچتی تھی‘ جہاں ان کا دماغ پہنچ جاتا تھا- ایک لطیفہ مشہور ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے خاندان میں ایک میت ہو گئی اور غالباً حضرت علیؓ کے بھائی لڑائی میں شہید ہو گئے- عورتوں کو سخت صدمہ تھا‘ وہ بین کرنے لگیں اور چونکہ یہ بات منع ہے اس لئے کسی نے آکر رسول کریم ~صل۲~ سے ذکر کیا- آپ نے فرمایا جائو جا کر ان کو منع کرو- اس نے منع کیا مگر وہ نہ رکیں- اسلام اس وقت ابتدائی حالت میں تھا اور عورتوں کی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی- اس نے پھر آ کر رسول کریم ~صل۲~ سے عرض کیا کہ وہ باز نہیں آتیں- آپ نے فرمایا-فاحث فی افواھن التراب ۵~}~]2 [rtf یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو- اس شخص نے واقعی مٹی اٹھائی اور جا کر ان پر ڈالنی شروع کر دی- حضرت عائشہ ؓ کو علم ہوا تو آپ نے اس شخص کو ڈانٹا اور فرمایا تم مرد ہو لیکن اتنی عقل نہیں رکھتے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے اس ارشاد کا مطلب سمجھو- آپ کا مطلب یہ تھا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو یہ نہیں کہ واقعی ان پر مٹی ڈالو- تو حضرت عائشہ ؓ نہایت فہیم عورت تھیں- اسی طرح حضرت فاطمہ ؓ تقویٰ اور طہارت میں بے نظیر تھیں حتی کہ رسول کریم ~صل۲~ بعض راز کی باتیں آپ سے کہہ دیتے تھے- یہی حال اور عورتوں کا بھی تھا- تو عورتوں کیلئے ترقی کے ذرائع ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کیلئے اور میں امید کرتا ہوں کہ احمدی مستورات کبھی یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں گی کہ ان کیلئے ترقی کی گنجائش نہیں- بلکہ ان کا ہر قدم آگے ہی بڑھے گا اور وہ مسلمانوں کی قوت و طاقت کو ترقی دینے‘ دنیا میں اخلاص کی روح پھونکنے اور انسانوں کو انسانیت کے مقام پر کھڑا کرانے کیلئے اسی طرح کام میں لگی رہیں گی جس طرح ہم مردوں سے امید رکھتے ہیں یا جس طرح ہمارا اللہ ہم سے امید رکھتا ہے- میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں جماعت‘ دین اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی ترقیات جن کا اس نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایا ہے انہیں عطا کرے اور وہ دوسری جماعتوں کیلئے نمونہ ہوں- آمین
)الفضل ۲۹- ستمبر ۱۹۳۱ء(
۱~}~

۲~}~
بخاری کتاب النکاح باب من ترک الدعوہ فقد عصی اللہ و رسولہ
۳~}~
‏]hn2 [tag الطبقات الکبری لابن سعد جلد۸ صفحہ ۶۶ مطبوعہ دارصادر بیروت البدایہ و النھایہ جلد۳ صفحہ۱۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۶ء
۴~}~
یہ الفاظ ہیں >خذوا شطر دینکم عن الحمیراء<
۵~}~
شرح مواھب اللدنیہ جلد۳ صفحہ۳۵۲ باب غزوہ موت دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ۱۹۹۶ء میں >فاحث فی افواھھن التراب< کے الفاظ ہیں-
‏a12.26
انوار العلوم جلد ۱۲
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۱ء
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۱ء

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksnjmc- [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۱ء(
بہترین افتتاح ایک مذہبی مجلس کا الہی کلام سے ہی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور انابت اور تعبد اور عجز کے ذریعہ ہو سکتا ہے-
قرآن کریم کی تلاوت تو مولوی غلام محمد صاحب نے فرمائی ہے- اس کے بعد میں چاہتا ہوں دوست مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بابرکت بنائے- ہماری نیتوں اور اعمال کو اپنے منشاء کے مطابق چلائے اور اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے- پھر جو احباب شریک جلسہ ہوئے اور ہو سکے ہیں ان پر اپنا فضل نازل کرے اور جو نہیں شریک ہو سکے ان پر بھی فضل کرے- یعنی جماعت کے وہ دوست جو کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آئے ان پر فضل کرے اور وہ لوگ جو باوجود توفیق کے اپنی سستی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے ان پر بھی-
اس کے بعد دعا ہوئی اور پھر حضور نے فرمایا- دعا کے بعد میں دوستوں کو اس امر کے متعلق نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے دوست ایسے ہیں جنہیں علیحدہ علیحدہ رہنے کی وجہ سے سال بھر میں اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی باتیں سننے کا موقع نہیں ملتا اور جنہیں دوسرے اوقات میں موقع ملتا ہے انہیں بھی اتنی کثرت سے نہیں ملتا کہ روحانی پیاس بجھانے کیلئے جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ میسر آ جائے- اس کے علاوہ یہ جلسہ شعائراللہ میں سے ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس میں صحیح طور پر شمولیت‘ برکات اور انوار الہی کا موجب ہے اور اس میں نقص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور روحانی زنگ کا موجب ہے ۱~}~]2 [rtf اس لئے میں تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلسہ کے ایام میں جہاں تک ہو سکے اپنے اوقات کو صحیح طور پر استعمال کریں اور جو دوست ان کے ساتھ آئے ہیں انہیں بھی تحریک کریں اور توجہ دلاتے رہیں کہ وہ صحیح طور پر اپنے اوقات صرف کریں-
پھر جلسہ میں شریک ہونے کیلئے آنے والے احباب مسافر ہیں اور مسافر کو ایک حد تک معذور قرار دیا گیا ہے- یہاں تک کہ فرض عبادت بھی اس کیلئے نصف کر دی گئی ہے- لیکن اس مقام کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ خاص برکتوں کا موجب بنایا ہے اور ان ایام کو بھی خاص برکتوں کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اس لئے احباب کو چاہئے کہ باوجود سفر میں ہونے کے جہاں تک ہو سکے عبادت پر زیادہ سے زیادہ زور دیں- اور دعائوں کی طرف خاص طور پر توجہ کریں کیونکہ خاص مقام اور خاص ایام کی عبادتیں اور دعائیں بھی اپنے اندر خاص برکات رکھتی ہیں-
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ہر جگہ سے سنتا ہے مگر بندہ کو تحریک اور تحریص دلانے کیلئے کہتا ہے کہ فلاں اوقات اور فلاں جگہوں کی دعائیں زیادہ سنوں گا- چونکہ انسان پر غفلت کے اوقات آتے ہیں اور غفلت کی وجہ سے اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بندہ کیلئے خاص اوقات اور خاص مقام مقرر کر دیئے تا کہ ان سے فائدہ اٹھائے- اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی خاص وقت اور خاص مقام کی عبادت دوسرے اوقات اور دوسرے مقامات میں عبادت کرنے سے مستغنی کر دیتی ہے- قضاء عمری کی ہماری شریعت میں کوئی حقیقت نہیں- اسلامی شریعت ضروری قرار دیتی ہے کہ باقی ایام میں بھی اور ہر مقام پر فرائض ادا کرنے ضروری ہیں اور کسی وقت انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- ہاں جو لوگ نوافل میں سست ہوں‘ جن کی عبادتوں میں کمی رہ جائے اور جو روحانیت میں ترقی کی خواہش رکھتے ہوں‘ ان کیلئے دوسرے خاص اوقات مقرر کر دیئے گئے تا کہ ان اوقات کے نوافل ان کی کمی کو دور کر دیں ورنہ فرائض اپنے وقت پر ہی ادا کرنے ضروری ہیں-
غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فضل نازل کرنے اور انہیں اپنا قرب عطا کرنے کیلئے ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باعث برکات اور انوار کے خاص اوقات اور خاص مقامات مقرر کر دیئے ہیں ایسے مقامات میں سے سب سے اول درجہ کا مقام مکہ ہے اور وہاں کی خاص برکات حاصل کرنے کیلئے خاص ایام بھی مقرر ہیں-
دوسرا مقام مدینہ ہے- وہاں کیلئے کوئی خاص ایام مقرر نہیں- انسان جب چاہے وہاں جا سکتا ہے اس سے اتر کر قادیان کا مقام ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام نے فرمایا ہے-
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں قادیان کو مکہ بنا دیا گیا- مگر یہ عجیب بیوقوفی کی بات ہے کہ خود مکہ کی مسجد کی نقل میں مسجد تعمیر کرتے اور اس میں عبادت کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ چونکہ مکہ کے بیت اللہ کی نقل ہے اس لئے یہ بھی بیت اللہ ہے گویا اپنی بنائی ہوئی مسجد کو تو بیت اللہ کہتے ہیں- مگر خدا تعالیٰ کے بابرکت بنائے ہوئے مقام کو ارض حرم جیسا کہنے پر اعتراض کرتے ہیں- آپ تو ہر جگہ کی مسجد کو وہی نام دیتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ایک خاص مقام کو دیا ہے اور اسے بیت اللہ کہا ہے- لیکن اللہ تعالیٰ ایک مقام کو اس کا مثیل قرار دیتا ہے اسے اپنی خاص برکات کا مورد بناتا ہے اس میں اپنے انوار نازل کرتا ہے مگر اس کے متعلق کہتے ہیں اسے اس مقام کا مثیل نہ کہا جائے- حالانکہ مثیل ہونا ایسا مسئلہ ہے جسے اسلام میں پیدا ہونے والے صوفیاء نے بہت اہمیت دی ہے اور یہاں تک قرار دیا ہے کہ انسان کو چاہئے اللہتعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرے- چنانچہ تمام صوفیاء کہتے آئے ہیں تخلقوا باخلاقاللہ ۲~}~کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو- اس بات پر تو کوئی اعتراض نہیں کرتا اور اسے درست تسلیم کیا جاتا ہے لیکن قادیان کو ارض حرم کا مثیل قرار دینے پر معترض ہوتے ہیں- گویا ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کی صفات انسان کے اندر پیدا ہونا تو جرم نہیں لیکن قادیان کا مکہ کی مثیل ہونا جرم ہے مگر یہ جہالت ہے- جو رسول کریم ~صل۲~ سے بعد اور قرآن کریم کا مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے‘ رسول کریم ~صل۲~ کے ارشادات اور آپ کے مقربین کے اقوال کا مطالعہ نہ کرنے کے باعث پیدا ہوئی ہے- حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق جذب کرنے سے جس طرح انسان مکرم معظم بن جاتا ہے اسی طرح مکہ کے صفات جذب کر کے ایک مقام بھی متبرک اور مقدس بن جاتا ہے اور مکہ کی طرف اس مقام کے متبرک ہونے کی نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مستقل نہ سمجھا جائے بلکہ مکہ کے تابع سمجھا جائے- پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مکہ جو اصل ارض حرم ہے اس کے یہ تابع ہے تو اس پر اعتراض کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض نادان کہتے ہیں کلمہ شہادت میں رسول کریم ~صل۲~ کا نام لینا شرک ہے اور مسلماناشھدان لا الہ الا اللہ کے ساتھ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ کہہ کر شرک کرتے ہیں- حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کلمہ میں رسول کریم ~صل۲~ کے نام کا شامل ہونا اور آپ کو عبدہ و رسولہ کہنا یہ بتانے کیلئے ہے کہ آپ خدا کے بندے ہیں- پس کلمہ میں آپ کے نام کا اشتراک توحید کے قیام کیلئے ہے نہ کہ توحید کے خلاف- اسی طرح قادیان کو ارض حرم قرار دینا مکہ کی ہتک کیلئے نہیں بلکہ اس کی عظمت اور تقدس کے اظہار کیلئے ہے- جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ ارض حرم کی طرف حقیقی طور پر توجہ نہیں کرتے اور اس کی برکات سے فائدہ نہیں اٹھاتے چنانچہ ہندوستان سے ہی مسلمانوں کا وہ طبقہ جسے حج کیلئے جانا چاہئے نہیں جاتا اس کی بجائے مفلس‘ کنگال اور بھوکے مرتے ہوئے لوگ جن کیلئے حج پر جانا فرض نہیں‘ جاتے ہیں- جس کے یہ معنی ہیں کہ ۸۸ فیصدی ایسے لوگ حج کیلئے جاتے ہیں جن پر جانا فرض نہیں- دس فیصدی ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق احتمال ہو سکتا ہے کہ ان پر فرض ہوگا باقی ایک دو فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کیلئے حج فرض ہوتا ہے اور وہ لوگ جن پر حج فرض ہے‘ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں- تو خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بتانے کے لئے یہاں ہندوستان میں ایک مقام مکہ کا مثیل بنایا اور کہا اس کو دیکھو کس طرح اس میں اللہ کا ذکر ہوتا اور اس کے دین کی عظمت بیان کی جاتی ہے- اس میں اخلاص کے ساتھ آنے والوں کو کس قدر روحانی برکات حاصل ہوتی ہیں- جب مثیل کو اتنی عظمت اور اتنی برکت حاصل ہے تو اس کے اصل کو کیسی برکت اور تقدیس حاصل ہوگی اور اسے خدا نے کس قدر برکت والا بنایا ہے-
غرض ان لوگوں کو شرمندہ کرنے اور توجہ دلانے کیلئے جو حج کا فرض ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے ادا نہیں کرتے قادیان کو عظمت عطا کی ایسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے حج نہیں کیا- مگر ان لوگوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سپاہی کسی ضروری کام کیلئے جا رہا تھا- کسی نے اسے آواز دی ذرا ادھر آنا نہایت ضروری کام ہے- جب وہ گیا تو بلانے والا اسے کہنے لگا میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اسے اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دو- اس پر سپاہی کو بہت غصہ آیا کہ اس نے کیوں میرا وقت ضائع کیا- پاس ہی ایک دوسرا شخص لیٹا ہوا تھا اس نے کہا آپ اس پر غصے کیوں ہوتے ہو اس کی تو یہی حالت ہے ساری رات کتا میرا منہ چاٹتا رہا مگر یہ ایسا سست ہے کہ ہش تک نہ کر سکا- یہی حال ان معترضین کا ہے- وہ جو میدان جنگ میں کھڑا کفر کا مقابلہ کر رہا تھا اس کے متعلق کہتے ہیں اس نے حج نہیں کیا مگر آپ آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے ہوئے حج کو نہیں جاتے- حالانکہ جو جہاد میں مشغول ہو اس کیلئے حج کس طرح ممکن ہے- حج تو امن اور اطمینان کے موقع پر ہوتا ہے- جس شخص کا دن رات اور صبح و شام یہی کام ہو کہ کفار کا مقابلہ کرے‘ جس نے اپنی ساری عمر اسی جہاد میں صرف کر دی اس کیلئے حج اسی میں آ گیا- ہاں اگر یہ لوگ جہاد میں اس کی مدد کرتے‘ اسے موقع اور فرصت دیتے تو اس پر حج فرض ہوتا- مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ جب وہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا تھا اور اسلام کی حفاظت کر رہا تھا تو انہوں نے اس کی پیٹھ پر گولیاں چلانی شروع کر دیں-
غرض مکہ کی بزرگی اور فضیلت کی طرف توجہ دلانے کیلئے خدا تعالیٰ نے اس مقام کو ارض حرم قرار دیا اور اس سے اپنی برکات کو مخصوص کر دیا- دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں اور عبادتیں کریں تاکہ خاص برکات سے فائدہ اٹھا سکیں- پھر یہ بھی یاد رکھیں ان کیلئے اس طرح جہاد نہیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے تھا اس لئے جو توفیق رکھتے ہوں وہ یہاں آکر یہ سبق بھی حاصل کریں کہ اصل مقام پر بھی جائیں اور معترضین پر ثابت کر دیں کہ جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ حج بھی کرتے ہیں- پس وہ لوگ جو من استطاع الیہ سبیلا ]txet [tag ۳~}~ کے مصداق ہوں- جو اپنے گھر والوں کو بھی رزق دے سکیں اور اپنے اخراجات کا بھی انتظام کر سکیں اور جن کے رستہ میں کوئی شرعی روک حائل نہ ہو‘ ان پر حج فرض ہے وہ ضرور یہ فرض ادا کریں-
پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے یہ ایام عبادتوں اور دعائوں میں صرف کریں- پھر جلسہ میں زیادہ سے زیادہ وقت لگانا اور ساری تقریریں توجہ سے سننی چاہئیں- اس نصیحت کے بعد میں ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ گذشتہ ماہ نومبر میں امرتسر کے سٹیشن پر ایک بچہ گم ہو گیا ہے جس عورت کا بچہ گم ہوا ہے وہ احمدی نہیں- مگر اسے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ قادیان جائے اور بچہ کو تلاش کرے- دوست خیال رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اس بچہ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں- چھوٹے بچوں کا گم ہونا اس ملک کی شرارتوں میں سے ایک بہت بڑی شرارت اور بدترین قسم کا جرم ہے جو دنیا میں کیا جاتا ہے- میں سمجھتا ہوں ساری اولاد کے فوت ہو جانے کا اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا جتنا ایک بچہ کے گم ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے- کیونکہ ساری عمر اس تڑپ میں گزرتی ہے کہ نہ معلوم وہ فوت ہو گیا ہے یا زندہ ہے اور اگر زندہ ہے تو کس حال میں ہے- میں سمجھتا ہوں اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو شدید سزا دینی چاہئے- لوگوں کے اخلاق ایسے بگڑ گئے ہیں کہ مذہبی تعصب اور عداوت کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے بچوں کو چرا لینا اچھا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور قرآن کریم میں آتا ہیالفتنہ اشد من القتل بعض شرارتیں قتل سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں- میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں- انہیں ہوشیار رہنا چاہئے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو خواہ وہ کسی مذہب اور کسی قوم کے ہوں مقابلہ کرنا چاہئے- چند سال ہوئے یہاں سے بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک بچہ اٹھایا گیا تھا جسے اتفاقاً ایک احمدی نے دیکھ لیا اور پکڑ کر لے جانے والا اسے چھوڑ کر بھاگ گیا- گم ہونے والے بچہ کے متعلق اشتہار بھی شائع کیا گیا ہے اور اس میں انعام بھی مقرر کیا گیا ہے مگر ایسی حالت میں کوئی مومن انعام کی پروا نہیں کر سکتا- امرتسر کے دوست اگر اس بچہ کے تلاش کرنے میں مدد کر سکیں تو میں ان کا بہت ممنون ہوں گا- بعض لوگ پولیس کے محکمہ میں ملازم ہیں وہ مدد کر سکیں تو ان کیلئے یہ بہترین ثواب کا کام ہوگا-
اس سلسلہ میں دوستوں کو میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں بھی وہ دیکھیں کوئی اجنبی بچہ رو رہا ہے اور جو اسے ساتھ لے جانا چاہتا ہے اس کے ساتھ نہیں جاتا‘ فوراً اس موقع پر دخل دیں خواہ کسی مذہب اور کسی قوم کا وہ بچہ ہو اور اسے ساتھ لے جانے والا خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو- یہ ایسی گندی شرارت ہے کہ ایمان تو الگ رہا اس کا ارتکاب کرنے والا انسان بھی نہیں کہلا سکتا- پس مجرم خواہ کوئی ہو مسلمان ہو‘ سکھ ہو‘ عیسائی ہو‘ ہندو ہو‘ اس کی گرفتاری میں قطعاً پس و پیش نہیں ہونی چاہئے- جہاں کوئی بچہ رو رہا ہو اور معلوم ہو کہ اسے اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ساتھ لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں فوراً پوچھ لینا چاہئے کہ کیا بات ہے- پھر خواہ بچہ کے ساتھ اس کا باپ ہی ہو پوچھنے سے کوئی حرج نہیں ہوگا- مگر بسا اوقات معلوم ہو جائے گا کہ ساتھ لے جانے والا اجنبی تھا- اسی طرح عورتوں کے متعلق خیال رکھنا چاہئے بہت لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ انہیں ثواب حاصل کرنے کا کوئی کام بتایا جائے- میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ بہترین کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سزا دلا سکیں یا دے سکیں-
)الفضل ۳۱- دسمبر ۱۹۳۱ء(
‏]enil [tag۱~}~
مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۳۰۲ تا ۳۰۴ )مفہوما(
۲~}~
۳~}~
ال عمران : ۹۸
۴~}~ البقرہ:۱۹۲

‏a12.27
انوار العلوم جلد ۱۲
احمدیت کی کامیابی پر یقین رکھو
احمدیت کی کامیابی پر یقین رکھو
اور
محبت و اخلاص سے دلوں کو فتح کرو
از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]op [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
احمدیت کی کامیابی پر یقین رکھو اور محبت و اخلاق سے دلوں کو فتح کرو
)فرمودہ ۲۹ دسمبر ۱۹۳۱ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان( ۱~}~
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
رسول کریم ~صل۲~ سے کسی نے دریافت کیا تھا کہ اچھی عبادت کون سی ہے- آپﷺ~ نے فرمایا جس پر مداومت اختیار کی جائے-۲~}~ اور اصل بات بھی یہی ہے کہ بہتر نیکی وہی ہے جسے انسان نبھا سکے- تبلیغ کا کام ایسا ہی ہے جیسے دریا کا پانی گر گر کر پتھروں کے کونوں کو رگڑ رگڑ کر گھسا دیتا ہے اور ظاہر ہے یہ کام ایک دو دن کا نہیں بلکہ سالہا سال کا ہے- قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مومن دل‘ پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں اور جب پتھروں کو ٹھیک کرنے کیلئے سالہا سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے تو دلوں کیلئے ظاہر ہے کس قدر لمبے عرصہ کی ضرورت ہو گی- بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم ¶نے تبلیغ کر دی تو کیا وجہ ہے کہ سچی بات کو دوسرا قبول نہ کرے- یاد رکھنا چاہئے کہ حق کی مخالفت سوائے شاذو نادر لوگوں کے کوئی نہیں کیا کرتا- مخالفت لوگ اسی لئے کرتے ہیں کہ اسے غیر حق یقین کرتے ہیں- بے شک حق کی مثال آفتاب کی ہے لیکن جسے وہ نظر ہی نہ آئے اسے مار کر نہیں دکھایا جا سکتا بلکہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں کا ایک لمبے عرصہ تک علاج کیا جائے-
بعض دوست اس وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں کہ ہماری بات کوئی سنتا نہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا<۳~}~ تو یہ ضرور ہو کر رہے گا- اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ اسے سب لوگ مان لیں گے پھر کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھنے والا ایک شخص اگر یہ کہے کہ لوگ مانتے نہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرے- اللہ تعالیٰ تو یہاں تک فرماتا ہے کہ ساری دنیا مان لے گی اور نہ ماننے والے چوہڑے چماروں کی طرح رہ جائیں گے- اگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور یقیناً سچا ہے تو اس وقت لوگوں کا نہ ماننا ایک عارضی بیماری ہے اور دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اپنے بیمار بچہ یا بیمار عزیز کا علاج اس لئے چھوڑ دے کہ اسے جلد آرام نہیں آتا- لوگ علاج کرتے جاتے ہیں حتیٰ کہ یا موت واقعہ ہو جاتی ہے اور یا صحت- اور جب جسمانی امراض میں یہ طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ مشیت الٰہی کا انتظار کیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے مایوس ہو کر روحانی امراض کے علاج میں سستی یا کوتاہی کی جائے- چاہئے کہ جب تک موت واقعہ نہ ہو جائے اس وقت تک کوشش ترک نہ کی جائے-
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تبلیغ نہایت اہم کام ہے اور اس وقت کا جہاد ہے- تم میں سے کتنے ہیں جو خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمیں جہاد کا موقع نصیب ہوتا اور کتنے ہیں جو مخالفوں کی کامیابی سن کر پیچ و تاب کھاتے ہیں کہ کاش ہمیں اجازت ہوتی اور ہم بھی مقابلہ کرتے- میں ایسے دوستوں کو بتاتا ہوں کہ اس زمانہ کا جہاد یہی ہے- ہم مارنے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے بلکہ مار کھانے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اور جب تک استقلال نہیں دکھائیں گے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور جو اپنے اندر استقلال پیدا کر لیں گے تو خدا تعالیٰ ان کیلئے غیرمعمولی نصرت کی راہیں کھول دے گا اور پتھر سے بھی سخت دل موم سے بھی زیادہ نرم ہو جائیں گے-
احمدیت کی ترقی کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کلام پر اتنا تو ایمان رکھو کہ سال دو سال ہی اس پر عمل کر کے دیکھ لو- جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی ہے‘ وہ تو اس کے کلام اور اس کے نام پر اپنے آپ کی بھی تکذیب کر لیتے ہیں- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کسی کو چوری کرتے دیکھا اور اس سے دریافت کیا- لیکن اس نے کہا! خدا کی قسم ہے میں نے چوری نہیں کی- اس پر آپ نے کہا کہ تو سچا ہے‘ میری آنکھوں نے غلطی کی ہو گی- یہ صرف خدا کا نام درمیان میں آ جانے کی وجہ سے کہا- چہ جائیکہ اس کا کلام موجود ہو اور اس پر یقین نہ ہو- خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا ہے اور آپ کی کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خیال کہ لوگ نہیں مانیں گے‘ بالکل غلط ہے- لوگ مانیں گے اور ضرور مانیں گے- شیطان کی رکاوٹیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں- وہ کچلا اور پیس ڈالا جائے گا- جو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں وہ شیطان کے ساتھی ہیں- پس استقلال کے ساتھ متواتر تبلیغ کرو- یقیناً اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو گی اور چند سالوں بلکہ چند مہینوں میں ترقی کے نمایاں آثار نظر آنے لگیں گے-
مبلغ کیلئے ایمان اور اخلاص بیشک ضروری ہیں مگر علم سے بھی اسے مدد لینی چاہئے- ہفتہ میں دو تین دن ایسے مخصوص کر لئے جائیں کہ اہل علم لوگ دوسرے احمدیوں کو علمی مسائل سکھائیں- مختلف دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مختلف کتب لے لیں- مختلف حوالے وفات مسیح‘ ختم نبوت‘ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے کیا سامان کرتا ہے وغیرہ کے متعلق جمع کر کے دوسروں کو نوٹ کرا دیں- اسی طرح احادیث وغیرہ کے حوالے جمع کر کے مجلس میں سنا دیں اور خود بخود مطالعہ سے جتنی علمی ترقی سال بھر ہو سکتی ہے‘ اس طرح وہ دو ہفتوں میں ہو جائے گی- اگر ایک اکیلا آدمی سال بھر میں سو کتابیں پڑھ سکتا ہے تو اس طرح دو ہفتہ میں وہ سب پڑھی جا سکیں گی اور مجلس میں خلاصہ بیان کر کے ایک دو ہفتہ میں ہی اتنا علم حاصل کیا جا سکتا ہے جتنا سال بھر میں- اس کے علاوہ جب کوئی شخص تبلیغ کیلئے جائے تو چاہئے اس کے دل میں رقت ہو‘ کیونکہ دل محبت سے نرم ہوتے ہیں- اپنے دلوں میں محبت پیدا کرو- جو انسان خالی فلسفہ اور دلیل سے کام لیتا ہے وہ ناکام رہتا ہے- دنیا محبت اور اخلاص سے جیتی جاتی ہے- پس جن لوگوں میں تبلیغ کیلئے جائو ان کے متعلق دل میں یہ محسوس کرو کہ یہ ہمارے بچے یا بھائی ہیں اور مہلک مرض میں مبتلاء کسی عزیز کے خطرناک طور پر مریض ہونے کے وقت جو رقت دل میں ہوتی ہے‘ چاہئے کہ وہی درد ان کے لئے بھی ہو تب فائدہ ہو سکتا ہے‘ ورنہ خالی دلیلیں کچھ نہیں کر سکتیں-
اگر دوست ان باتوں کو مدنظر رکھ کر تبلیغ کریں تو ایسی ترقی ہو سکتی ہے کہ آئندہ سال انصاراللہ کی یہ چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے جھنڈے ہوں گے- بڑی جماعت ہو گی اور جلسہ اس چھوٹی جگہ میں نہیں بلکہ وسیع جگہ میں منعقد ہو گا-
اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی- )الفضل ۳- جنوری ۱۹۳۲ء(
۱~}~
۲۹- دسمبر ۱۹۳۱ء قبل دوپہر نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں ایک تبلیغی کانفرنس منعقد کی گئی- جس میں مختلف جماعتوں کے انصار اللہ جو سالانہ جلسہ کے موقع پر جمع تھے خصوصیت سے شامل ہوئے- ہر جماعت کے انصار اللہ کو ان کی جماعت کے نام کا جھنڈا دیا گیا اور اپنے اپنے جھنڈے کے پاس بٹھائے گئے- کئی دن کی بے حد مصروفیت کی وجہ سے نقاہت اور کثرت اشغال کے باوجود حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی اس اجتماع کی اہمیت کے وجہ سے تشریف لائے اور وقت کی تنگی کو مدنظر رکھتے ہوئے چند منٹ حسب ذیل تقریر فرمائی-
۲~}~
بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومہ علی العمل
۳~}~
تذکرہ صفحہ۳۱۲- ایڈیشن چہارم
‏a12.28
انوار العلوم جلد ۱۲
نبی کریم ~صل۲~ کے پانچ عظیم الشان اوصاف
نبی کریم ~صل۲~ کے پانچ عظیم الشان اوصاف

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
نبی کریم ~صل۲~ کے پانچ عظیم الشان اوصاف
)فرمودہ ۸- نومبر ۱۹۳۱ء برموقع جلسہ سیرۃ النبی بمقام لاہور(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-
مجھے کئی دن سے بخار اور نزلہ کی شکایت ہے اور بیماری کی وجہ سے میں یہ خیال کرتا تھا کہ آج لاہور میں اس مقدس مضمون کے متعلق جو میرے نزدیک نہ صرف مسلمانوں کیلئے مقدس اور ضروری ہے بلکہ تمام دنیا کیلئے اور تمام مذاہب کیلئے مفید اور بابرکت ہے کچھ بیان نہ کر سکوں گا- لیکن بعض حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نے مناسب سمجھا‘ خواہ گلے کی تکلیف اور بخار کی شکایت ہو‘ تھوڑا بہت بلند یا پست آواز سے جس قدر بول سکوں بولوں اور اپنے صوبہ کے مرکز میں اس تحریک کے متعلق جس کی ابتداء میں نے کی ہے‘ کچھ بیان کروں اور بتائوں کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے-
میں مختلف جماعتوں کی نظر میں اس اعتراض کے نیچے ہوں کہ بہت سے فتنے جو ملک میں پیدا ہوئے‘ ان کی تحریک مجھ سے ہوئی ہے- اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور یوں بھی آج کل حریت کا زمانہ ہے اس لئے ہر شخص آزاد ہے کہ جو عقیدہ یا رائے چاہے رکھے اس لئے جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں جب تک ان کی تسلی نہ ہو جائے‘ ان کا حق ہے کہ اپنے خیال پر قائم رہیں- مگر جس طرح وہ آزاد ہیں کہ میری نیت کے متعلق جو رائے چاہیں قائم کریں اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ جس بات کو حق سمجھوں اس کے مطابق عمل کروں- پچھلے چند سالوں میں میں نے دیکھا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ اب ایک دوسرے کے مذہبی بزرگوں پر بھی حملے کئے جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جہاں دینی تعلقات خراب ہوتے ہیں وہاں دنیوی تعلقات بھی منقطع ہو جاتے ہیں- میں نے اس صورت حالات پر غور کیا کہ کیا ایسی تجویز ہو سکتی ہے کہ یہ تعلقات بہتر ہو جائیں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے مجھے بہترین ذریعہ یہی نظر آیا کہ ایسی تحریک کی جائے کہ اپنے پیشوا‘ ہادی‘ راہنما اور درحقیقت ہمارے دین و دنیا کے درست کرنے والے کے متعلق غیر اقوام سے درخواست کی جائے کہ آپ کے بعض احباب کو ہمارے آقا کے اندر عیب ہی عیب نظر آتے ہیں‘ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو خوبیوں کو دیکھ سکے اور اگر کوئی ایسا ہے تو وہ سٹیج پر آ کر ان خوبیوں کو بیان کرے تا مسلمانوں کو یقین ہو کہ اگر بعض لوگ حضورﷺ~ کے عیوب بیان کرنا اپنا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں تو چند ایسے بھی ہیں جو آپ کے اعلیٰ اوصاف اور خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں میں جوجوش اور ناراضگی اس وجہ سے ہے کہ دوسری اقوام ہمارے آقا کی توہین کرتی ہیں‘ وہ کم ہو جائے اور بین الاقوامی تعلقات بہتر ہو سکیں- یہ پہلا قدم ہے اور دوسری اقوام کا بھی حق ہے کہ ہم سے مطالبہ کریں کہ ہمارے پیشوائوں کی خوبیاں آ کر بیان کرو اور میں سمجھتا ہوں جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ ایک ہی سٹیج پر مختلف اقوام کے لوگ ایک دوسرے کے ہادیوں کی خوبیاں بیان کریں گے- اگر ہندو اور سکھ حضرت نبی کریم ~صل۲~ کے متعلق نیک خیالات کا اظہار کریں گے تو مسلمان ان کے پیشوائوں کے متعلق بھی ایسا ہی کریں گے اور مسلمانوں کیلئے یہ امر کوئی مشکل نہیں کیونکہ ان کو تعلیم دی گئی ہے کہ آنحضرت ~صل۲~ سے پہلے جو ہادی گزرے ہیں وہ بہت اعلیٰ صفات اپنے اندر رکھتے تھے اور کوئی ملک ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے خالی چھوڑا ہو بلکہ ہر ملک میں نبی مبعوث کئے ہیں- اور جب ایسے جلسے کثرت سے کئے جائیں گے تو ملک کی حالت بہت بہتر ہو جائے گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ آج جیسی جھوٹ کی فضاء کی بجائے ہم صداقت کی فضاء میں پرورش پا رہے ہوں گے- میں سمجھتا ہوں کوئی شخص ایسا نہیں جسے دوسروں کے بزرگوں میں کوئی خوبی نظر نہ آتی ہو اور اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ یقیناً جھوٹ کی فضا میں پرورش پا رہا ہے- میں تو جس مذہب کی مذہبی کتاب کو بھی دیکھتا ہوں‘ اس میں خوبیاں پاتا ہوں اور میرا مذہب مجھے یہی بتاتا ہے کہ جب کوئی چیز کلیتہ بری ہو جائے تو وہ دنیا میں ہر گز نہیں رہ سکتی اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے- قرآن کریم تو شراب کے متعلق بھی یہی کہتا ہے کہ اس میں بھی بعض خوبیاں ہیں‘ ہاں اس کی برائیاں ان سے زیادہ ہیں- جو مذہب شراب کے متعلق بھی یہ رائے رکھتا ہو‘ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ان مذاہب کے متعلق جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں انسانیت کو اس کی حدود کے اندر رکھا اور شروفساد کو دور کیا یہ کہے کہ ان کے اندر کوئی خوبی نہیں- پس ہندوستان کیلئے وہ دن بہت بابرکت ہوگا جب لوگ دوسرے مذاہب کی برائیاں دیکھنے کی عادت کو ترک کر کے خوبیاں دیکھنے کے عادی ہو جائیں گے- بعض دوست یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میرا کوئی حق نہیں کہ ایسی تحریک کروں کیونکہ میں آنحضرت ~صل۲~ کے محبوں میں سے نہیں ہوں- میں سمجھتا ہوں رسول کریم ~صل۲~ کی طرف منسوب ہونے والوں کو حضور ہی کا یہ جملہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ھل شققت قلبہ ۱~}~کیا تم نے دل چیر کر دیکھ لیا ہے؟ دنیا میں اس سے زیادہ ظلم کوئی نہیں ہو سکتا کہ کسی کی طرف وہ باتیں منسوب کی جائیں جنہیں وہ خود تسلیم نہ کرتا ہو- لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ صحیح ہے تو رسول کریم ~صل۲~ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت بعض وقت فاسق سے بھی لے لیا کرتا ہے-۲~}~ اگر ایک دہریہ آ کر ان باتوں کی تعریف کرے جنہیں میں مانتا ہوں تو اس کے معنی سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ یہ نور اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ غیر بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں- پس اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ میرے دل میں رسول کریم ~صل۲~ کی محبت نہیں تو بھی میرے منہ سے تعریف سن کر خوش ہونا چاہئے کہ غیر بھی رسول کریم ~صل۲~ کی خوبیوں کے معترف ہیں- خود رسول کریم ~صل۲~ نے اپنے ان اوصاف کو جو غیروں نے بیان کئے روایت کیا ہے- چنانچہ آپ جب شام گئے تو ایک یہودی نے آپ کی تعریف کی- آپ نے خود اس کا ذکر کیا ہے اور اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ جو ہمارا ہم خیال نہیں وہ رسول کرم ~صل۲~ کی تعریف ہی نہ کرے تو اس طرح خود آپ کی ذات پر اعتراض کا دروازہ کھل جاتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنی ہونگے کہ صرف وہی تعریف کرے جو ایمان لا چکا ہو لیکن یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں- اس طرح دوسری اقوام کے نیک طینت لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور جب منہ بند ہو جائیں تو دلوں پر بھی مہر لگ جایا کرتی ہے-
میرا ارادہ تھا جب میں بیمار نہیں تھا کہ آج بیان کروں رسول کریم ~صل۲~ نے سلطنت اور بادشاہت کا کیا انتظام تجویز فرمایا لیکن بیماری کی وجہ سے حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اتنا لمبا مضمون بیان نہیں کر سکتا اس لئے اختصار کے ساتھ آپ کے وہ چند ایک کیریکٹر جو قرآن کریم کی ایک آیت میں بیان کئے گئے ہیں‘ بیان کروں گا- اس میں اگرچہ مختلف مضامین آ گئے ہیں مگر چونکہ میں اجمالی رنگ میں بیان کروں گا‘ اس لئے مضمون اتنا لمبا نہ ہو سکے گا-
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے- لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رووف رحیم ۳~}~ یہ کیا مختصر آیت ہے مگر اس میں آپ کے پانچ زبردست اوصاف بیان کئے گئے ہیں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- تمہارے پاس رسول آیا ہے- من انفسکم جو تم ہی میں سے ہے- عزیز علیہ ماعنتم تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے- حریص علیکم تمہاری بہتری کیلئے حریص ہے- بالمومنین روف رحیم جو لوگ اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلیں‘ ان کے ساتھ رافت کا سلوک کرتا ہے-
اس آیت میں پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ رسول ہیں یعنی بھیجے ہوئے ہیں- اس میں آپ کی زندگی کا ایک ایسا کیریکٹر بیان کیا گیا ہے جو بہت سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے اسی وجہ سے یورپین مصنفین نے خصوصیت کے ساتھ آپ کی ذات پر اعتراض کئے ہیں- وہ وصف جو رسول میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں بڑائی کے خواہش مند نہیں آپ کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ لوگ میری تعریف کریں- آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پیچھے رہیں اور دنیوی عزت آپ کی طرف منسوب نہ ہو سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مجبور کرتا تھا کہ یہ عزت آپ کو دے- رسالت سے قبل صداقت‘ جرات و حوصلہ‘ ہمدردی‘ خلق‘محبت‘ ملنساری‘ ہمت‘ علم کی طرف میلان‘ لوگوں کی ترقی کی خواہش غرضیکہ سب صفاتحسنہ آپ کے اندر موجود تھیں مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ آپ نے کبھی بڑائی کی خواہش کی ہو- باوجود یکہ آپ کے اندر وہ تمام قوتیں موجود تھیں جو آپ کو دنیا کا سردار بنا سکتی تھیں- اگر آپ رسول نہ ہوتے تو بھی سب سے بڑے لیڈر بن سکتے تھے کیونکہ وہ تمام قابلیتیں جو لیڈر بننے کیلئے ضروری ہوتی ہیں آپ کے اندر موجود تھیں مگر ہم آپ کو سیاسی‘ تعلیمی‘ اقتصادی میدان کے لیڈروں میں نہیں دیکھتے بلکہ غار حرا میں محبوب حقیقی کی یاد میں مصروف پاتے ہیں اور اس پر نظر کر کے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی ذات میں باوجود ہر قسم کی قابلیت رکھنے کے بڑائی تلاش کرنے کا مادہ نہ تھا- چالیس سال کی عمر تک آپ آگے نہیں آئے- اس کے بعد جب آئے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی اور طاقت نے مجبور کر کے آپ کو آگے کیا- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لقد جاء کم رسول یعنی تمہیں یہ محسوس کرنا چاہئے کہ یہ شخص جو کلام پیش کرتا ہے اس کے دل میں اپنی بڑائی حاصل کرنے کی خواہش نہیں بلکہ جب ہم نے اسے بھیجا تو یہ مجبور ہو کر آیا- یہ ایک ایسا کیریکٹر ہے کہ تمام انبیاء کے کیریکٹر اس سے مشابہ ہیں اس لئے رسول کریم ~صل۲~ کا یہ کیریکٹر سمجھنے میں کسی قوم کو دقت پیش نہیں آ سکتی- جن مثالوں کی بناء پر ان قوموں نے حضرت موسیٰؑ‘ حضرت عیسیٰؑ‘ حضرت کرشنؑ‘ حضرت بدھؑ‘ حضرت زرتشتؑ کو تسلیم کیا ہے اور مانا ہے کہ ہماری خیر خواہی کے جذبات سے متاثر ہو کر وہ آگے آئے تھے- کیا وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے بارہ میں وہ انہیں تسلیم نہ کریں-
ایک موٹی مثال ہندوستان کے بزرگوں میں سے حضرت بدھؑ کی ہمارے سامنے ہے ہمارے ایک ہندو دوست لالہ رام چند منچندہ صاحب نے ابھی اپنی تقریر میں شکایت کی ہے کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے- میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک میری قابلیت تھی کیونکہ سنسکرت تو میں جانتا نہیں‘ باقی ہندو لٹریچر کا میں نے کافی مطالعہ کیا ہے لیکن اس نگاہ سے ہر گز نہیں کہ عیب جوئی کروں بلکہ اس نیت سے کہ چونکہ میرے آقا نے کہا ہے ہر جگہ خوبیاں موجود ہیں اس لئے دیکھو‘ کہ اس میں کیا خوبیاں ہیں؟ اور میں نے وید‘ گیتا‘ رامائن اور گوتم بدھ سب کی تعلیمات میں خوبیاں دیکھی ہیں- چاہے عقائد مختلف ہوں مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان بزرگوں کو دنیا کی عمارت میں بہت اہم مقام حاصل ہے اور انہوں نے اس کی ترقی میں بہت حصہ لیا ہے- گوتم بدھ جب بعض واقعات سے متاثر ہو کر اپنے گھر سے نکلے تو ان کی چہیتی بیوی سو رہی تھی انہوں نے اسے جگا کر ملنا تک پسند نہ کیا کہ شاید اس کی محبت بھری نگاہیں رکاوٹ کا موجب ہو جائیں اور آپ گھر سے یہ اقرار کر کے نکل گئے کہ جب تک خدا کو نہ پالوں نہیں لوٹوں گا- اب وہ کون ہندو یا مسلمان ایسا سخت دل ہو سکتا ہے جس کی چشم ان واقعات کو پڑھ کر پرنم نہ ہو جائے- آپ جہاں جہاں جا سکتے تھے گئے- گیا۴~}~ میں جب آپ نے روحانی ترقیات حاصل کیں تو لوگ آئے تھے کہ ہمیں اپنا شاگرد بنا لو- مگر آپ انکار کرتے تھے حتی کہ جب فکر میں گردن جھکائے رہنے والے کو خدا تعالیٰ کی آواز نے اٹھایا اور کہا جا کر لوگوں کو تبلیغ کرو تب انہوں نے تلقین شروع کی- اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں وقار اور عزت رکھنے کے باوجود لیڈری کی خواہش نہ کی بلکہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہ حکم ملا تو آپ نے یہی کہا کہ بہتر ہو اگر یہ خدمت میرے بھائی ہارون علیہ السلام کے سپرد کر دی جائے اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کو ہی منتخب کیا تو آپ آگے بڑھے- اسی طرح رسول کریم ~صل۲~ کو جب الہام ہوا کہ اقرا تو آپ نے فرمایا- ما انا بقاری حالانکہ تفاسیر کی کتب میں لکھا ہے کہ اس وقت کوئی لکھی ہوئی چیز نہ تھی جو آپ کو پڑھنے کیلئے دی گئی- صرف منہ سے یہ الفاظ کہلوائے گئے تھے اور جب حضرت جبرئیل علیہالسلام نے اصرار کے ساتھ تین دفعہ یہی کہا تو آپ نے پڑھا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ خود لیڈری نہیں چاہتے تھے بلکہ خدا چاہتا تھا کہ آپ کو دنیا کا راہنماء بنائے اور جسے خدا بنانا چاہے اسے کون روک سکتا ہے- اس کیریکٹر میں آپ دوسرے انبیاء سے ایسے مشابہ ہیں کہ اگر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے مقدس رہنمائوں اور انبیاء کے حالات پر نظر کریں تو فوراً انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول کریم ~صل۲~ کا یہ کیریکٹر انبیاء سے ملتا ہے‘ دنیا داروں سے نہیں ملتا-
دوسری خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ من انفسکم یعنی یہ تم میں سے ہی ہے- تم میں سے ہونا بظاہر معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے آپ راہنمائوں میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں- انبیاء اپنے آنے کی غرض ہمیشہ یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی راہنمائی کریں اور اچھا نمونہ پیش کر سکیں اور ظاہر ہے کہ اگر نمونہ ان حالات سے نہیں گزرا‘ اس قسم کی حرصیں اور روکیں اسے پیش نہیں آئیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں تو وہ نمونہ نہیں ہو سکتا- اسی مشکل کی وجہ سے عیسائی یہ خیال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے تھے مگر انسان کے وجود میں آئے- ہندو صاحبان کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ خدا کے اوتار انسانی یا دوسری مخلوقات کے بھیس میں دنیا میں آتے رہے ہیں تا وہ دنیا کیلئے نمونہ ہو سکیں گویا تمام مذاہب اس اصل کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحیح نمونہ ہم جنس ہی ہو سکتا ہے اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی اور ہماری طاقتوں میں تفاوت ہوتا ہے- تو رسول کریم ~صل۲~ کی ایک اور صفت اس آیت میں یہ بیان کی گئی کہ آپ منکم ہیں- یعنی انسانوں میں سے ہیں- خدا تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ کہہ دے انا بشر مثلکم ۵~}~جس کا یہ مطلب ہے کہ تم جن حالات سے فرداً فرداً گزرتے ہو محمد رسول اللہ ~صل۲~ ایسا کامل نمونہ ہے کہ ان سب سے گزر کر تمہاری راہنمائی کر رہا ہے- اس میں باقی انبیاء سے آپ کی شان بالا نظر آتی ہے - ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح علیہالسلام ایک اعلیٰ درجہ کے نبی تھے لیکن یہ نہیں کہ آپ ہر زمانہ اور ہر قسم کے لوگوں کیلئے نمونہ تھے- مثلاً آپ کی شادی ثابت نہیں اس لئے شادی شدہ لوگوں کی متاہلانہ زندگی میں آپ کوئی راہنمائی نہیں کر سکتے- آپ بادشاہ نہیں ہوئے کہ آج بادشاہ کہہ سکیں مسیح ہمارے لئے بھی نمونہ ہے- مگر انفسکم میں غریب‘ امیر‘ بادشاہ‘ رعایا‘ مظلوم سب شامل ہیں اور یہ سب کیلئے بولا جا سکتا ہے- پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- اے دنیا کی قومو! تم خواہ کسی پیشہ‘ کسی مقام اور کسی درجہ کی حالت میں ہو‘ کوئی جماعت ایسی نہیں کہ جس کے حالات سے محمد رسول اللہ ~صل۲~ نہ گزرا ہو- بادشاہ‘ غریب‘ طاقتور‘ مظلوم‘ شادی شدہ‘ صاحب اولاد‘ مزدور‘ زراعت و تجارت پیشہ‘ غرضیکہ تم کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہو‘ ہم تمہیں کہتے ہیں لقد جاء کم رسول من انفسکم تم میں سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ اس کی مشکلات نہیں جانتا- بادشاہو! تم یہ خیال نہ کرو کہ اس پر وہ ذمہ داریاں نہیں تھیں جو بادشاہوں سے تعلق رکھتی ہیں- مظلومو! تم یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہماری حالت کو کہاں سمجھ سکتا ہے- وہ تم میں سے ہر ایک کی حالت سے خود گزر چکا ہے اور تمام ضروریات و مشکلات کو سمجھتا ہے اور سب کے احساسات سے بخوبی واقف ہے اور سب کیلئے علاج پیش کرتا ہے-
اب میں چند ایک مثالوں سے بتاتا ہوں کہ کس طرح رسول کریم ~صل۲~ نے ہر حالت میں اعلیٰ و اکمل نمونہ دکھایا- سب سے پہلے میں آپ کی پہلی زندگی کو لیتا ہوں- آپ پر یتیمی کی حالت گزری‘ آپ کے والد پیدائش سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے اور بہت چھوٹی عمر میں والدہ کا بھی انتقال ہو گیا مگر دادا کی زیر نگرانی جو باپ کا قائمقام تھا آپ نے بتا دیا کہ اخلاق کیسے ہونے چاہئیں- یتیم کی حالت دو قسم کی ہوتی ہے یا تو بچہ بہت ہی سر چڑھ جاتا ہے یا بہت ہی پژمردہ- اگر اس کے نگران ایسے لوگ ہوں جو اس کی دلجوئی کے خیال سے ہر وقت لاڈ ہی کرتے رہیں تو اس کی اخلاقی حالت بہت گر جاتی ہے اور اگر وہ ایسے لوگوں کی تربیت میں ہو جو سمجھیں کہ ہمارا بچہ تو یہ ہے نہیں اور وہ تشدد کریں تو یتیم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے- مگر بچپن میں ہی رسول کریم ~صل۲~ کا نمونہ ایسا تھا کہ آپ کے ہمجولی بیان کرتے ہیں گھر میں کسی چیز کیلئے آپ چھینا جھپٹی نہ کرتے تھے بلکہ وقار کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے حتیٰ کہ چچی خود بلا کر آپ کا حصہ دیتیں پھر آپ وقار کے ساتھ ہی اس کا استعمال کرتے- آپ کی رضاعی والدہ کا بیان ہے کہ آپ میں ایسی سعادت تھی کہ بچے بھی حیران رہ جاتے تھے- رضاعی بھائی بیان کرتے ہیں آپ لغو کھیلیں نہ کھیلتے‘ مذاق کر لیتے تھے مگر جھوٹی باتوں سے سخت نفرت تھی- اس زمانہ میں ایسی ہمدردی آپ میں تھی کہ چھوٹے بچے بھی آپ کو اپنا سردار سمجھتے تھے غرضیکہ آپ کی بچپن کی زندگی ایسی پاکیزہ تھی کہ یورپ کے متعصب لوگ بھی لکھتے ہیں اس زندگی کا ایسا غیر معمولی ہونا ثابت کرتا ہے کہ آپ مجنون تھے- گویا یہ نئی بات انہوں نے دریافت کی ہے کہ جس بچے کے اخلاق اچھے ہوں‘ عادات و خصائل عمدہ ہوں‘ وہ مجنون ہوتا ہے- آپ والدین سے بہت محبت کا معاملہ کرتے تھے- جس قسم کا حسن سلوک آپ نے ابوطالب اور ان کی بیوی سے کیا ہے اس کی نظیر اس کے سگے بیٹوں میں بھی نہیں ملتی- فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کس مکان میں ٹھہریں گے- آپ نے بغیر کسی قسم کے غصہ کے فرمایا- عقیل نے کوئی مکان باقی چھوڑا ہے کہ اس میں ٹھہریں یعنی چچا زاد بھائیوں نے سب بیچ دیئے ہیں- آپ نے نہ صرف یہ کہ باپ کی محبت کو ابوطالب کے متعلق قائم رکھا بلکہ تعلیم دی کہ ماں باپ کو اف کا کلمہ بھی نہ کہو- یہی وہ سلوک ہے جو آپ نے اپنے چچا سے کیا-
نبوت پر فائز ہونے کے بعد آپ کی زندگی کا ایک عجیب واقعہ ہے- مکہ کی مخالفت انتہاء پر پہنچ گئی ہے‘ رئوسائے قریش نے ابوطالب کو دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے محمد کو نہ روکا تو تمہیں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا ابوطالب اس دھمکی سے گھبرا گئے- جب رسول کریم ~صل۲~ گھر آئے تو انہوں نے بلا کر کہا- بیٹا! مکہ کے رئیس اس طرح کہتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کر لو جس سے ان کی بھی دلجوئی ہو جائے- میں سمجھتا ہوں آنحضرت ~صل۲~ کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی- ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے پالا تھا اور جس کے پائوں میں کانٹا لگنا بھی آپ گوارا نہ کر سکتے تھے اسے ساری قوم ذلیل کرنے اور نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی- دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہار تھا- آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا چچا! میں ساری تکالیف برداشت کر لوں گا مگر خدا کا پیغام پہنچانے سے نہیں رہ سکتا- ابوطالب اس بات سے بخوبی واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ اس راہ میں اگر آپ کو اپنے خون کا آخری قطرہ بھی گرانا پڑے تو آپ اس سے دریغ نہ کریں گے- انہوں نے آپ کا جواب سن کر کہا جا! جو تجھے خدا نے کہا ہے لوگوں کو پہنچا میں تیرے ساتھ ہوں- یہ وہ بہترین نمونہ ہے جو حالت یتیمی میں آپ نے دکھایا- اور اس سے بہتر نمونہ کیا کوئی دکھلا سکتا ہے-
اس کے بعد آپ جوان ہوئے- لوگ اس عمر میں کیا کچھ نہیں کرتے عرب میں اس وقت کوئی قانون نہ تھا- کوئی اخلاقی ضابطہ نہ تھا- لوگ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہمارا فلاں کی عورت یا لڑکی سے ناجائز تعلق ہے- ان حالات میں رہنے والے نوجوانوں سے کوئی شخص اعلیٰ اخلاق کی توقع ہی نہیں کر سکتا- مگر آپ نے ایسی گندی فضاء کے باوجود جوانی میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ لوگ آپ کو امین اور صدوق کہتے تھے- یہ کہنا کہ آپ جھوٹ نہ بولتے تھے آپ کی ہتک ہے- کیونکہ آپ صداقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ تھے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور صداقت کا مقام جھوٹ نہ بولنے سے اوپر ہے- پس آپ کا یہی کمال نہیں کہ جھوٹ نہ بولتے تھے بلکہ صدوق کہلاتے تھے- آپ کے کلام میں کسی قسم کا اخفاء‘ پردہ وری یا فریب نہ ہوتا تھا- یہی وجہ تھے کہ آپ جو کہہ دیتے‘ لوگ اسے تسلیم کر لیتے-
عیسائی مورخین تک نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ آپ کی پہلی زندگی سچائی کی زندگی تھی- آپ نے اہل مکہ سے سے کہا اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے یا نہیں- سب نے کہا ہاں ہم مان لیں گے- حالانکہ ویران علاقہ تھا اور صفا و مروہ پر چڑھ کر دور دور نظر جاتی تھی- ایسی حالت میں آپ کی بات ماننے کے صاف معنی یہی تھے کہ وہ اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھتے حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوتے کہ کوئی لشکر نہیں مگر آپ کی صداقت کا انکار نہ کر سکتے- وہ سب کے سب اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھنے کیلئے تیار تھے مگر یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں- اور جب سب نے یہ اقرار کر لیا تو آپ نے فرمایا- خدا نے مجھے تمہاری ہدایت و اصلاح کیلئے بھیجا ہے- اس کا ان لوگوں نے انکار کر دیا- پھر آپ کی صداقت کے متعلق ایک سخت دشمن کی گواہی ہے- اہل مکہ کو جب خیال ہوا کہ حج کے موقع پر لوگ جمع ہوں گے تو عین ممکن ہے آپ ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملا لیں اس پر وہ لوگوں کو آپ سے بدظن کرنے کی تجویزیں سوچنے لگے کسی نے کہا یہ مشہور کر دو کہ یہ شاعر ہے- کسی نے کہا یہ کہو جھوٹا ہے- کسی نے کہا مجنون ہے- اس وقت ایک سخت دشمن نے جو آخر دم تک مخالفت کرتا رہا کہا- بہانہ وہ بنائو جسے لوگ ماننے کیلئے تیار بھی ہوں- جب تم یہ کہو گے کہ جھوٹا ہے- تو کیا لوگ یہ نہ پوچھیں گے کہ آج تک تو تم اس کی راستبازی اور صداقت شعاری کے قائل تھے اب یہ جھوٹا کیسے ہو گیا اس لئے عذر ایسا بنائو جسے لوگ مان جائیں- مگر وہ کوئی عذر نہ گھڑ سکے-
اپنی جوانی کے زمانہ کے متعلق خود رسول کریم ~صل۲~ کا بیان ہے کہ دو مواقع ایسے آئے کہ میں نے کوئی تماشا وغیرہ دیکھنے کا ارادہ کیا- جیسے مداری وغیرہ کا کھیل ہوتا ہے مگر خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ سو گیا تو آپ کی جوانی ایسی پاکیزہ ہے کہ اور کہیں نظر نہیں آتی- بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کے واقعات عام طور پر معلوم نہیں ہوتے- مگر آپ کی زندگی کے تمام حالات پوری طرح محفوظ ہیں-
اس کے بعد ہم آپ کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور غرباء کی امداد کو لیتے ہیں تو اس میں بھی آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا- مکہ کے بعض اشخاص نے مل کر ایک ایسی جماعت بنائی جو غریب لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتا تھا اس لئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے- اس میں آپ بھی شامل ہوئے- یہ نبوت سے پہلے کی بات ہے بعد میں صحابہؓ نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ یہ کیا تھی؟ آپ سمجھ گئے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ آپ تو نبی ہونے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا- آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی کوئی اس کی طر ف بلائے تو میں شامل ہونے کو تیار ہوں- ۷~}~ گویا غرباء کی مدد کے لئے دوسروں کی ماتحتی سے بھی آپ کو عار نہیں تھی- ایک غریب شخص نے ابوجہل سے کچھ قرضہ لینا تھا اور وہ غریب سمجھ کے ادا نہیں کرتا تھا وہ حلف الفضول کے لیڈروں کے پاس گیا کہ دلوا دو- مگر ابوجہل سے کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا- آخر وہ شخص ان ایام میں جب آپ نبوت کے مقام پر فائز ہو چکے تھے آپ کے پاس آیا کہ آپ بھی حلف الفضول کے ممبروں میں سے ہیں‘ ابوجہل سے میرا قرضہ دلوا دیں- یہ وہ زمانہ تھا جب ابوجہل آپ کے قتل کا فتویٰ دے چکا تھا اور مکہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا آپ فوراً ساتھ چل پڑے اور جا کر ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا- اس نے پوچھا کون ہے؟ آپ نے فرمایا محمدﷺ-~ وہ گھبرا گیا کہ کیا معاملہ ہے فوراً آ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا بات ہے- آپ نے فرمایا- اس غریب کا روپیہ کیوں نہیں دیتے- اس نے کہا ٹھہریئے ابھی لاتا ہوں اور اندر سے روپیہ لا کر فوراً دے دیا- لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ یہ ڈر گیا ہے- مگر اس نے کہا میں تمہیں کیا بتائوں کہ کیا ہوا- جب میں نے دروازہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا کہ محمدﷺ~ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں جو مجھے نوچ کر کھا جائیں گے- ۸~}~ کوئی تعجب نہیں یہ معجزہ ہو- مگر اس میں بھی شک نہیں کہ صداقت کا بھی ایک رعب ہوتا ہے غرضیکہ ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے دکھا دیا کہ غربت میں بھی انسان کے اندر کیسی اخلاقی جرات ہونی چاہئے-
جب آپ نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو اس وقت کوئی مال آپ کے پاس نہ تھا- بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ آپ کے والد نے پانچ بکریاں اور ایک دو اونٹ آپ کے لئے چھوڑے اور بعض اس سے بھی انکار کرتے ہیں- بہرحال اگر ورثہ میں آپ کو کوئی جائداد ملی بھی تو وہ ایسی قلیل تھی کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے- مگر پھر بھی آپ کی طبیعت میں حرص بالکل نہ تھی اور سیر چشمی کمال کو پہنچی ہوئی تھی- اپنے حالات کے لحاظ سے آپ کے لئے حرص کی گنجائش تھی مگر آپ کا لقب امین تھا اس وقت بھی ممکن ہے یہاں لاہور میں ہی سینکڑوں ایسے لوگ ہوں جن کے پاس اگر کوئی امانت رکھی جائے تو وہ اسے واپس کر دیں گے مگر دنیا انہیں امین نہیں کہتی کیونکہ امین وہی کہلا سکتا ہے جو خطرناک امتحانوں سے گزر کر بھی امانت کو قائم رکھے- اگر ایک شخص کے پاس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارا ایک ہزار اگر وہ واپس کر دے تو یہ کوئی خوبی نہیں مگر رسول کریم ~صل۲~ کو سخت مالی امتحانوں سے گزرنا پڑتا تھا اور باوجود اس کے آپ کے پاس سب کی مالی و جا نی امانتیں محفوظ رہتی تھیں اور آپ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ آپ کی طبیعت میں بے حد استغناء تھا- حتی کہ آپ کی قوم نے آپ کو امین کا خطاب دے دیا- آپ کو دولت بھی ملی اور لاکھوں روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے اپنی حالت ویسی ہی رکھی- ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا اور اسے تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی کونے میں گر گیا آپ کو اٹھانے کا خیال نہ رہا- نماز پڑھانے کے بعد جب یاد آیا تو لوگوں کے اوپر سے پھاندتے ہوئے جلدی سے گھر گئے- صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ! کیا بات تھی- آپ نے فرمایا کہ اس طرح ایک دینار رہ گیا تھا اور میں چاہتا تھا جس قدر جلدی ممکن ہو اسے تقسیم کروں-۹~}~ دولت ہونے کے باوجود آپ غریبوں کے ساتھ مل کر رہتے تھے- صحابہ کو شکایت تھی کہ بعض ان میں سے امیر ہیں- آپ نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا- کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں اور تم ایک گروہ میں ہوں-۱۰~}~ تو مال و دولت کے باوجود آپ نے ایسی سیرچشمی اور استغناء ظاہر کی کہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ جو کچھ آتا آپ خدا کی راہ میں تقسیم کر دیتے تھے حالانکہ گھر کی حالت یہ تھی کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کئی کئی مہینے ہمارے گھروں میں کھانا نہیں پکتا تھا- اونٹی کا دودھ پی لیتے یا کھجوریں کھا لیتے تھے- یا کوئی ہمسایہ کھانا یا دودھ بھیج دیتا تو وہ استعمال کر لیتے تھے اور کبھی فاقہ سے ہی رہتے تھے اور یہ اس زمانہ کی حالت ہے جب کثرت سے مال و دولت آ رہی تھی-۱۱~}~
حیرت ہے کہ اسی زمانہ زندگی کے متعلق بعض عیسائی مصنفین لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس دولت آئی تو آپ بگڑ گئے حالانکہ آپ کی حالت یہ تھی کہ جب وفات پائی تو زرہ چند صاع جو کے عوض رہن تھی- غرضیکہ آپ پر غربت اور دولتمندی دونوں زمانے آئے مگر آپ نے ہر حالت میں اچھا نمونہ دیکھا- آپ کو روپیہ ملا مگر پھر بھی آپ نے غربت کو قائم رکھا- آپ مجرد رہے اور ایسا ¶اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دنیا حیران ہے- آپ نے ۲۵ برس کی عمر میں شادی کی جو عرب میں بڑی عمر ہے- کیونکہ وہاں ۱۶-۱۷ برس کا آدمی پورا بالغ ہو جاتا ہے اور اس عمر میں بھی جب آپ نے شادی کی تو چالیس سال کی ایک بیوہ کے ساتھ- گویا اس زمانہ میں جو امنگوں اور آزوئوں کا زمانہ ہوتا ہے آپﷺ~ نے ایسی عورت سے شادی کی جو اپنا زمانہ گذار چکی تھی- پھر شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری دولت آپ کے حوالے کر دی مگر آپ نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ اس کے سب غلاموں کو آزاد کر دیا- گویا جب آپ~صل۳~ نے شادی نہ کی تھی اس وقت بھی اعلیٰ نمونہ دکھایا اور جب کی تو بھی ایسا نمونہ دکھایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپﷺ~ کی شادی پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نو سال کی عمر میں شادی کی جو ظلم ہے اول تو یہ بھی غلط ہے- عمر کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں اور متحقق یہی ہے کہ اس وقت آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی- اگرچہ بعض روایتوں میں سترہ سال بھی ہے لیکن تیرہ سال ہی صحیح ہے اور یہ بھی چھوٹی عمر ہی ہے اور ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف خود انہیں ہی ہو سکتی تھی‘ عیسائی مصنفین کو تکلیف ہونے کی کوئی وجہ نہیں- تیرہ سال کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی اور نو سال بعد آنحضرت ~صل۲~ کا انتقال ہو گیا- گویا بائیس برس کی عمر میں ہی آپ بیوہ ہو گئیں- اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی عمر اس شادی کی وجہ سے برباد ہو گئی- مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل کی گہرائیوں کو ہم ٹٹولتے ہیں تو اس میں آنحضرت ~صل۲~ کی محبت کا بہت گہرا نقش پاتے ہیں- سالہا سال گزر جاتے ہیں اور آپ کے پاس کثرت سے روپیہ آنے لگتا ہے اور ثابت ہے کہ ایک ایک دن میں لاکھ لاکھ روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ کی سادگی میں فرق نہیں آیا اور آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا- ایک دن صبح سے شام تک آپ نے قریباً ایک لاکھ روپیہ تقسیم کر دیا- اس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنہ رکھ لیتیں تو کیا اچھا ہوتا- آپ نے جواب دیا کہ تم نے پہلے کیوں نہ یاد دلایا- اگر آنحضرت ~صل۲~ کی محبت کا نقش اس قدر گہرا نہ ہوتا تو آپ روپیہ ملنے پر ضرور یہ طریق بدل دیتیں مگر حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ آپ میدہ کی روٹی کھانے لگیں- نرم نرم پھلکے تھے مگر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کسی ہمجولی نے دریافت کیا تو فرمایا- میں اس لئے روتی ہوں کہ اگر آج آنحضرت ~صل۲~ زندہ ہوتے تو یہ نرم نرم پھلکے انہیں کھلاتی-۱۲~}~ غور کرو‘ یہ کتنا گہرا نقش ہے- کتنے ہیں جو وفات کے بعد مرنے والوں کو اس طرح یاد رکھتے ہیں- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بتاتا ہے کہ آپ کا دل آنحضرت ~صل۲~ کی محبت سے لبریز تھا- بعض بدباطن کہتے ہیں آپ نعوذ باللہ عیاش تھے- کیا عیاش لوگوں کی بیویاں ان کی موت کے بعد اسی طرح ان کے ساتھ اظہار محبت کرتی ہیں؟ وہ تو نفرت اور حقارت سے انہیں دیکھتی ہیں اور ان کی موت کو اپنی نجات سے تعبیر کرتی ہیں- غرضیکہ شادی کے زمانہ میں بھی آپ نے نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا- چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہم دیکھتے ہیں- آپﷺ~ بیویوں سے ایسا برتائو کرتے جو محبت کے ازدیاد کا موجب ہو- حتی کہ پیالہ کی جس جگہ منہ لگا کر وہ پانی پیتیں بعض اوقات آپ بھی وہیں ہونٹ لگا کر پیتے اور فرماتے یہ محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے- اگر کسی اونچی جگہ چڑھنا ہوتا تو آپﷺ~ اپنے گھٹنے کا سہارا دیتے-۱۴2]~}~ [rtf
یورپ کے وہ نادان لوگ جو آج اعتراض کرتے اور کہتے ہیں عورت کی عزت کے لئے یہ ضروری ہے‘ جب رسول کریم ~صل۲~ سے ایسی بات دیکھتے ہیں تو اسی کی بناء پر آپ کو عیاش کہہ دیتے ہیں-
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں‘ اولاد ہو جانے کی حالت میں لوگ دوسروں کی خدمت اور ان کے حقوق کی حفاظت سے غافل ہو جاتے ہیں- مگر آپ اس پہلو میں بھی اس قدر محتاط تھے کہ ایک دفعہ صدقہ کی کھجوریں آئیں- حضرت امام حسن اس وقت بچہ تھے آپ نے کھجور منہ میں ڈالی مگر آپ نے منع فرما دیا اور کہا یہ غربیوں کا حق ہے- ۱۵~}~ غور کرو- آج کتنے لوگ ہیں جو اس قدر احتیاط کرتے ہیں- بچوں کی بات پر عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے نادان بچہ ہے- مگر آپﷺ~ کی بڑھاپے کی اولاد ہے اور زیادہ نہیں صرف ایک کھجور منہ میں ڈال لیتا ہے مگر آپﷺ~ اس کے منہ سے نکال لیتے ہیں- اور فرماتے ہیں یہ غریبوں کا حق ہے- فاطمہ آپﷺ~ کی پیاری بیٹی تھیں اور آپﷺ~ کی اولاد میں سے صرف وہی زندہ رہیں- پھر اس کے علاوہ آپ ایسی نیک خو تھیں کہ جس کی مثال چراغ لے کر ڈھونڈیں تو نہ ملے سکے گی- وہ نہایت افسردگی کی حالت میں آپﷺ~ کے پاس آتی اور اپنے ہاتھوں میں چھالے جو چکی پیسنے کی وجہ سے پڑ گئے تھے‘ دکھاتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ اب اس قدر مال و دولت آ رہی ہے- ایک غلام یا لونڈی مجھے بھی دی جائے جو مجھے مدد دیا کرے- آپﷺ~ جواب میں فرماتے ہیں کہ فاطمہ آئو اس سے بہتر چیز تمہیں دوں اور چند کلمات سکھا دیتے ہیں-۱۶~}~ میں پوچھتا ہوں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو ایسے جذبات کا اظہار کرتے ہیں- نرینہ اولاد تو آپﷺ~ کی فوت ہو چکی تھی اور اس لحاظ سے گویا آپ بے اولاد تھے- صرف ایک فاطمہ باقی تھی وہ ایسی تکلیف کا اظہار کرتی اور آپﷺ~ یہ جواب دیتے ہیں- کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ آپ ہر حالت میں بے نظیر انسان تھے-
دشمنوں کے ظلم سہنے میں بھی آپﷺ~ نے کمال دکھایا- لوگ پتھر مار مار کر خون آلود کر دیتے ہیں‘ آپ پر لا کر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دیتے ہیں‘ جب آپﷺ~ طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو مکہ والوں نے انہیں پہلے ہی کہلا بھیجا کہ ایک دیوانہ آتا ہے ان ظالموں نے آپ کے پیچھے چھوٹے چھوٹے لڑکے اور کتے ڈال دیئے- لڑکے پتھر مارتے تھے پھر آپﷺ~ جانتے ہیں‘ شکاری کتے کتنے سخت ہوتے ہیں- نتیجہ یہ ہوا کہ آپﷺ~ سر سے پائوں تک زخمی ہو گئے- واپس آتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اگر چاہو تو فوراً ان لوگوں کوسزا دی جائے- مگر آپﷺ~ فرماتے ہیں نہیں یہ لوگ نادانی سے ایسا کرتے ہیں-۱۷~}~ جب کبھی ضرورت پیش آتی آپ فوراً ان دشمنوں کی امداد کرتے- کوئی نہیں جو آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا اور آپ نے انکار کر دیا ہو- دشمن آتے اور آپ ان کی ہر طرح خاطر داری کرتے- وہ شہر جہاں سے رات کے وقت چھپ کر آپﷺ~ کو بھاگنا پڑا‘ جہاں کے لوگوں نے آپﷺ~ کے پیارے صحابہؓ کو اونٹوں سے باندھ باندھ کر چیر ڈالا‘ وہ لوگ جنہوں نے عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں شہید کر ڈالا‘ جلتی ریت پر ڈال ڈال کر ہلاک کیا جب مغلوب ہونے کے بعد آپ کے پیش کئے گئے تو آپﷺ~ نے فرمایا-:
لاتثریب علیکم الیوم۱۸~}~
ایک شدید دشمن نے جبکہ آپﷺ~ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اور آپﷺ~ سو رہے تھے تلوار ہاتھ میں لیکر آپﷺ~ کو جگایا اور کہا اب تجھے کون بچا سکتا ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- اللہ- اس لفظ کی عظمت اور ایمان کی طاقت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے اٹھا کر کہا- اب تجھے کون بچا سکتا ہے‘ اس کمبخت نے آپ کے عمل سے بھی سبق نہ سیکھا اور کہا آپ ہی چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں- آپ نے اسے چھوڑ دیا اور کہا جائو چلے جائو- ۱۹~}~ غرض اس قدر ثبوت ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے- آپﷺ~ کی زندگی میں ہر قسم کے نمونے موجود ہیں- ایک جنگ میں آپ نے ایک عورت کو زخمی دیکھا- باوجودیکہ وہ جنگ میں شامل تھی مگر آپ اس قدر غصہ ہوئے کہ صحابہ کا بیان ہے اس قدر غصہ کبھی نہ ہوئے تھے- جب بھی اسلامی لشکر باہر جاتا آپ ارشاد فرماتے کہ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ ناکاروں‘ بیماروں اور راہبوں‘ پادریوں وغیرہ پر ہرگز حملہ نہ کیا جائے- آپ قاضی تھے مگر ایسے کہ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا- آپ جرنیل تھے مگر جنگ میں آپ سے کسی قسم کی غلطی آج تک ثابت نہیں ہو سکی بلکہ کئی فنون جنگ آپ نے دنیا کو سکھائے ہیں- آپ مبلغ تھے مگر چڑ چڑے نہیں- لڑائی یا سخت کلامی کرنے والے نہیں- مبلغین میں عام طور پر شوخی اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے- مگر آپ میں یہ بات نہ تھی بلکہ ہمیشہ محبت سے مخالفوں کی بات سنتے- صلح کے موقع پر آپﷺ~ نے ایسی شرائط پر صلح کی کہ اس سے نرم شرائط ممکن نہیں- مگر جنگ ایسی بہادری سے کرتے کہ حنین کے موقع پر سارا لشکر بھاگ گیا- چونکہ اس موقع پر غیر مسلم حلیف بھی آپ کے ساتھ تھے اور ان میں اتنا جوش نہ تھا اس لئے سب بھاگ گئے- صرف بارہ آدمی آپﷺ~ کے ساتھ رہ گئے اور ان میں سے بعض نے آپﷺ~ کے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور کہا اس وقت یہاں ٹھہرنا ہلاکت کے منہ میں جانا ہے- مگر آپﷺ~ نے فرمایا چھوڑ دو- میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا- اور ایسی خطرہ کی حالت میں بھی آپﷺ~
انا النبی لا کذب
انا ابن عبدالمطلب
کہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے-۲۰~}~
احد کی جنگ میں ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو خون سے تربتر تھا‘ ہر طرف سے اس پر حملے ہو رہے تھے- اور وہ اکیلا ہی سب کا مقابلہ کر رہا تھا- جب میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ رسول کریم ~صل۲~ تھے- ایسے جری کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ آپﷺ~ نے بزدلی سے صلح کی- صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہؓ سخت جوش میں تھے ان کی تلواریں پھڑک رہی تھیں مگر آپﷺ~ نے فرمایا کہ ہم صلح کریں گے-۲۱~}~
آپﷺ~ نے تجارت بھی کی ہے اور ایسی کہ حضرت خدیجہؓ کے غلام کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا ایماندار کوئی نہیں دیکھا- سب سے زیادہ نفع آپﷺ~ کو ہوتا تھا- آپﷺ~ کی چیز میں اگر کوئی نقص ہوتا تو آپﷺ~ خود ہی اس کو ظاہر کر دیتے- نتیجہ یہ تھا کہ گاہک تلاش کر کے آپﷺ~ سے مال خریدتے تھے- آپﷺ~ کا غریبوں اور چھوٹوں سے معاملہ ایسا احسان کا تھا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپﷺ~ کی گردن میں رسی ڈال دی کہ مجھے کچھ مال دو- آپﷺ~ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ صرف یہ جواب دیا کہ میں بخیل نہیں ہوں- اگر میرے پاس ہوتا تو میں ضرور دے دیتا-۲۲~}~ اس وقت آپﷺ~ کے دس ہزار صحابی آپ کے پاس موجود تھے- اگر آپ ذرا سا بھی اشارہ کر دیتے تو وہ اس کی گردن اڑا دیتے- مگر آپﷺ~ نے ذرا بھی خفگی کا اظہار نہیں کیا- غور کرو کون ہے جو اپنے چھوٹوں سے ایسا سلوک کرے-
ایک دفعہ حاتم طائی کے قبیلہ کے لوگ آئے تا حالات دیکھ کر اندازہ کریں کہ مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہئے یا جنگ- ان کے سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپﷺ~ نبی ہیں یا بادشاہ- اس نے دیکھا کہ ایک بڑھیا آئی اور آپ کو اپنے ساتھ علیحدہ لے جا کر کھڑی ہو گئی اور دیر تک باتیں کرتی رہی آپﷺ~ اس کے پاس کھڑے رہے- اس سردار نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ شخص بادشاہ نہیں‘ نبی ہے- دوسری قوم کے سفراء پاس بیٹھے ہیں مگر آپﷺ~ اس وقت تک پوری توجہ سے ایک بڑھیا کی باتیں سنتے رہے جب تک وہ خود نہ چلی گئی- پھر بڑے لوگوں نے بھی آپﷺ~ سے باتیں کیں مگر ان سے بھی اعلیٰ نمونہ پیش کیا-۲۳~}~
کسریٰ نے اپنے گورنر کو کہلا بھیجا کہ اس شخص کو پکڑ کر میرے پاس بھیج دو اس نے اپنے آدمی آپﷺ~ کے پاس بھیجے- انہوں نے آ کر آپ سے کہا کہ آپ چلیں ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی جان بخشی ہو جائے مگر انکار سخت نقصان کا موجب ہو گا- کسریٰ اس وقت آدھی دنیا کا بادشاہ ہے اور وہ عرب کو تباہ کر دے گا- آپﷺ~ نے جواب کے لئے ایک دن مقرر کیا اور جب مقررہ وقت پر وہ جواب کے لئے آئے تو آپﷺ~ نے فرمایا جا کر اپنے گورنر سے کہہ دو کہ میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے- انہوں نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے اگر آپﷺ~ کی بات سچی ہوئی تو آپ بیشک نبی ہیں- چند روز کے بعد ایران سے ایک جہاز آیا جس میں گورنر کے نام ایک خط تھا جس پر نئی مہر تھی- وہ حیران ہوا کہ کیا معاملہ ہے- کھولا تو اس میں لکھا تھا- اپنے باپ کے ظلموں سے تنگ آ کر ہم نے اسے قتل کر دیا ہے- اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق ایسا ظالمانہ حکم دیا تھا اسے بھی منسوخ سمجھو-۲۴~}~ غور کرو کہ غریب بڑھیا سے تو وہ معاملہ ہے اور کسریٰ جیسے جابر بادشاہ سے یہ کہ جا کر کہہ دو ہم تمہاری بات نہیں مانتے-
غیر قوموں کے لوگوں سے سلوک یہ ہے کہ سلمان فارسی آتے ہیں اور غیر لوگوں میں ہونے کی وجہ سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں- آپ ان کی دلجوئی کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ فرماتے ہیں- سلمان منا اھل البیت۲۵~}~ سلمان ہمارے رشتہ داروں سے ہے- اس کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح امن میں نہ سمجھتا ہو گا- غرضیکہ ہر شخص خواہ وہ کن حالات میں ہو آپﷺ~ کے متعلق کہہ سکتا ہے کہ آپ ہم میں سے ہیں-
لیکن جو مثالیں میں نے اوپر پیش کی ہیں ان کی بناء پر مسلمان تو کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہم میں سے ہیں مگر ایک غیر مسلم کس طرح یہ کہہ سکتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ سب گذشتہ بزرگوں کی ضروری اور اچھی تعلیم اس میں ہے اور اس لحاظ سے ہر غیر مسلم بھی کہہ سکتا ہے کہ محمدﷺ~ ہم میں سے ہے- دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ آپﷺ~ نے تمام گذشتہ انبیاء کی تصدیق کی- خدا تعالیٰ نے آپﷺ~ سے فرمایا- کہ ان من امہ الا خلا فیھا نذیر ۲۶~}~ اور جب ہر قوم میں نبی ہوئے ہیں اور ادھر آپﷺ~ نے فرمایا کہ تمام انبیاء بھائی بھائی ہیں تو ماننا پڑے گا کہ محمد ~صل۲~ حضرت رام‘ کرشن‘ موسیٰ‘ عیسیٰ‘ زرتشت‘ کنفیوسشش علیہم السلام سب کے بھائی تھے اور اس طرح ہندوستانی‘ ایرانی‘ مصری‘ جاپانی‘ چینی ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ محمد من انفسنا کیونکہ آپﷺ~ سب انبیاء کی اسی طرح تصدیق کرتے ہیں جس طرح خود ان کے ماننے والے کرتے ہیں- پس اس قول میں محمدﷺ~ رسول اللہ ~صل۲~ اور ساری اقوام شامل ہیں اور ہر ایک قوم کہہ سکتی ہے کہ محمدﷺ~ ہم میں سے ہے- بعض عیسائی آپﷺ~ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپﷺ~ ایک اچھے عیسائی تھے- مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ اچھے عیسائی‘ موسائی‘ بدھ سب کچھ تھے کیونکہ آپ مسلمان تھے اور مسلمان کے معنے ہی یہ ہیں جو سب صداقتوں کو ماننے والا ہو- پس جہاں قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ محمد ~صل۲~ تم میں سے ہے وہاں آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اس دعویٰ کی دلیل ہے-
تیسری صفت جو قرآن کریم نے آپﷺ~ کی بیان فرمائی وہ یہ ہے- کہ عزیز علیہ ماعنتم تمہارے اوپر تکلیف اس پر گراں گذرتی ہے- عزیز میں صرف شاق کا مفہوم ہی نہیں بلکہ یہ عزت سے نکلا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں بڑی چیز دیکھنا چاہتا ہے- میں بتاتا ہوں کہ کس طرح غیر قوموں کی تکلیف کے متعلق بھی آپ کو خیال رہتا تھا اور اس طرح اپنوں کو اخلاق کے بلند مقام پر آپ دیکھنا چاہتے تھے- ایک دفعہ ایک یہودی سے حضرت ابوبکرؓ کی گفتگو ہو رہی تھی- اس نے حضرت موسیٰ کو آنحضرت ~صل۲~ پر فضیلت دی اور آپ نے اسے تھپڑ مار دیا- وہ شکایت لے کر آنحضرت ~صل۲~ کے پاس آیا- آپ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا مجھے یونہی دوسروں پر فضیلت نہ دیا کرو-۲۷~}~ بعض نادان کہتے ہیں یہ پہلا زمانہ تھا جب آپ واقعی اپنے آپ کو حضرت موسیٰ سے افضل نہ سمجھتے تھے حالانکہ یہ سرا سر غلط ہے- آپ کو پہلے دن سے ہی اپنے مقام اور افضل ہونے کا علم تھا- اس میں توآپﷺ~ نے اپنی امت کو سبق دیا ہے کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو جس سے دوسروں کو تکلیف ہو- دیکھو کس قدر دوسروں کے احساسات کا احترام مدنظر ہے- آپﷺ~ نے بتایا کہ میری فضیلت کا اظہار وعظ و نصیحت کے طور پر کیا کرو لڑائی کے وقت یا غصہ کی حالت میں نہ کرو- پھر آپ نے فرمایا کہ دوسروں کے بزرگوں کی عزت کرو اور ان کی مذمت نہ کیا کرو2]- f[st۲۸~}~ بلکہ قرآن نے تو غیراللہ معبودوں کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا- چنانچہ ارشاد ہوتا ہے-لا تسبوالدین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوابغیر علم۲۹~}~ یعنی دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہا کرو کیونکہ وہ نادانی سے خدا کو برا کہہ کر خواہ مخواہ عذاب کے پنجے میں گرفتار ہوں گے- کس قدر انصاف کا خیال ہے- پھر غیر یعنی دشمن سے سلوک یہ ہے کہ فرمایا لڑائی میں بھی انصاف کیا کرو- جتنی تعدی دوسرا تم پر کرتا ہے تم بھی اتنی ہی کرو‘ اس سے زیادہ نہ کرو- اور جب دوسرا صلح کی درخواست کرے تو خواہ لڑائی تمہارے ہی حق میں ہو‘ فوراً صلح کر لو اور تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں کہ کسی نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ہو اور انہوں نے انکار کر دیا ہو- صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علیؓ نے مسودہ لکھا کہ اس معاہدہ میں ایک طرف محمدﷺ~ رسول اللہ ہیں- کفار نے اس پر اعتراض کیا آپ نے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو- حضرت علیؓ نے عرض کیا- میں کس طرح مٹا سکتا ہوں- آپﷺ~ نے اپنے ہاتھ سے یہ الفاظ کاٹ دیئے- ۳۰~}~ حالانکہ صاف بات تھی آپ کہہ سکتے تھے کہ یہ میرے دستخط ہیں تمہارے تو نہیں مگر آپﷺ~ نے دوسروں کے احساسات کا پورا پورا لحاظ رکھا اور ہر حالت میں صلح کر لی-
آپ جس وقت مبعوث ہوئے- اس وقت دنیا میں غلام‘ عورت اور DEPRESSEDCLASSES ان تینوں پر سخت ظلم ہوتا تھا آپﷺ~ نے سب کو آزادی بخشی- آپ چونکہ عزیز علیہ ماعنتم تھے اس لئے اس ظلم اور تعدی کو برداشت نہ کر سکے اور جب تک سب کو آزاد نہ کیا- آپ کو چین نہیں آیا- اس زمانہ میں جبکہ غلام کو جان سے بھی مار دیا جاتا تو کوئی ظلم نہ سمجھا جاتا تھا‘ آپ نے حکم دیا کہ جو شخص کسی غلام کو مارے گا تو اس کا غلام آزاد سمجھا جائے گا- پھر فرمایا جیسا خود کھائو‘ ان کو کھلائو اور جیسا خود پہنو‘ ان کو پہنائو- وہ کام ان سے نہ لو جو خود کرنا پسند نہ کرتے ہو مثلاً چوہڑوں وغیرہ کا کام اور جو کام انہیں دو اس میں ان کی مدد کرو- اور اس طرح وہ تمام تکالیف جو غلاموں کو تھیں آپﷺ~ نے دور کر دیں- پھر غلاموں کے متعلق فرمایا- اما منا بعدو اما فداء۳۱~}~یعنی یا تو انہیں بطور احسان چھوڑ دو یا تاوان وصول کر کے چھوڑ دو- غلامی صرف جنگی قیدی کی صورت میں جائز رکھی اور دنیا میں کون ہے جو جنگی قیدی کو بغیر تاوان لئے چھوڑ دے- آپﷺ~ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ ساری عمر کے لئے کسی کو غلام رکھنا قطعاً ناجائز ہے- اس وقت تک رکھ سکتے ہو کہ جب تک وہ تاوان ادا نہ کرے اور یا اسے بطور احسان نہ چھوڑ دو- اور جنگی قیدی بنا لینے کا حکم دینے کی وجہ سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر سزا نہ رکھی جائے تو ایک قوم یا خود مٹ جاوے گی یا دوسرے اسے مٹا دیں گے-
پھر عورتیں فروخت کر دی جاتی تھیں‘ انہیں بطور ورثہ تقسیم کیا جاتا تھا‘ لڑکیاں زندہ درگورکر دی جاتی تھیں‘ عورتوں کو بیحد ذلیل اور بے عزت سمجھا جاتا تھا مگر آپﷺ~ نے فرمایا- خیر کم خیر کم لا ھلہ۳۲~}~ اور اس طرح عورتوں پر تمام مظالم کاانسداد کر دیا- تفصیلات میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا یہ اصولی تعلیم ہے- لڑکیوں کے متعلق فرمایا جس کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے‘ انہیں اعلیٰ اخلاق سکھائے‘ لکھائے‘ پڑھائے اس کا گھر جنت میں ہو گا‘۳۳~}~ مائوں کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اف تک نہ کہو‘۳۴~}~ بہنوں کو وراث بنایا- گویا عورتوں کی تکلیف بھی آپﷺ~ سے نہ دیکھی گئی اور ان کو بھی آزادی دی تیسری DEPRESSEDCLASSES جو ہیں ان کے متعلق فرمایا- ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۳۵~}~ یہ مت خیال کرو کہ فلاں اعلیٰ و فلاں ادنیٰ ہے- خدا کے نزدیک مکرم وہی ہے جو زیادہ متقی ہو- ان غریبوں کو جو مظالم کے پنجوں میں پھنسے ہوئے تھے‘ یہ کہہ کر اٹھایا کہ خدا کے نزدیک معزز و مکرم وہی ہے جس کے اخلاق اعلیٰ ہوںاور جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہو- غور کرو! کتنا عظیم الشان اعلان ہے- چند ایک جملے ہیں مگر تمام پست اقوام کو پستی سے نکال کر بلند ترین مقام پر کھڑا ہونے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے- آج بھی ان اقوام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص یہاں موجود ہو تو میں اسے کہوں گا کہ تمہاری تکلیف بھی محمدﷺ~ رسول اللہ ~صل۲~ سے نہ دیکھی گئی اور آپ کا دل دکھا اور آپﷺ~ نے تمہاری آزادی کااعلان بھی کر دیا- بعض اقوام قابلیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتی ہیں اور دوسروں کو اپنے سے ادنیٰ و حقیر- مثلاً آج کل امریکہ والے اپنے آپ کو SUPERMAN سمجھتے ہیں- آپﷺ~ نے اس تکلیف سے بھی روکنے کا انتظام کیا اور فرمایا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم۶۳~}~یعنی کوئی قوم اپنی ترقی کی وجہ سے دوسری کو کمتر نہ سمجھے بالکل ممکن ہے کل وہ گر جائے اور دوسری بڑھ جائے کیونکہ یہ سلسلہ دنیا میں ہمیشہ جاری ہے- آج کوئی قوم ترقی کرتی ہے اور کل کوئی اس لئے ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھو- غرض ایسی اعلیٰ درجہ کی مساوات قائم کی کہ دنیا جس ذلت میں پڑی تھی اس سے اسے چھڑا دیا- اور یہ عزیز علیہ ماعنتم کی صفت کا ظہور ہے-
چوتھی بات آپ کے متعلق یہ فرمائی کہ حریصعلیکم زبردست امتیاز ہے- دنیا میں عام دستور ہے کہ لوگ ایک اصول کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ دوسروں کو اس سے فائذہ ہو گا یا نقصان- آج کل طبیب لوگ ڈاکٹروں کی تحقیر کرتے ہیں اور ڈاکٹر اطباء کی مذمت‘ ہومیوپیتھک والے ایلوپیتھی کو برا کہتے ہیں- ان کا خیال ہے کہ جب خدا نے بعض چیزوں میں ایسی خصوصیات رکھی ہیں کہ ذرا سی دوا اسے فائدہ ہو جائے تو یہ لوگ انسان کے دشمن ہیں جو اتنی بڑی بڑی DOSES دیتے ہیں انہوں نے دنیا کی صحت کا ستیا ناس کر دیا ہے- اور یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے سب چیزوں میں فوائد رکھیں- لالہ لاجپت رائے کی صحت خراب تھی- انہوں نے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کرایا- کوئی فائدہ نہ ہوا آخرحکیم نابینا صاحب سے علاج کرایا اور انہیں شفا ہو گئی- اسی طرح ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو پتھری تھی- انہیں بھی ڈاکٹروں کے علاج سے صحت نہ ہوئی اور حکیم نابینا صاحب کے علاج سے وہ صحت یاب ہوگئے- پھر بعض مریض ایسے ہیں کہ طبیب سالہا سال علاج کرتے رہے مگر آرام نہ ہوا اور ڈاکٹری علاج سے دنوں میں فائدہ ہو گیا- اگر انسان کی زندگی کی قدر ان لوگوں کے مدنظر ہوتی تو چاہیئے تھا اپنے اپنے اصل کے ہی پیچھے نہ پڑے رہتے بلکہ اگر ڈاکٹری علاج میں کوئی کوتاہی ہوتی تو ڈاکٹر خود کہہ دیتا کسی طبیب سے بھی مشورہ کر لو اور طبیب ڈاکٹر کے پاس جانے کی رائے دیتا لیکن حالت یہ ہے کہ مریض خواہ مر جائے‘ ہر ایک اپنی سائنس کو ہی برتر ثابت کرنے کی فکر میں رہتا ہے- مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کا فائدہ ہو- یہ نہیں کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم ہے تو خواہ ٹانگیں سوکھ جائیں‘ ضرور کھڑے ہی ہو کر پڑھو بلکہ بیٹھ کر بلکہ ضرورت کے وقت لیٹ کر بھی پڑھ سکتے ہو- پھر یہ نہیں کہ ضرور سال میں پچاس روپیہ صدقہ کرو- اگر نہیں تو پچیس‘بیس‘ پندرہ‘ دس جس قدر توفیق ہو کر سکتے ہو- اگر بالکل توفیق نہ ہو تو دل کی نیکی ہی کافی ہے- غرضیکہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ تم بھی بدل سکتے ہو- میں اس وقت تفصیلات چھوڑتا ہوں- آپ نے روزہ‘ حج‘ زکٰوہ وغیرہ سب کیلئے ALTERNATIVES رکھے ہیں- صدقہ اور جہاد وغیرہ احکامات کے بغیر بھی انسان خدا تعالیٰ کو راضی کر سکتا ہے- ایک دفعہ آپ جہاد پر جا رہے تھے اور فرمایا بعض لوگ ایسے ہیں جو اگرچہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں- مگر ہم کسی وادی میں نہیں ہوتے مگر وہ ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور وہ ثواب میں برابر ہمارے شریک ہیں- صحابہ نے عرض کیا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تکالیف ہم اٹھائیں اور وہ ثواب میں ہمارے شریک ہو جائیں- آپ نے فرمایا یہ وہ لولے‘ لنگڑے‘ اندھے اور معذور لوگ ہیں جو عدم شمولیت کی وجہ سے دلوں میں بے حد ملول ہیں- اللہ تعالیٰ انہیں ثواب سے محروم نہیں رکھناچاہتا-۳۷~}~ غرض آپ کی تعلیم میں ہر انسان اور اس کی ہر حالت کا علاج موجود ہے- یہ نہیں کہ خواہ کیسی مصیبت ہو ایک خاص اصول کی پیروی ضروری ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ انسان کی نجات مقصود ہے-
پانچویں بات یہ فرمائی- بالمومنین روف رحیم دنیا میں ایک مرض یہ ہے کہ جب کوئی شخص دنیا پر یا کسی خاص قوم پر کوئی احسان کرتا ہے تو پھر وہ توقع رکھتا ہے کہ لوگ میرا شکریہ ادا کریں‘ میری قدر کریں اور کہیں کہ آپ نے بڑا احسان کیا- مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بجائے ایسی امید اور توقع کے یہ رسول جو لوگ اس کی بات مانتے ہیں یہ خود ان کی خدمت کرتا ہے‘ احسان کر کے خود ممنون ہوتا ہے‘ شکر کے مواقع پیدا کر خود مشکور ہوتا ہے اور اس مقام پر وہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے جو خود بڑائی کی خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ رسول ہو اور خدا کی طرف سے مجبور کر کے اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہو-
افسوس ہے کہ اس وقت میں زیادہ تفصیل سے نہیں بول سکتا کیونکہ ایک تو کمزوری محسوس ہونے لگی ہے اور دوسرے میں دیکھتا ہوں دھوپ بھی زرد ہوتی جا رہی ہے اور وقت زیادہ ہو گیا ہے- پھر کئی ایک باتیں میں بیان کر چکا ہوں اور میرا خیال ہے کئی لوگ اس پر مزید غور کر کے اور نکات بھی نکال سکتے ہیں- اگر کسی کے دل میں یہ تحریک یعنی اور غور کر کے نئی باتیں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہو جائے تو یہ بھی بہت کامیابی ہے- وگرنہ پھر کبھی اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو خود ہی کسی موقع پر بیان کروں گا-خاتمہ پر ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ اختلاف دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکتا- اور جب تک مسلمان اس کوشش میں رہیں گے کہ اختلاف مٹا کر صلح کریں‘ وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے- صلح اسی اصول پر ہو سکتی ہے جو رسول کریم ~صل۲~ نے سکھایا ہے کہ اختلافات کو قائم رکھ کر صلح کرو-
پس اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ مسلمانوں کو چاہیئے متحدہ امور میں اکٹھے ہو جائیں کیونکہ کامیابی کا صرف یہی راستہ ہے-
)الفضل ۲۴-نومبر و ۶-دسمبر ۱۹۳۱ء(
۱~}~
مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۰۷ مکتبہ اسلامیہ- بیروت- پر یہ الفاظ ہیں >الاشققت عن قلبہ<
۲~}~
بخاری کتاب الجھاد والسیر باب ان اللہ یوید الدین بالرجل الفاجر
۳~}~
‏ hn2] ga[tالتوبہ: ۱۲۸
۴~}~
گیا- ہندوستان کا تجارتی شہر- یہاں کا وشنو مندر قابل ذکر ہے- بودھ گیا جو گوتم بدھ کے نروان کا مقام تھا قریب ہی ہے- )اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۲۹۹ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء(
۵~}~
الکھف : ۱۱۱
۶~}~
تاریخ الامم والملوک لابی جعفر محمد بن جرید الطبری جلد۲ صفحہ۳۶۶ دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۷~}~
السیرہ النبویہ لابن ھشام الجزء الاول صفحہ۱۴۲ مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۳۶ء
۸~}~
السیرہ النبویہ لابن ھشام الجزء الاول صفحہ۱۳۵‘۱۳۶ مصر ۱۲۹۵ء
۹~}~
بخاری کتاب الاذان باب من صلی بالناس فذکر حاجہ فتخطاھم
۱۰~}~

۱۱~}~
بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابہ
۱۲~~}

۱۳~}~
سنن ابی داود کتاب الطھارہ باب مواکلہ الحارض و مجامعتھا
۱۴~}~

۱۵~}~
بخاری کتاب الزکوہ باب مایذکر فی الصدقہ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم واھلہ
۱۶~}~
ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی التسبیح والتکبیر والتحمید عند المنام
۱۷~}~
بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم امین والملئکہ فی السماء ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
۱۸~}~
شرح مواھب اللدنیہ جلد۳ صفحہ۳۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ۱۹۹۶ء
۱۹~}~
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع‘ شرح مداھب اللدنیہ جلد۲ صفحہ۵۳۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۶ء
۲۰~}~
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالی و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم
۲۱~}~
‏hn2] ga[t سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۲ صفحہ۱۷۹ تا ۱۸۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ )مفہوما(
۲۲~}~
بخاری کتاب مرض الخمس باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی امولفہ قلوبھم وغیرھم من الخمس نحوہ
۲۳~}~
سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۳ صفحہ۶۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۴~}~
طبری جلد۳ صفحہ۱۵۷۱ تا ۱۵۷۵ مطبوعہ ۱۸۸۱‘ ۱۸۸۲
۲۵~}~
کنزالعمال h2] [tag جلد۱۱ صفحہ ۶۹۰ مکتبہ التراث الاسلامی حلب ۱۹۷۴ء
۲۶~}~
فاطر : ۲۵
۲۷~}~
مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل موسی
۲۸~}~
ابن ماجہ کتاب الادب باب اذا اتاکم کریم قوم فاکرموہ
۲۹~}~
الانعام : ۱۰۹
۳۰~}~
بخاری کتاب المغازی باب عمرہ القضاء
۳۱~}~
محمد : ۵
۳۲~}~
ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرہ النساء
۳۳~}~
مسلم کتاب البرو الصلہ والادب باب فضل الاحسان الی البنات
۳۴~}~
بنی اسرائیل : ۲۴
۳۵~}~ الحجرات: ۱۴
۳۶~}~ الحجرات : ۱۲
۳۷~}~
بخاری کتاب المغازی باب نزول انبی صلی اللہ علیہ وسلم الحجر
‏a12.29
انوار العلوم جلد ۱۲
چھوٹے اور بڑے سب مل کر کام کرو
چھوٹے اور بڑے سب مل کر کام کرو

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]txet [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
چھوٹے اور بڑے سب مل کر کام کرو
مورخہ ۱۵-نومبر ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قیام گاہ پر ممبرات لجنہ اماء اللہ مزنگ )لاہور( نے حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے فرمایا-:
میں جماعت مزنگ سے خوش ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اسے نیک کام کرنے کی توفیق ملتی رہے-
کشمیر کے چندہ کی وصولی کے متعلق فرمایا-:
>اس کام کو جاری رکھنا چاہئے اس طرح کام میں لگے رہنے سے ایک تو انسان لغو باتوں سے بچتا ہے اور دوسرے نیک کاموں کی توفیق ملتی رہتی ہے- اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک دو دن کا کام نہیں- بہت ممکن ہے کہ ایک یا ڈیڑھ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ اس کام کے لئے درکار ہو- پھر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ایک ہی دفعہ چندہ کی وصولی کے لئے کوشش کر کے بیٹھ نہیں رہنا چاہئے بلکہ بار بار وصولی کی کوشش کرتے رہنا چاہئے<-
مورخہ ۲-دسمبر ۱۹۳۱ء کو جماعت احمدیہ مرنگ )لاہور( نے بعد نماز مغرب حضرت خلیفہالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا- جسے میاں محمد یوسف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ مزنگ نے پڑھا- حضور نے اس کے جواب میں فرمایا-:
>مزنگ کی جماعت کے متعلق ایک عرصہ سے جو رپورٹیں مجھے ملتی رہی ہیں‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جماعت کام کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اس لئے آپ کی جماعت اس بات میں تعریف کی مستحق ہے- جماعتوں کی ضرورت ہمیشہ اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ تعاون کے ساتھ اور مل کر کام کریں گی- کیونکہ جماعتوں کی ترقی ہمیشہ مشترکہ طاقتوں میں ہوتی ہے- خدا تعالیٰ کے انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ ان کے ذریعہ کمزور اور طاقتور دونوں مل کر کام کریں- جماعتوں میں گنہگار لوگ بھی ضرورہوتے ہیں ان کے ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جماعتیں کام کرنا چھوڑ دیں بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ تمام افراد مجموعی زور سے کام کریں اور یہی غرض جماعتوں کے بنانے سے ہوتی ہے- پس میںامید کرتا ہوں کہ کمزور باوجود کمزوریوں کے اور طاقتور اپنی طاقت کے ساتھ مل کر کام کرتے چلے جائیں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ وہ دن لے آئے جس کے لئے انبیاء کو اللہ تعالیٰ بھیجتا رہا ہے-
جماعت کی ترقی دو ہی طریق سے ہو سکتی ہے- اول آپس میں محبت اور پیار سے دوسرے تبلیغ سے- بہت سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں اس لئے وہ دوسروں سے نہیں ملتے- اور بہت سے لوگ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے ہیں اور اس اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ ان لوگوں سے نہیں ملتے جن کو وہ معزز سمجھتے ہیں- لیکن اگر ہم نے خدا تعالیٰ کے لئے کام کرناہے تو پھر چھوٹوں اور بڑوں کاخیال نہیں کرنا چاہئے-
انبیاء کی جماعتوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں‘ منافق بھی ہوتے ہیں اوراگر ہم کسی دینی کام میں منافقوں کی وجہ سے پیچھے ہٹتے ہیں تو ہم منافقت کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں- اس قسم کے بہانے ڈھونڈ کر ہمیں ایک دوسرے کی ہمدردی اور تبلیغ کے کام سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے- سب مومن آپس میں بھائی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ امداد اور تعاون کیا جائے- امیروں کو خیال رکھنا چاہئے کہ غریب ہمارے بھائی ہیں اور غریب اس بات کو مدنظر رکھیں کہ جس نے زیادہ حصہ نہ لیا وہ اعلیٰ نہیں ہوتا- غریب یہ کہتے ہیں کہ امیر لوگ ہم کو ذلیل سمجھتے ہیں حالانکہ پہلے جب کوئی اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا ہے تو تبھی یہ دوسروں کے متعلق یہ خیال کرتا ہے حالانکہ اپنے آپ کو ذلیل سمجھنا خود اپنے نفس کی کمزوری ہے اور یہ نفس کے بہانے ہیں-
تبلیغ بہت بڑی چیز ہے- ہر شخص جماعت میں سے اگر یہ سمجھے کہ ہم ایک عرصہ میں دگنے ہو جائیں گے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم کیوں کامیاب نہ ہوں- باوجودکمزور ہونے کے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا رعب ہے- جو مصیبت آتی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ احمدیوں کی طاقت کی وجہ سے ہے- اوراسی کے متعلق نبی کریم ~صل۲~ نے فرمایا-نصرت بالرعب ۱~}~ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگ اب تسلیم کرتے ہیں کہ احمدیوں کے پاس بڑی طاقت ہے- جو لوگ ڈرپوک تھے اور کہتے تھے کہ احمدیت سچی تو تھی مگر ہم لوگوں کے ڈر کی وجہ سے نہیں مانتے تھے اب ان میں طاقت پیدا ہو گئی ہے- اس سے فائدہ اٹھا کر اب کمزوروں کو جرات دلانی چاہئے اورانہیں بتانا چاہئے کہ اب تو ہم دنیا کے لئے بلا بن گئے ہیں ہمارے اندر شامل ہونے سے اب ڈرکس بات کا ہے- اصل میں احمدیت کے لئے مسائل کی وجہ سے روک نہیں جتنی ڈرکی وجہ سے روک ہے مگر صداقت کے پھیلانے میں تمہارے لئے کوئی روک نہیں ہونی چاہئے- اپنے اندر اصلاح کی کوشش کرو اور دوسروں کی بھی اصلاح کی کوشش کرو- لم تقولون مالا تفعلون ۲~}~ کے معنی یہ ہیں کہ غلط دعوے نہ کریں- اس کے یہ معنی ہیں کہ نیکی نہ کریں- مکمل صحت کے بہت کم لوگ ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ لوگ ایک دوسرے کوصحت کے قیام کے لئے کہتے نہ ہوں- دوران سلوک میں کمزوریاں تو ہوتی ہی ہیں- تو پھرکوئی وجہ نہیں کہ تبلیغ کو چھوڑ دیا جائے- ایسے عذرات محض وہم اور نفس کے دھوکے ہیں-
بہرحال جماعت کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے دگنا ہونا ہے- اگر ہم ارادہ کرکے کام شروع کر دیں تو دنیا احمدیت کے لئے تیار ہے‘ وگرنہ سستی ہماری طرف سے ہی ہوتی ہے اوراس کی وجہ سے ہی کام میں کمی ہوتی ہے-
)الفضل ۲۷-دسمبر ۱۹۳۱ء(
۱~}~
بخاری کتاب الصلوہ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجدا و طھورا
۲~}~
الصف : ۳
‏a12.30
انوار العلوم جلد ۱۲
اللہ تعالیٰ کے فضل کا شکریہ اور آئندہ کیلئے جماعت کو ہدایت
اللہ تعالیٰ کے فضل کا شکریہ اور آئندہ کیلئے
جماعت کو ہدایت

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر
اللہ تعالیٰ کے فضل کا شکریہ اور آئندہ کیلئے
جماعت کوہدایت
اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ چندہ خاص کی تحریک میں سے سوا لاکھ روپیہ مقررہ میعاد کے اندرجمع ہو گیا ہے اور عام بجٹ کا قرضہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریباً ادا ہو گیا ہے اس کامیابی پر جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں تھوڑا ہے کیونکہ مالی تنگی کااثر ملک پر اس قدر تھا کہ اس قدر کامیابی بہت مشکل نظر آتی تھی- اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک سو سترجماعتوں اور بہت سے افراد نے پورا چندہ ادا کر دیا ہے یا مقررہ چندہ سے بھی کچھ زائد ادا کیا ہے- ان سب جماعتوں اور افراد کیلئے میں انشاء اللہ خاص دعا کروں گا بقیہ جماعتوں میں سے بہت سی جماعتوں نے ایک حصہ ادا کیا ہے اور بعض جماعتیں جو بیرون ہند کی ہیں ابھی ان کی میعاد بھی پوری نہیں ہوئی- ان کی معیاد دسمبر کےآخر میں پوری ہو گی اور پوری رقم غالباً جنوری میں وصول ہو سکے گی- بعض افراد نے مہلت طلب کر لی ہے ان لوگوں کی رقوم جمع کر لی جائیں تو امید ہے کہ دس بارہ ہزار کی رقم اور وصول ہو سکے گی-
لیکن جیسا کہ میں نے اپنے پہلے اشتہار میں لکھا تھا کچھ قرضہ دوران سال کے بجٹ کی وجہ سے بھی بڑھ رہا ہے اور کچھ رقم معمولی بجٹ کی زیادتی کے علاوہ بھی ہے جو سلسلہ کے دوسرے محکموں سے بطور قرض لی ہے اور ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے- ان رقوم کو ملا لیا جائے اور کم سے کم ایک ماہ کا خرچ خزانہ میں جمع رکھا جائے جو کم سے کم رقم ہے تا کہ ہر ماہ کے بل پہلی تاریخ کو ادا ہو سکیں تو اس کیلئے قریباً پچاس ہزار کی ضرورت ہے- جو جماعتیں ابھی اپنے چندہ خاص کو ادا نہیں کر سکیں اگر وہ ہمت کر کے اپنے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں تو میں خیال کرتا ہوں کہ اس قدر رقم اور آ سکتی ہے کہ یہ قرض بھی بغیر کسی اور تحریک کے ادا ہو سکے- پس میں ان تمام دوستوں اور جماعتوں کو جو اس وقت تک اپنا حصہ یا بالکل ادا نہیں کر سکے یا کچھ حصہ ادا کر سکے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کر دیں تا کہ اس سال گذشتہ بوجھوں سے سلسلہ پوری طرح آزاد ہو جائے اور وہ لوگ بھی اگر السابقون الاولون میں شامل نہیں ہو سکے تو اصحاب الیمین میں تو شامل ہو سکیں کہ یہ ثواب بھی کم ثواب نہیں ہے-
یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بوجھ زائد بوجھ نہیں بلکہ ان کے بھائی پچھلے تین ماہ میں یہ بوجھ اٹھا چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث ہو چکے ہیں- پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس بوجھ کو جسے جماعت کا ایک حصہ اٹھا چکا ہے نہ اٹھا سکیں- صرف دل میں اخلاص اور دماغ میں ارادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے -
دنیا کی اکثر تکلیفیں اور آرام صرف ذہنی کیفیتوں کا ظہور ہوتے ہیں- انسان جس نقطہنگاہ سے ایک امر کو دیکھتا ہے اس کے مطابق اس کے اثر کو قبول کرتا ہے- اگر اسے بوجھ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اسے بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے اور اگر اسے احسان سمجھ کر غور کرتا ہے تو اس کے دل میں اس کام اور اس قربانی پر بشاشت اور خوشی محسوس ہونے لگتی ہے-
غرض ولمن خاف مقام ربہ جنتان ۱~}~ اور وان منکم الا واردھا ۲~}~ ]txet [tag کے ارشاد الہی کے مطابق جنت کا دروازہ اور اسی طرح دوزخ کا دروازہ اسی دنیا سے انسان کے دل میں کھل جاتا ہے- اور یہ دوزخ اور جنت انسان کے اپنے ہاتھ سے تیار کی ہوئی ہوتی ہیں- پس اس نقطہ نگاہ کو مایوسی اور بزدلی کے اثر کے نیچے لا کر اپنے لئے خود دوزخ تیار نہ کرو بلکہ بشاشت ایمانی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جو مومنوں پر نازل ہوتے ہیں مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دل میں دینی قربانیوں پر ایسی خوشی پیدا کرو کہ اسی دنیا میں آپ کیلئے جنت کا دروازہ کھل جائے- تا آپ لوگ خود بھی اور آپ کی اولادیں اللہ تعالیٰ کی جنت کی حصہ دار ہوں‘ اپنے ہاتھوں دہکائی ہوئی آگ کی بھینٹ نہ ہوں-
میں ان دوستوں کو بھی جو چندہ خاص ادا کر چکے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ چندہ خاص ستمبر‘ اکتوبر اور نومبر کیلئے تھا دسمبر سے اب عام چندہ یا وصیت کی ادائیگی شروع ہو جائے گی ایسا نہ ہو کہ وہ اب آرام کرنے کی نیت کر لیں- میں لکھ چکا ہوں کہ مومن کو آرام خدا کی گود ہی میں میسر ہوتا ہے- پس انہیں چاہئے کہ آئندہ ماہواری چندہ یا وصیت کو باقاعدہ ادا کرتے رہیں تا کہ دوبارہ قرض نہ ہونا شروع ہو جائے کیونکہ چندہ خاص اسی صورت میں بند کیا جا سکتا ہے جبکہ آئندہ نیا قرض نہ ہو اور جو لوگ گذشتہ مہینوں میں چندہ خاص ادا نہیں کر سکے انہیں ابھی یاد رکھنا چاہئے کہ دسمبر سے ماہواری چندہ شروع ہو گیا ہے- پس جبکہ چندہ خاص کا کل یا جزو جس قدر ان پر ہے اس کے علاوہ دسمبر سے ماہواری چندہ بھی ان کے ذمہ شروع ہو گیا ہے اس کی ادائیگی کا بھی وہ خاص خیال رکھیں- اللہ تعالیٰ انہیں اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے دل اور ظاہر میں وسعت بخشے-
آخر میں سب احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلسہ سالانہ قریب آ گیا ہے اس کیلئے آنے کی بھی تیاری کریں اور اپنے دوستوں کو بھی لانے کی کوشش کریں تا ہر دفعہ ہمارا قدم آگے بڑھے ایسا نہ ہو کہ مالی قربانیوں کی وجہ سے بعض لوگ سستی کریں- مالی قربانیوں کے بدلے میں ہمیں دوسرے امور میں کفایت کرنی چاہئے دینی کاموں میں غفلت نہیں ہونی چاہئے کہ اس طرح گویا ہم ایک ہاتھ بچاتے اور دوسرے کو کاٹتے ہیں-وآخر دعوئنا ان الحمد للہ رب العلمین-
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفہ الثانی
۱۰-دسمبر ۱۹۳۱ء
الفضل ۱۵- دسمبر ۱۹۳۱ء
‏17] p[ ۱~}~
الرحمن : ۴۷
۲~}~ مریم :۷۲

‏a12.31
انوار العلوم جلد ۱۲
بعض ضروری امور
بعض ضروری امور

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
تقریر جلسہ سالانہ
)فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۱ء(
تشہد‘ تعوز اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
میں نے اس سال کے متعلق ارادہ ظاہر کیا تھا کہ بعض تبلیغی اشتہارات شائع کئے جائیں گے- اس ارادہ کے مطابق دو اشتہار شائع بھی کئے لیکن باوجود اس کے کہ میں تیار تھا کہ اور اشتہار شائع کئے جائیں‘ ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کی طرف سے خواہش نہ کی گئی اور میں نے دریافت اس لئے نہ کیا کہ اخبار میں میں نے نظارت کی طرف سے اعلان دیکھا تھا کہ دوستوں نے ان اشتہارات کی اشاعت کیلئے جیسی کوشش کرنی چاہئے تھی ویسی نہیں کی اور بہت سے اشتہارات دفتر میں پڑے ہیں- میرا ارادہ ان اشتہاروں کی اشاعت کو وسیع کرنے کا تھا یہاں تک کہ ان کی اشاعت ایک لاکھ تک ہو جائے اور سال میں ۲۴‘۲۵ لاکھ انسانوں تک سلسلہ کی آواز پہنچا سکیں- ایک لاکھ اشتہار کی چھپائی پر پانچ چھ سو روپیہ خرچ آ سکتا ہے اور شاید سو سوا سو روپیہ باہر بھیجنے پر خرچ آ جائے کچھ اور اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپیہ کا یہ خرچ ہے اور اسے خرچ کر کے کئی لاکھ انسانوں تک سلسلہ کی آواز پہنچانے کے معنی یہ ہیں کہ ایک روپیہ میں تین سو سے اوپر افراد کو تبلیغ کر سکتے ہیں- گویا ایک پیسہ میں پانچ آدمیوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں- یہ تبلیغ ایسی سستی ہے کہ اس سے زیادہ سستی ممکن نہیں مگر افسوس ہے کہ جماعت نے کارکنوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا- میں ساری ذمہ واری جماعت پر ہی نہیں ڈالتا اس میں کارکنوں کی بھی سستی ہے اگر وہ اور اشتہار شائع کرتے تو میرا خیال ہے جماعت کی سستی دور ہو جاتی- اب میں امید کرتا ہوں کہ کارکن اشتہاروں کی اشاعت کی کوشش کریں گے اور اگر اتنی تعداد میں ہی اشتہار شائع ہوں جس قدر پہلے شائع ہوئے- یعنی ۲۵ ہزار‘ تو بھی دو لاکھ انسانوں کو ہم تبلیغ کر سکتے ہیں- حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی چھوٹے چھوٹے اشتہاروں پر بہت زور دیا تھا کیونکہ عام لوگ انہیں باآسانی پڑھ لیتے ہیں اور باہر سے جو خطوط آتے رہے ان سے بھی معلوم ہوا کہ اشتہار بہت مفید ثابت ہوئے- میں امید کرتا ہوں کہ دوست سستی ترک کر کے اشتہاروں کے پھیلانے کی کوشش کریں گے اور اس سلسلہ کو جاری رکھیں گے-
تبلیغ احمدیت
اس سال ایک اور کام بھی کیا گیا ہے اور وہ تبلیغ کا کام ہے- میں نے ایک پروگرام بنایا تھا کہ بعض خاص علاقوں میں خاص زور دیا جائے- اس سال اسی ضلع گورداسپور میں دریائے بیاس کا کنارہ منتخب کیا گیا تھا جہاں خصوصیت سے تبلیغ کی گئی اور قادیان اور گردو نواح کے احمدیوں سے جبری یا تحریک کر کے تبلیغ کا کام کرایا گیا- اس طرح کئی جگہ نئی جماعتیں بن گئیں اور کئی لوگ اخلاص کے ساتھ سلسلہ میں داخل ہوئے جو دینی علوم سیکھنے کی جدو جہد کر رہے ہیں- اس کے علاوہ باہر کی جماعتوں میں انصار اللہہ کا سلسلہ جاری کیا گیا- یعنی احباب کو خاص طور پر تبلیغ میں حصہ لینے کی تحریک کی گئی اس میں بھی کامیابی ہوئی- جو جماعتیں مدت سے سست ہو چکی تھیں وہ بھی بڑھنے لگیں اور احباب چستی سے کام کر رہے ہیں- میں سمجھتا ہوں ادھر تبلیغی اشتہاروں کا سلسلہ جاری رہے اور ادھر تبلیغ خاص اور تبلیغ عام پر زور دیا جائے تو بہت جلد جماعت بڑھ سکتی ہے- جب کام شروع کیا جائے تو آہستہ آہستہ طبائع پر اثر ہونے لگتا ہے- مگر اس سال کی بیعت گزشتہ سالوں کی نسبت دگنے سے بھی زیادہ ہے اور جب پہلے ہی سال اتنا میٹھا پھل حاصل ہوا ہے تو آئندہ کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ہم امید رکھتے ہیں کہ بہت اچھے پھل حاصل ہوں گے- میں امید رکھتا ہوں کہ احباب انصار اللہ کی تحریک میں شامل ہو کر نظارت دعوت و تبلیغ کے ذریعہ کوشش کریں گے تا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام جلد پورا ہو کہ
>میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا<-۱~}~
چندہ خاص
پچھلے دو تین سال سے مالی حالت ہمارے ملک کی بلکہ ساری دنیا کی خراب ہو رہی ہے- چونکہ ان مشکلات کی وجہ سے سالانہ بجٹ پورا نہ ہو سکتا تھا اس لئے میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ اگر مالی بوجھ جلد دور نہ کر دیا گیا تو خطرہ ہے کہ کسی وقت بہت مشکل پیش آ جائے- اس غرض کی لئے چندہ خاص کا مطالبہ کیا گیا اور تین ماہ میں ایک مہینہ کی آمد دینے کی ہدایت کی گئی- ایسی تنگی کی حالت میں جب کہ ملازموں کی تخفیف اور ان کی کمیتنخواہ کا فیصلہ ہو چکا تھا زمیندار اپنے کھانے کیلئے بھی غلہ گھر نہ لا سکتے تھے اور سرکاری مالیہ میں دے دینے پر مجبور تھے اس تحریک کا کامیاب ہونا بہت مشکل تھا مگر خدا تعالیٰ کے کام انسانوں کے خیالات کے ماتحت نہیں ہوتے- چنانچہ اس تحریک کانتیجہ ایسا خوشکن نکلا کہ جو لوگ اس کے متعلق مایوسی رکھتے تھے وہ تو الگ رہے جو امید رکھتے تھے ان کی امیدوں سے بھی بہت بڑھ کر ہے- اس وقت تک اس مد میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار روپیہ آ چکا ہے اور ابھی کئی دوستوں کے وعدے باقی ہیں کیونکہ بعض معذوریوں کی وجہ سے انہوں نے مقررہ میعاد کے بعد ادا کرنے کی مہلت مانگی ہے- اس چندہ کی وجہ سے ۷۲ ہزار روپیہ قرض جو بلوں کی رو سے تھا )اس کے علاوہ کچھ اور بھی قرض ہے( یہ بل قریباً قریباً ادا ہو گئے ہیں اور شاید چار پانچ ہزار کے بل باقی ہوں گے- میں امید کرتا ہوں کہ اس مہینہ کے ختم ہونے تک یہ بھی ادا کر دیئے جائیں گے- علاوہ اس کے تین چار ماہ کا خرچ بھی ادا کر دیا گیا- جلسہ سالانہ کا خرچ بھی اسی چندہ سے نکلا- یہ ہماری جماعت کی قربانی موجودہ زمانہ میں ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ اس پر جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر کریں کم ہے- ایسے حالات میں کہ ہماری جماعت کے لوگ مالی تنگی میں مبتلاء تھے خدا تعالیٰ کی راہ میں جو قربانی انہوں نے کی ہے اس کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کیلئے خاص طور پر دعا کی جائے-
‏0] f[st ضروری نصیحت
میں آئندہ کے متعلق جماعت کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ مجلس مشاورت کے نمائندے سلسلہ کے کارکن اور نظارتیں کوشش کریں کہ آئندہ ہم پر قرض نہ ہو- میں نے اپنی ذات کے متعلق دیکھا ہے- چونکہ سلسلہ کے تمام کاموں کی ذمہ واری مجھ پر عائد ہوتی ہے اس لئے قرضہ کی وجہ سے ہر شخص جو تنگی اور تکلیف محسوس کرتا ہے اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ اس وجہ سے میری صحت درست نہیں رہ سکتی- میں امید کرتا ہوں کہ کارکن بجٹ ایسا بنائیں گے کہ سلسلہ پر قرض کا بار نہ ہو- جس حد تک خدا دے اس سے زیادہ قرض لے کر خرچ نہیں کرنا چاہئے- مجلس شوریٰ کے ممبروں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ بجٹ کے موقع پر یہ بات مدنظر رکھیں- مگر اس کے ساتھ ہی میں ایک نصیحت یہ بھی کرنی چاہتا ہوں کہ جو قوم ایک دفعہ پیچھے ہٹتی ہے وہ پیچھے ہی ہٹتی جاتی ہے- پس کوشش یہ کریں کہ جو کام شروع ہیں وہ بند نہ ہوں بلکہ ان کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اخراجات میں بچت نکالی جائے- دوسرے تربیت کے پہلو پر زور دینا چاہئے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ہمارے مبلغ کثرت سے جماعتوں میں پھریں اور تعلیم و تربیت کا انتظام کریں-
‏0] ft[s تحریک مباہلہ
اب میں ایک اہم واقعہ کو لیتا ہوں جو اس سال ہوا- پچھلے دنوں ایک صاحب کی طرف سے جنہوں نے اپنے آپ کو اہلحدیثوں کا امیر لکھا مباہلہ کی تحریک ہوئی جو ہمارے لئے بہت خوشی کی بات تھی- اس پر میں نے لکھا کہ ہماری جماعت کی طرف سے ایک ہزار آدمی مباہلہ میں شریک ہوں اور ایک ہزار اہلحدیثوں کی طرف سے- باوجود ان کے یہ اعلان کرنے کے وہ بہت زیادہ لوگ اپنی طرف سے پیش کر سکتے ہیں- انہوں نے یہ بات منظور نہ کی- مگر جب ہم نے اپنی جماعت کے لوگوں کے نام طلب کئے اور کہا کہ استخارہ کر کے اپنے آپ کو پیش کریں تو اس کا ایسا اثر پیدا ہوا جو بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں ایمان کس مضبوطی سے قائم ہے- تاروں کے ذریعہ شمولیت کی کئی درخواستیں آئیں اور ان میں لجاجت سے کہا گیا کہ انہیں شمولیت کا ضرور موقع دیا جائے- اس کثرت سے درخواستیں آئیں کہ لوگ ٹوٹے پڑتے تھے- بعض نے لکھا کہ شامل ہونے والوں کیلئے کڑی شرطیں لگائی جائیں- مثلاً یہ کہ وہ دین کیلئے زندگیاں وقف کریں- یا اپنی جائدادیں وقف کر دیں- اس طرح مقابلہ کرایا جائے اور پھر جو مقابلہ میں بڑھیں انہیں شامل کیا جائے-
‏text] ga[t میں نے بعض الٰہی حکمتوں کے ماتحت اشتہار کا جواب نہیں دیا تھا جو اب انشاء اللہ جنوری میں شائع ہو جائے گا- جن کے نام شمولیت کیلئے آ چکے ہیں اگر فریق مخالف مان لے تو انہیں تیار رہنا چاہئے تاکہ ہماری طرف سے ایک ہزار آدمی پیش ہو جائیں- وہ ایک ہزار سے جتنے کم لا سکیں لائیں مگر بہر حال جماعت ہونی چاہئے- جس قدر تعداد مانگی گئی تھی چونکہ نام اس سے زیادہ آ چکے ہیں اس لئے شرائط لگا کر ہی ان میں سے ایک ہزار کا انتخاب کیا جائے گا- اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب کو اس موقع پر آنے کی اطلاع دے دی جائے-
سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ دوم
اس سال ایک کتاب سلسلہ کی طرف سے بیش قیمت شائع ہوئی ہے جس کا نام سیرت خاتم النبینﷺ~ حصہ دوم ہے اور جو میاں بشیر احمد صاحب کی تصنیف ہے- میں نے اس کا بہت سا حصہ دیکھا ہے- اس کے متعلق مشورے بھی دیئے ہیں اور جہاں مجھے شدید اختلاف ہوا ہے وہاں میں نے اصلاح بھی کرائی ہے- میں سمجھتا ہوں رسول کریم ~صل۲~ کی جتنی سیرتیں شائع ہو چکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے- اردو سیرتوں سے ہی نہیں بلکہ بعض لحاظ سے عربی سیرتوں کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی کیونکہ اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پر تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ حاصل ہوئے اور چونکہ وہ پہلے نہیں تھے اس لئے پہلی کتابوں میں خامیاں رہ گئیں- رسول کریم ~صل۲~ کے حالات کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے اس لئے ہر دوست جو خرید سکے اسے نہ صرف یہ کتاب خریدنی چاہئے بلکہ پڑھنی چاہئے اور دوسروں تک پہنچانی چاہئے- اڑھائی روپے اس کی قیمت رکھی گئی ہے- چونکہ کسی زمانہ میں میں نے بھی طباعت کا کام کرایا ہے جب کہ اخبار الفضل جاری کیا تھا اس لئے باوجود آجکل کی گرانی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کی قیمت دو روپے ہونی چاہئے-۳~}~ معلوم نہیں آٹھ آنے زائد کس طرح لگائے گئے ہیں بہرحال جماعتوں کو یہ کتاب خریدنی چاہئے- چونکہ یہ بھی قائدہ ہے کہ اکٹھی کتابیں خریدنے پر کمیشن دیا جاتا ہے اس لئے اگر جماعتوں کے دوست مل کر دس‘ بیس‘ تیس‘ چالیس یا اس سے بھی زیادہ نسخے خریدیں تو کوئی وجہ نہیں قیمت میں رعایت نہ کی جائے- اس طرح ممکن ہے اور بھی رعایت ہو جائے لیکن اگر شائع کرنے والے ثابت کر دیں کہ لاگت کے لحاظ سے اڑھائی روپے ہی قیمت ہونی چاہئے تو بھی اکٹھی کتابیں خریدنے پر قیمت میں کمی آ جائے گی- پس جماعتوں کو چاہئے کہ اکٹھی کتابیں خریدیں- ہر شخص جسے توفیق ہو یہ کتاب لے اور اپنے بیوی بچوں کو پڑھائے یا سنائے تاکہ رسول کریم ~صل۲~ کی پاکیزہ زندگی ان کے سامنے آئے-
مردم شماری اور جماعت احمدیہ پنجاب
اس سال مردم شماری کا اہم واقعہ ہوا ہے- سب لوگ چونکہ ہمارے مخالف ہیں اس لئے سب نے ہماری تعداد کو کاٹنے اور کم کرنے کی کوشش کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے نقطہنگاہ سے ہماری تعداد حوصلہ شکن ہے مگر گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے بہت عظیم الشان ہے- پنجاب میں چونکہ ہماری تعداد ۵۲ ہزار قرار دی گئے ہے اس لئے ہمارے نزدیک مایوس کن ہے مگر گورنمنٹ کے نزدیک اس طرح عظیم الشان ہے کہ ۱۹۲۱ء کی مردم شماری میں ہماری تعداد اٹھائیس ہزار قرار دی گئی تھی اور اب ۵۲ ہزار- گویا دس سال کے عرصہ میں ہم نے سو فیصدی ترقی کی ہے اور گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے آج سے پانچویں مردم شماری تک پنجاب میں احمدی اور سکھ برابر ہو جائیں گے لیکن ہمارا نقطہ نگاہ اس سے بہت بلند ہے- ہمارے نزدیک چالیس پچاس سال بہت لمبا عرصہ ہے اس عرصہ میں تو ہم ساری دنیا کو اپنے ساتھ شامل کر لینے کی امید رکھتے ہیں-
گزشتہ مردم شماری میں ہماری جو تعداد قرار دی گئی ہے وہ یقینی طور پر غلط ہے- مثلاً جالندھر اور ہوشیارپور میں احمدیوں کی تعداد بہت کم دکھائی گئی ہے- پھر ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ کسی جگہ تین چار سو مرد اور صرف چند عورتیں احمدی لکھی ہیں حالانکہ یہ ناممکن ہے کہ جہاں اتنے مرد احمدی ہوں وہاں ان کے قریب قریب ہی احمدی عورتیں نہ ہوں- اسی طرح کئی جگہ ایسا ہوا ہے کہ مرد چند لکھے لگئے ہیں اور عورتیں بہت زیادہ لکھی گئی ہیں- معلوم ہوتا ہے اس میں غلطی ہوئی ہے اور احمدیوں کے نام کسی اور لسٹ میں شامل ہو گئے- بہر حال گورنمنٹ کے نقطہ نگاہ سے ہماری بہت بڑی ترقی ہوئے اور میں امید کرتا ہوں کہ دوست آئندہ دس سال میں کوشش کر کے اس زور سے تبلیغ کریں گے کہ اگر صحیح طور پر مردم شماری ہو تو تعداد دس لاکھ تک ہو جائے اور یہ کوئی بعید بات نہیں- خدا تعالیٰ نے ہمیں سچائی اور صداقت دی ہے- پس تبلیغ کیلئے پوری کوشش کرنی چاہئے- )الفضل ۷ جنوری ۱۹۳۲ء(
تعمیر مذبح
ایک اور امر جو ہماری جماعت میں کھٹک رہا تھا اور جس کے متعلق مخالف یہ کہتے تھے کہ ہم نے بزدلی دکھائی ہے وہ بھی حل ہو گیا یعنی قادیان میں مذبح بن گیا- ہمارے آباء کی رواداری کی وجہ سے جو یہاں کے حاکم تھے ہم نے بھی مذبح بنانے کا ارادہ چھوڑ رکھا تھا مگر بعض لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے ہماری کمزوری پر محمول کیا اور جب مذبح بنایا گیا تو انہوں نے گرا دیا- جماعت نے ان لوگوں کا مقابلہ اس لئے نہ کیا کہ میں قادیان میں موجود نہ تھا اور جماعت کے لوگوں نے خیال کیا کہ ہم پر کوئی الزام نہ آئے نہ کہ حکومت یا کسی اور سے ڈر کر انہوں نے ایسا کیا- انہوں نے اطاعت کا مومنانہ نمونہ دکھایا مگر کہا گیا کہ انہوں نے بزدلی سے کام لیا- جب جماعت کی ہتک کا سوال پیدا ہوا تو میں نے اس کی اہمیت بیان کی اور ہندوئوں سے رعایت کرنی چاہی- میں نے انہیں کہا انتظار کریں میں کوشش کروں گا کہ ایسی راہ نکل آئے جس میں ان کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے- مگر انہوں نے مجھ پر اعتماد نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ آپ تو مذبح کے بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں حکام نے نہیں بننے دیا- اس پر میں نے کہا- اچھا جائو حکام سے ہی کہو کہ نہ بننے دیں- آخر اس سال مذبح بن گیا جس میں گائیں ذبح ہو رہی ہیں اور آپ لوگ کھا رہے ہیں- اگر ہندو مجھ پر اعتماد کرتے تو اب بھی مذبح نہ بنتا آئندہ اگر ضرورت مجبور کرتی تو نہ معلوم کیا صورت ہوتی لیکن اس وقت میرا یہی ارادہ تھا کہ ان کے ساتھ رعایت کروں- اب جو کچھ کیا انہوں نے خود کیا اس لئے انہیں افسوس ہم پر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے آپ پر کرنا چاہئے-
مسلمانان کشمیر کی امداد
اب میں اس کام کا ذکر کرتا ہوں جو نہایت اہم کام ہے اور جسے بعض مخلص اصحاب کے مجبور کرنے اور انسانی ہمدردی کی وجہ سے میں نے شروع کیا اور وہ کشمیر کے متعلق کام ہے- ماہ مئی میں میں نے بعض مضامین ایسے پڑھے جن میں مسلمانان جموں پر سختی کرنے کا ذکر تھا- میں کشمیر میں کئی دفعہ جا چکا ہوں وہاں کے مسلمانوں کی دردناک حالت کا مجھے علم تھا جس کی وجہ سے میرے دل میں زخم تھا اور یہ خواہش دل میں رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ توفیق دے تو ان کی مدد کی جائے- جب میں نے مسلمانانریاست پر سختی کے حالات پڑھے تو وہ جوش ابل پڑا اور میں نے مضامین لکھے- اور جب سرینگر میں مسلمانوں پر گولیاں چلیں تو میں نے مسلمان لیڈروں کو چٹھیاں لکھیں اور انہیں مشورہ کرنے کیلئے شملہ بلایا- جب مسلمان لیڈر شملہ میں جمع ہوئے تو معلوم ہوا کہ گورنمنٹ ریاستوں کے متعلق بیرونی لوگوں کی باتیں نہیں سنتی- اس پر کہا گیا اس بارے میں کچھ نہ کیا جائے اور بعض نے تو یہ بھی کہا کہ جلسہ بھی نہ کریں لیکن میں نے کہا جلسہ ضرور کرنا چاہئے- اگر ناکام رہے تو اس میں ہماری کوئی ذلت نہیں کیونکہ نیک کام کا ہم نے ارادہ کیا ہے- آخر جلسہ کیا گیا اور ایک کمیٹی بنائی گئی- مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کو ڈکٹیٹر تجویز کرتے ہیں آپ جو کہیں گے وہ ہم کریں گے مگر میں نے کہا مجھے اور بہت کام ہیں اور میرے لئے یہ کام کرنا مشکل ہے- اس پر کہا گیا یہ بھی ثواب کا کام ہے تیس لاکھ مظلوم اور بے کس مسلمانوں کی خدمت ہے آپ ضرور یہ کام کریں- ہمارا اصول تھا کہ خلیفہ دوسری انجمنوں میں شامل نہ ہو مگر جب مجھ سے یہ کہا گیا تو میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکا- پھر خیال آیا یہ کہیں گے کہ ناکامی کے ڈر سے پیچھے ہٹتا ہے- اس پر میں نے کہا دوسری انجمنوں میں خلیفہ کے شامل نہ ہونے کا دستور ہم نے خود ہی بنایا ہے اسے خدمت خلق کیلئے توڑ دیں تو کوئی حرج نہیں- چنانچہ میں نے ڈکٹیٹر بننے سے تو انکار کر دیا لیکن کہا پریذیڈنٹ بننا قبول کر لیتا ہوں- اس کے بعد شملہ میں کام کرنا شروع کیا‘ گورنمنٹ کو سمجھانے کی کوشش کی‘ میں نے وائسرائے سے ملاقات کی مگر انہوں نے کشمیر کے ذکر پر ہی کہہ دیا کہ گورنمنٹ اس میں دخل نہیں دے سکتی لیکن آخر میں نے دلائل سے منوا لیا کہ حکومت کو دخل دینا پڑے گا- اس کے بعد حکومت کے اور بڑے بڑے افسروں سے ملنے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو بھیجا گیا اور انہیں مائل کیا کہ کشمیر کے متعلق بیرونی آدمیوں کی باتیں سننے کیلئے تیار ہوں- یہ پہلا کام تھا جو کشمیر کے متعلق کیا گیا اور اسے دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے- پھر وائسرائے نے خود اس تجویز کو پسند کیا اور زور دیا کہ ریاست سے کہا جائے مسلمانوں کا وفد قبول کرے لیکن ریاست کی بدقسمتی سے جب مہاراجہصاحب کو وفد کے متعلق تار دیا گیا جس میں معزز اصحاب شامل تھے- نواب سر ذوالفقار علی خان صاحب‘ نواب ابراہیم علی خاں صاحب آف کنجپورہ‘ مولوی اسمعیل صاحب غرنوی تو وزیراعظم کی طرف جواب آیا کہ صورت حالات پر پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے اس لئے مہاراجہصاحب وفد سے ملنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ وفد کے آنے سے ازسر نو جوش پیدا ہو جائے گا- اس پر میں نے حجت تمام کرنے کے لئے اپنے نام سے تار دیا جس میں مہاراجہ صاحب کو لکھا کہ اگرچہ کشمیر میں بظاہر امن نظر آتا ہے لیکن ایجی ٹیشن موجود ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں آپ وفد منظور کریں-اس کا جواب یہ آیا کہ چونکہ آپ خود آگاہ ہیں کہ ایجی ٹیشن کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لئے وفد کو آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی-
پہلے تو کہا گیا تھا چونکہ امن قائم ہو گیا ہے اس لئے وفد کے آنے کی ضرورت نہیں اور پھر کہا ایجی ٹیشن کی جڑیں گہری ہیں اس لئے وفد منظور نہیں کیا جا سکتا- جب ان دونوں صورتوں میں وفد کو اجازت نہیں دی جا سکتی تھی تو پھر اور کون سا وقت وفد کے آنے کا ہو سکتا تھا- یہ پہلی غلطی تھی جو ریاست نے کی جس نے اسے کمزور اور ہمارے ہاتھوں کو مضبوط بنا دیا- اب ہم لوگوں کو آسانی سے سمجھا سکتے تھے کہ ریاست امن قائم نہیں کرنا چاہتی اور اس سے ایسے لوگوں کی ہمدردی حاصل کر سکتے تھے جو اور طرح ممکن نہ تھی- اس کے بعد >کشمیر ڈے< مقرر کیا گیا- جس کی کامیابی میں ہماری جماعت نے بہت کام کیا ہر جگہ بڑے بڑے جلوس نکلے- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کشمیر کے مسلمانوں کی ہمدردی کا احساس پیدا ہو گیا- اس کے بعد برابر یہ کام جاری رہا اور موجودہ حالت ایسی ہے کہ مکمل کامیابی میں بعض روکیں نظر آتی ہیں مگر میں نے اپنے نفس سے اقرار کیا ہے اور طریق بھی یہی ہے کہ مومن جب کوئی کام شروع کرے تو اسے ادھورا نہ چھوڑے- میں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے خواہ سو سال لگیں ہماری جماعت ان کی مدد کرتی رہے گی اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ کل‘ پرسوں‘ ترسوں‘ سال‘ دو سال‘ سو دو سو سال جب تک کام ختم نہ ہو جائے ہماری جماعت کام کرتی رہے گی یہ ہمارا کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ ہے- حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعائتیں تمہیں دی جائیں گی- جب اسلامی فوج گئی تو اس قوم نے کہا‘ ہم سے تو یہ معاہدہ ہے- فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی- انہوں نے فرمایا مسلمان کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے خواہ غلام ہی کی ہو مگر یہ غلام کا نہیں بلکہ جماعت کے امام کا وعدہ ہے- پس ہماری جماعت کو مسلمانان کشمیر کی امداد جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ ان کو اپنے حقوق حاصل نہ ہو جائیں خواہ اس کیلئے کتنا عرصہ لگے اور خواہ مالی اور خواہ کسی وقت جانی قربانیاں بھی کرنی پڑیں-
ہم نے یہ کام مظلوم مسلمانوں کی امداد کیلئے شروع کیا ہے مگر بعض لوگوں نے اس کی کامیابی دیکھ کر کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم نے تبلیغ احمدیت کیلئے یہ کام شروع کیا ہے- اس کام کی وجہ سے اگر خدا تعالیٰ کسی کے دل میں ہماری محبت ڈالے تو ہم خدا تعالیٰ کے اس انعام کا انکار نہیں کر سکتے مگر اسے ہم تبلیغ احمدیت کا آلہ نہیں بنا سکتے- اس کام کو چونکہ ہماری جماعت نے ابتغاء لوجہ اللہ شروع کیا ہے تا کہ ایک مظلوم قوم آزاد ہو اس لئے کسی اپنے نفوذ کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے-
مخالفین کی فتنہ انگیزیاں
لیکن بعض لوگ غصہ سے اس کام کو دیکھتے اور جماعت کی مخالفت کر رہے ہیں- چنانچہ ایک احرار کا گروہ پیدا ہو گیا ہے جو ہر جگہ احمدیت کی مخالفت کر رہا ہے- ان کے ایک لیڈر نے بیان کیا کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے- عوام میں کبھی ہمیں رسوخ حاصل نہ ہوتا اگر ہم احمدیت کی مخالفت نہ کرتے-
ان لوگوں نے سخت مخالفت شروع کر دی ہے اور پنجاب میں ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ جسے دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد آ جاتا ہے- خصوصاً سیالکوٹ میں سخت مخالفت کی جا رہی ہے اور احمدیوں کو تکالیف پہنچائی جا رہی ہیں- اسی طرح اور شہروں میں کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم قادیان میں جھتے لے جائیں گے- کسی نے کہا ہے-
ایاز قدر خود بشناس
ہم ان سے کہتے ہیں- تم کیا اگر دنیا کی ساری حکومتوں اور ساری قوموں کو بلا کر بھی اپنے ساتھ لے آئو پھر بھی تم جیت جائو تو ہم جھوٹے )اس پر مجمع نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کئے( اگر ان لوگوں نے ایسا کیا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس چیز سے ٹکراتے ہیں- اگر انہوں نے ہم پر حملہ کیا تو چکنا چور ہو جائیں گے اور اگر ہم نے ان پر حملہ کیا تو بھی وہ چکنا چور ہو جائیں گے- یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور یہ اس کی مشیت اور ارادہ ہے کہ اسے کامیاب کرے اس کے خلاف کوئی انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی- بیشک ہم کمزور ہیں‘ ضعیف ہیں‘ اس کا ہمیں اقرار ہے مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ پر ہمیں یقین ہے اور اس کے متعلق ہم کوئی ضعف نہیں دکھا سکتے- ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو کچل دیں گے مگر یہ ضرور یقیناً اور حتمی طور پر کہتے ہیں کہ خدا ان کو کچل دے گا- خواہ وہ کتنی بڑی فوجوں کے ساتھ ہمارے خلاف کھڑے ہو جائیں- )نعرہ اللہ اکبر( لڑائی کا نام اسلامی اصطلاح میں آگ رکھا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے-
>آگ سے ہمیں مت ڈرا‘ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے<-۵~}~
پس ہم پر غالب آنے کا خیال ان کا محض وہم و گمان ہے- اگر ہم میں سے ہر ایک کو قتل کر دیں‘ پھر قتل کر کے جلا دیں اور پھر راکھ کو اڑا دیں تو بھی دنیا میں احمدیت قائم رہے گی- ہر قوم ہر ملک اور ہر براعظم میں پھیلے گی اور ساری دنیا میں احمدیت ہی احمدیت نظر آئے گی- یہ خدا کا لگایا ہوا پودا ہے اس کے خلاف جو زبان دراز ہو گی‘ وہ زبان کاٹی جائے گی‘ جو ہاتھ اٹھے گا وہ ہاتھ گرایا جائے گا- جو آواز بلند ہوگی وہ آواز بند کی جائے گی‘ جو قدم اٹھے گا وہ قدم کاٹا جائے گا- اگر انگریز‘ جرمن‘ امریکن‘ فرانسیسی سب مل جائیں تو بھی جس طرح مچھر مسلا جاتا ہے اسی طرح مسلے جائیں گے اور ساری قومیں احمدیت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی )نعرہ ہائے اللہاکبر( مخالفت کے اسی جوش و خروش میں پچھلے دنوں میں جب سیالکوٹ گیا تو ان لوگوں نے ہمارا مظاہرہ بھی دیکھ لیا- ایک جلسہ میں میری تقریر کا انتظام کیا گیا تھا- جلسہ میں جانے سے قبل ہی ان لوگوں کی نیت کا پتہ لگ گیا لیکن میں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا سٹیج پر قبضہ کر لیا جائے پھر جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا- چنانچہ ہماری جماعت کے لوگ جلسہ گاہ میں چلے گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ پندرہ سو کے قریب ہوگی اتنے ہی دوسرے مسلمانوں میں سے ہمارے ہمدرد تھے- فتنہ پردازوں نے کوشش کی کہ پتھر مار مار کر ہمیں جلسہ گاہ سے بھگا دیں- جب میں جلسہگاہ کی طرف جا رہا تھا تو دو آدمی دوڑتے ہوئے آئے اور آ کر کہنے لگے سٹیج والوں نے کہا ہے وہاں پتھر پڑ رہے ہیں آپ نہ جائیں- میں نے کہا میں ضرور جائوں گا- جب جلسہ گاہ کے قریب پہنچے تو تین لڑکے سخت گھبرائے ہوئے آئے اور کہنے لگے وہاں تو پتھروں کی بارش ہو رہی ہے آپ نہ جائیں- میں نے کہا! خواہ کچھ ہو میرا جانا ضروری ہے- جب میں وہاں پہنچا جو بہت وسیع میدان تھا تو دریا کے پانی کی طرح مخالفت کا سیلاب بہہ رہا تھا- فتنہ پردازوں نے کوشش کی کہ پتھر مار مار کر سٹیج والوں کو اٹھا دیں اور خود قبضہ کر لیں- اس وقت بعض رئوساء نے کہا جلسہ ملتوی کر دیا جائے لیکن میں نے کہا یہ ایمان کے خلاف ہے کہ مومن ڈر کر کسی مقام سے پیچھے ہٹے جلسہ ضرور ہو گا- جب سٹیج پر پہنچا تو بہت ہی زیادہ سنگباری شروع ہوگئی- یہ دیکھنے کے قابل نظارہ تھا- میرے چاروں طرف نوجوان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے چھتریاں تان لیں مگر پتھر بے تحاشا آتے تھے- تین کی خراش مجھے بھی لگی ایک تو آدھی اینٹ تھی- وہ جب آ کر میری انگلی پر گرنے لگی تو میں نے سمجھا انگلی کو مسل کر رکھ دے گی مگر جب آئی تو یوں معلوم ہوا کہ انگلی کے ساتھ چھوا کر رکھ دی گی ہے- میں نے اس موقع پر اپنی جماعت کے لوگوں سے کہہ دیا کہ ہلنا نہیں- پتھر آتے اور ہمارے لوگ زخمی ہو کر گرتے مگر اپنی جگہ سے کوئی نہ ہٹتا جو زخمی ہوتے وہ پٹی بندھوا کر پھر آ جاتے- ایک گھنٹہ دس منٹ تک مسلسلسنگ باری ہوتی رہی مگر ہماری جماعت کا ایک فرد بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا- لیکن جب ڈپٹی کمشنر نے فتنہ پردازوں سے کہا کہ بھاگ جائو ورنہ لاٹھی چارج کیا جائے گا تو بیس ہزار لوگوں میں سے پانچ منٹ کے اندر اندر وہاں ایک بھی نظر نہ آیا-
غرض ان لوگوں نے دیکھ لیا کہ ہم نہ ڈرنے والے ہیں اور نہ گھبرانے والے- ہم تو مشکلات اور شدائد اٹھانے کیلئے پیدا کئے گئے ہیں- خدا تعالی دکھاتا ہے کہ میرے بندے آگ میں پڑ کر بھی سلامت رہتے ہیں اور میری راہ میں ہر مشکل اٹھانے کیلئے تیار ہیں-
مسلمانان کشمیر کی امداد کیلئے روپیہ کی ضرورت
غرض مسلمانان کشمیر کی امداد کا کام جارہی ہے اس کیلئے زیادہ تر روپے کی ضرورت ہے- جماعت کو تحریک کی گئی تھی کہ اس کام کیلئے دوسروں سے روپے وصول کریں- اس بارے میں جو کچھ معلوم ہوا اس سے مجھے افسوس بھی ہے اور خوشی بھی- افسوس تو اس لئے کہ کام کے رک جانے کا اندیشہ ہے اور خوشی اس لئے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں غیرت پائی جاتی ہے- کئی دوستوں نے لکھا کہ کشمیر کیلئے ہم سے چندہ لے لیجئے مگر دوسروں سے نہ منگوائیے- میں نے انہیں لکھا کہ خدا کیلئے مانگنا بھی ثواب کا کام ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ ثواب بھی حاصل کرنا چاہئے- پس دوستوں کو چاہئے کہ دوسروں سے مسلمانان کشمیر کی امداد کیلئے روپیہ وصول کریں- ہر جگہ کی جماعتیں یہ کوشش کریں اور چندے بھجوائیں تاکہ کام جاری رہے- بہرحال ہم نے یہ کام چلانا ہے اگر دوسرے لوگوں سے وصول نہ کریں گے تو خود دینا پڑے گا- مگر میں چاہتا ہوں اس کام میں دوسروں کی ہمدردی بھی حاصل کی جائے اور یہ اس طرح ہو سکتی ہے کہ ان سے چندہ لیا جائے- پس امراء سے اس کام کیلئے چندہ مانگو اور اس کام کی اہمیت ان پر ظاہر کرو- لیکن اگر کوئی چندہ نہ دے تو کہو ایک پیسہ ہی دے دو- اگر یہ بھی نہ دے تو کہہ دیا جائے میں آپ کی طرف سے دے دیتا ہوں یہاں تک کہ اس کی چھپی ہوئی غیرت ظاہر ہو جائے اور اس کام میں حصہ لینے لگ جائے-
قادیان میں مکان بنانے کی تحریک
ترقی کے آثار کے ساتھ مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کرنا ضروری ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے لیکن پہلے بندہ کو کوشش کرنی چاہئے- قادیان ہمارا مرکز ہے اور اس پر دشمن کی نظر ہے- اس لئے قادیان کی ترقی کی کوشش کرنی چاہئے- حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں رہنے اور مکان بنانے پر بہت زور دیا ہے- پس میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا کہ قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو- اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ۱۲۰ رکھے گئے ہیں- ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے- چنانچہ ایک دوست نے دس حصے لئے ہیں- اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر مہینے میں ایک دوست کو دے دیا جائے جو اس روپیہ سے مکان بنا لے- اس طرح ۱۲۰ حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے- یہ تحریک میں نے جولائی میں شائع کی تھی- اس کے ماتحت ۱۴۰ حصوں کی درخواستیں آ چکی ہیں اور چونکہ اس طرح مکان بنانے کیلئے ایک جگہ مخصوص کی گئی تھی کہ وہاں مکان بنائے جائیں اس لئے بعض شاکی ہیں کہ وہ اور جگہ زمین لے چکے ہیں‘ انہیں وہاں مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ وہ بھی شامل ہو سکے- اس پر غور کیا جا رہا ہے میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں- کوئی اور دوست بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہیں تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں نام بھیج دیں- جنوری سے انشاء اللہ یہ کام شروع ہو جائے گا- پہلے ڈیڑھ سال تک قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تا کہ اس طرح جو رقم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے- اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہوگی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے کسی اور ضرورت پر خرچ نہ کیا جائے-
اقتصادی ترقی کی سکیم
ایک اور سکیم اقتصادی ترقی کیلئے بنائی گئی تھی- مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے تحریک کی تھی- اس پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تجویز کی تھی کہ ہوزری فیکٹری بنائی جائے جس کیلئے حصے فروخت کر کے سرمایہ جمع کیا جائے- اسے مجلس شوری نے پسند کیا تھا یہ اب بن گئی ہے اور رجسٹری کیلئے کاغذات گئے ہوئے ہیں- عنقریب اس کا کام شروع ہو جائے گا اس کے متعلق مجلس شوریٰ میں شامل ہونے والے دوستوں نے بشمولیت میرے یہ اقرار کیا تھا کہ جو چیزیں یہ فیکٹری بنائے گی اسی سے خریدیں گے- اس طرح اس کے گاہکوں کی تعداد مستقل پیدا ہو جائے گی- مگر شرط یہ ہو گی کہ مطلوبہ سائز کی اشیاء مہیا ہوں- یہ نہیں کہ چھوٹے سائز کی چیزیں ہوں یا چاہے جرابیں تین تین انچ لٹکتی رہیں گی تو بھی اسی کی پہنیں گے- اس کا جب اعلان ہو تو میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ایک یا زیادہ حصے لے سکتے ہیں وہ ضرور لیں گے- اس کے حصہ کی شرح دس روپے فیحصہ ہے اور ایک شخص دس بیس سو حصے خرید سکتا ہے- اس سکیم کے متعلق مفصل اطلاع بیتالمال سے حاصل کی جائے- اس سے بھی قادیان کی ترقی ہو سکتی ہے-
پس ماندگان کی امداد کی سکیم
تیسری بڑھتی ہوئی ضرورت امداد باہمی کی ہے- ہماری جماعت کے کئی ایک لوگ فوت ہو جاتے ہیں- جن کے لواحقین کے پاس کچھ نہیں ہوتا- اس کے متعلق میں نے قواعد بنائے تھے اور قانونی لحاظ سے وکلاء نے پاس کر دیئے تھے- مجلس شوریٰ میں اس کے متعلق ایک کمیٹی بنائی گئی تھی اور نوجوان بہت جوش میں نظر آتے تھے اور کہتے تھے دو ہفتہ کے اندر اندر کام ختم کر دیں گے مگر نہ معلوم ان کا ہفتہ کتنے دنوں کا ہے- احباب دعا کریں کہ وہ جلد کام ختم کریں- یہ نہایت ضروری کام ہے اور جلد سے جلد شروع کرنا چاہئے- افسوس ہے کہ یہ کام ایسے دوستوں کے ہاتھوں میں پھنس گیا جن کے ایام کسی اور ہی زبان کے ہیں- میں امید کرتا ہوں وہ اپنی لغت کو ہماری لغت کے مطابق بنا کر اب سے دو ہفتہ میں یہ کام کر دیں تا کہ پسماندگان کیلئے کچھ نہ کچھ انتظام ہو سکے- گو یہ سکیمیں اصل علاج نہیں- اصل سکیم وہی ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے یعنی زکوۃ کی مد مقرر کر دی ہے- یہ تمام ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہے- مگر یہ انتظام حکومت کے ذریعہ ہو سکتا ہے اور حکومت ابھی ہمارے پاس نہیں تا ہم میں امید کرتا ہوں دوست زکوۃ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں گے-
ہر قسم کا بیمہ ناجائز ہے
میں نے بیمہ کے متعلق گزشتہ سال کے جلسہ پر اپنے خیالات ظاہر کئے تھے مگر افسوس بعض دوستوں نے یاد نہیں رکھے- اور اب بھی خطوط آتے رہتے ہیں- حالانکہ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ جتنی سکیمیں اس قسم کی ہیں‘ وہ اسلام کے خلاف ہیں اور ان میں حصہ نہ لینا چاہئے- آج پھر میں اس بات کو دہراتا ہوں- جو دوست موجود ہیں وہ یاد رکھیں اور دوسروں کو پہنچا دیں کہ ہم ہر قسم کے بیمہ کو ناجائز سمجھتے ہیں-
سلسلہ کے اخبارات اور بعض کتب کے متعلق ارشاد
مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے اخبار پوری طرح ترقی نہیں کر رہے- مثلاً الفضل ہے- چھ سال سے اس کی تعداد پندرہ سو اور اڑھائی ہزار کے درمیان چلی آتی ہے- حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جس طرح جماعت بڑھتی ہے اخبار بھی بڑھتا- مگر جب کہ جماعت دوگنی ہو گئی ہے‘ اخبار کی تعداد اتنی ہی ہے- اس کے معنی یہ ہیں کہ جو دوست اخبار خرید سکتے ہیں وہ نہیں خریدتے اور وہ جو غریب ہیں وہ مل کر نہیں خریدتے جو افراد الگ الگ نہیں خرید سکتے وہ مل کر خرید لیں- اس طرح اخبار کی اشاعت تین چار ہزار تک چند ماہ میں ہو سکتی ہے- الفضل کے علاوہ نور اور فاروق ہیں- شائد کوئی تحریک اتنی ناکام نہ ہوئی ہوگی جتنی ان کی اشاعت کے متعلق تحریک ہوئی ہے- مگر میں بھی نہیں تھکتا- شائد کوئی سال نور اور فاروق کیلئے بھی اچھا آ جائے اور ان کی اشاعت ترقی کر جائے- یہ کام کے اخبار ہیں اور اچھا کام کر رہے ہیں-
پھر ایک کتاب ہماری نماز ہے- یہ بچوں کیلئے مفید ہے- ایک کتاب تفہیمات ربانیہ ابوالعطاء مولوی اللہ دتا صاحب کی لکھی ہوئی ہے- میں نے اسے دیکھا نہیں کہتے ہیں اچھی ہے- مولوی اللہ دتا صاحب ہونہار نوجوان ہیں اور اچھا لکھنے والے ہیں- یہ کتاب بھی مفید ہوگی- ایک اہم کتاب مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج ہے- باوجود اس کے کہ جلسہ کے موقع کی علمی تقریر کے نوٹ لکھنے کا مجھے پہلے موقع نہ ملا تھا اور ۲۵ دسمبر کی رات کو میں نے نوٹ لکھنے شروع کئے- مگر جب میں نے اس پر نظر ڈالی تو اسے پڑھنے لگ گیا- یہ اچھی لکھی گئی ہے- گو کسی کسی جگہ بزدلی دکھائی گئی ہے یعنی کشمیر کمیٹی کے ساتھ اور لیڈروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے تا کہ احراری ناراض نہ ہوں- یہ کتاب بھی بہت مفید ہے-
روزانہ اخبار کی ضرورت
احباب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ رورانہ اخبار ہونا چاہئے تا کہ سیاسی اور ملکی معاملات کے متعلق جماعت کی پالیسی عمدگی سے ظاہر ہوتی رہے- ایسا اخبار اپنی جماعت کے لوگوں کے علاوہ دوسرے بھی جو ہمدردی رکھتے ہیں خریدیں گے- میں سمجھتا ہوں مخالفت کے موجودہ طوفان میں ایسے اخبار کی ضرورت ہے- مگر سوال روپیہ کا ہے- روزانہ اخبار جاری کرنے کے لئے کم از کم دس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے- میں اس فکر میں ہوں کہ سو پچاس دوست ایسے ہوں جو یہ روپیہ مہیا کر سکیں تو اخبار جاری کر دیا جائے- لیکن جب تک ہم ایسا اخبار جاری کریں‘ انگریزی اخبارات کی امداد ضروری ہے- ہماری طرف سے انگریزی اخبار سن رائز ہے- احباب اسے خریدیں- انگریزی کے دو روزانہ اخبار مسلم آئوٹ لک اور ایسٹرن ٹائمز لاہور سے نکلتے ہیں- میں نے دیکھا ہے کہ ان کی پالیسی بھی سلجھی ہوئی ہے ان میں اگر کوئی نوٹ ہمارے خلاف بھی نکل جائے تو اس کا خیال نہیں کرنا چاہئے- عام طور پر ان کی پالیسی اچھی ہے- جو دوست انگریزی پڑھتے ہوں اور اخباروں سے دلچسپی رکھتے ہوں‘ ان سے میں ان اخباروں کے خریدنے کی سفارش کروں گا- اور مفید تجویز یہ ہے کہ ان کی ایجنسیاں کھلوا دی جائیں- اس طرح اخباریں بیچنے والوں کیلئے بھی کام نکل آئے گا-
)الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۳۲ء(
۱~}~
تذکرہ صفحہ ۳۱۲- ایڈیشن چہارم
۲~}~
حضور انور کے اس ارشاد پر بکڈپو تالیف و اشاعت نے کتاب کی قیمت دو روپے کر دی اور اکٹھی لینے کی صورت میں ایک روپیہ آٹھ آنے کر دیئے- )الفضل ۱۰- جنوری ۱۹۳۲ء(
۳~}~
تاریخ طبری صفحہ۷۲ ناشر دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ ۳۶۳ ناشر نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۶۶ء
۴~}~
تذکرہ صفحہ۳۹۷- ایڈیشن چہارم
‏a12.32
فضائل القرآن )۴(

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
فضائل القرآن
)نمبر۴(
تمام کتب الہامیہ میں سے صرف قرآن کریم کو ہی
کلام اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے
قرآن کریم کی کتب سابقہ پر فضیلت کی آٹھویں دلیل
‏]text )[tagفرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۱ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان دارالامان(
تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
جس مضمون کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا کل اعلان کیا تھا- وہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق پچھلے تین سال سے میں تقریر کر رہا ہوں- اور جو فضائل القرآن کا مضمون ہے- یعنی قرآن کریم کو وہ کون سی فضیلتیں حاصل ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف انسانی بلکہ آسمانی کتابوں پر بھی وہ فوقیت رکھتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی مضمون براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تین سو دلائل اس کے متعلق پیش کروں گا- میں نے اس کے متعلق غور کیا ہے اور اس غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعہ میں وہ تین سو دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے علوم اور آپ کے لائے ہوئے نور سے مستفیض ہو کر براہین احمدیہ کی اپنے فہم اور اپنے درجہ کے مطابق تشریح کی جا سکتی ہے-
تفسیر القرآن کا دیباچہ
براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے- تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیر کن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا دل چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس کی ظاہری تکمیل بھی ہو جائے- باطنی تکمیل تو اللہ تعالیٰ نے کر دی تین سو دلائل چھوڑ کئی لاکھ آسمانی دلائل آپ نے پیش کر دیئے- لیکن جب آسمانی دلائل پیش ہو چکے تو ان ظاہریدلائل کو بھی پیش کر دینا سلسلہ کی بہت بڑی خدمت ہو گی- جی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو وہ براہین احمدیہ کا ظاہری مقصد بھی پورا کر دے-
میں نے پہلے کچھ تمہیدی ریمارکس اس مضمون کے متعلق ۱۹۲۸ء میں بیان کئے تھے اور ۱۹۲۹-۱۹۳۰ء کی تقریروں میں چھ دلیلیں قرآن کریم کی افضلیت کے متعلق بیان کی تھیں اور ۱۹۳۰ء کے جلسہ کے موقع پر ساتویں دلیل بیان کرنے سے پہلے ہی لمبا وقت ہو گیا تھا- اور ادھر مجھے ضعف ہونے لگ گیا تھا- اس وجہ سے اس تقریر کو جلد ختم کر دینا پڑا اس ساتویں دلیل کا ایک حصہ ابھی باقی تھا- اب میں اسے بیان کروں گا اور اس کے بعد آٹھویں دلیل شروع کروں گا-
ساتویں دلیل کا بقیہ حصہ
میں اس مضمون پر پچھلے سال بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم نہ صرف اس لحاظ سے محفوظ ہے کہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں نہیں ہوئی بلکہ کوئی انسانی ملاوٹ اس میں ہو بھی نہیں سکتی- گویا قرآن کریم کو یہی فضیلت حاصل نہیں کہ باقی آسمانی کتابوں میں انسانی تصرف ہو چکا ہے مگر اس میں نہیں ہوا- بلکہ اس کی یہ بھی فضیلت ہے کہ دوسری کتابوں میں انسانی تصرف ممکن ہے مگر قرآن میں ممکن بھی نہیں- میں نے اس کے دو ثبوت پچھلے سال بیان کئے تھے اب میں تیسرا ثبوت اس امر کا کہ قرآن کریم میں تبدیلی نہیں ہو سکتی بیان کرتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کلام اللہ ہے اور کلام اللہ میں عقلا انسانی تبدیلی ناممکن ہے- شاید اکثر لوگ حیران ہوں کہ کلام اللہ تو باقی کتابیں بھی ہیں- پھر قرآن کو یہ خصوصیت کس طرح حاصل ہوئی- حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی کلام اللہ تھی- اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا- جب وہ بھی کلام اللہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان میں تو نہ صرف تبدیلی ہو سکتی ہے بلکہ ہوئی اور قرآن میں نہ ہوئی بلکہ نہیں ہو سکتی ایک ہی چیز میں یہ فرق کیوں ہے؟
میں ابھی بتائوں گا کہ یہ حیرت در حقیقت درست نہیں اور یہ قرآن کریم کی افضلیت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ یہ کلام اللہ ہے- اس وجہ سے قرآن نہ صرف غیر الہامی کتب سے افضل ہے یا الہامی کتب کی موجودہ شکل سے ممتاز ہے- بلکہ یہ اس کی ایسی فضیلت ہے کہ اس میں کبھی بھی کوئی کتاب اس کی شریک نہیں ہوئی-
پہلی الہامی کتب کلام اللہ نہیں تھیں
یہ ایک غلط خیال ہے کہ پہلی الہامی کتب بھی کلاماللہ تھیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ توریت کلاماللہ نہیں- بلکہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی- وہ بھی کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح میرا یہ مطلب نہیں کہ موجودہ انجیل کلام اللہ نہیں- یہ تو حضرت مسیح علیہ السلام پر نازل ہی نہیں ہوئی مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح پر جو انجیل نازل ہوئی وہ موجود ہوتی تو بھی ہم یہی کہتے کہ وہ کلام اللہ نہیں- وہ کتاب اللہ تھی وہ ما انزل علی المسیح تھی مگر کلام اللہ نہ تھی- اسی طرح اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر حضرت نوح علیہالسلام کے صحف آج موجود ہوتے اور اگر ایک لفظ بھی ان میں کسی انسان کا داخل نہ ہوتا تب بھی وہ کلام اللہ نہ ہوتے- ہاں کتاب اللہ ہوتے- قرآن کریم میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ استعمال ہوا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- اور قرآن ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کلام اللہہے-
اول سورۃ توبہ رکوع اول میں آتا ہے- وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مامنہ ذلک بانھم قوم لایعلمون 17] [p۱~}~خدا تعالیٰ فرماتا ہے- اے رسول! اگر مشرکوں میں سے کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو تو اسے پناہ دے- حتی یسمع کلام اللہ یہاں تک کہ تیری صحبت میں رہ کر وہ کلام اللہ سن لے- ثم ابلغہ مامنہ پھر اسے امن کی جگہ پہنچا دو- ذلک بانھم قوم لایعلمون- یہ اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ وہ قوم دین کا علم نہیں رکھتی اور جب تک علم دین حاصل نہ کرے گی کس طرح دین سیکھ سکے گی- گو کفار کے ساتھ لڑائی ہے- وہ تم سے جنگ کر رہے ہیں- اور جنگ کی حالت میں غیر کو مارنے کا تمہیں حق حاصل ہے لیکن چونکہ تم مذہبی پیشوا ہو- اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ حکومتوں کے دستور کے خلاف اگر کوئی غیر قوم کا فرد تمہارے پاس آئے اور کلام اللہ سننا چاہے- تو اسے سنائو- اگر وہ نہ مانے اور واپس جانا چاہے تو اسے واپس پہنچا دو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے- دوسری جگہ آتا ہے- افتطمعون ان یومنوا لکم وقدکان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحر فونہ من بعدما عقلوہ وھم یعلمون ۲~}~فرمایا- اے مسلمانو! کیا تم اس بات کی امید رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں مان لیں گے- بعض صحابہ ؓ سمجھتے تھے کہ یہود ہماری باتیں مان لیں گے- ان کے ساتھ مسلمانوں کی دوستیاں تھیں- تعلقات تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- کیا تمہاری ایسی دوستی ہے کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے ایک جماعت آتی ہے- قرآن سنتی ہے- پھر یحر فونہ من بعد ما عقلوہ وھم یعلمون اس کا مفہوم سمجھنے کے بعد اور بات بنا لیتی ہے- جو جھوٹ ہوتی ہے- حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں- جب قرآن کے متعلق ان کا یہ حال ہے- تو تمہاری باتیں کہاں مان سکتے ہیں-
بعض نے یہاں کلام اللہ سے تورات مراد لی ہے مگر رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں کون سے ایسے یہودی علماء تھے کہ جن کی تحریف کوئی اثر رکھتی تھی- معمولی درجہ کے لوگ تھے- اگر کوئی سردار تھا تو محلہ کے سردار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا- اس لئے مدینہ کے یہود کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اگر وہ تورات کو بدل کر پیش کریں گے تو لوگ مان لیں گے- وہ یہی کرتے تھے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی صحبت میں آتے- قرآن کریم سنتے- اور پھر بالکل جھوٹی باتیں جا کر بیان کرتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور قادیان کے متعلق لوگ غلط بیانیاں کرتے تھے- فیروزپور کے علاقہ کے ایک شخص نے دوسروں سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ قادیان گیا تو مجھے مہمان خانہ میں ٹھیرایا گیا- ہمارے پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ مرزا صاحب نے حلوہ بھیجا ہے- اور کہا ہے کہ سب مہمانوں کو کھلا دو- باقی سب مہمانوں نے تو کھا لیا لیکن میں نے موقع پا کر پھینک دیا- کچھ دیر بعد مرزا صاحب مجھے ساتھ لے کر فٹن میں سیر کو نکلے- )اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ قادیان آیا ہی نہیں تھا( رستہ میں مجھ سے باتیں کرتے رہے- اور کہا میں ہی خدا ہوں- یہ سن کر میں نے لاحول پڑھا-اس پر ان کا رنگ فق ہو گیا- اور مولوی نور الدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہنے لگے- کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ مولوی صاحب کا بھی رنگ اڑ گیا- اور انہوں نے کہا میں نے تو حلوہ بھیج دیا تھا- نہ معلوم کیا بات ہوئی- پھر میں وہاں سے بھاگ آیا- جس مجلس میں اس نے یہ بات سنائی- اسی میں ایک معزز غیر احمدی بیٹھے تھے- انہوں نے کہا- یہ شخص بڑا ہی جھوٹا ہے- میں خود قادیان سے ہو آیا ہوں- اور یہ وہاں گیا ہی نہیں- وہاں تو یکہ چلنا بھی مشکل ہے- فٹن اس کا باپ وہاں لے گیاتھا؟ اسی طرح وہ لوگ کرتے- کلام سنتے اور پھر کچھ کا کچھ جا کر دوسروں سے بیان کرتے- اس بات کا ثبوت کہ یہ انہی کے متعلق ہے یہ ہے کہ اگلی آیت میں آتا ہے- و اذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلا بعضھم الی بعض قالوا اتحدثونھم بما فتح اللہ علیکم لیحاجو کم بہ عند ربکم افلا تعقلون ۳~}~وہ مسلمانوں کے پاس آکر کہتے ہیں ہم تو ایمان لے آئے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریف کرنے والے بھی رسول کریم]2 [stf ~صل۲~ کے زمانہ کے لوگ تھے جو قرآن سن کر دوسروں کے سامنے جھوٹ بولتے اور کہتے کہ اس نے یوں کہا ہے- ووں کہا ہے- پھر اس جگہ فرماتا ہے- یسمعون کلام اللہ کلام اللہ سنتے ہیں- مگر یہودی کوئی کتاب نہیں سنتے تھے بلکہ پڑھتے تھے- اور اس میں فقرے داخل کرنے والا سن کر نہیں بلکہ پڑھ کر داخل کر سکتا ہے- اگر بائیبل مراد ہوتی تو یقرون آتا- کیونکہ بائیبل تو وہ لوگ پڑھا کرتے تھے- پس یہاں تورات کا نہیں بلکہ قرآن کا ذکر ہے- اور مراد یہ ہے کہ مسلمانوں سے سن کر اور سمجھ کر ایسے رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ لوگ مخالفت میں بڑھیں-
تیسری آیت سورۃ فتح رکوع۲ کی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- سیقول المخلفون اذاانطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ۴~}~فرمایا- وہ لوگ جن کو پیچھے چھوڑا گیا ہے- جب تم جنگ کو جاتے ہو- اور وہ سمجھتے ہیں کہ فتوحات حاصل ہونگی اور غنیمتیں ملیں گی- تو کہتے ہیں- ہمیں بھی ساتھ لے چلو وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح خدا کے کلام کو بدل دیں- اگر تم ان کو ساتھ لے جائو گے تو وہ کہیں گے دیکھو انہوں نے خدا کے کلام کو بدل دیا ہے- جس میں کہا گیا تھا کہ یہ نہیں جائیں گے- اور اگر نہ لے جائو گے تو کہیں گے یہ حریص ہیں- سب کچھ خود ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں-
غرض قرآن میں کلام اللہ کا لفظ تین جگہ آیا ہے- اور تینوں جگہ قرآن کریم کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے- کسی اور کتاب کے متعلق نہیں- اس لئے عقلاً یہی کہا جائے گا کہ قرآن ہی کلام اللہ ہے- اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم بلا دلیل یہ خیال کریں کہ قرآن کریم کے سوا کوئی اور آسمانی کتاب بھی کلام اللہ کے نام کی مستحق ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام کلاماللہ نہیں رکھا گیا- پھر اس کو ہم کلام اللہ کیسے کہہ سکتے ہیں- خصوصاً جب کہ میں آئندہ ثابت کروں گا کہ تاریخاً بھی ان میں سے کوئی کتاب کلام اللہ نہیں-
قرآن کریم میں انبیاء کو کلمہ کہا گیا ہے- الہامات کو کلمات کہا گیا ہے- بلکہ کلمات اللہ بھی کہا گیا ہے- یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلم اللہ موسی تکلیما ۵~}~موسیٰؑ سے خدا نے خوب اچھی طرح کلام کیا- لیکن باوجود اس کے حضرت موسیٰؑ کی کتاب جس کا بہت سی جگہ قرآن کریم میں ذکر آیا ہے- اسے کلام اللہ نہیں کہا گیا- جیسا کہ فرمایا- نبذ فریق من الذین اوتوا الکتب کتب اللہ وراء ظھورھم کانھم لایعلمون-۶~}~ یعنی وہ لوگ جن کو کتاب اللہ دی گئی تھی انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا گویا کہ انہیں علم ہی نہیں- پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ اور کلام اللہ میں فرق ہے- کتاب اللہ ہر اس کتاب کو جس میں خدا کی باتیں ہوں کہا جا سکتا ہے- لیکن کلام اللہ ہر ایک کو نہیں کہا جا سکتا- دوسری الہامی کتابوں کو کتاب اللہ کہا گیا ہے- اور کتاب اللہ کا لفظ قرآن کے متعلق بھی موجود ہے مگر دوسرا لفظ کلام اللہ صرف قرآن کیلئے استعمال کیا گیا ہے- کسی اور کے لئے نہیں- یہ فرق ہے اور یہ بغیر حکمت کے نہیں-
وحی الہی کی مختلف اقسام
اس فرق کو سمجھنے کیلئے یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی وحی کئی قسم کی ہوتی ہے- )۱(ایک وہ وحی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں کانوں میں پڑتی ہے- اور زبان پر جاری ہوتی ہے- مثلاً خدا تعالیٰ نے رسول کریم ~صل۲~ کو سنایا- الحمدللہ رب العلمین۷-~}~ یہ الفاظ کان میں آواز کے طور پر پڑے- اور زبان پر جاری ہوئے- اس آیت کا ا‘ ل‘ ح‘ م‘ د اور ان کے اعراب سب خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے ہیں- یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک مضمون رسول کریم ~صل۲~ کے دل میں ڈال دیا- بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے- یہ وحی سب انبیاء پر نازل ہوئی-
)۱( دوسری وحی رئویا اور کشوف ہیں- یہ الفاظ میں نہیں بلکہ نظاروں میں ہوتی ہے- مثلاً رسول کریم ~صل۲~ جب احد کی جنگ میں تشریف لے جانے لگے- تو آپﷺ~ نے دیکھا کہ آپﷺ~ کی تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے- اور دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جا رہی ہے- آپﷺ~ نے فرمایا- تلوار کی شکستگی سے مراد فتح ہے جو مشتبہ ہوگی- اور گائے کے ذبح ہونے سے مراد یہ ہے کہ کچھ احباب شہید ہونگے- یہ وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی مگر فرق یہ ہے کہ پہلی وحی الفاظ میں تھی- اور یہ نظارہ میں ہے- اور نظارہ بیان کرتے وقت اپنے الفاظ بیان کرنے پڑتے ہیں- بالکل ممکن ہے کہ اس بیان میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے-
)۳(تیسری وحی خفی ہوتی ہے جو الفاظ میں نازل نہیں ہوتی- نہ نظارہ دکھایا جاتا ہے بلکہ تفہیم اور انکشاف کے ذریعہ سے ہوتی ہے- دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ تمہارا خیال نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور الفاظ اس کو خود بنانے پڑتے ہیں- یہ سب سے ادنیٰ درجہ کی وحی ہے- اس سے بڑھ کر رئویا اور کشف کی وحی ہوتی ہے- مگر اس میں تاویل کی ضرورت ہوتی ہے اور تاویل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے- لیکن پہلی وحی جو الفاظ میں ہوتی ہے اس میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہوتا- یہ سب سے اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے-
اب اگر ایک نبی اپنی تمام وحی کو ایک کتاب میں جمع کر دے جس میں وحی کلام بھی ہو- اور وحی کشف و رئویا بھی ہو اور وحی خفی بھی نبی کے اپنے الفاظ میں ہو تو اسے ہم کتاب اللہ تو کہہ سکتے ہیں- لیکن ہم اسے کلام اللہ نہیں کہہ سکتے- کیونکہ وہ سب کی سب کلام اللہ نہیں بلکہ اس میں ایک حد تک کلام بشر بھی ہے گو مضمون سب کا سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے- اور اس وجہ سے وہ کتاب کتاب اللہہ ہے-
اب اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھ لو- دنیا کی کوئی کتاب خواہ کسی قوم کی ہو اور کس قدر ہی شد و مد کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہو کلام اللہ نہیں ہو سکتی- کیونکہ ایک بھی ایسی کتاب نہیں نہ موجودہ صورت میں اور نہ اس صورت میں جس طرح کسی نبی نے دی تھی کہ اس کے تمام کے تمام الفاظ خدا تعالیٰ کے ہوں- اس میں بعض الفاظ خدا تعالیٰ کے ہونگے بعض نظارے ہونگے اور بعض مفہوم بیان کئے گئے ہونگے- اگر آج ہم تورات سے ان زوائد کو نکال دیں جو یہودیوں نے اپنی طرف سے ملا دیئے ہیں- مثلاً اس میں لکھا ہے کہ-
>سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا- اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا<- *۷~}~ تب بھی تورات کلام اللہ نہ ہوگی- کیونکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ-
>اس وقت خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا- اس نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے- اور وہ جل نہیں جاتا<- ۸~}~
‏text] g[ta یہی حال حضرت عیسیٰؑ اور باقی انبیائؑ کی کتابوں کا ہے- پس اگر ان کتب میں سے ہم ان زوائد کو نکال بھی دیں جو بعد میں لوگوں نے داخل کر دیئے ہیں تو بھی حضرت موسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت موسیٰؑ نے اسے ترتیب دیا- اور حضرت عیسیٰؑ کی کتاب اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰؑ نے اسے بیان کیا- اور وید جب کہ وہ نازل ہوئے کلام اللہ نہ تھے- اگر دوسروں کی باتیں ان میں نہ تھیں تو رسولوں کی اپنی باتیں تو ضرور تھیں- غرض اپنی سلامتی کے زمانہ میں بھی وہ کلام اللہ نہیں تھیں-
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ کیا فضیلت ہے- اگر حضرت موسیٰؑ چاہتے تو وہ بھی کلام اللہ کو الگ جمع کر سکتے تھے- اگر تورات سے حضرت موسیٰؑ کا کلام اور انجیل سے حضرت عیسیٰؑ کا کلام نکال لیا جائے تو کیا یہ کتابیں قرآن کریم کے برابر ہو جائیں گی؟ میں کہوں گا نہیں- کیونکہ اگر حضرت موسیٰؑ ایسا کر سکتے تو کیوں نہ کر دیتے- اگر حضرت موسیٰؑ کیلئے ممکن ہوتا کہ الفاظ والی وحی کو الگ کر کے کتاب بنا دیتے تو کیوں نہ کر دیتے؟ اسی طرح اگر حضرت عیسیٰؑ کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بھی کیوں نہ کر دیتے- یہ فضیلت صرف رسول کریم ~صل۲~ کو ہی حاصل ہے کہ ساری کی ساری شریعت آپﷺ~ کو وحی کے الفاظ میں عطا ہوئی- باقی سب انبیاء کی کتب میں کچھ کلام الہی تھا- کچھ نظارے تھے اور کچھ مفہوم جسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا- اگر وہ نظاروں اور مفہوم کے حصہ کو علیحدہ کر دیتے تو ان کی کتابیں نامکمل ہو جاتیں کیونکہ ان کا سارا دین کلام اللہ میں محصور نہیں- کچھ رئویا اور کشوف ہیں اور کچھ وحی خفی کے ذریعہ سے تھا- اگر وہ کلام اللہ کو الگ کرتے- تو ان کا دین ناقص رہ جاتا- برخلاف اس کے قرآن کریم میں سب دین آ گیا ہے- اور کلام اللہ میں ہی سب دین محصور ہے- پس قرآن کے سوا اور کسی نبی کی کتاب کا نام کلام اللہ ہو ہی نہیں سکتا- یہ نام صرف قرآنکریم کا ہی ہے-
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اکمل بنانا تھا اسلام کو اکمل دین اور قرآن کو آخری کلام بنانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اسے ایسا محفوظ بناتا کہ کوئی مطلب فوت نہ ہو- اور اس کی ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ عالم الغیب خدا کے الفاظ میں سب کچھ بیان ہو- رئویا اور کشوف میں جھگڑے اور اختلاف پڑ جاتے ہیں- اس لئے شریعت اسلامیہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے الفاظ میں اتار کر اس کا نام کلام اللہ رکھا اور کہہ دیا کہ اس کے سب الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں- یہی وجہ ہے کہ قرآنکریم کے سوا اور کوئی ایسی کتاب نہیں جس کے الفاظ سے نئے نئے مضامین نکلتے چلے آئیں- صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس کے مطالب کبھی ختم نہیں ہوتے- رات دن قرآن کریم کو پڑھو- قرآن کے حقائق کبھی ختم نہ ہونگے- اس کی حکمتیں نکلتی چلی آتی ہیں اور ہر لفظ پر حکمت معلوم ہوتا ہے- پرانے زمانہ کی کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تھیلی ہوتی تھی جس میں سے ہر قسم کے کھانے نکلتے آتے تھے- مگر یہ تو وہمی اور خیالی بات تھی- قرآن کریم واقع میں ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا- اس کی جگہ دوسری کتب میں یہ بات نہیں- مثلاً مسیحی وغیرہ خود اقرار کرتے ہیں کہ اصل عبارتوں میں غلطیاں ہو گئی ہیں- میرا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء پر کلام اللہ نازل نہیں ہوتا تھا- بلکہ یہ ہے کہ ان کا سب دین اور سب کتاب کلام اللہ میں محصور نہ ہوتے تھے-
پہلی کتب میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی کتب کے بگڑنے کا موجب بھی یہی ہوا کہ وہ کلام اللہ نہ تھیں- چونکہ ان میں خود انبیاء کی تشریحات اور رئویا اور کشوف اور تفہیمات ان کے الفاظ میں ہوتے تھے اس لئے لوگوں کے دلوں میں حفاظت کا اس قدر گہرا خیال نہیں ہو سکتا تھا- جب حضرتموسیٰؑ کے صحابیوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰؑ پر وحی ہوئی جو انہوں نے لکھوا دی اور ساتھ ہی اپنا رئویا اور کشف بھی لکھا دیا- ساتھ ہی یہ بھی لکھوا دیا کہ مجھے یہ خیال آیا جو الہامی خیال ہے تو ایسی باتوں سے ان کو جرات ہوئی کہ جو بات توریت سے انہیں سوجھتی اسے بھی اس میں داخل کر دیتے- اور وہ خیال کرتے کہ اگر ہم نے اپنی تفہیم بطور یادداشت لکھ دی تو کیا حرج ہوا اور چونکہ ہر شخص اپنی تفہیم کو صحیح سمجھتا ہے- اس لئے وہ اسے خدائی امر ہی سمجھتے تھے- اس طرح وہ کتب بگڑ گئیں- حالانکہ اگر وہ سمجھتے تو نبی کی تفہیم الہامی ہونے کی وجہ سے کتاب کا حصہ تھی- مگر ان کی نہیں- بلکہ اگر کسی دوسرے کی الہامی تفہیم بھی ہو تب بھی وہ پہلے نبی کی تفہیم کی طرح اس کتاب کا حصہ نہیں کہلا سکتی- اس کے مقابلہ میں رسول کریم ~صل۲~ کے صحابہؓ نے دیکھا کہ جب وہ آپ کے پاس آتے تو آپ فرماتے- آج خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی ہے- صحابہؓ کہتے لکھ لیں- آپﷺ~ فرماتے لکھ لیا جائے- پھر فرماتے یہ کشف ہوا ہے یہ رئویا تھی- آپﷺ~ اس کا مفہوم بیان فرماتے اور کہتے یہ وحی میں نہ لکھا جائے- جب صحابہؓ دیکھتے کہ رسول کریم ~صل۲~ خود بھی وحی میں کچھ نہیں بڑھا سکتے تو وہ سمجھتے کہ ہم کس طرح اس میں کچھ داخل کر سکتے ہیں- رسول کریم ~صل۲~ اپنی طرف سے تو الگ رہا خدا تعالیٰ کی دوسری وحی کو جو رئویا اور کشف کی شکل میں ہوتی یا جس کے ذریعہ کوئی مفہوم دل میں ڈالا جاتا وہ بھی اس میں شامل نہ کرتے تو ہم کس طرح اس وحی میں کچھ شامل کر سکتے ہیں- لیکن پہلے انبیاء چونکہ اپنی تشریحات‘ رئویا‘ کشوف اور تفہیمات اپنے الفاظ میں درج کرتے تھے اس لئے ان کے پیرئوں کو اپنی تفہیمات درج کر دینے کی بھی جرات ہو گئی-
محققین بائیبل کا بھی یہی خیال ہے کہ صحف قدیمہ میں جو اضافہ ہوا- وہ اس طرح ہوا کہ جو بات کسی کو سوجھی وہ اس نے اس میں لکھ دی- لیکن قرآن کریم چونکہ خالص کلام اللہ ہے- رسول کریم ~صل۲~ اپنے دوسرے الہامات یا کشوف یا رئویا یا تفہیم اس میں داخل ہی نہ کرتے تھے- جس کا اثر صحابہؓ پر گہرا پڑا- اور وہ محسوس کرتے تھے- کہ اس کتاب میں کوئی اور بات نہیں ہونی چاہئے- حتیٰ کہ طرز تحریر اور وقف تک کو انہوں نے محفوظ رکھا- اور اس طرح بوجہ کلام اللہ ہونے کے قرآن کریم ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا-
یہ امر کہ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا اثر اس کے تبدیل نہ ہونے پر خاص طور پر پڑا ہے مخالفوں تک نے تسلیم کیا ہے- چنانچہ سرولیم میور لکھتا ہے-
‏the of feelings the in existed guarantee similar A deeply more was principle no soul whose in large, at supposedpeople the for reverence awful an than rooted۹~}~ ۔God of word
یعنی قرآن کریم کے محفوظ رہنے کی یہ بھی گارنٹی ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات نقش تھی کہ قرآن کا ہر شوشہ اور ہر لفظ خدا کی طرف سے ہے-
دوسرا فائدہ کلام اللہ کے اس طرح جمع کرنے کا یہ ہوا کہ اس میں تاریخ اور تفہیم آ ہی نہیں سکتی- مثلاً قرآن میں یہ نہیں لکھا- کہ میں فلاں جگہ گیا اور وہاں یہ الہام ہوا- بلکہ اس کی عبارت اس طرح چلتی ہے کہ ہر لفظ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے- اس لئے بندہ اس میں کوئی اور کلام داخل ہی نہیں کر سکتا- اور اگر کرے تو بالکل بے جوڑ معلوم ہوگا- لیکن پہلی کتب میں چونکہ تفہیم بھی درج تھی اس لئے کسی کا تفہیم کو درج کرنا غلطی کو ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا-
کلام اللہ کے نام میں منفرد کتاب صرف قرآن کریم ہے
غرض قرآن کریم کلام اللہ کے نام میں منفرد ہے- جس طرح کعبہ بیت اللہ کے نام میں دوسرے بیوت سے منفرد ہے- خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو بیتاللہ قرار دیا ہے اور قرآن کو کلام اللہ قرار دیا ہے- کعبہ کو بھی یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے بنوایا تھا- اگر دوسرے مقامات کو بھی خدا تعالیٰ بنواتا تو وہ منسوخ نہ ہوتے- چونکہ دوسرے گھروں نے منسوخ ہونا تھا اس لئے انہیں یہ نام نہ دیا گیا- اسی طرح قرآن کریم نے بھی چونکہ ہمیشہ قائم رہنا تھا- اسے بھی کلام اللہ کی صورت میں نازل کیا گیا اور اسے یہ نام دیا گیا تا کوئی اپنا کلام اس میں داخل نہ کر سکے-
‏text] gat[ اگر کوئی کہے کہ آپ تو کہتے ہیں قرآن میں ساری شریعت موجود ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ قرآن بھی سنت اور حدیث کا محتاج ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن میں جو باتیں آئی ہیں رسول کریم ~صل۲~ نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا- اور احادیث رسول کریم ~صل۲~ کی تفہیمات ہیں جو قرآن سے ہی حاصل ہوئیں کوئی زائد شئے نہیں- خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۱۰~}~ کہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ دین کی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ جو کچھ بتاتے ہیں- وحی الہی سے بتاتے ہیں- پس حدیث میں جو کچھ ہے وہ قرآن ہی کی تشریح اور تفہیم ہے-
قرآن کریم کی افضلیت کی آٹھویں دلیل
اب میں قرآن کریم کی فضیلت کی آٹھویںدلیل بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ ہر کلام جو نازل ہوتا ہے- اس کی عظمت اور افضلیت اس لانے والے کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے جس کے ذریعے وہ آتا ہے- کیونکہ پیغامبر پیغام کی حیثیت سے بھیجے جاتے ہیں- مثلاً ایک بادشاہ جس نے اپنے کمرہ کی صفائی کرانی ہے- وہ چوبدار سے کہے گا کہ صفائی کرنے والے کو بلائو- لیکن اگر اسے یہ کہنا ہوگا کہ فلاں بادشاہ کو ملاقات کیلئے بلائو- تو چوبدار سے نہیں کہے گا- بلکہ وزیر سے کہے گا اور وہ یہ پیغام پہنچائے گا کہ بادشاہ کی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کریں-
غرض پیغام کی افضلیت پیغامبر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے- سفراء جو بادشاہوں کے خطوط لے کر جاتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ بلند پایہ رکھنے والے ہوں-
اسی طرح اعلیٰ درجہ کے کلام کو سمجھانے کیلئے اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہوتی ہے- اگر کوئی کتاب علمی لحاظ سے بہت بلند مرتبہ رکھتی ہو تو اس کو پڑھانے والے کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی- ایم- اے کے طلباء کو پڑھانے والا معمولی قابلیت کا آدمی نہیں ہو سکتا- اگر کسی جگہ کوئی پرائمری پاس پڑھانے کیلئے بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ ابتدائی قاعدہ پڑھایا جائے گا- اگر انٹرنس پاس بھیجا جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ چوتھی پانچویں جماعت کو پڑھائے گا- اگر گریجویٹ بھیجا جاتا ہے تو نویں دسویں کو پڑھائے گا- اور اگر مشہور ڈگری یافتہ بھیجا جائے تو سمجھا جائے گا کہ بڑی جماعتوں کیلئے ہے- اسی طرح الہامی کتاب لانے والے کی شخصیت سے بھی کتاب کی افضیلت یا عدم افضلیت کا پتہ لگ جاتا ہے- لیکن اگر خود کتاب ہی اس کی افضلیت ثابت کر دے تو یہ اور بھی اعلیٰ بات سمجھی جائے گی کہ اس نے اس شق میں بھی خود ہی ثبوت دے دیا اور کسی اور ثبوت کی محتاج نہ ہوئی- غرض چونکہ اس انسان کے چلن کا جس پر کتاب نازل ہوئی ہو کتاب کی اشاعت پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے وہی کتاب کامل ہو سکتی ہے جو اس کے کریکٹر کو نمایاں طور پر پیش کرے تا کہ لوگ اس کے منبع کی نسبت شبہ میں نہ رہیں- پس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ قرآن کا منبع مشتبہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی زبان پر جاری ہوا ہے یہ ضروری ہے کہ قرآن ثابت کرے کہ اس کے لانے والا ایک مقدس اور بے عیب انسان تھا کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو باوجود کتاب کے کامل و افضل ہونے کے انسان کے دل میں ایک شبہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کا لانے والا کیسا انسان تھا اور دوسرا شبہ یہ رہتا ہے کہ نہ معلوم اس کتاب نے اس کے پہلے مخاطب پر کیا اثر کیا- اگر اس پر اچھا اثر نہیں کیا تو ہم پر کیا اثر کرے گی- اور اگر اس نے اپنے پہلے مخاطب کو فائدہ نہیں پہنچایا تو ہمیں کیا پہنچا سکے گی- پس کتاب کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے ہمیں کتاب لانے والے کے اخلاق پر اور لانے والے کی افضلیت پر بحث کرتے ہوئے اس کے پیش کردہ خیالات پر ضرور بحث کرنی ہوگی-
قرآن کریم کو یہ فضیلت بھی دوسری کتب پر حاصل ہے یعنی اس کا لانے والا انسان دوسرے انسانوں سے خواہ وہ کوئی ہوں افضل ہے- اور مزید افضلیت یہ ہے کہ قرآن کریم اس دلیل کے محفوظ رکھنے میں کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہے اس دلیل کو بھی خود اس نے ہی محفوظ کر دیا ہے- یہاں تک کہ میور جیسا متعصب انسان بھی لکھتا ہے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے حالات کا بہترین منبع قرآن ہے-۱۱~}~ اس موقع پر وہ حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ کان خلقہ القرآن *۱۱~}~یعنی رسول کریم ~صل۲~ کے اخلاق کے متعلق قرآن کو دیکھ لو- آپ کے تمام اخلاق قرآنی معیار کے مطابق تھے- پس قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کم از کم ایک شخص اپنے معیار کے مطابق پیدا کر لیا ہے اس لئے ہم اس کی تعلیم کے متعلق یہ شبہ نہیں کر سکتے کہ )۱(وہ قابل عمل نہیں )۲(یا یہ کہ اس نے اپنے لانے والے کی اصلاح نہیں کی تو دوسروں کی کیا کرے گا؟ کیونکہ محمد ~صل۲~ نے اس پر عمل کیا اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن گئے- پس کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن نے لانے والے کو کیا فائدہ پہنچایا کہ ہمیں پہنچائے گا-
میں نے جو یہ بتایا ہے کہ الہامی کتاب کی افضلیت کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس کا لانے والا دوسروں سے افضل ہو یہ بھی قرآن خود ہی بیان کرتا ہے- اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کی پہلی زندگی بھی پاک اور کامل ہونی چاہئے اور دعویٰ کے بعد کی زندگی بھی مطابق وحی ہونی چاہئے- پہلی زندگی کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے- واذا جاء تھم ایہ قالوا لن نو من حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیبالذین اجرموا صغار عنداللہ و عذاب شدید بما کانوا یمکرون فمنیرداللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء کذلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایومنون-۱۲~}~
فرمایا- ان لوگوں کے سامنے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کوئی نشان پیش کرتا ہے تو کہتے ہیں ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں وہی کچھ نہ ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملا- یعنی وحی اور الہام- خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ہر ایک پر وحی رسالت نازل کی جائے- اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کسے رسول بنانا چاہئے- وہ اس کے احوال اس کے افکار اور اس کے عادات دیکھتا ہے- جو سب سے اعلیٰ ہو اسے رسالت کا منصب دیتا ہے- تم جو یہ کہتے ہو کہ تمہیں بھی وہی کچھ ملنا چاہئے جو رسولوں کو ملتا ہے- کیا تم اپنی حالت کو نہیں دیکھتے- تم تو گندے ہو- اور گندوں کو ذلت ہی ملا کرتی ہے- رسالت تو بہت بڑی عزت ہے- یہ پاک اور اعلیٰ پایہ کے انسان کو ملتی ہے تم کو تو تمہارے مکروں کی وجہ سے عذاب ملے گا- اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے- وہ نیک کام کرتے وقت یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا پہاڑ پر چڑھ رہا ہے- جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان سے سلوک کرتا ہے-
اس میں بتایا کہ )۱(رسول بناتے وقت اللہ تعالیٰ اس آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ کیسا ہے- پس مجرموں کو رسالت نہیں مل سکتی- انہیں تو ذلت ملے گی- رسالت تو بڑی بھاری عزت ہے- )۲(جو رسول بنتا ہے وہ پہلے بھی اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے- الہی احکام کی فرمانبرداری اس کی طبیعت میں داخل ہوتی ہے- اور نیک تحریکوں کو قبول کرنے میں وہ پیش پیش ہوتا ہے-
یہ گویا قرآن نے گر بتایا کہ انبیاء کی پہلی زندگی اعلیٰ ہونی چاہئے- بیشک ایک ایسا شخص ولی ہو سکتا ہے- جو ایک زمانہ تک عیوب میں مبتلا رہا ہو- اور بعد میں اس نے توبہ کر لی ہو- لیکن نبوت کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طہارت اسے حاصل ہو- )۲(اور نبوت کی زندگی کے متعلق فرمایا
فالذین عند ربک یسبحون لہ باللیل والنھار وھم لایسئمون ۱۳~}~جن لوگوں کو خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے- وہ رات دن اپنے اعمال سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا پاک ہے- یعنی انہیں جس قدر قرب عطا ہو- اسی قدر وہ فرمانبردار ہوتے ہیں- اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اپنے ہر عمل سے ظاہر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ خدا نے یونہی انہیں نہیں چنا- گویا وہ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں- اور اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ خدا نے غلط انتخاب نہیں کیا-
‏]bus [tag رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کی پاکیزہ زندگی
اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول کریم ~صل۲~ کی ذات کے متعلق بھی اس عام قاعدہ کے پورا ہونے کا کہیں ذکر ہے؟ سو اس امر کے متعلق کہ رسول کریم ~صل۲~ کی دعویٰ سے پہلی زندگی بالکل پاک اور بے عیب تھی- خداتعالیٰ فرماتا ہے- قل لوشاء اللہ ماتلوتہ علیکم ولا ادرئکم بہ فقد لبثت فیکم عمرا من قلبہ افلا تعقلون ۱۴~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہہ علیہ وآلہ وسلم( ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں یہ کتاب پڑھ کر تمہیں نہ سناتا- یعنی اگر اللہ چاہتا تو کتاب ہی نہ بھیجتا اور نہ تمہیں اس تعلیم سے آگاہ کرتا- تمہیں علم ہے کہ میری زندگی کیسی پاکیزہ گذری ہے- معمولی عمر نہیں بلکہ چالیس سال کا لمبا عرصہ- تم اسے جانتے ہو اور اس پر کوئی عیب نہیں لگا سکتے- پھر کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اب میں نے جھوٹ بنا لیا- یہ پہلی زندگی کے متعلق رسول کریم ~صل۲~ کا اعلان ہے اور کفار کے مقابلہ میں اعلان ہے جس کا وہ انکار نہیں کر سکتے تھے-
رسول کریم ~صل۲~ کی اتباع میں خدا تعالیٰ کا قرب
نبوت کی زندگی کے متعلق ہم قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ ۱۵~}~یہ رسول اس بات کا اعلیٰ نمونہ ہے کہ قرآن نے اس کی زندگی پر کیا اثر کیا- اور یہ کسی ایک قوم یا ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے نمونہ ہے- جس کی انہیں پیروی کرنی چاہئے- ممکن ہے کوئی کہے کہ باقی انبیاء بھی ایسے ہی ہونگے- اس لئے قرآن کی ایک اور آیت میں پیش کرتا ہوں- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفوررحیم- ۱۶~}~یعنی اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو ان سے کہہ دے )یہ الفاظ بھی رسول کریم ~صل۲~ کی کتنی شان بلند کا اظہار کرتے ہیں- خدا تعالیٰ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ رسول کریم ~صل۲~ کے منہ سے کہلواتا ہے تا کہ دنیا کیلئے ایک چیلنج ہو- گویا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک چیلنج دیا- اور کہا- ان سے کہو( اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو- اور تمہارے دل میں تڑپ ہے کہ اس کے محبوب بن جائو تو آئو میں تمہیں ایسا گر بتائوں کہ تم عاشق ہو کر معشوق بن جائو اور وہ یہ ہے کہ فاتبعونی جس طرح میں کام کرتا ہوں تم بھی کرو- یہاں اطیعونی نہیں فرمایا بلکہ فاتبعونی فرمایا ہے- یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو جیسے محمد رسول اللہ ~صل۲~ عمل کر رہے ہیں ویسے ہی تم بھی کرو- یہ نہیں فرمایا کہ محمد رسول اللہ ~صل۲~ جو حکم دیں اس کی تعمیل کرو اس جگہ اتباع کا لفظ ہے جس کے معنی >قفی اثرہ< کے ہوتے ہیں یعنی اس کے نقشقدم پر چلا- اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کا لفظ تو آتا ہے مگر اتباع کا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شرائع سے بالا ہے- لیکن رسول کیلئے اتباع اور اطاعت دونوں الفاظ آتے ہیں- یعنی وہ حکم بھی دیتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے- پس فاتبعونی کے یہ معنی ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ فرماتے ہیں کہ میں اطاعت الہی سے محبوب الہی بن گیا ہوں- اگر تم بھی میرے جیسے کام کرو گے تو تم بھی محبوب الہی بن جائو گے- گویا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کا دوسرا نام رسول کریم ~صل۲~ کے اعمال رکھا ہے-
مخالفین اسلام کے اعتراضات کا رد
اس کے بعد میں ان بعض اعتراضات کو لیتا ہوں جو رسول کریم ~صل۲~ کی ذات پر کئے گئے ہیں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآن کریم نے ان کو رد کر کے آپﷺ~ کے بے عیب اور کامل ہونے کو ثابت کیا ہے- کیونکہ قرآن نے رسول کریم ~صل۲~ کی پاکیزگی ثابت کرنے کا فرض خود اپنے ذمہ لیا ہے- کسی بندہ پر نہیں چھوڑا- پہلا اعتراض جو رسول کریم ~صل۲~ کی زندگی پر ہو سکتا تھا وہ یہ ہے کہ آپ کے دعویٰ کے موجبات و محرکات کیا تھے؟ یا یہ کہ قرآن پیش کرنے کا اصل باعث کیا تھا؟ کوئی کہتا آپﷺ~ نعوذ باللہ پاگل ہیں- کوئی کہتا اسے جھوٹی خوابیں آتی ہیں- کوئی کہتا ساحر ہیں- کوئی کہتا جھوٹ بولتے ہیں- کوئی کہتا کاہن ہیں- غرض مختلف قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے- یہی خیالات آج تک چلتے چلے آتے ہیں- جب بھی کوئی مصنف رسول کریم ~صل۲~ کے خلاف لکھتا ہے تو یہی کہتا ہے آپﷺ~ جھوٹے تھے اور کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ مجنون تھے-
پہلا اعتراض
میں سب سے پہلے جنون کے اعتراض کو لیتا ہوں- چونکہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی پاکیزہ تھی کہ منکر اس کے متعلق کوئی حرف گیری نہیں کر سکتے تھے اس لئے جب آپﷺ~ کا کلام سنتے تو یہ نہ کہہ سکتے کہ آپﷺ~ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ پاگل ہے- چونکہ مشرکانہ خیالات ان لوگوں کے دلوں میں گڑے ہوئے تھے ادھر وہ سمجھتے تھے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے ان دونوں باتوں کے تصادم سے یہ خیال پیدا ہو جاتا کہ اس کی عقل ماری گئی ہے- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون ۱۷~}~جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پیش کیا تو لوگوں نے حیران ہو کر کہ اب کس طرح انکار کریں یہ کہہ دیا کہ اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ مجھ پر خدا کا کلام اترا ہے تیرا دماغ پھر گیا ہے اور تو پاگل ہو گیا ہے اس کا جواب قرآن کریم میں اس طرح دیا گیا ہے کہ ن والقلم ومایسطرون- ماانت بنعمہ ربک بمجنون- وان لک لاجرا غیر ممنون- وانک لعلی خلق عظیم- فستبصر ویبصرون- بایکم المفتون- ۱۸~}~لوگ تجھے پاگل کہتے ہیں مگر ہم دوات اور قلم کو تیری سچائی کے لئے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں- پاگل آخر کسے کہتے ہیں- اسے جس کی عقل عام انسانوں کی عقل کی سطح سے نیچے ہوتی ہے- ورنہ پاگلوں میں بھی کچھ نہ کچھ عقل تو ہوتی ہے- وہ کھانا کھاتے اور کپڑا پہنتے اور پانی پیتے ہیں- پاگل انہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ادنیٰ معیار عقل جو قرار دیا جاتا ہے- اس سے ان کی عقل کم ہو جاتی ہے- خدا تعالیٰ رسول کریم ~صل۲~ کو پاگل کہنے والوں کے متعلق فرماتا ہے- تم اسے پاگل کہتے ہو- مگر سب سے زیادہ عقلمند لکھنے پڑھنے والے عالم سمجھے جاتے ہیں اور مصنفین کو بڑا دانا تسلیم کیا جاتا ہے- ہم کہتے ہیں ان عقلمندوں کی باتیں مقابلہ کیلئے لائو- دنیا کی تمام کتابیں جو اب تک لکھی جا چکی ہیں انہیں اکٹھا کر کے لائو- یہ نہیں فرمایا کہ جو اپنی طرف سے لوگوں نے لکھی ہیں بلکہ فرمایا جو لکھی گئی ہیں- گویا مذہبی اور آسمانی کتابیں بھی لے آئو- یا اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں جو لائبریریوں میں محفوظ رکھی جاتی ہیں وہ نکال کر لائو- اگر یہ سب کی سب کتابیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ثابت ہوں تو انہیں ماننا چاہئے- کہ ما انت بنعمہ ربک بمجنون- اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو مجنون نہیں ہے-
دیکھو! یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے اور کتنی زبردست دلیل ہے- یہ اس زمانہ کے لوگوں کو دلیل دی- اور بعد میں آنے والوں کو یہ دلیل دی کہnsk] gat[ وان لک لاجرا غیر ممنون- آئندہ بھی جو لوگ تجھے پاگل کہیں گے ہم انہیں کہیں گے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( اب تو تمہارے سامنے نہیں مگر اس کے کارناموں کے نتائج تمہارے سامنے ہیں- پاگل جو کام کرتا ہے اس کی کوئی جزا نہیں ہوتی- کیا جب کوئی پاگل بادشاہ بن جاتا ہے تو اسے کوئی ٹیکس ادا کیا کرتا ہے- یا ڈاکٹر بن جاتا ہے تو کوئی اس سے علاج کراتا ہے- یا کوئی نبی بنتا ہے تو کوئی اس کا مرید بنتا ہے؟ مگر رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق فرمایا کہ ہم اس کے کاموں کا وہ اجر دیں گے جو کبھی کاٹا نہیں جائے گا- کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جب اس کے اعمال کا اجر نہ مل رہا ہوگا- جب بھی کوئی پاگل ہونے کا اعتراض کرے- اس کے سامنے یہ بات رکھ دی جائے کہ پاگل کے کام کا تو نتیجہ اس وقت بھی نہیں نکلتا جب وہ کر رہا ہوتا ہے- مگر رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق دیکھو کہ کئی سو سال گذر جانے کے بعد بھی نتائج نکل رہے ہیں-
پھر فرمایا- ہم ایک اور بات بتاتے ہیں- وانک لعلی خلق عظیم- پاگل کو پاگل کہو تو وہ تھپڑ مارے گا- لیکن عقلمند برداشت کر لے گا- اگر یہ لوگ تجھے پاگل سمجھتے تو تیری مجلس میں آکر تجھے پاگل نہ کہتے بلکہ تجھ سے دور بھاگتے- یہ جو تیرے سامنے تجھے پاگل کہتے ہیں یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تو پاگل نہیں ہے اور آئندہ آنے والوں کے لئے یہ ثبوت ہے کہ یہ پاگل کہنے والوں کے متعلق تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے برا بھلا کہنے پر چپ رہو- کیا ایسا بھی کوئی پاگل ہوتا ہے جو صرف آپ ہی پاگل کہنے والوں کے مقابلہ میں اپنے جوش کو نہ دبائے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ ہدایت کر جائے کہ مخالفوں کو برا بھلا نہ کہنا- فستبصر و یبصرون پس عنقریب تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ بایکم المفتون تم دونوں میں سے کون گمراہ ہے- اس دلیل میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ پاگل کو کبھی خدائی مدد نہیں ملتی- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی مدد سے کامیاب ہو رہے ہیں پھر ان کو پاگل کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے-
دوسرا اعتراض
دوسرا اعتراض رسول کریم ~صل۲~ پر اس حالت میں کیا گیا جب مخالفین نے دیکھا کہ پاگل کہنے پر عقلمند لوگ خود ہمیں پاگل کہیں گے- جب وہ یہ دیکھیں گے کہ جسے پاگل کہتے ہیں اس نے تو نہ کسی کو مارا ہے نہ پیٹا- بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق دکھائے ہیں- پس انہوں نے سوچا کہ کوئی اور بات بنائو- اس پر انہوں نے کہا- اسے پریشان خوابیں آتی ہیں اور ان کی وجہ سے دعویٰ کر بیٹھا ہے- چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے- بل قالوا اضغاث احلام۱۹~}~ کہتے ہیں اس کا کلام اضغاث احلام ہے کچھ مشتبہ سی خوابیں ہیں جو اسے آتی ہیں- یعنی آدمی تو اچھا ہے- اس کی بعض باتیں پوری بھی ہو جاتی ہیں لیکن بعض بری باتیں بھی اسے دکھائی دیتی ہیں- جنون اور اضغاث احلام میں یہ فرق ہے کہ جنون میں بیداری میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- لیکن اضغاث میں نیند میں دماغی نقص پیدا ہو جاتا ہے- چونکہ مخالفین دیکھتے تھے کہ رسول کریم ~صل۲~ کے معاملات میں کوئی نقص نہیں اس لئے کہتے کہ جنون سے مراد ظاہری جنون نہیں بلکہ خواب میں اسے ایسی باتیں نظر آتی ہیں- اس کا جواب قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ لقد انزلنا الیکم کتبا فیہ ذکرکم افلا تعقلون ۲۰~}~جن لوگوں کو اضغاث احلام ہوتی ہیں کیا ان کی خوابوں میں قومی ترقی کا بھی سامان ہوتا ہے؟ پراگندہ خواب تو پراگندہ نتائج ہی پیدا کر سکتی ہے- مگر اس پر تو وہ کتاب نازل کی گئی ہے جو تمہارے لئے عزت اور شرف کا موجب ہے- کیا دماغ کی خرابی سے ایسی ہی تعلیم حاصل ہوتی ہے؟ تم اپنے آپ کو عقلمند کہتے ہو- کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے؟
تیسرا اعتراض 0] f[rt
پھر بعض اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھذا ساحر ۲۱~}~کہ یہ جادو گر ہے- سحر کے معنی عربی زبان میں جھوٹ کے بھی ہوتے ہیں- مگر مخالفین نے رسول کریم ~صل۲~ کو الگ بھی جھوٹا کہا ہے- اس لئے اگر اس کے معنی جھوٹ کے ہوں تو اس کا جواب علیحدہ ہوگا- دوسرے معنی سحر کے یہ ہوتے ہیں کہ باطن میں کچھ اور ہو اور ظاہری شکل میں کچھ اور دکھائی دے- اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے- وان یروا ایہیعرضوا ویقولوا سحر مستمر ۲۲~}~اگر یہ لوگ محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اعراض کر لیتے ہیں- اور کہتے ہیں ہم ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں- یہ بڑا پرانا جادو ہے- آگے فرماتا ہے حکمہ بالغہ فما تغن النذر۲۳~}~ قرآن میں تو حکمت بالغہ ہے- قرآن میں ایسے مضامین ہیں جو دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں- سحر کے معنی تو یہ ہیں کہ ظاہر کو مسخ کر دیا جائے اور باطن آزاد رہے- مگر قرآن کا اثر تو یہ ہے کہ ظاہر کی بجائے دلوں کو بدلتا ہے- اس لئے اسے سحر نہیں کہہ سکتے-
یہ حکمت بالغہ ہے- یعنی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جو دور تک اثر کرنے والی ہیں- یہ اندرونی جذبات اور افکار پر اثر ڈالتی ہیں- مگر ان لوگوں کو یہ انذار فائدہ نہیں دیتا-
چوتھا اعتراض
پھر بعض نے کہا کہ یہ ساحر تو معلوم نہیں ہوتا ہاں مسحور ضرور ہے- یعنی خود تو بڑا اچھا ہے- لیکن کسی نے اس پر سحر کر دیا ہے اس لئے یہ ایسی باتیں کہتا پھرتا ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا ۲۴~}~یعنی ظالم لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک مسحور کی اتباع کر رہے ہیں- کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی عقل ماری گئی ہے-
اس آیت سے پہلے ملائکہ کے نزول کے متعلق معترضین کا مطالبہ ہے- جب رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور خزانے عطا کرتے ہیں )ملائکہ سے الہام اور خزانے سے معارف قرآن مراد تھے( تو مخالفین نے کہا- کہ دیکھو اسے جو ملائکہ نظر آتے ہیں- اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مسحور ہے- فرشتے ہمیں نہیں نظر آتے- خزانے ہمیں نہیں دکھائی دیتے- مگر یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں- اور خزانے مل رہے ہیں‘ کہاں ملے ہیں؟ یہ سحر کا ہی اثر ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے- اسی طرح اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-
وقال الذین لایرجون لقاء نالولا انزل علینا الملئکہ او نری ربنا لقداستکبروا فی انفسھم وعتو عتوا کبیرا- یوم یرون الملئکہ لا بشری یومئذللمجرمین ویقولون حجرا محجورا- وقدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا- اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا- ویوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلا- الملک یومئذ ن الحق للرحمن وکان یوما علی الکافرین عسیرا-۲۵~}~ یعنی یہ نادان کہتے ہیں کہ یہ مسحور ہے اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں فرشتے نظر نہیں آتے- ہمیں کیوں خزانے دکھائی نہیں دیتے- لولا انزل علینا الملئکہ ہم پر وہ فرشتے کیوں نہیں اترتے جن کے متعلق یہ کہتا ہے کہ مجھ پر اترتے ہیں- او نری ربنا یا یہ کہتا ہے کہ میں اپنے رب کو دیکھتا ہوں- ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا- یہ جاہل خیال کرتے ہیں کہ ہمیں چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے یہ جو ان کے دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تو مسحور ہے- مگر یہ اپنے نفسوں کو نہیں دیکھتے- کیا ایسے گندوں کو خدا نظر آ سکتا ہے- انہوں نے بڑی سرکشی سے کام لیا ہے- یوم یرون الملئکہ لابشری یومئذ للمجرمین- ان کو بھی فرشتے نظر آئیں گے مگر اور طرح- جب انہیں فرشتے نظر آئیں گے تو یہ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے کہ کاش یہ ہمیں دکھائی نہ دیتے- اس دن مجرموں کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی- بلکہ یہ گھبرا کر کہیں گے کہ ہم سے پرے ہی رہو- اسی طرح ہم بھی ان کو نظر تو آئیں گے مگر انعام دینے کیلئے نہیں بلکہ قدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا- ہم ان کو تباہ کرنے کیلئے ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہونگے اور ان کی حکومت کو باریک ذروں کی طرح اڑا کر رکھ دیں گے- اور وہ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک مسحور کے پیچھے چل رہے ہیں- ان کے لئے وہ بڑی خوشی کا دن ہوگا- اصحب الجنہ یومئذ خیر مستقر واحسن مقیلا- ان کو نہایت اعلیٰ جگہ اور آرم دہ ٹھکانا ملے گا- اس کی آگے تفصیل بیان کی ہے- کہ یوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملئکہ تنزیلا-اس دن آسمان سے بارش برسے گی- اور بہت سے فرشتے اتارے جائیں گے- جیسے بدر کے موقع پر ہوا- الملک یومئذ الحق للرحمن- اس دن مکہ کی حکومت تباہ کر دی جائے گی- اور حکومت محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے ہاتھ میں دے دی جائے گی- وکان یوما علی الکفرین عسیرا-اور مکہ کی فتح کا دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا-
باقی رہے خزانے سو ان کے متعلق فرمایا- وقال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا ۲۶~}~ہمارا یہ رسول قیامت کے دن اپنے خدا سے کہے گا کہ اے میرے رب! انہوں نے اگر حکومت نہ دیکھی تھی تو اس کے متعلق اعتراض کر لیتے- خزانے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے- فرشتے نہ دیکھے تھے تو اعتراض کر لیتے مگر یہ قرآن کو دیکھ کر کس طرح انکار کر سکتے تھے- مگر افسوس کہ اتنے بڑے قیمتی خرانہ کا بھی انہوں نے انکار کر دیا- حالانکہ یہ تو ان کو دکھائی دینے والی چیز تھی-
سورۃ بنی اسرائیل میں بھی یہ ذکر ہے کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو مسحور کہا جاتا تھا- چنانچہ فرماتا ہے- اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا- ۲۷~}~یعنی ظالملوگ کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور کی پیروی کر رہے ہو- پھر اس جگہ اور سورہ فرقان میں بھی اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے- انظر کیف ضربوا لک الا مثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا ۲۸~}~یعنی دیکھ یہ کیسی باتیں تیرے لئے بیان کرتے ہیں- حالانہ یہ سارا زور تیرے پیش کردہ کلام کے رد میں لگا رہے ہیں- اور ناکامی اور نامرادی کی وجہ سے ان کی جانیں نکلی جا رہی ہیں مگر پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس پر کسی جادو کا اثر ہے- اگر یہ بات ہے تو پھر اس کمزور کے مقابلہ سے یہ لوگ کیوں عاجز آ رہے ہیں- مسحور تو دوسروں کا تابع ہوتا ہے اور یہ لوگوں کو اپنے تابع کر رہا ہے- اور دوسرے تمام لوگ اس کے مقابل پر عاجز ہیں-
مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس اعتراض میں مسلمان بھی کافروں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں- اورانہوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ رسول کریم ~صل۲~ پر ایک دفعہ جادو کر دیا تھا- اور اس کے اثرات بڑے لمبے عرصہ تک آپ پر رہے- اور اس میں وہ امام بخاری کو بھی گھسیٹ لائے ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں وہ صاف طور پر پڑھتے ہیں واللہ یعصمک من الناس- ۲۹~}~خدا تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملہ سے محفوظ رکھے گا- اگر لوگ رسول کریم ~صل۲~ پر سحر کر سکتے تھے تو پھر یعصمک من الناس کس طرح درست ہوا؟ ہم تو دیکھتے ہیں رسول کریم ~صل۲~ تو الگ رہے- آپﷺ~ کے غلاموں پر بھی کوئی سحر نہیں کر سکتا- ایک شخص نے ایک احمدی دوست سے بیان کیا کہ میں مسمریزم میں بڑا ماہر ہوں- ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب کے پاس جا کر ان پر مسمریزم کروں- اور لوگوں کے سامنے ان سے عجیب و غریب حرکات کرائوں- یہ خیال کر کے میں ان کی مجلس میں گیا- اور ان پر توجہ ڈالنے لگا- مگر وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑے اطمینان کے ساتھ باتیں کرتے رہے اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا- پھر میں نے اور زور لگایا- مگر پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا- آخر میں نے سارا زور لگایا اور کوشش کی کہ آپ پر اثر ڈالوں مگر اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ایک شیر مجھ پر حملہ کرنے لگا ہے- یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا- اور واپس چلا آیا- لاہور جا کر اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو خط لکھا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ بہت بڑے ولی اللہ ہیں- کسی نے اسے کہا- کہ تم نے ولی اللہ کس طرح سمجھ لیا- ہو سکتا ہے وہ مسمریزم میں تم سے زیادہ ماہر ہوں- اس نے کہا- مسمرائیزر کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاموش ہو کر دوسرے پر توجہ ڈالے- مگر وہ اس وقت دوسروں سے باتیں کرتے رہے تھے اس لئے وہ مسمرائیزر نہیں ہو سکتے-
پانچواں اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا- کہ آپ کاہن ہیں- کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو مختلف علامات سے آئندہ کی خبریں بتاتے ہیں- چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ماتذکرون-۳۰~}~لوگ تجھے کاہن کہتے ہیں- حالانکہ تیرا کلام ایسا نہیں- مگر یہ لوگ بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے-
یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جہاں دو جگہ مسحور کا ذکر آیا ہے وہاں دونوں جگہ یہ آیت بھی ساتھ آئی ہے کہ انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا-اسی طرح کاہن کا لفظ بھی دو جگہ آیا ہے اور دونوں جگہ ذکر کا لفظ ساتھ ہے- جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاہن اور مذکر دونوں اضداد میں سے ہیں- چنانچہ سورہ طور رکوع۲ میں آتا ہے- فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون- ۳۱~}~ان لوگوں کو نصیحت کر کیونکہ تو اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہے نہ مجنون- یعنی کاہن مذکر نہیں ہو سکتا- اور مذکر کاہن نہیں ہو سکتا- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کاہن درحقیقت ارڑپوپو کی قسم کے لوگوں کو کہتے ہیں جو بعض علامتوں وغیرہ سے اخبار غیبیہ بتاتے ہیں- چونکہ رسول کریم ~صل۲~ غیب کی اخبار بتاتے تھے- بعض نادان آپﷺ~ کو کاہن کہہ دیتے تھے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی اخبار تو محض اخبار ہوتی ہیں- اور اس کی اخبار تذکیر کا پہلو رکھتی ہیں اور اصلاح نفس اور اصلاح قوم سے تعلق رکھتی ہیں پھر یہ کاہن کیونکر ہوا- کاہنوں کی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کو ایک نے بتائی تھی- مولوی صاحب نے ایک دفعہ پردہ میں بیٹھ کر ایک ارڑپوپو کو اپنا ہاتھ دکھایا- اس نے آپ کو عورت سمجھ کر خاوند کے متعلق باتیں بتانی شروع کر دیں- جب وہ بہت کچھ بیان کر چکا تو مولوی صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی داڑھی اس کے سامنے کر دی- یہ دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا- اور پھر کبھی اس محلہ میں نہیں آیا-
غرض کاہنوں کی خبریں محض خبریں ہی ہوتی ہیں کہ فلاں کے ہاں بیٹا ہوگا- فلاں مر جائے گا ان میں خدا تعالیٰ کی قدرت کااظہار نہیں ہوتا- مگر محمد رسول اللہ ~صل۲~ جو خبریں بتاتے ہیں ان کو کاہنوں والی خبریں نہیں کہا جا سکتا- یہ تو ایمان کو تازہ کرنے والی اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے جلال کو ظاہر کرنے والی ہیں- رسول کہتا ہے میں خدا کی طرف سے آیا ہوں جو میرا مقابلہ کرے گا وہ ناکام رہے گا- اور جو مجھے مان لے گا جیت جائے گا- مگر کوئی کاہن یہ نہیں کہہ سکتا- پس اللہتعالیٰ فرماتا ہے- ولا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کاہن کا قول ہے- ان کی عقل ایسی ماری گئی ہے- کہ اتنی پیشگوئیاں سنتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی قدرت اور جبروت کا اظہار ہے- مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے-
دوسرا رد اس کا یہ فرمایا- فلا اقسم بما تبصرون- ومالا تبصرون- انہ لقول رسول کریم- وما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون- ولا بقول کاھن قلیلاماتذکرون- تنزیل من رب العلمین- ولو تقول علینا بعض الا قاویل لاخذنا منہ بالیمین- ثم لقطعنا منہ الوتین- فما منکم من احد عنہ حجزین- ۳۲~}~یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کو بھی جسے تم دیکھتے ہو اور اس کو بھی جسے تم نہیں دیکھتے- یعنی اس کے ظاہری اور باطنی دونوں حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قرآن ایک عزت والے رسول کا کلام ہے- ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بات میں کاہن اور شاعر دونوں مشترک ہوتے ہیں- شاعر بھی بڑے بڑے جذبات کا اظہار کرتا ہے- اور سب کچھ بیان کرنے کے بعد ہاتھ پھیلا دیتا ہے- اسی طرح کاہن بھی خبریں بتا کر مانگتا پھرتا ہے- مگر فرمایا یہ رسول تو ایسا ہے جو اپنے پاس سے خرچ کرتا ہے- کاہن تو دوسروں سے مانگتا ہے- یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کو رسول کریم ~صل۲~ کا کلام قرار دیا گیا ہے- یہاں رسول کہہ کر اس شبہ کو رد کر دیا ہے- اور بتایا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں کیونکہ رسول وہی ہوتا ہے جو دوسرے کا پیغام لائے اگر محمد )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( اپنی طرف سے بیان کرتا تو آپ کا کلام سمجھا جاتا ہے- مگر یہ تو رسول ہے-
تیسری دلیل یہ دی کہ کاہن تو اپنے اخبار کو اپنے علم کی طرف منسوب کرتا ہے- اور کہتا ہے کہ میں نے جفر‘ رمل‘ تیروں اور ہندوسوں وغیرہ سے یہ یہ باتیں معلوم کی ہیں- وہ خدا تعالیٰ کی طرف اپنی خبروں کو منسوب نہیں کرتا- مگر یہ رسول کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے کلام پا کر سناتا ہوں اور یہ اپنے کلام کو تنزیل من رب العلمین کہتا ہے-
یہاں یہ بھی بتا دیا کہ کاہن ایسی باتیں بیان کرنے کی وجہ سے اس لئے سزا نہیں پاتا کہ وہ خدا پر تقول نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے بیان کرتا ہے- مگر رسول کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے میں بیان کرتا ہوں- اگر رسول جھوٹا ہو تو فوراً تباہ کر دیا جاتا ہے- پس یہ کاہن نہیں ہے بلکہ خدا کا سچا رسول ہے- اور اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- یہ رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے- اگر کہو کہ یہ اس طرح اپنی کہانت کو چھپاتا ہے تو یاد رکھو کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والا کبھی سزا سے نہیں بچ سکتا- اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا- خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور اس صورت میں تم میں سے کوئی بھی نہ ہوتا جو اسے خدا کے عذاب سے بچا سکتا-
چھٹا اعتراض
ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ شاعر ہیں- چنانچہ سورۃ انبیاء رکوع اول میں آتا ہے بل ھو شاعر کہ یہ فصیح باتیں بیان کر کے لوگوں پر اثر ڈال لیتا ہے- اس کا جواب سورۃ یٰسین رکوع ۵ میں یہ دیا کہ وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ- ان ھو الا ذکر و قران مبین- لینذر من کان حیا و یحق القول علی الکافرین۳۳~}~ یعنی ہم نے اسے شعر نہیں سکھایا- اور یہ تو اس کی شان کے مطابق بھی نہیں ہے- یہ تو ذکر اور قران مبین ہے- کھول کھول کر باتیں سنانے والا ہے- یہ اس لئے نازل کیا گیا ہے تا کہ اسے جس میں روحانی زندگی ہے ڈرائے اور کافروں پر حجت تمام ہو جائے-
اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اول قرآن شعر نہیں- ان لوگوں کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ نثر کو شعر کہتے ہیں- دوم- اگر کہیں کہ مجازی معنوں میں شعر کہتے ہیں کیونکہ شعر کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اندر سے باہر آئے اور شعر کو اس لئے شعر کہا جاتا ہے کہ وہ جذبات کو ابھارتا ہے تو اس کا جواب یہ دیا کہ وما ینبغی لہ یہ تو اس کی شان کے ہی مطابق نہیں کہ اس قسم کی باتیں کرے- اس کی ساری زندگی دیکھ لو- شاعر کی غرض اپنے آپ کو مشہور کرنا ہوتی ہے- مگر یہ تو کہتا ہے مثلکم میں تمہارے جیسا ہی انسان ہوں- پھر شاعر ان لوگوں کی مدح کرتا ہے جن سے اس نے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے- مگر یہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے کچھ نہیں لیتا- نہ کچھ مانگتا ہوں- پس شاعری اور اس کا لایا ہوا کلام آپس میں کوئی مناسبت نہیں رکھتے- سوم- پھر اس میں ذکر ہے حالانکہ شعر ذکر نہیں ہوتا- یعنی شاعر اندرونی جذبات کو ابھارتا ہے- شہوت اور حسن پرستی کا ذکر کرتا ہے- مگر یہ ایسی باتوں کی مذمت کرتا ہے- چہارم- پھر یہ ایسا کلام ہے جو فطرت کے اعلیٰ محاسن کو بیدار کر کے جن کی فطرت صحیح ہوتی ہے- انہیں بدیوں سے بچاتا ہے- اور جو مردہ ہوتے ہیں ان پر حجت تمام کرتا ہے- حالانکہ شاعر جذبات بہیمیہ کو ابھارتا ہے- پس اسے مجازی طور پر بھی شعر نہیں کہہسکتے-
ساتواں اعتراض
ساتواں اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ معلم ہے- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- انی لھم الذکری و قدجاء ھم رسول مبین- ثم تولوا عنہ و قالوا معلم مجنون-۳۴~}~ فرمایا ان نامعقولوں کو کہاں سے نصیحت حاصل ہوگئی- حالانکہ ان کے پاس اعلیٰ درجہ کے معارف بیان کرنے والا رسول آیا- مگر یہ لوگ اس سے منہ پھیر کر چلے گئے- اور کہہ دیا کہ اسے کوئی اور سکھا جاتا ہے اور مجنون ہے- مطلب یہ کہ یہ ایسا نادان ہے کہ لوگ اس کو اس کے باپ دادا کے دین کے خلاف باتیں بتا جاتے ہیں اور یہ آگے ان کو بیان کر دیتا ہے-
بعض لوگ رسول کریم ~صل۲~ پر اعتراض کرتے تھے اور اب تک کرتے ہیں کہ قرآن نہ آپ پر نازل ہوا- نہ آپ نے بنایا بلکہ کوئی اور شخص ان کو سکھا دیتا تھا- مکہ والے کہتے تھے کہ مکہ کا ہو کر محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کس طرح اپنی قوم کے بتوں کی مذمت کر سکتا ہے- اور ان کے مقابلہ میں دوسری قوم کے نبیوں کی تعریف کر سکتا ہے اسے کوئی اور اس قسم کی باتیں سکھا جاتا ہے- جب وہ حضرت موسیٰؑ کی تعریف قرآن میں سنتے تو کہتے کہ کوئی یہودی سکھا گیا ہے اور جب حضرتعیٰسیؑ کی تعریف سنتے تو کہتے کوئی عیسائی بتا گیا ہے- اس میں ان کو اس بات سے بھی تائید مل جاتی کہ قرآن کریم میں پہلے انبیاء کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں- اس جگہ مجنوں حقیقی معنوں میں نہیں آیا- بلکہ غصہ کا کلام ہے کیونکہ معلم اور مجنوں یکجا نہیں ہو سکتے- مطلب یہ کہ پاگل ہے- اتنا نہیں سمجھتا کہ لوگ اسے اپنے مذہب اور قوم کے خلاف باتیں سکھاتے ہیں-
‏a12.33
قرآن کریم میں دو جگہ بھی یہ ذکر آیا ہے- سورہ نحل رکوع ۱۴ میں ہے- قل نزلہ روحالقدس من ربک بالحق لیثبت الذین امنوا وھدی وبشری للمسلمین- ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی و ھذا لسان عربی مبین- ۳۵~}~فرمایا- اے محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( تو مخالفوں سے کہدے کہ قرآن کو روح القدس نے اتارا ہے تیرے رب کی طرف سے ساری سچائیاں اس میں موجود ہیں- اور اس لئے اتارا ہے کہ مومنوں کے دل مضبوط ہوں اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہو- اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کسی اور نے قرآن سکھایا ہے مگر جس کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے )عجمی وہ ہوتا ہے جو عرب نہ ہو- یا عرب تو ہو مگر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح عربی میں بیان نہ کر سکے( اور یہ جو کلام ہے یہ تو زبان عربی میں ہے اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ خوب کھول کھول کر بیان کرنے والی-
دوسری جگہ فرماتا ہے- وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک افترانہ واعانہ علیہ قوم اخرون- فقد جاوا ظلما و زورا- و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرہ واصیلا- قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض انہ کان غفورا رحیما ۳۶~}~یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ صرف ایک جھوٹ ہے- جو اس نے بنا لیا ہے اور اس بنانے میں کچھ اور بھی لوگ اس کی مدد کرتے ہیں- یہ بات کہنے میں انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے- اور بڑا افترا باندھا ہے و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا اور وہ کہتے ہیں کہ اس میں پرانے قصے ہیں جو لکھوا لیتا ہے- یعنی دو جماعتیں ہیں ایک مضمون بناتی ہے اور ایک لکھ لکھ کر دیتی ہے- فھی تملی علیہ بکرہواصیلا پھر اس کی مجلس میں اسے خوب پڑھتے ہیں- تا کہ یاد ہو جائے قل انزلہ الذی یعلمالسر فی السموت والارض کہدے- اسے خدا نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جاننے والا ہے- انہ کان غفورا رحیما وہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے-
اس اعتراض میں آج کل عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں- اور بڑے بڑے مصنف مزے لے لے کر اسے بیان کرتے ہیں- وہ کہتے ہیں- محمد )صلی الل¶ہ علیہ وسلم( کو کیا پتہ تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے- وہ عیسائی اور یہودی ہی تھے جو باتیں بنا کر ان کو دیتے تھے- چونکہ اب بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے اس لئے میں کسی قدر تفصیل سے اس کا جواب بیان کرتا ہوں-
مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ اسے بشر سکھاتا ہے- اس بشر سے مراد جبر رومی غلام تھا- جو عامر بن حضرمی کا غلام تھا- اس نے تورات اور انجیل پڑھی ہوئی تھی- جب رسولکریمصلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ تکلیف دینے لگے تو آپﷺ~ اس کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے- اس پر لوگوں نے یہ اعتراض کیا- دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ فرا اور زجاج کہتے ہیں کہ حویطب ابن عبدالعزیٰ کا ایک غلام عائش یا یعیش نامی پہلی کتب پڑھا کرتا تھا- بعد میں پختہ مسلمان ہو گیا- اور رسول کریم ~صل۲~ کی مجلس میں آتا تھا- اس کی نسبت لوگ یہ الزام لگاتے تھے- مقاتل اور ابن جبیر کا قول ہے کہ ابوفکیہ پر لوگ شبہ کرتے تھے ان کا نام یسار تھا- مذہباً یہودی تھے اور مکہ کی ایک عورت کے غلام تھے- بیہقی اور آدم بن ابی ایاس نے عبداللہ بن مسلم الحضرمی سے روایت لکھی ہے کہ ہمارے دو غلام یسار اور جبر نامی تھے دونوں نصرانی تھے اور عین التجر کے رہنے والے تھے- دنوں لوہار تھے- اور تلواریں بنایا کرتے تھے اور کام کرتے ہوئے انجیل پڑھا کرتے تھے- رسول کریم ~صل۲~ وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس ٹھہر جاتے- ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک غلام سے لوگوں نے پوچھا- کہ انک تعلم محمدا فقال لا ھو یعلمنی- کیا تم محمد )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو سکھاتے ہو؟ اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتا ہے- ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعجمی رومی غلام مکہ میں تھا- اس کا نام بلعام تھا- رسولکریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام سکھایا کرتے تھے اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو سکھاتا ہے- ۳۷~}~
مسیحی مورخ لکھتے ہیں کہ غالباً آپ نے بحیرہ راھب سے سیکھا تھا- چونکہ مسیحی تاریخوں میں بحیرہ کا کہیں پتہ نہیں ملتا- اس وجہ سے ابتداء تو وہ اس کے وجود سے ہی منکر تھے لیکن اب مسعودی کی ایک روایت کی وجہ سے وہ اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں- اور اس اعتراض کے رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانے لگے ہیں- وہ روایت یہ ہے کہ بحیرہ کو مسیحی لوگ سرگیس (SERGIUS) کہا کرتے تھے اور (SERGIUS) نامی ایک پادری کا پتہ مسیحی کتب میں مل جاتا ہے- پس اب وہ کہتے ہیں کہ اس شخص سے سیکھ کر رسول کریم )صلی اللہ علیہ وسلم( نے نعوذ باللہ قرآن بنا لیا- سیل (SALE) اس خیال کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بحیرہ کا مکہ جانا ثابت نہیں- اور یہ خیال کہ آپﷺ~ نے جوانی میں دعویٰ سے بہت پہلے بحیرہ سے قرآن سیکھا ہو عقل کے خلاف ہے- ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے مسیحیت کا کچھ علم سیکھا ہو-
وہیری ان روایتوں سے خوش ہو کر کہتا ہے کہ خواہ ناموں میں اختلاف ہی ہو لیکن یہ روایت اتنی کثرت سے آتی ہے کہ اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے- کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کے پاس بعض مسیحی اور یہودی آتے تھے- اور یہ کہ انہوں نے ان کی گفتگو سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا اور جواب کی کمزوری بتاتی ہے کہ کچھ دال میں کالا کالا ضرور ہے‘ ورنہ یہ کیا جواب ہوا کہ اس کی زبان اعجمی ہے- ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بنا دیتا ہو- اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( اسے عربی میں ڈھال لیتے ہوں )وہ اپنے اس خیال کی تصدیق میں آرنلڈ کو بھی پیش کرتا ہے( اس کے بعد وہ لکھتا ہے-:
‏reiterate to hesitate not do we that this of because is <It deliberate of charge old the۳۸>~}~۔imposture
یعنی ہم یہ پرانا الزام دہراتے ہوئے اپنے دل میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( نے جان بوجھ کر جھوٹ بنایا-
اوپر کے مضمون سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ اس اعتراض کو خاص اہمیت دیتے تھے- اور ان کے وارث مسیحیوں نے اس اہمیت کو اب تک قائم رکھا ہے- میں پہلے مسیحیوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں- اور اس شخص کو جواب میں پیش کرتا ہوں جسے عیسائی خدا کا بیٹا کہتے ہیں- حضرت مسیح پر یہ اعتراض ہوا تھا- کہ ان کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اور دیوئوں کو اس کی مدد سے نکالتے ہیں- چنانچہ لکھا ہے-:
>پھر وہ ایک گونگی بد روح کو نکال رہا تھا- اور جب وہ بدروح اتر گئی تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا اور لوگوں نے تعجب کیا- لیکن ان میں سے بعض نے کہا- یہ تو بدروحوں کے سردار بعل زبول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے بعض اور لوگ آزمائش کے لئے اس سے ایک آسمانی نشان طلب کرنے لگے مگر اس نے ان کے خیالوں کو جان کر ان سے کہا کہ جس کسی بادشاہت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہو جاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے- اور اگر شیطان بھی اپنا مخالف ہو جائے تو اس کی بادشاہت کس طرح قائم رہے گی- کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعل زبول کی مدد سے نکالتاہے<-۳۹~}~
یہاں حضرت مسیح نے ایک قانون پیش کیا ہے- جب ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ شیطان کو شیطان کی مدد سے نکالتے ہیں تو انہوں نے کہا- شیطان شیطان کو کیوں نکالے گا؟ اس قانون کے ماتحت غور کر لو کہ کیا قرآن کسی یہودی یا عیسائی کا بنایا ہوا نظر آتا ہے- اگر کسی عیسائی کا بنایا ہوا ہوتا تو عیسائیت کے رد سے کس طرح بھرا ہوا ہوتا؟ اور اگر کسی یہودی نے بنایا ہوتا تو اس میں یہودیت کا کس طرح رد ہوتا؟ عیسائیت کا کوئی فرقہ بتا دو اس کا رد قرآن سے دکھا دیا جائیگا- اسی طرح کوئی یہودی فرقہ پیش کرو- اس کا رد قرآن میں موجود ہے- کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کوئی عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کی آپ تردید کرے گا- قرآن پورے طور پر عیسائیت کو رد کرتا ہے- ہم دور نہیں جاتے پہلی سورۃ میں ہی قرآن نے عیسائیت کی جڑیں اکھیڑ کر رکھ دی ہیں- پہلی سورت جو رسول کریم ~صل۲~ پر نازل ہوئی یہ ہے-:
اقرا باسم ربک الذی خلق- خلق الانسان من علق- اقرا وربک الاکرم- الذی علم بالقلم- علم الانسان مالم یعلم- کلا ان الانسان لیطغی- انراہاستغنی- ان الی ربک الرجعی- ارئیت الذی ینھی- عبدا اذا صلی- ارئیت ان کان علی الھدی- او امر بالتقوی- ارئیت ان کذب وتولی- الم یعلم بان اللہ یری- کلا لئن لم ینتہ- لنسفعا بالناصیہ- ناصیہ کاذبہ خاطئہ- فلیدع نادیہ- سندع الزبانیہ- کلا لا تطعہ و اسجد و اقترب- ۴۰~}~
یہ سورۃ جو سب سے پہلی سورت ہے- اسی میں عیسائیت کے تمام مسائل کو رد کر دیا گیا ہے- پہلا حملہ عیسائیت پر یہ ہے کہ فرمایا- خلق الانسان من علق- عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان کی فطرت میں گناہ ہے- عیسائیت کہتی ہے- انسان فطرتاً گناہگار ہے اور عمل سے نیک نہیں بن سکتا- اس لئے مسیح کو جو پاک اور بے عیب تھا صلیب پر چڑھا دیا گیا- اسی طرح وہ انسانوں کے گناہ اپنے اوپر اٹھا کر قربان ہو گیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خلق الانسان من علق- انسان کی فطرت میں خدا کی محبت رکھی گئی ہے اور اس کی بناوٹ میں ہی خدا سے تعلق رکھا گیا ہے- اس طرح عیسائیت کا پہلا عقیدہ باطل کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ کفارہ کوئی چیز نہیں ہے اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ انسان گناہ گار ہے- لیکن اسلام شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان نیک ہے اور اس کی فطرت میں خدا سے محبت رکھی گئی ہے نہ کہ گناہ-
دوسرا جواب یہ دیا- کہ اقرا و ربک الاکرم خدا جو تیرا رب ہے اس کی یہ شان ہے کہ دوسری چیزوں میں جو صفات پائی جاتی ہیں ان سب سے اعلیٰ صفات اس میں جلوہ گر ہیں- عیسائیت کہتی ہے کہ خدا میں رحم کی صفت نہیں- وہ گناہگار کو نہیں بخش سکتا- مگر اسلام کہتا ہے- جب انسان اپنے قصور وار کو بخش سکتا ہے اور انسان میں عفو کی صفت ہے تو خدا کیوں نہیں بخش سکتا- اور اس میں کیوں یہ صفت نہیں- اس میں تو بدرجہ اتم یہ صفت ہے- کیونکہ وہ اکرم text] g[taہے- یعنی تمام صفات حسنہ میں سب سے بڑھ کر ہے-
تیسرا رد یہ کیا کہ فرمایا علم الانسان مالم یعلم- عیسائیت کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ شریعت *** ہے- لیکن قرآن نے بتایا کہ شریعت میں وہ باتیں ہیں جو انسان عقل سے دریافت نہیں کر سکتا- انسان اپنی کوشش سے شرعی احکام نہیں بنا سکتے اس لئے شریعت آتی ہے-
چوتھی زد عیسائیت پر یہ کی کہ فرمایا کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی انسان بڑا ہی سرکش ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا کی شریعت کی ضرورت نہیں- میں خود اپنی راہ نمائی کے سامان مہیا کر لونگا- یہ کہنے والے بہت نامعقول لوگ ہیں-
پانچواں رد یہ کیا کہ فرمایا- کلا لا تطعہ واسجد و اقترب- ایسے لوگوں کی باتیں کبھی نہ سننا اور اللہ کی خوب عبادت اور فرمانبرداری کرنا- رسول کریم ~صل۲~ کو فرمایا کہ کسی راہب کی بات نہ سننا جو شریعت کو *** قرار دیتا ہے بلکہ خدا کی فرمانبرداری میں لگا رہ- گویا نجات اور قرب الہی کا ذریعہ بجائے کسی کفارہ پر ایمان لانے کے سجدہ یعنی فرمانبرداری یا بالفاظ دیگر اسلام کو قرار دیاہے-
پس قرآن کی تو پہلی سورۃ نے ہی مسیحیت کو رد کیا ہے اور بادلیل رد کیا ہے- اسی طرح سورۃ فاتحہ میں عیسائیت اور یہودیت کو رد کیا گیا ہے- پھر کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنے مذہب کے خلاف خود دلائل بتایا کرتے تھے- دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں- یا تو عیسائی راہب اپنے مذہب کو ماننے والا ہوگا- یا نہ ماننے والا- اگر ماننے والا تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اپنے مذہب کی تائید کرتا- نہ کہ اس کے خلاف باتیں بتاتا- اور اگر نہ ماننے والا تھا اور سمجھتا تھا کہ جو باتیں اس کے ذہن میں آئی ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی ہیں تو اس نے ان کو خود اپنی طرف منسوب کر کے کیوں نہ پیش کیا- اسے چاہئے تھا کہ اپنے نام پر کتاب لکھتا نہ کہ لکھ کر دوسرے کو دے دیتا-
اب میں ان آیتوں اور ان میں مذکور جوابات کو لیتا ہوں- سورہ نحل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اسے کوئی اور آدمی سکھاتا ہے- اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ وہ شخص تو عجمی ہے اور قرآن کی زبان عربی ہے- وہیری کہتا ہے کہ یہ جواب بالکل بودا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے- مضمون وہ عجمی بنا کر دیتا تھا- آگے عربی میں وہ خود ڈھال لیتے تھے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کے دوسرے جواب بھی ایسے ہی بودے ہوتے ہیں- اگر قرآن کی دوسری باتیں ارفع اور اعلیٰ ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ جواب بھی ضرور اعلیٰ ہوگا- اور جو مطلب ہم سمجھتے ہیں وہ غلط ہوگا- دوسرے اگر یہ جواب بے جوڑ تھا تو کیوں مکہ والوں نے اسے رد نہ کر دیا اور کیوں وہیری والا جواب انہوں نے نہ دیا ان کا تو اپنا اعتراض تھا اور وہ اپنے اعتراض کا مطلب وہیری وغیرہ سے بہتر سمجھتے تھے- وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ تو بے معنی جواب ہے- مگر کسی ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ مکہ والوں نے کہا ہو- یہ جواب بے جوڑ ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جو اعتراض تھا اس کا جواب انہیں صحیح اور مسکت مل گیا تھا- اسی لئے وہ خاموش ہو گئے-
اب رہا یہ امر کہ اچھا پھر سوال و جواب کا مطلب کیا تھا- تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل میں کفار کا سوال ایک نہ تھا بلکہ دو تھے اور ان سوالوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی قرآنی جواب کو بے جوڑ قرار دے دیا گیا ہے- ان میں سے ایک کا ذکر سورۃ نحل میں ہے اور دوسرے کا سورۃ فرقان میں- سورۃ نحل کا وہ سوال نہیں جو سورۃ فرقان کا ہے- اور سورۃ فرقان میں وہ نہیں جو سورہ نحل میں ہے- چنانچہ سورۃ نحل میں یہ اعتراض نقل ہے کہ ایک عجمی شخص آپﷺ~ کو سکھاتا ہے- قرآن کریم نے اس کا نام نہیں لیا- مگر یہ کہا ہے کہ لسان الذی یلحدون الیہ اعجمی *۴۰~}~کہ وہ جس کی طرف قرآن کو منسوب کرتے ہیں وہ عجمی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالف کسی خاص شخص کا نام لیتے تھے- پھر یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ شخص معروف تھا اور مسلمان بھی اس شخص کا نام جانتے تھے-
سورۃ فرقان کی آیت اس سے مختلف ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ کفار کسی خاص آدمی کا نام لئے بغیر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک جماعت رسول کریم ~صل۲~ کو سکھاتی ہے- اور رات دن آپ کے پاس رہتی ہے اور آپ بعض دوسرے لوگوں سے اس جماعت کے بتائے ہوئے واقعات کو لکھوا لیتے ہیں-
یہ فرق نمایاں ہے- ایک میں ایک خاص شخص کا ذکر ہے اور دوسری میں غیر معین جماعت کا ذکر ہے- ایک میں صرف سیکھنے کا ذکر ہے اور دوسری میں بعض لوگوں سے لکھوانے کا بھی ذکر ہے- ایک میں محض تعلیم کا ذکر ہے اور دوسری میں پہلوں کے واقعات اور خیالات کے نقل کرنے کا ذکر ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ دونوں جگہ جواب الگ الگ دیا گیا ہے- یہ فرق اتنے نمایاں ہیں کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے-
اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم ~صل۲~ نے دعویٰ کیا- تو شروع میں ہی بعض غلام آپ پر ایمان لے آئے تھے- وہ پہلے بت پرست یا عیسائی یا یہودی تھے- انہیں جب صبح و شام فرصت ملتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر پہنچ جاتے اور دوسرے صحابہؓ کے ساتھ دین سیکھتے- اور نمازیں پڑھتے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکان پر یہ اجتماع ہوتا تھا- حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ ایک دن اپنے گھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکلے- کسی نے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا محمد جو صابی ہو گیا ہے اس کی خبر لینے جا رہا ہوں- اس نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو- انہوں نے کہا- کیا ہوگیا ہے؟ اس نے بتایا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو گئے ہیں- یہ سن کر وہ اپنی بہن کے گھر گئے- اور جا کر دستک دی- اس وقت ایک صحابیؓ ان کو قرآن پڑھا رہے تھے- جب انہیں معلوم ہوا کہ عمرؓ ہیں تو صحابیؓ کو چھپا دیا گیا اور بہن اور بہنوئی سامنے ہوئے- انہوں نے پوچھا کہ کس طرح آئے ہو- عمرؓ نے کہا- بتائو تم کیا کر رہے تھے- میں نے سنا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو- انہوں نے کہا- یہ غلط ہے- ہم تو صابی نہیں ہوئے- عمرؓ نے کہا میں نے تو خود تمہاری آواز سنی ہے- تم کچھ پڑھ رہے تھے- اور بہنوئی پر حملہ کر دیا- یہ دیکھ کر بہن آگے آگئی- اور ضرب اس کے سر پر پڑی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا- اس پر انہوں نے بڑے جوش سے کہا- ہم مسلمان ہو گئے ہیں- اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں- تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو- جب حضرت عمرؓنے یہ حالت دیکھی تو چونکہ وہ ایک بہادر انسان تھے- اور ان کا وار ایک عورت پر پڑا جو ان کی بہن تھی- اس سے انہیں سخت شرمندگی محسوس ہوئی- اور انہوں نے کہا کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھائو- اس نے کہا- تم مشرک اور ناپاک ہو- پہلے جا کر نہائو- پھر بتائیں گے- چنانچہ وہ نہائے اور رہا سہا غصہ بھی دور ہو گیا- اس کے بعد قرآن کی جو آیات پڑھ رہے تھے وہ انہیں سنائی گئیں- حضرت عمرؓ کا دل ان کو سن کر پگھل گیا- اور وہ بیاختیار کہہ اٹھے اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ-اس وقت وہ صحابی جن کو انہوں نے چھپایا ہوا تھا- وہ بھی باہر آگئے حضرت عمرؓ نے کہا- بتائو تمہارا سردار کہاں ہے- میں اسکے پاس جانا چاہتا ہوں- انہیں بتایا گیا- کہ فلاں گھر میں مسلمان جمع ہوتے ہیں- حضرت عمرؓ وہاں گئے- وہاں رسول کریم ~صل۲~ اور بعض صحابہؓ موجود تھے اور دروازہ بند تھا- جب حضرت عمرؓ نے دستک دی- تو صحابہ~رضی۱~ نے پوچھا کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے اپنا نام بتایا تو صحابہؓ نے ڈرتے ہوئے رسول کریم ~صل۲~ سے عرض کیا- عمرؓ آیا ہے- دروازہ کے سوراخ سے انہوں نے دیکھا کہ تلوار ان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا- دروازہ کھول دو- جب عمرؓ اندر داخل ہوئے تو رسول کریم ~صل۲~ نے ان کا کرتہ پکڑ کر کہا- عمرؓ کس نیت سے آئے ہو- انہوں نے کہا- اسلام قبول کرنے کیلئے- آپ نے فرمایا- اللہ اکبر- **]17 [p۴۰~}~یہ سن کر باقی صحابہؓ نے بھی زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا- اس واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی عادت تھی کہ صحابہؓ کو دین سکھانے کے لئے الگ مکان میں بلا لیتے- چونکہ آپ دروازہ بند کر کے بیٹھتے تھے تا کہ کفار شرارت نہ کریں- اس لئے کفار کے نزدیک اس قسم کا اجتماع بالکل عجیب بات تھی- وہ خیال کرتے تھے کہ وہاں قرآن بنایا جاتا ہے- اور چونکہ انبیاء سابق کے بعض واقعات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ تھا وہ یہ خیال کرتے کہ مسیحی اور یہودی غلام یہ باتیں ان لوگوں کو بتاتے ہیں- اور دوسرے صحابہؓ سے رسول کریم ~صل۲~ لکھوا لیتے ہیں- اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے کہ وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک ن افترئہ واعانہ علیہ قوم اخرون- فقد جاء واظلماوزورا- یعنی منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ بنا لیا گیا ہے- اور کچھ لوگ اس میں مدد دیتے ہیں- مگر ان کا یہ اعتراض بالبداہت ظلم اور جھوٹ پر مبنی ہے- کیونکہ کیا مسیحی غلام ایسا کر سکتے ہیں کہ خود اپنے دین پر ہنسی کرائیں- آخر انہیں اس کی کیا ضرورت ہے اور کیا فائدہ ہے کہ وہ اسی بات پر رات دن ماریں کھائیں اور گرم ریت پر گھسیٹے جائیں اور ایک بے فائدہ فریب میں شامل ہوں- پس ایسے مخلص لوگوں پر یہ اعتراض کر کے ان لوگوں نے ظلم اور جھوٹ سے کام لیا ہے- یہ ناممکن ہے کہ ایسے لوگ ایسا جھوٹ بنا سکیں-
دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جن کو تم پرانے قصے سمجھتے ہو وہ قصے نہیں بلکہ آئندہ کے متعلق خبریں اور پیشگوئیاں ہیں- چنانچہ فرماتا ہے- قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض-۴۱~}~ تو کہہ دے کہ یہ خدا کا کام ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے واقف ہے- کوئی انسان ایسا کلام نہیں بنا سکتا- یہ تو غیب کی باتیں ہیں اور غیب خدا ہی جانتا ہے-
اب ان جوابوں کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور مضبوط ہیں- اور وہیری کا خیال کس قدر بیمعنی ہے- اگر یہاں بھی وہی اعتراض سورہ نحل والا ہوتا تو اس کا وہی جواب کیوں نہ دیا جاتا جو وہاں دیا گیا ہے- آخر کیا وجہ تھی کہ اگر یہی سوال سورہ نحل میں تھا تو اس کا جواب بقول وہیری کے بیہودہ دیا جاتا- ایک شخص جو صحیح جواب جانتا ہے اور وہ جواب دے بھی چکا ہے اسے وہ جواب چھوڑ کر اور جواب دینے کی کیا ضرورت تھی- پس یہ جواب لغو نہیں بلکہ معترضین کی اپنی سمجھ ناقص ہے- اصل بات یہ ہے کہ سورہ نحل میں یہ سوال ہی نہیں کہ کوئی اسے مضمون بنا دیتا ہے- بلکہ یہ ذکر ہے کہ نادان لوگ ایک ایسے شخص کی نسبت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کو سکھاتا ہے جو خود عجمی تھا- یعنی اپنا مفہوم اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا تھا- صرف تھوڑی سی عربی جانتا تھا- )عجمی کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو اپنا مفہوم اچھی طرح ادا نہ کر سکے چنانچہ لغت میں یہ معنی بھی لکھے ہیں(- اس کاجواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ دوسرے کا قول انسان دو طرح نقل کر سکتا ہے- ایک تو اس طرح کہ اس کا مطلب سمجھ کر اپنے الفاظ میں ادا کر دے- اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اس کے الفاظ رٹ کر ادا کر دے- جیسے طوطا میاں مٹھو کہتا ہے- نقل انہی دو طریق سے ہو سکتی ہے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- تم جانتے ہو کہ جس شخص کی طرف تم یہ بات منسوب کرتے ہو- وہ اپنا مطلب عربی زبان میں پوری طرح ادا نہیں کر سکتا- پس جب وہ مطلب ہی بیان نہیں کر سکتا تو وہ رسول کریم ~صل۲~ کو مضامین کس طرح سمجھاتا ہے کہ وہ عربی میں اس کو بیان کر دیتے ہیں- یہ جواب ہے آدھے حصے کا- دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اس کے قول کو نقل کیا جاتا- مگر یہ کس طرح ہو سکتا تھا- وہ تو عبرانی میں کہتا تھا اور اس کی بات اگر دہرائی جاتی تو عبرانی میں ہوتی- مگر قرآن تو عبرانی یا یونانی میں نہیں جس میں توارت یا انجیل لکھی ہوئی ہیں بلکہ عربی میں ہے- پس جب نہ وہ شخص اپنا مطلب عربی میں ادا کر سکتا ہے نہ قرآن کسی دوسری زبان کی نقل ہے تو اس کی طرف یہ کتاب کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے-
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت تک تورات اور انجیل کا کوئی ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا- چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض صحابہؓ کو عبرانی اس لئے پڑھوائی گئی کہ وہ توراتوانجیل پڑھ سکیں- دوسرا ثبوت اس کا یہ ہے کہ مفسرین دنیا بھر کے علوم کا ذکر تفسیروں میں کرتے ہیں- مگر جب بائیبل کا حوالہ دیتے ہیں تو بالعموم غلط دیتے ہیں- جس کی وجہ یہی تھی کہ عربی میں بائیبل نہ تھی- وہ سن سنا کر لکھتے اس لئے غلط ہوتا-
تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بخاری میں ورقہ بن نوفل کے متعلق لکھا ہے کہ کان یکتببالکتاب العبرانی۴۲~}~ وہ عبرانی میں تورات لکھا کرتے تھے- گویا اس وقت توریت اور انجیل عربی میں نہ تھی- پس یقیناً وہ غلام عبرانی یا یونانی میں انجیل پڑھتا تھا- اور عربی میں اس کا مفہوم بیان نہ کر سکتا تھا- اس طرح اس اعتراض کو رد کر دیا گیا-
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ جبیر نے کہا تھا کہ بل ھو یعلمنی جبیر آخر کار مسلمان ہو گیا تھا- عبداللہ بن ابی سرح نے مرتد ہونے پر اس کا راز کفار کو بتا دیا تھا- اور وہ اسے سخت تکالیف دیتے تھے- آخر فتح مکہ پر آنحضرت ~صل۲~ نے روپیہ دے کر اسے آزاد کروا دیا- اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے کہا- میں نہیں سکھاتا بلکہ وہ مجھے سکھاتے تھے-
آٹھواں اعتراض
آٹھواں اعتراض یہ تھا کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے- اور اس کی طرف سے اسے کلام حاصل ہوتا ہے- اور گو کفار کا کوئی قول اس اعتراض کے متعلق نقل نہیں کیا گیا- مگر اس اعتراض کے اشارے ضرور پائے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- وما تنزلت بہ الشیطن ۴۳~}~شیطان اس کلام کو لیکر نہیں اترے- اسی طرح فرماتا ہے- ]1ksn [tag وما ھو بقول شیطن رجیم ۴۴~}~یہ شیطان رجیم کا قول نہیں ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کا یہ بھی اعتراض تھا کہ اس پر شیطان اترتا ہے- افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اعتراض کو اور پکا کر دیا ہے- اور کفار کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے- وہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار جمع ہو کر رسول کریم ~صل۲~ کے پاس آئے اور کہا کہ آپﷺ~ کے پاس ادنی درجہ کے لوگ آتے ہیں اور بڑے لوگ آپ کی باتیں نہیں سنتے- اگر آپ دین میں کچھ نرمی کر دیں تو ہم لوگ آپ کے پاس آ کر بیٹھا کریں- اس طرح دوسرے لوگ بھی آپ کے پاس آنے لگیں گے- اس پر رسول کریم ~صل۲~ کو خیال آیا کہ اگر ایسا کر دیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ مان لیں گے- )مجھے کیا ہی لطف آیا اس شخص کے اس فقرہ سے جس کا نام نولڈکے ہے- وہ لکھتا ہے- >معلوم ہوتا ہے- یہ روایت بنانے والے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کو اپنے جیسا ہی بیوقوف سمجھتے تھے<- غرض رسول کریم ~صل۲~ کو نعوذ باللہ دین میں نرمی کرنے کا خیال آیا- اتنے میں آپﷺ~ نماز پڑھنے لگے اور سورہ نجم پڑھنی شروع کی- اس وقت شیطان نے افرئیتم اللت والعزی- ومنوہ الثالثہ الاخری۴۵~}~کے بعد یہ کلمات آپﷺ~ کی زبان پر جاری کر دیئے کہ وتلک الغرانیق العلی- وان شفاعتھن لترتجی کیا تم نے لات اور عزیٰ اور منات کی حقیقت نہیں دیکھی- یہ بہت خوبصورت دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی بڑی امید ہے- چونکہ سورہ نجم کے آخر میں سجدہ آتا ہے- رسول کریم ~صل۲~ نے سجدہ کیا- تو سب کفار نے بھی آپﷺ~ کے ساتھ سجدہ کر دیا- کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ آپﷺ~ نے دین میں نرمی کر دی ہے- اور بتوں کو مان لیا ہے-
اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیا گیا ہے کہ ابن حجر جیسے آدمی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے- گو تاریخی طور پر یہ روایت بالکل غلط ہے- اور میں ثابت کر سکتا ہوں کہ یہ محض جھوٹ ہے مگر اس وقت میں کسی تاویل میں نہیں پڑتا- میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہتا ہے- اور کیا واقعہ میں رسول کریم ~صل۲~ سے ایسا ہوا؟
اس موقعہ پر میں ایک مسلمان بزرگ کا قول بھی بیان کرتا ہوں جو مجھے بے انتہا پسند ہے میں تو جب بھی یہ قول پڑھتا ہوں ان کیلئے دعا کرتاہوں- یہ بزرگ قاضی عیاض ہیں- وہ فرماتے ہیں- شیطان نے رسول کریم ~صل۲~ پر تو کوئی تصرف نہیں کیا البتہ بعض محدثین کے قلم سے شیطان نے یہ روایت لکھوا دی ہے- گویا اگر شیطان کا تسلط کسی پر کرانا ہی ہے تو کیوں نہ محدثین پر کرایا جائے- رسول کریم ~صل۲~ کو درمیان میں کیوں لایا جائے-
بعض نادان کہتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ نے سورہ نجم پڑھتے ہوئے یہ آیتیں بھی پڑھ دیں- اس پر جبریل نازل ہوا اور اس نے کہا- آپﷺ~ نے یہ کیا کیا- میں تو یہ آیتیں نہیں لایا تھا یہ تو شیطان نے جاری کی ہیں- یہ معلوم کر کے رسول کریم ~صل۲~ کو سخت فکر ہوا- خدا تعالیٰ نے اس فکر کو یہ کہہ کر دور کر دیا کہ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطن ثم یحکم اللہ ایتہ واللہ علیم حکیم- ۴۶~}~فرمایا- تم سے پہلے بھی کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں بھیجا گیا کہ جب اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو تو شیطان نے اس میں دخل نہ دے دیا ہو- پھر اللہ تعالیٰ شیطان کی بات کو مٹا دیتا ہے- اور جو اس کی اپنی طرف سے ہوتی ہے اسے قائم رکھتا ہے-
کہتے ہیں جب یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل کی تو رسول کریم ~صل۲~ کی تسلی ہو گئی- تسلی کس طرح ہوئی اسی طرح جس طرح اس بڑھیا عورت کی ہو گئی تھی جس سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تمارا کبڑا پن دور ہو جائے یا یہ کہ دوسری عورتیں بھی تمہاری طرح کبڑی ہو جائیں- اس نے کہا- مجھ پر تو دوسری عورتوں نے جس قدر ہنسی کرنی تھی کر لی ہے- اب باقی عورتیں بھی کبڑی ہو جائیں تا کہ میں بھی ان پر ہنسوں-
اس روایت کو درست قرار دینے والوں کے نزدیک رسول کریم ~صل۲~ کی کس طرح تسلی ہوئی- اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو کہہ دیا کہ تم پر ہی شیطان کا قبضہ نہیں ہوا سب نبیوں پر ہوتا چلا آیا ہے- یہ سن کر رسول کریم ~صل۲~ کا فکر دور ہو گیا- کتنی نامعقول بات ہے- ان لوگوں نے کبھی اتنا بھی نہ سوچا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- واللہ علیم حکیم اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے- کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان کا ہر نبی اور رسول پر قبضہ پا لینا بڑی حکمت کی بات ہے- اور پھر علیم کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے-
میں بیان کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کے قول سے مجھے بڑا مزہ آتا ہے- ان کا نام قاضی عیاض ہے- وہ اس قسم کی روایتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان سے یہ تو پتہ لگ گیا کہ شیطان کا تصرف ہوا- مگر رسول کریم ~صل۲~ پر نہیں بلکہ ان روایتوں کو نقل کرنے والوں کی قلموں پر ہوا ہے- یہ بہت ہی لطیف بات ہے-
قرآن کریم نے اس کا جو جواب دیا ہے- وہ اسی جگہ موجود ہے جہاں کہتے ہیں کہ شیطان نے آیتیں نازل کیں- یعنی تلک الغرانیق العلی- وان شفا عتھن لترتجی کے بعد کہتے ہیں کہ یہ آیات اتریں- الکم الذکر ولہ الانثی- تلک اذا قسمہ ضیزی- ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم واباو کم ما انزل اللہ بھا من سلطان--۴۷~}~ فرمایا- کیا تم اپنے لئے تو بیٹے قرار دیتے ہو- اور خدا کے لئے- لات‘ منات اور عزیٰ بیٹیاں- یہ کس قدر بھونڈی تقسیم ہے جو تم نے کی- یہ نام تم نے اپنے طور پر رکھ لئے ہیں- خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئے- خدا نے تو ان بتوں کے لئے اتارا ہی کچھ نہیں-
کیا ان آیات کے بعد کوئی شخص ان فقروں کو درمیان میں شامل سمجھ سکتا ہے- پس یہ آیات ہی بتا رہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل نہیں ہو سکتے- آخر کفار عربی تو جانتے تھے-
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل آیتیں بھی اس حصہ کو رد کر رہی ہیں- فرمایا وما تنزلت بہالشیطین- وما ینبغی لھم وما یستطیعون- ۲۱۹~}~یعنی اس میں شیطانی کلام کا اس قدر رد ہے کہ اسے شیطان اتار ہی کس طرح سکتا ہے- )۲(پھر اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا چاہیں- تو ملا ہی نہیں سکتے- کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی جو کچھ ملائیں گے- بے جوڑ ہوگا- جیسا کہ یہاں ہوا ہے- پھر آگے چل کر فرماتا ہے- ھل انبئکم علی من تنزلالشیطین- تنزل علی کل افاک اثیم- یلقون السمع و اکثر ھم کذبون- ۴۹~}~کیا میں تمہیں بتائوں کہ شیطان کس طرح اترتے ہیں- شیطان کا تعلق ہر افاک اور اثیم کے ساتھ ہوتا ہے- یعنی جو بڑا جھوٹ بولنے والا اور گنہگار ہو اس سے شیطان کا تعلق ہوتا ہے- مگر محمد رسول اللہ ~صل۲~ کے متعلق تو تم خود کہتے ہو کہ اس سے بڑھ کر سچا اور کوئی نہیں- اس کے امین ہونے کے بھی تم قائل ہو- پھر اس پر شیطان کا تصرف کس طرح ہو سکتا ہے- پھر فرماتا ہے- انالشیطین لیوحون الی اولیئھم لیجادلو کم ۵۰~}~کہ شیطان تو اپنی وحی شیطانوں کی طرف کرتا ہے تا کہ وہ تم سے جھگڑیں مومنوں کی طرف نہیں کرتا-
اب دیکھو وہ روائتیں جو بیان کی جاتی ہیں رسول کریم ~صل۲~ پر کیسا خطرناک الزام لگاتی ہیں- شیطان تو اپنے دوست کو ہی کہے گا- کہ یہ ہتھیار لے جا اور لڑ- کسی مسلمان کو وہ اپنے خلاف کس طرح بتائے گا-
اسی طرح سورہ نحل رکوع۱۳ میں آتا ہے انہ لیس لہ سلطن علی الذین امنوا وعلی ربھم یتوکلون- انما سلطنہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون- ۵۱~}~یعنی شیطان کا مومنوں پر کوئی تسلط نہیں ہو سکتا جو خدا پر توکل رکھتے ہیں- شیطان کی حکومت تو انہی پر ہوتی ہے جو اس کے دوست ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں- محمد ~صل۲~ تو ساری عمر شرک کا رد کرتے رہے- ان سے شیطان کا کیا تعلق ہو سکتا ہے-
نواں اعتراض
نواں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ شخص مفتری اور کذاب ہے- سورہ ص میں آتا ہے- دشمنوں نے کہا- ھذا ساحر کذاب اسی طرح سورہ نحل ۱۴ میں آتا ہے- قالوا انما انت مفتر ۵۲~}~مخالف کہتے ہیں کہ تو مفتری ہے اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ وماکان ھذا القران ان یفتری من دون اللہ ولکن تصدیقالذی بین یدیہ وتفصیل الکتب لاریب فیہ من رب العلمین- ام یقولونافترئہ قل فاتوا بسورہ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین- ۵۳~}~فرمایا- یہ قرآن خدا کے سوا کسی اور سے بنایا ہی نہیں جا سکتا- اس کے اندر تو پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق ہے- پھر اس کے اندر الہامی کتابوں کی تفصیل ہے اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں- یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے- یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے پاس سے بنا لی ہے- ان سے کہو کہ تم اس جیسی کوئی ایک ہی سورت لے آئو- اکیلے نہیں سب کو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم واقع میں سچے ہو-
قرآن کریم کے متعلق پانچ دعوے
اس آیت میں پانچ دعوے قرآن کریم کے متعلق پیش کئے گئے ہیں- اول یہ کہ قرآن اپنی دلیل آپ ہے اور اسے خدا کے سوا کوئی بنا ہی نہیں سکتا- اس میں ایسے امور ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں یعنی امور غیبیہ- فرماتا ہے- قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الااللہ ۵۴~}~کہ آسمان اور زمین میں خدا کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا- مطلب یہ کہ قرآن میں غیب کی باتیں ہیں اور یہ خدا کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا-
دوسرا دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں-
تیسرا یہ کہ اس میں پہلی کتابوں کی تشریح ہے-
چوتھا یہ کہ ہر امر کو دلیل کے ساتھ ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا-
پانچواں یہ کہ قرآن خدا کی صفت رب العلمین کے ماتحت نازل ہوا ہے تا کہ اس کا فیضان سب قوموں کیلئے وسیع ہو-
فرماتا ہے- اگر قرآن افترا ہے تو ان پانچ صفات والی کوئی سورۃ پیش کرو- اگر ان صفات والی سورۃ لے آئو گے تو ہم مان لیں گے کہ انسان ایسی کتاب بنا سکتا ہے- لیکن اگر تم سارے مل کر بھی نہ بنا سکو- تو معلوم ہوا کہ ایسی کتاب کوئی انسان نہیں بنا سکتا-
اس سے معلوم ہوا کہ جس سورۃ )یونس( میں یہ دعویٰ کئے گئے ہیں اس سے پہلے جس قدر قرآن اتر چکا تھا- اس میں یہ پانچ باتیں پائی جاتی تھیں- اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا قرآن کے اس حصہ میں یہ پانچوں باتیں ہیں- اگر ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے-
علم غیب
پہلی بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن میں وہ باتیں ہیں جو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا- یعنی قرآن میں علم غیب ہے- اس کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کی نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ایک سورۃ کوثر ہے جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے- خداتعالیٰ فرماتا ہے انا اعطینک الکوثر- فصل لربک وانحر- ان شانئک ھوالابتر- رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق دشمن کہا کرتا کہ یہ ابتر ہے- اس ¶کی کوئی نرینہ اولاد نہیں- اس کے بعد اس کا جانشین کون بنے گا- اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ تو ابتر نہیں بلکہ تیرا دشمن ابتر ہے- رسول کریم ~صل۲~ کس طرح ابتر نہیں- اور آپ کا دشمن کس طرح ابتر ہے- اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے انا اعطینک الکوثر- اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہم نے تیرے متعلق فیصلہ کر دیا ہے کہ ہم تجھے ایک عظیم الشان جماعت دیں گے- جو روحانی طور پر تیری فرزند ہوگی- اور اس میں بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے انسان ہوں گے- پھر فرماتا ہے- فصل لربک وانحر- اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو اس خوشی میں خوب نمازیں پڑھ‘ دعائیں کر اور قربانیاں کر- پھر جب ہم تیری جماعت کو اور بڑھانے لگیں تو تو اور عبادت کر اور قربانیاں کر- کیونکہ ہم تیری روحانی نسل کو بڑھانے والے ہیں- اور یہ روحانی نسل اس طرح بڑھے گی کہ ابوجہل کا بیٹا چھینیں گے اور تجھے دے دیں گے- وہ ابتر ہو جائے گا- اور تو اولاد والا ہوگا- یہی حال دوسروں کا ہوگا- ان کے بیٹے چھین چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- ان کے بیٹے رسول کریم ~صل۲~ کو دیئے گئے- اور وہ روحانی لحاظ سے ابتر ہو گئے- یہی وجہ تھی کہ جوں جوں رسول کریم ~صل۲~ کو کامیابی ہوتی گئی- کفار زیادہ تکلیفیں دیتے گئے- اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا جو سورۃ کوثر میں بیان کی گئی ہے- اللہ تعالیٰ نے سورۃ انبیاء رکوع۴ میں ذکر کیا ہے- فرماتا ہے- افلا یرون انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا افھم الغالبون- ۵۵~}~فرمایا- کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ ہم ان کے ملک کو اس کے کناروں کی طرف سے چھوٹا کرتے جا رہے ہیں- اور ہر روز ان کی اولادیں محمد رسول اللہ ~صل۲~ کو دے رہے ہیں- کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ غالب آئیں گے- وہ غالب کس طرح آ سکتے ہیں جب کہ ہم ان کے جگر گوشے کاٹ کاٹ کر تیرے حوالے کرتے جا رہے ہیں- اور انہی ابتر کہنے والوں کے بچے اور عزیز اسلام میں داخل ہو کر اس کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں اور کفار کو بے اولاد اور آنحضرت ~صل۲~ کو بااولاد ثابت کر رہے ہیں- چنانچہ مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے جو بیٹے اور بھتیجے رسول کریم ~صل۲~ کو دیئے گئے ان میں حضرت عثمانؓ‘ حضرت زبیرؓ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ‘ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ‘ حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ‘ حضرت ابوعبیدہؓ‘ حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ‘ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ تھے- یہ لوگ ابتدا میں ہی ایمان لے آئے تھے- اور وہ رئوساء جو رسولکریم ~صل۲~ کو دکھ دینے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے یہ ان کے بیٹے اور بھانجے اور بھتیجے تھے- ان کے مسلمان ہو جانے کی وجہ سے کفار کو اور زیادہ غصہ آتا کہ یہ اپنے باپ دادا کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں- اور محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( کی تائید کرتے ہیں- حضرت عثمان بن مظعون ؓ‘ ولیدبنمغیرہ کے عزیز تھے- اور اس نے ان کو پناہ دی ہوئی تھی- حضرت عثمانؓ ایک دن باہر جا رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان پر سخت ظلم کیا جا رہا ہے- مگر آپ کو کسی نے کچھ نہ کہا- انہوں نے ولید کے پاس جا کر کہا کہ میں اب آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا- کیونکہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو اس طرح دکھ دیا جائے اور میں آپ کی پناہ میں محفوظ رہوں- اللہ تعالیٰ مومن کے ایمان کی آزمائش کرتا ہے- ادھر انہوں نے پناہ ترک کی اور ادھر یہ حادثہ پیش آ گیا کہ لبید جو ایک بہت بڑے شاعر تھے ایک مجلس میں شعر سنا رہے تھے- کہ ایک شعر انہوں نے پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز خدا کے سوا تباہ ہونے والی ہے اور ہر نعمت آخر میں زائل ہونے والی ہے- جب لبید نے پہلا مصرع پڑھا تو حضرت عثمانؓ نے کہا ٹھیک ہے- اس پر لبید نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا کہ ایک بچہ میرے کلام کی داد دے رہا ہے- اسے اس نے اپنی ہتک سمجھا اور کہا- اے مکہ والو! پہلے تو تم میں ایسے بدتہذیب لوگ نہ تھے- اب تمہیں کیا ہو گیا ہے- انہوں نے کہا- یہ بے وقوف بچہ ہے- اسے جانے دیں- حالانکہ بات یہ تھی کہ انہوں نے قرآن سنا ہوا تھا- اور اب ان کے نزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں رہ گئی تھی- بلکہ خود لبید نے مسلمان ہونے پر یہی طریق اختیار کیا- حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ایک گورنر کو کہلا بھیجا کہ مجھے بعض مشہور شعراء کا تازہ کلام بھجوائو- جب ان سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا- تو انہوں نے قرآن کریم کی چند آیات لکھ کر بھیج دیں-
جب لبید نے دوسرا مصرع پڑھا اور کہا کہ ہر نعمت زائل ہونے والی ہے تو عثمانؓ نے کہا- یہ غلط ہے- جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی- یہ سن کر اسے طیش آگیا اور اس نے اہل مجلس سے کہا کہ تم نے میری بڑی ہتک کرائی ہے- اس پر ایک شخص نے عثمانؓ کو برا بھلا کہا- اور اس زور سے مکا مارا کہ ان کی ایک آنکھ نکل گئی- ولید کھڑا دیکھ رہا تھا- اس نے کہا- دیکھا میری پناہ میں سے نکلنے کا یہ نتیجہ ہوا- اب بھی پناہ میں آجائو- حضرت عثمانؓ نے کہا- پناہ کیسی- میری تو دوسری آنکھ بھی انتظار کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلے- ان کے فوت ہونے پر رسول کریم]2 [stf ~صل۲~ نے انہیں بوسہ دیا اور آپﷺ~ کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے- جب رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ ابراہیمؓ فوت ہوا- تو آپﷺ~ نے فرمایا الحق بسلفنا الصالح عثمان بنمظعون ۵۶~}~یعنی ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظعون کی صحبت میں جا-
پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب
دوسرا دعویٰ قرآن کریم کے متعلق یہ کیا گیا ہے کہ یہ پہلی کتب کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے- چنانچہ استثناء باب۱۸ آیت۱۵ میں آتا ہے-
>خداوند تیرا خدا تیرے لئے- تیرے ہی درمیان سے- تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا<-۵۷~}~
اس میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ نبی جو آنے والا ہے وہ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے ہوگا گویا وہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے ہی ہوگا- نہ کہ کسی غیر قوم سے- پھر اس کی علامت یہ بتائی کہ-:
>جب وہ نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے- اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو- تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی<- ۵۸~}~
اب دیکھو قرآن کی باتیں کیسی پوری ہوئیں- اور اس کی بیان کردہ پیشگوئیاں کس طرح سچی نکلیں- کفار نے جب رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق کہا کہ اس کی اولاد نہیں تو خدا تعالیٰ نے فرمایا- ہم اسے اولاد دیں گے- اور ابتر کہنے والوں کی اولاد ہی چھین کر دے دیں گے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی-
حضرت مسیحؑ نے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے سے انکار کیا ہے- چنانچہ یوحنا باب۱ آیت۲۱ میں لکھا ہے-:
>انہوں نے اس سے پوچھا- پھر تو کون ہے- کیا ایلیاہ ہے- اس نے کہا- میں نہیں ہوں- کیا تو وہ نبی ہے- اس نے جواب دیا کہ نہیں<-
اسی طرح اعمال باب۳ میں لکھا ہے کہ وہ نبی مسیح کی بعثت ثانی سے پہلے اور بعثت اول کے بعد ظاہر ہوگا- بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ-:
>سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے باتیں کیں ان سب نے ان دنوں کی خبر دی ہے<- ۵۹~}~
یہ پیشگوئی رسول کریم ~صل۲~ کے ذریعہ پوری ہوئی- کیونکہ آپﷺ~ ان کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے تھے-
اسی طرح یسعیاہ آنے والے نبی کی خبر دیتے ہوئے کہتے ہیں-:
>تب قومیں تیری راستبازی اور سارے بادشاہ تیری شوکت دیکھیں گے- اور تو ایک نئے نام سے کہلائے گا- جسے خداوند کا مونہہ خود رکھ دے گا<- ۶۰~}~
سوائے اسلام کے دنیا میں کوئی مذہب نہیں جس کا نام خدا تعالیٰ نے ¶رکھا ہو- چنانچہ اسلام کے متعلق ہی فرمایا ہے- ورضیت لکم الاسلام دینا *۶۰~}~
دوسری پیشگوئی بھی اسی کے ساتھ لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ-:
>تو آگے کو متروکہ نہ کہلائے گی- اور تیری سرزمین کا کبھی پھر خرابہ نام نہ ہوگا- بلکہ تو حفیضیاہ کہلائے گی<- ۶۱~}~
یہ پیشگوئی بھی اسلام کے متعلق ہی ہے- چنانچہ مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے- من دخلہ کان امنا ۶۲2]~}~ ft[rجو اس میں داخل ہو وہ امن میں آ جاتا ہے-
پھر حضرت مسیحؑ کہتے ہیں-
>مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں- مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے- لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا- اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا- لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا- اور تمہیں آئندہ کی خبریں دیگا<-۶۳~}~
اب دیکھو- اس میں کتنی علامتیں رسول کریم ~صل۲~ کی بیان کی گئی ہیں-
اول یہ کہ آنیوالا نبی ایسی تعلیم دے گا جو مسیح تک کسی نے نہیں دی- گویا وہ سب سے بڑھ کر تعلیم دے گا-
)۲(وہ ساری باتیں کہے گا- یعنی کامل تعلیم دے گا- اور اس کے بعد اور کوئی اس سے بڑھ کر تعلیم نہیں لائے گا-
)۳(وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہے گا- بلکہ کلام اللہ لائے گا-
)۴( اس کلام اللہ میں آئندہ کی خبریں ہوں گی-
)۵(وہ کلام مجھ )یعنی مسیحؑ( پر دشمنوں کے عائد کردہ الزامات کو دور کرے گا-
یہ سب باتیں رسول کریم ~صل۲~ 2] [rtf پر صادق آتی ہیں- پہلی بات حضرت مسیحؑ نے یہ فرمائی تھی کہ وہ نبی ایسی تعلیم لائے گا جو پہلے کوئی نہیں لایا- قرآن کریم اس کے متعلق فرماتا ہے علمالانسان مالم یعلم یعنی قرآن کریم کے ذریعہ وہ وہ باتیں سکھائی گئی ہیں- جو کسی اور کو معلوم نہیں- دوسری بات حضرت مسیحؑ نے یہ بیان کی تھی کہ وہ ساری باتیں بتائے گا- قرآن کریم میں اس کے متعلق آتا ہے- الیوم اکملت لکم دینکم آج سارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے- پھر سورہ کہف رکوع۸ میں آتا ہے- ]nsk [tag ولقد صرفنا فی ھذا القران للناس من کل مثل- ۶۴~}~ہم نے اس قرآن میں ہر ضروری بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر دیا ہے- تیسری بات حضرت مسیحؑ نے یہ بتائی تھی کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا- بلکہ خدا تعالیٰ اسے جو کچھ بتائے گا اسے پیش کرے گا- قرآن کریم میں بھی آتا ہے- وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۶۵~}~یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خدا ہی کا کلام پیش کرتا ہے- باقی سب کتابوں میں انبیاء کی اپنی باتیں بھی ہیں- صرف قرآن ہی ایک ایسا کلام ہے جو سارے کا سارا خدا کاکلام ہے- پانچویں بات حضرت مسیحؑ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نبی ان الزامات کو دور کرے گا جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں- اس کے متعلق سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کو نعوذ باللہ والدالزنا کہا گیا تھا- اور *** قرار دیا گیا تھا- قرآن نے ان الزامات کی پوری تردید کی-
کتب سماویہ کی تفصیل
اب میں تیسری بات بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کتب سماویہ کی تشریح اور ¶تفصیل بیان کرنے والا ہے- اس میں علوم روحانیہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے- اور انہیں کمال تک پہنچایا گیا ہے- میں اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں-
تورات میں لکھا تھا-:
>تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان- آنکھ کا بدلہ آنکھ- دانت کا بدلہ دانت- ہاتھ کا بدلہ ہاتھ- اور پائوں کا بدلہ پائوں ہوگا<- ۶۶~}~
اور انجیل میں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ-:
>تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ- اور دانت کے بدلے دانت- لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے- دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے- اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتہ لینا چاہئے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے- اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا<-۶۷~}~
مگر قرآن کریم نے کہا ہے-
وجزوا سیئہ سیئہ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظلمین- ۶۸~}~
یعنی شرارت کے مطابق بدی کا بدلہ لے لینا تو جائز ہے- لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس میں دوسرے کی اصلاح مدنظر رکھے اللہ تعالیٰ اسے خود اجر دے گا- اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا-
تورات نے ایک حصہ تو بیان کیا تھا اور دوسرا چھوڑ دیا تھا- اور انجیل نے دوسرا حصہ بیان کیا اور پہلا حصہ چھوڑ دیا- قرآن کریم نے اس تعلیم کو مکمل کر دیا- فرمایا- بدی کا بدلہ لے لینا جائز ہے- لیکن جو شخص معاف کر دے ایسی صورت میں کہ بدی نہ بڑھے اس کا اجر اللہ پر ہے- ہاں جو ایسے طور پر معاف کرے کہ معافی دینے پر ظلم بڑھ جائے تو اس سے خدا ناراض ہوگا کیونکہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا-
صدقہ و خیرات اور مرد و عورت کے تعلقات کے متعلق تفصیلی احکام گذشتہ سال کے مضمون میں بیان کر چکا ہوں- اور بتا چکا ہوں کہ پہلی کتب میں ان امور کے متعلق صرف مختصر احکام دیئے گئے ہیں- مگر قرآن کریم نے ہر ایک حکم کی غرض اور اس کے استعمال کی حدود وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں-
دلائل و براہین سے مزین کلام
قرآن کریم کو چوتھی خصوصیت یہ بیان کی کہ لاریب فیہ- ہر ایک امر کو دلیل سے بیان کرتا ہے اور شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا- شک ہمیشہ ابہام سے پیدا ہوتا ہے- مگر قرآن کریم کے دعوئوں کی بنیاد مشاہدہ پر ہے- قرآن میں ہستی باری تعالیٰ‘ ملائکہ‘ دعا‘ نبوت‘ انبیاء کی ضرورت‘ قضاء و قدر‘ حشرونشر‘ جنت و دوزخ‘ نماز و روزہ‘ حج و زکٰوۃ اور معاملات وغیرہ کے متعلق دلائل بیان کئے گئے ہیں- یونہی دعوے نہیں کئے گئے- مثلاً جنت کے متعلق آتا ہے- ولمن خاف مقام ربہ جنتان۶۹~}~ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرنے کے بعد تمہیں جنت ملے گی- اور تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد کیا معلوم جنت ملے گی یا نہیں- قرآن اسی دنیا میں جنت کا ثبوت پیش کرتا ہے- اور مومنوں کو اسی دنیا میں جنت حاصل ہو جاتی ہے- اس کا ثبوت یہ دیا کہ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثماستقاموا تتنزل علیھم الملئکہ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنہ التی کنتم توعدون- ۷۰~}~یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہیں- ان پر فرشتے اترتے ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ تم غم نہ کرو- تم کو جنت کی بشارت ہو- گویا اسی دنیا میں انہیں خدا سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے اور جب خدا کا کلام مل گیا تو ریب کہاں رہ گیا-
قرآن کریم کے ذریعہ صفت رب العلمین کا ظہور
پانچویں بات یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم کا اس حالت میں نزول ہوا کہ اس سے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے- اس لئے کہ اس میں ہر فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے- بعض انسانوں میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ انہیں عفو کی طرف توجہ دلائی جائے بعض میں دیوثی اور بے غیرتی ہوتی ہے انہیں غیرت کی تعلیم دی گئی- انجیل نے اس کا خیال نہیں رکھا اس نے ہر حال میں عفو کی تعلیم دی ہے اور تورات نے عفو کا خیال نہیں رکھا ہر حالت میں سزا دینے پر زور دیا ہے- مگر قرآن نے دونوں قسم کے لوگوں کا خیال رکھا ہے- پھر ہر زمانہ کا خیال رکھا ہے- اور تمام دنیا کو دعوت دی ہے- چنانچہ فرمایا قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا *۷۰~}~کہہ دے اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں-
پس قرآن کریم سے پہلی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے ساری دنیا کو دعوت دی ہو- انہوں نے دوسری قوموں کیلئے رستے بند کر دیئے- حضرت مسیح کا انجیل میں یہ قول موجود ہے کہ-:
>میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا<-۷۱~}~
اور یہ کہ-:
>لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں<- ۷۲~}~
گویا مسیح نے بنی اسرائیل کے سوا کسی اور کو ہدایت دینے سے انکار کر دیا-
مگر قرآن میں سب قوموں کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان جمع کر دیئے- مثلاً )۱(سارے نبیوں کی تصدیق کی- اس سے سب کے دلوں میں بشاشت پیدا کر دی- لیکن اگر کوئی ہندو عیسائی ہو تو اسے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بدھ اور کرشن جھوٹے ہیں- اور اگر کوئی عیسائی ہندو ہو- تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے- مگر کتنی خوبی کی بات ہے کہ قرآن نے کہہ دیا- انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا- وان من امہ الا خلافیھا نذیر۷۳~}~ہم نے اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے- اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں ہماری طرف سے نذیر نہ بھیجا گیا ہو- اس بنا پر رسولکریم ~صل۲~ نے تمام اقوام سے کہہ دیا کہ مجھے قبول کر کے تمہیں اپنے بزرگوں کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں- وہ بھی سچے تھے- ہاں ان میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ ان کی تعلیم اس زمانہ کے لئے مکمل تھی جس میں وہ آئے- لیکن میں جو تعلیم لایا ہوں یہ ہر زمانہ کے لئے مکمل ہے-
مفتری ہمیشہ ناکام ہوتا ہے
دوسری دلیل رسول کریم ~صل۲~ کے مفتری نہ ہونے کی قرآنکریم یہ بیان کرتا ہے کہ مفتریوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے اولئک لم یکونوا معجزین فی الارض وما کان لھم من دون اللہ من اولیاء یضعف لھم العذاب ماکانوا یستطیعون السمع وما کانوا یبصرون- اولئکالذین خسروا انفسھم وضل عنھم ماکانوا یفترون- لا جرم انھم فی الاخرہ ھم الاخسرون- ۷۴~}~ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی جھوٹ پیش کرتا ہے- حالانکہ اس قسم کا جھوٹ بنانے والے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں- اور وہ عذاب سے ہر گز بچ نہیں سکتے- ان کا عذاب لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ سچی بات سننے کی بھی طاقت نہیں رکھتے کجا یہ کہ وہ سچی باتیں خود بنا سکیں- وہ عذاب سے گھرے ہوئے ہوتے ہیں- اور جب دنیا میں ان کا یہ حال ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا-
اس میں بتایا کہ مفتریوں کی تو یہ علامت ہوتی ہے کہ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے مگر محمد رسولاللہ ~صل۲~ پر تو کوئی عذاب نہیں آیا بلکہ خدا نے اس کی مدد کی ہے-
دوسری علامت مفتری کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا عذاب بڑھتا جاتا ہے- مگر اس رسول کی تو ہر گھڑی پہلی سے اچھی ہے-
)۳(پھر مفتری کو اپنی تعلیم بدلنی پڑتی ہے- مگر کیا اس نے بھی کبھی قرآن کی کوئی بات بدلی پھر یہ مفتری کس طرح ہو سکتا ہے-
وجدک ضالا فھدی کا صحیح مفہوم
دوسرا الزام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپﷺ~ نعوذ باللہ نبوت سے پہلے ضال ]1txet [tagتھے- اور بعد میں بھی گناہ آپﷺ~ سے سرزد ہوتے رہے- ان الزامات کی بنا خود قرآن کریم ہی کی بعض آیات کو قرار دیا گیا ہے- ضال کے متعلق تو یہ آیت پیش کی جاتی ہے کہ ووجدک ضالا فھدی۷۵~}~ ہم نے تجھے ضال پایا پھر ہدایت دی- اس کا جواب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ضلالت کی کلی طور پر نفی کر دی ہے- فرماتا ہے- والنجم اذا ھوی- ماضل صاحبکم وما غوی- ۷۶text1]~}~ [tagہم نجم کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں- نجم اس بوٹی کو کہتے ہیں جس کی جڑ نہ ہو- فرمایا- ہم اس بوٹی کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی جڑ نہیں ہوتی- جب کہ وہ گر جاتی ہے- یعنی وہ جتنا اونچا ہونا چاہتی ہے اسی قدر گرتی ہے- اس شہادت سے تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا یہ صاحب کبھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ راستہ سے دور ہوا-ضل ظاہری گمراہی کے لئے آتا ہے اور غوی باطنی فساد کے لئے- جو فساد اعتقاد سے پیدا ہو-
فرمایا جو بے جڑ کی بوٹی ہو- اس پر تو جتنے زیادہ دن گذریں اس میں کمزوری آتی جاتی ہے- اگر محمد رسول اللہ ~صل۲~ کا خدا سے تعلق نہ ہوتا تو اس کی جڑ مضبوط نہ ہوتی اور یہ کمزور ہوتا جاتا اور خرابی پیدا ہو جاتی- مگر تم دیکھتے ہو کہ جوں جوں دن گذر رہے ہیں اسے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل ہو رہی ہے اور یہ دن رات ظاہری اور باطنی طور پر ترقی حاصل کر رہا ہے- اگر ضلالت اس کے اندر ہوتی تو اس پر ضلالت والا کلام نازل ہوتا- مگر اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- اسے دیکھو کیا اس میں کوئی بھی ہوائے نفس کا نشان ملتا ہے اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا- لیکن اس کا کلام تو پرشوکت اور قادرانہ کلام پر مشتمل ہے- شیطانی تعلقات والا انسان دنیا پر تصرف کیسے حاصل کر سکتا ہے-
یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ ضحیٰ میں بیان کیا ہے- فرماتا ہے- وللاخرہ خیر لک من الاولی ۷۷~}~تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہے- اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہاں تو کہا کہ تیری ہر پچھلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہوتی ہے لیکن اسی سورۃ میں کہہ دیا کہ تو گمراہ تھا- آیا پچھلی گھڑی کا پہلی سے اچھی ہونا ضلالت کی دلیل ہوتا ہے؟
سورۃ ابراہیم رکوع۴ میں آتا ہے- الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء ۷۸~}~کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کیسی باتیں بیان کرتا ہے- پاک کلمہ کی مثال ایک پاک درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑ میں بڑی مضبوطی ہوتی ہے- اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں- اسی طرح صادق کی علامت یہ ہے کہ اس کی تعلیم ترقی کرتی ہے اور اس کی جماعت بڑھتی جاتی ہے- اب یہ رسول جو دن رات ترقی کر رہا ہے- اگر ضلالت پر ہوتا- تو جتنی زیادہ تعلیم بناتا- اسی قدر زیادہ نقص ہوتے- مگر اس کے کلام کی زیادتی تو اس کی تعلیم کو مکمل بنا رہی ہے-
پھر بتایا- اگر یہ غاوی ہوتا تو شیطانی اثر اس کے کلام پر ہوتا- مگر اس کا کلام تو ایسا ہے کہ وہ وما ینطق عن الھوی- ان ھو الاوحی یوحی- علمہ شدید القوی ۷۹~}~
یہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے اور اس کو یہ کلام بڑی قوتوں والے خدا نے سکھایا ہے-
ایک اور آیت بھی اس امر کو حل کرتی ہے- سورہ بنی اسرائیل رکوع۸ میں آتا ہے- وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذالاتخذوک خلیلا ۸۰~}~فرمایا- قریب تھا کہ کہ لوگ تجھے عذاب میں مبتلا کر دیں- عام طور پر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ رسول کو پھسلا لیں- مگر وہ رسول کریم ~صل۲~ کو کہاں پھسلا سکتے تھے- اس کے تو یہ معنی ہیں کہ قریب ہے کہ یہ لوگ تجھے سخت عذاب دیں اس کلام کی وجہ سے جو تجھ پر وحی کیا گیا ہے تا کہ تو اس سے گھبرا کر کچھ تبدیلی کر لے- اور اگر ایسا ہو تو یہ ضرور تجھے دوست بنا لیں- لیکن ان کا خیال ایک جنون ہے ولو لا ان ثبتنک لقد کدت ترکن الیھم شیئا قلیلا- ۸۱~}~اگر ہم نے قرآن نہ بھی نازل کیا ہوتا تو بھی تیری فطرت ایسی پاک ہے کہ یہ بات تو بڑی ہے- تیری ان سے مشابہت پھر بھی معمولی سی ہوتی- مگر اب تو تجھے وحیالہی نے ایک صحیح راستہ دکھا دیا ہے- اب ان کی یہ خواہش کس طرح پوری ہو سکتی ہے-
اب سوال ہوتا ہے کہ پھر ووجدک ضالا فھدی کا کیا مطلب ہوا- سو اس کا جواب خود اسی سورۃ میں موجود ہے- اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک زبردست دلیل دی گئی ہے- فرماتا ہے والضحی- والیل اذا سجی- ماودعک ربک وما قلی- ۸۲~}~اے دنیا کے لوگو سنو! عین دوپہر کے وقت کو- اور رات کو جب وہ خوب ساکن ہو جاتی ہے اور اس کی تاریکی چاروں طرف پھیل جاتی ہے ہم اس بات کی شہادت میں پیش کرتے ہیں کہ محمد )صلیاللہ علیہ وسلم( کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا- اور نہ محمد رسول اللہ )صلیاللہ علیہ وسلم( سے ہم کبھی ناراض ہوئے ہیں-
اب سوال یہ ہے کہ دوپہر اور آدھی رات اس بات کی کس طرح دلیل ہیں کہ محمد ~صل۲~ سے خدا کبھی ناراض نہیں ہوا- اور نہ اس نے آپ کو چھوڑا- یہ ظاہر ہے کہ یہاں ظاہری دن رات مراد نہیں- بلکہ مجازی دن رات مراد ہیں- اور یہ محاوہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے کہ رات اور دن سے خوشی اور رنج اور ہوش اور غفلت کا زمانہ مراد لیا جاتا ہے- رات تاریکی مصیبت اور جہالت کو کہتے ہیں- اور دن ترقی‘ روشنی اور علم کے زمانہ کو کہتے ہیں- پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تیری عمر کی ان گھڑیوں کو بھی پیش کرتے ہیں جو خوشی کی تھیں اور ان کو بھی پیش کرتے ہیں جو رنج کی تھیں اور تیرے ہوش کے زمانہ کو بھی اور بچپن کے زمانہ کو بھی جو جہالت کا زمانہ ہوتا ہے- پھر اس زمانہ کو بھی جو نبوت سے پہلے کا تھا- اور اسے بھی جب نبوت کا سورج طلوع ہو کر نصفالنہار پر آگیا- تجھ پر وہ زمانہ بھی آیا- جب کہ تو دایہ کی گود میں تھا- پھر وہ زمانہ بھی آیا جو شباب کی تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے- وہ زمانہ بھی آیا جب جذبات سرد ہو جاتے ہیں- پھر وہ زمانہ بھی آیا- جب کہ ہر طرف تیرے دشمن ہی دشمن تھے اور تیرے لئے دن بھی رات تھا- پھر وہ زمانہ آیا جب ساری قوم تجھے امین اور صادق کہتی تھی- ان سب زمانوں کو دیکھ لو- کیا کوئی وقت بھی ایسا آیا ہے جب خداتعالیٰ نے تیری نصرت سے ہاتھ روکا ہو- اس کی ناراضگی کسی رنگ میں تجھ پر ظاہر ہوئی ہو- بعض لوگ آرام اور عزت حاصل ہونے پر بگڑ جاتے ہیں- مگر تجھے جب امن ہوا- امیر بیوی ملی- تیری قوم نے تیری عزت کی- اس وقت بھی تو نے اچھے کام کئے- پھر وہ زمانہ آیا کہ خدا نے اپنا کلام تجھ پر اتارا- تب بھی تو فرمانبردار رہا- گویا تیری ہر آنے والی گھڑی پہلی سے اعلیٰ اور بہتر رہی ہے- اور خدا کی تائید اور اس کی پسندیدگی بڑھتی چلی گئی- اب دیکھو رسول کریم ~صل۲~ کی صداقت کی یہ کتنی بڑی دلیل ہے- عجیب بات ہے- خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس کی ساری زندگی بچپن سے لے کر آخر تک دیکھ لو- ایک لمحہ بھی اس کے لئے گمراہی کا نہیں آیا- اور خدا تعالیٰ نے اسے نہیں چھوڑا مگر نادان مخالف کہتے ہیں کہ آپ گمراہ تھے- اگر یہی گمراہی ہے تو ساری ہدایت اس پر قربان کی جا سکتیہے-
پھر فرماتا ہےnsk]- [tag وللاخرہ خیر لک من الاولی- تیرا ہر قدم ترقی کی طرف چلتا گیا- بچپن میں انسان بے گناہ ہوتا ہے- اگر نعوذ باللہ رسول کریم ~صل۲~ بڑے ہو کر گمراہ ہو گئے تو آخرت اولیٰ سے سے بہتر نہ ہوئی- مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلے سے اچھی تھی- اور جب ہر اگلی گھڑی اچھی تھی تو ضلالت کہاں سے آ گئی-
پھر فرماتا ہے ولسوف یعطیک ربک فترضی- ۸۳~}~عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے ایسے انعام دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا- اس ¶کے متعلق ہم قرآن کریم سے دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ کی وہ کونسی خواہش تھی جس کے پورا ہونے سے آپ خوش ہو سکتے تھے- سورہ کہف رکوع۱ میں آتا ہے- فلعلک باخع نفسک علی اثار ھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا ۸۴~}~اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کر رہا ہے- کہ لوگ ہمارے کلام پر ایمان کیوں نہیں لاتے- یہ خواہش تھی رسول کریم ~صل۲~ کی کہ آپﷺ~ کی قوم خداتعالیٰ کے کلام کو مان لے- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ولسوف یعطیک ربک فترضی تو نے دیکھا ہے کہ تیری ہر گھڑی کو ہم نے پہلی سے اچھا رکھا پھر کیا تمہاری یہ بات ہم رد کر دیں گے کہ تیری قوم ہدایت پا جائے- ہمیں اس خواہش کا بھی علم ہے اور اسے بھی ہم پورا کر دیں گے-
‏a12.34
پھر فرمایا- الم یجدک یتیما فاوی- ۸۵~}~اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تو یتیم تھا جب پیدا ہوا- اس یتیمی کے وقت سے خدا نے تم کو اپنی گود میں لے لیا- گویا کوئی وقت خدا کی گود سے باہر آپﷺ~ پر آیا ہی نہیں- اوی کے معنی ہیں قرب میں جگہ دی- فرمایاالم یجدک یتیما فاوی کیا خدا نے تم کو یتیم پا کر اپنے پاس جگہ نہیں دی- ووجدک ضالا فھدی اب اس کے معنی اگر یہ کئے جائیں کہ تجھے گمراہ پایا پھر ہدایت دی تو یہ معنی یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے- پس اس کے یہی معنی ہیں کہ ہم نے تجھ میں محبت کی تڑپ دیکھی اور دنیا کی ہدایت کا سامان دے دیا- ان معنوں کی تائید ایک اور آیت سے بھی ہوتی ہے- جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے تو انہیں گھر والوں نے کہا- تا للہ انک لفی ضللک القدیم۸۶~}~ یوسف کی پرانی محبت تیرے دل سے نکلتی ہی نہیں- تو ابھی تک اسی پرانی محبت میں گرفتار ہے- وہ لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کو گمراہ نہیں سمجھتے تھے- بلکہ یوسف علیہ السلام کی محبت میں کھویا ہوا سمجھتے تھے- اس لئے ضلال کا لفظ انہوں نے شدت محبت کے متعلق استعمال کیا- پس ووجدک ضالا فھدی کے یہ معنی ہیں کہ جب تو جوان ہوا اور تیرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خدا سے ملے بغیر میں آرام نہیں پا سکتا تو ہم نے تجھے فوراً آواز دی کہ آ جائیں موجود ہوں- اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( تجھے معلوم ہے کہ جب ہم نے ہدایت دی تو وہ تیرے نفس کے لئے ہی نہ تھی بلکہ ساری دنیا کیلئے تھی- پس لوگ تیرے پاس آئے اور مختلف طبائع کے لوگ آئے پھر ہم نے ان کی کفالت کیلئے قرآن کے ذریعہ تجھے وہ رزق دیا جو ہر فطرت کے انسان کیلئے کافی تھا- پس ووجدک عائلا فاغنی۸۷~}~ اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہم نے تجھے کثیر العیال پایا اور اپنے فضل سے غنی کر دیا- فاما الیتیم فلا تقھر- واما السائل فلا تنھر۸۸~}~ پس اب تو بھی ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالنا کہ ان کی طاقتیں کچلی جائیں- نہ اتنی رعایت کرنا کہ بگڑ جائیں- اس آیت میں ضال کے مقابل پر سائل رکھا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہاں بھی ضال سے مراد خدا کی محبت کے طلبگار کے ہیں- بہرحال فرمایا کہ جب کوئی تمہارے پاس ہدایت حاصل کرنے کیلئے آئے تو انکار نہ کرنا بلکہ وہ ہدایت جو ہم نے تجھے دی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچانا-
ضال کے جو معنی میں نے اس وقت کئے ہیں اس کے خلاف کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتے- کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے- ووجدک ضالا فھدی- ہم نے تجھے ضال پایا اور اس کے نتیجہ میں ہدایت دی- اور دوسری طرف فرماتا ہے- واللہ لا یھدی القوم الفسقین ۸۹~}~کہ فسق کے نتیجہ میں کبھی ہدایت نہیں ملا کرتی- پھر ضال کے معنی گمراہ کس طرح کئے جا سکتے ہیں-
پھر فرماتا ہے- و اذا جاء تھم ایہ قالوا لن نومن حتی نوتی مثل ما اوتی رسل اللہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ سیصیب الذین اجرموا صغار عنداللہ و عذاب شدید بما کانوا یمکرون- ۹۰~}~جب ان کے پاس کوئی نشان آتا ہے تو وہ کہتے ہیں- ہم اسے نہیں مان سکتے- جب تک ہمیں ویسا ہی کلام نہ ملے جو رسولوں کو ملا- اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے- یہ گناہگار لوگ ہیں- ان کو تو ذلت ہی ملے گی- اس آیت میں صاف طور پر بتا دیا کہ گناہ کے نتیجہ میں ذلت حاصل ہوتی ہے نہ کہ ہدایت-
ذنب اور استغفار کی حقیقت
پھر یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ نعوذ باللہ گناہگار تھے- اس کے لئے ذنب اور استغفار کے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں- لیکن عام طور پر لوگوں نے اس کے معنی نہیں سمجھے- استغفار کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ جو مشکلات کسی کے رستہ میں حائل ہوں ان کو ڈھانپ دیا جائے- اسی طرح ذنب کے معنی گناہ کے بھی ہوتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کے بھی- پس غفر کے معنی ڈھانکنے اور ذنب کے معنی زوائد کے ہیں- جب رسول کریم ~صل۲~ کے متعلق استغفار کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد آپﷺ~ کے رستہ کی مشکلات کا دور ہونا ہوتا ہے- اور جہاں ذنب کا لفظ آتا ہے وہاں زوائد کا دور کیا جانا مراد ہوتا ہے- چنانچہ دیکھ لو سورہ نساء رکوع۱۶ میں پہلے جنگ کا ذکر ہے- پھر اللہتعالیٰ فرماتا ہے- لا تکن للخائنین خصیما- واستغفراللہ ۹۱~}~اے محمد رسول اللہ جب ہم حکومت دیں گے تو کچھ لوگ ایسے ہونگے جو دین کی باتوں میں خیانت سے کام لیں گے اور کجی کا راستہ اختیار کریں گے ان سے لڑنے کی طرف توجہ نہ کرنا- بلکہ بجائے اس کے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنا کہ ان کی یہ کمزوری دور ہو جائے- )۲(سورہ مومن رکوع۶ میں بھی پہلے انالننصر رسلنا ۹۲~}~فرما کر نصرت کا ذکر کیا ہے اور پھر واستغفر لذنبک وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار ۹۳~}~میں استغفار اور تسبیح کا حکم دیا ہے سورۃ محمد رکوع۲ میں بھی پہلے ساعت کے آنے کا ذکر ہے یعنی فتح کا- اور پھر واستغفر لذنبک ۹۴~}~فرماتا ہے- )۴(سورہ نصر میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے- اور پھر آتا ہے فسبح بحمد ربک واستغفرہ۹۵~}~ )۵(سورہ فتح میں بھی پہلے فتح کا ذکر ہے اور پھر غفر کا- فرمایا- انا فتحنالک فتحامبینا- لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر- ۹۶~}~ان سب حوالوں میں فتح کے ساتھ ذنب یا استغفار کا ذکر ہے- یعنی یا تو فتح کے وعدہ کے بعد یا فتح کے ذکر کے بعد- چار جگہوں میں تو فتح کے وعدہ کے ساتھ استغفار کا ذکر کیا ہے- اور ایک جگہ فتح مبین کا ذکر ہے اور وہاں لیغفر کہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تیری دعا سنی گئی اور ہم نے عام فتوحات کی بجائے تجھے فتح مبین عطا کی ہے تا کہ تیرے ذنب بخشے جائیں-
اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کسی کو فتح و نصرت کا ملنا کیا گناہ ہے اور ہر جگہ فتح کے ساتھ یہ الفاظ کیوں آئے ہیں- اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور ذنب کسی اور قسم کا ہے- اگر گناہ مراد تھا تو چاہئے تھا کہ کسی گناہ کا ذکر کیا جاتا- مگر ایسا تو ایک جگہ بھی نہیں کیا گیا- بلکہ بجائے اس کے یہ بتایا کہ ہم تجھے فتح و نصرت دیتے ہیں- تو استغفار کر- اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس کے معنی کچھ اور ہیں- اور وہ یہ کہ فتح کے ساتھ جو لوگ سلسلہ بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کی تربیت پوری طرح نہیں ہو سکتی- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے زوال کا وقت اسی دن سے شروع ہو جاتا ہے- جب کہ فتوحات شروع ہوتی ہیں- اور لوگوں کی تربیت اچھی طرح نہیں ہو سکتی- جب لاکھوں مسلمان ہو گئے اور وہ سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے تو ان کی تربیت ناممکن تھی- اس لئے فرمایا یہ بات بشریت سے بالا ہے کہ اتنے لوگوں کی پوری طرح تربیت کی جا سکے- ان کی تربیت خدا ہی کر سکتا ہے- اس لئے دعائیں کر کہ خدایا تو ہی ان کی نیک تربیت کا سامان پیدا فرما- اور پھر خوشخبری دی کہ ہم نے تمہاری دعائیں سن لی ہیں- انا فتحنالک فتحامبینا- لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر-ہم تجھ کو جو فتح عظیم دیں گے وہ ایسی صورت میں دیں گے کہ وہ فتح مبین ہوگی- حق و باطل میں تمیز کر دینے والی ہوگی اور صرف جسموں پر ہی نہیں ہوگی- بلکہ دلوں پر بھی ہوگی- لوگ منافقت سے اسلام میں داخل نہیں ہونگے- بلکہ دین کے شوق کی وجہ سے ہونگے- اور یہ فتح ہم نے اس لئے دی ہے کہ تربیت کا پہلو مضبوط ہو جائے- چنانچہ ایسا ہی ہوا- اور اللہ تعالیٰ نے حق کو واضح کر کے تربیت کے پہلو کو مضبوط کر دیا اور ایسے نائب آپﷺ~ کو بخشے جو ہمیشہ کیلئے دین کے محافظ ہو گئے- دیکھ لو- ایک تو وہ وقت تھا کہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ مکہ چھوڑ کر اس لئے بھاگ گیا کہ جہاں محمد )صلی اللہ علیہ وسلم( ہو وہاں میں نہیں رہ سکتا- مگر پھر وہ وقت آیا کہ وہ مسلمان ہوا اور ایسا مخلص مسلمان ہوا کہ ایک جنگ میں دشمن چن چن کر صحابیوں کو مار رہے تھے- عکرمہ نے کہا- یہ بات مجھ سے دیکھی نہیں جاتی کوئی ہے جو دشمن کے مقابلہ کیلئے میرے ساتھ چلے- اس طرح کچھ آدمی ساتھ لئے اور جرنیل سے اجازت لے کر دشمن پر جس کی تعداد ساٹھ ہزار تھی حملہ کر دیا اور عین قلب پر حملہ کیا- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کو شکست ہوگئی- اور وہ بھاگ گئے- اس وقت عکرمہ کو دیکھا گیا تو وہ دم توڑ رہے تھے- ان کی پیاس محسوس کر کے جب پانی لایا گیا- تو انہوں نے کہا- پہلے میرے ساتھی کو پانی پلائو- اس ساتھی نے دوسرے کی طرف اشارہ کر دیا اور دوسرے نے تیسرے کی طرف وہ سات نوجوان تھے جو زخموں کی وجہ سے دم توڑ رہے تھے- مگر کسی نے پانی کو مونہہ بھی نہ لگایا- اور ہر ایک نے یہی کہا کہ پہلے فلاں کو پلائو مجھے بعد میں پلا دینا- جب سب نے انکار کر دیا تو وہ پھر عکرمہ کے پاس آیا- دیکھا تو وہ فوت ہو چکے تھے- اس کے بعد اس نے دوسروں کو دیکھا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے-
غرض خدا تعالیٰ نے رسول کریم ~صل۲~ کو صرف ظاہری فتح ہی عطا نہیں فرمائی بلکہ ظاہری فتح کے ساتھ قلوب کی فتح بھی عطا کی-
رسول کریم ~صل۲~ کا بلند ترین مقام
پھر قرآن نہ صرف یہ کہ رسول کریم ~صل۲~ کو بے گناہ قرار دیتا ہے بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان قرار دیتا ہے- فرماتا ہے- انک لعلی خلق عظیم کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارا نبی گنہگار ہے- اگر دشمن ایسا کہتے ہیں تو وہ بکتے ہیں- ہم جانتے ہیں کہ تو بڑے اعلیٰ اخلاق والا ہے-
پھر فرمایاالم نشرح لک صدرک ۹۷~}~اے محمد رسول اللہ! کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا-
پھر فرماتا ہے- لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ تمہارے لئے محمد رسولاللہ )صلی اللہ علیہ وسلم( ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ ہے اس کے پیچھے چل کر تم نجات پا سکتے ہو-
پھر اس سے بھی بڑا درجہ آپ کا یہ بیان فرمایا- کہ آپ دوسروں کو پاک کرنے والے ہیں- فرماتا ہے- کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم ایتنا ویزکیکم- ۹۹~}~ہم نے تم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہے- جو ہماری آیتیں پڑھ کر تمہیں سناتا ہے اور گناہگاروں کو پاک بناتا ہے-
پھر اس سے بڑھ کر فرمایا- قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم- تو کہدے کہ اے ماننے والو یا مجھ پر اعتراض کرنے والو- اگر تم اللہ کا محبوب بننا چاہتے ہو تو آئو اس کا طریق میں تمہیں بتائوں- جس طرح میں عمل کرتا ہوں- اسی طرح تم بھی عمل کرو- پھر اللہ تعالیٰ تم کو بھی اپنا محبوب بنا لے گا-
پھر اس سے بھی آگے ترقی کی اور فرمایا کہ محمد رسول )اللہ صلی اللہ علیہ وسلم( تو وہ ہے- کہ اس پر جو کلام نازل ہوا ہے- اسے بھی ہم کسی ناپاک کو چھونے نہیں دیتے- پھر کیا اس کلام کو لانے والا ناپاک ہو سکتا ہے- چنانچہ فرمایا انہ لقران کریم- فی کتب مکنون- لا یمسہ الاالمطھرون-یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے- یہ اس جگہ خدا نے رکھا ہے جہاں کوئی گندہ شخص اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا- اور اسے مطہر کے بغیر کوئی چھو ہی نہیں سکتا- پھر جس پر یہ کلام نازل ہوا اسے ناپاک کس طرح کہہ سکتے ہو-
پھر فرمایا- ہم نے اسے وہ کتاب دی ہے جس کو آج ہی نہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی ناپاک نہیں چھو سکے گا- بایدی سفرہ- کرام بررہ ۱۰۱~}~یہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی جو دور دور سفر کرنے والے اور نہایت معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکوکار ہونگے-
اس وقت یہ دو ہی اعتراض بیان کئے جا سکے ہیں اور وہ بھی بہت مختصر طور پر- اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دوستوں کو جو اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں اپنی نعمتوں کا وارث بنائے- اور وہ جنہوں نے مہمان نوازی میں حصہ لیا ہے- مرد اور عورتیں‘ چھوٹے اور بڑے ان سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے- پھر ان پر اپنا فضل نازل کرے جن کے دل اس جلسہ میں شامل ہیں گو وہ خود نہیں آ سکے- اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے سب لوگوں کو توفیق دے کہ جو نور اور صداقت انہیں حاصل ہوئی ہے وہ دنیا کو پہنچائیں- ہماری جماعت کے خطا کاروں کو نیک بناوے- ہماری جماعت کے کمزوروں کو مضبوط بناوے- ہماری جماعت کے بیماروں کو شفا دے- ہماری جماعت کے مقروضوں کو قرض سے سبکدوش کرے- جن میں ایمان کی کمزوری ہے ان کی اس کمزوری کو دور کرے- ہماری جماعت کے مبلغوں کی مدد اور تائید کرے خدا کے فرشتے ان کی حفاظت کریں- وہ اللہ کے محبوب بن جائیں- ان کے اعمال‘ ان کی زبانوں اور ان کی فکروں میں برکت دے- پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ہر فرد کو خواہ وہ کہیں ہو- اس جلسہ کی برکات میں شریک کرے- پھر ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں‘ دہریوں غرضیکہ سب کے قلوب کو کھول دے- تا کہ سب ابن آدم ہو کر بھائیوں کی طرح رہیں-
پھر میں دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ جو باتیں انہوں نے جلسہ میں سنی ہیں ان پر عمل کریں- میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا- اور میں دوستوں سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے دعا کریں گے کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق دے اور جو ذمہداری اس نے مجھ پر رکھی ہے- اس میں مجھے سرخرو کرے- یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور کوئی انسان بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے اسے اٹھا نہیں سکتا- اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اس میں خطرات بھی زیادہ ہیں- اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے- تا کہ جب میں اس کے سامنے حاضر ہوں تو میں نے کیا کہنا ہے وہی خوشخبری دے کہ تو نے اپنا فرض ادا کر دیا-
میں پھر دوستوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامل الایمان بنائے اور اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے- ہم ایسی جماعت بن جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے- اور ہم اس سے راضی ہوں- آمین
۱~}~
التوبہ :۶
۲~}~ البقرہ:۷۶
۳~}~ البقرہ:۷۷
‏2] [stf ۴~}~
الفتح:۱۶
۵~}~ النساء :۱۶۵
۶~}~ البقرہ :۱۰۲
۷~}~
الفاتحہ :۲


*۷~}~
استثناء با ۳۴ آیت۵ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۸~}~
خروج باب۳ آیت۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۹~}~
‏ published Muir William By Muhomet of Life
‏1877 London in
۱۰~}~
النجم :۴‘۵


۱۱~}~
‏ Published 550 ۔P Muir William by Muhomet of Life
‏1877 London in
‏17] p[۱۱~}~
مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ۹۱ مطبع میمنہ مصر ۱۳۱۳ھ
۱۲~}~
الانعام:۱۲۵‘۱۲۶
۱۳~}~ حم السجدہ:۳۹
۱۴~}~ یونس: ۱۷
۱۵~}~
الاحزاب: ۲۲
۱۶~}~ ال عمران : ۳۲
۱۷~}~ الحجر : ۷
۱۸~~}
القلم : ۲ تا ۷
۱۹~}~ الانبیاء : ۶
۲۰~}~ الانبیاء :۱۱
۲۱~}~
ص :۵
۲۲~}~ القمر :۳
۲۳~}~ القمر :۶
۲۴~}~
الفرقان :۹
۲۵~}~ الفرقان :۲۲ تا ۲۷
۲۶~}~ الفرقان :۳۱
۲۷~}~
بنی اسرائیل:۴۸
۲۸~}~ الفرقان :۱۰
۲۹~}~ المائدہ : ۶۸
۳۰~}~
الحاقہ :۴۳
۳۱~}~الطور : ۳۰
۳۲~}~ الحاقہ: ۳۹ تا ۴۸
۳۳~}~
یسن :۷۰‘ ۷۱
‏]71 [p ۳۴~}~ الدخان :۱۴‘۱۵
۳۵~}~ النحل:۱۰۳‘۱۰۴
۳۶~}~
الفرقان :۵‘۶


۳۷~}~
روح المانی جلد۵ )الجزء الرابع عشر( صفحہ۲۳۳ مکتبہ امدادیہ ملتان
۳۸~}~
‏ the QuranBy the on yratnemmco Comprehensive A
۔inLondon1896 47published۔IIIP۔AVol۔M MWherry۔E ۔BytheRev
۳۹~}~
لوقا باب ۱۱ آیت ۱۴ تا ۱۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۴۰~}~
العلق : ۱ تا آخر
*۴۰~}~ النحل : ۱۰۴
۴۱~}~ الفرقان :۷
**۴۰~}~
سیرت ابن ہشام )عربی( جلد۱ صفحہ۳۶۶ تا ۳۷۱ مطبع مصطفر البابی الحلبی مصر ۱۹۳۶ء
۴۲~}~
بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۴۳~}~
الشعراء :۲۱۱
۴۴~}~ التکویر :۲۶
۴۵~}~ النجم :۲۰‘ ۲۱
۴۶~}~
الحج :۵۳
‏ ۴۷2]~}~ ftr[ النجم:۲۲ تا ۲۴
۴۸~}~ الشعراء :۲۱۱‘۲۱۲
۴۹~}~
الشعراء :۲۲۲ تا ۲۲۴
۵۰~}~الانعام :۱۲۲
۵۱~}~النحل :۱۰۰‘۱۰۱
۵۲~}~
النحل :۱۰۲
۵۳~}~ یونس :۳۸‘ ۳۹
۵۴~}~ النمل:۶۶
‏17] p[ ۵۵~}~
الانبیاء :۴۵
~}~
~}~
۵۶~}~
شرح مداھب اللدنیہ جلد۱ صفحہ۲۴۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ
۵۷~}~
استثناء باب۱۸ آیت۱۵ پاکستان بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۹۴ء
۵۸~}~
استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوہ ۱۸۷۰ء
‏h1] g[ta۵۹~}~
اعمال باب ۳ آیت ۲۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۶۰~}~
یسعیاہ باب ۶۲ آیت۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
*۶۰~}~
المائدہ :۴
~}~
~}~
۶۱~}~
یسعیاہ باب ۶۲ آیت۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۰۶ء
۶۲~}~
ال عمران:۹۸
~}~
~}~
۶۳~}~
یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲‘ ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۲۲ء
۶۴~}~
الکھف :۵۵
۶۵~}~ النجم :۴‘۵
~}~
‏2] ft[s ۶۶~}~
استثناء باب ۱۹ آیت ۲۱ نارتھ اینڈ بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۶۷~}~
متی باب۵ آیت ۳۸ تا ۴۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۶۸~}~
الشوری :۴۱
۶۹~}~ الرحمن :۴۷
۷۰~}~ حم السجدہ :۳۱
*۷۰~}~
الاعراف :۱۶۰
‏]c1 [tag ~}~
~}~
۷۱~}~
متی باب ۱۵ آیت ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۷۲~}~
متی باب۱۵ آیت ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۷۳~}~
فاطر:۲۵
۷۴~}~ ھود:۲۱ تا ۲۳
‏ ۷۵~}~]2 [rtf الضحی :۸
۷۶~}~
النجم :۲‘۳
۷۷~}~ الضحی :۵
۷۸~}~ ابراھیم :۲۵
۷۹~}~
النجم :۴ تا ۶
۸۰~}~ بنی اسرائیل :۷۴
۸۱~}~ بنی اسرائیل :۷۵
۸۲~}~
الضحی :۲ تا ۴
‏]2 [stf ۸۳~}~ الضحی :۶
۸۴~}~ الکھف :۷
۸۵~}~
الضحی :۷
۸۶~}~ یوسف :۹۶
۸۷~}~ الضحی :۹
۸۸~}~
الضحی :۱۰‘۱۱
۸۹~}~ المائدہ : ۱۰۹
۹۰~}~ الانعام : ۱۲۵
۹۱~}~
النساء :۱۰۶‘۱۰۷
۹۲~}~ المومن :۵۲
۹۳~}~ المومن :۵۶
۹۴~}~
محمد :۲۰
۹۵~}~ النصر :۴
۹۶~}~ الفتح :۲‘۳
۹۷~}~
الانشراح :۲
۹۸~}~ الاحزاب :۲۲
‏2] f[st ۹۹~}~ البقرہ :۱۵۲
۱۰۰~}~
الواقعہ :۷۸تا۸۰
۱۰۱~}~ عبس :۱۶‘ ۱۷
~}~
‏a12.35
انوار العلوم جلد ۱۲
رائونڈٹیبل کانفرنس اور مسلمان
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksn-cjm [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمان
آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا فیصلہ
گزشتہ سال آل مسلم پارٹیز کانفرنس نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ اگر مسلمانوں کے حقوق کا حسب دلخواہ فیصلہ نہ ہو تو رائونڈٹیبل کانفرنس کے مسلمان نمائندے سنٹرل گورنمنٹ کے اختیارات کے تصفیہ میں کوئی حصہ نہ لیں- اس وقت مجھے صحیح الفاظ یاد نہیں لیکن فیصلہ قریباً قریباً یہی تھا-
گول میز کانفرنس کے مسلمان نمائندوں کا رویہ
رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر اس ہدایت پر عمل کرتے کرتے نہ معلوم مسلمانوں کو کیا ہوا کہ ایک وقت وہ اس ہدایت کے مفہوم کو پورا کرنے سے قریباً قاصر رہے- اس وقت کئی پر جوش ممبران لنڈن سے روانہ ہو چکے تھے لیکن جو باقی تھے میں انہیں بھی الزام نہیں دیتا- بالکل ممکن ہے کہ وہاں کے حالات ہی کچھ ایسے ہوں کہ مسلمان ممبروں کیلئے اس طریق عمل کے سوا کوئی اور راستہ ہی کھلا نہ رہا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگ جو ہندوستان میں تھے ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلمان ممبر ایک اچھے موقع سے فائدہ اٹھانے سے چوک گئے ہیں-
مجھے بعد میں اپنے انگلستان کے نمائندہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد لنڈن سے معلوم ہوا کہ سر آغا خان صاحب پر بھی یہی اثر تھا کہ مسلمانوں نے ایک قیمتی موقع کو ہاتھ سے کھو دیا ہے-
مشاورتی کمیٹی میں مسلمانوں کی شرکت
لنڈن میں تو جو کچھ ہوا سو ہوا‘ رائونڈٹیبل کانفرنس کی ایک سب کمیٹی جو جناب وائسرائے کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہو رہی ہے اب اس کے متعلق بھی مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا اس میں شمولیت مسلمانوں کیلئے مفید ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں اسے بائیکاٹ کرنا چاہئے- بعض دوسروں کے نزدیک ہمیں اس سے پوری طرح تعاون کرنا چاہئے- اول الذکر کے دلائل مجھے معلوم ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب تک ہمارے حقوق کا فیصلہ نہیں ہوتا مرکزی حکومت کے اختیارات پر بحث کرنے سے ہم ایک رنگ میں اس کے قیام میں ممد ہوتے ہیں اور اس طرح خود اپنے ہاتھ کاٹ لیتے ہیں- دوسرے گروہ کا خیال غالباً اس امر پر مبنی ہے کہ اس وقت جب کہ ہندو حکومت کا بائیکاٹ کر رہے ہیں ہمارا حکومت سے تعاون اچھے نتیجے پیدا کرے گا اور انگریزوں اور مسلمانوں میں اچھے تعلقات پیدا کر دے گا- میں ان دونوں گروہوں کو نیک نیت اور مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھتا ہوں- لیکن میرے نزدیک یہ دونوں گروہ غلطی پر ہیں اور اس نازک موقع پر ہمیں اس سے زیادہ غور اور فکر کی ضرورت ہے جس قدر کہ اس وقت مسلمان کر رہے ہیں-
ہمیں اس امر کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ قریب میں مسلمانوں کے حقوق کے طے کرنے کا موقع دوبارہ نہیں آئے گا اور یہ کہ اگر ہم آج غلطی کر بیٹھے تو ہماری اولادوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور گو ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہوں‘ ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنی اولادوں کو قربان کر کے غلامی کے طوقوں میں جکڑ دیں- یقیناً اس سے زیادہ بدقسمت انسان ملنا مشکل ہو گا جس کی اپنی اولاد یا جس کے آباء کی اولاد اس پر *** کرے اور اسے اپنی ذلت کا موجب قرار دے-
مسلمانان ہندو کے حقوق کی اہمیت
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال چار ہزار آدمیوں کا سوال نہیں بلکہ آٹھ نو کروڑ آدمیوں کا سوال ہے- اور پھر صرف ہندوستان کے مسلمانوں کا سوال نہیں بلکہ کل دنیا کے مسلمانوں کا سوال ہے کیونکہ اس وقت دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ بیداری ہندوستان کے مسلمانوں میں ہی ہے اور ان کی موت سے عالم اسلام کی سیاسی موت اور ان کی زندگی سے عالم اسلام کی سیاسی زندگی وابستہ ہے- کیا اس قدر عظیم الشان ذمہ واری کی طرف سے ہم لا پرواہی کر سکتے ہیں- اسلام تو کیا اگر ہم میں انسانیت کا ایک خفیف سا اثر بھی باقی ہے تو ہم ایسا نہیں کر سکتے-
صحیح طریق عمل
اس تمہید کے بعد میں اپنا خیال ظاہر کرتا ہوں- میرے نزدیک ہمیں ہر ایک مخالفت پر بائیکاٹ کا حربہ نہیں اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بائیکاٹ جب کہ صرف تبادلہ خیال تک محدود ہو صرف ذہنی نشوو نما کو روکنے کا ہی موجب ہوتا ہے اس سے زیادہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا- میرے نزدیک صحیح طریق عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے مقصود کے حصول کو تو اصل قرار دیں اور جائز ذرائع کو فرع- پس جو جائز ذریعہ ہمیں حاصل ہو ہم اس کو استعمال کر لیں اور ذریعہ کو مقصد کا قائم مقام بنا کر اپنی سب توجہ اسی کی طرف نہ لگا دیں- ایک وکیل اگر دیکھے کہ اس کے موکل کو اس کے نقطہ نگاہ کے سوا کوئی اور نقطہ نگاہ فائدہ پہنچا سکتا ہے تو اسے اس کے اختیار کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہئے- پس ہمیں اس امر سے زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارے مدعا کے حاصل کرنے کیلئے کون سا ذریعہ مفید ہو سکتا ہے اور کسی جائز راستہ کو اپنے لئے بند نہیں کرنا چاہئے- اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے اگر رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں کی شرکت ہمارے لئے مفید ہو تو ہمیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے اور اگر مضر ہو تو حتی الوسع ہمیں اس سے بچنا چاہئے-
مشاورت میں شرکت
سب سے پہلے مشاورت میں شرکت کے سوال کو میں لیتا ہوں- شرکت عام طور پر مفید ہوتی ہے- کیونکہ انسان کو اپنے خیالات کے پیش کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے- اگر وہ پوری طرح کامیاب نہ بھی ہو تب بھی وہ یہ تو روشن کر دیتا ہے کہ میری رائے کے برخلاف اور صحیح دلائل نظر انداز کرتے ہوئے میرے مخالفوں نے فیصلہ کر دیا ہے لیکن اس موقع پر اس قسم کا تعاون مفید ہوتا ہے جب کہ دوسرا گروہ یہ سمجھتا ہو کہ یہ تعاون کسی مقررہ پالیسی کے ماتحت ہے- جب اس کا یہ خیال ہو اور جب یہ واقعہ بھی ہو کہ شرکت یا ذاتی مفاد کی خاطر ہو یا کسی مقررہ پالیسی کے فقدان کی وجہ سے تو ایسی شرکت کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی- اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں میں شرکت اگر کلی طور پر موخر الذکر قسم میں داخل نہ ہو تو اس کے مشابہ ضرور ہے- مسلمانوں کی ایک ذمہ وار انجمن نے یہ اعلان کر دیا ہوا ہے کہ جب تک مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک مرکزی ذمہ واری کے اصول کے طے کرنے میں ہمیں حصہ نہیں لینا چاہئے- میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ یہی فیصلہ معقول ہے-
پس اس فیصلہ کی موجودگی میں بغیر کسی شرط کے رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹیوں میں مسلمانوں کی شرکت انگریزوں کے دل میں یہ خیال ہزگز نہیں پیدا کر سکتی کہ مسلمان ہم سے تعاون کرتے ہیں آئو ہم بھی ان سے تعاون کریں- یہ شرکت انگریزوں کے دل میں یہ احساس پیدا کرے گی کہ مسلمان بے اصولے ہیں ان کی قوم کی کوئی پالیسی نہیں اور اگر کوئی ہے تو اس پر قائم نہیں رہ سکتے- ایسے بے اصولے لوگوں سے تعاون کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا- آئو ہم ظاہر میں ان سے فائدہ اٹھائیں اور اس موقع کے منتظر رہیں جب کہ ہندئووں سے جو اپنے اصول کے پکے ہیں ہمارا مناسب سمجھوتہ ہو سکے- انگریزوں کے ذہن میں اس قسم کے خیالات کا پیدا ہونا یقیناً مسلمانوں کے لئے مضر اور ان کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر دینے والا ہو گا-
مسلمانوں کی سیاسی کمزوری
یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ ہماری سیاسی کمزوری سے انگریز واقف نہیں- ایسا خیال ہمیں اس کبوتر کے مشابہ کر دے گا جو بلی کے حملہ کے وقت آنکھیں بند کر لیتا اور خیال کرتا ہے کہ میرے آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی بھی آنکھیں بند ہو گئی ہیں- انگریزوں کو حکومت کا لمبا تجربہ ہے اور مختلف اقوام کی کمزوریوں کو خود ان اقوام سے بھی زیادہ سمجھتے ہیں- پس میرے نزدیک ہمارا موجودہ تعاون انگریزوں کے دل پر کبھی بھی اچھا اثر پیدا نہیں کرے گا- وہ ظاہر میں اس سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن دل میں ہمیں نکما اور ناقابل التفات سمجھیں گے-
بائیکاٹ کی پالیسی
تعاون کے بعد میں بائیکاٹ کی پالیسی کو لیتا ہوں- میں خوب سمجھتاہوں کہ دنیا کے اکثر افراد کو میرے اس خیال سے اختلاف ہے لیکن میں اس امر کا سختی سے یقین رکھتا ہوں کہ بائیکاٹ ننانویں فیصدی جہالت اور اپنی کمزوری کے چھپانے کیلئے ہوتا ہے- وہ ایک سزا تو کہلا سکتا ہے لیکن آلہ اصلاح ہرگز نہیں- ہم جبر سے نہیں بلکہ دلیل سے دوسرے کی اصلاح کر سکتے ہیں- پس بائیکاٹ بطور ایک اصلاحی آلہ کے نہ صرف بیکار ہے بلکہ مضر ہے- اس وجہ سے بائیکاٹ کا بھی میں سختی سے مخالف ہوں- میرے نزدیک نہ صرف اس وقت بلکہ ہمیشہ ہمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے اور بائیکاٹ کے طریق کو اصلاحی آلہ کے طور پر کبھی استعمال نہیں کرنا چاہئے-
جہاں تک مسلمانوں کے حقوق کا سوال ہے- مسلمانوں کی اکثریت اس کے متعلق متفق ہے- ہم نے اسلامی سادگی سے کام لے کر اقل ترین ضروریات کو مختصر الفاظ میں بیان کر دیا ہے- ان میں خفیف تبدیلی صرف تزئین و تحسین کیلئے تو کی جا سکتی ہے لیکن ان میں کوئی اصولی تبدیلی کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے کیونکہ اس سے ہماری قومی زندگی پر تبر چل جاتا ہے جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے-
مسلمانوں کے مطالبات انگریزوں سے ہیں
یہ ہمارے مطالبات انگریزوں سے ہیں ہندئووں سے نہیں ہیں کیونکہ اس وقت حکومت انگریزوں کی ہاتھ میں ہے اور قانوناً سب سیاسی حقوق ان کے قبضہ میں ہیں- پس ہم اپنے حقوق کا مطالبہ انہیں سے کر سکتے ہیں- ہمارے ان مطالبات کے شائع ہونے پر انگریزوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہندئووں سے بھی سمجھوتہ کی کوشش کرو- اگر ان سے آپ لوگوں کا اتفاق ہو جائے تو اس میں آپ لوگوں کا نفع ہے نقصان نہیں- باوجود اس کے کہ قانونی نقطہ نگاہ سے ہندئووں کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہ تھا ہمارے نمائندوں نے صلح پسندی کے خیال سے ہندئووں سے سمجھوتہ کی متواتر کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے- میں یہ بحث نہیں کرتا کہ کیوں؟ مگر بہرحال مسلمان اس کوشش میں ناکام رہے اور اس قدر مرتبہ ناکام رہے کہ اب کوئی عقلمند مسلمانوں کو اس تجربہ کے دہرانے کا مشورہ نہیں دے سکتا- پس جب یہ طریق جو قانونی لحاظ سے درست نہ تھا کیونکہ اختیارات اس وقت برطانیہ کے قبضہ میں ہیں نہ کہ ہندئووں کے ناکام ثابت ہوا تو اب ہمارے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے یعنی انگریزوں سے جن کے ہاتھ میں حکومت ہے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا اور پیشتر اس کے کہ مرکزی حکومت کی کوئی معین صورت قرار پائے ہمارا فرض ہے کہ ہم برطانیہ سے اپنے حقوق کا تصفیہ چاہیں- ہمیں صاف اور واضع طور پر حکومت ہند سے کہہ دینا چاہئے کہ مسلمانوں کے یہ یہ مطالبات ہیں- پیشتر اس کے کہ ہم آگے چلیں ہمیں آپ بتا دیں کہ ان میں سے کس قدر مطالبات آپ منظور کر سکتے ہیں اور کس قدر نہیں اور کیوں؟ ہم نے ہندئووں سے آپ کے کہنے کے مطابق فیصلہ چاہا لیکن انہوں نے ہم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا- چونکہ اس وقت گورنمنٹ آپ کے ہاتھ میں ہے اس لئے ان اختیارات کے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ آپ ہی سے ہو سکتا ہے- پس ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنا آخری فیصلہ اس بارے میں دیں کیونکہ ہم زیادہ دور تک اندھیرے میں چلنا پسند نہیں کرتے-
مطالبہ حقوق کے دو طریق
اس امر کے پیش کرنے کے دو طریق ہیں- ایک یہ کہ ایک آل انڈیا وفد جناب وائسرائے کے سامنے جا کر مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ پیش کرے اور ساتھ ہی درخواست کرے کہ جس عرصہ تک آپ کو یہ فیصلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہو اس عرصہ تک مرکزی اختیارات اور مرکزی اور صوبہ جاتی تعلقات کے سوالوں کا فیصلہ ملتوی رکھا جائے-
دوسرا طریق یہ ہے کہ رائونڈٹیبل کانفرنس کی سب کمیٹی کے مسلمان ممبر ہی اس مطالبہ کو پیش کر دیں-
اگر حکومت مطالبہ منظور نہ کرے
چونکہ ضروری نہیں کہ ہمارے اس مطالبہ کو حکومت تسلیم کر لے اس لئے ہمیں اس صورت حالات کا علاج بھی سوچ لینا چاہئے- میری رائے میں اگر حکومت اس مطالبہ کو منظور نہ کرے اور مسلمانوں کے مطالبات کے متعلق اپنا قطعی فیصلہ شائع نہ کرے جس سے ہمیں یہ معلوم ہو سکے کہ وہ اصطلاحات جن کے پردہ میں ہم سے وعدے کئے گئے ہیں ان کے اصلی معنی کیا ہیں- تو اس صورت میں مسلمان ممبران رائونڈٹیبل کانفرنس کو سب کمیٹیوں میں شامل تو ہونا چاہئے تاکہ تعاون کا دروازہ کھلا رہے اور تا ایسے مواقع جن میں مشورہ میں شامل ہونا مفید ہو سکتا ہو ہاتھ سے نہ جاتے رہیں لیکن جب بھی کوئی سوال مرکزی اختیارات کے متعلق یا مرکز اور صوبہ جات کے تعلق کے متعلق آئے انہیں کہہ دینا چاہئے کہ چونکہ ہمارے حقوق کا تصفیہ نہیں ہوا‘ ہم اس بحث میں حصہ نہیں لینا چاہتے- اس امر کی روزانہ تکرار بائیکاٹ سے یقینی زیادہ مفید ثابت ہو گی اور چند ہی دنوں میں حکومت اس امر کی ضرورت محسوس کرنے لگے گی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے متعلق اپنا فیصلہ سنا دے-
بائیکاٹ میں ایک بہت بڑا نقص
بائیکاٹ میں علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے یہ نقص بھی ہے کہ حکومت وفادار ممبروں کی جگہ ایسے غدار ممبر مقرر کر سکتی ہے جو مسلمانوں کے مفاد کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں- پس اگر موجودہ مسلمان ممبر مذکورہ بالا طریق پر اپنی وفاداری کا ثبوت دیں تو ان کا ممبر رہنا مسلمانوں کیلئے ان کے علیحدہ ہونے سے بدرجہا بہتر ہو گا-
سارے ہندوستان میں جلسے منعقد کئے جائیں
ایک اور امر بھی میرے نزدیک ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایک خاص دن مقرر کر کے سارے ہندوستان میں مسلمان جلسے کر کے اس امر کے ریزولیشن پاس کریں کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت مسلمانوں کے حقوق کے متعلق اپنا آخری فیصلہ شائع کرے- پس ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کا فیصلہ مخالف ہو یا موافق مرکزی حکومت کے ڈھانچہ کے تیار ہونے سے پہلے شائع کر دیا جائے- مسلمانوں کے نمائندوں کو بھی چاہئے کہ وہ فوراً سب کے سب مل کر یا ان میں سے جس قدر بھی اپنی قوم کی ترجمانی کیلئے تیار ہوں حکومت تک ہمارا یہ خیال پہنچا دیں اور اگر حکومت اس کے بعد بھی اپنا فیصلہ شائع نہ کرے تو انہیں چاہئے کہ ایسے تمام سوال جو مرکزی اختیارات کے متعلق ہوں یا جن میں مرکز اور صوبجاتی حکومت کے اختیارات کی حد بندی کی جانی ہو ان کے متعلق احتجاج کر کے خاموش بیٹھے رہیں اور صرف کاروائی سنتے رہیں تاکہ ان کا علم کامل رہے اور صورت حالات کی تبدیلی کی صورت میں فوراً کام شروع کر سکیں- تمام ہندوستان میں ان قرار دادوں کے پاس ہونے کے بعد وفادار مسلمان نمائندوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور وہ جو اپنی قوم کی ترجمانی کرنا پسند نہیں کریں گے ان کے متعلق ظاہر ہو جائے گا کہ وہ اس کانفرنس میں ذاتی اعزاز کے حصول نیت سے شامل ہوئے ہیں نہ کسی قومی فائدہ کو مدنظر رکھ کر- اگر مسلمان نمائندے سب کے سب یا ان میں سے بعض باوجود اپنی قوم کے مطالبہ کے بلا قید شرکت کو جاری رکھیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے متعلق عدم اعتماد کے ریزولیشن پاس کر کے حکومت کو بھجوا دیں اور تمام ہندوستان میں دوبارہ جلسے کر کے اس امر کا اعلان کر دیا جائے کہ مسلمانوں کی نمائندگی رائونڈٹیبل کانفرنس میں بالکل نہیں ہے یا ناکافی ہے-
برطانیہ کیلئے مسلمانوں سے سمجھوتہ ضروری ہے
میں سمجھتا ہوں کہ خواہ کوئی کیسی ہی زبردست نمائندہ انجمن ہو اس کے فیصلہ کی نسبت یہ تمام ہندوستان کے جلسے زیادہ با اثر اور زیادہ مفید ثابت ہوں گے- اور حکومت ہند اچھی طرح معلوم کر لے گی کہ مسلمانوں کے اصل خیالات کیا ہیں اور چونکہ یہی حق ہے کہ اس وقت برطانیہ کا اپنی گزشتہ شان و شوکت کو قائم رکھنا مسلمانوں سے اتحاد کے بغیر ناممکن ہے اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ انگریزوں سے جو مسلمانوں کی طرح سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں باوقار سمجھوتہ کر لیں- اس لئے جب مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ حکومت تک پہنچ جائے گا تو برطانیہ ضرور اس کی طرف توجہ کرے گا اور اگر وہ ایسا کرے گا تو ہماری طرف سے اس پر حجت تمام ہو جائے گی-
اظہار خیالات کی دعوت
وہ مسلمان جو میرے اس خیال سے سے متفق ہوں اگر اپنے خیالات پبلک میں یا خطوط کے ذریعہ سے ظاہر کریں تو ہو سکتا ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد کوئی خاص دن اس غرض کیلئے مقرر کر دیا جائے جس میں سب ہندوستان میں مذرکور بالا غرض کیلئے جلسے منعقد کئے جائیں- میں امید کرتا ہوں کہ اس نازک موقع پر مسلمان اپنے فوائد کو یوں کچلتا ہوا دیکھنا پسند نہیں کریں گے اور موقع کی اہمیت کے مطابق بیداری اور قربانی کا ثبوت دیں گے- )نوٹ تمام درد مند مسلمانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اس مضمون سے اپنے علاقہ کے لوگوں کو آگاہ کر دیں(-
خاکسار
مرزا محمود احمد
‏a12.36
انوار العلوم جلد ۱۲
اسلام کی دوستی کے پردہ میں دشمنی
اسلام کی دوستی کے پردہ میں دشمنی

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksn-jmc [tagاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ- ھوالناصر
ندائے ایمان )نمبر۳(
اسلام کی دوستی کے پردہ میں دشمنی
اسلام کی سب سے بڑی خوبی اس کی وہ زندگی ہے جس کا جواب دوسرے کسی مذہب میں موجود نہیں- ماضی کے قصے ہر اک مذہب میں موجود ہیں لیکن ذیل کے معیار پر سوائے اسلام کے کوئی پورا نہیں اترتا- مثلا کلمہ طبیہ کشجرہ طیبہ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء توتی اکلھا کل حین باذن ربھا ۱~}~ پاک کلام کی حالت پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا پھل ہر وقت دیتا ہے- یہ پھل صرف اسلام میں ہی موجود ہے اور اس کی زندگی پر ایک زبردست شاہد ہے-
انہی پھلوں میں سے ایک پھل کا نام رسول کریم ~صل۲~ نے مسیح موعود اور مہدی معہود رکھا ہے- اور مسلمان تیرہ سو سال سے برابر اس زمانہ کا انتظار کرتے چلے آئے ہیں جب اسلام کے درخت کو یہ پھل لگے اور دوسرے مذہبوں پر اس کی برتری ثابت کرے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ رسول کریم ~صل۲~ نے خود اس کے زمانہ کا ان الفاظ میں شوق دلایا ہے کہ اسلام کس طرح ہلاک ہو سکتا ہے جب کہ اس کے شروع میں میں اور آخر میں مسیحموعود ہیں-۲~}~ اور پھر فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ اس امت کا ابتدائی حصہ اچھا ہے یا آخری-۳~}~ پس رسول کریم ~صل۲~ کی وفات کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے بڑھ کو خوش کن خواب مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کو پانا تھا- ان کے بڑے اور ان کے چھوٹے‘ ان کے عالم اور ان کے جاہل سب شوق سے اس دن کا انتظار کر رہے تھے جب مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور ایک دفعہ پھر مسلمان رسول کریم ~صل۲~ کے صحابی کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کا نور ان میں چلتا پھرتا نظر آئے گا‘ ایک دفعہ پھر باوجود لمبے عرصہ کے گذر جانے کے وہ رسول کریم ~صل۲~ کے بروز اور آپ کے روحانی فرزند کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر گویا خود رسول کریم ~صل۲~ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے‘ پھر اسلام کفر پر فخر کرے گا اور کفر اسلام کے سامنے شرمندگی سے سرجھکا لے گا- اور مسلمان کفار کو دیکھ کر کہیں گے اے جھوٹے مذاہب کے فریب میں آنے والو! دیکھو ہمارا زندہ مذہب وہ کس طرح ہر ضرورت پر پھل دیتا ہے اور اے مردہ راہنمائوں کی یاد میں رونے والو! دیکھو ہمارا رسول وہ کس طرح زندہ ہے اور کس طرح اس کا فیض اس کے روحانی فرزندوں کے ذریعہ سے ہر زمانہ میں جاری ہے-
مسلمان اسی امید اور اسی آرزو میں بیٹھے تھے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہالسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا- سارے عالم اسلامی میں شور پڑ گیا کہ وہ جس نے آسمان پر سے آنا تھا زمین پر سے کس طرح ظاہر ہو گیا- اور جس نے بنی اسرائیل میں سے ظاہر ہونا تھا مسلمانوں میں کس طرح پیدا ہو گیا- تمام علماء نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے اور کہا کہ یہ شخص رسول کریم ~صل۲~ کی پیشگوئیوں کا منکر ہے اور اسلام کا دشمن لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں جب آپ نے اور آپ کی جماعت نے قرآن کریم سے ثابت کر دیا کہ مسیح ناصری علیہالسلام فوت ہو چکے ہیں اور اب کوئی مسیح آسمان سے آنے والا نہیں اور مسلمان علماء نے جن کی نسبت رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں وہ سب لوگوں سے بدتر ہوں گے-۴~}~ جب دیکھ لیا کہ مسیح کو زندہ رکھنا مشکل ہے اور اس میدان میں سلسلہ احمدیہ کا مقابلہ کرنا ناممکن تو انہوں نے جھٹ پہلو بدلا اور اب عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمیں کسی مسیح اور مہدی کی ضرورت نہیں رسول کریم ~صل۲~ ہمارے لئے کافی ہیں- آج سے تیس سال پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ آسمان پر سے مسیح کے آنے کے منکر ہیں- آج یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ رسول کریم ~صل۲~ کے بعد کسی مسیح کے آنے کے قائل ہیں- کیا رسول کریم ~صل۲~ ہمارے لئے کافی نہیں؟ جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ یہ شور اسلام کی خیر خواہی کی وجہ سے نہیں- بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی کے سبب سے ہے- جس طرح کسی نے کہا ہے کہ لا بحب علی بل ببغض معاویہ علی کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ معاویہ کے بغض کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے- وہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہو رہا ہے کہ محض مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی کی وجہ سے وہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو مٹا رہے ہیں- اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے اور یہ نہیں خیال کرتے کہ اس طرح وہ اسلام کی سب سے بڑی خوبی کو مٹا رہے ہیں اور اسلام کو کفر کے سامنے شرمندہ کر رہے ہیں-
سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہیھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین- واخرین منھم لما یلحقوابھم وھو العزیز الحکیم- ۵~}~ وہ خدا ہی ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور انہیں پاک کرے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے گو اس سے پہلے یہ لوگ کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے- اور اسی طرح یہ رسول ایک ایسی ہی امی قوم کو جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی یہی باتیں سکھائے گا اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے-
اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ~صل۲~ کی دو بعثتیں مقدر ہیں- ایک ظاہری اور ایک باطنی یا ایک حقیقی اور ایک ظلی- اور دونوں بعثتوں میں کام ایک ہی ہے- یعنی اللہتعالیٰ کے تازہ نشانات لوگوں کو سنا کر اور ظاہری اور باطنی شریعت کی تعلیم دے کر لوگوں کو پاک کرنا- اب مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی میں گو ظاہری بعثت کے تو قائل ہیں لیکن باطنی کا انکار کر رہے ہیں- اور اس آیت کے صریح مفہوم کو جھٹلا رہے ہیں- اور اسی طرح اور بہت سی آیتوں کو جن کے ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں- اور صدہا حدیثوں کو اور ہزارہاکشوف کو جو تیرہ سو سال میں مسلمان اولیاء آمد مسیح کے متعلق دیکھتے رہے ہیں-
یہ منکر ایک آیت کے مفہوم کی تاویل کر لیں گے ایک حدیث کو بگاڑ لیں گے لیکن وہ متعدد آیات اور صدہا حدیثوں اور ہزار ہا کشوف کو نہیں چھپا سکتے- مسیح کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق ایک بھی کشف کسی مسلمہ بزرگ کی پیش نہیں جا سکتی لیکن اس کی آمد کے متعلق قریباً ہر ولی نے کچھ نہ کچھ خبر دی ہے- پس مسیح کی آمد کا انکار درحقیقت قرآن اور حدیث اور سب بزرگوں کا انکار ہے اور اس قسم کے انکار کے بعد اسلام کا باقی ہی کیا رہ جاتا ہے-
میں ان تمام مسلمانوں سے جو اسلام کا درد رکھتے ہیں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس خطرناک فتنہ کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کا مقابلہ کریں- اگر وہ بانی سلسلہ کی صداقت کو ابھی نہیں سمجھے تو نہ سہی وہ خدا تعالیٰ کے فضل کی گھڑی کا انتظار کریں لیکن آپ کی دشمنی میں جو اسلام کو زندگی سے اور رسول کریم ~صل۲~ کو اجرائے فیض سے محروم کیا جا رہا ہے وہ کم سے کم اس سے تو بچیں اور دوسروں کو بچائیں-
مسیح موعود کی آمد کے منکر لوگوں کو یوں دھوکا دیتے ہیں کہ رسول کریم ~صل۲~ چونکہ کامل ہیں آپ کے بعد کسی شخص کی ضرورت نہیں لیکن یہ نادان نہیں سمجھتے کہ کیا خدا تعالیٰ کامل نہیں- کیا خدا تعالیٰ نے اس وجہ سے کہ اس کا نور بندوں کی نگہ سے پوشیدہ ہو گیا رسول کریم ~صل۲~ کو نہیں بھیجا- پھر جب خدا تعالیٰ کے نور کو ظاہر کرنے کے لئے رسول کریم ~صل۲~ کے ظہور کی ضرورت ہوئی تو کیوں رسول کریم ~صل۲~ کے نور کے ظہور کے لئے آپ کے کسی فیض یافتہ کی ضرورت نہیں ہو سکتی- یہ لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان خراب ہو گئے ہیں لیکن یہ نہیں تسلیم کرتے کہ ان کے علاج کے لئے خدا تعالیٰ کوئی تدبیر کرے گا- ان کے نزدیک امت محمدیہ کے بگڑنے سے تو رسول کریم ~صل۲~ کے کمال میں فرق نہیں آتا لیکن اس بگاڑ کی درستی کا سامان کرنے سے آپ کے کمال میں نقص آ جاتا ہے- شیطان کی ذریت جاری رہے تو آپ کی ہتک نہیں ہوتی لیکن آپ کے روحانی فرزند پیدا ہوں تو آپ کی ہتک ہوتی ہے- اگر غور کریں تو اس خیال کے لوگ دانستہ یا نادانستہ ابوجہل کی نقل کرتے ہیں- جس نے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ابتر ہیں- حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان شائنک ھوالابتر ۶~}~تیرے دشمن ہی بے اولاد ثابت ہوں گے تیری اولاد تو جاری رہے گی- گویا جب کبھی کوئی شیطانی تحریک جاری ہوگی رسول کریم ~صل۲~ کی روحانی اولاد میں سے کوئی شخص کھڑا ہو کر اسے تباہ کر دے گا- غرض یہ تحریک جو اس وقت مسلمانوں میں مسیح کی آمد کا انکار کرنے کے متعلق ہو رہی ہے ایک شیطانی تحریک ہے اور دجالی بھی کیونکہ دجال کا کام ہے کہ مسیح کا مقابلہ کرے- اور اس سے بڑھ کر اور کیا مقابلہ ہو گا کہ سرے سے اس کی آمد کا ہی لوگوں کو منکر بنا دیا جائے- اور گوبظاہر اس تحریک کو اسلام کی دوستی کا جامہ پہنایا جا رہا ہے لیکن درپردہ یہ اسلام کی دشمنی ہے- اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمان یا تو یہ سمجھنے لگیں گے کہ اسلام خدا کا پیارا مذہب نہیں کہ اس کی خرابی کی اسے پرواہ نہیں اور یا پھر یہ سمجھنے لگیں گے کہ مسلمانوں کے عقیدہ اور عمل میں کوئی خرابی ہی نہیں آئی- اور ایک طرف تو اپنی اصلاح سے غافل ہو جائیں گے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کو ظالم سمجھنے لگیں گے کہ بغیر ہمارے قصور کے اس نے ہمیں آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیا ہے- اور ان دونوں خیالات میں سے کوئی بھی غالب آ جائے وہ مسلمانوں کو ترقی سے محروم کر دے گا- پس اب بھی وقت ہے کہ اس دجالی تحریک کا مقابلہ کیا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دشمنی میں اسلام کی جڑ پر تبر نہ رکھا جائے- ورنہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے فضل کا انکار رنگ لائے بغیر نہیں رہے گا- وہ فرماتا ہے- لئن شکرتم لا زید نکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید ۷~}~ اگر تم شکر کرو تو میں تم کو اور بھی بڑھائوں گا اور اگر تم کفر کرو تو میرا عذاب بہت سخت ہے- واخردعونا ان الحمد للہ رب العالمین-
خاکسار
مرزا محمود احمد- خلیفتہ المسیح الثانی
امام جماعت احمدیہ- قادیان-
۱~}~
ابراھیم : ۲۵‘ ۲۶
~}~ :

۲~}~
کنزالعمال جلد۱۴ صفحہ ۲۶۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء
‏ ۳2]~}~ ft[r
الجامع الصغیر جلد۱ صفحہ۵۴ مطبع خیریہ مصر ۱۳۰۴ھ
۴~}~
کنزالعمال جلد۱۱ صفحہ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۵~}~
الجمعہ : ۳‘ ۴
۷~}~ الکوثر :۴
۵~}~ ابراہیم : ۸
‏a12.37
انوار العلوم جلد ۱۲
جدید عمارت میں دفاتر صدر انجمن کے افتتاح کی تقریب
جدید عمارت کمیں دفاتر صدر انجمن
کے افتتاح کی تقریب

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
جدید عمارت میں دفاتر صدرانجمن
کے افتتاح کی تقریب
تشہد‘ تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
اس سنجیدہ تقریب کے لحاظ سے گو اس امر سے ابتداء جس سے کہ میں کرنا چاہتا ہوں ایسی مناسب نہ ہو لیکن ایڈریس کے شروع میں ایک ایسا فقرہ لکھا گیا ہے جس کی وجہ سے میں مجبور ہوں کہ اس کا ذکر کروں- ایڈریس کے شروع میں ایک فقرہ لکھا گیا ہے جو گو رسمی ہے اور بہت سی جگہوں میں صحیح بھی ہوتا ہے مگر اس موقع پر غلط ہے اور وہ یہ فقرہ ہے کہ میں نے باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے اس دعوت میں شرکت اختیار کی ہے- چونکہ سلسلہ کے نظام کے لحاظ سے تمام کاموں کی بنیاد خلیفہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ میں اپنی مصروفیتوں کے باوجود یہاں آ گیا درست نہیں ہے اتفاقاً آج صبح ہمارے گھر میں میاں بگا کا ذکر ہو رہا تھا- میری ایک بیوی جو بعد میں آئی ہیں ان سے میں ذکر کر رہا تھا کہ یہاں ایک شخص میاں بگا ہوتا تھا جو بہت سادہ تھا اور بعض لوگ اسے دھوکا دے کر ہنسی کی باتیں کرا لیتے تھے- ایک دفعہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا کسی نے اسے کہا اس موقع پر لوگوں سے مٹھائی کھائو- ان کا فرض ہے کہ تمہیں مٹھائی کھلائیں- اس پر اسے آمادہ کر کے اس کی طرف سے اشتہار لکھ دیا گیا کہ آپ لوگوں کی مہربانی سے میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اب آپ کا فرض ہے کہ مجھے مٹھائی کھلائیں-
اصل بات یہ کہ میرے کام اور میری مصروفیتیں سلسلہ ہی کیلئے ہیں اور یہ میرا فرض ہے کہ سلسلہ کے کام عمدہ طور پر ہوتے دیکھوں- اس لحاظ سے اگر میں سلسلہ کی کسی تقریب میں شریک ہوتا ہوں تو اپنی مصروفیتوں کو ترک نہیں کرتا بلکہ وہ بھی میری مصروفیتوں کا جزو ہے-
میں نے اس مکان کے دروازہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو الہام لکھنے کا مشورہ دیا تھا- اس وقت انہی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں- یہ الہام ایسے ہیں کہ ان میں سے ایک تو سلسلہ کے کاموں کی ابتداء کی طرف شارہ کرتا ہے اور دوسرا انتہاء کی طرف جب مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں کوئی ایسا الہام یا آیت بتائوں جسے اس مکان کے دروازہ پر لکھایا جائے تو معاً میرے دل میں یہ الہام ڈالے گئے- پہلا الہام یہ ہے nsk] ga[t ینصرک رجال نوحی الیھم منالسماء۱~}~ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرماتا ہے- تیری مدد ایسے آدمی کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی کریں گے-
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام اس وقت ہوا جب کہ آپ اپنے خاندان میں بھی عضو معطل سمجھے جاتے تھے اور دنیا کے لحاظ سے بھی آپ کو کوئی مقبولیت حاصل نہ تھی اس وقت خدا تعالیٰ نے یہ الہام نازل کیا جس میں بہت بڑے بڑے مطالب ہیں-
اول یہ کہ جب فرمایا- ینصرک رجال- تو اس میں یہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہالصلوۃ والسلام عظیم الشان کام کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں- کیونکہ معمولی کام جسے کوئی اکیلا کر سکے اس کے سر انجام دینے کیلئے دوسرے آدمیوں کی ضرورت نہیں ہوتی- تو اس وقت جب کہ اپنے گائوں کے لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ جانتے تھے خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آپ کو ایسے کام پر مامور کیا جائے گا جسے اکیلا نہ کر سکے گا- بلکہ اس کے کرنے کیلئے بہت سے مددگاروں کی ضرورت ہو گی- یہ بات سلسلہ کی عظمت اور وسعت پر دلالت کرتی ہے-
دوسرا مفہوم ینصرک میں ک کی ضمیر میں یہ بتایا کہ قومی کارکن عام طور پر ایسے ملتے ہیں جو خود غرضی سے کام کرتے ہیں- ایک شخص جو فوج میں بھرتی ہوتا ہے بظاہر ملک کی خدمت کیلئے بھرتی ہوتا ہے مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سپاہی سے لیس(LANCE) لیس سے نائیک‘ (NIKE) نائیک سے حوالدار‘ حوالدار سے جمعدار اور جمعدار سے صوبیدار بن جائے- اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ ولسلام کو یہ فرمایا کہ ہم تمہاری امداد کیلئے ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیں گے جو اپنی ذات کیلئے کسی قسم کی بڑائی نہیں چاہیں گے بلکہ اس کام کو کریں گے جس پر تجھے مقرر کیا گیا ہے- گویا اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے لوگ اس لئے پیدا کئے جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لگائی ہوئی داغ بیل کو قائم کریں- پھر فرماتا ہے-
ینصرک رجال یہاں رجال کا لفظ رجولیت کی طرف شارہ کرنے کیلئے رکھا گیا ہے- یعنی ایسے آدمی کھڑے کئے جائیں گے جو کام کرنے کی اہلیت اور قابلیت رکھیں گے- پھرفرمایا-
ینصرک رجال نوحی الیھم منالسماء اس میں چوتھی بات یہ بیان کی کہ آئندہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو الہام اور وحی سے کھڑے ہوں گے- منالسماء اس لئے فرمایا کہ وحی کئی قسم کی ہوتی ہے- ایک قلبی وحی ہوتی ہے جیسے مکھی کو ہوتی ہے- من السماء کہہ کر اس بات پر زور دیا کہ وہ وحی آسمان سے نازل ہو گی- کئی وحیوں کے سامان دنیا میں پیدا ہوتے ہیں- مگر اس کے متعلق فرمایا-
ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے- یعنی سلسلہ الہام کثرت سے جاری ہو گا-
اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام بھی ظاہر ہے- کسی مجدد کے ماننے والے الہام کے ذریعہ نہیں کھڑے ہوتے- یہ خصوصیت انبیاء کے ہی ماننے والوں کیلئے ہے-
غرض اتنی باتیں اس الہام میں بتائی گئی ہیں- یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کے کام کے درجے ہوتے ہیں اور جب اس کا درجہ بیان کیا جاتا ہے تو انتہائی بیان کیا جاتا ہے- اس الہام میں بھی انتہائی درجہ بیان کیا گیا ہے- فرمایا- نوحی الیھم من السماء ان پر آسمان سے وحی نازل ہوگی مگر وہ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں وحی من السماء نہ ہو لیکن وحی منالارض ہو ان کے دلوں میں تحریک ہو اور وہ اس کام کیلئے کھڑے ہو جائیں-
غرض اس الہام میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے- اسے مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس الہام کو لکھنے کیلئے کہا تھا تا کارکنوں کو معلوم ہو کہ جو کام وہ کرتے ہیں وہ وحی الہی کے ماتحت ہے- خواہ وہ وحی ان کو براہ راست نہ ہو بلکہ دوسروں کو ہو- حدیث میں آتا ہے-بعض کو وحی ہوتی ہے اور بعض کیلئے وحی کی جاتی ہے-۲~}~ غرض خدا تعالیٰ اپنے خاص کاموں کے لئے لوگوں کو تحریک کیا کرتا ہے- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں یہی بات بیان کی گئی اور میں نے یہ الہام لکھا کر کارکنوں کو توجہ دلائی کہ ان کا کام کتنا مقدس اور کتنا اہم ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کس قسم کی امید رکھتا ہے- اول تو یہ کہ ان کا کام لغو اور بے فائدہ نہ ہو- بلکہ ایسا ہو جس سے نصرت حاصل ہو- اگر ان کے کام سے سلسلہ کی نصرت نہیں ہوتی تو ایسے کام سے کوئی فائدہ نہیں- پس ان کے کام ایسے نہ ہوں جو دوسروں کیلئے ٹھوکر اور نقصان کا موجب ہوں-
دوم یہ کہ وہ اخلاص رکھتے ہوں- سلسلہ کے کام کو سب کاموں پر مقدم کرتے ہوں- سوم یہ کہ رجال ہوں- یعنی قوت وطاقت‘ عقل و فہم سے کام کرنے والے ہوں- چوتھے ایسے طرز سے کام کریں کہ وحی نازل ہونے لگ جائے- وحی کیلئے ضروری نہیں کہ آسمان سے ہی نازل ہو یہ تو وحی کا انتہائی درجہ ہے باقی ہر قسم کی وحی اس کے اندر شامل ہے- جب کہ ایم- اے کی ڈگری میں بی- اے اور ایف اے- سب امتحان شامل ہیں تو آسمانی وحی سے نچلے درجہ کی سب وحیاں اس میں آ جاتی ہیں- جس قسم کا کوئی انسان کام کرتا ہے اس کے مطابق خفی‘ جلی‘ قلبی وحی کے ذریعہ نئے نئے طریق اسے اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے-
آخری بات یہ ہے کہ وہ وحی ترقی کرتے کرتے من السماء کے درجے تک پہنچ جائے- اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جو سچے دل سے اور اخلاص سے کارکن کام کریں گے ان پر وحی من السماء کا دروازہ کھول دے گا-
یہ تو کام کی ابتداء ہے کہ کس قسم کے لوگ سلسلہ میں آئیں گے اور کس طرح کام کریں گے- دوسرے الہام میں یہ مقصود بتایا کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا-<]71 [p۳~}~
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ تیری تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے- اب اگر دنیا میں کوئی جگہ ایسی رہ جائے جہاں آپ کا پیغام نہ پہنچا ہو تو گویا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا- ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ پہنچائیں- امورعامہ‘ تعلیموتربیت‘ قضاء وغیرہ کسی کا کام ہو یہ سب دعوت و تبلیغ کے ماتحت آ جائیں گے- خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے متعلق >تیری تبلیغ< کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا کہ:
)۱( تیرے نام کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا- یعنی اس تبلیغ کو جو تیری طرف منسوب ہو گی-
)۲( یہ بتایا کہ جو تبلیغ تو کر رہا ہے وہی تبلیغ اسلام ہے- اسے دنیا تک پہنچائوں گا- گویا اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہمارا فرض ہے-
پس ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنانا ہمارا کام ہے- مگر قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ اسلام نہیں لائیں گے- ادھر ہمیں یہ حکم ہے کہ جب تک یہ سب نہ مان لیں تمہارا کام ختم نہیں ہوتا اس لئے مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک ہمیں کام کرنا ہے اور کسی وقت ہمیں اپنے کام کو ختم نہیں سمجھنا- کیونکہ کام کو ختم سمجھ لینے کی وجہ سے انسان سست ہو جاتا ہے- عام طور پر لوگ تکالیف اور مصائب سے گھبراتے ہیں مگر ساری کامیابی اور سب ترقی مصائب اور تکالیف سے ہی وابستہ ہوتی ہے- اس دنیا میں انبیاء کیلئے بھی تکالیف ہوتی ہیں بلکہ ان کیلئے زیادہ ہوتی ہیں-
پس ہمارا کام ایسا ہے جو مصائب اور تکالیف کو زیادہ کرنے والا ہے مگر یہی بات جماعت میں زندگی اور بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے- جب دشمن اعتراض کرتا ہے تو غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نئے نئے معارف کھلتے ہیں- مسلمانوں نے جب تبلیغ اسلام چھوڑ دی تو سست ہو گئے- لیکن جب تک تبلیغ میں مصروف رہے- نئے نئے معارف کھلتے رہے اور اب بھی تبلیغ میں مصرورف رہنے پر کھلتے رہیں گے- پس ہماری جماعت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی اسلام سے باہر رہتا ہے ہمارا کام ختم نہیں ہوتا- یہ سمجھنے سے جرات اور دلیری پیدا ہوتی ہے لیکن جب یہ مقصد سامنے نہ ہوگا تنزل اور تباہی شروع ہو جائے گی-
عیسائیت کو دیکھ لو- اتنا بودا مذہب ہونے کے باوجود چونکہ عیسائی تحقیق و تدقیق جاری رکھتے ہیں اس لئے ترقی کرتے جاتے ہیں- مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے- کیونکہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی اس لئے تنزل کرتے گئے- عیسائی اپنے مذہب کی جب تبلیغ کرتے ہیں اور ان پر اعتراض ہوتے ہیں تو وہ مسائل پر غور کرتے ہیں لیکن مسلمان نہ دوسروں کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں نہ کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ انہیں غور کرنے کا موقع ملتا ہے-
ہمارا مقصد یہ رکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائیں- یعنی تمام دنیا میں تبلیغ پھیلانا ہمارا فرض ہے- سب کارکنوں کو خواہ وہ کسی کام پر ہوں اسے مدنظر رکھنا چاہئے کہ تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچے-
اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے- )الفضل ۳ مئی ۱۹۳۲ء(
۱~}~
تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۵۰
۲~}~
ترمذی ابواب الرویا باب ذھبت النبوہ وبقیت المبشرات
۳~}~
تذکرہ صفحہ۳۱۲- ایڈیشن چہارم
‏a12.38
انوار العلوم جلد ۱۲
الہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے کارکنوں کا مقام
الہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے
کارکنوں کا مقام

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏po] ga[tبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے
کارکنوں کا مقام
)فرمودہ ۱۴ مئی ۱۹۳۲ء برموقع الوداعی ٹی پارٹی مرزا محمد اشرف صاحب(
آج کی تقریب جس کے لئے ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک نئے دور کا افتتاح ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ابتدائی ایام سے ایک نظام کے ماتحت سلسلہ کا کام کیا ان سے کچھ لوگ ایام کارکردگی کو پورا کر کے سبکدوش ہو رہے ہیں- پہلا دوران لوگوں کا تھا جنہوں نے ابتدائی ایام میں انفرادی جدوجہد میں حصہ لیا اور ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوتے گئے- اب یہ نیا دور شروع ہوا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے نظام کے ماتحت ابتدائی ایام میں سلسلہ کی خدمات کیں اب ایام کارکردگی پورا ہونے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں- اس نئے دور کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ بعض ماتحت افسر ہو جائیں گے اور بعض افسر اور ترقی کریں گے حتیٰ کہ نیچے کی طرف سے حرکت پیدا ہو کر آگے کی طرف بڑھتی جائے گی اور یہ چیز اپنے ساتھ امنگیں بھی لاتی ہے اور خطرات و فتن بھی- کیونکہ جہاں ایک طرف اس سے ایک ماتحت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ترقی کے رستے کھل رہے ہیں اور اس طرح اس کے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں وہاں یہ بات بھی پیدا ہوتی ہے کہ نئے کارکن آگے آتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک لمبا عرصہ خدمت کی ہے اور یہ چیز جہاں فوائد اپنے اندر رکھتی ہے وہاں خطرات سے بھی خالی نہیں- مگر بہرحال دنیا کے تجربہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم کی امنگوں کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ترقی کے راستے کھلے رکھے جائیں کیونکہ جب یہ مسدود کر دیئے جائیں تو امنگیں مٹ جاتی ہیں اور جب امنگیں مٹ جائیں تو انسانی دماغ کی سرسبزی اور شادابی جس پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہے‘ کھوئی جاتی ہے-
جب سے میں نے سلسلہ کے کام اور نظام کو وسیع کرنے اور ایک نیا ڈھانچہ دینے کی کوشش کی ہے- اسی وقت سے یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ جو لوگ ماتحتی میں کام کر رہے ہیں ان کی ترقی کے رستے کھلے رہیں- ہمارے سلسلہ کے کام دو صنفوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں- ایک تو یہ کہ انسانوں کے تعاون پر ان کی بنیاد ہونی چاہئے- یعنی ایسے لوگ ہوں جو خیالات اور جذبات میں کام لینے والے سے متفق ہوں- ایسے کاموں کے لئے باہر سے آدمی چنے جاتے ہیں جو انہیں سر انجام دے سکیں- تمام حکومتوں کا یہی دستور ہے کہ وہ وزراء باہر سے مقرر کرتی ہیں- اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیرونی لوگوں کے خیالات ایسے تغیر پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں جن سے قوم کی رگوں میں نیا خون پیدا ہوتا ہے- دوسرے دفتری کام کے نتیجہ میں دماغ کی ساخت ایک خاص قسم کی ہو جاتی ہے اور جدت کا مادہ قائم نہیں رہتا- اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ باہر سے ایسے لوگ لائے جائیں جو بیرونی خیالات قوم میں داخل کر کے نیا رنگ اور نیا جوش پیدا کریں- لیکن ایک حصہ ایسا بھی ضرور ہونا چاہئے جو اس نظام کے قوانین اور آئین و ضوابط کی باریکیوں کو اچھی طرح جانتا ہو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کارکنوں کے لئے ترقی کے راستے کھلے ہوں پس یہ دونوں باتیں ضروری ہیں- یہ بھی کہ ایسے لوگ باہر سے لائے جائیں جو ماتحت عملہ سے تعلق نہ رکھتے ہوں تا وہ دماغ کا کام دیں اور ایسے لوگوں کو بھی ترقی دی جائے جو تفصیلات سے آگاہ ہوں اور شروع سے ترقی کر کے ایک مقام پر پہنچیں تا وہ دوسرے اعضاء کا کام دے سکیں- اس کے لئے میں نے مدت سے یہ سکیم مقرر کی ہوئی ہے کہ بعض عہدے جو ذمہ داری کے بھی ہوں اور جن کے ساتھ ایک لمبے دفتری تجربہ کا بھی تعلق ہو خصوصاً محاسب اور آڈیٹر کا عہدہ ان لوگوں کے لئے محفوظ کر دیئے جائیں جو زینہ بہ زینہ ترقی کرتے ہیں-
اس وقت ہمارے تمام کام ایسے ہیں جیسے آگرہ میں پتھر کے تاج محل بنائے جاتے ہیں گویا ایک کھلونا ہے- لیکن کھلونے کی حیثیت اسی صورت میں ہمیشہ قائم رہتی ہے جس میں وہ بنایا جاتا ہے مگر ہمارے سلسلہ کا کھلونا خدا تعالیٰ نے بنایا ہے اور اس لئے اس کی مشابہت زیادہ تر اس کھلونے سے ہے جو ماں کے رحم میں تیار ہوتا ہے- وہ ایک نہایت چھوٹی سی چیز ہوتی ہے اگرچہ اس کے اندر ویسا ہی سر‘ ناک‘ آنکھیں وغیرہ ہوتی ہیں جیسی انسان کے جسم میں- لیکن ابتدائی حالت میں وہ نہایت بے حقیقت سی چیز ہوتی ہے حتی کہ صرف خوردبین کی مدد سے ہی دیکھی جا سکتی ہے- پھر وہ اس قابل ہوتی ہے کہ آنکھوں سے نظر آتی ہے لیکن نہایت ہی مضحکہ خیز شکل ہوتی ہے- پھر وہ آہستہ آہستہ کامل ہوتی ہے اور نہ صرف دنیا کی راہنما ہو جاتی ہے بلکہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی دنیا کا مقصود ہے اور دنیا پیدا ہی اس کے لئے کی گئی ہے-
اسی طرح اس وقت ہمارا نظام اگرچہ بہت قلیل اور محدود ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب دنیا کی ترقی کا انحصار اس پر ہو گا اور روحانی ترقیات کی طرح مادی ترقیات بھی احمدیت کے قبضہ میں ہوں گی- جس طرح آج بنک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں وزارتیں تبدیل ہو جاتی ہیں‘ ایکسچینج میں تغیر ہو جاتا ہے- ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوں گے جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میں کسی قسم کا تغیر رونما ہو گا- بنک آف انگلینڈ کا اثر تو صرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہو گا اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دینوی معیار بھی اس قدر بلند ہو گا کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں- یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کرنا چاہئے- دراصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے بندہ نہیں لگا سکتا اور جب یہ وقت آیا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپڑاسی ہو یا ناظر الا ماشاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے- بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ انتہائی ترقی کے مدارج ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ سکے گا لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے تغیرات جو مومن سے تعلق رکھتے ہیں وہ اسے بتائے جاتے ہیں- حتیٰ کہ حدیثوں میں آتا ہے جو کوئی اس کی قبر پر جاتا ہے اس کا بھی اسے علم ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے کان آنے والے کے پائوں کی آہٹ نہیں سنتے لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس کا علم ضرور دے دیتا ہے- اس لئے جب وہ تغیرات پیدا ہوں گے تو اس میں حصہ لینے والوں کو اس کا علم ہو گا اور گو وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گے مگر پھر بھی سلسلہ کی ترقیات کو معلوم کر کے ان کی روح خوشی اور مسرت سے بھر جائے گی اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے گی کہ اس نے مجھے بھی اپنے جسم کو اس میں استعمال کرنے کا موقع اور توفیق عطا فرمائی تھی- ہمارا نقطئہ نگاہ مالی نتائج پر نہیں جو کارکنوں کو خدمات کے صلہ میں ملتے ہیں بلکہ ان تغیرات پر ہے جس کا اندازہ سوائے خدا کے کسی کو نہیں-
جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی- باغات ہوں گے- مگر پھر بھی رسول کریم ~صل۲~ نے فرمایا لاعین لات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر-۲~}~ حالانکہ قرآن پاک جنت کے نقشوں سے بھرا پڑا ہے- اسی طرح حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سلسلہ احمدیہ کی ترقیات کا نقشہ ہے اور آپ نے تفسیریں بھی کی ہیں- لیکن وہ ساری قبل از وقت ہیں اور الفاظ وہ حقیقی نقشہ کھینچ ہی نہیں سکتے جو آنے والا ہے- اگرچہ ہم یہ مانتے ہیں کہ بڑے بڑے بادشاہ یہاں آئیں گے لیکن اس کا قیاس نہیں کر سکتے کہ کس طرح ان کی گردنیں احمدیت کے ہاتھ میں دے دی جائیں گی- گویا جزئیات کو ہم نہیں سمجھ سکتے اور وہ جذبات ہم اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے جو اس وقت ہوں گے-
پس جو بھی سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے وہ دراصل ایک عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں کام کر رہا ہے اور اس کی مثال اس مونگے کی طرح ہے جو جزیرہ بنانے میں اپنی جان ضائع کر دیتا ہے- کورل ائلینڈ (CORALISLAND) کی تیاری میں مونگا اپنی جان قربان کر دیتا ہے لیکن اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کی قربانی کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے- اس کی جان ضائع ہونے سے جزیرہ تیار ہوتا ہے جس میں انسان بستے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث یا اس کے غضب کے مورد ہوتے ہیں- لیکن مونگے کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک نئی دنیا پیدا کر رہا ہے اور اس طرح وہ خدا تعالیٰ کا بروز ہو جاتا ہے- انبیاء بھی خدا تعالیٰ کا بروز ہوتے ہیں- مگر مونگا بھی اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کا بروز ہے- تو جس طرح وہ مونگا جزیرہ پیدا کرتا ہے اس سے بہت زیادہ مقام ہے ان لوگوں کا جو الٰہی سلسلہ کے قیام کے ابتدائی ایام میں اس کے قیام میں اپنی جان کو لگاتے ہیں- اس کے نتائج اس وقت تو ایک کھلونا ہے اور اس وقت ان پر نظر ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی منی کا کیڑا دیکھے تو اس کو گھن آئے گی اور نفرت کرے گا- قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ انسان کو ایک ذلیل قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے اور ابتدائی ایام کے نتائج کی بھی بعینہ یہی حالت ہے- اور بعض اوقات کام کرنے والا انسان خود بھی یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ عمر کو ضائع کر رہا ہے لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ کس طرح ایک رنگ میں دنیا کا خالق بن رہا ہے- پس ابتدائی ایام میں کام کرنے والوں کا یہ مستقبل ہے اور یہ ارادہ ہے جو ہمارے کارکنوں کو رکھنا چاہئے- اگر وہ اس کام کی عظمت کو سمجھیں تو ان کا نقطئہ نگاہ ایسا بلند ہو کہ جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا-
مرزا محمد اشرف صاحب نے بھی اس نظام میں کام کیا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی یہ ترقی نہیں کہ وہ مثلاً تیس روپیہ تنخواہ سے شروع ہو کر سو روپیہ پر پہنچ جائیں- یہ بھی بیشک ترقی ہے لیکن اصل چیز کے مقابلہ میں یہ بالکل ہیچ ہے- ہر کارکن خواہ وہ اپنی حیثیت کو سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال اگر اس نے اخلاص سے کام کیا ہے تو وہ اس عظیم الشان عمارت میں بمنزلہ بنیاد کے ہے جس کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا- بعض لوگ اپنی کم علمی کے باعث اس سے بھی محروم ہوتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا اس قدر بھی اندازہ کر سکیں جس قدر بیان کی جا چکی ہے اور اس لئے بعض لوگ اس عظمت کو بھی محسوس نہیں کر سکتے جو حضرت مسیحموعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے- جنت کا جو نقشہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اس کا کسی قدر اندازہ وہ شخص تو کر سکتا ہے جس نے شالا مار باغ یا اور دوسرے فرحت افزاء باغات دیکھے ہیں لیکن عرب کا وہ وحشی جس کا باغ کھجور کے دو درختوں سے زیادہ نہیں ہوتا وہ اس کا اندازہ بھی کرنے لگے تو زیادہ سے زیادہ پانچ دس کھجوروں کے درخت پر جا کر اس کا تخیل ختم ہو جائے گا- اسی طرح بعض لوگ باوجود بنیاد کی اینٹ ہونے کے ظاہری علوم سے بے بہرہ ہونے کے باعث محسوس نہیں کر سکتے کہ ان کی خدمات کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں- وہ اس کام کی عظمت کو سمجھتے نہیں یا سمجھ سکتے نہیں کہ وہ کتنے عظیم الشان کام میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں کس قدر زبردست نتائج نکلنے والے ہیں لیکن بہرحال نہ جاننے سے کام کی عظمت میں فرق نہیں آ سکتا-
مرزا محمد اشرف صاحب کو میں نے دیکھا ہے اور ان کی یہ بات مجھے ہمیشہ پسند آئی کہ وہ اس طرح کام کرتے رہے ہیں جس طرح ایک عورت اپنے گھر میں کام کرتی ہے- وہ جانتی ہے کہ اس کے پاس کتنا سرمایہ ہے اور وہ اس سے کس طرح بہتر کام لے سکتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ قلیل سے قلیل رقم میں ہی سب کام نپٹالوں- ان کے اندر ہمیشہ یہی روح کام کرتی رہی ہے کہ سلسلہ کا صیغہ مالیات مضبوط چٹان کی طرح ہو اور چونکہ میرے اپنے خیالات کی روح بھی اسی طرف ہے اس لئے مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی اور ہمیشہ اطمینان رہتا تھا کہ مالیات کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اسے صحیح طریق پر چلا رہا ہے- انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے ان سے بھی ہوئی ہوں لیکن ایسے شخص کے کاموں میں جو درد رکھتا ہے اور جو اس روح کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی غلطیوں کے باوجود نتائج اچھے نکلیں گے- اگر تمام کارکن اس روح کے ساتھ کام کریں تو بہت جلد ترقی ہو سکتی ہے- اگرچہ ہمارا نظام اس وقت کھلونا سا ہے لیکن اس میں بڑی جان ہے اور ذرا سی بات سے بھی ترقی کر سکتا ہے- بعض مائیں بے احتیاطی سے بچے کی صحت کو خراب کر لیتی ہیں اور وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکتا لیکن عقلمند ماں کا اتنی ہی عمر کا بچہ اس سے کئی گنا مضبوط ہو جاتا ہے- اور ہمارے سلسلہ کے کارکن بھی اگر عقلمند ماں والی کوشش کریں تو یہ بچہ موجودہ سامانوں میں ہی بہت ترقی کر سکتا ہے اور اس کی صحت موجودہ صحت سے بدرجہا زیادہ بہتر ہو سکتی ہے-
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرزا صاحب کو اس آرام کی توفیق عطا کرے جس کے لئے وہ کام سے سبکدوش ہو رہے ہیں- اگرچہ اسلام کی تعلیم تو یہی ہے کہ مومن مرتے دم تک کام کرتا جائے اور اس کے نزدیک آرام کا یہی مفہوم ہے کہ عمر کے لحاظ سے کام کی نوعیت میں تبدیلی ہو جائے- اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا کرے اور ان کے بعد آنے والوں کو اور دوسرے کارکنوں کو سچا اخلاص عطا کرے اور اتنی بصیرت بخشے کہ وہ ان آنکھوں سے ہی جو اس وقت ہمیں ملی ہوئی ہیں دیکھ سکیں کہ وہ کتنی بڑی عمارت ہے جس کی بنیاد کی اینٹ کے طور پر کام کرنے کے لئے انہیں چنا گیا ہے-
)الفضل ۲۲- مئی ۱۹۳۲ء(
۱~}~
بخاری کتاب الجنائز باب المیت لیسمع خفق النعال
۲~}~
بخاری کتاب التفسیر باب قولہ فلاتعلم نفس ما اخفی لھم
‏a12.39
انوار العلوم جلد ۱۲
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۳۲ء
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۳۲ء

از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفہ المسیح الثانی
‏]ksnjmc- [tagبسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۳۲ء
)فرمودہ ۲۶ دسمبر ۱۹۳۲ء(
تشہد‘تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا-:
برادران! السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
بہترین افتتاحیہ تو وہی ہے جس سے خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کو شروع کیا اور جس کا نام خود اس نے سورہ فاتحہ رکھا- اس سے بہتر کوئی افتتاحی کلام نہیں ہو سکتا اور اس سے بہتر کوئی جامع دعا نہیں ہو سکتی- اس کے مطالب اتنے وسیع اور اس کے اندر مخفی اسرار اتنے لاتعداد ہیں کہ انسانی ذہن ان کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا- وہ ابدلا باد تک کی ترقیات جو بہتر سے بہتر انسان کیلئے نبیوں کیلئے ہی نہیں‘ بلکہ نبیوں کے سردار کیلئے مقرر رہیں‘ وہ بھی اس سورہ فاتحہ کے اندر آ جاتی ہیں- کیونکہ انسانی سلوک کے انتہائی منازل اور ان کے متعلق ضروری ہدایات ساری کی ساری ان مختصر سی سات آیات میں اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہیں- پس سورہ فاتحہ کو میں اس جلسہ کے افتتاح کیلئے پڑھتا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ افتتاحیہ جو اس کی طرف سے عطا ہوا ہے‘ اس کے اندر جو ضروری ہدایات ہمارے متعلق ہیں‘ ان کو پورا کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ان کے جواب میں جو اہم وعدے ہیں- اس کا فضل محض رحمت سے وہ وعدے پورے کر دے ہم لوگ جس بے سروسامانی کے ساتھ آج کل اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں‘ دنیا داروں کی نگاہوں میں وہ ترقی کی علامت نہیں- ہمارے کمروں اور جلسہ گاہ میں بچھی ہوئی کسیر کو دیکھ کر‘ ہمارے کھلے ہوئے سٹیج کو دیکھ کر‘ ہمارے ان شہتیروں کو دیکھ کر جن کا نام ہم بنچ رکھ لیتے ہیں- وہ ہم پر مسکراتے اور کہتے ہیں‘ یہ ہے وہ جماعت جو دنیا کو خدا کیلئے فتح کرنے کیلئے کھڑی ہوئی ہے- مگر ہماری حالت کے متعلق ان کی بنسی ویسی ہے جیسی عبدالرحمنبنابی لیلیٰ کے ساتھ کوفہ والوں نے کی تھی- کوفہ کے لوگ بعض اسباب کی وجہ سے فتنہ کی طرف مائل ہو جاتے اور جلد جلد اپنے گورنر بدلوانے کیلئے عرضیاں دینے لگ جاتے- بعض صحابہ نے حضرت عمرؓ سے کہا بھی کہ یہ لوگ شرارت کرتے ہیں‘ ان کی بات نہ مانی جائے- مگر انہوں نے فرمایا- جب ان کو اپنے حاکموں پر تسلی نہیں ہوتی- تو ہم بدل دیں گے- مگر اب کے ایسا حاکم بھیجا جائے گا جس کے بدلنے کی کوشش نہ کریں گے- انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو گورنر بنا کر بھیجا- ان کا ذکر اگرچہ مسلمانوں کی کتابوں میں کم آتا ہے لیکن ولایت میں ان کی خاص شہرت ہے- وہاں کی ریڈروں میں (SAGACIOUS) ۱~}~ قاضی ان کا نام آتا ہے- حضرت عمرؓ نے جب ان کو گورنر مقرر کیا تو ان کی عمر ۱۹‘۲۰ سال کے قریب تھی- جب وہ گئے اور کوفہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک نوجوان لڑکا گورنر مقرر ہو کر آ رہا ہے تو انہوں نے کہا گربہ کشتن روز اول پر عمل کرنا چاہئے اور پہلے ہی دن ایسی خبر لینی چاہئے کہ اسے پتہ لگ جائے کہ کوفہ والوں پر حکومت کرنا آسان نہیں- اس بات کو مدنظر رکھ کر انہوں نے ایک بڑا جلوس تیار کیا جو کوفہ سے ایک منزل آگے جا ان سے ملا اس میں انہوں نے اپنے بڑے بڑے عمائدیں اور سرداروں کو شامل کیا جنہوں نے بڑی بڑی جنگوں میں حصہ لیا تھا- انہوں نے بڑے مظاہرہ کے ساتھ ان کو پیش کیا اور بڑی تعظیم کے ساتھ ان کا نام لیتے اور بڑے ادب سے انہیں سلام کرتے- جس سے مطلب یہ تھا کہ ایسے بڑے بڑے سردار ہم میں ہیں‘ ان کے مقابلہ میں تمہاری کیا حیثیت ہے کہ ہم پر حکومت کر سکو- انہوں نے تجویز یہ کی کہ مجلس میں عبدالرحمنبن ابی لیلیٰ سے عمر پوچھیں اور اس طرح انہیں مرعوب کریں- آخر جب دربار لگا تو ایک شخص جس کو اس بات کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس نے پوچھا آپ کی عمر کیا ہے- عبدالرحمن ان کی بات سمجھ گئے- انہوں نے کہا میری عمر پوچھتے ہو- میری عمر جب رسول کریم ~صل۲~ نے اسامہ بن زید کو لشکر شام کا سردار مقرر کیا تھا جس میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے‘ اس وقت ان کی جو عمر تھی اس سے دو سال زیادہ ہے- اسامہ کی عمر اس وقت ۱۷‘۱۸ سال کی تھی- اس طرح انہوں نے بتایا کہ اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہو کہ تم میں بڑے بڑے آدمی ہیں اور میں نوجوان ہوں تو یاد رکھو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے بڑے لوگ تم میں نہیں ہیں اور اگر یہ خیال ہو کہ میں اتنی چھوٹی عمر کا انسان انتظام کس طرح کروں گا- تو سن لو اسی طرح کروں گا جس طرح اسامہ بن زید نے کیا تھا- اس بات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسی وقت سے ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک یہ گورنر ہے اس وقت تک مخالفت میں کچھ نہ کیا جائے-
تو جو عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے جواب دیا تھا وہی میں اس وقت دوں گا- بے شک ہماری موجودہ حالت کمزوری اور ناتوانی کی حالت ہے اور دنیا جن کو زینت کے سامان سمجھتی ہے‘ وہ ہمارے پاس نہیں ہیں- لیکن ہماری جماعت کی کمزوری کی جو حالت ہے- اس سے زیادہ کمزور اس وقت تھی جب رسول کریم ~صل۲~ کو خدا تعالیٰ نے فتوحات کے وعدے دیئے اور اس سے زیادہ کمزوری ان مجالس میں پائی جاتی تھی- جن میں رسول کریم ~صل۲~ قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو فتح کرنے کا ذکر فرمایا کرتے تھے- اس حالت کا نقشہ ایک فرانسیسی مصنف نے نہایت ہی عجیب رنگ میں کھینچا ہے- وہ لکھتا ہے- میں مذہب کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور نہ کسی ¶مذہب کو مانتا ہوں- مگر جب میں ایک بات پر غور کرتا ہوں تو میرا دل کہتا ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے- وہ بات یہ ہے کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک چھوٹی سی کچی مسجد میں جس پر کھجور کی شاخوں کی چھت پڑی تھی- اور ایسی چھت کہ ذرا پانی برسنے پر پانی اندر آجاتا اور جب وہ لوگ نماز پڑھتے تو کیچڑ میں سجدے کرتے- ان کے لباس کی یہ حالت تھی کہ کسی کے پاس اگر کرتہ ہے تو پاجامہ نہیں اور اگر پاجامہ ہے تو کرتہ نہیں- سامان جنگ سے بھی بالکل تہی دست ہیں- ایسی حالت میں ایک باوقار انسان کی وہ بھی ان ہی جیسا لباس پہنے ہوئے ہے‘ ان میں بیٹھا ہے اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے- سننے والے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ گویا وہ کوئی ایسی بات سن رہے ہیں جو مستقبل قریب سے تعلق رکھتی ہے- وہ بات جب میں سنتا ہوں تو وہ قیصروکسریٰ کی حکومتوں کو فتح کرنے کا ذکر ہے- جب میں یہ نقشہ دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے- اس وقت ان کو پاگل سمجھا جاتا مگر وہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں پر قابض ہو گئے- اور جو باتیں وہ نہایت کمزوری اور بے سرو سامانی کی حالت میں کرتے تھے وہ پوری ہو گئیں-
وہی وعدے خدا تعالیٰ نے اب پھر دہرائے ہیں- خدا تعالیٰ فرماتا ہے-ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین واخرین منھم لما یلحقوابھم وھوالعزیز الحکیم ۲~}~
وہی خدا جس نے رسول کریم ~صل۲~ کے زمانہ میں وعدے کئے- اسی نے اس زمانہ میں پھر وعدے کئے ہیں اور ان وعدوں میں یلحقوابھم کو بھی شامل کر لیا ہے- ہم یہاں اسی یقین اور وثوق سے جمع ہوتے ہیں اور اسی یقین سے جمع ہونا چاہئے آپ لوگوں میں سے کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ یہاں آنا معمولی بات ہے اور یہ مجلس دنیا کی مجالس کی طرح معمولی مجلس ہے- کیونکہ یہ خیال کرنے والا شخص خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان نہیں رکھتا اور وہ مومن نہیں ہو سکتا جو یہ یقین نہ رکھے کہ ہم یہاں نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کیلئے جمع ہوتے ہیں- یاد رکھو تم وہ بیج ہو جس سے ایسا عظیم الشان درخت اگنے والا ہے- جس کے سایہ میں تمام دنیا آرام پائے گی- تمہارے قلوب وہ زمین ہے جس سے خدا تعالیٰ کی مغفرت کا پودا پھوٹنے والا ہے- اگر دنیا یہ بات نہیں دیکھ سکتی تو وہ اندھی ہے- اور اگر خدا کے وعدوں کو نہیں سنتی تو بہری ہے- مگر تم نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کو سنا اور ان کو پورے ہوتے دیکھا- تم میں سے ہر فرد جس نے خدا کے مسیح کے ہاتھ پر بیعت کی- خواہ براہ راست کی‘ خواہ خلفاء کے ذریعہ‘ وہ آدم ہے جس سے آئندہ نئی نسلیں چلیں گی- تم خدا کی وہ خاص زمین ہو جس پر اس کی رحمت کی بارش برسے گی- تمہیں خدا تعالیٰ وہ درخت بنائے گا جس کے ساتھ ہر سعید بیٹھے گا اور جو تم کو چھوڑے گا وہ نہ دنیا میں آرام پائے گا نہ آخرت میں-
پس تمہارا کام معمولی کام نہیں- تم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھ کر اور دعا کر کے شروع کرو- اس چھوٹے سے اجتماع کو اس اجتماع کو جسے بارش کی چند بوندوں کے سامنے سر چھپانے کی جگہ نہیں- )جس وقت حضور یہ فرما رہے تھے- اس وقت مطلع اس طرح ابر آلود تھا کہ بارش برسنے کو تھی- لیکن جلسہ گاہ کھلے میدان میں بالکل غیر مسقف تھی( خدا تعالیٰ نے دنیا کی نجات کا موجب بنایا ہے- نادان ہنستے ہیں کہ ہم نے حج کی نقل لگائی ہے- مگر خدا جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے‘ گراتا ہے- عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے- دنیا کی ہنسی ہمیں بے دل نہیں کر سکتی- اور دنیا کا تمسخر ہماری ہمتوں کو پست نہیں کر سکتا- اللہ تعالیٰ نے ہمیں چنا ہے اور جب تک ہم اپنے آپ کو اس کے فضل کے مستحق رکھیں گے اس کا فضل ہم پر نازل ہوتا رہے گا- اسی کے فضل سے وہ بنیاد جو اس وقت بہت کمزور نظر آتی ہے- اس پر عظیم الشان عمارت تعمیر ہوگی- ایسی عظیم الشان کو ساری دنیا اس کے اندر آ جائے گی اور جو لوگ باہر رہیں گے ان کی کوئی حیثیت نہ ہوگی- جیسا کہ خدا تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی حیثیت چوہڑے چماروں کی سی ہوگی-
پس آئو ہم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کئے اور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کا جلوہ ہمارے سامنے رہے- خدا تعالیٰ ہر موقع پر ہماری مدد کرے وہ جس کے پیٹھ پر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے- اور جس کے آگے خدا کی تلوار ہوتی ہے وہ کاٹا جاتا ہے- پس آئو ہم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہاتھ ہماری پیٹھ پر ہو- وہ اپنی رحمتیں جلد ہم پر نازل کرے- اور ہماری کمزوریاں دور کر کے ہمارے دلوں کو ایسا مضبوط بنا دے جیسے پہاڑ ہوتے ہیں تا کہ دنیا کی تمام شرارتیں ہمارے ایمانوں کو ہلا نہ سکیں- پھر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس رنگ میں ہم پر نازل ہوں کہ وہ ان کمزوریوں کو دور کر دیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں اور ان کو بھی دور کر دے جو ہمارے دشمنوں کو نظر آتی ہیں- پھر ان کو بھی دور کر دے جو ہمیں بھی نظر آتی ہیں- خدا کا نور ہمارے آگے‘ پیچھے‘ ہمارے دائیں‘ ہمارے اوپر نیچے ہو- اس کے نور سے ہمارے اجسام روشن ہو ہم اس کے چاند بن جائیں جن سے دعا میں روشنی ہو- ہم اس کے ستارے بن جائیں جن سے دنیا کو ہدایت اور رہنمائی ملے- اے خدا تو ایسا ہی کر-
اس کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا کی- )الفضل یکم جنوری ۱۹۳۳ء(
۱~}~
‏ SAGACIOUS ہوشیار اور دانا
۲~}~
الجمعہ: ۳‘۴
………
 
Top