• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 13

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 13

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوارالعلوم کی پندرہویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۸؍دسمبر۱۹۳۷ء سے جولائی ۱۹۴۰ء تک کی ۲۴ مختلف تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے۔
(۱) انقلاب حقیقی
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں یہ معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جو بعد میں انقلاب حقیقی کے نام سے شائع ہؤا۔
حضور نے اصل موضوع کی طرف آنے سے پیشتر تمہیداً قومی زندگی کے لئے دو بنیادی اصولوں کا ذکر فرمایا جن کے بغیر قومی زندگی خواہ وہ دینی ہو یا دُنیوی قائم نہیں رہ سکتی۔ان میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ:۔
’’کوئی تحریک دنیا میں حقیقی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اُس میں کوئی نیا پیغام نہ ہو‘‘۔
دوسرا اصول یہ بیان فرمایاکہ:۔
’’ اصلاح کے ہمیشہ دو ذرائع ہوتے ہیں یا صلح یا جنگ یعنی یا تو صلح کے ساتھ وہ پیغام پھیلتا ہے یا جنگ اور لڑائی کے ساتھ پھیلتا ہے‘‘۔
اس کے بعد حضور نے انقلاب حقیقی کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دُنیاوی لحاظ سے انقلاب حقیقی کے معنی ہیں رائج الوقت نظام کو مکمل طور پر ختم کر کے اُس کی جگہ کوئی نیا نظام قائم کرنا۔ دینی اصطلاح میں انقلاب حقیقی کو مختلف الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ جیسے اَلْقَیَاَمَۃُ، اَلسَّاعَۃُ۔ اور کبھی نئی زمین اور نئے آسمان کے پیدا کئے جانے کے الفاظ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد حضور نے تاریخ عالَم میں کامیاب ہونے والی درج ذیل پانچ عالمگیر اور مہتم با لشان مادی تحریکوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور ثابت کیا کہ ان کی کامیابی مذکورہ دو اصولوں کے تابع تھی۔
۱۔ آرین تحریک ۔۲۔ رومن تحریک۔۳۔ ایرانی تحریک۔۴۔بابلی تحریک۔ ۵۔ مغربی تحریک
مذکورہ بالاپانچ مادی تحریکات کی ضروری تفاصیل اور ان کی کامیابی کا راز بیان کرنے کے بعد مذہبی تحریکات کے سات بڑے بڑے اَدوار کا تفصیل سے ذکر فرمایا جو درج ذیل ہیں۔
۱۔دورِ آدم۔۲۔دورِ نوح۔۳۔ دورِابراہیم۔۴۔ دورِ موسیٰ۔۵۔ دورِ عیسیٰ۔۶۔ دورِ محمدی۔ ۷۔ دور ِمسیح محمد۔
حضور نے دورِ مسیح محمدی کے انقلاب کو درحقیقت احیا ئے تعلیم مصطفوی کو ہی قرار دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے تحریک جدید کے مقاصد کو بیا ن فرمایا اور عملی انقلاب کو تحریک جدید کے مطالبات کے ساتھ وابستہ قرار دیا ۔ نیز جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا۔
اِس تقریر میں حضور نے تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم بیا ن کرتے ہوئے درجِ ذیل امور کی طرف توجہ دلائی۔
۱۔اخلاقِ حسنہ۔۲۔معاملات ۔۳۔خدمت قومی۔۴۔ رزقِ حلال۔۵۔ چستی اور محنت۔ ۶۔بنی نوع انسان کی خیر خواہی۔۷۔ صفائی ۔۸۔صداقت۔۹۔ کسب۔۱۰۔ جائداد کی حفاظت کا حکم۔
آخر پر تمدنِ اسلام کے قیام کے ذرائع پر روشنی ڈالی نیز اِس سلسلہ میں پیش آمدہ مشکلات کا بھی ذکر فرمایا۔ حضور نے اپنے اِس عظیم الشان اور پُرمعارف خطاب کا اختتام احباب جماعت کو بعض نصائح کرتے ہوئے اِن دعائیہ کلمات پر فرمایا۔
’’ پس آؤ کہ ہم خدا سے ہی دعا کریںکہ اے خدا تو ہم کو سچا بنا تو ہمیں جھوٹ سے بچا۔ تو ہمیں بُرائی سے بچا۔ تو ہمیں غفلت سے بچا۔ تو ہمیں نافرمانی سے بچا۔ اے خدا! ہمیں اپنے فضل سے قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو، ہمارے بچوں کو اورہمارے بوڑھوں کو سب کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرے کامل مُتّبع بنیںاور اُن تما م لغزشو ں اور گناہوں سے محفوظ رہیں جو انسان کا قدم صراطِ مستقیم سے منحرف کر دیتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرما۔ اے ہمارے رب! اپنی تعلیم، اپنی سیاست، اپنے اقتصاد ، اپنی معاشرت اور اپنے مذہب کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال، ان کی عظمت ہمارے اندر پیدا کر یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں اُس تعلیم سے زیادہ اور کوئی پیاری تعلیم نہ ہو جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دی۔ اے خدا جو تیری طرف منسوب ہو اور تیرا پیاراہو وہ ہمارا پیارا ہو اور جو تجھ سے دُورہو اُس سے ہم دُور ہوں۔ لیکن سب دنیا کی ہمدردی اور اصلاح کا خیال ہمارے دلوں پر غالب ہو اور ہم اس انقلابِ عظیم کے پیدا کرنے میں کامیاب ہوں جو تو اپنے مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ سے قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے! اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ‘‘
(۲) فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد اور
جماعت احمدیہ
میاںفخرالدین ملتانی نے جماعت احمدیہ سے انحراف اختیار کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود کے خلاف سخت بد زبانی کی اور آپ پر متعدد بے بنیاد الزامات لگائے جن کا حضرت مصلح موعود نے اپنی بعض تقاریر میں ردّ کرتے ہوئے اپنی بریت کا اظہار فرمایا۔ فخرالدین ملتانی کی بدزبانی اور الزام تراشی پر ایک احمدی دوست میاں عزیز احمد صاحب اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اس سے لڑائی کے نتیجہ میں وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ اِس مقدمۂ قتل کا ہائیکورٹ نے جو فیصلہ لکھا اُس میں بعض کلمات یا فقرات ایسے تھے جن سے یہ تأثرلیا جاسکتا تھا کہ یہ قتل امام جماعت احمدیہ کی تقاریر سے اشتعال پیدا ہونے کے نتیجہ میں ہؤا ہے لہذا علماء و عمائدین کو ایسی تقاریر نہیں کرنی چاہئیں جن کے نتیجہ میں اشتعال پیدا ہو۔ چنانچہ فیصلہ کے ایسے فقرات سے مخالف مولویوں اور مخالف اخبارات نے یہ نتیجہ نکالا کہ گویا یہ قتل مرزا محمود احمد صاحب کے ایماء پر ہؤا ہے اور اس کا خوب پروپیگنڈا کیا۔ اس صورتحال سے احبابِ جماعت کو بہت پریشانی ہوئی جس کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء کے روزنامہ الفضل میں یہ مضمون تحریر فرمایا۔ جس میں احباب جماعت کو ایسے حالات میں صبروتحملکا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی گئی نیز میاں عزیز احمد صاحب کی اِس غلطی کے نتیجہ میں خلافت کا جو مقام اور جماعت کی جو ساکھ متأثر ہوئی اس کے کفارہ کے طور پر کثرت سے استغفار کرنے، دعائیں کرنے ، روزے رکھنے اور تہجد وغیرہ ادا کرنے کی تحریک فرمائی۔
(۳) جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ مضمون روزنامہ الفضل قادیان میں مؤرخہ ۲۱؍مئی۱۹۳۸ء کو شائع ہؤا جس میں حضور نے احباب جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیاہے۔ اِس مطالبہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اُن دنوںگورداسپو کی انتظامیہ کا جماعت احمدیہ سے رویہ نہایت افسوسناک تھا اور حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر حفظِ ماتقدم کے طور پر احباب جماعت کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرنا مقصود تھا۔
اِس مضمون میں حضور نے قربانی کی حقیقت اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری پر روشنی ڈالی ہے اور قربانی کے فلسفہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو صرف جانی قربانی کی ضرورت نہیں بلکہ ہر میدان میں قربانیوں کی ضرورت ہے۔ نیز آپ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ احمدیت کے جانی قربانی کے مطالبہ سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ کسی محاذ پر جا کر جنگ کرتے ہوئے جان قربان کرنا، بلکہ احمدیت کے لئے قربانی دینے کا مطلب امام کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنا ہے۔
حضور نے اپنے اِس مضمون میں جس قربانی کا مطالبہ کیا ہے وہ ہر حال میں سچائی اور راستی کو اختیار کرنا ہے جس کی خاطر خواہ جان کی قربانی دینی پڑے، خواہ جذبات کی قربانی دینی پڑے اور خواہ اپنے تمام حقوق سے محروم ہونا پڑے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’ یاد رکھو کہ جن قربانیوں کا مَیں پہلی قسط کے طور پر مطالبہ کر رہا ہوں معمولی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ اگر جماعت صداقت کے اِس معیار کو قائم کر دے جسے سلسلہ احمدیہ پیش کرتا ہے تو یقینا اُسے کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔کمزوری ہماری ہی طرف سے ہوتی ہے ورنہ ہمارا خدا وفادار ہے وہ خود ہمیں نہیں چھوڑتا ……اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام جماعت کو اِس وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جوش اور اظہارِ غضب کے بجائے سچی قربانی کے پیش کرنے اور اس پر مستقل رہنے کی توفیق دے ۔کیونکہ قربانی وہ نہیں جو ہم پیش کرتے ہیں، قربانی وہ ہے جس کا زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہمارا رب ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کو ہم نے نہیں بلکہ ہمارے خدا نے شکست دینی ہے۔ سچی قربانی کرو اور دعائیں کرو اور کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو اور بڑے ہو کر منکسر المزاج بنو اور طاقت کے ہوتے ہوئے عفو کو اختیار کروتا اللہ تعالیٰ تمہارا مدد گار ہو‘‘۔
(۴) کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مضمون ۱۷؍مئی ۱۹۳۸ء کو تحریرفرمایا جو روزنامہ الفضل قادیان میں مؤرخہ ۲۲؍ مئی ۱۹۳۸ء کو شائع ہؤا۔ اس مضمون کے ذریعہ چند اہم وفات یافتگان کا ذکرِخیر کرنا مقصود تھا جس میں سے سب سے اہم وفات حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ محترمہ کی تھی۔درحقیقت یہی وفات اِس مضمون کو تحریر کرنے کا باعث بنی۔ دیگر وفات یافتگان میں مکرم حافظ بشیراحمد صاحب واقف زندگی، مکرم چوہدری عبدالقادر صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم خان صاحب فقیر محمد خان صاحب شامل ہیں۔ اس مضمون میںحضور نے تمام وفات یافتگان کا ذکرِ خیر کیا ہے اور خاص طور پر حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ ماجدہ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے ان کے اوصافِ حمیدہ اور خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے اور آخر پر دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو اِن کی دعاؤں کی برکات سے محروم نہ کرے اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی رہیں‘‘۔ (اٰمِیْنَ)
(۵) کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات
حضرت مصلح موعود کے بارہ میں ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ میں آپ کی ایک یہ صفت بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ’’ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا‘‘ علاوہ دیگر بے شمار شہادتوں کے اِس مضمون نے پیشگوئی کے ان الہامی الفاظ پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔
اِس مضمون میں حضور نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک طبقہ کے درمیان جو غیر فطری اورنا عاقبت اندیشانہ اتحاد پر مبنی معاہدہ ہؤا اُس پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جس میں اہلِ کشمیر اور حکومت کو دونوں کی فلاح وبہبود پر مبنی بے حد مفید اور ضروری مشورے دیئے۔
اِس معاہدہ کی بنیادی خامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے اور لاکھوں اہلِ کشمیر کے حقوق کو پامالی سے بچانے کی غرض سے فرمایا کہ:۔
’’جہاںتک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کے لئے مفید نہیںہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بد حالی اور بے کاری کاعلاج تجویز نہ کرتا ہو… جو سمجھوتہ اِس امر کو مدنظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے ‘‘۔
اِسی طرح فرمایاکہ:۔
’’ پس میرے نزدیک بغیرایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ممکن ہے غیرمسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن اُن کی قومیں تسلیم نہ کریں پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ؟‘‘
(۶) اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے
تو اپنے خدا کو راضی کر لو گے
حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر ۳۱؍جولائی۱۹۳۸ء کو قادیان میں تحریک جدید کے مطالبات کے سلسلہ میں ارشاد فرمائی جو بعد میں ۱۶؍جون ۱۹۵۹ء کو پہلی دفعہ روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوئی۔
حضور نے اِس تقریر میں نہایت لطیف پیرایہ میں احبابِ جماعت کو اِس عظیم تحریک میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ تحریک جدید وہی قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جاری کی گئی تھی اور اس کے وہی اغراض و مقاصد ہیں جن کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہؤا اور قرآن کریم کا نزول ہؤا اور پھر اِس زمانہ میں تجدید دین کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور جماعت احمدیہ قائم ہوئی لہذا اِس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں احمدیت کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ اِس خطاب کے آخر پر آپ نے احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے دیانتداری سے احمدیت کو قبول کیا ہے، اگر تم یقین رکھتے ہو کہ سلسلہ احمدیہ سچا ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدا تعالیٰ کی پیروی ہے اور مسیح موعود کی پیروی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے تو اے مردو اور عورتو! تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد میں میرے ساتھ تعاون کرو اورانصار اللہ بن جاؤ۔ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں۔ اگر تم میرے اِن مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپرراضی کر لو گے اور اگر تم اِن مطالبات پر عمل نہیں کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر ناراض کر لو گے‘‘۔
(۷) احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب
۱۱؍ نومبر ۱۹۳۸ء کو جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد، محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی ولایت سے کامیاب مراجعت کی خوشی میں ایک دعوتِ چائے کا اہتمام کیا گیا جس میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی۔ اس موقع پر حضور نے اپنے خطاب میں مبلغین کی عظیم قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو مبلغین کی عزت واحترم کرنے کے حوالے سے ان کے فرائض کی طرف انہیں توجہ دلائی۔ اس کے بعد حضور نے اپنی اولاد اور خاندانِ مسیح موعود کے افراد کو بعض زرّیں نصائح فرمائیںاور اُن پر واضح کیا کہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعلق کوئی بڑائی یا بزرگی کی بات نہیں بلکہ اصل بزرگی تقویٰ میں ہے۔ آپ فرماتے ہیںکہ:۔
’’ پس عزت کا جو چوغہ تم پہنو وہ دوسروں سے مانگا ہؤا نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہؤا چوغہ ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو۔ وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لِبَاسُ التَّقْوٰی ذَالِکَ خَیْرٌ تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے۔ غرض تم احمدیت کے خادم بنو پھر اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی تم معزز ہوگے اور دنیا بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے گی… تم اپنے اندر ذاتی جوہر پیدا کرو، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا خیال رکھو، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں، امتیاز خدمت کرنے میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدمت کی اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا۔ تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کر ے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
منہ از بہر ما کُرسی کہ ماموریم خدمت را
’’یعنی میرے لئے کُرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو۔ خود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوںسے مل کر اُن کو فائدہ پہنچاؤاور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ اُن کو بھی سیکھاؤ‘‘ ۔
(۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم
سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۱ ؍دسمبر ۱۹۳۸ء کو قادیان میں جلسہ سیرۃ النبی ﷺ کے مبارک موقع پر’’ آنحضرت ﷺ اور امنِ عالَم‘‘ کے موضوع پر یہ لطیف تقریر ارشاد فرمائی جس میں آپ نے قرآن کریم کی رو سے نیز عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ امنِ عالَم میں جو کردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے ادا کیا اِس کی مذہبی و دُنیوی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لئے توحیدِ باری تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد اِس ضابطہ ء حیات پر عمل کرنا ضروری ہے جوآنحضرت ﷺ کی وساطت سے قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس ساری تقریر کا خلاصہ اور لُبِّ لباب یہ بنتا ہے کہ :۔
۱۔ توحیدِ باری تعالیٰ پر کامل ایمان جس کے عملی اظہار کے لئے بیت اللہ جسے امنِ عالَم کے لئے درسگاہ قرار دیا ہے کے ساتھ وابستگی۔
۲۔ قرآنی تعلیمات جو امنِ عالَم کے لئے کورس کی حیثیت رکھتی ہیں پر عمل درآمد ۔
۳۔ آنحضرت ﷺجو امنِ عالَم کے سب سے بڑے داعی اورمدرّس ہیں کے اُسوہ حسنہ کی تقلید امنِ عالَم کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس تقریر میں حضور نے امنِ عالَم کے تعلق میں درج ذیل دو سوالات کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ حقیقی امن سے مراد کیا ہے؟
۲۔ حقیقی امن کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟
(۹)جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد
جماعت احمدیہ کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین میں بھی قائم ہو۔یہ مختصر تقریر حضور نے مؤرخہ۲۶؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت بیان فرمائی ہے اور احباب جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہمارے سامنے ایک ہی بات ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ ہم اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کریں جوخدا تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اور ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو اپنی طاقتوں اور سامانوں کو کُلّی طور پر اِس لئے صَرف کریں کہ خداتعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو‘‘۔
(۱۰) تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تربیتی تقریر مؤرخہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں احمدی خواتین کو تربیتِ اولاد کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے اپنی اِس تقریر میں تربیتِ اولاد کی اصل ذمہ دار عورتوں کو ٹھہرایا ہے چنانچہ اِس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’ اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم وتربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے۔ اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اُس قوم کی عورتوں پر ہی ہے‘‘۔
حضور نے اپنی اِس تقریر میں مردوں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے اور اُن کے رشتے داروں سے حُسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے۔ اِس سلسلہ میں آپ نے بڑی ہی پُر حکمت بات فرمائی کہ عورتوں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے سے وہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتی ہیں اِس لئے مرد کو اپنی بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ اِس تقریر کے آخرپر حضور نے تحریک جدید اور عورتوں کی ذمہ داریوں پر بھی مختصراً روشنی ڈالی ہے اور تحریک جدید کے سادہ زندگی کے مطالبہ کا عورتوں کے ساتھ گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ:۔
’’پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کرو، سادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادت ڈالو، جو عورت زیور سے خوش ہوجاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کر سکتی۔ پس سادہ کھانا کھاؤ، سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خدا تعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا‘‘ ۔
(۱۱)بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر یہ تقریر ارشاد فرمائی تھی جس میںروز نامہ الفضل اور سلسلہ کے دیگر اخبارات و رسائل کی خریداری بڑھانے کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلائی اور اِس ضمن میں عملہ الفضل کو بھی حضور نے اپنی قیمتی ہدایات سے نوازا۔ نیز جماعت احمدیہ کی غرض وغایت اور جماعت کے بعض مخصوص عقائد پر نہایت دلچسپ اور عام فہم رنگ میں روشنی ڈالی اور عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیا کہ جماعت احمدیہ کا مَسلک ہی صحیح اسلامی مَسلک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کا مقصد صرف اسلام اور قرآن کی خدمت کرنا تھا۔ روزنامہ الفضل کی اشاعت کے متعلق آپ نے فرمایاکہ:۔
’’ اتنی وسیع جماعت میں الفضل کی اشاعت کم ازکم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے ایک علمی اور مذہبی جماعت میں ’’الفضل’‘‘ کی اِس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے…مَیںدوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خریدتے اُن کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اخبارات اور رسالے ضرور خریدیںبلکہ جو اَن پڑھ ہیں وہ بھی لیںاور کسی پڑھے لکھے سے روزانہ تھوڑا تھوڑا سنتے رہا کریں تاکہ ان کی علمی ترقی ہو اور سلسلہ کے حالات سے وہ باخبر رہیں‘‘۔
(۱۲) سیرِ روحانی(۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو معرکۃ الآراء اور روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی وہ بعد میں اپنے روح پرور مضمون کے اعتبار سے ’’سیرروحانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ پیشگوئی مصلح موعود میں آپ سے متعلق یہ جو صفات بیان کی گئی تھیں کہ وہ:۔
’’ علوم ظاہر ی وباطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘
نیز یہ کہ:۔
’’ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے‘‘
یہ عظیم الشان تقریر اِن دونوں صفات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حضرت مصلح موعود نے اکتوبر۱۹۳۸ء کو حیدرآباد دکن کادورہ کیا اور بعض تاریخی مقامات کی سیر کی۔ علاوہ ازیں آپ نے دہلی ،آگرہ اور بمبئی وغیرہ کے بہت سارے تاریخی مقامات کی سیر کی اور آثار قدیمہ دیکھے جن میں نمایاں طور پر جامع مسجد دہلی، قطب صاحب کی لاٹ ، دیوانِ عام، جنترمنتر، مقبرے ، حوضِ خاص، آگرہ کا تاج محل، قلعے ،دیوانِ عام اور دیوانِ خاص وغیرہ شامل ہیں۔اِن مقامات کی سیرکے دَوران حضور پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی اور ایک عظیم انکشاف ہؤا۔ اِس کیفیت کا ذکر حضور نے اپنے اِن الفاظ میں بیان فرمایا:۔
’’ سب عجائبات جو سفر میں مَیں نے دیکھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے… آخر وہ سب ایک اَور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہوگئے۔ مَیں اِس محویت کے عالَم میں کھڑا رہا، کھڑا رہا اور کھڑا رہا۔ اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اِس کو کیا ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی… مَیں اُس آواز کو سن کر پھر واپس اِس مادی دنیا میں آگیا۔ مگر میرا دل اُس وقت رقت آمیز جذبات سے پُر تھا وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے… میں نے افسوس سے اِس دنیا کو دیکھا اور کہا ’’میں نے پالیا۔ میں نے پالیا‘‘۔
آپ پر یہ امر منکشف ہؤا کہ ان دُنیوی اور مادی نظاروں اور مقامات کے مقابل پر روحانی نظارے، روحانی مقامات مثلاً روحانی مساجد، روحانی سمندر، روحانی جنتر منتر، قلعے، مقبرے، باغات اور روحانی بلند مینار، دیوان عام، دیوان خاص اور روحانی نہریں موجود ہیں جو اپنی شان وشوکت، عظمتِ روحانی اور جلال وجمال، خوبصورتی اور پائیداری میں کہیں بڑھ کر ہیں مگر دنیا اِن سے بے خبر ہے چنانچہ اِس انکشاف کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ یہ امور تفصیلاً یا اِجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر میرے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے؟ کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں؟ …اِس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اَور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئی۔ میں اس نئی دنیا کے آثارِقدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہؤا تو مَیں نے ایسے عظیم الشان آثارِقدیمہ دیکھے جو اِن آثارِ قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا… ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہؤا۔ بڑی بڑی غیر معمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں، بے کنار سمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگر خانے، دیوانِ عام، دیوانِ خاص، بازار، لنگر خانے، کتب خانے، بے انتہابُلند مینار اور غیر محدود وسعت والی مسجد، دلوں کو ہِلادینے والے مقبرے ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پِھرنی شروع ہوئیں اور میں نے کہا اُف! میں کہاں آگیا۔ یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں۔ تمام دنیا کے پاس موجود تھیں لیکن دنیا اِن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ میرا دل خون ہوگیااپنی بے بسی پر کہ مَیں یہ چیزیں دنیا کو دکھانے سے قاصر ہوں۔ میرا دل خون ہوگیا دنیا کی بے توجہی پر مگر میرا دل مسرور بھی تھا اِس خزانے کے پانے پر کہ ایک دن میں یا خدا کا کوئی اور بندہ یہ مخفی خزانے دنیا کو دکھانے میں کامیاب ہو جائے گا۔‘‘
چنانچہ اِن تاریخی مقامات اور عجائباتِ قدرت کو ایک ایک کر کے آپ نے اپنی جلسہ سالانہ کی تقریروں میں روحانی رنگ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے پُر اثر اور روح پرور نظاروں کی شکل میں پیش فرمایا ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے۔
(۱۳) روس اور موجودہ جنگ
جنگ عظیم دوئم کے دَوران جب روس پولینڈ میں داخل ہؤا تو اُس وقت حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون تحریر فرمایا جو ۲۱؍ ستمبر ۱۹۳۹ء کے روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہؤا۔
حضور نے اِس مضمون میں روس کے پولینڈ میں داخلہ کی وجوہات اور مقاصد کا تجزیہ کرتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ روس پولینڈ کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اس کی نیت ٹھیک نہیں لگتی۔ اس نے جرمنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اپنی فوجیں پولینڈ بھیجنے پرمُصِرّاس لئے ہے کہ جرمنی کے لئے پولینڈ پر قبضہ کے لئے سہولت پیدا کر دے اور بغیر خونریزی کے پولینڈ کی حکومت ختم ہو جائے۔ اگر اس طرح کامیابی نہ ہو تو اِس معاہدہ کے ذریعہ جرمنی پولینڈ پر حملہ کر دے۔ اگر دوسری اقوام دخل نہ دیں تو ٹھیک ورنہ جرمنی پولینڈ کو کُچل دے اور دونوں ممالک اِس کو تقسیم کر لیں۔نیز اِس مضمون میں حضور نے اِس جنگ کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور اپنی بصیرت اور فراست سے اتحادیوں کو مفید مشورے دیئے ہیں۔
(۱۴) خدام سے خطاب
حضرت مصلح موعود نے یہ خطاب مؤرخہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۹ء کو برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ارشاد فرمایا۔ اِس خطاب کے آغاز میں حضور انور نے بعض انتظامی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی اور انتظامی اُمور سے متعلق بعض مفید مشورے عطا فرمائے۔
یہ اجتماع جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل منعقد کیا گیا جس سے جلسہ سالانہ کے انتظامات میں دقتیں پیش آئیں اس لئے فرمایا کہ آئندہ ایسے اجتماع جلسہ سالانہ کے ساتھ نہ رکھے جائیں۔
اِس اجتماع پر پہلی دفعہ اوّل آنے والی مجلس کو علمِ انعامی دینے کا فیصلہ ہؤا مگر چونکہ جماعت کے جھنڈے کی ابھی قانونی طور پر منظوری نہیں ہوئی تھی اِس لئے اِس موقع پر حضور نے جماعت کے جھنڈے کی منظوری دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ یہ علمِ انعامی آج کی بجائے جلسہ کے آخری روز دیا جائے گا جب جماعت کا جھنڈا لہرایا جائے گا۔ اِس موقع پر آپ نے خدام کو نصائح کرتے ہوئے فرمایاکہ:۔
’’ پس آج میں یہ دو باتیں خاص طور پر خدام الاحمدیہ سے کہنا چاہتا ہوں اوّل یہ کہ واقعات کی دنیا میں قیاس سے کام نہ لو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اُس کے متعلق اُس وقت تک مطمئن نہ ہو جاؤ جب تک وہ ہو نہ جائے اور دوسرے یہ کہ کام اختیار کرتے وقت پوری احتیاط سے کام لو۔ وہ کام اپنے یا دوسروں کے ذمہ نہ لگاؤ جو تم جانتے ہو کہ نہیں کر سکتے اور جب اِس امر کا اطمینان کر لو کہ اچھا کام ہے اور تم کر سکتے ہو تو پھر خود اُسے کرنے سے مت جھجھکو۔ پھر جب یہ دیکھو کہ کام ضروری ہے مگر تمہارا نفس کہتا ہے کہ تم اسے کرنہیں سکتے تو اپنے نفس سے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور غلط کہتا ہے یہ کام اللہتعالیٰ ضرور کردے گا اور پھر اُسے شروع کردو‘‘ ۔
اِن نصائح کے بعد حضور نے بطور نمونہ اپنی زندگی کے بعض ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔
(۱۵) احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مختصر خطاب مؤرخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
اِس روح پروراور ایمان افروز خطاب کے آغاز میں حضور انور نے غیر مبائعین میں سے بعض کے اِس قسم کے دعووں کا ذکر فرمایا جن میں احمدیت کے چند سال کے اندر اندر نیست ونابود ہو جانے اور عیسائیت کا غلبہ ہو جانے کی پیشگوئیاں کی گئی تھیں اور فرمایا کہ یہ دعوے کرنے والے خود بھی گزر گئے اور اُن کے ساتھی بھی گزر گئے مگر احمدیت خدا کے فضل سے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ۲۶ سال قبل یہاں چند سَو آدمی جمع ہوتے تھے مگر آج خدا کے فضل سے ہزاروں افراد جمع ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ:۔
’’ یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مرگیا اور اُس کے ساتھی بھی مر گئے اُن کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا مگر احمدیت زندہ رہی، زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ دنیا کی کوئی طاقت اِسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی۔ عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے، عیسائیت تو ہمارا شکارہے‘‘۔
اِس کے بعد حضور انور نے پوری دنیا میں احمدیت کی غیر معمولی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ سیرالیون میں ہر قسم کی مخالفت کے باوجود وہاں کے ۲ رئیس پانچ صد افراد کے ہمراہ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں اور اس طرح یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کے نظارے دیکھنے میں آرہے ہیں۔
آخر پر حضور انور نے بعض دعاؤں کی تحریک فرمائی خاص طور پر یہ دُعا کی کہ :۔
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں یا سُست اور عیش پرست ہو جائیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع، پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کرنے والے ہوں‘‘۔ (اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ)
(۱۶) مستورات سے خطاب
جلسہ خلافت جوبلی کی مبارک تقریب کے موقع پر مؤرخہ۲۷؍دسمبر۱۹۳۹ء کو لجنہ اماء اللہ قادیان نے حضورِ انور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا ۔ یہ ایڈریس حضرت سیدہ اُمِّ طاہر صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ قادیان نے پیش کیا۔ اِس ایڈریس کے جواب میں حضور نے لجنہ اماء اللہ کو بعض زرّیں نصائح ارشاد فرمائیں۔
اِسی طرح اس موقع پر ایک انگریز نو مسلم خاتون نے بھی لجنہ اماء اللہ انگلستان کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں انگریزی زبان میں ایک ایڈریس پیش کیا جس کا حضور نے بھی انگریزی میں جواب دیا۔
اِس خطاب میں حضور نے لجنہ کو جو نصائح فرمائیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے کوئی عورت باپ، بھائی یا خاوند کی پابند نہیں ہے بلکہ قرآن کریم پرعمل میاں بیوی اور مرد و عورت دونوں پر فرض ہے آپ نے فرمایا کہ:۔
’’ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اور مرد سب کے سب ایک ہی مقصد کیلئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب مرد اور عورتیں مل کر اُس کے حضور پاک دل اور نیک ارادہ لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب میں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کریں۔ سارا قرآن اِسی سے بھرا پڑا ہے…… یہ بالکل غلط ہے کہ خاوند کو یا بھائی کو یاباپ کو مذہب کے معاملہ میں عورت پر کسی قسم کا تصرف حاصل ہے ۔ ہر عورت کو حق ہے کہ جب دین کی کوئی بات سمجھ میں آجائے تو اُس پر عمل کرے خواہ سب اُس کے مخالف ہوں‘‘۔
(۱۷) اہم اور ضروری امور
حضرت فضل عمر نے مؤرخہ ۲۷ ؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر بعض متفرق انتظامی اور تربیتی امور سے متعلق یہ اہم خطاب فرمایا جو ۳؍ جنوری ۱۹۴۰ء کے روز نامہ الفضل قادیان اور ۳؍اکتوبر ۱۹۵۹ء کے روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہؤا اور اَب پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہورہا ہے۔
اِس خطاب میں حضور نے سب سے پہلے شیخ عبدالرحمن مصری اور ان کے ساتھیوں کی ایک اشتعال انگیز حرکت کا ذکر فرمایا۔ جس کے بعد سلسلہ کے اخبارات کے بارہ میں بعض ہدایات فرمائیں۔ نیز تعلیم و تربیت، اچھوتوں میںتبلیغ اورمغربی کھیلوں کی بجائے دیسی کھیلوں کو رائج کرنے کے بارہ میں ارشادات فرمائے ۔ اِسی طرح تحریک جدید کے ماتحت ۵ ہزار مبلغ تیار کرنے، ہجری شمسی کیلنڈر کے بارہ میں ارشادات اور ہدایات نیز سال میں ہر احمدی کو ایک بیعت کروانے، لڑکیوں کو ورثہ دینے جیسی تحریکات اِس خطاب میں شامل ہیں ۔
اِس خطاب کے آخرپر حضور نے اصلاحِ اعمال کا ایک لطیف گُر بیان کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی اِس نصیحت کی طرف توجہ دلائی جو آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائی کہ ہر مسلمان کی جان، اُس کا مال اور اُس کی عزت خدا کے حضور وہی مقام رکھتی ہے جو حج کا دن رکھتا ہے، جو ذوالحجہ رکھتا ہے اور جو مکہ ومکرمہ رکھتاہے اور اِس سلسلہ میں آنحضرت ﷺنے تحریک فرمائی کہ:۔
’’ جو یہ حدیث سُنے اُسے دوسروں تک پہنچا دے‘‘۔
اِس وصیت کے بارہ میں فرمایا کہ یہ وصیت قومی تربیت و اتحاد اور اعلیٰ اخلاق کے حصول کا ایک سنہری و نایاب گُر ہے۔ وہ نصیحت یا وصیت یہ ہے کہ اے مسلمانو! خانہ کعبہ، ایامِ حج اور ماہِ حج کی جو عزت و حُرمت تمہارے دلوں میں ہے وہی عزت تمہیں ادنیٰ سے ادنیٰ مومن کے جان ومال اور عزت کی کرنی چاہئے ۔
اپنے اِس اہم خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا:۔
’’ اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے رہتے تو اِن کے دلوں میں ایسی نرمی، محبت، دیانت اور تقویٰ پیدا ہو جاتا کہ وہ اپنے کسی بھائی کو نہ ستاتے۔ نہ اس کی جان پر حملہ کرتے نہ اُس کے مال پر حملہ کرتے، نہ اُس کی آبرو پر حملہ کرتے۔ اور اگر کوئی منہ پھٹ کبھی حملہ کر بیٹھتا تو دوسرا اُسے یاد دلا دیتا کہ میاں! کیا کرنے لگے ہو۔ تم خانہ کعبہ پر حملہ کرتے ہو، تم ذوالحجہ پرحملہ کرتے ہو،تم حج کے دن پر حملہ کرتے ہو۔ کیا اتنے مقدس مقامات پر حملہ کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی؟ اور یقینا اس کے بعد وہ شرمندہ ہوتا اور اپنے اِس ناروا فعل پر ندامت کا اظہار کرتا پس اِس سبق کو اچھی طرح یاد رکھو اور دوسروں تک پہنچادو اگر تم اِس تحریک پر عمل کرو گے تو جماعت میں آہستہ آہستہ صحیح تقویٰ پیدا ہو جائے گا اور سِوائے ازلی شقیوں کے جن کا کوئی علاج خدانے مقر ر نہیں کیا باقی سب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے۔ اور جماعتی اتحاد کو کسی طرح ضُعف نہیں پہنچے گا کیونکہ گویہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے مگر اِسی پرقومی زندگی کی بنیاد ہے‘‘۔
(۱۸) تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ
حضرت مصلح موعود کی خلافت کے ۲۵سال پورے ہونے پر ۱۹۳۹ء میں ’’خلافت جوبلی‘‘ کی تقریب منعقد کی گئی۔ اِس موقع پر مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۹ء کو ہندوستان اور بیرونی ممالک کی جماعتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کئے گئے۔ یہ تقریر حضور نے ان تمام ایڈریسز کے جواب میں ارشاد فرمائی۔اِس تقریر میں حضور نے فرمایا کہ :۔
’’جب سے یہ خلافت جوبلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی یہ دیگر تقاریب مناتے ہیں اُنہیں کس طرح روک سکیں گے۔…اس کے متعلق سب سے پہلے انشراحِ صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوئا جس میں لکھا تھا کہ اِس وقت گویا ایک اَور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اِس وجہ سے مجھے خود بھی اِس خوشی میں شریک ہونا چاہئے۔ دوسرا انشراح مجھے اِس وقت پیدا ہوء ا جب دُرثمین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے۔ اِس کو سُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اِس میں بیان کی گئی ہے اور اِس کا منانا اِس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری پچیس سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اِس لئے کہ خداتعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نامناسب نہیں اور اِس خوشی میں مَیں بھی شریک ہو سکتا ہوں ‘‘۔
اِس کے بعد حضور نے اپنی علمی قابلیت اور اپنی تحصیل علم کی روئیداد سنائی جو پیشگوئی مصلح موعود کے اِن الفاظ کو پورا کرنے والی ہے کہ:۔
’’وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری وباطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔
(۱۹) خلافت راشدہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی کی تقریب سعید کے موقع پر ’’خلافت راشدہ‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر ارشاد فرمائی جو ۲۸،۲۹؍ دسمبر دو دن جاری رہی یہمعرکۃ الآراء تقریر ۱۹۶۱ء میں کتابی صورت میں پہلی بار شائع ہوئی۔ یہ کتاب خدا کے فضل سے علمی دنیا میں ایک نہایت بُلند پایہ تصنیف ہے جس میںنظامِ خلافت کی ضرورت واہمیت اور دیگر تمام پہلوؤں پر قرآن کریم، احادیث اور سنت صحابہ کی رو سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز آنحضرتﷺ کے بعد خلافت راشدہ کی مختصر تاریخ اور حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں اِس کے بعد خلافت احمدیہ کے قیام بِالخصوص خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر پیدا ہونے والے حالات و واقعات اور مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال احباب کی طرف سے نظامِ خلافت کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔
اِس تقریر میں حضور نے نظامِ خلافت اور خلیفۂ وقت کے مقام اور اختیارات پر بھی تفصیل سے بحث فرمائی ہے نیز اِس سلسلہ میں اُٹھنے والے بعض اعتراضات اور سوالات کے قرآن وحدیث کی روشنی میں بڑے مدلّل اورمُسکت عقلی و نقلی دلائل بیان فرمائے ہیں۔
نظامِ خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی بنیاد آیتِ استخلاف پر رکھتے ہوئے اِس آیت کے مضامین پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور آیتِ استخلاف پر اُٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔اس تقریر کے آخر پر حضور نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ:۔
’’ پس اے مومنوں کی جماعت اور اے عمل صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خداتعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اِس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی خدا اِس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہوگئی تو پھر یہ امر اُس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اِس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کردے… پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو اور اِس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفرو منصور رہو گے کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے‘‘۔
(۲۰) کارکنانِ جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے خطاب
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۶؍ جنوری ۱۹۴۰ء کو جلسہ خلافت جوبلی کے انتظامات بخیروخوبی اختتام پذیر ہونے پر مدرسہ احمدیہ قادیان کے صحن میں جلسہ کے کارکنان سے جو خطاب فرمایا اُس کا خلاصہ مؤرخہ ۹؍ جنوری ۱۹۴۰ء کے روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہؤا۔
حضور نے اِس موقع پر قادیان کے جلسہ کو تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کا دوسرے نمبر کا جلسہ قرار دیا اور کھانے ورہائش کے انتظامات کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر کا جلسہ قرار دیا۔ حضورِانور نے اِس موقع پر فرمایاکہ:۔
’’ ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہو جائیں تو پھر ہم اجازت دے دیں کہ ہر مُلک میں الگ جلسے سالانہ ہؤا کریں‘‘۔
اِس تقریر میں حضور نے موقع کی مناسبت سے انتظامی امور سے متعلق متعلقہ شعبوں کو ہدایات فرمائیں ۔نیز مہمان نوازی کی اہمیت اور برکات پر روشنی ڈالی اور اپنے خطاب کے آخر میں فرمایاکہ:۔
’’ اب میں دُعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دُعاکریں کہ خداتعالیٰ ہماری اِس حقیر خدمت کو قبول فرمائے۔ اور ہماری غلطیوں ، سُستیوں اور کمزوریوں سے در گزر کرے تاایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھا جانے والی ہوں اور ہم آئندہ سال اِس سے بھی بڑھ کر خدمت خلق کر کے اپنے خدا کوراضی کر سکیں‘‘۔
(۲۱) مَیں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء تقریر مؤرخہ ۱۹؍ فروری ۱۹۴۰ء کو بوقت ساڑھے آٹھ بجے رات بمبئی ریڈیو پر ارشاد فرمائی جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
حضور نے اپنی اِس مختصر مگر جامع و مانع تقریر کے آغاز میں ہی اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ اِسی دلیل سے جس کی بناء پر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے… اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے‘‘ ۔
اِس اجمال کی قدرے وضاحت کرتے ہوئے حضور نے اسلام کی درج ذیل پانچ بنیادی خوبیاں بیان فرمائی ہیں:۔
۱ اسلام ہر وہ امر جس کو ماننا ضروری قرار دیتا ہے اُس پر ایمان لانے کیلئے دلیل بھی دیتا ہے۔
۲ اسلام صِرف قصوں پر اپنے دعویٰ کی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے۔
۳ اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ خداتعالیٰ کے کلام اور کام میں اختلاف نہیں ہوتا۔
۴ اسلام کسی کے جذبات کو کُچلتا نہیں بلکہ اُن کی صحیح راہنمائی کرتا ہے۔
۵ اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں سے بلکہ سب دنیا سے انصاف بلکہ محبت کرنے کی تعلیم دیتاہے۔
(۲۲) موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک
جنگ عظیم دوئم کے دَوران حکومتِ برطانیہ کی طرف سے مؤرخہ ۲۶؍ مئی بروزاتور۱۹۴۰ء کے دن اِس جنگ میں کامیابی کے لئے خصوصی دعا کرنے کی تحریک پر مبنی ایک اعلان کیا گیا۔
چنانچہ اُولِی الْاَمْرِ کے حُکم کے تحت حکومت وقت کے ساتھ ہمدردی اور اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے قادیان میں بھی اُس روز خصوصی دعا کرنے کا اعلان ہؤا اور یہ تقریب بیت اقصیٰ میں منعقد ہوئی۔ اِس دُعائیہ کی تقریب میں حضرت مصلح موعود بھی بنفس نفیس شامل ہوئے اور دعا سے قبل موقع کی مناسبت سے ایک تقریر بھی ارشاد فرمائی جس میں فرمایا کہ چونکہ عیسائیت میں اتوار کا دن مذہبی تہوار کی حیثیت رکھتے ہوئے مقدس سمجھا جاتا ہے اِس لئے حکومتِ برطانیہ نے خصوصی دُعا کے لئے اتوار کے دن کو مقرر کیا ہے۔ ہم حکومتِ وقت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے آج یہاں اِس مقصد کیلئے جمع ہوئے ہیں لیکن چونکہ ہمارے مذہب میں ’’ جمعہ‘‘ کے دن کو قبولیت دعا کے ساتھ خاص مناسبت اور حیثیت حاصل ہے لہٰذا ہم دوبارہ جمعہ کے روز بھی حکومتِ برطانیہ کی فتح کے لئے دُعا کرنے کی غرض سے اکٹھے ہوںگے‘‘۔
اِس تقریر میں حضور نے جنگ عظیم دوئم کی صورتِ حال پر تجزیاتی لحاظ سے روشنی ڈالی اور ماہرانہ تبصرہ فرمایا اور حکومتِ برطانیہ کو اپنی کوتاہیوں کی طرف توجہ دلائی اور حکومتِ برطانیہ کی فتح کو احمدیت اور اُمتِ مُسلمہ کے لئے مفید قرار دیتے ہوئے اِس کی فتح کے لئے نیک خواہشات کا اظہار فرمایا اور خصوصی دُعا کروائی۔
حضور کا یہ خطاب ۴ ؍جون ۱۹۴۰ء کو روز نامہ الفضل قادیان میں شائع ہؤا جو پہلی بار کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
(۲۳) امۃ الودود میری بچی
حضرت مصلح موعود کا یہ مضمون محترمہ امۃ الودود صاحبہ بنت حضرت مرزاشریف احمد صاحب کے ذکرِ خیر پر مبنی ہے جو حضور نے ان کی وفات پر تحریر فرمایا اور مؤرخہ ۲۳؍جون ۱۹۴۰ء کے روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہؤا۔
اِس مضمون میں حضور نے ان کی بیماری، وفات، تعلیمی قابلیت کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں نیز ان کے اعلیٰ اخلاق اور اپنے ساتھ پیار و محبت کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔ حضور ان کی خوبیوں سے اِس قدر متأثر تھے کہ اپنے صاحبزادے مرزا خلیل احمد صاحب کیلئے ان کے رشتہ کی خواہش رکھتے تھے مگر رشتہ کا پیغام بھجوانے سے پہلے ہی ان کی اچانک وفات سے حضور کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ حضور کو اِن سے کس قدر پیاراور محبت کاتعلق تھا اِس کا اندازہ حضور کے اِن کلمات سے لگایا جاسکتا ہے فرمایا:۔
’’ دُودی میری بھتیجی توتھی مگر زمانہ کے قرب اور تعلق نے اُسے میرے دل کے خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی… میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے‘‘۔
مضمون کے آخر میں اپنے اضطراب اور درد کو دُعائیہ الفاظ میں ڈھالتے ہوئے اپنے رب سے یوں عرض کرتے ہیںکہ:۔
’’اے اللہ تعالیٰ! یہ نا تجربہ کار رُوح تیرے حضور میں آئی ہے تیرے فرشتے اِس کے استقبال کو آئیں کہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو۔ اِس کے دادا کی رُوح اِسے اپنی گود میں اُٹھالے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوںمیں محسوس نہ کرے۔محمدرسول اللہﷺ کا ہاتھ اِس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اِس کے رُوحانی دادا ہیں اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں اور اِس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں اِسی دُعا کے ساتھ مَیں بھی اب تجھے رُخصت کرتا ہوں جا !میری بچی تیرا اللہ حافظ ہو ۔ اللہ حافظ ہو‘‘
(۲۴)چاند ۔ میرا چاند
حضرت مصلح موعود ۱۹۴۰ء میں اپنے بعض اہل خانہ کے ہمراہ کراچی تشریف لے گئے اور ایک رات سمند پر سیر کرنے گئے۔ اُس رات چاند خوب چمک رہا تھا اور زبر دست چاندنی رات تھی۔ اِس دلکش نظارہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد آگیا اور پچاس سال پہلے کی ایک رات کانظارہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا ۔
چاند کو کَل دیکھ کر میں سخت بیکل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا
پہلے تو حضور نے اِس شعر کو گنگنانا شروع کیا۔ پھر حضور نے چاند کو مخاطب کر کے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر ارشاد فرمائے جن کا پہلا شعر کچھ اِس طرح پرہے۔
یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر
حضور نے واپس آکر روزنامہ الفضل قادیان میں ایک مضمون تحریر فرمایاجو مؤرخہ۶؍جولائی ۱۹۴۰ء کو شائع ہؤا۔ حضور نے اِس مضمون میں اِس نظم کا پسِ منظر اور ساتھ ساتھ تشریح بھی تحریر فرمائی۔آخری دو اشعار کی تشریح میں اپنی بھتیجی محترمہ امۃ الودود مرحومہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا ذکرِ خیر بھی فرمایا ہے۔ جس میں محترمہ کی غیر معمولی اطاعت اور فرمانبرداری پر روشنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر ہزاروں رحمتیں ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتا رہے۔ اٰمِیْنَ



بانی ئسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

بانی ئسلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج سب سے پہلے میں دوستوں کو سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض اخبارات اور رسائل کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے اخبارات میں سے سب سے مقدم الفضل ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہماری جماعت اخبارات اور لٹریچر کی اشاعت کی طرف اتنی متوجہ نہیں جتنا متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اتنی وسیع جماعت میں جو سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کی سینکڑوں انجمنیں ہیں صرف دو ہزار کے قریب الفضل کی خریداری ہے حالانکہ اتنی وسیع جماعت میں الفضل کی اشاعت کم از کم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے۔ ایک علمی اور مذہبی جماعت میں ’’الفضل‘‘ کی اس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے یورپ میں لوگوں کو اخبارات پڑھنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ ایک آدمی دو دو تین تین اخبارات ضرور خریدتا ہے حتیّٰ کہ غریب مزدور کے ہاتھ میں بھی ایک دو اخبار تو ضرور ہونگے مگر ہمارے آدمی اس وقت تک اخبار خریدنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جب تک اس کا ہر مضمون ان کی دلچسپی کا موجب نہ ہو اور اگر کوئی خریدتا بھی ہے تو وہ پڑھ کر کہہ دیتا ہے کہ ایک دو مضمون ہی اچھے ہیں باقی اخبار میں تو کوئی کام کی بات ہی نہیں گویا ان کے نزدیک اخبار شروع سے لیکر آخر تک ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے۔ حالانکہ ولایت میں مَیں نے دیکھا ہے، لوگ اخبار خریدیں گے اور اس میں سے کوئی ایک خبر اپنے مذاق کی پڑھ لیں گے، مثلاً فلاں جگہ گھوڑ دَوڑ ہے‘ لوگوں کو اتنے بجے پہنچ جانا چاہئے اور پھریہ خبر پڑھتے ہی اخبار پھینک دیں گے۔ اسی طرح جاتے جاتے ریل میں یا ٹرام میں ہر شخص اخبار خریدے گا اور پھر گھوڑ دَوڑ یا کرکٹ کے میچ کی خبر پڑھ کر یا گھوڑ دَوڑ اور کرکٹ کے میچ کے نتیجہ پر نظر ڈال کر اخبار چھوڑ دیں گے۔ یہی عورتوں کا حال ہے وہ بھی اخبار خریدتی ہیں اور سوسائٹی میں گَپ شَپ کیلئے کسی پارٹی کی خبر ہوئی تو وہ پڑھ لیتی ہیں یا کوئی شادی کی خبر ہوئی تو وہ دیکھ لیتی ہیں اسی طرح موت کی خبر پڑھ لیتی ہیں اور باقی اخبار کو دیکھتی بھی نہیں۔ اس کے مقابلہ میں جو سیاسی آدمی ہیں وہ صرف سیاسی خبریں پڑھتے ہیں اور باقی اخبار چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے اور کوئی ضروری کام نہ ہو تو وہ مضمون پڑھنے لگ جاتا ہے لیکن ہمارے لوگ اس بات کے عادی ہیں کہ ایک آنہ میں سے جب تک وہ پانچ پیسے کی خبریں نہ نکال لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔
ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ایک جاہل شخص ہوء ا کرتا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل اس کے بہت پیچھے پڑے رہتے تھے کہ تو نمازیں پڑھا کر اور آپ چاہتے تھے کہ اسے کچھ نہ کچھ دین کی واقفیت ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک بہت پرانا خادم تھا اس کا وہ بھتیجا تھا۔ ایک دفعہ وہ بازار سے آٹھ آنے کا گھی لایا جو بِلّا کھا گیا اسے پتہ لگا تو اس پر جنون سوار ہو گیا اور وہ لٹھ لیکر بِلّے کے پیچھے پیچھے بھاگا یہاں تک کہ اس لٹھ سے اس نے بِلّے کو مارا اور چُھری سے پیٹ چاک کر کے اس کی انتڑیوں سے گھی نچوڑ کر رکھ لیا۔ کسی نے پوچھا کہ سناؤ گھی مل گیا وہ کہنے لگا۔ آدھ سیر کی بجائے دس چھٹانک گھی نکلا ہے۔ ہمارے یہ دوست بھی اخبارات سے دس چھٹانک گھی ہی نکالنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ایک آنہ خرچ کر کے انہیں پانچ پیسے کی خبریں مل جایا کریں۔ حالانکہ اگر کسی کو علم کی ایک بات بھی اخبار سے مل جاتی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی قیمت اسے وصول ہو گئی بلکہ ایک بات کیا اگر کام کی اسے ایک سطر بھی مل جاتی ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ ایک آنہ کی اس کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔
پھر ریویو آف ریلیجنز وہ رسالہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اس کے دس ہزار خریدار ہوں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک دفعہ بھی اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکے۔ ہمارے جلسہ سالانہ پر ہی بیس ہزار آدمی آ جاتے ہیں اور اگر سب دوست اس کی خریداری کی طرف توجہ کریں تو دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ میں سمجھتا ہوں اگر غیراحمدیوں میں اس رسالہ کی کثرت سے اشاعت کی جائے تو دس ہزار خریدار یقینا میسر آسکتا ہے کیونکہ اس رسالہ میں ایسے علمی مضامین شائع ہوتے ہیں جو عام طور پر دوسرے رسالوں کو میسر نہیں آتے۔
انگریزی دان طبقہ کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس رسالہ کو کثرت سے خریدے لیکن وہ دوست جو انگریزی نہیں جانتے وہ بھی اگر شادی بیاہ کے موقع پر ریویو آف ریلیجنزکی امداد کے لئے کچھ دے دیا کریں تو ان پر کچھ زیادہ بار نہیں ہو سکتا۔ لوگ شادیوں کے موقع پر صدقہ و خیرات کیا کرتے ہیں اور جو لوگ صدقہ و خیرات نہیں کرتے وہ بھی اور ڈوموں میں جب وہ مبارکباد دینے کیلئے آتے ہیں تو کئی روپے تقسیم کر دیتے ہیں۔
ایسے موقعوں پر اگر بجائے اور ڈوموں کو روپیہ دینے کے تین چارانگریزوں یاعلم دوست غیر احمدیوں کے نام سال یا چھ چھ ماہ کیلئے رسالہ جاری کرا دیا جائے تو جتنے عرصہ تک رسالہ جاری رہے گا اتنا عرصہ تک وہ ثواب حاصل کرتے رہیں گے۔ اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہو تو وہ تین ماہ کیلئے ہی رسالہ جاری کرا دے۔ اگر اس کے تین چار روپوں سے تین چار مہینے مسلسل اسلام کی تعلیم لوگوں کے کانوں تک پہنچتی رہے تو وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ روپیہ خرچ کرنا اس کیلئے کیسا مفید اور بابرکت ہو گا۔ ڈوموں اور میراثیوں کی مدد کرنا تو اخلاقاً اور شرعاً کوئی پسندیدہ بات نہیں کیونکہ ایسا شخص اپنے روپے سے گانے اور ناچنے کو قائم رکھتا ہے لیکن ایسے رسالہ کی مدد کرنا جو ممالکِ غیر میں تبلیغِ اسلام کا کام دے رہا ہو بہت بڑے ثواب کی بات ہے کیونکہ اس طرح خداتعالیٰ کے دین کو مدد ملتی ہے۔
اسی طرح ’’البشرٰی‘‘ ایک نہایت ہی اہم رسالہ ہے اور وہ اس علاقہ سے نکلتا ہے جس کے ہم پر اس قدر عظیم الشان احسانات ہیں کہ اگر ہماری کھال اُدھیڑ کر بھی اس کے کپڑے بنا دیئے جائیں تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ ہم نہیں اتار سکتے۔ یہ عربوں کی قربانی ہی تھی کہ جس نے ہمیں اسلام سے روشناس کرایا۔ پس اگر ہم عرب کے لوگوں تک احمدیت پہنچا دیں تو یہ ہمارا اُن پر کوئی احسان نہیں ہو گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنی تمام جائدادیں عربوں کیلئے وقف کر دیں اور اپنے اموال ان کی خاطر قربان کر دیں تب بھی ان کا احسان نہیں اتر سکتا کیونکہ انہوں نے روحانی انعام سے ہمیں مالا مال کیا اور ہم جو کچھ دیں گے وہ جسمانی ہو گا لیکن اب خدا نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان کو اسی طرح روحانی انعامات سے بہرہ یاب کریں جس طرح انہوں نے ہمیں روحانی انعامات دیئے۔ ان کے باپ دادوں نے ہم کو اسلام دیا تھا اب ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں احمدیت سکھائیں اور اس طرح اس احسان کا بدلہ دیں جو انہوں نے اسلام کی اشاعت کی صورت میں ہم پر کیا۔
پس خدا نے ہمیں احمدیت دیکر وہ ذریعہ عطا فرمایا ہے جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں اشاعتِ احمدیت پر زور دیں اور کم از کم اس رسالہ کی اشاعت کو بکثرت بڑھائیں جو عرب ممالک میں احمدیت کی آواز پہنچانے کیلئے ہماری جماعت کی طرف سے شائع کیا جاتا ہے۔
اب مَیں تفصیلی طور پر اخبارات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اخبار ’’الفضل‘‘ کو چلانے میں عملہ پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور چونکہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت ہے اس لئے صدرانجمن احمدیہ پر بھی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ میںنے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آج کل تجارتی زمانہ ہے اور اخبار کو تجارتی لائنوں پر چلانا چاہئے۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے اخبار چلانے کیلئے تجارتی رنگ اختیار نہیں کیا جاتا اور میں یقینا سمجھتا ہوں کہ جب تک تجارتی لائن اختیار نہیں کی جائے گی اس وقت تک اخبار والوں کو کامیابی نہیںہو گی۔ میں نے یورپ کے اخبار نویسوں کو دیکھا ہے۔ ان کو خبریں جمع کرنے کی اتنی حرص ہوتی ہے کہ بسااوقات جن کا معاملہ ہوتا ہے انہیں اتنی خبر نہیں ہوتی جتنی اخبار والوں کو ہوتی ہے۔ وہ بے شک بعض دفعہ جب ان کی قوم کا فائدہ ہو تو جھوٹ بھی بول لیتے ہیں مگر بِالعموم سچائی سے کام لیتے ہیں اور خبریں جمع کرنے کیلئے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں۔
مَیں جب ولایت گیا تو باوجودیکہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے پھر بھی ہر اخبار کا نمائندہ ہمارے پاس آتا اور کُرید کُرید کر ہم سے حالات پوچھتا ہم گئے تو اس اخبار کے نمائندے ہمارے ساتھ تھے۔ پیرس گئے تو وہاں موجود تھے۔ غرض دن رات ان اخبارات کے ایڈیٹر ہمارے حالات معلوم کرنے کیلئے پھرتے رہتے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمارے اخبار کے ایڈیٹروں سے دس دس بیس بیس گنا زیادہ تنخواہ لینے والے ہوتے ہیں۔
اسی طرح الفضل کا بھی کام ہے کہ وہ سلسلہ کی خبریں مہیا کرنے میں زیادہ مستعدی سے کام لے۔ پھر مَیں جو خطبے پڑھتا ہوں اگر ان خطبوں کو ذہانت سے پڑھا جاتا ہو تو ہر شخص جانتا ہو گا کہ ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا ہوتا ہے۔ جس طرح باری کا بخار ایک روز زیادہ زور سے چڑھتا ہے اور ایک روز کم ہو جاتا ہے اسی طرح ہمیشہ میرا ایک خطبہ لمبا ہوگااور ایک چھوٹا۔ اگر پہلے کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی تو وہ اب جا کر ’’الفضل‘‘ کا فائل کھول کر دیکھ لے۔ ہمیشہ اسے یہی دکھائی دے گا کہ میرا ایک خطبہ لمبا ہے اور ایک چھوٹا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک زودنویس تو میرا خطبہ صحیح طور پر لکھتا ہے اور ایک زود نویس ایسا ہے جو میرے الفاظ چھوڑتا چلا جاتا ہے اور کبھی مکمل خطبہ نہیں لکھتا۔ دوست اگر چاہیں تو اب واپسی پر اپنے گھروں میں جا کر مقابلہ کر لیں ہمیشہ دو خطبوں میں انہیں نمایاں فرق نظر آئے گا اور باقاعدہ ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا بلکہ بعض دفعہ میںنے دیکھا ہے جس خطبہ پر میں نے دس منٹ کم خرچ کئے ہوتے ہیں وہ لمبا ہوتا ہے اور جس خطبہ پر میں نے زیادہ وقت صرف کیا ہوتا ہے وہ چھوٹا ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک خطبہ نویس ایسا ہے جسے لکھنے کی قابلیت نہیں۔ ہر شخص زود نویس نہیں ہو سکتا ممکن ہے وہ ایڈیٹر ہو مگر زود نویس نہ ہو۔ مگر باوجود یکہ میں سالہا سال سے اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور ہر پانچویں چھٹے خطبہ پر مجھے اس قسم کے نوٹ لکھنے پڑتے ہیں کہ خطبہ یہاں سے حذف ہو گیا ہے، یا یہ بات اپنے پاس سے لکھ دی گئی ہے۔ یہ باتیںایسی ہیں کہ لازمی طور پر ان کا خریداری پر اثر پڑتا ہے۔ میں نے اپنا تجربہ اس وقت دوستوں کو بتا دیا ہے ممکن ہے باہر کی جماعتوں کو اس کا علم نہ ہو لیکن اگر وہ چاہیں تو اب گزشتہ خطبے نکال کر دیکھ سکتے ہیں۔ بغیر کسی فرق کے برابر ایک خطبہ لمبا ہوگا اور ایک چھوٹا۔ ممکن ہے کوئی ایک خطبہ ایسا بھی نکل آئے جو اس مختصر نویسی کے زمانہ میں مَیں نے خاص طور پر بہت زیادہ لمبا دیا ہو اور وہ چھوٹا دکھائی نہ دے لیکن عام طور پر باقاعدہ میرا ایک خطبہ بڑا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا۔ یہی بے توجہی باقی کاموں میں بھی ہے حالانکہ روزانہ اخبار تبھی چل سکتے ہیں جب وہ روزانہ ضرورتوںکو مہیا کریں۔ اسی طرح مضامین کے متعلق میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ان میں ہونا چاہئے اور سارا اخبار ہی دینی مضامین سے نہیں بھرنا چاہئے مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیںکی جاتی۔ اگر ہم سارا دن نمازیں نہیں پڑھتے رہتے بلکہ اور بھی بیسیوں کام کرتے ہیں تو سارے اخبار میں دینی مضامین ہی اگر ہوں تو وہ کب لوگوں کیلئے دلچسپی کا موجب بن سکتے ہیں۔ قرآن کریم کو بھی دیکھ لو اس میں صرف خدا اور اس کے رسولوں کا ہی ذکر نہیں بلکہ کہیں پانیوں کا ذکر ہے، کہیں بادلوں کا ذکر ہے، کہیں ہوائوں کا ذکر ہے، کہیں زمین کی حرکتوں کا ذکر ہے، کہیں حیوانات کا ذکر ہے، کہیں لڑائیوں کا ذکر ہے، کہیں سیاسیات کا ذکر ہے غرض مختلف قسم کے اذکار اس میں پائے جاتے ہیں مگر کیا الفضل قرآن سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے کہ اگر وہ علمی اور تاریخی اور اقتصادی اور صنعتی مضامین لکھے تو اس کی زبان صاف نہیں رہے گی۔ میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ مضامین میں تنوع پیدا کرو۔ علمی اور تاریخی مضامین لکھو، مختلف عنوانات پر مختصر نوٹ لکھو اس طرح تعلیمی، صنعتی، مذہبی اور اقتصادی مضامین لکھو، مختلف اقوام میں جو رسوم پائی جاتی ہیں ان پر وقتاً فوقتاً روشنی ڈالو، غیر مذاہب کے حالات لکھو، دلچسپ خبریں شائع کرو اور ان کے دَوران میں مذہبی مضامین بھی لکھو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری کونین شکر میں لپٹی ہوئی ہوگی اور ہر کوئی شوق سے اسے کھانے کیلئے تیار رہے گا۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے ایک دو دفعہ نہیں بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے اور متواتر توجہ دلائی ہے کبھی میرے توجہ دلانے کے مطابق عمل نہیں ہوتا۔ میں نے یہ توجہ براہِ راست عملہ کو بھی دلائی ہے اور بڑوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا ہے مگر ہمیشہ ’’مرغ کی ایک ٹانگ والا‘‘ معاملہ رہتا ہے۔ کوئی ہُشت ہی نہیں کرتا کہ اس مرغ کی دوسری ٹانگ نکلے۔ میں تو سمجھا ہی سکتا تھا سو میں نے چھوٹوں کو بھی سمجھا دیا اور بڑوں کو بھی سمجھا دیا۔ میں نے افسروں کو بھی کہا کہ اگر ان تجاویز پر عمل نہیں ہوگا تو ہُشت ہی کر دو۔ مگر افسر ہیں کہ انہیں ہُشت کرنا بھی نہیں آتا حالانکہ یہ اخبار یقینا ایسا دلچسپ بنایا جا سکتا ہے کہ باوجود روزانہ ہونے کے اور باوجود دینی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ہماری دنیوی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتا ہے بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اگر الفضل والے ہمت کریں تو روزانہ خبریں بھی مہیا کر سکتے ہیںمگر اس کے لئے پوری محنت کی ضرورت ہے۔
درحقیقت روزانہ اخبار کا کام بہت بڑا کام ہوتا ہے اور اسے وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جو زندگی کی تمام لذتوں کو چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائے۔ یورپ کے اخبار والوں کو تو کام کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ انہیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ پاگل ہیں۔ میں جب ولایت گیا تو میں نے چاہا کہ ایک مشہور اخبار نویس سے ملوں۔ میں نے اپنے اس ارادہ کا ایک دوست سے ذکر کیا تو انہوںنے کہا کہ مسٹر میکڈانلڈ ۱؎وزیر اعظم برطانیہ کے ساتھ آپ آسانی سے ملاقات کر سکتے ہیں لیکن اس اخبار نویس سے آپ کا ملاقات کرنا مشکل ہے کیونکہ بعض دفعہ کئی کئی مہینے لوگ اس کی شکل نہیں دیکھتے۔ وہ جسے ہماری پنجابی میں مارنا کہتے ہیںوہ اخبار نویس کی حالت ہوتی ہے اور اس کے لئے بہت بڑی محنت اور بہت بڑی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُسے کسی خبر کے سنتے ہی منٹوں میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی نظر کو ایک ایک خبر پر یوں تیرتے چلے جانا چاہئے جیسے بحری جانور سمندر کی لہروں پر اپنا سر اٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے دو تین سال سے الفضل کے مضامین میں کچھ تنوع پایا جاتا ہے مگر اس میں زیادہ تر کچھ مجلس انصارِ سلطان القلم کا دخل ہے جو میاں بشیر احمد صاحب نے بنائی تھی اور کچھ اس میں میر محمد اسماعیل صاحب کے مضامین کا حصہ ہے۔ چنانچہ چند دن ہوئے مجھے ایک شدید عالم کا خط آیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اب ایک دو سال سے یہ اخبار دلچسپ ہو گیا ہے اور اس کے مضامین میں کسی حد تک تنوع پیدا ہو گیا ہے۔ مگر پھر بھی جس حد تک اسے بڑھایا جا سکتا اور اس کے ذریعہ اپنی جماعت کو دوسرے اخبارات سے مستغنی کیا جا سکتا ہے وہ بات ابھی اس میں پیدا نہیں ہوئی۔ اشتہارات کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ پوری توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ اس سے بھی اخبار کو بہت کچھ مدد ملتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ صحیح ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دنیا کی ہر اخبار کو اچھے اشتہار مل جاتے ہیں مگر ہمارے الفضل میں سوائے مخصوص امراض کی دوائیوں کے اور کوئی اشتہار ہی نہیں ہوتا گویا تمام لوگ دنیا میں اب انہی بیماریوں کے ہی مریض ہیں۔ میں تو اس سے اتنا تنگ آ گیا ہوں کہ اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ایسا کوئی اشتہار اخبار میں چَھپنے نہیں دوں گا۔ چنانچہ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ کیلئے ہمارے اخبار میں اس قسم کا کوئی اشتہار نہیں نکلنا چاہئے۔ دنیا میں بیماریوں کی کمی نہیں، کئی ایسی بیماریاں ہیں جو نہایت خطرناک ہوتی ہیں اگر ان بیماریوں کے متعلق اپنی مجرب دوائی لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس قسم کی مخصوص بیماریوں کے متعلق ہی کوئی اشتہار دینا ہو تو یہ لکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی دوائیں تیار ہیں ضرورت مند فہرست منگوا کر دیکھ لیں۔ یورپین اخبارات میں بھی یہی طریق ہوتا ہے۔ وہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض چیزیں دایہ گری وغیرہ کے متعلق ہیں جو لوگ تفصیل معلوم کرنا چاہیں وہ خط لکھ کر ہم سے فہرست منگوا لیں۔ پھر جب انہیں کوئی خط لکھتا ہے تو وہ فہرست بھیج دیتے ہیں۔ اسی رنگ میں ہمارے اخبار میں بھی اس قسم کے اشتہارات شائع ہونے چاہئیں اور انہیں صرف یہ لکھ دینا چاہئے کہ ہمارے ہاں ہر قسم کی ادویات موجود ہیں دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہم سے فہرست منگوا لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی دوائیاں ہمیشہ ہسٹیریا والے منگوایا کرتے ہیں اور ان کے لئے کسی لمبے چوڑے اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف اتنا لکھنا ہی ان کیلئے کافی ہوتا ہے کہ ایک مسیحا پیدا ہو گیا ہے اس سے دوائی منگوا کر تجربہ کرو۔ ایسے لوگوں کو سچے مسیح کا ماننا تو مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر انہیں کہہ دیا جائے کہ فلاں مسیحائے وقت ہے جس کی دوائیں بڑی زود اثر ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف خط لکھ دیں گے۔ پس اس قسم کا مزاج رکھنے والوںکیلئے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ایک اشارہ ہی کافی ہے وہ فوراً فہرست منگوالیں گے اور مشتہرین کی ادویات بِک جائیں گی لیکن میں نہیں سمجھتا دنیا میں یہی ایک مرض رہ گیا ہے جس کے علاج کی لوگوں کو ضرورت ہے۔ بہتیرے ایسے امراض ہیں جن میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں اور جن کے صحیح علاج کے وہ واقعی محتاج ہوتے ہیں مگر صحیح علاج انہیں میسر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں کھانسی کی عام شکایت پائی جاتی ہے، اسی طرح سِل دِق ایک عام مرض ہے جو ہندوستان میں پایا جاتا ہے، اسی طرح انتڑیوں کے کئی امراض ہیں جن میں لوگ مبتلا رہتے ہیں، بواسیر ایک ایسا مرض ہے جس کے کثرت سے مریض ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں بلکہ میں نے ڈاکٹروں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں ہندوستان میں ساٹھ فیصدی بواسیر کے مریض ہیں۔ اسی طرح کثرت سے مرض پیچش کے مریض ہمارے ہاں نظر آتے ہیں۔ چونکہ گھی لوگوں کو کم ملتا ہے اس لئے ان کی انتڑیوں میں چکنائی نہیں رہتی جس کی وجہ سے انتڑیوں میں مستقل طور پر خراش پیدا ہو جاتی ہے اور پیچش کا مرض مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ کام کی کثرت کی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ سُستی اور غفلت کی وجہ سے یعنی یا تو ایسا ہوتا ہے کہ بیماری محسوس بھی ہوتی ہے مگر چونکہ کام کی کثرت ہوتی ہے اس لئے انسان بیماری کی طرف توجہ نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری جڑ پکڑ جاتی ہے اور یا پھر سُستی کی وجہ سے انسان مرض کو بڑھا لیتا ہے۔ تیمار دار سرہانے بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے دوائی پی لو مگر مریض ہے کہ دوائی پینے کا نام ہی نہیں لیتا بہرحال کسی نہ کسی وجہ سے امراض مزمن ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسی امراض کے علاج دنیا کو بتلائے جائیں تو یقینا اس میں لوگوں کا فائدہ ہے۔ اسی طرح دانتوںکی کئی بیماریاں ہیں، جگر کی کئی بیماریاں ہیں، طحال کی کئی بیماریاں ہیں ان امراض کے اگر نسخے شائع کئے جائیں اور کسی مفید دوائی کا اشتہار بھی دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اسی طرح صنعت و حرفت کی کئی چیزیں ہیں جن کے اشتہارات الفضل میں شائع ہو سکتے ہیں مگر وہ چیزیں جن کا اشتہار لوگوں کیلئے مفید ہو سکتا ہے اس طرف تو توجہ نہیں کی جاتی اور مخصوص امراض کی دوائیوں کے اشتہارات دھڑا دھڑ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں کے اشتہارات بھی مل سکتے ہیں بشرطیکہ یہ لوگ وہ طریق اختیار کریں جو اخبار نویس اختیار کیا کرتے ہیں۔
ہمارامقابلہ اس وقت کسی ایک قوم یا ایک مُلک سے نہیں بلکہ ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں ہمیشہ یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ عیسائی کیا کر رہے ہیں، یہودی کیا کر رہے ہیں اور کس رنگ میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ کی تیاری کر رہے ہیں تا جماعت ان مفاسد کی اصلاح کرتی رہے جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اس کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ روزانہ اخبارات کا مطالعہ کیا جائے اور ان میں سے ایسی خبریں نکال کر جلد سے جلد جماعت کے سامنے رکھی جائیں تا جماعت کو اپنے فرائض کا احساس رہے۔ اگر الفضل والے ان ہدایات کے مطابق کام کریںاور محنت اور توجہ سے کام لیں تو نہ صرف اخبار دلچسپ ہو جائے گا بلکہ جماعت کے دوستوں میں بھی مسابقت کی روح پیدا ہو جائے اور وہ کوشش کرتے رہیں کہ دوسری قوموں سے بڑھ کر رہیں۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے اخبارات خریدیں اور کوشش کریں کہ ان کا مذاق علمی ہو جائے۔ میں نے دیکھا ہے جو لوگ سلسلہ کے اخبارات نہیں خریدتے ان کے بچے احمدیت کی تعلیم سے بالکل ناواقف رہتے ہیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اخبارات اور رسالے ضرور خریدیں بلکہ جو اَن پڑھ ہیں وہ بھی لیں اور کسی پڑھے لکھے سے روزانہ تھوڑا تھوڑا سنتے رہا کریں تا کہ ان کی علمی ترقی ہو اور سلسلہ کے حالات سے وہ باخبر رہیں۔ (الفضل ۱۶؍ نومبر ۱۹۶۰ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دنیا میں آئے اور آپ نے دعویٰ کیا کہ میں مسیح موعود ہوں تو درحقیقت آپ کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے۔ یعنی جماعت احمدیہ کے جو بانی ہیں ان کا یہ دعویٰ نہیں کہ وہ کوئی نیا مذہب لائے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ قرآن کو بھول چکے تھے اور قرآن بھولنے کی وجہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں میں سرد ہو چکی تھی، اسلام کی خدمت کا ان کے دلوں میں کوئی جوش باقی نہیں رہا تھا اور ان کی حالتیں اتنی بدل گئی تھیں کہ وہ دین پر عمل کرنے سے گریز کرتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے ان روحانی امراض کا علاج کرنے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں اور فرمانبرداروں میں سے ایک شخص کو چنا اور اسے کہا کہ ہم تمہیں اسلام کی خدمت کیلئے کھڑا کرتے ہیں تم جائو اور لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کرو۔ یہ دعویٰ تھا جو آپ نے کیا اور یہ کام تھا جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے۔ جب آپ نے لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے اور میرا نام خدا تعالیٰ نے مسیح موعود رکھا ہے تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ مسیح تو آسمان پر بیٹھا ہے اور وہی دوبارہ دنیا کی اصلاح کے لئے آئے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ مسلمانوں میں ابن مریم نازل ہوگا اور وہ ہوگا اور اس ابن مریم سے وہی ابن مریم مراد ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے چھ سَو سال پہلے دنیا میں آیا ہے۔ پس جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح ابن مریم نے ہی آسمان سے نازل ہونا اور اسی نے اصلاحِ خَلق کا کام کرنا ہے تو تم جو پنجاب میں رہتے ہو اور پنجاب کی ایک بستی قادیان میں پیدا ہوئے ہو کس طرح مسیح موعود ہو سکتے ہو اور جب تم کہتے ہو کہ تم مسیح موعود ہو تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے۔ یا تو تم پاگل ہو اور یا لوگوں کو جان بوجھ کر دھوکا اور فریب دیتے ہو۔ یہ اعتراض تھا جو لوگوں نے آپ کے دعویٰ پر کیا۔ آپ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہوتا تو بے شک تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ اُٹھ سکتا تھا کہ جب اس نے دنیا میں ابھی آنا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور شخص کس طرح کھڑا ہو گیا ہے یا اگر مسیح ابن مریم کے آنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہوتی اور مسیح کی بھی عزت ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا نے اور رسولوں کی عزت دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے مسیح ابن مریم کو ہی دوبارہ بھیج دیا۔ مگر حق بات یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں۔
چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے بتایا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں اور ان کی وفات قرآن کریم سے ثابت ہے۔ پس ان کے وفات پا جانے کی وجہ سے اب ان کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ دوبارہ اس دنیا میں آ سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس کی ایک موٹی دلیل یہ دی کہ سورہ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن مَیں مسیح ابن مریم سے دریافت کروں گا کہ تجھ کو اور تیری ماں کو جو دنیا میں خدا بنایا گیا ہے تو کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا مانو اور ہماری پرستش کرو۔ آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض ایسے فرقے بھی تھے جو حضرت مریم صدیقہ کی خدائی کے قائل تھے اور عملاً تو رومن کیتھو لک والے اب بھی حضرت مریم کی تصویر کے آگے سجدہ کرتے اور ان سے دعائیں کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم قیامت کے دن پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بناؤ۔ اس کا حضرت مسیح علیہ السلام یہ جواب دیں گے کہ الہٰی یہ بات بالکل غلط ہے۔ جب تک میں ان لوگوں کے درمیان زندہ رہا اس وقت تک تو وہ توحید کے ہی قائل رہے تھے اور انہوں نے ہرگز شرک کا عقیدہ اختیار نہیں کیا تھا مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر میرا لوگوں سے کیا واسطہ رہا پھر تو ہی ان کا نگران تھا‘ مجھے تو کچھ علم نہیں کہ انہوں نے میرے بعد کیا کیا۔ یہ جواب ہے جو قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کو دیں گے اور قرآن مجید میں لکھا ہوئا ہے حضرت مرزا صاحب نے اس سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو قیامت کے دن حضرت مسیح جو یہ جواب دیں گے تو یہ سچا جواب ہو گا یا جھوٹا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا نبی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن تمہارے عقیدہ کے مطابق اگر وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو لازماً وہ اپنی قوم کے حالات سے بھی واقف ہو جائیں گے کیونکہ تمہارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح آ کر صلیبوںکو توڑیں گے، خنزیروں کو قتل کریں گے اور عیسائیوں کو مجبور کر کے مسلمان بنائیں گے جس سے ظاہر ہے کہ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ عیسائی ان کی خدائی کے قائل ہیں اب کس طرح ممکن ہے کہ دنیا میں تو آ کر وہ تمام حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں اور ان کی اصلاح بھی کریں مگر خدا کو یہ جواب دیدیں کہ خدایا مجھے توکچھ معلوم نہیں کہ لوگ کیا کرتے رہے ہیں۔ کیا خدا انہیں نہیں کہے گا کہ بندۂ خدا تُو تو چالیس سال دوبارہ دنیا میں رہا۔ تو نے خنزیر قتل کئے، تو نے صلیبیں توڑیں‘ تو نے زبردستی ان لوگوں کو مسلمان بنایا مگر آج کہہ رہا ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ لوگ میرے بعد کیا کرتے رہے۔ اور اگر وہ دوبارہ دنیا میں آ کر رہیں اور خدا ان سے وہی سوال کرے جو قرآن میں مذکور ہے تو بجائے وہ جواب دینے کے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدایا! یہ سوال عجیب ہے آپ نے تو خود مجھے دنیا میں بھیجا۔ میں نے وہاں جا کر سؤر مارے، صلیبیں توڑیں، شرک اور کفر کا استیصال کیا مگر آج بجائے اس کے کہ آپ مجھے انعام دیتے اُلٹا ناراض ہو رہے ہیں۔ گویا وہی مثال ہوتی کہ ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘
میں نے تو دنیا میں اتنی مصیبت اُٹھائی کہ دن رات ایک کر کے سؤر مارتا رہا‘ صلیبیں توڑتا رہا‘ عیسائیوں کو مسلمان بناتا رہا اور آج بجائے کوئی انعام دینے کے مجھے ڈانٹا جا رہا ہے کہ کیا تو نے یہ شرک کی تعلیم دی تھی؟ مگر وہ ان جوابوں میں سے کوئی جواب بھی نہیں دیتے۔ وہ اگر کہتے ہیں تو یہ کہ مجھے ان کے گمراہ ہونے کا کوئی پتہ نہیں۔ وہ اگر گمراہ ہوئے ہیں تو میرے بعد ہوئے ہیں‘ میری موجودگی میں نہیں ہوئے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف الفاظ آتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد جو کچھ ہوئا ہے ہوئا ہے میری زندگی میں نہیں ہوئا ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں یا نہیں؟ یہ ایک ایسی موٹی بات ہے کہ کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہر عیسائی سے پوچھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے وہ یہی کہے گا کہ حضرت مسیح خدا تھے۔ اب اگر قرآن شریف خدا تعالیٰ کی کتاب ہے، اگر سورۃ مائدہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہی رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی تھی تو وہ تو یہ کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن حضرت مسیح یہ کہیں گے کہ جو کچھ ہوئا میر ی موت کے بعد ہوئا زندگی میں نہیں ہوئا ۔ اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے۔ یا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک نہیں مرے اور نہ عیسائی بگڑے ہیں اور یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعہ میں فوت ہو چکے ہیں اور عیسائیوں کے عقائد میں بگاڑ ان کی وفات کے بعد ہوئا ہے۔ حضرت مرزا صاحب نے اس بات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ ان دو باتوں میں سے ایک بات کا فیصلہ کرو۔ تم یہ بتاؤ کہ عیسائی بگڑے ہیں یا نہیں اگر عیسائی نہیں بگڑے اور وہ حق پر ہیں تو تمہارا بھی فرض ہے کہ تم عیسائی ہو جاؤ کیونکہ وہ تو بقول تمہارے راہِ راست پر قائم ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی صورت میں زندہ ہو سکتے ہیں جب عیسائی بگڑے نہ ہوں۔ پس مسلمان اب فیصلہ کر لیں کہ عیسائی بگڑے ہوئے ہیں یا نہیں اگر وہ بگڑے ہوئے نہیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خود بھی عیسائی ہو جائیں اور اگر وہ بگڑے ہوئے ہیں اور اگر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں کیونکہ قرآن یہی کہتا ہے کہ عیسائیوں میں یہ خیال کہ حضرت مسیح اور مریم صدیقہ خدا ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیدا ہوئا ان کی زندگی میں پیدا نہیں ہوئا ۔ گویا وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ کو زندہ سمجھتے ہیں‘ انہیں ماننا پڑے گا کہ عیسائی حق پر ہیں اور انہیں اسلام سے مرتد ہونا پڑے گا پس ایک مسلمان کیلئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات شدہ مانے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے اور عیسائی ہو جائے کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو عیسائی بگڑ ہی نہیں سکتے ان کا بگڑنا حضرت مسیح کی موت کے بعد مقدر ہے۔ یہ ایسی موٹی بات ہے کہ اس میں کسی لمبے چوڑے جھگڑے کی ضرورت ہی نہیں۔ سیدھی سادی بات ہے کہ حضرت مسیح کہتے ہیں اے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی تو اس کے بعد عیسائی بگڑے ہیں پہلے نہیں۔ اب اگر عیسائی بگڑ چکے ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اور اگر عیسائی نہیں بگڑے تو بے شک کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں مگر اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بندے مسلمان نہیں بلکہ عیسائی ہیں۔
پھریہ جو بات تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واپس آنے میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہے یا ذلّت۔ اس نقطہ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہے بلکہ رسول کریم ﷺ کی عزت کا سوال ہی نہیں اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے خدا تعالیٰ کی عزت ہو تب بھی ہم ان کے دوبارہ آنے کو تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کاعقیدہ تسلیم کرنے میں نہ صرف رسول کریم ﷺ کی اہانت ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی ذلت ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عقیدہ سے بڑھ کر خطرناک اور کوئی عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ اگر خدا تعالیٰ کی عزت کا سوال لو تو سیدھی بات ہے کہ اس عقیدہ کی رُو سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ۱۹سَو سال سے خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو سنبھال کر رکھا ہوئا ہے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہو جائے اور اصلاحِ خَلق کا کام رُک نہ جائے گویا جس طرح غریب آدمی اپنی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے اسی طرح خدا نے بھی اپنی اس چیز کو خوب حفاظت سے رکھا ہوئا ہے۔ آخر امیر اور غریب میں کیا فرق ہوتا ہے یہی فرق ہوتا ہے کہ غریب آدمی اگر صبح کی دال بچ جائے تو بیوی سے کہتا ہے اسے سنبھال کر رکھ دینا رات کو کام آئے گی۔ یا سردیوں میں اگر اسے کوئی گرم کپڑا ملتا ہے تو سردیاں ختم ہونے پر نہایت حفاظت سے گٹھڑی باندھ کر رکھ دیتا ہے یا صندوقوں میں حفاظت سے اسے بند کرتا ہے کہ اگلی سردیوں میں وہ کپڑے کام آئیں۔ روٹیاں بچ جاتی ہیں تو وہ رکھ لیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں امیر آدمی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چند دن کپڑا پہنتا ہے اور پھر یہ خیال کرکے کہ خدا نے چند دن نیا کپڑا پہننے کی توفیق دے دی ہے اب غریبوں کا بھی کچھ حق ہے وہ اس کپڑے کو اٹھاتا اور کسی غریب کو دیدیتا ہے۔ کھانا پکتا ہے تو جتنا کھانا آسانی سے کھایا جا سکے وہ کھا لیتا ہے اور باقی نوکروں کو دیدیتا ہے۔ یا ان کی بیگمات اِردگِرد کے غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہیں۔ وہ ان کپڑوں یا اس کھانے کو سنبھال کر نہیں رکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جب ضرورت ہو گی ہم نئی چیز تیار کر لیں گے مگر اللہ تعالیٰ جو قادر ہے اور جس کی قدرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب بھی دین کیلئے کسی نئی چیز کی ضرورت ہو وہ اپنی قدرت سے اس نئی چیز کو مہیا کر دے۔ اس کے متعلق مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس نے انیس سَو سال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سنبھال کر آسمان پر زندہ رکھا ہوئا ہے محض اس لئے کہ امتِ محمدیہ کو جب آخری زمانہ میں دینی لحاظ سے نقصان پہنچا تو میں اس کے ازالہ کیلئے اسے آسمان سے نازل کروں گا۔ گویا وہی کنگالوں والی بات ہوئی جو صبح کی دال بچا کر شام کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کون سے کارنامے سرانجام دیئے تھے کہ آخری زمانہ میں بھی انہی کا بھیجا جانا خدا کو پسند آیا۔ انہوں نے دنیا میں یہی کام کیا کہ چند روز لوگوں کو تبلیغ کی اور جب یہود نے صلیب پر لٹکانا چاہا تو آسمان پر چلے گئے۔ اس میں انہوں نے کونسی ایسی کامیابی حاصل کی تھی کہ آخری زمانہ میں بھی ان کا نزول ضروری تھا۔ جو شخص آسمان پر چلا گیا اس نے بالفاظِ دیگر دنیا کو پیٹھ دکھا دی۔ اب وہ شخص جو دنیا کو پیٹھ دکھا چکا ہے اور جس نے اپنے زمانہ کا کام بھی پورا نہیں کیا وہ رسول کریم ﷺ کی امت کا کیا کام کرے گا اور کس کامیابی کی اس سے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی شدید ہتک ہے اور اس عقیدہ کو تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر بہت بڑا حرف آتا ہے اورکہنا پڑتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا قادر نہیں اور ضرورت پر وہ امتِ محمدیہ میں سے کسی نئے آدمی کو تیار نہیں کر سکتا۔
پھر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اس سے حرف آتا ہے بلکہ اس کے علم پر بھی حرف آتا ہے کہ وہ شخص جو میدانِ مقابلہ میں بالکل کام ہی نہ کر سکا اسی کے سپرد امتِ محمدیہ کی اصلاح کا کام اس نے کر دیا۔ مگر تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تو اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہو اور ادھر رسول کریم ﷺ سے یہ سلوک ہو کہ آپ پر خطرناک سے خطرناک مواقع آئے مگر ایک دفعہ بھی خدا تعالیٰ نے آپؐ کو آسمان پر نہ اُٹھایا۔
حنین کی جنگ میں جبکہ چار ہزار مشاق تیر انداز آپ پر تیروںکی بارش برسا رہا تھا اور رسول کریم ﷺ کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے اس وقت صحابہؓ آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں یار سول اللہ! یہاں کھڑے رہنے کا موقع نہیں، آپ کی زندگی کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے، آپ کسی محفوظ مقام میں چلیں جب دشمن کے حملہ کا زور ٹوٹ جائے گا تو ہم پھر اسلامی لشکر کو جمع کر کے اس پر حملہ کر دیں گے۔ چنانچہ بعض صحابہؓ اسی جوش میں آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ کو اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِب۲؎ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں۔ خدا اس نبی کو تو موت دے دے اور اسے وفات دے کر مٹی میں دفن ہونے دے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی صلیب پر بھی نہ چڑھے ہوں کہ خدا آپ کو بچانے کیلئے آسمان پر اٹھا لے۔ اس عقیدہ کو کوئی با غیرت مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی نبی زندہ رکھنے کے قابل تھا تو وہ حضرت رسول کریم ﷺ ہی تھے مگر ان کو تو خداتعالیٰ بچاتا نہیں اور وہ جان دینے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جَھٹ بچا لیتا اور آسمان پر اٹھا لیتا ہے۔ پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ابتلا ء کیا آیا اور اگر آیا تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ اسے برداشت کرتے مگر بجائے اس کے کہ وہ خوشی کے ساتھ اس ابتلاء کو برداشت کرتے جَھٹ دعا کرنے لگ گئے۔ حتّٰی کہ بائیبل میں لکھا ہے انہوں نے ساری رات دعا کرنے میں گذار دی اور وہ بار بار اپنے حواریوں کو جگاتے اور کہتے کہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ پس وہ جس نے کہا تھا کہ یہ موت کا پیالہ مجھ سے ٹل جائے اسے تو خدا آسمان پر اُٹھا لیتا ہے مگر وہ جس نے کہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو میں اکیلا دشمن کا مقابلہ کروں گا‘ اسے خدا نے وفات دے دی۔ گویا جس نے مردانہ وار کام کیا تھا اسے تو پنشن دیدی۔اور جو میدانِ جنگ سے پیٹھ موڑ کر گھر آ گیا تھا اسے ایکس ٹینشن(EXTENSION) دے دی۔
اب دیکھ لو کہ اس عقیدہ کو تسلیم کرنے میں نہ خدا کی عزت ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کی عزت۔ پھر یہ عقیدہ رکھنے میں حضرت مسیح کی بھی تو کوئی عزت نہیں۔ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح علیہ السلام صلیب سے بچ گئے تھے مگر دوسرے مسلمانوں کے نردیک آسمان پر بھاگ گئے تھے۔ اور یہی ایک نبی کی سب سے بڑی توہین ہے کہ جو کام اس کے سپرد تھا وہ تو اُس نے نہ کیا اور آسمان پر جا بیٹھا۔ پھر خدا نے تو حضرت مسیح کو نبی قرار دیا ہے مگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ آخری زمانہ میں جب وہ نازل ہوں گے تو نبی نہیں ہوں گے بلکہ اُمتی ہوں گے گویا جسے خدا نے مستقل نبی قرار دیا تھا اسے وہ تابع نبی بنا دیتے ہیں اور اس طرح اس کی ہتک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر تو یہ کہا جاتا کہ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے اس لئے اس کی سزا میں انہیں امتی بنا دیا جائے گا تو گو پھر بھی ایک نبی کی تذلیل ہوتی مگر یہ بات کسی حد تک معقول قرار دی جا سکتی تھی۔ لیکن بغیر کوئی قصور بتائے مولویوں کی طرف سے یہ مسئلہ پیش کیا جاتا ہے کہ خدا انہیں مستقل نبی کی بجائے تابع بنی بنا دے گا اور اس طرح وہ اپنے عمل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ جو شخص بنی اسرائیل میں ایک چھوٹے سے فتنہ کا مقابلہ نہ کر سکا وہ امتِ محمدیہ میں آ کر اس دجالی فتنے کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے جس فتنہ سے بڑافتنہ آج تک دنیا میں کوئی ہوئا ہی نہیں۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر سمجھا جائے تو اس میں خدا کی بھی ہتک ہے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی ہتک ہے اور رسول کریم ﷺ کی بھی ہتک ہے۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کا دیا بجھ جائے تو وہ کسی اور کے گھر سے دیا سلائی مانگنے جاتا ہے تا کہ اپنے لیمپ کو روشن کرے۔ وہ امیر لوگ جن کے گھروں میں بجلی کے لیمپ ہوتے ہیں وہ شاید اس امر کو نہ سمجھ سکیں لیکن غرباء اس کو خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جب ان کے گھر کا لیمپ بُجھ جاتا ہے اور دیا سلائی ان کے پاس نہیں ہوتی تووہ اپنے کسی ہمسائے یا قریبی کے ہاں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا دیا سلائی دینا میں اپنا لیمپ جلا لوں۔ یا ان کے گھر میں لیمپ جَل رہا ہو تو اس کی بتّی سے اپنے لیمپ کی بتی کو روشن کر لیتے ہیں۔ اس مثال کو اپنے سامنے رکھو اور پھر دیکھو کہ مسلمانوں کے اس عقیدہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اسلام کا چراغ بُجھ جائے گا اور اس بات کی ضرورت ہو گی کہ اس کو روشن کیا جائے۔ محمد رسول اللہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے مگر مسلمانوں میں انہیں کہیں روشنی نظر نہیں آئے گی صرف یہودیوں کے گھر میں ایک لیمپ چل رہا ہو گا جسے دیکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ ان یہودیوں کے گھر جائیں گے اور اس لیمپ سے اسلام کے بجھے ہوئے چراغ کو روشن کریں گے۔بتاؤ کیا اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے یا آپؐ کی عزت؟
غرض حیاتِ مسیح کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ خدا کی اس میں عزت نہیں، رسول کریم کی اس میں عزت نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس میں عزت نہیں صرف مولویوں کی عزت ہے مگر خدا اور اس کے رسولوں کے مقابلہ میں ان مولویوں کی عزت کی کیا حقیقت ہے کہ کوئی باغیرت مسلمان اس کا خیال رکھ سکے۔ مگر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی اصلاح کر لی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی اور اب اُمتِ محمدیہ کی اصلاح کیلئے انہیں ہی اُمتی بنا کر نہیں بھیجا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺکے متبعین میں سے ایک شخص کو اصلاحِ خَلق کیلئے کھڑا کر دے گا ،وہ آپ کے نور میں سے نور لے گا اور آپ کی معرفت میں سے معرفت اور اس طرح وہ آپ کا غلام اور خادم بن کر لوگوں کو پھر اسلام پر قائم کرے گا اور آپ کسی موسوی نبی کے شرمندہ احسان نہیں ہوں گا۔ یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جن سے یہ مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے۔ باقی رہا نبوت کا مسئلہ سو اِس کے متعلق بھی مخالف علماء لوگوں کو سخت مغالطہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوۃ ہے۔ ان کا مفہوم اس اصطلاح سے یہ ہوتا ہے کہ گویا ہم نے حضرت مرزا صاحب کو نبوت میں رسول کریم ﷺ کا شریک بنا لیا ہے حالانکہ یہ بھی درست نہیں کیونکہ نبوت کو جس رنگ میں وہ پیش کرتے ہیں اس رنگ میں ہم اسے مانتے ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسی نبوت کے مدّعی ہیں جس سے رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوتی ہے اس لئے وہ آپ کی نبوت کو شرک فی النبوۃ قرار دیتے ہیں اور چونکہ شرک کا لفظ ایک مسلمان کیلئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بیل کیلئے سُرخ چیتھڑا، اس لئے شرک فی النبوۃ کے الفاظ سنتے ہی مسلمان کہنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو کتنا بڑا اندھیرا ہے کہ احمدی شرک فی النبوۃ کرتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اسے شرک قرار دیتے ہیں وہ شرک کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ شرک ایک تو ظاہری رنگ میں ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی انسان کو یا کسی اور چیز کو سجدہ کر دینا یہ تو ہر صورت میں منع ہے لیکن باطنی شرک ہمیشہ نسبتی ہوتا ہے ۔ اگر جتنی محبت تم خدا سے کرتے ہو اتنی ہی محبت تم کسی نبی سے کرتے ہو تو تم مشرک ہو۔ لیکن اگر محبتوں کے نمبر ہوں۔ کوئی روپیہ جتنی محبت ہو، کوئی اَٹھنی جتنی محبت ہو، کوئی چونی جتنی محبت ہو، کوئی دونی جتنی محبت ہو اور کوئی کوڑی جتنی محبت ہو تو اس صورت میں شرک کی تعریف بالکل بدل جائے گی۔ اگر خداکی محبت تمہارے دل میں دو آنے کے برابر ہے اور تم دو یا اڑھائی آنہ محبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یا کسی اور نبی سے کرتے ہو تو یہ شرک ہو گا لیکن اگریہ محبت ڈیڑھ آنہ کے برابر ہے تو یہ شرک نہیں ہو گا۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اڑھائی آنے کے برابر محبت ہے اور خدا سے اسے ایک روپیہ کے برابر محبت ہے تو باوجود اس کے کہ یہ محبت پہلے شخص کی محبت سے زیادہ ہو گی پھر بھی یہ شرک نہیں کہلائے گی۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت اس کے دل میں پہلے شخص سے زیادہ ہے تو خدا کی محبت اس سے بھی زیادہ ہے۔ شرک تب ہوتا جب دونوں محبتیں ایک مقام پر ہوتیں۔ مگر جب دونوں ایک مقام پر نہیں تو شرک کس طرح ہو گیا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان رسول کریم ﷺ سے جو محبت رکھتے ہیں اس کی کسی اور نبی کے ماننے والوں میں نظیر نہیں مل سکتی۔ اور جو سچے مؤمن ہوں ان کا دل تو اللہ تعالیٰ اتنا وسیع بنا دیتا ہے کہ ان کی محبت زمین و آسمان پر حاوی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایک موٹی بات دیکھ لو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب ایک ابتلاء کا وقت آیا تو ان کے تمام حواری بھاگ گئے بلکہ ایک نے تو آپ پر *** ڈالی اور کہا کہ میں نہیں جانتا مسیح کون ہے۔ مگر رسول کریم ﷺ پر کوئی تکلیف کا وقت نہیں آیا جب کہ صحابہؓ نے اپنے خون نہ بہا دیئے ہوں۔ بدر کی جنگ کا جب وقت آیا تو رسول کریم ﷺ نے تمام مہاجرین اور انصار کو اکٹھا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اس کی ضرورت یہ پیش آئی کہ جب رسول کریم ﷺمدینہ میں تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر مدینہ میں آ کر کوئی دشمن حملہ کرے گا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر باہر جا کر کسی دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا تو ہم اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ آپ کی ضرور مدد کریں۔ اس موقع پر چونکہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں مدینہ سے باہر دشمن کا مقابلہ ہونا تھا اس لئے آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے انصار کا اس موقع پر اس معاہدہ کی طرف خیال چلا جائے۔ پس آپ نے ان کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو اس پر مہاجرین ایک ایک کر کے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مشورہ کیا ؟آپ چلیں اور جنگ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مگر جب بھی کوئی مہاجر بیٹھ جاتا رسول کریم ﷺ پھر فرماتے۔ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ انصار اس وقت تک خاموش تھے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ ضرور لڑنا چاہئے تو مہاجرین کہیں یہ خیال نہ کریں کہ یہ لوگ ہمارے بھائیوں اور رشتے داروں کو مروانا چاہتے ہیں۔ پس وہ اس وقت تک خاموش رہے مگر جب رسول کریم ﷺ نے بار بار فرمایا کہ لوگو مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! شاید آپؐ کی مراد ہم سے ہے آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ شاید آپ کی مراد معاہدہ سے ہے جو ہم نے آپؐ کی مدینہ کی تشریف آوری کے متعلق کیا تھا آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جس وقت یہ معاہدہ ہوئا تھا اس وقت ہم نے آپؐ کی شان کو پورے طور پر پہچانا نہیں تھا اور غلطی سے یہ معاہدہ کر لیا مگر اس کے بعد جب آپؐ ہم میں رہے تو ہمیں معلوم ہوئا کہ آپؐ کی کیا شان ہے۔
پس اب اس معاہدے کا کوئی سوال ہی نہیں، سامنے سمندر تھا انہوں نے اس سمندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر آپؐ حکم دیں کہ اس سمندر میں کُود جاؤ تو ہم اپنے گھوڑے اس سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ جنگ کا کیا پوچھتے ہیں۔ خدا کی قسم ہم آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوئا نہ گزرے۔۳؎
پھر ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بدر کے میدان میں پہنچے تو صحابہ نے ایک اونچی جگہ بنا کر رسول کریم ﷺ کو وہاں بٹھا دیا اور پھر انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کر کے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ تیز رفتار اُوٹنی کس کے پاس ہے۔ چنانچہ سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹنی لیکر انہوں نے رسول کریم ﷺ کے قریب باندھ دی۔ رسول کریم ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم تمام کے تمام اس جگہ شہید نہ ہو جائیں، ہمیں اپنی موت کا تو کوئی غم نہیں یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہمیں آپؐ کا خیال ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہم اگر مر گئے تو اسلام کو کچھ نقصان نہیں ہو گا لیکن آپ کے ساتھ اسلام کی زندگی وابستہ ہے پس ضروری ہے کہ ہم آپؐ کی حفاظت کا سامان کر دیں۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حضرت ابوبکرؓ کو ہم نے آپؐ کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا ہے اور یہ ایک نہایت تیز رفتار اونٹنی آپ کے قریب باندھ دی ہے۔ اگرخدانخواستہ ایسا وقت آئے کہ ہم ایک ایک کر کے یہاں ڈھیر ہو جائیں تو یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ اونٹنی موجود ہے اس پر سوار ہو جایئے اور مدینہ پہنچ جائیے۔ وہاں ہمارے کچھ اور بھائی موجود ہیں انہیں معلوم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے اگر معلوم ہوتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوتے۔ آپؐ ان کے پاس پہنچ جایئے وہ آپؐ کی حفاظت کریں گے اور دشمن کے شر سے آپؐ محفوظ رہیں گے۔۴؎ یہ کتنی شاندار قربانی ہے جو صحابہؓ نے پیش کی۔ اس کے مقابلہ میں کیا نمونہ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے پیش کیا اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کی محبت کی گرد کو بھی پہنچے تھے۔
پس یقینا صحابہؓ رسول کریم ﷺ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے مگر وہ مشرک نہیں ہو گئے تھے کیونکہ خدا کی وہ محبت جو رسول کریم ﷺ نے ان کے دلوں میں قائم کی تھی وہ اس سے بھی بہت اونچی اور بہت بلند تھی۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جتنی محبت خدا سے کی جاتی تھی اتنی ہی محبت رسول کریم ﷺ سے کی جائے تو بھی یہ شرک نہیں ہو سکتا کیونکہ رسول کریمﷺ نے خدا تعالیٰ کی محبت کا معیار اور زیادہ بلند کر دیا اور اس کو اتنا اونچا کر دیا کہ آپ کی محبت بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہو جاتی ہے۔ پس آج رسول کریم ﷺ سے اتنی محبت کرنا جتنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں خدا سے کی جاتی تھی شرک نہیں۔ کیونکہ خدا کی محبت آج اور زیادہ بلند ہو چکی ہے لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اتنی محبت کرتا جتنی وہ خدا سے کرتا تھا تو یہ شرک ہوتا۔ جیسے آج کوئی رسول کریم ﷺ سے اتنی محبت کرے جتنی وہ خدا سے کرتا ہے تو یہ شرک ہے، یہی حال نبوت کا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا درجہ ہر روز بڑھتا ہے اور کوئی دن آپ پر ایسا نہیں آتا جب آپؐ پہلے مقام سے اور زیادہ آگے نہیں نکل جاتے۔ چنانچہ میں نے جس وقت یہ تقریر شروع کی تھی اس وقت رسول کریم ﷺ جس مقامِ قُرب پر فائز تھے میں یقین رکھتا ہوں کہ اِس وقت وہ اس مقام سے بہت زیادہ آگے نکل چکے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں رسول کریم ﷺ کے درجہ میں ترقی نہیں ہوتی اور کوئی وقت ایسا نہیں جب آپ کے مدارج بلند نہیں ہوتے مگر ہمارے مخالف کنویں کے مینڈک کی طرح یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تیرہ سَو سال سے ایک مقام پر بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ آپ روز بروز درجہ میں بڑھ رہے ہیں اور جب ہر لمحہ آپؐ کے درجات میں ترقی ہو رہی ہے تو لازماً آپ کا پَیرو بھی درجات میں ترقی کرتا جائے گا۔ اور آپ کے نقش قدم پر چلتا ہوئا اِن مقامات سے گزرتا جائے گا جن مقامات سے آپ گزر چکے ہیں لیکن آپ کا پیرو اورنقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہوئے وہ کبھی آپ کے برابر نہیں ہو سکتا اور نہ آپ سے آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ آپؐ کے درجات میں ہر لمحہ ترقی ہو رہی ہے اور آپ کا متبع اورپَیرو جتنا بھی آگے بڑھے گا وہ بہرحال آپ کے پیچھے ہی رہے گا اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام باوجود نبوت کے مقام پر فائز ہونے کے کبھی آپ کے برابر نہیں ہو سکتے کیونکہ آپ نے یہ مقام آپؐ کی کامل پیروی سے حاصل کیا ہے۔ یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں بیان فرمایا:-
ہم ہوئے خیرِاُمم تجھ سے ہی اے خیرِ رُسلؐ
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یعنی اے محمد رسول اللہ ﷺ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو نبی کس طرح ہو گیا میں تو نبی اس لئے ہوئا کہ تو خیرِرُسُل ہے تو جتنا جتنا آگے بڑھتا ہے اتنا اتنا میں بھی بڑھتا چلا جاتا ہوں۔ پس تو آگے ہے اور میں پیچھے۔ مگر مولوی کہتے ہیں کہ یہ شرک فی النبوۃ ہو گیا۔ حالانکہ یہ شرک کس طرح ہو گیا۔ جب کہ تیرے مقام کو میں حاصل ہی نہیں کر سکتا اور جبکہ میری ترقی تیری ترقی پر منحصر ہے۔ پس رسول کریم ﷺ تو ہر روز بلکہ ہر لمحہ انپے درجہ میں بڑھ رہے ہیں مگر یہ مخالف وہیں ہاتھ مار رہے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی اندھا کسی دعوت میں شریک ہوئا ، اس کے ساتھ ایک سوجا کھا بیٹھ گیا اندھے نے خیال کیا کہ یہ تو سوجاکھا ہے اور میں اندھا یہ ضرور زیادہ کھا جائے گا۔ چنانچہ اس نے بھی جلدی جلدی لقمے لینے شروع کر لئے تھوڑ ی دیر کے بعد اس نے خیال کیا کہ میری یہ حرکت تو اس نے دیکھ لی ہو گی اور ضرور اس نے بھی اس کا کوئی علاج تجویز کر لیا ہو گا چنانچہ یہ خیال آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اُٹھا اُٹھا کر اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دئیے اب دوسرا شخص اس اندھے کی یہ حرکت دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہا تھا اور بجائے کچھ کھانے کے وہ اس اندھے کی حرکات کو دیکھ رہا تھا۔ مگر اس اندھے نے سمجھا کہ اس نے ضرور اب کوئی اور تجویز زیادہ کھانے کی سوچ لی ہو گی۔ یہ خیال آتے ہی اس نے تھالی پر ہاتھ مار کر اسے اٹھا لیا اور کہنے لگا بس اب میرا ہی حصہ ہے۔
یہی ان لوگوں کی حالت ہے نہ حقیقت کو سوچتے ہیں نہ اصلیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ تو کہیں پہنچ گئے اور یہ بیٹھے کہہ رہے ہیں کہ شرک فی النبوۃ ہو گیا، شرک فی النبوۃ ہو گیا حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے بادشاہ چلتا ہے تو ساتھ ہی پہریدار بھی چلنے لگ جاتا ہے جب بادشاہ ٹھہرتا ہے تو پہرہ دار بھی رُک جاتا ہے اب اگر کوئی کہے کہ یہ پہرہ دار کیسا گستاخ ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی جہاں بادشاہ کھڑا تھا وہاں اب یہ بھی کھڑا ہے تو وہ جاہل اور احمق ہی کہلائے گا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ تو ہر گھڑی آگے بڑھ رہے ہیں اور آپ کے آگے بڑھنے کی وجہ سے ہی آپ کے اُمتیوں کو ترقی ہوتی ہے مگر یہ شور مچاتے چلے جاتے ہیںکہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت سے شرک فی النبوۃ ہو گیا۔ تو ختم نبوت کا مسئلہ کوئی ایسا مشکل نہیں مگر لوگوں نے خواہ مخواہ اس میں اُلجھن ڈال رکھی ہے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اتنا بلند ہے کہ کوئی انسان وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہاں آپ کی فرمانبرداری، آپ کی غلامی اور آپ کی کامل اِتباع میں اگر کوئی شخص نبوت کا مقام حاصل کر لے تو اس میں آپ کی ہتک نہیں کیونکہ وہ بہرحال رسول کریم ﷺ کا غلام ہو گا۔ پس یہ مسائل ایسے نہیں کہ جن میں کوئی پیچیدگی ہو۔ سیدھی سادی باتیں ہیں لیکن اگر یہ باتیں بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئیں تو وہ ایک موٹی بات دیکھ لے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کو عزت اور شان و شوکت حاصل ہے یا وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ اگر اسلام اس وقت اسی شان اور اسی شوکت کے ساتھ قائم ہے جس شان اور شوکت کے ساتھ وہ آج سے تیرہ سَو برس پہلے قائم تھا تو بیشک علاج کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگریہ دکھائی دے رہا ہو کہ مسلمان قرآن سے بے بہرہ ہیں، اس کی تعلیم سے غافل ہیں، بادشاہتیں مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتی رہیں، حکومتیں ضائع ہو گئیں تو ہر شخص اپنے دل میں خود ہی سوچے اور غور کرے کہ خدا نے اس وقت رسول کریم ﷺ کی عزت کو بلند کرنے کا کیا سامان کیا ہے۔ وہ اسلام جو رسول کریم ﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اس پر حملے پر حملے ہو رہے ہیں مگر مسلمان کہتے ہیں کہ اس کے علاج کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ خدا اگر کہے کہ میں کسی کو اصلاح کیلئے بھیجتا ہوں تو یہ مولوی کہنے لگ جاتے ہیں کہ نہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں۔ پس اگر اسلام اچھی حالت میں ہے تو بے شک کہہ دو کہ حضرت مرزا صاحب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹے تھے لیکن اگر قرآن کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ چکی ہے۔ اسلام سے وہ غافل ہو گئے ہیں اور عملی حالتوں میں وہ بالکل سُست ہو گئے۔ تو پھر ماننا پڑے گا کہ آپ سچے تھے اور آپ نے عین وقت پر آ کر اسلام کو دشمنوں کے نرغہ سے بچایا۔ ورنہ اگر اس زمانہ میں بھی اسلام کی مدد کیلئے خداتعالیٰ نے توجہ نہیں کی تو وہ کب کرے گا۔ آج خود مسلمان کہلانے والے اسلامی تعلیموں پر عمل چھوڑ چکے ہیں اور وہ خدا کا محبوب جو اوّلین و آخرین کا سردار ہے اس پر عیسائی ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں، ہندو ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں۔ سکھ ہیں تو وہ حملے کر رہے ہیں، وہ خدا کا رسول جو سارے انسانوں میں سے مقدس ترین انسان ہے جو سید ولد آدم ہے اور جس کی بلند شان تک نہ کوئی پہنچا اور نہ کوئی آئندہ پہنچ سکتا ہے اس کی عزت کو اس طرح پارہ پارہ کیا جا رہا ہے کہ گویا اس کی کوئی قیمت ہی نہیں یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہر اس ہاتھ کو توڑ دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُٹھا، ہر اس زبان کو کاٹ دیا جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف بدزبانی اور بدگوئی کا ارادہ کیا اور آئندہ بھی ہر وہ ہاتھ توڑ دیا جائے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُٹھے گا اور ہم جانتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رسول کریم کی ایک ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہمارے پاس آئے گا ہم سپاہی ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں جس طرح انصار نے کہاتھا کہ یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے اسی طرح ہم آپ کے آگے بھی لڑ رہے ہیں اور آپ کے پیچھے بھی لڑ رہے ہیں، آپؐ کے دائیں بھی لڑ رہے ہیں اور آپؐ کے بائیں بھی لڑ رہے ہیں۔ ہمارے آدمی دنیا کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس لئے پھیلے ہوئے ہیں کہ تا محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت دنیا میں قائم کریں۔ پس وہ لوگ جو ہم پر تیر چلاتے ہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ بے شک تیر چلاتے چلے جائیں ہم ان کے تیروں سے ڈرنے والے نہیں۔ بیشک وہ اس وقت زیادہ ہیں اور ہم تھوڑے مگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ذرہ بھر بھی محبت ہے وہ آج نہیں تو کل ہم سے ضرور آ ملے گا اور جو ہم سے نہیں ملتا وہ رسول کریم ﷺ کا سچا عاشق نہیں کہلا سکتا۔ اس کا دل مُردہ ہے اور مُردہ کو لیکر ہم نے کیا کرنا ہے۔
(الفضل ۲۸؍ مارچ ۱۹۵۸ء)
۱؎ میکڈانلڈ جیمز ریمزی MACDONALD JAMES RAMSI
(۱۸۶۶ء تا ۱۹۳۷ء) برطانیہ کی لیبر پارٹی کا سیاستدان۔ ۱۹۰۰ء میں لیبر پارٹی کا پہلا سیکرٹری بنا۔ ۱۹۰۶ء میں پارلیمنٹ کا رُکن بنا۔ ۲۲؍جنوری ۱۹۲۴ء کو وزیراعظم بنا۔ وہ برطانیہ کا پہلا سوشلسٹ وزیراعظم تھا۔ ۹ ماہ تک وزیراعظم رہا۔ ۱۹۲۹ء میں دو بارہ وزیراعظم بنا۔ وہ برطانیہ کا پہلا وزیراعظم تھا جس نے سرکاری فرائض کی انجام دہی کیلئے ہوائی جہاز استعمال کیا۔ اس کے عہد میں برصغیر پاک و ہند کا سیاسی مسئلہ حل کرنے کے سلسلہ میں لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ ایک سمندری سفر کے دَوران اس کا انتقال ہؤا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۷۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۲؎ مسلم کتاب الجھاد باب غزوۃ حنین
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۵۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ


سیر روحانی (۱)



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
سیر روحانی (۱)
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
ایک اہم تاریخی سفر
میرا آج کا مضمون میرے اُس سفر سے تعلق رکھتا ہے جو اس سال اکتوبر کے مہینہ میںمجھے پیش آیا۔ میںپہلے کام کے لئے قادیان سے
سندھ کی طرف گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کرسمندرکی ہوا کھانے کے لئے کراچی چلا گیا کیونکہ میرے گلے میںمزمن خراش کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مجھے سالہاسال تک کاسٹک لگوانا پڑتا رہا ہے۔کچھ عرصہ ہؤا مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ اب آپ کاسٹک لگانا چھوڑ دیں ور نہ گلے کا گوشت بِالکل جل جائے گا۔ چنانچہ میں نے اُس وقت سے کاسٹک لگوانا تو ترک کر دیا ہے مگر اور علاج ہمیشہ جاری رکھنے پڑتے ہیں ورنہ گلے اور سر میں درد ہوجاتی ہے ۔چونکہ ڈاکٹروں کی رائے میں اِس مرض کیلئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہے اس لئے گزشتہ دو سال میںمَیں نے کراچی سے بمبئی کا سفر جہاز میںکیا۔ پہلے سفر میںاوّل تو تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میںنمایاں فائدہ ہؤا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اُس میں بہت کمی آگئی اس لئے اس سال میں نے پھر موقع نکالا ۔اِ س سفر میںمجھے یہ بھی خیال آیا کہ حیدر آباد دَکن کے دوست مجھے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ میں کبھی وہاں بھی آئوں سو اِس دفعہ حیدرآباد کے دوستوں کی اگر یہ خواہش پوری ہو سکے تو مَیں اسے بھی پورا کردوں ۔ چنانچہ مَیںسندھ سے کراچی گیا،کراچی سے بمبئی ، بمبئی سے حیدرآباد، حیدرآباد سے آگرہ ، آگرہ سے دہلی اور دہلی سے قادیان آ گیا۔
حیدرآباد کاتاریخی گولکنڈہ کا قلعہ
حیدرآباد میں مَیں نے بعض نہایت اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کاقلعہ
بھی ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہؤا ہے اور اس کے گِرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابلِ دید اشیاء ہیں۔ یہاں کسی زمانہ میںقطب شاہی حکومت ہؤا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا۔ یہ قلعہ حیدرآباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہؤا ہے یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقع ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حیدرآباد کے وہ دوست جو ہمیں قلعہ دکھانے کیلئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ چنانچہ خود انہوںنے شریفے لئے اور وہیںکھانے بیٹھ گئے مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے، جب میں واپس آیا تو مَیں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاںہیں؟ انہوںنے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں۔خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آ گئیں، مَیں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں؟ وہ کہنے لگیں اِنہوں نے ہمیں روکا تو تھا اورکہا تھا کہ اوپرمت جائو اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی، مگر ہمیںتو کوئی تکلیف نہیںہوئی شاید حیدرآبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ تو خیر ہم وہاں سے پِھر پِھرا کر واپس آگئے۔ یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پرہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان وشوکت کا ایک پُرشوکت نشان ہے۔ اِس قلعہ کی چوٹی پر مَیں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاںہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک مسجد اِس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصّہ کے برابر تھی، پہلے تو مَیں سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب مَیں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اُس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کیلئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا اِس وجہ سے اُس نے نمازیوںکے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پرہزاروں مسجدیںبنا دیں، مجھے جب یہ معلوم ہؤا تو میرا دل بہت ہی متأثرہؤا اورمَیں نے سوچا کہ اُس وقت کے مسلمان کس قدر باجماعت نمازادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کیلئے آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تا کہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے۔ وہاں کا تاج محل دُنیا کے سات عجائبات میںسے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے، وہاں کا قلعہ فتح پورسیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میںسے تھے ان کا مقبرہ عالمِ ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں۔
مَیں نے ان میںسے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرّت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت اور عظمت کے ساتھ دنیا پرحکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج اور افسوس بھی ہؤا کہ آج مسلمان ذلیل ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں، فتح پور سیکری کا قلعہ درحقیقت مُغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔چند سال کے اندر اندر اکبر کا اِس قدر زبردست قلعہ اور شہر تیار کردینا جس کے آثار کو اب تک امتدادِ زمانہ نہیں مٹا سکا بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دُوربین سے ہی اس کی حدوںکودیکھا جا سکتا ہے خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصّے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں۔ یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوںکوبہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اِس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بنا سکتا۔ مُغلیہ خاندان کے جو قلعے مَیں نے دیکھے ہیں ان میںسے درحقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دہلی کا قلعہ صرف محل ہیں قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پردیا گیا ہے۔ قلعہ کی اغراض کو دَکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میںجنگی ضرورتوں کو مدِّنظررکھا گیا ہے۔ دہلی میں مَیں نے جامع مسجد دیکھی، دہلی کا قلعہ دیکھا ، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کامقام دیکھا، منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے،قطب صاحب کی لاٹ دیکھی ،حوضِ خاص دیکھا، پُرانا قلعہ دیکھا، جنتر منتر دیکھا، تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا۔ ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی، اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا۔ جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کیلئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثارِ قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا، پُرانے سکّوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیںمحفوظ کر دیا ان کے کاموں کی ہم تعریف کرتے تھے۔
ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لُطف اُٹھایا۔ مَیں نے اپنے ظرف کے مطابق، میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق۔
عبرتناک نظارہ
یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گُم ہو جاتی تھی۔ مَیں مسلمانوں کے ماضی کودیکھتا اور حیران رہ جاتا تھا کہ انہوں
نے کتنے بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔ مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا، لیکن تغلق آباد کے قلعہ کودیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہؤا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے۔یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے، خاصّہ اوپرچڑھ کر اس میںداخل ہونا پڑتا ہے جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے مَیں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اُونچی ہو جاتی ہے جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’نواب مبارکہ بیگم ۱؎ ‘‘ اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امۃ الحئ مرحومہ کے بطن سے جومیری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں، مگر مَیں، میری ہمراہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپرچڑھے اور آخرایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی۔ یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی، اس کا قُطب اس کا پُرانا قلعہ، نئی اور پُرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گُھوررہا تھا۔مَیں اس جگہ پہنچ کر کھڑ ا ہوگیا اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتارہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دہلی پربطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاںچلے گئے، وہ کس قدر اولوالعزم ، کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوںنے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں، وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میںآئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے ، مگر آج ان کی اولادوں کاکیا حال ہے، کوئی ان میں سے بڑھئی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے۔
مَیں انہی خیالات میںتھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور مَیںکہیں کاکہیں جا پہنچا، سب عجائبات جو سفر میں مَیں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے، دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے، آخر وہ سب ایک اَور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے ۔ میں اس محویت کے عالَم میںکھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اِس کوکیا ہو گیا؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابّاجان!دیرہوگئی ہے میںاس آواز کو سن کر پھرواپس اِسی مادی دنیا میں آگیا، مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پُر تھا ، نہیں وہ خون ہورہا تھا اور خون کے قطرے اُس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میںایک لذّت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملاہؤا تھا۔ مَیں نے افسوس سے اِس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ’’مَیں نے پالیا۔ مَیںنے پا لیا۔‘‘ جب مَیںنے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا‘‘ تواُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دوہزار سال پہلے گِیاؔ کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بُدھ کی تھی جب کہ وہ خداتعالیٰ کا قُرب اور اُس کا وِصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بُدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا،مگر محویت کی وجہ سے اُس کو اِس کا کچھ پتہ نہ چلا، یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ بُدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا۔ تب گوتم بُدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ’’مَیںنے پا لیا۔ مَیں نے پالیا۔‘‘ میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی۔ جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لَوٹا تو بے اختیار مَیں نے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ میں نے پالیا۔‘‘
اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امۃ القیو م بیگم چلی آرہی تھی اُس نے کہا، ابّاجان! آپ نے کیا پالیا؟ میںنے کہا، میں نے بہت کچھ پالیا مگر مَیںاِس وقت تم کو نہیں بتا سکتا، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو مَیں جلسہ سالانہ پربتائوں گا کہ مَیں نے کیا پایا؟ اُس وقت تم بھی سُن لینا، سو آج میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مَیںنے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ مَیں نے اُس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان کرونگا اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پر کھولا گیا گو وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میںبھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فکر میںانسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے اس لئے اُس وقت تو اِس پرچندمنٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے پس جو انکشاف اُس وقت ہؤا وہ بطور بیج کے تھا اور جو کچھ مَیںبیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میںاُس کی ترجمانی ہوگی اور اُس کی شاخیں اور اُس کے پتے اور اُس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پرپیش کئے جائیں گے۔ـ
اس سفر میں مَیں نے کیا کچھ دیکھا
اب مَیں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اُس وقت کے خیالات کے ساتھ ساتھ لے جانے کی کوشش
کرتا ہوں اور آپ کو بھی اپنی اس سیر میںشامل کرتا ہوں۔ جب میں اُس وسیع نظارہ کودیکھ رہا تھا اور سَلف کے کارنامے میر ے سامنے تھے، میرے دل نے کہا مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ دیکھی ہوئی چیزوں کی یاد میرے دل میںتازہ ہو رہی ہے کہ نہ صرف وہ نظارے بلکہ ابتدائی حصہ سفر کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے، اُس وقت مجھ پر ایک ربودگی کی حالت طاری تھی، مجھے کراچی کے نظارے بھی یادآ رہے تھے، مجھے حیدرآباد کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے، مجھے آگرہ کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے اور دہلی کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے تھے یہ تمام نظارے ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا مَیں کہُرمیں کھڑا ہوں اور ہر چیز دُھند لی ہو کر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ غرض میر ے دل نے کہا کہ مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ نظاروں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے جب یہ سوال میرے دل میںپیدا ہؤا تو میرے دل نے جواب دیا کہ:-
۱۔ میں نے قلعے دیکھے ہیں جن کے دو اَثر میرے دل پر پڑے ہیں۔ ایک یہ کہ ان قلعوں کے ذریعہ کیسے کیسے حفاظت کے سامان مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پیدا کئے گئے تھے دوسرے یہ کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مِٹ گئے اور ان کو دوبارہ بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا اَب کوئی نہیں۔
۲ ۔ پھر مَیں نے کہا دوسری چیزجو مَیں نے دیکھی ہے مُردہ بادشاہوں کے مقابر ہیں ، اُن بادشاہوں کے جو فوت ہو چکے ہیں مگر اُن کے مقبرے اُن کی یاد دلا رہے ہیں اور اُن کی شوکت کوہماری آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں۔
۳۔ تیسرے مَیں نے مساجد دیکھی ہیں ، نہایت خوبصورت مساجد، چھوٹی بھی اور بڑی بھی جو ہزاروں آدمیوں کو خداتعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع کرنے کے لئے کہیں سُرخ اور کہیں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
۴۔ چوتھے میں نے ایک وسیع اور بلند مینار دیکھا ہے، آسمان سے باتیں کرتا ہؤا جس کی بلندی کو دیکھ کر انسانی نظر مرعوب ہو جاتی ہے۔
۵۔ پانچویں مَیں نے نوبت خانے دیکھے ہیں جہاںموسیقی سے لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا، جہاں طبل او رنفیریاں بجتیں اور سپاہیوں کے دل اُچھلنے لگتے اور وہ جنگ کو جنگ نہیں بلکہ بچوں کا کھیل سمجھتے، اُن کے گھوڑے ہنہنانے لگتے اور اُن کا خون گرم ہو کرجسم میںدَوڑنے لگتا اور جہاں سے بادشاہ کے اعلان کو گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح نوبتوں کے ذریعہ دنیا کو سُنایا جاتا تھا۔
۶۔ چَھٹے مَیں نے باغات دیکھے ہیں جو کسی وقت اپنی سرسبزی وشادابی کی وجہ سے جنت نگاہ تھے اورآنکھوں کو سرور اور دلوں کولذّت بخشا کرتے تھے۔
۷۔ ساتویںمَیں نے کہا۔ مَیں نے دیوانِ عام دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے انصاف اورعدل سے اپنی رعایا کی تکلیفوں کو دُور کیا کرتے تھے اور آتے ہی اعلان کر دیاکرتے تھے کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہؤا ہو وہ ہمارے پاس فوراً شکایت کر ے جس پر امیر وغریب حتّٰی کہ بھنگی اور چمار بھی آتا اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتا۔
۸۔ آٹھویں مَیںنے دیوانِ خاص دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے خاص درباریوں سے راز ونیاز کی باتیں کیا کرتے تھے۔
۹۔ نویںمیں نے نہریں دیکھی ہیں جو اِدھر سے اُدھر پانی پہنچایا کرتی تھیں اور پیاسے درختوں کونئی زندگی بخشتی تھیں اور جن سے سیراب ہو کر درخت لہرا لہرا کر اپنی بہار دکھایا کرتے تھے۔
۱۰۔ دسویں مَیں نے لنگرخانے دیکھے ہیںجن سے بادشاہوں کے ہم مذہبوں اور اُس کے مذہبی مخالفوں کو بھی الگ الگ کھانے تقسیم ہؤا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے الگ لنگرخانے ہؤا کرتے تھے اور غیر مذاہب والوں کے الگ۔مسلمانوں کے لنگرخانوں میںمسلمان تقسیم کرنے والے ہوتے اورغیر مذاہب کے لنگرخانوں میں غیرمُسلم تقسیم کرنے پر مقرر ہوتے۔
۱۱۔ گیارہویں میں نے دفتر دیکھے ہیںجہاں تمام ریکارڈ رکھے جاتے تھے اورہر ضروری امر کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔
۱۲۔ بارھویں مَیں نے کتب خانے دیکھے ہیںجہاں پُرانی کتب کے تراجم ہوتے تھے اور پُرانے علوم کو محفوظ کیاجاتا تھا۔
۱۳۔ تیرھویں مَیں نے بازار دیکھے ہیں جہاں ہر چیز جس کی انسان کو ضرورت ہو فروخت ہوتی تھی۔
۱۴۔ چودھویں مَیں نے جنتر منتر دیکھا ہے جو ستاروں کی گردشیں معلوم کرتا تھا اور حسابِ سِنین کو بتاتا تھا یا آئندہ کے تغیّرپرروشنی ڈالتا تھا۔
۱۵۔ پندرھویں مَیں نے ایک وسیع سمندر بھی دیکھا ہے جس کاکنارہ تو ہے مگر اُس کا اندازہ لگانا انسانی فطرت کی طاقت سے بالا ہے اور جہاز میںبیٹھنے والا اُسے بے کِنار ہی سمجھتا ہے جس کے راز دریافت کرنے اور اُس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہزاروں بڑے بڑے جہاز جوبعض دفعہ ایک ایک گائوں کے برابر ہوتے ہیں اور دودو ہزار آدمی اس میںبیک وقت بیٹھ جاتے ہیں ہر وقت اُس میںچلتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وسیع شہر میں ایک چیونٹی پِھر رہی ہے۔
۱۶۔ سولہویں مَیں نے آثارِ قدیمہ کے محکموں کے وہ کمرے دیکھے ہیں جہاں قدیم چیزیں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں،کہیں زمین کھود کرانہوں نے سِکّے نکالے ، کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے کاغذات دستیاب کئے اور کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے برتن نکالے اور اس طرح پُرانے زمانہ کے تمدّن اور تہذیب کا نقشہ انہوں نے ان چیزوں کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا، یہ تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھی تھیں۔ پس مَیں نے آثارِ قدیمہ کی ان محنتوں کو بھی دیکھا اور پُرانے آثار کو نکال کردنیا کے سامنے پیش کرنے پرمیرے دل نے ان کے کام پرآفرین کہی۔
ایک نئی دنیا جو میری آنکھوں کے سامنے آئی
یہ امور تفصیلاً یااجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر
میر ے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے، کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں، کیا ان سے بڑھ کر مفیدکام تو نے نہیںدیکھے اور کیا ان سے بڑھ کر عبرت کے نظارے تو نے نہیں دیکھے؟ اور اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ گزرنے لگ گئی۔ مَیں اس نئی دنیا کے آثارِ قدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہؤا تو مَیں نے ایسے ایسے عظیم الشان آثارِ قدیمہ دیکھے جو اُن آثارِ قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا بلکہ ایک فوق العادت کارنامہ آثارِ قدیمہ کی دریافت کا میرے سامنے آ گیا، ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے بالا ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہؤا، بڑے بڑے غیرمعمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں ،بے کِنار سمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگرخانے ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، بازار،لنگرخانے،کتب خانے، دفتر، بے انتہاء بلند مینار اور غیرمحدود وُسعت والی مسجد، دلوں کو دہلادینے والے مقبرے اور مِسمار شُدہ یادگاریں ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہو ئیں اور مَیں نے کہا اُف مَیں کہاں آ گیا۔ یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں، تمام دنیا کے پاس موجود ہیں،لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیںدیکھتی اور بچوں کی طرح کھلونوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔ میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پرکہ مَیں یہ چیزیں دنیاکو دکھانے سے قاصر ہوں، میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے توجّہی پر، مگر میرا دل مسرور بھی تھا اُس خزانے کے پانے پر، اُن امکانات پر کہ ایک دن مَیں یا خدا کاکوئی اور بندہ یہ مخفی خزانے دنیاکو دکھانے میںکامیاب ہو جائے گا اورمَیں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو بے اختیار یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ ’’مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا‘‘۔ ہا ںہاںیہ یقینی بات ہے کہ تغلق کے قلعہ میں مَیں نے ایک اَور دنیا کو پالیا، ایک بالا دنیا ، ایک بالاطاقت کے نشانات اور مَیں پہلے اس دنیا میں کھویا گیا، پھر مَیں نے ایک اور دنیا کو جو اِس سے کہیں زیادہ شاندار ،کہیں زیادہ وسیع،کہیں زیادہ پائیدار اور پھر ایک لحاظ سے بوسیدہ کھنڈر اور تباہ حال تھی، اُسے دیکھااُسے پایا۔ اس خستہ حالی پر میرا دل رویا اس کی شان اور پائیداری سے میر ا دل مسرور ہؤا۔ اب آئو مَیں اس کے کچھ حصّہ کی آپ کوسیر کراتا ہوں۔
۱۔آثار ِ قدیمہ
پہلے مَیں آثارِ قدیمہ کو لیتا ہوں مگر چونکہ ہماری جماعت کے بہت سے زمیندار اصحاب آثارِقدیمہ کا مفہوم نہیں سمجھتے ہوں گے اس لئے اُن کی واقفیت کے لئے مَیںیہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ اثر کے معنے نشان کے ہوتے ہیں، اُردو میںبھی کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، آثار اس کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیںبہت سے نشانات ،قدیمہ کے معنی پُرانے کے ہیں۔ پس آثارِ قدیمہ کے معنی ہوئے پُرانی چیزوں کے نشانات ، وہ عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں یاپُرانے سکوں ،پُرانے کپڑوں ، پُرانے برتنوں اور پُرانے کاغذوں کومہیا کرنے کے لئے یہ محکمہ گورنمنٹ نے بنایا ہؤا ہے اور اس کاکام ہے کہ خواہ اسے زمین میں دبی ہوئی عمارتیں مل جائیں یا کاغذات مل جائیں یا سکّے مل جائیں انہیں محفوظ کر دے۔ پس یہ محکمہ پُرانی یادگاروں کو تلاش کر کے ان سے پُرانے تمدّن ،پُرانے حالات اور پُرانی ترقیات پرروشنی ڈالتا ہے اور ان کو دنیا میں قائم اور زندہ رکھتا ہے۔ایسے آثارِ قدیمہ کے کمروں میں بعض بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاںزمانہ کے ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگ کس قسم کے کپڑے بُنا کرتے تھے،صنّاعی کیسی تھی، یاکچھ پُرانے سکّے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ہتھیار رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے کاغذات رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ٹُوٹے ہوئے گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ ٹُوٹی ہوئی چپلیاں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کپڑا دو ہزار سال پہلے کا ہے، یہ سکہ آج سے تین ہزار سال پہلے استعمال ہوتا تھا ۔غرض ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے ایک عجائب خانہ بنا دیتے ہیں۔امریکہ تک سے لوگ آتے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور جس کسی نے کوئی پُرانا چیتھڑا یا کوئی دونی اٹھنّی تلاش کر کے دی ہوتی ہے اُس کی بڑی تعریف ہوتی ہے۔ کہتے ہیں فلاں تو علّامہ ہیں ان کا کیا کہنا ہے، انہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے کی استعمال ہونے والی اٹھنّی بڑی تلاش سے دستیاب کی ہے اور فلاں عجائب خانہ میںپڑی ہے۔ غرض چند ٹوٹی ہوئی عمارتیں جو زمین میںدب کر نظروں سے غائب ہو گئی تھیں ، چند ٹوٹے ہوئے کتبے، کچھ بوسیدہ کپڑے، کچھ گھسے ہوئے سکّے،مٹّی اور پتھر کے برتن، پھَٹے ہوئے بوسیدہ کاغذات اور دستاویزات محکمہ آثارِ قدیمہ کی کُل کائنات ہوتے ہیں،جن کو جوڑ جاڑکر زمانۂ سلف کے حالات کو یہ محکمہ اخذ کرتا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور عالِم وجاہل اس کی محنت کی داد دیتے اور اس کے کارناموںکو عزّت سے بیان کرتے ہیں۔مَیں بھی ان سے متأثر ہؤا، مگر تغلق کے قلعہ میںجو آثارِ قدیمہ مَیں نے دیکھے انہوں نے ان آثارِقدیمہ کو میری نگاہ میں بالکل بے حقیقت بنا دیاکیونکہ وہ ان سے بہت پُرانے، بہت وسیع، بہت متنوّع اور بہت ہی مفید تھے۔
اب میںاس آثارِ قدیمہ کے دفتر میں آپ کو بھی لے جاتا ہوں اور اس کی ایک دریافت اور تحقیق کو کسی قدر بسط سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور بعض کو اختصار سے پیش کرتا ہوں۔
یہ امر ظاہر ہے کہ انسانی آثار میں سے سب سے پُرانے آثار وہی ہیں جو انسان کی ابتدائی پیدائش اور اس کے ابتدائی کاموں سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی آثار ہوں خواہ وہ ہزاروں سال کے ہوں بہرحال بعد ہی کے ہوں گے اور آثارِ قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے گھٹیا قسم کے۔پس میںاس محکمہ کی ایسی ہی تحقیقات کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اِس محکمہ آثارِ قدیمہ کا نام ہے قرآن اور ا س کے انچارج کانام ہے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ اِس محکمہ میں جو آثارِ قدیمہ مَیں نے سب سے پہلے زمانے کے دیکھے اور جن کی گرد کو بھی موجودہ آثارِ قدیمہ نہیں پہنچتے، ان کی ایک مثال ذیل میں مَیں پیش کرتا ہوں۔
دُنیا کس طرح پیدا ہوئی؟
لوگ حیران ہیںکہ دُنیا کس طرح پیداہوئی؟ پہلا انسان کون تھا؟ وہ کس تمدّن پر عمل پیرا تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا
میں پیدا ہؤا؟ اور اُس نے کس طرح اِس دنیا کو چلایا؟ مَیں نے قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہمیشہ دیکھا ہے ، مشکل سے مشکل آیت کا مَیں مفہوم بیان کر رہا ہوتا ہوں تو لوگ بڑے مزے سے اُسے سُنتے رہتے ہیں، مگر جہاں آدم اورشیطان کا قصّہ آیا سوالات کی مجھ پریوں بھرمار شروع ہو جاتی ہے کہ میںخیال کرتا ہوں آدم کے بچے مجھے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد انہیں ان کے اباجان کی گود میں بٹھاآئوں تولوگوں کے دلوں میں آدم والے واقعہ کے متعلق بے انتہاء جستجو پائی جاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کیا کھاتے تھے، کیا پہنتے تھے، کہاں رہتے تھے؟ اور یہ صرف مسلمانوں میںہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں میںجستجو پائی جاتی ہے۔
ہندوئوں کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہندوئوں کی تو ساری میتھالوجی اور ان کی ساری بحثیں ہی دنیا کی پیدائش پر
ہیں کہیںلکھا ہے کہ برہما جی نہانے گئے تو اُن کی جٹا میں سے جو قطرے گِرے اُس سے گنگابہہ نکلی، کہیں دنیا کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو اِس رنگ میں کہ فلاں دیوتا کی فلاں سے لڑائی ہوئی، دوسرا دیوتا جب مارا گیا تو اُس کی ٹانگوں سے زمین اور اُس کے ہاتھوں سے چاند وغیرہ بن گئے، گویا ہر شخص کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ معلوم کرے یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کو ن تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا میںپیدا ہؤا ؟ اور کس طرح اُس نے اِس دنیا کو چلایا؟
تورات کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
تورات نے اس بارے میں جو نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، مَیں سب
سے پہلے وہی آپ لوگوں کوسناتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تورات دنیا کی پیدائش کس طرح بتاتی ہے۔
تورات میں لکھا ہے:-
’’زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہرائو کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اُجالا ہو اور اُجالا ہو گیا اور خدا نے اُجالے کو دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کیا اور خدا نے اُجالے کو دن کہا اور اندھیرے کو رات کہا، سو شام اور صبح پہلا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہووے اور پانیوں کو پانیوں سے جُدا کرے۔ تب خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانیوں کو فضا کے اوپر کے پانیوں سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے فضا کوآسمان کہا سوشام اور صبح دوسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہوویں کہ خشکی نظر آوے اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جمع ہوئے پانیوں کو سمندر کہا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور نباتات کو جو بیج رکھتیں اور میوہ دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلتے جو زمین پر آپ میںبیج رکھتے ہیں اُگاوے اور ایسا ہی ہو گیا۔ تب زمین نے گھاس اور نباتات کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق بیج رکھتیں اور درختوں کو جو پھل لاتے ہیں جن کے بیج اُن کی جنس کے موافق اُن میں ہیں اُگایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح تیسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کی فضا میں نیّر ہوں کہ دن اور رات میںفرق کریں اور وے نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے باعث ہوں اور وے آسمان کی فضا میں انوار کیلئے ہوویں کہ زمین پرروشنی بخشیں اور ایسا ہی ہو گیا، سو خدا نے دو بڑے نور بنائے، ایک نیّر اعظمجو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّراصغرجو رات پرحکومت کرے اور ستاروں کو بھی بنایا اور خدا نے ان کوآسمان کی فضا میں رکھا کہ زمین پرروشنی بخشیں اور دن پر اور رات پر حکومت کریںاور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریںاور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سو شام اور صبح چوتھا دن ہؤ ا‘‘۔ ۲؎ (گویا تورات کے بیان کے مطابق رات دن پہلے بنے ہیں مگر سورج چاند بعد میںبنے ہیں، اسی طرح گھاس، نباتات اور درخت پہلے اُگے ہیں مگر سورج وغیرہ جن کی شُعاعوں کی مدد سے یہ چیزیں اُگتی ہیں بعد میں بنائے گئے ہیں، کیونکہ لکھا ہے کہ جب گھاس اُگ چُکا، میوہ دار درخت تیار ہو چکے ، نباتات ظاہر ہو گئی رات دن بن گئے تو اس کے بعد خدا نے دو بڑے نور بنائے۔ ایک نیّراعظم جو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّراصغر جو رات پر حکومت کرے)
تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں کہ وے سمندر کی مچھلیوں پراور آسمان کے پرندوں پراور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سرداری کریںاور خدا نے انسان کو اپنی صورت پرپیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیداکیا،نر وناری ان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو برکت دی اور خدا نے انہیںکہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پرجو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو ۳؎
اور خداوند خدا نے عدن میںپورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اُس نے بنایا تھا وہاں رکھا۴؎
اور خداوندخدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر، لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بنائوں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا۔ پرآدم کو اس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میںسے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اُس پسلی سے جو اُ س نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میںسے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلاوے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ‘‘۔ ۵؎
یہ تورات کا نظریہ ہے جو اس نے پیدائش عالَم کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ڈارون۶؎ کی تھیوری انسانی پیدائش کے متعلق
اُنیسویں صدی عیسوی میںجب اِس مسئلہ پرزیادہ غور کیاگیا اور
علومِ جدیدہ کے ذریعہ نئی نئی تحقیقاتیں ہوئیں تو سب سے پہلے ایک انگریز نے جس کا نام ڈارون تھا انسانی پیدائش کے متعلق ایک نئی تھیوری پیش کی، اُس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ:-
(۱) انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میںایک شخص کو بنا کر کھڑا کر دیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میںانسان تیار ہؤا ہے۔
(۲) دوسرے اُس نے یہ مسئلہ نکالا کہ انسان نے جو ترقی کی ہے یہ جانوروں سے کی ہے پہلے دنیا میںچھوٹے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے، پھر اس سے بڑے جانور بنے اور پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا،مگر جس جانور سے ترقی کر کے انسان بنا ہے وہ اَب نہیں ملتا کیونکہ یہ کڑی غائب ہے ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اِسی جانور کی ایک اعلیٰ قسم بندر ہے۔ گویا ڈارون نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ انسان گو اِرتقائی قانون کے مطابق بنا ہے مگر اس کایہ ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہؤا ہے جس کی آخری کڑی اب مفقود ہے جس میں سے بعض خاص قسم کے بندر اورانسان نکلے۔
پہلے امر کی دلیل کہ انسان یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں میںتیار ہؤا ہے وہ یہ دیتا ہے کہ مختلف زمانوں کے انسانوں کی جو کھوپڑیاں اور جسم وغیرہ ملے ہیں ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کھوپڑیوں اور جسموں کا آپس میں بہت بڑا فرق ہے پس یہ خیال کرنا کہ آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان اسی طرح تھا جس طرح آج ہے غلط ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو جسموں، ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ میں کوئی فرق نہ ہوتا، مگر انسانی جسم کی جو بہت پُرانی ہڈیاں نکلی ہیں ان ہڈیوں کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اور موجودہ انسانی جسم کی ہڈیوں میںبہت بڑا فرق ہے۔ اسی طرح موجودہ انسانی دماغ اور پُرانے انسانی دماغ میںبھی بہت بڑا فرق نظر آتا ہے پس مختلف زمانوں کے انسانوں کی کھوپڑیوں اور جسم کی ہڈیوں کا اختلاف اِس امر کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے ماتحت بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا۔ دوسری دلیل اِس فلسفہ کے معتقد اِس ارتقاء کی یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میںجب جنین کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اِس جنینکو اپنی ابتدائی حالتوں میںمختلف قسم کے جانوروں سے مشابہت ہوتی ہے۔ کبھی وہ جنین خرگوش سے مشابہہ ہوتا ہے ۔کبھی مچھلی سے مشابہہ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور جانور سے۔ یہ رحمِ مادر میں بچے کی پیدائش کی مختلف کیفیات دراصل ابتدائے خَلق کی ہی کیفیات ہیں۔یعنی پچھلے زمانہ میں جن جن جانوروں کی شکل میں سے انسان گزرا ہے، ان ساری شکلوں میں سے ایک بچے کو رحمِ مادر میں سے گزرنا پڑتا ہے۔تیسری دلیل اِس ارتقاء کی یہ دی جاتی ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میںایسی کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں جو اِس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور انسان کو جسم اپنی منفردانہ حیثیت میںنہیں ملا بلکہ جانوروں کے جسم سے ترقی کر کے اُسے ایک اور جسم حاصل ہؤا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس امر کے ثبوت کے لئے گوریلا وغیرہ قسم کے بندروں کو دیکھ لیا جائے اُن کی انسان سے اتنی شدید مشابہت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ الگ بنے ہیں اور یہ الگ ،گویا ارتقاء کی تیسری دلیل وہ مشابہتیں دیتے ہیں جو انسان کو بعض دوسرے جانوروں سے اور دوسرے جانوروں کو آپس میں یا اپنے سے نیچے کے جانوروں سے ہیں۔
دوسرا دعویٰ ڈارون نے یہ کیا تھا کہ انسان اور بندر کا ارتقاء ایک جانور سے ہؤا ہے جو اَب مفقود ہے۔ اس کے ثبوت میںوہ یہ امر پیش کرتا ہے کہ بندروں کی بعض اقسام کو انسان سے انتہائی مشابہت ہے مگر وہ کہتا ہے کہ درمیان میں ایک کڑی غائب ہو گئی ہے اور اِس مفقود کڑی کا ثبوت وہ فاصلہ ہے جو طبعی طور پر بندروں کی موجودہ قسم اور انسان میں،اور بندروں اور ان سے ادنیٰ قسم کے جانوروں میں نہ پایا جانا چاہئے تھا مگر چونکہ ہمیں ایک طرف بندروں اور انسان میںانتہائی مشابہت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بندروں اور ان سے نچلے درجہ کے جانوروں میںایک فاصلہ نظر آتا ہے جو طبعی طور پر نہیں پایا جانا چاہئے تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو گئی ہے جس سے انسان اور بندر نے ترقی کر کے اپنی موجودہ شکل کو اختیار کیا، تبھی یہ زنجیر مکمل نہیں بنتی۔
ہیکل کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہیکل۷؎ ایک اور مفکّر ہے وہ ڈارون کے اِس فلسفہ پرغور کرنے کے بعد اِس نتیجہ پر
پہنچا ہے کہ وہ جانور جو ہمیں نہیں ملتا اُس کانام لیپوٹائیلو (LIPOTYLU) ہے۔ یہ جانور درمیان میں سے غائب ہو گیا ہے اگر یہ مل جائے تو وہ کڑی جو درمیان سے ٹوٹتی ہے مکمل ہو جائے اور انسانی ارتقاء کے مسئلہ میںکوئی بات مبہم نہ رہے۔ اِس قسم کے اکثر مفکّر گوریلا اور چِمپنزی (CHIMPANZEE) قِسم کے بندروں کے آباء کو انسانی نسل کے آباء قرار دیتے ہیں۔
جب ڈارون نے انسانی پیدائش کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا تو انگریزوں میں سے ہی بعض نے اِس فلسفہ پراعتراض کیا اور کہا کہ انسان اور گوریلا میںاس قدر اختلاف ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی صورت میںبھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گوریلا وغیرہ اقسام کے بندروں کے آباء ہی انسانی نسل کے آباء تھے اِس پر ہکسلے۸؎ نے انہی اختلافات کو جو انسان اور گوریلا میںہیں اور جو پہلے ارتقاء کے خلاف پیش کئے جاتے تھے ارتقاء کے ثبوت میںپیش کر دیا اس طرح کہ اُس نے کہا کہ جو اختلاف انسان اور گوریلا میں ہے اِس سے بہت زیادہ اختلاف گوریلا اور بعض دوسری قسم کے بندروں میںہے، اب بتائو کہ اِس اختلاف کے باوجود تم ان سب کو بندر مانتے ہو یا نہیں؟ جب مانتے ہو تو اگر ارتقاء میںبعض بندر بعض دوسرے بندروں سے اِس قدر دُور جا سکتے ہیں توکیوں انسان گوریلا سے دُور نہیں جا سکتا۔ پس یہ اختلاف ارتقاء کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک ثبوت ہے۔
موجودہ زمانہ کی تحقیق
موجودہ تحقیق جو قریب زمانہ میں ہوئی ہے اور جس کے مؤیّد ایک تو پروفیسر جونز ہیں اور ایک ڈاکٹر آسبرن، وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ
گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا اور اُس وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا تھا۔ گویا انسان کی جانوروں سے جُدائی اُس بندر سے نہیں ہوئی جس بندر سے جُدائی ڈارون پیش کرتا ہے بلکہ اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی مگر بہرحال انسانی ترقی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی۔
انسانی تہذیب کے تین بڑے دَور
اِس کے ساتھ ہی آثارِ قدیمہ والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسانی تہذیب پرتین دَور
آئے ہیں۔
(۱) ایک دَور تو پتھروں کے استعمال کرنے کا تھا یعنی ابتداء میںجب انسان نے تہذیب وتمدّن کے دَور میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے تو اُس وقت چونکہ یہ جانوروں سے ہی ترقی کر کے انسان بنا تھا اور اس کے پنجے نہیں تھے جن سے دوسرے جانور کام لے لیا کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس کے تیز دانت تھے اس لئے اس نے اپنی حفاظت کیلئے پتھروں کا استعمال شروع کر دیا۔ پس پہلا دَور انسانی تہذیب پر پتھروں کے استعمال کا آیا ہے ۔
(۲) پھر پیتل کے استعمال کا دَور آیا ۔یعنی جب انسان نے اور زیادہ ترقی کی تو اس نے اپنی حفاظت کے لئے ڈھالیں وغیرہ بنالیں۔
(۳) اور تیسرا دَور لوہے کے استعمال کرنے کا تھا جب کہ انسان نے اپنی حفاظت کے لئے نیزے اور تلواریں وغیرہ ایجاد کیں۔
آثارِ قدیمہ والوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پُرانی عمارتوں کے کھودنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدیم زمانہ سے کسی نہ کسی تہذیب کا حامل ضرور رہا ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ
اب مَیں اُن آثارِ قدیمہ کوپیش کرتا ہوں جنہیںقرآن کریم نے انسان کی پیدائش
اور اس کی تہذیب کے بارہ میں پیش کیا۔
پہلا حوالہ اس بارہ میں سورۃ نوح کا ہے جہاں آثار ِ قدیمہ کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
۹؎
موجودہ زمانہ میںجو تحقیق انسانی پیدائش کے متعلق کی گئی ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی جو تحقیق ہے اس کا کچھ ذکر اِن آیات میں ہے جو ابھی مَیں نے پڑھی ہیں۔ اِن آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ اے انسانو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بے حکمت کام نہیں کیا کرتا اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے تم اپنے متعلق تو یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص تمہیں یہ کہے کہ تم نے فلاں کام بیوقوفی کا کیا اور اگر کوئی کہے تو اِس پر بُرا مناتے ہو مگر تم خدا کے متعلق یہ کہتے رہتے ہو کہ اُس نے انسان کو بغیر کسی غرض کے پیدا کر دیا۔ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ اُس نے تمہیں یکدم پید ا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دَوروں میں سے گزارتے ہوئے بنایا ہے۔
کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کی مطابقت میںرہنے والا بنایا ہے اسی طرح اُس نے چاندبنایا اُس نے سورج بنایا۔ـ
اور اِن ہی دَوروں میںسے جن میں خداتعالیٰ نے تمہیں گزارا، ایک دَور یہ بھی تھا کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا اورآہستہ آہستہ تمہیںاپنے موجودہ کمال تک پہنچایا۔
پیدائشِ انسانی کے مختلف دَور
یہ ابتدائی پیدائش کا نقشہ ہے جوقرآن کریم نے کھینچا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ ارتقاء کا وہ مسئلہ جسے یورپ والے
آج پیش کر رہے ہیں قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ظاہر کر دیاتھا اور بتا دیا تھا کہ یہ صحیح نہیں کہ انسان یکدم پیدا ہو گیا یا خُدا نے یوں کیا ہوکہ مٹّی گوندھی اور اُس سے ایک انسانی بُت بنا کر اُس میں پھونک ماردی اور وہ چلتا پھرتا انسان بن گیا بلکہ اُس نے کئی دَوروں میںسے گزارتے ہوئے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ ۔ اوریہ جو درجہ بدرجہ ترقی ہوئی ہے اِس میں انسان کی پیدائش دراصل زمین سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہم اسے بڑھاتے بڑھاتے کہیں کا کہیں لے گئے ہیں۔ گویا اسلام نے صاف طور پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتادیا تھا کہ انسان یکدم نہیں بنابلکہ وہ کے مطابق کئی دَوروں میںتیار ہؤا ہے اور کے مطابق سب سے پہلے وہ زمین سے تیار ہؤا ہے مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ دو باتیں پیش کی تھیں کہ انسان آہستہ آہستہ تیارہؤا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ زمین میں سے پیدا ہؤا ہے مگر مسلمانوں نے اِن دونوں باتوں کو ردّ کر دیا اور ایک طرف تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یکدم بنادیا تھا اور دوسری طرف اس امر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے انسان کو زمین میں سے تیارکیا ہے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے جنت سماوی میںپید ا کیا پھر زمین پر پھینک دیا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک روحوں کی تھیلی ہے وہ جس شخص کو زمین پر بھیجنا چاہتا ہے اُس کی روح چھوڑ دیتا ہے گویا جس طرح بٹیرے پکڑنے والے اپنی تھیلیوں میںسے ایک ایک بٹیرہ نکالتے جاتے ہیں، اسی طرح خدا پہلے ایک رُوح چھوڑتا ہے پھر دوسری پھر تیسری گویا اِس زمانہ کے علماء نے یہ ٹھیکہ لے لیا ہے کہ قرآن کریم میں جو بات لکھی ہو گی اس کے وہ ضرور خلاف کریں گے۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تسلیم کیا ہے کہ انسانی پیدائش آہستگی سے ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ اِس میں حکمت تھی۔ اگر پیدائش اِس رنگ میںنہ ہوتی تو بہت سے نقائص رہ جاتے مگر آجکل کے علماء اِس بارہ میں جو کچھ عقیدہ رکھتے ہیں اس کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے ایک اُستاد نے لڑکوں کو بتایا کہ دنیا میںجو ہمیں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے ، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت اور کوئی درمیانی صورت رکھتا ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پید اکرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ آئو مَیں انسان بنانے کا کسی کوٹھیکہ دے دُوں۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو ٹھیکہ دے دیا اور اُن سے کہا کہ مَیں شام تک تم سے اتنے آدمی لے لُوں گا ۔خیر پہلے تو وہ شوق اور محنت سے کام کرتے رہے اور انہوں نے بڑی محنت سے مٹّی گوندھی پھر نہایت احتیاط سے لوگوں کے ناک، کان، آنکھ، منہ اور دوسرے اعضاء بنائے اور اِس طرح دوپہر تک بڑی سرگرمی سے مشغول رہے، اِس دَوران میںجو آدمی ان کے ذریعہ تیار ہو گئے وہ نہایت حسین اور خوبصورت بنے مگر جب دوپہر ہو گئی اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی کام بہت رہتا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو انہوں نے جلدی جلدی کام شروع کر دیا اور کچھ زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام نہ لیا اور اس طرح عصر تک کام کرتے رہے اِس دَوران میں جو لوگ تیار ہوئے وہ درمیانی شکلوں کے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ عصر ہو گئی ہے اور اب سورج غروب ہی ہونے والا ہے اور ٹھیکہ کے مطابق تعداد تیارنہیں ہوئی تو انہوں نے یوں کرنا شروع کردیا کہ مٹّی کا گولہ اُٹھائیںاور اُسے دو تھپکیاں دے کر بُت بنا کر مُنہ کی جگہ ایک اُنگلی مار دیں اور آنکھوں کی جگہ دو اُنگلیاں اور اس طرح جلدی جلدی آدمی بناتے جائیں یہ آدمی بدصورت بنے جو بدصورت قوموں کے آباء ہو گئے۔
اب یہ ہے تو دین سے تمسخر او ر اِستہزاء مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں میں پیدائشِ انسانی کے متعلق ایسے ہی خیالات رائج ہو چکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی طرح بنایا ہے کہ مٹّی کو گوندھا اور انسانی بُت بنا کر اس کے سوراخ بنا دئیے اور پھر ایک پھونک ماری اور وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا ، مگر اسلام یہ نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو کئی دَوروں سے گزارا ہے اور خاص حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بنایا ہے یہ نہیں کہ تمہیںیکدم بنا دیا ہو ۔
انسانی پیدائش کا دَورِ اوّل عدم سے شروع ہؤا
دوسری بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانی پیدائش کا
دَورِ اوّل عدم تھا۔ یہ اختلاف دنیا میںہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ دنیا کی ابتداء کس طرح ہوئی؟ آریہ کہتے ہیں کہ مادہ جس سے تمام دنیا کی تخلیق ہوئی یہ ازلی ہے۔ خدا نے صرف اتنا کیا ہے کہ مادہ اور رُوح کو جوڑ جاڑ دیا اور اس طرح انسان بن گیا، مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے مادہ ازلی نہیں بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور یہ کہ پہلے کچھ نہ تھا پھر خدا نے انسان کو پیدا کیا۔چنانچہ فرماتا ہے۔۱۰؎ کہ کیا انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم نے جب اُسے پیدا کیا تو وہ اُس وقت کوئی شَے بھی نہیں تھی۔ آجکل کی پیدائش اور قِسم کی ہے آجکل نُطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اِس آیت میں جس خَلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ دَور سے بہت پہلے کی ہے۔ گویا ابتدائی حالت انسان کی عدم تھی۔ پھر خدا اسے عالمِ وجود میں لایا مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے وجود پیداہؤا بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر وجود ہؤا ۔ یہ دھوکا زیادہ تر ’’سے‘‘ کے لفظ سے لگتا ہے کیونکہ ’’سے ‘‘ کا لفظ اُردو زبان میں مادہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں لکڑی سے کھلونا بنایا یا لوہے سے زنجیر بنائی ۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے لکڑی اور لوہاموجود تھا جس سے اَور چیزیں بنائی گئیں۔ اس لئے جب مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو عدم سے بنایا تو غیرمذاہب والے اعتراض کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس سے خدا نے انسان کو بنایا کس طرح؟ پس یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے انسان بنا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر اس کا وجود ہؤا۔ پس خدا نے عدم سے انسان کو نہیں بنایا بلکہ اپنے حُکم کے ماتحت بنایا ہے مگر یہ کہ اُسے کس طرح بنایا ہے اِس کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے سمجھنے کی انسان میں قابلیت نہیں۔ اگر انسان اس کو سمجھ سکتا تو وہ بھی انسا ن بنانے پر قادر ہوتا۔
وجودِ انسانی کے دَورِ ثانی کی کیفیت
انسان کا دَورِ ثانی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں انسانی وجود تو تھا مگر
بِلادماغ کے۔ گویا انسانی وجود تو تھا مگر انسان نہ تھا اور نہ اس کی حالت کو سوچنے والا کوئی دماغ تھا، گویا دماغی ارتقاء سے پہلے کی حالت میںتھا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میںتھا یا نباتی رنگ میں۔مگر بہرحال خواہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں ہو خواہ نباتی رنگ میں، حیوانی رنگ میں نہیں تھا اور اس کا پتہ بھی قرآن کریم سے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۱؎ کہ کیا انسان کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ انسان پریقینا ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جب کہ وجودِ اِنسانی تو موجود تھا مگر مذکور نہیں تھا وہ یاد نہیں کیا جاتا تھا۔گویا حِسِّشناخت جو انسان میںموجود ہے وہ اُس وقت نہیں تھی۔ایک وجود موجود تھا مگر بغیر عقل اور بغیر شعور کے،ایک دوسرے کے متعلق اسے کوئی واقفیت نہ تھی۔ اسے کوئی علم نہ تھا کیونکہ یہ باتیں دماغ سے تعلق رکھتی ہیں اور دماغ دَورِ ثانی میںنہیںتھا۔
انسانی پیدائش کا تیسرادَور
تیسرا دَور قرآن کریم سے انسانی پیدائش کے متعلق وہ معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ ایسی شکل میں آیا کہ اس کی
پیدائش نُطفہ سے ہونے لگی یعنی مرد وعورت کے تعلق سے اور اُس وقت سے اس کے مزاج میںتنوّع پیدا ہؤا۔ حیوانوں میں سے بھی بعض حیوان نرو مادہ نہیں ہوتے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر انسان پر وہ دَور آیا جب کہ اُسے نر ومادہ میں تقسیم کر دیا گیایعنی حیوان بنا اور حیوان سے ترقی کر کے اُس حالت کو پہنچا کہ جب تناسل نُطفہ سے شروع ہو جاتی ہے جو بات کہ اعلیٰ درجہ کے حیوانوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے وہ ایسا حیوان بنا جو نُطفۂ اَمشاج سے بنتا ہے یعنی اس کے اندر مختلف قویٰ پیدا کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امر کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۱۲؎ کہ ہم نے انسان کو نُطفہ سے پیدا کیا جو مرکّب تھا اور جس کے اندر بہت سے اجزاء مِلائے گئے تھے کیونکہ ہم نے اس سے مرکّب قسم کا کام لینا تھا۔ پس چونکہ ہم نے اس سے مرکّب کا م لینا تھا اس لئے ہم نے نُطفہ میںبھی مرکّب طاقتیں رکھ دیںیہ تیسرا دَور ہے جو انسانی پیدائش پر آیا۔
انسانی پیدائش کا چوتھا دَور
چوتھا دَور انسانی پیدائش پر وہ آیا جب کہ انسانی دماغ کامل ہو گیا اور اس میںسمجھ اور ترقی کا مادہ پیدا ہو گیا گویا اب
دماغی ارتقاء اور دماغی قوتوں کے ظہور کا زمانہ آ گیا اور وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع اور بصیروجود بنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۳؎ اس دَور میںجب کہ انسانی پیدائش نُطفہ سے ہونے لگ گئی تھی اور وہ ذَکَر واُنْثٰی بن گئے تھے ابھی ان میںانسانیت نہیں آئی تھی بلکہ حیوانیت ہی تھی کیونکہ گو نر ومادہ کی تمیز پیدا ہو گئی تھی مگر یہ تمیز حیوانوں میںبھی پائی جاتی ہے اس طرح گواُس دَور میں انسان باصر اور سامع تھا جیسا کہ حیوان بھی باصر اور سامع ہوتا ہے حیوان بھی دوسروں کو دیکھتا اور حیوان بھی آہٹ کو سُن لیتا ہے پس اس دَور میںوہ ایک حیوان تھا مگر اس کے بعد دَورِ رابع اس پروہ آیا جب کہ دماغی اور ذہنی ارتقاء کی وجہ سے تحقیق اور تجسُّسکا مادہ اس میںپیدا ہو گیا اور وہ بصیر اور سمیع بن گیا۔دیکھتا تو ایک جانور بھی ہے مگر وہ باصر ہوتا ہے بصیر نہیں ہوتا ۔ بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے اور کُرید، تحقیق اور ایجاد کامادہ اس میںموجود ہو اور یہ انسانی صفات ہی ہیں حیوانی نہیں۔ پس چوتھا دَور انسان پر وہ آیا جب کہ وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع وبصیر بنا یعنی کُرید، تحقیق، ایجاد اور ترقی کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ حیوانی حالت سے ترقی کر کے حیوانِ ناطق بن گیا۔
یہ سب دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں، درمیانی زمانوں کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں وہ ضروری باتوں کا ذکر کر دیتا او رباقی امور کی دریافت کو انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے پس اِن چار دَوروں کا یہ مطلب نہیں کہ انسان پر یہی چار دَور آئے بلکہ یہ چار دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیںان کے درمیان اور بھی بہت سی کڑیاں ہیں چنانچہ بعض درمیانی کڑیوں کا حال بھی قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے مثلاً فرماتا ہے۔ ۱۴؎ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا ہے اور یہاںیہ فرمایا ہے کہ خدا نے تمہیں خشک مٹی میںسے پیدا کیا پھر نُطفہ سے پیدا کیا یہاں پھر درمیانی دَوروں اور درمیانی دَوروں کی مختلف کڑیوں کاذکر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ مَیں آگے چل کر ثابت کرونگا کہ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واقعہ میں بعض دَور چھوڑ دیئے ہیں۔غرض فرماتا ہے پھر ہم نے نُطفہ بنایا اور تم نرو مادہ سے پیدا ہونے لگ گئے۔ پھر ہم نے تم کو انسانِ کامل بنایا ، ایک ایساانسان جو تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ نظام میںمُنسلک ہو گیا۔
لفظِ ازواج کی تشریح
یہاں ازواج کے معنے مردعورت کے نہیںکیونکہ پہلے نُطفے کاذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ اس نے
تم کو اَزواج بنایا اگر اَزواج کے معنے مرد عورت کے ہی ہوں تو ان الفاظ کے الگ لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ نُطفہ کے ذکر میں ہی یہ بات آ سکتی تھی کیونکہ نطفہ سے اسی وقت پیدائش ہوتی ہے جب مردعورت دونوںموجود ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے نطفہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اَزواج سے مراد مردو عورت نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں سے مراد اقسام ہیں نہ کہ مرد وعورت ، ورنہ نطفہ تو ہوتا ہی زوج کے وقت سے ہے اور اِس کی تصدیق اِس امر سے بھی ہوتی ہے کہ زوج کے معنے عربی زبان میں صنف کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ مراد ہیں ، پس سے مراد اَصْنَافًا ہیں نہ کہ مرد وعورت اور مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری دماغی ترقی ہوئی تو تم میںمختلف قسم کے گروہ پیدا ہو گئے اور پارٹیاں بننی شروع ہو گئیں غرض اِس آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان تُرابی حالت میں تھا یعنی جمادی حالت میں پھر اِس پر ایک زمانہ آیا (درمیانی زمانہ کاذکراِس جگہ چھوڑ دیا ہے) کہ وہ حیوانی صورت اختیار کر گیا اور مردوعورت سے اس کی پیدائش ہونے لگی(پھر درمیانی زمانہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے) پھر وہ زمانہ آیا کہ وہ ترقی کر کے تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ ایک نظام میں مُنسلک ہو گیا۔
اسی طرح درمیانی کڑیوں میںسے ایک کڑی طینی حالت بھی ہے جب کہ تُراب سے پانی ملا، چنانچہ حیاتِ انسانی کا مادہ پانی ہونے کے متعلق فرماتا ہے۱۵؎ کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے اگر پانی نہ ہوتا تو حیاتِ انسانی کا مادہ بھی پیدا نہ ہوتا، پھر یہ کڑی کہ پانی مٹی سے ملا اور اس سے پیدائش ہوئی اِس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۶؎ کہ خد ا نے انسان کو طین سے پیدا کیا۔ گویا پانی اور مٹی باہم ملائے گئے اور اِن دونوں کے ملانے سے جو حالت پیدا ہوئی اِس کے نتیجہ میں زندگی کا ذرّہ پیدا ہؤا اور ترقی کرتے کرتے انسان اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گیا۔
اِس بات کا ثبوت کہ کڑیاں درمیان سے حذف بھی کر دی جاتی ہیں اس بات سے ملتا ہے کہ اوپر کی آیت میںبتایا ہے کہ انسان کی پیدائش اوّل طین سے ہوئی اس کے بعد فرماتا ہے۔۱۷؎ کہ پیدائش ثانی طین سے نہیں بلکہ یعنی نُطفہ سے ہوئی ہے اور ہم نے بجائے مٹی اور پانی کے نسلِ انسانی کے لئے نُطفہ کا سلسلہ جاری کر دیا ۔ جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۸؎ یعنی کیا ہم نے تم کو ایک کمزور او رحقیر پانی کی بوند سے پیدا نہیں کیا اور پھر اس کمزور اور حقیر بوند کو ایک قراروثبات کی جگہ میں ایک زمانہ تک رکھ کر پیدا نہیں کیا؟ پس صاف معلوم ہو گیا کہ مٹی کی حالت ایک وقت کی تھی پھر وہ وقت آیا جب کہ مٹی اور پانی ملایا گیا ، مگر نسلِ انسانی جو پیدا ہوئی ہے یہ مٹی سے نہیں بلکہ نُطفہ سے ہوئی ہے پس مٹی والا زمانہ اَور ہے پانی والا زمانہ اَور ہے اَور نُطفے والا زمانہ اَور ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق عام قرآنی اُصول
پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ

۱۹؎ کہ دیکھو تمہاری ابتداء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان وتر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دیدیا جائے تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جائو اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اِس تمام خَلق کے پیچھے نظر آئے گا۔ اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خداتعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہاء بھی خداتعالیٰ پر ہے اور باریک در باریک ہوتے ہوئے آخر خداتعالیٰ پر سببِ اُولیٰ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ اوپر کی آیات جو مَیں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:-
(۱) انسان مادۂ ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کے ہاتھوں سے پیداکیا گیا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہؤا کہ وہ یکدم پیدا ہو گیا۔
(۳) تیسرے یہ کہ انسان، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے۔
(۴) چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دَور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی۔
(۵) پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میںآیا جب کہ اس میںزندگی پیدا ہو گئی تھی ، لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا۔
(۶) اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوانِ ناطق ہو گیا مگر ابھی چونکہ اس میںکچھ کسر باقی تھی اس لئے پھر
(۷) اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدّن انسان ہو گیا جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے۲۰؎ میں کیا ہے یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سِسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائے اس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سؤر اور کُتّے وغیرہ کرتے ہیں ۔ انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور نظام اور قانون کی ترقی شروع ہوئی۔
یہ چار بڑے بڑے دَور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی:-
(۱) جمادی دَور (۲) حیوانی دَور (۳) عقل کا دَور اور (۴) متمدّن انسان کا دَور ۔
ان کے درمیان اور بھی کڑیاں ہیں لیکن وہ حذف کر دی گئی ہیں۔
اس تمہید کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دَور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کی۔ جب تک اسے عقل حاصل نہیںتھی وہ ایک حیوان تھا گو خدا کے مدّنظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدّن انسان بنائے مگر بہرحال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیںکہلا سکتا تھا اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میںبچہ ہوتا ہے۔ اب ماں کے پیٹ میںجب بچہ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہ ہی ہوتا ہے کُتّا نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسانیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کئے تھے اور نہ ابھی تک ان میںعقل پیدا ہوئی تھی۔انسان کہلانے کا وہ اُسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی، لیکن اس دَور کو بھی حقیقی معنوں میں دَور ِ انسانیت نہیں کہاجا سکتاکیونکہ انسان کی کامل خصوصیّت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میںاصطلاحاً عقل والے دَور کوبشری دَورِ اوّل کہوںگا اور نظام والے دَور کو انسانی دَور کہوں گا۔یعنی پہلے دَور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دَور میں بشروانسان دونوں اُس کے نام تھے۔
آدمؑ سب سے پہلا کامل انسان تھا
اِس وقت تک جو مضمون بیان ہؤا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عقلی دَور دو حصوں
میں منقسم تھا ایک حصّہ تو وہ تھا کہ اس میںعقل تو تھی مگر انفرادی حیثیت رکھتی تھی تمدّنی ّ حِس نے ترقی نہ کی تھی اور وہ اکیلے اکیلے یا جوڑوں کی صورت میںزندگی بسر کرتا تھا ۔د وسرا دَور وہ آیا جبکہ تمدّنی حِس ترقی کر گئی تھی اور وہ ایک قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا یعنی وہ اس بات کیلئے تیار ہو گیا کہ ایک قانون کے ماتحت رہے جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ کسی پرحملہ نہیںکرنا تو ہر ایک کا فرض ہوکہ کسی پر حملہ نہ کرے، جب قانون یہ فیصلہ کردے کہ فلاں کو یہ سزا ملنی چاہئے تو اس کا فرض ہو کہ وہ اس سزا کوبخوشی برداشت کرے، جب یہ ّحِس اس میں ترقی کر گئی اور وہ قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا تو اُس وقت انسانِ کامل بنا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب انسانوں کے اندر یہ مادہ پیدا ہو گیا کہ وہ نظام اور قانون کی پابندی کریںاور انسانی دماغ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو اُس وقت سب سے پہلا شخص جس کا دماغ نہایت اعلیٰ طور پر مکمل ہؤا اُس کانام آدم ؑ تھا۔ گویا آدم جو خلیفۃ اللہ بنا وہ نہیں جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اسے مٹی سے گوندھا اور پھر اُس میں پھونک مار کر اُسے یکدم چلتا پھرتا انسان بنا دیا بلکہ جب انسانوں میں تمدّنی روح پیدا ہو گئی تو اُس وقت جو شخص سب سے پہلے اس مقام کو پہنچا اور جس کے دماغی قوٰی کی تکمیل سب سے اعلیٰ اور اَرفع طور پر ہوئی اُس کا نام خدا تعالیٰ نے آدمؔ رکھا، مگر جب دیر سے ایک طریق چلا آرہا ہو اُ س میںتبدیلی لوگ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے اسی لئے جب کامل انسانیت کی ابتداء ہوئی ناقص انسانوں کا بقیہ اس کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر تھاکیونکہ گو اُن میں عقل تھی مگر مادۂ تعاون وتمدّن ان میں مکمل نہ تھا۔ پس یقینا اُس وقت بہت بڑا فساد ہؤا ہو گا جیسے اگر ایک سِدھا ہؤا گھوڑا بے سِدھے گھوڑے کے ساتھ جوت دیا جائے تو دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے۔ بے سِدھا گھوڑا لاتیں مارے گا، اُچھلے گا،کُودے گا اور وہ کوشش کر ے گا کہ نکل کر بھاگ جائے اسی طرح اُس وقت بعض لوگ متمدّن ہو چکے تھے اور بعض کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اکٹھے رہیںاور قانون کی پابندی کریں۔
لفظِ آدم میں حکمت
قرآن کریم نے جوپہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے ،
ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیںاور دوسرا مادہ اُدْمَہْ ہے اور اُدْمَہْ کے معنے گندمی رنگ کے ہیں۔ پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کُھلی ہَوا اور زمین پررہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آدم کے ذریعہ خداتعالیٰ نے تمدّن کی بنیاد رکھی تو اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ فیصلہ کیاکہ بجائے زمین کی غاروں میں رہنے کے ہمیںسطح زمین کے اوپر رہنا چاہئے اور پندرہ پندرہ بیس بیس گھروں کاایک گائوں بنا کر اس میںآباد ہو جانا چاہئے اس سے پہلے تمام انسان غاروں میں رہتے تھے اور چونکہ سطح زمین پر اکیلے اکیلے رہنے میں خطرہ ہو سکتا تھا کہ کوئی شیر یا چیتا حملہ کر ے اور انسانوں کو پھاڑ دے اس لئے وہ آسانی کے ساتھ سطح زمین پر رہنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تبھی سطح زمین پر رہنا برداشت کر سکتے تھے جب کہ بہت سے آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں اور وہ متحدہ طاقت سے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی تھی جب انسانوں میںاکٹھا رہنے کی عادت ہو اور وہ ایک قانون اور نظام کے پابند ہوں ۔ جب تک وہ ایک نظام کے عادی نہ ہوں، اُس وقت تک اکٹھے کس طرح رہ سکتے تھے۔ پس اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ غاروں میں نہیں رہیں گے بلکہ کُھلے مکانوں میں رہیں گے اور چونکہ انہوں نے باہر سطح زمین پر رہنے کا فیصلہ کیا اِس لئے ان کا نام آدم ہؤا یعنے سطح زمین پررہنے والے۔ اور کُھلی ہَوا میں رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہؤا کہ ان کا رنگ گندمی ہو گیا۔
پس آدم اس کا نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ کُھلی زمین میں مکان بنا کر رہنے لگا اور کُھلی زمین پر رہنے کے سبب سے اس کا جسم گندمی رنگ کا ہو گیا جیساکہ سورج کی شُعاعیں پڑنے سے ہو جاتا ہے اور ادیم اور اُدْمَہْ جو لفظِ آدم کے مادے ہیں ان دونوں کا مفہوم بھی ایک ہی ہے یعنی کُھلی ہَوا اور زمین پررہنے کی وجہ سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
زمانۂ آدم کی تمدّنی حالت
اس آدم کے زمانہ میںلازماً بشری دَور اوّل کے زمانہ کے بھی کچھ لوگ تھے جو تمدنی قوانین کی برداشت نہیں کر سکتے
تھے اورلازماً وہ سطحِ زمین پر سہولت سے نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ جوطاقت مجموعی طاقت سے مل سکتی ہے اور جو انسان کو کھلے میدانوں میں رہنے میں مدد دیتی ہے وہ انہیں حاصل نہ تھی پس وہ غاروں میںرہتے تھے جیسا کہ جانور وغیرہ رہتے ہیں اور چونکہ ان میںتمدّن نہ تھا ان کے لئے کوئی قانون بھی نہ تھا ،حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگ سطح زمین پر رہیں اور غاروں میں رہنا چھوڑ دیں ، تو وہ لوگ جو سطح زمین پر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے آپ کی مخالفت کی جیسے افریقہ کے حبشی پہلے ننگے رہا کرتے تھے۔ شروع شروع میں جب انگریز آئے ہیں تو انہوں نے کوشش کی کہ حبشیوں کو کپڑے پہنائے جائیں ۔چنانچہ انہوںنے شہر کے دروازوں پرآدمی مقرر کر دئیے اور انہیں کپڑے دے کر حُکم دیدیا کہ جب کوئی حبشی شہر کے اندر داخل ہو نا چاہے تو اُسے کہاجائے کہ وہ ننگا شہر میںداخل نہ ہو بلکہ تہہ بند باندھ کر اندر جائے، چونکہ وہ ہمیشہ ننگے رہتے چلے آئے تھے اور کپڑے پہننے کی انہیںعادت نہ تھی اس لئے وہ بڑے لڑتے اور کہتے کہ ہم سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی کہ ہم کپڑے پہن کر شہر میںداخل ہوں ، ہمارے بھائی بنداور دوست ہمیں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔مگر انہیںکہا جاتا کہ ننگے جانے کی اجازت نہیں،کپڑے پہن لو اور چلے جائو، چنانچہ مجبوراً وہ کپڑے پہنتے مگر جب شہر میں سے گزرتے تو اِدھر اُدھر کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں ان کا کوئی دوست انہیں اِس بے حیائی کی حالت میں دیکھ تو نہیں رہا، چنانچہ بڑی مشکل سے وہ شہر میں کچھ وقت گزار تے اور جب شہر سے باہر نکلنے لگتے توا بھی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہی ہوتے تو تہہ بند اُتار کر زور سے پھینک دیتے اور ننگے بھاگتے ہوئے چلے جاتے۔ تو جس چیز کی انسان کو عادت نہیں ہوتی اُس سے وہ گھبراتا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے سطح زمین پررہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستور غاروں میں رہتے رہے۔ جنس ایک ہی تھی، لیکن اس کا ایک حصہ تو سطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہؤا کہ جس طرح انسانِ کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسانِ ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے ’’جن‘‘ نام پانے کا مستحق ہؤا کیونکہ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے کے ہیں۔ پس اُس وقت نسلِ انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جوآدم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جن کہلاتے تھے۔آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے اُنہوں نے میدان میںجھونپڑیاں بنائیں، مکانات بنائے اور مِل جُل کر رہنے لگ گئے۔ پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کُھلی ہَوا میں رہنے سے گندم گُوںہو جانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے، اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے اور متمدّن اور مہذّب انسانوں کی طرح زمین پر مِل جُل کر رہتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے۔ اس کے مقابلہ میںدوسرے لوگ جو گو اِسی جنس میںسے تھے مگر چونکہ وہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور غاروں میں چُھپ کر رہے اس لئے وہ جن کہلاتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں بعد میںبھی بڑے آدمی جو اندر چُھپ کر رہتے ہیں انہیں جن کہا جانے لگا کیونکہ ان کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اندر نہیں جا سکتا۔ اسی طرح غیر اقوام کے افراد کو بھی ’’جن‘‘ کہا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میںصاف الفاظ میں غیر قوموں کے افراد کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ تفصیل کاوقت نہیں ہے اس لئے میں وہ آیات بیان نہیں کر سکتا، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے قرآن کریم سے ایسے قطعی اور یقینی ثبوت نکال لئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جن کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال ہؤا ہے۔مَیں نے اُن آدمیوں کا بھی پتہ لے لیا ہے جنہیں قرآن کریم میں ’’جن‘‘ کہا گیا۔اُن شہروں کابھی پتہ لے لیا ہے جن میں وہ جن رہتے تھے اور تاریخی گواہیاں بھی ا س امر کے ثبوت کے لئے مہیا کرلی ہیں کہ وہ ’’جن‘‘ انسان ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق نہ تھی۔
اب میں آیاتِ قرآنیہ سے اُن مسائل کے دلائل بیان کرتاہوں جن کا اِس وقت مَیں نے ذکر کیا ہے۔
آدم پہلا بشر نہیں
میرا پہلا دعویٰ یہ تھا کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو او رپھر اس
سے نسلِ انسانی کا آغاز ہؤا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ ۲۱؎ میں زمین میںایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوںاگر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہناچاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اَور لوگ پہلے سے زمین میںموجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے او ریہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم ؑسے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۲۲؎ یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اورفرشتوں کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتاہے کہ اے نسلِ انسانی! مَیں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیںکیا بلکہ مَیں نے تمہیں ترقی دی ،تمہارے دماغی قوٰی کوپایۂ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہو گئی تو مَیں نے ایک آدمی کھڑا کر دیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے کیونکہ اور پہلے ہؤا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہؤا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حُکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میںسے آدم کے متعلق ملائکہ کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے۔
آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے تھے
میرا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اور ابلیس درحقیقت نسلِ انسانی میں
سے ہی تھے اِس بات کا ثبوت بھی قران کریم سے ملتا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میںجہاں اس نے آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے۔ ۲۳؎ کہ آدم اور اُس کی بیوی دونوں کوشیطان نے ورغلادیا اور دھوکا دیا، نتیجہ یہ ہؤا کہ ہماری ناراضگی ہوئی اور ہم نے کہا کہ تم اے شیطان کے لوگو اور اے آدم کے ساتھیو! سارے کے سارے یہاں سے چلے جائو۔ جمع کا صیغہ ہے جو خداتعالیٰ نے استعمال کیا۔ اگر اس سے مراد صرف آدم اور حوا ہوتے تو وہ تو دو ہی تھے ان کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا۔انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا کہ تم دونوں چلے جائو مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے ساری کی ساری جماعت یہاں سے چلی جائے۔ آدم، حوا اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور ابلیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور سب سے کہتا ہے کہ اِس علاقہ سے چلے جائو کیونکہ اب تمہاری آپس میں عداوت ہو چکی ہے ۔ یہ آیت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے ہی تھے۔
ایک شُبہ کا ازالہ
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم میںایک اور مقام پر کی بجائے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں بھی قرآن کریم نے اس
مشکل کو آپ ہی حل کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ طٰہٰ میں فرماتا ہے۔
۲۴؎ کہ ہم نے کہا دونوں یہاں سے چلے جائو تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر دونوں سے مرادآدم اور حوا لئے جائیں تو اِس آیت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیں گے حالانکہ یہ معنے بِالبداہت غلط ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ دونوں سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے کہہ کر یہ حکم دیا ہے کہ اے آدم کے گروہ اور اے شیطان کے گروہ! تم دونوں اِس جگہ سے چلے جائو ۔ اب تم دونوں گروہ آپس میں ہمیشہ دشمن رہو گے ،پھر اس بات کا ایک اور ثبوت کہ اِن دو سے مراد دو گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا یہ بھی ہے کہ کے ساتھ کا لفظ بھی آتا ہے ، حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میں کبھی نہیں آسکتا۔ پس چونکہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئی ساتھی تھے اس لئے دونوں کے لئے کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ا سی طرح جہاں دشمنی کا ذکر ہے وہاں کے الفاظ ہیں اور کُمْ کے لفظ نے بھی جو تین یا تین سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے بتادیا ہے کہ جن کو نکلنے کا حُکم دیا ہے وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دو شخص۔
پھر اس آیت سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آدم کی نسل اور شیطان کی نسل دونوں نے ایک جگہ اکٹھا رہنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے شیطان کے ساتھیو اور اے آدم کے ساتھیو! تم دونوں نے دنیا میں اکٹھا رہنا ہے پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کی دشمنی سے بچتے رہنا اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ان آیات سے نکلتی ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ جنس نہیں تھے بلکہ ایک ہی جنس میں سے تھے چنانچہ سورۃ بقرہ میںہی اللہ تعالیٰ شیطان کے ساتھیوں اور آدم کے ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔۲۵؎ کہ اے آدم کے ساتھیو اور اے ابلیس کے ساتھیو! تم سب یہاں سے چلے جائو، مگر یاد رکھوکہ کبھی کبھی تمہارے پا س میرے نبی بھی آیا کریں گے جولوگ ان انبیاء کو مان لیں گے وہ ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ رہیں گے مگر وہ لوگ جو اُن کو نہیں مانیں گے وہ میری ناراضگی کے مورد ہونگے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہؤا کہ آدم کی اولاد کبھی شیطان کی ساتھی بن جایا کریگی اور کبھی شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جایا کر یگی کیونکہ اِس آیت سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور جب کہ نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ کبھی آدم کی اولاد کسی نبی کا انکار کر دے تو صاف معلوم ہؤا کہ یہ دونوں نسلیںآپس میںتبادلہ کرتی رہیں گی۔ کبھی شیطان کی نسل آدم کی نسل ہو جائے گی اور کبھی آدم کی نسل شیطان کی نسل ہو جائے گی کیونکہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے اس آیت سے ایمان لانا ممکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا ایمان لانا ممکن ہی نہ ہوتا تو ان کی طرف ہدایت کے آنے کے کوئی معنے نہ تھے۔
پھر سورہ اعراف میںاس مضمون کے بعد یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ اے آدم کی نسل اور اے ابلیس کی نسل! ۲۶؎ تم دونوں اسی زمین کے اندر زندہ رہوگے، یہیںمروگے اور اسی زمین سے تمہارا حشر ہو گا یعنی بنوآدم کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھی نہ صرف رہیں گے بلکہ بنوآدم کی طرح زمین پرزندگی بسر کریں گے، انہی کی طرح مریں گے اور زمین میں دفن ہونگے اور پھر انہی کی طرح ان کا قبور سے حشر ہو گا پس معلوم ہؤا کہ یہ جن کسی اور جنس کے لوگ نہیں بلکہ نسلاً یہ لوگ وہی ہیں جو بنو آدم ہیں کیونکہ ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ صاف بتا دیا ہے کہ جس طرح آدم کی نسل زمین میںزندہ رہے گی اسی طرح ابلیس اور اس کی نسل زمین میں زندہ رہے گی، جس طرح آدم کی نسل کھائے پئے گی اسی طرح ابلیس کی نسل کھائے پئے گی۔ جس طرح آدم کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہوگی اسی طرح ابلیس کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہو گی۔ اور پھر یہ بھی بتادیا کہ جب ہمارے انبیاء آئیں گے تو وہ اِن دونوں کو مخاطب کرینگے ،پھر جو لوگ انہیں مان لیںگے وہ آدم کی حقیقی اولاد کہلائیں گے اور جو لوگ نہیں مانیں گے وہ ابلیس بن جائیںگے پس معلوم ہؤا کہ آدم کے مقابلہ میں جو لوگ تھے خواہ انہیں ابلیس اور نسلِ ابلیس کہہ لو اور خواہ جن کہہ لو بہرحال جنس کے لحاظ سے وہ بشر ہی تھے۔فرق صرف اخلاق، تمدّن، اور شریعت کا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں میں آپس میں امتیاز کر دیا گیا۔
آدم اور جن کی بجائے انہیں مؤمن او رکافر کیوں نہ کہا گیا
اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے ان ناموں سے انہیں یادکیوں کیا؟ کیوں سیدھے سادھے الفاظ میںانہیں کافر اور مؤمن نہیں کہہ دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ کافر اور مؤمن ہے اور ان کے لئے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا اِنس اور جن تھا۔ آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک در باریک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدّن اور رہائشِ انسانی کے ساتھ تھا اور اُس وقت کے لوگوں کے لئے باریک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے۔ پس کافر ومؤمن کی جگہ جن اور اِنس دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیاجائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے۔ آج چونکہ انسانی دماغ بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے جب کسی کو مؤمن یاکافر کہا جاتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے مگر اُس زمانہ میںاگر انہیں کافر کہا جاتا اور بتایا جاتا کہ تم اس لئے کافر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کافر کس طرح ہو گئے ۔ پس اُس وقت اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کو مانا اور تمدّن کی زندگی کو قبول کر لیا اِنس رکھا گیا اور اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کی بات کو نہ مانا اور غاروں میں ہی چُھپے رہنے کا فیصلہ کرلیا جن رکھا گیا اور یہ ایسی بات تھی جسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ واقع میں ان میںسے کچھ لوگ زمین پر رہتے ہیں اور کچھ زمین کے اندر غاروں میں رہتے ہیں۔ پس جب انہیں جن کہا جاتا تو وہ کہتے ٹھیک ہے ہم واقع میں غاروں سے نہیں نکلنا چاہتے اور جب دوسروں کو جو سطح زمین پر رہتے ہیں اِنس کہا جاتا تو یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آ جاتی اور وہ کہتے کہ واقع میںوہ سطح زمین پر رہتے ہیںاور اس وجہ سے جن نہیں کہلا سکتے ۔پس جس طرح موجودہ زمانہ میں کافر اور مؤمن دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا ہے اسی طرح اُس زمانہ میں جن اور اِنس دوناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانہ میں اختلاف کی بنیاد تمدّن تھی۔ پس مؤمن وکافر کی جگہ اِنس وجن دو نام ان کے رکھے گئے تاکہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کردیا جائے اور بتایا جائے کہ اِنس وہ تھے جنہوں نے الٰہی حُکم کے مطابق باہمی اُنس اختیار کر کے متمدّن زندگی کی بنیاد رکھی اور جن وہ تھے جنہوں نے اس سے انکار کر کے اطاعت سے باہر رہنے اور تمدّنی زندگی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پس وہ جنہوں نے تمدّنی زندگی اختیار کرلی اور سطح زمین پر رہنے لگ گئے وہ اِنس کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پررہنے اور تمدّنی زندگی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ غاروں میں ہی رہیں گے وہ جن کہلائے۔
آج یورپ کے ماہرینِ آثارِقدیمہ اِس بات سے پُھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں ہزار تحقیق وتجسّس کے بعد یہ راز دریافت کرلیا ہے کہ ابتداء میں انسان غاروں میںرہا کرتے تھے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ایسے لوگوں کا نام جن رکھ کر بتا دیا کہ وہ غاروں میں رہا کرتے تھے۔
آثارِ قدیمہ سے قرآنی نظریہ کی تصدیق
آج پُرانے سے پُرانے آثارِ قدیمہ کو زمینوں میں سے کھود کھو د کر اِس بات کا
اعلان کیا جا رہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا۔ پھر بعد میں وہ سطح زمین پر رہنے لگا، مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسان پہلے جنّ بنا اور بعد میں انسان بنا۔ پہلے وہ غاروں میںرہا مگر بعد میں سطح زمین پر آ کر بسا۔ جب تک وہ غاروں میں رہا وہ جنّ نام کا مستحق تھا مگر جب وہ سطح زمین پر آکر بسا تو وہ آدم اور انسان کہلانے لگ گیا۔
لوگ سر دُھنتے ہیں اُن کتابوں کو پڑھ کر جوآج سے صرف سَو سال پہلے لکھی گئی ہیں اور وہ نہیں دیکھتے اُس کتاب کو جو آج سے تیرہ سَو سال پہلے سے یہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سَو سال پہلے سے اس ’’کیومین‘‘ (Caveman) کی خبر دیتا ہے جسے یورپ نے بارہ سَوسال بعد دریافت کیا ہے۔ ہمارے قرآن نے اس ’’کیومین‘‘ کا ذکر ’’جن‘‘ کے نام سے جس کے قریباً لفظی معنے ’’کیومین‘‘ کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کردیا تھا۔ پس وہ جس کا نام لوگوں نے ’’کیومین‘‘ رکھا ہے اُس کا نام قرآن نے ’’جن‘‘ رکھا ہے یعنی غاروں کے اندر چُھپ کر رہنے والا۔ جب اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا تو اس کا نام آدم ہؤا اور آدم کے لفظی معنے یہی ہیں کہ سطح زمین پر رہنے والا۔
اگر کہا جائے کہ ابلیس تو کہتا ہے کہ ۲۷؎ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے ، تو جب ان کی پیدائش مختلف اشیاء سے ہے تو وہ ایک کس طرح ہو گئے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک جگہ رہیں گے، ایک ہی جگہ مریں گے ، ایک ہی زمین میںدفن ہو نگے اوردونوں کی طرف خداتعالیٰ کے انبیاء آئیں گے جن کو قبول کر کے بعض دفعہ شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جائے گی اور انکار کر کے آدم کی اولاد شیطان کی اولاد بن جائے گی تو پھر وہی معنے اس آیت کے درست ہونگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ ان معنوں کو ترک کر تے ہوئے جو عام لوگ اس آیت کے سمجھتے ہیں ایک اور معنے بھی بن سکتے ہیں جن سے یہ آیت باقی تمام آیات کے مطابق ہو جاتی ہے اور قرآن کریم کی کسی آیت میں اختلاف نہیںرہتا۔
عربی زبان کا ایک محاورہ
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جوقرآن کریم میں بھی استعمال ہؤا ہے کہاِس سے یہ مراد نہیںہوتاکہ فلاں شخص فلاں مادہ
سے بنا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ امر اُس کی طبیعت میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میںیہ محاورہ سورۃ انبیاء میںاستعمال ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۸؎ کہ انسان جلدی سے پیداکیا گیا۔ اب جلدی کوئی مادہ نہیںہے جسے کُوٹ کُوٹ کراللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا ہو، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جواستعمال ہؤا اور اس کامطلب یہ ہے کہ انسان بہت جلدباز ہے اور اس کی فطرت میںجلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے۔جب پیشگوئیاں ہوتی ہیں تو کئی لوگ اِس گھبراہٹ میں کہ نہ معلوم یہ پیشگوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں، مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی امر کا اس جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے تم ہمارے انبیاء کی پیشگوئیاں سنتے ہی اُسے جھوٹا جھوٹا کیوںکہنے لگ جاتے ہو؟ تم جلدی مت کرو ہماری پیشگوئیاںبہرحال پوری ہو کر رہیںگی۔ اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲۹؎ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضُعف سے پیداکیا۔ اب بتائو کہ کیا ضُعف کوئی مادہ ہے؟ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے فطری طور پر سخت کمزور ہوتا ہے ۔پھر ہم بچے کو جوان بناکر اس کے قویٰ کومضبوط کرتے ہیں ، پھر اور بڑھا کر اُسے بُڈھا کر دیتے ہیں پس یہاں سے مرادبچے کے قویٰ کی کمزوری اور اُس کی دماغی طاقتوں کا ضُعف ہے اور اُس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے نہ یہ کہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے۔اِن دونوں آیتوں سے کے معنے بالکل واضح ہوجاتے ہیںاور انہی معنوں میںابلیس اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ ۔۳۰؎ اے اللہ! تو نے میری طبیعت میں تو آگ کا مادہ رکھا ہے اور اُس میں طین کا۔ یعنی تونے میری طبیعت تو ناری بنائی ہے اور آدم کی طینی، یہ تو غلامِ فطرت ہے اور یہ تو ممکن ہے دوسرے کی بات مان لے لیکن مَیں جو ناری طبیعت رکھتا ہوں دوسرے کی غلامی کس طرح کر سکتا ہوں۔ کا مطلب یہ ہے میں تو حُرّ ہوںدوسرے کی غلامی نہیں کر سکتا یہی کا دعویٰ ہے جو آجکل انارکسٹ وغیرہ کرتے رہتے اور کہتے ہیں ہم سے دوسرے کی غلامی برداشت نہیںہو سکتی ہم تو بغاوت کریںگے اور دوسرے کی غلامی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ دنیا پر نگاہ دَوڑا کر دیکھ لو آج بھی تمام دنیا میں کے نعرے لگ رہے ہیں۔ انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے ناری طبیعت بنایا ہے اور آدم کی طبیعت طینی ہے۔ مجھے تو کوئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے مَیں توآدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی مان نہیں سکتا۔
اُردو میںبھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے۔اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی دِیا جل رہا ہوتا ہے یاآگ کے شُعلے اُس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں؟ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان نہیں سکتا۔ اُسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے۔انگریزی میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ’’فائربرینڈ‘‘ (FIREBRAND) ہے مطلب یہ کہ وہ شرارتی آدمی ہے حالانکہ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ جو چیز جل رہی ہو۔ مگر مفہوم یہ ہے کہ فلاں شخص ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتا ہے۔ یہی معنے اس آیت کے بھی ہیں اور ابلیس کہتا ہے کہ خدایا! میری طبیعت اطاعت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بھی روزانہ ایسے واقعات دیکھنے میںآتے ہیں ۔ایک شخص کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو بعض لوگ چاہتے ہیں اِن کی آپس میں صلح ہو جائے ۔ اب ایک شخص تو صلح کے لئے تیار ہوتا ہے مگر دوسرے کو جب صلح کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس سے صلح کرنا کسی صورت میںبرداشت نہیںکر سکتا۔ میں تو ایک لفظ بھی سننا نہیںچاہتا ۔وہ ناری طبیعت ہوتا ہے اور اسی طبیعت کے اقتضاء کے ماتحت اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پرلاتا ہے لیکن دوسراجس کی طینی طبیعت ہوتی ہے وہ کہتاہے کہ میں تو ہر وقت صلح کے لئے تیار ہوں ۔ گویا جس طرح گِیلی مٹی کو جس سانچے میںچاہو ڈھال لو اسی طرح اس سے جوکا م چاہو لے سکتے ہو تو کے یہ معنے ہیں کہ میں کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی نسل ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پرپہنچی کہ اس میں مادۂ تعاون وتمدّن پیداہو گیا اور اس میں یہ طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ دوسرے کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر اُٹھائے تو خداتعالیٰ نے ان میںسے ایک بہترین آدمی کا انتخاب کر کے اُس پر اپنا الہام نازل کیا اور اُسے کہا کہ اب نظام اور تمدّن کی ترقی ہونی چاہئے اور انسانوں کو غاروں میں سے نکل کر سطح زمین پر مِل جُل کر رہنا چاہئے۔
آدم کی مخالفت
جس وقت آدم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیاہو گا کہ غاروں کو چھوڑو اورباہر نکلو تو ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُس وقت کس قدر عظیم الشان شور برپا
ہؤا ہو گا۔ لو گ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے، سٹھیاگیا ہے، اِس کی عقل جاتی رہی ہے یہ ہمیں غاروں سے نکال کر سطح زمین پربسانا چاہتاہے اور اِس کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں شیرکھا جائیں ، چیتے پھاڑ جائیںاور ہم اپنی زندگی کو تباہ کرلیں اور اپنے جیسے دوسرے آدمیوں کے غلام بن کر رہیں۔مگر بہرحال کچھ لوگ آدم کے ساتھ ہو گئے اور کچھ مخالف رہے۔ جوآدم کے ساتھ ہو گئے وہ طینی طبیعت کے تھے ا ور جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے۔طین کے معنے ہیںجو دوسری شَے کے نقش کو قبول کر لے۔ پس آدم کی طبیعت طین والی ہوگئی تھی یعنی وہ نظام کے ماتحت دوسرے کی بات مان سکتا تھا جوفریق اس اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیار نہ تھا اس نے اس کی فرمانبرداری سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اعلیٰ ہیں ہم ایسی غلطی نہیں کر سکتے، یہ تو غلامی کی ایک راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی جھگڑا ہے جو آج تک چلا آ رہا ہے۔
موجودہ زمانہ کے ناری طبیعت انسان
آج دنیا متمدّن ہے، آج دنیا مہذّب ہے، آج دنیا مِل جُل کر رہتی ہے مگر آج بھی
ناری طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دوسرے کی کیوں اطاعت کریں ۔یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جو حضرت خلیفہ اوّل کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے اور یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم ایک بچہ کی بیعت نہیں کر سکتے۔ کَل کا بچہ ہو اور ہم پرحکومت کرے یہ ہم سے کبھی برداشت نہیںہو سکتا ۔وہ جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے مگرآپ لوگ طینی طبیعت کے تھے۔آپ نے کہا ہم آدم کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت دوسروں کی اطاعت کرتے چلے آ ئے ہیں اب خلیفۂ وقت کی اطاعت سے کیوں منہ موڑیں۔ مصری صاحب نے بھی اسی ناری طبیعت کی وجہ سے میری مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ میں موجودہ خلیفہ کی اطاعت نہیں کر سکتا اسے معزول کر دینا چاہئے تو آج تک یہ دونوں فطرتیں چل رہی ہیں۔ناری مزاج والے ہمیشہ نظام سے بغاوت کرتے ہیںاور اپنے آپ کو حُرّکہتے ہیںمگر طینی مزاج والے نظام کے ماتحت چلتے اور اپنے آپ کو کامل انسان کہتے ہیں دونوں اصولوں کاجھگڑا آج تک چلا جا رہا ہے،حالانکہ دونوں اِسی زمین میں رہتے، اِسی میںمرتے اور اِسی میںدفن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی طرف نبی آتے اور ان سے خطاب کرتے ہیں مگر قاعدہ ہے کہ پہلے تو انبیاء کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ تعلیم دنیا کی اور تعلیموں پرغالب آجاتی ہے تو مُنکر بھی اسے قبول کرلیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب ایک خدا کی تعلیم دینی شروع کی تو عیسائی اِس تعلیم پر بڑا ہنستے اور کہتے کہ ایک خدا کس طرح ہو گیا؟ زرتشتی بھی ہنستے ،مشرکینِ مکہ بھی ہنستے، مگر آہستہ آہستہ جب اس تعلیم نے دلوں پرقبضہ جمانا شروع کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی قوم بھی نہیں جو خداتعالیٰ کی وحدانیت کی قائل نہ ہو۔ حتّٰی کہ عیسائی بھی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اِس بات کے قائل ہیںکہ خدا ایک ہی ہے تو طینی اور ناری مزاج والوںکا جھگڑا آج تک چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی تعلیم آتی ہے تو کچھ لوگ فرمانبرداری کرتے ہیںاور کچھ غصّہ سے آگ بگولا ہو جاتے ہیںاور وہ مخالفت کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ آگ کامحاورہ بھی استعمال ہؤا ہے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک چچا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۳۱؎ کہ آگ کے شُعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا۔ اب خدا نے اُس کانام ہی آگ کے شُعلوں کا باپ رکھ دیا مگر اِس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس سے آگ نکلتی تھی،بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ شیطانی قسم کے لوگوں کاسردار تھا (بعض مُفسّر اس نام کو ُکنیت بھی قرار دیتے ہیں اور بعض سفید رنگ کی طرف اشارہ مرادلیتے ہیں) پس یا ۳۲؎ وغیرہ الفاظ سے اشارہ انسان کی اس حالت کی طرف ہے جب کہ وہ ابھی متمدّن نہیں ہؤا تھا اور شریعت کا حامل نہیں ہو سکتا تھا۔
حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف
ایک اور زبردست انکشاف قرآن کریم آدمِ انسانیت
کی نسبت یہ کرتا ہے کہ جنت میں لائے جانے سے پہلے ہی اُس کے پاس اُ س کی بیوی تھی، چنانچہ قرآن کریم میںآدم کی بیوی کی پیدائش کاکوئی ذکر ہی نہیں،بلکہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی عام طریق پر اس کے ساتھ تھی جیسے مردوعورت ہوتے ہیں۔ چنانچہ:-
(۱) سورۃ بقرہ میںجہاں آدم اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں آدم کی بیوی پیدا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ محض یہ حکم ہے ۳۳؎ ا ے آدم !جا تو اور تیری بیوی تم دونوںجنت میںرہو۔ یہ نہیں کہا کہ آدم اکیلا تھا اور اُس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا بلکہ آیت کا جو اُسلوبِ بیان ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی پہلے سے موجود تھے۔ اُنہیں صرف یہ حُکم دیدیا گیا کہ تم فلاں جگہ رہو۔
(۲) سورۃاعراف میں بھی صرف یہ ذکر ہے کہ۳۴؎
(۳) تیسری جگہ جہاں آدم کی بیوی کاذکر ہے وہ سورۃ ٰطہٰ ہے مگر اس میںبھی صرف یہ ذکر ہے کہ ۳۵؎ یہ ذکر نہیں کہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کی بیوی کو بھی پیدا کیا ہو۔
اِن تینوں جگہوں میںجہاںآدم کی پیدائش کاذکر کیا گیا ہے اس کی بیوی کا ذکر محض ایک عام بات کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ اگر آدم اکیلا ہوتا اور حوا کو اُس کی پسلی سے پیداکیا گیا ہوتا تو اس کی بیوی کا ذکرخاص اہمیت رکھتا تھا اور یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ آدم کی ایک پسلی نکال کر اسے عورت بنادیا گیا بیشک ایک حدیث میں ایسا ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگراس کا مطلب میرے کسی مضمون میں آگے چل کر بیان ہوگا۔ ہاں سورۃ نساء رکوع ۱، سورۃ اعراف رکوع۲۴سورۃ الزمر رکوع۱ میں ایک بیوی کی پیدائش کا ذکر ہے ایک جگہ لکھا ہے اور دوجگہ لکھا ہے اور ان الفاظ سے یہ شُبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر اِن تینوں جگہ کے الفاظ آتے ہیں آدم کا نام نہیں ہے کہ یہ شُبہ کیا جا سکے کہ اِن آیات میںآدم اور حوا کی پیدائش کا ذکر ہے چنانچہ ان میں سے ایک حوالہ سورہ نساء کا ہے اس میںاللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے کہ۔ ۳۶؎ کہ اے انسانو! اپنے اُس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیااور اُس سے اُس کی بیوی کو بنایا۔ ان الفاظ میںآدم اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر ہی نہیں صرف کے الفاظ آتے ہیں مگر ان کامفہوم بھی جیسا کہ مَیںآگے چل کر بتائوں گا اَور ہے ، بہرحال آدم اور حوا کایہاں کوئی ذکر نہیں۔ یہی حال سورہ اعراف اور سورہ زمر کی آیات کاہے ان میں بھی کے الفاظ ہیں۔آدم کے الفاظ نہیں، مگر ان تینوںآیات میںسے جو ہم معنی ہیں سورۃ اعراف کا حوالہ اِس بات کو وضاحت سے ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نہ کہ آدم ،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳۷؎ فرماتا ہے۔ و ہ خدا ہی ہے جس نے تمہیںایک جان سے پیداکیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ اُس سے تعلق رکھ کر وہ اطمینان اور سکون حاصل کر ے، جب اُس نفسِ واحد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اُسے ہلکاسا حمل ہو گیا مگر جب اس کا پیٹ بھاری ہو گیا اور دونوں کو معلوم ہو گیا کہ حمل قرار پکڑ گیا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کی الٰہی! اگر تونے ہمیں تندرست اور خوبصورت بچہ عطا کیا تو ہم تیرے ہمیشہ شکر گزار رہیںگے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا اور تندرست بچہ دیدیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بعض اور لوگوں کوشریک بنالیا اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُور تر چلے گئے۔
اب بتائو کیا اِن الفاظ میں آدم اور حوا کا ذکر ہے یا عام انسانوں کا۔ کیاآدم اور حوا نے پہلے یہ دعا کی تھی کہ ہمیں ایک صالح لڑکا عطا فرمانا اور جب وہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے مشرکانہ خیالات کا اظہار کیا اور وہ بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے لگ گئے؟ انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا اور آدم جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ایسا کرہی نہیں سکتے تھے۔ پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاںآدم کاذکر نہیں بلکہ آدمی کا ذکر ہے اور انسانوں کے متعلق ایک قاعدہ کا ذکر ہے کسی خاص آدمی کا بھی ذکر نہیں اور چونکہ سب آیات کے الفاظ ایک سے ہیں اس لئے معلوم ہؤا کہ سب جگہ ایک ہی معنے ہیں۔
نفسِ واحدہ سے پیدائش کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک ایک
انسان سے قبائل وخاندان چلتے ہیںاور بیوی اسی میں سے ہونے کے معنے اسی کی جنس میں سے ہونے کے ہیںاور بتایا ہے کہ ایک ایک آدمی سے بعض دفعہ خاندان کے خاندان چلتے ہیں اگر ماں باپ مُشرک ہوں تو قبیلے کے قبیلے گندے ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نیک ہوں تو نسلاً بعد نسلٍ ان کے خاندان میںنیکی چلتیجاتی ہے۔ پس اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد و! جب تم شادی کرو تو احتیاط سے کام کیا کرو ، اور جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اُس وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیا کریں، اگر وہ خود مُشرک اور بدکار ہونگے تو نسلوں کی نسلیں شرک اور بدکاری میں گرفتار ہو جائیں گی اور اگر وہ خود موحّد اور نیکی وتقویٰ میںزندگی بسر کرنے والے ہونگے تو نسلوں کی نسلیں نیک اور پارسا بن جائیں گی۔
اِن معنوں کے بعد اگر آدم پر بھی ان آیات کو چسپاں کیا جائے تو بھی یہی معنے ہونگے کہ آدم کی بیوی اسی کی جنس میںسے تھی۔یعنی طینی طبیعت کی تھی ناری طبیعت کی نہ تھی اور ممکن ہے اِس صورت میںاِدھر بھی اشارہ ہو کہ آدم کو حکم تھا کہ صرف مؤمنوں سے شادی کریں غیروں سے نہیں۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ آدم کے وقت میںاَور مرد وعورت بھی تھے اور آدم کی بیوی انہی میں سے تھی یعنی وہ آدم کی ہم مذہب تھی تو وہ سوال کہ آدم کی اولادشادیاں کس طرح کرتی ہو گی؟ آپ ہی آپ دُور ہو گیا۔ جب مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں توشادیوں کی دِقّت نہیں ہو سکتی تھی، ہاں اگر اس سے پہلے کا سوال ہو توآدم سے پہلے بشر تو شریعت کے تابع ہی نہ تھے، نہ وہ شادی کے پابند تھے نہ کسی اور امر کے۔کیونکہ وہ تو نظام سے آزاد تھے اور جب وہ نظام سے آزاد تھے تو ان کے متعلق کوئی بحث کرنی فضول ہے۔بحث تو صرف اس شخص کے متعلق ہو سکتی ہے جو شریعت کا حامل ہو اور عقلِ مدنی اُس میں پیدا ہو چکی ہو، اور ایسا پہلا وجو د ابوالبشر آدم کا تھا اور ان کے بعد ان کے اَتباع کا وجود تھا ان کے لئے اخلاق وشریعت کی پابندی لازمی تھی۔ ان سے پہلے انسان نیم حیوان تھا اور ہر اعتراض سے بالا اور ہر شریعت سے آزاد ۔
عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم
اب میں اُس حدیث کو لیتا ہوں جس میںیہ ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا
کی گئی ہے۔حدیث کے اصل الفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہیں یہ ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۸؎ یہ الفاظ نہیں ہیں کہ خُلِقَتْ حَوَّاء مِنْ ضِلْعٍ جس طرح قرآن کریم کی اُن آیات میں جن میں خَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَا کے الفاظ آتے ہیں ہر عورت کا ذکر ہے حوا کا ذکر نہیں اسی طرح حدیث میں بھی حوا کا کہیں نام نہیں بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ اگر یہ الفاظ ہوتے کہ خُلِقَتْ زَوْجَۃُ اٰدَمَ مِنْ ضِلْعٍ تب تو یہ کہا جا سکتا کہ حوا جو آدم کی بیوی تھیںوہ پسلی سے پیدا ہوئیں مگر جب کسی حدیث میںبھی ا س قسم کے الفاظ نہیں آتے بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئیں تو محض حوا کوپسلی سے پیدا شدہ قرار دینا اور باقی عورتوں کے متعلق تاویل سے کام لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیں کہ اَلنِّسَائُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۹؎ کہ ساری عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔ پس جس طرح قرآنی آیات میں تمام عورتوں کاذکر ہے اسی طرح احادیث میں بھی تمام عورتوں کاذکر ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی۔ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پسلی سے پیدا ہونے کے کیا معنے ہیں؟کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی عورت پسلی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں پیدا ہوتی ہیں پس جب کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی محاورہ کے مطابق ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور اس محاورہ سے صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍٍ سے صرف یہ مراد ہے کہ عورت کو کسی قدر مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعاً خواہشمند ہوتی ہے، چنانچہ علمائے احادیث نے بھی یہ معنے کئے ہیں اور مجمع البحار جلد دوم میںجو لغتِ حدیث کی نہایت مشہور کتاب ہے ضِلْعٍٍکے نیچے لکھا ہے۔ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ اِسْتِعَارَۃٌ لِلْمُعَوَّجِ اَیْ خُلِقْنَ خَلْقاً فِیْھَا ا لْاِعْوِجَاجُ… خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۴۰؎ ایک محاورہ ہے جو کجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میںایک قسم کی کجی ہوتی ہے یہ مطلب نہیںکہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر ضروررقابت ہوتی ہے۔مرد کہے یوںکرنا چاہئے تو وہ کہے گی یوں نہیںاسی طرح ہونا چاہئے اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کرکے اور یہ اس کی ایک ناز کی حالت ہوتی ہے اور اس میںوہ اپنی حکومت کا راز مستور پاتی ہے۔
تمدّنی ترقی کاایک عظیم الشان گُر
غرض خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ کے یہی معنے ہیںکہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی، ان
میںمحبت بھی ہو گی، پیار بھی ہو گا ، تعاون بھی ہو گا،قربانی کی روح بھی ہو گی ، مگر روزمرہ کی زندگی میںان میںآپس میں نوک جھوک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی،یعنی اگر تم چاہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائیگا، اُسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میںیہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میںسے نکل جائے گا۔ یہ تمدّن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمایا۔آپؐ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا، چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے اور آپؐ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی۔ حضرت عمرؓ کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی۔ حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس ایک گائوںتھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے، اُنہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہؤا تھا اور آپس میںانہوں نے یہ طے کیا ہؤا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سُن کر حضرت عمرؓ کو جا کر سُناد یتا اور کبھی حضرت عمرؓ مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیںبتا دیتے، غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتاتا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ الہام ہؤا ہے۔ آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی۔ ایک دن وہ انصاری مدینہ میںآیا ہؤا تھا اور حضرت عمرؓ پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیااور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں، میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میںنے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ اُن دنوں یہ افواہ زوروں پرتھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے، حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے سمجھا اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہؤا باہرنکلا اور میںنے اُس سے پوچھا کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیںگھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچا ا ور آپؐ سے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! آپؐ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں۔ مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! لوگ کہتے ہیںآپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں میں نے کسی کو طلاق نہیںدی۔ مَیں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ پھر مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! آپؐ کو میں ایک بات سنائوں؟ آپ نے فرمایا ہاں سنائو، مَیں نے کہا، یَارَسُوْلَاللّٰہِ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو بات نہیں کرنے دیتے تھے، لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میںآئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر کبھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں تُجھے سیدھا کر دونگا تو وہ مجھے کہنے لگی، تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے مَیں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویاں آپ کومشورہ دے لیتی ہیں، پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیںدیتا اور ڈانٹتا ہے۔مَیں نے کہا ہیں! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقعہ میںایسا ہوتا ہے ۔ میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں۔ یہ بات سُن کر مَیںاپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی۔ اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن تُجھے طلاق دیدیں گے۔حضرت عائشہ ؓپاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر کے معاملات میںدخل دینے والا، چلویہاں سے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بات سُن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا ۴۱؎ اورحضرت عمرؓ کی بھی اِس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے۔
تو بعض قوموں میںیہ رواج ہے کہ وہ سمجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیںکہ وہ مرد کے مقابلہ میںبولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی۔ اسے کوئی بات کہو وہ اس میںاپنا مشورہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے، پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچا ہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے۔
عورتوں کے حقوق
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کُچلنے کی کوشش نہ کیا کرو۔ اس کے اندر یہ ایک
فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہؤا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چُپ کرادوگے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔
پہلے دَورِ انسانی کا نظامِ قانون
قرآنی آثارِ قدیمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام والی ابتدائی حکومت کا قانون کیا تھااور معلوم
ہوتا ہے کہ پہلا دَورِ انسانی صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا۔ا س طرح کہ:-
(۱) لوگوں میں خداتعالیٰ کا اجمالی ایمان پیداہو گیا تھا اور انسان کو الہام ہونا شروع ہو گیا تھا جیسا کہوغیرہ الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۲) انسانوںمیں عائلی زندگی پیدا کرنے کا حُکم دیا گیا تھا وہ زندگی جو قبیلوں والی زندگی ہوتی ہے اور انہیں کہا گیا تھا کہ ایک مقام پررہو اور اکٹھے رہو چنانچہ یہ امرکے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۳) آدم پر اور لوگ بھی ایمان لائے اور ایک جماعت تیار ہو گئی تھی جو نظام کے مطابق رہنے کیلئے تیار تھی۔اِس کا ثبوت سورۃ ٰطہٰ کی آیت ہے کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور اُس کی بیوی۔ اور کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ ایک جماعت تھی۔
(۴) اور کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک سبزیوں، ترکاریوں کے اُگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہؤا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جُھنڈ پیداکر دئیے اور انہیں حُکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہو۔ شاید بعض لوگ کہیں کہ اتنے بڑے جُھنڈ کہاں ہو سکتے ہیں جس پرسینکڑوں لوگ گزارہ کر سکیں؟ سو ایسے لوگ اگر جنوبی ہند کے بعض علاقے دیکھیں تو اُن پر کے لفظ کی حقیقت واضح ہو جائے ۔وہاں بعض بیس بیس مِیل تک شریفے کے درخت چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ جن دنوں شریفہ پکتا ہے روٹی کھانی بِالکل چھوڑ دیتے ہیںاور صبح شام شریفے ہی کھاتے رہتے ہیں۔ اب تو گورنمنٹ انہیں نیلام کر دیتی ہے پہلے حکومت بھی ان کو نیلام نہ کیا کرتی تھی اور لوگ مُفت پھل کھاتے تھے۔اِسی طرح افریقہ میں آموں کے جنگل کے جنگل پائے جاتے ہیں، کیلے بھی بڑی کثرت سے ہوتے ہیں، اِسی طرح ناریل وغیرہ بھی بہت پایا جاتا ہے، اسی طرح بعض علاقوں میںسیب، خوبانی وغیرہ خودرَوکثرت سے پائے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے ہی مقام کو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں حُکم دے دیا کہ وہاں جا کر ڈیرے لگا دو اور خوب کھائو پیو۔ خلاصہ یہ کہَ وغیرہ الفاظ سے جو قرآن کریم میںاستعمال ہوئے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عام طور پر لوگوں کی غذا پھل تھے۔
(۵) پانچویںبات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس وقت ابھی کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اِس پر آیت ۴۲؎ شاہد ہے وہ چٹائیوں کی طرح بھوج پترّ وغیرہ لپیٹ لیتے تھے اور رہائش کے لئے انہی کے خیمے بنا لیتے تھے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی شکار کرنے کے طریق بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور کھالوں کا استعمال بھی شروع نہ ہؤا تھا بلکہ چٹائیاں بطور لباس اور شاید بطورمکان کے استعمال ہوتی تھیں، اگر شکار کرنے کے طریق ایجاد ہو چکے ہوتے تو وہ کھالوں کا لباس پہنتے۔
(۶) اُن میںتمدّنی حکومت قائم کی گئی تھی اور تمدّنی حکومت کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ایک دوسرے کی (۱) کھانے کے معاملہ میں مدد کریں(۲) پینے کے معاملہ میں مدد کریں(۳) عُریانی کو دُور کرنے کے معاملہ میں مدد کریںاور(۴) رہائش کے معاملہ میں مدد کریں۔ چنانچہ فرمایا۔۴۳؎ کہ تمہارے لئے ا س بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم جنت میںرہنے کی وجہ سے بھوکے نہیں رہوگے،پیاسے نہیںرہو گے، ننگے نہیںرہو گے اور دُھوپ میں نہیں پھرو گے گویا کھانا، پانی ، کپڑا اور مکان یہ چار چیزیں تمہیں اس تعاونی حکومت میںحاصل ہونگی ان الفاظ سے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں یہ مراد نہیں کہ انہیں بھوک ہی نہیںلگتی تھی کیونکہ اگر انہیں بھوک نہیں لگتی تھی تو ۴۴؎ کے کیا معنے ہوئے، جب خدا نے اُن کی بھوک ہی بند کر لی تھی تو اس کے بعد انہیں یہ کہنا کہ اب خوب کھائو پیو بالکل بے معنی تھا۔ پسکے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھوک لگتی تھی مگر ساتھ ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ انہیں کہا گیاتھا کہ باغ ساری کمیونٹی کی ملکیت ہے مگر دیکھو! قاعدہ کے مطابق کھائو پیو۔ اگر کسی کو زیادہ ضرورت ہے تووہ زیادہ لے لے اور اگر کسی کو کم ضرورت ہے تو وہ کم لے لے۔ پس اُس نئے نظام کی تفصیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ا گر اِس نئے نظام کے ماتحت رہو گے تو تمہیں یہ یہ سہولتیں حاصل ہونگی۔
(۷) قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دئیے گئے تھے چنانچہ آیت ۴۵؎ اس پر دال ہے مگر یہاں کُل کے معنے ضرورت کے مطابق ہیں، جیسا ہُد ہُد ملکہ سبا کے متعلق کہتا ہے ۴۶؎ کہ ملکہ سبا کے پاس سب کچھ موجود ہے حالانکہ جب اُ س نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا کہ میرے پاس تو اِس سے بھی بڑھ کر چیزیں ہیں مَیں ان تحفوں سے کیونکر متأثر ہوسکتا ہوں۔پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے پاس ملکہ سبا سے بڑھ کر مال ودولت اور سامان موجود ہے ا ور اس کے باوجود ہُد ہُد کہتا ہے کہملکہ سبا کو ہر چیز میسّر تھی تو یہ اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ سے یہ مراد نہیں تھی کہ ملکہ سبا کو ہر نعمت میسّر تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ اس کی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہوسکتی تھی وہ تمام چیزیں اُ سے حاصل تھیں اسی طرح سے یہ مراد ہے کہ اُس وقت جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ تمام آدم کو سکھادئیے گئے مثلاً یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے، یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے کھا لے تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اسی طرح طاقت کی بعض دوائیں الہامی طور پر بتا دی گئی ہوں۔اسی طرح بعض اخلاقی احکام بھی حضرت آدم علیہ السلام کو الہاماً بتائے گئے ہوں۔
(۸) آٹھویں انہیں ایک واجب الاطاعت امیر ماننے کا بھی حکم تھا، جیسا کہ۴۷؎ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۹) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میںبعض ایسے احکام بھی نازل ہوئے تھے جن میں یہ ذکر تھا کہ تمہیںبعض جرائم کی سزا بھی دینی چاہئے جیسے قتل وغیرہ ہیں۔ اس امر کا استنباط۴۸؎ کے الفاظ سے ہوتا ہے۔ یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اب دنیا میںایک عجیب سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ بعض آدمیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کو مارڈالیں، جیسے ہر گورنمنٹ آجکل قاتلوںکو پھانسی دیتی ہے مگر گورنمنٹ کے پھانسی دینے کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی اور قتل کر دیتا ہے تو اُسے سخت مُجرم سمجھا جاتا ہے۔فرشتوں کے لئے یہی بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے کہا، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیںآئی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب آدم جب کسی کو قتل کی سزا میں قتل کر دے گا تو اس کایہ فعل اچھا سمجھا جائے گا۔کوئی اور گھر سے نکال دے تو وہ مُجرم سمجھا جاتا ہے ، لیکن اگر آدم کسی کو جلا وطنی کی سزا دے گا تو یہ جائز سمجھا جائے گا۔ا ِس زمانہ میںروزانہ ایسا ہی ہوتا ہے گورنمنٹ مجرموں کو پھانسی پر لٹکاتی ہے مگر کوئی اُسے ظالم نہیں کہتا، وہ لوگوں کو جلاوطنی کی سز ا دیتی ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ گورنمنٹ نے بُرا کیا لیکن اُس زمانہ میں یہ ایک نیا قانون تھا اور فرشتوں کیلئے قابلِ حیرت۔ پس فرشتے بطور سوال اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک جائز صورت بھی پیدا کرلی گئی ہے یا پہلے تو دوسروں کو اپنے گھروں سے نکالنا جُرم سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کی ایک جائز صورت بھی نکل آئی ہے اور آدم جب یہی فعل کرے گا تو اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اگلی آیت میںاُ ن کے اسی سوال کا جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ، دنیا میںنظام کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سزائیں دی جائیں اگر ان کو سزائیں نہ دی جائیں تو کارخانۂ عالَم بالکل درہم برہم ہو جائے تو کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جرائم کی سزا بھی مقرر ہو چکی تھی۔
(۱۰) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت شادی کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے کیونکہ آدم کی بیوی کا ذکر کیا گیا ہے، گویا مرد وعورت کے تعلقات کو ایک قانون کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی آثارِ قدیمہ کا خلاصہ
خلاصہ یہ کہ قرآنی آثارِ قدیمہ نے ابتدائے خَلق کا ذکر یوں
کیا ہے کہ مخلوق خالق کے حُکم سے بنی ہے۔ پہلے باریک ذرّات تیار ہوئے، پھر پانی نے الگ شکل اختیار کی پھر وہ خشک ذرّات سے مرکّب ہؤا، اور ایک قوتِ نامیہ پیدا ہوئی۔ اس سے مختلف تغیّرات کے بعد حیوان پیدا ہؤا، حیوان آخر نُطفہ سے پیدا ہونے والا وجود بنا یعنی نر ،مادہ کا امتیاز پیدا ہؤا، ا ِس کے بعد ایک خاص حیوان نے ترقی کی اور عقلی حیوان بنا۔مگر عقل تھی مگر تھاناری، تمدّن کے قبول کرنے کی طاقت اس میںنہ تھی ،غاروں میں رہتا تھا۔ اس کے بعد ایساانسان بنا جو تمدّن کا اہل تھا اسے الہام ہونا شروع ہؤا اور وہ پہلا تمدّن صرف اتنا تھا کہ (۱) نکاح کرو (۲) قتل نہ کرو(۳) فساد نہ کرو(۴) ننگے نہ رہو(۵) ایک دوسرے کی کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے معاملہ میں مدد کرو (۶) اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو (۷) ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کر لو اور اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اگر تم اس کے کسی حکم کو توڑو تو تم سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہو۔
یہ اُس وقت کی گورنمنٹ تھی اور یہی اس گورنمنٹ کا قانون تھا اور یہ علم جو میں نے قرآن کریم سے اَخذ کر کے بیان کیا ہے ایسا واضح ہے کہ موجودہ تحقیق اِس سے بڑھ کر کوئی بات بیان نہیں کر سکتی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کے متعلق کوئی تاریخ ایسا علم مہیا نہیں کر تی جیسا علم کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔ڈارون تھیوری پر اہل یورپ کو بہت کچھ ناز ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈارون تھیوری بھی ا س کے مقابلہ میںنہیں ٹھہر سکتی۔ وہ نہایت ہی بیوقوفی کی تھیوری ہے جو اہلِ مغرب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، میں ہمیشہ اس تھیوری کے پیش کرنے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ اچھا جس چیز سے انسان پہلے بنا تھا اُس چیز سے اب کیوں نہیں بن سکتا؟ میںنے دیکھا ہے جب بھی میں یہ سوال کروں وہ عجیب انداز میںسرہِلا کر گویا کہ میں اس تھیوری سے بالکل ناواقف ہوں کہہ دیتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ تغیّر لاکھوں بلکہ کروڑوں سال میں ہؤا ہے۔ میں انہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میںجو جانور موجود ہیں ان پر بھی لاکھوں کروڑوں سال گزر چکے ہیں پھر وہ تغیّر کیوںبند ہو گیا ہے؟ اس میںشک نہیں کہ آدم سے لے کر اِس وقت تک لاکھوں کروڑوں نہیںہزاروں سال گزرے ہیں، لیکن حیوانات آدم کے زمانہ سے تو شروع نہیں ہوئے وہ تو لاکھوں کروڑوں سال ہی سے موجود ہیں اور آدم کے بعد کے زمانہ نے اس میں کسی قدر زیادتی ہی کی ہے، پس لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جو تغیّر ہونا ضروری تھا وہ آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ ہزاروں سال پہلے ہؤا تھا،کیونکہ زمانہ اس کے بعد ممتد ہو رہا ہے ُسکڑ نہیں رہا۔بلکہ حق یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کے بعد جو تغیّر حیوانات میںہؤا تھا وہ پہلی دفعہ کے بعد جاری ہی رہنا چاہئے تھا کیونکہ لاکھوں کروڑوں سالوں بعد جن تغیّراتسے بشر کا مورثِ اعلیٰ جانور پیدا ہؤا تھا اگلی صدی میںاور اس سے اگلی صدی میںاور بعد کی بیسیوں اور صدیوں میں بقیہ جانوروں پر اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس قدر کہ پہلے تغیّر کے وقت گزرا تھا ۔پس اگر اس قسم کا تغیر ہؤ ا تھا جس کا ذکر ڈارون کے فلسفہ کے قائل کرتے ہیںتو بعد میں وہ تغیر بند نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ جاری رہنا چاہئے تھا سوائے اس صورت کے کہ سابق کے تغیّراتایک بِالا رادہ ہستی نے ایک خاص غرض اور مقصد کے ماتحت پیدا کئے ہوں اور ان اغراض ومقاصد کے پورا ہونے پر اسی سلسلہ کو بند کر دیا ہو اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔
شجرہ ٔآدم کیا چیز ہے؟
اب میں اِس سوال کو لیتا ہوں کہ شجرۂ آدم کیا چیز ہے؟ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ وہ شجرہ کیا چیز تھی
جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا ، مگر میں کہتا ہوں اس بارے میںسب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے چُھپا یا ہے اُس کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی غلطی ہوئی مگر خدا نے نہ چاہا کہ اپنے ایک پیارے بندے کی غلطی دنیا پر ظاہر کرے اور اُس نے اُس غلطی کو چُھپا دیا۔اب جبکہ خدا نے خود اُسے چُھپا دیا ہے تو اور کون ہے جو اس راز کو معلوم کر سکے، جسے خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سورہ تحریم میںفرماتا ہے۔ ۴۹؎ یعنی اُس وقت کو یا دکرو جب ہمارے نبی نے مخفی طور پر ایک بات اپنی ایک بیوی سے کہی جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور سے کہہ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خبر دیدی کہ تمہاری بیوی نے وہ بات فلاں شخص سے کہہ دی ہے اِس پر ہمارے نبی نے اپنی بیوی کوکچھ بات بتا دی اور کچھ نہ بتائی جب ہمارے نبی نے وہ بات اپنی بیوی سے کہی تو اُس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے کہہ دی؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اُسی نے بتائی ہے جو زمین وآسمان کا خدا ہے اور جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اب یہاں اِس بات کا ذکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہی تھی محض ضمیروں میں کیا گیا ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ایک بات تھی جو ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی کو بتائی ، وہ بات اُس بیوی نے کسی اَور کو بتا دی ۔ اِس پر خدا نے الہام نازل کیا اور اپنے رسول کو بتایا کہ وہ بات جو تو نے اپنی بیوی سے کہی تھی وہ اُس نے کسی اور سے کہہ دی ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کر دیا بیوی کہنے لگی یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم اور خبیر خدا نے یہ بات بتائی ہے۔یہ ساری ضمیریں ہیں جن میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر بات کا کہیں ذکر نہیں، لیکن ہمارے مفسرین ہیں کہ وہ اپنی تفسیروں میںیہ بحث لے بیٹھے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیوی سے کیا بات کہی تھی۔ پھر کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے اور کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے حالانکہ اِس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب خدا نے ایک بات کو چھپایا ہے اور یہ پسند نہیں کیا کہ اُسے ظاہرکرے تو کسی مفسّر کاکیا حق ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر وہ کوئی بات بیان بھی کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات درست ہوگی، یقینا جس بات کو خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر نہیں کر سکتا اور اگر کوئی قیاس دَوڑائے گا بھی تو وہ کوئی پختہ اور یقینی بات نہیں ہوگی محض ایک ظن ہو گا یہی حال شجرۂ آدم کا ہے جب خدا نے یہ ظاہر نہیںکیا کہ وہ شجرہ کیا تھا تو ہم کون ہیں جو اُس شجرہ کو معلوم کر سکیں۔ تم کسی چیز کا نام شجرہ رکھ لو، مختصر طور پر اتنا سمجھ لو کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اُس کے قریب نہ جانا مگر حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور وہ اُس کے قریب چلے گئے جس پر اُنہیں بعد میںبہت کچھ تکلیف اُٹھانی پڑی۔ بہرحال بہتریہی ہے کہ جس بات کو خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو نہ کی جائے اور بِلاوجہ یہ نہ کہا جائے کہ شجرہ سے فلاں چیز مراد ہے ، لیکن اگر کسی کی اِس جواب سے تسلی نہیں ہوتی تو پھر وہ یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ دیکھنا شیطان کے پاس نہ جانا وہ تمہارا سخت دشمن ہے اگر اس کی باتوں میں آگئے تو وہ ضرور کسی وقت تمہیں دھوکا دے دیگا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا مگر شیطان نے جب دیکھا کہ یہ میرے دائو میںنہیں آتے تو اُس نے کہا کہ صُلح سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ ہم اور تم آپس میں صُلح کر لیں اور اِن روز روز کے جھگڑوں کو نپٹا دیں جیساکہ یورپ والے بھی آجکل بظاہر ’’پِیس پِیس‘‘ (PEACE PEACE) کا شور مچا رہے ہوتے ہیں اور اندر بڑے زور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔اٹلی کی جب ٹرکی سے لڑائی ہوئی تو اِس لڑائی سے تین دن پہلے اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ تُرکوں سے ہماری اتنی صلح ہے اور اِس قدر اِس سے مضبوط اور اچھے تعلقات ہیںکہ پچھلی صدی میںاس کی کہیں نظیر نہیں مل سکتی ، مگر اس اعلان پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اٹلی نے ٹرکی پر حملہ کر دیا۔یہی حال باقی یوروپین اقوام کاہے وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ صلح بڑی اچھی چیز ہے، امن سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی شَے نہیں ،مگر اندر ہی اندر سامانِ جنگ تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا وہ صلح صلح اور امن امن کے نعرے اس لئے نہیں لگاتے کہ انہیں صلح اور امن سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے نعرے لگاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی پوری طرح جنگ کی تیاری نہیںکی ہوتی اور وہ چاہتے ہیں کہ صلح اور امن کا شور مچا کر دوسروں کوجس حد تک غافل رکھا جا سکے اُس حد تک غافل رکھا جائے اور پھر یکدم حملہ کر دیا جائے۔یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میںبھی ہؤا۔خداتعالیٰ نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ ٔشیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا کیونکہ شیطان کے ساتھ جب بھی صلح ہو گی اس میں مؤمنوں کی شکست اور شیطان کی فتح ہو گی اور اس صلح کے نتیجہ میںتمہارے لئے بہت زیادہ مشکلات بڑھ جائیں گی۔حضرت آدم علیہ السلام نے اِس حُکم کے نتیجہ میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی۔ جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیںبنے گا تو اس نے صلح صلح کاشور مچادیا او رکہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے امن تو صلح سے ہو سکتا ہے پس بہتر ہے کہ ہم آپس میں صلح کر لیں ۔حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کر لی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میںفتنہ وفساد پیدا کر دیا اور وہ مقصد جس کوباہر رہ کر وہ حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اُس نے اندر آ کر حاصل کر لیا اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا ۔تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائو اور زمین میں پھیل جائو ۔پس اگر اس کے کوئی معنے ہو سکتے ہیں تو یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ خاندانِ ابلیس سے دُور رہو، ابلیس نے صلح کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے بڑی ترقی ہو گی، حضرت آدم اس دھوکا میں آگئے اور شیطان سے صلح کر کے انہوں نے بہت کچھ تکلیف اُٹھائی نتیجہ یہ ہؤا کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ تم یہاں سے چلے جائو اور زمین میںپھیل جائو او ریاد رکھو کہ تم دونوں گروہوں میں ہمیشہ جنگ رہے گی یہ معنے بھی ہیں جو اِن آیات کے ہو سکتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ جسے خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو میںہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس سبق کے سکھانے کے لئے اس واقعہ کو بیان کیاگیا ہے وہ سبق حاصل کر لیں۔
پیدائشِ انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت
پیدائش انسانی میںارتقاء کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
الہام میںبھی ارتقاء رکھا ہے۔ کامل اور مکمل شریعت پہلے ہی روز نہیں آ گئی بلکہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ الہام میں ترقی ہوئی ہے۔ چنانچہ جب بھی غیر مذاہب والوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرقرآن میں کامل شریعت تھی تو ابتدائے عالَم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں نازل نہ کر دیا؟ تو اِس کا جواب ہماری طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ اگر اُس وقت قرآن نازل کر دیا جاتا تو کسی انسان کی سمجھ میں نہ آسکتاکیونکہ ابھی عقلی ترقی اِس حد تک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قرآنی شریعت کے اسرار اور غوامض سمجھ سکے تو الہامِ الٰہی کا فلسفہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس سے صریح طور پریہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی ترقی بھی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے۔دیکھ لو پہلے حضرت آدمؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے، پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے، پھر حضرت عیسیٰ ؑ آئے، مگر باوجود یکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک ہزاروں برس گزر چکے تھے آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:-
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا‘‘ ۵۰؎
اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ابھی لوگوں کی حالت ایسی نہیں ہوئی تھی کہ وہ کامل شریعت کو سمجھ سکتے اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اُن کے لئے نسبتاً نامکمل انکشاف ہو۔ یہ ارتقاء جو الہام اور شریعت میںہؤا ہے اس بات کایقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی ارتقائی تھی اگر یکدم ترقی کر کے انسان کامل بن گیا ہوتا تو پہلے ہی دن اس کے لئے کامل شریعت کانزول ہو جاتا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ آجکل آرین خیالات کے لوگ اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام ارتقاء کا قائل نہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے مسئلہ ارتقاء کا ردّ کیا ہے حالانکہ اسلام ہی ہے جو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے ارتقاء کا قائل ہے اس کے مقابلہ میں آرین خیالات الہام کے متعلق قطعاً غیر ارتقائی ہیں۔ چنانچہ آریہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے عالَم میں ہی ایک مکمل الہامی کتاب بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل فرما دی۔ یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ آریہ مذہب نہ صرف روحانی ارتقاء کا قائل نہیں بلکہ جسمانی ارتقاء کا بھی قائل نہیںکیونکہ اگر ابتداء میں انسان عقلی لحاظ سے کمزور تھا تو کامل الہامی کتاب کا نزول اس کے لئے بے فائدہ تھا اور اگر پہلے روز وہ اُسی طرح کامل انسان تھا جس طرح آج ہے تو معلوم ہؤا کہ آرین عقائد کے رُو سے انسان کی پیدائش جسمانی ارتقاء کے ماتحت نہیںہوئی۔ غرض آرین خیالات اس بارہ میں قطعاً غیر ارتقائی ہیں اور وہ اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اس کے مقابلہ میں سمیٹک(SEMITIC) یعنی سامی نسلیں روحانی ارتقاء کی قائل ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ پہلے حضرت آدم ؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے جنہوں نے کئی روحانی انکشافات کئے پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے اور ان سب نے کئی روحانی انکشاف کئے ۔ پس سامی نسلیں ہی ہیں جو ارتقاء کو تسلیم کرتی چلی آئی ہیں ، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامی نسلوں پرہی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کی قائل نہیں اور جو اعتراض کرنیوالے ہیںان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ارتقاء کا انکار کرتے چلے آئے ہیں۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فرانسیسی درسی کتب میں قصہ لکھتے ہیںکہ ایک فرانسیسی لڑکا اپنے کسی دوست سے ملنے گیا۔ اس کے پاس ایک لٹّو تھا اُ س نے شوق سے اپنے دوست کو وہ لٹّو دیکھنے کو دیا جس نے لٹّو دیکھ کر اپنی جیب میںڈال لیا اور سلام کہہ کرچل پڑا۔ جب لٹّو والے لڑکے نے لٹّو واپس مانگا تو اُ س نے کہا کہ لٹّو تو میرا ہے۔ یہی ان کا حال ہے ہماری چیز لے کر اس پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور پھر بڑ ے زور سے قہقہہ لگا کرکہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کچھ پتہ ہی نہیں۔
ا ِس جگہ اس امر کا ذکر کرد ینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گو سمیٹک نسلیں ارتقائی ترقی کی قائل ہیں لیکن قرآن کریم کے سِوا دوسری سمیٹک تعلیم بھی اس بارہ میں ایک دھوکا کھا گئی ہے اور وہ یہ کہ اس نے جسمانی ارتقاء کا انکار کر دیا ہے حالانکہ روحانی ارتقاء بذاتِ خود اِس بات پر دال ہے کہ جسمانی ارتقاء بھی ہؤا ۔بہرحال صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور یہ اس کی برتری اورفوقیت کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ جب آخر میں ایک جگہ آ کر شریعت کو تم نے بھی بند تسلیم کر لیا ہے تو پھر شروع میں ہی ایسا کیوں نہ کیا گیا اور کیوں شروع میں تو ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ ارتقائی سلسلہ بند ہو گیا۔
شریعت میںارتقاء ختم ہو جانے کی وجہ
ا ِس کا جواب یہ ہے کہ اس میںبھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہہ ہے اور شریعت میں ارتقاء
آج اُسی طرح ختم ہو چکا ہے جس طرح انسانی جسم میںارتقاء ختم ہو چکا ہے۔آخر انسانی جسم کے جس قدر حصے ہیں اب ان میں کونسا بنیادی فرق ہوتا ہے جس طرح آج ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اسی طرح آج سے ہزار سا ل پہلے پیدا ہؤا تھا اور جس طرح آج اس کے ہاتھ، پائوں، ناک، کان اور منہ ہوتے ہیں اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے ا س کے اعضاء ہوتے تھے پس جس طرح جسمِ انسانی میںبنیادی ارتقاء ختم ہو چکا ہے اسی طرح شریعت میںبھی پہلے جو ارتقاء کا سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ہاں ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ اب گو جسمانی ترقی بند ہو چکی ہے مگر دماغی ترقی بدستور جاری ہے اور اب وہ ارتقاء جو پہلے جسم میںہؤا کرتا تھا دماغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور انسان کی دماغی قابلیتوں میںہر روز نیا سے نیا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گو اَب شریعت کا نزول بند ہو چکا ہے مگر اب وہی ارتقاء اس شریعت کے معارف کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور نئے سے نئے قرآنی اسرار دنیا پرمُنکشف ہوتے جارہے ہیں۔ پس اس ارتقاء میں بھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہہ ہے۔وہاں بھی پہلے جسمانی بناوٹ میں ارتقاء ہؤا پھر خالص دماغی ارتقاء رہ گیا۔اسی طرح شریعت میںبھی پہلے ظاہری وباطنی احکام میںارتقاء ہؤا لیکن آخر میں ظاہری شریعت حدِکمال کو پہنچ گئی اور اب صرف باطنی ارتقاء باقی ہے جس کا دروازہ قیامت تککھلا ہے۔پس ہم دونوں طرف سے ارتقاء کے قائل ہیںجسمانی طرف سے بھی اور روحانی طرف سے بھی۔ اور ہم گو یہ ایمان رکھتے ہیںکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی مگر ہم اِس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر غیر محدود معارف وحقائق کے خزانے ہیں اور قرآن کریم کے معارف کا یہ باطنی ارتقاء بند نہیں ہؤا بلکہ قیامت تک جاری ہے چنانچہ ہم اس کا نمونہ اپنی ذات میںدیکھ رہے ہیں کہ جو معارفِ قرآنیہ ہم پر کھلے ہیں وہ پہلے مفسّروں پر نہیںکھلے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے آدم ؑکے آثارِ قدیمہ اِس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ ان کی مثال کسی اَور جگہ نہیں پائی جاتی۔اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارہ میں زبردست انکشاف اس نے کئے ہیں ، مگر سرِدست مَیں اس مضمون کو چھوڑ کر بعض دیگر انکشافات کو لیتا ہوں جو مختلف انبیاء کے بارہ میںقرآن کریم نے کئے ہیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق قرآنی انکشاف
میںقرآنی آثارِ قدیمہ کے اُس کمرہ کو دیکھنے کے
بعد عَالَمِ تخیّل میںالٰہی آثارِ قدیمہ کے ایک اور کمرہ میںچلا گیا اور وہاں مَیںنے ایک اور عجیب نشان دیکھا۔مجھے دکھائی دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہے اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کہ وہ خود بھی نبی تھے اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔۵۱؎ اے میری قوم! تم ایک ابتلاء میںڈالے گئے ہو تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میںکہتا ہوں اُس کی اطاعت کرو۔مَیں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ ہے جو اُس زمانہ میں پیدا ہؤا ۔ پھر مَیں نے اپنے دل میںکہاآئو مَیںمعلوم تو کروں اُ س وقت کیا فتنہ اُٹھا تھا۔مگرمیں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں اُس کتاب کو دیکھوں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور اُسے پڑھ کر معلوم کروں کہ اُ س میں کیا لکھا ہے۔چنانچہ مَیںنے تورات اُٹھائی اور اُسے پڑھنا شروع کیا تو اس میںلکھا تھا:-
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑسے اُترنے میںدیری کرتا ہے تو وے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اُسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بناکہ ہمارے آگے چلیں۔ کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے مُلک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اُسے کیا ہؤا، ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جوتمہاری جوروئوں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میںہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو ، چنانچہ سب لوگ سونے کے زیور جو اُن کے کانوں میںتھے توڑ توڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اُس نے اُ ن کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اُس کی صورت حکّاکی کے ہتھیار سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیںمصر کے ملک سے نکال لایا‘‘ ۵۲؎
گویا تورات یہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پرجانے کے بعد جب فتنہ پیدا ہؤا تو لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام پر زور دینا شروع کیا کہ ہمیں ایک بُت بنا دو جس کی ہم پرستش کریں۔ حضرت ہارو ن علیہ السلام نے کہا اپنے اپنے گھر سے زیور لے آئو۔ چنانچہ وہ زیور لائے اور انہوں نے اُن زیورات کو ڈھال کر ایک بُت بنا دیا اور کہا کہ یہی وہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کی زمین سے نکال لایا۔یہودی کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا الہام ہے مگر محقّقین کہتے ہیں کہ یہ الہام نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو تین سَو سال کے بعد اُس وقت کے حالات ہیں جو مؤرّخین نے لکھے۔بہرحال کم سے کم یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہماالسلام کے قریب زمانہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے لیکن حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے اُنیس سَوسال کا فاصلہ ہے اور یہ کتاب جس میں حضرت ہارون علیہ السلام پر بُت گری کا الزام لگایا گیا قریباً سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے پس وہ کتاب جو قرآن مجید سے سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے لکھی گئی ، اُس میںتو یہ لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے زیورات کو ڈھال کر خود ایک بچھڑا بنایا اور لوگوں سے کہا کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر کے مُلک سے نکال لایا، مگر جب ہم قرآنی آثارِ قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ ۵۳؎ کہ موسیٰ کے جانے کے بعد جب لوگوں نے ایک بچھڑا ڈھال کر اُسے اپنا معبود بنا لیا تو ہارون نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! بدمعاشوں نے تمہیں دھوکا میںڈال دیا ہے تمہارا رب تو وہ ہے جو رحمن ہے جو زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا ہے پس تم میری اِتباع کرو اُن بدمعاشوں کی اِتّباع نہ کرو جنہوں نے تم کو غلط راستہ پرڈال دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مجھے قرآنی آثارِ قدیمہ میں سے ملی ۔ اس کے بعد مَیں نے بائبل کو بھی دیکھا کہ اس کی چوری کہیں سے پکڑی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ مشرکانہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو نبوت تو کیا انہیں ایمان سے بھی چھٹی مل جاتی اور کوئی شخص انہیںمؤمن سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا کُجا یہ کہ اُنہیں نبی مانتا۔مگر جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے واپس آکر جب دیکھا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ہے تو انہوں نے لوگوں کو سخت ڈانٹا۔بچھڑے کو آگ سے جلا دیا اور قریباً تین ہزار آدمیوں کو قتل کی سزا دی۔۵۴؎ اِس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پر گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے خداتعالیٰ کا یہ حکم لائے کہ:-
’’ہارون کو مقدس لباس پہنا اور اُس کو چُپڑ۔ اور اُسے مقدس کر تا کہ کاہن کا کام میری خدمت میںکرے اور اُ س کے بیٹوں کو نزدیک لا اور اُ ن کو کُرتے پہنا اور اُن کو چُپڑ۔ جیسے اُ ن کے باپ کو چُپڑاہے تا کہ وہ کاہن کا کام میری خدمت میں کریں اور یہ مساحت اُ ن کے لئے اور اُن کے قرنوں کیلئے ہمیشہ کی کہانت کا باعث ہو گی اور موسیٰ نے ایسا کیا سب جو خداوند نے اس کو حکم کیا تھا عمل میںلایا‘‘۔۵۵؎
گویا اس مشرکانہ فعل کے بعد جو بروئے بائبل حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہؤا تھا خداتعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے فیصلہ یہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایا جائے اور نہ صرف اس کی عزّت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کرنا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے اور عبادت گاہوں اور مساجد کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے۔ کیا ایک مشرکانہ فعل کایہی نتیجہ ہؤا کرتا ہے؟اور کیا اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیا جاتا؟ بائبل کی یہ اندرونی گواہی صاف طورپر بتا رہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کی تائید نہیںکی تھی بلکہ شرک کی مخالفت کی تھی اور چونکہ انہوںنے خداتعالیٰ کی توحید کی تائید کی اس لئے خدا بھی اُن پر خوش ہؤا اور اُس نے کہا کہ چونکہ ہارون نے میری عبادت دنیامیں قائم کی ہے اس لئے آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کی اولاد کے سپرد کیا جائے۔ پس بائبل کی یہ اندرونی گواہی اس الزام کی تردید کر رہی ہے جو اُس نے اسی کتاب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگایا ہے اور قرآن کریم کے بیان کی جو اس کے نزول کے ساڑھے اُنیس سَوسال بعد یا اس کی تحریر کے سترہ اٹھارہ سَو برس بعد نازل ہؤا ہے تصدیق کرتی ہے۔
ہر قوم کی طرف خدا تعالیٰ نے رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے
ـپھرمَیں نے آثارِ قدیمہ کا تیسر اکمرہ دیکھا تو مجھے نظر
آیا کہ تمام قوموں میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ اُن کے سِواصداقت سے کوئی آشنا نہیں۔ ہر قوم دوسری قوم کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ اُس میں جھوٹ، فریب اور دغابازی کے سِوا اور کچھ نہیں۔میں نے ہندوئوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خداتعالیٰ نے سب معرفت اور ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیاکو دیدی ہے، اب اس کے بعد کسی اور الہام کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی اور قوم میں کوئی رِشی آتا ۔ مَیں نے زرتشتیوں کی طرف دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے سنُا کہ زرتشتیوں کے سِوا اور کوئی مذہب سچا نہیں۔ مَیں نے یہودیوں کو دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے پایا کہ قریباً تمام انبیاء خدا نے بنی اسرائیل میں ہی بھیجے ہیں، دوسری اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے محروم ہی رکھا ہے اور مَیں نے مسیحیوں کی طرف نگاہ کی تو اُن کا عقیدہ بھی مجھے ایساہی نظر آیا۔غرض ہر قوم کو مَیں نے یہ کہتے سنا کہ روحانی تہذیب کا نشان اس کے سِوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا، مگر جب مَیںنے قرآنی آثارِقدیمہ کے محکمہ کو دیکھا تو مَیں نے اس کے ایک کمرہ میں یہ لکھا ہؤا پایاکہ ۵۶؎ کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میںخداتعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں، نہ ہندو بغیرنبی کے رہے نہ ایرانی بغیر نبی کے رہے، نہ یہود بغیر نبی کے رہے اور نہ یورپین لوگ بغیر نبی کے رہے، غرض قرآن کے آثارِ قدیمہ کے محکمہ نے بتایا کہ خدا نے ہر جگہ روشنی کے مینار کھڑے کئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیا مگر بہرحال خدا کی طرف سے انہیں ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا ۔ان میں جو خرابیاں پید اہوئی ہیں وہ بعد میں ہوئی ہیں جن کی ذمہ داری خود اُن پر ہے ورنہ خدا نے سب سے یکساں سلوک کیا ہے او رہر ایک کی طرف اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ مَیں نے جب یہ دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، مگر مَیں نے کہا آئو اب میںان عظیم الشان ہسیتوں کے کچھ نشانات بھی دیکھ لوں۔بیشک اُنہوںنے عظیم الشان کام کیا اور دنیامیں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا مگر مَیں دیکھوں تو سہی کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے۔مَیں اِس جستجو اور تلاش میںسابقہ کتب کے محکمہ آثارِ قدیمہ میں داخل ہو گیا مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان عظیم الشان ہسیتوں کے کپڑوں پر جو اُن کے اَتباع کے پاس موجود تھے نہایت گندے اور گھنائونے داغ تھے کسی کے جُبہ پر چور لکھا تھا اور کسی کے جُبہ پر بٹمار اور کسی کے جُبہ پر ظالم اور دوسروں کا مال کھانے والا اور کسی کے جُبہ پر فاسق وفاجر۔کسی کے جُبہ پر جھوٹا اور کسی کے جبہ پر غاصب ،یہاں تک کہ بعض کے جبوں پر مشرک کے الفاظ تحریر تھے اور یہ سب اُن کے اَتباع کے ہاتھوں میںتھے غیروں کے دست بُرد کا اس میں دخل نہ تھا۔ مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اتنے گندے لباس ان عظیم الشان ہستیوں کے ہوں جن کے احسانات کے بارِگراں کے نیچے دنیا دبی ہوئی ہے۔ میں نے اُن کے اِس لباس کودیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور مَیں نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ اُن کے لباس نہیں ہو سکتے ۔اِسی حیرت اور استعجاب کے عالَم میں قرآنی آثارِ قدیمہ کے ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور وہاں جو مَیں نے اُن کا لباس دیکھا، اُس کی چمک اور خوبصورتی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں،چنانچہ مَیں نے انعام رکوع ۱۰ میں قرآنی آثارِ قدیمہ کا ایک کمرہ دیکھا جس میںلکھا تھا۔



۵۷؎ کہ یہ ہمارے دلائل اور نشانات تھے جو ہم نے ابراہیم کو اُ س کی قوم کے خلاف بخشے اور ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں۔تیرا رب بڑی حکمت سے کام کرنے والا اور تمام باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب دیئے اور اُن کو ہدایت دی اسی طرح اس سے قبل نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی۔ پھر ابراہیم کی ذرّیت میں سے دائود،سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون ہوئے اور ہم اسی طرح نیک لوگوں کو جزاء دیا کرتے ہیں، اسی طرح زکریاؑ،یحییٰ ؑ، عیسیٰ ؑ اور الیاسؑ یہ سارے نیک لوگ تھے اور اسمعٰیلؑ ،الیسعؑ،یونسؑ اور لوط ؑان سب کو ہم نے دنیا پر عزت اور بزرگی بخشی اور اُن کے باپ دادوں میں سے اُن کی ذرّیت اور اُن کے بھائیوں میں سے بھی ہم نے کئی لوگوں کو چنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا۔ یہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ مشرک ہوتے یا خراب ہوتے تو یقینا یہ اپنے مقصد میںناکام رہتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی اور حُکم بخشااو رنبوت عطا فرمائی۔ اگر ان لوگوں کے بعض منکر ہیںتو یقینا ہم نے ایسے لوگ بھی بنادئیے ہیں جواِن کی قدر وعظمت کو سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔ پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں تو بیشک وہی کام کر۔ کیونکہ انہوں نے کوئی کام ہدایت کے خلاف نہیں کیا اور لوگوں سے کہدے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو دنیا کے لئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ا گر لوگ ان باتوں کومان لیں گے تو اس میں اُ ن کا اپنا فائدہ ہے اور اگر انکار کریں گے تو اس کانقصان بھی اُنہیں ہی برداشت کرنا پڑیگا۔
اب قرآن تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب لوگ نیک اور راستباز تھے، مگر جب مَیں نے غیر مذاہب کی تعلیموں کو دیکھا تو مجھے ان میں نظر آیا کہ کوئی کہہ رہا ہے ابراہیم نے جھوٹ بولامَیں نے ایک نظر اس الزام پر ڈال کر جب قرآن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اس کی تردید کر رہا ہے، اسی طرح پُرانے آثار میںاسحاق ؑاور یعقوب ؑکے متعلق عجیب عجیب قصّے پائے جاتے ہیں، اسحاقؑ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا اور یعقوب ؑکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے فریب سے نبوّت حاصل کی، مگر یہاں آ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤاکہ اسحاق ؑاور یعقوب ؑمیںکوئی نقص نہ تھا۔ اسی طرح نوح ؑکے متعلق جب مَیں نے بائبل کے مطابق اس کے آثار کو دیکھا تو وہاںمجھے یہ نظر آیا کہ نوح ؑ شراب پِیا کرتا تھا ، دائود ؑکے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ قاتل اور خونریز تھا، مگر قرآنی آثارِ قدیمہ میں مجھے ان میںسے کوئی بات دکھائی نہ دی، بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا ہؤا پایا کہ یہ لوگ معصوم تھے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اسی طرح سلیمان ؑ کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انہوںنے کُفر کیا، ایوب ؑ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے صبری دکھائی، یوسف ؑ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چور تھا۔ اسی طرح موسیٰ ؑکے متعلق کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور ہارون ؑ کے متعلق تو کھلے طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے بچھڑا بنا کر رکھ دیا اور انہیں کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے یہی حال زکریاؑ، یحییٰ ؑ،عیسیٰ ؑ،الیاس ؑ، اسمعٰیل ؑ، الیسعؑ،یونس ؑ او ر لوطؑ وغیرہ کا ہے اور کرشن، رامچندر اور زرتشت کے اپنے قومی آثارِ قدیمہ بھی اُن کے متعلق ایسی ہی روشنی ڈالتے ہیں جو اُن کو اچھی شکل میںپیش نہیں کرتے اور مَیں نے دیکھا کہ ان کے لباس جو لوگ بتاتے ہیں وہ نہایت پَھٹے پُرانے اور میل و ُکچیل سے بھرے ہوئے تھے مگر جب قرآن کریم کے آثارِ قدیمہ کے کمروں کو مَیں نے دیکھا تو ان میں ہر نبی کا لباس نہایت صاف سُتھرا اور پاکیزہ دکھائی دیا ۔ پھر مَیں نے اپنی نظر اُوپر اُٹھائی توا س کمرہ کے دروازہ پر ایک بورڈ لگا ہؤا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ یہ لوگ بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے۔اُنہوں نے کوئی بات ہمارے حکم کے خلاف نہیں کی۔ پس جس بات کے متعلق بھی تمہیں یقینی طور پر پتہ لگ جائے کہ وہ ان انبیاء میں سے کسی نے کی ہے اُس پر بغیر کسی خدشہ کے فوراً عمل کرلیاکرو کیونکہ وہ ضرور اچھی ہو گی۔
(۲) جنتر منتر
دوسری سَیر مَیںنے جنتر منتر کی کی۔ جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے جہاں اجرامِ فلکی کے نقشے بنے ہوئے ہیں۔اسی طرح بعض بلند جگہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ستاروں اور اُن کی گردشوں کااچھی طرح معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ رصد گاہیں تین کام دیتی تھیں۔
اوّلؔ: علمِ ہیئت اور حسابِ اوقات کی صحیح معلومات حاصل کرنا۔ـ
دومؔ: اپنے خیال کے مطابق علمِ غیب دریافت کرنا۔
سومؔ: ستاروں کے بد اثرات سے بچنے کی کوشش کرنا۔
یہ نہایت خوشنما جگہ ہے اور لوگ اسے ایک پُرانے زمانہ کی یادگار سمجھ کر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے وقت میںمہاراجہ جے پور نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ مَیں نے کہا اس چھوٹے سے نقشہ کی تو لوگ قدر کرتے ہیں اور اس کے بنانے والے کو عزّت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن کبھی بھی وہ اُس حقیقی جنتر منتر کی طرف نگاہ نہیں اُٹھاتے جس کا یہ نقشہ ہے اور نہ اس کے بنانے والے کی صنعت کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں۔مٹی اور پتھر کی اگر کوئی دو اینٹیں لگا دے تو کہہ اُٹھتے ہیںواہ واہ! اُس نے کسقدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کتنی عظیم الشان طاقتوں کا مالک خدا ہے جس نے اس جنتر منتر سے کروڑوں درجے بڑا ایک اورجنتر منتر بنایا اور نہ صرف اس نے اتنا بڑا نقشہ بنایا بلکہ اس نقشہ کا دیکھنا بھی ممکن کر دیا کیونکہ قرآن کریم میں اصل نقشہ کی سیر کا بھی امکان پیداکیاگیا ہے مَیں نے اس غرض کے لئے سورہ انعام کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤاپایا۔۵۸؎ کہ اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کے اسرار کھول کر دکھائے تا کہ وہ علم میںترقی کرے اور ہماری قدرتوں پریقین لائے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ امر کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مَیں نے ابراہیم کو اصل جنتر منتر کی سیر کرا دی اور زمین وآسمان کا نقشہ اسے دکھادیا۔ پھر یہیں پر بس نہیںبلکہ قرآن کریم کی امداد کے ذریعہ ان جنتروں منتروں پر انسان کُلّیۃًحاوی ہو جاتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطۂ اقتدار سے باہر نہیں رہتی چنانچہ فرماتا ہے ۵۹؎ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھایا اور سورج، چاند، ستاروں سب کی سیر کراتا ہؤا آپؐ کو اتنا قریب لے گیا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں رہا ہی نہ۔ پس مَیں نے دیکھا کہ وہ باتیں جن کی تلاش میںلوگ سالوں سرگردان رہتے ہیں اور پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی اِتباع میںایسی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں کہ نہ صرف اپنی خواہشات کو انسان پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے بلکہ اور بھی ہزاروں قسم کے علوم اُسے حاصل ہو جاتے ہیں مگر آہ! لوگ معمولی اینٹوں کے بنائے ہوئے جنتر منتر کی تو قدر کرتے ہیں مگر وہ اس جنترمنتر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جو ان کو ہزاروں فوائد سے متمتع کر سکتا ہے۔
قرآنی رصدگاہ میںستاروں کے بداثرات سے بچنے کا علاج
پھر مَیں نے کہا لوگ
رصدگاہیں اس لئے بناتے ہیں کہ وہ ستاروں کے بداثرات کا علم حاصل کر کے ان سے بچ سکیں مگر قرآنی رصدگاہ میں بھی ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا کوئی علاج ہے یا نہیں۔ مَیں نے جب دیکھا تو قرآن میںمجھے اس کا بھی علاج نظر آ گیا، آخر لوگ ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں؟ اسی لئے کہ کہیں ان پر کوئی تباہی نہ آ جائے۔ اب آئو ہم دیکھیں کہ کیا تباہیوں سے بچنے کا قرآن کریم نے بھی کوئی علاج بتایا ہے یا نہیں؟ اس مقصد کیلئے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ گُر بھی قرآن کریم میں بیان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۶۰؎ مَیں نے دہلی میں دیکھا کہ بالکل لغو اور فضول جنتر منتر ہیں جن کا مصائب کے دور کرنے پر کوئی اثر نہیںہو سکتا مگر اس کے مقابلہ میںقرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ دُکھوں او رتکلیفوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے دوست بن جائو پھر جس ستارے کا بھی بدا ثر تم پرہو سکتا ہو اُس کو خدا خود دُور کردیگا، تمہیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تمام جنتر منتر اُس کے قبضہ میںہے اگر وہ دیکھے گا کہ سورج کے کسی اثر کی وجہ سے تمہیںنقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اس کے بداثر سے تمہیں بچالے گا، اگر دیکھے گا کہ چاند کی کسی گردش سے تم پر تباہی آنیوالی ہے تو وہ خود اس تباہی سے تمہیںمحفوظ رکھے گا، تم ماش اور جو پر پڑ ھ پڑھ کر کیا پھونکتے ہو؟ تم اللہ تعالیٰ سے دوستی لگائو جب تمہاری اس سے دوستی ہو جائے گی تو مجال ہے کہ اُ س کے کُتیّ تمہیں کچھ کہہ سکیں۔ پس مَیں نے جب قرآنی رصدگاہ میںسے اس علاج کو دیکھا تو میرے دل نے کہا واقعہ میں وہ بالکل فضول طریق ہیں جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں کیوں نہ اِس رصدگاہ کا جو اصل مالک ہے اور جو زندہ اور طاقتور خدا ہے اس سے دوستی لگائی جائے۔ اگر مریخ کی کسی چال کا ہمیںنقصان پہنچ سکتا ہو گا تو خدا خود اس کا علاج کرے گا۔ہم میں ذاتی طور پر یہ کہاں طاقت ہے کہ ہم تمام ستاروں کے بداثرات سے بچ سکیں۔ اگر بِالفرض ایک ستارے کے بداثر سے ہم نکل بھی گئے تو ہمیں کیا پتہ کہ کوئی اور ستارہ ہمیں اپنی گردش میں لے آئے۔پس یہ بالکل غلط طریق ہے کہ انسان ایک ایک ستارہ کے بداثر سے بچنے کی کوشش کرے اصل طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایا کہ انسان ان ستاروں کے مالک اور خالق سے دوستی لگالے پھر کسی ستارے کی مجال نہیں کہ وہ انسان پر بداثر ڈال سکے۔
ایک بزرگ کا قصّہ
قصّہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالبعلم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا، کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن
واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے میاں! ایک بات بتاتے جائو۔ وہ کہنے لگا دریافت کیجئے میں بتانے کے لئے تیار ہوں۔ وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتائو کہ تمہارے ہاںشیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور! شیطان کہاں نہیں ہوتا شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا اچھا جب تم نے خداتعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلادیا تو تم کیا کرو گے؟ اُس نے کہا میںشیطان کا مقابلہ کروں گا۔ کہنے لگے فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے لئے جدوجہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا مَیں پھر مقابلہ کرونگا۔ وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اُسے بھگا دیا لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قُرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں۔ وہ کہنے لگے اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے۔ وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا۔ اس پر اُس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ توبتائو اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو اور اُس نے ایک کُتّا بطور پہرہ دار رکھا ہؤا ہو، اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کُتّے کو مارونگا اور کیا کرونگا۔ وہ کہنے لگے فرض کرو تم نے اُسے مارا اور وہ ہٹ گیا، لیکن اگر دوبارہ تم نے اُس دوست سے ملنے کیلئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اُس نے تمہیں آپکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میںپھر ڈنڈا اُٹھائونگا اور اُسے ماروں گا انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو مَیں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ ذرا باہر نکلنایہ تمہارا کُتّا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھال لو۔ وہ کہنے لگے بس یہی گُر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے کُتّے کو روکے اور تمہیں اپنے قُرب میںبڑھنے دے یہی نسخہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ فرماتا ہے۔ ۔
اے بڑی بڑی رصدگاہیں اور جنتر منتر بنانے والو! تم ستاروں کی گردش سے ڈر کر جنتر منتر کی پناہ کیوں ڈھونڈتے ہو، تم اُس کاہاتھ کیوں نہیںپکڑ لیتے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں۔ اگر تم اُس سے دوستی لگا لو تو تمہیںاِن چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو۔ یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ رصدگاہوں اور جنتر منتر کا علاج تو بالکل ظنّی ہے مگر یہ وہ علاج ہے جو قطعی اور یقینی ہے۔
قرآنی رصدگاہ سے علم غیب کی دریافت
دوسری بات جس کی وجہ سے لوگ ستاروں کی طرف توجہ کرتے ہیں علمِ غیب
کی دریافت ہے سو یہ بات بھی حقیقی طور پر قرآنی رصدگاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے باقی سب ڈھکوسلے ہیں، چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس رصدگاہ کے قوانین میںلکھا ہؤا تھا۔ ۶۱؎ فرماتا ہے زمین وآسمان میںسوائے خدا کے اور کوئی غیب نہیںجانتا۔یعنی مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کو ہے اور یہ لوگ جو ستاروں کے پرستار ہیںاور انہیں دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کے دعویدار ہیں یہ تو اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے اوراتنی بات بھی نہیںجانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کریگی۔ یہ برابر تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان کی تباہی کب دُور ہو گی۔ اس کے مقابلہ میںمحمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو پہلے اکیلا تھا آج بہتوں کا سردار بنا ہؤا ہے اگر انہیں ستاروں سے علم غیب حاصل ہو سکتا ہے تو کیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتا سکتے اور کیوں محمد ﷺکی ترقی کوجو ستاروں سے علمِ غیب حاصل کرنے کا قائل نہیں روک نہیں دیتے؟ جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیںبتا سکتے تو انہوں نے اور کونسی غیب کی خبر بتانی ہے۔پھر فرمایا یہ تو دنیا کی بات ہے ۔بَعْدَ الْمَوْت کی حالت کے متعلق یہ علم سے بالکل خالی ہیںاور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جو کبھی غلطی کرتا اور کبھی ٹھیک راستہ پر چلتا ہے ۔ جس طرح اندھے کے ہاتھ کبھی لکڑی آجاتی ہے اور کبھی سانپ، اِسی طرح اِن کو بھی کبھی کوئی ایک آدھ بات درست معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی حق سے دُور باتوں کو سچ سمجھ کر یہ پکڑ لیتے ہیں۔
جب مجھے یہ آیت معلو م ہوئی تو مَیں نے کہا کہ اگر مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کے پاس ہی ہے تو ہمیںاس کاکیا فائدہ ہؤا؟ اٹکل پچو والے کو تو پھر بھی کبھی لکڑی مل جاتی ہے مگر ہم تو اس طرح اٹکل پچو والے فائدہ سے بھی محروم ہو گئے۔ اس پر مَیں نے دیکھا کہ قرآن نے میرے اس شُبہ کا بھی جواب دے دیا اور اس نے فرمایا۔ ۶۲؎ کہ ہم نے یہ علمِ غیب صرف اپنے پاس ہی نہیں رکھا بلکہ ہم کبھی اپنے بندوں کو اس غیب سے مطلع بھی کر دیا کرتے ہیں مگر اُنہی کوجن کو ہم چُن لیتے ہیں ، ہر کس وناکس کوغیب کی خبریں نہیں بتاتے۔
پھر مَیں نے کہا کہ غلبہ غیب کا بیشک نبیوںکو ہی حاصل ہو مگر عام انسانوں کوبھی توکبھی علمِ غیب کی ضرورت ہوتی ہے کیا ان کیلئے بھی کوئی راہ ہے؟ اس پرمجھے جواب ملا کہ ہاں۔۶۳؎ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوںنے لوگوں کی مخالفت کی پروانہ کی بلکہ اِستقامت سے سچے مذہب پر قائم رہے اُن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کہ ڈرو نہیں اور نہ غم کرو۔ہم فرشتے تمہاری حفاظت ِکیا کریں گے ، تمہاری پچھلی خطائیں معاف ہو چکیں اورآئندہ کے لئے تمہارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں جنت میں داخل کریگا، ہم تمہارے دوست ہیں اِس دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔ وہاں جس چیز کے متعلق بھی تمہارا جی چاہے گا وہ تمہیں مل جائیگی اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیںدیا جائے گا،یہ تمہاری مہمان نوازی ہے جو بخشنے والے مہربان رب کی طرف سے ہے۔اس نے تمہارا ماضی بھی درست کر دیااور اس نے تمہارے مستقبل کو بھی ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر دیا۔ـ
منجّموںکی خبروں اور الہام الٰہی میںفرق
اِس میںیہ جواب بھی آ گیا کہ ستاروں کی خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں اور یہ
تقدیر ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو ستاروں کی گردشیں دیکھ کر دوسروں کو خبریں بتایا کرتے ہیں وہ صرف خبر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص مرجائے گا۔اب یہ صرف ایک خبر ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ کسی طریق پر عمل کر کے موت سے بچ بھی سکتا ہے لیکن الہا مِ الٰہی میںجہاں اِنذار ہوتا ہے وہاں تبشیر بھی ہوتی ہے ۔ اگر ایک طرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ تمہیں ترقی ملے گی تو دوسری طرف یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن ہلاک کئے جائیںگے اور پھر اُن دشمنوں کو بھی بتایاجاتا ہے کہ اگر ہمارے نبی پر ایمان لے آئو تو تم ان آنے والی مصیبتوں سے بچ جائو گے لیکن اگر مخالفت اور دشمنی پر مُصِرّ رہے تو پھر تمہاری ہلاکت یقینی ہے۔ گویا ایک تقدیر اور قدرت ہے جو الہامِ الٰہی میںپائی جاتی ہے مگر کسی رصدگاہ سے جو لوگ کوئی خبر معلوم کرتے ہیں اس میں کوئی قدرت اور جلال کاپہلو نہیں ہوتا۔بسا اوقات رصدگاہ والا خود اپنے متعلق جب کوئی بات معلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ تیرا بیٹا مر جائے گا اب وہ ہزار کوشش کرے کہ کسی طرح مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ مَیں کس طرح اِس مصیبت سے بچ سکتا ہوں تو اسے کسی طرح یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جب توجہ کی جائے تو اس قسم کے تمام عُقدے حل ہو جاتے ہیں پس وہ خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں، لیکن الہامِ الٰہی میںقدرت اور جلال کا پہلو پایا جاتا ہے۔
ستاروں سے حاصل کردہ خبروں کی حقیقت
پھر مَیں نے پُوچھا کہ ستاروںسے جو خبریں ملتی ہیں اُن کی حقیقت کیا
ہوتی ہے؟ اِس کے جواب میں مجھے ایک نہایت ہی لطیف بات سورۃ الصّٰفّٰت سے معلوم ہوئی۔اللہ تعالیٰ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔۶۴؎حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ستارہ پرست تھی چنانچہ قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر ذکرآتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مخالفوں کو چڑانے اور انہیں سمجھانے کے لئے طنزاً کہا کہ فلاں ستارہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ یہ خدا کیسا ہے جو ڈوب گیا۔ مَیں تو ایسے خدا کا قائل نہیںہو سکتا۔ اس کے بعد اُنہوں نے طنزاً چاند کے متعلق کہا کہ وہ میرا رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے مَیں تو سخت غلطی میں مبتلاء ہو جاتا اگر میرا خدا میری راہبری نہ کرتا، بھلا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے جو ڈوب جائے۔ پھر سورج کے متعلق انہوںنے کہا کہ وہ میرا رب ہے مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں اِن سب مشرکانہ باتوں سے بیزار ہوں۔میرا خدا تو ایک ہی خدا ہے جو زمین وآسمان کا مالک ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میںسے تھے وہ ستارہ پرست تھی اور چونکہ ستاروں کی پرستش نہیںہو سکتی اس لئے اُنہوں نے مختلف ستاروں کے قائمقام کے طور پر بہت سے بُت بنائے ہوئے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر ان بتوں کی عبادت کی جائے تو جس ستارہ کے یہ قائم مقام ہیں اس کی مدد ہمیںحاصل ہو جائے گی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میںسے تھے وہ بھی پروہتوں کا خاندان تھا چنانچہ ان کے باپ نے ایک بتوں کی دُکان کھولی ہوئی تھی جس پر وہ کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بٹھا دیتا اور کبھی ان کے دوسرے بھائیوں کو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر بچپن سے ہی سعادت کا مادہ رکھا ہؤا تھا، چنانچہ یہودی روایات(طالمود) میں آتا ہے کہ ایک دن ان کابھائی انہیں دُکان پر بٹھا گیا اور بتوں کی قیمت وغیرہ بتا کر کہہ گیا کہ اگر کوئی گاہک آئے تواُسے بُت دیدینا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک بڈھا شخص اس دُکان پر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بُت اُٹھایااور گاہک کے ہاتھ میں دیدیا۔ وہ اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اچھا ہے اس کی قیمت بتائو۔ انہوں نے کہا کہ تم پہلے یہ بتائو کہ تم اس بُت کو کیا کرو گے۔ اُس نے کہا اِسے گھر میںلے جائوںگا اور اپنے سامنے رکھ کر اس کے آگے سجدہ کیا کرونگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سن کر بڑے زور سے ایک قہقہہ لگایااور کہا تجھے اس کے آگے جھکتے ہوئے شرم نہیںآئے گی؟ تو ستّر اسّی سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور یہ بُت وہ ہے جو کَل ہی میرے چچا نے بنوایا ہے بھلا اِس بُت نے جسے کَل سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے؟ اور کیا تجھے شرم نہیں آئے گی کہ تو اتنا بڑا آدمی ہو کر اس کے آگے جُھک جائے۔ اب وہ گو بُت پرست ہی تھا مگر یہ فقرہ سُن کر اس کے اندر بُت کو گھر لے جانے کی ہمّت نہ رہی اور وہ وہیں اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ان کے بھائیوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کر دی کہ ابراہیم کو دُکان پر نہ بٹھایا جائے ورنہ یہ تمام گاہکوں کو خراب کر دیگا۔ تو ان لوگوں میںستاروں کا علم خاص طو رپر پایا جاتا تھا اور علمِ رمل اور علمِ نجوم آئندہ نسلوں کو سکھایا جاتا تھا ۔جس طرح ہندوئوں میں پنڈت اس کام میں مشّاق ہوتے ہیں اوروہ زائچہ نکالتے اور جنم پتری دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو بھی زائچہ نکالنا اور جنم پتری دیکھنا سکھایا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ ایسے ہی خاندان میںسے تھے اس لئے لازماً انہوں نے بھی یہ علم سیکھا، مگر جب بڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دینی شروع کر دی تو قوم سے ان کی بحثیں شروع ہو گئیں۔
حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درسِ توحید
ایک دن وہ اپنے رشتہ داروں اور قوم کے دوسرے لوگوں سے
کہنے لگے کہ تم یہ تو سوچو کہ آخر تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو۔ تم جھوٹ اور فریب کے ساتھ خداتعالیٰ کوچھوڑ کر اَور معبود بناتے ہو اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے ان بتوں کو بنایا ہے ان کے پیچھے چل پڑتے ہو اور انہیں خدا کاشریک قرار دیتے ہو؟ تم جو ستاروں کے پیچھے چل رہے ہو ہمیشہ تم کہتے ہو کہ مریخ نے یہ کر دیا، زحل نے وہ کر دیا۔مشتری نے یہ کیا اور عطارد نے وہ کیا ۔ تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ربّ العٰلمین کیا کر رہا ہے کس قدر ایک وسیع نظام ہے جوہر چیز میںنظر آتا ہے۔کیا یہ تمام نظام ایک بالا قانون کے بغیر ہی ہے؟ ساری چیزیں اس کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور ان ستاروں میں بھی جس قدر طاقتیں ہیں وہ خداتعالیٰ کی ہی عطا کردہ ہیں۔ پس عبادت کا اصل مستحق خدا ہے نہ کہ کوئی اور چیز۔ یہ تقریر آپ کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لطیف نکتہ سمجھا دیا آپ نے ستاروں میں دیکھا اور کہا کہ مَیں بیمار ہوں آپ کایہ کہنا تھا کہ لوگ چلے گئے اور مجلس منتشر ہو گئی۔یہاں مفسّرین کو بڑی مشکل پیش آئی ہے اور وہ حیران ہیں کہکے کیا معنی کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ اُس روز آپ واقعہ میں بیمار تھے جب بحث زیادہ ہو گئی تو انہوں نے کہا اب مجھے آرام کرنے دو مَیں بحث کر کے تھک گیا ہوں۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ آپ اُس روز بیمار تھے ہی نہیں۔آپ نےجو کہا تو محض اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا ،چونکہ وہ بحث کرتے ہی چلے جاتے تھے اور بس کرنے میںنہیںآتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بول کر کہدیا کہ مَیں بیمار ہوں چنانچہ وہ چلے گئے۔بعض کہتے ہیں کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولا تھوڑے بہت آپ ضرور بیمار تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اُس دن نزلہ کی شکایت تھی۔آپ نے ا نہیں کہہ دیا کہ بھائی اب معاف کرو مَیں بیمار ہوں۔غرض مفسّرین اِس موقع پر عجیب طرح گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن سے کوئی تأویل بن نہیںپڑتی، کبھی کوئی بات کہتے ہیں اور کبھی کوئی ، مگر سوال یہ ہے کہ سے پہلے یہ الفاظ ہیں کہ ۔انہوں نے ستاروں کو دیکھا۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی خبر کا ستاروں سے کیا تعلق ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ستاروں کو دیکھ کریہ معلوم کیا تھاکہ اب بحث کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر ہوجانے کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتاآپ ہی انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب فلاں کام کرتے کرتے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ ستاروں کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہا کرتا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر ستاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ دیر ہو گئی ہے تو انہیں کہہ دینا چاہئے تھا اب بہت دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مَیں بیمار ہوں۔ اِس پر بعض مفسرین لُغت کی پناہ ڈھونڈنے لگے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کے ایک معنے بیزار کے بھی ہیں انہوں نے بحث کرتے کرتے ستاروںکی طرف دیکھا اور کہا کہ مَیں ان ستاروں سے سخت بیزار ہوں۔ اِس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ قول بھی صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان مشرکین سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں تم سے بیزار ہوں۔ ستاروں کے متعلق یہ کہنے کا کیافائدہ تھا کہ میں ان سے بیزار ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معنوں میں سے کوئی معنے بھی صحیح نہیں۔ اصل معنے کے یہ ہیں کہ جب آپ ان لوگوں سے بحث کر رہے تھے تو بحث کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اِن زبانی باتوں سے تو ان کا اطمینان نہیںہو گا تم یوں کرو کہ اِسی وقت اپنا زائچہ نکالو چنانچہ جب وہ تقریر کر رہے تھے کہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچائیں، سب طاقتیںاور قدرتیں خداتعالیٰ کو ہی ہیں۔ تومعاً آپ نے اپنی تقریر کا رُخ بدلا اور کہا دیکھو! تم جو ستاروں کی گردشوں اور اُن کی چالوں کے بہت قائل ہو، مَیں تم پر اتمامِ حُجّت کرنے کے لئے تمہارے سامنے اپنا زائچہ نکالتا ہوں چنانچہ انہوں نے جو زائچہ دیکھا تو اس سے مہورت ۶۵؎ یہ نکلی کہ ابراہیم کی خیر نہیں وہ ابھی بیمار ہو جائے گا۔ اس امر کو معلوم کرنے کے لئے چاہے انہوں نے اوپردیکھا ہو اور ممکن ہے کہ اوپر ہی دیکھا ہو کیونکہکا لفظ آیت میںاستعمال ہؤا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے نقشہ دیکھا ہو، بہرحال جب انہوں نے ستاروں کی چال کو دیکھا اور مقررہ نقشہ سے اپنا زائچہ نکالا، تو اُس میںلکھا تھا کہ فلاں ستارہ کی گردش سے ابراہیم اسی گھڑی بیمار ہو جائے گا (گویا کے یہ معنی نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ یہ ہیں کہ مَیں بیمار ہونے والا ہوں) جب یہ زائچہ نکل آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن سے کہا کہ اب میری اور تمہاری بحث ختم۔ اگرمَیں بیمار ہو گیا تو مَیں مان لونگا کہ تم سچ کہتے ہو اور اگر مَیں بیمار نہ ہؤا تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ستاروں کی گردشوں اور چالوں پر یقین رکھنا اور یہ خیال کرنا کہ ستاروں کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے بیہودہ بات ہے۔ چنانچہ اسی پر بات ختم ہو گئی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے فارغ ہوتے ہی بُت خانہ میں گئے اور انہوں نے بُت توڑنے شروع کر دئیے۔ جب ان کے بُت ٹوٹے اور لوگوں کو یہ خبر ہوئی تو وہ دَوڑے دَوڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوںنے کہا دکھائی نہیںدیتا کیا کر رہا ہوں، تمہار ے بتوں کو توڑ رہا ہوں تا کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ میںبیمار نہیں ہوں اور تمہارے زائچہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ غلط ہے انہوں نے جب دیکھا کہ ہمیں دُہری ذلّت پہنچی ہے یعنی ایک تو یہ ذلّت کہ ستارے کا اثر جو زائچہ سے نکلا تھا وہ غلط ثابت ہؤا اور دوسری یہ ذلّت کہ ہمارے بُت اُسی گھڑی توڑے گئے ہیں جس گھڑی ابراہیم نے بیمار ہونا تھا تو وہ سخت طیش میںآ گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اُسی وقت آگ میںڈال کر جلا دیا جائے تاکہ ہم لوگوںسے یہ کہہ سکیںکہ زائچہ میںجو یہ لکھا تھا کہ ابراہیم پر ایک آفت آئے گی وہ یہی آفت تھی کہ ابراہیم آگ میں جل کر مر گیا۔مگر جب انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابراہیم ؑکو اُس میںڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بارش ہو گئی اور آگ بُجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس میںسے سلامت نکل آئے اور اِس طرح جو تدبیر انہوں نے زائچہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اختیار کی تھی وہ بھی ناکام گئی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد دوسرے یا تیسرے دن انہوں نے دوبارہ آگ میں نہیںڈالا کیونکہ اگر دوسرے تیسرے دن پھر آگ میںڈالتے تو ان کی سچائی ثابت نہ ہو سکتی ۔ ان کے زائچہ کی سچائی اُسی وقت ثابت ہو سکتی تھی جب کہ اُسی گھڑی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں جل جاتے جس گھڑی آپ پر کسی آفت کا اُترنا زائچہ بتلاتا تھا مگر جب وہ وقت گزر گیا تو چونکہ اس کے بعد اگر آپ کو وہ دوبارہ بھی آگ میںڈالتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تکذیب نہیںہو سکتی تھی اس لئے پھر انہوں نے آپ کو آگ میں نہ ڈالا حالانکہ اگر انہوں نے آپ کو توحید کی وجہ سے ہی آگ میںڈالا تھا تو چاہئے تھا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تھے تو دوسری دفعہ پھر آپ کو جلانے کی کوشش کرتے مگر انہوںنے بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو تی ہے کہ انہوں نے آپ کو آگ میں اِسی لئے ڈالا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وہ خبر درست نکلے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق زائچہ سے نکلی تھی۔
اب دیکھو یہ کس طرح ایک مکمل دلیل ستارہ پرستوں کے خلاف بن گئی۔ زائچہ دیکھا گیا اور اس سے سب کے سامنے یہ نتیجہ نکلا کہ ابراہیم پراسی وقت کوئی شدید آفت آنیوالی ہے جو اسے تباہ کر دیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بس اسی پرمیری اور تمہاری بحث ختم۔ اگر میںتباہ ہو گیا تو تم سچے اور اگر نہ ہؤا تو مَیںسچا۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تکذیب واضح کرنے کے لئے بتوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو اُس دن بتوں کو خاص طور پر توڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیںہو سکتا۔آپ نے اُس دن خاص طور پر اسی لئے بُت توڑے کہ جس وقت آپ بُت توڑ رہے تھے وہی وقت زائچہ کے مطابق آپ کی بیماری کا تھا۔ پس آپ نے اپنے عمل سے انہیں زبردست شکست دی اور بتایا کہ تم توکہتے تھے مَیں فلاں وقت بیمار ہو جائوںگا مگر میں نے اسی وقت تمہارے بتوں کے ناک کاٹ ڈالے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ جب ان کی قوم کو یہ خطرناک زِک پہنچی تو اِس کے بعد آپ نے سمجھا کہ اب اِس عملی زِک کے نتیجہ میںلوگوں کے دلوں میںایسا بُغض بیٹھ گیا ہے کہ میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں چنانچہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔
پھر مَیں نے کہا کہ اچھا جو حصہ حساب وتاریخ کا رہ گیا ہے اُس کے متعلق مجھے اِس رصدگاہ سے کیا اطلاع ملتی ہے جب میرے دل میں یہ سوال پیداہؤا تو مجھے اِس کے متعلق یہ اطلاعات ملیں۔
سورج، چاند اور ستارے سب انسان
اوّل: سورج اور چاند اور ستارے سب اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ سب ایک اعلیٰ ہستی
کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں
کے کام اور فائدہ کیلئے بنائے گئے ہیںاور وہ اعلیٰ ہستی انسان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نحل میںفرماتا
ہے۔ ۶۶؎ کہ اے بیوقوف انسان! تو خواہ مخواہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرف دَوڑ رہا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ رات، دن، سورج، چاند اور ستارے سب تیری خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جسے ہم نے خاد م قرار دیا تھا اُس کو تم اپنا مخدوم قر ار دے رہے ہو اور جسے ہم نے مخدوم بنا کر بھیجا تھا وہ خادم بن رہا ہے تم ان سے ڈرتے اور گھبراتے کیوں ہو۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اُس کے آگے ہاتھ جوڑ تا پھرتا ہو، یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیںآتی کہ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بناکر دنیا میںپید ا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں۔ بیشک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے اِن کو پیدا کیا ہے وہ اِن سے بھی بڑی ہے ۔ اُس نے تو اِن چیزوں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اُلٹا اِنہیں کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو۔ قرآن کریم نے جوشرک کی اس بیہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے ۔ مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مُشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ وہ قصّہ یہ ہے کہ فرانس میںدو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں۔ انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک عورت نکلی، انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں ، صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ،ہم صبح چلے جائیں گے۔ اُس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں ،ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاںبیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیںبھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکالیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا،دوسری طرف ہم رات گزار لیں گے۔ چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آگئے۔ اتفاق یہ ہے اُن کے پاس کچھ روپے بھی تھے، اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیںیہ گھر والے ہماری نقدی نہ چُرالیں۔ اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ ہم لُوٹے جائیں۔ا دھر میاں جوپیشہ میںقصّاب تھا اِس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیںکرنے لگا۔ ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں لُوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے۔ اُن دونوں میاں بیوی نے دو سؤر پال رکھے تھے جو سؤر خانے میںتھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میںسے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایک سؤر موٹا تھا اور ایک دُبلا تھا۔ا سی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دُبلا۔جب پادریوں نے کان لگا کر سُننا شروع کیا تو اُس وقت میاں بیوی آپس میںیہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے ،خاوند کہنے لگا کہ میری بھی یہی صلاح ہے کہ ایک کوذبح کر دیا جائے۔ پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیںیہ ضرور چھرا لے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سُن لیں ۔ پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوںنے سُنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کوذبح کریں؟ میاںنے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اُسے چند دن ِکھلا ِپلا کر پھر ذبح کردینگے۔ یہ بات انہوںنے جو نہی سُنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوںنے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں۔ دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جوماری تو دیکھاکہ ایک کھڑکی کھلی ہے بس انہوںنے جلدی سے اُٹھ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گِرا اور جو دُبلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپرآ پڑا۔دُبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی، مگر موٹا جو پہلے گِرا تھا اُس کے پائوں میںسخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے ناقابل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر دُبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہؤا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ مَیں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مددکے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور اِدھر اُدھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچائو۔ اُدھر موٹے پادری کو یہ فکر ہؤا کہ کہیں گھر والے چھُری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں۔چنانچہ اُس نے آہستہ آہستہ گھسٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اُس سؤر خانہ کے پاس جاپہنچا جس میںمیزبان کے سؤر بند تھے مگراُسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سؤر ہیں یاکیا ہے، اُس نے خیال کیا کہ مَیں یہاں چُھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں ۔ جب اُ س نے سؤر خانہ کا دروازہ کھولا تو سؤر ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قصاب چُھری لے کے موٹے سؤر کو ذبح کرنے کے لئے وہاں پہنچ گیا۔پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مارڈالے گا۔چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میںچھپ گیا۔ قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہانکل نکل ، مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہؤا کہ سؤر نکلتا کیوں نہیں مگر خیرا س نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیر ا اور آواز دے کر سؤر کو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کانہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں مَیں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔ خدا کے لئے معاف کرو۔ ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سؤر کی بجائے اندر سے ایک آدمی نِکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہؤا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو۔ اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑ ے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اوردوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پررحم کرو۔تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اِس کی سنتا تھا اور نہ یہ اُس کی مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اِس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اُس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں یہ دیکھ کر اُن کی عقل کچھ ٹھکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاںبیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دینگے او ر دُبلے کو کچھ دن ِکھلا ِپلا کر۔ اس لئے ہم کھڑکی سے کُود کر بھاگے اور میرا چونکہ پائوں چوٹ کھا گیا تھا مَیں اِس سؤرخانہ میں چُھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے۔ا س پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیااور بتایا کہ ان کے دو سؤر ہیں ایک موٹا اور ایک دُبلا۔ وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے او رآہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو۔اتنے میں سرکاری سوار بھی آ گئے او ر اس حقیقت کو معلو م کر کے سب ہنستے ہنستے لَوٹ گئے۔یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے۔ اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیاہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ اُن کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔گویا ستارے اِس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ اُن کا غلام بن رہا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کے آخر میں بیان کی ہے کہ یہ سب انسانوں کے خدمت گزار تو ہیں مگر انہی کے لئے جو ان امور کو دیکھیں اور عقل اور سمجھ سے کام لیں ایسے لوگ کبھی بھی ان کو خدائی صفات والا قرار نہیں دے سکتے۔ہاں اگر کوئی اس فرانسسکن (FRANCISCAN) پادری کی طرح بِلاوجہ ڈر کرہاتھ جوڑنے لگ جائے تو اور بات ہے۔
سب اجرامِ فلکی ایک عالمگیر قانون کے تابع ہیں!
(۲) دوسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج چاند اور
ستارے سب ایک عالمگیر قانون کے ماتحت چل رہے ہیںاور اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایک زبردست ہستی ان سب پر حاکم ہے، چنانچہ مَیں نے قرآن کریم کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤا تھاکہ ۶۷؎ یعنی اے بیوقوفو! کیا تمہیں معلوم نہیںآسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اور سورج، چاند، ستارے،پہاڑ، درخت،چوپائے اور انسانوں میںسے بھی بہت سے لوگ سب خداتعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے لئے عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جسے خدا ذلیل کرے اُسے کوئی عزّت نہیں دے سکتا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔غرض بتایا کہ دنیا میں جس قدر چیزیں ہیںوہ سب ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہیں، سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت حرکت کرتے ہیں اور ہر ایک کے منہ میں لگام پڑی ہوئی ہے پھر تم ان چیزوں کو جن کو خود لگامیں پڑی ہوئی ہیں خدا کس طرح قرار دیتے ہو۔ یہ چیزیں تو خود تمہارے آگے آگے بطور خدمت گار چل رہی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ تم انہی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو اور اِس طرح اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو اور یہ اس امر کی سزا ہے کہ تم نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ دیا۔ پس اُس نے تم کوتمہارے ہی غلاموں کا غلام بنا دیا اور جسے خدا ذلیل کرد ے اسے کوئی عزت نہیںدے سکتا۔ـ
سورج کو ضیاء اور چاند کو نُور بنایا گیا ہے
(۳)تیسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج اپنی ذات میںروشن ہے اور چاند
دوسرے سے روشنی اخذ کرتا ہے چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہؤا ہے۔ ۶۸؎ کہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا اور چاندکو نور ۔ضیاء کے معنے ہیں اپنی ذات میں جلنے والی اور روشن چیز۔ ا ور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے کے اثرکے ماتحت روشن ہو۔ پس خداتعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ سورج تو اپنی ذات میں روشن ہے مگر چاند سورج سے اکتسابِ نور کرتا ہے۔
پھر اسی مضمون کو مَیں نے ایک اور لطیف طرز میںبھی قرآن کریم میںموجود پایا چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ قرآن مجید میںلکھا ہے۔۶۹؎کہ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو کس طرح تہہ بہ تہہ بنایا ہے اور چاند کو اُ س نے نور اور سورج کو اس نے سراج بنایا ہے، سراج اُس دِیے کو کہتے ہیں جس میں بتی روشن ہو۔ پس سراج کا لفظ استعمال کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سورج کے اندر خود ایک آگ ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی تمام جہان پر پھیلتی ہے۔موجودہ تحقیق نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ سورج میں ریڈیم کے اجزاء کی وجہ سے ایک جلتی ہوئی آگ ہے اور اسی وجہ سے وہ روشن ہے۔ اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف سراج کے لفظ میں ہی آج سے تیرہ سَو سال پہلے وہ نکتہ بتا دیا تھاجسے تیرھویں صدی ہجری میںیورپین محققین نے دریافت کیا اور بتادیا تھا کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے اور چاند کی طفیلی جس طرح دِیے کی بتّی جلتی ہے اسی طرح سورج میںایک ایسی آگ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روشن رہتا ہے مگر چاند میںایسی کوئی روشنی نہیںوہ جو کچھ حاصل کرتا ہے سورج سے حاصل کرتا ہے اسی لئے سورج کو تو سراج کہا مگر چاند کو نور قرا ردیا۔
(۴) چوتھی بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند کی بناوٹ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آخر یہ بھی فنا ہو جائیںگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۷۰؎ کہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا۔ پھر وہ عرش پر جاگزیں ہو گیا اور اُس نے سورج اور چاند کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقر رکردیا، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں حرکت کر رہا ہے مگر یہ تمام حرکات ایک وقت مقررہ تک ہیں، جب مقررہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے بعد ان پر تباہی آجائے گی، آجکل اہل یورپ کی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہؤا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن تباہ ہو جائیں گی، پہلے یورپین لوگ قیامت کے منکر ہؤا کرتے تھے اور وہ اسلام کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کسی دن تمام کارخانۂ عالَم درہم برہم ہو جائے گا اور سورج ، چاند اور ستارے سب فنا ہو جائیںگے مگر موجودہ تحقیق سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ستاروں، چاند اور سورج کی گردش ایک دن یقینا ٹوٹ جائے گی اور دنیا پر قیامت آ جائے گی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںیہی فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے ّمسخر تو کیا ہے مگر ان تمام کی رفتار یں ایک دن ختم ہونے والی ہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی دائمی چیز ہیں۔
سورج اور چاند کا حساب اور تاریخ سے تعلق
(۵) پھر مَیں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ ان رصدگاہوں سے جو حساب
وغیرہ نکالتے ہیں کیا یہ صحیح ہے اور کیا قرآنی رصدگاہ میںاس کو تسلیم کیا گیا ہے؟ مَیں نے جب غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اِس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ سورج اور چاند یہ دونوں حساب اور تاریخ بتانے کے لئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔
کہ ہم نے سورج کو ضیاء اور قمر کو نور بنایا ہے اسی طرح سورج اور چاند کی ہم نے منازل مقرر کردی ہیں تا کہ تمہیں سالوںکی گِنتی اور حساب معلوم ہؤا کرے گویا سورج اور چاند دونوں سالوں کی گِنتی اور حساب کا ایک ذریعہ ہیں، اسی طرح فرمایا۔۔۷۱؎ کہ خدا صبح کو نکالنے والا ہے۔اسی نے رات کو سکون کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے پھر فرمایا۷۲؎
سورج اور چاند دونوں ہم نے حساب کے کام پر لگائے ہوئے ہیں۔
مَیں نے جب قرآن کریم میںان آیات کو دیکھا اور ان پرغور وتدبّر کیا تو مَیںاس نتیجہ پر پہنچا کہ واقع میں تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا بہت بڑا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کی وسعت ستاروں کی رفتار سے ہوئی ہے اور جس قدر باریک حساب ہیں وہ علمِ ہیئت کی وجہ سے ہی ہیں۔ اگر علمِ ہیئت نہ ہوتا اور ستاروں کی گردشیں اور ان کی رفتاریں مقرر نہ ہوتیں تو اربوں کھربوں کے جس قدر حسابات ہیں وہ کبھی صحیح طور پر نہ ہو سکتے۔ اسی طرح سورج اور چاند اگر نہ ہوتے تو دِنوں اور سالوں کا اندازہ نہ ہو سکتا اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلو م کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے پٹواری جب حساب لگاتے ہیںتوکہتے ہیں کہ فلاں زمین فلاں کنویں سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے پس کسی مستقل چیزکے بغیر فاصلے کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اِسی وجہ سے سالوں اور دنوں کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا اگر سورج اور چاند نہ ہوتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے اور یونہی روشنی ہو جاتی یا تاریکی ہو جاتی تو اس طرح بھی دن رات ہو سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اگر یونہی روشنی ہو جاتی تو اس کامستقل کنارہ کونسا ہوتا اور کیونکر معلوم ہوتاکہ فلاں مستقل کنارے سے فلاںسال شروع ہؤا ہے اور فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال۔
تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت
بہرحال چاند اور سورج دونوں کا سالوں، مہینوں اور دِنوں کے حساب سے تعلق
ہے، لیکن مجھے خیال آیا کہ چاند سے تو ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ہجری قمری ہم میں جاری ہے جس سے لوگ بہت کچھ فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر سورج سے تو ہم بالکل فائدہ نہیں اُٹھا رہے حالانکہ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں اور دوسری طرف عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو اِن دونوں میںفوائد نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وقت اور زمانہ کی تعیین کے لحاظ سے سورج مفید ہے اور عبادتوں کوشرعی طریق پر چلانے کیلئے چاند مفید ہے اس لئے کہ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے۔مثلاً رمضان ہے اب اس کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے اس لئے ۳۶ سال میں ایک دَور ختم ہو جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہی رمضان کے ایام آجاتے ہیں، کبھی جنوری میں آجاتا ہے، کبھی فروری میں آ جاتا ہے، کبھی مارچ میں آجاتا ہے، کبھی اپریل میں آجاتا ہے غرض وہ کبھی کسی مہینہ میںآ جاتا ہے اور کبھی کسی مہینہ میں اور اس طرح سال کے تین سَو ساٹھ دِنوںمیں ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میںانسان نے روز ہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پھر ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی ۔پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق یہ کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میںگزارا ہے، عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے،لیکن وقت کی تعیینِ صحیح کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے۔ بہرحال مجھے خیال آیا کہ ہم مسلمانوں نے قمری تاریخوں سے تو فائدہ اُٹھایا ہے لیکن شمسی تاریخوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا ، حالانکہ قمری شمسی دونوں میںفوائد ہیں اور چونکہ ہر انسان شمسی حساب پر مجبور ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی مجبوراً عیسوی سن استعمال کرناشروع کر دیا حالانکہ اگر ہم ہجری قمری کے ساتھ ہجری شمسی بھی بناتے اور ہجری قمری تاریخوں کے بِالمقابل ہجری شمسی تاریخیں بھی ہوتیں توقطعاً کوئی جھگڑا نہ ہوتا۔
اب اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ ۶۲۲ ہجری کب تھا اوراُس وقت شمسی کے لحاظ سے کونسا سال تھا تو وہ فوراً معلوم نہیں کر سکتا اور محض۶۲۲ہجری کہنے سے اس کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ سال کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج ہی سے تسلی پاتا ہے، اسی وجہ سے لوگ ہجری قمری سالوں کے عیسوی سن معلوم کرتے ہیں اور اس طرح خواہ مخواہ مسلمان بھی عیسوی سن کو اپنے اندر رائج کئے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک ضروری تھا کہ جس طرح ہجری قمری بنائی گئی تھی اسی طرح ہجری شمسی بھی بنائی جاتی اور ان دونوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا، مگر مجھے یہ بات جنتر منتر کودیکھ کر سُوجھی اور مَیں نے اُسی وقت سے تہیہ کرلیا کہ اِس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے گا۔ جب میں واپس آیا تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اس بارہ میں اپنی لائبریری سے ایک کتاب بھی مل گئی۔ میر ے ساتھ خداتعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی شدید ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ میرے سامنے آجاتی ہے بعض دفعہ مجھے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت کوئی حافظ پاس ہوتا نہیں تو مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے وقت میںبسا اوقات جب قرآن کھولتا ہوں تو وہی آیت سامنے آ جاتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ سال مَیں نے جلسہ سالانہ پرجو تقریر کی، اُس کے نوٹ لکھنے کی مجھے فُرصت نہیں ملتی تھی۔ ایک دن میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تووہ ہنس کر کہنے لگے کہ میں نے تو دیکھا ہے جب بھی آپ کو فُرصت نہ ملے اُس وقت خداتعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے چنانچہ واقعہ میںایسا ہی ہؤا جب مَیںنوٹ لکھنے کے لئے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے حتیٰ کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالہ جات کی مجھے ضرورت پیش آئی مگر میراذہن اُس طرف نہ جاتا تھا کہ وہ حوالہ جات کس کتاب میںسے ملیں گے۔ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بُلا کر اُن کے سپرد حوالہ جات نکالنے کا کام کردُوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے مَیں نے کتابوں کی الماری جو کھولی تو مَیں نے دیکھا کہ اس میں چندکتابیں بے ترتیب طو ر پر گِری ہوئی ہیں مَیں نے انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے مجھے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میںہونے کا مجھے علم نہیں تھا، مَیں نے اُسے کھولا تو اس میںاکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے اُس وقت ضرورت تھی۔
اسی طرح مَیں بعض اور کتابوں کی تلاش کر رہا تھا کہ اتفاقاً ایک کتاب نکل آئی جس کا نام ہے ’’تَقْوِیْمُنَا الشَّمْسِیُّ‘‘ اس میں مصنف نے بحث کرتے ہوئے تاریخی طور پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں میں دیر سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے وہ کہتا ہے کہ خلفائے عباسیہ نے بھی ہجری شمسی تقویم بنانے کی کوشش کی مگر اس میں فلاں فلاں روک پیدا ہو گئی اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ بعد میں دولتِ عثمانیہ نے بھی ہجری شمسی بنائی مگر رائج نہ ہو سکی، غرض اُس نے تاریخی طو ر پر اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میںیہ خیال کب پیدا ہؤا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا کوششیں ہوئیں اور کیا کیا نقائص ہوتے رہے۔ بہرحال یہ خیال مسلمانوں میںدیر سے پایا جاتا ہے بلکہ اس حد تک یہ خیال مضبوطی سے گڑا ہؤا معلوم ہوتا ہے کہ اِس کتاب کا مصنف کتاب کا نام محض تقویم شمسی نہیں رکھتا بلکہ ’’تَقْوِیْمُنَا الشَّمْسِیُّ‘‘ رکھتا ہے یعنی ہماری اپنی شمسی ہجری تقویم۔
میرا رادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کیا جائے اور عیسوی سن کے استعمال کو ترک کر دیا جائے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینہ تک اس بارہ میں پوری تحقیق کر کے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے، خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طَوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے (یہ تحقیق میری مقرر کر دہ ایک کمیٹی نے مکمل کر کے تقویم شمسی ہجری تیار کر دی ہے اور دو سال سے اس کا کیلنڈر شائع ہو رہاہے)
نظام شمسیکا تمدّنی ترقی سے تعلق
(۶) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ نظام شمسی ایک خاص قانون کے ماتحت ہے اور اس کا قانون
انسانی کاموں کیلئے بطور ایک نمونہ کے مقرر کیا گیا ہے اور اس سے انسان کی تمدّنی ترقی کیلئے ایک ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے فرماتا ہے۔۷۳؎ سورج اور چاند دونوںایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیںیعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیںہیں بلکہ ایک معیّن اور مقررہ قانون کے مطابق ہیں اور اسی مقررہ قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کی روئیدگی اور سبزہ اس قانون کے ماتحت چلتا ہے اور اس سے متأثر ہوتا ہے۔ سجد ہ کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہوتے ہیں اور کے اس جگہ یہی معنے ہیں اورکے معنے جڑی بوٹی کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے اِس جگہ مراد ہیں کیونکہ شجر کے ساتھ جس کے معنے درخت کے ہیں اس کا عطف ہے اور آیت کامطلب یہ ہے کہ بغیر تنے والی سبزیاں ہوںیا تنے والے درخت ہوں سب اپنے اُگنے، نشوونما پانے اور پھل لانے میںسورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متأثر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا کے حصہ شمالی اور حصہ جنوبی میں موسم کا فرق ہوتا ہے جب شمال میںسردی ہوتی ہے جنوب میں گرمی ہوتی ہے اور جب شمالی حصہ میں گرمی ہوتی ہے جنوبی حصہ میں سردی ہوتی ہے اور اِس تغیّر کی وجہ سے دونوں حصوں کی فصلوں کے موسموں میں بھی فرق پڑجاتا ہے اور اسی کی طرف میں اشارہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند جس قانون کے تابع ہیںاسی کے تابع سبزیاں، ترکاریاں، جڑی بوٹیاں اور بڑے درخت ہیں اور وہ ان سے متأثر ہوتے ہیں۔ پس اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کے اندر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ نظام شمسی کا ایک حصہ ہیںاور ان سے متأثر ہوتے ہیں آزاد نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے یعنی اس سورج چاند کے نظام کے اوپر ایک اور نظام ہے یعنی نظامِ شمسی نظامِ عالَم کے ماتحت ہے جس طرح کہ نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے ماتحت ہے اور نظامِ عالَم بھی ایک معیّن اور مقررہ قانون کے تابع ہے اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں۔ اس آیت میںکیسی زبردست سچائی بیان کی گئی ہے جو قرآن کریم کے وقت میں کسی کو معلوم نہ تھی، بلکہ صرف حال ہی کے زمانہ میںاس کا علم لوگوں کو ہؤا ہے اور وہ یہ ہے کہ نظامِ شمسی ہی ایک نظام نہیں بلکہ وہ نظام ایک اور بالا اور وسیع تر نظام کا حصہ ہے جو یعنی عالَمِ محتوی کہلاتا ہے اور کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ نظام ماقبل کے بیان کردہ نظاموں سے یعنی نظامِ ارضی اور نظامِ شمسی سے بلند مرتبہ اور وسیع تر ہے اور کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ بالا اور بلند نظام بھی میزان کے تابع رکھا گیا ہے اور ایک قانون کا پابند کر دیا گیا ہے آزاد نہیں ہے۔
اِس مضمون میں مندرجہ ذیل علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:-
(۱) نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے تابع ہے نہ کہ اس پر حاکم یہ وہ نکتہ ہے جسے مشہور مہندس گلیلیو (GALILEO) نے جب دریافت کیا اور اس امر کا اعلان کیا کہ زمین سورج کے گِرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، جیسا کہ اُس وقت عام خیال تھا تو اُس پر عیسائی دنیا نے کُفر کا فتویٰ لگادیا اور کہا کہ اگر اِس امر کو تسلیم کرلیا جائے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پھر سورج کو زمین سے افضل ماننا پڑیگا اور اس کے نتیجہ میںانسان کی افضلیت مشتبہہ ہو جائے گی اور مذہب باطل ہو جائے گا اور اس دلیل کی بناء پر گلیلیو پر سخت ظلم کئے گئے اُسے قید کیا گیا، پِیٹا گیا یہاں تک کہ سالہاسال کے ظلموں کوبرداشت نہ کر کے اس غریب کو یہ کہہ کر توبہ کرنی پڑی کہ جو عیسائیت کہتی ہے وہ ٹھیک ہے شیطان نے مجھے دھوکا دیکر یہ دکھادیا کہ زمین سورج کے گِرد چکر لگاتی ہے تب جا کر اُس کی تکلیف کسی قدر دُور ہوئی،لیکن قرآ ن کریم کو دیکھو وہ کس طرح شروع سے ہی فرما رہا ہے کہ ہم نے سورج اور چاند کو خاص قانون کے ماتحت بنایا ہے اور وہ اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور زمین کی روئیدگیاںآگے ان کے قانون کے تابع چل رہی ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ سورج کے گِرد تو زمین چل رہی ہے ،لیکن چاند تو زمین کے گِرد چکر لگا رہا ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک کُرّہ جس کے تابع زمین ہے اس کو لے لیا گیا ہے اور ایک وہ جو زمین کے تابع ہے اُسے لے لیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین دونوں سے متأثر ہو رہی ہے۔ ا س سے بھی جس کے گِرد وہ گھومتی ہے اور اُس سے بھی جو اِس کے گِردگھومتا ہے اور ا س سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادنیٰ بھی اعلیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ماتحت بھی حاکم پراپنا اثر چھوڑتا ہے اس لئے طاقتور کو غرور سے کام نہیںلینا چاہئے اور کمزور سے آنکھیںنہیں بند کرلینی چاہئیں کیونکہ یہ ا س سے بھی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ اس کے اثر کو بھی قبول کرے پس اگر اس کی اصلاح نہ کرے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اگر اسے نہ اُٹھائے گا تو خود بھی گِرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے کہ ہر شَے اپنے سے اعلیٰ اور اپنے سے ادنیٰ دونوں سے اثر قبول کرتی ہے اور حاکم اور محکوم دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
نظامِ ارضی نظامِِ شمسی کا ایک حصّہ ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر کی آیات میںیہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ نظامِ ارضی ایک وسیع نظام
یعنی نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہے اور یہ نہیں کہ سورج اس زمین کے گِرد چکر کھاتا ہے اور اس کے تابع ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کا عام خیال تھا ۔دوسری بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اِس سے بالا اور وسیع تر ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کے زمانہ تک دنیا کے کسی فلسفی یا مذہبی شخص نے بیان نہیں کیا تھا بلکہ وہ سب کے سب نظامِ شمسی ہی کو اہم ترین اَورآخری نظام سمجھتے تھے مگر قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتا دیا تھا کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اِس سے بالا اور وسیع تر ہے۔
فلک کی تشریح
اگر کہا جائے کہ پہلے فلاسفروں نے بھی افلاک کے وجود کو تسلیم کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی فلک کا وجود تسلیم کیا ہے مگر وہ شَے سَمَاء
سے جُدا ہے۔ فلک درحقیقت نظامِ شمسی کے پھیلائو کا نام ہے اور اُن وُسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۷۴؎
یہی مضمون سورہ یٰس رکوع ۳ میں بھی آیا ہے ۔ پس فلک یا افلاک کو تسلیم کر کے یونانی فلاسفر اس نظامِ سماوی کے قائل نہیں کہلا سکتے جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ وہ افلاک کے علاوہ اَور شَے ہے اور نظامِ شمسی کے اوپر کے نظاموں پر دلالت کرتا ہے اور صرف ایک محیط پر دلالت نہیں کرتا جس میںنظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔
تیسری بات اِس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نظام ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ ۔
تم میزان میں تعدّی سے کام نہ لو اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور وزن میں کوئی کمی نہ کر و۔یا یہ کہ ہم نے تم کو بیان العلوم اس لئے سکھایا ہے کہ تا میزان میں تعدّی سے کام نہ لو وغیرہ وغیرہ۔اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ ا نسان اُسی وقت ظلم اور زیادتی سے کام لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو قانونِ عالَم سے آزاد سمجھتا ہو لیکن اگر وہ اپنے آپ کو عالَم کی مشین کا ایک پُرزہ سمجھتا ہو تو کبھی اپنے مقام کو نہیں بھول سکتا۔ کیونکہ مشین کا جوپُرزہ اپنی جگہ سے ہِل جائے تو وہ ٹوٹنے اور کمزور ہو جانے کے خطرہ میںپڑ جاتا ہے یا خود اُس مشین کو توڑ ڈالتا ہے جس کا وہ پُرزہ ہوتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ نظامِ شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے اور اس کی تأثیرات کو دیکھ کر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں آزاد نہیں بلکہ ایک نظام کا فرد یا ایک مشین کا پُرزہ ہوں۔ پس اگر مَیں نے دوسرے کَل پُرزوں کے کام میںدخل دیا اور اُن کے حق کو چھیننا چاہا یا اپنے کام میں سُستی کی یا دوسروں کے حق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو اس کا نقصان مجھے ہی پہنچے گا اور جب میں بظاہر دوسرے پر ظلم کر رہا ہوں گا تو درحقیقت مَیں اپنی ہی جان پر ظلم کر رہا ہو نگا اور جب مَیں کسی کا حق کسی اَور کو دے رہا ہوں گا تو درحقیقت اپنے ہی حق کو ضائع کر رہا ہونگا۔
چوتھی بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ عالَم انسان کے تمدّن میںترقی کے لئے ایک بہت بڑی ہدایت ہے اگر انسان نظامِ عالَم کو اپنا راہنما بنا کر اس کے مطابق نظامِ انسانی کو ڈھال لے تو وہ ہر قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے اور نقصانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس نظام میں ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو بجا لا رہا ہے اور دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتا نہ ظلم کے ساتھ نہ تخسیر کے ساتھ یعنی نہ اس سے زیادہ کام لیتا ہے نہ اس کا حق کم کرتا ہے اور نہ دوسرے کے کام میں دخل دیتا ہے۔یہی اطاعت، ذمّہ داری کی ادائیگی کا احساس اوردوسرے کے امور میں دخل اندازی سے اجتناب ہی ایسے قوانین ہیںجن کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان اپنے تمدّن کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں۔
نظامِ عالَم کی کامیابی کے تین اصل
اِس جگہ نظامِ عالَم کے کامل ہونے کے تین اصل بیان فرمائے ہیں۔
(۱) کوئی فرد اپنے مفوّضہ کام سے زیادہ نہیں کر رہا ۔
(۲) ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو پوری طرح ادا کر رہا ہے۔
(۳) کوئی فرد دوسرے فرد کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روک نہیں رہا ، یا اس کے اد ا کرنے کی قابلیت سے اسے محروم نہیں کر رہا۔
غور کر کے دیکھ لو نظامِ عالَم کی کامیابی کا انحصار انہی تین باتوں پر ہے اور انسانی نظام کی خرابی یا بے ثباتی کا سبب بھی ا ن تینوں یاان میں سے کسی کا فُقدان ہوتا ہے اور انہیں سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن کریم نے نظامِ عالَم کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کے لئے اس جگہ اشارہ فرمایا ہے۔ یہ آیات سورۃ الرحمن کے شروع میں ہیںجہاں کہ قرآن کریم کی آمد کی غرض بیان کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ خالی ترازو کے تول اور بٹّوں کے درست رکھنے کا مضمون نہ تو قرآن کریم کے نزول کے اغراض سے خاص تعلق رکھتا ہے اور نہ نظامِ عالَم سے ۔ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ گیہوں اور چاولوں کے ماپ اور تول کا ذکر نہیں بلکہ انسانی اعمال کے ماپ اور تول کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سوسائٹی کے بنیادی اصول نظامِ عالَم کے مطابق رکھنے چاہئیں اور جو قیود اور حدبندیاں اِس پر الٰہی قانون نے لگائی ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہئے اور نہ تو یہ کرنا چاہئے کہ کام کا اِس قدر جوش ہو کہ دوسروں کے مفوّضہ کاموںمیں دخل دینے لگ جائے اور نہ یہ غفلت کرے کہ اپنے فرض کو بھی ادا نہ کرے اور نہ یہ ظلم کر ے کہ دوسروں کو بھی ان کے کام سے روکے خواہ بِالواسطہ یا بِلاواسطہ۔
قومی تباہی کے اسباب
اب دیکھ لو کہ نظامِ انسانی کی تباہی ان تین امور سے ہی وابستہ ہے جب کوئی قوم ہلاک یا تباہ ہوتی ہے تو اِس کایا تو یہ سبب ہوتا ہے کہ
بعض ذہین اور طبّاع لوگ اپنے جوشِ عمل سے گمراہ ہو کر دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی شروع کر دیتے ہیں یا توغیر قوموں کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میںلینے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اِس طرح وہ دنیا پراحسان کر رہے ہیں یا خود اپنے ملکی یا قومی نظام میںا س قدر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا ان سے ناممکن ہوتا ہے اور اس طرح ملکی یا ملّی کام تبا ہ ہو جاتے ہیں اور قوم یا ملک بجائے ترقی کرنے کے تنزّلکی طرف چلا جاتا ہے۔بڑے بڑے فاتحین جو شہاب کی طرح چمکے شہاب کی طرح ہی غائب ہو گئے ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ اُنہوں نے خود توکچھ شہرت اور عزت حاصل کرلی لیکن قومی نظام کو ایک دھکّا لگا گئے اور نظامِ ارضی کی مشین میںان کی قوم کے پُرزہ کی جو جگہ تھی اس سے ہِلا کر دوسری جگہ کر گئے جس سے قوم کو بھی صدمہ پہنچا اور دنیا کو بھی ۔اسی طرح وہ جو شیلے قومی کارکن جو ہر مجلس پر چھا جانا چاہتے ہیں اور جوشِ عمل کی وجہ سے سب عُہدے اپنے ہی ہاتھوں میںرکھنا چاہتے ہیں قوم کی تباہی کاموجب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک تو وہ سب کام اچھی طرح کر ہی نہیں سکتے اور دوسرے اس وجہ سے قوم میںاچھے دماغ پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ باقی دماغ نکمیّ رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں۔حال ہی میںایک وسیع ہندوستانی ادارہ کے بارہ میں ایک معزّز ہندوستانی نے مجھ سے کہا کہ مَیںبارہا اس ادارہ کے کرتا دھرتا کو کہہ چکا ہوں کہ تم اِس ادارہ کو منظم کرو، سیکرٹریٹ بنائو، انسپکٹر مقرر کرو، تا کہ کام وسیع ہو اور کام کرنے والوں کی جماعت تیار ہو مگر وہ سنتا ہی نہیں۔ یہ شکایت ان کی بجا تھی اور مَیں نے دیکھا ہے کہ اس کانتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اس ادارہ میںکام کرنے والی کوئی نئی پود تیار نہیںہورہی۔ ڈکٹیڑوں پر ڈیماکریسیز کو اِسی وجہ سے فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اس میں کام کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ ُکھلا رہتا ہے پس جو قوم یا ملک اچھا نظام اور پائیدار نظام قائم کرنا چاہے اسے نظامِ عالَم سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ ہر فرد اپناکام ہی کرے دوسروں کے کام سمیٹنے کی کوشش نہ کرے ، ورنہ وہ سب کام نہ کر سکے گا اور دوسروں کے دماغ معطّل ہوجائینگے۔ قومی زندگی پائیدار بنانے کے لئے متواتر لائق افراد کاپیداہوناضروری ہے اور لائق افراد بغیر تجربہ اور عملی کام کے پیدا نہیں ہو سکتے۔پس زیادہ ذہین اور قابل اشخاص کا فرض ہے کہ وہ کام کو اچھا بنانے کے شوق میںدوسروں کے لئے راستہ بند نہ کریں بلکہ دوسروں کو جو خواہ ان سے کم لائق ہوں کام کرنے کا موقع دیں ، تا کہ وہ بھی تجربہ حاصل کر کے اس خلاء کو پُر کرنے کے قابل ہوں جوبڑوں کے مرنے کے بعد ضرورہو کر رہیگا۔
دوسری خرابی جو نظامِ ملکی یا سیاسی کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہے یہ ہے کہ ہر فرد اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہیںکر رہا ہوتا جس طرح زیادہ کام اپنے ہاتھ میںلے لینا نقصان کاموجب ہوتا ہے اسی طرح اپنے مفوّضہ کام کو پورا نہ کرنا بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے۔پس سوسائٹی یا ملک یا قوم اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کے تمام افرا د میںذمہ داری کا علم اور اُس کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ اوّل تمام قوم کے اندر علم پیداکیاجائے اور پھر اس علم کو عمل کی صورت میں بدلنے کی کوشش کی جائے تا کہ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اد اکرے جس طرح کہ نظامِ عالَم کا ہر فرد اپنے فرض کوادا کر رہا ہے۔
تیسری خرابی قومی نظام کو تباہ کرنے والی یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو بِالواسطہ یابِلاواسطہ کام سے روکنے لگتے ہیںیعنی یا تو ظلماً ایک فرقۂ قوم کوکام سے الگ کر دیتے ہیں اور صرف ایک حصہ قوم کوکام کے قابل قرار دیتے ہیں جیسے آرین نسلیں ہیں کہ قومی برتری کے خیال سے وہ صرف اپنی ہی نسل کے لوگوں کو ملک وقوم کا بوجھ اُٹھانے والا قرار دیکر دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو کام سے بے دخل کر دیتی ہیںاور اس طرح قومی تنزّلکے سامان پیدا کردیتی ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ادنیٰ اقوام کی خرابی بھی اُلٹ کر اعلیٰ قوم پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور اسے خراب کر دیتی ہے۔ اور یہ عقیدہ کہ صرف اعلیٰ ادنیٰ پراثر انداز ہوتا ہے غلط ہے، چنانچہ نظامِ عالَم میں سورج جو بڑ ا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے اور چاند جو چھوٹا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔پس چھوٹوں کو نظر انداز کرنا بالکل خلافِ عقل ہے اور جو افراد یا اقوام بعض افراد یا اقوام کو چھوٹا اور ادنیٰ قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں اور قومی مشین کے پُرزوں سے ان کو خارج کر دیتی ہیںوہ آخر تباہ ہو جاتی ہیں اور ادنیٰ افراد یا اقوام ان کو بھی قعرِمذلّت میںگِرا دیتے ہیں۔
اسی طرح بِالواسطہ طور پر کسی کے حق میں کمی کرنا بھی قوم کے حق میں نقصان دہ ہوتا ہے یعنی کمزور اور غریب اور مزدور اقوام کی تعلیم یاتربیت سے غفلت یا اولاد کی تربیت سے اِعراض یہ سب بِالواسطہ اِخْسَارِ فِی الْمِیْزَانِ ہے۔یعنی گو عقیدۃً انہیںادنیٰ نہیں سمجھا جاتا، لیکن عملاً ان سے سلوک وہی ہوتا ہے جو غیر ضروری حصہ سے ہو سکتا ہے،لیکن چونکہ وہ افراد بھی قانونِ قدرت کے مطابق قوم کا ضروری حصہ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری مشین خراب ہوجاتی ہے اور نظامِ ملکی یا قومی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
دیکھو! کس خوبی سے اوّل ـ نظامِ عالَم کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر نظامِ انسانی کو اس پر چسپاں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے بابلیوںؔ نے اور ان کے بعد یونانیوں نے نظامِ شمسی پرنظامِ تمدّن کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر جس خوبی، جس اختصار اور جس ہمہ گیری کے ساتھ قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں ان دونوں نظاموں کی حقیقت اور مماثلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ان اقوامِ عالَم کے فلاسفروں کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔
اور مسائل بھی علمِ ہیئت کے قرآن کریم میںبیان ہوئے ہیں مگر اجمالاً انہیں امور پر کفایت کی جاتی ہے۔
(۳) ایک وسیع اور عظیم الشّان سمندر
تیسری چیز جو مَیںنے دیکھی تھی سمندر تھا،مَیں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ ایک اور سمندر قرآن نے پیش کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے بھول گئے ہیں وہ اس کی طرف سے ہنس کرگزر جاتے بلکہ اُسے حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمندر خود ہماری کتاب قرآن کریم ہے۔ سمندر کیا ہوتا ہے؟ سمندر کے معنے ایک ایسی وسیع چیز کے ہیں جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور جس میںموتی، مونگا اور اِسی قسم کی اور بیسیوں قیمتی چیزیں ہوتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ اسی قسم کی ایک چیز ہمارے پاس بھی ہے مگر افسوس کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ہم موتی نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،ہم مونگا نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیوں کا تیل نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم سیپیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم کوڑیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،مگر ہم نہیں قدر کرتے تو اُس شخص کی جوقرآن کریم کے سمندر میںسے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے پیش کرے، حالانکہ یہ وہ سمندر ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۷۵؎ یعنی اے رسول! ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہے جس میں ہر چیزکا بیان موجود ہے اور جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔ اس میں موتی بھی ہیں، اس میں مونگے بھی ہیں، اس میں ہیرے بھی ہیں، اس میںجواہرات بھی ہیں، غرض خشکی اور تری کی تمام نعمتیں اس میںجمع ہیں جب بھی تمہیںکسی چیز کی ضرورت ہو تم اس سمندر میںغوطہ لگائو وہ چیزتمہارے ہاتھ میں آجائے گی۔پھر سمندر میںتو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان غرق ہو جائے بعض دفعہ سمندروں میںطوفان آتے اور بڑے بڑ ے جہاز تباہ ہو جاتے ہیں مگر فرمایا یہ وہ سمندر ہے کہ اس سمندر میں جو غوطہ لگائے وہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا اور سمندروں میںبڑے بڑے کپتان بھی بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیںمگر یہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی انسان رستہ بھولنے لگتا ہے وہ کہتا ہے کہ غلط راستے پر نہ جائو۔ صحیح راستہ یہ ہے اِدھر آئو۔ پھر یہ صرف نہیں بلکہبھی ہے۔ ان سمندروں میںتو لوگ ڈوبتے اور عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے جو انسان کو زندگی بخشتا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔پھر اسی حد تک بس نہیں بلکہ ۔ اس سمندر میںتیرنے والا ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے اور کبھی کسی خطرہ سے اسے دوچار ہونا نہیں پڑتا۔ اس کے آگے بھی رحمتیں ہوتی ہیں اس کے پیچھے بھی رحمتیں ہوتی ہیں۔ جب ایک نعمت اسے مل جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ اسی نعمت پر بس نہیں آئو تمہیں دوسری نعمت بھی دیں۔ اور جب دوسری نعمت مل جاتی ہے تو تیسری نعمت اس کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے۔ وہ ایک مقام پر اپنا قدم روکتا ہے تو اُسے آواز آتی ہے کہ صاحب! ٹھہرتے کیوں ہیں، اگلی منزل پراس سے بھی زیادہ اچھی نعمتیں ہیں اور جب وہ دوسری منزل پرپہنچتا ہے تو آواز آتی ہے کہ صاحب! آگے بڑھیئے ہماری نعمتیں تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں سمندر میں تو جب انسان دو چار سَو میل آگے جاتا ہے تو جہاز خطرے میں گھر جاتا ہے مگر یہاں ہر قدم پر یہ آواز آتی ہے کہ گھبرائیے نہیں،آپ تو امن اور سلامتی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
قرآنی سمندر کی وُسعت
پھر سورۃ لقمان رکوع ۳ میںاس سمندر کی وسعت بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۷۶؎ یعنی زمین میںجس قدر درخت ہیں اگر اُن تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنا دی جائیں اور جنگلوں اور باغات کا ایک درخت بھی نہ رہنے دیاجائے سب کی قلمیں تیا ر کرلی جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر اور سات سمندروں کاپانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور اس سیاہی سے کلام اللہ کے معنے لکھے جائیں تو قلمیں ٹوٹ جائینگی،سات سمندروںکی سیاہی خشک ہو جائے گی، مگرقرآن کا سمندر پھر بھی بھرا ہؤا ہو گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔کیونکہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔غالب ہونے کی وجہ سے اس نے وہ وسعتِ قرآنی معارف کو بخشی ہے کہ اگر تمام درخت قلمیںبن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے اس کے معارف لکھے جائیں، پھر بھی وہ ختم ہونے میںنہ آئیں۔مگر وسعت بعض دفعہ لغو بھی ہو جاتی ہے، بڑے بڑے شاعر جس قدر گزرے ہیں ان کے اشعار میں کسی نہ کسی حد تک لغویت ضرور آ گئی ہے۔ اسی طرح جتنے بڑے نثار گزرے ہیں ان تمام کی نثر کے بعض حصوں میںفضولیات پائی جاتی ہیں۔مگر فرمایا یہاں ایسا نہیں، باوجود قرآنی مطالب اس قدر وسیع ہونے کے اس میںکوئی بات لغو اور بے فائدہ نہیں کیونکہ ایک حکیم ہستی کایہ نازل کردہ کلام ہے اور جو حکیم خدا کی طرف سے نازل شدہ کلام ہو اس میں لغو بات کس طرح ہو سکتی ہے۔پس ایک طرف تو قرآنی معارف میںاس قدر وسعت ہے کہ سات سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے مگر اس کے معارف ختم نہ ہوں اور دوسری طرف اس میں ایک بات بھی خلافِ حکمت نہیں بلکہ ایک ایک بات کو دیکھ کر انسان قربان ہو جاتا ہے۔
پھر سورہ دخان رکوع ایک میں فرماتا ہے۔۔۷۷؎ کہ حمید مجید خدا کی طرف سے ایک کتاب آئی ہے جو کھول کھول کر تمام سچائیوں کو بیان کرنے والی ہے اور میں اسی کتاب کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ تمہار اخدا بڑا بزرگی والا خدا ہے ہم نے یہ قرآن ایک ایسے تاریک زمانہ میںاُتارا ہے جو رات سے مشابہت رکھتا تھا اور جس میںقسم قسم کی تباہیاں اور قسم قسم کے گند اور فساد تھے مگر باوجود ان فسادوں کے وہ زمانہ ایک لحاظ سے مبارک بھی تھا کیونکہ ۔ اس میں خداکی طرف سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ہوشیار ہوجائو۔ گو تمہارے گھر ڈاکوئوں کا شکار ہو رہے ہیں مگر اب خدا خود تمہاری حفاظت کیلئے آ رہا ہے۔ پس ہم نے خود ا س کتاب کے ذریعہ اپنے بندوں کو ہوشیار اور بیدار کیا۔
مُنذرکے عام طورپر نہایت غلط معنے کئے جاتے ہیں ،یعنی اُردو میںاس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ڈرانے والے ہیں، حالانکہ عربی زبان میںاِنذار کے معنے ڈرانا نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار کرنا ہیں۔ تو فرمایا گویہ رات تھی اور تاریک رات تھی، چاروں طرف ڈاکے پڑر ہے تھے اور دین وایمان کہیں نظر نہیںآتا تھا مگر پھر بھی یہ مبارک رات تھی کیونکہ اس میںخدا خود چوکیدار بن کرآیا اور اُس نے خود پہرہ دیا او رآوازیں دیں کہ میرے بندو! ہوشیار ہو جائو، بھلا اِس سے زیادہ مبارک رات اور کونسی ہو سکتی ہے۔ یہ مبارک رات کیوں نہ ہو، راتوں کے وقت چوروں کی طرف سے مال اُٹھایا جاتا ہے مگر اس رات میں لوگوں کو خود ہماری طرف سے مالا مال کیا جا رہا ہے اور انہیں بُلا بُلا کر کہا جا رہا ہے کہ آئو اور اپنے گھروں کو برکتوں سے بھر لو۔ یہ سب کچھ ہمارے حکم کے ماتحت ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم اس بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو نعماء سے مالا مال کر دیں۔ پس اس سے زیادہ مبارک رات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ بغیر مانگے اور سوال کئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں۔ سے مراد وہی معارف اور علوم ہیں جو بغیر کسی انسانی کوششوں کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھولتا ہے۔ اگر کوئی شخص روٹی کھا رہا ہو اور کوئی دوسراآ کر اُسے کہے کہ تو روٹی کھا رہا ہے تو وہ حکیم نہیں کہلاسکتا، حکیم وہی کہلائے گا جو ایسی بات بتائے جس کا دوسرے کو علم نہ ہو۔ پس قرآن صرف کلام ہی نہیں بلکہ ایسے حقائق اور معارف کا حامل ہے کہ بندے لاکھ سرپٹکتے رہتے وہ ان علوم اور معارف کو اپنی ذاتی جدوجہد سے کبھی حاصل نہ کر سکتے۔
اسی طرح سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔۷۸؎
کہ یہ بات جھوٹی نہیں۔ یہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر رہی ہے اور ہر چیز اس میں بیان کر دی گئی ہے اور یہ مؤمنوں کی ہدایت اور رحمت کا موجب ہے۔
(۵) سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے۔۷۹؎
ارے! اب بھی ان کو کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے جب کہ ہم نے انہیں اتنی بڑی چیز دیدی ہے جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔یعنی ہم نے ایک کتاب اُتار دی ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ سمندر کے پاس تو لوگ جاتے ہیں مگر یہ سمندر ایسا ہے کہ آپ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے۔پھر دنیا میں تو لو گ اُستادوں کے پاس جاتے اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے فلاں بات کس طرح ہے مگر یہاں وہ استاد بھیجا گیا کہ جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ ۸۰؎ تم خود لوگوں کے پاس جائو اور اُنہیں یہ تمام باتیں پہنچائو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان میںسے ایک بات بھی نہ پہنچائی تو ہم کہیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیںپہنچایا گویا ہمارا اُستاد اور ہمارا آقا خود ہمارے گھروں پر چل کر آ گیا ہے اگر تم سوچو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے اپنے رسول کو جو یہ حکم دیا ہے یہ تم پر ہمارا اتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حد نہیں گویا پنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آ رہی ہے کہ ’’چوپڑیاں تے دو دو‘‘یعنی روٹیاں چپڑی ہوئی بھی ہوں اور پھر ملیں بھی دو دو تو اور کیا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک تو چپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اور پھر دو دو دے رہے ہیں ایک تو ہم نے وہ کتاب دی جو ہر طرح کامل ومکمل ہے اور جس کی نظیر کسی اور الہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھر اپنے رسول کو یہ حکم دیدیا ہے کہ جائو اور ہماری یہ کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کر انہیں سنائو اور اس کی تعلیموں سے انہیں آ گاہ کرو۔
۔ایک نعمت تو یہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی اور دوسری نعمت یہ ہے کہ جو اس کتاب کو مان لیںگے ، دنیا میںان کی عزت قائم کر دی جائے گی،بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں۔یہ معنے بھی درست ہیں مگر ا س کے یہ معنے بھی ہیں کہ جو لوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے، ان کا ذکرِ نیک دنیامیں جاری رہے گا اور کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ خدمت کی اور فلاں نے وہ خدمت کی گویا یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ اس پر صدقِ دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے۔
پھر فرمایا۔ ۸۱؎
کہ ہم نے قرآن میںہر قسم کی باتیں بیا ن کر دی ہیں ، مگر افسوس انسان پر کہ وہ ہر بات کو سُنکر کہتا ہے کہ ابھی اور چاہئے اور جوبات اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اس کا انکار کر دیتا ہے، اگر اس کے اندر ایک ذرہ بھی شرافت کا مادہ ہوتا تو یہ ان باتوں کو قبول کرتا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور اگر دل میںاُن کے بعد بھی پیاس رہتی تو کسی اور چیز کی طلب کرتا ، مگر یہ عمل تو کرتا نہیں اور اَور چیزیں مانگے جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہدایت سے کوئی غرض نہیں، محض ایک پاگل اور احمق انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے کہے جاتا ہے کہ اَور دو، اَور دو۔ اوریہ نہیں دیکھتا کہ جو اسے دیا گیا ہے اسے اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے اسی طرح فرمایا۔
۸۲؎
ہم نے قرآن میں انسان کے نفع کے لئے ہر چیز رکھدی ہے مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اس پاک کتاب کاانکار کئے جاتا ہے۔یہی مضمون سورہ روم ع۶ اور سورہ زمر ع۳ میں بھی بیان ہؤا ہے۔
قرآنی سمندر کی گہرائیوں کاپتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں
یہ وہ سمندر ہے جو مَیں
نے دیکھا اور یہ وہ بحرِزخّار ہے جس کا مَیں نے مشاہدہ کیا، اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں، اس سمندر کی کوئی انتہا نہیں۔اس سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں اور اس کی وسعتِ بے پایاں کو کوئی انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا۔مجھے حیرت ہوتی ہے، مجھے تعجب آتا ہے، مجھے رونا آتا ہے کہ معمولی معمولی خلیجوں کے کنارے ہمارا ایک سیاح یا شاعر کھڑا ہوتا اور فرطِ مسرت میں جھومتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں یہ بے کنار خلیج یا بے کنار دریا ہے حالانکہ ایک دن کی منزل یا دو دن کی منزل پر اس کا کنارہ موجود ہوتا ہے ۔بڑے بڑے سمندروں کا بھی دس پندرہ دن کے سفر کے بعد کنارہ آجاتا ہے، مگر وہ اس کنارے والے سمندر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ بے کنار ہے پس مجھے حیرت ہوئی اور میرا دل اِس غم سے خون ہو گیا کہ وہ عظیم الشان سمندر جسے خدا نے بے کنار کہا، جس کی وسعت کو اس نے خود غیر محدود قرار دیا اور جس کے کنارہ کو کوئی انسانی عقل تلاش نہیں کر سکتی اس کے متعلق مولویوں کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی کہ اس کی آیات کی طبری اور بیضاوی نے جو تفسیر لکھ دی ہے اب اس کے بعد کچھ اور کہنا تفسیر بِالرائے ہے۔ یقینا وہ جھوٹے ہیں ،کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اگر ساری دُنیا کے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کی سیاہی بنالی جائے اور ان قلموں او ر سیاہیوں سے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے معارف لکھے جائیں تب بھی قلمیں ٹوٹ جائیں گی، سیاہیاں خشک ہو جائینگی، مگر اس کتاب کے معارف ختم نہیں ہوں گے لیکن یہ دو چار سَو صفحوں کی چند جلدیں لکھنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ اب ان باتوں سے زیادہ کوئی اور بات بیان کرنی حرام ہے۔ مَیں کہتا ہوں اور مَیں کیا خدا کا کلام کہہ رہا ہے کہ جس دن تم سارے درختوں کی قلمیںبنا کر اور سارے سمندروں کی سیاہی بنا کر ان سے قرآن کے معارف لکھ لو گے تو اس کے بعد تم بیشک میر ے پاس آ جانا اور کہنا کہ اب قرآن کی اور تفسیر مت کرولیکن دنیا نے ابھی تو قرآن کی تفسیرلکھنے میں ایک جنگل کی لکڑی بھی ختم نہیں کی اور سمندر چھوڑ ایک کنویں کے پانی جتنی سیاہی بھی اس پر خرچ نہیںکی۔ پس ابھی ہمیں اس حق سے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ حق ہمارا اُس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک سمندروں میںپانی کا ایک قطرہ بھی موجود ہے ۔یا درخت کی ایک شاخ بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ہاںتمہارا بے شک یہ حق ہے کہ تم ثابت کروکہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسلام کے خلاف ہے، اس بات سے تمہیں کوئی نہیں روکتا مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم قرآن کے نئے معانی کیوں کرتے ہو میں ان سے کہتا ہوں کہ اے نالائقو ! اور اے احمقو! تم تو خشکی میں تڑپ رہے ہو اور ہم خداتعالیٰ کے ایک وسیع سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ تم ریت کے تودوں پر لَوٹتے ہو اور طعنے ان لوگوں کو دے رہے ہو جو سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے والے ہیں۔ پس خدا سے ڈرو اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے بحرِ زخّار کو پتوں کی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش نہ کرو اور کود کر اس کو پھلانگجانے کے دعووں سے اپنی نادانی ظاہر نہ کرو ۔
مَیں نے جب ان باتوں کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا ء نہ رہی اور مَیں نے کہا، افسوس خزانے موجود ہیں، قلعے موجود ہیں ، رصدگاہیں موجود ہیں، سمندر موجود ہے مگر ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں، آثارِ قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے کنجیاں دی تھیں اُنہوں نے اُن آثارِ قدیمہ کو خراب کر دیا، تباہ کر دیا اور اِس قدر ان کی حالت کو مشتبہہ کر دیا کہ ان پرکوئی شخص اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا۔ یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا۔ اس قرآن کے آثارِ قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم ؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل وکچیل سے مبرّا، داغوں اور دھبوں سے صاف، چھینٹوں اور غلاظت سے پاک ہر چیز اصل اور حقیقی رنگ میںہمارے پاس ہے۔پُرانے سے پُرانے آثار اس میںپائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تو قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ، چند ٹوٹی ہوئی چُھریاں ، چند پُرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اُس کی تعریف کے شور سے آسمان سرپراُٹھالیتے ہیں اورکہتے ہیں واہ واہ! اس نے کس قدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ خزانہ جو خدا نے اُن کو دیا تھا اس کو وہ بھول گئے ،وہ سمندر جو خدا نے ان کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا، وہ تمام رصدگاہیں جوقرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لاپرواہ ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اِس عظیم الشان راز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ اور جب میں نے کہا۔ ’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ تو اِس کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں۔مَیں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھونگا اور اُسے مجبور کروں گا کہ وہ اِس کی طرف توجہ کرے۔ـ
قرآن کریم کا بلند ترین مقام
پس اے دوستو! مَیں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں۔ دنیا کے علوم اس کے
مقابلہ میںہیچ ہیں۔ دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میںاتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میںایک کرمِ شب تاب حقیقت رکھتا ہے۔ دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میںکوئی چیز نہیں، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف وحقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے ُکھلا ہے، یہ ابوبکرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عمرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عثمانؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا، یہ علیؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی ُکھلا تھا اور آج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی ُکھلا ہے بلکہ جس طرح دُنیوی علو م میںآجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے، مگر جب مقابلہ آ پڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میںترقی کر جانے کے گھمنڈ میںقرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں! ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا۔ اُسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میںہیچ ہو کر رہ جائیں گے۔پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا او رپھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو اس کے مقابل پر زِک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو اد ا بھی کر رہے ہیں۔ دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی خوبیاں لوگوںکے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ،اِسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑکی اور جب اُس نے دیکھا کہ تم اُس کی کتاب کو صندوقوں او رغلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حُکم دیا کہ جائو اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو۔ یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں۔ دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں، وہ دشمنی کرتی ہے تو سَو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیںکہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جائو اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا۔
دوستوں کو نصیحت
آخر میں مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمار ے سپرد ایک عظیم الشان کام ہے ہم نے اسلام کی عظمت اور اس کی برتری دنیا کے تمام مذاہب پرثابت کرنی
ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ اسلام کوسیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ دشمن کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے وہ تو عداوت اور دشمنی کے جوش میں بیہودہ اعتراضات کرتا ہی رہے گا، ہاں اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے، اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم اس کے دین کے حقیقی خدمت گزار ہوں تو بشریت کی وجہ سے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہونگی اللہ تعالیٰ انہیں یقینا معاف کر دیگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی نگاہ میںکبھی ذلیل نہیں کر سکتا۔ بشری کمیاں انبیاء میں بھی ہوتی ہیں ۔ پس اگر ایسی غلطیاں خدمتِ دین کے ساتھ ہوں تو خدا ان پر گرفت نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک حبشی کو اپنا وہ بچہ کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ہوتے ہیں، آنکھوں میںغلاظت بھری ہوتی ہے اور شکل نہایت بھیانک اور ڈراؤنی ہوتی ہے۔ پھر اگرایک حبشی اپنے مَیلے کُچیلے اور بدصورت بچہ کی تحقیر نہیں کر سکتا،بلکہ اسے اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتا ہے تو کس قدر نادان ہے وہ شخص جو خیال کرتا ہے کہ گو ہم خداتعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جائیںاور اللہ تعالیٰ کے روحانی فرزند بن جائیں وہ پھر بھی ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ہمیں دھتکاردیگا۔ وہ ہمیںدھتکارے گا نہیں بلکہ اپنے سینہ سے لگائے گا اور ہماری کمزوریوں اور خطائوں سے چشم پوشی کریگا، ہاں اپنے طور پر ہر انسان کو یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آ ئے اگر وہ اپنی طرف سے ان خطائوں اورکمزوریوں پر غالب آنے کے لئے پوری جدوجہد اور سعی کرتا ہے تو وہ اُس بچے کی طرح ہے جو زمین پر گِرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح ایسے بچہ کو باپ نہایت پیار کے ساتھ اپنے گلے لگا لیتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنے اس بندے کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا اور خود اُسے اُٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتا ہے پس کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارے دلوں میںقرآن کی محبت پیدا کرے،اپنے دین کی محبت پیدا کرے، اپنے رسول کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلاسکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آئیںاور اپنی خطائوں کو دُور کرسکیں لیکن اگر باوجود ہماری کوشش کے پھر بھی ہم میں کوئی عیب یا گُناہ رہ جائے تو وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے اور ہمارے دشمن کو ہم پرغالب آنے کاموقع نہ دے وہ اپنے فضل کی چادر میں ہم سب کو لپیٹ لے اور اپنے محبوبین اور مقربین میںہمیںشامل فرمائے تاہم کہہ سکیں کہ ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت خدا تعالیٰ کے دین کے اِحیاء کے لئے ہے اور ہمارا خالق اور مالک خدا بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔
۱؎ تذکرہ صفحہ ۴۱۳ ۔ ایڈیشن چہارم۔
۲؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲ تا ۱۹ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء۔
۳؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ تا ۲۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء۔
۴؎ پیدائش باب ۲ آیت ۸نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء۔
۵؎ پیدائش باب ۲آیت ۱۶تا ۲۳ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء۔
۶؎ ڈارون (ERASMUS DARWIN) 1731ء تا 1802ء۔ انگریز سائنسدان۔ اگرچہ طبیب مگر اس نے ایک لمبی نظم ’’نباتیاتی باغ‘‘ (THE BOTANIC GARDEN) بھی لکھی۔ ایک نظم ’’زونومیا‘‘ (ZOONOMIA) میں ارتقائی نظریات کی پیشگوئی ملتی ہے۔ جہاز بیگل پر ماہر موجودات کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اس نے طبّ اور مذہب کا مطالعہ کیا۔ اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہؤا جو ڈارونیت (DARWINISM) بھی کہلاتا ہے۔ اِس نظریہ پر اِس نے اپنی کتاب ’’آغازِ انواع‘‘ (ORIGION OF SPECIES) میں بحث کی ہے۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۷؎ ہیکل(HAECKEL ERNST HEINRICH) 1834ء تا 1919ء۔ جرمن حیاتیات دان اور فلسفی پاٹسڈم (POTSDAM) برلن اور ویانا میں طب اور حیوانیات کا مطالعہ کیا اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۸۶۵ء میں JENA یونیورسٹی میں حیوانیات کا پروفیسر ہوگیا اور ۵۰ سال تک نظریۂ ارتقاء کی اشاعت کرتا رہا۔ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے حیوانی زندگی کا شجرۂ نسب مرتب کیا۔ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۸؎ ہکسلے(HUXLEY T(HOMAS) H(ENRY)انگریز حیاتیات دان۔ جب وہ جہاز رٹیل سینک پر نائب سرجن تھا تو اس نے بحر الکاہل کے رقبوں میں سمندری زندگی کے نمونے اکٹھے کئے۔ ڈارون کا حامی تھا اور اس نے ارتقاء ، تشریح، عضویات اور سائنس کے دوسرے موضوعات پر لکھا۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۹؎ نوح : ۱۴ تا ۱۹
۱۰؎ مریم : ۶۸
۱۱؎ الدھر : ۲
۱۲،۱۳؎ الدھر : ۳
۱۴؎ فاطر : ۱۲
۱۵؎ الانبیاء : ۳۱
۱۶؎ السجدۃ : ۸
۱۷؎ السجدۃ : ۹
۱۸؎ المرسلٰت : ۲۱ تا ۲۳
۱۹؎ النّجم : ۴۳ تا ۴۸
۲۰؎ فاطر : ۱۲
۲۱؎ البقرۃ : ۳۱
۲۲؎ الاعراف : ۱۲
۲۳؎ البقرۃ : ۳۷
۲۴؎ طٰہٰ : ۱۲۴
۲۵؎ البقرۃ : ۳۹
۲۶؎ الاعراف : ۲۶
۲۷؎ ص : ۷۷
۲۸؎ الانبیاء : ۳۸
۲۹؎ الرّوم : ۵۵
۳۰؎ الاعراف: ۱۳
۳۱؎ اللّھب : ۲
۳۲؎ الرحمٰن : ۱۶
۳۳؎ البقرۃ : ۳۶
۳۴؎ الاعراف : ۲۰
۳۵؎ طٰہٰ : ۱۱۸
۳۶؎ النساء : ۲
۳۷؎ الاعراف : ۱۹۰،۱۹۱

۳۸؎ بخاری کتاب النکاح باب الوصاۃ بالنّساء
۳۹؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۷ المکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۸ء
۴۰؎ مجمع البحار جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ مطبع نولکشور ۱۳۱۴ھ
۴۱؎ بخاری کتاب التفسیر باب یایھا النبی لم تحرم ما احل اللّٰہ لک
۴۲؎ طٰہٰ : ۱۲۲
۴۳؎ طٰہٰ : ۱۱۹ ، ۱۲۰
۴۴؎ البقرۃ : ۳۶
۴۵؎ البقرۃ : ۳۲
۴۶؎ النمل : ۲۴
۴۷،۴۸؎ البقرۃ : ۳۱
۴۹؎ التحریم : ۴
۵۰؎ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ، ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۱؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۲؎ خروج باب ۳۲۔ آیت ۱ تا ۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۵۳؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۴؎ خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ( مفہوماً)
۵۵؎ خروج باب ۳۲ آیت ۱۹ تا ۲۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء (مفہوماً)
۵۶؎ فاطر : ۲۵
۵۷؎ الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۵۸؎ الانعام : ۷۶
۵۹؎ النجم : ۹ ، ۱۰
۶۰؎ یونس : ۶۳ تا ۶۵
۶۱؎ النمل : ۶۶ ، ۶۷
۶۲؎ الجنّ : ۲۷ ، ۲۸
۶۳؎ حٰم السجدۃ: ۳۱ تا ۳۳
۶۴؎ الصّٰفّٰت : ۸۴ تا ۱۰۰
۶۵؎ مہورت: کسی کام کیلئے
ستاروںکی چال کے مطابق
مبارک وقت معلوم کرنا
۶۶؎ النحل : ۱۳
۶۷؎ الحج : ۱۹
۶۸؎ یونس : ۶
۶۹؎ نوح : ۱۶ ، ۱۷
۷۰؎ الرعد : ۳
۷۱؎ الانعام : ۹۷
۷۲؎ الرحمٰن : ۶
۷۳؎ الرحمٰن : ۶ تا ۱۰
۷۴؎ الانبیاء : ۳۴
۷۵؎ النحل : ۹۰
۷۶؎ لقمان : ۲۸
۷۷؎ الدخان : ۲ تا ۶
۷۸؎ یوسف : ۱۱۲
۷۹؎ العنکبوت : ۵۲
۸۰؎ المائدۃ : ۶۸
۸۱؎ بنی اسرائیل: ۹۰
۸۲؎ الکہف : ۵۵



روس اور موجودہ جنگ



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

روس اور موجودہ جنگ
(رقم فرمودہ ستمبر ۱۹۳۹ء)
روس کا پولینڈ میں داخلہ
روس کا پولینڈ میں اپنی فوجیں بھیج دینا دُنیا کیلئے حیرت کا موجب ہو رہا ہے اور لوگوں میں اس کے
متعلق مختلف قسم کے خیالات ہیں۔ اب تک کئی انگریز مدبّر اور اخبارات مثلاً ڈیلی ٹیلیگراف جو موجودہ برسرِاقتدار پارٹی کے خیالات کا نمائندہ اخبار ہے‘ یہ لکھ رہے ہیں کہ غالباً روس پولینڈ میں اس وجہ سے داخل ہوء ا ہے کہ کہیں جرمنی پولینڈ میں بہت زیادہ اقتدار پیدا کر کے رُوسی فوائد کیلئے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔
میرے نزدیک یہ رائے درست نہیں اور جس قدر جلد مدبّرینِ انگلستان اس رائے کو ترک کر دیں اتنا ہی ان کیلئے سیاسی طور پر یہ امر مفید ہو گا اور وہ امن کے ایک غلط احساس سے نکل کر اپنے ملک کی بہتر خدمت کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
پولینڈ کا جائے وقوع
جب ڈینزگ کا سوال پیدا ہوء ا ہے اور برطانیہ اور فرانس نے اس کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا ہے‘ میرے دل میں یہ خیال آیا تھا
کہ پولینڈ کا جائے وقوع ایسا ہے کہ فرانس اور انگلستان اس کی کسی صورت میں مدد نہیں کر سکتے۔ نہ تو اس کی سرحدیں کسی طرف سے ان کے ممالک سے ملتی ہیں اور نہ بحری راستہ ایسا ہے کہ اس طرف سے انگلستان اس کی مدد کر سکے۔ پس چاہئے کہ یہ طاقتیںروس کو ساتھ شامل کریں تاکہ خشکی کی راہ سے اس کی مدد کر سکیں۔ چنانچہ جب انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس غرض سے روس سے گفتگو شروع کی تو بشریّت کے تقاضا کے ماتحت مجھے خوشی ہوئی کہ میری رائے درست ثابت ہو رہی ہے ۔ اور انگلستان اور فرانس کے مدبرّین نے بھی اس کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔
روس کی نیت میں فتور کا احساس
لیکن گفتگو جب لمبی ہو گئی اور آخر یہ اعلان ہوء ا کہ چونکہ اصل معاہدہ میں دیر ہو گی۔ کیونکہ
بعض اہم سوالات پر اتفاق نہیں ہو سکا اس لئے روس کا زور ہے کہ ساتھ کے ساتھ سب ممالک کے جنگی افسر بھی تبادلۂ خیالات کرتے رہیں۔ تو اس اعلان کے ساتھ ہی میرے دل پر یہ امر روشن ہوگیا کہ روس کی نیت اچھی نہیں۔ اور میرے دل پر اس امر کا اس قدر گہرا اثر تھا کہ میرا میلان شدت سے اس طرف ہو رہا تھا کہ میں انگلستان کی وزارتِ خارجہ کو جس کے اتفاق سے اس وقت ہمارے ایک سابق وائسرائے جو مجھے جانتے ہیں انچارج ہیں،مشورہ دوں کہ وہ ہوشیار ہو جائیں کہ روس کی نیت درست نہیں معلوم ہوتی لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ ان لوگوں پر ہمارے مشورے اس قدر اثر نہیں کرتے کیونکہ وہ جائز طور پر خیال کرتے ہیں کہ ہمیں تو سب حالات معلوم ہیں اور یہ پردہ میں ہیں اس لئے یہ صحیح نتیجہ نہیں نکال سکتے اور ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بعض بندوں کو اللہ تعالیٰ نورِ فراست بخشتا ہے اور وہ بسااوقات تھوڑے علم سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
روس اور جرمنی در پردہ ملے ہوئے تھے
جو خیال اس وقت میرے دل میں آیا یہ تھا کہ جب معاہدہ کی تکمیل
میں اہم روکیں موجود ہیں تو پھر روس کو فوجی تبادلہ ء خیالات پر زور دینے کی اس قدر ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ فوجی تبادلہ خیالات کی تو سیاسی معاہدہ کے بعد ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس پر روس کے مطالبہ کی مختلف وجوہات میرے ذہن میں آئیں اور آخر میرا دل اس خیال پر قائم ہو گیا کہ درحقیقت روس اور جرمنی اندر سے ملے ہوئے ہیں اور روس معاہدہ کی گفتگو کو جان کر لمبا کر رہا ہے تاکہ جب چاہے گفتگو کو بغیر اخلاقی الزام تلے آنے کے ختم کر دے اور فوجی گفتگو سے ان کا منشاء یہ ہے کہ اسے معلوم ہو جائے کہ پولینڈ کی حفاظت کیلئے انگلستان اور فرانس نے کیا تجویز سوچ رکھی ہے۔
پولینڈ کو امداد دینے میں انگلستان کو مشکلات
اس امر کا سمجھنا بہت سے ہندوستانیوں کیلئے مشکل
ہو گا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے گریجوایٹ تک بھی پولینڈ کے صحیح مقام سے ناواقف ہیں اور بڑی بے تکلفی سے آج کل جرح کرتے رہتے ہیں کہ انگلستان نے پولینڈ کی مدد کیوں نہیں کی اور کیوں ایک بڑی فوج وہاں نہیں بھجوا دی حالانکہ پولینڈ کے جائے وقوع کو مدنظر رکھتے ہوئے انگلستان اور فرانس کیلئے یہ ناممکن ہے۔ اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کیلئے میں ایک ناقص سا نقشہ دیتا ہوں جس سے معلوم ہو سکے کہ حقیقت حال کیا ہے۔
اِس نقشہ کو دیکھ کر معلوم ہو سکتا ہے کہ انگلستان اور پولینڈ کے راستہ میں بحیرہ شمالی اور بالٹک سی (SEA)واقع ہیں۔ اور بحیرہ شمالی سے بحیرہ بالٹک تک جانے کے لئے راستہ ایک تنگ آبنائے سے گزرتا ہے جو جزائر ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان واقع ہے۔ جس کی اسی طرح جرمنی نگرانی کر سکتا ہے جس طرح انگلستان فرانسیسی برطانوی آ بنائے کی نگرانی کر سکتا ہے۔
بحیرہ بالٹک پر جرمنی کا قبضہ
خصوصاً جب سے کہ جرمنی نے ڈنمارک کے نیچے سے کیل ۱؎ کی نہر نکال کر بحیرہ شمالی اور بالٹک کو ملا دیا ہے
اس کے لئے یہ کام بہت زیادہ آسان ہو گیا ہے کیونکہ پہلے جرمنی کو دونوں سمندروں میں جہازی بیڑے رکھنے ضروری تھے اور ضرورت کے وقت ایک سمندر کا بیڑا دوسرے سمندر کے بیڑے کی مدد کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن سابق جرمن امراء نے اس دِقّت کو دور کرنے کیلئے کیل کے مقام پر ایک نہر بنوا دی۔ جس کے راستہ سے جرمنی کا بیڑا چند گھنٹوں میں بحیرہ شمالی سے بالٹک اور بالٹک سے بحیرہ شمالی کی طرف جا سکتا ہے۔ اور اس طرح بالٹک پر جرمنی کا قبضہ بہت زیادہ مضبوط ہو گیا ہے پس سمندری سرنگوں اور اپنے بیڑے کی مدد سے انگلستان کے زبردست بیڑہ کے باوجود جرمنی اس قابل ہے کہ انگلستان کو بالٹک میں کسی مؤثرکارروائی کرنے سے روک دے۔ پس پولینڈ جو بالٹک میں واقع ہے اس کی مدد انگلستان عام حالات میں ہرگز نہیں کر سکتا تھا۔ خصوصاً ان حالات میں کہ پولینڈ کا اپنا کوئی محفوظ بندرگاہ نہ تھا اور ڈنزگ جرمنی کے اثر کے ماتحت تھا۔
اس کی امداد کی اور وہ بھی ناقص امداد کی یہی صورت ہو سکتی تھی کہ انگلستان ترکی اور رومانیہ کے تعاون سے بحیرہ اسود کے ذریعہ سے اسلحہ کی امداد پولینڈ تک پہنچائے۔ پولینڈ کے جنوب میں رومانیہ ہے اور اس کے مشرق میںبحیرہ اسود ہے اور اس کے جنوب اور جنوب مغرب میں ترکی کا علاقہ اور درہ دانیا ل ہے۔ انگلستان نے رومانیہ اور ترکی سے معاہدات بھی کر لئے تھے اس لئے جرمنی کے لئے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ انگلستان اور فرانس کی پولینڈ کی امداد کے بارہ میں کیا تجاویز ہیں تاکہ ان کا پہلے سے توڑ سوچ لیا جائے۔
روس کی غرض برطانوی سکیم کو معلوم کرنا تھی
غرض جس وقت روس کی طرف سے فوجی تبادلہ ء خیال
پر زور دیا جانے لگا۔ اس مطالبہ کے نامناسب وقت پر پیش ہونے کی وجہ سے میرے دل میں بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوء ا کہ درحقیقت پولینڈ کے بارہ میں روس اور جرمنی میں خفیہ بات ہو چکی ہے اور یہ فوجی افسران سے تبادلہ ء خیالات کا اصرار محض برطانوی سکیم کے معلوم کرنے کی غرض سے ہے کیونکہ جب باہمی فوجی تعاون کے بارہ میں گفتگو ہوتی ہے تو سب پہلوؤں پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے اور بہت سی مخفی باتیں ظاہر کرنی پڑتی ہیں۔
روس کا پولینڈ میں فوجیں لانے پر اصرار
میرا یہ خیال یقین سے بدل گیا جب یہ اعلان ہوء ا کہ روس نے
اس امر پر زور دینا شروع کیا ہے کہ اس کی فوجیں پولینڈ میں جا کر جرمنوں سے ضرور لڑیں گی۔ انگلستان فرانس اور روس کسی اپنی غرض سے سمجھوتہ نہیں کر رہے تھے۔ ان کا سمجھوتہ ایک کمزور ملک کو زبردست ہمسائے سے بچانے کے لئے تھا۔ اگر وہ کمزور ملک ایک خاص حد تک امداد کو اپنے تحفظ کیلئے کافی سمجھتا تھا تو مددگار کا اس امر پر اصرار کرنا کیا معنی رکھتا تھا کہ میں تمہارے ملک میں فوجیں بھی ضرور لاؤں گا۔ ظاہر تھا کہ روس کا یہ اصرار صرف اس غرض سے تھا کہ روسی فوجیں پولینڈ میں داخل ہو کر جرمنی کے پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بارہ میں ایسی سہولت پیدا کر دیں کہ بغیر خون ریزی کے پولینڈ کی حکومت ختم ہو جائے۔
پس یہ اصرار پولینڈ کی امداد کے لئے نہ تھا بلکہ بغیر جنگ کے اس پر قبضہ کرنے کے لئے تھا جس کے بعد وہی کچھ ہونا تھا جو اب ہو رہا ہے یعنی پولینڈ کی تقسیم۔
میں سمجھتا ہوں اس گفتگو میں پولینڈ کے انکار میں انگریز مدبرّین نے جو اس کی تائید کی وہ بہت معقول کام تھا اور جب جرمنی اور روس کے معاہدہ کے امکانات پیدا ہونے پر بظاہر (ورنہ مخفی طور پر میرے نزدیک تصفیہ پہلے سے ہو چکا تھا) انگلستان نے روس کو یہ دعوت دی کہ اب پولینڈ روسی فوجوں کے پولینڈ میں داخلہ پر راضی ہو جائے گا تو میرے نزدیک یہ وقتی جوش کانتیجہ تھا۔ جس نے دماغ کے انفعال پذیر حصہ کو وقتی طور پرمعطل کر دیا تھا۔ ورنہ یہ پیش کش گویا دشمن کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف تھی جسے وہ صرف اس لئے قبول نہ کرسکا کہ وہ دوسرا قدم اٹھا چکا تھا۔
روس اور جرمنی کا خفیہ سمجھوتہ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرے نزدیک روس اور جرمنی میں خفیہ سمجھوتہ دیر سے ہو چکا تھا اوراس کا ماحصل یہ
تھا کہ پہلے تو روس اتحادیوں سے مل کر پولینڈ میں اپنی فوجیں بھیجنے کی صورت پیدا کرے اور اس طرح پولینڈ کی حکومت کو بغیر خون ریزی کے تباہ کر دیا جائے۔ اگر ا س میں کامیابی نہ ہو تو پھر جرمنی اور روس اپنے خفیہ سمجھوتہ کو ظاہری معاہدہ کی صورت میں بدل دیں اور جرمنی پولینڈ پر حملہ کر دے۔ اگر مغربی طاقتیں دخل نہ دیں توفَبِھَا۔ اگر وہ دخل دے دیں تو جب جرمنی پولینڈ کو کُچل ڈالے تو بغیر دوسری اقوام سے اعلانِ جنگ کرنے کے روس اپنی فوجیں پولینڈ میں داخل کر دے اور ملک کو حسبِ معاہدہ تقسیم کر دیا جائے۔
روس نے جرمنی کے حملہ کے ساتھ ہی کیوں حملہ نہ کیا؟
کہا جا سکتا ہے کہ اس تجویز کی کیا ضرورت تھی کیوں نہ شروع سے ہی روس اور جرمنی نے مل کر پولینڈ پر حملہ کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہٹلر نے اپنی
کتاب MEINE KAMPF میں لکھا ہے کہسیاست میں بہترین حربہ طاقت نہیں بلکہ رُعب ہے۔ انگلستان اور فرانس پولینڈ کی تائید میں اس قدر بڑھ چکے تھے کہ اگر جرمنی اور روس شروع میں ہی مل کر پولینڈ پر حملہ کر دیتے تو اس امر کا ہرگز احتمال نہ تھا کہ انگلستان اور فرانس ان کے اجتماع سے مرعوب ہو کر پولینڈ کی مدد نہ کرتے۔ نفسیاتی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وقت انگلستان یا فرانس کے مرعوب ہونے کا ہرگز نہ تھا اور ہٹلرجو ماہر نفسیات ہے اس امر کو خوب سمجھتا تھا۔ دوسرے پولینڈ کی تباہی سے پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ پولینڈ اس قدر جلد تباہ ہو جائے گا اس لئے اس نے روس سے یہ سمجھوتہ کیا کہ وہ پہلے جنگ میں شامل نہ ہو بلکہ جب جرمنی پولینڈ کو تباہ کر دے تو وہ اپنا حصہ لینے کے لئے اپنی فوجیں داخل کر دے۔
جو شخص بھی انسانی دماغ کا صحیح مطالعہ کرنے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ سب سے عمدہ موقع اپنے دشمن کو مرعوب کرنے کا وہ ہوتا ہے جب دشمن پر یہ امر روشن ہو جائے کہ جس کام کو میں کرنا چاہتا تھا اس کا وقت تو گزر چکا ہے اب کسی بڑی قربانی کو پیش کرنا صرف قوم کی جانوں اور ملک کی طاقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔
پس جب ہٹلر پولینڈ کو فتح کر لے اس وقت اگر ایک اور بڑی طاقت جو بہ ظاہرانگلستان اور فرانس کی دشمن نہیں پولینڈ کی تقسیم میں حصہ دار ہو جاتی ہے‘ طبعاً انگلستان اور فرانس کے مدبرین کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ:۔
(۱) پولینڈ پر حملہ جرمنی نے کیا تھا۔
(۲) اس کے اصول ایسے جارحانہ ہیں کہ ان کے خلاف ہمارے ملک میں سخت منافرت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے۔
(۳) اگر وہ پولینڈ پر قبضہ کر لیتا تو ہم جنگ کے بعد پولینڈ کو اس سے آزاد کرا دیتے۔
مگر اب صورتِ حالات مختلف ہے۔ پولینڈ کا ایک حصہ روس میں مل چکا ہے۔ اگر ہم جرمنی کو شکست بھی دے دیں تو ہم پولینڈ کو آزاد نہیں کرا سکتے۔ کیا ان حالات میں لڑائی جاری رکھنی ضروری ہے؟ کیا بے تعلق دنیا اور اس کی حکومتیں اب ہمارے لڑائی کو جاری رکھنے کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھیں گی؟ پہلے ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ اس لئے تھی کہ ہم ایک کمزور ملک کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن اب جبکہ جرمنی سے جنگ کر کے ہم پولینڈ کو آزاد نہیں کرا سکتے وہ یہ خیال کریں گی کہ ہماری جنگ پولینڈ کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ بعض اپنی اغراض کے لئے تھی۔ پولینڈ اب اسی صورت میں آزاد ہو سکتا ہے کہ روس سے بھی جنگ کی جائے مگر کیا روس سے جنگ کے لئے فرانس کے باشندے جس کا بہت سا حصہ روسیوں سے محبت رکھتا ہے، ہندوستان کے باشندے جن کی ایک مقتدر سیاسی پارٹی ان سے ہمدردی رکھتی ہے اسی جوش سے جنگ کے لئے تیار ہوں گے جس طرح کہ وہ جرمنی کے خلاف جنگ کیلئے تیار تھے؟ کیا ان حالات میں یہی بہتر نہیں کہ ہم یہ کہہ کر کہ چونکہ پولینڈ تباہ ہو چکا ہے اور چونکہ اس کا ایک حصہ روس نے اپنے اندر شامل کر لیا ہے اور چونکہ باوجود اس کے کہ ہم روس کے اس فعل کو ناپسند کرتے ہیں۔ ہماری اس سے کوئی اصولی طور پر لڑائی نہیں اور چونکہ یہ بہترین موقع ہے کہ پولینڈ کی تقسیم کے وقت ہم اپنے رسوخ کو استعمال کر کے اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ملک اور زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کر سکیں ہم جنگ کو ختم کرتے ہیں۔
ہٹلر کے زرخیز دماغ نے ان سب امور کو پہلے سے سوچا اور روس سے سمجھوتہ کرتے وقت یہی فیصلہ کیا کہ وہ شروع میں جنگ میں شامل نہ ہو بلکہ اس وقت آ کر اپنے حصہ پر قبضہ کر لے جب ہٹلر پولینڈ کو تباہ کر لے۔
کیا جرمنی سے صلح کر لی جائیگی
کہا جا سکتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ اس صورتِ حالات سے انگلستان اور فرانس کی
حکومتیں متأثر ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ خدا نہ کرے کہ وہ متاء ثر ہوں کیونکہ اس وقت ان کا جرمنی سے صلح کر لینا اپنی قوم سے بھی غداری ہو گا اور دنیا سے بھی غداری ہو گا۔ مگر جب مدبّرین آئندہ کے متعلق تجاویز سوچا کرتے ہیں تو چونکہ آئندہ کا یقینی علم کسی انسان کو نہیں‘ وہ صرف یہ دیکھا کرتے ہیں کہ امکان کس امر کا زیادہ ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ انگلستان اور فرانس کو مشکلات میں ڈالنے کا امکان اس میں کم تھا کہ روس شروع ہی میں جنگ میں شامل ہو جاتااور اس میں بہت زیادہ تھا کہ پولینڈ کی فتح کے بعد وہ بغیر جنگ میں شامل ہونے کے پولینڈ پر قبضہ کر لیتا۔ پس ہٹلر نے اس صورت کو پسند کر لیا جو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید تھی اور جس کے اختیار کرنے میں اگر یقینی نہیں تو غالب طور پر اسے یقین تھا کہ بغیر بڑی لڑائی لڑنے کے وہ پولینڈ کے ضروری حصہ کو ہضم کر سکے گا۔
مدبّرین برطانیہ سے خطاب
پس میرے نزدیک انگلستان کے مدبّرین کو اس صورتِ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی
چاہئے اور اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ روسی حملہ جرمنی کے خطرہ کی وجہ سے ہے۔ یہ جرمنی کے خطرہ کی وجہ سے نہیں بلکہ سابق سمجھوتہ کے ماتحت ہے اور اب روس اور جرمنی انگریزوں کی طاقت کو توڑنے کے لئے متحد ہو چکے ہیں۔ بے شک ان میں شدید اختلاف ہیں، بے شک وہ ایک وقت میں ظاہر ہوں گے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ اختلافات ابھی ظاہر ہو جائیں گے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ فضل کر کے کَل ہی جرمنی اور روس میں لڑائی چُھڑواوے، ممکن ہے باوجود معاہدہ کے روس دل میں یہ ارادہ رکھتا ہو کہ پہلے صلح سے پولینڈ میں داخل ہو جاؤں پھر جرمنی سے نپٹ لوں گا اور چند ہی دنوں میں کسی بہانہ سے جرمنی سے لڑ پڑے۔ سیاسی میدانوں میں ایسے دھوکے پہلے ہو چکے ہیں۔ ترکی سے جب بلقانی طاقتوں نے جنگ کی ہے تو انہوں نے یہی کیا تھا۔ رومانیہ، سرویا اور یونان نے بلغاریہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا تھا لیکن اندرونی طور پر آپس میں ایک اور معاہدہ بھی کر چھوڑا تھا کہ اگر ترکی پر ہمیں فتح حاصل ہو گئی تو ہم بلغاریہ کو وہ کچھ نہیں دیں گے جس کا ہم نے معاہدہ کیا ہے۔ چنانچہ ترکی پر فتح پاتے ہی انہوں نے بلغاریہ پر حملہ کر کے اس کے بعض حصے چھین لئے۔ پس اب بھی ایسا ہو سکتا ہے مگر یہ سب امکانات ہیں اگر پورے ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اگر نہ ہوں توان حالات کے لئے برطانیہ کو پہلے سے تیار ہو جانا چاہئے اور صرف امیدوں پر اپنی تیاری کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے۔
انگلستان اور ترکی کے اتحاد میں دنیا کا امن ہے
میں سمجھتا ہوں روس کی وجہ سے ترکی سے
جو انگریزی اتحاد ہو چکا ہے وہ بھی خطرہ میںہے اور انگلستان کو اسے اور بھی پِکّا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگر روس جنگ میں شامل ہوء ا تو اتحادی طاقتوں کی کامیابی کا انحصار صرف اور صرف عالم اسلامی سے تعاون پر ہو گا اور یہ تعاون مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ترکی حکومت اتحادیوں کے ساتھ نہ ہو۔
اتحادیوں کو کیا کرنا چاہئے
باقی رہی موجودہ جنگ۔ اگر اتحادی میری بات مانیں تو ان کیلئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ روس کے
پولینڈ پر حملہ کو نظرانداز کر دیں۔ روس نے جو کچھ کیا جرمنی کے حملہ کے نتیجہ میں کیا۔ پس وہ جرمنی سے کہہ دیں کہ یہ تقسیم تمہارے فعل کا نتیجہ ہے ہم جنگ کے بعد اس کا بدلہ پولینڈ کو تم سے دلوائیں گے اور میرے نزدیک پولینڈ کے قضیہ کا بہترین حل بھی یہی ہے۔ یوکرینن کا روس کے ساتھ شامل ہونا پولینڈ کو مضبوط کرتا ہے کمزور نہیں۔ پھر کیا حرج ہے کہ اسے روس کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔ جب جنگ میں اللہ تعالیٰ فتح دے اور پولینڈ کی حکومت پھر سے قائم کی جائے تو جو پولز اس علاقہ میں بستے ہیں ان کا تبادلہ ان علاقوں کے جرمنوں سے کر دیا جائے جو کوننگز برگ (KONIGSBERG)سے لیکر پولش کاریڈور (POLISH CORRIDOR)تک رہتے ہیں۔ ان علاقوں کے جرمنوں کو اپنے حلیف کے ملک میں رہنے کے لئے بھجوا دیا جائے۔ اس طرح جرمنوں اور یوکرینن کی آبادی پولینڈ میں فساد بھی پیدا نہ کرتی رہے گی اور پولینڈ کو سمندر تک کا اچھا راستہ بھی مل جائے گا۔ غرض میرے نزدیک اس نئی مشکل کا سہل حل یہی ہے کہ جرمنی کے فعل کی قیمت اسی سے وصول کی جائے اور روس سے جھگڑے کی صورت کو نظرانداز کر کے جرمن کی تدبیر کو ناکام کر دیا جائے۔
اسی سلسلہ میں میرا ارادہ بعض اور مضامین لکھنے کا بھی ہے۔ وَمَاتَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
(الفضل ۲۱؍ستمبر۱۹۳۹ء)
۱؎ کیل شیلسوگ ہولسٹائین KIEL SCHLESWIG HOLSTEIN شمالی جرمنی کا دارالحکومت ۔ بحیرہ بالٹک پر بڑی بندر گاہ۔ ۱۹۴۵ء تک جرمنی کا اہم بحری اڈہ تھا۔ بحیرہ شمالی سے نہر کیل کے ذریعہ ملحق ہے یہ لمبی مصنوعی آبی شاہراہ ۱۸۹۵ء میں نکلی۔ یہ ۶۱ فٹ لمبی اور ۱۴۴ فٹ چوڑی اور ۳۸ فٹ گہری ہے۔ اسے چار لاک لگے ہوئے ہیں۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۲۵۵۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)


خدام سے خطاب







از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خدام سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
آج کا اجلاس خدام الاحمدیہ کی طرف سے ہے اور گو اس کے پروگرام کے بعض حصے مجھے دکھا کر مقرر کئے گئے تھے مجھے افسوس ہے کہ ان سے بھی اس بارہ میں ایک غلطی ہوئی اور مجھ سے بھی۔ دراصل یہ پروگرام اصلاح کے قابل ہے۔ مثلاً اس کا ایک جزویہ ہے کہ اس مجلس کو جو کام کے لحاظ سے سال بھر اوّل رہی جھنڈا دیا جائے۔ جس وقت میں نے یہ تجویز منظور کی اُس وقت میرے ذہن میں یہ امر نہ تھا کہ جماعت کا جھنڈا ا بھی قانونی طور پر منظور نہیں ہؤا اور اسے جماعت کے سامنے پیش کر کے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ تمہارا جھنڈا ہے اور اسے پیش کئے بغیر ہی اس کی نقل کسی ماتحت مجلس کو دے دینا ناموزوں بات ہے۔ پہلے تو میں نے اس کی منظوری دے دی مگر کَل مجھے خیال آیاکہ پروگرام کا یہ حصہ اصلاح طلب ہے اس لئے میں نے کارپردازان سے کہہ دیا کہ جب ۲۸ دسمبر کو جماعت کا جھنڈا لہرایا جائے گا یا دینی اصطلاح کے مطابق نصب کیا جائے گا اُسی وقت یہ انعامی جھنڈا بھی دے دیا جائے گا۔ دوسری غلطی اس پروگرام میں یہ ہوئی ہے اور اس کے لئے مَیں بھی ذمہ دار ہوں کہ یہ جلسہ، سالانہ جلسہ کے ایام میں رکھا گیا ہے۔ ایسا جلسہ جس کا پروگرام کئی گھنٹے کا ہو اِن دنوں میں رکھنا منتظمین کو پریشانی میں ڈالنے والی بات ہے۔ چنانچہ جب میں اس جلسہ میں آنے لگا تو ناظر صاحب ضیافت کا ایک رُقعہ مجھے ملا کہ کام کرنے والے، خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں چلے گئے ہیں کچھ نیشنل لیگ کے کام میں ہیں۔ اِدھر ٹرینیں مہمانوں سے بھری ہوئی آ رہی ہیں اور ان حالات میں مَیں ان کو کس طرح سنبھال سکتا ہوں جب میرے پاس کام کرنے والے ہی نہ ہوں اور ان کی یہ بات معقول ہے۔ جن دنوں میں قادیان کے لوگ کام میں مشغول ہوں اور آزادنہ ہوں ایسے جلسے کرنا جن میں قادیان کے لوگوں کی حاضری ضروری ہو ٹھیک نہیں اور ہمیں ایسے جلسے کر کے منتظمین کو پریشانی میں مبتلا کرنا نہیں چاہئے اس لئے آئندہ خدام الاحمدیہ کا جلسہ کسی دوسرے دنوں میں ہونا چاہئے۔ مثلاً شوریٰ کے موقع پر کیا جا سکتا ہے یا اس کیلئے الگ وقت مقرر کئے جائیں تو یہ زیادہ موزوں ہو گا۔ الگ دن مقرر کرنے سے شروع میں کچھ دِقّت ضرور پیش آئے گی اور بعض ممبر شریک نہیں ہوں گے مگر اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جن لوگوں کے نزدیک ممبری کی اتنی اہمیت بھی نہ ہو کہ وہ اپنے جلسہ کے لئے سال میں ایک بار جمع ہو جائیں وہ دراصل ممبری کے قابل ہی نہیں ہیں۔ خاکساروں کو دیکھو اس نام نہاد جہاد میں جو انہوں نے لکھنؤ میںشروع کر رکھا تھا وہ اپنے پاس سے کرایہ خرچ کر کے پہنچتے رہے ہیں اور اس طرح قید ہو کر اپنا کاروبار علیحدہ تباہ کرتے رہے ہیں اور دیگر نقصان علیحدہ کرتے رہے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبر دوسرے ایام میں اپنے جلسہ میں شرکت کے لئے نہ آئیں اور پھر جو نہ آئیں ان کے متعلق کسی تشویش میں پڑنا اور خیال کرنا کہ کیا ہو گا باطل بات ہے ہمیں ایسے نکمّوں کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ پس میرے نزدیک شورٰی کے موقع پر جلسہ منعقد کرنے کی نسبت بھی یہ بہت بہتر ہے کہ الگ ایام مقرر کئے جائیں اس سے نوجوانوں کو اس تحریک میں شمولیت کی بھی ترغیب ہو گی اور یہ طریق گویا اس تحریک کی مضبوطی کا موجب ہو گا۔ جب میں نے مجلس شوریٰ کا قیام کیا تو شروع میں زیادہ لوگ نہیں آتے تھے مگر اب سینکڑوں ایسے آ جاتے ہیں جو ممبر بھی نہیں ہوتے اور صرف کارروائی سننے کیلئے آ جاتے ہیں۔ اس طرح اگر خدام الاحمدیہ اپنے جلسہ کے لئے الگ دن مقرر کرے تو سینکڑوں نوجوان ان دنوں میں بھی فائدہ اُٹھانے کی غرض سے قادیان آ جائیں گے اور سینکڑوں کو تحریک ہو گی کہ وہ ممبر بنیں۔ میرا بچپن سے یہ تجربہ ہے کہ کوئی اچھا کام جب شروع کر دیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو جاتا ہے۔ میری طبیعت میں بچپن سے ہی انتہائی احتیاط کی عادت ہے۔ بعض لوگ تو اسے وہم کہتے ہیں مگر میں تو اسے توجہ ہی کہوں گا۔ جب تک کوئی کام پوری طرح نہ ہو جائے مجھے اطمینان نہیں ہوتا۔ یہ بالکل ایسی ہی کیفیت ہے کہ جب تک بچہ ماں کے پا س نہ ہو اُسے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ خیال کرتی ہے کہ شاید ٹھوکر لگ کر گر ہی نہ گیا ہو، ریل کے کسی حادثہ کا شکار نہ ہو گیا ہو، موٹر کے نیچے آ کر کُچلا نہ گیا ہو، وہ جو اَب تک آیا نہیں تو ایسا نہ ہو کہ کسی مشکل میں پھنسا ہوا ہو۔ اسی طرح مجھے بھی اطمینان نہیں ہوتا کہ کام ہو گیا ہو گا اور اس عادت کو میں چونکہ مفید سمجھتا ہوں اس لئے اسے دور کرنے کی کوشش میں نے کبھی نہیں کی۔ ہمارے ملک میں یہ عام مرض ہے کہ جسے کوئی کام سپرد کیا جائے وہ گھر بیٹھے بیٹھے ہی فرض کر لیتا ہے کہ ہو گیا ہو گا یہ درست نہیں۔ میں نے اپنی اس عادت سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے اور بسااوقات نہایت خطرناک نتائج سے جماعت محض اس عادت کی وجہ سے بچ گئی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ناظر یا کسی اور شخص کو کوئی کام بتایا گیا اس نے آگے دوسرے کے سپرد کر دیا اور خود فرض کر لیا کہ ہوگیا ہوگا لیکن مجھے گھر میں بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا اور میں نے پتہ کرایا تو معلوم ہوا نہیں ہوا تھا اور اس طرح وہ بروقت کر لیا گیا اور اس وجہ سے کئی حوادث سے جماعت بچ گئی۔ میرے توجہ دلانے سے وہ کام ہو گیا اور نقصان نہ ہوا اور خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ بھی اس عادت کی نقل کریں۔ ہندوستان میں نکمّا پن کی زیادہ وجہ یہی ہے کہ لوگ قیاس بہت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کئی بار میں کوئی کام بتاتا ہوں اور جب پرائیوٹ سیکرٹری سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہو گیا ہے مگر جب بعد میںغلطی کاعلم ہوتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے فلاںشخص کو کہہ دیا تھا اور خیال تھا کہ اس نے کر دیا ہو گا۔ حالانکہ کام جس شخص کے سپرد کیا جائے اسے یقین ہونا چاہئے کہ ہو چکا ہے محض قیاس کر کے مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے۔ یہ نکمّاپن کی علامت ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کوئی شخص سفر پر گیا اور کسی لڑکے کو بطور خادم ساتھ لے گیا ایک رات وہ کسی سرائے میں ٹھہرے۔ رات کو بارش شروع ہو گئی اسے چونکہ خیال تھا کہ بارش ختم ہو تو سفر شروع کر کے آگے چلیں تا یہ جلد طے ہو اس لئے رات کو کئی بار اُس کی آنکھ کُھلی۔ اُس نے نوکر کو آواز دی اور کہا کہ باہر جا کر دیکھو بارش ہو رہی ہے یا نہیں؟ مگر نوکر نے بجائے اس کے کہ باہر جا کر دیکھتا وہیں پڑے پڑے جواب دیا کہ ابھی باہر سے بلی آئی تھی میںنے دیکھا وہ بھیگی ہوئی تھی اس لئے بارش ضرور ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں۔ ممکن تھا بلّی کسی نالی میں سے گزر کر آئی ہو اور اس وجہ سے بھیگ گئی ہو یا کسی اور وجہ سے ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے نوکر سے کہا کہ لیمپ گُل کر دو۔ اُس نے جواب دیا کہ آپ کو اندھیرے میں نیند آتی ہے مگر میں روشنی میں سونے کا عادی ہوں اگر لیمپ گُل کر دیا گیا تو مجھے نیند نہیں آئے گی اس لئے آپ منہ پر لحاف ڈال لیں آپ کے لئے گویا لیمپ بجھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر کہا کہ ہوا تیز آ رہی ہے اُٹھ کر دروازہ بند کر دوتو اس نے جواب دیا کہ دو کام میں نے کر دیئے ہیں ایک آپ خود اُٹھ کر کر لیں۔ تو اِس قسم کی سُستیاںہمیشہ قیاس آرائیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے ہی قیاس کی ایک اور مثال بھی ہے۔ ایسا قیاس کر لینا کہ یوں ہو گا محض سُستی کا نتیجہ ہوتا ہے اور ایسے لوگ میںنے دیکھا ہے کہ بعض اوقات اتنے دلیر ہو جاتے ہیں کہ کہہ دیتے ہیں فلاں کام یوں ہو گیا۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ میرا خیال ہے ہو گیا ہو گا بلکہ خیال کا لفظ بھی بیچ میں سے اُڑا دیتے ہیں اور بڑی دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ ہو گیا ہے اور اکثر کاموں میں خرابی ایسے خیالات کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ اس عادت کو بالکل چھوڑ دیں اور قیاس سے کام نہ لیا کریں جب تک ذاتی طور پر یہ اطمینان نہ کر لیں کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا وہ ہو چکا ہے۔ ان کو وہم رہے کہ شاید خراب ہو گیا ہو۔ واقعات کی دنیا میں واقعات کو دیکھا کریں واقعات کی دنیا میں قیاس کا کوئی کام نہیں۔ میں ہمیشہ اپنے ساتھ کام کرنے والوںکو اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے یہ مرض دور نہیں ہوتا اور قیاس سے بہت کام لیا جاتا ہے۔ اہلِ حدیث کا عقیدہ ہے کہ جس نے پہلے قیاس کیا وہ شیطان تھا۔ پہلے مجھے اس قول کی سمجھ نہیں آیا کرتی تھی مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ قیاس یوں تو اچھی چیز ہے لیکن واقعات میں اس کو داخل کرنا سخت خطرناک ہے۔ ایک فلسفی اگر فلسفہ کے مسائل میں قیاس سے کام لیتا ہے تو یہ بات تو سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن واقعات کی دنیا میں اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کہتے ہیں کوئی شخص کسی کے پاس مہمان گیا میزبان خود نہایت باقاعدہ اور وقت کا پابند آدمی تھا اور اپنے ملازموں کو بھی اس نے وقت کا پابند بنایا ہوا تھا۔ اس نے اندازہ کیا ہوا تھا کہ اگر نوکر کو فلاں دُکان پر بھیجا جائے تو وہ کتنے منٹ میں واپس آتا ہے وہ اپنے مہان کو اپنے نوکروں کی ہُنرمندی بھی دکھانا چاہتا تھااس لئے اس نے مہمان کے آگے کھانا رکھوا دیا اور نوکر سے کہا کہ فلاں دُکان سے جا کر فوراً دہی لے آؤ تھوڑی دیر بعد اس نے مہمان سے کہا کہ اب وہ دکان پر پہنچ چکا ہو گا۔ اب دہی لے چکا ہو گا اور واپس آ رہا ہو گا۔ اب فلاں مقام پر پہنچ گیاہو گا۔ بس آپ کھانا شروع کریں وہ آیا ہی چاہتاہے اور ساتھ آواز دی کہ ارے فلاں آ گیا۔ اِدھر اُس نے یہ کہا اور اُدھر اس نے جواب دیا کہ ہاںحضور آ گیا۔ مہمان یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس نے کہا کہ نوکروںکا ایسا سِدھا ہؤا ہونا تو بہت عزت افزائی کا موجب ہے۔ ایسے آقا کی بھی ہر دیکھنے والا تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ اس لئے مجھے بھی اپنے نوکروں کو اسی طرح سِدھانا چاہئے چنانچہ گھر واپس پہنچا تو اس نے بھی نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کیا کہ کام جلدی جلدی اور وقت کی پابندی کے ساتھ کیا کرو۔ مگر جو شخص خود پابند نہ ہو اور جس کے نوکر روز دیکھیں کہ وہ خود وقت کا پابند نہیں اور سُست آدمی ہے تو خالی ڈانٹ ڈپٹ ان پر کیا اثر کر سکتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہی شخص اس کے ہاں مہمان ہوا اس نے بھی اپنے نوکروں کی مستعدی اور سلیقہ شعاری دکھانے کے لئے اسی طرح کیا۔ یعنی کھانا اس کے سامنے رکھ کر نوکر کو دہی کے لئے بھیجا اور کہنا شروع کیا کہ اب وہاں پہنچا ہو گا۔ اب لَوٹ رہا ہو گا اَب فلاں جگہ ہو گا۔ اب بس پہنچا ہی چاہتا ہے آپ کھانا شروع کریںاور پھر نام لے کر آواز دی کہ کیوں بھئی آگئے۔ اُدھر سے نوکر نے کہاکہ جی آپ تو عقل ہی مار دیتے ہیں میں تو ابھی جوتا ہی تلاش کر رہاہوں۔ یہ لطیفہ دراصل ہندوستانیوں کی ذہنیت کا نقشہ ہے۔ وہ اس طرح قیاس کر لیتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اچھے اچھے تعلیم یافتہ بی اے اور ایم اے پاس اسی مرض کا شکار ہیں۔ وہ کہلاتے تو بی اے اور ایم اے ہیں مگر عقل کے لحاظ سے وہ پرائمری پاس بھی نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ توسُستی ہے اور جب سُستی کے باعث کوئی کام نہ کیا تو پھر قیاس کرتے ہیں بہانہ سازی سے کام لیتے ہیں اور بسااوقات تو میں نے دیکھا ہے کہ کسی بات کے لئے جو ہدایات دی جاتی ہیں خود اپنے پاس سے ہی ان کا جواب بھی دے دیتے ہیں نہ پیغام آگے پہنچاتے ہیں اور نہ اس کی بات سنتے ہیں بلکہ خود بخود ہی جواب دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پس میں خدام الاحمدیہ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے دنیا میں کوئی کام کرناہے تو قیاس کرنا چھوڑ دو۔ جب کوئی کام تمہارے سپرد کیا جائے تو اسے پورے وقت پر ادا کرو اور جب تک خود نہ دیکھ لو کہ وہ ہو گیا ہے مطمئن نہ ہو۔ گھر بیٹھے بیٹھے ہی یہ قیاس کر لینا کہ کام ہو گیا ہو گا اوّل درجہ کی نالائقی اور حماقت ہے۔ میں نے دیکھاہے کہ کام نہ کرنے کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دماغ بھی ٹھیک طور پر کام نہیں کرتے اور یہ حالت ہے کہ کسی کو پیغام کچھ دو اور وہ آگے پہنچائیں گے کچھ اور، دماغ بات سنتے اور سمجھتے ہی نہیں۔ اس لئے خدام الاحمدیہ یہ بھی مشق کریں کہ جو پیغام دیا جائے اسے صحیح طور پر پہنچا سکیں۔ فوجوں میں یہ دستور ہے کہ اس کی مشق کرائی جاتی ہے جب کسی کو کوئی افسر پیغام دے تو دینے کے بعد پوچھتا ہے میں نے کیا کہا اور پھر وہ شخص اسے دُہراتا ہے۔ پچھلی جنگ میں ایک تجربہ کیا گیا کہ کس طرح بات دُور تک پہنچتے پہنچتے کیا بن جاتی ہے۔ فرانس کے جنگی محاذ پر شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم کے نام سے تخت نشین ہو کر ریٹائر ہو چکے ہیں گئے تو ایک بڑی بھاری پریڈ ہوئی جس میں یہ تجربہ دکھایا گیا کہ پیغام پہنچانے میں لوگ کیسی کیسی غلطیاں کرتے ہیں۔ جرنیل نے پہلے سپاہی کو پیغام دیا کہ آگے پہنچا دو کہ شہزادہ ویلز آئے ہیں اور آخری افسر کوجو اطلاع اس طرح ملی وہ یہ تھی کہ دو پیسے مل گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہوئی کہ ایک سے دوسرے اور تیسرے تک بات کے پہنچنے میں کچھ تو لب و لہجہ کی تبدیلی سے فرق پڑا اور کچھ یہ کہ سننے والے نے قیاس کر لیا۔ یہ تو تجربہ کرنے کے لئے پیغام بھیجا گیا تھا لیکن اگر واقعی یہ پیغام پہنچانا مقصود ہوتا تو کس قدر نقصان ہوتا۔
پس کام میں قیاس کرنا چھوڑ دو۔ دیکھو جب کوئی بچہ اپنی ماں سے جُدا ہو جاتا ہے تو کس طرح اس کے دل میں مختلف وساوس اُٹھتے ہیں۔ وہ یہی قیاس نہیں کر لیتی کہ وہ آرام سے بیٹھا ہو گا بلکہ سوچتی ہے کہ کہیں بھینس کا پاؤں اس پر نہ آ گیا ہو، گھوڑے نے اسے دولَتی نہ مار دی ہو، گدھے نے لات نہ مار دی ہو، سیڑھی سے گِر کر اس کا سر نہ پَھٹ گیا ہو، کوئی اسے اُٹھا کر نہ لے گیا ہو اور یہ ایک طبعی بات ہے۔ جب تک یہ وساوس اس کے دل میں پیدا نہ ہوں وہ اپنے بچہ کی پوری پوری نگرانی کر ہی نہیں سکتی۔ پس تم بھی کام کی اسی طرح نگرانی کرو۔ کام سے محبت کا علم ہی اُسی وقت ہو سکتا ہے جب وساوس پیدا ہونے لگیں۔ بڑی سے بڑی تعلیم یافتہ ماں کو دیکھ لو بچہ کا سوال آتے ہی فوراً اس کے دل میں وساوس پیدا ہونے لگیں گے۔یہ دراصل کامل محبت کانتیجہ ہے وہ دنیا بھر کے معاملات کے متعلق قیاسات کر لے گی لیکن بچہ کا سوال سامنے آتے ہی اس کے دل میں وساوس پیدا ہونے لگیں گے اور یہ کامل محبت کا نتیجہ ہے پس ا س قسم کی احتیاط بہت اچھی بات ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل بعض اوقات کوئی بات کہہ دیتے مگر پھر خیال ہوتا کہ وہ شاید مجھے بُری لگی ہے مجھ سے پوچھتے تو مَیں انکار کرتا۔ مگر آپ فرماتے میاں! مجھے خیال تھا کہ شاید بُری لگی ہو۔ عشق است وہزار بدگمانی۔ مجھے چونکہ آپ سے بہت محبت ہے اِس لئے مجھے شُبہ رہتا ہے کہ کہیں ناراض تو نہیں ہو گئے۔ پس یاد رکھو کہ اگر دل میں وسوسہ پیدا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ عشق نہیں ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کام کا عشق ہو اور دل میں وسوسے پیدا نہ ہوں اور رہ رہ کر یہ خیال نہ آئے کہ شاید کام نہ ہوا ہو۔ میری عمر میںبیسیوں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ میں نے اپنی اس طبیعت کی وجہ سے گھر بیٹھے بیٹھے بیسیوں کاموں کی اصلاح کرادی۔ میں نے کسی کام کے لئے کہا اور ناظر متعلقہ نے اس کا آرڈر دے کر سمجھ لیا کہ ہو گیا اور جب میں نے دریافت کرایا تو کہہ دیا کہ ہو گیا ہے لیکن جب تحقیقات کرائی گئی تو معلوم ہوا نہیں ہوا اور میں نے اسے پھر کرایا۔
پس ایک بات تو یہ یادرکھو کہ جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اس کے متعلق کبھی مطمئن نہ ہو جب تک خود تسلی نہ کر لو کہ وہ ہو گیا ہے۔ آنکھ سے نہ دیکھ لو یا اسے آنکھوں سے دیکھنے والا خود تمہارے سامنے بیان نہ کرے کہ وہ ہو گیا ہے اور دوسرے یہ بات یاد رکھو کہ یہ خیال کبھی نہ کرو کہ فلاں بات ہو نہیں سکتی۔ آج کل نوجوانوں سے ایسی باتیں بکثرت سننے میں آتی ہیں کہ کوئی مانتا نہیں، کوئی سنتا نہیں، یہ بھی بزدلی اور کمزوری کی علامت ہے۔ جب کوئی اچھا کام سامنے آئے اس کے متعلق پہلے احتیاط کے ساتھ اچھی طرح غور کر لو اور دیکھ لو کہ جہاں تک انسانی کوشش کا سوال ہے یہ ایسا تو نہیں جو ناممکن ہو اور کارکنوں پر اس سے ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ تو نہیں پڑتا اور جب فیصلہ کر لو کہ یہ طاقت کے اندر ہے تو پھر یہ کوئی قابلِ غور سوال نہیں کہ کوئی کرے گا یا نہیں۔ تم خود اسے شروع کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ کوئی تمہارے ساتھ ہوتا ہے یا نہیں۔ میرے بچپن کے کئی کام ایسے ہیں جنہیں آج اتنی تنظیم کے باوجود بھی ہم بآسانی نہیں کر سکتے۔ جب ولایت میں مشن قائم ہوا تو خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم) نے وہاں سے لکھنا شروع کیا کہ ایک اور آدمی یہاں بھیجا جائے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے صدرانجمن احمدیہ کو جو خزانہ کی مالک تھی حکم دیا کہ خواجہ صاحب کی مدد کے لئے کوئی آدمی بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔ اس کے لئے کئی کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ سب نشیب و فراز پر غور کیا گیا، کئی دقتیں سامنے آئیں، خرچ کا سوال بہت مشکل تھا۔ ایک دن حضرت خلیفہ اوّل نے مجھے فرمایا کہ خواجہ بہت تنگ کر رہا ہے۔ میں نے مولوی محمد علی صاحب سے بھی کہا کہ کوئی انتظام کیا جائے وہ بھی کوئی تجویز نہیں کرتے۔ انجمن بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی اور میں اس وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ اُدھر کام خراب ہو رہا ہے اور اِدھر یہ لوگ کوئی توجہ ہی نہیں کرتے۔ میں وہاں سے اُٹھا اور انصار اللہ کی مجلس میں اِس بات کو پیش کیا اور کہا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیںکوئی شخص اپنے آپ کو پیش کرے۔ چودھری فتح محمد صاحب نے کہا کہ میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اب سوال کرایہ کا رہ گیا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ تھرڈ کلاس کا جو کرایہ لگتا ہے وہ مجھے دے دیا جائے معلوم ہوا کرایہ دو سَو کے قریب ہو گا۔ سَو روپیہ خرچ خوراک وغیرہ کے لئے رکھ لیا گیا اور چند دوستوں نے اُسی وقت یہ روپیہ پورا کر دیا اور میں نے جا کر حضرت خلیفہ اوّل سے کہہ دیا کہ آدمی بھی تیار ہو گیا ہے اور روپیہ کا انتظام بھی ہو چکا ہے تو اس طرح میں نے انگلستان میں مشن قائم کیا۔ چودھری فتح محمد صاحب نے وہاں بعد میں الگ مشن قائم کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں مجھے کامیاب کیا کہ جس کام کیلئے صدرانجمن احمدیہ کئی مہینے مشورے اور تجویزیں کرتی رہی میں نے وہ چند منٹ میں کر دیا۔ آدمی بھی تیار کر لیا اور روپیہ بھی فراہم ہو گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ قادیان میں علمی ترقی کے لئے میں نے انجمن سے یہ کہا کہ کوئی انتظام کیا جائے۔ جب تک یہاں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جو عربی ممالک میں تعلیم حاصل کر کے آئے یہاں علمی ترقی نہ ہو سکے گی مگر انجمن نے ہمیشہ مالی مشکلات کا عُذر پیش کیا۔ میں نے چودھری نصراللہ خان صاحب مرحوم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ کچھ بوجھ آپ اُٹھائیں اور کچھ میں اُٹھاتا ہوں اور ایک آدمی مصر بھیجا جائے ۔ وہ آمادہ ہو گئے اور میں نے شیخ عبدالرحمن مصری کو جواَب مرتد ہو چکے ہیں مصر بھیج دیا کہ وہاں سے عربی کی تعلیم حاصل کر کے آؤ تا سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچے۔ ہم دو چار آدمیوں نے ہی مل کر ان کے لئے کرایہ وغیرہ کا انتظام کر دیا۔ وہ اُس وقت ملازم تھے اس لئے تنخواہ یہاں بال بچوں کو ملتی رہی اور وہاں کے اخراجات مَیں بھجواتا رہا۔ اس کام کے لئے انجمن مدتوں سوچتی رہی مگر میں نے خیال کیا کہ اگر یہ بات اچھی ہے تو میں اسے شروع کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ خود تکمیل تک پہنچا دے گا اور یہ میرے کام اس وقت کے ہیں جب میں ابھی بچہ تھا۔ خدام الاحمدیہ کے بہت سے ممبروں کے لحاظ سے مَیں بچہ تھا۔ اس کی ممبری کے لئے چالیس سال تک عمر کی شرط ہے مگر میری عمر اُس زمانہ میں ۲۲،۲۳ سال ہو گی اور کئی کام تو اس سے بھی پہلے زمانہ کے ہیں۔ اس زمانہ میں چودھری فتح محمد صاحب اور بعض دوسرے نوجوان سکولوں اور کالجوں میں پڑھا کرتے تھے۔ میری آنکھوں میں ککرے ہو گئے تھے اس لئے میں نے سکول میں پڑھنا چھوڑ دیا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے طب اور بخاری پڑھا کرتا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب بڑے تبلیغ کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں اور اس کے لئے کیا ذریعہ اختیار کریں۔ آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ جس طرح رسالہ ریویو نکلتا ہے ہم بھی ایک رسالہ جاری کریں۔ سب نے مجھ سے کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت حاصل کریںاور نام بھی رکھوائیں۔ آپ نے اجازت دے دی اور تشحیذالاذہان نام رکھا۔ اب اس کے اخراجات کا سوال تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا جو جیب خرچ ملتا ہے اس میں سے ایک ایک روپیہ چندہ دیں گے۔ پہلے سات ممبر تھے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ سہ ماہی رسالہ نکالا جائے۔ مضمون تو ہم خود لکھ لیں گے پیکٹ وغیرہ بھی خود بنا لیں گے۔ اندازہ کیا گیا تو ۲۵،۳۰ روپیہ خرچہ کتابت اور طباعت وغیرہ کا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کوئی نہ کوئی خریدار بھی تو مل ہی جائے گا۔ پہلے دو تین پرچے ہم نے خود اپنے ہاتھ سے پیک وغیرہ کئے ٹکٹ لگائے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اسے جلد ہی ترقی حاصل ہو گئی۔ تو رسالہ کا نکالنا کوئی معمولی بات نہیں مگر میں نے اسے شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ چل نکلا گو بعد میں مَیں نے ہی اسے رسالہ ریویو میں مدغم کر دیا کیونکہ ریویو کی حالت اچھی نہ تھی اور میں چاہتا تھا کہ ساری توجہ اسی کی طرف ہو۔ کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جار ی کردہ ہے۔ اسی طرح میری خلافت کے ایام میں بھی بیسیوں امور ایسے پیش آئے کہ جب میں نے ان کو شروع کیا تو لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ایسا بوجھ ہے جسے قوم اُٹھا نہیں سکتی مگر آخر وہ کام خدا تعالیٰ نے کر دیئے۔ میرا تو یہ ہمیشہ سے قاعدہ رہا ہے کہ جب پوری سوچ بچار اور احتیاطوں کے باوجود میں نے دیکھا کہ کام ضروری ہے تو پھر میں نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ کیا نتیجہ ہو گا اور تَوَ کُّلاً عَلَی اللّٰہِ اسے شروع کر دیا اور یہی سمجھا کہ اگر یہ کام اچھا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے خود تکمیل تک پہنچا دے گا۔ پس یاد رکھو کہ کسی کام کو شروع کرتے وقت یہ خیال کرنا کہ لوگ مانتے نہیں اوّل درجہ کی بزدلی ہے۔ تمہیں لوگوں سے کیا اگر وہ کام اچھا ہے تو تم خود اسے کرو خواہ بالکل اکیلے ہو اُسے شروع کر دو دوسروں کی ذمہ داری تم پر نہیں تم اپنا فرض ادا کرنا شروع کر دو۔ رسول کریم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ تم پر اپنے نفس کی ذمہ داری ہے لوگوں کی نہیں۱؎۔ پس خدام الاحمدیہ اپنے آپ کو اُس وقت تک مفید وجود نہیں بنا سکتے جب تک کہ وہ اس یقین اور توکل پر اپنے کاموں کی بنیاد نہ رکھیں گے کہ جو کام اچھا ہے اس میں ہم نے دوسروں کو نہیں دیکھنا کہ وہ شامل ہوتے ہیں یا نہیں تم کو اس سے کیا کہ کوئی ساتھ ہو گا یا نہیں تم اپنا فرض ادا کرو۔ یہ خیال بھی بالکل غلط ہے کہ اگر کوئی اور ساتھ نہ ملا تو سُبکی ہو گی۔ دیکھو اِس وقت تک جتنے انبیاء ؑ گزرے ہیں وہ بھی اگر اسی سُبکی کے خیال سے کام کرنے سے محترز رہتے تو دنیا کا نقشہ کیا ہوتا۔ ان میں سے کسی نے بھی اِس سُبکی کا خیال نہیں کیا۔ حضرت آدمؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے پیغام دیا تو انہوں نے اس کا خیال نہیں کیا۔ حضرت نوحؑ کو دیا تو انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ پیغام دیا تو وہ کب سوچنے بیٹھے کہ انجام کیا ہو گا۔ ان میں سے کسی نے بھی انجام کی پرواہ نہیں کی بلکہ جسے بھی حکم ملا وہ کام کرنے لگ گیا اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگتا رہا۔ اگر یہ کام انسانی ہوتا تو حالات کو مدنظر رکھ کر بتاؤ کہ ان کی ناکامی میں شبہ ہی کیا تھا۔ یہ سب انبیاء ؑ بڑے بڑے دعوے لیکر مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، رسول کریم ﷺ ان میں سے کس کا دعویٰ چھوٹا تھا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ کتنا بڑا تھا۔ مگر ان میں سے کب کسی نے یہ خیال کیا کہ اسے کون مانے گا۔ ان کے سامنے صرف یہی بات تھی کہ خدا تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل ہو یہ خیال بالکل نہ تھا کہ کوئی مانتا ہے یا نہیں۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ نبی کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ جیت جائے گا اس لئے وہ پرواہ نہیں کرتا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مومن کو بھی اس کا پتہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مومن کے لئے بھی کامیابی کا وعدہ موجود ہے فرق صرف تفاصیل کا ہے۔ قرآن کریم سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ مومن بھی دنیا میں ہارا کرتے ہیں نبی اور مومن دونوں کے لئے جیتنا مقدر ہے فرق صرف تفاصیل کا ہے۔ پس جب تک اپنے اندر یہ یقین اور توکّل پیدا نہ کیا جائے کہ اگر کام اچھا ہے تو اسے کرنا ہے خواہ کوئی ساتھ شامل ہو یا نہ ہو اُس وقت تک کامیابی محال ہے۔ جب یہ فیصلہ کر لو کہ کوئی کام اچھا ہے اور طاقت سے باہر نہیں ہے تو لوگ خواہ تمسخر کریں خواہ کچھ کہیں اسے شروع کر دو اور اگر تم ایسا کرو تو وہ کام ضرور ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںحضرت خلیفہ اوّل جب درس دے کر واپس آتے تو اُن دنوں جلانے کے لئے گڈّوں پر اُپلے آیا کرتے تھے۔ مجھے دو تین مواقع ایسے یاد ہیں کہ چھوٹی بیت کی سیڑھیوں کے پاس چوک میں وہ اُپلے پڑے ہوتے۔ بارش کے آثار ہوتے تو خادم ان سے کہتا کہ دو چار آدمی دے دیں تا ان کو اندر رکھ لیں۔ آپ فرماتے کہ چلو ہم آدمی بن جاتے ہیں اور قرآن شریف کسی کے ہاتھ میں دے کر اُپلے اُٹھانے لگ جاتے اور پھر دوسرے لوگ بھی شامل ہو جاتے۔ پس کام کرنے سے دل چُرانا بھی ایک مخفی کِبر کا نتیجہ ہوتا ہے اور جب تک یہ خیال دل سے نہ نکالو گے کہ ہم اکیلے کس طرح کام کر سکتے ہیں کامیابی کی توقع فضول ہے۔ پہلے اچھی طرح کام کے متعلق سوچ لو اور پوری احتیاط کے ساتھ غور کر لو اور ایسی اچھی طرح سوچ لو کہ جیسے کہتے ہیںپہلے تولو پھر منہ سے بولو لیکن جب یہ سمجھ لو کہ یہ کام خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے تو پھر دائیں بائیں نظر مت ڈالو تم خود اسے شروع کر دو۔ اگر کوئی تمہارے ساتھ شامل ہوتا ہے تو سمجھو اس نے تم پر احسان کیا اور اگر نہیں تو اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور جب تم خود ایسی ذہنیت اپنے اندر پیدا کر لو گے تو اللہ تعالیٰ خود دوسروںکو تمہاری امداد کے لئے الہام کرے گا۔ یاد رکھو کہ دین کے کام انسانی تدبیروں سے نہیں ہوا کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے ہوتے ہیں۔ نادان خیال کرتے ہیں کہ الہام ہمیشہ لفظوں میں ہی ہوتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ شرعی احکام کی تفاصیل اور عبادات سے تعلق رکھنے والا الہام ضرور کلام میں ہوتا ہے مگر نیک کام میں مدد کا الہام ضروری نہیں کہ لفظوں میں ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَائِ ۲؎ ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم وحی کریں گے۔ تو دینی کاموں میں امداد کے لئے اللہ تعالیٰ عام لوگوں کے دلوں میں الہام کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ ان کو توجہ ہو جاتی ہے کہ ہم بھی اس کام میں مدد کریں۔ پس جو ضروری کام ہو اُسے انسان کی مدد کے خیال کے بغیر شروع کر دو پھر اللہ تعالیٰ نصرت کرتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کابندہ بن جاتا ہے تو اس کی نگاہ دوسرے انسان کی طرف اُٹھتی ہی نہیں اور اس کے اندر ایسا توکل اور عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بڑے سے بڑے کام میں ہاتھ ڈالنے سے نہیں ڈرتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہر بڑی تحریک جو میں نے شروع کی بعض دفعہ ابتداء میں لوگوں نے ڈرایا بھی کہ یہ کامیاب نہیں ہو گی مگر میں کبھی جھجھکا نہیں اور ناکامی کے خوف سے کبھی نہیں ڈرا۔ اس کام کے ہو جانے کے متعلق دعائیں کرتا رہا ہوں مگر یہ کبھی پرواہ نہیں کی کہ یہ ہو گا نہیں یا یہ کہ اگر نہ ہوا تو کیا ہو گا اور پھر یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ہوا نہ ہو۔ تعویق بعض دفعہ بے شک ہوتی ہے اور بعض اوقات رُکاوٹیں بھی پیدا ہوتی ہیں مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہو گیا۔
پس آج مَیں یہ دو باتیںخاص طور پر خدام الاحمدیہ سے کہنا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ واقعات کی دنیا میں قیاس سے کام نہ لو اور جو کام تمہارے سپرد کیا جائے اس کے متعلق اُس وقت تک مطمئن نہ ہو جاؤ جب تک کہ وہ ہو نہ جائے اور دوسرے یہ کہ کام اختیار کرتے وقت پوری احتیاط سے کام لو۔ وہ کام اپنے یا دوسروں کے ذمہ نہ لگاؤ جو تم جانتے ہو کہ نہیں کر سکتے اور جب اس امر کا اطمینان کر لو کہ اچھا کام ہے اور تم کر سکتے ہو تو پھر خود اسے کرنے سے مت جھجھکو پھر جب یہ دیکھو کہ کام ضروری ہے مگر تمہارا نفس کہتا ہے کہ تم اسے کر نہیں سکتے تو اپنے نفس سے کہو کہ تو جھوٹا ہے اور غلط کہتا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ ضرور کر دے گا اور پھر اسے شروع کر دو۔ جب ماں اپنے بچہ کی ضرورتیں پوری کرتی ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے دین کی ضرورت کو پورا نہ کرے۔ پس یہ دونوں پہلو اپنی زندگی میں مدنظر رکھو تو پھر تکلیف میںنہیں پڑو گے اور کامیابی حاصل کر سکو گے۔
مَیں نے ایک واقعہ اپنی زندگی کا کئی بار سنایا ہے۔ اُس وقت میری عمر صرف انیس سال تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے۔ آپ کی بعض پیشگوئیوں کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ابھی آپ فوت نہیں ہوںگے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ہے میں نے اپنے کانوں سے ایک شخص کو جو بعد میں مُرتد بھی ہو گیا تھا یہ کہتے سناکہ آپ پیشگوئیوں کے ماتحت فوت نہیں ہوئے۔ اُس روز میری بڑی بیوی لاہور میں ہی اپنے میکے گئی ہوئی تھیں اور آپ کی ایسی حالت دیکھ کر میں ان کو لینے چَلا گیا۔ جب میں واپس آیا تو آپ کے آخری سانس تھے اور اُس وقت میں نے اپنے کانوں سے یہ الفاظ ایک شخص کے منہ سے سُنے۔ وہ کسی اور سے بات کر رہا تھا۔ اُس وقت مَیں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ اگر ساری جماعت بھی پھر جائے تو اے خدا! میں وہ تعلیم جو تو نے دے کر آپؑ کو مبعوث کیا تھا تنِ تنہا ساری دنیا میں پھیلاؤں گا اور میں ہمیشہ اس بات پر فخر کرتاہوں کہ ایسے وقت میںاللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے منہ سے کہلوا دیئے۔ اُس عمر میں اور ایسے حالات میں ایسی بات بالکل غیر معمولی ہے۔ جب قرآن و حدیث پڑھا جا رہا ہو اور ایسی باتیں ہو رہی ہوں اُس وقت ایسی بات کہہ دینا کوئی غیر معمولی نہیں لیکن مصیبت کے وقت تو بڑی بڑی ہمت والے لوگ بھی ایک دوسرے سے گلے مِل مِل کر روتے ہیں۔ یہ وہ وقت نہیںتھاکہ جب کوئی خوشی کے واقعات سُنا رہا ہو۔ ایسے واقعات سن کر تو ایک نوجوان کے دل میں جوش پیدا ہو سکتا ہے اور وہ ایسی بات کہہ سکتا ہے لیکن وہ وقت ایسا تھا جب بظاہر ہمارے لئے دینی و دُنیوی دونوں ٹھکانے لَوٹ رہے تھے اور امید کی بجائے مایوسی کی گھٹائیں چھارہی تھیںاُس وقت میری زبان سے ایسا اقرار یقینا اللہ تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت تھا۔ پس خدام الاحمدیہ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب تک ہر ایک یہ نہ سمجھے کہ اس کام کا ذمہ دار میں ہی ہوںاور کوئی نہیں اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس اپنے اندر یہ روح پیدا کرو اور پھر خدا تعالیٰ پر توکّل رکھو کہ وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ میرا یہ ہمیشہ کاتجربہ ہے کہ جب یہ توکّل پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب کر دیتا ہے اس کے ساتھ کامیابی کے لئے دعائیں کرنا بھی ضروری ہے اور جب دُعا کرنے کے ساتھ یہ یقین ہو جائے کہ یہ قبول ہو گئی ہے تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب تھا تو میں کوٹھے کی چھَت پر دُعا کے لئے گیا۔ اُس وقت مجھے شدید فکر اور غم بھی تھا مگر دُعا کیلئے میرے اندر وہ جوش پیدا نہ ہوا جس کے نتیجہ میں یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ دُعا قبول ہوگئی ہے۔ مَیں بہت دیر تک کوشش کرتا رہا مگر وہ حالت پیدا نہ ہوئی۔ اس پر مجھے خیال پیدا ہوا کہ شاید میرے دل میں منافقت ہے کہ جس کی وجہ سے جوش دُعا کیلئے پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر مَیں نے اپنے لئے دُعا شروع کی تو اس میں بہت جوش پیدا ہؤا اور اُس وقت میرے دل میں یہ القاء ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں میری دُعا قبول ہو اس لئے وہ حالت پیدا نہیں ہوتی۔ تو دُعا کے ساتھ ایسی کیفیت اگر پیدا ہو جائے کہ انسان سمجھے یہ دُعا ضرور قبول ہوجائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے انسان کو جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور وہ سمجھے کہ میری دُعا وہ ضرور قبول کرے گا تو انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک قسم کا وائرلیس کا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کامل توکّل کی وجہ سے دل اس سے ایسا پیوست ہو جاتا ہے کہ انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کی دُعا ضرور سُنی جائے گی اور جب انسان اس مقام پر پہنچ جائے تو پھر سامانوں کی کمی وغیرہ سے گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس کے لئے ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے سامان خود بخود پیدا کر دیتا ہے۔
یہی مصری کا فتنہ جب شروع ہوا تو میرے دل میں ایک کرب تھا اور جماعت کے لوگوں میں بھی ایک ہیجان تھا کیونکہ وہ مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر تھا۔ رات کو جب مَیں سویا تو مَیں نے خواب دیکھا کہ کوئی فرشتہ ہے یا انسان ہے وہ دَوڑا ہوا میرے پاس آیا اور کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں تب مَیںنے سمجھا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے اور اس وجہ سے مجھے تکلیف میں دیکھ کر آپ برداشت نہیں کر سکے کہ مَیں اکیلا رہوں تب مَیں سمجھا کہ گو یہ بڑا آدمی ہے مگر مجھے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا کون ہو سکتا ہے۔ پس یاد رکھو کہ کامیابی کیلئے یہ چیز بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ پر توکّل ہو۔ پھر اس یقین کی ضرورت ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا اور جو شخص یہ یقین رکھتا ہو کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے اسے گھبرانے کی کیا ضرورت اور اسے کسی انسان کی طرف سے ہمت اور حوصلہ دلانے کی کیا ضرورت ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض نادان اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ایسے مواقع پر مجھے حوصلہ دلاتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچہ فوت ہوا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس پر ایک نادان نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! صبر کریں حالانکہ وہ بے صبری کی بات نہ تھی بلکہ ایک ترحّم کی کیفیت تھی جو بالکل اور چیز ہے۔ اِسی طرح مجھے یاد ہے جب میری بیوی امۃ الحی فوت ہوئیں تو بہت عرصہ تک یہ حالت تھی کہ مَیں جب ان کا ذکر کرتا تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ اِس پر ایک شخص نے جو اَب تو مولوی ہے مگر اُس وقت طالب علم تھا مجھے لکھا کہ آپ صبر سے کام لیں۔ مجھے خیال آیا کہ اس بے چارہ کو کیا علم ہے کہ صبر کیا چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندے اِس ترحّم کی کیفیت کے علاوہ ایسے دلیر ہوتے ہیں کہ ان کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اُن کو یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ غارِثور میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ چھُپے ہوئے تھے اور دشمن نے آ کر اس کا احاطہ کر لیا تو حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۳؎ اِس واقعہ میں دونوں کے عشق کا کیا عجیب نظارہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس لئے روئے کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا۔ آپؓ جانتے تھے کہ اگر پکڑے گئے تو میرا کیا ہے مَیں تو ایک عام آدمی ہوں لیکن اگر آنحضرت ﷺ کو کوئی گزند پہنچا تو کیا ہوگا آپؐ کی ذات پر تو دین کا انحصار ہے اس لئے آپ کا تمام حُزن اس وجہ سے تھا کہ دنیا دین سے محروم رہ جائے گی چنانچہ آپ نے اس وقت جو الفاظ کہے وہ یہی تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر مَیں مارا گیا تو کیا ہے مَیں تو ایک عام آدمی ہوں میرے جیسے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن آپؐ کی ذات پر تو دین کا انحصار ہے۔ یہ حُزن بالکل بے مثال ہے اور اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب بھی بے مثال ہے۔ اُس وقت کُفّار کو دشمنی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی اس لئے اصل مصیبت آپؐ کے لئے تھی۔ حضرت ابوبکرؓ سے کُفّار کو کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی ان کو تو شاید وہ چھوڑ بھی دیتے اس لئے اگر ذاتی غم ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتا مگر حضرت ابوبکرؓ کی شان یہ ہے کہ آپؐ کہتے ہیں یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مجھے اپنی ذات کا کوئی غم نہیں بلکہ آپؐ کا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ گو اصل مصیبت آپ پر ہے مگر تسلی حضرت ابوبکرؓ کو دیتے ہیں اور فرماتے ہیں جس پر تکالیف کا وقت ہے وہ دوسرے کو تسلی دے رہا ہے اور اسے تسلی دے رہا ہے جس پر مصیبت نہیں۔ گویا آپؐ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے نجات دے گا اور یہ یقین جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہو جائے تو پھر اس کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
نوجوانوں کو جو ناکامیاں ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین اور توکّل نہیں ہوتا اس لئے وہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں لوگ مدد نہیں کرتے، لوگ چندہ نہیں دیتے۔ ان کو جتنی اُمید لوگوں سے ہوتی ہے اس کا اگر ہزارواں حصہ بھی خدا تعالیٰ پر ہو تو وہ یقینا کامیاب ہو جائیں۔ پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہ یقین اور یہ توکّل اپنے اندر پیدا کریں۔
اِس کے بعد مَیں دُعا کر دیتا ہوں دوست بھی دُعا کریں۔ پھر خدام الاحمدیہ والے شاید اپنی رپورٹ سنائیں گے مَیں تو چلا جائوں گا کیونکہ مجھے کام ہے مگر دوست بیٹھے رہیں۔ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیاب کرے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اصل بات وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے کہ کامیابی کے لئے اتقاء بہت ضروری چیز ہے۔ اتقاء کے معنے بھی یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لینا اور یہی چیز ہمیں کامیاب کر سکتی ہے ورنہ اگر ہماری کامیابی کا انحصار دُنیوی سامانوں اور تدبیروں پر ہو تو پھر تو جب یہ سامان پورے ہوں گے اُسی وقت کامیابی نصیب ہوگی اور ان سامانوں کے لئے تو صدیاں درکار ہونگی لیکن اگر خدا تعالیٰ پر توکّل ہو تو وہ آج بھی ویسا ہی طاقتور ہے جیسا صدیوں بعد ہوگا اور وہ آج بھی ہمیں کامیاب کر سکتا ہے۔ اس لئے دوست دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر صحیح توکّل پیدا کرے۔ ہمارے دماغوں میں صحیح روشنی پیدا کرے اور عمل کی توفیق دے اور پھر ہمارے عمل کی نسبت سے بہت زیادہ اچھے اور زیادہ شاندار نتائج پیدا کرے۔
(تاریخ خدام الاحمدیہ جلد اوّل صفحہ۱۰۵ تا ۱۱۵ مطبوعہ ایڈیشن اوّل)
۱؎ لاَ تُکَلَّفُ اِلاَّ نَفْسَکَ (النساء: ۸۵)
۲؎ تذکرہ صفحہ۵۰۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ التوبۃ: ۴۰


احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

احمدیت زندہ ہے زندہ رہے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکے گی
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع جلسہ سالانہ ]خلافت جوبلی[قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر رہا تھا اور ابھی پہلی ہی آیت مَیں نے پڑھی تھی کہ میری نگاہ سامنے تعلیم الاسلام ہائی سکول پر پڑی اور مجھے وہ نظارہ یاد آ گیا جو آج سے ۲۵ سال پہلے اُس وقت رونما ہوء ا تھا جب جماعت میں اختلاف پیدا ہوء ا تھا اور عمائد کہلانے والے احمدی جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کا نظم و نسق تھا، انہوں نے اپنے تعلقات ہم سے قطع کر لئے اور گویا اس طرح خفگی کا اظہار کیا کہ اگر تم ہمارے منشاء کے ماتحت نہیں چلتے تو لو کام کو خود سنبھال لو، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے جو اَب فوت ہو چکے ہیں اس مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم جاتے ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ اس جگہ پر دس سال کے اندر اندر احمدیت نابود ہو کر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اس کے بعد وہ دس سال گزرے، پھر ان کے اوپر دس سال اور گزر گئے، پھر ان پر چھ سال اور گزر گئے لیکن اگر اُس وقت چند سَو آدمی احمدیت کا نام لینے والے یہاں جمع ہوتے تھے تو آج یہاں ہزاروں جمع ہیں اور ان سے بھی زیادہ جمع ہیں جو اس وقت ہمارے رجسٹروں میں لکھے ہوئے تھے اور اس لئے جمع ہیں تاکہ خدائے واحد کی تسبیح و تمجید کریں اور اس کے نام کو بلند کریں (اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے)
یہاں عیسائیت کا قبضہ بتانے والا مر گیا اور اس کے ساتھی بھی مر گئے، ان کا واسطہ خدا تعالیٰ سے جا پڑا مگر احمدیت زندہ رہی زندہ ہے اور زندہ رہے گی دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہ سکی اور نہ مٹا سکے گی۔ عیسائیت کی کیا طاقت ہے کہ یہاں قبضہ جمائے۔ عیسائیت تو ہمارا شکار ہے اور عیسائیت کے ممالک ہمارے شکار ہیں۔ عیسائیت ہمارے مقابلہ میں گرے گی اور ہم اِنْشَائَ اللّٰہُ فتح پائیں گے (نعرہ ہائے تکبیر)
وہ دن گئے جب مریم کا بیٹا خدا کہلاتا تھا۔ مریم کے جسمانی بیٹے کو انیس سَو سال تک دنیا میں خدا کی توحید کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا اور بہتوں کو خدا تعالیٰ کی توحید سے پھرا دیا گیا مگر اب جو مریم کا روحانی بیٹا خداتعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہ خداتعالیٰ کی بادشاہت زمین میں اسی طرح قائم کرے گا جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر قائم ہے۔
آج ہم اس جگہ پھر جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ اپنی عقیدت اور اپنا اخلاص اپنے رب سے ظاہر کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ احمدیت خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر متفقہ جدوجہد کرنے کیلئے کھڑی ہے اور خداتعالیٰ کے دین کیلئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ احمدی کہلانے والے پھر ایک دفعہ یہاں جمع ہوئے ہیں اس لئے کہ ان کا ایک دوسرے کے گھر جا کر ایک دوسرے کے متعلق یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ان کا کیا حال ہے۔ لاہور کے کسی بازار میں اتفاقاً ایک احمدی دوسرے احمدی کو دو سال بعد دیکھتا تو اسے خیال پیدا ہوتا کہ وہ مرتد تو نہیں ہو گیا۔ اسی طرح چند سال کے بعد ایک احمدی دوسرے احمدی کو امرتسر کے بازار میں دیکھتا تو خیال کرتا نہ معلوم احمدیت سے اس کا تعلق ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ احمدی ہر سال مرکز میں جمع ہوں، زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں اور مخالفین سے یہ کہتے ہوئے جمع ہوں کہ دیکھ لو خداتعالیٰ زیادہ سے زیادہ احمدیت کو ترقی دے رہا ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم قادیان کے فاتح ہیں، ہم قادیان کو مٹا دیں گے مگر وہ آئیں اور دیکھیں کہ ان کے مٹانے سے کس طرح احمدیت بڑھ رہی ہے۔
بچپن میں ہم ایک قصہ سنا کرتے تھے اور اسے لغو سمجھتے تھے مگر روحانی دنیا میں وہ درست ثابت ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کوئی دیو تھا۔ اسے جب قتل کیا جاتا تو اس کے خون کے جتنے قطرے گرتے اتنے ہی اور دیو پیدا ہو جاتے۔ معلوم ہوتا ہے انبیاء کی جماعتوں کا ہی یہ نقشہ کھینچا گیا ہے کیونکہ انہیں جتنا کُچلا جائے، جتنا دبایا جائے اتنی ہی بڑھتی ہیں اور جتنا گرایا جائے اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر میدان میں احمدیت کی ترقی کے سامان کر دیئے ہیں اور احمدیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور نئے نئے ممالک میں احمدی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔ سیرالیون سے جو مغربی افریقہ میں ہے حال ہی میں اطلاع موصول ہوئی ہے، اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات تو اگلے لیکچر میں بیان کروں گا اتنا بیان کر دینا اِس وقت مناسب ہے کہ اس جگہ سال بھر سے ایک مبلّغ بھیج دیا گیا تھا۔ وہاں شروع میں حکومت نے بھی مخالفت کی اور غیرمبائعین کا اثر بھی ہمارے خلاف کام کر رہا تھا مگر پرسوں وہاں کے مبلّغ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں کے دو رئیس پانچ سَو آدمیوں کے ساتھ احمدی ہو گئے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ۱؎ کے نظارے دکھا رہا ہے اور ابھی یہ کیا ہے۔ پنجابی میں جسے وَنگی ۲؎ کہا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے یعنی ایک دُکاندار کے پاس جاؤ تو وہ نمونہ کے طور پر تھوڑی سی چیز دکھاتا ہے کہ دیکھو کیسی اچھی ہے۔ پس یہ تو وَنگی ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے ورنہ جماعت کیلئے بہت بڑی بڑی فتوحات مقدر ہیں جو ضرور حاصل ہوں گی۔ پس آؤ! دین کی خدمت کرنے کا مخلصانہ وعدہ کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے خزانے تمہارے لئے کھولے جاتے ہیں۔
مَیں اس وقت جلسہ کا افتتاح کرنے کیلئے آیا ہوں۔ میں پروگرام میں مقرر کردہ وقت پر آنے کے لئے تیار تھا مگر افسوس ہے کہ سٹیج تیار نہ ہونے کی وجہ سے دیر سے افتتاح کرنا پڑا۔ ذمہ وار افسروں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اس قسم کی غلطیوں سے بچیں۔ بہرحال اِس وقت میں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوء ا اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی رحمتیں اور افضال جو اس وقت تک کئے آئندہ ان سے بڑھ کر فرمائے تاکہ ہماری حقیر کوششیں بار آور ہوں۔ اور ہم اس کے فضلوں کے پہلے سے زیادہ مَورد ہوں وہ ہماری کوششوں میں برکت دے تاکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت پھیل جائے اور احمدیت کو ہر جگہ غلبہ اور شوکت عطا فرمائے۔ پھر مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نہ دے کہ جب ہم میں طاقت اور غلبہ آئے تو ہم ظالم بن جائیں یا سُست اور عیش پرست ہو جائیں بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع، پہلے سے زیادہ رحم دل اور پہلے سے زیادہ اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کیلئے خرچ کرنے والے ہوں۔ مسیح کا یہ کہنا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزر جانا آسان ہے لیکن دولت مند کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے غلط ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ عزت اور شوکت اور غلبہ اور طاقت چاہو اور خداتعالیٰ جو دُنیوی انعامات دے ان کو قبول کرو لیکن اس عزت ،اس دولت اور اس طاقت کو خدا کے لئے اور اس کی مخلوق کی بھلائی اور بہتری کیلئے استعمال کرو۔ پس میں یہ نہیں کہتا کہ خداتعالیٰ ہمیں عزتیں ،طاقتیں اور شوکتیں نہ دے جو اس نے پہلے نبیوں کی جماعتوں کو دیں کیونکہ یہ ناشکری ہے مگر یہ دعا کرو کہ جب وہ اپنے فضل و کرم سے ترقیاں عطا کرے اور انعامات نازل کرے تو احمدی ان احسانوں کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کی مخلوق کی بھلائی کیلئے خرچ کریں۔
پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ہمیشہ فتنوں سے محفوظ رکھے اور جب کوئی فتنہ پیدا ہو تو اس پر غلبہ عطا کرے دشمنوں کی تدبیروں کوناکام اور خائب وخاسر رکھے۔ پھر یہ دعا کرو کہ خداتعالیٰ ہمارے اعمال میں اصلا ح اور برکت پیدا کرے کیونکہ جب تک نیک ارادہ کے ساتھ اعمال کی اصلاح نہیں ہوتی، کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی۔ پھر ان مبلغین کیلئے دعاکرو جن کے دل چاہتے تھے کہ آج ہمارے ساتھ ہوتے اور خداتعالیٰ کے اس نشان کو دیکھتے جو احمدیت کی ترقی کا اس نے ظاہر کیا ہے مگر خداتعالیٰ کے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہیں آ سکے۔ وہ گو جسمانی طور پر ہم سے دور ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں۔ کئی ہیں جو ہمارے قریب بیٹھے ہیں اور ان کے دل دور ہیں۔ مگر وہ جو دور بیٹھے ہیں، وہ ہمارے دل میں ہیں، ہمارے دماغ میں ہیں، ہماری محبت ان کیلئے ہے اور ہم ان کیلئے دعا گو ہیں۔
پھر اپنی اولادوں کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین کا خادم بنائے ان میں نَسْلاً بَعْدَ نَسْلٍ احمدیت کو اس طرح قائم رکھے کہ وہ دین کے مخلص خدمتگار ہوں۔ خداتعالیٰ ان سے خوش ہو اور وہ خداتعالیٰ سے خوش ہوں اور اس کی برکتوں کے ابدی وارث بنیں۔آمین
(الفضل ۳ ؍جنوری ۱۹۴۰ء)
۱؎ النصر: ۳
۲؎ وَنگی: نمونہ، مثل



مستورات سے خطاب






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع ]خلافت جوبلی[ جلسہ سالانہ قادیان)
لجنہ اماء اللہ قادیان کی طرف سے جو ایڈریس اس وقت پڑھا گیا ہے میں پہلے تو اس کے متعلق انہیں جَزَا کُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ کہتا ہوں پھر انہیں یقین دلاتا ہوں کہ طبقۂ نسواں کی اصلاح کا کام ہرگز کسی شخص کا احسان نہیں بلکہ یہ ایک فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں اور ان کے جانشینوں کے کندھوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ پس جو فرض میں خداتعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ادا کرتا ہوں وہ کوئی احسان نہیں بلکہ اپنی عاقبت کے لئے میں ایک ذخیرہ جمع کرتا ہوں۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اور مرد سب کے سب ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ مقصد خداتعالیٰ کے قرب کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب مرد اور عورتیں مل کر اس کے حضور پاک دل اور نیک ارادہ لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب میں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے حاصل کریں۔ سارا قرآن اسی سے بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ جہاں جنت کا ذکر ہے وہاں مردوںاور عورتوں کو اکٹھا شامل کیاہے۔ گواحکام میں مَردوں اور عورتوں کا اکٹھا ذکرنہیں بلکہ مردوں کے ذکر میں ہی عورتوں کو شامل کر لیا گیا ہے اور درحقیقت قرآنِ حکیم ہی وہ واحد اور کامل کتاب ہے جس نے عورتوں کے حقوق قائم کئے۔ اس سے پہلے نہ موسیٰؑ کی کتاب میں ان تمام حقوق کا ذکر تھا، نہ عیسیٰؑ کی تعلیمات میں یہ تمام باتیں پائی جاتی تھیں، نہ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ اور دیگر انبیاء نے ان امور کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔ صرف قرآن کریم ہی ہے جس نے دنیا کو بتلایا کہ عورت بھی ویسی ہی ترقی کی تڑپ اپنے اندر رکھتی ہے جس طرح مرد، اور ویسی ہی اُمنگیں، ویسے ہی جذبات اور ویسی ہی قربانی کی روح اور ارادے رکھتی ہے جس طرح مرد رکھتے ہیں۔ وہ قرآنِ کریم ہی ہے جس کے ذریعہ پہلی دفعہ دنیا میں یہ آواز بلند ہوئی کہ ۱؎ اے مردو! جو عورتوں کے حقوق تلف کرتے آئے ہو اب ہم اعلان کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے بعض حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے بعض حقوق تم پر ہیں۔ اگر عورتیں دوسری قوموں کو قرآن کریم کا یہ اعلان سنا دیتیں اور اپنے بچوں کو بھی بتاتیں کہ عورتوں کو بھی ایسے ہی اختیارات حاصل ہیں جس طرح مردوں کو، تو آج دنیا اس تعلیم سے بے بہرہ نہ رہتی اور نہ ذلت میں پھنستی۔ اس کی ذمہ داری تم پر ہے۔ اگر تم نے اپنے بیٹوں کو یہ تعلیم دی ہوتی کہ عورتوں کے حقوق شریعت ِاسلامیہ نے قائم کئے ہوئے ہیں جنہیں توڑنا شدید ترین گناہ ہے تو تم کبھی غلامی کی زنجیروں میں نہ جکڑی جاتیں۔ پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں سے کرانا ہر مؤمن کا فرض ہے، کسی کا احسان نہیں۔ اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک کوئی خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہے عورتوں کی ترقی و تنظیم کیلئے اس کی طرف سے ضرور کوششیں جا ری رہیں گی کیونکہ اگر وہ کوتاہی کرے تو وہ تمہارا گنہگا ر نہیں بلکہ خدا کا گنہگار ہو گا لیکن اس وقت عورتوں کا ایک حصہ بعض ایسے حقوق طلب کرنے لگ گیا ہے جو قرآن کے خلاف ہیں۔ مثلاً یہ کہ عورتیں پارلیمنٹ کی ممبر بنیں، گھوڑے کی سواری کریں، ظاہر ہے کہ ایسی عورت بچوں کی تربیت نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ماں کی گود تربیت کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے نرسنگ ہوم مقرر ہیں جہاں بچے بھیج دیئے جاتے ہیں۔ دائیاں دودھ پلاتی اور کھلاتی رہتی ہیں۔ جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو بورڈنگ میں داخل کر دیئے جاتے ہیں کیونکہ مائیں ناچ گانے میں لگی رہتی ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جس طرح ڈاکٹر اور وکیل دونوں اپنی اپنی جگہ مفید کام کرتے ہیں اسی طرح عورتیں اپنی جگہ کام کر رہی ہیں اور مرد اپنی جگہ اور مرد اور عورت دونوں کے کاموں کے دائرے الگ الگ ہیں لیکن اگر یہ اصول رائج کیا جائے کہ سب لوگوں کو وکیل بننا چاہئے یا ساری دنیا ڈاکٹر ہونی چاہئے یا سارے ہی لوہار یا ترکھان ہونے چاہئیں تو دنیا کا کارخانہ تباہ ہو جائے۔ برابری کے یہ معنی نہیں کہ عورت اور مرد دونوں ایک کام کریں بلکہ یہ ہیں کہ قومی طور پر دونوں پر یکساں طور پر ذمہ داریاں عائد ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورت پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے کہ ایک طرف وہ لڑکے کی تربیت کرتی ہے اور دوسری طرف لڑکی کی۔ گویا ایک طرح سارے زمانہ کو اس کی غلامی میں دیدیا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ عورت کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔۲؎ اسی طرح مرد کو کہا گیا ہے کہ فلاں بات تم عورت سے منوا سکتے ہو اور فلاں نہیں۔ مثلاً اپنے مال میں وہ بالکل آزاد ہے۔ عجیب بات ہے کہ یورپ جو آج شور مچا رہا ہے کہ اس نے عورت کی عزت اور آزادی قائم کی وہاں بھی عورت کے حقوق صرف بیس سال سے رائج ہوئے لیکن اسلام نے ساڑھے تیرہ سَو سال سے عورت کے حقوق کو قائم کیا ہوء ا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتیں نہ تو یورپ کی آزادی اختیار کریں اور نہ جہالت میں گرفتار رہیں۔ مثلاً بعض عورتیں یہ کہہ دیا کرتی ہیں کہ مذہب خدا کی مرضی کا نام ہے اور جب خدا کی مرضی سمجھ میں آ جائے تو خاوند کی مرضی اس کے متعلق ضروری ہوتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ خاوند کو یا بھائی کو یا باپ کو مذہب کے معاملہ میں عورت پر کسی قسم کا تصرف حاصل ہے۔ ہر عورت کو حق ہے کہ جب دین کی کوئی بات سمجھ میں آجائے تو اس پر عمل کرے خواہ سب اس کے مخالف ہوں۔ وہ یہ عُذر نہیں کر سکتی کہ میرے باپ یا بھائی یا خاوند نے اجازت نہیں دی۔ خدا کہے گا کہ صداقت کے معاملہ میں مَیں نے تجھے کسی کے ماتحت نہیں رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا تعلق دماغ سے رکھا ہے اور دماغ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا۔ اب تم اتنی عورتیں یہاں بیٹھی ہو ممکن ہے کسی عورت کا بچہ شور مچا رہا ہو اور تم اپنے دل میں یہ کہہ رہی ہو کہ کیسی نالائق ہے اس نے لیکچر خراب کر دیا مگر وہ تمہارے اِن خیالات سے بالکل ناواقف ہو گی۔ تو دماغ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخفی خزانہ کی صورت میں بنایا ہے جس کے اوپر نہ بادشاہ کو حکومت حاصل ہے نہ باپ یا بیٹے یا استاد کو۔ گویا خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ ایک ایسا صندوق دیا ہے جس میں تم اپنے ضروری راز رکھ سکتی ہو۔ اگر تم کسی کو دس سال بھی اپنے پاس رکھو تو اس کو پتہ نہیں لگے لگا کہ تمہارے اس صندوق میں کیا ہے جب تک تم خود نہ بتلاؤ کہ میرے دل اور دماغ میں کیا ہے۔ وہ تمہارا ذاتی ٹرنک ہے اگر تم کوئی راز کسی کو بتلانا چاہتی ہو تو کنجی لگا کر کھول لیتی ہو اور جو نہیں بتلانا چاہتی کنجی نہیں لگاتیں۔ پس خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس خزانہ کو محفوظ رکھے۔ یہ ہر ایک کا ذاتی ٹرنک ہے جس میں کسی کو اگر کوئی شریک کرنا چاہتا ہے تو اس کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اگر شریک نہیں کرنا چاہتا تو اس کو نہیں کھولتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے دماغ کی کنجی تمہارے ہاتھ میں دی ہے اور سچائی کے معاملہ میں نہ تو مرد کو اس پر حق حاصل ہے نہ بھائی کو۔ ہزارہا عورتیں ایسی ہیں جو سچائی کے کھلنے پر بھی نہیں مانتیں اور ایمان کو محض باپ یا ماں یا خاوند وغیرہ کے ڈر کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتیں۔ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا خاوند صدقہ دینے سے منع کرتا ہے کیا میں پوشیدہ طور پر صدقہ دے دیا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا۔ ہاں ۳؎ ۔ گویا ان معاملات میں عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ خاوند کے مال سے بغیر دریافت کئے خرچ کر سکتی ہے۔ پس ان حقوق کو جو خداتعالیٰ نے تمہیں دیئے ہیں یاد رکھو اور اس کے احسانات کی قدر کرو تاکہ تمہاری ترقی ہو۔
اَب میں ایڈریس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اس میں ایک غلطی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ صرف قادیان کی لجنہ کا حق نہیں تھا کہ وہ انفرادی رنگ میں اپنی طرف سے ایڈریس پیش کر دیتی بلکہ باہر کی لجنات کا بھی حق تھا اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان کو شامل نہ کیا جاتا۔ قادیان کی لجنہ کو اس لئے خصوصیت حاصل نہیں کہ وہ ایک ممتاز لجنہ ہے بلکہ اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ وہ مرکزی لجنہ ہے۔ اگر وہ اپنے نام کے ساتھ صرف قادیان کا نام نہ لکھتیں تو دوسروں کے حوصلے وسیع ہو جاتے اور تمام لجنات کی طرف سے مشترکہ ایڈریس ہو جاتا۔
اس کے بعد مَیں جماعت کی مستورات کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنے اپنے مقام پر لجنات قائم کرنی چاہئیں اور کام کرنے والی عورتیں اس میں داخل کرنی چاہئیں۔ جس طرح دماغ بات نہیں کر سکتا اسی طرح جب تک ہاتھ نہ ہوں انسان کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اگر کسی جگہ آگ لگ جائے اور ایک لنگڑا آدمی وہاں ہو تو اس کا دماغ فوراً یہ فیصلہ کر دے گا کہ بھاگ جا لیکن اس کے پاؤں جواب دے رہے ہوں گے اور باوجود دماغ کے فیصلہ کے وہ بھاگ نہیں سکے گا اسی طرح اگر ایک عورت کا بچہ گڑھے میں گِر جائے تو باوجود اس کے کہ عورت کا دماغ کہے گا کہ اسے نکال اگر اس کے ہاتھ نہیں تو وہ نکال نہیں سکے گی۔ لجنات بھی نظامِ سلسلہ میں بازو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ضروری ہے کہ تمام مقامات پر ان کا قیام کیا جائے۔ پس اپنی اپنی جگہ لجنات قائم کرو اور اپنی اخلاقی، تعلیمی اور دینی تربیت کا سامان کرو۔ اس وقت تک صرف پچیس لجنات قائم ہیں حالانکہ مردوں کی ساڑھے سات سَو انجمنیں ہیں۔ تمہیں چاہئے کہ اس سُستی کو دور کرو اور ہر جگہ لجنہ اماء اللہ قائم کرنے کی کوشش کرو۔
ایک انگریز نو مسلم خاتون کا تہنیت نامہ
حضور کی تقریر ابھی جاری تھی کہ انگلستان کی احمدی خواتین کی
نمائندہ انگریز نو مسلم خاتون محترمہ سلیمہ صاحبہ تشریف لائیں۔ حضور نے ازراہِ کرم اپنی تقریر کو بند کرتے ہوئے انہیں اپنا ایڈریس پیش کرنے کا موقع دیا۔ چنانچہ خاتون موصوفہ نے اپنا ایڈریس انگریزی زبان میں حضور کی خدمت میں پیش کیا اور حضور نے انگریزی میں ہی اس کا موزوں جواب دیا۔ بعد ازاں فرمایا:۔
یہ ہماری نومُسلمہ بہن ہے جس کا نام سلیمہ ہے۔ یہ انگلستان کی رہنے والی ہیں۔ ان کی تار مجھے صبح ملی تھی کہ وہ آ رہی ہیں اور انہیں اپنا ایڈریس سنانا ہے۔ دس بجے آنے کا خیال تھا لیکن وقت پر نہ پہنچ سکیں۔
تم نے دیکھا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھی ہے۔ تم میں سے بہت کم ہوں گی جو اس رنگ میں صحیح بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ سکتی ہوں۔ انگریز لوگ عربی نہیں پڑھ سکتے پھر یہ کیسے افسوس کی بات ہے کہ عیسائی عورت تو اس خوبصورتی سے پڑھے اور تم اس ملک کی ہوکر بِسْمِ اللّٰہِ صحیح نہ پڑھ سکو۔
یہ چند باتیں بطور نصیحت مَیں نے مختصراً بیان کر دی ہیںکیونکہ آج اِس قسم کی مصروفیت ہے کہ میرے لئے لمبی تقریر کرنا مشکل ہے۔ دوسرے مردوں میں جو میری تقریر ہوتی ہے وہ بھی چونکہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں سن سکتی ہیں اس لئے بظاہر کسی علیحدہ تقریرکی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ رسول کریم ﷺ کبھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے اس لئے باوجود لاؤڈ سپیکر کے میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ اسی سنت کے ماتحت میں آج بھی ایک مختصر سی تقریر کر د یناچاہتا ہوں۔
اس کے بعد حضور نے مستقل تقریر فرمائی جو درج ذیل کی جاتی ہے۔
تشہّد و تعوّذ کے بعد حضور نے حسبِ ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی:۔





۴؎
اس کے بعد فرمایا:۔
بعض مرضیں بعض قوموں میں زیادہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک میں سینکڑوں خون ہر سال ہو جاتے ہیں ذرا غصہ آیا مرد نے گنڈاسا اُٹھایا اور دوسرے کا سر کاٹ دیا۔ کسی جگہ زمین کا جھگڑا ہو گیا یا شادی بیاہ یا لین دین کے معاملہ میں اختلاف ہو گیا تو قتل کردیا۔ یہ بات عورتوں میں بہت کم ہے۔ اگر سارے سال میں سینکڑوں مرد پھانسی پاتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں عورت صرف ایک ہو گی۔ مگر بعض ایسی باتیں ہیں جو عورتوں میں زیادہ ہوتی ہیں۔ جس طرح مردوں میں قتل و خونریزی زیادہ ہے اسی طرح عورتوں میں جھوٹ زیادہ ہے اور جہاں مرد گنڈاسا لئے پھرتا ہے وہاں عورت زبان سے قتلِ عام کرتی پھرتی ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ بیعت لیتے وقت عورتوں سے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ ہم جھوٹے اتہام نہیں باندھیں گی معلوم ہوتا ہے عرب عورتوں میں اتہام لگانے کی عام عادت تھی۔ پھر جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو بھی اس کی عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہماری ماں جھوٹ بولتی ہے تو ہم اس سے زیادہ کیوں نہ بولیں۔ ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں دو دوستوں نے آپس میں کہا کہ اپنے اپنے خاندان کی کوئی بات سناؤ۔ اس پر ایک کہنے لگا کہ اب تو وہ بات نہیں رہی ہم تو بڑے رئیس ہوء ا کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے نانا کا اتنا بڑا طویلہ تھا کہ جب قحط پڑا کرتا تو سارے شہر کے جانور اس کے ایک کونے میں سما جاتے۔ دوسرا کہنے لگا ہمارے نانا جان کے پاس ایک ایسا بانس تھا کہ جب کبھی بارش نہ ہوتی تو وہ بانس سے بادلوں کو چھید کر بارش برسا لیتے۔ دوسرے کو غصہ آ گیا کہنے لگا تمہارے نانا جان یہ بانس رکھا کہاں کرتے تھے۔ وہ کہنے لگا تمہارے ناناجان کے طویلہ میں۔ اب دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو اُن دونوں نے بولا۔ تھوڑ ے ہی دن ہوئے میں نے ایک اور قصہ پڑھا ہے کہ ایک رنگریز کی لڑکی سکول میں داخل ہوئی۔ ادھر سے ایک حلوائی کی لڑکی بھی داخل ہوئی۔ اُس نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو تو حلوائی کی لڑکی کہنے لگی کہ میرے ابا ڈپٹی ہیں۔ دوسری کہنے لگی کہ میرے ابا بڑے بینکر ہیں، ساہو کارہ کا کام ہے اور بیسیوں ہمارے مکان ہیں۔ ایک دفعہ اس نے اپنی سہیلی کی دعوت کر دی۔ اب بینکر کی لڑکی کے ہاں نوکر تو تھے نہیں اس نے اپنے بھائی بہنوں کو نوکر بنایا۔ پیسٹری رکھی جلیبیاں منگوائیں، بازار سے چائے کے برتن منگوائے اور جب ڈپٹی کی لڑکی آئی تو دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک ہمسائی آئی۔ جب اس کی نظر دوسری لڑکی پر پڑی تو کہنے لگی یہ تو ہمارے رنگریز بھائی کی لڑکی ہے۔ حلوائی کی لڑکی کہنے لگی یہ تو بینکر کی لڑکی ہے وہ کہنے لگی بینکر کی بیٹی ہے، یہ تو ہمارے محلہ کے فلاں رنگریز کی لڑکی ہے۔ تو یہ پاکھنڈ محض اس لئے بنایا کہ وہ اِس کو امیر سمجھے اور یہ اُس کو ۔ تو اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے مؤمن جھوٹ سے الگ رہتا ہے۔ اگر اسے پتہ لگے کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے تو اس کی دوستی چھوڑ دیتا ہے اور وہ کسی جھوٹے سے تعلق نہیں رکھتا۔ اور گو اس تعلیم کے مرد بھی مخاطب ہیں مگر عورتیں اس کی زیادہ مخاطب ہیں۔ اسی وجہ سے بیعت کی شرطوں میں اَب جھوٹ سے بچنے کے عہد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ پہلے بیعت کے الفاظ یہ تھے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی مگر اَب اس کے ساتھ یہ زیادہ کر دیا گیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گی۔ پس تم اپنے دلوں میں یہ اقرار کرو کہ جھوٹ نہیں بولوں گی۔ جھوٹ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر ایک کو اپنی بات بتلاؤ۔ مثلاً اگر کسی چور کی بیوی تمہارے پاس راز لینے آتی ہے تو تم اس سے کہہ سکتی ہو کہ میں نہیں بتاتی جاؤ نکل جاؤ۔ یہ جھوٹ نہیں ہو گا لیکن یہ ضرور جھوٹ ہو گا کہ تم اسے اصل جگہ چھپا کر دوسری جگہ بتاؤ۔ پس آج تمام احمدی عورتیں کان کھول کر سن لیں کہ عورت کی بیعت میں یہ عہد شامل ہے اور جو جھوٹ بولے گی وہ خود اپنی بیعت کی شرط کو توڑنے والی قرار پائے گی۔
پھر مؤمن کی یہ علامت بتلائی کہ جب وہ کوئی لغو بات دیکھتا ہے تو اس کے پاس سے گزر جاتا ہے لیکن یہ بات نہایت ہی افسوسناک ہے کہ عورت ہمیشہ لغویات کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ مثلاً بلاوجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہے کہ یہ کپڑا کتنے کا لیا، یہ زیور کہاں سے بنوایا اور جب تک اس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کر لے اسے چین نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ اس نے تنگ آ کر اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی؟ اس نے کہا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا۔ ایک عورت نے پوچھا بہن تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم پہلے پوچھ لیتیں تو میرا گھر کیوں جلتا۔ یہ عادت عورتوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ مردوں میں بھی ہے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بعد پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جاؤ گے؟ کیا کام ہے؟ آمدنی کیا ہے؟ بھلا دوسرے کو اس معاملہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ تو کہاں ملازم ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ تنخواہ کیا ملتی ہے؟وہ کبھی کریدنے کا خیال نہیں کرتے۔
غرض عورتوں میں یہ لغویّت انتہاء درجہ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن لغو کام نہیں کرتا جن لوگوں کو بڑی بڑی باتوں کا خیال ہوتا ہے ان کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی بَھلا فُرصت ہی کب ہو سکتی ہے۔ اگر تمہیں دین کا فکر ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ اسلام ایک خطرناک مصیبت میں گھِرا ہوء ا ہے تو تم کو دوسری طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ تمہارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو تم کس طرح چَین لے سکتی ہو۔ اسی طرح آج جبکہ مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے تم کس طرح یہ برداشت کر سکتی ہو کہ گوٹہ کناری میں مشغول رہو۔ کیوں نہیں تم وہ وقت خداتعالیٰ کے دین کیلئے وقف کر دیتیں اور کیوں تم وہی وقت دینی تعلیم کیلئے وقف نہیں کر دیتیں؟ تمہارے دل مردہ ہیں جبھی تو خدا کے دین کی مصیبت تمہیں نہیں رُلاتی اور تم لغو باتوں کی طرف متوجہ رہتی ہو۔

پھر مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گزر جاتے۔ یعنی جب ان کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جائیں تو یہ نہیں کہ عمل نہ کریں بلکہ فوراً عمل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہیں۔ مَیں نے مَردوں میں دیکھا ہے کہ مَرد گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور آواز تک نہیں نکالتے مگر عورتیں برداشت نہیں کر سکتیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باتیں کرنے لگ جاتی ہیں۔ گویا ان کی توجہ دین کی باتوں کی طرف ہوتی ہی نہیں۔ ہمارے مُلک میں قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے گئے۔ امام کے خیالات پریشان تھے اسے نماز میں پندرہ روپوں کا خیال آ گیا۔ اِدھر مقتدیوں کا خیال تھا کہ امام صاحب سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔ مگر اسے خیال تھا کہ پندرہ روپوں سے دِلّی سے فلاں فلاں چیزیں خریدوں گا۔ اس طرح ہوتے ہوتے پانچ ہزار ہوگئے۔ رکوع میں خیال آیا کہ جب پانچ ہزار ہو جائیں گے تو بخارا جاؤں گا۔ وہاں سے گھوڑے خریدوں گا اور اسی طرح بیس ہزار ہو جائیں گے پھر واپس دِلّی آ کر بیس ہزار کے چالیس ہزار بنا لوں گا۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو کشف میں یہ تمام باتیں بتا دیں اور وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے۔ سلام پھیر کر امام نے کہا کہ تم کافر ہو، مسلمان ہوتے تو ہمارے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھتے۔ وہ کہنے لگے میں کمزور ہوں زیادہ چل پھر نہیں سکتا۔ آپ تو دِلّی گئے پھر بخارا گئے وہاں سے گھوڑے لیکر پھر دِلّی آئے مجھ سے یہ سفر نہ ہو سکا اور میں آپ سے علیحدہ ہو گیا۔ وہ شرمندہ ہو کر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا آپ تو بزرگ معلوم ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذکرِ الٰہی کے موقع پرمؤمن پوری طر ح متوجہ رہتے ہیں مگر تم میں سے بعضوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اِدھر نماز میں مصروف ہوئیں اور اُدھر تمہارا دماغ شامی کباب کا نسخہ تیار کرنے لگا یا کسی اور دنیاوی کام کو سوچنے میں مصروف ہو گیا۔ غرض بہت سی عورتوں میں یہ مرض ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں روزانہ لیکچر دینے شروع کئے۔ ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضور پوچھئے تو سہی یہ سمجھی کیا ہیں۔ آپ نے ایک عورت کوبلا کر پوچھا وہ برابر پندرہ روز سے لیکچر سن رہی تھی مگر کہنے لگی یہی نماز روزہ کی باتیں ہوئی ہوں گی۔ یہ سن کر آپ نے لیکچر ہی بند کر دیئے۔ تو عورتیں بہت کم توجہ سے سنتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایمان کی علامت یہ ہے کہ تم توجہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنو۔
پھر فرمایا۔ مؤمن کی علامت یہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے کہ وہ بڑائی چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہاری اس فطرت سے آگاہ ہیں اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ تمہیں بڑائی مل جائے مگراس کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ تم اپنے لئے امام بننے کی دعا کرتے رہا کرو۔ اس میں بتایا کہ مؤمن کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں رہنا چاہئے بلکہ لیڈر اور امام بننے کی خواہش کرنی چاہئے۔ مگر کس کا امام؟ متقیوں کا امام غیر متقیوں کا نہیں۔ ممکن ہے تمہیں خیال پیدا ہو کہ ہر شخص کس طرح لیڈر اور امام بن سکتا ہے۔ سو میں بتاتا ہوں کہ اس سے مرد اور عورتیں دونوں حصہ لے سکتے ہیں۔ مرد اگر کوشش کرے کہ میری بیوی سمجھدار ہو، اس کو اعلیٰ ترقیات حاصل ہو جائیں، تو جب وہ تمہارے تابع چلے گی تو تم امام ہو گے اور بیوی ماموم۔ اسی طرح اگر بیوی اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہو گی اور اولاد ماموم اور اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف ہی منسوب کئے جائیں گے۔ تم قبر میں سو رہی ہو گی مگر جب تمہارے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی، تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے ظہر کی نماز پڑھی، تم قبر میں سو رہی ہو گی اور فرشتے لکھے رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے عصر کی نماز پڑھی۔ چاروں طرف خاموشی ہو گی، تارے جگمگا رہے ہوں گے، لوگ سو رہے ہوں گے، لیکن اگر تم نے اپنی اولاد کو تہجد کی عادت ڈالی ہو گی تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس نے تہجد کی نماز پڑھی۔ کتنی عظیم الشان ترقی ہے جو تم حاصل کر سکتی ہو۔
جو لوگ خدا تعالیٰ کیلئے اس قسم کے نیک کام کریں گے، کوشش کریں گے کہ ان کے بچے نیک ہو جائیں، فرمایا قیامت کے دن ہم ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ جگہ دیں گے۔ جس طرح دنیا میں انہوں نے بچوں کو چوری سے، جھوٹ سے، فریب سے اور اسی طرح اور بدیوں سے بچایا اور جس طرح انہوں نے دنیا میں سلامتی پھیلائی اسی طرح جب وہ جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ وہ بندے ہیں جن سے میرے بندے امن میں رہے۔ جاؤ آج ان کو سلامتی دو اور انہیں دار السلام میں داخل کر دو۔
اس کے بدلہ میں وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے۔
فرماتا ہے۔ یادرکھو! تم اسی وقت تک مجھے پسندیدہ ہو جب تک تم ہماری باتیں مانوگی اگر تم ہماری باتیں نہ سنو گی تو تمہارا خدا تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کا وبال تمہارے سر پر پڑے گا۔ تم اس دنیا میں بھی ذلیل ہو گی اور تمہاری اولاد بھی برکتوں سے محروم رہے گی۔
کتنا خطرناک و عید اور انذار ہے، کاش تم سمجھو۔ کاش تم اپنی اصلاح کرو۔ کاش! تم خدا کی باتوں کی طرف توجہ دو اور کاش! خدا تمہارے دلوں کو پاک کر دے۔ اگر تمہاری اولادیں دین کی خدمت کریں گی تو تم بھی ان کی نیکیوں میں حصہ دار ہوگی۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔
میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو نیک عمل کرنے کی توفیق دے اور اپنی برکتیں تمہارے گھروں پر نازل فرمائے۔
(مصباح مارچ ۱۹۴۰ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۲۹
۲؎ الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الاوّل صفحہ۱۲۵ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ
۳؎ ابوداؤد کتاب الزکوۃ باب الْمَرْأۃُ تصدق من بیت زوجھا (مفہوماً)
۴؎ الفرقان: ۷۳ تا۷۸



اہم اور ضروری امور






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اہم اور ضروری امور
(خلاصہ تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع جلسہ سالانہ ]خلافت جوبلی[ قادیان)
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ساتھیوں کی ایک اشتعال انگیز حرکت
مجھے رات امور عامہ کی طرف سے رپورٹ ملی کہ ہماری جماعت کی طرف سے جو اشتہارات لگائے
گئے تھے ان پر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے ساتھیوں کی طرف سے ایک نہایت ہی گالیوں سے پُراشتہار کے فقرات کاٹ کر سب جگہ چسپاں کر دیئے گئے تھے تاجماعت کے جو دوست اپنے اشتہاروں کو پڑھیں ان کی نگاہ ان گالیوں پر بھی پڑ جائے۔ ان فقرات کے اندر کوئی دلیل نہ تھی، کوئی برہان نہ تھا، کوئی دین کے متعلق دعویٰ نہ تھا، محض گالیاں ہی گالیاں تھیں جو اِن فقرات میں لکھی تھیں اور مجھے امور عامہ نے رپورٹ کی کہ ہم نے وہ اشتہارات اتروا دیئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ان کی غلطی تھی۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اشتہارات کو اترواتے کیونکہ میری طرف سے کہا گیا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے مجھے گالیاں دی ہیں مگر ان کی طرف سے متواتر کہا گیا کہ انہوں نے گالیاں نہیں دیں۔ اس وقت قادیان میں کھانے کی پرچیوں کے لحاظ سے ۳۸ ہزار آدمی جمع ہیں۔ گزشتہ سال پچیس ہزار تھا۔ ان ۳۸ ہزار آدمیوں میں علاوہ جماعت کے دوستوں کے غیراحمدی، ہندو اور سکھ شرفاء بھی موجود ہیں۔ اگر یہ سب ان فقرات کو پڑھ لیتے تو یہ ثبوت ہوتا اس بات کا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا، وہ درست تھا اور جو کچھ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کہا کرتے تھے وہ غلط تھا۔ مگر امور عامہ والوں نے غلطی سے اس خدائی نشان کو جو میری صداقت میں خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا، باطل کر دیا۔ ممکن ہے ا بھی بیسیوں یا سینکڑوں نے ان گالیوں کو پڑھا ہو۔ لیکن اگر وہ اشتہارات نہ اُتروائے جاتے تو ہر شخص کو معلوم ہو جاتا کہ مصری صاحب کا یہ کہنا کہ انہوں نے ہمیں گالیاں نہیں دیں، درست نہیں تھا۔ میں ان الفاظ کو نہیں دُہراتا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کمزور طبائع مشتعل نہ ہو جائیں لیکن جن دوستوں نے ان گالیوں کو پڑھا ہے ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ان باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ آج تک اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے کیلئے کوئی جماعت ایسی کھڑی نہیں ہوئی جسے مخالفین کی طرف سے گالیاں نہ ملی ہوں۔
صحت کی حالت
اپنی صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گزشتہ سال میری طبیعت بہت خراب رہی ہے۔ بار بار نقرس کے دورے ہوئے اسہال کی تکلیف
مدتوں سے کم ہو گئی تھی مگر دس بارہ سال کے بعد اس قدر شدید دورے ہوئے کہ مہینوں اس کا سلسلہ جاری رہا۔ اپنڈکس اور گُردے کے مقام پر بھی شدید دردیں ہوئیں اس وجہ سے جو امید مجھے کام کرنے کے متعلق تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ اگر صحت اچھی رہتی تو گذشتہ سال جن کاموں کا ذکر کیا گیا تھا وہ سارے ہو جاتے مگر بعض ہوئے ہیں اور بعض ادھورے رہ گئے۔
اخباراتِ سلسلہ کا ذکر
اخباراتِ سلسلہ کے ضمن میں حضور نے سب سے پہلے الفضل کا ذکر کرتے ہوئے عملہ کو ضروری ہدایات دیں اور تاریخی،
سیاسی، تعلیمی، صنعتی، اقتصادی اور مذہبی مضامین لکھنے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح غیرمذاہب کی تبلیغی جدوجہد کا ذکر اور علمی کتب پر ریویو کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔
’’سن رائز‘‘ کی خریداری کے متعلق حضور نے انگریزی خوان طبقہ کو توجہ دلائی اخبار فاروق کی خریداری کی بھی تحریک فرمائی۔ اُردو ریویو آف ریلیجنز کی ترقی پر اظہارِ خوشنودی فرمایا۔ انگریزی ریویو کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔
جماعتہائے بیرونِ ہند کا ذکر
حضور نے مغربی افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں بعض لوگوں نے نظام سلسلہ کے خلاف
بغاوت کی تھی جنہیں جماعت سے خارج کر دیا گیا ہے۔ مصر کی جماعت کے متعلق فرمایا کہ اس میں بہت بیداری نظر آتی ہے اور اس امید کا اظہار فرمایا کہ اگر یہ جماعت مضبوط ہو گئی تو عالَمِ اسلامی پر اس کا نہایت گہرا اثر پڑے گا۔ دمشق اور فلسطین کا کام بھی اچھا چل رہا ہے۔ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے جنگ کی وجہ سے بعض ممالک سے اپنے مبلّغ واپس بلا لئے ہیں۔ چنانچہ ہنگری سے مبلّغ واپس بلا لیا گیا، پولینڈ سے پہلے ہی واپس آ چکا تھا اب اٹلی والے مبلّغ کو بھی واپس بلا لیا جائے گا مگر جب جنگ ختم ہو گی تو نئے مبلّغ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو چکے ہوں گے اور ہم انہیں مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیج دیں گے۔
انقلابِ حقیقی
اس کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ کتاب ’’انقلاب ِحقیقی،، دوبارہ چھپ گئی ہے۔ حیدر آباد کے ایک دوست نے دو ہزار جلدیں خریدنے کا وعدہ
کیا ہے باقی دو ہزار ہے۔ جماعت کے دوست اس کی اشاعت میں حصہ لیں۔ جب میں نے اسے دوبارہ اصلاح کیلئے پڑھا تو بعض باتوں کا مَیں نے اس میں اضافہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی طور پر تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ کتاب اچھا اثر پیدا کر سکتی ہے۔ اس کتاب کے بعض حصے ایسے ہیں جو اپنے اندر الہامی رنگ رکھتے ہیں۔
اچھوتوں میں تبلیغ
اچھوتوں میں تبلیغ کے متعلق فرمایا۔ افسوس ہے کہ اس سال بہت کم ہوئی ہے۔جماعتوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی حالانکہ یہ
موجودہ وقت کا ایک اہم سوال ہے جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔
تعلیم و تربیت
حضور نے فرمایا جماعت کی تعلیم و تربیت کیلئے میں نے گزشتہ سال بعض نوجوانوں کا مطالبہ کیا تھا جن کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں ایسی
تربیت دی جائے گی جس کے نتیجہ میں وہ دیہات میں رہ کر لوگوں کو فائدہ پہنچا سکیں ۔ اس کے مطابق جو نوجوان میسر آئے ان کو کمپونڈری کی تعلیم دلائی گئی، وٹرنری کی تعلیم دلائی گئی، یونانی طب سکھائی گئی، دوا سازی سکھائی گئی، زمیندارہ کام سکھایا گیا اور ضروری دینی تعلیم بھی دی گئی۔ ان کی بیویوں کو بھی نوار بُننا، کاڑھنا اور سِینا پُرونا سکھایا گیا ہے۔ افسوس ہے کہ باربار اعلان کرنے کے باوجود جماعت میں سے صرف پانچ نوجوان ایسے نکلے جنہوں نے یہ کام سیکھا مگر یہ سکیم ان پانچ پر ہی ختم نہیں ہو جائے گی۔ میرا دل چاہتا ہے ہر احمدی گاؤں میں ایسا ایک مدرس موجود ہو۔ اور چونکہ اگلے سال پھر یہی ٹریننگ نوجوانوں کو دی جائے گی اس لئے جو نوجوان مڈل پاس ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں اور جو جماعتیں فارغ التحصیل نوجوانوں کو اپنے ہاں شرائط کے مطابق رکھنا چاہتی ہوں وہ اطلاع دیں۔
مغربی کھیلوں کی بجائے دیسی کھیلوں کی ترویج
اس بارے میں حضور نے فرمایا۔ گزشتہ سال
میں نے مغربی کھیلوں کی بجائے دوڑنا، تیرنا، نشانہ بازی، بوجھ اُٹھانا، کُشتی لڑنا، گتکا، گھوڑے کی سواری اور اسی طرح اور کھیلوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور میں نے یہ کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا تھا۔ انہوں نے قادیان میں اس کو جاری کیا اور دو مقابلے ہوئے۔ باہر کی جماعتوں میں بھی تحریک کی گئی جس کے نتیجہ میں بعض نے تیرنے کی مشق کی، بعض نے ذہانت کے مقابلے کئے اور بعض نے دوسری کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس کے بعد حضور نے ان جماعتوں کے نام سنائے جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا۔ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اس سلسلہ میں دو گریجوایٹ نوجوانوں چوہدری محمد شریف صاحب بی۔اے اور چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔اے کو ورزشی کالج لاہور میں کام سیکھنے کے لئے بھجوایا ہوء ا ہے۔ اس کے علاوہ ایک نوجوان خلیل احمد صاحب ناصر بی۔اے حیدرآباد سے گتکا وغیرہ سیکھ کرآئے ہیں۔ ان کے ذریعہ جماعت کے دوسرے نوجوانوں کو بھی یہ فنون سکھائے جائیں گے۔
مجالس خدام الاحمدیہ کی ترقی
مجالس خدام الاحمدیہ کی ترقی کے متعلق حضور نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا اب ان کی
۱۵۱شاخیں قائم ہیں۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں ان کے ممبروں کی تعداد نو سو تھی جو اَب دو ہزار ہے لیکن انہیں ابھی اور زیادہ ترقی کرنی چاہئے اور ان کی شاخیں کم سے کم شاخہائے صدرانجمن احمدیہ کے برابر ہونی چاہئیں۔
اسی ضمن میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو وقت کی پابندی اور قربانی کی روح اپنے اندر پیدا کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ جو ممبر اِن شرائط کے مطابق کام نہ کریں انہیں ممبری سے الگ کر دینا چاہئے۔
تحریکِ جدید کے ماتحت پانچ ہزار مبلّغ کھڑا کرنے کا ارادہ
واقفینِ زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ میری یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ روء یا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا
جائے گا ایک تو تحریک جدید میں چندہ دینے والوں کے ذریعہ پورا ہو۔دوسرا اس رنگ میں پورا ہو کہ ہم پانچ ہزار تحریک جدید کے ماتحت مبلّغ تیار کر دیں جو اپنی تمام زندگی اعلائے کلمۂ اسلام کیلئے وقف کئے ہوں۔
پس میں باہمت نوجوانوں کو جو یا تو بی۔اے ہوں یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہوں کہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو وقف کریں۔ باپوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کو تحریک کریں بیٹوں کو کہتا ہوں کہ وہ باپوں سے کہیں کہ ہمیں خدمتِ اسلام کیلئے وقف کر دو۔ بھائیوں سے کہتا ہوں کہ وہ بھائیوں کو تحریک کریں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ دوستوں کو تحریک کریں۔
چندہ تحریک جدید اور امانت جائداد
چندہ تحریک جدید کی طرف حضور نے جماعت کو توجہ دلائی بالخصوص زمینداروں
کو۔ اسی طرح امانت جائیداد میں حصہ لینے کی بھی احباب کو تحریک فرمائی۔
ہجری شمسیسنہ
حضور نے فرمایا میں نے گزشتہ سال عیسوی سنہ کی بجائے ہجری سنہ کی طرف احبا ب جماعت کو توجہ دلائی تھی۔
اوراس کے لئے میں نے ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی جس نے خداتعالیٰ کے فضل سے اپنا کام ختم کر لیا ہے اور گو کمیٹی کے سب ممبران نے ہی کام کیا ہے مگر اصل میں تمام کام مولوی محمد اسمٰعیل صاحب (سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ) نے کیا ہے۔ اور انہی کی کوششوں سے یہ کام پایہ ء تکمیل کو پہنچا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ گزشتہ جلسہ پر میں نے کہا تھا کہ اب ۱۳۱۶ہجری کا جلسہ ختم ہوء ا ہے۔ مگر یہ درست نہیں تھا۔ تحقیق سے معلوم ہوء ا ہے کہ گزشتہ سال ۱۳۱۷ہجری تھا اور اس سال ۱۳۱۸ہجری ہے اور جنوری سے ۱۳۱۹ہجری کا آغاز ہو گا۔ مہینوں کے نام بھی ہم نے تجویز کئے ہیں۔ دسمبر مہینہ کا نام ’’صلح،، تجویز کیا گیا ہے۔ کیونکہ اسی سال صُلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ یہ کیلنڈر اِنْشَائَ اللّٰہُ جلدی چَھپ جائے گا۔
قرآن کریم کا ترجمہ
قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق فرمایا کہ باوجود بیماری کے اس کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے بلکہ کچھ حصہ کی کتابت بھی
شروع ہو چکی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس کا ایک حصہ جو چھ سات صفحات پر مشتمل ہو گا پہلے تین چار ماہ کے اندر اندر شائع ہو جائے گا۔ دوسرے حصہ کے متعلق کوشش کروں گا کہ سال کے دوسرے حصہ میں مکمل ہو جائے انگریزی ترجمہ کے متعلق مولوی شیر علی صاحب نے اطلاع دی ہے کہ وہ ۱۸ سیپاروں کے نوٹ لکھ چکے ہیں۔ بقیہ سیپاروں کے نوٹ اِنْشَائَ اللّٰہُ شورٰی تک مکمل ہو جائیں گے۔ ترجمہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے
سال میں کم سے کم ایک نیا احمدی بنانے کا مطالبہ
اس کے بعد حضور نے فرمایا۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک نیا احمدی بنائے۔ جن دوستوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا ہو وہ کھڑے ہو
جائیں۔(بہت تھوڑے کھڑے ہوئے) حضور نے فرمایا۔
یہ دس بلکہ پانچ فی صدی بھی نہیں بنتے۔ دوستوں کو اس طرف مزید توجہ کرنی چاہئے۔
جماعت کی ترقی کے متعلق اعدا دو شمار
اس کے بعد حضور نے اندرون اور بیرونِ ہند میں احمدیت کی ترقی کا ذکر
کیا۔ اس میں جو جماعتیں سبقت لے گئی ہیں ان کے نام سنائے اسی طرح جن ضلعوں میں سے کم احمدی ہوئے ہیں یا سال بھر میں کوئی احمدی بھی نہیں ہوء ا ان کے نام لئے۔ اندرونِ ہند میں سے تبلیغی لحاظ سے پہلا درجہ ضلع گورداسپور کو دوسرا درجہ بنگال کو اور تیسرا درجہ ضلع گجرات کو حاصل ہوء ا ہے۔
لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک
لڑکیوں کو ورثہ دینے کی تحریک کے متعلق حضور نے فرمایا۔ بعض زمینداروں نے شاندار نمونہ
دکھایا ہے مگر لاکھوں کی جماعت میں یہ مثالیں بہت کم ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کو میری اس نصیحت پر عمل کرنے کا موقع ملا ہو وہ اطلاع بھجوا دیں کہ ہم نے اس پر عمل کیا ہے اور جنہوں نے اس پر عمل نہ کیا ہو ان کے متعلق بھی اطلاع دی جائے۔
جنگ کا ذکر
جنگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔ یہ معمولی جنگ نہیں ہے اس کا اثر ہماری جماعت پر بھی پڑنے والا ہے ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس میں
حکومت کو ہر ممکن امداد دے۔ حضور نے فرمایا۔ ہر احمدی جماعت میں ایک سیکرٹری جنگ بنایا جائے تاکہ جنگ کے متعلق جس قسم کے احکام مرکز سے بھیجے جائیں ان کو عمل میں لائے۔ اور احمدی ہر طرح مدد دیں۔ یہ مدد اسلام اور احمدیت کیلئے ضروری ہے۔ (الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۰ء)
اصلاحِ اعمال کا ایک لطیف گُر
ایک ضروری امر جس کی طرف میں آج جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں
وہ یہ ہے کہ جماعت کی تربیت میں مجھے بعض دفعہ بڑی بڑی دقّتیں پیش آئی ہیں اور ان دقّتوں کو دور کرنے کیلئے میں ایک لمبے عرصہ تک غور کرتا رہا ہوں اور سوچتا رہا ہوں کہ ان کا کیا علاج کیا جائے۔ میں نے ۱۹۳۶ء میں اس کے متعلق بعض خطبات بھی پڑھے تھے اور میں نے بتایا تھا کہ عقائد کے لحاظ سے تو ہم دوسروں پر فتح حاصل کر چکے ہیں مگر اعمال کے لحاظ سے ابھی ہم میں بہت کچھ کمزوریاں باقی ہیں اور اس لحاظ سے دوسروں پر ابھی ہمارا پوری طرح رُعب نہیں چھایا۔
اس نقص کے ازالہ کیلئے میں برابر غور کرتا رہا ہوں۔ بلکہ بعض دفعہ گھنٹوںمَیں نے غور اور فکر سے کام لیا ہے۔ آخر سوچتے سوچتے خدا تعالیٰ نے ایک بات میرے دل میں ڈالی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت اس بارہ میں میرے ساتھ تعاون کرے تو گو وہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن شاید ہزاروں آدمیوں کی اخلاقی حالت میں اس سے ایک حیرت انگیز تغیر پیدا ہو جائے مگر میں یہ بتا دیتا ہوں کہ اس پر عمل کرتے وقت اپنی پہلی عادت کو کچھ نہ کچھ چھوڑنا پڑے گا۔ اگر تم یہ عہد کر لو کہ تم اپنی پہلی عادت کو ترک کر کے اس امر کی طرف توجہ کرو گے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ تم اپنے اعمال کی اصلاح میں بہت کچھ کامیاب ہو سکتے ہو۔ لیکن اصل بات بتانے سے پہلے میں کچھ تمہیدی الفاظ بھی کہنا چاہتا ہوں تاکہ نفوس اس کو ماننے کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اگر خاص حالات میں کوئی بات کہی گئی ہو تو اس کا اثر بھی خاص طور پر ہوتا ہے۔ یوں تو ماں باپ اپنے بیٹوں کو ہمیشہ ہی کہتے رہتے ہیں کہ آپس میں صلح صفائی سے رہو لیکن جب باپ مر رہا ہوتا ہے اس کا سانس اُکھڑ رہاہوتا ہے اور اس پر نزع کی حالت طاری ہوتی ہے تو ا س وقت جب وہ کہتا ہے کہ بچو! میں تو اب مرنے لگا ہوں تم آپس میں صلح کر لو تو تمام بھائی روتے ہوئے آپس میں چمٹ جاتے ہیں اور سالوں کے کینے اور بُغض آناً فاناً دُور ہو جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا ایک ماحول ہوتا ہے وہ ماحول اگر تیار کر لیا جائے تو انسان عمدگی کے ساتھ بات کو مان لیتا ہے لیکن اگر ماحول تیار نہ ہو تو انسان بات کو قبول کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ اس وجہ سے مَیں بھی پہلے ماحول تیار کرنا چاہتا ہوں اور سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ بات کن حالات میں کہی گئی ہے لیکن اس سے بھی پہلے بعض متفرق باتیں بیان کرنا ضروری ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض باتیںمقصود ہوتی ہیں اور بعض مقصود کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جیسے ایک دوست اپنے دوست کے ہاں جانا چاہتا ہے تو دوست کی ملاقات اس کا مقصود ہوتا ہے لیکن ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے پاس گھوڑے پر سوار ہو کر جائے یا ریل پر سوار ہو کر جائے یا موٹر پر سوار ہو کر جائے ان ذرائع کی موجودگی مقصود کے حصول کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے لیکن یہ ذرائع موقع اور محل کے لحاظ سے کبھی تو بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی کم اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً ہم نے کہیں جانا ہو تو ہم جُوتی ضرور پہنتے ہیں اور اس کا پہننا ہمارے مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہوتا ہے لیکن اگر دوسرا مکان دروازہ پر ہی ہو تو بعض دفعہ ننگے پاؤں بھی چلے جاتے ہیں اور جوتی کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ تو مقصود کے حصول کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی اہمیت اور عدمِ اہمیت مختلف حالات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ان کے بغیر کسی صورت میں بھی مقصود پورا نہ ہو سکے تو وہ ویسی ہی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں جیسے مقصود اہم ہوتا ہے اور اگر وہ ذرائع محض کام میں آسانی پیدا کرنے کیلئے ہوں توگو پھر بھی ہم ان کو اہمیت دیں گے مگر اتنی نہیں جتنی اس صورت میں ان کو اہمیت حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے بغیر مقصود پورا ہی نہ ہو سکے۔ مثلاً ہم کہیں گھوڑے پر سوار ہو کر جانا چاہیں اور دس گھوڑے ہمارے پاس موجود ہوں تو گو گھوڑا ہمارے لئے ضروری ہو گا مگر ہر گھوڑا مقصود نہیں ہو گا بلکہ ان دس میں سے جو گھوڑا بھی مل جائے وہ ہماری ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی ہو گا۔ مگر بعض دفعہ ذریعہ اتنی اہمیت اختیار کر لیتا ہے کہ اسے مقصود سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور دونوں لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر مقصود کے حصول کے کئی ذرائع ہوں تو گو کوئی نہ کوئی ذریعہ ضروری ہو گا لیکن اپنی ذات میں کوئی ذریعہ خاص اہم نہ ہو گا کیونکہ ایک کو چھوڑ کر دوسرے سے کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر فرض کرو کہ کسی مقصود کا ایک ہی ذریعہ ہو تو پھر وہ ذریعہ بھی خاص اہمیت حاصل کر لے گا اور اس کی حیثیت ان ذرائع سے مختلف ہو گی جو متعدد ہوتے ہیں جیسے ایک مکان کے اگر کئی دروازے ہوں تو کسی خاص دروازہ کو ہم اہمیت نہیں دیں گے مگر ایک ہی دروازہ ہو تو اسے خاص اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ یا انسانوں کی مثال ہو تو بقائے نسل کیلئے اولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص کے کئی بیٹے ہوں تو وہ سب سے ہی محبت کرے گا لیکن اس کی بقائے نسل کی خواہش کسی ایک کے ذریعہ بھی پوری ہو سکتی ہے۔ فرض کرو اس کے دس بیٹے ہیں اور ۹ سے اس کی نسل نہیں چلی تو وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہے کہ ایک بیٹا تو موجود ہے اس سے میری نسل قائم رہ جائے گی لیکن اگر کسی شخص کاایک ہی بیٹا ہو تو اس کی محبت اپنے بیٹے سے بالکل اور رنگ کی ہو گی کیونکہ اس کیلئے مقصد کے حصول کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ اسی طرح اس بیٹے کی اہمیت بھی اس کے نزدیک بالکل اور رنگ کی ہو گی۔ جس شخص کے دس بیٹے ہوں ان میں سے ایک اگر کسی شدید مرض میں مبتلا ء ہوتا ہے تو اس کی نظر اپنے باقی بیٹوں کی طرف اُٹھنے لگتی ہے لیکن جس شخص کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ مرض الموت میں مبتلاء ہو تو اس کے دل کی جو کیفیت ہو گی وہ بالکل نرالی ہو گی اور اس کا مقابلہ کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکے گا۔
اس بات کو سمجھانے کے بعد میں یہ بتاتا ہوں کہ رسول کریم ؐ کی بھی ایسی ہی مثال ہے۔ آپؐ سے ہمارا جو روحانی تعلق ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ہمارے لئے خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں مگر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا آپ بندوں اور خدا کے درمیان تعلق قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں یا آپ اور ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہیں اور آپؐ کے علاوہ بھی کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو ہمیں خداتعالیٰ تک پہنچائے۔ اگر آپ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گو آپ خدا تو نہیں مگر چونکہ خدا آپ کے بغیر نہیں مل سکتا اس لئے آپ کیلئے بھی وہی قربانی کرنی پڑے گی جو انسان خدا کیلئے کرتا ہے کیونکہ آپؑ کے بغیر اور کوئی شخص ہمیں خدا تک نہیں پہنچا سکتا۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت تم غور کر کے دیکھ لو رسول کریمﷺ کو تمام انبیاء میں ایک امتیازی شان حاصل ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام کو کلمہ میں بھی شامل کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ جس طرح اللہ ایک ہے اسی طرح اب خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا رسول بھی ایک ہی ہے۔ پس رسول کریم ﷺ اور دوسرے رسولوں میں یہ فرق ہے کہ ان کے زمانوں میں بھی وہ خداتعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ تو ضرور تھے مگر وہ واحد ذریعہ نہ تھے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اگر کسی یہودی نے نہ مانا ہوتا اور وہ ہندوستان میں آ کر حضرت کرشن علیہ السلام کو مان لیتا تو اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا یا ایران میں جا کر وہاں کے کسی نبی پر ایمان لے آتا تو یہ امر اس کی نجات کیلئے کافی تھا مگر محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد خداتعالیٰ نے اس طریق کو اُڑا دیا اور دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب والے کیلئے آپ کا ماننا ضروری قرار دیدیا ۔ اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی بجائے فلاں نبی کو قبول کر لیتا ہوں، اگر آپ کو نہ مانا تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ گو آپ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں مگر واحد ذریعہ ہیں اور خواہ کوئی امریکہ میں رہتا ہو یا افریقہ میں اسی دروازہ میں سے اسے گزرنا پڑے گا اور آپ پر ایمان لانا اس کیلئے ضروری ہو گا مگر پہلے انبیاء واحد ذریعہ نہیں تھے۔ بے شک اُن انبیاء میں سے بعض پہلوٹھے کہلاتے لیکن محمد رسول اللہﷺ اکلوتے بیٹے تھے اور اکلوتے اور پہلوٹھے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ پہلوٹھے کے معنی بڑے بیٹے کے ہوتے ہیں مگر اکلوتے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بیٹا نہیں۔ پس وہ پہلوٹھے بے شک ہوں مگر اپنے اپنے زمانہ میں وہ اکلوتے نہ تھے لیکن محمد رسول اللہﷺ اپنے زمانہ میں اکلوتے روحانی بیٹے تھے اور آپ کے آنے پر پہلے تمام انبیاء کی نبوتیں ختم ہو گئیں، اب نہ مصر کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ چین کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ شام کے نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، نہ ایران اور ہندوستان کے کسی نبی کی نبوت کام دے سکتی ہے، اب ہر ایک شخص کیلئے خواہ وہ مصر میں رہتا ہو یا چین، جاپان، ایران اور ہندوستان میں رہتا ہو ضروری ہے کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کو قبول کرے کیونکہ آپؐ کے بغیر اب کوئی خداتعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں۔ ا س کے علاوہ رسول کریم ﷺ کو ایک خصوصیت بھی حاصل تھی جو دراصل پہلی خصوصیت کا نتیجہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح رسول کریم ﷺ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ تھے اسی طرح آپ خداتعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اور آپ جانتے تھے کہ خداتعالیٰ کی روحانی نسل اب میرے ذریعہ ہی دنیا میں قائم رہ سکتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں لازماً ایک اور بات بھی پیدا ہو گئی اور وہ یہ کہ اگر کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں تو گو سب اس کی خدمت کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی محبت بٹی ہوئی ہوتی ہے اور ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے باپ کی خدمت کرنے والے اور بھی وجود ہیں لیکن اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ میرے سوا باپ کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں اگر میں نے بھی اس کی خدمت نہ کی تو اور کون کرے گا۔ غرض جس طرح اس باپ کی محبت کا رنگ بالکل جُداگانہ ہوتا ہے جس کا ایک ہی بیٹا ہو، اسی طرح اُس بیٹے کی محبت کا رنگ بھی جُداگانہ ہوتا ہے جو اکلوتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت رسول کریم ﷺ سے نرالے رنگ کی تھی اسی طرح محمد رسول ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے خدمت بھی نرالے رنگ کی تھی کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ اب خداتعالیٰ تک پہنچانے والا میرے سوا اور کوئی نہیں اور ساری ذمہ واری مجھ پر ہی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے دین کی جو خدمت کی وہ دوسرے انبیاء سے ہرگز نہیں ہوئی۔ بے شک حضر ت موسیٰؑ نے خداتعالیٰ کے لئے قربانیاں کیں، بے شک حضرت عیسیٰؑ نے خداتعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں، بے شک حضرت کرشنؑ نے خداتعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں،حضرت رام چندر نے خداتعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں۔ اسی طرح حضرت زرتشت کے حالات گو پورے تو نہیں ملتے مگر جس قدر ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کے دین کیلئے قربانیاں کیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جو قربانیاں کیں ان کی نظیر ہمیں کسی اور نبی میں نظر نہیں آتی اس لئے کہ ہر نبی جانتا تھا کہ اگر میرے ہاں کوئی نقص ہوء ا تو دوسرا نبی اس کو دور کر دے گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ جانتے تھے کہ اب مجھ پر ہی تمام ذمہ واری ہے اس لئے آپ نے جس رنگ میں دین کی خدمت کی وہ بالکل بے نظیر ہے۔ یہی وہ احساس تھا جس کے ماتحت محمد رسول اللہ ﷺ نے بدر کے موقع پر فرمایا کہ اے خدا! اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَداً ۱؎ تیری اس کے بعد زمین پر کہیں پرستش نہیں ہو گی۔ گویا جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ خدا تعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اسی طرح صحابہؓ اس اکلوتے روحانی بیٹے کی روحانی نسل تھے اور اگر وہ ہلاک ہو جاتے تو آپؐ کی روحانی نسل ماری جاتی اور چونکہ آپ خداتعالیٰ کے اکلوتے روحانی بیٹے تھے اس لئے آپ کی نسل کے مارے جانے کے یہ معنی تھے کہ دنیا میں خدا کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہتا یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب بدر کے موقع پر دیکھا کہ مسلمان تھوڑے ہیں اور کفار زیادہ۔ پھر وہ سازوسامان سے مسلح ہیں اور ان کے پاس بہت کم سامان ہے اور بظاہر ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور جُھکے اور انہوں نے کہا اے میرے روحانی باپ! آج دنیا میں صرف میرے ذریعہ سے تیری روحانی نسل قائم ہے اگر آج میری نسل ماری گئی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نہ میری نسل رہے گی اور نہ تیری نسل رہے گی۔ اس اصل کو مدنظر رکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی اُمت کی جس محنت سے تربیت کی اور کسی نبی نے نہیںکی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ صرف میری روحانی اولاد ہی نہیں بلکہ چونکہ میں اکلوتا ہوں یہ میرے روحانی باپ کے فیض کے جاری رکھنے والی ایک ہی نسل ہے اس لئے میں نے ان کی تربیت اپنی اولاد سمجھ کر ہی نہیں کرنی بلکہ اس خیال سے بھی کرنی ہے کہ میرے روحانی باپ کا فیضان بھی ان کے بغیر بند ہو جاتا ہے۔ باقی ہر نبی کو اپنی اُمت کے متعلق صرف یہ خیال رہتا تھا کہ وہ اس کی اُمت ہے۔ حضرت عیسیٰؑ اپنی امت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی امت ہے، حضرت موسیٰؑ اپنی اُمت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی اُمت ہے حضرت نوحؑ اپنی اُمت کے متعلق جانتے تھے کہ وہ ان کی اُمت ہے مگرمحمد رسول اللہ ﷺ یہ جانتے تھے کہ یہ میری ہی اُمت نہیں بلکہ میرے اللہ کی بھی اُمت ہے۔ پس ان کی محبت اپنی اُمت سے دوہری تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے مرنے سے صرف میری نسل کا ہی انقطاع نہیں بلکہ میرے خدا کی روحانی نسل کا بھی انقطاع ہے اس لئے آپ کی تربیتِ قومی میں اس احساس کا بہت بڑا دخل تھا اور آپ نے جس محنت اور محبت سے تربیت کی اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں جس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکیں گے کہ جذباتِ محبت کیسا شاندار نظارہ پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل جب گھوڑے سے گر کر سخت بیمار ہو گئے اور آپ کی حالت ایسی نازک ہو گئی کہ خیال کیاجاتا تھا شاید آپ جانبر نہ ہو سکیں۔تو ایک دن جبکہ آپ کی حالت سخت نازک تھی میں آیا اور سارا دن آپ کے پاس بیٹھا رہا۔ انہی دنوں میرا بیٹا ناصر احمد بھی سخت بیمار تھا۔ شدید قسم کی اسے پیچش تھی بار بار خون آتا اور ساتھ آؤں بھی اور اس کی یہ تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ اس کی والدہ نے یہ خیال کیا کہ اب وہ شاید مرنے والاہے۔ چنانچہ عصر کے قریب ایک آدمی میرے پاس گھبرایا ہوء ا آیا اور کہنے لگا کہ ناصر احمد کی حالت سخت نازک ہے آپ جلدی گھر چلیں۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ واپس چلے جاؤ چنانچہ وہ واپس چلا گیا تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا اور کہنے لگا کہ جلدی چلیں ناصر احمد کی حالت سخت خراب ہو گئی ہے۔ میں پھر بھی نہ اُٹھا اور اسے اشارہ کر کے واپس کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر آیا اس وقت حضرت خلیفہ اوّل ہوش میں آ چکے تھے۔ اس نے کہا کہ ناصراحمد کی حالت خطرناک ہے جلد آئیں مگر میں پھر بھی نہ اُٹھا اور وہیں بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت خلیفہ اوّل نے میری طرف منہ پھیرا اور فرمایامیاں تم گئے نہیں اور پھر کہا تم جانتے ہو وہ کس کی بیماری کی اطلاع دے کر گیا ہے۔ وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں وہ حضرت مسیح موعودؑ کا پوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے تم نے اس نکتہ نگاہ سے پیغام پر غور نہیں کیا۔ چنانچہ میں آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اُٹھا اور گھر چلا آیا تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں بعض دفعہ ایک بڑی نسبت کو انسان مدنظر رکھ لیتا ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہﷺ نے صحابہؓ کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ میرے روحانی فرزند ہیں بلکہ اس نگاہ سے دیکھا کہ وہ میرے خدا کی روحانی نسل ہیں اور انہی کے ذریعہ دنیا میں دین کا قیام ہے اگر ان کی اچھی تربیت نہیں ہو گی تو تمام دنیا تباہ ہو جائے گی۔
چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے جس محبت سے اپنے صحابہؓ کو پالا وہ ایسی بے نظیر ہے کہ واقعات پڑھ کر جذبات قابو میں نہیں رہتے۔
حضرت ابوہریرہ کا واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں چونکہ میں نے کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کیا تھا اس لئے اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے قسم کھا لی کہ اب میں ہر وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا اور آپ کی باتیں سنتا رہوں گا، مگر وہ تھے غریب۔ ماں غالباً عیسائی تھی، بھائی مسلمان ہو گیا تھا مگر ا س میں اتنا جوش نہیں تھا جتنا ان میں بلکہ وہ رسول کریمﷺ سے شکایتیں کیا کرتا تھا کہ ابوہریرہ نکّمارہتا ہے کچھ کام نہیں کرتا اور آپ فرماتے کہ تمہیں کیا معلوم خدا تمہیں اس کی وجہ سے رزق دے رہا ہو۔ بہرحال وہ کہتے ہیں میں نے عہد کر لیا کہ میں اب مسجد سے نہیں ہلوں گا بلکہ یہیں بیٹھا رہوں گا اور جب بھی رسول کریم ﷺ کوئی بات فرمائیں گے اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لونگا مگر چونکہ ان کے کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے بعض دفعہ انہیں سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا اور بھوک کی شدت سے بے ہوش ہو جاتے۔ وہ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے اتنی بھوک لگی کہ بے تاب ہو گیا اور مسجد کے دروازہ کے سامنے اس خیال سے جا کر کھڑا ہو گیا کہ ممکن ہے کسی کو میری شکل دیکھ کر خیال آ جائے اور وہ مجھے کچھ کھانے کیلئے دے دے۔ اتنے میں کیا دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ آ رہے ہیں میں نے ان کے سامنے ایک قرآنی آیت پڑھی جس میںبھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور پوچھا کہ اس کے معنی کیا ہیں؟ وہ اس آیت کی ایک تفسیر کر کے آگے چل دئیے۔ حضرت ابوہریرہؓ اس موقع پر کہتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا یہ آ گئے تھے بڑا قرآن جاننے والے۔ کیا مجھے اس آیت کے معنی نہیں آتے تھے۔ میں نے تو اس لئے پوچھا تھا کہ وہ سمجھ کر مجھے کچھ کھلا دیں مگر انہوں نے مطلب بتا دیا اور چلے گئے۔ پھر حضرت عمرؓ کو آتے دیکھا تو میں نے ان کے سامنے بھی وہی آیت پڑھ دی وہ بھی اس کا مطلب بتا کر چل دیئے۔ حضرت ابوہریرہؓ پھر کہتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا عمرؓ سمجھتے ہیں انہیں بڑا قرآن آتا ہے بھلا مجھے ان سے کم قرآن آتا ہے میں نے تو اس لئے پوچھا تھا کہ وہ سمجھ جاتے اور مجھے کچھ کھلا پلا دیتے مگر انہوں نے بھی ایک معنی بتائے اور چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں اب میں حیران کھڑا تھا کہ کیا کروں کہ اتنے میں مجھے پیچھے سے ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی۔ ابوہریرہؓ بھوکے ہو؟ میںنے مُڑ کر دیکھا تو رسول کریمﷺکھڑے تھے اور جس بات کو ابوبکرؓ اور عمرؓ میرے منہ سے نہ پہچان سکے اسے رسول کریمﷺ نے اپنے گھر بیٹھے میری آواز سے پہچان لیا۔ میں آپؐ کے پاس گیا تو آپ نے کھڑکی کھولی اور فرمایا اِدھر آؤ۔ پھر فرمانے لگے۔ ہمارے گھر میں بھی کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا ایک دوست نے ابھی ابھی کچھ دودھ بھیجا ہے میں چاہتا ہوں کہ مسجد میں اور بھی جس قدر لوگ ایسے موجود ہوں جنہوں نے کچھ کھایا نہ ہو تو ان سب کو بلا لاؤ۔ وہ کہنے لگے میں نے دل میں کہا کہ پیالہ ایک ہے اور اگر کچھ اور بھی پینے والے آ گئے تو میرے لئے کیا بچے گا مگر رسول کریم ﷺ کا چونکہ حکم تھا اس لئے چلا گیا۔ دیکھا تو ایک نہ دو بلکہ سات آدمی کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم نے بھی کچھ نہیں کھایا۔ میں ان سب کو اکٹھا کر کے رسول کریمﷺ کے پاس لایا۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ لیکر ان میں سے ایک شخص کو دے دیا اور اس نے پینا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب میرے لئے تو کچھ نہیں بچے گا مگر خیر اس نے پیا اور کچھ چھوڑ دیا۔ میں نے کہا کہ اسے کچھ تو شرم آئی ہے سارا دودھ تو نہیں پی گیا مگر رسول کریمﷺ نے اسے فرمایا اور پیؤ۔ اب میں بڑا پریشان ہؤ ا کہ آگے تو کچھ بچ بھی گیا تھا مگر اب کیا بچے گا۔ اس نے بھی پیالے کو منہ سے لگا لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا جب بس کر چکا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ۔ پھر اس نے اور دودھ پیا۔ جب سیر ہو گیا تو میں نے سمجھا کہ اب میری باری آئے گی مگر رسول کریم ﷺ نے پھر دوسرے کو پیالہ دے دیا۔ پھر تیسرے کو، پھر چوتھے کو، پھر پانچویں کو، پھر چھٹے کو، پھر ساتویں کو اور جب سب سیر ہو چکے تو آپؐ نے مجھے پیالہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ دودھ سے اسی طرح لَبالَبْ بھرا ہوء ا ہے جس طرح پہلے بھرا تھا، اور خدا نے اس میںکچھ ایسی برکت رکھ دی کہ ایک قطرہ بھی کم نہ ہوء ا ۔ خیر میں نے پینا شروع کر دیا اور اتنا پیا اتنا پیا کہ بالکل سیر ہو گیا اور پیالہ رسول کریم ﷺ کو دینا چاہا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ۔ میں نے پھر پینا شروع کر دیا اور جب بہت ہی سیر ہو گیا تو ختم کر دیا مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور پیؤ۔ آخر کہتے ہیں میں نے اس قدر دودھ پیا کہ مجھے یوں محسوس ہوء ا اب دودھ میرے ناخنوں میں سے بہنے لگ جائے گا۔ چنانچہ میں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اب مجھ سے پیا نہیں جاتا۔ اس پر آپؐ نے پیالہ لیا اور اس دودھ کو خود پی کر ختم کر دیا۲؎۔ غرض اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں اس دودھ میں ایسی برکت رکھ دی کہ سب سیر ہو گئے اور دودھ بھی بچ رہا۔ نادان ان باتوں پر ہنستا ہے مگر جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں ان کے نزدیک یہ ناممکن بات نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی بعض ایسے ہی معجزات ہیں اور جب آپ کے خادم کے ہاتھ پر ایسے نشانات ظاہر ہو چکے ہوںتو آقا کے ہاتھ پر ان کا ظاہر ہونا کوئی تعجب انگیز نہیں ہو سکتا۔
میں نے خود ایک دفعہ ایسا ہی نشان دیکھا۔ سخت گرمی کے ایام تھے اور میں نے روزہ رکھا ہوء ا تھا۔ اس دن مجھے روزہ سے اتنی سخت تکلیف ہوئی کہ میں بے تاب ہو گیا۔ اس بے تابی کی حالت میں مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اورمیں نے دیکھا کہ ایک شخص نے میرے منہ میں پان ڈال دیا ہے جس میں کچھ مُشک بھی ہے۔ جب یہ حالت جاتی رہی اور آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مُشک کی میرے منہ سے خوشبو آ رہی تھی اور اس کی طراوت میرے رگ و ریشہ میں ایسی اثر کر گئی تھی کہ پیاس کا نام و نشان تک نہ تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ رؤیا میں کسی بزرگ نے میرے منہ میں مُشک ڈال دیا۔ میری بیوی پاس ہی سو رہی تھیںجب میں خواب سے بیدار ہوء ا تو میں نے ان کو جگایا اور کہا کہ ذرا میرے منہ کو تو سونگھنا۔ انہوں نے کہا سونے کے بعد انسان کے منہ سے ضرور کچھ نہ کچھ بُو آتی ہے مگر آپ کے منہ سے تو تیز مُشک کی خوشبو آ رہی ہے۔ تو ایسے کئی نشانات ہم نے دیکھے ہیں، اس لئے ان معجزات کے بارہ میں ہمیں کسی تاویل کی ضرورت نہیں مگر میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایسے معجزات ہمیشہ مؤمنوں کے سامنے دکھائے جاتے ہیں کافروں کے سامنے نہیں دکھائے جاتے۔
پھر مرض الموت کا ایک واقعہ بتاتا ہے کہ آپؐ صحابہؓ سے کس قدر شفقت رکھتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے جب آپ کی وفات قریب آئی تو آپ سخت کرب اور اضطراب کی حالت میں کبھی دایاں پہلو بدلتے اور کبھی بایاں اور پھر فرماتے خدا یہود اور نصاری پر *** کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ہے۔ ۳؎ یہ کتنی شفقت ہے جو اپنی امت کے لئے رسول کریمﷺ نے ظاہر فرمائی کہ وفات کے وقت بھی آپ انہیں بار بار بتاتے تھے کہ دیکھنا شرک کے قریب نہ جانا۔ اگر باقی انبیاء بھی اسی رنگ میں اپنی اُمت کی نگرانی کرتے تو وہ کہاں گمراہ ہوتیں۔ پھر ایک دفعہ مدینہ میں دشمن کا کچھ خطرہ محسوس ہوء ا اور خیال ہونے لگا کہ کہیں وہ مدینہ پر حملہ نہ کر دے۔ ان دنوں یہ عام افواہ تھی کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔ ایک رات اچانک مدینہ میں شور مچ گیااور سمجھا جانے لگا کہ عیسائی لشکر حملہ آور ہو گیا ہے۔ صحابہؓ اِدھر اُدھر دَوڑ پڑے اور کچھ مسجد میں جمع ہو گئے۔ حضرت عمرو بن العاص بھی انہی میں سے تھے جو مسجد میں جمع ہوئے اور جن کی رسول کریم ﷺ نے بعد میں بڑی تعریف کی کہ انہوںنے خوب ہوشیاری سے کام لیا۔ غرض صحابہؓ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر باہر ایک چکر لگایا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا حالت ہے۔ اتنے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریمﷺ اکیلے باہر سے تشریف لا رہے ہیں۔ آپؑ نے صحابہ کو دیکھ کرفرمایا کہ مَیں شور سن کر اکیلا یہ دیکھنے کیلئے چلا گیا تھا کہ کیا ہوء ا مگر معلوم ہوء ا ہے کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ ۴؎ گویا صحابہؓ تومحمد رسول اللہﷺ کی حفاظت کیلئے آپؐ کے دروازے پر جمع ہوئے اور محمد رسول اللہ ﷺ صحابہؓ کی حفاظت کیلئے ان سے بھی پہلے اکیلے اپنے گھر سے باہر تشریف لے گئے۔
غرض بہت سے واقعات ہیں جن سے تم یہ معلوم کر سکتے ہو کہ ہمارا محبوب ہم سے کیسی محبت کرنے والا تھا اور پھر تم یہ بھی نتیجہ نکال سکتے ہو کہ جو باپ اپنی اولاد سے اتنی محبت کرنے والا ہو اس سے اس کی روحانی اولاد نے کتنی شاندار محبت کی ہو گی۔
میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا جیسے امرتسر میں ملکہ کاسٹیچو ہوء ا کرتا تھاایسا ہی ایک سنگ مرمر کا چبوترہ ہے اور اس کے قریب ایک نہایت خوبصورت بچہ ایسی حالت میں کھڑا ہے کہ ایک گُھٹنا اس نے ٹیکا ہوء ا ہے اور دوسرا اس نے جھکایا ہوء ا ہے۔ اس کا رنگ سفید اور اس کے نقوش بہت خوبصورت ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس بچہ نے آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھائی ہوئی ہیں۔ گویا وہ اس امر کی التجا کر رہا ہے کہ اس پر اوپر کی طرف سے محبت نازل ہو۔ رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ بچہ حضرت مسیح علیہ السلام ہیں۔ یکدم میں نے دیکھا کہ آسمان پَھٹ گیا اور اس میں سے عورت کی شکل میں ایک وجود اترا جس نے نہایت خوبصورت رنگوں والا لباس پہنا ہوء ا تھا۔ ویسے رنگ میں نے آج تک دنیا میں نہیں دیکھے۔ میں نے رؤیا میں اس کے پَر بھی دیکھے اور میں نے دیکھا کہ پَر پھیلائے ہوئے وہ آہستہ آہستہ آسمان سے اتر رہی ہے یہاں تک کہ وہ اس بچہ کے پاس پہنچی اور دونوں آپس میں چمٹ گئے۔
اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ یہ عورت حضرت مریم علیہا السلام ہیں تب میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوء ا Love Creats Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوء ا کرتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے صحابہؓ سے بے نظیر محبت کی تو صحابہؓ نے بھی اس کے مقابلہ میں وہ عشق دکھایا جس کی کوئی حد نہیں۔ چنانچہ حسان کا وہ شعر کتنا دردناک ہے جو آپؐ کی وفات پر انہوںنے کہا کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَا ظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۵؎
کہ اے محمد! ﷺ تُو تو میری آنکھ کی پُتلی تھا اب تیرے مرنے سے میں تو اندھا ہو گیا
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ میں تو تجھ کو ہی موت سے بچانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اب جبکہ تو ہی زندہ نہیں رہا تو مجھے کسی اور کی موت کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔
پھر رسول کریم ﷺ کی شفقت اور آپؐ کی محبت صرف اپنے صحابہؓ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ جیسی محبت آپ نے اپنے صحابہؓ سے کی ویسی ہی ہم سے بھی کی۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے آپ نے اپنے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا ایک دفعہ بڑی ہی محبت اور پیار سے ذکر کیا اور صحابہؓ سے فرمایا تم تو میرے صحابی ہو مگر وہ میرے بھائی ہوں گے۶؎ ۔صحابیت میں صرف دوستی کا تعلق ہوتا ہے مگر بھائی بھائی میں ایک خونی رشتہ ہوتا ہے۔ پس آنے والوں کا ذکر آپ نے اس رنگ میں کیا گویا ان کو اپنا رشتہ دار اور بھائی قرار دے دیا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے سمجھا بعد میں آنے والے جب آئیں گے تو ان کو رشک پیدا ہو گا کہ ہمیں کچھ نہ ملا۔ تمام درجات صحابہؓ ہی لے گئے اس لئے آپ نے بعد میں آنے والوں کے قلوب کی تسلی کے لئے فرمایا کہ تم تو صحابی ہو مگر وہ میرے بھائی ہوں گے۔ پس جس آنکھ سے آپ نے صحابہؓ کو دیکھا ناممکن ہے کہ آج بھی تیرہ سَو سال گزرنے پر ہم اسی آنکھ سے آپ کی تعلیم کو نہ دیکھیں۔ کیا کیا رسوم تھیں جن سے رسول کریمﷺ نے ہمیں بچایا، کیا کیا اعمالِ بد تھے جن سے آپ نے بنی نوع انسان کو نجات دلائی، میں تو بعض دفعہ جب یہ سوچتا ہوں کہ اگر محمد رسول اللہﷺ نہ آتے تو کیا ہوتا تو مجھے جنون ہونے لگتا ہے۔ ایسے مہربان باپ کی وفات کے قریب کی نصیحت تم سمجھ سکتے ہو کہ کتنی اہم ہو گی باپ بیٹے سے محبت کرتا ہے بیٹا باپ سے محبت کرتا ہے اگر دوسرے وقتوں میں یہ محبت بالکل اور قسم کی ہوتی ہے تو وفات کے وقت بالکل اور قسم کی۔
رسول کریم ﷺ کو بھی جب بتایا گیا کہ آپ کی وفات اب قریب ہے تو حجۃ الوداع کے موقع پر جس کے بعد آپ نے کوئی حج نہیں کیا اور جس کے صرف اسّی دن بعد آپؐ وفات پا گئے آپ نے فرمایا اعلان کر دو اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ یہ لوگوں کو جمع کرنے کا ایک طریق تھا کہ سب لوگوں کو کہا جاتا اے لوگو عبادت کیلئے جمع ہو جاؤ۔ جب سب صحابہؓ اکٹھے ہو گئے تو آپؐ نے ان کے سامنے ایک تقریر کی جو ایسی دردناک تھی کہ کوئی شخص نہیں تھا جس کی آنکھیں اس وقت چشمہ کی طرح پھوٹ پھوٹ کر نہ بہہ رہی ہوں۔ ایک صحابیؓ اس وقت کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کیا یہ نصیحت الوداعی ہے اور کیا ہم سمجھ لیں کہ اب آپ کی وفات آ گئی؟ ۷؎ اس وقت رسول کریم ﷺ نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک آپ کی وہ وصیت ہے جس کا میں آج ذکر کرنا چاہتا ہوں اور تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ شفیق باپ جس نے اپنی روحانی اولاد کی بہبودی کیلئے تمام عمر صرف کر دی اس نے عَین اس وقت جبکہ اسے اپنی وفات کا الہام ہو چکا تھا تمہیں ایک وصیت کی ہے اور اس نے وصیت کرتے ہوئے تمہیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ تم اس وصیت کو اپنے دوسرے بھائیوں تک پہنچاؤ۔
پس ایسے شفیق باپ کی آخری وصیت کی جو اہمیت ہو سکتی ہے ہر شریف بیٹا اس کا احساس کر سکتا ہے اور چونکہ ہم سب آپؐ کی روحانی اولاد میں سے ہیں اس لئے جس نظر سے صحابہؓ نے آپ کو دیکھا اسی نظر سے دیکھنا ہمارا کام ہے اور ہم میں سے ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ اس وصیت کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے۔
وہ وصیت یہ ہے ۔عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتٰی بَطْنَ الْوَادِیْ فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ اِنَّ دِماَئَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا۸؎ جابربن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پرمیدان میں آئے اور آپ نے ایک تقریر کی جس میں فرمایا۔
اے دوستو!سن لوتمہاری ایک دوسرے کی جانیں، تمہارے ایک دوسرے کے اموال اور تمہاری ایک دوسرے کی عزتیں خدا نے تم پر حرام کر دی ہیں اور تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم اپنے کسی بھائی کی جان کو تکلیف دو، یا اس کے مال پر حملہ کرو، یا اس کی عزت پر حملہ کرو۔ جس طرح حج کا دن خدا نے عزت والا بنایا ہے ویسے ہی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے خون، اس کے مال اور اس کی عزت کی توقیر اس نے تم پر واجب کی ہے اور جس طرح ذوالحجہ کو عزت حاصل ہے اسی طرح خدا نے ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے خون، اس کے مال اور اس کی عزت کو مقام بخشا ہے اور جو عزت خدا نے مکہ کو دی ہے وہی عزت اس نے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کے خون، مال اور عزت کو دی ہے۔ پس جو شخص اپنے کسی بھائی کی جان پر حملہ کرتا ہے وہ مکہ پر حملہ کرتا ہے، وہ ذوالحجہ پر حملہ کرتا ہے، وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے، اسی طرح جو شخص اپنے بھائی کے مال پر حملہ کرتا ہے وہ مکہ پر حملہ کرتا ہے ،وہ ذوالحجہ پر حملہ کرتا ہے اور وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنے کسی بھائی کی عزت پر حملہ کرتا ہے وہ بھی مکہ پر حملہ کرتا ہے وہ ذوالحجہ پر حملہ کرتا ہے وہ حج کے دن پر حملہ کرتا ہے۔
اے عزیزو! کبھی تم نے غور کیا کہ جب کسی کے مال میں تم خیانت کرتے ہو یا کسی کا قرضہ ادا نہیں کرتے یا غیظ وغضب سے مشتعل ہو کر دوسرے کو مارتے یا اسے گالیاں دیتے ہو۔ یا جوش میں اسے ذلیل کرنے اور لوگوں میں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہو تو تم خدا کے حضور کتنے بڑے جُرم کے مرتکب بنتے ہو۔ کیا تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو اپنے ہاتھ سے کعبہ کی اینٹیں گرانے کی جرأت کر سکے۔ اگر ایک منافق اور ذلیل ترین انسان بھی ایسی جرأت نہیں کر سکتا تو تم ایک مسلمان کی عزت ایک مسلمان کے مال اور ایک مسلمان کی جان پر کس طرح حملہ کرتے ہو جبکہ محمد رسول اللہﷺ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر مسلمان کی جان، اس کا مال اور اس کی عزت خدا کے حضور وہی مقام رکھتی ہے جو حج کا دن رکھتا ہے جو ذوالحجہ رکھتا ہے اور جو مکہ مکرمہ رکھتا ہے۔
پھر ایک دوسری روایت میں جو ابی بکرہؓ سے مروی ہے آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب یہ بات بیان فرما چکے تو آپ نے فرمایا اَلافَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ۹؎ کہ اے دوستو تم تو میرے سامنے موجود ہو۔ مگر تمہارے سوا کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اس وقت اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں جو بعد میں آئیں گے۔پس جس شخص کے کان میں میری یہ بات پڑے اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بات اپنے دوسرے بھائی کے کان میں بھی ڈالے۔ پھر آپؐ نے اس پر اور زیادہ زور دینے کیلئے اس فقرہ کو دُہرایا اور فرمایا اَلافَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَاب دیکھو یہ کتنی لطیف نصیحت ہے جو رسول کریمﷺ نے کی اور آپ نے اس میں اصلاحِ اعمال کا کیا لطیف گُر بیان فرمایا ہے۔ اگر مسلمان اس گُر کو سمجھ لیتے تو وہ ہزاروں فتنوں سے بچ جاتے۔ آج کل لوگ فاتحہ کے کارڈ تقسیم کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو اس پر یہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ جو اسے دوسرے تک نہیں پہنچائے گا وہ عذاب میں گرفتار ہو جائے گا اور اس طرح لوگ ڈر کے مارے دوسروں تک پہنچاتے جاتے ہیں۔ مگر دیکھو رسول کریمﷺ نے اس طریق کو کس عمدگی اور خوبی کے ساتھ جاری کیا۔ وہ تحریر کا زمانہ نہیں تھا کہ آپ کارڈوں پر لکھوا کر فرماتے کہ ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاؤ۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ لوگ باتیں سنتے اور پھر اپنے دلوں اور دماغوں میں محفوظ رکھتے۔
اب آپ لوگوں نے مجھ سے یہ حدیث سنی ہے اور چونکہ رسول کریمﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جو بھی اسے سنے وہ دوسروں تک پہنچا دے اس لئے آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو بتائے کہ دیکھو رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ جس طرح خانہ کعبہ کی تمہارے دل میں عزت ہے، جس طرح حج کے دن کی تمہارے دل میں عزت ہے، جس طرح ذوالحجہ کی تمہارے دل میں عزت ہے وہی عزت تمہیں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مؤمن کی جان، اس کے مال اور اس کی آبرو کی کرنی چاہئے اور ساتھ ہی کہہ دو کہ رسول کریمﷺ کا یہ بھی حکم ہے کہ جو شخص یہ حدیث سنے اسے دوسروں تک پہنچا دے۔ اسی طرح یہ بات لوگوں میں پھیلتی چلی جائے گی اور چونکہ آدمی محدود ہیں اس لئے چکر کھا کر لازماً یہ بات ہمارے پاس بھی پہنچے گی اور پھر ہمارا فرض ہو جائے گا کہ ہم اوروں کو سنائیں اور یہ امر ان کے ذہن نشین کر دیں کہ ایک مسلمان کے خون مال اور آبرو کی کیا قیمت ہے۔ اگر مسلمان اس حدیث کو انہی معنوں میں لیتے جو میں نے بیان کئے ہیں تو سال میں دو چار دفعہ وہ ضرور یہ حدیث سن لیتے کہ رسول کریم ﷺ نے وفات کے قریب یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کا خون، ان کا مال اور ان کی آبرو دوسرے مسلمانوں پر ویسی ہی حرام ہے جیسے مکہ مکرمہ ،جیسے ذوالحجہ اور جیسے حج کا دن۔
میں جانتا ہوں کہ جو چیز بار بار دُہرائی جائے اُس کا لوگوں پر اثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ عیسائیوں نے جب بار بار کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو لوگ انہیںخدا کا بیٹا ماننے لگ گئے۔ کیا مسلمان اگر یہ دُہراتے چلے جائیں گے کہ ہر مؤمن کی جان، مال اور آبرو کی عزت کرنا دوسرے مسلمان پر فرض ہے اور جو اس کی ہتک کرتا ہے وہ ویسا ہی مجرم ہے جیسے خانہ کعبہ یا ذوالحجہ یا حج کے ایام کی ہتک کرنے والا تو کیوں دنیا میں امن قائم نہیں ہو گا اور کیوں فتنہ و فساد مِٹ نہیں جائے گا۔ اب پیچھے جو کچھ غفلت ہو چکی وہ تو ہو چکی آئندہ کیلئے میں یہ حدیث آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور رسول کریم ﷺ کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچاتا ہوں وہ شفیق باپ جس نے ساری عمر تمہارے لئے قربانیاں کیں اور جس کی تعلیم آج تک مردوں اور عورتوں پر احسانات کرتی چلی آئی ہے اس نے اپنی وفات کی خبر سن کر تم سب کو کہا کہ یاد رکھو اِنَّ دِماَئَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَااور پھر فرمایا جو شخص یہ حدیث سنے اس کا فرض ہے کہ وہ اُسے دوسروں تک پہنچا دے پس باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو یہ بات بتائے ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو یہ بات بتائے۔ دادا کا فرض ہے کہ وہ اپنے پوتے کو بتائے اور پوتوں اور پڑپوتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو بتائیں۔ اگر مسلمان اسی طرح رسول کریمﷺ کی یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاتے تو ہر مسلمان اس بات پر فخر کا اظہار کر سکتا کہ اس نے رسول کریمﷺ کی ایک حدیث کسی کتاب میں پڑھنے کی بجائے رادیوں کی زبان سے براہ راست سُنی ہے اور یہ فخر کچھ کم فخر نہ ہوتا حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے رسول کریمﷺ کی چالیس حدیثیں ایسی پہنچی ہیں جن کا سلسلہ اسناد بغیر کسی وقفہ کے رسول کریمﷺ تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے چلے جاتے تو ہر مسلمان یہ کہتا کہ میں نے رسول کریمﷺ کی ایک حدیث براہ راست آپؐ سے سنی ہے۔
پس میں آج آپ لوگوں کے سامنے یہ چھوٹی سی بات پیش کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنے دل میں یہ عہد کرے کہ وہ کسی دوسرے کو رسول کریمﷺ کی یہ حدیث سنا دے گا اور جب سنا چکے تو کہے کہ رسول کریمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس مجلس میں یہ حدیث بیان ہو اس کا حاضر غائب کو سنا دے اس طرح یہ حدیث چکر کھا کر پھر پانچ سات ماہ کے بعد تمہارے پاس پہنچے گی اور تمہیں پھر وہ نظارہ یاد آ جائے گا جب رسول کریمﷺ کو اپنی وفات کا الہام ہوء ا اور آپؐ کو یہ خطرہ محسوس ہوء ا کہ وہ لوگ جنہیں زندگی میں سنبھالتا رہا میری وفات کے بعد نہ معلوم کن فتنوں میں مبتلاء ہو جائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اب جاتا ہوں مگر دیکھو اِنَّ دِماَئَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَااور آپ نے فرمایا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَاور پھر اس کو دو دفعہ دُہرایا تاکہ مسلمان اس کے پہنچانے میں غفلت سے کام نہ لیں ۔
اگر مسلمان یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچاتے رہتے تو ان کے دلوں میں ایسی نرمی ،محبت، دیانت اور تقویٰ پیدا ہو جاتا کہ وہ اپنے کسی بھائی کو نہ ستاتے، نہ اس کی جان پر حملہ کرتے نہ اس کے مال پر حملہ کرتے، نہ اس کی آبرو پر حملہ کرتے اور اگر کوئی منہ پھٹ کبھی حملہ کر بیٹھتا تو دوسرا اسے یا ددلا دیتا کہ میاں کیا کرنے لگے ہو۔ تم خانہ کعبہ پر حملہ کرتے ہو، تم ذوالحجہ پر حملہ کرتے ہو، تم حج کے دن پر حملہ کرتے ہو، کیا اتنے مقدس مقامات پر حملہ کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی اور یقینا اس کے بعد وہ شرمندہ ہوتا اور اپنے اس ناروافعل پر ندامت کا اظہار کرتا۔
پس اس سبق کو اچھی طرح یاد رکھو اور دوسروں تک پہنچا دو۔ اگر تم اس تحریک پر عمل کرو گے تو جماعت میں آہستہ آہستہ صحیح تقویٰ پیدا ہو جائے گا اور سوائے ازلی شِقّیوں کے جن کا کوئی علاج خدا نے مقرر نہیں کیا، باقی سب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے اور جماعتی اتحاد کو کسی طرح ضُعف نہیں پہنچے گا کیونکہ گو یہ ایک چھوٹا سا نُکتہ ہے مگر اسی پر قومی زندگی کی بنیاد ہے۔
(الفضل ۳؍اکتوبر ۱۹۵۹ء)
۱؎ مسلم کتاب الجھاد باب الامداد بالملائکۃ (الخ)
۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب کَیْفَ کَانَ عَیْشُ النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و اصحابہٖ (الخ)
۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب مَاذُکِرَعَنْ بَنِی اِسْرائیل
۴؎ بخاری کتاب الجھاد والسیر باب السرعۃ والرکض فی الفزع
۵؎ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ۲۲۱ آرام باغ کراچی
۶؎ کنز العمال جلد۱۲، صفحہ۱۸۳۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۷؎
۸؎ مسلم کتاب الحج باب حجۃ النَّبِیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
۹؎ بخاری کتاب الفتنباب قول النَّبِیّ ﷺ لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا



تقریر بجواب ایڈریس ہائے
جماعتہائے احمدیہ




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ
(تقریر فرمودہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع جلسہ خلافت جوبلی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مَیں جب سے تقریر کے میدان میں آیا ہوں اور جب سے مجھے تقریر کرنے یا بولنے کا موقع ملا ہے مَیں نے شروع دن سے یہ بات محسوس کی ہے کہ ذاتی بناوٹ کے لحاظ سے تقریر کرنا میرے لئے بڑا ہی مشکل ہوتا ہے اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے جسے اُردو میں ’’گھبرا جانا‘‘ کہتے ہیں اور انگریزی میں NERVAUS ہو جانا کہتے ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اپنی دماغی کیفیت کے لحاظ سے مَیں ہمیشہ نروس ہو جاتا ہوں یا گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب مَیں نے پہلی تقریر کی اور اس کے لئے کھڑا ہوئا توآنکھوںکے آگے اندھیرا آ گیا اور کچھ دیر تک تو حاضرین مجھے نظر نہ آتے تھے اور یہ کیفیت تو پھر کبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک خاص وقت میں جس کی تفصیل مَیں آگے چل کر بیان کروں گا میرے دل میں ایک اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ حالت اُس وقت تک ہوتی ہے جب تک کہ بجلی کا وہ کنکشن قائم نہیں ہوتا جو شروع دن سے کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا ہو جایا کرتا ہے اور جب یہ دَور آ جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے مقرر اور لسّان جو اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہیں میرے سامنے بالکل ہیچ ہیں اور میرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہیں۔ جب مَیں پہلے پہل تقریر کے لئے کھڑا ہوا اور قرآن کریم سے آیات پڑھنے لگا تو مجھے الفاظ نظر نہ آتے تھے اور چونکہ وہ آیات مجھے یاد تھیں مَیں نے پڑھ دیں لیکن قرآن گو میرے سامنے تھا مگر اِس کے الفاظ مجھے نظر نہ آتے تھے اور جب مَیں نے آہستہ آہستہ تقریر شروع کی تو لوگ میری نظروں کے سامنے سے بالکل غائب تھے۔ اس کے بعد یکدم یوں معلوم ہوا کہ کسی بالا طاقت کے ساتھ میرے دماغ کا اتّصال ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب مَیں نے تقریر ختم کی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ تقریر سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اِنہوں نے قرآن کریم کے جو معارف بیان کئے ہیں باوجود اس کے کہ میں نے بڑی بڑی تفاسیر پڑھی ہیں اور میری لائبریری میں بعض نایاب تفاسیر موجود ہیں مگر یہ معارف نہ مجھے پہلے معلوم تھے اور نہ میں نے کہیں پڑھے ہیں۔ سو جب دَورانِ تقریر میں وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے وہ کَل دبائی گئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ میرے دماغ میں ایسے معارف نازل کرے گا کہ جو میرے علم میں نہیں ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے بھی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آج بھی وہ کیفیت شروع ہوئی تھی مگر اِس وقت جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں ان کو سُن کر وہ دُور ہو گئی۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو دو شخص آپس میں لڑ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتایا تھا کہ وہ کونسی رات ہے مگر ان کی لڑائی کو دیکھ کر وہ مجھے بھول گئی۔۱؎ اِسی طرح مجھ پر بھی وہ کیفیت طاری ہوئی تھی مگر ا سکے بعد ایڈریس شروع ہوئے۔ ان میں سے بعض ایسی زبانوں میں تھے کہ نہ میں کچھ سمجھ سکا اور نہ آپ لوگ اور میں نے محسوس کیا کہ یہ بناوٹ ہے اور منتظمین دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم میں ایسی ایسی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیں اور اس ظاہر داری کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایسا بُرا اثر ہؤا کہ وہ کیفیت جاتی رہی۔ہم لوگ تو اپنے جذبات کو دبانے کے عادی ہیں اور جن لوگوں نے بڑے کام کرنے ہوتے ہیں اِن کو یہ مشق کرنی پڑتی ہے۔ سرکاری افسروں کو دیکھ لو مثلاً تحصیلدار اور تھانیدار وغیرہ ہیں سب قِسم کے لوگ ان کے پاس آتے اور باتیں کرتے ہیں اور وہ سب کی باتیں سُنتے جاتے ہیں لیکن اس مجلس میں ایسے لوگ بھی تھے جو جذبات کو دبانے کے عادی نہیں۔ اِس لئے اِن میں ایک بے چینی سی تھی اور وہ بھاگ رہے تھے اور یہ نظارہ میرے لئے تکلیف دِہ تھا اور اِس وجہ سے وہ کیفیت دُور ہو گئی۔ گو اَب میں اگر اِسی مضمون کو بیان کرنا شروع کر دوں تو وہ بٹن پھر دَب جائے گا مگر پہلے جو کچھ میرے ذہن میں تھا وہ اب یاد نہیں آ سکتا۔ بہرحال مجھے کچھ کہنا چاہئے اور اس کارروائی کے متعلق جہاں تک دُنیوی عقل کا تعلق ہے میں اَب بھی بیان کر سکتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہر ایک نمائندہ نے وعدہ کیا تھا کہ تین منٹ کے اندراندر اپنا ایڈریس ختم کر دے گا لیکن سوائے اس ایڈریس کے جو ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے پیش کیا گیا اور کسی نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا پھر وہ جس طرح پیش کیا گیا ہے اِس میں حقیقی اِسلامی سادگی کا نمونہ نظر آتا ہے اور اِس لئے میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ محض چھاپ لینے کو مَیں سادگی کے خلاف نہیں سمجھتا۔ باقی جو ایڈریس پیش کئے گئے ہیں اِن میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ حقیقی سادگی وہ ہوتی ہے جِسے انسان ہر جگہ اور ہمیشہ نباہ سکے اور اِس کی قدردانی کے طور پر مَیں اِن سے وعدہ کرتا ہوں کہ اِن کا سارا ایڈریس پڑھوں گا۔ جب سے یہ خلافت جوبلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میں ہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میں سوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ برتھ ڈے یا ایسی یہ دیگر تقاریب مناتے ہیں اُنہیں کس طرح روک سکیں گے۔ اَب تک اِس کے لئے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آ سکی اور مَیں ڈرتا ہوں کہ اِس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کو مٹانے کے لئے احمدیت آئی ہے۔ ہماری کامیابی اور فتح یہی ہے کہ ہم دین کو اِسی طرح دوبارہ قائم کر دیں جس طرح رسول کریم ﷺ اِسے لائے تھے اور ایسے رنگ میں قائم کر دیں کہ شیطان اس پر حملہ نہ کر سکے اور کوئی کھڑکی، کوئی روشن دان اور کوئی دَر اِس کے لئے کُھلا نہ رہنے دیں اور جب سے یہ تقریب منانے کی تحریک شروع ہوئی ہے میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشن دان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقع مل سکے اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ مَیں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراحِ صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوئا جس میں لکھا تھا کہ اِسوقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اِس وجہ سے مجھے خود بھی اِس خوشی میں شریک ہونا چاہئے۔ دوسرا انشراح مجھے اِس وقت پیدا ہوا جب دُرثمین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے۔ اِس کو سُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اِس میں بیان کی گئی ہے اور اِس کا منانا اِس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری پچیس سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اِس لئے کہ خداتعالیٰ کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نامناسب نہیں اور اِس خوشی میں مَیں بھی شریک ہو سکتا ہوں اور مَیں نے سمجھا کہ گو اپنی ذات کے لئے اِس کے منائے جانے کے متعلق مجھے انشراح نہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہو گیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ مَیں نے دیکھا ہے اِس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کڑے ہیں۔ چنانچہ جب ایران فتح ہوئا اور وہ کڑے جو کسریٰ دربار کے موقع پر پہنا کرتا تھا غنیمت میں آئے تو حضرت عمرؓ نے اِس صحابی کو بُلایا اور باوجودیکہ اِسلام میں مردوں کے لئے سونا پہننا ممنوع ہے آپ نے اِسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو۔ حالانکہ خلفاء کا کام قیامِ شریعت ہوتا ہے نہ کہ اِسے مٹانا مگر جب اِس صحابی نے یہ کہا کہ سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہنو۔ ورنہ میں کوڑے لگاؤں گا۔۲؎ اِسی طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گویہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں مگر چونکہ اِس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اِس لئے اِس کے منانے میں کوئی حرج نہیں اور اِس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا وہ دُور ہو گیا اور میری نظریں اِس مجلس سے اُٹھ کر خداتعالیٰ کی طرف چلی گئیں اورمَیں نے کہا ہمارا خدا بھی کیسا سچا خدا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس وقت میری ہستی ہی کیا تھی پھر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پا س شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں یہ لڑکا کیسا نالائق ہے پڑھتا لکھتا کچھ نہیں اس کا خط کیسا خراب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلایا۔ مَیں ڈرتا اور کانپتا ہوئا گیا کہ پتہ نہیں یہ کیا فرمائیں گے۔ آپ نے مجھے ایک خط دیا کہ اِسے نقل کرو۔ مَیں نے وہ نقل کر کے دیا تو آپ نے حضرت خلیفہ اوّل کو جج کے طور پر بلایا اور فرمایا۔ میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھتا نہیں اور کہ اِس کا خط بہت خراب ہے۔ مَیں نے اِس کا امتحان لیا ہے آپ بتائیں کیا رائے ہے؟ لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل نے عرض کیا کہ حضور! میرے خیال میں تو اچھا لکھا ہے۔ حضور نے فرمایا۔ کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے مِلتا جُلتا ہی ہے اور بس ہم پاس ہو گئے۔ ماسٹر فقیراللہ صاحب جو اَب پیغامیوں میں شامل ہیں ہمارے اُستاد تھے اور حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی۔ میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا ورنہ اَب تو اچھا آتا ہے۔ ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ بھی دیا۔ میں بھی چُپ کر کے کمرہ میں کھڑا رہا۔ حضور نے ماسٹر صاحب کی شکایت سُن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہی کرنا ہے اِس نے کونسی کسی دفتر میںنوکری کرنی ہے۔ مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جاننا ہی کافی ہے۔ وہ اِسے آتا ہے یا نہیں؟ ماسٹر صاحب نے کہا وہ تو آتا ہے۔ ا س سے پہلے تو مَیں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کے بعد مَیں نے وہ بھی چھوڑ دیا اور خیال کر لیا کہ حساب جتنا آنا چاہئے تھا مجھے آ گیا تو یہ میری حالت تھی جب یہ آمین لکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اِسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر۔ دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی۔اے اور ایم۔اے لائق نہیں ہوتے۔ لیکن جو لوگ لائق ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں۔ سارے وکیل لائق نہیں ہوتے مگر جو ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں۔ سب ڈاکٹر خداتعالیٰ کی صفتِ شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر بہترین ڈاکٹر انہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کئے ہوں۔ ہر زمیندار مٹی سے سونا نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں اور انہی میں سے ہی ہوتے ہیں ترکھانوں میں سے نہیں۔ ہر ترکھان اچھی عمارت نہیں بنا سکتامگر جو بناتے ہیں وہ ترکھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں لوہاروں میں سے نہیں۔ پھر ہر انجینئر ماہرِ فن نہیں مگر جو ہوتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔ ہرمعمار دہلی اور لاہور کی شاہی مساجد اور تاج محل نہیں بنا سکتا مگر اِن کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہی ہوتے ہیں کپڑا بُننے والوں میں سے نہیں ہوتے۔ پس ہر فن کا جاننے والا ماہر نہیں ہوتا مگر جو ماہر نکلتے ہیں وہ اِنہی میں سے ہوتے ہیں۔ مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا کی اُس وقت مَیں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہلیت نہ رکھتا تھا لیکن اِس وقت اِس آمین کو سُن کر مَیں نے کہا کہ خداتعالیٰ نے آپ کی دعائیں سُن لیں۔ جب یہ دعائیں کی گئیں مَیں معمولی رِیڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر اَب خداتعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ مَیں کسی علم کی کیوں نہ ہو انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں اور گو مَیں انگریزی لکھ نہیں سکتا مگر بی۔ اے اور ایم۔ اے پاس شُدہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال لیتا ہوں۔ دینی علوم میں مَیں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ اوّل سے پڑھا ہے اور اِس طرح پڑھا ہے کہ اَور کوئی اِس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔ پہلے تو ایک ماہ میں آپ نے مجھے دو تین سیپارے آہستہ آہستہ پڑھائے اور پھر فرمایا میاں! آپ بیمار رہتے ہیں میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ آؤ کیوں نہ ختم کر دیں اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے ختم کرا دیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا پھر کچھ اُن کی نیت اور کچھ میری نیت ایسی مبارک گھڑی میں ملیں کہ وہ تعلیم ایک ایسا بیج ثابت ہوئا جو برابر بڑھتا جا رہا ہے۔ اِس طرح بخاری آپ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں اگر کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے پڑھتے جاؤ اللہ تعالیٰ خود سب کچھ سمجھا دے گا۔ حافظ روشن علی مرحوم کو کُریدنے کی بہت عادت تھی اور اُن کا دماغ بھی منطقی تھا۔ وہ درس میں شامل تو نہیں تھے مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو آ کر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے۔ اُن کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور مَیں نے اِسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ ایک دو دن تو آپ نے جواب دیا اور پھر فرمایا تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بتا دوں گا بُخل نہیں کروں گا اور باقی اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا اور میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ فائدہ مجھے اِسی نصیحت نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا۔ یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ میرے ہاتھ آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خداتعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ میں کوئی کتاب یا کوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ مجھے ملا ہے اُن کو نہیں ملا۔بیس بیس جلدوں کی تفسیریں ہیں مگر مَیں نے کبھی اِن کو بِالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اِن کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب سکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں مَیں اِن کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں اور کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے کبھی ان کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اِس مقام سے بہت دُور کھڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ سب اس کا فضل ہے ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا حتّٰی کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اس نے مجھے ایک ایسا گُر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے۔ مَیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ مَیں تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں اور مَیں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہئے اور اُس نے مجھے نہ دی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ اِس سے ہر اندھیرا دُور ہو۔ دشمنوں کی طرف سے مجھ پر کئی حملے کئے گئے ،اعتراضات کئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹا دیں گے اور یہی وہ اندھیرا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے دُور کر دیا اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ اِس وقت یہ نظم سُن کر دُور ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہو رہا ہے۔ دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو پِھرا لیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو لائیں گے اور جب ہم روشن کرنا چاہیں تو کوئی اندھیرا رہ نہیں سکتا اور اِس طرح اِس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ یہ نظارہ دیکھ کر دُور ہو گیا ورنہ مجھے تو شرم آتی ہے کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو مگر ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اِس کے ذریعہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی ہیں اِس لئے اِس کے منانے میں کوئی حرج نہیں یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں اگر وہ نہ کرتا تو نہ مجھ میں طاقت تھی اور نہ آپ میں، نہ میرے علم نے کوئی کام کیا اور نہ آپ کی قربانی نے۔ جو کچھ ہوئا خداتعالیٰ کے فضل سے ہوئا اور ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور نشان دکھایا۔ دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دیں مگر خداتعالیٰ نے نہ مٹایا اور یہ نظارہ دیکھ کر میرے دل میں جو انقباض تھا وہ سب دُور ہو گیا۔ اس لئے جن دوستوں نے اس تقریب پر اپنی انجمنوں کی طرف سے ایڈریس پڑھے ہیں۔ مثلاً چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب، پروفیسر عطاء الرحمن صاحب، حکیم خلیل احمد صاحب، چوہدری ابوالہاشم خان صاحب، حاجی جنود اللہ صاحب اِسی طرح دمشق، جاوا، سماٹرا اور علی گڑھ اور بعض دوسری جگہوں کے دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے پھر بعض ہندو صاحبان نے بھی اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا ہے میں اِن سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اِن سب کو جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔ کہتا ہوں اور یہ ایسی دُعا ہے کہ جس میں سارے ہی شکریے آجاتے ہیں۔ پس میں اِن دوستوں کا اور اِن کے ذریعہ اِن کی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔ کہتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ میرے زندگی کے اور جو دن باقی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دین کی خدمت، اسلام کی تائید اور اِس کے غلبہ اور مضبوطی کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاجب اِس کے حضور پیش ہونے کا موقع ملے تو شرمندہ نہ ہوں اور کہہ سکوں کہ تو نے جو خدمت میرے سپرد کی تھی تیری ہی توفیق سے مَیں نے اِسے ادا کر دیا۔ پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل نازل کرے اور نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم میں سے جس کے دل میں بھی کوئی کمزوری ہو اُسے دُور کرے، اخلاص میں مضبوط کرے اور ہماری زندگیوں کو اپنے لئے وقف کر دے۔ ہماری زندگیوں کو بھی خوشگوار بنائے اور ہماری موتوں کو بھی تاجب جنتی سُنیں تو خوش ہوں کہ اور پاکیزہ روحیں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے آ رہی ہیں۔
اِس کے بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا کہ پروگرام میں اِس وقت میری کوئی تقریر نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم آمین کے جو ابھی پڑھی گئی ہے ایک شعر کے متعلق مَیں مختصراً کچھ غرض کرنا چاہتا ہوں۔ اِس وقت جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک حقیر سی رقم پیش کی جانے والی ہے جس سے حضور کی وہ دُعا کہ ’’دے اِس کو عمر و دولت‘‘ کی قبولیت بھی ظاہر ہو گی۔ آج ہم حضور کی خلافت پر پچیس سال گزرنے پر حضور کی خدمت میں حقیر سی رقم پیش کرتے ہیں اور مَیں آنریبل چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ تشریف لا کر یہ رقم حضور کی خدمت میں پیش کریں۔
اِس کے بعد جناب چوہدری صاحب نے چیک کی صورت میں یہ رقم پیش کی اور کہا حضور اِسے قبول فرمائیں اور جس رنگ میں پسند فرمائیں اِسے استعمال کریں اور حضور مجھے اجازت دیں کہ مَیں دوستوں کے نام پڑھ کر سُنا دوں جنہوں نے اِس فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے تا حضور خصوصیت سے اِن کے لئے دُعا فرمائیں اور حضور کی اجازت سے جناب چوہدری صاحب نے وہ نام پڑھ کر سُنائے۔
اِس کے بعد حضور نے فرمایا:۔
مَیں نے جو کہا تھا کہ جس وقت آمین پڑھی جا رہی تھی میرے دل میں ایک تحریک ہوئی تھی وہ دراصل یہ مصرع تھا جس کا ذکر میر صاحب نے کیا ہے مگر چونکہ ابھی تک وہ رقم مجھے نہ دی گئی تھی اِس لئے مَیں نے مناسب نہ سمجھا کہ پہلے ہی اِس کا ذکرکروں۔ اِس کے لئے میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حقیقی دولت تو دین ہی ہے دین کے بغیر دولت کوئی چیز نہیں اور اگر دین ہو اور دولت نہ ہو تو بھی ہم خوش نصیب ہیں۔ مجھے یہ علم پہلے سے تھا کہ یہ رقم مجھے اِس موقع پر پیش کی جائے گی اور اِس دَوران میں مَیں یہ غور بھی کرتا رہا ہوں کہ اِسے خرچ کِس طرح کیا جائے لیکن بعض دوست بہت جلد باز ہوتے ہیں اور وہ اس عرصہ میں مجھے کئی مشورے دیتے رہے کہ اِسے یوں خرچ کیا جائے اور فلاں کام پر صَرف کیا جائے یہ بات مجھے بہت بُری لگتی تھی کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ ایک طرف تو اِس کا نام تحفہ رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف اِس کے خرچ کرنے کے متعلق مجھے مشورے دیئے جا رہے ہیں اگر یہ تحفہ ہے تو اِس سے مجھے اتنی تو خوشی حاصل ہونی چاہئے کہ مَیں نے اِسے اپنی مرضی سے خرچ کیا ہے۔ بہرحال میں اِس امر پر غور کرتا رہا ہوں کہ اِسے کس طرح خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ اِس سے برکاتِ خلافت کے اظہار کا کام لیا جائے۔ یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اِس کام کے کرنے والے تھے جو آپ کے اپنے کام تھے یعنی ۳؎ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے چار کام بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشان بیان کرتا ہے، اِن کا تزکیہ کرتا، اِن کو کتاب پڑھاتا اور حکمت سکھاتا ہے۔ کتاب کے معنے کتاب اور تحریر کے بھی ہیں اور حکمت کے معنی سائنس کے بھی اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اور مسائلِ فقہ کے بھی ہیں۔ پھر مَیں نے خیال کیا کہ خلیفہ کا کام استحکامِ جماعت بھی ہے اِس لئے اِس روپیہ سے یہ کام بھی کرنا چاہئے۔ بے شک بعض کام جماعت کر بھی رہی ہے مگر یہ چونکہ نئی چیز ہے اِس سے نئے کام ہونے چاہئیں اور اِس پر غور کرنے کے بعد مَیں نے سوچا کہ ابھی کچھ کام اِ س سلسلہ میں ایسے ہیں کہ جو نہیں ہو رہے۔ مثلاً یہ نہیں ہو رہا کہ غیر مُسلموں کے آگے اسلام کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے کہ وہ اِس طرف متوجہ ہوں چنانچہ مَیں نے اِرادہ کیا کہ یہ سلسلہ پہلے ہندوستان میں اور پھر بیرونِ ممالک میں شروع کیا جائے اور اِس غرض سے ایک، چار یا آٹھ صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جائے جسے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کی مختلف زبانوں میں چھپوا کر شائع کیا جائے۔ اِس وقت تک اِن زبانوں میں ہمارا تبلیغی لٹریچر کافی تعداد میں شائع نہیں ہوئا ۔ اُردو کے بعد میرا خیال ہے سب سے زیادہ اِس ٹریکٹ کی اشاعت ہندی میں ہونی چاہئے۔ ابھی تک یہ سکیم مَیں نے مکمل نہیں کی۔ فوری طور پر اِس کا خاکہ ہی میرے ذہن میں آیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم ایک لاکھ اشتہار یا ہینڈ بل وغیرہ اذان اور نماز کی حقیقت اور فضیلت پر شائع کئے جائیں تا ہندوؤں کو سمجھایا جا سکے کہ جس وقت آپ لوگ مساجد کے سامنے سے باجہ بجاتے ہوئے گزرتے ہیں تو مسلمان یہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات معقول رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے کہ مسلمان تو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ اُس وقت ڈھول کے ساتھ ڈَم ڈَم کا شور کرتے ہیں۔ آپ سوچیں کہ کیا یہ وقت اِس طرح شور کرنے کیلئے مناسب ہوتا ہے جب یہ آواز بلند ہو رہی ہو کہ خداتعالیٰ سب سے بڑا ہے تو اُس وقت چُپ ہو جانا چاہئے یا ڈھول اور باجہ کے ساتھ شور مچانا چاہئے تو اِن کو ضرور سمجھ آ جائے گی کہ اِن کی ضد بے جا ہے اور اِس طرح اِس سے ہندو مسلمانوں میں صلح و اتحاد کا دروازہ بھی کُھل جائے گا۔ تعلیم یافتہ غیر مسلم اب بھی اِن باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
اِسی طرح مَیں نے جلسہ ہائے سیرت کی جو تحریک شروع کی ہوئی ہے اِسے بھی وسعت دینی چاہئے یہ بھی بہت مفید تحریک ہے اور سیاسی لیڈر بھی اِسے تسلیم کرتے ہیں۔ بابوبین چندرپال کانگرس کے بہت بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ انہوں نے اِن جلسوں کے متعلق کہا تھا کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے بہترین تجویز ہے اور مَیں اِن جلسوں کو سیاسی جلسے کہتا ہوں اِس لئے کہ اِن کے نتیجہ میں ہندو مسلم ایک ہو جائیں گے اور اِس طرح دونوں قوموں میں اتحاد کا دروازہ کُھل جائے گا۔ میرا ارادہ ہے کہ ایسے اشتہار ایک لاکھ ہندی میں، ایک لاکھ گورمکھی میں، پچاس ہزار تامل میں اور اِسی طرح مختلف زبانوں میں بکثرت شائع کئے جائیں اور ملک کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک اسلام کے موٹے موٹے مسائل غیر مُسلموں تک پہنچا دیئے جائیں۔ اشتہار ایک صفحہ دو صفحہ یا زیادہ سے زیادہ چار صفحہ کا ہو اور کوشش کی جائے کہ ہر شخص تک اِسے پہنچا دیا جائے اور زیادہ نہیں تو ہندوستان کے ۳۳کروڑ باشندوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک اشتہار پہنچ جائے یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہو گی اِسی طرح میرا اِرادہ ہے کہ ایک چھوٹا سا مضمون چار یا آٹھ صفحات کا مسلمانوں کے لئے لکھ کر ایک لاکھ شائع کیا جائے جس میں مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کے دعاوی سے آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ آپ نے آ کر کیا پیش کیا ہے تا لوگ غور کر سکیں۔ پہلے یہ کام چھوٹے پیمانہ پر ہوں مگر کوشش کی جائے کہ آہستہ آہستہ اِن کووسیع کیا جائے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اِس رقم کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اِس کی آمد میں سے خرچ ہوتا رہے اور سرمایہ محفوظ رہے۔ جیسے تحریک جدید کے فنڈ کے متعلق میں کوشش کر رہا ہوں تا کسی سے پھر چندہ مانگنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اِس میں دینی تعلیم جو خلفاء کا کام ہے وہ بھی آ جائے گی پھر آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غرباء کی تعلیم و ترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے۔ ہماری جماعت کے غرباء کی اعلیٰ تعلیم کے لئے فیِ الحال انتظامات نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کُندذہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھ جاتے ہیں مگر ذہین بوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ اِس رقم سے اِس کا بھی انتظام کیا جائے اور مَیں نے تجویز کی ہے کہ اِس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے۔ پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے۔ مقابلہ کا امتحان ہو اور جو لڑکا اوّل رہے اور کم سے کم ستّر فی صدی نمبر حاصل کرے اسے انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے اور پھر انٹرنس میں اوّل ، دوم اور سوم رہنے والوں کو تیس روپیہ ماہوار، جو ایف۔اے میں یہ امتیاز حاصل کریں انہیں ۴۵ روپے ماہوار اور پھر جو بی۔اے میں اوّل آئے اِسے ۶۰ روپے ماہوار دیا جائے اور تین سال کے بعد جب اِس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے تو احمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو اور پھر جو لڑکا اوّل آئے اِسے انگلستان یا امریکہ میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سَو روپیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے۔ اِس طرح غرباء کی تعلیم کا انتظام ہو جائے گا اور جوں جوں آمد بڑھتی جائے گی اِن وظائف کو ہم بڑھاتے رہیں گے کئی غرباء اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے خواہ مخواہ کیوں مشقت اُٹھائیں لیکن اِس طرح جب اِن کے لئے ترقی کا امکان ہوگا تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے مڈل میں اوّل رہنے والوں کیلئے جو وظیفہ مقرر ہے وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کے لئے ہی مخصوص ہو گا کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کر سکتے۔ یونیورسٹی کے امتحان میں امتیاز حاصل کرنے والا خواہ کِسی یونیورسٹی کا ہو وظیفہ حاصل کر سکے گا ہم صرف زیادہ نمبر دیکھیں گے کسی یونیورسٹی کا فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اِسے حاصل کر سکے گا اور اگر کسی بھی یونیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کر سکے تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں اِسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا۔ انگلستان یا امریکہ میں حصولِ تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے اِس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کر کے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں ان کا امتحان لیں گے اور جو بھی فرسٹ رہے گا اسے یہ وظیفہ دیا جائے گا۔ کے ایک معنی ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے کے بھی ہیںاور اِس طرح اِس میں اقتصادی ترقی بھی شامل ہے اس کی فی الحال کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں مگر میرا ارادہ ہے کہ انڈسٹریل تعلیم کا کوئی معقول انتظام بھی کیا جائے تا پیشہ وروں کی حالت بھی بہتر ہو سکے۔ اِسی طرح ایگریکلچرل تعلیم کا بھی ہو تا زمینداروں کی حالت بھی درست ہو سکے۔ خلفاء کا ایک کام مَیں سمجھتا ہوں اِس عہدہ کا استحکام بھی ہے۔ میری خلافت پر شروع سے ہی پیغامیوں کا حملہ چلا آتا ہے مگر ہم نے اِس کے مقابلہ کے لئے کماحقہٗ توجہ نہیں کی۔ شروع میں اِس کے متعلق کچھ لٹریچر پیدا کیا تھا مگر اَب وہ ختم ہو چکا ہے۔ پس اِس فنڈ سے اِس قوم کی ہدایت کے لئے بھی جدوجہد کی جانی چاہئے اور اِس کے لئے بھی کوئی سکیم مَیں تجویز کروں گا۔ ہماری جماعت میں بعض لوگ اچھا لکھتے ہیں مَیں نے الفضل میں اِن کے مضامین پڑھے ہیں اِن سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی صورت کی جائے گی۔
پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ پہلے اِسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اِس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اِس آمد سے یہ کام شروع کریں گے ایک تو ایسا اُصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو، سکھ اسلامی اُصول سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ اب تک ہم نے اِن کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ اِن لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے۔ مثلاً آپ کا ایک الہام ہے کہ’’ آریوں کا بادشاہ‘‘ ۴؎ ایک ہے ’’جے سنگھ بہادر‘‘۔ ’’ہے کرشن رودّر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے‘‘۵؎ مگر ہم نے ابھی تک اِن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ پس اَب اِن کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہئے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اِسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں۔ پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے۔ ایک آرٹ، سائنس، انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظامِ سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لئے۔ آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اِس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اِس آمد سے یہ کام چلائے جائیں۔ اِس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں۔ اِس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اِس کے لئے سامان لے آئیں۔
جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے لیکن اِس طرح تو بہت سی رسمیں کانگرس کی نقل قرار دینی پڑیں گی۔ کانگرسی جلسے بھی کرتے ہیں اِس لئے یہ جلسہ بھی کانگرس کی نقل ہو گی۔ گاندھی جی دودھ پیتے ہیں دودھ پینا بھی اِن کی نقل ہو گی اور اِس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلانا پڑے گا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں سے محروم رہ جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگرس کی نقل نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے خود جھنڈا باندھا اور فرمایا کہ یہ مَیں اُسے دوں گا جو اِس کا حق اداکرے گا۔ ۶؎ پس یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ جھنڈا لہرانا ناجائز نہیں ہاں البتہ اِس ساری تقریب میں مَیں ایک بات کو برداشت نہیں کر سکا اور وہ ایڈریسوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہو مَیں حُکم دیتا ہوں کہ اِن سب کو بیچ کر قیمت جوبلی فنڈ میں دے دی جائے۔ پس جھنڈا رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اِس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تو جہاد سے ہی منع کر دیا ہے پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر مَیں کہوں گا کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈا ضروری ہے تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں۔ اگر اَب ہم لوگ کوئی جھنڈا معیّن نہ کریں گے تو بعد میں آنے والے ناراض ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ہی جھنڈا بنا جاتے تو کیا اچھا ہوتا۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس میں یہ سُنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہئے۔ جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اِس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’لو اے ماپنہ ہر سعید خواہد بود۔‘‘ یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہو گی اور اِس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں تا سعید روحیں اس کے نیچے آکر پناہ لیں۔ یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں۔ جنگِ جمل میں حضرت عائشہؓ ایک اُونٹ پر سوار تھیں دشمن نے فیصلہ کیا کہ اُونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو آپ نیچے گِر جائیں اور آپ کے ساتھی لڑائی بند کر دیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہ نے دیکھا کہ اس طرح آپ گِر جائیں گی تو گو آپ دین کا ستون نہ تھیں مگر بہرحال رسول کریم ﷺ کی محبت کی مظہر تھیں اس لئے صحابہ نے اپنی جانوں سے ان کے اونٹ کی حفاظت کی اور تین گھنٹہ کے اندر اندر ستّر جلیل القدر صحابی کٹ کر گِر گئے۔ ۷؎ قربانی کی ایسی مثالیں دِلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں۔پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے اس کے کہ بعد میں آ کر کوئی بادشاہ اِسے بنائے یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے۔ اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کیلئے سند نہیں ہو سکتا۔ چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی۔ آج یہاں عرب، سماٹری، انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں ایک انگریز نو مُسلمہ آئی ہوئی ہیںاور انہوں نے ایڈریس بھی پیش کیا ہے۔ جاوا، سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں، افریقہ کے بھی ہیں انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں۔ افریقہ کا نمائندہ بھی ہے امریکہ والوں کی طرف سے بھی تار آ گیا ہے اور اِس لئے جو جھنڈا آج نصب ہو گا اِس میں سب قومیں شامل سمجھی جائیں گی اور وہ جماعت کی شَوکت کا نشان ہو گا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا بھی بن جاتا تا بعد میں اِس کے متعلق کوئی اختلافات پیدا نہ ہوں۔ پھر یہ رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر اُترے گا۸؎ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے وہ مینارہ بنوایاتا رسول کریم ﷺ کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو اور خداتعالیٰ کا شکرہے کہ اس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اِس وجہ سے کہ ہم لوگوں کو باطن کا بھی خیال رہے اور یہ محض ظاہری رسم ہی نہ رہے مَیں نے ایک اقرار نامہ تجویز کیا ہے پہلے مَیں اِسے پڑھ کر سُنا دیتا ہوں اِس کے بعد میں کہتا جاؤں گا اور دوست اِسے دُہراتے جائیں۔ اقرار نامہ یہ ہے:۔
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اوراحمدیت کے قیام ،اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کیلئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اِس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اِس کا جھنڈا کبھی سَرنِگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اُونچا اُڑتا رہے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ اَللّٰھَمَّ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّااِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
(روئیداد خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء صفحہ ۹ تا ۲۴)
۱؎ بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب رفع معرفۃ لیلۃ القدر
۲؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۲۶۵،۲۶۶
۳؎ الجمعۃ: ۳
۴؎ تذکرہ صفحہ ۳۸۱۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ تذکرہ صفحہ۳۸۰۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ مسند احمد بن حنبل صفحہ۳۵۳۔ المکتب الاسلامی بیروت
۷؎ تاریخ طبری جلد۵ صفحہ۵۷۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۸؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال



خلافتِ راشدہ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خلافتِ راشدہ
(تقریر فرمودہ ۲۸،۲۹ دسمبر ۱۹۳۹ء برموقع (خلافت جوبلی) جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
خلافت کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی ضرورت
میرا طریق ہے کہ ہر جلسہ سالانہ پر مَیں
ایک علمی تقریر کیا کرتا ہوں اِسی کے مطابق مَیں آج ایک اہم موضوع کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ یہ جلسہ اس بات میں خصوصیت رکھتا ہے کہ اس کا تعلق ’’خلافت جوبلی‘‘ کے ساتھ ہے اور اس کے مضامین کا تعلق بھی مسئلہ خلافت سے ہی ہے اس لئے مَیں سمجھتا ہوں میری تقریر میں بھی زیادہ تر خلافت کے مختلف پہلوئوں پر ہی بحث ہونی چاہئے۔ ممکن ہے بعض لوگوں کیلئے یہ امر ملالِ طبع کا موجب ہو کہ جو شخص بھی تقریر کیلئے اٹھتا ہے وہ خلافت کے موضوع پر تقریر کرنا شروع کر دیتا ہے مگر اس موضوع کی اہمیت اور موجودہ جلسہ سالانہ کا اقتضاء یہی ہے کہ اِس مسئلہ کے متعلق عمدگی کے ساتھ تمام قسم کی تفصیلات بیان کر دی جائیں کیونکہ جس طرح انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ اگر اسے کھانے کیلئے مختلف قسم کی چیزیں دی جائیں تو اُسے فائدہ ہوتا ہے اِسی طرح بعض دفعہ ایک ہی چیز بار بار بھی کھانی پڑتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں ۱؎ اور عیدالاضحیہ کے ایام میں تو خصوصیت کے ساتھ گوشت کے سوا اور کوئی غذا ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ حج کے دنوں میں بڑی کثرت سے بکرے وغیرہ ذبح ہوتے ہیں اور اُن کا گوشت جتنا کھایا جا سکتا ہے کھا لیا جاتا ہے اور باقی پھینک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک ہی عنوان پر مختلف رنگوں میں روشنی ڈالنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
مخالفینِ سلسلہ کی طرف سے خلافت کی تنقیص کی کوشش
اس وقت ہمارے سلسلہ کے خلاف دشمنوں کی طرف سے جو منصوبے کئے جا رہے ہیں اور جن جن تدابیر سے وہ احمدیت کے وقار کو ضعف پہنچانا چاہتے ہیں
اُن میں سے ایک منصوبہ اور تدبیر یہ ہے کہ ان کی طرف سے متواتر خلافت کی تنقیص کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے دل میں شیطان کو زندہ کیا جا سکے تو اس کے دل میں شیطان کو زندہ کر دیں۔ اسی وجہ سے مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اَب کی دفعہ مَیں خلافت کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر وں تا کہ جو لوگ فائدہ اُٹھانا چاہیں اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور دین سے محبت رکھنے والوں کیلئے یہ تعلیم برکت اور راہنمائی کا موجب ہو جائے۔
خلافت کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے
خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ مَیں سمجھتا ہوں اگر کلمۂ شریفہ کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام
سب سے بلند درجہ پر ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کلمہ طیبہ اسلام کی اساس ہے مگر یہ کلمہ اپنے اندر جو تفصیلات رکھتا ہے اور جن امور کی طرف یہ اشارہ کرتا ہے اُن میں سے سب سے بڑا امر مسئلہ خلافت ہی ہے۔ پس مَیں نے چاہا کہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات جماعت کے سامنے واضح طور پر پیش کر دوں تا کہ مخالفین پر حجت تمام ہو اور ۲؎کا نظارہ نظر آ جائے۔ یعنی جو شخص دلیل سے گھائل ہونے والا ہو اس کے سامنے دلیل کو کھول کر بیان کر دیا جائے اور جس کا ایمان بصیرت پر مبنی ہو اس کے ہاتھ میں ایسی بیّن دلیل آ جائے جس سے اس کا ایمان تازہ ہو جائے۔
اُمّتِ مُسلمہ کا نظام کسی مذہبی مسئلہ کے ساتھ وابستہ کرنیکی ضرورت
سب سے پہلے میں اس سوال کو لیتا ہوں جو مغربی تعلیم کے اثر کے نیچے اُٹھایا جاتا ہے اور وہی ایک اصولی سوال ہے جس پر اس
مسئلہ کا انحصار ہے اور وہ یہ ہے کہ نظام بہرحال ایک دُنیوی چیز ہے اور جب کہ نظام ایک دُنیوی چیز ہے دینی چیز نہیں تو اُمّتِ مسلمہ کے نظام کو کسی مذہبی مسئلہ کے ساتھ وابستہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں پھر اس پر مذہبی نقطۂ نگاہ سے غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین اُتارا اور ہم نے اسے مان لیا اب اسے اس امر میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے لئے کونسا نظام تجویز کرتے ہیںیہ ہر زمانہ میں مسلمانوں کی مرضی پر منحصر ہے وہ جس طرح چاہیں اس کا فیصلہ کر لیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو ایک خود مختار بادشاہ پر متفق ہو جائیں، چاہیں تو جمہوریت کو پسند کر لیں، چاہیں تو بولشویک اصول کو قبول کر لیں اور چاہیںتو آئینی بادشاہت کے طریق کو اختیار کر لیں کسی ایک اصل کو مذہب کے نام پر رائج کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ مفید ہو سکتا ہے اصل غرض تو دین کو پھیلانا ہے۔ بھلا اس میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے کہ وہ نظام کیسا ہو جس کے ماتحت کام کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں نَو تعلیم یافتہ مغرب زدہ نوجوانوں نے اس بحث کو اُٹھایا ہے اور درحقیقت اس کے پیچھے وہ غلط حریّت کی رُوح کام کر رہی ہے جو مختلف خیالاتِ فلاسفہ سے متأثر ہو کر مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں پیدا ہوئی ہے۔ وہ اس سوال کو بار بار اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس رنگ میں مذہب بدنام ہوتا اور تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے بدظن ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ مذہب کو اپنی جگہ پر رہنے دو اورسیاست کو اپنی جگہ۔
مغربی اثر کے ماتحت خیالات کی یہ رَومدت سے چل رہی تھی مگر مسلمانوں میں سے کسی کوجرأت نہیں ہوتی تھی کہ عَلَی الْاِعْلانْ اس کا اظہار کرے۔ جب تُرکی خلافت تباہ ہوئی اور کمال اتاترک نے خلافت کو منسوخ کر دیا تو عالمِ اسلامی میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا اور پُرانے خیالات کے جو لوگ تھے انہوں نے خلافت کمیٹیاں بنائیں۔ ہندوستان میں بھی کئی خلافت کمیٹیاں بنیں اور لوگوں نے کہا کہ ہم اس رَو کا مقابلہ کریں گے مگر وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شُبہات پیدا ہو چکے تھے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک فاتح بادشاہ جس کی لوگوں کے دلوںمیں بہت بڑی عزت ہے اُس نے اپنے عمل سے اُن کے خیالات کی تائید کر دی ہے تو وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے اور اُن میں سے بعض نے اس کے متعلق رسائل لکھے۔ اس قسم کے رسائل مسلمانوں نے بھی لکھے ہیں، یورپین لوگوں نے بھی لکھے ہیں اور بعض روسیوں نے بھی لکھے ہیں مگر اس خیال کو ایک مدلّل صورت میں ایک مصری عالم علی بن عبدالرزاق نے جو جامعہ ازہر کے علماء میں سے ہیں اور محاکمِ شریعہ کے قاضی ہیں اپنی کتاب ’’اَ لْاِسْلامُ وَ اُصُوْلُ الْحکم‘‘ میں پیش کیا ہے اور اس کا جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں وہ شدید اضطراب ہوء ا جو ترکی خلافت کی منسوخی سے عالَمِ اسلامی میں عموماً اور عربی ممالک میں خصوصاً پیدا ہوء ا تھا۔
ایک سوال کا جواب
شاید کہا جائے کہ اس بحث کا اس خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ہے جو اصل بحث میرے مضمون کا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ خلافت جو
اس کتاب میں زیر بحث ہے خلافتِ سلطنت ہے اور احمدیہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے تُرک بادشاہ ہیں اور احمدی بادشاہ نہیں۔ پس تُرکوں کی خلافت کی تائید میں جو دلائل ہونگے وہ اور رنگ کے ہونگے اور ان کی خلافت کی تردید میں جو دلائل ہونگے وہ بھی اور رنگ کے ہونگے۔ بھلا اس خلافت کا خلافتِ احمدیہ سے کیا تعلق ہے جسے کسی قسم کی بادشاہت حاصل نہیں اور جس کی خلافت محض مذہبی رنگ رکھتی ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے ضروری نہیں ہوتا کہ اُس کے صرف اُس پہلو پر روشنی ڈالی جائے جس کے متعلق کوئی سوال کرے بلکہ بسا اوقات اس کے تمام پہلوئوں پر بحث کی جاتی ہے اور یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں ہوتا۔ مثلاً ہم سے کوئی پوچھے کہ وضو میں ہاتھ کس طرح دھوئے جاتے ہیں تو اس کے جواب میں اگر ہم وضو کی تمام تفصیل اس کو بتا دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے مفید ہوگا کیونکہ وہ باقی باتیں بھی سمجھ جائے گا۔ اسی طرح گو احمدیہ جماعت کو جس خلافت سے تعلق ہے وہ مذہبی خلافت ہے لیکن اگر خلافتِ سلطنت کے متعلق بھی بحث کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا بلکہ اس مضمون کی تکمیل کیلئے ایسا کرنا ضروری ہوگا۔
سیاست صرف حکومت کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی
دوسرا جواب یہ ہے کہ درحقیقت سیاست
نظام کا دوسرا نام ہے اور یہ سیاست حکومت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہے اور حکومت کے بغیر بھی سیاست ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف حکومت کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہے حالانکہ بغیر حکومت کے بھی سیاست ہوتی ہے اور بغیر حکومت کے بھی نظام کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تین شخص اکٹھے کہیں سفر پر جانے لگیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو امیر بنا لیں ۳؎ تا کہ نماز کے وقت اسے امام بنایا جا سکے اور سفر میں جو جو ضرورتیں پیش آئیں اُن کے بارہ میں اس سے مشورہ لیا جا سکے۔ اب یہ ایک نظام ہے مگر اس کا تعلق حکومت سے نہیں۔ نظام درحقیقت ایک مستقل چیز ہے اگر حکومت شامل ہو تو اس پر بھی حاوی ہوتا ہے اور اگر نہ ہو تو باقی لوگوں کے لئے اُس کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ پس مسئلہ خلافت ایک اسلامی نظام سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ سلطنت پر مشتمل ہو یا نہ ہو۔
مذہبی خلافت پر اعتراض
تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی ثابت کر دے کہ اسلام نے کوئی خاص نظام پیش نہیں کیا تو اس کی زد خلافتِ سلطنت
پر ہی نہیں پڑے گی بلکہ اس خلافت پر بھی پڑے گی جو ہم پیش کرتے ہیں گویا خلافتِ سلطنت اور خالص مذہبی نظام دونوں یکساں اس کی زد میں آئیں گے۔ پس گو وہ دلائل ترکی خلافت کے خلاف پیش کئے گئے ہیں لیکن چونکہ وہ احمدیہ خلافت پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح خلافتِ سلطنت پر، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان دلائل کا جائزہ لیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر اسلام نے کوئی معیّن نظام پیش نہیں کیا تو جس طرح نظامِ سلطنت میں مسلمان آزاد ہونگے اسی طرح خالص نظامِ مذہبی میں بھی وہ آزاد سمجھے جائیں گے اور انہیں اختیار ہوگا کہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں وہ جس طرح چاہیں اور جس شکل میں چاہیں ایک نظام اپنے لئے تجویز کر لیں۔
ابتدائے اسلام میں نظامِ مملکت اور نظامِ دینی کا اجتماع
اس سوال کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں نظامِ مملکت اور نظامِ دینی اکٹھے تھے۔یعنی
مذہب کا نظام توتھا ہی مگر اس کے ساتھ ہی وہ فوجیں بھی رکھتے تھے، اُن میں قاضی بھی موجود تھے، وہ حدود بھی جاری کرتے تھے، وہ قصاص بھی لیتے تھے، وہ لوگوں کو عہدوں پر بھی مقرر کرتے تھے، وہ وظائف بھی تقسیم کرتے تھے، اِسی طرح نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ان میں جاری تھی گویا ابتدائے اسلام میں دونوں قسم کے نظام جمع ہو گئے تھے۔ پس اگر کوئی نظام اسلام سے ثابت نہیں تو خلافتِ مذہبی کی ابتداء بھی صرف اس وقت کے مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ قرار دیا جائے گا اور اس سے آئندہ کیلئے کوئی استدلال کرنا اور سند پکڑنا درست نہ ہوگا۔ اور جب خلافت کا وجود ابتدائے اسلام میں ہی ثابت نہ ہوگا تو بعد میں کسی وقت اس کے وجود کو قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں کہلا سکتا۔ پس اگر خلافت کے مسئلہ پر کوئی زد آئے گی تو یہ تو نہیں ہوگا کہ لوگ کہیں گے کہ صرف ترکوں کی خلافت ناجائز ہے بلکہ وہ سِرے سے خلافت کا ہی انکار کر دیں گے اور اس طرح ہم پر بھی جو مسئلۂ خلافت کے قائل ہیں اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جیسے اگر ہندوئوں اور عیسائیوں پر کوئی ایسا اعتراض کیا جائے جو اسلام پر بھی وارد ہوتا ہو تو یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ اس سے ہندوئوں اور عیسائیوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے اسلام کو اس سے کیا ڈر ہے کیونکہ اگر وہی بات اسلام میں بھی پائی جاتی ہے تو ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس اعتراض کا ازالہ کریں کیونکہ اگر لوگ اس کی وجہ سے مذہب سے بدظن ہونگے تو صرف ہندوئوں اور عیسائیوں سے ہی نہیں ہونگے بلکہ مسلمانوں سے بھی ہونگے۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے ثبوت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کی مثال لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوئے اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد بھی خلافت کا وجود ضروری ہے۔ اگر وہی خلافت اُڑ جائے تو لازماً خلافتِ احمدیہ بھی باطل ہو جائے گی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام کے قیام سے تعلق رکھنے والا حصہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی؟
اس کے ساتھ ایک اور بات بھی یاد رکھنی
چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس عقیدہ کو درست تسلیم کر لیا جائے جو علی بن عبدالرزاق نے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور جسے غیر مبائعین بھی پیش کرتے ہیں تو اس سے ایک اور اہم سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آیا رسولِ کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت رکھتا ہے یا غیر مذہبی۔ کیونکہ جب ہم یہ فیصلہ کر دیں کہ اسلام کوئی معیّن نظام پیش نہیں کرتا بلکہ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ، اور حضرت علیؓ کی خلافت مسلمانوں کا ایک وقتی فیصلہ تھا اور وہ نظامِ مملکت کے استحکام کیلئے جو کام کرتے تھے وہ محض رسول کریم ﷺ کی نیابت میں کرتے تھے تو طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے قیام سے تعلق رکھتے تھے وہ محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ سے صادر ہوتے تھے یا اسے کوئی مذہبی تائید بھی حاصل تھی۔ اگر وہ وقتی ضرورت کے ماتحت تھے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے آپ کے تتبُّع میں جو کچھ بھی کیا ہو گا وقتی ضرورت کے ماتحت کیا ہو گا اور وہ ہمارے لئے شرعی نہیں ہو گا اور اگر رسول کریم ﷺ کے وہ اعمال جو حکومت اور نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مذہبی حیثیت رکھتے تھے تو لازماً ہمیں ان سے سند لینی پڑے گی۔ پس یہ سوال صرف خلفاء تک محدود نہیں رہتا بلکہ رسول کریم ﷺ تک بھی جا پہنچتا ہے کہ اگر نظامِ خلافت کا اصول مذہبی نہیں تو چونکہ یہ نقل ہے رسول کریم ﷺ کے اعمال کی اس لئے ان کے وہ اعمال بھی مذہبی نہیں ہوں گے جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لئے ان کی اتباع ضروری نہیں ہو گی جیسے کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریمﷺ نے فلاں قسم کے کپڑے پہنے یا فلاں کھانا کھایا اس لئے لازماً وہی کپڑا پہننا اور وہی کھانا کھانا چاہئے۔ مثلاً کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ﷺ چونکہ تہہ بند باندھا کرتے تھے اس لئے تم بھی تہہ بند باندھو یا رسول کریم ﷺ چونکہ کھجوریں کھایا کرتے تھے اس لئے تم بھی کھجوریں کھاؤ بلکہ اس سے اصولی رنگ میں ایک نتیجہ أخذ کرلیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے۔ اسی طرح اگر رسول کریم ﷺ کے ان اعمال کو جو نظام کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شرعی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ ضرورتِ زمانہ کے ماتحت قرار دیا جائے گا تو وہ ہمارے لئے نہیں ہوں گے اور ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکیں گے کہ عرب میں دشمنوں کی حکومت چونکہ ٹوٹ گئی تھی اور وہ سب آپ کے تابع ہو گئے تھے اس لئے آپ مجبور تھے کہ کوئی نہ کوئی نظام قائم کریں اور چونکہ نظام کے قیام کیلئے کچھ قوانین کی بھی ضرورت تھی اس لئے آپ نے بعض قوانین بھی بنا دیئے اور اس سے آپ کی غرض محض ان لوگوں کی اصلاح تھی۔ یہ غرض نہیں تھی کہ کوئی ایسا نظام قائم کریں جسے ہمیشہ کیلئے مذہبی تائید حاصل ہو جائے۔ غرض اس عقیدہ کو تسلیم کرنے سے یہ امر لازماً تسلیم کرنا پڑے گا کہ خود رسول کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے کوئی مذہبی تائید حاصل نہ تھی اگر مذہبی تائید حاصل ہوتی تو وہ بعد کے لوگوں کیلئے بھی سُنت اور قابِلِ عمل قرار پاتے۔ یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جو اس عقیدہ سے پیدا ہوتا ہے مگر منکرین خلافت اس طبعی نتیجہ کو ہمیشہ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کا و ہ حصہ جو سلطنت کے اُمور کے انصراح کے متعلق تھا محض ایک دُنیوی کام تھا اور وقتی ضرورتوں کے ماتحت تھا تو مسلمان اسے برداشت نہیں کریں گے اور وہ کہیں گے کہ تم رسول کریم ﷺکی ہتک کرتے ہو اسی لئے خلافت کے منکر اس بارہ میں ہمیشہ غیرمنطقی طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں مگر علی بن عبدالرزاق جو جامعہ ازہر کے شیوخ میں سے ہے اس نے آزادی اور دلیری سے اس موضوع پر بحث کی ہے اور اس وجہ سے قدرتی طور پر وہ اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ یہ عجیب توارد ہوء ا کہ ادھر جب اس مضمون پر میں نے نوٹ لکھنے شروع کئے تو لکھتے لکھتے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگراس دلیل کو اسی طرح اوپر کی طرف چلایا جائے تو اس کی زد رسول کریم ﷺ پر بھی پڑتی ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی زندگی کا یہ حصہ محض ایک دُنیوی کام تھا جسے آپ نے وقتی ضروریات کے ماتحت اختیار کیا۔ غرض پہلے میں اس نتیجہ پر پہنچا بعد میں جب میں نے اس کی کتاب کو پڑھا تو میں نے دیکھا کہ بعینہٖ اس نے یہی استنباط کیا ہوء ا ہے اور گو مسلمانوں کے خوف سے اس نے اس کو کھول کر بیان نہیں کیا بلکہ شکر کی گولی میں زہر دینے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی اس کا مطلب خوب واضح ہے کہ قضاء وغیرہ کا انتظام اس وقت ثابت نہیں اور نہ دوسری ضروریات کا جو حکومت کیلئے ضروری ہیں مثلاً میزانیہ وغیرہ۔ پس معلوم ہؤا کہ اُس وقت جو کچھ کیا جاتا تھا صرف وقتی مصالح کے ماتحت کیا جاتا تھا۔
خلافت کے انکار کا ایک خطرناک نتیجہ
حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے انکار کرنے کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا
ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت مذہبی نہیں تھی اور خواہ اس خیال کو مسلمانوں کی مخالفت کے ڈر سے کیسے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے صرف خلفاء کے نظامِ سلطنت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرانا پڑتا بلکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اس حصہ کے متعلق بھی جو امورِ سلطنت کے انصرام کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہنا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک دُنیوی کام تھا جسے وقتی ضرورتوں کے ماتحت آپ نے اختیار کیا ورنہ نماز ،روزہ ،حج اور زکوٰۃ کو مستثنیٰ کرتے ہوئے نظامی حصہ آپ نے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اور آپ کی طرف سے اس بات کی کُھلی اجازت ہے کہ اپنی سہولت کے لئے جیسا نظام کوئی چاہے پسند کرے۔ علی بن عبدالرزاق نے اس بات پر بھی بحث کی ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ اگر رسول کریم ﷺ کو صحیح معنوں میں حکومت حاصل ہوتی تو آپ ہر جگہ جج مقرر کرتے مگر آپ نے ہر جگہ جج مقرر نہیں کئے اسی طرح باقاعدہ میزانیہ وغیرہ بنائے جاتے مگر یہ چیزیں بھی آپ کے عہد میں ثابت نہیں۔ اسی طرح اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اگر امورِ سلطنت کے انصرام میں کوئی حصہ لیا ہے تو وہ وقتی ضرورتوں کے ماتحت لیا ہے جیسے گھر میں کرسی نہیں ہوتی تو انسان فرش پر ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس وقت چونکہ کوئی حکومت نہیں تھی آپ نے عارضی انتظام قائم کرنے کیلئے بعض قوانین صادر کر دیئے۔ پس آپ کا یہ کام ایک دُنیوی کام تھا اس سے مذہبی رنگ میں کوئی سند نہیں لی جا سکتی۔
غرض اس اصل کو تسلیم کرکے خلفاء کے نظامِ حکومت کو ہی مذہبی حیثیت سے نہیں گرانا پڑتا بلکہ رسول کریم ﷺ کے ان کاموں کو بھی جو نظامِ سلطنت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں دُنیوی کام قرار دینا پڑتا ہے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ بعد کے لوگوں کیلئے سنت اور قابلِ عمل نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد اب میں اصولی طور پر خلافت و نظامِ اسلامی کے مسئلہ کو لیتا ہوں۔
مذہب کی دو قسمیں
میرے نزدیک اس مسئلہ کو سمجھنے سے پہلے یہ امر سمجھ لینا ضروری ہے کہ دنیا کے مذاہب دو قسم کے ہیں (۱) اوّل وہ مذاہب جو
مذہب کا دائرہ عمل چند عبادات اور اذکار تک محدود رکھتے ہیں اور امورِ اعمال دُنیوی کو ایک علیحدہ امر قرار دیتے ہیں اور ان میں کوئی دخل نہیںدیتے۔ وہ کہیں گے نماز یوں پڑھو، روزے یوں رکھو، صدقہ و خیرات یوں کرو، لوگوں کے حقوق یوں بجا لاؤ ،غرض عبادات اور اذکار کے متعلق وہ احکام بیان کریں گے مگر کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے جس کا نظام کے ساتھ تعلق ہو یا اقتصادیات کے ساتھ تعلق ہو یا بَیْنَ الاقوامی حالات کے ساتھ تعلق ہو یا لین دین کے معاملات کے ساتھ تعلق ہو یا ورثہ کے ساتھ تعلق ہو۔ وہ ان امور کے متعلق قطعاً کوئی تعلیم نہیں دیں گے۔
مسیحی مذہب میں شریعت کو *** قرار دینے کا اصل باعث
اس قسم کے مذاہب میں سے ایک مسیحی مذہب ہے اور اس مذہب میں جو شریعت کو *** قرار دینے پر زور دیا گیا ہے اس کی وجہ بھی زیادہ تر
یہی ہے کہ وہ افراد کے اعمال کو مذہب کی پابندیوں سے الگ رکھناچاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مذہب کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کہے تم نمازیں پڑھو، تم روزے رکھو، تم حج کرو، تم زکوٰۃ دو، تم عیسیٰ کو خدا سمجھو۔ اسے اس بات سے کیا واسطہ ہے کہ قتل، فساد، چوریوں اور ڈاکوں کے متعلق کیا احکام ہیں یا یہ کہ قومیں آپس میں کس طرح معاہدات کریں، یا اقتصاد کو کس طرح کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں شریعت کا اِن امور سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر لڑکوں اور لڑکیوں کو ورثہ میں سے حصہ دینے کا سوال ہو تو وہ کہہ دیں گے کہ اس میں شریعت کا کیا دخل ہے یہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ جس امر میں قوم کا فائدہ دیکھے اسے بطور قانون نافد کر دے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم سود لیں گے چاہے روپیہ کی صورت میں لیں اور چاہے جنس کی صورت میں۔ تو مذہب کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ روپیہ کے بدلہ میں سودی روپیہ لینا ناجائز ہے۔ غرض وہ مذہب کے اُن احکام سے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شدید نفرت کرتے ہیں اسی لئے انہوں نے شریعت کو *** قرار دے لیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ روزہ رکھنا *** ہے۔ اگر روزہ رکھنا *** کا موجب ہوتا تو انجیل کے پُرانے ایڈیشنوں میں یہ کس طرح لکھا ہوتا کہ:-
’’اس طرح کے دیو بغیر دعا اور روزہ کے نہیں نکالے جاتے ‘‘ ۴؎
اور کیا ممکن ہے کہ ایک طرف تو انجیلوں میں اس قسم کے الفاظ آتے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا کہ شریعت *** ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب عیسائیوں نے یہ کہا کہ شریعت *** ہے تو اس کے معنی یہی تھے کہ شریعت کا نظامِ قومی کو معیّن کر دینا *** ہے اور مذہب کو امور ِدُنیوی کے متعلق کوئی حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ ان امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم خود اپنے لئے قوانین تجویز کر سکتی ہے۔ اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جو امورِ سلطنت میں اس نے لگائی تھیں۔ بیشک حضرت مسیح علیہ السلام نے جب یہ فقرہ کہا (بشرطیکہ ان کی طرف اسے منسوب کیا جا سکے) تو ان کا مطلب یہ نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ یہود نے جو شریعت کے ظاہری احکام کو اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ باطن اور روحانیت کو انہوں نے بالکل بُھلا دیا ہے یہ امر ان کے لئے ایک *** بن گیا ہے اور اس نے انہیں حقیقت سے کوسوں دور پھینک دیا ہے۔ لیکن جب مسیحیت روما میں پھیلی تو چونکہ وہ لوگ اپنے قومی دستور کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اور سمجھتے تھے کہ رومن لاء سے بہتر اورکوئی لاء نہیں بلکہ آج تک رومن لاء سے ہی یورپین حکومتیں فائدہ اُٹھاتی چلی آئی ہیں اس لئے وہاں کے لوگ جو بڑے متمدّن اور قانون دان تھے انہوں نے خیال کیا کہ دُنیا میں ہم سے بہتر کوئی قانون نہیں بنا سکتا ادھر انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب کی تعلیم بڑی اچھی ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے متعلق، معجزات اور نشانات کے متعلق، دعاؤں کے متعلق، مسیح کی قربانیوں کے متعلق۔ جب انہوں نے عیسائیت کی تعلیمات کو دیکھا تو ان کے دل عیسائی مذہب کی طرف مائل ہو گئے اور انہوں نے اقرار کیا کہ یہ مذہب واقع میں اس قابل ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے۔ مگر دوسری طرف وہ یہ امر بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ یہودی شریعت کو جس کو وہ رومن لاء کے مقابلہ میں بہت ادنیٰ سمجھتے تھے اپنے اندر جاری کریں۔ پس وہ ایک عجیب مخمصے میں مبتلاء ہو گئے۔ ایک طرف عیسائیت کی دلکش تعلیم انہیں اپنی طرف کھینچتی تھی اور دوسری طرف رومن لاء کی برتری اور فوقیت کا احساس انہیں یہودی شریعت کے آگے اپنا سر جُھکانے نہیں دیتاتھا۔ وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نگاہ عہدِ جدید کے اِن فقرات پر پڑی کہ:-
’’جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب *** کے ماتحت ہیں۔‘‘ ۵؎
اور یہ کہ:-
’’مسیح جو ہمارے لئے *** بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چُھڑایا۔۶؎
یہ حضرت مسیح کے الفاظ نہیں بلکہ پولوس کے الفاظ ہیں۔ مگر انہیں ایک بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے اِن فقرات کے معنی وسیع کر کے یہ فیصلہ کر لیا کہ مذہب کو امورِ دُنیوی کے متعلق کچھ حکم دینے کا اختیار نہیں بلکہ اِن امور کے متعلق ضرورت کے مطابق ہر قوم اپنے لئے خود قوانین تجویز کر سکتی ہے۔ حضرت مسیح کا (اگر بِالفرض انہوں نے کبھی یہ فقرہ کہا ہو) یا آپ کے حواریوں کا تو صرف یہ مطلب تھا کہ یہود صرف ظاہری احکام پر زور دیتے ہیں روحانیت کو انہوں نے بالکل بُھلا رکھا ہے اور یہ امر اُن کے لئے *** کا موجب ہے۔ وہ بے شک ظاہری طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے دل میں کوئی خشیت ،کوئی محبت اور خداتعالیٰ کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی اور یہ نماز ان کیلئے *** ہے۔ وہ ظاہری طور پر صدقہ و خیرات کرتے وقت بکرے بھی ذبح کرتے ہیں مگر کبھی انہوں نے اپنے نفس کے بکرے کو ذبح نہیں کیا اور اس طرح صدقہ و خیرات بھی ان کے لئے *** ہے، وہ عبادت میں خداتعالیٰ کے سامنے ظاہری رنگ میں اپنا سر تو بے شک جُھکاتے ہیں مگر ان کے دل کبھی خدا کے آگے نہیں جُھکتے اس وجہ سے ان کی عبادت بھی ان کے لئے *** ہے، وہ بیشک زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس طرح اپنے مال کی خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں مگر کبھی اپنے باطل افکار کی قربانی اپنے لئے گوارا نہیں کرتے اور اس وجہ سے زکوٰۃ بھی ان کے لئے *** کا موجب ہے۔ غرض یہود نے چونکہ ظاہر پر زور دے رکھا تھا اور باطنی اصلاح کو انہوں نے بالکل فراموش کر دیا تھا اس لئے حضرت مسیح یا ان کے حواریوں کو یہ کہنا پڑا کہ صرف ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطن کی اصلاح کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک *** ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ شریعت *** ہے بلکہ یہ معنی تھے کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنا اور باطنی اصلاح کی طرف تمہارا توجہ نہ کرنا تمہارے لئے *** کا باعث ہے۔ مگر رومیوں کو ایک بہانہ مل گیا اور انہوں نے کہا اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں تو مذہب کی اطاعت کی جائے مگر امورِ دُنیوی میں اس کی اطاعت نہ کی جائے اور نہ اسے اِن امور کے متعلق احکام دینے کا کوئی اختیار ہے۔ یہ ہماری اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لئے جو قانون چاہیں تجویز کر لیں اسی لئے جو رومی عیسائی مذہب اور شریعت کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ وہ *** ہے وہ خود ایک قانون بنا کر لوگوں کو اس کے ماتحت چلنے پر مجبور کرتے ہیں اگر محض کسی قانون کا ہونا *** ہوتا تو وہ خود بھی کوئی قانون نافذ نہ کرتے۔ مگر ان کا ایک طرف مذہب کو *** کہنا اور دوسری طرف خود اپنے لئے مختلف قسم کے قوانین تجویز کرنا بتاتا ہے کہ وہ اس فقرہ کے یہی معنی سمجھتے تھے کہ صرف لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہیں بنا لیں مذہب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دُنیوی امور کے متعلق لوگوں کے سامنے کوئی احکام پیش کرے۔ اس طرح انہوں نے موسوی شریعت کی ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا جو امورِ سلطنت میں اس نے لوگوں پر عائد کی ہوئی تھیں۔
یہودی مذہب کا نظامِ حکومت میں دخل
اس کے بالمقابل بعض دوسرے مذاہب ہیں۔ جنہوں نے مذہب
کے دائرہ کو وسیع کیا ہے اور انسانی اعمال اور باہمی تعلقات اور نظامِ حکومت وغیرہ کے متعلق بھی قواعد بنائے ہیں اور جو لوگ ایسے مذاہب کو مانتے ہیں لازماً انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ حکومت کے معاملات میں بھی مذہب کو دخل اندازی کا حق حاصل ہے اور نیز یہ کہ ان احکام کی پابندی افراد اور جماعتوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح عقائد اور انفرادی احکام مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ میں واجب ہے۔ اس کی مثال میں یہودی مذہب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص موسوی شریعت کو پڑھے تو اسے جا بجا یہ لکھا ہوء ا نظر آئے گا کہ اگر کوئی قتل کرے تو اسے یہ سزا دی جائے، چوری کرے تو یہ سزا دی جائے، جنگ ہو تو اِن قواعد کو ملحوظ رکھا جائے، قربانی کرنی ہو تو اِن اصول کے ماتحت کی جائے، اسی طرح لین دین اور تجارت وغیرہ معاملات کے متعلق وہ ہدایات دیتا ہے۔ غرض وہ معاملات جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یہودی مذہب ان میں بھی دخل دیتا ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شخص موسوی شریعت پر غور کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مذہب کو جس طرح افراد کے معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہے اسی طرح اسے قومی اور ملکی معاملات میں بھی دخل دینے کا حق حاصل ہے۔
اسلام کِن مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام کونسی قسم کے مذاہب سے
مشابہت رکھتا ہے۔ آیا اوّل الذکر قسم سے یا دوسری قسم کے مذاہب سے اور آیا اسلام نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے یا نہیں؟ اگر محمد ﷺ نے قومی معاملات میں دخل دیا ہے چاہے اپنی مرضی سے اور چاہے اس وجہ سے کہ ملک کو اس کی بے حد ضرورت تھی تو ماننا پڑے گا کہ جیسے جنگل میں اگر کسی کو کوئی آوارہ بچہ مل جائے تو وہ رحم کر کے اسے اپنے گھر میں لے جاتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اسے اس کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے رحم کر کے عرب کے یتیموں کو اپنی گود میں لے لیا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ آپؐ کو ان کی ولایت کا حق حاصل ہو گیا تھا بلکہ جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے تو انہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ اپنے لئے جو قانون چاہتے تجویز کر لیتے لیکن اگر شریعتِ اسلام میں ایسے احکام موجود ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے طور پر ان امورمیں دخل نہیںدیا بلکہ آپ نے اُسی وقت ان امور کو اپنے ہاتھ میں لیا جب خدا نے آپؐ کو اس کا حکم دیا اور جب خدا کا حکم دینا ثابت ہو جائے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ آپؐ کی زندگی کا وہ حصہ جو امورِسلطنت کے انصرام میں گزرا وہ مذہبی حیثیت رکھتا ہے اور مسلمان جس طرح خالص مذہبی نظام میں اسلامی ہدایات کے پابند ہیں اسی طرح نظامِ سلطنت میں بھی وہ آزاد نہیں بلکہ شریعتِ اسلامیہ کے قائم کردہ نظامِ سلطنت کے پابند ہیں۔ اس غرض کے لئے جب قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو دیکھا جاتا ہے تو ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام پہلی قسم کے مذاہب میں شامل نہیں بلکہ دوسری قسم کے مذاہب میں شامل ہے۔ اس نے صرف بعض عقائد اور انفرادی اعمال کے بتانے پر ہی اکتفانہیں کیا بلکہ اس نے ان احکام کو بھی لیا ہے جو حکومت اور قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ صرف یہی نہیں کہتا کہ نمازیں پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو بلکہ وہ ایسے احکام بھی بتاتا ہے جن کا حکومت اور قانون سے تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً وہ میاں بیوی کے تعلقات پر بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان اگر جھگڑا ہو جائے تو کیا کِیا جائے اور ان کی باہمی مصالحت کیلئے کیاکیا تدابیر عمل میں لائی جائیں اور اگر کبھی مرد کو اِس بات کی ضرورت پیش آئے کہ وہ عورت کو بدنی سزا دے تو وہ سزا کتنی اور کیسی ہو، اسی طرح وہ لین دین کے قواعد پر بھی بحث کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ قرض کے متعلق کتنے گواہ تسلیم کئے جاسکتے ہیں، قرضہ کی کونسی صورتیں جائز ہیں اور کونسی ناجائز، وہ تجارت اور فنانس کے اصول بھی بیان کرتا ہے، وہ شہادت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے جن پر قضاء کی بنیاد ہے۔ چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ کیسے گواہ ہونے چاہئیں، کتنے ہونے چاہئیں، ان کی گواہی میں کِن کِن امور کو ملحوظ رکھنا چاہئے، اسی طر ح وہ قضا ء کے متعلق کئی قسم کے احکام دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ قاضیوں کو کِس طرح فیصلہ کرنا چاہئے، پھر ان مختلف انسانی افعال کی وہ جسمانی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے جو عام طور پر قوم کے سپرد ہوتی ہیں۔ مثلاً قتل کی کیا سزا ہے یا چوری کی کیا سزا ہے؟ اسی طرح وہ وراثت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے اور حکومت کو ٹیکس کا جو حق حاصل ہے اس پر بھی پابندیاں لگاتا ہے اور ٹیکسوں کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ حکومت کو اِن ٹیکسوں کے خرچ کرنے کے متعلق جو اختیارات حاصل ہیںان کو بھی بیان کرتا ہے، فوجوں کے متعلق قواعد بھی بیان کرتا ہے۔ معاہدات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، وہ بتاتا ہے کہ دو قومیں جب آپس میں کوئی معاہدہ کرنا چاہئیں تو کِن اصول پر کریں؟ اسی طرح بَیْنَ الاقوامی تعلقات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، مزدور اور ملازم رکھنے والوں کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے، سڑکوں وغیرہ کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے۔ غرض وہ تمام امور جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اسلام بیان کرتا ہے۔ پس اسلام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے حکومت کو آزاد چھوڑ دیا ہے بلکہ جیسا کہ ثابت ہے اس نے حکومت کے ہر شعبے پر سیرکن بحث کی ہے۔ پس جو شخص اسلام کو مانتا ہے اور اس میں حکومت کے متعلق تمام احکام کو تفصیل سے بیان کیا ہوء ا دیکھتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ بلکہ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کے وہ افعال جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قابلِ تقلید ہیں جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کے متعلق احکام کیونکہ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ نماز پڑھو، جس خدا نے یہ کہا ہے کہ روزے رکھو۔ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ حج کرو۔ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ زکوٰۃ دو اسی خدا نے امورِ سیاست اور تنظیم ملکی کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں۔ پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر قوم اور ہر ملک آزاد ہے کہ اپنے لئے ایک مناسب طریق ایجاد کر لے اور جس طرح چاہے رہے بلکہ اسے اپنی زندگی کے سب شعبوں میں اسلامی احکام کی پابندی کرنی پڑے گی کیونکہ اگر رسول کریم ﷺ نے یہ اپنی طرف سے کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ لوگ اس بارہ میں آزاد ہیں۔ مگر جب ہم کہتے ہیں کہ یہ احکام قرآن مجیدمیں آئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت رسول کریم ﷺ نے ان کو بیان کیا تو معلوم ہوء ا کہ یہ رسول کریم ﷺ کا ذاتی فعل نہیں تھا اور جبکہ قرآن نے ان تمام امور کو بیان کر دیا ہے جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے حکومت سے تعلق رکھنے والی تو ساری باتیں بیان کر دی ہوں مگر یہ نہ بتایا ہو کہ حکومت کو چلایا کس طرح جائے۔ یہ توایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص مکان بنانے کیلئے لکڑیاں جمع کرے، کھڑکیاں اور دروازے بنوائے، اینٹوں اور چونے وغیرہ کا ڈھیرلگا دے مگر جب کوئی پوچھے کہ عمارت کب بنے گی اور اس کا کیا نقشہ ہو گا؟ تو وہ کہے کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ صاف بات ہے کہ جب اس نے اینٹیں اکٹھی کیں، جب اس نے دروازے کھڑکیاں اور روشندان بنوائے، جب اس نے چونے اور گارے کا انتظام کیا تو آخر اسی لئے کیا کہ وہ مکان بنائے اس لئے تو نہیں کیا کہ وہ چیزیں بے فائدہ پڑی رہیں اور ضائع ہو جائیں۔ اسی طرح جب قرآن نے وہ تمام باتیںبیان کر دی ہیں جن کا حکومت کے ساتھ تعلق ہوء ا کرتا ہے تو عقلِ انسانی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتی کہ اس نے نظامِ حکومت چلانے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ یہ بتایا ہو کہ اس نظام کو کس رنگ میں چلایا جائے اور اگر وہ یہ نہیں بتاتا تو تم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآن نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ناقص ہے۔
حکومت کے تمام شعبوں کے متعلق اسلام کی جامع ہدایات
غرض جبکہ اسلام نے حکومت کے تمام شعبوں کے متعلق تفصیلی ہدایات دے دی ہیں تو کوئی شخص نہیںکہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا
واسطہ۔ ہر قوم اور ہر ملک اپنے لئے کوئی مناسبطریق تجویز کرنے میں آزاد ہے۔ ہاں وہ یہ بحث ضرور کرسکتا ہے کہ کسی خاص امر میں شریعت اسلامیہ نے اسے آزاد چھوڑ دیا ہے مگر یہ بات بالکل خلافِ عقل ہو گی کہ اسلام نے چھوٹے چھوٹے حقوق تو بیان کئے لیکن سب سے بڑا حق کہ فرد کوحکومت کے مقابل پر کیا حقوق حاصل ہیں اور حکومت کو کس شکل اور کس صورت سے افراد میں احکامِ الٰہیہ کو جاری کرنا چاہئے اس اہم ترین سوال کو اس نے بالکل نظر انداز کر دیا۔ اگر ہم یہ کہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب ناقص ہے۔ جو مذہب شریعت کو *** قرار دیتا ہے وہ تو کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں میرے دائرہ سے باہر ہیں اور اس مذہب کو ناقص بھی ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق روشن ہدایات نہیں دیں۔ مثلاً ایسا مذہب اگر خدا اور بندے کے تعلق پر بحث نہیں کرتا یا یہ نہیں بتاتا کہ بندوں کا بندوں سے کیسا تعلق ہونا چاہئے یا امورِ مملکت اور سیاست کے متعلق کوئی ہدایت نہیں دیتا تو وہ آسانی سے چُھٹکارا پا جاتا ہے کیونکہ وہ شریعت کو *** قرار دیتا ہے لیکن جومذہب ان امور میں دخل دیتا ہے اور اس امر کو مانتا ہے کہ خداتعالیٰ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان امور میں دخل دے اس کا ایسے اہم مسئلہ کو چھوڑ دینا اور لاکھوںکروڑوں آدمیوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈال دینا یقینا ایک اور نقص کہلائے گا۔
نفاذِ قانون کے متعلق تفصیلی ہدایات
اس تمہید کے بعد میں اب اصل سوال کی طرف آتا ہوں۔ رسول کریمﷺ
عرب میں مبعوث ہوئے اور عرب کا کوئی تحریر قانون نہ تھا۔ قبائلی رواج ہی ان میںقانون کا مرتبہ رکھتا تھا۔ چنانچہ کسی قبیلہ میں کوئی قانون تھا اور کسی قبیلہ میں کوئی۔ وہ انہی قبائلی رواج کے مطابق آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ کر لیتے۔ یا جب انہوں نے کوئی معاہدہ کرنا ہوتا تو معاہدہ کر لیتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ نے ان کے سامنے آسمانی شریعت پیش کی اور کہا کہ میرے خدا نے تمہارے لئے یہ تعلیم مقرر کی ہے تم اس پر عمل کرو اور پھر اس پر ان سے عمل کرایا بھی۔ اگر تو قرآن جو آسمانی صحیفہ ہے صرف نماز روزہ کے احکام پر اور بعض عقائد کے بیان پر اکتفاء کرتا اور سیاست و تدبیر مُلکی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے تو خواہ وہ زور سے ان کی پابندی کراتے کوئی کہہ سکتا تھاکہ عربوں نے مسلمانوں پر ظالمانہ حملہ کر کے اپنی حکومت تباہ کر لی اور ملک بغیر نظام اور قانون کے رہ گیا۔ اس مشکل کی وجہ سے وقت کی ضرورت سے مجبور ہو کر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک کو ابتری سے بچانے کیلئے کچھ قانون تجویز کر دیئے اور ان پر لوگوں سے عمل کرایا اور یہ حصہ آپ کے عمل کا مذہب نہ تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان امور کے متعلق بھی تفصیلی احکام قرآن کریم میں موجود ہیں اور نہ صرف احکام موجود ہیں بلکہ ان کے نفاذ کے متعلق بھی احکام ہیں۔ مثلاً (۱) اللہ تعالیٰ سورہ حشر میں فرماتا ہے۔ ۷؎
یعنی اے مسلمانو! محمد رسول اللہ ﷺ جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس بات سے وہ تمہیں روکیں اُس سے رُک جاؤ۔ گویا رسول کریم ﷺ کا حکم مسلمانوں کیلئے ہر حالت میں ماننا ضروری ہے۔
(۲) دوسری جگہ فرماتا ہے۔


یعنی تیرے ربّ کی قسم! جب تک وہ ہر اُس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حَکَم نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے وہ اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار نہ ہو جائیںاُس وقت تک وہ ہرگز ایماندار نہیں ہو سکتے۔ بعض لوگ رسول کریم ﷺ پر یہ اعتراض کیا کرتے تھے بلکہ اس زمانہ میں بھی ایسے معترض موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ حق حاصل نہیںتھا کہ وہ باہمی جھگڑوں کے نپٹانے اورنظام کو قائم رکھنے کے متعلق کوئی ہدایات دے سکیں۔ مگر فرمایا۔ ہم ان کی اس بات کو غلط قراردیتے ہیں اور عَلَی الْاِعْلان کہتے ہیں کہ یہ کبھی مومن نہیں کہلا سکتے جب تک وہ اپنے جھگڑوں میںاے محمد رسول اللہ ﷺ! تجھے حَکَم تسلیم نہ کریں اور پھر تیری قضاء پر وہ دل و جان سے راضی نہ ہوں۔ اس آیت کریمہ میں دو نہایت اہم باتیں بیان کی گئی ہیں۔
اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو آخری قاضی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کا جو فیصلہ بھی ہو گا وہ آخری ہو گا اور اس پر کسی اور کے پاس کسی کو اپیل کا حق حاصل نہیں ہو گا اور آخری فیصلہ کا حق رسول کریم ﷺ کو دینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکومت کے اختیارات حاصل تھے۔
دوسری بات جو اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اِن فیصلوں کے تسلیم کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ تیرے ربّ کی قسم! وہ کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک وہ تیرے فیصلوں کو تسلیم نہ کریں۔ گویا یہ بھی دین کا ایک حصہ ہے اور ویسا ہی حصہ ہے جیسے نماز دین کا حصہ ہے، جیسے روزہ دین کا حصہ ہے، جیسے حج اور زکوٰۃ دین کا حصہ ہے۔ فرض کرو زید اور بکر کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے ایک کہتا ہے میں نے دوسرے سے دس روپے لینے ہیںاور دوسرا کہتا ہے میں نے کوئی روپیہ نہیں دینا۔ دونوں رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچتے ہیں اور اپنے جھگڑے کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور رسول کریم ﷺ ایک کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں تو دوسرا اس فیصلے کو اگر نہیں مانتا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ مؤمن نہیں رہا۔ پس باوجودیکہ وہ نماز پڑھتا ہو گا، وہ روزے رکھتا ہو گا، وہ حج کرتا ہو گا، اگر وہ اس حصہ میں آ کر رسول کریم ﷺ کے کسی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فتویٰ اس کے متعلق یہی ہے کہ اس انکار کے بعد وہ مؤمن نہیں رہا۔ پس کے الفاظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے اس حصہ کو بھی دین کا ایک جزو قرار دیا ہے علیحدہ نہیں رکھا۔
(۳) تیسری جگہ فرماتا ہے ۹؎ یعنی مؤمنوں کو جب خدا اور اُس کا رسول بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہارے جھگڑے کا فیصلہ کر دیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ۔ حضور کا حکم ہم نے سن لیا اور ہم ہمیشہ حضور کی اطاعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوں گے اور ہمیشہ مظفر و منصور رہیں گے۔ اب ایک طرف رسول کریم ﷺ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایمان کو وابستہ قرار دینا اور دوسری طرف انہی لوگوں کو کامیاب قرار دینا جو کہیں اور آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف نہ چلیں، بتاتا ہے کہ ان احکام کے ساتھ خدائی تصرف شامل ہے۔ اگر کوئی شخص ان احکام کو نہ مانے تو خدائی عذاب اس پر اُترتا اور اُسے ناکام و نامراد کر دیتا ہے لیکن دُنیوی امور میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں صرف طبعی نتائج پیدا ہوء ا کرتے ہیں۔
(۴) پھر فرماتا ہے




یعنی وہ لوگ جو اس کی اتباع کرتے ہیں جو خدا کا رسول ہے اور جو نبی اور اُمّی ہے اور جس کے متعلق تورات اور انجیل میں وہ کئی پیشگوئیاں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ جانتے ہیںکہ یہ رسول انہیں ہمیشہ نیک کاموں کا حکم دیتا اور باتوں سے روکتا ہے۔ گویا وہ لوگوں میں ایک قانون نافذ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو۔ اسی طرح وہ ان کے لئے طیبات کو حلال ٹھہراتا اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔ گویا وہ انسانی اعمال اور اقوال اور کھانے پینے کے متعلق بھی مناسب ہدایات دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے فلاں چیز کھاؤ اور فلاں نہ کھاؤ۔ فلاں بات کرو اور فلاں نہ کرو۔ اسی طرح وہ ان کے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہو رہے ہیں اور ان کے اُن طوقوں کو دُور کرتا ہے جنہوں نے ان کو ترقی کی طرف بڑھنے سے روکا ہوئا تھا۔

پس وہ لوگ جو اس رسول پر ایمان لاتے اور اس کے احکام کی عزت کرتے اور اس کی نصرت اور تائید کرتے اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے وہی لوگ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ اب دیکھ لو گورنمنٹیں بھی ہمیشہ اسی قسم کے قوانین بناتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ اختیار جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کو دے دیا ہے جو لوگ اس کی اتباع کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو اطاعت سے انحراف کریں گے وہ ناکام ہوں گے۔
(۵) اسی طرح فرماتا ہے۔


۱۱؎
اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ محمد ﷺ کی حکومت ہو گی کس طرح؟ آیا دُنیوی بادشاہوں کی طرح یا کسی اور رنگ میں؟ فرماتا ہے خدا کا رسول تم میں موجود ہے اگر وہ تمہارے اکثر مشوروں کو قبول کرے تو تم یقینا مصیبت میں پڑ جاؤ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا ہے اور تم اُس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہو اور جانتے ہو کہ ایمان کا تمہارے پاس رہنا تمہارے لئے کس قدر مفید اور بابرکت ہے اور ایمان کا ضیاع تمہارے لئے کس قدر مُہلک ہے وَ اور پھر اس ایمان کو اس نے تمہارے دلوں میں نہایت خوبصورت شکل میں قائم کر دیا ہے اور کُفر، فسق، عِصیان اور خروج عن الاطاعت کو اس نے تمہاری آنکھوں میں مکروہ بنا دیا ہے اس لئے تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمارے رسول کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو تمہارے مشوروں کو قبول کرے اور اگر چاہے تو ردّ کر دے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایات پانے والے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کا طریق حکومت
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے حکومت کا ذکر کیا
ہے اور بتایا ہے کہ آپ کا طریق حکومت یہ نہیں تھا کہ آپ ہر بات میں لوگوں کا مشورہ قبول کرتے اور اس کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ کوئی کہہ سکتاتھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت وہی فیصلہ کیا کرتے تھے جو قوم کا فیصلہ ہوء ا کرتا تھا جیسے پارلیمنٹیں مُلک کے نمائندوں کی آواز کے مطابق فیصلے کرتی ہیں اسی طرح کوئی کہہ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کا فیصلہ ہی لوگوں سے منواتے تھے اپنا قانون ان میں نافذ نہیں کرتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کر دیا اور خود ملک والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر ہمارا رسول تمہاری کثرتِ رائے کے ماتحت دیئے ہوئے اکثر مشوروں کو قبول کر لے تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ گویا رسول کریم ﷺ کی حکومت کا یہ طریق نہیں تھا کہ آپ کثرتِ رائے کے مطابق فیصلہ کرتے بلکہ جب کثرتِ رائے کو مفید سمجھتے تو کثرتِ رائے کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیتے اور جب کثرتِ رائے کو سمجھتے تو اس کے خلاف فیصلہ کرتے۔ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِکے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ رسول کریم ﷺ ہر بات قبول کر لیتے بلکہ آپ کو اختیار تھا کہ جب آپ لوگوںکی رائے میں کسی قسم کا نقص دیکھیں تو اسے رد ّکر دیں اور خود اپنی طرف سے کوئی فیصلہ فرما دیں۔
(۶) پھر فرماتا ہے۔ ۱۲؎ کہ اے محمدﷺ ان کے اموال سے صدقہ لو اور اس کے ذریعہ ان کے دلوں کو پاک کرو۔ ان کی اقتصادی حالت کو درست کرو۔ اور پھر ہمیشہ ان سے نرمی کا معاملہ کرتے رہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں۔ اوّل یہ کہ لوگوں سے زکوٰۃ لو کیونکہ اس کے ذریعہ ان کے دلوں میں غریبوں سے پیار اور حسنِ سلوک کا مادہ پیدا ہو گا۔ دوسرا حکم یہ دیا کہ زکوٰۃ کے روپیہ کو ایسے طور پر خرچ کیا جائے کہ اس سے غربا ء کی حالت درست ہو اور وہ بھی دنیا میں ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکیں۔ تیسرا حکم کے الفاظ میں یہ دیا کہ زکوٰۃ کے لینے میں سختی نہ کی جائے بلکہ ہمیشہ حکم کا نرم پہلو اختیار کیا جائے۔ اسی وجہ سے رسول کریم ﷺ جب محصّلین کو زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجتے تو آپ ہمیشہ یہ تاکید فرمایا کرتے کہ موٹا دُنبہ اور اونٹ چُن کر نہ لینا بلکہ اپنی خوشی سے وہ جن جانوروں کو بطور زکوٰۃ دے دیں انہی کو لے لینا اور یہ خواہش نہ کرنا کہ وہ زیادہ اعلیٰ اور عمدہ جانور پیش کریں۔ گویا شرعاً اور قانوناً جس قدر نرمی جائز ہو سکتی ہے اسی قدر نرمی کرنے کا آپ لوگوں کو حکم دیتے۔
(۷) ساتویں آیت جس میں حکومت سے تعلق رکھنے والے امور کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۳؎
یعنی وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت اس امر کی توفیق نہ پا سکے کہ وہ رسول کریمﷺ کے ساتھ جہاد کے لئے نکلیں اور جنگ میں شامل ہوں، وہ اپنے پیچھے رہنے پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے اس بات کو بُرا سمجھا کہ وہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں۔ اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ سخت گرمی کا موسم ہے ایسے موسم میں جہاد کیلئے نکلنا تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ اب گرمی کا بہانہ بنا کر تو تم پیچھے رہ گئے ہو مگر یاد رکھو جہنم کی آگ کی تپش بہت زیادہ ہو گی۔ کاش وہ اس امر کو جانتے اور سمجھتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صریح لفظوں میں رسول کریمﷺ کو جہاد کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سپاہی بنو اور دشمنوں سے لڑو اور یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو لوگ تیرے حکم کے ماتحت لڑنے کے لئے نہیں نکلیں گے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم قرار پائیں گے۔
(۸) پھر فرماتا ہے۔۱۴؎
کہ وہ لوگ جو اللہ اور رسول سے لڑتے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی جزاء یہ ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا انہیں صلیب دیا جائے یا ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو مقابل پر کاٹ دیا جائے یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔ اور یہ امر ان کے لئے دنیا میں رسوائی کا موجب ہو گا اور آخرت میں عذاب عظیم کا موجب۔
عرب سے کُفّار کے نکالے جانے کا حکم
(۹) اسی طرح سورہ توبہ کی پہلی آیات میں عرب سے کُفّار کے
نکالے جانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

۱۵؎
یعنی اے محمد رسول اللہ ﷺ ان لوگوں میںاعلان کر دو کہ خدا اور رسول نے تمہاری ذلّت کے متعلق جو پیشگوئیاں کی تھیں وہ پوری ہو گئیں۔ اب خدا اور رسول پر تمہارا کوئی الزام نہیں لگ سکتا۔ پس اِن کو کہو کہ اب جاؤ اور سارے عرب میں چار ماہ پھر کر دیکھ لو کہ کہیں بھی تمہاری حکومت رہ گئی ہے۔ یقینا تمہیں معلوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کو شکست نہیں دے سکے۔ اور خدا ہی ہے جس نے تمہیں رُسوا کیا۔ اسی طرح حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کر دو کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں کے تمام اعتراضات سے ہو چکا ہے اور تمہارے جس قدر اعتراضات تھے وہ دُور ہو گئے۔ اگر وہ توبہ کر لیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہو گا اور اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو جان لو کہ اَب بقیہ عرب میں ان کی تھوڑی بہت اگر کچھ حکومت باقی ہے تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی۔ سوائے ان کے جو اُن مشرکوں میں سے تمہارے ساتھ معاہدہ کر لیں۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہوں نے معاہدہ کو کسی صورت میں نہ توڑا ہو اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف دشمنوں کی کسی قسم کی مدد کی ہو۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم معاہدہ کو نبھاؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن ان کے علاوہ اور جس قدر مشرک ہیں ان میںایک اعلان کر دو اور وہ یہ کہ آج سے چار ماہ کے بعد وہ عرب میں سے نکل جائیں اگر وہ نہ نکلیں اور عرب میں ہی ٹھہرے رہیں تو چونکہ انہوں نے گورنمنٹ کا آرڈر نہیں مانا ہو گا اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اس کے بعد تم مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کر دو اور جہاں پاؤ ان کو پکڑ لو اور پکڑ کر قید میں ڈال دو اور ان کی گھات میں تم ہر جگہ بیٹھو۔ ہاں اگر وہ مسلمان ہو جائیں اور نمازیں پڑھیں اور زکوٰتیں دیں تو بے شک انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا غفور اور رحیم ہے۔
اَب دیکھو حکومت کس چیز کا نام ہوتا ہے۔ حکومت اس بات کا نام نہیں کہ میاں، بیوی سے اپنی باتیں منوائے اور بیوی، میاں سے، بلکہ حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے یہ نہیں کہ جو بھی کسی کو حکم دے اسے بادشاہ کہہ دیا جائے۔ انگریزی میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بچے نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابا جان بادشاہ کس کو کہتے ہیں؟ باپ کہنے لگا بادشاہ وہ ہوتا ہے جس کی بات کو کوئی ردّ نہ کر سکے۔بچہ یہ سن کر کہنے لگا کہ ابا جان پھر تو ہماری اماں جان بادشاہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے وہ باپ ’’زَن مرید‘‘ ہو گا۔ تبھی اس کے بچہ نے کہا کہ اگر بادشاہ کی یہی تعریف ہے تو یہ تعریف تو میری والدہ پر صادق آتی ہے۔
حکومت کیلئے ضروری شرائط
غرض حکومت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور جب ہم تسلیم کریں گے کہ فلاں حکومت ہے تو اس میں
چند شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہو گا جن میں سے بعض یہ ہیں:۔
(۱) حکومت کیلئے ملکی حدود کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی جو نظام بھی رائج ہو اس کی ایک حد بندی ہو گی اور کہا جا سکے گا کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک اس کا اثر ہے۔ گویا ملکی حدود حکومت کا ایک جُزوِ لَایَنْفَکَ ہے۔
(۲) حکومت کو افراد کی مالی جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے۔ مثلاً حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قید کر دے، کسی کو اپنے ملک سے باہر نکال دے یا کسی سے جبراً روپیہ وصول کر لے۔ اسی طرح جانی آزادی پر بھی وہ پابندی عائد کر سکتی ہے۔ مثلاً وہ حکم دے سکتی ہے کہ ہر نوجوان فوج میں بھرتی ہو جائے۔ یا اگر کہیں والنٹیئروں کی ضرورت ہو تو وہ ہر ایک کو بُلا سکتی ہے۔
(۳) تیسرے، لوگوں پر ٹیکس لگانے اور ٹیکسوں کے وصول کرنے کا بھی اسے اختیار ہوتا ہے۔
اسی طرح ایسے ہی اختیارات رکھنے والے ممالک سے اسے معاہدات کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اسے باہر سے آنے والوں اور باہر جانے والوں پر پابندیاں لگانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے تجارت اور لین دین کے متعلق قوانین بنانے کا اختیار ہوتا ہے، اسے قضا کا اختیار ہوتا ہے، غرض یہ تمام کام حکومت کے سپرد ہوتے ہیں اور اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ان امور کو سرانجام دے۔ بالخصوص ملکی حدود کا ہونا حکومت کے لئے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اسی کے ماتحت وہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک رہنے والوں پر ہمارے احکام حاوی ہوں گے اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ ان کی اطاعت کریں اس ملکی حد میں چاہے کسی وقت غیرآجائیں ان کے لئے بھی حکومت کے احکام کی اطاعت ضروری ہو گی اور جو اس حد میں سے نکل جائے وہ ایک حد تک ان قوانین کی اطاعت سے بھی باہر ہو جاتا ہے۔ غرض حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا بعض باتوں سے روکنا، افراد کی مالی جانی اور رہائشی آزادی پر ضرورت کے وقت پابندیاں عائد کرنا، ٹیکس وصول کرنا، لوگوں کوفوج میں بھرتی کرنا، معاہدات کرنا اور قضاء کے کام کو سرانجام دینا ہوتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو یہ سب اختیارات دیئے گئے ہیں یا نہیں۔
پہلا امر مُلکی حد بندی تھی۔ سو اس اختیار کا رسول کریم ﷺ کو ملنا ایک واضح امر ہے کیونکہ آپ نے اعلان کر دیا کہ اتنے حصہ میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی آیا تو اسے نکال دیا جائے گا۔ دوسری طرف فرما دیا کہ جو لوگ اس حد کے اندر رہتے ہیں ان کے لئے یہ یہ شرائط ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسروں سے معاہدات کرنے کا بھی اختیار دیا اور پھر شرائط کے ماتحت اس بات کا بھی اختیار دیا کہ آپ اگر مناسب سمجھیں تو معاہدہ کو منسوخ کر دیں اسی طرح آپ کو ٹیکس وصول کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔ آپ کو ضرورت پر لوگوں کی مالی، جانی اور رہائشی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اختیار دیا گیا۔ غرض حکومت کے جس قدر اختیارات ہوتے ہیں وہ تمام رسول کریم ﷺ کواللہ تعالیٰ نے دے دیئے ۔ حکومت کا کام بعض باتوں کا حکم دینا ہوتا ہے رسول کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ یہ حق دیتا ہے۔ حکومت کا کام بعض باتوں سے روکنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو یہ حق بھی دیتا ہے۔ پھر افراد کی مالی، جانی اور رہائشی آزادی کو حکومت ہی خاص حالات میں سَلب کر سکتی ہے۔ چنانچہ اس کا حق بھی اللہ تعالیٰ آپ کو دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان کے مال لے سکتے ہو، ٹیکس وصول کر سکتے ہو، جانیں ان سے طلب کر سکتے ہو اور جنگ پر لے جا سکتے ہو۔ اسی طرح ملک سے لوگوں کو نکالنے کا اختیار بھی آپ کو دیا گیا۔ پھر قضاء حکومت کا کام ہوتا ہے سو یہ حق بھی اسلام آپ کو دیتا ہے اور آپ کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قرار دیتا ہے۔ پھر حکومت کی قسم بھی بتا دی کہ رسول کریم ﷺ اس بات کے پابند نہیں کہ تمہاری سب باتیں مانیں بلکہ تم اس بات کے پابند ہو کہ ان کی سب باتیں مانوکیونکہ اگر یہ تمہاری سب باتیں مانے تو اس کے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔
پس ان آیات سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا تعلق امورِ حکومت کے انصرام سے وقتی ضرورت کے ماتحت نہ تھا بلکہ شریعت کا حصہ تھا اور جس طرح نماز روزہ وغیرہ احکام مذہب کا ہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ کا نظامِ ملکی کا کام اور طریق بھی مذہب اور دین کا حصہ ہے اور دُنیوی یا وقتی ہرگز نہیں کہلا سکتا۔
کیا نظام سے تعلق رکھنے والے احکام صرف رسول کریم ﷺ کی ذات سے مخصوص تھے؟
خلافت کی اس دلیل پر کہ اسلام نے کوئی معیّن نظام پیش
نہیں کیا جو یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس طرح رسول کریم ﷺ کے اعمال کا وہ حصہ جو نظام کے قیام سے تعلق رکھتا ہے مذہبی حیثیت نہیں رکھے گا بلکہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کام محض ضرورتِ زمانہ کے ماتحت آپ کرتے تھے اسے علی بن عبدالرزاق نے بھی محسوس کیا ہے اور چونکہ وہ آدمی ذہین ہے اس لئے اس نے اس مشکل کو بھانپا ہے اور یہ سمجھ کر کہ لوگ اس پر یہ اعتراض کریں گے کہ جب قرآن کریم میں ایسے احکام موجود ہیں جن کا تعلق حکومت کے ساتھ ہے تو تم کس طرح کہتے ہو کہ رسول کریمﷺ نے اِن کاموں کو وقتی ضرورت کے ماتحت کیا اور اسلام نے کوئی مخصوص نظامِ حکومت پیش نہیں کیا اسے اس رنگ میں حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی حکومت حکومتِ رسالت و محبت تھی نہ کہ حکومتِ ملوکیت۔ وہ کہتا ہے بیشک رسول کریم ﷺ نے کئی قسم کے احکام دیئے مگر وہ احکام رسول ہونے کے تھے بحیثیت نظام کے سردار ہونے کے نہیں تھے۔ اور اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ چونکہ وہ احکام نظام کا سردار ہونے کے لحاظ سے نہیں دیئے گئے اس لئے وہ دوسروں کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے اور چونکہ وہ تمام احکام بحیثیت رسول تھے اس لئے آپ کی وفات کے ساتھ ہی وہ احکام بھی ختم ہو گئے۔ پھر وہ ان تمام اختیارات کورسول کریم ﷺ کے ساتھ مخصوص ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ رسول کے ساتھ لوگوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے اور اس محبت کی وجہ سے ہر شخص اُن کی بات کو تسلیم کر لیتا ہے یہی کیفیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھی۔ صحابہؓ کو آپ کے ساتھ عشق تھا اور وہ آپ کے ہر حکم پر اپنی جانیں فدا کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ پس آپ نے جو حکم بھی دیا وہ انہوں نے مان لیا اور وہ ماننے پر مجبور تھے کیونکہ وہ اگر عاشق تھے تو آپ معشوق، اور عاشق اپنے معشوق کی باتوں کو مانا ہی کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ احکام ہمیشہ کیلئے واجب العمل بن گئے بلکہ وہ صرف آپ کے ساتھ مخصوص تھے اور جب آپ وفات پا گئے تو اُن احکام کا دائرہ عمل بھی ختم ہو گیا۔
نبی کے ساتھ اُس کے متبّعین کی غیر معمولی محبت
علی بن عبدالرزاق کی یہ دلیل اِس لحاظ سے تو
درست ہے کہ واقع میں نبی کے ساتھ اُس کے ماننے والوں کو غیر معمولی محبت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہماری جماعت کے ہزاروں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو کچھ کرتے دیکھتے تھے وہی خود بھی کرنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کسی نے بطور اعتراض کہا کہ آپ کی جماعت کے بعض لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہیںاور یہ کوئی پسندیدہ طریق نہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جب اِن کے دلوں میں محبتِ کامل پیدا ہو جائے گی اور وہ دیکھیں گے کہ مَیں نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے تو وہ خود بھی ڈاڑھی رکھنے لگ جائیں گے اور کسی وعظ و نصیحت کی انہیں ضرورت نہیں رہے گی۔
پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی اور اس کے ماننے والوں کے درمیان محبت کا ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جس کی نظیر اور کسی دُنیوی رشتہ میں نظر نہیں آ سکتی بلکہ بعض دفعہ محبت کے جوش میں انسان بظاہر معقولیت کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی عادت تھی کہ جب وہ حج کیلئے جاتے تو ایک مقام پر پیشاب کرنے کیلئے بیٹھ جاتے اور چونکہ وہ بار بار اُسی مقام پر بیٹھتے اس لئے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کو اِسی مقام پر پیشاب آتا ہے اِدھر اُدھر کسی اور جگہ نہیں آتا؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پیشاب کرنے کیلئے بیٹھے تھے اس وجہ سے جب بھی میں یہاں سے گزرتا ہوں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ جاتے ہیں اور میں اُس جگہ تھوڑی دیر کیلئے ضرور بیٹھ جاتاہوں۔ ۱۶؎
تو محبت کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایسی نقلیں بھی کر لیتا ہے جو بظاہر غیر معقول نظر آتی ہیں۔ پس یہ جو اُس نے کہا کہ چونکہ صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اس لئے وہ آپ کی اطاعت کرتے تھے اِسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مگر یہاں یہ سوال نہیں کہ وہ لوگ آپ کی محبت سے اطاعت کرتے تھے یا دبائو سے بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اقتدار ملک اور جان پر دیا تھا یا نہیں۔ اِسی طرح نہ ماننے والوں پر آپ کو کوئی اختیار دیا تھا یا نہیں۔ اگر قرآن میں صرف احکام بیان ہوتے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کسی قسم کی سزا کا ذکر نہ ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دیئے اور صحابہؓ نے اُس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا ان احکام کو قبول کر لیا۔ مگر ہم تو دیکھتے ہیںکہ قرآن میں سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر فلاں جُرم کرو گے تو تمہیں یہ سزا ملے گی اور فلاں جُرم کرو گے تو یہ سزا ملے گی اور جب کہ قرآن نے سزائیں بھی مقرر کی ہیں تو معلوم ہوء ا کہ محبت کا اصول کُلّیۃً درست نہیں کیونکہ جہاں احکام کی اطاعت محض محبت سے وابستہ ہو وہاں سزائیں مقرر نہیں کی جاتیں۔ پھر اسلام نے صرف چند احکام نہیں دیئے بلکہ نظامِ حکومت کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ گو بعض جگہ اس نے تفصیلات کو بیان نہیں بھی کیا اور اس میں لوگوں کیلئے اُس نے اجتہاد کے دروازہ کو کُھلا رکھا ہے تا کہ اُن کی عقلی اور فکری استعدادوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ بعض امور میںحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے اصل اسلامی مسئلہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور بعض امور میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے حالاتِ پیش آمدہ کے مطابق لوگوں کی رہبری کی بلکہ بعض امور ایسے ہیں جن کے متعلق آج تک غور و فکر سے کام لیا جا رہا ہے۔
خیارِ بلوغ کا مسئلہ
مثلاً باپ اگر بیٹی کا بلوغت سے پہلے نکاح کر دے تو بالغ ہونے پر اسے فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہے جو
عام طور پر پیدا ہوتا رہتا ہے۔ فقہ کی پُرانی کتابوں میں یہی ذکر ہے کہ باپ اگر بیٹی کا نکاح کر دے تو اُسے خیارِ بلوغ حاصل نہیں ہوتا مگر مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لڑکی کو خیارِ بلوغ حاصل ہے اور اسے اس بات کا حق ہے کہ اگر وہ بالغ ہونے پر اس رشتہ کو پسند نہ کرے تو اسے ردّ کر دے۔ اسی طرح اور بہت سے فقہی مسائل ہیں جو اسلامی تعلیم کے ماتحت آہستہ آہستہ نکلتے آتے ہیں اور بہت سے آئندہ زمانوں میں نکلیں گے۔ پس ہمیں تفصیلات سے غرض نہیں اورنہ اس وقت یہ سوال پیش ہے کہ اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی خاص رنگ کی حکومت دی تھی یا نہیںکیونکہ نظامِ حکومت علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ انگلستان کا امریکہ سے امریکہ کا روس سے اور روس کا جرمنی سے نظامِ حکومت مختلف ہے مگر اس اختلاف کی وجہ سے یہ تونہیں کہ ایک کو ہم حکومت کہیں اور دوسرے کو ہم حکومت نہ کہیں۔ حکومت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی خاص نظام مقرر کیا جائے اور لوگوں کی باگ ڈور ایک آدمی یا ایک جماعت کے سپرد کر کے ملکی حدود کے اندر اس کو قائم کیا جائے۔ پس دیکھنا یہ ہے کہ کسی نظام کا خواہ وہ دوسرے نظاموں سے کیسا ہی مخالف کیوں نہ ہو اسلام حکم دیتا ہے یا نہیں اور اُس نظام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلاتے تھے یا نہیں۔
اسلام ملکی اور قانونی نظام کا قائل ہے
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ملوکیت کا قائل نہیں کیونکہ ملوکیت ایک خاص معنی
رکھتی ہے اور اُن معنوں کی حکومت کا اسلام مخالف ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق بھی فرمایا کہ مَیں بادشاہ نہیں اور خلفاء کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملوک کا لفظ استعمال نہیں فرمایا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام مذہبی طور پر کسی بھی ملکی نظام کا قائل نہیں۔ اگر کوئی نظام قرآن اور اسلام سے ثابت ہو تو ہم کہیں گے کہ اسلام ملوکیت کا بے شک مخالف ہے مگر ایک خاص قسم کے نظام کو اس کی جگہ قائم کرتا ہے اور وہ اسلام کا مذہبی حصہ ہے اور چونکہ وہ مذہبی حصہ ہے اُس کا قیام مسلمانوں کیلئے ضروری ہے جہاں تک اُن کی طاقت ہو۔ حکومت در حقیقت نام ہے ملکی حدود اور اس میں خاص اختیارات کے اجراء کا۔ کسی خاص طرز کا نام نہیں اور ملکی حدود اور خاص اختیارات کا نفاذ قرآن کریم سے ثابت ہے۔جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے جن کو مَیں ابھی پیش کر چکا ہوں۔ پس جب کہ ایک ملکی حد اور اس حد میں ایک خاص قانون اور ایک اصلی باشندے ملک کے اور ایک معاہد اور ایک غیر ملکی کا وجود پایا جاتا ہے تو ایک خاص نظامِ حکومت بھی ثابت ہے اس کا نام ہم بھی ملوکیت نہیں رکھتے کیونکہ ایسے معنوں کی حامل ہے جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن بہرحال ایک ملکی اور قانونی نظام ثابت ہے اور اسی کے وجود کو ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اسی نظام کے قیام کیلئے ہم خلافت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پس خلافت ایک اسلامی نظام ہے نہ کہ وقتی مصلحت کا نتیجہ۔
مَیں اس امر کو مانتا ہوں کہ خلافت کے انکار سے منطقی نظریہ وہی قائم ہوتا ہے جو علی بن عبدالرزاق نے قائم کیا ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں ردّ کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ اِس نظریہ کو تسلیم کئے بغیر خلافت کا انکار کرتے ہیں وہ یا تو بیوقوف ہیں یا لوگوں کی آنکھوں میں خاک جھونکنا چاہتے ہیں۔ اب جب کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہو گیا کہ اسلام امورِ ملکی اور نظامِ قومی کو مذہب کا حصہ قرار دیتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِن امور میں حصہ لینا اسے مذہب کا جزو قرار دیتا ہے تو اِن امور میں آپ کی ہدایت اور راہنمائی اُسی طرح سنت اور قابلِ نمونہ ہوئی جس طرح کہ نماز روزہ وغیرہ احکام میں اور اِن امور میں کسی آزادی کا مطالبہ اُسی وقت تسلیم ہو سکتا ہے جب کہ انسان اسلام سے بھی آزادی کا مطالبہ کرے اور جب یہ ثابت ہو گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح نظامِ قومی یا نظامِ ملکی کے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے کیونکہ جس طرح فرد کی باطنی ترقی کیلئے نماز روزہ کی ضرورت باقی ہے اِسی طرح قوم کی ترقی کیلئے ان دوسری قسم کے احکام کے نفاذ اور انتظام کی بھی ضرورت ہے۔ اور جس طرح نماز باجماعت جو ایک اجتماعی عبادت ہے آپ کے بعد آپ کے نواب کے ذریعے ادا ہوتی رہنی چاہئے اسی طرح وہ دوسرے احکام بھی آپ کے نواب کے ذریعے سے پورے ہوتے رہنے چاہئیں۔ اور جس طرح نماز روزہ کے متعلق خداتعالیٰ نے جو احکام دیئے اُن کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں تو تم بے شک نہ نمازیں پڑھو اور نہ روزے رکھو اسی طرح نظام کے متعلق اسلام نے جو احکام دیئے اُن سے یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ بعد میں قابلِ عمل نہیں رہیں گے۔ بلکہ جس طرح نماز میں ایک کے بعد دوسرا امام مقرر ہوتا چلا جاتا ہے اِسی طرح نظام سے تعلق رکھنے والے احکام پر بھی آپ کے نائبین کے ذریعہ ہمیشہ عمل ہوتے رہنا چاہئے۔
قبائل عرب کی بغاوت کی وجہ
مَیں سمجھتا ہوں اِسی دھوکا کی وجہ سے کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام رسول کریم ﷺ کی
ذات سے مختص تھے آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے بغاوت کر دی اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺکے سِوا کسی اور کو زکوٰۃ لینے کا اختیار ہی نہیں دیا۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے اموال کا کچھ حصہ بطور زکوٰۃ لے۔ یہ کہیں ذکر نہیں کہ کسی اور کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ لینے کا اختیار ہے۔ مگر مسلمانوں نے ان کی اس دلیل کو تسلیم نہ کیا حالانکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ بہرحال جو لوگ اس وقت مرتد ہوئے ان کی بڑی دلیل یہی تھی کہ زکوٰۃ لینے کا صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار حاصل تھا کسی اور کو نہیں۔ اور اس کی وجہ یہی دھوکا تھا کہ نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہمیشہ کے لئے قابلِ عمل نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ احکام مخصوص تھے۔ مگر جیسا کہ مَیں ثابت کر چکا ہوں یہ خیال بالکل غلط ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ جس طرح نماز روزہ کے احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک ختم نہیں ہو گئے اسی طرح قومی یا ملکی نظام سے تعلق رکھنے والے احکام بھی آپ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے اور نماز باجماعت کی طرح جو ایک اجتماعی عبادت ہے اِن احکام کے متعلق بھی ضروری ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں آپ کے نائبین کے ذریعہ اِن پر عمل ہوتا رہے۔
مسئلہ خلافت کی تفصیلات
اس اصولی بحث کے بعد مَیں خلافت کے مسئلہ کی تفصیلات کی طرف آتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کو
خدا تعالیٰ سے شدید اتصال ہوتا ہے ایسا شدید اتصال کہ بعض لوگ اسی وجہ سے دھوکا کھا کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید وہ خدا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کو اِسی قسم کی ٹھوکر لگی لیکن جنہیں یہ ٹھوکر نہیں لگتی اور وہ نبی کو بشر ہی سمجھتے ہیں وہ بھی اس شدید اتصال کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے کہ اُس کے وجود میں اس کے اَتباع خدائی نشانات دیکھتے رہتے ہیں اس کے زمانہ میں یہ خیال تک نہیں کرتے کہ وہ فوت ہو جائے گا۔ یہ نہیں کہ وہ نبی کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ شدتِ محبت کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور نبی کو اللہ تعالیٰ ابھی بہت زیادہ عمر دے گا۔ چنانچہ آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے متعلق اس کی زندگی میں اس کے متّبعین نے یہ سمجھا ہو کہ وہ فوت ہو جائے گا اور ہم زندہ رہیں گے بلکہ ہر شخص (سِوائے حدیث العہد اور قلیل الایمان لوگوں کے) یہ خیال کرتا ہے کہ نبی تو زندہ رہے گا اور وہ فوت ہو جائیں گے اور اس وجہ سے وہ ان اُمور پر کبھی بحث ہی نہیں کرتے جو اس کے بعد اُمت کو پیش آنے والے ہوتے ہیں اور زمانوں میں تو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اگر فلاں فوت ہو گیا تو کیا بنے گا۔ مگر نبی کے زمانہ میں انہیں اس قسم کا خیال تک نہیں آتا اور اس کی وجہ جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں شدتِ محبت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا ہمیں ذاتی تجربہ بھی ہے۔
ایک ذاتی تجربہ
ہم میں سے کوئی احمدی سوائے اس کے کہ جس کے دل میں خرابی پیدا ہو چکی ہو یا جس کے ایمان میں کوئی نقص واقع ہو چکا ہو ایسا نہیں تھا
جس کے دل میں کبھی بھی یہ خیال آیا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو جائیں گے اور ہم آپ کے پیچھے زندہ رہ جائیں گے۔ چھوٹے کیا اور بڑے کیا، بچے کیا اور بوڑھے کیا، مرد کیا اور عورتیں کیا سب یہی سمجھتے تھے کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور حضرت صاحب زندہ رہیں گے۔ غرض کچھ شدتِ محبت کی وجہ سے اور کچھ اس تعلق کی عظمت کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کتنی لمبی عمر دے گا۔ چاہے کوئی شخص یہ خیال نہ کرتا ہو کہ یہ نبی ہمیشہ زندہ رہے گا مگر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ہم پہلے فوت ہونگے اور خدا تعالیٰ کا نبی دنیا میں زندہ رہے گا۔ چنانچہ بسا اوقات اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس سال کے نوجوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نہایت لجاجت سے عرض کرتے کہ حضور ہمارا جنازہ خود پڑھائیں اور ہمیں تعجب آتا کہ یہ تو ابھی نوجوان ہیں اور حضرت صاحب ستّر برس سے اوپر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس کے علاوہ آپ بیمار بھی رہتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جنازہ آپ پڑھائیں۔ گویا انہیں یقین ہے کہ حضرت صاحب زندہ رہیں گے اور وہ آپ کے سامنے فوت ہونگے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب وفات پا گئے تو دس پندرہ دن تک سینکڑوں آدمیوں کے دلوں میں کئی دفعہ یہ خیال آتا کہ آپ ابھی فوت نہیں ہوئے۔ میرا اپنا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کے تیسرے دن مَیں ایک دوست کے ساتھ باہر سیر کیلئے گیا اور دارالانوار کی طرف نکل گیا۔ ان دنوں ایک اعتراض کے متعلق بڑا چرچا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ بہت ہی اہم ہے۔ راستہ میں مَیں نے اس اعتراض پر غور کرنا شروع کر دیا اور خاموشی سے سوچتا چلا گیا۔ مجھے یکدم اس اعتراض کا ایک نہایت ہی لطیف جواب سُوجھ گیا اور مَیں نے زور سے کہا کہ مجھے اس اعتراض کا جواب مل گیا ہے۔ اب میں گھر چل کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کروں گا اور آپ کو بتائوں گا کہ آپ کی وفات پر جو فلاں اعتراض دشمنوں نے کیا ہے اس کا یہ جواب ہے حالانکہ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو وفات پائے تین دن گزر چکے تھے۔ تو وہ لوگ جنہوں نے اس عشق کا مزا چکھا ہوء ا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں وہ کیا خیال کرتے تھے اور آپ کی وفات پر اُن کی کیا قلبی کیفیات تھیں۔ یہی حال صحابہؓ کا تھا۔ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اُس کی مثال تاریخ کے صفحات میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اس عشق کی وجہ سے صحابہؓ کیلئے یہ تسلیم کرنا سخت مشکل تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیںگے۔ یہ نہیں کہ وہ آپ کو خدا سمجھتے تھے، وہ سمجھتے تو آپ کو انسان ہی تھے مگر شدتِ محبت کی وجہ سے خیال کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپ کی وفات پر جو واقعہ ہوء ا وہ اس حقیقت کی ایک نہایت واضح دلیل ہے۔
رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کی کیفیت
حدیثوں اور تاریخوں میں آتا ہے کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جب لوگوں میں مشہور ہوئی تو حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ افواہ محض منافقوں کی شرارت ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور وہ فوت نہیں ہوئے۔ آپ آسمان پر خدا سے کوئی حکم لینے کیلئے گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں واپس آ جائیں گے اور منافقوں کو سزا دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات پر اتنا اصرار کیا کہ انہوں نے کہا اگر کسی نے میرے سامنے یہ کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن اُڑا دوں گا اور یہ کہہ کر ایک جوش اور غضب کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لٹکائے مسجد میں ٹہلنے لگ گئے۔۱۷؎ لوگوں کو ان کو یہ بات اتنی بھلی معلوم ہوئی کہ ان میں سے کسی نے اس بات کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی حالانکہ قرآن میں رسول کریم ﷺ کی نسبت یہ صاف طور پر لکھا ہوئا تھا کہ ۱۸؎ اگر محمدرسول اللہ ﷺ فوت ہو جائیں یا خداتعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بَل پھر جاؤ گے؟ مگر باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں ایسی صریح موجود تھی جس سے رسول کریم ﷺ کا وفات پانا ثابت ہو سکتا تھا پھر بھی انہیں ایسی ٹھوکر لگی کہ ان میں سے بعض نے رسول کریم ﷺ کی وفات پر یہ خیال کر لیا کہ آپ فوت نہیں ہوئے یہ منافقوں نے جھوٹی افواہ اُڑا دی ہے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ محبت کی شدّت سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کبھی ایسا ممکن ہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو جائیں اور وہ زندہ رہیں۔ بعض صحابہؓ جو طبیعت کے ٹھنڈے تھے انہوں نے جب یہ حال دیکھا تو انہیں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو لوگوں کو کوئی ابتلاء آ جائے چنانچہ وہ جلدی جلدی سے گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو بلا لائے۔ جب وہ مسجد میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہر شخص جوش اور خوشی کی حالت میں نعرے لگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے منافق جھوٹ بولتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں۔ گویا ایک قسم کے جنون کی حالت تھی جو ان پر طاری تھی۔ جیسے میں نے کہہ دیا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے جو فلاں اعتراض کیا ہے اس کا یہ جواب ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں رسول کریم ﷺ کا جسد مبارک پڑا ہوء ا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپؐ فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سنتے ہی کپڑا اُٹھایا اور آپ کی پیشانی پر انہوں نے بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک تو آپ وفات پا جائیں اور دوسری طرف قوم پر موت وارد ہو جائے اور وہ صحیح اعتقادات سے منحرف ہو جائے۔ پھر آپ باہر تشریف لائے اور منبر پر کھڑے ہو کر آپ نے ایک وعظ کیا جس میں بتایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ۱۹؎ اس کے بعدآپ نے بڑے زور سے کہا کہ اے لوگو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک اللہ کے رسول تھے مگر اب وہ فوت ہو چکے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ آپؐ وفات پا چکے ہیں لیکن اگر تم خدا کی عبادت کیا کرتے تھے تو تم سمجھ لو کہ تمہارا خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی۔ حضرت عمرؓ جو اس وقت تلوار کی ٹیک کے ساتھ کھڑے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ ابھی یہ منبر سے اُتریں تو مَیں تلوار سے ان کی گردن اُڑا دوں۔ انہوں نے جس وقت یہ آیت سُنی مَعًا ان کی آنکھوں کے سامنے سے ایک پردہ اُٹھ گیا۔ ان کے گھٹنے کانپنے لگ گئے۔ ان کے ہاتھ لرزنے لگ گئے اور ان کے جسم پر ایک کپکپی طاری ہو گئی اور وہ ضُعف سے نڈھال ہو کر زمین پر گِر گئے۔ باقی صحابہؓ بھی کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر پہلے پردے پڑے ہوئے تھے مگر جب ہم نے حضرت ابوبکرؓ سے یہ آیت سنی تو وہ تمام پردے اُٹھ گئے۔ دنیا ان کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی اور مدینہ کی تمام گلیوں میں صحابہؓ روتے پھرتے تھے اور ہر ایک کی زبان پر یہ آیت تھی کہ ۲۰؎
حضرت حسانؓ کا یہ شعر بھی اسی کیفیت پر دلالت کرتا ہے کہ
کُنْتَ السَّوادَ لِنَا ظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَا ئَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۲۱؎
کہ اے خدا کے رسول! تو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ اب تیرے وفات پا جانے کی وجہ سے میری آنکھ اندھی ہو گئی ہے۔ صرف ہی ایک ایسا وجود تھا جس کے متعلق مجھے موت کا خوف تھا۔ اب تیری وفات کے بعد خواہ کوئی مرے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی۔
نبی کی زندگی میں اسکی جانشینی کے مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں ہو سکتی
پس جب نبی کی زندگی میں قوم کے دل اور دماغ کی یہ کیفیت ہوتی ہے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ خدا بھی اور نبی بھی ان کو اس ایذاء
سے بچاتے ہیں اور اس نازک مضمون کو کہ نبی کی وفات کے بعد کیا ہو گا لطیف پیرایہ میں بیان کرتے ہیں اور قوم بھی اس مضمون کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتی اور نہ اِن امور میں زیادہ دخل دیتی ہے کہ نبی کے بعد کیا ہو گا۔ چنانچہ یہ کہیں سے ثابت نہیں کہ کسی نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا ہو کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا؟ آیا آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ہو گا یا کوئی پارلیمنٹ اور مجلس بنے گی جو مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے امور کا فیصلہ کرے گی کیونکہ ایسے امور پر وہی بحث کر سکتا ہے جو سنگدل ہو اور جو نبی کی محبت اور اس کی عظمت سے بالکل بیگانہ ہو۔ باقی کئی مسائل کے متعلق تو ہمیں احادیث میں نظر آتا ہے کہ صحابہؓ ان کے بارہ میں آپ سے دریافت کرتے رہتے تھے اور کُرید کُرید کر وہ آپ سے معلومات حاصل کرتے تھے مگر جانشینی کا مسئلہ ایسا تھا جو صحابہؓ آپ سے دریافت نہیں کر سکتے تھے اور نہ اس کو دریافت کرنے کا خیال تک ان کے دل میں آ سکتا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ زندہ رہیں گے اور ہم وفات پا جائیں گے۔ پس یہ مسئلہ ایک رنگ میں اور ایک حد تک پردۂ اخفاء میں رہتا ہے اور اس کے کُھلنے کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جبکہ نبی فوت ہو جاتا ہے۔
یہی حالات تھے جبکہ نبی کریم ﷺ فوت ہوئے آپؐ کی وفات صحابہؓ کے لئے ایک زلزلہ عظیمہ تھی۔ چنانچہ آپ کی وفات پر پہلی دفعہ انہیں یہ خیال پیدا ہوء ا کہ نبی بھی ہم سے جدا ہو سکتا ہے اور پہلی دفعہ یہ بات ان کے دماغ پر اپنی حقیقی اہمیت کے ساتھ نازل ہوئی کہ اس کے بعد انہیں کسی نظام کی ضرورت ہے جو نبی کی سنت اور خواہشات کے مطابق ہو اور اس کی پر انہوں نے غور کرنا شروع کیا۔ بیشک اس نظام کی تفصیلات قرآن کریم میں موجود تھیں مگر چونکہ وہ پہلے ہوئی تھیں اور ان کو کبھی کُریدا نہیں گیا تھا اس لئے لوگ ان آیات کو پڑھتے اور ان کے کوئی اور معنے کر لیتے۔ وہ خاص معنے نہیں کرتے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اس کے متّبعین کو کیا کرنا چاہئے۔
ہر نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی
درحقیقت اس جذبۂ محبت کی تہہ میں بھی ایک الٰہی حکمت کام کر رہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں۔ ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالیٰ اِن دونوں
زندگیوں کو الہام سے شروع کرتاہے۔ نبی کی شخصی زندگی تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ تیس یا چالیس سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے الہامات اس پر نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور اسے کہا جاتا ہے کہ تو ماء مور ہے اور تجھے لوگوں کی اصلاح اور ان کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ ان الہامات کے نتیجہ میں وہ اپنے اوپر خداتعالیٰ کے غیر معمولی فضل نازل ہوتے دیکھتا ہے اور وہ اپنے اندر نئی قوت، نئی زندگی اور نئی بزرگی محسوس کرتا ہے۔ اور نبی کی قومی زندگی الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پاتا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خداتعالی کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔
قدرتِ اُولیٰ نبی کی شخصی زندگی ہوتی ہے اور قدرتِ ثانیہ قومی زندگی
غرض جس طرح نبی کی شخصی زندگی کو اللہ تعالیٰ الہام سے شروع کرتا ہے اسی طرح وہ اس کی قومی زندگی کو جو اس کی
وفات کے بعد شروع ہوتی ہے الہام سے شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ دونوں میں مشابہت قائم رہے اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا نام قدرتِ ثانیہ رکھا ہے۔ گویا قدرتِ اُولیٰ تو نبی کی شخصی زندگی ہے اور قدرتِ ثانیہ نبی کی قومی زندگی ہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ اس قومی زندگی کو ایک الہام سے اور اپنی قدرت سے شروع کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کی کو نبی کے زمانہ میں قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھتا ہے۔پھر جب نبی فوت ہو جاتا ہے تو خداتعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ انجیل میں بھی اسی قسم کی مثال پائی جاتی ہے جہاں ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کی وفات کے بعد حواری ایک جگہ جمع ہوئے تو ان پر روح القدس نازل ہوء ا اور وہ کئی قسم کی بولیاں بولنے لگ گئے اور گو انجیل نویسوں نے اس واقعہ کو نہایت مضحکہ خیز صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے مگر اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد حواریوں میں یکدم کوئی ایسا تغیر پیدا ہوء ا جس کی طرف پہلے ان کی توجہ نہیں تھی اور وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اس تغیر کو روح القدس کی طرف منسوب کریں۔ غرض اللہ تعالیٰ نبی کی اس نئی زندگی کو بھی اس کی شخصی زندگی کی طرح اپنے الہام اور قدرت نمائی سے شروع کرتا ہے اور اسی وجہ سے نبی کے زمانہ میں اس کی جزئیات قوم کی نظروں سے پوشیدہ رکھی جاتی ہیں۔
قضیۂ قرطاس پر ایک نظر
یہاں مَیں ایک بات بطور لطیفہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ شیعوں اور سُنیوں میں بہت مدت سے ایک نزاع چلا
آتا ہے جسے قضیۂ قرطاس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قضیۂ قرطاس کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کو مرض الموت میں جب تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بات لکھوا دوں جس کے نتیجہ میں تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر شیعہ کہتے ہیں کہ دراصل رسول کریم ﷺ یہ لکھوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد علیؓ خلیفہ ہوں اور انہیں کو امام تسلیم کیا جائے لیکن حضرت عمرؓ نے آپؐ کو کچھ لکھوانے نہ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ جانے دو، رسول کریم ﷺ کو اس وقت تکلیف زیادہ ہے اور یہ مناسب نہیں کہ آپ کی تکلیف کو اور زیادہ بڑھایا جائے ہمارے لئے ہدایت کے لئے قرآن کافی ہے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چالاکی عمرؓ کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کوئی وصیت کر جائیں تاکہ بعد میں حضرت علیؓ کو محروم کر کے وہ خود حکومت کو سنبھال لیں۔ اگر وہ رسول کریم ﷺ کو وصیت لکھوانے دیتے تو آپ ضرور حضرت علی ؓ کے حق میں وصیت کر جاتے۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں مگر میں اس وقت صرف دو جواب دینا چاہتا ہوں۔
اوّل یہ کہ رسول کریم ﷺ اگر حضرت علیؓکے حق میں ہی خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمرؓ کے انکار پر آپ نے دوبارہ یہ کیوں نہ فرمایا کہ قلم دوات ضرور لاؤ۔ میں تمہیں ایک اہم وصیت لکھوانا چاہتا ہوں۔ آخر آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ عمرؓ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) علیؓ کا دشمن ہے اور اس وجہ سے عمرؓ کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح علیؓ کو کوئی فائدہ نہ پہنچ جائے۔ ایسی صورت میں یقینا رسول کریم ﷺ حضرت عمرؓ سے فرماتے کہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے بے شک تکلیف ہے مگر میں اس تکلیف کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ تم جلدی قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں کچھ لکھوا دوں۔ مگر رسول کریم ﷺنے دوبارہ قلم دوات لانے کی ہدایت نہیں دی بلکہ حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ ہماری ہدایت کے لئے خدا کی کتاب کافی ہے تو رسول کریم ﷺ خاموش ہو گئے۔۲۲؎ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ درحقیقت وہی کچھ لکھوانا چاہتے تھے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا تھا اور چونکہ رسول کریم ﷺ کے سامنے انہوں نے ایک رنگ میں خدا کی کتاب پر ہمیشہ عمل کرنے کا عہد کر لیا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اس بات کی ضرورت نہ سمجھی کہ آپ کوئی علیحدہ وصیت لکھوانے پر اصرار کریں۔ پس اس واقعہ سے حضرت عمرؓ پر نہ صرف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ آپ کے خیال اور رسول کریم ﷺ کے خیال کا توارد ظاہر ہوتا ہے۔
دوسرا جواب جو درحقیت شیعوں کے اس قسم کے بے بنیاد خیالات کو ردّ کرنے کے لئے ایک زبردست تاریخی ثبوت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر وصیت وہی شخص لکھوا سکتا ہے جسے یہ یقین ہو کہ اَب موت سر پر کھڑی ہے اور اگر ا س وقت وصیت نہ لکھوائی گئی تو پھر وصیت لکھوانے کا کوئی موقع نہیں رہے گا لیکن جسے یہ خیال ہو کہ مریض کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کر دے گا اور جس مرض میں وہ مبتلاء ہے وہ مرض الموت نہیں بلکہ ایک معمولی مرض ہے تو وہ وصیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس غرض کے لئے اسے تکلیف دینا بالکل بے فائدہ ہے۔ اب اس اصل کے ماتحت جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کو پیش آئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حکومت سنبھالنے کا خیال تو الگ رہا یہ بھی خیال نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ فوت ہونے والے ہیں۔ چنانچہ جب رسول کریم ﷺ نے وفات پائی تو اس اچانک صدمہ نے جو ان کی توقع اور امید کے بالکل خلاف تھا حضرت عمرؓ کو دیوانہ سا بنا دیا اور انہیں کسی طرح یہ یقین بھی نہیں آتا تھا کہ رسول کریم ﷺ وفات پا گئے ہیں۔ وہ جنہیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ یقین نہیں آتا تھا کہ آپ وفات پا گئے ہیں اور جن کے دل میں آپ کی محبت کا احساس اس قدر شدت سے تھا کہ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اُڑا دوں گا ان کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ رسول کریم ﷺ اَب فوت ہونے والے ہیں آپؐ حضرت علیؓ کے حق میں کوئی بات نہ لکھوا دیں آپؐ کو کچھ لکھنے سے روک دیا ہو۔ بلکہ اگر ہم غور کریں تو شیعوں کی اِن روایات سے حضرت علیؓ پر اعتراض آتا ہے کہ آپ آنحضرت ﷺ کی وفات کی توقع کر رہے تھے جبکہ حضرت عمرؓ شدتِ محبت کی وجہ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ معمولی بیماری کی تکلیف ہے آپ اچھے ہو جائیں گے اور ابھی وفات نہیں پا سکتے۔ پس اس سے حضرت علیؓ پر تو اعتراض وارد ہوتا ہے مگر حضرت عمرؓ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ امر ان کی نیکی،تقوٰی اور فضیلت کو ثابت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نبی کی قومی زندگی کی بھی الہام سے ابتداء کرتا ہے
غرض میں یہ مضمون بیان کر رہا تھا کہ نبی کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعہ نبی کی قومی زندگی کی ابتداء کرتا ہے اسی لئے
نبی کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت اور اس کی تفصیلات کو اللہ تعالیٰ نبی کی زندگی میں پردۂ اخفاء میں رکھتا ہے ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ فوت ہوئے۔ جب آپؐ وفات پا گئے تو پہلے تو بعض صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے مگر جب انہیں پتہ لگا کہ آپ واقعہ میں فوت ہو چکے ہیں تو وہ حیران ہوئے کہ اب وہ کیا کریں اور وہ کون سا طریق عمل میں لائیں جو رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے مشن کی تکمیل کے لئے ضروری ہو۔ اسی پریشانی اور اضطراب کی حالت میں وہ اِدھر اُدھر پھرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوء ا کہ تھوڑی ہی دیر کے اندر اُن میں دو گروہ ہو گئے جو بعد میں تین گروہوں کی صورت میں منتقل ہو گئے۔
رسول کریم ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کے تین گروہ
ایک گروہ نے یہ خیال کیا کہ
رسول کریم ﷺ کے بعد ایک ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جو نظامِ اسلامی کو قائم کرے مگر چونکہ نبی کے منشاء کو اس کے اہل و عیال ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لئے نبی کریم ﷺ کے اہل میں سے ہی کوئی شخص مقرر ہونا چاہئے کسی اَور خاندان میں سے کوئی شخص نہیں ہونا چاہئے۔ اس گروہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر کسی اور خاندان میں سے کوئی شخص خلیفہ مقرر ہو گیا تو لوگ اس کی باتیں مانیں گے نہیں اور اس طرح نظام میں خلل واقع ہو گا لیکن اگر آپ کے خاندان میں سے ہی کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو چونکہ لوگوں کو اس خاندان کی اطاعت کی عادت ہے اس لئے وہ خوشی سے اس کی اطاعت کو قبول کر لیں گے۔ جیسے ایک بادشاہ جس کی بات ماننے کے لوگ عادی ہو چکے ہوتے ہیںجب وفات پا جاتا ہے اور اُس کا بیٹا اُس کا جانشین بنتا ہے تو وہ اُس کی اطاعت بھی شوق سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگردوسرے فریق نے سوچا کہ اس کے لئے رسول کریم ﷺ کے اہل میں سے ہونے کی شرط ضروری نہیں مقصد تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ایک جانشین ہو پس جو بھی سب سے زیادہ اس کا اہل ہو اس کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے۔
اس دوسرے گروہ کے پھر آگے دو حصے ہو گئے اور گو وہ دونوں اس بات میں متحد تھے کہ رسول کریم ﷺ کا کوئی جانشین ہونا چاہئے مگر ان میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ رسول کریمﷺ کا یہ جانشین کِن لوگوں میں سے ہو۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ جو لوگ سب سے زیادہ عرصہ تک آپ کے زیر تعلیم رہے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں یعنی مہاجر اور ان میں سے بھی قریش جن کی بات ماننے کیلئے عرب تیار ہو سکتے ہیں اور بعض نے یہ خیال کیا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی وفات مدینہ میں ہوئی ہے اور مدینہ میں انصار کا زور ہے اس لئے وہی اس کام کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں۔
انصار اور مہاجرین میں اختلاف
غرض اب انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہو گیا۔ انصار کا یہ خیال تھا کہ چونکہ
رسول کریم ﷺ نے اصل زندگی جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ہمارے اندر گذاری ہے اور مکہ میں کوئی نظام نہیں تھا اس لئے نظامِ حکومت ہم ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور خلافت کے متعلق ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا حق نہیں۔ دوسری دلیل وہ یہ بھی دیتے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے اور طبعاً ہماری بات کا ہی لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے، مہاجرین کا اثر نہیں ہو سکتا پس رسول کریمﷺ کا جانشین ہم میں سے ہونا چاہئے مہاجرین میں سے نہیں۔ اس کے مقابلہ میں مہاجرین یہ کہتے کہ رسول کریم ﷺ کی جتنی لمبی صحبت ہم نے اُٹھائی ہے اتنی لمبی صحبت انصار نے نہیں اُٹھائی اس لئے دین کو سمجھنے کی جو قابلیت ہمارے اندر ہے وہ انصار کے اندر نہیں۔ اس اختلاف پر ابھی دوسرے لوگ غور ہی کر رہے تھے اور وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ اِس آخری گروہ نے جو انصار کے حق میں تھا بنی ساعدہ کے ایک برآمدہ میں جمع ہو کر اس بارہ میں مشورہ شروع کر دیا اور سعد بن عبادہ جو خزرج کے سردار تھے اور نقباء میں سے تھے ان کے بارہ میں طبائع کا اِس طرف رُجحان ہو گیا کہ انہیں خلیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انصار نے آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے کہ ملک ہمارا ہے، زمینیں ہماری ہیں، جائدادیں ہماری ہیں اور اسلام کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو فیصلہ کیا کہ اس منصب کے لئے سعد بن عبادہ سے بہتر اور کوئی شخص نہیں۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ بعض نے کہا اگر مہاجرین اس کا انکار کریں گے تو کیا ہو گا؟ اس پر کسی نے کہا کہ پھر ہم کہیں گے مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ ۲۳؎ یعنی ایک امیر تم میں سے ہو جائے اور ایک ہم میں سے۔ سعد جو بہت دانا آدمی تھے انہوں نے کہا کہ یہ تو پہلی کمزوری ہے۔ یعنی یا تو ہم میں سے خلیفہ ہونا چاہئے یا ان میں سے۔ مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ کہنا تو گویا خلافت کے مفہوم کو نہ سمجھنا اور اسلام میں رخنہ ڈالنا ہے۔ اس مشورہ کی جب مہاجرین کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی جلدی سے وہیں آ گئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ نہ ہوء ا تو عرب اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔ مدینہ میں بیشک انصار کا زور تھا مگر باقی تمام عرب مکہ والوں کی عظمت اور ان کے شرف کا قائل تھا۔ پس مہاجرین نے سمجھا کہ اگر اس وقت انصار میں سے کوئی خلیفہ مقرر ہو گیا تو اہل عرب کے لئے سخت مشکل پیش آئے گی اور ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر اس ابتلاء میں پورے نہ اُتریں چنانچہ سب مہاجرین وہیں آ گئے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بیان کرنے کے لئے ایک بہت بڑا مضمون سوچا ہوء ا تھا اور میرا ارادہ تھاکہ میں جاتے ہی ایک ایسی تقریر کروں گا جس سے تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہو جائیں گے اور وہ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں مگر جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوں نے بھلا کیا بیان کرنا ہے؟ مگر خدا کی قسم !جتنی باتیں میں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کر دیں بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے۔ تب میں سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۲۴؎
غرض مہاجرین نے انہیں بتایا کہ اِس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے اور رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی پیش کی کہ ۲۵؎ اور ان کی سبقتِ دین اور ان قربانیوں کا ذکر کیا جو وہ دین کیلئے کرتے چلے آئے تھے۔ اس پر حباب بن المنذر خزرجی نے مخالفت کی اور کہا کہ ہم اس بات کو نہیں مان سکتے کہ مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے ہاں اگر آپ لوگ کسی طرح نہیں مانتے اور آپ کو اس پر بہت ہی اصرار ہے تو پھر مِنَّا اَمِیْرٌ وَ مِنْکُمْ اَمِیْرٌ پر عمل کیا جائے یعنی ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک آپ لوگوں میں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میاں سوچ سمجھ کر بات کرو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک وقت میں دو امیروں کا ہونا جائز نہیں۲۶؎ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثیں تو ایسی موجود تھیں جن میں رسول کریم ﷺ نے نظامِ خلافت کی تشریح کی ہوئی تھی مگر آپ کی زندگی میں صحابہؓ کا ذہن اِدھر منتقل نہیں ہوء ا اور اس کی وجہ وہی خدائی حکمت تھی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں)
پس تمہارا یہ مطالبہ کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک ہم میں سے، عقلاً اور شرعاً کسی طرح جائز نہیں۔
حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب
آخر کچھ بحث مباحثہ کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انصار کو توجہ دلائی کہ تم پہلی قوم ہو
جو مکہ کے باہر ایمان لائی اب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد تم پہلی قوم نہ بنو جنہوں نے دین کے منشاء کو بدل دیا۔ اس کا طبائع پر ایسا اثر ہوء ا کہ بشیر بن سعد خزرجی کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ لوگ سچ کہتے ہیں ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی جو خدمت کی اور آپ کی نصرت و تائید کی وہ دُنیوی اغراض سے نہیں کی تھی اور نہ اس لئے کی تھی کہ ہمیںآپ کے بعد حکومت ملے بلکہ ہم نے خدا کیلئے کی تھی پس حق کا سوال نہیں بلکہ سوال اسلام کی ضرورت کا ہے اور اس لحاظ سے مہاجرین میں سے ہی امیر مقرر ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی لمبی صحبت پائی ہے۔ اس پر کچھ دیر تک اور بحث ہوتی رہی مگر آخر آدھ یا پون گھنٹہ کے بعد لوگوں کی رائے اسی طرح ہوتی چلی گئی کہ مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہئے چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کو اس منصب کے لئے پیش کیا اور کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو مگر دونوں نے انکار کیا اور کہا کہ جسے رسول کریم ﷺ نے نماز کا امام بنایا اور جو سب مہاجرین میں سے بہتر ہے ہم اس کی بیعت کریں گے۔ مطلب یہ تھا کہ اس منصب کیلئے حضرت ابوبکرؓ سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہیں۔ چنانچہ اس پر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت شروع ہو گئی۔ پہلے حضرت عمرؓ نے بیعت کی، پھر حضرت ابوعبیدہ نے بیعت کی، پھر بشیرؓ بن سعد خزرجی نے بیعت کی اور پھر اوس نے اور پھر خزرج کے دوسرے لوگوں نے اور ا سقدر جوش پیدا ہوء ا کہ سعد جو بیمار تھے اور اُٹھ نہ سکتے تھے ان کی قوم ان کو روندتی ہوئی آگے بڑھ کر بیعت کرتی تھی۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں سعدؓ اور حضرت علیؓ کے سِوا سب نے بیعت کر لی۔ حتیّٰ کہ سعدؓ کے اپنے بیٹے نے بھی بیعت کر لی۔ حضرت علیؓ نے کچھ دنوں بعد بیعت کی۔ چنانچہ بعض روایات میں تین دن آتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے چھ ماہ بعد بیعت کی۔ چھ ماہ والی روایات میں یہ بھی بیان ہوء ا ہے کہ حضرت فاطمہؓکی تیمارداری میں مصروفیت کی وجہ سے آپ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کر سکے اور جب آپ بیعت کرنے کے لئے آئے تو آپ نے یہ معذرت کی کہ چونکہ فاطمہؓ بیمار تھیں اس لئے بیعت میں دیر ہو گئی۔۲۷؎
حضرت عمرؓ کا انتخاب
حضرت ابوبکرؓ کی وفات جب قریب آئی تو آپ نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں۔ اکثرصحابہؓ نے
اپنی رائے حضرت عمرؓ کی امارت کے متعلق ظاہر کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشدّد کریں۔ آپ نے فرمایا یہ سختی اُسی وقت تھی جب تک ان پر کوئی ذمہ واری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ واری ان پر پڑ جائے گی ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آ جائے گا۔ چنانچہ تمام صحابہؓ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے۔ آپ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی اس لئے آپ نے اپنی بیوی اسماءؓ کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاؤں لڑ کھڑا رہے تھے اور ہاتھ کانپ رہے تھے آپ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو۔ آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دوں۔ سو میری وفات کے بعد عمرؓ تمہارے خلیفہ ہوں گے۔۲۸؎ سب صحابہؓ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہو گئی۔
حضرت عثمانؓ کا انتخاب
حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ
آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعد بن الوقاصؓ‘‘حضرت زبیر، حضرت طلحہؓ ۔۲۹؎ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کیلئے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کیلئے صہیب ؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن الاسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں۔ اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو۔ سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمرؓ ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو۔
آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا (کیونکہ طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہ تھے) مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوئا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہا پھر باقی دو نے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف تین دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے۔ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔ اور وہ خلیفہ وہ گئے۔
حضرت علیؓ کا انتخاب
اس کے بعد حضرت عثمانؓ کا واقعۂ شہادت ہوء ا اور وہ صحابہؓ جو مدینہ میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں
فتنہ بڑھتا جا رہا ہے حضرت علیؓ پر زور دیا کہ آپ لوگوں کی بیعت لیں۔ دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ ا س وقت اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپ لوگوں سے بیعت لیں تاکہ ان کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو۔ غرض جب آپ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپ نے اس ذمہ واری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی بعض اکابر صحابہؓ اس وقت مدینہ سے باہر تھے اور بعض سے تو جبراً بیعت لی گئی۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق آتا ہے کہ ان کی طرف حکیم بن جبلہ اور مالک اشتر کو چند آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا گیا اور انہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا۔ یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ حضرت علیؓ کی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ہم ابھی تم کو مار ڈالیں گے حتیّٰ کہ بعض روایات میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ ان کو نہایت سختی کے ساتھ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی بیعت کوئی بیعت نہیں کہلا سکتی۔ پھر جب انہوں نے بیعت کی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے آپ قصاص لیں گے مگر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ قاتلوں سے قصاص لینے میں جلدی نہیں کر رہے تو وہ بیعت سے الگ ہو گئے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے۔
حضرت عائشہؓ کا اعلانِ جہاد
انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھی حضرت عائشہؓ کو اس بات
پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کیلئے جہاد کا اعلان کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہؓ کو اپنی مدد کیلئے بلایا۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے لشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیرؓ ، حضرت علیؓ کی زبان سے رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی ہے۔ دوسری طرف حضرت طلحہؓ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کر لیا۔ کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو۔ اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے۔ اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکر کہا کہ تیرا ہاتھ علیؓ کا ہاتھ ہے۔ اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علیؓ کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں۳۰؎۔ غرض باقی صحابہؓ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہؓ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صَفّین ہوئی۔
جنگ صَفّین کے واقعات
اس جنگ میں حضرت معاویہؓ کے ساتھیوں نے یہ ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اٹھا دیئے اور کہا کہ جو کچھ
قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کیلئے حَکَم مقرر ہونے چاہئیں۔ اس پر وہی مُفسد جو حضرت عثمانؓ کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معاً بعد اپنے بچاؤ کیلئے حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے انہوں نے حضرت علیؓ پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں۔ آپ فیصلہ کیلئے حَکَم مقرر کر دیں۔ حضرت علیؓ نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے اور کچھ ان کمزور طبع لوگوں نے جو ان کے اس دھوکا میں آ گئے تھے حضرت علیؓ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حَکَم مقرر کریں۔ چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری حَکَم مقرر کئے گئے۔ یہ تحکیم دراصل قتلِ عثمانؓ کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ مگر عمرو بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کو ان کی امارت سے معزول کر دیں کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلاء ہو رہے ہیں اور پھر آزادانہ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تاکہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں حالانکہ وہ اس کام کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے مگر بہرحال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کیلئے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمرو بن العاص نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں بعد میں مَیں اعلان کر دوں گا چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علیؓ کو خلافت سے معزول کرتے ہیں اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابوموسیٰ نے حضرت علیؓ کو معزول کر دیا ہے اور میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علیؓ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہؓ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ ان کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں ( حضرت عمرو بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا) اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو لوگ حَکَم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علیؓ کی بجائے معاویہؓ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے ۔ مگر حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حَکَم اس غرض کیلئے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حُکم پر ہے۔ اس پر حضرت علیؓ کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حَکَم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حَکَم مقرر ہی کیوں کئے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حَکَم ہو ہی نہیں سکتا۔ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اوّل تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہو گا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی۔ دوسرے حَکَم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حکم کیوں مقرر کیا۔ انہوں نے کہا ہم نے جَھک مارا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ ہماری غلطی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات کیوں مانی۔ اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہگار ہو گئے اور آپ بھی۔ ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی۔ اَب ہم نے تو اپنی غلطی سے توبہ کر لی ہے مناسب یہ ہے کہ آپ بھی توبہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے۔ اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جائیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلافِ اسلام فعل کیا ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جو شخص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ حضرت علیؓ نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ جس امر کے متعلق میں نے حَکَم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حَکَم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رُو سے جائز ہے باقی میں نے حَکَم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تب میں اسے منظور کروں گا ورنہ میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا۔ انہوں نے چونکہ اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا اور نہ جس غرض کیلئے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لئے میرے لئے ان کا فیصلہ کوئی نہیں۔ مگر انہوں نے حضرت علیؓ کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجبُ الاِْطاَعت خلیفہ کوئی نہیں۔ کثرتِ مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہؤا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیرواجب الاطاعت ماننا لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ ۳۱؎کے خلاف ہے۔
حضرت علیؓ کی خلافتِ بِلافصل کا نظریہ
یہ خلافت کے بارہ میں پہلا اختلاف تھا جو واقع ہوئا۔ اس
موقعہ پر جو لوگ حضرت علی ؓ کی تائید میں تھے انہوں نے ان امور کا جواب دینا شروع کیا اور جواب میں یہ امر بھی زیر بحث آیا کہ رسول کریم ﷺ کی بعض پیشگوئیاں حضرت علیؓ کے متعلق ہیں۔ یہ پیشگوئیاں جب تفصیل کے ساتھ بیان ہونی شروع ہوئیں تو ان پر غور کرتے ہوئے بعض غالیوں نے یہ سوچا کہ خلافت پر کیا بحث کرنی ہے۔ ہم کہتے ہیں حضرت علیؓ کی خلافت کسی انتخاب پر مبنی نہیں بلکہ صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو رسول کریم ﷺ نے ان کے متعلق کی تھیں اس لئے آپ رسول کریم ﷺ کے مقرر کردہ خلیفہ بِلافصل ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میرے متعلق جب مصلح موعود کے موضوع پر بحث کی جائے تو کوئی شخص کہہ دے کہ ان کو تو ہم ا س لئے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہیں نہ اس لئے کہ ان کی خلافت جماعت کی اکثریت کے انتخاب سے عمل میں آئی۔ جس دن کوئی شخص ایسا خیال کرے گا اسی دن اس کا قدم ہلاکت کی طرف اُٹھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ صرف ایک شخص کی امامت کا خیال دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور نظامِ خلافت کی اہمیت کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے۔ غرض حضرت علیؓ کے متعلق بعض غالیوں نے رسول کریمﷺ کی پیشگوئیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کی خلافت صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو آپؐ نے ان کے متعلق کیں کسی انتخاب پر مبنی نہیں ہے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ اس طرف مائل ہو گئے کہ حضرت علیؓ درحقیقت امام بمعنی ماء مور تھے اور یہ کہ خلافت ان معنوں میں کوئی شَے نہیں جو مسلمان اس وقت تک سمجھتے رہے ہیں بلکہ ضرورت پر خداتعالیٰ کے خاص حُکم سے امام مقرر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کا موجب ہوتا ہے۔
خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ
ان مختلف قسم کے خیالات کے نتیجہ میں مسلمانوںمیں
خلافت کے بارہ میں تین گروہ ہو گئے۔
(۱) خلافت بمعنی نیابت ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کا کوئی نائب ہونا چاہئے۔ مگر اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یا خلیفہ کے تقرر کے مطابق جسے اُمت تسلیم کرے وہ شخص خلیفہ مقرر ہوتا ہے اور وہ واجبُ الاطاعت ہوتا ہے۔ یہ سُنّی کہلاتے ہیں۔
(۲) حُکم خدا کا ہے۔ کسی شخص کو واجب الاطاعت ماننا شرک ہے۔ کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور مسلمان آزاد ہیں وہ جو کچھ چاہیں اپنے لئے مقرر کریں۔ یہ خوارج کہلاتے ہیں۔
(۳) انسان امیر مقرر نہیں کرتے بلکہ امیر مقرر کرنا خدا کا کام ہے اسی نے حضرت علیؓ کو امام مقرر کیا اور آپ کے بعد گیارہ اور امام مقرر کئے۔ آخری امام اب تک زندہ موجود ہے مگر مخفی۔ یہ شیعہ کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک فریق ایسا نکلا کہ اس نے کہا۔ دنیا میں ہر وقت زندہ امام کا ہونا ضروری ہے جو ظاہر بھی ہو اور یہ اسماعیلیہ شیعہ کہلاتے ہیں۔
خلافتِ احمدیہ کا ذکر
یہ تو اس خلافت کی تاریخ ہے جو رسول کریم ﷺ کے معاً بعد ہوئی۔ اب میں اس خلافت کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کے بعد ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں صحابہؓ کی تھی۔ چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پا سکتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کیلئے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا۔ میں اس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمر کو پہنچا ہوء ا تھا، میں مضامین لکھا کرتا تھا، میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا، مگر میں اللہ تعالیٰ کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کیلئے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پاجائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کی خبر ہوتی تھی اور آخری ایام میں تو ان کی کثرت اور بھی بڑھ گئی مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے الہامات ہوتے رہے اور باوجود اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعیّن تھی اور باوجود اس کے کہ ہم ’’الوصیت‘‘ پڑھتے تھے ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دو صدیاں بعد پوری ہوں گی اس لئے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہو گا۔ اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے اس لئے جب واقعہ میں آپ کی وفات ہو گئی تو ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ مجھے خوب یاد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ کو غسل دیکر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقع پر بعض دفعہ ہَوا کے جھونکے سے کپڑا ہِل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہِل جاتی ہیں اس لئے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں۔ ہم نے آپ کا کپڑا ہلتے دیکھا ہے یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ہلتے دیکھا ہے۔ اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو اسے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا۔ کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہو گا کہ خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں! کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحب کی وفات کے بعد کیا ہو گا۔ میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہئے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ کہنے لگے میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب کی بیعت کر لینی چاہئے۔ اس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ کم تھا میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھاکہ ہم آپ کے بعد کسی اور کی بیعت کر لیں اس لئے حضرت مولوی صاحب کی ہم کیوں بیعت کریں۔ (گو ’’الوصیّۃ‘‘ میں اس کا ذکر تھا مگر اُس وقت میرا ذہن اس طرف گیا نہیں) انہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث شروع کر دی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوء ا تھا کہ قوم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اس لئے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور اس منصب کیلئے حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر ہماری جماعت میںاور کوئی شخص نہیں۔ مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہئے۔ آخرجماعت نے متفقہ طور پر حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں۔ اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوء ا اور ا س میں حضرت خلیفہ اوّل نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت کی کوئی خواہش نہیں مَیں چاہتا ہوں کہ کسی اور کی بیعت کر لی جائے۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں پہلے میرا نام لیا پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کا نام لیا۔ پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کا نام لیا اسی طرح بعض اور دوستوں کے نام لئے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہی عرض کیا کہ اس منصبِ خلافت کے اہل آپ ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی۔
خلیفۂ وقت کے اختیارات
ابھی آپ کی بیعت پر پندرہ بیس دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہنے
لگے کہ میاں صاحب! کبھی آپ نے اس بات پر غور بھی کیا ہے کہ ہمارے سلسلہ کا نظام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا اس پر اب اور غورکرنے کی کیا ضرورت ہے ہم نے حضرت مولوی صاحب کی بیعت جو کر لی ہے۔ وہ کہنے لگے وہ تو ہوئی ۔ سوال یہ ہے کہ سلسلہ کا نظام کس طرح چلے گا؟ میں نے کہا میرے نزدیک تو اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک شخص کی بیعت کر لی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سلسلہ کا نظام قائم کرنا چاہئے ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے! اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر کہنے لگے یہ بات غور کے قابل ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں میر محمد اسحاق صاحب کے چند سوالات
کچھ دنوں بعد جب جماعت کے دوستوں میں اس قسم کے سوالات کا چرچا ہونے لگا کہ خلیفہ کے کیا
اختیارات ہیں اور آیا وہ حاکم ہے یاصدرانجمن احمدیہ حاکم ہے تو میرمحمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں اس مسئلہ کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّل نے وہ سوالات باہر جماعتوں میں بھجوا دیئے اور ایک خاص تاریخ مقرر کی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے نمائندے جمع ہو جائیں تاکہ سب سے مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جا سکے مگر مجھے ابھی تک ان باتوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہاں تک کہ
ایک رؤیا
مجھے ایک رؤیا ہوئا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے جس کا ایک حصہ مکمل ہے اور دوسرا نامکمل۔ نامکمل حصے پر اگرچہ بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی
اینٹیں وغیرہ رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے۔ اس حصہ عمارت پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں جن میں سے ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں۔ اچانک وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھوسہ دکھائی دیا۔ میر محمداسحاق صاحب نے جلدی سے ایک دیا سلائی کی ڈبیہ میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا جی چاہتا ہے کہ اس بُھوسے کو آگ لگا دوں۔ میں انہیں منع کرتا ہوں مگر وہ نہیں رُکتے۔ آخر میں انہیں سختی سے کہتا ہوں کہ اس بھوسے کو ایک دن آگ تو لگائی ہی جائے گی مگر ابھی وقت نہیں آیا اور یہ کہہ کر میں دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے کچھ شور سا سنائی دیا۔ میں نے منہ پھیرا تو دیکھا۔ میر محمد اسحاق صاحب دیاسلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جَلتی نہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری دیا سلائی نکال کر وہ اس طرح رگڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بُھوسے کو آگ لگا دیں۔ میں یہ دیکھتے ہی ان کی طرف دَوڑ پڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے ایک دیاسلائی جَل گئی جس سے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی۔ میں یہ دیکھ کر آگ میں کُود پڑا اور اسے جلدی سے بُجھا دیا مگر اس دوران میں چند کڑیوں کے سِرے جل گئے۔ میں نے یہ خواب لکھ کر حضرت خلیفہ اوّل کے سامنے پیش کی تو آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ خواب تو پوری ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا۔ میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں۔ وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوا دیئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس سے بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گا۔ مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہوئا کہ میرمحمد اسحاق صاحب نے کیا سوالات کئے ہیں لیکن بعد میں مَیں نے بعض دوستوں سے پوچھا تو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا اور مجھے معلوم ہوئا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق ہیں۔ میر صاحب کے ان سوالات کی وجہ سے جماعت میں ایک شور برپا ہو گیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے۔ اس وقت ان لوگوں نے جس طرح جماعت کو دھوکا میں مبتلاء کرنا چاہا وہ اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے متواتر جماعت کو یہ کہا کہ جن خیالات کا وہ اظہار کر رہے ہیں وہی خیالات حضرت خلیفہ اوّل کے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں یہ سوال اُٹھا اگر بعد میں اُٹھتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا۔ بعض کہتے کہ بہت اچھا ہوئا آج جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر صحابہؓ زندہ ہیں اس امر کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے۔ غرض جماعت پر یہ پوری طرح اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) حضرت خلیفہ اوّل ان کے خیالات سے متفق ہیں۔ مگر بہرحال اس وقت جماعت میں ایک غیرمعمولی جوش پایا جاتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ خلیفۂ وقت کے خلاف خطرناک بغاوت ہو جائے گی۔
بیرونی جماعتوں کے نمائندوں کا قادیان میں اجتماع
آخر وہ دن آ گیا جو حضرت خلیفہ اوّل نے اس غرض کیلئے مقرر کیا تھا اور جس میں بیرونی جماعتوں کے نمائندگان کو قادیان میں جمع
ہونے کیلئے کہا گیا تھا۔ میں اس روز صبح کی نمازکے انتظار میں اپنے دالان میں ٹہل رہا تھا اور حضرت خلیفہ اوّل کی آمد کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ میرے کانوں میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی۔ وہ بڑے جوش سے مسجد میں کہہ رہے تھے کہ غضب خدا کا ایک لڑکے کی خاطر جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ اس سے مراد شاید میر محمد اسحاق صاحب ہیں مگر پھر شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ جماعت ایک لڑکے کی غلامی کس طرح کر سکتی ہے۔ اس پر میں اور زیادہ حیران ہوئا اور میں سوچنے لگا کہ میرمحمد اسحاق صاحب نے تو صرف چند سوالات دریافت کئے ہیں ان کے ساتھ جماعت کی غلامی یا عدمِ غلامی کا کیا تعلق ہے مگر باوجود سوچنے اور غور کرنے کے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس بچے سے کون مراد ہے۔ آخر صبح کی نماز کے بعد میں نے حضرت خلیفہ اوّل سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور میں نے کہا کہ نہ معلوم آج مسجد میں کیا جھگڑا تھا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ ہم ایک بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں اسی کی خاطر یہ تمام فساد ڈلوایا جا رہا ہے۔ میں تو نہیں سمجھ سکا کہ یہ بچہ کون ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا۔ تمہیں نہیں پتہ۔ اس سے مراد تم ہی تو ہو۔ غالباً شیخ صاحب کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ تمام سوالات میں نے ہی لکھوائے ہیں اور میری وجہ سے ہی جماعت میں یہ شور اُٹھا ہے۔
مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کی تقریر
اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل
تقریر کرنے کیلئے تشریف لائے۔ اس تقریر کے متعلق بھی پہلے سے میں نے ایک رؤیا دیکھا ہوئا تھا میں نے دیکھا کہ کوئی جلسہ ہے جس میں حضرت خلیفۂ اوّل کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور تقریر مسئلہ خلافت پر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی لشکر ہے جو آپ پر حملہ آور ہوئا ہے۔ اس وقت میں بھی جلسہ میں آیا اور آپ کے دائیں طرف کھڑے ہو کر میں نے کہا کہ حضور کوئی فکر نہ کریں ہم آپ کے خادم ہیں اور آپ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیںتک دینے کیلئے تیار ہیں۔ ہم مارے جائیں گے تو پھر کوئی شخص حضور تک پہنچ سکے گا۔ ہماری موجودگی میں آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ خواب مَیں نے حضرت خلیفۂ اوّل کو سنائی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس جلسہ میں شامل ہونے کیلئے جب مَیں آیا تو مجھے اُس وقت وہ خواب یاد نہ رہی اور میں حضرت خلیفۂ اوّل کے بائیں طرف بیٹھ گیا اس پر آپ نے فرمایا۔ میاں! یہاں سے اُٹھ کر دائیں طرف آ جائو اور پھر خود ہی فرمایا۔ تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے تو معلوم نہیں۔ اس پر آپ نے میری اُسی خواب کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس خواب کی وجہ سے میں نے تمہیں اپنے دائیں طرف بٹھایا ہے۔
جب آپ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو بجائے اس کے کہ اُس جگہ کھڑے ہوتے جو آپ کیلئے تجویز کی گئی تھی آپ اس حصۂ مسجد میں کھڑے ہو گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنوایا تھا اور لوگوں پر اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصۂ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوئا جو تم لوگوںکا بنایا ہوئا ہے بلکہ اپنے پِیر کی بنائی ہوئی مسجد میں کھڑا ہوئا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے مسئلہ خلافت پر قرآن و حدیث سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں خلیفہ کا کام صرف نمازیں پڑھا دینا، جنازے پڑھا دینا اور لوگوںکے نکاح پڑھا دینا ہے اُسے نظام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ کہنے والوں کی سخت گُستاخانہ حرکت ہے۔ یہ کام تو ایک مُلاّں بھی کر سکتا ہے اس کیلئے کسی خلیفہ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ تقریر سنی ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ تقریر اتنی درد انگیز اور اس قدر جوش سے لبریز تھی کہ لوگوں کی روتے روتے گھِگھی بندھ گئی۔
خواجہکمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ بیعت
تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب سے کہا کہ دوبارہ
بیعت کرو چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی۔ میرا ذہن اس وقت اِدھر منتقل نہیں ہوئا کہ ان سے بیعت ان کے جُرم کی وجہ سے لی جا رہی ہے۔ چنانچہ میں نے بھی بیعت کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا مگر حضرت خلیفۂ اوّل نے میرے ہاتھ کو پیچھے ہٹا دیا اور فرمایا تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے تو ایک جُرم کیا ہے جس کی وجہ سے دوبارہ ان سے بیعت لی جا رہی ہے مگر تم نے کونسا جُرم کیا ہے۔
شیخ یعقوب علی صاحب سے اس موقع پر جو بیعت لی گئی وہ اس لئے لی گئی تھی کہ شیخ صاحب نے ایک جلسہ کیا تھا جس میں اُن لوگوں کے خلاف تقریریں کی گئی تھیں جنہوں نے نظامِ خلافت کی تحقیر کی تھی اور گو یہ اچھا کام تھا مگر حضرت خلیفۂ اوّل نے فرمایا جب ہم نے ان کو اس کام پر مقرر نہیں کیا تھا تو ان کا کیا حق تھا کہ وہ خود بخود الگ جلسہ کرتے۔ غرض ان تینوں سے دوبارہ بیعت لی گئی اور انہوںنے سب کے سامنے توبہ کی مگر جب جلسہ ختم ہو گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اوّل کے خلاف اور زیادہ منصوبے کرنے شروع کر دیئے اور مولوی محمد علی صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میری اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ اب میں قادیان میں نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ان دنوں مولوی محمد علی صاحب سے بہت تعلق رکھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس پہنچے۔ مَیں بھی اتفاقاً وہیں موجود تھا اور آتے ہی کہا کہ حضور! غضب ہوگیا آپ جلدی کوئی انتظام کریں۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کیا ہوئا؟ انہوں نے کہا مولوی محمد علی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور مَیں اب قادیان میں کسی صورت میں نہیں رہ سکتا۔ آپ جلدی کریں اور کسی طرح مولوی محمد علی صاحب کو منانے کی کوشش کریں، ایسا نہ ہو کہ وہ چلے جائیں۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب! مولوی صاحب سے جا کر کہہ دیجئے کہ کل کے آنے میں تو ابھی دیر ہے، آپ جانا چاہتے ہیں تو آج ہی قادیان سے چلے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب جو یہ خیال کر رہے تھے کہ اگر مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے تو نہ معلوم کیا زلزلہ آ جائے گا اُن کے تو یہ جواب سُن کر ہوش اُڑ گئے اور انہوں نے کہا حضور! پھر تو بڑا فساد ہوگا۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ میں خدا کا قائم کردہ خلیفہ ہوں مَیں ان دھمکیوں سے مرعوب ہونے والا نہیں۔ اس جواب کو سن کر مولوی محمد علی صاحب بھی خاموش ہو گئے اور پھر انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں قادیان سے جانے کے ارادے کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ اندر ہی اندر کھچڑی پکتی رہی اور کئی طرح کے منصوبوں سے انہوں نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بہت لمبے واقعات ہیں جن کو تفصیلاً بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔
حضرت خلیفۂ اوّل کی بیماری میں ایک اشتہار شائع کرنے کی تجویز
حضرت خلیفۂ اوّل جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو طبعاً ہم سب کے قلوب میں ایک بے چینی تھی اور ہم نہایت ہی افسوس کے ساتھ
آنے والی گھڑی کو دیکھ رہے تھے اور چونکہ آپ کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کی عام نگرانی نہیں رہی تھی اور اختلافی مسائل پر گفتگو بڑھتی چلی جا رہی تھی، اس لئے میں نے ایک اشتہار لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اب جب کہ حضرت خلیفۃ المسیح سخت بیمار ہیں یہ مناسب نہیں کہ ہم اختلافی مسائل پر آپس میں اس طرح بحثیں کریں مناسب یہی ہے کہ ہم ان بحثوں کو بند کر دیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو صحت دے دے اور آپ خود اِن بحثوں کی نگرانی فرما سکیں۔ میں نے یہ اشتہار لکھ کر مرزا خدا بخش صاحب کو دیا اور میں نے کہا کہ آپ اسے مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے جائیں تا کہ وہ بھی اس پر دستخط کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میرے ہم خیال اور ان کے ہم خیال دونوں اس قسم کی بحثوں سے اجتناب کریں گے اور جماعت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے صرف دو یا ایک دن پہلے کی بات ہے مگر بجائے اس کے کہ مولوی محمد علی صاحب اس اشتہار پر دستخط کر دیتے انہوں نے جواب دیا کہ جماعت کے دوستوں میں جو کچھ اختلاف ہے چونکہ اس سے عام لوگ واقف نہیں اس لئے ایسا اشتہار شائع کرنا مناسب نہیں اس طرح دشمنوں کو خواہ مخواہ ہنسی کا موقع ملے گا۔ میرے خیال میں اشتہار شائع کرنے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ایک جلسہ کا انتظام کیا جائے جس میں آپ بھی تقریر کریں اور مَیں بھی تقریر کروں اور ہم دونوں لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح گفتگو نہ کیا کریں۔ چنانچہ مسجد نور میں ایک جلسے کا انتظام کیا گیا۔ مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ پہلے میں تقریر کروں۔ چنانچہ میں نے جو کچھ اشتہار میں لکھا تھا وہی تقریر میں بیان کر دیا اور اتفاق پر زور دیا۔ میری تقریر کے بعد مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے مگر بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کو کوئی نصیحت کرتے اُلٹا انہوں نے لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تم بڑے نالائق ہو مجھ پر اور خواجہ صاحب پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہو تمہاری یہ حرکت پسندیدہ نہیں اس سے باز آ جائو۔ غرض انہوں نے خوب زجروتوبیخ سے کام لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوئا کہ بجائے اتفاق پیدا ہونے کے افتراق اور بھی زیادہ ترقی کر گیا اور لوگوں کے دلوں میں اُن کے متعلق نفرت پیدا ہوگئی۔
جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنے کی کوشش
چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی طبیعت اب زیادہ کمزور
ہوتی جا رہی تھی اس لئے ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ میرے سامنے صرف جماعت کے اتحاد کا سوال تھا۔ یہ سوال نہیں تھا کہ ہم میں سے خلیفہ ہو یا اُن میں سے۔ چنانچہ گو عام طور پر وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اُن کا یہی خیال تھا کہ ہم کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتے جس کے عقائد اُن کے عقائد سے مختلف ہوں کیونکہ اس طرح احمدیت کے مِٹ جانے کا اندیشہ ہے مگر میں نے دوستوں کو خاص طور پر سمجھانا شروع کیا کہ اگر حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات پر ہمیں کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں انہیں لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور جماعت کو اختلاف سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے اکثر دوستوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ اگر جھگڑا محض اِس بات پر ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو ہم میں سے یا اُن میں سے تو ہمیں اُن میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
حضرت خلیفۂ اوّل کی وفات
۱۳؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل وفات پا گئے۔ میں جمعہ پڑھا کر نواب محمد علی خان
صاحب کی گاڑی میں آ رہا تھا کہ راستہ میں مجھے آپ کی وفات کی اطلاع ملی اور اس طرح میرا ایک اور خواب پورا ہو گیا جو مَیں نے اس طرح دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں سوار ہوں اور گاڑی ہمارے گھر کی طرف جا رہی ہے کہ راستہ میں مجھے کسی نے حضرت خلیفۃالمسیح کی وفات کی خبر دی۔ میں اس رؤیا کے مطابق سمجھتا تھا کہ غالباً میں اس وقت سفر پر ہونگا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات ہو گی مگر خدا تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں پورا کر دیا کہ جب جمعہ پڑھا کر مَیں گھر واپس آیا تو نواب محمد علی خان صاحب کا ملازم ان کا یہ پیغام لے کر میرے پاس آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے۔ چنانچہ میں اُن کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر چل پڑا اور راستہ میں مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کی اطلاع مل گئی۔
دعائوں کی تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر تمام جماعتوں کو تاریں بھجوا دی گئیں اور مَیں نے دوستوں کو تحریک کی کہ ہر شخص اٹھتے بیٹھتے
چلتے پھرتے دعائوں میں لگ جائے۔ راتوں کو تہجد پڑھے اور جسے توفیق ہو وہ کَل روزہ بھی رکھے تا کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کے وقت جماعت کی صحیح راہنمائی کرے اور ہمارا قدم کسی غلط راستہ پر نہ جا پڑے۔
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متفقہ فیصلہ
اُسی دن مَیں نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور
اُن سے اس اختلاف کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ خلیفہ ایسا شخص ہی مقرر ہونا چاہئے جس کے عقائد ہمارے عقائد کے ساتھ متفق ہوں مگر میں نے ان کوسمجھایا کہ اصل چیز جس کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے اتفاق ہے۔ خلیفہ کا ہونا بے شک ہمارے نزدیک مذہباً ضروری ہے لیکن چونکہ جماعت میں اختلاف پیدا ہونا بھی مناسب نہیں، اس لئے اگر وہ بھی کسی کو خلیفہ بنانے میں ہمارے ساتھ متحد ہوں تو مناسب یہ ہے کہ عام رائے لے لی جائے اور اگر انہیں اس سے اختلاف ہو تو کسی ایسے آدمی کی خلافت پر اتفاق کیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو۔ اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر انہیں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے چاہے وہ مولوی محمد علی صاحب ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ بات منوانی اگرچہ سخت مشکل تھی مگر میرے اصرار پر ہمارے تمام خاندان نے اس بات کو تسلیم کر لیا۔
مولوی محمد علی صاحب سے ملاقات
اس کے بعد میں مولوی محمد علی صاحب سے ملا اور میں نے اُن سے کہا کہ مَیں آپ سے کچھ
باتیں کرنی چاہتا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں جنگل کی طرف نکل گئے۔ مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کے بعد جلد ہی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس وجہ سے کہ جماعت میں اختلاف ہے اور فتنے کا ڈر ہے پورے طور پر بحث کر کے ایک بات پر متفق ہو کرکام کرنا چاہئے۔ میں نے کہا کَل تک امید ہے کافی لوگ جمع ہو جائیں گے۔ اس لئے میرے نزدیک کل جب تمام لوگ جمع ہو جائیں تو مشورہ کر لیا جائے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے۔ چار پانچ ماہ جماعت غور کر لے پھر اس کے بعد جو فیصلہ ہو اس پر عمل کر لیا جائے۔ میں نے کہا کہ اس عرصہ میں اگر جماعت کے اندر کوئی فساد ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔ جماعت بغیر لیڈر اور راہنما کے ہوگی اور جب جماعت کا کوئی امام نہیں ہوگا تو کون اس کے جھگڑوں کو حل کرے گا اور جماعت کے لوگ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں گے۔ فساد کا کوئی وقت مقرر نہیں، ممکن ہے آج شام کو ہی ہو جائے پس یہ سوال رہنے دیں کہ آج اس امر کا فیصلہ نہ ہو کہ کون خلیفہ بنے بلکہ آج سے پانچ ماہ کے بعد فیصلہ ہو۔ ہاں اس امر پر ہمیں ضرور بحث کرنی چاہئے کہ کون خلیفہ ہو اور میں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میرے ہم خیال اس بات پر تیار ہیں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ مولوی صاحب نے کہا یہ بڑی مشکل بات ہے آپ سوچ لیں اور کل اس پر پھر گفتگو ہو جائے چنانچہ ہم دونوں الگ ہو گئے۔
مولوی محمد علی صاحب کا ایک ٹریکٹ
رات کو جب مَیں تہجد کیلئے اٹھا تو بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے مجھے ایک
ٹریکٹ دیا اور کہا کہ یہ ٹریکٹ تمام راستہ میں بیرونجات سے آنے والے احمدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو وہ مولوی محمد علی صاحب کا لکھا ہوئا تھا اور اس میں جماعت پر زور دیا گیا تھا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ نہیں چلنا چاہئے اور یہ کہ حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت بھی انہوں نے بطور ایک پِیر کے کی تھی نہ کہ بطور خلیفہ کے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ جماعت کا ایک امیر ہو سکتا ہے مگر وہ بھی ایسا ہونا چاہئے جو واجبُ الاِْطاَعت نہ ہو، جو غیر احمدیوں کو کافر نہ کہتا ہو اور جس کی چالیس سال سے زیادہ عمر ہو۔ مقصد یہ تھا کہ اگر خلیفہ بنایا جائے تو مولوی محمد علی صاحب کو کیونکہ اُن کی عمر اس وقت چالیس سال سے زائد تھی اور وہ غیر احمدیوں کو کافربھی نہیں کہتے تھے۔
انتخاب خلافت پر جماعت کے نوے فیصد دوستوں کا اتفاق
میں نے جب یہ ٹریکٹ پڑھا تو آنے والے فتنہ کا تصور کر کے خود بھی دعا میں لگ گیا اور دوسرے لوگ جو اس کمرہ میں تھے اُن کو بھی مَیں
نے جگایا اور اس ٹریکٹ سے باخبر کرتے ہوئے انہیں دعائوں کی تاکید کی۔ چنانچہ ہم سب نے دعائیں کیں۔ روزے رکھے اور قادیان کے اکثر احمدیوں نے بھی دعائوں اور روزہ میں حصہ لیا۔ صبح کے وقت بعض دوستوں نے یہ محسوس کر کے کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف ہم سے دھوکا کیا ہے بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وصیتوں کی بھی تحقیر کی ہے ایک تحریر لکھ کر تمام آنے والے احباب میں اس غرض سے پھرائی تا معلوم ہو کہ جماعت کا رحجان کِدھر ہے۔ اس میں جماعت کے دوستوں سے دریافت کیا گیا تھا کہ آپ بتائیں حضرت خلیفۂ اوّل کے بعد کیا ویسا ہی کوئی خلیفہ ہونا چاہئے یا نہیں جیسا کہ حضرت خلیفۂ اوّل تھے اور یہ کہ انہوں نے حضرت خلیفۂ اوّل کی بیعت آپ کو خلیفہ سمجھ کر کی تھی یا ایک پِیر اور صوفی سمجھ کر۔ اس ذریعہ سے جماعت کے دوستوں کے خیالات معلوم کرنے کا یہ فائدہ ہوئا کہ ہمیں لوگوں کے دستخطوں سے یہ معلوم ہو گیا کہ جماعت کا نوے فیصدی سے بھی زیادہ حصہ اس امر پر متفق ہے کہ خلیفہ ہونا چاہئے اور اسی رنگ میں ہونا چاہئے جس رنگ میں حضرت خلیفہ اوّل تھے۔
مولوی محمد علی صاحب سے دوبارہ گفتگو
دس بجے کے قریب مجھے مولوی محمد علی صاحب کا پیغام آیا کہ کل والی بات
کے متعلق مَیں پھر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اُن کو بلوا لیا اور باتیں شروع ہو گئیں۔ میں نے اس امر پر زور دیا کہ خلافت کے متعلق آپ بحث نہ کریں کیونکہ آپ ایک خلیفہ کی بیعت کر کے اس اصول کو تسلیم کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت میں خلفاء کا سلسلہ جاری رہے گا صرف اس امر پر بحث کریں کہ خلیفہ کون ہو۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ اس بارہ میں جلدی کی ضرورت نہیں جماعت کو چار پانچ ماہ غور کر لینے دیا جائے۔ اور میرا جواب وہی تھا جو میں ان کو پہلے دے چکا تھا بلکہ مَیں نے اُن کو یہ بھی کہا کہ اگر چار پانچ ماہ کے بعد بھی اختلاف ہی رہا تو کیا ہوگا۔ اگر آپ کثرتِ رائے پر فیصلہ کریں گے تو کیوں نہ ابھی جماعت کی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ کون خلیفہ ہو۔ جب سلسلۂ گفتگو کسی طرح ختم ہوتا نظر نہ آیا تو مَیں نے مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ باہر جو لوگ موجود ہیں اُن سے مشورہ لے لیا جائے۔ اس پر مولوی صاحب کے منہ سے بے اختیار یہ فقرہ نکل گیا کہ میاں صاحب! آپ کو پتہ ہے کہ وہ لوگ کس کو خلیفہ بنائیں گے۔ میں نے کہا لوگوں کا سوال نہیں مَیں خود یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لوں اور میرے ساتھی بھی اس غرض کیلئے تیار ہیں مگر انہوں نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ آپ جانتے ہیں وہ کس کو منتخب کریں گے۔ اس پر مَیں مایوس ہو کر اُٹھ بیٹھا کیونکہ باہر جماعت کے دوست اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے دروازے توڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ جماعت اس وقت تک بغیر کسی رئیس کے ہے اور آپ کی طرف سے کوئی امر طے ہونے میں ہی نہیں آتا۔ آخر مَیں نے مولوی صاحب سے کہا چونکہ ہمارے نزدیک خلیفہ ہونا ضروری ہے اس لئے آپ کی جو مرضی ہو وہ کریں۔ ہم اپنے طور پر لوگوں سے مشورہ کر کے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہتے ہوئے مَیں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوئا اور مجلس برخواست ہو گئی۔
خلافتِ ثانیہ کا قیام
عصر کی نماز کے بعد جب نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل کی وصیت سنانے کے بعد لوگوں سے
درخواست کی کہ وہ کسی کو آپ کا جانشین تجویز کریں تو سب نے بِالاتفاق میرا نام لیا اور اس طرح خلافتِ ثانیہ کا قیام عمل میں آیا۔
مَیں نے سنا ہے کہ اُس وقت مولوی محمد علی صاحب بھی کچھ کہنے کیلئے کھڑے ہوئے تھے مگر کسی نے اُن کے کوٹ کو جَھٹک کر کہا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ بہرحال جو کچھ ہوئا اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت ہوئا اور وہ جس کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا اس کو اس نے خلیفہ بنا دیا۔
حضرت خلیفۂ اوّل کے بعض ارشادات کی اصل حقیقت
یہ لوگ حضرت خلیفۂ اوّل کو اپنے متعلق ہمیشہ غلط فہمی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اسی لئے حضرت خلیفۂ اوّل کے لیکچروں میں بعض
جگہ اس قسم کے الفاظ نظر آ جاتے ہیں کہ لاہوری دوستوں پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ خیال کرنا کہ وہ خلافت کے مخالف ہیں جھوٹ ہے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ خود حضرت خلیفۂ اوّل سے بار بار کہتے کہ ہمارے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے جھوٹ ہے، ہم تو خلافت کے صدقِ دل سے مؤیّد ہیں۔ مگر اب دیکھ لو اِن کا جھوٹ کس طرح ظاہر ہو گیا اور جن باتوں کا وہ قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کرتے تھے اب کس طرح شدت سے اُن کا انکار کرتے رہتے ہیں۔
غرض حضرت خلیفۂ اوّل کی خلافت کو تسلیم کر لینے کے بعد ان لوگوں نے بھی خوارج کی طرح اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُشُوْریٰ بَیْنَنَا۳۲؎ کا راگ الاپنا شروع کر دیا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام رکھا اور جماعت میرے ہاتھ پر جمع ہوئی۔ اُن کے بعد بھی بعض لوگ بعض اغراض کے ماتحت بیعت سے علیحدہ ہوئے اور انہوں نے بھی ہمیشہ وہی شور مچایا جو خوارج مچایا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے آج تک اُن کو ناکام و نامراد رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی جماعت کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔
خلافت کے بارہ میں قرآنی احکام
یہ تو تاریخ خلافت ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و احادیث میں اس بارہ میں کیا روشنی ملتی ہے اور کیا کوئی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام نے تجویز کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے۔
اس بارہ میں جب ہم غورکرتے ہیں تو ہمیں پہلا اصولی حکم قرآن کریم میں یہ ملتا ہے کہ:۔
۳۳؎
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اہل کتاب جھوٹ اور فریب اور شرک کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے سچائی کو چھوڑ رہے ہیں اور جب بھی مؤمنوںاور غیر مؤمنوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو مؤمنوں کے متعلق تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی بُرے ہیں اور کافروں کے متعلق اُن کی یہ رائے ہوتی ہے کہ وہ مؤمنوں سے بہتر ہیں۔ جیسے غیر مبائعین ہماری دشمنی کی وجہ سے عام مسلمانوں کو ہم سے بہتر سمجھتے اور اُن کے پیچھے نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی کوئی بات ہو وہ کہتے ہیں یہ مسلمان احمدیوں سے زیادہ اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ تم چونکہ مؤمنوں کو دور کرتے ہو اور غیر مؤمنوں کو اپنے قریب کرتے ہو اس لئے آج ہم تم سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم ہمارے قرب سے دور ہو جائو۔ اور لوگ تو *** صرف زبان سے کرتے ہیں اور جب کسی پر *** ڈالنی ہو تو کہتے ہیں جا تجھ پر *** مگر جس پر ہماری *** پڑتی ہے اس کا کوئی مددگار نہیں رہتا۔ یہود کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے اُن پر *** ڈالی تو اُن کا کیسا بُرا حال ہوئا۔ باوجود اس کے کہ مال و دولت اُن کے پاس بہت ہے مختلف قومیں مختلف وقتوں میں اُٹھتی اور انہیں ذلیل و رُسوا کرتی رہتی ہیں۔ یہی حال غیر مبائعین کا ہے۔ جب میری بیعت ہوئی تو اُس وقت قادیان میں دو ہزار کے قریب آدمی جمع تھے اور سِوائے پچاس ساٹھ کے باقی سب نے میری بیعت کرلی۔ مگر ’’پیغامِ صلح‘‘ نے لکھا کہ:-
’’حاضر الوقت جماعت میں سے نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہ کی اور افسوس کرتے ہوئے مسجد سے چلے آئے‘‘۔ ۳۴؎
پھر اُسی پیغامِ صلح میں انہوں نے میرے متعلق اعلان کیا کہ:۔
’’ابھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے‘‘ ۳۵؎
گویا پانچ فیصدی آدمی ہمارے ساتھ تھے اور پچانوے فیصدی اُن کے ساتھ۔ مگر اب کیا حال ہے۔ اب وہ بار بار لکھتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے وابستہ ہے۔ بلکہ اب تو ان کے دلائل کا رُخ ہی بدل گیا ہے۔ پہلے وہ اپنی سچائی کی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ جماعت کی اکثریت اُن کے ساتھ ہے مگر جب اکثریت خدا تعالیٰ نے ہمارے ساتھ کر دی تو وہ یہ کہنے لگ گئے کہ جماعت کی اکثریت کا کسی بات کا قائل ہونا اُس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوتا۔ قرآن میں صاف آتا ہے کہ ۳۶؎ گویا جب تک وہ زیادہ رہے اُن کی یہ دلیل رہی کہ نبی کو ماننے والوں کی اکثریت گمراہ نہیں ہو سکتی اور جب ہم زیادہ ہو گئے تو کا مصداق ہمیں قرار دے دیا گیا۔ بہرحال انہوں نے اتنا تو ضرور اقرار کر لیا کہ اُن کے نصیر جاتے رہے ہیں۔ اور یہی اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ ۔ ان لوگوںکو تو یہ حَسد کھائے چلا جاتا ہے کہ انہیں حکومت اور طاقت کیوں نہ مل گئی۔ حالانکہ اگر دنیا کی حکومت ان کے قبضہ میں ہوتی تو یہ بال برابر بھی لوگوں کو کوئی چیز نہ دیتے۔ کھجور کی گٹھلی کے نشان کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی طبیعت میں سخت بخل ہے۔ جیسے پیغامیوں کو یہی بخل کھا گیا کہ ایک لڑکے کو خلافت کیوں مل گئی۔ فرماتا ہے۔تم جوبُخل کرتے ہو اور کہتے ہو کہ انہیں حکومت اور خلافت کیوں مل گئی تو اتنا تو سوچو کہ یہ حکومت اور سلطنت کس کو ملی ہے؟ کیا جسے حکومت ملی ہے وہ آل ابراہیم ؑ میں شامل نہیں۔ اگر ہے تو پھر تمہارے حسد سے کیا بنتا ہے۔ خدا نے پہلے بھی آل ابراہیم ؑکو حکومت اور سلطنت دی اور اب بھی وہ آل ابراہیم کو حکومت اور سلطنت دے گا۔ ہم اس سے پہلے بھی آل ابراہیم ؑ کو حکومت دے چکے ہیں۔ جن لوگوں نے اُن کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا وہ عزت پا گئے اور جنہوں نے انکار کیا اُن کو سزا مل گئی۔ فرماتا ہے یہ حکومت جو آل ابراہیم ؑ کو دی جائے گی یہ لوگوں کیلئے بڑی رحمت اور برکت کا موجب ہوگی۔ جب تک وہ اس رحمت کے نیچے رہیں گے اور اس حکومت سے بھاگنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بڑے آرام اور سُکھ میں رہیں گے مگر جب انہوں نے انکار کر دیا تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں ایسے عذاب میں مبتلاء کرے گا جس سے رہائی کی کوئی صورت ہی نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ دُکھوں میں مبتلاء رہیں گے۔
انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ ایک عذاب کا عادی ہو جاتا ہے تو اُس کی تکلیف اسے پہلے جیسی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا ہی ظالم ہوجب اُس کی حکومت پر کچھ عرصہ گزر جاتا ہے تو اُس کا ظلم لوگوں کو پہلے جیسا محسوس نہیں ہوتا اور وہ خود بھی نرمی کا پہلو اختیار کرنے لگ جاتا ہے لیکن اگر وہ بدل جائے اور اُس کی جگہ کوئی اور ظالم بادشاہ آ جائے تو اُس کا ظلم بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہے اگر تم نے اس انعام کو ردّ کر دیا تو پھر ظالم بادشاہ تم پر حکومتیں کریں گے اور وہ حکومتیں جلد جلد بدلیں گی تا کہ تمہیں اپنے کئے کی سزا ملے۔
۔مگر جو لوگ ایمان لانے والے ہونگے اور اعمالِ صالحہ بجا لائیں گے، اُن کو ہم اعلیٰ درجہ کی حکومتیں بخشیں گے اور ان جنات میں اُن کے ساتھ اُن کی بیویاں بھی ہونگی اور اُن سب کو آرام اور سُکھ کا بہت لمبا زمانہ بخشا جائے گا۔ اِن آیات میں دراصل اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہود جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ سخت نقصان اٹھائیں گے اور ہمیشہ عذاب میں مبتلاء رہیں گے لیکن مؤمن جو اس فضل کو تسلیم کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں جنتی زندگی دے گا اور اُن کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ہونگی۔
اَزْوَاجٌ مُطَھَّرَۃٌ کے الفاظ پر دشمنانِ اسلام کا ایک ناواجب اعتراض
ٌ کے الفاظ پر کئی نادان دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ اسلام جنت کو ایک چَکْلہ بناتا ہے
کیونکہ عورتوں کا بھی ساتھ ہی ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے جنت میں جہاں مرد ہونگے وہاں عورتیں بھی ہونگی حالانکہ وہ نادان نہیں جانتے کہ چَکْلہ تو وہ خود اپنے نفس کی وجہ سے بناتے ہیں۔ ورنہ اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ جس طرح مرد جنت کے حقدار ہیں عورتیں بھی حقدار ہیں اور یہ کہ جنت مرد اور عورت کے تعاون سے بنتی ہے، اکیلا مرد جنت نہیں بنا سکتا۔ چنانچہ دیکھ لو اس رکوع میں دُنیوی حکومتوں کا ذکر ہے اور ان حکومتوں کا ذکر کرتے کرتے اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس میں عورتوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے اور اگر وہ شریک نہ ہوں تو یہ مکمل نہیں کہلا سکتی۔ پس مرد اور عورت دونوں مل کر بناتے ہیں اور اگر وہ دونوں متحدہ طور پر کوشش نہ کریں تو کبھی یہ نہیں بن سکتی نہ دنیا کی اور نہ اُخروی ۔ بلکہ دنیا کی کی تعمیر میں بھی مرد اور عورت کو مل کر کام کرنا پڑتا ہے اور اُخروی کی تعمیر میں بھی مرد کے ساتھ عورت کی شراکت ضروری ہے۔ اگر وہ دونوں مل کر اس کی تعمیر نہیں کریں گے تو کبھی والی نعمت کو وہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔
عورت اور مرد کے تعاون کے بغیر نہ دُنیوی جنت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ اُخروی
اگر لوگ اس نکتہ کو سمجھتے اور قومی زندگی میں عورت کو شریک رکھتے اور اس کی اہمیت اور قدروقیمت
کو پہچانتے تو آج اسلام کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے اور نہ دنیا کی وہ حالت ہوتی جو دکھائی دے رہی ہے بلکہ یہ دنیا انسانوں کیلئے جنت ہو جاتی اور وہ یہیں جنت کو پا لیتے۔ مگر جو لوگ عورت کے بغیر حاصل کرتے ہیں اُن کی حقیقی نہیں ہوتی کیونکہ کی خصوصیت یہ ہے کہ عدن ہو۔ اور عورت کے بغیر عدن نصیب نہیں ہوتی بلکہ اِدھر مرد تیار کرتا ہے اور اُدھر عورت اُس کی اولاد کو سے باہر نکال دیتی ہے کیونکہ اولاد کی صحیح تربیت کے بغیر قوم کو دائمی حاصل نہیں ہو سکتی اور اولاد کی تربیت کا اکثر حصہ چونکہ عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لئے اس کی تکمیل کیلئے عورت کے تعاون اور اس کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی انسان کو ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ جب عورت کو تعلیم حاصل ہوگی، جب عورت کے اندر تقویٰ ہوگا، جب عورت کے اندر دین کی محبت ہوگی، جب عورت کے دل میں خدا اور اُس کے رسول کے احکام پر چلنے کی ایک والہانہ تڑپ ہوگی تو ناممکن ہے کہ وہ یہی جذبات اپنی اولاد کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پس مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ آج کی جنت تیار کریں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ کَل کی تیار کریں۔ مردوں کا یہ کام ہے کہ وہ بنائیں اور عورتوں کا یہ کام ہے کہ وہ اس کیلئے نئے مالی پیدا کریں۔ اگر ایک طرف مرد اُس کی تعمیر میں لگا ہوئا ہو اور دوسری طرف عورت اس کی تعمیر میں لگی ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف مرد اس کی حفاظت کرتا ہو اور دوسری طرف عورت اس کی حفاظت کیلئے نئے سے نئے مالی پیدا کرتی چلی جاتی ہو تو پھر کون ہے جو اُس کو برباد کر سکے۔ کون ہے جو قومی وحدت، قومی عظمت اور قومی شان کو نقصان پہنچا سکے۔ مگر جس دن عورت کو اس جنت کی تعمیر میں شریک ہونے سے روک دیا جائے گا اُسی دن اگلے مالی پیدا ہونے بند ہو جائیں گے اُسی دن پہلوں کی ٹریننگ ختم ہو جائے گی اور جب پہلوں کی ٹریننگ ختم ہو گئی اور اگلوں کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تو وہ جنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی بلکہ ضرور ہے کہ شیطان اُسے اُجاڑ کر رکھ دے۔
ایک عظیم الشان نکتہ
پس یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ حیاتِ ملّی کے قیام کیلئے مَردوں اور عورتوں دونوں کو مِل کر کوشش
کرنی چاہئے۔ جب تک عورتوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرو گے اُس وقت تک تم یقین رکھو کہ تم جنت نہیں بنا سکو گے۔ اگر تم اپنی کوشش سے ساری دنیا کو بھی ایک دفعہ نمازی بنا لو تو اس کا کیا فائدہ جب کہ اُن نمازیوںکی اولادوں کو انہی کی مائیں بے نماز بنانے میں مصروف ہوں۔ اس طرح تو یہی ہوگا کہ تم بنائو گے اور عورتیں اُس جنت کو برباد کرتی چلی جائیں گی۔
ہمارا ایک رشتہ دار ہوئا کرتا تھا جو دین کا سخت مخالف اور خدا اور رسول کے احکام پر ہمیشہ ہنسی اور تمسخر اُڑایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہوئا اور علاج کیلئے حضرت خلیفۂ اوّل کے پاس آیا۔ حضرت خلیفۂ اوّل نے باتوں باتوں میں اس سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ کے پہلو میں پانچ وقت لوگ مسجد میں آ کر نمازیں پڑھتے ہیں کیا آپ کو کبھی اس پر رَشک نہیں آیا؟ اور کیا آپ کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ آپ کو بھی نمازیں پڑھنی چاہئیں؟ اس نے یہ سن کر بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا مولوی صاحب مَیں تو بچپن سے ہی سلیم الفطرت واقع ہوئا ہوں۔ چنانچہ ان دنوں میں بھی جب میں لوگوں کو دیکھتا کہ انہوں نے سر نیچے اور سرین اونچے کئے ہوئے ہیں تو میں ہنسا کرتا تھا کہ یہ کیسے احمق لوگ ہیں۔
اب بتائو جب مائیں ایسے ’’سلیم الفطرت بچے‘‘ پیدا کرنے شروع کر دیں تو واعظوں کے وعظ سے جو جنت تیار ہو آیا وہ ایک دن بھی قائم رہ سکتی ہے۔ اسی طرح کوئی مسئلہ لے لو علمی ہو یا مذہبی، سیاسی ہو یا اقتصادی، اگر عورت کو اپنے ساتھ شریک نہیں کیا جائے گا تو ان مسائل کے بارہ میں وہ تمہاری اولاد کو بالکل ناواقف رکھے گی اور تمہارا علم تمہارے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ دائمی مرد کو عورت کے بغیر نہیں مل سکتی اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ پس وہ جنہوں نے اسلامی جنت کو چَکْلہ قرار دیا ہے انہوں نے اپنے کا اظہار کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۳۷؎ کہ وہ لوگ جو اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے ہیں اُن کیلئے دو جنتیں ہیں۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ ۳۸؎کہ دو جنتیں دنیا میں ہونگی اور دو ہی اگلے جہاں میں۔ کیونکہ ایک باغ مرد نے لگایا ہوگا اور ایک عورت نے۔ اسی کو کہا گیا ہے اور اسی کو قرار دیا گیا ہے۔ گویا اس باغ کی دو حیثیتیں بھی ہیں اور ایک بھی۔ دو اس لحاظ سے کہ ایک مرد کی کوششوں کا نتیجہ ہوگا اور دوسرا عورت کی کوششوں کا نتیجہ اور ایک اس لحاظ سے کہ مرد و عورت دونوں کی یہ مشترکہ جنت ہوگی۔
پھر فرماتا ہے کہ صرف اگلے جہان میں ہی یہ دو نہیں ہونگے بلکہ اس دنیا میں بھی دو ہیں جن میں سے ایک کی تعمیر مرد کے سپرد ہے اور ایک کی تعمیر عورت کے سپرد۔ پس مؤمنوں کو دو جنتیں تو اس دنیا میں ملتی ہیں اور دو اگلے جہان میں یعنی اسے جسمانی اور روحانی دونوں رنگ کی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جو اپنا دائمی اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳۹؎ یعنی جو لوگ مال و اسباب سے دُنیوی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں ایک وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن جو لوگ ایسے اعمال کرتے ہیںجو خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوں اُن کے عمل ابدیّت کا مقام پا لیتے ہیں اور نہ صرف انہیں حاضر ثواب ملتا ہے بلکہ اُن کی وجہ سے ثواب کا ایک دائمی سلسلہ جاری ہوتا ہے۔
اس حدیث کی تشریح کہ جنت مائوںکے قدموں کے نیچے ہے
یہ حدیث کہ جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے یہ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر ماں اچھی تربیت کرے تو اچھی نسل پیدا ہوگی اور جو
انعامات باپ حاصل کرے گا وہ دائمی ہو جائیں گے لیکن اگر ماں اچھی تربیت نہیں کرے گی تو باپ کے کمالات باپ تک ختم ہو جائیں گے اور دنیا کوجنّاتِ عدن حاصل نہیں ہونگی۔ یہی مفہوم اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو معاویہ بن جاہمہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئا اور کہنے لگا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں فلاں جہاد میں شامل ہو جائوں۔ آپ نے فرمایا۔ کیا تیری ماں زندہ ہے۔ اس نے کہا ہاں حضور زندہ ہے۔ آپ نے فرمایا۔ فَالْزِمْھَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلَیْھَا۔۴۰؎ جا اور اسی کے پاس رہ کیونکہ اُس کے قدموں میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس میں بعض ایسے نقائص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ اگر وہ ماں کی صحبت میں رہا تو اس کی عمدہ تربیت سے وہ دُور ہو جائیں گے۔ ممکن ہے اس میں تیزی اور جوش کا مادہ زیادہ ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھا ہو کہ اگر یہ جہاد پر چلا گیا تو اس کی طبیعت میں جو جوش کا مادہ ہے وہ اور بھی بڑھ جائے گا لیکن اگر اپنی والدہ کے پاس رہا اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اسے اپنے جوشوں کو دبانا پڑا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ بہرحال کوئی ایسی ہی کمزوری تھی جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے ماں کی تربیت جہاد کے میدان سے زیادہ بہتر سمجھی اور اُسے اپنی والدہ کی خدمت میں رہنے کا ارشاد فرمایا۔ یہ حدیث بھی ظاہر کرتی ہے کہ عورت کے تعاون کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ غرض عورت کا میں ہونا ضروری ہے نہ صرف اگلی میں بلکہ دُنیوی میں بھی کیونکہ اس کے بغیر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔
امانات کو اُ ن کے اہل کے سپرد کرنے کا حکم
پھر فرماتاہے کہ یہ فضل اور رحمت جو تم کو حاصل ہوگی اُس کے قیام کیلئے
ایک نظام کی ضرورت ہے، خود سری اور پراگندگی سے قوم اس انعام کو حاصل نہیں کر سکتی۔ پس اس جنت کے قیام کیلئے جو طریق تم کو اختیار کرنا چاہئے وہ ہم تمہیں بتاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دُنیوی حکومتیں اور مال و املاک پر قبضے یہ سب تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں۔ پس ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ (۱) تم امانتوں کو اُن کے اہل کے سپرد کرو۔ یعنی اپنے لئے ایسے سردار چنو جو اس امانت کو اٹھانے کے اہل ہوں۔ (۲) پھر ہم ان کو جن کے سپرد یہ امانت کی جائے حکم دیتے ہیں کہ وہ انصاف اور عدل سے کام کریں گویا دونوں کو حکم دے دیا۔ ایک طرف لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم حکومت کے اختیارات ہمیشہ ایسے لوگوں کے سپرد کیا کرو جو ان اختیارات کو سنبھالنے اور حکومت کے کام کو چلانے کے سب سے زیادہ اہل ہوں اور پھر اے اہل حکومت! ہم تم کو بھی حکم دیتے ہیں کہ تم رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ رکھو اور کبھی بے انصافی کو اپنے قریب نہ آنے دو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بہت بڑی حکمتوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیشہ تم کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
اس طرح جب ایک نظام قائم ہو جائے تو فرماتا ہے کہ اب جو غرض نظام کی تھی یعنی دین کی تمکین تم اس کی طرف توجہ کرو اور قومی عبادات اور قومی کاموں کے متعلق جو احکام ہیں ان کی بجاآوری کی طرف توجہ کرو۔ عبادات اور فرائض شخصی بھی ہوتے ہیں اور قومی بھی۔ جو شخصی عبادات اور فرائض ہیں اُن کیلئے کسی نظام کی ضرورت نہیں اور انہیں انتخاب امراء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پس انتخاب امراء کے بعد جو بیان فرمایا اس کے یہی معنی ہیں کہ نظام کی غرض یہ تھی کہ قومی عبادات اور فرائض صحیح طور پر ادا ہو سکیں۔ پس تم کو چاہئے کہ جب نظام قائم ہو جائے تو اس کی غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ یہ نہیں کہ نظام بنا کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاؤ اور سارا کام امراء پر ڈال دو۔ امراء کا قیام کام کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ کام لینے کیلئے ہوتا ہے۔ پس چاہئے کہ جب امراء قائم ہو جائیں تو تم قومی ذمہ واریوں کو ادا کرنے میں لگ جاؤ۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ۔ یعنی جب تم نے امراء کا انتخاب کر لیا تواَب سن لو کہ تم پر تین حکومتیں ہوں گی۔ اوّل اللہ کی حکومت۔ دوم رسول کی حکومت۔ سوم اُولِی الْاَمْر کی حکومت ہاں ۔ چونکہ امراء ان ذمہ واریوں کی ادائیگی کے متعلق مختلف سکیمیں تجویز کریں گے تمہیں چاہئے کہ تم ان سکیموں میں ان کی اطاعت کرو لیکن اگر کبھی تمہارا ان سے اختلاف ہو جائے تو ان اختلافات کو اللہ اور رسول کی طرف لے جاؤ۔ یعنی ان اصول کے مطابق طے کرو جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کئے ہیں اور اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۔یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت بابرکت ہوگا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر یہ امر بیان کر دیا ہے کہ جب حکومت کے اختیارات تم قابل ترین لوگوں کے سپرد کر دو تو پھر اللہ اور رسول کے احکام کے ساتھ ان حکام کے احکام کی بھی تمہیں اطاعت کرنی ہو گی اور یہ اس لئے فرمایا کہ پہلے اس نے حکومت کا مقام بتا دیا ہے کہ وہ کیسا ہونا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری ترقی کیلئے یہ امر ضروری ہے کہ تم اپنی باگ ڈور ایک ہاتھ میں دے دو مگر یاد رکھو انتخاب کرتے وقت اہلیت کو مدّنظر رکھو ایسا نہ ہو کہ تم یہ سمجھ کر کہ کسی نے تم پر احسان کیا ہوئا ہے یا کوئی تمہارا قریبی عزیز اور رشتہ دار ہے یا کسی سے تمہارے دوستانہ تعلقات ہیں اسے ووٹ دے دو۔ دنیا میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے اور ووٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہمیں کس سے زیادہ تعلق ہے یا کون ہمارا عزیز اور دوست ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون اس کام کے زیادہ اہل ہے مگر فرمایا اسلامی انتخاب میں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ تم کسی کو محض اس لئے منتخب کر دو کہ وہ تمہارا باپ ہے یا تمہارا بیٹا ہے یا تمہارا بھائی ہے بلکہ اس کام کا جو شخص بھی اہل ہو اُس کے سپرد کر دو خواہ اس کے ساتھ تمہارے تعلقات ہوں یا نہ ہوں۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ جب تم امراء کا انتخاب کر لو گے تو لازماً وہ اسلام کی ترقی کیلئے بعض سکیمیں تجویز کریں گے اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جو احکام بھی ان کی طرف سے نافذ ہوں وہ خواہ تمہاری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ان کی اطاعت کرو۔ ہاں اگر کسی مقام پر تمہارا اُن سے اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کے احکام کی طرف پھرا دو۔ یہاں آ کر خلافت کے منکرین خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں بس بات حل ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ خلفاء کی باتیں ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں۔ اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو انہیں مان لینا چاہئے اور اگر شریعت کے مطابق نہ ہوں تو انہیں ردّ کر دینا چاہئے۔ اس اعتراض کو میں انشاء اللہ بعد میں حل کروں گا۔
نظامِ اسلامی کے متعلق قرآنی اصول
سرِدست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ نظامِ اسلامی کے متعلق قرآن کریم
نے عام احکام بیان کئے ہیں اور ان میں مندرجہ ذیل اصول بیان ہوئے ہیں:۔
(۱) قومی نظام ایک امانت ہوتا ہے کیونکہ اس کا اثر صرف ایک شخص پر نہیں پڑتا بلکہ ساری قوم پر پڑتا ہے۔ پس اس کے بارہ میں فیصلہ کرتے وقت اپنی اغراض کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ قوم کی ضرورتوں اور فوائد کو دیکھنا چاہئے۔
(۲) اس امانت کی ادائیگی کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ امانت ادا نہیں ہو سکتی۔ یعنی افراد فرداً فرداً اس امانت کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ ضرور ہے کہ اس کی ادائیگی کیلئے کوئی منصرم ہوں۔
(۳) ان منصرموں کو قوم منتخب کرے۔
(۴) انتخاب میں یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ جنہیں منتخب کیا جائے وہ ان امانتوں کو پورا کرنے کے اہل ہوں۔ اس کے سِوا اور کوئی امر انتخاب میں مدنظر نہیں ہونا چاہئے۔
(۵) جن کے سپرد یہ کام کیا جائے گا وہ امر قومی کے مالک نہ ہوں گے بلکہ صرف منصرم ہوں گے۔ کیونکہ فرمایا یعنی ان کے سپرد اس لئے یہ کام نہ ہو گا کہ وہ باپ دادا سے اس کے وارث اور مالک ہوں گے بلکہ اس لئے کہ وہ اس خدمت کے اہل ہوں گے۔
یہ احکام کسی خاص مذہبی نظام کے متعلق نہیں بلکہ جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے عام ہیں خواہ مذہبی نظام ہو اور خواہ دُنیوی ہو اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ملوکیت کو اپنے نظام کا حصہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسلام صرف انتخابی نظام کو تسلیم کرتا ہے اور پھر اس نظام کے بارہ میں فرماتا ہے کہ جن کے سپرد یہ کام ہو افراد کو چاہئے کہ ان کی اطاعت کریں۔
کیا اسلام کسی خالص دُنیوی حکومت کو تسلیم کرتا ہے
اگر کہا جائے کہ کیا اسلام
کسی خالص دُنیوی حکومت کو بھی تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام سب صحیح سامانوں کی موجودگی میں جبکہ سارے سامان اسلام کی تائید میں ہوں اور جبکہ اسلام آزاد ہو خالص دُنیوی نظام کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر وہ حالات کے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ اعلیٰ نظام جو اسلام کے مدنظر ہو نافذ نہ کیا جا سکے اس صورت میں دُنیوی نظاموں کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی وقت اگر مسلمانوں کا معتدبہ حصہ کُفّار حکومتوں کے ماتحت ہو جائے، ان کی سَلب ہو جائے، ان کی آزادی جاتی رہے اور ان کی اجتماعی قوت قائم نہ رہے تو جن ملکوں میں اسلام کا زور ہو وہ مذہبی اور دُنیوی نظام اکٹھا قائم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کی اتباع نہیں کر سکتی۔ پس اس مجبوری کی وجہ سے ان ملکوں میں خالص دُنیوی نظام کی اجازت ہو گی جو انہی اصول پر قائم ہو گا جو اسلام نے تجویز کئے ہیں اور جن کا قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے۔
خالص دُنیوی نظام کا مفہوم
خالص دُنیوی نظام سے یہ مراد نہیں کہ وہ نظام اسلامی احکام کو جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں نافذ نہیں
کرے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ مذہبی طور پر اس کے احکام سب عالمِ اسلامی پر واجب نہ ہوں گے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت سیاسی حالات کی وجہ سے ان کی پابندی نہ کر سکے گی اور نہ اس نظام کے قیام میں مسلمانوں کی اکثریت کا ہاتھ ہو گا۔
پس ایسے وقت میں جائز ہو گا کہ ایک خالص مذہبی نظام الگ قائم کیا جائے بلکہ جائز ہی نہیں ضروری ہو گا کہ ایک خالص مذہبی نظام علیحدہ قائم کر لیا جائے جس کا تعلق اس اسلامی نظام سے ہو جس کا تعلق کسی حکومت سے نہ ہو بلکہ اسلام کی روحانی تنظیم سے ہو تاکہ غیر حکومتیں دخل اندازی نہ کریں اور چونکہ وہ صرف روحانی نظام ہو گا اور حکومت کے کاروبار میں وہ دخل نہ دے گا اس لئے ایسا نظام غیر حکومتوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے گا اور اسلام پراگندگی سے بچ جائے گا۔
اگر مسلمان اس آیت کے مفہوم پر عمل کرتے تو یقینا جو تنزل مسلمانوں کو آخری زمانہ میں دیکھنا نصیب ہوئا اس کا دیکھنا انہیں نصیب نہ ہوتا۔
مسلمانوں کی ایک افسوسناک غلطی
مسلمانوں سے تنزل کے وقت میں یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ اگر وہ
ساری دنیا میںایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دُنیوی امور پر مشتمل ہو تو اُن کیلئے خالص دینی نظام کی بھی کوئی صورت نہیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ دونوں نظام کسی صورت میں بھی الگ نہیں ہو سکتے اور جب ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا تو انہوں نے دوسرے نظام کو بھی ترک کر دیا حالانکہ مسلمانوں کا فرض تھا کہ جب ان میں سے خلافت جاتی رہی تھی تو وہ کہتے کہ آؤ جو قومی مسائل ہیں ان کیلئے ہم ایک مرکز بنا لیں اور اس کے ماتحت ساری دنیا میں اسلام کو پھیلائیں۔ چنانچہ وہ اس مرکز کے ماتحت دنیا بھر میں تبلیغی مشن قائم کرتے، لوگوں کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرتے، لوگوں کو قرآن پڑھاتے، غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرتے اور جو مشترکہ قومی مسائل ہیں ان میں مشترکہ جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے مگر انہوں نے سمجھا کہ اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہوئا کہ وہ روز بروز تنزلمیں گِرتے چلے گئے۔ اگر وہ دینی اور دُنیوی امور پر مشتمل نظام کے قیام میں ناکام رہنے کے بعد خالص دینی نظام قائم کر لیتے تو وہ بہت بڑی تباہی سے بچ جاتے اور اس کی وجہ سے آج شاید تمام دنیا میں اسلام اتنا غالب ہوتا کہ عیسائیوں کا نام و نشان تک نہ ہوتا مگر چونکہ انہیں یہ غلطی لگ گئی کہ اگر وہ ساری دنیامیں ایک ایسا نظام قائم نہیں کر سکے جو دینی اور دُنیوی دونوں امور پر مشتمل ہو تو اب ان کیلئے کسی خالص دینی نظام کے قیام کی کوئی صورت ہی نہیں اس لئے جب ایک نظام ان کے ہاتھ سے جاتا رہا تو دوسرے نظام کو بھی انہوں نے ترک کر دیا۔
دوسری غلطی
دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ سمجھا انتخاب صرف اس نظام کیلئے ہے جو سب مسلمانوں کے دینی اور دُنیوی امور پر حاوی ہو حالانکہ
ان آیات میں خداتعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا تھا کہ انتخاب خالص دُنیوی نظام میں بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح دینی و دُنیوی مشترکہ نظام میں۔ اگر اور نہیں تو وہ اتنا ہی کر لیتے کہ جب بھی کسی کو بادشاہ بناتے تو انتخاب کے بعد بناتے۔ تب بھی وہ بہت سی تباہی سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے انتخاب کے طریق کو بھی ترک کر دیا حالانکہ اگر وہ اس نکتہ کو سمجھتے تو وہ ملوکیت کا غلبہ جو اسلام میں ہؤا اور جس نے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیا کبھی نہ ہوتا اور مسلمانوں کی کوششیں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے جاری رہتیں۔ اور مسلمان ڈیما کریسی (DEMOCRACY) کی صحیح ترقی کے پہلے اور سب سے بہتر علم بردار ہوتے۔
اختلاف کی صورت میں ایک خالص مذہبی نظام قائم کرنے کا ثبوت
یہ جو مَیں نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں کہ اختلاف پیدا ہو چکا ہے ایک خالص مذہبی نظام قائم کرنے کا اس
آیت سے ثبوت ملتا ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ اس آیت میں سب مسلمان مخاطب ہیں اور انہیں ہر وقت کی اطاعت کا حکم ہے اس میں کسی زمانہ کی تخصیص نہیں کہ فلاں زمانہ میں کی اطاعت کرو اور فلاں زمانہ میں نہ کرو بلکہ ہر حالت اور ہر زمانہ میں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کوئی کہ کہے کی اطاعت کا حکم محض وقتی ہے تو ساتھ ہی اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم بھی محض وقتی ہے کیونکہ خدا نے اس سے پہلے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر خدا اور رسول کے احکام کی اطاعت ہر وقت اور ہر زمانہ میں ضروری ہے تو معلوم ہوئا کہ کی اطاعت کا حکم بھی ہر حالت اور ہر زمانہ کیلئے ہے اور دراصل اس آیت کے ذریعہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ کسی نہ کسی نظام کی پابندی ان کیلئے ہر وقت لازمی ہو گی۔ پس جس طرح دوسرے احکام میں اگر ایک حصہ پر عمل نہ ہو سکے تو دوسرے حصے معاف نہیں ہو سکتے۔ جو جہاد نہ کر سکے اس کیلئے نماز معاف نہیں ہو سکتی، جو وضو نہ کر سکے اس کیلئے رکوع اور سجدہ معاف نہیں ہو سکتا، جو کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے اس کیلئے بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشاروں سے نماز پڑھنا معاف نہیں ہو سکتا، اسی طرح اگر سارے عالمِ اسلامی کا ایک سیاسی نظام نہ ہو سکے تو مسلمان کی اطاعت کے ان حصوں سے آزاد نہیں ہو سکتے جن پر وہ عمل کر سکتے تھے۔ جیسے اگر کوئی حج کیلئے جائے اور صفا اور مردہ کے درمیان سعی نہ کر سکے تو سعی اس کیلئے معاف نہیں ہو جائے گی بلکہ اس کیلئے ضروری ہو گا کہ کسی دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو کر اس فرض کو ادا کرے۔ پس مسلمانوں سے یہ ایک شدید غلطی ہوئی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ چونکہ ایک نظام ان کیلئے ناممکن ہو گیا ہے اس لئے دوسرا نظام انہیں معاف ہو گیا ہے۔ حالانکہ خالص مذہبی نظام مختلف حکومتوں میں بَٹ جانے کی صورت میں بھی ناممکن نہیں ہو جاتا جیسا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیاہے اگر لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ تم چور کا ہاتھ کیوں نہیں کاٹتے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں لیکن جن امور میں ہمیں آزادی حاصل ہے ان امور میں ہم اپنی جماعت کے اندر اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کرنا اپنا پہلا اور اہم فرض سمجھتے ہیں۔ پس اگر مسلمان بھی سمجھتے کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں کی اطاعت ان پر واجب ہے اور جن حصوں میں کی اطاعت ان کیلئے ناممکن تھی ان کو چھوڑ کر دوسرے حصوں کیلئے وہ نظام قائم رکھتے تو وہ اس حکم کو پورا کرنے والے بھی رہتے اور اسلام کبھی اس حالت کو نہ پہنچتا جس کو وہ اب پہنچا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا شاید یہ منشاء تھا کہ اسلامی حکم کا یہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ذریعہ سے عمل میں آئے اور یہ فضیلت اس ۴۱؎ کی جماعت کو حاصل ہو کیونکہ آخر ہمارے لئے بھی کوئی نہ کوئی فضیلت کی بات رہنی چاہئے۔ صحابہؓ نے تو یہ فضیلت حاصل کر لی کہ انہوں نے ایک دینی و دُنیوی مشترکہ نظام اسلامی اصول پر قائم کیا مگر جو خالص مذہبی نظام تھا اس کے قیام کی طرف اس نے ہمیںتوجہ دلا دی۔ گویا اس آیت کے ایک حصے پر صحابہؓ نے عمل کیا اور دوسرے حصے پر ہم نے عمل کر لیا۔ پس ہم بھی صحابہؓ میں جا ملے۔ خلاصہ یہ کہ اس آیت میں اسلامی نظام کے قیام کے اصول بیان کئے گئے ہیں اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ (۱) اسلامی نظام انتخاب پر ہو۔ (۲)یہ کہ مسلمان ہر زمانہ میں کے تابع رہیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اپنے تنزل کے زمانہ میں دونوں اصولوں کو بُھلا دیا۔ جہاں ان کا بس تھا انہوں نے انتخاب کو قائم نہ رکھا اور جو امور ان کے اختیار سے نکل گئے تھے ان کو چھوڑ کر جو امور ان کے اختیار میں تھے ان میں بھی انہوں نے کا نظام قائم کر کے ان کی اطاعت سے وحدتِ اسلامی کو قائم نہ رکھا اور ان لغو بحثوں میں پڑ گئے کہ انہیں صرف کی اطاعت کرنی چاہئے۔ اور اس طرح جو اصل غرض اس حکم کی تھی وہ نظر انداز ہو گئی حالانکہ جو امر ان کے اختیار میںنہ تھا اس میں ان پر کوئی گرفت نہ تھی اگر وہ اس حصہ کو پورا کرتے جو ان کے اختیار میں تھا۔
اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ شاید کوئی اعتراض
کرے کہ احمدیہ جماعت کی تعلیم تو یہ ہے کہمیں غیر مذاہب کے بھی شامل ہیںاور اس آیت کے ماتحت غیر مسلم حکام کی اطاعت بھی فرض ہے۔ مگر اب جو معنی کئے گئے ہیں اس کے ماتحت غیر مسلم آ ہی نہیں سکے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے لیکن یہ معنی صرف کے ٹکڑے سے نکلتے ہیں۔ یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ غیرمسلم بھی اس میں شامل ہیں تو اس وقت ہم سارے رکوع کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ آیت کے صرف ایک ٹکڑہ سے اپنے دعوے کا استنباط کرتے ہیں لیکن یہ ٹکڑہ ساری آیتوں سے مل کر جو معنی دیتا ہے انہیں باطل نہیں کیا جا سکتا۔ بیشک دُنیوی امور میں ہر کی اطاعت واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر زمانہ میں کی اطاعت جو مسلمانوں میں سے ان کیلئے منتخب ہوں ان پر واجب ہے۔
اُولِی الْاَمْرِ سے اختلاف کی صورت میں رُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کے کیا معنی ہیں؟
اب میں اس مضمون کو لیتا ہوں جس کے بیان کرنے کا میں پیچھے
وعدہ کر آیا ہوں کہبعض لوگ اس مقام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اولوالامر سے اختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اطاعت واجب نہیں بلکہ اختلاف کی صورت میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ خدا اور رسول کا کیا حکم ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے خیال کو درست سمجھا کرتا ہے۔ پس اگر اس آیت کا یہی مفہوم لیا جائے تو اطاعت کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ آخر وہ کونسا امر ایسا نکلے گا جسے تمام لوگ متفقہ طور پر خدا اور رسول کا حکم سمجھیں گے۔ یقینا کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہوئا کرتا ہے۔ پس ایسی صورت میں اگر ہر شخص کو یہ اختیار ہو کہ وہ حکم سنتے ہی کہہ دے کہ یہ خدا اور رسول کی تعلیم کے خلاف ہے تو اس صورت میں خلیفہ صرف اپنے آپ پر ہی حکومت کرنے کیلئے رہ جائے ، کسی اور پر اس نے کیا حکومت کرنی ہے۔ بِالخصوص موجودہ زمانہ میں تو ایسا ہے کہ آج کَل ماننے والے کم ہیں اور مجتہد زیادہ۔ ہر شخص اپنے آپ کو اہل الرائے خیال کرتا ہے۔ اس صورت میں خلیفہ تو اپنا بوریا بچھا کر الگ شور مچاتا رہے گا کہ یوں کرو اور لوگ یہ شور مچاتے رہیں گے کہ پہلے ان حکموں کو قرآن اور حدیث کے مطابق ثابت کرو، تب مانیں گے ورنہ نہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی دینی امر ایسا نہیں جسے ساری دنیا یکساں طور پرمانتی ہو بلکہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک جاہل شخص تھا جسے مولویوں کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق تھا مگر چونکہ اسے دین سے کوئی واقفیت نہ تھی اس لئے جہاں جاتا لوگ دھکّے دے کر نکال دیتے۔ ایک دفعہ اس نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے علماء کی مجلس میں بیٹھنے کا بڑا شوق ہے مگر لوگ مجھے بیٹھنے نہیں دیتے میں کیا کروں۔ اس نے کہا ایک بڑا سا جُبّہ اور پگڑی پہن لو۔ لوگ تمہاری صورت کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ کوئی بہت بڑا عالم ہے اور تمہیں علماء کی مجلس میں بیٹھنے سے نہیں روکیں گے۔ جب اندر جا کر بیٹھ جاؤ اور تم سے کوئی بات پوچھی جائے تو کہہ دینا کہ اختلافی مسئلہ ہے بعض نے یوں لکھا ہے اور بعض نے اس کے خلاف لکھا ہے اور چونکہ مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے تمہاری اس بات سے کسی کا ذہن اِدھر منتقل نہیں ہو گا کہ تم کچھ جانتے نہیں۔ چنانچہ اس نے ایک بڑا سا جُبّہ پہنا، پورے تھان کی پگڑی سر پر رکھی اور ہاتھ میں عصا لے کر اس نے علماء کی مجالس میں آنا جانا شروع کر دیا جب کسی مجلس میں بیٹھتا تو سر جُھکا کر بیٹھا رہتا۔ لوگ کہتیکہ جناب آپ بھی تو کچھ فرمائیں۔ اس پر وہ گردن ہِلا کر کہہ دیتا اس بارہ میں بحث کرنا لغو ہے۔ علمائِ اسلام کا اس کے متعلق بہت کچھ اختلاف ہے کچھ علماء نے تو اس طرح لکھا ہے جس طرح یہ مولانا فرماتے ہیں اور کچھ علماء نے اُس طرح لکھا ہے جس طرح وہ مولانا فرماتے ہیں۔ لوگ سمجھتے کہ اس شخص کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ چنانچہ کہتے بات تو ٹھیک ہے جھگڑا چھوڑو اور کوئی اور بات کرو کچھ مدت تو اسی طرح ہوتا رہا اور علماء کی مجالس میں اس کی بڑی عزت و تکریم رہی۔ مگر ایک دن مجلس میں یہ ذکر چل پڑا کہ زمانہ ایسا خراب آ گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ خدا کا انکار کرتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر خدا ہے تو کوئی دلیل دو۔ اس پر لوگوں نے حسبِ دستور ان سے بھی کہا کہ سنایئے مولانا آپ کا کیا خیال ہے۔ وہ کہنے لگا بحث فضول ہے کہ کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا ہے اور کچھ علماء نے لکھا ہے کہ خدا نہیں۔ یہ سنتے ہی لوگوں میں اس کا بھانڈا پُھوٹ گیا اور انہوں نے دھکّے دے کر اسے مجلس سے باہر نکال دیا۔ تو دنیا میں اس کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر کے یہ معنی کئے جائیں کہ جب بھی خلیفہ کے کسی حکم سے کسی کو اختلاف ہو اس کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو دھکّا دے کر کہے کہ تیرا حکم خدا اور رسول کے احکام کے خلاف ہے تو اس کو اتنے دھکّے ملیں کہ ایک دن بھی خلافت کرنی اس کیلئے مشکل ہو جائے۔ پس یہ معنی عقل کے بالکل خلاف ہیں۔ ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگوں کو اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر لگی ہے اگر وہ صحیح معنی سمجھ لیتے تو ان کو کبھی ٹھوکر نہ لگتی۔
اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ والی آیت دُنیوی حکام اور خلفائے راشدین دونوں پر حاوی ہے
وہ صحیح معنی کیا ہیں؟ ان کو معلوم کرنے کیلئے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ
آیت عام ہے اس میںخالص دُنیوی حکام بھی شامل ہیں اور خلفاء راشدین بھی شامل ہیں پس یہ آیت خالص اسلامی خلفاء کے متعلق نہیں بلکہ دُنیوی حکام کے متعلق بھی ہے۔
اب اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ آیت اپنے مطالب کے لحاظ سے عام ہے اور اس میں خالص دُنیوی حکام اور خلفائِ راشدین دونوں شامل ہیں یہ سمجھ لو کہ اِن دونوں کے بارہ میں قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کے احکام الگ الگ ہیں۔ جو خالص دُنیوی حکام ہیں ان کیلئے شریعتِ اسلامی کے الگ احکام ہیں۔ اور جو خلفاء راشدین ہیں ان کیلئے الگ احکام ہیں۔ پس جب خدا نے یہ کہا کہ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جب تمہارا سے جھگڑا ہو تو تم یہ دیکھنے لگ جاؤ کہ خدا اور رسول کا حکم تم کیا سمجھتے ہو بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ چونکہ اس عام حکم میں خلفائِ راشدین بھی شامل ہیں اور دُنیوی حکام بھی اس لئے جب اختلاف ہو تو دیکھو کہ وہ حکام کس قسم کے ہیں۔ اگر تو وہ خلفائے راشدین ہیں تو تم ان کے متعلق وہ عمل اختیار کرو جواللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کے بارہ میں بیان فرمایا ہے اور اگر وہ حکام دُنیوی ہیں تو ان کے بارہ میں تم ان احکام پر عمل کرو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کے متعلق بیان کئے ہیں۔
دونوں کے متعلق الگ الگ احکام
اَب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اِن دونوں قسم کے کے متعلق اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول نے الگ الگ قسم کے احکام بیان کئے ہیں یا نہیں۔ اگر کئے ہیں تو وہ کیا ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن دونوں قسم کے کی نسبت دومختلف احکام بیان کئے ہیں جو یہ ہیں:۔
(۱) عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے بَایَعْنا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَ الْمَکْرَہِ وَ عَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَ عَلٰی اَنْ لاَّنُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَ عَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ فَاَیْنَمَا کُنَّا لَانَخَافُ فِیْ اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمِ وَ فِیْ رِوَایَۃٍ اَنْ لاَّنُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْراً بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ مَتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔ ۴۲؎
یعنی ہم نے رسول کریم ﷺ کی اِن شرائط پر بیعت کی کہ جو ہمارے حاکم مقرر ہوں گے ان کے احکام کی ہم ہمیشہ اطاعت کریں گے خواہ ہمیں آسانی ہو یا تنگی اور چاہے ہمارا دل ان احکام کے ماننے کو چاہے یا نہ چاہے بلکہ خواہ ہمارے حق وہ کسی اور کو دلا دیں۔ پھر بھی ہم ان کی اطاعت کریں گے۔ اسی طرح ہماری بیعت میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جب ہم کسی کو اہل سمجھ کر اس کے سپرد حکومت کا کام کر دیں گے تو اس سے جھگڑا نہیں کریں گے اور نہ اس سے بحث شروع کر دیں گے کہ تم نے یہ حکم کیوں دیا وہ دینا چاہئے تھا۔ ہاں چونکہ ممکن ہے کہ وہ حکام کبھی کوئی بات دین کے خلاف بھی کہہ دیں اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو ہمیں ہدایت تھی کہ ہم سچائی سے کام لیتے ہوئے انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں اور خدا کے دین کے متعلق کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ حکومت کے اہل ہوں اور ان کے سپرد یہ کام تمہاری طرف سے ہو چکا ہو ان سے تم کسی قسم کا جھگڑا نہ کرو۔ مگر یہ کہ تم ان سے کُھلا کُھلا کفر صادر ہوتے ہوئے دیکھ لو۔ ایسی حالت میں جبکہ وہ کسی کُھلے کفر کا ارتکاب کریں اور قرآن کریم کی نص صریح تمہاری تائید کر رہی ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس خلافِ مذہب بات میں ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دواور وہی کرو جس کے کرنے کا تمہیں خدا نے حکم دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکِ الْاَشْجَعِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ خِیَارُاَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَیَھِمَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُاَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تَبْغَضُوْنَھُمْ وَ یَبْغَضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ قَالَ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلا نُنَابِذُھُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوافِیْکُمْ الصَّلٰوۃَ اِلاَّ مَنْ وُلِیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْئًا مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِن مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزِعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَتِہٖ ۴۳؎
حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ تم ان پر درود بھیجو اور ان کی ترقیات کیلئے دعائیں کرو اور وہ تم پر درود بھیجیں اور تمہاری ترقیات کیلئے دعائیں کریں اور بدترین حُکّام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں۔ تم ان پر *** ڈالو اور وہ تم پر *** ڈالیں۔ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! جب ایسے حکمران ہمارے سروں پر مسلّط ہو جائیں تو کیوں نہ ہم ان کا مقابلہ کر کے انہیں حکومت سے الگ کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَامَا اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ فِیْکُمْ لَامَا اَقَامُواالصَّلٰوۃ فِیْکُمْ۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں جب تک وہ نماز اور روزہ کے متعلق تم پر کوئی پابندی عائد نہ کریں اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہ روکیں تم ان کی اطاعت سے ہرگز منہ نہ موڑو۔ الا من وُلِی علیہ وَالٍ فراُہ یاْتی شیئًا من معصیۃ اللّٰہ فلیکرہ ما یأتی من معصیۃ اللّٰہ ولا ینزعنّ یدًا من طاعتہٖ۔ سنو! جب تم پر کسی کو حاکم بنایا جائے اور تم دیکھو کہ وہ بعض امور میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا ارتکاب کر رہا ہے تو تم اپنے دل میں اس کے ان افعال سے سخت نفرت رکھو مگر بغاوت نہ کرو۔
دوسری حدیث میں اس سے یہ زائد حکم ملتا ہے کہ اگر کفر بواح اس سے ظاہر ہو تو اِس حالت میں اس کے خلاف بغاوت بھی کی جا سکتی ہے۔
خلفائے راشدین کی سنت پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم
اس کے مقابلہ میں احادیث میں
عرباضبن ساریہؓ سے ہمیں ایک اور روایت بھی ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ذَاتَ یَوْمٍ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَّ ھٰذہٖ مَوْعِظَۃَ مُوَدِّعٍ فَمَا ذَا تُعَھِّدُ اِلَیْنَا۔ فَقَالَ اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْداً حَبْشِیًّا فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدْیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ فَتَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالۃٌ۔۴۴؎
عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں۔ ایک دن رسول کریم ﷺنے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور جب نماز سے فارغ ہو چکے تو آپؐ نے ہمیں ایک وعظ کیا۔ وہ وعظ ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اس سے ہمارے آنسو بہنے لگ گئے اور دل کانپنے لگے۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوئا اور کہنے لگا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! معلوم ہوتا ہے یہ الوداعی وعظ ہے۔ آپ ہمیں کوئی وصیت کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْداً حَبْشِیًّا ۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور اطاعت اور فرماں برداری کو اپنا شیوہ بناؤ خواہ کوئی حبشی غلام ہی تم پر حکمران کیوں نہ ہو۔ جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ لوگوں میں بہت بڑا اختلاف دیکھیں گے پس ایسے وقت میں میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدْیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَتم میری سنت اور میرے بعد میں آنے والے خلفاء الراشدین کی سنت کو اختیار کرنا۔ تَمَسَّکُوْابِھَا تم اس سنت کو مضبوطی سے پکڑ لینا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ اور جس طرح کسی چیز کو دانتوںسے پکڑ لیا جاتا ہے اسی طرح اس سنت سے چمٹے رہنا اور کبھی اس راستے کو نہ چھوڑنا جو میرا ہے یا میرے خلفائے راشدین کا ہو گا۔ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ اور تم نئی نئی باتوں سے بچتے رہنا فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالۃٌکیونکہ ہر وہ نئی بات جو میری اور خلفاء راشدین کی سنت کے خلاف ہو گی وہ بدعت ہو گی اور بدعت ضلالت ہوئا کرتی ہے۔
ان دونوں قسم کے حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے دو قسم کے تسلیم کئے ہیں۔ ایک دُنیوی اور ایک دینی اور اسلامی۔ دُنیوی امراء کے متعلق اطاعت کا حکم ہے مگر ساتھ ہی کُفربواح کا جواز بھی رکھا ہے اور اس صورت میں بشرطیکہ برہان ہو قیاس نہ ہو ان کُفریہ امور میں ان کی اطاعت سے باہر جانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ گو بعض اسلامی علماء نے جیسے حضرت محی الدین ابن عربی ہیں اس بارہ میں بھی اتنی احتیاط کی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسی صورت میں بھی صرف علیحدگی کا اعلان کرنا جائز ہے بغاوت کرنا پھر بھی جائز نہیں۔ مگر ایک دینی اور اسلامی بتائے ہیں جن کے بارہ میں ہمیں حَکَم نہیں بنایا بلکہ انہیں اُمت پر حَکَم بنایا ہے اور فرمایا ہے جو کچھ وہ کریں وہ تم پر حجت ہے اور ان کے طریق کی اتباع اسی طرح ضروری ہے جس طرح میرے حکم کی۔
پس حاکم دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دُنیوی ہیں اور جن کے متعلق اس بات کا امکان ہے کہ وہ کُفر کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ ان کے متعلق تو یہ حکم دیا کہ تم ان کی اطاعت کرتے چلے جاؤ، ہاں جب ان سے کُفربواح صادر ہو تو الگ ہو جاؤ۔ مگر دوسرے حکام وہ ہیں جو غلطی کر ہی نہیں سکتے ان کے متعلق یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہمیشہ ان کی سنّت اور طریق کو اختیار کرنا چاہئے اور کبھی ان کے راستہ سے علیحدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر کبھی تمہیں یہ شبہ پڑ جائے کہ تمہارے عقائد درست ہیں یا نہیں تو تم اپنے عقائد کو خلفائے راشدین کے عقائد کے ساتھ ملاؤ۔ اگر مل جائیں تو سمجھ لو کہ تمہارا قدم صحیح راستہ پر ہے اور اگرنہ ملے تو سمجھ لو کہ تم غلط راستے پر جا رہے ہو۔
خلفائے راشدین اُمت کیلئے ایک میزان ہیں
گویا خلفائے راشدین ایک میزان ہیں جن سے دوسرے
لوگ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا قدم صحیح راستہ پر ہے یا اس سے منحرف ہو چکا ہے۔ جیسے دو سیر کا بٹہ ایک طرف ہو اور مولیاں گاجریں دوسری طرف تو ہر شخص ان مولیوں گاجروں کو ہی دوسیر کے بٹہ کے مطابق وزن کرے گا یہ نہیں ہو گا کہ اگر پانچ سات مولیاں کم ہوں تو بٹے کو اُٹھا کر پھینک دے اور کہہ دے کہ وہ صحیح نہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم خلفائے راشدین کے اعمال کا جائزہ لو اور دیکھو کہ وہ تمہاری عقل کے اندر آتے ہیں یا نہیں اور وہ تمہاری سمجھ کے مطابق خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہیں یا نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اپنے متعلق کبھی یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ تمہارے اعمال خدا اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں تو تم دیکھو کہ ان اعمال کے بارہ میں خلفائے راشدین نے کیا کہا ہے۔ اگر وہ خلفائے راشدین کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوں گے تو درست ہوں گے اور اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ ہوں گے تو غلط ہوں گے۔
پس خدا اور رسول کا وہ حکم جس کی طرف بات کو لوٹانے کا ارشاد ہے یہی احکام ہیں جن کو میں نے بیان کیا ہے۔ یعنی تم یہ دیکھو کہ جن حکام سے تمہیں اختلاف ہے وہ کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آیا وہ دُنیوی حُکّام میں سے ہیں یا خلفائے راشدین میں سے۔ اگر وہ دُنیوی حُکّام ہیں تو حتیّٰ الوسع ان کی اطاعت کرو۔ ہاں اگر وہ کسی نص صریح کے خلاف عمل کرنے کا حکم دیں تو تمہارا حق ہے کہ ان کی غلطی پر انہیں متنبہ کرو، انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرو اور انہیں بتاؤ کہ تم غلط راستے پر جا رہے ہو اور اگر نہ مانیں اور کا ارتکاب کریں مثلاً نماز پڑھنے سے روک دیں یا روزے نہ رکھنے دیں تو تمہیں اس بات کا اختیار ہے کہ ان کے اس قسم کے احکام ماننے سے انکار کر دو اور کہو کہ ہم نمازیں پڑھیں گے، ہم روزے رکھیں گے، تم جو جی میں آئے کر لو لیکن اگر وہ خلفائے راشدین ہوں تو پھر سمجھ لو کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے۔ وہ جو کچھ کریںگے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو گا اور اللہ تعالیٰ انہیں اسی راہ پر چلائے گا جو اس کے نزدیک درست ہو گا۔ پس ان پر حَکَم بننے کی بجائے اُن کو اپنے اوپر حَکَم بناؤ اور ان سے اختلاف کر کے اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرنے والے مت بنو۔
آیتِ استخلاف پر بحث
اس عام حکم کے بعد اَب میں ان احکام کو لیتا ہوں جو خالص دینی اسلامی نظام کے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۂ نورمیں
فرماتا ہے۴۵؎
ان آیات میں پہلے اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور پھر مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ اطاعت میں کامل ہوئے تو اللہ تعالیٰ انہیں مطاع بنا دے گا اور پہلی قوموں کی طرح ان کو بھی زمین میں خلیفہ بنائے گا اور اس وقت ان کا فرض ہو گا کہ وہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اس طرح اللہ کے رسول کی اطاعت کریں۔ یعنی خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعت ِرسول کرنے والے ہی ہوں گے گویا مَنْ یُّطْعِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَا عَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْکا نکتہ بیان کیا کہ اس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہو گی کہ اشاعت و تمکینِ دین میں خلفاء کی اطاعت کی جائے۔
اقامتِ صلوٰۃ صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی
پس اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے پہلے خلافت کا وعدہ کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ ان کا فرض ہو گا کہ وہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اقامتِ صلٰوۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دیکھ لو، رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں زکوٰۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا۔ پھر جب آپؐ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو اہلِ عرب کے کثیر حصہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم ﷺ کیلئے مخصوص تھا بعد کے خلفاء کیلئے نہیں مگر حضرت ابوبکرؓ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا اورفرمایا کہ اگر یہ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوٰۃ میں دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروں گا جب تک ان سے اسی رنگ میں زکوٰۃ وصول نہ کر لوںجس رنگ میں وہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوٰۃ کا نظام پھر جاری ہو گیا جو بعد کے خلفاء کے زمانہ میں بھی جاری رہا۔ مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوٰۃ کی وصولی کا بھی کوئی نظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوٰۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشاء ہے امراء سے لی جاتی اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے۔ اب ایسا وہیں ہو سکتا ہے جہاں ایک باقاعدہ نظام ہو۔ اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوٰۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اس کے وہ شاندار نتائج کہاں نکل سکتے جو اس صورت میں نکل سکتے ہیں جب زکوٰۃ کے تمام روپیہ کو جماعتی رنگ میں غرباء کی بہبودی اور ان کی ترقی کے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ پس زکوٰۃ کا نظام بِالطبع خلافت کا مقتضی ہے۔ اسی طرح اقامتِ صلوٰۃ بھی بغیر اس کے نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو بھلا چھوٹے چھوٹے دیہات کی جماعتوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ چین اور جاپان میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام ان سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر ایک مرکز ہو گا اور ایک خلیفہ ہو گا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہو گا تو اسے تمام اکناف ِعالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں اور اس کی تہہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے۔ مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلاء رہے اور دوسروں کو بھی دھوکا میں مبتلاء رکھے۔
میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے چالیس پچاس سال پیشتر ایک شخص بیکانیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کیلئے نکل گیا، جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے گیا تو اس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروّجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آؤ اب ہاتھ اُٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیرالمو ء منین جہانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے اب اس بیچارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں۔
غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پرا دا ہو سکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجود ہو۔ چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض غیراحمدی بھی ان سے اِتنے متأثر ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ہمیں تو آپ کے خطبات الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک مشہور لیڈر باقاعدہ میرے خطبات پڑھا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ اس نے کہا کہ اِن خطبات سے مسلمانوں کی صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی راہنمائی بھی ہوتی ہے۔
درحقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ راہنمائی وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس دنیا کے اکثر حصوں سے خبریں آتی ہوں اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت اختیار کر رہے ہیں۔ صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اخبارات میں جھوٹی خبریں بھی درج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنے کا التزام بھی نہیں ہوتا لیکن ہمارے مبلّغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں، اس کے علاوہ جماعت کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبریں ملتی رہتی ہیں اور میں ان سے فائدہ اٹھا کر جماعت کی صحیح راہنمائی کر سکتا ہوں۔
اطاعتِ رسول بھی صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی
پس درحقیقت اقامت ِصلوٰۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی اسی طرح اطاعت ِرسول بھی جس کا کے
الفاظ میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرویا جائے۔ یوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں، صحابہؓ بھی روزے رکھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں، صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں پھر صحابہ اور آج کل کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ یہی فرق ہے کہ وہ اس وقت نمازیں پڑھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب نماز کا وقت آ گیا ہے، وہ اس وقت روزے رکھتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب روزوں کا وقت آ گیا ہے اور وہ اس وقت حج کرتے تھے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اب حج کا وقت آ گیا ہے اور گو وہ نماز اور روزہ اور حج وغیرہ عبادات میں حصہ لیکر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے مگر ان کے ہر عمل میں رسول کریم ﷺ کی اطاعت کی روح بھی جَھلکتی تھی جس کا یہ فائدہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے، صحابہؓ اُسی وقت اس پر عمل کرنے کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں۔ مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے، مسلمان روزے بھی رکھیں گے، مسلمان حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہو گا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظامِ خلافت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جب بھی خلافت ہو گی اطاعتِ رسول بھی ہو گی کیونکہ اطاعتِ رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو یہ تو خدا کے حکم کی اطاعت ہے۔ اطاعتِ رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چندوں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کیلئے کھڑے ہو جائیں۔ غرض یہ تنیوں باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اگر خلافت نہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی، تمہاری زکوٰتیں بھی جاتی رہیں گی، اور تمہارے دل سے اطاعت رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا۔ ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے ماتحت رہنے کی عادت ہے اوراس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اُٹھا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں جس طرح صحابہؓ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیراحمدی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جاؤ تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھاتا دکھائی دے گا اور وہ کہے گا کہ ذرا ٹھہر جائیں مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے کہہ دیا تھا ’’خو محمدؐ صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتاہے۔‘‘ اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائے گا۔ لیکن اگر ایک احمدی کو لے جاؤ تو اس کو پتہ بھی نہیں لگے گاکہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آ گیا ہے بلکہ جس طرح مشین کا پُرزہ فوراً اپنی جگہ پر فِٹ آ جاتا ہے، اسی طرح وہ وہاں پر فِٹ آ جائے گا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کا صحابی بن جائے گا۔
آیتِ استخلاف کے مضامین کا خلاصہ
غرض یہ آیت جو آیتِ استخلاف کہلاتی ہے اس کے مفہوم کا خلاصہ
یہ ہے کہ:-
(۱) جس بات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ایک وعدہ ہے۔
(۲) وعدہ اُمت سے ہے جب تک وہ ایمان و عمل صالح پر کار بند رہے۔
غیر مبائع ہمیشہ اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ اِن آیات میں خلافت کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد سے نہیں بلکہ اُمت سے ہے اور میں نے ان کی یہ بات مان لی ہے۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ وعدہ اُمت سے ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جب تک وہ ایمان اور عملِ صالح پر کاربند رہے گی اس کا یہ وعدہ پورا ہوتا رہے گا۔
(۳) اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ (الف) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی قوموں نے پائے کیونکہ فرماتا ہے (ب) اس وعدہ کی دوسری غرض تمکینِ دین ہے۔ (ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے۔ (د) اس کی چوتھی غرض شرک کا دور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے۔
اس آیت کے آخر میں کہہ کر اس کے وعدہ ہونے پر پھر زور دیا اور ۴۶؎کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم ان کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے۔ خلافت بھی چونکہ ہمارا ایک انعام ہے اس لئے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے۔
یہ آیت ایک زبردست شہادت خلافتِ راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا طریق قائم کیا جائے گا جو مُؤَیَّد مِنَ اللّٰہ ہو گا۔ (جیسا کہ اور سے ظاہر ہے) اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہوگا۔
سچے خلفاء کی علامات
اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں جن سے سچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں:-
(۱) خلیفہ خدا بناتا ہے۔ یعنی اس کے بنانے میںانسانی ہاتھ نہیں ہوتا، نہ وہ خود خواہش کرتا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں ہوتا ہے جب کہ اُس کاخلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ الفاظ کہ خود ظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ کہتے ہیں کہ اس وعدے کا یہ مطلب ہے کہ لوگ جس کو چاہیں خلیفہ بنا لیں، خدا اُس کو اپنا انتخاب قرار دے دے گا۔ مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے ایک استاد کا یہ طریق ہوء ا کرتا تھا کہ جب وہ مدرسہ میں آتا اور کسی لڑکے سے خوش ہوتا تو کہتا کہ اچھا تمہاری جیب میںجو پیسہ ہے وہ مَیں نے تمہیں انعام میں دے دیا۔ یہ بھی ویسا ہی وعدہ بن جاتا ہے کہ اچھا تم کسی کو خود ہی خلیفہ بنا لو اور پھر یہ سمجھ لو کہ اُسے مَیں نے بنایا ہے۔اور اگر یہی بات ہو تو پھر انعام کیا ہوء ا اور ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہنے والی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا امتیازی سلوک کونسا ہوء ا؟ وعدہ تو جو کرتا ہے وہی اسے پورا بھی کیا کرتا ہے نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اسے پورا کوئی اور کرے۔ پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ خلفاء کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی۔ ظاہری لحاظ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اسی طرح کسی منصوبہ کے ماتحت بھی کوئی خلیفہ نہیں بن سکتا۔ خلیفہ وہی ہوگا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہوگا جب کہ دنیا اس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی۔
(۲) دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے سچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی مدد انبیاء کے مشابہہ کرتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ یہ خلفاء ہماری نصرت کے ویسے ہی مستحق ہونگے جیسے پہلے خلفاء۔ اور جب پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ دو قسم کی نظر آتی ہیں۔ اوّل خلافتِ نبوت۔ جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی جس کے بارہ میں فرمایا کہ ۴۷؎ مَیںزمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اَب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ دُنیوی بادشاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا اور جنہوں نے انکار کیا انہیں سزا دی۔
جیسے دائود علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ۴۸؎ اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا (حضرت دائود علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہوء ا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافتِ نبوت ہی ہے) پس تو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کر۔ اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستہ سے منحرف کر دیں۔ یقینا وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہوگا اس لئے ایسے لوگوں کے مشوروں کو قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف خدا تیری راہنمائی کرے۔ ان آیات میں دراصل وہی مضمون بیان ہوء ا ہے جو دوسری جگہ ۴۹؎ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
بعض لوگوں نے غلطی سے کے یہ معنی کئے ہیں کہ اے دائود! لوگوں کی ہوئا و ہوس کے پیچھے نہ چلنا حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہی نہیں بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یوں کرنا چاہئے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں۔ اگر مفید ہو تو مان لو اور اگر مفید نہ ہو تو اُسے ردّ کر دو۔ چاہے اُسے پیش کرنے والی اکثریت ہی کیوں نہ ہو بِالخصوص ایسی حالت میں جب کہ وہ گناہ والی بات ہو۔
پہلی خلافتیں یا تو خلافتِ نبوت تھیں یا خلافتِ ملوکیت
پس پہلی خلافتیں یا تو خلافت نبوت تھیں جیسے حضرت آدم اور حضرت دائود عَلَیْھِمَا السَّلامُ کی خلافت تھی اور یا پھر خلافتِ حکومت تھیں جیسا کہ
فرمایا۔ ۵۰؎ یعنی اس وقت کو یاد کروجب کہ قوم نوح کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اُس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولاد دی پس تم اللہ تعالیٰ کی اُس نعمت کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔
اِس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دُنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمتِ حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مدنظر رکھ کر تمام کام کرو ورنہ ہم تمہیں تباہ کر دیں گے۔ چنانچہ یہود کی نسبت اس انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے۔ ۵۱؎ یعنی اس قوم کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا کے ماتحت انہیں خلافتِ نبوت دی اور کے ماتحت انہیں خلافتِ ملوکیت دی۔
غرض پہلی خلافتیں دو قسم کی تھیں۔ یا تو وہ خلافتِ نبوت تھیں اور یا پھر خلافتِ ملوکیت۔ پس جب خدا نے یہ فرمایا تو اس سے یہ استنباط ہوء ا کہ پہلی خلافتوں والی برکات اِن کو بھی ملیں گی اور انبیاء سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ اُمتِ محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا۔
خلافتِ ملوکیت کو چھوڑ کر صرف خلافتِ نبوت کے ساتھ مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے
اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافتِ ملوکیت کا بھی ذکر ہے۔ پھر
خلافتِملوکیت کا ذکرچھوڑ کر صرف خلافتِ نبوت کے ساتھ اُس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ گو مسلمانوں سے دوسری آیات میں بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔کہ خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہتا ہے۔ اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ اُن کے دین کو خداتعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے۔ پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافتِ نبوت ہی ہے نہ کہ خلافتِ ملوکیت اسی طرح فرماتا ہے۔۔ کہ خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے۔ یہ علامت بھی دُنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دُنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔گویا وہ خالص موحّد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہونگے۔ مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتیّٰ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ اُن سے کبھی کفر بواح صادر ہو جائے۔ پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں۔
چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد دُنیوی بادشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یعنی جو لوگ اِن خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے۔ اب بتائو کہ جو شخص کفر کا بھی مرتکب ہو سکتا ہو آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہو سکتا ہے؟ یقینا ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا۔ فسق کا فتویٰ انسان پر اُسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے۔
غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافتِ ملوکیت نہیں۔ پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ ہم اُن خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد ہوگی۔ پس اس آیت میں خلافتِ نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافتِ ملوکیت سے۔
خلافت کا وعدہ ایمان اور
عملِ صالح کے ساتھ مشروط ہے
(۳) تیسری بات اِس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ یہ وعدہ اُمت سے اُس وقت تک کیلئے ہے جب تک کہ اُمت مؤمن اور عمل صالح کرنے والی
ہو۔ جب وہ مومن اور عملِ صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کو واپس لے لے گا۔ گویا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتایا کہ نبوت تو اُس وقت آتی ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے۔ جیسے فرمایا۔ ۵۲؎ کہ جب بّر اور بحر میں فساد واقعہ ہو جاتا ہے، لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں، الٰہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں، ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریکی زمین کے چَپہ چَپہ کا احاطہ کر لیتی ہے، تو اُس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نورِ ایمان کو واپس لاتا اور اُن کو سچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اُس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مؤمنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے اور خلافت اُس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تمام لوگ ایمان اور عملِ صالح پر قائم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت اُسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہوتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عملِ صالح قائم ہو چکا ہوتا ہے اور چونکہ اکثریت ابھی ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان او رعملِ صالح پر قائم ہوتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں خلافت کی نعمت دے دیتا ہے۔
اور درمیانی زمانہ جب کہ نہ تو دنیا نیکوکاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کامل ہوتی ہے کہ اُن سے کام لینے والا خلیفہ آئے۔
خلافت کا فُقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے
پس اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا فُقدان کسی خلیفہ کے
نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے اور خلافت کا مٹنا خلیفہ کے گنہگار ہونے کی دلیل نہیں بلکہ اُمت کے گنہگار ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ صریح وعدہ ہے کہ وہ اُس وقت تک خلیفہ بناتا چلا جائے گا جب تک جماعت میں کثرت مؤمنوں اور عملِ صالح کرنے والوں کی رہے گی۔ جب اس میں فرق پڑ جائے گا اور کثرت مؤمنوں اور عملِ صالح کرنے والوں کی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب چونکہ تم بدعمل ہوگئے ہو اس لئے مَیں بھی اپنی نعمت تم سے واپس لیتا ہوں۔ (گو خدا چاہے تو بطور احسان ایک عرصہ تک پھر بھی جماعت میں خلفاء بھجواتا رہے) پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ خراب ہو گیا ہے وہ بالفاظِ دیگر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک اُمت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی اُس میں خلفاء آتے رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہو جائے گی تو خلفاء کا آنا بھی بند ہو جائے گا۔ پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی امکان نہیں ہاں اس بات کا ہر وقت امکان ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم نہ ہو جائے۔اور چونکہ خلیفہ نہیں بگڑ سکتا بلکہ جماعت ہی بگڑ سکتی ہے اس لئے جب کوئی شخص دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ بگڑ گیا تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ابھی جب کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کثیر صحابہؓ ہم میںموجود ہیں، جب کہ زمانہ ابھی دجّالی فِتن سے پُر ہے، جب کہ اس درخت کی ابھی کونپل ہی نکلی ہے جس نے تمام دنیا میں پھیلنا ہے تو شیطان اس جماعت پر حملہ آور ہوء ا۔ اُس نے اُس کے ایمان کی دولت کو لوٹ لیا، اعمالِ صالحہ کی قوت کو سلب کر لیا اور اس درخت کی کونپل کو اپنے پائوں کے نیچے مسل ڈالا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک بارآور درخت کی صورت میں تمام دنیا کو اپنے سایہ سے فائدہ پہنچائیگا کیونکہ بقول اُس کے خلیفہ خراب ہو گیا اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ سچے خلفاء اُس وقت تک آتے رہیں گے جب تک جماعت کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے۔ پس خلافت کا انکار محض خلافت کا انکار نہیں بلکہ اس امر کا اظہار ہے کہ جماعت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہوچکی ہے۔
تمکینِ دین کا نشان
چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اُن کے دینی احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا۔ چنانچہ فرماتا ہے
کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دے گا اور باوجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کر دے گا۔ یہ ایک زبردست ثبوت خلافتِ حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفائے راشدین کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں کوئی جتّھا نہیں رکھتے تھے۔ لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں جتھے رکھتے تھے۔ چنانچہ بنو اُمیّہ حضرت عثمانؓ کے حق میں تھے اور بنو عباسؓ حضرت علیؓ کے حق میں اور ان دونوں کو عرب میں بڑی قوت حاصل تھی۔ جب خلافت میں تنزّل واقع ہوء ا اور مسلمانوں کی اکثریت میں سے ایمان اورعملِ صالح جاتا رہا تو حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد بنو اُمیّہ نے مسلمانوں پر تسلط جما لیا اور یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں حضرت علیؓ کی تو مذمّت کی جاتی رہی مگر حضرت عثمانؓ کی خوبیاں بیان ہوتی رہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے مداح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرنے والے اس دَور میں بہت ہی کم تھے۔ اس کے بعد حالات میں پھر تغیر پیدا ہوء ا اور بنو اُمیّہ کی جگہ بنوعباس نے قبضہ کر لیا اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ بیت سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کا تمام زور حضرت علیؓ کی تعریف اور آپ کی خوبیاں بیان کرنے پر صرف ہونے لگ گیا اور کہا جانے لگا کہ عثمانؓ بہت بُرا تھا۔ غرض بنو اُمیّہ تو یہ کہتے رہے کہ علیؓ بہت بُرا تھا اور بنو عباس یہ کہتے رہے کہ عثمانؓ بہت بُرا تھا اور اس طرح کئی سَو سال تک مسلمانوں کا ایک حصہ حضرت عثمانؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا اور ایک حصہ حضرت علیؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا مگر باوجود اس کے کہ خلفائے اربعہ کے بعد اسلامی حکومتوں کے یہ دو دَور آئے اور دونوں ایسے تھے کہ ان میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے تعلق رکھنے والے لوگ کوئی نہ تھے پھر بھی دنیا میں جو عزت اور جو رُتبہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فتووں اور ارشادات کو حاصل ہے وہ ان دونوں کو حاصل نہیں۔ گو اِن سے اُتر کر انہیں بھی حاصل ہے اور یہ ثبوت ہے کا کہ خدانے ان کے دین کو قائم کیا اور اُن کی عزت کو لوگوں کے قلوب میں جاگزیں کیا۔ چنانچہ آج کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ اُس کے دل میں خلفاء میں سے سب سے زیادہ کس کی عزت ہے تو وہ پہلے حضرت ابوبکرؓ کا نام لے گا پھر حضرت عمرؓ کا نام لے گا پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ کا نام لے گا حالانکہ کئی صدیاں ایسی گذری ہیں جن میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اور اتنے لمبے وقفہ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام دنیا سے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن خدا نے اُن کے نام کو قائم رکھا اور اُن کے فتووں اور ارشادات کو وہ مقام دیا جو حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے فتووں اور ارشادات کو بھی حاصل نہیں۔ پھر بنو اُمیّہ کے زمانہ میں حضرت علیؓ کو بدنام کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور بنو عباس کے زمانہ میں حضرت عثمانؓ پر بڑا لعن طعن کیا گیا مگر باوجود اس کے کہ یہ کوششیں حکومتوں کی طرف سے صادر ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اُن کو بدنام کرنے اور اُن کے ناموں کو مٹانے کی بڑی کوشش کی پھر بھی یہ دونوں خلفاء دُھلے دُھلائے نکل آئے اور خدا نے تمام عالمِ اسلامی میں ان کی عزت و توقیر کو قائم کر دیا۔
خوف کو امن سے بدلنے کی پیشگوئی
(۵) پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ
کہ وہ اُن کے خوف کے بعد اُن کے خوف کی حالت کو اَمن سے بدل دیتا ہے۔ بعض لوگ اِس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ وہ ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو چونکہ خلافت کے بعد خوف پیش آیا اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے حضرت ابوبکرؓ کے سوا اور کسی کو خلیفہ ء راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی اس بات پر بڑا زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ اصل خلیفہ صرف حضرت ابوبکرؓ تھے۔ حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی خلافت آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتی۔
سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ غلطی لوگوں کو صرف اس لئے لگی ہے کہ وہ قرآنی الفاظ پر غور نہیں کرتے۔ بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائے گا بلکہ فرمایا کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دُور کر دے گا اور اُس کی جگہ امن پیدا کردے گا۔ پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئے گی بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اَب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کیلئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلّت کی بات ہوتی ہے تو کیا اُس کے اِس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ذلت ہوئی۔ جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے، جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور جو شخص دُنیوی مال و متاع کو نجاست کی مانند حقیر سمجھتا ہے اُس کے لئے فقر کا خوف بالکل بے معنی ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ بلکہ فرمایا ہے کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہونگے۔ اس فرق کو مدنظر رکھ کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوںنے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے امن سے بدل دیا۔
حضرت عمرؓ کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید
ہوئے۔ مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ متواتر دعائیںکیا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میںکر۔ پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیںکرتے ہوئے گذار دی ہو کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے، وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اُس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ امن سے نہ بدلا گیا۔ بیشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائیں کرتے تھے کہ یا اللہ! مجھے مدینہ میں شہادت دے۔ پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے۔ اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کیاکرتے تھے جن کوخدا تعالیٰ نے قبول کر لیا تو معلوم ہوئاکہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایساخوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو اور اس آیت میں جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہونگے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اُسے اپنی عزت اوربلندی درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوںنہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے۔ مَیں نے تو جب حضرت عمرؓ کی اس دعا کو پڑھا تو مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ وقت تک پہنچے اور اُسے بھی شہید کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایسے سامان کر دیئے کہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اُٹھا اور اس نے خنجر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔
حضرت عثمانؓ نے بھی کوئی خوف محسوس نہیں کیا
پھر حضرت عثمانؓ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن
سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِن باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پر قبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہلِ مدینہ کو ایک دوسرے سے جُدا جُدا رکھتے تا کہ وہ اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ نہ کر سکیں مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمانؓ نماز پڑھانے کیلئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اُس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کر دیا۔ جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمانؓ کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہؓ کا اپنے مکان کے اردگرد پہرہ لگواتے آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطر ہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروںکو چلے جائو۔
پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہؓ حج کیلئے آئے جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں وہاں آپ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ معاویہؓ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا مَیں اپنی حفاظت کیلئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ امیرالمؤمنین! لوگ آپ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ برسرِ جنگ ہو جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا مجھے اِس کی پروا نہیں میرے لئے میرا خدا کافی ہے۔ آخر انہوں نے کہااگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکابر صحابہؓ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے۔ چنانچہ وہ اُن کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں اس سے شریروں کے ارادے ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرّض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جب کہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں۔ مگر حضرت عثمانؓ نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے مَیں انہیں جلا وطن کر دوں۔ حضرت معاویہؓ یہ سن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتنا ہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہؓ لے گا۔ آپ نے فرمایا معاویہؓ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو اس لئے مَیں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا۔ اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمانؓ دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتائو کہ اس قسم کی جرأت کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا۔ اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ میری حفاظت کیلئے بھجوا دو۔ انہیں تنخواہیں میں دلا دوں گا اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ اگر مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سن لے کہ میرا بدلہ معاویہؓ لے گا۔ مگر آپ نے سوائے اِس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہؓ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگر مَیں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کرو گے۔
پھر جب آخر میں دشمنوں نے دیوارپھاند کر آپ پر حملہ کیا تو بغیر کسی ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کا ایک بیٹا (اللہ تعالیٰ اُس پر رحم کرے) آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے اُس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا۔ میرے بھائی کے بیٹے! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تو کبھی ایسا نہ کرتا۔ یہ سنتے ہی اس کا سر سے لیکر پَیر تک جسم کانپ گیا اور وہ شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمانؓ کے سر پر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن پڑا ہوئا تھا اُسے اپنے پائوں کی ٹھوکر سے الگ پھینک دیا۔ وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آ گیا اور اس نے تلوار سے آپ کو شہید کر دیا۔ ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے اور جب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے توکے خلاف یہ واقعات کیونکر ہو گئے۔ یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے۔ سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔
حضرت علیؓکی شہادت
یہی حال حضرت علیؓ کا ہے۔ اُن کے دل کا خوف بھی صرف صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا۔ سو
اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا۔ یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہؓ کا لشکر بعض دفعہ حضرت علیؓ کے لشکر سے کئی کئی گنے زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے تھے اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا۔
اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے کیونکہ جتنی مخالفت لوگ ان کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے۔ بہرحال دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہبلکہ فرمایا ہے یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے ہوں گے اسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے۔ سو اُمتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت و الجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا۔
اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو عام خوف سے بھی محفوظ رکھتا ہے
میں نے اس آیت کے جو معنی کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو اس کا یہ
مطلب نہیں کہ انہیںعام خوف ضرورہوتا ہیبلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ اُن سے دور ہی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو۔ جیسے حضرت علیؓ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوئا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل وعدہ اس آیت میں اسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں۔ اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمتِ محمدیہؐ میں گمراہی اور ضلالت نہ آ جائے۔ سو خدا کے فضل سے اُمتِ محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے۔ اور اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد بھی اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں۔ زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تدبیروں سے کام لے لیا تھا مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کسی ظاہری تدبیر سے کام لے لیا ہو گابلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ شخص خداتعالیٰ کا محبوب اور پیارا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اس سے گہرا تعلق تھا۔
رسول کریم ﷺ کا ایک کشف جو آپؐ کی وفات کے بعد پورا ہوئا
اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھوں میں شہنشاہِ ایران کے سونے کے
کڑے دیکھے۔ اَب رسول کریم ﷺ کامعجزہ یہ نہیں کہ آپؐ نے اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد مالِ غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مَردوں کو سونے کے کڑے پہننے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس کشف کو پورا کرنے کیلئے اسے سونے کے کڑے پہنائیں چنانچہ آپ نے اسے پہنا دیئے۔ پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجودیکہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی کو پوراکرنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی یہ بات حضرت عمرؓ نے سن لی اور آپ کو اسے پورا کرنے کا موقع مل گیا۔ آخر حضرت عمرؓ رسول کریم ﷺ کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بُھول جاتا مگر اس معجزے کا ایک یہ بھی حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف پہنچ چکا تھا۔ پھر اُسی معجزہ کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابیؓ کو سونے کے کڑے پہنائیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں کیلئے سونا پہننا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بے شک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کسی کو تھوڑی دیر کیلئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بُری بات نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ انہوں نے اس صحابیؓ کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے۔۵۳؎
خلفائے راشدین کی وفات کے بعد بھی اُن کا خوف امن سے بدلتا رہا
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین فوت ہوگئے تو اُن کی وفات کے سالہا سال بعد خدا تعالیٰ نے اُن کے خوف کو
امن سے بدلا۔ کبھی سَو سال کے بعد کبھی دو سَو سال کے بعد، کبھی تین سَو سال کے بعد، کبھی چار سَو سال کے بعد اور کبھی پانچ سَو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اُن کے ارادے رائیگاں جائیں۔ اگر اس ساری آیت کو قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنی لئے جائیں گے جن کو مَیں نے بیان کیا ہے۔ یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کُفّار کے اسلام پر غلبہ کا ہو سکتا تھا۔ فردی طور پر تو کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے یا کسی کو خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ پہنچ جائے مگر قوم کا خوف تو قومی ہی ہو سکتا ہے اور وہ خوف بھی پھر یہی بن جاتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کُفّار غالب آ جائیں سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوئا اور اسلام کو ایسا زبردست غلبہ حاصل ہوئا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔
خلفائے راشدین کا غیر مسلم بادشاہوں پر رُعب
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں
کے اندرونی جھگڑے اور مناقشات بہت بڑھ گئے تو ایک دفعہ روم کے بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ وقت مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے بہت اچھا ہے وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور اُن کی طاقت اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے اس لئے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ بہت جلد شکست کھا جائیں گے۔ جب یہ افواہ اُڑتے اُڑتے حضرت معاویہؓ تک پہنچی تو انہوں نے اس بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ یاد رکھو اگر تم نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل جو تمہارے خلاف لڑنے کیلئے نکلے گا وہ مَیں ہونگا۔ جب یہ پیغام اسے پہنچا تو اس نے لڑائی کا ارادہ فوراً ترک کر دیا۔ یہ واقعہ بھی بتاتا ہے کہ خلفاء کا بہت بڑا رُعب تھا کیونکہ جب اسے معلوم ہوئا کہ معاویہؓ بھی علیؓ کے ماتحت ہو کر مجھ سے لڑنے کیلئے آ جائے گا تو وہ دم بخود رہ گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ لڑائی کرنا میرے لئے مفید نہیں ہوگا۔
سچے خلفاء توحیدِ حقیقی کے علمبردار ہوتے ہیں
(۶) خلفاء کی چھٹی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ
وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ یعنی اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ غیر معمولی جرأت اور دلیری پیدا کر دے گا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی اَور کا خوف اُن کے دل میں پیدا نہیں ہوگا۔ وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھیں گے اور اُسی کی خوشنودی اور رضاء کیلئے تمام کام کریں گے۔ یہ معنی نہیں کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے۔ بُت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے کُجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے۔ پس یہاں بُت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خدا کے منشاء اور اُس کی رضاء کو پورا کرنے کیلئے کریں گے اور اِس امر کی ذرا بھی پروا نہیں کریں گے کہ اس راہ میں اُنہیں کن بلائوں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑا دلیر آدمی بھی بعض دفعہ لوگوں کے ڈر سے ایسا پہلو اختیار کر لیتا ہے جس سے گو یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ سچائی کو چھوڑ دے مگر دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ مَیں ایسے رنگ میں کام کروں کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو۔
مولوی غلام علی صاحب ایک کٹّر وہابی ہوئا کرتے تھے۔ وہابیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے لیکن حنفیوںکے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو۔ جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اورجہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر ہو۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا نہ قاضی اس لئے وہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اِدھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوئا دیکھتے تھے کہ جب تمہیں جمعہ کیلئے بلایا جائے تو فوراً تمام کام چھوڑتے ہوئے جمعہ کی نماز کیلئے چل پڑو اس لئے اُن کے دلوںکو اطمینان نہ تھا۔ ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی حنفی مولوی ہمارے خلاف فتویٰ نہ دے دے۔ اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گائوں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور یہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والا مسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے اور اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی بچ گئے اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے ’’احتیاطی‘‘ رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر خدا نے ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اُس نے ظہر کو ردّ کر دیا تو ہم جمعہ اُس کے سامنے پیش کر دیں گے۔ اگر کوئی ’’احتیاطی‘‘ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے۔
مولوی غلام علی صاحب کا ایک واقعہ
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی
صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا ہم نماز پڑھنے کیلئے ایک مسجد میں چلے گئے۔ آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ہر انسان کی نجات کیلئے ضروری ہے۔ غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی۔ جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی۔ آپ فرماتے تھے کہ مَیں نے اُن سے کہا مولوی صاحب یہ جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعتیں کیسی ہیں۔ وہ کہنے لگے یہ ’’احتیاطی‘‘ ہے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب آپ تو وہابی ہیں اور عقیدۃً اس کے مخالف ہیں پھر’’احتیاطی‘‘ کے کیا معنی ہوئے۔ وہ کہنے لگے یہ ’’احتیاطی‘‘ ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہمارا جمعہ قبول ہوتا ہے یا ظہر بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں۔ توکئی لوگ اِس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میںتو وہ اس بات پر خوش رہے کہ انہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور اُدھر لوگوں کو خوش کرنے کیلئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی۔
ایک سُنّی بزرگ کا لطیفہ
اِسی طرح ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی سُنّی بزرگ تھے جو شیعوں کے علاقہ میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ غربت
کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اورانہوں نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر مدد کی درخواست کرنی چاہئے۔ چنانچہ وہ اُس کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی۔ وزیر نے اُن کی شکل کو دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص سُنّی معلوم ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہوئا۔ وہ کہنے لگا بس شکل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ بادشاہ کہنے لگا یہ کوئی دلیل نہیں، تم میرے سامنے اس کا امتحان لو۔ چنانچہ وزیر نے اُن کے سامنے حضرت علیؓ کی بڑے زور سے تعریف شروع کر دی وہ بزرگ بھی حضرت علیؓ کی تعریف کرنے لگ گئے۔ بادشاہ نے دیکھ کر کہا کہ دیکھا تم جو کچھ کہتے تھے وہ غلط ثابت ہوئا یا نہیں۔ اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو کیا حضرت علیؓ کی ایسی ہی تعریف کرتا۔ وزیر کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت آپ خواہ کچھ کہیں مجھے یہ سُنّی ہی معلوم ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اچھا امتحان کیلئے پھر کوئی اور بات کرو۔ چنانچہ وزیر کہنے لگا کہو ’’برہرسہ ***‘‘ یعنی ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ پر (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ***۔ وہ بھی کہنے لگ گیا۔ ’’برہرسہ ***‘‘ بادشاہ نے کہا اَب تو یہ یقینی طور پر شیعہ ثابت ہو گیا ہے۔ وہ کہنے لگے بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے مگر میرا دل مطمئن نہیں۔ آخر وزیرانہیں الگ لے گیا اور کہا سچ سچ بتائو تمہارا مذہب کیا ہے؟ انہوں نے کہا مَیں ہوںتو سُنّی ہی۔ وہ کہنے لگا پھر تم نے ’’برہرسہ ***‘‘ کیوں کہا؟ وہ بزرگ کہنے لگے تمہاری اِن الفاظ سے تو یہ مراد تھی کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ پر *** ہو مگر میری مراد یہ تھی کہ آپ دونوں اور مجھ پر *** ہو۔ آپ لوگوں پر اس لئے کہ آپ بزرگوں پر *** کرتے ہیں اور مجھ پر اس لئے کہ مجھے اپنی بدبختی کی وجہ سے تم جیسے لوگوں کے پاس آنا پڑا۔ غرض انسان کئی طریق سے وقت گذار لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اُس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ مگر فرمایا خلفاء انتہائی طور پر دلیر ہونگے اور خوف و ہراس اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ وہ جو کچھ کریں گے خدا کی رضا کیلئے کریں گے، کسی انسان سے ڈر کر اُن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوگا۔
فتنہ ارتداد کے مقابلہ میں حضرت ابوبکرؓ کی استقامت
یہ علامت بھی خلفائِ راشدین میں بتمام و کمال پائی جاتی ہے۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
خلیفہ مقرر ہوئے تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہو گیا۔ صرف دو جگہ نماز باجماعت ہوتی تھی باقی تمام مقامات میں فتنہ اُٹھ کھڑا ہوئا اور سوائے مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً اِن کے مالوںسے صدقہ لے، کسی اَور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرے۔ غرض سارا عرب مرتد ہو گیا اور وہ لڑائی کیلئے چل پڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر قبائلِ عرب متفرق طور پر حملہ کرتے تھے۔ کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے۔ جب غزوۂ احزاب کے موقع پر کُفّار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اُس وقت تک اسلام بہت کچھ طاقت پکڑ چکا تھا گو ابھی اِتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کیلئے کسی حملے کا ڈر ہی نہ رہتا۔ اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کیلئے گئے تو اُس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کیلئے کھڑے ہوگئے تھے۔ اِس طرح خدا نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تا کہ وہ اتنا زور نہ پکڑ لیں کہ سب ملک پر چھا جائیں۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یکدم تمام عرب مرتد ہوگیا صرف مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹا سا قصبہ رہ گئے باقی تمام مقامات کے لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لے کر مقابلہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ بعض جگہ تو اُن کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا۔ مگر اِدھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جا رہا تھا اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا اور اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا باقی لوگ جو رہ گئے تھے وہ یا تو کمزور اور بڈّھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے۔ یہ حالات دیکھ کر صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر بھی روانہ ہو گیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ اکابر صحابہؓ کا ایک وفد جس میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی شامل تھے اور جو اپنی شجاعت اور دلیری کے لحاظ سے مشہور تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئا اورعرض کیا کہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کو روک لیا جائے۔ جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اُسے بھیج دیا جائے مگر اب اس کا بھیجنا خطرہ سے خالی نہیں، مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں اور دشمن کا لشکر ہماری طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے۔ مَیں اِس لشکر کو کسی صورت میں روک نہیں سکتا، اگر تمام عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے اور اگر مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تو بے شک نہ رہے، خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گُھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی مَیں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔۵۴؎ اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو مَیں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کرونگا۔ یہ کی صداقت کاکتنا بڑا ثبوت ہے۔
دوسرا سوال زکوٰۃ کا تھا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجئے کہ اِن لوگوں سے عارضی صلح کر لیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوٰۃ نہیں لیں گے۔ اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائیگی۔ موجودہ صورت میں جب کہ وہ جوش سے بھرے ہوئے ہیں اور لڑنے مرنے کیلئے تیارہیں ان سے زکوٰۃ وصول کرنا مناسب نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ایساہرگز نہیں ہوگا۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی ایک رسی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے اور اب نہیں دیں گے تو مَیں اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک وہ رسی بھی اُن سے وصول نہ کر لوں۔ اس پر صحابہؓ نے کہا کہ اگر جَیشِ اسامہؓ بھی چلا گیا اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرے گا۔ مدینہ میں تو یہ بُڈّھے اور کمزور لوگ ہیں اور یا صرف چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ اے دوستو! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ابوبکرؓ اکیلا ان کا مقابلہ کرنے کیلئے نکل کھڑا ہوگا۔۵۵؎ یہ دعویٰ اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے۔ پھر یہ جرأت یہ دلیری یہ یقین اور یہ وثوق اُس میں کہاں سے پیدا ہوئا۔ اسی بات سے یہ یقین پیدا ہوئا کہ حضرت ابوبکرؓ نے سمجھ لیا تھا کہ مَیں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوئا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کام کی ذمہ داری ہے۔ پس میرا فرض ہے کہ مَیں مقابلہ کیلئے نکل کھڑا ہوں کامیابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ کامیابی دینا چاہے گا تو آپ دے دے گا اور اگر نہیں دینا چاہے گا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے۔
حضرت عمرؓ کے بہادرانہ کارنامے
اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے تو وہی عمرؓ جو ابوبکرؓ کو یہ مشورہ دیتے
تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے جَیشِ اسامہؓ کو روک لیا جائے تا کہ وہ ہماری مدد کر سکے، اُن میں بھی وہی توکّل آ جاتا ہے اور وہ ایک وقت میں ساری دنیا سے جنگ کرتے ہیں اور ذرا نہیں گھبراتے چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومی حکومت سے لڑائی ہوئی وہ حکومت بڑی زبردست تھی اور اُس سے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے افغانستان انگریزی حکومت سے لڑائی شروع کر دے مگر باوجود اتنی زبردست حکومت کے ساتھ جنگ جاری ہونے کے جب حضرت عمرؓ کے سامنے یہ سوال پیش ہوئا کہ کسریٰ کی فوجوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے اور اُن کے بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھے اُن میں بغاوت اور سرکشی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں تو وہی عمرؓ جو ابوبکرؓ کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اگر ہم ایک ہی وقت میں ایک طرف جَیشِ اسامہؓ کو رومیوں کے مقابلہ میں بھیج دیں گے اور دوسری طرف اندرونی باغیوں کا مقابلہ کریں گے تو یہ سخت غلطی ہوگی حکم دیتے ہیں کہ فوراً ایران پر حملہ کر دو۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں دو زبردست حکومتوں سے کس طرح مقابلہ ہوگا مگر آپ فرماتے ہیں کچھ پروا نہیں جائو اور مقابلہ کرو۔ مسلمان چونکہ اُس وقت رومی حکومت سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس لئے ایران پر مسلمانوں کا حملہ اس قدر دُور اَز قیاس تھا کہ ایران کے بادشاہ کو جب یہ خبریں پہنچیں کہ مسلمان فوجیں بڑھتی چلی آ رہی ہیں تو اُس نے اِن خبروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ لوگ خواہ مخواہ جھوٹی افواہیں اُڑا رہے ہیں مسلمان بھلا ایسی حالت میں جب کہ وہ پہلے ہی ایک خطرناک جنگ میں مبتلاء ہیں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ایرانیوں کی شکست کی بڑی وجہ یہی رہی کہ دارالخلافہ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فوج نہیں آتی تھی اور بادشاہ خیال کرتا تھا کہ لوگ جھوٹی خبریں اُڑا رہے ہیں مگر جب کثرت اور تواتر کے ساتھ اُسے اس قسم کی خبریں پہنچیں تو اُس نے اپنا ایک جرنیل بھیجا اور اُسے حکم دیا کہ میرے پاس صحیح حالات کی رپورٹ کرو۔ چنانچہ اس نے جب رپورٹ کی کہ مسلمان واقع میں حملہ کر رہے ہیں اور وہ بہت سے حصوں پر قابض بھی ہو چکے ہیں تب اس نے اُن کے مقابلہ کیلئے فوج بھیجی۔ اس سے تم اندازہ لگا لو کہ مسلمانوں کا اس لڑائی میں کُودنا بظاہر کتنا خطرناک تھا جب کہ اس کے ساتھ ہی وہ رومی لشکروں کا بھی مقابلہ کر رہے تھے مگر حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے مقامِ خلافت پر کھڑا کرنے کے بعد جو قوت بخشی اُس کے آگے اِن چیزوں کی کوئی حقیقت نہ تھی۔
حضرت ابوہریرہؓ کا کسرٰی کے رومال میں تھوکنا
یہی وہ جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو جب فتح
حاصل ہوئی تو مالِغنیمت میں کِسریٰ کا ایک رومال بھی آیا جو حضرت ابوہریرہؓ کو ملا۔ ایک دن انہیں کھانسی اُٹھی تو انہوں نے کسریٰ شاہ ِ ایران کا رومال نکال کر اس میں تُھوک دیا اور پھر کہا بخ بخ ابوھریرہ۔ کہ واہ، واہ ابوہریرہ تیری بھی کیا شان ہے کہ تُو آج کسریٰ شاہِ ایران کے رومال میں تُھوک رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض دفعہ مجھے اتنے فاقے ہوتے تھے کہ میں بھوک سے بیتاب ہو کر بیہوش ہو جاتا تھا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے میرے سر پر جُوتیاں مارنی شروع کر دیتے تھے مگر آ ج یہ حالت ہے کہ میںشاہی رومال میں تُھوک رہا ہوں۔۵۶؎ تو کی علامت خداتعالیٰ نے خلفائے راشدین کے ذریعہ نہایت واضح رنگ میں پوری فرمائی اور انہوں نے خداتعالیٰ کے سِوا کبھی کسی کا خوف اپنے دل میں نہیں آنے دیا۔
حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا دلیرانہ مقابلہ
اسی طرح حضرت عثمانؓ جیسے باحیا اور
رقیق القلب انسان نے اندرونی مخالفت کا مقابلہ جس یقین سے کیا وہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ عام طور پر کمزور سمجھے جاتے ہیں مگر جب ان کا اپنا زمانہ آیا تو انہوں نے ایسی بہادری اور جرأت سے کام لیا کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
یہی حال حضرت علیؓ کا ہے کسی مخالفت یا خطرے کی انہوں نے پروا نہیں کی حالانکہ اندرونی خطرے بھی تھے اور بیرونی بھی۔ مگر ان کے مدنظر صرف یہی امر رہا کہ خداتعالیٰ کی مرضی پوری ہو اور ذرا بھی کسی سے خوف کھا کر اس منشائِ الٰہی میں جو انہوں نے سمجھا تھا فرق نہیں آنے دیا۔
غرض تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں خود مقامِ خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ ان کی تائید اور نصرت کا ذمہ وار رہا۔
آیت استخلاف پر اعتراضات
اَب میں ان اعتراضات کو لیتا ہوں جو عام طور پر اس آیت پر کئے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض
اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں اُمتِ مُسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اور اُمت کو خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد کو۔ پس اس سے مراد مسلمانوں کو غلبہ اور حکومت کا مِل جانا ہے۔
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں کہا ہے اور پہلی قوموں کو خلافتِ نبوت یا ملوکیت کے ذریعہ سے ملی تھی۔ پس اسی حد تک تشبیہہ تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نبی ہوں گے اور پھر یہ کہ ملوک ہوں گے۔ مگر جس قسم کی خلافت تم کہتے ہو وہ نہ تو نبوت کے تحت آتی ہے اور نہ ملوکیت کے تحت آتی ہے۔ پھر اس کا وجود کہاں سے ثابت ہوئا۔
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر اس خلافت کو تسلیم بھی کر لیا جائے جو آنحضرت ﷺ کے بعد ہوئی تو چونکہ اس خلافت کے ساتھ حکومت بھی شامل تھی اس لئے کے ماتحت وہ آ سکتی تھی لیکن اس خلافت کا ثبوت کہاں سے ملا جو جماعت احمدیہ میں قائم ہے۔ یہ خلافت نہ تو خلافتِ نبوت ہے اور نہ خلافت ِملوکیّت۔
چوتھا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت سے اگر افراد مراد لئے جائیں جماعت نہ لی جائے تو پھر خلافتِ نبوت اور خلافتِ ملوکیّت کا پتہ چلتا ہے اور معنی یہ بنتے ہیں کہ اس اُمت میں سے بعض افراد نبی ہوں گے اور بعض افراد ملوک ہوں گے۔ مگر جو خلافتِ نبوت پہلے جاری تھی اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے اب اس قسم کے نبی نہیں آ سکتے اور ملوکیّت کے متعلق بھی تم خود قائل ہو کہ خلفاء ملوک میں شامل نہ تھے۔ جیسا کہ احادیث میں آتا ہیعَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ قَاَل قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَا جِ النُّبُوَّۃِ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکاً عَاضّاً فَتَکُوْنُ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ۔۵۷؎
یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم میں نبوت رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر خدا اس نعمت کو اٹھا لے گا اور تمہیں خلافت علی منہاجِ النبوت کی نعمت دے گا اور یہ خلافت تم میں اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا۔ پھر خدا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا اور جب تک چاہے گا تم میں ملوکیّت کو قائم رکھے گا۔ پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء کے بادشاہ ہونے سے بھی انکار کیا ہے جیسا کہ فرمایا کہ پہلے خلافت ہو گی اور پھر ملوکیت تو معلوم ہوئا کہ خلافت ِنبوت اور خلافتِ ملوکیت دونوں اُمت محمدیہ کے افراد کو نہیں مل سکتیں اور جب صورت یہ ہے تو اس آیت سے کسی فردی خلافت کا ثبوت نہ ملا بلکہ صرف قومی خلافت ہی مراد لی جا سکتی ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں۔
اس سوال کا جواب کہ اس آیت میں اُمتِ مُسلمہ سے وعدہ ہے، نہ کہ بعض افراد سے
اَب مَیں اِن تمام سوالات کے جواب دیتا ہوں۔
پہلا سوال کہ اس آیت میں
اُمتِ مُسلمہ سے وعدہ ہے نہکہ بعض افراد سے اس کے یہ جوابات ہیں۔
(۱) بے شک وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں کہ افراد کے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا نہ ہو۔ بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ سے پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا۔ اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں۔ مثلاً ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں۔ اب کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے۔ ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ بادشاہ بن سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپرد حکومت کا نظم و نسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولتمند ہے۔ انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دولتمند ہیں حالانکہ ان میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک دفعہ سنایا کہ جب وہ لنڈن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑکا دوڑ کر آیا اور اس نے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھا لیا۔
اسی طرح برنڈزی ۵۸؎ میں مَیں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے سروں پر برتن رکھ کر پانی لینے جاتی تھیں اور ان کے بچوں نے جو پتلونیں پہنی ہوئی ہوتی تھیں ان کا کچھ حصہ کسی کپڑے کا ہوتا تھا اور کچھ حصہ کسی کپڑے کا مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بڑے دولتمند ہیں۔
غرض قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو۔ کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افرد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یعنی موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا اور اس نے تم کو بادشادہ بنایا۔ اب کیاکوئی ثابت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے۔ یقینا بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر موسیٰ ؑ ان سے یہی فرماتے ہیں کہ اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا۔ مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہوگئی (غرض جب کی موجودگی کے باوجود اس آیت کے یہ معنی نہیں کئے جاتے کہ ہریہودی بادشاہ بنا توسے یہ کیونکر نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ یہ وعدہ بعض افراد کے ذریعہ پورا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُمت کے ہر فرد کو خلافت کا انعام ملنا چاہئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہود کے متعلق جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تو مفسرین نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ گو بادشاہت چند افراد کو ہی ملی مگر چونکہ اُن کے ذریعہ قوم کا عام معیار بلند ہو گیا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کوبادشاہت ملی۔ مگر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہتو کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وعدہ سب قوم سے ہے ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ بعض افراد کے ذریعہ یہ وعدہ پورا ہوئا حالانکہ اگر اس سے قومی غلبہ ہی مراد لے لیا جائے تو بھی ہر مؤمن کو یہ غلبہ کہاں حاصل ہوتا ہے۔ پھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض کو غلبہ ملتا ہے اور بعض کو نہیں ملتا۔ صحابہؓ میں سے بھی کئی ایسے تھے جو قومی غلبہ کے زمانہ میں بھی غریب ہی رہے اور ان کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ ہوئی) حضرت ابوہریرہؓ کا ہی لطیفہ ہے۔ جب حضرت علیؓ اور معاویہؓ کی آپس میں جنگ ہوئی اور صَفّین کے مقام پر دونوں لشکروںنے ڈیرے ڈال دیئے تو باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے کیمپوں میں ایک ایک میل کا فاصلہ تھا جب نماز کا وقت آتا تو حضرت ابوہریرہؓ حضرت علیؓ کے کیمپ میں آ جاتے اور جب کھانے کا وقت آتا تو حضرت معاویہؓ کے کیمپ میں چلے جاتے۔ کسی نے اُن سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُدھر حضرت علیؓ کی مجلس میں چلے جاتے ہیں اور اِدھر معاویہؓ کی مجلس میں شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے۔ نماز علیؓ کے ہاں اچھی ہوتی ہے اور کھانا معاویہؓ کے ہاں اچھا ملتا ہے۔ اس لئے جب نماز کا وقت ہوتا ہے مَیں اُدھر چلا جاتا ہوں اور جب روٹی کا وقت آتا ہے تو اِدھر آ جاتا ہوں۔ معاویہؓ کے ہاں سے انہیں چونکہ کھانے کیلئے پلائو اور متنجن وغیرہ ملتا تھا اس لئے وہ اُس وقت اُدھر چلے جاتے مگر نماز چونکہ حضرت علیؓ کی رقّت اور سوز والی ہوتی تھی اس لئے نماز کے وقت وہ آپ کے ساتھ شریک ہو جاتے۔
ایک غیر مبائع دوست کا لطیفہ
ہمارے بعض غیر مبائع دوستوں کا بھی ایسا ہی حال ہے بلکہ اُن کا لطیفہ تو ابوہریرہؓ کے لطیفے سے
بھی بڑھ کر ہے۔ مَیں ایک دفعہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے ہاں بیٹھا ہوئا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتایا کہ وہ کہتے ہیں عقائد تو ہمارے ہی درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ گویا جیسے ابوہریرہؓ نے کہا تھا کہ روٹی معاویہؓ کے ہاں سے اچھی ملتی ہے اور نمازعلیؓ کے ہاں اچھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اُس نے کہا عقائد تو ہمارے ٹھیک ہیں مگر دعائیں اِن کی قبول ہوتی ہیں۔
غرض قوم میں بادشاہت کے آجانے کے باوجود پھر بھی کئی لوگ غریب ہی رہتے ہیں مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ قوم بادشاہ ہے حالانکہ بادشاہ ایک ہی ہوتا ہے باقی سب بادشاہ نہیں ہوتے۔ اِسی طرح یہود کے متعلق یہ کہا گیا کہ ۔ اگر یہی ضروری ہے کہ جب خدا یہ کہے کہ مَیں نے تم کو بادشاہ بنایا تو قوم کا ہر فرد بادشاہ بنے تو ثابت کرنا چاہئے کہ ہر یہودی کو خدا نے بادشاہ بنایا۔ مگر ایسا کوئی ثابت نہیں کر سکتا بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ تمام قوم بادشاہت کے فوائد سے حصہ پاتی ہے اس لئے ہم دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ قوم بادشاہ ہوگئی۔ اِسی طرح جب کسی قوم میں سے بعض افراد کو خلافت مل جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اُس قوم کو وہ انعام ملا۔ یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر فرد کو یہ انعام ملے۔
دوسری مثال اس کی یہ آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۵۹؎ کہ جب یہود سے یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لائو تو وہ کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوئا ہے۔ اب یہ امر صاف ظاہر ہے کہ وحی اُن پر نہیں اُتری تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اُتری تھی۔ مگر وہ کہتے ہیں ’’ہم پر اُتری‘‘ گویا وہ حضرت موسیٰ یا دیگر انبیاء علیہم السلام کے کلام کے متعلق کہتے ہیں حالانکہ وہ کلام اُن پر نہیں بلکہ اُن کے انبیاء پر اُترا تھا۔ پس بعض افراد پر جو ایساانعام نازل ہو جس سے ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ساری قوم کو ملا۔ مثلاً زید کے پاس روپیہ ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سارا شہر دولتمند ہے لیکن اگر شہر میں ایک عالم بھی ایسا ہو جو درس و تدریس کے ذریعہ لوگوں کی علمی خدمت کر رہا ہو تو اس شہر کو عالموں کا شہر کہہ دیا جاتا ہے۔ اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ قادیان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ عالم بھی ہیں جاہل بھی ہیں، دُکاندار بھی ہیں، مزدور بھی ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں اور اَنْ پڑھ بھی ہیں، مگر اِردگِرد کے دیہات میں قادیان کے جب بھی دو چار آدمی چلے جائیں۔ تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ’’قادیان کے مولوی‘‘ آ گئے چاہے وہ اینٹیں ڈھونے والے مزدور ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قادیان میں ہر وقت علم کا چرچا رہتا ہے اور اس علمی چرچے کی وجہ سے قادیان کے ہر آدمی کو مولوی کہہ دیا جاتا ہے۔ جیسے باپ حکیم ہوتا ہے تو بیٹا خواہ طِبّ کا ایک حرف بھی نہ جانتا ہو اُسے لوگ حکیم کہنے لگ جاتے ہیں۔ تو جہاں شدید نسبت ہوتی ہے وہاں اس نسبت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اُس کی وجہ سے افراد بھی اس میں شریک سمجھے جاتے ہیں۔ جب کسی نبی پر خدا کا کلام نازل ہو تو وہ نبی جس قوم میں سے ہو اس کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوئا حالانکہ کلام نبی پر نازل ہوتا ہے۔ اسی طرح قوم میں سے کوئی بادشاہ ہو تو ساری قوم کو بادشاہ سمجھا جانے لگتا ہے۔ انگلستان میں کئی ایسے غریب لوگ ہیں جو دوسروں سے بھیک مانگتے ہیں لیکن ہندوستان میں اگر وہاں کا ایک چوہڑا بھی آ جائے تو اسے لوگ دور سے سلام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پولیس والے بھی خیال رکھتے ہیں کہ ’’صاحب بہادر‘‘ کی کوئی ہتک نہ کر دے حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی اعزاز حاصل نہیں ہوتا مگر چونکہ قوم کے بعض افراد کو بادشاہت مل گئی اس لئے قوم کا ہر فرد معزز سمجھا جانے لگا۔
کچھ عرصہ ہوئا ہندوستان کے ایک راجہ صاحب ولایت گئے۔ جب وہاں سے واپس آئے اور بمبئی میں پہنچے تو انہیں کوئی ضروری کام تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ بندرگاہ سے جلدی نکلنے کی اجازت مل جائے۔ پاسپورٹ دیکھنے پر ایک انگریز مقرر تھا۔ وہ جلدی سے پاسپورٹ لے کر آگے بڑھے اور کہا کہ میرا پاسپورٹ دیکھ لیجئے مجھے ایک ضروری کام ہے اور مَیں نے جلدی جانا ہے مگر اس نے کہا ٹھہرو مَیں باری باری دیکھوں گا۔ چنانچہ اس نے راجہ کی کوئی پرواہ نہ کی اور سب کے بعد اسے گزرنے کی اجازت دی۔ اس پر اخبارات میں بڑا شور اُٹھا کہ راجہ صاحب کی ہتک ہوئی ہے مگر کسی نے اس انگریز کو پوچھا تک نہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔
تو جس قوم کو غلبہ حاصل ہو اس کے غرباء کو بھی ایک رنگ کی عزت حاصل ہو جاتی ہے۔ امریکہ میںجب شراب کی بندش ہوئی تواس وقت بعض غیر ممالک کے جہاز چوری چوری وہاںشراب پہنچاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک انگریزی جہاز وہاں شراب لے گیا۔ اتفاقاً امریکہ والوں کو علم ہو گیا اور اُن کے جہازوں نے اس جہاز کا تعاقب کیا مگر اس دوران میں وہ ساحلِ امریکہ سے تین میل دور نکل آیا اگر اُس حد کے اندر جہاز گرفتار ہو جاتا تو اور بات تھی مگر اب چونکہ یہ جہاز امریکہ کی مقررہ حد سے باہر نکل آیا اس لئے بے فکر ہو کر چلنے لگ گیا۔ اس پر امریکہ کے جہازوں نے سگنل کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ٹھہر جائو اور اگر نہ ٹھہرے تو تم پر بمباری کی جائے گی اس پر انگریزی جہاز نے اپنا جھنڈا اُونچا کر کے اس پر بجلی کی روشنی ڈال دی۔ مطلب یہ تھا کہ پہلے یہ دیکھ لو کہ یہ جہاز کس قوم کا ہے اگر اس کے بعد بھی تم میں بمباری کی ہمت ہوئی تو بیشک کر لینا۔ امریکہ والوں نے جب دیکھا کہ اس جہاز پر انگریزی جھنڈا لہرا رہا ہے تو وہ اُسی وقت واپس چلے گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے اس کا مقابلہ کیا تو امریکہ اور انگلستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔
تو کوئی قوم جب غلبہ پا لیتی ہے تو بعض باتوں میں اس کے ادنیٰ افراد کو بھی عزت مل جاتی ہے۔ یہاں کے کئی ہندو دوستوں نے مجھے سنایا کہ جب وہ باہر جاتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں کہ وہ قادیان سے آئے ہیں تو لوگ اُن کی بڑی خاطر تواضع کرتے ہیں، محض اس لئے کہ اُن کا قادیان سے تعلق ہوتا ہے۔ عرب سے جب کوئی آدمی ہندوستان میں آئے تو ہمارے ہندوستانیوں کی عرب صاحب، عرب صاحب کہتے زبانیں خشک ہو جاتی ہیں حالانکہ اپنے ملک میں اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو۔ ہماری جماعت میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت رکھی ہوئی ہے، اس لئے بہت سے فوائد قوم کو پہنچ رہے ہیں۔ کہیں کسی احمدی کو ذرا بھی تکلیف ہو تو ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر لوگوں کو کسی امداد کی ضرورت ہو تو وہ قادیان میں پہنچ جاتے ہیں اور یہاں سے اُن کی اکثر ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہمارے اندر بھی ویسا ہی تفرقہ ہوتا جیسا مسلمانوں کے اندر ہے تو نہ ہماری آواز میں کوئی طاقت ہوتی اور نہ مجموعی رنگ میں افرادِ جماعت کو وہ فوائد پہنچتے جو اَب پہنچ رہے ہیں۔
افغانستان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنیکا اثر
افغانستان میں جب ہماری جماعت کے بعض
آدمی شہید ہوئے تو ہم نے صدائے احتجاج بلند کی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی مؤثر ہوئی کہ چھ مہینے تک لنڈن کے گلی کوچوں میں اس کا چرچا رہا اور افغانی سفیر کیلئے شرم کے مارے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ جب بھی وہ نکلتا لوگ اُسے طعنے دیتے اور کہتے کہ کیا تمہارے ملک میں یہ آزادی ہے حالانکہ افغانستان میں روزانہ کئی پٹھان مارے جاتے ہیں اور کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔ تو جماعتی نظام کی وجہ سے چونکہ افرادِ جماعت کو بہت کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں اس لئے جب قوم کے بعض افراد کو کوئی ایسا انعام ملتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ انعام اس قوم کو ملا کیونکہ قوم اُن انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو خلافت یا بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں۔ غرض چونکہ ملوکیّت کے ذریعہ سے ساری قوم کی عزت ہوتی ہے اس وجہ سے فرمایا۔ اور چونکہ خلافت سے سب قوم نے نفع اُٹھانا تھا اور اُٹھایا اس لئے خلافت کے بارہ میں بھی یہی کہا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا۔
خلافت ایک انتخابی چیز ہے جس میں سب قوم کا دخل ہوتا ہے
دوسرا جواب یہ ہے کہ خلافت چونکہ انتخابی امر ہے اور انتخابی امر میں سب قوم کا دخل ہوتا ہے اس لئے انتخاب پر زور دینے
کیلئے کہا گیاکہ چونکہ یہ وعدہ قوم سے ہے اس لئے ورثہ کے طور پر یہ عہدہ نہیں مل سکتا بلکہ وہی خلیفہ ہو گا جس پر قوم جمع ہو۔ اس طرح انتخاب کے مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہی شخص خلیفہ ہو سکتا ہے جس کی خلافت میں مؤمنوں کا ہاتھ ہو۔ بیشک یہ ایک الٰہی انعام ہے مگر یہ انعام ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ پہلے اپنے مؤمن بندوں کو دیتا ہے اور پھر ان کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنے میں سے قابل ترین انسان کو منتخب کر کے اسے دے دو۔ پس وہ مؤمنوں کے ذریعہ سے خلافت کا انتخاب کراتا ہے تاکہ خلافت ورثہ کے طور پر نہ چل پڑے۔ اور ہمیشہ اس غرض کے لئے قوم بہترین لوگوں کو منتخب کیا کرے۔ پس اللہ تعالیٰ نے میں اُمت مُسلمہ سے اس لئے وعدہ کیا ہے تایہ امر ان کے ذہن نشین ہو جائے کہ خلافت کا وعدہ قومی ہے اور قوم کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا خلیفہ بنا دے گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا؟
اگر کہا جائے کہ جب قوم کے
انتخاب سے ہی کوئی خلیفہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیوں کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے یونہی نامزد نہیں کر دیا بلکہ پہلے صحابہؓ سے آپ کا مشورہ لینا ثابت ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ اور خلفاء کو خلیفہ کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا اور حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں ہی منتخب کر لیا گیا۔ پھر آپ نے اسی پر بس نہیں کیا کہ چند صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد آپ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کا اعلان کر دیا ہو بلکہ باوجود سخت نقاہت اور کمزوری کے آپ اپنی بیوی کا سہارا لے کر مسجد میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! میں نے صحابہؓ سے مشورہ لینے کے بعد اپنے بعد خلافت کے لئے عمرؓ کو پسند کیا ہے کیا تمہیں بھی ان کی خلافت منظور ہے؟ اس پر تمام لوگوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پس یہ بھی ایک رنگ میں انتخاب ہی تھا۔
کیا حضرت معاویہؓ کا یزید کو خلیفہ مقرر کرنا بھی انتخاب کہلا سکتا ہے؟
اگر کہا جائے کہ پھر معاویہؓ کا یزید کو مقرر کرنا بھی انتخاب کہلائے گا کیونکہ انہوں نے بھی لوگوں کے سامنے اس معاملہ کو
پیش کیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خودمعاویہؓ کا انتخاب نہیں ہوئا اور جب ان کی اپنی خلافت ہی ثابت نہیں تو ان کے بیٹے کی خلافت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم یزید کو معاویہ کا جانشین ماننے کیلئے تیار ہیں مگر ہم اسے خلیفہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلافت خود معاویہؓ کی بھی ثابت نہیں پھر ان کے بیٹے کی کس طرح ثابت ہو جائے۔ معاویہؓ ایک دُنیوی بادشاہ تھے اس لئے یزید کو بھی ہم ایک دُنیوی بادشاہ مان سکتے ہیں مگر خلیفہ تو نہ معاویہؓ تھے اور نہ یزید۔
پھر معاویہؓ نے جب یزید کے متعلق لوگوں سے مشورہ لیا تو اس وقت وہ لوگوں کے حاکم تھے۔ ایسی صورت میں جو انہوں نے مشورہ لیا وہ کوئی مشورہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ مشورہ میں آزادی ضروری ہے لیکن جہاں آزادی نہ ہو اور جہاں بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ رہا ہو کہ میرے بیٹے کی بیعت کر لو وہاں رعایا مشورہ دینے میں کہاں آزاد ہو سکتی ہے اور کب وہ اس کی بات کا انکار کر سکتی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے افغانستان کا بادشاہ اپنی رعایا سے کہہ دے کہ اے لوگو! مجھے خلیفہ مان لو اور جب وہ مان لیں تو کہہ دے لوگوں نے مجھے حکومت کے لئے منتخب کیا ہے۔ یہ ہرگز انتخاب نہیں کہلا سکتا اور نہ اس قسم کا مشورہ مشورہ کہلا سکتا ہے۔ مشورہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب لوگ آزاد ہوں اور ہر ایک کو اجازت ہو کہ وہ مخلّٰی بالطبع ہو کر جس کا نام چاہے پیش کرے۔ پس اوّل تو معاویہؓ خود خلیفہ نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے۔ دوسرے انہوں نے بادشاہ ہونے کی حالت میں اپنے بیٹے کی خلافت کا لوگوں کے سامنے معاملہ پیش کیا اور یہ ہرگز کوئی مشورہ یا انتخاب نہیں کہلاسکتا۔
باپ کا اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے تجویز کرنا سنتِ صحابہؓ کے خلاف ہے
پھر باپ کا بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حقیقی انتخاب نہیں تھا کیونکہ باپ کا اپنے
بیٹے کو خلافت کیلئے پیش کرنا سنتِ صحابہؓ کے خلاف ہے۔ حضرت عمرؓ کی وفات کے قریب آپ کے پاس لوگوں کے کئی وفود گئے اور سب نے متفقہ طور پر کہا کہ آپ کے بعد خلافت کا سب سے زیادہ اہل آپ کا بیٹا عبداللہ ہے آپ اسے خلیفہ مقرر کر جائیں۔ مگر آپ نے فرمایا مسلمانوں کی گردنیں ایک لمبے عرصہ تک ہمارے خاندان کے آگے جُھکی رہی ہیں۔ اَب میں چاہتا ہوں کہ یہ نعمت کسی اور کو ملے۔ ۶۰؎ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد لوگ آپ کے بیٹے عبداللہ کو خلافت کیلئے منتخب کرتے تو یہ اور بات ہوتی مگر یہ جائز نہیں تھا کہ حضرت عمرؓ اپنے بیٹے کو خلافت کیلئے خود نامزد کر جاتے۔ اسی طرح اگر معاویہؓ اپنی موجودگی میں یزید کا معاملہ لوگوں کے سامنے پیش نہ کرتے اور بعد میں قوم اسے منتخب کرتی تو ہم اسے انتخابی بادشاہ کہہ سکتے تھے مگر اب تو نہ ہم اسے خلیفہ کہہ سکتے ہیں اور نہ انتخابی بادشاہ۔ ہم معاویہؓ کو گنہگار نہیں کہتے انہوں نے اس وقت کے حالات سے مجبور ہو کر ایسا کیا مگریزید کو بھی بلکہ خود معاویہؓ کو بھی خلیفہ نہیں کہہ سکتے،ایک بادشاہ کہہ سکتے ہیں۔ یزید کا معاملہ تو جب معاویہؓ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اس وقت تمام صحابہؓ اسے ایک تمسخرسمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ معاویہؓ نے جب لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اے مسلمانو! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤساء میں سے ہے۔ پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہو سکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے زیادہ کون مستحق ہے تو اس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں جب میں نے معاویہؓ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پاؤں کے گرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بند کھولے اور میں نے ارادہ کیا کہ کھڑے ہو کر معاویہؓ سے یہ کہوں کہ اے معاویہؓ! اس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر لڑتا رہا اور جو خود اسلامی لشکروں میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں جنگوں میں شامل رہا ہے۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ دنیا کی چیزیں میں نے کیا کرنی ہیں اس سے فتنہ اٹھے گا اور مسلمانوں کی طاقت اور زیادہ کمزور ہو جائے گی۔ چنانچہ میں پھر بیٹھ گیا اور میں نے معاویہؓ کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی۔ تو صحابہؓ معاویہؓ کی اس حرکت کو بالکل لغو سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں تھی۔
یزید کے ایک بیٹے کی تختِ حکومت سے دستبرداری
پھر یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں
کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا متفق نہ تھا بلکہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی بادشاہت سے انکار کر کے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ یہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے مگر میں نہیں جانتا مسلمان مؤرخین نے کیوں اس واقعہ کو زیادہ استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ اس واقعہ کو بار بار دُہراتے کیونکہ یہ یزید کے مظالم کا ایک عبرتناک ثبوت ہے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوئا جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھوں پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لیکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمّہ ہو جاؤں مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اس مَنصب کے اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس مَنصب کے اہل نہیں تھے۔ میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اس کا باپ حسنؓ حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا۔ علیؓ اپنے وقت میں خلافت کا حقدار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسنؓ اور حسینؓ خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔۶۱؎ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کر لو۔ اس کی ماں اُس وقت پردہ کے پیچھے اس کی تقریر سن رہی تھی جب اس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصہ سے کہنے لگی کہ کمبخت تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے وہ کہنے لگا جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھوڑے ہی دن گزرنے کے بعد وفات پا گیا۔
یہ کتنی زبردست شہادت اس بات کی ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا۔ یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو بلکہ اس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علیؓ کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسنؓ حسینؓ کا۔ اور میں اس بوجھ کو اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ پس معاویہؓ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی انتخاب نہیں کہلا سکتا۔
آیتِ استخلاف کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تشریح
تیسرا جواب احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے معنی
کرتے ہوئے ’’سِرّالخلافہ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَ فِیْ ھٰذِہِ الاٰیَاتِ لِلْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ اَنَّہٗ سَیَسْتَخْلِفَنَّ بَعْضَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْھُمْ فَضْلاً وَرَحْمَۃً ۶۲؎
اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے بعض کو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ خلیفہ بنائے گا۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہمیں ساری قوم مراد نہیں بلکہ بعض افرادِ امت مراد ہیں تو کم از کم کوئی احمدی یہ معنی نہیں کر سکتا کہ یہاں ساری قوم مراد ہے۔
خلافتِ محمدیہ کا استنباط
چوتھاجواب بھی احمدیوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا اس آیت سے اپنی
خلافتِ محمدیہ کا استنباط کیا ہے اور اس وعدہ میں خلافتِ نبوت بھی شامل کی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ خلافتِ نبوت سے ساری قوم مراد نہیں ہو سکتی بلکہ بعض افراد ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے جہاں بادشاہت کا ذکر کیا ہے وہاں تو یہ فرمایا ہے کہ اس نے تم کو بادشاہ بنایا مگر جب نبوت کا ذکر کیا تو جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَائَ فرمایا۔ یعنی اس نے تم میں انبیاء مبعوث فرمائے اور اس فرق کی وجہ یہی ہے کہ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے فلاں قوم کو بادشاہ بنایا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قوم کو نبی بنایا۔ پس اگر نبوت کا وعدہ ساری قوم کو مخاطب کرنے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے تو خلافت کا وعدہ بھی ساری قوم کو مخاطب کرنے کے باوجود بعض اشخاص کے ذریعہ پورا ہو سکتا ہے۔ اور جس طرح وعدے کے ایک حصے کا ایفاء ہوئا اسی طرح وعدہ کے دوسرے حصے کا ایفاء ممکن ہے۔
خداتعالیٰ کی فعلی شہادت
پانچواں جواب اس کا یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فعل نے اس پر شہادت دے دی ہے کہ اس کی اس آیت سے کیا مراد
ہے۔ خدا نے یہ کہا تھا کہ کہ وہ ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہنے والوں کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس سے یہ مراد تھی کہ ہم جمہوریت قائم کر دیں گے تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا رسول کریم ﷺ کے بعد جمہوریت قائم ہوئی یا نہیں۔ اور اگر خداتعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ بعض افرادِ امت کو خلافت ملے گی اور ان کی وجہ سے تمام قوم برکاتِ خلافت کی مستحق قرار پا جائے گی تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا اس رنگ میں مسلمانوں میں خلافت قائم ہوئی یا نہیں۔ بہرحال رسول کریم ﷺ کے بعد جس طرح اس نے یہ وعدہ پورا کیا وہی اس آیت سے مراد ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ عمدگی کے ساتھ اور کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت جب ہم رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض افرادِ امت کو ہی خلافت ملی سب کو خلافت نہیں ملی۔ پس یا تو یہ مانو کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد لوگ کے مصداق نہیں رہے تھے اور جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ اُمت میں صرف اڑہائی مؤمن تھے اسی طرح یہ تسلیم کر لو کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ سب منافق ہی منافق رہ گئے تھے، اس لئے خلافتِ قومی کا وعدہ ان سے پورا نہ ہوئا اور اگر وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم تھے تو پھر اگر ان سے ہی صحیح رنگ میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوئا تو اور کس سے ہو سکتا ہے۔ بہرحال رسول کریم ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں جس رنگ میں خلافت قائم کی وہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اور خداتعالیٰ کی یہ فعلی شہادت بتا رہی ہے کہ قوم سے اس وعدہ کو بعض افراد کے ذریعہ سے ہی پورا کیا جائے گا۔
خلفائے اربعہ کی پہلے خلفاء سے ہر رنگ میں مشابہت ضروری نہیں
دوسرا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ بہت اچھا ہم نے مان لیا کہ اس آیت میں افراد کی خلافت کا ذکر ہے مگر تم خود تسلیم
کرتے ہو کہ پہلوں میں خلافت یا نبوت کیذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ۔ مگر خلفائے اربعہ کو تم نہ نبی مانتے ہو نہ ملوک۔ پھریہ وعدہ کس طرح پورا ہوئا اور وہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پہلوں کو خلافت یا تو نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں۔ مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے۔ مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تواب کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو یہ کہے کہ تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح درست ہوئی جبکہ ان میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائے گی۔ ہربات اور ہر حالت میں مشابہت نہیں دیکھی جائے گی۔ اس کی مثال قرآن کریم سے بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۶۳؎ کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے مگر رسول کریم ﷺ ساری دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف چند سَو سال تک ممتد تھا اور آخر وہ ختم ہو گیا مگر رسول کریم ﷺ کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کیلئے ہے۔ یہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں اہم فرق ہیں مگر باوجود ان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں حالانکہ نہ تو رسول کریم ﷺ فرعون کی طرح کے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے، نہ آپ کسی ایک قوم کی طرف تھے بلکہ سب دنیا کی طرف تھے اور نہ آپ کی رسالت کسی زمانہ میں موسیٰؑ کی رسالت کی طرح ختم ہونے والی تھی۔ پس باوجود ان اہم اختلافات کے اگر آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تو اگر پہلوں کی خلافت سے جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں کیا حرج ہے۔ درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رسول کریم ﷺ کی مشابہت صرف ان معنوں میں ہے کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو اپنے زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے تمام مضامین پر حاوی اور کامل تھی اسی طرح رسول کریم ﷺ کو ایک شریعت کی کتاب ملی جو قیامت تک کی ضروریات کیلئے تمام مضامین پر حاوی اور کامل ہے گو تو رات سے وہ بہرحال کئی درجے افضل اور اعلیٰ ہے۔ پھر جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ ان کی وفات کے بعد اپنے انبیاء کے ذریعہ چلاتا رہا اسی طرح امت محمدیہ میں جب بھی کوئی خرابی پیدا ہو گی اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑا کرتا رہے گا جو اِن خرابیوں کی اصلاح کریں گے۔ اسی طرح اس مشابہت کے ذریعے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سَو سال بعد ایک مسیح آیا اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سَو سال بعد مسیح موعود آئے گا۔ یہ مقصد نہیں تھاکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک خاص زمانہ اور ایک خاص قوم کیلئے تھے اسی طرح رسول کریم ﷺ کی رسالت بھی کسی خاص زمانہ یا خاص قوم کیلئے مخصوص ہو گی۔ پس اگر پہلوں کی خلافت سے خلفائے راشدین کی بعض باتوں میں مشابہت ہو تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی مشابہت ثابت ہو گئی۔ یہ ضروری نہیں ہو گا کہ ہر بات میں پہلوں سے ان کی مشابہت دیکھی جائے۔ اصل امر تو یہ ہے کہ جس طرح ان کی قوم کو ان کی وفات کے بعد سنبھالنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے بعض وجود کھڑے کئے اسی طرح بتایا گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ایسے وجود کھڑے کرے گا جو آپ کی اُمت کو سنبھال لیں گے اور یہ مقصد بہ نسبت پہلے خلفاء کے رسول کریم ﷺ کے خلفاء نے زیادہ پورا کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قائم مقام نبی تھے، اسی طرح اور انبیاء جب وفات پا جاتے تو ان کے کام کو جاری رکھنے کیلئے انبیاء ہی ان کے جانشین مقرر کئے جاتے مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے انبیاء کے ذریعہ جو تمکینِ دین ہوئی وہ رسول کریم ﷺ کے خلفاء کے ذریعہ نہیں ہوئی۔ اگر بصیرت اور شعور کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اقرار کرنا پڑے گا کہ تمکینِ دین کے سلسلہ میں یوشعؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ وہ کام نہیں کر سکے جو ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ نے کیا۔ نادان انسان کہے گا کہ تم نے نبیوں کی ہتک کی مگر اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں۔ جب نبوت کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ ابوبکرؓ نبی نہیں، عمرؓ نبی نہیں، عثمانؓ نبی نہیں، علیؓ نبی نہیں مگر جب تمکینِ دین کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ اس حصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع خلفاء یقینا پہلے انبیاء سے بڑھ کر ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء چونکہ کامل شریعت لے کر نہ آئے تھے اِس لئے اُن کے بعد یا نبی مبعوث ہوئے یا ملوک پیدا ہوئے۔چنانچہ جب اصلاحِ خلق کیلئے الہام کی ضرورت ہوتی تو نبی کھڑا کر دیا جاتا مگر اُسے نبوت کا مقام براہِ راست حاصل ہوتا اور جب نظام میں خلل واقع ہوتا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا اور چونکہ لوگوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوئا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ جدوجہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیاء کو اللہ تعالیٰ براہِ راست مقامِ نبوت عطا فرماتا بلکہ ملوک بھی خدا کی طرف سے ہی مقرر کئے جاتے تھے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ ۶۴؎ طالوت کو تمہارے لئے خدا نے بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ گویا ابھی لوگ اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ خود اپنے بادشاہ کا بھی انتخاب کر سکیں اورنہ شریعت اتنی کامل تھی کہ اُس کے فیضان کی وجہ سے کسی کو مقامِ نبوت حاصل ہو سکتا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک کامل تعلیم لے کر آئے تھے اس لئے دونوں قسم کے خلفاء میں فرق ہو گیا۔ پہلے انبیاء کے خلیفے تو نبی ہی ہوتے تھے گو انہیں نبوت مستقل اور براہِ راست حاصل ہوتی تھی اور اگر انتظامی امور چلانے کیلئے ملوک مقرر ہوتے تو وہ انتخابی نہ ہوتے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر ملوکیت کو حاصل کرتے یا نبی اُنہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بطور بادشاہ مقرر کر دیتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم چونکہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی تھی اس لئے آپ کے بعد خلفائِ انبیاء کی ضرورت نہ رہی اس کے ساتھ ہی ملوکیت کی ادنیٰ صورت کو اُڑا دیا گیا اور اُس کی ایک کامل صورت آپ کو دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ اسلامی خلافت کے ذریعہ سے جس طرح قوم کے ساتھ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ اُس میں انتخاب کا عنصر رکھا گیا ہے اور قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے وہ پہلے بادشاہوں کی صورت میں نہ تھا اور زیادہ کامل صورت کا پیدا ہو جانا وعدہ کے خلاف نہیں ہوتا۔ جیسے اگر کسی کے ساتھ پانچ روپے کا وعدہ کیا جائے اور اُسے دس روپے دے دیئے جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہوئی۔ پس اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلوں سے افضل تھے آپ کی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی۔
عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَائِبنی اِسْرَائِیْلَ سے مُراد روحانی خلفاء ہی ہیں
دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَائِ
بنی اِسْرَائِیْلَ ۶۵؎ یعنی میری اُمت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اُمتِ محمدیہ کا جو بھی عالم ہے وہ انبیائِ بنی اسرائیل کی طرح ہے کیونکہ علماء کہلانے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دینی اور اخلاقی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ نانا جان مرحوم کے ساتھ بعض چیزیں خریدنے کیلئے میں امرتسر گیا۔ رام باغ میں مَیں نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب ہاتھ میں عصا اور تسبیح لئے اور ایک لمبا سا جبہ پہنے جا رہے ہیں اور اُن کے پیچھے پیچھے ایک غریب شخص اُن کی منتیں کرتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے کہ مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں، مولوی صاحب مجھے خدا کیلئے روپے دے دیں۔ مولوی صاحب تھوڑی دیر چلنے کے بعد اس کی طرف مڑ کر دیکھتے اور کہتے جا خبیث دُور ہو۔ آخر وہ بیچارہ تھک کر الگ ہو گیا۔ مَیں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا بات تھی۔ وہ کہنے لگا مَیں نے اپنی شادی کیلئے بڑی مشکلوں سے سَو دو سَو روپیہ جمع کیا تھا اور اس شخص کو مولوی اور دیندار سمجھ کر اس کے پاس امانتاً رکھ دیا تھا مگر اب مَیں روپیہ مانگتا ہوں تو یہ دیتا نہیں اور کہتا ہے کہ مَیں تجھے جانتا ہی نہیں کہ تُو کون ہے اور تو نے کب میرے پاس روپیہ رکھا تھا۔ اب بتائو ایسے علماء کَأَ نْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ ہو سکتے ہیں؟ اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ان ننگِ اسلام علماء کے متعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِن علماء سے مراد دراصل خلفاء ہیں جو علمائِ رُوحانی ہوتے ہیں اور اِس ارشادِ نبوی سے اِس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیا گیا تھا وہی کام میری اُمت میں اللہ تعالیٰ بعض علمائِ ربّانی یعنی خلفائے راشدین سے لے گا۔ چنانچہ موسیٰؑ کے بعد جو کام یوشعؑ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ سے لے گا اور جو کام دائود ؑسے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عمرؓ سے لے گا اور جو کام بعض اور انبیاء مثلاً سلیمانؓ وغیرہ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عثمانؓ اور علیؓ سے لے گا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ مقام بخشا ہے کہ میری اُمت کے خلفاء وہی کام کریں گے جو انبیاء سابقین نے کیا۔ پس اس جگہ علماء سے مراد رشوتیں کھانے والے علماء نہیں بلکہ ابوبکرؓ عالم، عمرؓ عالم، عثمانؓ عالم اورعلیؓ عالم مراد ہیں۔ چنانچہ جب ادنیٰ ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں کو پیدا کر دیا اور پھر زیادہ روشن صورت میں جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے پورا کر دیا۔ گو فرق یہ ہے کہ پہلے انبیاء براہ راست مقام نبوت حاصل کرتے تھے مگر آپ کو نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ملی۔
خلافتِ احمدیہ
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میںآیا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پہلے خلفاء اِس آیت کے ماتحت تھے کیونکہ اُن کے پاس نظامِ ملکی تھا لیکن اس آیت سے وہ خلافت جو احمدیہ جماعت میں ہے کیونکر ثابت ہو گئی کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نظامِ مُلکی نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ یہ کیا ہے کہ وہ اورکی مصداق جماعت کو خلیفہ بنائے گا اور خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے۔ پس وعدہ کی ادنیٰ حدّ یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اُس کے نائب ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہو اگر اسی رنگ میںاس کا نائب بھی ہو جائے تو وعدہ کی ادنیٰ حدّ پوری ہو جاتی ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد مُلکی نظام نہ تھا اس لئے آپ کی امرِ نبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کر دیتا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مُلکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہو سکتا تھا کہ آپ کے بعد کے خلفاء نے نیابت کس طرح کی مگر نظامِ مُلکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہو اُسے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہو گی اور جو اُس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اُس کے خلیفہ کو کس طرح مل جائے گی۔
حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق یہ بات بہت مشہور تھی اور آپ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی روپیہ کی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے روپیہ بھجوا دیتا ہے۔ ایک دفعہ کسی نے آپ کے پاس بتّیس روپے بطور امانت رکھے جو کسی ضرورت پر آپ نے خرچ کر لئے چند دنوں کے بعد وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ میری امانت مجھے دے دیجئے۔ اُس وقت آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا مگر آپ نے اُسے فرمایا ذرا ٹھہر جائیں ابھی دیتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہونگے کہ باہر سے ایک مریض آیا اور اس نے فیس کے طور پر آپ کے سامنے کچھ روپے رکھ دیئے۔ حافظ روشن علی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے انہیں حضرت خلیفۂ اوّل فرمانے لگے کہ یہ روپے گِن کر اس شخص کو دے دیں۔ انہوں نے روپے گِن کر دے دیئے اور رسید لے کر پھاڑ دی۔ بعد میں ہم نے حافظ روشن علی صاحب سے پوچھا کہ کتنے روپے تھے انہوں نے بتایا کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا بس اتنے ہی روپے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ عجیب در عجیب رنگ میں آپ کی مدد فرمایا کرتا تھا اور بسا اوقات نشان کے طور پر آپ پر مال و دولت کے عطایا ہو جایا کرتے تھے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ سب دُعا کی برکات ہیں مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کو کیمیا کا نسخہ آتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل جب وفات پا گئے تو دہلی کے ایک حکیم صاحب میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ مَیں آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ مَیں نے انہیں موقع دے دیا۔ وہ پہلے تو مذہبی رنگ میں باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے آپ کے والد صاحب کو خدا تعالیٰ نے بڑا درجہ بخشا ہے وہ خدا تعالیٰ کے مائمور تھے اور جسے خداتعالیٰ نے مائمور بنا دیا ہو اس کا بیٹا بھلا کہاں بخیل ہو سکتا ہے مجھے آپ سے ایک کام ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں میری مدد کریں اور بُخل سے کام نہ لیں۔ میں نے کہا فرمائیے کیا کام ہے۔ وہ کہنے لگے مجھے کیمیا گری کا بڑا شوق ہے اور مَیں نے اپنی تمام عمر اس میں برباد کر دی ہے۔ مجھے معلوم ہوئا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کو کیمیا کا نسخہ آتا تھا اب چونکہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے ہیں اس لئے وہ آپ کو ضرور کیمیا کا نسخہ بتا گئے ہونگے۔ پس مہربانی کر کے وہ نسخہ مجھے بتا دیجیئے۔ مَیں نے کہا مجھے تو کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں بتا گئے۔ وہ کہنے لگے یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ آپ اُن کی جگہ خلیفہ ہوں اور وہ آپ کو کیمیا کا نسخہ بھی نہ بتا گئے ہوں۔ غرض میں انہیں جتنا یقین دلائوں کہ مجھے کیمیا کا کوئی نسخہ نہیں ملا اتنا ہی ان کے دل میں میرے بخل کے متعلق یقین بڑھتا چلا جائے میں انہیں بار بار کہوںکہ مجھے ایسے کسی نسخہ کا علم نہیں اور وہ پھر میری خوشامد کرنے لگ جائیں اور نہایت لجاجت سے کہیںکہ میری ساری عمر اس نسخہ کی تلاش میں گزر گئی ہے آپ تو بخل سے کام نہ لیں اور یہ نسخہ مجھے بتا دیں۔ آخر جب میں اُن کے اصرار سے بہت ہی تنگ آ گیا تو میرے دل میں خدا تعالیٰ نے ایک نکتہ ڈال دیا اور مَیں نے اُن سے کہا کہ گو مَیں مولوی صاحب کی جگہ خلیفہ بنا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے مکان مجھے نہیں ملے۔ وہ کہنے لگے مکان کس کو ملے ہیں۔ مَیںنے کہا اُن کے بیٹوں کو۔ پھر مَیں نے کہا اُن کا ایک بڑا بھاری کتب خانہ تھا مگر وہ بھی مجھے نہیں ملا۔ پس جب کہ مجھے نہ اُن کے مکان ملے اور نہ اُن کا کتب خانہ ملا ہے تو وہ مجھے کیمیا کا نسخہ کس طرح بتا سکتے تھے۔ اگر انہوں نے یہ نسخہ کسی کو بتایا ہوگا تو اپنے بیٹوں کو بتایا ہوگا۔ آپ اُن کے پاس جائیں اور کہیں کہ وہ نسخہ آپ کو بتا دیں۔ چنانچہ وہ میرے پاس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ عبدالحی مرحوم ان دنوں زندہ تھے وہ جاتے ہی اُن سے کہنے لگے کہ لائیے نسخہ۔ انہوںنے کہا نسخہ کیسا۔ کہنے لگے وہی کیمیا کا نسخہ جو آپ کے والد صاحب جانتے تھے۔ اب وہ حیران کہ میں اسے کیا کہوں۔ آخر انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مجھے کسی نسخے کا علم نہیں۔ اس پر وہ ناکام ہو کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے باپ والا بخل بیٹے میں بھی موجود ہے۔ مَیں نے کہا۔ یہ آپ جانیں کہ وہ بخیل ہیں یا نہیں مگر مَیں اُن کے جس حصے کا خلیفہ ہوں وہی مجھے ملا ہے اور کچھ نہیں ملا۔
غرض جس رنگ کا کوئی شخص ہو اُسی رنگ کا اُس کا جانشین ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد مُلکی نظام نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کے خلفاء کے پاس کوئی نظامِ مُلکی کیوں نہیں؟
آیت ِاستخلاف میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت اور خلافت دونوں شامل ہیں
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خلافتِ نظامی ہی کے بارہ میں یہ
نہیں آیا کہ بلکہ اس آیت میں جس قدر وعدے ہیں سب کے ساتھ ہی یہ الفاظ لگتے ہیں۔مگر غیر مبائعین میں سے بھی جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں جیسے شیخ مصری وغیرہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت کلی طور پر پہلے نبیوں کی قسم کی نبوت نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ اُمتی نبی ہیں۔ پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں کی نبوت سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو ماننا پڑیگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی کیونکہ اگر ہماری خلافت ابوبکرؓ اور عمرؓ کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے۔ پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس نبوت کو باوجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں۔ پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلی نبوتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے اِسی طرح یہ خلافت باوجود پہلی خلافتوں سے ایک اختلاف رکھنے کے اِس آیت کے وعدہ میں شامل ہے۔
حضرت مسیح ناصریؑ کے خلفاء بھی نظامِ مُلکی سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے
تیسرا جواب یہ ہے کہ مسیح ناصری ؑکے بعد کے خلفاء بھی نظامِ ملکی سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ آپ کے بعد
کوئی خلیفہ ہوئا ہی نہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود فرماتے ہیں۔ مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَاخِلَافَۃٌ۶۶؎۔ کہ دنیا میں کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے پیچھے اُسی قسم کی خلافت قائم نہ ہوئی ہو۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی تھی تو آپ کے بعد ویسی ہی خلافت کے قیام کو ماننا ہمارے لئے ضروری ہے بصورت دیگر معترضین کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی نہیں تھے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کو نبوت کے بعد لازمی قرار دیا ہے۔
دوسرے مسیحی لوگ پطرس کو خلیفہ مانتے چلے آئے ہیں۔ پس جب کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ کے بعد ضرور خلافت ہوئی اور مسیحی خود اقرار کرتے ہیں کہ پطرس حضرت مسیح ناصری ؑ کا خلیفہ تھا تو پھر یہ تیسرا گروہ کہاں سے پیدا ہوگیا جو کہتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہی نہیں ہوئا جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا تھا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب انہوں نے بھی فرما دیا کہ ہر نبی کے بعد خلافت قائم ہوئی ہے اور جب عیسائی جن کے گھر کا یہ معاملہ ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے بعد خلافت قائم ہوئی اور جب کہ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے تو پھر اس سے انکار کرنا محض ضد ہے۔ اگر کہا جائے کہ بعض مسیحی انہیں خلیفہ تسلیم نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مسلمان بھی خلفاء اربعہ کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے، بعض کے ردّ کر دینے سے مسئلہ تو ردّ نہیں ہو جاتا۔
تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’الوصیۃ‘‘ میں مسیحیوں کے بارہ میں ایسا انتظام تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گِرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اَخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوئا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوئا… ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوئا‘‘۔۶۷؎
گویا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے اِسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بعد بھی خلافت قائم ہوئی۔ پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد خلافت قائم نہیں ہوئی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس صریح ارشاد کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور ایک ایسی بات پیش کرتا ہے جس کی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے تائید ہوتی ہے نہ تاریخ سے تائید ہوتی ہے اور نہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی تائیدکرتے ہیں۔
مخالفین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس آیت سے افراد مراد لئے جائیں
تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وعدہ دو قسم کے وجودوں کے متعلق ہے۔ ایک نبیوں کے متعلق اور ایک بادشاہوں کے متعلق۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس قسم کے نبی آیا کرتے تھے اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا اور بادشاہت کو آپ نے پسند نہیں فرمایا بلکہ صاف فرما دیا کہ میرے بعد کے خلفاء بادشاہ نہ ہونگے تو پھر کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس آیت میں وعدہ قوم سے ہی ہے افراد سے نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی قسم کی نبوت بھی ختم ہو گئی اور پہلی قسم کی ملوکیت بھی ختم ہو گئی لیکن کسی خاص قسم کے ختم ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کا قائم مقام جو اس سے اعلیٰ ہو وہ نہیں آ سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سب انبیاء سے نرالے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد کا نظام بھی سب نظاموں سے نرالا ہو۔ اس کا نرالا ہونا اُسے مشابہت سے نکال نہیں دیتا بلکہ اس کے حسن اور خوبصورتی کو اَور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ آپ چونکہ کامل نبی تھے اور دنیا میں کامل شریعت لائے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے نبی ہوتے جو آپ سے فیضان حاصل کر کے مقامِ نبوت حاصل کرتے اسی طرح آپ کا نظام چونکہ تمام نظاموں سے زیادہ کامل تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے خلفاء ہوتے جو پبلک طور پر منتخب ہوتے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی اور ملوکیت بھی ایک نئے رنگ میں ڈھال دی اور پہلی قسم کی نبوت اور پہلی قسم کی ملوکیت کو ختم کر دیا۔
پہلے انبیاء کی خلافت خواہ خلافتِ نبوت ہو یا خلافتِ ملوکیت۔ ناقص تھی
یاد رکھنا چاہئے کہ خلافتِ نبوت پہلے نبی کی تائید کیلئے آتی ہے اورخلافتِ ملوکیت مؤمنین کے
حقوق کی حفاظتاور اُن کی قوتوں کے نشوونما کیلئے آتی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء ِکو جو خلفاء انبیاء ملے تو اُن کی خلافت ناقص تھی کیونکہ گو وہ ان کے کام کو چلاتے تھے مگر نبوت براہِ راست پاتے تھے ۔ پس اُن کی خلافت کامل خلافت نہ ہوتی تھی اور اگر ان کی اقوام کو خلفائِ ملوکی ملے تو اُن کی خلافت بھی ناقص خلافت ہوتی تھی کیونکہ وہ اختیارات براہِ راست ورثہ سے پاتے تھے۔ اور اس کے نتیجہ میں اُن کی قوم کے قویٰ پورے طور پر نشوونما نہ پاتے تھے کیونکہ اُن کے مقرر کرنے میں اُمت کا دخل نہ ہوتا تھا اُسی طرح جس طرح نبیوں کا اپنے تابع نبیوں کی نبوت میں دخل نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ جہاں بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا ورثہ کے طور پر تختِ حکومت سنبھالتے چلے جاتے ہیں وہاں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پبلک کے علمی معیار کو بلند کیا جائے اور اُس کے ذہنی قویٰ کو ایسا نشوونما دیا جائے کہ وہ صحیح رنگ میں حکام کا انتخاب کر سکے لیکن جہاں حکام کا انتخاب پبلک کے ہاتھ میں ہو وہاں حکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ ہر فرد کو عالم بنائے، ہر فرد کو سیاست دان بنائے اور ہر فرد کو ملکی حالات سے باخبر رکھے تا کہ انتخاب کے وقت اُن سے کوئی بیوقوفی سرزد نہ ہو جائے۔ پس اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے لوگوں کے علمی نشوونما کو مدنظر رکھتے ہوئے حُکّام کے انتخاب کا حکم دیا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کی خلافت خواہ وہ خلافتِ نبوت ہو یاخلافتِ ملوکیت ناقص تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ صحیح معنوں میں کامل نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آیا یا آئیں گے وہ آپ کے تابع ہی نہ ہونگے بلکہ آپ کے فیض سے نبوت پانے والے ہونگے۔ اِسی طرح چونکہ آپ کی قوم صحیح معنوں میں کامل اُمت تھی جیسا کہ فرمایا۔ ۶۸؎ اس لئے ضروری تھا کہ اُن کے کام کو چلانے والے بھی اُسی رنگ میں آئیں جس طرح اس اُمت میں نبی آنے تھے یعنی اُن کے انتخاب میں قوم کو دخل ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ ملوکی خلیفہ نہ ہوں جن کے انتخاب میں قوم کو دخل نہ ہوتا تھا بلکہ انتخابی خلیفہ ہوں تا کہ اُمتِ محمدیہ کی پوری ترجمانی کرنے والے ہوں اور اُمت کی قوت کا صحیح نشوونما ہو۔ چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ہر خلیفہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ علم اور سمجھ کا مادہ پیدا کرے تا کہ وہ اگلے انتخاب میں کوئی غلطی نہ کر جائیں۔ پس یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالانبیاء ہیں اور آپ کی اُمت خَیْرُالْاُمَم ہے۔ جس طرح سید الانبیاء کے تابع نبی آپ کے فیضان سے نبوت پاتے ہیں اسی طرح خَیْرُ الْاُمَم کے خلفاء قوم کی آواز سے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں۔ پس یہ نظام اسلام کی برتری اور اسلام اور اُمّتِ اسلامیہ کے عُلّوِمرتبت کی وجہ سے ہے اور اس سے خلافتِ فردی کو مٹایا نہیں گیا بلکہ خلافتِ شخصی کو زیادہ بہتر اور مکمل صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ان اصولی سوالوں کے بعد میں ایک دو ضمنی اعتراضوںکو لے لیتا ہوں۔
کیا خلافتِ موعودہ محض اُس خلیفہ کے متعلق ہے جو نبی کے معاً بعد آتا ہے؟
(۱) ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلافتِ موعودہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے محض اُس خلیفہ کے متعلق ہے
ہے جو نبی کے معاً بعد آتا ہے نہ کہ خلفاء کے ایک لمبے سلسلہ کے متعلق۔ اس کا جواب یہ ہے۔
(۱) رسول کریم ﷺ نے خود چاروں خلافتوں کو خلافتِ راشدہ قرار دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔ عَنْ سَفِیْنَۃَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ الْخِلَافَۃُ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکاً۔۶۹؎ یعنی حضرت سفینہؓ کہتے ہیں مَیں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے بعد خلافت صرف تیس سال ہو گی اس کے بعد ملوکیت قائم ہو جائے گی۔ اور چاروں خلفاء کی مدت صرف تیس سال ہی بنتی ہے۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کو چاروں خلفاء تک لمبا کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ اسے پہلے خلیفہ تک محدود کر دے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کو ’’سِرّالخلافہ‘‘ میں بیان فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے ردّ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اصل جانشین حضرت علیؓ تھے آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آیت میں ہے اور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بدرجہء کمال حضرت ابوبکرؓ میں پائی جاتی ہیں۔۷۰؎
پس آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت حضرت علیؓ کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علیؓ خلیفہ نہ تھے۔ آپ نے اپنی کتب میں چار خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں ۷۱؎ اور حضرت علیؓ کی خلافت کا بھی ذکر فرمایا ہے ۷۲؎ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ نے شیعوں کے ردّ میں ایک لیکچر دیا تھا جس میں انہوں نے اسی آیت سے حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓاور حضرت عثمانؓ کو خلیفہ ثابت کیا ہے اور حضرت علیؓ کی خلافت کو بھی مختلف مقامات میں تسلیم کیا ہے۔ آپ نے بعد میں اس لیکچر کو بعض زوائد کے ساتھ کتابی صورت میں ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کے نام سے چھپوا دیا تھا۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ میرا یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنا اور بار بار پڑھوایا اور اس کے کچھ حصہ کا ترجمہ اپنی کتاب حجۃ اللہ میں بھی کر دیا اور مختلف مقامات پر میرا یہ مضمون دوستوں کو اپنی طرف سے بطور تحفہ بھجوایا۔
پس معلوم ہوئا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عقیدہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے متفق تھے جس کا انہوں نے ’’خلافتِ راشدہ‘‘ میں اظہار کیا ہے۷۳؎۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ پہلے خلیفہ کی خلافت ثابت ہو جائے تو دوسروں کی خود بخود ثابت ہو جاتی ہے۔ جیسے حضرت ابوبکرؓ پہلے خلیفہ ہوئے اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کا انتخاب کیا اور مسلمانوں سے مشورہ کر کے انھیں خلیفہ مقرر کیا۔ اسی طرح اس زمانہ میں حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ تو میرا نام لے کر وصیت کی اور دوسری دفعہ بغیر نام کے وصیت کی مگر بہرحال خلافت کے وجود کو آپ نے قائم کیا۔ آپ کی وصیت کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’خاکسار بقائمی حواس لکھتا ہے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ……میرا جانشین متقی ہو، ہر دلعزیز عالم باعمل ۔ حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی و درگزر کو کام میں لاوے ۔ میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیرخواہ رہے قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔ والسلام
نورالدین
۴؍مارچ ۷۴؎
اسی طر ح آپ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خداتعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے اور میرے بعد جو ہو گا اسے بھی خدا ہی خلیفہ مقرر کرے گا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:۔
’’خلافت کیسری کی دُکان کاسوڈا واٹر نہیں۔ تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کوخدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا۔‘‘۷۵؎
پس اگر پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت خلیفہ تھے تو ان کے فیصلے اسی کی تائید میں ہیں کہ ان کے بعد بھی خلافت رہے گی اور اسی رنگ میں ہو گی جس رنگ میں ان کی اپنی خلافت تھی اور ان کے فیصلے اس بارہ میں حُجّت ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ جب موجبات موجود ہوں تو پھر ان کا طبعی نتیجہ کیوں نہ ہو گا یا تو یہ مانا جائے گا کہ ضرورتِ خلافت بعد میں نہ رہی اور اُمت بھی مؤمنوں اور عملِ صالح کرنے والوں کی نہ رہی اور یا پھر خلافت کے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا۔
کیا خلیفہ کا عزل جائز ہے؟
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب خلیفہ انتخاب سے ہوتا ہے تو پھر امت کیلئے اس کا عزل بھی جائز
ہوئا ا س کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقرر اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا۔ پس گو خلفاء کا انتخاب مؤمنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں مَیں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعامِ الٰہی ہوتے ہیں۔ پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا اُمت کو حق نہیں کہ وہ اس شخص کو جو کامل موحّد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کر دے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امّتِ اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی۔ ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے۔ پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے اُمت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو ردّ کر دے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے۔ جو انعام منہ مانگے ملے اس کا ردّ کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور ا س پر شدیدحُجت قائم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرمائے گا کہ اے لوگو! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو؟ تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کر دیئے۔ جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں۔ اب اس نعمت کے اوپر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ اسی کی طرف اشارہ کرنے کیلئے فرمایا کہ ۔ یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے اُمت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ ا س انتخاب میں ہم اُمت کی راہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس کے بعد اُمت کا اختیار نہیں ہوتا اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یاد رکھے وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتا ہے۔ پس اگر انتخاب کے وقت وہمیں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام کی فہرست سے کاٹ کر فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔
ایک لطیف نکتہ
اب ایک لطیف نکتہ بھی سن لو۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا عجیب بات بیان کی ہے۔ خلافت کے انعام کا وارث اس قوم کو بتایا ہے جو
(۱) ایمان رکھتی ہو یعنی اس کے ارادے نیک ہوں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِنْ عَمَلِہٖ۷۶؎ کہ مؤمن کے عمل محدود ہوتے ہیں مگر اس کے ارادے بہت وسیع ہوتے ہیں۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں یوں کروں گا اورووں کروں گا۔ گویا مومن کے ارادے بہت نیک ہوتے ہیں۔
(۲)دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کے مصداق ہوتے ہیں۔ یعنی صالح ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے جب وہ خلافت کا انکار کرتے ہیں تو فاسق ہو جاتے ہیں۔ فاسق کے معنی ہیں جو حلقہ اطاعت سے نکل جائے اور نبی کی معیت سے محروم ہو جائے۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہوئا کہ نیک ارادے رکھنے والوں اور صالح لوگوں میں خلافت آتی ہے۔ مگر جو اس سے منکر ہو جائیں تو باوجود نیک ارادے رکھنے اور صالح ہونے کے وہ اس فعل کی وجہ سے نبی کی معیت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔
اب آیت کے اِن الفاظ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس رؤیا کے مقابل پر رکھو جو آپ نے مولوی محمدؐ علی صاحب کے متعلق دیکھا اور جس میں آپ ان سے فرماتے ہیں:۔
’’آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے۔ آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۔‘‘ ۷۷؎
تو معلوم ہوا کہ یہ بعینٖہ وہی بات ہے جو اور کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ایمان رکھنے اور عمل صالح کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ان میں خلافت قائم کرے گا۔ مگر جو شخص اس نعمت کا انکار کر دے گا وہ نبی کی معیت سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس رؤیا میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بیٹھایا نہیں بیٹھا۔ مگر قرآنی الفاظ بتاتے ہیں کہ ایسے شخص کو پاس بیٹھنے کی توفیق نہیں ملی۔ ۷۸؎
خلافتِ راشدہ کی تائید میں دوسری آیت
دوسری آیت جو خلافت کے ثبوت میں قرآن کریم میں
بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۷۹؎
یعنی اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض باتوں کے ذریعہ سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کر کے دکھا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم ؑ! میں تجھے لوگوں کا امام مقرر کرنے والا ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا کہ اے خدا! میری اولاد میں سے بھی امام بنائیو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ بہت اچھا مگر اِن میں سے جو لوگ ظالم ہو جائیں گے ان کو امام نہیں بنایا جائے گا۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انہیں امام بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً اور جائز طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو کام میرے سپرد ہونے والا ہے وہ ایک نسل میں پورا نہیں ہو سکتا اور ضرورت ہے کہ میرے بعد بھی کچھ اور وجود ہوں جو اس کام کو چلائیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اپنی ذریت کے امامت بنانے کی درخواست کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں اِن سے بھی میں وعدہ کرتا ہوں مگر ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا۔
اس آیت میں بھی وعدہ اولاد سے ہے گو ظالم اولاد سے نہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں یا تو امام تھے یا ظالم تھے اِن دونوں کے سوا بھی اور اولاد تھی۔ پھر ان سے امامت کا وعدہ کس طرح پورا ہوئا؟ اسی طرح کہ بعض کو امامت ملی اور بعض کو ان کے ذریعہ سے امامت سے فائدہ پہنچا ۔ یہ بھی آیتِ استخلاف کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ وعدہ تو سب سے تھا پھر خلافت شخصی کس طرح ہو سکتی ہے۔
مگر میں اس وقت آیت کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے متعلق امامت کا وعدہ تھا وہ وعدہ کس طرح پورا ہوئا؟ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے چار نبی ہوئے (۱) حضرت اسماعیل ؑ (۲) حضرت اسحاقؑ (۳)حضرت یعقوبؑ (۴) حضرت یوسفؑ۔ ان چاروں انبیاء خلفاء نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشن کو تکمیل تک پہنچایا۔
قرآن کریم میں دوسری جگہ ان چاروں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ فرماتا ہے۔

۸۰؎
یعنی اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ اے میرے رب! مجھے بتا کہ تُو مُردے کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو ایمان نہیں لا چکا۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا۔ کیوں نہیں ایمان تو مجھے حاصل ہو چکا ہے لیکن صرف اطمینانِ قلب کی خاطر میں نے یہ سوال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سِدھا لے پھر ہر ایک پہاڑ پر اُن میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے، پھر انہیں بلا۔ وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور حکمت والا ہے۔
یہ واقعہ اگر ظاہری ہوتا تو اس پر بہت سے اعتراض پڑتے ہیں۔ اوّل یہ کہ احیائے موتی کے ساتھ پرندوں کے سِدھانے کا کیا تعلق (۲) چار پرندے لینے کے کیا معنی؟ کیا ایک سے یہ غرض پوری نہ ہوتی تھی؟ (۳)پہاڑوں پر رکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا کسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ باطن رکھنے والا کلام ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ الٰہی! جو احیائے موتیٰ کا کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اسے پورا کر کے دکھا اور مجھے بتا کہ یہ قومی زندگی کس طرح پیدا ہو گی جبکہ میں بڈھا ہوں اور کام بہت اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ ہو کر رہے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہو کر تو ضرور رہے گا مگر میں اپنے اطمینان کیلئے پوچھتا ہوں کہ یہ مخالف حالات کیونکر بدلیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چار پرندے لے کر سِدھا اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر بلاؤ اور دیکھو کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔ یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کرو۔ وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس احیاء کے کام کی تکمیل کریں گے۔ یہ چار جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت اسماعیل ؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ ہیں۔ اِن میں سے دو کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے براہِ راست تربیت کی اور دو کی بِالواسطہ۔ پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی ہیں کہ ان کی اعلیٰ تربیت کر کیونکہ وہ بہت بڑے درجہ کے ہوں گے گویا پہاڑ پر رکھنے کے معنی ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوں تک جا پہنچیں گے۔
غرض اس طرح احیائِ قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونا تھا انہیں بتا دیا گیا۔ اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھی مثیل ہیں جیسا کہ درود پڑھنے والے مسلمان جانتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سکھائی ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا باَرَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں تو یقینا کسی خاص خصوصیت کی طرف ہی اس درود میں اشارہ ہو سکتا ہے اور وہ خصوصیت ان کی اولاد میں امامت و نبوت کی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۸۱؎ یعنی ہم نے اس کی ذریت کے ساتھ نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا اور ہم نے اس کو اس دنیا میں بھی اجر بخشا اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں میں شامل کیا جائے گا۔ پس وہ فضیلت جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملی وہ نبوت ہی تھی جس کے بعد متواتر ان کی اولاد کو نبوتِ خلافت حاصل ہوئی جس نے ان کے گھر کو شرف سے بھر دیا۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! سب سے زیادہ معزز کون ہے تو آپؐ نے فرمایا جو شخص سب سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہے۔ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا یہ سوال نہیں۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر یوسفؑ بڑا معزز ہے جو خود بھی نبی تھا اور نبی کا بیٹا بھی تھا۔ پھر اُس کا دادا بھی نبی تھا اور اُس کا پڑدادا ابراہیمؑ بھی نبی تھا۸۲؎ ۔ پس جب ہم کَمَا صَلَّیْتَ یا کَمَا بَارَکْتَ کہتے ہیں تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی فضیلت دے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھی۔ ذاتی طور پر بھی اور اولاد کی طرف سے بھی۔ یعنی آپ ابوالانبیاء ہو جائیں اور آپ کی اولاد روحانی میں بھی نبوت مخصوص ہو جائے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اِس دعا کو سنا اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاً بعد چار رسول ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاً بعد چار خلیفے ہوئے جنہوں نے آپ کے دین کی تمکین کی اور جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دُور زمانہ میں پھر نبی پیدا ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعید زمانہ بعد بھی انبیاء کی بعثت کی خبر دی گئی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر میں بھی فضیلت دی گئی ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو دو خلفاء کی تربیت بِلاواسطہ کی تھی اور دو کی بِالواسطہ۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاروں اماموں کی تربیت خود فرمائی اگر یہ مشابہت نہ ہوتی تو پھر کَمَا صَلَّیْتَ اور کَمَا بَارَکْتَ کے معنی ہی کیا ہوتے۔ پھر تو یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ شاید حضرت ابراہیم علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ پس ابراہیمی وعدہ اور درود مل کر صاف بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی ہونے والا تھا اور آپ کے بعد بھی آپ کے دین کی تمکین کیلئے خلفاء آنے والے تھے۔
اگر کہو کہ وہ خلفاء تو نبی تھے یہ تو نبی نہ تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد کے امام ہونے کے درحقیقت دو وعدے تھے ایک تو قریب عہد میں اور ایک بعید عہد میں جس میں موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود ؑشامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ قریب عہد کے امام خلیفہ امام ہوں اور بعید کا خلیفہ نبی خلیفہ ہو۔ چنانچہ خلفائے راشدین عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کے ماتحت انبیاء سے شدید مشابہت رکھتے تھے مگر نبی نہ تھے اور آخری خلیفہ ایک پہلو سے اُمتّی اور ایک پہلو سے نبی ہوئا تا کہ مشابہت میں نقص نہ رہ جائے۔
اب دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں ان خلفاء نے ان چار انبیاء سے زیادہ تمکینِ دین کی ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کا ایک زبردست ثبوت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تحریر بھی اس اُلجھن کو دور کر دیتی ہے۔ آپ ’’الوصیۃ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا … ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوئا‘‘۔ ۸۳؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت میں حضرت موسیٰؑ کے نبی جانشین سے حضرت ابوبکرؓ کی مشابہت کو تسلیم کیا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ۸۴؎۔ یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ بن الخطاب ہوتا۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ عمرؓ میرے بعد امام ہونے والے ہیں۔ اگر میرے معاً بعد نبوت کا اجراء اللہ تعالیٰ نے کرنا ہوتا تو عمرؓ بھی نبی ہوتے مگر اب وہ امام تو ہونگے مگر نبی نہ ہونگے۔
ایک دوسری حدیث بھی اس پرروشنی ڈالتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جنگ پر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے قائم مقام بنا گئے۔ پیچھے صرف منافق ہی منافق رہ گئے تھے۔ اس وجہ سے وہ گھبرا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے بھی لے چلیں۔ آپ نے تسلی دی اور فرمایا۔ اَلاَ تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہٗ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ ۸۵؎ یعنی (۱) اے علیؓ! تمہیں مجھ سے ہارونؑ اور موسیٰؑ کی نسبت حاصل ہے۔ ایک دن ہارونؓ کی طرح تم بھی میرے خلیفہ ہوگے (۲) لیکن باوجود اس نسبت کے تم نبی نہ ہوگے۔
اس میں ایک ہی وقت میں نبی سے مشابہت بھی دے دی اور نبوت سے خالی بھی بتا دیا۔ پس جس طرح علیؓ ہارونؑ کے مشابہ ہو سکتے ہیں چاروں خلفاء چار دوسرے نبیوں کے بھی مشابہ ہو سکتے ہیں۔
اس حدیث سے علاوہ اس کے کہ یہ ثبوت ملتا ہے کہ خلفاء نبیوں کے مشابہ قرار دیئے جا سکتے ہیں حضرت علیؓ کے زمانہ کے فتنہ پر بھی روشنی پڑتی ہے اور اس میں یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ جس طرح حضرت ہارونؑ کے زمانہ میں فساد ہوئا حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی فساد ہوگا اور لوگ حضرت علیؓ پر الزام لگائیں گے لیکن وہ الزام اُسی طرح غلط ہونگے جس طرح ہارونؑ پر یہ اعتراض غلط ہے کہ انہوں نے شرک کیا۔ بہرحال حضرت علیؓ کا طریق حضرت ہارونؑ کے مشابہ ہوگا کہ تفرقہ کے ڈر سے کسی قدر نرمی کریں گے (جیسا کہ صَفّین کے موقع پر تحکیم کو تسلیم کر کے انہوں نے کیا)
خلافت کے بارہ میں رسول کریمﷺ کا ایک ارشاد
اس کے بعد مَیں حدیثوں میں
سے صرف ایک حدیث بطور مثال خلافت کے بارہ میں پیش کردیتا ہوں کیونکہ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںمَا مِنْ نَّبِیٍّ اِلاَّ تَبِعَتْہُ خِلافَۃٌ ۸۶؎ یعنی کوئی نبی نہیں کہ اس کے بعد خلافت نہ ہوئی ہو۔ اس عام فیصلہ کے بعد خلافت کا انکار درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار ہے کیونکہ یہ ایک قاعدہ کلّیہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔
خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ایک بہت بڑا اعتراض
اب مَیں ایک اعتراض جو بہت مشہور
اور جو خلفاء کے حقوق کے بارہ میں ہے اس کا جواب دیتا ہوں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جیسا کہ آیت استخلاف سے ثابت ہے اور جیسا کہ آیت وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ سے ثابت ہے اور جیسا کہ آیت سے ثابت ہے خلفاء پر گو اہم امور میں مشورہ لینے کی پابندی ہے لیکن اُس پر عمل کرنے کی پابندی نہیں۔ اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ خود فرماتے ہیں کہ ان زغتُ فَقَوِّمُوْنِیْ۸۷؎ اگر مَیں کجی دکھائوں تو مجھے سیدھا کر دینا۔ معلوم ہوئا کہ وہ پبلک کو خلیفہ کو روکنے کا اختیار دیتے ہیں۔ غیر مبائعین ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہہ دیا تھا کہ اگر مَیں ٹیڑھا ہو جائوں تو مجھے سیدھا کر دینا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اور پبلک کو حق ہے کہ جب بھی وہ اسے سیدھے راستہ سے منحرف ہوتا دیکھے اُسے پکڑ کر سیدھا کر دے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے اپنے اس قول کے کبھی بھی وہ معنے نہیں سمجھے جو معترضین لیتے ہیں۔ اور نہ مسلمان آپ کے اس قول کا کبھی یہ مفہوم لیتے تھے کہ جب وہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو اپنی رائے کے خلاف دیکھیں تو سختی سے آپ کو سیدھا کر دیں۔ جَیشِ اسامہؓ کو رُکوانے کے متعلق جب بڑے بڑے صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے تو انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ ہماری یہ بات ماننی ہے تو مانو ورنہ ہم تمہیں ابھی سیدھا کر دیں گے بلکہ آپ نے جب ان تمام لوگوں کے مشورہ کو ردّ کر دیا اور فرمایا کہ مَیں جَیشِ اسامہؓ کو نہیں روک سکتا تو انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی۔ اسی طرح جب باغیوں سے جنگ کے بارہ میں صحابہؓ نے کسی قدر نرمی کی درخواست کی تو آپ نے ان کی اس درخواست کو بھی ردّ کر دیا اور فرمایا کہ مَیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو مُرتدین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بھی صحابہؓ نے یہ نہیں کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں مانتے تو ہم آپ کو سیدھا کر کے چھوڑ یں گے بلکہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور حضرت ابوبکرؓ کے فیصلہ کے سامنے انہوں نے اپنی گردنیں جُھکا دیں۔ اسی طرح جہاں بھی آپ کا لوگوں سے مقابلہ ہوئا آپ نے یہی کہا کہ میری بات صحیح ہے اور تمہاری غلط۔ یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ کبھی لوگوں نے آپ کو سیدھا کیا ہو۔ یا آپ نے ہی لوگوں سے کہا ہو کہ اے مسلمانو! مَیں کچھ ٹیڑھا سا ہو گیا ہوں مجھے سیدھا کر دینا۔ پس آپ کے قول کے وہی معنی لئے جا سکتے ہیں جو خدا اور رسول کے احکام کے مطابق ہوں اور خود آپ کے فعل کے مطابق ہوں نہ کہ مخالف۔
کجی سے مراد صرف کُفربواح ہے
سو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی ٹیڑھا ہونے سے مراد وہی کفرِہے جس کا ذکر احادیث
میں آتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ جب تک مَیں اسلام پر چلتا ہوں تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر مَیں اسلام کو ترک کر دوں یا مجھ سے کفرِ صادر ہو تو پھر تم پر یہ فرض ہے کہ میرا مقابلہ کرو ورنہ یہ مُراد نہیں کہ میرے روز مرہ کے فیصلوں پر تنقید کر کے جو تمہاری مرضی کے مطابق ہوں اُن پر عمل کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو۔
کیا حضرت ابوبکرؓ کُفربواح کر سکتے تھے؟
اگر کوئی کہے کہ کیا حضرت ابوبکرؓ کفربواح کر سکتے تھے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا حضرت ابوبکرؓ اس قدر ٹیڑھا ہو سکتے تھے کہ انہیں سیدھا کرنے کی مسلمانوں کو ضرورت پیش آئے! ایسی صورت تو اُسی وقت پیش آ سکتی تھی جب صحابہؓ کہیں کہ قرآن اور حدیث سے فلاں امر ثابت ہے اور حضرت ابوبکرؓ کہیں کہ مَیں قرآن اور حدیث کی بات نہیں مانتا۔ پس کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کبھی قرآن اور حدیث کے خلاف ایسا قدم اٹھا سکیں؟ اور مسلمانوں کو انہیں لٹھ لیکر سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اگر اس قدر کجی بھی آپ سے ممکن نہ تھی مگر آپ نے یہ فقرہ کہا تو کفرِ بواح بھی گو آپ سے ممکن نہ تھا مگر آپ نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ صداقتِ ازلی سب چیزوں سے بڑی ہے یہ فقرہ کہہ دیا اس سے آپ کا یہ منشا ء نہیں تھا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ آپ سے کفربواح صادر ہو سکتا ہے بلکہ یہ منشاء تھا کہ میری حیثیت محض ایک خلیفہ کی ہے اور میرا کام اپنے رسول اور مطاع کی تعلیم کو صحیح رنگ میں دنیا میں قائم کرنا ہے۔ پس تم اس صداقتِ ازلی کو ہر چیز پر مقدم رکھو اور خواہ مَیں بھی اُس کے خلاف کہوں تم اصل تعلیم کو کبھی ترک نہ کرو۔
قرآن کریم سے بعض مثالیں
اَب مَیں بتاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی موجودہیں۔ حضرت شعیبؑ فرماتے ہیں۔
۔۸۸؎ جب کُفّار نے حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ آئو اور ہم میں مل جائو تو حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ جواب دیا کہ ہمارے لئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ تمہارے مذہب میں شامل ہوں ہاں اگر خدا چاہے تو ہو سکتا ہے۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت شعیبؑ کو کافر کر دینا اللہ تعالیٰ کیلئے ممکن تھا یا شعیبؑ کا کافر ہو جانا ممکن تھا۔ یقینا اُن کا کافر ہونا ناممکن تھا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ مگر انہوں نے یہ کہا اور اس لئے کہا تا اللہ تعالیٰ کامقام اور اُس کی عظمت لوگوں پر ظاہر ہو کہ گو میرا کافر ہونا ناممکن ہے مگر اس میں میرے نفس کی کوئی بڑائی نہیں بلکہ یہ مقام محض اللہ تعالیٰ کی مدد سے حاصل ہوئا ہے اگر وہ نہ ہو تو پھر یہ عصمت بھی نہ رہے۔
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی کلمات نکلوائے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے ۸۹؎ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا کا بیٹا ہو تو مَیں سب سے پہلے اُس کی پرستش اور عبادت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اب اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹے کا امکان موجود ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ خدا کا بیٹا تو یقینا کوئی نہیں لیکن اگر ہوتا تو میرے جیسا مطیع و فرمانبردار بندہ اُس کی ضرور عبادت کرتا۔
اِسی طرح حضرت ابوبکرؓ سے گو کُفربواح کا صدور بالکل ناممکن تھا مگر آپ نے صداقتِ ازلی کی اہمیت لوگوں کو ذہن نشین کرانے کیلئے فرما دیا کہ اگر مَیں بھی اس کے مقابلہ میں آ جائوں تو میری پروا نہ کرنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ
ایسا ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ایک واقعہ ہے۔ آپ کے
زمانہ میں ایک شخص میاں نظام الدین نامی تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو تمام ہندوستان میں ایک شور مچ گیا، اُن دنوں حضرت خلیفہ اوّل جموں سے چند دنوں کی رخصت لیکر لاہور آئے ہوئے تھے۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی بھی وہیں جا پہنچے اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ صرف حدیثوں سے اس مسئلہ پر بحث ہونی چاہئے۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے کہ حدیث حاکم نہیں بلکہ قرآن حاکم ہے۔ پس ہمیں اس معاملہ کا قرآن کریم کی آیات سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور ایک دوسرے کی طرف سے اشتہارات بھی نکلتے رہے۔ میاں نظام الدین چونکہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی گہرا تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس جھگڑے کو نپٹا نا چاہئے۔ انہوں نے اپنے دل میں سمجھا کہ مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کریم کے خلاف تو کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ ضرور انہوںنے کوئی ایسی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی سمجھے نہیں اور جوش میں آ کر مخالفت پر آمادہ ہوگئے ہیں ورنہ یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ قرآن سے حیاتِ مسیح ثابت ہو اور مرزا صاحب جیسا نیک اور متقی آدمی قرآن کے خلاف یہ دعویٰ کر دے کہ حضرت مسیحؑ فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ وہ بڑے جوش سے قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی دعویٰ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اگر قرآن سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ اپنا یہ عقیدہ ترک کر دیں گے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں۔ اگر قرآن سے حیات مسیحؑ ثابت ہو جائے تو مَیں انہیں زندہ ماننے لگ جائوں گا۔ اس پر وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے مَیں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف عمداً کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ انہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور اگر اُسے رفع کر دیا جائے تو اُن سے حیاتِ مسیح کا منوا لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ چنانچہ کہنے لگے اچھا اگر مَیں ایسی سَو آیتیں نکال کر لے آئوں جن سے حیاتِ مسیح ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے سَو چھوڑ آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں تو میرے لئے وہی کافی ہے۔کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس تو ضرور لے آئوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مَیں تو کہہ چکا ہوں کہ میرے لئے ایک آیت بھی کافی ہے سو یا پچاس کا سوال ہی نہیں۔ وہ کہنے لگے اچھا یہ بات ہے تو دس آیتیں تو میں ایسی ضرور نکال کر لے آئوں گا جن سے مسیحؑ کی حیات ثابت ہوتی ہو۔ چنانچہ وہ سیدھے لاہور پہنچے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے جا کر ملے۔ اس دوران میں چونکہ حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بحث نے بہت طول پکڑ لیا تھا اس لئے تنگ آ کر حضرت خلیفہ اوّل نے اتنا مان لیا کہ قرآن کے علاوہ بخاری سے بھی تائیدی رنگ میں حدیثیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی اس فتح پر بڑے خوش تھے اور وہ مسجد میں بیٹھے بڑے زور شور سے لافیں مار رہے تھے کہ مَیں نے نورالدین کو ایسا رگیدا اور ایسی پٹخیاں دیں کہ آخر اُسے ماننا پڑا کہ قرآن کے علاوہ حدیثیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ اتفاق ایسا ہوئا کہ اِدھر وہ ڈینگیں مار رہے تھے اور اُدھر میاں نظام الدین صاحب اُن کے سر پر جا پہنچے اور کہنے لگے بس اس بحث مباحثہ کو ایک طرف رکھیں مَیں قادیان گیا تھا اور مَیں حضرت مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں کہ اگر مَیں قرآن سے دس آیتیں ایسی نکال کر لے آئوں جن سے حیاتِ مسیحؑ ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے عقیدہ کو ترک کر دیں گے اس لئے آپ جلدی کریں اور مجھے قرآن سے ایسی دس آیات نکال کر دے دیں۔ مَیں ابھی اس جھگڑے کا فیصلہ کئے دیتا ہوں اور خود مرزا صاحب کی زبان سے یہ اقرار کروا لیتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ مَیں نے نورالدین کو ایسا رگیدا کہ وہ میرے مقابلہ میں شکست کھانے پر مجبور ہو گیا انہوں نے جب میاں نظام الدین صاحب کی یہ بات سنی تو اُن کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ بڑے غصّہ سے کہنے لگے تجھے کس جاہل نے کہا تھا کہ تو مرزا صاحب کے پاس جائے۔ مَیں دو مہینے جھگڑ جھگڑ کر نور الدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا۔ وہ آدمی تھے نیک، انہوں نے جب یہ سنا تو وہ حیرت و استعجاب سے تھوڑی دیر تو بالکل خاموش کھڑے رہے اور پھر مولوی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب اگر قرآن میں حیاتِ مسیحؑ کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی مَیں ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوگئے۔
اب دیکھ لو باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اس حقیقت کو کھولا تھا کہ حضرت مسیح ناصریؑ فوت ہو چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ نے قرآن و احادیث سے اس مسئلے کو مدلّل طور پر ثابت کر دیا تھا آپ نے فرمایا کہ اگر ایک آیت بھی اس کے خلاف لے آئو تو مَیں اپنا عقیدہ ترک کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو نَعُوْذُبِاللّٰہِ اس کے متعلق کامل یقین حاصل نہیں تھا اور آپ کا خیال تھا کہ شاید اس کے خلاف بھی کوئی آیت ہو۔ اگر کوئی ایسا کہے تو وہ اوّل درجے کا جاہل ہوگا کیونکہ آپ نے جب یہ کہا کہ اگر ایک آیت بھی میرے پاس ایسی نکال کر لے آئیں جس سے حیات مسیحؑ ثابت ہوتی ہو تو مَیں اپنے عقیدہ کو ترک کر دوں گا تو یہ قرآن مجید کی عظمت اور اُس کی بزرگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کے ایک لفظ کے خلاف بھی اگر میرا عقیدہ ہو تو مَیں ترک کرنے کیلئے تیار ہوں۔ یہ مقصد نہیں تھا کہ واقع میں آپ کا کوئی عقیدہ خلافِ قرآن ہے۔ اِسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ سے کُفربواح صادر ہو سکتا تھا بلکہ یہ معنی ہیں کہ صداقت ہر حالت میں قابلِ اتباع ہوتی ہے اور اُس کیلئے زید یا بکر کا کوئی سوال نہیں ہوتا اگر مَیں بھی کسی ایسے امر کا ارتکاب کروں تو تم میری اطاعت سے انکار کر دو۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کبھی خدا اور رسول کے حکم کے خلاف بھی کسی فعل کا ارتکاب کر سکتے تھے اور نہ اور آیت استخلاف کی موجودگی میں یہ معنی ہو سکتے ہیں۔
آیتِ استخلاف اور خلافتِ ثانیہ
اَب مَیں مختصراً آیت استخلاف کے ماتحت احمدیہ خلافت کے ذکر کو چھوڑ کر صرف اپنی خلافت کو لیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میں یہ بتایا ہے کہ جب تک قوم کی اکثریت میں ایمان اور عملِ صالح رہتا ہے اُن میں خلافت کا نظام بھی موجود رہتا ہے۔ پس دیکھنا یہ چاہئے کہ (۱) کیا جماعت اب تک ایمان اور عملِ صالح رکھتی ہے یعنی کیا ہماری جماعت کی شہرت نیک ہے اور کیا ہماری جماعت کے افراد کی اکثریت عملِ صالح رکھتی ہے؟ اس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ جماعت کی شہرت نیک ہے اور جماعت کی اکثریت عمل صالح پر قائم ہے۔ پس جب ایمان اور عملِ صالح کی یہ حالت ہے تو خلافت کا وعدہ ضرور پورا ہونا چاہئے کیونکہ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ ضرور پورا ہوئا کرتا ہے۔ (۲)دوسری بات اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یعنی جس طرح پہلے خلفاء ہوئے اسی طرح اُمتِ محمدیہ میں خلفاء ہونگے۔ مطلب یہ کہ جس طرح پہلے خلفاء الٰہی طاقت سے بنے اور کوئی اُن کی خلافت کا مقابلہ نہ کر سکا اِسی طرح اب ہوگا۔ سو میری خلافت کے ذریعہ یہ علامت بھی پوری ہوئی۔ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت کے وقت صرف بیرونی اعداء کا خوف تھا۔ مگر میری خلافت کے وقت اندرونی اعداء کا خوف بھی اس کے ساتھ شامل ہو گیا۔ پھر حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی حکیم الامت اور اَور بہت سے القاب سے ملقّب کیا جاتا تھا مگر میرے متعلق سالہا سال سے جماعت میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ اگر اس بچہ کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور آگئی تو جماعت تباہ ہو جائے گی۔ پھر میں نہ عربی کا عالم تھا، نہ انگریزی کا عالم تھا، نہ ایسا فن جانتا تھا جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف پھرا سکے، نہ جماعت میں مجھے کوئی عہدہ اور رسوخ حاصل تھا تمام اختیارات مولوی محمد علی صاحب کوحاصل تھے اور وہ جس طرح چاہتے تھے کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ایک ایسا شخص جس کو عمر کے لحاظ سے بچہ کہا جاتا تھا، جس کو علم کے لحاظ سے جاہل کہا جاتا تھا، جسے انجمن میں کوئی اختیار حاصل نہیں تھا، جس کے ہاتھ میں کوئی روپیہ نہیں تھا، اُس کی مخالفت میں وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تھیں، وہ لوگ کھڑے ہوئے جن کے ہاتھوں میں قوم کا تمام روپیہ تھا، وہ لوگ کھڑے ہوئے جو ایک عرصہ درازسے بہت بڑی عزتوں کے مالک سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اس بچہ کو خلیفہ نہیں بننے دیں گے مگر خدا نے اُن کو ناکام و نامراد کیا اور وہی جسے جاہل کہا جاتا تھا، جسے کودن۹۰؎ قرار دیا جاتا تھا اور جس کے متعلق یہ عَلَی الْاِعْلان کہا جاتا تھا کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا، خدا تعالیٰ نے اُسی کو خلافت کے مقام کیلئے منتخب کیا۔ یہ لوگ اپنی امیدوں پر پانی پھرتا دیکھ کر یہاں سے الگ ہو گئے اور انہوں نے کہا جماعت نے بے وقوفی کی جو اُس نے ایک نادان اور احمق بچہ کو خلیفہ بنا لیا تھوڑے دنوں میں ہی اُسے اپنی حماقت کا خمیازہ نظر آ جائے گا۔ جماعت تباہ ہو جائے گی، روپیہ آنا بند ہو جائے گا، تمام عزت اور نیک نامی خاک میں مل جائے گی اور وہ عروج جو سلسلہ کو اب تک حاصل ہوئا ہے اس نادان بچے کی وجہ سے ضائع ہو جائیگا مگر ہوتا کیا ہے؟ وہی بچہ جب خدا کی طرف سے خلافت کے تخت پر بیٹھتا ہے تو جس طرح شیر بکریوں پر حملہ کرتا ہے اُسی طرح خدا کا یہ شیر دنیا پر حملہ آور ہوئا اور اس نے ایک یہاں سے اور ایک وہاں سے، ایک مشرق سے اور ایک مغرب سے، ایک شمال سے اور ایک جنوب سے بھیڑیں اور بکریاں پکڑ پکڑ کر خدا کے مسیحؑ کی قربان گاہ پر چڑھا دیں یہاں تک کہ آج اس سٹیج پر اس وقت سے زیادہ لوگ موجود ہیں جتنے حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال جلسہ سالانہ پر آئے تھے۔ جس کی آنکھیں دیکھتی ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان سنتے ہوں وہ سنے کہ کیا خدا کے فضل نے ان تمام اعتراضات کو باطل نہیں کر دیا جو مجھ پر کئے جاتے تھے۔ اور کیا اُس نے اُسی پچیس سالہ نوجوان کو جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ وہ جماعت کو تباہ کر دے گا خلیفہ بنا کر اور اُس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی دے کر یہ ظاہر نہیں کر دیا کہ یہ کسی انسان کا بنایا ہوئا خلیفہ نہیں بلکہ میرا بنایا ہوئا خلیفہ ہے اور کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے۔
(۳) تیسری علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ یعنی جو علومِ دینیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن پر ظاہر ہونگے انہیں خدا دنیا میں قائم کرے گا اور کوئی اُن کو مٹانے پر قادر نہ ہو سکے گا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے صحابہؓ کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ صحابہؓ نے جو حدیثیں جمع کیں وہ بجائے خود اتنا بڑا کارنامہ ہے جو اُن کے درجہ کو عام لوگوں کے وہم و گمان سے بھی بلند تر کر دیتا ہے۔ پھر اس میںبھی کوئی شُبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل قرآن کریم کے کامل ماہر اور اُس کے عاشق تھے اور آپ کے احسانات جماعت احمدیہ پر بہت بڑے ہیں لیکن یہ سب وہ تھے جن میں سے کسی ایک پر بھی جاہل ہونے کا اعتراض نہیں کیا گیا اس لئے خدا تعالیٰ کی صفتِ علیم جس شان اور جس جاہ و جلال کے ساتھ میرے ذریعہ جلوہ گر ہوئی اُس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میںاور کہیں نظر نہیں آتی۔ مَیں وہ تھا جسے کَل کا بچہ کہا جاتا تھا، مَیں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا مگر عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک اُمتِ مُسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور اُن سے فائدہ اٹھائے۔ وہ کونسا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔ مسئلہ نبوت، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سَو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا مجھے خدا نے اس خدمتِ دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں۔ مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ بُرا بھلا کہے جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اُسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جاسکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری۔ ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہونگی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور اُن سے فائدہ اٹھائیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوئا ہے اور ہو رہا ہے۔ پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوئا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو۔
(۴) چوتھی علامت یہ بتائی تھی کہ۔ خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ یہ علامت میرے زمانہ میں خدا نے نہایت صفائی کے ساتھ پوری کی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل جب خلیفہ ہوئے ہیں تو اس وقت صرف یہ خوف تھا کہ باہر کے دشمن ہنسی مذاق اُڑائیں گے اور وہ جماعت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ مگر میری خلافت کے آغاز میں نہ صرف بیرونی دشمنوں کا خوف تھا بلکہ جماعت کے اندر بھی بگاڑ پیدا ہو چکا تھا اور خطرہ تھا کہ اور لوگ بھی اس بگاڑ سے متائثر نہ ہو جائیں ایسے حالات میں خدا نے میرے ذریعہ ہی اس خوف کو امن سے بدلا اور یہ خطرہ کہ جماعت کہیں صحیح عقائد سے منحرف نہ ہو جائے بالکل دُور کر دیا۔ چنانچہ دیکھ لو آج مصری صاحب بھی باوجود میری مخالفت کے نبوتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائل ہیں اور اگر وہ دیانتداری اور سچائی سے کام لیں تو اس بات کا اعتراف کر سکتے ہیں کہ اس مسئلہ پر جماعت کو ثبات میری وجہ سے ہی حاصل ہوئا اور مَیں نے ہی اس مسئلہ کو حل کیا۔ پھر کیا یہ مسئلہ خدا نے اسی سے حل کرانا تھا جو بقول مصری صاحب معزول ہونے کے قابل تھا؟ اِسی طرح جماعت پر بڑے بڑے خطرات کے اوقات آئے مگر خدا تعالیٰ نے ہر خطرہ کی حالت میں میری مدد کی اور میری وجہ سے اس خوف کو امن سے بدل دیا گیا۔
احرار کا جن دنوں زور تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب جماعت تباہ ہو جائے گی مگر میں نے کہا میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں اور اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی احرار کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور وہ دنیا میں ذلیل اور رُسوا ہو گئے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوئا ایک سِکھ نے ایک رسالہ لکھا ۹۱؎ جس میں وہ میرا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ تم انہیں خواہ کتنا ہی جھوٹا کہو، ایک بات ایسی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جن دنوں احرار اپنے زور پر تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کو مٹا کر رکھ دیں گے ان دنوں امام جماعت احمدیہ نے کہا کہ میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھ رہا ہوںاور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی یہ بات بڑی شان سے پوری ہوئی۔ پہلے احرار جس تحریک کو بھی اپنے ہاتھ میں لیتے تھے کامیاب ہوتے تھے مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ جس تحریک کو بھی اُٹھاتے ہیں اس میں ناکام ہوتے ہیں۔ اسی طرح ارتداد ملکانا کا فتنہ لے لو، رنگیلا رسول کے وقت کی ایجی ٹیشن کو لے لو۔ یا ان بہت سی سیاسی اُلجھنوں کو لے لو جو اس دوران میں پیدا ہو ئیں تمہیں نظر آئے گا کہ ہر مصیبت کے وقت خدا نے میری مدد کی، ہر مشکل کے وقت اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر خوف کو اس نے میرے لئے امن سے بدل دیا۔ میں کبھی بھی نہیں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ایسا عظیم الشان کام لے گا مگر میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ خدا نے میرے وہم اور گمان سے بڑھ کر مجھ پر احسانات کئے۔ جب میری خلافت کا آغاز ہوئا تو اس وقت میں نہیں سمجھتا تھا کہ میںکوئی دین کی خدمت کر سکوں گا۔ ظاہری حالات میرے خلاف تھے، کام کی قابلیت میرے اندر نہیں تھی، پھر میں نہ عالم تھا نہ فاضل، نہ دولت میرے پاس تھی نہ جتھا،چنانچہ خدا گواہ ہے جب خلافت میرے سپرد ہوئی تو اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ خدا کے عرفان کی نہر کا ایک بند چونکہ ٹوٹ گیا ہے اور خطرہ ہے کہ پانی اِدھر اُدھر بہہ کر ضائع نہ ہو جائے، اس لئے مجھے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ میں اپنا مردہ دھڑ اس جگہ ڈال دوں جہاں سے پانی نکل کر بہہ رہا ہے اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائے چنانچہ میں نے دین کی حفاظت کیلئے اپنا دھڑ وہاں ڈال دیا اور میں نے سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا مگر میری خلافت پر ابھی تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خداتعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح برسنے شروع ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نشان
چنانچہ علی گڑھ کا ایک نوجوان جس کی حالت یہ تھی کہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کے عہد میں ہی میرے
متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں جمع کرنے لگ گیا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ یہ پیشگوئیاں اتنی زبردست ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ وہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے قادیان آیا اور یہ دیکھ کر کہ آپؓ کی حالت نازک ہے مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں۔ میں نے کہا تم کیسی گناہ والی بات کر رہے ہو ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے خلیفہ کے متعلق گفتگو کرنا شرعاً بالکل ناجائر اور حرام ہے تم ایسی بات مجھ سے مت کرو۔ چنانچہ وہ علی گڑھ واپس چلا گیا اور بارہ تیرہ دن کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہو گئی۔ وہ چونکہ حضرت خلیفہ اوّل سے اچھے تعلقات رکھتا تھا اس لئے جب آپ کی وفات پر اختلاف ہوئا تو بعض پیغامیوں نے اسے لکھا کہ تم اس فتنہ کو کسی طرح دور کرو۔ اس پر اس نے علی گڑھ سے مجھے تار دیا کہ فوراً ان لوگوں سے صلح کر لو ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔ میں نے اسے جواب لکھا کہ تمہارا خط پہنچا تم تو مجھے یہ نصیحت کرتے ہو کہ میں ان لوگوں سے صلح کر لوں مگر میرے خدا نے مجھ پر یہ الہام نازل کیا ہے کہ:-
’’کون ہے جو خدا کے کاموں کوروک سکے‘‘
پس میں ان سے صلح نہیں کر سکتا۔ رہا تمہارا مجھے یہ تحریک کرنا سو یاد رکھو تم خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی حُجت کے نیچے ہو۔تم نے حضرت خلیفہ اوّل کی زبان سے میرے متعلق بارہا ایسا ذکر سنا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے بعد خداتعالیٰ مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کرے گا پھر تم خود میرے متعلق ایک کتاب لکھ رہے تھے جس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے متعلق کیں پس تم پر حجت تمام ہو چُکی ہے اور تم میرا انکار کر کے اب دہریت سے ورے نہیں رہو گے۔
یہ خط میں نے اسے لکھا اور ابھی اس پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دہریہ ہو گیا۔ چنانچہ وہ آج تک دہریہ ہے اور عَلَی الْاِعْلانْ خداتعالیٰ کی ہستی کا منکر ہے حالانکہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے بارہ تیرہ دن پہلے میری بیعت کیلئے تیار تھا اور پھر میرے متعلق ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا جس میں اس کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تمام پیشگوئیوں کو جمع کر دے جو میرے متعلق ہیں مگر چونکہ اس نے ایک کھلی سچائی کا انکار کیا اس لئے میں نے اسے لکھا کہ اب میرا انکار تمہیں دہریت کی حد تک پہنچا کر رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوئااور وہ ایک مہینہ کے اندر اندر دہریہ ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر بحث کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو جانے دو تم یہ بتاؤ کہ میں نے تمہارے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں؟ اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔
غیر مبائعین کے متعلق الہام لَیُمَزِّقَنَّھُمْ پورا ہو گیا
غیرمبائعین کے پاس دوسری بڑی
چیز جتھا تھی۔ انہیں اس بات پر بڑا گھمنڈ تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ان کے ساتھ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہی دنوں مجھ پر الہام نازل کیا کہ ’’لَیُمَزِّقَنَّھُمْ ‘‘ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا
چنانچہ خدا کی قدرت وہی خواجہ کمال الدین صاحب جن کے مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ ایسے گہرے تعلقات تھے کہ خواجہ صاحب اگر رات کو دن کہتے تو وہ بھی دن کہنے لگ جاتے اور وہ اگر دن کو رات کہتے تو یہ بھی رات کہنے لگ جاتے ان کی خواجہ صاحب کی وفات سے دو سال پہلے آپس میں وہ لڑائی ہوئی اور ایک دوسرے پر ایسے ایسے اتہامات لگائے گئے کہ حد ہو گئی۔ پھر ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب اور ان کی انجمن کے دوسرے ممبروں میں احمدیہ بلڈنگس میں عَلَی الْاِعْلاَنْ لڑائی ہوئی۔ یہاں تک کہ بعضوں نے کہہ دیا ہم عورتوں کو پکڑ کر یہاں سے نکال دیں گے۔ کل بھی انہی میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا ہوئا تھا اور کہتا تھا کہ میری جائداد فلاں شخص لوٹ کر کھا گیا ہے آپ میری کہیں سفارش کرادیں۔ غرض جس طرح الہام میں بتایا گیا تھا اسی طرح واقعہ ہوئا اور ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اس کے مقابلہ میں وہ پچیس سالہ نوجوان جسے یہ تحقیر سے بچہ کہا کرتے تھے اسے خداتعالیٰ نے ایسی طاقت دی کہ جب بھی کوئی فتنہ اٹھتا ہے اس وقت وہ اسے اس طرح کچل کر رکھ دیتا ہے جس طرح مکھی اور مچھر کو مسل دیا جاتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ مقابلہ میں دیر تک ٹھہر سکے۔
اللہ تعالیٰ پر کامل یقین
پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے سچے خلفاء کی یہ بتائی ہے کہ:۔
وہ میری عبادت
کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ اس علامت کے مطابق بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کسی سے نہیں ڈرا۔ احتیاط میرے اندر حد درجہ کی ہے اور میں اسے عَیب نہیں بلکہ خوبی سمجھتا ہوں لیکن جب مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ فلاں بات یوں ہے تو پھر میں نے مشکلات کی کبھی پروا نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود شدید ترین خطرات کے خداتعالیٰ نے ہمیشہ مجھے مداہنت سے بچایا ہے اور کبھی بھی میں جھوٹی صلح کی طرف مائل نہیں ہوئا۔
مستریوں کے فتنہ کے بارہ میں ایک رؤیا
میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ کی
طرف سے آ رہا ہوں اور میرے ساتھ میر محمد اسحاق صاحب ہیںراستہ میں ایک بڑا سمندر ہے جس میں ایک کشتی بھی موجود ہے۔ میں اور میر محمد اسحاق صاحب دونوں اس کشتی میں بیٹھ گئے اور چل پڑے۔ جب وہ کشتی اس مقام پر پہنچی جہاں مستریوں کا مکان ہوئا کرتا تھا تو وہ بھنور میں پھنس گئی اور چکر کھانے لگی۔اتنے میں اس سمندر میں سے ایک سرنمودار ہوئا اور اس نے کہا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے تم ان کے نام ایک رقعہ لکھ کر ڈال دو تاکہ یہ کشتی بھنور سے نکل جائے اور تم سلامتی کے ساتھ منزلِ مقصود پر پہنچ جاؤ۔ میں نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا یہ سخت مشرکانہ فعل ہے۔ اس کے بعد چکر اور بھی بڑھ گئے اور یہ خطرہ محسوس کیا جانے لگا کہ کہیں کشتی ڈوب ہی نہ جائے اس پر میر محمد اسحاق صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس وقت ہم رُقعہ لکھ کر ڈال دیں جب بچ جائیں گے تو پھر توبہ کر لیں گے۔ میں نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اس پر انہوں نے مجھ سے چُھپ کر رقعہ لکھا اور اس کی مروڑی سی بنا کر چاہا کہ وہ رُقعہ سمندر میں ڈال دیں۔ اتفاقاً میں نے دیکھ لیا اور میں نے کہا میر صاحب! چاہے ہم ڈوب جائیں ایسی مشرکانہ بات کا ارتکاب مَیں نہیں ہونے دوں گا۔ چنانچہ میں نے وہ رُقعہ ان سے چھین کر پھاڑ ڈالا اور اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کشتی خود بخود بھنور میں سے نکل گئی۔
اس رؤیا کے سالہا سال بعد اسی مقام پر جہاں خواب میں ہماری کشتی بھنور میں پھنسی تھی مستریوں کا فتنہ اٹھا اور انہوں نے کئی قسم کے الزامات لگائے۔ پھر اس خواب کے عین مطابق ایک دن میر محمد اسحاق صاحب سخت گھبرا کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان لوگوں کو کچھ روپیہ دے دیں اور اس طرح ان کو خاموش کرا دیں؟ میں نے کہا میر صاحب! اگر وہ باتیں ٹھیک ہیں جن کو یہ پیش کرتے ہیں تو پھر ان کو خاموش کرانے کے کوئی معنی نہیں اور اگر وہ باتیں غلط ہیں تو خدا ان کو خود تباہ کرے گا۔ ہمیں اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ان کو روپیہ دیں۔
پس جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں، ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے۔ ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشاناتِ خلافت کا معجزاتی تعلق ہے۔ پس میرے لئے اس بحث کی کوئی حقیقت نہیں کہ کوئی آیت میری خلافت پر چسپاں ہوتی ہے یا نہیں۔ میرے لئے خدا کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور کوئی شخص نہیں جو میرا مقابلہ کر سکے۔ اگر تم میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا موجود ہے جو میرا مقابلہ کرنے کا شوق اپنے دل میں رکھتا ہو تو وہ اب میرے مقابلہ میں اٹھ کر دیکھ لے۔ خدا اس کو ذلیل اور رُسوا کرے گا بلکہ اسے ہی نہیں اگر دنیا جہان کی تمام طاقتیں مل کر بھی میری خلافت کو نابود کرنا چاہیں گی تو خدا ان کو مچھر کی طرح مسل دے گا اور ہر ایک جو میرے مقابلہ میں اٹھے گا گرایا جائے گا، جو میرے خلاف بولے گا وہ خاموش کرایا جائے گا اور جو مجھے ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ذلیل اور رُسوا ہو گا۔
پس اے مؤمنوں کی جماعت! اور اے عملِ صالح کرنے والو! میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خلافت خداتعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عملِ صالح سے محروم ہو گئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے۔ پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں خلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری مت کرو اور خداتعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے تم دعاؤں میں لگے رہو تا قدرتِ ثانیہ کا پے درپے تم میں ظہور ہوتا رہے۔ تم ان ناکاموں اور نامرادوں اور بے علموں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو ردّ کر دیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خدا قدرتِ ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تا کہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ اندازی کرنے سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہو جائے۔
قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے ہمیشہ دعاؤں میں مشغول رہو
تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی ایک زمانہ
کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرو کہ تمہیں پہلی خلافت نصیب ہو اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الٰہی اس کے بعد ہمیں دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامتِ اعمال سے اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہو جائے۔
پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو۔اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آ سکے گی اور ہر میدان میں تم مظفرو منصور رہو گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے ان الفاظ میںکیا کہ:۔
مگر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ
خداتمہارے ساتھ ہو اور اَبَدُالآباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو۔
(الناشر شرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبع ضیاء الاسلام پریس)
اختتامی الفاظ:-۲۹؍ دسمبر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دوبجے جب تقریر ختم فرمائی تو جلسہ پر تشریف لانے والے اصحاب کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:-
اب جلسہ ختم ہوتا ہے اور احباب اپنے گھروں کو جائیں گے۔ انہیں احمدیت کی ترقی کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہئے ۔ اولاد پیدا ہونے کے ذریعہ بھی ترقی ہوتی ہے مگر وہ ایسی نہیں جو تبلیغ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یہ ترقی اولاد کے ذریعہ ہونے والی ترقی سے بڑھ کر بابرکت ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ کسی کے پاس اس قدر سرخ اونٹ ہوں کہ ان سے دو وادیاں بھر جائیں۔۹۲؎
پس تبلیغ کرو اور احمدیت کی اشاعت میں منہمک رہو تاکہ تمہاری زندگی میں اسلام اور احمدیت کی شوکت کا زمانہ آ جائے جبکہ سب لوگ احمدی ہو جائیں گے تو پھر رعایا بھی احمدی ہو گی اور بادشاہ بھی احمدی۔ میں نے بچپن میں ایک رؤیا دیکھا تھا بارہ تیرہ سال کی عمر تھی کہ کبڈی ہو رہی ہے۔ ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ساتھی جو شخص کبڈی کہتا ہوئا مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے آتا ہے اسے ہم مار لیتے ہیں۔ اور اس میں قاعدہ یہ ہے کہ جو مر جائے وہ دوسری پارٹی کا ہو جائے۔ اس قاعدہ کی رُو سے مولوی صاحب کا جو ساتھی مارا جاتا وہ ہمارا ہو جاتا۔ مولوی صاحب کے سب ساتھی اس طرح ہماری طرف آ گئے تو وہ اکیلے رہ گئے اس پر انہوں نے پاس کی دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ لکیر کی طرف بڑھنا شروع کیا اور لکیر کے پاس پہنچ کر کہا میں بھی اس طرف آ جاتا ہوں اور وہ بھی آ گئے۔
مولوی محمد حسین صاحب سے مراد اَ ئمہء کُفرہیں اور اس طرح بتایا گیا کہ جب عام لوگ احمدی ہو جائیں گے تو وہ بھی ہو جائیں گے اور جب رعایا احمدی ہو جائے گی تو بادشاہ بھی ہو جائیں گے پس تبلیغ کرو، احمدیت کو پھیلاؤ اور دعاؤں میں لگے رہو۔ دل میں درد پیدا کرو، عاجزی، فروتنی اور دیانت داری اختیار کرو اور ہر طرح خدا کے مخلص بندے بننے کی کوشش کرو۔ اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو اس پر اصرار مت کرو کیونکہ جو اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے اس کے اندر سے نور جاتا رہتا ہے۔ نہ اس کی نمازوں میں لذت رہتی ہے اور نہ دعاؤں میں برکت۔ اپنی غلطی پر نادم ہونا اور خداتعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرنا ترقی کا بڑا بھاری گُر ہے۔
پس اگر غلطی کرو تو بھی اور نہ کرو تو بھی خداتعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے عفو طلب کرو۔ اس طرح مستقل ایمان حاصل ہو جاتا ہے اور اسے توبہ ٹوٹنے نہیں دیتی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جب کوئی مؤمن چوری کرتا ہے یا زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان اس کے سر پر معلّق ہو جاتا ہے اور جب وہ ایسا فعل کر چکتا ہے تو پھر اس میں داخل ہو جاتا ہے۹۳؎۔ اس سے بتایا کہ توبہ کرنے والے کا ایمان کُلّی طور پر اسے نہیں چھوڑتا، اس کی غلطی کی وجہ سے نکل جاتا ہے مگر پھر توبہ کرنے سے لوٹ آتا ہے۔ پس دعائیں کرتے رہو میرے لئے بھی، تمام مبلغین کے لئے بھی اور سب احمدیوں کیلئے بھی بے شک خداتعالیٰ کے میرے ساتھ وعدے ہیں لیکن میری طاقت تمہارے ذریعہ ہے۔ پس اپنے لئے دعائیں کرو اور میرے لئے بھی۔ اب کے تو خلافت جوبلی کی وجہ سے اتنے لوگ جمع ہوئے ہیں کوشش کرو کہ جماعت اتنی بڑھ جائے کہ اگلے سال یوں بھی اتنے لوگ جمع ہو سکیں۔
پھر غیروں کیلئے بھی دعائیں کرو۔ ان کے متعلق اپنے دلوں میں غصہ نہیں بلکہ رحم پیدا کرو۔ خداتعالیٰ کو بھی اس شخص پر رحم آتا ہے جو اپنے دشمن پر رحم کرتا ہے۔ پس تم اپنے دلوں میں ہر ایک کے متعلق خیرخواہی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو۔ انہی دنوں ایک وزیری پٹھان آئے اور کہنے لگے دعا کریں انگریز دفع ہو جائیں۔ میں نے کہا۔ ہم بددعا نہیں کرتے۔
یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے ہو جائیں۔ پس کسی کیلئے بددعا نہ کرو۔ کسی کے متعلق دل میں غصہ نہ رکھو۔ بلکہ دعائیں کرو اور کوشش کرو کہ اسلام کی شان و شوکت بڑھے اور ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے۔اس موقع پرمَیں ان لوگوں کیلئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے تاروں کے ذریعہ دعاؤں کیلئے لکھا۔ ان کے نام نہیں پڑھ سکتا کیونکہ وقت تنگ ہو رہا ہے۔ آپ لوگ ان کیلئے اور دوسروں کیلئے اور اسلام و احمدیت کیلئے دعا کریں۔
(الفضل ۴ ؍جنوری ۱۹۴۰ء)
۱؎ بخاری کتاب الاضاحی باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی… الخ (مفہوماً)
۲؎ الانفال: ۴۳
۳؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی النوم یسامرون… الخ
۴؎ متی باب ۱۷ آیت ۲۱، نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵؎ گلتیوں باب ۳ آیت ۱۰۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۶؎ گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۷؎ الحشر: ۸ ۸؎ النساء: ۶۶ ۹؎ النّور: ۵۲
۱۰؎ الاعراف: ۱۵۸ ۱۱؎ الحجرٰت :۸ ۱۲؎ التوبۃ: ۱۰۳
۱۳؎ التوبۃ: ۸۱ ۱۴؎ المائدۃ: ۳۴ ۱۵؎ التوبۃ: ۱ تا ۵
۱۶؎ بخاری کتاب المناسک باب النزول بین عرفۃ و جمع
۱۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۸؎،۱۹؎ اٰل عمران: ۱۴۵
۲۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۹۹،۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۱؎ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ۲۲۱ آرام باغ کراچی
۲۲؎ مسلم کتاب الوصیۃ باب ترث الوصیۃ لمن لیس لہ شییٌٔ…
۲۳؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۳۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۴؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۵؎،۲۶؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۳۲۸،۳۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۷؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۳۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۸؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۲۹؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ۲۴۳مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳۰؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳صفحہ۲۴۳مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳۱؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳صفحہ۳۳۴ ،۳۳۵مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳۲؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ۳۲۶،۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء (مفہوماً)
۳۳؎ النساء: ۵۲تا ۶۰
۳۴؎ پیغام صلح ۲۲ ؍مارچ ۱۹۱۴ء
۳۵؎ پیغام صلح ۵ ؍مئی ۱۹۱۴ء
۳۶؎ التوبۃ: ۸ ۳۷؎ الرّحمٰن: ۴۷ ۳۸؎ الرّحمٰن: ۶۳
۳۹؎ الکھف: ۴۷
۴۰؎ نسائی کتاب الجہاد باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ
۴۱؎ الجمعۃ: ۴
۴۲؎ مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ
۴۳؎ مسلم کتاب الامارۃ باب خیار الأئمۃ و شرارھم
۴۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ ۱۲۷۔ المکتب الاسلامی بیروت
۴۵؎ النور: ۵۵ تا ۵۷
۴۶؎ ابراھیم: ۸ ۴۷؎ البقرۃ: ۳۱ ۴۸؎ ص: ۲۷
۴۹؎ اٰل عمران: ۱۶۰ ۵۰؎ الاعراف: ۷۰ ۵۱؎ المائدۃ: ۲۱
۵۲؎ الرّوم: ۴۲
۵۳؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۲۶۶ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۵۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵۵؎ تاریخ الخمیس جلد۲ صفحہ ۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۲۸۳ھ
۵۶؎ بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب ماذکر النبی ﷺ
۵۷؎ مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ۲۷۳۔ المکتب الاسلامی بیروت
۵۸؎ برینڈی (BRINDISI) جنوبی اٹلی کا شہر۔ رومی دَور کا اہم بحری اڈہ
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۲۴۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۵۹؎ البقرۃ: ۹۲
۶۰؎ تاریخ ابن اثیر جلد۴ صفحہ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۶۱؎ تاریخ ابن اثیر جلد۴ صفحہ۱۳۰مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۶۲؎ سِرّا الخلافۃ صفحہ۲۰ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۳۴
۶۳؎ المزّمل: ۱۶ ۶۴؎ البقرۃ: ۲۴۸
۶۵؎ موضوعات مُلاّ علی قاری صفحہ۴۸ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
۶۶؎ کنزالعمال جلد۱۱ صفحہ۲۵۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۶۷؎ الوصیت صفحہ۶،۷ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴،۳۰۵
۶۸؎ اٰل عمران: ۱۱۱
۶۹؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۲۰،۲۲۱ مطبوعہ بیروت
۷۰؎ سراالخلافۃ صفحہ۱۹،۲۰ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۳۳،۳۳۴
۷۱؎ سراالخلافۃ صفحہ۱۲ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۲۶
۷۲؎ سرالخلافۃ صفحہ ۴۴ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۵۸، ۳۵۹
۷۳؎ خلافتِ راشدہ حصہ اوّل صفحہ ۱۱۰ مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مطبوعہ امرتسر ۱۹۲۲ء
۷۴؎ الفضل ۱۱ ؍مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۱
۷۵؎ بدر ۱۱؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ۴
۷۶؎ المعجم الکبیر جلد۶ للطبرانی صفحہ۲۲۸ مطبوعہ عراق ۱۹۷۹ء کے مطابق یہ حدیث ہے۔
۷۷؎ تذکرہ صفحہ ۵۱۸۔ ایڈیشن چہارم
۷۸؎ البقرۃ: ۱۵۷
۷۹؎ البقرۃ: ۱۲۵ ۸۰؎ البقرۃ: ۲۶۱ ۸۱؎ العنکبوت: ۲۸
۸۲؎ بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ تعالیٰ لقد کان فی یوسف و اخوتہ…
۸۳؎ الوصیت صفحہ۶،۷ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴، ۳۰۵
۸۴؎ ترمذی ابواب المناقب باب لوکان نبیٌّ بعدی…
۸۵؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک
۸۶؎ الخصائص الکبٰری للسیوطی الجزء الثانی صفحہ۱۱۵ مطبوعہ فیصل آباد
۸۷؎ تاریخ ابن اثیر جلد۲ صفحہ۳۳۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء میں ’’زِغْتُ‘‘ کی بجائے ’’اَسَأْتُ‘‘
ہے۔
۸۸؎ الاعراف: ۹۰ ۸۹؎ الزخرف: ۸۲
۹۰؎ کودن: نادان، کُند ذہن
۹۱؎ اِس رسالہ کا نام ’’خلیفۂ قادیان‘‘ ہے اور اس کے مصنّف سردار اَرجن سنگھ صاحب امرتسری ہیں۔
۹۲؎ مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل علی ابن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ۔
۹۳؎ ترمذی ابواب الایمان باب ماجاء لایزنی الزانی وھومؤمن۔



کارکنانِ جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے خطاب





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

کارکنانِ جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء سے خطاب
(فرمودہ ۶؍ جنوری ۱۹۴۰ء) ۱؎
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے باوجود ہر قسم کے موانع اور ہر قسم کی کمیوں کے گزشتہ سالوں سے زیادہ اس بات کی توفیق بخشی کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ اور دین کیلئے جمع ہونے والے مہمانوں کی خدمت کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حوصلہ اپنے اخلاص اور اپنی طاقت وہمت کے مطابق موقع ملا۔ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی ایسا اجتماع کہیں نہیں ہوتا۔ جس میں اتنی مقدار میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہو۔ انگلستان، امریکہ، جرمنی، فرانس اور روس یہ اس وقت ترقی یافتہ اور بڑے بڑے ممالک خیال کئے جاتے ہیں مگر ان میں تیس چالیس ہزار آدمیوں کے اجتماع ایسے نہیں ہوتے جن کو کھانا کھلایا جاتا ہو۔ ہندوستان میں کانگرس کے اجتماع بے شک بڑے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال مَیں نے نمائندے تحریک جدید سے وہاں بھجوائے تو انہوں نے بتایا کہ ان کو کھانا مفت ملنا تو الگ مُول لینے میں بھی دقّتیں پیش آئیں۔ غرض یہ ہمارے جلسہ کی خاص خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جن کو دوسرے اجتماع دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ جب وہ یہاں آتے ہیں تو ہمارے انتظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ اسی سال یو۔پی کے ایک اخبار کے نمائندے جو بعض انگریزی اخبارات کے بھی نمائندے رہ چکے ہیں۔ اور کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں یہاں آئے تو انہوں نے ملاقات کے وقت کہا کہ کانگرس کے اجلاس سے اُتر کر ہندوستان میں اتنا بڑا اجتماع مَیں نے کہیں نہیں دیکھا۔ میں نے کہا سنا ہے کانگرس کے اجلاس میں لاکھ لاکھ دو دو لاکھ آدمی شریک ہوتے ہیں کہنے لگے لاکھ دو لاکھ تو ہرگز نہیں چالیس پچاس ہزار کے قریب ہوتے ہیں۔ اور مرد عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے ہاں مستورات کے لئے الگ جلسہ گاہ ہے تو وہ کہنے لگے پھر آپ کے جلسہ کے مردوں کی اس تعداد کے ساتھ مستورات کی تعداد بھی شامل کر لی جائے تو کانگرس کے اجتماع میں بھی شاید اتنے ہی مرد عورتیں ہوتی ہوں۔
غرض قادیان کا جلسہ سالانہ اب کم از کم ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اور اپنے انتظام کے لحاظ سے تو دنیا بھر کے اجتماعوں سے اول نمبر پر ہے۔ کیونکہ ایسا انتظام کھانا کھلانے کا قادیان کے سوا اور کسی اتنے بڑے اجتماع میں نہیں ہوتا۔ ہاں میلے بے شک ہوتے ہیں۔ جن میں بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں مگر ان میں نہ تو رہائش کا انتظام ہوتا ہے نہ کھانے کا اور نہ روشنی کا۔ پس قادیان کا یہ جلسہ ایک لحاظ سے اوّل نمبر پر اور تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر۔اور جس رنگ میں خداتعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ترقی ہو رہی ہے اس کے لحاظ سے ہمارا جلسہ سالانہ انشاء اللہ کسی وقت کانگرس سے بھی ہر لحاظ سے اول نمبر پر ہو گا۔
اس کے بعد حضور نے انتظامی امور کے متعلق متعلقہ صیغوں کو ہدایات دیں اور آخر میں فرمایا۔
میں ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمتِ دین میں حصہ لیا۔ اور محنت و مشقت سے جی نہ چُرایا۔ دیکھو خداتعالیٰ نے اس خدمت میں تم لوگوں کو منفرد کیا ہے۔ اور منفرد ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ بعض لوگ تو منفرد ہونے کے لئے بعض پاجی ۲؎ کام بھی کر لیتے ہیں جیسا کہ چاہِ زمزم میں پیشاب کرنے والے کے متعلق مشہور ہے۔ اس وقت خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو قومی طور پر یہ فخر حاصل ہے کہ آپ لوگوں کے ذمہ خداتعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کا کام سپرد کیا گیا ہے یہ میزبانی اور اتنی بڑی جماعت کی اس رنگ میں میزبانی کسی اور کے سپرد نہیں کی گئی آپ لوگوں کے ہی مکان ایسے ہیں جو خدا کے دین کیلئے آنے والے مہمانوں کیلئے وقف ہوتے ہیں۔ مکہ میں بھی بے شک مہمانوں کیلئے مکانات دیئے جاتے ہیں۔ مگر وہ کرایہ لیتے ہیں۔ یہ صرف قادیان ہی کے مکانات ہیں۔ جن کی نسبت ۳؎کے مطابق خرچ کرنے کا آپ لوگوںکو موقع ملتا ہے۔ پھر آپ لوگ ہی ایک ایسی جماعت ہیں جسے وہ شرف حاصل ہے جس کا حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے یوں ذکر کیا تھا کہ خدا کی قسم خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں۔۴؎ پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات سے ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ قیامت کے دن پانچ شخص ایسے ہوں گے جن پر خداتعالیٰ اپنا سایہ کرے گا۔ ان میں سے آپ نے ایک مہمان نواز قرار دیا ہے۔
بے شک ایک دوست دوست کی میزبانی کرتا ہے۔ مگر وہ ایک رنگ کا سودا ہوتا ہے۔ ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار کی میزبانی کرتا ہے۔ اور وہ بھی ایک سودا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے تعلق کی وجہ سے مہمان نوازی کرتا ہے۔ مگر آپ لوگ جن لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ان سے کوئی دنیوی تعلق نہیں ہوتا اوریہی دراصل مہمانی ہے جو خداتعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے آپ لوگوں کو لے جانے والی ہے اور یہی وہ مہمانی ہے جو شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے مگر خداتعالیٰ نے قادیان والوں کو عطا کر رکھی ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر اخلاص سے آپ لوگ کام لیتے ہوں تو نہ معلوم کتنے اُحد پہاڑوں کے برابر آپ کو ثواب حاصل ہوتا ہو گا۔
ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہو جائیں تو پھر ہم اجازت دیں دیں۔ کہ ہر ملک میں الگ سالانہ جلسے ہوا کریں اس وقت ان ممالک میں کام کرنے والے بھی ثواب کے مستحق ہوا کریں گے۔ مگر وہ وقت تو آئے گا جب آئے گا۔ اس وقت تو آپ لوگوں کے سِوا ایسی خوش قسمت جماعت اور کوئی نہیں۔
اب میں دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور ہماری غلطیوں،سُستیوں اور کمزوریوں سے درگزر کرے تا ایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھا جانے والی ہوں۔ اور ہم آئندہ سال اس سے بھی بڑھ کر خدمتِ خلق کر کے اپنے خدا کو راضی کر سکیں۔
(الفضل ۹؍جنوری ۱۹۴۰ء)
۱؎ قادیان ۶ جنوری جلسہ خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء کے انتظامات بخیرو خوبی ختم ہونے پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں صبح سَوا نو بجے کے قریب کارکنانِ جلسہ کا اجتماع ہوا۔ جہاں سٹیج پر لاؤڈ سپیکر کا بھی انتظام کیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے تشریف لانے پر جلسہ سالانہ کے انتظامات کرنے والی پانچ نظامتوں کی طرف سے رپورٹیں سنائی گئیں۔ پھر حضرت صاحب نے سَوا دس بجے سے سَوا بارہ بجے تک تقریر فرمائی جس میں حضور نے اہم امور کی اصلاح کے متعلق ہدایات دیں۔
۲؎ پاجی: ذلیل، کمینہ ۳؎ البقرۃ:۴
۴؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی (الخ)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انقلاب حقیقی



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

انقلاب حقیقی
(تقریر فرمودہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۷ء بر موقع جلسہ سالانہ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
لائوڈ سپیکر کی ایجاد
آج میری آواز تو اتنی بیٹھی ہوئی ہے کہ شاید لائوڈ سپیکر کے بغیر دوستوں تک آواز پہنچنی مشکل ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس
زمانہ میں جو اشاعت کا زمانہ ہے اور جہاں گلے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے یہ ایجاد کر دی ہے جس پر ہم جس قدر بھی اس کا شکر بجا لائیںکم ہے۔ انگریزی میں گلے کی تکلیف کو کلرجی مینز تھروٹ (CLERGYMAN'S THROAT) کہتے ہیں یعنی پادریوں کے گلے کی تکلیف۔ اور پادری صرف اتوار کے دن نہایت مدھم سی آواز میں پندرہ بیس یا تیس منٹ ہی تقریر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس ہفتہ کی ایک تقریر کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کے گلے کی خراش کا نام ہی پادریوںکے گلے کی خراش رکھ دیا جائے۔ پھر اُن لوگوں کا کیا حال ہے جنہیں ضرورت کے ماتحت چھ چھ گھنٹے بھی تقریریں کرنی پڑتی ہیں اور جن کے جمعہ کا ایک خطبہ بسا اوقات پادریوںکے مہینوں کی تقریروں سے بڑھ جاتا ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایجاد ہم لوگوں کیلئے ہی کی ہے جن کے گلوں پر ان تقریروں کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔
دوستوں کے تار
پیشتر اس کے کہ میں اپنا آج کا مضمون شروع کروںبعض دوستوں کی تاروں کا مضمون پڑھ کر سنا دیتا ہوں جنہوں نے مجھ سے اور تمام
دوستوں سے خواہش کی ہے کہ ان ایام کی دعائوں میں انہیں شامل رکھا جائے (اس کے بعد حضور نے ہندوستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ہند کے ان اصحاب کے نام سنائے جنہوں نے بذریعہ تار جلسہ میں شامل ہونے والے اصحاب کو اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہا اور درخواستِ دعا کی تھی پھر فرمایا:)
میاں عزیز احمد صاحب کے متعلق دو سوالات کے جواب
میں اپنا مضمون شروع کرنے سے پہلے کچھ اور باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں ایک تو یہ ہے کہ کَل ایک دوست نے لیکچر کی حالت میں مجھے ایک
رُقعہ دیا۔ چونکہ لیکچر دیتے وقت میں زیادہ تر کوشش یہی کرتا ہوں کہ رُقعے نہ پڑھوں کیونکہ اس طرح لیکچر بالکل خراب ہو جاتا ہے اس لئے میں نے اُسے اُس وقت نہ پڑھا بلکہ بعد میں پڑھا۔ اس میں میری اُس تقریر کے متعلق جو کَل میںنے مصری صاحب کے متعلق کی ہے دو سوالات درج تھے۔ کوئی محمد عبداللہ صاحب ہیں جنہوںنے وہ رُقعہ لکھا۔ بہرحال ایک بات انہوں نے یہ لکھی ہے کہ آپ کی طرف سے اعلان تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی خلافِ قانون حرکت کی اور شرارت اور فساد پیدا کیا تو مَیں اُسے جماعت سے خارج کر دوں گا مگر باوجود اس اعلان کے عزیز احمد جس کے ہاتھوں فخر الدین ملتانی قتل ہؤا اب تک جماعت میں موجود ہے اور اسے جماعت سے خارج نہیں کیا گیا اِس کی کیا وجہ ہے؟ دوسرے اگر یہ اعلان صحیح تھا تو عزیز احمد کی طرف سے احمدی وکیل پیروی کیوں کرتے رہے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے یہ دوست اگر مبائعین میں سے ہیں تو نہ انہوں نے کبھی میرے خطبے پڑھے ہیں اور نہ انہیں قانون کی کوئی واقفیت ہے اور اگر ہماری جماعت کے یہ دوست نہیں تو خیر دوسرے لوگ ہم پر اعتراض کِیا ہی کرتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ وہ اعلان جس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ جب اُس میں کہا گیا تھا کہ:۔
’’اگر کسی احمدی کی نسبت ثابت ہوء ا کہ وہ فساد کرتا یا اس میں شامل ہوتا ہے تو اُسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا‘‘۔ ۱؎
وہ میاں عزیز احمد کے فعل کے ایک دن بعد کا ہے اور اس میں صاف لکھا ہو ء ا ہے کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق ہے۔ چنانچہ میرے اعلان کے الفاظ یہ ہیں کہ:۔
’’آئندہ کیلئے دوستوں کو پھر ہدایت کر دینی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو پوری طرح قابو میں رکھیں اور انتہائی اشتعال کے وقت بھی اپنے جذبات کو دبائے رکھیں‘‘۔۲؎
پھر اسی اعلان کو مَیں نے ایک اور موقع پر اس طرح دُہرایا ہے کہ:
’’جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور کسی ذاتی یا جماعتی مخالف پر ہاتھ اُٹھائے گا اُسے میں آئندہ فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا‘‘۔ ۳؎
پس جب کہ یہ ہدایت آئندہ کے متعلق تھی اور میاں عزیز احمد کے فعل سے پہلے ایسی کوئی ہدایت میری طرف سے نافذ نہیں ہوئی تھی تو میاں عزیز احمد کو جماعت سے کس طرح خارج کیا جاتا۔
اسی طرح جو دوسرا اعتراض کیا گیا ہے کہ احمدی وکیل میاں عزیز احمد کے مقدمہ کی پیروی کیوں کرتے ہیں یہ بھی قانونی ناواقفیت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ وکلاء کا فرض ہوتا ہے کہ خواہ انہیں کوئی اپنے مقدمہ کیلئے مقرر کرے وہ اس کے مقدمہ کی پیروی کریں اور یہاں تو ایک خاص بات بھی ہے اور وہ یہ کہ شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ کیس اپنی طرف سے نہیں لیا بلکہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے اِس مقدمہ کی پیروی کیلئے مقرر ہیں اور ہائی کورٹ نے انہیں اپنی طرف سے فیس دے کر کھڑا کیا ہے کیونکہ گورنمنٹ نے یہ اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر کوئی غریب شخص ملزم ہو اور وہ اپنے وکیل کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو تو حکومت خود اُس کی طرف سے وکیل مقرر کرتی اور اُس کے اخراجات آپ برداشت کرتی ہے۔ پس اگر عیسائی گورنمنٹ انصاف کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر ملزم کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کر دیتی ہے اور ملزم کو اپنی بریت ثابت کرنے کا موقع دیتی ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا ایک احمدی ملزم کی طرف سے وکیل کیوں کھڑا نہ ہوسکے۔ جو حق حکومت کی طرف سے ہر مذہب کے غریب ملزموں کو حاصل ہے وہ یقینا ایک احمدی کو بھی ملنا چاہئے اور اسی وجہ سے شیخ بشیر احمد صاحب اِس مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ پس شیخ صاحب کو جماعت کی طرف سے نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ ہائی کورٹ نے انہیں فیس دے کر خود کھڑا کیا ہے۔
حضرت بابا نانکؒ کو مسلمان کہنا اور ایک مجسٹریٹ
دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ پچھلے دنوں ہمارے ایک مقدمہ کے دَوران میں ایک مجسٹریٹ نے ایک وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ادب کے الفاظ تو مَیں استعمال کر رہا ہوں انہوں نے تو یہ کہا تھا کہ اگر تمہارے محمد صاحب کو) کوئی کافر اور غدار کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے؟ اور تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں دکھے گا؟ اسی طرح باوانانک صاحب کو مسلمان کہنے سے سکھوں کا دل دُکھتا ہے۔ یہ کلام اتنا ناشائستہ ہے کہ میں حیران ہوں اگر حکومت اپنے مجسٹریٹوں کو اس قسم کی باتوں کا اختیار دیتی ہو اور پھر اس کا نام عدالت رکھتی ہو تو پھر دنیا میں کسی اور فسادی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس طرح تو خود گورنمنٹ فساد کا موجب کہلائے گی۔
رسول کریمﷺ کی ہتک اور احرار
کہا جاتا ہے بلکہ وہ احراری جو
رسول کریم ﷺ کی محبت کے بلند بانگ
دعاوی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اس نے اپنے فقرہ کو اگر سے مشروط کر دیا تھا یعنی اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ محمد صاحب ایسے ہیں بلکہ اس نے کہا تھا کہ اگر محمد صاحب کو کوئی ایسا کہہ دے تو آپ کا دل دُکھے گا یا نہیں؟ لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اگر کسی احراری لیڈر سے باتیں کرتے ہوئے کوئی شخص کہے کہ اگر تمہاری ماں کو کوئی بدکار اور کنجری کہے تو تمہارا دل اس سے دُکھے گا یا نہیں تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ میں سمجھتا ہوں یقینا وہ اسے پسند نہیں کریں گے۔ پس اگر کا لفظ لگانے سے جُرم کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ مباحثہ میں دشمن کا جواب دیتے وقت بات کرنے کے اصول اور ہوتے ہیں اور عدالت کی حیثیت اور ہوتی ہے اور عدالت کو اپنے وقار کو قائم رکھنا چاہئے اور ایسے الفاظ سے کُلّی طور پر احتراز کرنا چاہئے۔
ہندوئوں کا ایک روزانہ اخبار ’’عام‘‘ لاہور سے نکلا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اسے ہمیشہ منگوایا کرتے تھے اور آپ اس کے خریدار تھے۔ ایک دفعہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کے متعلق ایک مضمون لکھا جس میں ’’اگر‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس نے ایک گندی گالی دے دی، میں بھی چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت میں اس اخبار کا خریدار تھا اس لئے میں نے پہلے اسے لکھی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے اس کا اپنے اخبار میں ازالہ کرو۔ مگر اس کا اُس نے جواب یہ دیا کہ میں نے کوئی ہتک نہیں کی مَیںنے تو صرف اگر کا لفظ استعمال کر کے ایک شرطی بات کہی تھی۔ اس پر میں نے اسے ایک مضمون بھیجا جس میں ویدوں اور وید کے رشیوں کے متعلق میں نے اگر اگر کا لفظ استعمال کر کے کئی سخت الفاظ کہے کہ اگر تمہارے رشی کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیا سمجھو گے، اگر ویدوں کے متعلق کوئی یہ کہہ دے تو تم اسے کیسا سمجھو گے اور نیچے مَیں نے لکھ دیا کہ آپ اس مضمون کو شائع کر دیں۔ مضمون تو اُس نے کیا شائع کرنا تھا اُس کا دو صفحہ کا ایک خط آ گیا جو گالیوں سے بھرا ہؤا تھا اور جس میں لکھا تھا کہ آپ مرزا صاحب کے لڑکے ہیں آپ کے متعلق مَیں یہ امیدنہیں کرتا تھا کہ ایسے الفاظ ہمارے ویدوں اور رشیوں کے متعلق استعمال کریں گے۔ میں نے اسے لکھا کہ میں نے تو کوئی گالی نہیں دی میں نے تو اگر کا لفظ استعمال کر کے بعض سوالات دریافت کئے تھے۔
گورنمنٹ کو متوجہ کیا جائے
مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائے اور پورے
زور سے توجہ دلائے۔ کسی نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ صاحب یہ الفاظ واپس لینے کیلئے تیار ہیں۔ میرے پاس جب یہ پیغام پہنچا تو میں نے کہا ہمیں تو کسی سے دشمنی نہیں ہم تو ہر ایک کی عزت کرتے ہیں اگر گورنمنٹ کے آفیسرز صحیح طریق پر چلیں تو ہم انہیں اپنے سَر آنکھوں پر بٹھانے کیلئے تیار ہیں اور اگر وہ یہ الفاظ واپس لے لیں تو ہمیں اس سے بڑی خوشی ہوگی اور ہم سمجھیں گے کہ معاملہ ختم ہو گیا۔ مگر بعد میں مَیں نے سنا کہ انہوں نے الفاظ واپس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں صرف یہ کہنے کیلئے تیار ہوں کہ ان الفاظ سے میری نیت ہتک کی نہیں تھی اپنے الفاظ واپس لینے کیلئے تیار نہیں۔
معلوم ہوا ہے پیر اکبر علی صاحب نے اس کے متعلق اسمبلی میں سوال بھیجا ہے۔ اتنے حصہ کے متعلق میں انہیں جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہتا ہوں مگر اتنا ہی کافی نہیں حکومت کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اس بارے میں ضروری کارروائی کرے۔ اگر مسلمان ممبر یہ تہیہ کر لیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس ہتک کا ازالہ نہیں کیا جائے گا اور ہتک کرنے والے مجسٹریٹ کو سزا نہیں دی جائے گی اُس وقت تک وہ کونسل کا کام چلنے نہیں دیں گے تو میں سمجھتا ہوں حکومت اس معاملہ کی طرف جلد متوجہ ہو سکتی ہے۔
شیخ عبدالرحمن مصری کے لیکچر میں شمولیت کی ممانعت
تیسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ آج کے ایک اعلان کے متعلق ہے جو مصری صاحب کے لیکچر کے متعلق کسی نے کیا ہے اور جس میں ایک
فقرہ یہ لکھا ہے کہ میری طرف سے جماعت کے دوستوں کو اجازت ہے کہ ان کے لیکچر میں شامل ہوں حالانکہ ان امور میں اجازت اور عدمِ اجازت کا کوئی سوال نہیں ہوتا بلکہ یہ امور انسان کے قلب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک شخص اگر میرے پاس آئے اور کہے کہ مجھے آپ کے متعلق بعض شُبہات ہیں اور مَیں نے آپ کو بیّنات و شواہد سے نہیں مانا تھا بلکہ سُنی سنائی باتوں پر اعتبار کر کے مانا تھا اب میں چاہتا ہوں کہ دوسرے فریق کی بھی باتیں سنوں اور دیکھوں کہ وہ کیا کہتا ہے تو شرعاً اور اخلاقاً مجھے کوئی اختیار نہیں کہ میں اسے روکوں۔ اگر کسی کو میری خلافت کے متعلق شبہ ہے تو اس کو نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے متعلق یہ پسندیدہ امر ہے کہ وہ وہاں جائے اور باتوں کا موازنہ کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جن لوگوں نے تحقیق کر لی ہے اور قرآن و حدیث کے ماتحت میری بیعت کی ہے اور میری صداقت میں انہیں کسی قسم کا شُبہ نہیں وہ بھی وہاں جائیں اور تماشہ کے طور پر ان کے لیکچر میںبیٹھیں۔ اگر ایسا جائز ہوتا تو ہمیں نظر آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر بحث کے موقع پر پہنچ جاتے اور فرماتے کہ آئو ہم تحقیق کریں اسلام سچا ہے یا نہیں؟ یہودی لیکچر دیتے تو ان میں چلے جاتے کہ شاید یہودی مذہب سچا ہو، عیسائی لیکچر دیتے تو وہ سننے چلے جاتے اور کہتے کہ تحقیق کرنی چاہئے۔ مگر کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی مجالس میں گئے ہوں بلکہ آپ اگر فرماتے ہیں تو یہ کہ ۴؎ میں نے خدا کو دیکھ کر مانا ہے مجھے مزیدتحقیق کی کیا ضرورت ہے۔ پس جس نے مجھے مانا اور تحقیق کر کے مانا ہے اسے تماشہ کے طور پر وہاں جا کر وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کا جانا بے فائدہ اور لغو ہے۔ ہاں جس نے ابھی تک تحقیق نہیں کی اسے یقینا جانا چاہئے۔
شیخ عبدالرحمن مصری کا لغو مطالبہ
دوسرے انہوں نے وہی بات کی ہے جو حروری۵؎ کیا کرتے تھے کہ بعض دفعہ ایک
اچھی باتکہتے مگر ارادہ فساد اور شرارت کا ہوتا ۔جیسے کل ہی میں نے بتایا تھا کہ وہ حضرت علی کی مجلس میں آ جاتے اور نعرہ لگاتے کہ لاَحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ کہ حکم اللہ کا ہے اور مسلمانوں کو آپس میں مشورہ کر کے کام کرنا چاہئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ سنتے تو فرماتے کَلِمَۃُ الْحَقِّ اُرِیْدَ بِھَا بَاطِلٌ۶؎ بات تو تم سچی کہتے ہو مگر تمہاری غرض فتنہ و فساد ہے۔ اسی طرح مصری صاحب نے مجھے انہی دنوں لکھی کہ مجھے جلسہ سالانہ میں دو دن دو دو گھنٹے لیکچر کیلئے وقت دیا جائے اور اگر آپ نہ دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نہیں چاہتے کہ سچ ظاہر ہو۔ میں نے انہیں لکھا کہ اگر ہم آپ کو اجازت دے دیں تو پھرہر مذہب والا ہمیں کہہ سکتا ہے کہ مجھے بھی دو دو گھنٹہ وقت دیا جائے اور اس طرح اگر ہم دو دو گھنٹے ہر مذہب والے کو دینے لگیں تو ہماری اپنی تقریروں کیلئے کونسا وقت باقی رہے اور اگر ہم نہ دیںتو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم سچ چُھپانا چاہتے ہو۔ آریہ کہیں گے تم نے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا اس لئے معلوم ہؤا کہ تمہیں سچائی سے غرض نہیں، عیسائی کہیں گے کہ ہمیں چونکہ وقت نہیں ملا اس لئے معلوم ہؤا کہ تمہیں صداقت معلوم کرنے کی کوئی تڑپ نہیں، سکھ کہیں گے ہمیں چونکہ وقت نہیں دیا گیا اس لئے معلوم ہؤا کہ احمدی سچ چُھپاناچاہتے ہیں۔ پس چونکہ اس طرح ہر ایک کو وقت دے کر ہمارے لئے کوئی وقت نہیں بچتا اور یوں بھی یہ مطالبہ بالکل لغو ہے اس لئے میں نے انہیں لکھا کہ یہ طریق درست نہیں آپ الگ بے شک تقریریں کریں میں آپ کو نہیں روکتا۔ باقی ہمارے جلسہ کے ایام میں مَیں نہیں کہہ سکتا کہ کسی اور جلسہ کے کرنے کی اجازت آپ کو حکومت کی طرف سے ملے یا نہ ملے کیونکہ ۱۹۳۴ء میں احرار کے جلسہ کے وقت ہمیں یہ نوٹس دیا گیا تھا کہ ہم ان کے جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہیں کر سکتے حالانکہ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے اور ہم اس میں ہر وقت جلسہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ میں نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں لکھا کہ محکمہ کی اس معاملہ میں گورنمنٹ سے بحث ہو رہی ہے مگر انہوں نے اس کے یہ معنی نکال لئے کہ گویا انہیں ہماری طرف سے ان دنوں تقریر کرنے کی اجازت ہے۔ حالانکہ گورنمنٹ سے ہماری یہ بحث ہو رہی ہے کہ تم نے احرار کے جلسہ کے ایام میں ہمیں یہ حکم دیا تھا کہ ہم اس جلسہ سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کوئی جلسہ منعقد نہ کریں۔ پس اسی حُکم کی بناء پر ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہی حق ہمارے متعلق تسلیم کیا جائے اور جب ہمارا جلسہ ہو تو اس سے پانچ دن پہلے اور پانچ دن بعد کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہ ہو۔ پس مصری صاحب کا ۲۹۔ دسمبر کو کوئی جلسہ منعقد کرنا اور اس میںاپنا لیکچر رکھنا درحقیقت اس حق کے خلاف ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق حکومت سے تھا مجھے مصری صاحب کو اس بارہ میں کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔
یہ صاف بات ہے کہ اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ دوسرے کی حق بات بھی نہ سنو تو یہ جبر ہوگا اور جبر اسلام میں جائز نہیں۔ پس جو شخص ابھی حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے یا تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہاں جائے مگر جو شخص تحقیق کر چکا ہے اور عَلٰی وَجْہِ الْبصیرت اُس نے میری بیعت کی ہے ہم اس کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ وہاں جائے۔ سوائے اس کے کہ وہ مباحث یا مناظر ہو یا مباحث و مناظر کا مدد گار ہو۔ موء من کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اور نہ وہ کوئی بے فائدہ اور لغو کام کرتا ہے اگر مَیں اس قسم کی دعوتیں قبول کرنا شروع کر دوں تو مجھے روزانہ آنی شروع ہو جائیں کہ آج فلاں جگہ ہماری تقریر ہے آپ اس میں ضرور شریک ہوں۔ دوسری جگہ ہمارا جلسہ ہے آپ بھی آئیں اور سنیں اور اگر ایسی آئیں تو میرا ایک ہی جواب ہوگا اور وہ یہ کہ میں نے عَلٰی وَجْہِ الْبصیرت احمدیت کی صداقت کا مشاہدہ کر لیا ہے۔
پس دوسری بات میرے لئے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ کیا دنیا میں تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص نے دوسرے سے کہا ہو کہ آئو ہمارے ساتھ چلو فلاں جگہ بحث ہوگی کہ تمہاری جو بیوی ہے وہ تمہاری ہی بیوی ہے یا کسی اور کی۔ کون اُلّو ہے؟ جو ایسے شخص کے ساتھ چلے گا وہ تو کہے گا کہ میرے لئے یہ بات اُسی وقت سے حل ہے جب سے وہ میرے گھر میں بس رہی ہے۔
(الفضل ۲۰؍ دسمبر ۱۹۳۸ء)
آج جس مضمون کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ عجیب نوعیت کا ہے یعنی ایسا ہے کہ اگر چاہوں تو ایک فقرہ کہہ کر بیٹھ جائوں اور مضمون ختم ہو جائے اور اگر چاہوں اور اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کئی دن بارہ بارہ گھنٹے تقریریں ہوتی رہیں مگر یہ مضمون ختم نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مَیں چار پانچ گھنٹے میں ایک حد تک اِس مضمون کو بیان کر دوں۔ سو وقت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے میں اِس آخری اور وسطی طریق کو ہی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔
قومی زندگی کے قیام کے اصول
سب سے پہلے میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعت کو یہ
امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دو اصول ایسے ہیں جو دنیا میں ہمیشہ سے کار فرما ہیں اور قومی زندگی کبھی ان دواصول کے بغیر قائم نہیں رہتی۔ آدم سے لے کر اِس وقت تک دینی کیا اور دُنیوی کیا، عقلی کیا اور علمی و عملی کیا، کوئی تحریک ایسی نہیں جو حقیقی طور پر اُس وقت تک کامیاب ہوئی ہو جب تک کہ یہ دو باتیں اس کے ساتھ شامل نہ ہوں۔
ہر تحریک کے ساتھ ایک پیغام کی ضرورت
اوّل اصول یہ ہے کہ کوئی تحریک دنیا میں حقیقی طور پر
کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں کوئی نیا پیغام نہ ہو یعنی وہ کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش نہ کر رہی ہو جو پہلے کسی کو معلوم نہ ہو۔ یا کم سے کم یہ کہ اُس وقت کے لوگ اُسے بُھول چکے ہوں۔ مثلاً ہمارے اِس ملک میں ایسی انجمنیں کامیابی سے چلتی ہیں جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو تحریک کریں کہ لڑکوں کو سکول بھیجنا چاہئے، کیونکہ ہمارے ملک میں لڑکے عام طور پر سکول نہیں جاتے لیکن لنڈن یا برلن میں اگر کوئی اِس قسم کی انجمن بنے جس کی غرض لوگوں کو یہ تحریک کرنا ہو کہ تم بچے سکولوں میں پڑھنے کیلئے بھیجا کرو تو وہ کبھی نہیں چلے گی کیونکہ لوگ کہیں گے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے لڑکے کو سکول بھیج رہا ہے تو اس انجمن کے معرضِ وجود میں لانے کا کیا فائدہ ہے؟ لیکن اگر وہاں کوئی انجمن ایسی بنے جو یہ کہے کہ فلاں قِسم کی تعلیم اپنے بچوں کو نہ دلائو بلکہ فلاں قِسم کی تعلیم دلائو تو چونکہ اِس میں ایک نیا پیغام ہوگا اس لئے اگر وہ تحریک مفید ہوگی تو اُسے پیش کرنے والی انجمن مقبول اور کامیاب ہو سکے گی۔
غرض وہی تحریکات دنیا میں کامیاب ہوئا کرتی ہیں جن میں کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہو جو اُس وقت دنیا کی نگاہ سے اوجھل ہو یا بالکل نئی ہو۔ اس امر کو یورپ والے ’’پیغام‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
مَیں جب یورپ گیا تو عام طور پر مجھ سے یہی سوال کیا جاتا تھا کہ احمدیت کا پیغام دنیا کے نام کیا ہے یعنی احمدیت کے وہ کون سے اصول ہیں یا احمدیت کی تعلیم میں وہ کونسی بات ہے جو دنیا کو معلوم نہ تھی اور احمدیت اُسے پیش کرتی ہے یا جس کی طرف دنیا کوپوری توجہ نہیں اور وہ اس کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہے؟
قرآن کریم بھی اس اصل کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے۔ ۷؎ کہ جھاگ اور میل چونکہ بے فائدہ چیزیں ہیں وہ اُٹھا کر پھینک دی جاتی ہیں۔ مگر جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہو جیسے پانی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح حقائق لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتا ہے۔
مائموریت کا مدعی جو اپنے دعویٰ میں کامیاب ہو جائے کبھی جھوٹا نہیں ہوتا
اِسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ہر مدعی
جس کا دعویٰ دنیا میںمانا جا کرمدتوں تک قومیں اس کی تعلیم پر عمل کرتی چلی گئی ہوں یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
بعض ناواقف اور جاہل مولوی کہا کرتے ہیں کہ آپ نے یہ اصل کہاں سے اخذ کیا؟ ایسے لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے صرف اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا آیت اور اَور کئی آیات سے یہ اصل مستنبط ہوتا اور قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایسا مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرے اور پھر سینکڑوں سال تک دنیا میں قائم رہے اور ہزاروں انسانوں کو روحانی زندگی بخشتا رہے جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اور اس کے متعلق یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ اِسی بناء پر حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر اور حضرت بُدھ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔
پس مخالفین کا یہ اعتراض کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے صرف قرآنی علوم سے ان کی بے خبری کا ثبوت ہے ورنہ اسی آیت میں جو اِس وقت میں نے پڑھی ہے اور اَور کئی آیات میں یہ اصل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو بے فائدہ چیز ہوگی وہ ضائع ہو جائے گی۔ مگر جولوگوں کو نفع دینے والی چیز ہو وہ قائم رہے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنا نفع مند چیز ہے۔ افتراء یقینا انسان کو ہلاک کرنے والا فِعل ہے اور اس کا دنیا میں جڑھ پکڑ جانا تو الگ رہا اللہ تعالیٰ تو مفتری کو عذاب دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔
پس اگر کوئی تحریک دنیا میں کامیاب طور پر قائم رہتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ یقینا دنیا کیلئے کوئی ایسا پیغام لاتی ہے جو مفید ہے اور یہ خیال کہ ایک کذّاب اور مفتری بھی ایسا پیغام لا سکتا ہے جو لوگوں کیلئے دینی رنگ میں مفید ہو اور دنیا میں قائم رہے کسی احمق کے ذہن میں ہی آئے تو آئے کوئی دانا ایسا خیال نہیں کر سکتا۔
اصلاح کا ذریعہ صُلح یا جنگ ہے
دُوسرا اصل جو دنیا میں رائج ہے اور جو مذہبی اور دُنیوی دونوں قسم کی تحریکوںکی
کامیابی کیلئے ضروری ہوتا ہے یہ ہے کہ اصلاح کے ہمیشہ دوذرائع ہوتے ہیں یاصُلح یا جنگ۔ یعنی یا تو صلح کے ساتھ وہ پیغام پھیلتا ہے یا جنگ اور لڑائی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ یا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ باتیں دنیا میں پھیلا دی جاتی ہیں لوگ اُن پر بحثیں کرتے ہیں اور آخر لوگ انہیں اَپنا لیتے ہیں اور اپنے عقائد میں شامل کر لیتے ہیں۔ جیسے دنیا میں پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے بلکہ اب تک بھی بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو زمین کو گول نہیں سمجھتے بلکہ چپٹی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مَیں ایک دفعہ لاہور گیا اور اسلامیہ کالج کے ہال میں مَیںنے لیکچر دینا شروع کیا تو ایک شخص میرے لیکچر میں ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔ سوال جواب کا بھی موقع دیا جائے گا یا نہیں؟ پریذیڈنٹ نے پوچھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے اور مجھ سے اس بات پر بحث کر لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیکچر میں زمین کے گول یا چپٹے ہونے کا ذکر نہیں۔ وہ کہنے لگا ہو یا نہ ہو ایسی اہم بات کا ذکر کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے؟
غرض اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں مگر بہت کم لیکن پہلے زمانہ میں سوائے مسلمانوں کے قریباً سب لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔ مسلمانوں میں البتہ زمین کے گول ہونے کا خیال رائج تھا اور یورپ کے لوگ اس کے مخالف تھے۔چنانچہ جس وقت زمین کے گول ہونے کا سوال اُٹھا یورپ کے لوگوں نے اِس کا نہایت سختی سے انکار کیا اور اِس کی مخالفت کی مگر مسلمانوں میں یہ خیال دیر سے قائم تھا اور انہی سے اس قسم کی باتیں سُن کر کولمبس۸؎ کو امریکہ کی دریافت کا خیال پیدا ہوئا تھا کیونکہ کولمبس کسی مسلمان کا شاگرد تھا اور وہ مسلمان حضرت محی الدینؒ ابن عربی کے مُرید تھے جنہوں نے اپنے بعض رؤیا و کشوف کی بناء پر اپنی کتابوں میں یہ لکھا تھا کہ سپین کے سمندر کے دوسری طرف ایک بہت بڑا ملک ہے اور چونکہ مسلمانوں میں زمین کے گول ہونے کا خیال جڑ پکڑ رہا تھا حضرت محی الدین ابن عربی کے مُرید خیال کرتے تھے کہ غالباً ہندوستان ہی کی طرف آپ کے کشف میں اشارہ ہے۔ کولمبس نے ان روایات کو سنا تو اُس کے دل میں جوش پیدا ہوئا کہ وہ اس سمندر کی طرف سے ہندوستا ن پہنچے مگر چونکہ اس سفر کیلئے روپیہ کی ضرورت تھی اور روپیہ کولمبس کے پاس تھا نہیں اس لئے اُس نے بادشاہ کے سامنے یہ سوال پیش کیا اور ملکہ کے پاس بھی بعض بڑے آدمیوں کی سفارش پہنچائی تا ملکہ بادشاہ پر اپنا اثر ڈالے۔ ملکہ کو یہ تجویز پسند آئی، اُس نے خیال کیا کہ اگر اس مُہم میں کامیابی ہوئی تو ہمارے ملک کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ پس اس نے بادشاہ کے پاس سفارش کرنے کا وعدہ کیا اور سفارش کی بھی لیکن جب بادشاہ نے اُمرائے دربار سے مشورہ کیا تو پوپ کے نمائندہ نے اس خیال کی سخت تضحیک کی اور اُس نے کہا کہ یہ خیال کہ زمین گول ہے سخت احمقانہ ہے بلکہ مذہب کے خلاف ہے اور ایسے احمق اور بیوقوف کو روپیہ دینا علم سے دشمنی ہے۔ اُس نے ایک پُرزور تقریر کے ذریعہ سے کولمبس کے خیال کی تغلیط کی اور بتایا کہ کولمبس یا خود پاگل ہے یا ہمیں پاگل بنانا چاہتا ہے۔ اگر زمین گول ہے اور ہندوستان ہماری دنیا کے دوسری طرف ہے تو اِس کے تو یہ معنی ہونگے کہ کُرّۂ ارض کے دوسری طرف کے لوگ ہَوا میں لٹک رہے ہیں۔ پس کولمبس یہ کہہ کر کہ زمین گول ہے ہم سے یہ منوانا چاہتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں بسنے والے لوگوں کی ٹانگیں اُوپر ہیں اور سر نیچے ہیں۔ اُس حصہ میں جو درخت اُگتے ہیں اُن کی جڑیں اُوپر ہوتی ہیں اور درخت ہوا میں لٹک رہے ہوتے ہیں اور بجائے اِس کے کہ بارش اُوپر سے نیچے گرے اُس علاقہ میں نیچے سے اُوپر کی طرف بارش گرتی ہے اور سورج زمین کے اُوپر نہیں ہے بلکہ اس علاقہ میں زمین کے نیچے نظر آتا ہے۔
غرض اُس پادری نے اپنے جاہلانہ خیالات کو ایسی رنگ آمیزی سے بیان کیا کہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ کولمبس دھوکا باز شخص ہے اور دربار نے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا کہ اس شخص کی ہرگز مدد نہیں کرنی چاہئے اور کولمبس کا سفر ایک لمبے عرصہ تک کیلئے ملتوی ہو گیا۔ آخر ملکہ نے اپنی داتی آمد سے اُسے روپیہ دلوایا اور کولمبس نے امریکہ دریافت کیا جس سے سپین والوں کو بہت بڑا فائدہ پہنچا۔
غرض ایک وہ زمانہ تھاکہ بڑے بڑے عقلمند یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ زمین گول ہے اور اس پر ہنستے تھے لیکن آج بچوں سے بھی پوچھو تو وہ کہہ دیں گے کہ زمین گول ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب جہاز نظر آتا ہے تو پہلے اس کے اوپر کا حصہ نظر آتا ہے پھر نیچے کا اور اس طرح کی کئی اور دلیلیں دیتے جائیں گے۔ غرض اب دنیا نے اِس عقیدہ کو اَپنا لیا ہے اور یہ بات رائج ہو گئی ہے۔
تو بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ دنیا میں مقبول ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ تو اس طرح کہ پہلی بعض چیزوں کو منسوخ کر کے وہ قائم ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس طرح کہ پہلی بھی موجود رہتی ہیں اور نئی بھی اپنی جگہ پیدا کر لیتی ہیں جیسے موٹریں اور لاریاں آئیں تو گھوڑے بھی رہے مگر موٹروں اور لاریوں نے بھی اپنی جگہ بنا لی۔
شروع شروع میں جب ریل جاری ہوئی ہے تو انگلستان میں لوگ ریل کے آگے لیٹ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم مر جائیں گے پر اِسے چلنے نہیں دیں گے مگر آخر ریل دنیا میں رائج ہو گئی۔ ٹیلیفون جب مکہ میں لگا تو عربوں نے کہہ دیا کہ یہ شیطان ہے جو مکہ میں لایا گیا ہے اور ابنِ سعود کی اِس قدر مخالفت ہوئی کہ اس کی فوجیں باغی ہونے لگیں۔ آخراس نے پوچھا کہ یہ شیطان کس طرح ہو گیا؟ وہ کہنے لگے شیطان نہیں تو اور کیا ہے جدّہ میں ایک شخص بات کرتا ہے اور وہ مکہ میں پہنچ جاتی ہے یہ محض شیطان کی شعبدہ بازی ہے۔ وہ سخت گھبرایا کہ اَب میںکیا کروں؟ آخر ایک شخص نے کہا کہ ان لوگوں کو میں سمجھا دیتا ہوں۔ چنانچہ ٹیلیفون پر ایک طرف اُس نے عربوں کے اس لیڈر کو کھڑا کیا جو کہا کرتا تھا کہ شیطان بولتا ہے اور دوسری طرف خود کھڑا ہو گیا اور اُس نے پوچھا کہ بتائو حدیث میں آتا ہے یا نہیں کہ لَاحَوْلَ سے شیطان بھاگ جاتا ہے ؟اُس نے کہا آتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ اگر کوئی حدیث کا مُنکر ہو تو وہ کیسا ہے؟ وہ کہنے لگا کافر۔ اُس نے کہا۔ اچھا سُنو! میں لَاحَوْلَ پڑھتا ہوں اور یہ کہہ کر لَاحَوْلَ پڑھا اور اس معترض مولوی سے کہا کہ اب بتائو کہ کیا شیطان یہ لَاحَوْلَ دوسری طرف پہنچا رہا ہے؟ شیطان کو کہاں طاقت کہ وہ لَاحَوْلَکو پہنچائے، وہ تو لَاحَوْلَ سُنتے ہی بھاگ جاتا ہے۔ یہ بات اُس معترض کی سمجھ میں بھی آگئی اور اُس نے لوگوں کو بھی سمجھا دیا کہ یہ شیطان نہیں ہے کوئی اور چیز ہے۔
غرض کئی تحریکات دنیا میں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ ان کی مخالفتیں کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور پہلے نظام میں اپنے لئے بھی جگہ نکال لیتی ہیں لیکن بعض ایسی تحریکات ہوتی ہیں جو پہلے نظام کو کُلّیۃً بدل دیتی ہیں اور وہ صلح کر کے پہلے نظام کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ ایک نیا نظام قائم کرتی ہیں اور پہلے نظام یا نظاموں کو توڑ دیتی ہیں۔ ان کے لئے لڑائیاں لڑی جاتی ہیں جنگیں کی جاتی ہیں (خواہ جسمانی رنگ میں خواہ رُوحانی رنگ میں) اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا کا امن جاتا رہا مگر آخر اس لڑائی اور جنگ کے بعد وہ دنیا میں قائم ہو جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے دنیا میں پھر امن کا دَور دَورہ ہو جاتا ہے۔ مکّہ مکرّمہ کے ٹیلیفون کے واقعہ کی مناسبت میں مجھے نواب اکبر یار جنگ صاحب بہادر نے بھی بتایا ہے کہ حیدر آباد کی مسجد میں لائوڈسپیکر لگایا گیا تو لوگوں نے کُفر کا فتویٰ دے دیا۔ ہمارے یہاں عورتوں کی جلسہ گاہ میں بھی کَل لائوڈسپیکر پر فتویٰ لگ گیاتھا۔ بعض عورتیں سٹیج کے قریب آنا چاہتی تھیں اس پر انہیں منتظماتِ جلسہ نے بتایا کہ اب قریب آنے کی ضرورت نہیں یہ جو آلہ لگایا گیا ہے اس سے ہر جگہ آواز پہنچ جائے گی۔ اس پر وہ کہنے لگیں ’’سانوں تُہاڈے فریب دا پتہ نہیں؟ اَسیں اَیڈیاں اِی بیوقوف ہاں؟ بھلا ایہہ دُھوتُو بولے گا؟‘‘ یعنی کیا ہمیں تمہارے فریب کا علم نہیں ہم اتنی بیوقوف نہیں کہ یہ خیال کر لیں کہ یہ ٹین کا پُرزہ بولے گا۔ گویا انہوں نے اپنی علمیت کی دلیل یہ دی کہ ہم خوب جانتی ہیں یہ ٹین سا جو لگا ہوئا ہے یہ نہیں بول سکتا۔ یہ محض اپنی واقف عورتوں کو آگے بٹھانے کیلئے بہانہ بنایا گیا ہے۔
دوستوں کو چاہئے کہ وہ گھروں میںجا کر اپنی بیویوں کو سمجھا دیں کہ یہ ٹین کا پُرزہ خوب بولا کرتا ہے۔ کَل مستورات نے خوب کُشتی کی اور بعض تو پہرہ دار عورتوں کو گِرا کر آگے آ گئیں اور کہا کہ ہم ایسے فریب میں نہیں آ سکتیں۔ وہ اُن کو سمجھا دیں کہ یہ ہمارا فریب نہیں بلکہ یورپ والوں کا کارآمد فریب ہے جس سے واقعہ میں آواز دُور دُور تک پہنچ جاتی ہے۔
غرض اصلاح کے دو ذریعے ہیں صلح اور جنگ۔ یعنی یا تو نئی تحریک کو پُرانی تحریک کے ساتھ سمو کر اور مِلا کر ایک نیا وجود بنا دیا جاتا ہے اور دونوں تحریکیں ایک تحریک ہو کر رہ جاتی ہیں اور یا پھر نئی اور پُرانی تحریک میں جنگ ہو کر نئی تحریک پُرانی کو اُکھیڑ کر پھینک دیتی ہے اور اپنی حکومت قائم کر لیتی ہے۔ اوّل قسم کی اصلاح ارتقاء کہلاتی ہے یعنی سہولت سے تغیر ہو جاتا ہے اور لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ مگر دوسری قسم کی تحریک جس میں لڑائی لڑنی پڑتی ہے اُسے عربی زبان میں اِنقلاب کہتے ہیں۔ جیسے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کی مجالس میں نعرے لگائے جاتے ہیں کہ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ یہ بھی وہی اِنقلاب ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ گورنمنٹ سے کانگرس کو اتنا اختلاف ہے کہ وہ اسے توڑ کرکُلّی طور پر ایک نئی گورنمنٹ بنائے گی اور وہ کوئی درمیانی راستہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ گو عملی طور پر کانگرس سب کچھ مان گئی ہے اور کئی صوبوں میں اس نے وزارتیں بھی سنبھال لی ہیں۔ اب صرف عادت کے طور پر ’’انقلاب زندہ باد ‘‘کے نعرے لگائے جاتے ہیں جیسے طوطے میاں کو میاں مٹھوکہنے کی عادت ہوتی ہے۔ ورنہ کانگرس کیلئے اِنقلاب کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ بہرحال انقلاب کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ موجودہ نظام کو کسی اِصلاح یا تبدیلی کے ساتھ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس نظام کوکُلّی طور پر پھینک دیا جائے گا، توڑ دیا جائے گا، تباہ کر دیا جائے گا اور اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم کیا جائے گا۔ جب یہ انقلاب دینی انقلاب ہو تو اسلامی اصطلاح میں اسے قیامت بھی کہتے ہیں اور اس کا ایک نام ۹؎ بھی ہے یعنی نئی زمین اور نیا آسمان بننا۔ اور ایک نام اِس کا اَلسَّاعَۃُبھی ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے روحانی انقلاب کو کبھی قیامت کہا ہے کبھی اَلسَّاعَۃُ ۱۰؎ کے نام سے یاد کیا ہے اور کبھی نئی زمین اور نئے آسمان کے پیدا کئے جانے کے الفاظ سے اس کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے۔
دنیا میں جس قدر تبدیلیاں ہوئی ہیں یا کامیاب تحریکیں ہوئی ہیں ساری اسی رنگ میں ہوئی ہیں اور کوئی عالمگیر تحریک اور دیر تک رہنے والی تحریک ایسی نہیں جس میں دنیا کے لئے پیغامِ جدید نہ ہو اور جس میں انقلاب نہ ہو۔
ارتقائی تحریکات عظیم الشان تحریکوں میں سے نہیں ہوتیں۔ عظیم الشان تحریکیں جب بھی دنیا میں ہوئی ہیں انقلاب کے ذریعہ سے ہوئی ہیں اور اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم کانگرس سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب زندہ باد۔ لیکن اس سے ہماری مُراد اَور ہوگی ان کی مُراد اس لفظ سے اَور ہوتی ہے۔
پانچ عظیم الشّان دُنیوی تحریکیں
اگر دُنیوی فتوحات کو دیکھیں تو فتوحات دُنیوی کے لحاظ سے بھی وہی حکومتیں دنیا میں دیرتک رہی ہیں اور اُن کا اثر وسیع ہوئا ہے جن میں کوئی نہ کوئی پیغامِ جدید اور انقلاب تھا۔ یعنی پہلے نظام سے جُدا گانہ حیثیت رکھتی تھیں اور نئے اصول پر قائم ہوئی تھیں۔ اِس قسم کی تحریکیں دنیا میں چند ہی گزری ہیں۔ چنانچہ ان میں سے
ایک تحریک جو ہندوستان میں اُٹھی آرین (ARIAN) کہلاتی ہے یعنی آریوں کی تحریک، یہ تحریک صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ یورپ پر بھی اس کا اثر تھا۔
دوسری تحریک جو مغرب میں اُٹھی رومن تحریک تھی۔
تیسری تحریک جو وسط ایشیا اور چین میں پیدا ہوئی اس کا نام مَیں ایرانی تحریک رکھتا ہوں۔
چوتھی تحریک جو مغربی ایشیا اور افریقہ میں پیدا ہوئی اس کا نام میں بابلی تحریک رکھتا ہوں۔ اور پانچویں تحریک جو موجودہ زمانہ میں نہایت ہی عالمگیر ہے وہ ہے جسے مغربی تحریک کہتے ہیں۔
دنیا کی معلومہ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی پانچ تحریکیں مادیات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے نہایت مہتمّ بالشّان اور عالمگیر تحریکیں گزری ہیں۔ یعنی آرین تحریک، رومن تحریک، ایرانی تحریک، بابلی تحریک اور مغربی تحریک۔ ان پانچوں تحریکوں کے پیچھے ایک نیا فلسفہ تھا اور ایک نئی تہذب تھی۔ صرف یہی نہیں تھا کہ بعض قوموں نے تلواریں پکڑیں اور چند مُلک فتح کر لئے بلکہ ان تحریکا ت کے بانیوں نے اپنے سے پہلے نظام کو تہہ و بالا کر دیا اور ان کی جگہ ایک جدید تہذیب کی بُنیاد ڈالی یا نئے علوم کا دروازہ کھولا اور گو اِن نئی تحریکوں کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر حکومت کھو بیٹھے اور ان کی جگہ دوسری قوموں نے لے لی مگر ان کو شکست دینے والے اور تباہ کرنے والے ان کے خیالات اور ان کے فلسفہ سے آزاد نہیں ہو سکے۔ سیاسی غلامی جاتی رہی مگر ذہنی اور علمی غلامی قائم رہی اور حقیقی حکومت انہی کی رہی اور اسی فتح اور کامیابی کو پیغامِ جدید یا اِنقلاب کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ بظاہر آرین اور قدیم ایرانی اور رومن اور بابلی حکومتیں کچھ عرصہ کے بعد دُنیا سے مٹ گئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بعض کسی نہ کسی رنگ میں اب تک بھی دنیا میں موجود ہیں اور بظاہر ان سے نفرت کرنے والے لوگ بھی حقیقتاً ان کی غلامی کا جُوئا گردنوں پر اُٹھائے کھڑے ہیں اور ان کے بعد میں آنے والی حکومتیں درحقیقت عُمّال کی تبدیلی کا ایک مظاہرہ تھیں ورنہ اصولِ حکومت وہی تھے جو ان مشہور تحریکات نے جاری کئے تھے۔ بغاوت اس تہذیب کے آخری زمانہ کے علمبرداروں کے خلاف تھی اس تہذیب کے خلاف نہ تھی۔ جو تبدیلی ہوئی وہ یہی تھی کہ اس تہذیب کا جھنڈا ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں آ گیا۔ بعض دفعہ جھنڈے کا رنگ تھوڑا سا تبدیل کر دیا گیا۔ بعض دفعہ جھنڈے کو زیادہ لمبا یا چھوٹا کر دیا گیا مگر حقیقت وہی رہی جو پہلے تھی۔
رومن امپائر (ROMAN EMPIRE) کے بعد کے تغیرات جو مغرب میں ہوئے اگر دیکھا جائے تو رومن تہذیب کی تبدیل شُدہ صورت ہی تھے اور ایرانی تہذیب کے بانیوںکے بعد کی حکومتوں میں صاف ابتدائی ایرانی تہذیب کی جَھلک نظر آتی ہے۔ آرین بانیانِ تہذیب کے بعد بُدھ جین وغیرہ کئی قسم کے لوگوں نے حکومتیں کیں لیکن آرین ٹھپہ سب کے دامن پر موجود تھا۔ بابل کی حکومت کے بعد عرب، شام، مصر وغیرہ ممالک میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں ،کئی بغاوتیں ہوئیں لیکن بابلی اثر نہ مٹنا تھا نہ مٹا۔
اب مغربی تہذیب دُنیا پر غالب ہے۔ ایشیا اور افریقہ اس کے جوئے سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کے دونوں برِّاعظم کامیاب کوشش کر چکے ہیں۔ جاپان ایشیا کے ایک طرف اور تُرکی دوسری طرف کامیاب کوشش کر چکے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہوئا ہے؟ صرف حاکم بدلے ہیں حکومت نہیں بدلی بلکہ تُرک اور جاپانی تو آزادی کے بعد مغربیت کے پہلے سے بھی زیادہ شکار ہو گئے ہیں۔ آج ہندوستان آزادی کیلئے تڑپ رہا ہے، اِس کے نوجوان اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے کھڑے ہیں تا اپنے مُلک کو بیرونی حکومت سے آزاد کراویں۔ لیکن ان کی جدوجہد اسی حد تک محدود ہے کہ انگلستان کے مغربی کی جگہ ہندوستان کا مغربی لے لے اس سے زیادہ اس جدوجہد میں کوئی مقصد نہیں۔ مسٹر گاندھی نے کھدّر کا لباس پہن کر اس امر کا اظہار کرنا چاہا ہے کہ گویا وہ اس تہذیب کے اثر سے آزادہونا چاہتے ہیں لیکن حقیقت سے واقف جانتے ہیں کہ ڈھانچہ وہی ہے صرف سکاٹ لینڈکے ورسٹڈ (WORSTED) کی جگہ اسے کھدّر کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ یا بقول مسیح پُرانی شراب نئے مٹکوں میں ڈال دی گئی ہے اِس سے زیادہ کوئی تغیر نہیں ہوئا۔
اب مَیں ان پانچوں تحریکوں کی کسی قدر تفصیل بیان کرتا ہوں تا کہ آپ لوگ سمجھ جائیں کہ یہ پانچ دَور تہذیب کے دنیا کیلئے کیا پیغام لائے تھے اور کیا مفید چیز انہوں نے دنیا کو دی تھی جس سے وہ سینکڑوں ہزاروں سال کی جدوجہد کے بعد بھی آزاد نہیں ہو سکی۔
آرین تحریک کا پیغام جدید،نسلی امتیاز
یاد رکھنا چاہئے کہ آرین تہذیب کی بنیاد یوجینکس (EUGENICS)
پر تھی یعنی ان کی ساری بنیاد اس امر پر تھی کہ سب انسان یکساں نہیں ہیں بلکہ انسانوں انسانوں میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی اعلیٰ ہوتا ہے تو کوئی ادنیٰ۔ جیسے کوئی امیر ہوتا ہے تو کوئی غریب، کوئی مضبوط ہوتا ہے تو کوئی کمزور، کوئی اچھے دماغ کا کوئی بُرے دماغ کا اور یہ کہ اس فرق کو خاص حالات کے ماتحت پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔ اور دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ انسانوں میں سے جو اعلیٰ ہوں انہیں آگے کیا جائے تا کہ نسلِ انسانی اعلیٰ کمالات تک پہنچ سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک مضبوط باپ کا بیٹا ضرور مضبوط ہوگا اور کمزور باپ کا بیٹا کمزور ہوگا۔ اب اگر باپ کی وجہ سے جسم اعلیٰ بن سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دماغ اعلیٰ نہ بنے؟ پس اگر اچھے دماغ والا باپ ہوگا اور اچھے دماغ والی ماں ہوگی تو اِن کا بیٹا بھی یقینا اچھے دماغ والاہوگا۔ اس صورت میں اگر اس شخص سے جو نسل چلے وہ ہمیشہ اپنی قوم میں ہی شادیاں کرتی رہے تو ان کی قوم دوسری اقوام سے ضرور اعلیٰ ہوگی۔
یہ آرین تہذیب جہاں بھی گئی ہے اس نے اپنی حکومت کو اسی بنیاد پر رکھا ہے یعنی اس نسلی امتیاز پر جو عقلی اور دماغی اور مذہبی دائروں پر حاوی تھا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک برہمن کا لڑکا علم کے لحاظ سے ہمیشہ دوسروں پر فوقیت رکھے گا، ایک کھتری کا لڑکا سِپہ گری کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھے گا اور جب ایک قوم جسے نسلی امتیاز کی وجہ سے برتری حاصل ہوگی آپس ہی میں شادیاں کرے گی تو وہ دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکے گی اس لئے ان کا مذہب بھی اسی تحریک کے ماتحت چلتا ہے مثلاً وید آئے تو انہوں نے یہ حکم دے دیا کہ اگر شودر وید کو سُن بھی لے تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے۔ یہ برہمن کا حق ہے کہ وہ وید سُنے یا کھتری اور ویش کا حق ہے کہ وید سُنے۔ شودر کا کیا حق ہے کہ وید سُنے گویا ان کے مذہب میں بھی یہی تحریک شامل ہوگئی۔
پھر یہ جو وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان دنیا میں واپس آتا ہے اور مختلف جُونوں میں ڈالا جاتا ہے جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے یہ عقیدہ بھی اسی فلسفہ کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ نسل کے درجہ کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ رُوحیں اس میں شامل ہوتی رہیں اور اس کا طریق انہوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ ہر قوم میں جو اعلیٰ اور نیک رُوحیں ہیںوہ مرنے کے بعد برہمن کے گھر جنم لیتی ہیں اور جو سپاہیانہ طاقت رکھتی ہیں وہ کھتریوں کے ہاں اور جو تاجرانہ لیاقت رکھتی ہیں وہ ویش کے ہاں جنم لیتی ہیں اور جو خراب اور ناکارہ ہیں وہ شُودروں کے ہاں جنم لیتی ہیں۔ اس عقیدہ سے انہوں نے ادنیٰ اقوام کی بغاوت کے امکان کو دُور کر دیا کیونکہ اگر شودروں کو یہ کہا جاتا کہ تم ہمیشہ کیلئے شُودر ہی رہو گے تو ممکن تھا کہ وہ بغاوت کرتے۔ یا اگر کھتریوں کو کہا جاتا کہ تمہارا کام صرف جان دینا ہے تو وہ برہمن حکومت کے خلاف کھڑے ہو جاتے۔ پس انہیں اس عقیدہ کے ذریعہ سے خاموش کرا دیا گیا تا کہ وہ لوگ برہمن فوقیت کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیں کیونکہ انہیں یقین دلا دیا گیا کہ درحقیقت برہمن یا کھتری یا ویش یا شودر ایک نسل نہیں ہیں بلکہ یہ تو عُہدے ہیں جو اچھی یا بُری رُوحوں کو ملتے ہیں۔ اب جس طرح ایک جمعدار کو ایک رسالدار کے خلاف، ایک رسالدار کو ایک لفٹنٹ کے خلاف شکوہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے بوجہ لیاقت یہ عُہدہ ملا ہے اور جب مَیں لیاقت دکھائوں گا تو یہ عہدہ مجھے بھی مل جائے گا اسی طرح ایک شودر کو ویش کے، ایک ویش کو کھتری کے اور ایک کھتری کو ایک برہمن کے خلاف شکوہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جنم تو گزشتہ اعمال کے نتیجہ میں ملے ہیں۔ اگر ایک شودر اچھے اعمال کرے گا تو اگلے جنم میں وہ برہمن کے گھر پیدا ہو جائے گا اور خراب برہمن شودر کے گھر پیدا ہوگا۔
اس طرح تفوّق کو قائم رکھتے ہوئے بھی آرین تہذیب کے بانیوںنے اس تفوّق کے خلاف بغاوت کے امکانات کو مٹا دیا اور ایک خیالی امید دوسری قوموں کے دِلوں میں ایسی پیدا کر دی کہ وہ اس کھلونے کے ساتھ کھیلنے میں مشغول رہے اور اپنے حقیقی درد اور دُکھ کو بالکل بُھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود انتہاء سے بڑھے ہوئے نسلی ظلم کے ہزاروں سال سے ادنیٰ کہلانے والی اقوام اپنی حالت پر قانع ہیں کیونکہ تناسخ نے ہر شودر کی نگاہ میں اس کی نسلی تذلیل کا زمانہ صرف اس کی موجودہ جُون کے زمانہ میں محدود کر دیا اور ہر شودر جس کے دل میں موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کے خیالات اُٹھتے ہیں یہ خیال کر کے خاموش ہو جاتا ہے کہ مَیں اِس جون میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آیا ہوں ورنہ شاید میں بھی پہلے برہمن ہی تھا اور اب برہمنوں کو خوش کر کے شاید آئندہ زمانہ میں مَیں بھی برہمن بن جائوں گا۔ پس جس رُتبہ کے حصول کی امید مجھے لگی ہوئی ہے مَیں اپنے ہاتھوں اس رُتبہ کی عزت کم کر کے کیوں اپنی آئندہ ترقّی کے امکانات کو کم کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ نسلی تفوّق کی حفاظت کیلئے تناسخ کے مسئلہ کی ایجاد ایک اعلیٰ دماغ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے اور اگر اس کی وجہ سے کروڑوں بنی نوع انسان کو ہزاروں سال کی غلامی میں مبتلا نہ کر دیا گیا ہوتا تو یقینا اس قابل تھا کہ اس کی داد دی جاتی۔
رومن تہذیب کی بنیاد قانون اور حقوقِ انسانی
(۲) رومن تہذیب کی بنیاد قانون پر اور انسانی حقوق پر تھی۔ چنانچہ اس تہذیب کے علمبرداروں نے اوّل اوّل انسانی حقوق کو تسلیم کیا اور ایسی بنیاد
رکھی کہ اگر کسی کو کوئی سزا دینی ہو تو قانون کے ماتحتدی جائے۔ اس طرح وہ سیاست کو قانون کے ماتحت لائے اور انہوں نے ایسے اصول بنائے جن سے ایک نظام کے ماتحت انسانوں پر حکومت کی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ رومن لاء اب تک مغرب میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کے اصول سے آج بھی قانون دان فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
ایرانی تہذیت کا پیغام اخلاق و سیاست
(۳) ایرانی تہذیب کی بُنیاد اخلاق اور سیاست پر ہے۔ اسی
وجہ سے ان میں خدا تعالیٰ کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کیلئے ممکن نہیں کہ وہ گناہ جیسی گندی شَے کو پیدا کرے اس لئے دراصل دوخدا ہیں ایک نیکی کا اور ایک بدی کا۔ گویا اخلاق کو انہوں نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے لئے یہ امر ناقابلِ تسلیم ہو گیا کہ ایک غیر اخلاقی امر کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائے لیکن چونکہ گناہ دُنیا میں موجود تھا انہوں نے یہ فلسفہ ایجاد کیا کہ گناہ کا پیدا کرنے والا کوئی اور خدا ہوناچاہئے جو قابلِ پرستش نہیں بلکہ قابلِ نفرت ہو۔
دوسرا فلسفہ جس پر ایرانی تہذیب کی بنیاد تھی تعاونِ باہمی کا فلسفہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی تہذیب نے پہلے پہلے اُس خیال کی بنیاد رکھی جسے امپائر یا شہنشاہیت کہتے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے اسی نظام نے باہمی تعلق رکھنے والی آزاد حکومتوں کے اصول کو ایجاد کیا اور اسے تکمیل تک پہنچایا۔
درحقیقت یہ خیال بھی ثانویت کے عقیدہ کے نتیجہ میں پیدا ہؤا۔ جب انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ دو خدا ہیں جو آزاد بھی ہیں لیکن پھر ایک دوسرے سے بڑا بھی ہے تو اس کے ماتحت انہوں نے دنیا میں بھی ایسا نظام ایجاد کیا کہ ایک بڑا بادشاہ ہو اور بعض اس سے چھوٹے بادشاہ ہوں جو آزاد بھی ہوں اور پھر ایک بالا طاقت کے ماتحت بھی ہوں، اور اسی عقیدہ سے شہنشاہیت کے خیال کو نشوونما حاصل ہوئی۔
ہندوستان یا دوسرے ممالک میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی کہ ایک زبردست بادشاہ ایک کمزور اور چھوٹے سے بادشاہ کی اس لئے اطاعت کرتا ہے کہ وہ کمزور بادشاہ اس کا شہنشاہ ہے۔ یہ صرف ایرانی فلسفہ کی ایجاد ہے اور اس سے درحقیقت امن کے قیام کے لئے ایک نیا راستہ کھولا گیا ہے۔
ایرانی تاریخ میں بسا اوقات ایسا ہؤا ہے کہ اصل بادشاہ کمزور ہو گیا ہے اور ماتحت بادشاہ بہت طاقت پکڑ گئے ہیں لیکن شہنشاہ کی آواز پر سب امداد کیلئے موجود ہو گئے ہیں۔ آج کی برطانوی اِمپائر اور آخری زمانہ کی خلافت عباسیہ درحقیقت اسی فلسفہ کی نقلیں تھیں اور خلافتِ عباسیہ کے آخری دَور کو اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس کے وجود کی بنیاد اس امر پر تھی کہ درحقیقت اس کے تابع حکومتیں یا ایرانی تھیں یا ایرانی تہذیب کی خوشہ چیں تھیں اور چونکہ ان کے رئوساء اس خیال کے نسلی طور پر قائل چلے آتے تھے اس لئے باوجود طاقتور ہونے کے وہ خلافت کے برائے نام جُوئے کو اٹھائے ہوئے تھے۔
بابلی تہذیب کی بنیاد علمِ ہندسہ اور ہیئت
(۴) چوتھی تہذیب بابلی تہذیب ہے اس کی بنیاد علمِ ہندسہ اور
ہیئت پر رکھی گئی تھی۔ اس کے بانیوں کا خیال تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے سورج، چاند اور تارے بنائے ہیں اور ایک نظام دنیا میں جاری کیا ہے انسانی ترقی اس نظام کی نقل کرنے سے ممکن ہے اس لئے ہمیں نظامِ شمسی پر غور کر کے اور اس کے راز معلوم کر کے اس کی اتباع کرنی چاہئے۔
مغربی تحریک کا پیغام مادیت اور قوم پرستی
(۵) پانچویں تہذیب یعنی مغربی تحریک کی بنیاد مادیت
اور قوم پرستی پر ہے۔
پانچوں تحریکوں کی مزید تشریح
اختصاراً پانچوں مادی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد اب مَیں ان کے بنیادی اصولوں کے نتائج کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
آرین تہذیب چونکہ نسلی امتیاز اور تفوّق پر مبنی تھی باوجود بہت وسعت پا جانے کے کبھی کوئی امپائر نہ بنا سکی۔ نیز نسلی امتیاز کی وجہ سے ان میں وہ اتحاد بھی پیدا نہ ہو سکا جو ایرانیوں میں تھا۔ اس کے مقابلہ میں رومن اِمپائر نے ترقی کی کیونکہ اس کے سیاسی اصول ایسے تھے کہ قوموں کو مفتوح کرنے کے باوجود وہ ان سے تعلق رکھ سکتی تھیں اس لئے رومن تحریک مستقل ارتقائی منازل طے کرتی چلی گئی اور ارتقائی فلسفہ کی بانی ہوئی۔
ایرانی تہدیب نے وسیع اِمپائر کی بنیاد رکھی جس کے ٹکڑے اپنے اپنے دائرے کے اندر آزاد تھے اور پھر ایک سردار کے ماتحت تھے۔ تمام ایرانی حکومتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ یہ حکومت درحکومت کا احساس ان کے اندر اہرمن اور یزدان کے خیال سے پیدا ہؤا۔
بابلی تحریک کیمسٹری اور ہیئت پر مبنی تھی اور اس وجہ سے تعمیر اور تنظیم میں اسے خاص شغف تھا اور گو یہ تحریک سب سے پُرانی ہے اور اس کے آثار کم ملتے ہیں لیکن جتنے آثار بھی اس کے ملتے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔
بابلی تحریک کے آثار قرآن کریم میں
قرآن کریم میں بھی اس تحریک کی بعض شاخوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ سورہ فجرمیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔


۱۱؎
اس تہذیب کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی تھی انہیں عاد کہتے ہیں۔ عاد نام کی دو قومیں گذری ہیں۔ عاد اوّل تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے عاد بعد کے زمانہ میں اس تہذیب کے حاملوں میں سے ایک حامل تھے۔ اس آیت میں انہی پہلے عاد یعنی بانیانِ تہذیبِ بابلی کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاد سے کیا سلوک کیا؟ وہ عاد جو عاد اِرم کہلاتے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنانے والے تھے۔ اتنی بڑی اونچی عمارتیں بناتے تھے کہ ان کے بعد کی کوئی قوم بھی اس فن میں ان کامقابلہ نہیں کر سکی۔ یعنی گو عام طور پر دنیا ترقی کرتی ہے لیکن باوجود ترقی کے زمانہ قرآن کریم تک کوئی قوم فنِ عمارت میں عاد کے کمال تک نہیں پہنچ سکی۔
پھر اسی عاد کی ایک دوسری شاخ ثمود تھی جس نے سنگ تراشی میں کمال کیا تھا اور شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے حتیّٰ کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب و غریب محل بنائے ہیں۔
اور فرعونِ مصر بھی اسی تہذیب کا حامل تھا۔ وہ بھی تھا۔ بعض نے اوتاد کے معنی خیموں کی میخیں کئے ہیں لیکن اس جگہ یہ معنی درست نہیں۔ اس جگہ اَوْتاد سے مراد وہ بلند عمارتیں ہیں جو بلند و بالا ہوں اور پہاڑ کی طرح اونچی نِکل جائیں۔ عربی میں پہاڑوں کو بھی اَوْتَادُ الْاَرْضکہتے ہیں۱۲؎ ۔ اور ناک کو بھی وَتَد کہتے ہیں کیونکہ وہ چہرہ کے باقی اعضا ء سے اونچا نکلا ہوئا ہوتا ہے۔ یہ مصری عمارتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ عمارتیں پہاڑوں کی طرح مثلث شکل کی بناتے ہیں اور رہائشی گنجائش کا خیال نہیں رکھتے بلکہ اونچائی کا خیال رکھتے ہیں۔ پس سے مُراد نہایت بلند عمارتوں والے کے ہیں۔
جس کسی کو مصر جانے کا موقع ملا ہو وہ جانتا ہے کہ اہرامِ مصری کس قدر اونچے ہیں۔ دُور دُور سے لوگ انہیں دیکھنے آتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنی بلندی پر وہ لوگ پتھر کس طرح اُٹھا کر لے گئے۔ اہرام اتنے بلند ہیں کہ انسان کو ان پر چڑھتے ہوئے کافی دیر لگ جاتی ہے۔ مَیں باوجود اِرادہ اور خواہش کے ان میں سے کسی پر نہیں چڑھ سکا۔ بلکہ ایک دوست ایک اہرام کے اوپر چڑھ گئے تو انہیں اوپر جاتے ہوئے اِس قدر دیر ہو گئی کہ مجھے ڈر ہؤا کہ ہم رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہو سکیں گے۔ قطب صاحب کی لاٹ کی بلندی کو ان کی بلندی سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یورپین لوگ بھی انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انسان کے برابر برابر پتھر وہ اتنی بلندی پر اُٹھا کر کس طرح لے گئے۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم فرعون کو دیکھو جو ایسی مثلث عمارتیں بناتا تھا جو بڑی بلند اور مضبوط ہوتی تھیں۔ فرماتا ہے اس تہذیب کے حاملوں نے اپنی اپنی ترقی کے زمانہ میں دنیا میں بہت فساد پیدا کر دیا تھا اور اپنی طاقت کی وجہ سے سخت متکبر ہو گئے تھے لیکن دیکھو کہ ہم نے بھی ان سے کیسا سلوک کیا اور کس طرح انہیں برباد کر کے رکھ دیا۔
غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر پر اور رصدگاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا۔ عاد کے آثار میں ہرجگہ عظیم الشان عمارتیں نظر آتی ہیں۔ پہلے یورپ کے لوگ عاد قوم کے وجود سے انکار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ عاد نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر بیس سال سے جب سے کہ عاد کے آثار ملے ہیں وہ بھی ماننے لگ گئے ہیںکہ عاد نام کی ایک قوم ہوئی ہے بلکہ میں نے حال ہی میں ایک عیسائی مؤرّخ کی کتاب پڑھی ہے جس میں وہ عاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرّخوںکی سینکڑوں صفحوںکی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کر دی ہیں۔ ۱۳؎
بابلی تحریک کا ذکر کُتبِ مقدّسہ میں
بابل کی حکومت کا جو بیان تورات میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی
تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بائبل میں آتا ہے۔
’’اور انہوں نے کہا کہ آئو ہم اپنے واسطے ایک شہر بناویں اور ایک بُرج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے اور یہاں اپنا نام کریں ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہو جائیں اور خداوند اس شہر اور بُرج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اُترا۔ اور خداوند نے کہا۔ دیکھو! لوگ ایک ہی اور ان سب کی ایک ہی بولی ہے اب وے یہ کرنے لگے۔ سو وَے جس کام کا ارادہ رکھیں گے اس سے نہ رُک سکیں گے۔ آئو ہم اُتریں اور ان کی بولی میں اختلاف ڈالیں تا کہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں‘‘۱۴؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی بابلی لوگوں کا بڑا کمال بلند عمارات بنانے میں تھا کیونکہ توریت کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل کے لوگوںنے ایک بلند عمارت بنانی شروع کی تھی تا وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پراگندگی سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ پراگندگی چاہتا تھا اس لئے اُس نے اُن کو اِس ارادہ سے باز رکھنے کیلئے ان کی زبانوں میں فرق ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا اور اُن کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمارت کے بنانے میںناکام رہے۔
جو وجہ اس حوالہ میں دی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی صداقت ضرور معلوم ہو جاتی ہے کہ اہلِ بابل اونچی عمارتیں بنانے میں یدِطُولیٰ رکھتے تھے اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر شُبہ ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
قرآن کریم میں بھی فرعون کی نسبت اس حوالہ کے مشابہ ایک بات بیان کی گئی ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ بائبل میںتو خدا تعالیٰ کی طرف اس بیہودہ خیال کو منسوب کیا گیا ہے کہ کہیں انسان بلند عمارت بنا کر اُلوہیت کے مقام کو حاصل نہ کر لے اور قرآن کریم نے اس لغو خیال کو فرعون کی طرف منسوب کیا ہے جس کی صداقت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرعون کی نسبت فرماتا ہے کہ اس نے ہامان سے کہا کہ
۱۵؎
یعنی فرعون کے سامنے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا دعویٰ پیش کیا تو فرعون نے اسے سُن کر اپنے انجنیئر ہامان کو بُلایا اور اُسے حکم دیا کہ پتھیروں کو لگا دو اور ایسا اُونچا محل بنائو اور ایسی ایسی دُوربینیں اور رصدگاہیں تیار کرو کہ ہم آسمان کے راز کھول کر رکھ دیں اور موسیٰ کے خدا کا سُراغ نکال لیں۔
اسی طرح سورۃ مومن میں آتا ہے۔ ۔۔۱۶؎ کہ فرعون نے اپنے انجینیئرہامان سے کہا کہ ہمارے لئے ایک قلعہ بنائو مگر وہ اتنا اونچا ہو کہ اس پر چڑھ کر ہم آسمان کے راز معلوم کر سکیں اور موسیٰ کے خدا کا پتہ لگا لیں۔ یہ مطلب نہیں کہ آسمان پر پہنچ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اتنا بلند ہو کہ وہاں سے آسمان کا نظارہ آسانی سے ہو سکے۔ وہاں ہم بڑی بھاری دُوربینیں لگائیںگے اور موسیٰ کے معبود کو دیکھیں گے اور آخر میںکہا کہ مَیں تو اسے بالکل جھوٹا سمجھتا ہوں۔ یعنی کوئی یہ نہ خیال کرے کہ مجھے شُبہ ہے کہ شاید جس خدا کاموسیٰ ذکر کرتا ہے وہ صحیح ہے تبھی تو میں ایک اُونچا محل اس کی تلاش کیلئے بنانا چاہتا ہوں میرے اِس حُکم کی غرض شبہ نہیں بلکہ میری غرض موسیٰ کو جھوٹا ثابت کرکے دکھانا ہے۔
اسی طرح عاد کے متعلق ایک اور آیت میں بھی ذکر آتا ہے کہ وہ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنایا کرتے تھے اور وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۱۷؎
فرماتا ہے عاد قوم سے مخاطب ہو کر ہم نے کہا تھا کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمسٹری کے مرکز تیار کرتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہوگے جیسے یورپ کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی۔ (مَصَانِعَ سے مُراد فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہیں) پھر فرمایا جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اُس جگہ کی تہذیب کو بالکل تباہ کر دیتے ہو اور ان کی تہذیب اور ان کے تمدّن کی جگہ اپنی تہذیب اور اپنا تمدّن قائم کرتے ہو۔ ( جَبَّار کے معنی ہیں دوسرے کو نیچا کر کے اپنے آپ کواونچا کرنے والا۔ اور ایک مطلب یہ ہے کہ دوسری اقوام کے تمدّن اور تہذیب کوتباہ کر کے اپنے تمدّن اور تہذیب کو دُنیا میں قائم کرتے ہیں)
سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ آلاتِ جنگ کی ایجاد کا کمال انہیں کے زمانہ میں ہؤا۔ چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوںمیں عمارتیں بنائیں ہیں، ان سے بعض مؤرخین نے نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنامیٹ ایجاد کر لیا تھا۔ ان معنوں کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامانِ جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مُہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ سے باقی اقوام کوتباہ کر کے اپنی تہذیب اور اپنا تمدّن قائم کرنا چاہتے ہو۔
تہذیبِ مغربی کا فلسفہ
موجودہ مغربی تہذیب کی بُنیاد بھی ایک فلسفہ پر ہے اور وہ فلسفہ مادیت کا فلسفہ ہے جس کی بُنیاد مشاہدہ اور تجربہ پر ہے۔
اسی فلسفہ کی وجہ سے مغربی تہذیب نے قومیّت کا شدید احساس پیدا کر لیا ہے۔
خالص قربانی انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب وہ سمجھتا ہو کہ اس دُنیا کے علاوہ بھی کوئی اور دُنیا ہے اور اگر میں نے دوسروں کیلئے قربانی کی تو گو مَیں اِس دنیا کا نفع حاصل نہ کروں مگر مجھے روحانی فائدہ پہنچے گا لیکن جس کو یقین ہو کہ جو کچھ ہے یہی دُنیا ہے وہ کہتا ہے کہ جو کچھ ملے مجھے ہی ملے کسی دوسرے کو نہ ملے۔
پس انتہائی نیشنلزم (NATIONALISM) مادیت کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ تعیّش پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کے آرام کے سامانوں، کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں میں زیادتی کی خواہش بھی مادیت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مَیں نے حاصل کرنا ہے اسی دُنیا میں حاصل کرنا ہے۔ پس جو مزہ اُڑایا جا سکتا ہے اُڑا لو یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تعیّش کو کمال تک پہنچا دیا ہے۔
رومن اور مغربی تہذیب میں فرق
رومن تہذیب اور مغربی تہذیب میں یہ فرق ہے کہ رومیوں میں قانون کی حکومت
تھی اور اس وجہ سے ان کا فلسفہ کُلّیات سے جُزئیات کی طرف رجوع کرتا تھا۔ چنانچہ رومی تہذیب اور فلسفہ میں مَیں یونانی تہذیب اور فلسفہ کو شامل سمجھتا ہوں۔ فلسفہ کی تمام شاخیں اسی اصول کے تابع ہیں۔ ان کی طب کو دیکھو اس کی بنیاد کُلّیات پر رکھی گئی ہے اور پھر اس سے جُزئیات اخذ کی گئی ہیں۔ ان کے فلسفہ الٰہیات کا بھی یہی حال ہے۔ پہلے کُلّیات تجویز کر کے پھر جُزئیات کو ان سے اخذ کیا گیا ہے۔ سیاست کا بھی یہی حاصل ہے کہ کچھ کُلّیات تجویز کر کے ان سے جُزئیات کو اخذ کیا گیا ہے لیکن موجودہ مغربی تہذیب کی بُنیاد چونکہ مادیت پر ہے یعنی جُزئیات کے تجربہ اور مشاہدہ پر اُن کے ہاں سب زور جُزئیات پر ہے۔ کُلّیات کو یا تو یہ لوگ جُزئیات سے اخذ کرتے ہیں یا پھر کُلّیات کے وجود ہی کو لغو اور فضول قرار دے دیتے ہیں۔ ایک یونانی طبیب ہر بیماری کو چاروں خِلطوں ۱۸؎ میں محصور قرار دے کر کُلّیاتِ طب سے مرض کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔ مگر ایک طبِّ جدید کا ماہر ہر مرض کی مخصوص علامات کا پتہ لگا کر انہی مخصوص علامات کے مطابق اس کا علاج کرتا ہے۔ اور قطعاً اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ تمام امراض کو کسی خاص سلسلہ کی کڑی قرار دے۔
جہاں تک معلومہ تاریخ کا تعلق ہے دُنیوی تحریکوں میں سے یہی پانچ تحریکیں دُنیا میں نظر آتی ہیں اور تمام دُنیا کی حکومتوں اور علوم اور تہذیبوں پر ان کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ باقی سب حکومتیں اور فلسفے ان کے تابع نظر آتے ہیں۔ انہیں اگر ان سے اختلاف ہے تو جُزوی ہے۔ بعض فلسفے ان کے فلسفوں سے جُدا ہو کر بظاہر ایک نئی صورت اختیار کر گئے ہیں اور بعض بہت تھوڑے تغیّر سے انہی فلسفوں کے ترجمان بن گئے ہیں۔
بڑی بڑی تحریکوں کی کامیابی کا سبب
ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے ساتھ ایک پیغام تھا۔
وہ صرف تلوار سے ملک کو فتح نہیں کرتے تھے بلکہ اس ملک کے ذہنوں کو بھی اپنا غلام بناتے تھے اس لئے جب ان کی حکومت تباہ بھی ہو جاتی تو ان کا فلسفہ تباہ نہ ہوتا اور وہی غلام اس فلسفہ کو لے کر دُنیا میں حکومت کرنے لگ جاتے تھے اور اس طرح ایک ذہنی اور علمی تناسل کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ان تحریکوں کے بانی سنّتِ الٰہی کے ماتحت کچھ عرصہ تک حکومت کر کے مٹ گئے مگر ان کی تحریکیں دیر تک قائم رہیں اور آج تک بھی ان میں سے کئی کا وجود مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں اب تک آرین تہذیب کا یہ اثر موجود ہے کہ برہمن اور کھتری ،شودر کو اپنے پاس تک پھٹکنے نہیں دیتے۔
کچھ عرصہ ہؤا مدراس کا ایک واقعہ بعض اخبارات نے بیان کیا تھا جو یہ ہے کہ ایک برہمن کے بیٹے نے کسی چمارن سے شادی کر لی۔ ماں باپ نے اس کا گھر الگ کر دیا اور وہ علیحدہ اس چمارن کے ساتھ رہنے لگ گیا۔ ایک دن ماں باپ نے کہا کہ اپنے بیٹے کا ایمان دیکھنا چاہئے کہ کہیں چمارن سے شادی کر کے اس کا دھرم تو نہیں جاتا رہا۔ چنانچہ انہوں نے اسے ایک دن گھر میں بُلا کر خوب اچار کھلایا اور پانی کے جس قدر گھڑے تھے وہ یا تو توڑ پھوڑ دیئے یا کہیں چُھپا کر رکھ دیئے۔ جب اس نے خوب اچار کھا لیا تو اُسے پیاس لگی مگر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پانی موجود نہیں تھا اس لئے وہ پانی نہ پی سکا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا گھر ماں باپ کے گھر سے کوئی میل بھر دُور تھا۔ وہاں دَوڑا دَوڑا پہنچا اور بیوی سے کہنے لگا مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے پانی ہے تو پلائو۔ وہ کہنے لگی پانی تو ہے مگر برتن میرا ہے اگر کہو تو اپنے برتن میں پانی پلا دُوں؟ وہ کہنے لگا یہ تو دھرم کے خلاف ہے۔ آخر جب پیاس سے اس کا بہت ہی بُرا حال ہؤا اور اُس نے سمجھا کہ اب مَیں مَرا جاتا ہوں تو بیوی سے کہنے لگا اپنے مُنہ میں پانی ڈال کر میرے مُنہ میں ڈال دے۔ چنانچہ اس نے مُنہ میں پانی لیا اور اُس کے مُنہ میں کُلّی کر دی۔ ماں باپ جو کہیں چُھپ کر یہ تمام نظّارہ دیکھ رہے تھے دَوڑتے ہوئے آئے اور اپنے بچہ سے یہ کہتے ہوئے چمٹ گئے کہ شکر ہے پرمیشور کی دَیَا ۱۹؎ سے ہمارے بچہ کا دھرم بھرشٹ ۲۰؎ نہیں ہؤا۔
یہ قصہ اسی گہرے نسلی تعصّب کا ایک مضحکہ خیز ظہور ہے۔ جو آرین تہذیب کی خصوصیات سے ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج تک اس تہذیب کے گہرے اثرات کروڑوں آدمیوں کے دلوں پر منقش ہیں جس کی وجہ سے برہمن شودر کا جھگڑا اب تک ہندوستان میں چلا جاتا ہے۔
یہ تہذیبی فلسفے بعض دفعہ مخلوط بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان میں اور نئی چیزیں آ ملتی ہیں مگر اصلی فلسفہ کا نشان موجود رہتا ہے مٹتا نہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ میںہندوستان میںاسی قسم کا ایک تغیّررُونما ہو رہا ہے۔ انگریزوں کی لمبی حکومت نے اور مغربی اقوام کی ترقی نے ہندوستان میں مغربیت کا پودا پیدا کر دیا ہے جو روز بروز جڑ پکڑتا جاتا ہے اور اس کی شاخیں چاروں طرف پھیلتی جاتی ہیں خصوصاً تعلیم یافتہ لوگوں میں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مغربیت ہے وہ مغربیت کے رنگ میں پورے طور پر رنگین ہیں اور اُسی کی عینک سے ہر شَے کو دیکھتے ہیں۔ آزادی کی تہذیب نے اس تہذیب کو ایک دھکّا لگایا ہے مگر اُسی طرح جس طرح قدیم زمانہ میں ہؤا کرتا تھا یعنی سطحی تغیّرات کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اپنا لیا گیا ہے۔ اگر آج انگریزی حکومت ہندوستان سے جاتی رہے تو بھی انگریزی حکومت کا طریق نہیں مٹ سکتا۔ وہی کونسلیں ہونگی، وہی پارلیمنٹیں ہونگی، وہی دستور ہوگا اور کونسلوں کے سپیکروں کے سامنے جب بھی کوئی مشکل سوال آئے گا وہ یہی کہیں گے کہ میںکَل تک غور کر کے جواب دونگا اور غور سے مُراد اُن کی یہ ہوگی کہ مغربی پارلیمنٹوں کے دستور کو دیکھ کر نتیجہ نکالوںگا کہ مجھے اس موقع پر کیا فیصلہ کرنا چاہئے۔ گویا یہ تغیّر جو ہندوستان میں پیداہوگا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ انگلستان میں مسٹر بالڈوِن (BALDWIN) کی جگہ مسٹر چیمبرلین (CHAMBERLAIN) نے لے لی ہے یا آئندہ ان کی جگہ شاید میجر ایٹلی (MAJOR ATTLEE) لے لیں۔ ورنہ اگر کوئی نئی تہذیب اس عرصہ میں رونما نہ ہوئی تو مغربیت ہی یہاں حکومت کر رہی ہوگی گو اس کی شکل کسی قدر بدل گئی ہو۔ گاندھی جی جو ایک فلسفہ کے موجد کہے جاتے ہیں وہ بھی باوجود زبانی مغربیت کے اثر کو ردّ کرنے کے اسی فلسفہ کے تابع چل رہے ہیں۔ جب بھی وہ کوئی نئی بات سوچتے ہیں وہ اسی مغربی تہذیب کے تابع ہوتی ہے اور چونکہ مغربی تہذیب کی بُنیاد مادیت پر ہے جس کا یہ اُصول ہے کہ مُنہ سے کچھ اور کہو اور عمل کچھ اور رکھو، اس لئے گاندھی جی کے پیرو بھی منہ سے تو امن امن کہتے ہیں مگر اندر سے لڑائی کی تیاریاں جاری رکھتے ہیں۔ اَتباع منہ سے شور مچاتے ہیں کہ آہنسا ۲۱؎ قائم کرو، آہنسا قائم کرو مگر عملاً ہر اختلاف کے موقع پر بیسیوں مسلمانوں کو ذبح کرا دیتے ہیں کیونکہ یہ اصول صرف کہنے کیلئے ہیں عمل کرنے کیلئے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب مادیت کے اثر کے نیچے انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگلا جہان کوئی نہیں تو پھر اسے اس شخص کو تباہ کرنے سے کونسی چیز روک سکتی ہے جسے وہ اپنا دشمن سمجھ بیٹھتا ہے۔ وہ تو ہر رنگ میں اپنے مدِّمقابل کو زِک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس کانگرسی گو مُنہ سے یہ کہتے جائیں کہ ہم گاندھی فلسفہ کے پیرو ہیں مگر حقیقتاً ان کا عمل مغربی فلسفہ پر ہی ہے اور جب تک مادیت کا اثر ان کے دلوں پر سے دُور نہ ہوگا وہ یورپ کے واقعات کو ہندوستان کی سٹیج پر تمثیلی رنگ میں دکھاتے رہیں گے۔
غرض ان پانچوں تحریکوں کی کامیابی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے پیچھے ایک فلسفہ تھا۔ ان کے بانی، لوگوں کے مُلک پر ہی قبضہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دل و دماغ کو بھی غلام بنا لیتے تھے جو غلامی کہ جسمانی غلامی کے دُور ہو جانے کے بعد بھی بعض دفعہ سینکڑوں ہزاروں سال تک جاری رہتی تھی۔
مذہبی دنیا میں بھی حقیقی کامیابی انقلاب سے ہی ہوتی ہے
مذہبی دنیا میں بھی یہی قانون جاری ہے۔ اس میں بھی حقیقی کامیابی انقلاب کے ذریعہ سے اور انقلاب ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر انقلاب
نہ ہو تو مذہب کبھی کامیاب نہ ہو کیونکہ یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور قانونِ قدرت خدا کا فعل ہے اس کو نظر انداز کر کے کامیابی نہیں ہو سکتی۔
انقلاب کے معنی ہیں کسی چیز کا کُلّیۃً بدل جانا۔ اب اگر تم ایک پُرانی عمارت کی جگہ پر نئی عمارت بنانا چاہو جس کا نقشہ بالکل نیا ہو تو لازماً تمہیں پہلی عمارت کو گِرا دینا پڑے گا اور کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو نئی عمارت تو بنانا چاہے مگر پُرانی عمارت کو توڑنے کیلئے تیار نہ ہو۔
قرآن کریم نے بھی مذہبی ترقی کو اسی اِنقلابی طریق سے وابستہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۲؎
کہ ہم دُنیا میں جب بھی کوئی رسول بھیجتے ہیں وہ ہمیشہ دُنیا میں دو اعلان کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کی آمد سے پہلے جو نظام جاری تھا وہ اس کی موت کا اعلان کر دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے لائے ہوئے سسٹم کے متعلق غیرمُبہم الفاظ میں اعلان کر دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلی شکل میں دُنیا میں قائم کیا جائے گا اور کسی اثر یا دباؤ کی وجہ سے یا کسی قوم سے سمجھوتہ کرنے کی غرض سے اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ ان اعلانات کے بعد جو لوگ تو اس جدید سسٹم کے تابع اپنے آپ کو کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں وہ تباہی سے بچ جاتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے وہ آہستہ آہستہ مٹ جاتے ہیں۔
کے معنی اپنے آپ کوکسی چیز کے مطابق بنا لینے کے ہیں۔ پس عمل صالح کے یہ معنی ہیں کہ وہ عمل جو اس نئی تحریک کے مطابق ہوں۔ عمل صالح کے معنی نیک عمل کے نہیں ہوتے جیسا کہ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ نیک کام اور عملِ صالح میں فرق ہے۔ مثلاًنماز پڑھنا ایک نیک کام ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جہاد کے وقت نماز پڑھنا شروع کر دے تو ہم کہیں گے کہ اس نے عملِ صالح نہیں کیا۔ یا روزہ ایک نیک عمل ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جہاد کے موقع پر بعض روزہ رکھنے والوں کے متعلق فرمایا کہ آج وہ لوگ جو بے روزہ تھے ثواب میں روزہ داروں سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ اِن روزہ داروں نے ایسی حالت میں روزہ رکھا جب کہ روزہ نہ رکھنا حالات کے لحاظ سے زیادہ مناسب تھا۔
غرض عملِ صالح عربی زبان میں مناسبِ حال فعل کو کہتے ہیں۔ پس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو لوگ رسولوں پر ایمان لائے اور انہوں نے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے وہ ہلاکت سے بچ گئے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے انبیاء کی تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا اور اس عمارت کی اینٹ بن گئے جس کی تعمیر وقت کے نبی کے ہاتھوں ہو رہی ہوتی ہے ان کے لئے کوئی خوف اور کوئی حُزن نہیں لیکن اس کے برخلاف جو لوگ اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق نہیں بناتے اور نئی عمارت کا جُزو بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اُترتا ہے اور بوسیدہ عمارت کی طرح انہیں توڑ کر رکھ دیتا ہے۔
بعثتِ انبیاء کامقصد
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو نبی بھی دُنیا میں آتا ہے وہ اسی لئے آتا ہے کہ اپنے سے پہلے نظام کو توڑ دے اور ایک نیا
نظام قائم کرے اور اس کی آمد کے بعد وہی حیاتِ نَو پاتا ہے جو اس کے نظام کو قبول کرے۔ یہ بات ہر نبی کی بعثت کے بعد ضرور ظاہر ہوتی ہے خواہ وہ نبی چھوٹے ہوں یا بڑے لیکن جو اُولوالعزم رُسل ہوں اُن کے آنے پر تو گویا ایک قیامت آ جاتی ہے جس طرح کہ ان جدید تحریکات کے ظہور پر ہوتا ہے جن کا ذکر مَیں اُوپر کر آیا ہوں۔ ہاں جو شرعی رسول آتے ہیں وہ اپنے سے پہلے نبی کے نظام کو بھی توڑ دیتے ہیں لیکن جو شریعت نہیں لاتے گو وہ پہلے نبی کے نظام کو تو نہیں توڑتے لیکن اُس رائج الوقت نظام کو ضرور توڑ دیتے ہیں جو پہلے شریعت لانے والے نبی کی شریعت کو بگاڑ کر لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق قائم کر لیاہوتا ہے۔
مذہبی انقلابات کا طریق
مذہب میں جو اِس قسم کے انقلابات ہوتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۔

۲۳؎ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زمانوں میں جو پیغام آتے رہے ہیں یا آئندہ آئیں گے ان سب کے متعلق ایک قانون جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی تو وہ اپنی ضرورت کو پورا کر چکتے ہیں اور اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں مِٹا دیا جائے اور اُن کی جگہ ایک نیا نظام آسمان سے اُتارا جائے اور کبھی لوگ انہیں بھُلا دیتے ہیں اور صرف اِس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو نظام لوگوںکی غفلت کی وجہ سے الٰہی نظام کی جگہ قائم ہو گیا ہے اسے مٹا کر پھر نئے سِرے سے وہی پہلا الٰہی نظام قائم کیا جائے۔ جب الٰہی نظام ہی اپنی ضرورت پوری کر کے مٹائے جانے کے قابل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر نظام دُنیا میں بھجوا دیتا ہے اور جب وہ نظام تو صحیح ہو، صرف لوگوں نے اسے بھُلا دیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسی پہلے نظام کو بجِنسہٖ پھر دنیا میں قائم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں قدرتیں حاصل ہیں۔
پھر فرماتا ہے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم ایک عظیم کے پیدا کرنے کیلئے اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کُفّار کو اس امر کا تو غصہ نہ تھا کہ ان کے خیالات کے خلاف ایک خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا اور جس کا تصوّر کر کے بھی انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں قرآن کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ پس فرمایا۔اے انکار کرنے والو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدازمین و آسمان کا بادشاہ ہے؟ پس جب اُس نے اس بادشاہت کو ایک نئے اصول پر قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے فیصلہ کے پورا ہونے کو کون روک سکتا ہے؟
مذہبی نظام کی مدتِ عمل
غرض قرآن کریم نے مذاہب کے بارہ میں بھی یہ قاعدہ بتایا ہے کہ ہر مذہبی نظام جو قائم کیا جاتا ہے وہ کچھ عرصہ کے
بعد یا تو ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے یا لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ ناقابلِ عمل وہ دو طرح ہوتا ہے یا لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں یا زمانہ کے مطابق اس کی تعلیم نہیں رہتی۔ یعنی یا تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس تعلیم میںتصرف کر دیتے ہیں اور یا پھر تعلیم تو محفوظ ہوتی ہے مگر زمانہ چونکہ ترقّی کر جاتا ہے اس لئے وہ قابل عمل نہیں رہتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کا لباس پھٹ جائے اور اسے نیا لباس سِلوانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا بچہ ہو اور اس کا لباس ہو تو اچھا، لیکن قد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے قد پر پہلا لباس درست نہ آتا ہو اور نیا لباس تیار کروانا پڑے۔ اسی طرح تعلیم یا تو اس لئے بدلی جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتی ہے یا اس لئے بدلی جاتی ہے کہ انسانی حالت میں ایسا تغیّر آ جاتا ہے کہ پہلی تعلیم اس کے مطابق نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے کہ اب اس کیلئے دوسری تعلیم کی ضرورت ہے۔
یہ جو تعلیم کے خراب ہو جانے کی صورت ہے یہ بھی درحقیقت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب وہ تعلیم ناقابلِ عمل ہو جائے ورنہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے دین کا خود محافظ ہوتا ہے۔ ہاں اس تعلیم کی ضرورت کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندوں سے کہتا ہے کہ اب بیشک اس میں تغیّر و تبدّل کر لو مجھے پرواہ نہیں۔ جیسے گھر میں بعض دفعہ کوئی خراب اور پھٹا پُرانا کپڑا ہو اور بچہ اسے پھاڑے تو ہم پرواہ نہیں کرتے اسی طرح مذہب میں قطع و برید کی اجازت اللہ تعالیٰ اُسی وقت دیتا ہے جب زمانہ کو اس تعلیم کی ضرورت نہیں رہتی اور انسان کے حالات نئی تعلیم کا تقاضا کرتے ہیں۔ پس اُس وقت اللہ تعالیٰ اُس فرسودہ مذہب کی حفاظت چھوڑ دیتا ہے اور بندوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اس میں تصرّف کریں اور اس سے کھیلیں۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تعلیم سے کھیل رہا ہے حالانکہ خدا اس تعلیم کو زمانہ کے مطابقِ حال نہ پا کر اسے بندوں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کا ہاتھ اس سے اُٹھا چکا ہوتا ہے۔
پس فرمایا کہ پیغامِ الٰہی کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں:
(۱) جب وہ ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے تو ہم اس سے بہتر تعلیم لاتے ہیں۔ بہتر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پہلی تعلیم ناقابلِ عمل ہو چکی ہوتی ہے اور اب اس سے بہتر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بہتر کی ضرورت نہ ہوتی تو پہلی تعلیم ہی کافی ہوتی۔ اسی حقیقت کے اظہار کیلئے کے الفاظ استعمال فرمائے۔
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ جب تعلیم تو قابلِ عمل ہو مگر لوگ اس پرعمل ترک کر دیں اور اپنے لئے خود ایسے قواعد تجویز کر لیں جو الٰہی تعلیم کے مخالف ہوں۔ اس حالت میں نئی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پُرانی تعلیم کی حکومت کو ازسرِنو قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرمایا یعنی جب تعلیم اصلی حالت میں موجود ہو صرف لوگوں نے اس پر عمل چھوڑ دیا ہو تو ہم پھر ویسی ہی تعلیم لے آتے ہیں یعنی اسی تعلیم کو دوبارہ قائم کر دیتے ہیں۔ مِثْلکا لفظ خداتعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے تا یہ بتائے کہ پہلی تعلیم چونکہ مَر چکی ہوتی ہے اس لئے ہم اس میں نئی زندگی پیدا کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پہلی تعلیم کا مِثل ہوتی ہے۔
پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پیغامِ الٰہی بھی ایک عرصہ کے بعد:
(۱) یاقابلِ عمل نہیں رہتا ۔
(۲) یا لوگ اس پر عمل ترک کر دیتے ہیں۔
قابلِ عمل نہ رہنا دو طرح ہوتا ہے:-
(۱) لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں۔
(۲) زمانہ کے مطابق تعلیم نہیں رہتی۔
ان دونوں حالتوں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی بھی دو سنتیں جاری ہیں۔ جب کلام ناقابلِ عمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے منسوخ کر دیتا ہے۔ اور اس سے بہتر تعلیم بھیج دیتا ہے کیونکہ زمانہ ترقی کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب لوگ عمل ترک کر دیں لیکن تعلیم محفوظ ہو تو اللہ تعالیٰ اسی کلام کو دُہرا دیتا ہے اور اُس کا مِثْل نازل کر دیتا ہے یعنی اس تعلیم میں ایک نئی زندگی ڈال دیتا ہے۔
اِس آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اِس بات پر قادر نہیں۔ ان الفاظ سے وہ معنی جو عام طور پر اس آیت کے کئے جاتے ہیں یعنی کہا جاتا ہے کہ اس آیت میں قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا ذکر ہے ردّ ہو جاتے ہیں کیونکہ قرآنی آیات کے منسوخ ہونے سے قدرتِ الٰہی کے اظہار کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ قدرت کا مفہوم انہی معنوں میں پایا جاتا ہے جو مَیں نے کئے ہیں۔
پھر یہ جو فرمایا ہے کہ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ہر کلام جب آئے یا جب اسے دوبارہ زندہ کیا جائے، وہ ایک انقلاب چاہتا ہے اور یہی امر لوگوں کے خیال میں ناممکن ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ایسے انقلاب پر قادر ہے خواہ نئے کلام کے ذریعہ سے وہ انقلاب پیدا کر دے خواہ پُرانے کلام ہی کو زندہ کر کے انقلاب پیدا کر دے۔
یہ معنی جو مَیں نے کئے ہیں گو جدید ہیں لیکن آیت کے تمام ٹکڑوں کا حل انہی معنوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلے مفسّر اس کے معنی یہ کیا کرتے تھے کہ قرآن میں بعض آتیں اللہ تعالیٰ نازل کرتا اور پھر انہیں منسوخ کر دیتا ہے۔ مخالف ان معنوں پر تمسخر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ آیت نازل کر کے اسے منسوخ کیوں کرتا ہے؟ کیا اسے حکم نازل کرتے وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ حکم لوگوں کے مناسبِ حال نہیں۔ دوسرے نسخ سے تو اس کی کمزوری ثابت ہوتی ہے۔ پھر اس کے ذکر کے بعد اس فقرہ کے کیا معنی ہیں کہ مگر جو معنی مَیں نے کئے ہیں ان میں ایک زبردست قدرت کا اظہار ہے یہ آسان کام نہیں کہ ایک ایسے قانون کو جو لوگوں کے دلوں پر نقش فِی الْحَجَرِ کی طرح جما ہوئا ہو اور جسے چھوڑنے کیلئے وہ کسی صورت میں تیار نہ ہوں، مٹا کر اس کی جگہ ایک نیاقانون قائم کر دیا جائے۔ یا جب کہ ایک قوم مر گئی ہو اور الٰہی قانون کو پسِ پُشت ڈال چکی ہو اور اس کی خوبیوں سے غافل ہو گئی ہو پھر اس مُردہ قوم میں سے ایک حصہ کو زندہ کر کے اُس بُھلائی ہوئی تعلیم کی محبت اُس کے دل میں ڈال دے اور اس کے ذریعہ سے پھر اسی تعلیم کی حکومت دُنیا میں قائم کر دے۔ یقینا یہ نہایت ہی مشکل کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت پر دلالت کرتا ہے اور اسی قدرت کے مزید اظہار کیلئے آیت کے آخر میں یہ مزید الفاظ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں کہ کیا تمہیں علم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ایسا انقلاب نہایت آسانی سے پیدا کر سکتاہے۔
السَّاعۃ کے معنی
غرض اولوالعزم انبیاء ایک قیامت ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے پُرانی نسل مِٹا دی جاتی اور ایک نئی نسل قائم کی جاتی ہے۔
اور چونکہ وہ نیا نظام قائم کرتے ہیں ان کے زمانہ کو مذہبی اصطلاح میں یومِ قیامت بھی کہتے ہیں۔ ان کے زمانہ میں یومِ قیامت کی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یعنی ایک دفعہ سب اہلِ زمانہ پر موت اور پھر دوسری دفعہ احیاء۔ انبیاء کی بعثت کے ساتھ ہی پہلے تو دنیا پر موت طاری ہو جاتی ہے اور قُربِ الٰہی کے وہ تمام دروازے جو پہلے اس کے لئے کُھلے تھے بند کر دیئے جاتے ہیں اور پھر اس کے زمانہ کے نبی کے ذریعہ سے نئے دروازے قُربِ الٰہی کے کھولے جاتے ہیں۔ گویا پہلی عمارت کو وہ گِرا دیتے ہیں اور اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ خواہ پہلی عمارت منسوخ شُدہ شریعت کی ہو یا لوگوں کی خود ساختہ عمارت ہو جِسے محفوظ شریعت کو متروک قرار دے کر لوگوں نے خود کھڑا کر لیا ہو۔ اس زمانہ کو قرآنی اصطلاح میں السَّاعَۃ بھی کہتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتاہے

۲۴؎ یعنی جو لوگ کافر ہیں انہیں ورلی زندگی کے سامان بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں سے جو مؤمن ہیں ٹھٹھے کرتے ہیں۔ حالانکہ قیامت کے دن مؤمن ان پر غالب ہوں گے۔
گو ِ کا نظارہ اس قیامت کے دن کو بھی ہو گا جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جبکہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مؤمن جنت میں مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت نہیں حاصل کر سکتے اور اس آیت میں اس امر کو صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہ دن ہے جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی اور کفار کو شکست، جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ جو اکیلا تھا اور قوم کے ظلموں کا ستایا ہؤا‘ وہ حاکم ہو گیا اور وہ جو ملک کے بادشاہ تھے محکوم بن گئے۔
اِقْتِرَابُ السَّاعَۃ کے معنی
ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے زمانہ کو اَلسَّاعَۃُ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔
چنانچہ فرماتا ہے۔ ۲۵؎ قیامت آ گئی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے۔
چاند کس طرح پھٹا؟ مَیں اس موقع پر اس بحث میں نہیں پڑتا بلکہ میں آیت کے پہلے حصہ کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اس چاند پھٹنے کے واقعہ پر تیرہ سَو سال گزر چکے ہیں اور چودھویں صدی کا نصف سے بھی زیادہ وقت گذر چکا ہے مگر قیامت ابھی تک نہیں آئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ چونکہ چاند پھٹ گیا ہے اب قیامت کو آئی سمجھو۔ یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ چاند کے پھٹنے کا اس قیامت سے کیا تعلق ہے جو مَابَعْد الْمَوْت آنے والی ہے؟ چاند کے پھٹنے سے قیامتِ موعودہ کی طرف اشارہ نکالنا تو وہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ ماروں گُھٹنا پُھوٹے آنکھ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں قیامت سے مراد مَابَعْدالْمَوْت قیامت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ مراد ہے اور اُس روحانی احیاء کی طرف اشارہ ہے جو آپ کے ذریعہ سے ہونے والا تھا اور چاند کے پھٹنے کا جو واقعہ تھا وہ جس رنگ میں بھی تھا وہ درحقیقت ایک پیشگوئی تھا عرب کی حکومت کے زوال کی نسبت۔ چنانچہ علم تعبیرالرؤیا میں چاند سے مراد حکومتِ عرب بیان کی گئی ہے۔ پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ چاند کے پھٹنے کا واقعہ عرب کے موجودہ نظام کے مِٹ جانے پر دلالت کرتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ اور آپ کے نظام کا قیام ہو گا۔ پس ہم تم لوگوں کوتوجہ دلاتے ہیں کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی اپنی اصلاح کر لو۔
اِنشقاقِ قمر کے معنی
یہ امر کہ چاند کو کشف یا خواب میں دیکھنے سے مراد عرب حکومت یا عرب سردار ہوتا ہے عربوں میں ایسا تسلیم شُدہ تھا کہ غیر مذاہب
کے لوگ بھی اس سے یہی مراد لیتے تھے۔ چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ فتح خیبر کے بعد یہود کے ایک سردار کی لڑکی حضرت صفیہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان کے ایک گال پر لمبے لمبے کچھ نشان تھے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ یہ نشان کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ چاند ٹوٹ کر میری گود میں آ پڑا ہے۔ میں اِس خواب سے گھبرائی اور میں نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنائی۔ اُس نے میرے والد سے جو یہود کے بڑے علماء سے تھے اِس کا ذکر کیا۔ اُس نے جونہی یہ خواب سُنی طیش میں آ گیا اور زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تُو عربوں کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ چاند سے مراد تو خواب میں عربوں کا بادشاہ ہوتا ہے اور اُس کے گود میں گرنے سے مراد اُس سے نکاح ہے۔ یہ تھپڑ اِس زور سے رسید کیا گیا کہ اس کا نشان میرے گال پر پڑ گیا اور اب تک ہلکے سے نشان اس کے باقی ہیں۔
غرض شقّ القمر کا نظارہ جس رنگ میں بھی دکھایا گیا تھا درحقیقت ایک پیشگوئی پر مشتمل تھا جو عربوں کے نظامِ حکومت کی تباہی کی خبر دے رہی تھی۔ اِس کی وضاحت قرآن کریم نے اس آیت میں کی ہے اور بتایا ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ عرب حکومت کا وقتِ آخر آ گیا اور اِس کی جگہ جلد ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت جاری کر کے روحانی قیامت برپا کر دی جائے گی۔
لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ کے معنی
لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُکا الہام جو ایک سے زیادہ نبیوں
کوہوئا ہے اِس کے بھی یہی معنی ہیں کہ تُو اپنے زمانے کے نظام کے لئے بطور ستون کے ہے۔ اگر تُو نہ ہوتا تو ہم اس عالَم کو جس کا مدار تجھ پر ہے پیدا ہی نہ کرتے۔ ورنہ یہ مراد نہیں کہ کئی انبیاء ایسے گذرے ہیں کہ اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس عالَم کو پیدا ہی نہ کرتا۔ ہر روحانی اپنے زمانہ کے نبی کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی روحانی قابلیتوں کا ظلّ ہوتا ہے اور نبی گویا اس انقلاب کے لئے بمنزلہ والد کے ہوتا ہے اور جس طرح بغیر باپ کے اولاد نہیں ہوتی اسی طرح روحانی انقلاب بغیر نبی کے نہیں ہو سکتا۔ پس یہ کہنا درست اور ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ نبی نہ ہوتا تو وہ نئے روحانی آسمان و زمین جو اس کے ذریعہ سے پیدا کئے گئے نہ پیدا کئے جاتے۔
لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ کا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوئا ہے۲۶؎ اور آپ سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی الہام ہو چکا ہے۔۲۷؎ اب اگر اس الہام میں زمین و آسمان سے مراد مادی نظامِ شمسی کو لیا جائے تو یہ عجیب بات ہو گی کہ پہلے خدا تعالیٰ ایک نبی کو کہتا ہے کہ اگر تُو نہ ہوتا تو میں یہ زمین و آسمان نہ بناتا۔ اور اس کے بعد ایک دوسرے نبی کو کہتا ہے کہ اگر تُو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو نہ بناتا پس یہ امر واضح ہے کہ اس آسمان و زمین سے مراد روحانی نظام ہے جو اس نبی کے ذریعہ سے دنیا میں قائم کیا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نبی جس کے ذریعہ ایسا انقلاب کیا گیا ہے اسے ایسا ہی الہام ہوئا ہو گا۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے زمانوں اور سب انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اس لئے آپ کے لئے یہ الہام سب زمانہ کو مدنظر رکھ کر سمجھا جائے گا اور باقی نبیوں کے لئے مخصوص الزمان اور مخصوص المقام سمجھا جائے گا۔
اَفْلَاکَ کے معنی اور انجیل
زمین و آسمان کے یہ معنی جو مَیں نے کئے ہیںانجیل سے بھی اِن معنوں کا ثبوت ملتا ہے۔ متی باب ۵ آیت۱۸
میں لکھا ہے۔
’’کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔‘‘۲۸؎
اِس آیت میں آسمان و زمین سے مراد موسوی نظام ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تک موسوی سلسلہ کا زمانہ ہے‘ توریت کی تعلیم کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہاں جب یہ سلسلہ مٹ جائے گا تب بیشک یہ تعلیم قابلِ عمل نہ رہے گی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن کریم نے آ کر توریت کی تعلیم کو منسوخ کر دیا اور توریت میں بھی لکھا ہے کہ موسیٰ کے بعد ایک اور شریعت آنے والی ہے۔ چنانچہ استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸‘۱۹ میں لکھا ہے۔
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تُجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سُنے گا تو میں اُس کا حساب اُس سے لُوں گا‘‘۲۹؎
اِن آیات سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:۔
(۱) یہودیوں کے لئے ایک اور نبی مبعوث ہونے والا ہے کیونکہ لکھا ہے۔’’میں ان کے لئے ایک نبی مبعوث کروں گا۔‘‘
(۲) وہ موسیٰ کی طرح صاحبِ شریعت ہو گا۔ کیونکہ لکھا ہے۔ ’’میں تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔‘‘
(۳) وہ نبی بنو اسماعیل میں سے ہو گا نہ کہ بنو اسرائیل میں سے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ نبی ’’ان کے بھائیوں میں‘‘ نہ کہ ان میں سے۔
(۴) یہود کے لئے اسکی اطاعت فرض ہو گی کیونکہ لکھا ہے کہ ان کے لئے وہ نبی مبعوث ہو گا۔
(۵) اگر یہود اس کی باتیں نہ مانیں گے تو تباہ کئے جائیں گے اور ان کی قیامت آ جائے گی کیونکہ لکھا ہے کہ جو اسکی باتیں نہ سنے گا۔ ‘’میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘
اس پیشگوئی کی موجودگی میں نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مادی نظامِ شمسی کے قیام تک موسوی شریعت قائم رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس کا منشاء یہی تھا کہ جب تک دوسرا نظامِ روحانی قائم نہیں ہوتا موسوی شریعت کا ہی دَور دَورہ رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔
مسیحِ موعود کیلئے قرآن میں لفظِ قیامت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کیلئے بھی قرآن کریم میں
قیامت کا لفظ استعمال ہوئا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-



۳۰؎
فرماتا ہے کافر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت کوئی نہیں اور مُردے دوبارہ زندہ نہیں ہونگے یہ بالکل غلط ہے اور ہم اس کے لئے شہادت کے طور پر یومِ قیامت اور نفسِ لوّامہ کو پیش کرتے ہیں۔
اب یہاں یقینی طور پر یومِ قیامت سے مراد دنیا کا کوئی واقعہ ہے کیونکہ یومِ قیامت اور نفسِ لوّامہ دو چیزوں کو مُردے جی اُٹھنے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگر یومِ قیامت سے دنیا کی ہلاکت کے بعد کا یومِ قیامت مراد ہو تو یہ گواہی بے فائدہ ہو جاتی ہے کیونکہ جو امر مرنے کے بعد ظاہر ہو گا اُس سے اِس دنیا کے لوگ اپنے ایمان کی درستی میں کیا مدد لے سکتے ہیں؟ بحث تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ کیا مُردے پھر جی اُٹھیں گے؟ اور معترضین کو یہ کہہ کر تسلی دلائی جاتی ہے کہ مُردوں کے جی اُٹھنے میں تم کو کیا شک ہو سکتا ہے کیا قیامت کا دن اس پر شاہد نہیں ہے؟ اِس دلیل سے کون سا انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ جب قیامت آئے گی اُس وقت تو سب انسان ختم ہو چکے ہوں گے۔ پھر یہ دلیل کس کے ایمان کو نفع دے گی؟ اعتراض تو زندہ لوگوں کو ہے ان کے لئے نفع مند دلیل تو وہی ہو سکتی ہے جو اسی دنیا میں ظاہر ہو۔
پس اس جگہ قیامت کے دن سے مراد کوئی ایسی ہی چیز ہونی چاہئے جو اسی دنیا میں ظاہر ہونے والی ہو تا کہ منکرین قیامت پر اس کے ذریعہ سے حُجّت بھی ہو اور ان کے ایمان کے لئے بھی اس سے راستہ کُھلے۔ عالمگیر قیامت کا دن تو اُسی وقت دلیل قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ بعض لوگ خود قیامت کے دن اس کے وجود سے انکار کریں۔ اُس وقت بیشک یہ دلیل معقول ہو سکتی ہے کہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہوئے پھر کس طرح قیامت کا انکار کر سکتے ہو؟ لیکن اِس دنیا میں وہ کسی صورت میں بھی دلیل نہیں بن سکتی۔ پس جن لوگوں نے اِس جگہ مراد قیامتِ کبٰری کے معنی لئے ہیں یا تو انہوں نے صرف ایک منفرد آیت کے معنی کر دیئے ہیں اور انکی یہ مراد نہیں کہ سیاق و سباق کو مِلا کر بھی اس آیت کے یہ معنی ہیں اور یا پھر سیاق و سباق پر انہوں نے غور نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کا ہی ایک واقعہ ہے جو قیامتِ کُبریٰ کی دلیل ہے جسے نفسِ لوّامہ کے ساتھ ملا کر جو قیامت بعد از ممات کا دوسرا ثبوت ہے بیان کیا گیا ہے۔ دو دلیلیں اس لئے دی گئی ہیں کہ معترضین مختلف زمانوں سے تعلق رکھ سکتے ہیں۔ پس ہر ایک زمانہ کے انسان کے لئے دلیل مہیا کر دی گئی تا ہر ایک فائدہ اُٹھا سکے۔ مثلاً مکہ والوں کے سامنے قیامت کی دلیل میں نفِس لوّامہ کو پیش کیا گیا ہے اور آخری زمانہ کے منکرین قیامت کے سامنے آخری زمانہ کے اس واقعہ کو جو قیامتِ کُبرٰی سے مشابہت کی وجہ سے قیامت کہلانے کا مستحق ہے پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کا مزید ثبوت اگلی آیات میں مہیا ہے اور وہ ثبوت مندرجہ ذیل آیات ہیں۔جب انسانی نظر تیز ہو جائے گی یعنی مشاہدہ سے زیادہ کام لیا جانے لگے گااور اسرارِطبیعیّت کا انکشاف کثرت سے ہو گا اور چاند کو گرہن لگے گا اور سورج کو بھی اس فعل میں اس کے ساتھ جمع کر دیا جائے گا۔ یعنی چاند گرہن کے بعد اُسی ماہ میں سورج کو بھی گرہن لگے گا اُس وقت انسان کہے گا کہ اب میں کہاں بھاگ کر جا سکتا ہوں؟
جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہے اِن آیات میں ایک ایسے زمانہ کی طرف اشارہ ہے جب انسان خدا سے بھاگ رہا ہو گا یعنی دہریت کی کثرت ہو گی اور قیامت کا انکار زوروں پر ہو گا اور علومِ ظاہری ترقی کر رہے ہونگے اور انسانی نظر غوامضِ ۳۱؎ قدرت کے معلوم کرنے میں بہت تیز ہو جائے گی اور چاند اور سورج کو گرہن ایک ہی ماہ میں لگے گا۔
اِس آخری علامت کے متعلق احادیث میں وضاحت موجود ہے جس سے اس زمانہ کی مزید تعیین ہو جاتی ہے اور وہ یہ حدیث ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی کے لئے ایک ایسا نشان ظاہر ہونے والا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کِسی مائمور مِنَ اللہ کے لئے ظاہر نہیں ہوئا اور وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کو گرہن کے ایّام کی پہلی تاریخ میں اور سورج کو گرہن کے ایام کی درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا۔
اس حدیث کے مضمون کی روشنی میں جب آیاتِ مذکورہ بالا کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں مہدی ء مسعود کا ذکر ہے اور اسی کے زمانہ کو قیامت کا دن قرار دے کر قیامتِ کُبرٰی کے لئے یعنی جب مُردے جی اُٹھیں گے ایک دلیل اور نشان قرار دیا ہے۔
قیامت کُبرٰی کے دو نشان
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قیامتِ کُبرٰی کیلئے دو نشان بتائے گئے ہیں۔ ایک وہ یوم القیامۃ جس
میں نظر تیز ہو جائے گی اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا اور دوسرا نفسِ لوّامہ۔ نفسِ لوّامہ کی گواہی تو ہر زمانہ میں حاصل ہے اور ہر زمانہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن اس خاص یوم القیامۃ کی گواہی سے وہی لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو آخری زمانہ میں ہوں۔ اِس واسطے دونوں زمانوں کے لوگوں کے ایمان کی زیادتی کے لئے دونوں قسم کی دلیلیں دی گئیں۔ بلکہ اگر گہرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہے ہی زیادہ تر موجودہ زمانہ کے متعلق۔ اور نفسِ لوّامہ کی دلیل بھی زیادہ تر آخری زمانہ کے لوگوں ہی سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اسی زمانہ میں عِلم النفس نے خاص ترقی کی ہے اور خیروشرّ کے مسائل پر نہایت تفصیلی بحثیں انسانی دماغ کی بناوٹ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہوئی ہیں اور یہی زمانہ ہے جس میں یہ دلیل زیادہ کار آمد ہو سکتی ہے کہ انسانی دماغ میں ایک حس ہے جو بعض امور کو بُرا اور بعض کو اچھا قرار دیتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے اگر صرف اسی امر کو دیکھا جائے کہ اچھے یا بُرے کا احساس انسانی نفس میں پایا جاتا ہے اور بعض حد بندیوں یا قیود کو وہ ضروری قرار دیتا ہے تو بھی اس امر کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی رنگ میں جزا ء و سزا کے ساتھ وابستہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا۔ اور یہ احساس اور اس کا طبعی باعث یوم القیامت اور بعث بعد الموت پر ایک زبردست شاہد ہے۔ اگر کوئی آخری حساب و کتاب نہیں تو طبع انسانی میں انفعال اور کسی اچھی چیز کیلئے خواہ وہ کچھ ہی ہو کوشش کا احساس کیوں پایا جاتا ہے؟
نیز آیاتِ مذکورہ بالا میں بعث بعد الموت کے ثبوت میں بعثِ دُنیوی کو پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام پر ایک زمانہ میں پھر موت آنے والی ہے جبکہ اسلام کی تعلیم تو زندہ ہو گی مگر مسلمان اسے چھوڑ بیٹھیں گے۔ اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک مائمور اور خادمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پھر اسے زندہ کرے گا اور یہ قیامت کا ایک زبردست ثبوت ہو گا کیونکہ سوائے خدا کے کون تیرہ سَو سال پہلے اسلام کی نشأۃ اُولیٰ کی اور پھر اس پر جمود کی حالت طاری ہو جانے کی اور پھر دوسری دفعہ اس زمانہ میں اِحیاء کی خبر دے سکتا ہے جبکہ چاند اور سورج کو ایک خاص مہینہ میں ایک مدعی کے زمانہ میں گرہن لگے گا اور دنیا ظاہری علوم سے پُر ہو گی اور دہریت کا غلبہ ہو گا؟ اور جب قرآن کریم کی بتائی ہوئی قیامت تیرہ سَو سال بعد آ جائے گی تو ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کا خدا عالِم الغیب بھی ہے اور قادر بھی۔ پھر اس عالِم الغیب خدا کی اِس خبر کو لوگ کس طرح جُھٹلا سکتے ہیں جو مَابَعْدالْمَوْت کے متعلق ہے اور اس قادر خدا کی قدرت کو دیکھ کر قیامت کے وجود کو کیونکر ناممکن قرار دے سکتے ہیں۔ چنانچہ جب پہلی قیامت کا ظہور ہو گا سمجھدار انسان کہے گا کہ اب بھاگنے کی کونسی جگہ ہے یعنی اس حُجّت کو دیکھ کر کوئی عقلمند انسان ایک زبردست ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا جس کے قبضہ میں سب کارخانہء عالَم ہے اور جسے طاقت ہے کہ جو چاہے کرے اور جو عالِم الغیب ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔
ہر نئے بنی کے زمانہ میں نئے آسمان و زمین کی تخلیق پر مسیح موعود کی شہادت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۵۶۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’ وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَخْلُقُ اٰدَمَ فَیَخْلُقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ یَخْلُقُ کُلَّ مَا لَا بُدَّ مِنْہُ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِیْنَ ثُمَّ فِیْ اٰخِرِ الْیَوْمِ السَّادِسِ یَخْلُقُ اٰدَمَ وَکَذٰلِکَ جَرَتْ عَادَتُہٗ فِی الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۔‘‘۳۲؎
کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ بات نازل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی آدم کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو آسمان اور زمین کو چھ دن میں پیدا کرتا ہے اور ہر ضروری چیز کو آسمان وزمین میں بناتا ہے۔ پھر چھٹے دن کے آخر میں آدم کو پیدا کرتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی سنت پہلے زمانوں میں تھی اور آخری زمانہ میں بھی وہ ایسا ہی کرے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہراُولوالعزم نبی کے زمانہ میں ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کی جاتی ہے۔ گویا روحانی طور پر دنیا بدل دی جاتی ہے اور پہلے نظام پر تباہی آ کر ایک روحانی قیامت کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی دنیا کو بخشی جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود کا ایک کشف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف بھی ہے کہ میں نے دیکھا میں اللہ تعالیٰ میں محو ہو
گیا ہوں اور:-
’’ اس حالت میں مَیں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر میں نے منشائے حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَائَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔ پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا۔ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ ۳۳؎
اس کشف سے بھی ظاہر ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص مشن ہوتا ہے اور وہ ایک ایسے تغیر کے لئے آتا ہے جو سابق نظام کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ہاں جب نئی شریعت آئے تو وہ پہلی شریعت کے مقابل پر نئی زمین اور نیا آسمان کہلاتی ہے کیونکہ خَیْرٌ مِّنْھَا ہوتی ہے اور اگر پہلی شریعت کے قیام ہی کے لئے کوئی نبی آئے تو اس کی بعثت کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کے زمانہ میں دنیا میں جو تہذیب اور تمدّن قائم ہوتا ہے اسے تباہ کر کے پھر نئے سِرے سے مذہب کی حقیقی حکومت دنیا میں قائم کرے اور انہی معنوں میں وہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بناتا ہے۔ یعنی گو دین جسے وہ قائم کرتا ہے پُرانا ہوتا ہے مگر دنیا کی نگاہوں میں وہ نیا ہوتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں وہ دنیا سے مٹ چکا ہوتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور تہذیب قائم ہوچکی ہوتی ہے۔
مذہبی تحریکات کے بڑے بڑے دَور کون سے ہیں؟
اِس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ دُنیوی تمدّن اور تہذیب کے ادوار کے مقابل پر الٰہی تہذیب کے جو دَور گزرے ہیں وہ کیا تھے سو یاد رکھنا چاہئے کہ:۔
دورِ آدم کا پیغام
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ موجود ہ نسلِ انسانی کیلئے سب سے پہلا دَور آدمؑ کا تھا۔ قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت
آتا ہے:۔
۳۴؎
اس سے ظاہر ہے کہ آدم وہ پہلے نبی تھے جنہوں نے تمدّن کی بنیاد ڈالی اور نظام کو قائم کیا مگر اس جگہ آدم سے مراد وہ آدم نہیں جن سے انسانی نسل چلی بلکہ وہ آدم مراد ہیں جن سے تمدّن کا دَور چلا۔ یعنی اس سے پہلے انسان تمدّن کے اُس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ شریعت کا حامِل ہوتا بلکہ ابھی وہ متمدّن بھی نہیں تھا اور نہ اس قابل تھا کہ انسان کہلاتا وہ زیادہ سے زیادہ ایک اعلیٰ حیوان کہلانے کا مستحق تھا۔
مَیں اس بات کا قائل نہیں کہ بندر سے انسان بنا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کو غلط ثابت کر سکتا ہوں۔
انسانی پیدائش ارتقائے مستقل سے ہوئی
مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی ترقی ارتقاء کے اصول کے مطابق
ہوئی ہے۔ اُس وقت انسان کی ایسی ہی حالت تھی جیسے بچہ کی۔ اب اگر کوئی چار سالہ بچہ کو کہے کہ تُو روزہ رکھ تو اُسے ہر شخص پاگل سمجھے گا اسی طرح ابتدا ء میں انسان کی ایسی حالت تھی کہ وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ شریعت کا حامِل ہوتا۔
دَورِ اوّل کی حقیقت
پس ایک زمانہ انسان پر ایسا آیا ہے کہ جب وہ گو انسان ہی کہلاتا تھا مگر ابھی وہ حیاتِ دائمی پانے کا مستحق نہیں تھا۔ جب
اس حالت سے اس نے ترقی کی اور اس کا دماغ اس قابل ہو گیا کہ وہ قانونِ شریعت کا حامل ہو سکے تو پہلا قانون جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُترا وہ یہ تھا کہ مِل کر رہو اور ایک افسر کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلا قانون لانے والا سادہ عبادتِ الٰہی کے علاوہ صرف یہی پیغام لے کر آیا تھا کہ تم عائلی اور تمدّنی زندگی اختیار کرو۔ تمہارا ایک حاکم ہونا چاہئے‘ تمہیں اُس کی اطاعت کرنی چاہئے، تم اپنے مقدمات اُس کے پاس لے جاؤ‘ اُس سے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کراؤ اور ہر بات قانون کے ماتحت کرو اور وہ پہلا انسان جس نے یہ قانون قائم کیا اس کا نام آدم تھا۔
اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے آدم کو دیکھیں تو وہ تمام اعتراضات حل ہو جاتے ہیں جو اس سے پہلے آدم کے واقعہ پر ہوئا کرتے تھے۔ مثلاً یہ جو آتا ہے کہ فرشتوں نے کہا۔
کہ کیا تُو اب زمین میں ایک ایسا شخص کھڑا کرنے والا ہے جو فساد کرے گا اور لوگوں کا خون بہائے گا؟ اِس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتوں کو کیونکر پتہ لگا کہ آدم کے ذریعہ سے خون بہیں گے جبکہ آدم ابھی پیدا بھی نہ ہؤا تھا؟
اس کے کئی جواب دیئے جاتے تھے مثلاً یہ کہ چونکہ حاکم فساد کو دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی فساد کرنے والے بھی ہونگے اس وجہ سے انہوں نے یہ سوال اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیا کہ کیا فسادی لوگ بھی دنیا میں پیدا کئے جائیں گے کہ جن کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے آدم کی پیدائش کی ضرورت ہے؟
بیشک خلیفہ کے لفظ سے یہ استنباط ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلوق فساد کرنے والی بھی ہو گی لیکن اگر یہ آدم نسلِ انسانی کا بھی پہلا فرد تھا تو پھر بھی یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ فساد تو کبھی آئندہ زمانہ میں آدم کی اولاد نے کرنا تھا پھر آدم کو خلیفہ کس غرض اور کس کام کے لئے بنایا گیا تھا؟ اور اگر خلیفہ کا وجود بغیر فساد کے بھی ہو سکتا ہے تو پھر فرشتوں کے اعتراض کی بنیاد کیا تھی؟
غرض اس تشریح سے جو گو غیر معقول نہیں اس سوال کا جواب نہیں آتا کہ فرشتوں کو اس سوال کا خیال کیوں پیدا ہوئا اور یہ معنی اس آیت کے معانی میں سے ایک معنی تو کہلا سکتے ہیں مگر مکمل معنی نہیں کہلا سکتے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ فرشتوں نے کہا جو قویٰ تُو نے آدم میں رکھے ہیں ان کے ماتحت ہمیں شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ضرور فساد کرے گا اور لوگوں کے خون بہائے گا حالانکہ آدم اگر خدا تعالیٰ کا نبی تھا تو اس نے وہی کچھ کرنا تھا جو خدا تعالیٰ اُسے حکم دیتا اس کے خلاف عمل وہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔
اس آیت کے معنی کرتے ہوئے یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بادی النظر میں اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ جس فعل کو فرشتے عجیب خیال کرتے ہیں وہ خود آدم کا فعل ہے نہ کسی دوسرے شخص کا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ کیا تُو اس دنیا میں ایسے وجود کو پیدا کرنے لگا ہے جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور دوسرا امر الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فساد اور خونریزی خود خلافت کے مفہوم سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ جس فساد کی طرف فرشتے اشارہ کرتے ہیں وہ کوئی ایسا فعل ہے جو خلیفہ بنانے کی اغراض میں شامل ہے۔ گویا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہی سے یہ معلوم ہوئا ہے کہ خداتعالیٰ آدم سے کوئی ایسا کام کروائے گا جو بظاہر فساد اور سفکِ دم نظر آتا ہے جس پر وہ تعجب کرتے ہیں کہ خدا کا خلیفہ اور فساد اور سفکِ دم کا مرتکب؟ یہ کیسی عجیب بات ہے؟
سوال کے اِن پہلوؤں کو مدّنظر رکھ کر دیکھو تو آدم کا جو مقام مَیں نے ظاہر کیا ہے اس کے ساتھ اس سوال کو پوری تطبیق حاصل ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ آدم جس کا ذکر سورہ بقرہ میں ہے نسلِ انسانی کا پہلا باپ نہیں بلکہ شریعت کے اَدوار کے پہلے دَور کا مُؤسِّس ہے اور جیسا کہ قرآن سے استنباط کر کے مَیں نے بتایا ہے وہ دَور دَورِ تمدّن تھا یعنی اُس دَور میں پہلی دفعہ تمدّن کو دنیا سے روشناس کرایا گیا تھا۔ آدم سے پہلے انسان تمدّن اور نظام کا جوا اپنی گردن پر اُٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا مگر اُس وقت چونکہ انسان میں یہ قابلیت پیدا ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے اَصلح وجود کو نبوت کا مقام دے کر دَور تمدّن کا بانی بنایا اس کے اجراء کا حکم دیا، اسی دَور میں عورت اور مرد میں زوجیت کے اصول پر رشتہ اتحاد کا رواج ڈالا گیا۔ ورنہ جیسا کہ ظاہر ہے چونکہ اس سے پہلے انسان میں تمدّنی قواعد کی اطاعت کا مادہ نہ تھا اُس وقت تک ازدواج کے متعلق کوئی اصول مقرر نہ تھے۔
تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے سوال کی وجہ
اِس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد فرشتوں کے سوال کا مطلب
واضح ہو جاتا ہے۔ جب تک تمدّنی نظام نہ ہو‘ ہر قسم کا قتل اور غارت ایک بُرائی کا رنگ رکھتا ہے اور گناہ کہلاتا ہے لیکن جونہی نظامِ حکومت قائم ہو بعض قسم کی لڑائیاں اور قتل جائز اور درست ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ حکومت کی اطاعت نہ کرتے ہوں‘ ان کے خلاف جنگ جائز سمجھی جاتی ہے جو فساد کرتے ہوں ان کا قتل جائز سمجھا جاتا ہے اور تمام حکومتیں ایسا کرتی ہیں بلکہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
پس جب آدم کے خَلِیْفَہ فِی الْاَرْضِبنانے کا ارادہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا تو ملائکہ نے حکومت کے تمام پہلوؤں پر نظر کی اور ان کو یہ نئی بات معلوم ہوئی کہ قتل اور خون اور جنگ کی ایک جائز صورت بھی ہے اور آدم سے بعض دفعہ یہ افعال صادر ہونگے اور خداتعالیٰ کی نظر میں اس کا یہ فعل پسندیدہ سمجھا جائے گا نہ کہ بُرا اور چونکہ اس سے پہلے نظامِ حکومت کی مثال نہ تھی یہ امر فرشتوں کو عجیب معلوم ہوئا۔ اُسی طرح جس طرح بعض لوگ جو حقیقتِ حال سے واقف نہیں رسول کریم ﷺ کی جنگوں پر اعتراض کرتے ہیں یا بعض قتل کی سزاؤں پر اعتراض کرتے ہیں۔ پس فرشتوں کا سوال آدم کے افعال ہی کے متعلق ہے جو وہ بحیثیت حاکمِ وقت کرنے والا تھا اور انہیں یہ امر عجیب معلوم ہوتا ہے کہ وہ افعال یعنی جنگ اور قتل جو پہلے گناہ سمجھے جاتے تھے اب ان کو بعض حالتوں میں جائز سمجھا جائے گا۔ اور وہ کہتے ہیں۔ الٰہی! آپ ایک ایسا خلیفہ مقرر کرتے ہیں اور ایسے کام اس کے سپرد کرتے ہیں کہ جو پہلے ناجائز تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتا ہے کہ ۳۵؎ تم نہیں جانتے کہ اس نظام میں کیا خوبیاں ہیں۔ گوبظاہر حکومت کے قیام سے بعض قسم کے جبر کی اجازت دی جاتی ہے اور انفرادی آزادی میں فرق آتا ہے لیکن بحیثیت ِمجموعی یہ جبر اور قواعد فرد کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی مفید ہوتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ جو معنی مَیں نے کئے ہیں ان کو مدّنظر رکھتے ہوئے کا فقرہ عبارت میں نہایت ہی عمدہ طور پر چسپاں ہو جاتا ہے اور دوسرے معنوں کے رو سے اس میں کسی قدر تکلّف پایا جاتا ہے یا کم سے کم وہ معنی ایک دوسرے معنوں کے محتاج رہتے ہیں۔
تمدّن کی حقیقت
یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا میں تمدّن کے معنی ہی یہ ہیں کہ خون اور فساد کی بعض جائز صورتیں پیدا کی جائیں۔ چنانچہ دیکھ لو زید قتل کرتا ہے اور
وہ دنیا کے نزدیک قاتل قرار پاتا ہے مگر جب اسی زید کو گورنمنٹ پھانسی دیتی ہے تو وہ قاتل نہیں بنتی بلکہ اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح لوگ اگر کسی کے مکان یا جائداد پر قبضہ کر لیں تو سب کہیں گے یہ فسادی ہیں مگر گورنمنٹ ملکی ضرورت کے ماتحت اگر جائدادوں پر قبضہ کر لے تو یہ فعل لوگوں کی نظر میں جائز سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو حبسِ بے جا میں رکھے تو یہ ظلم قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ اگر کسی کو نظر بند کر دے اور فردی آزادی میں دخل اندازی کرے تو یہ جائز بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پس جب خدا نے کہا کہ ہم دنیا کو متمدّن بنانے والے ہیں اور ہم ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والے ہیں جو قانون نافذ کرے گا، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کو قتل کی سزا دے گا، جو قانون کے ماتحت بعض لوگوں کی جائدادوں پر زبردستی قبضہ کرے گا، جو قانون کے ماتحت فردی آزادی میں دخل انذاز ہو گا، تو چونکہ یہ ایک بالکل نئی بات تھی اس لئے فرشتوں نے اس پر تعجب کیا اور وہ حیران ہوئے کہ اس سے پہلے تو قتل کو ناجائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک قسم جائز ہو جائے گی۔ پہلے فساد کو ناجائز قرار دیا جاتا تھا مگر اب فساد کی ایک قسم جائز ہو جائے گی۔
یہ نقطئہ نگاہ ابتدائی زمانہ کے لحاظ سے لوگوں کے لئے نہایت ہی اہم تھا بلکہ یہ اعتراض آج بھی دنیا میں ہو رہا ہے۔ چنانچہ یورپ میں ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو پھانسی کی سزا کے مخالف ہے اور وہ اس کی دلیل یہی دیتے ہیں کہ جب کسی کو قتل کرنا ناجائز ہے تو حکومت کسی آدمی کو کیوں قتل کرتی ہے؟ حالانکہ حکومت صرف پھانسی ہی نہیں دیتی اور کئی قسم کے افعال جو بعض گناہوں سے شکل میں مشارکت رکھتے ہیں‘ حکومت کرتی ہے مثلاً ٹیکس لیتی ہے ۔اور اگر پہلا خیال درست ہے تو یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ٹیکس کی وصولی چونکہ ڈاکہ اور چوری کے مشابہ ہے اسے بھی ترک کر دینا چاہئے لیکن یہ لوگ ٹیکسوں پر اعتراض نہیں کرتے۔ پس معلوم ہوئا کہ ان لوگوں کا پھانسی پر اعتراض محض ایک وہم ہے اور قلتِ تدبّر کا نتیجہ ہے۔
ابتدائی زمانہ میں چونکہ ابھی بادشاہت کا طریق جاری نہیں تھا دنیا تمدّن سے کوسوں دور تھی اس لئے جب کوئی شخص کسی کو مارتا تو سمجھا جاتا کہ اس نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ جب وہ کسی کو لُوٹتا تو ہر کوئی کہتا کہ یہ نہایت کمینہ حرکت کی گئی ہے۔ مگر جب خداتعالیٰ نے بادشاہت قائم کی اور یہ قانون جاری ہوئا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے اُسے قتل کیا جائے تو لوگوں کو سخت حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہوئا کہ ایک کے لئے مارنا جائز ہے اور دوسرے کیلئے ناجائز، ایک کے لئے لُوٹ کھسوٹ جائز ہے اور دوسرے کے لئے لُوٹ کھسوٹ ناجائز۔ گورنمنٹ ٹیکس لے لے تو یہ جائز ہو مگر دوسرا کوئی شخص زبردستی کسی کا روپیہ اُٹھا لے تو اسے ناجائز کہا جائے۔
گویا وہ سارے افعال جن کو بُرا سمجھا جاتا ہے انہیں جب حکومت کرتی ہے تو اس کا نام تہذیب رکھا جاتا ہے اور کوئی اِن پر بُرا نہیں مناتا لیکن افراد وہی فعل کریں تو اُسے بُرا سمجھا جاتا ہے۔
تمدّن کے قیام پر اعتراضات
غرض جب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اب دنیا میں نظام قائم ہونے والا ہے تو وہ بہت
حیران ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اس نئے قانون کے ماتحت اگر آدم خون کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا نیک ہے اگر آدم لوگوں سے زبردستی ٹیکس لے گا تو کہا جائے گا کہ یہ بڑا شریف ہے یہ عجیب فلسفہ ہے۔
آج ہم اس سوال کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے لیکن جب یہ قانون نیا نیا جاری ہوئا ہو گا لوگ سخت حیرت میں پڑ گئے ہوں گے۔ اب بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اِس قانون پر معترض ہیں۔ چنانچہ وحشی قبائل اب تک کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کیوں قتل کرتی ہے؟ اگر کوئی شخص ہم میں سے کسی کو قتل کرے گا تو ہم خود اُسے قتل کریں گے گورنمنٹ کو خواہ مخواہ درمیان میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور انہیں تسلی نہیں ہوتی جب تک خود انتقام نہ لے لیں۔ یہ انسانی دماغ کی ابتدائی حالت تھی اور بوجہ تعلیم کی کمی کے آج بھی بعض لوگوں کے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرشتے اس پر اعتراض نہیں کرتے کہ نسلِ آدم کی پیدائش سے قتل اور خون ہو گا بلکہ اس پر کہ انسانوں پر ایک ایسا شخص مقرر کیا جائے گا جو یہ بُرے افعال کرے گا اور اس کے ان افعال کو جائز قرار دیا جائے گا۔
یہ ایک ایسا ذہنی انقلاب تھا کہ اُس وقت کے لحاظ سے اس کو دیکھ کرعقلیں چکرا گئی ہونگی اور لوگوں پر اس نظام کو تسلیم کرنا کہ ایک شخص ان کے مالوں پر ان کی مرضی کے خلاف قبضہ کرے اور ان میں سے بعض کو پھانسی تک دے سکے اور اس کا یہ فعل جائز قرار دیا جائے سخت ہی گِراں گزرتا ہو گا۔ وہ کہتے ہوں گے کہ ہم نے ایک شخص کو مار دیا ہے تو یہ اس کے رشتہ داروں کا معاملہ ہے وہ جانیںاور ہم جانیں یہ شخص بیچ میں کُودنے والا کون ہے۔ چنانچہ آج بھی ناقص الخلقت لوگ انہی وہموں میں پڑے رہتے ہیں اور حکومتوں میں خلل ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ بیلجیئم نے تو غالباً پھانسی کی سزا اُڑا ہی دی ہے اور وہ محض اسی نقطہ نگاہ سے اُڑائی ہے جو میں نے بتایا ہے۔
اگر وہ لوگ جن کے کہنے پر پھانسی کی سزا اُڑائی گئی میرے سامنے ہوتے تو میں انہیں کہتا کہ پھانسی کی سزا تم مٹاتے ہو تو ٹیکس کا طریق کیوں نہیں اُڑاتے وہ بھی تو دوسروں کے اموال پر ناجائز تصّرف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یورپ کے دماغوں میں تنزّل پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے اور دراصل حکومتوں میں خلل ایسے ہی ناقص الخلقت لوگو ں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اب چونکہ تمدّن کا خیال راسخ ہو گیا ہے اب یہ خیال تو نہیں آتا کہ حکومت سِرے سے اُڑا دی جائے ہاں یہ خیال آتا ہے کہ شاید اس کی جگہ دوسری حکومت ہو تو وہ ہمارے حقوق کا زیادہ خیال رکھے اور اس وجہ سے تغیر کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مگر وحشی قبائل کی اب بھی یہی حالت ہے کہ وہ حکومت اور تمدّن کو ہر رنگ میں ناپسند کرتے ہیں اور اسے برداشت کرنا ان پر سخت گِراں گزرتا ہے اور وہ دوسرو ںکی دخل اندازی پر سخت حیران ہوتے ہیں۔ مثلاً ان کے ننگا پِھرنے پر اگر حکومت معترض ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ننگے پھرتے ہیں تو کسی کا کیا حق ہے کہ وہ ہمیں کپڑے پہنائے؟ ہمیں ننگا رہنے سے ہوا لگتی ہے اور مزا آتا ہے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہماری آزادی میں کوئی اور مداخلت کرے۔
چنانچہ برطانوی تصرّف کی ابتداء میں جب ننگے حبشی افریقہ کے شہروں میں داخل ہونے کے لئے آتے تو شہر کے دروازوں پر حکومت کی طرف سے افسر مقرر ہوتے تھے وہ انہیں تہہ بند دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تہہ بند پہن کر شہر جا سکتے ہو ننگے نہیں جا سکتے۔ اس پر وہ تہہ بند باندھ تو لیتے مگر اِدھر اُدھر دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں کوئی حبشی ان کی اس بے حیائی کو تو نہیں دیکھ رہا اور جب وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تو آنکھیں بند کر لیتے کہ ایسی بے حیائی ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ پھر جب شہر سے نکلتے تو جلدی سے تہہ بند افسر کی طرف پھینک کر بھاگ جاتے۔
بلکہ اب تو یورپ میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ننگے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ننگا رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بلکہ ایک دفعہ تو اس بات پر لڑائی ہو گئی کہ وہ لوگ زور دیتے تھے کہ ہم ننگ دھڑنگ شہر میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پولیس یہ کہتی کہ کپڑے پہن کر آؤ۔ وہ کہتے تم ہوتے کون ہو جو ہماری آزادی میں دخل دیتے ہو؟ تم آنکھیں بند کر لو اور ہماری طرف نہ دیکھو۔ مگر تم ہمیں مجبور کیوں کرتے ہو کہ ہم ضرور کپڑے پہنیں؟ آخر جب جھگڑا بڑھا تو پولیس کو گولی چلانی پڑی۔
یہ بھی یورپ کے تنزّل کی ایک علامت ہے کہ اب وہاں کے ایک طبقہ کی دماغی طاقتیں بالکل کمزور ہو گئی ہیں۔ یورپ میں بعض کلبیں ایسی ہیں کہ ایسا شخص کسی صورت میں بھی ان کا ممبر نہیں بن سکتا جو کپڑے پہن کر نہاتا ہو کیونکہ ان کے نزدیک ابھی وہ شخص پورا مہذّب نہیں ہوئا ۔
مَیں نے اس کے متعلق ایک کتاب بھی پڑھی ہے جس میں ایک ڈاکٹر لکھتا ہے کہ میری بیٹی ننگے مذہب میں شامل ہو گئی۔ مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اس پر سختی کرنی شروع کر دی۔ آخر ایک دن بیٹی نے مجھے کہا۔ ابّا! ذرا چل کر دیکھو تو کہ جن کو آپ بدتہذیب کہتے ہیں وہ کتنے مہذّب اور شائستہ لوگ ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ ایک دن میری بیٹی مجھے زبردستی اس سوسائٹی میں لے گئی۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سب لوگ ننگے پھر رہے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر پہلے تو شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا مگر پھر میں نے دیکھا کہ ان کے چہروں پر اتنی معصومیت برس رہی ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں۔ چنانچہ یہ دیکھتے ہی میرے خیالات بھی بدل گئے اور میں بھی کپڑے اُتار کر اُن میں شامل ہو گیا۔
غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے پہلی دفعہ نسلِ انسانی میں تمدّن قائم کیا اور فرمایا کہ تم میں سے بعض خواہ ننگے پھرنے کے قائل ہوں مگر ہم انہیں ننگا نہیں پھرنے دینگے گویا انسانی حریت پر آدم نے بعض قیود لگا دیں اور اسے ایک قانون کا پابند کر دیا۔
تمدّنی حکومت کے فوائد
آج آپ لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے اور ان پر ہنستے ہیں مگر جب پہلے پہل آدم نے یہ باتیں لوگوں کے سامنے
پیش کی ہوں گی تو میں سمجھتا ہوں اُس وقت خونریزیاں ہو گئی ہونگی اور قوموں کی قومیں آدم کے خلاف کھڑی ہوگئی ہونگی۔
جب آدم نے انہیں کہا ہو گا کہ کپڑے پہنو تو کئی قبائل کھڑے ہو گئے ہونگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہو گا کہ حریت ضمیر کی حفاظت میں کھڑے ہو جاؤ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کے ساتھیوں کو وہ دلائل بھی سکھائے کہ کیوں نظام کی پابندی تمہارے لئے مفید ہو گی۔ فرماتا ہے اے آدم! جب لوگ اعتراض کریں اور کہیںکہ اس تمدّنی حکومت کا کیا فائدہ ہے؟ تو تم انہیں کہنا کہ اگر تم اس جنت نظام میں رہو گے تو بھوکے نہ رہو گے، ننگے نہ رہو گے، پیاسے نہ رہو گے اور دھوپ کی تکلیف نہ اُٹھاؤ گے اور یہی مذہبی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملکی بہبودی کے سامان کرے۔ لوگوں نے غلطی سے قرآن کریم کی اس آیت کے یہ معنی لئے ہیں کہ آدم ایسے مقام پر رکھا گیا تھا جہاں نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس میں دراصل بتایا یہ گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کے لئے کام مہیا کرے۔ اگر کوئی کام نہ کر سکتا ہو تو اس کے لئے خوراک مہیا کرے، پانیوں اور تالابوں کا انتظام کرے اور مکانوں کا انتظام کرے۔ گویا کھانا‘ پانی‘ مکان اور کپڑا‘ یہ چاروں چیزیں حکومت کے ذمہ ہیں اور یہ چاروں باتیں ۳۶؎ میںبیان کی گئی ہیں۔کہ اَے آدم! اگر لوگ اعتراض کریں تو تُو انہیں کہدے کہ حکومت کا پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ تم بھوکے نہیں رہو گے۔ چنانچہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ خواہ کوئی جنگل میں پڑا ہو اس کے لئے کھانا مہیا کرے۔ اور پھر تم ننگے بھی نہیں رہو گے کیونکہ تمہارے کپڑوں کی بھی حکومت ذمہ وار ہو گی۔ اسی طرح میں بتایا کہ حکومت تمہارے پانی کی بھی ذمہ وار ہے۔ اور میں بتایا کہ تمہارے لئے مکانات بھی مہیا کئے جائیں گے اور جس حکومت میں یہ چاروں باتیں ہوں وہ نہایت اعلیٰ درجہ کی مکمل امن والی حکومت ہوئا کرتی ہے۔
پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بیشک انفرادی آزادی پر پابندی گراں ہے لیکن تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ نظام کے لئے کچھ پابندیاں قبول کرو کیونکہ اس کے بغیر نہ بُھوک پیاس کا‘ نہ لباس و مکان کا اور نہ دائمی امن یعنی جنت کا انتظام ہو سکتا ہے‘ پس یہ قیود خود تمہارے فائدہ کے لئے ہیں۔
غرض آدم کے وقت تک انسان کا دماغ پورا نشوونما نہیں پا چکا تھا اور گناہ بھی پورے ایجاد نہ ہوئے تھے سوائے چند ایک کے۔ پس ان کے لئے کچھ احکام دے دیئے گئے اور وہ اسی قدر تھے جس قدر کہ نظامِ حکومت کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس لئے آدم کے متعلق سارے قرآن کریم میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ وہ مسائل شرعیہ کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا۔ جہاں ذکر آتا ہے انہی چار چیزوں کا آتا ہے۔
پس حضرت آدم نے صرف دنیا کو متمدّن بنایا مگر یہ اُس وقت کے لئے ایک انقلاب تھا اور درحقیقت عظیم الشان اِنقلاب کہ دنیا کا موجودہ تمدّن اسی کا نتیجہ ہے۔
دَورِ ثانی۔ نوحؑ کی تحریک
اس کے بعد دوسرا دَور آیا جب آہستہ آہستہ آدم کے متّبع افراد نے ترقی کی اور انہوں نے دنیا میں
کارہائے نمایاں سرانجام دینے شروع کر دیئے اور انسانی تمدّن ترقی کرنے لگا اور انسان کو تمدّن سے جو وحشت ہوئا کرتی تھی وہ جاتی رہی اور وہ اس بات کا عادی ہو گیا کہ انفرادی آزادی قربان کر کے مجموعی رنگ میں قوم کے فائدہ کے لئے قدم اُٹھائے۔ اس کے نتیجہ میں مسابقت کا مادہ پیدا ہوئا اور بعض لوگ نہایت ذہین ثابت ہوئے اور بعض کُند ذہن نکلے۔ کوئی اپنے کام میں نہایت ہی ہوشیار ثابت ہوئا اور کوئی نکمّا، کوئی اپنی لیاقت کی وجہ سے بہت آگے نکل گیا اور کوئی پیچھے رہ گیا کیونکہ مختلف انسانوں کے قویٰ میں تفاوت تو ہوتا ہی ہے مگر اس کا ظہور تمدّن کی زندگی میں ہوتا ہے اور جس قدر تمدّن پیچیدہ اور لطیف ہوتا جائے اسی قدر انسانی قابلیتوں کا تفاوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اگر دو متفاوت القویٰ انسانوں کو ادنیٰ تمدّن کے دائرہ میں کام پر لگایا جائے تو گو تفاوت ظاہر ہو گا مگر اس قدر نمایاں نہیں ہو گا جس قدر کہ اس وقت جبکہ انہیں کسی اعلیٰ تمدّن کے ماتحت کام کرنا پڑے۔ اعلیٰ تمدن میں تو بعض دفعہ اس قدر فرق ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ قابلیت کا آدمی کسی اور ہی جنس کا نظر آنے لگتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی آدم کے دَور کے آخر میں ظاہر ہونے لگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوئا کہ جو آدمی معمولی تھے انہوں نے بعض آدمیوں کو خاص قابلیتوں کا مالک متصور کرلیا اور چونکہ علم النفس کا فلسفہ ابھی ظاہر نہ ہوئا تھا اور علم کی کمی کی وجہ سے اس زمانہ کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ان میں سے اعلیٰ طاقتوں کا مالک ہے تو ضرور اُسے کوئی اور طاقت جو انسانیت سے بالا ہے حاصل ہے۔
گناہ کی ترقی کس طرح ہوئی
اس لئے ان لوگوں میں پہلا احساس شرک کا پیدا ہوئا اور انہوں نے اپنے میں سے بعض کو خدائی
طاقتوں سے متصف خیال کر لیا اور یہ خیال کرنے لگ گئے کہ فلاں آدمی جو اتنا قابل، اتنا مدبّر، اتنا سمجھدار اور اتنا عالم تھا وہ آدمی نہیں بلکہ خدا تھا۔ اگر آدمی ہوتا تو اس کی قابلیّتیں ہم سے زیادہ نہ ہوتیں اور اس طرح شرک کی ابتداء ہوئی۔ جب مادہء فکر کے ترقی کر جانے کے سبب سے ایک طرف تو شرک کی بیماری لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گئی اور دوسری طرف انسان میں وہ گناہ پیدا ہونے لگے جو تمدّن کا لازمی نتیجہ ہیں اُس وقت اللہ تعالیٰ نے نوحؑ کو بھیجا۔
دَورِ ثانی کا پیغام ۔ نزولِ شریعت
گویا یہ تہذیب الٰہی کا دوسرا دَور تھا جو نوحؑ سے شروع ہوئا ۔ نوح ؑاُس وقت آئے جب
صفاتِ الٰہیہ کا لوگوں کے دلوں میں احساس پیدا ہو گیا تھا اور صفاتِ الٰہیہ کے احساس کے بعد ہی شریعت کا احساس پیدا ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت نوحؑ کے متعلق فرمایا کہ اَوَّلُ نَبِیٍّ شَرَعَتْ عَلٰی لِسَانِہِ الشَّرَائِعُ ۳۷؎ کہ نوحؑ وہ پہلا نبی تھا جس پر شریعت کا نزول ہوئااور تمدّنی قواعد کو ایک باقاعدہ قانون کا رنگ چڑھایا گیا کیونکہ اس زمانہ میں انسانی دماغ ترقی کر کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا تھا کہ اس کے لئے اس قسم کی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ حدیث میں جو آتا ہے کہ اول نَبِّیٍ شرعت علیٰ لِسانہ الشرائع اس کے مضمون کا قرآن شریف سے بھی پتہ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
۳۸؎ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ہم نے تیری طرف جو وحی نازل کی ہے یہ ویسی ہی وحی ہے جیسی وحی نوحؑ اور اسکے بعد کے انبیاء کی طرف نازل کی گئی تھی۔ گویا پہلی وحی عقائد کی نسبت نوحؑ کو ہوئی تھی اور سب سے پہلے تفصیلاتِ صفاتِ الٰہیہ کا دروازہ اس پر کھولا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک انسانی دماغ بہت ترقی کر گیا تھا اور اس نے صفاتِ الٰہیہ کا اِدراک کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور اس فکر میں ٹھوکر کھا کر اس نے شرک کا عقیدہ ایجاد کر لیا تھا۔ چنانچہ شرک کا ذکر قرآن کریم میں نوحؑ کے ذکر کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔
پس نوحؑ اوّل شارع نبی تھے ۔ اِن معنوں میں کہ اِن کے زمانہ میں انسان روحانیت کی باریک راہوں پر قدم زن ہونے لگ گیا تھا اور اُس کا دماغ مافوق الطبعیات کو سمجھنے کی کوششوں میں لگ گیا تھا۔
تیسرا دَور۔ ابراہیمی تحریک
اِس کے بعد تیسرا دَور ابراہیم ؑ کا ہے۔ گو نوحؑ کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے زمانہ میں
شرک ہو چکا تھا اور اس نے شرک کو سختی سے روکا۔ لیکن درحقیقت وہ دَور صفاتِ الہٰیہ کے احساس کا ابتدائی دَور تھا اور شرک بھی صرف بسیط شکل میں تھا۔ بعض لوگ بزرگوں کے مجمسے پوجنے لگ گئے تھے۔ـ بعض اور نے کوئی اور سادہ قسم کا شرک اختیار کر لیا تھا مگر ابراہیم ؑ کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی مضمون بن گیا تھا اور اَب عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہو گیا تھا اور اِس کے ساتھ توحید کی باریک راہیں نکل آئی تھیں جن پر عمل کرنا صرف توحید کے موٹے مسائل پر عمل کرنے سے بہت مشکل تھا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بُت پرستی دنیا میں آج بھی موجود ہے۔ مگر آج جب بُت پرستوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کیوںبُت پرستی کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں ہم تو کوئی بُت پرستی نہیں کرتے۔ ہم تو صرف اپنی توجہ کے اجتماع کے لئے ایک بُت سامنے رکھ لیتے ہیں۔ گویا شرک تو وہی ہے جو پہلے تھا مگر اَب شرک کو ایک نیا رنگ دے یا گیا ہے۔ اِسی طرح ابراہیم ؑ کے زمانہ میں شرک کو نیا رنگ دے دیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ۳۹؎ اور نوح ؑکی نسبت یہ ایک دفعہ بھی نہیں آیا۔ کیونکہ زمانہ نوح ؑ،کامل شرک کا نہ تھا۔ صرف سطحی شرک میں لوگ مبتلا تھے۔ جس سے بچنا زیادہ عقل نہیں چاہتا تھا اور بتوں کے آگے جُھکنے یا نہ جُھکنے کے مسئلہ کو ہر شخص سمجھ سکتا تھا۔ لیکن ابراہیمؑ کے وقت میں شرک ظاہری رسوم سے نکل کر باطنی رسومات کی حد تک پہنچ گیا تھا اور باوجود بتوں کے آگے نہ جُھکنے کے بوجہ فلسفہ کی ترقی کے اور فکر کی بلندی کے ذہنی شرک کی ایک اور قسم پیدا ہو گئی تھی جس کا قلع قمع ابراہیم ؑ نے کیا۔
ابراہیمی تحریک کا پیغام
پس ایسے زمانہ میں جو موحّد کامل ہوئا چونکہ وہی کے خطاب کا مستحق ہو سکتا
تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق استعمال نہ کئے گئے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ نوح اعلیٰ موحّد نہ تھا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پانچ دفعہ قرآن شریف میں ذکر ہے اور پانچوں جگہ آپ کے متعلق کے الفاظ آتے ہیں لیکن نوحؑ کے متعلق یہ الفاظ نہیں آتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو اپنے زمانہ میں نوحؑ نے شرک کا مقابلہ کیا مگر چونکہ کامل شرک اُس وقت رائج نہیں تھا اِس لئے کے نام سے آپ کو پکارنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ بوجہ عبادتِ اوثان سے اجتناب کرنے کے ہر شخص جانتا تھا کہ آپ مشرک نہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سوئی سے ہر عورت کام کر سکتی ہے مگر ہر عورت درزی نہیں کہلا سکتی کیونکہ درزی کے لئے اپنے فن میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح نوحؑ کے متعلق گو ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے شرک کا مقابلہ کیا مگر ابراہیم کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ شرک کا مقابلہ آپ کا پیشہ اور فن بن گیا تھا اس لئے آپ کے متعلق کہا گیا کہ غرض ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں علاوہ ظاہری شرک کے ایک اور شرک جو ذہنی اور فلسفی تھا پیدا ہو گیا تھا۔ اُس وقت صرف یہی شرک نہ رہا تھا کہ بعض لوگ بتوں کے آگے سر جُھکاتے تھے بلکہ محبت اور بغض کی باریک راہوں پر غور کر کے انسانی احساسات بہت ترقی کر گئے تھے اور اب بغیر ظاہری شرک کرنے کے بھی انسان ذہنی طور پر مشرک ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوحؑ کو یہ نہیں کہا کہ ۴۰؎ اور اُس نے جواب میں کہا ہو۴۱؎بلکہ ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مَیں تجھے صرف یہی نہیں کہتا کہ بُت کو سجدہ نہ کر بلکہ میں تُجھے یہ بھی کہتا ہوں کہ تُو اپنے دل کے خیالات بھی کُلّی طور پر میری اطاعت میں لگا دے اور ابراہیمؑ نے جواب میں کہاکہ اے خدا !میرے جسم کا ذرہ ذرہ تیرے آگے قربان ہے میری عقل ،میرا علم ،میرا ذہن سب تیرے احکام کے تابع ہیں اور میری ساری طاقتیں اور ساری قوتیں تیری راہ میں لگی ہوئی ہیں اسی لئے اس کی نسبت کہا گیایہی وہ توحید ہے جسے توکّل والی توحید کہتے ہیں۔ اور درحقیقت توحید وہی ہوتی ہے جو توکّل والی ہو، جب انسان یہ کہنے لگے کہ میرے کام سب ختم ہیں۔ اب میرا کھانا، پینا، میرا اُٹھنا بیٹھنا، میرا سونا، میرا جاگنا ، میرا مرنا، میرا جینا سب خدا کے لئے ہو گا۔ چنانچہ دیکھ لو اس کا فرق آگے کس طرح ظاہر ہوئا۔ نوح ؑکو جب طوفان کے موقع پر بچنے کی ضرورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا کہ تُوایک کشتی بنا جس پر بیٹھ کر تُو اور تیرے ساتھی طوفان سے محفوظ رہیں اور خدا نے اسے کشتی بنا دی لیکن جب ابراہیم ؑکو خدا نے کہا کہ جا اور اپنے بچے اسمٰعیل کو وادی غیرذی زرع میں پھینک آ تو اس نے اسے کوئی ایسی ہدایت نہیں دی کہ ان کے کھانے اور پینے کے لئے اسے کیا انتظام کرنا چاہئے۔ اس نے اسے بس اتنا حکم دے دیا کہ جا اور اپنی بیوی اور اپنے بچہ کو فلاں وادی میں چھوڑ آ۔ چنانچہ وہ گیا اور ہاجرہ اور اسمٰعیل کو بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ کر چلا گیا اور اس نے یقین کیا کہ جو خدا انہیں گھر پر رزق دیتا تھا وہی انہیں اس جگہ بھی رزق بہم پہنچائے گا غرض ابراہیم ؑ نوح کی نسبت توکّل کے زیادہ اعلیٰ مقام پر تھے اور توکّلِ کامل کا مقام ہی توحیدِ کامل کا مقام ہوتا ہے جو ابراہیمؑ سے ظاہر ہوئا۔
ابراہیم ؑکے ذریعہ سے تکمیلِ انسانیت
اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیمؑ کے ذریعہ سے ہوئی اور دراصل
تکمیلِ انسانیت اور تکمیلِ توحید لازم و ملزوم ہیں۔ جب تک توحید کی تکمیل نہ ہو انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور جب تک انسانیت کی تکمیل نہ ہو توحید کی تکمیل نہیں ہو سکتی اسی لئے صوفیا ء نے کہا کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ۴۲؎ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو بھی پہچانا۔ پس جس طرح فہمِ انسانی کا ارتقاء ابراہیمی دَور میں ہوئا اور مذہب کا فلسفہ اپنی شان دکھانے لگا اسی طرح تکمیل انسانیت بھی ابراہیمؑ کے ذریعہ سے ہوئی یعنی انسان کو دوسری اشیاء سے ممتاز قرار دیا گیا اور انسانی قربانی کو منسوخ کیا گیا۔ آپ سے پہلے انسانی زندگی کو کوئی قیمت نہیں دی جاتی تھی۔ جو مر گیا مر گیا جو زندہ رہا زندہ رہا۔ مگر ابراہیمؑ کے زمانہ میں آدم اور دوسری مخلوقات میں فرق کر دیا گیا۔ ابھی تک انسان اور جانور میں کوئی نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ دونوں کھاتے پیتے ہیں، دونوں بچے پیدا کرتے ہیں، دونوں چلتے پھرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ انسان کی دماغی ترقی نمایاں ہے اس وجہ سے اُس وقت تک قربانی کے لئے بعض دفعہ انسان بھی پیش کر دیا جاتا تھا کیونکہ جانوروں اور انسان میں کوئی اتنا نمایاں فرق نہ سمجھا جاتا تھا۔ صرف یہ احساس تھا کہ انسان زیادہ قیمتی ہے اور جانور کم قیمتی مگر ابراہیمؑ کے زمانہ میں جب لوگوں نے توحید کو سمجھ لیا تو خدا نے کہا اب اسکی قربانی نہیں ہو سکتی کیونکہ اب یہ حیوان نہیں بلکہ پورا انسان بن گیا ہے اور اسکی زندگی اپنی ذات میں ایک مقصود قرار پا گئی ہے۔ پس اس مقام پر انسان کو پہنچانے کی وجہ سے ابراہیم ابوالانبیاء کہلایا جس طرح آدم ابوالبشر کہلایا۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں یوم البعث کا صحیح مفہوم انسان کے اندر پیدا کر دیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ انسانی زندگی الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے اس لئے سوائے ایسی مجبوری کے کہ اسکی قربانی کے بغیر چارہ نہ ہو اس کی فضول قربانی خود اُس مقصد کو تباہ کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا۔ گویا اب قربانی فلسفی اور عقلی ہو گئی ظاہری اور رسمی نہ رہی۔ مثلاً لڑائیوں میں انسان قربان کر دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ جائیں اور مر جائیں اور اِس موقع پر جب یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسان کی قربانی جائز نہیں تو معاً یہ جواب بھی مل جائے گا کہ ادنیٰ اعلیٰ کے لئے قربان کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ ادنیٰ کے لئے قربان نہیں کیا جاتا۔ گویا قربانی فلسفہ اور عقل کے ماتحت آ جائے گی۔ اور بعض موقعوں پر اس قربانی کا پیش کرنا جائز بلکہ ضروری ہو گا اور بعض موقعوں پر نہیں۔ پھر اس کے ساتھ ہی جب یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انسان تمام مخلوق سے اعلیٰ ہے تو اسی خیال سے تصوف کا دَور شروع ہو گیا اور انسان یہ سمجھنے لگا کہ میں اس لئے پیدا کیا گیا ہوں کہ اپنے خدا کی رضا حاصل کروں اور اس کا محبوب بنوں گویا ابراہیمؑ سے تصوف کا دَور شروع ہوئا۔ گو اُس وقت صرف اس کی بنیاد پڑی اور ترقی بعد میں ہوئی۔ اور یہ توجہ اس لئے پیدا ہوئی کہ جب فیصلہ کیا گیا کہ انسان قتل نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیاد اس امر پر رکھی گئی کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کا محبوب بنے تو ہر عقلمند شخص اس فکر میں پڑ گیا کہ وہ محبوبیتِ الٰہی کے مقام کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح کوشش کرے اور اس طرح تصوف کی بنیاد پڑ گئی۔
تمدّنِ کامل کی بنیاد ابراہیمؑ سے پڑی
جب انسان کی قربانی ردّ کی گئی تُو اس نے انسانی دماغ کو اس طرف بھی
مائل کر دیا کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے اور جب یہ خیال پیدا ہوئا تو ساتھ ہی قانونِ قدرت پر باریک در باریک غور بھی شروع ہوئا اور تمدّن کے کمال کی طرف انسانی توجہ مائل ہو گئی۔ پس تمدّنِ انسانی کے کمال کا دَور بھی حقیقی طور پر ابراہیمؑ کے زمانہ میں شروع ہوئا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دَور سے پہلے انسان صرف ایک مُحِبّ کی شکل میں تھا اور اس کے ذہن میں محبوبیت کا خیال پیدا نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ اس کی نامکمل ترقی کو دیکھتے ہوئے خوف کیا جاتا تھا کہ وہ سُست اور غافل نہ ہو جائے کیونکہ ابھی اس کا دماغ اس باریک فلسفہ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا لیکن ابراہیم ؑکے وقت میں وہ اس قابل ہو چکا تھا کہ اس پر یہ راز کھولا جائے چنانچہ ابراہیمؑ نے انسان کے محبوبِ الٰہی ہونے کے فلسفہ کو پیش کیا اور چونکہ مُحِبّ محبوب کی جان کا ضیاع پسند نہیں کرتا اس لئے اس کی قربانی ردّ کی گئی گویا یہ تصوف کاپہلا دَور تھا۔
اسی طرح ابراہیمؑ کا دَور فلسفہ حیاتِ انسانی کے سمجھنے کا دَور تھا کیونکہ اُس وقت یہ نظریہ انسان کے سامنے رکھا گیا کہ یہ زندگی عبث اور فضول نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان نعمت ہے اور آئندہ ترقیات کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔
موسوی دَور اور اُس کا پیغام
اس کے بعد دَورِ موسوی شروع ہوئا کہ یہ دَور ایک نئی تبدیلی اور نیا انقلاب لے کر آیا یعنی اب دین
اوردنیا کو ملا دیا گیا اور کُفر اور اسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا۔ آدم کے زمانہ میں صرف تمدّن تک بات تھی، نوحؑ کے زمانہ میں شرک اور توحید میں ابتدائی امتیاز قائم ہوئا اور ایک محدود شریعت کی بنیاد پڑی، ابراہیمؑ کے زمانہ میں توحید کامل کی گئی مگر موسوی زمانہ میں انسانی ذہن میں اس حد تک ترقی ہو چکی تھی کہ اب ضرورت تھی کہ دین و دنیا کے قواعد پر مشتمل ایک ہدایت نامہ نازل ہو۔ گویا ایک ہی وقت میں مذہب، دین اور دنیا دونوں کا چارج لے لے۔ پھر اس زمانہ میں کُفرواسلام میں امتیاز پیدا کر دیا گیا تھا۔ موسیٰؑ سے پہلے کُفر و اسلام میں امتیاز نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کافروں کی بیٹی لے لیتے اور ان سے تعلقات رکھتے مگر موسوی دَور میں دینِ حق نے علیحدہ اور ممتاز صورت اختیار کر لی تھی جیسے آدمؑ اور نوحؑ کے زمانہ میں انسان نے ممتاز درجہ اختیار کر لیا تھا۔ اب تفصیلی ہدایت کی ضرورت تھی جن کا تعلق تمدّن، سیاست اور روحانیت، تینوں سے ہو۔ اس میں تمدّنی ہدایات بھی ہوں کہ گھروں کو اس طرح صاف رکھو، آپس کے تعلقات میں فلاں امور ملحوظ رکھو اور اس میں سیاسی ہدایات بھی ہوں کہ بادشاہ یہ یہ کام کریں اور رعایا کا بادشاہ سے یہ سلوک ہو اور پھر اس میں روحانی ہدایات بھی ہوں کہ عبادت کس طرح کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا قُرب کس طرح حاصل کیا جائے۔ گویا اب ایک ایسے نبی کی ضرورت تھی جو ایک ہی وقت میں نبی بھی ہو، بادشاہ بھی ہو اور جرنیل بھی ہو، خدا تعالیٰ نے موسیٰ ؑکو اس کام کے لئے چُنا اور چونکہ انسانی عقل بہت ترقی کر چکی تھی، ایک کامل نظام رائج ہو چکا تھا، فلسفہ اپنے کمال کو پہنچ رہا تھا اُس وقت ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو آدم بھی ہو نوح بھی ہو اور ابراہیم بھی ہو۔ پس موسیٰ ان تینوں شانوں کے ساتھ آئے اور ان کے ذریعہ سے وہ تفصیلی ہدایت نامہ دنیا کو دیا گیا جس کا تعلق سیاست، روحانیت اور تمدّن تینوں سے تھا اور جس میں سیاسی ہدایات بھی تھیں اور روحانی بھی اور تمدّنی بھی۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ سے جو انقلاب پیدا ہوئاوہ مندرجہ ذیل امور پر مشتمل تھا۔
موسوی دَور کا پہلا انقلاب۔ شریعت کامل
ایک شریعت کامل جو عبادات،روحانیت، سیاست
اور تمدّن کی تفصیلات پر مشتمل تھی جس کی مثال ا س سے پہلے کسی نبی میں نہیں پائی جاتی تھی اس کے ذریعہ سے جسم و روح کے گہرے تعلق کو ظاہر کیا گیا تھا اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج کے حصول کے لئے راستہ کھول دیا گیا تھا۔ ابراہیمؑ کے وقت میں صرف جسم کی خوبی اور برتری تسلیم کی گئی تھی مگر جسم اور روح کے گہرے تعلق کو صرف موسیٰؑ کے وقت میں ظاہر کیا گیا اور اس طرح مدارجِ روحانیت کے حصول کا دروازہ بنی نوع ِانسان کے لئے کھول دیا گیا۔ چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
۴۳؎
یعنی پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اس شخص پر احسانِ عظیم کرنے کے لئے جس نے ہماری پوری فرمانبرداری کی تھی۔ وہ کتاب ہر قسم کی شرائع پر حاوی تھی اور اس میں ہدایت اور رحمت کی باتیں تھیں۔ تاکہ لوگ خداتعالیٰ کی ملاقات کا یقین کر لیں۔
پھر فرماتا ہے۴۴؎کہ ہم نے موسیٰ کے لئے الواح میں جو کچھ لکھا اس میں ہر قسم کی نصیحتیں تھیں اور ہر بات کے متعلق اس میں تفصیلی ہدایات درج تھیں۔ گویا تورات وہ پہلی الٰہی کتاب تھی جس میں بنی نوع انسان کے لئے تفصیلی ہدایات دی گئیں اور انسان کو تمدّن میں اتنا اعلیٰ سمجھ لیا گیا کہ اب اس سے یہ امید کی جانے لگی کہ وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنی باریک در باریک آزادیاں قربان کرنے کے لئے بھی تیار رہے اور انسانی اعمال کے ہرشعبہ کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ مثلاً عورت حائضہ ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے، انسان جُنبی ہو تو اس کے لئے یہ ہدایت ہے، بیمار ہو تو اس کیلئے یہ ہدایت ہے، عبادت خانوں کے متعلق یہ ہدایت ہے غرض کے مطابق موسیٰ کے ذریعہ سے ہر بات کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئیں۔
دوسرا انقلاب صفاتِ الٰہیہ کی تفصیلات
دوسرا انقلاب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا یہ
تھا کہ صفاتِ الٰہیہ کی تفصیلات ظاہر کی گئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں گو انسانی دماغ ترقی کر چکا تھا اور بعض صفاتِ الٰہیہ کی باریکیاں ظاہر ہو چکی تھیں مگر صفاتِ الٰہیہ کے باریک باہمی تعلقات اور صفات ِالٰہیہ کا وسیع دائرہ اس وقت تک دنیا نہ سمجھنے کی اہلیت رکھتی تھی اور نہ اُس کے سامنے وہ پیش کیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں دنیا اس قابل ہو گئی تھی، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام پر صفاتِ الٰہیہ کا وسیع اظہار کیا گیا جس کی وجہ سے نظامِ عالم کے سمجھنے کی قابلیت لوگوںمیں پیدا ہو گئی۔ گویا صفات کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں بدل کر بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات پیدا کرنے کی ایک بہتر صورت نکل آئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی احدیت تک دماغ نے ترقی کی تھی۔ اس حد تک ترقی نہیں کی تھی کہ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوتا کہ صفاتِ الٰہیہ موجودہ حکومتوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹوں کی طرح الگ الگ ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہم پہلے کہیں کہ ایک بادشاہ ہے جس کی اطاعت کرنی چاہئے اور دوسرے وقت ہم یہ کہیں کہ اس بادشاہ کے ماتحت کئی افسر ہیں اُن سب کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان کی اطاعت بادشاہ کی اطاعت ہے۔ پھر ہم یہ بتائیں کہ یہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا افسر ہے اور وہ فلاں ڈیپارٹمنٹ کا۔ یہ ڈیپارٹمنٹ تعلیم سے تعلق رکھتا ہے، وہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی بھی مختلف صفات ہیں اور ان صفات کے بھی مختلف ڈیپارٹمنٹ ہیں جن کو پورے طور پر سمجھنے کے بعد ہی انسان کو حقیقی دعا کرنی آتی ہے۔
پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہ دروازہ لوگوں پر کھول دیا گیا اور صفاتِ الٰہیہ کے متعلق آپ کو وسیع علم دیا گیا۔ چنانچہ جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا گہرا مطالعہ کیا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس قدر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے صفاتِ الٰہیہ بیان ہوئی ہیں قریباً اتنی ہی صفات قرآن کریم نے بیان کی ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ غور کیا تو مجھے کم از کم اس وقت کوئی ایسی نئی صفت نظر نہیں آئی تھی جو قرآن کریم نے بیان کی ہو مگر تورات نے بیان نہ کی ہو۔ وہی رب، رحمن، رحیم اور وغیرہ صفات جو اسلام نے بیان کی ہیں وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کی تھیں۔ غرض موسوی دَور میں انسانی دماغ اس قابل ہو گیا تھا کہ وہ صفاتِ الٰہیہ کے جو اعلیٰ ڈیپارٹمنٹ ہیں اُن کو سمجھ سکے۔ گویا صفاتِ الٰہیہ کا اجمالی علم تفصیل کی صورت میں تبدیل ہو گیا اور بندوں اور خدا میں اور بندوں اور بندوں میں تعلقات کی بہترین صورت پیدا ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ موسٰی ؑ وہ پہلے نبی ہیں جن کے بعد ایک لمبا سلسلہ نبیوں کا ایسا آیا جوکُلّی طور پر آپ کی شریعت کے تابع تھے، گو نبوت اُن کو براہِ راست ملی تھی۔ گویا جب انسان نے خدائی صفات کے ڈیپارٹمنٹ کو سمجھنے کی کوشش کی تو خدا تعالیٰ نے کہا۔ اب تم بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ بنا لو کہ اب تم سے آئندہ ایک ظاہری حکومت چلے گی اور خلفاء آئیں گے جو حکومت کریں گے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام پہلے نبی تھے جن کے بعد مأمور خلفاء لائے گئے اور آپ سے نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ چلایا گیا جنہیں گو نبوت براہِ راست ملتی تھی مگر موسوی شریعت کے وہ تابع ہوتے تھے۔
اب اس وقت مذہب ایک باقاعدہ فلسفہ بن گیا جو انسانی زندگی کے سب شعبوںپر روشنی ڈالتا تھا۔گویا شریعت کا محل بن کر چاروں طرف سے محفوظ ہو گیا۔ یہی فلسفہ کا کمال تھا کہ ابراہیم نے جب صفاتِ الٰہیہ کا باب پڑھا تو کہا ۴۵؎خدایا! اِحیائے موتی کی صفت کا جلوہ مجھے دکھا۔مگر موسیٰ چونکہ ابراہیم سے بہت زیادہ صفاتِ الٰہیہ کا علم رکھتا تھا اس لئے اس نے کہا۴۶؎کہ خدایا! تیری تمام صفات کا مجھے علم ہو چکا ہے اب یہی خواہش ہے کہ تو مجھے اپنا سارا وجود دکھا دے۔ گویا ایک نے صرف ایک صفت کا جلوہ مانگا مگر دوسرے نے خود خدا کا دیدار کرنا چاہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ کہتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں وہ کہتے ہیں مجھے صفتِ اِحیاء کا نمونہ دکھا اور یہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنا سب کچھ دکھا۔
دُنیا کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے تو لوگ اُسے تو جھوٹا سمجھتے ہیں مگر اس سے پہلے نبی کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور جب بعد میں آنے والے نبی کی بڑائی بیان کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کیا پہلے جاہل تھے؟ کیا انہیں ان باتوں کا علم نہیںتھا؟ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ مَیں نے خدا کو دیکھا ہے تو یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، انہیں غصہ آیا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارا دادا کم علم والا تھااور تم اس سے زیادہ عرفان رکھتے ہو اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ اگر تم سچے ہو تو ہمیں بھی خدا دکھائو۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا ۴۷؎ کہ اے موسیٰ !ہم تیری اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں جب تک ہم خود بھی خدا کو نہ دیکھ لیں اِس جگہ کے معنی ایمان لانے کے نہیں وہ تو پہلے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ظاہری ایمان رکھتے تھے۔ کے یہ معنی ہیں کہ یہ جو تو نے کہا ہے کہ مَیں نے خدا دیکھا اس میں تو جھوٹا ہے اور ہم تیری یہ بات ہرگز ماننے کیلئے تیار نہیں اور اگر ہمیں بھی دکھا دو تو خیر پھر مان لینگے۔
یہی وہ روحانی تھا جو چاروں گوشوں اورچاروں دیواروں کے لحاظ سے کامل تھا اور موسیٰ ؑکی یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے کہا گیا کہ اس روحانی کی آخری تحریک بھی موسیٰ کے نقش قدم پر ہوگی۔ چنانچہ فرمایا:
’’خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو‘‘۔۴۸؎
اور پھر آخری کلام میں مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ۴۹؎ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کامل اور اکمل شریعت لائے ہیں یہ گو ہر لحاظ سے سابقہ الہامی کتب پر فضیلت رکھتی ہے مگر ظاہری تکمیل کے لحاظ سے اسے موسیٰ کی شریعت سے مشابہت ہے، دوسروں سے نہیں۔ دوسروں کی کتابوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے متفرق کمرے بنے ہوئے ہوں اور موسیٰ کی شریعت کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مکان ہو جس میں مختلف ضرورتوں کے لئے الگ الگ کمرے بنے ہوئے ہوں اور سب ضرورتوں کا اس میں مکمل انتظام موجود ہو۔ اور گو قرآن کریم تاج محل کی طرح دوسرے سب مکانوں سے ممتاز ہے مگر مشابہت کے لحاظ سے اُسے مکان سے ہی مشابہت دی جا سکتی ہے، الگ الگ بنے ہوئے کمروں سے نہیں۔ پس موسیٰ وہ پہلا نبی تھا جسے وہ کامل قانون ملا جو سب نظام پر حاوی تھا گو اعلیٰ تفصیلات کے لحاظ سے اس میں بھی نقص تھا۔
تیسرا اِنقلاب باِلمشافہ وحی الٰہی
تیسرا انقلاب جو موسیٰ کے ذریعہ سے پیدا ہوئا وہ یہ ہے کہ موسیٰؑ کے زمانہ تک وحی الٰہی کا
طریق بھی تبدیل ہوتا چلا گیا اور اب بالمشافہ وحی کا طریق جاری ہوئا کیونکہ شریعت کی جُزئیات پر بحث ہونی تھی اور اس کیلئے لفظی وحی کی ضرورت تھی تا کلام محفوظ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۰؎ کہ موسیٰ کے ساتھ اکثر بِالمشافہ وحی ہوتی تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلوں سے بِالمشافہ کلام نہ ہوتا تھا بلکہ یہ مطلب ہے کہ پہلے زیادہ تر رؤیا و کشوف پر مدار تھا اور اسی ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں اپنے نبیوں پر ظاہر کیا کرتا تھا۔ مگر موسیٰ کی شریعت کا اکثر کلام بِالمشافہ ہوئااور رؤیا و کشوف کی کثرت کی جگہ لفظی کلام کی کثرت نے لے لی لیکن ابھی تک معنی محفوظ قرار دیئے جاتے تھے کلام محفوظ نہیں قرار دیا جاتا۔ جیسے ہم زید سے جب بات کرتے ہیں تو لفظوں میں کرتے ہیں اور اس طرح اُسے ہماری بات کے سمجھنے میں بہت کم شُبہ ہو سکتا ہے مگر ہم اپنے الفاظ اُسے یاد نہیں کراتے بلکہ جو مطلب اس کے دماغ میں آتا ہے اس کے مطابق وہ کام کرتا ہے لیکن اگر ہم اپنے الفاظ کی زیادہ احتیاط کرانا چاہیں تو پھر ہم لکھوا دیتے ہیں یہی فرق قرآنی وحی اور موسیٰ کی وحی میں ہے۔ موسیٰ کے زمانہ میں ابھی یہ حکم نہیں تھا کہ جو الفاظ سُنو وہی لکھو۔ بلکہ جو الفاظ ہوتے اُن کے مطابق ایک مفہوم لے کر کتاب میں درج کر دیا جاتا۔ مگر قرآنی وحی کے نزول کے وقت اُس کی زبر، اُس کی زیر، اُس کی پیش اور اُس کی جزم تک وحیِ الٰہی کی ہدایت کے ماتحت ڈالی گئی۔
عیسوی دَور کا پیغام اِحیائے شریعتِ موسوی
موسوی دَور کے بعد اب عیسوی دَور شروع ہوتا ہے
اور عیسوی دَور ہی وہ پہلا دَور ہے جو تاریخی طور پر اس آیت کے دوسرے حصہ کے ماتحت آتا ہے کہ کہ ہمارے احکام جب لوگوں کے ذہنوں سے اُتر جاتے ہیں تو ہم ویسے ہی احکام پھر اُتار دیتے ہیں یعنی دوبارہ اُن کو زندہ کر دیتے ہیں۔ اس زمانہ میں ایک ایسا نبی آیا جو نئی شریعت نہیں لایا بلکہ تورات کے بعض مضامین کو اس نے نمایاں طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ۵۱ ؎ موسوی دَور میں شریعت کی تکمیل ہوئی اور اُس کے معارف نے بڑھتے بڑھتے ایک زبردست منظم قانون کی شکل اختیار کر لی جس کی مثال پہلے کبھی نہ ملتی تھی لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کی نگاہ مغز سے ہٹ کر چِھلکے کی طرف آ گئی اور دوسری طرف انسانی ذہن اب اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ اسے تصوف کا مزید سبق دیا جانا ضروری تھا۔ پس عیسیٰ آئے تا کہ ایک طرف تورات کے احکام کو پورا کریں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے۔
’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہوں‘‘۔ ۵۲؎
اور دوسری طرف وہ لوگوں کو تورات کے احکام کی حکمت سمجھائیں اور ان کی توجہ کو چھلکے سے ہٹا کر مغز کی طرف پھرائیں اور انہیں بتائیں کہ ظاہری شریعت صرف اس دنیا کی زندگی کو درست کرنے کیلئے اور باطنی شریعت کے قیام میں مدد دینے کیلئے ہے۔ ورنہ اصل شئے صرف باطنی صفائی اور پاکیزگی اور تقدس ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ کام لیا۔ انہوں نے ایک طرف موسوی احکام کو دوبارہ اصل شکل میں قائم کیا اور دوسری طرف جو لوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن بھی ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ ظاہر *** بن جاتا ہے۔ نمازیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر تم صرف ظاہری نماز ہی پڑھو گے باطنی نماز نہیں پڑھو گے تو وہ نماز *** بن جائے گی، روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر تم ظاہری روزہ کے ساتھ باطنی روزہ نہ رکھو گے تو یہ ظاہری روزہ *** بن جائے گا۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ ۵۳؎ یعنی بعض نماز پڑھنے والے ایسے ہیںکہ نماز اُن کیلئے وَیل اور *** بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کو رسول کریمﷺ نے چونکہ پوری بات کھول کر بتا دی تھی اس وجہ سے اُنہیں دھوکا نہ لگا۔ یہ کھول کر بتانا بھی عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے ماتحت تھا کہ انہوں نے کہا تھا۔
’’لیکن جب وہ یعنی رُوحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سُنے گی سو کہے گی‘‘۔۵۴؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بات کو واضح کر دینے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ آپ نے بھی وہی بات کہی تھی جو مسیح علیہ السلام نے کہی تھی مسلمانوں کو دھوکا نہ لگا اور انہوں نے شریعت کولعنت نہ قرار دیا۔ بلکہ صرف اس عمل پر شریعت کو *** قرار دیا جس کے ساتھ دل کا تقدس اور اخلاص اور تقویٰ شامل نہ ہو۔ مگر مسیحیوں نے مسیح کے کلام سے دھوکا کھایا اور جب ان کی روحانیت کمزور ہوئی انہوں نے اپنی کمزوری کے اثر کے ماتحت غلط تاویلوں کا راستہ اختیار کر لیا اور شریعت کو *** قرار دینے لگے اور یہ نہ خیال کیا کہ اگر وہ *** ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کے حواری روزے کیوں رکھتے تھے، عبادتیں کیوں کرتے تھے، جھوٹ سے کیوں بچتے تھے اور اسی طرح نیکی کے اور کام کیوں کرتے تھے۔ ان امور سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ ظاہری عبادت کو *** نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح نہ کی جائے تو وہ ظاہر *** بن جاتا ہے۔
غرض کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر پاکیزگی قلب کے خاص راز ظاہر کئے گئے تھے اور قدوسیت اور باطنی تعلیم پر زور دینے کیلئے ان کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا اور ظاہری احکام کی باطنی حکمتیں انہیں سمجھائی گئی تھیں اور ان کے دَور میں تصوف نے زمانۂ بلوغت میں قدم رکھنا شروع کیا تھا۔
دَورِ محمدی کا پیغام، مذہب کی عمارت کی تکمیل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مذہب کی
کی عمارت تکمیل کے قریب پہنچ گئی تھی۔ مگر ابھی پوری تکمیل نہ ہوئی تھی۔ سو اس کام کیلئے سید ولد آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ دَورِ محمدیؐ ہے۔
جامع کمالاتِ انبیاء، محمد مصطفیﷺ
آپ آدمؑ بھی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیفہ تجویز کیا اور صحیح تمدن
کے قیام کا کام آپ کے سپرد کیا۔
آپ نوحؑ بھی تھے کہ آپ کو فرمایا۔ پس نوح والا پیغام بھی آپ کی وحی میں شامل تھا۔
آپ ابراہیم بھی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ۵۵؎ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو ابراہیم بھی بن جا۔ کوئی کہے بن جا کہنا تو ایک حکم ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ واقع میں ابراہیم بن بھی گئے تھے؟ سو ہم کہتے ہیں اس کا ثبوت بھی قرآن سے ہی ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۶؎ والا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بھی آ گیا اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تُو دُنیا سے کہہ دے کہ توحید کامل کے علمبردار ہونے کا مقام مجھے بھی عطا ہوئا ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔ ۵۷؎ لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دی ہے اس راستہ کی طرف جو ابراہیمی طریق ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ اس جگہ مشرک کے معنی عام مشرک کے نہیں ہیں بلکہ ایسے شخص کے ہیں جو اپنے دل و دماغ کی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگائے اور اسے پورا توکل حاصل نہ ہو۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے طریق پر چلایا ہے تو سوال ہو سکتا تھا کہ ابراہیم نے تو اپنی تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے سپُرد کر دی تھیں اور جب انہیں کہا گیا تھا کہ تو انہوں نے کہہ دیا تھا کیا آپ نے بھی یہی کچھ کہا ہے؟ تو فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ وہی کام مَیں نے بھی کیا ہے اور میری نماز اور میرا ذبیحہ اور میری زندگی اور میری موت سب ربّ العٰلمین کے لئے ہوگئی ہیں اور مَیں اس طرح خدا تعالیٰ کا بن گیا ہوں کہ اب میرے ذہن کے کسی گوشہ میں خدا تعالیٰ کے سِوا کسی کا خیال باقی نہیں رہا۔ غرض یہاں سے مُراد کامل توحید کا اقرار ہے اور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تو کہہ دے کہ اس اعلیٰ تعلیم پر چلنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم دیا گیا ہے۔ یعنی میں ابراہیمی تعلیم پر نقل کے طور پر نہیں چل رہا بلکہ مجھے وہ تعلیم براہِ راست خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ اور پھر فرمایا کہ تم لوگ اس شُبہ میں ہو کہ مَیں ابراہیمی مقام پر ہوں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں ابراہیم کے مقام سے بھی آگے نکل گیا ہوں اور میں کہتا ہوںکہ پہلا مسلم مَیں ہوں یعنی ابراہیم بھی کہنے والا تھا اور مَیں بھی یہی کہتا ہوں اور زمانہ کے لحاظ سے ابراہیم کو تقدم حاصل ہے اور بظاہر وہ بنتا ہے لیکن تقدمِ زمانی اصل شَے نہیں، تقدمِ مقام اصل شَے ہے اور اس کے لحاظ سے میں ہی ہوں اور ابراہیم میرے بعد ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موسوی کمالات
پھر موسوی کمالات بھی آپ کے اندر
پائے جاتے تھے۔ جیسے سورہ مزمل میں فرمایا گیا ہے کہ مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ مشابہت‘ مشابہت مماثلت نہیں ہے بلکہ اعلیٰ کی ادنیٰ سے مشابہت ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کو حضرت موسیٰ کے مقابل پر جو امتیازات حاصل ہیں ان کو بھی قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل امور کو پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) خداتعالیٰ نے موسیٰ کی نسبت تو یہ فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایک ایسی کتاب دی جو تھی اور یہاں یہ فرمایا کہ۔۵۸؎َ کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ موسیٰ کو جب ایک مفصل ہدایت نامہ مل گیا تو اس کے بعد اب جو تعلیم تم پیش کر رہے ہو یہ جھوٹی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جھوٹی نہیں بلکہ پہلی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں اور اس کے ذریعہ سے وہ پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور اس میں تمام احکام موجود ہیں اور یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا موجب ہے۔ پس جب کتاب کی خبر خود موسیٰ کی کتاب نے دی ہے وہ بے کار کس طرح ہو سکتی ہے۔ یقینا اس میں زائد خوبیاں ہیں تبھی تو موسیٰؑ کی کتاب نے اس کی امید دلائی ورنہ موسیٰؑ کی کتاب کے بعد اس کی کیا ضرورت تھی۔
(۲) پھر موسیٰ نے تو یہ کہا تھا کہ اور خدا تعالیٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ اجمالی جواب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھا دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ نہیں دکھایا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک موقع پر بھی خداتعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ خدایا تو مجھے اپنا وجود دکھا بلکہ خداتعالیٰ نے خود فرمایا کہ ہم نے اسے اپنا چہرہ دکھا دیا۔ پس موسیٰ علیہ السلام کے متعلق تو صرف ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کو دیکھا مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۹؎ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم اس طرح آمنے سامنے کھڑے ہو گئے جس طرح ایک کمان دوسری کمان کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے اور ان کا ہر سِرا دوسرے سِرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ گویا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب ہوئے اور اتنے قریب ہوئے کہ جس طرح کمان کی دونوکیں آمنے سامنے ہوتی ہیں۔ اسی طرح مَیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آمنے سامنے ہو گئے اور ہم دونوں میں اتصال ہو گیا۔ گویا جس امر کا موسیٰ نے مطالبہ کیا تھا‘ اس سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی دکھا دیا۔
(۳) تیسرا امتیاز اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰؑ پر یہ بخشا ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت تو یہ آتا ہے کہ اور آنحضرتﷺ کی نسبت فرماتا ہے

۶۰؎یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تیری طرف نوح جیسی وحی بھی نازل کی ہے اور ان تمام نبیوں جیسی وحی بھی جو اس کے بعدہوئے۔ اور ہم نے تجھ کو ابراہیم کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسمٰعیل کے کمالات بھی دیئے ہیں اور اسحق کے کمالات بھی دیئے ہیں اور یعقوب کے کمالات بھی دیئے اور یعقوب کی اولاد کے کمالات بھی دیئے ہیں اور عیسیٰ کے کمالات بھی دیئے ہیں اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کے کمالات بھی دیئے ہیں اور داؤد کو جو زبور ملی تھی وہ بھی ہم نے تجھے دی ہے۔ اور جو موسیٰ سے ہم نے خاص طور پر بِالمشافہ کلام کیا تھا وہ انعام بھی ہم نے تجھے دیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ محمدیؐ وحی موسیٰ اور دوسرے نبیوں کی وحی کی جامع ہے۔ اس میں وہ خوبی بھی ہے جو نوحؑ اور دوسرے انبیاء کی وحی میں تھی اور پھر موسیٰؑ کی وحی کی طرح اس میں کلام لفظی بھی ہے بلکہ اس میں موسوی وحی سے بھی ایک زائد بات یہ ہے کہ موسیٰ پر جو کلام اُترتا تھا اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔ جیسے ہم کسی کو کہیں کہ تم جاؤ اور فلاں شخص سے کہو کہ زید کو بخار چڑھا ہوئا ہے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ جائے اور زید مثلاً اس کا بھائی یا باپ ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ زید کو بخار چڑھا ہوئاہے یہ کہہ دے کہ میرے بھائی یا باپ کو بخار چڑھا ہوئا ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں گو لفظی کلام اُترتا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چونکہ ترقی اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور اب ایک ایسی شریعت نازل ہونی تھی جو آخری اور جامع شریعت تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس وحی کے الفاظ بھی محفوظ رکھے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ۶۱؎ کہ موسیٰ کے زمانہ میںتو کلام ہم نازل کرتے تھے اور پھر وہ اپنے الفاظ میں اس کلام کا مفہوم لکھ لیتا تھا اور گو مفہوم ہمارا ہی ہوتا تھا مگر الفاظ موسیٰ کے ہو جاتے تھے لیکن تیرے ساتھ ہمارا یہ طریق نہیں بلکہ اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا ہمارا کام ہے۔ جو ہم کہیں وہی لفظ پڑھتے جانا اور پھر اُسے لکھ لینا‘ اپنے پاس سے اس کا ترجمہ نہیں کرنا۔ اسی طرح فرمایا۶۲؎ ہم نے ہی یہ قرآن اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے لفظوں اور اس کی روح دونوں کے محافظ ہیں‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد اس کی حفاظت کا کام نہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسوی کمالات
پھر آپؐ میں عیسوی کمالات بھی پائے
جاتے تھے۔ عیسوی کمالات کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ کہ ہم نے اس کی روح القدس سے تائید فرمائی۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ۶۳؎ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تُو لوگوں سے کہہ دے کہ خدا نے یہ کلام روح القدس کے ذریعہ سے نازل کیا ہے سچائی اور حق کے ساتھ۔ تا مؤمنوں کو یہ مضبوط کرے اور اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور بشارتیں ہیں۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ جو کہا تھا کہ شریعت *** ہے جس سے آپ کی غرض یہ تھی کہ محض ظاہر کے پیچھے پڑ جانا اور باطنی اصلاح کو ترک کر دینا ایک *** ہے اس کے لحاظ سے قرآن کریم نے بھی فرمایا ۶۴؎ کہ *** ہے ان پر اور عذاب ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو نماز کی روح سے غافل ہیں اور نماز محض لوگوں کے دکھاوے کے لئے پڑھتے ہیں۔ یہ وہی کا لفظ ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں استعمال کرتے ہوئے کہا کہ محض ظاہر شریعت کی اِتباع *** ہے۔ آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نماز *** ہے یا روزہ *** ہے یا صدقہ *** ہے یا غریبوں اور مساکین کی خبرگیری کرنا *** ہے بلکہ آپ کا یہ مطلب تھا کہ ظاہر میں نیکی کے اعمال کرنا اور باطن میں ان اعمال کا کوئی اثر نہ ہونا ایک *** ہے۔ مگر عیسائیوں نے غلطی سے اس کا یہ مطلب سمجھ لیا کہ نماز *** ہے‘ روزہ *** ہے۔ اسی طرح فرمایا۔ ۶۵؎ کہ ظاہری قربانیاں جو تم کرتے ہو وہ خداتعالیٰ کو نہیں پہنچتیں۔ بلکہ خداتعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے اور وہ محبت الٰہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے یہی تعلیم ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی۔
جامع جمیع کمالات ِ رُسُل
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جامع جمیع کمالاتِ رُسُل تھے۔ آپ میں آدم کے کمالات بھی تھے آپ
میں نوحؑ کے کمالات بھی تھے‘ آپ میں ابراہیم کے کمالات بھی تھے‘ آپ میں موسیٰؑ کے کمالات بھی تھے اور آپ میں عیسٰی ؑ کے کمالات بھی تھے اور پھر ان سب کمالات کو جمع کرنے کے بعد آپ میں خالص محمدیؐ کمالات بھی تھے۔ گویا سب نبیوں کے کمالات جمع تھے اور پھر اس سے زائدآپ کے ذاتی کمالات بھی تھے۔ پس جو دین آپ لائے وہ جامع جمیع ادیان ہؤا اور اس کی موجودگی میں باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کی ضرورت نہ رہی۔
آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کے معنی
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں
کو بشارت دی اور فرمایا۔
۶۶؎ کُفّار مایوس ہو گئے ہیں کہ اب اس دین پر غالب آنا ناممکن ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں لا سکتے۔ پس یہ خیال اب نہیں ہو سکتا کہ کافر اپنے زور سے جیت جائیں۔ ہاں یہ خیال ہر وقت ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد واپس لے لے۔ پس اس سے ڈرو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ قرآن کی موجودگی میںتم پر کافر کبھی فتح نہیں پا سکتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم قرآن چھوڑ دو اور گِر جاؤ۔ پس ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اب سوال یہ ہے کہ کفار کیوں مایوس ہو گئے؟ اس کا جواب یہ دیا کہ (۱) دین مکمل کر دیا گیا ہے۔ اکمال دین سے مراد شریعت کا نزول اور اس کا قیام ہے کیونکہ عمل میں آ جانے سے دین مکمل ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے طبی مدارس کے سب طالب علم سرجری کی کتابیں تو پڑھتے ہی ہیں مگر کتابیں پڑھنے سے انہیں آپریشن کرنا نہیں آتا بلکہ عمل کرنے سے آتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو گزشتہ صدی میں پنجاب کے بادشاہ تھے‘ ان کے دربار میں ایک دفعہ دِلّی کا کوئی حکیم آیا۔ جو گو علمِ طبّ خوب پڑھا ہؤا تھا مگر اسے تجربہ ابھی حاصل نہیں تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک وزیر ایک مسلمان تھا جو طبیب بھی تھا اس لئے علاوہ وزارت کے طب کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا بلکہ اس پُرآشوب زمانہ میں اِسی فن کی وجہ سے وہ بچا ہؤا تھا۔ نووارد طبیب نے وزیر سے اپنی سفارش کے لئے استدعا کی اور وزیر نے بوجہ اپنی شرافت کے اس سے انکار نہ کیا بلکہ مہاراجہ کی خدمت میں اسے پیش کر دیا۔ مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ حضور علم طب ان حکیم صاحب نے خوب حاصل کیا ہؤا ہے اگر حضور نے پرورش فرمائی تو حضور کے طفیل انہیں تجربہ بھی حاصل ہو جائے گا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت ذہین آدمی تھا فوراً حقیقت کو تاڑ گیا اور کہا کہ وزیر صاحب یہ دہلی سے آئے ہیں جو شاہی شہر ہے۔ ان کی قدر کرنا ہم پر فرض ہے مگر کیا تجربہ کے لئے انہیں غریب رنجیت سنگھ کی جان ہی نظر آئی ہے؟ انہیں دس ہزار روپیہ انعام دے دو اور رخصت کرو کہ کہیں اور جا کر تجربہ کریں۔ یہ ایک لطیفہ ہے مگر اس میں یہ سبق ہے کہ بغیر تجربہ میں آنے کے علم کسی کام کا نہیں ہوتا اور شریعت کا علم اس سے باہر نہیں ہے۔ تو شریعت بھی جب تک عمل میں نہ آئے اس کی تفصیلات کا پتہ نہیں چلتا اور وہ مکمل نہیں ہوتی۔ پس اِتمام دین سے مراد یہ ہے کہ احکامِ دین نازل ہو جائیں اور پھر وہ عمل میں بھی آ جائیں۔ (۲)اسی طرح فرمایا کفار اس لئے مایوس ہو گئے ہیں کہ اتمامِ نعمت ہو گیا اور اتمامِ نعمت اس طرح ہوتا ہے کہ فیوض جسمانی و روحانی کا کامل افاضہ ہو اور ہر دو انعامات حاصل ہو جائیں اور جب کسی شخص کو کسی کام کا نتیجہ مل جائے تو وہ اس کے سچا ہونے میں شک کر ہی نہیں سکتا۔ اگر ایک کالج کی تعلیم کے بعد ڈگری مل جائے یا ایک محکمہ کی سروس کے بعد سرکار سے انعام مل جائے۔ تو کون شک کر سکتا ہے کہ وہ کالج جھوٹا ہے یا وہ محکمہ فریب ہے۔ اسی طرح جب کسی دین پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جسمانی اور روحانی دونوں فیوض حاصل ہونے لگیں اور اس طرح اتمامِ نعمت انسان پر ہو جائے تو کون اس کی سچائی سے انکار کر سکتا ہے۔
نعمت کیا ہے
اب ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں کہ نعمت کیا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔
َ۶۷؎ یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! خداتعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تم پر کی کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے اور پھر تمہیں بادشاہت بھی دی اور پھر تمہیں وہ تعلیم دی جو پہلے تمہیں معلوم نہ تھی اس سے معلوم ہؤا کہ نعمت سے مراد اجرائے نبوت‘ بادشاہت اور دوسرے مذاہب سے افضل تعلیم ہے کیونکہ سے اجرائے نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔سے بادشاہت کا اورسے اس امر کا کہ ایسی تعلیم ملے جو دوسرے مذاہب سے افضل ہو اور انسان اس پر فخر کر سکے۔
سلطنت کا وجود بعض مذاہب کیلئے ضروری ہے
اب اگر کوئی کہے کہ بادشاہت کیونکر مذہبی
لحاظ سے دینی نعمت ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جن مذاہب میں شریعت کا دائرہ سیاسیات اور تمدّنی احکام تک وسیع ہوتا ہے ان کے لئے بادشاہت ضروری ہے۔ اگر بادشاہت نہ ہو تو ان احکامِ دین کا اجراء کس طر ح ہو جو سیاسیات اور تمدّن وغیرہ سے متعلق ہیں۔ پس یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت نہیں جو دین سے خالی ہو وہ تو ایک *** ہوتی ہے۔ یہاں بادشاہت سے مراد وہ بادشاہت ہے جو احکامِ شرعیہ کو جاری کرے جیسے داؤدؑ کو بادشاہت ملی یا سلیمانؑ کو بادشاہت ملی اور انہوں نے اپنے عمل سے شریعت کے سیاسی اور تمدّنی احکام کا اجراء کر کے دکھا دیا۔ پس جس شریعت کے دائرہ میں تمدّنی اور سیاسی احکام ہوتے ہیں اسے لازماً ابتدا ء ہی میں بادشاہت بھی دی جاتی ہے کیونکہ اگر بادشاہت نہ دی جائے تو شریعت کے ایک حصہ کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو جائے۔ چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا نے بادشاہت عطا فرما دی تھی ہمیں جب کسی مسئلہ میں شبہ پڑتا ہے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کس طرح کیا تھا۔ اس طرح سنت ہماری مشکلات کو حل کر دیتی ہے لیکن اگر بادشاہت آپؐ کو حاصل نہ ہوتی تو سیاسی‘ قضائی اور بہت سے تمدّنی معاملات میں صرف آپ کی تعلیم موجود ہوتی‘ آپؐ کے عمل سے اس کی صحیح تشریح ہمیں نہ معلوم ہو سکتی۔ پس یہ بات ضروری ہے اور سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ایسی شریعت جو سیاست اور تمدّن پر حاوی ہو اس کے ابتداء ہی میں بادشاہت حاصل ہو جائے۔ پسسے مرادوہی بادشاہت ہے جو احکامِ دین کے اجراء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے اور جس کا نِفاذ بسااوقات غیرمأمور خلافت کے ذریعہ سے بھی کرایا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ تم کو مأمور خلافت‘ غیرمأمور خلافت اور افضل شریعت مل گئی اور یہ انعام ہے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ (۱)آپ کی اُمّت میں اجرائے نبوت رہے گا۔ (۲) اجرائے خلافتِ ہو گا۔ (۳) اور آپ کو افضل تعلیم دی گئی ہے۔ پھر آپؐ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ جو تعلیم تجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں کسی کا دخل نہیں وہ لفظی الہام ہے اور ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ پس جس تعلیم کی حفاظت کی جائے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آئندہ بھی افضل رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی کلام منسوخ ہو تو اس سے بہتر لایا جاتا ہے جس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جس کلام کو منسوخ نہ کیا جائے اس سے بہتر اور کوئی کلام نہیں۔ پس معلوم ہؤا کہ قرآن کریم نہ صرف گزشتہ تمام الہامی کتابوں سے افضل ہے بلکہ ہمیشہ افضل رہے گا اور اس کی تنسیخ کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔ قرآن کریم اور باقی الہامی کتب کی ایسی ہی مثال ہے۔ جیسے کابل میں بھی حکومت کے وہی شعبے ہیں جو حکومت برطانیہ کے شعبہ جات ہیں لیکن حکومتِ کابل کے مقابلہ میں حکومت برطانیہ زیادہ مضبوط اور زیادہ مفید کام کرنے والی ہے۔ اسی طرح گو باقی الہامی کتب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو ئیں مگر قرآن کریم کی تعلیم ان سب سے زیادہ اعلیٰ ہے اور ہمیشہ اعلیٰ رہے گی۔
اسلام کا اِنقلاب عظیم
پس ان دو آیتوں سے اس اِنقلابِ عظیم کا پتہ لگ گیا جو اسلام کے ذریعہ سے ہؤا۔ یعنی (۱)اجرائے نبوت (۲)اجرائے
خلافت (۳)افضل تعلیم۔ اگر کہا جائے کہ یہی لفظ موسیٰ کی نسبت آئے ہیں۔ پھر موسیٰ کی تعلیم سے یہ بڑھ کر کیونکر ہوئی؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس دلیل سے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو تعلیم پہلی تعلیم کو منسوخ کر دے وہ اس سے بہتر ہوتی ہے۔ چونکہ محمدی تعلیم نے موسوی تعلیم کو منسوخ کر دیا ہے اس لئے اس کُلّیہ کے مطابق وہ اس سے افضل ہے۔ اب سوال ہو سکتا ہے کہ یہ تو ہوئی نعمت۔ مگر آیت میں تو اتمامِ نعمت کا ذکر ہے۔ پس خداتعالیٰ نے نعمت تو دی مگر اتمامِ نعمت کیونکر ہوئی؟ تو اِس کا جواب اِس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۶۸ ؎ کہ وہ لوگ جو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نبیوں ‘صدیقوں‘ شہیدوں اور صالحین میں شامل کرے گا۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نزول شرائع کے بعد یہ نقص جو پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ شریعت کوبُھول جاتے ہیں اور تعلیم باوجود موجود ہونے کے بیکار ہو جاتی ہے اس سے گو کسی تعلیم کی افضلیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ خود بندوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن چونکہ اس قسم کی بیماری کا خطرہ ہر وقت ہو سکتا ہے اس لئے ہم بتا دیتے ہیں کہ ایسے خطرہ کے اوقات میں اسلام کو باہر سے کسی کی امداد کی ضرورت نہ ہو گی بلکہ خود یہی تعلیم اپنے نقص کا علاج پیدا کر لے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کا نقص خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاگردی کے ذریعہ سے دُور ہو جائے گا۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم کے بھول جانے کا علاج موسیٰ کے وقت میں بھی ہؤا۔ مگر اُس وقت باہر سے طبیب بھیجا جاتا تھا یعنی ایسا شخص کھڑا کیا جاتا تھا جو گو اُمّتِ موسوی میں سے ہی ہوتا مگر مقامِ نبوت اسے براہِ راست حاصل ہؤا کرتا تھا۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو‘ آپؐ کا کوئی غلام ہی اس نقص کو دور کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے گا۔ گویا آئندہ جو مرض پیدا ہو گا اس کا علاج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے ہی نکل آئے گا۔
اسلامی تعلیم کے افضل ہونے کے دلائلکتاب کے ساتھ حکمت کا بیان
اب مَیں اسلام کی تعلیم کے افضل ہونے کی بعض مثالیں دیتا ہوں۔اسلام میں احکام مع دلیل
بیان ہوئے ہیں جس سے تصوّفِ کامل کی بنیاد خود اصل کتاب سے پڑی ہے۔ یہود کی طرح کسی اور نبی کے توجہ دلانے کی ضرورت پیدا نہیں ہوئی۔ قرآن مجید سے قبل جو الہامی کتب تھیں ان میں احکام تو دیئے جاتے تھے مگر بالعموم ان کی تائید میں دلائل نہیں دیئے جاتے تھے مثلاً یہ تو کہا جاتا تھا کہ نماز پڑھو مگر یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ کیوں نماز پڑھو؟ اس میں کیا فائدہ ہے اور اس کی کیا غرض ہے؟ مگر قرآن کریم نے جہاں احکام دیئے ہیں وہاں ان احکام کے دلائل بھی دیئے ہیں اور ان کے فوائد بھی بیان کئے ہیں۔ اس طرح تصوّف کی بنیاد خود قرآن کریم میں آ گئی اور اس کے لئے کسی علیحدہ نبی کی ضرورت نہ رہی جیسے یہود کو حضرت مسیحؑ کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
وسطی تعلیم
دوسرے قرآن وسطی تعلیم لے کر آیا ہے جو ہر حالت کے مطابق ہے اور جہاں بھی انسانی طاقت میں فرق پڑتا ہے اس حالت کے لحاظ سے مسئلہ بھی موجود
ہوتا ہے۔
خدا اور بندہ کا براہِ راست تعلق
تیسرے پریسٹ ہڈ (PRIESTHOOD) کو اس میں مٹا دیا گیا ہے۔ یعنی پادریوں اور
پنڈتوں کا خدا اور بندہ کے درمیان عبادتِ الٰہی میں واسطہ ہونے کا خیال قرآن مجید نے بالکل اُڑا دیا ہے۔ موسوی اور عیسوی عہد میں اس پر بڑا زور تھا مگر اب ہرمومن آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھا سکتا ہے اور یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی خاص مولوی کو ہی بُلایا جائے۔ یہ انقلاب بھی درحقیقت ایک عظیم الشان انقلاب تھا کیونکہ دنیا ہزارہا سال سے اس قید میں جکڑی ہوئی تھی لیکن قرآن مجید نے اسے ایک آن میں توڑ کر رکھ دیا اور بتا دیا کہ عبادت میں کوئی شخص واسطہ نہیں ہو سکتا۔
اسلام کی یہ تعلیم عیسائیوں کے لئے تو اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کئی دفعہ یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جب آپ میں پادری نہیں ہوتا تو آپ عبادت کس طرح کرتے ہیں؟
مقام عبادت کو وسیع کر دیا گیا ہے
چوتھے اسلام نے مقامِ عبادت کی قید کو اُڑا دیا ہے اور مقامِ عبادت صرف نظام
کے لئے رہ گیا نہ کہ خود عبادت کیلئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہندو مندر میں اور عیسائی گرِجا میں عبادت کرتے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپؐ نے فرمایا جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا۶۹؎ روئے زمین میرے لئے مسجد بنائی گئی ہے۔ اس سے قبل جو انبیاء گزرے ہیں ان کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ عبادت خاص مقامات پر کی جائے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو خداتعالیٰ نے آپؐ کے ذریعہ سے تمام زمین کو مسجدبنا دیا اور دراصل پہلے انبیاء کا دین چونکہ محدود تھا ا س لئے خداتعالیٰ نے مقامِ عبادت کو بھی محدود کر دیا مگر جب خداتعالیٰ نے زمین کے چپہّ چپہّ کو پاک کرنے کے لئے اپنا دینِ اسلام بھیج دیا تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دے دیا کہ تم بھی چپہّ چپہّ کو مسجد بنا کر پاک کر لو۔
لفظی وحی کا نزول
پانچویں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ سب کی سب معیّن الفاظ میں نازل ہوئی اور ان الفاظ کو محفوظ رکھنے کا نہ
صرف حُکم دیا گیا بلکہ اس کے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا اور ذمہ بھی اُٹھایا۔ اس کے نتیجہ میں بحث اور تحقیق کے اصول میں بہت بڑا فرق پڑ گیا۔ پہلے یہ سوال ہؤا کرتا تھا کہ یہ موسیٰ ؑ کا فقرہ ہے یا خدا کا مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو تعلیم دی اس کا ہر لفظ خدا تعالیٰ نے خود اُتارا بلکہ اس کی زیر اور اس کی زَبر بھی خداتعالیٰ نے خود اُتاری۔
میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں مختلف مسائل کا تکرار ہؤا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں اسے یہ جواب دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں کوئی تکرار نہیں۔ لفظ تو الگ رہے‘ قرآن مجید میں تو زیر اور زبر کی بھی تکرار نہیں۔ جو زیر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے اس کی غرض دوسری جگہ آنے والی زیر سے مختلف ہے اور جو زبر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے دوسری جگہ آنے والی زبر سے اس کے معنی مختلف ہیں۔ یہ قرآن مجید کی وہ خوبی ہے جو کسی اور الہامی کتاب کو ہرگز حاصل نہیں۔
صفاتِ الٰہیہ کی مفصّل تشریح
چھٹے اسلامی تعلیم میں صفاتِ الٰہیہ کی باریک در باریک تشریح کی گئی ہے جس کے مقابل میں یہودی
تعلیم بھی مات پڑ گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہودی کتب میں صفاتِ الٰہیہ کا تفصیلی ذکر ہے مگر ان میں صفاتِ الٰہیہ کا باہمی تعلق بہت کم بیان کیا گیا ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ تجسس کیا تو مجھے قرآن کریم میں کوئی ایسی صفتِ الٰہی معلوم نہ ہوئی جو یہودی کتب میں بیان نہ ہوئی ہو لیکن ایک بات جو صفاتِ الٰہیہ کے باب میں یہودی کتب میں بھی نہیں پائی جاتی مگر قرآن میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ قرآن نے اِس بات پر بحث کی ہے کہ مثلاً رحمانیت کا میدان کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ رحیمیت کے دَور کا کس جگہ سے آغاز ہوتا ہے اور ان تمام صفات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ مگر توریت نے اس پر بہت کم روشنی ڈالی ہے۔ گویا صفاتِ الٰہیہ کے مختلف اداروں کا جو باہمی تعلق ہے قرآن کریم میں اِس کی تشریح بیان کی گئی ہے لیکن تورات نے ان اداروں کا ذکر تو کر دیا ہے مگر ان کے باہمی تعلق کا ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے سالک ان سے پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور یہ اُس(قرآن) کی فضیلت کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
مسائلِ معاد پر کامل روشنی
پھر ایک بہت بڑی فضیلت جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ اس میں علمِ معاد پر علمی اور فلسفیانہ بحث کی گئی
ہے جس سے یہودی لٹریچر بالکل خالی تھا۔ حتیّٰ کہ ان میں قیامت کے منکرین کا زور تھا اور بہت تھوڑے تھے جو قیامت کے قائل تھے۔ مگر قرآن کریم وہ پہلی کتاب ہے جس نے مسائلِ معاد کی ساری تفصیلات پر بحث کی ہے اور اتنی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ اب اگر کوئی جان بوجھ کر شرارت سے قیامت کا انکار کرے تو کرے ورنہ دلائل کے لحاظ سے وہ قیامت کا ہرگز انکار نہیں کر سکتا۔
شرعی اصطلاحات کا قیام
آٹھویں افضلیت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس میں شرعی اصطلاحات کا نیا دروازہ کھولا گیا جو اس سے
پہلے بالکل مفقود تھا۔ یعنی قرآن کریم سے پہلے جن باتوں کو مضامین میں ادا کیا جاتا تھا قرآن کریم نے ان کیلئے اصطلاحیں قائم کر دیں اور ایسی اصطلاحیں قائم کیں جو پہلے نہیں تھیں اور پھر ان اصطلاحوں کے ایسے معیّن معنی کئے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ مثلاً قرآن کریم نے نبی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کی تعریف بھی بیان کی ہے اور پھر بتایا ہے کہ نبی کب آتے ہیں ان کے پہچاننے کیلئے کیا نشانات ہوتے ہیں‘ ان کا کام کیا ہوتا ہے‘ خدا تعالیٰ کا ان سے کیا معاملہ ہوتا ہے‘ بندوں سے ان کا کیا تعلق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور اسی قسم کی اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو قرآن کریم کے علاوہ اور کسی مذہبی کتاب نے بیان نہیں کیں اور یہ ایک ایسی زبردست خوبی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
پیغامیوں سے جب ہمارا مقابلہ زوروں پر تھا، اُن دنوں مَیں نے ایک دفعہ بڑے بڑے بِشپوں، سکھ گیانیوں، ہندئووں کے پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں سے خط لکھ کر دریافت کیا کہ آپ کے مذہب میں نبی کی کیا تعریف ہے؟ تو بعض نے تو اس کا جواب ہی نہ دیا‘ بعض نے یہ جواب دیا کہ اس بارہ میں ہمارے مذہب میں کوئی خاص تعلیم نہیں۔ چنانچہ ایک بڑے بشپ کا بھی یہ جواب آیا کہ اس مضمون پر ہماری کتب میں کوئی خاص روشنی نہیں ملتی۔
اسی طرح ملائکہ کیا ہوتے ہیں‘ وہ کیا کام کرتے ہیں‘ ان کے ذمہ کیا کیا فرائض ہیں؟ ان میں سے کوئی بات تفصیل کے ساتھ سابقہ الہامی کتب نے بیان نہیں کی۔ مگر اسلام نے اگر ایک طرف بعض روحانی وجودوں کیلئے ملائکہ کا لفظ وضع کیا ہے تو پھر خود ہی ان کے وجود اور ان کے کام پر کامل روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح ذاتِ الٰہی، صفاتِ الٰہیہ، دعا، قضاء و قدر، حشر و نشر، جنت و دوزخ، حیاتِ جنت وغیرہ ان سب امور کیلئے اس نے مصطلحات تجویز کی ہیں اور پھر ان کی مکمل تشریح فرما کر انسانی دماغ کو ایسی روشنی بخشی ہے کہ وہ ان مسائل کو اسی طرح اپنے ذہن میں مستحضر کر سکتا ہے جس طرح کہ مادی علوم و امور کو۔ اور اس طرح علم کو پراگندہ ہونے اور دماغ کو پریشان ہونے سے اس نے بچا لیا ہے۔
قرآنی تعلیم کی جامعیت
نویں فضیلت جو قرآن کریم کو حاصل ہے یہ ہے کہ گو اس سے پہلے موسوی سلسلہ میں سیاست اور عبادت اور تمدّن
کو مذہب میں شامل کر لیا گیا تھا۔ یعنی موسیٰ نے لوگوں سے کہا تھا کہ تمہیں میری حکومت، مذہب میں بھی اور تمدّن میں بھی اور اخلاق میں بھی اور سیاست میں بھی ماننی پڑے گی مگر رسول کریمﷺ کے زمانہ میں اسلام کے ذریعہ سے اس کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا اور اسلام نے عبادت و روحانیت کی تعلیم کے علاوہ سیاست اور تمدّن کی تعلیم بھی دی اور اخلاقیات اور اقتصادیات اور تعلیم اور معاشرت اور ثقافت کے مسائل کو بھی شریعت میں شامل کر کے انسانی زندگی کو ایسا کامل کر دیا کہ اس کے عمل کا کوئی شعبہ صحیح ہدایت اور کامل نگرانی سے باہر نہیں رہ گیا۔
مذہب کو مشاہدہ پر قائم کیا گیا
دسویں فضیلت قرآن کریم کی تعلیم کو یہ حاصل ہے کہ اس نے خدا کے قول اور خدا کے فعل کو ایک
دوسرے کے لئے مُمدّ اور متوازی قرار دے کر تجربہ اور مشاہدہ کے میدان میں مذہب کو لاکھڑا کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے اسے صرف مافوق الطبعیات قرار دیا جاتا تھا۔ چنانچہ قرآن نے کہا کہ دنیا خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کے قول اور اس کے فعل میں تضاد ہو۔ پس جب بھی تمہیں کوئی مشکل درپیش ہو خدا کے قول اور خدا کے فعل کو مطابق کرو۔ جہاں یہ مطابق ہو جائیں تم سمجھ لو کہ وہ بات صحیح ہے اور جہاں ان میں اختلاف رہے تم سمجھ لو کہ اب تک تم پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی۔ اس نکتہ سے مذہب اور سائنس میں جو لڑائی تھی وہ جاتی رہی کیونکہ سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا کلام اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول و فعل میںتطابق نہ ہو اور اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے یا اس کے قول کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے یا اس کے فعل پر غور کرنے میں ہمیں غلطی لگی ہے۔ ان میں سے جس چیز کا نقص بھی دُور کر دیا جائے گا دونوں میں تطابق پیدا ہو جائے گا۔ اس نکتہ عظیمہ کی وجہ سے مذہب فلسفہ کے میدان سے نکل کر مشاہدہ کے میدان میں آ گیا ہے۔
اتحادِ اُمم کی بنیاد
گیارہویں عظیم الشان فضیلت قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کا لایا ہؤا پیغام کسی ایک قوم یا دو قوموں کیلئے نہیں
بلکہ ساری دنیا کیلئے ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ۔۷۰؎
کہ اے رسول! ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے اور تیرے ذریعہ سے ہم سب دنیا کو ایک نظام پر جمع کرنے والے ہیں۔
اب دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان انقلاب ہے اور انقلاب بھی ایسا جس کی مثال پہلے نہیں ملتی پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور جو تعلیم وہ لاتا اپنی قوم کے لئے لاتا تھا۔ چنانچہ ہندوستان میں اگر کرشن حکومت کر رہے تھے تو ایران میں زرتشت حکومت کر رہے تھے اور چین میں کنفیوشس حکومت کر رہے ہیں۔ اسی طرح کوئی موسیٰ ؑ کی اُمّت تھا تو کوئی عیسیٰ ؑ کی مگر خدا نے کہا اب دنیا میں ایک ہی مذہبی حکومت ہو گی اور ظاہری اور باطنی طور پر تمام دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے لائی جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اس خصوصیت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ۷۱؎ کہ پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جایا کرتا تھا مگر میں روئے زمین کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
یہ انقلاب چونکہ ایک نیا انقلاب تھا اور لوگوں نے یہ پہلی دفعہ سنا کہ تمام دنیا روحانی لحاظ سے ایک ہونے والی ہے اس لئے وہ دنگ رہ گئے۔ اور جس طرح آپؐ نے توحید کی تعلیم پیش کی تھی اور کُفّار حیران ہو گئے تھے ویسا ہی اس دعویٰ کے وقت بھی ہؤا۔ چنانچہ توحید کی تعلیم کے بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ کُفّار اسے سنکر کہہ اُٹھے ۷۲؎ کہ دنیا میں پہلے جو اتنے خدا موجود ہیںکیا ان سب کو اکٹھا کر کے یہ ایک خدا بنانا چاہتا ہے؟ یعنی کوئی ایرانیوں کا خدا ہے جسے وہ اہرمن یا یزدان کہتے ہیں، کوئی عیسائیوں کا خدا ہے جسے وہ گاڈ (GOD) یا خداوند یسوع مسیح کہتے ہیں، کوئی ہندوستان کا خدا ہے جسے وہ پرمیشور یا اوم کہتے ہیں، کوئی یہودیوں کا خدا ہے جسے وہ یہوواہ کہتے ہیں۔ غرض یہ مختلف خدا ہیں جو دنیا میں موجود ہیں۔ اگر اب یہ آ کر کہہ رہا ہے کہ صرف ایک خدا کو مانو تو کیا یہ سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک بنا دے گا؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے کہ اتنے خداؤں کو کُوٹ کاٹ کر ایک خدا بنا دیا جائے۔
غرض کُفّار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے اپنے اس تعجب کا اظہار کیا مگر اب دیکھو یزدان اور گاڈ اوراوم اور یہوواہ وغیرہ سب نام اللہ کے اندر آ گئے اور اللہ کا نام ہی سب ناموں پر غالب آ گیا ہے اور آج ساری دنیا توحید کے خیال کی صحت کو تسلیم کر رہی ہے۔ دشمنوں کو جو حیرت توحید کے دعویٰ سے ہوتی تھی ویسی ہی آپ کے اس دعویٰ سے ہوئی کہہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کے بارہ میں آتا ہےلیکن اکثر لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے۔
میں سمجھتا ہوں اس زمانہ میں لوگوں کے لئے یہسمجھنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے آدم کے زمانہ میں لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ایک غیر شخص جو ہمارے ہی جیسا ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے کا حق رکھتا ہے۔ کفارِ مکہ بھی اس دعویٰ پر سخت حیران ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ پیدا تو ہؤا عرب مَیں اور کہتا ہے کہ میں ایران کا بھی نبی ہوں‘ اور چین کا بھی نبی ہوں، اور مغرب کا بھی نبی ہوں ، اور مشرق کا بھی نبی ہوں۔ چنانچہ وہ اپنے اس اِستعجاب کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں۔۷۳؎ اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ ساری دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو یہ بات کب ہو گی؟ فرمایا۷۴؎ تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ بس اس زمانہ کے آنے میں اتنی ہی دیر ہے جتنی کہ سورہ سجدہ میں بتائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ۔۷۵؎ یعنی اللہ تعالیٰ أمرِ اسلامی کو پہلے تو زمین میں قائم کرے گا پھر وہ ایک ہزار سال کے عرصہ میں آسمان پر اُٹھ جائے گا۔
اِس آیت میں اسلام کے پہلے ظہور کا زمانہ بتایا گیا ہے جس میں سے ایک ہزار سال کا عرصہ معیّن کر دیا ہے اور پہلا عرصہ غیر معیّن رکھا ہے۔ لیکن اسے حدیثِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معیّن کر دیا ہے۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُم ثُمَّ الْفَیْجُ الْاَعْوَجُ۷۶؎ یعنی بہترین صدی میری ہے پھر اس کے بعد کی صدی پھر اس کے بعد کی صدی پھر تباہی ہے۔
تدبیرِ امر کا زمانہ
اس سے معلوم ہؤا کہ تدبیر امر کا زمانہ تین صدیاں ہیں اور اس کے بعد تباہی کا زمانہ ایک ہزار سال اور اس کے بعد پھر ترقی کا زمانہ۔
گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سَو سال بعد اسلام کا دوبارہ اِحیاء مقدر بنایا گیا تھا۔پس اس جگہ جو کہا ہے تو اس سے اسی یوم کی طرف اشارہ ہے جس کا سورہ سجدہ میں ذکر ہے اور وہ ہزار سال تنزّلِ اسلام کے ہیں جس کے بعد بتایا گیا ہے کہ پھر اسلام ترقی کرے گا اور ساری قوموں میں پھیل جائے گا کیونکہ وہ زمانہ تکمیلِ اشاعت اسلام کا زمانہ ہو گا آیت ۷۷ ؎ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
میعادِ یوم سے مراد
پس اس جگہ میعادِ یوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے کے تنزّلِ اسلام کے ہزار سالہ دَور کی طرف اشارہ ہے
جس کے بعد اسلام کی دوبارہ ترقی مقدر کی گئی تھی۔
حضرت مسیحؑ کا حلقہئبعثت
بعض عیسائی اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ یہ تعلیم تمہاری نئی نہیں ہمارے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہے کہ تم اپنا
پیغام تمام دنیا کو پہنچاؤ اور ہمارا مسیح بھی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث نہیں ہؤا تھا بلکہ تمام دنیا کی طرف تھا۔
میں اپنے ایک پُرانے مضمون میں عیسائیوں کے اس دعویٰ کا جواب دے چکا ہوں اور انجیلوں کے متعدد حوالہ جات سے ثابت کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح ناصری تمام دنیا کی طرف نہیں آئے بلکہ محض بنی اسرائیل کی طرف آئے اور وہ خود انجیل میں کہتے ہیں کہ:۔
’’مَیں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ ۷۸؎
اور یہی طرز عمل ان کے حواریوں کا بھی تھا مگر آج مَیں ایک اور رنگ میں عیسائیوں کے اِس دعویٰ کو باطل ثابت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر خدا نے کہا تھا کہ مسیح تمام دنیا کی طرف ہے اور اس کے ذریعہ سے سب لوگ ایک جھنڈے کے نیچے آ جائیں گے تو بہرحال خدا جو بات کہے‘ اسے پورا ہونا چاہئے اور چونکہ یہ انقلابی تعلیم تھی اور اس لئے دی گئی تھی کہ سب دنیا کو ایک کر دیا جائے اور قومیّتوں کو کمزور کر دیا جائے اس لئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا اس مقصد کو نے پورا کر دیا؟
عیسائی بیشک یورپ میں بھی پھیلے اور چین میں بھی پھیلے اور جاپان میں بھی پھیلے اور ہندوستان میں بھی پھیلے اور ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں شاید مسلمان بھی نہیں پہنچے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس تعلیم کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا؟ اس تعلیم کی غرض تو یہ تھی کہ جُدائی کے خیالات مِٹا دیئے جائیں۔ قومیّتوں کو کمزور کر دیا جائے اور سب دنیا کو مساوات کے جھنڈے کے نیچے لایا جائے۔ اب اگر مسیح کو خدا نے کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوامِ عالَم کا تفرقہ مٹ جائے گا اور سب دنیا ایک ہو جائے گی تو عیسائیت کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہو جانا چاہئے تھا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے یہ کہا تھا کہ تیرے ذریعہ سے اقوامِ عالَم کا تفرقہ مِٹے گا اور سب دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آئے گی تو اسلام کے ذریعہ سے یہ انقلاب پیدا ہونا چاہئے تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سے زیادہ نیشنلزم اور قوم پرستی کی تعلیم کسی اور نے نہیں دی اور دنیا میں ایک ملک بھی تم نہیں دِکھا سکتے جہاں نے مساوات قائم کی ہو لیکن دنیا میں تم ایک ملک بھی ایسا نہیں دِکھا سکتے جہاں اسلام گیا ہو اور مساوات قائم نہ ہوئی ہو۔ آج انگریز جرمن کا دشمن اور جرمن انگریز کا دشمن ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے ہوائی جہاز بناتے، توپیں ایجاد کرتے اور نئے سے نئے اور دُور دُور تک گولہ باری کرنے والے بم بناتے ہیں لیکن باوجود اس کے ایک ہندوستانی عیسائی سے ایک انگریز وہ تعلقات کبھی پیدا نہیں کرے گا جو ایک جرمن دہریہ سے کر لے گا۔ اگر خدا نے اس کو سب دنیا کے لئے بھجوایا تھا تو اس کا نتیجہ وہ کیوں نہ نکلا جو نکلنا چاہئے تھا؟ اور تو اور یورپین عیسائی تو ان سے بھی مساوات نہیں برتتے جو ان کے خداوند کے بھائی ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو‘ جرمن اور دوسرے ممالک میں یہودیوں پر کتنے مظالم کئے جا رہے ہیں آخر یہ کون ہیں؟ یہ ان کے خداوند کے بھائی ہی تو ہیں مگر یہ ان سے بھی مساوات برتنے کے لئے تیار نہیں۔
اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر مساوات پیدا کر دی ہے کہ ایک جاہل عرب‘ ایک منگتا عرب‘ ایک عرب دنیا کے کسی کونہ میں چلا جائے‘ مسلمانوں کی یوں باچھیںکھِل جاتی ہیں گویا ان کا کوئی بزرگ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آ گیا ہے اور عرب صاحب! عرب صاحب! کہتے ہوئے ان کا منہ خشک ہوتا ہے۔
پس عیسائیوں کے اس دعویٰ کو خود خدا کا فعل ردّ کر رہا ہے اور اس کے فعل نے بتا دیا ہے کہ یہ انقلاب محمدی ؐ انقلاب ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس تعلیم کے مخاطب تھے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ تعلیم نازل کی جاتی تو خداتعالیٰ ان سے یہ کام بھی لیتا ہاں چونکہ بشارت کی ہوائیں اصل موعود کے آنے سے پہلے چلنی شروع ہو جاتی ہیںاس لئے جب عیسوی دَور میں محمدیؐ انقلاب کی بشارت آئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک عظیم الشان نبی کے ذریعہ سے جو تمام نبیوں کا سردار ہو گا سب دنیا ایک ہونے والی ہے اور سب دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے آنے والی ہے تو عیسائیوں نے اس سے دھوکا کھایا اور انہوں نے سمجھا کہ ابھی سے اس کا وقت آ گیا ہے لیکن چُرایا ہؤا لباس فِٹ کہاں آ سکتا تھا۔ خدا کے فعل نے ثابت کر دیا کہ اس کے مخاطب عیسائی نہیں تھے بلکہ مسلمان اس کے مخاطب تھے۔
اسلامی اِنقلاب
غرض اِن تغیّرات کے ماتحت اسلام نے دنیا کے علم‘ اس کے فکر‘ اس کے فلسفہ‘ اس کے جذبات‘ اس کے مذہب‘ اس کی سیاست‘ اس کے
اخلاق‘ اس کے تمدّن، اس کی معاشرت،اس کی اقتصادیات اور اس کی ثقافت کو بالکل بدل دیا اور دنیا اور سے اور ہو گئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین محمد ﷺ نے پیدا کر دی۔
اسلام اور دوسرے مذاہب میں مشابہت کی اصل وجہ
آج جومشابہت اسلام اور ان
مذاہب میں نظر آ رہی ہے یہ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مشابہت والے امور ان مذاہب میں پہلے سے موجود تھے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام کے ساتھ مل کر انہوں نے اس کی بعض تعلیموں کو اپنا لیا ہے۔ چنانچہ دین تو الگ رہا‘ یورپین لوگوں نے مسلمانوں کی کتابوں کی کتابیں نقل کی ہیں اور اِن علوم کو اپنی طرف منسوب کر لیا ہے۔ چنانچہ آج کَل یورپ میں کئی ایک ایسی کتب شائع ہو رہی ہیں جن میں اس قسم کی چوریوں کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہؤا مَیں نے ایک کتاب انگلستان سے منگوائی ہے اس میں علمِ موسیقی پر بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یورپین لوگوں نے اس علم کو سپین کے مسلمانوں کی کتابوں سے نقل کیا ہے بلکہ مصنّف اس راز کا انکشاف کرتا ہے کہ میں ان کتابوں کے حوالے دے سکتا ہوں جن سے یورپ کے لوگوں نے یہ باتیں نقل کیں اور پھر کہتا ہے کہ اس اندھیر کو دیکھو کہ برٹش میوزیم میں فلاں نمبر پر فلاں کتاب ہے۔ اس میں فلاں پادری کے نام کا ایک خط درج ہے جو کسی عیسائی نے انہیں لکھاتھا کہ صاحبِ مَنْ! مسلمانوں کی موسیقی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہماری موسیقی اس کے مقابلہ میں بہت بھدّی معلوم ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے علوم کا یورپین لوگوں کیلئے ترجمہ کر دوں مگر میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں کا علم نقل کرنے سے پادریوں کی طرف سے مجھ پر کُفر کا فتویٰ نہ لگ جائے آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ اگر یہ علم نقل کر لیا جائے تو گرِجوں کو اس سے بڑا فائدہ پہنچے گا۔ اس کا جواب بشپ صاحب نے یہ دیا کہ بیشک ان علوم کو اپنی کتابوں میں نقل کر لو مگر ایک بات کا خیال رکھنا اور وہ یہ کہ اگر تم نے نیچے حوالہ دیدیا تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ علم عربوں سے لیا گیا ہے اور اس طرح اسلام کی عظمت ہمارے مذہب کے پیرؤوں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے گی۔ پس تم نقل بیشک کرو مگر حوالہ نہ دو تا لوگ یہ سمجھیں کہ یہ علم تم اپنی طرف سے بیان کر رہے ہو۔ چنانچہ وہ لکھتاہے کہ یہ خط آ ج تک برٹش میوزیم میں موجود ہے۔
اسی طرح پیرس میں ۱۹۴۰ء تک ابن رُشد کا فلسفہ پڑھایا جاتا تھا مگر نام میں ذرا سا تغیر کر دیا جاتا تھا تا لوگوں کو یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کسی مسلمان کا فلسفہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ روم کی یونیورسٹیوں میں ایک دفعہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ فلسفہ کی یہ کتاب نہ پڑھائی جائے بلکہ فلاں کتاب پڑھائی جائے کیونکہ اب فلسفہ ترقی کر چکا ہے تو پادریوں نے کُفر کا فتویٰ دے دیا اور کہا کہ یہ بے دینی ہے۔ گویا ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد انہیں اتنا خیال بھی نہ رہا کہ وہ ایک مسلمان کی لکھی ہوئی کتاب ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ یہ کسی عیسائی کی کتاب ہے اور اگر اس کی جگہ اب کوئی اور فلسفہ پڑھایا گیا تو کفر ہو جائے گا۔
ہمارے لوگ ناواقفی کی وجہ سے بِالعموم یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ بات بھی عیسائیوں سے لی گئی ہے اور وہ بات بھی، حالانکہ مسلمانوں نے بحیثیت قوم عیسائیوں سے کوئی بات نہیں لی مگر عیسائیوں نے مسلمانوں سے بحیثیت قوم علوم سیکھے ہیں لیکن مسلمان چونکہ اب ان تمام علوم کو بُھلا بیٹھے ہیں اور عیسائیوں نے یاد کر لئے ہیں بلکہ ان میں زمانہ کی ترقی کے ساتھ ترقی ہو گئی ہے اور ان کی شکل بھی بدل گئی ہے، اس لئے مسلمان پہچانتے نہیں ہیں اور اب تو غفلت کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں میں نہ دین باقی ہے نہ اخلاق،نہ تمدّن باقی ہے نہ سیاست،نہ تہذیب باقی ہے نہ ثقافت، بس مغربیت ہی مغربیت ہے جو اِن کا اوڑھنا بچھونا بن رہی ہے حالانکہ وہ تمام باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں جن سے پہلے مسلمانوں نے ترقی کی اور جن سے موجودہ مسلمان بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر قرآن کو تو انہوں نے بند کر کے رکھ دیا ہے اور مغربیت کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں جس طرح چڑیا کا بچہ بیٹھا ماں کی راہ تک رہا ہوتا ہے۔
ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ نے ایک دفعہ ہندوستان کے آم کی تعریف سُنی اور اس کے دل میں شوق پیدا ہؤا کہ آم کھائے۔ بادشاہ نے ہندوستان میں اپنا سفیر بھیجاکہ جا کر آم لے آؤ۔ جب وہ یہاں پہنچا تو آم کا موسم نکل چکا تھا لیکن بادشاہ نے یہ خیال کر کے کہ یہ شاہِ ایران کا سفیر ہے اور دُور سے آیا ہے‘ دہلی اور اس کے گرِدونواح میں آم کی بڑی تلاش کرائی۔ آخر اِسی تلاش اور جِدّوجہد کے نتیجہ میں ایک بے موسم کا آم مل گیا مگر سخت کھٹّا اور ریشہ دار۔ بادشاہ نے اُس سفیر کو بُلا کر کہا کہ آم کی شکل آپ دیکھ لیں ایسی ہی شکل ہوتی ہے مگر ذائقہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔ یہ جو آم مِلا ہے یہ کچھ اچھا نہیں لیکن چونکہ آپ نے اب واپس جانا ہے اس لئے ذرا اسے چکھ لیں تا آپ بادشاہ کے سامنے آم کی حقیقت بیان کر سکیں۔ اُس نے چکھا تو سخت کھٹّا اور بدمزا تھا۔ جب وہ واپس گیا اور شاہِ ایران نے اس سے آم کی کیفیت پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ہندوستانیوں کی عقل کے متعلق شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ کہنے لگا کیوں؟ اُس نے کہا وہ آم کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور آپ نے بھی آم ہی کے لئے مجھے بھیجا تھا مگر میں جو آم چکھ کر آیا ہوں اُس کی کیفیت آپ اس چیز سے معلوم کر سکتے ہیں یہ کہہ کر اُس نے ایک پیالہ پیش کیا جس میں املی کا ریشہ اور تھوڑا سا پانی پڑا ہوا تھا۔ بادشاہ دیکھ کر سخت متعجب ہؤا اور ا س نے کہا کہ ہیں! ہندوستانی ایسی لغو شَے کی اس قدر تعریف کرتے ہیں؟
یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے۔ وہ قرآن کریم کے علوم سے بکُلّی بے بہرہ ہو گئے ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے ایک مُردہ کتاب بن گیا ہے اور اب جو کچھ ان کے سامنے ہے اس کو اور قرآن کریم کو آپس میں وہی نسبت حاصل ہے جو اعلیٰ اور لذیذ آم کو پانی میں بھگوئی ہوئی املی سے ہوتی ہے۔ حالانکہ تمام حُسن اسلام میں ہے، تمام خوبیاں اسلام میں ہیں اور یورپ نے اصولِ علم میں جو کچھ سیکھا ہے اسلام اور مسلمانوں کی خوشہ چینی کر کے سیکھا ہے مگر مسلمانوں کو چونکہ اس کا علم نہیں اس لئے وہ مغربیت کے دِلدادہ ہو گئے ہیں۔
مغربیت کے اُصول
غرض اس زمانہ میں اسلام کی تعلیم بطورِ کُل کے کہیں نہیں پائی جاتی‘ صرف ٹکڑے ٹکڑے پائی جاتی ہے اور اصل اسلامی تعلیم کو
درحقیقت مسلمان بُھلا بیٹھے ہیں اور مغربیت ان پر غالب ہے جس کے بڑے اصول یہ ہیں:۔
(۱) مادیت (۲) اس کا لازمی نتیجہ نیشنلزم۔ (۳) اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل کو نیشنلزم کے تابع کرنا۔
اِن امور نے اخلاق‘ مذہب اور حقیقی قربانی اور دنیا کے امن کو بِالکل برباد کر دیا ہے اور مذاہب کی شکل کو مسخ کر دیا ہے۔ اب اگر یورپ کے لوگ کسی چیز کا نام مذہب رکھتے ہیں تو اس نقطہ نگاہ سے کہ وہ مذہب ان کی حکومت کو کتنا مضبوط کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی دماغ اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ جرمن میں بغاوت ہوتی ہے اور پادری جب دیکھتے ہیں کہ عیسائیت کی تعلیم انہیں اتنا مضبوط نہیں بناتی کہ وہ بغاوت کو کُچل سکیں تو بڑے آرام سے انہیں مذہبی کتاب کے احکام میں تبدیلی کر کے ایک نیا فلسفہ پیش کر دیتے ہیں اور پھر چھوٹے بڑے سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مذہب ہے۔ ایک مسلمان اِس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کسی نے سَو بیویاں کرنی ہوں اور وہ دیکھے کہ قرآن میں اس کی اجازت نہیں تو بڑے آرام سے ۷۹؎ والی آیت کی جگہ سَو عورتوں سے نکاح کرنے والا فقرہ لکھ دے اور پھر کہے کہ میں نے اپنی کتاب کی تعلیم کے مطابق سَو بیویاں کی ہیں۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ تم نے اپنے ہاتھ سے ایک فقرہ لکھا ہے وہ تمہارا خیال تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اسے مذہبی اجازت کس طرح قرار دیتے ہو؟ مگر یورپ والوں کی یہی حالت ہے وہ جب دیکھتے ہیں کہ مذہب کی کسی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انہیں قومی لحاظ سے نقصان پہنچ سکتا ہے تو جھٹ اس تعلیم میں تبدیلی کر دیتے ہیں اور ایک نیا فلسفہ ایجاد کر کے اس کا نام مذہب رکھ دیتے ہیں۔ گویا مذہب سے اتنی دُوری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ مذہب قومیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو چیز نیشنلزم کو تقویت دے وہی خدا کا منشاء ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اخلاق ہاتھ سے جاتے رہے ہیں اور مذہب بھی ضائع ہو گیا ہے اور نیشلزم پر مذہب کی بنیاد رکھ کر حقیقی قربانی کی روح کو برباد کر دیا گیا ہے۔ اب ایک جرمن اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ بنی نوع انسان کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس لئے قربانی کرے گا کہ جرمن قوم کو اس سے کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ یا ایک انگریز اس لئے قربانی نہیں کرے گا کہ دنیا کو اس کی قربانی کی ضرورت ہے بلکہ اسی وقت قربانی کرے گا جب اس کی قوم کا مفاد اس کا تقاضا کرے گا۔
ساتویں دَور کا انقلاب اِحیائے تعلیمِ مصطفویؐ
غرض مادیت اور نیشنلزم اور تمام مذہبی اور اخلاقی مسائل
کو نیشنلزم کے تابع کرنے کی روح نے دنیا کے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موجودہ زمانہ میں جو تہذیبِ الٰہی کا ساتواں دَور ہے بھیجا ہے اور آپ کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ آپ وہ دوسری قسم کا انقلاب پیدا کریں جسے آیت کے آخری حصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کبھی انقلاب اس طرح بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ کتاب وہی واجب العمل رہتی ہے جو پہلے سے موجود ہو مگر خدا تعالیٰ دوبارہ اس کی مُردہ تعلیم کو زندہ کرنے کے لئے ایک انسان اپنی طرف سے کھڑا کر دیتا ہے جو لوگوں کو پھر اس تعلیم پر از سِر قائم کرتا ہے اور جس کی طرف سورہ جمعہ میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ:۔ ۸۰؎
یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمّیوں میں اپنا رسول بھیجا جو ان پر آیاتِ الٰہیہ کی تلاوت کرتا، ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے ، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھُلی کُھلی گمراہی میں مبتلاء تھے اور وہ خدا ہی ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور پھر آپ کے ذریعہ سے ایک ایسی جماعت پیدا کرے گا جو صحابہ کے رنگ میں کتاب جاننے والی ‘ پاکیزہ نفس اور علم و حکمت سے واقف ہو گی۔ گویا وہی کام جو آنحضرت ﷺ نے کیا نئے سِرے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کرنا ہے۔
بعثتِ ثانیہ کے کام
سورۃ صف میں بھی اِس ساتویں دَور کا کام بتایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یعنی ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لائے ہوئے کلام کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا اور سب دوسرے ادیان پر غالب کر دے گا۔
خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہی آیت الہاماً نازل ہوئی ہے تا یہ بتایا جائے کہ وہ زمانہ جس میں اس کا ذکر تھا آ پہنچا ہے۔ پُرانے مفسرین بھی اسی امر پر متفق ہیں کہ یہ آیت آخری زمانہ کے متعلق ہے اور کہ یہ کام مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہونے والا ہے۔
غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ بعثتِ اُولیٰ میں تو قیامِ دین کا کام مقدر تھا اور بعثتِ ثانیہ میں باقی مذاہب پر اسلام کو غالب کر دینے کا کام مقدر ہے یعنی (۱) دلائل و براہین سے ان کے متبعین کو اسلام میں داخل کرنا اور (۲) ان کی تہذیب و تمدّن کو مٹا کر اسلامی تمدّن اور تہذیب کو اس کی جگہ قائم کر دینا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے مسیح موعودؑ کو محض اسی مقصد کیلئے بھیجا ہے۔ تاکہ تمام دینوں پر وہ اسلام کو غالب کر دے۔
غلبۂ اسلام کے ذرائع
اب دیکھنا چاہئے کہ تمام ادیان پر اسلام کا کُلّی غلبہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اگر خالی تعلیم لی جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ ہر
مذہب کے چند آدمیوں کو ہم اپنے اندر شامل کر لیں گے تو یہ ان کے ادیان پر غلبہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ ادیانِ باطلہ بہرحال موجود رہیں گے اور وہ اسلام سے الگ ہونگے۔ اسلام کا ان پر کوئی غلبہ نہیں ہو گا۔ پس لازماً ماننا پڑتا ہے کہ غلبہ کے یہ معنی نہیں بلکہ غلبہ کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح آج باوجود مذاہب کے اختلاف کے مغربی تہذیب دنیا پر غالب آئی ہوئی ہے اسی طرح ہمارا کام ہے کہ ہم اسلامی تمدّن اور اسلامی تہذیب کو اس قدر رائج کریں کہ لوگ خواہ عیسائی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدّن اسلامی ہو۔ لوگ خواہ یہودی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدّن اسلامی ہو، لوگ خواہ مذہباً ہندو ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدّن اسلامی ہو، یہ چیز ہے جس کے پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا کہ تہذیبِ اسلامی کو اتنا رائج کیا جائے اتنا رائج کیا جائے کہ اگر کچھ حصہ دنیا کا اسلام سے باہر بھی رہ جائے پھر بھی اسلامی تہذیب ان کے گھروں میں داخل ہو جائے اور وہ وہی تمدّن قبول کریں جو اسلامی تمدّن ہو۔ گویا جس طرح آج کل لوگ کہتے ہیں کہ مغربی تمدّن بہتر ہے‘ اسی طرح دنیا میں ایک ایسی رَو چل پڑے کہ ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ اسلامی تمدّن ہی سب سے بہتر ہے۔
اِنقلاب حقیقی کے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
الہامات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں اس دعویٰ کا وجود پایا جاتا ہے چنانچہ (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں:۔
’’ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔‘‘ ۸۱؎
چشمہ مسیحی میں آپ اس کشف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’اس کشف کا مطلب یہ تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے۔‘‘۸۲؎
(۲) پھر الہام ہے یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ۸۳؎ مسیح موعود دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔
(۳) اسی طرح الہام ہے۔ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ۸۴؎ کہ یاد رکھو اسلامی لحاظ سے دنیا مر گئی اور اب اس نے مسیح موعود کو اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اسے دوبارہ زندہ کرے۔
(۴) چوتھا الہام مخالفین کی نسبت ہے کہ ’’زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں ’’فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا‘‘ ۸۵؎ اس الہام میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ لوگوں کو زمانہ کے فیشن کا خیال ہے لیکن وہ فیشن جو حقیقی حیات پیدا کرتا ہے‘ اس سے دور جا پڑے ہیں اس لئے وہ پِیس دیئے جائیں گے اور دعا سکھائی گئی ہے کہ کہو اے خدا! تو اِن لوگوں کو مٹا دے اور نوحؑ کے زمانہ کی طرح ان پر تباہی لا تا مغربی تمدّن اور مغربی تہذیب کی جگہ دنیا میں اسلامی تمدّن اور اسلامی تہذیب قائم ہو۔
(۵) پانچواں الہام ہے۔ مَا اَنَا اِلَّا کَالْقُرْاٰنِ وَسَیَظْھَرُ عَلٰی یَدَیَّ مَاظَھَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ ۸۶؎ کہ اے مسیح موعود! تُو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تو قرآن کی طرح ہوں جس طرح قرآن نے پہلے زمانہ میں تبدیلی کی ہے ویسی ہے تبدیلی میرے زمانہ میں بھی ہو گی۔
(۶) چھٹا الہام ہے۔ ’’آسمانی بادشاہت‘‘ ۸۷؎ یعنی خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کیا جائے گا۔
اِن آیات والہامات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب کے دَور کو مِٹا کر اسلام کے عقائد،اس کی شریعت، اس کے تمدّن‘ اس کی تہذیب‘ اس کے علوم‘ اس کے اقتصاد‘ اس کی سیاست‘ اس کی معاشرت اور اس کے اخلاق کو قائم کیا جائے۔ اس تبدیلی کا کچھ حصہ شخصی ہے جیسے نمازیں پڑھنا یا روزے رکھنا اور کچھ قومی۔ شخصی حصہ تو وعظ اور شخصی کوشش کو چاہتا ہے یعنی لوگوں کو کہا جائے کہ وہ نمازیں پڑھیں‘ وہ روزے رکھیں، وہ حج کریں،وہ صدقہ و خیرات دیں اور پھر جو لوگ اس وعظ و نصیحت سے متأثر ہوں وہ اپنے اپنے طور پر نیکی کے کاموں میں مشغول ہو جائیں لیکن قومی حصہ ایک زبردست نظام چاہتا ہے مثلاً اگر ہم خود نمازیں پڑھنے والے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ باقی بھی نمازیں پڑھنے والے ہوں۔ اگر اور کوئی بھی شخص نماز نہیں پڑھتا تو ہماری اپنی نماز ہی ہمارے لئے کافی ہو گی۔ لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو ایک نظام چاہتے ہیں اور ہم انہیں اس وقت تک بجا نہیںلا سکتے جب تک دوسرے بھی وہی کام نہ کریں۔ جیسے نماز ہے یہ اکیلے تو ہم پڑھ سکتے ہیں لیکن باجماعت نماز اس وقت تک نہیں پڑھ سکتے جب تک دوسرا شخص ہمارے ساتھ نہ ہو۔ پس نماز باجماعت ایک نظام چاہتی ہے۔ یعنی ضروری ہے کہ ایک امام ہو اور اس کے پیچھے ایک یا ایک سے زائد مقتدی ہوں۔ بیسیوں اور احکام ایسے ہیں جو ایک زبردست نظام چاہتے ہیں ایسا نظام کہ جس میں انکار کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
عقائد کے میدان میں جماعتِ احمدیہ کی فتح
اس وقت ہماری جماعت جیسا کہ ظاہر و ثابت ہے
عقائد کے میدان میں عظیم الشان فتح حاصل کر چکی ہے اور ہماری اس فتح کا دشمن کو بھی اقرار ہے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب کہا کہ مسیح ناصریؑ فوت ہو چکے ہیں تو تمام غیراحمدی یک زباں ہو کر پکار اٹھے کہ یہ کفر ہے‘ یہ کفر ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے آپ پر کُفر کے فتوے لگائے اور یہ کہا کہ آپ مسیح کی ہتک کرتے ہیں۔ مگر آج چلے جاؤ دنیا میں‘ تعلیم یافتہ لوگوں میں سے بہت سے ایسے نظر آئیں گے جو انہیں اب مُردہ ہی یقین کرتے ہیں اور اکثر ایسے نظر آئیں گے جو گو منہ سے اقرار نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ مسیح زندہ ہو یا مر گیا ہو، ہمیں اُس سے کیا تعلق ہے؟ یہ کونسی ایسی اہم بات ہے کہ ہم اس کے پیچھے پڑیں؟ یہ تبدیلی بتاتی ہے کہ دشمن بھی تسلیم کرتا ہے کہ اب اس حربہ سے وہ ہمارے مقابلہ میں نہیں لڑ سکتا۔
پھر دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو کفر کا فتویٰ لگا‘ اس میں کفر کی ایک وجہ یہ بھی قرار دی گئی تھی کہ آپ قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کے قائل نہیں۔ گزشتہ علماء سے بعض تو گیارہ سَو آیتوں کو منسوخ قرار دیتے تھے، بعض چھ سَو آیتوں کو منسوخ سمجھتے تھے اور بعض اس سے کم آیتیں منسوخ بتلاتے تھے۔ یہاں تک کہ تین آیتوں کے نسخ کے قائل تو وہ بھی تھے جو نسخ کے جواز کو خطرناک خیال کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ سب لغو اور بیہودہ باتیں ہیں‘ سارا قرآن ہی قابلِ عمل ہے۔ اور پھر جن آیتوں پر اعتراض کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ منسوخ ہیں،ان کے آپ نے ایسے عجیب و غریب معارف بیان فرمائے کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ اصل آیتیں قرآن کی تو تھیں ہی یہی اور ایک ایسا مخفی خزانہ ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکال کر باہر رکھ دیا کہ دنیا حیران ہو گئی کہ اب تک یہ امور ہماری نظروں سے کیوں پوشیدہ تھے لیکن اُس وقت جب آپ نے یہ باتیں کہیں آپ پر کُفر کے فتوے لگائے گئے آپ کو بُرا بھلا کہا گیا اور آپ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلایا گیا۔ حالانکہ یہ ایسا لطیف نکتہ تھا کہ اگر دنیا کی کسی عقلمند قوم کے سامنے اسے پیش کیا جاتا تو اس پر شادیِ مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی مگر آج جاؤ اور دیکھو کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ تمہیں نظر آئے گا کہ سو میں سے ننانوے مولوی کہہ رہا ہے کہ قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں اور وہ انہی آیتوں کو جن کو پہلے منسوخ کہا کرتے تھے‘ قابلِ عمل قرار دیتے اور ان کے وہی معنی کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کئے۔
غلبۂ احمدیت اور عمل کا میدان
غرض عقائد کے بارہ میں تو ہم نے مخالفین کو ہر میدان میں شکست دی ہے لیکن جہاں عقائد
کے میدان میں ہم نے مخالفوں پر عظیم الشان فتح حاصل کی ہے وہاں عمل کے میدان میں ہمیں یہ بات نظر نہیں آتی اور ہم کم سے کم دنیا کے سامنے یہ امر دعویٰ سے پیش نہیں کر سکتے کہ اس میدان میں بھی ہم نے اپنے مخالفوں کو شکست دے دی ہے اور بجائے کسی اور نظام کے اسلامی نظام قائم کر دیا ہے۔
کامل تنظیم اور عملی تکمیل
اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے عملی تکمیل بغیر ایسی کامل تنظیم کے نہیں ہو سکتی جس میں انکار کی کوئی گنجائش
نہ ہو مگر اس وقت تک ہماری جماعت صرف عقائد کی درستی‘ شخصی جدوجہد اور چندہ جمع کرنے کا کام کر سکی ہے حالانکہ شخصی جدوجہد کبھی نظامِ کامل کے قیام میں کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ :۔
(۱) اکثر لوگ شریعت کے غوامض سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کی جدوجہد ناقص ہوتی ہے اور وہ شریعت کو دنیا میں قائم نہیں کر سکتے کیونکہ کئی مسئلے انہیں معلوم ہی نہیں ہوتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سو میں سے دس مسائل تو وہ قائم کرتے ہیں مگر نوے چھوڑ جاتے ہیں۔
(۲) دوسرے جو لوگ واقف ہوتے ہیں ان میں سے ایک حصہ سُست بھی ہوتا ہے اور ایک حد تک تحریک اور تحریص اور خارجی دباؤ کا محتاج ہوتا ہے اور قوم کو انہیں نوٹس دینا پڑتا ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ملنا چاہتے ہو تو عملی رنگ میں کام کرو‘ نہیں تو ہم سے الگ ہو جاؤ۔
(۳) تیسرے جو لوگ ناواقفی سے یا سُستی سے شریعت کے خلاف چلیں، ان کا بہت بُرا اثر دوسروں پر پڑتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر بعض دفعہ اسی کو اپنا دین سمجھ لیتے ہیں مثلاً اگر کوئی کامیاب تاجر ہو اور اس نے دین کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے میں سُستی کی ہو تو لوگ اس کی مثال دیکر کہنے لگ جاتے ہیں کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر بھلا یہ دین میں سُستی کر سکتا ہے؟ اور اس طرح اس کے غلط عمل کو دین سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ بالکل ممکن ہے ایک شخص بڑا تاجر ہو یا بڑا دولتمند ہو لیکن دین کے معاملہ میں وہ بالکل جاہل ہو اور ایک فقیر اور کنگال شخص زیادہ دیندار اور زیادہ مسائلِ شرعیہ سے واقف ہو۔ پس ایسے لوگوں کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بعض دفعہ وہ انہی کی غلط باتوں کو دین سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یا پھر بعض دفعہ یہ اثر قبول کرتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں حکم نہیں مانتا تو ہم کیوں مانیں؟ اور بعض بظاہر بڑے آدمیوں کی نقل ان کے ائَ تباع کی دینی حالت کو بھی خراب کر دیتی ہے۔
(۴) چوتھے جن کو واقفیت ہو اور وہ شریعت پر عمل بھی کرنا چاہیں،وہ بھی ایک حصہ احکام پر عمل کر نہیں سکتے جب تک نظام مکمل نہ ہو کیونکہ بعض احکام دو فریق سے متعلق ہوتے ہیں، ایک فریق عمل نہ کرے تو دوسرا بھی نہیں کر سکتا جیسے میں نے بتایا ہے کہ نماز باجماعت اسی وقت پڑھی جا سکتی ہے جب کم سے کم دو آدمی ہوں۔ اگر ایک آدمی ہو اور وہ نماز باجماعت پڑھنے کی خواہش بھی رکھتا ہو تو اس وقت تک جماعت سے نماز نہیں پڑھ سکتا جب تک دوسرا آدمی اس کے ساتھ نماز پڑھنے کو تیار نہ ہو۔ یا مثلاً ایک شخص کو روپیہ قرض لینے کی ضرورت پیش آ جائے اور وہ کسی سے مانگے تو اگر وہ دونوں مسلمان ہوں اور دونوں اس امر کے قائل ہوں کہ سُود لینا اور دینا منع ہے، تب وہ سود سے بچے رہیں گے لیکن اگر ان میں سے ایک شخص اس کا قائل نہیں تو وہ مثلاً سَو یا دوسَو روپیہ قرض دے کر کہہ دے کہ اس پر چار آنہ سینکڑہ سُود لگے گا تو روپیہ لے کر یہ مجبور ہو جائے گا کہ سُود ادا کرے۔ یا مثلاً ورثہ کے احکام ہیں اگر پنجاب کا ایک باپ کہتا ہے کہ میں اپنی جائداد اپنی اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کروں گا اس پر جھٹ بیٹا کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں یہ تقسیم نہیں ہونے دوں گا یا بیوی اس کی مخالف ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں یہ تقسیم نہیں ہونے دوں گی‘ جس طرح عام رواج ہے اسی طرح تقسیم کرو‘ تو باوجود خواہش کے وہ اس حکم پر عمل نہیں کر سکے گا کیونکہ قانون اس کے مخالفوں کے حق میں ہے۔اسی طرح کئی سیاسی احکام ہیں جو ایک کامِل نظام کے مقتضی ہیں اور اگر نظام نہ ہو تو ان پر عمل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً شریعت نے کہا ہے کہ بھاؤ مقرر کئے جائیں اور اس اس رنگ میں مقرر کئے جائیں۔ اب اگر کوئی نظام نہ ہو تو اکیلا انسان کہاں بھاؤ مقرر کرا سکتا ہے۔ پس جب تک نظام نہ ہو جو دونوں فریق کو مجبور کرے صرف ایک فریق باوجود علم اور ارادہ کے اس پر عمل نہیں کر سکتا۔
(۵) پھر نئی جماعت کے لئے یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ ابتدائی صحابہؓ ہی اصل تعلیم کو جاری کر سکتے ہیں۔ اگران کے زمانہ میں عمل نہ ہو تو پھر کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب صحابہؓ نے جو اتنے بڑے بزرگ تھے یہ نظام جاری نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟
(۶) چھٹی بات یہ ہے کہ جب تک اپنا نظام قائم نہ کیا جائے پرانا نظام مٹ ہی نہیں سکتا۔ آخر جب تک ہم اپنے نظام کا کوئی اعلیٰ نمونہ نہ دکھائیں پرانی چیز کو لوگ کیوں چھوڑیں؟ وہ جب تک ہم اپنے نظام کا بہتر نمونہ ان کے سامنے پیش نہ کریں‘ اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ پُرانے نظام کو ہی اختیار کئے رہیں پھر اس کے علاوہ ایک خطرناک بات یہ ہے کہ خود اپنے آدمی اس کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اس لئے بغیر نظام کے وہ مقصود پورا ہی نہیں ہو سکتا اور وہ انقلاب جو مطلوب ہے کبھی رونما ہی نہیں ہو سکتا۔
انقلاب حقیقی کے قیام میں ہمارا کام
پس جبکہ انقلاب پیدا کرنے کیلئے یعنی پرانے نظام کو مِٹانے اور نئے نظام کو
قائم کرنے کیلئے اور اس حد تک قائم کرنے کیلئے کہ نیا آسمان اور نئی زمین پیدا ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم نے اس بارہ میں کیا کام کیا ہے؟ تم جانے دو معترضین کے سوالات کو، آؤ ہم سب احمدی مل کر یہ بات سوچیں کہ کیا واقع میں اگر بیرونی دنیا سے کوئی شخص ہندوستان میں آ جائے اور اسے احمدی اور غیراحمدی کا کوئی فرق معلوم نہ ہو اور فرض کرو کہ وہ بہرہ بھی ہے اور لوگوں سے سن کر بھی معلوم نہ کر سکتا ہو کہ فلاں احمدی ہیں اور فلاں غیراحمدی اور فرض کرو کہ وہ گونگا بھی ہو اور خود بھی دریافت نہ کر سکتا ہو لیکن اس کی آنکھیں ہوں جن سے وہ دیکھے اور اس کاد ماغ ہو جس سے وہ سمجھے تو کیا وہ ہم کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ اِن لوگوں کا آسمان اور ان لوگوں کی زمین اور ہے اور دوسرے لوگوں کا آسمان اور، اور دوسرے لوگوں کی زمین اور ہے؟ یا وہ کچھ بھی نہیں سمجھے گا اور وہ کہے گا کہ غیراحمدیوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے اسی طرح احمدیوں میں سے بھی کچھ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے ان میں بھی بعض کمزور اور بداعمال ہیں اور اِن میں بھی بعض کمزور اور بداعمال ہیں اور اگر وہ یہی نتیجہ نکالے تو بتلاؤ وہ کب اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا آسمان نیا ہے اور جماعت احمدیہ کی زمین نئی ہے؟پس سوچو اور غور کرو کہ ہم نے اس وقت تک کیا کیا ہے؟ ہم نے کچھ مسئلے سمجھ لئے ہیں‘ کچھ چندے دے دیتے ہیں اور کچھ ذاتی اصلاح کر لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ غیراحمدیوں میں اور ہم میں اگر کوئی فرق نکل سکتا ہے تو یہ کہ غیراحمدیوں میں زیادہ لوگ جھوٹ بولنے والے ہوتے ہیں مگر ہم میں کم لوگ جھوٹ بولتے ہیں، ان میں سے اکثر تارکِ نماز ہوتے ہیںاور ہم میں سے اکثر نمازیں پڑھنے والے ہوتے ہیں لیکن ایک حصہ ہم میں بھی تارک الصّلوٰۃ لوگوں کا ہوتا ہے۔ پھر وہ تبلیغ نہیں کرتے اور ہم میں سے اکثر تبلیغ کرتے ہیں ، وہ قرآن بہت کم جانتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ نسبتاً زیادہ قرآن جانتے ہیں لیکن شکل وہی ہے‘ طرز وہی ہے‘ چیز وہی ہے‘ پس آسمان کس طرح بدل گیا اور زمین کس طرح بدل گئی؟ بلکہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم پرانے نظام سے نفرت بھی پیدا نہیں کر سکے۔ ابھی تک ہمارے بعض نوجوان مغربیت کے دلدادہ ہیں، وہ مغربی فیشن کی تقلید میں اسلامی تمدّن اور اسلامی تہذیب کو فراموش کئے ہوئے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہم دشمن کو مِٹا دیتے‘ اس کی تہذیب کو پارہ پارہ کر دیتے اور اس کے تمدّن کی بجائے اسلامی تمدّن قائم کر دیتے، اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمارے فلاں آدمی کو جو دشمن چھین کر لے گیا ہے‘ اسے ہم واپس لائیں لیکن
ہم جونہی اسے واپس لاتے ہیں دشمن ہمارے دس آدمی اور چھین کر لے جاتا ہے اور ہماری تمام کوشش اور ہماری تمام سعی پھر اسی کام میں صرف ہو جاتی ہے کہ انہیں دشمن سے واپس لائیں۔ پس بجائے دشمن کے تمدّن کو مٹانے کے اپنے آدمیوں کو چُھڑانے میں ہی ہم لگے رہتے ہیں۔ پس ضرورت ہے کہ ہم اس نہایت ہی اہم امر کی طرف توجہ کریں اور دنیا کے تمدّن اور دنیا کی تہذیب کو بدل کر اسلامی تمدّن اور اسلامی تہذیب اس کی جگہ قائم کریں۔
انقلاب حقیقی کے قیام میں حضرت
مسیح موعود علیہ السلام کا حصہ
ممکن ہے کوئی کہے کہ آپ نے الہامات تو سنا دیئے اور قرآن کریم کی آیات سے بھی استدلال کر لیا مگر کیا آپ حضرت
مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ الہامات سمجھتے ہیں یا ان سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیوں اس کی ابتداء نہ کی؟
سو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واضح الہاموں میں اس کی ابتداء رکھ دی گئی ہے اور بار بار آپ نے اپنی تحریرات میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ آپ نے خود فرمایا ہے کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہونگے۔ اسی طرح کئی الہامات و مکاشفات کے ذریعہ سے آپ نے اپنے اس منصب کو بیان کیا ہے۔ پس جب اس کی ابتدا ہو چکی تو ابتدا کیلئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فوراً تکمیل تک پہنچ جائے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک حکم کے مطابق جو الہام میں بھی آپ پر نازل ہؤا۔ آپ نے اس کام کو ترتیب کے ساتھ کرنا شروع کیا تھا مگر آپ کی وفات کے بعد وہ رشتہ ترتیب کا ہمارے ہاتھ سے کھویا گیا یا شاید اللہ تعالیٰ کا منشاء خود اس قدر وقفہ دینے کا تھا اور وہ حکم یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۸۸؎ کہ مسیح موعودکے زمانہ میں انقلاب کے چار دَور ہونگے۔ اوّل یعنی اصول بیان کئے جائیں گے اور اس وقت ایسی ہی حالت ہوگی جیسے بیج زمین میں سے اپنا سر نکالتا ہے اور وہ حالت نہیں ہوگی جو اسلام کے پہلے دَور میں تھی۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ۸۹؎ یا ۹۰؎ بلکہ وہاں ترتیب ہوگی اور تدریجی ترقی ہوگی۔ پہلے ایمان کا ایک بیج ہوگا جو قلوب کی زمین میں بویا جائے گا، پھر وہ بیج آہستہ آہستہ اُگنا شروع ہوگا اور اُس کی بیج کی شکل نہیں رہے گی بلکہ روئیدگی کی شکل ہو جائے گی، اس کے بعد ترقی کا دوسرا دَور آئے گا جسے خدا تعالیٰ نے اٰزَرَہٗ کے لفظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس وقت وہ پودا مضبوط ہو جائے گا اور اجرائے شریعت عملی طور پر کر دیا جائے گا، پھر تیسرا دَور اس وقت آئے گا جب کی پیشگوئی پوری ہوگی یعنی وہ کمزور پودا موٹا ہو جائے گا اور وہی تحریک جو پہلے معمولی نظر آتی تھی اور دُنیا کے تھوڑے حصہ پر حاوی تھی تمام دُنیا پر حاوی ہو جائے گی اور لوگ جُوں جُوں احمدی بنتے چلے جائیں گے وہ تعلیم بھی سب عالم میں پھیلتی چلی جائے گی۔ گویا میں انتشار فیِ العالم کی پیشگوئی کی گئی ہے اور پھر چوتھا دَور اس وقت آئے گا جب کا نظارہ نظر آنے لگ جائے گا یعنی اسلامی بادشاہتیں قائم ہو جائیں گی اور وہ تھوڑے سے اسلامی مسائل جو خالص اسلامی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی عملی رنگ میں جاری ہو جائیں گے اور تمام دُنیا کا ایک ہی تمدّن ہوگا اور ایک ہی تہذیب۔ یہ کے الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُس نے عرش پر استوٰی کیا۔ پھر فرماتا ہے کہ اسلامی تمدّن جو احمدیت کے ذریعہ سے قائم کیا جائے گا اتنا شاندار اور اتنا اعلیٰ ہوگا کہ دوسری قوموں اور تمدّنوں کی آنکھیں کھول دے گا اور وہ حیران ہو ہو کر احمدیت کی کھیتی کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ یہ کھیتی تو بڑی اچھی ہے۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ۹۱؎ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام
کی تعلیم کو عملی رنگ میں جب دنیا میں قائم کر دیا تو کئی دفعہ ایساہؤا کہ کفار نے بھی اپنی مجالس میں کہا کہ ہے تو یہ جھوٹا مگر اس کی تعلیم بڑی اعلیٰ ہے اور ان کے دلوں میں بھی خواہش پیداہوئی کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ اسی طرح فرماتا ہے جب احمدیت کے ذریعہ سے اسلامی تمدّن تمام دُنیا میں قائم کر دیا گیا اور اسلامی حکومتیں اقطارِ عالَم پر چھا گئیں تودوسرے مذہبوں والے کہیں گے کہ اب اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ مگر جو عنید اور شدید دشمن ہونگے وہ تو اس انقلاب کو دیکھ کر مر ہی جائیں گے اور کہیں گے کہ اب ہم سے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ پہلے جن لوگوں کا ذکر تھا وہ ایسے ہیں جن کی فطرت صحیحہ زندہ ہوگی۔ وہ اس نظام کی برتری اور فوقیت کا اقرار کریں گے اور کہیں گے کہ کاش ہمیں بھی ایسے نظام میں شامل ہونے کا موقع ملتا۔ مگر جو شدید دشمن ہونگے وہ ہاتھ کاٹنے لگیں گے اور کہیں گے کہ اب ہماری فتح کی کوئی صورت نہیں۔ پس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں پہلا دَور تھا کہ پنیری نکل رہی تھی مگر اب وقت آ گیا ہے کہ دوسرا دَور شروع ہو تا کہ اُن لوگوں کی موجودگی میں جنہوں نے نورِ نبوت سے براہِ راست حصہ لیا ہے یہ کام مکمل ہو جائے۔ اگر یہ کام آج نہ ہؤا تو پھر کبھی بھی نہیں ہو سکے گا۔
تحریک جدید کا مقصد
میں نے تحریکِ جدید کے پہلے دَور میں اس کی طرف قدم اٹھایا تھا اور دوسرے دَور کی بعض باتوں کو میں التواء میں ڈالتا گیا تھا اور مَیںنے کہا تھا کہ تم اپنے دلوں میں سوچو کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ عقائد کے میدان میں تو ہم نے دشمن کو شکست دی مگر عمل کے میدان میں ہم ابھی اسے شکست نہیں دے سکے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اپنے دلوں میں اس بات پر غور کیا ہوگا مگر میرے دل کی نیت اس وقت یہی تھی کہ مَیں تحریک جدید کے دوسرے دَور کی بعض باتوں کو جلسہ سالانہ پر بیان کروں گا جب جماعت کا ایک حصہ میرے سامنے موجود ہوگا اور میں اُس سے دریافت کروں گا کہ آیا وہ ان باتوں پر عمل کرنے کیلئے تیار ہے یا نہیں؟
سو آج میں اس کا اعلان کرناچاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَۃً اَفْضَلُھَا قَوْلُ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ۹۲؎ کہ اے مسلمانو! تم بعض دفعہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھ کر کہہ دیتے ہو کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم مُومن ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم مسلمان ہیں مگر فرمایا یہ غلط بالکل غلط اور قطعاً غلط ہے۔ اوّل تو صرف لفظاً لااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنا کوئی چیز نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو یاد رکھو کہ اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً۔ ایمان کے ستر سے زیادہ حصے ہیں جن پر عمل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ یہاں بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ سے مراد کثرت ہے اور یہ عربی کا محاورہ ہے اُردو میں بھی جب کسی کو یہ کہنا ہو کہ مَیں نے تجھے بارہا یہ بات کہی ہے تو کہتے ہیں مَیں نے تجھے سو دفعہ یہ کہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سو دفعہ کہا ہے بلکہ مطلب کثرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کے ستر سے بھی زیادہ محکمے اور ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ یعنی بہت سے اس کے شعبے ہیں۔ اَفْضَلُھَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ۔ ان سب میں افضل بات لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُکہنا ہے۔ مگر اس کے بعد اَور پھر اَور پھر اَور اور پھر اَور شعبہ ہائے ایمان چلتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک ادنیٰ بات شعبہ ہائے ایمان میں یہ بھی داخل ہے کہ اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِرستے میں کانٹے پڑے ہوں تو انہیں الگ کر دیا جائے، کنکرپتھر ہوں تو انہیں ہٹا دیا جائے، اسی طرح جو بھی تکلیف دینے والی چیز ہو اسے دور کر دیا جائے۔ گویا جس کو لوگ ایمان کہتے ہیں اور جس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ سینکڑوں اعمال ہیں جن کے مجموعہ کا نام ایمان ہے اور جب تک ان اعمال کی چاروں دیواریں مکمل نہ کی جائیں ایمان کی عمارت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ ان اعمال میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ اور معمولی سے معمولی عمل یہ ہے کہ اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ۔ یعنی راستہ کو صاف کیا جائے اور گندی اور تکلیف دہ اشیاء کو ہٹا دیا جائے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اسلام کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ توحید پر ایمان لانا، قضاء و قدر پر ایمان لانا، انبیاء پر ایمان لانا، بعث بعدالموت پر ایمان لانا، جنت پر ایمان لانا، دوزخ پر ایمان لانا، قبولیتِ دعا پر ایمان لانا، تمام صفات الٰہیہ پر ایمان لانا۔ پھر نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا، زکوٰۃ دینا، صدقہ و خیرات دینا، تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دینا، والدین کی خدمت کرنا، بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے جسمانی خدمات بجا لانا، غیرت دکھانا، شکر کرنا، حُسنِ ظنی سے کام لینا، بہادر بننا، بلند ہمت ہونا، صبر کرنا، رحم دل ہونا، وقار کا خیال رکھنا، جفا کش ہونا، سادہ زندگی بسر کرنا، میانہ روی اختیار کرنا، عدل کرنا، احسان کرنا، سخی بننا، وفاداری دِکھلانا، ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا، معاف کرنا، دوسروں کا ادب کرنا، لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا، حکام کی اطاعت کرنا، تربیت کرنا، دشمنانِ قوم سے اجتناب کرنا، محبت الٰہی پیدا کرنا، توکل کرنا، تبلیغ کرنا، جھوٹ نہ بولنا، چغلخوری نہ کرنا، گالیاں نہ دینا، دھوکا بازی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، ظلم نہ کرنا، فساد نہ کرنا، چوری نہ کرنا، بہتان نہ لگانا، تحقیر نہ کرنا، استہزاء نہ کرنا، بیکار نہ رہنا، سُستی نہ کرنا، محنت اور عقل سے کام کرنا، یہ اور اسی قسم کی ہزاروں باتیں ایمان کا حصہ ہیں یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ راہ چلتے ہوئے اگر کوئی پتھر دکھائی دے تو اسے راستہ سے اُٹھا کر الگ پھینک دو‘ کوئی کنکر ہو تو اسے ہٹا دو۔ پس یہ مت خیال کرو کہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کہہ کر یا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکہہ کر یا اٰمَنَّا بِالْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ کہہ کر یا نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر تم مومن ہو جاتے ہو اور تم کو ایمان مل جاتا ہے۔ ایمان نام ہے اسلام کے اعتقادات، مسائل، عبادات، تمدّن، اقتصاد، قضا، سیاست، اخلاق اور معاشرت کو اپنے نفس اور دنیا میں جاری کرنے کا جس کا اعلیٰ حصہ لَا اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ ہے اور ادنیٰ حصہ راستہ پر سے کانٹے ہٹانے کا ہے۔ جس نے اس کے لئے کوشش نہ کی نہ وہ مؤمن ہؤا اور نہ اس نے اسلام کے دین کو قائم کرنے کے لئے کوشش کی۔
دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِن وَّرَائِہٖ ۹۳؎ کہ امام ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اور تمہیں اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے لڑائی کرنی چاہئے۔ پس جب تک میں نے اعلان نہیں کیا تھا‘ لوگ بڑی حد تک آزاد سمجھے جا سکتے تھے لیکن اب وہی شخص جماعت کا فرد کہلا سکتا ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ امام کے پیچھے ہو کر اسلام کے لئے جنگ کرنے کے واسطے تیار ہو جائے۔
جماعت احمدیہ کی ذمہ داری
پس میں اعلان کرتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور
اِحیائیسنت و شریعت کے لئے سرگرم عمل ہو جائے۔ جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا، لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہیں تھا مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ اِحیائے سنت و شریعت کا وقت آ گیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہو گا اور اگر اب سُستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہو گا۔ آج گو صحابہ کی تعداد ہم میں قلیل رہ گئی ہے مگر پھر بھی یہ کام صحابہ کی زندگی میں ہی ہو سکتا ہے اور اگر صحابہ نہ رہے تو پھر یاد رکھو یہ کام کبھی نہیں ہو گا۔
تمدّن کے متعلق اسلامی تعلیم
(۱)اخلاقِ حَسنہ
دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ (۱)اَلْخُلُقُ وِعَائُ الدِّیْنِ۹۴؎ کہ خُلق دین کا برتن ہے۔ اب تم خود ہی سمجھ لو
کبھی برتن کے بغیر بھی دودھ رہا ہے؟ یہ تو ہو سکتا ہے کہ برتن ہو مگر دودھ نہ ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ دودھ بغیر برتن کے باقی رہے۔ پس اخلاقِ حسنہ دین کا برتن ہیں۔ اگر کسی کے پاس یہ برتن نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرے پاس ایمان کا دودھ ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں (۲) اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکاَرِمَ الْاَخْلاَقِ۔ ۹۵؎ کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تا اخلاقِ فاضلہ کو کامل کر کے قائم کروں۔
(۲) معاملات
پھر معاملات کے متعلق فرماتے ہیں۔ اَشْرِفُ الْاِیْمَانِ اَنْ یـَاْمَنَکَ النَّاسُ وَ اَشْرَفُ الْاِسْلامِ اَنْ یَّسْلَمَ النَاسُ مِنْ لِّسَانِکَ وَیَدِکَ ۹۶؎
کہ اعلیٰ درجہ کا ایمان یہ ہے کہ لوگ تیرے ہاتھ سے امن میں رہیں اور کسی کو تجھ سے دکھ نہ پہنچے اور اعلیٰ درجہ کا اسلام یہ ہے کہ لوگ تجھ سے محفوظ رہیں یعنی تو نہ زبان سے ان سے لڑے اور نہ ہاتھ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچائے۔
۳۔ خدمتِ قومی
خدمتِ قومی کے متعلق فرماتے ہیں اِنَّ صَبر اَحَدِ کُمْ سَاعَۃً فِیْ بَعْضِ مَوَاطِنِ الْاِسْلامِ خَیْرٌلَّہُ مِنْ اَنْ یَّعْبُدَاللّٰہَ اَرْبَعِیْنَ
یَوْمًا ۹۷؎ کہ اگر اسلام کی خدمت میں کوئی شخص تم میں سے ایک گھنٹہ خرچ کرتا ہے جس کا اسے کوئی ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا تو وہ چالیس دن کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کرتا ہے۔
۴۔ رزقِ حلال
رزقِ حلال کے متعلق فرماتے ہیں اَلْعِبَادَۃُ عَشَرَۃُ اَجْزَائٍ تِسْعَۃٌ مِّنْھَا فِیْ طَلَبِ الْحَلالِ ۹۸؎ کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے دس حصے
ہیں۔ ایک حصہ عبادت کا تو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہے مگر عبادت کے نو حصے رزق حلال کھانا ہے۔ گویا اگر تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، حج بھی کرتے ہو، زکوٰۃ بھی دیتے ہو لیکن اپنی تجارت میں دھوکا بازی کرتے ہو، تو تم ایک حصہ دودھ میں نو حصے ناپاکی ملا دیتے ہو اور اپنی تمام عبادت کو ضائع کر لیتے ہو۔ یا اگر تم کسی کو ایک پیسہ کی چیز دینے لگتے ہو اور تکڑی کا پلڑا ذرا سا جُھکا دیتے ہو تو تم اس ذرا سی بے احتیاطی یا ذرا سی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنے حلال مال میں نو (۹)حصے گندگی کے ملا دیتے ہو اور اپنی ساری عمر کی عبادتوں کو ضائع کر لیتے ہو کیونکہ نماز، روزہ کے احکام بجا لا کر صرف دسواں حصہ حق کا ادا ہوتا ہے، باقی نو(۹) حصے اللہ تعالیٰ کے حق کے رزقِ حلال کما کر اَدا ہوتے ہیں۔
۵۔چُستی اور محنت
چُستی اور محنت سے کام کرنے کے متعلق فرماتے ہیں اِعْمَلْ عَمَلَ امْرِیئٍ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّمُوْتَ اَبَدًا وَاحْذَرْ
حَذْرَامْرِیئٍ یَخْشٰی اَنْ یَّمُوْتَ غَدًا ۹۹؎ کہ جب تم دنیا کے کام کرو تو یاد رکھو اسلامی تعلیم اُس وقت یہ ہے کہ ایسی محنت اور ایسی چُستی سے کرو گو یا تم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور کبھی مرنا ہی نہیں۔ یہ نہ ہو کہ تم کہو کیا کام کرنا ہے مر تو جانا ہی ہے یا کیوں خواہ مخواہ محنت کریں انجام تو فنا ہی ہے۔ فرماتا ہے دُنیا کے کام اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرو کہ گویا تمہیں موت کا خیال تک نہیں وَاحْذَرْحَذْرَامْرَیئٍ یَخْشٰی اَنْ یَّمُوْتَ غَدًا لیکن دین کے معاملہ میں اس طرح ڈرتے ڈرتے کام کرو گویا تم نے کل ہی مر جانا ہے۔ یہ دو مقام ہیں جو تمہیں حاصل ہونے چاہئیں۔ یعنی ایک طرف تم میںاتنی چُستی اور اتنی پُھرتی ہو کہ گویا تم نے کبھی مرنا ہی نہیں اور دوسری طرف اتنی خشیت ہو کہ گویا تم نے جینا ہی نہیں۔
۶۔ بنی نوع انسان کی خیرخواہی
بنی نوع انسان کی خیرخواہی کے متعلق فرماتے ہیں عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَۃٌ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ
فَلْیَعْمَلْ بِیَدِہٖ فَیَنْفَعُ نَفْسَہٗ۱۰۰؎ کہ ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے اور اگر کوئی کہے کہ مَیں تو غریب ہوں میں کہاں سے چندہ دوں۔ جیسے بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم سے کیا چندہ لینا ہے ہمیں تو تم چندہ دو کیونکہ ہم غریب ہیں۔ تو فرمایا فلیعمل بیدہٖ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ قومی کام اپنے ہاتھ سے کرے کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ بھی نہیں ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس روپے نہیں تو فرمایا اچھا اگر روپے نہیں تو اپنے ہاتھ سے کام کرو۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ صرف مالداروں پر ہی فرض نہیں کیا بلکہ غرباء کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے اور فرمایا ہے کہ صدقہ دینا ہر انسان کا کام ہے جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو مال نہیں دے سکتا وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ اسی لئے تحریک جدید میں مَیںنے بتایا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرو اور اگر کوئی ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتا تو صرف دعا کرتا رہے کیونکہ اس صورت میں یہی اس کا کام سمجھا جائے گا۔
۷۔ صفائی
صاف رہنے کے متعلق فرماتے ہیں النظافۃ من الْایمان ۱۰۱؎ کہ صفائی رکھنا ایمان کا جزو ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔ اَخْرِجُوْا مِنْدِیْلَ الْغَمَرِ مِنْ
بُیُوْتِکُمْ فَاِنَّہٗ مَبِیْتُ الْخَبِیْثِ وَ مَجْلِسُہٗ ۱۰۲؎ کہ وہ دستر خوان جس کو چکنائی لگ گئی ہو اسے اپنے گھروں سے نکال کر باہر پھینک دو کیونکہ وہ خبیث چیز ہے اور گندگی کا مقام ہے یعنی اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں، کیڑے آتے ہیں اور بیماریاں ترقی پکڑتی ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ آج کل لوگ نیکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کپڑے کو اس وقت تک نہ دھویا جائے جب تک کہ وہ پھٹ نہ جائے۔
۸۔ صداقت
صداقت کے متعلق فرماتے ہیں ایّاکم وَالکذب فان الکذب لَا یَصْلُحُ فِی الجِدِّ وَلا بِالْھَزْل وَلا یَعِدِ الرَّجُلُ صَبِیَّہٗ ثُمَّ لَا یَفِیْ لَہٗ۱۰۳؎
کہ اے لوگو تم جھوٹ سے بچو اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جھوٹ نہ ہنسی میں جائز ہے نہ سنجیدگی میں۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا محض ہنسی کی ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی جھوٹ قرار دیتے ہیں بلکہ آپ اس سے بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ہدایت دیتے اور فرماتے ہیں۔ لا یَعِدِ الرَّجُلُ صَبِیَّہٗ ثُمَّ لَا یَفِیْ لَہٗ کہ تم اپنے بچوں سے بھی جھوٹا وعدہ نہ کرو۔ تم بعض دفعہ بچے سے جب وہ رو رہا ہو کہتے ہو ہم تجھے ابھی مٹھائی منگا دیں گے پھر جب وہ چپ ہو جاتا ہے تو تم اُسے کوئی مٹھائی منگا کر نہیں دیتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایسا بھی مت کرو کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں۔
۹۔ کَسب
پھر کما کر گزارہ کرنا بھی اسلام کا جزو ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ صحابہؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایک شخص
رات دن عبادت میں لگا ہؤا ہے، فرمائیے وہ سب سے اچھا ہؤا یا نہیں؟ انبیاء کا بھی کیسا لطیف جواب ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا جب وہ رات دن عبادت میں لگا رہتا ہے تو کھاتا کہاں سے ہے۔ انہوں نے عرض کیا لوگ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تو پھر جتنے اُسے کھانے پینے کیلئے دیتے ہیں وہ سب اس سے بہتر ہیں۔ ۱۰۴؎
اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ پاس سے ایک نوجوان گزرا جو نہایت لمبا مضبوط اور قوی الجثہ تھا اور بڑی تیزی سے اپنے کسی کام کیلئے دَوڑتا ہؤا جا رہا تھا۔ بعض صحابہؓ نے اسے دیکھ کر تحقیر کے طور پر کوئی ایسا لفظ کہا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جا تیرا بُرا ہو اور کہا کہ اگر اس کی جوانی اللہ کے رستہ میں کام آتی تو کیسا اچھا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا۔ یہ کہنے کا کیا مطلب ہؤا کہ تیرا بُرا ہو جو شخص اس لئے تیزی سے کوئی کام کرتا ہے کہ اس سے اپنی بیوی کو فائدہ پہنچائے، تو وہ خدا کی ہی راہ میں کام کر رہا ہے اور جو شخص اس لئے دَوڑتا اور پُھرتی سے کام کرتا ہے کہ اپنے بچوں کے کھلانے پلانے کا بندوبست کرے، تو وہ خدا ہی کی راہ میں کام کر رہا ہے۔ ہاں جو شخص اس لئے دَوڑتا ہے کہ لوگ اُس کی تعریف کریں اور اُس کی طاقتوں کی داد دیں، تو وہ شیطان کی راہ میں کام کرتا ہے مگر حلال روزی کے لئے کوشش کرنا اور کما کر گزارہ کرنا تو سبیل اللہ میں شامل ہے۔ ۱۰۵؎
۱۰۔ جائداد کی حفاظت کا حکم
اسی طرح اسلام نے جائدادوں کی حفاظت کے متعلق خاص طور پر احکام دیئے ہیں اور رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی جائداد بیچ کر کھا جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں اور وہ اس قابل ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو برکت دے۔ ۱۰۶؎
یہ مَیں نے اسلامی احکام میں سے صرف چند باتیں پیش کی ہیں۔ ورنہ اسلام کے احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان تمام امور کے جاری کرنے کو سیاست کہتے ہیں اور یہ سیاست اسلام کا ضروری جُزو ہے۔
تمدّنِ اسلامی کے قیام کے ذرائع
مگر یہ فرض ادا نہیں ہو سکتا جب تک مندرجہ ذیل طریقے اختیار نہ کئے جائیں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ:
۱۔ خیالات میں تبدیلی
اوّل جماعت کے خیالات کو بدلا جائے اور اُسے بتلایا جائے کہ مؤمن ہونے اور احمدی ہونے کے یہ معنی نہیں کہ تم
نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا اور ہوئی۔ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور معاملہ ختم ہو گیا بلکہ ایمان کی تکمیل کیلئے سینکڑوں باتوں کی ضرورت ہے جو تمدّن، معاشرت، اقتصاد اور سیاست وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ جب تک وہ تمام کڑیاں مضبوط نہ ہوں کوئی شخص حقیقی معنوں میں نہیں کہلا سکتا اور یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو بدلیں اور ان کو بتائیں کہ ان کے سامنے کتنا اہم کام ہے۔ مگر ہمارے علماء کی یہ حالت ہے کہ وہ باہر جاتے ہیں تو صرف وفاتِ مسیح اور نبوت پر لیکچر دے کر آ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ انہوںنے اپنے فرض کو اَدا کر دیا۔ گویا ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایک محل بنانے کیلئے نکلے مگر ایک اینٹ گھڑ کر واپس آ جائے اور سمجھ لے کہ اُس کا کام ختم ہو گیا۔ پس یہ علماء کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ انہیں احیائے سنت اور احیائے شریعت کیلئے ایک موت قبول کرنی پڑے گی اور اس کے لئے انہیں چاہئے کہ وہ تیار ہو جائیں۔
۲۔ کامل اطاعت
دوسرے اس کام کیلئے جماعت کے دلوں میں یہ عزم پیدا کرنا ضروری ہے کہ ہم پوری اطاعت کریں گے خواہ ہمیں کتنا ہی
نقصان برداشت کرنا پڑے کیونکہ یہ چیزیں نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر ایک بھی اس نظام سے نکل جائے تو تمام کام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہماری شریعت ایک حکم یہ دیتی ہے کہ فلاں فلاں سٹینڈرڈ (STANDARD) کی اگر کوئی چیز ہو تو فروخت کی جائے، ناقص اور ادنیٰ مال فروخت نہ کیا جائے۔ اب اگر ہم اس حکم کی دُکانداروں سے تعمیل کرائیں اور جو اس حکم کو نہ مانے، اس کے متعلق ہم یہ حکم دے دیں کہ جماعت اس سے سَودا نہ خریدے تو ایسی حالت میں اگر بعض لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں جو کہیں کہ یہ لوگوں کا رزق مار رہے ہیں، تو اسلام کا یہ حکم دنیا میں کس طرح قائم ہو سکتا ہے اور اگر ہم اس طرح ایک ایک کر کے لوگوں کو احکام کی اطاعت سے آزاد کرتے جائیں تو ہماری مثال اسی شخص کی سی ہو گی جس کی نسبت کہتے ہیں کہ کسی سے شیر کی تصویر بدن پر گدوانے گیا تھا۔ جب وہ شیر گودنے لگا اور اس نے سوئی جسم میں داخل کی اور اسے درد ہوئی تو پوچھنے لگا کہ کیا گودنے لگے ہو؟ گودنے والے نے جواب دیا شیر کا دایاں کان۔ اس پر اس نے پوچھا کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو کیا شیر شیر رہتا ہے یا نہیں؟ گودنے والے نے کہا کہ رہتا تو ہے۔ تو اس نے کہا کہ اچھا پھر اسے چھوڑو آگے چلو۔ پھر اس نے دوسرا کان گودنا چاہا تو اس پر بھی اسی طرح گفتگو کی اور اسی طرح ہر عضو پر کرتا گیا۔ آخر گودنے والا کام چھوڑ کر بیٹھ گیا اور اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ اپنا کام کیوںچھوڑ بیٹھے ہو؟ تو گودنے والے نے کہا اس لئے کہ اب شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ اسی طرح اگر ہم بھی دیکھیں کہ لوگ اسلامی احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور انہیں چھوڑتے جائیں تو اسلام کا اور جماعت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ جو لوگ نصیحت سے اپنی اصلاح کرتے ہیں ان کی نصیحت سے اصلاح کریں اور جو لوگ نصیحت سے اصلاح نہیں کرتے انہیں مجبور کریں کہ یا وہ اپنے وجود سے احمدیت کو بدنام نہ کریں یا پھر توبہ کر کے باقی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اس کام میں جماعت کو کامل تعاون کرنا چاہئے اور چاہئے کہ جماعت اس بارہ میں پوری اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ خواہ انہیں اپنا باپ چھوڑنا پڑے یا بیوی چھوڑنی پڑے یا بیٹا چھوڑنا پڑے یا بھائی چھوڑنا پڑے۔
۳۔ کتب
تیسرے اس مقصد کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسی کتب لکھی جائیں جن میں اسلام کی اصولی تعلیم یا اصولی تعلیم کی روشنی میں احکام ہوں۔
۴۔ جائز جبر
چوتھے اس امر کی ضرورت ہے کہ شریعت کے اجراء میں جائز جبر جسے سیاست کہتے ہیں‘ اس سے کام لیا جائے اور اس امر کا کوئی خیال نہ کیا جائے
کہ کسی کو ٹھوکر لگتی ہے یا کوئی ابتلاء میں آتا ہے۔ سیاست کے معنی درحقیقت یہی ہیں کہ اجرائے شریعت کے باب میں جہاں ضرورت ہو اور جس حد تک اجازت ہو جبر سے کام لیا جائے اور علمائے اسلام نے اس پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جبر سے ماننے والوں کو جبر سے اسلامی احکام پر چلانے کا نام ہی سیاست ہے اور ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس جبر سے کام لیں۔ جب ایک شخص ہمارے پاس آتا ہماری بیعت کرتا اور اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیتا ہے‘ تو لازماً ہمارا حق ہے کہ اگر وہ کسی حکم پر چلنے میں سُستی اور غفلت سے کام لے تو اس پر جبر کریں اور اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اسلامی عمل کو اختیار کرے کیونکہ وہ ہمارا ایک حصہ بنا ہؤا ہے اور اس کی بدنامی سے ہماری بدنامی ہے اور اس کی کمزوری سے ہمارے اندر کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ ایسا جبر ہرگز ناجائز نہیں کیونکہ اس شخص نے اپنی مرضی سے ہم میں شامل ہو کر ہمیں اس جبر کا حق دیا ہے۔ جس طرح کہ بورڈنگ میں داخل ہو کر ایک طالب علم اساتذہ کو خود اپنے پر جبر کا حق دیتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ ہاں جو اسے ناپسند کرتا ہو وہ پورا آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جماعت سے الگ کر لے۔
شریعت کے اِحیاء کے دو حصے
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عملی قدم اٹھانے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت کے اِحیا ء کے
دو بڑے حصے ہیں۔ ایک وہ جس کا تعلق حکومت سے ہے اور ایک وہ جس کا تعلق نظام سے ہے۔ جو امور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے اسلام کا یہ حکم ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹو ۱۰۷؎ یا اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ قاتل کو ضروری نہیں کہ قتل ہی کیا جائے بلکہ وارثوں کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قتل کی سزا دلائیں اور چاہیں تو معاف کر دیں ۱۰۸؎ مگر یہ اسلامی حکم چونکہ حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ہم انہیں ابھی جاری نہیں کر سکتے۔ پھر اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ جو شخص قاتل ہو اسے مقتول کے وارثوں کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ حکام کی زیرنگرانی چاہیں تو خود اسے قتل کریں لیکن اب گورنمنٹ قاتلوں کو خود پھانسی دیتی ہے اور وارثوں کے سپرد نہیں کرتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وارثوں کے دل میں پھر بھی کینہ اور بغض رہتا ہے اور وہ کسی اور موقع پر قاتل کے رشتہ داروں سے انتقام لینے کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اگر اسلامی حکومت ہو تو گورنمنٹ کے افسروں کی موجودگی میں قاتل کو قتل کرنے کے لئے پہلا موقع مقتول کے رشتہ داروں کو دیا جائے گا۔ ہاں اس بات کا لحاظ ضروری رکھ لیا جائے گا کہ۱۰۹؎ قتل تو بیشک کرے مگر ظالمانہ رنگ میں قتل نہ کرے بلکہ قتل کے لئے جو قانون مقرر ہے اور جو طریق حکومت کا مجوزہ ہے اس کے مطابق قتل کرے اور اگر وہ کمزور دل والا ہو اور اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی جُرأت نہ کر سکتا ہو تو گورنمنٹ کو کہہ سکتا ہے کہ میں قتل نہیں کرتا، تم خود اسے قتل کروا دو۔ اس طر ح وہ بُغض دور ہو جاتا ہے جو حکومتِ انگریزی کے فیصلوں کے باوجود لوگوں کے دلوں میں باقی رہ جاتا ہے اور آئندہ بہت سے فتنے پیدا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے۔ پھر بعض دفعہ قاتل کو معاف کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے اور یہ صورت بھی مقتول کے رشتہ داروں کے اختیار میں ہوتی ہے لیکن بہرحال ان امور میں حکومت ہی دخل دے سکتی ہے عام لوگ دخل نہیں دے سکتے۔ مگر شریعت کے بعض حصے ایسے ہیں کہ باوجود ان کے سیاسی اور نظام کے ساتھ متعلق ہونے کے گورنمنٹ ان میں دخل نہیں دیتی۔ جیسے قادیان میں قضاء کا محکمہ ہے حکومت اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے خود اجازت دی ہوئی ہے کہ ایسے مقدمات کا جو قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں آپس میں تصفیہ کر لیا جائے۔ پس اسلامی شریعت کا وہ حصہ جس میں حکومت دخل نہیں دیتی اور جس کے متعلق حکومت نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اس میں جس رنگ میں چاہیں فیصلہ کریں، ہمارا فرض ہے کہ اس حصہ کو عملی رنگ میں اپنی جماعت میں قائم کریں اور اگر ہم شریعت کے کسی حصہ کو قائم کر سکتے ہوں مگر قائم نہ کریں تو یقینا اس کے ایک ہی معنے ہوں گے اور وہ یہ کہ ہم شریعت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ پس اب اس نہایت ہی اہم اور ضروری مقصد کے لئے ہمیں عملی قدم اُٹھانا چاہئے جو خداتعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہؤا ہے اور جماعت کے کسی فرد کی کمزوری یا ٹھوکر کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاہئے۔
اصلاحِ اعمال کا پہلا قدم عورتوں کو ورثہ دینا
اس سلسلہ میں پہلا قدم ان امور کی اصلاح ہے
جو ظاہر و باہر ہیں۔ آج مَیں ان میں سے ایک امر آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس کو اگر ہم اختیار کر لیں تو یقینا ہمارے راستہ میں کوئی روک نہیں۔ صرف لوگوں کی بے دینی ، ناواقفی اور سُستی اس راہ میں حائل ہے۔ یعنی کسی کے لئے سُستی، کسی کے لئے ناواقفی اور کسی کے لئے بے دینی اس مسئلہ پر عمل کرنے میں روک بنی ہوئی ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ آج ہی ہماری ساری جماعت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کل اس میں وہ بدی نہیں ہو گی۔ وہ ایک قومی گناہ ہے جس کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں زمینداروں میں بِالعموم ورثہ کے مسئلہ پر عمل نہیں کیا جاتا۔ آج پچاس سال جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے گزر گئے ہیں مگر ابھی تک ہماری جماعت میں لڑکیوں کو اپنی جائدادوں میں سے وہ حصہ نہیں دیا جاتا جو خدااور رسول نے ان کے لئے مقرر کیا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ کہیں بھی اس پر عمل نہیں ہوتا خود ہم نے اپنی والدہ اور بہنوں کو ان کا حصہ دیا ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے اپنی بہنوں کو حصہ نہیں دیا۔ لیکن جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس حکم پر عمل نہیں کرتے اور اپنی لڑکیوں، اپنی بہنوں، اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو ورثہ میں وہ حصہ نہیں دیتے جو شریعت نے ان کے لئے مقرر کیا ہے۔ مگر میں پوچھتا ہوں اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کیا روک ہے؟ سوائے اس کے کہ تم یہ کہو کہ ہمارے ہاں رواج نہیں۔ اس کا اور کوئی جواب تم نہیں دے سکتے مگر کیا پچھلے تمام مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے رہے اور کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ آج یوپی کا ہر غیراحمدی تو اس پر عمل کرتا ہے اسی طرح صوبہ سرحد میں مسلمانوں نے اپنی مرضی سے ایسا قانون بنوایا ہے جس پر چل کر ہر شخص شریعت کے مطابق اپنی جائداد تقسیم کرنے کے لئے مجبور ہے مگر وہ احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس زمین کو بدل کر ایک نئی زمین بنائے گا اور اس آسمان کو بدل کر ایک نیا آسمان بنائے گا وہ اپنی بیٹیوں، اپنی بہنوں ،اپنی بیویوں اور اپنی ماؤں کو وہ حصہ نہیں دیتا جو شرعاً انہیں ملنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں زمینداروں کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس طرح ہماری پیدا کردہ جائداد دوسرے لوگوں کے قبضہ میں چلی جائے گی لیکن جب ساری جماعت اس مسئلہ پر عمل کرے گی تو یہ مشکل بھی جاتی رہے گی کیونکہ اس کی جائداد دوسرے کے قبضہ میں جائے گی تو دوسرے کی جائداد اس کے قبضہ میں بھی تو آئے گی۔ پس اس مسئلہ پر عمل کرنے میں کوئی حقیقی روک نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ ہر مخلص اقرار کرے کہ آئندہ وہ اس کی پابندی کرے گا اور اپنی بیٹی‘ اپنی بہن‘ اپنی بیوی اور اپنی ماں کو وہ حصہ دے گا جو شریعت نے انہیں دیا ہے اور اگر وہ اس کی پابندی کرنے کے لئے تیار نہیں تو وہ ہم سے الگ ہو جائے۔ پس آئندہ پورے طور پر اپنی اپنی جماعتوں میں اس کی پابندی کرائی جائے اور جو لوگ اس مسئلہ پر عمل نہ کریں ان کے متعلق غور کیا جائے کہ ان کے لئے کیا تعزیر مقرر کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی ہماری تعزیر کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو ایسے شخص کو جماعت سے نکال دیا جائے تا آئندہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارے ہاں شریعت کی ہتک ہوتی ہے۔
جماعتِ احمدیہ سے مطالبہ
اب اس مسئلہ کی اہمیت سمجھانے کے بعد اور یہ ثابت کر دینے کے بعد کہ نئی زمین اور نیا آسمان اسی طرح
بنایا جا سکتا ہے جب اِحیائے سنت اور احیائے شریعت کیا جائے۔ میں آ ج وہ بات کہتا ہوں جو پہلے کبھی نہیں کہی اور میں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ میں سے جو لوگ اس مسئلہ پر آئندہ عمل کرنے کے لئے تیار ہوں وہ کھڑے ہو جائیں (اس پر تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر لَبَّیْکَ یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے اس کا اقرار کیا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا) دیکھو آج تم میں سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا ہے کہ وہ دُکھوں اور تکالیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے خداتعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے اِحیاء کے لئے طَوْعاً، بغیر کسی جبر اور اکراہ کے اس امر کے لئے تیار ہے کہ وہ اپنی جائداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے۔ پس اس وقت چونکہ بحیثیت جماعت آپ لوگوں نے عمل کا اقرار کیا ہے‘ اس لئے یاد رکھیں کہ آئندہ اگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کرے گا تو اس سے قطع تعلق کا حکم دیا جائے گا یا کوئی اور سزا دی جائے گی جو ہمارے امکان میں ہے اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہؤا تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے گا۔
۲۔عورتوں کے حقوق
دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ گو اتنی عام تو نہیں مگر چونکہ شریعت کا حکم ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ عورتوں کے
حقوق کا ہمیشہ خیال رکھو اور ان کے جذبات کو مسلنے کی بجائے ان کی قدر کرو خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ تمہاری ایک سے زائد بیویاں ہوں۔ یہ حکم ہے جو شریعت نے دیا ہے کہ اپنی تمام عورتوں سے یکساں سلوک رکھو۔ مگر میں نے دیکھا ہے یہ حکم اکثر توڑا جاتا ہے اور شریعت کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورت کے سینہ میں دل نہیں بلکہ پتھر کا ٹکڑا ہے اور بعض جگہ تو بِلا کسی شرعی حکم کے عورت کو اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے نہ ملے اور خاوند سمجھتا ہے کہ بیوی کو میرے ماتحت کتوں کی طر ح رہنا چاہئے۔ وہ نادان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ خداتعالیٰ نے عورت کو بھی انسان بنایا ہے اور اس کے اندر بھی جذبات اور احساسات رکھے ہیں۔ کیا وہ خود اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ اسے اپنے ماں باپ سے ملنے اور ان کی خدمت کرنے سے روکا جائے اگر نہیں تو اس عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ جن کی ایک سے زیادہ عورتیں ہیں، ان میں سے بعض یکساں سلوک نہیں کرتے اور بعض تو اس قدر ظلم کرتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو ان کے ماں باپ کی خدمت کرنے اور ان سے ملنے سے بھی روک دیتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی قابلِ شرم حرکت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج ہماری جماعت کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اس کے افراد عورت کے احساسات کی عزت کریں گے۔ بیشک شریعت مردوں کو بھی بعض حقوق دیتی ہے کیونکہ شریعت نے مرد کو قیّمبنایا ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کے لئے ظلم اور ناانصافی روا ہو جائے۔ پس ہم میں سے ہر شخص کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ یا تو وہ آئندہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو یا دونوں بیویوں میں انصاف کرے گا اور اگر انصاف نہیں کر سکتا تو پہلی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ ورنہ جماعت مجبور ہو گی کہ اگر وہ اپنی بیویوں سے یکساں سلوک نہیں کرتا‘ تو اس سے مطالبہ کرے کہ وہ ان ہرسہ طریق میں سے کسی ایک طریق کو اختیار کرے اور اگر وہ کسی طریق کو بھی اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے جماعت سے الگ کر دیا جائے۔
۳۔امانت
تیسرا حکم جس کی طرف اس وقت لوگوں کو توجہ نہیں‘ امانت ہے۔ اس کے متعلق بھی جماعت کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ آئندہ ہر احمدی پورا پورا امین ہوگا اور کسی
کی امانت میں خیانت نہیں کرے گا۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی شخص امانت رکھ جاتا ہے تو وہ اپنے حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس امانت میں سے کچھ روپیہ ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیتے ہیں اور جب امانت رکھنے والا اپنی امانت لینے کے لئے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ اسی وقت روپیہ دے دیں کہتے ہیں چند دن صبر کریں۔ آپ کا روپیہ میں نے خرچ کر لیا تھا مجھے فلاں جگہ سے روپیہ ملنے والا ہے وہ ملتے ہی میں آپ کو ادا کر دوں گا۔ اس طرح وہ گو بظاہر دیانتداری سے امانت کی رقم خرچ کرتے ہیں اور اس رقم کو واپس کرنے کا بھی پختہ ارادہ رکھتے ہیں مگر ہوتے دراصل خائن ہیں۔ امانت کا طریق یہی ہے کہ جیسی کسی نے امانت رکھی ہو ویسی ہی وہ پڑی رہے اور جب امانت مانگنے والا آئے اسے فوراً دے دی جائے۔ دہلی میں حکیم محمود خاں صاحب کا خاندان نہایت ہی امین خاندان مشہور تھا جب غدر ہؤا ہے اس وقت لوگ ان کی ڈیوڑھی میں زیورات اور کپڑوں کی بندھی بندھائی گٹھڑیاں پھینکتے چلے جاتے تھے۔ کیونکہ وہ مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب شاہی تھے اور مہاراجہ پٹیالہ نے ان کے مکان کی حفاظت کے لئے خاص طور پر ایک گارد بھجوا دی تھی اور انگریزوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ چونکہ میرے شاہی طبیب ہیں اس لئے انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ تو چونکہ اس وقت ان کا مکان محفوظ تھا اور دوسرے لوگوں کے مکان غیر محفوظ تھے اور پھر وہ نہایت ہی امین مشہور تھے، اس لئے لوگ بھاگتے ہوئے آتے اور زیورات اور پارچات کی گٹھڑیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینکتے چلے جاتے اور اس امر کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ ان زیوروں یا کپڑوں کا کیا بنے گا۔ آخر انہی لوگوں میں سے جنہوں نے اس وقت گٹھڑیاں پھینکی تھیں بعض دس دس سال کے بعد آئے اور انہوں نے بِجِنْسِہٖ اپنی چیزیں ان سے لے لیں۔ یہی نمونہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو دکھانا چاہئے اور ہر احمدی کو امانت میں اتنا مشہور ہونا چاہئے کہ لوگ لاکھوں روپے اس کے پاس رکھنے میں بھی دریغ نہ کریں اور ایک احمدی کا نام سنتے ہی لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ایسا شخص ہے کہ اس کے پاس روپیہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
۴۔ مخلوقِ خدا کی خدمت
چوتھا امر جس کی طرف میں خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں
سے کام کرو اور خود محنت کر کے اپنے گاؤں وغیرہ کی صفائی کرو۔ ہندوستانی شہروں کی سڑکیں اور گاؤں کی گلیاں بِالعموم گندی رہتی ہیں‘ ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان کی صفائی کی طرف توجہ کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظافت کے متعلق اپنی اُمت کو جو احکام دیئے ہیں، وہ اسی صورت میں عملی رنگ میں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جب ہم میںسے ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھے اور صفائی میں مشغول رہے بلکہ جس گاؤں میں احمدیوں کی اکثریت ہو اُسے دوسرے دیہات کے مقابلہ میں صفائی میں اس طرح ممتاز ہونا چاہئے کہ ایک اجنبی شخص بھی جب کسی ایسے گاؤں میں داخل ہو‘ وہ اس کی صفائی اور نظافت کو دیکھتے ہی سمجھ لے کہ یہ احمدیوں کا گاؤں ہے۔
۵۔ احمدیوں کا دارالقضاء
پانچویں بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سوائے ان مقدمات کے جن کو
عدالت میں لے جانے کی مجبوری ہو اور جن کے متعلق قانون یہ کہتا ہو کہ انہیں عدالت میں لے جاؤ، ہمارا کوئی جھگڑا عدالت میں نہیں جانا چاہئے اور ان جھگڑوں کا شریعت کے ماتحت فیصلہ کرانا چاہئے اور اگر کوئی شخص اس حکم کو نہ مانے تو جماعت کو چاہئے کہ اسے سزا دے تاکہ اس کی اصلاح ہو اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے لگ کر دیا جائے ۔اس وقت صرف قادیان میں اس بات پر عمل ہوتا ہے مگر میں اب چاہتا ہوں کہ ہر جماعت میں پنچائتی بورڈ بن جائیں جو معاملات کا تصفیہ کیا کریں۔ پس ہر احمدی کو اپنے دل میں ہی اقرار کرنا چاہئے کہ آئندہ وہ اپنا کوئی مقدمہ جس کے متعلق گورنمنٹ مجبور نہیں کرتی کہ اسے انگریزی عدالت میں لے جایا جائے عدالت میں نہیں لے جائے گا بلکہ اپنے عدالتی بورڈ اور اپنے قاضی سے شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کرائے گا اور جو بھی وہ فیصلہ کرے گا اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرے گا اور گو اس حکم پر عمل کرانے سے جماعت کا ایک حصہ ضائع ہو جائے تو بھی اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
دیکھو رسول کریم ﷺ پر جب یہ وحی نازل ہوئی کہ تو رسول کریم ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک سواری پر کھڑے ہو کر یہ وحی الٰہی سنائی اور فرمایا یہ خدا کی آخری امانت تھی جو میں نے تم تک پہنچا دی۔ پھر آپؐ نے فرمایا ھَلْ بَلََّغْتُ؟ کیا خدا کا یہ پیغام میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کی بَلَّغْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ۔ اے خدا کے رسول ؐآپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا میں اپنی امانت سے سبکدوش ہوتا ہوں ۱۱۰؎ ۔ میں بھی آج اس امانت سے جو خداتعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد کی گئی تھی سبکدوش ہوتا ہوں۔ کیونکہ میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ خدا نے جو تمہیں شریعت دی ہے وہ صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے تک محدود نہیں بلکہ وہ مذہب اور اقتصاد اور سیاست اور معاشرت اور اخلاق اور تمدّن اور تہذیب اور دوسری تمام باتوں پر حاوی ہے۔اب یہ علماء کا کام ہے کہ وہ قرآن اور احادیث سے ان مسائل کو نکالیں اور دنیا کے سامنے انہیں کھول کر رکھ دیں۔ پس ہر علم کے متعلق کتابیں لکھی جائیں اور بہت جلد لکھی جائیں تا لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں بلکہ بعض کتابیں سوال و جواب کے رنگ میں لکھی جائیں جیسے پُرانے زمانہ میں پنجاب کے بعض علماء نے پکی روٹی اور مٹھی روٹی وغیرہ کتب لکھیں تا جماعت کا ہرشخص ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے اور پھر اس کے بعد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے۔
بیشک آج ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں ان پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہئے اور پھر آئندہ قریب زمانہ میں جوں جوں شریعت کے احکام تفصیل سے لکھے جائیں ان تمام احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے اور جماعت ان کو یاد کرتی چلی جائے تا یہ نہ ہو کہ وہ صرف چندہ دے کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام ختم ہو گیا بلکہ اسلام کے تمام احکام پر عمل اس کی غذاء ہو اور سنت و شریعت کا اِحیاء اس کا شُغل ہو۔ یہاں تک کہ دنیا تسلیم کرے کہ سوائے اس حصہ کے جو خداتعالیٰ نے چھین کر انگریزوں کو دے دیا ہے باقی تمام امور میں جماعت احمدیہ نے فیِ الواقع ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنا دی ہے اور ہم میں سے ہر شخص جہاں بھی پھر رہا ہو دنیا اسے دیکھ کر یہ نہ سمجھے کہ یہ بیسویں صدی میں انگریزوں کے پیچھے پھرنے اور مغربیت کی تقلید کرنے والا ایک شخص ہے بلکہ یہ سمجھے کہ یہ آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد ﷺ کے زمانہ میں مدینہ کی گلیوں میں پھر رہا ہے۔ اے دوستو! میں نے خدا تعالیٰ کا حکم آپ لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال کوئی معمولی سوال نہیں۔ آپ لوگوں نے اقرار کیا ہے کہ آپ ہر تکلیف اور ہر مصیبت اُٹھا کر بھی اسلام کے احکام پر عمل کریں گے اور اس تمدّن کو قائم کریں گے جس تمدّن کو قائم کرنے کا اسلام نے حکم دیا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ہر ایک اپنے عہد پر مضبوطی سے قائم رہے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں پر فوراً عمل کرنا شروع کر دے گا جن پر عمل کرنا اس کے اختیار میں ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں، ان کا منہ تمہارا عملی نمونہ دیکھ کر بند ہو جائے اور تم یہ دعویٰ کر سکو کہ اگر ہم ہتک کرتے ہیں تو دیکھوکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کِن میں زندہ ہیںاور ہر شخص اقرار کرے کہ آپؐ احمدیوں کے وجود میں زندہ ہیں۔
تمدّنِ اسلامی کے قیام میں مشکلات
اس کے بعد مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ بہت سے حصے اس تقریر کے
ایسے ہیں جن کو مَیں نے بغیر تشریح کے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی تشریح کسی اور کتاب میں اگر اللہ تعالیٰ چاہے بیان ہو جائے گی۔ اسی طرح مَیں علماء سے کتابیں لکھوانے کی بھی کوشش کروں گا۔ البتہ دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اقرار کرنا آسان ہوتا ہے مگر عمل کرنا مشکل۔ کئی لوگ ہیں جنہوں نے یہاں تو اقرار کیا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنی جائداد کا حصہ دیں گے مگر جب گھر پہنچ کر اس پر عمل کرنے لگیں گے تو بیٹے کہیں گے کہ ہمارے ابّا اپنی جائداد برباد کر رہے ہیں اور اس طرح تمہارے راستے میں کئی روکیں حائل ہوں گی پس تم اس وقت ایک پختہ عزم لے کر اُٹھو اور یاد رکھو کہ باتیں کرنا آسان ہوتی ہیں مگر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر عمل کرنا اتناہی آسان ہوتا تو اس مسئلہ پر آپ نے پہلے ہی عمل کر لیا ہوتا کیونکہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں جو آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا گیا بلکہ آپ اسے پہلے بھی جانتے تھے لیکن باوجود علم کے عمل نہیں کرتے۔ پس جذبات کی رَو میں جب چاروں طرف سے نعرے لگ رہے ہوں عہد کر لینا آسان ہوتا ہے اور کئی کمزور بھی اس عہد میں شامل ہو جاتے ہیں مگر جب کام کا وقت آتا ہے تو وہ بہانے بنانے لگ جاتے ہیںاور جماعت کے ان افسروں کو جو کام پر متعین ہوتے ہیں بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس میں جانتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں قسم قسم کے فساد پھیلیں گے اور لوگ افسروں کو بدنام کریں گے‘ انہیں شرارتی اور فسادی قرار دیں گے جیسے قادیان میں جب بعض لوگوں کو سزا دی جاتی ہے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے شریعت کی فلاں بے حرمتی کی تھی جس کی انہیں سزا ملی۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں افسر کی ہم سے کوئی ذاتی عداوت تھی جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سزا ملی۔ اسی قسم کے واقعات باہر کی جماعتوں میں بھی رونما ہونگے۔
دوستوں کو نصیحت
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ دعاؤں پر زیادہ زور دیں اور خداتعالیٰ سے ہی کہیں کہ اے خدا! نے ہمارے کمزور کندھوں پر وہ
بوجھ لادا ہے جو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر ڈالا تھا۔ اے خدا! ہمیں اپنی کمزوریوں کا اقرار اور اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے ہم میں کوئی طاقت نہیں ہم تیری ہی مدد اور تیری ہی نصرت کے محتاج اور سخت محتاج ہیں۔ اے خدا! تمام طاقت تجھ ہی کو حاصل ہے تُو اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو مضبوط بنا، ہماری زبانوں پر حق جاری کر، ہمارے دلوں میں ایمان پیدا کر، ہمارے ذہنوں میں روشنی پیدا کر، ہمیں اپنے فضل سے ہمت بلند بخش، ہماری سُستیوں اور ہماری غفلتوں کو ہم سے دور کر اور ہمارے اندر وہ قوتِ ایمانیہ پیدا کر کہ اگر ہماری جان بھی جاتی ہو تو چلی جائے مگر ہم تیرے احکام سے ایک ذرہ بھی انحراف نہ کریں۔ اے خدا! ہمیں اپنے فضل سے توفیق دے کہ ہم تیری شریعت کو دنیا میں قائم کر سکیں تا تیرے دین کی برکات لوگوں کو مسحور کر لیں اور انہیں بھی اس بات پر مجبور کر دیں کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔
دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کر لیا کرتا ہے تو استاد اسے دوسرا سبق دیتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کر لو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکامِ اسلام کو جاری کر دیا جن کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں تھی تو آؤ اب میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں تا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو اور اسلامی تمدّن کی چاروں دیواریں پایہء تکمیل کو پہنچ جائیں۔ پس اگر تم میری ان باتوں پر عمل شروع کر دو تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپرد کر دے گا اور جو حکومتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی‘ اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے گا اور اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جاؤ اور ان کا تختہ اُلٹ کر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دو جو میرے اسلام کو دنیا میں رائج کر رہے ہیں۔ پس جو کچھ تم کر سکتے ہو کرو اور سمجھ لو کہ باقی حصہ کو خداتعالیٰ خود سرانجام دے گا اور تم اللہ تعالیٰ کی ان طاقتوں کا مشاہدہ کرو گے جن طاقتوں کا محمدﷺ نے مشاہدہ کیا۔ لیکن یہ کام بڑا ہے اور ہم سخت کمزور اور ناتوان ہیں۔ پس آؤ کہ ہم خدا سے ہی دعا کریں کہ اے خدا! ہم کو سچا بنا، ہمیں جھوٹ سے بچا، ہمیں بزدلی سے بچا، ہمیں غفلت سے بچا، ہمیں نافرمانی سے بچا۔ اے خدا !ہمیں اپنے فضل سے قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو، ہمارے بچوں کو اور ہمارے بوڑھوںکو، سب کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرے کامل متبع بنیں اور ان تمام لغزشوں اور گناہوں سے محفوظ رہیں جو انسان کا قدم صراطِ مستقیم سے منحرف کر دیتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں اپنی محبت پیدا فرما۔ اے ہمارے رب! اپنی تعلیم‘ اپنی سیاست ، اپنے اقتصاد، اپنی معاشرت اور اپنے مذہب کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال، ان کی عظمت ہمارے اندر پیدا کر۔ یہاں تک کہ ہمارے دلوں میں اس تعلیم سے زیادہ اور کوئی پیاری تعلیم نہ ہو جو نے محمدﷺ کے ذریعہ ہمیں دی۔ اے خدا! جو تیری طرف منسوب ہو اور تیرا پیارا ہو وہ ہمارا پیار اہو اور جو تجھ سے دُور ہو اُس سے ہم دُور ہوں لیکن سب دنیا کی ہمدردی اور اصلاح کا خیال ہمارے دلوں پر غالب ہو اور ہم اس انقلاب عظیم کے پیدا کرنے میں کامیاب ہوں جو اپنے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
۱،۲؎ الفضل ۱۰؍اگست ۱۹۳۷ء
۳؎ الفضل ۲۰ ؍اگست ۱۹۳۷ء
۴؎ یوسف: ۱۰۹
۵؎ حروری: عراق میں کوفہ کے نزدیک ایک چھوٹا سا مقام حروراء ہے۔ جہاں خوارج نے سب سے پہلے حضرت علی کے خلاف خروج کیا تھا۔ اسی حروراء کی نسبت سے ابتدائی دَور کے خوارج کو ’’حروریہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ (اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ۵۴۲مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء)
۶؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیرالمجلد الثالث صفحہ ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۷؎ الرعد: ۱۸
۸؎ کولمبسCOLUMBUS CHRISTOPHER(۱۴۵۱ء۔ ۱۵۰۶ء)امریکہ کو دریافت کرنے والا۔ بڑی منت سماجت کے بعد شاہی امداد حاصل کی اور اٹھاسی آدمیوں کے ساتھ تین جہازوں سانتا ماریا، پینتا اور نینامیں ہسپانیہ سے ۱۲؍اکتوبر ۱۴۹۲ء کو روانہ ہوا اور جزیرہ سان سالویڈور امریکہ جا اُترا۔ دوسری مہم میں اس کی دریافتیں پورٹوریکو، جزائرورجن جیمیکا پر مشتمل تھیں۔ تیسرے سفر (۱۴۹۸ء) میں اس نے وینزیویلا میں اورنوکو کادھانہ دریافت کیا۔ ہیٹی کی ایک نَو آبادی میں اس کے نظم و نسق کا نتیجہ یہ ہوا کہ پابہ زنجیر ہسپانیہ واپس آیا۔ چوتھی مُہم (۱۵۰۲ء) میں جو وقار کی بازیافت کیلئے تھی۔ ہانڈور اس کے ساحل تک پہنچا مگر اتنی مشکلات پیش آئیں کہ مجبوراً واپس جانا پڑا۔ کسمپرسی کی حالت میں مرا۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۲۳۶۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۹؎ البقرۃ: ۱۶۵ ۱۰؎ القمر: ۲ ۱۱؎ الفجر: ۷ تا۱۳
۱۲؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۴۲۳۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۳؎ تاریخ العرب قبل الاسلام مصنفہ جُرجی زیدان
۱۴؎ پیدائش باب ۱۱ آیت ۴ تا ۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پورمطبوعہ ۱۸۷۰ء
۱۵؎ القصص: ۳۹ ۱۶؎ المؤمن: ۳۷،۳۸ ۱۷؎ الشعراء: ۱۲۹تا۱۳۱
۱۸؎ خِلْطوں: خِلْطْ: آمیزش۔ ملاوٹ۔ جسم کی چار خِلْطیں، خون،بلغم، صفراء، سَوداء
۱۹؎ دَیَا: مہربانی، رحم، شفقت
۲۰؎ بَھرشْٹْ: ناپاک ،بد، بُرا، نجس، گندہ
۲۱؎ آہنسا:
۲۲؎ الانعام: ۴۹،۵۰ ۲۳؎ البقرہ: ۱۰۷،۱۰۸ ۲۴؎ البقرۃ: ۲۱۳
۲۵؎ القمر: ۲
۲۶؎ تذکرہ صفحہ۶۱۲۔ ایڈیشن چہارم
۲۷؎ موضوعات ملّاعلی قاری صفحہ ۵۹ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ
۲۸؎ متی باب ۵ آیت ۱۸ ۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پورمطبوعہ ۱۸۷۰ء
۲۹؎ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸،۱۹ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور مطبوعہ۱۸۷۰ء
۳۰؎ القیٰمۃ: ۲ تا ۱۱
۳۱؎ غوامض: غامض کی جمع۔ چُھپی ہوئی باتیں۔ باریکیاں۔بھید
۳۲؎ آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۵،۵۶۶
۳۳؎ کتاب البریۃ صفحہ ۸۵،۸۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵
۳۴،۳۵؎ البقرۃ: ۳۱ ۳۶؎ طٰہٰ: ۱۱۹،۱۲۰
۳۷؎
۳۸؎ النساء: ۱۶۴ ۳۹؎ الانعام: ۱۶۲ ۴۰،۴۱؎ البقرۃ: ۱۳۲
۴۲؎ موضوعات ملّا علی قاری صفحہ ۷۲ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ
۴۳؎ الانعام: ۱۵۵ ۴۴؎ الاعراف: ۱۴۶ ۴۵؎ البقرۃ: ۲۶۱
۴۶؎ الاعراف: ۱۴۴ ۴۷؎ البقرۃ: ۵۶
۴۸؎ استثناء باب۱۸ آیت۱۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۴۹؎ المزّمّل: ۱۶ ۵۰؎ النساء: ۱۶۵ ۵۱؎ البقرۃ: ۲۵۴
۵۲؎ متی باب۵ آیت۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ۱۹۲۲ء
۵۳؎ الماعون: ۵
۵۴؎ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء
۵۵؎ النحل: ۱۲۴ ۵۶؎ یوسف: ۱۰۹ ۵۷؎ الانعام: ۱۶۲تا ۱۶۴
۵۸؎ یوسف: ۱۱۲ ۵۹؎ النجم: ۹،۱۰ ۶۰؎ النساء: ۱۶۴،۱۶۵
۶۱؎ القیٰمۃ: ۱۸،۱۹ ۶۲؎ الحجر: ۱۰ ۶۳؎ النّحل: ۱۰۳
۶۴؎ الماعون: ۵تا ۷ ۶۵؎ الحج: ۳۸ ۶۶؎ المائدۃ: ۴
۶۷؎ المائدۃ: ۲۱ ۶۸؎ النساء: ۷۰
۶۹؎ بخاری کتاب الصّلٰوۃ باب قول النّبیّ ﷺ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْرًا
۷۰؎ سبا: ۲۹تا ۳۱
۷۱؎ بخاری کتاب التیمم وقول اللّٰہ تعالٰی فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً (الخ)
۷۲؎ ص: ۶ ۷۳؎ سبا: ۳۰ ۷۴؎ سبا: ۳۱
۷۵؎ السجدۃ: ۶
۷۶؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النّبِیِّ ﷺباب فضائل اَصحاب النّبِیّ ﷺوَمَنْ صَحِب النَبِیّ ﷺ (الخ)
۷۷؎ الصّفّ: ۱۰
۷۸؎ متی باب ۱۵ آیت ۲۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء
۷۹؎ النساء: ۴ ۸۰؎ الجمعۃ: ۳،۴
۸۱؎ تذکرہ صفحہ ۱۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۸۲؎ تذکرہ صفحہ ۱۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۸۳؎ تذکرہ صفحہ ۷۰۔ ایڈیشن چہارم
۸۴؎ تذکرہ صفحہ ۷۸۔ ایڈیشن چہارم
۸۵؎ تذکرہ صفحہ۹ ۵۰۔ ایڈیشن چہارم
۸۶؎ تذکرہ صفحہ ۶۷۴۔ ایڈیشن چہارم
۸۷؎ تذکرہ صفحہ ۶۷۹۔ ایڈیشن چہارم
۸۸؎ الفتح: ۳۰ ۸۹؎ النّحل: ۲ ۹۰؎ النحل: ۲۷
۹۱؎ الحجر: ۳
۹۲؎ مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان (الخ)
۹۳؎ بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل مِن وَّرَائِ الْاِمَام و یتقی بہٖ
۹۴؎ کنزالعمال جلد۳ صفحہ۵ مطبوعہ حلب ۱۹۷۰ء
۹۵؎ کنزالعمال جلد۳ صفحہ۱۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۰ء
۹۶؎ الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الاوّل صفحہ ۳۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ
۹۷؎
۹۸؎
۹۹؎ الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الاوّلصفحہ ۴۱ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ
۱۰۰؎ الجامع الصغیر للسیوطی جلد ۲ صفحہ۵۲ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ
۱۰۱؎
۱۰۲؎ الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الاوّلصفحہ۱۱ مطبوعہ مصر۱۳۲۱ھ
۱۰۳؎ مقدمہ ابن ماجہ باب اجتناب الْبَدْعِ وَالجدل
۱۰۴؎
۱۰۵؎
۱۰۶؎
۱۰۷؎
( المائدۃ: ۳۹)
۱۰۸؎ ( البقرۃ: ۱۷۹)
۱۰۹؎ بنی اسرائیل: ۳۴
۱۱۰؎ مسلم کتاب الحج باب حجۃ النَّبِیّ ﷺ (مفہوماً)


میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں
(تقریر فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، نشر کردہ ریڈیوبمبئی مؤرخہ ۱۹ فروری ۱۹۴۰ء بوقت ساڑھے آٹھ بجے شام)
مجھ سے بمبئی ریڈیو والوں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں انہیں بتائوں کہ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناء پر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ جو مذہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کر سکتا ہے وہ سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے۔ اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں۔ اس دعویٰ کو دو طرح ہی پرکھا جا سکتا ہے، یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کر لیں۔ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحبِ تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارقِ عادت طور پر ظاہر کیا، اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوئا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں۔
اوّل: میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے، دعا، اس کا اثر، قضاء و قدر اور اس کا دائرہ، عبادت اور اس کی ضرورت، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت، بعث مابعدالموت، جنت، دوزخ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی اور جسے عقلِ انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا۔ پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے۔
دوم: میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعووں کی بنیاد نہیں رکھتا بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پرکھی جا سکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
سوم: میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانینِ قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کیلئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کیلئے اس کے قول کو دیکھ اور اس طرح اسلام میری قوتِ فکریہ کو تسکین بخشتا ہے۔
چہارم: میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کُچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیّت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے بلکہ جس طرح ایک ماہر انجنیئر آزاد پانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر پاک محبت اور جائز محبت، جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کیلئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا مگر حد کے اندر رہ کر تا ایسا نہ ہو تُو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا رہے۔ غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔
پنجم: پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو ان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے، انہیں تعلیم دلانے، اعلیٰ تربیت کرنے، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ کیا ہی زرِّیں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانیء اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے۔ اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۱؎ اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے۔ تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو۔۲؎
پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۳؎۔ اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے۔
پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی۔ وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں، بلکہ ایک امانت ہے پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے اپنے حاکم انہیں چنو، جو حکومت کرنے کے اہل ہوں۴؎ اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کر کے ان سے پورا تعاون کرو اور بغاوت نہ کروکیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو۔ اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے۔ وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر ۵؎ اور جو تیرا دستِ نگر ہو اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے۔ پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اُجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سُستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے۔
اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو، تا وہ اسے غرباء کی ترقی کیلئے خرچ کرے اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اسے سُود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھائو نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثوابِ دارین کمائو مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے بلکہ تم خدا تعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کرو جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباء کی اس جدوجہد میں ان کی مدد کرے اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے۔
اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہو گئی کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خدا نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی، سو دوسروں پر بڑائی جَتا کر فخر نہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کرو کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اُٹھاتا ہے۔اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کریں اور ایسا نہ ہو کہ بعض قومیں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریںگے۔
غرض مَیں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر مَیں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں کیا ہوں اور کچھ بھی ہوں اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے۔ میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کیلئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں اور عورتوں کے لئے اور مردوں کیلئے اور بزرگوں کیلئے اور خوردوں کیلئے اور غریبوں کیلئے اور امیروں کیلئے اور بڑی قوموںکیلئے اور ادنیٰ قوموں کیلئے اور ان کے لئے بھی جو اتحادِ اُمم چاہتے ہیں اور حُبُّ الوطنی میں سرشاروں کیلئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے اور میرے لئے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو مَیں مان بھی کیونکر سکتا ہوں۔
(ریویو آف ریلیجنز مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۶ تا ۳۱)
۱؎ ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء
۲؎ بخاری کتاب الادب باب المَعَاریضُ مندوحۃ عَنِ الکذب
۳؎ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات
۴؎

۵؎ ابن ماجہ کتاب الرھون باب اجرالاجراء



موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی
کیلئے دعا کی تحریک


از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

موجودہ جنگ میں برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ مئی ۱۹۴۰ء بعد نماز عصر بمقام بیت اقصیٰ قادیان)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمارے بادشاہ کی طرف سے جو دعا کا اعلان ہوئا ہے اس کے مطابق ہمارے عہدہ داروں نے بھی آج دعا کا اعلان کیا ہوئا تھا اور اسی غرض کیلئے اس وقت احباب جمع ہیں۔ دنیا میں ہر ایک مذہب والا اپنے اپنے عقیدہ کے رُو سے کسی نہ کسی دن کو بابرکت سمجھتا ہے چونکہ انگلستان کی حکومت عیسائی ہے اس لئے اس کے نزدیک اتوار کا دن مبارک ہے اور اسی وجہ سے اس نے دعا کیلئے اس دن کا انتخاب کیا اور اعلان کر دیا کہ اس دن اُن کی کامیابی کیلئے دعا کی جائے اور ہم نے بھی تمام ایمپائر کے لوگوں کے ساتھ شمولیت اختیار کرنے کیلئے آج دعا کا اعلان کر دیا لیکن ہمارے مذہب میں دعا کی قبولیت کا دن جمعہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن ایک ساعت ایسی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جب کوئی بندہ دعا کرتا ہے تو وہ ضرور قبول کر لی جاتی ہے۔۱؎
پس میرا منشاء ہے کہ ہم اس دعا کے حقیقی پہلو کو اس طرح پورا کریں کہ علاوہ آج کے دن دعا کرنے کے کسی جمعہ کو بھی حکومتِ برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کر دیں شاید اس طرح وہ ساعت جو قبولیتِ دعا کیلئے مقرر ہے ہماری دعائوں کے ساتھ مل جائے اور اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج پیدا کرے۔ پس گو ہم آج بھی جمع ہو گئے ہیں اور ہم دعا بھی کریں گے لیکن ہمارے مذہب نے جس دن کو مبارک اور تمام دنوں سے زیادہ پسندیدہ اور مقبول قرار دیا ہے ہماری حقیقی خدمت اور ہماری حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی وہی ہوگی جب ہم اُس دن بھی ان کی کامیابی کیلئے دعا کریں گے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ آج برطانوی ایمپائر پر بلکہ برطانوی ایمپائر ہی کیا تمام دُنیا پر اور اُس تمام مہذب نقطۂ نگاہ پر جو گزشتہ صدیوں کے اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوئا ہے نہایت خطرناک حملہ ہوئا ہے اور اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ یہ جنگ اگر اتحادیوں کے خلاف پڑے تو دنیا میں ایسے خطرناک تغیرات رونما ہو جائیں گے کہ نہ مذاہب کے لئے امن باقی رہے گا اور نہ قوموں کیلئے امن باقی رہے گا اور سینکڑوں سال کے لئے لوگ ویسی ہی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جیسے چوہڑے اورچمار ایک عرصۂ دراز تک آریوں کے غلام رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ جہاں تک ظاہری حالات کا تعلق ہے اتحادیوں نے اپنی غفلت اور سُستی اور کبر اور خودپسندی کی وجہ سے اُن سامانوں کے جمع کرنے میں بہت ہی سُستی دکھائی ہے جن سامانوں کا جنگ کے لئے جمع کرنا ضروری تھا اور ان کی اس سُستی، غفلت اور مَیں کہوں گا کہ تکبر کا یہ ثبوت ہے کہ گزشتہ چھ ماہ ہمارے سیاستدان اس دعویٰ کے اعلان میں لگے رہے کہ ہمارے پاس سامان بہت ہے اور ہم جرمن کو بھوکا مار سکتے ہیں مگر آج حالات ایسا رنگ اختیار کر گئے ہیں کہ خود انگلستان بھوکا مرنے کے خطرہ میں گرفتار ہے مگر جرمن کیلئے بھوکا مرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ انہوں نے اپنے سامانوں پر گھمنڈ کیا اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے فائدہ اُٹھاتے غفلت اور سُستی میں پڑے رہے بلکہ ہندوستان میں تو اب تک غفلت اور سُستی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اچھا سپاہی دو سال میں تیار ہوئا کرتا ہے لیکن ابھی تک ہندوستان میں یہی سوچا جا رہا ہے کہ ہمیں اس جنگ کے مقابلہ کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ حالانکہ وہ جس دن اپنی کوششوں کا آغاز کریں گے اس سے سال دو سال بعد انہیں اپنے ملک کی حفاظت کیلئے اچھے سپاہی مل سکیں گے اس سے پہلے نہیں۔ پس نہ معلوم وہ کس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ آیا اس دن کا جب دشمن ان پر حملہ کر دے گا اور کیا جس دن دشمن حملے کرے گا اس دن انہیں وہ تیاری کیلئے مُہلت بھی دے دے گا؟ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں پر کچھ ایسی غفلت طاری ہو گئی کہ یہ سامانِ جنگ تیار نہ کر سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا کہ محض دنیوی سامانوں پر بھروسہ انسان کے کام نہیں آ سکتا چنانچہ آج بڑے کیا اور چھوٹے کیا ،بادشاہ کیا اور وزراء کیا سب کہہ رہے ہیں کہ دعائیں کرو کیونکہ دعائوں کے بغیر کامیابی مشکل ہے۔ فرانس کے وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرانس کو اب معجزہ کے سوا کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ پھر انہوں نے کہا اگر یہی بات ہے تو میں معجزوں پر بھی ایمان رکھتا ہوں یعنی اگر یہی صورت ہو تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ فرانس کامیاب ہوگا۔ ہم کہتے ہیں بہت اچھا وہ یقین رکھیں اور معجزات پر ہر شخص کو یقین رکھنا بھی چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ معجزے دیکھنے کیلئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف کسی قسم کی توجہ کی ضرورت ہوئا کرتی ہے۔ اگر وہ توجہ پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ بے شک معجزے دکھا دیتا ہے لیکن اگر اس کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو معجزات بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک کمزور اور عاجز انسان کو خدائی کے تخت پر بٹھائے ہوئے ہیں اور واحد اور قادر و مقتدر خدا کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں۔ اگر وہ اس شرک کو مٹا دیں اور خدائے واحد کی طرف صدقِ دل کے ساتھ توجہ کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ آسمان سے فرشتے اُتر کر ان کی مدد کریں لیکن جب دعا کرتے وقت بھی ایک انسان کی طرف ہی بار بار نظر اُٹھ رہی ہو تو خدا کی برکتیں کس طرح نازل ہوں۔ خدا تعالیٰ سے تو ان کا یہ سلوک ہے کہ وہ اس کی جائز حکومت سے اسے محروم کر رہے ہیں اور اپنے متعلق یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی حکومت ان کے پاس ہی رہے ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے یہ خدا کی حکومت خدا کو دیں پھر دیکھ لیں کہ جرمن کے ٹینک اور اس کے ہوائی جہاز آپ ہی آپ اُڑ جاتے ہیں یا نہیں اور خدا تعالیٰ کا قہر اسے کس طرح جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اب تک ان سے اچھا سلوک کیا ہے یہ پہلے بھی مشرک تھے، یہ پہلے بھی ایک انسان کو خدا تسلیم کرتے تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے ان کو حکومت دی اور باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کے تخت سے اُتار کر ایک عاجز انسان کو اس کی جگہ بٹھایا خدا تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی دیتا رہا اور ابھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور احمدیت اور دنیا کے فوائد اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کو اور مہلت مل جائے کیونکہ بہرحال جہاں تک ہماری نظر جاتی ہے (ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ حالات کو بہتر جانتا ہے ممکن ہے خدا تعالیٰ کسی وقت جرمن والوں کے قلوب کو ہی درست کر کے انہیں نیک بادشاہ بنا دے لیکن اس وقت تک کا جو تجربہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ جرمنی کی حکومت کے ماتحت اس کی غیر ملکی رعایا سُکھی نہیں) انگریز ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی رعایا سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک کانگریسی اخبار نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ اب وقت نہیں رہا کہ کانگریس برطانیہ کی مخالفت کرے کیونکہ اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی طاقت انگریزی بیونٹ ۲؎ کی حفاظت تلے ہے۔ یہ ایک ایسا اعتراف ہے جو خود دشمن نے کیا اور کہتے ہیں اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ ایک کانگریسی اخبار کا یہ کہنا کہ کانگرس کی طاقت انگریزوں کے بیونٹس کی حفاظت کے سبب سے ہے بتاتا ہے کہ انگریزوں کا سلوک اپنی رعایا سے دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دنوں برطانیہ پر جو ابتلاء آیا ہوئا ہے اس کے متعلق چاہے ہنسیں، چاہے ٹھٹھا اور مذاق کریں، چاہے ہمیں پاگل اور مجنون سمجھیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اُن آہوں کا نتیجہ ہے جو ۱۹۳۴ء ،۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں ہمارے دلوں سے بُلند ہوئیں۔ میرے اُس وقت کے خطبات چھپے ہوئے موجود ہیں ان کو نکال کر پڑھ لیا جائے مَیں نے متواتر ان خطبات میں کہا ہے کہ انگریز یہ مت خیال کریں کہ اُن کے پاس توپیں، فوجیں، ہوائی جہاز اور بم ہیں کیونکہ جس خدا پر ہمارا انحصار ہے اس کے مقابلہ میں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے اس وقت میری اس آواز پر کان نہ دھرا اور کہا اس کی کیا حیثیت ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی جماعت کا فرد ہے جسے جب چاہیں ہم تباہ کر سکتے ہیں اور جب چاہیں مار سکتے ہیں اور یہ نہ سمجھا کہ خدائی مذہب انسانوں کے قید ہونے یا انسانوں کے مارے جانے کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے۔ انسان مارے جاتے ہیں حتیّٰ کہ بعض انبیاء بھی شہید ہوئے، انسان قید ہوتے ہیں حتیّٰ کہ بعض انبیاء بھی قید ہوئے، انسان اپنے گھروں سے نکالے جاتے ہیں، حتیّٰ کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے گھر سے نکالے گئے مگر خدا تعالیٰ کی باتیں دنیا سے کبھی مٹ نہیں سکتیں۔ حکومتیں مٹا دی جاتی ہیں، سلطنتیں تباہ کر دی جاتی ہیں، مگر خدا تعالیٰ کا قول دنیا سے کبھی محو نہیں ہوتا۔ مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ بات بہت ہی پیاری معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے لارڈ ولنگڈن سے ۱۹۳۵ء کی گرمیوں میں کہی جب کہ وہ ہندوستان کے وائسرائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرایمرسن اپنے آپ کو بہت دُور اندیش خیال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیہ جماعت بوجہ اپنی تنظیم کے اور ایک امام کے تابع ہونے کے برطانوی حکومت کیلئے ایک ممکن خطرہ ہے اور اس خیال سے وہ احمدیہ جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ تاریخ سے قطعاً نا واقف معلوم ہوتے ہیں یا کم سے کم انہوں نے تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ جب کبھی کسی شاہنشاہیت نے کسی مذہب سے ٹکر لگائی ہے ہمیشہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ امپائر تباہ ہو گئی ہے مگر مذہب تباہ نہیں ہوئا اور سچی بات یہی ہے کہ ایمپائرز جب مذاہب سے ٹکراتی ہیں وہ مٹ جاتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کا قائم کیاہوئا کوئی مذہب آج تک دنیا سے نہیں مٹا اور نہ مٹ سکتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ کیا وہ بعض مقامی افسروں نے کیا تھا۔ حکومتِ برطانیہ اس کی بے شک بِالواسطہ ذمہ دار تھی مگر بلاواسطہ ذمہ دار نہیں تھی اور اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہم حالات کو صحیح طور پر سمجھیں۔
جب جرمنی کے مقابلہ میں اتحادی فوجوں کو فلنڈرز (FLANDERS) ۳؎ میں پہلی شکست ہوئی تو اس وقت مَیں کراچی میں تھا مجھ پر اس خبر کا اتنا گہرا اثر ہوئا کہ رات کو میری نیند اُڑ گئی اور بے چینی اور اضطراب کی حالت میں مَیں نے اتحادیوں کی کامیابی کیلئے دعا کرنی شروع کر دی اور گھنٹوں دعا کرتا رہا۔ جب صبح ہونے کے قریب ہوئی تو اس وقت مجھے الہام ہوئا ۔
’’ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘
میں نے بعد میں سوچا کہ اس کا کیا مفہوم ہے۔ تو اس کا مطلب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ابھی دو چار سال پہلے تو بہت سے احمدیوں کے دلوں سے حکومت کے خلاف آہیں نکل رہی تھیں اور اب ان کی کامیابی کیلئے دعائیں کر رہے ہو گویا اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ ہماری جماعت کی طرف سے اس موقع پر جو بددعائیں کی گئی تھیں وہ ضرورت سے زیادہ تھیں اور اس میں توازن کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا۔ یعنی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ظلم کتنا ہے اور آہیں کتنی بلند ہو رہی ہیں اور نہ یہ سوچاگیا کہ اگر یہ حکومت تہ و بالا ہوگئی تو اس کے بعد جو آئے گا وہ کیسا ہوگا۔ اچھا ہوگا یا بُرا۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’ہم الزام اُن کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا‘‘
کہ الزام تو اُن پر دیا جاتا تھا مگر اب قصور خود جماعت کا نقل آیا کیونکہ گو انگریز حکام الزام کے نیچے تھے مگر اُن کا جُرم اتنا نہ تھا کہ اس کے نتیجہ میں اس قدر آہیں تمہارے دلوں سے نکلتیں جس قدر نکلیں اور اس قدر بددعائیں کی جاتیں جس قدر بددُعائیں کی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس الہام کے ذریعہ یہ سبق دیا ہے کہ ہر بات میں توازن کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ میں تو اُس وقت بھی جماعت کو روکتا تھا اور بار بار کہتا تھا کہ یہ جھگڑا چند مقامی افسروں سے ہے حکومتِ برطانیہ سے اس جھگڑے کا کوئی تعلق نہیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بارہ میں مَیں مجرم نہیں۔ مگر ذاتی طور پر مجھے معلوم ہے کہ جماعت کے بعض دوستوں نے انگریزوں کے خلاف بڑی بڑی بددُعائیں کی ہیں۔پس اب اللہ تعالیٰ نے یہ حالات پیدا کرکے ہمیں ہی مجبور کیا کہ ہم ان کی کامیابی کیلئے دُعائیں کریں کیونکہ وہ خطرہ جو آنے والا ہے بہت زیادہ سخت ہے۔
انگریزوں کی مثال درحقیقت ایسی ہی ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ دو یتیم بچوں کا خزانہ ایک دیوار کے نیچے دبا ہوئا تھا۔ ایک مدت کے بعد وہ دیوار بوسیدہ ہو کر گرنے کے قریب ہوگئی۔ اب بظاہر دیوار کا گر جانا مفید تھا کیونکہ اس کے گر جانے سے خزانہ نکل سکتا تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی نے جب اس دیوار کو گرتے دیکھا تو پھر بنا دیا۔ اب دیوار کو دوبارہ کھڑا کر دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ خزانہ پھر دَب جائے اور ظاہر نہ ہونے پائے پس حضرت موسٰیؑ اور ان کے ساتھی نے دیوار بنا دی اور خزانہ کو پوشیدہ کر دیا کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے اس دیوار کے بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا وہ خزانہ قبل از وقت ننگا نہ ہو جائے بلکہ اس وقت تک دَبا رہے جب تک لڑکے اپنی جوانی کو نہیں پہنچتے تا کہ جب وہ جوان ہو جائیں تو وہی اس خزانہ پر قابض ہوں کوئی دوسرا اس پر قبضہ نہ جمالے۔ اسی طرح بظاہر حالات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز اور فرانسیسی وہ دیوار ہیں جس کے نیچے احمدیت کی حکومت کا خزانہ مدفون ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اُس وقت تک قائم رہے جب تک خزانہ کے اصل حقدار جوان نہیں ہو جاتے۔ ابھی احمدیت چونکہ بالغ نہیں ہوئی اور بالغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس خزانہ پر قبضہ نہیں کر سکتی اس لئے اگر اس وقت یہ دیوار گر جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ اس پر قبضہ جمالیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم پھر ایسی دیوار کو بنا دیں تا جب احمدیت اپنی بلوغتِ کاملہ کو پہنچ جائے تو اس وقت وہ اس خزانہ کو سنبھال لے۔ دنیا داروں کی نگاہ میں بے شک یہ عجیب بات ہے مگر جو بات خدا تعالیٰ کے حضور مقدر ہے وہ عجیب نہیں اور وہی طبعی اور حقیقی فیصلہ ہے۔
پس اس وقت اتحادیوں کا ضُعف احمدیت اور اسلام کے لئے بظاہر خطرناک ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ چاہے تو دلوں کو بدل بھی سکتا ہے۔ ہلاکو خان نے بغداد کو فتح کیا تھا مگر اسی کی اولاد بعد میں مسلمان ہوگئی۔ اسی طرح کیا تعجب ہے کہ ہٹلر پہلے دنیا کو فتح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ اُسے مسلمان بنا دے۔ لیکن مؤمن کا انحصار خیالی باتوں پر نہیں ہوتا بلکہ ظاہری حالات پر ہوتا ہے۔ باقی اگر خدا تعالیٰ ہمیں بتا دے کہ تمہارا اسی میں فائدہ ہے تو ہم انگریزوں اور فرانسیسیوں کی ذرّہ بھی پروا نہ کریں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا علم نہیں دیا گیا اور ظاہری حالات کی رُو سے اس وقت اسلام اور احمدیت کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ میں انگریزوں کو فتح دے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت کی اتباع میں اور اس وجہ سے کہ جہاں تک ہماری عقل کام کرتی ہے ہمیں انگریزوں کی فتح میں ہی فائدہ دکھائی دیتا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم انگریزوں کی کامیابی کیلئے دعا کریں۔
مجھے خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق بہت سی باتیں بتائی ہیں اور تواتر اور تسلسل کے ساتھ پچھلے چھ ماہ میں اس جنگ کے حالات مجھ پر ظاہر کئے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اب وہ باتیں پوری ہو رہی ہیں بعض باتیں چونکہ ایسی ہوتی ہیں جن کا قبل از وقت شائع کرنا مناسب نہیں ہوتا اس لئے میں نے چند دوستوں کو وہ خوابیں سنا دی ہیں تا کہ وقت پر وہ ان خوابوں کے پورا ہونے کے گواہ رہیں۔
اب بھی مَیں سفر سے واپسی پر ریل میں آ رہا تھا کہ مَیں نے پھر دعا کرنی شروع کر دی۔ دعا کرتے کرتے چند سیکنڈ کیلئے غنودگی کا ایک جھٹکا آیا جیسا کہ الہام کے وقت غنودگی آتی ہے۔ کشفی حالت میں ایک بادشاہ میرے سامنے سے گزارا گیا پھر الہام ہوئا ’’ایب ڈی کیٹڈ (ABDICATED) ۴؎ مَیں اس کی تعبیر یہ سمجھتا ہوں کہ یا تو کوئی بادشاہ ہے جو اس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول بادشاہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دوبارہ دنیا میں کوئی تغیر پیدا کرے گا۔
اسی طرح انگلستان پر جرمن حملہ کی اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ آج حکومتِ برطانیہ کے وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس سے پہلے انگلستان پر حملہ بالکل ناممکن سمجھتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے کئی ماہ پہلے مجھے یہ خبر دے دی تھی۔ چنانچہ ابھی انگلستان پر حملے کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ مَیں نے رئویا میں دیکھا انگلستان ایسے خطرہ میں گھر گیا ہے کہ قریب ہے وہ جرمن کا غلام ملک ہو جائے اور اس نے اس خطرہ کی حالت میں بعض دوسرے ملکوں سے امداد کی درخواست کی ہے۔ ان دنوں مَیں دھرم سالہ میں تھا اور ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ عزیزم مظفر احمد بھی ان دنوں وہیں تھے اور مَیں نے انہیں اور بعض دوسرے دوستوں کو یہ خواب سنا دی تھی۔ غالباً جولائی یا اگست کے مہینہ کی یہ بات ہے اور ستمبر میں لڑائی شروع ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان امور کے متعلق مجھ پر بہت سے انکشافات کئے ہیں لیکن ان کی تشریحات مَیں مناسب نہیں سمجھتا مگر باوجود ان تمام باتوں کے میرا قلب محسوس کرتا ہے کہ انگلستان کی بھلائی میں ہماری بھلائی ہے کیونکہ رئویا میں مَیں نے جب بھی انگلستان کو مشکلات میں مبتلاء دیکھا ہے مَیں نے یہی کوشش کی ہے کہ انگریزوں کے علاقہ میں چلا جائوں۔ پس میں سمجھتا ہوں اس قوم سے ابھی ہماری قوم کے فوائد وابستہ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی فتح ہی ہمارے لئے مفید ہے اور مجھے تو یقینِ کامل ہے کہ اگر یہ سچے طور پر توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا لیکن ابھی انہیں اپنی طاقت پر بہت گھمنڈ ہے اور ان کے لئے یہ ماننا سخت مشکل ہے کہ قادیان میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی دعا سے ہٹلر کی فوجیں بھاگ سکتی ہیں۔ تا ہم ان کی کامیابی کیلئے ہم دعا ہی کرتے ہیں گو یہ دعا ویسی نہیں ہوسکتی جیسی وہ دعا جس کے لئے وہ خود درخواست کریں کیونکہ موجودہ صورت تو ایسی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا انہیں ہماری دعائوںکی احتیاج نہیں لیکن اگر وہ توحید کا اقرار کر کے ہم سے دعا کی درخواست کریں تو پھر وہ دعا ایسی ہی ہوگی جیسے دعائے مباہلہ ہوتی ہے اور جو سیدھی اپنے نشانہ پر پہنچتی ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو یقینا ان کی تکلیف کے دن دور ہو سکتے ہیں۔ ان مختصر نصائح کے بعد مَیں دعا کرتا ہوں دوستوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس دعا میں شامل ہوں اور وہ یاد رکھیں کہ اس وقت انگریزوں یا فرانسیسیوں کا سوال نہیں بلکہ جہاں تک ہمارا علم ہے اور جہاں تک ہماری عقل کام کرتی ہے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی آزادی ،حُریّتِ ضمیر اورحُریّتِ عمل کا سوال ہے۔ پس نہایت ہی درد اور کرب کے ساتھ دعا کرو اس شخص سے بھی زیادہ درد اور کرب کے ساتھ جس کا بیٹا یا باپ یا بھائی یا کوئی اور عزیز رشتہ دار مر رہا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا ہو جو درد ایسے شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ درد اس وقت تمہارے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور اسی درد اور کرب کے ساتھ تمہیں دعا کرنی چاہئے کیونکہ معاملہ معمولی نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک ہے۔
اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی۔
(الفضل ۴؍جون ۱۹۴۰ء)
۱؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب السَّاعۃ التی فی یوم الجمعۃ
۲؎ بیونٹ (BAYONET) رائفل کے سامنے کا خنجر
۳؎ فلینڈرز FLANDERS ۔ نشیبستان (ہالینڈ، بیلجیئم، لکسمبرگ) کا سابق ضلع۔ اب بیلجیئم اور فرانس میں بٹا ہؤا ہے۔ بیلجمی فلینڈرز کے باشندوں کی اکثریت فلیمی زبان بولتی ہے۔ ۱۷۹۷ء میں فرانس سے الحاق ہؤا۔ ۱۸۱۵ء میں اسے ہالینڈ کے حوالے کیا گیا۔ ۱۸۳۰ء میں بیلجیئم کا حصہ بنا اور دو صوبوں میں بٹا۔ دوسری عالمی جنگ میں فلینڈرز کی لڑائی ہالینڈ و بیلجیئم پر جرمن فوجوں کے حملے سے شروع ہوئی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۱۰۲ ۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
‏۴؎ ABDICATE : تخت سے دستبردار ہونا


امۃ الودود میری بچی



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہُوَالنَّاصِرُ
امۃ الودود میری بچی
۱؎
(تحریر فرمودہ جون ۱۹۴۰ء)
امۃ الودود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے گوشۂ دل میں
سب ہی مرتے چلے آئے ہیں،
کچھ مر رہے ہیں، کچھ مر جائیں گے اَور پیدا ہوں گے پھر وہ بھی مریں گے، اگلی نسلیں نئے جذبات لے کر آئیں گی، ہمارے فانی جذبات ہمارے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔ جو موتیں آج ہمارا دل زخمی کرتی ہیں وہ ان کا ذکر ہنس ہنس کر کریں گے، جن موتوں سے وہ ڈر رہے ہوں گے ان کا خیال کر کے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ باوجود ہماری نسلوں میں سے ہونے کے زمانے کے بُعد کی وجہ سے ہم انہیں نہیں جانتے اور وہ ہم میں سے کئی کو نہ جانیں گے۔ مثلاً اگر خدا تعالیٰ نے میری نسل کو قائم رکھا تو چھٹی ساتویں پشت کے کتنے بچے ہوں گے جو اپنی بڑی پھوپھی امۃ الودود کے نام سے بھی واقف ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ چھٹی ساتویں نسل کے بچے میری اپنی نسل سے ہوں گے ان کے غموں اور دُکھوں کا احساس مجھے آج کس طرح ہو سکتا ہے اور ان کی خوشیوں میں مَیں کس طرح حصہ لے سکتا ہوں مگر امۃ الودود جسے ہم پیار سے دُودی کہا کرتے تھے جو کَل ہم سے جُدا ہوئی گو میری بھتیجی تھی مگر ان میری آئندہ نسلوں کے غم اس کے غم کو کہاں پہنچ سکتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ زمانہ، رشتہ اور تعلق یہ تین چیزیںمل کر دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کیا کرتی ہیں۔ پھر اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زور پکڑ جائے تو وہ دوسری چیزوں کو دبا دیتی ہے اور جب تینوں جمع ہو جائیں تو جذبات بھی شدید ہو جاتے ہیں۔ دُودی میری بھتیجی تو تھی مگر زمانہ کے قُرب اور تعلق نے اسے میرے دل کے خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی۔ بعد کی نسلیں تو الگ رہیں میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے۔
امۃ الودود کی سہیلی
یہ میری بھولی بھالی بچی مجھے بچپن سے ہی بہت پیاری تھی۔ اس کی اور ایک میری بھانجی ہے زکیہ ان دونوں کی شکلیں مجھے بہت اچھی
لگتی تھیں۔ جب عید وغیرہ کے موقع پر سب بچے اماں جان کے گھر میں جمع ہوتے تھے تو میں ان دونوں کو خاص طور پر پیار کیا کرتا تھا اور یہ دونوں دوسروں پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ ایک کہتی ماموں جان مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دُوسری کہتی، چچا ابا مجھے زیادہ چاہتے ہیں۔ پھر جب یہ بچیاں بڑی ہوئیں تو امۃ الودُوْد کی علمی لیاقت نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔ اسی دوران میں اس کی دُوسری سہیلی ’’چھوٹی آپا‘‘ یعنی مریم صدیقہ کی میرے ساتھ شادی ہوگئی۔ یہ دونوں ایک ہی سال اور ایک ہی مہینہ میں پیدا ہوئیں تھیں، اکٹھی پڑھتی رہیں۔ ایف۔ اے اکٹھا پاس کیا اور نمبر بھی ایک ہی جتنے تھے۔ پھر بی۔ اے کا امتحان دیا اور دونوں فیل ہوئیں۔ پھر دوبارہ بی۔ اے کا امتحان دیا اور پھر دونوں فیل ہوئیں۔ اس سال پھر دونوں نے بی۔ اے کا امتحان دیا اور دونوں پاس ہوگئیں۔ اس شاد ی کے بعد چونکہ دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا، امۃ الودُوْد کی بھی مجھ سے بے تکلفی بڑھ گئی اور مجھے اس کے اخلاق کے دیکھنے کا زیادہ موقع ملا۔
امۃ الودود کے متعلق خواہش
اُس وقت میرے دل میں یہ خواہش زور سے پیدا ہوئی کہ امۃ الودُوْد کی شادی میرے بچوں میںسے
کسی کے ساتھ ہو جائے مگر جوان بچوں کے ارادے پہلے سے دُوسری جگہ ہو چکے تھے اس لئے مَیں کامیاب نہ ہو سکااور جب لڑکے راضی نہ تھے تو درخواست دینا بے معنی امر تھا۔ اس عرصہ میں اُس کے بعض رشتے آئے جنہیں پسند نہ کیا گیا۔ سب سے آخر میں جس رشتہ کو ردّ کیا گیا وہ گھر کا ہی تھا۔ کوئی پانچ ماہ کا عرصہ ہوئا اس کے ذکر کے سلسلہ میں میری ہمشیرہ نے ذکر کیا کہ دُودی کے نانا کہتے تھے کہ میں گھر کے رشتہ کو پسند کرتا ہوں۔ اگر بڑے لڑکوںکی شادیاں ہو چکی ہیں تو عمر میں چھوٹے ہی سے سہی۔ یہ فقرہ سنتے ہی میری دیرینہ خواہش پھر عَود کر آئی اور مَیں نے ہمشیرہ سے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میری بھی خواہش ہے۔ عزیزم خلیل احمد گو چھ سال عمر میں چھوٹا ہے مگر رشتہ داروں میں ایسے رشتے بہت ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ فرق پر بھی ہو جاتے ہیں۔
میری ایک بچی نے یہ سنا تو مجھ سے کہنے لگی کہ عمر کے اتنے فرق پر یہ رشتہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ مَیں نے جواب دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو وہ آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ بچی ہی تو تھیں اس نے آگے سے جواب دیا کُجا خلیل اور کُجا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ مَیں نے بھی جواب میں کہا کہ کُجا امۃ الودود اور کُجا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مگر یہ بات اپنے ہی گھر تک رہی۔
امۃ الودود کے اخلاق کا مطالعہ
میں نے چاہا کہ میں لڑکی کے اخلاق کا مطالعہ گہرے طور پر کروں۔ ماں کی طرف سے اس کا رشتہ کوٹلہ
کے نوابوں سے پڑتا ہے ایسا نہ ہو اس میں کوئی رگ امارت کی ہو جو بعد میں باعثِ تکلیف ہو۔ چنانچہ اسی غرض سے مَیں زور دے کر اسے اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کو جو اس کے بھائی اور میرے بھتیجے اور داماد ہیں اپنے ساتھ کراچی لے گیا، وہاں میں نے اسے ہر رنگ میں آزمایا، ایک دوسرے کے جوٹھے پانی پلائے، زمین پر بٹھا کر کھانا کھلایا، گھر کی صفائی کے کام میں شامل کیا، غرض کئی مواقع پر ایسے کام کرائے جو عام طور پر امیر خاندانوں میں بُرے سمجھے جاتے ہیں اور اس نے نہایت سادگی سے سب ہی کاموں کو خوشی سے کیا اور میں نے محسوس کیا کہ اس کا دل غریب ہے اور عادات فقیرانہ ہیں۔ یہ اس کا پہلا ہی سفر میرے ساتھ تھا بلکہ ساری عمر میں اسے سیر کا یہ پہلا ہی موقع ملا تھا مگر اس نے اس بے تکلفی سے وہ دن گزارے کہ وہ کبھی میرے لئے بوجھ محسوس نہ ہوئی اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اس کے والدین مانیں یا نہ مانیں میں عزیزم خلیل احمد سلمہ اللہ کی طرف سے ضرور درخواست دے دونگا۔ اس عرصہ میں مَیں نے خود بھی استخارہ کیا اور بعض دوسروں سے بھی کرایا۔
امۃ الودود کے متعلق خواہش کی تکمیل کیلئے کوشش
چونکہ اسے تھوڑے دنوں کی اجازت تھی وہ
تو چند دن پہلے اپنے بھائی کے ساتھ کراچی سے آگئی اور ہم چند دن بعد وہاں سے واپس آگئے۔ واپسی پر میں نے حضرت ام المؤمنین سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے جو روکیں ہو سکتی ہیں ان کا ذکر کیا اور خطرہ ظاہر کیا کہ کہیں انکار کی صورت میں آپس میں بدمزگی پیدا نہ ہو۔ مَیں نے انہیں تسلی دلائی کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا اگر بچی کے ماں باپ کو رشتہ ناپسند ہوئا تو مَیں ہرگز بُرا نہ منائوں گا اصل غرض تو لڑکی کا آرام ہے اگر اس کی راحت کسی اور رشتہ میں ہو تو مجھے بھی وہی منظور ہوگا۔ اس پر انہوں نے اجازت دے دی مگر اس عرصہ میں بعض اور رشتے زیر غور تھے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ ان کی موجودگی میں اپنے لڑکے کی طرف سے درخواست دوں مگر مَیں نے سنا کہ لڑکی نے ان رشتوں کو پسند نہ کیا اور آخر مناسب انتظار کے بعد پرسوں بدھ کی شام کو عصر کے بعد میں نے ایک لمبا خط عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام لکھا کہ گو میرے لڑکے میں نقص ہیں، عمر اس کی کم ہے تعلیم اس کی کم ہے، مگر پھر بھی مَیں اس کی طرف سے درخواست پیش کرتا ہوں۔ ہاں اگر آپ کو ناپسند ہو تو مجھے کوئی گلہ نہ ہوگا کیونکہ اپنے لڑکے کے نقائص خود مجھے معلوم ہیں۔ مَیں نے چاہاکہ خط کی نقل رکھ لوں اور چونکہ معاملہ پرائیویٹ تھا میں نے تجویز کیا کہ اپنی چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سے اس کی نقل کرائوں تا کہ کسی غیر کو اس کے مضمون پر اطلاع نہ ہو وہ اس دن اپنے ابا کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ شام کو واپس آئیں اور مَیں دس بجے ریڈیو سے خبریں سن کر اندر گیا اور ان کو جگا کر کہا کہ صبح ہی یہ خط نقل کر دو تا کہ میں بھجوا دوں اور ان سے کہہ کر اُمِّ وسیم کے ہاں آیا جہاں میری باری تھی اور کھانا کھایا اور تھوڑی دیر مطالعہ کر کے لیٹ گیا۔ کوئی ساڑھے گیارہ بارہ کا وقت ہوگا کہ جب میں لیٹا تھا، کوئی دو بجے کا وقت تھا کہ میری بیوی نے مجھے جگایا اور یہ فقرہ میرے کان میں پڑا کہ
’’میاں شریف احمد صاحب کی طرف سے اماں جان کے پاس آدمی آیا ہے کہ امۃ الودود کو درد کا دورہ ہوئا ہے اور وہ بے ہوش ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس کا آخری وقت ہے منہ دیکھنا ہے تو آ کر دیکھ لیں‘‘۔
حضرت اماں جان لاہور تھیں مَیں گھبرا کر اُٹھا اور گو بوجہ بیماری چلنا پھرنا منع تھا مگر ایسے وقت میں بیماری کا خیال کیسے رہ سکتا ہے میں اِنَّا لِلّٰہِ پڑھتا ہوئا اُٹھا اور چونکہ موٹر کوئی موجود نہ تھا ٹانگہ کیلئے آدمی دوڑایا۔ مریم صدیقہ کو جگایا، مریم اُمّ طاہر کو اطلاع دی، عزیزہ ناصرہ بیگم اپنی بیٹی کو جو امۃ الودُوْد کی بھاوج ہے اور دو دن کیلئے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی جگایا اور ٹانگہ میں بیٹھ کر مَیں ناصرہ سلمہا اللہ تعالیٰ، اُمّ وسیم اور مریم صدیقہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ مَیں اب تک کی رپورٹ سے یہی سمجھ رہا تھا کہ اپینڈی سائیٹس کا دورہ ہوئا ہوگا یا کبھی خیال آتا تھا کہ جوان لڑکیوں کو بعض دفعہ ایام میں ٹھنڈے پانی کے استعمال سے کچھ روک پیدا ہو کر شدید درد ہو جاتی ہے شاید ایسی ہی کوئی تکلیف ہو مَیں نے احتیاطاً اپنی ہومیوپیتھک دوائوں کا بکس بھی ساتھ لے لیا۔
بیماری کی کیفیت
لیکن جب وہاںپہنچے تو کمرے میں امۃ الودود لیٹی ہوئی تھی اور لمبے سانس جن میں بلغم کی خرخراہٹ شامل تھی لے رہی تھی۔ وہ بالکل بے ہوش
تھی اور آج اس کے’’چچا ابا‘‘ کی آمد اس کے لئے بالکل کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ باہر ڈاکٹر تھے مَیں نے ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوئا کہ درد کی رپورٹ غلط تھی۔ اس کے دماغ کی رگ سوتے سوتے پَھٹ گئی ہے اور طبّی معلومات کی رُو سے اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ جب حالات دریافت کئے تو معلوم ہوئا کہ رات کو بارہ بجے کے قریب لیٹیں اور تھوڑی دیر بعد کراہنے کی آواز آئی اس کے ابا میاں شریف احمد صاحب نے اس کی آواز سنی اور اس کے پاس آئے اور دیکھا کہ بے ہوش ہے اور تشنّج کے دَورے پڑ رہے ہیں۔ وہ اس کی چار پائی برآمدے میں لائے اس وقت اس نے قَے کی اور قَے کے بعد اس قدر لفظ کہے کہ میرا سر پھٹا جاتا ہے، سر پکڑو اور خود ہاتھ اٹھا کر سر پکڑ لیا۔ بس یہی اس کی ہوش تھی اور یہی اس کے آخری الفاظ۔ فوراً ڈاکٹروں کو بُلوایا گیا اور انہوں نے جو کچھ وہ کر سکتے تھے کیا۔ مگر ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ موت کا وقت ہے اس بیماری کا کوئی علاج نہیں میرے سامنے لمبر پنکچر کیا گیا تا کہ تشخیص مکمل ہو جائے۔ چنانچہ لمبر پنکچر سے بجائے پانی کے خون نکلا جس سے یہ اَمر یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ سَر کی رَگ پَھٹ کر دماغ کو خون نے ڈھانک لیا ہے۔
وفات
چند منٹ کے بعد سانس رُکنے لگا اور میرے آنے کے نصف گھنٹہ بعد یہ بچی ہم سے ہمیشہ کیلئے جُدا ہو گئی۔ ۔۲؎
میرا رشتہ کی تحریک کا خط لکھا ہوئا میرے سرہانے پڑا رہا اور امۃ الودُوْد اپنے رب کی طرف سدھار گئی۔ ثُمَّ ۔
دُہرا صدمہ
ایسی لائق اور نیک اور شریف بچی کی جُدائی کا صدمہ اس کے ماں باپ کو تو ہونا لازمی ہے جس حد تک شریعت اجازت دیتی ہے اور جس حد تک انسانی
فطرت کی بناوٹ غم کو لے جانے میں مدد دیتی ہے اس حد تک انہیں صدمہ ہوئا ہی ہوگا لیکن گو مَیں نے شادی کی درخواست دی نہ تھی اور نہ معلوم بچی کے ماں باپ مانتے یا نہ مانتے جن سے میں نے مشورہ لیا ان کا خیال تھا کہ نوے فیصدی انکار ہی سمجھنا چاہئے مگر انسان کی خواہش اسے ناممکنات بھی ممکنات کی شکل میں دکھاتی ہے۔ مَیں تو اپنے ارادہ کے ساتھ ہی مرحومہ کو اپنی بہو سمجھنے لگ گیا تھا اور خیال کرتا تھا کہ امۃ الحیٔ کی نسل کو اب اللہ تعالیٰ چاہے تو امۃ الودُوْد چلائے گی اس لئے جہاں اس بچی کے ماں باپ اپنے دل کو یہ کہہ کر صبر دلاتے ہوں گے کہ ایک دن تو اس لڑکی نے ہمارے گھر سے جانا ہی تھا وہاں میرے دل کی تکلیف اور ہی رنگ رکھتی ہے۔ بہوئیں اگر نیک ہوں بیٹیوں سے کم پیاری نہیں ہوتیں اور اگر وہ اپنی ہی عزیز ہوں اور طبیعت کی نیک تو چونکہ انسان کو بڑھاپے میں لڑکیوں سے زیادہ بہوئوں سے واسطہ پڑتا ہے اور وہی اس کی راحت کا موجب ہوتی ہیں ان کا وجود اور بھی زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے۔
میں کئی دفعہ سوچا کرتا ہوں کہ انسان جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کی لڑکیاں دوسروں کے لڑکوں کے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور اس کے لڑکے دوسروں کی لڑکیوں کو لے کر الگ ہو جاتے ہیں اور وہ اُس وقت جب کہ وہ سب سے زیادہ خدمت اور دلجمعی کا محتاج ہوتا ہے اکیلا رہ جاتا ہے۔ پھر جب کہ لڑکے اپنی شادیوں میں آزاد ہیں ضروری نہیں کہ ان کی بیویاں اُن کے ماں باپ کے لئے راحت کا موجب ہوں۔ خلیل چونکہ بے ماں کا بچہ ہے میری خواہش تھی کہ اس کے لئے میں ایسی بیوی تلاش کروں جسے بالکل الگ رہنے کی خواہش نہ ہو اور ہو بھی میری عزیز تا کہ اس کی خوشی کا خیال رکھنے پر مَیں اور دوسرے اہلِ خانہ دونوں طرح مجبور ہوں اس کے بہو ہونے کے لحاظ سے بھی اور اس کے رشتہ دار ہونے کے لحاظ سے بھی۔
یہ بات تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مرحومہ کا رشتہ ہوتا یا نہ ہوتا یا اس کا عمل کیسا ہوتا لیکن میں نے اس کی طبیعت کا مطالعہ کر کے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ ہمارے گھر میں آئی تو اپنی طبیعت کے لحاظ سے ایسے امُور میں وہی راہ اختیار کرے گی جو میری خوشی کا موجب ہو۔
تکبر نہیں حیا ء و انکسار
تعجب ہے اس بچی کو ہمارے گھر کی سب لڑکیاں متکبر کہا کرتی تھیں اور غالباً اسی اثر کے ماتحت اس کا رشتہ میرے بڑے لڑکوں میں
سیکسی سے نہ ہو سکا مگر جب مَیں نے اس کے اخلاق کا گہرا مطالعہ کیا تو مَیں نے دیکھا کہ اس کا تکبر اس کی حیاء تھی، ورنہ مَیں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اس کی طبیعت کا انکسار ہمارے خاندان کی اکثر لڑکیوں سے بڑھا ہوئا تھا اور مَیں نے اس کا دل کینہ اور بغض سے بالکل صاف پایا۔ لڑکیوں میں آپس میں رقابت ہوتی ہے میری بچیوں میں بھی ہے لیکن اس کا میں نے جہاں تک مطالعہ کیا اس میں رقابت نام کو نہ تھی اور اسے سب ہی بہنوں سے محبت تھی۔
اس بارہ میں مجھے اس کا ایک خاص تجربہ ہوئا ۔ اسے اپنی ایک بہن سے تکلیف پہنچی تھی۔ مَیں نے ایک دفعہ اس امر کا ذکر اس سے کیا۔ مجھے معلوم ہوئا کہ اُسے پہلے سے اس واقعہ کا علم تھا مگر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ اس کے دل میں اس بہن کی نسبت کوئی کدورت نہ تھی۔ خدا تعالیٰ اس کی رُوح پر رحم کرے۔
پیدائشی صحت کی کمزوری
امۃ الودود کی پیدائش انفلوئنزا کے دنوں میں ہوئی۔ ہمارے خاندان کی تین لڑکیاں انفلوئنزا کی یادگار ہیں امۃ الودُود مرحومہ،
مریم صدیقہ بیگم اور امۃ الرشید میری لڑکی۔ تینوں ہی کی پیدائش کچھ کچھ دن وقت سے پہلے ہوئی۔ امۃ الودُود مرحومہ کی بہت پہلے اس نے صرف آٹھ ماہ اپنی والدہ کے پیٹ میں گزارے۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ بوجہ انفلوئنزا کی وباء کے دیر تک گھر کے لوگ بیمار رہے اس کی صحت بہت خراب رہا کرتی تھی اور کئی سال کی عمر تک تشنّج کے دَورے ہوتے رہتے تھے۔ ذرا سی بات پر رونے لگتی اور رو رو کر دورہ ہو جاتا اور اکثر دفعہ موت کے قریب پہنچ جاتی۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم گوڑگانوی معالج ہوئا کرتے تھے۔ وہ اس کے اس طرح موت کے قریب پہنچ کر اچھا ہو جانے کی وجہ سے اسے ’’مرمر جیونی‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
امۃ الودود نام کس طرح قرار پایا
مَیں نے اس کا نام امۃ الودود رکھا تھا اس کی اماں کو کوئی اور چھوٹا سا نام پسند تھا۔انہی دنوں
کا لطیفہ ہے کہ وہ اسے اپنے پسندیدہ نام سے بلایا کرتی تھیں کہ اسے دَورہ ہوئا اور موت کے قریب پہنچ گئی۔ اس پر انہوں نے کہا چلو امۃ الودود ہی نام سہی یہ کسی طرح بچ جائے۔ وہ اچھی ہو گئی تو کچھ دنوں کے بعد انہیں اپنی بات بھول گئی اور پھر انہوں نے وہی اپنے والا نام پکارنا شروع کیا۔ پھر اتفاق سے دَورہ ہوئا اور پھر امۃ الودود ہی نام قرار پایا۔ مجھے بعضوںنے کہا کہ جب ماں کی خواہش ہے تو تم نام بدل ڈالو۔ مَیں نے کہا مَیں نام تو بدل دیتا مگر بچی کے نام میں اللہ کا نام آتا ہے مَیں یہ نام نہیں بدل سکتا۔ آخر کئی دفعہ اسی طرح ہوئا اور امۃ الودود نام کی فتح ہوئی اور بچی کے دَورے بھی جاتے رہے۔
میرے اپنے گھر کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ میرے ہاں ایک لڑکی ہوئی اور مَیں نے اس کا نام امۃ العزیز رکھا وہ بیمار ہوئی اور مرگئی، پھر ایک اور لڑکی ہوئی اور مَیں نے اس کا نام امۃ العزیز رکھا۔ میری بیوی نے کہا کہ پہلی کا نام امۃ العزیز تھا اس کا کچھ اور رکھو۔ مَیں نے کہا نہیں میں یہی نام رکھوں گا تا کہ عورتوں میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ اس لئے اب یہ نام نہیں رکھا کہ اس نام کی بچی مَر گئی تھی۔ خدا کا کرنا یوں ہوئا کہ وہ بھی مَر گئی اس کے بعد منور احمد پیدا ہوئا اور پھر لڑکی پیدا ہوئی اور میں نے اس کا نام پھر امۃ العزیز رکھا۔ اس کی والدہ نے بڑا ہی زور لگایا کہ یہ نام نہ رکھو لیکن میں نے نہ مانا اور کہا کہ اگر لڑکی کے بعد لڑکی مرتی جائے گی تب بھی میں امۃ العزیز ہی نام رکھتا جائوں گا تا کہ خدا تعالیٰ کے نام پر کوئی حرف گیری نہ کر سکے۔ آخر وہ لڑکی زندہ رہی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب اس کا نکاح عزیزم مرزا حمید احمد سلمہ اللہ تعالیٰ سے ہوئا ہے۔
بچپن کے بعد صحت اچھی ہو گئی
غرض اس بچی کی صحت بچپن میں بہت خراب رہتی تھی اور تشنّج کے دَورے ہوتے تھے۔ پھر صحت اچھی
ہوگئی اور ابھی دو ماہ کی بات ہے میری چھوٹی بیوی اس کی ’’چھوٹی آپا‘‘ بیمار تھیں۔ وہ خبر پوچھنے آئی۔ اس سے پہلے دن عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بچہ پیدا ہوئا تھا وہیں صدیقہ بیگم کو بخارہوئا اور ایک سو پانچ تک ہو گیا۔ امۃ الودود کہنے لگی کہ مَیں نے سمجھا تھا غلطی لگی ہے ایک سو پانچ درجہ کے بخار میں یہ وہاں چلتی پھرتی کس طرح تھیں۔ مَیں نے کہا دُودی تم کو کیوں تعجب ہوئا تمہارے گھر میں تو بخار کا اوسط درجہ ایک سو سات اور ایک سو نو کے درمیان ہوتا ہے۔ (مرحومہ کے بھائیوں کو بخار ایک سو سات یا اس سے زیادہ بھی ہو جاتا ہے) اس پر اس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم مجھے تو نہ کبھی سردرد ہوتا ہے اور نہ بخار۔ مجھے یہ سنتے ہی خیال آیا کہ بعض اطبّاء نے لکھا ہے کہ ایسی صحت بھی اچھی نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کو بعض دفعہ یکدم بیماری کا حملہ ہوتا ہے اور اس کے سامنے بھی مَیں نے اس خیال کا اظہار کیا۔ کسے معلوم تھا کہ اطبّاء کا یہ خیال درست ہو یا غلط مگر اس بچی کے حق میں دو ماہ کے اندر پورا ہو جائے گا۔
تعلیم کا شوق
صحت کی درستی کے بعد سے اسے تعلیم کا شوق پیدا ہوئا اور وہ برابر تعلیم میں بڑھتی گئی۔ انٹرنس تک تو مجھے خیال رہا کہ یوں ہی مدرسہ میں جاتی ہے لیکن
جب وہ انٹرنس میں اچھے نمبروں پر پاس ہوئی تو مجھے زیادہ توجہ ہوئی اور جب وہ ملتی میں اس سے اس کی تعلیم کے متعلق بات کرتا۔ پھر ایف۔ اے میں وہ پاس ہوئی اور مَیں نے زور دیا کہ صدیقہ بیگم اور امۃ الودود بی۔ اے کا امتحان دیں اور دونوں نے تیاری شروع کر دی۔ مگر پہلی دفعہ کامیاب نہ ہوئیں، پھر دوسری دفعہ پڑھائی کی، پھر بھی کامیاب نہ ہوئیں، مَیں نے اصرار کیا کہ امتحان دیتے جائو چنانچہ اس دفعہ پھر تیاری کی۔ جب امتحان کے دن قریب آئے عزیزہ کے منجھلے بھائی عزیزم مرزا ظفر احمد بیرسٹرایٹ لاء اپنی شادی کے لئے قادیان آئے۔ امتحان کے دنوں میں شادی کی تاریخ تھی انہوں نے کہا کہ امتحان نہ دو تم نے پاس تو ہونا نہیں گھر کے اور آدمیوں نے بھی کہا اور اس نے امتحان دینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ مجھے معلوم ہوئا تو مَیں نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ یہ ٹھیک نہیں مجھے اس دفعہ ان کے پاس ہونے کی امید ہے۔ اگر صدیقہ پاس ہو گئیں تو امۃ الودود کے لئے اکیلا امتحان دینا مشکل ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے جا کر اسے امتحان کیلئے پھر تیار کر دیا۔ امتحان کے بعد کراچی سے واپس آ کر ایک دن صدیقہ بیگم کو رقعہ لکھا کہ چچا ابا سے کہہ دیں کہ اگر آپ دعا کریں تو مَیں پاس کیوں نہ ہو جاؤں۔ اب کے انہوں نے خود امتحان دلایا ہے اگر میں پاس نہ ہوئی تو مَیں نہیں مانوں گی کہ انہوں نے دعا کی ہے۔ مَیں نے کہلا بھیجا کہ مَیں دُعا کر رہا ہوں اور اب کے مجھے یقین ہے کہ تم دونوں پاس ہو جائو گی اور خدا تعالیٰ نے دونوں کو پاس کر ہی دیا۔ پاس ہونے کے بعد دونوں سہیلیوں نے مبارک باد کا تبادلہ کیا۔ ہفتہ کی شام کو امۃ الودود ٗصدیقہ کو مبارکباد دینے آئی اوراتوار کی صبح کو صدیقہ اُسے مبارکباد دینے گئیں میں اس دن بہت بیمار تھا وہ میرے پاس بیٹھ گئی۔ صدیقہ بیگم صاحبہ تھیں، بعد میں اس کی چھوٹی بہن اور میری بڑی لڑکی اس کی بھاوج بھی آ گئیں میں نے کہا دُودی! تم پاس نہیں ہوئیں مَیں پاس ہوئا ہوں کیونکہ تم تو امتحان کا ارادہ چھوڑ بیٹھی تھیں۔
مرحومہ کی ایک خاص خوبی
پھر مَیں نے کہا کہ پڑھائی کے دن تو اب ختم ہوئے اب کام کا وقت آ گیا۔ اب مَیں تم کو اور صدیقہ کو مضامین کے
نوٹ لکھوایا کروں گا اور تم انگریزی میں مضمون تیار کر کے ریویو وغیرہ میں دیا کرو۔ کہنے لگی کہ مَیں نے تو کبھی مضمون لکھا نہیں چھوٹی آپا کو لکھوا یاکریں۔ مَیں نے کہا تم دونوں ہی نے پہلے مضمون نہیں لکھے اب تم کو کام کرنا چاہئے۔ کہنے لگی اچھا۔ یہ واقعہ مَیں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ مرحومہ میں یہ خوبی تھی کہ باوجود شرمیلی طبیعت کے جب کوئی مفید کام اسے کہا جاتا وہ اس پر کاربند ہونے کیلئے تیار ہو جاتی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی لڑکیوں سے کہتا تو ان میں سے اکثر شرم کی وجہ سے انکار پر اصرار کرتیں مگر اسے جب میں نے دُہرا کر کہا کہ اب تم کو اپنے علم سے دنیا کو فائدہ پہنچانا چاہئے تو باوجود ناتجربہ کاری اور حیاء کے اس نے میری بات کو منظور کر لیا۔
آخری بار کی ملاقات
تھوڑی دیر کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چھوٹی بچی دودھ کیلئے رو رہی ہوگی۔ مَیں نے جانا ہے اور ساتھ ہی امۃ الودود
بھی اُٹھی۔ میری عادت رہی ہے کہ امۃ القیوم اور امۃ الودودجب پاس سے اٹھا کرتیں تو مَیں کہا کرتا تھا کہ میری بچی اللہ تمہارا حافظ ہو اور پھر پیار کر کے رخصت کیا کرتا تھا۔ اس دن مَیں نے یہ الفاظ تو کہے مگر اُٹھ کر اُسے پیار دے کر رخصت نہیں کیا۔ مَیں نے اس کے چہرہ پر کچھ ملال کے آثار دیکھے اور کہا مَیں آج بیمار ہوں اُٹھ نہیں سکتا چوتھے دن اسی بیماری کی حالت میں مجھے اس کی بیماری کی وجہ سے جانا پڑا اور مَیں نے جاتے ہی اس کے ماتھے کو چوما مگر اب وہ بے ہوش تھی اب اس کے چچا ابا کا پیار اس کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا اور اسی بے ہوشی کی حالت میں وہ فوت ہو گئی۔ ہاں وہ بچی جس نے اپنی ساری عمر علم سیکھنے میں خرچ کر دی اور باوجود شرمیلی طبیعت کے میرے کہنے پر اس پر آمادہ ہو گئی کہ اپنی جنس کی بہتری کیلئے وہ مضمون لکھا کرے گی۔ جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی کیونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور تھا۔ وہ اسے وہاں لے گیا جہاں باتیں نہیں کی جاتیں، جہاں کام کیا جاتا ہے، جہاں کوئی کسی انسان کی نصیحت کا محتاج نہیں، جہاں صرف اللہ ہی ہر اک کا ہادی ہوتا ہے۔
امۃ الودود کو الوداع
امۃ الودود جب تم اس دنیا میں تھیں میں تمہاری عارضی رخصت پر نہایت محبت سے کہا کرتا تھا۔ جائو میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو۔ اب
تو تم دیر کیلئے ہم سے جُدا ہو رہی ہو اب تو اس سے بھی زیادہ درد کے ساتھ میرے دل سے یہ نکل رہا ہے کہ جاؤ میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو۔ نادان کہیں گے دیکھو یہ ایک مُردہ سے باتیں کرتا ہے۔ مگر مردہ تم نہیںوہ ہے۔ نمازیں پڑھنے والے، اپنے رب سے رو رو کر دعائیں کرنے والے بھی کبھی مرا کرتے ہیں اور تم تو بڑی دعائیں کرنی والی اور دعاؤں پر یقین رکھنے والی بچی تھیں۔ اپنی موت سے دو تین گھنٹے پہلے جو بات تو نے اپنی چچیری بہن سے کہی وہ اس پر شاہد ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ میں شام کو امۃ الودود کو ملنے آئی تو اس نے مجھے باتوں باتوں میں کہا کہ میرے دل پر جنگ کا بہت اثر ہے اور میں اس کے متعلق بہت دعائیں کرتی ہوں۔ امۃ الحمید (بہن کا نام) تم بھی آج کل دعائیں کیا کرو۔ تو اے بچی! تو جو دنیا کی تکلیف کے احساس سے اپنے رب کے آگے رویا کرتی تھی تجھے اللہ تعالیٰ کب موت دے سکتا ہے یقینا اللہ تعالیٰ ہماری آوازیں تیرے تک پہنچاتا رہے گا اور تیری آواز ہمارے تک پہنچاتا رہے گا۔ ہماری جُدائی عارضی ہے اور تیری نئی جگہ یقینا پہلی سے اچھی ہے دنیوی خیالات کے ماتحت تیری اس بے وقت موت کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا تھا کہ:۔
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے
اور میرے دل میں بھی ایک دفعہ یہ شعر آیا مگر جب مَیں نے غور کیا تو یہ شعر تیرے حالات کے بالکل خلاف تھا۔ تُو تو اس باغ میں گئی ہے جس پر کبھی خزاں ہی نہیں آتی۔ حيّ و قیّوم خدا کی جناتِ عدن میں مُرجھانے کا کیا ذکر۔ اے ہمارے باغ کے غنچے! توکَل سے اللہ تعالیٰ کے باغ کا پھول بن چکا ہے ہمارے دل مرجھا بھی سکتے ہیں‘ غمگین بھی ہو سکتے ہیں مگر تیرے لئے اب کوئی مُرجھانا نہیں اب تیرا کام یہی ہے کہ ہر روز پہلے سے زیادہ سرسبز ہو پہلے سے زیادہ پُررونق ہو۔
آخری دُعا
جب تیری جان نکلی تو میں ایک کونے میں جا کر سجدہ میں گر گیا تھا اور بعد میں بھی وقتاً فوقتاً دُعا کرتا رہا یہاں تک کہ تجھے دفن کر کے واپس آئے اور وہ دُعا یہ تھی۔
کہ اے اللہ تعالیٰ! یہ ناتجربہ کار روح تیرے حضور میں آئی ہے تیرے فرشتے اس کے استقبال کو آئیں کہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو۔ اس کے دادا کی روح اسے اپنی گود میں اٹھا لے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوں میں محسوس نہ کرے۔ محمدؐ رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ اس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اس کے روحانی دادا ہیں اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے۔ یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں اور اس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں۔ اسی دعا کے ساتھ میں اب بھی تجھے رخصت کرتا ہوں۔ جا میری بچی تیرا اللہ حافظ ہو۔ اللہ حافظ ہو!
مرزا محمود احمد
(الفضل ۲۳؍جون ۱۹۴۰ء)
۱؎ الرّحمٰن: ۲۷،۲۸ ۲؎ البقرۃ: ۱۵۷



چاند۔ میرا چاند



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

چاند۔ میرا چاند
(تحریر فرمودہ جولائی ۱۹۴۰ء)
سمندر کے کنارے چاند کی سیر نہایت پُرلطف ہوتی ہے۔ اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کیلئے گئے میری چھوٹی بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ، میری تینوں لڑکیاں ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ، امۃ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ، امۃ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ، امۃ الودُود مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے۔ رات کے گیارہ بجے چاند سمندر کی لہروں میں ہلتا ہوئا بہت ہی بھَلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور بھی اچھا معلوم دیتا تھا۔ جوں جوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پِھرتے تھے لُطف بڑھتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی تھی۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر ٹہلنے کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے ساتھ عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ بھی جا کھڑے ہوئے اور پھر عزیزہ امۃ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ بھی وہاں چلی گئی۔ اب صرف مَیں، عزیزہ امۃ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ اور عزیزہ امۃ الودُوْد مرحومہ پانی کے کنارے پر کھڑے رہ گئے۔ میری نظر ایک بار پھر آسمان کی طرف اُٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں عجیب انداز سے اپنی چمک دکھا رہا تھا اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات میری آنکھوں میںپِھر گئی جب ایک عارف بِاللہ محبوبِ ربّانی نے چاند کو دیکھ کر ایک سرد آہ کھینچی تھی اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا۔
چاند کو کَل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
پہلے تو تھوڑی دیر مَیں یہ شعر پڑھتا رہا پھر مَیں نے چاند کو مخاطب کر کے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود کہے۔ جو یہ ہیں:۔
یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر
کیا لبِ دَریا مری بے تابیاں کافی نہیں
تو جگر کو چاک کر کے اپنے یوں تڑپا نہ کر
اس کے بعد میری توجہ براہِ راست اس محبوب حقیقی کی طرف پِھر گئی جس کے حسن کی طرف حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے شعر میں اشارہ کیا گیا ہے اور میں نے اسے مخاطب کر کے چند شعر کہے۔ جو یہ ہیں:۔
دُور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب
آسمان پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا نہ کر
بے شک چاند میں سے کسی وقت اللہ تعالیٰ کا حُسن نظر آتا ہے مگر ایک عاشق کیلئے وہ کافی نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند میں سے اسے نہ جھانکے بلکہ اس کے دل میں آئے اس کے عرفان کی آنکھوں کے سامنے قریب سے جلوہ دکھائے، اس کے زخمی دل پر مرہم لگائے اور اس کے دُکھ کی دوا خود ہی بن جائے کہ اس دوا کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں مگر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس محبوبِ حقیقی کا عاشق چاند میں بھی اس کا جلوہ نہیں دیکھتا۔ چاند میں ایک پھیکی ٹکیہ سے زیادہ کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس محبوب نے اپنا چہرہ اس سے بھی چھپا رکھا ہے کہ کہیں اس میں سے اس کا عاشق اس کا چہرہ نہ دیکھ لے اور وہ کہتا ہے کہ کاش چاند کے پردہ پر ہی اس کا عکس نظر آ جائے اور میں نے کہا۔
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا عَیب ہے
اِس طرح تو چاند سے اَے میری جاں پردہ نہ کر
پھر میری نظر سمندر کی لہروں پر پڑی جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوئا اور چاند کا عکس اور پَرے ہو گیا۔ مَیں اور بڑھا اور عکس اور دُور ہو گیا اور میرے دل میں ایک درد اُٹھا اور میں نے کہا۔ بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کیلئے کوشش کرتا ہے مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں، اس کی عبادتیں، اس کی قربانیاں، اس کا ذکر، اس کی آہیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے استقلال کا امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے۔ کئی تھوڑے دل والے مایوس ہو جاتے ہیں اور کئی ہمت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی مُراد پوری ہو جاتی ہے مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مُرجھایا رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے چلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی جاتی ہے مگر چاند کا عکس آگے ہی آگے بھاگا چلا جاتا ہے۔ اس لئے مَیں نے کہا۔
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آئوں تیرے پاس
آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر
میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں کو سمجھانے کیلئے ان سے کہا کہ آئو ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں چلو اور میں انہیں لے کر کوئی پچاس ساٹھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا دیکھو چاند کا عکس کس طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے بیکار جاتی ہیں اور وہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست کرے اور اسی کے کرم کو چاہے تا کہ وہ اس ابتلاء کے سلسلہ کو بند کر دے اور اپنی ملاقات کا شرف اسے عطا کرے۔
اس کے بعد میری نظر چاند کی روشنی پر پڑی، کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیرکیلئے سمندر پر آ گئے، ہوا تیز چل رہی تھی لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اُڑی جا رہی تھیں اور وہ زور سے ان کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں۔ وہ لوگ گو ہم سے دُور تھے مگر میں لڑکیوں کو لے کر اور دور ہو گیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے وہاں پردہ بھی اٹھا دیتی ہے اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں اور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا۔
اے شعاعِ نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رُسوا نہ کر
اس کے بعد میری نظر بندوں کی طرف اُٹھ گئی اور میں نے سوچا کہ محبت جو ایک نہایت پاکیزہ جذبہ ہے اسے کس طرح بعض لوگ ضائع کر دیتے ہیں اور اس کی بے پناہ طاقت کو محبوب حقیقی کی ملاقات کیلئے خرچ کرنے کی جگہ اپنے لئے وبالِ جان بنا لیتے ہیں اور میں نے اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز
عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر
پھر میری نگاہ سمندر کی لہروں کی طرف اُٹھی جو چاند کی روشنی میں پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی نظر آتی تھیں اور میری نظر سمندر کے اس پار ان لوگوں کی طرف اٹھی جو فرانس کے میدان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز اپنی جانیں دے رہے تھے اور میں نے خیال کیا کہ ایک وہ بہادر ہیں جو اپنے ملکوں کی عزت کیلئے یہ قربانیاں کر رہے ہیں، ایک ہندوستانی ہیں جن کو اپنی تن آسانیوں سے ہی فرصت نہیں اور مجھے اپنی مستورات کا خیال آیا کہ وہ کس طرح قوم کا بے کار عضو بن رہی ہیں اور حقیقی کوشش اور سعی سے محروم ہو چکی ہیں۔ کاش کہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں بھی جوشِ عمل پیدا ہو اور انہیں یہ احساس ہو کہ آخر وہ بھی تو انسان ہیں جو سمندر کی لہروں پر کودتے پھرتے ہیں اور اپنی قوم کی ترقی کیلئے جانیں دے رہے ہیں، جو میدانوں کو اپنے خون سے رنگ رہے ہیں اور ذرّہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے مر جانے سے ہمارے پسماندگان کا کیا حال ہوگا۔ اور میں نے کہا۔
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی۔ کچھ پروا نہ کر
جب مَیں نے یہ شعر پڑھا۔ میری لڑکی امۃ الرشید نے کہا ابا جان دیکھیں آپا دودی کو کیا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کیا ہوئا ہے۔ اس نے کہا اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگ گیا ہے۔ میں نے پوچھا دودی تم کو کیا ہوئا ہے۔ اس نے جیسے بچیاں کہا کرتی ہیں کہا کچھ نہیں اور ہم سمندر کے پانی کے پاس سے ہٹ کر باقی ساتھیوں کے پاس آگئے اور وہاں سے گھر کو واپس چل پڑے۔
امۃ الودود کی وفات کے بعد میں یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ امۃ الودود نے مجھ سے ذکر کیا کہ شاید چچا ابا نے یہ شعر میرے متعلق کہا تھا تب میں نے مرحومہ کے کانپنے کی وجہ کو سمجھ لیا۔ وہ امتحان دے چکی تھی اور تعلیم کا زمانہ ختم ہونے کے بعد اس کے عمل کا زمانہ شروع ہوتا تھا اس کی نیک فطرت نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ میں اسے کہہ رہا ہوں کہ اب تم کو عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہئے اور ہر طرح کے خطرات برداشت کر کے اسلام کیلئے کچھ کر کے دکھانا چاہئے۔
خدا کی قدرت عمل میں کامیابی کا منہ دیکھنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔ موت میں زندگی اللہ تعالیٰ نے اسے دے دی وہ قادر ہے جس طرح چاہے اسے زندگی بخش دیتا ہے۔
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُذْکُرُوْا امَوْتَا کُمْ بِالْخَیْرِ۱؎ مُردوں کا نیک ذکر قائم رکھو اسی لئے میں نے اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے کہ اس سے مرحومہ کی سعید طبیعت کا اظہار ہوتا ہے کس طرح اس نے اس شعر کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھا حالانکہ بہت ہیں جو نصیحت کو سنتے ہیں اور اندھوں کی طرح اس پر سے گزر جاتے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔
اس موقع پر ایک اور واقعہ مرحومہ کا مجھے یاد آ گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس طرح نصیحت پر فوراً عمل کرنے کا احساس تھا اور میرے لفظوں پر وہ کس طرح کان رکھتی تھی۔ میں نے سفر میں دیکھا کہ عزیز منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ جرمن ریڈیو کی خبریں شوق سے سنا کرتے تھے مجھ پر یہ اثر ہوئا کہ شاید وہ ان خبروں کو زیادہ درست اور زیادہ سچا سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ بات کچھ بُری معلوم ہوئی۔ میری بیوی اور لڑکیاں ایک کمرہ میں بیٹھی ہوئی تھیں میں وہاں آیا اور میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم مگر اس وقت تک جو ہمارا علم ہے وہ یہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی میں دنیا کی بھلائی ہے۔ پس جب تک ہمارا علم یہ کہتا ہے ہمیں ان سے ہمدردی ہونی چاہئے اور ان کی تکلیف سے تکلیف اور ان کی کامیابی سے خوشی ہونی چاہئے۔ پھر نہ معلوم ہمارے بچے کیوں خوشی سے جرمن خبروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ میں بات کر رہا تھا کہ امۃ الودود مرحومہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئیں مجھے حیرت ہوئی کہ بات کے درمیان میں یہ کیوں اٹھ گئیں اور مجھے خیال ہوئا کہ شاید اپنے بھائی کے متعلق بات سن کر وہ برداشت نہیں کر سکیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ واپس آئیں اور کہا کہ میں نے بھائی سے کہا ہے کہ جب چچا ابّا اس امر کو پسند نہیں کرتے تو آپ کیوں اس طرح خبریں سنتے ہیں۔ بھائی نے جواب دیا کہ اگر وہ منع کریں تو میں کبھی یہ بات نہ کروں۔ میں نے کہا بی بی منع کرنے کی کیا ضرورت ہے میرے خیال کا اظہار کیا کافی نہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ میں نے بھائی سے یہی کہا ہے کہ منع کرنے کا کیوں انتظار کرتے ہو ان کی مرضی معلوم ہونے پر وہی کرو جس طرح وہ کہتے ہیں (اس کے یہ معنی نہیں کہ عزیزم منصور احمد اطاعت میں کمزور ہے ایسے امور میں لڑکیاں لڑکوں سے طبعاً زیادہ زکی ہوتی ہیں ورنہ عزیز کا معاملہ میری لڑکی سے ایسا عمدہ ہے کہ میرا دل اس سے نہایت خوش ہے اور کبھی بھی وہ میری لڑکی کے ذریعہ میرے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہوئا بلکہ ہمیشہ میرا دل ان دونوں کے معاملہ پر مطمئن رہا ہے اور یہ کوئی معمولی نیکی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق سے ہی ایسے عمل کی توفیق ملتی ہے) میرے دل میں یہ سن کر اپنی اس بچی کی قدر کئی گُنے بڑھ گئی کہ کس طرح اس نے میری بات سن کر فوراً میرے منشاء کو پورا کرنیکی کوشش کی اور بات ختم ہونے سے بھی پہلے اس پر عمل کروانے کیلئے دَوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اس پر ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتا رہے۔
میرزا محمود احمد
(الفضل ۶؍جولائی ۱۹۴۰ء)
۱؎ ابوداؤد کتاب الادب باب فی النھی عَنْ سَبِّ الْمَوْتٰی میں یہ الفاظ آئے ہیں’’اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ وَکُفُّوْاعَنْ مَسَاوِیْھِمْ‘‘



فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد
اور جماعت احمدیہ



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
فیصلہ ہائی کورٹ بمقدمہ میاں عزیز احمد
اور جماعت احمدیہ
(تحریر فرمودہ جنوری ۱۹۳۸ء)
پانچ تاریخ کو میاں عزیر احمد کی اپیل کا فیصلہ جو ہائی کورٹ کے دو فاضل ججوں نے سنایا ہے اس میں بعض ایسے فقرات بھی ہیں جن سے بعض مخالف اخبارات نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا عدالتِ عالیہ کے نزدیک میاں فخر الدین کے قتل کی تحریک خلیفہ جماعت احمدیہ کی تقریروں سے ہوئی ہے چنانچہ اس مخالف پروپیگنڈا کی وجہ سے جماعت کے دوستوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے اور باوجود اس کے کہ ’’الفضل‘‘ نے اس فیصلہ کے بارہ میں کوئی مضمون نہیں لکھا اور اس کی وجہ سے اکثر احبابِ جماعت جو سوائے ’’الفضل‘‘ کے اور کوئی اخبار نہیں پڑھتے اس فیصلہ سے بے خبر ہیں۔ جن جن دوستوں کی نگاہ سے دوسرے اخبارات گزرے ہیں وہ رنج و غم سے بے تاب ہو رہے ہیں اور ان کے خطوط جو مجھے آ رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض تو مارے غم کے دیوانے ہو رہے ہیں۔ جن لوگوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خبر کے پڑھنے کے بعد وہ کھانا نہیں کھا سکے اور رات کو نیند بھی ان کو نہیں آئی اور بعض نے تو نہایت درد سے لکھا ہے کہ خدایا یہ کیا غضب ہے کہ جس شخص نے ہمیں نرمی اور محبت اور رأفت کی تعلیم دی اور جس نے ہمیں سختی اور ظلم اور فساد سے روکا اور جس نے ہماری طبیعتوں کی وحشت کو دُور کر کے پیار اور محبت کا ہمیں سبق دیا اور دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کی ہمیں ہدایت کی اور ہمارے شدید ترین غصہ کی حالت میں ہمارے جذبات کو سختی سے قابو میں رکھا، اُسی کی نسبت آج کہا جا رہا ہے کہ اس نے لوگوں کو قتل و غارت کی تعلیم دی اور فساد پر آمادہ کیا۔ بعض کے خطوط تو ایسے دردناک ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ان کے دل خون ہو گئے ہیں اور ان کے لئے عرصہء حیات تنگ ہو گیا ہے۔ پس باوجود اس کے کہ عدالتِ عالیہ کے فیصلہ کے متعلق کچھ لکھنا ایک نازک سوال ہے اور قانون کا کوئی ماہر ہی اس مشکل راستہ کو بخیریت طے کر سکتا ہے میں مجبور ہو گیا ہوں کہ اس بارہ میں اپنے خیالات کو ظاہر کروں۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
سب سے پہلے تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ اے بھائیو! میں تمہاری ہمدردی کا شکر گزار ہوں کہ تم نے میرے زخمی دل پر پھایا رکھنے کی کوشش کی اور میرے غم میں شریک ہوئے اور میرے بوجھ کے اٹھانے کیلئے اپنے کندھے پیش کر دیئے۔ خدا کی تم پر رحمتیں ہوں وہ تمہارے دل کے زخموں کو مندمل کرے اور تمہارے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرے کہ تم نے اس کے ایک کمزور بندے پر رحم کیا اور اس کے غم نے تمہارے دلوں کو پریشان کر دیا۔ بے شک آج پشاور سے لے کر رأس کماری تک ہزاروں گھر رنج و اَلَم کا شکار ہو رہے ہیں، ہزاروں ہزار عورتیں، مرد، بچے کرب و بلا میں مبتلاء ہیں اور خون کے آنسو اُن کی آنکھوں سے رواں ہیں لیکن ان کے احساسات اُن احساسات کی گہرائی کو کہاں پہنچ سکتے ہیں جو ان ایام میں میرے دل میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں۔ شاید تم میں سے بعض اپنا غصہ اس طرح نکال لیتے ہونگے کہ وہ اس فیصلہ کی ذمہ داری ججوں پر ڈال دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ ججوں نے غلطی کی انہوں نے ہمارے امام کو سمجھا نہیں اور بعض اس طرح غصہ نکال لیتے ہونگے کہ ججوں نے تو محض اس امر کا اظہار کیا ہے کہ مذہبی لیڈروں کو اپنے خیالات کو احتیاط سے ادا کرنا چاہئے تا کہ دوسرے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ء ہو کر کوئی خلافِ قانون حرکت نہ کر بیٹھیں لیکن اخبار والوں اور دشمن مولویوں نے شرارت کی ہے کہ ان کے فقروں کو اور معنی دے دیئے ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے قتل و غارت کی تلقین کا ارتکاب کیا ہے۔مگر اے دوستو! میں اپنے دل کی آگ کو اس قسم کے خیالات کے پانی سے بھی سرد نہیں کر سکتا کیونکہ کیا اس امر کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ ججوں نے جو کچھ سمجھا اس کا موجب آپ ہی لوگوں میں سے ایک شخص کی غلطی تھی۔ اگر میاں عزیز احمد بے قابو نہ ہو جاتے اور اگر ان سے اس فعل کا ارتکاب نہ ہوتا جو ہؤا تو ججوں کو میرے متعلق اچھے یا بُرے خیالات کے اظہار کا موقع ہی کب مل سکتا تھا۔ ان کو ان ریمارکس کے لکھنے کاموقع تو خود آپ لوگوں میں سے ہی ایک فرد نے دیا اور اگر اخباروں نے ججوں کے فیصلہ کے غلط معنی لئے تو اس کی ذمہ داری بھی تو آپ ہی میں سے ایک شخص پر ہے اور جب میں اس نقطۂ نگاہ سے اس معاملہ کو دیکھتا ہوں تو میرے دل سے بے اختیار یہ آواز آتی ہے کہ محمود جس قوم کی خدمت تو نے بچپن میں اپنے ذمہ لی، جس کی خدمت جوانی میں تُو نے کی جب تیرے بال سفید ہو گئے جب تیری رگوں کا خون ٹھنڈا ہونے کو آیا تو ان میں سے بعض کی وجہ سے تجھ پر اس فعل کا الزام لگایا گیا جس فعل کو دنیا سے مٹانے کیلئے تیرا بچپن اور تیری جوانی خرچ ہوئے تھے۔ جب ہم میں سے بعض نے اپنے خدا پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ وہ جائز راستوں سے ہماری مدد نہیں کر سکتا اور اس کا بتایا ہؤا طریق ہمیں کامیاب نہیں بنا سکتا تو بتا کہ اگر دنیا کے لوگ تجھ پر اور تیرے دوستوں پر بدظنی کریں تو اس میں ان کا کیا قصور اور اگر جج یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ملک کا امن قائم کرنے کیلئے ایک مستحسن قدم اُٹھاتے ہیں کوئی ریمارک کریں تو اس میں ان پر کیا الزام کیونکہ وہ شخص زیادہ مجرم ہے جو اپنے خدا پر بدظنی کرتا ہے بہ نسبت اس کے جو کسی بندہ پر بدظنی کرتا ہے۔
یہ ایک قانونِ قدرت ہے کہ اگر غم کی حالت میں انسان دوسرے پر اس غم کی ذمہ داری تھوپ سکے تو یہ اس کے غم کو ہلکا کر دیتا ہے لیکن جب مَیں سوچتا ہوں اور اس غم کا موجب خود اپنی ہی جماعت کو پاتا ہوںاور غلط فہمیوں کا پیدا کرنے والا خود انہیں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل بالکل پگھل جاتا ہے اور میری آنکھیں ندامت سے جُھک جاتی ہیں۔
اے بھائیو! اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان چونکہ دل کے خیالات کو نہیں پڑھ سکتا، وہ غلط فہمی میں مبتلا ء ہو سکتا ہے اور رائے وہی ہے جو عالمُ الغیب خدا کی ہو اور ہم تو دوسروں سے دکھ دیئے جانے اور گالیاں سننے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اس موجودہ ابتلاء اور پہلے ابتلائوں میں یہ فرق ہے کہ پہلے مخالف اخبار اور مخالف واعظ جو کہتے تھے وہ اپنی طرف سے کہتے تھے اور انسانوں میں سے شریف طبقہ ان کی باتیں پڑھ کر یا سن کر کہتا تھا کہ یہ لوگ احمدیوں کے دشمن ہیں ان کی باتوں پر بِلا سوچے اور بغیر تحقیق کے اعتبار نہ کرو لیکن اب جو کچھ ہمارے دشمن اخبارات اور دشمن لیکچرار کہتے ہیں وہ انہیں صوبہ کی اعلیٰ عدالت کے ججوں کی طرف غلط طور پر یا صحیح طور پر منسوب کر کے کہتے ہیں اور اس کا نہایت بُرا اثر ہماری تبلیغ پر پڑ سکتا ہے۔ پس اس وجہ سے طبعاً اس حادثہ کا اثر میری طبیعت پر شدید پڑا ہے نہ اپنی ذات کے لئے بلکہ خدا کے دین کیلئے اور اس کے سلسلہ کی اشاعت میں روک پیدا ہونے کے خیال سے کیونکہ گو ہم ذلیل اور حقیر وجود ہیں اور آخر ایک غیر حکومت کے تابع ہیں اور ایک کمزور جماعت کا فرد ہونے کے لحاظ سے اور ایک چھوٹی سی اقلیت کا ممبر ہونے کے سبب سے ہمیں نہ کوئی دُنیوی وجاہت حاصل ہے جس کی کوئی قیمت سمجھی جائے اور نہ کوئی سیاسی رُتبہ حاصل ہے جس کا کوئی لحاظ کیا جائے۔ پس اگر صرف ہماری ذات کا سوال ہو تو پھر تکلیف جو ہمیں پہنچے وہ ایک ادنیٰ سی قربانی ہے جو ہم اپنے رب کے حضور میں پیش کرتے ہیں اور کوئی بیش قیمت تحفہ نہیں جو اس بادشاہ کے پاؤں میں رکھتے ہیں لیکن جب قربانی ہماری ذات کی نہ ہو بلکہ سلسلہ کی ہو اور نقصان ہمارا نہ ہو بلکہ ہماری جان سے پیارے دین کا ہو اور ہمارے اخلاق کا دھبّہ ہمارے چہرہ پر نہیں بلکہ ہماری پاک تعلیم کے ماتھے پر سیاہ نشان بنا کر لگایا جا رہا ہو جیسا کہ ہمارے مخالف لوگ کر رہے ہیں تو پھر ایک ایسا غم اور دکھ پہنچتا ہے جس کا اندازہ انسان نہیں لگا سکتے اور اسی وجہ سے آج میرا دل غم سے بھرا ہؤا ہے اور میری پیٹھ فکروں کے بوجھ سے خَم ہو رہی ہے۔ اگر اسلام کا جھنڈا آج میرے ہاتھ میں نہ ہوتا، اگر اسے کامیابی کے ساتھ اقبال کی پہاڑی پر گاڑنے کا کام خداتعالیٰ نے میرے سپرد نہ کیا ہوتا تو میں خداتعالیٰ سے کہتا اے میرے خدا! اے میرے خدا! میں اپنے ہی لوگوں کی اصلاح میں ناکام رہا ہوں، میں اپنے ہی لوگوں کی غلطیوں کی وجہ سے بدنام ہؤا ہوں، اے خدا! جانتا ہے کہ میں نے وہ نہیں کہا جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں نے کہا اور تیرے وہ بندے بھی جانتے ہیں جنہوں نے مجھے دیکھا اور سمجھا لیکن اے میرے رب! میرے ہی بعض ساتھیوں کے ذریعہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ہاتھ جسے تو نے سورج کی طرح روشن بنایا تھا داغدار نظر آ رہا ہے۔ پس اگر میرا وجود تیرے دین کی اشاعت میں روک بنتا ہے تو مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر اور اپنے پاس جہاں بدظنیاں نہیں، جہاں حقیقت پر شک کا پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، اپنی بخشش کی چادر کے کسی کو نہ میں جگہ دے دے لیکن میں اپنے لئے موت بھی تو نہیں مانگ سکتا کیونکہ گو ایک بے جان جسم کسی کام کا نہیں لیکن جب تک سانس چلتا ہے ایمان کی ذمہ داریاں اس پر عائد ہیں اور مذہب اور اخلاق کی جنگ کے میدان سے بھاگنا کسی طرح جائز نہیں کیونکہ روحانی جنگ جو مذاہب کے درمیان دلائل و براہین اور نشاناتِ الٰہیہ سے ہو رہی ہے‘ وہ دنیا کی جنگوں سے کہیں اہم ہے۔ جب دنیا کی حکومتیں جسمانی جنگوں سے تھک جانے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں تو جو شخص اخلاق اور دین کی جنگ سے جو روحانی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے سبکدوشی کا خیال کرے، وہ کِس قدر حقیر نہ سمجھا جائے گا۔ پس میرے لئے سب راہیں بند ہیں سوائے آگے بڑھنے کے اور میں اپنے رب سے شکوہ نہیں کرتا کیونکہ اس نے جس مقام پر مجھے رکھا ہے یقینا اس میں میرا بھلا ہے اور اسی میں دنیا کا بھلا ہے۔ پس اگر میرے دل کا خون ہو کر بہنا تمہارے دلوں کو پاک کر سکے، اگر تم آئندہ کے لئے شریعت اور قانون کی پابندی کو اپنے نفس پر واجب کر لو اور قربانی اور ایثار کے معنی یہ سمجھو کہ جس رنگ میں خدا تم سے قربانی اور ایثار چاہتا ہے نہ وہ ناجائز رنگ جو تم اپنے لئے تجویز کرو تو یقینا میری قربانی مہنگی نہ ہوگی۔ میرے دکھ کوئی قیمت نہ رکھیں گے کیونکہ وہی جان قیمتی ہے جو خدا کے بندوں کے کام آئے۔ اگر میری بے عزتی تمہیں عزت دلانے کا موجب ہو، اگر میری ذلّت تم کو ہمیشہ کے لئے ذلّت سے بچا لے، اگر میرے جذبات کی موت تمہیں اخلاقی زندگی بخش دے تو بخدا میں اس سَودے کو نہایت سستا سَودا سمجھوں گا کہ حکومت درحقیقت خدمت ہی کا نام ہے اور سیادت غلامی ہی کا ہم معنی لفظ ہے۔ پس اے بھائیو!اگر تم فیِ الْواقع اس غم میں میرے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہو تو بجائے دوسروں پر غصہ ہونے کے اپنے نفسوں پر غصے ہو اور اپنے دلوں کو پاک کرو اور چاہئے کہ تم میں سے جو روزوں کی طاقت رکھتے ہیں وہ کچھ روزے رکھ کر دعائیں کریں اور جو نوافل کی طاقت رکھتے ہیں وہ کچھ نوافل پڑھ کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کی عزت کو قائم کرے اور لوگوں کے دل سے بدظنیاں دُور کرے اور آئندہ کے لئے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ بے شک بے غیرت کو ایمان نصیب نہیں ہوتا لیکن ظالم کو بھی ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ تم خدا کے لئے بھی اسی طرح باغیرت بنو جس طرح اپنے نفس کے لئے بلکہ اس سے زیادہ لیکن ساتھ ہی تم خدا کے لئے منصف بھی بنو‘ عادل بھی بنو، ظلم سے بچنے والے بھی بنو اور خدا پر توکل کرو کہ جس کام سے وہ تم کو روکتا ہے اسی لئے روکتا ہے کہ اس کا کرنا تمہارے دین اور دنیا کے لئے مضر ہوتا ہے اور یہ کبھی خیال نہ کرو کہ جہاں خداتعالیٰ تم کو ہاتھ اٹھانے سے روکتا ہے اس لئے روکتا ہے کہ تم کو بند کرے بلکہ یاد رکھو کہ وہ جب تم کو ہاتھ اٹھانے سے روکتا ہے تو اسی وقت روکتا ہے جب تمہارا ہاتھ اُٹھانا دین اور اخلاق کے لئے مضر ہو اور اس وقت وہ تمہاری عزت کی آپ حفاظت کرتا ہے اور آسمانی تدبیروں سے تمہاری مشکلات کو دور کرتا ہے اور ایسے وقت میں اگر تم اپنی عزت کو اپنے ہاتھ سے قائم کرنا چاہو تو تم اپنی عزت کو بڑھاتے نہیں بلکہ کم کرنے کا موجب ہو جاتے ہو۔ کاش! کہ اس موقع پر تم کو یہ سبق یاد ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو پھر میرا غم ہلکا ہو جائے گا اور میرا فکر کم ہو جائے گا اور میں اپنے رب کو کہہ سکوں گا کہ اے میرے رب! دیکھ کہ تیرا بندہ مر کر بھی لوگوں کو زندہ کرنے کا موجب ہو گیا۔ کیا تو حيّ و قیّوم ہو کر اسے زندہ نہ کرے گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس پر وہ ایسا ہی کرے گا اور ضرور کرے گا۔
بے شک آج ہمارا دشمن خوش ہے کہ میرا بھی ایک وار نکلا لیکن اگر تم دعاؤں اور عاجزی میں لگ جاؤ گے تو اس کی خوشی عارضی ثابت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ یا تو عار کی باتوں کی اصلاح کے سامان غیب سے پیدا کر دے گا اور اگر یہ اس کی مصلحت کے خلاف ہو گا تو وہ تمہارے ذکرِ خیر کو اتنا بلند کر دے گا‘ کہ تمہارے خلاف الزام لگانے والوں کی آوازیں تمہاری تعریف کے نعروں میں غائب ہو جائیں گی۔ پس بنی نوع انسان کی حقیقی خیرخواہی کے کاموں میں لگ جاؤ کہ دنیا میں وہی چیز قائم رہتی ہے جو دنیا کے لئے نفع مند ہو نہ الزام کہ جو کسی کو بھی نفع نہیں دیتے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۳۸ء)



جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
جماعت احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ
(تحریر فرمودہ مئی ۱۹۳۸ء)
میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ضلع گورداسپور کے بعض حُکّام کا رویہ جماعت کے بارہ میں نہایت افسوسناک ہے اور وہ متواتر دشمنانِ احمدیت کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں اور افسوس ہے کہ ماتحت حکام کے وقار کو قائم رکھنے کے خیال سے ان کے بالا افسر بھی ان کی ان حرکات پر انہیں تنبیہہ نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہے کہ بعض حُکاّم نہایت نامناسب طور پر سلسلہ کے خلاف اظہارِ رائے کرتے ہیں جسے مخالفینِ سلسلہ ایسے لوگوں میں پھیلا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غیرجانبدار لوگوں کی رائے ہے اور تبلیغ کا دائرہ محدود ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں مَیں نے جماعت سے خواہش کی تھی کہ انہیں اس صورتِ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
اس بارہ میں مجھے مختلف افرادِ جماعت اور انجمنوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جن جن جماعتوں یاا فراد کی طرف سے ایسی اطلاع اب تک نہیں ملی ان سے بھی اسی جواب کی امید کی جاتی ہے اور یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ کوئی مخلص بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے سے گریز کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آیا جماعت قربانیوں کی حقیقت کو سمجھتی بھی ہے یا نہیں۔ قربانی کی حقیقت کو سمجھے بغیر ہر شخص جس میں جوش پایا جاتا ہے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے یا عمل کا وقت آتا ہے تو اکثر لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کئی تو کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے زیادہ ہے اور کئی کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے کم ہے اور اسی قسم کے بہانوں سے وہ اپنا پیچھا چُھڑا لیتے ہیں۔
میں نے بار بار جماعت کو بتایا ہے کہ قربانی کے بارہ میں ہمارا معاملہ دوسری تمام اقوام سے جُداگانہ ہے دوسری اقوام قانون شکنی کو جائز سمجھتی ہیں لیکن ہمارا مذہب ہمیں قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے اور اس بارہ میں نہ کسی احمدی کو منفرداً کسی تبدیلی کا اختیار ہے نہ جماعتِ احمدیہ کو متفقہ طور پر اور نہ کسی خلیفہ کو کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے۔ پس یہ راستہ قربانیوں کا تو ہمارے لئے کُلّی طور پر مسدود ہے۔ ہم نے اس معاملہ میں کانگرس سے شدید مخالفت کی ہے اور اب بھی جو قوم قانون شکنی پر آمادہ ہو ہم اس کی مخالفت کریں گے کیونکہ احمدیت کی یہ تعلیم امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب اس کے سب پہلوؤں پر اچھی طرح غور کیا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ گاندھی جی کی عدمِ تشدد کی پالیسی سے یہ اطاعتِ قانون اور عدمِ تشدد کی مشترکہ تعلیم بہت زیادہ مؤثر ہے لیکن اس کی اہمیت ابھی تک بعض احمدی بھی نہیں سمجھے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ قانون شکنی بھی نہ ہو اور عدمِ تشدد کی پالیسی پر بھی عمل کیا جائے تو پھر حکومت کو راہِ راست پر لانے کا کون سا ذریعہ ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر فرض کرو یہ ذریعہ کامیابی کا ہے بھی تو پھر اس کے ساتھ جو قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کا کونسا موقع ہے۔ جب ہم نے قانون شکنی بھی نہ کی اورعدمِ تشدد پر بھی عمل کیا تو کوئی ہم سے لڑے گا ہی کیوں؟ اور ہمارے لئے قربانی کا موقع کونسا پیدا ہو گا۔
پہلے شبہ کے متعلق تو میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہت سے مسائل بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے بہت بڑی طبعی اور اخلاقی قوتیں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس مسئلہ کی کلّیات پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ اس کی جزئیات اور تفصیلات پر بھی غور کریں تا ہمیں معلوم ہو سکے کہ اس کے پیچھے کس قدر اخلاقی اور نفسیاتی طاقتیں جمع ہیں۔ جب گاندھی جی نے عدمِ تشدد کی تعلیم دینی شروع کی تھی تو خود ان کے ساتھی اس پر ہنستے تھے اور دل میں کہتے تھے کہ صرف ان کی شخصیت سے فائدہ اٹھا لو باقی ان کی تعلیم تو صرف سادھوؤں والی تعلیم ہے لیکن آج بہت سے کانگرسی ایسے ہیں جو حقیقتاً اس تعلیم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ حتّٰی کہ جن لوگوں نے ان سے اختلاف کر کے تشدد کی پالیسی پر عمل کیا تھا اور جرائم کر کے جیل خانوں میں چلے گئے تھے وہ بھی اپنی غلطی کا اقرار کر کے جیلوں سے واپس آ رہے ہیں۔ اس وقت ہماری ہی ایک جماعت تھی جس نے گاندھی جی سے اس لئے اختلاف کیا تھاکہ ان کی عدمِ تشدّد کی پالیسی اتنی مکمل نہیں جس قدر ہونی چاہئے تھی ورنہ باقی سب لوگ اس پالیسی کو اس لئے فضول کہتے تھے کہ اس سے ملک کو ایک طاقتور ہتھیار سے محروم کر دیا گیا ہے۔جس طرح آج بہت سے لوگ عدمِ تشدّد کی خوبیوں کے معترف ہو رہے ہیں ایک دن آئے گا کہ دنیا اس امر کو بھی تسلیم کرے گی کہ صرف عدمِ تشدّد کافی نہیں بلکہ اخلاقی حفاظت کیلئے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے قانون کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ ایک حکومت کا قانون توڑنے کے بعد کسی اور حکومت کے قانون کا احترام باقی نہیں رہ سکتا، اور اس حربہ کی قیمت بہت ہی گراں دینی پڑتی ہے۔
دوسرے شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ دھوکے کا خیال اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ جو قانون نہ توڑے اس کیلئے قربانی کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ سب کے سب انبیاء ہمارے عقیدہ کے مطابق قانون کا احترام کرنے والے تھے اور لڑائی اور فساد سے اجتناب کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دشمنوں نے خواہ وہ قوموں کی حیثیت میں ہوں خواہ حکومتوں کی حیثیت میں، انہیں دکھ دیئے اور ان کے اچھے ارادوں کو بدی کی طرف منسوب کیا اور ان کی امن کی کوششوں کو فساد کی انگیخت قرار دیا۔علاوہ اس کے جو حصہ جدوجہد کا جماعت کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی خواہ کس قدر ہی پُرامن ذرائع پر مشتمل کیوں نہ ہو ہر قسم کی قربانی چاہتا ہے۔ جانی قربانی بھی کرنی پڑتی ہے اور مالی بھی اور وطنی بھی۔ جانی قربانی صرف اسی کا تو نام نہیں کہ انسان لڑائی میں جان دے دے۔ اگر جانی قربانی اسی کا نام ہو تو انبیاء کو اس قربانی سے محروم قرار دینا پڑے گا کیونکہ لڑائی میں مارا جانے والا تو شاید ایک نبی بھی نہیں گزرا اور جن کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں ان کے دشمنوں نے مروا دیا وہ نبی بھی ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں۔ پس جانی قربانی کے معنی لڑائی کے ہرگز نہیں۔ بلکہ میرا یہ یقین ہے اور میں اس یقین پر پختگی سے قائم ہوں کہ جو قومیں جانی قربانی کو لڑائی کے ساتھ مخصوص کر لیتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں کیونکہ جب کبھی جانی قربانی کے وہ مواقع بہم نہیں پہنچتے جو ان کے ذہن میں ہوتے ہیں وہ قوم سُست ہو جاتی ہے اور آخر اپنے مقام کو کھو بیٹھتی ہے۔
مسلمانوں میں جہاد کے عقیدہ نے یہی خطرناک نتیجہ پیدا کیا ہے چونکہ جانی قربانی کا مفہوم گزشتہ چند صدیوں سے ان کے نزدیک صرف تلوار کی جنگ کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گیا تھا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ جانی قربانیاںجو تبلیغ کے ذریعہ سے کرنی پڑتی ہیں یا تو انہیں حقیر نظر آنے لگیں یا بالکل ہی ان کی نظر سے پوشیدہ ہو گئیں اور وہ اپنے مقام کو محفوظ نہ رکھ سکے اور تنزل کا شکار ہو گئے اگر وہ یہ سمجھتے کہ تبلیغ بغیر علم کے نہیں ہو سکتی اور وہ جسم کی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ تبلیغ بغیر دُور دراز سفروں کے اختیار کرنے اور دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنے کے مکمل نہیں ہو سکتی اور وہ بھی جسم کی قربانی چاہتے ہیں۔ پھر تبلیغ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وحشی قبائل تک اسلام کا پیغام نہ پہنچا دیا جائے اور ان لوگوں میں رہ کر مبلّغ کی جان ایک دن بھی محفوظ نہیں قرار دی جا سکتی اور یہ بھی جان کی قربانی ہے۔ وغیرہ وغیرہ تو ہر گز ان کا قدم سُست نہ ہوتا اور وہ اس ذلت کو نہ دیکھتے جو آج انہیں دیکھنی نصیب ہوئی ہے۔بے شک تبلیغ کے اگر یہ معنی لئے جائیں کہ مہینہ میں اگر کسی دن فرصت ہوئی تو کسی دوست کو ملنے چلے گئے اور اسے تبلیغ بھی کر دی تو اس میں جانی قربانی کا بہت کم نشان ملتا ہے لیکن جس تبلیغ کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ تو ایک زبردست قربانی ہے اور اس کے زبردست قربانی ہونے کا کُھلا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بڑے جوش سے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہم قربانیاں کریں گے لیکن اس قربانی کے پیش کرنے کا بہت کم دوستوں کو موقع ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قربانی ویسی آسان نہیں جیسی کہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسانی نفس ضمیر کی ملامت سے سخت تکلیف اُٹھاتا ہے اور اس سے بچنے کا اس نے یہ ذریعہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نیکی کی تعریفیں بدلتا رہتا ہے اور جس قربانی کا اس کے لئے موقع ہوتا ہے وہ اسے ادنیٰ قرار دے کر اس سے اس طرح پیچھا چُھڑا لیتا ہے کہ یہ تو ادنیٰ قربانی ہے اسے کیا پیش کرنا ہے اور بزعمِ خود ایک اعلیٰ قربانی کے پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے جس کے پیش کرنے کا اس وقت موقع نہیں ہوتا اور اس طرح وہ اپنی نظروں میں اور اپنے ہم چشموں کی نظروں میں اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ سَودا اُسے بہت مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام خود انسان کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس ایسے موقع پر جھوٹی عزت حاصل کرنا خود کُشی سے کم نہیں ہوتا کیونکہ لفظی تعریف حقیقی نقصان کا قائم مقام نہیں ہو سکتی۔
اس تمہید کے بعد مَیں دوستوں سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا انہوں نے غور بھی کیا ہے کہ احمدیت کس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ کرتی ہے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جب احمدیت ان سے جان کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جائو اور جا کر کسی سے جنگ کرو اور نہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی کو مار کر پھانسی چڑھ جائو کیونکہ یہ دونوں باتیں احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ امرِ اوّل اس لئے جائز نہیں کہ یہ امر حکومت سے تعلق رکھتا ہے اور حکومت اس وقت احمدیوں کے ہاتھ میں نہیں اور امرِ دوم اس لئے جائز نہیں کہ اسلام ہمیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پس جب یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں تو یقینا احمدیت کا جانی قربانی کا مطالبہ کسی دوسری صورت ہی میں ہو سکتا ہے اور اسی صورت میں جان کو پیش کرنا سچے طور پر امام کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنا کہلا سکتا ہے۔
پس جو دوست میری آواز پر لَبَّیْکَ کہہ رہے ہیں یا لبیک کہنے کا دل میں ارادہ کر رہے ہیں، انہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت کی جانی قربانیاں گزشتہ زمانے کی جانی قربانیوں سے مختلف ہیں اور اگر میں اس وقت کی مشکلات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کی نفسی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قربانیاں اگر پہلی قربانیوں سے زیادہ مشکل نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جس میں جھوٹ اور فریب کو تمدّنی اور سیاسی تقدس حاصل ہے۔ یعنی تمدن اور سیاست نے اس زمانہ میں جھوٹ کو اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ پہلے زمانہ میں لوگ جھوٹ تو بولتے تھے مگر کہتے یہی تھے کہ جھوٹ بُری شَے ہے لیکن آج اسے سیاست اور تمدن کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جھوٹ وہی گناہ ہے جو پکڑا جائے اور ناکام رہے۔ جو جھوٹ پکڑا نہیں جاتا اور ناکام نہیں رہتا وہ گناہ نہیں۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ شاید بہت سے لوگ دنیا کی ذہنیت میں اس تبدیلی کے وقوع کو محسوس بھی نہیں کرتے بلکہ یہ جھوٹ اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہوئے خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ تمدنی تعلقات، سیاسی معاملات، مذہبی مباحثات ،معاشرتی اُمور سب کے سب جھوٹ پر مبنی کر دیئے گئے ہیں۔ کیا یہ عجیب متناقض دعوے نہیں ہیں؟ کہ آجکل سچا دوست اسے سمجھا جاتا ہے جو دوست کی خاطر جھوٹ بولے، ملک کا سچا خیر خواہ وہ ہے جو مخالف حکومت کو سب سے زیادہ جُل دے سکے، سچ اور جھوٹ کی یہ آمیزش پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ اس پُر آشوب زمانہ میں رہتے ہوئے ہم لوگ بحیثیت جماعت کب اس گندگی سے بچ سکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اپنے قضاء کے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ کئی عام حالتوں میں سچ بولنے والے احمدی جب ایک دوست کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو اس کے بچانے کے لئے اپنے بیان میں ایسی تبدیلی کر دیتے ہیں جو اِن کے دوست کے فائدہ کیلئے ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیوں کا سچائی کا معیار دوسروں سے بہت بالا ہے مگر ایک دودھ کے پیالے میں پیشاب کا ایک قطرہ بھی تو اسے گندہ کر دیتا ہے اور جسمِ انسانی کے ایک حصہ میں جو مرض پیدا ہو بقیہ حصہ بھی تو اس کے اثرات سے محفوظ نہیں کہلا سکتا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اس مرض کو دُور کرنے کے بغیر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یا اپنے دشمنوں کو زیر کر سکتے ہیں؟ دشمن ہم پر جھوٹ باندھتا ہے اور بعض حکام کو بھی وہ اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن ایسے ظلموں کو تم کُلّی طور پر کس طرح دُور کر سکتے ہو۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس پر ظلم ہوئے اور بہت ہوئے مگر اس کی ترقی کا زمانہ بھی تو ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ ایک جابر بادشاہ پر بھی تو بعض دفعہ لوگ ظلم کر سکتے ہیں ایک فاتح جرنیل بھی تو کبھی کبھار مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے پس ہمیں اس امر کے خلاف شکوہ نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا ہمیں تو اس ماحول کے خلاف شکوہ ہے جو ہماری تبلیغ کے راستہ میں روک بن گیا ہے۔ اس شُہرت کے خلاف شکوہ ہے جو غلط پراپیگنڈا(PROPAGANDA) کے ذریعہ سے جماعت کے خلاف لوگوں میں پیدا کر دی گئی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ اس شہرت کو دُور کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے کہ جماعت کے لوگ احمدیت کے اردگرد ایک ایسی مضبوط دیوار بنا دیں کہ دُشمن کا پراپیگنڈا اس کو توڑ کر آگے نہ جا سکے اور یہ دیوار سچائی اور دیانت کی دیوار کے سوا اور کونسی ہو سکتی ہے؟ جو شخص اپنے تجربہ سے احمدیت کے اخلاق کا قائل ہو جائے وہ دوسرے کی بات کو کب تسلیم کرے گا؟ مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ان سے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میرے ساتھ جس قدر احمدیوں نے کام کیاہے ان کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نہایت دیانت دار ہوتے ہیں۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس افسر پر آپ کے متعلق بُرا اثر ڈالا گیا تھا اس لئے میں نے جواب دیا کہ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں دیانت اور سچائی سکھائی ہے وہ خود بددیانت ہوگا؟ اور اس کا اس افسر پر گہرا اثر پڑا۔
یہ مثال ہر شہر، ہر ضلع، ہر گائوں اور ہر قصبہ بلکہ ہر محلہ میں دُہرائی جا سکتی ہے بشرطیکہ احمدی اپنے اندر سچائی اور دیانت پیدا کریں۔ بے شک دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں دیکھی خوبی کو کھوٹے پیسے کی طرح پھینک دیتے ہیں لیکن کانوں سُنے عیب کو سُچّے موتی کی طرح دامن میں باندھ لیتے ہیں مگر یہ لوگ کم ہیں۔ زیادہ تر دنیا تجربہ سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ کم سے کم اس تجربہ سے جو اُن کے ذاتی فائدہ کے خلاف نہ پڑتا ہو۔ ان لوگوں کو متأثر کرنا ہر احمدی کے قبضہ میں ہے بشرطیکہ وہ اپنی جان ،اپنے جذبات اور مال کی قربانی کرے۔ آخر لوگ سچ کو کیوں چھوڑتے ہیں؟ اپنے جسم کو تکلیف سے بچانے کیلئے یا اپنے مال کو بچانے یا بڑھانے کیلئے۔ اگر احمدی یہ ارادہ کر لیں کہ خواہ ہمارے جسم کو کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو، ہم سچ بولیں گے اور ہمارے جذبات کو کس قدر ہی ٹھیس کیوں نہ لگے، ہم راستی کو نہ چھوڑیں گے اور ہمارے مال کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچے، ہم حق بات ہی کہیں گے۔ تو یہ جانی قربانی بھی ہوگی اور جذبات کی قربانی بھی ہوگی اور مال کی قربانی بھی ہوگی۔ مگر باوجود اس کے نہ اس میں لڑائی کرنی پڑے گی نہ حکومت سے جھگڑا ہوگا نہ کسی اور قوم سے بکھیڑا۔ جو لوگ اسے بڑی قربانی سمجھتے ہوں میں انہیں کہتا ہوں اس بڑی قربانی کو خدا کیلئے پیش کرو اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کونسی جانی قربانی ہے یا مالی قربانی ہے میں انہیں کہتا ہوں تم سرِدست اس چھوٹی قربانی کو خدا کیلئے پیش کرو پھر دیکھو اس سے کیسے شاندار نتائج نکلتے ہیں اور کس طرح احمدیت کے دشمن خواہ عام افراد ہوں خواہ حکومت کے بعض افسر، جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے والی کوششوں میں ناکام رہتے ہیں۔ یقینا اس طرح تم احمدیت کے گرد اخلاقی نیکنامی کی ایک ایسی فصیل تیار کردو گے جس کو توڑنا کسی دشمن کی طاقت میں نہ ہوگا۔ کیونکہ اخلاقی قلعے وہ قلعے ہیں جنہیں حکومت کی توپیں بھی توڑنے سے قاصر رہا کرتی ہیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ ان مصائب کے زمانہ میں کیا یہ قربانی نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اخراجات کو کم کر کے سلسلہ کی امداد کرے تا کہ سلسلہ کے بار کو بھی کم کیا جائے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کو بھی بے اثر بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ وعظ و نصیحت کرتا رہ کیونکہ وعظ و نصیحت پہلے بھی فائدہ دے چکی ہیں۔ بظاہر یہ قربانی چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ قربانی چھوٹی نہیں کیونکہ جماعت کا ایک معتدبہ حصہ مالی قربانیوں میں یا پیچھے ہے یا مستقل مزاج نہیں اور ان کی کمزوریوں کے لمحات سلسلہ کے بار کو اس قدر زیادہ کر دیتے ہیں کہ باقی روپیہ کے خرچ کا بھی وہ فائدہ نہیں پہنچتا جو پہنچنا چاہئے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم سب کچھ قربان کرنا چاہتے ہیں میں انہیں کہتا ہوں آئو سلسلہ کے لئے مستقل اور کبھی نہ رکنے والی مالی قربانی کرو اس سے بھی دشمن کے حملے کمزور پڑ جائیں گے کیونکہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں بہت سی تبلیغی جدوجہد کو روک دیتی ہیں۔ یہ مالی قربانی بھی درحقیقت جانی قربانی ہی ہے کیونکہ جس حد تک سلسلہ اب ان کا مطالبہ کر رہا ہے وہ احمدیوں کے کھانے پینے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اس لئے یہ مالی قربانی بھی اب جسمانی قربانی بن گئی ہے۔مگر صرف اس حد تک جانی قربانی کافی نہیں ہو سکتی۔ سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات بعض لوگوں سے اس قربانی کا بھی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ پورا وقت دین کی خدمت کیلئے لگائیں تا کہ جو کام پوری توجہ چاہتے ہیں وہ ادھورے نہ رہ جائیں۔ ہمارا سلسلہ الٰہی سلسلہ ہے اسے ہر قسم کی لیاقت رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے اور سلسلہ کے کام اس قدر وسیع ہو چکے ہیں کہ ان کے سنبھالنے کے لئے ایک بڑی جماعت ہمیں درکار ہے۔ میں نے اس بارہ میں وقفِ زندگی کا دو دفعہ اعلان کیا ہے اور نوجوانوں نے بڑھ بڑھ کر اس آواز کا جواب بھی دیا ہے لیکن ابھی مجھے اس سلسلہ میں اور آدمیوں کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ گریجوایٹ ہونے چاہئیں کچھ انگریزی کے اور کچھ عربی کے یعنی اپنے آپ کو پیش کرنے والے نوجوان یا بی اے ہوں یا مولوی فاضل ہوں تا کہ ان کی ابتدائی تعلیم پر روپیہ اور وقت خرچ نہ ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ سلسلہ کے نوجوان اس معاملہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور اپنی قربانی سے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک اچھا نمونہ قائم کریں گے۔دینی کاموں کے لئے عربی کی تعلیم نہایت ضروری ہے لیکن میں نے انگریزی کے گریجوایٹ بھی طلب کئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ بغیر انگریزی کے نہیں ہو سکتی۔ اس طرح بہت سے کام ہندوستان میں بھی انگریزی دان طبقہ ہی کر سکتا ہے۔ اگر بعض فنون کے ماہر بھی اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ مفید ہو سکتے ہیں جیسے ڈاکٹر یا وکیل۔ یہ وقف کرنے والے لوگ وہی ہوں جن کو یا گھر سے امداد کی امید ہو سکے یا پھر قلیل گزاروں پر کام کرنے کیلئے تیار ہوں۔میں متواتر کہہ چکا ہوں کہ تحریک جدید کے کام کی بنیاد روپیہ پر نہیں رکھی گئی۔ اس میں شامل ہونے والے دوست ایک مجاہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کچھ مل گیا تو انہیں دے دیا جائے گا نہ ملا تو نہ دیا جائے گا۔ اس کی تفصیلات اختصاراً اس سال کی شوریٰ کے ایجنڈے میں شائع ہو چکی ہیں۔ جو دوست دیکھنا چاہیں اپنی جماعت کے سیکرٹری کے پاس دیکھ سکتے ہیں یا دفتر تحریک جدید سے منگوا سکتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان جو ہمیشہ ایسے مواقع پر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے چلے آئے ہیں، آج بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس وقت پانچ انگریزی کے اور دس بارہ عربی کے گریجوایٹ اس صیغے میں کام کر رہے ہیں اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ قربانی نوجوانوں کیلئے ناممکن نہیں۔ میرا منشاء یہ ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے والے نوجوانوں کو دینی و دُنیوی علوم میںپوری مہارت پیدا کرائی جائے تا کہ وہ حسبِ ضرورت سلسلہ کے ہر کام کو سنبھالنے کے قابل ہوں اور اگر مالی طور پر انہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں تو عملی طور پر انہیں بدلہ بھی دوسروں سے زیادہ مل جائے۔
یہ پہلی قسط ہے جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی جو میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اور پھر خلاصۃً اسے دُہرا دیتا ہوں۔
۱۔ سچائی اور دیانت کا اقرار اور اپنے تمام کاموں میں عملاً اس کا اظہار حتیّٰ کہ غیرلوگ بھی اقرار کریں کہ احمدی راستباز اور دیانت دار ہوتے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پراپیگنڈا کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔
۲۔ تبلیغ اس طرح نہیں کہ فُرصت کا وقت نکال کر کی جائے بلکہ کام کا حرج کر کے بھی (سوائے اس کے کہ انسان دوسرے کا ملازم ہو۔ اس صورت میں اپنے آقا کے مفاد کا خیال رکھنا اس کیلئے ضروری ہے) تبلیغ کی جائے۔ مگر یاد رہے کہ یہ تبلیغ صرف زبانی نہیں ہونی چاہئے۔ احمدیت کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دوست خدمتِ خلق کے کام بھی کیا کریں کیونکہ عملی تبلیغ زبانی تبلیغ سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے اسی لئے میں نے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا ہے جو بعض جگہ اس بارہ میں نہایت اچھے کام کر رہے ہیں۔
۳۔ چندوں میں باقاعدگی اور باقاعدگی کے بعد مسابقت کی روح کا پیدا کرنا۔ میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے حتیّٰ کہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں دور ہو جائیں اور اس کی اشاعت کا دامن وسیع ہو جائے۔
۴۔ بی۔ اے، ایم۔ اے، مولوی فاضل، ڈاکٹر ،وکیل نوجوان اپنی زندگیاں دین کی خدمت کیلئے وقف کریں تا انہیں سلسلہ کے کاموں اور تبلیغ کے لئے تیار کیا جائے اور وہ سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا کام کریں اور اس کے علاوہ سلسلہ کے جن اور کاموں میں ان کی خدمات کی ضرورت ہو ان کے لئے وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگر کوئی نوجوان ان اغراض کیلئے طالب علمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور وہ ایک دو سال میں فارغ ہونے والے ہوں تو وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں۔
۵۔ ہر حکومت اورہر نظام کے قانون کی پابندی کرتے ہوئے دین کی ترقی کیلئے کوشش کرنا کہ اس پر عمل کرنے کے بغیر ہم احمدیت کی تعلیم کی برتری ثابت نہیں کر سکتے۔
۶۔ چھٹی بات جو درحقیقت تبلیغ کا ہی ایک حصہ ہے میں اس جگہ اس کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ چونکہ مخالف ہر جگہ حکام اور دیگر با اثر لوگوں کے کان بھرتا رہتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے بارسوخ لوگ اور افسر متواتر غلط باتیں سن کر احمدیوں کے خلاف متأثر ہو جاتے ہیں اس لئے ہر ضلع میں پراپیگنڈا کمیٹیاں بنائی جائیں جو اپنی اپنی جگہ مختلف اقوام کے چیدہ لوگوں سے اورحُکّام سے ملتی رہیں اور احمدیت کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کی حقیقت سے انہیں آگاہ کرتی رہیں۔ وہ افراد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے کوئی پوزیشن دی ہے اپنے تعلقات کو بڑھائیں اور ہر قسم کے حُکّام کو یا ہر شعبہء زندگی میں اثر رکھنے والے دوسرے افراد کو اس شرارت سے آگاہ کرتے رہیں جو سلسلہ کے دشمن اس کے خلاف کر رہے ہیں اور ان حُکّام کے رویہ سے بھی واقف کریں جو محض تعصّب یا دشمنوں کی جھوٹی باتوں سے متأثر ہو کر جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان افراد اور کمیٹیوں کو چاہئے کہ اپنے کام سے مرکز کو اطلاع دیتے رہا کریں اور جو مشکلات پیش آئیں ان کے متعلق مرکز سے مشورہ لیتے رہا کریں۔ اس کے لئے ہر جماعت کو ایک سیکرٹری امورِ عامہ مقرر کرنا چاہئے جس کی غرض زیادہ تر اس کام کو منظم صورت میں کرنا اور کرانا ہو۔ میں سمجھتا ہوں اگر دوست میری اس تجویز پر علاوہ دوسری تجاویز کے عمل کرنا شروع کریں تو بہت جلد اس فتنہ کی سختی کم ہو جائے گی۔ اگر ایک طرف سچائی اور قربانی خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچے گی تو دوسری طرف تبلیغ اور پراپیگنڈا لوگوں کو حقیقتِ حال سے واقف کر کے دشمن کے ضرر کو محدود کر دیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام جماعت کو اس وقت کی ضرورت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جوش اور اظہارِ غضب کے بجائے سچی قربانی کے پیش کرنے اور اس پرمستقل رہنے کی توفیق دے کیونکہ قربانی وہ نہیں جو ہم پیش کرتے ہیں قربانی وہی ہے جس کا زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہمارا رب ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کو ہم نے نہیں بلکہ ہمارے خدا نے شکست دینی ہے۔ سچی قربانیاں کرو اور دعائیں کرو اور کبر اور خود پسندی کو چھوڑ دو اور بڑے ہو کر منکسر مزاج بنو اور طاقت کے ہوتے ہوئے عفو کو اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہو۔
یاد رکھو کہ جن قربانیوں کا مَیں پہلی قسط کے طور پر مطالبہ کر رہا ہوں معمولی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نفس کو مارنا دشمن کو مارنے سے بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ اگر جماعت صداقت کے اس معیار کو قائم کر دے جسے سلسلہ احمدیہ پیش کرتا ہے تو یقینا اسے کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کمزوری ہماری ہی طرف سے ہوتی ہے ورنہ ہمارا خدا وفادار ہے۔ وہ خود ہمیں نہیں چھوڑتا۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۲؍مئی ۱۹۳۸ء)
۱؎ الاعلیٰ: ۱۰



کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۱؎
(تحریر فرمودہ ۱۷؍ مئی ۱۹۳۸ء)
یوں تو مئی کا مہینہ ہمارے لئے ہمیشہ ہی ایک بڑے رنج و غم کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے لیکن اس سال کے مئی میں یہ خصوصیت ہے کہ اس میں غم پر مشتمل تازہ واقعات کا بھی ایک اجتماع ہو گیا ہے۔ پہلے حافظ بشیر احمد ہمارے نوجوان اور ہونہار مبلغ کی خدام الاحمدیہ کے سلسلہ میں کام کرتے ہوئے اچانک موت ہوئی، پھر خان صاحب فقیر محمد خان صاحب سپرنٹنڈنٹ انجنیئر کی ناگہاں موت واقع ہوئی، اس کے بعد ’’الفضل‘‘ میں پڑھا کہ چوہدری عبدالقادر صاحب پلیڈر فوت ہو گئے اور اب چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ یعنی عزیزم چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے۔۲؎
دنیا میں جو آیا اس نے مرنا ہے اور اس راستہ پر ہر ایک کو گزرنا ضروری ہے لیکن ایک ایسی قوم جو دنیا میں اس طرح بسر کر رہی ہے جس طرح بتیس دانتوں میں زبان، اس کے لئے اس کا ہر فرد قیمتی ہے اور اس کا نقصان رنج دِہ۔ لیکن جب ایک قلیل عرصہ میں کئی کام کرنے والے نوجوان اور دعائیں کرنے والے عمر رسیدہ فوت ہو جائیں تو دل کا رنج و غم اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
حافظ بشیر احمد صاحب مرحوم
جن مرحومین کا مَیں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ہر ایک خاص رنگ رکھتا تھا۔ حافظ بشیر احمد صاحب حافظِ قرآن،
جامعہ کے فارغ التحصیل ،وقف کنندہ خدام الاحمدیہ کے مخلص کارکن اور اُن نوجوانوں میں سے تھے جن کے مستقبل کی طرف سے نہایت اچھی خوشبو آ رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیّت کچھ اور تھی اس نے انہیں خدامِ احمدیہ کے لئے ایک مثال اور نمونہ بنانا تھا۔ جس جماعت کے بنتے ہی اس کے کارکنوں کو شہادت کا موقع مل جائے اس کے مستقبل کے شاندار ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا اور اس کے غیرت مند افراد اپنی روایات قائم رکھنے کیلئے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ پس یہ موت تکلیف دہ تو ہے لیکن اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک حکمت کام کرتی نظر آ رہی ہے۔
چوہدری عبدالقادر صاحب مرحوم
چوہدری عبدالقادر صاحب پلیڈر ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے
بڑے افراد سلسلہ کے سخت مخالف تھے اور ہیں۔ نوجوانی میں احمدی ہوئے اور سب مخالفتوں کا خاموش مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پختہ ایمان کا ثبوت دیا۔ باوجود ایک مکروہ پیشہ سے تعلق رکھنے کے ایک نیک اور سعید نوجوان تھے اللہ تعالیٰ ان کی رُوح کو بخشش سے ڈھانپ لے۔
خان صاحب فقیر محمد خانصاحب مرحوم
خانصاحب فقیر محمد خانصاحب وہی ہیں جنہوں نے آج سے چند سال
پہلے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ ہماری دو۲ والدہ تھیں اورہر ایک سے دو دو بیٹے ہیں۔ ہم نے انصاف سے کام لیا ہے اور ہر ایک والدہ کا ایک ایک بیٹا احمدیوں کو دے دیا ہے اور ایک ایک بیٹا سُنیوں کو۔ گویا روپیہ میں سے آٹھ آٹھ آنے ہم نے دونوں میں تقسیم کر دیئے ہیں اور میں نے اس پر انہیں جواب دیا تھا کہ خدائی سلسلے اس تقسیم پر خوش نہیں ہوتے بلکہ وہ تو سارا ہی لیا کرتے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے اہل و عیال سمیت ولایت جا رہے تھے ان کو خدا نے انگلستان میں ہی ہدایت دی اور وہیں سے بیعت کا خط لکھ دیا اور لکھا آپ کی بات کس قدر جلد پوری ہو گئی۔ میں تیسری چونی آپ کے پاس بیعت کیلئےآتا ہوں دعا کریں چوتھی چونی یعنی بقیہ بھائی بھی احمدی ہو جائے۔ انہوں نے پہلا چندہ اسی دن بھجوایا اور پھر نہایت استقلال سے دینی خدمات میں حصہ لیتے رہے۔ گزشتہ سال ان کے اکلوتے لڑکے عزیز کیپٹن ڈاکٹر نثار احمد کا لڑائی میں گولی لگنے سے انتقال ہو گیا۔ اب ایک سال کے بعد وہ چھت کے گر جانے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ ہمارا لائوڈ سپیکر عرصہ تک ان کی رُوح کے لئے ثواب کا ذریعہ بنا رہے گا اور اس کی گونج میں ان کی آواز ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی۔
چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کی والدہ صاحبہ کی وفات
آخر میں عزیزم چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کی والدہ کی وفات کی خبر آئی ہے اور افسوس کہ اس وقت کہ میں مرکز سے بہت
دور ہوں اور آسانی سے میرا وہاں پہنچنا اور جنازہ میں شامل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے جس کامجھے سخت افسوس ہے۔ میں نے ابھی خبر سنتے ہی موٹر میں ایک آدمی کو میرپور خاص بھجوا دیا ہے کہ فون کر کے دریافت کرے کہ کیا میرا وقت پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں اگر ایسا ہو سکا تو میری یہ خواہش کہ میں ان کا جنازہ پڑھا کر انہیں دفن کر سکوں پوری ہو جائے گی، ورنہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سرِ تسلیم خم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابلِ قدر احمدی تھے اور انہوں نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہی اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان آ کر میرا ہاتھ بٹانے لگے اس لئے ان کے تعلق کی بناء پر ان کی اہلیہ کا مجھ پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا۔ پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رُشد و سعادت کے جوہر دکھائے ہیں اور شروع ایامِ خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں، مرحومہ ان کی والدہ تھیں اور اس تعلق کی بنا ء پر بھی ان کا مجھ پر حق تھالیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق طفیلی ہوتا ہے۔ یعنی اپنے باپ یا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے مرحومہ ان مستثنیٰ عورتوں میں سے تھیں جن کا تعلق براہِ راست اور بِلاکسی واسطہ کے ہوتا ہے۔ وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں، ان سے پہلے انہوں نے بیعتِ خلافت کی اور ہمیشہ غیرت و حمیّت کا ثبوت دیا، چندوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا، غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا، دعائوں کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں سچی خوابوں کی کثرت سے خدا تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی۔ انہوں نے خوابوں سے ہی احمدیت قبول کی اور خوابوں سے ہی خلافتِ ثانیہ کی بیعت کی۔
مجھے ان کا یہ واقعہ نہیں بھول سکتا جو بہت سے مَردوں کیلئے بھی نصیحت کا موجب بن سکتا ہے۔ گزشتہ ایام میں جب احراری فتنہ قادیان میں زوروں پر تھا اور ایک احراری ایجنٹ نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب پر راستہ میں لاٹھی سے حملہ کیا تھا جب انہیں ان حالات کا علم ہؤا تو انہیں سخت تکلیف ہوئی۔ بار بار چوہدری ظفراللہ خان سے کہتی تھیں۔ ظفراللہ خاں! میرے دل کو کچھ ہوتا ہے۔ حضرت اماں جان کا دل تو بہت کمزور ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب گھر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہؤا جیسے مرحومہ اپنے آپ سے کچھ باتیں کر رہی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ بے بے جی کیا بات ہے تو مرحومہ نے جواب دیا کہ میں وائسرائے سے باتیں کر رہی تھی۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ سچ مچ ہی کیوں باتیں نہیں کر لیتیںانہوں نے کہا کیا اس کا انتظام ہو سکتا ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا بہت اچھا پھرانتظام کر دو۔ قرآنی تعلیم کے مطابق ان کی عمر میں وہ پردہ تو تھا ہی نہیں جو جوان عورتوں کیلئے ہوتا ہے۔ وہ وائسرائے سے ملیں اور چوہدری صاحب ترجمان بنے۔ لیڈی ولنگڈن بھی پاس تھیں۔ چوہدری صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں کچھ نہیں کہوں گا جو کہنا ہو خود کہنا۔ چنانچہ مرحومہ نے لارڈ ولنگڈن سے نہایت جوش سے کہا کہ میں ایک گائوں کی رہنے والی عورت ہوں، میں نہ انگریزوں کو جانوں اور نہ ہی ان کی حکومت کے اسرار کو۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا تھاکہ انگریزی قوم اچھی قوم ہے اور ہمیشہ تمہاری قوم کے متعلق دل سے دعائیں نکلتی تھیں۔ جب کوئی تمہاری قوم کے لئے مصیبت کا وقت آتا تھا رو رو کر دعائیں کیا کرتی تھی کہ اے اللہ! ان کا حافظ و ناصر ہو تو ان کو تکلیف سے بچائیو لیکن اب جو کچھ جماعت سے خصوصاً قادیان میں سلوک ہو رہا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ارادہ سے نہیں بلکہ آپ ہی آپ بددعا نکلتی ہے۔ آخر ہم لوگوں نے کیا کیا ہے کہ اس رنگ میں ہمیں تکلیف دی جاتی ہے چوہدری صاحب نے لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں صرف ترجمان ہوں میں وہی بات کہہ دوں گا جو میری والدہ کہتی ہیں۔ آگے آپ انہیں خود جواب دے دیں اور ان کی بات لارڈ ولنگڈن کو پہنچا دی۔ اس سیدھے سادھے اور باعزت کلام کا اثر لیڈی ولنگڈن پر تو اس قدر ہؤا کہ اُٹھ کر مرحومہ کے پاس آ بیٹھیں اور تسلی دینی شروع کی اور اپنے خاوند سے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے جس کی طرف تم کو خاص توجہ دینی چاہئے۔ کتنے مرد ہیں جو اس دلیری سے سلسلہ کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو قبولیت کے ہاتھوں سے لے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے۔ آمین
عزیزم چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب سے وہ اپنے سب بیٹوں سے زیادہ محبت کرتی تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے زیادہ عزت بھی دی ہے اور سب سے زیادہ میرا ادب بھی کرتے ہیں۔ ابھی شوریٰ کے موقع پر چوہدری صاحب کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ دو تین دفعہ مجھے ملنے آئیں۔ خوش بہت نظر آتی تھیں مگر کہتی تھیں مجھے اپنا اندر خالی خالی نظر آتا ہے۔ ان کا ایک خواب تھا کہ اپریل میں وہ فوت ہونگی مگر خوابوں کی بعض دفعہ مخفی تعبیر ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپریل میں اس بیماری نے لگنا تھا جس سے وہ فوت ہوئیں۔ اپریل کے اس قدر قریب عرصہ میں ان کا فوت ہونا اس خواب کے سچے ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
ایک دو سال ہوئے مَیں نے خواب میں دیکھا میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفراللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور ۱۱۔ ۱۲ سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں۔کُہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہؤا ہے اور اس پر سر رکھا ہؤا ہے۔ ان کے دائیں بائیں عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیٹھے ہیں ان کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں۔ تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اسی طرح میں ان سے باتیں کرتا ہوں۔ شاید اس کی تعبیر بھی مرحومہ کی وفات ہی تھی کہ الٰہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوت یا مامتا جگہ خالی کرتی ہے تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ مرحومہ کے والد بھی احمدی تھے اور ان کے بھائی چوہدری عبداللہ خان صاحب داتا زیدکا والے ایک نہایت پُر جوش احمدی ہیں اور اپنے علاقہ کے امیر جماعت ہیں۔ حضرت خلیفۂ اوّل کے وقت سے مجھ سے اخلاص رکھتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ اظہارِ اخلاص میں پیش پیش رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قُرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو انکی دعائوں کی برکات سے محروم نہ کرے اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی رہیں۔
یہ سب موتیں ہمارے لئے ایک سبق ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو توجہ دلاتی ہیں کہ اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کریں۔ حتیّٰ کہ ان میں سے کوئی فوت نہ ہو جس کی جگہ لینے والا دوسرا موجود نہ ہو بلکہ جس ایک کی جگہ لینے والے کئی موجود نہ ہوں۔ آخر ہم سب نے مرنا ہے پھر اس قلیل زندگی کو خدا کے دین کیلئے قربان اور اس کی پیاری یادمیں کیوں صَرف نہ کریں۔ اللہ ہی ہمارا متکفّل ہو۔ آمین والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
۱۷؍مئی ۱۹۳۸ء کیمپ ناصر آباد۔ سندھ
(الفضل ۲۲؍مئی ۱۹۳۸ء)
۱؎ الرّحمٰن: ۲۷ ۲؎ البقرۃ: ۱۵۷


کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
کشمیر ایجی ٹیشن ۱۹۳۸ء کے متعلق چند خیالات
اصلاحاتِ کشمیر سے جو میرا تعلق رہا ہے اس کے بعد یاد کرانے کی مجھے ضرورت نہیں۔ اس جدوجہد میں جو خدمت کرنے کی مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اس کے بیان کرنے کی بھی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک وہ بنیاد جو صرف ماضی پر رکھی جاتی ہے اس قدر مضبوط نہیں ہوتی جس قدر وہ جو حال میں اپنی صداقت کا ثبوت رکھتی ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے فلاں وقت کوئی کام کیا تھا‘ اس لئے میری بات سنو بلکہ اہلِ کشمیر سے صرف یہ کہتا ہوں کہ مَیں اب جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر غور کریں اور اگر اس میں سے کوئی بات آپ کو مفید نظر آئے تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
جب میں نے کام شروع کیا تھا اس وقت کشمیر ایجی ٹیشن گو بظاہر فرقہ وارانہ تھا مگر جو مطالبات پیش کئے جاتے تھے وہ فرقہ وارانہ نہ تھے۔ زمینوں کی واگذاری کا فائدہ صرف مسلمانوں کو نہ پہنچتا تھا، نہ پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا تعلق صرف مسلمانوں سے تھا‘ نہ حکومت کے مشوروں میں شراکت میں مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ تھا۔ ملازمتوں کا سوال ایک ایسا سوال تھا جس میں مسلمانوں کے لئے کچھ زائد حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن ۸۰،۹۰ فی صدی آبادی کے لئے اس کے گُم گشتہ حقوق میں سے صرف مشورے سے حق کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ نہیں کہلا سکتا۔
اس تحریک کا نتیجہ کم نکلا یا زیادہ مگر بہرحال کچھ نہ کچھ نکلا ضرور اور کشمیر کے لوگ جو سب ریاستوں کے باشندوں میں سے کمزور سمجھے جاتے تھے اس ادنیٰ مقام سے ترقی کر کے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے کہ اب وہ دوسری ریاستوں کے باشندوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتے۔
میں نے جو کچھ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ہر ایک سمجھوتہ سچائی پر مبنی ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ہم ظاہر میں کچھ کہیں اور باطن میں کچھ ارادہ کریں۔ ایسے ارادوں میں جن میں سچائی پر بناء نہیں ہوتی کبھی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی اور کم سے کم یہ نقص ضرور ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں خود اپنے باپ دادوں کو گالیاں دیتی ہیں اور وہ تاریخ میں عزت کے ساتھ یاد نہیں کئے جاتے۔ پس میرے نزدیک کسی سمجھوتے سے پہلے ایسے سب امور کا جو اختلافی ہوں مناسب تصفیہ ہو جانا چاہئے تابعد میں غلط فہمی اور غلط فہمی سے اختلاف اور جھگڑا پیدا نہ ہو۔
اس اصل کے ماتحت جب میں نے اس تحریک کا مطالعہ کیا تو مجھے اخباری بیانات سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا مسلم و غیر مسلم کے سیاسی سمجھوتے کی مشکلات کو پوری طرح سمجھ لیا گیا ہے یا نہیں اور مسلم و غیرمسلم کے حقوق کے متعلق جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کی تدبیر کر لی گئی ہے یا نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی جدوجہد دو غرضوں میں سے ایک کیلئے ہوتی ہے یا تو اس لئے کہ اس قوم نے کوئی پیغام دنیا تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ عواقب و نتائج کو نہیں دیکھا کرتی‘ نقصان ہو یا فائدہ وہ اپنا کام کئے جاتی ہے۔ جیسے اسلام کے نزول کے وقت غریب اور امیر سب نے قربانی کی اور اس کی پروا نہیں کی کہ کسے نقصان ہوتا ہے یا کیا ہوتا ہے کیونکہ مادی نتیجہ مدنظر نہ تھا بلکہ پیغام الٰہی کو دنیا تک پہنچانا مدنظر تھا۔ اس پیغام کے پہنچ جانے سے ان کا مقصد حاصل ہو جاتا تھا‘ خواہ دنیا میں انہیں کچھ بھی نہ ملتا اور اس پیغام کے پہنچانے میں ناکامی کی صورت میں ان کو کوئی خوشی نہ تھی خواہ ساری دنیا کی حکومت ان کو مل جاتی۔ یا پھر قومی جدوجہد اس لئے ہوتی ہے کہ کوئی قوم بعض دنیوی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتی ہے۔ وہ ہر قدم پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے کہ جن تکالیف کو دور کرنے کیلئے میں کھڑی ہوئی ہوں وہ اس جدوجہد سے دور ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ اس کی ہر ایک قربانی ایک مادی فائدہ کے لئے ہوتی ہے اور وہ اس مادی فائدہ کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ تمام سیاسی تحریکیں اس دوسری قسم کی جدوجہد سے تعلق رکھتی ہیں اور مادی فوائد کو ان میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب یہ امر ظاہر ہو گیا تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی تحریک کوئی مذہبی تحریک ہے یا سیاسی۔ اگر سیاسی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سے فوائد ہیں جن کیلئے اہل کشمیر کوشاں ہیں اور خصوصاً مسلمان؟
اس سوال کا جواب میں سمجھتا ہوں ہر کشمیری یہ دے گا کہ اس کی جدوجہد صرف اس لئے ہے کہ اس کی اور خوش زندگی کا سامان کشمیر میں نہیں ہے۔ نہ اس کی تعلیم کا اچھا انتظام ہے‘ نہ اس کی زمینوں کی ترقی کے لئے کوشش کی جاتی ہے‘ نہ اسے حُریّتِ ضمیر حاصل ہے‘ نہ اس کی اس آبادی کے اچھے گزارہ کیلئے کوئی صورت ہے جس کا گزارہ زمین پر نہیں بلکہ مزدوری اور صنعت و حرفت پر ہے اور نہ اس کی تجارتوں اور کارخانوں کی ترقی کے لئے ضرورت کے مطابق جدوجہد ہو رہی ہے۔ نہ اسے اپنے حق کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں حصہ دیا جا رہا ہے اور ان لوگوں میںسے جن کے ذریعہ سے حکومت تاجروں‘ ٹھیکہ داروں وَغَیْرَ ہُمَا کو نفع پہنچایا کرتی ہے‘ اور نہ مجالسِ قانون ساز میں ان کی آواز کو سنا جاتا ہے۔ یہ مطالبات مسلمانانِ ریاستِ کشمیر وجموں کے ہیں اور یہی مطالبات قریباً ہر افتادہ قوم کے ہوتے ہیں۔
یہ امر ظاہر ہے کہ وہی سکیم مسلمانانِ کشمیر کے لئے مفید ہو سکتی ہے جو اوپر کی اغراض کو پورا کرے اور دوسری کوئی سکیم انہیں نفع نہیں دے سکتی۔ پس میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا اتحاد جو مسلمانوں کے ایک طبقہ کا بعض دوسری اقوام سے ہوء ا ہے، کیا اس غرض کو پورا کرتا ہے؟
ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں اور مجالسِ آئینی میں تناسب کے لحاظ سے حصہ نہ ملنے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اور یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملازمتوں پر سوائے چند ایک بڑے افسروں کے ریاست ہی کے باشندے قابض ہیں جو غیرمسلم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی حال ٹھیکوں کا ہے۔ وہ بھی اکثر مقام میں غیرمسلم اصحاب کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح مجالسِ آئینی میں بھی مسلمانوں کا حق زیادہ تر ریاست کشمیر کے غیرمسلم باشندوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ان حالات میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقوام نے اپنے حاصل کردہ منافع مسلمانوں کے حق میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اگر نہیں تو یہ سمجھوتہ کس کام آئے گا۔ اگر اس تمام جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ مہاراجہ صاحب بہادر کے ہاتھ سے اختیار نکل کر رعایا کے پاس اس صورت میں آ جاتے ہیں کہ نہایت قلیل اقلیت نے نصف یا نصف کے قریب نمائندگی پر قابض رہنا ہے اور اسی طرح ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں بھی اسے یہی حصہ ملنا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پندرہ فیصدی باشندے پچاس فی صدی آمد پر قابض رہیں اور پچاسی فی صدی باشندے بھی پچاس فیصدی آمد پر قابض رہیں۔ گویا ایک جماعت کے ہر فرد پر فی صدی آمد خرچ ہو اور دوسری قوم کے ہر فرد پر فی صدی آمد خرچ ہو یا دوسرے لفظوں میں ہمیشہ کیلئے چھ مسلمان اتنا حصہ لیں جتنا کہ ایک غیر مسلم حصہ لے۔ یہ تقسیم تو بِالبداہت باطل ہے۔
اگر سمجھوتہ اس اصول پر نہیں بلکہ اس اصول پر ہے کہ ہر قوم اپنے افراد اور لیاقت کے مطابق حصہ لے خواہ مجالسِ آئین میں ہو، خواہ ملازمتوں میں، خواہ ٹھیکہ وغیرہ میں گو اقلیت کو اس کے حق سے استمالتِ قلب کے لئے کچھ زیادہ دے دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ شرطیں ہوں کہ اقلیت کے مذہب، اس کی تہذیب اور تمدن کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی‘ تو یہ ایک جائز اور درست اور منصفانہ معاہدہ ہو گا۔ مگر جہاں تک میں نے اخبارات سے پڑھا ہے ایسا کوئی معاہدہ مسلمانانِ کشمیر اور دیگر اقوام میں نہیں ہوء ا اور نہ میں سمجھ سکا ہوں کہ موجودہ حالات میں وہ اقوام جو ملازمتوں اور ٹھیکوں اور دوسرے حقوق پر قابض ہیں وہ اس آسانی سے اپنے حاصل کردہ فوائد مسلمانوں کو واپس دینے کیلئے تیار ہو جائیں گی اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لازماً یہ اتحاد بعد میں جا کر فسادات کے بڑھ جانے کا موجب ہو گا۔ اگر کوئی کامیابی ہوئی اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو غیر مسلم اقوام کہیں گی کہ جدوجہد تو صرف اختیارات پبلک کے ہاتھ میں لانے کے لئے تھی سو وہ آگئے ہیں کسی قوم کو خاص حق دینے کے متعلق تو تھی ہی نہیں۔ ہم بھی کشمیری تم بھی کشمیری ملازمت ہمارے پاس رہی تو کیا تمہارے پاس رہی تو کیا۔ جو لوگ عُہدوں پر ہیں وہ زیادہ لائق ہیں اس لئے قوم کا کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہئے کہ اس میں ملک کا نقصان ہے اور اگر مسلمانوں کا زور چل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کو ملازمتوں، ٹھیکوں وغیرہ میں زیادہ حصہ دینا شروع کیا تو دوسری اقوام کو رنج ہو گا اور وہ کہیں گی کہ پہلے ہم سے قربانی کروائی‘ اب ہمیں نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور ایک دوسرے پر بدظنی اور بدگمانی شروع ہو جائے گی اور فتنہ بڑھے گا گھٹے گا نہیں اور اب تو صرف چند وزراء سے مقابلہ ہے پھر چند وزراء سے نہیں بلکہ لاکھوں آدمیوں پر مشتمل اقوام سے مقابلہ ہو گا کیونکہ حقوق مل جانے کی صورت میں اس قوم کا زور ہو گا جو اس وقت ملازمتوں وغیرہ پر قائم ہے خواہ وہ تھوڑی ہو اور وہ قوم دستِ نگر ہو گی جو ملازمتوں میں کم حصہ رکھتی ہے خواہ وہ زیادہ ہو اور یہ ظاہر ہے کہ چند وزراء کو قائل کر لینا آسان ہے مگر ایسی جماعت کو قائل کرنا مشکل ہے جس کی پشت پر لاکھوں اور آدمی موجود ہوں کیونکہ گو وہ قلیل التعداد ہو حکومت اور جتھا مل کر اسے کثیر التعداد لوگوں پر غلبہ دے دیتا ہے اور سیاسی ماہروں کا قول ہے کہ نہ مقید بادشاہ کی حکومت ایسی خطرناک ہوتی ہے نہ غیر ملکی قوم کی جس قدر خطرناک کہ وہ حکومت ہوتی ہے جس میں قلیل التعداد لیکن متحد قوم اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہو کیونکہ اس کا نقصان ملک کے اکثر حصہ کو پہنچتا ہے لیکن اس کا ازالہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی تاریخ کو دیکھ لو کہ ایسی حکومتیں ہمیشہ دیر پا رہی ہیں اور انہوں نے اکثریت کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ ہندوستان میں ہی اچھوت اقوام کو دیکھ لو کہ ایک زبردست اکثریت سے اب وہ اقلیت میں بدل گئی ہیں اور ان کے حالات جس قدر خراب ہیں وہ بھی ظاہر ہیں۔
پس میرے نزدیک بغیر ایک ایسے فیصلہ کے جسے پبلک پر ظاہر کر دیا جائے ایسا سمجھوتہ مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ نفع یا نقصان تو پبلک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ممکن ہے غیر مسلم لیڈر مسلمانوں کو بعض حق دینے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ان کی قومیں تسلیم نہ کریں۔ پھر ایسے سمجھوتے سے کیا فائدہ۔ یا مسلمان لیڈر بعض حق چھوڑنے کا اقرار کر لیں لیکن مسلمان پبلک اس کیلئے تیار نہ ہو اور ملک کی قربانیاں رائیگاں جائیں اور فساد اور بھی بڑھ جائے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی سمجھوتہ مسلمانوں کیلئے مفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ لاکھوں مسلمانوں کی بدحالی اور بیکاری کا علاج تجویز نہ کرتا ہو یعنی ان کی تعداد کے قریب قریب انہیں ملازمتوں اور ٹھیکوں وغیرہ میں حق نہ دلاتا ہو۔ جو سمجھوتہ اس امر کو مدنظر نہیں رکھتا وہ نہ کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ امن پیدا کر سکتا ہے۔ عوام لیڈروں کے لئے قربانی کرنے میں بے شک دلیر ہوتے ہیں لیکن جب ساری جنگ پیٹ کیلئے ہو اور پیٹ پھر بھی خالی کا خالی رہے تو عوام الناس زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتے اور ان کے دلوں میں لیڈروں کے خلاف جذبۂ نفرت پیدا ہو جاتا ہے‘ اور ایسے فتنہ کا سدِّباب کر دینا شروع میں ہی مفید ہوتا ہے۔
یہ میرا مختصر مشورہ مسلمانانِ کشمیر کو ہے وہ اپنے مصالح کو خوب سمجھتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ میں تو اب کشمیر کمیٹی کا پریذیڈنٹ نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا کشمیر کمیٹی کی رائے اس معاملہ میں کیا ہو گی لیکن سابق تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دینا مناسب سمجھا۔
عقلمند وہی ہے جو پہلے سے انجام دیکھ لے۔ میرے سامنے سمجھوتہ نہیں نہ صحیح معلوم ہے کہ کن حالات میں اور کن سے وہ سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ میں تو اخبارات میں شائع شدہ حالات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس کا سمجھوتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہوء ا ہے اور اس کے مطابق اب دونوں قومیں مشترکہ قربانی پر تیار ہو رہی ہیں۔ پس میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قربانی ایک مقدس شَے ہے اور بہت بڑی ذمہ واریاں اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ وہ کس امر کے لئے قربانی کرنے لگے ہیں اور یہ کہ وہ اس امر کو نباہنے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سمجھوتہ بجائے پریشانیوں کے کم کرنے کے نئی پریشانیاں پیدا کر دے۔ انگریزی کی ایک مثل ہے کہ کڑاہی سے نکل کر آگ میں گرا۔ سو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ سب کڑاہی سے نکل آئیں گے یا یہ کہ بعض کڑاہی سے نکل کر باہر آ جائیں گے اور بعض آگ میں گر کر بھُونے جائیں گے۔
مَیں اس موقع پر حکومت کو بھی یہ نصیحت کروں گا کہ پبلک کے مفاد کا خیال رکھنا حکومت کا اصل فرض ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے زور اور طاقت کو نہ دیکھے بلکہ اس کو دیکھے کہ خدا نے اسے یہ طاقت کیوں دی ہے؟ حاکم اور محکوم سب ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں۔ پس اگر وہ اپنی ہی رعایا کا سر کچلنے لگے تو یہ امر حکومت کی طاقت کے بڑھانے کا موجب نہیں ہو سکتا۔ جو ہاتھ دوسرے ہاتھ کو کاٹتا ہے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی جڑ پر تبر رکھتا ہے۔ یہ اہالیانِ کشمیر ہی ہیں جو ہِزہائی نس مہاراجہ کی عزت کا موجب ہیں۔ ان کو اپنے ہمعصروں میں عزت اسی سبب سے ہے کہ ان کی رعایا میں ۳۶ لاکھ افراد ہیں اور اگر وہ افراد ذلیل ہیں تو یقینا ان کی عزت اتنی بلند نہیں ہو سکتی جتنی بلند اس صورت میں کہ وہ افراد معزز ہوں۔ پس ادنیٰ ترین کشمیری ریاست کشمیر کی شوکت کو بڑھانے والا ہے اور وہ حُکّام جو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں‘ اس کی عزت پر نہیں بلکہ ریاست کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اس نازک موقع پر انہیں صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے اور رعایا کے صحیح جذبات سے ہزہائی نس کو آگاہ رکھنا چاہئے کہ وفاداری کا یہی تقاضا ہے‘ اور خیرخواہی کا یہی مطالبہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہزہائی نس کو اپنی رعایا سے رحم اور انصاف کی اور حُکّام کو دیانتداری اور ہمدردی کی اور پبلک کو سمجھ اور عقل کی توفیق دے تا کہ کشمیر جو جنت نظیر کہلاتا ہے جنت نہیں تو اپنے ان باغوں جیسا تو دلکش ہو جائے جن کی سیر کرنے کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ۔ قادیان
(ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحہ ۴۷ تا ۵۱ مطبوعہ دسمبر۱۹۶۵ء)


اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل
کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کر لو گے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اگر تم تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو راضی کر لو گے
(تقریر فرمودہ ۳۱۔جولائی ۱۹۳۸ء)
اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ توبہ کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :
۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
میں جماعت کے دوستوں کو ایک لمبے عرصہ سے بتاتا چلا آ رہا ہوں کہ تحریک جدید کوئی نئی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ وہ قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے رسول کریمﷺکے ذریعہ جاری کی گئی تھی۔ انجیل کے محاورہ کے مطابق یہ ایک پُرانی شراب ہے جو نئے برتنوں میں پیش کی جا رہی ہے مگر وہ شراب نہیں جو بدمست کر دے اور انسانی عقل پر پردہ ڈال دے بلکہ یہ وہ شراب ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ۲؎ یعنی اس شراب کے پینے سے نہ تو سر دُکھے گا اور نہ بکواس ہو گی کیونکہ اس کا سرچشمہ وہ الٰہی نور ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں لائے ایسا نور جو اس سے قبل دنیا کو کبھی نہیں ملا تھا۔ کیسی نابینا ہیں وہ آنکھیں، کیسے کور ہیں وہ دل جو قرآنِ کریم، تورات اور دوسری مذہبی کتابیں دیکھتے ہیںاور پھر انہیں قرآن کریم کی خوبی اور اس کی برتری نظر نہیں آتی۔ وہ حُسن کا مجموعہ ہے، وہ جلوۂِ الٰہی کا آئینہ ہے۔ اس کے لفظ لفظ سے خداتعالیٰ کی شان ٹپکتی اور اس کے حرف حرف سے اللہ تعالیٰ کے وصال کی خوشبو آتی ہے۔ کونسی کتاب ہے جو اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکتی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو اس کی آیات پر سے گزر جاتے ہیں اور ان کو اس کے معارف اور دقائق کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی۔ وہ قرآن کریم سنتے ہیں اور بعض دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ بھی کہہ دیتے ہیں مگر جب وہ اپنی مجلسوں میں جاتے ہیں تو ٹھٹھا اور ہنسی اور تمسخر ان کا شیوہ ہوتا ہے اور ان کی زندگیاں بالکل ضائع چلی جاتی ہیں وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ خداتعالیٰ نے ان کو کیوں پیدا کیا ہے وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ان کے دنیا میں آنے کا کیا مقصد ہے۔ بہرحال اسلام خداتعالیٰ کا ایک نور ہے جو دنیا میں ظاہر ہوء ا مگر پھر ایک وقت آیا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ایمان ثریا پر اُٹھ گیا اور اسلام کی تعلیم لوگوں نے پسِ پُشت ڈال دی اس وقت خداتعالیٰ نے ایک اور انسان کو دنیا میں بھیجا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی جا پہنچے گا تو اہلِ فارس میں سے کچھ لوگ دنیا کی بہتری اور فائدہ کے لئے اسے پھر واپس لوٹائیں گے اور قرآن کریم نے بھی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا ۳؎ کہ اسلام کی خدمت کے لئے آخرین میں سے ایک جماعت کھڑی کی جائے گی جس کے اندر بروزی رنگ میں پھر رسول کریمﷺاسی طرح کام کریں گے جس طرح آپ نے اولین میں کام کیا۔ ان پیشگوئیوں کے مطابق خداتعالیٰ نے اپنے ماء مور کو دنیا میں بھیجا اور اسے کہا کہ جاؤ اور قرآن کریم کے نور کو دنیا میں پھیلاؤ جاؤ اور ہماری صداقت سے ساری دنیا کو روشناس کراؤ ۔ وہ آیا اور اس نے خداتعالیٰ کے نور کو دنیا میں قائم کیا اور ایک ایسی جماعت اپنے انفاسِ قدسیہ سے اس لئے تیار کر دی جو اس کی ہر آواز پر لبیک کہنا اپنی انتہائی سعادت سمجھتی ہے۔ اس جماعت پر پھر وہی ذمہ داریاں عائد ہو گئیں جو صحابہ پر عائد تھیں اور اس سے بھی انہی کاموں کی توقع کی جانے لگی جو صحابہ نے سرانجام دیئے تھے۔ چنانچہ پھر وہی قرآنی حُسن دنیا میں ظاہر ہونے لگا، پھر وہی قرآن جو مذہبی کتابوں میں سب سے چھوٹی کتاب ہے اور جسے بعض لوگوں نے ایسی چھوٹی تقطیع پر چھاپا ہے کہ ایک مُٹھی کے اندر دو قرآن شریف آ جاتے ہیں ساری دنیا کے علوم اور معارف کا خزینہ نظر آنے لگا۔ میں ساری دنیا میں نہیں مگر میرے نائب ساری دنیا میں پھرے ہیں اور میں خود بھی قریباً نصف ارض میں ہوں مگر قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں مَیں نے دنیا کی کسی کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو انسان کی روحانیت کے لئے ضروری ہو اور قرآن کریم نے بیان نہ کی ہو۔ یہ نئی زندگی جو قرآن کریم کو بخشی گئی محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے حاصل ہوئی اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب دشمن پر انسان کا غلبہ ہونے لگے تو وہ دوسروں کو تباہ کرنے کے لئے اپنی انتہائی طاقت صرف کرنے لگ جاتا ہے۔ جب تک قرآن کریم دشمن کو ہارا ہوء ا نظر آتا تھا شیطان خوش تھا اور وہ کہتا تھا کہ اس کتاب کا میں نے کیا مقابلہ کرنا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کا نور دنیا میں پھیلنا شروع ہوء ا تو اس نے مختلف رنگوں میں حملے کرنے شروع کر دیئے بیرونی بھی اور اندرونی بھی، کُفّار کے ذریعہ بھی اور منافقوں کے ذریعہ بھی یہ حملے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کفر کی فوجیں کُلّی طور پر میدانِ مقابلہ میں شکست کھا جائیں گی۔ لیکن جب تک کفر میں جان ہے اور اس کے جسم کے اندر سانس چلتی ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اطمینان اور چَین سے بیٹھ سکے۔
پس یہ خیال کر لینا کہ ہماری جماعت کا کام آج یا کل یا پرسوں ختم ہو جائے گا اور ہم اطمینان سے بیٹھ رہیں گے بالکل غلط ہے۔ یہ خیال کر لینا کہ فلاں قسم کے حملے اب بالکل نہیں ہوں گے اگر ہوں گے تو اور قسم کے ،بالکل غلط ہے۔ وہ ہر رنگ میں حملے کرے گا اور ہر ہتھیار سے اسلام کی فوجوں کو شکست دینے کے لئے میدان میں اترے گا اور ہماری جماعت میں وہی رہ سکے گا جو اِن تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے اور کسی ایک لمحہ کے لئے بھی اطمینان کا سانس نہ لے۔ جو شخص ا س اصل پر قائم نہیں وہ اگر آج احمدی ہے تو بالکل ممکن ہے کل مرتد ہو جائے کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی شرط سے احمدیت میں داخل ہوء اہے تو وہ آخر دم تک احمدی رہ سکے۔
یہ الٰہی سلسلہ ہے اور الٰہی سلسلوں میں ایسے لوگوں کا قیام بالکل ناممکن ہوء ا کرتا ہے۔ پس وہی لوگ احمدیت پر ثابت قدم رہیں گے جن کے ایمان بغیر کسی شرط کے ہوں۔ میں نے جو ابھی ابھی رکوع پڑھا ہے اس میں اللہ تعالیٰ موء منوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔ اے موء منو! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ آوء اور خداتعالیٰ کے راستہ میں باہر نکلو تو تم زمین کی طرف بوجھل ہو کر گر جاتے ہو۔ اور تمہارے لئے چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا تم اس ورلی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو۔یاد رکھو اس ورلی زندگی کا جو فائدہ ہے یہ آخرت کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جب بھی دین کے لئے آواز اٹھائی جائے مؤمن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آگے آئے اور خدمت ِدین میں اپنی جان، اپنا مال، اپنی اولاد، اپنی عزت، اپنی آبرو، اپنا آرام، اپنی آسائش، اپنی جائداد، اپنا وطن اور اپنی ہر چیز قربان کر دے لیکن منافق یہ چاہتا ہے کہ مؤمن قربانی نہ کریں اور جو کر رہے ہیں وہ بھی قربانی کے مقام سے پیچھے ہٹ آئیں۔ فرماتا ہے اگر تم خداتعالیٰ کی آواز یااس کے نمائندوں کی آواز پر کان نہیں دھرو گے اور تمہاری یہ حالت ہو گی کہ تمہیں کہا تو یہ جائے گا کہ آؤ اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو مگر تم آگے نہیں آؤ گے تو یاد رکھو خداتعالیٰ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا ء کرے گا۔ اور خداتعالیٰ تمہارے بدلے کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا۔ اور تم خداتعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکو گے۔ بعض لوگ اسی بات پر حیرت میں آ جایا کرتے ہیں کہ جماعت میں دو چار یادس بیس منافق کیوں ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس جگہ یہ فرماتا ہے کہ ہزار نہیں، دس ہزار نہیں، دس کروڑ بھی اگر مرتد ہو جائیں تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہو سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ اگر کسی جماعت میں سے کچھ لوگ نکل جائیں گے تو اس جماعت کو نقصان پہنچ جائے گا۔ فرماتا ہے ہمیں کام سے غرض ہے تعداد سے نہیں۔ اگر نکمّے اور ناکارہ وجود جماعت میں شامل ہیں تو وہ بیشک جماعت سے نکل جائیں اور یاد رکھیں کہ وہ خداتعالیٰ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ پھر فرماتا ہے۔ ۴؎ اگر تم محمد رسول اللہﷺ کی مدد نہیں کرنا چاہتے تو تمہاری خداتعالیٰ کو کیا پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ وہ صرف اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے نکلا اور دشمن کے حملے سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ گزین ہو گیا۔
جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ غم مت کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت تمہاری کونسی فوجیں تھیں جو اس کی مدد کر رہی تھیں۔ اس وقت خداتعالیٰ نے خود اس پر اپنی سکینت اُتاری اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جس کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور اس نے ان روحانی لشکروں کے ذریعہ کفار کو اپنی تدبیروں میں نیچا دکھایا اور خدا اور اس کے رسول کا غلبہ ہوء ا۔ اور اللہ ہی ہمیشہ غالب رہا کرتا ہے اور وہ بڑی حکمتوں والا ہے۔ پھر فرماتا ہے اے مؤمنو!اگر تم اپنے ایمان میں پختہ ہو تو تم کمزور ہو تب بھی نکلو، طاقتور ہو تب بھی نکلو، مالدار ہو تب بھی نکلو، غریب ہو تب بھی نکلو، بوڑھے ہو تب بھی نکلو، جوان ہو تب بھی نکلو، تمہارے اوپر ذمہ داریاں ہوں تب بھی نکلو، تمہارے اوپر ذمہ داریاں نہ ہوں تب بھی نکلو، گھوڑوں پر سوار ہو تب بھی نکلو، پیدل ہو تب بھی نکلو۔ تم چاہے ہلکے ہو چاہے بھاری تمہارا فرض ہے کہ دونوں صورتوں میں نکلو۔ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ جو عظیم الشان کام تیرے سامنے ہے وہ معمولی قربانیوں سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ جب تک تم میں سے ہر شخص اپنی جان اور اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک یہ کام نہیں ہو سکتا۔
تمہیں کیا پتہ کہ کَل کیا ہونے والا ہے۔ فرض کرو آج سے پچاس ساٹھ یا سَو سال کے بعد تمہاری نسلوں نے اپنی قربانیوں کے بدلہ میں بادشاہت حاصل کرنی ہو تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دن رات قربانیاں کرتے چلے جاؤ اور ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے قدم اس میدان میں سُست نہ ہونے دو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک دفعہ کسرٰی شاہِ ایران کا رومال اپنی جیب میں سے نکالا اور اس سے اپنی تُھوک پُونچھ لی۔ پھر کہنے لگے بَخِ بَخِ ابوھریرہ واہ وا ہ ابوہریرہ کبھی تجھے پڑا کرتی تھیں اور آج تو کسرٰی کے رومال میں تھوک رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا۔ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا مجھے رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا اس قدر اشتیاق تھا کہ مَیں مسجد سے اُٹھ کر کبھی باہر نہ جاتا کہ ممکن ہے رسول کریم ﷺ تشریف لے آئیں اور آپ میرے بعد کوئی ایسی بات کہہ جائیں جسے میں نہ سن سکوں اور چونکہ میں اسی شوق میں ہر وقت مسجد میں پڑا رہتا تھا اس لئے کئی کئی دن کے فاقے ہو جاتے اور شدتِ ضُعف کی وجہ سے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی پڑی ہوئی ہے اور چونکہ عرب میں یہ دستور تھا کہ وہ مرگی والے کو جُوتیاں مارا کرتے تھے اس لئے جب میں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جُوتیاں مارنی شروع کر دیتے حالانکہ اس وقت بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے غشی ہوتی تھی اور کمزوری کے مارے میری آواز بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ ۶؎
پھر انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ میں بھوک سے اتنا تنگ ہوء ا کہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میں اُٹھ کر مسجد کے دروازہ پر آ کر کھڑا ہو گیا کہ شاید میری شکل دیکھ کر ہی کوئی شخص سمجھ جائے کہ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اور وہ مجھے کھانے کے لئے کچھ دیدے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے اور میں نے ان کے سامنے ایک آیت پڑھی جس میں غریبوں کی خبرگیری کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے اور عرض کیا کہ اس کے ذرا معنی کر دیں انہوں نے اس آیت کے معنی کئے اور آگے چل دیئے۔ اس واقعہ کا ان کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ باوجودیکہ جس زمانہ میں انہوں نے یہ بات سنائی اس وقت رسول کریمﷺ بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت ابوبکرؓ بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت عمرؓ کا زمانہ تھا پھر بھی وہ اس وقت غصہ سے کہنے لگے ہوں! گویا مجھے اس آیت کے معنے نہیں آتے تھے اور حضرت ابوبکرؓ کو زیادہ آتے تھے۔ میں نے تو یہ آیت ان کے سامنے ا س لئے پیش کی تھی کہ میری شکل دیکھ کر انہیں میری طرف توجہ پیدا ہو مگر انہوں نے معنٰی کئے اور آگے چل دیئے۔ پھر حضرت عمرؓ گزرے اور ان کے سامنے بھی میں نے یہی آیت پیش کی انہوں نے بھی اس کے معنی کئے اور آگے چل پڑے۔
حضرت ابوہریرہؓ پھر بڑے غصہ سے کہتے ہیں۔ ہوں! گویا مجھے اس آیت کے معنی نہیں آتے تھے اور حضرت عمرؓ زیادہ جانتے تھے۔ میں نے تو اس لئے آیت ان کے سامنے پیش کی تھی کہ وہ سمجھ جاتے کہ میں بھوکا ہوں مگر وہ معنٰی کر کے آگے چل پڑے۔ اسی حالت میں مَیں حیران کھڑا تھا کہ پیچھے سے ایک نہایت محبت بھری آواز آئی کہ ابوہریرہ۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو رسول کریمﷺ کھڑے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا معلوم ہوتا ہے تمہیں بھوک لگی ہے۔ گویا رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوہریرہؓ کی پیٹھ میں سے وہ چیز دیکھ لی جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ابوہریرہؓ کے منہ سے نہیں دیکھ سکے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا ادھر آؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ گئے تو رسول کریم ﷺدودھ کا ایک پیالہ لے کر باہر نکلے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں دودھ دیکھ کر میں بڑاخوش ہوء ا اور سمجھا کہ اب اکیلا اسے خوب سیر ہو کر پیوں گا مگر رسول کریمﷺنے فرمایا۔ ابوہریرہ مسجد میں جاؤ اور اگر کوئی اور بھی بھوکا ہو تو اسے بُلا لاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں مَیں نے دل میں کہا کہ مَیں تو یہ سمجھتا تھا کہ مجھ اکیلے کو یہ تمام دودھ مل جائے گا مگر اب تو اوروں کو بھی بلا لیا گیا ہے۔ نہ معلوم میرے لئے دودھ بچے یا نہ بچے۔ خیر مَیں مسجد میں گیا تو وہاں چھ آدمی اور مل گئے۔ میں نے کہا اب مصیبت آئی آگے تو یہ خیال تھا کہ اگر ایک آدمی ملا تو خیر آدھا دودھ وہ پی لے گا۔ آدھا میں پی لوں گا مگر یہاں تو اکٹھے چھ مل گئے ہیں۔ یہ اگر پینے لگے تو میرے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا مگر چونکہ رسول کریمﷺ کا حکم تھا اس لئے میں ان کو ساتھ لے کر گیا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ چھ بھی میری طرح بھوکے بیٹھے ہیں۔ اس موقع پر رسول کریمﷺ نے انہیں کیا عجیب سبق دیا۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ یہ دودھ کا پیالہ لو اور پہلے ان میں سے ایک کو پلاؤ۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں۔ میں نے دل میں کہا بس اب میں مارا گیا میرے لئے بھلا کیا بچے گا۔ چنانچہ پہلے ایک نے پینا شروع کیا اور پیتا چلا گیا۔ میں نے سمجھا شاید یہ شرافت کر کے کچھ دودھ چھوڑ دے تو میرے پینے کے کام آ جائے مگر جب وہ پی چکا تو رسول کریمﷺنے وہ پیالہ دوسرے کو دے دیا، پھر تیسرے کو، پھر چوتھے پانچویں اور چھٹے کو اور میں کانپتا چلا جاؤں کہ نہ معلوم میرے لئے بھی کچھ بچتا ہے یا نہیں آخر جب وہ سب پی چکے تو رسول کریمﷺنے مجھے پیالہ دیا اور میں نے دیکھا کہ وہ اسی طرح لَبَا لَبْ بھرا ہوء ا ہے جس طرح پہلے تھا۔ آخر مَیں نے دودھ پینا شروع کر دیا اور پیتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا پیٹ بھر گیا اور میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اب میں سیر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا نہیں اور پیو چنانچہ میں نے پھر پینا شروع کر دیا اور جب بہت پی چکا تو میں نے پھر کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اب تو پیٹ بھر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں اور پیو۔ چنانچہ میں نے پھر پیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوء ا کہ میری انگلیوں کی پوروںمیں سے بھی دودھ پھوٹ کر نکل رہاہے۔ آخر مَیں نے کہایَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اب تو میرے پیٹ میں کوئی گنجائش نہیں رہی۔ رسول کریمﷺ نے ہنس کر پیالہ مجھ سے لے لیا اور خود بقیہ دودھ پی گئے۔ ۷؎ اس طرح رسول کریمﷺ نے انہیں یہ سبق دیا کہ گو تم نے زبان سے سوال نہیں کیا مگر چونکہ اپنی شکل سے تم نے دوسروں سے مانگا ہے اس لئے تمہیں سب کے بعد حصہ دیا جائے گا۔ یہ واقعہ سنا کر حضرت ابوہریرہؓ فرمانے لگے۔ یہ میری حالت تھی مگر آج میری حالت کیا ہے۔
آج یہ حالت ہے کہ جس رومال میں مَیں نے تھوکا ہے۔ یہ کسریٰ شاہِ ایران کا رومال ہے اور رومال بھی ایسا قیمتی ہے کہ کسریٰ اسے ہر وقت اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنے سالانہ جشن کے موقع پر یہ رومال لیتا تھامگر آج وہ اس قدر قیمتی رومال میرے ہاتھ میں ہے اور میں کِس بیدردی سے اس میں تھوک رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے اس میں تھوکا تو مجھے اپنی گزشتہ حالت یاد آ گئی اور میں نے کہا بخِ بخِ ابوہریرہ آج تو تیری بڑی شان ہے۔ اب اگر ابوہریرہؓ کو ان قربانیوں کے وقت جو انہوں نے اسلام کے لئے ابتدائً زمانہ میں کیں یہ معلوم ہوتا کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں وہ ایک دن کسریٰ کے رومال میں تھوکیں گے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ان قربانیوں سے بھی بڑھ کر اسلام کیلئے قربانیاں کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو جاتے۔ اگر ابوسفیان کو پتہ ہوتا کہ محمد رسول اللہﷺکی غلامی کے نتیجہ میں اس کا لڑکا معاویہ ایک دن عرب کا بادشاہ بننے والا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بجائے مخالفت کرنے کے وہ تلوار لے کر محمد رسول اللہﷺ کے لشکر کے آگے آگے چلتا۔ مگر وہ کیوں لڑ رہا تھا؟ صرف اسی لئے کہ اسے مستقبل کا علم نہیں تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم اپنے مستقبل سے آگا ہ ہو جاؤ۔ اگر ہم وہ پردہ اٹھا دیں جو اس وقت تمہاری آنکھوں پر پڑا ہوء ا ہے اگر تمہیں نظر آنے لگے کہ تمہارے کالے کلوٹے بچے جن کی آنکھوں میں گید بھری ہوئی ہے اور ناک ان کے بہہ رہے ہیں کسی دن دنیا کے بادشاہ بننے والے ہیں تو تم قربانیاں کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر لو مگر ہم تمہیں وہ بتاتے نہیں صرف اتنا بتا دیتے ہیں کہ ان قربانیوں کا نتیجہ تمہارے لئے بہت بہتر ہو گا اور اگر تمہیں اپنا مستقبل نظر آ جائے تو تم ان قربانیوں کو بالکل حقیر اور ذلیل سمجھو۔
پھر فرماتا ہے فرماتاہے آئے تھے تم سب موء من بن کر مگر چونکہ کام ذرا لمبا ہو گیا اس لئے تمہارے قدم ڈگمگانے لگ گئے ہیں تم سمجھتے تھے کہ ادھر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور ادھر دس دن کے اندر ہی اندر ساری دنیا کے بادشاہ بن گئے۔ یہاں کا لفظ منافع کے معنوں میں استعمال ہوئاہے یعنی اگر ان کے منافع اور مطلب سھل الحصول ہوتے اور دین کی خدمت کا سفر چھوٹا ہوتا تو وہ تیرے ساتھ چل پڑتے۔ یہاں کا لفظ ظاہری معنوں پر بھی مشتمل ہے اور باطنی معنوں پر بھی ۔ یعنی اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹا سفر ہوتا تو وہ تیرے ساتھ چل پڑتے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اگر تیرے راستہ میں مشکلات نہ ہوتیں اور انہیں کئی قسم کی قربانیاں نہ کرنی پڑتیں تو وہ آسانی سے تیرے ساتھ شامل ہوتے۔ مگر چونکہ تیرا راستہ کٹھن اور سخت دشوار ہے اس لئے وہ تیرے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ نہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ :۔
’’مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں۔ ‘‘۹؎
جو جدا ہونے والے ہیں وہ جُدا ہو جائیں اور مجھے میرے خدا پر چھوڑ دیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم نے دیانت داری سے احمدیت کو قبول کیا ہے، اگر تم یقین رکھتے ہو کہ سلسلہ احمدیہ سچا ہے، اگر تم سمجھتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدا تعالیٰ کی پیروی ہے اور مسیح موعود کی پیروی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ تو اے مردو اور عورتو! تم تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد میں میرے ساتھ تعاون کرو اور انصار اللہ بن جاؤ۔ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں۔ اگر تم میرے ان مطالبات پر عمل کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر راضی کر لو گے اور اگر تم ان مطالبات پر عمل نہیں کرو گے تو اپنے خدا کو اپنے اوپر ناراض کر لو گے۔ (الفضل ۱۶؍ جون ۱۹۵۹ء)
۱؎ التوبۃ:۳۸،۳۹ ۲؎ الصّٰفّٰت:۸ ۴ ۳؎؎ الجمعۃ: ۴
۴؎ التوبۃ:۴۰ ۵؎ التوبۃ: ۴۱
۶؎ بخاری کتاب الاعتصام باب ماذکر النبی ﷺ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺ (الخ)
۸؎ التوبۃ: ۴۲
۹؎ انوارالاسلام صفحہ۲۳،۲۴ روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۲۳،۲۴


احباب جماعت
اور
اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
احباب جماعت
اور
اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب
(تحریر فرمودہ۱۱؍نومبر ۱۹۳۸ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سب سے پہلے مَیں بھی مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ ۱؎ کے مطابق تینوں اداروں کے اساتذہ و طلباء کا اس تقریب کے پیدا کرنے اور ان جذبات کی وجہ سے جو اس تقریب کے پیدا کرنے کے مُحرّک تھے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو وہی تحفہ ئاسلامی جو ایسے مواقع پر پیش کیا جاتا ہے اور جو بہترین اور مبارک تحفہ ہے پیش کرتا ہوں یعنی جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔
تینوں ایڈریس جو اس وقت پیش کئے گئے ہیں وہ گو تین مختلف اداروں کی طرف سے ہیں لیکن تینوں نے اپنے اپنے رنگ میں اتحاد کی صورت پیدا کر لی ہے اور وہ راہ نکال لی ہے جو تعلقات کو ان لوگوں سے وابستہ کرتی ہے جن کی آمد پر یہ ایڈریس پیش ہوئے ہیں۔ تینوں ایڈریس سنتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ان ایڈریسوں میں ان کی وہی حیثیت بیان کی گئی ہے جو حضرت بابانانک ؒ کی ہے یعنی ہندو انہیں ہندو کہتے ہیں اور مسلمان مسلمان۔ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ نے ان کو جوڑ توڑ کر اپنے اندر شامل کر لیا ہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب خوش ہو گئے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس حقیقی روح کو سمجھیں جو احمدیت نے ہم میں پیدا کی ہے تو پھر کسی قسم کی علیحدگی ہم میں نہیں رہتی اور یہ سارے ادارے اور کارخانے ایک ہو جاتے ہیں۔ جب کسی شخص کے ہاتھ کو اندھیرے میںکوئی دوسرا شخص چُھوے ء اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ کہے گا مَیں ہوں۔ یا اس شخص کی ٹانگ کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو تو وہ یہی کہے گا کہ مَیں ہوں۔ یا اس شخص کے سر کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ میں کسے ہاتھ لگا رہا ہوں تو وہ کہے گا کہ مجھے۔ یا اس کی پیٹھ پر ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ پھر بھی یہی کہے گا کہ مَیں ہوں۔ گویا ان سب سوالات کے پیچھے ایک ہی جواب ہو گا۔ اسی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو جسم کے باقی اعضاء کو بھی تکلیف ہوتی ہے۲؎ بے شک رقابت اچھی چیز ہے قرآن مجید نے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ ِ ۳؎ کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر ہر امر میں رقابت کا حکم نہیں صرف خیرات۔ یعنی نیکیوں میں رقابت کا سبق دیا گیا ہے۔ گویا خیرات کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مسابقت کی ایک نرالی شکل بنا دی ہے۔ ہر وہ مسابقت جو اپنی ذات میں بُرائی رکھتی ہے اس حکم سے نکل جاتی ہے۔ ہر وہ مقابلہ یا مسابقت جس میں حسد ہو یا عداوت ہو وہ میں داخل نہیں کیونکہ میں صرف نیکیوں میں مسابقت اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ پس تمام وہ مسابقتیں اور وہ مقابلے جن کے نتائج میں حسد،عِناد اور بُغض پیدا ہوتا ہے اس حکم کے دائرے سے خارج ہیں۔ صرف وہی مسابقتیں اور مقابلے جائز اور درست اور مفید ہیں جن کے نتیجے خیر اور نیکی پیدا کرتے ہیں پس گویہ ادارے مختلف ہیں مگر حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ یہ جماعت کی ضرورتیں ہیں جن کو مختلف شکلیں دی گئی ہیں۔ ایک ادارہ اگر جماعت کا سینہ ہے تو دوسرا پاؤں ہے۔ اسی طرح یہ سب ادارے جماعت کے لئے اعضاء ہیں کوئی کان ہے، کوئی ناک، کوئی سر ہے تو کوئی آنکھیں۔ غرض یہ ساری چیزیں درحقیقت ایک جسم ہیں جن کے پیچھے ایک مَیں ہے جو بول رہی ہے اور وہ مَیں احمدیت ہے جو سب اداروں پر چھائی ہوئی ہے۔ ان میں کسی ادارہ کا نقص احمدیت میں نقص پیدا کرتا ہے اور ان میں سے کسی کا کمال احمدیت کا کمال ہوتا ہے پس گونام جُدا جُدا ہیں لیکن حقیقت ان کی ایک ہی ہے۔
مولوی شیر علی صاحبؓ دو اڑھائی سال کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں۔ مولوی صاحب ایسے کام کیلئے باہر بھیجے گئے تھے جو اس وقت جماعت کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کام کا مشکل حصہ یعنی ترجمہ کا کام پورا ہو چکا ہے اب دوسرا کام نوٹوں کا ہے جو لکھے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپ میں جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو واپس بُلا لیا جائے تاکہ وہ یہاں آ کر کام کریں ایسا نہ ہو کہ جنگ کی صورت میں رستے بند ہو جائیں۔ پس دوستوں کی بہترین دعوت تو یہ ہے کہ مولوی صاحب جلد سے جلد اس کام کو ختم کریں تاکہ یہ ایک ہی اعتراض جو مخالفین کی طرف سے جماعت پر کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک ایک بھی قرآنِ مجید کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا دور ہو جائے اور ہماری انگریزی تفسیر شائع ہو جائے۔
درد صاحب ایک لمبے عرصے کے بعد واپس آئے ہیں ۱۹۳۳ء کے شروع میں وہ گئے تھے اور اب ۱۹۳۸ء کے آخر میں واپس آئے ہیں ان دونوں سالوں کا درمیانی فاصلہ پونے چھ سال کا بنتا ہے اور پونے چھ سال کا عرصہ انسانی زندگی میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ باپ کی عدم موجودگی میں اولاد کی تربیت میں نقص پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے اخلاق پر بُرا اثر پڑ جاتا ہے۔ بعض دفعہ گھر سے ایسی تشویشناک خبریں موصول ہوتی ہیں جو انسان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہیں۔ عام لوگ ان مشکلات کو نہیں سمجھتے جو ایک مبلّغ کو ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو عام لوگ نہیں کر سکتے بلکہ اکثر اوقات اسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو دوسروں کے لئے ناممکن ہوتی ہیں۔ جماعت کے کئی آدمی ان قربانیوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اعتراض کر دیتے ہیں اگر وہ ان قربانیوں کی حقیقت کا اندازہ لگائیں تو وہ مبلّغوں کے ممنون ہوں۔ کئی دفعہ ان کو اپنے گھروں سے پریشان کرنے والی خبریں ملتی ہیں اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق ہدایات بھی دیتے ہیں مگر چونکہ خطوط کے پہنچنے میں ایک ایک دودو مہینے لگ جاتے ہیں ان کو فکر ہوتا ہے کہ ان کی ہدایات کے پہنچنے سے پہلے ان پر کیا گزرتی ہو گی انہیں اپنے بھائیوں کا فکر ہوتا ہے، اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا فکر ہوتا ہے۔ اس قدر لمبے فاصلہ کو جانے دو تم اتنے فاصلہ کاہی اندازہ لگا لو جو محلہ دارالفضل اور مدرسہ احمدیہ کے درمیان ہے اگر اتنے معمولی فاصلہ سے ہی تم میں سے کسی کو اپنے عزیز کے متعلق کوئی تشویشناک اطلاع ملے تو تم اس قدر گھبرا جاتے ہوکہ کسی سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے اور اگر راستے میں کوئی شخص تم سے بات کرنا چاہے تو تم جھٹ اس کو روک دو گے اور کہو گے کہ مجھے ایک ضروری کام ہے میں اس وقت بات نہیں کر سکتا۔ اگرتمہاری یہ حالت اس تھوڑسے سے فاصلہ پر ہو جاتی ہے تو پھر ان کا اندازہ کرو جو ہزاروں میل اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں۔
ان کے خاندان میں بھی وہی مشکلات پیش آئی ہیں جو تمہیں پیش آتی ہیں۔ ایسی پریشان کُن خبریں ان کو بھی اپنے عزیزوں کی طرف سے ملتی ہیں جیسے تمہیں ملتی ہیں مگر تم چند منٹ کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی راستہ میں تم سے بات کرنا چاہے تو تم اس کو روک دیتے ہو تو پھر ان کی کیفیت کا اندازہ لگاؤ جو ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہوتے ہیں اور جو اپنی خانگی پریشانیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے۔
غرض ہمارے مبلّغ جو خدمتِ دین کے لئے باہر جاتے ہیں ان کا جماعت پر بہت بڑا حق ہے نادان ہے جماعت کا وہ حصہ جو ان کے حقوق کو نہیں سمجھتا۔ یورپ کے لوگ ایسے لوگوں کو بیش بہا تنخواہیں دیتے اور ان کیلئے ہر قسم کے آرام و رہائش کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ جب ان کے ڈپلومیٹ یعنی سیاسی حکام اپنے مُلکوں میں واپس آتے ہیں تو ملک انکی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ فرانس کے ا یمبیسیڈ ر AMBASSADOR) (کی تنخواہ وزیراعظم کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے مگر جب وہ اپنے ملک میں آتا ہے تو اہل ملک اس کی قربانیوں کی اس قدر تعریف کرتے ہیں اور اس کے اس قدر ممنون ہوتے ہیں کہ گویا وہ فاقے کرتا رہا ہے اور بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد واپس آیا ہے۔ اور دُور جانے کی کیا ضرورت ہے ہندوستان کے وائسرائے کو دیکھو کہ اس کے کھانے اور آرام و آسائش کے اخراجات خود گورنمنٹ برداشت کرتی ہے اور بیس ہزار روپیہ ماہوار جیب خرچ کے طور پر اسے ملتے ہیں وہ پانچ سال کا عرصہ ہندوستان میں گزارتا ہے اور اس عرصہ میں بارہ لاکھ روپیہ لے کر چلا جاتا ہے صرف لباس پر اس کو اپنا خرچ کرنا پڑتا ہے یا اگر کسی جگہ کوئی چندہ وغیرہ دینا ہو تو دے دیتا ہے ورنہ باقی تمام اخراجات گورنمنٹ برداشت کرتی ہے لیکن باوجود اس کے جب وہ اپنے ملک کو واپس جاتا ہے تو اس کی قربانیوں کی تعریف میں ملک گونج اُٹھتا ہے اور ہر دل جذبہ تشکر و امتنان سے معمور ہوتا ہے اور یہ جذبہ ان میں اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ان کے جذبات کا پیالہ چھلکا کہ چھلکا۔ یہی گُر ہے قومی ترقی کا جب کسی قوم میں سے کوئی فرد ایک عزم لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری قوم میری قدر کرے گی۔ بیشک دینی خدمت گزاروں کو اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اگر ا س کی قوم اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں کرتی تو یہ اس قوم کی غلطی ہے۔ بیشک ایک مؤمن کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے اور پھر ایک ایسی قوم کا نمائندہ جو اپنے آپ کو نیک کہتی ہے، وہ تو ان خیالات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اس کو صرف اپنی ہی ذمہ واریوں کا احساس ہوتا ہے مگر اسلام نے جہاں فرد پر ذمہ داریاں رکھی ہیں وہاں قوم پر بھی ذمہ واریاں رکھی ہیں۔ جس طرح کسی فرد کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ واریوں کی پرواہ نہ کرے اسی طرح قوم کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ واریوں کی پرواہ نہ کرے۔ قوم کے فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم نے میری قربانیوں کی پرواہ نہیں کی اور اگر وہ یہ خیال اپنے دل میں لایا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے یہ کام کیا ہے خداتعالیٰ کے لئے نہیں کیا پس فرد کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے اور نہ فکر کے کسی حصہ میں کہ قوم نے میری قربانیوں کی پرواہ نہیں کی یا جیسا کہ میری خدمت کرنے کا حق تھا وہ اس نے ادا نہیں کیا ایسا آدمی اپنے کئے کرائے پر خود پانی پھیر دیتا ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرد پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اسی طرح قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں اور وہ یہ کہ قوم اس فرد کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرے کیونکہ قوم بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے جیسے فرد۔
اسلام نے دونوں کی شخصیتیں تسلیم کی ہیں وہ قوم کی بھی ایک قانونی شخصیت تسلیم کرتا ہے اور فرد کی بھی۔ اس زمانہ میں یورپ والے اس قسم کی شخصیتوں کے ثابت کرنے پر بہت نازاں ہیں چنانچہ حال ہی میں مسجد شہید گنج کو ایک قانونی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ امر آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے اسلام نے پیش کیا تھا یہ وہی امر ہے جسے ہمارے فقہی فرضِ کفایہ کہتے ہیں۔
فرضِ کفایہ میں قوم کو ایک شخصی حیثیت دی جاتی ہے اگر کسی قوم کے بعض افراد میں خوبی ہو تو وہ خوبی اس قوم کی طرف منسوب ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کے افراد میں کوئی عیب ہوتا ہے تو وہ عیب اس قوم کی طرف منسوب ہو جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے۔ مثلاً زید صرف زید کے ہاتھوں یا پاؤں کا نام نہیں بلکہ اس کے اعضاء سر، آنکھیں، ناک، کان، منہ، سینہ، پیٹھ اور ٹانگوں کے مجموعہ کا نام ہے۔
غرض اسلام نے فرضِ کفایہ میں قومی کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اس کی رو سے اسلام نے فرد پر بھی بعض حقوق رکھے ہیں۔ اور قوم پر بھی بعض حقوق رکھے ہیں دوسرے جس طرح فرد ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے ویسے ہی قوم بھی ایک قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ فرد بے شک حقیقی وجود بھی ہے اور قانونی وجود بھی اور اس کے مقابل پر قوم صرف قانونی وجود ہے حقیقی وجود نہیں مگر اس پر قانونی وجود کے لحاظ سے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے قوم کے ایک فرد پر۔
اسلام نے بعض امور کے کرنے کا قوم کو حکم دیا ہے اگر قوم کے افراد میں سے بعض نے وہ امور سرانجام دے دیئے تو اس صورت میں ساری قوم بری الذمہ ہو جائے گی اور اگر کوئی فرد بھی وہ کام نہ کرے تو اس صورت میں ساری قوم پکڑی جائے گی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے اور قرآن مجید کی آیات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ جھوٹی قسم کھانے سے ملک برباد ہو جاتا ہے۴؎ حالانکہ جھوٹی قسم کھانے والا صرف ایک فرد ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں ملک کو قانونی وجود کے لحاظ سے تسلیم کیا گیا ہے قوم کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی نگرانی کرے اور اگر وہ نگرانی نہیں کرتی تو اس صورت میں گویا وہ اپنے ملک کو آپ تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہماری شریعت نے بعض مقامات پر قتل یا اسی قسم کے بعض اور جرائم کی سزا جرمانہ کی صورت میں رکھی ہے۔ اگر کوئی ان جرائم میں سے کسی کا مرتکب ہو اور وہ جرمانہ ادا نہ کر سکے تو اس صورت میں وہ جُرمانہ سب قوم سے وصول کیا جائے گا عملی طور پر بھی رسول کریم ﷺ نے ایسا کیا ہے کیونکہ فرد کا نقصان قوم کا نقصان ہے اور ا سکی تلافی بہرحال کسی طرح ہونی چاہئے۔ اگر وہ فرد یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے جُرم کا بدلہ جُرمانہ کی صورت میں ادا کرے تو پھر قوم کو اس کا جُرمانہ ادا کرنا ہو گا کیونکہ قوم پر ہر فرد کے ایسے افعال کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر قوم اس سے نقصان دلوا سکتی ہے تو دلوا دے ورنہ قوم کو اس نقصان کی تلافی کرنی ہو گی۔ اگر کوئی شخص جُرم کرے اور اس جُرم کے عوض میں اس پر دس ہزار روپیہ جُرمانہ کر دیا جائے اور اس کی حیثیت صرف دو ہزارروپے کی ہو تو وہ باقی رقم کہاں سے ادا کرے گا۔ اس صورت میں شریعت اس فعل کی ذمہ داری اس کی قوم پر ڈالتی ہے جس کا وہ فرد ہے اس کی قوم باقی روپیہ جمع کر کے اس کے نقصان کی تلافی میں ادا کرے گی۔ تو اسلام نے قانونی وجود کو بڑی وضاحت سے تسلیم کیا ہے نادان لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر کیا ذمہ داری ہے حالانکہ اسلام نے شخصی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے اور قانونی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت کے افراد میں اس کا احساس نہیں ہوتا وہ ان مبلّغین کی قربانیوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے یہ کام سب افرادِ جماعت پر فرض ہے مبلّغین اس کام کو بطور فرض کفایہ کرتے ہیں وہ جہاں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں وہاں قوم کی ذمہ داری کو بھی ادا کرتے ہیں۔ ہمارے سب مبلّغین جو انگلستان ، امریکہ ،افریقہ، عرب اور دیگر ممالک میں تبلیغ کرتے ہیں وہ فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں اور ہماری طرف سے اس ذمہ داری کو جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے ادا کرتے ہیں اور جب وہ ہمارا کام کرتے ہیں تو ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم ان کا حق ادا کریں۔
پس مَیں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو خصوصاً اور دوسرے احباب کو عموماً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ملک اور قوم کے قانونی وجود کو سمجھیں۔ آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں اور مبلّغین کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتے ان کے نزدیک گویا یہ لوگ ان کے باپ دادوں کا قرضہ اُتار رہے ہیں وہ اپنی نادانی سے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں۔
ایسے لوگوں کی مثال اُس عورت کی سی ہے جو ایک اور عورت کے گھر آٹا پیسنے کے لئے گئی اُس نے اُس سے چکی مانگی گھر کی مالکہ نے اُسے چکی دے دی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ رات آٹا پیستے پیستے تھک گئی ہو گی اور اس کی مدد کروں۔ چنانچہ اُس نے اُسے کہا کہ بہن تم تھک گئی ہو گی تم ذرا آرام کر لو مَیں تمہاری جگہ چکی پیستی ہوں۔ وہ عورت چکی پر سے اُٹھ بیٹھی اور اِدھر اُدھر پِھرتی رہی اچانک اُس کی نظر ایک رومال پر جا پڑی جس میں روٹیاں تھیں اُس نے وہ رومال کھولا اور گھر کی مالکہ کو کہا بہن! میرا کام کرتی ہے تو میں تیرا کام کرتی ہوں اور یہ کہہ کر اُس نے روٹی کھانی شروع کر دی۔ تو بعض لوگ اِس قسم کی روح ظاہر کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ مبلّغ کا شکریہ ادا کریں اور اس کی قربانیوںکی قدر کریں وہ ان پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں گویا وہ مبلّغ اُن کے باپ داداے کا قرض دار تھا اور اب وہ قرضہ ادا کر رہا ہے اور اگر اُس نے قرضہ کی ادائیگی میں ذرا بھی سُستی دکھائی تو اُس کے گلے میں پٹکا ڈال کر وصول کر لیا جائے گا۔ اِس قسم کے اعتراضات کرنے والے بڑے بے شرم ہیں وہ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ یہ ہمارا حق ادا کر رہا ہے اور جس کام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اسے یہ سرانجام دے رہا ہے۔ وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں اور اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ایسے لوگ قومی شخصیت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے صرف فردی شخصیت کو سمجھتے ہیں پس ہماری جماعت کے ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کی اصل حقیقت سے واقف ہونا چاہئے۔
ان ایڈریسوں میں ہمارے بچوں کے آنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جسمانی طور پر بچوں کا آنا بے شک خوشی کا موجب ہوتا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مَیں غلط بیانی کروں گا اگر کہوں کہ مجھے ان بچوں کے آنے کی خوشی نہیں ہوئی۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ایسے موقع پر خوش نہ ہو باپ یا بھائی یا بیٹے کے آنے کے علاوہ کسی کا کوئی دوست بھی آئے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہ ہوں لیکن جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے اُس نے ہم میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ صرف جسمانی ہمارے دلوں میں حقیقی راحت پیدا نہیں کر سکتا۔ بے شک ایسے مواقع پر انسان کو خوشی ہوتی ہے اور بہت سا اطمینان بھی انسان حاصل کر لیتا ہے لیکن پھر بھی درمیان میں ایک پردہ حائل ہوتا ہے جو بعض دفعہ ہمارے کو میں تبدیل کر دیتا ہے پس حقیقی خوشی ہمیں اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اِس پردہ کوبھی دُور نہ کیا جائے۔ اس ایڈریس میں مظفر احمد سَلَّمَہٗ رَبُّہٗ کی آمد اور اس کی کامیابی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ میں اس موقع پر انہیں ان کے ہی ایک قول کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا پہلے وہ زبانی تھا اور اب اس پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ مظفر احمد جب آئی۔سی۔ایس میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ نوکری انہیں پسند نہیں تو انہوں نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم یہ نہیں کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر سے ایک طرف ہو جائیں ہم دنیا میں جس غرض کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس کے لئے بحیثیت جماعت ہم پر فرض ہے کہ ہم دُنیوی طور پر بھی سلسلہ کے اصولوں کی خوبیاں ثابت کریں اور اگر ہم دنیا کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں تو پھر ہم اپنے اصولوں کی خوبیاں ثابت نہیں کر سکتے۔
پس ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس رنگ میں بھی دنیا میں اپنے اصول کی خوبیاں ثابت کریں۔ ملازمت کرنا کوئی معیوب امر نہیں بلکہ اگر کوئی شخص بِلاوجہ ملازمت کو ترک کر دیتا ہے تو ایسے آدمی کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں کہلا سکتی۔ البتہ وہ شخص جسے سچ بولنے کی عادت ہو اور اُس کا کار انصاف پر مبنی ہو، اگر اُس سے ظلم کروانے اور جھوٹ بُلوانے کی کوشش کی جائے اور ایسا شخص نوکری چھوڑ دے تو اس کی قربانی حقیقی قربانی ہو گی کیونکہ اُس نے تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمت کو ترک کیا ہے۔
ایک اور بات یہ بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ جب کسی کو کوئی اعلیٰ ملازمت ملتی ہے تو اُس میں ایک قسم کا پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں اور غریب بھی ہیں۔ ترقی ملنے سے بعض لوگوں میں اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غریبوں سے ملنا عار سمجھنے لگ جاتے ہیں ایسے لوگ درحقیقت انسانیت سے بھی جاتے رہتے ہیں۔ پس پہلی ذمہ داری جو اِن پر عائد ہوتی ہے وہ احمدیت کی ہے۔ احمدیت کا کام ساری دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے اور پھر ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار ہے اس لئے ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے۔ تم جب ایک احمدی سے ملو تو تمہیں ایسی ہی خوشی حاصل ہو جیسے اپنے بھائی سے ملتے وقت ہوتی ہے لیکن چونکہ بعض ادنیٰ درجہ کے لوگ اخلاقِ فاضلہ کو چھوڑ کر ناجائز فائدہ کے حصول کی بھی کوشش کیا کرتے ہیں اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو ملحوظ رکھو اور انصاف سے کام لو اور ایسی سفارشوں سے اپنے کانوں کو بہرہ رکھو۔ ایک اور بات ان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہر قوم اپنے ماحول میں ترقی کرتی ہے دوسروں کے ماحول میں ترقی نہیں کر سکتی جو شخص دوسروں کے ماحول کو لے کر ترقی کرتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا آدمی چل بسا ہے۔ یعنی کمال اتا تُرک اس شخص نے اپنے وطن اور قوم کے لئے بڑی خدمات کی تھیں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو اس کی قربانیوں کو عظمت اور احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو مگر ایک خطرناک غلطی اس سے یہ ہوئی کہ اس نے اپنی قوم میں مغربیت کا اثر قائم کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس نے تُرکوں کو جسمانی آزادی دلادی مگر ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے تُرکوں کو ذہنی غلام بھی بنا دیا ہمیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ ہم جن مقاصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مقصد مغربی تمدن کو کُچلنا بھی ہے۔ مغربی تمدن اِس وقت دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے ہمیں اس سے کسی صورت میں بھی متاء ثر نہیں ہونا چاہئے۔ پھر مغربی تمدن بھی ایک نہیں۔ فرانس کا تمدن جُدا ہے، جرمنی کا تمدن الگ ہے، انگریزوں کا تمدن اَور ہے۔ فرانس والے چُپ رہنا پسند نہیں کرتے اور انگریز بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ میرے اپنے سفر کا ہی واقعہ ہے کہ جب مَیں روم سے سوار ہوء ا تومیرے ساتھ ایک یونانی تاجر بھی سوار تھا وہ کپڑوں کا تاجر تھا اور مدت سے انگلستان میں رہتا تھا اس لئے اس کا تمدن اور بودوباش بالکل انگریزوں کی طرح تھی۔ ایک اور شخص فرانس کا رہنے والا تھا وہ ہمارے ساتھ ہی سوار ہوء ا۔ اُن دنوں جب میں واپس آ رہا تھا تو انگریزی اخباروں میں میری تصویریں چھپ جایا کرتی تھیں اور میرے گزرنے کے پروگرام شائع ہو جاتے تھے۔ جب ہم ایک اسٹیشن پر پہنچے تو چند مستورات ہمارے کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہاں بڑے آدمی کو پرنس یعنی شہزادہ کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ ان مستورات نے مجھ سے پوچھا کہ پرنس جو ہندوستان سے آیا ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے انہیں کہا مجھے تو علم نہیں۔ وہ عورتیں چلی گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئیں اور کہنے لگیں آپ نے ہم سے دھوکا کیا ہے آپ ہی تو پرنس ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے اخباروں میں مجھے میری تصاویر دکھائیں جن کے نیچے پرنس لکھا ہوء ا تھا۔ ان مستورات نے میرا لباس دیکھ کر ہنسنا شروع کیا تووہ انگریز جو اصل میں تو یونانی تھا اور لمبے عرصہ سے انگلستان میں رہنے کی وجہ سے انگریزی تمدن اختیار کر چکا تھا اُس کے منہ سے غصہ کی وجہ سے جھاگ نکلنے لگ گئی اور کہنے لگا کہ یہ لوگ کس قدر نالائق ہیں ان کو بات کرنی نہیں آتی۔ وہ غصہ میں اس قدر بڑھ گیا کہ قریب تھا کہ وہ اُن سے لڑ پڑتا۔ میں نے فرانسیسی کو جو میرے پاس ہی بیٹھا تھا کہا کہ اِس کو سمجھائیں کہ یہ مجھے دیکھنے آئی ہیں نہ کہ تمہیں، تمہیں کیوں اِس قدر غصہ آتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس فرانسیسی نے دو لفافے جن میں میوہ تھا نکالے اور کہا کہ کھائیے۔ اُس نے بہت اصرار کیا کہ ضرور کھاؤ۔ وہ انگریز پھر لال سُرخ ہو گیا کہ یہ کس قدر بدتہذیب ہے ایک تو واقف نہیں دوسرے بے وقت چیز کھاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا تمدن علیحدہ علیحدہ ہے۔ ہمارا تمدن اسلامی تمدن ہے اور وہی حقیقی تمدن ہے جسے رائج کرنا چاہئے۔
پھر مَیں ناصر احمد اور مبارک احمد کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے لئے ملازمت کرنے کے بغیر ہی دین کی خدمت کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ انہیں ان مواقع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور سب سے پہلی بات جو اِن کو یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا رُتبہ احمدی ہونے کا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لُوٹ لی ہے اور وہ لوگ بھی جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نواب زادے ہیں یہ دونوں قسم کے لوگ جھوٹے ہیں ہم نے کبھی کسی کا روپیہ نہیں کھایا اور نہ ہی ہم نواب زادے ہیں۔
پس تم احمدی ہونے کے سِوا کسی اور وجہ سے کسی قسم کی فضیلت دوسروں پر نہیں رکھتے۔ جو دوسروں کا مارا ہوء ا شکار کھاتا ہے وہ معزز نہیں ہوتا۔ میرے کسی فعل کی وجہ سے یا جو عزت اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے اس کی وجہ سے صرف تمدنی طور پر تمہیں فائدہ ہو سکتا ہے ورنہ حقیقی طور پر اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ یہ چیزیں حقیقی طور پر صرف میری ذات سے وابستہ ہیں۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے حقیقی طور پر عزت حاصل نہیں۔ وہ عزت تو تب ہوتی اگر مَیں اُن کی ماء موریت میں شریک ہوتا اور مَیں اُن کی ماء موریت میں شریک نہیں اور نہ کوئی شریک ہو سکتا ہے البتہ تمدنی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔
پس لوگوں کے اندر اپنے متعلق جذبۂ محبت پیدا کرنے کیلئے تم اپنے اندر کمال پیدا کرو۔ میرے اندر کوئی کمال ہے تو اس سے حقیقی طور پر تم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے وہ چیز تو طفیلی ہے۔ ایک شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت کرتا ہے ہماری بھی عزت کرے گا یا میری خلافت کی وجہ سے جن لوگوں میں جذبۂ محبت پایا جاتا ہے وہ تم سے میری اولاد ہونے کی وجہ سے محبت کریں گے مگر یہ محبت اور یہ عزت طفیلی چیز ہے۔ یہ محبت اور عزت تو ایسی ہی ہے جیسے کسی بڑے افسر کے چپڑاسی کی عزت کی جاتی ہے۔ اس کا علم ان لوگوں کو ہوتا ہے جو افسروں سے ملتے ہیں۔بڑے بڑے نواب افسروں کو ملنے جاتے ہیں تو چپڑاسی بہت بُری طرح ان سے پیش آتے ہیں حالانکہ ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہوتی اور خصوصاً چھوٹے افسروں کو تو وہ بہت ذلیل کرتے ہیں۔ جب کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ماتحت افسر ملنے آتے ہیں تو چپڑاسی انہیں تنگ کرتے ہیں اور بعض دفعہ شورمچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں صاحب کام کر رہے ہیں یا سو رہے ہیں اُس وقت ایک چپڑاسی بھی حکومت جتا رہا ہوتا ہے مگر تم جانتے ہو کہ وہ کس قدر حقیر بات کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کو کس قدر ذلیل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ پس ایسی عزت بھی جو دماغ پر بُرا اثر ڈالے کوئی عزت نہیں بلکہ لوگ ایسے شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پس جیسے کسی بڑے افسر کے چپڑاسی کے خلاف جذبۂ پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر تم نے بھی اپنے اندر کوئی کمال داخل نہ کیا تو تم بھی اسی جذبہ کے قابل ہو گے۔
ہم دُنیوی لحاظ سے ایک معمولی زمیندار ہیں ہماری اس سے زیادہ حیثیت نہیں۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لُوٹ لی ہے وہ جھوٹے اور فریبی ہیں جس چیز نے ہمیں روپیہ دیا ہے وہ احمدیت ہے۔ احمدیت سے قبل ہماری زمینوں کی موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے کوئی قیمت نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تو آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق یہاں کی آبادی بڑھی اور زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہو گئیں۔ باہر جن زمینوں کی سَو دو سَو روپیہ قیمت ہے یہاں اُس کی قیمت ہزار دو ہزار ہے اور اگر یہ زمینیں مہنگی نہ ہوتیں تو تم تینوں اِس قدر تعلیم بھی حاصل نہ کر سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت قادیان کی آبادی بڑھی، زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہوئیں تو تم اِس قابل ہو گئے کہ اس قدر اعلیٰ تعلیم حاصل کرو۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ پنجاب میں ہمارا خاندان بہت معزز تھا اِس کا اقرار غیراحمدیوں اور غیرمُسلموں کو بھی ہے۔ پرنس آف ویلز جب ہندوستان آئے تو میں بھی انہیں ملنے گیا تھا۔ جب ملاقات کا وقت آیا تو میں نے اپنی سوٹی نیچے رکھنی چاہی اِس پر ایک سِکھ نے جسے راجہ کا خطاب ملا ہوء ا تھا مجھے کہا کہ آپ بڑے آدمی ہیں اور پنجاب کے معزز خاندان سے ہیں آپ سوٹی نہ رکھیں کیا ہوء ا اگر وہ شہزادہ ویلز ہے۔تو پنجاب میں کوئی بھی پُرانا اور معزز خاندان ہمارے خاندان کی طرح نہیں مگر روپیہ ہمارے پاس نہیں۔ پہلے ہمیں سکھوں نے لُوٹا، پھر انگریزوں نے لُوٹا، ان دو لُوٹوں کی وجہ سے ہماری دُنیوی حیثیت کم ہو گئی اور ایک معمولی زمیندار کی حیثیت پر آ گئے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف نہ لاتے تو ہماری ایک زمیندار سے زیادہ عزت نہ ہوتی۔ پھر زمیندار بھی ایسا جس کی زمینیں نہری نہیں ہیں۔ پس اِن زمینوں کی قیمتیں صرف احمدیت کی وجہ سے بڑھیں اس کے بعد تم اس قابل ہوئے کہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکو اس لئے تم کسی احمدی کے ممنونِ احسان نہیں مگر احمدیت کے ضرور ممنونِ احسان ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ تمہاری گردنیںکسی انسان کے سامنے نہیں جُھک سکتیں مگر تمہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب کچھ تمہیں احمدیت کی وجہ سے ملا ہے۔
ایک اور بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ غربا ء سے ملتے رہنا چاہئے۔ ہماری جماعت کا بڑا حصہ چونکہ غرباء پر مشتمل ہے اس لئے ان سے ملنا ضروری ہے اگر تم ان میں مل کر رہو اور ان کی تربیت کا کام کرو تو تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو۔ ایاز ایک مشہور جرنیل محمود غزنوی کا تھا لوگوں نے محمود کے پاس اُس کی شکایتیں کیں۔ ایاز ایک غلام تھا مگر اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے جرنیل ہو گیا حتیّٰ کہ وہ فنانس منسٹر (وزیر خزانہ) ہو گیا۔ لوگوں کو کچھ حسد تھا اس لئے انہوں نے محمود کے پاس شکایتیں کیں کہ وہ رات کو ہمیشہ اکیلا خزانے میں جاتا ہے اور قیمتی اشیاء وہاں سے چُرا لیتا ہے۔ یہ شکایتیں محمود کے پاس اس کثرت سے پہنچیں کہ اُسے ایاز پر بدظنی ہو گئی۔ ایک دن بادشاہ رات کے وقت خزانہ میں داخل ہو گیا اور باہر سے تالا لگوا دیا اور ایک پوشیدہ جگہ پر چُھپ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد ایاز آیا اور اندر داخل ہو گیا۔ بادشاہ کی بدظنّی اَور بھی بڑھ گئی اور سمجھا کہ لوگوں کی شکایتیں صحیح ہیں مگر اس نے اپنے دل میں کہا کہ ابھی دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا کرتا ہے۔ ایاز نے ایک کنجی لی اور اس سے ایک ٹرنک کھولا، پھر اس میں سے ایک اور صندوقچی نکالی اور اسے کھولا اور اس میں سے ایک بُغْچہ ۵؎ نکالا جس کے اندر ایک پھٹی ہوئی گدڑی تھی، ایاز نے اپنا شاہی لباس اُتارا اور وہ گدڑی پہن لی۔ اس کے بعد اس نے مصلّٰی بچھایا اور نماز پڑھنی شروع کر دی اور اس نے نماز میں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! مَیں اِس گدڑی میں اس شہر میں داخل ہوء ا تھااور آج نے اپنے فضل سے مجھے وزارت کا عہدہ عطا فرمایا ہے اور اتنی عزت دی ہے کہ اس جگہ پر آنے سے مجھے محمود غزنوی کے سِوا اور کوئی نہیں روک سکتا۔ مَیں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ نے مجھے اپنے فضل سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور اے خدا! مجھے اِس بات کی بھی توفیق عطا فرما کہ جس بادشاہ نے مجھ پر اتنا رحم کیا ہے اُس کی دیانتداری سے خدمت کروں۔ محمود نے جب ایاز کی یہ دعا سُنی تو اس کے پاؤں سَوسَو من کے ہو گئے اور اُس نے دل میں کہا کہ میں نے کتنے قیمتی جوہر پر بدظنی کی ہے۔ ایاز نماز پڑھ کر اور گدڑی کو پھر اسی جگہ رکھ کر اور اپنا لباس پہن کر چلا گیا بعدازاں محمود وہاں سے اُٹھا اور واپس آیا اور اس نے پہرہ داروں کو کہا کہ خبردار میرے آنے کا ایاز کو علم نہ ہو مگر اس تمام تر خدمت کے باوجود ایاز غلام ہی کہلاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم اپنے آپ کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی بندے کا غلام ہونے سے بچاکر صرف اپنی غلامی بخشی۔
یہ کتنا بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کا۔ اس کے بعد بھی اگر تم اپنے رب کو کوئی الگ وجود سمجھو تو تم سے زیادہ احمق اور جاہل کوئی نہیں ہو گا ہماری سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ سے ہیں اور کوئی امتیاز ہم میں نہیں بعض کاموں کی مجبوریوں کے لحاظ سے ایک افسر بنا دیا جاتا ہے اور دوسرا ماتحت ورنہ حقیقی امتیاز ہم میں کوئی نہیں۔ حقیقی بڑائی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے خاندان کی وجہ سے نہیں۔ ہمارا خاندان دہلی کے شاہی خاندان سے بڑا نہیں گو ہم انہی میں سے ہی ہیں مگر وہ بہرحال بادشاہ تھے اور بادشاہ رُتبہ میں بڑے ہوتے ہیں مگر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دہلی کے شہزادے بازاروں میں لوگوں کو پِلاتے پھرتے ہیں اور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ مر جانے کی صورت میں ان کے لئے کفن بھی مہیا نہیں ہوتا۔ان کے ہمسائے گورنمنٹ کو لکھ دیتے ہیں کہ یہ فلاں بادشاہ کا پوتا بغیر کفن کے مرا پڑا ہے اس کیلئے کفن دیا جائے اور گورنمنٹ اس کیلئے کفن مہیا کر دیتی ہے۔ یہ بڑائیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور جب وہ چاہتا ہے چھین بھی لیتا ہے۔ پس عزت کا جو چوغہ تم پہنو وہ دوسروں سے مانگا ہوء ا نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہوء ا چوغہ ہے تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو۔ وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی ۶؎ تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے۔ غرض تم احمدیت کے خادم بنو پھر اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی تم معزز ہو گے اور دنیا بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے گی۔ کہتے ہیں ایک احمق اپنے باپ سے لڑ پڑا باپ نے اس کو زجر کیا۔ بیٹے نے آگے سے کہا تم ایک غریب کے بیٹے ہو اور میں ایک نواب کا بیٹا ہوں حالانکہ اس کو وہ عزت اپنے باپ کی وجہ سے ہی ملی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو رتبہ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے اگر ہم صرف اسی کو اپنی عزت سمجھ لیں تو یہ عزت ہماری مانگی ہوئی ہو گی۔ حقیقی عزت تبھی ہو گی جب ہم اس میں اپنا کمال بھی ملا لیں ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کیلئے خالص چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ۷؎ لیکن اگر اس میں کوئی اور چیز ملا لی جائے تو پھر اس کا پہننا جائز ہو جاتا ہے۔ اس طرح باپ دادے کی عزت حقیقی عزت نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں اپنا پیتل بھی شامل نہ کر لیا جائے۔ اسی طرح خالص ریشم پہننا بھی جائز نہیں مگر وہ ریشمی کپڑا جس میں ایک تارسُوت کا بھی ہو اس کا پہننا جائز ہو جاتا ہے تو باپ دادے کی عزت کو اپنی طرف منسوب کرنا حقیقی عزت نہیں جب تک اس میں انسان اپنا کمال بھی داخل نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر سے وہ آواز اٹھائی جس کے سننے کیلئے تیرہ سَو سال سے مسلمانوں کے کان ترس رہے تھے اور وہ فرشتے نازل ہوئے جن کے نزول کیلئے جیلانی ،غزالی ؓاور ابن العربی ؓکے دل للچاتے رہے مگر ان پر نازل نہ ہوئے گو بے شک یہ بہت بڑی عزت ہے مگر اس کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ایک طفیلی چیز ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی اولاد اپنے باپ دادوں کی عزتوں کو اپنی عزت کہتے ہیں حالانکہ دراصل وہ ان کیلئے عزت نہیں ہوتی بلکہ *** ہوتی ہے۔
رسول کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون لوگ زیادہ اشرف ہیں؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو تمہارے اندر اشرف ہیں بشرطیکہ ان میں تقویٰ ہو ۸؎ تو رسول کریم ﷺ نے بھی پہلی قسم کی عزت کو تسلیم فرمایا ہے مگر حقیقی عزت وہی تسلیم فرمائی ہے جس میں ذاتی جوہر بھی مل جائے۔ پس تم اپنے اندر ذاتی جوہر پیدا کرو۔ جماعت احمدیہ کے ہر فردکا خیال رکھو، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں، امتیاز خدمت کرنے میں ہے حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدمت کی اللہ تعالیٰ نے آپؑ پر فضل نازل فرمایا۔ تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کرے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
منہ از بہر ماکرسی کہ مأموریم خدمت را
یعنی میرے لئے کُرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کیلئے پیدا کیا گیا ہوں اسی طرح تم بھی کُرسیوں پر بیٹھنے کے نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر سمجھو۔
خود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر ان کو فائدہ پہنچاؤ اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ ان کو بھی سکھاؤ۔ ’’مل کر‘‘ میں نے اس لئے کہا ہے کہ انگریز بھی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانیوں کو پڑھاتے ہیں۔ مجھے کئی دفعہ ان سے ملنے کا موقع ملا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ تم لوگ ہم میں مل کر نہیں پڑھاتے بلکہ اپنے آپ کو کوئی باہر کی چیز خیال کر کے ہماری تربیت کرتے ہو اس لئے اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پس میں تم کو مل کر تربیت کرنے کیلئے کہتا ہوں۔ جماعت میں بعض کمزور دوست بھی ہوتے ہیں ان میں اسلام کی حقیقی روح کا پیدا کرنا بہت ہی ضروری کام ہے۔ جماعت کو علومِ دینیہ سے واقف کرنا ،عرفانِ الٰہی کی منازل سے آگاہ کرنا، خدمت خلق، محبت الٰہی اور اسلام کی حکمتوں کا بیان کرنا بہت بڑا کام ہے۔ اسی طرح جماعت میں ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا بھی ایک ضروری کام ہے۔یہ ایسے کام ہیں جن سے تم لوگوں کی نظروں میں ہو جاؤ گے۔ جماعت میں کئی آدمی اخلاق کے لحاظ سے کمزور ہیں ان کو اخلاق کی درستی کی تعلیم دو، اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جو تحریک جماعت میں ہوتی ہے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو، بعض لوگ رسم و رواج میں مبتلا ء ہوتے ہیں ان کو ان رسوم سے چُھڑانے کی کوشش کرو بے شک اس کام کو سرانجام دینے میں بڑی مشکلات ہیں جیسے نئے بچھیرے پر زِین باندھا جاتا ہے تو وہ بھاگتا ہے کُودتا ہے اس لئے کہ اس کو عادت نہیں ہوتی حالانکہ اس پر زین باندھنا اس کی خوبصورتی اور قیمت کو زیادہ کرنے کیلئے ہوتا ہے مگر چونکہ وہ اس کو سمجھتا نہیں اس لئے بھاگتا ہے لیکن جب وہ عادی ہو جاتا ہے تو وہی گھوڑا جو سَو دو سَو کا ہوتا ہے بعد میں پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ دو لاکھ تک اس کی قیمت پہنچ جاتی ہے۔ ہماری جماعت کے جو لوگ رسم و رواج کے مرض میں گرفتار ہیں ان کو اس سے آزاد کرنا بالکل ایسا ہی ہے۔
پس تم پر بڑی ذمہ واریاں ہیں جن کو پورا کرنے سے تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو مگر یہ عزت حاصل کرنا اس وجہ سے نہیں کہ تم میری اولاد ہو اور نہ اس وجہ سے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے افراد ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جسمانی تعلق کے علاوہ رسول کریم ﷺ جو آپ کے آقا ہیں ان سے بھی جسمانی تعلق کسی کی حقیقی عزت نہیں کہلا سکتا۔ میں بچہ تھا کہ ہمارے گھر ایک عورت آئی اس نے پانی مانگا۔ اس کو حضرت (اماں جان) نے پانی دیا۔ اس نے کہا کہ تم جانتی نہیں میں سیدانی ہوں اور آل رسول ہوں مجھے تم امتیوں کے گلاس میں پانی پلاتی ہو۔ میں نے جب اس کے منہ سے یہ بات سنی تو میرے دل میں اس کے متعلق عزت کا جذبہ پیدا نہیں ہوء ا بلکہ مجھے اس سے شدید نفرت پیدا ہوئی۔ پس تم رسول کریم ﷺ کے ساتھ بھی جسمانی تعلق کی وجہ سے حقیقی عزت حاصل نہیں کر سکتے ہاں یہ طفیلی عزت ضرور ہے۔ حقیقی عزت اس وقت ہوتی ہے جب اس میں اپنا کمال بھی داخل کیا جائے۔ پس تم حقیقی عزت حاصل کرنے کی کوشش کرو جماعت کی خدمت کرو اگر تم اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم دوہرے اجر کے مستحق ہو گے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دین کو قبول کر لو تو تم کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر اعراض کرو گے اور اس دین کو ردّ کردو گے تو پھر عذاب بھی دوہرا ہے۔ پس تمہارا تعلیم کے بعد واپس آنا تم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے تم لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سچائی کی تلقین کرو اور جماعت سے جہالت دور کرو اور اپنے فرائض کی طرف جلد سے جلد توجہ کرو۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا صرف خدا کا رحم ہی ہے جو میرے کام بھی آ سکتا ہے اور تمہارے کام بھی آ سکتا ہے۔
(الفضل ۷ تا ۹ ؍اپریل ۱۹۶۱ء)
۱؎ ترمذی ابواب البرّوالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لِمَنْ احسن الیک۔
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم
۳؎ البقرۃ: ۱۴۹
۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۲۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۵؎ بُغْچہ :چھوٹی گٹھڑی
۶؎ الاعراف: ۲۷
۷؎ ترمذی ابواب اللباس باب ماجاء فی الحریر (الخ)
۸؎ بخاری کتاب المناقب باب قول اللّٰہ تعالیٰ یایھا النّاس انّا خلقنٰکم…



آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحَمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور امنِ عالَم
(تقریر فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سیرۃ النبیؐ بمقام قادیان)
اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود ایک ایسا وجود ہے جو دنیا کی نظروں کو آپ ہی آپ اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی توجہ کو کھینچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لوگ اس کام کے لئے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں مگر پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ شاید دولت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے گی اور وہ دولتوں کے انبار لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی دنیا کی توجہ اُن کی طرف نہیں کِھنچتی۔ زیادہ سے زیادہ چند چوروں، ڈاکوئوں، اور لالچیوںکی نگاہیں اُن کی طرف اُٹھ جاتی ہیں، چند خوشامدی ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر وہ جن کی رائے کوئی وقعت رکھتی ہے ان کی طرف سے بالکل غافل اور لاپرواہ رہتے ہیں۔ پھر بعض لوگ عجیب قسم کے دعوے کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید اِس وجہ سے لوگ ان کی طرف توجہ کریں مگر اوّل تو لوگ ان کی بات سنتے ہی نہیں اور اگر سُنیں تو پُر معنی مسکراہٹ کے ساتھ آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی خاص توجہ ان کی طرف نہیں کرتے۔ پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے دعووں سے شاید لوگوں کی توجہ وہ اپنی طرف کھینچ سکیں گے چنانچہ وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ رسول تو دنیا میں بہت گزرے ہیں مگر چونکہ اپنے زمانہ میں رسول بھی ایک بہت بڑی ہستی ہوتا ہے اس لئے وہ رسالت کا دعویٰ کر دیتے ہیں اور جب اس طرح بھی کام نہیں چلتا تو خدائی کے دعویدار بن جاتے ہیں مگر پھر بھی دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی۔
مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے جو آجکل کے مدعیان میں سے ہے خط لکھا جس میں اُس نے مجھے بہت کچھ کوسا اور کہا کہ مَیں یہ نہیں کہتا آپ میرے دعوے کی تصدیق کریں ،میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ میری تعریف کریں مگر یہ کیا ہے کہ میں متواتر اشتہار شائع کر رہا ہوں اور آپ اس کی تردید بھی نہیں کرتے۔ میں نے اُسے جواب دیا کہ لوگوں میں تردید کرنے کی رُوح کا پیدا ہو جانا بھی خدا کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے جو آپ کو میسّرنہیں۔
مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ایک ایسی ذات ہے کہ دنیا خواہ مخالفت کرے خواہ موافقت، بہرحال وہ آپ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور رہی ہے اور مجبور ہے۔ جو مخالفت کرنے والے ہیں وہ تو مخالفانہ جذبات سے پُر ہی ہیں مگر جن کے دلوں میں محبت ہے وہ اس رنگ کی محبت ہے کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُن کے کانوں میں پڑتا ہے اُن کے دلوں میں عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے اندر کوئی تلاطم پیدا ہو گیا ہے اس تلاطم کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے۔ صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا اور آپ کو پہچانا مگر دیکھنے سے میری مراد صرف جسمانی طور پر دیکھنا نہیں بلکہ میری مُراد ان لوگوں سے ہے جنہوں نے عقل کی آنکھوں سے آپ کو دیکھا اور عرفان کی آنکھ سے آپ کو پہچانا جب کبھی وہ رسول کریم ﷺکا نام سنیں یا جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کے پاس سے گزریں اُس وقت ان کی کیفیت بالکل اور ہو جاتی ہے اور وہ یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ مادی دنیا سے جُدا ہو کر ایک اور عالَم میں آ گئے ہیں۔
دو سال کے قریب کی بات ہے میں کراچی گیا تو وہاں ایک دن کچھ ایسی ہوا چلی جو عرب کی طرف سے آ رہی تھی معاً اس ہوا نے میرے دل میں ایک حرکت پیدا کر دی اور میں نے کہا یہ ہوا اُدھر سے آ رہی ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رہا کرتے تھے۔ پھر میں انہی خیالات میں محو ہو گیا اور اُس وقت آپ ہی آپ ایک دو شعرمیری زبان پر جاری ہو گئے جن کو اُسی وقت میں نے لکھ لیا۔ ان اشعار میں سادہ الفاظ میں اپنے جذبات کا مَیں نے اظہار کیا ہے، شاعرانہ تعلّیاں نہیں۔ بعد میں چونکہ مَیں اور کاموں میں مصروف ہو گیا اس لئے میں نے جس قدر اشعار کہے تھے اُسی قدر رہے اور اُن میں اضافہ نہ ہو سکا۔ بہرحال جب وہ ہوا آئی تو میں نے کہا۔
سمندر سے ہوائیں آ رہی ہیں
مرے دل کو بہت گرما رہی ہیں
عرب جو ہے مرے دلبر کا مسکن
بوئے خوش اُس کی لے کر آ رہی ہیں
بشارت دینے سب خورد و کلاں کو
اُچھلتی کُودتی وہ جا رہی ہیں
حقیقت یہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کے قلوب میں محبت نے ایک ایسا پلٹا کھایا ہے کہ وہ پہلی محبتیں جو دلوں میں پائی جاتی تھیں، اُن کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ محبت کا مادہ ایک فطرتی مادہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب میں اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ بندے کو اپنے رب کی طرف توجہ دلائے۔ جب تک اصل چیز نہیں ملتی انسان درمیانی چیزوں سے اس جذبہ کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں دیکھا کہ ایک عورت بہت ہی اضطراب اور اضطرار کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہی ہے وہ جہاں کوئی بچہ دیکھتی اُسے اُٹھاتی، سینہ سے لگاتی اور پھر دیوانہ وار تلاش میں مصروف ہو جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نگاہ اُٹھائی اور آپ اُسے دیکھتے رہے جہاں اسے کوئی بچہ نظر آتا وہ اسے اُٹھاتی، سینہ سے لگاتی اور پھر آگے کی طرف چل دیتی یہاں تک کہ اُسے ایک بچہ نظر آیا جسے اُس نے سینہ سے لگایا اور پھر وہ اسے سینہ سے چمٹائے اس میدانِ جنگ میں ایسے اطمینان سے بیٹھ گئی کہ اُسے خیال ہی نہ رہا کہ یہاں جنگ ہو رہی ہے۔ وہ دنیا وَمَافِیْہَا سے بے خبر اپنے بچہ کوگود میں لئے میدانِ جنگ میں بیٹھی رہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا تم نے اس عورت کو دیکھا جب تک اسے اپنا بچہ نہیں ملا تھا یہ اس کی یاد میں ہر بچہ کو اُٹھاتی، اسے پیار کرتی اور اپنے سینہ سے چمٹاتی مگر اسے تسکین نہیں ہوتی تھی لیکن جب اسے اپنا بچہ مل گیا تو اس نے اسے اپنے سینہ سے لگالیا اور یوںبیٹھ گئی کہ دنیا وَ مَافِیْہَاکی اسے کوئی خبر نہ رہی پھر آپ نے فرمایا جس طرح اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے خوشی ہوئی ہے ایسی ہی خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا کوئی گنہگار بندہ توبہ کر کے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ۱؎
اِس مثال سے جہاں اور کئی قسم کے سبق ملتے ہیں وہاں ایک سبق اس سے یہ بھی ملتا ہے کہ جب تک حقیقی محبوب نہیں ملتا انسان عارضی طور پر دوسرے محبوبوں سے دل لگا کر اپنے دل کی جلن دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ اور اُس کے رسول کی محبت کا جذبہ جو حقیقی ہے جب تک پیدا نہیں ہوتا انسان دوسری محبتوں سے اپنے دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اسے حقیقی محبوب جو خدا ہے مل جاتا ہے تو اُس وقت وہ سمجھتا ہے کہ جس چیز کا نام لوگوں نے عشقِ مجاز رکھا ہوء ا ہے وہ بالکل بے حقیقت ہے۔ ایک دفعہ اس خیال کے ماتحت میں نے ایک شعر اس کے متعلق بھی کہا جو یہ ہے کہ:۔
نظر آ رہی ہے چمک وہ حسنِ ازل کی شمع مجاز میں
کہ کوئی بھی اب تومزا نہیں رہا قیس عشقِ مجاز میں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے اندر خدائی نور دیکھنے کے بعد دنیا کی محبتیں ایسی سرد ہو گئی ہیں کہ ان میںکوئی لُطف نہیں رہا جب تک حقیقی کا جلوہ نظر نہیں آیا تھا دنیا عشقِ مجازی سے تسلی پاتی تھی مگرجب حقیقی کا چہرہ اُس نے دیکھ لیا تو مجازی محبوب اس کی نگاہ میں حقیر ہو گئے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو ایک بزرگ صحابی نے نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شعروں کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے تمام گورنروں کے نام چِٹھی لکھی کہ عرب کے جس قدر مشہور شعراء ہیں اُن سے کہو کہ وہ اپنا تازہ کلام مجھے بھجوائیں۔ ایک گورنر کو جب یہ چِٹھی پہنچی تو اُس نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ یہاں کون کون سے بڑے شاعر ہیں۔ ان لوگوںنے دو شاعروں کے نام بتائے جن میں ایک سبعہ معلّقات کے شعراء میں سے تھے۔ اس گورنر نے ان دونوں شاعروں کو لکھا کہ حضرت عمرؓ نے آپ لوگوں کا تازہ کلام منگوایا ہے کچھ اشعار کہہ کر بھیج دو۔ اس پر دوسرے شاعر نے تو ایک تازہ نظم بنا کر بھیج دی، مگر یہ شاعر جن کا نام لبید تھا اور جو عرب کے بہترین شاعروں میں سے تھے، اُن شاعروں میں سے کہ جب وہ مکہ میں آتے تو علماء و ادباء کا ہجوم اُن کے گِرد ہو جاتا اور سب انہیں باپ کی سی حیثیت دیتے انہوں نے جواب میں لکھا کہ میرا قصیدہ تو یہ ہے ۔ ۲؎
گورنر کو اُن کی اِس حرکت پر سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لکھا کہ میں نے حضرت عمرؓ کا آپ کو پیغام بھجوایا ہے یہ میرا پیغام نہیں، آپ ضرور اپنا تازہ کلام مجھے بھیجیں تا مَیں حضرت عمرؓ کو بھجوا دوں۔ انہوں نے پھر لکھا کہ تازہ کلام یہی ہے۔اس پر گورنر نے اُن کو سزا دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ ایک شاعر نے تو چند شعر بھجوائے ہیں جو مَیں آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں مگر لبید نے آپ کے پیغام کے جواب میں قرآن کریم کی چند ابتدائی آیات لکھ کر بھجوا دی تھیں جس پر مَیں نے انہیں جُرمانہ کیا ہے اور ان کا وظیفہ بند کر دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گورنر پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا لبید نے تو ہم کو سبق دیا ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد شعر و شاعری سب ختم ہو گئی اور اب جو کچھ ہے قرآن ہی ہے مگر تم نے بجائے انہیں کوئی انعام دینے کے اُلٹا ان کا وظیفہ بند کر دیا ہم حُکم دیتے ہیں کہ ان کا وظیفہ دُگنا کر دیا جائے۔ ۳؎ حقیقت یہی ہے کہ جو کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کے آنے کے بعد دنیا کی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیمی لحاظ سے وہ کلام ہو گیا جو آپ لائے اور نمونہ کے لحاظ سے آپ کی ذات ہوگئی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ دنیا کے لئے اُسوہ تھے اور آپ کے وجود ہی کو دنیا اپنے آگے رکھ کر چل سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔
یہ مضمون جو اِس وقت میرے سامنے ہے اتنے پہلوئوں پر مشتمل ہے کہ کسی ایک تقریر یا مضمون میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک سمندر ہے اور اتنا وسیع مضمون ہے کہ کئی سالوں تک اس کے مختلف پہلوئوں پر تقریریں کی جا سکتی ہیں پس یہ تو ناممکن ہے کہ کوئی ایسا مضمون بیان کیا جائے جس میں بِالاستیعاب تمام باتیں آ جائیں ہاں اصولی طور پر چند باتیں بیان کی جا سکتی ہیں اس لئے مَیں بھی اصولی رنگ میں چند باتیں اِس عنوان کے متعلق بیان کر دیتا ہوں۔
امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ کوشش کرتی چلی آئی ہے۔ یا تو دنیا بیرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے یا جب بیرونی امن کے لئے جدوجہد نہیں کر رہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہو چکی ہوتی ہے تو اندرونی امن کیلئے جدوجہد کرتی ہے چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اور عالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتا ہے کہ اور تو ہمیں سب کچھ میسّر ہے مگر دل کا امن نصیب نہیں۔ پس امن صرف بیرونی ہی نہیں ہوتا بلکہ دل کا بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اُس وقت تک ظاہری امن کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ مثلاً اس عورت کی مثال لے لو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر اسے ہر قسم کی دُنیوی نعمتیں میسّر ہوتیں، عالیشان محل میں وہ رہتی، ہزاروں خادم اُس کے پاس موجود ہوتے، ہر قسم کے کھانے اس کے اِردگرد ہوتے، عمدہ لباس اُس کے زیبِ تن ہوتا، دولت کی فراوانی ہوتی، آرائش کا سامان اُس کے پاس بکثرت ہوتا لیکن فرض کرو اس کا بچہ گمشدہ ہوتا تو وہ کھویا ہوء ا بچہ اس کے امن کو بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتا اور دولت کے انبار، آرائش کے سامان، کھانے پینے کی اشیاء کی کثرت، خدمت گاروں کی موجودگی اور عالیشان محل میں قیام اس کے دل کو ذرا بھی چین نہ دے سکتے۔ سو ظاہری امن اپنی ذات میں اُس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک باطنی امن اس کے ساتھ نہ ہو۔ ہمیشہ وہی امن، امن کہلا سکتا ہے جو ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے امن دینے والا ہو۔
اِس وقت دنیا میں ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ امن کے خواہشمند ہیں لیکن امن ان کو میسّر نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مُخْتَلِفُ الْاَنْوَاع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو، اُس وقت تک سب لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں ان متضاد خواہشوں اور متضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایسے متضاد اور مخالف خیالات کی موجودگی میں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو جو امن دینے کا ارادہ رکھتی ہو اگر یہ بات نہ ہو تو کبھی امن میسّر نہیں آ سکتا۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذرا اِدھر اُدھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہوولہان ہو جاتے ہیں۔ کسی کے کلے پر زخم ہوتا ہے ،کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں ،کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، کسی کی آنکھ سُوجی ہوئی ہوتی ہے مگر جب ماں باپ آتے ہیں تو ان کے سامنے ایسی پوپلی شکلیں بنا کر بیٹھ جاتے ہیں گویا وہ لڑائی جھگڑے کو جانتے ہی نہیں اس لئے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں۔ پس درحقیقت امن اُس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جو امن کی متمنی ہو اور جو دوسروں کو امن دینا چاہتی ہو اور ایسے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہو جو امن دینے والے ہوں اور وہی شخص حقیقی امن دینے والا قرار پا سکتا ہے جو اس ہستی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہوء ا کہ خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والا بھی ہے۔ چنانچہ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جو نام گِنا ئے گئے ہیں ان میں سے ایک نام یہ بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۴؎ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! لوگوں کو توجہ دلا اُس خدا کی طرف جو بادشاہ ہے، پاک ہے اور یعنی دنیاکو امن دینے والا اور تمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے۔ یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یا فساد کریں، بلکہ وہ امن شِکن کو سزا دیتے اور امن قائم رکھنے والے بچے سے پیار کرتے ہیں۔ اس طرح تمہارے اوپر بھی ایک خدا ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں، تمہارے ارادے مختلف ہیں، تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں، تمہاری خواہشیں مختلف ہیں اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہو کر امن شِکن حرکات پر تیار ہو جاتے ہو، مگر یاد رکھو خدا ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتا وہ سلام ہے جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اُس وقت تک وہ اس کا محبوب نہیں ہو سکتا۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدا نہیں کر دیا کرتی کیونکہ بِالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کیلئے نہیں ہوتی۔ چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں دولت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے اچھی چیز ہے اور جب وہ کہتے ہیں صحت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہوتے کہ میرے دشمن کی صحت اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق تو انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ نادار اور کمزور ہو۔ اسی طرح جب لوگ عزت و رُتبہ کے متمنی ہوتے ہیں تو ہر شخص کیلئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے۔ پس جب دنیا کا یہ حال ہے تو خالی امن کی خواہش بھی فساد کا موجب ہو سکتی ہے کیونکہ جو لوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ اس رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اور ان کی قوم کو امن حاصل رہے ورنہ دشمن کیلئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹا دیں۔ اب اگر اس اصل کو رائج کر دیا جائے تو دنیا میں جو بھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوں کا امن ہوگا۔ ساری دنیا کا نہیں ہوگا اور جو ساری دنیا کا امن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلا سکتا۔ حقیقی امن تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لئے ہی امن نہیںچاہتی بلکہ ساری دنیا کیلئے امن چاہتی ہے اور جو میرے ملک کے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے مُلکوں کیلئے امن چاہتی ہے اور اگر میں صرف اپنے لئے یا صرف اپنی قوم کیلئے یا صرف اپنے ملک کیلئے امن کا متمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اس کی مدد، اس کی نصرت اور اس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہو جائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ پس کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی ارادوں کو پاک و صاف کر دیا اور یہ تسلیم شُدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اُس وقت تک کام بھی درست نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں اِس وقت جتنے فساد اور لڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں۔ وہ منہ سے جو باتیں کرتے ہیں ان کے مطابق اُن کی خواہشات نہیںاور ان کی خواہشات کے مطابق اُن کے اقوال و افعال نہیں۔ آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تو یہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف سے جنگ کی ابتداء ہو تو یہ کوئی بُری بات نہیں سمجھی جاتی اور یہ نقص اِسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارا فائدہ ہے ہم اِن باتوں پر عمل کریں گے مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تو اسے ردّ کر دیں گے۔ پس یہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کو لا سکتا ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن سے رہیں۔ جب ہمارا یہ عقیدہ ہوگا تو اُس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہونگی بلکہ دنیا کو عام نفع پہنچانے والی ہونگی، اِس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان، بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ ساری دنیا پر اس کا کیا اثر ہے۔ یوں تو دنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایساکرنے کی جراء ت اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر مَیں نے ایسا کیا تو ایک بالا ہستی مجھے کُچل کر رکھ دے گی۔ جیسے ایک بچہ جب دوسرے کا کھلونا چھین لیتا ہے تو وہ اپنے لئے امن حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کا امن چھینا جاتا ہے اور ایک تو خوش ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا رو رہا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیں گے؟ وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ جس بچہ نے کھلونا چھینا ہوگا اس سے کھلونا واپس لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جو دوسرے کے امن کو برباد کر کے حاصل کیا جاتا ہے وہ کبھی قائم رہنے والا نہیں اور حقیقی امن وہی ہے جو ایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیا ہو۔
غرض حقیقی امن اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی تسلیم نہ کی جائے اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور اسی نے کہا ہے ۔
اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتا ہے کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کا پتہ مل گیا تو انسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان بھی کیا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیں کیا تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اِس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ بجائے امن کے فساد پیدا کر دیں۔ پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں رکھ سکتی جب تک ایک بالا ہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جو امن قائم کرنے میں مُمِدّ اور معاون ہوں کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو تو انسان باوجود اِس آرزو کے کہ وہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا۔ پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تو معلوم ہو لیکن اُس خواہش کو پورا کرنے کا طریق معلوم نہ ہو تب بھی ہمارا امن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اور طریق اختیار کریں اور اس کا منشاء کوئی اور طریق اختیار کرنا ہو۔ پس ہمارے امن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بالا ہستی ہمیں کوئی ایسا ذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والا ہو سو اِس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایسا ذریعہ بتایا ہے یا نہیں، تو سورہ بقرہ میں ہمیں اِس کا جواب نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵؎یعنی یہ جو آسمان پر السلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کیلئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جو دنیا کو امن دینے والا ہوتا سو ہم نے بیت اللہ کو مدرسہ بنایا ہے یہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہونگے اور امن کا سبق سیکھیں گے۔ پس ہمارے خدا نے صرف خواہش ہی نہیں کی، صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کرو ورنہ مَیں تم کو سزا دوں گا بلکہ اِس دنیا میں اُس نے امن کا ایک مرکز بھی قائم کر دیا اور وہ خانہ کعبہ ہے۔ فرماتا ہے۔ یہاں لوگ آئیں گے اور اِس مدرسہ سے امن کا سبق سیکھیں گے۔
پھر یہ کہ اِس مدرسہ کی تعلیم کیا ہو گی؟ اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان فرما دیا کہ۶؎ یعنی اے لوگو! تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے تم کو یہ پتہ نہیں تھا کہ تم اپنے خدا کی مرضی کو کس طرح پورا کر سکتے ہو اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنا دیاہے مگر خالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتابیں نہ ہوں۔ پس فرمایا قَدْخدا کی طرف سے تمہاری طرف ایک نور آیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور اس کے ساتھ ایک مُبین ہے، ایسی کتاب جو ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اسلام کیلئے امن کا مدرسہ بھی قائم کر دیا، امن کا کورس بھی مقرر کر دیا اور مدرّسِ امن بھی بھیج دیا۔ مدرّسِ امن محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور امن کا کورس وہ کتاب ہے جو کی مصداق ہے۔ جو شخص خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اِس کتاب کو پڑھے اِس میں جس قدر سبق ہیں وہ یعنی سلامتی کے راستے ہیں اور کوئی ایک حُکم بھی ایسا نہیں جس پر عمل کر کے انسانی امن برباد ہو سکے۔
ایک بالا ہستی کا وجود ہمارے ارادوں کو درست کرتا ہے، مدرسہ کا قیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات اس کتاب کی عملی تفسیر ہے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہو سکتا ہے۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کس کیلئے ہے؟ اللہ تعالیٰ اِس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے ۷؎ یعنی اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ سب تعریف اُس اللہ کیلئے ہے جس نے دنیا میں امن قائم کر دیا اور انسان کی تڑپ اور فکر کو دُور کر دیا اور کہو وہ بندے جو خدا تعالیٰ کے پسندیدہ ہو جائیں اور اپنے آپ کو اس کی راہ میں فدا کر دیں اُن کے لئے بھی امن پیدا ہو جائے گا اور وہ بھی با امن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے۔ یہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا کہ تمام لوگ جو آپ کی اِتّباع کرنے والے اور آپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہیں ان کیلئے کامل امن ہے اور وہ اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے۔
پھر سوال پیداہوتا تھا کہ جب خدا سلام ہے تو اس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آنا چاہئے نہ کہ بعض کیلئے کیونکہ اگر خالی اپنوں کیلئے امن ہو تو یہ کوئی کامل امن نہیں کہلا سکتا۔ اس کا بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتا ہے فرمایا ۸؎ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک ایسی تعلیم لے کر آئے ہیں جو ساروں کیلئے ہی امن کا موجب ہے اور ہر شخص کیلئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے مگر افسوس کہ لوگ اس کو نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اور فساد کرتے ہیں جو اِن کیلئے نوید اور خوشخبری ہے۔ یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ خدایا !میں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کر آیا تھا مگر یہ قوم جس کے لئے مَیں امن کا پیغام لایا تھا یہ تو مجھے بھی امن نہیں دے رہی۔ امَنَ کے معنی ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور امَنَ کے معنی امن دینے کے بھی ہوتے ہیں۔ میں اسی امر کاذکر ہے کہ ہمارا نبی ہم سے پکار پکار کر کہتا ہے کہ خدایا! باوجود یکہ میں اپنی قوم کیلئے امن کا پیغام لایا تھا وہ اِس کی قدر کرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمربستہ ہوگئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو بالکل برباد کر دیا ہے۔ مگر فرمایا ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابھی ان لوگوں کو تیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اِس لئے وہ غصہ میں آ جاتے اور تیری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں تو اِن سے درگزر کر کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کیلئے ہی بھیجا ہے اور جب تجھ پر یہ حملہ کریں اور تجھے ماریں تو یہی کہتا رہ کہ مَیں تو تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں عنقریب دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) دنیا کیلئے امن لایا تھا لڑائی نہیں لائے تھے۔ گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لائے وہ صرف موء منوں کیلئے ہی امن نہ رہا بلکہ سب کیلئے امن ہو گیا۔
پھر صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی نہیں بلکہ عام مؤ منوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۹؎ وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں تو مؤ من کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہمارا بُرا ہی کیوں نہ چاہو۔ جب دشمن کہتا ہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کر رہے ہو تو وہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اور بیہودہ باتیں نہیں بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیلئے ہی نہیں بلکہ موء منوں کیلئے بھی ہے اور صرف موء منوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ سلامتی عارضی ہے یا مستقل؟کیونکہ یہ تو ہم نے مانا کہ ایک خدا سے امن لا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دنیا کو دیا مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کا مریض جب ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اُسے بڑا آرام محسوس ہوتا ہے مگر دو منٹ کے بعد یکدم اُس کا بخار تیز ہو جاتا ہے اور کہتا ہے آگ لگ گئی ہے۔ پھر برف پیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آرام آ گیا مگر یکدم پھر اُسے بے چینی شروع ہو جاتی ہے۔ پس سوال ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو امن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟ اِس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۱۰؎ کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ کیلئے ہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا امن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتا چلا جاتا ہے اور جو اِس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتا ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویا یہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے۔ اس کے ماضی میںایک سلام ہستی کھڑی ہے ،اس کے حال میںامن ہے کیونکہ ایک مدرسہ امن جاری ہو گیا ہے ایک مدرِّس امن خدا تعالیٰ نے بھیج کر امن کا کورس بھی مقرر کر دیا
اورعملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کر دی جو کی مصداق ہے۔ پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اور اس کے حاضر میں بھی امن ہے،پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے کیونکہ مرنے کے بعد وہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی پس یہ ساری زنجیر مکمل ہو گئی اور کوئی پہلو نہیں رہا۔
اس کے بعد امنِ حقیقی کے قیام کے ذرائع کا سوال آتا ہے۔ سو اِس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے فرماتا ہے ۱۱؎ کہ میرے دل کا امن کس طرح برباد ہو جائے ان بتوں کو دیکھ کر جن کو تم خدائے واحد کا شریک قرار دے رہے ہو حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طور پر مطمئن ہو اور خطرہ تمہارے اِردگرد ہے۔ پس اگر تم عدمِ علم اور جہالت کے باوجود مطمئن ہو اور تمہارا عدمِ علم تم کو امن دے سکتا ہے تو تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل عِلم مجھے امن نہیں بخش سکتا۔ تم بتائو کہ ان دونوں میں سے کس کو امن حاصل ہوگا۔ اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اور عقل و خرد سے کام لو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کون مأمون ہے اور کون غیرمأمون۔
اس جگہ امن کے قیام کیلئے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان گُر بیان کئے ہیں۔ اوّل یہ کہ توحیدِ کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک توحید قائم نہ ہوگی اُس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی۔ شرک کا صرف اتنا ہی مفہوم نہیں ہوگا کہ کوئی ایک کی بجائے تین خدائوں کا قائل ہو بلکہ جب باریک در باریک رنگ میں شرک شروع ہوتا ہے تو کئی کئی قسم کا شرک نظر آنے لگ جاتا ہے اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ،ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس حالت میں امن اُس وقت تک قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی موء اخات پیدا نہ ہو اور حقیقی موء اخات ایک خدا کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہو جاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرا دادا فلاں عظمت کا مالک تھا اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا دادا ایسا تھا مگر کبھی تم نے بھائیوں کو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اور تم نہیں۔ اسی طرح جب دنیا میں توحیدِ کامل ہوگی تبھی اِس قسم کی لڑائیاں بند ہونگی۔ پس اخوت و مساوات کا جو سبق توحید سے حاصل ہوتا ہے اَور کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق دشمن بھی یہ اقرار کرتا ہے کہ اخوت کا جو سبق آپ نے دیا وہ کسی اور نے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کا سبق الگ کر کے نہیں دیا بلکہ آپ نے اصل میں توحید کا سبق دیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوء ا کہ مسلمانوں میں اخوت پیدا ہو گئی۔ مثلاً جب میں نماز میں کہوں۱۲؎ سب تعریف اُس اللہ کی ہے جو عیسائیوں کا بھی ربّ ہے، ہندوئوں کا بھی ربّ ہے اور یہودیوں کا بھی ربّ ہے تو میرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ میں ربّ العٰلمین کے لفظ کے نیچے تمام قوموں، تمام نسلوں اور تمام مذہبوں کو لے آتا ہوں۔ میں جب نماز میںکہتا ہوں تو دوسرے الفاظ میں مَیں یہ کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْمَذَاہِبِ کُلِّھَا یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام مذاہب کا ربّ ہے۔ اسی طرح جب میں کہتا ہوں تو اِس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْاَقْوَامِ کُلِّھَا یعنی مَیں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام اقوام کا ربّ ہے۔ اسی طرح جب میںکہتا ہوں تو اِس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْبِلَادِ کُلِّھَا۔ یعنی میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو تمام مُلکوں کا ربّ ہے اور جب کہ میں تمام اقوام، تمام مُلکوں اور تمام لوگوں میں حُسن تسلیم کر وں گا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مَیں ان سے عداوت رکھ سکوں۔ پس میںبتا دیا گیا ہے کہ اگر حقیقی توحید قائم ہو اور ربّ العٰلمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اور ایک طرف تو وہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اور دوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف بھی کرے۔
دوسرا نکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایا ہے کہ یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتا ہے جب انسان فطرتی مذہب کو چھوڑ کر رسم و رواج کے پیچھے چل پڑتا ہے اگر انسان طبعی اور فطرتی باتوں پر قائم رہے تو کبھی لڑائیاں اور جھگڑے نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ جو دینِ فطرت ہوگا وہی دنیا میں امن قائم کر سکے گا اور وہی مذہب امن پھیلا سکے گا جس کا ایک ایک ٹکڑہ انسان کے دماغ میں ہو۔ آخر یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اُس تعلیم کی طرف بلائے جس کا جواب ہماری فطرت میں نہیں اور جس کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدا نے ہمارے دماغ اور ہمارے ذہن میں نہیں رکھا۔ پس فرمایا تم کہہ دو کہ تم ان تعلیموں کے پیچھے چل رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور مَیں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتا ہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں اب جوں جوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گا اُس کا دل پکار اُٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتاب ہے وہ بالکل سچی ہے کیونکہ اِس کا دوسرا نسخہ میرے ذہن میں بھی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آ جائے گی اور ایک ہی خیال پر متحد ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں امن قائم ہو جائے گا۔
اب ایک اور سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدرّسِ امن ہیں، بے شک آپ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کر دیا، بے شک امن کا کورس خدا نے مقرر کر دیا،بے شک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جسے دیکھ کر انسانی فطرت پُکار اُٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے مگر کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟
قرآن کریم اِس کا بھی جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ فرمایا ۱۳؎ کہ بے شک امن ایک قیمتی چیز ہے، بے شک اِس کی تعلیم خدا نے انسانی دماغ میں رکھی ہے مگر کبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہو جاتا ہے اور انسانی عقیدے مرکز سے اتنے پرے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ امن سے بالکل دور جا پڑتے ہیں اور نہ صرف امن سے دور جا پڑتے ہیں بلکہ حُریّتِ ضمیر کوبھی باطل کرنا چاہتے ہیں۔ فرماتا ہے ایسی حالت میں امن کے قیام اور اس کو وسعت دینے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ جو شرارتی ہیں ان کا مقابلہ کیا جائے۔ پس وہ جنگ امن مٹانے کیلئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کیلئے ہوگی۔ جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سَڑ،گل جائے تو فیس خرچ کر کے بھی انسان ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ اس عضو کو کاٹ دو۔ اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جو سرطان اور کینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ ان کا آپریشن کیا جائے تا وہ باقی قوم کو بھی گندہ اور ناپاک نہ کر دیں۔ پس فرمایا اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوں کو دُور نہ کرتا تو بجائے امن قائم ہونے کے فساد بڑھ جاتا۔ جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حُکم دیا جاتا ہے اسی طرح بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوںکو اجازت دیتے اور انہیں کہتے ہیں جائو اور لاٹھی چارج کرو اِس لئے کہ اگر لاٹھی چارج نہ کیا جاتا تو ساری دنیا کا امن برباد ہو جاتا۔ ۱۴؎ یعنی اللہ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو باامن دیکھنے کا خواہشمند ہے اور چونکہ ان لوگوں سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے، اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے تا ساری دنیا میں امن قائم ہو۔ بے شک اس کے نتیجہ میں خود ان لوگوں کا امن مٹ جائے گا مگر دنیا میں ہمیشہ موازنہ کیا جاتا ہے جب ایک بڑا فائدہ چھوٹے فائدے سے ٹکرا جائے تو اُس وقت بڑے فائدہ کو لے لیا جاتا ہے اور چھوٹے فائدہ کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کثیر دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اور اُس وقت تک اُسے نہیں چھوڑا جاتا جب تک وہ خلافِ امن حرکات سے باز نہ آ جائے۔
یہ ایک مختصر سا ڈھانچہ اُس تعلیم کا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامِ امن کے سلسلہ میں دی۔ میں نے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح دنیا میں امن قائم کیا اور کس طرح بدامنی کے اسباب کا آپ نے قلع قمع کیا۔ پس آپ کا وجود دنیا کا سب سے بڑا مُحسن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت کہ ۱۵؎ آپ پر درود بھیجیں اور کہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَُّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَُّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(ریویو آف ریلیجنز قادیان۔ جون ۱۹۳۹ء صفحہ۳ تا ۱۹)
۱؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ
۲؎ البقرۃ: ۲تا ۴
۳؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۲۶۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۴؎ الحشر: ۲۴ ۵؎ البقرۃ: ۱۲۶ ۶؎ المائدۃ: ۱۶،۱۷
۷؎ النمل: ۶۰ ۸؎ الزخرف: ۸۹،۹۰ ۹؎ الفرقان: ۶۴
۱۰؎ یونس: ۲۶ ۱۱؎ الانعام: ۸۲ ۱۲؎ الفاتحۃ: ۲
۱۳؎ البقرۃ: ۲۵۲ ۱۴؎ البقرۃ: ۲۵۲ ۱۵؎ الاحزاب: ۵۷








جماعتِ احمدیہ کی زندگی کا مقصد





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

جماعتِ احمدیہ کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی بادشاہت زمین میں بھی قائم ہو
(تقریر فرمودہ ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ)
تشہّد، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پہلے تو میں سب آنے والے دوستوں کو کہ ان میں سے بہت کو ابھی تک مجھ سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے اس سال پھر ہمیں اس امر کا موقع دیا کہ ہم اس کے نام کو بلند کرنے کیلئے اور اس کے دین کی شوکت کے اظہار کرنے کیلئے اس قصبہ میں جمع ہوئے ہیں جس کو اس نے اس وقت دنیا میں اشاعتِ اسلام کا مرکز بنایا ہے اور میں اسی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارا یہ اجتماع ہر قسم کی ریاء سے اور ہر قسم کی نمائش سے اور ہر قسم کی منافقت سے اور ہر قسم کی بُزدلی سے اور ہر قسم کی کمزوری سے اور ہر قسم کی خود پسندی سے اور ہر قسم کے کبر کے جذبات سے خالی ہو۔ ہمارے دلوں میں اور ہمارے ذہنوں میں وہی خیالات اور وہی ارادے اور وہی سکیمیں اور وہی پروگرام آئیں جو ہمارے رب کی مرضی کے مطابق ہوں اور جو ہمارے لئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔
اس سال جلسہ گاہ گزشتہ سال کی نسبت ۴۰ فٹ بڑھائی گئی ہے۔ اس حساب سے کئی ہزار فٹ جگہ گزشتہ سال سے زیادہ ہے مگر باوجود اس کے پہلے وقت میں جس قدر حاضری ہوتی ہے اس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جلسہ گاہ میں زیادتی کوئی زیادہ زیادتی ثابت نہ ہو گی بلکہ عین ضرورت کے مطابق ہی ہو گی۔ دنیا اپنی مخالفت میں طرح طرح سے جماعت کو تباہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، قسم قسم کے حیلوں اور تدبیروں سے ہمیں کمزور اور بے کس بنا دینے میں مصروف ہے مگر ہمارا خدا قادر و توانا خدا روزبروز بڑھاتا اور ترقی دیتا جا رہا ہے اور دشمن کے منصوبے بدگوئیاں اور اعتراضات ۱؎ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پھر اگر دشمن گالیاں دیں، بدزبانیاں کریں، ناپاک الزام لگائیں، تو سمجھنا چاہئے کہ ناکام و نامراد دشمن گالیاں ہی دیا کرتا ہے مگر فتح مند فوج مسکراتی ہوئی گزر جاتی ہے۔
پس ہماری جماعت کو ان امور کی پروا نہیں کرنی چاہئے بلکہ صبر و استقلال سے کام کرتے جانا چاہئے۔ ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے۔ اتنا بڑا کام کہ جو ہمیں اور ہماری حالت کو دیکھتے ہوئے بالکل ناممکن نظر آتا ہے۔
ہم نے دنیا کی موجودہ سلطنتوں کو، دنیا کے موجودہ مذاہب اور دنیا کے موجودہ تمدن کو، دنیا کی اقتصادی انجمنوں کے نظام کو اور ان سب کو بدل کر رسول کریم ﷺ کے لائے ہوئے نظام کو قائم کرنا ہے۔ ایسی حالت میں دنیا کی حکومتیں اور مذاہب کے ادارے ہماری مخالفت کریں تو طبعی تقاضا کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ حق بجانب ہیں کیونکہ انہیں نظر آ رہا ہے کہ ان کے لئے خدا کی طرف سے موت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور وہ پروانہ ہمارے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور اسے ہم لائے ہیں جن کو دنیا میں حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے۔اگر مخالفین ہمیں گالیاں دیں، ہماری باتوں سے چڑیں اور ہمیں دُکھ اور تکلیف پہنچانے میں لگ جائیں تو کوئی بعید بات نہیں مگر ہمارے سامنے ایک ہی بات ہونی چاہئے اور وہ یہ کہ ہم اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کریں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اور ہم اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو، اپنی طاقتوں اور سامانوں کو کُلّی طور پر اس لئے صرف کریں کہ خداتعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو۔ پہلے مسیح نے بھی یہ کہا تھا مگر افسوس کہ اس کی امت نے خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے کی بجائے اپنی ہواوہوس کی بادشاہت قائم کر لی۔ اب ہمارا کام ہے کہ وہ بات جو پھر اس زمانہ میں دُہرائی گئی ہے اس کے متعلق ثابت کر دیں کہ ہم نے اسے پہلے مسیح کے پیروؤں کی نسبت زیادہ دیانتداری کے ساتھ پورا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر کہہ سکیں کہ اے خدا! ہمارے کمزور اور ناتواں کندھوں پر تو نے جو بوجھ رکھا، اسے ہم نے تیرے ہی فضل سے اُٹھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ دنیا نے ہماری مخالفتیں کیں، ہمیں انتہائی تکلیفیں دیں مگر ہم نے ان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے کام کو پورا کیا۔ ہمارے دل زخمی ہیں اور ہم اس لئے تیرے پاس آئے ہیں کہ تو ان پر اپنی محبت کی مرہم لگا اور ہمیں اپنے وصل کا جام پلا۔ اگر ہم اس بات میں پورے اُتریں تو تمام مخالفتیں حقیر ہو جائیں گی، تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور جب ہم خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ مسکراتا ہؤا آگے بڑھے گا اور کہے گا آؤ میرے بندو آؤ۔ دنیا نے تمہیں حقیر و ذلیل سمجھا،تمہیں دُکھ دیئے، تمہارا نام و نشان مٹا دینا چاہا، اب تم آؤ اور میرے پاس بیٹھو اور وہ جنہوں نے تمہیں دکھ دیئے اور تمہیں حقیر سمجھا، وہ میرے دربار سے نکال دیئے جائیں گے اور انہیں ذلیل و حقیر قرار دیا جائے گا۔
پس تم گھبراؤ نہیں، بددل نہ ہو بلکہ پورے جوش سے خدا کے کام میں لگے رہو۔ آؤ ہم مل کر دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ارادوں اور کوششوں میں برکت دے، اپنے دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ پھر ان لوگوں کو جن کے دل میں نیکی ہے مگر ابھی تک انہیں احمدیت قبول کرنے کا موقع نہیں ملا ان کے عقدوں کو کھول دے، پھر دو ر دراز کے ملکوں میں جو روحیں حق کی پیاسی ہیں اور ابھی تک خداتعالیٰ کا بھیجا ہوء ا پانی ان تک نہیں پہنچا خدا تعالیٰ ان تک پہنچانے کی توفیق بخشے تاکہ وہ بھی اپنی روحانی پیاس بجھا سکیں۔ پھر خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ دنیا کے کناروں تک اسلام لے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم پھیلا دیں اور اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت قائم کر دیں۔ اے خدا! ایسا ہی کر۔ اے خدا! ہماری کمزوریوںاور کوتاہیوں کو نظرانداز کر کے ہماری نیتوں اور ارادوں کو دیکھ اور ہمیں برکت دے۔
اس کے بعد ایک مختصر سی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ظہر و عصر کی نماز مسجد نور میں جمع کر کے پڑھانے کے بعد میں دو نکاحوں کا اعلان کرنے والا ہوں۔ میںنے اعلان کیا ہوء ا ہے کہ جلسہ کے موقع پر نکاحوں کا اعلان نہیں کیا کروں گا مگر قرآن کریم سے ایک استثناء معلوم ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کے اموال کے متعلق آتا ہے کہ امراء کیلئے ان کا استعمال جائز نہیں البتہ ان کیلئے جائز ہے جو اس کام پر لگے ہوئے ہوں چونکہ ہمارا سارے کا سارا خاندان جلسہ کے کاموں میں لگا ہوء ا ہے اس لئے عَامِلِیْنَ عَلَیْھَا۲؎ کے ماتحت تھوڑا سا وقت لے لینا جائز سمجھتا ہوں اور اس میں دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک نکاح میرے لڑکے مبارک احمد کا میری ہمشیرہ اور نواب عبداللہ خان صاحب کی لڑکی سے قرار پایا ہے۔ دوسرا نکاح میری لڑکی امۃ القیوم کا جو امۃ الحی صاحبہ مرحومہ کی لڑکی ہیں مرزا مظفر احمد سے جو میاں بشیر احمد صاحب کے لڑکے ہیں ہو گا۔ یہ نکاح مَیں ظہر کے بعد مختصر طور پر پڑھا دوں گا۔
اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کی ہر قسم کی برکات سے متمتع کرے۔ جو لوگ جلسہ میں شریک ہوئے ہیں انہیں خیریت سے رکھے۔ جلسہ میں شامل ہونے والوں اور انتظامات جلسہ میں کام کرنے والوں کو خیریت سے رکھے۔ جو دوست یہاں آئے ہیں ان کے گھروں میں خیریت رکھے اور ہم یہاں سے ایسا ذخیرہ لے کر اٹھیں کہ جو عاقبت کیلئے زادِ راہ ہو اور دنیا میں کامیابی کا ذریعہ۔
(الفضل ۲۸؍ دسمبر ۱۹۳۸ء)
۱؎ الفرقان: ۲۴ ۲؎ التوبۃ: ۶۰










تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو
مستورات سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سالانہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے بلکہ اس کے متعلق ایک ضرب المثل بنی ہوئی ہے کہ ’’ ہنس کی چال چَلا اور اپنی بھی بھول گیا‘‘۔ کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ہنسوں کی چال جو دیکھی تو وہ اسے پسند آئی۔ اس نے سمجھا کہ میری چال اچھی نہیں۔ آخر اس نے کچھ ہنسوں کے پَر اُٹھائے اور اپنے پَروں میں اُڑس لئے اور لگا اُن کی سی چال چلنے مگر وہ اُن کی چال کب چل سکتاتھا۔ ہنسوں نے اُسے اجنبی پرندہ سمجھ کر مارنا شروع کیا یہ وہاں سے نکل کر اپنے میں آ شامل ہوء ا مگر چونکہ یہ کچھ مدت ہنسوں کی چال چل کر اپنی بھی بھول گیا تھا اس لئے نے بھی اسے چونچیں مار مار کر اپنے میں سے باہر کیا۔ اَب یہ اکیلا رہ گیا نہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا۔ نہ ہنسوں نے اسے ساتھ ملایا نہ نے اسے شامل کیا۔
اس مثال یا اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس کام کیلئے پیدا کیا وہی اس کام کو بخوبی سمجھ سکتی اور اَحسن طور پر سرانجام دے سکتی ہے۔ اردو میں ایک اور ضرب المثل ہے کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔‘‘ جب ایک کا کام دوسرا کرنے لگے گا تو لازماً خرابی پیدا ہو گی اور وہ ایک عجوبہ بن جائے گی اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک مرد دوسری عورت۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے بعض اشتراک رکھے ہیں اور بعض اختلاف بھی رکھے ہیں۔ مثلاً کھانے پینے میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے ہیں یہ کبھی نہیں ہوء ا کہ مرد کھاتے ہیں اور عورتیں نہ کھاتی ہوں گو غذاؤں میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے مثلاً بعض حصے عورتوں کے اَور قسم کی غذا چاہتے ہیں اَور مردوں کے اَور قسم کی۔ مثلاً عورتوں کے جسم پر چربی زیادہ آ جاتی ہے اس لئے عورتیں سردی زیادہ برداشت کر سکتی ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ عورت اپنے بچوں کو دودھ پلا سکے تو اس طرح خداتعالیٰ نے بچے کی حفاظت فرما دی۔ تو یہ صرف خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت فرق ہے۔ اسی طرح مرد اور عورت میں اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر ترقی کرنے یعنی عقل کا مادہ رکھا ہے۔ نہ مرد کہہ سکتا ہے کہ عقل اور دماغ مجھے ہی دیا اور نہ عورت ایسا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اسی طرح زبان مردوعورت کو ایک سی دی ہے۔ اگر مرد بڑے بڑے مقرر ہوتے ہیں تو عورتیں بھی۔ ہاتھ پاؤں وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر دیئے ہیں مگر قوتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے۔ بعض قوتیں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زیادہ دی ہیں اور عورتیں میں کم ہیں۔ مثلاً اعصاب کی طاقت مرد میں عورت کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ مرد عورت کی نسبت بہت زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ مگر اس کے مقابل میں عورت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت بہت زیادہ رکھی ہے۔ صبر سے مراد ایک مشکل کو لمبے عرصے تک برداشت کرنا ہے۔ یہ طاقت مرد میں یا تو ہے ہی نہیں یا بالکل کم ہے۔ اس کی موٹی مثال بچے کی ہے۔ بچہ روتا ہے چلّاتا ہے مگر عورت کے ماتھے پر بَل تک نہیں پڑتا، سَو میں سے ایک مرد ہو گا جو عورت کا یہ کام کرے گا۔ اس معاملہ میں عورت کا دل خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنایا ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے فلاسفر کو ایک دن کیلئے ایک بچہ دے دو شام تک وہ نیم پاگل ہو جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں سفر میں، جنگ میں مرد ہی کام آتے ہیں۔ یہاں پر عورت کتنی ہی ہوشیار کیوں نہ ہو گھبرا جائے گی حالانکہ بچوں کی پرورش کے معاملہ میں جاہل سے جاہل عورت عقلمند سے عقلمند مرد سے زیادہ معاملہ فہم اور عقلمند ثابت ہو گی۔ یہ طاقت عورتوں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ مردوں میں مقابلۃً اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں۔ مردوں میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو بچے پالنا جانتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربہ میں کئی ایسے آدمی دیکھے ہیں جنہوں نے بچوں کی پرورش اچھی طرح کی۔ مثلاً ایک مرد کی بیوی مر گئی تھی اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اس نے دوسر ی شادی نہیں کی اور خود اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اسی طرح ہمارے ایک دوست قادیان کے ہیں پیر افتخار احمد صاحب، یہ حضرت خلیفہ اوّل کے سالے اور منشی احمد جان صاحب کے بیٹے ہیں، منشی احمد جان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایسی بصیرت عطا کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰمسیحیت بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے حضور کو لکھا
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
تو وہ بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ تھے۔ ان کے بیٹے پیر افتخار احمد صاحب بچوں کے پالنے میں بڑے ماہر ہیں۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سلسلہ کے بہت بڑے رکن تھے۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور ایک قرب حاصل تھا اور سلسلہ کے معاملات میں بہت غیرت رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں تکلّف اور آسائش وغیرہ کا خیال تو ہوتا ہی نہیں تھا۔ پیر صاحب کے رہنے کیلئے ایک کوٹھڑی حضرت صاحب کے گھر میں تھی اور اس کے اوپر کی کوٹھڑی میں مولوی عبدالکریم صاحب رہا کرتے تھے۔ پیر صاحب کے بچوں کے رونے چلّانے کی آواز آنے پر ان کو غصہ آیا کرتا تھا اور اکثر پیر صاحب سے فرمایا کرتے تھے ’’پیر صاحب آپ بھی کیسے ہیں بچوں کو چپ کیوں نہیں کراتے مجھے تو ان کے رونے کی آواز سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔
جب ۱۹۰۵ء میں زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع اپنے دوستوں کے باغ میں رہنے لگے تو ان دونوں کے جھونپڑے بھی پاس پاس تھے۔ وہاں ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب سے کہا ۔’’ پیر صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے بچے روتے ہیں اور آپ نے ان میں سے ایک کو نہایت اطمینان سے کندھے سے لگایا ہوء ا ہوتا ہے اور دوسرے کو نرمی سے پچکارتے رہتے ہیں۔ اگر میرے پاس ہوں تو ایسا نہ ہو سکے بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کر ہی گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔ پیر صاحب مسکرا دیئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بچوں کو تو میں نے اٹھایا ہوتا ہے اور آپ کو یونہی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے۔ تو بعض مرد ایسے ہوتے ہیں۔ مگر بالعموم مردوں کو اگر بچے سنبھالنے پڑیں تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا جائیں۔ مجھے تو پانچ منٹ بھی اگر بچہ رکھنا پڑے تو گھبرا جاتا ہوں لیکن عورتیں کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا سب کام کرتی ہیں اور بچوں کی نگہداشت سے اور ان کے رونے چلانے سے ذرا نہیں گھبراتیں۔ اگر گھبرا بھی جائیں تو ذرا سی چپت رسید کی اور ایک منٹ کے بعد پھر گلے لگا لیا۔ غرض فطرتیں اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھی ہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ دونوں کے فرائض بدل دیئے جائیں تو دونوں اپنے کاموں میں ناقص رہ جائیں گے۔ ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ کا کام پَیر سے لینا چاہے یا پَیر کا کام ہاتھ سے لینا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ بیسیوں کام ہاتھ کے ایسے ہیں جو پَیر یا تو بالکل کر ہی نہیں سکے گا یا اگر کرنے کی کوشش کرے گا تو خراب کر دے گا۔ دونوں کے کام مختلف ہیں اور علیحدہ علیحدہ کاموں کیلئے خدا تعالیٰ نے ہاتھ اور پاؤں بنائے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے جہاں بعض باتوں میں مرد اور عورت میں اتفاق رکھا ہے وہاں دونوں کے مختلف کاموں کے مدنظر اختلافات بھی رکھے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے مرد اور عورتیں اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ مرد تو اختلافات پر زور دیتے ہیں مگر عورتیں اتحاد و اتفاق پر زور دیتی ہیں حالانکہ دونوں غلطی پر ہیں۔ مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام پہلے تعلقات کو بھول جائے اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے ہی رشتہ داروں میں مل جائے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اس عورت کے خاندان کیلئے ذِلت کا باعث ہوتی ہے۔ وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اس کے اپنے اندر۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ بیچاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں سِل اور دِق کا شکار ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیریا وغیرہ کی جو بیماریاں ہیں ان کا یہی سبب ہے۔ پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں حِس ہی نہیں حالانکہ اس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دل ہے جیسا کہ اس کے اپنے پہلو میں۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اس کو دیکھتا تو ہرگز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا، اسے وہ چھوڑ دے؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو، وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو اُن کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے ان سے کیا تھا۔ اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوںکا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کر دیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بدخیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں۔ لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے۔ بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زبردست ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف انہی میں محو ہو جائیں مگر بہت کم۔
رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ آپؐ کی بیوی اُمِّ حبیبہؓ (جو ابوسفیان کی بیٹی تھی) کی ران پر اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ ان کے بالوں سے کھیل رہی ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اُمِّ حبیبہ کیا آپ کو معاویہ بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے بھی بہت پیارا ہے۔
آجکل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ اگر مرد کُشتی کرتے ہیں تو عورتوں نے بھی کشتی لڑنی شروع کر دی ہے حالانکہ کُجا عورتوں کی شرم و حیا اور کُجا کُشتی۔ اس طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولادیں تباہ ہو جائیں گی وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی۔ یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دیئے ہیں۔ ولایت میں عورتوں کے اس قسم کے طریق اختیار کرنے پر ایک شور برپا ہے چنانچہ جن ملکوں کے لوگوں میں اولادیں پیدا کرنے کی خواہش ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ عورتوں کیلئے تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے جائیں اور جس کام کیلئے عورتیں پیدا کی گئی ہیں وہی کام کریں حالانکہ گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے اور بچہ کی تعلیم و تربیت ماں کا اولین فرض ہے۔ اگر عورتیں نوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت ناممکن ہے۔
میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ جہاں خداتعالیٰ نے عورت کو فکر اور دل و دماغ بخشا ہے تاکہ وہ عرفان حاصل کرے وہاں مردوں اور عورتوں میں اختلاف و اشتراک بھی رکھا ہے اور مردوں کو اپنے اختلاف دیکھتے ہوئے اپنے کام کرنے چاہئیں اور عورتوں کو اپنے۔ ہاں جن باتوں میں اشتراک ہے وہ مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں۔ مثلاً جہاں مرد کیلئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ فرض ہیں وہاں عورتوں پر بھی یہ فرض ہیں تا دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزاء و سزا حاصل کریں۔ اور یہ قانون بھی خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہے لیکن جہاد کے متعلق رسول ِکریم ﷺ نے فرمایا کہ جہاد عورتوں پر فرض نہیں مجھے صرف مردوں کیلئے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں جنگ میں عورتیں مرہم پٹی کر سکتی ہیں۔۱؎
اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ واری جہاد کی ذمہ واری سے کچھ کم نہیں۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے۔ پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے۔ اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کرتیں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جاں نثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں۔ اگر آج بھی خدانخواستہ جماعتِ احمدیہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ وار ہوں گی۔
الغرض ماؤں کی یہ ذمہ واری اس قدر اہم ہے کہ اگر مخلص مرد چاہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت کریں تو ان میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو گی کیونکہ بچوں کی تربیت کرنے کی طاقت اور ملکہ عورت میں ہی ہے اس لئے تمہیں چاہئے کہ تم اپنی اس اہم ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کر دو بلکہ پوری توجہ سے اس فریضہ کو ادا کرو۔ تم میں سے کتنی ہیں جو یہ چاہتیں ہیں کہ تمہارا بچہ خوبصورت ہو، تندرست ہو۔ اگر وہ بدصورت ہوتا ہے یا کالا ہوتا ہے تو تم سارے جہان کے پوڈر لگا لگا کر اس کو خوبصورت بنا کر دیکھنے کی کوشش کرتی ہو لیکن اگر تم اس کو انسانوں والی شکل دے بھی دو مگر اس کی روح انسانوں والی نہ ہو تو کیا تم اس کو دیکھ کر خوش ہو گی؟ اگر تم اپنے بچوں کی روح کی خوبصورتی کی پرواہ نہ کرو گی تو تم اس کی سخت ترین دشمن ثابت ہو گی کیونکہ تم نے ظاہری شکل تو انسان کی دی مگر اصل میں سانپ اور بچھو سے بدتر بنا دیا۔ تم نے بے شک اس کی ظاہری زیبائش اور آرائش میں کوئی کمی نہ کی مگر اس کے اندر شیطان پیدا ہو گیا۔ پس اگر آج کی عورتیں اپنے بچوں کی تربیت کا خیال چھوڑ دیں گی تو آئندہ نسل انسان نہیں بلکہ سانپ اور بچھو پیدا ہوں گے۔ تو پھر کیا تم اس وقت جب سانپ اور بچھو انسانوں کی شکل میں آ جائیں ان کو دیکھ کر خوش ہو گی؟ اگر تمہارے ہی بچے تمہاری تربیت کے نتیجہ میں کسی دن نیک ہوں گے تو وہ تمہارے لئے اور تمہاری روحوں کیلئے دعائیں کریں گے ورنہ وہ تم پر *** کے سوا اور کیا بھیجیں گے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو چوری اور ڈاکے اور جھوٹ کی عادتیں ڈالتی ہیں۔ مثلاً ایک بچہ کو چوری کی عادت تھی وہ باہر سے یا سکول سے چیزیں چُرا چُرا کر گھر لاتا اور ماں اس سے وہ چیزیں لے لیتی۔ ایسی ہی باتوں کے نتیجہ میں وہ پّکا چور اور قاتل بن گیا۔ اسے پھانسی کی سزا ملی جیسا کہ قاعدہ ہے اس لڑکے سے بھی پھانسی دیئے جانے سے قبل پوچھا گیا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے میری ماں سے ملا دو۔ جب اس کی ماں آئی تو اس نے اس کے کان میں بات کہنے کے بہانے پر اس کے کان کو دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ لڑکے نے اس فعل کی وجہ دریافت کئے جانے پر بتلایا کہ اگر یہ میری ماں نہ ہوتی تو آج میں پھانسی نہ چڑھتا۔ اس نے ہی مجھے انسان سے شیطان بنایا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ہی بدیاں اور بری باتیں مائیں اپنے بچوں کو سکھائیں بلکہ بے پروائی اور بے توجہی سے جو بدیاں بچے میں پیدا ہو جائیں یا جو بُری عادتیں وہ سیکھ لیتا ہے اس کی ذمہ داری بھی عورتوں پر ہی آتی ہے۔ تم میں سے بہت ہیں جو یہ کہیں گی کہ میرا بچہ بے شک کلمہ نہ پڑھے لیکن زندہ رہے لیکن تم میں سے کتنی ہیں جو یہ کہیں کہ میرا بچہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مر جائے۔ ایک عورت اپنے بیمار بچہ کو لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور کہنے لگی میرا بچہ عیسائی ہو گیا ہے آپ اس کا علاج کریںلیکن جو بات وہ اصرار کے ساتھ کہتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ ا س سے ایک دفعہ کلمہ پڑھوا دیں پھر بے شک یہ مر جائے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے کو چونکہ وہ بیمار تھا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بھیجا تا آپ اس کی بیماری کا علاج بھی کریں اور کچھ تبلیغ بھی کریں لیکن وہ لڑکا بھی بڑا پختہ تھا، وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر ایک رات بھاگ کر چلا گیا۔ رات کو ہی اس کی ماں کو بھی پتہ چل گیا وہ بھی اس کے پیچھے دَوڑ پڑی اور بٹالہ کے نزدیک سے اسے پکڑ کر پھر واپس لائی۔ آخر خدا نے اس کی سنی اس کا بیٹا ایمان لے آیا۔ بعد میں گو وہ فوت بھی جلد ہو گیا مگر اس عورت نے کہا اَب میرے دل کو ٹھنڈک پڑ گئی ہے موت سے پہلے اس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے۔ یہ ہوتی ہے صحیح تربیت اور یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے۔ اس قسم کی تربیت کرنے والی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا پسند کرتی ہیں، وہ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ساری قوم کیلئے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ وہ ساری قوم کو زندہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ امام بخاریؒ بہت بڑے آدمی تھے، ان کے بڑے آدمی ہونے میں ان کی ماں کا بہت بڑا حصہ تھا۔ تو کیا تم سمجھتی ہو کہ ایسی ماں سے فائدہ اُٹھانے والے کا ثواب اُن کی ماں کو نہ ملتا تھا؟ نہیں امام بخاریؒ کی نیکیوں کے ثواب میں ان کی ماں بہت حد تک حصہ دار تھیں۔ اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہؒ کی والدہ تم نہیں کہہ سکتیں کہ معمولی عورت تھیں۔ وہ ہرگز معمولی عورت نہ تھیں۔ کیا ابوحنیفہؒ کو بنانے والی معمولی عورت ہو سکتی ہے؟ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی بڑے درجے کو پہنچے گا تو اس کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کو اس کے ساتھ رکھا جائے گا اور وہ بھی اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ موء من کے بنانے میں اس کے ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک ہندو ماں کا یا ایک عیسائی ماں کا بچہ اگر مسلمان ہو جائے گا تو یہ مت خیال کرو کہ اس کی ماں کو ثواب نہ ملا ہو گا۔ اگرچہ اس کی ماں پوری طرح نہ بخشی جائے لیکن پھر بھی اس کے گناہوں میں کمی ہو گی۔ تم میں سے اکثر جہاد کی خواہش مند ہیں لیکن آؤ میں تمہیں بتلا دوں کہ یہ جہاد ہی ہے اگر تم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرو گی اور ان کو نیک بناؤ گی۔
تم اَور حکومتوں میں تو کہہ سکتی ہو کہ اگر ہم بچوں کی خدمت میں لگی رہیں گی تو ہم تاجر کیسے بنیں گی، اگر ان کی تربیت میں ہی لگی رہیں تووزیر، وکیل اور جرنیل وغیرہ کیسے بنیں گی اور دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتیں لیکن تم اسلام میں رہ کر یہ نہیں کہہ سکتیں۔ بے شک تم کو عیسائی قوم اس کا جواب نہیں دے سکتی لیکن اسلام نے تو تمہارا یہ اعتراض دور کر دیا۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جرنیل بنے گا اور وزارت کے کام کر کے دنیا میں امن قائم کرے گا تو اس کا ثواب بھی تم کو ملے گا کیونکہ یہ تم ہی تھیںجس نے ایسا بیٹا بنایا جس نے دنیا میں کارہائے نمایاں کئے۔ غرض جس جنت کا تمہارا بیٹا وارث ہو گا اسی جنت کی اسلام نے تم کو حقدار ٹھہرایا ہے۔ پس تمہاری تمام تر کامیابی کا انحصار تمہاری اولاد کی تربیت پر ہی ہے۔ تم نماز و روزہ اور صدقہ و خیرات کی پابند رہو اگر تم اِن باتوں پر کار بند نہ ہو گی تو تمہاری اولادیں کس طرح احکامِ شریعت کی پابند ہوں گی۔ تم اپنے نیک نمونہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولاد کی تربیت کر سکتی ہو کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ انسان جو نمونہ دکھاتا ہے اردگرد کے لوگ اس کا نمونہ قبول کرتے ہیں اور بچہ میں تو نقل کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مائیں اپنی اولادوں کیلئے نیک نمونہ نہیں بنتیں تو یقینا ان کی اولادوں کی تربیت اچھی طرح ہونا ناممکن ہے۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کیلئے برابر رکھی ہے۔ وہ تعلیم جو دنیا کی اغراض کیلئے حاصل کی جاتی ہے اس کا ثواب نہیں ملتا۔ خداتعالیٰ ان نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا۔ مرد بے شک اکثر دنیا کے اغراض کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ایسی تعلیم کا ان کو کوئی ثواب نہیں ملتا۔ ہاں عورتوں کیلئے تعلیم مکمل کر کے ثواب حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیاوی غرض کوئی نہیں بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے اس لئے عورتیں تعلیم حاصل کر کے ثواب حاصل کر سکتی ہیں جیسا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تم روزے رکھتے ہو، تم نمازیں پڑھتے ہو لیکن اس دنیا میں تمہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لئے میں آخرت میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا۔تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو، وہ پڑھ کر نوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں، پہناتے ہیں تو تم نے ان کو تعلیم دلوانے کا بدلہ پا لیا لیکن جو لڑکی کی تعلیم پر تم خرچ کرتی ہو اس کا ثواب تمہیں اس دنیا میں نہیں ملتا اس کیلئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے اور ان کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا۲؎ تو لڑکیوں کی تعلیم کیلئے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کیلئے نہیں۔ یہ تربیت کا کام معمولی نہیں۔ تمہیں خود علم ہو گا تو دوسروں کو علم سکھاؤ گی اس لئے تم پہلے خود تعلیم حاصل کرو تا اپنی اولادوں کی صحیح معنوں میں تربیت کر سکو تم لوگوں کا فرض ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے اپنی تعلیم و تربیت کا خیال کرو۔ اگر اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہ کرو گی تو قوم درست نہیں ہو گی۔ اور یقینا سلسلہ کی جو خدمت تمہارے ذریعہ ہو سکتی ہے اور جو معمولی خدمت نہیں وہ تم سے بالکل نہیں ہوسکے گی۔
یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام اور سلسلہ کی جو خدمت تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر کے کر سکتی ہو وہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ تم کوشش کر کے ان کی بچپن سے ہی اس رنگ میں تربیت کرو تا ان کی جانیں سلسلہ کی خدمت کیلئے تیار ہوں۔ تم ان کو بچپن ہی سے یہ تعلیم دو کہ وہ سچائی پر عامل ہوں، وہ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر تمہارا بچہ جھوٹ بولتا ہے تو وہ تم کو بھی بدنام کرتا ہے اور خدا کو بھی ناراض کرتا ہے۔ تم ان کو یہ تعلیم دو کہ تمہاری جانیں سلسلہ کیلئے ہیں کیونکہ جانی قربانی کرتے وقت سب سے پہلے جو ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پیچھے ہماری ماؤں کا اور ہماری بیویوں کا کیا حال ہو گا۔ اگر تم ہی ان کو یہ کہہ دو کہ ہم تب ہی خوش ہوں گی جب تم یا تو فتح پا کر آؤ یا وہاں ہی مارے جاؤ تو پھر ان کے بوجھ ہلکے ہو جائیں گے اور قربانیاں کرنے کے میدان میں وہ دلیر اور چُست گام ہو جائیں گے۔ وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے میں ذرہ بھی لرزہ نہ کھائیں گے۔ صحابہؓ نے فتوحات پر فتوحات حاصل کریں لیکن کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری ماؤں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی، وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری بیویوں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی بلکہ ان کیلئے فرحت و خوشی کا موجب ہو گی۔ اس لئے وہ نڈر ہو کر نکلتے تھے اور فتح حاصل کر کے آتے تھے۔
جنگِ اُحد کے موقع پر ایک عورت نے اپنی قوتِ ایمان کا وہ مظاہرہ کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اِس جنگ کے موقع پر مشہور ہو گیا کہ رسولِ کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ عورتیں بیتاب ہو کر میدانِ جنگ کی طرف بھاگ نکلیں۔ ایک عورت نے آگے بڑھ کر پوچھا تو ایک سپاہی نے جواب دیا اے عورت! تیرا خاوند شہید ہو گیا لیکن اس عورت نے کہا مَیں تو رسول اللہ ﷺ کے متعلق پوچھتی ہوں تم مجھے ان کا حال بتاؤ لیکن پھر اس آدمی نے کہا کہ تمہارا باپ مارا گیا۔ اس عورت نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور پوچھا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر دو لیکن اس سپاہی نے اس کے کرب و بیقراری کا صحیح علم نہ رکھتے ہوئے اس کے بھائی کے متعلق کہا کہ وہ بھی مارا گیا ہے لیکن پھر ا س عورت نے غصہ کے ساتھ بڑے زور سے پوچھا کہ مَیں تو رسول کریم ﷺ کا حال تم سے پوچھ رہی ہوں اپنے باپ یا بھائی یا خاوند کا نہیں پوچھ رہی۔ تو پھر سپاہی نے جواب دیا کہ رسول اللہؐ تو خیریت سے ہیں۔ یہ خبر پا کر اس عورت کے دل میں خوشی اور اطمینان کی لہر دَوڑ گئی اور بے اختیار کہنے لگی اَلْحَمْدُلِلّٰہِاللہ تعالیٰ کا رسول خیریت سے ہے۔ دوسرے مارے گئے تو کوئی پرواہ نہیں۔۳؎
پس سوچو کہ اس عورت کے بھائی، باپ اور خاوند کیوں میدانِ جنگ میں گئے اس لئے کہ اس کا خاوند جانتا تھا کہ اگر مَیں مارا گیا تو میری بیوی کو میری وفات کا کوئی صدمہ نہ ہو گا۔ اس کے بھائی یہ سمجھتے تھے کہ ہماری بہن ہماری شکست پر زندہ درگور ہو گی۔ مگرتمہارے بچوں کے دل کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں جاتے وقت روتی ہے۔ اس طرح وہ بُزدل ہو جاتے ہیں۔
پس تم اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت کر سکتی ہو اگر تم اپنے بیٹوں کو ابوبکرؓ یا عمرؓ بنا دو گی۔ اور یقینا جو مقام تمہارے بیٹے کو ملے گا وہی تمہیں ملے گا۔
اس کے بعد مَیں تحریکِ جدید کی طرف عورتوں کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں۔ اس میں جو بات عورتوں کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہے وہ سادہ زندگی ہے۔ یعنی لباس، زیور اور کھانے پینے میں سادگی۔ اس وقت ہندوستانیوں کی حالت نہایت گری ہوئی ہے۔ سارے ملکوں کی دولت یورپ میں جا رہی ہے۔ مسلمان بھی نہایت ذلّت کی حالت میں ہیں۔ ایک ہندوستانی کی ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انگریز کے سامنے کوئی ہستی ہی نہیں۔ ایک انگریز چوہڑا ہی اگر ہندوستان میں آ جائے تو وہ عزت والا ہوتا ہے مگر ہندوستانی کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ یہ اس لئے کہ انگریر حاکم ہے اور ہندوستانی محکوم۔ اِسی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز کمزور ہو رہا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی اپنی حالت کو آپ خراب کر رہے ہیں۔ وہ اپنے زیور اور مال و دولت سے ہی اپنے ملک کو کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ زمیندار لوگوں میں بے شک سادگی ہے مگر وہ اپنے بیاہوں شادیوں پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ساری عمر اس کے سُود سے نجات نہیں پا سکتے۔ ہمارے سامنے اس قسم کی زندہ مثال فیروز پور کے ایک شخص کی ہے جس نے شروع میں پچاس روپے قرض لئے مگر ا س قرضہ کے سُود در سُود کے نتیجہ میں وہ لاکھوں کا مقروض ہو گیا۔ اسی طرح شہری لوگ بھی حد سے زیادہ اسراف کرتے ہیں۔ مَیں نے کئی مرتبہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور آج پھر تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرتا ہوں کہ بجائے قرضہ اٹھانے کے تم کیوں نہیں یہ کرتیں کہ پہلے بچا لیا کرو تا تمہیں قرضہ لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔تم کہہ سکتی ہو کہ ہمارے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں لیکن کیا جب تمہارے پاس کھانا کھانے کو چند پیسے نہیں ہوتے تو تم فاقہ کرتی ہو۔ نہیں بلکہ قرضہ لیتی ہو اور کھانے کا سامان کرتی ہو۔ مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ تم فاقے کرو تا آئندہ تمہاری اولادیں تمہارے لئے دعاکریں۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور جمع کر سکتا ہے۔ اگر تم بھی کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی جاؤ گی تو تمہارا خاوند بنیے کے پاس نہیں جائے گا۔ آخر خود ہی سوچو کہ تم کس لئے اپنی اولادوں کو مقروض بناتی ہو چار پانچ روپے کیلئے؟ اور اس معمولی سی رقم کی وجہ سے تمہاری اولادیں اپنی ساری عمر غلامی میں بسر کرتی ہیںاور کہتی رہتی ہیں کہ خدا رحم کرے ہمارے دادا پر کہ اس نے دس ہزار روپیہ ہمارے سر چڑھا دیا اور ساری عمر کیلئے بنئے کا غلام بنا دیا۔ اگر ان کی مائیں تھوڑا تھوڑا بھی جمع کرتی رہتیں اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتیں اور قرضہ نہ لیتیں تو غلامی سے نجات ہو جاتی۔
کفایت شعاری کسی قوم کے افراد کا پہلا اور اہم فرض ہے۔ اور کفایت شعاری ہی وہ اصل ہے جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ تم اپنے خاوندوں کو اسراف سے روکو اور اپنے بچوں کو غلامی سے بچاؤ۔ پس کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہنا چاہئے اور کھانے اور پینے میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔
ایک کھانا کھانے سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ امیر اور غریب آپس میں مل بیٹھیں گے اور امارت و غربت کا امتیاز مٹ جائے گا۔ دوسرا اس کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کھانا کھانے سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔ زیادہ کھانا کھانے سے ایک یہ نقصان ہوتا ہے کہ معدے کمزور ہو جاتے ہیں۔ پیچش اور کَسَلْ کی شکایت رہتی ہے۔ ایسے لوگ نہ تو نماز پڑھ سکتے ہیں نہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ کھانوں کے شوقین نمازوں میں بھی مرغن کباب اور متنجن کے خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں سادہ زندگی میں ایسی لذت ہے کہ عبادتوں میں بھی ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔
ایک صوفی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کم کھانے، کم سونے اور کم بولنے سے۔ یہ تین چیزیں خدا سے ملاتی ہیں۔ پس تحریکِ جدید جو ہے وہ کم خوردن پر زور دیتی ہے۔ سادہ زندگی اختیار کرنے سے تم شوربہ پکاؤ گی تو تم آسانی سے دو اور غریبوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلا سکو گی۔ اس طرح تمہارا دل بھی خوش ہو جائے گا اور غریب کا دل خوش کرنے سے تو خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر تم کھانوں میں کمی کرو گی تو تمہاری دعوتیں وسیع ہو جائیں گی اور روپیہ بھی کم خرچ ہو گا۔ جو روپیہ بچے گا تم اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر سکو گی اور تم چندے بھی دے سکو گی اور دوسرے دینی مشاغل میں بھی وہ بچایا ہوا روپیہ صرف کر سکو گی۔ اگر امیر عورتیں ایسی عادت ڈالیں تو وہ اپنے خاوندوں کو بھی سُدھار سکتی ہیں۔ اور مَیں نے کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں عورتوں نے مَردوں کو سُدھارا۔ اور انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی مخلص بنا دیا۔ وہ چونکہ خود سادہ زندگی بسر کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی ایسا بنا دیا۔
پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کرو سادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادت ڈالو۔ جو عورت زیور سے خوش ہو جاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کر سکتی۔ پس سادہ کھانا کھاؤ، سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خداتعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا۔ آج کل خداتعالیٰ ایک نئی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے۔ نئی بادشاہت میں امیر غریب ہو جائیں گے اور غریب امیر۔ جو مصیبت امیر اپنے اوپر عائد کریں گے اس کا کوئی دوسرا ذمہ وار نہ ہو گا بلکہ وہی خوذمہ دار ہوں گے۔ اگر تم دنیا میں سُکھ حاصل کرنا چاہتی ہو اور خدا کو بھی خوش کرنا چاہتی ہو تو اپنے مالوں میں سے غریبوں کو بھی حصہ دو۔ اگرتم ایسا نہیںکرو گی تو وہ دن نزدیک ہیں کہ خدا خود اس کا انتظام کرے۔ تم ان دنوں کا انتظار مت کرو بلکہ خود ہی ثواب اٹھاؤ۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کرو گی اور دنیا کیلئے اپنے آپ کو ایک نمونہ بناؤ گی۔
( مصباح اخبار ۱،۱۵؍ جنوری ۱۹۳۹ء جلد نمبر۱۳ نمبر۱،۲)
۱؎ ابن ماجہ کتاب المناسک باب الحج جھاد النساء
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقتہ
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۹۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
 
Top