• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 14

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 14


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی چودہویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی مئی۱۹۳۵ء سے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۷ء تک کی اٹھائیس تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہرگز کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء اور ولولہ انگیز خطاب ۲۶ مئی ۱۹۳۵ء کو ارشاد فرمایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت کو شدید قسم کی مخالفت کا سامنا تھا۔ ایک طرف احرار کی مخالف تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ دوسری طرف انہوں نے بعض حُکّام کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور جماعت کو نقصان پہنچانے کے نت نئے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ پھر جماعت کے اندر بعض منافقین بھی اپنی رذیل سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اس پُرآشوب دَور میں حضرت المصلح الموعود نے تحریکِ جدید کی بنیاد رکھی۔ آپ کو القاء ہؤا کہ ہر چھ ماہ بعد احباب کو تحریکِ جدید کے امور سے متعلق یاددہانی کروائی جائے۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ اس کے لئے پہلا دن اگر وہ دن ہو جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تھے تو یہ گویا ہمارے عہدوں کی تجدید کا نہایت لطیف موقع ہوگا‘‘۔
حضور کی اس خواہش کے مطابق۶ماہ بعد ۲۶ مئی کو اتوار کا دن تھا چنانچہ قادیان میں جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔ حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر نہایت پُردرد اور دلی جذبات کے ساتھ فرماتے ہوئے جماعت کو اِن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی فرمایا:۔
’’حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح حضرت مسیح ثانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی پیغام دیا تھا کہ تمہارے لئے ترقیات کے جو وعدے ہیں وہ زیادہ تر میرے بعد پورے ہوں گے اور اُن وجودوں کے ذریعہ پورے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ قدرتِ ثانیہ کا مظہر قرار دے گا۔پس ہر احمدی پر جو منافق نہیں یہ دن نہیں گزر سکتا جب تک اُسے اُس کی ذمہ داری یاد نہ دلا دے اور یہ آواز اس کے کانوں میں نہ گونجے کہ اسلام کی ترقی چاہتی ہے کہ میں تم سے جُدا ہو جاؤں اور خدمتِ اسلام کا کام تمہارے کندھوں پر پڑے‘‘۔
حضور نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ کس شان سے ہر ابتلاء سے جماعت کو سُرخرو کر کے نکالا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات ہوئی تو پیغامیوں نے قادیان سے جاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ آئندہ دس سالوں کے عرصہ میں اس جگہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا حضور نے فرمایا اللہ کے فضل سے آج اس اعلان کے ۲۱ سال بعد جماعت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو چکی ہے جس کا غیر بھی اقرار کرتے ہیں۔حضور نے جماعت کو صبر اور دعاؤں پر زور دینے کی تلقین فرمائی اوریہ کہ ہر قسم کی قربانی کیلئے وہ تیار رہیں۔ دوسری طرف جہاں گورنمنٹ کو اطاعت اور فرمانبرداری کی یقین دہانی کروائی وہاں یہ بھی بتایا کہ جماعت اور بے غیرت نہیں ہے۔ فرمایا:۔
’’ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ خدا کا سپاہی ہے اور خدا کا سپاہی ناواجب طور پر کسی کے سامنے نہیں جُھک سکتا خواہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے‘‘۔
پھر فرمایا:۔
’’ہم مذہب میں کسی قسم کی دخل اندازی گوارا نہیں کر سکتے ہم ایک ایک کر کے مر جائیں گے مگر یہ نہیں ہونے دیں گے……ہم سے یہ اُمید نہ رکھی جائے کہ ہم سلسلہ کی بے عزتی حُکّام کے ہاتھوں ہوتی دیکھیں اور پھر بھی جی ہاں جی ہاں کہتے ہوئے سر جُھکائے رکھیں‘‘۔
ان تمام حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے حضور انور نے جماعت کو نہایت اہم اور قیمتی ہدایات سے نوازا اور تحریکِ جدید کے تعلق میں جماعت کو جو نصائح فرمائی تھیں اُن میں سے بعض کو نہایت مؤثر رنگ میں دوبارہ یاددہانی کروائی۔ مثلاً:۔
۱۔ باہمی لڑائی جھگڑے بند کر کے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا جائے۔
۲۔ سادہ زندگی اپنائیں اور رقم بچا کر مالی قربانی کریں۔
۳۔ ہر احمدی تبلیغ کی کوشش کرے اور دو دو ماہ وقف کر دے۔
۴۔ اپنی زندگیاں وقف کریں۔
۵۔ اپنی رقم امانت تحریکِ جدید میں جمع کروائیں۔
۶۔ قادیان میں تعلیم کے لئے اپنے بچوں کو بھجوائیں۔
۷۔ قادیان میں مکانات تعمیر کروائیں۔
۸۔ بے کاری ترک کر کے کوئی نہ کوئی کام کیا جائے۔
۹۔ پنشن یافتہ دوست خدمتِ دین کے لئے قادیان آئیں۔
۱۰۔ بکثرت دعائیں کریں۔
حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ:۔
’’دشمن کے مقابلہ کے لئے آپس میں تعاون سے کام لیں بغیر تعاون کے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ جو کام قوموں کے سپرد ہوتے ہیں وہ افراد نہیں کر سکتے۔ پس چاہئے کہ جماعتِ احمدیہ کا ہر بچہ، ہرجوان، ہر بوڑھا، ہر مرد اور ہر عورت ایسے رنگ میں کام کرے کہ قیامت کے دن کہہ سکے اے خدا! ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا‘‘۔
(۲) مجلسِ احرار کا مباہلہ کے متعلق ناپسندیدہ رویہ
حق کو باطل سے ممتاز کرنے کے لئے قرآن کریم نے آخری طریق فیصلہ ’’مباہلہ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جب حق کے مخالفوں پر اتمامِ قائم ہو جائے مگر پھر بھی وہ جانتے بوجھتے ہوئے انکار پر مُصِرّرہیں اور جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں تو مباہلہ کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نجرانکے عیسائیوں کو تبلیغ کی اور واضح دلائل سے اسلام کی حقانیت ظاہر فرمادی لیکن وہ بدستور انکار پر مُصِرّرہے تب آپ نے انہیں دعوتِ مباہلہ دی۔
احمدیت کی مخالفت میں مجلس احرار کا طوفانِ بدتمیزی جب اپنے انتہاء کو پہنچا اور نہایت جھوٹے اور بے بنیاد الزامات جماعت پر لگائے جانے لگے تو حضرت مصلح موعود نے ان جھوٹے من گھڑت الزامات پر مجلس احرار کو دعوتِ مباہلہ دی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۳۰۔اکتوبر ۱۹۳۵ء کو یہ مضمون تحریر فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’جب احرار کی اِس قسم کی بُہتان تراشی حد سے بڑھ گئی اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے وہ باز نہ آئے تو مَیں نے احرار کو چیلنج دیا کہ وہ احرار کے پانچ سَو ایسے نمائندے جنہوں نے بانی ء سلسلہ احمدیہ کی کتب کا ایک حد تک مطالعہ کیا ہو پیش کریں جو جماعت احمدیہ کے پانچ سَو نمائندوں سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کُتب کا ایک حد تک مطالعہ کیا ہو گا کہ وہ ان کی تعلیم کے مطابق یقین سے قَسم کھا سکیں مباہلہ کر لیں تاکہ حق اور باطل میں امتیاز ہو سکے‘‘ ۔
مگر جیسا کہ ہمیشہ سے حق کے مخالفین کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ ایسے موقع پر حیل و حُجّت اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں،مجلس احرار کی طرف سے اس کا کوئی مثبت جواب نہ دیا گیا اور چند احراریوں نے قادیان آ کر تقاریر کیں کہ ہمیں مباہلہ منظور ہے۔ اس پر حضور نے چند معززین جماعت پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جنہوں نے مجلس احرار کے لیڈروں کو تحریری خطوط لکھے کہ وہ بھی اپنے نمائندے مقرر کریں تاکہ ضروری امور طے ہو جائیںمگر احرار مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس پر حضور نے پُرشوکت الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ اعلان فرمایا:۔
’’اے بھائیو! احرار کے مذکورہ بالا جواب کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے کیلئے مباہلہ کا انتظار کئے بغیر میں اُس خدائے قہار وجبّار، مالک و مختار، مُعِزّو مُذِلّ، مُحیٖ و مُمِیْت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرا اور سب جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت یہ عقیدہ ہے کہ … رسول کریم ﷺ افضل الرُسل اور سید و لد آدم تھے یہی تعلیم ہمیں بانیء سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے اور اِسی پر ہم قائم ہیں… اور اسی طرح یہ کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا کے دوسرے سب مقامات سے جن میں قادیان بھی شامل ہے افضل اور اعلیٰ ہیں……اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ، دھوکے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر *** کر لیکن اگر اے خدا! میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے رب! یہ جھوٹ جو بانی ء سلسلہ احمدیہ کی نسبت، میری نسبت اور سب جماعت احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے تُواس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کر اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر لگاتا ہے یا تو ہدایت دے یا پھر اِسے ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کیلئے عبرت کا موجب ہو اور جماعت احمدیہ کو اس تکلیف کے بدلہ میں جو صرف سچائی کو قبول کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے عزت، کامیابی اور غیر معمولی نصرت عطا کر کہ تو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے اور مظلوموں کی فریاد کو سننے والا ہے۔ اَللّٰھُمَ امِیْنَ‘‘
آپ نے فرمایا میری اس قَسم کی وجہ سے جماعت کو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور کامیابیاں عطا ہوں گی۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ
(۳) احرار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباہلہ کی شرائط طے کریں بغیر شرائط طے کئے احرار کے قادیان آنے کی غرض مباہلہ نہیں بلکہ فساد کرنا ہو گی اور اس کی ذمہ وار حکومت ہو گی یا احرار
حضرت المصلح الموعود نے یہ مضمون بھی مباہلہ کے تعلق میں ۷ نومبر ۱۹۳۵ء کو تحریر فرمایا۔ مجلس احرار کے سیکرٹری نے ’’مجاہد‘‘ اخبار میں یہ اعلان شائع کروائے کہ ہم مباہلہ کی دعوت قبول کرتے ہیں اور چنیوٹ میں انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تقاریر کیں اور حضور کے بعض ارشادات کو تحریف کے ساتھ اور توڑمروڑ کر پیش کیا اور کہا گیا کہ ہم ۲۳۔اکتوبر کو لاکھوں کی تعداد میں قادیان پہنچیں گے۔
حضور نے پہلے کی طرح تاکید سے دوبارہ اپنا مطالبہ دُہرایا کہ پہلے مباہلہ کی شرائط طے کر لی جائیں اور دن باہمی اتفاقِ رائے سے طے کیا جائے اور پھر اُن شرائط کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے مباہلہ کیا جائے۔ نیز حضور نے ان کے بیانات کے تضادات اور حضور کے بعض ارشادات میں تحریف کر کے عوام اور حکومت کے سامنے پیش کرنے کی حقیقت کو خوب کھول کر واضح کیا۔
حضور نے احرار کے اس مخفی منصوبہ کو بھی بے نقاب کیا کہ دراصل وہ مباہلہ کی آڑ میں قادیان میں جلسہ جلوسں نکالنے کے خواہشمند ہیں اور احرار کو بار بار ملزم کیا اور ثابت کیا کہ وہ مباہلہ سے احتراز چاہتے ہیں اسی لئے ٹال مٹول سے کام لے رہیں ہیں۔
(۴) کیا احرار واقع میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں؟
احرار سے دعوتِ مباہلہ کے متعلق حضرت مصلح موعود کا یہ تیسرا مضمون ہے جو آپ نے ۲۱۔نومبر ۱۹۳۵ء کو رقم فرمایا۔ جس میں آپ نے ہر پہلو سے احرار پر اِتمامِ کر دی اور فرار کے تمام راستے بند کر دیئے ۔ آپ نے ایک بار پھر شرائط مباہلہ تحریر فرمائیں جن پر قبل از مباہلہ دونوں فریقوں کے مَابَیْن تصفیہ ہونا ضروری تھا۔
مجلس احرار انتہائی مکّاری سے کام لیتے ہوئے جگہ جگہ عوام الناس میں جھوٹا پراپیگنڈا کر رہی تھی کہ گویا وہ مباہلہ چاہتے ہیں مگر جماعت احمدیہ فرار اختیار کر رہی ہے اسی طرح انہوں نے گورنمنٹ کو بھی لکھا کہ اگرچہ گورنمنٹ کے فیصلہ کے مطابق وہ قادیان میں سالانہ کانفرنس کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر جماعت احمدیہ کی طرف سے مباہلہ کے چیلنج پر مجبور ہیں کہ قادیان جائیں۔
حضور نے تفصیل سے ان کی مکّاریوں کا پردہ چاک کیا اور ان کے تمام الزامات کا جھوٹا اور پُرفریب ہونا ثابت فرمایا اور ہر الزام کے سچا ہونے پر اپنی طرف سے مجلس احرار کو ۱۰۰روپے بطور انعام دینا مقرر فرمایا ۔ آپ نے منصف کے طور پر مسٹر سیف الدین صاحب کچلو ،مسٹر عبداللہ یوسف علی صاحب آئی سی ایس ریٹائرڈ ، سر محمد یعقوب اور مولانا ابوالکلام آزاد کے نام تجویز فرمائے کہ ان میں سے کوئی ایک اگر دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد احرار کے اعتراضات یا الزامات کو سچا قرار دے تو ہر الزام یا اعتراض کے بدلے مجلس احرار کو ۱۰۰روپے انعام دیا جائے گا۔ اس طرح مختلف نوعیت کے آٹھ الزامات کے سچا ثابت ہونے پر ۸۰۰ روپے انعام دینے کا وعدہ فرمایا۔
احرار کے تمام بے بنیاد الزامات کی قلعی کھولنے کے بعد آپ نے مزید اِتمامِ کی خاطر انہیں دعوت دی کہ اگر انہیں کوئی بات منظور نہ ہو تو مباہلہ کے الفاظ کی تعیین کرنے کے بعددونوں فریق اپنے اپنے الفاظ پر دستخط کر کے ایک دوسرے کو دیں تاکہ رسالہ کی صورت میں اِسے شائع کر دیا جائے۔آخر مباہلہ کی دعا خواہ تحریر میں آئے یا زبانی کی جائے ایک سا اثر رکھتی ہے۔ آخر میں حضور نے انہیں تنبیہہ کی کہ :۔
’’ایک زندہ اور خبردار خدا کے ہاتھ میں ہماری قسمتیں ہیں وہ اس جھوٹ کو کبھی سرسبز نہیں ہونے دے گا……میرا خدا مجھے اس طرح نہیں چھوڑے گا وہ اُن کے موجودہ اور آئندہ سب فریبوں سے مجھے محفوظ رکھے گا اور اس کا ہاتھ رُکے گا نہیں جب تک کہ وہ سچ کو سچ ثابت نہ کر دے کہ اس کی شان کے یہی مطابق ہے اور اس کی صفاتِ حسنہ اسی کی متقاضی ہیں‘‘ ۔
(۵) آل انڈیا نیشنل لیگ کی والنٹیرز کور سے خطاب
۱۹۳۴ء کے پُر آشوب زمانے میں کچھ عرصہ مرکز سلسلہ قادیان کی حفاظت کا کام والنٹیرز کور کے سپرد کیا گیا جو انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ موء رخہ ۲۴ نومبر ۱۹۳۵ء کو حضور نے انہیں ایک مختصر سے خطاب سے نوازا جس میں ان کے حُسنِ انتظام اور جوش و جذبہ پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’آپ لوگوں نے سلسلہ کی حفاظت کا کام کر کے خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہے جس کے مقابلے میں سونے اور چاندی کی کوئی حیثیت نہیں‘‘ ۔
حضور نے کارکنان کو اطاعت اور قربانی کا اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا:۔
’’سپاہیانہ زندگی جان دینے کیلئے ہوتی ہے مگر جان انسان فوراً نہیں دے سکتا بلکہ پہلے اسے تکالیف کا عادی بنانا پڑتا ہے تاکہ وقت پر اپنی جان کی قربانی بھی پیش کر سکے……نیشنل لیگ اور اس کے کور کے قائم کرنے سے غرض ہی یہ ہے کہ تکالیف برداشت کرنے کا لوگوں کو عادی بنایا جائے ‘‘۔
حضور نے کارکنان کو نصیحت فرمائی کہ جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے اس پریکٹس کو آئندہ بھی جاری رکھیں یہاں تک کہ دنیا کی ہر کور سے محنت، مشقّت، قربانی اور کام کی عمدگی میں بڑھ جائیںاور کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ فرمایا:۔
’’سچا مؤمن ایک منٹ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اور اوّل درجہ پرچلا جائے اور یہ دوسرے نمبر پر رہے‘‘۔
۳۰ دسمبر ۱۹۳۵ء کے اجلاس میں حضور نے کور کے ممبران کو اہم ہدایات سے نوازا اور انہیں استقلال کے ساتھ کام کو جاری رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’فائدہ اسی کام سے ہو سکتا ہے جو مستقل طور پر کیا جائے اور اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک اس کی ضرورت ہو… وہ بھی استقلال سے کام کریں اور اپنے ساتھیوں اور محلہ والوں کو بھی اِستقلال سے کام کرنے کی تحریک کریں‘‘۔
آخر میں آپ نے اچھے اخلاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’سب سے بڑی چیز اچھے اخلاق پیدا کرنا، اپنے جذبات پر قابو پانے کی مشق کرنا اور اپنے اندر اطاعت کا مادہ پیدا کرنا ہے‘‘۔
(۶) زندہ خدا کا زندہ نشان
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ ایمان افروز مضمون ۱۲ دسمبر ۱۹۳۵ء کا تحریر کردہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۳۳ سال پہلے ایک الہام ہؤا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
’’لوگ چاہتے ہیں کہ تیرے نور کو بُجھا دیں، لوگ چاہتے ہیں کہ تیرے سازوسامان کو اُچک کر لے جائیں مگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں‘‘۔
حضور نے بڑی شان کے ساتھ اِس الہام کے پورا ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’وہ دن جاتا ہے اور آج کا دن آتا ہے متواتر دنیا کے لوگوں نے خداتعالیٰ کے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور اس متاعِ روحانی کو لُوٹنے کی کوشش کی جو بانیء سلسلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا مگر ان تمام بدخواہوں اور دشمنوں کے حصہ میں صرف ناکامی اور نامرادی آئی اور ہر شورش جو دشمن نے اُٹھائی اسی کے پیچھے سے رحمتِ الٰہی کے بادل جُھومتے ہوئے آ موجود ہوئے اور ہر فتنہ جو معاندین نے برپا کیا اُسی کے نیچے سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا خزانہ نمودار ہؤا‘‘۔
حضور نے احرار کی شورش کا ذکر فرمایا کہ جب اکتوبر ۱۹۳۴ء کو احرار نے حکومت کی پُشت پناہی پر قادیان میں جلسہ کر کے جماعت کے خلاف خوب گند اُچھالا اور کہا کہ جماعت حکومت کے اندر ایک نئی حکومت بنا رہی ہے جو مُلک کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ احرار کا یہ حملہ اس قدر شدید تھاکہ حکومت بھی اس کے دھوکے میں آ گئی اور ایک مقدمہ کے سلسلہ میںجو بظاہر مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری پر تھا، صدرانجمن احمدیہ کے ریکارڈ منگوائے گئے اور خود حضور کو بُلوا کر عدالت میں تین دن جرح کی گئی۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر جاری فرما رہا تھا جس کے نتیجہ میں احرار دنیا کے لئے عبرت کا ایک تازہ نشان بن گئے جب احرار اپنی کارروائی پر خوش ہو رہے تھے اچانک شہید گنج کا واقعہ ہو گیا۔ احرار نے اس مسئلہ میں جمہور مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا اور غیر مسلموں کی حمایت کی جس سے احرار کی خوب رُسوائی ہوئی اور ذلّت کی مار پڑی۔ احرار نے اس طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے لئے دوبارہ احمدیت کے خلاف زیادہ زہر اُگلنا شروع کر دیا اور مباہلہ کے لئے قادیان جانے کا اعلان کر دیا ۔ حضور نے اپنے تفصیلی مضامین کے ذریعہ حکومت اور احرار پر واضح کیا کہ اگر مباہلہ کرنا ہے تو باقاعدہ شرائط طے کی جائیں اس کے بغیر ان کا قادیان آنا فتنہ و فساد کی غرض سے ہو گا اور اس کی ذمہ داری گورنمنٹ اور احرار پر ہو گی۔
چنانچہ گورنمنٹ نے احرار لیڈروں کو قادیان جانے سے روک دیا۔ باقی احرار تو خاموش ہو گئے مگر مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری قادیان کی طرف چل پڑے۔ چنانچہ ۶ دسمبر کو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ۷ دسمبر کو گورداسپور کے مجسٹریٹ نے انہیں ۴ ماہ قید کی سزا سنا دی۔
حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کا ذکر فرمایا جو آپ نے ۳۳ سال پہلے دیکھا تھا کہ:۔
’’ایک مقام پر مَیں کھڑا ہوں تو ایک شخص آ کر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جا سکتا ۔ اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اُسے پکڑ لیا مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے اتنے میں ایک اور شخص آ گیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑ لیا میں جانتا تھا کہ موخرالذکر ایک مومن متقی ہے پھر اِسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا ۹ ماہ کی قید کا حکم دے دیا‘‘ ۔
حضور نے اس کشف کو علمِ تعبیر الرؤیا کے ذریعہ تفصیل سے بیان فرماتے ہوئے اس واقعہ پر چسپاں کیا اور ثابت فرمایا کہ اس کشف کی تعبیر بعینہٖ احرار کے ان واقعات پر منطبق ہوتی ہے۔ آپ نے تمام مذاہب والوں سے یہ اپیل کی کہ وہ خداتعالیٰ کے تازہ نشانوں پر غور کریں اور صداقت کو قبول کریں۔
(۷) اسلام اور احمدیت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی
یہ حضور کی افتتاحی تقریر ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۳۵ء پر مؤرخہ ۲۵ دسمبر کوفرمائی۔ حضور نے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَسے استنباط فرمایا کہ جہاں عالموں سے مراد تمام مخلوق ہے وہاں تمام انسانی قومیں بھی اس میں شامل ہیں۔ گویا یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اسلام تمام اقوام میں پھیل جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آغاز میں ہی یہ وحی ہوئی کہ :۔
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘
حضور نے فرمایا کہ آج جلسہ سالانہ میں ہر قوم، ہر مذہب اور ہر علاقے سے لوگ یہاں آئے ہیں۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔ فرمایا:۔
’’احمدیت کے مقابلہ کی دنیا میں کسی کو تاب نہیں۔ احمدیت جس قوم پر بھی حملہ آور ہوتی ہے وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ اپنے قلعوں کی کنجیاں اس کے حوالے کر دے…اگر ہم صحیح طور پر کوشش کریں اور صحیح رنگ میں اسلام کی تبلیغ میں لگ جائیں تو پھر ہر قوم ہمارا شکار ہے‘‘۔
حضور نے فرمایا کہ ۱۴ سَو سال بعد خدا نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر لائیں۔ ہماری کوششیں بظاہر حقیر ہیںمگر بِالآخر ساری دنیا خدا کے حضور جُھک جائے گی۔
(۸) تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت
جلسہ سالانہ ۱۹۳۵ء کے موقع پر حضور انور نے ۲۶ دسمبر کو قادیان میں تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت پر خطاب فرمایا۔ آغاز میں حضور نے چند متفرق امور کا تذکرہ فرمایا اور مختلف احباب کے پیغامات پڑھ کر سنائے۔ ا س سال شائع ہونے والی کُتب کا تعارف کرایا اور جماعت کو انہیں خریدنے کی تلقین فرمائی۔
احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھنے کی خصوصیت سے توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی اور آپ کو جو رؤیا اور کشوف ہوئے وہ جماعت کے آئندہ پروگرام کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں علاوہ ازیں اُن میں قرآن اور حدیث کی اعلیٰ درجہ کی تفسیر بھی ہے اس لئے اپنے ایمانوں کے ازدیاد اور قرآن کریم کی تفہیم کے لئے ان کا مطالعہ رکھنا نہایت ضروری ہے‘‘۔
حضور نے گزشتہ سال کے ایک اہم واقعہ یعنی احرار کو مباہلہ کی دعوت کا پسِ منظر بیان کیا اور فرمایا:۔
’’مجھے یقین ہے کہ وہ مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں‘‘۔
اس خطاب کا اصل مضمون تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے بعض بنیادی مقاصد تھا۔ فرمایا کہ تحریک جدید کوئی نئی تحریک نہیں بلکہ اس کا ایک بھی حُکم ایسا نہیں جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو اور ایک بھی حُکم ایسا نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہ ہو۔ فرمایا:۔
’’مجھے بھی سالہا سال سے یہ انتظار تھا کہ کوئی ایسی آگ لگے جب ہماری جماعت کا ہر چھوٹا بڑا بیدار ہو جائے اور اس موقع پر مَیں وہ تحریک پیش کروں جو جماعت کو بحیثیت جماعت تیرہ سَو سال پیچھے لے جائے‘‘۔
آپ نے تحریک جدید کے بنیادی مقاصد کے متعلق بعض اہم امور کا تذکرہ فرمایا اور سادہ زندگی اپنانے،بیکاری ترک کرنے، قادیان میں چھوٹی صنعتیں لگانے، تبلیغ کے لئے وقف کرنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی اور فرمایا:۔
’’جو سیکم مَیں نے تمہیں بتائی ہے وہ نہ صرف تباہی کے سامانوں سے خالی ہے بلکہ ترقی کے انتہاء تک پہنچانے والی ہے‘‘۔
آخر میں حضور نے جماعت کو قربانی کے لئے تیار رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’جب تک دنیا ہمارے خون سے رنگین نہ ہو جائے، جب تک زمین میں ہمارے جسموں کو کُچلا نہ جائے، جب تک ہمیں خداتعالیٰ کے لئے اپنے وطن نہ چھوڑنے پڑیں، جب تک دنیا میں ہم اپنی جانی اور مالی اور وقتی قربانیوں سے ایک حیرت انگیز انقلاب پیدا نہ کردیں اور جب تک ہم وہ ساری قربانیاں نہ کریں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے کیں اُس وقت تک ہمیں کامیابی حاصل نہیںہو سکتی۔‘‘
(۹) دنیا کی سیاسیات میں احمدیت کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے
یہ حضور کے اُس خطاب کا خلاصہ ہے جو آپ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۳۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر فرمایا:۔
اُن دنوں احرار کا فتنہ زوروں پر تھا۔ گورنمنٹ نے انہیں قادیان میں جلسہ کرنے کی اجازت دیکر اسے ہوا دی ۔ عام مسلمان چندہ سے ان کی مدد کرنے لگے۔ ان حالات میں احرار چاہتے تھے کہ قادیان میں شورش اور فساد بپا ہو اس لئے حضور نے احبابِ جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ ان فتنہ پردازوں سے محتاط رہیں۔
اس کے بعد حضور نے ’’دنیا کی سیاسیاست میں احمدیت کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے‘ ‘کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا جب دنیا کے بادشاہ احمدیت میں داخل ہوں گے تو انہیں صحیح اسلامی تعلیم سے آگاہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آج ہم قرآنی تعلیم سے اخذ کر کے وہ فرائض اپنی کتابوں میں لکھ دیں جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ حضور نے لیگ آف نیشنز کے قیام اور ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’لیگ آف نیشنز دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی اور اب نہ صرف عام لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ لیگ ایک کھلونا ہے بلکہ جو حکومتیں اس میں شامل ہیں وہ بھی یہ محسوس کر رہی ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے ذریعہ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘۔
اس کے بعد حضور نے تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے امنِ عالَم کیلئے کیا ذرائع بیان فرمائے ہیں نیز فرمایا کہ یہی وہ ذرائع ہیں جن سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
(۱۰) منتظمین جلسہ سالانہ کو ہدایات
جلسہ سالانہ ۱۹۳۵ء کے اختتام پر افسر صاحب جلسہ سالانہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے کارکنان جلسہ کا ایک اجلاس مورخہ ۲ جنوری ۱۹۳۶ء کو منعقد کیا جس میں حضور کی موجودگی میں تمام شعبہ جات کے انچارج صاحبان نے اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹیں سننے کے بعد حضور نے یہ تقریر فرمائی اور کارکنان جلسہ کو قیمتی ہدایات سے نوازا۔ ان زرّیں ہدایات کا خلاصہ درج ذیل ہے:۔
۱۔ منتظمین جلسہ کی رپورٹیں پیش کرنے کیلئے ہرمنتظم کے لئے پانچ منٹ مقرر تھے مگر کسی نے کم وقت لیا کسی نے زیادہ اس لئے یا تو وقت کی شرط ختم کر دی جائے یا ہر کوئی مقررہ وقت میں رپورٹ پڑھے۔
۲۔ جہاں ہر روز شرکائے جلسہ کی حاضری کا موازنہ اُسی روز گزشتہ جلسہ کے دن سے کیا جاتا ہے وہاں ۲۲ تا ۳۰ دسمبر تک مجموعی طور پر بھی شرکائے جلسہ کی تعداد کا موازنہ پیش کیا جانا چاہئے۔
۳۔ سٹور روم میں غلہ سٹور کرنے کے لئے ماہرین فن سے مشورہ کیا جانا چاہئے تا سٹور رومز کے قیام سے خرچ میں کفایت ہو سکے۔
۴۔ عورتوں کے جلسہ گاہ میں شور کی شکایت پر آپ نے منتظمین کو توجہ دلائی کہ عورتوں کیلئے عناوین تقاریر آسان ہونے چاہیں اور مقررین کے طور پر ایسی خواتین کا انتخاب ہو جو اونچی آواز والی ہوں۔
۵۔ نیشنل لیگ کے والنٹیرز کور کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
۶۔ جلسہ سالانہ کی رپورٹ کی اشاعت اور روزانہ کی رپورٹ بروقت حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
۷۔ ضلع گورداسپور کی جماعتوں کے لئے جلسہ میں زیادہ جگہ مقرر کرنے اور ان جماعتوں کی تعلیم وتربیت اور ان کی نگرانی پر خصوصیت سے نظر رکھنے کی تلقین فرمائی۔
۸۔ جلسہ کے مہمانوں کی رہائش گاہوں میں توسیع اور بہتر انتظام کے لئے تفصیلی ہدایات دیں۔
۹۔ نانبائیوںکے متعلق نصیحت فرمائی کہ ۴،۵ ماہ قبل جماعتوں سے رابطے کر کے احمدی نانبائیوں کو بُلوایا جائے جو اپنے ساتھ غیراحمدی رشتہ دار نانبائی بھی لے آئیں۔ ان کے دو گروپ بنا دیئے جائیں ایک کام کرے اور ایک جلسہ میں شریک ہو۔
۱۰۔ آخر پر حضور نے جلسہ کے کارکنان کی کارکردگی کو سراہا خصوصًا لجنہ کی ڈیوٹی کی تعریف فرمائی اور جملہ کارکنان کے لئے دعا کی تحریک کی۔

سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ وہ مضمون ہے جو آپ نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد اہلِ کشمیر کے نام تحریر فرمایا اور انہیں نہایت قیمتی مشوروں اور ہدایات سے نوازا۔
یہ وہ دَور تھا جب بعض نااہل اور نادان لیڈروں کی وجہ سے سِول نافرمانی جیسی تحریک سے تحریکِ کشمیر بُری طرح متأثر ہوئی ان نازک حالات میں بھی ’’اسیروں کا رستگار‘‘ ان مظلوموں کی مدد سے غافل نہ تھا بلکہ اپنی مخلص جماعت کے ساتھ ہر ممکن امداد کیلئے کمر بستہ تھا۔ حضور نے اس مضمون میں اپنی اور جماعت کے مخلصین کی اُن کارروائیوں کا تذکرہ فرمایا جس سے اہلِ کشمیر کو بہت فائدہ پہنچا اور انگلستان کے اخباروں اور پارلیمنٹ میں کشمیر کے حقوق پر آوازیں اُٹھنے لگیں۔ آپ نے اہلِ کشمیر کو نہایت اہم قیمتی ہدایت سے نوازا اور سِول نافرمانی کی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کا مُضِرّہونا ثابت فرمایا اور آئندہ ایسی تحریکات سے مجتنب رہنے کی نصیحت فرمائی۔
نیز فرمایا:۔
‏O کسی قسم کی قانون شِکنی نہ کی جائے۔
‏O ظلم کا جواب خود نہ دیا جائے بلکہ قانون کے ذریعہ اس کا ازالہ کیا جائے۔
‏O تنظیم کے بغیر کامیابی ممکن نہیں اس لئے تنظیم کی طرف توجہ دی جائے۔
‏O گلینسی رپورٹ کے مطابق عملدرآمدکا جائزہ لیا جائے۔
‏O اسمبلی میں اپنے نمائندے مقرر کئے جائیں۔
‏O جن حُکّام نے قانون شکنی کی ہے ان کے خلاف مواد اکٹھا کیا جائے تا کہ ان پر مقدمات چلائے جا سکیں۔
(۱۲) اہالیان سندھ و کراچی کے نام پیغام
۱۹۳۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کراچی تشریف لے گئے۔ ۱۷ فروری ۱۹۳۶ء کو جماعت کی طرف سے کلارنی ہوٹل میں آپ کے اعزاز میں ایک شاندار ڈِنر دیا گیا جس میں ہندو، مُسلم اور عیسائی ہر طبقہ کے معززین بھی مدعو تھے۔ کھانے کے بعد حضور نے سامعین کو ایک مختصر مگر نہایت جامع اور قیمتی خطاب سے نوازا۔ آپ نے فرمایا کہ دنیا سے اختلاف کبھی نہیں مٹ سکتے لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہم سب خدا کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں اور خدا اپنی تمام مخلوق سے محبت رکھتا ہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ حضور نے فرمایا کہ آنحضور ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو مسجدِ نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ پس دوسرے مذاہب کے عقائد سے اختلاف رکھنے کے باوجود اگر ہم ایک خدا کے رشتہ کو سمجھ لیں تو ایک دوسرے سے محبت رکھ سکتے ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرمایا کرتے تھے۔
’’میں ہندوؤں کے نبیوں کو بھی مانتا ہوں، عیسائیوں کے نبیوں کو بھی مانتا ہوں کیونکہ اس میں قرآن کریم کی سچائی کا ثبوت ہے‘‘۔
اگر ہم قرآن کریم کی اس تعلیم کو اپنا اصول قرار دے لیں جس پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بہت زور دیا ہے تو ہمارے آدھے جھگڑے ختم ہو جائیں۔ حضور نے اپنے دل کا حال یوں بیان کیا۔
’’میرے دل میں کبھی کسی ہندو ، سکھ یا عیسائی کے لئے نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ میں ا س معاملہ میں یہاں تک تیار ہوں کہ اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی ہندو، عیسائی یا سکھ کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’کئی چھوٹے بھائی ہوتے جو بڑے بھائیوں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں اسی طرح میں کہتا ہوں کہ علمی، اقتصادی اور تمدنی تعلقات کو اُس معیار تک بلند کر لو کہ یہ چھوٹا صوبہ بڑا بن جائے اور دوسروں کے لئے نمونہ ہو‘‘۔
(۱۳) ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے
علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے والے وجود سیدنا حضرت مصلح موعود نے جماعت کی دینی و دنیاوی ہر لحاظ سے بہترین رہنمائی فرمائی۔ آپ نے جہاں جماعت سے بیکاری ختم کرنے کی تحریک فرمائی وہاں صنعت و حرفت کیلئے قادیان میں صنعتی سکول کا قیام فرمایا۔ اس سکول کے افتتاح کے موقع پر آپ نے ۲ مارچ ۱۹۳۶ء کو یہ خطاب فرمایا۔ آپ نے آنحضورﷺ کی حدیث اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَ عِلْمُ الْاَبْدَانِ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا۔
’’رسول کریم ﷺ نے درحقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے‘‘۔
عِلْمُ الْاَبْدَان کے تعلق میں آپ نے درج ذیل ۸ بنیادی شعبوں کا ذکر فرمایا جن پر باقی تمام شعبوں کا انحصار ہے۔
۱۔ زراعت ۲۔کپڑے کی صنعت ۳۔معماری ۴۔لوہاری ۵۔ نجاری۶۔ علمِ کیمیا ۷۔علمِ طب ۸۔ چمڑے کا کام ۔ فرمایا:۔
’’ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے وہ اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کی محتاج نہیں رہتی‘‘۔
اس کے علاوہ آپ نے تجارت کے پیشہ پر بھی روشنی ڈالی اور نئی تجارتی اشیاء دریافت کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ حضور نے علمِ طب سیکھنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا:۔
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری اور طبّ پڑھ لو‘‘۔
حضور نے فرمایا کہ ہندوستان میں بظاہر ہر ادنیٰ شعبوں کو ذلیل سمجھا جاتا ہے اور ہندوستان کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ اسی لئے اہلِ مغرب ان شعبوں پر غالب آئے ہوئے ہیں۔ حضور نے ہندوستان میں اس رواج کی بھی حوصلہ شکنی فرمائی کہ بعض خاندان بعض خاص پیشوں کو اپنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ پیشے اُن کی قومیت بن جاتے ہیں۔ اس لئے آپ نے سکول کا اجراء فرمایا تا کہ ان پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی پیدا کر دی جائے۔ حضور نے سکول کے اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’میں اُستادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ روح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے گویا وہ ’’دست بکار اور دل بیار‘‘ کے مصداق بنیں۔ شروع سے ہی ان کے اندر یہ روح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا ،اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے‘‘ ۔
(۱۴) وہی ہمارا کرشن
یہ وہ ٹریکٹ ہے جس میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے ہندوستان کو نہایت محبت سے اور نہایت لطیف انداز سے دعوت الیٰ اللہ کی جسے انجمن احمدیہ ، خدام الاسلام نے ۲۹ مارچ ۱۹۳۶ء کو برموقع یوم التبلیغ شائع کیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فیضِ عام کا تذکرہ نہایت خوبصورت انداز میں فرمایا جس سے تمام ہندو اور تمام مسلمان یکساں فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ فرمایا:۔
’’اے پیارے ہندو بھائیو! کیوں تم اُس آواز کی طرف دھیان نہیں کرتے جو تمہارے پرمیشور نے ساری دنیا کو اپنے گِرد جمع کرنے کیلئے بلند کی ہے……اس زمانہ کا اوتار کسی خاص قوم کا نہیں، وہ مہدی بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کی نجات کا پیغام لایا ہے، وہ عیسیٰ بھی ہے کیونکہ عیسائیوں کی ہدایت کا سامان لایا ہے۔ وہ نہہ کلنک اوتار بھی ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے ہاں اے ہندو بھائیو! تمہارے لئے خداتعالیٰ کی محبت کی چادر کا تحفہ لایا ہے‘‘۔
حضور نے ہندوؤں میں شرک داخل ہونے کی وجہ خداتعالیٰ سے دُوری بتائی اور انہیں بتایا کہ نہ کرشن نے نہ رام چندر نے کسی مورتی کے آگے سر جُھکایا پس جو کام انہوں نے نہ کیا وہ آپ کیوں کرنے لگے؟ فرمایا کہ اِس زمانہ میں کرشن علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق وہ نہہ کلنکی اَوتار آیا ہے تاکہ دوبارہ ہر شخص جو پرماتما سے محبت کرنا چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے اپنے ایشور سے مل سکے۔ آپ نے ہندوؤں کو اس بات کی دعوت دی کہ اگر کوئی سچے دل سے میری طرف رجوع کرے اور اپنی مشکلات کیلئے دعا کرائے تو اللہ تعالیٰ اُس کی مشکلوں کو دُور کر دے گا مگر شرط یہ ہے کہ پھر وہ دنیا کی محبت چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے لئے جو اُس نے تدبیریں بتائی ہیں اُن پر عمل کر کے پرماتما کے سچے عاشق اور مخلص سیوک بن جائیں۔
(۱۵) تحریک جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے اُس سمندر کا جو تمہارے سامنے آنے والا ہے
مؤرخہ ۲۸ جون ۱۹۳۶ء کو قادیان میں تحریک جدید کے بارہ میں جلسہ کا انعقاد ہؤا جس میں حضرت مصلح موعود نے باوجود ناسازی ء طبع کے نہایت بصیرت افروز اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا۔ آپ نے نہایت دلکش انداز سے مثالوں اور واقعات کے ذریعہ قربانیوں کے فلسفہ، قربانیوں کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔
تحریک جدید کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسانی فطرت جدّت پسند ہے وہ سب کچھ سننے کے بعد پھر بھی خواہش کرتی ہے کہ کچھ سنایا جائے اور نئے پیرایہ میں سنایا جائے اسی لئے میں نے اس تحریک کا نام ’’جدید‘‘ رکھا حالانکہ یہ تحریک کوئی جدید نہیں بلکہ قدیم ترین تحریک ہے اور دنیا کے آغاز سے ہی ہر نبی کے دَور میں یہ تحریک پیش کی گئی۔
قربانیوں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کا یہ اصول ہے کہ بڑی چیزوں پر ہمیشہ چھوٹی چیزوں کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزور انسانیت کیلئے اپنے قیمتی سے قیمتی جوہروں کو قربان کیا۔ چنانچہ ہر دَور میں جب انسان بدبختی اور شقاوت کا شکار ہوا اللہ تعالیٰ نے اپنے قیمتی وجود یعنی انبیاء کو بھیجا جنہوں نے اُس قوم کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ آپ نے تفصیل کے ساتھ ان قربانیوں کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ بِالآخر ان تمام قربانیوں کا اجتماع ہمیں آنحضور ﷺ کی ذات میں نظر آتا ہے۔ آپ کو اس قدر قربانی دینی پڑی کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا پڑا۔
’’اے محمد رسول اللہ ﷺ! شاید کہ غم کی چُھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے تیری گردن کے آخری تسموں کو بھی کاٹ دے گی‘‘ ۔
جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا جس دشمن سے ہمارا واسطہ ہے اُس کی ہیبت سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا ہے اس کا حملہ اس قدر خوفناک ہے جس سے اسلام کا حُلیہ بگڑ گیا ہے۔ لوگ اپنی معمولی تکلیفوں سے پریشان ہو کر دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں مگر انہیں اسلام کی اس تکلیف کا احساس نہیں جس پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
حضور نے قرآن کریم سے بے اعتنائی کا ذکر بھی بڑے درد کے ساتھ فرمایا اور جماعت کو نہایت درد مندی سے دعائیں کرنے اور اسلام کی زندگی اور قرآن کی زندگی کے لئے ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا:۔
’’تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اُس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ جو شخص قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کُودے گا……ابھی تو اس سمندر میں تمہیں تیرنا ہے۔ جس سمندر میں تیرنے کے بعد دنیا کی اصلاح کا موقع تمہیں میسّر آئے گا‘‘۔
(۱۶) سر میاں فضل حسین صاحب کی المناک وفات پر خطاب
سر میاں فضل حسین صاحب کی وفات پر موء رخہ ۱۰جولائی ۱۹۳۶ء کو حضور نے اُنہیں خراجِ تحسین سے نوازا اور ان کی موت کو مخالفینِ احمدیت کے لئے ایک نشان قرار دیا۔
آپ نے ہندوستان کی سیاست خصوصاً پنجاب کی سیاست کے حالات بیان فرمائے کہ پنجاب کو کچھ حقوق ملنے پر بعض مخالف لوگ (جن میں کانگرس اور مجلسِ احرار بھی شامل ہے) سیخ پا ہیں۔ اس لئے خدشہ ہے کہ پنجاب کے آئندہ حالات نہایت خطرناک ہوں اور مسلمان لیڈر آپس میں اُلجھ پڑیں۔ ان حالات میں میاں فضل حسین صاحب کی ذات ایسی تھی جو مسلمان لیڈروں کو قابو میں رکھنے اور اُنہیں میانہ روی پر چلانے کی اہل تھی ان کی وفات کی وجہ سے پنجاب کے مسلمانوں کی سیاسی دنیا میں ایک بہت بڑا شِقاق پیدا ہو گیاہے۔ حضور نے دعا کی تحریک فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سیاسی حالات ٹھیک کر دے اور دنیا میں امن قائم ہو تا ہماری تبلیغ میں کسی قسم کی رُکاوٹ پیدا نہ ہو۔
حضور نے فرمایا کہ میاں فضل حسین صاحب پر ہمارے مخالفین کی طرف سے بہت بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ احمدی نواز ہیں اس طرح وہ انہیں ذلیل کر کے لوگوں کی نظروں سے گرانا چاہتے تھے۔ یہ اُس وقت الزام لگایا جب وہ گورنمنٹ کے عُہدہ سے الگ ہو کر پنجاب میں بیماری کی حالت میں آ بیٹھے تھے۔ اب بظاہر اُن کے لئے دوبارہ کوئی عہدہ حاصل کر کے پھر عزت حاصل کرنا ناممکن تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے غیرمعمولی حالات پیدا کر دیئے اور انہیں وفات سے تین ہفتہ قبل پنجاب کا وزیرِ تعلیم بنا دیا اور انہیں اس قدر عزت دی کہ ان کی وفات سے چند دن پہلے ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ اصل میں ہندوستان پر سر میاں فضل حسین صاحب حکومت کر رہے ہیں کیونکہ پنجاب میں وہ خود ہیں۔ گورنمنٹ آف انڈیا میں سر ظفراللہ خان ان کی طرف سے مقرر ہیں اور ولایت میں سر فیروز خان نون ہیں۔ ان کی پارٹی کے اور بھی لوگ ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ پس اگرچہ وہ احمدی نہ تھے مگر چونکہ احمدیت کی خاطر لوگوں کی طرف سے اُن پر اعتراض کیا گیا اور انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں اپنی غیرت کا مظاہرہ کیا اور انہیں غیرمعمولی طور پر عزت کے ایک مقام پر پہنچا کر بتا دیا کہ جو شخص احمدیت کیلئے اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے بھی اپنی غیرت کا اظہار کیا کرتا ہے۔
(۱۷) مغربی ممالک میں تبلیغِ اسلام کے سلسلہ میں اہم ہدایات
پیشگوئی مصلح موعود میں ایک یہ علامت بیان کی گئی تھی کہ وہ ’’زمین کے کناروں تک شُہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔‘‘ حضرت مصلح موعود کو شروع سے ہی غیرممالک میں تبلیغِ اسلام کا بے حد شوق تھا۔ چنانچہ آپ نے احمدی مبلغین کو ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
۲۱۔اکتوبر ۱۹۳۶ء کو دو مبلغینِ سلسلہ کے اعزاز میں جو خدمتِ دین کے لئے امریکہ بھجوائے جا رہے تھے ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی اس موقع پر آپ نے تحریک جدید کے طلباء سے خطاب فرمایا جس میں مبلغین اور طلباء کو نہایت ضروری اور قیمتی ہدایات سے نوازا۔
آپ نے فرمایا کہ مغربی ممالک آرام و آسائش کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ ہیں ہر کوئی وہاں جانا چاہتا ہے اس لئے اپنے وطن کو چھوڑ کر ان ممالک میں جانا تو کوئی قربانی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں جا کر اسلامی شریعت پر مضبوطی سے قائم ہونا، وہاں کے اثرات اور غالب خیالات پر چھا جانے کی کوشش کرنا، اُس قوم کی اسلام پر ہنسی اور تمسخر کو حوصلے سے برداشت کرنا ہی دراصل قربانی ہے۔ مثلاً جب وہ اسلامی پردہ، تعدّدازدواج، عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا اور اُن سے میل جول نہ رکھنے پر اعتراض کرتے ہیں تو بجائے منہ چُھپانے کے یا مداہنت اختیار کرنے کے بڑی جراء ت اور دلیری سے انہیں جواب دینا اور اسلامی تعلیم کی خوبیاں ثابت کرنا اور اس کے ساتھ عملاًاسلامی تعلیم ان میں رائج کرنا یہ حقیقی قربانی ہے جس کا تقاضا مبلغین سے کیا جاتا ہے۔
تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے نصیحت فرمائی کہ مبلغین کے مدنظر محض بیعت کروانا نہ ہو بلکہ ایسے سچے اور صاف اور مخلص مسلمان بنانا مقصد ہو جنہیں وہ خدا کے حضور پیش کر سکیں۔ اس لئے جو شخص کسی کو مسلمان بنانے میں اسلامی تمدن، اسلامی احکام اور اسلامی اصول میں سے ایک چھوٹے سے حُکم کو بھی نظرانداز کرتا ہے وہ خدا کے لئے لوگوں کو مسلمان نہیں بناتا بلکہ اپنے نام اور اپنی شُہرت کیلئے مسلمان بناتا ہے۔ وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہو گا خواہ اس راہ میں مارا جائے کیونکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ قربانی کس مقصد کی خاطر کی جا رہی ہے۔ ایسی تبلیغ جس کے نتیجے میں اسلامی تعلیم پر عمل نہیں ہوتا وہ اسلام کی فتح کو قریب نہیں کرتی بلکہ دُور ڈال دیتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر نیا بننے والا مسلمان پہلے دن سے ہی تمام تعلیم پر عمل شروع کر دے۔ ممکن ہے اُسے ایک دو یا تین ماہ لگیں مگر شروع سے ہی انہیں اسلامی تعلیم سے پوری طرح آگاہ کر دینا چاہئے۔
حضور نے مغربیت کا مقابلہ کرنے کے لئے مبلغین کو خصوصیت سے توجہ دلائی فرمایا:۔
’’یہاں سے جب بھی وہ نکلیں اِس روح کو لے کر نکلیں کہ مغربیت کا مقابلہ کرنا ان کا فرض ہے……دنیا کا واحد علاج اِس وقت مغربیت کا کُچلنا ہے۔ جب تک ہم مغربیت کو کُچل نہیں سکتے اُس وقت تک دنیا میں روحانیت قائم نہیں ہو سکتی‘‘۔
اسی ضمن میں حضور نے تحریکِ جدید کے مقاصد پر روشنی ڈالی کہ جماعت میں قربانی کی روح پیدا کرنے اور مغربیت کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ تحریک جاری کی گئی ہے۔
تحریک جدید کے بورڈنگ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو حضور نے خصوصیت سے تحریک جدید کو سمجھنے اور اس کی روح اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا:۔
’’یاد رکھو کہ تم تحریک جدید کے سپاہی ہو اور سپاہی پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تمہارے نگرانوں کا فرض ہے کہ وہ تمہارے سامنے متواتر لیکچر دے کر تحریک جدید کی اغراض تمہیں سمجھائیں……تم تحریک جدید کے حامل ہو اور تمہارا فرض ہے کہ تحریک جدید پر نہ صرف خود عمل کرو بلکہ دوسروں سے بھی کراؤ‘‘۔
(۱۸) ایک رئیس سے مکالمہ
یکم نومبر ۱۹۳۶ء کو ایک مسلمان رئیس حضور سے ملاقات کیلئے قادیان آئے۔ ملاقات کے دَوران میں انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنے چند سوال پیش کئے حضور نے ان کی تسلی کے لئے وضاحت سے جواب عنایت فرمائے۔
انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ جماعت احمدیہ کوئی مذہبی جماعت نہیں اور دُنیوی طور پر اس نے جس قدر ترقی کرنی تھی کرچکی ہے مزید ترقی نہیں کر سکتی۔ حضرت مصلح موعود نے مُحقّقانہ رنگ میں جواب دیا اور واقعات کے ذریعہ ثابت فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی ترقی کوئی عام دنیاوی ترقی نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی وجہ سے ہے اور فرمایا کہ:۔
’’احمدیت کی اصل ترقی تو روحانیت یا معارف و حقائق کی ترقی ہے۔ لیکن کمزور لوگوں کیلئے خداتعالیٰ نے اس کو دُنیوی ترقی بھی دی ہے اور دے گا۔ لیکن دُنیوی ترقی اس کا اصل مقصود نہیں‘‘۔
نیز فرمایاکہ:۔
’’ہمارا تو ایمان ہے کہ دُنیا کی تمام بادشاہتیں ہمیں ملیں گی لیکن ہمارا اصل مقصود دین ہے‘‘۔
غیر احمدی رئیس کا دوسرا سوال یہ تھا کہ تبلیغ کی ضرورت نہیںہے اگر آپ حق پر ہیں تو دعا کریں آپ کی دعا اگر قبول ہو گئی تو مجھے خود بخود کھینچ لے گی۔
حضور نے نہایت تفصیل سے اس کے ان خیالات کی غلطیوں پر روشنی ڈالی اور تبلیغ کی ضرورت وفرضیت اور دعا کی حقیقت اور توکّل کے مقام پر نہایت پُرمعارف روشنی ڈالی اور ان کا باہم تعلق بیان فرمایا۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ نے تبلیغ کا خود حُکم دیا ہے۔ دعا کے تعلق میں فرمایا:۔
’’دعا بھی وہی تبلیغ کی قائمقام ہو سکتی ہے جس میں کامل انابت الیٰ اللہ ہو۔ دعا درحقیقت کامل انابت الی اللہ کا ہی نام ہے‘‘۔
آپ نے مختلف واقعات اور مثالوں کے ذریعہ ثابت فرمایا کہ عموماً دعا، توکّل اور تبلیغ تینوں چیزیں اکٹھی چلتی ہیں۔
(۱۹) حکومتِ برطانیہ کا تازہ انقلاب اور الفضل
حضرت المصلح الموعود کا یہ مضمون ۲۰ دسمبر ۱۹۳۶ء کا تحریر فرمودہ ہے۔ یہ مضمون آپ کی سیاسی بصیرت اور غیرمعمولی ذہانت وفراست کا ثبوت ہے۔ ہؤا یوں کہ ۱۹۳۶ء میں انگلستان کے مشہور بادشاہ ایڈورڈہشتم بادشاہت سے دست بردار ہو گئے۔ عموماً اخبارات میں ان کی معزولی کی وجہ ایک عورت بتائی جانے لگی جس کی خاطر انہوں نے بادشاہت چھوڑ دی۔ ایڈیٹر صاحب الفضل نے ۱۴ دسمبر ۱۹۳۶ء کے افتتاحیہ میں تحریر فرمایا کہ بادشاہ نے ایک عورت کی خاطر ملک کی بادشاہت کو چھوڑ کر قابلِ تعریف کام نہیں کیا۔ بادشاہ کو مجبور اور قابلِ ہمدردی تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن وہ ایثار اور قربانی کرنے والے قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
حضور نے واقعات اور وجوہات بیان فرما کر ا س تأثر کو غلط ثابت فرمایا اور اصل حقائق سے پردہ اُٹھایا۔ حضور نے بتایا کہ مسز سمپسن جے کو اس واقعہ میں خاص شُہرت ملی کہ بادشاہ کے ساتھ کافی عرصہ سے تعلقات تھے۔ وہاں کا حُکّام طبقہ، مذہبی طبقہ اور عوام ا لناس بھی اِسے جانتے تھے۔ یہ خاتون باقاعدہ شاہی دعوتوں میں بُلائی جاتی تھی۔ اخبارات میں یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی تھیں کہ مسز سمپسن اپنے شوہر سے طلاق لے کر بادشاہ سے شادی کر لیں گی۔ اُس وقت بادشاہ کی مخالفت کہیں سے بھی نہیں ہوئی۔
فرمایا کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ بادشاہ عیسائیت کی بعض رسموں سے اختلاف رکھتے تھے اور پادریوں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کو ناپسند کرتے تھے۔ بقول کرنل وجوڈ کے بادشاہ پوری طرح عیسوی مذہب کے قائل نہ تھے چونکہ انگلستان کا بادشاہ Defender of Faith کہلاتا تھا اس لئے پادریوں کیلئے یہ صورتحال ناقابلِ برداشت تھی اس لئے وہ اندر ہی اندر اس کے خلاف تھے اور اس ناراضگی کے اظہار کا موقع انہیں اب ملا جب بادشاہ نے ایک مطلقہ سے شادی کی۔
بادشاہ کا مؤقف اصول پر مبنی تھا کہ چونکہ گورنمنٹ کے قانون کے تحت خاتون کو طلاق ہوئی ہے۔ اس لئے اُس سے شادی کرنے کا قانونی حق ہے۔ ملک کی اکثریت بادشاہ کے ساتھ تھی البتہ کیتھولک کی متشدد اقلیت اس کے خلاف تھی اور پادری اسے ہوا دے رہے تھے۔ جس سے ملک میں فساد ہونے کا خطرہ تھا۔ اس صورتحال میں بادشاہ کے لئے دو راستے تھے۔ یا تو وہ پادریوں کے دباؤ میں آ جاتا اور اپنا قانونی حق استعمال نہ کرتا اور محض اس لئے اُس عورت سے وعدہ پورا نہ کرتا کہ وہ مطلقہ ہے یا پھر شادی کر لیتا جس کی قانون اجازت دیتا تھا تاہم اس سے ملک میں فساد ہونے کا اندیشہ تھا۔
اس صورتِ حال میں بادشاہ نے بہترین فیصلہ کیا کہ ایک طرف اصولی موء قف اختیار کیا اور دوسری طرف ملک کو فساد سے بچانے کیلئے اپنے تخت کی قربانی دے دی۔
حضور نے یہ تجزیہ پیش کرنے کے بعد آنحضرتﷺکی اُس پیشگوئی کا ذکر فرمایا کہ مسیح موعود کے زمانے میں عیسائیت آپ ہی آپ پِگھل جائے گی اور بتایا کہ کس شان سے یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت جس کے بادشاہ کو محافظِ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں ایسے تغیرات پیدا ہو رہے ہیں کہ اس کے مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسوم ادا کرنے سے اِس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ان کی ضمیر کی آواز کے خلاف تھی اور اس اعتراض کا بھی ازالہ ہؤا کہ اسلام نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے مطلقہ عورت سے شادی کی ہے۔ پس انقلابِ انگلستان اسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے۔
(۲۰) جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ
رب العزت پرگریہ و بُکا کرنے کا نتیجہ ہے
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ مختصر سا مگر نہایت ولولہ انگیز اور روح پرور خطاب ہے جو آپ نے ۲۶ دسمبر ۱۹۳۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:۔
حضور نے ۴۰ سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور کے ایک جلسہ کا ذکر نہایت درد بھرے الفاظ میں کیا اور فرمایا کہ اس میں دو اڑھائی سَو احباب شامل تھے اور ایک یا دو دَریوں پر سما گئے تھے اور اس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں یہ معمولی سی غریبانہ جماعت اس لئے جمع ہوئی کہ وہ محمد رسول للہ ﷺ کے جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دے گی۔ اُن کے دل سے نکلی ہوئی گریہ وزاری نے عرش کو ہلا دیا۔ فرمایا:۔
’’اس آہ کے نتیجہ میں وہ پیدا ہؤا جو آج تم اس میدان میں دیکھ رہے ہو……آپ لوگ جو اس موقع پر موجود ہیں وہ اُن آہوں اور اُس گریہ وزاری کا نتیجہ ہیں جو اس جگہ پر اُن چند لوگوں نے کی تھی‘‘ ۔
حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی۔
’’پس آئو کہ ہم میں سے ہر شخص اس نیت اور اس ارادہ سے خداتعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے کہ میں اس کی دُنیوی جنت کے لئے ایک گُٹھلی اور ایک بیج بن جاؤں گا تا میں اکیلا ہی دنیا میں فنا نہ ہو جاؤں بلکہ میری فنا سے ایسا درخت پیدا ہو جسے مجھ سے بہتر یا کم ازکم میرے جیسے پھل لگنے لگیں۔ وہ اڑھائی تین سَو گُٹھلیاں آج لاکھوں بن گئی ہیں اگر تم بھی اپنے آپ کو اُسی طرح قربانیوں کے لئے تیار کرو تو ان لاکھوں گُٹھلیوں سے کروڑوں درخت پیدا ہو سکتے ہیں‘‘ ۔
آخر میں حضور نے نہایت پُرسوز دعا کروائی۔ نیز فرمایا کہ پہلے آواز پہنچانے کا مسئلہ تھا مگر اب لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ میلوںتک بیٹھے لوگوں تک آواز پہنچائی جا سکتی ہے اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے۔ فرمایا۔
’’اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ ہر مسجد میں وائرلیس کا سیٹ لگا ہؤا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو وہی تمام دنیا کے لوگ سُن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں‘‘۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ اب حضور کی یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔
(۲۱) مستورات سے خطاب
سیدنا حضرت المصلح الموعود نے اپنے دورِ خلافت میں عورتوں کی علمی، تربیتی اور روحانی ترقی پر بہت توجہ دی۔ آپ مستورات کو مردوں کے شانہ بشانہ بلکہ بعض پہلوؤں سے اُن سے بڑھ کر دیکھنا چاہتے تھے۔ جلسہ سالانہ ۱۹۳۶ء کے موقع پر آپ نے مستورات کو اپنا علمی معیار بلند کرنے کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی تا وہ احمدیت کی امتیازی تعلیم اور دلائل سے آگاہ ہو کر جہاں غیروں میں تبلیغ کر سکیں وہاں ان کا اپنا یقین اور ایمان پختہ ہو۔
آپ نے مثالوں کے ذریعہ بتایا کہ ہر کام جو کیا جاتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلتا ہے اور جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اُسے کوئی عقلمند انسان پسند نہیں کرتا۔ پس احمدیت قبول کرنے کے بعد بھی کچھ نتائج نکلنے چاہئیں اور ہماری علمی ،اخلاقی اور روحانی حالت میں تغیر آنا چاہئے۔
آپ نے احمدیوں اور غیروں کے درمیان موجود بنیادی اختلافات کو نہایت آسان اور دلکش انداز میں پیش فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کی۔
آخر پر آپ نے تحریک جدید کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قربانیاں پیش کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’پس تم اپنے اندر احمدیت کی ایسی روح پیدا کرو اور ایسے بیج لے کر جاؤ کہ تمہارے دلوں میں نور اور عرفان پیدا ہو اور ایسا بیج ہو کہ تمہارے اندر ایسا پھل لائے جو تم سال بھر کھاؤ اور تمہارے بچوں اور خاوندوں اور تمہارے بہن بھائیوں اور ہمسایوں کی زندگیاں سنور جائیں‘‘۔
(۲۲) فضائل القرآن (۶)
حقائق اور معارف سے پُر فضائل القرآن کے موضوع پر تقاریر کا جو سلسلہ حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء سے جاری فرمایا تھا اس سلسلہ کی یہ چھٹی اور آخری تقریر ہے جو آپ نے ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء کے جلسہ سالانہ پر فرمائی۔ اس میں آپ نے ترتیبِ قرآن اور استعارات کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔
تقریر کے آغاز میں حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں قرآن کی برتری ثابت کرنے کے لئے تین سَو دلائل دینے کا اظہار فرمایا تھا مگر بعد میں اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے تحت ایک اور رنگ میںاِس وعدے کی تکمیل ہو گئی۔
میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو مَیں نے دلائل کو گِنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سَو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو میں نے اِس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں۔
الہامی کتب کے دو مشکل مضامین: حضور نے بتایا کہ ہر الہامی کتاب میں بعض مشکل مضامین ہوتے ہیں جنہیں نہ سمجھنے کے نتیجہ میں لوگ ٹھوکریں کھا جاتے ہیں۔
فرمایا: الہامی کتب کی ترتیب عام کتابوں سے ہٹ کر مختلف ہوتی ہے اسے سمجھے بغیر قرآن کا عرفان حاصل نہیں ہو سکتا۔ عام کتب کی ترتیب مضامین کے اعتبار سے ہوتی ہے مثلاً نماز کا ایک الگ باب باندھا جاتا ہے روزے کا الگ مگر قرآن کی ترتیب ایسی نہیں ۔ اس نرالی ترتیب کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ مثلاً:۔
(۱) تاکہ سارے کلام میں دلچسپی پیدا ہو۔
(۲) تا خشیتِ الٰہی پیدا ہو۔
(۳) تاکہ غور و فکر کی عادت ہو۔
اس لئے قرآن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اسے بار بار پڑھنا چاہئے اور اس یقین سے پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانے ہیں۔
فرمایا ہر زبان میں تشبیہہ اور استعاروں کا استعمال موجود ہے۔ ہر اعلیٰ علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں۔ جنہیں نہ سمجھنے کے نتیجہ میں انسان غلطی کرتا اور ٹھوکر کھاتا ہے۔ مثلاً آنحضورؐ نے عورتوں کو نوحہ کرتے دیکھ کر فرمایا ’’ان کے سر پر مٹی ڈالو‘‘ اس پر ایک صحابی سچ مچ مٹی ڈالنے لگے۔ جس پر حضرت عائشہؓ نے اُسے ڈانٹ دیاکہ حضورؐ کی مراد تو یہ تھی کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔
فرمایا استعارے کے بہت سے فوائد ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے مثلاً (۱) اس سے اختصار پیدا ہوتا ہے۔ (۲) لمبے مضامین چھوٹے سے فقرہ میں سما جاتے ہیں۔ (۳)اس سے وُسعتِ نظر پیدا ہوتی ہے۔ (۴)بعض دفعہ مضمون کو اونچا کرنے اور نظر کو وسیع کرنے کے لئے استعارہ لانا پڑتا ہے (۵) اور بعض دفعہ وسیع مضمون کو قریب کرنے کے لئے۔ پس استعاروں کے بغیر بعض مضامین بیان ہی نہیں ہو سکتے۔
قرآن کریم اپنے استعاروں کو خود حل کرتا ہے وہ یہ اصول بتاتا ہے کہ اس کی بعض آیات مُحکمات ہیں اور بعض متشابہات، متشابہات کو مُحکمات کے تابع رکھ کر حل کیا جائے گا ورنہ اختلاف پیدا ہو گا جبکہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
آنحضور ﷺ نے نصیحت فرمائی ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح کتاب میں اختلاف نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ قرآن کریم کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرتی ہے۔ پس جو آیت دوسری کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تقریر کے آخر میں حضور نے فرمایا:۔
’’غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے……اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی پیش نہ کر دوں تو وہ بے شک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقع میں قرآن کریم کے سِوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں‘‘ ۔
(۲۳) جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں
میاں فخرالدین صاحب ملتانی کا حصہ
مؤرخہ ۲۶ جون ۱۹۳۷ء کو بمقام بیت اقصیٰ قادیان، سیدنا المصلح الموعود نے خطاب فرمایا جس میں میاں فخرالدین صاحب ملتانی کی فتنہ پردازیوں اور جماعت کے خلاف بُغض و کینہ کی تفصیلات سے احبابِ جماعت کو آگاہ فرمایا اور اُسے اخراج اور مقاطعہ کی سزا سنائی۔
حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ اگر کسی کو سزا ملے تو اُسے سزا برداشت کرنی چاہئے اور ساتھ توبہ کرنی چاہئے اگر وہ قصوروار نہیں تو بھی وہ اپنے امیر پر کم از کم اس قدر حُسنِ ظنی تو رکھے کہ اُس نے دیانتداری سے فیصلہ کیا ہے اِس صورت میںاللہ اس کی مدد کرے گا اور جزادے گا۔ اطاعت کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانون یہی ہے کہ جو بھی امیر ہو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اُس کی فرمانبرداری کی جائے ورنہ دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔
اس تمہید کے بعد حضور نے میاں فخرالدین ملتانی کے افتراء اور بُہتان بازی کی تفصیلات سے آگاہ فرمایا اور بتایا کہ مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری مولوی فاضل کا خط ملا جس میں انہوں نے ملتانی صاحب کے نظامِ جماعت اور حضور کے خلاف الزامات کا ذکرکیا تھا حضور نے تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر فرمایا جس نے میاں فخرالدین صاحب سے بیانات لئے۔ حضور نے یہ سب بیانات پڑھ کر سنائے اور ایک ایک اعتراض اور الزام کا تفصیلی جواب دیا۔
فخرالدین ملتانی صاحب کافی عرصہ سے مخفی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے اور اپنے حلقہ احباب میں جماعت کے خلاف بولتے تھے مگر ڈاکٹر فضل دین صاحب کے گھر ہونے والی چوری کے واقعہ پر خلیفۂ وقت کے خلاف ان کا اندرونی گند اور بُغض کھل کر سامنے آ گیا۔
حضور نے خلافت کی حفاظت اور اس کی عزت اور وقار کی اہمیت بیان کرتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ:۔
’’تمہاری عزّت اسی میں ہے کہ خلافت کی عزت کرو اور جو شخص اس کی بے عزتی کے لئے کھڑا ہو تم اُس سے تعلق نہ رکھو۔ بے شک اسلام میں قانون کا اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں ہے لیکن ایسے شخص سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کر کے تم اپنے فرض کو ادا کر سکتے ہو اور اعلان کر سکتے ہو کہ اب یہ شخص ہم میں سے نہیں ہے۔ اب یہ بات تمہارے اپنے اختیار میں ہے چاہے تو خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کی عزت کو قائم کر کے خود بھی عزت پاؤ اور چاہے تو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالو اور خدائی تلوار تمہیں اور تمہاری اولادوں کو تباہ و برباد کر دے‘‘ ۔
(۲۴) مشکلات کے مقابلہ میں بہادرانہ طریق عمل اختیار کرو
۱۹۳۷ء میں مقدمہ قبرستان کا واقعہ پیش آیا۔ ہؤا یوں کہ ایک احمدی لڑکی فوت ہو گئی اُس کی تدفین کے لئے جب احمدی قبرستان پہنچے تو احراریوں نے نعش دفنانے سے روکنا چاہا حالانکہ وہ قبرستان حضور کے آباؤ اجداد کا تھا ۔ اس پر بعض نوجوانوں اور احراریوں کے درمیان ہاتھہ پائی ہوئی اور احمدیوں کے خلاف مقدمہ دائر ہو گیا۔حضور نے متعلقہ احمدیوں کو مشورہ دیا کہ اگر جُرمانہ یا قید کی سزا سنائی جائے تو قید قبول کریں۔ مقدمہ میں باقی ملزمان تو رہا ہو گئے مگر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کو سزا ہو گئی انہوں نے پندرہ بیس روز کی جیل کاٹی، جیل سے رہائی پر جمعیت فتیان الاحمدیہ نے ۱۰ جولائی کو ان کے اعزاز میں دعوت دی۔ اس موقع پر حضور نے یہ مختصر سا خطاب فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔
’’میرے نزدیک ہماری جماعت ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس حالت کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہوئے جو بدقسمتی سے نظامِ حکومت میں پیدا ہو گئی ہے ہماری جماعت کا ایک فرد جیل خانہ میں گیا۔‘‘
حضور نے نظامِ حکومت کو بہتر بنانے کے لئے گورنمنٹ کو ایگزیکٹو اور جوڈیشنل کو الگ الگ کرنے کی تجویز دی کیونکہ ماتحت اداروں کے چھوٹے افسر ایک دوسرے سے تعلقات رکھتے ہیں وہ مجبور ہوتے ہیں کہ ان تعلقات کو نبھائیں ۔اس لئے بسااوقات خصوصاً جب گورنمنٹ فریق بنتی ہے تو طبعاً اس طرف مائل ہو جاتے ہیں اور انصاف کا پورا خیال نہیں رکھا جاتا۔
حضور نے جماعت کو دلیری اور بہادری دکھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جو کوئی مصیبت میں گھِر جائے اُسے بجائے بُزدلی دکھانے کے ایسی بہادری دکھانی چاہئے کہ لوگ سمجھ لیں احمدی بُزدل نہیں۔‘‘
آپ نے نیشنل لیگ کور کے قیام کا مقصد بھی یہی بتایا تا احمدی نوجوانوں میں بہادری اور ایثار سے کام کرنے کی عادت پڑے اور وہ غریبوں، بیماروں اور مصیبت زدوں کی مدد کریں کیونکہ یہی حقیقی بہادری ہے۔
(۲۵) موجودہ فتنہ میں کُفر کی تمام طاقتوں کا ہمارے خلاف اجتماع ہماری صداقت کا روشن ترین ثبوت ہے
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کی قید سے رہائی کے بعد ۱۱ جولائی ۱۹۳۷ء کو نیشنل لیگ قادیان نے ان کے اعزاز میں دعوت دی اس موقع پر حضور نے اپنے خطاب میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضور ﷺ تک ہر دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ازل سے شیطان اور فرشتوں کے درمیان جنگ رہی ہے۔ دنیا میں جب بھی حق کی آواز بلند ہوئی اور کسی بھی مأمور کا ظہور ہوا ہمیشہ ان کی شدید مخالفت کی گئی اور کسی ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ شیطان نے مخالفت نہ کی ہو یا اُس نے غلطی سے انبیاء کا ساتھ دیا ہو۔
حضور نے فرمایا یہی تاریخ آج دُہرائی جا رہی ہے اور ہمارے خلاف بھی تمام مذاہب، تمام فرقے اور تمام قومیں متحد ہو چکی ہیں اور اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ کا عملی ظہورہو رہا ہے۔ مخالفت میں یہاں تک انتہاء کر دی ہے کہ اب احمدی مُردوںکو بھی قبرستانوں میں دفن ہونے نہیں دیا جا رہا۔
حضور نے فرمایا کہ مصری صاحب اور مولوی فخرالدین صاحب جو جماعت سے الگ ہو گئے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جماعت دہریہ ہو رہی ہے اور وہ جماعت کی اصلاح کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی پُشت پناہی احراری اور پیغامی وغیرہ کر رہے ہیں اور ان کے اشتہار بانٹ رہے ہیں۔ تعجب کا مقام ہے کہ اگر ان کا دعویٰ درست ہے تو شیطانی طاقتوں کو ان کے خلاف ہونا چاہئے تھا اور ہمارا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ بقول اُن کے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ہم بگڑ گئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف جا رہے ہیں پھر یہ کیسے ہوا کہ وہ تمام مخالف قوتیں سچوں کے ساتھ مل گئی ہیں؟ پس مخالفین کا مصری صاحب اور فخرالدین صاحب کے ساتھ ملنا اور ان کی مدد کرنا صاف بتا رہا ہے کہ اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ کے مطابق یہ سب کفر کی قوتیں ہیں جو آج جماعت کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ پس یہ جماعت کی صداقت کا ایک روشن اور بیّن ثبوت ہے۔
(۲۶) قیامِ امن اور قانون کی پابندی کے متعلق
جماعت احمدیہ کا فرض
۱۹۳۴ء کے فتنہ میں احراریوں کی زبردست شکست کے بعد مخالفین نے جماعت کے خلاف کئی نئے محاذ کھول لئے۔ ان میں سے ایک مرتدین کا فتنہ تھا۔ میاں فخرالدین صاحب ملتانی بھی انہی بدقسمت مخالفین میں شامل تھے انہوں نے خلافتِ احمدیہ کے خلاف نہایت اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور اشتہار شائع کئے جس سے مشتعل ہو کر قادیان کے ایک احمدی نوجوان میاں عزیز احمد نے ان پرحملہ کر دیا۔ اس واقعہ کا حضرت مصلح موعود نے سختی سے نوٹس لیا اور جماعت کو صبر دکھانے، قانون کی پابندی کرنے اور کامل اطاعت کا نمونہ پیش کرنے کی تلقین فرمائی۔
آپ نے فرمایا اسلام ہمیں قانون کی پابندی کا تاکیداً حکم دیتا ہے۔ سزا دینا قانون کا حق ہے اور کسی کو اس کا ختیار نہیں۔ اس لئے اگر کوئی خود ہی کسی کو سزا دے تو وہ شخص خود مُجرم بن جائے گا اور شریعت کے برخلاف چلنے سے وہ خدا کی ناراضگی کا بھی موجب بنے گا۔
فرمایا:۔
’’جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا اور کسی ذاتی یا جماعتی مخالف پر ہاتھ اُٹھائے گا اُسے مَیں آئندہ فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا۔‘‘
آپ نے جماعت کو بار بار دعا، صبر سے کام لینے، شریعت کے تابع رہنے اور کامل اطاعت کی طرف توجہ دلائی اور نصیحت کی کہ اپنے بھائیوں کے افعال کی بھی نگرانی کریں کیونکہ جب ایک احمدی غلطی کرتا ہے تو وہ ساری جماعت کی طرف منسوب ہوتی ہے اس قسم کے واقعات خواہ کتنے ہی قلیل ہوں ان سے ہماری جماعت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
آپ نے فرمایا:۔
’’ہمیں تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے جس کی مثال دنیا کے لوگوں میں بالکل ہی نہ ملتی ہو۔ پس اے دوستو ! بیدار ہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اُس اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم از کم آئندہ کے لئے کوشش کرو کہ سَو میں سے سَو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اُس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خداتعالیٰ نے تمہاری حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے اور اَلِاْمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح تم سے خوش ہو جائے۔‘‘
(۲۷) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۷ء
۲۶ دسمبر ۱۹۳۷ء کو قادیان میں جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضور نے احباب جماعت کو ایک بصیرت افروز خطاب سے نوازا۔
آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفات قابض اور باسط کی لطیف اور پُرحکمت تفسیر بیان فرمائی۔ فرمایا ’’قبض‘‘ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ قبض جب انسان کے ایمان اور عرفان کی حالت میں سکون اور ٹھہراؤ ہو مگر کمی نہ ہو تویہ رحمت والا قبض ہے اور جب انسان محسوس کرے کہ شرعی احکام پر عمل کرنا بوجھل ہے تو یہ ابتلاء والا قبض ہے۔
بسااوقات خداتعالیٰ امتحان لیتا ہے کہ میرا بندہ لذت کی خاطر مجھ سے تعلق رکھتا ہے یا اُسے مجھ سے حقیقی محبت ہے۔ اگر انسان ثابت قدمی سے اس امتحان سے گزر جائے تو اس کی روحانیت ترقی کرتی ہے خدا کہتا ہے کہ جب میرے بندے نے اس حال میں بھی مجھ سے تعلق نہ توڑا جب وہ لذت سے محروم ہو گیا تو میں کیوں نہ اُسے ترقی دوں۔ پس ایسے انسان کے قبض کے بعد والا بسط اُس کے پہلے بسط سے زیادہ اعلیٰ ہوتا ہے۔ لیکن بعض لوگ قبض کی حالت میں خدا کو چھوڑ بیٹھتے ہیں ان کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔
قوموں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ کے وقت بھی مسلمانوں پر بعض جنگوں میں قبض کے حالات آئے جس میں منافقین ٹھوکر کھا گئے مگر صحابہ ثابت قدم رہے اور ان کے ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ الغرض جب قبض کی حالت میں ایک مومن یہ سمجھتا ہے کہ یہ بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے تو وہ قبض بھی فیِ الواقع نعمت بن جاتی ہے۔ حضور نے اس فلسفے کو بعض مثالوں کے ساتھ واضح فرمایا اور جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہمیشہ حُسنِ ظنی سے کام لے کیونکہ حُسنِ ظنی ترقی کا موجب بنتی ہے اور بدظنی تنزّل کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اگر اللہ پر ہمیشہ حُسنِ ظنّ رکھیں تو ابتلاء بھی انعام بن جائیں گے۔
(۲۸)مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر
مؤرخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۷ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضور نے جماعت سے ایک نہایت اہم خطاب فرمایا۔ ابتدائً حضور نے احباب جماعت کو درجہ ذیل تین اہم امور کی طرف توجہ دلائی۔
الف: جماعت کے اخبار الفضل اور دیگر رسائل کی اشاعت میں اضافہ کرنا۔
ب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور کلمات کو اکٹھا کرنا۔
ج: تحریک جدید کے چندے میں باقاعدگی اختیار کرنا اور امانت تحریک جدید میں رقوم جمع کروانا۔
اس کے بعد حضور نے شیخ عبدالرحمن مصری صاحب کے فتنہ کی تفصیل بیان فرمائی۔ آپ نے اس واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کی صداقت کا ایک نہایت روشن نشان قرار دیا۔
شیخ عبدالرحمن مصری صاحب کا شمار معروف احمدی احباب میں ہوتا تھا لیکن ۱۹۳۴ء میں خلافت کے متعلق انہیں ابتلاء پیش آیا جو بِالآخر ان کی ہلاکت کا موجب ہوا۔ شروع میں ان کی سرگرمیاں مخفی رہیں۔ ۱۹۳۷ء میں ان کا نِفاق ظاہر ہؤا اور کُھلم کُھلا انہوں نے محاذ آرائی اور بُہتان طرازی شروع کی۔ ان کے ساتھ دوسرے منافق، مرتد،پیغامی،احراری اور دیگر مخالف بھی مل گئے اس طرح یہ ایک بڑا فتنہ بن گیا۔
حضور نے فرمایا مصری صاحب کے ارتداد کے متعلق ہمیں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ پس جہاں یہ ابتلاء مصری صاحب کی ہلاکت کا موجب بنا وہاں ہمارے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث ہوا۔ حضور نے اپنے چار رؤیا سنائے اور فرمایا وہ غور کریں کہ بقول ان کے وہ بزرگ اور احمدیت کے حقیقی خادم ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے ارتداد کی خدا نے مجھے خبر دی انہیں خبر نہ دی۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ایمان کی خرابی کی تو خدا نے مجھے اطلاع دے دی مگر میرے ایمان کے خراب ہونے کی انہیں کوئی اطلاع نہ دی۔
حضور نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں اس فتنہ کا تفصیلی ذکر موجود تھا۔ حضور نے چند الہامات کا ذکر کر کے تفصیل سے بتایا کہ ان میں بیان کردہ پیشگوئی میاں مصری صاحب کے برپا کردہ فتنہ کے حالات پر پوری چسپاں ہوتی ہے اور ہمارے لئے ازدیادِ ایمان کا موجب ہے۔
آخر میں حضور نے پُرشوکت الفاظ میں فرمایا:۔
’’یہ فتنہ خداتعالیٰ کا ایک زبردست نشان ہے جو ظاہرہؤا اور جس نے میری صداقت کو آفتاب نیمروز کی طرح ظاہر کر دیا خداتعالیٰ کے نشانات مختلف اقسام کے ہؤا کرتے ہیں اس کا کوئی نشان جلالی ہوتا ہے کوئی قہری۔ مَیںجو اِس وقت تمہارے سامنے کھڑا ہوں خدا تعالیٰ کا ایک جلالی نشان ہوں اور مصری پارٹی اس کا ایک قہری نشان ہے۔ پس خداتعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنی اصلاح پر زور دو اور نیکی میںترقی کرو اور خداتعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط کرتے چلے جاؤ تاکہ مخالف جب کبھی تم پر حملہ کرے وہ تمہیں خداتعالیٰ کی گود میں پائے۔‘‘



ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جا ئے
(تقریر فرمودہ ۲مارچ ۱۹۳۶ء برموقع افتتاح سکول دارالبرکات قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج آپ لوگوں کو یہاں آنے کی اس لئے تکلیف دی گئی ہے کہ میرا منشاء ہے آج ہم دعا کر کے اس صنعتی سکول کا افتتاح کریں جس کا اعلان میں پہلے کر چکا ہوں۔ دنیا میں تعلیم اور صنعت و حرفت علیحدہ علیحدہ تنگ دائروں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ ورنہ بڑے بڑے دائرے تو صرف دو ہی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔ علم دو ہیں۔ عِلْمُ الْاَدْیَان اور عِلْمُ الْاَبْدَان۔ ۱؎ یعنی ایک علم وہ ہے جو دین کو نفع دیتا ہے اور دوسرا علم وہ ہے جو جسم کو نفع دیتا ہے۔ لوگوں نے اس علم کے معنی طب کے بھی کئے ہیں۔ بیشک طب بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ علم جس کا مادیت کے ساتھ تعلق ہو۔ پس رسول کریم ﷺ نے درحقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے۔ جو علم روح یا جسم کیلئے فائدہ مند نہیں وہ علم نہیں کھیل ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ علم جو روح کو نفع دے وہ تو اس وقت دینِ اسلام ہی ہے کیونکہ باقی دین اس قابل نہیں کہ وہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔ روحانی لحاظ سے صحیح طور پر اور ہر ضرورت کے موقع پر نفع دینے والی چیز صرف اسلام ہے۔ باقی رہا عِلْمُ الْاَبْدَان، اس علم کا تعلق مختلف پیشوں سے ہے، پیشے تو لاکھوں ہیں، لیکن وہ چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لئے بڑے بڑے پیشے چند ہی ہیں۔ مثلاً ایک پیشہ وہ ہے جس سے انسان کی زندگی کا بڑا تعلق ہے اور وہ زراعت ہے۔ زراعت کے ذریعہ غلّہ وغیرہ اور ایسی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جسم کو ڈھانکنے کا سوال ہے۔ اس کیلئے کپڑا بننے والے کی ضرورت ہے جس کو ہم جولاہا کہتے ہیں۔ پھر پہننے کیلئے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کپڑے کے علاوہ جرابیں، سویٹر وغیرہ۔ یہ سب چیزیں اسی پیشہ کے اندر آ جاتی ہیں اور وہ سب اشیاء جن کا کپڑے کے ساتھ تعلق ہو گا سب کی سب اس پیشہ سے متعلق ہوں گی تیسرا پیشہ معماری ہے کیونکہ عناصر میں جو طوفان پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان مکان بنائے۔ یا ایک دوسرے کے ضرر سے بچنے کیلئے مثلاً چور یا حملہ آور سے محفوظ رہنے کیلئے مکان ضروری ہے۔ پس تیسری چیز معماری ہے چوتھا پیشہ جو اصولی حیثیت رکھتا ہے وہ لوہاری کا کام ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی انسان کو ضرورت پیش آتی ہے یا خود انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت ہوتی ہے۔ اس کیلئے مثلاً گاڑیاں، موٹریں، سائیکل یا ریل گاڑیاں کام میں لائی جاتی ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اورانسانی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کیلئے یہ دو پیشے ہیں۔ ایک لوہار کا کام دوسرا ترکھان کا کام۔ یہ زراعت میں مفید ہونے کے علاوہ باقی بہت سے کاموں کیلئے بھی نہایت ضروری ہیں۔ اور انسان کے عام مشاغل کو بھی سہل بناتے ہیں۔ پھر عِلْمُ الْاَبْدَانمیں وہ چیز بھی آ جاتی ہے جس کو لوگوں نے مقدم رکھا ہے۔ یعنی علم کیمیا اور علم طب، عِلم طب بھی انسانی علاج کو سہل کر دینے والی چیز ہے تو گویا زراعت، معماری، لوہاری، نجاّری، علم کیمیا، علم طب، اور علم طب دراصل ایک لحاظ سے علم کیمیا ہی کی ایک شاخ ہے۔ اور کپڑا بننے کا کام‘ یہ سات پیشے ہوئے۔ باقی تمام پیشے انہی کے اندر آ جاتے ہیں۔ مثلاً دوسرے کام پینٹنگ وغیرہ معماری کی بھی ایک شاخ ہے اور علم کیمیا کی بھی۔ چمڑے کا کام اس کے علاوہ ہے۔ تو اسے ملا کر گویا آٹھ پیشے ہوئے۔ ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسری کی محتاج نہیں رہتی۔ بشرطیکہ وہ ان پیشوں کو اس رنگ میں جانتی ہو جیسا کہ جاننے کا حق ہے۔ یہ نہیں کہ ایک کام سیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ بس اب کام ختم ہو گیا۔ اور اب اس میں ترقی کرنے کی ضرورت نہیں۔
وٹرنری کا علم یعنی حیوانوں اور جانوروں وغیرہ کا پالنا اور ان کا علاج بھی عِلْمُ الْاَبْدَانہی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ علم اور نرسنگ وغیرہ کا علم طب کے نیچے آ جائیں گے۔ پس جتنے بھی علوم ہیں وہ سب انہی آٹھ پیشوں کے اندر محصُور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض یا تو زراعت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ یا چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ یا معماری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ یا نجاری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ ان چیزوں سے باہر اور شاید ہی کوئی چیز ہو۔ اگر یہ چیزیں کوئی قوم مضبوطی سے حاصل کرے تو وہ دوسری قوموں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ ان کا مُمِدّ پیشہ بے شک تجارت ہے مگر وہ تابع پیشہ ہے‘ حقیقی پیشہ نہیں اور اپنی ذات میں وہ کوئی الگ نہیں کیونکہ وہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ لیکن دولت کے لحاظ سے وہ پیشہ ان سے کم نہیں ان سے زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس لئے کہ مالی لحاظ سے اس کو ان پیشوں پر فوقیت حاصل ہے۔ سوائے اس کے کہ پیشہ ور اپنے ساتھ تجارت کو بھی شامل کر لیں۔ جب تجارت ساتھ شامل ہو جائے تو کام بہت وسیع ہو جاتا ہے۔
مَیں نے تحریک جدید کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ معلوم کیا ہے کہ ہماری جماعت میں کن پیشوں کی کمی ہے۔ اور کون کون سے پیشے ایسے ہیں جنہیں انفرادی یا جماعتی طور پر ہمیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔ زراعت کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں کافی لوگ ایسے ہیں جو زراعت کا کام کرتے ہیں۔ تجارت کے متعلق میں نے غور کیا اور میں نے دیکھا کہ اگرچہ اس کی ہماری جماعت میں کمی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی اس کام میں فوری ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں تھے اس لئے میں نے چند مبلّغوں کو تیار کیا کہ وہ بعض ایسی نئی تجارتی چیزیں دریافت کریں جنہیں ہم ہاتھ میں لے کر ان کی تجارت کر سکتے ہیں۔ جو تجارتیں پہلے قائم شُدہ ہیں ان میں ہمارا داخل ہونا‘ کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کی تجارتوں کے مقابل ہمارا کھڑا ہونا ناممکن ہے اس لئے میں نے یہ تجویز کی کہ نئی تجارتی اشیاء دریافت کی جائیں۔ اس ضمن میں مَیں نے دیکھا کہ تجارتوں میں جو واسطے پائے جاتے ہیں ان کو اُڑانے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے بعض دوست واسطوں کا مطلب نہ سمجھیں اس لئے میں اس کی تشریح کر دیتا ہوں۔ واسطے کا مطلب یہ ہے کہ اصل خریدار تک پہنچنے کیلئے ایک چیز کئی ایک ہاتھوں میں سے گزر کر آتی ہے۔ مثلاً ایک چیز انگلستان میں پیدا ہوتی ہے اور فرض کرو کہ وہ چین میں جا کربِکتی ہے تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسے پہلے ایک ملک نے خریدا‘ اس سے پھر دوسرے نے اور پھر تیسرے اور چوتھے نے، یہاں تک کہ وہ چیز کئی ملکوں میں سے ہوتی ہوئی چین تک جا پہنچی۔ جنگ کے دنوں میں اس راز کا انکشاف ہوا تھا کہ وہ دوائیاں جو یہاں آ کر بِکتی تھیں وہ دراصل جرمنی میں بنائی جاتی تھیں اور ان پر صرف انگریز ی ٹھپہ لگتا تھا اور ہندوستان میں لوگ انہیں صرف انگریزی دوا تصور کر کے خریدتے تھے۔ ہندوستانیوں کو اس بات کا علم نہ تھا۔ انگریز انہیں جرمنی سے خرید کر ہندوستانیوں سے ان کی بڑی بڑی قیمتیں لیتے تھے اور بہت کم لوگ اس راز سے آگاہ تھے باقی سارے لوگ ناواقف تھے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو دوائیاں نایاب ہو گئیں اور لوگ اس بات سے حیران تھے لیکن پھر یہ راز کُھلا کہ جرمنی کی دوائیاں انگلستان میں سے ہوتی ہوئی ہندوستان آتی تھیں۔
پس واسطے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کی اشیاء اور ملکوںمیں سے گزر کر اصلی حاجت مند کے پاس پہنچتی ہیں۔ اس کے متعلق یہ پتہ لگایا جائے کہ کس ملک کی کونسی چیز کس کس ملک سے ہو کر آتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے بعد جو چیز مثلاً جرمنی میں بنتی ہے، اس کیلئے اگر کوئی شخص جرمنی جا کر کہے کہ تم اپنی فلاں چیز براہِ راست ہمیں بھیجو اور اس طرح کی ایک دکان کھول لی جائے تو براہ راست تعلق قائم ہونے کی وجہ سے بیچ کا نفع جو دوسرے لوگ اُٹھا رہے ہوں گے وہ نہیںاٹھائیں گے اور اس طرح وہ چیزسَستی مل سکے گی اور نفع اپنے ہاتھوں میں رہے گا۔
میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ سات سات اور آٹھ آٹھ واسطے درمیان میں پڑ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی چیز سات یا آٹھ ہاتھوں میں سے گزر کر آئے۔ جتنے واسطے اُڑائے جا سکیں اتنی ہی کم قیمت دینی پڑے گی۔
پس اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ چیز براہ راست ہمیں پہنچے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس پر کم خرچ آئے گا اور واسطوں کے اُڑ جانے سے ہم تھوڑے سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ مگر یہ تجارت قادیان میں نہیں ہو گی کیونکہ یہاں کوئی منڈی نہیں ہے۔ یہ کلکتہ دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں قائم ہو سکتی ہے۔
باقی پیشوں میں سے جو انسان کی ضروریات مہیا کرتے ہیں، کپڑا بُننے کا کام بہت بڑے سرمایہ کو چاہتا ہے اور یہ شروع سے ہی لاکھوں روپیہ والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اس لئے فوراً اس میں ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کیلئے ہمارے پاس ایک NUCLEUS یعنی بیج ہے۔ اور وہ ہوزری ہے۔ فی الحال جُرابیں وغیرہ بنانے کا کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہم آہستہ آہستہ دوسرے کپڑے بنانے کا کام بھی شروع کر دیں گے۔ کپڑے کیلئے کھڈیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک کھڈیاں اتنی مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ ایک دو دفعہ لدھیانہ سے مشینیں منگا کر دیکھی ہیں لیکن ان کے ذریعہ جو کام کیا گیا وہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ اگر آئندہ مفید ثابت ہو تو وہ کام بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ شروع کر دیا جائے گا۔ اب رہ گیا طب کا علم۔ طب کے متعلق باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا لیکن مبلّغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی اور یہ کام خصوصاً اس لئے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھا اور حضرت خلیفہ اوّل تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے۔ غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اوربخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو۔ چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی۔ تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیا جائے۔ فی الحال مبلّغین کو طب پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اب پانچ پیشے رہ جاتے ہیں۔ کیمیا، چمڑے کا کام، لکڑی کا کام، لوہاری اور معماری۔ معماری کے کام میں فی الحال میں نے دخل دینا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ معماری کے کام کیلئے خاص انتظام کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لوگ اپنے اپنے طور پر اسے سیکھ سکتے ہیں لیکن اگر موقع ملا تو ہم اسے بھی نظرانداز نہیں کریں گے۔
باقی رہ گئے چار کام لوہاری، نجاری، چمڑے کا کام اور علم کیمیا۔ یہ سکول جس کے افتتاح کیلئے آج ہم جمع ہوئے ہیں اس میں تین کام شروع کئے جائیں گے۔ ابھی صرف دو جماعتیں کھولنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ لوہاری اور نجاری۔چمڑے کے کام کی سکیم ابھی زیرغور ہے۔ کیمیا کے کام مثلاً اَدویہ سازی کے متعلق بھی مَیں مشورہ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ اِنْشَائَ اللّٰہُ اس کام کو بھی شروع کر دیا جائے۔ اس کام کی ایک قسم تو شروع کی ہوئی ہے اور وہ گلاس فیکٹری ہے۔ لیکن ایک خاص شکل میں محدود ہے۔ کیمیا سازی میں پینٹنگ، پالش وغیرہ سب چیزیں آ جاتی ہیں۔ میں اس کے متعلق ماہرِ فن لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس میں بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ باقی تین کام جو ہم شروع کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ کپڑا بُننے کا کام بھی لگا دیا جائے تو چار ہو جاتے ہیں، نہایت ضروری ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ کام ہندوستان میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ جب کسی ملک کے زوال کے دن آتے ہیں تو لوگوں کی نیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ یہ موچی ہے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ ذلیل کام کرنے والا ہے اور وہ خود بھی اس پیشے کو ذلیل سمجھے گا اور اسے چھوڑ دینے کی خواہش کرے گا۔ لوہار اور ترکھان کے پیشے کو بھی ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ گو وہ موچی کے پیشے کی طرح بدنام نہیں اور گو لوگ انہیں اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں مگر وہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ ہمارے بچے لوہار یا ترکھان بنیں یا وہ جولاہے کا کام سیکھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشوں کی آمدنیاں محدود ہو گئی ہیں۔ جب کسی پیشہ میں نفع کم ہو جائے تو قدرتی طور پر اس کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے۔ مثلاً تمہیں ہندوستان میں ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی ماہوار آمدنی پانچ چھ روپیہ سے زیادہ نہیں ہو گی لیکن ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار ہو گی۔ اگر سارے طبیب پانچ یا چھ روپیہ آمدنی کے ہوں تو طب کی بھی بہت کم قدر ہو جائے۔ چونکہ لوہارے اور ترکھانے کی آمدنی بھی کم اور محدود رہ گئی ہے اس لئے لوگوں نے ان پیشوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ تجارت میں چونکہ آمد زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کی قدر زیادہ کی جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم بھی ان تمام پیشوں کو اسی طریق پر چلاتے جس طریق پر انہیں یورپ میں چلایا جاتا ہے تو یہاں بھی ان کی ویسی ہی قدر کی جاتی جیسی کہ وہاں کی جاتی ہے۔ اب دیکھ لو تمام کپڑا یورپ سے آتا ہے جو یا تو لنکا شائر میں بنتا ہے یا بیلجیم میں۔بیان کیا جاتا ہے کہ ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا کپڑا باہر سے ہندوستان میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کام جلاہے کرتے ہیں چاہے کسی قسم کا کپڑا بُنا جائے، گرم کپڑا ہو یا چھینٹ ہو یا کھدّر، یہ کام جلاہے کا کام ہی کہلائے گا صرف کھدّر بُننے کا کام کسی کو جلاہا نہیں بناتا بلکہ کپڑا بُننے کا کام جلاہا بناتا ہے۔ پھر لوہارے کے تمام کاموں کی اشیاء یورپ سے آتی ہیں۔ مثلاً ریل گاڑی کا سامان، کپڑے سینے کی مشینیں، آٹا پیسنے کی مشینیں، روئی اور بنولے کی مشینیں، موٹر، بائیسکل، مختلف پُرزے سب یورپ سے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یورپ والوں نے سرمایہ داری کے ذریعہ سارا کام اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ اور اب تو یہ حالت ہے کہ جب ہمارا کپڑا پَھٹ جائے اور اسے سینے کی ضرورت ہو تو ہمیں سوئی کیلئے بھی یورپ کا دستِ نگر ہونا پڑتا ہے۔ بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کی بنی ہوئی سوئیاں جو کچی سوئیاں کہلاتی تھیں استعمال کی جاتی تھیں۔ مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔ بات یہ ہے کہ جن چیزوں کے متعلق یورپ والوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں استعمال ہوتی ہیں، انہوں نے وہ چیزیں مشین کے ذریعہ بنانی شروع کر دیں۔ اب تو مشینوں نے کھدّر بھی بنا دیا ہے اور وہ کھدّر کریپ کہلاتا ہے۔ یورپ والوں نے کہا اگر ہندوستانی کھدّر پہننے کیلئے ہی تیار ہیں تو ہم مشینوں سے کھدّر ہی تیار کر دیں گے۔ پھر نجاری کا کام ہے اس میں بھی اعلیٰ فن کے کام ولایت سے ہی آتے ہیں۔ بڑے بڑے گھروں میں دیکھ لو کرسیاں اور کوچیں یورپ کی بنی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں اور بعض کوچوں کی قیمت کئی کئی سَو تک ہوتی ہے۔ اسی طرح عمارتی کاموں میں بھی بعض ٹکڑے بنے بنائے ولایت سے آتے ہیں مگر یہ پیشہ پھر بھی ایک حد تک محفوظ رہا ہے۔ باقی رہا چمڑے کا کام، اس کا بیشتر حصہ ولایت چلا گیا تھا مگر اب واپس لَوٹ رہا ہے۔ پہلے تمام چیزیں چمڑے کی ولایت سے بن کر آتی تھیں مگر اب ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً کانپور وغیرہ میں چمڑے کی بہت اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ تاہم چمڑے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو یورپ سے تیار ہو کر ہندوستان آتی ہیں۔ اور یورپ والے ان کے ذریعہ روپیہ کما رہے ہیں۔ یورپ میں جُوتیاں بنانے والے ہمارے ہاں کے موچیوں کی طرح نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کی وہی قدرو منزلت ہوتی ہے جو وہاں بڑے بڑے لارڈوں کی ہوتی ہے بلکہ وہاں تو ایسے لوہار یا بوٹ میکر ہیں جو لارڈ ہیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ ان میں سے جب کوئی ہندوستان آتا ہے تو وائسرائے کا مہمان ہوتا ہے۔ اور راجے، نواب بھی اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آمدنیوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں غیرمحدود بنا لیا ہے اور ان کے پیشے اپنی غیرمحدود آمدنیوں اور وسیع پیمانے پر ہونے کی وجہ سے معزز تصور ہو رہے ہیں۔ مگر ہندوستان میں وہی پیشے قلیل آمدنیوں کی وجہ سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور عجیب رواج بھی ہے۔ اور دراصل ہندوستانیوں کو اسی کی سزا مل رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور انسان اپنے پیشہ کو ذاتی جائیداد تصور کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ صرف اپنے بیٹے کو وہ پیشہ سکھا دے، کسی دوسرے کو وہ سکھانا پسند نہیں کرتا۔اسلام نے اسے قطعاً پسند نہیں کیا کہ کوئی شخص کسی کام کو اپنی ذاتی جائیداد بنا کر بیٹھ جائے۔ یورپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی خاندان سارے کا سارا بوٹ بنانے والا نہیں ہو گا۔ اگر باپ بوٹ میکر ہو گا تو بیٹا کیمیا کے علم کا ماہرہو گا۔ پوتے کپڑا بنانے کا کام کرتے ہوں گے اور پڑپوتے کسی فرم میں حصہ دار ہوں گے۔ غرض ایک ہی کام نہیں ہو گا جس میں وہ سارے کے سارے لگے ہوئے ہوں گے مگر ہمارے ملک نے سمجھ رکھا ہے کہ پیشے ذاتی جائیداد ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان تک ہی محدود رہنے چاہئیں کسی اور کو نہیں سکھانے چاہئیں۔ اس کے دو بہت بڑے نقصان یہ ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسرا قومی۔ قومی نقصان تو یہ ہے کہ اگر بیٹا جب لائق نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فن گر جائے گا اور اس طرح قوم کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو جب وہ کام ورثہ میں ملے گا تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور چیز جسے پنجابی میں اَل کہتے ہیں لگ جائیگی اور وہ اس کی قومیت بن جائے گی حالانکہ اگر آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا طریق رائج ہو تو بالکل ممکن تھا کہ ایک درزی کا کام کرنے والے کا بیٹا اچھا لوہار یا اچھا نجار یا اعلیٰ معمار بن سکتا۔ پس اس طریق کا انفرادی طور پر بھی نقصان ہوا اور قومی طور پر بھی۔ یورپ میں لوگوں نے اپنے آپ کو ان نقصانات سے بچا لیا ہے۔ نہ ان کے نام کے ساتھ کوئی اَل لگی اور نہ ان کے پیشے ہی محدود رہے کیونکہ انہوں نے ایک ہی کام پر جمے رہنا پسند نہیں کیا بلکہ کام تبدیل کرتے گئے۔ اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتی ہے۔ مرد کم تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے مگر عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے۔ گھروں میں دیکھ لو جب کبھی عورتیں صفائی کرتی ہیں تو چیزوں کو اِدھر سے اُدھر رکھ کر نقشہ بدل دیتی ہیں اور بالکل بِلاوجہ ایسا کرتی ہیں۔ پہلے اگر چار پائی مشرقی دیوار کے ساتھ ہو گی تو پھر مغربی دیوار کے ساتھ کر دی جائے گی، کبھی جنوبی دیوار کے ساتھ لگا دی جائے گی اور کبھی پھر مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی جائے گی۔ یہ صرف نظارے کی تبدیلی ہوتی ہے۔ بہرحال تبدیلی ترقی کیلئے ضروری چیز ہے گوتبدیلی میں تنزل کا پہلو بھی ہوتا ہے مگر اس میں ترقی بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتابلکہ تغیر چاہتا ہے اور کام کی تبدیلی کے ساتھ بھی بہت سے خاندان بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔
غرض ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس صنعتی سکول کی ابتداء کی ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے تنزل اور اس کی تباہی کی ایک وجہ ان پیشوں کا ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا ہے اور یورپ کی ترقی کی وجہ ان پیشوں کا ان کے ہاتھ میں چلاجانا ہے۔ پھر میرے مدنظر یہ بات بھی ہے کہ اس طرح بے کاری کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے مگر میں فوری طور پر اس کام کو وسعت نہیں دے سکتا کیونکہ ہمارے پاس سرمایہ کم ہے۔ گومیری خواہش یہی ہے کہ ہر بیکار کو کام پر لگایا جائے۔ مگر عقل چاہتی ہے کہ کام کو اس طریق سے نہ چلایا جائے کہ چند دن جاری رہ سکے اور پھر ختم ہو جائے بلکہ ایسے طریق سے قدم اُٹھایا جائے کہ جس سے ہمارے کام کو دوام نصیب ہو۔
فی الحال مَیں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ایک استاد کے ساتھ تین شاگرد ہوں۔ اس طرح کام چلانا سہل ہو گا۔ ہر تیسرے ماہ طالب علموں کا انتخاب ہوا کرے گا اور مزید تین تین لڑکوں کو لیکر کام پر لگا دیا جائے گا۔ اس طرح سال میں ہر ایک استاد کے پاس بارہ طالب علم ہو جائیں گے اور پھر سال بھر کے سیکھے ہوئے لڑکے نئے داخل ہونے والے لڑکوں کو کام سکھا بھی سکیں گے۔ اس سلسلہ میں جو مشکلات پیدا ہوں گی، وہ تو بعد میں ہی دیکھنے میں آئیں گی مگر اصولی طور پر یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ کام کوبڑھایا جائے۔
میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی اس کام میں حصہ لیں۔ اور وہ اس طرح کہ اس سرمایہ کے جو اس پر لگایا جائے حصص خریدیں چنانچہ اس میں تجارتی طور پر حصہ لینے کیلئے میں نے جماعت کیلئے گنجائش رکھی ہے۔ اس میں سے پچاس فیصدی تک سرمایہ کے حصے خریدے جا سکتے ہیں۔
میں نے اس سکول کے متعلق اصولِ انتخاب میں یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ تیامیٰ کو مقدم رکھا جائے اور ان کی نسبت دوسرے لڑکوں کے انتخاب کی شرائط کڑی ہوں۔ مثلاً پہلی شرط ان کیلئے یہ رکھی گئی ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں مگر یتیموں کیلئے پرائمری پاس ہونے کی شرط نہیں۔ گو انہیں بھی اگر وہ اَن پڑھ ہوں تعلیم دی جائے گی۔ پھر یہ بھی شرط ہے کہ ان کو بورڈنگ میں رکھا جائے گا اور پانچ سال انہیں یہاں رہنا ہو گا۔تین سال تک ان پر ہم خرچ کریں گے باقی دو سال میں اس آمد پر جو اُن کی تیارکی ہوئی اشیاء سے حاصل ہو گی ان کا خرچ چلے گا۔ پہلے تین سال تک استادوں کی تنخواہیں، بورڈنگ کا خرچ اور کپڑے وغیرہ کا خرچ تحریکِ جدید کے ذمے ہو گا۔ اس کے علاوہ ہم نے دو سال اس لئے زائد رکھے ہیں تا کہ وہ سلسلہ کا کام کریں اور اس قرض کا کچھ حصہ جو اِن پر خرچ ہوا ہو، ادا کر سکیں۔ اگر کوئی لڑکا بیچ میں ہی کام چھوڑ کر چلا جائے گا تو اسے وہ روپیہ واپس دینا ہو گا جو اس پر خرچ ہوا۔ سوائے اس کے کہ کوئی اشدّ معذوری اسے پیش آ جائے مثلاً کوئی آنکھوں سے اندھا ہو جائے یا اور کسی طرح کام کے ناقابل ہو جائے۔ کیونکہ ایسے کاموں میں اس قسم کے حادثات بھی ہو جانے کا اندیشہ ہوا کرتا ہے۔ پس ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو لڑکے داخل ہونا چاہیں وہی داخل ہو سکتے ہیں۔ یتامی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو بغیر کسی شرط کے لے لیا گیا ہے۔ مگر دوسروں کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں۔ آئندہ آہستہ آہستہ شرائط کڑی کر دی جائیں گی۔ مثلاً پھر یہ شرط رکھ دی جائے گی کہ مڈل پاس طالب علم لئے جائیں۔ اور مڈل تک کی تعلیم تو مجلس مشاور ت میں ہماری جماعت کیلئے لازمی تعلیم قرار پا چکی ہے۔ پس جب مڈل تک کی تعلیم ہر احمدی کیلئے لازمی ہے تو بعد میں تعلیم کے اسی معیار کے لحاظ سے طالب علم سکول میں لئے جائیں گے۔
علاوہ ازیں اس سکول کے استادوں کو دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کو کام سکھانے پر لگایا جائے گا۔ یعنی دوسرے مدرسوں کے طالبعلموں کو بھی اس قسم کے کام سکھائے جائیں گے۔ مثلاً ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ کے جولڑکے چاہیں گے ان کے لئے بھی انتظام کر دیا جائے گا۔ مگر ان کیلئے ہفتہ میں صرف دو روز اس کام کیلئے ہوں گے کیونکہ انہیں اپنے کورس کی اور بھی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بے شک اس طرح وہ بہت دیر میں کام سیکھ سکیں گے اور بعض دفعہ ان کوچُھٹیوں میں یہ کام کرنا پڑے گا۔ مثلاً گرمیوں کی رخصتوں میں ان کو اور کہیں جانے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ انہیں یہ کام سکھایا جائے گا۔
بہرحال جب تک ہم پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی نہ پیدا کر دیں گے، اُس وقت تک پیشہ وروں کو ذلیل سمجھنے کی خرابی دور نہ ہو گی۔ جب سارے لوگ مختلف پیشے جانتے ہوں اور ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی آدمی اس قسم کا کام کرتا ہو تو پھر پیشوں کے متعلق حقارت لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گی۔ یورپ میں بڑے سے بڑے لوگ بھی اس قسم کے کاموں کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کسی نہ کسی پیشہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرانس کا ایک پریذیڈنٹ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ جب کبھی اسے اپنے کام سے فرصت ملتی تو وہ دھونکنی پر جا کر کام شروع کر دیتا۔
پس اگر دوسرے سکولوں کی خواہش ہوئی تو ان کیلئے بھی انتظام کر دیا جائے گا اس کے بعد میں دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مل کر دعا کریں کہ اس ابتداء کو جو بظاہر چھوٹی اور ہیچ معلوم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ترقی کی منازل تک پہنچائے اور ہمارے کام کرنے والے لوگ اس رنگ میں کام کریں کہ جہاں وہ دنیا کیلئے بہتری کا موجب ہوں، وہاں دین کیلئے بھی بہتری کا باعث بنیں۔ میں استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ رُوح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے۔ گویا وہ ’’دست باکار اور دل بایار،، کے مصداق بنیں۔ شروع سے ہی ان کے اندر یہ رُوح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنا، اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے۔ اگر یہ رُوح ان کے اندر پیدا ہو جائے کہ انہوں نے اپنی اپنی صنعتوں میں غیر ممالک کے صنّاعوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ادھر نیکی اور تقویٰ پر بھی قائم رہنا ہے، تب یہ لوگ ہمارے لئے مفید ہو سکتے ہیں۔ ورنہ روٹی کمانے والے تو دنیا میں بہت لوگ ہیں۔ ہماری یہ غرض نہیں کہ صرف روٹی کمانے والے پیدا کئے جائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسے ہوں جو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی حاصل کرنے والے ہوں۔ وہ اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت کو واپس لانے میں مُمِدّ ہوں اور دوسروں کو اس بات کا سبق دے سکیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک شخص حقیقی مومن ہو سکتا ہے اور دنیا کمانے سے اس کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتا ہے۔
اس کے بعد حضور نے مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی۔
(الفضل ۵ ۔مارچ ۱۹۳۶ء)
۱؎ موضوعاتِ کبیر لِمَوْلانا علی القاری صفحہ ۴۸۔مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ









وہی ہمارا کرشن






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
وہی ہمارا کرشن۱؎
پیارے ہندو بھائیو! ہم ایک وطن میں رہتے ہیں، عام طور پر ایک ہی بولی بولتے ہیں، پرماتما کا روشنی دینے والا سورج ہم سب کو ایک ہی روشنی دیتا ہے، اس کا خوبصورت چاند ہم سب کو بغیر فرق کے محبت بھری نگاہوںسے دیکھتا ہے۔ رات کا اندھیرا جب ساری دنیا پر چھا جاتا ہے جب ہمارے اپنے حواس بھی ہم کو چھوڑ جاتے ہیں اور دن کا تھکا ہوا جسم بے جان ہو کر چارپائی پر گر جاتا ہے اُس وقت خدا کے فرشتے اپنے پریم کے پروں کو پھیلا کر ہم سب پر اپنا سایہ کر دیتے ہیں اور ہندو مسلمان میں فرق نہیں کرتے۔ ہمالہ کی چوٹیوں پر پڑی ہوئی برف جب سورج کی گرمی سے پِگھلتی ہے اور دریائوں کے پانیوںکو ان کے کناروں تک بلند کر دیتی ہے، جب خوبصورت گنگا اور دل لُبھانے والی جمنا اپنے اُچھلنے والے پانیوں کو پیاس سے خشک شُدہ کھیتوں میں لا کر ڈالتی ہیں وہ کبھی بھی نہیں دیکھتیں کہ کون مسلمان ہے اور کون ہندو۔ وہ آگ جو گند کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور انسانی دوزخ کو بجھانے کے کام آتی ہے ہندو کی بھاجی اور مسلمان کے سالن کے پکانے میں اس نے کبھی فرق نہیں کیا۔ پھر جب پرماتما کی نعمتوں نے ہم سب میں کوئی فرق نہیں رکھا ہماری اس سے محبت کیوں فرق والی ہو۔ سوتیلے باپ اور سگے باپ کی محبت میں فرق ہو سکتا ہے پر اپنے باپ کی محبت میں بچے کبھی فرق نہیں رکھتے۔ وہ آپس میں لڑسکتے ہیں لیکن اپنے باپ اور اپنی ماں سے محبت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پر ہمیں کیا ہو گیا ہم آپس کی لڑائیوں میں اپنے پرماتما کو بھی بھول گئے ہیں۔ ہم یہ بھی تو خیال نہیں کرتے کہ اس نے ہمارے گناہوں کو دیکھ کر بھی ہم میں فرق نہیں کیا۔ تو ہم اس کے احسان دیکھتے ہوئے اس سے فرق کیوں کریں؟ بیوقوف بچے جب آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں ماں کی ایک آواز سن کر ایک دوسرے کا گلا چھوڑ کر ماں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ وحشی کبوتر تک جس کی فطرت میں آزادی ہے اپنے دانہ ڈالنے والے کی آواز کو سن کر اپنی آزادی کو بھول جاتا ہے اور ڈربے کی تنگ اور تاریک جگہ پر اپنی بے قید پرواز کو قربان کر دیتا ہے۔ کیونکہ دانہ ڈالنے والے کی آواز کا انکار اُس سے نہیں ہو سکتا۔ پھر اے پیارے ہندوبھائیو! کیوں تم اس آواز کی طرف دھیان نہیں کرتے جو تمہارے پر میشور نے ساری دنیا کو اپنے گرد جمع کرنے کیلئے بلند کی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ ایک مسلمان کے منہ سے نکلی ہے؟ مگر کیا تم بھول گئے ہو کہ پرماتما کی کوئی چیز مقیّد نہیں ہوتی۔ ہندو اور مسلمان اور عیسائی سب نام بندوں کے ہیں۔ جب پرماتما کسی کو چُن لیتا ہے تو پھر وہ قوموں کے بندھن سے آزاد ہو جاتا ہے، وہ کسی خاص قوم کا نہیں رہتا، ہر قوم اُس کی ہو جاتی ہے اور وہ سب کا ہو جاتا ہے۔
اے ہندو بھائیو! اِسی طرح اِس زمانہ کا اوتار کسی خاص قوم کا نہیں۔ وہ مہدی بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کی نجات کا پیغام لایا ہے، وہ عیسیٰ بھی ہے کیونکہ عیسائیوں کی ہدایت کا سامان لایا ہے، وہ نہہ کلنک اوتار بھی ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے ہاں اے ہندو بھائیو! تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی محبت کی چادر کا تحفہ لایا ہے۔
تم پُرانے بزرگوں کی اولاد ہو۔ تم کو بجا فخر ہے کہ ہمارے باپ دادے سب سے پُرانی تہذیب کے حامل تھے۔ تم ایک ایسے فلسفہ کو پیش کرتے ہو کہ تمہاری تاریخ اس سے پہلے کسی فلسفہ کو تسلیم ہی نہیں کرتی مگر کیا تم ان پرانے جسموں کو اس پرانی روح سے خالی رکھوگے جو پرماتما کی طرف سے آتی ہے جو سب سے قدیم اور سب سے پرانا ہے؟ پرانی چیزیں قابلِ قدر ہوتی ہیں مگر تبھی تک جب تک کہ ان میں جان ہوتی ہے۔ تمہارے ماں باپ جس قدر بوڑھے ہوتے جاتے ہیں تم اُن کی زیادہ عزت کرتے ہو لیکن جب وہ مر جاتے ہیں تم ان کو چِتا پر لٹا کر جلا دیتے ہو۔ پس پرانی چیز قابلِ عزت ہے لیکن جب تک اس میں جان ہو۔ پھر تم اپنی پرانی اور قابلِ عزت چیزوں میں جان ڈالنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جن کو وہ ایک دفعہ عزت دیتا ہے ان کے ساتھ ہمیشہ تعلق نبھاتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف رجوع کر کے نیکی کی روح حاصل کریں تو انہیں دوسروں سے زیادہ عزت بخشتا ہے۔ پس اگر تم کو قدیم تہذیب اور قدیم فلسفہ کا ورثہ ملا ہے تو اسے خداتعالیٰ کی روح سے زندہ کرو تاکہ وہ اِس زمانہ کی ضرورت کے مطابق شکل اختیار کر کے دنیا کیلئے فائدہ بخش بنے۔
پیارے بھائیو! زندہ اور مُردہ میں یہی فرق ہوتا ہے کہ زندہ زمانہ کے مطابق ترقی کرتا ہے اورمُردہ ایک حال پر رہتا ہے اور آخر سٹرنے لگ جاتا ہے۔ کیا تم نے کبھی غور کیا کہ تمہاری بے توجہی سے تمہاری تہذیب اور تمہارے مذہب پر بھی زمانہ نے اپنا اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ذرا غور تو کرو کہ پرماتما کے مقابلہ پر تم میں کتنے دیوتا نکل آئے ہیں؟ ذرا اپنی کتابوں کو اُٹھا کر تو دیکھو کیا کرشن اور رام چندر نے بھی کسی مورتی کے آگے ماتھا جُھکایا تھا؟ کیا وہ بھی کسی بُت کے ماتھے پر سیندھور لگانے گئے تھے؟ کیا انہوں نے بھی شِوجی اور پاربتی۲؎ کے آگے ہاتھ جوڑے تھے؟ آخر یہ پرماتما سے دُوری اور غیروں کے آگے جُھکنے کا خیال آپ لوگوں میں کہاں سے آیا؟
کیوں اُس کی محبت جو سب سے پیارا ہے سرد ہوتی گئی؟ اور آقا کی جگہ چاکروں کو دے دی گئی؟ آخر اِس کا سبب کچھ تو ہونا چاہئے۔ جو کام کرشن جی اور رام چندر جی نے نہ کیا تھا وہ آپ کیوں کرنے لگے؟ جس راہ پر مقدس اوتار نہ چلے تھے آپ اس راہ پر کیوں چلنے لگے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی زندگی بخشنے والی تازہ باتوں سے آپ نے اپنے کان بند کر لئے اور پرانے جسم کو توچِمٹے رہے مگر روح کو نکل جانے دیا۔ گُلاب کا پھول جب تک ٹہنی پر رہتا ہے وہ کیسا خوشبودار ہوتا ہے، وہ کیسا ترو تازہ ہوتا ہے، وہ کیسا نرم اور نازک ہوتا ہے لیکن جب اسے اُتار کر لوگ سینہ یا سر پر لگا لیتے ہیں وہ تھوڑی ہی دیر میںکیسا خشک اور سخت ہو جاتا ہے، اس کی خوشبو کس طرح اُڑ جاتی ہے۔
آخر اِس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اس زندگی بخشنے والے تعلق سے جُدا کر دیا جاتا ہے جو اس کی سب تازگی کا موجب تھا۔ اسی طرح اے پیارے بھائیو! فلسفے اور مذہب اچھی چیزیں ہیں مگر ان کی سب خوبصورتی اُسی وقت تک رہتی ہے جب تک اُن کی جڑ اُس زندگی بخشنے والے درخت سے ملی رہتی ہے جسے پرماتما کہتے ہیں۔ جب اُس پھول کو اس سے جُدا کر لیا جاتا ہے اس کی سب خوبصورتی خاک میں مل جاتی ہے وہ اصلی پھول اتنا خوبصورت بھی تو نہیں رہتا جتنا کپڑے یا کاغذ کا بنا ہوا پھول۔
پس اے بھائیو! آپ لوگوں کو روحانی زندگی کے بارہ میں جو کچھ پیش آیا ہے صرف اس تعلق کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اگر کرشن جی اور رام چندر جی کی طرح ان کے بعد آنے والے لوگ بھی پرماتما سے تعلق رکھتے تو کبھی یہ نوبت نہ پہنچتی کہ خداتعالیٰ کا اونچا آستانہ چھوڑ کر مقدس رشیوں کی اولاد بتوں اور دیویوں کے آگے جُھکتی پِھرتی۔ جس ماتھے کو خداتعالیٰ نے چومنے کیلئے بنایا تھا کتنے افسوس کا مقام ہے کہ وہ اپنے سے بھی ادنیٰ چیزوں کے آگے جُھکتا ہے، وہ نظریں جو اونچا اُٹھنے کیلئے بنی تھیں، افسوس کہ پاتال کی طرف جُھکی ہوئی ہیں مگر کیوں؟ کیا اس لئے کہ ان کیلئے اور صورت ممکن نہیں۔ نہیں، نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ کیا خدا کرشن اور رام چندر کی اولادوں اور سیوکوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ چنانچہ اس نے ہندوؤں کی ترقی اور اصلاح کیلئے نہہ کلنکی اوتار کو بھیج دیا ہے جو عین اِس زمانہ میں آیا ہے جس زمانہ کی کرشن جی نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی۔ اس نے خداتعالیٰ کے تازہ نشانوں سے دنیا کو خداتعالیٰ کے زندہ اور قادر ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ ایسا ثبوت کہ کوئی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا اور اب ہر شخص جو پرماتما سے محبت کرنا چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے اپنے ایشور سے مل سکتا ہے اور ان انعاموں کو حاصل کر سکتا ہے جو پرانے رشی مُنی حاصل کیا کرتے تھے کیونکہ ہمارا خدابخیل نہیں کہ ایک کو دے اور دوسرے کو نہ دے اور نہ اس کا خزانہ محدود ہے کہ جو کچھ پہلے کر سکتا تھا اب نہیں کر سکتا۔
اس نہہ کلنکی اوتار کا نام مرزا غلام احمد ہے جو قادیان ضلع گورداسپور میں ظاہر ہوئے تھے۔ خدا نے ان کے ہاتھ پر ہزاروں نشان دکھائے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ سے وہ پھر دنیا کو انصاف اور عدل سے بھرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ ان پر ایمان لاتے ہیں ان کو خداتعالیٰ بڑا نُور بخشتا ہے اور ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی سفارشوں پر لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور عزتیں بخشتا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان کی تعلیم کو پڑھ کر نور حاصل کریں اور اگر کوئی شک ہو تو پرماتما سے دعا کریں کہ اے پرماتما! اگر یہ آدمی جو تیری طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے آپ کو نہہ کلنک اوتار کہتا ہے، اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو اس کے ماننے کی ہم کو توفیق دے اور ہمارے سینہ کو اس پر ایمان لانے کیلئے کھول دے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ پرماتما ضرور آپ کو غیبی نشانوں سے اس کی صداقت پر یقین دلا دے گا۔ اور اگر آپ یہ وعدہ کریں کہ سچائی کے کھلنے پر آپ اس کے دعویٰ کو مان کر اپنے پیدا کرنے والے اور مالک سے صلح کر لیں گے تو آپ سچے دل سے میری طرف رجوع کریں اور اپنی مشکلات کیلئے دعا کرائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلوں کو دور کرے گا اور مرادوں کو پورا کرے گا مگر اسی دستور کے مطابق جو اس کا کرشن جی اور رام چندر جی کے وقت تھا مگر شرط یہ ہو گی کہ پھر آپ دنیا کی محبت کو چھوڑ کر اس کے ساتھ تعلق پختہ پیدا کر لیں۔ اور اس کی آواز کو اپنے باقی دوستوں اور عزیزوں تک پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنے کیلئے جو اس نے تدبیریں بتائی ہیں، ان پر عمل کر کے پرماتما کے سچے عاشق اور مخلص سیوک بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
قادیان۔ ضلع گورداسپور
(الفضل ۲۔اپریل ۱۹۳۶ء)
۱؎ یہ مضمون بطور ٹریکٹ ۲۹ مارچ ۱۹۳۶ء کے ’’یوم التبلیغ‘‘ پر انجمن احمدیہ خدام الاسلام قادیان نے شائع کیا۔ (الفضل ۲/ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ۴)
۲؎ پاربتی: (پاروَتی) شیوجی کی بیوی کا ایک نام








تحریکِ جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے اُس سمندر کا جو تمہارے سامنے آنے والا ہے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تحریکِ جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے اُس سمندر کا جو تمہارے سامنے آنے والا ہے
(تقریر فرمودہ ۲۸ ۔جون ۱۹۳۶ء برموقع جلسہ تحریک جدید)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میری صحت تو اس بات کی اجازت بالکل نہیں دیتی کہ میں تقریر کر سکوں لیکن انسان ان باتوں سے غافل ہوتا ہے جو اس کو نظر نہیں آتیں۔ اگر کسی کے پاؤں میں کوئی زخم ہو اور وہ چلتا ہوانظر آئے تو اس سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس کو ملامت کرتا اور اس کی منتیں کرتا ہوا کہتا ہے آپ لیٹے رہیے تا زخم اچھا ہو جائے کیونکہ وہ زخم ان لوگوں کو نظر آ جاتا ہے ۔لیکن جب وہی زخم اندرونی ہوتا ہے، ایک کو پیچش ہو جاتی ہے اور وہ اس تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو اس کے دوست اسے کہتے ہیں یونہی نخرے کر رہا ہے۔ اِسے کیا ہوا ہے کہ یہ چل پھر نہیں سکتا۔ وہی زخم اگر کسی کے گلے میں ہوتا ہے تو اس کی انسان چنداں پروا نہیں کرتا اور یہ امید رکھتا ہے کہ باوجود اس زخم کے وہ بولتا چلا جائے اور وہ خیال کرتا ہے کہ بھلا تھوڑا سا بولنے میں کیا حرج ہے۔ یہ عام انسانی فطرت کی کمزوری ہے اور انسان بوجہ اپنے محدود علم کے اس قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔
میں نے تحریک جدید کے متعلق اس قدر باتیں کہہ دی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں مجھے اس بارہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر انسانی فطرت جدّت پسند بھی ہے اور وہ سب کچھ سننے کے بعد پھر بھی خواہش کرتی ہے کہ کچھ اور سنایا جائے اور وہ اس سوال پر بھی بُرا مناتی ہے کہ تم جو اور سننے کے خواہش مند ہو پچھلے سننے پر تم نے کیاعمل کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا مَیں معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو میں آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہوں۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ مداری نہیں وہ کوئی تماشہ نہیں دکھاتا بلکہ اس کا ہر کام حکمت سے پُر ہوتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ جو پہلے معجزے دکھائے گئے ہیں ان سے آپ نے کیا فائدہ اُٹھایا ہے کہ آپ کیلئے اب کوئی نیا معجزہ دکھایا جائے۔ مگر انسانی فطرت کی کمزوری اس کو بھی ناپسند کرتی بلکہ شاید اسے بدتہذیبی قرار دیتی ہے، وہ جائزسمجھتی ہے کہ سُستی اور غفلت میں مبتلا چلی جائے بلکہ سُستی اور غفلت میں ہمیشہ پڑی رہے اور کوئی اس سے اتنا بھی سوال نہ کرے کہ اس نے اپنی ذمہ واری کو کس حد تک ادا کیا ہے۔ ہاں جب بھی وہ کوئی تماشہ دیکھنا چاہے اُس وقت اسے وہ تماشہ ضرور دکھادیا جائے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دے کر بھیجا ہے وہ کوئی پاگل وجود نہیں۔ جمادات کی طرح اور حیوانات کی طرح وہ محدود عقل کا یا بالکل بے عقل وجود نہیں مگر وہ خداتعالیٰ کی اس نعمت سے جو اُسے دی گئی ہے کیا فائدہ اُٹھاتا ہے کتنے ہیںجو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرتے ہیں، کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سمجھ کو استعمال کرتے ہیں، کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے فہم کو استعمال کرتے ہیں، دنیا میں بڑی چیزوں پر ہمیشہ چھوٹی چیزوں کو قربان کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزور انسانیت پر اپنے پیدا کئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جوہروں کو قربان کیا۔ آدمؑ اپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جوہر تھا مگر خداتعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کیلئے جنہوں نے شیطان کو جنت میں دخل دیا، آدمؑ کی سی قیمتی جان کو قربان کرا دیا۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے قیمتی وجود تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان ازلی شَقِیوں اور بدقسمت وجودوں کیلئے جو ہدایت سے محرومی اختیار کر چکے تھے، حضرت نوح علیہ السلام کی جان کو قربان کرا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کو کمزور اور ناقص انسانوں کے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کرب وبلاء میں مبتلا کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر وہ بنی اسرائیل جو خدا کیلئے صرف اس قربانی کے مالک تھے کہ انہوں نے کہہ دیا۔ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔ ۱ ؎ اُس بزدل، اس نشانات سے آنکھیں بند کر لینے والی اور اس جاہل قوم کیلئے خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی سی قیمتی جان کو قربان کرا دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی ترین وجودوں میں سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ وہ سانپ اور سانپوں کی اولاد ہیں، وہ درندے اور درندوں کی اولاد ہیں، ان کی زندگی کو بھینٹ چڑھا دیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ پاک اور اعلیٰ وجود اس دنیا میں کون آیا کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا۔ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْـلَاکَ۲؎ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر تجھے نہ پیدا کرنا ہوتا تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا۔ پس وہ وجود جس کی خاطر بنی نوع انسان پیدا کئے گئے۔ ابوجہل،عتبہ اور شیبہ کی ہدایت اور بھلائی کیلئے اس کو ایک ایسی صلیب پر لٹکا دیا گیا جو لوگوں کو تو نظر نہیںآئی مگر خداتعالیٰ جس کی نظر میںہر غیب بھی ظاہر ہے، وہ اس صلیب کے متعلق فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ۔۳؎ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاید کہ غم کی چُھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے تیری گردن کے آخری تسموں کو بھی کاٹ دے گی اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ وہ قربان ہونے والے وجود کس قیمت کے تھے اور جن کیلئے انہوں نے قربانی دی وہ کس قیمت کے تھے۔ مگر کون تھے جنہوں نے ان قربانیوں سے فائدہ اُٹھایا اور کس حد تک؟ کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کیلئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک اور تسلسل زندگی کا ہمیں حاصل ہونے والا ہے، کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کیلئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہمارے اعمال کسی بدلے اور جزا ء کے متقاضی ہیں اور ہماری زندگیاں بے کار اور رائیگاں جانے والی نہیں اور ایک دارالحساب ہمارے لئے مقرر ہے جس میں ہم سب کا حساب لیا جائے گا۔ پھر کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کیلئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے بلکہ ایک دن مر جائیں گے اور سب چیزیں اسی جگہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ آخر کونسی چیز ہے جس کیلئے ہم کہیں کہ ہمیں اس کے متعلق باہر سے امداد کی ضرورت ہے۔
چھوڑ دو ان باتوں کو جو آسمان سے آنے والی ہوتی ہیں اور جن کے بغیر انسان کی روحانیت اعلیٰ مدارج پر نہیں پہنچ سکتی کہ وہ بے شک رسولوں کے ذریعہ آتی ہیں اور ان کے بغیر ان کا علم حاصل نہیں ہو سکتا لیکن ان سے نیچے اُتر کر وہ ابتدائی باتیں جن کیلئے نبیوں کی ضرورت نہیں، انہی کے متعلق غور کر کے دیکھ لو، انسان ان کا کس حد تک خیال رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ یقینی چیز موت ہے مگر کیا سب سے زیادہ انسان اسی کو نہیں بُھولتا۔ کوئی انسان ہے جو کہے کہ میں نے اپنا کوئی رشتہ دار مرتا ہوا نہیں دیکھا، کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ وہ آدمؑ سے پہلے زمانہ کا ہے جس کا نہ کوئی باپ تھا نہ کوئی اور رشتہ دار اور وہ اب تک موت سے محفوظ ہے۔ اگر آج کوئی آدمؑ کا بیٹا بھی ہے تو بھی آدم اس کے سامنے مرا، اگر آج کوئی نوحؑ کا بیٹا ہے، تب بھی آدمؑ اور اس کی اولاد اور حضرت نوحؑ کی وفات اس کے سامنے ہوئی۔ اگر کوئی موسیٰؑ سے بھی تعلق رکھنے والا ہے، تب بھی حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے لاکھوں انسان اس نے مرتے دیکھے، اسی طرح اگر آج کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا موجود ہے یا رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا کوئی پایا جائے تو ہزارہا انسان اس کے سامنے فوت ہو چکے مگر اس قسم کا آدمی تو دنیا میں کوئی موجود نہیں۔
انسان کی اوسط عمر چالیس پچاس سال ہوتی ہے۔ اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی اس کے کئی بھائی بند، رشتہ دار اور دوست اس کے سامنے فوت ہو جاتے ہیں مگر کتنے ہیں جو اپنی موت یاد رکھتے ہیں اور پھر کتنے ہیں جو موت کے آنے سے پہلے اس کیلئے تیاری کرتے ہیں۔ درحقیقت میری تحریک کوئی جدید تحریک نہیں بلکہ یہ قدیم ترین تحریک ہے۔ اور اس جدید کے لفظ سے صرف اُن ماؤف اور اُن بیمار دماغوں سے تلعّب کیا گیا ہے جو بغیر جدید کے کسی بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ جس طرح ڈاکٹر جب ایک مریض کا لمبے عرصہ تک علاج کرتا رہتا ہے تو بیمار بعض دفعہ کہتا ہے مجھے اِن دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تب وہ کہتا ہے اچھا میں آج تمہیں نئی دوا دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ پہلی دوا میں ہی ٹنکچر کارڈمم ملا کر اور خوشبودار بنا کر اُسے دے دیتا ہے۔ مریض سمجھتا ہے کہ مجھے نئی دوا دی گئی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے نئی دوا کہنے میں حق بجانب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس میں ایک نئی دوا ملا دیتاہے۔ مگر وہ اس لئے اسے جدید بناتا ہے تا مریض دوائی پیتا رہے اور اس کی امید نہ ٹوٹے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک بڑھیا آئی۔ اسے ملیریا بخار تھا جو لمبا ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا تم کونین کھایا کرو۔ وہ کہنے لگی کونین؟ میں تو اگر کسی کونین کی گولی کا چوتھا حصہ بھی کھا لوں تو ہفتہ ہفتہ بخار کی تیزی سے پھنکتی رہتی ہوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ کونین کھانے کیلئے تیار نہیں۔ تو چونکہ عام طور پر ہمارے ملک میںکونین کو کَونَین کہتے ہیں جس کے معنی دو جہانوںکے ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کھانے کو تو کونین ہی کی گولیاں دیں مگر فرمایا۔ یہ دَارَین کی گولیاںہیں، انہیں استعمال کرو۔ دوتین گولیاں ہی اس نے کھائی ہوں گی کہ آ کر کہنے لگی مجھے تواس دوا سے ٹھنڈک پڑ گئی ہے، کچھ اور گولیاں دیں۔ میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح پرانی تحریک کا نام جدید رکھ دیا اور تم نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ جدید تحریک ہے۔ وہ لوگ جن کے اندراخلاص تھا اور وہ چاہتے تھے کہ روحانیت میں ترقی کریں، انہوںنے جب ایک تحریک کانیا نام سنا تو انہوں نے کہا یہ نئی چیز ہے آؤ ہم اس سے فائدہ اُٹھائیں اور وہ لوگ جن کے اندر نفاق تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ نئی چیز ہے، کہنا شروع کر دیا کہ اب یہ نئی نئی باتیں نکال رہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وَالسَّلام کے طریق سے انحراف کر رہے ہیں۔ نہ اِس نے بات سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اُس نے فائدہ اُٹھایا۔
پُرانی شراب پُرانے مٹکوں میں پڑی ہوئی تھی۔ صرف اس کا نام بدل دیا گیا تو منافق نے کہنا شروع کر دیا، اب یہ نئی باتیں بنانے لگ گئے ہیں۔ اور مخلص نے کہا میرے سامنے نئی چیز پیش کی جا رہی ہے، آؤ میں اس سے فائدہ اُٹھاؤں حالانکہ وہ پرانی ہی چیز تھی جسے ایک نیا نام دے دیا گیا۔ وہ وہی چیز تھی جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور وہ وہی چیز تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا مگر وہ لوگ جن کی ایمانی حالت بچوں کی سی تھی انہوںنے کہاآؤ ہم ایک نئی چیز کا تجربہ کریں اور منافقوں نے کہہ دیا کہ اب پرانے طریق چھوڑ کر نئے طریق اختیار کئے جا رہے ہیں حالانکہ اس میں وہ کونسی چیز ہے جو نئی ہے۔ وہی ایک قانون ہے جو آدمؑ کے وقت سے مقرر ہوا کہ جب شیطان تم پر حملہ کرے گا، تمہیں اس کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ پاؤںہلانے پڑیں گے بغیر اس کے تمہیں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اس کے سوا تحریک جدید میں اور کیا ہے؟ یہی قانون اس تحریک میں کام کر رہا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ نیا نام تو اسے اس لئے دیا گیا کہ وہ لوگ جو نئی چیز کی طرف توجہ کرنے کے عادی ہیں، اس کا نیا نام سن کر اس کی طرف توجہ کریں۔ جیسا کہ کہتے ہیں کوئی زمیندار مرنے لگا، تو اس کے چار لڑکے تھے وہ چاروں اس کے پاس آئے۔ باپ نے کہا۔ میں اب مرنے لگا ہوں، اس لئے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے اپنے کھیت میں ایک خزانہ دفن کیا تھا مجھے یاد نہیں رہا وہ کس جگہ ہے۔ جب میں مر جاؤں تو سارا کھیت کھود ڈالنا، ممکن ہے وہ خزانہ کسی جگہ سے تمہیں دستیاب ہو جائے۔ باپ کے مرتے ہی چاروںبھائی کدالیں لے کر کھیت میں پہنچ گئے اور تمام زمین کھود ڈالی مگر انہیں خزانہ نہ ملا۔ وہ حیران ہوئے کہ خزانہ کہاں چلا گیا۔ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی چور نکال کر لے گیا ہو۔ مگر اس کے بعد جب انہوں نے اسی کھیت میں کھیتی بوئی تو بوجہ اس کے انہوں نے کھود کر تمام زمین کو نرم کر دیا تھا، فصل خوب ہوئی اور دوسروں سے کئی گُنے زیادہ اناج پیدا ہوا۔ انہوں نے ایک دن اتفاقاً کسی سے ذکر کیا کہ ہمارے باپ نے مرتے وقت کہا تھا کہ اس زمین میں خزانہ مدفون ہے ہم نے تمام زمین کھود ڈالی مگر خزانہ کہیں سے نہیں ملا۔ وہ کہنے لگا بیوقوفو! یہی تو خزانہ ہے جو کئی گنے زیادہ اناج کی صورت میں تمہیں مل گیا۔ اگر تمہارا باپ تمہیں یہ کہتا کہ زمین خوب کھودنا اس سے فصل اچھی ہو گی، تو تم کب اس کی بات مانتے۔ تم کہتے کیا بے وقوفی کی بات ہے جس طرح دوسرے لوگ فصل بوتے ہیں، اسی طرح ہم کیوں نہ بوئیں۔ مگر جب اس نے خرانے کا لفظ بول دیا تو تم سب مل کر زمین کھودنے لگ گئے اور اس طرح تمہیں دوسروں سے کئی گُنے زیادہ غلہ مل گیا۔ یہی تو خزانہ ہے جو تمہیں اپنے باپ کی وجہ سے ملا۔ تو چیز ایک ہی ہوتی ہے مگر رنگ بدل دیا جاتا ہے۔ وہی چیز جو آدم کے ہاتھوں دنیا میں قائم ہوئی، وہی نوحؑ کے ذریعہ قائم ہوئی، وہی ابراہیم ؑ کے ذریعہ قائم ہوئی، وہی موسیٰ کے ذریعہ قائم ہوئی، وہی عیسیٰ ؑکے ذریعہ قائم ہوئی اور وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قائم ہوئی۔ کامیابی کا گُر سب کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جب شیطان خداتعالیٰ کی بادشاہت پر حملہ کرے تو اُس وقت مومن اُٹھے اور اپنی جان دے دے۔ جب تک مومن خداتعالیٰ کیلئے جان دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا، جب تک خدائی قلعہ کی حفاظت کیلئے وہ ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ نہیں ہوتا، اُس وقت تک خداتعالیٰ کی نصرت اس کیلئے نہیں اُترتی۔ اس چیز کا کوئی نام رکھ لو۔ تحریک جدید رکھ لو، تحریک قدیم رکھ لو،دینِ حنیف رکھ لو، دینِ موسوی رکھ لو، دینِ عیسوی رکھ لو، بات ایک ہی ہے، گُر ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خدااپنے مومن بندوں سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر بندے اس کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہوں تو خداتعالیٰ ان کی جان بچانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے اور اگر بندے خداتعالیٰ کیلئے اپنی جان دینے کیلئے تیار نہ ہوں تو خداتعالیٰ ان کی جان بچانے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا۔ جب تک انسان اُس گُر پر عمل کرتا رہے گا خداتعالیٰ کی نصرت اور مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔ اور جب اُس گُر پر عمل کرنا چھوڑ دے گا، خداتعالیٰ کی نصرت اور مدد بھی اس سے چھین لی جائے گی۔ بہرحال ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہے اور کوئی قربانی ایسی نہ ہو جس کے کرنے سے وہ ہچکچائے۔ خواہ وہ مال کی قربانی ہو ،خواہ جان کی قربانی ہو، خواہ عزت کی قربانی ہو ،خواہ وجاہت کی قربانی ہو، خواہ وطن کی قربانی ہو، خواہ جذبات اور احساسات کی قربانی ہو ، ہر قسم کی قربانی کیلئے وہ تیار ہو۔ خداتعالیٰ کبھی شرطیں کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ باقی انسان تو شرطیں کر لیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کبھی شرطیں نہیں کرتا۔ اس کی طرف سے صرف یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ جو اس سے تعلق رکھنا چاہتا ہے وہ بِلا شرط اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دے۔ اگر وہ مال کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو وہ مالی امتحان کیلئے تیار ہو، اگر جان کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو جانی امتحان کیلئے تیار ہو، اگر وطن کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو وطن کے امتحان کیلئے تیار ہو، اگر عزت کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو عزت کے امتحان کیلئے تیار ہو۔ اور اگر عزیر و اقارب اور رشتہ داروں کے بارہ میں امتحان لینا چاہے تو اس امتحان کیلئے تیار ہو۔ ان میں سے کونسی قربانی ہے جسے ہم بڑا یا چھوٹا کہہ سکتے ہیں۔
خداتعالیٰ نے نوحؑ کا امتحان اس رنگ میں لیا کہ ان کے بیٹے کو مذہباً ان سے جُدا کیا، خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کے ہاتھ سے اپنے بیٹے پر چُھری چلوانی چاہی، خداتعالیٰ نے لوطؑ کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کی بیوی ان سے الگ رہی، خداتعالیٰ نے موسیٰ ؑ کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کا وطن ان سے چُھڑایا، اسی طرح خدا تعالیٰ نے عیسیٰؑ کا امتحان لیا کہ انہیں صلیب پر لٹکا دیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں قربانی چھوٹی ہے اور فلاں بڑی۔ یہ تو خداتعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے کہ وہ کسی قوم کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے جس طرح چاہتا ہے، اس کا امتحان لیتا ہے۔ مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ سارے امتحان اپنی اپنی جگہ پُرحکمت ہیں اور یہ امتحان اللہ تعالیٰ انسان کے فائدہ کیلئے لیتا ہے۔ خواہ کسی انسان کا وہ امتحان لے جو اس نے حضرت نوح علیہ السلام سے لیا، خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لیا، خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت لوط علیہ السلام سے لیا۔ خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیا، خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لیا اور خواہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سارے امتحان ہی اُس سے لے، کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریب ترین وجودوں سے بھی خدا تعالیٰ نے چُھڑایا۔ چنانچہ ان کے اپنے چچا ایمان سے محروم رہے، ان سے وطن بھی چُھڑایا اور انہیں دشمنوں نے صلیب کی قسم کی تکالیف بھی دیں جیسے اُحد کی جنگ میں آپﷺ پر پتھر پھینکے گئے اور آپ بے ہوش ہو گئے۔ ۴؎
واقعہ صلیب کیا تھا؟ یہی کہ ہاتھ پاؤں میں کیل گاڑے گئے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے مگر اُس وقت فوت نہیں ہوئے، اسی طرح اُحد کی جنگ میں کیلوں کی جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے گئے، آپؐ کے دانت گرے اور آپؐ بے ہوش ہو گئے۔
غرض جو تکلیف حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آئی وہی تکلیف محمد ﷺ کو بھی پیش آئی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور محمد ﷺ کو بھی وطن چھوڑنا پڑا۔ غرض وہ تمام قربانیاں جو پہلوں سے لی گئیں محمد ﷺ سے اکٹھی لی گئیں۔ اب ہم کس قربانی کو حقیر کہہ سکتے ہیں۔ کس قربانی کو چھوٹا اور کس کو بڑا کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ قربانی کے جس دروازہ سے چاہے انسان کو بلائے۔ ورنہ جب خدا کہتا ہے کہ جنت میں ہر دروازہ سے فرشتے آئیں گے اور جنتیوں کو سلام کہیں گے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ خدا کہے گا تم پر ہر دروازہ سے مصیبت آئی تھی اور تم نے اسے قبول کیا اب اس کے بدلہ میں ہر دروازہ سے تم پر سلامتی بھیجی جاتی ہے۔ اگر ہر دروازے سے کسی نے موت قبول نہیں کی تھی تو ہر دروازے سے اس پر فرشتوں کے ذریعہ سلامتی بھیجنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ آخر وہاں ناٹک کا تماشہ تو نہیں ہو گا کہ چاروں طرف سے فرشتے بھیس بدل بدل کر آ رہے ہونگے اور مومنوں کو سلام کریں گے۔ مِنْ کُلِّ بَابٍ سَـلَامٌ سے مراد یہی ہے کہ چونکہ مومن نے دنیا میں ہر باب سے قربانی دی ہو گی اور ہر تکلیف کو خداتعالیٰ کیلئے برداشت کیا ہو گا اس لئے خداتعالیٰ بھی ہر دروازے سے اس پر سلامتی بھیجے گا۔ پس وہ شخص جو اپنے لئے قربانی کا ایک دروازہ بھی بند کرتا ہے، جنت کا ایک دروازہ اپنے اوپر بند کرتا ہے۔ جس کا دوسرے لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ ایسا شخص جو اسلام سے تعلق رکھنے والی کسی قربانی سے پیچھے رہتا ہے، جنت میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ جنت میں وہی شخص داخل ہو گا جس نے ہر دروازہ سے خدا تعالیٰ کیلئے موت قبول کی ہو گی۔ اور ہر قربانی کیلئے اس نے اپنے آپ کو تیار رکھا ہو گا۔ وہ بخیل جو مال کی قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتا اور بہانے بنا بنا کر اس سے محفوظ رہنا چاہتا ہے، وہ قربانی کا ایک دروازہ اپنے اوپر بند کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جنت کا ایک دروازہ بھی اپنے اوپر بند کر لیتا ہے کیونکہ یہ شرط ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے پر ہر دروازہ سے سلامتی بھیجی جائے گی۔ پس اگر اس نے ہر قربانی میں حصہ نہیں لیا تو وہ جنت میں داخل ہو کر ہر سلامتی کا مستحق کس طرح بن سکتا ہے۔ وہ بُزدل جو خداتعالیٰ کے راستہ میں اپنا خون بہانے سے ڈرتا ہے جسے اپنی جان خداتعالیٰ کے دین کے مقابلہ میں زیادہ پیاری دکھائی دیتی ہے، وہ قربانی کا ایک دروازہ اپنے اوپر بند کرتا اور اس کے نتیجہ میں جنت کا دروازہ بھی اپنے اوپر بند کر لیتا ہے کیونکہ جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے ہر دروازہ سے خداتعالیٰ کیلئے قربانی کی ہو گی اور جس کے پاس ہر دروازہ سے فرشتے سلامتی کا پیغام لیکر آئیں گے۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کے فرشتے آئیں اور ایک شخص اپنے مکان میں ان میں سے کسی ایک فرشتے کو داخل نہ ہونے دے تو باقی فرشتے داخل ہو جائیں۔ کیا کوئی غیرت مند یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کا بھائی کسی کے مکان پر جائیں اور مالکِ مکان کہے کہ تمیں تو اندر آنے کی اجازت ہے مگر تمہارے بھائی کو نہیں تو وہ بھائی کو وہیں چھوڑ کر آپ اندر چلا جائے۔ اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ کسی سے ملنے کیلئے جاتے ہو اور وہ کہتا ہے کہ تم آ جاؤ اور تمہارا بھائی نہ آئے۔ تو تمہیں غیرت آتی ہے اور تم کہتے ہو کہ اگر میرے بھائی کو اندر نہیں آنے دیتے تو میں بھی نہیں آ سکتا۔ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک فرشتہ کیلئے تم دروازہ بند کرو تو باقی فرشتے تمہارے پاس آ جائیں، یقینا وہ بھی نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ دنیا کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بتایا۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنے رب کے حکم کے ماتحت جب اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ کو خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے تو خداتعالیٰ نے کہا۔ اے ابراہیم! میں تیری نسل کو دنیا کے کناروں تک پھیلاؤں گا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بتا رہا ہے کہ نسل ہمیشہ اس کو ملتی ہے جو اپنی نسل کی قربانی خداتعالیٰ کیلئے کرنے کو تیار ہو جائے اور عزت ہمیشہ اس کو ملتی ہے جو اپنی عزت خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے کو تیار ہو جائے۔ سلامتی ابتلاء کے مقابلہ کی چیز ہے، جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو نسل دی ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنی اولاد کو خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا، جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو مال دیا ہے تو اس کے لازمی معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے مال کو خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا، جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو عزت دی ہے تو اس کے یہی معنی ہونگے کہ وہ اپنی عزت کو خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا اور جب ہم کہیں کہ ہر دروازہ سے کسی کیلئے سلامتی آئی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ خداتعالیٰ کیلئے ہر قربانی کرنے پر تیار ہو گیا تھا۔
پس مت خیال کرو کہ تمہارے منہ کی باتیں تمہارے کام آئیں گی اور تمہاری زبانیں تمہیں جنت میں لے جا سکیں گی۔ جب تک تم ہر دروازہ سے خداتعالیٰ کیلئے موت قبول نہیں کرو گے، جب تک تم فرشتوں کیلئے ہر دروازہ کھولنے کیلئے تیار نہیں ہو گے، جب تک تم اپنی جان کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنے مال کو خدا تعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی عزتوں کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی اولاد کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی دوستیوں کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی عادات کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی رسوم کو خداتعالیٰ کیلئے قربان نہیں کرو گے اور جب تک ہر دروازہ فرشتوں کیلئے کھول نہیں دو گے، اُس وقت تک تمہیں جنت میسر نہیں آ سکتی۔ یہ کوئی نیا پیغام نہیں جو مَیں نے دیا۔ حضرت آدمؑ بھی یہی پیغام لائے تھے، حضرت نوحؑ بھی یہی پیغام لائے تھے حضرت ابراہیم ؑ بھی یہی پیغام لائے تھے، حضرت موسیٰؑ بھی یہی پیغام لائے تھے،حضرت عیسیٰ ؑبھی یہی پیغام لائے تھے اور محمد ﷺ بھی یہی پیغام لائے تھے اور محمد ﷺ کا پیغام قیامت تک کیلئے ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔
انسانی چیزوں اور خدائی چیزوں میں فرق یہی ہے کہ انسان کی چیز پُرانی ہو جاتی ہے مگر خداتعالیٰ کی چیز پُرانی نہیں ہوتی۔ انسان کپڑے پہنتا ہے جو چند دنوں کے بعد مَیلے ہو جاتے اور کچھ عرصہ کے بعد پھٹ جاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ غلّہ پیدا کرتا ہے، وہ انسان کھاتا ہے جس کا کچھ حصہ پاخانہ بن کر زمین میں چلا جاتا اور پھر اس کے ذریعہ اور غلّہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر انسان کی بنائی ہوئی چیز مؤلّد نہیں ہوتی۔ مگر خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز مؤلّد ہوتی ہے تمہارے لٹھے کا ایک تھان پانچ تھان نہیں بن سکتا لیکن خداتعالیٰ کا ایک دانہ ستّر دانے بن جاتا ہے۔ اسی طرح وہ دانہ پُرانا بھی ہوتا ہے اور جدید بھی۔ ایک ہی وقت میں وہ پُرانا ہوتا ہے اور اُسی وقت میں وہ جدید بھی ہوتا ہے۔ وہ دانہ جو ہم آج کھاتے ہیں کیا اپنے اندر وہی جزو نہیں رکھتا جو حضرت آدمؑ کے وقت کا دانہ رکھتا تھا؟ پھر وہی آدمؑ کے وقت کا دانہ تھا جو نوحؑ کے زمانہ میں لوگوں نے کھایا اور وہی نوحؑ کے زمانہ کا دانہ تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں لوگوں نے کھایا۔ کیا حضرت ابراہیمؑ کے وقت کا دانہ آسمان سے اُترا تھا؟ کیا وہ اسی دانہ سے نہیں نکلا تھا جو حضرت نوحؑ نے کھایا اور جو حضرت آدمؑ نے کھایا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اُس وقت بھی وہی دانہ تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کے وقت تھا۔ اور وہی خواص اس کے اندر تھے جو حضرت ابراہیم ؑ کے وقت اس کے اندر موجود تھے۔ پس وہ قدیم بھی تھا اور جدید بھی تھا۔ بعض انسانوں کی عقل سے تلعّب کرنے کیلئے تم بے شک اسے نیا کہہ سکتے ہو، بعض انسانوں کی عقل سے تلعّب کرنے کیلئے تم بے شک اسے پُرانا کہہ سکتے ہو مگر خداکیلئے نہ وہ نیا تھا نہ پُرانا۔ بعض انسان بے شک اسے نیا کہہ دیں گے اور بعض انسان کہہ دیں گے یہ پُرانا ہے۔ مگر خدا اور خدا سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک وہ نہ نیا ہے نہ پُرانا۔ ایک ہی دانہ ہے جو سب نے اپنے اپنے زمانہ میں کھایا اور کھاتے چلے جائیں گے۔ غرض تو ایک تحریک کا نیا نام رکھنے سے یہ ہوتی ہے کہ کوئی فائدہ اُٹھائے۔ اگر انسان اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اسے جدید کہہ لو یا قدیم کہہ لو، بِدعت کہہ کر چھوڑ دو یا اچنبھا سمجھ کر منہ سے اس پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ کے حضور وہی پسندیدہ ہوتا ہے جو اس کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہو، جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو اور اپنی ہر چیز خداتعالیٰ کے حوالے کر دے، اور اسے کہہ دے کہ آپ اس سے جو چاہیں سلوک کریں۔ وہ خدا واحد اور لاشریک ہے، وہ اپنی چیز میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ کچھ حصہ اسے دیا جائے اور کچھ شیطان کو۔ یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ دوستوں اور عزیزوں کو۔ یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ حصہ دنیوی حکومتوں کو۔ یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ حصہ اپنی بیوی اور بچوں کو۔ خدا ایسے شخص کی کوئی چیز قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا، نہیں ہوا اور نہیں ہو گا۔ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ ہونے کے لحاظ سے وہی چیز قبول کرتا ہے جو خالص اُسی کو دی جائے اور اس میں کسی اور کا حصہ نہ رکھا جائے۔
پھر وہ اپنی خوشی سے جو چاہے واپس کر دے۔ مگر اُس کو یہ پسند نہیں کہ اُس کی محبت اور اس کیلئے قربانیوں میں کسی دوسرے کو حصہ دار بنایا جائے۔ پس ہر شخص جو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنے وطن اور اپنی ہر چیز کی قربانی میں کسی اور کو شریک بناتا اور پھر یہ امید رکھتا ہے کہ خدا اُس سے راضی ہو، وہ نادان ہے۔ وہ کبھی دینوی زندگی کا مَاحَصل نہیں پا سکتا۔ اس کی کوششیں عبث اور رائیگاں ہیں۔ وہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۵؎ کا مصداق ہے۔ اور قیامت کے دن وہ اس بنجر زمین میں دانہ بونے والا قرار دیا جائے گا جس میں سے کچھ بھی نہیں اُگ سکتا۔
جس کام کیلئے ہماری جماعت اِس وقت کھڑی کی گئی ہے، وہ کوئی معمولی کام نہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ نوحؑ کے زمانہ سے لے کر میرے زمانہ تک ہر نبی نے آخری زمانہ کے فتنہ سے لوگوں کو ڈرایا اور اُس کی ہیبت پر زور دیا ہے۔ مگر کیا ہماری جماعت میں یہی احساس ہے کہ وہ آخری زمانہ کے اس بہت بڑے فتنہ کا سَر کُچلنے اور اسے دنیا سے ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کرنے کیلئے کھڑی ہوئی ہے۔ ہر شخص اپنے نفس سے سوال کرے اور سوچے کہ اگر اس کے گھر کو آگ لگ جائے تو کیا اس آگ کو بجھانے کیلئے اس کی کوشش ویسی ہی ہو گی جیسی کوشش وہ آج اِس وقت کر رہا ہے جب خدا کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے۔ یا کیا اس کا بچہ اگر موت کے پنجہ میں گرفتار ہو تو وہ اس کو بچانے کیلئے اتنی ہی جدوجہد کیا کرتا ہے جتنی جدوجہد آج وہ اسلام کو موت کے منہ سے بچانے کیلئے کر رہا ہے۔ کیا اُس کے دل میں اُس وقت جو درد اور تکلیف پیدا ہوتی ہے اور اس کے اعزہ و اقرباء آٹھوں پہر جس طرح بے قرار رہتے ہیں اسی قسم کا درد، اسی قسم کی تکلیف اور اسی قسم کی بے قراری تمہارے دلوں میں اسلام کی مصیبت دیکھ کر پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کیونکر سمجھا جا سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک یہ فتنہ اتنا ہی عظیم الشان ہے جتنا رسول کریم ﷺ نے بیان کیا۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی قوتوں کو ضائع کیا جاتا ہے۔ کئی ہیں جو اپنی اولادوں کی ذرا ذرا سی باتوں پر ابتلا میں آ جاتے ہیں۔ کئی ہیں جو چندوں کی وجہ سے ابتلا میں آ جاتے ہیں، کئی ہیں جو قربانیوں کے دوسرے مطالبات پر ابتلا میں آ جاتے ہیں، وہ دکھ جو انسان کو بے چین کر دیتا ہے، وہ ایمان جو انسان کو شکوک وشُبہات سے بالا کر دیتا ہے ، وہ عرفان جو محبت کی چنگاری انسان کے قلب میں پیدا کر دیتا ہے، ابھی بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔ اگر وہ محبت کی چنگاری ہماری جماعت کے قلوب کو گرما دیتی تو آج دنیا کی حالت کچھ سے کچھ بدلی ہوئی ہوتی۔
آج کل فلسطین میں فسادات ہو رہے اور ایک دوسرے کو لوگ مار رہے ہیں۔ کَل میرے ایک بھائی نے عربی کے ایک اخبار کی ایک تصویر مجھے بھیجی۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک عرب لیٹا ہوا ہے، اس کا ماتھا بالکل اُڑ چکا ہے، اس کا مغز نظر آ رہا ہے، ایک آنکھ اس کی نکل چکی ہے اور دوسری آنکھ زخمی ہے۔ میںنے اسے دیکھا اور میرا دل اس سے متأثر ہوا۔ کئی منٹ تک میں اسے دیکھتا رہا اور میرا دل تکلیف اور غم سے بھرتا چلا گیا۔ مگر میں نے سوچا یہ ایک آدمی ہے اس کے مرنے سے دنیا میں کونسا تغیر آ گیا۔ اس کا سارا جسم نہیں اُڑا بلکہ ماتھا اُڑا، ایک آنکھ نکلی اور اس کی دوسری آنکھ زخمی ہوئی۔ لیکن اس کو دیکھ کر ہر شخص کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں وہ مصر کا اخبار تھا۔ اور اس تصویر کے اوپر لکھا ہوا تھا۔ ’’فلسطین کے بھائی کی تکلیف کو دیکھ اور اس کی مدد کیلئے اُٹھ‘‘۔ میںنے کہا اس کا سارا جسم سلامت ہے صرف اس کا ماتھا اُڑا، ایک آنکھ نکلی اور دوسری آنکھ زخمی ہوئی اور مجھے اس کی تکلیف کا اتنا احساس ہے لیکن آج اسلام کا کونسا حصہ سلامت ہے اس کا ماتھا بھی اُڑ گیا، اس کا سر بھی اُڑ گیا، اس کا ناک بھی اُڑ گیا، اس کے کان بھی اُڑ گئے، اس کے کلّے بھی پچک گئے، اس کی گردن بھی کاٹی گئی، اس کا سینہ بھی چھلنی کیا گیا اور اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں کو بھی کاٹ کر اس کا قیمہ کر کے رکھ دیا گیا۔ اس بے کار انسان کے قلیل زخم کو دیکھ کر جب انسانی دل تڑپ اُٹھتا ہے تو کیا اسلام کے ان گہرے زخموں کو دیکھ کر جن سے اس کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں، کوئی درد مند انسان ہے جو نہ تڑپے۔ اسلام سچائیوں کا نام ہے اور سچائی تمام چیزوں سے بالا سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اگر اسلام میں دماغ ہوتا، اگر اسلام میں قوتِ متفکرہ ہوتی، اگر اسلام کے پاس سوچنے والا دل اور بولنے والی زبان ہوتی، تو وہ خدا کے عرش کے سامنے کھڑا ہو کر کہتا کہ کاش! تُو مجھے ایک انسان ہی بنا دیتا جس کے زخم دیکھ کر لوگ تڑپ تو اُٹھتے۔ تُو نے مجھے سچائی بنایا جس کی وجہ سے میرے زخموں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ میرے زخموں کو دیکھ کر کسی کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا مگر یہ حالت کِن کی ہے؟ ان لوگوں کی جو مادی دنیا کے مشاغل میں مبتلا ہیں، جنہیں روحانی نظریں حاصل نہیں، جو روحانی کیفیتوں سے لُطف اندوز نہیں ہو سکتے، جنہیں قرآن کے اَوراق محض کاغذ اور اس کے حروف محض سیاہی نظر آتے ہیں، جن کو قرآن کا حُسن صرف اتنا ہی نظر آتا ہے کہ اسے کسی اچھے کاتب نے اعلیٰ خط میں لکھا، ان کو اس قرآن کے وہ زخم نظر نہیں آتے جو اسے لگے ہوئے ہیں، نہ انہیں اسلام کے وہ زخم دکھائی دیتے ہیں جو اس کے ہر حصہ پر دشمنوں نے لگائے مگر وہ جن کی روحانی آنکھیں کُھلی ہیں، جنہیں روحانی خوبصورتی نظر آتی ہے وہ اسلام کے اس دکھ کو بھی محسوس کرتے ہیں،وہ قرآن کے ان زخموں کو بھی دیکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ قیامت کے دن محمد ﷺ خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے اور اُس سے رقّت بھرے لہجہ میں کہیں گے۔ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْاھٰٰذَالْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۔ ۶؎ ا ے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پیچھے پھینک دیا۔ لوگوں کو لہلہاتے ہوئے سبزوں کی خوبصورتیاں نظر آئیں، بل کھاتے ہوئے دریاؤں نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کیا، چمکتی ہوئی بجلیاں اور کڑکتے ہوئے بادل ان کی دلجمعی کا باعث بنے، پہاڑوں کی سرسبزیاں اور ان کی شادابیاں ان کے دلوں کی راحت کا موجب ہوئیں، مرنے والا انسان جو ہزاروں گندگیاں اپنے اندر رکھتا ہے، آنکھ کی اچھی بیٹھک یا ناک کی اچھی بیٹھک کی وجہ سے ان کا محبوب و مطلوب بن گیا مگر کسی نے توجہ نہ کی تو سارے حُسنوں کے مجموعہ اور تمام خوبصورتیوں کے جامع قرآن کی طرف۔ دنیا داروں نے دنیا کی چیزوں کو دیکھا اور ان کے حُسن کو انہوں نے محسوس کیا۔ محمد ﷺ نے روحانی دنیا میں قرآن کو دیکھا اور اس کے حُسن کو انہوں نے اپنے دل میں جگہ دی اور دکھ محسوس کیا کہ لوگوںنے کیوں اسے چھوڑ دیا۔ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میرا بیٹابڑا ذہین ہے مگر استاد اُس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور وہ فیل ہو جاتا ہے، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میری بیٹی بڑی لائق ہے مگر اِس کا خاوند اس سے اچھا سلوک نہیں کرتا، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میرا بیٹا بڑا لائق ہے مگر اُس کی بیوی اس سے محبت نہیں کرتی، لوگ آتے ہیںاور کہتے ہیں ہمارے بیٹے نے اعلیٰ نمبروں میں امتحان پاس کیا ہے مگر تمام محکموں پر ہندو چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسے نوکری نہیں ملتی، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا بچہ بیمار ہے اس کی حالت نہایت دردناک ہے۔ غرض ہر شخص دنیا کی چیز دیکھتا اور دنیا کی چیزوں کے متعلق اپنے درد دوسرے کے سامنے پیش کرتا ہے مگر محمد ﷺ خداکا قرآن لیکر اُس کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے خدا! اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ کیا ہے وہ زندگی اور کیا نفع ہے اس حیات کا جس میں ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ہم دنیا کو مخاطب کرتے اور کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں جو اسلام کیلئے اپنی جانیں دینے کیلئے تیار ہیں مگر عمل سے کچھ نہیں کرتے۔ اورنہیں سوچتے کہ کیا واقعہ میںہم اسلام کیلئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ یا کیا ہم دنیا کو اتنا بے وقوف سمجھتے ہیںکہ وہ ہماری حالتوں کو نہیں دیکھتی اور ہمارے جھوٹ کو محسوس نہیں کرتی۔ کیا ممکن ہے کہ ہم سارے کے سارے بحیثیت جماعت یا ہم میں سے اکثر اسلام کیلئے اپنی جانیں دینے کیلئے تیار ہوں اور خداتعالیٰ کے ملائکہ آسمان سے اُتر کر دنیا کا نقشہ نہ بدل دیں۔ مگر ابھی تو ہماری چھوٹی سے چھوٹی تدبیریں اور تجویزیں بھی جدید اور قدیم کے ناموں میں اُلجھتی رہتی ہیں۔ گویا ہماری مثال اُس بچہ کی سی ہے جس کی ماں مر جاتی ہے اور بچہ سمجھتا ہے کہ ماں جو مجھ سے نہیں بولتی تو وہ مجھ سے مذاق کر رہی ہے۔ اسلام میں اب کیا باقی رہ گیا ہے؟ اس کی روح اس سے نکل گئی ہے۔ قرآن کی روح بھی جاتی رہی ہے مگر ہم ابھی کھیل رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ابھی موت کا دن آنے والا ہے۔ حالانکہ اِس کی موت کا دن آ چکا اور ہم اپنی نادانی اور بے وقوفی سے بچہ کی طرح اسے مذاق سمجھ رہے ہیں۔ اب اگر خداتعالیٰ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو اسلام کا سوائے اس کے اور کیا باقی ہے کہ لوگ آئیں اور اِس کی لاش کو دفن کر دیں۔ ایک بچہ جس دن اُس کی ماں مرتی ہے یہ نہیں سمجھتا کہ اُس کی ماں مر گئی ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے، جب وہ یتیم کے طور پر کسی گھر میں پالا جاتا ہے، جب اُس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اور وہ تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو مالکہ اسے ڈانٹ کر کہتی ہے بے شرم بے حیا! روٹی کھانے کیلئے آ موجود ہوتا ہے اور کام کے وقت پیٹ درد شروع ہو جاتا ہے۔ جب اس پر ملیریا کا حملہ ہوتا ہے، جب اس کی لاتوں اور ہاتھوں میں درد ہو رہا ہوتاہے اور اس کی مالکہ اسے مار کر کہتی ہے بچہ کو کھِلا۔ اور جب وہ تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو وہ اور قمچیاں ۷؎ مارتی اور کہتی ہے نامعقول بہانے بناتا ہے۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں مر چکی ہے اور اب دنیا میں میرا کوئی ہمدرد نہیں۔ مگر افسوس مسلمانوں پر کہ وہ قمچیاں پڑنے پر بھی نہ سمجھے۔ اسلام جس کے ذریعہ انہیں عزت حاصل تھی، اسلام جس کے ذریعہ انہیں عظمت حاصل تھی،اسلام جس کے ذریعہ انہیں فوقیت حاصل تھی، وہ اسلام جس نے ان کو بھیڑوں اور بکریوں کے چرواہوں سے اٹھا کر دنیا کا بادشاہ بنا دیا اور یورپ کے ایک سِرے سے لیکر چین کے دوسرے سرے تک ان کا ڈنکا بجا دیا وہ اسلام اور قرآن مر گئے، دفن کر دیئے گئے اور مسلمان غیر عورتوں کے سپرد کر دیئے گئے۔ ان کی طرف سے مسلمانوں پر قمچیاں پڑیں، ظلم ہوئے، تکلیفیں آئیں مگر ابھی تک وہ یہ نہیں سمجھے کہ ہم اپنے بداعمال کی وجہ سے اپنی ماؤں سے جُدا کر دیئے گئے ہیں۔ کاش! انہیں محسوس ہوتا کہ دنیا کی مائیں ایک دفعہ مر کر زندہ نہیں ہوتیں مگر روحانی مائیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم میں سے وہ شخص جس کی ماں مری ہوئی ہو، اگر ہم میں سے وہ شخص جس کا باپ مرا ہوا ہو، وہ شخص جو دوسروں کے دروازہ پر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہو، جسے کھانے کیلئے روٹی، پینے کیلئے پانی اور تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا میسر نہ ہو، جسے نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین کی نیند نصیب ہو ایسے انسان کے پاس اگر کوئی شخص آئے اور کہے اے بچہ! اُٹھ اور اپنے والدین کی قبر پر افسوس اور ندامت کے دو آنسو بہا، تیری ماں اور تیرا باپ زندہ ہو جائیں گے، تو کون ہے جو پاگلوں کی طرح قبرستان کی طرف دوڑا نہیں جائے گا اور اپنے ماں باپ کی قبر پر افسوس اور ندامت کے ساتھ آنسو بہانے کیلئے تیار نہیں ہو گا۔ میری تو قوتِ واہمہ بھی اس کا خیال نہیں کر سکتی کہ ایک شخص کے سامنے یہ تجویز پیش ہو اور ایسے معقول انسان کی طرف سے پیش ہو جس پر اسے اعتبار ہو اور اس کی بات کو وہ ردّ کرنے کیلئے تیار نہ ہو، تو وہ دیوانہ وار قبرستان کی طرف نہ جائے اور اپنے آنسوؤں سے ان قبروں کو تر نہ کر دے۔ مگر ہماری روحانی ماں اسلام اور روحانی باپ قرآن دونوں فوت ہو گئے، فوت ہونے کے بعد دونوں دفن کر دیئے گئے اور کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ ہمارا خدا کہتاہے کہ تم عقیدت کے دو آنسو اِن پر بہا دو وہ زندہ ہو جائیں گے مگر ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں ملتی کہ ہم دو آنسو بہا سکیں اور پھر ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں، پھر ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر اسلام اور قرآن کی موت پر ہمارے دو آنسو بھی عقیدت کی نذر نہیں بن سکتے تو اسلام اور قرآن سے ہماری محبت کا دعوی کہاں تک جائز ہو سکتا ہے۔
پس میں اپنی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم باتیں کرتے ہو مگر کام نہیں کرتے یہاں مجالسِ شورٰی ہوتی ہیں، دھڑلّے سے تقریریں کی جاتی ہیں، لوگ رو بھی پڑتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلیجہ باہر آنے لگا ہے مگر جب یہاں سے جاتے ہیں تو سُست ہو جاتے ہیں۔ لوگ چندے لکھواتے ہیں مگر دینے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں میں نام پیدا کرنے کیلئے۔ وہ کہتے ہیں ہم احمدیت کیلئے ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہیں مگر قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ہندوؤں کی لڑائی کی سی ہوتی ہے۔ ایک کہتا ہے پنسیری ماروں گا اور دوسرا کہتا ہے مار پنسیری تو پہلا شخص دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں گے اور پھر کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی ہم پر غالب آسکے۔ بچہ کو اس کی ماں بعض دفعہ اُٹھاتی اور اُچھالتی ہوئی کہتی !بیٹا تجھے نیچے پھینک دوں۔ جب تک بچہ ڈرتا ہے ماں اس کا مذاق اُڑاتی رہتی ہے اور کہتی ہے تجھے ابھی نیچے پھینکتی ہوں۔ مگر جب بچہ کہتا ہے پھینک دو۔ تو کیا تم سمجھتے ہو کوئی سنگدل سے سنگدل ماں بھی اس فقرہ کو سن کر بے تاب ہوئے بغیر رہ سکتی ہے۔ کیا بچہ جس وقت کہتا ہے ماں مجھے بے شک پھینک دو۔ اُس وقت ایک سنگدل سے سنگدل ماں کا دل بھی خون نہیں ہو جاتا، کیا اس کے آنسو نہیں بہہ پڑتے اور کیا وہ اس کا منہ چوم کر اسے چھاتی سے نہیں لگا لیتی اور کیا وہ اسے بھینچ کر نہیںکہتی میری جان! تجھ پر قربان میں تجھے کب گِرا سکتی ہوں۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو ہمارا خدا ماں سے کم رحم دل ہے۔ وہ بھی ہمارے ایمان اور ہمارے اخلاص کا امتحان لیتا ہے اور کہتا ہے میں تمہیں نیچے گِراتا ہوں۔ جب تک ہم کہتے ہیں ہم کو قربان نہ کرو، ہمیں نیچے نہ گراؤ، وہ اور زیادہ زور سے ہمیں ڈراتا ہے۔ مگر جب ہم کہہ دیتے ہیں ہمیں اس میں کیا عُذر ہے اور یہ کیا قربانی ہے، ہم تو اس سے بھی بڑی قربانیاں کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ ماں سے زیادہ زور سے ہمیں بھینچتا، اپنے ساتھ ہمیں چمٹاتا اور پیار کرتا ہے اور ہم پہلے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم اس کے قریب ہو جائیں تو موت کی کیا طاقت ہے کہ خدا کی گود میں ہاتھ ڈال سکے۔ایسے انسان کو خدا اپنی گودی میں لے لیتا، اسے پیار کرتا اور اسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔ ہماری مصیبتوں اور ابتلاؤں کا اس وقت بڑھنا بتاتا ہے کہ درحقیقت ہم حقیقی موت کیلئے ابھی تیار نہیں ہوئے۔ جس طرح ماں اپنے بچہ کو چھیڑتی ہے اور کہتی ہے میں تجھے نیچے گراؤں اور وہ کہتا ہے نہ گراؤ۔ تو چونکہ وہ اپنی ماں پر بدظنی کرتا ہے، اس لئے وہ اور زیادہ اُسے چڑاتی ہے۔ مگر جب بچہ کہدیتا ہے بے شک مجھے پھینک دو تب وہ اپنے بچہ کو پھینکا نہیں کرتی بلکہ اسے گلے سے چمٹا لیتی ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ بھی یہ دیکھتا ہے کہ ہم پھینکے جانے اور اس کیلئے موت قبول کرنے کو تیار ہیں یا نہیں۔جس دن ہمارے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اُٹھی کہ اے خدا! ایک ہلاکت کیا ہم تیر ے لئے ہزار ہلاکتوں کو بھی اپنے نفس پر وارد کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اور ایک موت کیا ہم تیرے دین کیلئے ہزار موتیں بھی قبول کرنے کو تیار ہیں کیونکہ قربانی ہمارے لئے عزت کا مقام ہے اس دن خداتعالیٰ کی محبت میں اِس زور سے جوش پیدا ہو گا اور اس کی اُلفت کے سمندر میں ایسا طوفان آئے گا کہ وہ خس و خاشاک کی طرح ہمارے مخالفوں کو بہا دے گا اور وہ دشمن کے بیڑے جو ہماری تباہی کیلئے آ رہے ہیں، انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ مگر ہمیں بھی تو محبت کا کوئی جذبہ دکھانا چاہئے۔ کیا خداتعالیٰ نے اپنی محبت کا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں ہماری طرف نہیں بڑھایا۔ مگر ہم نے اس ہاتھ کی کیا قدر کی۔ کیا ہمارے اندر اس ہاتھ کو دیکھ کر وہی جوش اور وہی محبت پیدا ہوئی جو اِس قسم کے احسان اور سلوک کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے۔ ہم نے تو اس احسان کی طرف ایسی ہی توجہ کی جیسے انسان قوسِ قزح کا نشان آسمان پر دیکھتا ہے تو تھوڑی دیر کیلئے کہدیتا ہے ۔ واہ واہ کیا اچھا نشان ہے۔ اور یہ کہہ کر پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں آتا کہ آسمان پر قوسِ قزح ہے۔
بے شک ہم میں مخلص بھی ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو ہر وقت قربان کرنے کیلئے تیار ہیں مگر اُن کی تعداد کتنی ہے؟ عام لوگوں کو تو ان سادہ لوح اَن پڑھ مخلصوں پر رشک کرنا چاہئے جو گو علمِ ظاہر سے محروم تھے مگر خداتعالیٰ نے ان کو علمِ باطن دیا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری ایام میں آخری جلسہ سالانہ پر سیر کیلئے باہر نکلے تو جس وقت آپ اس بڑ کے درخت کے قریب پہنچے جو آجکل ریتی چھلّہ کے درمیان میں ہے تو ہجوم کی زیادتی کی وجہ سے سیر کیلئے جانا آپ کیلئے مشکل ہو گیا اور اسی جگہ ٹھہر کر آپ نے لوگوں کو مصافحہ کا موقع دیا۔ اُس وقت ہجوم میں پانچ چھ سَو کے قریب لوگ تھے۔ ہجوم کی زیادتی اور محبت کے وفور کی وجہ سے مصافحہ کیلئے رستہ ملنا بعض کو مشکل ہو گیا۔ ایک زمیندار سے دوسرے زمیندار نے پوچھا کیوں بھئی مصافحہ کر لیا۔ اُس نے جواب دیا ہجوم بہت ہے اور دھکّے لگتے ہیں، میں نے تو ابھی مصافحہ نہیں کیا۔ وہ کہنے لگا دھکّے کیا ہوتے ہیں۔ اگر تمہاری ہڈیوں سے بوٹیاں بھی الگ ہو جائیں تو پروا نہیں، ہجوم میں گھس جاؤ اور مصافحہ کر آؤ، یہ دن تمہیں پھر کہاں نصیب ہو سکتے ہیں۔
وہ ایمان تھا اور وہ اخلاص تھا جو حقیقی محبت پر دلالت کرتا تھا۔ یعنی خدا کی طرف سے آنے والے کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چُھونے کیلئے اگر گوشت ہڈی سے جُدا ہو جاتا ہے تو جدا ہو جائے کیونکہ یہ دن روز روز میسر نہیں آ سکتے۔ کاش! ہم ان لوگوں کے دلوں کی کیفیت کا احساس کر سکتے جو محمد ﷺ کے بعد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے تیرہ سَو سال کے عرصہ میں ہوئے، کاش !ہم اس درد کو جانتے، کاش! ہم اس گریہ وزاری پر اطلاع رکھتے جو درد اور جو گریہ وزاری ان لوگوں کو اس حسرت میں پیدا ہوتی کہ کاش وہ محمد ﷺ کو نہیں، آپ کے پاؤں کو نہیں بلکہ آپ کے پاؤں کی خاک کو ہی چُھونے کا فخر حاصل کر سکتے۔ اگر یہ چیز ہمارے سامنے آ جائے تو شاید ہمیں شرمندگی پیدا ہو، شاید ہمارے دلوں میں بھی احساس ہو کہ ہم نے کتنی بڑی چیز کی ناقدری کی۔ خداتعالیٰ نے ایک آواز ہمارے لئے بلند کی، اس نے ایک ہاتھ ہماری طرف لمبا کیا اور ہمیں موقع دیا کہ ہم پھر محمد ﷺ کے صحابہؓ کا مقام حاصل کریں، پھر ہم اپنے خدا کو مل سکیں لیکن افسوس ہم نے اس کی قدر نہ کی اس کی قیمت کو نہ پہچانا اور اسی طرح گذر گئے جس طرح بازار میں سے کوئی خربوزوںکے ڈھیر اور آموں کے ٹوکروں پر سے گزر جاتا ہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ پہلے اس چیز کو سمجھے کہ وہ ہے کیا؟ جب تک اس مقام کو وہ نہیں سمجھتی، اُس وقت تک اسے اپنے کاموں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اُس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے جو شخص قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کُودے گا۔ پانی کے قطرے سے تو وہی ڈرتا ہے جسے ہلکے (بائولے) کُتّے یعنی شیطان نے کاٹ لیا ہو ورنہ کبھی تندرست بھی قطرے سے ڈرا کرتا ہے؟ تندرست اگر ڈر سکتا ہے تو سمندر سے۔ کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ نہ معلوم میں اس میں تیر سکوں یا نہ تیر سکوں اور نہ معلوم اسے عبور کر سکوں یا نہ کر سکوں مگر کوئی سمجھدار اور باشعور انسان پانی کے قطرہ سے نہیں ڈرتا۔
پس جو شخص قطرے سے ڈرے اس کے متعلق سمجھ لو کہ اسے ہلکے کُتّے یعنی شیطان نے کاٹا ہے کیونکہ تحریک جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے سمندر کے مقابلہ میں۔ اب جو شخص اس قطرے سے خائف ہے یقینا اسے ہلکے کُتّے نے کاٹا ہے۔ یعنی یقینا اس پر شیطان نے غلبہ کیا ہوا ہے اور اس کا ایمان ضائع ہو چکا ہے۔ پس اس قطرے کا نگل لینا کونسا مشکل کام ہے۔ ابھی تو اس سمندر میں تمہیں تیرنا ہے۔ جس سمندر میں تیرنے کے بعد دنیا کی اصلاح کا موقع تمہیں میسر آئے گا۔ کیا قرآن میں یہ آیت پڑھتے وقت کہ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْاھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْراً تمہارے دل میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا۔ کہ کاش !جس وقت محمد ﷺ اپنے خدا کے سامنے یہ کہیں کہ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْاھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْراً اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا، اس وقت وہ ایک استثناء بھی کریں اور وہ استثناء تمہارا ہو۔ جس وقت وہ یہ کہیں کہ اے میرے رب! میری قوم نے تیرے اِس قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہیں کہ میں اس قوم اور اس جماعت کو مستثنیٰ کرتا ہوں۔ کیا یہ خواہش تمہارے دلوں میں کبھی پیدا ہوتی ہے یا نہیں۔ اور اگر ہوتی ہے تو تم قربانیوں کیلئے کیوں آمادہ نہیں ہوتے۔ کب تک تم کو سُنانے والے سنائیں گے، کب تک تم کو جگانے والے جگائیں گے۔ ہر دن جو گذر رہا ہے وہ تم کو اس چشمہ سے دُور کر رہا ہے جس چشمہ سے تمہاری نجات وابستہ ہے، جس چشمہ سے تمہاری حیات وابستہ ہے۔ پس ہوشیار ہو جاؤ اور بیدار ہو جاؤ اور اس دن کا انتظار نہ کرو کہ جب تمہیں جگانے والے نہیں رہیں گے اور نہ ہوشیار کرنے والے رہیں گے۔ آج تمہارا بوجھ بٹانے والے دنیا میںموجود ہیں۔ مگر وہ ہمیشہ نہیں رہ سکتے کیونکہ خدا کی یہ سنت چلی آئی ہے کہ بوجھ بٹانے والے وہ ہمیشہ ساتھ نہیں رکھتا۔
پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور چھوٹے چھوٹے امتحانوں میں کامیاب ہونے کی کوشش کرو تا بڑے امتحانوں میں تم کامیاب ہو سکو۔ تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ تم خدا کیلئے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی انکار نہیں کرو گے، تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ اگر تمہیں خدا کیلئے اپنے کسی عزیز اور رشتہ دار کو چھوڑنا پڑے تو تم اسے بخوشی چھوڑنے کیلئے تیار ہو گے، تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ تم خدا کیلئے ہر قسم کی موت قبول کرنے کیلئے تیار رہو گے، تم خدا کیلئے مر جاؤ اور اس کیلئے موت قبول کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ پھر تمہیں اس کی طرف سے ابدی زندگی ملے گی۔ تم اس کیلئے گڑھے میں گرنے کیلئے تیار ہو جاؤ کہ جو خدا کیلئے گڑھے میں گرنے کیلئے تیار ہو جائے گا، خدا اسے اپنی گود میں اُٹھا لے گا۔ تم ان لوگوں میں سے مت بنو جنہوں نے محمد ﷺ کے قول کے مطابق قرآن اُٹھا کر اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔ بلکہ تم ان لوگوں میں سے بنو جنہوں نے جب دیکھا کہ قرآن کو پیٹھوں کے پیچھے پھینکا جا رہا ہے تو انہوں نے فوراً اپنی جھولیوں میں اسے اُٹھا لیا۔
(الفضل ۲۔ جولائی ۱۹۳۶ء)
۱؎ المائدۃ :۲۵
۲؎ موضوعات کبیر، ملا علی قاری صفحہ ۵۹۔ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ
۳؎ الشعراء :۴
۴؎ سیرۃ ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ ۸۴۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵؎ الکھف : ۱۰۵ ۶؎ الفرقان :۳۱
۷؎ قمچیاں: کوڑے۔ تازیانے۔ چابکیں۔ چھڑی ۔ پتلی اور لچکدار ٹہنیاں



سر میاں فضل حسین صاحب کی المناک وفات پر خطاب





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سر میاں فضل حسین صاحب کی المناک وفات پر خطاب
(تحریر فرمودہ ۱۰۔جولائی ۱۹۳۶ء قبل از خطبہ جمعہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور نے فرمایا:۔
آج کا خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گو ہماری جماعت ایک دینی جماعت ہے مگر دین کی ترقی اور اس کے بڑھنے کیلئے بھی دُنیوی سامانوں اور دُنیوی امن کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پس ایک دینی جماعت دنیا کے امن سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی اور دنیا میں فتنہ و فساد اور خطرات و مصائب کے اگر سامان ہوں تو وہ انہیں نظراندار نہیں کر سکتی۔
ہندوستان میں قریب زمانہ میں ہندوستانیوں کو ایسے حقوق ملنے والے ہیں کہ جن کو کانگرس اور کانگرس کے ہمنواگو بہت ہی قلیل بلکہ ناقابلِ قبول قرار دیتے ہیں مگر اندرونی طور پر ان کے قلوب بھی اس امر کو محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حالت سے بہت زیادہ حقوق ہندوستانیوں کے ہاتھ میں آنے والے ہیں اور وہ لوگ جن کو اس بات سے دُکھ ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کو بعض حقوق کیوں مل گئے‘ ان کی وجہ سے پنجاب کی آئندہ حالت نہایت ہی خطرناک نظر آتی ہے اور خدشہ ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ‘ شِقاق اور لڑائیاں پہلے سے بہت زیادہ ہوں۔ ہمارا صوبہ جنگی صوبہ کہلاتا ہے۔ شاید اس کے اتنے معنے یہ نہیں کہ ہمارے صوبہ کے لوگ فوج میں زیادہ داخل ہوتے ہیں جتنے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمارے صوبہ کے لوگ دلیل کے محتاج نہیں بلکہ سونٹے کے محتاج ہیں۔ دوسرے لوگ جب کسی معاملہ میں اختلاف رکھتے ہوں تو اپنے اختلاف کا دلائل سے فیصلہ کیا کرتے ہیں لیکن ہمارے صوبہ کے لوگ دوسروں کے متعلق کشتنی اور گردن زدنی کے نعرے لگا لگا کر ان پر غالب آنا چاہتے ہیں۔
پنجاب کی حالت اس قسم کے لوگوں اور خصوصاً احرار کی وجہ سے پہلے ہی خطرناک تھی اور ہے۔ مگر اس کشمکش میں جو سیاسیات میں حصہ لینے والے مسلمان تھے‘ ان میں سے سرمیاں فضل حسین صاحب کی ذات ایسی تھی جو مسلمان لیڈروں کو قابو میں رکھنے اور انہیں میانہ روی پر چلانے کی اہل تھی مگر جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہو چکا ہو گا وہ کَل رات فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی وفات کی وجہ سے پنجاب کے مسلمانوں کی سیاسی دنیا میں ایک بہت بڑا شقاق پیدا ہو گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ہر چیز کا علاج ہوتا ہے اور ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی قائم مقام ہوتا ہے مگر بظاہر موجودہ حالت ایسی ہے کہ خطرہ ہے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے اور بجائے اتحاد اور یکجہتی سے رہنے کے وہ پراگندگی اور تشتّت کا شکار ہو کر اَغیار کے ہاتھوں میں کٹھ پُتلی بن کر ناچنا شروع کر دیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے اس امر کو شامل رکھیں۔ ہماری جماعت کا مرکز پنجاب میں ہے اور ہماری تبلیغ کا دائرہ بھی زیادہ تر پنجاب میں ہی وسیع ہے‘ اس لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے جو مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے والے ہوں اور انہیں توفیق دے کہ وہ متحد ہو کر اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں اور ہندوؤں، سِکھوں اور ان غیرمذاہب کے لوگوں کو بھی جو مسلمانوں کے حقوق میں روکیں پیدا کرتے رہتے ہیں‘ ہدایت دے۔ ہمارے سیاسی حالات کو وہ اپنے فضل سے بدل دے اور دنیا میں امن قائم کر دے تا ہماری تبلیغ میں کسی قسم کی رُکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ہر شخص جو دنیا میں آیا اُس نے آخر مرنا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جس کا خداتعالیٰ نے کوئی نہ کوئی قائم مقام نہ بنایا ہو اور جس کے کام کو چلانے کا اس نے سامان نہ کیا ہو بشرطیکہ وہ نیک آدمی ہو اور موت تو ایسی چیز ہے جس نے ہر ایک پر آنا ہے مگر میں سمجھتا ہوں سلسلہ احمدیہ کے مخالفین کیلئے سرمیاں فضل حسین صاحب کی وفات بھی ایک الٰہی نشان ہے۔ ان پر بڑا الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ وہ مرزائیت نوازہیں۔ یہ الزام اُس وقت لگایا گیا جب میاں صاحب گورنمنٹ کے عُہدہ سے الگ ہو کر پنجاب میں بیماری کی حالت میں آ بیٹھے تھے۔ مگر کیا یہ خداتعالیٰ کی قدرت نہیں کہ وہ شخص جو تمام عُہدوں سے الگ ہو کر گھر آ بیٹھا تھا‘ اس کیلئے خداتعالیٰ نے نہایت غیرمعمولی سامان کر کے موت سے کچھ دن پہلے اسے عزت کے ایک مقام پر بٹھا دیا۔ ان پر الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ وہ مرزائیت نواز ہیں اور اس الزام سے مخالفین کا مقصد یہ تھا کہ وہ انہیں ذلیل کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں عزت حاصل نہ کرنے دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مخالفین کو رُسوا کیا چنانچہ موت تو سرمیاں فضل حسین صاحب کی جولائی میں مقدر تھی اور پہلے عُہدہ سے علیحدگی کے بعد ان کیلئے بظاہر کوئی چانس اور موقع ایسا نہ تھا جس میں وہ پھر کوئی عزت حاصل کر سکتے مگر ان کے دشمنوں نے چونکہ انہیں مرزائیت نواز کہہ کہہ کر ذلیل کرنا چاہا‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کی غیرت میں انہیں عزت دی اور عزت دینے کے بعد انہیں وفات دی اس کیلئے خداتعالیٰ نے کتنے ہی غیرمعمولی سامان پیدا کئے۔ چنانچہ پنجاب کے وزیرتعلیم سرفیروزخاں نون کے انگلستان جانے کا بظاہر کوئی موقع نہ تھا اور جن کو اندرونی حالات کا علم ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ آخری وقت تک سرفیروزخان صاحب نون کے ولایت جانے کے متعلق کوئی یقینی اطلاع نہ تھی۔ بعض اور لوگوں کیلئے گورنمنٹ آف انڈیا اور ولایتی گورنمنٹ بھی کوشش کر رہی تھی اور اگر سرفیروز خان پنجاب میں ہی رہتے تو اب سر فضل حسین صاحب بغیر کسی عُہدہ کے حاصل کرنے کے دنیا سے رخصت ہو جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بتانا چاہتا تھا کہ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے اوپر کوئی اعتراض لیتا ہے‘ ہم اسے بھی بغیر عزت دیئے فوت نہیں ہونے دیتے۔ پس غیرمعمولی حالات میں سر فیروز خاں صاحب نون ولایت گئے اور سرمیاں فضل حسین صاحب وزیر تعلیم مقرر ہو گئے اور چند دنوں کے بعد ہی وفات پا گئے۔ ۱۸۔جون کو وہ پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے اور ۹۔ جولائی کو فوت ہو گئے۔ گویا صرف تین ہفتے وہ اِس عُہدہ پر فائز رہے۔ میرے نزدیک یہ بھی خدائی حکمت اور خدائی مکر تھا جو دشمنوں کو یہ بتانے کیلئے اختیار کیا گیا کہ تم تو اس کے دشمن ہو اور چاہتے ہو کہ اسے ذلیل کرو لیکن ہم اس کو بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے جو گو احمدی نہیں مگر احمدیت کی وجہ سے وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بنا ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برسراقتدار کیا اور اس قدر عزت دی کہ ان کی وفات سے چند دن پہلے ہی ایک ہندو اخبار نے اس بات پر مضمون لکھا تھا کہ ہندوستان میں اس وقت کون حکومت کر رہا ہے؟ اُس نے لکھا کہ گوبظاہر یہ نظر آتا ہے کہ انگریز حکومت کر رہے ہیں یا وائسرائے حکومت کر رہا ہے یا گورنر حکومت کر رہا ہے مگر یہ درست نہیں اصل میں تمام ہندوستان پر سر میاں فضل حسین حکومت کر رہے ہیں اور گو وہ پنجاب میں ایک منسٹر ہیں مگر گورنمنٹ آف انڈیا میں سر ظفراللہ خان ان کی طرف سے مقرر ہیں اور ولایت میں سر فیروز خان نون ہیں اور ان کی پارٹی کے اور بھی لوگ ہیں جو بڑے بڑے عُہدوں پر ہیں اس طرح ساری حکومت سرمیاں فضل حسین صاحب کے ہاتھ میں ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ان پر وفات نہ آنے دی جب تک کہ انہیں ایسے مقام پر نہ پہنچا دیا کہ لوگوں نے سمجھا وہی اِس وقت ہندوستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب تھا اُن لوگوں کو جو کہتے تھے کہ میاں سر فضل حسین نے چونکہ گورنمنٹ ہند میں ایک احمدی کو وزارت پر مقرر کرایا ہے اور وہ مرزائیت نواز ہیں‘ اس لئے ہم انہیں ذلیل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا دیا کہ جو شخص احمدیت کی خاطر اپنے نفس پر کوئی تکلیف برداشت کرے گا وہ گو احمدی نہ ہو‘ ہم اسے بھی ذلیل نہیں ہونے دیں گے۔ پس گو سر فضل حسین صاحب احمدی نہ تھے مگر چونکہ احمدیت کی وجہ سے لوگوں کی طرف سے ان پر اعتراض کیا گیا اور انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں اپنی غیرت کا مظاہرہ کیا اور انہیں غیرمعمولی طور پر عزت کے ایک مقام پر پہنچا کر بتا دیا کہ جو شخص احمدیت کیلئے اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنے کیلئے تیار ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھی اپنی غیرت کا اظہار کیا کرتا ہے۔
(الفضل ۱۲۔جولائی ۱۹۳۶ء)


مغربی ممالک میں تبلیغِ اسلام کے سلسلہ میں اہم ہدایات



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مغربی ممالک میںتبلیغِ اسلام کا فریضہ سَرانجام دینے والے احمدی مبلّغین کو نہایت ضروری اور اہم ہدایات
(تقریر فرمودہ ۲۱۔اکتوبر ۱۹۳۶ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج ہمارے دو عزیزخدمتِ دین کے ارادہ سے قادیان سے باہر جا رہے ہیں اور آج غالباً پہلا موقع ہے کہ تحریک جدید کے طلباء کے ایڈریس میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ ہر ملک اور ہر قوم کے خطرات الگ الگ قسم کے ہؤا کرتے ہیں۔ جس ملک میں ہمارے یہ عزیز جا رہے ہیں وہاں جان کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہندوستان کی نسبت جان وہاں زیادہ محفوظ ہے۔ پھر اُس جگہ انسانی آرام اور آرائش میں کسی قسم کی کمی کا خوف نہیں بلکہ ہماری نسبت وہاں ہزاروں گُنے زیادہ آرام اور زیادہ آسائش کے سامان لوگوں کو حاصل ہیں۔ اس جگہ سوشل اور تمدنی تعلقات کے خراب ہونے کا بھی کوئی خوف نہیں کیونکہ وہاں اِس ملک کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ بامذاق اور موجودہ زمانہ کی رَوش کو مدّنظر رکھتے ہوئے زیادہ روشن خیال لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح سفروں کی تکالیف کا بھی وہاں کوئی ڈر نہیں کیونکہ یہاں کی پکی سڑکیں وہاں کی کچی سڑکوں کے مقابلہ میں شاید ردّی اور خراب ہی کہلائیں۔ غرض دُنیوی تمدن، دُنیوی آرام و آسائش اور جسمانی ضروریات کے لحاظ سے وہ ملک ہمارے ملک کے مقابلہ میں ہزاروں گُنے زیادہ آرام اورزیادہ آسائش کے سامان مہیا کرنے والا ہے ۔ بیسیوں لوگ ایسے ہیںجن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کو دیکھیں وہ خود روپیہ خرچ کر کے جاتے ہیں۔ وہ انہی تکالیف میں سے گزرتے ہیں جن تکالیف میں سے ہمارے مبلغ گزر سکتے ہیں اور بعض کو تو اپنی روٹی کمانے کیلئے وہاں جا کر کام بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کیلئے بعض کو بڑی بڑی محنتیں کرنی پڑتی ہیں۔ میں جب انگلستان میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں بیرسٹری کی تیاری کر رہا تھا دو سال سے اُسے گھر سے خرچ نہیں آیا تھا مگر وہ کام کر کے روپیہ کماتا اور اس کے ساتھ ہی تعلیم بھی حاصل کرتا، اب وہ بیرسٹر ہے اور ہندوستان میں ہی کام کرتا ہے۔ غالباً جہلم یا گجرات مجھے صحیح یاد نہیں مگر ان میں سے کسی ایک جگہ وہ کام کرتا ہے اور کبھی کبھی مجھے بھی اس کا خط آ جاتا ہے۔ تو لوگ اُن تکلیفوں سے زیادہ تکلیفیں اُٹھا کر جو ہمارے مبلغین کو پہنچتی ہیں یا پہنچ سکتی ہیں محض اِس لئے کہ یوروپین زندگی خوش آئند ہے اور اُن کی طبائع کو بھاتی ہے،وہ اس ملک میں جاتے اور اس زندگی کو اِس زندگی پر ایسی ترجیح دیتے ہیں کہ بعض دفعہ اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کی بیماری اور موت کی خبریں بھی اُنہیں ملتی ہیں تو وہاں سے آنا پسند نہیں کرتے۔ پس ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں جانا کسی قسم کی قربانی نہیں سوائے اس کے کہ جانے والے کے اپنے دل میں کمزوری ہو کیونکہ بعض لوگ ہوم سِک (HOME SICK) میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی گھر کی محبت جلدی اُن پر غالب آ جاتی ہے اور وہ اُداس اور غمگین ہو جاتے ہیں۔ اس مرض کے مریضوں کو چھوڑ کر کہ اِس قسم کے لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے اور ان کیلئے سفر واقعی ایک قربانی ہوتی ہے کیونکہ جو چیز دوسروں کی نگاہ میں عیش اور لذت کا سامان ہو وہ اُن کیلئے دُکھ اور مصیبت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ دن کی گھڑیوں میں اِس دکھ اور درد سے کراہتے اور رات کی تنہائی کی گھڑیوں میں آنسو بہاتے اور روتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے بچے جو ولایت گئے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک کے متعلق چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ سال تک روزانہ رات کو روتا تھا اور جب اُس سے پوچھا جائے کہ تم کیوں روتے ہو تو وہ کہتا میں قادیان کی یاد میں رو رہا ہوں۔ تو ایسی طبائع بھی ہوتی ہیں جن پر افسردگی اور غم کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں۔ وہ تعیّش اور آرام کی زندگی کو بُھول جاتے اور سہولت اور آرام کے تمام ذرائع کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں کی یاد میں آنسو بہانے لگ جاتے ہیں۔ بعض پر یہ گھڑیاں کسی کسی وقت آتی ہیں بعض پر آتی ہی نہیں اور بعض ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو درمیان میں ہی ولایت کی تعلیم محض اِس لئے چھوڑ کر آ گئے کہ گھر کی جُدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی حالانکہ آرام وہاں بہت زیادہ ہے۔ تو بے شک اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ استثنائی رنگ میں بعض ایسے بھی لوگ ہوں جن پر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی محبت اتنی غالب ہو کہ انہیں اس ملک میں جا کر بھی تکلیف محسوس ہو لیکن انہیں نظرانداز کرتے اور اِس قسم کی طبیعت والوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جن کو خواہ کیسی ہی آرام کی جگہ لے جایا جائے اگر وہاں ان کے اقرباء اور رشتہ دار نہ ہوں تو وہ ان کی جُدائی کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور جو زیادہ سے زیادہ دو تین فیصدی ہوتے ہیں باقی ۹۷ یا ۹۸فیصدی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی نظر دُنیا پر ہوتی ہے اور وہ ان ملکوں میں جانے کو ایسا ہی پسند کرتے ہیں جیسے مومن جنت میں جانے کو۔
میں نے دیکھا ہے سال میں دو تین چِٹھّیاں بعض غیراحمدیوں کی طرف سے ضرور اِس قسم کی آجاتی ہیں کہ آپ ہمارے لئے چند مہینوں کے خرچ کا انتظام کر دیں ہم اپنی ساری زندگی تبلیغِ اسلام کیلئے وقف کرنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ کیلئے امریکہ یا انگلینڈ بھیجا جائے۔ میں ہمیشہ ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ امریکہ یا انگلینڈ ہی صرف ایسے ملک نہیں ہیں جن میں تبلیغِ اسلام کی ضرورت ہو بلکہ اور بھی کئی ایسے ممالک ہیں جن میں اسلام کی تبلیغ کی ضرورت ہے اگر آپ آئیں اور تبلیغ کا طریق سیکھ لیں تو میں آپ کو چین ،جاپان یا کسی دوسرے ملک میں تبلیغِ اسلام کیلئے بھیج سکتا ہوں۔ اگر آپ ان ممالک میں جانے کیلئے تیار ہوں تو مجھے اطلاع دیںامریکہ یا انگلینڈ میں ہم آپ کو نہیں بھیج سکتے کیونکہ وہاں ہمارے مبلّغ موجود ہیں۔ میں نے دیکھا ہے اِس جواب کے بعد دوبارہ اُن کی طرف سے کبھی درخواست نہیں آئی۔ تو سال میں دو تین درخواستیں بعض گریجوایٹس کی طرف سے اِس قسم کی آ جاتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو پوری طرح قربان کرنے کیلئے تیار ہیں اور اِس بات کیلئے بالکل آمادہ ہیں کہ اسلام کیلئے اپنی جان دیدیں بشرطیکہ اُن کے گلے پر چُھری امریکہ میں پھیری جائے یا انگلینڈ میں۔ تو اِس قسم کی قربانی درحقیقت ان حالات میں کوئی قربانی نہیں بلکہ ان ممالک میں قربانی کا نقطہ نگاہ بالکل اور ہے۔ان ممالک میں قربانی جان کی نہیں بلکہ ان ممالک میں قربانی جذبات کی ہے۔ ایک امریکہ یا انگلینڈ میں جانے والا ہمارا مبلّغ اپنی روٹی کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا، وہ اپنے مال کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا، وہ اپنی جان کی قربانی ہرگز نہیں کر رہاوہ اپنے تمدن کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا ،وہ اپنے سوشل تعلقات کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا وہ جو قربانی کر سکتا ہے اور جو اُس کیلئے مشکل ہے وہ یہ ہے کہ وہ وہاں کے اثرات اور وہاں کے غالب خیالات پر چھا جانے کی کوشش کرے اور اُس رَو کے مقابلہ میں کھڑا رہے جو اسلام کے خلاف اس جگہ جاری ہے۔ وہ بے شک ہنسی برداشت کرے، وہ بے شک تمسخر سُنے مگر اسلام کے اُن مسائل پر مضبوطی سے قائم رہے جن مسائل پر آج مغرب ہنس رہا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ قربانی کرتا ہے اور اگر وہ نہیں کرتا تو اس کی قربانی کے تمام دعوے محض دھوکا، محض فریب اور محض تمسخر ہیں۔ وہ احمدیت کیلئے قربانی نہیں کر رہا بلکہ احمدیت کو مغرب کی رَو کے مقابلہ میں قربان کر رہا ہے۔ میں ایک سال کے اندر اندر ایک ہزار ایسے آدمی پیش کر سکتا ہوں نہ صرف احمدیوں سے بلکہ غیراحمدیوں میں سے جو اِس بات کیلئے بالکل تیار ہیں کہ احمدیت کیلئے اپنی جان قربان کر دیں بشرطیکہ اُن کے گلے پر چُھری امریکہ یا انگلینڈ میں پھیری جائے۔ پس اس قربانی کیلئے جس کیلئے غیر بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے بلکہ پیش کرتے رہتے ہیں اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی خوبی اور کمال نہیں۔ ایک شخص تو پچھلے دنوں چھ مہینے تک متواتر یہاں آتا رہا اور اُس نے کئی سفر کئے وہ بار بار یہ کہتا کہ مجھے خواب آئی ہے کہ میں اپنے آپ کو خدمتِ اسلام کیلئے پیش کر دوں۔ پہلے تو جب ہم نے اُسے کہا کہ ہم احمدی مبلّغ ہی باہر بھیجتے ہیں اوروں کو نہیں بھیجتے تو کہنے لگا میں حاضر ہوں میری بیعت لے لیجئیے۔ مگر مجھے خواب آ چکی ہے کہ آپ نے مجھے باہر بھیجا ہے اِس لئے مجھے باہر بھیج دیجئے۔ میں نے کہا مجھے تو کوئی خواب نہیں آئی جس دن مجھے آئی میں بھیج دوں گا۔ خواب کے معنے تو صرف اتنے ہی ہیں کہ آپ مجھ سے مشورہ لیں۔ سو میں آپ کو مشورہ دے دیتا ہوں کہ آپ چلے جائیں لندن میں یا چلے جائیں جرمن، فرانس یا امریکہ میں۔ کہنے لگا نہیں میں تو سلسلہ کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ تو اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں مگر میں تو آپ کو لینے کیلئے تیار نہیں۔ وہ بیچارہ چھ مہینے تک یہاں آتا رہا اور بار بار خطوں میں بھی لکھتا کہ مجھے خواب آئی ہے مگر میں نے اُسے نہ بھیجا۔ وہ اپنے دل میں یہی کہتا ہو گا کہ بیعت کر کے بھی کیا فائدہ حاصل کیا۔ تو جس قسم کی قربانی ہمارے امریکہ یا انگلینڈ جانے والے مبلّغ کرتے ہیں، ان طبائع کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جن کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور جس کے ماتحت ہمارے مبلّغوں میں بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو دو فیصدی میں شامل ہوں اور جو گھر سے باہر نہیں رہ سکتے بلکہ اپنی دماغی بناوٹ کے نتیجہ میں گھر سے باہر رہنا موت سمجھتے ہیں، اُن کی قربانی حقیقی قربانی نہیں کہلاسکتی اور جن دو فیصدی کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی قربانی بھی مخصوص قربانی ہو گی اور محض ان کے نفس کیلئے ہو گی۔ پس عام حالات میں امریکہ یا انگلینڈ جانے والا مبلّغ کسی چیز کی قربانی نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ بیمار ہو جائے یا سوائے اِس کے کہ اُس کے جذبات بہت نازک ہوں جو سَو میں سے بمشکل دو کے ہوتے ہیں جس چیز کی امریکہ یا انگلینڈ جانے والا مبلّغ قربانی کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ وہاں کے مذاق کا مقابلہ کر کے اسلامی تعلیم کو ان لوگوں میں قائم کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ قربانی کرتا ہے اور اگر وہ نہیں کرتا تو اُس کی قربانی کا دعویٰ محض جھوٹ اور محض فریب ہے۔ وہ ہمارے ملک کے مکانوں سے بہتر مکانوں میں رہتا ہے، وہ ہمارے ملک کی ریلوں سے بہتر ریلوں میں سفر کرتا ہے، وہ ہمارے ملک کی سوسائٹی سے بہتر سوسائٹی بلکہ دُنیوی نقطہ نگاہ سے زیادہ روشن خیال لوگوں میں رہتا ہے، ان حالات میں کونسی قربانی ہے جو وہ کر رہا ہے۔ پس ہمارے ان مبلّغین کو بھی جو انگلستان میں موجود ہیں یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انگلستان اور امریکہ میں اگر کوئی قربانی ہے تو یہ کہ اسلامی تعلیم پر وہاں کے تمسخر کو برداشت کیا جائے اور اسلامی اصول پر مضبوطی سے اپنے آپ کو قائم رکھا جائے اگر کوئی شخص ان کے تمسخر کو برداشت نہ کرتے ہوئے اسلامی اصول پر قائم نہیں رہتا تو ہرگز وہ کسی قسم کی قربانی نہیں کرتا۔ لیکن ایک مبلّغ کی بے شک یہ قربانی ہو گی اگر وہ کسی مجلس میں جاتا ہے اور اُس مجلس میں عورتیں آتی ہیں مگر وہ اُن سے مصافحہ نہیں کرتا۔ عورتیں اُس پر ہنستی ہیں اور کہتی ہیں اولڈ فیشن، گدھا ایشیائی، بیوقوف ہندوستانی مگر وہ اِن تمام باتوں کو سنتا ہے اور کہتا ہے بے شک مجھ پر ہنس لو مگر میرا مذہب مجھے یہی کہتا ہے کہ عورتوں سے مصافحہ نہ کرو۔ اسی طرح اگر کسی مجلس میں اُس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسلام میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے اور وہ بجائے اِس رنگ میں جواب دینے کے کہ اصل میں اِس کی بعض وجوہ ہیں یہ جواب دیتا ہے کہ بے شک اسلام کا یہ مسئلہ ہے اور تم اگر آج اِن باتوں کو نہیں مانتے تو تمہیں کَل اِن باتوں کو ماننا پڑے گا اور لوگ اس پر ہنسی کرتے اور اُس کی باتوں پر تمسخر اُڑاتے ہیں کہتے ہیں کیا عورتوں کے جذبات نہیں ہوتے، کیا عورتوں میں قدرت نے احساسات نہیں رکھے؟ یہ کس قسم کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ مگر وہ اس تمام تمسخر کو برداشت کرتے ہوئے کہہ دے کہ خواہ تم کچھ کہو ٹھیک بات وہی ہے جو اسلام نے پیش کی تو بے شک وہ قربانی کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی موقع پر سُود کا مسئلہ آ جاتا ہے اور وہ دلیری سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتا ہے اور باوجود ہر قسم کے اعتراضات کے اُن کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تو بے شک ہم کہیں گے وہ قربانی کرتا ہے۔ اسی طرح ورثہ کا مسئلہ ہے، انشورنس کا مسئلہ ہے، اسلامی طریق حکومت کامسئلہ ہے اور اَور ہزاروں ایسے مسائل ہیں خصوصاً وہ مسائل جو عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جیسے پردہ ہے یا تعدّد ازدواج ہے یا عورتوں سے میل جول یا مصافحہ کرنا ہے یا کھانے پینے کے مسائل ہیں یہ چیزیں ایسی ہیں جن پر مغرب کے لوگ ہنستے ہیں۔ اگر ہماری طرف سے جانے والا مبلّغ مغربی لوگوں کے اِس تمسخر اور اِس استہزاء اور اس ہنسی کو برداشت کرتا ہے اور مضبوطی سے اسلامی تعلیم پر قائم رہتا ہے تو وہ بے شک قربانی کر رہا ہے لیکن اگر وہ کمزوری دکھاتا ہے تو وہ کوئی قربانی نہیں کر رہا بلکہ ایک تکلیف دہ جگہ سے نکل کر آرام والی جگہ میں بیٹھاہواہے اور اس آرام اور آسائش کو اپنے لئے قربانی قرار دیتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کوئی پاگل بادشاہ تھا اُس کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میری بیٹی کی اب اتنی بڑی شان ہو گئی ہے کہ اس کی شادی آسمان کے کسی فرشتہ سے ہی ہو سکتی ہے دنیا کے کسی انسان سے نہیں ہو سکتی۔ اتفاقاً ایک دن بگولے میں اُڑتا ہوا ایک پہاڑی آدمی اُس کے محل کے قریب آ گیا۔ لوگوں نے فوراً بادشاہ کو خبر پہنچائی بادشاہ سن کر کہنے لگا یہی فرشتہ ہے جو آسمان سے اُترا ہے میں اس سے اپنی بیٹی کی شادی کروں گا۔ وہ پہاڑی آدمی تھا، نہ کھانا جانتا تھا نہ پینا، مگر زبردستی بادشاہ نے اپنی لڑکی کی اُس سے شادی کر دی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اجازت لے کر اپنے ملک کو واپس گیا تو اُس کی ماں اور دوسرے رشتہ دار جو عرصہ سے اُس کے منتظر تھے اُسے دیکھ کر رونے لگ گئے جیسا کہ ہمارے ملک میں عام دستور ہے۔ وہ کہنے لگا میں تجھے کیا بتاؤں مجھ پر کیا کیا ظلم ہوئے، اُسے کھانے کیلئے صبح و شام پلاؤ دیا جاتا تھا، وہ اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ مجھے صبح و شام کیڑے پکا پکا کر کِھلائے جاتے تھے اور اِ س طرح مجھ کو دکھ دیا جاتا۔ پھر بادشاہ کے ملازم اُسے صبح و شام نرم گدیلوں پر لِٹا کر چونکہ دبایا بھی کرتے تھے اس لئے کہنے لگا۔ ماں مجھ پر صرف اتنا ہی ظلم نہیں ہؤا بلکہ وہ صبح و شام میرے اوپر نیچے موٹے موٹے کپڑے ڈال کر مجھے کُوٹنے لگ جاتے تھے۔ یہ سُن کر ماں نے بھی زور سے چیخ ماری۔ وہ پھر بھی کہنے لگا اے ماں! مجھ پر اتنے ظلم ہوئے مگر مَیں پھر بھی نہیں مرا۔ اِس مثال میں پہاڑی آدمی نے اپنی جس قربانی کا ذکر کیا ہے اِس سے زیادہ مغربی ممالک میں جانے والوں کی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر وہاں کوئی قربانی ہے تو اُن باتوںمیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اگر کوئی شخص ان باتوں میں تو قربانی نہیںکرتا اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ میں قربانی کر رہا ہوں تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ ایک نامرد اگر کہے کہ میں عفیف ہوں تو اُس کا دعوی عِفّت کوئی حقیقت نہیں رکھے گا۔ یا ایک نابینا شخص اگر کہے کہ میں کبھی کسی غیر محرم پر نگاہ نہیںڈالتا تو یہ اُس کی کون سی خوبی ہوگی؟ خوبی اور قربانی اُس وقت ہوتی ہے جب کسی شخص کے سامنے کوئی ناجائز بات پیش آئے اور وہ طاقت رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے لئے اس میں حصہ نہ لے۔
پس محض انگلینڈ یا امریکہ میں چلے جانا کوئی قربانی نہیں۔ میں احمدیوں میں سے ایسے کئی پیش کر سکتا ہوں جو وہاں جانے کیلئے تیار ہیں بلکہ دو تین احمدی تو گذشتہ دنوں یہاں تک کہتے تھے کہ ہمیں آپ سر ٹیفکیٹ دے دیں ہم امریکہ میں مُفت تبلیغ کرنے کیلئے تیار ہیںاور میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال دو تین آدمی ایسے ضرور آ جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نہ تنخواہ مانگتے ہیں نہ سفر خرچ بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں صرف سر ٹیفکیٹ دے دیں تا امریکہ میں ہمیں داخل ہونے کی اجازت مل جائے اور وہاں کی جماعت کو کہہ دیا جائے کہ وہ ذرا ہمارا خیال رکھے۔ ہم نے اپنے اخراجات کا بھی انتظام کر لیا ہے آپ صرف اتنا کریںکہ ہمیں سر ٹیفکیٹ دے دیں۔ پس خالی انگلینڈ یا امریکہ میں جانا کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ انسان اس روح ادراس ارادہ سے جائے کہ میں نے وہاں سچااسلام پیدا کرنا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ مغربی ممالک میں اب تک سچا اسلام پیداکرنے میں ہمیں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور اِس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مبلّغین صرف یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ دس بیس یا پچاس سَو آدمی ہمیں مسلمان دکھا دیں وہ اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ ایک سچااور صاف مسلمان خداتعالیٰ کے سامنے پیش کریں۔ حالانکہ ہمارے سامنے سَو مسلمان پیش کر دینا کوئی بات نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک سچا مسلمان پیش کرنابہت بڑی بات ہے۔ پس مغرب میں جانے والے مبلّغین میں سے ہم اُسی کو صحیح قربانی کرنے والا سمجھ سکتے ہیں جو مغرب کی رَو کا مقابلہ کرے۔ جو شخص اس رَو کا مقابلہ نہیں کرتا اُسے حقیقی قربانی کرنے والا ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ یہ خواہش ہزاروں لوگوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ امریکہ یا انگلینڈ جائیں اور سوائے ان دو فیصدی کے جن کے نزدیک وہاں کے تمام آرام و آسائش کے سامان گھر کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے وہ یہاں ہل چلانا پسند کر لیں گے مگر امریکہ کی بجلی کو جس سے وہاںپر کام ہوتا ہے ناپسند کریں گے۔ اِس قسم کے لوگوں کیلئے بیشک وہاں جانا بھی قربانی ہے مگر ہمارے پانچ سات مبلّغوں میں سے کوئی ایک ایسا ہو گا ورنہ میجارٹی ایسے لوگوں کی نہیں ہے۔ میجارٹی ایسے ہی لوگوں کی ہے جو دُنیوی آرام و آسائش والی جگہ میں جا کر قلیل آرام والی جگہ کو بُھول جاتے ہیں۔ پس ان مبلّغین کا استثناء کرتے ہوئے جن کی طبائع ایسی نازک واقع ہوتی ہیں اور جن کا مغربی ممالک میں جانا بھی ایک قسم کی قربانی ہے۔ خواہ یہ جذباتی قربانی ہی ہے مادی نہیں کیونکہ ایسے شخص کو بہرحال وہاں کا آرام پہنچ رہا ہوتا ہے گو اُس کے جذبات اور ہوں۔ اصل اور حقیقی قربانی یہ ہے کہ مغربی رَو کا مقابلہ کیا جائے۔ اگر ہم اس رَو کا مقابلہ نہیں کرتے تو یقینی طور پر ہم اس مقصد میں ناکام رہتے ہیں جس مقصد کے پورا کرنے کیلئے ہمیں بھیجا جاتا ہے یا جس مقصد کے پورا کرنے کیلئے ہم نے اپنے آپ کو پیش کیاتھا۔
پس اس امر کا کوئی سوال نہیں کہ وہاں ایک شخص مسلمان ہوتا ہے یا دو، اس امر کا کوئی سوال نہیں کہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے یابُرا۔ نتیجہ کے تم ذمہ وار نہیںقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے لَایَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۱؎ اگر تم اسلام پر قائم رہتے ہوتو خواہ ساری دنیا اسلام پر قائم نہیں رہتی خدا تم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے کیوں اس قدر کوشش نہ کی کہ وہ اسلام لانے پر مجبور ہو جاتی لیکن اگر تم گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہو تو پھر خدا تم سے ضرور مؤاخذہ کرے گا۔
پس جو شخص وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنانے یا اُن کو مسلمان کہلانے کے شوق میں اسلامی تمدن، اسلامی احکام اور اسلامی اصول میں سے ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی نظرانداز کرتا ہے وہ خدا کیلئے لوگوں کو مسلمان نہیں بناتا بلکہ اپنے نام اور اپنی شُہرت کیلئے انہیں مسلمان بناتا ہے۔ پھر اگر اس راہ میں وہ مر بھی جاتا ہے تو خداتعالیٰ کے حضور کسی اجر کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ تاریخوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو جنگ میں کُفّار سے بڑے زور سے لڑ رہا تھا مجھے صحیح یاد نہیں کہ اُحد کی جنگ تھی یا کوئی اور بہرحال ایک جنگ میں ایک شخص نہایت جوش سے لڑائی کر رہا تھا اور کُفّار کو قتل کر رہا تھا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے دنیا کے پردہ پر چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ صحابہؓ نے جب یہ سُنا تو وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو شخص اِس وقت سب سے زیادہ اسلام کیلئے قربانی کر رہا ہے وہ دوزخی ہو۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں بعض لوگوں کے چہروں پر تردّد کے آثار دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اِس شخص کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اِس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ ہو لئے یہاں تک کہ اسی لڑائی میں وہ زخمی ہوا۔ جب اُسے میدانِ جنگ سے الگ لے جایا گیا تو شدیدکرب کی حالت میں وہ اِس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکالتا جن میں خداتعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور اُس کے متعلق اظہارِ شکوہ ہوتا۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ اس کی حالت نازک ہے تو انہوں نے اُس کے پاس آنا شروع کیا اور کہنے لگے اَبْشِرْبِالْجَنَّۃِ تجھے جنت کی بشارت ہو۔ مگر وہ اس کے جواب میں کہتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی بشارت دو کیونکہ میں خدا کیلئے نہیں لڑا تھابلکہ اپنے نفس کیلئے جنگ میں شامل ہوا تھا اور کُفّار کا میں نے اِس لئے مقابلہ کیا تھا کہ میں نے بعض پُرانے بدلے ان سے لینے تھے۔ آخر جب درد کی شدت زیادہ ہو گئی تو اُس نے زمین میں ایک نیزہ گاڑا اور اِس پر اپنا پیٹ رکھ کر خودکشی کر لی۔ وہ صحابی جو اُس شخص کا انجام دیکھنے کیلئے اُس کے ساتھ لگے ہوئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ اُس نے خود کشی کر لی تو وہ رسول کریم ﷺکے پاس آئے۔ رسول کریم ﷺ اس وقت صحابہؓ میں لیٹے ہوئے تھے۔ اُس صحابی نے آتے ہی بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا میںگواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اُس کے رسول ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور یہ کہ میں اُس کا رسول ہوں۔ پھر آپؐ نے دریافت فرمایا تم نے یہ کلمہ شہادت کیوں پڑھا ہے؟ اُس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ نے ایک شخص کے متعلق آج یہ کہا تھا کہ اگر کسی نے دنیا کے پردہ پر چلتا پِھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس کو دیکھ لے تو مجھے محسوس ہوا کہ بعض لوگوں کے دل میں تردّد پیدا ہوا ہے۔ اس وجہ سے میں اُس کے ساتھ ہی رہا تا کہ میں اُس کا انجام دیکھوں چنانچہ میں اب بتانے آیا ہوں کہ حضورؐ کی بات درست نکلی اور اس نے خود کشی کر لی ہے۔۲؎ تو دنیا میں انسان ادنیٰ سے ادنیٰ چیز کیلئے بھی قربانیاں کر لیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ قربانی کس مقصد کیلئے کی جا رہی ہے جب قربانی کسی اعلیٰ مقصد کیلئے کی جا رہی ہو تو وہ قابلِ قدر ہوتی ہے لیکن وہی قربانی جب ادنیٰ مقاصد کیلئے کی جائے تو اُس کی حیثیت کچھ بھی نہیں رہتی۔ ہجرت دیکھ لو کیسی اعلیٰ چیز ہے۔ مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مہاجر بھی ایک درجہ کے نہیں ہوتے بلکہ لوگ کئی چیزوں کیلئے ہجرت کرتے ہیں کوئی کسی عورت کیلئے ہجرت کرتا ہے، کوئی کسی کیلئے، کوئی کسی کیلئے مگر فرمایا اصل ہجرت وہی ہے جو خداتعالیٰ کیلئے کی جائے۔۳؎ اس کے مطابق دنیا کے پردہ پر دیکھ لو عورتوں کی خاطر قربانیاں کرنے والے ملتے ہیں یا نہیں؟ہائیکورٹ کے ججوں کے فیصلے پڑھ کر دیکھ لو۔ بیسیوں کیس شائع ہوتے ہیں جن میں لوگ ایک دوسرے کا محض اتنی سی بات پر سرپھاڑ دیتے ہیں کہ فلاں عورت سے میں شادی کروںگا تم شادی نہیں کر سکتے۔ تو جذبات کی شدت میں انسان بعض دفعہ عورت کیلئے بھی اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ پھر کیا فرق ہے اِن قربانی کرنے والوں میں اور اُن قربانی کرنے والوں میں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺکے دائیں بائیں اپنی جان دی۔ فرق صرف یہی ہے کہ ایک نے سِفلی جذبات کیلئے قربانی کی اور دوسرے نے اعلیٰ جذبات کے ماتحت قربانی کی۔ اسی طرح اگر کوئی دکھاوے کیلئے لوگوں کو نام کے مسلمان بناتا اور محض تعداد پوری کر کے ہمیں دکھا دیتا ہے اور یہ کوشش نہیں کرتا کہ ان کے اندر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہو تو یہ بالکل جھوٹ ہو گا اگر ہم کہیں کہ وہ اسلام کیلئے قربانی کر رہا ہے کیونکہ جو کچھ اُس نے پیدا کیا وہ اسلام چاہتا ہی نہیں۔ اسلام نے کب یہ کہا تھا کہ وہ ایسے لوگ پیدا کرے جو نام کے لحاظ سے تو مسلمان کہلائیں مگر اعمال کے لحاظ سے اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ کوئی قربانی نہیں کرتا بلکہ اسلام کی فتح کو پیچھے ڈالتا ہے اس لئے کہ جو غلط راہ پر چلتے ہوئے لوگ ہوں گے وہ آئندہ کیلئے اسلام کے راستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ میں آجکل اِس بات پر زور دے رہاہوں کہ جو منافق ہیں ان کے متعلق لوگوں کو میرے پاس رپورٹ کرنی چاہئے تا کہ میںانہیں جماعت سے الگ کر دوں کیونکہ جو قادیان میں منافق ہیں یا بیرونی جماعتوں میں ،وہ مخلصین کے راستہ میں روک بن جاتے اور انہیں بھی قربانیوں سے پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں۔ پس چونکہ منافق آدمی اور لوگوں میں زہر پیدا کرتا اور مخلصوں کی جماعت کو سُست بنانے کے درپے ہوتا ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے متعلق جماعت کو علم ہو اور وہ اُس کے فتنہ سے محفوظ رہے۔ اسی طرح ایسی تبلیغ جس کے نتیجہ میں اسلامی تعلیم پر عمل نہیں ہوتا وہ اسلام کی فتح کو قریب نہیں کرتی بلکہ دُور ڈال دیتی ہے۔ پس میں اپنے اِن مبلّغوں کو جو اِس وقت امریکہ جا رہے ہیں اور اُن مبلّغوں کو بھی جو انگلینڈ میں کام کر رہے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اگر واقع میں مغرب کو جاتے ہوئے کوئی قربانی ہے تو وہ یہی ہے کہ صحیح اسلام کو وہاں قائم کیا جائے۔ ممکن ہے مبلغین میں سے بعض جذباتی آدمی ہوں اور اپنے گھر کو چھوڑناپسند نہ کرتے ہوں، اور میںنے جیساکہ بتایا ہے دو فیصدی اِس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں، مگر پھر بھی ان کی قربانی جسمانی جذبات سے تعلق رکھنے والی ہو گی بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والی نہ ہو گی اور ان کی قربانی بھی تبھی اصلی قربانی ہو گی جبکہ وہ اُس رَو کا مقابلہ کریں گے جو وہاں اسلام کے خلاف جا ری ہے اور اسلام کو صحیح طریق پر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔ اگر وہ اسلام کی صحیح تعلیم پیش کرنے کے نتیجہ میں مسلمان نہیں ہوتے تو نہ ہوں مگر انہیں کُھلے بندوں کہہ دیا جائے کہ سچی تعلیم یہی ہے اور اگر وہ مسلمان ہونے کیلئے تیار ہوںتوپھر بھی انہیں صاف طور پر بتا دیا جائے کہ انہیں اسلام کی ان ان تعلیموں پر عمل کرنا پڑے گا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ جب تک پہلے دن ہی کوئی شخص اسلام کی تمام تعلیموں پر عمل نہ کرنا شروع کر دے اسے احمدیت میں داخل نہ کرو مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہیں صاف طور پر کہہ دو کہ گو آج تم میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں مگر تمہیں ان باتوں کو چھوڑنا پڑے گا۔ اوّل تو ہم تم سے یہی امید کرتے ہیں کہ تم آج ہی ان باتوں کو چھوڑ دو گے لیکن اگر آج نہیں چھوڑ سکتے تو مہینہ، دو مہینے، تین مہینے تک چھوڑ دو اِس سے زیادہ انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ پس انہیں صاف طور پر کہہ دیا جائے کہ تم اسلام کی تعلیم کو اگر سچے طور پر ماننے کیلئے تیار ہو تو مانو ورنہ نہ مانو۔ اگر اِس طرز پر کام کیا جائے اور دس سال تک بھی کوئی شخص مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں، بیس سال تک بھی کوئی مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں۔ تیس سال تک بھی کوئی مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس قدر وضاحت سے اسلام کو پیش کر دینے کے بعد تیس سال کے لمبے انتظار کے بعد تمہیں ایک مومن بھی مل جاتا ہے تو پھر وہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ شخص خود وہاں کیلئے معلّم ،ہادی اور راہنما کا کام دے گا۔ لیکن اگر اِس قسم کا ایک آدمی پیدا نہیں کیا جاتا اور نام کے ہزاروں مسلمان پیدا کر دیئے جاتے ہیں تو اِن ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں بھی وہاں سے واپس آنا خطرہ سے خالی نہیں ہو سکتا۔
ہمارے مبلّغوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں میں آج جس قدر فرقے پائے جاتے ہیں ان میں سے ہر فرقہ کسی نہ کسی کمزور مبلّغ کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ اُس نے تبلیغ کی مگر تبلیغ میں کمزوری دکھائی اور بعض باتوں کو صحیح رنگ میں پیش نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ اُس کے گرد جمع ہو گئے اور ان لوگوں کے اثر سے اور لوگ پیدا ہو گئے اور ہوتے ہوتے وہ ایک فرقہ بن گیا۔ اِس طرح اس فرقہ پر جس قدر ملامت ہوتی ہے اس کا ایک حصہ اُس مبلّغ کو بھی ملتا ہے جس کی کمزوری کے نتیجہ میں وہ فرقہ پیدا ہوا۔ آخر کوئی نہ کوئی کمزور مبلّغ تھا جس نے بعض باتوں میں کمزوری دکھائی اور لوگوں کو ڈھیل دے دی۔ اُس نے سمجھا کہ یہ معمولی بات ہے مگر لوگوں کیلئے اُس کی کمزوری مُہلک ثابت ہوئی اور وہ ایک نئے فرقہ کے رنگ میں رونما ہو گئی۔ آج جتنے شِقاق مسلمانوں میں نظر آتے ہیں یہ بعض مبلّغین کی کمزوری کا ہی نتیجہ ہیں، اسی طرح جو شِقاق آج ہندو مذہب میں نظر آتاہے یہ بھی کسی ہندو مبلّغ کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو ہندو مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا، جو شِقاق آج عیسائیت میں نظر آتا ہے یہ بھی کسی عیسائی مبلّغ کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو عیسائی مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا، جو شِقاق آج بُدھوں میں نظر آتا ہے یہ بھی کسی بُدھ مبلّغ کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو بدھ مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا۔ غرض اِن تمام فرقوں کی لعنتیں اُن کمزور مبلّغوں پر بھی پڑتی ہیں جو اِس شِقاق اور تفرقہ کے موجب ہوئے کیونکہ اِس تفرقہ اور شِقاق کی بنیاد انہی کے ہاتھوں سے پڑی۔ رسول کریم ﷺ نے اسی وجہ سے فرمایا ہے کہ جس شخص سے کوئی ہدایت پاتا ہے اُس کی نیکیوں کا ثواب جس طرح اُس شخص کو ملتا ہے جو نیکی کر رہاہو اس طرح ایک حصہ ثواب کا اُس شخص کو بھی ملتا ہے جس کے ذریعہ اُس نے ہدایت پائی ہو اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذریعہ کوئی دوسرا شخص گمراہ ہوتا ہے اُس کی گمراہی اور ضلالت کا گناہ جس طرح اسے ملتا ہے اسی طرح اُس شخص کو بھی گناہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ گمراہ ہؤا ہو۔۴؎
محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں یہ بات ہمارے لئے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔ ۵؎ تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کے وجود میں نمونہ پایا جاتاہے۔ آپ نے تبلیغ شروع کی چند لوگوں نے آپ کی تبلیغ سے متأثر ہو کر آپ کو قبول کر لیا مگر باقیوں نے انکار کر دیا۔ نہ مانا، نہ مانا، نہ مانا یہاں تک کہ سال گزر گیا، دوسرا سال گزر گیا، تیسرا سال گزر گیا، چوتھا سال گذر گیا حتیّٰ کہ دس سال گذر گئے، گیارہ سال گذر گئے اور لوگ انکار کرتے چلے گئے۔ ایک ظاہربین شخص کی نگاہ میں اِس کا مایوسی کے سِوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا مگر رسول کریم ﷺ مایوس نہ ہوئے۔ تب اسی حالت میں مکہ کے لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بعض باتوں میں نرمی کر دیں تو ہم ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) شرک کریں، ہم یہ نہیں کہتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا مذہب چھوڑ دیں، ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہمارے بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال نہ کریں اور ان کی تحقیر اور تذلیل نہ کریں۔ کیا یہی وہ چیز نہیں جو مغرب میں ہمارے مبلّغین کے سامنے پیش کی جاتی ہے؟ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا جواب دیا؟ باوجود اس کے کہ گیارہ سال کی لمبی مایوسی کے بعد امید کی جھلک دکھائی دی تھی، گیارہ سال کی لمبی تاریکی کے بعد روشنی کی ایک شُعاع نکلی تھی اور کُفّار صرف اتنی سی بات پر آپ سے ملنے کیلئے تیار تھے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کہنا اور انہیں بُرا بھلا کہنا چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس سے ان کی ہتک ہوتی ہے۔ اور باوجود اس کے کہ اس تجویز کے پیش کرنے کیلئے انہوں نے ذریعہ بھی وہ اختیار کیا جو ہمارے مبلّغوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سب سے زیادہ محسن ہے۔ محمد ﷺ کی بچپن کی زندگی کے لمحات اس کے ممنونِ احسان ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ایک معتدبہ حصہ اس کے گھر سے کھائی ہوئی روٹیوں سے غذا حاصل کرتا رہا ہے اور محمدﷺ کاجسم سالہا سال تک اس کے دیئے ہوئے کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانکتا رہا ہے۔ پھر نبوت کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ مذہبی طور پر وہ محمد ﷺ سے متفق نہ ہوا، ہر تکلیف میں وہ آپ کا ساتھ دیتا اور ہر مشکل میں وہ آپ کا ہاتھ بٹاتا، محمد ﷺ کے ایسے محسن کے پاس وہ لوگ جاتے اور اسے کہتے ہیں کہ اب تک تو تم نے یہ خطرناک غلطی کی کہ تم محمد ﷺ کا ساتھ دیتے رہے اور اپنی قوم کی جڑیں کٹوانے میں تم اس کی مدد کرتے رہے مگر اب ہم اس کی باتوں کی برداشت نہیں کر سکتے، ہم اس بات کیلئے بالکل تیار ہیں کہ اس کے ساتھ مل جائیں مگر یہ ہم سے نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دے۔ پس اگر وہ اس بات کو منظور کرے کہ ہمارے بتوں کو گالیاں نہ دے تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے لیکن اگر وہ نہ مانے اور آپ بھی اس سے اپنا تعلق منقطع نہ کریں تو پھرآپ سے بھی ہمارے تعلقات جاتے رہیں گے۔
رسول کریم ﷺ کے چچا جن کا اِس واقعہ میں مَیں ذکر کر رہاہوں ان کا نام ابوطالب تھا انہوں نے آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے! تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری خاطر اپنی قوم سے لڑائی کی، پھر تجھ کو معلوم ہے کہ تیری تعلیم سے تیری قوم کتنی متنفراور کس قدر بیزار ہے، آج اس قوم کے بہت سے معزز افراد مل کر میرے پاس آئے تھے اور وہ کہتے تھے کہ تو صرف اتنی سی نرمی کر دے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال چھوڑ دے اگر تو اِس بات کیلئے تیار نہ ہو تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ابوطالب سے بھی اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے۔ تجھ کو معلوم ہے کہ میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ اپنے تعلقات اس سے منقطع کر سکتا ہوں۔ پس کیا تو میری خاطر اپنی تعلیم میں اتنی معمولی سی کمی نہیں کرے گا؟ یہ مطالبہ ایسے منہ سے نکلا تھا کہ یقینا دُنیوی لحاظ سے اِس کا ردّ کرنا نہایت مشکل تھا، ہمارے مبلّغ جو مغرب میں تبلیغِ اسلام کیلئے جاتے ہیں ان کے سامنے اِس قسم کی جذباتی تقریر کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، پس ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُس وقت رسول کریم ﷺ کے کیا جذبات تھے۔ ایک طرف آپ کا یہ عقدِ ہمت تھا کہ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر میں وہ تعلیم نہیں چھوڑ سکتا جس کی اشاعت کیلئے خداتعالیٰ کی طرف سے میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اور دوسری طرف ابوطالب جو آپؐ کا نہایت محسن اور آپؐ کا چچا تھا اُس کے جذبات آپؐ کے سامنے تھے اور آپؐ چاہتے تھے کہ اس کے اُن احسانوں کا جو اُس نے آپؐ پر کئے اور اُن قربانیوں کا جو اُس نے آپؐ کی خاطر کیں کسی نہ کسی صورت میں بدلہ دیں لیکن خداتعالیٰ کی تعلیم کے مقابلہ میں بندوں کا احسان کیا حقیقت رکھتا ہے کہ اُس کی طرف توجہ کی جاتی۔ ان جذبات کے تلاطم نے رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہا دیئے اور آپؐ نے اپنے چچا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ میرے چچا! میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن خداتعالیٰ کی تعلیم کی اشاعت میں مَیں کسی فرق اور امتیاز کو روا نہیں رکھ سکتا۔ اے چچا! آپ کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے اور آپ کا دکھ مجھے دکھ دیتا ہے لیکن اس معاملہ میں اگر آپ کی قوم آپ کی مخالفت کرتی ہے اور آپ میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو مجھے چھوڑ دیجئے۔ باقی رہی نرمی کرنی سو خدا کی قسم! اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دے تو میں اُس تعلیم کے پھیلانے میں کسی قسم کی کمی نہیں کروں گا جو خدا نے میرے سپرد کی ہے۔۶؎ کتنی مایوسی کی گھڑیوں میں رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک بات پیش کی گئی اور کس رنگ میں آپؐ سے ایک مطالبہ کیا گیا مگر رسول کریم ﷺ نے کتنا شاندار جواب دیا کہ معمولی حالات نہیں اگر کُفّار زمین و آسمان میں بھی تغیر پیدا کر دیں اور حالات ان کے ایسے موافق ہو جائیں کہ سورج پر بھی اِن کا قبضہ ہو جائے اور نہ صرف مکہ میں یہ مجھے پناہ نہ لینے دیں بلکہ آسمان کے ستارے بھی اِن کے ساتھ مل جائیں اور یہ سب ملکر مجھے کُچلنے اور مجھے تباہ وبرباد کرنے کیلئے اکٹھے ہو جائیں تب بھی میں خداتعالیٰ کے حکم کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ وہ ایمان تھا کہ جب محمد ﷺ سے اس کا خداتعالیٰ نے مظاہرہ کرایا تو اس کے بعد آپؐ کو حکم دیا کہ جاؤ ایک نئی زمین ہم نے تمہارے لئے تیار کر دی ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ۔ وہ زمین مدینہ تھی جہاں خداتعالیٰ نے ایک ایسی جماعت کھڑی کر دی جس نے اسلام کیلئے اپنے آپ کو قربانیوں کیلئے پیش کیا اور اپنے دعویٰ کو نباہا۔ یہ چیز ہے جس کی اِس وقت بھی ضرورت ہے۔ میں نے مدتوں دیکھا مگر خاموش رہا، میرے کانوں نے سنا مگر میری زبان نہیں ہلی مگر ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ خداتعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اسلام کی اشاعت کیلئے کسی مداہنت اور کسی کمزوری کی قطعاً ضرورت نہیں آج تم کو مغربیت کو کُچلنے کیلئے کھڑا کیا گیا ہے نہ کہ مغربیت کی تقلید کرنے کیلئے۔ اگر تم مغربیت کو کُچل نہیں سکتے تو بہتر ہے کہ تم اپنی شکست تسلیم کر لو۔ تم سے ایک بالا ہستی موجود ہے اُس کی طرف اپنی نگاہیں اُٹھاؤ اور اُس سے کہو کہ ہم ہار رہے ہیں تمام فتح اور کامیابی تیرے ہاتھ میں ہے تو آپ اپنے فضل سے ہمیں کامیابی عطا فرما۔
رسول کریم ﷺ کانمونہ تمہارے سامنے ہے آپؐ اپنی قوم کو منوانے کیلئے ہرگز تیار نہ ہوئے بلکہ آپؐ نے کہا تو یہ کہ بے شک زمین و آسمان میرے مٹانے کیلئے تُل جائیں میں مداہنت نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم دنیا میں قائم رہی اور باوجود اس کے کہ مسلمان بِگڑ گئے آپؐ کی تعلیم آج تک محفوظ ہے لیکن اور کسی قوم کی تعلیم مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ کتنی چھوٹی سی بات ہے جس میں عیسائیوں نے تبدیلی کی کہ ہفتہ کی بجائے انہوں نے اتوار کو اپنا مقدس دن بنا لیا لیکن چونکہ ان کا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم سے منحرف ہو گیا اِس لئے پاؤں پِھسلنے کی دیر تھی کہ پھر اِن کا کہیں ٹھکانا نہ رہا۔ آج ایک تعلیم کو انہوں نے چھوڑا تھا تو کل دوسری کو چھوڑ دیا اور پرسوں تیسری کو، بالکل اُسی طرح جس طرح رسہ کشی کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو ایک فریق میں سے کسی کا پہلے چھوٹا سا انگوٹھا ہِلتا ہے۔ اِس انگوٹھے کے ہِلنے کی دیر ہوتی ہے کہ یکے بعد دیگرے ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے تمام قدم اُکھڑنے شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے رسّہ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ پس جس طرح ایک انگوٹھے کی جُنبش کی وجہ سے ساری ٹیم کے پاؤں اُکھڑ جاتے ہیں اسی طرح دینی امور میں بعض دفعہ ایک چھوٹی سی جُنبش نہایت خطرناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہے اور درحقیقت وہی جُنبش اصل چیز ہوتی ہے۔ بظاہر وہ ایک چھوٹی سی جُنبش ہوتی ہے اور جسم کے قلیل حصہ کی جُنبش ہوتی ہے مگر ساری دنیا کا نقشہ بدل دیتی ہے۔ یہی حال ہماری کوششوں کا ہے ہم میں سے بھی ایک شخص کی معمولی سی لغزش بسااوقات اسلام کی فتح کو بہت پیچھے ڈال سکتی ہے اور اُس کی جُنبش صرف اُس کی ذات کیلئے ہی نقصان دہ نہیں بلکہ دین کیلئے بھی نقصان رساں ہو سکتی ہے کیونکہ ساری ٹیم اُس کے پیچھے بھاگتی چلی جائے گی۔ پس وہ شکست اُس کی نہیں ساری قوم کی شکست ہو گی اور اُس کا پِھسلنا صرف اُس کا پِھسلنا نہیں ہو گا بلکہ ساری قوم کا پِھسلنا ہو گا۔
پس میں اس وقت اُن مبلّغوں کو بھی جو امریکہ جا رہے ہیں اور اُن مبلّغین کو بھی جو مغرب میں موجود ہیں بغیر کسی خاص مبلّغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مغرب میں تبلیغِ اسلام کیلئے جانے والا اگر اپنے فرائض میں کوتاہی کرتا ہے تو میرے نقطۂ نگاہ سے وہ کوئی قربانی نہیں کر رہا اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہُ۔ اور اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہُ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جن کے ذاتی حالات ایسے ہوں کہ وہ باہر جانا پسند نہ کرتے ہوں، ایسے لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہو ئے کہ وہ بہت ہی کم ہوتے ہیں،عموماً یورپین ممالک میں جانے والوں کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قربانی کر رہے ہیں۔ یوں تو انسان جب اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے طبعی طور پر تھوڑی دیر کیلئے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ کانووکیشن دربار میں جب بادشاہ اپنے سر پر تاج رکھوانے کیلئے جاتے ہیں تو بعض کی آنکھوں میں اُس وقت بھی آنسو آ جاتے ہیں مگر وہ آنسو عارضی ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ ہشّاش بشّاش ہو جاتے ہیں۔ پس سوال اُن آنسوؤں کا نہیں ہوتا جو روانگی کے وقت کسی شخص کی آنکھ سے ٹپکیں بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی جب شادی ہوتی ہے تو عموماً گھر سے روتی ہوئی جاتی ہیں مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ قربانی کر رہی ہیں۔ صرف اس لئے کہ اُس وقت ان کے غم کے جذبات ہیں۔ جس وقت لڑکیوں کے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ان آنسوؤں کے پیچھے ایک تسلی بھی موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مبلّغ گھر سے روانہ ہو گا قدرتی طور پر اُسے اپنے والدین اور رشتہ داروں کی جُدائی کا غم ہو گا مگر یہ صدمہ اور غم بھی زیادہ تر اُسی جگہ جانے میں ہوتا ہے جہاں جان کے متعلق کسی قسم کے خطرات ہوں لیکن جہاں جان کے متعلق کوئی خطرہ نہ ہو وہاں یہ صدمہ اور غم بھی بہت ہلکا ہوتا ہے اور محض اس کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص قربانی کر رہا ہے۔ غرض جہاں جہاں ہمارے مبلّغ اس اصول کے ماتحت تبلیغ کریں گے انہیں گو ابتدا میں تکلیف ہو گی اور لوگوں سے اپنے عقائد منوانے مشکل ہوں گے مگر آخر وہ اپنا دبدبہ اور رُعب قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور جو جماعت ان کے ذریعہ قائم ہو گی وہ صحیح اسلامی جماعت ہو گی۔ اور اگر کسی ملک کا ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کے حضور مقدر ہی نہیں تو ہم کون انہیں ہدایت دینے والے ہیں۔ پس جو مبلّغ اِس وقت جا رہے ہیں ان کو بھی اور جو پہلے سے وہاں موجود ہیں اُن کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اسلام کی تبلیغ کرنے کیلئے مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو انہیں اسلام کی تعلیم پر وہاں عمل کرناچاہئے اور اسلامی عقائد ان لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنے چاہئیں۔ اور اگر وہ اسلامی تعلیم کی تبلیغ نہیں کر سکتے تو پھر انہیں آنے بہانے بنانے کی ضرورت نہیں وہ اپنے نفس کیلئے جا رہے ہیں، لذت اور سرور حاصل کرنے کیلئے جا رہے ہیں اور یہ منافقت ہو گی اگر وہ کہیں کہ ہم اسلام کی تبلیغ کیلئے جا رہے ہیں۔ مومن صاف دل اور صاف گو ہوتا ہے اسے ہمیشہ سچی بات کہنی چاہئے اور سچی بات ہی دوسروں سے سننی چاہئے۔ پھر جو آئندہ ہماری طرف سے غیرممالک میں مبلّغ جائیں خصوصاً وہ جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں تربیت حاصل کر رہے ہیں ان کو بھی یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہاں سے جب بھی وہ نکلیں اِس روح کو لے کر نکلیں کہ مغربیت کا مقابلہ کرنا اُن کا فرض ہے۔ اگر وہ یہاں سے تعلیم حاصل کر کے جاتے ہیں لیکن مغربیت کے مقابلہ میں کمزوری دکھا دیتے ہیں اور بجائے مغربیت کو کُچلنے کے اس کا اثر خود قبول کر لیتے ہیں تو ان کی مثال بالکل اُس شخص کی سی ہو گی جسے اپنے متعلق خیال ہو گیا کہ میں بہت بڑا بہادر ہوں اور پھر اس نے چاہا کہ اپنے بازو پر شیر کی تصویر گدوائے تا کہ اُس کی نسبت عام طور پر سمجھا جائے کہ وہ بہادر ہے۔ جب نائی نے شیر کی تصویر گودنے کیلئے اس کے بازور پر سُوئی ماری اور اسے درد ہوا تو کہنے لگا کیا گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ شیر کی دُم گودنے لگا ہوں۔ اس نے کہااچھا اگر شیر کی دُم نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا رہتا کیوں نہیں۔ وہ کہنے لگا اچھا تو دُم چھوڑ دو اور کوئی اور حصہ گودو۔ پھر جو اُس نے سُوئی ماری تو اسے پھر درد ہوا۔ کہنے لگا اب کیا گودنے لگے ہو؟ کہنے لگا دایاں کان۔ اس نے پوچھا اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو کیا شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں۔ اس نے کہا اچھا اسے بھی چھوڑ دو اور کوئی اور حصہ گودو۔ پھر اس نے بایاں کان گودنا چاہا تو پھر اس نے روک دیا، سرگودنا چاہا تو اُسے روک دیا، یہاں تک کہ نائی نے سُوئی رکھ دی اور کہنے لگا ایک حصہ نہ ہو تو شیر رہ سکتا ہے لیکن جب کوئی حصہ بھی نہ بنے تو شیر کی تصویر کس طرح بن سکتی ہے۔ تو بعض لڑکے جنہیں ان کے ماں باپ نے اِس نیت اور اِس ارادہ سے اس جگہ داخل کیا تھا کہ وہ اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کریں وہ اس روح سے چل نہیں سکے اور بعض ماں باپ بھی اِس روح سے کام نہیں لے سکے جس روح سے کام لینا ان کیلئے ضروری تھا مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ ہر نئی چیز سے دو نظارے پیدا ہوا کرتے ہیں بعض لوگ پہلے اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر نکل جاتے ہیں اور بعض پہلے چیختے ہیں لیکن پھر خوشی سے شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں ناقص روح رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ کامل روح رکھنے والے وہ ہوتے ہیں جو شروع سے ہی خوشی سے شامل ہو جاتے ہیں اور بالکل ناقص وہ ہوتے ہیں جو کبھی حصہ نہیں لیتے۔ پس کچھ لوگ جہاں ایسے ہوتے ہیں جو شروع میں ہی ساتھ شامل ہو جاتے اور چلتے چلے جاتے ہیں وہاں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پہلے شامل ہو جاتے اور پھر آہستہ آہستہ نکلنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی قسم کا مظاہرہ بعض والدین اور بعض طالب علموں نے کیا ہے۔
پس میں تحریک جدید کے طلباء کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو اپنے سامنے ہمیشہ وہ مقصد رکھنا چاہئے جو اسلام کا مُنتہٰی ہے اور جس کیلئے تحریک جدید جاری کی گئی ہے۔ میں اس یقین اور وثوق پر اَب قائم ہو چکاہوں۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جیسے دنیا میں کوئی مضبوط ترین چٹان قائم ہو کہ دنیا کا واحد علاج اِس وقت مغربیت کا کُچلنا ہے۔ جب تک ہم مغربیت کو کُچل نہیں سکتے اُس وقت تک دنیا میں روحانیت قائم نہیں ہو سکتی یہ ناسور ہے جو دنیا کو ہلاک کر رہا ہے اور جب تک اس ناسور کو کاٹ کر الگ پھینک نہیں دیا جائے گا دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ منافقت اس سے ترقی کرتی ہے، کفر اس سے ترقی کرتا ہے، نافرمانی اس سے ترقی کرتی ہے، شِرک اِس سے ترقی کرتا ہے، مداہنت اِس سے ترقی کرتی ہے، اباحت اس سے ترقی کرتی ہے، دہریت اس سے ترقی کرتی ہے غرض یہ ساری بیماریوں کی جان ہے اور اِس کے کسی ایک حصہ کو بھی باقی رہنے دینا ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ کے بہت سے کیڑے تو مار دیئے جائیں مگر ہیضہ اور طاعون کے کچھ کیڑے محفوظ رکھ لئے جائیں۔ پس تحریک جدید کے طلباء کو یہ امر ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان کا مقصد مغربیت کی روح کو کُچلنا ہے۔ بے شک بعض طالب علموں کے ماں باپ کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خدمتِ دین کیلئے وقف کر دیں گے لیکن اصل قربانی یہ ہے کہ انسان اُن ممالک میں تبلیغ کیلئے جائے جن ممالک میں جانا ہر قسم کے خطرات اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ لیکن چونکہ جانا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ امام جہاں بھیجے وہاں جانا ضروری ہوتا ہے اس لئے دل میں ارادہ یہ رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کیلئے ہم ہر قسم کے خطرات قبول کرنے کیلئے تیار رہیں گے۔ خصوصیت سے جب کوئی مبلّغ مغرب میں جائے تو اُس کو ہمیشہ یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ مغربیت کو کُچلنا اس کے فرائض میں داخل ہے۔ اگر وہ اِس فرض کو ادا نہیں کرتا تو وہ اسلام سے تمسخر کرتا اور ہم کو بیوقوف بنانا چاہتا ہے لیکن ہم بیوقوف نہیں ہیں۔ بچپن میں ایک ہمارے اُستاد ہوا کرتے تھے انہوں نے جس روز دیکھنا کہ ہم گھر سے مٹھائی لے کر نکلے ہیں تو دُور سے ہی ہمیں دیکھ کر کہنا شروع کر دینا کہ میں مٹھائی نہیںکھایا کرتا بچپن کی عمر تھی جب ہم اُن کے منہ سے یہ الفاظ سنتے تو اُچھل کر استاد صاحب سے چمٹ جاتے اور کہتے کہ ہم تو آپ کو مٹھائی کِھلا کر ہی رہیں گے۔ جب ہم زیادہ اصرار کرتے تو انہوں نے اور زیادہ زور سے کہنا شروع کر دینا کہ نہ نہ میں نہیں کھاتا اور اپنے منہ کو خوب زور سے بھینچ لیتے اور کہتے خبردار! جو میرے منہ میں مٹھائی ڈالی۔ ہم اس پر اور زیادہ زور سے مٹھائی اُن کے منہ میں ڈال دیتے۔ انہوں نے تھوڑی سی مٹھائی کھا کر پھر منہ بھینچ لینا اور کہنا میں مٹھائی نہیں کھایا کرتا اور ہم نے پھر ان کے منہ میں مٹھائی ڈالنی شروع کر دینی۔ یہاں تک کہ وہ اس طریق سے ہماری ساری مٹھائی کھا جاتے اور بچپن کی عمر کے لحاظ سے ہم سمجھتے کہ ہم نے بڑا کارنامہ کیا ہے۔ تو مغرب میں جانے والا مبلّغ اگر مغربی روح کا مقابلہ نہیں کرتا تو اِس سے زیادہ اُس کی قربانی کی کوئی حقیقت نہیں جتنی قربانی مٹھائی کھاتے وقت ہمارا وہ استاد کیا کرتا تھا۔ میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے مَیں غیراحمدیوں میں سے ایک ہزار آدمی ایسے پیش کر سکتا ہوں جو اِس قسم کی قربانی کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ اگر تجربہ کرنا ہو تو تین چار دفعہ ’’الفضل‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ میں اشتہار دیکر دیکھ لو اور لکھ دو کہ ہمیں امریکہ، انگلینڈیا جرمن اور فرانس میں تبلیغِ اسلام کیلئے مبلّغ درکار ہیں۔ تمہیں چند ہی دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ اس کیلئے تمہارے پاس کتنی درخواستیں پہنچتی ہیں۔
مثل مشہور ہے کوئی پوربیا مر گیا اور اُس کے بچوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا۔ اُس کی بیوی نے بَین ڈالنے شروع کئے کہ ہائے میرا خاوند مر گیا اُس نے فلاں سے ساٹھ روپے لینے تھے اب کون لے گا، فلاں سے سَو روپے لینے تھے وہ کون لے گا، جب اُس نے بَین ڈال کر اس طرح کہنا شروع کیا تو ایک پوربیا کُود کر آگے آ گیا۔ اور جب اس نے کہا ہائے فلاں شخص سے میرے خاوند نے ساٹھ روپے لینے تھے وہ کون لے گا؟ تو وہ کہنے لگا ’’اری ہم ری ہم‘‘ پھروہ رونے لگی کہ فلاں سے سَو روپیہ اُس نے لینا تھا وہ کون لے گا؟ وہ پھر کہنے لگا ’’اری ہم ری ہم‘‘ عورت پھر کہنے لگی فلاں زمین اس کی تھی اب اس پر قبضہ کون کرے گا؟ وہ کہنے لگا ’’اری ہم ری ہم‘‘ پھر وہ عورت کہنے لگی اس نے فلاں کا دو سَو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ یہ سن کر پوربیا کہنے لگا کہ ارے بھئی! میں ہی برادری میں سے بولتا جاؤں یا اور بھی کوئی بولے گا۔ تو اِس قسم کی قربانی کوئی چیز نہیں قربانی وہ پیش کرو جو حقیقی ہو۔ تحریک جدید کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمہارے اندر قربانی کی روح پیدا کی جائے اور اعلیٰ قربانیوں کیلئے تمہیںتیار کیا جائے لیکن چونکہ اعلیٰ قربانیوں کا یکدم مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اس لئے آہستہ آہستہ قربانیوں کا معیار بڑھایا جا رہا ہے تا کہ تمام جماعت ایک سطح پر آ جائے۔ عقلمند انسان ہمیشہ ربّانی ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُوْنُوْارَبَّانِیّٖنَ ۷؎ ربّانی کے معنی ایسے شخص کے ہی ہیں جو پہلے چھوٹے سبق پڑھاتا ہے اور پھر بڑے۔ بعض نادان اور منافق کہا کرتے ہیں کہ جن قربانیوں کاتم دعویٰ کرتے ہو ان قربانیوں کو تم کر کے کیوں نہیں دکھاتے؟ ان نادانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جن قربانیوں کی جماعت کو ضرورت ہے اور جن کے بغیر الٰہی سلسلے دنیا میں ترقی نہیں کیا کرتے انہی قربانیوں کی طرف تو مَیں اپنی جماعت کو لا رہا ہوں۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں تمہیں چھت پر چڑھا دوں گا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ پہلے پہلی سیڑھی پر چڑھائے اور پھر دوسری اور پھر تیسری سیڑھی پر۔ جو شخص ابھی پہلی سیڑھی پر ہے اسے چھت نظر نہیں آ سکتا لیکن اگر وہ ان سیڑھیوں پر چڑھتا چلا جائے گا تو آخر ایک دن چھت پر پہنچ جائے گا۔ جو کام اِس وقت ہمارے سپرد کیا گیا ہے یہ کام ایک دن ہو کر رہے گا۔
اگر احمدیت سچی ہے اور یقینا سچی ہے تو جو کچھ تحریک جدید میں مخفی ہے یا ظاہر وہ ایک دن دنیا پر رونما ہو کر رہے گا۔ کئی باتیں تحریک جدید میں ابھی ایسی ہیں جو مخفی ہیں اور لوگ انہیں اِس وقت پڑھ نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک تفکّر اور تدبّر کے نتیجہ میں نہیں کی گئی بلکہ خداتعالیٰ کے ایک مخفی الہام اور القائے ربّانی کے طور پر یہ تحریک ہوئی ہے اور اِس کے اندر ایسی ہی وسعت موجود ہے جیسے خداتعالیٰ کے اور الہاموں میں وسعت موجود ہوتی ہے۔
پس جوں جوں جماعت قربانیوں کے میدان میں اپنے قدم آگے بڑھاتی چلی جائے گی خواہ میری زندگی میں اور خواہ میرے بعد اِس میں سے ایسی چیزیں نکلتی آئیں گی جو جماعت کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیا قدم ہوں گی۔ اصول سب تحریک جدید کی سکیم میں بیان ہو چکے ہیں البتہ تفصیلات اپنے اپنے وقت پر طے ہو سکتی ہیں۔
اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یونیورسٹی ایک کورس مقرر کر دیتی ہے اور اُس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ آگے یہ طالبعلموں کا کام ہے کہ وہ جتنا جتنا کورس یاد کرتے جائیں اتنے اتنے امتحان میں وہ کامیاب ہوتے جائیں۔ اسی طرح اب ایک مکمل کورس جماعت کیلئے تیار ہو چکا ہے، ایک کامل سکیم تمہارے سامنے پیش کر دی گئی ہے،ایسا مکمل کورس اور ایسی کامل سکیم کہ جَفَّ الْقَلَمُ عَلٰی مَاھُوَ کَائِنٌ قلم نے جو کچھ لکھنا تھا وہ لکھ دیا اور اس کی سیاہی سُوکھ چکی۔ پس اب خداتعالیٰ نے تمہارے لئے جو راستہ مقرر کر دیا ہے اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے سِوا اَب گمراہی کا راستہ تو ہے مگر ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ اسلام کے قیام کا اِس زمانہ میں جو واحد ذریعہ ہے وہ اس تحریک میں آ چکا ہے، اِس میں عارضی تحریکیں بھی ہیں اور مستقل تحریکیں بھی، عارضی تحریکیں مختلف موقعوں پر تبدیل ہوتی چلی جائیں گی اور اس کے اصول بھی اس تحریک میں بیان ہو چکے ہیں مثلاً ممکن ہے قادیان میں مکانات بنانے کی سکیم کا حصہ ہمیشہ کیلئے ویسا نہ رہے جیسے اِس زمانہ میں ضروری ہے یا امانت فنڈ کی تحریک ویسی نہ رہے جیسی اِس وقت ہے۔ بالکل ممکن ہے آج سے دس پندرہ یا بیس سال کے بعد ان تحریکوں کی ضرورت بالکل جاتی رہے یا بہت حد تک کم ہو جائے یا ممکن ہے کسی وقت ان حصوں کو بالکل بند کرنا پڑے اور پھر کسی دوسرے وقت خطرہ ہونے کی صورت میں دوبارہ ان حصوں کو شروع کر دیا جائے۔ ایسا ہو سکتا ہے لیکن بہرحال اس تحریک کے جو اصولی حصے ہیں وہ ہمیشہ قائم رہیں گے۔
پس تم جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم ہو یاد رکھو کہ تم تحریک جدید کے سپاہی ہو اور سپاہی پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تمہارے نگرانوں کا فرض ہے کہ وہ تمہارے سامنے متواتر لیکچر دے کر تحریک جدید کی اغراض تمہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں تمہارے داخل ہونے کے یہ معنی ہیںکہ تم تحریک جدید کے حامل ہو اور تمہارا فرض ہے کہ تحریک جدید پر نہ صرف خود عمل کرو بلکہ دوسروں سے بھی کراؤ۔ اس کی روح کو قائم رکھنا تمہارے فرائض میں داخل ہے اور چونکہ تم ابھی بچے ہو اس لئے تمہارے نگرانوں کا فرض ہے کہ تمہیں وہ تمام باتیں بتائیں اور مسلسل لیکچروں کے ذریعہ تمہارے ذہین نشین کریں۔مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ سکول کے بعض افسر اس تحریک میں روک بنتے ہیں لیکن تم کو یہ امر ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر تمہارا باپ بھی اِس کے خلاف کوئی بات کہتا ہے یا تمہاری ماں بھی اِس کے خلاف کوئی بات کہتی ہے تو جب تک تم احمدیت پر ایمان رکھتے ہو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس شخص کی زبان پر شیطان بول رہا ہے کیونکہ تم نے بیعت خلیفہ کی کی ہے اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے استاد کی نہیں کی۔ اگر تم اِس تحریک پر قائم نہیں رہ سکتے تو تمہیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے ماں باپ سے کہہ دینا چاہئے کہ ہم اس تحریک پر عمل نہیں کر سکتے اور بورڈنگ سے اپنے آپ کو الگ کر لینا چاہئے۔ لیکن جو طالب علم اس تحریک پر قائم رہیں اور اپنے ماں باپ کی بات مان لیں اور سمجھیں کہ جب ان کی مرضی یہ ہے کہ ہم اس تحریک کے ممبر بنیں تو ہمیں اس تحریک پر عمل کرنے میں کوئی عُذر نہیں تو پھر اس روح کے ساتھ کام کرنا چاہئے جس روح کا تحریک جدید پر عمل کرتے وقت اختیار کرنا ضروری ہے۔
اساتذہ کو بھی چاہئے اور انہیں بھی جو لڑکوں کے نگران ہیں کہ متواتر ہفتہ میں ایک دو لیکچر ایسے دیا کریں جن میں تحریک جدید کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے اور مختلف رنگوں میں اِس کی وضاحت کی جائے۔ اسلام پر جو مصائب اِس وقت آئے ہوئے ہیں، سلسلہ کیلئے جن قربانیوں کی اِس وقت ضرورت ہے، اِن تمام باتوں کا ذکر کیا جائے اور پھر منافق جو اعتراض کرتے ہیں ان کا بھی ازالہ کیا جائے کیونکہ بچے کئی جگہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان لیکچروں اور تقاریر کے سلسلہ کو جاری رکھا جائے یہاں تک کہ جب طلباء اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر یہاں سے جائیں تو خواہ وہ مبلّغ ہوں یا نہ ہوں تحریک جدید کو قائم رکھنے والے ہوں۔ اب مجھے جو تحریک جدید کے متعلق مسلسل کئی خطبات، کئی لیکچر اور کئی تقریریں کرنی پڑتی ہیں یہ دراصل اصول کے خلاف ہے۔ سال کے خطبات میں سے ستّر اسّی فیصدی خطبات میرے ایسے ہی ہوتے ہیں جو تحریک جدید کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ حالت اسی وجہ سے ہے کہ جماعت خود توجہ نہیں کرتی۔ورنہ اصل چیز تو یہ ہے کہ خلیفۂ وقت جونہی ایک بات کہے جماعت فوراً اس پر عمل کرنا شروع کر دے۔
پس تحریک جدید کے متعلق مجھے خطبات کہنے کی اس لئے ضرورت پیش آتی رہتی ہے کہ مَیں چاہتا ہوں اِس تحریک کو جاری کرنے اور اِس کو قائم رکھنے میں دوست میرے نائب بنیں اور وہ دنیا کے خواہ کسی حصہ میں رہتے ہوں اِس تحریک کو زندہ اور قائم کرتے چلے جائیں۔ جس وقت ہماری جماعت میں اِس قسم کے لوگ پیدا ہو گئے وہ دن ہماری کامیابی کا دن ہو گا۔ اور اگر ہم پورے زور سے اس تحریک کی اہمیت، اس کے مقاصد اور اس کی اغراض لوگوں کے ذہن نشین کرتے چلے جائیں تو آج جو ہمارے سامنے بچے بیٹھے ہوئے ہیں انہی کے دلوں میں کل تحریک جدید کے متعلق اس قدر جوش اور اتنا ولولہ ہو گا کہ انہیں چین اور آرام نہ آئے گا جب تک کہ وہ اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے ہمسایوں کو بھی اس تحریک کا قائل نہ کر لیں۔ اور وہی دن ہو گا جو احمدیت کی فتح کیلئے قومی اور اجتماعی جِدّوجُہد کا دن ہو گا۔ اِ س وقت تک ہماری جِدّوجُہد ایسی ہے جیسے اِکّے دُکّے آدمی کی جِدّوجُہد ہوتی ہے۔ قومی جِدّوجُہد ہم اسے نہیں کہہ سکتے۔ قومی جِدّوجُہد ہماری اُس وقت شروع ہو گی جب تحریک جدید کے ماتحت ہماری جماعت کے تمام افراد کی زندگیاں آ جائیں گی اور جب جماعت احمدیہ اُس چٹان پر قائم ہو جائے گی جس چٹان پر قائم ہونے کے بعد زندگی اور موت، امارت اور غربت کے تمام امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ یاد رکھو قوموں کے احیاء اور قوموں کی زندگی میں انفرادی قربانی کوئی چیز نہیں بلکہ قوموں کی زندگی کیلئے جماعتی قربانی کی ضرورت ہؤا کرتی ہے۔ بیرونی ممالک کے مبلّغین میں سے اگر کسی مبلّغ نے خطرات برداشت کئے اور اپنے نفس پر مصیبتیں جِھیلیں تو بیشک ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارا بہادر سپاہی مصائب اور خطرات کے اوقات میں بھی کیسا ثابت قدم نکلا۔ مگر اس کی جرأت اور بہادری کو دیکھ کر ہمیں یہ کہنے کا حق ہرگز حاصل نہیں کہ دیکھو ہماری بہادر قوم۔ کیونکہ اُس کی بہادری اُس کے نفس سے تعلق رکھتی ہے، قوم کا حق نہیں کہ وہ مجموعی حیثیت سے اپنی طرف اسے منسوب کرے لیکن بہادر سپاہی کامیابی حاصل نہیں کیا کرتے بلکہ بہادر قومیں کامیابی حاصل کیا کرتی ہیں۔
پس جب تک قومی لحاظ سے اپنی بہادری کا مظاہرہ نہ ہو اور شاندار مظاہرہ نہ ہو اُس وقت تک قومی فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ فتح کا دن وہی ہو گا جب وہ طالب علم جو اِس وقت ہمارے سامنے بیٹھے ہیں ان کے سامنے ان کے استاد اور ان کے نگران ان کے فرائض دُہراتے رہیں اور انہیں یہ سبق پڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان سب میں قربانی کی روح پیدا ہو جائے اور تحریک جدید ہی اِن کا اوڑھنا ہو، تحریک جدید ہی اِن کا بچھونا ہو، تحریک جدید ہی اِن کی دوست ہو اور تحریک جدید ہی اِن کی عزیز ہو، جب رات اور دن انہیں کسی پہلو بھی چَین نہ آئے، جب تک نہ صرف اِن کے بلکہ اِن کے رشتہ داروں، اِن کے دوستوں اور اِن کے ہمسایوں کے کام کاج بھی تحریک جدید کے ماتحت نہ آ جائیں اور جب تک وہ اِس یقین پر قائم نہ ہو جائیں کہ احمدیت تحریک جدید ہے اور تحریک جدید احمدیت ہے اُس وقت تک قومی فتح کا زمانہ نہیں آسکتا۔ ہاں انفرادی فتح کا زمانہ آ سکتا ہے مگر انفرادی فتح یا انفرادی قربانی کوئی چیز نہیں۔ ہارنے اور شکست کھانے والی قوموں میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے انفرادی لحاظ سے بہت بڑی جرأت اور بہادری دکھائی۔ ٹیپو سلطان مارا گیا کیونکہ اُس کی قوم نے اُس سے غداری کی لیکن اُس کا نام آج تک زندہ ہے جس وقت وہ اسلام کی حکومت کے قیام کیلئے انگریزوں سے لڑ رہاتھا اُس نے نظام حیدر کو لکھا کہ میں تمہارے ماتحت ایک سپاہی کی حیثیت میں کام کرنے کیلئے تیار ہوں آؤ اورہم دونوں ملکر انگریزوں کا مقابلہ کریں مگر نظام نے انکار کر دیا اور اُس نے خیال کیا کہ مجھے انگریزوں سے لڑائی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر اُس نے حکومتِ ایران کو لکھا، پھر اُس نے ترکوں کو لکھا کہ بے شک ہندوستان ایک غیر ملک ہے لیکن یاد رکھو! اگر ہندوستان سے اسلام مٹا تو تمہاری حکومتیں بھی مٹ جائیں گی۔ مگر انہوں نے بھی انکار کر دیا، تب وہ اکیلا انگریزوں سے لڑا۔ اور جب وہ انگریزوں سے لڑ رہا تھا تو اُس کے اپنے بعض جرنیلوں نے پیچھے سے قلعہ کے دروازے کھول دیئے اور انگریز اندر داخل ہو گئے اُس کا ایک وفادار جرنیل دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ انگریز قلعہ کے اندر داخل ہو گئے ہیں۔ وہ اُس وقت دو فصیلوں کے درمیان لڑ رہا تھا، بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ باہر بھی انگریزی فوج تھی اور اندر بھی۔ وہ ابھی آپس میں بات ہی کررہے تھے کہ اتنے میں انگریز افسر آپہنچا اور اس نے فصیل کی دوسری طرف سے آواز دی کہ ہمیں اپنے ہتھیار دے دو، ہم تم سے عزت کا سلوک کریں گے۔ اُس وقت ٹیپو نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ اُس نے تلوار سونت لی اوریہ کہہ کر انگریزوں پر ٹوٹ پڑا کہ گیدڑکی سَو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے اور مارا گیا۔ بے شک اِس سے ٹیپو کی بہادری اور جرأت ظاہر ہوتی ہے مگر اِس میں ٹیپو کی قوم کی کوئی عزت نہیں۔ بے شک میسور کی عزت اِس واقعہ سے بلند ہو گئی مگر مسلمانوں کا وقار کھویا گیا، بے شک ٹیپو ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گیا، مگر کیا ٹیپو کے زندہ ہونے سے مسلمانوں یا ہندوئوں کو کوئی فائدہ پہنچا؟ اگر آج میسور کے لوگ ٹیپو کے کارنامہ پر اپنا فخر جتائیں، اگر آج ہندوستان کے باشندے ٹیپو کے کارنامہ پر اپنا فخر جتائیں تو ان سے زیادہ بے غیرت اور کوئی نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود اُس کی فتح کے راستہ میں حائل ہوئے انہوں نے اُس سے غداری کی اور اُسے دشمنوں کے نرغہ میں اکیلا چھوڑ دیا۔ پس بے شک ٹیپو سلطان کیلئے یہ ایک فخر کی بات ہے مگر ہندوستانیوں کا اس میں کوئی فخر نہیں، مسلمانوں کا اس میں کوئی فخر نہیں اور میسور کے لوگوں کا اس میں کوئی فخر نہیں۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ نے جو قربانیاں کیں وہ صرف اُن لوگوں کیلئے ہی باعث فخر نہ تھیں جنہوں نے قربانیاں کیں بلکہ ساری قوم اِس فخر میں شریک تھی کیونکہ وہ ساری قوم ان قربانیوں کیلئے تیار تھی۔ قرآن کریم خود شہادت دیتا اور فرماتا ہے۔ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۸ ؎ خدا تعالیٰ کی راہ میںمرنے والے مر گئے مگر یہ نہ سمجھو کہ وہ مر گئے تو باقی قوم یونہی رہ گئی بلکہ وہ قوم بھی موت کا انتظار کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ کب خدا تعالیٰ کی راہ میں اسے اپنی قربانی پیش کرنے کا موقع ملتا ہے یہ وہ چیز ہے جس پر کوئی قوم فخر کر سکتی ہے اور عزت سے اپنی گردن اونچی کر سکتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو اختیارکرنے کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اگر قوم صرف انہی لوگوں کی قربانیوں سے زندہ رہ سکتی جنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جانیں دیں تو صرف مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ ہی کہا جاتا اور مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ کا فقرہ کبھی نہ کہا جاتا مگر مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ کے ساتھ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ کے الفاظ کا آنا بتاتا ہے کہ قوم مرنے والوں سے زندہ نہیں رہتی بلکہ اُن زندہ رہنے والوں سے زندہ رہتی ہے جو بروقت مرنے کیلئے تیار ہوں۔ پس حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، مولوی نعمت اللہ صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت ہیں۔ مولوی عبدالرحمن صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، مولوی عبدالحلیم صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، قاری نور علی صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، اسی طرح ہندوستان کے وہ بہت سے لوگ جو مخالفین کے مختلف مصائب کے نتیجہ میں شہید ہوئے ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، مصر میںیا اور بعض علاقوں میں جو لوگ ہماری جماعت میں سے مارے گئے یا زخمی ہوئے وہ ہماری زندگی کا ثبوت ہیں، ہماری زندگیوں کا ثبوت اُن کی وہ روح ہے جو ہمارے زندوں میں پائی جاتی ہو۔ اگر افغان قوم میں وہ روح ہے جو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے دکھائی تو افغان قوم زندہ ہے اور اگر افغان قوم میں وہ روح نہیں تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت صاحبزادہ عبداللطیف کی زندگی کا ثبوت ہے مگر ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ہو سکتی۔ ہاں! ہمارا اسی قسم کی قربانیوں کی خواہش کرنا، اسی قسم کی قربانیوں کیلئے تلملانا اور اضطراب دکھانا ہماری زندگی کا ثبوت ہو سکتا ہے اور صحابہؓ کی زندگی کا ثبوت بھی یہی روح تھی۔ پس اسلام اور مسلمانوں کی زندگی مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ کے مصداق وجودوں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں کے وجود سے تھی جو مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ کے مصداق تھے۔ اگر مرنے والے مر جائیں اور پیچھے منافق اور کمزور ایمان والے رہ جائیں تو یہ اُس قوم کی موت کی علامت ہوگی زندگی کی علامت نہیںہوگی۔ اگر ان بہادروں کا وجود ہی زندگی کی علامت ہوتا جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان پر کھیل گئے تو خدا تعالیٰ انہیں کیوں مرنے دیتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبیوںکی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے کیا اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میںجان دینے سے ڈرتے ہیں؟ یا نبیوں کے خلفاء میں سے بعض کیوں ایسے ہوتے ہیں جنہیں طبعی موت دینے کا اللہ تعالیٰ وعدہ دیتا ہے کیا اس لئے کہ وہ بُزدل ہوتے ہیں نہیں بلکہ اس لئے کہ اُن کی زندگی میں قوم کی زندگی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ ٹیکے ہیںجن کے لگنے سے قوم کے جسم سے بیماری دُور ہوتی ہے اور اگر یہ لوگ مر گئے تو دنیا بھی مر جائے گی۔ پس مرنے والے کسی قوم کی زندگی کا ثبوت نہیں ہوتے بلکہ وہ زندہ رہنے والی قوم کی زندگی کا ثبوت ہؤا کرتے ہیں جو ہر وقت مرنے کیلئے تیار ہوں۔ تحریک جدید کو جاری کرنے کی غرض بھی یہی ہے کہ تم میں زندگی پیدا ہو۔ مرنے والے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دیں اور جو باقی رہیں وہ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ کا مصداق بنتے چلے جائیں۔ جس دن ہم اس قسم کے زندہ لوگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے وہی دن ہماری زندگی کا دن ہوگا ورنہ اگر مرنے والا مر گیا اور اُس نے انفرادی طور پر جان دے دی تو اِس سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
پس یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تحریک جدید کے افسروں اور اس کے باقی کارکنوں پر ہے۔مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جماعت نے اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ ممکن ہے ایک دو فیصدی سمجھے ہوں لیکن جماعت پر ایک عام نظر ڈالنے سے مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اِس تحریک کو ۵،۶ فیصدی لوگوں سے زیادہ نے نہیں سمجھا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ سَوفیصدی لوگ اسے سمجھنے والے موجود ہوتے۔ بعض نے تو یہ سمجھا کہ مخالفت کی چونکہ اُس وقت ایک زبردست رَو اُٹھی تھی اس لئے اُس کے مقابلہ کے لئے ایک عارضی سکیم جاری کی گئی تھی حالانکہ وہ تو خدا تعالیٰ نے اِس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ایک وقت پیدا کیا تھا۔ ہر نئی چیز کو پیش کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ ہؤا کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مدینہ گئے تو اس لئے نہیں کہ کفار کو اُن کے کِئے کی سزا دیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے ازل سے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ آپ مدینہ جاتے اور پھر کُفّار سے لڑائیاں ہوتیں اِس لئے آپ کو خدا تعالیٰ نے مدینہ جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ ابھی کئی باتیں ایسی ہیں جو میں تم پر ظاہر نہیں کر سکتا مگر جب وقت آئے گا تو تم پر ظاہر ہو جائیں گی بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیحؑ نے کہا۔ وہ وقت آیا مگر پھر بھی بہت سے نادانوں نے اسے نہیں سمجھا۔ کئی پاگل اور مجنون ابھی تک ایسے ہیں جو قدرتِ ثانیہ کے منتظر ہیں اور انہوں نے نہیں سمجھا کہ قدرتِ ثانیہ تو آچکی اور قدرتِ ثانیہ کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ وہ ہمیشہ آیا کرتی ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کا سورج ایک دفعہ چڑھتا ہے اور پھر نہیںچڑھتا؟ پھر کیسانادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ مَیں ابھی سورج کے چڑھنے کا منتظر ہوں۔ جب تک کل والاسورج نہیں چڑھے گا مَیں آج کے سورج کے وجود کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کیا جس چیز کیلئے انتظار کا لفظ استعمال کیا جائے وہ دوبارہ نہیں آیا کرتی؟ قرآن کریم ہمیشہ بتاتا ہے کہ کوئی چیز دائمی نہیں، خدائی سلسلہ اور روحانیت بھی دائمی نہیں ہوتی۔ خدا تعالیٰ کا نام قابض اور باسط ہے۔ پس قبض کا آنا بھی ضروری ہے اور بسط کا آنا بھی ضروری ہے جیسا کہ رات کا آنا بھی ضروری ہے اور دن کا آنا بھی ضروری ہے۔ اگر سورج نے ایک ہی دفعہ چڑھنا ہوتا تو پھر ہمیشہ کیلئے تاریکی ہو جاتی لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ بار بار سورج چڑھاتا ہے۔ مگر وہ شخص جو سورج کی موجودگی میں کسی اَور سورج کا انتظار کرتا ہے وہ بیوقوف ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اس وقت قدرتِ ثانیہ کا انتظار کرتا ہے وہ احمق اور گدھا ہے۔ قدرتِ ثانیہ آئی اور اس کا ظہور ہوا مگر افسوس کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس کو شناخت نہیں کیا۔ میں دنیا کے ہر مقدس سے مقدس مقام پر کھڑے ہو کر خداتعالیٰ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قدرتِ ثانیہ کا جو ظہور ہونا تھا وہ ہو چکا اور وہی ذریعہ ہے آج احمدیت کی ترقی کا۔ میں بتا چکا ہوں کہ اس سکیم میں بعض چیزیں عارضی ہیں۔ پس عارضی چیزوں کو مَیں بھی مستقل قرار نہیں دیتا لیکن باقی تمام سکیم مستقل حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے القاء کے نتیجہ میں مجھے سمجھائی گئی ہے۔ میں نے سکیم کو تیار کرنے میں ہر گز غور اور فکر سے کام نہیں لیا اور نہ گھنٹوں میں نے اِس کو سوچا ہے۔ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اِس کے متعلق خطبات کہوں۔ پھر اِن خطبوں میں مَیں نے جو کچھ کہا وہ مَیں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری کیا کیونکہ ایک منٹ بھی میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کیا کہوں۔ اللہ تعالیٰ میری زبان پر خودبخود اِس سکیم کو جاری کرتا گیا اور میںنے سمجھا کہ میں نہیں بو ل رہا بلکہ میری زبان پر خدا بول رہا ہے اور یہ صرف اِس دفعہ ہی میرے ساتھ معاملہ نہیں ہوا بلکہ خلافت کی ابتدا سے خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ میں نے قرآن شریف کی شاید پانچ، سات یا دس آیات پر اِن کے معانی معلوم کرنے کیلئے ایسا غور کیا ہوگا جسے لوگ غور کہتے ہیں ورنہ ان آیات کو مستثنیٰ کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم پر کبھی غور نہیں کیا اور اگر قرآن کریم کے مطالب معلوم کرنے کیلئے اس پر غور کرنا نیکی ہے تو میں اس نیکی سے قریباً محروم ہی ہوں کیونکہ قرآن کریم کی آیات کے معانی کے متعلق ہمیشہ مجھ پر القاء ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا مفہوم مجھ پر کھول دیتا ہے اور جس چیز کو میں خود نہیں سمجھ سکتا اللہ تعالیٰ آپ ہی آپ مجھے سمجھا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اب یُوں کہو اور اب یُوں کہو۔ غرض قرآنی معارف کے متعلق مجھے کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن کئی نادان ہیں جو اِس پر بھی اعتراض کر دیا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ قرآن کے معارف سمجھاتا ہے۔ اِس پر بعض لوگ اعتراض کرتے کہ پھر آپ لُغت کیوں دیکھتے تھے؟ اور ممکن ہے کہ میرے متعلق بھی بعض لوگ یہ اعتراض کریں اس لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ لُغت قرآنی معارف معلوم کرنے کے لئے نہیں دیکھی جاتی بلکہ مختلف معانی معلوم کرنے کیلئے دیکھی جاتی ہے اور اصل چیز معارف ہیں نہ کہ معانی۔ پس قرآنی معارف کے لئے یا اس کی آیات میں ترتیب معلوم کرنے کے لئے مجھے کبھی غور نہیں کرنا پڑا۔ اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہُ جن آیات پر مجھے غورکرنا پڑا ہے وہ بہت ہی محدود ہیں۔ اسی طرح اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ یہی سلوک کیا اور اِسی وجہ سے مَیں کہتا ہوں کہ جس صداقت کا اِس سکیم کے ذریعہ میں نے اظہار کیا ہے وہ میرا کام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور اِس کا فخر مجھ کو نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہے جنہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ تک پہنچایا۔ یا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہے جو پھر ہمیں اس کے دروازہ تک لے گئے اور اگر میں نے اِس پر کچھ وقت خرچ کیا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک پیغامبر ہو جو کسی دوسرے کا پیغام لوگوں تک پہنچا دے۔ میں نے بھی ایک پیغامبر کی حیثیت میں آپ لوگوں تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے۔ آسمان سے فرشتے اُتر کر مجھ پر ایک بات ظاہر کر دیتے ہیں اور وہی چیز جو دنیا کے لئے عُقدہ لاینحل ہوتی ہے میرے لئے ایسی ہی آسان ہو جاتی ہے جیسے شیریں اور لذیذ پھل کھانے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ بسا اوقات القائی طور پر مجھے آیات بتلائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ِاس آیت کو فلاں آیت سے ملا کر پڑھو تو مطلب حل ہو جائے گا۔ اِسی طرح تحریک جدید بھی القائی طور پر خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھائی ہے۔ جب مَیں ابتدائی خطبات دے رہا تھا مجھے خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ مَیں کیا بیان کروںگا اور جب مَیں نے اِس سکیم کو بیان کیا تو میں اس خیال میں تھا کہ ابھی اِس سکیم کو مکمل کروں گا اور میں خود بھی اس امر کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس سکیم میں ہرچیز موجود ہے مگر بعد میں جُوں جُوں اِس سکیم پر میں نے غور کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام ضروری باتیںاِس سکیم میں بیان ہو چکی ہیں اور اب کم از کم اس صدی کیلئے تمہارے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ سوائے جُزئیات کے کہ وہ ہر وقت بدلی جا سکتی ہیں۔
پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کیلئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میںایک الہام کر دیتا ہے اور اس میں نہایت باریک تفصیلات موجود ہوتی ہیں اسی طرح اس کا القا ء بھی ہوتا ہے اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے اسی طرح القاء بھی مخفی ہوتا ہے بلکہ القاء الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے۔ یہ تحریک بھی جو القائے الٰہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کیلئے اِس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آ گئی ہیں جو کامیابی کیلئے ضروری ہیں۔
پس ہمیںایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تحریک جدید کو خود بھی سمجھیں اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھائیں اور اِس بات کو مدنظر رکھیں کہ تحریک جدید کو مضبوطی سے قائم رکھنا ان کا فرض ہے۔ اس بارہ میں افسروں کی ذمہ واری نہایت اہم ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو باربار اس تحریک کی اغراض اور اس کے مقاصد سمجھائیں۔ جس دن اس تحریک کو پوری طرح سمجھ کرہمارے طلباء باہر نکلے اور اُس روح کو لے کر نکلے جو تحریک جدید کے ذریعہ ان میں پیدا ہونی ضروری ہے یہ قومی طور پر ہمارا پہلا چیلنج ہو گا کہ اگر دنیا میں کوئی قوم زندہ ہے تو وہ ہماری زندہ قوم سے مقابلہ کر لے۔ آج اگر لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تو کیا ہوا۔ جس دن نپولین سکول میں پڑھ رہا تھا کون سمجھ سکتا تھا کہ وہ کس چیز کیلئے تیار ہو رہا ہے، جس دن ہٹلر اور مسولینی اپنی قوموں میں نہایت چھوٹے درجہ پر ٹریننگ حاصل کر رہے تھے کوئی سمجھ سکتا تھا کہ اُس وقت جرمنی اور اٹلی کی قسمت کا سوال حل ہو رہا ہے۔ اسی طرح اگر تم اس تحریک کی اہمیت کو سمجھ لو تو گو دنیا اس بات کو نہ سمجھے مگر تمہارے اندر اسلام کی آئندہ فتوحات کا حل نظر آئے گا۔ اور اگر تمہارے ٹیوٹر، تمہارے سپرنٹنڈنٹ، تمہارے انچارج اور تمہارے اُستاد تقویٰ شعار ہوں اور وہ حکمتوں کو سمجھنے والے ہوں تو وہ تمہارے ذریعہ لڑکے پیدا نہیں کریں گے بلکہ بدری صحابہ کی طرح زندہ موتیں پیدا کریں گے اور تم اسلام کیلئے ایک ستون اور سہارا بن جاؤ گے۔ کتنا عظیم الشان کام ہے جو تمہارے سامنے ہے تم جو اتنی معمولی سی بات پر خوش ہو جاتے ہو کہ فلاں جگہ کبڈی کا میچ تھا جس میں ہم جیت گئے یا فٹ بال کے میچ میں اگر اچھی کِک لگاتے ہو تو اسی پر پُھولے نہیںسماتے۔ ذرا خیال تو کرو کہ تم جن کو یہ کہاجاتا ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو ، جن کو کہا جاتا ہے کہ نہ اچھا کھانا کھاؤ نہ اچھا کپڑا پہنو، تمہیں اِس بات کیلئے تیار کیا جا رہا ہے کہ تم کفر اور مداہنت کی اُن زبردست حکومتوں کو جنہوں نے اسلام کو دبایا ہوا ہے کُچل کر رکھ دو، تم فلسفہ اور اباحت اور منافقت کی اُن حکومتوں کو جنہوں نے خدائی الہام کو مغلوب کیا ہوا ہے ریزہ ریزہ کر دو، کیا تم نہیں سمجھ سکتے یہ کتنا عظیم الشان کام ہے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ بچپن میں قوتِ واہمہ چونکہ زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے تم اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر کبھی اتفاقاً شام کے وقت تم دودھ پینے کیلئے نکلو، تمہیں دودھ کی دُکان پر یہ نظارہ نظرآئے گا کہ ایک مشہور ڈاکو کسی آدمی کو مار رہا ہے، فرض کرو جسے مارا جا رہا ہے وہ تمہارا بھائی ہے یا کوئی اور رشتہ دار، تم چھوٹے سے بچے ہو آٹھ یا دس سال تمہاری عمر ہے اور وہ مضبوط اور علاقہ میں مشہور ڈاکو ہے جب تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہارے کسی عزیز پر حملہ آور ہے تو تم جوشِ محبت میں اس پر حملہ کر دیتے ہو اور تمہارے چھوٹے سے بازوؤں میں اُس وقت ایسی طاقت آ جاتی ہے کہ تم اس ڈاکو کو مار لیتے ہو تو غور کرو اُس وقت تمہارے دل میں کتنا فخر پیدا ہو گا اور تم کس طرح لوگوں کو جگا جگا کر یہ بتاؤ گے کہ فلاں ڈاکو کو آج ہم نے مار دیا۔ پھر تم سوچو کہ اگر ایک ڈاکو کے مارنے پر تم اِس قدر فخر کر سکتے ہو تو اُن لاکھوں ڈاکوؤں کے مارنے پر جو اسلام کی متاع پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں، اُن فلسفیوں کی فلسفیت کو کُچلنے پر، اُن اِباحت والوں کی اباحت اور اُن مداہنت والوں کی مداہنت کو صفحۂ عالَم سے نابود کرنے پر جو اسلام ایسے قیمتی عزیز کے کمزور جسم کو دبا رہے اور اُس کے گلے کو گھونٹ رہے ہیں تمہارے دل میں کس قدر فخر پیدا ہو گا اور کس خوشی اور سرور سے تم اپنی گردن اونچی کر کے کہو گے کہ آج ہم نے شرک اور کفر کو نابود کر دیا۔ یہ چیز ہے جس کو اپنے سامنے رکھنا تمہارا فرض ہے۔
تم بورڈ ر نہیں بلکہ تم خدا تعالیٰ کے سپاہی ہو اور تمہیں اس لئے تیار کیا جا رہا ہے کہ تم خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دو۔ اگر تم سلسلہ اور اسلام کیلئے اور خلافت اور نظامِ سلسلہ کیلئے اپنی جانیں نہ دو گے تو تم بھی محض باتیں کرنے والے ٹھہرو گے۔ پس تم اسلام کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے بنو اور منافقوں کی ہاں میں ہاں مت ملاؤ بلکہ انہیں کُچلنے والے بنو۔ خواہ منافقانہ بات تمہارے باپ کے منہ سے نکلے یا تمہارے بھائی یا کسی اور عزیز کے منہ سے۔ صحابہؓ کے زمانہ میں ہمیں اِس قسم کا نظارہ نظر آتا ہے۔ مدینہ میں ایک منافق نے جب یہ بات کہی کہ مہاجرین نے یہاں آ کر فتنہ و فساد مچا دیا ہے تو اُس شخص کا لڑکا رسول کریم ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا مجھے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ میرے باپ نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے آپؐ کو تکلیف ہوئی ہے۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کی خدمت میں لے آؤں تا ایسا نہ ہو آپ کسی اور شخص کے ذریعہ اُسے مروا دیں تو کسی مسلمان کے متعلق میرے دل میں بُرائی پیدا ہو جائے ۹؎ تو تم سے پہلے لوگوں نے اس قسم کا نظارہ دکھایا ہے اور قربانی کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں۔ پس تمہیں بھی اگر سلسلہ کیلئے اِس قسم کی غیرت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تمہیں اس قسم کی غیرت کے اظہار میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ چونکہ تم میں ایسے کئی بچے ہوں گے جو گیارہ سال کی عمر رکھتے ہوں گے یا گیارہ سال کے قریب قریب اُن کی عمر ہو گی اِس لئے ممکن ہے تم کہو ہم اتنی چھوٹی عمر میں دین کیلئے کیا قربانی کر سکتے ہیں اِس لئے میں تمہیں ایک گیارہ سالہ بچے کا واقعہ سناتا ہوں۔
رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ نبوت کیا اور لوگوں نے آپ کی باتوں کو نہ مانا تو آپ نے یہ تجویز کی کہ ایک دعوت کی جائے جس میںمکہ کے رؤسا کو اکٹھا کیا جائے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ اِس کے مطابق ایک دعوت کا انتظام کیا گیا جس میں مکہ کے رؤساء اکٹھے ہوئے مگر جب کھانا کھانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو بعض باتیں سنانی چاہتا ہوں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں فُرصت نہیں اور سب ایک ایک کر کے اُٹھ گئے۔ اِس پر رسول کریم ﷺ نے دوبارہ ایک دعوت کا انتظام کیا اور اب کی دفعہ یہ تجویز فرمایا کہ پہلے ہم انہیں اپنی باتیں سنائیں گے اور بعد میں دعوت کھلائیں گے۔ چنانچہ رؤسا آئے اور بیٹھ رہے۔ رسول کریم ﷺ نے اُس وقت ایک وعظ کیا جس میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت آئی ہے اور اُس کو پھیلانا میرا فرض ہے۔ کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ہے جو اِس انعام کا حصہ دار بنے اور کیا آپ لوگوں میں سے کوئی سعید روح ہے جو میرا ہاتھ بٹائے۔ ان رؤسا نے جب یہ سنا تو خاموش رہے۔ مگر ایک گیارہ سال کا بچہ بھی وہیں بیٹھا تھا اُس نے اپنے دائیں بھی دیکھا تو رؤسا کو خاموش پایا، پھر اُس نے اپنے بائیں دیکھا تو اس طرف کے رؤسا کے منہ پر بھی اس نے مہر سکوت دیکھی۔ اس نے دیکھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی اور دنیا میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی آواز بغیر کسی جواب کے رہے۔ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا مگر اس نظارہ کو دیکھ کر وہ برداشت نہ کر سکا وہ کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں اپنے آپ کو اِس خدمت کیلئے پیش کرتا ہوں اور اس تعلیم کے پھیلانے میں مَیں آپ کی مدد کروں گا۔ رسول کریم ﷺ نے اُسے بچہ سمجھتے ہوئے اُس کی بات کی طرف زیادہ توجہ نہ کی اور پھر انہیں ترغیب دی تا ان میں سے کوئی شخص مدد کیلئے اُٹھے۔ آپ نے پھر اُن مُردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ پھر اسلام کے متعلق تقریر کی اور جب اپنی تقریر کو ختم کر چکے تو آپ نے پھر فرمایا کیا کوئی ہے جو خداتعالیٰ کی آواز کو پھیلانے میں میری مدد کرے۔ پھر وہ تمام لوگ ساکت رہے اور پھر اس گیارہ سالہ بچہ نے دیکھا کہ مجلس میں کامل خاموشی ہے اور کوئی خداتعالیٰ کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنے کیلئے تیار نہیں اس لئے پھر اس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ خداتعالیٰ کی آواز بغیر جواب کے رہے۔ وہ گیارہ سالہ بچہ پھر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں ہوں۔ آخر رسول کریم ﷺ نے جب دیکھا کہ وہی بچہ خداتعالیٰ کی آواز کے جواب میں کھڑا ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا۔ یہ خداتعالیٰ کی دین ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے۱۰؎ ممکن ہے تم میں سے وہ بچے جو ابھی گیارہ سال کی عمر کو نہیں پہنچے بلکہ اُن کی سات یا آٹھ سال عمر ہے وہ اِس واقعہ کو سن کر کہیں کہ ابھی تو ہم اُس عمر کو نہیں پہنچے جس عمر میں قربانی کرنا انسان کیلئے واجب ہوتا ہے اور شاید وہ قربانی کرنا ان لڑکوں کا حق سمجھیں جو بڑی عمر یا کم از کم گیارہ سال عمر رکھتے ہوں اس لئے میں ایک ایسے بچے کا بھی تمہیں واقعہ سناتا ہوں جو اُسی عمر کا تھا جس عمر کے تم میں سے اکثر بچے ہیں۔ اس بچے کا ماں باپ اپنی عمر کے نوّے برس گذار چکا تھا کہ اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ لڑکا پانچ چھ سال کی عمر کو پہنچا تو اُس کے باپ نے رؤیا دیکھا کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چُھری پھیر رہا ہوں۔ اُس لڑکے کے باپ کو خداتعالیٰ کی باتوں پر بڑا یقین تھا اور اُس نے اکثر خداتعالیٰ کا کلام اُترتے اور اُسے سچا ہوتے دیکھا تھا اِس رؤیا کی بھی تعبیر تھی اور اس کا اصل مطلب درحقیقت کچھ اور تھا مگر وہ خداتعالیٰ پر بڑا یقین رکھنے والا انسان تھا اور اُس نے کہا کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مجھے خواب میں ایک نظارہ دکھایا ہے میں اُسی طرح کروں گا اور اگر خداتعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے تو وہ آپ اُس سے آگاہ کر دے گا۔ مگر اُس نے سمجھا کہ یہ میری قربانی نہیں بلکہ میرے بچے کی قربانی ہے اورمیرے اکیلے کا حق نہیں کہ میں آپ ہی اِس پر عمل شروع کردوں۔ بہتر ہے کہ مَیں اپنے بچے کے سامنے بھی اِس کا ذکر کروں۔ وہ بچہ پانچ چھ سال کی عمر کا تھا، جب باپ چلتا تو وہ دَوڑ کر اُس کے ساتھ قدم ملا سکتا تھا، معمولی رفتار کے ساتھ قدم نہیں ملا سکتا تھا، اُس باپ نے اپنے بچے کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے اور وہ یہ کہ میں تجھ کو خداتعالیٰ کیلئے ذبح کر رہا ہوں، اب تُو بتا تیری کیا صلاح ہے؟ اس بچہ نے آگے سے یہ نہیں کیا کہ زور سے چیخ مارکر اپنی ماں سے چمٹ گیا ہو اور اُس نے کہنا شروع کر دیا ہو کہ میرا باپ پاگل ہو گیا ہے، اُس بچہ نے یہ نہیں کیاکہ ہاتھ جوڑ کر باپ کے آگے کھڑا ہو گیا ہو اور رونے لگ گیا ہو کہ ابّا مجھے نہ مارو مجھے ڈر لگتا ہے، وہ دہشت کے مارے بے ہوش نہیں ہو گیا، اُس کے چہرے کا رنگ زائل نہیں ہؤا بلکہ اُس نے یہ بات سن کر نہایت وقار اور نہایت متانت سے جواب دیا کہ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرُ۱۱؎ اے باپ جو خداتعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا ہے اُس کے کرنے میں دیر کیا ہے اور مجھ سے پوچھنے کا سوال کیا ہے میں حاضر ہوں آپ مجھے ذبح کر دیں، آپ دیکھیں گے کہ میں کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں کروں گا اور آپ آرام سے میرے گلے پر چُھری پھیر لیں گے۔ باپ اُس کو جنگل میں لے گیا اور اُسے لِٹا کر چاہا کہ اُس کے گلے پر چُھری پھیر دے۔ اُس زمانہ میں بچوں کی قربانی دینے کی عام رسم تھی اور ایک مقصد اللہ تعالیٰ کا یہ حکم دینے سے یہ بھی تھا کہ بچوں کی قربانی کی رسم کو مِٹا دیا جائے کیونکہ اُس زمانہ میں قوموں میں یہ رواج تھا کہ وہ کبھی کبھی خداتعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بچوں میں سے کسی کو ذبح کر دیتے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اِس رسم کو مٹائے۔ پس اُس باپ نے جب اپنے بچے کو لِٹایا اور چُھری نکال کر اس کے گلے پر اپنا ہاتھ رکھ کر چاہا کہ چُھری چلا دے تو اللہ تعالیٰ نے معاً اپنا دوسرا کلام نازل کیا اور فرمایا۔ اے ابراہیمؑ! تو نے اپنی بات پوری کر دی۔ جا اور اب اپنے بیٹے کی جگہ ایک بکرا قربان کر دے کیونکہ اِس بیٹے کو خدا تعالیٰ تیرے ہاتھ سے کسی اور طرح قربان کرانا چاہتاہے۔ جانتے ہو وہ کیا قربانی تھی؟ وہ قربانی جو بعد میں ظاہر ہوئی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جا اسماعیل ؑ اور اُس کی والدہ ہاجرہ کو مکہ کے میدان میں چھوڑ آ کیونکہ خانہ کعبہ کی حفاظت اور اُس کی عظمت کا کام اللہ تعالیٰ اِن سے لینا چاہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ اور اُس کی ماں ہاجرہؓ کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں مکہ کی جگہ چھوڑ آئے۔ اُس وقت وہا ںکوئی آبادی نہ تھی، ریت کا ایک میدان تھا جس میں مِیلوں تک نہ کھانے کیلئے کوئی چیز نظر آتی تھی اور نہ پینے کیلئے پانی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوروں کی ایک تھیلی اُن کے پاس رکھی اور وہاں اُنہیں بٹھا کر واپس لوٹ آئے۔ جب آپ واپس آ رہے تھے تو اپنی بیوی اور بچے کی قربانی کو دیکھ کر ابراہیم کے جذبات میں جوش پیدا ہؤا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے بیوی کو چونکہ انہوں نے بتایا نہیں تھا کہ وہ انہیں ہمیشہ کیلئے اِس بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑے جا رہے ہیں، جب انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ سمجھیں کہ یہ جوش جو پیدا ہو رہا ہے یہ دائمی جُدائی کا پیش خیمہ ہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہؓ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا ابراہیمؑ! تم ہمیں کہاں چھوڑے جا رہے ہو۔ یہاں تو نہ پینے کیلئے پانی ہے نہ کھانے کیلئے غذا، بے یارو مدد گار بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر جس میں نہ پینے کی کوئی چیز ہے نہ کھانے کی کوئی چیز، تم ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام جذبات کے وفور کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکے۔حضرت ہاجرہؓ نے پھر اصرار کیا اور پوچھا کہ بتاؤ تم کہاں جا رہے ہو؟ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر کوئی جواب نہ دے سکے۔ آخر حضرت ہاجرہؓ نے کہا تم ہمیں کیوں چھوڑے جا رہے ہو ؟ کیا خدا کے حکم سے تم ایسا کر رہے ہو؟حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس کا بھی کوئی جواب نہ دے سکے صرف انہوں نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیا جس کامطلب یہ تھا کہ ہاں میں خدا کے حکم کے ماتحت ہی تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ حضرت ہاجرہؓ نے جب یہ دیکھا تو فوراً بول اُٹھیں اِذًا لاَّیُضَیِّعُنَا۱۲؎ اگر یہی بات ہے تو خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بچہ جس کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی وہی اسمٰعیل ؑ ہیں جن کی نسل سے محمد رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے اور وہی اسمٰعیل ؑ ہیں جن کی نسل نے خانہ کعبہ کی حفاظت اور اُس کی تقدیس کیلئے اپنی عمریں وقف کر دیں۔ پس یہ چھ سال کا بچہ تھا جس نے خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے آپ کوقربانی کیلئے پیش کر دیا۔ پھر اگر تم میں سے کوئی ایسا ہے جو چھ سال سے بھی کم عمر رکھتا ہے تو مجھے اپنے ایک بچے کا واقعہ یاد ہے۔ اُس کی عمر کوئی پانچ سال کی تھی، وہ ایک دفعہ مکان میں ایک جگہ کھڑا تھا اور میں دوسرے کمرہ میں تھا کہ مجھے آواز آئی کہ لڑکے اکٹھے ہو کر اُسے چھیڑ رہے ہیں اور ڈرانے والی باتیں کررہے ہیں وہ اُسے کہہ رہے تھے کہ اگر رات کا وقت ہواور تمہیں ایک ایسے جنگل میں سے گذرنے کیلئے کہا جائے جس میں شیر، چیتے اور بھیڑئیے رہتے ہوں تو کیا تم ڈرو گے؟ انہیں وہ کہنے لگا ہاں ڈروں گا۔ پھر لڑکوں نے مختلف لوگوں کے نام لئے کہ اچھا اگر فلاں کہے تو تم وہاں ٹھہرو گے یا نہیں؟ وہ کہے نہیں۔ آخر ایک نے کہا اگر تمہارے ابّا تمہیں کہیں کہ اس جنگل میں رات کو ٹھہرو تو کیا تم ٹھہرو گے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں۔ آخر ایک نے کہا اگر خدا کہے تو؟ مجھے خوب یاد ہے اُس نے آگے سے یہی جواب دیا کہ اگر خدا کہے تو پھر ٹھہر جاؤں گا۔ تو چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی قربانی کا مادہ ہوتا ہے جسے اگر قائم رکھا جائے تو اِس سے نہایت مفید تغیرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
پس اگر تم پانچ چھ سال کی عمر کے بچے ہو تو تم بھی دین کی اعلیٰ خدمات سرانجام دے سکتے ہو۔ صرف اتنا ہونا چاہئے کہ تمہارے اندر سمجھنے کی قابلیت ہو اور تمہیں سمجھانے والے خاص توجہ سے کام لیں۔ اب بھی تم میں سے چھوٹے سے چھوٹے بچے اپنے دل میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم نے بڑے ہو کر خداتعالیٰ کے دین کا کام کرنا ہے اور اگر وہ اپنے دل میں فیصلہ کر لیں تو خداتعالیٰ اِس کے مطابق انہیں کام کرنے کی توفیق بھی دے دیگا۔ اِس وقت نہ میری صحت مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اور تقریر کروں اور نہ وقت اِس کی اجازت دیتا ہے ورنہ مَیں انبیاء علیھم السلام کو مستثنیٰ کرتے ہوئے عام بزرگانِ دین کی اولادوں کے ایسے نمونے بیان کر سکتا تھا جنہوں نے نہایت اعلیٰ دینی خدمات سرانجام دی ہیں اور دُنیوی لوگوں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ باوجود اِس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں ہدایت نہ ملی دُنیوی لحاظ سے انہوں نے نہایت شاندار کام کئے مگر جو مثالیں میں نے بیان کی ہیں اِن میں بھی تمہارے لئے أسوہ حسنہ اور اعلیٰ تعلیم موجود ہے۔ صرف توجہ اور عمل کی ضرورت ہے۔
پس مَیں پھر تم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تمہارے اساتذہ، بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ، ٹیوٹروں اور تحریک جدید کے دوسرے تمام کارکنوں سے کہتا ہوں کہ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ایک عظیم الشان کام ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ جس وقت انسان کوئی نیا کام شروع کرتا ہے ناواقف لوگوں کے ذریعہ شروع کرتا ہے جو آہستہ آہستہ اپنے کام میں اکسپرٹ (EXPERT) ہوجاتے ہیں۔ مَیں نے بھی تحریک جدید کا کام ناتجربہ کار ہاتھوں سے شروع کیا ہے اور ہم اس کام کے نتیجہ میں اکسپرٹ اور کام کے ماہر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کارکن اس بارے میں مستعدی اور ہوشیاری سے کام نہیں لیں گے اور اپنے فرائض تندہی سے ادا نہیں کریں گے تو وہ خداتعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہو جائیں گے لیکن یہ کام بہرحال ہو کر رہے گا۔ خداتعالیٰ کی باتیں دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہتیں یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کام کو خوش اسلوبی سے کیا جائے اور ہم ناکام ہوں۔ اگر ہم ناکام ہوں تو یہ ہماری بددیانتی اورسُستی اور غفلت کا ثبوت ہو گا۔ اس امر کا ثبوت نہیں ہو گا کہ یہ کام خدا کی طرف سے نہیں تھا کیونکہ یہ کام یقینا ہو سکتا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا۔ پس مَیں ان طالب علموں کو جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ واری کو سمجھیں اور کارکنان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انہیں پوری طرح تیار کریں۔ یہاں تک کہ یہاں سے جو پود نکلے وہ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ والی جماعت ہو۔ جو مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ والی جماعت کی قربانیوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے قابل ہو۔ اگر تم اِس بات میں کامیاب ہو گئے تو یاد رکھو تم ضرور جیت کر رہو گے۔ خواہ میری زندگی میں یہ دن آئے یا میری موت کے بعد۔ مگر وہی دن اسلام کیلئے خوشی کا دن ہو گا، وہی دن دشمنوں کی شرمساری کا دن ہو گا اور وہی دن مغرب سے سورج کے طلوع کرنے کا حقیقی دن ہو گا جس دن اسلام نئے سرے سے دنیا پر غالب آئے گا، جس دن مغربیت پوری طرح کُچل دی جائے گی۔ جس دن اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کی فوقیت دنیا پر ثابت ہو جائے گی تب وہی منافق جو آج مغربیت سے ڈر رہے ہیں، وہی منافق جو آج قربانیوں سے جماعت کے افراد کو روکتے اور یہ کہتے ہیں کہ جماعت کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے وہی سب سے زیادہ شور مچائیں گے اور کہیں گے کہ مغربیت سے زیادہ بُری اور کوئی چیز نہیں کیونکہ منافق لڑائی میں سب سے پیچھے رہتا ہے اور فخر میں سب سے آگے ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو پہلے ہی یہ کہا کرتا تھا۔ اور اس طرح جھوٹ بول کر اپنی پچھلی حرکتوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ کمزور طبائع جو آج مغربیت سے ڈر رہی ہیں اور وہ منافق جو جماعت پر دن رات اعتراض کرتے رہتے ہیں میں زندہ رہوں یا نہ رہوں مگر تم یاد رکھو ان لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہی جو آج یہ اعترا ض کرتے ہیں کہ مغرب کا مقابلہ کرنا کیسی نادانی ہے، جو آج یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت کو ایک غلط راستہ پر چلایا جارہا ہے، وہی احمدیت کی فتح کیلئے سب سے زیادہ شور مچائیں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی ہمیشہ سے مغربیت کے مخالف تھے اُس دن تم کو محسوس ہو گا کہ مومن اور منافق میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے۔ مومن قربانی کرتا اور پھر فخر کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور منافق قربانی سے بھاگتا اور فتح کے وقت شور مچانے والوں میں سب سے آگے ہوتا ہے۔
پس مَیں پھر طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی اس تقریر کو، جو لمبی نہیں ہونی چاہئے تھی کیونکہ مجھے کھانسی کی زیادہ تکلیف تھی لیکن جوش کی وجہ سے لمبی ہو گئی ختم کرتا ہوں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے امریکہ میں جانے والے مبلّغین کو اور اُن مبلّغوں کو بھی جو پہلے سے مغرب میں موجود ہیں صحیح رنگ میں اسلام کی خدمت کی توفیق دے اور وہ اسلامی تعلیم کا سچا نمونہ ہوں۔ بجائے دشمنوں کے اثر سے متأثر ہونے کے انہیں اسلام کی خوبیوں اور اس کے کمالات کے قائل کرنے والے ہوں اور ان کے ذریعہ جو لوگ وہاں اسلام میں داخل ہوں وہ ایسے ہوں جنہوں نے صدقِ دل سے اسلام کو قبول کیا ہو اور اُس کی خوبیوں کو دیکھ کر اپنے اعمال کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں۔ اِس طرح وہ طالب علم جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں اِن آرزوؤں کے ساتھ داخل ہیں کہ انہیں خدمتِ احمدیت کی توفیق ملے اللہ تعالیٰ ان کی آرزوؤں کو بھی پورا کرے اور ان کے ماں باپ کو بھی اس تحریک کا صحیح مقصد سمجھنے کی توفیق دے اور طالب علموں کو ہمت دے، توفیق دے اور عزم دے کہ وہ دین کی خدمت کر سکیں۔ اسی طرح وہ کارکنوں کو بھی ہدایت دے اور انہیں سمجھ دے کہ وہ اِس تحریک کو جاری کرنے کی اغراض سے واقفیت پیدا کریں انہیں ہر قسم کی بددیانتی اور کوتاہی ٔ عقل سے بچائے، ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کی مساعی کو بارآور کرے تا وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو خلیفہ وقت کی مددگار ہو اور جس کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس وقت اسلام کی زندگی وابستہ ہے۔
(الفضل ۱۹،۲۲تا ۲۶،۲۸ فروری ۱۹۶۱ء)
۱؎ المائدۃ: ۱۰۶
۲؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب اِنَّ اللّٰہ لَیُؤَیِّدُالدِّیْنَ باِلرَّجُلِ الْفَاجِرِ
۳؎ بخاری کتاب بدء الوحی۔ باب کیف کَانَ بدء الوحی
۴؎ مسلم کتاب العلم باب مَنْ سَنَّ سُنّۃً حسنَۃً (الخ)
۵؎ الاحزاب: ۲۲
۶؎ سیرۃ ابن ہشام الجزء الاوّل صفحہ ۲۸۴۔۲۸۵مطبع مصطفی البابی مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ اٰل عمران :۸۰ ۸؎ الاحزاب :۲۴
۹؎ السیرۃالحلبیۃ الجزء الثانی صفحہ ۳۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء (مفہوماً)
۱۰؎ تاریخ الامم والملوک لاِبی جعفرمحمد بن جریر الطبری المجلد الثانی صفحہ ۴۰۳تا۴۰۵ دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۱۱؎ الصّٰفّٰت:۱۰۳
۱۲؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون النسلان فی المثی



ایک رئیس سے مکالمہ






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

ایک رئیس سے مکالمہ
(فرمودہ یکم نومبر ۱۹۳۶ء)
غیر احمدی رئیس
جماعت احمدیہ کوئی مذہبی جماعت نہیں اور دُنیوی طور پر اس نے جس قدر ترقی کرنی تھی کر چکی ہے اس سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی
ہر ایک تحریک کی ترقی کے جُدا جُدااسباب ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنا پڑتا ہے لہذا احمدیت کی ترقی کے اصل اسباب کوبھی
دیکھناہو گا۔ مذہبی ترقی کے واسطے ایسے دلائل بھی ہونے چاہئیں جن کو ایک اَن پڑھ بھی سمجھ سکے۔ چنانچہ جب ایک بدوی سے پوچھا گیا کہ ہستی باری تعالیٰ کا کیا ثبوت ہے تو اس نے کہا کہ جب اونٹ کا لیڈنا اونٹ کا ثبوت ہے اور ایک مینگنی بکری کے وجود کو ثابت کرتی ہے تو یہ زمین و آسمان خداتعالیٰ کے وجود پر کیوں دلیل نہیں!
پس سوچنے والی بات یہ ہے کہ احمدیت کی اِس وقت تک کی ترقی کے اصل اسباب کیا تھے اور کن حالات میں اس نے ترقی کی۔ بعض ترقیات تو آپس میں لازم وملزوم ہوتی ہیں مثلاً کسی کا بادشاہت کی وجہ سے ترقی کرنا یا جیسے اگر کوئی شخص کسی جگہ جائے تو اُس کا کُرتہ اور شلوار بھی اُس کے ساتھ جائے گا مگر کُرتہ اور شلوار اصل مقصود نہیں ہوا کرتے اسی طرح احمدیت کی اصل ترقی تو روحانیت یا معارف و حقائق کی ترقی ہے لیکن کمزور لوگوں کیلئے خداتعالیٰ نے اِس کو دُنیوی ترقی بھی دی ہے اور دے گا لیکن دُنیوی ترقی اِس کااصل مقصود نہیں۔ آنحضرت ﷺ کی ترقی کا اصل مقصود بھی بادشاہت نہ تھی۔ گوخدا تعالیٰ نے عوام کی ہدایت کے لئے حضور اور حضور کے غلاموں کو بادشاہ بنا دیا۔ اور حضور کی دُنیوی حکومت و ترقی بھی لوگوں کی ہدایت کاایک ذریعہ بن گئی۔
احمدیت نے صداقت کو ایسے آسان رنگ میں پیش کیا ہے کہ معمولی سمجھ کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے چنانچہ ایک شخص پِیرا نامی کسی سخت مرض میں مبتلا ہو کر قادیان آیا۔ وہ ایک غریب آدمی تھا اُس کے وارث اُسے یہاںچھوڑ کر چلے گئے۔ چھ ماہ تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محنت سے اس کا علاج کیا۔ جب وہ تندرست ہو گیا تو اُس کے وارث اُس کو لینے کیلئے آئے لیکن اُس نے جانے سے انکار کر دیا اور قادیان میں ہی رہا اور وہیں فوت ہوا۔ وہ بڑی موٹی سمجھ کا آدمی تھا چنانچہ مجھے بچپن کے زمانہ کا اس کا واقعہ یاد ہے کہ وہ چند پیسے لے کر مٹی کا تیل پی جاتا تھا۔ قادیان میں شروع زمانہ احمدیت میں جبکہ ریل اور تار وغیرہ نہ تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُسے تار دینے کیلئے وقتاً فوقتاً بٹالہ بھیجتے تھے۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر دیکھا کرتا تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو قادیان جانے سے روکنے کیلئے ہمیشہ بٹالہ اسٹیشن پر آیاکرتے تھے اسی سلسلہ میں مولوی صاحب نے مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری پروفیسر کو بھی بٹالہ سے واپس کر دیاتھا۔ یہ پروفیسر صاحب اب میرے خسر ہیں اور اکثر افسوس کیا کرتے ہیںکہ اگر میں واپس نہ جاتا تو صحابہ کا درجہ حاصل کر لیتا لیکن افسوس کہ میں واپس چلا گیا۔
غرض اِسی طریق پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک دن میاں پیر ا سے کہا کہ تُو قادیان مرزے کے پاس کیوں پڑا ہے‘ تو نے اس کا کیا دیکھاہے؟ اِس پر پِیرے نے کہا۔ مولوی صاحب! میں پڑھا ہؤا تو ہوں نہیں پر ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوںکہ آپ کو تو میں ہمیشہ اسٹیشن پر دیکھتا ہوں‘ آپ لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں مگر باوجود اس کے لوگ قادیان جاتے ہیں۔ آپ کی جُوتیاں بھی اسی کوشش میں گِھس گئیں پر لوگ قادیان جانے سے نہیں رُکتے لیکن مرزا صاحب تو ہمیشہ گھر میں ہی رہتے اور ملاقات کیلئے بھی بسااوقات لوگوںکو کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر لوگ قادیان کو تو بھاگے چلتے جاتے ہیں لیکن آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ آخرکوئی بات تو ہو گی‘ اس سے آپ سمجھ لیں کہ مرزا صاحب کے پاس کیا ہے۔
غرض مذہب کی صداقت کے عوام کی ہدایت کیلئے بھی خداتعالیٰ نے سامان رکھے ہوئے ہیں جن سے اَن پڑھ بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ ورنہ وہ پِیرا اِس قدر موٹی عقل کا تھا کہ اُس کو نماز تک یاد نہ ہوتی تھی۔ اُسے دو دو روپے تک انعام دینے کے وعدے کئے جاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھ لے اور یہ انعام لے ۔ کئی کئی دن اس کو سُبْحَانَ اللّٰہِ یاد کرانے پر لگ گئے مگر ایسے شخص کی ہدایت کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے دلیل رکھی ہوئی تھی۔ پھر کئی آدمی سیاسی طاقت دیکھ کر ساتھ ہو جاتے ہیں‘ بعض لوگ اپنے دُنیوی فوائد کے پیچھے چلتے ہیں‘ بعض اتحاد اور بادشاہت کے رُعب کے زیر اثر ہو کرمان لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ مذہب کو دُنیوی ترقی بھی دیتا ہے ورنہ دنیا مذہب کی اصل غرض نہیں ہوتی۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ دین کے پیچھے آتی ہے اور ہمارا تو ایمان ہے کہ دنیا کی تمام بادشاہتیں ہمیں ملیں گی لیکن ہمارا اصل مقصود دین ہے۔
غیر احمدی رئیس
مجھے تو کسی تبلیغ کی ضرورت ہی نہیں۔ میں تو کہا کرتاہوں کہ مجھے تبلیغ کیوں کرتے ہو۔ اگر آپ حق پر ہیںتو دعا کریں۔ آپکی دعا اگر
قبول ہو گئی تو مجھے خود بخود کھینچ لے گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی
اس میں تین غلطیاں ہیں۔ اوّل یہ خیال کرنا کہ ہدایت خود بخود مل جاتی ہے۔ دوم یہ کہنا کہ تبلیغ کی
ضرورت نہیں۔ سوم یہکہنا کہ صرف دعا کرنا ہی کافی ہے۔
اِن کی تردید قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے اور عقل سے بھی کیونکہ اگر یہ مانا جائے کہ جس مذہب کی ہدایت خود بخود ہو جائے وہ سچا ہے ورنہ نہیں تو اس طرح گویا یہ ماننا پڑے گاکہ نیکی اور بدی خود بخود پیدا ہوتی ہے اور اس صورت میں نہ تو کوئی مُجرم رہا اور نہ قابلِ تعریف رہا۔ مثلاً سنگِ مر مر اور کیکر کی لکڑی کی قیمت میں تو فرق ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سنگِ مر مر نیک ہے اور کیکر کی لکڑی گنہگار ہے۔ پس ان کی قیمت میں تو فرق ہے لیکن درجے میں کوئی فرق نہیں۔ اسی اصول پر اگر نیکی اور بدی کو بھی خود بخود حاصل ہونے والی مانا جائے تو نہ کسی نیک کی تعریف باقی رہتی ہے نہ کسی بد کی ذلّت ہو سکتی ہے۔ اسی طر ح حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور آنحضرت ﷺ کے درجات میں کوئی فرق نہیںرہے گا۔ جبری نیکی سے کسی شخص کی کوئی قدر نہیں رہتی۔ اس طرح تو گویا نیک لوگ خدا کی دی ہوئی ہدایت سے سُدھر گئے اور بد،خدا کے بگاڑنے پر بِگڑ گئے لیکن ہم قرآنِ مجید میں زمین و آسمان کی چیزوں یا ملائکہ کی تعریف نہیں دیکھتے۔ ہاں خداتعالیٰ کی اپنی تعریف یا انسانوں کی تعریف نظر آتی ہے کیونکہ انسان اپنی عقل و حکمت کے ماتحت نیکی کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے۔ لَوْشَائَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ۱؎ اگر خدا ہم سے شرک نہ کراتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ وہ ہمیں جبر کر کے ہدایت پر لے آتا لیکن خداتعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے اور فرمایا کہ یٰٓأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ۲؎ اے رسول! اگر تبلیغ کرتے ہوئے تم نے کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی چھوڑ دیا تو گویا تم نے ساری رسالت ہی نہیں پہنچائی اور ہمارا یہ فیصلہ ہو گا کہ تم نے تبلیغ کا کوئی کام نہیں کیا۔ پس اوّل تو قرآن کریم خود تبلیغ کا حکم دیتا ہے آپ اگر جبر کو جائز سمجھتے ہیں تو یہی سمجھ لیں کہ جو تبلیغ کر رہا ہے‘ وہ بھی خدا کے حکم سے ہی تبلیغ کر رہا ہے کیونکہ اُس کو خدا خاموش نہیں کراتا آپ بھی سنتے رہیں آپ اس کی تبلیغ پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتے۔ خداتعالیٰ جب چاہے گااسے خود بخود چُپ کرا دے گا۔ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت مَیں نے خود واضح کر دی ہے۔ اور پھر تبلیغ کا حکم فرمایا کہ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی۳؎ یہاں ’’اِنْ‘‘ بمعنی ’’قَدْ‘‘ہے کہ نصیحت کر نصیحت نے ہمیشہ دنیا کو فائدہ دیا ہے۔ دعا بھی وہی تبلیغ کی قائمقام ہو سکتی ہے جس میں کامل انابت الی اللہ ہو۔ دعا درحقیقت کامل انابت الی اللہ کا ہی نام ہے۔ قرآن مجید میں آتا ہے‘ کہ کھڑے‘ بیٹھے‘ لیٹے مومن ہر وقت ذکرِالٰہی کرتا ہے حالانکہ لیٹے ہوئے تو وہ سو بھی جاتا ہے۔ پس اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ محبت کی چِنگاری جو وہ لیکر سوتا ہے جب اُٹھتا ہے تو وہ شُعلہ محبت کا پھر بھڑک اُٹھتا ہے اور خدا کی طرف بندے کو مائل کر دیتا ہے۔
نیز دعا انسان کے اخلاص کے اظہار کا بھی ایک ذریعہ ہے تا کہ انسان کی نگاہ دوسری طرف سے ہٹ کر خداتعالیٰ کی طرف لگی رہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی نظر دنیا پر نہ تھی گو’’زادالمعاد ‘‘میں آپ کے گھوڑوں‘ کپڑوںاور اسباب وغیرہ کا ذکر بھی آتا ہے مگریہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور اس کے حکم کے ماتحت تھا۔ ایسا ہی قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں اور ان کے محل کا ذکر ہے کہ کئی ہزار گھوڑے تھے لیکن حضرت سلیمانؑ کی نظر ان پر نہ تھی۔ لیکن جبکہ قرآن کریم میںحضرت سلیمانؑ کو بغیر حساب رزق ملنے کا ذکر ہے اگر وہ ایک لنگوٹی باندھے رکھتے تو یہ وعدۂ الٰہی پورا ہوتا دنیا کس طرح دیکھتی پس الٰہی وعدہ کاایفاء دکھانے کیلئے حضرت سلیمانؑ نے گھوڑے وغیرہ رکھے تھے ورنہ جب قربانی کا سوال آئے تو یہ لوگ ان چیزوں کی کوئی پروا نہیں کرتے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ ۴؎ اور جب آپؐ فتح مکہ کے وقت مکہ تشریف لے گئے تو صحابہ نے دریافت فرمایا کہ حضور کہاں قیام فرمائیں گے؟ اس پر حضور کی آنکھوں میں بوجہ مکہ کی محبت کے آنسو آ گئے اور فرمایا کہ مکہ والوں نے تو میرے رہنے کیلئے کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں۔ ۵؎
انبیاء اور ان کے متبعین کو دنیا سے محبت نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ فتح مکہ کے بعد کی ایک جنگ کے ختم ہونے پر آنحضرت ﷺ نے کچھ مال مکہ والوں میں تقسیم کیا تو ایک نوجوان انصاری نے اعتراض کیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکے والوں کو بانٹ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا۔ مجھے ایک بات پہنچی ہے۔ انصار بھی سمجھ گئے اور انہوں نے عرض کیا۔ حضور! وہ ایک نادان نوجوان نے بات کہی ہے ہم اس سے اپنی براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارا ا ِس سے کوئی واسطہ نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بعض باتیں جب منہ سے نکل جاتی ہیں تو وہ اپنا نتیجہ پیدا کر کے رہتی ہیں۔ تم یہ بات دو طرح کہہ سکتے تھے۔ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جب مکہ والوںنے خدا کے رسول کو اپنے شہر سے نکال دیا اور اُس کے رہنے کیلئے کوئی جگہ نہ رہی تو ہم نے اسے پناہ دی اور اپنی جانیں اور اموال لُٹا کر اور اپنی گردنیں کٹوا کر اس کی حفاظت کی اور اسے اپنے گھروں میں جگہ دی لیکن جب اموال آئے تو خدا کا رسول ہمیں بُھول گیا اور اس نے مال اپنے مکے کے رشتے داروں میں بانٹ دیا اور ہماری کوئی پروا نہ کی۔ لیکن اگر تم چاہتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ تمام انبیاء ایک عظیم الشان نعمت کی خبر دیتے چلے آئے تھے‘ وہ یہ کہتے چلے آئے تھے کہ ایک نبی آئے گا اور وہ نہایت بلند عظمت و شان رکھتا ہو گا‘ اس نبی کو خدا نے مکہ میںپیدا کیا‘ وہ وہاں رہا اور جب خداتعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر مکہ فتح کیا تو مکہ والوںنے چاہا کہ اپنے رسول کو اپنے شہر میںلے جائیں لیکن اس وقت خداتعالیٰ نے مکہ والوں کو کہا۔ تم اونٹ گھوڑے اور دیگر اموال لے جاؤ لیکن مدینہ والے خدا کا رسول اپنے گھروں کو لے جائیں۔ یہ سُن کر انصار رو پڑے اور اپنی براء ت کرنے لگے۔ تب آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ بعض باتیں جب منہ سے نکل جاتی ہیں تو اپنا نتیجہ ضرور دکھایا کرتی ہیں۔ اب خداتعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ اے انصار! تم کو ان قربانیوں کے عوض دنیا میں قیامت تک سلطنت نہیں ملے گی۔ ہاں ان کا بدلہ حوضِ کوثر پر تم کو دے دیا جائے گا ۶؎ ۔ چنانچہ دیکھ لو۔ اسلام میں مغل‘ پٹھان حتیٰ کہ حبشی بھی بادشاہ ہوئے اور تین سَو سا ل تک حبشیوں نے بادشاہت کی۔ اور اور بھی جو قومیں مسلمان ہوئیں اُن کو خداتعالیٰ نے سلطنت بخشی لیکن انصار ۱۳ سَو سال سے کسی حصۂ دنیا کے بادشاہ نہیں ہوئے۔ غرض بعض انبیاء کو بادشاہ بنایا گیا اور بعض غربت کی حالت میں ہی دنیا سے گذر گئے لیکن جو بادشاہ بنے ان کو بھی دنیا سے محبت نہیں ہوتی بلکہ اگر ان سے خدا تعالیٰ کروڑوں روپیہ کا مطالبہ کرے اور وہ ان کے پاس ہو تو وہ خوشی سے اس کو حاضر کر دیتے ہیں۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے۔ ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ وہ قربانی میں حضرت ابوبکرؓ سے بڑھ جائیں گے۔ اس سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی اپنے گھر سے نصف مال نہیں لائے تھے اس کو دیکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے آدھا مال گھر سے لا کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن ان کے آنے سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا مال لا چکے تھے۔ اور وہ مال اِس قدر تھا کہ اسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا۔ گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا جو کچھ گھر میں تھا‘ وہ سب یہاں لے آیا ہوں اور اب اللہ اور اس کے رسول کانام ہی گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ جو محبت کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو بڈھا کہا کرتے تھے ورنہ وہ چند سال ہی ان سے بڑے تھے یہ دیکھ کر کہنے لگے اس بُڈّھے نے تو مجھے شکست دیدی اور یہ ہمیشہ ہی مجھ سے بڑھ جاتا ہے۔ ۷؎
پھر جمع دولت کے لحاظ سے اگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب عبدالرحمن بن عوف فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد انہوں نے چھوڑی ۸؎ لیکن اگر اللہ تعالیٰ ان سے یہ بھی طلب کرتا تو وہ خوشی سے ساری جائیداد پیش کر دیتے۔ غرض اصل میں ساری دُنیوی ترقیات خداتعالیٰ ہی دیتا ہے اور دعا کے ذریعہ اخلاص کا پتہ لگتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اخلاص کا پتہ تبھی لگ سکتا ہے جب اس کے اندر طاقت ہو۔ اگر ایک نامرد اپنی عصمت کا اور نابینا بدنظری سے بچنے کا دعویٰ کرے۔ یا ایک بے دست و پا آدمی یہ کہے کہ میں نے اپنی ساری عمر میں کسی کو نہیں مارا‘ تو ان کا یہ دعویٰ محض عَبث ہو گا۔ جب ان میں گناہ کرنے کی طاقت ہی نہیں تو ان کا پاکیزگی یا پرہیزگاری کا دعویٰ کرنا بالکل فضول ہے۔ غرض انابت الی اللہ کے ماتحت بار بار دعا کر کے انسان کو چاہئے کہ وہ خدا کی طرف جُھکا رہے۔ اور اگر کسی کے پاس لاکھوں روپیہ ہے اور اس کو پانچ روپے کی ضرورت پڑ گئی ہے تو وہ یہ نہ کہے کہ مجھے روپیہ کی کیا پروا ہے میرے پاس لاکھوں روپے ہیں وہ ایماندار تبھی کہلائے گا جب وہ کہے گا کہ میرا یہ کام خداتعالیٰ ہی کرے گا روپیہ پر میرا کوئی اعتبار نہیں۔ میرا توکّل خداتعالیٰ کی ذات پر ہے۔
دعا اور توکّل
علاوہ ازیں دعا ایک سہارا اور ایک سواری ہے اور چونکہ خداتعالیٰ میں ہر ایک طاقت کے سلب کر لینے کی قدرت بھی ہے اس لئے دعا کے
ذریعہ ہر وقت اُس کی حفاظت و اعانت طلب کرتے رہنا چاہئے۔ اور اگر انسان کے پاس کچھ بھی نہیں اور اُس کو ہزاروں لاکھوں روپوں کی ضرورت پڑ گئی ہے تب بھی وہ یہ کہے گا کہ پروا نہیں میرا خدا میری اِس ضرورت کو پورا کر دے گا اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے ایک دفعہ کوئی شخص اپنا قرضہ لینے آیا آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اس نے جانے کیلئے اصرار کیا۔ آپ نے فرمایا ٹھہرو تب ایک مریض باہر سے آیا اور ایک تھیلی ساتھ لایا۔ وہ تھیلی بند کی بند لیکر قرض خواہ چلا گیا۔ کسی نے پوچھا۔ کیا ان روپوں کو تم نے گِن لیا ہے۔ اس نے کہا۔ اس میں پورے ہی روپے ہیں میں نے دیکھ لئے تھے۔ تو خداتعالیٰ مومن سے ایسا سلوک بھی کیا کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے۔ ان کو کسی نے ایک پُڑیا ہدیہ میں دی۔ انہوں نے وہ واپس کر دی کہ یہ میری نہیں کیونکہ میری ضرورت سے آٹھ آنہ اس میں کم ہیں۔ تب اُس پیش کرنے والے نے کہا میں بُھول گیا ایک اور شخص نے بھی ہدیہ دیا تھا اور پھر اُس میں آٹھ آنے زیادہ کر دیئے۔ تب اُس بزرگ نے اسے لے لیا اور کہا۔ اب یہ رقم میری ہے کیونکہ مجھے اِسی قدر رقم چاہئے تھی جو خدا نے دیدی۔ تو عارف کو بروقت امداد مل جایا کرتی ہے۔ ایک کروڑ پتی مومن کروڑوں روپیہ کی موجودگی میں بھی ڈرے گا کہ اگر خداتعالیٰ ان کو لے لے تو یہ کیا چیز ہے۔ اور اگر مومن فقیر ہو گا اور اُس کو کروڑ کی ضرورت پڑے گی تو وہ کہے گا یہ رقم موجود ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی قدرت پر نظر رکھے گا۔ غرض ایک کروڑ پتی کی دعا بھی اسی طرح چلتی رہے گی جس طرح ایک فقیر کی۔ ورنہ ایک امیر کو جس قدر نعمت ملے گی اُتنا ہی اس کا دعا کا خانہ کم ہوتا جائے گا حالانکہ خداتعالیٰ دنیا تو مومن کو بطور انعام دیا کرتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے حضور کچھ آدمی اونٹوں پر سفر کر کے حاضر ہوئے لیکن وہ اونٹوں سے اُتر کر اتنی جلدی آپؐ کے پاس پہنچے کہ اس عرصہ میں اونٹوں کو باندھا نہیں جا سکتا تھا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اونٹوں کا کیا کر آئے ہو۔ وہ کہنے لگے حضور ان کو خدا کے توکّل پر چھوڑ آئے ہیں۔ حضور نے فرمایا۔ جاؤ اور اُن کے گھٹنے باندھو اور پھر توکّل کر کے آؤ ۹؎ ۔ غرض دعا کا عملی حصہ توکّل کہلاتا ہے اور دعا بھی سامانوں کی موجودگی میں استعمالِ اسباب کے ساتھ ملکر رنگ دکھایا کرتی ہے لیکن جہاں خداتعالیٰ نے کوئی نشان دکھانا ہوتا ہے وہاں بغیر رعایتِ اسباب بھی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں حضور کو کھانسی بہت ہو گئی۔ ڈاکٹر عبدالحکیم جو مرتد ہو چکے تھے انہوں نے قادیان کے اخبارات میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیماری کا ذکر پڑھ کر اپنا یہ الہام شائع کر دیا کہ مرزا صاحب کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ سِل ہو گئی ہے۔ (میرے نزدیک انہیں الہام نہیں ہوتا تھا اور جن الہامات کو پیش کرتے تھے وہ ان کے دماغی نقص کا نتیجہ تھے) اُن دنوں مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تیماردار تھا اور نوجوان تھا اور نوجوانوں کی طبیعت تیز ہوتی ہے۔ میں بڑی احتیاط سے پرہیز کراتا اُن دنوں باہر سے کچھ پھل بطور تحفہ آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان میں سے کیلا لیکر کھانا شروع کر دیا میں نے روکا کہ آپ کو تو نزلہ کھانسی ہے اور اس میں یہ مُضِرّ ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ اوّل اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معالج تھے میں نے کہا مولوی صاحب کیلے سے منع کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکراتے گئے اور کیلا کھاتے گئے۔ آخر فرمایا۔ مجھے ابھی الہام ہؤا ہے کہ کھانسی ہٹ گئی اِس لئے میں نے کیلا کھا لیا ہے تا کہ آزمائش ہو جائے کہ کھانسی ہٹ گئی ہے یا نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پھر کھانسی بالکل نہیں ہوئی۔ تو جہاں منشائے الٰہی کے ماتحت کوئی نشان دکھانا مقصود ہوتا ہے وہاں تقدیرِخاص کے ماتحت اکیلی دعا ہی نتیجہ دکھا دیتی ہے ورنہ قرآن مجید کے عام اَحکام نافذ ہوتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کے خاص اِذن کے آنے تک دونوں باتیں دعاء اور توکّل یعنی دعا اور رعایتِ اسباب مل کر چلیں گی۔
لکھا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ بعض اوقات کئی کئی ہزار روپیہ کا کپڑا پہنتے تھے۔ جب ان پر اسراف کا اعتراض ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ننگا رہنے کو بھی تیار ہوں۔ اور میں تو نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے کہ یہ کھا۔ اور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قَسم ہے کہ یہ پہن۔ ورنہ میں تو بھوکااور ننگا رہنے کو بھی تیار ہوں۔ غرض جب تک انسان ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے اُس وقت تک دعا‘ توکّل اور تبلیغ تینوں چیزیں اکٹھی چلتی ہیں۔ قرآن کریم میں دعا کا بھی حکم ہے۔ کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۱۰؎ اور تبلیغ کا بھی حکم ہے۔ کہ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَاور پھر فرمایا کہ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَأْمَنَہٗ ۱۱؎ کہ مخالفینِ اسلام کو بلاؤ اپنے پاس رکھو‘ ان کو خوب تبلیغ کرو اور پھر ان کو اگر وہ نہ مانیں تو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک جوشیلا عرب قادیان میں آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور باقی احباب نے اسے خوب سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ یہ شخص تبلیغ سے نہیں بلکہ دعا سے سمجھے گا اور اس پر دعا کا حربہ اثر کرے گا۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا فرمائی تو دوسرے دن ہی وہ خود مسجد میں آ کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے غور کیا ہے وفاتِ مسیح کا یہ ثبوت ہے اور صداقتِ مسیح موعود کا یہ ثبوت ہے اور خود ہی دلائل دینے لگ گیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے خود ہی اُسے دلائل سکھا دیئے اور اس نے بیعت کر لی۔ پھر وہ شخص اپنے ملک کو واپس چلا گیا۔ جب میں حج کو گیا تو مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں لوگ کہتے ہیں کہ یہاں ایک شخص یوسف نامی تھا۔ وہ ایک قافلہ کے ساتھ ملکر ایک ہندوستانی کو مسیح و مہدی کہتا تھا اور لوگوں کو باتیں سناتا جاتا تھااور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا تھا۔ لوگ اس کو مارتے اور وہ بیہوش ہو جاتا مگر جب اسے ہوش آتا تو وہ بھاگ کر پھر قافلے سے آ ملتا اور تبلیغ کرنے لگ جاتا۔ پھر معلوم نہیں اُس کو مار دیا گیا یا وہ فوت ہو گیا۔ عرب میں اِس کا کوئی پتہ نہیں لگ سکا۔ غرض جب اللہ تعالیٰ نے اُس کو سمجھایا تو اُس نے اِس قدر جوش سے تبلیغ کی کہ جس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔ پس کہیں کہیں ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ (الفضل ۸۔نومبر ۱۹۳۶ء)
۱؎ النحل: ۳۶ ۲؎ المائدۃ: ۶۸ ۳؎ الاعلٰی: ۱۰
۴؎ موضوعات مُلّاعلی قاری صفحہ ۳۵۔ مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ
۵؎ بخاری کتاب المغازی باب اَینَ رَکَزَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ عَلَیہ وسَلم الرایۃ یوم الفتح۔
۶؎ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَاکان النّبیّ صلی اللّٰہ عَلَیہ وسَلم یعطی المؤلفۃ قلوبھم (الخ)
۷؎ ترمذی ابواب المناقب۔ باب مناقب ابی بکر الصدیق
۸؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ الجزء الثالث صفحہ۳۱۷۔ مطبوعہ مصر ۱۲۸۶ھ
۹؎ ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب اعقلھاوتوکل
۱۰؎ المؤمن: ۶۱ ۱۱؎ التوبۃ: ۶


حکومتِ برطانیہ کا تازہ انقلاب اور الفضل



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
حکومتِ برطانیہ کا تازہ انقلاب اور الفضل
(تحریر فرمودہ ۲۰دسمبر۱۹۳۶ء)
۱۴۔دسمبر کے ’’الفضل‘‘ میں ایک افتتاحیہ ’’حکومتِ برطانیہ میں تازہ انقلاب‘‘ کے نام سے چھپا ہے میں اِس کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گو جو کچھ ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوتا ہے ضروری نہیں کہ میری نظروں سے گزرے نہ یہ ضروری ہے کہ اسے پڑھ کر اگر مجھے اختلاف ہو تو میں اس اختلاف کا اظہار کروں۔ کیونکہ ’’الفضل‘‘ اجمالی طور پر جماعت احمدیہ کا ترجمان ہے نہ کہ تفصیلی طور پر۔ تفصیلی طور پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر اختلاف پر گرفت کی جائے۔ بعض باتوں کو ایسی اہمیت نہیں دی جاتی کہ علم ہو جانے پر بھی ان کی تردید کی جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مقالہ کی تردید ضروری ہے کیونکہ اس میں بعض اصول کا سوال ہے۔
’’الفضل‘‘ کے افتتاحیہ کا خلاصہ یہ ہے سابق بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک عورت کی خاطر ملک کو چھوڑ کرکوئی قابلِ تعریف کام نہیں کیا۔ ان کو مجبور اور قابلِ ہمدردی سمجھا جا سکتا ہے لیکن ایثار اور قربانی کرنے والا نہیں کیونکہ چھوٹی چیز بڑی چیز کیلئے قربان کی جا سکتی ہے نہ کہ بڑی چھوٹی کیلئے اور اس کی تائید میں ’’الفضل‘‘ نے آرچ بشپ آف کنٹر بری کے بعض فقروں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جو یہ ہیں۔
’’ایڈورڈ ہشتم کو خدا کی طرف سے ایک اعلیٰ اور مقدس امانت ملی تھی مگر انہوں نے یہ امانت دوسروں کے حوالے کر دینے کیلئے اپنی مخصوص صاف بیانی سے کام لیا۔وہ ہر اقدام ذاتی خوشی کے حصول کیلئے کر رہے تھے۔ یہ امر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اس قسم کے مقصد کے پیشِ نظر اتنی بڑی امانت کو چھوڑ دیا۔‘‘
کاش !’’الفضل‘‘ کا افتتاحیہ نگار آرچ بشپ آف کنٹر بری کے فقروں پر انحصار کرنے کی بجائے واقعات پر غور کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچنے سے محفوظ رہتا جو اس نے اب نکالا ہے۔ جو واقعات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ :۔
(۱) مسز سمپسن کی واقفیت شاہی خاندان سے نئی نہیں وہ شاہ جارج پنجم کے سامنے بھی پیش کی جا چکی ہیں اور اُسی وقت سے ان کی آمددر باری حلقوں میں ہے۔
(۲) سابق شاہ ایڈورڈ ہشتم بھی ان سے آج ملنے نہیں لگے بلکہ مئی ۱۹۳۶ء سے ان کے تعلقات مسز سمپسن سے نہایت گہرے تھے حتٰی کہ امریکن اخبارات میں مسز سمپسن کی طلاق کے وقوعہ سے پہلے یہ مضامین شائع ہو رہے تھے کہ اب مسز سمپسن طلاق لے لیں گی اور غالباً شاہ ایڈورڈ ہشتم سے شادی کریں گی۔ وہ دیر سے شاہی دعوتوں میں بلائی جاتی تھیں جن میں خود وزیراعظم بھی شامل ہوتے تھے، وہ اکثر اوقات شاہی قلعہ میں رہتی تھیں اور شاہی موٹر ان کی خدمت پر مأمور تھے۔ان سب واقعات کو انگلستان جانتا تھا، آرچ بشپ صاحب جانتے تھے، وزیراعظم جانتے تھے مگر سب خاموش تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟
(۳) مسز سمپسن کو انگریزی عدالت میں طلاق ملی، ان کی طلاق کے وقت پولیس کی خاص نگرانی کا انتظام کیا گیا، پریس کو فوٹو شائع کرنے سے روکا گیا۔ ایک معمولی برو کر کی بیوی کی طلاق پر اس قدر احتیاطیں کیوں برتی گئیں۔ اگر حکومتِ برطانیہ ان واقعات سے واقف نہ تھی جو شاہی قصر میں رونما ہو رہے تھے تو اسے مسز سمپسن کی طلاق پر اس قسم کی احتیاطیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی اور اس نے وہ احتیاطیں کیوں برتیں؟ کیا ایک ڈیوک (DUKE) ۱؎ کی بیوی کی طلاق پر بھی انگلستان میں ایسی احتیاطیں برتی گئی ہیں۔ کیا اس واقعہ کی موجودگی میں حکومت کا کوئی افسر کہہ سکتا ہے کہ اسے صرف امریکہ کے اخبارات سے یہ حالات معلوم ہوئے۔
(۴) اگست میں بادشاہ سیر کیلئے جہاز پر گئے، مسز سمپسن بغیر خاوند کے ساتھ تھیں، دنیا بھر کو معلوم تھا۔ کیا اُس وقت کسی نے احتجاج کیا؟ اوّل تو شائع شدہ واقعات سے ثابت نہیں کہ ایسا احتجاج ہؤا ہو لیکن اگر کوئی احتجاج ہؤا تھا تو وہ ایسا کمزور تھا کہ کسی کو کانوں کان معلوم نہیں ہوا۔ حتٰی کہ آج اس جھگڑے کے وقت میں بھی اِس کا ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں صاف تسلیم کیا ہے کہ پہلی دفعہ انہوں نے بادشاہ سے اکتوبر کے آخر میں بات کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگست کے سفر کے موقع پر وہ بالکل خاموش رہے۔ وزیراعظم کہتے ہیںکہ اِس کا باعث یہ تھاکہ بہت سے اخبارات کے کٹنگ ان کو بھجوائے گئے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے ایسی چہ میگوئیاں شروع تھیں اور یقینا وہ لوگ حالات سے واقف تھے جو شاہی دعوتوں میں مسز سمپسن کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ آخر یہ جھگڑا شروع ہوتا ہے بشپ آف بریڈفورڈ کی ایک تقریر پر جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ کو مذہب کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ بشپ کا یہ کہنا تھا کہ شمالی انگلستان کے اخبارات نے سب سے پہلے شور مچایا اور پھر سارے انگلستان نے شور مچانا شروع کر دیا کہ بشپ آف بریڈ فورڈ نے مسز سمپسن کی شادی کے متعلق اشارہ کیا ہے اور اس معاملہ کے متعلق سختی سے جرح شروع کر دی گئی۔ لطیفہ یہ ہے کہ بشپ آف بریڈ فورڈ نے اس مفہوم کا انکار کیا لیکن یہ مخالف اخبارات برابر شور مچاتے گئے کہ نہیں بشپ صاحب اب جُھوٹ بول رہے ہیں۔ اصل میں انکا یہی مطلب تھا اور اس سے بھی زیادہ لطیف بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ان کی تعریف بھی کی جا رہی تھی کہ بشپ صاحب نے دلیری میں کمال کر دیا کہ ملک کو اس کی ایک اہم ذمہ واری کی طرف متوجہ کر دیا اور یہ بھی ساتھ کہا جا رہا تھا کہ ان کا بعد کا انکار غلط ہے اور اب وہ صرف پردہ ڈال رہے ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ باوجود اعلیٰ مذہبی پیشوا ہونے کے جھوٹ بول رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ دلیری اور جھوٹ ایک ہی وقت میں کیونکر جمع ہو گئے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بشپ بے چارے نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا۔ اس کا مطلب مسز سمپسن کی شادی کی طرف اشارہ کرنا نہ تھا بلکہ یہی تھا کہ بادشاہِ معظّم کو مذہبِ عیسوی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔
خدا بھلا کرے کرنل وجوڈ ممبر پارلیمنٹ کا کہ انہوں نے عین پارلیمنٹ میں اِس راز کو فاش کر دیا کہ مسز سمپسن کی شادی تو ایک اتفاقی امر تھا جو پیدا ہو گیا اصل سوال یہی تھا کہ بادشاہ عیسوی مذہب کے پوری طرح قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ جب پارلیمنٹ میں مسز سمپسن کی شادی کا مسئلہ زیر بحث تھا کرنل وجوڈ صاحب کھڑے ہوئے اور سادگی سے اصل بحث کے متعلق تقریر شروع کر دی اور صاف کہہ دیا کہ صاحبان تاج پوشی کی رسم پر اگر ہمارے پیارے بادشاہ نے مذہبی رسوم ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے تو اس پر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ تاج پوشی کے معنی صرف تاج پوشی کے ہیں، یہ کوئی مذہبی عبادت تو ہے نہیں کہ اگر آرچ بشپ آف کنٹر بری نے برکت نہ دی تو بس عبادت خراب ہو گئی۔ اگر ہمارا بادشاہ مذہبی رسم کو غیر ضروری قرار دے کر اس سے منکر ہے تو ا س پر اس قدر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ اور اگر کنٹربری اور یارک کے آرچ بشپ اور ہمارے وزیراعظم اس کو مذہبی ہتک خیال کرتے ہوئے کارونیشن کی رسوم میں شامل ہونے سے انکار کریں تو ہمیں اس پر بھی بُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ ان کا اپنا کام ہے ہمارا حق نہیں کہ جبر کریں۔ اور ان کی غیر حاضری کے معنی ہرگز یہ نہ لئے جائیں کہ وہ بادشاہ کے وفادار نہیں۔ انہیں غیرحاضری کے باوجود یونہی سمجھا جائے کہ گویا انہوں نے حلفِ وفاداری لے ہی لیا ہے۔ غرض نہ تو ان رسوم کے ادا کرنے کے انکار پر بادشاہ سلامت کی تخت نشینی میں کوئی کمزوری سمجھی جائے اور نہ ان لوگوں کو باغی سمجھا جائے جو اپنے خاص مذہبی عقائد کی وجہ سے تاج پوشی کی رسم کی شمولیت کو پسند نہ کریں۔
اس تقریر نے واقعات سے مل کر بالکل واضح کر دیا کہ مسز سمپسن کا واقعہ اصل متنازعہ فیہ امر نہ تھا یہ تو ناراضگی کے اظہار کا ایک اتفاقی موقع بہم پہنچ گیا اصل واقعہ یہ تھا کہ جب کارونیشن کی رسوم کی تفصیل طے کرنے والی کمیٹی بیٹھی اور اس نے بادشاہ کے سامنے اپنی رپورٹ رکھی تو بادشاہ نے مذہبی رسم کا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا اس لئے مجھے معذور سمجھا جائے۔ جب یہ بات وزراء کو اور پادریوںکو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے بُرا منایا اور بعض مذہبی وزراء نے اور پادریوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پھر اس تقریب میں شامل نہ ہوں گے۔ چنانچہ آرچ بشپ آف کنٹر بری نے صاف انکار کر دیا اور گو ہندوستان کے اخبارات میں یہ بات شائع نہیں ہوئی لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ اس انکار پر سابق بادشاہ خود موٹر میں بیٹھ کر آرچ بشپ کو ملنے کیلئے گئے اور ان سے اصرار کیا کہ آپ کو میرے مذہبی عقیدہ سے کیا تعلق ہے تاج پوشی کی رسم ایک دُنیوی رسم ہے آپ اس میں شمولیت سے کیوں انکار کرتے ہیں مگر وہ اپنے اصرار پر قائم رہے جیسا کہ اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ انہی دنوں ملکہ میری سے بھی آرچ بشپ صاحب کی ایک لمبی ملاقات ہوئی تھی اور واقعات سے اگر نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملاقات کی غرض یا تو یہ تھی کہ آرچ بشپ صاحب ملکہ کے ذریعہ بادشاہ پر اثر ڈالنا چاہتے تھے یا ملکہ اپنے بیٹے کے حق میں آرچ بشپ صاحب کو راضی کرنا چاہتی تھیں۔ بہرحال یہ ایک ناقابلِ تردید واقعہ ہے کہ مسز سمپسن کے ساتھ متعلقہ واقعات پر باوجود علم کے خاموشی اختیار کی جاتی تھی حتّٰی کہ وہ دن آ گیا جب بادشاہ نے ایک اہم مذہبی رسم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب فوراً مسزسمپسن کے واقعات پر بشپ بریڈفورڈ کی طرف منسوب کر کے جرح شروع ہو گئی حالانکہ بشپ بریڈ فورڈ مسز سمپسن کے واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے خود انکاری ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ میں نے تو یہی کہا تھا کہ بادشاہ مذہب کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں اور مذہبی رسوم میں حصہ نہیں لیتے اور اس سے زیادہ میرا منشا نہ تھا۔
بشپ کے اس انکار سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے درحقیقت اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا جس کا میں اوپر ذکر آیا ہوں لیکن یا تو سکاٹ لینڈ کے اخبارات نے ان کے مضمون کو غلط سمجھا یا مصلحتاً ان کے اشارہ کو نظرانداز کر کے ایک اور امر کی طرف منسوب کر دیا تا کہ اصل مسئلہ زیر بحث نہ آئے۔ کیونکہ دنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کہ بادشاہِ انگلستان بعض یا کُل رسومِ مسیحیت پر یقین نہیں رکھتے ایک ایسی بات تھی جسے پادری مسیحیت کیلئے سخت مُضِرّ سمجھتے تھے اور اسے زیر بحث نہیں لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے بعد کے اعلان میں اشارۃً بشپ آف بریڈ فورڈ کو تنبیہہ کی ہے کہ انہوں نے کیوں اس مسئلہ پر عام مجلس میں روشنی ڈالی اور شاہ ایڈورڈ ہشتم کی دست برداری کے بعد تو انہوں نے واضح الفاظ میں خود ہاؤس آف لارڈز میں کہہ دیا کہ وہ خوش ہیں کہ اب وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی میں بِلاضمیر کشی کے شامل ہو سکیں گے۔ جس کے صاف معنی ہیں کہ ان کے دل پر یہ گراں گزر رہا تھا کہ سابق بادشاہ نے تخت نشینی کے موقع پر ایک اہم مذہبی رسم کے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ان حالات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ مسز سمپسن کے تعلقات پر غصہ حقیقی نہ تھا کیونکہ وہ تعلقات بہت پرُانے تھے اصل غصہ بعض لوگوں کو یہ تھا کہ بادشاہ نے ایک مذہبی رسم کو تاج پوشی کے متعلق کیوں منسوخ کر دیا ہے۔ مسز سمپسن کا ذکر بعض اخبارات نے دیدہ دانستہ اس لئے چھیڑ دیا تا کہ مذہب کا سوال زیر بحث نہ آئے یا بشپ بریڈ فورڈ کی تقریر کو غلط سمجھ کر ایسا کیا اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اہم تھا اس نے فوراً ایک اہمیت اختیار کر لی۔
اس تمہید کے بعد میں کہتا ہوں کہ کیا سوال یہ تھا کہ بادشاہ ایک عورت کو قبول کریں یا بادشاہت کے فرائض کو۔ یا یہ تھا کہ بادشاہ ایک ایسے اصل کو اختیار کریں جو بادشاہت سے بھی زیادہ تھا۔ یا بادشاہت کو۔ یقینا سوال بادشاہت اور عورت کا نہ تھا بلکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ سوال دو اصول کا تھا۔ پادریوں اور ان کے ہمدردوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا تھا کہ ایک بادشاہ جسے ڈیفنڈر آف فیتھ(DEFENDER OF FAITH) کہا جاتا ہے یعنی محافظِ عیسائیت، اگر وہی بعض مذہبی رسوم کے ادا کرنے سے انکار کر دے تو ملک کی طاقت اور اس کے اتحاد کا کیا باقی رہ جاتا ہے اور بادشاہ کے دل میں یہ سوال تھا کہ جس چیز کو میرا دل نہیں مانتا میں اسے کس طرح حکومت کی خاطر تسلیم کر لوں۔ اِس حد تک دونوں فریق اپنے اپنے اصول کی تائید میں جھگڑ رہے تھے اور ہم دونوں میں سے کسی کو ملامت نہیں کر سکتے۔ اور اگر اس امر کے خیال سے کہ یہ جھگڑا کئی صورتوں میں آئندہ بھی ظاہر ہوتا رہے گا، بادشاہ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ مسز سمپسن کی بحث کے موقع پر ہی اس قضیہ کو ختم کر دینا چاہئے تو یقینا انہوں نے ایک اصل کی خاطر قربانی کی۔
ہمیں اِس وقت تک نہیں معلوم کہ سابق بادشاہ کے اصل عقائد کیا تھے۔ آیا صرف عیسائیت کے خلاف یا مذہب کے خلاف؟ اس لئے ہم ان کی تردید یا تائید نہیں کر سکتے لیکن ہم یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ ان کا جو کچھ بھی عقیدہ تھا، انہوں نے اس کی خاطر ایک عظیم الشان بادشاہت کو چھوڑنا پسند کیا، اور یہ امر یقینا ایک قربانی ہے اس کا انکار کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ باقی رہا ان کا عقیدہ، سو ممکن ہے کہ وہ غلط ہو لیکن ایک غلط عقیدہ کیلئے بھی جو قربانی کی جائے، وہ قربانی ہی ہوتی ہے۔ جنہوں نے بُتوں کی خاطر جان دی، ہم اُن کی قربانی کو غلط قربانی کہیں گے لیکن ہم اِس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ دیانت دار لوگ تھے۔ اور اپنے غلط عقیدہ کیلئے جسے وہ سچا سمجھتے تھے،انہوں نے اپنی جان تک قربان کر کے ثابت کر دیا کہ ان کی روح بلندی کے حصول کیلئے بے تاب تھی گو بعض گناہوں کی شامت کی وجہ سے وہ ہدایت نہ پاسکے۔ اسی طرح سابق بادشاہ کا معاملہ ہے۔ یعنی بوجہ علم نہ ہونے کے ہم ان کے عقائد کی نسبت گو کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف بادشاہت تھی اور ایک طرف ان کے ذاتی عقائد، انہوں نے سب سے پہلا موقع جو ان کو ملا جس میں وہ بادشاہت کو ترک کر سکتے تھے، اسے ضائع نہ کرتے ہوئے تخت سے دست برداری دے دی۔
معاملہ کی اس منزل تک ہم پادریوں پر بھی الزام نہیں لگا سکتے، ان کی ایک حکومت تھی اور اس کی مذہبی شکل کو قائم رکھنا ان کا فرض تھا، انہوں نے اس حد تک جو کچھ کیا وہ درست تھا۔
اب مَیں اس معاملہ کو لیتا ہوں جو ذریعہ بن گیا اس جھگڑے کے فیصلہ کا، جو اندر ہی اندر چل رہا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ گو مذہب کا جھگڑا بھی جاری تھا لیکن بادشاہ نے تخت چھوڑا تو مسز سمپسن کی شادی کے سوال پر ہے، پھر اسے قربانی کیونکر کہا جا سکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں، درحقیقت شادی کے سوال کو اہم، مذہبی سوال نے بنا دیا تھا اور اسے بادشاہ بھی خوب سمجھتے تھے۔ پس درحقیقت فیصلہ کی بناء ان اثرات پر تھی جو وہ خیالات پیدا کر رہے تھے جو مذہبی جھگڑے کے نتیجہ میں بادشاہ کے دل میں پیدا ہو رہے تھے۔ دوم یہ کہ اس شادی کا سوال بھی ایک اصولی سوال تھا۔ پادریوں کو اس شادی پر یہ اعتراض نہ تھا کہ مسز سمپسن کے اخلاق اچھے نہیں۔ اس بارہ میں سب لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ یہ عورت طلاق یافتہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے طلاق کس نے دی تھی؟ کیا انگلستان کے اس قانون نے نہیں جسے پارلیمنٹ پاس کر چکی ہے۔ اگر طلاق بُری شَے ہے تو پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیوں کیا تھا؟ اور اگر بُری نہیں تو بادشاہ کی شادی پر اعتراض کیوںتھا اور کس قانون کے ماتحت تھا؟ یہ امر بارہا واضح ہو چکا ہے کہ سابق بادشاہ قانون کے مطابق شادی کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر یہ کہنا کہ بادشاہ نے بادشاہت کو ایک عورت کی خاطر چھوڑ دیا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ مقابلہ تو اُن دو چیزوں کا ہوتا ہے جو ایک وقت میں جمع نہ ہو سکیں۔ جب قانون بادشاہ کو شادی کا پورا اختیار دیتا تھا تو پھر شادی کی خاطر انہوں نے تخت کو کس طرح چھوڑا؟ غرض سوال یہ نہ تھا کہ بادشاہ شادی کریں یا تخت پر رہیں بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور سوال تھا جس کی وجہ سے بادشاہ کو یہ طریق اختیار کرنا پڑا اور وہ سوال یہ تھا کہ ان پر یہ زور ڈالا جاتا تھا کہ اگر ایک مطلقہ عورت سے آپ نے شادی کی تو ملک کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔ جو لوگ طلاق کے قائل نہیں، وہ اس کی برداشت نہ کر کے حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ اور خصوصاً آئر لینڈ اور کینیڈا کا نام لیا جاتا تھا کہ ان میں کثرت رومن کیتھلکوں کی ہے جو طلاق کو نہیں مانتے اگر ایسی شادی ہوئی تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ بادشاہ کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ جب ملک نے طلاق کو جائز قرار دے دیا ہے تو بادشاہ اور غیر بادشاہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ میں اگر اپنا جائز حق استعمال کرتا ہوں تو کسی کو اس پر ناراضگی کیوں ہو۔ آخر مَیں اپنے اس فعل سے ملک کو کیا نقصان پہنچاتا ہوں۔ وزراء کا جواب یہ تھا کہ شادی کے متعلق آپ کا اختیار ہے مگر ہم آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ شادی کی تو ملک کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔ خود ہمارے ملک میں بھی گو قانونِ طلاق پاس ہو چکا ہے مگر پادری اسے صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ پس ملک میں بھی اور ملک کے باہر بھی فساد ہوجائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سابق بادشاہ ایامِ بادشاہت میں یہ شادی کرتے تو ضرور فساد ہو جاتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بادشاہ کے خلاف شور کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے اور بادشاہ کی تائید کرنے والے زیادہ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے مقبول اخبار جو پچاس پچاس لاکھ شائع ہوتے ہیں، سب بادشاہ کے حق میں تھے اور بعض ممبرانِ پارلیمنٹ نے تو پارلیمنٹ میں صاف کہہ دیا تھا کہ اگر بادشاہ نے شادی کی اور ملک سے رائے لی گئی تو ملک بادشاہ کے حق میں رائے دے گا۔ اور اِس وقت بھی جو ملک میں سابق بادشاہ کے خلاف عام ناراضگی ہے وہ اِس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے عورت کی خاطر بادشاہت چھوڑی، بلکہ اکثریت کو یہ ناراضگی ہے کہ کیوں انہوں نے شادی نہ کر لی اور ہم پر اعتبار نہ کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق بادشاہ نے پھر کیوں شادی نہ کی اور بادشاہت سے دست بردار ہوگئے۔ یا پھر کیوں تخت چھوڑا اور شادی کا خیال نہ چھوڑا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بادشاہ کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ اگر تخت پر رہتے ہوئے مَیں نے شادی کی تو ملک میں فساد ضرور ہو گا گو اکثریت میرے ساتھ ہو گی لیکن پھر بھی ایک زبردست اقلیت مقابلہ پر کھڑی ہو جائے گی اور اسی طرح بعض نو آبادیاں بھی شورش پر آمادہ ہو جائیں گی۔ بادشاہ نے آخری جِدّوجُہد یہ کی کہ وزراء سے کہہ دیا کہ آپ لوگوں کو ایک مطلقہ عورت کے ملکہ ہونے پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔ سو میں اس کیلئے بھی تیار ہوں کہ ایک خاص قانون بنا دیا جائے کہ میری بیوی ملکہ نہ ہو گی لیکن وزارت نے اس سے بھی انکار کیا۔ پس صورتِ حالات یہ پیدا ہو گئی کہ ایک طرف تو اس مشکل کا واحد حل کہ بادشاہ کی بیوی ملکہ نہ ہو، وزارت نے مہیا کرنے سے انکار کر دیا، دوسری طرف بادشاہ دیکھ رہے تھے کہ میرے سامنے دو چیزیں ہیں، ایک طرف ملک نہیں بلکہ ملک کی ایک اقلیت کی خواہش کہ ایک مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئے اور دوسری طرف یہ سوال کہ ایک عورت جو مجھ سے شادی کیلئے تیار ہے اور جس سے شادی کا مَیں وعدہ بھی کر چکا ہوں، اُس کو اس وجہ سے چھوڑ دوں کہ چونکہ تُو مطلقہ ہے اس لئے میرے ساتھ شادی کے قابل نہیں۔ ایک طرف ایک اقلیت ہے جسے قانون کوئی حق نہیں دیتا اور دوسری طرف ایک ایسے وجود کو زیرِالزام لا کر چھوڑنا ہے جسے قانون شادی کا حق بخشتا ہے۔ یقینا ایسی صورت میں بادشاہ کیلئے ایک ہی راستہ کُھلا تھا کہ وہ اُس کا ساتھ دیتے جس کے ساتھ قانون تھا لیکن چونکہ ایسا کرنے میں ملک میں فساد کا اندیشہ تھا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس عورت کی بے عزتی نہیں ہونے دوں گا جس سے میں نے وعدہ کیا ہے اور میں ملک میں فساد بھی نہیں ہونے دوں گا۔ پس ان دونوں صورتوں کے پیدا کرنے کیلئے میں وہ قدم اُٹھاؤں گا جس کے اُٹھانے کیلئے غالباً بہت سے لوگ تیار نہ ہوں گے۔ یعنی میں بادشاہت سے الگ ہو کر ملک کو فساد سے اور اپنی موعووہ بیوی کو ذلّت سے بچا لوں گا،اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان حالات میں یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ایک عورت کی خاطر چھوڑ دیا اگر ملک کی اکثریت کا مطالبہ یہ ہوتا کہ وہ اُس عورت کو چھوڑ دیں یا قانون کا مطالبہ یہ ہوتا کہ وہ اُس عورت کو چھوڑ دیں تو بیشک ہم کہہ سکتے تھے کہ بادشاہ نے ایک عورت کی خاطر ملک کو چھوڑ دیا مگر ملک کی اکثریت بادشاہ کی تائید میں تھی جس کا ثبوت مقبول پریس کی تائید سے اور ان مظاہرات سے ملتا ہے جو اُن دنوں کئے گئے اور قانون بھی ان کی تائید میں تھاکیونکہ قانون نے طلاق کو جائز قرار دے کر مطلقہ عورت کی حیثیت کو سوسائٹی میں قائم کر دیا ہے۔ پس جب ملک اور قانون بادشاہ کی تائید میں تھے تو ثابت ہؤا کہ بادشاہ نے ملک کو عورت کی خاطر نہیں چھوڑا بلکہ ملک کو فساد سے بچانے کیلئے اور قانون کی عزت کے قیام کیلئے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے بادشاہت کو چھوڑا، اور یہ یقینا ایک قربانی ہے اور اس معاملہ میں ان پر اعتراض کرنے والے پادری یقینا غلطی پر تھے اور ہیں۔
کیا یہ بات سمجھنی ہمارے لئے مشکل ہے کہ ان پادریوں کی نیت ہرگز درست نہیں ہو سکتی جو اُس وقت تک خاموش رہے جب تک کہ بادشاہ کے تعلقات خواہ محدود طور پر لیکن آزادانہ طور پر مسز سمپسن سے قائم تھے لیکن جب وہ اُس سے شادی کرنے لگے اور اپنے تعلق کو قانون اور اخلاق کی حدود میں لانے لگے تو ان پادریوں نے شور مچا دیا کہ بادشاہ کا یہ فعل ہم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ جس عورت کا پہلا خاوند زندہ ہو، وہ ہماری ملکہ کیونکر ہو سکتی ہے۔ بعض نادانوں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ بادشاہ چاہیں تو پرائیویٹ تعلقات اس عورت سے رکھ سکتے ہیں لیکن شادی کر کے مطلقہ عورت کو عزت بخشنا ان کیلئے جائز نہیں۔ کیا ایسے لوگوں کی باتوںکو ہم معقول کہہ سکتے ہیں۔
غرض گو پہلے اور اصل جھگڑے میں جو مذہب کے متعلق تھا بادشاہ اور پادری دونوں ہی قانون اور فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے حق پر تھے لیکن مسز سمپسن کی شادی کے سوال میں صرف بادشاہ حق پر تھے اور ان پر اعتراض کرنے والے ملک کی اکثریت اور ملک کے قانون کے خلاف چل رہے تھے۔ اگر سابق بادشاہ ،بادشاہ رہتے ہوئے یہ شادی کر لیتے تو قانون یقینا ان کی طرف ہوتا، ملک کی اکثریت یقینا ان کی طرف ہوتی لیکن فساد ضرور ہوتا اور اسی سے بچنے کیلئے انہوں نے تخت کو چھوڑ دیا۔
ہمارے لئے تو یہ سوال ایک اور طرح بھی اہم ہے اور وہی اِس وقت میرے مضمون لکھنے کا موجب ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس واقعہ سے ہمارے آنحضرت ﷺ کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور آپ پر لگائے جانے والے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض دُور ہوا ہے۔ پیشگوئی تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں عیسائیت آپ ہی آپ پِگھلنی شروع ہو جائے گی۔ ۲ــ؎ ا س پیشگوئی کے پورا ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت میں یعنی دنیا کی اس واحد حکومت میں جس کے بادشاہ کو محافظِ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایسے تغیرات پیدا ہو رہے ہیں کہ اس کے ایک نہایت مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسوم ادا کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ان میں یقین نہیں رکھتا۔ اور اعتراض جس کا ازالہ ہؤا ہے یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے طلاق کو جائز قرار دیا اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی کیونکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ طلاق کی ضرورت اب اس شدت سے تسلیم کی جاتی ہے اور مطلقہ عورت کی عزت کو جبکہ وہ اخلاقی الزام سے متہم نہ ہو اس صفائی سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اِس سوال کو حل کرنے کیلئے اپنی بادشاہت تک کو ترک کرنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔
ایک برطانوی مسلمان کا دل اُس وقت کس طرح خوشی سے اُچھل رہا تھا جبکہ وہ گزشتہ واقعات کوپڑھتے ہوئے یہ دیکھتا تھا کہ عیسائیت کے خلاف وہی نہیں بلکہ اُس کا بادشاہ بھی لڑ رہا ہے اور اسلام کے کمینہ دشمن کے اعتراض کو وہی دور نہیں کر رہا بلکہ اس کا مسیحی کہلانے والا بادشاہ بھی اس اعتراض کی لغویت ثابت کرنے کیلئے اپنے تخت کو چھوڑنے کو تیار ہے۔
پادری سمجھتے ہیں کہ وہ اِس جنگ میں کامیاب رہے ہیں لیکن ایڈورڈ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی کیونکہ وہ پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی۔ یہ بیج بڑھے گا اورایک دن آئے گا کہ انگلستان نہ صرف اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کو جائز قرار دے گا بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی وہ اسلامی تعلیم کے مطابق قانون جاری کرنے پر مجبور ہو گا۔ بادشاہ آخر کیا ہوتا ہے؟ ملک اور قوم کا خادم اور خادم اپنے آقا کیلئے جان دیا ہی کرتے ہیں۔ ایڈورڈ نے اپنی قربانی دے کر آئندہ عمارت کی پہلی اینٹ مہیا کی ہے۔ اس کے بعد دوسری اینٹیں آئیں گی اور ایک نئی عمارت تیار ہو گی جس پر انگلستان بجا طور پر فخر کر سکے گا۔
خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ شاہ ایڈورڈ کے آخری ایّامِ حکومت میں ان کے خیالات کی رَوکس طرف کو جارہی تھی لیکن جو کچھ واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ خیال کرتے تھے کہ مجھے اپنے ملک کے مذہب سے پوری طرح یا جُزوی طور پر اختلاف ہے۔ بعض بڑے پادریوں کو مجھ سے شدید اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔ جب وہ ایک ایسے امر سے مجھے روک رہے ہیں جس کی قانون اجازت دیتا ہے تو کَل وہ مجھ سے اور کیا کچھ مطالبہ نہ کریں گے۔ اس وقت ملک میرے ساتھ ہے ممکن ہے کَل کوئی ایسا سوال پیدا ہو کہ ملک بھی میرے خلاف ہو پھر ان حالات میں کیوں ملک کی اقلیت کی خاطر میں اپنے وعدہ کو ترک کروں اور ایک عورت کو دنیا بھر میں اس الزام سے مطعون کروں کہ دیکھو! یہ وہ عورت ہے جس سے ایڈورڈ نے اس وجہ سے شادی نہ کی کہ وہ مطلقہ تھی۔ پس کیوں نہ میں اِس جھگڑے کا آج ہی خاتمہ کر دوں اور ملک کو آئندہ فسادات سے بچا لوں اِس کے برخلاف وہ پادری جو سابق بادشاہ کی مخالفت کر رہے تھے، ان کے خیالات کی رَو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بادشاہ مذہبِ عیسویت سے متنفّر معلوم ہوتا ہے۔ آج موقع ہے آئر لینڈ اور کینیڈا کیتھولک مذہب کے زور کی وجہ سے مسئلہ طلاق میں تعصّب رکھتے ہیں۔ اگر اس وجہ سے ہم بادشاہ کا مقابلہ کریں تو جن دو نتائج کے نکلنے کا امکان ہے، دونوں ہمارے حق میں مفید ہوں گے۔ اگر بادشاہ دب گئے تو آئندہ کو ہمارا رُعب قائم ہو جائے گا اور اگر بادشاہ تخت سے الگ ہو گئے تو ہمارے راستہ سے ایک روک دور ہو جائے گی۔
خیالات کی ان دونوں رَوؤں کا مقابلہ کر لو اور پھر سوچ لو کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ ’’آہ! (ایڈورڈ ہشتم پر) کس قدر افسوس ہے۔ آہ! کِس قدر افسوس ہے۔‘‘ یا یہ کہنا درست ہے کہ ان پادریوں پر جنہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ایک خادمِ قوم اور مخلص بادشاہ کو باوجود اِس کے کہ قانون اُس کے حق میں تھا تخت سے علیحدہ ہونا پڑا، افسوس ہے آہ! کس قدر افسوس ہے۔
خلاصہ یہ کہ بادشاہ کے ساتھ بعض لوگوں کا (انگلستان کا نہیں) جھگڑا وہ نہیں تھا جو بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں بلکہ مذہب اور قانون کے احترام کا جھگڑا تھا۔ بادشاہ اپنے منفرد مذہب پر اصرار کرتے تھے اور پادری قومی مذہب پر۔ (حالانکہ قومی مذہب مذہب نہیں سیاست ہے جبکہ اس کا اثر اصولی مسائل پر بھی پڑتا ہو) اور بادشاہ قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون پر عمل کرنے کو تیار تھے لیکن ان کے مخالفوں کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون دکھاوے کیلئے ہے، عمل کرنے کیلئے نہیں۔ قانون طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر مذہب نہیں۔ بادشاہ چونکہ مسیحیت کے کُلّی طور پر یا جُزوی طور پر قائل نہ رہے تھے انہوں نے قانون پر زور دیا جو اُن کی ضمیر کی آواز کی تصدیق کرتا تھا اور آخر ملک کو فساد سے بچانے کیلئے تخت سے دست برداری دے دی۔
بعض احباب جو ایک حد تک واقعات کی تہہ کو پہنچے ہیں، اِن حالات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ زندہ باد ایڈورڈ۔ یہ بھی درست ہو گا۔ مگر میں تو اِن حالات کے محرکات کو دیکھتے ہوئے یہی کہتا ہوں۔
محمدؐ زندہ باد! زندہ باد محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)
خاکسار
میرزا محمود احمد
۲۰دسمبر۱۹۳۶ء
(الفضل۲۲دسمبر ۱۹۳۶ء)
‏ ۱؎ DUKE GRAND
۲؎ مسلم کتاب الفتن باب فی فتح قسطنطنیۃ وخروج الدجال ونزول عیسی ابن مریم







جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ وبُکا کرنے کا نتیجہ ہے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ وبُکا کرنے کا نتیجہ ہے
(تقریر فرمودہ ۲۶ ۔دسمبر۱۹۳۶ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سب سے پہلے تو مَیں ان تمام بھائیوں کو جو جلسہ سالانہ کی شمولیت کیلئے بیرون جات سے تشریف لائے ہیں، اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہوں۔
اس کے بعد دعا کے ساتھ اس جلسہ کا افتتاح کرنے سے پہلے مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے قریباً چالیس سال پہلے اُس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں، ایک ٹُوٹی ہوئی فصیل ہؤا کرتی تھی۔ ہمارے آباء و اجداد کے زمانہ میں قادیان کی حفاظت کیلئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی جو خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈّا اس پر چل سکتا تھا۔ پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تُڑوا کر نیلام کر دیا تو اُس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا تھا۔ وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی۔ میں نہیں کہہ سکتا اُس وقت ۱۸۹۳ء تھا یا ۱۸۹۴ء یا ۱۸۹۵ء ۔ قریباً قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا، یہی دن تھے، یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا۔ کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے یہ جماعت یاد نہیں کی جاتی تھی مگر یہی مقاصد اور یہی مدّعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے۔ میں نہیں کہہ سکتا آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی یا کارروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا اور بعض مسجد میں۔ کیونکہ میری عمر اُس وقت سات آٹھ سال کی ہو گی اِس لئے مَیں زیادہ تفصیلی طور پر اِس بات کو یاد نہیں رکھ سکا، میں اُس وقت اِس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے اِرد گرد دَوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا۔ میرے لئے اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں۔ اُس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے اور اِردگِرد وہ دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو، دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ایک ہی دری تھی۔ اُس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ڈیڑھ سَو ہوں گے یا دو سَو اور بچے ملا کر اُن کی فہرست اَڑھائی سَو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی۔ وہ لوگ جمع ہوئے تھے اِس نیت اور اِس ارادہ سے کہ اسلام دنیا میںنہایت ہی کمزور حالت میںکر دیا گیا ہے۔ اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہو سکتی اُسے بجھانے کیلئے لوگ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں اور ظلمت اور تاریکی کے فرزند اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اِس ایک ارب اور پچیس تیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں دو اڑھائی سَو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے، جن میں سے بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی متوسّط درجہ کے کہلا سکیں، جمع ہوئے تھے اِس ارادہ اور اِس نیت سے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگر اسے نیچا نہ ہونے دیں گے۔ اِس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کے سمندر کے مقابلہ کیلئے دو اڑھائی سَو کمزور آدمی اپنی قربانی پیش کرنے کیلئے آئے تھے جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا ہوا تھا جو بدری صحابہؓ کے چہروں پر لکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ بدر کے صحابہؓ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بے شک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور مگر وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو رَوندتا ہوا نہ گزرے۔ اُن کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ زندہ موتیں ہیں جو اپنے وجود سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے دین کے قیام کیلئے ایک آخری جدوجہد کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ دیکھنے والے اُن پر ہنستے تھے، دیکھنے والے اُن پر تمسخر کرتے تھے اور حیران تھے کہ یہ لوگ کیا کام کریں گے۔ میں خیال کرتا ہوں وہ ایک دری تھی یا دو دَریاں بہرحال اُن کیلئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اِس سٹیج کی جگہ ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی۔ پہلے ایک جگہ بچھائی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اُٹھا کر اُسے کچھ دُور بچھایا گیا، تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھایا گیا اور پھر تیسری دفعہ اُس جگہ سے بھی اُٹھا کر کچھ اَور دُور وہ بچھائی گئی۔ اپنی بچپن کی عمر کے لحاظ سے میں نہیں کہہ سکتا آیا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اِس جگہ دری بچھاؤ یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہرحال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی۔
لوگ کہتے ہیں جب یوسفؑ مصر کے بازار میں بِکنے کیلئے آئے تو ایک بڑھیا بھی دو رُوئی کے گالے لیکر پہنچی کہ شاید میں ہی ان گالوں سے یوسف کو خرید سکوں۔ دنیا دار لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہنستے ہیں، روحانی لوگ اسے سنتے ہیں اور روتے ہیں کیونکہ ان کے قلوب میں فوراً یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے، وہاں انسان دنیا کی ہنسی کی پروا نہیں کرتا۔ مگر میں کہتا ہوں یوسفؑ ایک انسان تھا اور اُس وقت تک یوسف کی قابلیتیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں، آخر اُس کے بھائیوں نے نہایت ہی قلیل قیمت پر اُسے فروخت کر دیا تھا، ایسی حالت میں اگر اس بڑھیا کو یہ خیال آیا ہو کہ شاید روئی کے دو گالوں کے ذریعہ ہی میں یوسفؑ کو خرید سکوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں۔ خصوصاً جب ہم اِس بات کو مدنظر رکھیں کہ جس ملک سے یہ قافلہ آیا تھا، وہاں رُوئی نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ مصر سے ہی رُوئی لے جایا کرتے تھے تو پھر تو یہ کوئی بھی بعید بات معلوم نہیں ہوتی کہ رُوئی کی قیمت اُس وقت بہت بڑھی ہوئی ہو۔ اور وہ بڑھیا واقعہ میں یہ سمجھتی ہو کہ رُوئی سے یوسفؑ کو خریدا جا سکتا ہے لیکن جس قیمت کو لے کر وہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقینا ایسی ہی قلیل تھی اور یہ یوسفؑ کی خریداری کے واقعہ سے زیادہ نمایاں اور زیادہ واضح مثال اُس عشق کی ہے جو انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور انسان سے ایسی ایسی قربانیاں کراتا ہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ دو سَو یا اڑھائی سَو آدمی جو جمع ہوا اُن کے دل سے نکلے ہوئے خون نے خداتعالیٰ کے عرش کے سامنے فریاد کی۔ بے شک ان میں سے بُہتوں کے ماں باپ زندہ ہوں گے، بے شک وہ خود اِس وقت ماں باپ یا دادے ہوں گے مگر جب دنیا نے ان پر ہنسی کی، جب دنیا نے انہیں چھوڑ دیا، جب اپنوں اور پرایوں نے انہیں الگ کر دیا اور کہا کہ جاؤ اے مجنونو! ہم سے دُور ہو جاؤ۔ تو وہ باوجود بڑے ہونے کے یتیم ہو گئے کیونکہ یتیم ہم اُسے ہی کہتے ہیں جو لاوارث ہو اور جس کا کوئی سہارا نہ ہو۔ پس جب دنیا نے انہیں الگ کر دیا تو وہ یتیم ہو گئے اور خدا کے اِس وعدہ کے مطابق کہ یتیم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے، جب وہ قادیان میں جمع ہوئے اور سب یتیموں نے مل کر آہ و زاری کی تو اُس آہ کے نتیجہ میں وہ پیدا ہوا جو آج تم اِس میدان میں دیکھ رہے ہو۔ خدا نے عرش پر سے انہیں دیکھا اور کہا اے بوڑھو! جن کو اُن کے بچوں نے چھوڑ دیا، میں تم کو نئی اولادیں دوں گا اور دُور دُور سے دوں گا جو پہلی اولادوں سے بہتر ہوں گی اور اے بچو! جن کو اُن کے ماں باپ نے چھوڑ دیا، میں تم کو نئے ماں باپ دوں گا جو پہلے ماں باپ سے اچھے ہوں گے۔ اور اے جوانو! جن کو ان کے بھائیوں نے چھوڑ دیا، میں تمہارے لئے اور بھائی لا رہا ہوں اُن سے بہتر جو تمہارے بھائی تھے اور ان سے اچھے جو تمہارے بھائی تھے۔
سو آپ لوگ جو آج اِس موقع پر موجود ہیں، وہ اُن آہوں اور اُس گریہ وزاری کا نتیجہ ہیں جو اِس جگہ پر اُن چند لوگوں نے کی تھی جو دنیا داروں کی نگاہ میں متروک اور مطرود تھے اور جن کو دنیا حقیر اور ذلیل سمجھتی تھی۔ خداتعالیٰ نے اُن کو نوازا اور اُن کے آنسوؤں سے ایک درخت تیار کیا جس درخت کا پھل تم ہو۔ وہ گٹھلی جس سے یہ درخت پیدا ہواکتنی شاندار اور عظیم الشان تھی۔ اگر اُن اڑھائی سَو گٹھلیوں سے آج اتنا وسیع باغ تیار ہو گیا ہے تو اے میرے بھائیو! اگر ہم بھی اُسی اخلاص اور اُسی درد سے اسلام کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں تو کتنی گُٹھلیاں ہیں جو پھر اسلام کے پھیلانے میں نئے سِرے سے مدد دے سکتی ہیں۔ پس آؤ کہ ہم میں سے ہر شخص اِس نیت اور اِس ارادہ سے خداتعالیٰ کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دے کہ میں اس کی دُنیوی جنت کیلئے ایک گُٹھلی اور ایک بیج بن جاؤں گا۔ تا میں اکیلا ہی دنیا میں فنا نہ ہو جاؤں بلکہ میری فنا سے ایسا درخت پیدا ہو جسے مجھ سے بہتر یا کم از کم میرے جیسے پھل لگنے لگیں۔ وہ اَڑھائی تین سَو گُٹھلیاں آج لاکھوں بن گئی ہیں۔ اگر تم بھی اپنے آپ کو اسی طرح قربانیوں کیلئے تیار کرو تو ان لاکھوں گُٹھلیوں سے کروڑوں درخت پیدا ہو سکتے ہیں مگر یہ چیزیں خداتعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کا فضل انسان کے شاملِ حال نہ ہو تو نہ انسان کے دل میں قربانی کی تحریک پیدا ہو تی ہے نہ عشق کا جذبہ پیدا ہوتاہے، نہ ان قربانیوں کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور نہ انسانی عمل کوئی اعلیٰ ثمرات پیدا کرتا ہے۔ پس آؤ کہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے جُھک جائیں اور اُسی سے التجا کریں کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے ہمارے دلوں کو پاک کرے اور قربانیوں کا جذبہ ہمارے قلوب میں پیدا کرے۔ پھر جب اُسی کے فضل سے ہم اپنی قربانیاں اُس کے حضور پیش کریں تو وہ شفقت اور محبت اور رحم سے ہماری ناچیز قربانیوں کو ردّ نہ کرے بلکہ قبول کرے۔ وہ ہمارے وجودوں، ہمارے عزیزوں، ہمارے رشتہ داروں اور ہمارے دوستوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کی حفاظت کیلئے قربانی کے طور پر قبول کرے اور اسلام کے باغ کو پھر سرسبز اور شاداب کر دے۔ وہ کوّے اور کوئلیں اور دوسرے جانور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے ثمرات کھا رہے اور انہیں خراب کر رہے ہیں، خدا اِس بَلاء اور وَبا سے اسلام کو بچائے۔ آج شرک اور کُفر نے دنیا پر غلبہ کیا ہوا ہے خدا اپنے فضل سے ہمیں توفیق دے کہ ہم پھر توحید کا جھنڈا کھڑا کریں، شرک دنیا سے مٹ جائے، شرک کرنے والے خداتعالیٰ کی توحید کے جھنڈے کے نیچے آ جائیں، وہ قومیں جو خداتعالیٰ کے بیٹے بنا رہی ہیں، وہ قومیں جو پتھروں کو گھڑ گھڑ کر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک قرار دے رہی ہیں، وہ بُھولی ہوئی قومیں جو خداتعالیٰ کی رحمت کے مناّدوں کو اُس کا شریک ٹھہرا رہی ہیں، وہ قومیں جو سورج اور چاند اور سیّاروں اور ستاروں کی پرستش کرتی ہیں، خداتعالیٰ اِن سب کے دلوں کو کھول دے اور اُس حقیقی خدا کی طرف انہیں لے آئے جس کی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر ظاہر کی، وہ اُن سینکڑوں دلوں میں جو مذہب سے بیزار ہو رہے ہیں مذہب کا جوش پیدا کرے، وہ فلسفی اور وہ عالم کہلانے والے جو آج دین اور ایمان سے بے بہرہ ہو رہے ہیں، خداتعالیٰ ان پر بھی رحم کرے اور معرفت کا نور اُن کے دلوں میں پیدا کرے۔ تا آج جس طرح وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کے دین سے منحرف کر رہے ہیں، کَل لوگوں کو کھینچ کھینچ کر دین حقیقی کی طرف لائیں۔ وہ جھگڑے، فساد اور لڑائیاں جو کہیں مذہب کے نام پر، کہیں قوم کے نام پر، کہیں جتّھے کے نام پر اور کہیں سیاست کے نام پر ہو رہی ہیں، خداتعالیٰ ان کو دُور کر کے بنی نوع انسان کی بہتری کے سامان پیدا کرے اور خداتعالیٰ اِس دنیا کو اُسی طرح جنت کر دے جس طرح اُس نے مرنے کے بعد ہمارے لئے جنت تیار کی ہے۔
یہ سب کام خداتعالیٰ کے پسندیدہ ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ انہیں دنیا میں قائم کرے مگر ہمارے اندر طاقت نہیں کہ ہم باوجود اللہ تعالیٰ کا سپاہی کہلانے کے ان کو قائم کر سکیں۔ ایسی مصیبت کے وقت صرف ایک ہی کام ہمارا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے رب کو بلائیں اور اُس سے کہیں کہ ہم تیرے غلام اور خادم ہیں تو نے ایک کام ہمارے سپرد کیا، ہم اس کام کو کرنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ توہمیں توفیق دے لیکن اے ہمارے خدا! یہ کام ہماری ہمت اور ہماری طاقت سے بہت بالا ہے۔ پس تو آپ ہماری مدد کر۔ ہم اِس بوجھ سے کُچلے جا رہے ہیں۔ اگر تو نہ آیا اور تو نے مدد نہ کی تو یہ چھوٹی سی جماعت اور فِئَۃٌ قَلِیْلَۃٌ مٹ جائے گی اور دنیا کے پردہ پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا۔ پس تو آپ ہم پر رحم کر، ہماری کمزوریوں سے درگذر فرما تاتیری یہ عطا کردہ توفیق سے بغیر کسی قسم کے معاوضہ کی خواہش اور بغیر کسی دشمن کے خوف کے تیرے دین کی خدمت میں ہم لگ جائیں۔ مَاسِوَی اللہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہو جائے، تیرے جلال کا دنیا پر قائم کرنا اور تیری صفات کا کامل ظہور ہمارا مقصد ہو جائے، ہم تُجھ میں نہاں ہو جائیں اور تو ہمارے دلوں میں آ جائے۔ اے خدا! تُو ایسا ہی کر (اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی اور دعا کے بعد ارشا د فرمایا)
اِس دعا کے بعد مَیں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں اور اَب مَیں تو چلا جاؤں گا لیکن جیسا کہ میں نے کَل نصیحت کی تھی دوستوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اوقات جلسہ سالانہ کی تقاریر سننے میں صرف کریں اور خود بھی اور اپنے دوستوں کو بھی اِدھر اُدھر پھرنے سے روکیں۔ ایک وقت تھا جب آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے دُور تک آواز نہیں پہنچ سکتی تھی اور دوستوں کا اِدھر اُدھر پھرنا کسی حد تک معذوری میں داخل تھا مگر اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے لاؤڈ سپیکر لگ گیا ہے جس کی وجہ سے آواز بخوبی پہنچ جاتی ہے۔ ایسے موقعوں پر پہلے یہ گھبراہٹ ہوا کرتی تھی کہ دوستوں تک آواز کس طرح پہنچے گی مگر اب تو اگرمِیلوں بھی لوگ پھیلے ہوئے ہوں تو لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اُن تک آواز پہنچ سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ مسیحِ موعودؑ اشاعت کے ذریعہ دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا ۱؎ اور قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ ۲؎ اللہ تعالیٰ نے اِس نشان کی صداقت کیلئے پہلے قلم سے نکلی ہوئی تحریرات لوگوں تک پہنچانے کیلئے پریس جاری کر دیئے اور پھر آواز پہنچانے کیلئے لاؤڈ سپیکر اور وائرلیس وغیرہ ایجاد کر ا دیئے۔ اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ ہر مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگا ہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو، وہی تمام دنیا کے لوگ سُن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔
غرض لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اگر لاکھوں کااجتماع ہو، تب بھی آ سانی سے آواز پہنچائی جا سکتی ہے اس لئے دوستوں کو اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام تقریروں کو توجہ سے سننا چاہئے۔ اس کے بعد میں دوستوں کو اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور رخصت ہوتا ہوں۔
(الفضل ۲۹ ۔دسمبر ۱۹۳۶ء)
۱؎ لوکان العلم معلقا بالثریا لتناولہ قوم من ابناء فارس
( کنزالعمال جلد۱۱ صفحہ۴۰۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء)
۲؎ وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر :۱۱)


مستورات سے خطاب
(خطاب برموقع جلسہ سالانہ ۱۹۳۶ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۷۔دسمبر۱۹۳۶ء برموقع جلسہ سالانہ)
تشہّد، تعوّذ، سورۃفاتحہ اور سورۃ اَلَمْ نَشْرَحْ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
ہر ایک کام جو ہم کرتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلتا ہے اور جو کام بے نتیجہ ہو اُس کو کوئی عقلمند انسان پسند نہیں کرتا۔ مثلاً زمیندار کو ہی دیکھو وہ ایک نتیجہ کی امید پر کس قدر محنت کرتا ہے، پہلے زمین پر ہَل چلاتا ہے، پھر اُس پر سہاگہ پھیرتا ہے، پھر اُس میں بیج بکھیرتا ہے، پانی دیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میرا ایسا کرنا ضائع نہیں جائے گا بلکہ میری یہ محنت کئی گُنا زیادہ پھَل لائے گی کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ میرے باپ دادا نے ہمیشہ اِسی طرح ہَل چلایا، بیج بویا، تب غلّہ ملا، لیکن اگر زمیندار دیکھتا کہ میرے ہَل چلانے، سہاگہ پھیرنے اور بیج بکھیرنے، کھاد ڈالنے اور پانی دینے کا نتیجہ کچھ نہیں ہؤا یا پانچ دس دفعہ تو ہو گیا اور پھر کھیتی نہیں ہوئی تو وہ اتنی محنت نہ کرتا لیکن وہ دیکھتا ہے کہ نتیجہ ہمیشہ ہی نکل آتا ہے کبھی شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کھیتی خراب ہو جائے۔ کھیتی خراب ہونے پر وہ اِس کے ماہرین کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ کیا وجہ ہے ہماری کھیتی خراب ہو گئی؟ پھر جو اُس کو مشورہ ملتا ہے زمیندار جا کر اس پر عمل کرتا ہے اور اُس کو پورا یقین ہوتا ہے اپنے کام کے نتیجہ نکلنے کا۔ اِسی وجہ سے وہ سردی کے موسم میں صبح سویرے جا کر پانی دیتاہے اور گرمی کے دنوں میں دوپہر کے وقت خوشی سے اپنے کھیتوں میں کام کرتا رہتا ہے اور کبھی محنت سے نہیں اُکتاتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اِسی لئے کہ اُسے پورا یقین ہے کہ میری محنت ضائع نہیں جائے گی بلکہ یقینا اس کا نتیجہ نکلے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر ایک زمیندار تھوڑا بیج بکھیر کر جو چند روپوں کا ہوتا ہے ایک سال کے غلّہ کیلئے اِس قدر محنت کرتا اور یقین رکھتا ہے کہ محنت ضائع نہ جائے گی تو کیا جو کام ہماری جماعت کے لاکھوں آدمی کر رہے ہیں اور اپنے پیٹ کاٹ کر چندے دیتے ہیں، اپنے عزیزوں سے رشتے توڑ کر جماعت سے رشتہ جوڑتے ہیں، تو اگر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے اور اِس قدر تکلیفیں اُٹھانے کا نتیجہ نہ نکلے تو ہم سے بڑھ کر بدنصیب کون ہو گا؟ جب زمیندار چند روپوں کا بیج ڈال کر نتیجہ لے لیتا ہے تو ہم جو ہزارہا روپیہ خرچ کرتے ہیں پھر اِس کا کوئی نتیجہ نہ پائیں تو اِس کی دو ہی وجہ ہو سکتی ہیں یا تو راستہ غلط ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے یا ہم صحیح ذرائع استعمال نہیں کرتے۔ زمیندار کی کھیتی خراب ہو جائے تو وہ زمین کے ماہرین سے جا کر پوچھتا ہے اور جو وہ نقص بتاتے ہیں اُس کی اصلاح کر لی جاتی ہے اِسی طرح جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہے اس کی صحت کا علم ہو سکتا ہے کہ آیا وہ غلط ہے یا صحیح ۔ مثلاً ہمارے سلسلہ کی پہلی بنیادی باتیں جن میں ہم دوسروں سے اختلاف رکھتے ہیں وہ یہ ہیں۔
پہلی بات اختلاف کی
وہ کہتے ہیں کہ ایک مامور آنے والا ہے ہماری اصلاح کیلئے۔ اور ہم لوگ کہتے ہیں وہ مہدی علیہ السلام آ چکے جو
بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ تھے۔ اور جس عیسیٰ ؑ کے متعلق وہ کہتے ہیں آئیں گے ہم کہتے ہیں وہ آ چکے ہیں۔
دوسری بات
ہم کہتے ہیں کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور انسان قرآن مجید کی فرمانبرداری میں نبی کا درجہ بھی پا سکتا ہے۔ جن لوگوں سے ہمیں اختلاف
ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ دو موٹے اور اہم اختلاف ہیں۔
اس کے علاوہ ہم میں اور ان میں بہت سے اختلاف ہیں۔ مثلاً ایک احمدی کہتا ہے آنے والا باہر سے نہیں آئے گا بلکہ ہم میں سے ہی ہو گا غیراحمدی کہتے ہیں کہ آسمان سے آئے گا۔ احمدی کہتے ہیں قرآن پر چل کر انسان وہ انعامات حاصل کر سکتا ہے جن کا قرآن میں ذکر ہے غیر احمدی کہتے ہیں قرآن مجید کچھ بتائے لیکن جو ہمارے عقیدے ہیں وہی درست ہیں۔ ان کے دل میں قرآن کی اتنی عظمت نہیں جتنی ان کے اپنے خیال کی، لیکن بہت کم عورتیں اِن مسئلوں پر غور کرتی ہیں۔ صرف چند عورتیں ہیں جو ان مسئلوں کو جانتی ہیں یاان کواچھی طرح سمجھتی ہیں اسی وجہ سے وہ دوسری عورتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں۔ اگر ہماری عورتیں اِن مسئلوں کو سمجھ لیں تو پھر کوئی عورت ان کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتی۔
پس راستہ اختیار کرنے میں ہماری کوئی غلطی نہیں اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو عمل کی غلطی ہے۔ مثلاً اگر قرآن شریف کوئی اپنے سامنے اُلٹا رکھ لے اور اُلٹا ہونے کی وجہ سے نہ پڑھا جائے تو کیا قرآن غلط ہے یا پڑھنے والے کی اپنی عقل؟ پس اِسی طرح پر احمدی عورت جان لے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق قرآن شریف میں اور حدیث میں صفائی سے یہ موجود ہے کہ عیسیٰ ؑ جو پہلے تھے وہ دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آنے والا اِسی اُمت میں سے ہو گا۔ پس پہلی چیز جس کو دیکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ خدا کا کلام اور اس کے رسولؐ کا کلام کیا بتاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے ارشادات کو وہی لوگ جان سکتے تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں گزاریں یعنی صحابہؓ رسول کریمؐ۔ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ میں ایک شور پڑ گیا کیونکہ رسول کریم ﷺ کی وفات اچانک ہوئی۔ ان صحابہ کو خبر نہ تھی کہ آپؐ کی وفات اِس قدر جلدی ہو جائے گی۔ وفات کے قریب حضور انور علیہ السلام پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اِذَاجَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُo وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًاo ۱؎ یعنی اے لوگو! جب تم دیکھو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگ گئے تو خداتعالیٰ کی تسبیح کرو ساتھ حمد اپنے رب کی۔ اور غفران و حفاظت مانگو یقینا وہ ہے رجوع برحمت ہونے والا۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ تو خدا کے قُرب میں حاضر ہونے والا ہے اور کامیابی کا زمانہ آ گیا اِس پر صحابہؓ بہت خوش ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے اور اِس قدر روئے کہ گھِگی بندھ گئی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم اپنی جانیں، اپنے ماں باپ، اپنے بیوی بچوں کی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ لوگ حیران تھے اور کہتے تھے کہ بُڈّھے کی عقل کو کیا ہو گیا ہے۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا اِس کو ابوبکرؓ نے خوب سمجھا۔ رسول کریم ﷺ حضرت ابوبکرؓ سے بہت محبت کرتے تھے چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ پیار ا ابوبکرؓ ہے اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو ابوبکر کو بناتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا سب کھڑکیاں بند ہو جائیں گی صرف ابوبکر کی کھڑکی کُھلی رہے گی ۲؎ ۔ ایسا فرمانا بطور پیشگوئی کے تھا کہ ابوبکرؓ خلیفہ ہو کر نماز پڑھانے کیلئے کھڑکی سے مسجد میں داخل ہوا کریں گے۔ پس رسول کریم ﷺ کو جو محبت حضرت ابوبکرؓ سے تھی اور جو ابوبکر ؓ کو رسول کریمؐ سے تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا درجہ کس قدر بلند تھا۔ لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا آپ اِس بشارتِ نصرت پر کیوں روئے؟ آپ نے کہا خدا کے نبی دین پھیلانے کیلئے آتے ہیں جب دین کی ترقی ہو گئی تو آپ بِالضرور اپنے مولیٰ کے حضور واپس چلے جائیں گے۔ اِسی لئے حضرت ابوبکر نے قرآن کی یہ آیت سنکر کہا کہ یَارَسُوْلَ اللہ! ہماری جانیں، ہمارے ماں باپ کی جانیں، ہمارے بیوی بچوں کی جانیں آپؐ کی جان پر قربان ہوں۔ اَب اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صحابہ میں سب سے بہتر قرآن کریم کو سمجھنے والے تھے۔ رسول کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ باہر تھے۔ حضرت عمرؓ کو جب علم ہوا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیں تو آپ میان سے تلوار نکال کر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں تو میں تلوار سے سر اُڑا دوں گا رسول کریمؐ فوت نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے ہیں جیسا کہ حضرت موسٰی ؑ اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے تھے۔ اور حضرت عمرؓ کی اِس بات کا اثر تمام مسلمانوں پر ہوا۔ ایک صحابی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بہت گھبرائے۔ وہ بہت سمجھدار تھے انہوں نے کہا دوڑ کر جاؤ اور حضرت ابوبکر کو خبر کر دو کہ مسلمان بِگڑ رہے ہیں جلدی آئیں۔ پس ابوبکرؓ جو اتفاق سے باہر گئے ہوئے تھے فوراً پہنچے اور آپؐ کے پاس گئے اور کپڑا چہرے پر سے ہٹایا ،زیارت کی اور کہاکہ میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں خداتعالیٰ آپؐ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا۔ ایک آپکی موت اور دوسری قوم گمراہ ہو۔ ہر چند ابوبکرؓ کمزور اور نرم مزاج آدمی تھے حضرت عمرؓ جو تلوار لئے کھڑے تھے اُن کے پاس آئے اور کہا اے عمرؓ! بیٹھ جاؤ لیکن حضرت عمرؓ جوش میں آ کر پھر کھڑے ہو جاتے۔ حضرت ابوبکرؓ اُن کے اِس جوش کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور یہ آیت پڑھی۔ مَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ- ۳؎ اے لوگو! محمد تو فوت ہو چکے ہیں۔ جو کوئی محمدؐ کو پوجتا ہے وہ سُن لے کہ خدا کبھی نہیں مرتا۔ محمدؐ خدا کے ایک رسول تھے اگر محمدؐ فوت ہو جائیں تو کیا تم پِھر جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ آیت سنی ،میری یہ حالت تھی کہ میری ٹانگیں مجھ کو کھڑا نہیں کر سکتی تھیں اور مجھ کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں یہ آیت آج ہی نازل ہو رہی ہے ۴؎ ۔ دیکھو یہ ایک واقعہ ہے جو رسول کریم ﷺ کی زندگی کے معًا بعد ظاہر ہو گیا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں۔ اگر حضرت عمرؓ کا یہ عقیدہ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر ابھی تک زندہ ہیں تو وہ اپنی بات کی تائید میں یہ بات ضرور پیش کرتے۔ کیا حضرت عمرؓ بھول گئے تھے؟ فرض کیا حضرت عمرؓ بھول گئے تو کوئی صحابی تو کہتے کہ عیسیٰ ؑ نبی تو زندہ ہیں۔ اَب بتاؤ صحابہؓ سے بہتر کون دین جانتا تھا۔ پنجابی کی ایک مثال ہے کہ ’’گھروں مَیں آواں سُنیہے تُوں دیویں۔‘‘ سب سے بہتر جاننے والے صحابہؓ ، برکات حاصل کرنے والے صحابہؓ ، وہ اس بات کو نہ سمجھے اور پیچھے آنے والے جان گئے۔ تعجب ہے کہ حضرت عمرؓ کو موسیٰ علیہ السلام کی طُور پر جانے والی مثال تو سُوجھ گئی مگر عیسیٰ ؑ کا ذکر یاد نہ رہا۔ دوسری عجیب بات یہ ہے کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ کی آیت اُسی صورت میں بطور دلیل ہو سکتی ہے جبکہ پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہوں تو یہ آیت جب بطور دلیل ہوئی اور کوئی نہیں کہتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ تو فوت نہیں ہوئے یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی کے دماغ میں یہ بات نہ تھی۔ اگر کسی صحابیؓ کے دماغ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی کا خیال ہوتا تو وہ مر جاتا یہ سنکر کہ عیسیٰ ؑ زندہ ہوں اور رسول کریم ﷺ فوت ہو جائیں۔ ایک شاعر نے صحابہؓ کے دلی خیالات کو اِن اشعار میں نہایت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۵؎
تو ہماری آنکھوں کی پُتلی تھا۔ اَب جہان تیرے جانے سے ہماری نظروں میں تاریک ہے۔ تیرے بعد جو چاہے مرے ہمیں تو صرف تیرا ہی خطرہ تھا۔ جب تُو نہیں تو جہان میں کچھ بھی نہیں۔
یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہے کہ اِس کے بعد کوئی خیال ہی نہیں کر سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں کوئی عیسائی کرے تو کر سکتا ہے۔ اِس کے بعد پھر ایک اختلاف پیدا ہوا عبداللہ بن سبا سے۔ اُس نے یہ عقیدہ پھیلانا شروع کیا کہ وہ خدا جس نے قرآن کریم نازل کیا تم کو پھر اِس مقام پر لائے گا تو صحابہؓ نے اُس کومرتد خیال کیا۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ بھی زندہ ہیں۔ جو آیت ابوبکرؓ نے پڑھی اِس کے تو یہی معانی ہو سکتے ہیں کہ یا تو عیسیٰ ؑ کو رسول نہ مانا جائے اور یا پھر رسول کریم ﷺ پہلے اور عیسیٰ علیہ السلام بعد میں۔ مگر یہ سب پر واضح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے آئے اور وہ رسول بھی تھے۔ پس اس آیت کے موجب وہ فوت بھی ہو گئے۔ کیونکہ مَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ- اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے کے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں۔ پس صحابہ کی گواہی اور قرآن مجید کے بعد اور کونسا گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ایک موٹی دلیل پیش کی ہے۔ یاد رکھیں تین آیتیں قرآن مجید کی ہیں جو عورتیں یاد کر لیں پھر کوئی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک تو وہ آیت جو ابوبکرؓ نے پڑھی مَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ- اور دوسری آیت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں فرمایا ہے وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَالَیْسَ لِیْ بِحَقٍّق اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ ط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَافِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِo مَاقُلْتُ لَھُمْ اِلَّامَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُ وااللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَییْئٍ شَھِیْدٌo۶؎
یعنی جب خدا پوچھے گا کہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے! کیا تُو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو دو خدا مانو؟ عیسیٰ ؑ جنابِ الٰہی میںعرض کریں گے۔ اے خدا! میری کیا مجال تھی کہ میں وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا تو حضور کو علم ہے۔ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور مجھے تیرے علم کا احاطہ نہیں تُو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے۔ میں نے وہی کہا جس کا تُو نے مجھے حکم دیا۔ یہی کہ ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے اور میں اُن پر نگران رہا جب تک اُن میں زندہ موجود رہا۔ وہ توحید پر قائم رہے۔ پھر جب تونے مجھے وفات دی تو تُو ہی اُن کا نگرانِ حال تھا۔
اللہ تعالیٰ یہ سوال قیامت کو کرے گا تو اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کہہ رہے ہیںکہ قوم کے لوگ گمراہ نہیں ہوئے ہیں اور اُن کی گمراہی اِن کی وفات کے بعد ہوئی۔ پس اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ موجود ہیں تو پھر اُن کی اُمّت گمراہ نہیں ہوئی لیکن امت گمراہ ہو چکی ہے۔ کیونکہ وہ توحید پر قائم نہیں۔ پس امت کی گمراہی بتاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ قرآن کا یہی فیصلہ ہے، صحابہؓ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ پس اِس بارے میں ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے ٹھیک ہے اور ہم نے اس راستہ کے اختیار کرنے میں کوئی غلطی نہیں کھائی اور خدا ہم سے ناراض نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی برکات سے کوئی غیر اُمّتی آدمی خاص برکات حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک موٹی مثال ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے۔ دیکھو نماز ہر مسلمان بالغ عورت ہو یا مرد سب پر فرض ہے۔ اسلام کا حکم ہے سات سال کے بچے کو نماز سکھاؤ اور دس سال کا بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ۔ ۷؎ اور ایک دن میں پانچ وقت نمازیں فرض ہیں۔ ۸؎ اور ہر رکعت میں اَلْحَمْدُ شریف پڑھنے کا حکم دیا۔ دیکھو دوسری سورتیں ہیں بعض رکعتوں میں چھوڑ دیتے ہیں مگر اَلْحَمْدُ شریف یعنی سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں فرض ٹھہرائی۔ پس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس سورۃ کے اِس قدر سکھانے کی کیا وجہ ہے؟ سو وہ آیت ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۹؎ یعنی یا اللہ! ہم کو سیدھاراستہ دکھا۔ راستہ اُن لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا۔ اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نماز بغیر سورۃ فاتحہ کے نہیں ہو سکتی۔ ۱۰؎ اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ سیدھا راستہ کونسا ہے اور قرآن شریف اس کی کیا تشریح کرتا ہے سورۃ النساء میں فرمایا۔ وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَاعَلَیْھِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِاخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْھُمْ وَلَوْاَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَایُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًالَّھُمْ وَاَشَدَّتَثْبِِیْتًاo وَّ اِذًالَّاٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّا اَجْرًا عَظِیْمًاo وَّلَھَدَیْنٰھُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماًo وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًاo ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًاo۱۱؎
مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہم لکھ دیتے اُن پر کہ قتل کرو اپنے نفسوں کو۔ یا نکل جاؤ اپنے گھروں سے، نہ کرتے وہ اِس کو سوائے چند ایک کے اُن میں سے۔ اور اگر وہ کرتے جس کی وہ نصیحت دیئے گئے تھے البتہ ہوتا بہتر اُن کیلئے اور زیادہ پختہ ہوتے ثابت قدمی میں اور تب ہم دیتے اُن کو اپنے ہاں سے اجر بڑا۔ اور البتہ ہدایت کرتے ہم اُن کو راہِ راست کی۔ اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور رسولؐ کی۔ پس یہ لوگ ساتھ اُن کے ہیں کہ انعام کیا جن پر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور نیک لوگوں میں سے اور اچھے ہیں یہ رفیق۔ یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور کافی ہے اللہ جاننے والا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دیکھو خداتعالیٰ خود تو سکھاتا ہے کہ مجھ سے طلب کرو۔ اور وہ طلب کرنا کیسا فرض ٹھہرایا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا تھا تو پھر پانچ وقت یہ دعا کیوں سکھائی کوئی عقلمند انسان بھی ایسا کرنا پسند نہیں کرتا کہ جس کام کو کرنا نہ ہو اُس کو کہے تو وہ خدا ایسا کیوں کرتا؟ ایک قِصّہ ہے کہ ایک آدمی اپنی کھڑکی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لڑکے نے ایک کُتّے کو روٹی دکھا کر بُلایا۔ جب کُتّا پاس آیا تو لڑکے نے اُس کو ڈنڈا مارا۔ وہ آدمی جو بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا اُس کو لڑکے کی اِس حرکت پر بہت غصّہ آیا اور اُس نے لڑکے کو پیسہ دکھاکر بُلایا۔ جب لڑکا اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو مارا۔ لڑکا رویا اور کہا کہ پیسہ دینے کو بُلایا اور پھر مارا۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے تمہیں سبق دینے کیلئے ایسا کیا ہے۔ تم جو کُتّے کو روٹی دِکھلا کر بُلاتے تھے اور پھر مارتے تھے۔ تو دیکھو نہ کُتّے میں عقل تھی نہ لڑکے میں۔ تو کیا تم خدا میں اُس آدمی جتنی بھی عقل مانتے ہو؟ جو خدا ہم کو اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ مانگو مَیں دوں گا لیکن دیتا نہیں تو کیا خدا تعالیٰ نے کروڑ ہا مسلمانوں کو یونہی حکم دیا اور وعدہ کیا کہ مَیں تم کو وہی اگلے مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے انعام دوں گا۔ مسلمان رات کو اُٹھ کر سردی کے موسم میں اپنے بستر چھوڑ دیتے ہیں، گرمی کی راتیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وہ اپنا آرام ترک کر کے اُٹھتے ہیں، پھر ایک آدمی نہیں کروڑہا آدمیوں سے خدا نے مخول کیا کہ مانگو لیکن جب مانگ رہے ہیںتو دیتا نہیں۔ غور کی بات ہے کہ قرآن مجید میں بھی یہ ہدایت نازل کر دی۔ یہ لوگ خدا پر الزام لگاتے ہیں کہ خدا جھوٹے وعدے کرتا ہے۔
ایک مثال ہے کہ مالک دے اور بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔ اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور مولوی کہتے ہیں کہ اُس کے خزانے کے مالک ہم ہیں۔ ہم دینے نہیں دیتے۔ ہمارا خدا تو کہتا ہے کہ تمہارے درجہ کے مطابق سب کچھ دوں گا اور مولوی کہتے ہیں کہ ہم دینے نہیں دیتے۔
دیکھو یہ ایک عجیب بات ہے کہ نبوت کا مسئلہ عورتوں سے منقول ہے اور سورۃ النساء میں اسکا ذکر ہے یعنی عورتوں کی ہی سورۃ میں اس کا ذکر ہے۔ یُوں سمجھ لو کہ جب عورتوں ہی کی سورۃ میں ذکر ہے گویا عورت ہی نے یہ مسئلہ حل کیا ہے۔ جب مردوں میں اِس مسئلہ پر اختلاف ہوا تو اس کو حل کرنے والی ایک عورت ہی تھیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ خداتعالیٰ نے تو عورتوں کی سورۃ (النساء) میں اس کو نازل کیا اور عورت سے ہی حل کرایا لیکن ہماری عورتیں کہتی ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ گویا خدا تو کہتا ہے کہ عورتیں سمجھ سکتی ہیں مگر عورتیں کہتی ہیں کہ نہیں سمجھ سکتیں۔ یہ تو بہت کُھلی دلیل ہے اس کو سمجھ لو۔ ہر روز دعا کی جاتی ہے کہ اے خدا! ہم کو یہ یہ انعام دے۔ خداتعالیٰ نے سورۃ النساء میں وعدہ فرمایا کہ جس درجہ کا کوئی ہو ہم اُس کے درجہ کے مطابق اُس کو بنا دیتے ہیں۔ اَب یہ مسئلہ حل ہو گیا۔
تیسرا مسئلہ
جس میں ہمارا اُن کا اختلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ جنہوں نے آنا تھا وہ آ چکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی آئیں گے۔ یہ مسئلہ بھی ایک دو
دلیلوں میں سمجھ آ سکتا ہے جو رسول کریم ﷺ نے اپنی سچائی میں پیش کیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں رسول کریمؐ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے کہو کہ مَیں نے نبوت سے پہلے تم میں ایک عمر گزاری ہے اور تم اقرار کرتے ہو کہ مَیں نے بندوں پر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔۱۲؎ تو کیا جب مَیں رات کو سویا صبح اُٹھ کر خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا؟ رسول کریم ﷺ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ حضرت خدیجہؓ جو مکہ میں سب سے زیادہ مال دار عورت تھیں اور آپؐ کنگال اور آپؐ کے کنگال ہونے کا یہ ثبوت تھا۔ عرب کا دستور تھا کہ اپنے بچے باہر دائیوں کے پاس بھیج دیتے تھے تو اس سال جو دائیاں مکہ میں بچے لینے آئیں تو ہر دائی آپؐ کے لیجانے سے انکار کرتی رہی کیونکہ دائیاں جب بچے پال کر لاتیں تو اُن کو خوب انعام و اکرام ملتا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہاں سے ہم کو کیا ملے گا۔ چنانچہ مائی حلیمہ بھی ایک دفعہ آپ کو دیکھ کر چھوڑ گئیں لیکن پھر جب شہر میں دوسرا کوئی بچہ نہ ملا تو پھر واپس آ کر وہی بچہ لے گئیں ۱۳؎ ۔ تو آپؐ کی مالی حالت یہ تھی کہ دایہ بھی نہ ملتی تھی، پھر جب والدہ فوت ہو گئیں تو اپنے چچا کے پاس رہے، گویا وہ تمام زمانہ بے کسی کی حالت میں گزارا۔ چچا کے بچے کھانے پینے کے وقت شور وشر کرتے لیکن آپؐ آرام سے ایک طرف بیٹھے رہتے ۱۴؎ کیونکہ چچا کے لڑکے جانتے تھے کہ یہ تو ہمارے ٹکڑوں پر پَل رہا ہے اصل مالک تو ہم ہیں۔ اکثر آپؐ کے چچا کہتے بچہ تُو نہیں ہنستا کھیلتا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ چچی کے دل میں بھی وہ محبت نہ تھی۔ آپؐ کے مقابلہ میں خدیجہؓ بہت مالدار عورت تھی، کئی تو اُن کے غلام تھے، اُن کی تجارت کے قافلے دُور دُور جاتے، اُن کی عادت تھی کہ اپنے غلاموں سے سب حالات دریافت کرتی رہتیں۔ رسول کریمؐ آپ کے پاس نوکر ہو گئے اور ان کو ایک قافلہ کے ساتھ باہر بھیجا گیا۔ جب واپس آئے تو بہت نفع ہوا انہوں نے جب آپؐ کی نسبت دریافت کیا تو غلاموں نے کہا کہ پہلے لوگ بہت سے نفعے خود رکھ لیتے تھے لیکن ہم نے ان کو بہت امین پایا ہے۔ وہ آپؐ کی تعریف سُن کر اِس قدر متأثر ہوئیں کہ اپنے چچا کو بُلا کر پیغامِ شادی بھیجا۔ رسول کریم ﷺ نے کہا کہ میرے چچا سے پوچھ لو اگر وہ رضا مند ہوں تو پھر میں نکاح کر لوں گا۔ پھر چچا کی رضا مندی سے اپنا نکاح حضرت خدیجہؓ سے کر لیا ۱۵؎ ۔ آپؐ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے اس جوہر کو پہچان لیا اور حضرت خدیجہؓ نے اپنا تمام مال وزر آپؐ کے سپرد کر دیا۔ جب حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ یہ میرا تمام مال آپؐ کا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ خدیجہؓ سچ کہتی ہو۔ پھر جس طرح میرا اختیار ہے میں کروں؟ پس آپؐ نے کہاکہ سب سے پہلے یہ جو غلام ہیں ان کو آزاد کر دو۔ حضرت خدیجہؓ کے دل پر آپؐ کی نیکی کااِس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا بے شک آپ کو اختیار ہے۔ اِن غلاموں میںایک زیدؓ بھی تھے یہ ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے تھے۔ بچپن میں کوئی اُن کو پکڑ کر بیچ گیا تھا۔ اُن کا باپ تمام جگہ اُن کی تلاش کرتا کرتا بہت سا روپیہ لے کر مکہ پہنچا اور کہا جس قدر آپؐ مال لینا چاہتے ہیں لے لیں اور لڑکا ہمارے ساتھ کر دیں۔ اس کی ماں دس سال سے روتی روتی اندھی ہو گئی ہے اور مَیں دس سال سے اِس کو ڈھونڈتا پِھرتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ میں جا کر کہا۔ لوگو! گواہ رہیو یہ آزاد ہے اور کہا کہ یہ تیرا باپ ہے اس کے ساتھ چلا جا۔ دس سال سے اُس نے اپنا کاروبار چھوڑ کر تیری خاطر اپنی عمر کا ایک حصہ یُوں برباد کیا ہے۔ زیدؓ نے کہا بے شک یہ میرا باپ ہے اور ایک مدّت کے بعد ملا ہے اور اس نے میری خاطر بہت تکلیف اُٹھائی ہے اور کون ہے جس کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیں ہوتی، بے شک اس نے دس سال میری محبت کے پیچھے برباد کئے ہیںلیکن مجھ کو تو آپ کے سِوا کوئی ماں باپ نظر نہیں آتا ۱۶؎۔ خیال کرو کہ آپ کو کس قدر اُنس تھا۔ باپ روتا ہوا چلا جاتا ہے لیکن وہ آپکی جُدائی پسند نہیں کرتا۔ پس یہ تھا آپؐ کی دیانت، امانت، صداقت، راستبازی کا حال۔ آپؐ نے اعلانیہ فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تم میں عمر گزاری ہے بتلاؤ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو کیا میں خدا پر ہی جھوٹ بولوں گا؟ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ سن کر فوراً ایمان لے آئے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ باہر گئے ہوئے تھے اور واپس آتے ہوئے راستہ میں اپنے ایک دوست کے مکان پر ٹھہرے اور آپؐ اپنی چادر بچھا کر لیٹنے ہی لگے تھے کہ اس گھر کی لونڈی نے آ کر کہا افسوس تمہارا دوست پاگل ہو گیا اور کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ وہ لیٹے بھی نہیں فوراً چادر سنبھال کر بیٹھ گئے اور رسول کریم ﷺ کے گھر پہنچے اور کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ حضرت ابوبکرؓچونکہ آنحضرت ﷺ کے گہرے دوست تھے۔ آپ کو یہ خیال تھا کہ کہیں ان کو ٹھوکر نہ لگ جائے آپ ان کو تسلّی سے بتانا چاہتے تھے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کو قسم دے کر کہاکہ آپؐ صاف بتائیں۔ آپ نے کہا درست ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا پس آپ میرے ایمان کے گواہ رہیں اور کہنے لگے کہ آپ مجھ کو دلیلیں دے کر میرا ثواب کیوں کم کرتے ہیں۔ ۱۷؎ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔بعینہٖ یہی دلیل خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی۔ آپؐ کے دعویٰ سے پہلے محمد حسین بٹالوی نے اپنے ایک رسالہ میں براہین احمدیہ لکھنے کے بعد حضرت صاحب کی اِس قدر تعریفیں لکھی ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ اپنے رسالہ میں لکھتا ہے کہ یہ شخص ایسا ولی اللہ ہے کہ اس نے جو خدمات دین کی کی ہیں تیرہ سَو سال میں کسی نے نہیں کیں۔۱۸ ؎حالانکہ دیکھو اس تیرہ سَو سال میں بڑے بڑے صلحاء، فضلاء، اولیاء لوگ گزرے ہیں اس کی نظر میں ان سب سے بڑھ کر حضرت صاحب تھے لیکن دعویٰ کے بعد اس نے جو مخالفت کی ہے اس میں بھی سب سے بڑھ کر رہا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ دعویٰ سے پہلی زندگی دیکھتے ہیں بعد میں تو رسول کریم ﷺ کو بھی دشمنوں نے بہت بُرا بھلا کہا لیکن بعد کی باتیں دشمنی کی ہوتی ہیں گواہی تو دشمنی سے پہلے کی ہوتی ہے۔ یہ تینوں باتیں ہیں جن میں قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے۔
ایک لطیفہ ہے میاں نظام الدین صاحب ایک سادہ لوح، نیک اور متقی آدمی تھے۔ جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں۔ مَیں چھوٹا بچہ تھا اُن کو چائے کی بہت عادت تھی وہ کیا کرتے کہ چائے کی خشک پتی منہ میں رکھ لیتے اور پھر جب پانی ملتا تو گرم پانی اوپر سے پی لیتے۔ وہ محمد حسین بٹالوی کے دوست تھے اور حضرت صاحب کے بھی۔ محمد حسین نے ان سے کہا کہ حضرت صاحب نے تو ایسا دعویٰ کیا ہے تو ان کو یقین نہ آیااور کہنے لگے کہ مرزا صاحب تو بہت نیک آدمی ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ قرآن میں اِس طرح ہے۔ وہ کہنے لگے کہ قرآن میں تو لکھا ہے وہ زندہ ہیں حضرت صاحب نے کہا قرآن ہمارا حاکم ہے اگر آپ قرآن سے ایک آیت بھی لے آئیں تو ہم مان لیں گے کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ ہیں۔ نظام الدین کہنے لگے کہ مَیں پچاس آیتیں ایسی لے آؤں تو پھر تو آپ مان لیں گے؟ حضرت صاحب نے فرمایا میں کہتا ہوں کہ اگر تم ایک آیت بھی لے آؤ گے تو میں مان لوں گا۔ کہنے لگا کہ میں جاتا ہوں اور بیس آیتیں محمد حسین سے لکھوا لاتا ہوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ایک ہی لے آئیں تو ہم مان لیں گے وہ کہنے لگا کہ اچھا میں آج ہی لاہور جاتا ہوں اور دس ہی لکھوا لاتا ہوں۔ وہ لاہور گئے۔ اُن دنوں میں حضرت خلیفہ اوّل بھی لاہور کسی کام کو آئے ہوتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مولوی محمد حسین اور حضرت خلیفہ اوّل کا مباحثہ ہو جائے۔ مولوی محمد حسین کہتا تھا کہ مباحثہ حدیث سے ہو اور حضرت خلیفہ اوّل کہتے تھے کہ قرآن سے ہو۔ اتنے میں نظام الدین صاحب بھی لاہور پہنچے تو مولوی محمد حسین چینیاں کی مسجد میں بیٹھے تھے میاں نظام الدین جاتے ہی کہنے لگے مولوی صاحب! چھوڑو اس اشتہار بازی میں کیا رکھا ہے میں حضرت صاحب سے آسان فیصلہ کر آیا ہوں کہ آپ قرآن سے دس آیتیں حیاتِ مسیح کی تائید میں لکھ دیں اور حضرت صاحب تو کہتے تھے کہ ایک ہی لے آؤ مگر آپ دس لکھ دیں۔ مولوی صاحب سخت برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ میں تو دو مہینے کی سخت تکلیف اور بحث کے بعد نورالدین کو حدیث کی طرف لا رہا تھا اور تم پھر قرآن کی طرف لے جا رہے ہو۔ میاں نظام الدین ایک منصف مزاج آدمی تھے کہنے لگے کہ اچھا جِدھر قرآن اُدھر ہم۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سچے راستے پر ہیں اور قرآن و حدیث و صلحائے امت ہمارے ساتھ ہیں۔
ایسے ہی طریق ہیں سیدھا راستہ چلنے کیلئے جن پر تحریکِ جدید جاری کی گئی ہے۔ اگر مرد و عورت اس کو اچھی طرح سمجھ لیں تو بس خدا کی نصرت ہمارے ساتھ ہو گی۔ راستہ درست ہے اور اگر ترقی نہیں ہو رہی تو یہ ہماری کمزوری ہے۔ مثلاً تلوار تو ہے لیکن تلوار چلانی نہیں آتی۔ قصہ ہے کہ ایک بادشاہ کا ایک اردلی تھا جو تلوار کے ایک وار میں گھوڑے کے چاروں پَیر کاٹ دیا کرتا تھا بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ یہ تلوار ایک وا ر میں گھوڑے کے چاروں پیَر کاٹ دیتی ہے پس یہ تلوار بہت اچھی ہے۔ اس نے اردلی سے کہا کہ یہ تلوار مجھے دیدو۔ اس نے تلوار نہ دی۔ وہ روتا ہوا بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں نے اردلی سے تلوار مانگی تھی لیکن اُس نے نہ دی۔ بادشاہ نے اردلی کو بلا کر کہا کہ تم کیسے نمک حرام نوکر ہو کہ ہمارا لڑکا تم سے تلوار مانگتا ہے اور تم نہیں دیتے۔ سپاہی نے لڑکے کو تلوار دیدی لڑکے نے گھوڑے کے پاؤں کاٹنے چاہے مگر وہ نہ کٹے وہ روتا ہوا پھر باپ کے پاس گیا بادشاہ نے پھر سپاہی کو بلایا کہ تم نے ہمارے لڑکے کو وہ تلوار نہیں دی۔ سپاہی نے کہا حضور! بات یہ ہے کہ تلوار تو وہی ہے لیکن ان کو چلانا نہیں آتی۔ تو بات یہ ہے کہ چلانے والا تو سپاہی تھا تلوار کی اِس میں کیا خوبی ہے۔ پس اسی طرح دیکھو کہ قرآن ایک تلوار ہے۔ یہی قرآن مولویوں کے ہاتھ میں مُردہ تھا۔ یہی قرآن ہمارے ہاتھ میں تلوار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں قرآن کی تلوار چلانا سکھائی ہے اب اس تلوار کے ہوتے ہوئے فائدہ نہ اُٹھاؤ تو تمہارا اپنا قصور ہے۔ تمہیں اپنے نفسوں پر غور کرنا چاہئے کہ احمدی ہو کر تم نے کیا فائدہ اُٹھایا۔ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو کس قدر افسوس کی بات ہے۔ ایک جلسہ ہی کو دیکھو اکثر ہمارے گاؤں کی عورتیں کہتی ہیں ہم جلسہ کھانے چلی ہیں۔ کیا یہی غرض ہے اور اس سردی کے موسم میں بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کریہاں آتی ہو؟ اُن ریلوں میں سفر کرتی ہو جن میں دم گُھٹتا ہے، یہاں آکر کھوری پر سوتی ہو، پتلی دال کھاتی ہو یہ سب تکلیفیں اُٹھاتی ہو۔ اگر یہ تین دن تین سَو ساٹھ دن کیلئے بیج بن کر غلّہ کا کام نہیں دیتے تو بہت افسوس کا مقام ہے۔ اور اگر واقعی تم اِن تین دنوں میں معرفت کا بیج لیکر تین سَو ساٹھ دن میں بوتی ہو تو خدا کی نصرت اور مدد تم کو مل گئی۔ جب خدا کی نصرت اور مدد مل گئی تو سب کچھ مل گیا۔ تو پھر جو تکلیفیں تم اُٹھا کر آتی ہو تکلیفیں نہیں بلکہ آرام ہیں، دال نہیں کھاتی ہو بلکہ سونا کھاتی ہو، تم کسیر پر نہیں سوتیں بلکہ گدیلوں پر سوتی ہو، تم اعلیٰ ریلوں پر سفر کرتی ہو لیکن یہ سب اسی حالت میں ہو سکتا ہے جب کچھ فائدہ اُٹھاؤ۔ دیکھو ایک ہی چیز ہوتی ہے ایک اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور ایک نقصان۔ مثلا ً ایک سالن ہوتا ہے ایک کھا کر اُس سے طاقت حاصل کرتا ہے اور دوسرا اُسی سالن کو کھا کر پیٹ پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ دیکھو وہی انگور اور امرود جو دل اور دماغ کو راحت دیتے ہیں ایک کے اندر خون بن جاتے ہیں اور دوسرے کے اندر ہیضہ کے جراثیم۔ دیکھو ایک گھاس ہے بکری کھاتی ہے دودھ دیتی ہے وہی گھاس بکرا کھاتا ہے، بھینسا کھاتا ہے، بَیل کھاتا ہے، وہی گھاس پیشاب اور گوبر بن کر خارج ہو جاتی ہے۔ بیشک قرآن اعلیٰ ہے مگر جیسی تمہارے اندر مشین ہو گی ویسا ہی تمہارے اندر کام کرے گی۔ دیکھو جیسا بکری اور بکرا ایک ہی گھاس کھاتے ہیں ایک کے اندر دودھ کی مشین ہے وہی گھاس دودھ بن جاتا ہے دوسرے کے اندر صرف پاخانہ کی مشین ہے وہ پاخانہ بن کر خارج ہو جاتا ہے۔ پس اگر تمہارے دل کے اندر نیکی اور تقویٰ ہے تو تمہارے اندر روحانی دودھ بن جائے گا اور جس سے تم دنیا کی مائیں بن جاؤ گی۔ اور اگر تم میں نیکی اور تقویٰ نہیں تو یہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم پاخانہ بن کر نکل جائے گی جس سے تم بھی بھاگو گی اور لوگ بھی۔ پس اپنے اندر خدا کی محبت پیدا کرو۔ تم میں کتنی ہیں جن کو خدا سے محبت ، بچوں اور خاوندوں کی محبت سے زیادہ ہے؟ ایمان سے بتاؤ اگر تمہارے بچے قربانی کیلئے بلائے جائیں تو تم خوشی سے پیش کرو گی؟ دیکھو خنساء ؓایک عورت تھیں وہ بہت مال دار تھیں۔ اُن کے خاوند نے اُن کی تمام دولت جُوئے میں برباد کر دی اور وہ بار بار اپنے بھائیوں سے بہت دولت لائیں اور اُن کے خاوند نے برباد کر دی اور خاوند جوانی میں مر گیا۔ اُن کے چار لڑکے تھے اُن کو پالا، بڑھاپے میںاسلام لائیں، ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک لڑائی ہوئی سب سپاہی قسم کھا کر گئے کہ فتح لے کر آئیں گے یا وہیں مر کر ڈھیر ہو جائیں گے، خنساء ؓنے اپنے چاروں بیٹوں کو بُلا کر کہا اور اُن کو اپنے احسان یاد دلائے کہ دیکھو مَیں جوانی میں بیوہ ہوئی تمہارا باپ جواری تھا اورمیری تمام دولت لُٹا چکا تھا اور میں نے محنت کر کے تمہیں پالا تھا آج میں تم سے یہ کہتی ہوں کہ تم جنگ میں جاؤ یا تو فتح کر کے آنا یا اپنی جانیں وہیں دے دینا دشمن کو ناکامی کی پیٹھ نہ دکھانا۔ بیٹوں کو رخصت کر کے خدا کا فرض ادا کیا۔ پھر جنگل میں جا کر خدا کے حضور نہایت گریہ وزاری سے دعا کی اور مامتا کا حق ادا کیا۔ خداتعالیٰ نے شام کو فتح دیدی۔ ۱۹؎
اِس وقت بھی محمد شریف ایک لڑکا گجرات کا رہنے والا ہے۔ جہاں وہ رہتا ہے وہاں لڑائی ہے انگریزوں کے قونصل (COUNCIL)نے اُسے بُلا کر کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ تا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اُس نے جانے سے انکار کیا۔ قونصل نے کہا ہم تمہیں سرکاری خرچ پر پہنچا دیں گے لیکن اس نے کہا میں یہاں مرنے ہی کو آیا ہوں آخر اس کو وہاں سے زبردستی باہر بھجوایا گیا۔ پس اگر تمہارے ہمسایہ کے بچے ایسا کرتے ہیں تو تم اسی سے خوش مت ہو جاؤ بلکہ کوشش کرو کہ تمہارا اپنا بچہ بھی ایسا کرے۔
دیکھو میں نے چھوٹی چھوٹی تحریکیں کی ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک کھانا کھاؤ، سادہ زندگی بسر کرو، مگر ابھی بہت سے مرد، عورتیں اور لڑکیاں ہیں جو اِس تحریک پر عمل نہیں کر رہیں۔ غریب لوگ تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں پس غریبوں کیلئے تو یہ مُفت کا ثواب ہے۔ میں نے تحریک کی تھی کہ گوٹہ کناری مت لگاؤ مگر جو پہلے کسی کے پاس ہوں اُن کو سوائے شادی بیاہ کے مت پہنو۔ بعض غریب عورتیں سوال کرتی ہیں کہ جُھوٹا گوٹہ اور ٹھپّہ لگا لیں؟ دیکھو سُچّے گوٹے لگانے والیاں تو پھر بھی کچھ مال دار ہوتی ہیں مگر جھوٹا لگانے والی تو اِس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ غریب ہے پھر بھی فضولی سے باز نہیں آئی۔ دیکھو ایک ایک پیسہ کی قدر کرنی چاہئے۔ پیسوں سے روپے بنتے ہیں۔ پس پیسوں کی قدر کرو اُنہی پیسوں کا گھی بچوں کو کھلاؤ تو صحت اچھی ہو گی۔ جُھوٹے گوٹے کِناری سے کیا فائدہ؟ جُھوٹا زیور بھی مت خریدو پہلے جو گزرا سو گزرا اَب تم پیشتر اِس کے کہ نئے قانون بنائے جائیں پہلے پر عمل کرو۔ خواہ مخواہ پھیری والوں سے کوئی سَودانہ خریدو۔ پھیری والوں سے جو چیز لی جاتی ہے غیر ضروری ہوتی ہے۔ دیکھو! اگر تم کو ضرورت ہوتی تو تم اپنے خاوند کو بازار بھیجتیںاور وہ چیز منگواتیں لیکن پھیری والے کا کپڑا دیکھ کر پسند کرنا ہی بتاتا ہے کہ اصل ضرورت نہ تھی دیکھ کر پسند آ گیا۔ پس یاد رکھو کوئی چیز بغیر ضرورت نہ خریدو اور سادہ زندگی بسر کرو۔ میں امید کرتا ہوں خدا کی آواز آنے سے پیشتر اپنے آپ کو تیار کرلوگی ۔ شرعی حُکم کے ماتحت روزے رکھو۔ سوچو! تم میں کتنی ایسی ہیں جن کے ذمّے روزے تھے اور دوسرے روزے آنے سے پہلے اِن روزوں کو پورا کیا؟ پس دوسرے روزے آنے سے پہلے اپنے پہلے روزے پورے کرو۔ سادہ زندگیاں بناؤ تا تمہارے لڑکے اور لڑکیاں تمہارے نیک نمونے حاصل کریں اور خداتعالیٰ بھی تم پر رحم کرے اور ایسے ماں باپ جنہوں نے ایسے بچے پیدا کئے وہ ان کیلئے دعا کریں گے اور قوم کیلئے بھی رحمت بنیں گے۔ پس تم اپنے اندر احمدیت کی ایسی روح پیدا کرو اور ایسے بیج لے کر جاؤ کہ تمہارے دلوں میں نور اور عرفان پیدا ہو اور ایسا بیج ہو کہ تمہارے اندر ایسا پھل لائے جو تم سال بھر کھاؤ اور تمہارے بچوں اور خاوندوں اور تمہارے بہن بھائیوں اور ہمسائیوں کی زندگیاں سنور جائیں۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۲۹۵ تا ۳۰۹مطبوعہ بار دوم)
۱؎ النصر: ۲ تا آخر
۲؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سدّواالابواب الا باب ابی بکر۔
۳؎ اٰل عمران: ۱۴۵
۴؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب قول النبیﷺ
لو کنت متخذا خلیلا، السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۳۸۸مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۵؎ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ ۱۶۵۔ مطبع رحمانیہ مصر ۱۹۲۹ء
۶؎ المائدۃ : ۱۱۷،۱۱۸
۷؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمرالغلام بالصلٰوۃ
۸؎ بنی اسرائیل :۷۹ ۹؎ الفاتحۃ: ۶،۷
۱۰؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراء ۃ لِلْاِمامِ (الخ)
۱۱؎ النساء: ۶۷تا ۷۱ ۱۲؎ یونس: ۱۷
۱۳؎ سیرت ابن ہشام الجزء الاوّل صفحہ ۱۷۲۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۴؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاوّل صفحہ ۱۳۸۔ مطبع ازھریۃ مصر ۱۹۳۲ء
۱۵؎ سیرت ابن ہشام الجزء الاوّل صفحہ ۲۰۰۔۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۶؎ اسد الغابۃ الجزء الثانی صفحہ ۲۲۵ مطبوعہ ۱۲۸۵ھ
۱۷؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاول صفحہ ۳۰۸۔۳۰۹ مطبع ازہریۃ مصر ۱۹۳۲ء
۱۸؎ اشاعۃ السنۃ جلد۷ نمبر۶ صفحہ ۱۴۹۔اگست ۱۸۸۴ء
۱۹؎ اسد الغابۃ الجزء الخامس صفحہ ۴۴۳۔ مطبوعہ طہران ۱۳۷۷ھ



فضائل القران(۶)






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
فضائل القرآن (۶)
ترتیبِ قرآن کا مسئلہ اور استعارات کی حقیقت
اِستعارات اور تشبیہات سے پیدا شُدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء برموقع جلسہ سالانہ)
تشہّد ‘ تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا۔ وَقَالَا الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَo وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِوَ اُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَا لْفَضْلُ الْمُبِیْنُo وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَo حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰـأَیُھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَo فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَالِیَ لَآ اَرَی الْھُدْھُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَo لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَااَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍo فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَالَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَأٍ بِنَبَأٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُ امْرَأَۃً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌo وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَo اَلاَّ یَسْجُدُوْالِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْ ئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَاتُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَo اَللّٰہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَo اِذْھَبْ بِّکِتٰبِیْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْھِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْھُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَo ۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
میرا آج کا مضمون پھر اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو تین سال پہلے میں بیان کر رہا تھا یعنی فضائل القرآن۔ درمیان میں تین سال اِس میں ناغہ ہو گیا کیونکہ رمضان کی وجہ سے لمبی تقریر نہیں کی جا سکتی تھی۔ اِس دفعہ بھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مَیں لمبی تقریر نہیں کر سکتا لیکن چونکہ میں اِس مضمون کے بیان کرنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مضمون کا کوئی حصہ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔
قرآن کریم کے سِوا اور کسی کتاب کو اَفْضَلُ الکُتب ہونیکا دعویٰ نہیں
تمام مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اپنی مذہبی کتب
کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اَفْضَلُ الکتب ہیں لیکن اُن کی کتب کو یہ دعویٰ نہیں۔ مَیں نے آج تک سوائے قرآن کریم کے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس میں یہ لکھا ہو کہ وہ دوسری مذہبی کتب سے افضل ہے۔ ہاں قرآن کریم بے شک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ کس طرح افضل ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دینا مسلمانوں کے ذمّے ہے۔ غیر مذاہب والے یا تو قرآن پڑھتے نہیں یا بوجہ اِس کے کہ قرآن تعصّب کی نگاہ سے پڑھتے ہیں صاف دل لے کر اِس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ یا بوجہ اس کے کہ وہ قلبِ مطہر نہیں رکھتے اور قرآن فرماتا ہے کہ لَایَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ ۲؎ میرے مطالب اور معانی مطہر قلوب پر ہی کُھل سکتے ہیںقرآن کریم کے مطالب اُن پر نہیں کُھلتے۔ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن تک قرآن کریم کے مطالب پہنچائیں اور ثابت کریںکہ قرآن کریم نہ صرف ایک اعلیٰ کتاب ہے بلکہ وہ ساری الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس سلسلہ میں پانچ لیکچر مَیں پہلے دے چکا ہوں۔ ایک ۱۹۲۸ء میں تمہیدی طور پر مَیں نے دیا تھا مگر اُس وقت طبیعت بہت علیل تھی اس لئے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہی میں نے بعض باتیں بیان کی تھیں۔ پھر ۱۹۲۹ء، ۱۹۳۰ء، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں چار تفصیلی لیکچر مَیں نے فضائل القرآن پر دیئے گو بعض حصے اُس وقت بھی چھوڑنے پڑے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے اِس ارادہ کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کیلئے مَیں تین سَو دلائل دوں گا۔ مَیں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گِنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سَو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو مَیں نے اِس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے اِن نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں اُس پر واضح ہو جائیں گی۔ یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں نہیں جانتا کہ مَیں اِس مضمون کو مکمّل بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے۔ یہ تمام مصالحہ نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ بعض جگہ محض اشارات میں ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں مَیں نے جمع کر دیا تھا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان بھی کر دیا تھا۔ مجھے اُن دلائل کی تعداد تو یاد نہیں جو بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نمبر کا نام نہیں لے سکتا صرف ضمناً بغیر نمبر دینے کے مَیں آج فضیلتِ قرآن کے ایک خاص پہلو کا ذکر کر دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اوّل تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگا دوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ یعنی اُس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اظہار فرمایا تھا گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہوگئی یعنی وحی اور الہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا وہ تین سَو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ پھر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی تحریر فرما دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ تالیفِ کتاب بوجہ الہاماتِ الٰہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پر خدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا۔ کیونکہ اَب اِس کتاب کا وہ خود متولّی ہے اور اُس کی مشیّت کسی اَور رنگ میں اِس کی تکمیل چاہتی ہے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے تو دشمنوں کا یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سَو دلائل پیش نہیں کئے۔
براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی
آجکل تو ’’زمیندار‘‘
اور ’’احسان‘‘ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ اُنہیں جو اچھا نکتہ سُوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنّف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عُمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوقؔ کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفرؔ کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور دیوانِ ظفر‘‘ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوقؔ کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفرؔ کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفرؔ کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کومضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھاکہ معرفت کے عُمدہ عُمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیجتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سَوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سُوجھے۔ اور اِن معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔
الہامی کتب کے سمجھنے میں ایک دِقّت
میرا آج کا مضمون اِس بات پر ہے کہ ہر الہامی کتاب میں بعض ایسے مُشکل مضامین
ہوتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ آسانی سے حل نہیں ہوتے یا ان کے متعلق آپس میں بحث شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے اِس کا یہ مطلب ہے اور کوئی کہتا ہے اِس کا وہ مطلب ہے۔ ایسی صاف بات نہیں ہوتی جیسے مثلاً یہ حُکم ہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ نماز قائم کرو۔ جو شخص عربی جانتا اور اسلام سے واقفیت رکھتا ہے وہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز نہیں روزہ ہے یا روزہ نہیں حج ہے۔ آگے نماز کی کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے خشوع خضوع میں فرق ہو سکتا ہے عرفان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ بلکہ جونہی کسی کے منہ سے یہ فقرہ نکلے گا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ یا قرآن کریم میں یہ حُکم دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں پڑھو۔ مگر جو مشکل مسائل ہوتے ہیں اُن کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں اُنہیں وہ مسائل سمجھائیں۔ خواہ اِس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اِس وجہ سے کہ ان کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ مشکل مضامین بِالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ خدا ایک ہے مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کیلئے ایک عارف کی ضرورت ہوگی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کیلئے کوئی عالِم درکار ہوگا ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں۔ دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اُس زبان میں بیان کئے گئے ہوں جسے تشبیہہ اور استعارہ کہتے ہیں۔
استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ
استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ باریک نہیں ہوتی
مگر عوام الناس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اُسے واپس لے آئے۔ جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اِس جنگ میں شہید ہوئے تھے اُنہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہارِ افسوس کیلئے نہ اس لئے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا۔ جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ میرے نزدیک اِس فقرہ سے آپ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اِس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباًاس بات کے اظہار کیلئے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا ہے مگر مَیں نہیں رویا فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ انصار نے جب یہ بات سُنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا دھونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر چل کر روئو۔ چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہوگئیں اور سب نے ایک کُہرام مچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سُنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا۔ یا رَسُوْلَ اللہ! ﷺ آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں اس لئے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ جائو انہیں منع کرو۔ چنانچہ ایک شخص گیا اور اُس نے انہیں منع کیا۔ وہ کہنے لگیں تم ہمیں کون روکنے والے ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور تُو ہمیں منع کرتا ہے۔ وہ یہ جواب سُن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پُہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں۔آپ نے فرمایا۔ اُن کے سروں پر مٹی ڈالو۔ مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور اُنہیں کچھ نہ کہو خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی۔ مگر اُس کو خدا دے اُس نے اپنی چادر میں مٹی بھرلی اور اُن عورتوں کے سَروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا پاگل کیا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو۔ اس لئے مَیں تو ضرور ڈالوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا تُو بات کو تو سمجھا ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو۔۳؎ وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی۔ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارۃً کلام تھا مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا۔ تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیںکی کہیں پہنچ جاتی ہے۔
خیطِ ابیض اور خیطِ اَسود کا غلط مفہوم
میں نے یہ عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اب میں پنجاب کی
ایک مثال دے دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اُس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھاگا سے الگ نظر نہیں آتا۔ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پَو پھٹ نہ جائے کھاتے پیتے رہو۔ مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتاً کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی رُو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اِس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب جب اپنے طالب علمی کے زمانہ میں لاہور پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر پر رہتے تھے۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک رات انہوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اُسے کیا جگانا ہے روزے کیلئے نہ جگایا مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اُن کی آنکھ ایسے وقت میں کھُلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی۔ اِدھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھِلا دینی چاہئے۔ چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے لگا ہیں! ہیں! کھولنا نہیں روشنی آئے گی مَیں اندر سے کھانا پکڑادیتا ہوں۔
انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات پائے جاتے ہیں
غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز پرمعنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے۔ اور الہامی
کتابوں میں تو بِالخصوص بہت مشکل پیش آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس کی کسی آیت کے دوسرے معنی ہم نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح نبیوں کی پیشگوئیوں میں استعارات پائے جاتے ہیں بلکہ ہر انسان روزانہ استعارے استعمال کرتا ہے مگر نبیوں کے کلام میں جب کوئی استعارہ آ جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ ہم اس کے کوئی اور معنی نہیں کرنے دیں گے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ نَعُوذُ بِاللّٰہِ نبی بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ بلکہ خدا اور اُس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور اُن کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں۔
ایک لطیفہ
ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ’’سِلکِ مروارید‘‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی
بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ ہماری کاٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہاں جائو گے؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اِس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر ’’سِلکِ مروارید‘‘ میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے۔ (شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔ نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ اِس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اُسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔ اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔ میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کیلئے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں۔ میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جائوں گامگر اب معلوم ہواکہ یہ سب جھوٹ تھا۔ اب اس بیچارے کے لئے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں۔
استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت
غرض مذہبی کتابوں میں یہ مشکل ہوتی ہے کہ جہاں کوئی استعارہ
آیا وہاں ایک طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم آگے چلنے نہیں دیں گے جب تک تم اِس بات کو اُنہی الفاظ میں تسلیم نہ کرو جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ دودھ کی نہروں کا ذکر آ جائے تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کر لیں کہ منٹگمری اور لاہور اور شیخوپورہ کی بھینسیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہونگی انہیں دودھ کی نہروں کا یقین ہی نہیں آتا۔ کیلے کا ذکر آ جائے تو جب تک بمبئی کا کیلا جنت میں نہ مانیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ شراب کا ذکر آ جائے تو گو وہ یہ ماننے کیلئے تیار ہو جائیں گے کہ جنت کی شراب زیادہ صاف ہوگی مگر یہ نہیں مانیں گے کہ شراب سے مراد کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے اور اگر حورو غِلمان کا ذکر آ جائے تو پھر تو ان کے منہ سے رالیں ٹپک پڑتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ میں مدارس دیکھنے کیلئے لکھنؤ گیا۔ اتفاقاً وہاں ندوۃ العلماء کا جلسہ تھا۔ مَیں بھی جلسہ دیکھنے کیلئے چلا گیا۔ ایک مولوی عبدالکریم صاحب پروفیسر تھے۔ اُن کی تقریر اُس وقت نماز کی خوبیوں کے متعلق تھی۔ سامعین اگرچہ کم تھے مگر اُن میں سے اکثر مسلمان تھے اور وہ بھی مولوی طرز کے۔ ایک مسلمان بیرسٹر بھی شریک تھے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور کہا کہ لوگو! نماز پڑھنی چاہئے۔ نماز کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے اور جنت کیا ہوتی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جنت کی جو کیفیت بیان کرنی شروع کی اُس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے۔ اس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ وہاں بہترین شکل کی خوبصورت تصویریں ہونگی اور جس تصویر کو دیکھ کر انسان کا دل للچائے گا وہ فوراً خوبصورت عورت بن جائے گی اور پھر مرد و عورت کے تعلقات شروع ہو جائیں گے اور ان تعلقات کا جنت کی طرح اختتام نہیں ہوگا۔ یہ نقص اِسی بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں دو چار لفظ حور کے پڑھ لئے اور نتیجہ نکال لیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہی کچھ وہاں بھی ہوگا۔ میرے پاس جو بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے۔ اچھا ہؤا یہ لیکچر رات کو رکھا گیا اگر دن کو رکھا جاتا اور لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو جاتے تو ہماری بڑی ذلّت ہوتی۔ تو الہامی کتابوں میں خصوصاً یہ مشکل پیش آتی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو تشبیہہ یا استعارہ استعمال ہوا ہے وہ حقیقت ہے اس کے دوسرے معنی ہو ہی نہیں سکتے۔
علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات
اسی طرح الہامی کتابوں کے اعلیٰ علمی مضامین کا سمجھنا بھی
عام لوگوں کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں۔
اوّل الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں سے جُدا ہوتی ہے۔ عام کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے مسائلِ وضو بیان کئے جائیں گے پھر مسائلِ عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائلِ نکاح بیان کیے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق اور خلع کا اور کسی میں کسی اور چیز کا ذکر ہوگا اور جس جگہ مسائل بیان ہونگے اکٹھے ہونگے۔ مگر الہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا اور اُن کی ترتیب بالکل اور قسم کی ہوتی ہے جو دُنیوی کتب کی ترتیب سے نرالی ہوتی ہے یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اِس میں ترتیب ہے ہی نہیں۔
الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں
سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس میں بھی کئی حکمتیں ہیں۔
(الف) اِس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرانی مدِّنظر ہوتی ہے۔ اگر الہامی کتاب کی ترتیب اُسی طرح ہو جس طرح مثلاً قدوری کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں نکاح کے مسائل وہ، تو عام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق اُنہی حصوں کو الگ کر کے ان پرعمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے مگر اب اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کر رکھ دیا ہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اُسے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔
(ب) لوگوں کو غوروفکر کی عادت ڈالنے کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے۔ اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تو لوگوں کا ذہن اِس طرف منتقل نہ ہوتا کہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں۔ وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غوروفکر سے محروم رہتے۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا اور ایک دوسرے میں داخل کر دیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کیلئے غوروفکر کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے۔
(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے تا خشیت الٰہی پیدا ہو کیونکہ خشیت الٰہی پیدا کرنے کیلئے یہ ترتیب ضروری تھی۔ مثلاً اگر یوں مسائل بیان ہوتے کہ وضو یوں کرو ،کُلّی اس طرح کرو، عبادت اس طرح کرو، اِتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الٰہی پیدا نہ ہوتی۔ جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایہ وغیرہ میں بھی مذکور ہیں مگر قدوری اور ہدایہ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتا ہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جُزو بنا کر بیان کرتا ہے الگ نہیں۔ اور دراصل نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقوی ہی ہے۔ پس قرآن تقوی کو مقدّم رکھتا ہے تا جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضو کرو تو وہ وضو کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اگر قرآن میں نماز کا الگ باب ہوتا تو اُسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی۔ پس الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کو چھوڑ کر ایک نئی ترتیب پیدا کرتی ہے جو جذباتی ہوتی ہے۔ یعنی قلب میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب اُن کا ذکر کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکر کرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت، طہارت اور خداتعالیٰ کے قُرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی۔ کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں پھر جب نماز کا مسئلہ آئے گا تو یہ نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرنا شروع کر دے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اُسے اپنی طرف متوجہ کرے گا تا جو جذبات بھی انسان کے اندر پیدا ہوں اُن سے وہ ایسا اثر لے جو اُسے خداتعالیٰ کے قریب کر دے۔
قلبی واردات کی دو مثالیں
پس ترتیبِ قرآن ظاہر پر مبنی نہیںبلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے اور یہ لہریں مختلف ہوتی
ہیں۔ مَیں اِس کے متعلق دو مثالیں دے دیتا ہوں۔ ایک اچھی اور ایک بُری۔ کہتے ہیںکسی مسجد کا مُلّا ایک دن جماعت کرانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں۔ اِس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہؤا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیں تو میرے پاس بڑا مال اکٹھاہو جائے۔ پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اُس سے تجارتی سامان خریدوں گا اور خوب تجارت کروں گا۔ کبھی دلّی میں اپنی اشیاء لے جاؤں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جاؤں گا۔ غرض اِسی طرح وہ خیالات دَوڑاتا چلا گیا۔ پھر ہندوستان اور بخارا کے درمیان اُس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی۔ اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے۔ ایک بزرگ بھی اُن مقتدیوں میں شامل تھے۔ اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اُنہیں امام کے تمام خیالات بتا دیئے گئے۔ اِس پر وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے۔ جب اُس مُلّا نے نماز ختم کی تو وہ اُن پر ناراض ہؤا اور کہنے لگا۔ تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے میں آپ کے ساتھ چلا اور دلّی تک گیا۔ پھر دلّی سے بخارا گیا اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی مَیں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا۔ اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔
اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اُس کے دل میں پیدا ہوئے مگر ان خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جو اس کے جذباتِ قلب پر مبنی تھی۔ یہی حال نیک خیالات کا ہے اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہو گا کہ مثلاً تم سجدہ میں گئے ہو اور تم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتے ہو تو اُس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیّت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے۔ اُس وقت گو تمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی نکل رہا ہوتاہے مگر تمہارا دل پہلے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا۔ یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہو اور اُس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اُس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محو ہو جاتے ہو۔ اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو گو تم اُس کی اقتدا میں کبھی سجدہ کرو گے، کبھی رکوع میں جائو گے اور منہ سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی۔ تو قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں۔ اُس وقت انسان گو الفاظ منہ سے نکال رہا ہوتا ہے مگر اُس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں۔ پس وہ واردات جو انسانِ مومن پر آتی ہیں قرآن کریم کی ترتیب ان پر مبنی ہے۔ وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری یہ ہدایت پڑھنے کے بعد کیا کیا خیالات انسان کے اندر پیدا ہونگے۔ پس وہ خیالات جو اس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیدا ہو سکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا۔ غرض بِالعموم مذہبی کتابوں کی ترتیب خصوصًا قرآن مجید کی ترتیب ظاہری تعلق پر نہیںبلکہ اُن جذبات پر ہے جو قرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ فلاں آیت یا فلاں حُکم کے نتیجہ میں کس کس قسم کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہری ترتیب کے اُس نے قرآن کریم کی ترتیب اُن جذبات پر رکھی جو قلبِ مومن میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اِس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ جو لوگ غور سے اور محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے اُنہیں یہ کتاب پھِیکی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا کہ ابھی موسیٰ ؑکا ذکر تھا پھر نوحؑ کا ذکر شروع کر دیا پھر شعیبؑ کے حالات بیان ہونے لگ گئے ابھی سُود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ اِن کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مگر وہی مضمون جب کسی عالِم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سنتا ہے اور سر دھنتا ہے۔
قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کا اصول
اگر کہو کہ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ تو گو میرے مضمون سے اِس کا کوئی
تعلق نہیں مگر چونکہ میں نے بتایا ہے کہ انسان بسا اوقات جذبات کی رَو میں بہہ جاتا ہے اس لئے مَیں بھی جذبات کے ماتحت دو تین علاج بتا دیتا ہوں۔
پہلا علاج یہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا۔
دوم اُس وقت پڑھے جب اُس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو۔ جن لوگوں کا جذبۂ محبت ہر وقت کامل رہتا ہو اُن کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کیلئے مقرر کر لیں مگر جن کا جذبۂ محبت ایسا کامل نہ ہو وہ اُس وقت تلاوت کیا کریں جب اُن کے دل میں محبت کے جذبات اُبھر رہے ہوں۔ چاہے دوپہر کو اُبھریں یا کسی اَور وقت۔
سوم قرآن کریم کو اِس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے۔ جو شخص قرآن کریم کو اِس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اِس کا مطلب بتائیں گے یا پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اِس کے معارف ہیں اُس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے۔ مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اِس میں خزانے موجود ہیں وہ اِس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کوئی سال ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک سوال پوچھنا ہے۔ مجھے اُس وقت جلدی تھی میں نے کہا کوئی مختصر سوال ہے یا تفصیل طلب؟ وہ کہنے لگا میں مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت چاہتا ہوں۔ میں نے کہا مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت سارے قرآن سے ملتا ہے۔ کہنے لگا کوئی آیت بتائیں۔ میں نے کہا ممکن ہے مَیں جو آیت بتائوں آپ کہیں کہ اِس کا یہ مطلب نہیں وہ مطلب ہے۔ اس لئے آپ ہی قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیں۔ مَیں اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دونگا۔ اُس نے جلدی سے یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۔ ۴؎ مَیں نے مختصراًاس آیت کا مضمون بیان کر کے اُسے بتایا کہ اِس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کہا۔ آپ بتائیں آجکل مسجدوں میں لوگ کتنے جاتے ہیں؟ کہنے لگا بہت کم۔ مَیں نے کہا پھر جو نماز پڑھنے جاتے ہیں ان میں سے نماز کی حقیقت سے کتنے آگاہ ہوتے ہیں؟ کہنے لگا بہت ہی کم۔ پھر مَیں نے کہا ان میں سے جو باقاعدہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ کہنے لگا ان کی تعداد تو اور بھی تھوڑی ہوتی ہے۔ میں نے کہا خدا اِس آیت میں یہ کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ اب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ آیت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اُتری آج بھی اپنے مضمون کی صداقت ظاہر کر رہی ہے۔ پھر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بدیاں آج پیدا ہوگئی ہیں تو کیا اِن بدیوں کو دُور کرنے کیلئے مصلح نہیں آنا چاہئے تھا؟ آخر یہ آیت اِسی لئے قرآن میں آئی ہے تا اللہ تعالیٰ بتائے کہ ایسے گندے لوگ چونکہ دنیا میں موجود ہیں اِس لئے ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کیلئے قرآن کی ضرورت تھی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی تو جب کہ موجودہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اِس آیت کا مضمون لوگوں کے عمل سے نظر آتا ہے تو جس اصلاح کا سامان خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تھا وہ بھی ہونا چاہئے۔ اِس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں ایسے وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان غور کرے تو وہ خزانہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہاں جو لوگ اِسے بند کتاب سمجھ لیتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اِس میں سے نئے معارف نہیں نکل سکتے اُن پر واقعہ میں کوئی بات نہیں کُھلتی۔ جس طرح اگر تم کسی جنگل میں سے گزر رہے ہو تو تمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے مگر تم کسی کو غور سے نہیں دیکھو گے لیکن اگر محکمہ جنگلات کا افسر معائنہ کرنے کیلئے آ جائے تو وہ بیسیوں نئی باتیں معلوم کر لیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اِس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ غیر محدود خزانہ ہے وہ اِس سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور جو اِس نیت سے نہیں پڑھتا وہ محروم رہتا ہے۔
ہر زبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال
الہامی کتابوں کے مطالب کے متعلق دوسری مشکل جیسا کہ میں
بتا چکا ہوں تشبیہہ اور استعارہ کی ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں تشبیہہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے۔ ہر اعلیٰ علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں۔ ہر ملک میں استعاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ ’’آنکھ بیٹھ گئی‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں؟ یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور کرسی پر۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہو گئی اور پھُوٹ گئی۔ اِسی طرح اور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبانِ اُردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔
غرض تشبیہہ اور استعارہ ایسی ضرور چیز ہے کہ اس کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ اِس کے استعمال سے مضامین خوبصورت اور مزین ہو جاتے ہیں اس لئے الہامی کتابیں بھی اسے استعمال کرتی ہیں۔ اور اس طرح وہ اِس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ تشبیہہ اور استعارہ بڑی ضروری چیز ہے۔
الہامی کتب کے بارہ میں لوگوںکی مشکلات
لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے الہامی کتابوں کو چونکہ
بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کے لفظ لفظ پر بیٹھ جاتے ہیں اور تشبیہہ اور استعارہ کی وجہ سے غلطی خوردہ لوگ دو انتہائوں کو پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو تشبیہہ اور استعارہ کو بالکل نظر انداز کر کے اسے حقیقت پر محمول قرار دے دیتے ہیں۔ اگر قرآن میں خدا کے ہاتھ کا ذکر آئے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بس اسی طرح چمڑے کا ہے جس طرح ہمارا ہاتھ ہے۔ اُس کی بھی انگلیاں ہیں اور انگوٹھا ہے۔ اور اگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا کی طاقت ہے تو وہ کہیں گے تم تاویلیں کرتے ہو جب خدا نے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس کی کوئی اور تاویل کرو۔ اسی طرح خدا کی آنکھ کا ذکر آئے تو وہ کہیں گے اس کے بھی ڈیلے ہیں۔ اور اگر اس کے کوئی اور معنی کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو تاویلیں ہوئیں۔ ایسے معنی کرنا خدا کی ہتک ہے۔ اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۵؎کے الفاظ آ جائیں تو وہ کہیں گے کہ جب تک خدا تعالیٰ کو ایک سنگِ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہؤا تسلیم نہ کیا جائے قرآن سچا نہیں ہو سکتا۔ یا اگر حدیثوں میں بعض ایسے ہی الفاظ آ جائیں کہ خدا اپنا پائوں دوزخ میں ڈالے گا۔ یا قرآن میں اُنہیں یہ دکھائی دے کہ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ ۶؎ تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا نے بھی پاجامہ پہنا ہوا ہوگا اور وہ اپنی پنڈلی سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اپنا پاجامہ اُٹھائے گا اُس وقت تک ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ تشبیہہ اور استعارہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے اور خدا تعالیٰ کے تجسّم کے قائل ہو گئے اور کسی نے ان الفاظ کی حکمت پر غور نہ کیا۔
وارفتگی کا استثنا
بے شک بعض دفعہ جذبات کی رَو میں بھی انسان ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتا ہے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی مجسّم ہے مگر
وہ ایک عارضی حالت ہوتی ہے جو وارفتگی کے وقت انسان پر وارد ہوتی ہے جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گزر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک گڈریے کو دیکھا جو مزے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ خدایا! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلائوں، تیری جوئیں نکالوں، تجھے مَل مَل کر نہلائوں، تیرے پائوں میں کانٹے چُبھ جائیں تو میں نکالوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو انہوں نے اُسے سونٹا مارا اور کہا۔ نالائق! تُوخدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے۔ اُسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ! اِس بندے کو تو میری کسی کتاب یا الہام کا پتہ نہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ میری کیا شان ہے یہ تو جذبۂ محبت میں سرشارہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا تیرا کیا بِگڑتا تھا اگر یہ اسی طرح مجھ سے باتیں کرتا رہتا۔ تو دنیا میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا عام انسانوں پر قیاس کر لیتے ہیں اور جب اُنہیں محبت کا جوش اُٹھتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا مل جائے تو ہم اُس کی خدمت کریں حالانکہ خدا تعالیٰ خدمت سے بالا ہستی ہے لیکن بہرحال یہ ایک وارفتگی کی کیفیت ہے اور اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ کہنے والا خدا تعالیٰ کے تجسّم کا قائل ہے۔ لیکن بعض پڑھے لکھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ اور اُس کی آنکھ سے ظاہری آنکھ مراد لے لیتے ہیں۔
فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز
اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر محبت کا جوش نہیں
ہوتا بلکہ فلسفہ اُن کے اندر جوش مار رہا ہوتا ہے۔ وہ جب سنتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے خدا کی آنکھیں ہیں اور دوسرا کہتا ہے اِس سے آنکھیں مراد نہیں بلکہ فلاں چیز مراد ہے یا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ مراد نہیں بلکہ طاقت و قوت مراد ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سارا قرآن ہی استعارہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز پڑھی جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا سے محبت پیدا کی جائے۔ اسی طرح جب قرآن کہتا ہے روزے رکھو تو وہ کہتے ہیں اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بھوکے رہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ حرام خوری نہ کرو۔ اسی طرح جب حج کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ خواہ مخواہ مکّے جائو بلکہ اس حُکم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی قومی ضروریات اجتماع چاہتی ہوں وہاں انسان چلا جائے۔ خواہ علیگڑھ چلا جائے یا کسی اور جگہ۔ حتیّٰ کہ بعض نے تو اِس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ موسیٰ کا نام آیا ہے تو اِس کے کچھ اور ہی معنی لئے ہیں اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اِس کے بھی کچھ اور معنی لئے گئے ہیں۔ ایسا آدمی بالکل سَوفسطائی بن جاتا ہے اور اِس کی مثال اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے۔ بادشاہ نے اُسے نیچے صحن میں کھڑا کر کے مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے۔ جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا اور دَوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا۔ بادشاہ کہنے لگا کہاں جاتے ہو؟ ہاتھی واتھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے۔ وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے۔ تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کئے نہیں چھوڑتے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک خدا ایک طاقت کا نام ہے۔ فرشتے اخلاق کا نام ہیں۔ جنت اور دوزخ قومی ترقی اور تنزّل کے نام ہیں اور اُن کے نزدیک یہ سب عبادتیں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ لوگوں کو بہلانے کیلئے رکھی گئی ہیں۔
عیسائیوں کی مذہبی کیفیت
بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی بعض باتوں کے متعلق تو وہ یہ کہتی ہیں
کہ یہ استعارے ہیں اور بعض باتوں کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ استعارے نہیں۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جن کا اگر استعارہ میں فائدہ ہو تو استعارہ مراد لے لیتی ہیں اور حقیقت میں فائدہ ہو تو حقیقت مراد لے لیتی ہیں۔ عیسائی اِسی قسم کے شُتر مُرغ ہیں۔ اُنہیں جس چیز میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ نے اپنے متعلق کہا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں۔ یہ ایک استعارہ تھا مگر عیسائیوں نے اسے حقیقت قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ سچ مُچ خدا کے بیٹے تھے مگر جب مسیح نے روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا حُکم دیا تو کہہ دیا کہ یہ استعارہ ہے۔ گویا جس میں اپنا فائدہ دیکھا وہی رَوش خود اختیار کر لی۔ جیسے کہتے ہیں کوئی پوربن تھی جس کا خاوند مر گیا۔ پوربن نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور اپنی بے کسی ظاہر کرنے کیلئے کہنے لگی۔ میرے خاوند نے فلاں سے اتنے روپے وصول کرنے تھے وہ اب کون وصول کرے گا؟ ایک پوربیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ وہ کہنے لگی فلاں جگہ اتنی زمین اور جائداد ہے اب اُس پر کون قبضہ کرے گا؟ تو وہ پھر بولا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ پھر وہ کہنے لگی اُس نے فلاں کاسَو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ تو وہ کہنے لگا۔ ارے بھئی! میں ہی بولتا جائوں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا۔ تو عیسائیوں نے اپنا مذہب ایسا ہی بنایا ہوا ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں وہاں کہتے ہیں بالکل ٹھیک۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ بُھوتوں کے نکالنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ روزے رکھے جائیں تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ استعارہ ہے۔
استعارات کی ضرورت
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب استعارات میں اس قدر خطرے ہیں تو الہامی کتابوں نے اسے استعمال کیوں کیا؟
کیونکہ خرابیاں یا تو استعارہ کو محدود کر دینے سے پیدا ہوتی ہیں یا اسے وسیع کر دینے سے۔ اگر استعارہ رکھا ہی نہ جاتا تو اس میں کیا حرج تھا؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ کی کئی ضرورتیں ہیں۔
اوّل اس کی ضرورت اختصار ہے۔ تشبیہہ اور استعارہ میں جس قدر اختصار پیدا ہو سکتا ہے وہ اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح لمبے لمبے مضامین بعض دفعہ صرف ایک فقرہ میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ وہ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۷؎ یعنی صُبحوں کا پھاڑنے والا ہے۔ اِس جگہ اِصْبَاح جمع کا لفظ رکھا ہے اور پھر اس کے ساتھ فَالِق کا لفظ رکھا ہے اور گو بظاہر یہ دو لفظ نظر آتے ہیں لیکن اِس مضمون کو اگر دیکھیں جو اِس میں بیان کیا گیا ہے تو وہ بہت لمبا ہے۔ یعنی دنیا میں قسم قسم کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور ان تمام تاریکیوں کو دُور کرنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کی آخری کڑی خدا ہے۔ جب وہ کڑی تیار ہو جاتی ہے تو تاریکی دُور ہو جاتی ہے اور فلقِ صبح ہو جاتا ہے۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر اُن کا علاج کرتے ہیں مگر کیا ان کے علاج سے سارے مریض اچھے ہو جاتے ہیں؟ یقینا تمام قسم کا علاج کرنے کے باوجود بعض مریضوں پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ڈاکٹر کہہ دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہی حال ہر پیشے کا ہے۔ وکیل کو لے لو تو اُسے وکالت میں، انجنیئر کو لے لو تو اسے انجنیئرنگ میں ایک جگہ پہنچ کر رستہ بالکل بند نظر آتا ہے۔ اور سوائے اِس کے اور کوئی صورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اُس کی غیب سے مدد کرے۔ پس ایسی حالت میں سوائے خدا کے اور کوئی مصیبت دُور نہیں کر سکتا۔ اور اسی کو فَالِقُ الْاِصْبَاح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اللہ مشکلات کو دور کرنے والا ہے تو اس سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو فَالِقُ الْاِصْبَاح کے الفاظ میں ادا ہوا ہے اور جو رات اور صبح کی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے پس اس استعارہ نے لمبے مضامین کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا۔
دوسرے استعارہ سے وُسعتِ نظر پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بندر اور سؤر بنا دیا۔ اب اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ ہم نے انہیں بے حیا بنا دیا تو ان الفاظ میں اس مضمون کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہ ہوتا جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ میں ادا ہوا ہے۔ کیونکہ قِرَدَہً اور خَنَازِیْر کی بیسیوں خصوصیتیں ہیں کوئی ایک خصوصیت نہیں۔ مثلا بے حیائی بھی ایک خصوصیت ہے۔ گندگی بھی ایک خصوصیت ہے۔ خنزیر نہایت ہی گندہ ہوتا ہے اور یہودی بھی حد درجہ غلیظ ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ جہاز کا سفر کیا تو کچھ یہودی بھی اس جہاز میں سوار ہوگئے۔ میں نے اُنہیںدیکھا تو وہ اتنے گندے تھے کہ گویا چوہڑے ہیں۔ مگر جب بمبئی جہاز پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہایت زرق برق لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ کہاں سے آ گئے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ وہی یہودی ہیں جو سارے سفر میں ساتھ رہے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو اِسی لئے کہ بتائے کہ بندر اور سؤر میں جو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں وہ سب ان میں پائی جاتی ہیں۔ اگر صرف اتنا کہہ دیتا کہ یہودی گندے اور بدکار ہیں تو وہ مضمون ادا نہ ہو سکتا۔ غرض قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ سے مضمون کو حیرت انگیز وُسعت ہوئی ہے حتیّٰ کہ قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کی بعض خصوصیات آج معلوم ہو رہی ہیں اور وہ خصوصیات بھی یہودی قوم میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بندر میں نقّالی کا مادہ ہوتاہے اور یہودیوں میں بھی نقل کا مادہ کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔ پس یہودیوں کے متعلق بتایا کہ وہ صرف بدکار ہی نہیں بلکہ نقّال بھی ہیں۔ اسی طرح بندر پانی سے ڈرتا ہے۔ یہود بھی ہمیشہ خشکی میں رہتے ہیں سمندر میں سفر نہیں کرتے۔ اسی طرح درجن سے زیادہ خصوصیات ایسی ہیں جو یہود میں پائی جاتی ہیں مگر وہ سب قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ کے اندر خدا تعالیٰ نے بیان کر دیں۔ اگر قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ اللہ تعالیٰ استعمال نہ کرتا اور الگ الگ ان کی خصوصیات بیان کرتا تو اِس کے لئے ایک مکمل سورۃ چاہئے تھی۔ اب رہے خَنَازِیْر- تو خَنَازِیْر میں بھی کئی عیب ہیں۔ مثلاً ایک عیب تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا جاتا ہے رستہ نہیں بدلتا حتیّٰ کہ حملہ بھی کرتا ہے تو سیدھا کرتا ہے۔ یہود میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے وہ بھی اپنی زندگی کے شعبے تبدیل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح خِنْزِیْر میں گندگی پائی جاتی ہے اور یہود بھی حد درجہ گندے ہوتے ہیں۔ پھر بعض امراض بھی خِنْزِیْر میں ہوتی ہیں جو یہودیوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں مگر میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
تیسرے تشبیہہ اور استعارہ کی ضرورت تبعید کیلئے ہوتی ہے یعنی مضمون کو اُونچا کر دینا اور نظر کو وسیع کر دینا استعارہ کا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ استعارہ تھا کہ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوںکو سورج، چاند اور ستاروں کی صورت میں دیکھا۔ اب خالی بھائی کہہ دینے سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو ستاروں میں ادا ہوا ہے یا جیسے سورج اور چاند کے الفاظ میں ادا ہوا ہے کیونکہ سورج، چاند اور ستارے ایک وسیع مضمون رکھتے ہیں۔ مثلاً یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ تیرے بھائی باوجود اِس کے کہ اِس وقت تیرے مخالف ہیں اور ان کی عملی حالت اچھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے دنیا کی ایسی ہی راہنمائی کرے گا جس طرح ستارے راہنمائی کرتے ہیں۔ اب یہ ایک وسیع مضمون تھا جو بھائی کہہ کر ادا نہیں ہو سکتا تھا مگر ستارے کہہ کر ادا ہو گیا۔
چوتھے تقریبِ مضمون کیلئے بھی استعارہ ضروری ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ مضمون اتنا وسیع ہوتا ہے کہ انسان اُسے سمجھ نہیں سکتا جب تک کسی خاص طریق سے اُسے ذہن کے قریب نہ کر دیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے تو اس پر بچہ پوچھتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے؟ تو اگر ہم اُسے کہہ دیں کہ ماں سے بھی زیادہ تو وہ فوراً بات سمجھ جائے گا۔ حالانکہ ماں کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی لئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ خدا ماں ہے، خدا باپ ہے۔ کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جب تک استعارہ کے رنگ میں اسے ادا نہ کیا جائے۔ تو استعارہ اور تشبیہہ نہایت ضروری چیز ہے اور کلام کا ویسا ہی اہم جزو ہے جیسے اور الفاظ اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں وُسعتِ مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہوگا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں۔ مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے۔ ورنہ گ ھ و ڑ اور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے؟پس یہ ایک تشبیہہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا۔ ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آ جاتی۔ جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کھِیر نہیں کھائی تھی۔ ایک دن کسی نے اُن کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اُس نے کھِیر پکائی ہے۔ وہ کہنے لگے کھِیر کیا کھانا ہوتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے۔ اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے؟ شاگرد کہنے لگا بگلے کی طرح ہوتا ہے۔ حافظ صاحب پوچھنے لگے بگلا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اس پر شاگرد نے ہاتھ کی شکل بگلے کی طرح بنائی اور اُس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا۔ حافظ صاحب نے فوراً شور مچا دیا اور کہنے لگے جائو جائو میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ یہ کھِیر تو میرے گلے میں اٹک کر مجھے مار ڈالے گی۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بگلے سے فلاں چیز مراد ہے، گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا۔ پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیاجا سکتا۔
استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے
حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح
استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً عام طور پر جب کسی شخص سے کوئی حماقت کا کام سرزد ہو تو اُسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ یا کوئی بہادر شخص ہو تو اُس کے متعلق ہم شیر کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم شیر کا لفظ استعمال نہ کریں اور خالی بہادر کہہ دیں تو جو شخص استعارہ کو سمجھنے کی طاقت رکھتا ہے وہ بہادر کے لفظ سے کبھی وہ مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو شیر کے لفظ سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی استعارہ غلط استعمال کر دے۔ مثلاً گدھا ہے گدھا ہمیشہ بے موقع کام کرنے والا ہوتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے باقی جانوروں کو ہٹائو تو وہ ایک طرف ہو جائیں گے مگر گدھے کو ہٹائو تو وہ ٹیڑھا کھڑا ہو جائے گا اور رستہ روک لے گا۔ اب اگر ہم کسی کو بیوقوف کہیں تو اِس بیوقوف کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ بے موقع کام کرتا ہے لیکن گدھے کا لفظ استعمال کرنے سے فوراً دوسرا شخص سمجھ جائے گا کہ یہ بے موقع کام کرتا ہے۔ اسی طرح گدھے سے بوجھ اُٹھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اِسی وجہ سے علمائے یہود کی مذمّت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اب جو لوگ اِس نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ کسی کو گدھا کہنے سے ایک مقصد اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ بدعمل ہے وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ جسے گدھا کہا گیا ہے وہ نہ صرف بے موقع کام کرتا ہے بلکہ بے عمل بھی ہے۔ لیکن خالی احمق یا بیوقوف کا لفظ کہنے سے یہ مضمون ادا نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو مضمون کسی کو شیر کہنے سے ادا ہوتا ہے وہ خالی بہادر کہنے سے ادا نہیں ہوتا۔ کیونکہ شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ دوسرے وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اگر شیر کے آگے لیٹ جائیں تو وہ حملہ نہیں کرتا سوائے اِس کے کہ اُس کے منہ کو خون لگ چکا ہو۔ یہ خوبی شیر میں یہاں تک دیکھی گئی ہے کہ بعض جگہ چھوٹے بچے لیٹے ہوئے تھے کہ اتفاقاً وہاں شیر آ گیا۔ ایسی حالت میں بجائے اُن پر حملہ کرنے کے وہ اُنہیں چاٹنے لگ گیا۔ اسی طرح اس میں خوف بالکل نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیات ہیں جو شیر میں پائی جاتی ہیں۔ اب اگر ہم کسی کے متعلق محض بہادر کا لفظ استعمال کریں تو گو اِس سے اُس کی جرأت اور دلیری کا اظہار ہو جائے گا مگر یہ اظہار نہیں ہو گا کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ وہ زیرِدست سے چشم پوشی کرتا ہے اور ڈر اور خوف اس میں بالکل نہیں۔ تیسرے اس میں ہیبت ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت بھی ایسی ہے جو شیر میں ہی پائی جاتی ہے کہ اس میں خداتعالیٰ نے ایسی ہیبت پیدا کردی ہے کہ حملہ سے نہیں بلکہ اُس کی شکل سے ہی دوسرے کو ڈر لگنے لگ جاتا ہے۔
غرض استعارہ مضمون میں وُسعت پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت کہ یہ ضروری چیز ہے یہ ہے کہ رؤیا میں نوّے فیصدی استعارات سے کام لیا جاتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ میں بینگن کھا رہا ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اُسے کوئی غم پہنچے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ فلاں عزیز مر گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو گی۔ وہ دیکھتا ہے کہ اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے دین کیلئے وقف کر دے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں بکرا ذبح کر رہا ہوں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بچہ مر جائے گا۔ میں اِس بحث میں اِس وقت نہیں پڑتا کہ رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہیں یا دماغی کیفیت کا ایک نتیجہ ہیں۔ لیکن بہرحال اگر رؤیاایک دماغی کیفیت ہے تب بھی سب دماغوںنے متفقہ طور پر فیصلہ کردیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گزارہ نہیں۔ اور اگر رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے تب بھی خداتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں۔ پس بنی نوع انسان اور خداتعالیٰ کی متفقہ شہادت اس امر پر ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیںہو سکتا۔ باقی رہے خطرات سو میں انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ استعاروں کو نہ سمجھ کر ہی عیسائی گمراہ ہو گئے۔ کہیں انہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا قرار دے لیا تو کہیں شریعت کو *** قرار دے دیا۔ لیکن اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو جس سے یہ خطرات دُور کئے جا سکیں تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کلام ان خطرات کا ازالہ کر دے وہ بہترین کلام سمجھا جائے گا۔ (میں اِس وقت انسانی کلام پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ الہامی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں)
غلط فہمیاں دُور کرنے کے ذرائع
پہلی الہامی کتابوں نے بے شک استعارے استعمال کئے ہیں مگر ان کے خطرات کو دُور
کرنے کیلئے بعد میں نبی آتے رہے۔ اور جب بھی لوگوں کو کوئی غلطی لگی‘آنے والے نبیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ ہوتا رہا۔ لیکن اِن استعارات کو سمجھنے کے لئے ان میں اندرونی شہادت موجود نہیں ہوتی تھی۔ مثلاً انجیل میں حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے مگر اِس استعارہ کو حل کرنے کیلئے اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک عارضی تعلیم ہے جب اس کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا لگا تو پھر ایک مکمل شریعت اُتاری جائے گی جیسے گورنمنٹیں جب عارضی طور پر پُل بناتی ہیں تو ایسے سامان سے بناتی ہیں جو تھوڑے عرصہ تک کام دے سکے۔ زیادہ پائیدار اور پختہ سامان نہیں لگاتیں۔ اِسی طرح پہلی تعلیمیں چونکہ عارضی تھیں اور اللہ تعالیٰ اُن کو منسوخ کر کے ایک کامل تعلیم اُتارنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے ان کتب میں اندرونی شہادت نہ رکھی صرف بیرونی شہادت سے خطرات کا ازالہ کرتا رہا۔ اس لئے جب بیرونی شہادت بند ہو گئی تو سابقہ الہامی کتب بھی منسوخ کر دی گئیں۔ لیکن قرآن کریم چونکہ ابدی ہدایت نامہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے خطرات کے ازالہ کیلئے دو صورتیں رکھی ہیں۔ اوّل بعثت مامورین۔ دوم اندورنی شہادت۔ تاکہ کسی وقت بھی ایسی غلطیاں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوں جو سب کو گمراہ کر دیں۔ پہلی کتب کے ساتھ چونکہ یہ حفاظت کے اسباب نہیں تھے اس لئے ان کے بعض مضامین سے لوگوں کو ٹھوکر لگی اور بعض مضامین کو وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ مثلاً بائیبل کی کئی آیات ان ہدایات پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو۔ ۸؎
اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے انسانی عقل سے بالا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں مگر بائیبل کی کتاب گِنتی میں باقاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں اور پھر اِس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے۔ اب یقینا یہ کوئی استعارہ ہو گا۔ مثلاً ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو۔ جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ۹؎ لیکن چونکہ اندرونی شہادت اِس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے اس لئے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے۔ گزشتہ دِنوں ایک جرمن اُستانی مَیں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کیلئے رکھی۔ اُسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اُسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اُسے تبلیغ کی تو وہ کہنے لگی۔ ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں۔ تو ریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے ؟اُس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا بائیبل میں یہ لکھاہے چنانچہ بائیبل منگوا کر اُس کے سامنے رکھی گئی اور وہ باب نکال کر اُسے دکھایا گیا۔ وہ سارا دن سر ڈالے بار بار اُسے پڑھتی اور سوچتی رہی۔ آخر مجھے کہنے لگی یہ بات میری عقل سے باہر ہے۔ مَیں کسی پادری کو اِس کے متعلق لکھوں گی اور جو جواب اِس کاآئے گا وہ میں آپ کو بتاؤں گی۔ میں نے کہا۔ پادری بھی اِس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا مگر خیر اُس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا۔ کوئی دو مہینے کے بعد اُس کا جواب آیا مگر وہ بھی اُس نے خود نہیں لکھا بلکہ اُس کی کسی سہیلی سے لکھوایا۔ اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ مچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے اور اِس قسم کی باتیں جو بائیبل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں اور اِس کی تشریح کیلئے جو نبی آیا کرتے تھے اُن کا سلسلہ بند ہو گیا اس لئے لوگوں کے لئے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا۔ لیکن قرآن نے اپنے استعارات کے حل کے متعلق دونوں شہادتیں رکھی ہیں یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ پس پہلی کتب اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ گو تشبیہہ اور استعارہ دونوں کتب میں استعمال ہوئے ہیں مگر پہلی کتب سے جو غلطی پیدا ہو جاتی تھی وہ ان کتب سے دُور نہیں ہو سکتی تھی مگر قرآن کریم کی کسی بات سے اگر کوئی غلطی لگے تو وہ قرآن سے ہی دُور ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے استعاروںکو کوئی حقیقت نہیں بنا سکتا اور نہ حقیقت کو استعارہ بنا سکتا ہے۔ مَیں یہ مانتا ہوں کہ اِس امر کا امکان ہے کہ کسی وقت مسلمان غلط فہمی سے لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ کی تعداد میں بِگڑ جائیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے بِگڑ جائیں حالانکہ عیسائی سب کے سب بِگڑ گئے۔
قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے
چنانچہ یہ دعویٰ جو مَیں نے کیا ہے کہ
قرآن کریم اپنے استعارات کو آپ حل کرتا ہے اِس کو قرآن کریم نے خود پیش کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلاَّ اللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّابِہِ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ اُولُوالْاَلْبَابِo ۱۰؎ فرماتا ہے قرآن کے جو مضامین ہیں ان میں سے کچھ تومُحکم ہیں یعنی ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا مگر کچھ آیتیں ایسی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی الفاظ تو ہیں مگر ان میں تشابہ ہے۔ مثلاً انسان کو بندر اور سؤر کہہ دیا گیا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جو کجی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے۔ اگر یہود کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا تو وہ کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ اور اگر یہ آئے کہ انہیں سؤر بنا دیا گیا تھا تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ واقعہ میں وہ سؤر بن گئے تھے۔ اگر یہ ذکر آئے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے تو یہ کہنے لگ جائیں گے کہ اس کے واقعہ میں گُھٹنے ہیں اور وہ کسی تخت پر بیٹھا ہے اور اس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ فتنہ پیدا کریں۔ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ اور حقیقت سے پھِرانے کیلئے وہ ایسا کرتے ہیں۔ تاویل کے معنی پھِرانے کے ہوتے ہیں چاہے حقیقت سے دُور لے جانے کے معنوں میں ہو یا حقیقت کی طرف لے جانے کے معنوں میں ہو مگر یہاں وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ کے معنی حقیقت سے دُور لے جانے کے ہیں۔ یعنی استعارے کو وہ حقیقت قرار دے کر لوگوں کو اصل معنوں سے دُورلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ استعارہ ہوتا ہے اور استعارہ کی وجہ سے اس کا مفہوم خدا ہی بیان کر سکتا ہے جو عالم الغیب ہے۔ تم خود کس طرح سمجھ سکتے ہو۔ اگر کہو کہ پھر ہمیں استعاروں کے مفہوم کا کس طرح پتہ لگے؟ تو فرمایا وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ ہم نے اِن کا مفہوم قرآن میں بیان کر دیا جو سمجھنے والے ہیں اُن کے سامنے جب دونوں آیات آتی ہیں وہ بھی جن میں استعارہ ہوتا ہے اور وہ بھی جن میں حقیقت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے جو استعارے والی ہے اور وہ آیت بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے اور ناممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید گدھا ہے اور پھر کہیں کہ زید نے فلاں کتاب نقل کر کے دی ہے تو اِس صورت میں اگر کوئی دوسرا اس استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہوئے سوال کرے کہ کیا زید چوپایہ ہے؟ تو اُسے دوسرے فقرہ کو جس میں اُس کی طرف کتاب کا نقل کرنا منسوب کیا گیا ہے جھٹلانا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ دونوں فقرے صحیح ہیں تو لازماً استعارہ کو استعارہ کے معنوں میں لانا پڑے گا اور حقیقت کو حقیقت کے معنوں میں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یہ کہتے ہیں کہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ یعنی اے بھلے مانسو! جو استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہو کیا تم اس امر کو نہیں جانتے کہ جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جائیں گی اور وہ سچی ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک استعارہ کو استعارہ کی حد میں نہ رکھا جائے۔ حالانکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں اور دونوں سچی ہیں اور جب دونوں باتیں سچی ہیں تو لازماً ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ایک حقیقت ہے اور ایک استعارہ۔ وَمَایَذَّکَّرُاِلاَّاُولُوالْاَلْبَابِ- مگر یہ فائدہ عقلمند لوگ ہی اُٹھاتے ہیں۔
حضرت مسیحؑ کا معجزہ احیائے موتی
اِس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک موٹی مثال احیائے موتی کی ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے زندہ کیا کرتے تھے اور دوسری طرف قرآن میں ہی لکھا ہے کہ مُردے کی روح اِس جہان میں واپس نہیں آتی۔ اب اگر ہم مُردوں کو زندہ کرنے سے حقیقی مُردوں کا اِحیاء مُراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا ماننا پڑتا ہے۔ لیکن اگر مُردوں سے روحانی مُردے مُراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ مُردے زندہ کرو اور دوسری طرف کہہ دیا کہ مُردے واپس نہیں آتے۔ اس طرح جو استعارہ کا فائدہ تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور جو نقصان تھا وہ بھی دُور ہو گیا۔ احیائے موتی کے الفاظ استعمال کرنے سے مضمون میں جو وُسعت پیدا کرنا مدِّنظر تھا وہ وُسعت بھی پیدا ہو گئی اور جو خطرہ تھا کہ جاہل مسلمان اُنہیں خدا قرار نہ دے لیں اسے بھی دُور کر دیا۔
مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد
اِن معنوں کی تائید ایکحدیث سے بھی ہوتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ
نے کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ مُحکمات و متشابہات کے بارہ میں جھگڑتے اور استعارہ اور حقیقت میں فرق نہ سمجھتے ہوئے قابلِ اعتراض باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خداتعالیٰ کی کتاب اس لئے اُتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرے۱۱؎ ۔ پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے۔ پس کبھی قرآن کے وہ معنی نہ کرو جو اس کی کسی دوسری آیت کو جھٹلاتے ہوں۔ اگر مطلب سمجھ میں نہ آئے تو جانے دو اور کسی عالمِ قرآن سے دریافت کرو وہ تمہیں اس کا مطلب بتا دے گا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں مخالف نہیں اگر استعارہ سمجھ میں آ جائے تو اُسے محکم آیات کے مطابق کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی واقف کے پاس جائو اور اُس سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے وہ تمہاری عُقدہ کشائی کر دے گا۔
غرض اس اصل کے ماتحت جو قرآن کریم نے بتایا ہے اور حدیث کے بھی ماتحت ہے جہاں دوسری کتب میں بعض خلافِ عقل اور خلافِ سنت باتیں پائی جاتی ہیں وہاں قرآن کریم ان باتوں سے پاک ہے کیونکہ مستعمل استعاروں کا حل قرآن میں موجود ہے۔
قرآنی استعارات کی ایک مثال
اس سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی بیسیوں باتیں بیان کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ مَیں قرآن
کی تفسیرنہیں کر رہا اس لئے مثال کے طور پر مَیں صرف ایک امر بیان کر دیتا ہوں۔ اور وہ وہی ہے جس کا ذکر سورہ نمل کے اُس رکوع میں کیا گیا ہے جس کی آج ہی مَیں نے تقریر شروع کرنے سے قبل تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے۔ ہم نے دائود ؑ اور سلیمان ؑ کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍمِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ۱۲؎ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ اور سلیمان ؑ دائود ؑ کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اور سلیمان ؑ کیلئے لشکر جمع کئے گئے۔ وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں کے بھی۔ گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی۔ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ۔ پھر حضرت سلیمان ؑ اپنا لشکر لے کر چلے یہاں تک کہ وہ وَادِالنَّمْلِ یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے۔ ایک چیونٹی نے اُنہیں دیکھ کر کہا۔ اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے مسل دیں۔ حضرت سلیمان ؑ اُس کا یہ قول سن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا۔ اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں۔ وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا۔ یہ کیا بات ہے کہ ہُد ہُد نظر نہیں آتا۔ میں اُسے سخت عذاب دونگا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا؟ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ہُد ہُد آ گیا اور اُس نے کہا کہ حضور! ناراض نہ ہوں۔ میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں۔ میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر نعمت اُسے حاصل ہے اور اُس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے اُن کے اعمال اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چُھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اُسے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سِوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ تو میرا یہ خط لے جا اور اِسے اُن کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
اِسی قسم کا مضمون سورہ سبا رکوع۲ میں بھی آتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَاَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۱۳؎ یعنی ہم نے دائود ؑ پر بھی بڑا فضل کیا اور اُس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حُکم دے دیا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا اور اُسے کہا کہ اس لوہے سے زِرہیں بنائو اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو اور نیک اعمال بجا لائو میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں۔
اسی طرح سورہ انبیاء رکوع۶ میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ وَکُنَّا فٰعِلِیْنَo وَعَلَّمْنٰـہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَأْسِکُمْ فَھَلْ اَنْتُمْ شَاکِرُوْنَ۔ ۱۴؎ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخرکر دیئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھلایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے پس کیا تم شکر گذار بنو گے؟
پھر سورہ صٓ رکوع ۲ میں آتا ہے۔ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِ اِنَّہٗ اَوَّابٌo اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌo وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰـہٗ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ۱۵؎ یعنی ہمارے بندے دائود کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جُھکتا تھا ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے اُس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے۔ اور ہم نے اُس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنا دیا تھا اور اُسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا منہ بند کر دیں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جِنّ بھی تھے، پرندے بھی تھے، پہاڑ بھی تھے۔ وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے۔ ایک ہُدہُد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو اُن کے بڑے بڑے کام کرتا تھا۔
مفسّرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں
اب جن لوگوں نے متشابہہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں
کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داؤد ؑ کے قبضے میں پہاڑ تھے۔ جِنّ تھے، پرندے تھے، حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت دائود ؑ کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرتے تھے۔ جب وہ کہتے سُبْحَانَ اللّٰہِ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جِنّ بھی اور حیوانات بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے۔ جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سَستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں۔ پڑھو درود۔ وہ بھی گویا اِسی طرح کرتے تھے۔ جب خود ذکرِ الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ! پڑھو درود۔ اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا۔ پھر جب انہیں آرام آ جاتا تو کہتے چپ کرو اَب میں خود درود پڑھتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کا سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے۔ جب حضرت دائود سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ، پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے۔ بعض کو اِس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے۔ حضرت دائود ؑ تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ، شوالکؔ اور الپسؔ سب آپ کے ساتھ ساتھ پِھرا کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے۔ اُن دِنوں چِڑیاں بھی چوں چوں نہیں کرتی تھیں، بکریاں مَیں مَیں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتی تھیں۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اِسی طرح لکھا ہے۔ غرض وہ عجیب زمانہ تھا۔ اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جِنّ اُن کے حوالے کر دیئے جو اُن کے اشارے پر کام کرتے۔ جب چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پَر پَھیلا کر سایہ کر دیتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت دائود ؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے۔ جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے۔ ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے۔ وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آگیا ہے۔ پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آ گیا؟ وہ کہنے لگا مَیں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ اور یہ کہتے ہی اُس نے آپ کی جان نکال لی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پَروں سے سایہ کیا۔
کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے۔ کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسّرین نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا چلیں اِسْتِسقاء کی نماز پڑھائیں۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبرائو نہیں بارش ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بَل کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا! اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی۔ ایک دفعہ وہ وادیٔ النمل میں سے گزرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حُکم دیا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گھس جائو۔ مگر مفسّرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے اور کہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مغل، راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اِسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پائوں سے لنگڑی تھی اور اُس کا قد بھیڑ کے برابر تھا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسّرین کو گھڑنے پڑے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف تھی۔ چنانچہ مَیں باری باری ہر واقعہ کو لیتا ہوں اور سب سے پہلے میں حضرت دائودعلیہ السلام کا قصہ لیتا ہوں۔
پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دائود ؑ کیلئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو تسبیح کرتے تھے۔ اب
ہم دیکھتے ہیں کہکیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے؟ حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اُس کیلئے پہاڑ مسخر کر دیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَسَخَّرَلَکُمْ مَّافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۱۶؎ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کافرو اور منافقو! ہم نے تم میں سے ہر ایک کیلئے سمندر مسخر کر دیئے ہیں جس میںکشتیاں اُس کے حُکم سے چلتی ہیں تا کہ تم خدا کا فضل تلاش کرو۔ اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے بڑے بڑے نشانات ہیں۔ اب اس آیت سے حضرت دائود ؑ والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کیلئے مسخر ہیں۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائود کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے۔ اگر دائود کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں۔ اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت دائود ؑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتاتھا۔
پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنے
اب رہا سوال تسبیح کا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے پہاڑ اور پرندے
حضرت دائود ؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں دے دیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۱۷؎ یعنی سورج بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ چاند بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ ستارے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اسی طرح مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کر رہے ہیں۔ یہ لیمپ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ لائوڈ سپیکر بھی تسبیح کر رہا ہے۔ اسی طرح درخت بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اُن کے پتے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ آم بھی تسبیح کر رہا ہے۔ کیلا بھی تسبیح کر رہا ہے بلکہ کیلے کا چِھلکا جس کو ہم اُتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ روٹی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ تھالی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں۔ چائے بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ مِصری یا کھانڈ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پیالی بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پِرچ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح مکان بھی، چھت بھی، دیواریں بھی، دروازے بھی، وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو اُس بستر کی چادر بھی اور توشک اور رضائی بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہر چیز سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہے تو حضرت دائود ؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آ جائیں تو اس کے نئے معنی کیوں بن جاتے ہیں۔ دیکھ لو وہ دونوں باتیں جو حضرت دائود ؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں۔ ہمارے لئے بھی خدا کہتا ہے کہ مَیں نے ہر چیز مسخر کر دی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے۔ بلکہ حضرت دائود ؑکیلئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دُور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کر رہا ہے لیکن حضرت دائود نے چونکہ صرف جِبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائود ؑ کے زمانہ میں صرف جِبال نے تسبیح کی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا۔ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا۱۸؎ زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کر رہا۔ اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائے گی، پس یُسَبِّحُ لِلّٰہِ والے مضمون کو دائود کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کے لئے تھے اور حضرت دائود ؑ صرف چند جِبال کیلئے۔
باقی رہا اَوِّبِیْ مَعَہٗ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت دائود ؑ کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرّہ ذرّہ تسبیح میں شامل ہے۔ کوئی کہے کہ پھر حضرت دائود ؑکی خصوصیت کیا رہی؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ اُن کیلئے مسخر تھے۔ کیونکہ میں قرآن کریم سے ثابت کر چکا ہوں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے مسخر کر دیا ہے۔ ہاں جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اُس میں اُسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے۔ پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائود ؑکیلئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح عام بنی نوع انسان کیلئے۔ لیکن حضرت دائود ؑکو ایک زائد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا۔ پس گو تسخیر بعینہٖ وہی ہے جو ہمارے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے۔
جبال سردارانِ قوم کو بھی کہتے ہیں
اب مَیں لُغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں۔ چنانچہ جَبَلٌ کے معنے لُغت میں
سَیِّدُ الْقَوْمِ کے لکھے ہیں۔۱۹؎ پس حضرت دائود ؑ کیلئے جِبَال مسخر کر دیئے کے معنی یہ تھے کہ حضرت دائود علیہ السلام یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے اِردگرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو۔ لیکن حضرت دائود ؑ پہلے بادشاہ ہیں جن کے اِردگرد کے حکمران ان کے مُطیع ہوگئے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یُسَبِّحْنَ کا لفظ آتا ہے۔ تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جِبَال چونکہ مؤنث ہے اس لئے یُسَبِّحْنَ کا لفظ آیا ہے ورنہ سردارانِ قوم کے معنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں۔
پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
باقی رہے طَیْر۔ سو ان کیلئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں۔
اور اِس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ حضرت دائود ؑکے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ دراصل لوگوں کو عربی زبان کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا اور وہ خیال کرنے لگے کہ جِبَال کے ساتھ طَیْر بھی تسبیح کیا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ یہاں طَیْرَ پر زبر ہے اور زبر دینے والا سَخَّرَ کا لفظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح ہم نے طَیْر بھی مسخر کر دیئے یہاں کسی تسبیح کا ذکر نہیں۔ صرف اتنے معنے لئے جا سکتے ہیں کہ انہیںپرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا۔ جیسے کبوتروں سے خبر رسانی وغیرہ کا کام لے لیا جاتا ہے۔ پس قرآن میں سَخَّرْنَا الطَّیْرَ ہے یُسَبِّحْنَ الطَّیْرَ نہیں ہے۔
دوسری آیت یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ۔ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً یہاں بھی طَیْرَ کا نَاصِبْ سَخَّرَ ہے اور میں حیران ہوں کہ مفسرین نے پرندوں کے تسبیح کرنے کے معنے کہاں سے لئے۔
تیسری آیت یہ ہے وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔ ہم نے دائود ؑ پر بڑا فضل کیا اور پہاڑوں سے کہا اے پہاڑو! تم بھی اس کی تسبیح کا تسبیح سے جواب دیا کرو۔ اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دیئے۔ گویا یہاں اٰتَیْنَا الطَّیْرَ فرمایا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے۔ غرض طَیْرَ کا ناصب یا سَخَّرَ ہے یا اٰتٰی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے حضرت دائود ؑ کو طَیْر بھی دیئے تھے۔ لیکن میں کہتا ہوں اگر اس کے معنے تسبیح کے بھی کر لو تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی بڑی بات ہوسکتی ہے۔ مجھے ہمیشہ آجکل کے علماء پر تعجب آیا کرتا ہے کہ جب حضرت دائود ؑ یا حضرت سلیمانؑ یا حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنی لے لیتے ہیں۔ لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے آ جائے تو اس کے معنی اور کر لیتے ہیں۔ حضرت دائود ؑکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں۔ پہاڑ واقعہ میں سُبْحَانَ اللّٰہِ سَبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتے تھے۔ اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان آپ کیلئے مسخر کر دیئے تو کہیں گے یہاں تشبیہہ مراد ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مُردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مُردوں سے روحانی مُردے مراد ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آ جائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوا لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مُردوں کے نتھنوں میں پھُونک مار کر انہیں زندہ کر دیا تھا، اُس وقت تک انہیں چَین ہی نہیں آتا۔
جنات کا ذکر
اِس کے بعد مَیں جنوں کو لیتا ہوں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اِس وقت میرے سامنے ایک ایسے دوست بیٹھے ہیں جو جنوں کے قابض کہلاتے ہیں
اور بائیں طرف وہ بیٹھے ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جن اُن کے قبضہ میں آ جائیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اگر میں ان کے خلافِ طبیعت کوئی بات کہہ دوں تو وہ مجھے معاف کریں گے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی یا بُری کوئی مخلوق جِنّ ضرور ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر سوال یہ نہیں کہ جِنّ کوئی مخلوق ہے یا نہیں بلکہ سوال اُن جنوں کا ہے جو حضرت سلیمانؑ کے ساتھ تھے اور حضرت سلیمانؑ کے متعلق اُن جنوں کا ذکر ہے جن کا باقاعدہ لشکر تھا۔ وہ خبریں لا لا کر دیا کرتے تھے، وہ باقاعدہ لڑائیوں میں ساتھ جاتے تھے حتیّٰ کہ جنوں کے پَیروں کے نیچے چیونٹیاں بھی کچلی جاتی تھیں۔ پس اِس وقت سوال اُن جنوں کا ہے جو ہر وقت حاضر رہتے تھے اور جن کی فوجیں رائٹ لیفٹ کرتی رہتی تھیں۔
رسول کریم ﷺ کے پاس جنوں کی آمد
اب سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا قرآن میں حضرت
سلیمان کے متعلق ہی یہ ذکر آیا ہے یا اور کسی نبی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس کے پاس جِنّ آئے۔ سو جب ہم اس غرض کیلئے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو سورہ احقاف میں ہمیں یہ آیات نظر آتی ہیں۔ وَاِذْصَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔ قَالُوْا یٰـقَوْمَنَا اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ یٰـقَوْمَنَا اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَ یُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۲۰؎ یعنی اُس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم جنوں میں سے کچھ لوگ جو قرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے تیری طرف پھیر کر لے آئے۔ جب وہ تیری مجلس میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ خاموش ہو جائو تا کہ قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے۔ جب قرآن کی تلاوت ختم ہو گئی تو وہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کر دی۔ اور اپنی قوم سے کہا اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سُنی ہے جو موسیٰ کے بعد اُتاری گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسٰی سچا نبی تھا اور اُس نے جو کچھ کہا تھا خدا کی طرف سے کہا تھا یہ کتاب حق کی طرف بُلاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے مُنادی کی آواز کو سنو اور اُسے قبول کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جِنّ تورات پر، حضرت موسیٰ پر، قرآن پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ پس حضرت سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جِنّ ایمان لائے بلکہ موسٰی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنات آپ پر ایمان لائے مگر افسوس اُن لوگوں پر جو سلیمانؑ کے جنوں کے تو عجیب عجیب قصے سناتے ہیں۔ کہتے ہیںحضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنوں کو چاروں کونے پکڑوا دیتے اور وہ انہیں اُڑا کر آسمانوں کی سیر کراتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جِنّ ایمان لائے اُن کے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر سفر کرتے تھے۔ آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اور وہ روتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کا انتظام فرما دیجئے تو ہم جانے کیلئے حاضر ہیں۔ کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پَیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں مگر یہ تمام دُکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود اُن سنگدل جنوں کا دل نہ پسیجا اور انہوں نے آپ کی کوئی مدد نہ کی۔ حضرت سلیمانؑ کے وقت تو لشکر کا لشکر اُٹھا کر وہ دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اور یہاں ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ دس بیس مہاجرین کو ہی اُٹھا کر میدانِ جنگ میں پہنچا دیتے۔
ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک دلیل
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جِنّ غیر از انسان وجود
ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمانؑ پر ایمان لائے تھے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے۔ اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقینا قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا۔ اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اِس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے۔ جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتا ہے۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے اسی طرح جِنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ ۲۱؎ میں مفسّرین بِالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور اُن کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جِنّ کیوں نہیں بن سکتا؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۲۲؎ یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اُکساتے اور انہیں نبی اور اُس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیاہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں۔ پس اگر شیاطین الاِْنس ہو سکتے ہیں تو جِنّ الْاِنس کیوں نہیں ہو سکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میںسے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جِنّ کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جِنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ ؑاور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جِنّ ایمان لائے تھے۔
رسول کریم ﷺ کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کِن کی طرف ہوئی تھی؟ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء
میں فرماتا ہے۔ وَاَرْسَلْنٰـکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً ۲۳؎ یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جِنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ارْسَلْنٰـکَ لِلنَّاِس وَالْجِنِّ مگر وہ یہ نہیںفرماتابلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کیلئے بھیجا ہے۔ پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جِنّ الاِْنس ہی مراد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِ کُمُ الْعِجْلَ ۲۴؎ یعنی اے میری قوم! تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی، جِنّ نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے تھے۔ پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جِنّ ہی مراد تھے نہ کہ وہ جِنّ جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ۲۵؎ مگر مَیں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سِوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو۔ لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف بھیجے گئے تھے۔ اگر واقعہ میں حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔
جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل
پھر اگر یہ جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ مخاطب کیونکر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ۲۶؎ فرماتا ہے جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہونگے تو ہم جنوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ اے جنوں کے گروہ! تم نے انسانوں میں سے اکثر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ ہم تو جنوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ جنوں نے اکثروں کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تو ملتے نہیں۔ لوگ وظیفے پڑھتے ہیں، چِلّہ کشیاں کرتے ہیں اور جب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور خشکی سے کان بجنے لگتے ہیںتو کہتے ہیں جِنّ آ گیا حالانکہ اُس وقت ان کا دماغ بِگڑ چکا ہوتا ہے۔ تروتازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جِنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے۔
اس جگہ جنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ کہ ان کے اکثر انسانوں سے تعلقات ہیں۔ اور انسان بھی کہیں گے کہ ہم ان سے بڑا فائدہ اُٹھاتے رہے مگر تم اپنے محلے اور گائوں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کر لو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لوگ جنوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ سَو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ میں جنوں سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اور میرے ان سے تعلقات ہیں۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ جِنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسانوںمیں سے ہی بعض جِنّ مراد ہیں اور انسانی جنوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظر آتی ہیں۔
قرآن کریم سے ثبوت کہ جِنّ انسانوں کے گروہ کا ہی نام ہے
پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قیامت کے دن دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ
یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ۲۷؎ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! جو ہمارے سامنے کھڑے ہو بتائو کہ کیاتمہارے پاس ایسے رسول جو تم ہی میں سے تھے نہیں آئے؟ اب بتائو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بعض جِنّ بھی ایمان لائے اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمارا رسول بھی ان ہی میں سے تھا تو کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جِنّ بھی انسان تھے کوئی غیر مرئی وجود نہیں تھے۔ پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا ۲۸؎ وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اور اس دن سے ڈراتے تھے۔ گویا حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے اور انہیں یومِ آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جِنّ جِنّ الْاِنس تھے جس طرح شیاطین الْاِنس ہوتے ہیں کوئی علیحدہ قسم کی مخلوق نہیں تھے۔
مؤمن جنوں نے رسول کریم ﷺ کی مدد کیوں نہ کی؟
اب ایک اور بات سنو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وُّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا- لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ۲۹؎ یعنی اے رسول! ہم نے تجھے اپنی صفات کیلئے گواہ اور مومنوں کیلئے مبشر اور کافروں کیلئے نذیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت بجا لائو۔ اب جب کہ جِنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے تو کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو۔ ایک معمولی مُلاّ کیلئے تو جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے وہ انگور کے خوشے لے آتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ لائے۔ اور آپ کو بسا اوقات کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کرنے پڑے۔ ایک دفعہ آپ کے چہرہ پر ضُعف کے آثار دیکھ کر صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اور آپ کو اور بعض اور صحابہؓ کو کھانا کھلایا۔ مگر ایسے مواقع میں سے کسی ایک موقع پر بھی جنوں نے مدد نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں وہ بڑے ہی شقی القلب جِنّ تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر وہ ایمان لائے تھے ان کو تو انہوں نے ایک روٹی بھی نہ کھلائی اور آجکل کے مولویوں کو سیب اور انگور کھلاتے ہیں پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے؟ وہ تو پکے کافر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ جِنّ کوئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے۔ وہ جِنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے۔ اور جس طرح اور لوگوں نے آپ کی مدد کی وہ بھی مدد کرتے رہے۔ اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے تو پھر اس سوال کا حل کرنا اُن لوگوں کے ذمہ ہوگا جو جنات کے قائل ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ اور قرآن میں انہیں یہ حُکم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کریں۔
بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں
پھر اِس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں بطور قاعدہ کُلّیہ کے فرماتا ہے۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ
عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا اِلْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا ۳۰؎ یعنی ہم نے اپنی شریعت اور کلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اور کہا کوئی ہے جو اِسے مانے اور اس پرعمل کرے؟ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اُٹھانے کے ہرگز اہل نہیں۔ پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اور کہا۔ لو! یہ بوجھ اُٹھاتے ہو؟ انہوں نے بھی کہا ہرگز نہیں۔ پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ جِنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا سارے ڈر گئے اور کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی جرأت نہ کی فَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ۔ صرف ایک انسان آگے بڑھا اور اس نے کہا۔ مجھے شریعت دیجئے مَیں اِس پر عمل کر کے دکھا دونگا۔ فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ انسان نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار اور عواقب سے بے پروا تھا۔ اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑا ہے بلکہ شوق سے اُسے اُٹھانے کیلئے آگے نکل آیا۔ اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اُٹھانے والا صرف انسان ہے اور کوئی شریعت کا مکلّف نہیں۔ پھر جب کہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی تو سوال یہ ہے کہ اگر جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اپنے ایمان کا کیوں اظہار کیا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ غیراز انسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سِوا سب مخلوق نے اِس شریعت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جِنّ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ یہاں جِنّ سے مراد جِنّ الْاِنس ہی ہیں۔ ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں سے آ کر چمٹ جاتے ہیں۔ میرے سامنے ہی اِس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جِنّ آتے ہیں اور وہ آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُنہیں لکھا کہ آپ جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ بیشک کئی ایسے لوگ ہونگے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اِس امر کے قائل ہوں کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں لیکن مومن کے سامنے یہ سوال نہیں ہوتا کہ اُس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ اگر قرآن کہتا ہے کہ جِنّ موجود ہیں تو ہم کہیں گے اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جِنّ کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی۔
متکبر قوموں اور امراء کو بھی جِنّ کہا جاتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ بعض قومیں بڑی متکبر ہوتی ہیں اور وہ اپنے
آپ کو دوسروں سے اونچا اور بلند مرتبہ سمجھتی ہیں۔ ایسی قوموں کے بڑے بڑے صنادید کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے دروازے پر لے آتا ہے اس لئے یہ لوگ جِنّ کہلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے۔ ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا پِیرا اُس کا نام تھا۔ اُسے دو چار آنے کے پیسے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا۔ دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا ناواقف تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ وہ اُس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گائوں کے نمبردار کو لکھ دیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو وہ کہنے لگاآپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا۔ میں نمبردار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے؟ حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ اُس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی صرف سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا آتا ہے۔ خیر ایک دن حضرت خلیفہ اوّل نے پِیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو تو میں تمہیں دو روپے انعام دونگا۔ اُس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ ہوتی تھیں۔ اُن دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے تھے اس لئے اُن کا کھانا ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پِیرے! کھانا لے جائو۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بُلانے والی عورت کو اِس کا علم نہ تھا اِس لئے وہ برابر آوازیں دیتی گئی۔ اِس پر پِیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا۔ ’’ٹھیرجا۔ التحیات ختم کر کے آنداہاں‘‘۔
ایک دفعہ کسی کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے بٹالہ بھیجا۔ وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے۔ وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اُس دن اتفاقاً انہیںاور کوئی نہ ملا تو انہوں نے پِیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا۔ پِیرے! تو کیوں قادیان بیٹھا ہے؟ پِیرے نے جواب دیا مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں، ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے یکّوں میں دھکّے کھا کھا کے ان کے پاس پہنچتے ہیں۔ مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا۔ حتیّٰ کہ روزانہ لوگوں کو سمجھانے کیلئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اِس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھِس گئی ہوگی لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اِس طرح کِھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ غرض اِس قسم کے آدمی ہی جِنّ ہوتے ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے اور دوسرے کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کو ہی دیکھ لو۔ وہ ابتدا میں اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اور ایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے قدموں میں گر گئے۔ تو بعض طبائع ناری ہوتی ہیں مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں تو ٹھنڈی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ایسی طبیعت رکھنے والے انسانوں کو عربی زبان میں جِنّ کہتے ہیں۔ اسی طرح بڑے لوگوں کو اس لحاظ سے بھی جِنّ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے بِالعموم مخفی رہتے ہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیوں میں اُن کی رہائش ہوتی ہے اور اُن کے دروازہ پر لوگ آسانی سے نہیں پہنچ سکتے۔
نملہ سے کیا مراد ہے؟
اب اس کے بعد مَیں نملہ کو لیتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا
عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰأَیَّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تو ایک نملہ نے کہا اے نملہ قوم! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہارے حالات کو نہ جانتے ہوئے تمہیں اپنے پائوں کے نیچے مَسل دیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نملہ سے کیا مراد ہے؟
پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ ذکر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو مَنْطِقَ الطَّیْر سکھائی مگر اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ اُس نے کیا کہا ہے۔ حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو دلیل میں مثلاً یہ بات پیش کرنی چاہئے تھی کہ فلاں موقع پر بلبل بولی اور حضرت سلیمانؑ نے کہا بلبل یہ کہہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں چیونٹی بولی توحضرت سلیمانؑ کو سمجھ آگئی حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں۔ پس نملہ سے مراد اگر چیونٹی لی جائے تو یہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آ سکتی کیونکہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو مَنْطِقَ الطَّیْر آتی تھی اور وہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ اور وہ اس کی بات کو سمجھ جاتے ہیں۔ غرض پہلی بات جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے؟
دوسری چیز یہ دیکھنے والی ہے کہ یہاں حَطَمَ کا لفظ آیا ہے اور حَطَمَ کے معنی ہوتے ہیں توڑنے اور غصہ سے حملہ کرنے کے۔ عام طور پر لوگ اِس کا ترجمہ یہ کر دیتے ہیں کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے نہ مَسل دے مگر یہ حَطَمَ کے صحیح معنی نہیں۔ عربی میں حطم کے معنی توڑ دینے اور غصہ میں حملہ کر دینے کے ہیں۔۳۱؎ چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کا ایک نام حُطَمَہ بھی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ جلا دیتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پاؤں ہو گئے اور وہ دوزخیوں کو اپنے پَیروں کے نیچے مَسل ڈالے گی۔ تو لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں توڑ دے یا غصّہ سے تم پر حملہ کر دے اور تمہیں تباہ کر دے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اِتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکردرلشکر تھے کیا اُن کا سارا غُصّہ چیونٹیوں پر ہی نکلنا تھا اور کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے؟ میں بتا چکا ہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْکے معنی پَیروں میں مَسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کو توڑ دینے اور حملہ آور ہونے کے ہیں۔ اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۳۲؎ کیونکہ اس سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گُھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر کدالیں لیکر آجائے اور ہماری بِلوں کو کھود کھود کر غلّہ کے دانے نکال لے اور اِس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے۔ مگر کیا عقلمند ان معنوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟
تیسری دلیل جو نہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جو ذَوِی الْعقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اُدْخُلُوْا کا لفظ آیا ہے حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ اسی طرح لَایَحْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کا لفظ آتا ہے حالانکہ کُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ پس قرآن مجید کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھروں میں گُھس جاؤ اِس کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی لشکر کہیں سے گذرے اور وہاں کے لوگ اپنے گھروں میں گُھس جائیں اور دروازے بند کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں گُھس جائیں گے اور دروازے بند کر لیں گے ان سے کوئی باز پُرس نہیں ہو گی۔ یہی نملہ نے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں جاؤ اور دروازے بند کر لو۔ حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم باہر رہیں گے تو ممکن ہے وہ حملہ کر دیں۔ حضرت سلیمانؑ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ ہنسے اور انہوں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری نیکی اور تقویٰ کی کتنی دُور دُور خبر پہنچی ہوئی ہے یہ قوم بھی جو اتنی دُور رہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیا کرتا۔ اگر ہم اپنے دروازے بند کر لیں گے تو یہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا اور ہماری کسی چیز کو نقصان نہیں پُہنچے گا۔
وادی النمل کی تحقیق
باقی رہا وَادِالنَّمْل کے الفاظ سو یادر رکھنا چاہئے کہ تاج العروس جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میں
جبرین اور عسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہا جاتا ہے۔ ۳۳؎ اور عسقلان کے متعلق تقویم البلدان صفحہ ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ عسقلان ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر تھا جو غزّ سے جو سینا کے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے۔ اور جبرین شمال کی طرف کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے جو ولایتِ دمشق میں واقع ہے۔ ۳۴؎ پس وادی النمل ساحلِ سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جو اندازاً دمشق سے سَو میل نیچے کی طرف ہو گی۔ ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مدین کے قبائل بہت بستے تھے۔ (مقام کی وضاحت کیلئے دیکھو نقشہ فلسطین و شام بعہد قدیم وعہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا)
اب رہ گیا نملہ سو قاموس میں اَلْبَرْقُ کے ماتحت لکھا ہے۔ وَالْاَبْرَقَۃُ مِنْ مِّیَاہِ نَمْلَۃَ۳۵؎ یعنی ابرقہ ایک وادی ہے جہاں نملہ قوم کے چشمے ہیں۔ غرض نملہ قوم بھی مل گئی‘ وَادِی النمل کا بھی پتہ لگ گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلمانؑ کے علاقہ کے نزدیک تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پُرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے۔ چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا‘ سانپ‘ بچھو اور کنکھجور وغیرہ ہؤا کرتے تھے بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کا نام کاڈھا ہے۔ نورالدین کاڈھا لاہورکے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم کا نام کیڑے ہے ایک کا نام مکوڑے ہے۔ کشمیر میں ایک قوم کا نام ہاپت ہے جس کے معنی ریچھ کے ہیں اِسی طرح حضرت سلیمانؑ جس جگہ سے گزرے وہاں جو قوم رہتی تھی اُس کا نام نملہ تھا۔
خَلقِ طَیْرکا مسئلہ
اب مَیں طَیْر کی بحث کو لیتا ہوں۔ طَیْر کے متعلق جو امور قابلِ غور ہیں ان میں سے ایک اہم امر خَلقِ طَیْر کا مسئلہ ہے۔ مَیں اس
کے متعلق گذشتہ سے پیوستہ سال جلسہ سالانہ کی تقریر میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ لیکن مضمون کی تکمیل کے لئے پھر مختصراً اسے دُہرا دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَالْاِنْجِیْلَ۔ وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ۔۳۶؎ یعنی ہم نے مریم کوالہام کیا کہ ہم تجھے ایک بیٹا عطا کریں گے جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکمت کی باتیںسکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اُسے اِس پیغام کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گا کہ مَیں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے یہ نشان لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے فائدہ کیلئے پانی ملی ہوئی مٹی یعنی طِینی خصلت رکھنے والوں میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کروں گا۔ پھر مَیں اُس میں ایک نئی روح پھونکوں گا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت اُڑنے والے ہو جائیں گے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَاِذْتَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ ۳۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیحؑ سے فرمائے گا کہ تو اُس وقت کو بھی یاد کر جب کہ میں نے تجھے کتاب اور حکمت سکھائی اِسی طرح توراۃ اور انجیل سکھائی اور اُس وقت کو بھی یاد کر جبکہ تو میرے حُکم سے طِینی خصلت رکھنے والے افراد میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کرتا تھا پھر تو اُس میں پھونک مارتا تھا جس سے وہ میرے حُکم سے اُڑنے کے قابل ہو جاتا۔
اب یہاں دونوں جگہ پرندے کا ذکر آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ استعارہ ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقتاً پرندہ مان کر کوئی دوسری آیت باطل ہوتی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ استعارہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم قرآن کی اور آیات پر نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ایک آیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَائَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّھُوَالْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۳۸؎ یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اُس جیسی کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اور دوسروں کی پیدا کردہ مخلوق آپس میں مل گئی ہے اور ان کیلئے مشتبہ صورت پیدا ہوگئی ہے۔ تو اُن سے کہہ دے کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔ اب دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا کا شریک قرار دیا جاتا ہے اور جن کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اندر صفتِ خلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا محض بُہتان ہے۔ جس قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کرتا ہے اُس قسم کی پیدائش اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اب اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ میں پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو سورۃ رعد کی یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر یہ آیت سچی ہو تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خَلْقِ طَیر کے وہ معنی غلط ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں اور ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی استعارہ ہے۔ تبھی یہ آیتیں آپس میں متضاد نظر آتی ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا تشریح ہے؟
کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کا مفہوم
سو اس کی تشریح کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کے الفاظ آتے ہیں
اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح پرندہ بچے پیدا کیا کرتا ہے اسی طرح میںبھی کرتا ہوں۔ مگر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے۔ اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پرندہ پہلے انڈے لیتا ہے پھر اس پر بیٹھتا اور انہیں گرمی پہنچاتا ہے تب ان سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں بھی ایسے لوگوں کو جن کی مٹی میں الہام کا پانی شامل ہو اپنی صُحبت میں لیتا ہوں اور اپنے بازوئوں کے نیچے رکھ کر ایسی روحانیت ان میں پیدا کر دیتا ہوں کہ تھوڑے ہی دِنوں میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب دیکھو قرآن کریم کا مضمون کتنا بلند ہوگیا اور اس کے معنی کیسے اعلیٰ ہوگئے۔ وہ بھی کیا معنی تھے کہ آپ چمگادڑیں بناتے پھرتے تھے۔ اور پھر قرآن میں حضرت مسیحؑ نے کہیں نہیں فرمایا کہ مَیں پرندے بناتا ہوں بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ مَیں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بناتا ہوں یعنی جس طرح پرندہ انڈوں کو سیتا ہے اسی طرح مَیں بھی لوگوں کو اپنی تربیت میں لیتا ہوں اور جن میں ترقی کی قابلیت ہوتی ہے وہ اُڑنے لگ جاتے ہیں۔ پھر زیادہ سے زیادہ پرندے چالیس دن تک انڈوں کو سیتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو اس سے بھی کم عرصہ میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعلان کیا کہ جو شخص میرے معجزات کا منکر ہو، وہ چالیس دن میرے پاس رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا دے گا۔ اب جو شخص فطرتِ صحیحہ رکھتا ہے وہ تو بہت جلد نبی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے مگر جس طرح سخت چِھلکے کا انڈا چالیس دن لیتا ہے اسی طرح نبی کی صحبت میں اگر کوئی سخت دل انسان بھی چالیس دن رہے تو وہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیکھ لیتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۳۹؎ یعنی اے وہ لوگو! جن میں نیکی کی قابلیت تو ہے مگر تم ابھی انڈے کی حد تک ہی ہو پرندے نہیں بنے تم کسی صادق کے پَروں کے نیچے چلے جائو تم تھوڑے دنوں میں ہی پرندے بن جائو گے۔
ایک لطیفہ
تَشَابَہَ الْخَلْقُ کے الفاظ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مولوی کو سمجھاتے
ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو پرندے بنائے تھے وہ کہاں چلے گئے؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے اِس کا ذہن اِس طرف چلا جائے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے ہیں اور خدا نے بھی تو پھر تو تَشَابہ فِی الْخَلْق ہوگیا اور یہ قرآن کے خلاف ہے کہنے لگا کہ ’’وچے ہی رَل مِل گئے ہیں‘‘۔
ترتیبِ مضامین کے لحاظ سے غور
اَب مَیں بتاتا ہوں کہ خود یہی آیت اُن معنوں کو ردّ کرتی ہے جو عام لوگ لیتے ہیں۔
یہ ساری آیت یوں ہے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِایَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیْکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَاتَاکُلُوْنَ وَمَاتَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ ۴۰؎ اس آیت کی ترتیب اپنے مدنظر رکھ لو اور پھر سوچو کہ آیا پرندے بنانے والے معنی کسی صورت میں بھی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں؟ یہ صاف بات ہے کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ ترتیب سے خالی نہیں۔ فرض کرو ہم مان بھی لیں کہ اس جگہ پرندہ سے مراد پرندہ بنانا ہی ہے تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ان معنوں کو تسلیم کر لینے کے بعد اس آیت میں کوئی ترتیب بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کوئی ترتیب نہیں مگر ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ آیت دو جگہوں میں آتی ہے ایک سورۃ ال عمران میں اور دوسرے سورۃ مائدہ میں اور دونوں جگہ الفاظ اِسی ترتیب سے رکھے گئے ہیں۔ اب دونوں جگہ ان الفاظ کا اسی ترتیب سے رکھا جانا بتاتا ہے کہ اس میں کوئی خاص مقصد ہے۔ ہم تو قرآن کریم کی ہر آیت میں ترتیب کے قائل ہیں مگر جو لوگ اس کے قائل نہیں انہیں بھی اگر کسی اور جگہ نہیں تو اِس جگہ ترتیب ضرور ماننی پڑتی ہے کیونکہ پہلے خَلْقِ طَیْر کا ذکر ہے پھر اَکْمَہَ کا ذکر ہے پھر اَبْرَصَ کا اور پھر اِحْیَائے مَوْتٰیکا۔ اور ان کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ دونوں جگہ اِسی ترتیب سے کیا گیا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ترتیب میں دو باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کبھی چھوٹی بات پہلے بتائی جاتی ہے پھر اُس سے بڑی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے بڑی۔ اور کبھی پہلے سب سے بڑی بات بتائی جاتی ہے پھر اُس سے چھوٹی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے چھوٹی اور ان دونوں ترتیبوں میں مخاطب کا فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی جس رنگ میں وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہو اُسی رنگ میں بات بیان کر دی جاتی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ معنی کئے جائیں جو ہمارے مخالف لیتے ہیں تو ان معنوں میں کوئی ترتیب ہی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں پہلے سب سے بڑی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے چھوٹی بات کو اور پھر اس سے چھوٹی بات کو تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سب سے بڑی چیز پرندوں کا پیدا کرنا ہے۔ اس سے اُتر کر اندھوں کو آنکھیں بخشنا۔ اس سے اُتر کر کوڑھیوں کو اچھا کرنا اور اس سے اُتر کر مُردوں کو زندہ کرنا۔ حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مُردہ زندہ کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ پس یہ ترتیب صحیح نہیں ہو سکتی اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پہلے سب سے چھوٹی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے بڑی بات کو اور پھر اس سے بڑی بات کو تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ سب سے آسان کام دنیا میں پرندے بنانا ہے۔ اس سے مشکل کام اندھوں کو آنکھیں دینا ہے۔ اس سے مشکل کام کوڑھی کو اچھا کرنا ہے اور اس سے مشکل کام مُردے زندہ کرنا ہے۔ گویا اس صورت میں سب سے آسان تر بات پرندے بنانا ٹھہرتی ہے۔ اب اگر یہ درست ہے تو کوئی مولوی ہمیں دو چار پرندے ہی بنا کر دکھا دے۔
دوسری مشکل ان معنوں میں یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ اِحْیائے مَوْتٰی کو ادنیٰ اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَـلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ اَنْشَأَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَبِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ۔ ۴۱؎ یعنی انسان کا یہ طریق ہے کہ وہ ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتا ہے اور اپنی پیدائش کو بُھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا؟ فرماتا ہے تم اِحْیائے مَوْتٰی کا انکار اسی لئے کرتے ہو کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہڈیاں گل سڑ کر پھر کس طرح اصل شکل و صورت میں آ جائیں گی۔ حالانکہ جب اُس نے تمہیں ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو دوسری دفعہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ ان لوگوں سے کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی حالت سے خوب واقف ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ مُردہ زندہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ادنیٰ قرار دیا ہے اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے مگر اُوپر کی ترتیب تسلیم کر لینے کی صورت میں پیدائش کو ادنیٰ ماننا پڑتا ہے اور اِحْیائے مَوْتٰی کو اعلیٰ۔
پھر اس ترتیب سے کوڑھیوں کو اچھا کرنا پرندے پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل قرار پاتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر بھی چالموگرا آئیل کی پچکاریوں اور مالش وغیرہ سے کئی کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے ہیں۔ اب چاہئے تھا کہ جب کوڑھی اچھے ہو رہے ہیں تو ان کوڑھیوں کے اچھا ہونے سے پہلے چِڑیاں اور کبوتر بھی بننے شروع ہو جاتے حالانکہ انہیں کوئی انسان نہیں بنا سکتا۔ اگر کہا جائے کہ اس ترتیب سے مخاطب کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایک یہودی کے سامنے حضرت مسیحؑ چِڑیا پیدا کرتے تو کیا وہ اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا یا اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھاکہ آپ کسی کوڑھی یا مادر زاد اندھے کو اچھا کر دیتے۔ پس جس چیز سے وہ زیادہ متاثر ہو سکتا تھا چاہئے تھا کہ اسے پہلے رکھا جاتا مگر رکھا اسے بعد میں ہے۔
ترتیبِ قرآنی کے لحاظ سے خَلقِ طَیر اور اِحْیائے مَوْتی کے معنی
غرض ہمارے مخالف علماء جو معنی لیتے ہیں وہ ہر ترتیب کی رو سے غلط ٹھہرتے ہیں مگر ہمارے معنوں کی رو سے ترتیب پر کسی قسم کا
اعتراض نہیں پڑتا۔ ہم پرندے پیدا کرنے سے مراد روحانی آدمی پیدا کرنا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص یہ پوچھے کہ مرزا صاحب نے کیا کیا؟ اور اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک کام کرنے والی جماعت دنیا میں پیدا کر دی ہے تو بِالعموم وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے۔ کیونکہ لوگوں کی نگاہ میں روحانی آدمی پیدا کرناسب سے کم حیثیت رکھتا ہے اسی لئے اس کو پہلے رکھا۔ پھر اَکْمَہَ یعنی اندھراتے کا علاج ہے یہ چونکہ ایک جسمانی چیز ہے اور ہر ایک کو نظر آ جاتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا۔ اور برص چونکہ اس سے زیادہ سخت ہے اس لئے اَکْمَہَ کے بعد اَبْرَصَ کا ذکر کر دیا۔ اور اِحْیائے مَوْتٰی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بِالکل مُردہ ہونے کی حالت تک پہنچ جائے اور دعا سے زندہ ہو جائے۔ برص والے اور اندھراتے والے کو گو سخت مرض ہوتا ہے مگر طاقت قائم ہوتی ہے۔ لیکن جس کی نبضیں چُھوٹ جائیں اور پھر کسی نبی یا پاکباز انسان کی دعا سے زندہ ہو جائے وہ بڑا معجزہ ہوتا ہے۔ پس ہمارے معنے تسلیم کرنے کی صورت میں یہ ترتیب بالکل درست رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا۔
ھُد ھُد کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا
طَیْر کا دوسرا ذکر حضرت سلیمانؑ کے حالات کے بیان میں آتا ہے اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے۔ اب یہاں بھی طَیر سے مراد تمام قسم کے پرندے نہیں اس لئے کہ:۔
(۱) جس وقت ہُد ہُد کہیں جاتا ہے حضرت سلیمانؑ سخت ناراض ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَاَ اَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ یعنی ہُد ہُد چونکہ غائب ہے اس لئے جب وہ آیا تو مَیں اُسے سخت سزا دوں گا، میں اُسے ذبح کر ڈالوں گا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور بتائے کہ کیوں غائب رہا۔ اب بتائو کیا قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو تو آدمی تلوار لے کر کھڑا ہو جائے اور اُسے کہے کہ وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تیرا سرکاٹ دوں گا۔ یا کبھی تم نے دیکھا کہ تمہارا کوئی ہمسایہ ہُدہُد کو پکڑ کر اُسے سوٹیاں مار رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ میرے دانے تو کیوں کھا گیا؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم اُسے پاگل قرار نہیں دو گے؟ پھر وہ لوگ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ اَمر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہُد ہُد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مَیں اُسے سخت ترین سزا دوں گا اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جو نہایت ہی واضح اور منطقی ہو۔ گویا وہ ہُد ہُد، سقراط، بقراط اور افلاطون کی طرح دلائل بھی جانتا تھا اور حضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا۔
(۲) پھر قرآن تو یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس جنوں، انسانوں اور طَیْر کے لشکر تھے۔ مگر حضرت سلیمانؑ کی نظر صرف ہُد ہُد کی طرف جاتی ہے اور فرماتے ہیں مَالِیْ لَااَرَی الْھُدْھُدَ کیا ہوا کہ اس لشکر میں ہُد ہُد کہیں نظر نہیں آتا۔ حکومت کے نزدیک تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھا جاتا مگر حضرت سلیمانؑ نے یہ عجیب بھرتی شروع کر دی تھی کہ ہُد ہُد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا۔ پھر ہُد ہُد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ ہُد ہُد صرف ایک آپ کے پاس تھا اس ایک ہُد ہُد نے بھلا کیا کام کرنا تھا اور ایک جانور ساتھ لے جانے سے آپ کی غرض کیا تھی؟
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے۔ ہُد ہُد نے واپس آ کر یہ یہ باتیں بیان کیں اور معجزہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوںکی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ بیان ہونا چاہئے تھا مگر بیان ہُد ہُد کا معجزہ ہوتا ہے جو سلیمانؑ کے معجزہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ پھر پرندوں کی بولی سمجھنا حضرت سلیمانؑ سے ہی مخصوص نہیں تمام شکاری پرندوں کی آوازیں سمجھتے ہیں۔
(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ ہُد ہُد اُن جانوروں میں سے نہیں جو تیز پرواز ہوں اور اس قدر دُور کے سفر کرتے ہوں۔ یہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے مگر قرآن یہ بتلاتا ہے کہ ہُدہُد دمشق سے اُڑا اور ۸ سَو میل اُڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سبا کے ملک تک پہنچا اور پھر وہاں سے خبر بھی لے آیا۔ گویا وہ ہُدہُد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا اور معجزہ دکھلانے والا ہُدہُد تھا نہ کہ حضرت سلیمانؑ۔ حالانکہ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمانؑ نے معجزہ دکھایا۔
(۵) اِسی ہُدہُد کا دوسرا معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شرک اور توحید کے باریک اسرار سے واقف تھا اور اس کو وہ وہ مسائل معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں۔ کتنی اعلیٰ توحید وہ بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ یعنی میں نے اُس کو اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے اُن کے عمل اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے۔ پھر اس کی غیرتِ دینی دیکھو۔ آجکل مولویوں کے اپنے ہمسایہ میں بُت پرستی ہو رہی ہو تو وہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگر ہُدہُد چاروں طرف دَوڑا پھرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر لا کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ شرک ہے فلاں جگہ بُت پرستی ہے۔
(۶) پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ یعنی ملکہ سبا میں بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں اور اسے لوازمِ حکومت میں سے ہر چیز ملی ہوئی ہے۔ گویا وہ اُس کے تمام خزانے اور محکمے چیک کر کے آیا اور اس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کیلئے ضرورت ہوا کرتی ہے وہ اُس کے پاس موجود ہیں۔
(۷) پھر شیطان اور اُس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے کیونکہ وہ کہتا ہے مَیں جانتا ہوں کہ انسان کا جب شیطان سے تعلق پیدا ہو جائے تو بُرے خیالات اُس کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ اِن خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا کیونکہ کہتا ہے کہ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انسان کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کے راستہ سے دُور جا پڑتا ہے۔ یہ ہُد ہُد کیا ہؤا اچھا خاصہ عالِم ٹھہرا۔ ایسا ہُدہُد تو اگر آج مل جائے تو اسی کو مُفتی بنا دینا چاہئے۔
(۸) ہاں ایک بات رہ گئی اور وہ یہ کہ وہ تختِ سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا کے پاس ایک ایسا عظیم الشان تخت ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ گویا وہ لالچ بھی دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیجئے۔
شریعت کا بوجھ انسان کے سِوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ
ہُد ہُد کوئی پرندہ نہیں تھا کیونکہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اُٹھا سکے، جسے آسمان اور زمین کی کوئی چیز اُٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئی اسے انسان نے اُٹھا لیا۔ وہی ہے جو ہماری شریعت کے اسرار کو جانتا ہے۔ فرشتہ صرف ایک ہی بات سمجھتا ہے یعنی نیکی کی بات کو۔ مگر انسان بدی اور نیکی دونوں پہلوئوں کو جانتا ہے اور تمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے۔ مفسّرین کہتے ہیں کہ ہُدہُد کوئی جانور تھا حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سِوا اور کوئی مخلوق اسرارِ شریعت کی حامل نہیں۔ پس جب کہ ہُدہُد بھی اسرارِ شریعت سے واقف تھا تو لازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ۔
طَیرکی مختلف اقسام
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طَیْر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے
ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طَیر کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلاَّ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ ۴۲؎ یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور دونوں پَروں سے اُڑنے والے پرندے سب تمہاری طرح کی جماعتیں ہیں۔ اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے پرندوں کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ کہ وہ پرندے جو اپنے دونوں پَروں کے ساتھ اُڑتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایساپرندہ بھی ہوتا ہے جو پَروں سے نہیں اُڑتا۔
پھر اس سے بھی واضح آیت ہمیں ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طَیْر کسی اور چیز کا نام ہے۔ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰفّٰتٌ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ۴۳؎ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذَوِی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور ان ذَوِی العقول میں سے جو طَیْر ہیں وہ صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذَوِی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے۔ یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طَیْر سے مراد پرندے نہیں۔
اوّل: یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں سے اللہ تعالیٰ نے طَیر کیوں نکال ڈالے اور ان کا الگ کیوں ذکر کیا؟ پھر مَنْ کا لفظ ہمیشہ ذوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ غیر ذَوِی العقول کیلئے نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف طَیْر کو کیوں نکالا؟ جنات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا اس سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طَیْر کوئی الگ چیز ہے؟
پھر فرماتا ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے۔ اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ اور یَفْعَلُوْنَ کا صیغہ پھر ذَوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ آخر تم نے کبھی ایسے طَیْر دیکھے ہیں جو صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہوں؟ ایسے طَیْر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ پس مَنْ کا استعمال، کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ کا استعمال اور وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ کا ذکر بتا رہا ہے کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے خصوصاً اُن مؤمنوں کا جو باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں۔
مومنوں کو طَیْرکیوں کہا گیا؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر طَیْر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طَیْر کیوں کہا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو اُسے عربی میں طائر کہتے ہیں اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے۔ فَاذَا جَائَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ ۴۴؎ یعنی جب اُن کو کوئی خوشی پہنچتی ہے اور ان پر خوشحالی کا دَور آتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں موسیٰ اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِسنو! اُن کا پرندہ یعنی اُن کے وہ اعمال جنہیں وہ بجا لاتے ہیں خدا کے پاس موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے عذاب آیا اور خدا کہتا ہے کہ ان کا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے۔ بظاہر اس کا آپس میں چونکہ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا اس لئے لغت والے لکھتے ہیں کہ طائر کے ایک معنی انسانی اعمال کے بھی ہیں۔ چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں۔ وَکَلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ کے معنی ہیں عملہ الَّذِیْ طَارَعَنْہُ مِنْ خَیْرٍوَّشَرٍّ ۴۵؎ یعنی اِس جگہ طائر سے مراد ہر اچھا یا بُرا عمل ہے جو انسان سے سرزد ہوتا اور پھر اُڑ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ اقرب میں بھی طائر کے ایک معنی عملہ الَّذِیْ قلدہ وَ طَارَ عَنْہُ مِنْ خَیْرٍ اَوْشَرٍّ ۴۶؎ کے لکھے ہیں یعنی انسانی عمل خواہ اچھا ہو یا بُرا۔
پھر فرماتا ہے قَالُوا اطَّیَّرْنَابِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ۴۷؎ جب ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے بُرے اعمال کی نحوست کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آجکل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں۔ فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ تمہارا طائر تو اللہ کے پاس ہے بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جسے آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
پھر تین رسولوں کا سورۃ یٰسن میں ذکر کر کے فرماتا ہے قَالُوْا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْ جُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ- قَالُوْا طَائِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْ تُمْ بَلْ اَنْتُمْ قُوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ۴۸؎ یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں اور تمہارا آنا ہم منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ انہوں نے کہا تمہارا پرندہ تو تمہارے ساتھ ہے یعنی تم جہاں بھی ہوگے تمہارے اعمالِ بد کا نتیجہ تم ہی کو تباہ کرے گا ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور کیا تم یہ بات اس لئے کہتے ہو کہ ہم تمہیں اچھے کام یاد دلاتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ تم حد سے گزرنے والی قوم ہو اِس لئے تم اپنے اعمال کی ضرور سزا پائو گے۔ اس جگہ بھی طائر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوتِ عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِـتٰـبًایَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا- اِقْرَأْ کِتٰـبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ۴۹؎ یعنی ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک پرندہ اُس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کے اعمال نامہ کو اُس کے سامنے لائیں گے جسے وہ بِالکل کُھلا ہؤا پائے گا اور اُسے کہا جائے گا اِسے پڑھ کر دیکھ لے اور اپنی نیکی بدی کا آپ حساب کر لے کیونکہ آج تیرا نفس ہی تیرا حساب لینے کیلئے کافی ہے۔ اور یاد رکھو کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان بھی اُسی کو ہوتا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا اور ہم اُس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اُن کی طرف کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں۔
یہاں قرآن نے طائر کے نہایت لطیف معنی کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے اُس کا پرندہ بندھا ہؤا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ سو جب ہمیں خداتعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیں یہ تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیں ہوتا۔ پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ قوتِ عمل یا نتیجہ عمل کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے۔ پس جس قسم کے بھی انسان اعمال بجا لاتا ہے اُن کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے۔ اگر تو انسان نیک اعمال بجا لاتا ہے تو وہ انسان کو آسمانِ روحانیت کی طرف اُڑا کر لے جاتے ہیں جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں اُڑا کر لے جاتا ہے۔ اور اگر اعمال بُرے ہونگے تو لازماً پرندہ بھی کمزور ہوگا اور انسان بجائے اُوپر اُڑنے کے نیچے کی طرف گِرے گا۔ اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اوپر اُڑا کر لے جائے گا اور اگر بُرے اعمال کرے گا تو وہ اُسے نیچے گرا دے گا۔ اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ ۵۰؎ کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے پھر ماں باپ اُسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں گویا انسان میں اُڑنے کی طاقت موجود ہے اور اُسے پرواز کے پَر عطا کئے گئے ہیں۔ یہی مضمون َکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اُس کا پرندہ بھی اُس کے ساتھ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ پھر بعض ماں باپ تو اُس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بعض جو بچ جاتے ہیں اُن کیلئے پرواز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور عملِ نیک کی وجہ سے اُن کا طائر یعنی فطرتی مادۂ سعادت ترقی کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَرُبٰعَ۵۱؎ یعنی سب تعریفیں اُس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو ایسی حالت میں رسول بنا کر بھیجنے والا ہے جب کہ کبھی تو اُن کے دو دو پَر ہوتے ہیں کبھی تین تین اور کبھی چار چار۔ پھر وہ انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فِللّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَکْرُ اُوْلٰئِکَ ھُوَیَبُوْرُ ۵۲؎ فرماتا ہے تمہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ مختلف فرشتوں کی ترقی کیلئے ہم نے کئی کئی پَر بنائے ہوئے ہیں۔ مگر اے انسانو! تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو۔ پس تم میں سے جو کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں۔ اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ یعنی خدا کا کلام جن کو میسر ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں مگر خالی کلام نہیں بلکہ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ اعمالِ صالحہ کا اُسے سہارا چاہئے۔ گویا اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اُڑ سکتا بلکہ اعمالِ صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے۔ اسی طرح اُس کے دو پَر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمانِ روحانیت کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا ہے یعنی فضا میں اُڑتا ہے دوسرے یہ کہ اُس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے۔ جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی درخت پر بسیرا کرتے ہیں نیچے نہیں بیٹھتے۔ اب یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۵۳؎ اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھو! تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوا کرو اور نبی یا اُس کے خلیفہ کی آواز پر دَوڑ پڑا کرو کیونکہ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علمِ حقیقی رکھنے والے ہیں اونچا کر دے گا اور انہیں درجات میں بڑھا دے گا۔ گویا اوپر اُڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے تعلق میں ذکر آگیا۔
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندہ ہمیشہ اپنا آشیانہ اونچا بناتا ہے اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَلْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لاَّتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ ۵۴؎ یہ نور کچھ گھروں میں ہے جن کے متعلق ہمارا حُکم ہے کہ انہیں اونچا کر دیا جائے۔ ان گھروں میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔ مگر فرماتا ہے رِجَالٌ ہماری مراد گھروں سے نہیں بلکہ آدمیوں کو اونچا کرنے سے ہے ایسے آدمیوں کو جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیع۔ گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ عملِ صالح مومن کو اُڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اُس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دروازے کھول دو ایک مومن کی روح آتی ہے مگر جب کافر مرتا ہے تو اُس کی روح اُٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے۔
غرض طَیْر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو دین کیلئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کیلئے تیار رہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کیلئے آمادہ اور تیار رہتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے جنگِ بدر کے موقع پر کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ حُکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور ذرا بھی ہمارے اندر ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ حضور نے یہ حُکم کیوں دیا؟ گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اُن قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور بتایا ہے کہ وہ سِفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتے اور نیچے جُھکنے کی بجائے اوپر کی طرف پرواز کرتے ہیں۔
ہُدہُد کے متعلق تاریخی تحقیق
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہُدہُد نام کیوں رکھا گیا ہے؟ اور گو اس کا عقلی جواب مَیں
قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں مگر اَب بتاتا ہوں کہ ہُد ہُد سے مراد کیا ہے؟
ہُدہُد کا پتہ لینے کیلئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اِس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا اِن میں کسی ہُد ہُد کا ذکر آتا ہے یا نہیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ہُدَد نام ہوا کرتا تھا جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہُدہُد ہو گیا۔ جیسے عبرانی میں ابراہام کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیم بن گیا۔ اسی طرح عبرانی میں یسوع کہا جاتا ہے مگر عربی میں عیسیٰ کہتے ہیں۔ اسی طرح عبرانی میں موشے کہا جاتا ہے مگر عربی میں یہی نام موسیٰ ہو گیا۔ اب بھی کسی اہلِ عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤ نہیں بلکہ ’’لکھنا ہو‘‘ کہے گا۔ اسی طرح عبرانی میں ہُدَد کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ہُدہُد ہوگیا۔
درحقیقت تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھدد کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا اور اس کے معنی بڑے شور کے ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں بھی ھَدَّ کے ایک معنی اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ ۵۵؎ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ہُدد یا ہُدہُد رکھ دیتے تھے۔ پھر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا بھی تھا جس نے مدین کو شکست دی تھی اور آخری بادشاہ کا بھی یہی نام تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا۔ بائیبل کی کتاب نمبر۱ سلاطین باب۱۱ آیت۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہُدد تھا۔ اور جو یوآب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آئے اور اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہو تو اس کے معنی ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہُد ہُد عبرانی زبان کا لفظ ھُدد ہے جو عربی میں آ کر ہُدہُد ہوگیا۔ چونکہ مفسّرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بیہودہ قصّے بھی اپنی تفسیروں میں درج کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں مگر ضَبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسے ہندوئوں میں طوطا رام نام ہوتا ہے۔ وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور اُس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا۔ اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصّہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ رستہ میں ایک سوراخ سے گوہ نکلی اور اُس نے قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا اُن کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کونسا مشکل کام تھا۔
بہرحال قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے اس لئے اُس نے ساتھ ہی مُحکم آیات بھی رکھ دی ہیں جو کوئی دوسرے معنی کرنے ہی نہیں دیتیں۔ جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنی ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں ٹکرا جائیں گی۔
غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعاً نہیں ٹھہر سکتیں۔ افسوس ہے کہ باوجود ایسی عظیم الشان کتاب پاس رکھنے کے مسلمانوں کو پھر بھی ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے عجیب و غریب قصّے گھڑ لئے۔ چنانچہ چیونٹی کا واقعہ جو وہ بیان کرتے ہیں اِسی کے ضمن میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کو جب وہ چیونٹی ملی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتا مجھ سے بڑا آدمی بھی تو نے کبھی دیکھا ہے؟ وہ کہنے لگی یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی کہ آپ تخت پر بیٹھے ہوں اور مَیں زمین پر۔ آپ مجھے اپنے پاس بٹھائیں پھر آپ کی بات کا مَیں جواب بھی دے دونگی۔ انہوں نے اُسے اُٹھا کر تخت پر بٹھا لیا۔ وہ کہنے لگی اب بھی مَیں بہت نیچے ہوں آپ ذرا اَور اوپر کریں۔ چنانچہ انہوں نے اُسے اپنے ہاتھ پر اُٹھا لیا۔ اِس پر وہ کہنے لگی بڑے آپ نہیں بلکہ مَیں بڑی ہوں جو سلیمان کے ہاتھ پر بیٹھی ہوں۔ تو ایسے ایسے لطائف انہوں نے لکھے ہیں جنہیں سُن کر ہنسی آتی ہے۔
بے شک پہلی کتب میں بھی استعارے استعمال کئے گئے ہیں مگر ان کتب میں ان استعاروں کے لئے اندرونی حل موجود نہیں تھا۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی استعارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے حل بھی رکھ دیا ہے تا کہ اگر کسی کو ٹھوکر لگے تو عالمِ قرآن اُس کو سمجھا سکے۔
غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اُس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو مَیں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی انجیل کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو مَیں بھی استعارہ سمجھوں۔ پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اِس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سِوا دنیا کی اور کوئی کتاب اِس خصوصیت کی حامل نہیں۔
اِس وقت تک مَیں نے قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق آٹھ دس باتیں ہی بیان کی ہیں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ تین سَو بلکہ اِس سے بھی زیادہ دلائل ایسے دیئے جا سکتے ہیں جن سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور جن کے مقابلہ میں عام انسانی کتابیں تو الگ رہیں الہامی کتابیں بھی نہیں ٹھہر سکتیں۔ لیکن ان کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ……… کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے اور پھر صحت ایسی خراب رہتی ہے کہ اِس کو دیکھتے ہوئے یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
اِس کے بعد مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسے پر آئے، تقریریں سنیں اور جلسہ ختم ہو گیا۔ اِس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہئے ورنہ آکر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے۔ پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھائو اور اِس دفعہ مَیں نے جو مضمون بیان کیا ہے اس کی مناسبت سے کوشش کرو کہ تم طَیْر بن جائو۔ اور ہُد ہُد والے کمال تم میں آ جائیں۔ اگر سلیمانؑ کی اُمت میں سے ایک شخص جس کا نام ہُد ہُد تھا اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اَسرار کا اُسے علم ہو جاتا ہے، سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے، سلیمانؑ شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اُس کو دور کرنا چاہئے حالانکہ سلیمانؑ صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جائو اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچائو اُس کے افراد کے اندر اگر اپنے مذہب کا درد نہ ہو تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی۔ غالباً اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کیلئے یہ قصّہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مقابلہ میں تو سلیمانؑ کی اُمت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہُدہُد۔ پس جب ہُدہُد یہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہوسکتے۔
پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو! اپنے اندر جوشِ اخلاص اور ہمت پیدا کرو۔ تم آسمان کی طرف اُڑو کیونکہ تمہارا خدا اوپر ہے تم نیچے مت دیکھو۔ اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے۔ کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر تمہیں ابتلاء آ جاتے ہیں۔ کہیں اِس بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں عُہدہ مجھے کیوں نہیں ملا، کہیں اس بات پر کوئی شخص ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ انجمن کا سیکرٹری فلاں کیوں بنا مجھے کیوں نہ بنایا گیا۔ گویا ہر وقت اُن کی نظر نیچی رہتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تم کو طائر بنانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ہم نے ہر انسان کی گردن کے نیچے ایک طائر باندھ رکھا ہے۔ اب بتائو جس کی گردن کے نیچے کوئی چیز باندھ دی جائے اُس کی نگاہ کبھی نیچی بھی ہو سکتی ہے وہ تو ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھے گا۔ پس اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم اپنی نگاہیں ہمیشہ اونچی رکھو۔ کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔
پس فائدہ اُٹھائو میرے اِس وعظ و نصیحت سے۔ اور جب اپنے گھروں میں جائو تو اِس ارادے اور نیت کے ساتھ جائو کہ آئندہ ہم چوہے اور چھپکلیاں نہیں بنیں گے بلکہ وہ طائر بنیں گے جو ہوائوں میں اُڑتے پھرتے ہیں اور اپنے خدا کی آواز سننے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا
اِس کے بعد مَیں دعا کروں گا دوست بھی دعا کریں۔ اپنے لئے بھی، اپنے رشتہ داروں کیلئے
بھی کیونکہ یہ جامع دعا ہوتی ہے۔ جو احمدی ہیں اُن کیلئے بھی کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو اور جو غیراحمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو۔ اِسی طرح اپنے شہر والوں کیلئے، اپنے ہمسایوں کیلئے اور اپنے ملک والوں کیلئے دعائیں کرو اور خصوصیت سے جماعت کیلئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سچا تقویٰ، پرہیز گاری اور تقدس پیدا کرے کیونکہ بغیر اِس کے کہ ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں۔ پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جائیں۔ اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے۔ اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کیلئے۔ ہماری مثال حضرت علیؓ کی سی ہو جائے کہ اُن سے جب اُن کے بیٹے امام حسنؓ نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ خدا سے بھی محبت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ یہ سن کر حضرت حسنؓ کہنے لگے۔ کیا یہ شرک نہیں کہ آپ خدا کی محبت میں میری محبت کو بھی شریک کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا۔ اے میرے بیٹے! یہ شرک نہیں کیونکہ اگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں تیری محبت آجائے تو میں اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دوں گا۔
پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے اور اگر مَاسِوَی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اُس کی وجہ سے ہو مستقل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اچھے کاموں کی توفیق دے ہمیں دناء ت، کمینگی اور پست ہمتی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے خیالات میں وسعت دے، ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کر ے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اُس کے دین کے لئے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے لالچ اور حِرص نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے ظلم کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے بدظنی اور اپنے بھائیوں کی عیب جوئی اور اُن پر طعنہ زنی کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے۔ ہمارے اندر رحم پیدا کرے۔ ہمیں قرآن کا علم دے۔ اس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نور پیدا کرے۔ وہ ہماری آنکھوں، ہمارے کانوں، ہمارے دماغوں، ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں میں نور پیدا کرے۔ ہمارے آگے بھی نور ہو ہمارے پیچھے بھی نور ہو۔ ہمارے دائیں بھی نور ہو ہمارے بائیں بھی نور ہو۔ ہمارے اندر بھی نور ہو ہمارے باہر بھی نور ہو یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔ وہ ہر قسم کے دشمنوں کے حملوں سے ہمیں بچائے۔ اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفّٰی کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظِلّ اس پر پڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ہم اس کے وہ بندے بن جائیں جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَاَدْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۵۶؎۔
پھر دعا کرو اُن مبلّغوں کیلئے جو باہر گئے ہوئے ہیں۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اُن کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کیلئے کر رہے ہیں برکت ڈالے اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے۔ اُن کی زبانوں میں تاثیر ڈالے، اُن کے قلوب میں درد پیدا کرے، اُن کے دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور اُن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں۔
پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے جو ہم میں نقص ہیں وہ ان میں نہ جائیں مگر ہم میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے وارث ہوں۔ آمِیْنَ ثُمَّ آمِیْنَ
اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
۱؎ النمل: ۱۶ تا ۲۹ ۲؎ الواقعۃ: ۸۰
۳؎ بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عندا المصیبۃ یعرف فیہ الحزن (مفہوماً)
۴؎ البقرۃ: ۹ ۵؎ الاعراف: ۵۵ ۶؎ القلم: ۴۳
۷؎ الانعام: ۹۷
۸؎ احبار باب ۱۳ آیت ۴۷ تا ۵۹
۹؎ المدثر: ۵ ۱۰؎ اٰل عمران: ۸
۱۱؎
۱۲؎ النمل: ۱۶ ۱۳؎ سبا: ۱۱‘۱۲ ۱۴؎ الانبیاء: ۸۰‘۸۱
۱۵؎ ص: ۱۸ تا ۲۱ ۱۶؎ الجاثیۃ: ۱۳‘۱۴ ۱۷؎ الجمعۃ: ۲
۱۸؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض…
۱۹؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۱۰۱ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۰؎ الاحقاف: ۳۰ تا ۳۲ ۲۱؎ البقرۃ: ۱۵ ۲۲؎ الانعام: ۱۱۳
۲۳؎ النساء: ۸۰ ۲۴؎ البقرۃ: ۵۵
۲۵؎ نسائی کتاب الطہارۃ باب التیمم بالصعید
۲۶؎ الانعام: ۱۲۹ ۲۷‘۲۸؎ الانعام: ۱۳۱ ۲۹؎ الفتح: ۹‘۱۰
۳۰؎ الاحزاب: ۷۳
۳۱؎ لسان العرب المجلد الثالث صفحہ ۲۲۶،۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۳۲؎ المنجد عربی اُردو صفحہ۲۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء
۳۳؎
۳۴؎
۳۵؎ القاموس الجزء الثانی صفحہ۶۲۴ نولکشور لکھنو ۱۲۸۹ھ۔
۳۶؎ اٰل عمران: ۴۹‘۵۰ ۳۷؎ المائدۃ: ۱۱۱ ۳۸؎ الرعد: ۱۷
۳۹؎ التوبۃ: ۱۱۹ ۴۰؎ اٰل عمران: ۵۰ ۴۱؎ یٰسن: ۷۹،۸۰
۴۲؎ الانعام: ۳۹ ۴۳؎ النور: ۴۲ ۴۴؎ الاعراف: ۱۳۲
۴۵؎ المفردات فی غریب القراٰن صفحہ۳۱۰ مطبوعہ کراچی
۴۶؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۷۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۴۷؎ النمل: ۴۸ ۴۸؎ یٰسن: ۱۹‘۲۰ ۴۹؎ بنی اسرائیل: ۱۴ تا ۱۶
۵۰؎ الجامع الصغیر للسیوطی
۵۱؎ فاطر: ۲ ۵۲؎ فاطر: ۱۱ ۵۳؎ المجادلۃ: ۱۲
۵۴؎ النور: ۳۷‘ ۳۸
۵۵؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ۱۳۷۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۶؎ الفجر: ۳۰‘ ۳۱




جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں
میاں فخر الدین صاحب ملتانی کا حصہ




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں
میاں فخر الدین صاحب ملتانی کا حصہ
(تقریر فرمودہ ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان)
تشّہدّ، تعوّذ ،سورۃ فاتحہ اور سورۃ النساء کی آیات ۵۹تا ۶۶ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مؤمن کی پیدائش ایک منفرد پیدائش نہیں ہوتی بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایک زنجیر کی کڑی بنایا ہے۔ ایک کافر جب اپنے وجود کو دیکھتا ہے تو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ فلاں کام کا نتیجہ میرے حق میںکیانکلے گا لیکن مؤمن اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس کام کا نتیجہ اس زنجیر کے حق میں کیا ہوگا جس کی وہ ایک کڑی ہے۔ بے شک ایک لوہے کی کڑی اگر مضبوط سے مضبوط اور اعلیٰ سے اعلیٰ ہو تو بھی دو چار یا پانچ روپیہ میں مل جائے گی لیکن اگر وہ اس زنجیر کا ایک حصہ ہے جو شاہی خزانہ کے صندوق پر بندھی ہوئی ہے تو اُس کی قیمت بہت بڑھ جائے گی اور اِسی نسبت سے اس کی کڑیوں کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر تو وہ ایک الگ کڑی ہوتی تو اس کے کٹ جانے سے اوّل تو چند آنوں کا نہیں تو دو چار یا پانچ روپیہ کا نقصان ہوتا لیکن اس زنجیر کاحصہ ہونے کی صورت میںجو خزانہ کے بکس کے اردگرد لپٹی ہے، ٹوٹ جانے کی صورت میں کروڑوں روپیہ کا نقصان ہوگا اس لئے دونوں کڑیوں کی ذمہ داری بالکل اور ہے۔ دونوں کی اہمیت ایک نہیں ۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ان کی قیمت ایک ہے مگر زنجیر میں داخل ہو کر ایک کی حیثیت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم خدا کی فوج کے سپاہی ہو اور اگر انفرادی طور پر تمہارے اندر خلل واقع ہوگا تو اس سے ساری فوج میں خلل آئے گا۔ دنیا میں ہزار ہا ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک زبردست فوج صرف اس وجہ سے شکست کھا گئی کہ اس کے چند سپاہیوں نے کمزوری دکھائی، وہ اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگے جس سے خلاپیدا ہو گیا اور دشمن کو رستہ مل گیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کی ہی بات ہے کہ اُحد کی جنگ کے موقع پر آپ نے ایک درّہ پر دس سپاہی مقرر کئے جو اسلامی فوج کی پُشت کی جانب تھا اور آپ نے اُن سے فرمایا کہ تم نے یہاں سے نہیں ہِلنا۔ باقی فوج خواہ ماری جائے یا جیت جائے حتیّٰ کہ دشمن بھاگ بھی جائے، تو بھی تم یہیں کھڑے رہو۔ گویا یہ کام اُس کڑی کے سپرد تھااور بظاہر یہ کوئی کام نہیں کہ ایک درّہ پر کھڑے رہو، خواہ فوج جیت جائے یا ہار جائے، بظاہر اس بات کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی لیکن بعدکے واقعات سے اِس کی اہمیت ظاہرہو جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے تو اِن دس سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو دشمن کو شکست ہو گئی ہے، ہمیں بھی اجازت دیں کہ جہاد کے ثواب میں شریک ہوں لیکن افسر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہیں کھڑے رہنے کا ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ اتنا غلوّ نہیں کرنا چاہئے، کچھ تو اجتہاد سے بھی کام لینا چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء تو اِس قدر تاکید سے یہ تھا کہ بے احتیاطی نہ کرنا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ واقعی اگر فتح حاصل ہو جائے تو بھی یہاں سے حرکت نہ کرنا۔ افسر نے جواب دیا کہ مجھے تو اجتہاد کا حق نہیں۔ مگر انہوں نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ بالکل جاہلانہ مشورہ ہے اور اس میں اطاعت کے لئے ہم تیار نہیں ہیں اور ہم جہاد کے ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہتے چنانچہ تین آدمی وہاں رہے اور باقی وہاں سے ہٹ آئے۔ اُس وقت تک حضرت خالد بن ولید مسلمان نہ ہوئے تھے، خالد بہت زیرک نوجوان تھے، دشمن بھاگ رہا تھا کہ اُن کی نظر درّہ پر پڑی اور دیکھا کہ وہ خالی ہے، انہوں نے جھٹ عکرمہ کو اشارہ کیا کہ ابھی شکست کو فتح میں بدلا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے چند سَو سپاہی ساتھ لئے اور پیچھے سے آ کر اس درّہ پر حملہ کر دیا۔ وہاں صرف تین مسلمان تھے باقی جا چکے تھے، وہ تینوں شہید ہو گئے اور عین اُس وقت جب مسلمان دشمن کو بھگاتے ہوئے لے جا رہے تھے، پیچھے سے حملہ ہوا اور اچانک حملہ کی وجہ سے صحابہ کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ رسول کریم ﷺ صرف بارہ (۱۲) صحابہ کے ساتھ میدان میں رہ گئے اور جب دشمن نے آپ پر پورے زور کے ساتھ حملہ کیا تو ان بارہ (۱۲) میں سے بھی بعض مارے گئے اور بعض دھکیلے جا کر پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اِسی ریلے میں پیچھے دھکیلے گئے اور آخر صرف رسول کریم ﷺ اکیلے رہ گئے اور چاروں طرف سے آپؐ پر پتھر برسائے جا رہے تھے حتیّٰ کہ خَود کی کِیلیں سر میں دھنس گئیں اور آپ بے ہوش کر زمین پر گر گئے اور دشمن نے خیال کر لیا کہ شاید آپ دفات پا گئے ہیں۔ اور اس ہنگامہ میں جو صحابہؓ شہید ہوئے، اُن کی لاشیں بھی آپ کے اُوپر گر گئیں اور دشمن مطمئن ہو کر واپس چلا گیا کہ آپ شہید ہو چکے ہیں۔ چنانچہ جب صحابہ جمع ہوئے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کو لاشوں کے ڈھیر میں سے نکالا اور دیکھا کہ آپ ابھی زندہ ہیں۔ ایک صحابی نے پورے زور کے ساتھ خَود کو کھینچ کر نکالا اور اِس قدر زور لگانا پڑا کہ آپ کے دانت ٹوٹ گئے۔۱؎ دیکھو کتنی چھوٹی سی ہدایت تھی کہ وہ دس آدمی اس درّہ پر بہرحال کھڑے رہیں لیکن اس کو نظر انداز کر دینے سے کتنا خوفناک نتیجہ نکلا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خاص حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ بھی اُس دن شہید ہو جاتے۔ اُس وقت سوائے ملائکہ کے کس نے آپ کی حفاظت کی۔ جس طرح غارِ ثور کے منہ پر پہنچ جانے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کفار کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ زیادہ تحقیقات کی ضرورت نہیں، اِسی طرح اُحد کے موقع پر بھی ان کے دل میں یہ ڈال دیا کہ بس آپ فوت ہو چکے ہیں اب دیکھ بھال کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کُفّار اُس وقت جُھکتے اور غور سے دیکھتے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ کمی کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈال دیا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ یہ انسان کا کام نہیں، انسانوں نے تو آپ کو مروا ہی دیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا۔ اور یہ سب خطرہ اِس وجہ سے پیدا ہوا کہ بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ ہم اجتہادی طور پر اطاعت کیلئے تیار نہیں ہیں، یہ بالکل خلافِ عقل بات ہے۔ یہ لوگ منافق نہیںتھے مگر ان کی ذرا سی غفلت سے رسول کریم ﷺ کی ذات ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ آج اِس کے حالات پڑھ کر بھی ایک مؤمن کا دل کانپ اُٹھتا ہے۔
پس مؤمن ایک زنجیر کی کڑی ہوتا ہے اس کا اپنی ذات کا خیال رکھنا اور اس کو بھول جانا کہ وہ ایک زنجیر کی کڑی ہے، درست نہیں اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں۔ مؤمن اکیلا نہیں ہوتا اس کے صرف یہ معنی نہیں کہ ظاہری طور پر بھی جماعت ضرور اس کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ وہ جہاں بھی ہو اپنے آپ کو جماعت کے سلسلہ کی ایک کڑی سمجھتا ہے۔ وہ اگر اکیلا بھی ہو تو ایسے کام کرتا رہتا ہے جو جماعت کی تقویت کا موجب ہوتے ہیں۔ پس عام انسان کی ذمہ واری اور مؤمن کی ذمہ واری میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر بعض ایسی ذمہ واریاں عائد کی ہیں کہ اگر نقصان کا یقین ہو تو بھی ان سے کوتاہی جائز نہیں۔ کیا جو سپاہی لڑائی میں جاتے ہیں، ان کے نقصان کا احتمال نہیں ہوتا مگر کیا وہ کہا کرتے ہیں کہ بادشاہ اور وزراء و امراء تو گھروں میں بیٹھے ہیں، اور ہم مارے جا رہے ہیں۔ تین چار دن ہوئے مجھے ایک ایسا شخص ملنے کیلئے آیا جو جماعت سے خارج تھا، اُس نے سوال کیا کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ مجھے جماعت سے کیوں نکالا گیا؟ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا اِس کی کوئی وجہ بیان ہوئی تھی اُس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا کہ بس سمجھ لو، کوئی ایسی ہی وجہ تھی جس کا ظاہر کرنا مناسب نہ تھا۔ وہ کہنے لگا کہ کیا مجھے ان مقدمات کے سلسلہ میں نکالا گیا تھا جو بعض لوگوں سے میرے چل رہے تھے۔ میں نے اُسے بتایا کہ نہیں ان مقدمات کے متعلق تو میں سمجھتا ہوں تمہارا حق مارا گیا ہے۔
اصل بات یہ تھی کہ تمہارے متعلق رپورٹ آئی تھی کہ چونکہ تم حاجت مند ہو، پولیس کے بعض افسر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تمہیں خرید لیں اور قبرستان کے مقدمہ میں تم سے شہادت دلوائیں کہ مجھے جماعت نے بھیجا تھا کہ جا کر احراریوں کو مارو۔ اُس نے کہا کہ بے شک مجھے بعض پولیس افسروں نے ایسا کہا تھا کہ پانچ سَو روپے لے لو اور یہ شہادت دے دو مگر میں نے تو اُسے منظور نہیں کیا تھا، آپ کو مجھ پر اعتماد کرنا چاہئے تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ ایک طرف تو تم پر اعتماد کا سوال تھا اور دوسری طرف جماعت کے اعتماد کا سوال تھا۔ اب بتاؤ، میں کسے قربان کرتا۔ میں اِس خبر کو ۹۹فیصدی جھوٹ سمجھتا تھا لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ تم اُن دنوں ابتلاء میں تھے، تم کو جماعت کے افراد سے بھی شکایت تھی اور محکموں سے بھی، تم اس وقت سخت مالی مشکلات میں تھے اور روپیہ کے محتاج تھے۔ پس ان حالات میں ڈر تھا کہ تم اس لالچ کی برداشت نہ کر سکو یا غصہ تمہارے دل پر قابو پا لے۔ پس ان حالات میں جبکہ مَیں تم کو کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا رہا تھا کیونکہ تم ملازم نہیں تھے، نہ کوئی تمہارا تجارتی کام تھا۔پس ان حالات میں جماعت کے وقار کو مَیںخطرہ میںنہیں ڈال سکتا تھا۔ کیا تم نے نہیں پڑھاکہ جنگِ عظیم میں جرمن یا دوسرے ممالک کیلئے لوگ کس طرح اپنے ملک اور قوم کیلئے اپنی جانیں قربان کرتے تھے، اگر تمہیں قربانی کرنی پڑی تو کیا حرج ہے۔ تم لوگ تو کہتے ہو کہ تمہاری جانیں سلسلہ کیلئے ہیں۔ پس اگر جماعت کی خاطر تمہیں سزا دی گئی تو کیا ہوا۔ اِس پر اُس نے کہا کہ پھر کیوں مجھے یہ نہ بتا دیا گیا۔ میں نے کہا اگر میں ایسا کرتا تو بے وقوفی کرتا کیونکہ اِس صورت میں اصل غرض پوری نہ ہوتی۔ اوّل تو خود تم کو پولیس ناجائز طور پر استعمال کر سکتی تھی۔ دوسرے اِس بات کے علم پر وہ کسی اور کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی۔ اِس پر اُس نے کہا کہ اب میرا دل خوش ہو گیا ہے۔ اب دیکھو، اُسے ایسی صورت میں سزا دی گئی تھی کہ کُلّی طور پر اس کا یہ جُرم ثابت نہ تھا، مگر چونکہ اُس کے خلاف بعض اور باتیں ثابت تھیں جو اُسے سزا کا مستحق بنا دیتی تھیں جن کی سزا مَیں دوسرے اوقات میں یقینا اِس سے کم دیتا۔ لیکن اس صورتِ حالات میں مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس سزا کو جماعت سے اخراج کی سزا میں بدل دوں۔ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ پولیس کے بعض افسروں نے اُسے لالچ دی اور یہ ثابت ہے کہ وہ اُس وقت جماعت کے بعض محکموں سے شاکی تھا اور معمولی شاکی نہیں بلکہ سرکاری عدالتوں میں جانے کیلئے تیار تھا اور اِس کی کوشش کر رہا تھا، چنانچہ ان پولیس افسروں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدمہ میں بھی ہم تمہاری مدد کریں گے۔ پس باوجود یہ جاننے کے کہ اُس کا جُرم اِس حد کا نہیں، ایک اور خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے اُسے اخراج از جماعت کی سزا دے دی۔ مگر ساتھ ہی تمام متعلقہ افسروں کو بتا دیا کہ اگر کوئی اور جُرم اِس کا ثابت نہ ہوا تو اِس مقدمہ کے بعد اسے معاف کر دیا جائے گا اور یہ میری عمر میں پہلا ہی واقعہ ہے مگر مَیں مجبور تھا۔ ذرا غور تو کرو اگر ایک احمدی جا کر عدالت میں یہ جھوٹا بیان دے دیتا کہ مجھے جماعت نے بھیجا تھا تو جماعت کے وقار کو کس قدر صدمہ پہنچتا اور دشمن کو ایک آلہ مل جاتا کہ سلسلہ کو بدنام کرے اور اِس الزام سے بریت کی کوئی صورت نہ ہوتی سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی کوئی ایسی صورت پیدا کر دیتا جیسی مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ہوئی تھی مگر اُس وقت کے حالات اور تھے اور آج کے اور ہیں۔ اُس وقت کے مجسٹریٹ نے گواہ کے دوسرے بیان کو صحیح سمجھا تھا مگر اب یہ سمجھا جاتا کہ ملزم کو خرید لیا گیا ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقدمہ میں ہوا کہ گواہوں نے سچی گواہی دی تو بعض اعلیٰ سرکاری حُکّام نے اُنہیں بلا کر اِس قسم کے بیان دلانے چاہے کہ گویا خود خلیفہ نے بلا کر اُن کو رشوت دی اور اُن کو خرید لیا۔
غرض میں نے اسے کہاکہ تمہیں بے شک قربانی کرنی پڑی، مگر کیا تم یہ اقرار کر کے احمدی نہیں ہوئے تھے کہ تم احمدیت کیلئے ہر قسم کی قربانی کرو گے مگر یہ میری زندگی میں پہلا واقعہ ہے۔ چنانچہ بغیر اِس کے کہ وہ کوئی درخواست پیش کرتا، میں نے میاں بشیر احمد صاحب، مولوی عبدالغنی صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو اُسے بُلانے سے بھی قبل کہا تھا کہ گو وہ ملازمت سے ڈسچارج ہو چکا تھا مگر اُس تکلیف کی وجہ سے جو اُسے پہنچی میں چاہتا ہوں اس کیلئے کسی ملازمت کا بندوبست کر کے اس کی تکلیف کا کُفّارہ کر دیا جائے۔
ایسے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے متعلق یہ اطلاع آنے پر کہ وہ یہاں رپورٹیں کرنے کیلئے آئے ہیں، آپ نے ان کو نکال دیا۔ پس جس وقت جماعت کی نیک نامی اور عزت کا سوال ہو، افراد کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ اُس وقت کوئی شخص چاہے جماعت میں رہے یا نہ رہے جماعت کی عزت کی حفاظت ضروری ہوتی ہے اور میں صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر پھر کبھی موقع آیا تو میں پھر بھی ایسا کروں گا۔
جب قبرستان کا واقعہ ہوا، میں تو قادیان میں موجود ہی نہ تھا۔ پھر اگر وہ شخص کوئی ایسا بیان دے دیتا تو اُس کی بدنامی میرے نام تو لگ ہی نہیں سکتی تھی۔ میرے ساتھ اِس واقعہ کا تعلق بھی نہ تھا میں اُس وقت دھرمسالہ میں تھا اِس لئے میری عزت یا بدنامی کا تو سوال ہی نہ تھا۔ میرے سامنے تم سب کی مجموعی عزت کا سوال تھا۔ وہ جماعت کا ہی نام لے سکتا تھا میرا نہیں کیونکہ میں تو یہاں تھا ہی نہیں۔پولیس یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ مَیں سازش کر کے باہر بھاگ گیا کیونکہ سازش وہ ہوتی ہے جس کیلئے پہلے سے تیاری کی جائے، مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ منگو کی لڑکی کے مرنے کا پہلے سے ہی انتظام کیا گیا تھا اور مَیں کہہ گیا تھا کہ میں جاؤں تو اُسے مار دینا اور پھر قبرستان پر جھگڑا کرنا اور احرار کو بھی وہاں لے جانا اور وہاں لے جا کر انہیں مارنا اس لئے واقعات کی بِناء پر کوئی مجھ پر تو الزام لگا ہی نہیں سکتا تھا کہ میرا بھی ان میں حصہ ہے۔ میرے سامنے اُس وقت صرف سلسلہ کی عزت کا سوال تھا۔ چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا کہ پولیس اِس کوشش میں ہے کہ اسے خریدے تو میں نے سمجھا چاہے یہ خبر غلط ہی ہو اور چاہے اسے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو، لیکن چونکہ اِس سے بعض اور غلطیاں ہو چکی ہیں اور میں اسے سزا دینے میں خدا کا مُجرم نہیں۔ آؤ میں اِس خطرہ سے جماعت کو بچانے کیلئے اسے جماعت سے خارج کر دوں۔ علاوہ ازیں جماعت کے افراد کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جسے سلسلہ کی طرف سے کوئی سزا دی جاتی ہے اگر وہ قصور وار ہے تو اسے قصور تسلیم کر کے دلیری سے سزا برداشت کرنی چاہئے اور ساتھ توبہ کرنی چاہئے تا کہ دل پر زنگ نہ لگ جائے۔ اور اگر وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو بے قصور سمجھتا ہے تو ادنیٰ دیانت داری جو ایک مؤمن میں ہونی چاہئے، کم سے کم وہ اتنی تو خلیفہ میں تسلیم کرے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْراً۲؎ جب کوئی بُری بات مؤمنوں کو کسی مؤمن کے بارہ میں معلوم ہو تو کیوں وہ اس کا نیک پہلو اپنے بھائی کے متعلق تجویز نہیں کرتے۔ تو کیا خلیفہ کا مقام ایک عام مؤمن کے برابر بھی نہیں کہ اس کے متعلق کم سے کم، ادنیٰ سے ادنیٰ حُسنِ ظنّی سے کام لیا جائے اور سمجھا جائے کہ اس نے کم سے کم دیانت داری سے فیصلہ کیا ہے اور ذاتی بغض نہیں نکالا۔
یہ آیات جو مَیں نے ابھی پڑی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یَأْ مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا ۳؎ یوں تو سارا قرآن ہی حُکم ہے مگر جب زیادہ زور دینا ہو تو دوبارہ حُکم کا لفظ آتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بڑا ضروری حُکم ہے۔تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب موقع آئے کہ تم اپنا لیڈر چنو تو خداتعالیٰ کاحُکم ہے کہ تم اسے چنو جسے اس کا اہل سمجھو اور جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ جماعت کو ٹھیک راستہ پر چلائے گا۔ آگے فرمایا۔ وَاِذَاحَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۴؎ یعنی جب خداتعالیٰ تمہیں اس مقام پر پہنچائے تو عدل کرو۔ اِس جملہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس جگہ امانت سے مراد امانتِ حکومت ہے ورنہ دوسری امانت کا تعلق فیصلہ کرنے اور عدل کرنے سے نہیں ہوتا۔ پھر فرمایا اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ۵؎ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی بابرکت حُکم ہے پھر فرمایا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۶؎ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا دیکھنے والا ہے یعنی اِن دونوں باتوں میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم بدنیتی سے رائے دواور امیر کے متعلق رائے دیتے ہوئے تمہارے نفوس کسی ذاتی غرض کو پوشیدہ رکھ رہے ہوں، پس اگر ایسا کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ دیکھنے اور سننے والا ہے وہ ضرور اس کی سزا تمہیں دے گا اور اگر وہ شخص جسے تم نے امیر یا افسر چنا ہے کوئی بددیانتی کرتا ہے تو بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے، وہ اسے خود سزا دے گا۔
پھر فرمایا۔ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ۷؎ اس آیت سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہاں امانت سے مراد امانتِ حکومت ہی تھی۔ ورنہ اگر روپیہ یا مال رکھنے کے متعلق یہ ہدایت ہوتی تو اس جگہ اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ کی اطاعت کا ذکر کیوں آتا پس یہاں امانتِ حکومت ہی مراد ہے۔ پھر فرمایا۔ فَاِنْ تَنَازَ عْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ والرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌوَّاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً ۸؎ اگر تمہیں کسی ایسے حاکم سے شِکوہ پیدا ہو تو اسے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے سپرد کر دو جنہوں نے اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے تمہارا یہ کام نہیں کہ جھگڑے کا تصفیہ کرو کیونکہ اس صورت میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ امیر کی مخالفت یا اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی بجائے معاملہ کو خدا اور اس کے رسول کے سپرد کر دو، اگر تمہارا خدا اور آخرت پر ایمان ہے، اگر تمہارا خدا زندہ ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ کسی بدباطن اور شریر کو تم پر ظلم کرنے دے گا، اگر تم نظام کیلئے قربانی کرتے ہو تو کیا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں اس کا اجر نہ مل سکے گا۔ رسول کریم ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ اگر اس دنیا میں ایک بکری نے دوسری کو سینگ مارا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اُس بکری کے سینگ کا بھی بدلہ لے گا۔ ۹؎ پھر تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ اگر ظلم ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ نہ دے گا۔ پھر تم گھبراتے کیوں ہو۔ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً یہ سب سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اعلیٰ بات ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانون یہی ہے کہ جو امیر ہو، خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا، یا خلیفہ ہو، تمہیں ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ اگر اس کے فیصلہ پر تمہیں اعتراض ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم مظلوم ہو اور بددیانتی سے تمہارے امیر نے ظلم نہیں کیا، تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور وہ بھی معذور سمجھا جائے گا اور اگر امیر نے ظلم کیا ہے تو بھی معاملہ کو خدا اور اس کے رسول کے سپرد کر دو اور اطمینان رکھو کہ اگر قیامت کا کوئی دن ہے تو اس ظلم کا خود خداتعالیٰ بدلہ لے گا۔ اس قانون کو بدل دو تو نہ کوئی حکومت باقی رہتی ہے اور نہ کوئی نظام۔ اَور باتوں کو تو جانے دو صرف یہی لے لو جو کہتے ہیںکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہیڈ ماسٹر بھی غلطی کر سکتا ہے یا نہیں؟ پھر اگر یہ ہو کہ ہر لڑکا کھڑا ہو اور ہیڈ ماسٹر سے کہے کہ آپ نے فلاں ظلم مجھ پر کیا ہے تو کوئی انتظام رہ سکتا ہے؟ پھر اگر کہتے ہیں خلیفہ غلطی کر سکتا ہے تو کیا کوئی تاجرِ کُتب غلطی نہیں کر سکتا؟ پھر کیا دنیا میں یہی طریق ہے کہ ہر کتاب کی قیمت پر مباہلے اور چیلنج ہوتے ہیں۔ ابھی ایک جھگڑا میرے نوٹس میں لایا گیا ہے کہ کئی سال ہوئے ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی کے لڑکے نے کچھ کتب میاں فخرالدین صاحب کو برائے فروخت دی تھیں‘ کئی سال کے بعد جب قیمت کا مطالبہ کیا تو میاں فخرالدین صاحب نے کہا کہ میں نے وہ کتابیں نصف قیمت پر فروخت کی ہیں اس لئے نصف کمیشن کاٹنے کے بعد دوں گا۔ اب اس سے یہ کیوں نہ سمجھ لیا جاتا کہ ان کا یہ قول بددیانتی پر مبنی ہے اور کہ وہ یتیم کا مال کھانا چاہتے ہیں۔ گو اس بچہ نے ان کی بات کو مان لیا اور میاں فخرالدین صاحب نے اس رقم کے ادا کرنے کا اقرار کر لیا مگر وہ بچہ سال بھر ان کے پاس مطالبہ کیلئے جاتا رہا لیکن وہ شکایت کرتا ہے کہ آخر ایک دن انہوں نے مجھے یہ جواب دے دیا کہ جا! جو کرنا ہے کر لے۔ حالانکہ فیصلہ ان کا مسلّمہ تھا اور روپیہ وہ جو خریداروں سے مہینوں اور سالوں پہلے وصول کر چکے تھے‘ اب اگر یہ شکایت اِس یتیم کی درست ہے تو کیا سلسلہ یا حکومت اِس پر قسمیں دلانے بیٹھے گی کہ میاں فخرالدین صاحب نے ایسا کیا ہے یا نہیں؟ وہ تو اصل مقدمہ کی طرف توجہ کرے گی۔ ایسے امور کو اگر درمیان میں لایا جائے تو سوائے بدظنیوں کے ایک غیرمتناہی سلسلہ کے اور کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اور اگر ان لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے متعلق نیک ظنی کا مطالبہ کریں تو کیا خلیفہ ہی کا ایک وجود ہے جس کے متعلق نیک ظنی نہیں کرنی چاہئے۔ اور ہر ہیڈ ماسٹراور کتب فروش کے متعلق دوسرے شخص کا حق ہے کہ اس کے بارہ میں نیک ظنی سے کام لیا جائے۔ کیا کوئی شریف انسان ایسی بات کو تسلیم کر سکتا ہے اور کیا کوئی شریف انسان اس قسم کے خیالات رکھنے والی *** قوم کا خلیفہ بننا پسند کر سکتا ہے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شخص پر بھی الزام لگاکر دیکھو، وہ جوتا لے کر مقابلہ کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے یا نہیں؟ مگر خلفاء پر نہایت بے باکی سے الزام لگا دیئے جاتے ہیں اور پھر کہا یہ جاتا ہے کہ اسلام آزادی سکھاتا ہے مگر اس قسم کے لوگوں سے پوچھو کہ اے کمبختو! کیا اسلام تمہارے متعلق آزادی نہیں سکھاتا، کیا صرف خلفاء کے متعلق ہی آزادی سکھاتا ہے؟ اِس وقت میں صرف میاں فخرالدین صاحب کے اخراج کے متعلق بیان کرو ںگا۔ دوسرے امور میں اِس وقت جانے کو تیار نہیں ہوں‘ وہ اگر موقع ہوا تو پھر ظاہر کر دیئے جائیں گے۔ مگر یہ اِس وقت بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ وہ خطبہ والا مضمون نہیں جس کے متعلق میں نے کہا تھا کہ مجھے خداتعالیٰ نے سمجھایا ہے ، اُس کیلئے ابھی انتظار کریں اور دشمن کی طرف سے جب حملہ ہو گا تو مجھے یقین ہے کہ اس کا اپنا ہتھیار ہی اسے کاٹنے کو کافی ہو گا۔ یہ جھگڑا جو شروع ہوا ہے، اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ میں سندھ میں تھا کہ مجھے مولوی تاج الدین صاحب لائل پوری مولوی فاضل کا مندرجہ ذیل خط پہنچا۔
مولوی تاج الدین صاحب کا خط
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سَیِّدِیْ! اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
مشاورت سے قبل کا واقعہ ہے کہ خاکسار میاں فخرالدین ملتانی کی دُکان پر گیا‘ ان کے ہاتھ میں اخبار الفضل کا پرچہ تھا‘ کہنے لگے آپ کامضمون ابھی پڑھ کر ختم کیا ہے (جس میں پیغامیوں کے اعتراض متعلقہ پہرہ بوقت نماز کا جواب تھا) میں نے کہا بتائیے جواب بنا ہے یا نہیں۔ کہنے لگے ہاں گزارہ ہو گیا ہے۔ اس مضمون میں چونکہ حضرت امیرمعاویہؓ ہی کی مثال تھی اس لئے میں نے حضرت امیر معاویہ کے متعلق کہا کہ وہ بڑے سیاستدان اور دُوراندیش تھے۔ اسی ذکر میں مَیں نے یہ بھی ذکر کیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے خلاف بھی انہوں نے بڑا ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ مثلاً وہ حضرت علیؓ سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے اور کم از کم یہ کہ ان لوگوں کو حضرت علیؓ اپنے ساتھ نہ رکھیں، اپنی فوج سے الگ کر دیں‘ ورنہ سمجھا جائے گا کہ حضرت علیؓ ان کی حمایت پر ہیں۔ حضرت علیؓ بہت کہتے کہ فتنہ سخت ہے، آپ ساتھ ہو جائیں‘ استحکامِ امر پر اس معاملہ میں دخل دیا جا سکے گا۔ مگر حضرت امیر معاویہؓ اپنی ہی بات پر اڑے رہے کہ ان سرکشوں کو الگ کریں اور ان سے قصاص لیں۔ اس پر بابو فخردین کہنے لگے کہ ہاں حضرت معاویہؓ کی بات مؤثر تو تھی اور یہی تو ہم کہتے ہیں۔ میں ان کی اس بات کا مطلب بالکل نہ سمجھا۔ آخرکہنے لگے کہ شیخ احسان علی اور اُس کا بھائی عبدالرحمن صریح طور پر مُجرم ہیں۔ عبدالرحمن نے جھوٹی گواہی عدالت میں دی‘ ہم پر افترا ء اور بُہتان باندھے، شریف آدمیوں کی عزت پر حملے کئے، پاکدامن عورتوں کی عزت پر حملے کئے مگر ان کو پوچھا تک نہیں بلکہ پٹرول کا ٹھیکہ ان کو دے دیا ہے۔ اور فلاں سے ہٹا کر (غالباً سیالکوٹ ہاؤس کا نام لیا تھا اچھی طرح یاد نہیں رہا) دیا ہے اور ان سے مہنگا دیا ہے۔ پھر عبدالرحمن کو جو نالائق اور نکمّا آدمی ہے، دفتر تحریک جدید میں رکھ لیا ہے۔ دوسروں کی عورتوں اور لڑکیوں کی کوئی عزت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ یہ بڑے جوش اور زور زور سے کہنے لگے۔ میں نے کہا کہ آپ کو اگر کوئی شکایت ہے تو ان پر دعوٰی دائر کریں۔ پوچھا کہاں؟میں نے کہا۔ امور عامہ میں یا قضاء میں یا حضرت صاحب کی خدمت میں۔ کہنے لگے کہ میں تو اس میں اپنی ہتک سمجھتا ہوں۔ کیا ہم اور بے عزت ہوں۔ غالباً یہ بھی کہا کہ ہمیں انصاف کی توقع نہیں اور یہ بھی کہا کہ میں ایسے دعووں پر یا کہا کہ ایسی درخواستوں پر جُوتے مارتا ہوں اور یہ بھی کہا کہ کئی سالوں تک مارے مارے پھرو کبھی فلاں جگہ پھر فلاں جگہ۔ میں نے کہا کہ سرکاری عدالتوں میں بھی تو آخر مختلف جگہوں پر اپیلیں کرنی ہی پڑتی ہیں۔ یہ بھی کہا کہ ہمیں دعویٰ کرنے کی کیا ضرورت ہے ان کو پتہ نہیں؟ بلکہ وعدہ کیا گیا تھا کہ مقدمہ کا فیصلہ ہونے پر پھر ان سے پوچھا جائے گا۔ میں نے کہا کہ کس نے وعدہ کیا تھا۔ کہا یہی جو ذمہ وار ہیں امور عامہ‘ حضرت صاحب۔
پھر کہا کہ ڈاکٹر فضل دین افریقہ سے لکھ رہے ہیں کہ مجھے لکھا گیا تھا کہ بعد فیصلہ مقدمہ، کارروائی کی جائے گی، کیا کوئی کارروائی کی گئی۔ ہم لکھ دیتے ہیں کوئی نہیں۔ آخر میرے بار بار کہنے سے کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلائیں اور ان کے خلاف ثبوت مہیا کریں، یہ جواب دیا کہ ہاں وقت آنے پر کریں گے۔ ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ اسے تو چپکے سے قادیان سے نکال دیا، کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی۔ میں نے کہا کہ کسے؟ تھوڑی دیر خاموش ہو کر کہاکہ مقبول کو۔ میں نے کہا مقبول کون تھا؟ کہا وہ ایک لڑکی تھی جو مولوی قطب الدین کے گھر رہتی تھی۔ اس کے متعلق نہ میں نے پوچھا کہ کیا واقعہ تھا اور نہ اُس نے بتایا۔ جوش میں بلند آواز سے جب باتیں کر رہے تھے تو میرے کہنے پر کہ آہستہ بات کریں، اسی زور اور جوش میں کہا کہ دل میں جلن ہے، دکھ ہے اور یہ باتیں کُھلے طور پر کہتا ہوں تا کہ سی۔ آئی۔ڈی سن لیں (یہ کیا کہ فلاں کو فلاں ملا تھااور فلاں فلاں اکٹھے باتیں کر رہے تھے۔ بس یہی رپورٹیں ہوتی رہتی ہیں) ہمیں دکھ ہے ہم کہتے ہیں ۔(یہ باتیں مشاورت سے قبل ہی مکرمی مولوی اللہ دتا صاحب سے ذکر کر دی تھیں۔)
۲۔ اُسی وقت یا کسی اور وقت مکرمی مولوی ظفر محمد صاحب کے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ اسے مبلّغ بنا دیا گیا ہے۔ ہمارا تو خیال تھا کہ جو وہ مخفی کام کر رہے تھے اور سی آئی ڈی کے محکمہ میں خُوب کام کیا تھا، اس پر انہیں کوئی ناظر بنا دیا جائے گا۔ یہ کیا ہے کہ ان کو اس عہدہ سے ہٹا کر تنزّل میں کر دیا۔
۳۔ پرسوں مَیں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے لڑکوں کا حال پوچھنے گیا۔ (ان کے دو بچے بیمار ہیں) واپسی پر تھوڑی دُور تک میرے ساتھ آئے اور از خود ہی اپنی پُرانی گفتگو متعلقہ خلافت وغیرہ چھیڑ دی۔ خلاصہ یہ تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں اس پر مطمئن ہوں کہ نبی کی جانشین اور خلیفہ دراصل جماعت ہوتی ہے جو نظام وہ چاہے قائم کر لے۔ مثلاً اگر پیغامیوں والے خیال پر جماعت کی اکثریت ہو جاتی تو پھر وہی صحیح اسلامی مَسلک ہوتا۔ ۲۔ خلیفہ اللہ تعالیٰ سے فیض لینے کا واسطہ نہیں ہوتا۔ ۳۔خلیفہ کا تعلق محض نظامِ جماعت سے ہوتا ہے۔ ۴۔حدیث شریف میں صاف ہے کہ کفر بواح کی ۱۰؎ صورت میں خلیفہ معز ول کیا جا سکتا ہے۔
پس جماعت کی اکثریت ایسی صورت میں معزول کر سکتی ہے بلکہ روحانی خلیفہ تو ایسی حالت میں بدرجہ اَولیٰ معزدل ہونا چاہئے۔ حضرت امام حسنؓ نے خلافت چھوڑ دی اور یہ مقامِ مدح میں ان کا فعل شمار ہوتا ہے۔ باغیوں کے مطالبہ پر کہ حضرت عثمان خلافت سے الگ ہو جائیں کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا یہ مطالبہ اس لئے ناجائز ہے کہ شرعاً خلیفہ معزول ہو ہی نہیں سکتا۔ ۵۔یہ بات اسی طرح غلط مشہور ہو گئی ہے جس طرح یہ کہ خلیفہ کا جنازہ خلیفہ ہی پڑھ سکتا ہے۔ حالانکہ حضرت عمرؓ کا جنازہ حضرت عثمانؓ نے نہ پڑھا تھا۔
آخر پر یہ اعتراف کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو مَیں اپنے زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں‘ شروع شروع میں سالہا سال تک ان کے میرے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں‘ ان کے بعض مجھ پر احسان ہیں‘ حُسنِ سلوک سے پیش آتے رہے ہیں مَیں نے دیکھا ہے کہ وہ بات کرنے میں بڑے ہی محتاط اور ہوشیا ر واقع ہوئے ہیں۔ مگر اب اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ایک معمولی احمدی بھی ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اِن کے اس انقلاب کا اصلی باعث کیا ہے۔
پچھلے دنوں میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ احمدیہ بازار میں کھڑے ہیں‘ منہ فَق اور خشک ہو گیا ہے‘ ہونٹوں پر بار بار زبان پھیرتے ہیں گھبرائے ہوئے ہیں‘ بار بار تھُوکتے ہیں‘ پگڑی بھی گلے کی طرف ڈھلکی ہوئی ہے۔ خواب میں، مَیں نے تعجب کیا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے۔ پاس ان کا ایک چھوٹالڑکا بھی کھڑا ہے۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ
والسلام
خاکسار
حضور کا ادنیٰ ترین خادم
تاج الدین لائل پوری۲۰۔اپریل ۱۹۳۷ء
جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے فوراً لکھا کہ اس کی تحقیقات کی جائے اور فخردین صاحب ملتانی کا بیان لیا جائے۔ چنانچہ ان کابیان لیا گیا جس کے ضروری حصے یہ ہیں۔
میاں فخر الدین صاحب کا بیان
میں آپ کے سوالات کا جواب اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جو مجھے صحیح صحیح یاد ہے دیتا ہوں۔
۱۔ احسان علی وغیرہ کے الزامات کے متعلق جن ذمہ دار لوگوں کو باز پُرس کرنی چاہئے تھی انہوں نے نہیں کی۔
۲۔ ذمہ دار سے مراد نظارت امور عامہ‘ حضرت صاحب کی طرف سے ہیں۔
۳۔ ہم نے باز پُرس کرانے کیلئے اس لئے ضرورت نہیں سمجھی کہ ہم سے متعدد مرتبہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کیس ختم ہونے پر ان تمام امور کے متعلق باز پُرس کی جائے گی۔ علاوہ ازیں پہلے بھی نظارت کا یہی رویہ ہے کہ ایسے امور کے متعلق خود ہی بغیر کسی درخواست کے نوٹس لیتی ہے۔ چنانچہ علی گوہر صاحب کی لڑکی پر قتل کے الزام والے مقدمہ میں جب وہ بَری ہو گئی تھی تو نظارت امور عامہ نے ان سے بازپُرس کی تھی کہ تم نے جھوٹی گواہیاں کیوں دیں۔ وعدہ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ نظارت امور عامہ نے بھی اور غالباً خود حضرت صاحب نے بھی مصری صاحب سے فرمایا تھا۔ اُس وقت کے ناظر خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب تھے۔
۴۔ مجھے الیکشن کے بعد یہ علم ہؤا کہ پٹرول لینے والوں نے احسان علی سے کئی ایک خاص الخاص مراعات رکھ کر پٹرول گراں خریدا ہے حالانکہ اس سے ارزاں بھی مل سکتا تھا۔ بٹالہ میں مَیں نے کسی سے سنا تھا کہ وہاں ۵۰ روپے پیشگی دے کر فی گیلن کے حساب سے لیا گیا تھا مگر بعد میں وہاں سے سَودا منسوخ کرا کے سارا ٹھیکہ احسان علی کو دیا گیا اور اس طرح جس قدر پٹرول بھی الیکشن کیلئے خرچ ہوا، گراں قیمت پر لیا گیا حالانکہ اگر کمپنی سے براہ راست سَودا کیا جاتا تو وہ کمیشن بھی انجمن کو بچ سکتا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ پٹرول کے سَودا کرنے کے ذمہ وار نظارت کی طرف سے بظاہر حالات نیر صاحب تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ساتھ رعایت کیوں کی۔ البتہ چند سال کا عرصہ گزرتا ہے کہ سیالکوٹ ہاؤس کے مالک محمد اسحق کو سکول والوں نے کچھ سپرٹ بٹالہ سے لانے کیلئے کہا۔ چونکہ قواعد کی رو سے خاص مقدار سے زائد سپرٹ وہ بذریعہ ریل لانے کا مجاز نہ تھا، تو اُس وقت احسان علی نے خفیہ طور پر اکسائز انسپکٹر کو جا کر رپورٹ کر کے بٹالہ کے اسٹیشن پر پکڑوا دیا۔ اسحق رات بھر حوالات میں رہا پھر اس پر پانچ روپے جُرمانہ ہوا۔ اس کے دوسرے یا تیسرے روز حضرت صاحب کی خدمت میں غالباً کسی دعوت کے موقع پر یہ معاملہ پیش ہواتو حضرت صاحب نے پریذیڈنٹ لوکل انجمن کو فرمایا کہ اس کے متعلق سخت نوٹس لیا جائے کہ ایسی کارروائی کیوں کی گئی۔ جب لوکل پریڈیڈنٹ نے احسان علی کو حضرت صاحب کا یہ ارشاد سنایا تو اُس نے برملا کہا کہ حضرت صاحب کو اگر علم ہوتا کہ رپورٹ احسان علی نے کی ہے تو حضرت صاحب کچھ نہ فرماتے۔ اس کے بعد سنا تھا کہ رپورٹ وغیرہ کارروائی مکمل ہو کر ذمہ وار لوگوں تک پہنچی مگر کسی نے احسان علی سے کچھ نہ پوچھا۔
۵۔ میں نے کہا ہے کہ عبدالرحمن کو بغیر کسی معقول QUALIFICATION کے حال ہی میں دفتر تحریک جدید میں پچیس روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے حالانکہ اس سے زیادہ تعلیم و تجربہ و الے ایف۔اے اور بی۔اے پاس تک یہاں پندرہ پندرہ بیس بیس پر ملازم ہیں۔ اور پھر اس کو ایسے وقت یہ خاص رعایت دی گئی ہے جبکہ اس کے متعلق خفیہ رپورٹوں کے ذریعہ کئی ایک شکایات پہنچ چکی ہیں۔
۶۔ مجھے مندرجہ ذیل الفاظ کہے ہوئے یاد نہیں کہ ’’میں تو اس میں اپنی ہتک سمجھتا ہوں اور ہمیں انصاف کی توقع نہیں‘‘ اور ممکن ہے میں نے اس مفہوم کا فقرہ کہا ہو کہ ان الزامات کے متعلق خود دعویٰ کرکے اَور بے عزت ہوں۔ کیونکہ یہ دعویٰ ہی اسی قسم کا ہے کہ اس کی جرح قدح میں ملزمین مدعیوں کو ذلیل کرنے کیلئے بہت کچھ خاک اُڑا سکتے ہیں۔ انتظامی طور پر رپورٹیں کافی سے زیادہ پہنچ چکی ہیں۔
۷۔ بجواب اِس سوال کے کہ آیا آپ اِس وقت بھی حضرت صاحب کی خدمت میں یا قضاء یا امور عامہ میں دعویٰ کرنے کو ہتک سمجھتے ہیں۔ عرض ہے کہ نہیں بلکہ عنقریب میں احسان علی وغیرہ پر بقیہ مال مسروقہ کے متعلق قضاء میں دعویٰ کرنے والا ہوں۔ ڈاکٹر فضل الدین صاحب سے مختار نامہ منگایا ہوا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ڈاکٹر فضل الدین صاحب نے کس کی طرف یہ بات لکھی تھی کہ مجھے لکھا گیا تھا کہ بعد فیصلہ مقدمہ کارروائی کی جا ئے گی۔
۸۔ میں نے جہاں تک مجھے یاد ہے مُخبر کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ جا کر دعویٰ کریں یہ کہا تھا کہ ایسے حالات میں بعض دفعہ دعویٰ کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی چنانچہ مقبول کے متعلق کوئی دعویٰ وغیرہ نہیں ہوا ۔ صرف خفیہ رپورٹوں یا ذاتی معلومات کی بناء پر اُس کے اخراج کا فیصلہ کیا گیا۔ نہ صرف اخراج کا بلکہ اُس کے متعلق مقاطعہ کا خفیہ طور پر اعلان کیا گیا تھا۔ اسی طرح اب بھی ان کے متعلق کیا جا سکتا ہے۔
۹۔مجھے یہ فقرہ کہا ہؤا یاد نہیں کہ ’’میں فیصلہ کے متعلق نہیں کہہ سکتا۔ ہاں اگر سابقہ ناراضگی درمیان میں حائل نہ ہو گئی تو……‘‘ بجواب سوال کمیشن کے عرض ہے کہ واقعی عرصہ دو سال سے حضرت صاحب کسی نامعلوم وجہ کے ماتحت مجھ سے اور مصری صاحب سے اور مصباح الدین صاحب سے ناراضگی کا اظہار فرما چکے ہیں۔
۱۰۔ بجواب سوال کمیشن کہ کیا حضرت صاحب دیدہ دانستہ آپ کے خلاف فیصلہ کر دیں گے؟ عرض ہے کہ مَیں قبل از وقت اِس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں۔ بحیثیت خلیفہ کے مجھے ان سے انصاف کی توقع ہے۔
۱۱۔ بجواب سوال کمیشن کہ جب آپ کو معلوم ہے کہ حضرت صاحب آپ پر ناراض ہیں تو آپ نے کوئی کوشش وجہِ ناراضگی کے معلوم کرنے کیلئے کی؟ عرض ہے کہ جن ذرائع سے مجھے اس اظہارِ ناراضگی کا علم ہوا انہی ذرائع سے میں نے بعض بیان کردہ وجوہات ناراضگی کا تسلی بخش جواب بھیجا جو حضور تک پہنچ گیا۔ اور ان وجوہات میں جس قدر وجہ میرے امکان میں تھی اس سے اجتناب کر لیا مگر باوجود اس کے بھی ناراضگی بدستور چلی گئی جس سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ وجوہاتِ ناراضگی اور ہیں جو ابھی تک ظاہر نہیں کئے گئے۔ دسمبر ۱۹۳۵ء کے آخر میں مَیں نے ایک دعوت کی جس میں علاوہ دیگر معزز دو دوستوں کے حضرت صاحب کی خدمت میں بھی دعوت نامہ بھیجا۔ اِس پر حضرت صاحب نے بطور ناراضگی دعوت میں آنے سے انکار فرمایا۔ اس پر مَیں نے پھر مفصّل عریضہ دوسرے روز لکھا جس میں غالباً وجوہاتِ ناراضگی دریافت کی گئی تھیں اور پیشگی معافی بھی مانگی گئی تھی مگر اِس کا جواب کچھ نہ آیا۔ اس کے بعد سید عزیزاللہ شاہ صاحب کے ذریعہ وجوہاتِ ناراضگی میرے پاس پہنچیں۔ ان کے ایک ایک کر کے معقول اور مدلّل جواب ان کے ذریعہ بھیجے۔ پھر اس کے بعد حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے دسمبر ۱۹۳۶ء میں زبانی کوئی اشارہ کیا‘ اس پر بھی میں نے ان کو کہا کہ مجھے بتلایا جائے کہ میرے متعلق کیا شکایت ہے تا کہ میں اس کا ازالہ کروں مگر وہ بھی کوئی خاص معیّن شکایت نہ بتلا سکے۔ اس پر میں نے ان کی مزید تسلی کیلئے ایک مفصّل عریضہ لکھا جس کی نقل مَیں کمیشن کے مطالعہ کیلئے پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرما لیں۔ پس جب تک مجھے اصل وجہِ ناراضگی کا علم نہ ہو تب تک میں حضور کی ناراضگی کس طرح دور کر سکتا ہوں۔ اس سے قبل میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب بھی مجھے ناراضگی کے متعلق فرما چکے تھے۔ اس کے بعد ابھی ایک دو ماہ گزرتے ہیں، میاں محمد عبداللہ خان صاحب نے بیان کیا۔
جبکہ اسی خیال کے ماتحت خُفیہ آدمی کئی ایک میرے اِردگرد چھوڑ رکھے تھے۔ اس دو سال کے عرصہ میں انہیں کوئی بات مجھ سے سلسلہ کے خلاف نہ مل سکی۔ اور اگر ملیں تو یہ چند شکایات جو مَیں نے ان سی۔ آئی۔ ڈی کو حضرت صاحب تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ سمجھ کر بیان کیں۔ اور وہ بھی اُس وقت جبکہ سی۔آئی۔ڈی والے اپنی ڈائری مکمل کرنے کیلئے یا اس کی خانہ پُری کرنے کے لئے مجھ سے خواہ مخواہ چھیڑ خوانی کر کے کچھ نہ کچھ نکالنے کیلئے کوشش کرتے تھے۔ اور یہ شکایات بھی دو سال کے عرصہ میں صرف اِسی ایک دو ماہ کے عرصہ میں۔باقی تمام ڈیڑھ دو سال وہ ناکام رہے۔‘‘
مجھے قطعاً یاد نہیں آتا کہ میں نے یہ فقرہ کسی گفتگو کے دوران میں کہا کہ اب تو ہمارا جلدی ہی اخراج ہونے والا ہے۔ یا اب ہمارے تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اور اس کے الفاظ کااشارہ حضرت صاحب کے کسی خطبہ کی طرف ہو۔
۱۲۔ بجواب اس کے کہ آپ کے پاس اِس امر کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت صاحب نے آپ کیلئے سی۔آئی۔ڈی مقرر کی ہے عرض ہے کہ اس کا ثبوت میرا مشاہدہ اور رپورٹروں کا عمل اور رپورٹروں کا بار بار میرے سی۔ آئی۔ ڈی کہنے پر ان کا انکار نہ کرنا۔ اور رپورٹروں کا خفیہ طور پر بار بار میرے پاس آ کر مجھے اُکسا کر‘ بھڑکا کر اور میرے خلافِ طبع باتیں سنا کر‘ اشتعال دلا کر مجھے اس پر یقین کرنے کیلئے کافی ہے۔ پھر مولوی عبدالاحد اور ماسٹر غلام حیدر اور مولوی تاج دین وغیرہ کا الگ کھڑے ہو کر سرگوشیاں کرنا وغیرہ سب امور ایسے ہیں کہ جو مجھے اس امر کا باور کرانے کیلئے کافی ہیں۔
بجواب کمیشن عرض ہے کہ مجھ سے ان میں سے کسی نے زبانی طور پر اقرار نہیں کیا مگر عملی طور پر ان کا رویہ بالکل بینّ تھا۔ غالباً کسی اور نے بھی ان کا نام لیا تھا کہ یہ آدمی خفیہ مقرر ہیں۔ مگر یاد نہیں کہ وہ کون تھے یا تھا۔ مگر ان کا رویہ ایسا رہا ہے کہ کسی دوسرے کے کہنے کی ضرورت نہیں۔
۱۳۔ اس کے بعد دوبارہ ایک تحریری بیان دیا۔ جس میں یہ لکھا کہ پہلے بیان میں ذمہ وار لوگوں کے خلاف شکایت سے مراد میری خود خلیفۃ المسیح سے ہے۔ پھر لکھا ہے۔ ’’ہاں یہ مَیں ضرور عرض کروں گا کہ اس امتیازی سلوک کا جو احسان علی وغیرہ سے ہمارے معاملہ میں کیا گیا ہم کو رنج اور سخت رنج پہنچا۔ مگر اس رنج کا اثر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اتنا وسیع نہیں کہ ہمارے ایمان اور عمل پر کسی طرح اثر انداز ہو۔
پھر یہ لکھا کہ مصری صاحب کا بیان تھا کہ خلیفۃ المسیح نے بار بار اور وثوق سے تسلی دلائی ہے کہ چوری کے معاملہ میں احسان علی ملوث ہے۔ مگر دورانِ مقدمہ میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتے، اس کے بعد کریں گے۔ اس پر مصری صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب سے مشورہ کیا۔ جنہوں نے کہا کہ قانوناً دورانِ مقدمہ میں ایسی کارروائی میں کچھ حرج نہیںمگر پھر بھی ان کو اہانت اور جھوٹے الزامات لگانے سے نہیں روکا گیا۔ خلیفۃ المسیح نے تو یہ سلوک کیا‘ ان کے بھائیوں نے یہ کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب نے احسان علی کو مقدمہ کیلئے قرض دیا اور سید منظور علی شاہ صاحب کو عبدالمنان کی ضمانت دینے کیلئے سکول سے چُھٹی دلوا کر گورداسپور بھیجا‘ میاں شریف احمد صاحب نے یہ سلوک کیا کہ احسان علی نے ان کے پاس نوے روپے مال مسروقہ کے نکلوا کر بھجوائے لیکن انہوں نے باوجود علم کے کہ چوری میں نوے روپے بھی تھے، ہمیں علم تک نہ دیا اور آخر تک مخفی رکھا جب تک کہ احسان علی نے اسے بطور ڈیفنس کے پیش نہ کیا۔ پھر جیسا کہ احسان علی نے امور عامہ میں تحریر دی تھی میاں شریف احمد صاحب نے اسے مشورہ دیا کہ فوراً جا کر راجہ عمردراز صاحب تھانیدار کو قابو کر لو۔ آگے لکھا ہے دروغ برگردنِ راوی، جس پر معاملہ ٹھنڈا کر دیا گیا اور ہمیں ناظر امور عامہ سے مل کر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کرنی پڑی۔
پھر جب عبدالرحمن برادر احسان علی کانام چوری میں شرکت کے بارہ میں لیا گیا تو ہمیں ہدایت بھجوائی گئی کہ اگر کسی کو مشتبہ قرار دے کر اسے چور ثابت نہ کر سکے تو سخت نوٹس لیا جائے گا۔
’’ان تمام واقعات اور حالات کو مدنظر رکھ کر ایک انسان جو حضرت صاحب اور حضرات میاں صاحبان اور نظارت امور عامہ پر کافی اعتماد رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ مقدس ہستیاں کبھی بھی چوروں کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوں گی، بلکہ مظلوموں، بیکسوں اور بے گناہ دوستوں کی ہر ممکن امداد کریں گی، ایسے انسان کو اس قسم کے غیر متوقعانہ امتیازی سلوک سے رنج پہنچنا اور اس کے احساسات کو دھکّا لگنا فطرتی امر ہے‘‘۔
بعد کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اس پر بھی ہم نے حُسنِ ظنّی قائم رکھی لیکن مقدمہ کے بعد بھی خاموشی ہے اور ہمارے صبر کا صلہ یہ مل رہا ہے کہ ہم پر سی۔آئی۔ڈی مسلّط کر دی گئی ہے۔ احسان علی پر ڈاکٹر اسمٰعیل نے الزام لگائے تو اس کی امداد کیلئے روپیہ خرچ کیا گیا مگر مظلوم لڑکیوں اور عورتوں پر گندے اور جھوٹے الزامات کی رپورٹیں حضرت صاحب تک پہنچتی ہیں، اڑھائی تین ہزار کی چوری ہوتی ہے لیکن اس کیلئے نظامِ سلسلہ کے ماتحت بھی سزا نہیں دی جاتی۔ بلکہ برعکس ان مظلوم عورتوں کی عفّت کی حفاظت کرنے والوں کے خلاف منافقت کا پروپیگنڈا کر کے انہیں بدنام کیا جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے الزام لے کر کہا جاتا ہے کہ گویا ہم حضرت صاحب اور نظام سلسلہ کے خلاف پروپیگنڈاکرتے ہیں۔
بے تکلّفانہ انداز میں میرے جیسے بے تکلّف آدمی کے منہ سے صدہا ایسی باتیں نکلتی ہیں جنہیں معمولی عقل کا آدمی بھی کوئی وقعت نہیں دیتا۔
کہا گیا ہے کہ میں نے مولوی ظفر محمد صاحب سے کہاکہ تم ان خدمات کے بدلہ میں ناظر بنا دیئے جاؤ گے۔ اوّل تو مجھے یہ یاد نہیں۔ پھر ممکن ہے مذاق میں مَیں نے اِس سے بھی بڑھ کر الفاظ کہے ہوں۔ خود مولوی ظفر محمد صاحب مجھ سے مذاق کر لیتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے ملے اور ہنس کر کہا کہ اب میں امور عامہ میں آ گیا ہوں (یعنی اب تمہاری خبر لوں گا) اسی طرح خان صاحب فرزند علی صاحب نے مذاق میں مجھ سے کہا مجھے ناظر امور عامہ بننے دو، پھر خبر لوں گا مگر یہ سب باتیں مذاق کی ہیں۔
کیا پُرانا خادم ہونے کی حیثیت سے حضرت صاحب کا فرض نہ تھا کہ مجھے بُلا کر مربیانہ طور پر سمجھا دیتے۔ حضرت عمرؓ کے روبرو تو لوگ کھڑے ہو کر اپنے اعتراضات پیش کر دیا کرتے تھے اور اپنے مطالبات مرارت ۱۲؎ آمیز طریق پر پیش کر دیا کرتے تھے لیکن اب مقرر کردہ آدمیوں کے ذریعہ سے بات پہنچائی جائے تو اس پر بھی گرفت کی جاتی ہے۔ اگر میں تحقیق کے موقع پر باتیںبیان نہ کرتا تو منافق قرار پاتا۔ اب بیان کر دی ہیں تو ملزم گردانا گیا ہوں۔پہلے خلفاء لوگوں کی تکالیف چُھپ چُھپ کر معلوم کرتے تھے مگر یہاں معاملہ اور ہے۔ بجائے داد رسی کے اُلٹا ہم پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تقریر
اس بیان کی بنیادی کڑی جس پر ساری بنیاد ہے، یہ ہے کہ میں
فخرالدین صاحب پر بِلاوجہ ناراض ہوا اور ان کیلئے سی۔آئی۔ڈی مقرر کر دی جو یہ تین آدمی ہیں۔ مولوی تاج دین صاحب، مولوی عبدالاحد صاحب اور ماسٹر غلام حیدر صاحب۔ یہ تینوں صاحب آگے آ جائیں۔
مولوی تاج الدین صاحب،مولوی عبدالاحد صاحب اور ماسٹر غلام حیدر صاحب کا حلف
چنانچہ یہ تینوں آگے آ گئے اور حضور نے ان کو مخاطب کرتے
ہوئے فرمایا کہ آپ تینوں جانتے ہیں کہ یہ مسجد اقصیٰ ہے جس کے متعلق قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک بھی یہ جگہ نہایت ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اس مقام پر میں خلیفہ وقت ہونے کی حیثیت سے آپ لوگوں کو حلف دیتا ہوں آپ لوگ لَعْنَت اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کی وعید کو یاد رکھتے ہوئے قسم اُٹھائیں کہ ’میں نے کبھی آپ لوگوں کو اشارتاً کنایتاً یا وضاحتاً‘ تقریراً یا تحریراً بِلاواسطہ یا بِالواسطہ فخرالدین صاحب کی نگرانی کیلئے یا ان کے متعلق رپورٹ کرنے کیلئے کہا تھا اور حلَف اُٹھاتے وقت یاد رکھیںکہ اگر ایک لفظ بھی جھوٹ کہا تو آپ لوگ خدا کی *** سے نہیں بچ سکیں گے‘ نہ مَیں نہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور نہ رسول کریم ﷺ آپ کو بچا سکیں گے اور اگر جھوٹ بولیں گے تو آپ لوگوں کے گھر برباد ہو جائیں گے۔ (اس کے بعد ان تینوں اصحاب نے لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے ساتھ یہ حلف اُٹھائی کہ حضور نے ہمیں کبھی اور کسی طرح بھی اس کام پر مقرر نہیں کیا۔)
اس کے بعد حضور نے فرمایاکہ میاں فخرالدین صاحب کے الزامات کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ میں نے ان سے ناراض ہو کر ان پر سی۔آئی۔ڈی مقرر کر دی اور وہ مجھ پر بددیانتی کاالزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے بِلاوجہ ان پر عرصہ دو سال سے سی۔آئی۔ڈی مقرر کر رکھی ہے اور سی۔آئی۔ڈی کے آدمی یہ ہیں۔ جنہوں نے آپ کے سامنے لَعْنَت اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہہ کر گواہی دی ہے۔ اس سے آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ میں ان پر بدظنّ ہوا یا وہ مجھ پر بدظن ہوئے۔
پھر ان کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے سید عزیز اللہ شاہ صاحب سے ان کے متعلق از خود کوئی باتیں کیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے میں نے کوئی بات از خود ان سے نہیں کی بلکہ سید صاحب چونکہ ان کے دوست تھے، انہوں نے خود مجھ سے باتیں کی تھیں۔
سید عزیز اللہ شاہ صاحب کا حلفی بیان
چنانچہ حضور کے بلانے پر جنا ب سید صاحب نے حلفیہ بیان کیا
کہ میاں فخرالدین صاحب کے متعلق مَیں نے حضور سے خود باتیں کی تھیں۔ حضور نے نہیںکی تھیں اور جو کچھ آپ نے کہا ان کو مَیں نے اپنے طور پر پہنچایا تھا اور انہیں سن کر حضور تک پہنچانے کیلئے فخرالدین صاحب نے جو باتیں مجھ سے کہیں وہ میں حضور تک نہیں پہنچا سکا تھااور جاتی دفعہ مَیں نے فخرالدین صاحب سے کہہ دیا تھا کہ میں حضور سے نہیں مل سکا اس لئے آپ کی باتیں بھی حضور تک نہیں پہنچ سکیں۔ ہاں مَیں نے ہمشیرہ سے کہا ہے کہ کسی طرح میاں فخر الدین صاحب کو حضرت صاحب سے ملوانے کی اجازت لے دیں۔ چنانچہ اب چار روز ہوئے جب میں اجازت لے کر ان سے ملا ہوں تو بھی میں نے ان کو یاد دلایا تھا کہ آپ کا یہ کہنا کہ مَیں نے حضرت صاحب کو باتیں پہنچا دی تھیں مگر پھر بھی کوئی ازالہ نہیں ہوا، غلط ہے۔ مَیں نے تو اسی وقت آپ سے کہا تھا کہ مَیں حضرت صاحب سے نہیں مل سکا اور آپ نے مجھ پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ واہ! میرا یہ کام بھی نہ کیا۔
میاں فخرالدین کی دیانت کا حال
پھر انہوں نے بیان میں لکھوایا ہے کہ میں نے کسی سے نہیں کہا کہ میرا اِ خراج
ہونے والا ہے‘ گو آگے یہ فقرہ بڑھا دیا ہے کہ کسی خطبہ کے متعلق نہیں کہا حالانکہ اصل شہادت میںخطبہ کا لفظ نہیں۔ خطبہ کی طرف اشارہ توراوی نے اپنی عقل سے سمجھا ہے۔ اصل لفظ گواہ کے اس بارہ میں یہ ہیں فخرالدین صاحب نے اسی اثناء میں کہا۔ کہ ’’اب ہمارے تھوڑے دن رہ گئے ہیں‘‘ (بیان مولوی عبدالاحد صاحب مولوی فاضل) اس کی تصدیق مولوی علی محمد صاحب اجمیری مولوی فاضل مبلّغِ سلسلہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ میںحلفیہ تصدیق کرتا ہوں کہ بابو فخرالدین صاحب نے یہ الفاظ کہے تھے‘‘ ان الفاظ میں خطبہ کا کوئی ذکر نہیں۔ ہاں مولوی عبدالاحد صاحب نے مولوی علی محمدصاحب سے بعد میں کہا کہ ملتانی صاحب کا اشارہ خلیفۃ المسیح کے خطبہ کی طرف معلوم ہوتا ہے مگر سوال یہ نہیں کہ اس فقرہ کا مطلب مولوی عبدالاحد صاحب نے کیا سمجھا۔ سوال یہ ہے کہ میاں فخرالدین صاحب نے کیا کہا تھا۔ سو انہوں نے اِس فقرہ میں کہیں خطبہ کا ذکر نہیں کیا۔ صرف یہ کہا ہے کہ اب ہمارے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ خواہ اس سے یہ مراد ہو کہ ہمیں جماعت سے نکال دیا جائے گا یا یہ کہ ہم خود جماعت سے نکل جائیں گے مگر ان کی دیانت یہ ہے کہ جواب دیتے ہوئے وہ ان الفاظ میں انکار کرتے ہیں۔
’’مجھے قطعاً یاد نہیں کہ میں نے یہ فقرہ کسی گفتگو کے دَوران میں کہا کہ اب تو ہمارا جلدی ہی اخراج ہونے والا ہے یا اب ہمارے تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اور اس کے الفاظ کا اشارہ حضرت صاحب کے کسی خطبہ کی طرف ہو‘‘ آخری فقرہ کی زیادتی صاف بتاتی ہے کہ ان کا منشاء یہ تھا کہ بظاہر تو یہ سمجھا جائے کہ میں نے یہ فقرہ کہا ہی نہیں لیکن اگر ثابت ہو جائے تو میں کہہ سکوں کہ میرا مطلب یہ تھا کہ کسی خطبہ کے متعلق ایسا نہیں کہا تھا۔ حالانکہ گواہی میں جو اُن کی طرف الفاظ منسوب کئے گئے ہیں ان میں خطبہ کا لفظ ہی نہیں ہے۔ خطبہ کی طرف اشارہ تو صرف گواہ کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے بعد میں کسی دوست سے اس کا اظہار کیا ہے۔ اب میں میاں فخرالدین صاحب کی ایک اپنی تحریر سے ثابت کرتا ہوں کہ انہوں نے غلط انکار کیا ہے۔ یہ فقرہ وہ ایک سے زیادہ دفعہ کہہ چکے تھے۔ وہ اپنے ایک خط میں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو لکھتے ہیں۔
’’لو آج مَیں آپ کو کہتا ہوں کہ قاضی اکمل کے فیصلہ کے وقت ہی میں اپنے اخراج کو بھی بھانپ گیا تھا۔ اور اسی وقت میں نے قاضی صاحب کو کہہ دیا تھا کہ اب میری باری ہے۔‘‘
اس فقرہ سے ظاہر ہے کہ میاں فخرالدین اپنے دلی خیالات کی وجہ سے دیر سے اپنے اخراج کے امیدوار تھے اور اس کا اظہار کر چکے تھے مگر باوجود اس کے اپنے حلفیہ بیان میں وہ اس امر کا انکار کرتے ہیں اور اپنے نفس کو تسلی دلانے کیلئے انکار کے آگے ’’کسی خطبہ کے متعلق نہیں کہا‘‘ کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں۔ حالانکہ گواہ نے یہ صرف کہا تھا کہ انہوں نے یہ فقرہ کہا تھا، کہ اب ہمارے تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ اور ا س سے میں نے یہ سمجھا کہ خطبہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
دل میں چور کا ثبوت
پھر لطیفہ یہ ہے کہ میاں فخرالدین اپنے اوپر سی۔آئی۔ڈی مقرر ہونے کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ مولوی عبدالاحد صاحب،
مولوی تاج الدین صاحب اور ماسٹر غلام حیدر صاحب باہم سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔ مگر یہ ثبوت تو جُرم کی نفی کرنے کی بجائے جُرم کو ثابت کرنے والا ہے کیونکہ ایسی باتیںتبھی دل میں پیدا ہوتی ہیں جب دل میں جُرم ہو۔ کہتے ہیں کسی برہمن سے گائے کی بچھیا مر گئی اور چونکہ ہندو مذہب میں یہ ایک بہت بڑا جُرم ہے اور برہمن سے گائے مرے تو اس کی سزا موت ہے۔ اس نے خیال کیا کہ لوگوں کو جب اِس کا علم ہو گا، وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس لئے گھر کو تالا لگا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن دل پر خوف اس قدر طاری تھا کہ جہاں دو آدمیوں کو باتیں کرتے دیکھتا خیال کرتا کہ شاید ان کو میرے جُرم کا پتہ لگ گیا ہے اور میرے ہاتھ سے بچھیا مر جانے کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس خیال کی وجہ سے گھبرایا ہوا اُن کے پاس جاتا اور پوچھتا کہ آپ کیا باتیں کر رہے تھے۔ وہ جواب دیتے کہ کچھ نہیں، ہم آپس میں کوئی اپنی بات کر رہے تھے‘ تمہارے متعلق کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ وہ کہتا کہ میرا نام تو آپ نے لیا تھا اور بچھیا بچھیا کہہ کر آپ کچھ باتیں کر رہے تھے۔ پھر وہاں سے آگے چلتا اور پھر جو آدمی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے، ان سے اسی قسم کی بات کرتا۔ آخر لوگوں کے دلوں میں شک پیدا ہوا اور شہر سے نکلنے سے پہلے لوگ اسے پکڑ کر اس کے گھر لائے اور بچھیا مری ہوئی گھر سے مل گئی اور اُسے سزا مل گئی۔ اسی طرح ان صاحب کے دل میں چونکہ باغیانہ خیالات تھے اور خلیفۂ وقت کے خلاف بدظنی کے خیالات پھیلا رہے تھے اور جانتے تھے کہ میں خلافِ شریعت اور خلافِ آداب کام کرتا ہوں اس لئے جہاں بھی دو آدمی کھڑے باتیں کرتے دیکھتے تھے سمجھتے تھے کہ یہ سی۔آئی۔ڈی کے ہیں اور میرے خلاف باتیں کررہے ہیں۔
گندے اتہامات
میاں فخرالدین صاحب نے اپنے بیان میں بعض گندے اتہام مستریوں کی طرح گفتہ آیددر حدیثِ دیگراں کے طور پر بھی
لگائے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مصری صاحب بھی اسی سلسلہ میں تیاری کر رہے ہیں۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ یہ ان کا کام ہے کہ اپنی قانونی‘ اخلاقی اور مذہبی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے اپنے الزامات کو شائع کریں، میرا یہ کام نہیں۔ میں اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود ان کو جواب دے۔
اب میں مقدمہ کے حالات کو لیتا ہوں۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ احسان علی وغیرہ سے امتیازی سلوک کیا گیا اور کہ میں نے مصری صاحب سے کہا تھا کہ احسان علی بھی اس چوری میں ملوث ہے۔ اس کے متعلق میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ میرا تو ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ جس کے متعلق کوئی جُرم ثابت ہو، صرف اسی کے متعلق کہا کرتا ہوں کہ وہ مُجرم ہے کسی کو بِلاوجہ صرف الزام سن کر مُجرم نہیں قرار دیتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن لوگوں کی طرف سے پہلے یہ رپورٹ ہوئی کہ شمس الدین جو ان کی بہن کا لڑکا ہے جن کے ہاں چوری ہوئی تھی، چور ہے۔ اور اس کے کچھ دن بعد رپورٹ کی گئی کہ عبدالرحمن برادر احسان علی صاحب نے شمس الدین سے مل کر چوری کی ہے۔ اس کے بعد ان کی طرف سے مجھے کئی دفعہ اطلاع ملی کہ اس چوری میں احسان علی صاحب، عبدالرحمن اور ان کی والدہ بھی شامل ہیں۔ لیکن میں ان سے یہی کہتا رہا ہوں کہ بِلا ثبوت کسی کا نام نہ لیں۔ ہاں جس کے بارہ میں دلیل ملے، اسے پیش کرتے جائیں۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس طرح بِلاثبوت نام لیتے چلے جانے سے کسقدر فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ شریعت اس قسم کی شہادت کو جائز نہیں قرار دیتی۔ آخر جس کا نام لیا جائے اگر وہ ملوث نہ ہو اور بِلاوجہ اسے بدنام کیا جائے تو کیا وہ عزت کی ہتک کا دعویٰ نہ کرے گا۔ اور اگر وہ دعویٰ نہ بھی کرے تو کیا اس کے دل میں غصہ نہ پیدا ہو گا۔ پھر شریف، پردہ دار عورتوں کا نام بے احتیاطی سے لے دینا کس قدر خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ غرض میری طرف سے انہیں احتیاط کی نصیحت ہوتی رہی ہے اور یہ غلط ہے کہ میں نے کبھی بھی یہ کہا ہو کہ چوری میں احسان علی صاحب کا دخل تھا۔ میں یقینا یہ سمجھتا ہوں کہ چوری کے معلوم ہونے کے بعد احسان علی صاحب نے اپنے بھائی کے بچانے کی کوشش کی مگر یہ تو دنیا کے اکثر لوگ کرتے ہیں اور کوئی انہیں چور نہیں قرار دیتا۔ اور میں یقین رکھتا ہوںکہ احسان علی صاحب کا خود چوری میں کسی قسم کا دخل نہ تھا اور کسی مرحلہ پر بھی مجھے ان کے متعلق یہ وہم نہیں ہوا کہ وہ چوری میں شریک تھے اور میں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ چوری کے معاملہ میں احسان علی ملوث ہے۔ یہ محض افتراء ہے، خواہ مصری صاحب نے کیا ہو یا ملتانی صاحب نے، ان کی طرف خود بات بنا کر منسوب کر دی ہو۔
چوری کا واقعہ
یہ چوری کا واقعہ غالباً فروری ۱۹۳۶ء کا ہے جب میں سندھ میں تھا۔ واپس آنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فضل دین صاحب کے ہاں
چوری ہو گئی ہے۔ میں نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کروائی اور اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے امور عامہ کی معرفت ان کے گھر سے دریافت کروایا کہ انہیں کسی پر شُبہ تو نہیں۔ ان کی طرف سے مصری صاحب یا ملتانی صاحب نے امور عامہ کو بتایا کہ شمس الدین پسر احمد دین صاحب زرگر جو اہلیہ ڈاکٹر فضل دین صاحب کی بہن کا لڑکا ہے، صرف اسے کُنجیوں کا پتہ تھا اور تالا ایسا ہے کہ جس کے کھولنے کی خاص ترکیبیں ہیںاور کُنجی کے اندر ایسی حرکت رکھی گئی ہے کہ جب تک وہ نہ ہو کُنجی لگتی ہی نہیں۔ شمس الدین چونکہ گھر میں آتا جاتا تھا، اس لئے ہم خیال کرتے ہیں کہ اس کے سامنے چونکہ تالا کھولا جاتا تھا، اُسے علم ہو گیا ہوگا۔ چنانچہ شمس الدین کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی اس پر اس کی والدہ روتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہا کہ اس کے لڑکے پر خواہ مخواہ الزام لگایا گیا ہے، وہ تو اُس وقت گھر میں تھا غالباً وہ جمعہ کا دن تھا۔ اس نے کہا میں نے اسے بھیجا کہ جا کر نماز پڑھے وہ اُٹھ کر گیا اور اُسی وقت واپس آ گیا کہ نما زہو گئی ہے اس طرح گویا وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا اور بہنوں کی رنجش کی وجہ سے ہم تو ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے بھی نہیں۔ وہ بہت روئی مگر میں نے اسے کہا کہ ہم تحقیقات تو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ صاحبِ خانہ کا بیان ہے کہ تالا ایسا تھا جسے واقف کے سِوا کوئی نہیں کھول سکتا۔ اوّل چور نے کُنجی تلاش کی ہے‘ پھر اُس کُنجی کوجس کے لگانے میں خاص راز ہے صحیح طور پر استعمال کیا ہے۔ پس کُنجی رکھنے کی جگہ کا علم ہونا اور پھر کُنجی کے استعمال کا علم ہونا، صاحبِ خانہ کے نزدیک ایسے شخص پر دلالت کرتا ہے جو گھر کا راز دان ہو۔ ان حالات میں ان کا شبہ اگر میاں شمس الدین پر ہو تو خواہ غلط ہو، ہمیں تحقیق پر مجبور کرتا ہے لیکن اگر تم خیال کرتی ہو کہ تمہارا لڑکا مُجرم نہیں تو تم خداتعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرو اور اُسے کہو کہ تو جانتا ہے ہم مُجرم نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی تمہارا بچہ مُجرم نہیں تو وہ اسے ضرور بچا لے گا۔ چنانچہ اس نے میری نصیحت پر عمل کیا اور میرے سامنے ہی لعنتیں ڈال ڈال کر دعائیںکرنی شروع کیں۔ اور مَیں نے دل میں اُسی وقت کہا کہ یا تو اس کا بچہ بچ جائے گا اور اگرمُجرم ہے تو تباہ ہو جائے گا۔ شمس الدین کی والدہ نے مجھ سے بھی درخواست کی کہ میں اُس کے بچہ کوبُلا کر سب حالات سنوں تا کہ مجھے حقیقت معلوم ہو جائے میں نے اُسے کہا کہ اُسے میرے پاس بھیج دینا چنانچہ وہ آیا اور اُس نے حالات سنائے جن سے میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ یہ لڑکا چور نہیں ہے۔ دوسرے تیسرے دن مجھے ناظر امور عامہ نے اطلاع دی کہ مصری صاحب کی پارٹی کا خیال ہے کہ عبدالرحمن برادر احسان علی بھی چوری میں شریک ہے۔ اس پر مَیں نے اُن سے کہا کہ شمس الدین پر شک کی تو ایک وجہ بتائی گئی ہے کہ اس کی گھر میں آمدورفت تھی اور کُنجی کا راز اُسے معلوم تھا، غیر کو معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔ عبدالرحمن پر شک کیلئے اگر کوئی قرینہ ہو تو بتائیں‘ ورنہ شریعت کی رو سے وہ خود زیرالزام آ جائیں گے اور اس طرح بجائے فائدہ کے نقصان اُٹھائیں گے۔ شمس الدین پر شک کی وجہ ایسی تھی کہ اس پر سوال اور جرح کی جا سکتی تھی‘ اسی طرح کسی اور پر شُبہ کیلئے بھی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ یہ بات ان کے فائدہ کی تھی کیونکہ بِلاوجہ کسی پر شک کرنے سے آدمی خود زیرِ الزام ہو سکتا ہے اور مظلوم ہوتے ہوئے اُلٹا ظالم کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ چوری وغیرہ کی قسم کے جرائم میں شکوک پر تحقیق کی بنیاد ہوتی ہے مگر شکوک تخمینیہ پر اس کی بنیاد ہوتی ہے نہ کہ شکوکِ وہمیہ پر۔ پس میں نے ان کے فائدہ کی ان کو بات کہی اور چونکہ انہوں نے جہاں تک میرا علم ہے کوئی ایسی تخمینی بات اُس وقت مجھے نہیں بتائی جس سے اس کے خلاف کارروائی کی جاتی، میں نے یہی خیال کیا کہ وہ اس نصیحت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ انہوں نے اسے ظلم قرار دے کر اپنے دل میں ایک گِرہ دے لی ہے۔ مگر بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ ان کا عبدالرحمن کا نام لینا کسی حقیقت پر مبنی نہ تھا کیونکہ اِس وقوعہ کے عرصہ بعد جب سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس ناظر امور عامہ ہو آئے تھے، دارالحمد کے باغ میں مصری صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ فلاں شخص کے پاس اس امر کے ثبوت ہیں کہ عبدالرحمن چوری میں شامل تھا۔ وہ شخص غالباً قادیان سے چلا گیا اور مَیں اُس سے کچھ نہ پوچھ سکا۔ لیکن اسی عرصہ میں حکومت کی طرف سے ایک انسپکٹر پولیس اور ایک تھانہ دار ناظر امور عامہ کے سپرنٹنڈنٹ صاحب کو ملنے کے نتیجہ میں چوری کی تحقیق کیلئے مقرر ہوئے اور مصری صاحب اور ملتانی صاحب برابر ان کے ساتھ تفتیش میں مشغول رہے۔ مگر وہ شکوک جو انہوں نے میرے پاس بیان کئے تھے یا تو ان کے پاس انہوں نے بیان نہیں کئے یا پھر پولیس نے انہیں قابلِ توجہ سمجھا نہیں، کیونکہ پولیس نے عبدالرحمن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جس سے دو باتوں میں سے ایک ظاہر ہے یا تو یہ کہ یہ لوگ خود سمجھتے تھے کہ جن کو ہم ثبوت کہتے ہیں، وہ ثبوت نہیں ہیں یا پھر یہ کہ پولیس نے ان کو ثبوت نہیں سمجھا۔ دونوں صورتوں میں ان کا شکوہ بے جا ثابت ہوتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ میں نے جو نصیحت انہیں کی تھی وہ ان کے فائدہ کیلئے تھی۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے ان شواہد کو پولیس کے آگے پیش نہیں کیا۔ یا کیا تو انہوں نے جو بالکل غیرجانبدار تھے، اس طرف توجہ نہ کی۔ اگر ان دونوں وجوہ کے علاوہ کوئی اور مصلحت تھی تو وہ ان کو ظاہر کرنی چاہئے۔
خلاصہ یہ کہ میرا صرف یہ جُرم تھا کہ میں نے ان کی اور ساری جماعت کی خیرخواہی کی اور اسلام کے اس اصول کی طرف انہیں توجہ دلائی کہ تحقیق کی بنیاد بھی بعض دلائل پر خواہ وہ کمزور ہوں، ہونی چاہئے نہ کہ محض وہم پر۔ اگر اِس وہم کے راستہ کو ہم کھول دیں گے تو کسی شریف کی عزت باقی نہیں رہتی۔ اگر کسی اور کے ہاں چوری ہوتی اور وہ کہتا کہ مصری صاحب اور فخرالدین صاحب نے میرے ہاں چوری کی ہے تو کیا وہ اس الزام کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے اور کہتے کہ بہت اچھا تحقیق کر لو۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سخت ناراضگی کا اظہار کرتے اور مطالبہ کرتے کہ اس شخص کو سزا ملنی چاہئے۔ غرض جس شخص کے بارہ میں انہوں نے شک کی وجہ بتائی اس کے متعلق محکمانہ تحقیق شروع کر دی گئی اور پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئی جنہوں نے مختلف آدمیوں کو بطور جاسوس اس پر مقرر کیا اور بعد تحقیق انہیں معلوم ہوا کہ اس پر شبہ درست نہیں۔
چوری کے متعلق دوسری رپورٹ
اس کے چند دن بعد ایک روز شام کے بعد مصری صاحب کالڑکا حافظ بشیر احمد
میرے پاس آیا‘ میں اُس وقت غالباً أمّ طاہر کے ہاں تھا‘ اس نے دستک دی اور میں باہر آیا۔ تو اس نے کہا۔ کہ آج ایک سُراغ ملا ہے مگر ہم اسے استعمال نہیں کر سکتے۔ آج عبدالمنان برادر ڈاکٹر احسان علی کہیں باہر سے آیا ہے اور اس کے پاس ایک گھڑی ‘تلوار اور کچھ نقدی دیکھی گئی ہے‘ وہ ڈاکٹر صاحب کا ہمسایہ بھی ہے اس لئے شک گزرتا ہے کہ وہ چور ہو اور بتا دیا گیا ہے کہ وہ صبح ہی واپس چلا جائے گا، اس لئے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا تم ابھی میری طرف سے آدمی لے جاؤ اور اس کے مکان کے اردگرد پہرہ لگا دو اور عبدالمنان جس وقت باہر آئے اسے کہو کہ تم کو (حضرت) خلیفۃ المسیح بلاتے ہیں اور اسے میرے پاس لے آؤ اور اگر کوئی مزاحم ہو تو اسے بھی کہہ دو کہ خلیفۃ المسیح کا حکم ہے کہ اسے وہاں لے جایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے وہاں کچھ آدمی مقرر کر دیئے اور میرا حُکم بتا کر اسے پکڑ لائے ۔ اور بغیر میرے حکم کے وہ قانوناً اسے نہیں پکڑ سکتے تھے۔ کیونکہ میرے حُکم کے بعد وہ اپنی مرضی سے ساتھ ہو گیا۔ اس کے بغیر اسے اگر وہ پکڑتے تو جبراً پکڑتے اور جبراً کسی کو پکڑنا خود ایک جُرم ہے۔ حتیّٰ کہ پولیس بھی خاص اختیارات یا وارنٹ کے بغیر کسی کو نہیں پکڑ سکتی۔ مگر میاں فخرالدین صاحب کی دیانت داری دیکھیں کہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’آخر جب ہم نے رات کو اُسے جا کر قابو کیا۔‘‘ حالانکہ اگر میری مدد اور میرے حُکم کے بغیر وہ اسے پکڑتے تو انہیں طاقت استعمال کرنی پڑتی اور وہ Wrongful Custodyکے مُجرم ہوتے اور خود سزا پاتے۔ یہ میری روحانی طاقت ہی تھی کہ نہ اس کا باپ بولا اور نہ بھائی۔ مگر ان لوگوں کی دیانتداری یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے اسے قابو کیا۔ اگر وہ اتنے ہی دلیر ہیں تو کیوں اب اس شخص کو جا کر نہیں پکڑ لیتے جن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سَودیشی ۱۳؎ چور تھے اور انہوں نے انکی کھڑکی توڑی تھی۔
پس عبدالمنان کو میں نے اپنے حکم سے پکڑوایا اور میرے حکم کی وجہ سے اس نے اپنے قانونی حق کو ترک کیا۔ وہ بے شک چور تھا مگر اس نے یہ شرافت دکھائی کہ جس شخص کی طرف مَیں منسوب ہوں اس کا حکم مجھے ردّ نہیںکرنا چاہئے۔ مگر ان لوگوں کی شرافت یہ ہے کہ کہانی کو میرے خلاف زوردار بنانے کیلئے جو کام میں نے کیا اسے اپنی طرف منسوب کرتے جاتے ہیں۔ خیر اس کے بعدیہ ہوا کہ وہ لڑکا تو محفوظ کر کے بٹھا دیا گیا اور مَیں نے اطلاع ملنے پر شیخ محمود احمد صاحب ولد مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو بیان وغیرہ لینے کیلئے مقرر کیا۔
شیخ محمود احمد صاحب کی شہادت
(حضور نے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کوبُلا کر ان کا حلفیہ بیان لیا) انہوںنے بیان کیا
کہ حضور نے مجھے فرمایا تھا کہ ناظر صاحب امور عامہ یہاں نہیں ہیں اس لئے تم بحیثیت محتسب جاؤ اور اسے پکڑ کر لے آؤ اور اس کا بیان لو۔ چنانچہ میں گیا اور اس کے والد کو بُلا کر حضور کے ارشاد سے مطلع کیا اور انہوں نے فوراً عبدالمنان کو لا کر میرے حوالہ کر دیا۔ چنانچہ میں اسے لے آیا اور اس کا بیان قلمبند کیا۔ اس بیان میں اس نے تسلیم کر لیا کہ میں نے چوری کی تھی اور اس کی تفصیلات بھی بتائیں اور جہاں تک چوری کا تعلق ہے اس نے سب ذمہ واری اپنے اوپر لی۔ ہاں مال کے فروخت کرنے کے متعلق اس نے باہر کے ایک غیراحمدی کی امداد لینے کا ذکر کیا۔ شیخ صاحب نے اِس بیان کا مجھ سے آ کر ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ اس کے رشتہ دار ہرجانہ ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اُسی دن یا دوسرے دن مجھے غالباً امور عامہ کی طرف سے اطلاع ملی یا مجھے براہِ راست کہا گیا یا دونوں طرح واقعہ ہوا مجھے اچھی طرح یاد نہیں مگر مجھے کہا گیا کہ مصری صاحب چاہتے ہیں کہ مال اگر مل جائے تو وہ سزا دلانے پر زور نہ دیں گے۔اس پر میں نے شیخ محمود احمد صاحب سے کہا کہ اگر تو وہ لوگ پورا نقصان پورا کرنے کو تیار ہوں تو میں مصری صاحب سے سفارش کر دوں گا لیکن اگر یونہی تھوڑا سا نقصان پورا کرنے کو کہیں تو میں اس کیلئے تیار نہیں ہوں۔ یہ میں نے اس لئے کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ ان لوگوں کی مالی حالت ایسی نہیںکہ وہ اڑھائی ہزار روپیہ یکمشت یا قریب عرصہ میں ادا کریں اور میں ڈرتا تھا کہ بعد میں غلط فہمیاں پیدا ہو کر مزید بدگمانیوں اور فِتنوں کا دروازہ نہ کُھل جائے۔ چنانچہ میرا شبہ درست نکلا اور معلوم ہوا کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو تھوڑا سا مال ملا ہے اس کے علاوہ دو تین سَو روپیہ وہ دے سکیں گے۔ اس پر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں دخل دوں۔ اگر وہ پورا نقصان برداشت کرنے کو تیار ہوتے تو مَیں امور عامہ سے سفارش کرتا کہ وہ پولیس افسران سے مل کر چونکہ ملزم چھوٹا لڑکا تھا، مقدمہ واپس لینے کی سفارش کر دیں مگر بوجہ رشتہ داروں کے پورانقصان ادا کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کے وہ بات رہ گئی۔
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عبدالمنان نے اپنے بیان میں ایک اور شخص کا نام بھی لیا تھا کہ چوری کا مال اُس کے ذریعہ سے فروخت ہوا اور یہ کہ اُس نے اکثر حصہ اپنے پاس رکھ لیا۔ اِس کی بنا ء پر میںنے ناظر صاحب امور عامہ کو ہدایت کی کہ وہ کسی معتبرآدمی کو ڈاکٹر احسان علی صاحب کے ساتھ جالندھر روانہ کریں اور وہ جا کر یہ کوشش کریں کہ اس شخص سے بھی مال مل جائے۔ چنانچہ ناظر صاحب نے میرے حکم کے ماتحت جالندھر آدمی بھیجا دوسرے روز میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا کوئی آدمی آپ نے بھیجا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر احسان علی صاحب اور خلیفہ صلاح الدین صاحب کو بھیج دیا ہے۔ اس پر میں نے اظہارِ ناراضگی کیا اور کہا کہ صلاح الدین تو ان کا رشتہ دار ہے۔ اس سے دوسرے فریق کو خواہ مخواہ شبہ ہو گا آپ کو ایسا آدمی بھیجنا چاہئے تھا جو بالکل بے تعلق ہوتا۔
خان صاحب فرزند علی صاحب کی حلفیہ شہادت
(حضور نے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو جو اُس وقت ناظر امور عامہ تھے بُلا کر اس واقعہ کے متعلق حلفیہ بیان لیا۔ اور
خان صاحب نے قسم اُٹھا کر بیان کیا کہ یہ بات حرف بحرف درست ہے)خلیفہ صلاح الدین میری بڑی بیوی کے بھائی ہیں اور ڈاکٹر احسان علی کے بہنوئی ہیں۔میری احتیاط کو دیکھو کہ میں نے ان کے ساتھ بھیجنے پر بھی محکمہ پر اعتراض کیا کہ دوسرا آدمی تو دوسرے فریق کے حقوق کی نگرانی کیلئے چاہئے تھا۔ آپ نے ایک ہی فریق کے دو آدمی کیوں بھجوائے۔ لیکن یہ معترضین کہہ رہے ہیں کہ میں ڈاکٹر احسان علی صاحب کی ناواجب طرف داری کر رہا تھا اور امور عامہ کو آڑ بنا کر ان کا ساتھ دے رہا تھا۔
ڈاکٹر احسان علی صاحب کو سخت تنبیہہ
جب معاملہ یہاں تک پہنچا تو مجھے اطلاع ملی کہ عبدالمنان بعض ایسی
باتیں کرتا ہے جس سے اُس کی غرض ڈاکٹر فضل الدین صاحب کے گھر کے بعض افراد کو بعض اخلاقی الزامات کے نیچے لانا ہے۔ اِس اطلاع کے ساتھ ہی مجھے ڈاکٹر احسان علی صاحب کی چِٹھی ملی کہ بعض ایسے امور ظاہر ہوئے ہیں جو صورتِ حالات کو بالکل بدل دیتے ہیں‘ معاملہ بہت خطرناک ہو گیا ہے اور سخت بدنامی کا موجب ہو گا، مجھے ملنے کا موقع دیا جائے۔ میں نے ان کو ملنے کا موقع دیا اور ان سے وہ کہانی سنی جو انہوں نے کہا کہ عبدالمنان بیان کرتا ہے اور جس سے اس کی غرض ڈاکٹر فضل دین صاحب کے گھر کے بعض افراد پر اخلاقی الزام لگانا تھی۔ میں نے اس کہانی کو سن کر صاف کہہ دیا کہ میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں‘ ملزم کا پہلا بیان ہمارے پاس موجود ہے‘ جس میں وہ مال نکالنے کا اقرار کرتا ہے‘ اب کوئی تشریح اس کی ہم سننے کوتیا رنہیں، خصوصاً جب کہ وہ خلافِ شریعت ہو اور اس کیلئے شریعت نے ثبوت کا ایک خاص طریق مقرر کیا ہو جس کی پابندی لازمی ہو۔
آپ لوگ کہتے تھے کہ وہ پاگل ہے، اب آپ کہتے ہیں کہ اس کا پہلا بیان جھوٹا تھا۔ جب وہ پاگل ہے، تو اس کے متعلق جھوٹ سچ کا سوال ہی کیونکر پیدا ہوا۔ کیا اب اس کا جنون دور ہو گیا ہے؟ اور اگر اس کا پہلا بیان جھوٹا تھا تو ہم کیونکر تسلیم کریں کہ اس کا دوسرا بیان سچا ہے۔ جب اس نے پہلے بیان میں اپنے جُرم کو تسلیم کر لیاتھا تو اگر وہ اب انکار کرتا اور کوئی دوسرا بیان دیتا ہے تو میں تو یہی سمجھوں گا کہ دوسرے لوگوں نے اسے یہ پٹی پڑھائی ہے اور اگر اس نے کوئی ایسی بات کی تو میںبہت سختی سے نوٹس لوں گا ۔ پھر میں نے کہاکہ یہ چیزیں اس کے پاس سے نکلی ہیں، اس لئے ہمارے نزدیک وہی ذمہ دار ہے۔
یہ باتیں میں نے اِس قدر سختی سے کیں کہ احسان علی کے ہونٹ خشک اور چہرہ زرد ہو گیا۔ اور ڈر کے مارے اُس کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ میں نے اسے یہ بھی کہا کہ میں ان بدنامی کی باتوں سے نہیں ڈرتا، میں ان باتوں کی پرواہ نہیں کروں گا اور پوری طرح صداقت کو ظاہر کروا کے چھوڑوں گا اور یہ کہہ کر انہیں رخصت کر دیا۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملزم اب تک بیان بدل رہا ہے۔ اس پر میں نے علیحدہ طور پر بھی اور ایک دعوتِ ولیمہ کے موقع پر بھی جو غالباً میاں محمد الدین صاحب واصل باقی نویس کھاریاں کے کسی لڑکے کی شادی کے موقع پر ہوئی تھی، ناظر صاحب امور عامہ سے مجلس میں کہا کہ آپ عبدالمنان کے والد اور بھائی کو بُلا کر کہہ دیں کہ اگر وہ سچا بیان نہ دے گا تو بھی وہ بچ نہیں سکتا پھر اِس کا معاملہ خداتعالیٰ اور سلسلہ سے ہو گا۔ چنانچہ ناظر صاحب نے ڈاکٹر فیض علی صاحب کو بُلا کر سمجھایا جس پر ڈاکٹر صاحب مولوی ظفر محمد صاحب کے ساتھ تھانے گئے اور وہاں جا کر بہ روایت مولوی ظفر محمد صاحب اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ دیکھو! خداتعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھو اور جو سچ ہو وہ کہو، تا کہ مزید عذاب میں مبتلا نہ ہو اور ایمان ضائع نہ ہو۔
پولیس کو اطلاع
اِس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ بعض لوگ جا کر پولیس والوں سے کہتے ہیں کہ ملزم میرا رشتہ دار ہے اور کہ اِس کی گرفتاری میری ناراضگی کا
موجب ہو گی۔ اس پر مَیں نے وہ کام کیا جو ساری عمر میں کبھی نہیں کیا۔ یعنی میں نے انچارج صاحب چوکی کو کہلا بھیجا کہ اگر وہ مہربانی کر کے مجھ سے آ کر ملیں تو میں ممنون ہوں گا۔ چنانچہ وہ تشریف لے آئے اور میں نے اُن سے کہا کہ میں نے سنا ہے اور آپ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع بھی کئی دفعہ ملی ہے کہ آپ انصاف کے معاملہ میں جماعت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اب اِس وقت یہ معاملہ درپیش ہے، ملزم کے متعلق میں نے سنا ہے کسی نے آپ سے کہا ہے کہ وہ میرا رشتہ دار ہے۔ اوّل تو اس کے ساتھ میری کوئی ایسی رشتہ داری نہیں لیکن اگر ہو بھی تو اِس مقام پر اگر میرا اپنا بیٹا بھی ہو تو میں اس کی پرواہ نہیں کروں گا، وہ ہمارے سامنے چوری کا اقرار کر چکا ہے، اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اس کے خلاف اس طرح کارروائی کریں کہ وہ اپنے کئے کی سزا پائے کیونکہ اگر ایسے امور جاری رہیں تو قومی اخلاق خراب ہو جاتے ہیں۔ پس ملزم کی رعایت گویا ہم پر ظلم ہو گا۔ آخر میں مَیں نے انہیں یہ بھی کہا کہ یہ نہیں ہوناچاہئے کہ مقدمہ کے بعد آپ کہدیں کہ ہم نے تو کوشش کی تھی مگر پھر بھی عدالت نے ملزم کو چھوڑ دیا۔ واقعات روزِ روشن کی طرح ثابت ہیں، ملزم خود اقراری ہے اب اگر وہ چُھوٹے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ پولیس نے صحیح طور پر مقدمہ کی پیروی نہیں کی اور وہ مجھ سے یہ وعدہ کر کے کہ بالکل سچی کارروائی ہو گی، رُخصت ہوئے۔ اِس گفتگو کی صحت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ جب سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کو پولیس کی سُستی کی طرف توجہ دلائی گئی تو انچارج صاحب تھانہ نے بیان دیا کہ ہم سُستی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ خود امام جماعت احمدیہ نے اس فعل سے بریت ظاہر کرتے ہوئے ہمیں تاکید کی تھی کہ اِس چوری کو چُھپانا نہیں بلکہ نکالنا چاہئے، پس اس کے بعد ہمیں کسی دوسرے کا لحاظ کس طرح ہو سکتا تھا۔ وہ صاحب اب بھی ضلع گورداسپور میں ہیں اور گو انہیںنظامِ سلسلہ سے بعض اختلافات پیدا ہو چکے ہیں مگر مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ اس گواہی کو نہیں چُھپائیں گے اور مجھے رپورٹ بھی ملی ہے کہ جب ان سے ایک احمدی نے اس کا ذکر کیاتو انہوں نے کہا، میں یہ سچی گواہی ہر جگہ دینے کو تیار ہوں۔
کچھ رشتہ داری کے متعلق
اس جگہ میں رشتہ داری کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ دونوں فریق
نے اِس سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ملزم میری بڑی بیوی کی سوتیلی والدہ کے بھائی کا بیٹا ہے۔ یہ تعلق ایک رنگ میں رشتہ داری ہے اور ایک رنگ میں نہیں بھی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم فوت ہو چکے ہیں۔ وہ ایک پُرانے صحابی السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص حواریوں میں سے تھے۔ سلسلہ کی انہوں نے اِس قدر خدمت کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخر انہیں ایک خط لکھا کہ اِس قدر مالی خدمت کے بعد اب آپ کو مزید خدمت سے آزاد کیا جاتا ہے مگر وہ استطاعت سے بڑھ کر ہمیشہ مالی خدمت کرتے رہے، صاحب الہام و کشف تھے اور سلسلہ کی خدمت کا جوش رکھتے تھے۔ میں اِن پر حرف گیری نہیں کرتا، انسان کے اندرونی حالات سے دوسرا انسان واقف نہیں ہوسکتا، میں نہیں جانتا کہ کون سی معذوریاں انہیں تھیں جن کی وجہ سے وہ خداتعالیٰ کے حضور اپنے آپ کو بَری سمجھتے تھے مگر حقیقتِ حال یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بڑی بیوی کو جو میری ساس ہیں، اپنے سے الگ کیاہوا تھا اور آخر تک الگ رکھا، ان کو طلاق نہ دی تھی مگر انہیں ساتھ بھی نہیں رکھتے تھے۔ میں چونکہ اندرونی حالات سے واقف نہیں، میں کسی پر بھی الزام نہیں دیتا ڈاکٹر صاحب مرحوم کو مَیں ایک نیک اور پاکباز انسان سمجھتا ہوں اور اپنی ساس میں بھی کوئی ایسا عیب مجھے نہیں معلوم جس کی وجہ سے اُن کو یہ سزا دی جاتی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آپس میں کوئی ایسا سمجھوتا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میری ساس نے اپنے حقوق چھوڑ دیئے تھے، میں نے اپنے اطمینانِ قلب کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ان باتوں میں پڑنے کی کوشش نہیںکی اور سلسلہ کی طرف سے بھی ایسا نظام نہ تھا بلکہ اب تک نہیں کہ ایسے واقعات کو سلسلہ اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کرے۔ بہرحال صورتِ حالات یہ تھی اور اگر دنیا داری کومدنظر رکھا جائے تو مجھے اپنی ساس کے ان رشتہ داروں سے کوئی خاص رشتہ داری کا تعلق نہیں ہونا چاہئے تھا، یہ تعلق نہ حسبی تعلق ہے اور نہ نسبی، ہاں چونکہ میری بیوی کی سوتیلی والدہ پختہ احمدی ہیں اور احمدیت کا خاص جوش رکھتی ہیں اس لئے مجھے ان سے اپنی حقیقی ساس کی نسبت زیادہ تعلق رہا ہے اور میں ان سے حقیقی ساس کی نسبت بے تکلّف ہوں، آگے اپنے سالوں سالیوں میں مَیں نے کبھی سگے اور سوتیلے کا فرق نہیں کیا سوائے اس کے کہ عزیزم کیپٹن تقی الدین جو میرے دو حقیقی سالوں میں سے ایک ہیں مجھے خاص طور پر پیارے ہیں کیونکہ میں نے ان کو بچپن سے ان کے والد سے لے کر اپنے گھر میں رکھا تھا۔ مجھے کبھی تقی الدین اور اپنے بچوں میں فرق محسوس نہیں ہوا۔ میرے لئے آج تک ناصر احمد اور تقی الدین ایک سے ہیں یہ ہیں ہمارے خاندانی حالات۔ ان کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ دُنیاوی لحاظ سے مجھے مُجرم کا کوئی لحاظ ہو سکتا تھا۔ آخر تعلقات کو دو ہی نقطہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یا دنیاوی لحاظ سے یا دینی لحاظ سے۔ اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھاجائے تو یہ رشتہ لڑائی کا ہوتا ہے محبت کا نہیں اور اگر دینی لحاظ کو لیا جائے تو کیا یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص دین کی خاطر دَنیوی جھگڑوں کو بُھلا کر اپنے سوتیلے رشتہ داروں کو سگوں کی طرح سمجھے گا، وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے موقع پر ان کا ساتھ دے گا۔ جو شخص خداتعالیٰ کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا وہ تو دنیا دار ہے۔ اور دنیا دار کب مذکورہ بالا حالات میں محبت کا سلوک رکھنا پسند کرے گا۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میری سوتیلی ساس کا تعلق احمدیت کی وجہ سے ہے۔ وہ پختہ احمدی ہیں اور جو شیلی احمدی ہیں اس لئے کبھی میرے دل پر اس بدمزگی کا اثر جو ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کی بڑی بیوی میںتھی، ان کے بارے میں نہیں پڑا۔ میں نے ان کو ہمیشہ عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھا ہے جیسا کہ قابلِ احترام بڑے رشتہ دار کو دیکھنا چاہئے اور اب تک اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ان کے بچوں سے بھی، ان کے والد اور والدہ کے لحاظ سے میرے تعلقات ہیں۔ بعض کی احمدیت سے ذاتی محبت کی وجہ سے زیادہ، بعض کی بے پرواہی کی وجہ سے کم۔ آگے رہے ان کے رشتہ داراُن سے تعلقات صرف ان تعلقات کی بناء پر ہیں جو وہ خود رکھتے ہیں۔ میری سوتیلی ساس کے دو بھائی میرے بچپن کے دوست ہیں، ڈاکٹر اقبال علی صاحب اور شیخ منظور علی صاحب۔ یہ میرے ساتھ سکول میں پڑھتے رہے ہیں، دونوں ہی میرے دوست ہیں لیکن اقبال میں اور مجھ میں بچپن سے ہی محبت چلی آتی ہے۔ اب اپنے کاموں کی وجہ سے ہم میں خط و کتابت نہیں ہے اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُ ،سالوں کے بعد کبھی، مگر احمدیت کے تعلق کے علاوہ بھی ذاتی دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر میں اپنے دل کو معیار قراردوں تو ہم دونوں کے دلوں میں اب بھی گہری برادرانہ محبت ہے مگر اس دوستی کا موجب احمدیت ہی تھی اور احمدیت ہی ہے، رشتہ داری اس کا موجب نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ غرض اس تعلق کو رشتہ داری کا تعلق کہنا ایک لغوبات ہے۔ میری ان میں سے جس سے محبت ہے دین کی وجہ سے ہے اور اگر وہ تعلق نہ رہے تو مجھے ان سے ذرا بھی تعلق نہیں۔ وہ ایسے ہی اجنبی ہیں جیسے کہ اَور اجنبی۔ پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ان کے رشتہ داروں کے جرائم پر مَیں ان کی خاطر پردہ ڈالوں۔ چند سال کی بات ہے میرے دو سالوں خلیفہ صلاح الدین اور خلیفہ ناصر الدین سے کوئی جُرم ہوا تھا، کسی سلسلہ کے کارکن کی ہتک تھی۔ یا مارپیٹ تھی میں نے اس بارہ میں ان کی رشتہ داری کا ذرہ بھی لحاظ نہیں کیا تھا اور نہ اب کرنے کو تیار ہوں۔
خلاصہ یہ کہ ملزم کے بارہ میں رشتہ داری کا سوال مخالف و موافق دونوں فریق نے ذاتی فوائد کیلئے ناجائز طور پر اُٹھایا۔ ایک نے ملزم کیلئے رعایت کی تلاش میں اور دوسرے نے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے۔ اس بارہ میں دونوں ظالم تھے مگر دوسرے کا ظلم زیادہ تھا کیونکہ پہلا مُجرم کو سزا سے بچانے کیلئے اس کی آڑ لیتا تھا اور دوسرا ایک ناکردہ گناہ کو اور اس ناکردہ گناہ کو جس کے ہاتھ پر اُس نے بیعت کی ہوئی تھی، مُجرم ثابت کرنے کیلئے اور حقیقت سے دونوں دُور تھے۔ میںانصاف اور صرف انصاف کو قائم کر رہا تھا۔
مقدمہ کو کامیاب بنانے کی کوشش
مَیں بات سے دُور نکل گیا میںنے بتایا تھا کہ میں نے انچارج صاحب تھانہ کوبُلا
کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ میرا رشتہ دار کہہ کر اگر کوئی ملزم کی تائید ان سے کرانا چاہے تو ہرگز اُس کی بات نہ مانیں اور دلیری سے مُجرم کو سزا دلانے کی کوشش کریں۔ اِس کے بعد میرے پاس شکایت ہوئی کہ اب تک پولیس کا رویہ درست نہیں اور وہ رعایت کر رہی ہے۔ اِس پر مَیں نے خان صاحب فرزند علی صاحب کو جو اُس وقت ناظر امور عامہ تھے بُلا کر کہاکہ وہ شیخ صاحب کو ساتھ لے جا کر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے ملیں اور اِس پر زور ڈالیں کہ کوئی صورت چوری نکلوانے کی کی جائے خان صاحب شیخ صاحب کو ساتھ لے کر وہاں گئے اور سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہا کہ ایک طرف تو یہ شکایت کی جاتی ہے کہ احمدی جرائم کا خود فیصلہ کرتے ہیں دوسری طرف یہ حال ہے کہ اِس قدر دیر سے چوری کاپتہ لگ چکا ہے مگر پولیس کچھ نہیں کرتی اور پھر خواہش ظاہر کی کہ وہ شیخ صاحب کو بھی مل لیں۔ انہوں نے کہا کہ آج فُرصت نہیں، پھر وہ منگل کے دن یا اس کے بعد آ کر ملیں اور وعدہ کیا کہ میں کسی اعلیٰ افسر کو تحقیق کیلئے مقرر کردوں گا۔ مجھے اِس کااتنا خیال تھا کہ میں نے بعد میں خان صاحب سے دریافت بھی کیا کہ کیا شیخ صاحب جا کرملے یا نہیں؟ جب انہوں نے کہاکہ نہیں تو میں نے شیخ صاحب سے جو مجھے باہر جب مَیں سیر کو جا رہا تھا، مل گئے تھے کہا کہ آپ کیوں نہیں ملے اور جب انہوں نے کہا کہ اس نے منگل نہیں کہا تھا بلکہ منگل یا بعد کا کوئی دن کہا تھا تو پھر میں نے تاکید کی کہ بہت جلد ملنا مفید ہو گا۔ پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ وہ لوگ بعض اخلاقی الزامات کو درمیان میں لانا چاہتے ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ مومن کو ان باتوں سے نہیں ڈرنا چاہئے، الزام لگانے کے معنی، الزام کے ثابت ہو جانے کے نہیں ہوتے، آپ اس کی پروا نہ کریں اور دلیری سے پیروی کریں۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں تو خود ہی ذلیل ہوں گے، آپ کو کوئی نقصان نہ ہو گا۔ چنانچہ وہ گئے اور پولیس کا ایک بڑا افسر تحقیقات کیلئے مقرر ہو گیا۔ غرض اس کیس میں جو کامیابی ہوئی امور عامہ کے تعاون سے ہوئی اور امور عامہ نے میرے کہنے پر عمل کیا۔ پھر دورانِ مقدمہ مجھے معلوم ہوا کہ جالندھر والے چوری کے سُراغ کو مٹا رہے ہیں۔ اِس پر پھر مَیں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہماری جماعت کے فلاں فلاں افسر اس ضلع میںاثر رکھتے ہیں ان کو لکھا جائے کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس جالندھر سے کہیں کہ وہ خیال رکھیں کہ ان کے ماتحت افسر دوسروں کا لحاظ کر کے مقدمہ کو خراب نہ کریں۔ مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ بعض کے نام شاید میں نے بھی اس بارہ میںخط لکھوائے مگر یہ یقینی ہے کہ میں نے کہا کہ انہیں میری طرف سے خط لکھے جائیں۔
مستورات کو بدنام کرنے کے خلاف کارروائی
اسی دوران میں مجھے مصری صاحب
نے کہا کہ چونکہ یہ لوگ بعض باتیں مستورات کو بدنام کرنے والی کہتے ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنی چاہئے۔ میں نے ان سے کہا کہ جو روایات اِس وقت تک مجھ تک پہنچی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود الزام نہیں لگاتے بلکہ ملزم کی طرف سے کہتے ہیںکہ وہ یہ ڈیفنس پیش کرتا ہے اس لئے اس امر کی تحقیق کا وقت نہیں ورنہ یہ سمجھاجائے گا کہ ہم ڈیفنس میں روک ڈالتے ہیں ۔ میں نے مزید احتیاط کے طور پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سے مشورہ لیا کہ آیا ملزم کی طرف سے ایسی باتیں ہو ں تو ہمارا مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے کوئی قدم اُٹھانا پولیس کو یہ کہنے کا موقع تو نہیں دے گاکہ پولیس کی تفتیش کو خراب کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اِس وقت جو حُکّام کا رویہ ہے اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقدمہ میں جماعت پر جس طرح اپنی عدالتیں جاری کرنیکاالزم ثابت کرنیکی کوشش کی گئی ہے اِس کے لحاظ سے میں یہی کہوں گا کہ اِس وقت کوئی قدم اُٹھانا بہت مُضِّر ہو گا اسلئے احتیاط ہی کرنی چاہئے۔
جناب شیخ بشیر احمدصاحب کی شہادت
(اِس موقع پر حضور نے شیخ صاحب موصوف کو کھڑا کر کے
حلفی بیان لیا اور انہوں نے حلفیہ شہادت دی کہ یہ درست ہے میں نے یہی جواب دیاتھا)اس کے بعد مصری صاحب کا بڑا لڑکا جس کی ساس کے ہاں چوری ہوئی تھی ایک روز میرے پاس آیا اور دروازہ پر دستک دی۔ میں دروازہ پر اس سے ملنے کے لئے گیا تو اس نے کہا کہ ڈاکٹر احسان علی کا بھائی عبدالرحمن بہت بُری بُری باتیں کہتا ہے۔ مگر آپ کوئی کارروائی ان کے خلاف نہیں کرتے اور ان کی رعایت کرتے ہیں ۔ اس بات پر اگرچہ میرا حق تھا کہ میں اسے سزا دیتا کہ اس نے میرے منہ پر یہ کہا کہ گویا میں انصاف نہیں کرتا اور رعایت کرتاہوںمگر اس خیال سے کہ ان کے دل دُکھے ہوئے ہیں مَیں نے اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ اور صرف اسے یہ کہاکہ مجھے یہ بتایاگیا ہے کہ عبدالمنان ملزم یہ باتیں کہتا ہے کہ فلاں طریق سے یہ مال نکالا گیا ہے اور ملزم کو قانوناًحق ہے کہ دورانِ مقدمہ جوبیان چاہے دے اور اگر ہم اسے روکیں توحکومت کی طرف سے الزام آتا ہے۔جس قدر نصیحت کا تعلق ہے ہم اسے کر چکے ہیں اور شیخ بشیر احمد صاحب کی رائے بھی یہی ہے کہ ہمیں فی الحال کوئی کارروائی نہیں کرنی چاہئے اس لئے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اُس نے جواب دیا کہ ضروری نہیں کہ شیخ بشیر احمدصاحب کی رائے درست ہو۔ میں نے کہا کہ میں نے تو جو قانونی مشورہ ممکن تھا کرلیا ہے اور میں پھر بھی ان سے پوچھوں گا مگر اس عرصہ میں تم اپنے والد سے پوچھ کر ملزم کے سوا جو دوسرے لوگ باتیں کرتے ہوں ان کی رپورٹ اور گواہوں کے نام مجھے بھجوادو ۔ میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا۔ اِس وقت تک مجھے جو اطلا ع ملی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ملزم کے بعض رشتہ دار لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ ملزم کا یہ بیان ہے ۔ میرے پاس اب تک کوئی شکایت ایسی نہیں پُہنچی کہ وہ خود اپنی طرف سے کوئی الزام لگاتے ہوں سواگر تم کو یا تمہار ے والد کو معلوم ہو تو مجھے اطلاع دو اور گواہوں کے ناموں سے بھی اطلاع دو تا کہ اِس پر کارروائی کی جائے۔ اِ س پر اُس نے پھر کہا کہ آپ کے پاس ایسی رپورٹیں پہنچ چکی ہیں ۔ یہ پھر اُس کا مجھ پرجُھوٹ کا الزام تھا لیکن چونکہ تکلیف میں انسان کے حواس درست نہیں رہتے اور ہمارے ملک میں بڑے آدمی بھی ایسے فقرے بے سوچے کہہ بیٹھتے ہیں اور وہ تو بچہ تھا، میں نے صبر سے کام لیا اور میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ نہیں مجھ تک ایسی کوئی رپورٹ اب تک نہیں پُہنچی۔ تم اپنے والد سے اس بارہ میں مجھے لکھوادو تو میں تحقیق کرونگا۔ اُسکو تو میں نے رخصت کیا لیکن میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان لوگوں کو سخت صدمہ ہے اور اس صدمہ کی وجہ سے سچ اور جھوٹ اور انصاف اور ظلم میں انہیں کوئی تمیز نہیں رہی، ایسا نہ ہو یہ بچہ ہے یہ میرا پیغام اپنے والد کو نہ دے اور وہ بھی ابتلاء میں پڑیں۔ چنانچہ جب دو تین دن تک میرے پاس مصری صاحب کا کوئی پیغام نہ آیا تو میں نے دفتر میں آکر ہدایت کی کہ شیخ صاحب کو خط لکھ دیا جائے کہ اگر کوئی ایسی بات ان تک پُہنچی ہے تو اطلاع دیں تاکارروائی کی جائے۔ یہ خط دفتر کے رجسٹرات سے معلوم ہوتاہے کہ چھ اپریل ۹۳۶اء کو ان کے پاس پہنچا اور ان کی رسید دفتر میں موجود ہے لیکن اس خط کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مولوی عبداللہ صاحب اعجاز کی حلفیہ شہادت
(اس موقع پر حضور نے مولوی عبداللہ صاحب
اعجاز مولوی فاضل، کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو بُلایا کہ حلفیہ شہادت دیں کہ کیا یہ درست ہے یا نہیں اس پر انہوں نے کھڑے ہو کر حلفاًبیان کیا کہ حضور کے ارشاد پر یہ چِٹھی لکھی گئی تھی اور ہمارے رجسٹر میں مصری صاحب کے دستخط موجود ہیں )
اِس کے چند دن بعد حافظ بشیراحمد، مصری صاحب کا بڑا لڑکا پھر مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور کہا کہ آپ نے اب تک کوئی ِکارروائی نہیں کی۔ میں نے کہا کہ میں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سے مشورہ لیا ہے وہ عبدالمنان کے متعلق تو کہتے ہیں کہ وہ چونکہ ملزم ہے اس کے بارہ میں کوئی کارروائی اِس وقت کرنا ٹھیک نہیں۔ اور دوسرے معاملہ کے متعلق میں نے تم کو کہا تھا کہ مصری صاحب سے کہو کہ جو الزام لگاتا ہے اس کا نام اور گواہ کا نا م لکھیں تا تحقیق کی جائے مگر تمہاری طرف سے اطلاع نہیں آئی۔ اِس کے بعد میں نے خود تمہارے ابّا کو لکھوایا کہ وہ ایسی اطلاع دیں تا کارروائی کی جائے مگر ان کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ امرِاول کے متعلق اس نے کہا کہ میرے ابّا نے مرزا عبدالحق صاحب سے پوچھا تھا۔ یا کہا۔ملتانی صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب سے پوچھا تھا، مگر انہوں نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ کارروائی ہوسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے کہا کہ اس معاملہ میں شیخ بشیر احمد صاحب کو میں زیادہ تجربہ کار سمجھتا ہوں مگر چونکہ ایک دوسرے وکیل کی رائے خلاف ہے اور وہ بھی تجربہ کار ہے مَیں دوبارہ اس بارہ میں مشورہ لوں گا۔دوسرے امر کے متعلق اُس نے یہ کہاکہ میں نے اپنے ابّا کو جا کر بات کہدی تھی اور پھر آپ کا خط بھی مل گیا تھا مگر میں نے اپنے ابّا کو جواب دینے سے منع کردیا تھا کہ یہ ان کا اپنا کام ہے کہ تحقیق کریں ہمارا کام نہیں ،اس لئے آپ جواب نہ دیں ۔پھر کہا کہ یہ ایسی بات نہ تھی کہ اسے معاف کیا جاتا، آپکوخود اِسکی تحقیق کرنی چاہئے تھی۔ اور آپ ایسا کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں تم کو کہہ چکاہوں کہ میرے پاس ایسی کوئی رپورٹ اب تک نہیں آئی اور جب تک مجھے اُس شخص کا نام معلوم نہ ہو جو ملزم ہے ،الزام کی حقیقت معلوم نہ ہو اور گواہ نہ معلوم ہو میں کیا کارروائی کر سکتا ہوں۔ اور اب تو یہ سوال ہے کہ تم خود کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے اور دیدہ دانستہ میرے خط کا جواب نہیں دے سکتے پھر مَیں کیا کر سکتا ہوں ۔
نظام سلسلہ کی ہتک
اس کے بعدحافظ بشیراحمد چلا گیا اور کچھ دنوں کے بعد مولوی ظفر محمد صاحب مجھے ملے اور کہا کہ مصری صاحب کو شکایت
ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ میں نے انہیں سب قصہ سنایااور انہیں کہاکہ مصری صاحب کو جا کر سنادینا اور کہہ دینا کہ جب آپ میرے خط کاجواب تک نہیں دیتے اور جب آپ الزام اور گواہ پیش نہیں کرتے تومَیں نہ تحقیق کرسکتا ہوں اور نہ کرنے کو تیار ہوں۔ آپ اپنادعویٰ پیش کریں تو تحقیق کر سکتا ہوں۔ اس کے جواب میں مولوی ظفر محمد صاحب ملے اور کہا کہ مصری صاحب مانتے ہیں کہ انہوں نے خط کا جواب نہیں دیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مطالبہ کی ضرورت نہیں خلیفہ خود چاہے تو تحقیق کر لے۔
مولوی ظفر محمد صاحب کی حلفیہ شہادت
(اس موقع پر مولوی ظفر محمد صاحب کا حلفی بیان لیا گیا۔اور
انہوں نے حلفیہ اس واقعہ کی تصدیق کی )میں نے کہا کہ پہلے شیخ صاحب کے لڑکے کے ذریعہ پھر دفترکی چِٹھی کے ذریعہ سے میں ان سے کہہ چکاہوں کہ اگر ملزم کا نام بتائیں اور الزام بتائیں تو مَیں تحقیق کر سکتا ہوں لیکن انہوں نے نظامِ سلسلہ کی ہتک کی اور جواب تک دینا پسند نہ کیا اور کہا کہ ہم مقدمہ دائر نہ کریں گے سلسلہ بطور خود تحقیق کرے حالانکہ انہیں بتایاگیاتھا کہ اس وقت تک ہمارے پاس کوئی ایسی رپورٹ نہیں پہنچی جس پرجائز طور پر باز پُرس کی جاسکے اور ان سے امداد چاہی گئی تھی کہ ایسی رپورٹ کی خبر دیں توکارروائی شروع کر دی جائے گی۔ پھر میں نے مولوی ظفر محمد صاحب سے کہا کہ ایک رنگ میں تو آپ کے ذریعہ بھی ان کو موقع دے دیا گیا مگر اس سے بھی انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایااور سلسلہ کے پاس مقدمہ پیش کرنے پر آماد گی ظاہر نہیں کی اس لئے اب میں کسی صورت میں سلسلہ کی طرف سے تحقیق نہیں کرونگا۔ بہرحال الزام انفرادی جُرم کا ہے اور مدعی کا فرض ہے کہ وہ خود الزام لگائے اور اس کا ثبوت مہیا کرے۔
تحقیقات کیوں نہ کی گئی
غرض اِس وقت مَیں نے اپنے ارادہ کو کہ ان کے متکبرانہ رویہ کی وجہ سے اُس وقت تک ان کے بارہ میں
سلسلہ ہاتھ نہ ڈالے گا جب تک یہ خود مدعی نہ بنیں، اور بھی پختہ کر لیا۔ اور چونکہ اس سے پہلے میں نے ناظر امورعامہ کو ہدایت دے رکھی تھی کہ مقدمہ کے ختم ہوتے ہی ملزم کے ان رشتہ داروں کے خلاف جنہوں نے اِس کی نا واجب مدد کی ہو کارروائی کی جائے۔اس کے بعد مَیں نے ناظرامور عامہ سے کہہ دیا کہ اب وہ میری ہدایت منسوخ سمجھی جائے اور جب تک شکایت نہ ہو کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
مولوی فرزندعلی صاحب کی حلفیہ شہادت
(خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے حلفًا بیان
کیا کہ یہ درست ہے۔ پہلے حضور نے ایسا حکم دیا ہوا تھا مگر بعد میں ممانعت فرمادی)لیکن اس کاذمہ دار کون ہے؟ یقینًایہ لوگ خود ذمہ دار ہیں، بیٹا تو مجھے کہتاہے کہ آپ رعایت کرتے ہیں اور باپ ہے کہ چِٹھی کا جواب تک نہیں دیتا بلکہ مجھے یہاں تک کہا گیاکہ آپ غلط کہتے ہیں کہ شکایت نہیں کی گئی۔ بے شک سلسلہ ایسے معاملات میں دخل دیاکرتا ہے مگر اُس کے لئے جو نظامِ سلسلہ کا احترم کرتا ہو ادر اُس وقت جب الزام کی نوعیت معلوم ہو مگر یہاں تودونوں باتیںنہ تھیں۔ بعض الزام تک معلوم نہ تھے اور پھر سلسلہ کی کُھلی کُھلی ہتک کی جارہی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ اگر مَیںاس وقت رحم کر کے سلسلہ کو بطور خود کارروائی کا حکم دے دیتا تو ان لوگوں نے ان گستاخیوں کے بعد یہ کہنا تھا کہ دیکھا ہم نے انہیں کس طرح دبا لیا۔
ایک اور واقعہ
اِسی ضمن میں اہلیہ ڈاکٹر فضل الدین صاحب جن کے گھر چوری ہوئی تھی اُن کی ہمشیرہ نے میرے گھر کے لوگوں کو ایک واقعہ یاد دلایا ہے۔وہ
کہتی ہیں کہ میں ایک دفعہ اپنی ہمشیرہ سے ملنے گئی تو انہوں نے شکایت کی کہ چوری ہمارے گھر ہوئی اور ہمدردی چوروں کی کی جاتی ہے۔ ( اس سے بھی ان لوگوںکے پراپیگنڈا کا علم ہوتا ہے۔) وہ کہتی ہیںکہ اتفاقًا مَیں آپ کے گھر اس سے پہلے آئی تھی اور میں نے سنا کہ ڈاکٹر احسان علی کی والدہ حضرت صاحب سے شکایت کر رہی تھیں کہ عبدالمنان پر اس اس طرح سختی ہو رہی ہے۔ تو حضرت صاحب نے بڑے جوش سے اُن کو جواب دیا کہ کیاآپ چاہتی ہیں کہ میں چوروں اور ڈاکوںکی مدد کروں ؟ میں چوروں اور ڈاکوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ تو جب میری ہمشیرہ نے ایسا کہا تو مَیں نے اس سے کہا کہ بہن یہ الزام غلط ہے، اتفاق کی بات ہے کہ میں اس واقعہ کے موقع پر پھر ان کے گھر جاپہنچی اور میں نے اپنے کانوں سے یہ باتیں سنیں۔ وہ تمہاری اس طرح ہمدردی کریں اور تم اِس طرح شکوہ کرو یہ ٹھیک نہیں۔ا ہلیہ ڈاکٹر فضل الدین صاحب کی سگی اور بڑی ہمشیرہ کی یہ روایت ہے جو چوہدری حاکم علی صاحب سفید پوش کی اہلیہ ہیں ۔ انہی کا یہ بیان بھی ہے کہ چوری کے سلسلہ میں کوئی بات ان کے خاوند چوہدری حاکم علی صاحب کو معلوم ہوئی تو وہ اپنی سالی کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے ڈاکٹر احسان علی اس اس طرح کہتا ہے، اگر ایسا ہو جاتا تو اچھا تھا۔انہوں نے جواب دیا کہ اس بارہ میں مجھے تو کوئی علم نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد مصری صاحب ان سے ملے اور ناراض ہوئے کہ آپ اپنی سالی کے پاس گئے کیوں تھے؟ آپ نے ہم سے بات کرنی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری رشتہ داری انہی سے تھی اِس لئے میں ان کے پاس گیا۔ اگر اس روایت میں کوئی غلط فہمی نہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اہلیہ ڈاکٹر فضل الدین صاحب کا کس قدر احاطہ کیا ہوا تھا اور کس طرح انکے رشتہ داروں تک کو انہیں باخبر رکھنے سے روکتے تھے۔ غالبًااُس وقت بھی ان کے مد نظر یہ سکیم تھی کہ اس خاندان کو بدظن کر کے اپنی سکیم میں شامل کریں جواب آکر ظاہر ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی نظریں صرف دُنیا پر پڑرہی تھیں اور یہ نہیں جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے کام روپیہ سے نہیں بلکہ اخلاص سے ہوتے ہیں جن کا ان میں فُقدان تھا اور ہے ۔
ڈاکٹر احسان علی کے ہاں سے دوائیاں منگانے کی ممانعت
یہ تو وہ کارروائی
تھی جو سلسلہ کا امیر ہونے کے لحاظ سے اِس بارہ میں مَیں نے کی مگر ذاتی طور پر جو کچھ میں نے کیا اس کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر احسان علی اپنے بھائی کی جو چوری کا مرتکب ہے مددکرتے ہیں تومَیں نے اپنی چاروں بیویوں سے کہا کہ ڈاکٹراحسان علی ایک ملزم کی مدد کرتے ہیں اس لئے آئندہ ان کے ہاں سے کوئی دوائی نہ آئے سوائے اِس کے کہ ضروری ہوا ور کسی دکاندار کے ہاں سے نہ مل سکتی ہو اور اگر تم میں سے کسی نے اس کے خلاف کیا تو اُس دوائی کی قیمت میں ادا نہیں کروں گا۔ چنانچہ ہمارے گھر میںاس پرعمل ہوتا رہا اور میرے ذاتی رجسٹر کے ریکارڈ بتا سکتے ہیں کہ اَدویہ جو ہمارے گھرآئیں یا بھائی محمود احمد صاحب کے ہاں سے آئیں یا پھر لاہور سے براہِ راست منگوائی گئیں ۔ سوائے اس کے کہ دوا اور دکانداروں سے میسر نہ آئی اور اس کی فوری اور اشدّ ضرورت تھی۔ اور میں اس ہدایت کے بعد تحقیق بھی کرتا رہا کہ اس پر عمل ہوتا رہا اور بعض دفعہ میں نے اپنی بیویوں کے پاس وہ رُقعے دیکھے جن میں دوسرے دکاندارو ں نے لکھا ہے کہ یہ دوا ہمارے پاس نہیں ہے تب وہ ڈاکٹر احسان علی کے ہاں سے خریدی گئی ۔گویا اِن لوگوں کی تائید میں مَیں نے خود مالی نقصان بھی اُٹھایا کیونکہ لاہور سے اَدویہ کا منگوانا مہنگاپڑتا ہے اور خرچ زیادہ ہو جاتا ہے مگر یہ لوگ الزام لگاتے ہیںکہ میں نے دوسرے فریق کی رعایت کی۔ یہ بدظنی کی انتہاء ہے اور ایسی بد ظنی اور ایمان کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔لیکن یہ اس قدر بد ظنی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم شدید ظلم دیکھتے ہوئے بھی ایمان پر قائم رہے آپ لوگ اِن ظلموں کو بھی دیکھ لیں جو مَیں نے ان پر کئے اور ان کے ایمانوں کا بھی اندازہ لگائیں جو اِن کے دل میں تھا۔ اگر یہ ایمان تھا تو نہ معلوم بے ایمانی کس کو کہتے ہیں۔
مرزا عبدالحق صاحب کی رائے
اب مَیں پھر حافظ بشیر احمد کی ملاقات کی طرف آتا ہوں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ
انہوں نیکہا کہ میرے والد یاکہا کہ میاں فخرالدین صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب سے پوچھا تھا اور انہوں نے کہا ہے کہ دورانِ تفتیش میںہی ڈاکٹر احسان علی وغیرہ کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ مَیں نے اس پر شیخ بشیراحمد صاحب کو دوبارہ کہا کہ آپ مرزا صاحب سے بات کر کے مجھے اطلاع دیں کہ ان کی یہ رائے کس بناء پر ہے۔شیخ صاحب نے ان سے گفتگوکر کے مجھے یہ جواب دیاکہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے یادہے مجھ سے ایسا ذکر تک نہیں ہوا اور اگر کوئی ذکرہوا ہوگا تو میں نے ایسا مشورہ نہیں دیا ہوگا کیونکہ میرے نزدیک بھی موجودہ حالات میں ایسا کرنا خلافِ مصلحت ہوگا۔ میںنے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ مرزا صاحب سے تحریری رپورٹ لے کر مجھے دیدیںورنہ ان لوگوں کی تسلی نہ ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے مندرجہ ذیل تحریر مجھے بھجوائی ۔
برادرم محترم! اَلسَّـلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ-
’’آپ کاخط ملا۔ یہ درست ہے کہ آپ نے عبدالمنان کے مقدمہ کے دَوران یہ ذکر کیا تھا کہ فخرالدین صاحب ملتانی نے میری طرف یہ منسوب کیا ہے کہ مَیں نے یہ رائے دی ہے کہ اگر جماعت عبدالمنان برادرشیخ احسان علی صاحب کے خلاف مقدمہ کے دَوران شیخ احسان علی صاحب کے خلاف اس بناء پر کارروائی کرے کہ وہ اپنے بھائی کو مُجرم جانتے ہوئے اس کی صفائی کے لئے کوشش کررہے ہیں تو جماعت کا ایسافعل قانونًا جائز ہو گا اور ایسا کرنا مناسب ہوگا۔ اور آپ نے مجھ سے یہ دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی مَیں نے کوئی ایسی رائے دی ہے۔اس کے جواب میں مَیںنے یہ عرض کیا تھا کہ میں نے کوئی ایسی رائے فخرالدین صاحب یا کسی اور صاحب کونہیں دی اور نہ ہی یہ میری رائے ہے، بلکہ میرا آپ کی رائے کے ساتھ اتفاق تھا کہ دورانِ تجویز مقدمہ جماعت کو شیخ احسان علی صاحب کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھانا چاہئے۔ کیونکہ یہ کارروائی مقدمہ پر اثر انداز ہو سکتی ہے جومناسب نہیں۔‘‘
خاکسار عبدالحق
۱۲۔۶۔۱۹۳۷ء
اس تحریر سے ظاہر ہے کہ مرزا عبدالحق صاحب کی رائے بھی وہی تھی جو شیخ بشیر احمد صاحب کی تھی اور مَیں نے اس معاملہ میں جو کچھ کیا وہ سلسلہ کے بہترین وکلاء کے مشورے کے ماتحت کیا اور سلسلہ کے فائدہ کے لئے کیا نہ کہ کسی ذاتی لگائو کی وجہ سے۔ مگر ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ یہ اپنے ذاتی غصہ پر جماعت کے فوائد کوقربان کرنا چاہتے تھے اور جماعت کو حکومت کی نگاہ میں زیرِ الزام لا کر فتنہ میں ڈلواناچاہتے تھے اور پھر یہ دیدہ دلیری کہ مرزاعبدالحق صاحب کی قانونی حیثیت کو غلط طور پر استعمال کر رہے تھے اوراُن کی طرف وہ بات منسوب کررہے تھے جو اُنہوں نے نہ کہی تھی۔ غرض واقعات یہ ہیں کہ مَیں ہر قدم پر دوسرے فریق کو سرزنش کرتا چلا گیا ہوں اور اِن کی تائید کرتا چلا گیا ہوں مگر یہ لوگ کسی اندرونی بُغض سے متأثر ہو کر جس کا اظہار اَب آکر ہؤا ہے دانستہ لوگوں کو دھوکا دینے کیلئے پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ ڈاکٹر احسان علی کی رعایت کی جارہی ہے اور یہ لوگ مظلوم ہیں۔پھر فخرالدین صاحب نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ احسان علی نے ایک تحریر امور عامہ میں لکھ دی تھی کہ حضرت میاں شریف احمد صاحب نے احسان علی کو مشورہ دیا کہ تم فیِ الفور جاکر راجہ عمر دراز سب انسپکٹر بٹالہ کو قابو کر لو۔ دروغ برگردنِ راوی۔
چند حلفیہ شہادتیں
(اس کے متعلق حضور نے حضرت میاں صاحب سے حلفی بیان طلب فرمایا۔ اور انہوں نے کھڑے ہو کر حلفًا اِس بات سے انکار کیا ۔
پھر حضور نے ناظر صاحب امورعامہ سے حلفی بیان لیا۔ اور انہوں نے حلفیہ طور پر بیان کیا کہ احسان علی صاحب نے امور عامہ میں کوئی ایسی تحریر نہیں دی ۔ اس کے بعدکلرک نظارت امور عامہ سے حلفی بیان لیا گیا۔ اور انہوں نے بھی حلفی بیان دیا کہ ڈاکٹر احسان علی کی ایسی تحریر میری نظر سے ہر گز نہیں گزری۔
اب آپ لوگ دیکھیں کہ میرے بعد یہ شخض میاں شریف احمد صاحب پر نہایت ناپاک الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے مُجرم کی امداد کے لئے ناجائز طور پر پولیس کو قابو کرنے کا مشورہ دیا اور ایسا صریح جھوٹ بولتا ہے کہ احسان علی نے امور عامہ کو ایسی تحریر لکھ کر دی مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ میاں شریف احمد صاحب حلفیہ اس مشورہ سے انکار کرتے ہیں،۔ ناظر امورعامہ اور ان کا کلرک اس تحریر کے موصول ہونے اور اس کے دیکھنے سے انکار کرتے ہیں ، اِس سب جھوٹ کے باوجود یہ لوگ مظلوم ہیں اور ہمارا خاندان ظالم اور ابھی اس کے اخلاص اور ایمان میں بھی کوئی فرق نہیں آتا گویا یہ ایمان ان کا مولوی ثنا ء اللہ صاحب والی تعریف تقوٰی کے نیچے آتا ہے کہ کچھ کرو تقوٰی وہیں کا وہیں رہتاہے۔
ایک اَور غلط بیانی
ایک اَور غلط بیانی اِس شخص نے یہ کی ہے کہ لکھا ہے۔ ’’دوسرے روز احسان علی وغیرہ سارے جتن کر کے عبدالمنان کو پولیس
میں دینے پر مجبور ہوئے‘‘حالانکہ پولیس میں اُسے مَیں نے بھجوایا تھا۔ یہ لوگ اُسے پکڑنے پر ہی قادر نہ تھے پولیس میں دینا تو الگ بات ہے کیونکہ اس کے پکڑے جانے اور خود بیان دینے تک اِس کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا۔ پھر ایک اور بات یہ لکھی ہے کہ ’’ احسان علی جیسے رُسوائے عالَم کے خلاف ڈاکٹر اسماعیل کے کسی کمیشن میں بطور ڈیفنس چند ایک واقعات پر مبنی الزامات کے لکھ دینے پر سینکڑوں روپیہ نظارت کی طرف سے اِس لئے خرچ کردیا گیا کہ احسان علی کی بریت ثابت ہو۔‘‘حالانکہ یہ بات بھی سراسرغلط ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اسماعیل نے جو پہلے جماعت سے خارج تھے مگر اب انہیں معافی حاصل ہوچکی ہے ان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ حُکّام کے پاس جا کر سلسلہ کے خلاف جھوٹی رپورٹیں کرتے ہیں۔ چونکہ ہم اسے پسند نہیں کرتے کہ ہر شخص جاکر پولیس والوں کے پاس بیٹھے کیونکہ اسطرح انہیں اس کے رسوخ سے فائدہ اُٹھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس سے جماعت کو روکا ہواہے کہ صرف ضرورتًاجائو بغیرضرورت کے نہ جائو۔ امور عامہ نے ڈاکٹر اسمٰعیل سے جواب طلب کیا اور انہوں نے الزامات کا انکار کرتے ہوئے بعض اطلاع کنندوں پر اُلٹے الزام لگائے، ان میں سے ایک ڈاکٹر احسان علی بھی تھے۔ چونکہ ہمیں یقینی ثبوت مل گیا تھا کہ ڈاکٹر اسمٰعیل سلسلہ کے خلاف غلط سلط رپورٹیں کرتے ہیں اور بعد میں انہوںنے تحریراً اس امر کا اقرار بھی کر لیا اس لئے سلسلہ کو نقصان سے بچانے کے لئے محکمہ نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر احسان علی صاحب کو ان پر ہتکِ عزت کا مقدمہ کرنے کی اجازت دے اور امداد کا وعدہ کرے ۔ اور چونکہ یہ سلسلہ کی عزت کا سوال تھا نہ کہ احسان علی صاحب کی عزت کا سوال ۔ میرے علم میں یہ بات ہے کہ ان کی امداد کی گئی بلکہ اگر ڈاکٹر اسمٰعیل بعد میں اقرار نہ کر لیتے اور معافی نہ مانگ لیتے تو غالبًا بعض دوسرے احمدی بھی ان پر اُس ہتک کے بدلہ میں مقدمہ کرتے جو ان دوسرے احمدیوں کی انہوں نے اپنے بیان میں کی تھی۔ پس اگر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرانا ناجائز ہے تو یقینا وہ مقدمہ بھی جائز نہیں ہوسکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم اور شیخ یعقوب علی صاحب سے مولوی کرم دین بھیں والے کے خلاف کرایا تھا۔ اُس وقت تو جب ان دو میں سے ایک نے مقدمہ کرنے میںکچھ تردّد کا اظہار کیا تھا تو حضور نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا۔ اِن دونوں مقدمات میں سلسلہ کی طرف سے وکلاء پیش ہوتے رہے تھے۔ کیونکہ مقدمات شخصی تھے مگر ضرورت قومی تھی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُسوہ ہمارے لئے شمعِ راہ ہے۔
مالی اور سفارشی امداد
ایک بات میاں فخراالدین صاحب نے یہ لکھی ہے کہ:۔
’’ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان (ڈاکٹر احسان علی) کی مالی اور سفارشی امداد بھی حضرت میاںبشیراحمد صاحب کے ذریعہ ہوئی یعنی اخراجاتِ مقدمہ کیلئے روپیہ قرض دیا گیا۔‘‘
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کی حلفیہ شہادت
(حضور کے دریافت فرمانے پر حضرت
میاں بشیراحمد صاحب نے حلفاً بیان کیا کہ میں نے مقدمہ کیلئے احسان علی کو کوئی روپیہ نہیں دیا۔ بعض لوگ مجھ سے قرض لے لیا کرتے ہیں، مصری صاحب بھی لیتے رہے ہیں، ڈاکٹر فضل دین صاحب اور ان کی اہلیہ نے بھی لیا ہے اور احسان علی صاحب نے بھی قرض لیا تھا لیکن مقدمہ کیلئے مَیں نے کوئی روپیہ کسی کو نہیں دیا)
اب اِس جواب کو بھی دیکھ لو اور اُن کی عبارت پر بھی غور کرو۔ یہ صاحب نہ صرف میاں بشیراحمد صاحب پر ایک جھوٹا الزام لگاتے ہیں بلکہ اس کے بین السطور میں یہ الزام بھی مجھ پر ہے کیونکہ وہ لکھتے ہیںکہ مالی اور سفارشی امداد بھی میاں بشیراحمد صاحب کے ذریعہ ہوئی۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ میاں بشیراحمد صاحب کو مَیں نے ذریعہ بنایا تھا اصل میں یہ کام بھی میں نے کیا تھا گویا وہ نہ صرف مُجرم کے امدادی تھے بلکہ اِس فریب میں میرے آلہ کار تھے۔ لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ پھر ایک اور بات لکھی ہے کہ ’’عبدالمنان کی ضمانت کیلئے حضرت میاں صاحب نے ہی دفتر سکول میں چِٹھّی بھیج کر منظور علی شاہ کو رخصت دی اور گورداسپور بھیجا۔‘‘
مولوی محمد دین صاحب کا حلفیہ بیان
(اس کے متعلق ہیڈ ماسٹر مولوی محمد دین صاحب کا حلفی بیان ہوا کہ
حضرت میاں صاحبکا رُقعہ مجھے ملا تھا جس میں صرف یہ تھا کہ سید منظور علی شاہ صاحب کو رخصت دی جائے مگر اس میں ضمانت وغیرہ کا ذکر نہ تھا۔)
سیدمنظور علی شاہ صاحب کا حلفیہ بیان
اس کے بعد سید منظور علی شاہ صاحب کا حلفی بیان لیا گیا۔ اور
انہوں نے یہ حلفی بیان دیا کہ مجھے ڈاکٹر احسان علی کے والد صاب نے کہا تھا کہ لڑکے کی ضمانت دے دو۔ مَیں نے کہا کہ چُھٹی کے سلسلہ میں پہلے ہی مجھ پر ایک محکمانہ مقدمہ چل رہا ہے اور مجھے چُھٹی نہیں مل سکتی۔ اگر آپ رُخصت کا انتظام کر دیں تو میں ضمانت کیلئے جا سکتا ہوں۔ چنانچہ وہ حضرت میاں صاحب کے پاس جا کر چُھٹی لے آئے اس پر مَیں میاں صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ یہ چھٹی انہوں نے ضمانت کیلئے مجھے دلوائی ہے، کیا مجھے اجازت ہے کہ ضمانت دے دوں؟ میاں صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے مجھے یہ تو بتایا نہیں۔ یہ امور عامہ کا کام ہے آپ ناظر صاحب امور عامہ سے دریافت کر لیں اگر وہ اجازت دیں تو ضمانت دے دیں اِس پر میں نے ناظر صاحب امور عامہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ضمانت دینے میں کوئی حرج نہیں۔
ان بیانات سے ثابت ہے کہ میاں صاحب نے جب چُھٹی دی اُن کو یہ علم تک نہ تھا کہ ضمانت کیلئے یہ چُھٹی مانگی جا رہی ہے۔ اور اِس وجہ سے ان پر یہ الزام سرا سرباطل ہے اور اسی بدظنّی پر دلالت کرتا ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں گُھن کی طرح ان کے ایمان کو کھا رہی تھی۔
نوے روپے کا معاملہ
پھر یہ لکھا ہے کہ ’’عبدالمنان کے چوری کرنے کے بعد قادیان سے روپوش ہونے پر احسان علی نے نوے روپیہ
مسروقہ مال کے اس سے لے کر حضرت میاں صاحب کے پاس رکھے، یہ کہہ کر رکھے کہ یہ مسروقہ مال ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے چوری شُدہ مال میں /-۹۰ روپے بھی تھے۔ اس سے قبل مَیں خود حضرت میاں صاحب کو اِس واردات کی سراغرسانی کیلئے مفصّل عرض کر چکا تھا، چاہئے تھا کہ حضرت میاں صاحب مجھے یا مصری صاحب سے کم سے کم ذکر ہی فرما دیتے کیونکہ تفتیش میں یہ بہت بڑا معاون بنتا مگر آخر دم تک جبکہ احسان علی نے ضرورتاً اپنے ڈیفنس کی خاطر اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا، بالکل مخفی رکھا اور اشارتاً بھی ذکر نہ کیا۔‘‘
حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا حلفیہ بیان
(اسکے متعلق حضور نے حضرت میاں صاحب
کو بُلایا کہ اس واقعہ کے متعلق حلفی بیان دیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ڈاکٹر احسان علی نے مجھے جو نوے روپے دیئے تھے وہ ایک پچاس روپیہ اور چار دس دس روپیہ کے نوٹوں کی صورت میں تھے۔ جب یہ رقم ڈاکٹر احسان علی صاحب میرے پاس لائے۔ مجھے علم تھاکہ ڈاکٹر فضل دین صاحب کی چوری میں نوے روپے کے قریب رقم ہے۔ چنانچہ میں خود ڈاکٹر صاحب کے مکان پر گیا اور اُن سے نوے روپیہ کی تفصیل دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ چوری شُدہ رقم نوے روپیہ سے کچھ کم تھی اور کہ وہ دس دس اور پانچ پانچ کے نوٹ تھے۔ اِس اختلاف کی بناء پر میں نے خیال کیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی چوری کا روپیہ نہیں۔)
میاں صاحب کا بیان آپ سن چکے ہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کو چاہئے تھا یہ روپیہ اپنے پاس نہ رکھتے بلکہ ناظر صاحب امور عامہ کے پاس جمع کرا دیتے۔ میری طرف سے ایسے امور کیلئے وہ نہیں بلکہ ناظر صاحب امور عامہ مقرر ہیں۔ ڈاکٹر احسان علی صاحب نے بھی جب اپنی بریت میں میاں صاحب کے پاس روپیہ کا رکھ دینا بیان کیا تھا تو میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ میں اس دلیل کو نہیں مانتا۔ ہاں اگر ناظر صاحب امور عامہ کے پاس یہ رقم رکھی جاتی تو البتہ ایک دلیل تھی۔ ڈاکٹر احسان علی صاحب کا یہ طریق شُبہ ڈالنے والا ہے اور میاں صاحب نے بھی غلطی کی اور غلط اجتہاد سے کام لیا اور اس طرح دوسرے فریق کو بدظنی کرنے کا موقع بہم پہنچایا۔ نظام میں ان کی حیثیت جب ان کو یہ روپیہ رکھنے کیلئے مجاز قرار نہ دیتی تھی تو ان کو نہیں رکھنا چاہئے تھا اور ناظر صاحب امور عامہ کے پاس ہی جو میری طرف سے مقرر تھے، بھیج دینا چاہئے تھا۔ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہونے سے ان کو نظام میں کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس معاملہ میں اگر ان پر بدظنی کی گئی ہے تو گو وہ غلط ہو مگر اِس کی ذمہ واری ایک حد تک اِن پر بھی ہے۔ یہ بات مَیں نے اس لئے وضاحت سے کہہ دی ہے تاکہ آئندہ وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی اِس بات کا خاص خیال رکھیں۔
پٹرول کا ٹھیکہ
پھر ایک اور شکایت یہ ہے کہ ڈاکٹر احسان علی کو الیکشن کے ایام میں پٹرول کا ٹھیکہ سستے داموں دے دیا گیا۔ بعض احمدی مثلاً میاں محمد اسحق
سیالکوٹی سَستے داموں پر ٹھیکہ لیتے تھے انہیں نہیں دیا گیا۔ اسی طرح بٹالہ سے سستے داموں پٹرول ملتا تھا، وہاں سے نہیں لیا گیا۔ اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ پٹرول کے سودا کرنے کے ذمہ وار نظارت کی طرف سے بظاہر حالات نیرؔ صاحب تھے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ دراصل مَیں نے ٹھیکہ دیا تھا اور نیرؔ صاحب کو بطور آڑ اور پردہ کے استعمال کیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ الیکشن کے کاغذات محفوظ نہیں رہے ورنہ ان سے ثابت کیا جا سکتا تھا کہ مَیں نے زور سے ڈاکٹر احسان علی صاحب کے ٹھیکہ میں روک ڈالی تھی مگر اَب چونکہ صرف یادداشتوں پر بناء ہے میں نیرؔ صاحب کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں۔ جو ذیل میںدرج ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر سمجھ کر بیان کرتا ہوں کہ :۔
۱۔ ڈاکٹر احسان علی صاحب کو پٹرول کا ٹھیکہ دینے میں( حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) کی طرف سے قطعاً اشارتاً یا کِنایتاً کوئی ہدایت نہ تھی۔
۲۔ بلکہ حضرت میاں بشیراحمد صاحب نے غالباً حضرت کے ایماء سے احسان علی صاحب کو ٹھیکہ دینے سے روکا تھا اور میرے اصرار پر میری ذمہ واری پر اجازت دی تھی۔
۳۔ چونکہ احسان علی قادیان کا لائسنسدار صاحب جائیداد احمدی تھا، وقت کم تھا، پٹرول کے انتظام کے فیل ہو جانے کا خطرہ تھا اس لئے کُلّیۃً اپنی ذمہ داری پر ٹھیکہ کا معاہدہ کیا تھا۔
۴۔ قادیان میں پٹرول کا نرخ (ایک روپیہ تیرہ آنہ) گیلن تھا۔ مگر معاہدہ میں (ایک روپیہ بارہ آنہ) پر طے کیا گیا۔ اور بٹالہ میںکمپنیوں کے مساوی نرخ پر پٹرول لیناطے کیا گیا۔
۵۔ دوسرے انتظام کی کوشش کی گئی مگر کمپنی نے پانچ سَو روپیہ پیشگی اور ہر سَو روپیہ کے بعد ادائیگی کا مطالبہ کیا اور وقت پر دھوکا دینے کاخطرہ تھا اس لئے قادیان کے احمدی لائسنسدار کو منتخب کیا گیا۔
۶۔ کسی احمدی نے ٹھیکہ لینے پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
۷۔ احسان علی اور ان کے والد نے بھی انکار کر دیا تھا۔ میں نے اس شرط پر کہ اِنْشَائَ اللّٰہُ آپ کو نقصان نہ ہونے دوں گا مَیں ذمہ وار ہوں اور سَو روپیہ بطور قرض پیشگی ان کو رضا مند کیا تھا۔
غرض تمام ٹھیکہ پٹرول کی ذمہ داری کُلّیتہً میری ہے۔ جس میں انجمن کے مفاد مدنظر تھے۔ حضرت کا اِس معاملہ میں قطعاًکوئی اشارہ اور ہرگز کسی قسم کی ہدایت نہ تھی کہ احسان علی سے معاملہ کیا جائے وَاللّٰہُ عَلٰی مَااَقُوْلُ شَہِیْدٌ وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
عبدالرحیم نیرؔ
۲۹۔۶۔۱۹۳۷ء
گو میری تحریرات اگر محفوظ رہتیں تو اِس سے زیادہ واضح تھیں مگر یہ بیان بھی بہت کافی ہے۔ نیرؔ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ اِس معاملہ میں اُن کو آڑ نہیں بنایا گیا بلکہ سب ذمہ واری اُن کی تھی بلکہ میاں بشیراحمد صاحب کی معرفت اِس بارہ میں اُنہیں ایک حد تک روکا بھی گیا لیکن چونکہ اور کوئی انتظام نہ ہو سکتا تھا، انہوں نے باوجود ڈاکٹر احسان علی کے انکار کے انہیں اس کام پر مجبور کر کے لگایا اور یہ کہ اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے جو ریٹ طے کیا گیا تھا وہ درست تھا۔ اَب کُجا نیرؔ صاحب کا یہ حلفیہ بیان اور کُجا اِس شخص کا یہ الزام کہ ٹھیکہ مَیں نے احسان علی کے فائدہ کیلئے دلایا، نیرؔ صاحب کو صرف آڑ بنایا گیا، بٹالہ کی ایک کمپنی سستا پٹرول دیتی تھی مگر اس سے نہ لیا گیا اور احمدی ٹھیکیدار ملتے تھے اُن کو بھی ردّ کیا گیا۔ جو شخص اِس قدر افتراء اُس شخص پر کرے جس کی اِس نے بیعت کی ہوئی ہے کون بتا سکتا ہے کہ اس کے دل میں کس قدربُغض اور کینہ بھرا ہوا ہو گا۔
ایک الزام میاں فخرالدین صاحب نے یہ لگایا ہے کہ ایک دفعہ محمد اسحق صاحب سیالکوٹی سپرٹ بغیر لائسنس لے آئے اور احسان علی نے ان کی شکایت کر کے انہیں پکڑوا دیا۔ تو احسان علی صاحب پر پانچ روپیہ جُرمانہ ہوا لیکن احسان علی نے کہاکہ حضرت صاحب کو اِس کا علم نہ ہوا ہو گا کہ مَیں نے ایسا کیا ہے ورنہ وہ ایسا نہ کرتے چنانچہ وہ جُرمانہ وصول نہ ہوا۔ یہ الزام سراسر بہتان اور جھوٹا ہے مجھے شروع سے یہ علم دیا گیا تھا کہ احسان علی صاحب نے رپورٹ کی ہے۔حق احسان علی صاحب کی طرف تھا کیونکہ اُن کے پاس سپرٹ کا لائسنس تھا۔ لیکن محمد اسحق صاحب کا بھی کوئی قصور نہ تھا کیونکہ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ ہائی سکول کے سائنس کے تجربات کے استعمال کیلئے غلطی سے سپرٹ لاتے تھے۔ میں نے اِس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے معاملہ میں حق کا استعمال بھی غلطی ہے باہمی سمجھوتہ کرنا چاہئے تھا۔ اور محکمہ نے احسان علی صاحب پر پانچ روپیہ جُرمانہ کیا جو ناظر صاحب امور عامہ کی رپورٹ کے مطابق اُسی وقت وصول ہو گیا تھا۔ یہ جُرمانہ اُس جُرمانہ کی ادائیگی کیلئے تھا جو میاں محمد اسحق صاحب کو سرکاری عدالت سے ہوا تھا اور اِس وجہ سے انہی کو دئیے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ میاں محمد اسحق صاحب سے بھی میں نے گواہی لی ہے وہ لکھتے ہیں:۔
’’اس معاملہ کے متعلق مرکز سلسلہ عالیہ احمدیہ میں تحقیقات ہو کر احسان علی پر اُسی قدر جُرمانہ کیا گیا تھا جتنا میں نے عدالت سرکاری میں دیا تھا۔ چنانچہ اِس جُرمانہ کی فوری ادائیگی ہوئی اور میں نے یہ روپے وصول پا لئے تھے۔ محمد اسحق مالک سیالکوٹ ہائوس قادیان‘‘۔
اب آپ لوگ اِن شہادتوں کو دیکھیں اور فخرالدین کے اِس اعترا ض کو دیکھیں کہ جب خلیفہ کو معلوم ہوا کہ احسان علی رپورٹ کرنے والا ہے تو جُرمانہ کو وصول ہی نہیں کیا گیا۔ کیا یہ سلسلۂ اِتّہامات اُس گندی ذہنیت کو واضح نہیں کرتا جو میاں فخرالدین صاحب کے دل میں خلیفہ کے خلاف پیدا ہو چکی تھی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِباً اَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ ۱۵؎ ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ ہرسُنی ہوئی بات آگے بیان کر دے۔
ایک شکایت انہوں نے یہ کی ہے کہ چندروز کا واقعہ ہے۔ مولوی ظفر محمد صاحب مجھے بھائی قادیانی صاحب کے مکان کے قریب ملے۔ اور اَلسَّـلامُ عَلَیْکُمْ کر کے کہا کہ اب میں امور عامہ میں آگیا ہوں اور پھر ہنس دیئے۔‘‘ اِس کا مطلب وہ یہ لیتے ہیں کہ گویا انہیں دھمکی دی گئی۔
مولوی ظفر محمد صاحب کا حلفیہ بیان
اس کے متعلق حضور نے مولوی ظفرمحمد صاحب کا حلفی بیان لیا۔ تو مولوی صاحب
نے کہا کہ مجھ سے فخرالدین صاحب نے خود دریافت کیا تھا کہ تبلیغ سے واپس آ کر کہاں لگے ہو۔ تو میں نے کہا کہ امور عامہ میں۔ تو کہاکہ خدا خیر کرے۔
سید ولی اللہ شاہ صاحب کی حلفیہ تصدیق
(جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ نے
بھی اس امر کی تصدیق حلفیہ کی اور بتایا کہ مجھے فخرالدین صاحب نے خود یہ واقعہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ آج مجھے مولوی ظفرمحمد صاحب ملے تھے اور میں نے کہا تھا خدا خیر کرے اور یہ کہ میں نے ظفر محمد کو چڑانے کیلئے ایسا کہا تھا)
اِن دونوں شہادتوںسے آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح میاں فخرالدین صاحب اپنی براء ت کیلئے باتوں کو اُلٹ پھیر کر بیان کر رہے ہیں۔
اس کے بعد حضور نے سید محمد سعید صاحب سلیم کا بیان پڑھ کر سنایا کہ چند روز ہوئے محاسب کے دفتر کے پاس مجھے بابو فخرالدین صاحب ملے اور کہا کہ مہاشہ فضل حسین صاحب کو یہ خوشخبری سنا دینا کہ اب میرا بائیکاٹ ہونے والا ہے جس سے بکڈپو کو فائدہ ہو گا۔ اور جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب نے حلفاً بیان کیا کہ مجھے بھی کئی بار فخرالدین صاحب نے شکوہ کے رنگ میں کہا تھا کہ بکڈپو جاری کر کے میری تجارت کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس کے متعلق حضور نے فرمایا کہ بکڈپو سے ہمارا کیا فائدہ ہے۔ ہم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتب کے حقوق سلسلہ کو دیدیئے ہوئے ہیں۔ مگر میاں فخرالدین صاحب کے دل میں یہ بُغض ہے کہ سلسلہ کا بکڈپو جاری کر کے ان کی دکان کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان کی موجودہ حالت تو ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے الہام سے میرے دل میں سلسلہ کا بکڈپو قائم کرنے کی تحریک کی ورنہ اگر سلسلہ کا بکڈپو نہ ہوتا تو آج میاں فخرالدین صاحب کے اخراج کے ساتھ ہی سلسلہ بغیر لٹریچر کے رہ جاتا۔
فخرالدین کی فحش گوئی
اِسی تحقیق کے دوران میں مولوی عبدالاحد صاحب نے ایک رپورٹ کی کہ میاں فخرالدین صاحب کسی سے تحقیق وغیرہ
کا ذکر کر رہے تھے۔ میں اور مولوی علی محمد صاحب اجمیری ان کے پاس سے گزرے تو مولوی صاحب کسی قدر آگے تھے، مَیں پیچھے تھا۔ جب میں پاس سے گزرا تو میں نے میاں فخرالدین صاحب کے منہ سے سلسلہ کے خلاف ایک نہایت گندہ فقرہ سنا۔ اِس پر کمیشن نے ان کا بھی بیان لیا اور انہوں نے مندرجہ ذیل بیان دیا:۔
مولوی عبدالاحد صاحب کا حلفیہ بیان
میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان کرتا ہوں جس کی
جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے جو کچھ میں بیان کروں گا وہ صحیح اور درست ہو گا۔
جناب بابو فخرالدین صاحب ملتانی کے متعلق مولوی تاج الدین صاحب کی شکایت پر جو مجھ سے شہادت طلب کی گئی تھی، اِس مقدمہ کے متعلق صاحب موصوف ذکر کر رہے تھے۔ جن صاحب سے ذکر کر رہے تھے وہ غالباً سردار مصباح الدین صاحب تھے۔ ان سے انہوں نے کہا۔ خیر دیکھی جائے گی۔ ’’کان سے پکڑ کر نکالتے ہیں یا شرمگاہ کا نام لیکر کہا۔ وہاں سے پکڑ کر‘‘ پنجابی زبان میں ہر دو صاحبان گفتگو فرما رہے تھے۔ وقت عشاء اور مغرب کے درمیان کا تھا۔ مقام اِس گفتگو کا فخرالدین صاحب کی دُکان کے متصل جو گلی ہے اس کا وہ حصہ تھا جو صاحب موصوف کی دُکان سے ملحق ہے۔ میرے ساتھ اُس وقت اجمیری صاحب بھی تھے۔ جو چوک میں کھڑے ہو کر میرا انتظار کر رہے تھے۔ چونکہ وہ اُس وقت بیمار تھے، وہ جلدی جانا چاہتے تھے اس لئے وہ مجھ سے آگے چل کر ٹھہر گئے۔ میں یہ بات سنکر مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں یہ واقعہ سنایا۔ اس کے بعد صبح کو ماسٹر غلام حیدر صاحب سے بھی اس کا ذکر ہوا۔
کمیشن کے سوال پر عرض ہے کہ غالباً سردار مصباح الدین اس لئے کہا کہ مَیں نے اُن کا چہرہ نہیں دیکھا، میری طرف اُن کی پیٹھ تھی۔ ہاں باقی حُلیہ چونکہ بالکل اُنہیں کا تھا اس لئے غالب گمان سے تعبیر کیا گیا۔
کمیشن کے سوال پر عرض ہے کہ میں نے وہاں کھڑے ہو کر انہیں یہ نہیں کہاکہ ایسی گندی باتیں کیوںکر رہے ہو کیونکہ ان کے متعلق پہلے ہی مقدمہ شروع تھا۔ میں نے اس لئے ان سے گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ میری کسی بات کا جبکہ وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کیا اثر ہو سکتا تھا، سوائے اِس کے کہ وہیں لڑائی ہو جاتی۔ اگر لڑائی کا خوف نہ ہوتا تو ضرور اُسی وقت انہیں مناسب تنبیہہ کر دی جاتی۔
خاکسار
عبدالاحد
۷۔۶۔۱۹۳۷ء
میاں مصباح الدین صاحب اِس واقعہ کا انکار کرتے ہیں لیکن اس کا انکار نہیں کہ یہ بات نہیں ہوئی بلکہ اِس کا انکار کرتے ہیںکہ وہ اس موقع پر میاں فخرالدین صاحب سے باتیں کر رہے تھے مگر اِس انکار کا چنداں اثر نہیں پڑتا، کیونکہ مولوی عبدالاحد صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے شکل نہیں دیکھی صرف شباہت سے اُنہوں نے یہ قیاس کیا ہے۔ پس اس انکار سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت میاں مصباح الدین صاحب بات نہیں کر رہے تھے بلکہ کسی اور شخص سے میاں فخرالدین صاحب بات کر رہے تھے۔میاں فخرالدین صاحب اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تصدیق اور ذریعہ سے کرا دی ہے جب میں سندھ سے واپس آیا ہوں اور کمیشن کی رپورٹ مَیں نے پڑھی ان دنوں مہاشہ محمد عمر صاحب، مولوی ابوالعطاء صاحب کے ساتھ کہیں باہر تبلیغ کیلئے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے راستہ سے مجھے خط لکھاکہ بعض اہم باتیں سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں۔ میں بوجہ شرم پہلے بیان نہیں کر سکا مگر اَب مجھے خیال آیا ہے کہ ان کا بیان کر دینا زیادہ مناسب ہے۔ جب وہ واپس آئے تو مجھ سے ملے اور انہوں نے بعض باتیں مجھ سے بیان کیں۔ جن میں سے بعض میاں فخرالدین صاحب کے متعلق تھیں۔ میں نے ان سے کہاکہ ان امور کو وہ لکھ دیں چنانچہ انہوں نے حلفیہ شہادت لکھ دی جو یہ ہے۔
مہاشہ محمد عمر صاحب کا حلفیہ بیان
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یَا سَیِّدِیْ!
اَلسَّـلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
۱۔ میں علیم وخبیر خدا کو گواہ رکھ کر یہ لکھتا ہوں کہ جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ ایک دن میں اور فخر دین نزد دُکان لاہور ہائوس کھڑے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ اس نے دورانِ گفتگو میں کہا کہ آہستہ آہستہ بولو اور پیچھے نہ دیکھنا۔ مَیں نے کہا کہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ جا رہا ہے، یہ بھی آج کل میرے خلاف بڑا حصہ لے رہا ہے۔ اتنے میں مولوی اللہ دتّا صاحب سائیکل پر سے گزر گئے۔ جب گزر گئے تو کہا کہ یہ بھی خلیفہ کی……کا بال جا رہا ہے اس جگہ اُس نے پنجابی کا ایک نہایت ہی غلیظ لفظ بولا جس کو شرافت اجازت نہیں دیتی کہ لکھا جائے۔
مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جودلوں کے بھید کو جانتا ہے اور جس کی جھوٹی قسم انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اے خدا! اگر یہ الفاظ اس نے نہ کہے ہوں اور مَیں نے اپنے پاس سے لکھ دیئے ہوں تو اِس کا وبال میرے اور میری اولاد پر ڈال۔
۲۔ نیز مَیں خدا کی قسم کھا کر یہ بھی لکھتا ہوں کہ اُس نے ایک دن اپنے مکان کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہا تھا کہ تحریک جدید کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پہلے تو لڑکوں کو تلاش کرنا پڑتا تھا،اَب جمع شُدہ مل جاتے ہیں۔ اِس جگہ اس کا مفہوم نہایت ہی گندہ اور حضور پر کمینہ حملہ تھا۔
۳۔ نیز مَیں نے اُس سے ایک دن یہ بھی کہا تھا کہ چھ مارچ کے جلسہ کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی اچھا سا شعر بتاؤ، انہوں نے ایک شعر بتایا، میں نے کہا کہ کوئی اور بتاؤ، اُس نے کہا کہ اور تو کوئی نہیں، مَیں نے کہا تو پھر ’’خلیفۃ المسیح الثانی‘‘ کا بتاؤ۔ اِس پر اُس نے کہا کہ ان کے شعر عاشقانہ ہوتے ہیں، ہاں اگر اِن کی ضرورت ہے تو ہزاروں مل جائیں گے، عاشقانہ کلام تو اِن کا مشہور ہے۔ نیز اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں پہلے نکلوں گا، پھر مصری صاحب اور پھر سردار مصباح الدین۔ مَیں اپنے خدا کو گواہ رکھ کر یہ باتیں لکھتا ہوں اور وہ دلوں کو خوب جانتا ہے۔ یہ باتیں فخر دین نے میرے ساتھ کی ہیں اور میں خدا کوبھی گواہ رکھ کر شہادت لکھتا ہوں۔ وَاللّٰہُ شَہِیْدٌ عَلٰی مَااَقُوْلُ
حضور کا ادنیٰ خادم
محمد عمر
اس شہادت سے مولوی عبدالاحد صاحب کے بیان کی پوری تصدیق ہو جاتی ہے۔ اَب آپ لوگ غور کر لیں کہ جو شخص اپنے گند اور بغض میں اِس قدر بڑھ گیا ہو کہ جس کے ہاتھ پر اُس نے بیعت کی ہو، اس کی نسبت ایسے شرمناک لفظ استعمال کرے، وہ اخلاص اور ایمان کا دعویٰ کس بناء پر کر سکتا ہے۔ اگر اسی کا نام ایمان اور اخلاص ہے تو موچی دروازے کے غنڈوں کو بُرا کہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ اوّل فحش کلامی اور پھر خلیفۂ وقت کی نسبت اور پھر یہ دعویٰ کہ تمام مظالم کے باوجود ہمارے ایمان اور اخلاص میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔
اِس شہادت میں ایک اور بات بھی بیان کی گئی ہے جو تحریک جدید کے بورڈنگ کے متعلق ہے اور اسی طرح تحریک جدید کے وقف کنندگان کے متعلق ہے۔ اس میں جس قدر شرمناک حملہ مجھ پر کیا گیا ہے، وہ میں نہیں سمجھتا کہ احراریوں کے حملوں سے یا دوسرے دشمنانِ سلسلہ کے حملوں سے کم ہو۔ اگر ایسے لوگ احمدیت میں رہ سکتے ہوں تو میں سمجھتا ہوںکہ خلافت اور نظامِ سلسلہ سے بدتر اور بے معنی لفظ دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس سے یہ بہتر ہو گا کہ جماعت بے خلافت رہے تا لوگوں کو ایسے بے معنی نظام پر ہنسی اُڑانے کا موقع تو نہ ملے۔
مقبول کے اخراج کی حقیقت
پھر میاں فخرالدین صاحب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مقبول ایک لڑکی کو بغیر تحقیق یہاں سے
نکال دیا گیا، اسی طرح ہمارے معاملہ میں کیوں نہ کیا گیا۔ ایک تیسرے شخص کے حالات کو میاں فخرالدین صاحب کی تحریر کی وجہ سے میں پبلک میں نہیں لا سکتا۔ مگر اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس یتیم لڑکی کا بعض لوگوں سے بعض باتوں پر تنازعہ ہو گیا اور اس نے خود مجھ سے کہاکہ اَب میں قادیان میں نہیں پڑھ سکتی، مَیں نے اس کو سمجھایا مگر اس نے نہیں مانا، اس پر اس کی اپنی خواہش پر میں نے اس کا انتظام سیالکوٹ کر دیا جہاں اس کی بعض سہیلیاں رہتی تھیں۔ لیکن اس کے بعد وہاں کی جماعت کی لجنہ کی پریذیڈنٹ سیدہ فضیلت صاحبہ اور بعض اور مخلص مستورات نے اس کی نسبت بعض باتیں منسوب کیں جو سلسلہ پر حملہ بنتی تھیں اس پر میں نے اسے بِلا اجازت قادیان آنے سے منع کر دیا، لیکن اس کے بعد وہ کئی دفعہ اجازت سے قادیان آ چکی ہے اور ابھی چند ماہ ہوئے اس نے مجھے لکھا کہ میں بیمار ہوں، مجھے قادیان آ کر سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ہاں رہنے کی اجازت دی جائے۔ تو میںنے دفتر کو ہدایت کی کہ اسے اجازت دی جائے۔ گو وہ بعد میں آئی نہیں نہ معلوم دفتر کا خط اسے نہیں ملا یا اس نے ارادہ بدل دیا۔ بہرحال اس معاملہ میں بھی میاں فخرالدین صاحب نے واقعات کو بالکل اُلٹ کر بیان کیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ بوجہ اس کے کہ معاملہ ایک تیسرے شخص کے متعلق ہے، میں تفصیل سے واقعات بیان نہیں کر سکتا۔
عبدالرحمن کی ملازمت
اب عبدالرحمن کی نوکری کا سوال رہ جاتا ہے۔ ہمیں سندھ کی زمینوں کیلئے قوی اور مضبوط آدمیوں کی ضرورت
ہوتی ہے۔ ایک سال پہلے تک اس جگہ ملازموں کی تلاش ہمارے لئے ایک تکلیف دہ سوال بن رہا تھا۔ بہت سے لوگ وہاں جا کر گھبرا کر آ جاتے اور ہمارا روپیہ ضائع ہو جاتا۔ صرف میری ہی زمینوں پر سے آٹھ دس آدمی بھاگ چکے ہیں اور اس طرح میرا چار سَو روپیہ کے قریب ضائع ہو چکا ہے اس لئے وہاں ایسے آدمیوں کو چن کر بھجوایا جاتا ہے جو مضبوط اور محنت کش ہوں اور وہاں کی آب و ہوا میں گزارہ کر سکیں۔ میاں عبدالرحمن چونکہ اچھی صحت کے آدمی ہیں میں نے ان سے کہا کہ اگر تم حساب رکھنے کا کام سیکھ لو تو تمہیں سندھ بھیجا جا سکتا ہے اور تم کو ۲۵ روپیہ ماہوار دیئے جائیں گے۔
سندھ کیلئے ۲۵ روپیہ ماہوار اُس وقت کے لحاظ سے کوئی بڑی تنخواہ نہ تھی۔ وہاں میرا ایک ملازم ہے۔پرائمری پاس بھی نہیں ہے مگر ۲۳ روپیہ ماہوار اور ایک من غلہ تنخواہ انہیں دی جاتی ہے جو چھبیس روپے ماہوار سے زائد بنتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا تھا کہ وہاں لوگ جانے کو تیار نہ ہوتے تھے کیونکہ آب و ہوا خراب تھی اور سانپ بھی شروع میں اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں دو دو تین تین کیس ہر ہفتہ ہو جاتے تھے۔ وہاں کے ایک انجینئر کی نسبت ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ کرسی پر بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اس نے تھک کر پاؤں بوٹ سے باہر نکالے ایسا کرنا تھا کہ ایک سانپ نکل کر اُس کی طرف بڑھا اور وہ بمشکل بچا۔ اب آبادی کی وجہ سے آب و ہوا بھی اچھی ہو رہی ہے۔ دوسرے آٹھ ماہ سے ہم نے وہاں ہسپتال بھی کھول دیئے ہیں، علاج کا سامان فوراً میسر آ جاتا ہے، نیز سانپ بھی آبادی کی وجہ سے کم ہو رہے ہیں۔ پس اب سات آٹھ ماہ سے لوگوں کی اِدھر توجہ ہوئی ہے اس سے پہلے دو تین سال ہمیں ملازموں کا تلاش کرنا سخت مشکل ہوتا تھا۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ کام زمیندارہ ہے اگر زمینداروں کو بھجواتے تھے تو وہ چند ماہ کے بعد کام چھوڑ کر خود اپنا زمیندارہ شروع کر دیتے تھے اور ملازمت کا تسلسل ٹوٹ جاتا تھا۔ ہمارے روپیہ سے تجربہ کر کے لوگ خود فائدہ اُٹھاتے تھے۔ اور غیر زمینداروں سے مضبوط آدمی جو زمیندارہ کام کی مشکلات کو برداشت کر لیں ملنے مشکل تھے۔
پس ہم حسبِ حالات وہاں کی تنخواہیں دینے پر مجبور تھے جو یہاں سے بہت زیادہ ہوں۔ میاں عبدالرحمن اس سے چھ ماہ پہلے سے بعض کام آنریری طور پر کر کے کچھ زمیندارہ کام سے واقف ہو گئے تھے اور جسم سخت آب و ہوا کی برداشت کے قابل تھا اور اکاؤنٹس کا کام بھی سیکھ لیا تھا اور پھر کمپاؤنڈری بھی سیکھے ہوئے تھے اس لئے مَیں نے ان کو تحریک جدید کی نئی زمینوں پر کام کرنے کیلئے مقرر کر دیا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہاں تنخواہوں کا حساب یہاں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ایک گریجوایٹ مینیجر ہیں وہ یہاں دس روپے پر کام کرنے کو راضی تھے میں انہیں پندرہ یا بیس دیتا تھا۔ وہ آج کل وہاں کام کر رہے ہیں اَڑتالیس روپے تنخواہ ہے، دو من غلّہ ملتا ہے، مکان مُفت ہے اور پیداوار پر انعام الگ ملتا ہے۔ سب ملکر ستر روپے کے قریب تنخواہ ہو جاتی ہے۔ اب کُجا پندرہ بیس اور کجا ستّر۔ عرصہ بھی زیادہ نہیں ہوا، میرے پاس سندھ میں کام کرتے ہوئے انہیں صرف ایک سال کے قریب ہوا ہے۔ ان کے ساتھ جو شرائط ہیںان کے مطابق وہ اچھی طرح کام کریں تو سَو روپیہ ماہوار ان کو مل جانا بھی بعید نہ ہو گا۔ اسی طرح ایک دوسرے مینیجر ہیں وہ غالباً چھ سات جماعت پاس ہیں لیکن بڑے تجربہ کار ہیں، انہیں ۴۴روپے ماہوار تنخواہ اور دو من غلہ اور پیداوار پر انعام الگ ملتا ہے، جو اس سال تین سَو سے زائد تھا، گویا انہیں کُل اسّی روپے ماہوار کے قریب بیٹھے۔ اس سال اِنْشَائَ اللّٰہُ امید ہے کہ انہیں سَو روپے ماہوار سے بھی زیادہ ملے گا۔ حالانکہ ان کی تعلیم میاں عبدالرحمن سے کم ہے ہاں تجربہ ہے۔ میاں عبدالرحمن کچھ مدت میرے باغ میں کام کی نگرانی کرتے رہے تھے اور وہاں مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ یہ زمیندارہ کام اچھی طرح کر سکیں گے۔ یہ کام وہ ۱۹۳۵ء سے کر رہے تھے، جنوری ۱۹۳۶ء میں مَیں نے ان کے بارہ میں تجویز کی کہ انہیںسندھ بھجوا دیا جائے۔ سندھ سے واپس آ کر کچھ دنوں مَیں دوسرے کاموں میں مشغول رہا، مارچ کے تیسرے ہفتہ میں مَیں نے محاسب صاحب سے کہا کہ ان کو حساب کا کام بھی سکھا دیں اور ۲۵۔ مارچ کو جیسا کہ دفتر محاسب نے رپورٹ کی ہے انہوں نے وہاں باقاعدہ کام کرنا شروع کیا اور ملازمت پر مقرر ہوئے ۳۱۔مارچ کو یایکم اپریل کو شام کے وقت (جیسا کہ امور عامہ کے ریکارڈ سے میں نے تاریخیں معلوم کی ہیں اور ان کی بناء پر دوسری تاریخوں کا اندازہ کیا ہے۔) مصری صاحب نے مجھ سے میاں عبدالرحمن کے متعلق شکایت کی کہ ایک گواہ کہتا ہے، وہ بھی چوری میں شامل ہیں۔ گویا ان کے تقرر کے بعد انہوں نے اغلب ہے کہ منگل یا شاید بدھ کے روز جبکہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو کیوں نہیں ملے ، انہوں نے مجھ سے یہ بات کی ہے۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس کا کوئی ثبوت مجھے نہیں ملا اور بعد کی پولیس کی تفتیش نے بھی اسے غلط ثابت کر دیا۔ پس یہ خیال کہ ملازمت کے معاملہ میںان سے کوئی رعایت ہوئی ہے یا کہ ان کے خلاف شکایت موصول ہونے پر انہیں انعام ملا ہے، سراسر غلط ہے اور محض اندرونی کدورت کی وجہ سے یہ خیالات ملتانی صاحب اور مصری صاحب کے دل میں پیدا ہوئے ہیں، میں نے تو اس معاملہ میں بھی ایسی احتیاط سے کام لیا ہے کہ کم لوگ ایسی احتیاط سے کام لیتے ہونگے۔ مثلاً اوّل وہ دفتر کے بعد میرے باغ میں آنریری طور پر کام کیا کرتے تھے، جب مصری صاحب نے مجھ سے انکی شکایت کی تو پہلا کام میں نے یہ کیا کہ باغ کا کام اور آدمی کے سپرد کر دیا اور ان سے کہہ دیا کہ اب تمہاری ضرورت نہیں مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ پھر بھی آ کر نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ اس پر میں نے انور صاحب کو جن کے ماتحت وہ اس وقت آ چکے تھے کہا کہ ایک شخص اخلاص سے مفت کام کرتا ہو اور باوجود منع کرنے کے نہ رکتا ہو تو اسے میرا سختی سے منع کرنا بدتہذیبی میں داخل ہو گا اس لئے آپ ان کو منع کر دیں کہ جو زائد وقت بھی ہو وہ دفتر میں دیا کریں دوسرا کام نہ کریں مگر وہ اس پر بھی نہ رُکے اور انہوں نے کہا کہ میں اگر اپنے وقت میں سے کچھ ثواب کیلئے لگاتا ہوں تو دفتر کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور میرے پاس بھی کئی شکایات لکھیں لیکن میں نے انور صاحب کو تاکید کی کہ انکو ضرور ہٹا دو۔ ورنہ مصری صاحب کی طبیعت میں سخت بدظنی ہے، وہ ضرور یہ نتیجہ نکالیں گے کہ چونکہ ان کا کام کرتا ہے اس لئے اس کی رعایت کرتے ہیں۔ (اس موقع پر مولوی عبدالرحمن صاحب انور مولوی فاضل نے اُٹھ کر بیان دیاکہ حضور کے ارشاد پر میں نے اسے وہاں جانے سے روک دیا تھا اور تحریری طور پر آرڈر دیکر اس کے دستخط حاصل کر لئے تھے۔) اس کے بعد وہ مجھے چِٹھیاں لکھتا رہا کہ مجھے کیوں منع کیا گیا ہے مگر میں نے کبھی جواب نہیں دیا ہاں بہت دق کرنے پر ایک دفعہ یہ جواب دیا کہ جب تم ایک جگہ کام کرتے ہو اور تمہارا وقت ان کا ہے تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ ان کے روکنے پر شکایت کرو۔ اس کے بعد اس کے متعلق مصری صاحب کے لڑکے نے جب پھر شکایت کی تو میں نے انور صاحب سے کہا کہ بغیر جُرم کے تو ہم ان کو کوئی سزا نہیں دے سکتے۔ لیکن ایسے حالات میں چھوٹے قصور بھی بڑے ہو جاتے ہیں۔ پس آپ میاں عبدالرحمن کے کام کی نگرانی کریں اور اگر کوئی قصور ثابت ہو تو فوراً میرے سامنے معاملہ پیش کریں، تا انہیں کام سے علیحدہ کر دیا جائے تا ان کا وجود دوسروں کیلئے ابتلاء کا موجب نہ بنے۔ مگر جب تک قصور سرزد نہ ہو دیانتداری کے خلاف ہے کہ ہم کوئی قدم محض مصری صاحب کو خوش کرنے کیلئے اٹھائیں۔ غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے انہیں سندھ کیلئے ملازم رکھا گیاتھا لیکن انہیں قادیان اس لئے روکا گیا تھا کہ تا اگر مصری صاحب کے بتائے ہوئے الزامات میں سے کسی کے گواہ ملیں اور وہ تحقیق کرانا چاہیں تو سندھ سے انہیں واپس نہ بلانا پڑے۔ چنانچہ وہ خود کئی دفعہ پوچھ چکے ہیں کہ جب مجھے سندھ کیلئے رکھا گیا تھا تو وہاں بھیجا کیوں نہیں جاتا۔ ان کی تعلیم نوجماعت تک ہے اور اس کے بعد انہوں نے غالباً لدھیانہ میں بجلی کے کام کا امتحان پاس کیا ہے اور پھر کمپاؤنڈری کا کام بھائی کی دُکان پر سیکھا ہے اوراکاؤنٹنٹ کا کام دفتر محاسب میں سیکھا ہے۔
اور میں بتا چکا ہوں کہ میرا ایک اپنا ملازم جو پرائمری پاس بھی نہیں انعام وغیرہ ملا کر گذشتہ سال ۳۲ روپے تک ماہوار وصول کرتا رہا ہے۔ تو تنخواہیں حالات کے مطابق ہوتی ہیں اب چونکہ وہاں وہ دقتیں نہیں رہیں جو پہلے تھیں اور آبادی بڑھ رہی ہے، ہسپتال اور مدرسے جاری ہو گئے ہیں، ڈاکخانہ جاری ہو گیا ہے، اس لئے اب چند ماہ سے کم تنخواہوں پر بھی آدمی مل جاتے ہیں مگر ا س کے یہ معنی نہیں کہ ہم پہلوں کو اس بناء پر نکال دیں کہ اب ہمیں سستے آدمی ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ مگر یہ سستے آدمی بھی ایسے زیادہ سستے نہیں۔
اب جو لوگ انٹرنس پاس نہ ہوں اور باقاعدہ ملازم ہوں ہم انہیں ۲۰ روپے ماہوار اور ایک من غلہ اور انعام اگر اچھاکام کرے الگ دیتے ہیں۔ جو سارا ملکر تیس روپے کے قریب اب بھی ہو جاتا ہے۔
ایک مغربی بدمذاقی کا واقعہ
ایک اور واقعہ بھی زیر تحقیق آیا ہے۔ یہ واقعہ لاہور کا ہے جو احمدیہ ہوسٹل میں ہوا۔ یہ ایک
مغربی بدمذاقی ہے کہ کالجوں میں نئے جانے والوں کے ساتھ پرانے طالب علم مذاق وغیرہ کرتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب احمدیہ ہوسٹل کا بیان ہے کہ بعض پرانے طلباء نے نئے طلباء کے ساتھ ہنسی کی، اس کے جواب میں بعض نئے لڑکوں نے مصری صاحب کے بڑے لڑکے کے ساتھ مل کر پُرانوں سے کچھ مذاق کیا، انہوں نے اس مذاق کو حد سے زیادہ سمجھا اور چھت پر جا کر جہاں وہ لڑکے اُس وقت تھے ان سے جھگڑا شروع کر دیا۔ جھگڑے کو بڑھتے دیکھ کر عزیزم مرزا منیر احمد میرے بھتیجے اور عزیزم مرزا منور احمد میرے لڑکے کو دوسرے لڑکوں نے کہا کہ چل کر لڑائی بند کرا دیں۔ وہ اوپر گئے اور لڑائی کو بند کرایا۔ جب چھت سے لڑکے اُتر آئے تو پھر جوش میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ مرزا منیر احمد نے پھر صلح کرانی شروع کی مگر مصری صاحب کے لڑکے نے اسے غصہ میں تُو تُو کہہ کر بُلانا شروع کیا۔ منیر احمد نے اس پر غصہ میں آ کر مصری صاحب کے بڑے لڑکے کو مُکّا مارا اور لڑائی دوسروں سے ہٹ کر ان دو میں آ گئی۔ اس پر میرا لڑکا مرزا منور احمد لڑائی کو بند کرانے کیلئے آگے بڑھا تو مصری صاحب کے چھوٹے لڑکے نے خیال کیا کہ شاید میرے بھائی کو مارنے کو آگے بڑھا ہے، اور اس نے پیچھے سے آکر منور احمد کو مُکّا مارا۔ اس پر منور احمد کو بھی جوش آیا اور اُس نے اس کو مُکّا مارا۔ کچھ شورو شر کے بعد دوسرے لڑکوں نے معاملہ رفع کرا دیا۔ اور سپرنٹنڈنٹ نے بعد تحقیق سب کی آپس میں صلح کرا دی اور غالباً اسی وجہ سے اس کی رپورٹ فوراً میرے پاس نہیں کی گئی۔ مگر کسی اور شخص نے میرے پاس رپورٹ کر دی۔ اتفاقاً اُسی دن مَیں سخت بیمار ہو گیا اور ایک وقت میں خطرہ پیدا ہو گیا کہ شاید یہ آخری وقت ہے۔ چونکہ مَیں نے بہت سے لوگوں کا قرض دینا ہے، میں ڈرا کہ کہیں کسی کا قرض ریکارڈ سے رہ نہ جائے۔ میں نے راتوں رات فون کر کے منور احمد کو بُلوایا تا کہ اُس کی اور اُس کے بڑے بھائی مرزا مبارک احمد کی موجودگی میں قرض داروں کے حقوق کے متعلق وصیت کر کے ان کے حقوق محفوظ کر دوں اور ان کے اس پر دستخط کرا دوں کیونکہ یہی دو جوان لڑکے میرے ہندوستان میں موجود ہیں۔ منور احمد آدھی رات کو موٹر میں قادیان پہنچا۔ خیراللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رات خیریت سے گزر گئی اور طبیعت بحال ہونے لگ گئی۔ جب دوسرے دن شام کو میری طبیعت زیادہ بحال ہوئی تو میں نے مرزا منور احمد کو بلوایا اور اس کی والدہ اور مرزا مبارک احمد کی موجودگی میں اس سے واقعہ پوچھا۔ اس نے جو واقعہ بتایا اسی طرح بعد میں سپرنٹنڈنٹ نے رپورٹ کی۔ مگر چونکہ اس کا اقرار تھا کہ مبارک احمد پسر مصری صاحب نے اس دھوکا سے کہ مَیں اُس کے بھائی کو مارنے لگا ہوں جب مجھے مارا تو میں نے بھی غصہ سے اسے مارا اس لئے میں نے اُسے کہا کہ یہ جواب ایک شریف ہندو اور ایک شریف عیسائی بھی دے سکتا ہے۔ تم مسلمان ہو اور مسلمان بھی معمولی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور خلیفۂ وقت کے بیٹے۔ تم یہ بتاؤ کہ تم نے اس تعلق کے لحاظ سے کون سا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں، سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلّل اختیار کرو اور میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ تم لوگ عفو سے کام لو۔ تم نے حضرت مسیح موعود اور میری تعلیم پر کس طرح عمل کیا۔ اور اگر تم نے عمل نہ کیا تو دوسرے لوگوں پر ہم کیا حُجّت کر سکتے ہیں۔ تم کو چاہئے تھا کہ مار کھاتے مگر ہاتھ نہ اُٹھاتے۔ اگر مجھے یہ خبر آتی کہ تم نے مار کھائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آگے سے جواب نہیں دیا، تو مجھے نہایت خوشی ہوتی۔ اس میری بات کو سن کر اُس کا سرندامت سے جُھک گیا اور آنکھوں سے آنسو آگئے اور اس نے کہا کہ مجھے بعد میں محسوس ہو گیا تھا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ مجھے اس قسم کا نمونہ نہیں دکھانا چاہئے تھا۔ (میاں منور احمد صاحب اُس وقت اتفاقاً میرے پاس بیٹھے تھے حضور کی تقریر کے اس حصہ پر اُن کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ گویا وہ اِس پر بہت نادم تھے۔ رپورٹر)
یہ تو میرا طریق عمل ہے لیکن اس کے برخلاف ان لوگوں کا طریق عمل دیکھیں۔ اس واقعہ کی اطلاع ان لوگوں کو بھی ملی اور اس پر میاں فخرالدین صاحب نے جو اظہارِ خیال کیا اس کے متعلق ماسٹر فضل داد صاحب کا حلفیہ بیان درج ذیل ہے:۔
ماسٹر فضل داد صاحب کا حلفیہ بیان
ماسٹر صاحب لکھتے ہیں:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کے دن مَیں چند منٹ کیلئے جلسہ سے باہر احمدیہ چوک کی طرف آیا، کرم الٰہی صاحب کی دُکان پر شیخ مصری صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اَلسَّـلامُ عَلَیْکُمْ کے بعد گذرنے لگا تو شیخ صاحب نے مجھے بُلایا اور کہا کہ کیا آپ نے کچھ سنا ہے کہ لاہور میں لڑکوں کی لڑائی ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ صرف یہی سنا ہے کہ فسٹ ائیروالوں کے ساتھ کچھ جھگڑا ہوا ہے، مفصّل مجھے یاد نہیں۔ اس پر انہوں نے ساری تفصیل سنائی جس میں انہوں نے کہا کہ میرے لڑکوں کو منیر احمد اور منور احمد صاحبزادگان نے مار اہے۔ اسی دوران میں فخرالدین صاحب ملتانی اپنی دُکان سے شاید باہر آکر شیخ صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی شرافت ہے کہ گورے چِٹے لڑکوں کے واسطے دوسروں کو لاٹھیاں ماری جاویں اور پھر ماری بھی بے قصور جائیں۔ میں نے اُن کو عرض کیا کہ یہ بھی کوئی شرافت نہیں کہ صاحبزادگان پر آپ اس طرح الزام لگاتے ہیں۔ میں اس کے بعد وہاں سے چلا گیا، یہ وہیں رہے۔
محمد فضل داد عفی عنہ بقلم خود
آپ لوگ ان کے اندرونی بُغض کا اور میرا جو اِن کے متعلق رویہ تھا، اس سے بھی اندازہ کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعات سے ثابت ہے کہ یہ لوگ دیر سے خلافت سے الگ ہو چکے تھے۔ اب ان کے خلیفہ مصری صاحب تھے۔ اندر ہی اندر کھچڑیاں پک رہی تھیں اور ہر واقعہ کو مروڑ کر اپنے بغض کی رنگ آمیزی کے بعد میرے خلاف پروپیگنڈا کا ایک ذریعہ بنایا جا رہا تھا۔
مومن ہونے کیلئے ضروری شرط
خلاصہ یہ کہ مولوی تاج الدین صاحب کی رپورٹ پر تحقیق ہوئی اور اس کے جواب
میں میاں فخرالدین صاحب نے جو بیان دیا اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف سے انکے منہ سے وہ کچھ کہلوا دیا جو اُن کے اُس جُرم کو ظاہر کرنے والا تھا جو سالہا سال سے وہ کرتے چلے آتے تھے۔ انہوں نے اس بیان میں علاوہ اور الزامات کے کُھلے الفاظ میں مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں نے چوری کے واقعہ میں فریق ثانی کی رعایت کی ہے حالانکہ میں نے ہر قدم پر ان کی مدد کی مگر انہوں نے متواتر مجھے ظالم اور چوروں کا ساتھی قرار دیا اور فحش کلامی اور ہر قسم کے اتہامات لگانے سے بھی باز نہیں رہے حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے فَلَا وَ َرَبِّکَ لَاُیُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْاِ فیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۱۶؎
یعنی اے محمد! میں اپنی ذات کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک تجھے اپنے جھگڑوں پر حَکم مقرر نہ کریں اور پھر جب تو فیصلہ کرے تو اس کے متعلق اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ دل سے بھی اس کے صحیح ہونے کو تسلیم کریں۔ گویا قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ جب رسول یا اس کا خلیفہ فیصلہ کرے تو اسے ٹھیک مان لیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ خلیفہ غلط فیصلہ کر دے مگر پھر بھی اسے رغبتِ دل کے ساتھ تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو سزا دینا چاہے اور اس لئے وہ سچا ہونے کے باوجود مقدمہ میں جھوٹا ثابت ہو جائے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ آیت صرف آنحضرت ﷺ کیلئے ہے کیونکہ وہ نبی تھے۔ مگر اس معاملہ میں نبی اور خلیفہ میںکوئی فرق نہیں کیونکہ نبی اور خلیفہ میں اس جگہ فرق ہوتا ہے جہاں نبوت کا مخصوص سوال ہو اور مقدمات میںنبوت کے مقام کو کوئی دخل نہیں کیونکہ خود آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں مقدمات کے فیصلہ کرنے میں غلطی کر سکتا ہوں اگر نبی کے فیصلے منصبِ نبوت کے ماتحت ہوتے تو وہ ان میں کبھی غلطی نہ کر سکتا۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ ایک مقدمہ کا فیصلہ ایک شخص کے حق میں کر دیا تو دوسرے نے کہاکہ میں اس فیصلے کو تو مانتا ہوں مگر یہ ہے غلط۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہو سکتاہے کہ کوئی لسّان شخص مجھے دھوکا دیکر مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ کروالے مگر میرا فیصلہ اسے خداتعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا۔۱۷؎ گویا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ قضاء کے بارہ میں مَیں بھی غلطی کر سکتا ہوں۔ مگر باوجود اس کے قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ شرح صدر سے تیرے فیصلے کو نہیں مانیں گے تو یہ ایمان والے نہیں ہیں۔ پس اس معاملہ میں نبی اور خلیفہ کی پوزیشن ایک ہی ہے۔ نظام کے قیام کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ ایک انسان کو ایسا حَکم مان لیا جائے کہ جس کے فیصلہ کے آگے کوئی چون و چرا نہ کرے۔ یہ لوگ کہتے ہیںکہ کیا خلیفہ بے گناہ ہوتا ہے؟ کیا وہ غلط فیصلہ نہیں کر سکتا؟ مگر میں کہتا ہوں کہ اے بیوقوفو! کیا مجسٹریٹ بے گناہ ہوتے ہیں؟ کیا وہ غلطی نہیں کر سکتے؟ پھر یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ وہ رشوت بھی لیتے ہیں، جھوٹے بھی ہوتے ہیں، متعصّب بھی ہوتے ہیں، پکڑے جاتے اور سزا بھی پاتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ حکومتوں نے ان کے فیصلہ پر سخت جرح کرنے کو ہتکِ عدالت قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ تم اگر کسی مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف اِس قسم کی بات کہو کہ اُس نے رعایت سے کام لیا ہے توفوراً جیل خانہ میں بھیج دیئے جاؤ۔ مگر کیا خدائی گورنمنٹ کی تمہارے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں کہ جو کچھ منہ میں آئے کہہ دیتے ہو۔ کیا تم میں سے کوئی عَلَی الْاِعْلان کہہ سکتا ہے کہ مجسٹریٹ نے دیانت داری کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ مگر یہ کہنے میں تمہیںکوئی باک نہیںکہ خلیفہ نے دیانت داری کے خلاف فیصلہ کیا ہے اور اس کا نام حُریّت و آزادی رکھتے ہو۔ لیکن سرکاری مجسٹریٹ کے فیصلہ کے متعلق یہ بات کہتے وقت حُریّت و آزادی کہاں جاتی ہے۔ اس کے متعلق صرف اس وجہ سے نہیں کہتے کہ گورنمنٹ کی جُوتی سر پر ہوتی ہے۔ تم میں بعض لوگ بیٹھے ہیں جو کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات پر جماعت سے نکال دیا مگر سوچو! کیا یہ بات چھوٹی ہے؟ قرآن کریم نے کہا ہے کہ جو کہتا ہے کہ نبی یا اس کے جانشینوںکا فیصلہ غلط ہے وہ مومن ہی نہیں۔ صحابہؓ نے تو اس بات کو اس قدر اہم قرار دیا ہے کہ ایک دفعہ دو شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آئے۔ اور کہاکہ ہمارا فیصلہ کر دیں۔ ان میں سے ایک منافق تھا۔ رسول کریم ﷺ ابھی بات سن ہی رہے تھے کہ اُس نے خیال کیا، شاید فیصلہ میرے خلاف ہی نہ کر دیں! اس لئے اُس نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے، ہم اپنا یہ مقدمہ حضرت عمرؓ کے پاس لے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لے جاؤ چنانچہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور دورانِ گفتگو میں حضرت عمرؓ کو اِس بات کا علم ہوا کہ پہلے یہ آنحضرت ﷺ کے پاس گئے تھے مگر وہاں منافق یہ کہہ کر آیا ہے کہ حضرت عمرؓ سے ہم فیصلہ کرالیں گے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ذرا ٹھہرو، میں ابھی آتا ہوں گھر گئے اور تلوار لا کر اُس شخص کی گردن اُڑا دی۔۱۸؎ اس کے رشتہ دار رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت لیکر گئے۔ آپ نے فرمایا میں یہ ماننے کو تیار نہیںکہ عمر مومنوں کی گردنیں کاٹتا پھرتا ہے۔ مگر آپؐ نے حضرت عمرؓ کو بلا کر دریافت فرمایا۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہ شخص اس طرح آپ کو کہہ کر گیا ہے اس لئے میں نے مار دیا کہ جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عمر پر زیادہ اعتبار کرتا ہے، اُس کی سزا یہی ہے۔ بیشک حضرت عمرؓ کا یہ فعل درست نہ تھا، ہماری شریعت اِس کی اجازت نہیں دیتی لیکن جہاں رسول کریم ﷺ نے بِحُکْمِ اللّٰہ اُن کے اِس فعل کو ناپسند فرمایا، وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کے اصل کو تسلیم کیا کہ ایسا کہنے والا مومن نہیں کہلا سکتا اور فرمایا۔ فَلاَ وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَبَیْنَھُمْ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ گو قتل کا فعل درست نہیں مگر یہ بھی درست نہیں کہ وہ شخص مومن تھا اور عمرؓ نے مومن کو قتل کیا۔ جو شخص تیرے فیصلہ کو نہیں مانتا۔ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک ہرگز مومن نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک فاسق کو مارا تھا۔ پس جب آنحضرت ﷺ خود فرماتے ہیں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں تو پھر خلیفہ سے غلطی کس طرح ناممکن ہے۔ مگر پھر بھی اس کے فیصلہ کو شرح صدر کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔ اس اصل کو بُھلا دو تو تمہارے اندر بھی تفرقہ اور تنفّر پیدا ہو جائے گا۔ اِسے مٹا دو اور لوگوں کو کہنے دو کہ خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے تو تم بھی پراگندہ بھیڑوں کی طرح ہو جاؤ گے جن کو بھیڑئیے اٹھا کر لے جائیں گے۔ اور دنیا کی لعنتیں تم پر پڑیں گی۔ جسے خدا نے عزت دی ہے، تمہارے لئے اس کی عیب جوئی جائز نہیں۔ اگر وہ غلطی بھی کرتا ہے اور اُس کی غلطی سے تمہیں نقصان پہنچتا ہے تو تم صبر کرو۔ خدا دوسرے ذریعہ سے تمہیں اس کا اجر دے گا اور اگر وہ گندہ ہو گیا ہے تو جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح فرماتے ہیں، تم خدا کے آگے اس کا معاملہ پیش کرو۔ وہ اگر تم کو حق پر دیکھے گا اُسے خود موت دے دیگا اور تمہاری تکلیف دور کر دے گا۔ مگر تمہارا اپنے ہاتھ میں قانون لینا اور ظاہر یا خفیہ خلیفہ کی ذات یا عزت پر حملہ کرنا تم کو خداتعالیٰ کی *** کا مستحق بناتا ہے۔ اگر تم خداتعالیٰ کے قائم کردہ کی عزت پر ہاتھ ڈالو گے تو یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تمہاری عزت کی چادر کو چاک چاک کر دے گا اور تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے۔ تمہاری عزت اسی میں ہے کہ خلافت کی عزت کرو اور جو شخص اس کی بے عزتی کیلئے کھڑا ہو، تم اُس سے تعلق نہ رکھو۔ بے شک اسلام میں قانون کا اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں ہے لیکن ایسے شخص سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کر کے تم اپنے فرض کو ادا کر سکتے ہو اور اعلان کر سکتے ہو کہ اب یہ شخص ہم میں سے نہیں ہے۔ اب یہ بات تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ چاہے تو خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کی عزت کو قائم کر کے خود بھی عزت پاؤ اور چاہے تو اس کی عزت پر ہاتھ ڈالو اور خدائی تلوار تمہیں اور تمہاری اولادوں کو تباہ و برباد کر دے۔
(الفضل ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۷ء)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ اُحد + سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۴۔۸۵ مطبوعہ ۱۹۳۶ء مصطفی البابی مصر
۲؎ النور :۱۳ ۳؎تا۶؎ النساء :۵۹ ۷‘۸؎ النساء: ۶۰
۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۱۷۳ المکتب الاسلامی بیروت
۱۰؎ بوّاح: کُھلم کُھلا
۱۱؎
۱۲؎ مرارت: کٹروا پن، شیخی
۱۳؎ سودیشی : اپنے دیس کا
۱۴؎ تحصیل کا وہ عہدیدار جو واصل باقی کا رجسٹر رکھتا ہے۔
۱۵؎ مسلم-مقدمۃ الکتاب- باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع
۱۶؎ النساء : ۶۶
۱۷؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۳۲۰ المکتب الاسلامی بیروت ۱۳۱۳ھ
۱۸؎ الصارم المسلول علٰی شاتم الرسول صفحہ ۳۹،۴۰ ابن تیمیہ طبعۃ اولٰی حیدرآباد دکن



مشکلات کے مقابلہ میں بہادرانہ
طریق عمل اختیار کرو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مشکلات کے مقابلہ میں بہادرانہ طریق عمل اختیار کرو
(تقریر فرمودہ ۱۰جولائی ۱۹۳۷ء)
( حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسبِ ذیل تقریر ۱۰۔جولائی ۱۹۳۷ء کو اُس دعوت کے موقع پر فرمائی جو جمعیۃ فتیان الاحمدیہ نے جناب مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل کے اعزاز میں جیل سے رہا ہونے پر دی۔)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھے اِس وقت سردرد اور گلے میں تکلیف ہے لیکن مَیں نے نہ چاہا کہ اِس تقریب سے غیرحاضر رہوں جس میں اِس وقت احباب جمع ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک ہماری جماعت ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس حالت کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہوئے جو بدقسمتی سے نظامِ حکومت میں پیدا ہو گئی ہے ہماری جماعت کا ایک فرد جیل خانہ میں گیا۔ ہمیں عدالتوں سے شکوہ نہیں اس لئے کہ عدالت اس قانون کی پابندی کیلئے مجبور ہے جو اس کے سامنے حکومت نے رکھا اور اُس شہادت کو قبول کرنا یا کم از کم اُس کی طرف مائل ہونا قدرتی امر ہے جو حکومت کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ آگے یہ حکومت کا کام ہے خصوصاً پولیس کا کہ ایسی شہادت پیش کرے جو سچی ہو مگر بدقسمتی سے جیسا کہ ہائی کورٹوں کے فیصلے دلالت کرتے ہیں‘ ہندوستان کی پولیس اس بارہ میں بہت کوتاہی کرتی ہے اور اِس وجہ سے مُجرم اور غیر مُجرم میں امتیاز نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ لوگ قربانی کر کے حکومت کی توجہ اِدھر پھیریں۔
ابھی گزشتہ دنوں یہ سوال پیش ہوا تھا کہ ایگزیکٹو اورجوڈیشل کو الگ الگ کیا جائے مگر حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ایگزیکٹواور جوڈیشل کے اکٹھے ہونے کی خرابی کو نمایاں طور پر حکومت کے سامنے لایا نہیں گیا ورنہ حالت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ کوئی دیانت دار یہ کہہ نہیں سکتا کہ اس بارے میں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ ایک مجسٹریٹ جس کی ترقی کا انحصار سپرنٹنڈنٹ پولیس کی مسکراہٹ پر منحصر ہو کیونکر ممکن ہے کہ اس گواہی کو دیکھ کر جسے سپرنٹنڈنٹ پولیس یا دوسرے پولیس والوں کی طرف سے پیش کیا جائے‘ ردّ کر دے وہ جانتا ہے کہ میری کامیابی یا ناکامی اس سے وابستہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض حماقت سے یہ بات پیش کیا کرتے ہیں کہ بہرحال جوڈیشل اور ایگزیکٹو کو اگر الگ بھی کیا جائے تو بھی ایک مقام پر جا کر وہ ایک ہاتھ میں جمع ہو جائیں گی۔ مگر ابتدائی حالتوں میں ایسا ہونا اور بات ہے اور انتہائی حالتوں میں ہونا اور بات۔ انگلستان میں بھی بادشاہت یا وزارت کے ہاتھ میں جوڈیشل اور ایگزیکٹو محکموں کی باگیں جمع ہو جاتی ہیں مگر ان بالاافسروں کو لوکل معاملات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی‘ اُن کا عُہدہ اتنا بالا اور بلند ہوتا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے اور جائز طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان معاملات میں دخل نہ دیں گے۔ پس سوال ماتحت اور چھوٹے افسروں کا ہے جن کا روزانہ میل جول آپس میں ہوتا ہے اور جو ایک دوسرے سے تعلقات رکھتے ہیں۔ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ ان تعلقات کو نبھائیں اور ایک دوسرے کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے منشاء کے مطابق کام کریں۔
میں نے اس بات کو مدنظررکھ کر قبرستان کے مقدمہ میں جو ملزم تھے‘ اُن کو مشورہ دیا تھا کہ اگربطور سزا جُرمانہ ہو تو ادا نہ کریں اور قید قبول کریں ہاں اگر حُکّام خود جُرمانہ لے لیں تو اور بات ہے۔ خداتعالیٰ کے منشاء کے ماتحت باقی سارے ملزمین تو رہا ہو گئے اور صرف مولوی عبدالرحمان صاحب باقی رہ گئے جن کو موقع مل گیا کہ جیل میں چلے جائیں۔ مگر ان کی مثال امریکہ کے اُن سیّاحوں کی سی ہے جو پندرہ بیس روز کیلئے ہندوستان آتے اور پھر واپس جا کر ہندوستان کی سیاسیات پر کتاب لکھ دیتے ہیں اگر وہ لوگ پندرہ بیس روز کی سیاحت کے بعد ہندوستان پر کتاب لکھ سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مولوی عبدالرحمن صاحب پندرہ بیس روز جیل خانہ میں رہ کر جیل خانہ کے متعلق کتاب نہ لکھ دیں۔ اگر وہ کسی اچھے مصنّف سے مل کر ایسی کتاب لکھیں تو میرا خیال ہے کہ بہت مُفید ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کے اثرات جو عادی مُجرم ہوتے ہیں جیل خانہ سے نکلتے ہوئے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمار لوٹا اور کمبل محفوظ رکھنا‘ ہم پھر آئیں گے لیکن ایک شریف انسان کا یہ خیال نہیں ہوتا۔ چاہے یہ خیال ہو کہ اگر خداتعالیٰ کے رستہ میں پھر یہ تکلیف اُٹھانی پڑے تو پھر تیار ہوں۔ مگر یہ غیرمعیّن صورت ہوتی ہے کہ اگر خداتعالیٰ نے امتحان لینا ہو تب قید کی تکلیف اُٹھائیں یہ نہیں کہ ان کی خواہش ہو کہ پھر اسی جیل خانہ میں آئیں۔ بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیںجوجیل خانہ سے بہت کچھ کما کر لاتے ہیں‘ وہ ملازمین سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں اور قیدیوں کو سگریٹ تمباکو‘ شراب وغیرہ پہنچاتے ہیں۔ روپیہ کی چیز چار آنے کی قیدیوں تک پہنچتی ہے باقی ملازموں اور کام کرنے والے قیدیوں کے حصہ میں آتی ہے ان کے قید کے زمانہ میں ان کا حصہ جمع ہوتا رہتا ہے اور جب وہ باہر آتے ہیں تو لے لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر کہیں کہ ہم پھر اس جیل خانہ میں آئیں گے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔
مجھے ایک افسر نے بتایا کہ جیل خانہ کے ایک سپرنٹنڈنٹ نے جو مر گیا ہے‘ جیل خانہ سے اپنے گھر آٹے کی کچھ بوریاں بھجوائیں۔ چونکہ پہلے پہل جب میں وہاں گیا تھا تو اُس نے مجھے نصیحت کی تھی کہ آپ احمدی ہیں‘ بہت احتیاط رکھیں یہاں اخلاق بگڑ جاتے ہیں اس لئے کچھ دنوں کے بعد جب میں نے دیکھا کہ باہر ایک گڈّا کھڑا ہے اور اس پر بوریاں لا دی جا رہی ہیں اور میرے پوچھنے پر کہ کیسی ہیں لادنے والوں نے بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ کے گھر جا رہی ہیں۔ تو مَیں نے ملازمین کو ڈانٹا کہ تم اُنہیں کیوںبدنام کرتے ہو اور بوریاں رکھوا لیں۔ دوسرے دن جب وہ آیا تو مَیں نے اُسے یہ واقعہ بتایا۔ اسے سن کر وہ کہنے لگا کہ ملازم بہت شریر اور خبیث ہیں آپ نے اچھا کیا لیکن دوسری اور تیسری دفعہ بھی ایسا ہی ہوا۔ آخر اُس نے مجھے دفتر میں بلایا اور کہنے لگا دیانت وغیرہ مسلمانوں کی آپس میں ہوتی ہے۔ یہ کافر ہیں‘ ان کا مال لینا ناجائز نہیں۔ پھر اس قسم کا مال مَیں اپنے پاس رکھا نہیں کرتا یہ لو تین سَو روپیہ‘ سَو روپیہ فلاں مسجد کو‘ سَو روپیہ فلاں انجمن کو‘ اور سَو روپیہ فلاں احراری مولوی صاحب جو قید ہیں اُن کی والدہ کو بھجوا دو‘ اس طرح اُس نے مجھ سے وہ روپیہ خرچ کرایااور مَیں نے سمجھا کہ اس دفعہ یہ روپیہ دیا جا رہا ہے تا کہ آئندہ کیلئے مجھے خاموش کرایا جائے۔ تو جیل خانہ کے ملازموں کا ایک حصہ متواتر حرام خوری کرتا ہے اور ان کے شریک کار ان کے ساتھ ملکر کھاتے ہیں۔ شریف بھی ہوتے ہیں جو ہندوستانیوں میں بھی اور انگریزوں میں بھی ہیں۔ مگر جہاں ایسے افسر ہوں جو ناجائز طور پر کمانے والے ہوں‘ وہاں جیل میں ان قیدیوں کا جو ان کے مددگار ہوتے ہیں رہنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نوکری کر لی۔ اور وہی یہ کہا کرتے ہیں کہ لوٹا اور کمبل سنبھال رکھنا ہم پھر آئیں گے۔ ایسے قیدیوں کا قیدخانہ کے متعلق نقطہ نگاہ اور ہوتا ہے مگرایک شریف کا نقطہ نگاہ اور ہوتا ہے۔ گو مولوی صاحب کو ساری باتوں کا صحیح طور پر علم نہیں ہو سکتا کیونکہ بہت سی باتیں ان کی نظر سے پوشیدہ رہیں۔ تاہم وہ جو کچھ بیان کریں گے اس میں ان کا نقطہ نگاہ اور ہو گا۔ کہتے ہیں کسی مُلّا نے لوگوں کو نصیحت کی کہ نمازیں پڑھا کرو و رنہ جہنم میں جاؤ گے جہاں خطرناک سانپ ہوتے ہیں‘ پیپ اور خون کھانے کو ملتا ہے‘ آگ جلتی ہے۔ غرض جو کچھ قرآن و حدیث یا پُرانی روایات میں بیان کیا گیا ہے‘ اُس نے سنایا اِس پر ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔ اس مُلّا کو جہنم کا کچھ پتہ نہیں یہ سب جھوٹ بول رہاہے۔ لوگوں نے اسے کہا پھر تم بتاؤ جہنم میں کیا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ سنو! جب قبر میںمُردے کو لِٹا دیا جاتا ہے تو دو آدمی ہوتے ہیں جن کے پاس بھاری گٹھڑیاں ہوتی ہیںوہ اسے قبر سے نکالتے ہیں اور گٹھڑیاں اُس کے سر پر رکھ کر دو چار تھپڑ لگاتے ہیں اور دُور دراز لے جاتے ہیں۔ صبح کو گٹھڑیاں اُتروا لیتے ہیں اور ایک روٹی اور پیاز دیکر وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ اُسے وہم ہو گیا تھا کہ میں مر رہاہوں۔ آخر ایک دن اُس نے کہا کہ میں مر گیا ہوں‘ مجھے غسل دو لوگوں نے اُسے غسل دے کر قبر میںلِٹا دیا۔جب اُس پر مٹی ڈالنے لگے تو اس نے کہا میرا دم رُکتا ہے سانس لینے کیلئے جگہ چھوڑ دو۔ لوگ اُسے اسی حالت میں چھوڑ کر آ گئے۔ رات کو وہ دیکھتا رہا کہ فرشتے حساب لینے کب آتے ہیں‘ اتفاقاً دو چور مال لے کر آئے انہوں نے اُسے قبر سے نکال کر دو چار چپیڑیں لگائیں اور گٹھڑیاں اُٹھوا کر لے گئے صبح کو روٹی اور پیاز دے کر اُسے واپس بھیج دیا۔ اِس سے اُس نے سمجھا کہ دوزخ میں یہی ہوتا ہے۔ تو ہر رنگ کے انسان کا نقطۂ نگاہ الگ ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جیل کے متعلق چوروں نے بھی کتابیں لکھی ہیں‘ کانگرس والوں نے بھی لکھی ہیں‘ مگر ایک احمدی کا نقطۂ نگاہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ اگر مولوی صاحب کتاب لکھ دیں تو دوسروں کو معلوم ہو سکے گا کہ ایک احمدی جیل خانہ میں جا کر کیا دیکھتا ہے۔ کانگرسی جب جیل خانوں میں جاتے تو ان سے نہایت اعلیٰ سلوک کیا جاتا کچھ ان کے ڈر کی وجہ سے اور کچھ شرافت کی وجہ سے‘ لیکن جب وہ باہر نکلتے تو اتنی گالیاں دیتے اور اتنے الزامات لگاتے کہ افسر حیران رہ جاتے۔ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو شریف ملازمین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ۱۹۳۲ء میں جب مَیں ڈلہوزی گیا تو جالندھر کے ایک مشہور کانگرسی لیڈر کو مَیں نے دعوت پر بلایا۔ اس پر انہوں نے کہلا بھیجا کہ مَیں دعوت میں تو آئوں گا لیکن پہلے مجھے اجازت دی جائے کہ میں خاص ملاقات کیلئے آئوں۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے کئی دنوں سے میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے ملوں۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے کہنے لگے۔ ایک صاحب غلام مصطفی صاحب نے سنٹرل جیل لاہور میں مجھ سے ایسا عمدہ سلوک کیا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ احمدی ہیں تو میں نے کہاکہ میں مرزا صاحب سے مل کر ان کی تعریف کروں گا اور ایسے آدمی کے متعلق خاص توجہ رکھنے کیلئے کہوں گا۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیںکہ نیکی کے طور پر ان سے کون سلوک کرتا ہے اور ڈر کی وجہ سے کون۔ جو ڈر کی وجہ سے کرتے ہیں ان کے خلاف وہ شور مچاتے ہیں۔ غرض ایک کانگرسی کا جیل خانہ کے متعلق نقطۂ نگاہ اور ہے اور ایک انگریز کا اور۔ وہ تو سمجھتا ہے کہ قید یہی ہے کہ بیکار بیٹھا رہے‘ پانچ وقت ناشتہ کرے اور نوکر سے خدمت لے۔ ایک انگریز قید کا یہی نقشہ کھینچے گا۔ لیکن ایک احمدی کا نقطۂ نگاہ بالکل اور ہوگا اور اسے بھی وہ نقطۂ نگاہ پیش کرنا چاہئے۔ بہرحال مولوی صاحب کا جیل خانہ میں جانا اسے ہم پیش خیمہ نہیں کہتے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خواہشات سے منع فرمایا ہے اس لئے ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ احمدی جیل خانہ میں جائیں لیکن یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر موقع ملے تو ڈرنا نہیں چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ نقشِ ثانی بہتر ہوگا نقشِ اوّل سے۔ جُوں جُوں اس کے موقعے پیش آتے رہیں بِلا اپنی کسی خواہش اور تمنا کے جو کوئی مصیبت میں گھر جائے اسے بجائے بُزدلی دکھانے کے ایسی بہادری دکھانی چاہئے کہ لوگ سمجھ لیں احمدی بُزدل نہیں ہوتے۔ ایسے ہی موقعے جرأت اور بہادری دکھانے کے ہوتے ہیں یا پھر مصیبت کے وقت دوسروں کے کام آنا۔ احمدیوں کو چاہئے دوسروں سے ہمدردی کریں‘ ان کی تکلیفوں کے وقت امداد کریں‘ آگ لگنے پر آگ بُجھائیں‘ کسی لڑائی کے موقع پر لڑائی کو روکنے کیلئے اپنی خدمات پیش کریں‘ نیشنل لیگ کور کی یہی غرض تھی مگر وہ ابھی تک لَیفٹ رائٹ سے ہی باہر نہیںنکلی۔ غرض تو یہ تھی کہ احمدی نوجوان بہادری اور ایثار سے کام کریں اور ثابت کر دیں کہ احمدی بُزدل نہیں ہوتے اور بنی نوع انسان کے خادم ہیں۔ دوسرے لوگ اپنی بہادری کا یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کسی کو لٹھ مارا، کسی کو چھُری سے قتل کر دیا‘ مگر ہمارا یہ کام ہے کہ ہم غریبوں، بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت کریں ورنہ لیفٹ رائٹ سے کیا بنتا ہے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک دفعہ ایک شخص فقیرانہ طرز کا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کشتی میں بیٹھ کر اگر انسان دریا کو عبور کرنا چاہے تو کنارے پر پہنچ کر اُسے کشتی میں بیٹھے رہنا چاہئے یا اُتر جانا چاہئے۔ میںنے کہا یہ بات دریا پر منحصر ہے اگر دریا کا کنارہ ہے تو اُسے کنارے پر پہنچ کر اُتر جانا چاہئے لیکن اگر غیر محدود دریا ہے اور پھر کنارہ سمجھ کر اُترتا ہے تو جب بھی وہ اُترے گا، ڈوبے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نماز وغیرہ تو ذرائع ہیں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کو مل گیا تو پھر اس کے سواری پر بیٹھے رہنے کا کیا فائدہ؟ میں نے اُس کی اِس بات کو سمجھ کر کہا کہ اگر دریا کا کنارہ ہی نہیں تو اِدھر اُترا، اُدھر ڈوبا۔ خدا تعالیٰ کے متعلق یہی بات ٹھیک ہے لیکن بندوں کے معاملہ میں ہر چیز کا کنارہ ہے۔ ایک پہلوان اگر ساری عمر ڈنڈ پیلتا رہے تو اس سے کیا فائدہ؟ لیکن اگر ایک سپاہی جو چار یا چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد ملک کی خدمت میں لگ جاتا ہے وہ بہت قابلِ تعریف ہے۔
پس ہمارے نوجوانوں کو اس قسم کے کاموں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے اور اس طرح بہادری کا ثبوت دینا چاہئے ورنہ لوگ کہیںگے کہ احمدی بے غیرت اور بُزدل ہوتے ہیں۔ اِس وقت جو حالت ہے اِس سے یہی خیال مخالفین میں پیدا ہوسکتا تھا اور ڈر ہے کہ خود ہماری جماعت میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہو جائے اِس لئے مَیں نے ضروری سمجھا کہ ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالے جائیں جو جائز ہوں اور بتائیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم بُزدل نہیں ہیں اور خدمتِ خلق کر کے اس امر کو ثابت کر دیں کہ مومن اپنے بھائیوں کے آرام کیلئے ہر طرح کی قربانی کر سکتا ہے۔
(الفضل ۳۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء)







موجودہ فتنہ میں کُفر کی تمام طاقتوں کا ہمارے خلاف اجتماع ہماری صداقت
کا روشن ترین ثبوت ہے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

موجودہ فتنہ میں کُفر کی تمام طاقتوں کا ہمارے خلاف اجتماع ہماری صداقت کا روشن ترین ثبوت ہے
(تقریر فرمودہ۱۱جولائی ۱۹۳۷ء)
(۱۱۔ جولائی ۱۹۳۷ء کو نیشنل لیگ قادیان کے زیر اہتمام جناب مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل کے اعزاز میں جو جلسہ منعقد کیا گیا اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسبِ ذیل تقریر فرمائی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہے تو یہ نیشنل لیگ کا جلسہ اور ایک اعزازی پارٹی لیکن اس تقریب کے ساتھ مجھے اس فتنہ کا ایک واسطہ نظر آتا ہے جو ان دنوں ظاہر ہوا ہے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس کے متعلق بعض باتیں بیان کر دوں جو نیشنل لیگ کی اس تقریب کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس فتنہ کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں۔
قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں روحانی لڑائی انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ فرشتوں اور شیطان کے درمیان ہوتی ہے۔ آگے یہ دونوں اپنے اظلال اور نمائندے چُن لیتے ہیں فرشتے اپنے نمائندے چُن لیتے ہیں اور شیطان اپنے نمائندے چُن لیتا ہے اور گو بظاہر جنگ ان نمائندوں کے درمیان ہوتی ہے لیکن اصل لڑائی کرنے والے فرشتے اور شیطان ہی ہوتے ہیں انسان صرف ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔ چنانچہ شیطان کے متعلق قرآن شریف میں صاف طور پر آتا ہے اِنَّمَا یَدْ عُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُونُوْا مِنْ اَصْحَابِ السَّعِیْرِ۔۱؎ یعنی شیطان دنیا میں اپنے ساتھ اپنے ہم خیال لوگوں کوملا لیتا اور انہیں اپنا رفیق بنا لیتا ہے۔ اسی طرح ملائکہ کے متعلق بھی خداتعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ ملائِ اعلیٰ میں وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے تھے۔۲؎ یہ تمام روحانی نمائندے ہیں جن کا ملائِ اعلیٰ میں دخل ہے۔ خداتعالیٰ ان سے مشورہ لیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آراء پیش کرتے ہیں لیکن وہ آراء بھی الٰہی تصرف کے ماتحت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان آراء کے مطابق اپنی رحمت کی بارش ان لوگوں پر نازل کرتا ہے جو اَرواحِ کاملہ سے مشابہت رکھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بھی بہت سے رؤیا ہیں جن میں آپ نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح یا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی رُوح ان فتنوں کو دیکھ کر تڑپ رہی ہے جو اس زمین پر پیدا کئے جاتے ہیں۔
پس جب ان اَرواحِ کاملہ کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو وہ اپنے نمائندے چُن لیتی ہیں جو شیطان کے نمائندوں سے جنگ کرتے ہیں۔ پس اصل جنگ شیطان اور فرشتوں کے درمیان ہوتی ہے یا ابلیس اور جبریل کے درمیان۔ اور قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں نہایت ہی زیرک ہستیاں ہیں۔ گو شیطان تمام بدیوں کا مجسمہ ہے اور اس پر ہزاروں لعنتیں ڈالی گئی ہیں لیکن اس کے اپنے جنگ کے معاملہ میں جہاں قرآن کریم میں اس کی زیرکی کا ذکر آیا ہے، اس کی تعریف کی گئی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے شیطان کا حضرت آدم علیہ السلام سے واسطہ پڑا اور پہلی دفعہ حضرت آدم کے وقت میں اُس نے اپنی زیرکی کا ثبوت دیا۔ جانے دو ابلیس کے ساتھیوں کو، جانے دو ان لوگوں کو جو شیطان کے پَیرو ہیں چلے جائو اُن مسلمان کہلانے والوں میں یا ان لوگوں میں جو قرآن کریم کو آخری شریعت یقین کرتے ہیں تم انہیں یہ کہتے سنو گے کہ دیکھا! ابلیس کی بات صحیح نکلی اور حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اس نے جو یہ کہا تھا کہ انسان دنیا میںبرائیوں کا شکار ہو جائے گا اور شرک وغیرہ میں مبتلاء ہوگا وہ درست ثابت ہوا۔ میں نے خود سینکڑوں دفعہ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کیا ابلیس کی بات ٹھیک نہ نکلی؟ اور جو اس نے کہا تھا وہ صحیح ثابت نہ ہوا؟ اور بظاہر یہ معلوم بھی ہوتا ہے کہ انسان ان غلطیوں اور لغزشوں کا شکار ہو گیا جن کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ ان میں مبتلاء ہو جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ لوگ جب چاروں طرف شرک، دھوکا، فریب، بے ایمانی، بددیانتی، چوری، ڈاکہ، جعلسازی، اور فسق و فجور دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ شیطان کی بات درست ثابت ہوئی اور خدا تعالیٰ کا یہ فرمان کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۳؎۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ غلط نکلا لیکن حقیقت میں خدا تعالیٰ نے جو کچھ کہا تھا سچ تھا اور شیطان نے جو کچھ کہا تھا، جھوٹ تھا۔ شیطان کا جھوٹ عامی نگاہ نہیں دیکھ سکتی وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ خدا کے عبد بننے والے کم ہیں اور شیطان کے عبد بننے والے زیادہ ہیں اور قرآن کریم بھی فرماتا ہے۔ وَمَایُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَھُمْ مُّشْرِکُوْنَ ۴؎ یعنی اکثر لوگ جو ایمان دار بھی ہیں ان میں شرک پایا جاتا ہے۔ اور مومنوں کے متعلق فرماتا ہے۔ وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشُّکُوْرُ۵؎ یعنی خدا تعالیٰ کے شکر گزار تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
غرض یہ تو قرآن کریم بھی فرماتا ہے کہ مومن کم ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہار گیا بلکہ جیتتا اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر یہ نکتہ صرف باریک نظر والوں کو نظر آتا ہے۔ یہ زیرکی جو حضرت آدم کے وقت شیطان کو حاصل تھی کیا حضرت نوح کے وقت اس میں کوئی کمی آگئی؟ حضرت نوح علیہ السلام کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انہوں نے انتہائی زور لگایا کہ لوگوں کے دلوں تک پہنچیں۔ پنجابی میں انتہائی زور لگانے کو تَرلے لینا کہتے ہیں اورہم دیکھتے ہیں کہ نوحؑ نے واقعہ میں تَرلے لئے کہ کسی طرح لوگوں پر حق ظاہر ہو جائے لیکن شیطان نے ان لوگوں کو ہدایت کے پاس تک پھٹکنے نہیں دیا۔ اگر وہ اکیلے کسی سے ملتے تو شیطان اُس کے کان میں کہہ دیتا کہ دیکھنا اِس کی باتوں میں نہ آنا، یہ تمہیں گمراہ کر دے گا، اگر وہ کسی جماعت کو تبلیغ کرتے تو شیطان وہاں بھی پہنچ جاتا، اگر وہ لیکچر دیتے تو شیطان وہاں بھی سرگوشیاں کر رہا ہوتا، اگر وہ آہستہ کسی مجلس میں باتیں کرتے تو وہاں بھی شیطان لوگوں کو بہکا رہا ہوتا کہ اِس کی باتوں کو نہ سننا، غرض اگر حضرت نوحؑ نے بشارتوں سے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی تو شیطان نے کہہ دیا کہ یہ محض دھوکا ہے، اگر انذار سے انہیں راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش کی گئی تو اس نے کہا یہ تو محض بنانے کی باتیں ہیں، اس دنیا کی لذتوں کا مزہ چکھ لو، آئندہ کاکس کو علم ہے۔ غرض جس طرح بھی حضرت نوحؑ نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی شیطان نے اسی رنگ میں اس کی تردید کر کے لوگوں کو بہکایا اور جب تک خدا تعالیٰ نے تمام لوگوں کو اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر دیا شیطانی ذُرّیّت قِسم قِسم کی تدبیروں سے حضرت نوحؑ کا مقابلہ کرتی رہی اور ہر قِسم کی اچھی تعلیم کے جواب میں انہوں نے کوئی نہ کوئی جواب گھڑ لیا۔
اسی طرح جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے، وہاں بھی شیطان نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا عراق میں لوگوں کو آپ نے تبلیغ شروع کی تو وہاں انہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا، اس کے بعد آپ نے کنعان کو اپنے لئے منتخب کیا لیکن وہاں شیطان پہلے سے موجود تھا اور وہ تمام طاقتیں جو عراق میں ان کے خلاف صرف ہو رہی تھیں وہاں بھی استعمال ہونے لگیں۔ وہاں اگر اکابر کے پاس جاتے اور انہیں کہتے کہ دیکھو عوام کی حالت کیسی خراب ہے تو وہ کہتے کہ بہرحال تم سے اچھے ہیں اور اگر عوام کے پاس جاتے اور کہتے کہ دیکھو اکابر کس قدر صداقت سے دُور ہو گئے ہیں تو وہ کہتے کہ ان کے ظلم تمہارے رحم سے اچھے ہیں۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا۔ پھر اس سے بہت زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضور کو پیش آیا اور اس کی تفاصیل ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ خدا تعالیٰ نے تم میں سے ایک نبی مبعوث فرمایا ہے اور یہ تمہارے لئے خوشی کا مقام ہے تو انہوں نے کہا کہ عربوں کی عصبیت تو ہم میں موجود ہے لیکن یہودی آپ سے اچھے ہیں۔ جب آپ یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ دیکھو تمہارے انبیاء کی پیشگوئیوں اور تمہاری کتاب کی بشارتوں کے پورا ہونے کا دن آ گیا ہے تم اس کی قدر کرو تو انہوں نے جواب دیا جائو ہم تمہارے فریبوں میں آنے والے نہیں، مکے والے تم سے اچھے ہیں۔ غرض سب نے بے اعتنائی کا سلوک کیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور شیطانی قوتیں پاش پاش ہو گئیں۔ پس ہمیں اس میں کہیں بھی استثناء نظر نہیں آتا کہ بدی کی طاقتوں نے حق کے مقابلہ میں پورا زور صرف نہ کیا ہو اور آج تک کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے کبھی دھوکا کھایا ہو یا کبھی انہوں نے غلطی سے تقویٰ کی تائید کر دی ہو۔ ہمارے نزدیک ہزاروں سال اور فلاسفروں کے نزدیک لاکھوں سال دنیا کو پیدا ہوئے گزر چکے ہیں لیکن ایسا آج تک کبھی بھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کی آواز آئی ہو اور بدی کی طاقتوں نے فوراً پہچان نہ لی ہو اور اس کی مخالفت شروع نہ کر دی ہو۔ ہزاروں اور لاکھوں سال کی دنیا میں جس حد تک تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلطی بھی بدی کی طاقتوں نے ایسی نہیں کی کہ مثلاً یوشع نبی اُٹھے ہوں اور انہوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ یوشع نبی نہیں ہیں ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہو اور بعد میں غلطی معلوم کر کے الگ ہو گئے ہوں۔ غرض ہمیں ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی، نہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں اور نہ کسی اور قوم کے نبیوں میں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی مبعوث ہوئے ہیں۶؎ لیکن ان ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا کہ اس نے آسمانی آواز اُٹھائی ہو اور کُفر دھوکا کھا کر اُس کے ساتھ ہو لیا ہو اور بعد میں اُسے معلوم ہوا ہو کہ میری غلطی تھی بلکہ کُفر کی نگاہ تو اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہی خدا کی آواز کو پہچان لیتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ لکھی تو اُس وقت آپ کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کو نبی بنانے والا ہے اور آپ نہیں سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے الہامات سے کیا مراد ہے لیکن لدھیانہ کا ایک مولوی اُس وقت اُٹھا اور اُس نے اس کتاب کو پڑھ کر اُسی وقت کہہ دیا کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کرنا ہے اس کی ابھی سے مخالفت شروع کر دو۔ اُس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھی یہ خیال نہ آیا۔ چنانچہ اُس وقت انہوں نے اس کتاب کی تائید میں ایک ریویو لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ نبوت کے بعد جب مولوی محمد حسین آپ کے خلاف لدھیانہ میں فتویٰ لینے گئے تو اُس مولوی نے انہیں کہا اب تم میرے پاس فتویٰ لینے آئے ہو کیا میں نے اُسی وقت نہ کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب کی مخالفت کرو لیکن اُس وقت تم نے ان کی تائید کی۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے الہام کی حقیقت کو خود بھی نہیں سمجھے تھے لیکن اس شخص نے اُسی دن پہچان لیا کہ مرزا صاحب نبوت کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔ بعد میں تو سب مخالف اُٹھ کھڑے ہوئے اور مولوی محمد حسین نے بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں تھے، آپ کی مخالفت شروع کر دی۔
ان سب حالات کو سامنے رکھ کر آپ موجودہ واقعات پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ مولوی عبدالرحمن صاحب کس جُرم میں قید ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چند ماہ پہلے ایک احمدی کی لڑکی فوت ہو گئی، احمدی اسے اُس قبرستان میں لے گئے جو ہمارے آباء واجداد کا قبرستان ہے۔ احراریوں نے احمدی لڑکی کی نعش کو اس قبرستان میں دفن ہونے سے روکا، اس لئے کہ احمدی ان کے نزدیک ناپاک اور نجس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے زندے تو الگ رہے ان کے مُردے بھی گندے ہیں اور اس لائق نہیں کہ اس قبرستان میں دفن کئے جا سکیں۔ غرض ان لوگوں نے احمدیوں کو نعش کے دفن کرنے سے روکا۔ بعض احمدیوں نے انہیں ہٹایا اور اس پر ان کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی اور جیسا کہ اس قسم کے اشتعال کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے، بعض احمدی لڑکوں نے ان کو مارا لیکن جہاں تک ہماری تحقیق کا تعلق ہے، مولوی عبدالرحمن صاحب ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے احراریوں کو چُھڑایا اور احمدیوں کو انہیں پیٹنے سے روکا۔ بہرحال مقدمہ چلایا گیا اور وہ قید ہوئے اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیرَو احراریوں کے نزدیک اس قابل نہیں کہ ان کے مُردوں کو قبرستان میں دفن ہونے دیا جائے۔
اس کے بعد اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس جماعت کے بہت سے فرد دہریہ ہو گئے ہیں اور بہت سے دہریہ ہو رہے ہیں ہم اس لئے کھڑے ہوئے ہیں کہ ان کو دہریت سے بچائیں تا کہ احمدیت اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا کے سامنے ظاہر ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے تو احمدیت کے دشمنوں نے کیوں ان کی حمایت شروع کر دی ہے۔ ان کو تو چاہئے تھا کہ وہ فوراً سمجھ لیتے کہ اس پُرانی جماعت کی مخالفت چھوڑو وہ تو دہریہ ہو چکی، اب اس نئی جماعت کو مٹائو جو خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی تعلیم کی اشاعت کیلئے پیدا ہوئی ہے مگر احمدیت کے دشمن اس وقت کیا کرتے ہیں، وہ مصری صاحب اور فخر الدین صاحب کے اشتہار بانٹتے پھرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ سمجھ کر ان کے اشتہار بانٹتے پھرتے ہیں کہ اس سے حضرت مرزا صاحب کی طاقت کم ہوتی ہے یا یہ سمجھ کر بانٹتے ہیں کہ اس سے حضرت مرزا صاحب کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اسی لئے ان کی حمایت پر کمربستہ ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صداقت کو کمزور کرنے کا حربہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ آولہٖ وسلم فرماتے ہیں اَلْکُفْرُمِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ یعنی حق کے مقابلہ میں تمام شیطانی طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی تائید کیلئے اُٹھی ہو اور شیطانی اثر کو قبول کرنے والے لوگ دھوکے سے اس کی حمایت کرنے لگ پڑے ہوں۔ بلکہ ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے کہ حق کے مقابلہ میں سب خدا تعالیٰ سے دور ہونے والی اَرواح جمع ہو جاتی ہیں۔ اب بھی احراری اور دوسرے لوگ ان کی مدد کر رہے ہیں اور کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مصری صاحب کے متعلق بیزاری کے اظہار کے لئے ہمارے جلسے ہوں اور شیخ حسام الدین امرتسر سے آئے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو گندی گالیاں دے کر کہے کہ خبردار! اگر مصری صاحب کے خلاف کوئی جلسے کئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اس لئے ان کی حمایت کرتے ہیں کہ انہیں احمدیت کی ترقی مدنظر ہے؟ کیا کوئی عقلمند انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ احراری اور پیغامی ان کی اس لئے تائید کر رہے ہیں کہ یہ احمدیت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے اُٹھے ہیں یا نبوت کا مسئلہ منوانے کیلئے اُٹھے ہیں۔ اگر ان کی تائیدکی غرض یہی ہے تو پھر مصری صاحب کے مقولہ کے مطابق ان کی تائید ہمارے ساتھ ہونی چاہئے تھی کیونکہ بقول مصری صاحب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ کو تباہ کرنے والے ہیں۔ لیکن وہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیںاور ان کے گلے ملتے ہیں اور پھر اس صورت میں جب کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی نبوت کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو پہلے تھا۔ اس وقت پیغامی بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت پیغامیوں کی ہمارے ساتھ مخالفت کس مسئلے پر ہے۔ ان کا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیں، اس میں خلافت کے متعلق کبھی کوئی مضمون شائع نہیں ہوا یا اس کے متعلق بہت کم مضمون شائع ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ کی طرف آنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر ایک دوست نے مجھے ایک دفعہ کہا کہ آپ کیوں انہیں اس مسئلہ کی طرف کھینچ کر نہیںلاتے۔ میں نے انہیں جواباً کہا کہ میں تو انہیں اس طرف لاتا ہوں لیکن وہ خود نہ آئیں تو مَیں کیا کروں، مَیں انہیں کھینچ کر اس طرف کیسے لائوں۔ غرض ان کا سارا زور اس مسئلے پر صَرف ہوتا ہے کہ یہ ثابت کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی نہ تھے اور آپ کے منکر کافر نہیں۔ اب اگر منشی فخر الدین یا مصری صاحب کا یہ عقیدہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت کے متعلق ان کا وہی عقیدہ ہے جو ہمارا ہے تو کیا پیغامیوں کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ ان کے اشتہار بانٹتے پھرتے ہیں۔
ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ پیغامی ان کی خدمت بجا لا رہے ہیں اور ان لوگوں کا ان کی تائید کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ بیسیوں چِٹھیاں باہر سے مجھے موصول ہوئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیرونی مقامات میں پیغامیوں نے ان کے اشتہار تقسیم کئے۔ اور وہ پیغامیوں کے دفتر کی طرف سے ان لوگوں کو ارسال کئے گئے ہیں۔ اب اگر یہ سچ ہے کہ یہ لوگ جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو روشن کرنے والے ہیں اور ان کے جیتنے سے نبوتِ مسیح موعود علیہ السلام کا مسئلہ دنیا میں قائم ہو جائے گا تو کیا پیغامی اتنے ہی عقل کے اندھے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے گلے لگا رہے ہیں۔ انہیںتو چاہئے تھاکہ ان کے مقابلے میں ہماری حمایت کرتے کیونکہ بقول مصری صاحب ہم جماعت کو تباہ کر رہے ہیں۔ پس جماعت ٹوٹے گی تو لازماً پیغامیوں میں جا کر مل جائے گی۔
غرض تمام آسمانی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اس معاملہ میں بدی کی طاقتوں نے کبھی غلطی نہیں کی۔ وہ تو اتنی دُور سے بو کو سُونگھ لیتی ہیں کہ شکاری کُتّا بھی اتنی دور سے بو نہیں سُونگھ سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ کُفر کا لشکر دعویٰ سے پہلے غلطی کر جائے لیکن دعویٰ کے اظہار کے بعد وہ کبھی غلطی نہیں کرتا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے بعض مخالفوںنے حقیقت کو نہیں سمجھا لیکن آپ کے دعویٰ نبوت کے بعد کسی نے بھی غلطی نہیں کی۔ چنانچہ جب آپ نے دعویٰ کیا کہ خداتعالیٰ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے تو تمام ہندوستان میں آگ لگ گئی۔ اور ہر طرف سے مخالفت کا طوفان اُمڈ آیا لیکن یہ مخالفت بھی خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشا ن تھا۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جھوٹی چیز ہوتی ہے اس کی سچا بعض دفعہ اس لئے مخالفت نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ ہی آپ مر جائے گی اور بعض دفعہ جب وہ بے حیثیت ہوتی ہے تو بھی مومن اس کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ تبھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب اس کی کوئی حیثیت ہو۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک مدعی ٔماموریت نے مجھے ایک دفعہ چِٹھی لکھی جس میں مجھے بہت سخت سُست کہا اور لکھا کہ یہ کونسی دیانتداری ہے کہ آپ میری تردید نہیں کرتے۔
پہلے تو میں اس کی کسی چٹھی کا جواب نہ دیتا تھا لیکن اس چِٹھی کا میں نے جواب دیا اور اسے لکھا کہ تردید بھی خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ حضرت مرزا صاحب کی مخالفت کوئی معمولی چیز نہ تھی بلکہ خداتعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل تھا۔
غرض اُس وقت ساری طاقتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف اکٹھی ہو گئیں اور اب ساری طاقتیں ہمارے خلاف جمع ہو رہی ہیں۔
اب یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ باقی سب جگہ نور ہے، ہندوؤں میں بھی نور ہے، سکھوں میں بھی نور ہے، عیسائیوں میں بھی نور ہے اور بہائیوں میں بھی نور ہے، غرض ہر جگہ نور ہے اور اگر نہیں ہے تو صرف یہاں نہیں۔ پس اگر یہ تسلیم کیا جائے تو اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ کے کچھ معنی نہیں بنتے۔ کیونکہ نور والا راستہ تھوڑا ہوتا ہے اور وہ تنگ راستے سے آتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم بھی فرماتا ہے کہ نور کا راستہ ایک ہے لیکن تاریکی کے رستے کئی ہیں۔ ۷؎ تو معلوم ہوا کہ تمام مذاہب کا اجتماع ہمارے خلاف اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ غلطی پر ہیں۔ جیسا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے حق میں بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ تمہارا ہاتھ تمہارے سب بھائیوں کے ہاتھ کے مقابل پر کھڑا رہے گا۔ اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ تمہاری نسل میں ایک نبی اُٹھے گا جس کے خلاف تمام مذاہب اور عقائد اور خیالات اکٹھے ہو جائیں گے۔ پس یہ بیّن ثبوت ہے مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں کے جھوٹے ہونے کا اور یہ ایسا ثبوت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور تائیدی ثبوت نہیں ہو سکتا۔ سوائے مشاہدہ کے کہ خداتعالیٰ کا قول اور فعل ان کے جھوٹے ہونے کی آسمان سے گواہی دے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے برابر اور کوئی ثبوت نہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اس سے زیادہ واضح اور کوئی ثبوت نہیں۔ واضح ثبوت یوں بھی محدود ہوتے ہیں اور یہ ان اوّل درجہ کے واضح ثبوتوں میں سے ایک ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ فتنہ میں ہمارے خلاف سب شیطانی طاقتیں جمع ہو گئی ہیں اور مولوی عبدالرحمن صاحب کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے چند ماہ پہلے ہمارے مُردے بھی احراریوں کے نزدیک ناپاک تھے لیکن آج یہ کیفیت ہے کہ وہی لوگ جو احمدیوں کے مُردوں کو بھی ناپاک سمجھتے تھے مصری صاحب کے گلے مل رہے ہیں اور ان کے اشتہار بانٹ رہے ہیں۔ اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیںکہ مصری صاحب اور میاں فخرالدین صاحب کی حمایت احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طاقت کو کمزور کرنے والی ہے۔
اس کے بعد مَیں دعا کرتا ہوں کَل جمعیۃ فتیان الاحمدیہ کی طرف سے مولوی صاحب کے اعزاز میں دعوت دی گئی تھی لیکن میں نے یہی خیال کیا کہ وہ نیشنل لیگ کی دعوت ہے اس لئے آج میں اس دعا میں دونوں کو شامل کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ جس طرح وہ جسمانی دعوتیں کرتے ہیں‘ اسی طرح وہ روحانی دعوتیں کرنے میں بھی پیش پیش ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری صفائی ٔ قلب کو بڑھائے اور ہمارے نوجوانوں کو سچی خدمت کرنے کی توفیق دے۔
(الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۳۷ء)
۱؎ فاطر: ۷ ۲؎ ص: ۷۰ ۳؎ الذّٰریٰت: ۵۷
۴؎ یوسف: ۱۰۷ ۵؎ سبا: ۱۴
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۶۶۔ المکتب الاسلامی بیروت
۷؎ الانعام: ۱۵۴
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
قیامِ امن اور قانون کی پابندی کے متعلق
جماعت احمدیہ کا فرض




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
قیامِ امن اور قانون کی پابندی کے متعلق
جماعت احمدیہ کا فرض
ایک حادثہ
احباب کو اس واقعہ کا علم ہو گیا ہو گا جو تھوڑے ہی دن ہوئے، قادیان میں ایک حادثہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی وہ حملہ جو ایک احمدی نوجوان
میاں عزیز احمد نے میاں فخرالدین صاحب ملتانی پر کیا۔ جب اس حملہ کی ہمیں پہلے پہلے اطلاع ملی تو وہ ایسی شکل میں تھی جس سے اندازہ یہ کیا گیا کہ یہ ایک باہمی لڑائی تھی جس میں غالباً حملہ میاں فخرالدین صاحب کے ساتھیوں نے کیا تھا اور اس کی بناء بعض معتبر گواہوں کی گواہی تھی جنہوں نے بیان کیا تھا کہ انہوں نے پہلے دو شخصوں کو میاں عزیز احمد پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جس کے بعد انہوں نے اُٹھ کر ان میں سے ایک پر حملہ کیا۔ لیکن پِیر (سوموار) کو یعنی حملہ کے تیسرے دن جبکہ مختلف بیانات اکٹھے ہو گئے اور مرزا عبدالحق صاحب وکیلِ ملزم نے مجھے وہ بیان آ کر سنائے تو مجھے یہ شُبہ پیدا ہوا کہ غالباً معاملہ کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا اور مختلف شہادتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ غالباً لڑائی دو جگہ پر ہوئی ہے۔ یعنی پہلے بازار کے اُس حصہ میں جہاں نسبتاً ہندو، سِکھ اور غیراحمدی دکاندار زیادہ ہیں اور پھر چند گز ہَٹ کر اس جگہ پر جہاں احمدی دکاندار زیادہ ہیں اور غالباً وہ گواہ جن کی گواہی سے پہلے نتیجہ نکالا گیا تھا، اِس وقوعہ کے گواہ تھے جو ان کی دکانوں کے سامنے پہلے حملہ کے بعد ہوا تھا۔
پس چونکہ ایک طرف سِکھ اور ہندو گواہوں میں سے بعض ایسے تھے جن کی گواہی کو کُلّی طور پر ردّ نہیں کیا جا سکتا تھا اور دوسری طرف احمدی گواہوں نے اس حملہ کو نہیں دیکھا تھا جو میاں فخرالدین صاحب پر ہوا تھا حالانکہ اس حملہ کا ہونا قطعی تھا اس لئے لازماً یہ نتیجہ نکالنا پڑا کہ پہلا حملہ میاں فخرالدین صاحب پر تھا اور اس کے بعد دوسرا تتمہ وہ لڑائی تھی جو چند گز ہَٹ کر ہوئی۔ حقیقتِ حال کا پورا پتہ تو عدالتی تحقیق سے معلوم ہو گا۔
ملزم کے وکیل کو ہدایت
مگر مختلف بیانات کو سنکر یہ نتیجہ تھا جو میں نے اس وقت نکالا جس کی بناء پر میں نے مرزا عبدالحق صاحب
سے کہا کہ آپ ملزم کے وکیل ہیں آپ اسے نصیحت کریں کہ اگر اس سے کوئی گناہ ہوا ہے تو اس کا ا صل فائدہ اس میں ہے کہ وہ اپنے جُرم کااقبال کر کے خداتعالیٰ کے غضب کو اپنے پر سے دُور کرنے کی کوشش کرے اور اپنے جسم کی حفاظت کی نسبت اپنے ایمان کی حفاظت کو مقدّم رکھے۔ مرزاصاحب میرے پاس سے اُٹھ کر گئے ہی تھے کہ چند منٹ کے بعد ناظر صاحب امور عامہ آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب سے گفتگو کی ہے اور ان کا یہ خیال ہے کہ اِس وقت تک جس نتیجہ پر ہمارے دوست پہنچے ہیں وہ غلط ہے کیونکہ بعد میں بعض گواہیاں ایسی ملی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا حملہ میاں عزیز احمد صاحب نے کیا ہے اور ناظر صاحب نے بیان کیا کہ میری اپنی تحقیق بھی اِسی کی تصدیق کرتی ہے۔ اس پر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی ابھی مَیں بھی اسی نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں اور مرزا صاحب کو بحیثیت ملزم کے وکیل کے یہ مشورہ دے چکا ہوں کہ قانونی مشورہ کے علاوہ انہیں اپنے مؤکّل کو مذہبی مشورہ بھی دینا چاہئے اور وہ اس کام کے لئے جا رہے ہیں اور مَیں نے نصیحت کی کہ وہ بھی محکمانہ طور پر میاں عزیز احمد کے رشتہ داروں کی معرفت ان کو یہی نصیحت کریں کیونکہ ایک مذہبی ادارہ کے ذمہ وار کارکن کی حیثیت سے یہی ان کا فرض ہے۔ چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ عزیز احمد صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں، وہ انہیں سمجھا کر ان کے پاس بھجوائیں گے کہ انہیں سچائی کو اختیار کرنا چاہئے اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو خلافِواقعہ ہو۔
عزیز احمد صاحب کا عدالت میں بیان
اِس کے بعد مجھے اطلاع ملی ہے کہ عزیز احمد صاحب نے عدالت
میں بیان دیا ہے کہ میں نے میاں فخر الدین صاحب کے پوسٹر کی وجہ سے اشتعال میں آ کر اُن پر حملہ کیا تھا لیکن میری غرض انہیں قتل کرنا نہ تھی بلکہ صرف تخویف تھی تا کہ وہ ڈر کر آئندہ اس قسم کی غلاظت اُچھالنے سے باز آ جائیں۔ چونکہ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے میں اِس بارہ میں زیادہ نہیں کہہ سکتا مگر غالباً قانون مجھے اِس امر کی اجازت دیتا ہے کہ جو بیان ملزم نے دیا ہے، اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
قانون کی پابندی کا حُکم
جیسا کہ میں بار بار پہلے کہہ چکا ہوں اسلام ہمیں قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے اور ہمیں کسی امر کی صداقت کا
خواہ کس قدر بھی یقین ہو وہ ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنے یقین کی وجہ سے کسی کو خود ہی سزا دے دیں اور اگر ہم ایسا کریں تو اسلام ہمیں مُجرم ٹھہراتا ہے اور قابلِ سزا گردانتا ہے۔ اس امر میں اسلام نے اس قدر سختی سے کام لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سزا دینے والے کو ویسا ہی مُجرم قرار دیا ہے جیسا کہ بِلاوجہ حملہ کرنے والے کو۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! اگر کوئی شادی شُدہ زنا کرے تو اُس کی سزا رجم ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! اس صورت میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنی بیوی سے بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور اُسے قتل کر دے تو اس پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا سزا دینا اُس کا کام نہیں یہ عدالت کا کام ہے، اگر وہ ایسے اشتعال کے باوجود سزا دے گا تو بھی اسے قاتل سمجھا جائے گا اور وہ خود شریعت کا مجرم بن جائے گا۔۱؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح فتویٰ کے بعد قیاس اور اجتہاد کی کوئی صورت ہمارے لئے باقی نہیں رہتی اور اگر ہم سچے مُسلم ہیں تو ہمیں یقینا آپؐ کے ادنیٰ سے ادنیٰ ارشاد کے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور میرے نزدیک میاں عزیز احمد کے دوستوں کی سچی خیرخواہی اور دوستی یہی ہوگی کہ وہ ان کو بتائیںکہ انہوں نے غلطی کی ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف کیا ہے اور خواہ کس قدر اشتعال کے ماتحت ہی ان کا فعل کیوں نہ ہو، وہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور ان کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ اور استغفار کریں اور پھر توبہ اور استغفار کریں اور پھر توبہ اور استغفار کریں اور توبہ اور استغفار کرتے ہی جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے قصور کو معاف کر دے اور اُس کی بخشش ان کو ڈھانپ لے کیونکہ گناہ گناہ ہی ہے خواہ اسلام کی تائیدکے نام پر کیا جائے یا اپنے نفس کی خواہشات کے ماتحت کیا جائے۔
اسلام جھوٹ ظلم اور
بے انصافی کا محتاج نہیں ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ سلسلہ ایک سچا سلسلہ ہے اورخداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے ہمیشہ سچائی اور انصاف اور رحم قائم
کرنے کیلئے آتے ہیں۔ اور سچائی اور انصاف اور رحم، جھوٹ اور بے انصافی اور ظلم سے کبھی قائم نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک صداقت اپنے قائم ہونے کیلئے جھوٹ کی محتاج ہے تو اس کا قائم نہ ہونا قائم ہونے سے بہتر ہے کیونکہ اگر وہ اپنے قیام کیلئے جھوٹ کی محتاج ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اس سے پہلے تو جھوٹ ایک گناہ کی شکل میں دنیا میں رائج تھا مگر اس سچائی کے قیام کیلئے وہ ایک نیکی کی شکل میں قائم ہوا اور اس کا انکار کون کر سکتا ہے کہ وہ جھوٹ جو گناہ کی صورت میں رائج ہو مٹایا جا سکتا ہے مگر وہ جھوٹ جو نیکی کی شکل میں رائج ہو مٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے مرتکب اسے خدا کی رضا کا موجب سمجھ کر اختیار کرتے ہیںاور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب سمجھی جائے، اُسے چھوڑنے کیلئے کوئی تیار نہ ہوگا۔
پس میں اپنے دوستوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اسلام جھوٹ اور ظلم اور بے انصافی کی مدد کا محتاج ہے تو وہ اِس خیال کو جس قدر جلد ہو سکے دل سے نکال دے کیونکہ ایسا خیال رکھنا دوسرے الفاظ میں اِس امر کا اقرار کرنا ہے کہ اسلام سچا مذہب نہیں اور خدا کی مدد سے فتح نہیں پا سکتا بلکہ شیطان کی مدد سے فتح پاتا ہے کیونکہ جھوٹ اور بے انصافی اور ظلم شیطانی ہتھیار ہیں، خداتعالیٰ کے ہتھیار نہیں ہیں اور شیطانی ہتھیار کی مدد سے فتح پانے والی شَے یقینا شیطانی ہی ہوگی۔
آنکھوں کے آنسوئوں سے گناہ کی آگ کو بُجھائیں
پس یہ اسلام پر ظلم اور خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے کہ اسلام کو اپنی تائید کیلئے غیر اسلامی ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ پس چاہئے کہ جو دوست اِس غلطی
میں مبتلا ہوں، وہ جلد سے جلد توبہ کریں اور اپنے لئے بھی اور اپنے جیسے دوسرے غلطی خوردہ لوگوں کے لئے بھی استغفار کریں اور اپنی آنکھوں کے آنسوئوں سے گناہ کی آگ کو بُجھائیں کہ اس آگ کو یہی پانی بُجھا سکتا ہے۔
قانون کو ہاتھ میں لینے والے سے کیا سلوک کیا جائیگا
میں نے اس خیال سے کہ شاید اسی قسم کی غلطی میں بعض افرادِ جماعت مبتلا نہ ہوں، اعلان کیا ہے کہ جو شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا
اور کسی ذاتی یا جماعتی مخالف پر ہاتھ اُٹھائے گا، اُسے میں آئندہ فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا اور مَیں اس اعلان کو پھر اس جگہ دُہرا دیتا ہوں۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مُجرم کو سزا دینا حکومت کا کام ہے پس جن جرائم کی سزا حکومتِ ہند نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، اُس کی سزا وہی دے سکتی ہے ہم میں سے کوئی نہیں دے سکتا مگر جن امور کو باہمی سمجھوتے سے طے کرنے کا حکومت نے راستہ کُھلا چھوڑا ہے، ان کے متعلق یا تو ثالث مقدمہ سن کر فیصلہ کر سکتے ہیں یا پھر ہمارے سلسلہ میں سلسلہ کے مقرر کردہ افراد فیصلہ کر سکتے ہیں، افراد کو ان معاملات میں بھی یکطرفہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ اُمور جن میں باہمی سمجھوتوں کا دروازہ حکومت نے کُھلا رکھا ہے چھوٹی قسم کے ہوتے ہیں اور ان کی سزائیں ایسی نہیں ہوتیں جو کوئی دیرپا اثر چھوڑیں اور ان میں سزا پانے والے کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے جیسے سکول ماسٹروں کو سزا دینے کا اختیار ہے۔ ہمارے سلسلہ میں چونکہ ہر احمدی سلسلہ کے قانون کی پابندی کا اقرار کرتا ہے اس لئے ایسے اُمور کو اُس کی مستقل رضامندی کے ماتحت ہمارا محکمہ قضاء طے کرتا ہے لیکن اگر کوئی جماعت سے خارج ہو جائے یا عملاً ہمارے قاضیوں سے فیصلہ کرانے سے انکارکر دے تو پھر سلسلہ کو بھی کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ غرض یہ اختیار ایک طرف قانون کی اجازت اور ایک طرف مدعا علیہ کی اجازت سے مقیّد ہے اور اگر ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط پوری نہ ہو تو یہ اختیار باطل ہو جاتا ہے۔ پس جب کہ سلسلہ کے اختیارات بھی کسی کو اس کے جُرم کی سزا دینے میں قانون کی اجازت اور ملزم کی رضا مندی کے تابع ہیں، آزاد نہیں تو افراد کو کس طرح اجازت ہو سکتی ہے کہ آپ ہی آپ فیصلہ کر کے کسی شخص کو سزا دے دیں اور سزا بھی ایسی کہ عدالتی فیصلہ کے بعد بھی اس کے اجراء کا حق افراد کو نہیں پہنچتا۔
جماعت کیلئے ابتلاء
دوستوں کو یہ امر بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ایسے افعال خود جماعت کیلئے ابتلاء بن جاتے ہیں اور تمام جماعت کیلئے
ایک شدید ذہنی تکلیف کا موجب ہو جاتے ہیں مثلاً یہ واقعہ ہے۔ ایک طرف تو جماعت دیکھتی ہے کہ ایک ناجائزاور خلافِ شریعت فعل ہوا ہے جس کی مذمت ہمارا فرض ہے۔ دوسری طرف وہ یہ دیکھتی ہے کہ ایک نوجوان نے اشتعال میں محض محبتِ سلسلہ کے جذبہ سے متأثر ہو کر، نہ کہ کسی ذاتی جوش کی وجہ سے ایک فعل کیا ہے، اور اس شخص پر بھی انہیں رحم آتا ہے اور اس کے دکھ سے وہ دکھ پاتے ہیں، اب یہ مخالف جذبات جو ایک وقت میں پیدا ہوتے ہیں ایک سخت عذاب ہیں جس میں ساری جماعت مبتلاء ہو جاتی ہے۔ وہ نوجوان جس سے یہ فعل ہوا ہے، اپنی جگہ تکلیف میں ہے اور جماعت کے افراد اِن متضاد جذبات کی وجہ سے اپنی جگہ تکلیف میں ہیں اور ایسی تکلیف کی حالتیں ہمیشہ خلافِ شریعت افعال سے پیدا ہوتی ہیں، شریعت کی اتباع میں ایسی حالت پیدا نہیں ہوتی۔
میاں عزیز احمد اور دوستوں کو نصیحت
خلاصہ یہ کہ میاں عزیز احمد صاحب کا یہ فعل اسلامی شریعت اور سلسلہ کی
روایات کے خلاف تھا۔ پس ایک طرف تو میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں اور استغفار کریں اور دوسری طرف مَیں دوسرے دوستوں کو کہتا ہوںکہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے اور اگر کسی سے ایسی حرکت سرزد ہوئی تو مَیں اُسے فوراً جماعت سے خارج کر دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس امر کی توفیق دے کہ وہ سلسلہ کی خدمت حق اور صداقت سے کر سکیں۔
انتہائی اشتعال دلانے والے کی ذمہ واری
میں اس جگہ اس شُبہ کا بھی ازالہ کر دینا چاہتا
ہوں جو بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ’’لاتوں کے بُھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے‘‘۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ بعض گندی فطرت کے لوگ نصیحت اور وعظ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور جتنی ان سے نرمی کی جائے اتنی ہی ان کی شرارت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ لوگ اپنی فطرت کا خون کر چکے ہوتے ہیں اور شرافت کو دفنا چکے ہوتے ہیں اور میں اسے بھی تسلیم کرتا ہوں کہ جب انسانیت اور شرافت کی اپیلیں بالکل بے اثر ہو جاتی ہیں اور دشمنوں کی گالیاں اور اتہام حد سے بڑھتے جاتے ہیں اور ان کے حملے ناقابلِ برداشت ہوتے جاتے ہیں تو بعض طبائع کے لئے اپنے نفس پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے دماغ پر ایک عارضی جنون کا حملہ ہو جاتا ہے اور تمام جائز ذرائع کو بے اثر پا کر وہ اپنی بے خودی میں ناجائز ذرائع کے استعمال پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس حالت کو قانون نے بھی نظر انداز کیا اور بیسیوں ہائی کورٹ کے فیصلے ایسے ہیںجن میں انہوں نے اس قسم کی اشتعال کی صورت میں اشتعال دلانے والے کو برابر کا مُجرم قرار دے کر سزا میں بہت حد تک تخفیف کر دی ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں جو ایک ناگوار واقعہ محمد علی خان صاحب مرحوم کے ہاتھوں ظاہر ہوا تھا، اُس وقت بھی گو اُن کی سزا میں ہائی کورٹ نے تخفیف نہیں کی تھی لیکن اس امر کا اظہار زور دار لفظوں میں کیا تھاکہ اس حملہ کی ذمہ داری بہت حد تک جماعت کے امام اور اس کے خاندان کو گالیاں دینے والے مستریوں پر ہے اور ہائی کورٹ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری اس واقعہ کے متعلق مباہلہ کے اخبار سے تعلق رکھنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
غرض اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لوگ شریفانہ دلائل اور درخواستوں اور التجائوں کو بالکل ٹُھکرا دیتے ہیں اور اشتعال انگیزی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور بعض طبائع کیلئے اس حالت کا زیادہ دیر تک برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور سرکاری عدالتوںنے بھی اس صورتِ حالات کو تسلیم کیا ہے اور بعض دفعہ سزائوں میں بھی اس کا لحاظ رکھا ہے لیکن یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس اشتعال کی صورت میں حملہ کرنے والے کو کسی نے غیر مُجرم قرار نہیں دیا، نہ شریعت نے نہ قانون نے۔ اور عدالتوں نے گو سزا میں بعض دفعہ تخفیف کر دی ہے مگر کبھی ایسے شخص کو معاف نہیں کیا۔
سخت اشتعال میں کوئی فعل کرنے والے کو معذور نہیں قرار دیا گیا
پس قانون اور شریعت نے اس حالت کو گو نیم مجبوری تسلیم کیا ہے، معذوری قرار نہیں دیا اور جب تک ایک عمل کو معذوری
قرار نہ دیا جائے اُس وقت تک اس کے گناہ ہونے میں کوئی شُبہ نہیں ہوتا اور جب تک ایک عمل گناہ ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سے بچیں۔ ورنہ ہماری مثال وہی ہوگی کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ایک طرف ہم دشمنوں سے گالیاں بھی سنیں گے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا دروازہ کھولیں گے۔
برداشت نہ ہو سکے تو کیا کریں
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ایسے موقع پر برداشت نہ ہو سکے تو ہم کیا کریں۔
اس کاجواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں چاہئے کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ دیں جس جگہ ان کیلئے اشتعال میں قانون شکنی کا امکان ہو۔ مثلاً ان ایام میں کہ قادیان ہماری مقدس بستی، ہماری امیدوں کے مرکز، ہمارے شعائر اللہ کے مقام کو بعض لوگوں نے فساد کی جگہ بنا رکھا ہے، اگر کسی شخص کو آج کل کے حالات کو دیکھ کر معلوم ہو کہ وہ اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکے گا تو اُسے چاہئے کہ وہ کچھ دنوں کیلئے قادیان کو چھوڑ کر باہر چلا جائے تا کہ نہ وہ لوگ اِسے نظر آئیں جن کو دیکھنا اس کے اندر اشتعال پیدا کرتا ہے اور نہ وہ کسی خلافِ قانون حرکت کا ارتکاب کرے اور اُس وقت واپس آئے جب وہ محسوس کرے کہ اس کے اُبھرے ہوئے جذبات دب گئے ہیں اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے، اگر اشتعال میں آنے والے دوست اِس پر عمل کریں تو یقینا وہ ابتلاء سے محفوظ ہو جائیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو غصہ آئے تو وہ ٹھنڈا پانی پی لے، اگر وہ چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے اور اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے ۲؎ اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ غصہ کی حالت کو اگر بدل دیا جائے تو غصہ بھی بدل جاتا ہے اور پھر مومن کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ مومن کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر مومن قانون کو ہاتھ میں لیں تو کیا ان کے ایسا کرنے سے فساد دُور ہو جائے گا۔ اِس کا نتیجہ تو صرف یہ نکلے گا کہ ایک مخالف کی جان کو ضائع کرنے میں مومن کی قیمتی جان بھی ضائع جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ پر سب سے گراں کام مومن کی جان نکالنا ہوتا ہے۔۳؎
پس جس جان کی قیمت اِس قدر زیادہ ہو اُسے ایک مخالف کی جان لینے کی خاطر کیوں ضائع کیا جائے سوائے اس کے کہ باقاعدہ جہاد میں ایسا کرنا پڑے۔ غرض کسی نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھوایسے اعمال ناپسندیدہ ہیں اور اس بارہ میں سب شُبہات غلط فہمی یا قلّتِ تدبّر کا نتیجہ ہیں۔
پس دوستوں کو اپنے لئے بھی اور عزیز احمد کیلئے بھی استغفار کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہوں کو معاف کرے اور خلافِ شریعت اعمال سے محفوظ رکھے۔
قرآن ہمارے لئے کامل ہدایت نامہ ہے
ہمارے دوستوںکو یاد رکھنا چاہئے کہ سلسلہ احمدیہ کے
قیام کی اصل غرض قرآنی حکومت کا قیام ہے۔ اگر ہم اس غرض کو خود اپنے اعمال سے باطل کریں تو ہم سے زیادہ شقّی کوئی نہیں ہو سکتا جو سپاہی اپنی ہی فوج پر حملہ کرے اس سے کیا فائدہ اور جو سرنگ اپنے ہی قلعہ کو اُڑائے اس سے زیادہ خطرناک اور کیا شَے ہو سکتی ہے۔ ہمیں ایک فیصلہ کر لینا چاہئے کہ آیا قرآن ہر حالت کے لئے اور ہر زمانہ کیلئے ہدایت نامہ ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے سب اعمال اس کے تابع کر دینے چاہئیں اور اگر نہیں تو پھر ہمیں جائز نہیں کہ ہم دنیا کو دھوکا دیں اورکہتے پھریں کہ قرآن کامل کتاب ہے، قرآن کامل کتاب ہے۔ اگر وہ کامل کتاب ہے تو ہمیں اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرنی چاہئے اور اس کی اطاعت کا جوا خوشی سے اپنی گردن پر اُٹھانا چاہئے۔
اصولی ہدایت
قرآن کریم ہمیں اپنی زندگی کو صحیح طور پر صَرف کرنے کیلئے ایک اصولی ہدایت دیتا ہے جو یہ ہے۔ لَیْسَ الْبِرُّبِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ
ظُھُوْرِھَاوَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ ۴؎ ان آیات سے مندرجہ ذیل سات امور کا استنباط ہوتا ہے۔
غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہوجاتا ہے
پہلی بات اس آیت سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہو جاتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں جن میں
داخل ہونے کا تم کو ہر وقت اور پورا اختیار ہے ان میں بھی اگر تم دیواریں پھاند پھاند کر داخل ہو تو یہ امر خدا تعالیٰ کے نزدیک نیکی نہیں سمجھا جائے گا۔ اس مثال سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کام کے لئے ایک راستہ بتایا ہے اگر تو انسان اس راستہ سے اس کام کو کرتا ہے تو اس کا کام نیکی قرار دیا جائے گا لیکن اگر کام نیک ہو مگر اس کے کرنے کا طریق غلط ہو تو پھر وہ عمل نیک نہیں رہے گا۔ مثلاً نماز ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر وضو کے نماز پڑھے یا پہلے نماز پڑھ لے اور بعد میں وضو کرے یا بے وقت نماز پڑھے تو باوجود اس کے کہ وہ نماز پڑھے گا جو ایک عبادت ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکے گا بلکہ ایک بدی کا مرتکب ہوگا۔ بعینہٖ اسی طرح اظہارِ غضب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت کو ایک نیکی قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ خود بھی نہایت غیرت مند ہے اور وہ بُری باتوں پر اظہارِ غضب بھی کرتا ہے لیکن غیرت کے جائز موقع پر بھی اگر کوئی شخص غیرت کا اظہارغلط طریق پر کرے اور شریعت جس موقع پر غضب کی اجازت دیتی ہے غضب تو اسی موقع پر ظاہر کرے لیکن اس کا طریق بدل دے تو یہ گناہ ہو جائے گا۔ مثلاً شریعت اظہارِ غیرت یا اظہارِ غضب کا یہ طریق بتائے کہ اس جگہ سے مومن اُٹھ جائے مگر مومن بجائے وہاں سے اُٹھ کر چلے جانے کے لڑنے لگے تو شریعت اس مومن کو بھی گناہ گار قرار دیگی۔
نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا چاہئے
دوسری بات جو اس آیت سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نیکی تقویٰ
کا نام ہے یعنی نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا۔
پس مومن کا فرض ہے کہ ہر گھر میںاُس کے دروازہ سے داخل ہو۔ یعنی ہر نیک کام کیلئے خدا تعالیٰ نے جو طریق تجویز کیا ہے اُس طریق سے اس کام کو کرے اور جو شخص اس طریق سے کام نہ کرے وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اشتعال دلانے والے ہیں اور مذہب کے بارہ میں ہنسی اور مذاق کرتے ہیں ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا ہدایت دی ہے۔ وہ ہدایت اظہارِ غضب کی عمارت اور اظہار غیرت کی عمارت کیلئے دروازہ سمجھی جائے گی اور اس کے سِوا کسی اور دروازہ سے داخل ہونا ناجائز ہوگا۔ سو ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ اس بارہ میں تین منفی ہدایات ہیں۔ یعنی ایسی ہدایات جن میں اشتعال دلانے والے لوگوں کی اشتعال انگیزی سے محفوظ رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔اوّل تو سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیَاتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَئُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۵؎ یعنی قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل کیا گیا ہے کہ جب مومن کسی مجلس میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا معاندانہ طور پر انکار کیا جا رہا ہے اور اس سے ہنسی کی جا رہی ہے تو اُس وقت ایسے لوگوں کی مجلس میں مومن نہ بیٹھے اور وہاں سے اُٹھ کر چلا جائے اور اس مجلس سے اُس وقت تک اجتناب کرے کہ معاند لوگ اس ذکر کو چھوڑ کر کسی اور بات میں جواس قسم کی اشتعال انگیز نہ ہو مشغول ہو جائیں۔ اگر کوئی مومن اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بھی ہنسی کرنے والوں میں سمجھا جائے گا۔ یہ حکم اُن لوگوں کے متعلق ہے جو کبھی کبھار غلطی کرتے ہیں، عام طور پر ہنسی اور مخول کے عادی نہیں ہوتے۔
دوسرا حکم قرآن کریم نے اُن لوگوں کے متعلق دیا ہے جو ہنسی اور مذاق کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں اُن کے بارہ میں فرماتا ہے۔ وَلا تَرْکُنُوْآ اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّّکُمُ النَّارُ۶؎ یعنی جو لوگ دین کے معاملہ میں ظلم کے عادی ہیں، اُن کی مجلسوں سے کُلّی اجتناب کرو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو تم آگ میں پڑ جائو گے۔ ’’آگ میں پڑ جائو گے‘‘ کے یہی معنی ہیں کہ اگر بے غیرتی دکھائو گے تو بھی خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جائو گے اور اگر جوش میں آ کر کوئی خلافِ شریعت بات کر بیٹھو گے تب بھی عذاب میں مبتلاء ہوگے۔ پس جب کہ ایسی مجالس اور ایسے لوگوں کا قُرب تمہارے لئے ہلاکت کا موجب ہیں تو ان سے اجتناب کرنا ہی تمہارے لئے اچھا ہے۔
ان دونوں ہدایتوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب دشمن اشتعال دلائے تو مومن کو چاہئے کہ اس کے پاس جانے سے اجتناب کرے اور اس سے دُور بھاگے تا کہ اس کا نفس جوش میں آ کر اس سے کوئی ناجائز حرکت نہ کروا دے یا اس کا دل غیرت کا جذبہ کھو کر خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر نہ بھڑکا لے۔
ذکرِ الٰہی اور دعا میں لگ جائو
تیسری ہدایت قرآن کریم اس حالت کے متعلق دیتا ہے کہ جب انسان باوجود کوشش کے ایسے مواقع
سے نہیں بچ سکتا اور وہ یہ ہے اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَامَسَّھُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۷؎ یعنی متقیوں کو جب مخالفوں کے اشتعال دلانے سے اشتعال آ جائے تو وہ فوراً ذکرِالٰہی شروع کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگ جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فوراً ان کا غصہ حد کے اندر آ جاتا ہے اور وہ عقل کے مارے جانے والی کیفیت جو انسان سے جرائم کا ارتکاب کرا دیتی ہے دُور ہو جاتی ہے اور وہ پھر دانائی اور تدبّر کے مقام پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
غرض اشتعال کے مواقع کیلئے قرآن کریم نے ہمیں تفصیلی ہدایات دی ہیں اور وہ اظہارِ غیرت اور اظہارِ غضب کے خُلق کے لئے بمنزلہ دروازہ کے ہیں انہی دروازوں میں سے گزر کر انسان غضب اور غیرت کی عمارت میں داخل ہو سکتا ہے ان کو چھوڑ کر کسی اور دروازہ سے داخل ہونا مومن کیلئے جائز نہیں ہے۔
خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور انسانی کامیابی کی راہ
تیسری بات جو مذکورہ بالا آیات
سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوپر کے بتائے ہوئے راستہ میں ہے بلکہ خود انسان کی کامیابی بھی اسی راہ پر چلنے میں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یعنی یہ حکم ہم نے یونہی نہیں دیئے، تمہاری ترقی اور کامیابی بھی اسی طریق سے وابستہ ہے۔ کامیابی کا اس امر کے ساتھ وابستہ ہونا ایک ظاہر امر ہے، جو راستے کسی عمارت میں داخل ہونے کے ہوں جب انسان ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں کو چھوڑ کر دیواریں پھاندنی شروع کرے تو اُس کی تکلیف بڑھ جائے گی اور اُس کی حماقت کی بھی لوگ الگ شکایت کرنے لگیں گے۔ اِس زیر بحث سوال میں کامیابی کا تعلق اس طرح ظاہر ہے کہ جب انسان جوش میں آتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے۔ چنانچہ سورہ اعراف کی جو آیت میں نے اوپر درج کی ہے، اس میں یہی بتایا ہے کہ اگر انسان غصہ کے ماتحت کام کرے تو اُس کا کام عقل کی مدد سے نہیں ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ جس قوم کے کام عقل کی مدد سے نہ ہوں گے وہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس چاہئے کہ اپنے کاموں کو عقل کے تابع رکھے تا کہ ہر قدم اُٹھاتے ہوئے اُسے معلوم ہو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اور وہ ان افعال سے بچ سکے جن کا نتیجہ بُرا نکلتا ہو۔
کسی پر جارحانہ حملہ کرنا خلافِ شریعت ہے
چوتھی بات ان آیات سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ
کسی شخص پر جارحانہ حملہ کرنا خلافِ شریعت ہے۔ چنانچہ آیات مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ یہ تو تمہارے لئے جائز ہے کہ اگر کوئی تم پر قاتلانہ حملہ کرے تو تم اپنا بچائو کرو لیکن تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم خود کسی پر جا کر حملہ کر دو۔
مقررہ حدود کے اندر دفاع جائز ہے
پانچواں استنباط ان آیات سے یہ ہوتا ہے کہ دفاع بھی وہ جائز ہے جو
مقررہ حدود کے اندر ہو۔ یعنی دفاع میں بھی انسان پوری طرح آزاد نہیں اس کے لئے بھی قیود اور شرائط ہیں اور ان قیود اور شرائط سے آزاد ہو کر جو دفاع کیا جائے وہ بھی ناجائز اور حرام ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو تھپڑ مارے تو جس شخص کو تھپڑ مارا گیا ہے اس کیلئے یہ درست نہ ہوگا کہ اس تھپڑ سے بچنے کیلئے دوسرے شخص کا سر پھوڑ دے۔
مظلوم جو خدا کی نظر سے گر جاتا ہے
چَھٹی بات ان آیات سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان قیود کو توڑ دے
تو باوجود مظلوم ہونے کے خدا تعالیٰ کی نظروں سے وہ گر جائے گا کیونکہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ لایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر تم دفاع میں بھی اعتداء سے کام لو اور خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ قیود کو نظر انداز کر دو، تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کھو بیٹھو گے اور اس کی نصرت تم سے جاتی رہے گی۔
یہ وہ احکام ہیں جو قرآن کریم نے اصولی طور پر ہمیں اپنے مخالفوں کے مقابلہ کیلئے دیئے ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ جب تک ہم ان قواعد کی پابندی نہیں کرتے نہ ہمارا ایمان کامل ہو سکتا ہے اور نہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اس میں بھی کیا شک ہے کہ اگر ہم خود قرآن کریم کے احکام کو اپنی سب ضروریات کو پورا کرنے والا قرار نہ دیں تو ہم دشمنوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش نہیں کر سکتے کہ ہماری کتاب مکمل کتاب ہے تم اس کو تسلیم کر لو کیونکہ اس صورت میں وہ جواب دیں گے کہ جب تم لوگ خود اس کو اپنے لئے کافی نہیں سمجھتے اور بعض مواقع پر اپنے لئے اس کے بتائے ہوئے راستہ کے سوا اور راستہ تلاش کرتے ہو تو ہم کو کس منہ سے اس کی طرف بلاتے ہو۔
خلافت اسلام کا اہم جزو ہے
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ موجودہ فتنہ خلافت
کے خلاف ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جو اس سے بغاوت کرتا ہے وہ اسلام سے بغاوت کرتا ہے۔ اگر ہمارا یہ خیال درست ہے تو جو لوگ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں، ان کیلئے اَلِاْمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ۸؎ کا حکم بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ خلافت کی غرض تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال پیدا کیا جائے اور اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال خلافت کے ذریعہ سے تبھی پیدا کیا جا سکتا ہے، اگر خلیفہ کی ہدایات پر پورے طور پر عمل کیا جائے۔ اور جس طرح نماز میں امام کے رکوع کے ساتھ رکوع اور قیام کے ساتھ قیام اور سجدہ کے ساتھ سجدہ کیا جاتا ہے، اسی طرح خلیفہ وقت کے اشارہ کے ماتحت ساری جماعت چلے اور اس کے حکم سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ نماز کا امام جو صرف چند مقتدیوں کا امام ہوتا ہے جب اس کے بارہ میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو اس کے رکوع اور سجدہ میں جانے سے پہلے رکوع یا سجدہ میں جاتا ہے یا اس سے پہلے سراُٹھاتا ہے، وہ گنہگار ہے۔۹؎ تو جو شخص ساری قوم کا امام ہو اور اس کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی ہو، اس کی اطاعت کتنی ضروری سمجھی جائے گی۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ اسی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ:۔
اَلِاْمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ تم اپنی انفرادی عبادتوں میں شریعتِ اسلامیہ کے مطابق جس طرح چاہو عمل کرو لیکن اپنی قوم کے مخالفوں کے مقابلہ کا جب وقت آئے، اُس وقت تمہاری سب آزادی سلب ہو جاتی ہے اور تم کو حق نہیں پہنچتا کہ امام کی موجودگی اور آزادی کے وقت میں تم اس بارہ میں کوئی آزاد فیصلہ کرو بلکہ چاہئے کہ امام تمہارے لئے بطور ڈھال کے ہو۔ جس طرح سپاہی ڈھال کے پیچھے چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں ڈھال سے اِدھر اُدھر ہؤا اور مرا۔ اسی طرح تم سب امام کے اشارہ پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔ جب وہ حُکم دے بڑھو اور جب وہ حُکم دے ٹھہر جاؤ۔ اور جدھر بڑھنے کا وہ حُکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حُکم دے اُدھر سے ہٹ آؤ۔
اِس حُکم کی جب تک فرمانبرداری نہ کی جائے، خلافت ایک بے معنی شَے رہ جاتی ہے اور وہ اتحاد جس کے پیدا کرنے کیلئے اسلام نے یہ سب سامان پیدا کیا ہے، کسی طرح بھی پیدا نہیں ہو سکتا اور اسلام کی وہ ترقی جو اِس اتحاد سے مقصود ہے، حاصل نہیں ہو سکتی۔ ادھوری اتباع صرف طاقت کو ضائع کرنے والی ہوتی ہے۔ اس سے صرف لوگوں کی آزادی چِھنتی ہے اور وہ شیریں پھل نہیں پیدا ہوتے جن پھلوںکا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا منشا ہے اور جن پھلوں کو کھا کر مومن اسی دنیا میںجنت کے مزے لُوٹ سکتا ہے۔
دعا اور صبر کی تلوار سے کام لو
اس اصل کو مدنظر رکھ کر دوست دیکھیں کہ گزشتہ ایام میں مَیں نے انہیں کیا نصیحتیں کی تھیں۔
اوّل چند ہفتے ہی ہوئے ہیں کہ میں نے اپنے لڑکے مرزا منور احمد کا ذکر کیا تھا کہ وہ احمدیہ ہوسٹل لاہور میں ایک لڑائی میں شامل ہو گیا اِس وجہ سے کہ اسے کسی نے تھپڑ مار دیا تھا۔ میں نے بتایا تھا کہ مجھے اس امر کا سخت صدمہ ہوا اور میں نے اسے اُس پر زجرکی اور کہا کہ کسی سے مار کھا کر مار لینا تو ایک شریف ہندو اور ایک شریف عیسائی سے بھی متوقع ہے، تم جو مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد سے ہو، تم نے کیوں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہ کیا کہ :۔
گالیاں سنکر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
اور میں نے اُسے کہا کہ اگر تم ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہ کرو گے تو دوسرے لوگوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
یہ واقعہ مَیں نے اِس قدر قریب کے زمانہ میں دوستوں کو سنایا تھاکہ اسے اس قدر جلد فراموش نہیں کیا جا سکتا تھا مگر افسوس کہ آپ میں سے بعض نے اسے فراموش کر دیا اس لئے اب میں پھر جماعت کی توجہ اس طرف پھراتا ہوں کہ میری پالیسی یہی ہے کہ صبر سے کام لو اور اینٹ کا جواب اینٹ سے اور پتھر کا جواب پتھر سے نہ دو بلکہ گالیاں سنو اور خاموش رہو۔ اشتعال پیدا ہو تو اس جگہ کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب ہمارے خدا کے امتحان ہیں۔ وہ ہم کو اُس روحانی جنگ کیلئے جو اسلام کی فتح کیلئے روحانی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی ہے تیار کر رہا ہے۔ اگر اُس نے ہم سے ظاہری تلواریں چلوانی ہوتیں تو وہ ہم کو ظاہری حکومت اور ظاہری فوج بھی عطا کرتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ہم سے دعا اور صبر کی تلوار چلوانا چاہتا ہے، نہ کہ لوہے کی تلوار۔
اسلام اور شریعت کے خلاف کوئی حرکت نہ کرو
دوسری نصیحت میں نے اس کے بعد
بالکل قریب عرصہ میں کی تھی جو یہ ہے:۔
’’پھر بھی چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں اور وہ غلطی کر سکتے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے اشتعال کے موقع پر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ پس اپنے ایمانوںکو درست رکھو اور کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہو۔ تم کو اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل میں خلافت کی ایک بکری کی مینگنی کے برابر بھی قیمت نہیں ہو سکتی اگر اس کی تائید کیلئے جھوٹ اور فریب سے کام لیا جائے۔ خلافت اُسی وقت تک قابلِ قدر ہے جب صداقت کی تلوار سے اس پر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا جائے اور انصاف کے تیروں سے اِس کی حفاظت کی جائے۔ پس یاد رکھو کہ خواہ کیسی ہی حالت پیش آئے تم عدل اور انصاف کو نہ چھوڑو اور جو سچائی ہو اُسے اختیار کرو تا دشمن کو تمہارے متعلق کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص تمہیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے تو خواہ وہ ناظر ہی کیوں نہ ہو، تم فوراً اُس کی رپورٹ میرے پاس کرو کیونکہ ہمارے پاس ایمان کے سِوا اور کوئی چیز نہیں۔ ہم کنگال اور خالی ہاتھ ہیں اگر ایمان کی دولت بھی ہمارے ہاتھ میں نہ رہی اور اگر ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا تو پھر ہماری حالت وہی ہو گی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ :
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
پس صداقت اور انصاف سے کام لو اور غیرت اور قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرو۔ مگر یاد رکھو تم نے ظلم نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنااور اگر کوئی شخص تمہیں ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے کی تعلیم دیتا ہے تمہیں کہتا ہے کہ جاؤ اور اپنے دشمن کو مار آؤ۔ یا جاؤ اور اُسے پیٹو، تو تم فوراً سمجھ جاؤ کہ تمہارے سامنے ایمان کا جُبّہ پہنے ایک شیطان کھڑا ہے اور تم فوراً سمجھ لو کہ وہ میری نافرمانی کرنے والا ہے اور میری اطاعت سے منہ موڑنے والا انسان ہے۔ تم فوراً میرے پاس آؤ اور ایسے شخص کی شکایت کرو۔ اور اُس گندے وجود کو کاٹنے کی جلد تر کوشش کرو ایسا نہ ہو کہ وہ باقی قوم کو بھی گندہ کر دے‘‘۔ ۱۰؎
اِس عبارت کو پڑھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے اُسے اپنی پالیسی اچھی طرح کھول کر نہیں بتا دی۔ پھر اگر آپ لوگ میری اِس واضح پالیسی پر عمل نہ کریں تو میں کیونکر یقین کروں کہ آپ لوگ پوری طرح میرے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ امام کا فائدہ یہی ہے کہ اس کے حُکم کے مطابق ساری جماعت ایک آواز اُٹھائے پس جب تک امام ایک جماعت میں موجود ہے اور ایک خاص پالیسی کو اس کے عمل کیلئے پیش کر رہا ہے، اُس وقت اس جماعت کیلئے کوئی دوسرا قدم اُٹھانا درست اور جائز نہیں۔ ہاں جس امر میں وہ خاموش ہو اور وہ امر جماعت سے نہیںبلکہ افراد سے تعلق رکھتا ہو، افراد اپنے لئے شریعت کے مطابق طریق عمل تجویز کرنے میں آزاد ہوتے ہیں مگر جس امر کے متعلق امام ایک حُکم دے اُس میں اُس کے حُکم کے خلاف وہ امور بھی جائز نہیں ہوتے جن کو دوسرے حالات میں شریعت نے جائز قرار دیا ہو۔
اطاعت امام کی اہمیت
قرآن کریم نے اطاعتِ امام کو ایسا اہم قرار دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور نصیحت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ فرماتا ہے:۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ وَلا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْاسَمِعْنَا وَھُمْ لایَسْمَعُوْنَo اِنَّ شَرَّالدَّوَابِّ عِنْدَاللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لایَعْقِلُوْنَo وَلَوْعَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًالَّاَ سْمَعَھُمْ وَلَوْاَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْاوَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَo یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْالِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوٓااَنَّ اللَّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَo وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo ۱۱؎
یعنی اے مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور رسول کا حُکم سن لینے کے بعد اس کے حکم سے اِدھر اُدھر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سے سب سے بدتر وہ مخلوق ہے جو گونگی، بہری ہو اور عقل سے کام نہ لے اور اگر اللہ تعالیٰ اس مخلوق میںکوئی نیکی دیکھتا تو ضرور انہیں اپنی اور اپنے رسول کی بات سنوا دیتا اور اگر انہیں وہ اس وقت وہ بات سنوا دیتا تو اپنی موجودہ حالت کے مطابق تو وہ یہی کرتے کہ اس سے نفرت سے منہ پھیر لیتے اور ماننے سے انکار کر دیتے۔ اے مومنو! جس وقت خدا اور اُس کا رسول تم کو روحانی زندگی بخشنے کیلئے بُلائیں تو تم ان کی بات کو فوراً قبول کر لیا کرو اور یاد رکھو کہ اللہ انسان اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ آخر تم سب کو اس کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جانا ہے اور چاہئے کہ تم اِس فتنہ سے بچو جو صرف تم میں سے غلطی کرنے والوں تک محدود نہ رہے گا اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی سزا بہت سخت ہوتی ہے۔
ان آیات میں گو اللہ اور اس کے رسول کا ذکر ہے لیکن جیسا کہ قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے، رسول کے متعلق جو احکام نظامِ سلسلہ کے متعلق ہیں وہ رسول کے خلفا ء کے متعلق بھی ہیں اور یہاں چونکہ نظام کے بارہ میں احکام ہیں یہ جس طرح رسول کے بارہ میں ہیں اسی طرح ان کے خلفاء کے متعلق بھی ہیں۔ نیز رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ۱۲؎ جو میرے امیر کی اطاعت کرتا ہے، وہ میری اطاعت کرتا ہے۔ پس رسول کے نائبوں کی اطاعت رسول کی اطاعت میں شامل ہے۔
اِس تمہید کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو تاکید کرتا ہے کہ خداتعالیٰ اور اُس کے رسول کی کامل اطاعت کریں اور اس میں ذرّہ بھر فرق نہ آنے دیں اور اطاعت میں وہ اس قدر بڑھ جائیں کہ کان میںآواز پڑنے کے بعد پھر کوئی نافرمانی کی مثال نہ ملے۔ پھر فرماتا ہے کہ مسلمانوں میں یہ مثال نہیں ملنی چاہئے کہ منہ سے تو کہیں ہم فرمانبردار ہیں لیکن عمل سے فرمانبردار نہ ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اِس جدید نظام کے قیام کی اصل غرض ہی یہ ہے کہ پہلی قومیں گونگی اور بہری ہو گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو سنکر لَبَّیْکَ کہتے ہوئے نہیںدَوڑتیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت ان سے جاتی رہی ہے اور اُس نے اپنے لئے تم کو منتخب کیا ہے تا کہ تم اُس کی بات سنو اور سنتے ہی اس کی طرف دَوڑ پڑو۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کے احکام ہی وہ احکام ہیں جو انسان کو کامل اور دائمی زندگی عطا کرتے ہیں، جو ان سے دُور ہؤا وہ گویا مُردہ ہے جو روحانی زندگی سے محروم ہے۔ پس جبکہ ساری دنیا روحانی طور پر مُردہ ہے تم کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جن کے دروازے ان دنوں خاص طور پر کُھلے ہوئے ہیں، بڑھ بڑھ کر حاصل کرو اور اس کی صورت یہی ہے کہ کامل مطیع ہو جاؤ اور ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہو، ادھر خداتعالیٰ کی طرف سے یا اس کے رسول کی طرف سے آواز آئے اُدھر تم لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ کرتے ہوئے دَوڑ پڑو۔ اور یاد رکھو کہ برکات اور فضلوں کے نزول کے بھی خاص اوقات ہوتے ہیں جو شخص ان اوقات سے فائدہ نہیں اُٹھاتا، آخر اُس کا دل بھی مُردہ ہو جاتا ہے اور وہ بھی منکروں کی طرح خدا اور اُس کے رسول کی آواز کے سننے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو شخص بشاشت اور اخلاص سے اس کی اور اسکے رسول کی آواز کو نہیں سنتا اور اپنے نفس کو اُن کے حُکم سننے کیلئے آمادہ نہیں کرتااور انانیت اور کِبر کے دوزہراس میںموجود ہوتے ہیں اور سفلی زندگی کا کوئی حصہ اس میں باقی رہ جاتا ہے تو خداتعالیٰ اس کے دل کو سخت کر دیتا ہے۔ پھر اگر ایسے شخص کا دماغ سچائی کو قبول بھی کر لے اور اُس کی فکر اور عقل اسے صحیح بھی تسلیم کر لے تب بھی اس کا دل چونکہ مُردہ ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے دماغ اور دل کے درمیان میں ایک دیوار حائل کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے دل، دماغ کا حُکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور گو عقل ایسے انسان کی تسلّی پاچکی ہوتی ہے مگر اُس کا قلب عمل کرنے سے دریغ کرتا ہے اور نفس اطاعتِ الٰہی میں لذت نہیںپاتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص ایمان کے مرتبہ سے محروم رہ جاتا ہے اور وہ زندگی جو مومنوں کیلئے مقدر ہے اس شخص کو حاصل نہیں ہوتی۔
اپنے بھائیوں کے افعال کی نگرانی
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم تم سے ایسی اطاعت اور فرمانبرداری
کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنے نفس کو بُھول کر گویا قوم کے وجود کا حصہ ہو جائے تو اس کے جہاں فوائد ہونگے وہاں نقصان بھی ہونگے۔ یعنی ایسی منظم قوم کا اگر ایک فرد کوئی غلطی کرے گا تو لوگ اسے ساری قوم کی طرف منسوب کریں گے کیونکہ ان کے نظام کو دیکھتے ہوئے لوگ اِس امر کے سمجھنے سے قاصر ہوں گے کہ کسی شخص نے بغیر باقی قوم کے مشورہ کے کوئی کام کیا ہو، پس فرماتا ہے کہ یہ ایک سخت خطرہ ہے جو نظام کے ساتھ لاحق ہوتا ہے۔ اس میں ہزاروں خوبیاں بھی ہیں اور بعض خطرات بھی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ایک منظم قوم کا کوئی فرد کوئی غلطی کرتا ہے تو لوگ اسے ساری قوم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور اس کو انفرادی فعل قرار دینے سے انکار کر دیتے ہیں اس لئے مومنوں کو چاہئے کہ اپنے بھائیوں کے افعال کی نگرانی کریں اور افراد کو بھی چاہئے کہ جب کوئی کام کرنے لگیں، اِس خطرہ کو سامنے رکھیں کہ ہمارا کام ساری قوم کی طرف منسوب ہو گا اور ہم اپنی غلطی سے جماعت کو بدنام کر دیں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی جماعت کو بدنام کر کے خدا کے غضب کو بھڑکانے والے ہونگے۔
دیکھو کس لطیف پیرایہ میں فرمانبرداری کی ضرورت اور پھر اس کے بعض خطرات کو بیان کیا ہے جن کو مدنظر رکھے بغیر نظام کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہماری جماعت کے وہ دوست جو فکر کرنے کے عادی ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا گزشتہ تجربہ ان آیات کے مضمون کی صداقت کا کیسا شاہد ہے۔ جب بھی ہماری جماعت نے کامل اطاعت کا نمونہ دکھایا ہے، تھوڑے سے سامان سے عظیم الشان نتائج پیدا ہوئے ہیں اور جب بھی ہم میں کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، ساری جماعت کی بدنامی ہوئی ہے حالانکہ دوسری اقوام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کا کوئی فرد غلطی کرتا ہے تو وہ قوم کی طرف منسوب نہیں ہوتی جس کی یہی وجہ ہے کہ وہ جماعتیں منظم نہیں ہیں اس لئے جہاں وہ تنظیم کے فوائد سے محروم ہیں وہاں اس کے خطرات سے بھی وہ محفوظ ہیں۔
ہماری مثال بتّیس دانتوں کے درمیان زبان کی سی ہے
مجھے افسوس ہے کہ اِس قسم
کے واقعات خواہ کتنے ہی قلیل ہوں ان سے ہمارے کام کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت مصائب اور مخالفت کے اوقات میں جس صبر کا نمونہ دکھاتی ہے اس کی مثال دوسری اقوام میں نہیںپائی جاتی لیکن ہماری مثال بتّیس دانتوں کے اندر رہنے والی زبان کی سی ہے جو بات دوسرے لوگوں میں عیب نہیں سمجھی جاتی ہم میں عیب سمجھی جاتی ہے اور لوگ ہم سے ایسے اخلاق کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا دوسرے سے مطالبہ نہیں کرتے۔ اور میں سمجھتا ہوں ہمارے دعووں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا یہ مطالبہ درست بھی ہے۔ پس جب کبھی ہمارے کسی آدمی سے غلطی کی وجہ سے کوئی ابتلاء آئے وہ جماعت کو ہِلا دینے والا ہوتا ہے۔
موجودہ فتنہ کے فوائد میں التوا
میں مثنوی رومی کے اس قول کا بڑے وثوق سے قائل ہوں کہ:
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ اند
زیرآں گنج کرم بنہادہ اند
اور کئی دفعہ اس سے متعلق اپنے خطبات میں بیان بھی کر چکا ہوں۔ موجودہ فتنہ بھی درحقیقت ایک رحمتِ الٰہی تھا اگر یہ واقعہ نہ ہو جاتا۔ اس واقعہ نے اُن فوائد کو جو اِس فتنہ سے پہنچنے والے تھے، کم سے کم کچھ عرصہ کیلئے پیچھے ڈال دیا۔ میرا تجربہ ہے کہ جو ایسے فِتنے اُٹھتے ہیں وہ مومنوں کے ایمان کو بڑھانے والے ہوتے ہیں، بے شک وہ کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتے ہیں مگر کمزوروں کا ساتھ رہنا تو کوئی فائدہ کی بات نہیں ہوتی، کمزور کا نکل جانا اُس کے اندر رہنے سے اچھا ہوتا ہے۔ پس جو نقصان ایسے فِتنوں کا ہوتا ہے وہ ظاہری نقصان نظر آتا ہے، اصل میں وہ نفع ہوتا ہے اور جو فائدے ہوتے ہیں یعنی جماعت میں بیداری کا پیدا ہونا اور دعاؤں کی کثرت اور اِنابت الی اللہ اور دین کیلئے ایثار کا جوش یہ باتیں مستقل ہوتی ہیں اور ان کی مدد سے جماعت کہیں سے کہیںنکل جاتی ہے اور دشمن جو نقصان پہنچانا چاہتا تھا، اِس ترقی کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے جیسا کہ احرار کے فتنہ کے وقت میں ہؤا۔ مگر ایسے ابتلاء جن سے ترقی ہوتی ہے وہی ہوتے ہیں جو یااللہ تعالیٰ کی طرف سے بیداری کیلئے آتے ہیں یا معاندوں کی طرف سے تباہ کرنے کیلئے اُٹھائے جاتے ہیں۔ اوّل الذکر فِتنوں میں مومن اگر صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس سے اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ثانی الذکر فتنوں میں اگر مومن اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑک کر اس کیلئے آسمانی تائیدات کے سامان پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن یہ فِتنے جو خود اپنے ہی کسی آدمی کی غلطی سے پیدا ہو جائیںترقیات کے راستہ میں روک بن جاتے ہیں اور ان کا علاج یہی ہوتا ہے کہ جس سے غلطی ہو وہ بھی استغفار کرے اور دوسرے مومن بھی استغفار کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ۱۳؎
یعنی عذاب دو ہی طرح رُکتا ہے یا تو اس طرح کہ ظاہری باطنی قُرب محمد رسول اللہ ﷺ سے حاصل ہو اور یا پھر اس طرح کہ انسان اس بُعد پر جو اُسے اپنی غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ سے پیدا ہو گیا ہو اور وہ جو ترکِ سنتِ نبوی کر چکا ہو اس پر استغفار کرے اور اپنے گناہ کی اللہ تعالیٰ سے معانی مانگے۔ غرض عذاب سے نجات آنحضرت ﷺ کے قُرب میں ہے یا پھر اگر کسی وقت انسان اس قُرب سے مُحروم رہ جائے تو بُعد کے احساس اور اس کے دُور ہونے کیلئے گریہ و زاری کرنے میں ہی ہے۔
تازہ تجربہ سے فائدہ اُٹھاؤ
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو گند گزشتہ دنوں میں اُچھالا گیا ہے وہ کم سے کم ان دنوں میں تو اپنی نظیر
نہیں رکھتا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس فتنہ کی پُشت پر احرار اور اہلِ پیغام اور کئی ہندوؤں، سکھوں اور بعض حُکّام کی امداد بھی ہے۔ لیکن احرار کا فتنہ جو گزشتہ ایام میں ہوا وہ بھی بعض دوسری اہمیتوں کی وجہ سے معمولی فتنہ نہ تھا اور آپ لوگوں نے دیکھا کہ اَلِاْمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ پر عمل کر کے آپ نے اس میں کیسی عظیم الشان کامیابی حاصل کی۔ یہ نمونہ احکامِ الٰہی کی اطاعت کے نتیجہ کا آپ لوگوں نے تازہ تازہ ہی دیکھا ہے کہ کس طرح بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے، بغیر کسی قسم کی قانون شکنی کے، باوجود اس کے کہ بعض حُکّام نے ہر طرح قانون شکنی پر جماعت کو مجبور کیا، اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان فتح ہمیں دی۔ اس تجربہ کے بعد اگر آپ کوئی نئی راہ اپنے لئے اختیار کرنا چاہیں تو آپ کیسے شکر گزار ہونگے؟ جس نے نہیں دیکھا، وہ اقرار نہ کرے تو اُس پر افسوس نہیں لیکن جو دیکھ کر انکار کرے اُس کی حالت کیسی خطرناک ہے اور پھر یہ فتح تو ایسی ہے کہ شدید ترین دشمن بھی اِس کا اقرار کرتے ہیں۔
میں چاہتا تھا کہ اس فتنہ کو بھی آپ لوگوں کیلئے ایک نعمت بناؤں میرا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی حکمتِ کاملہ سے اس فتنہ کو اِس وقت اُٹھایا ہے تا کہ تحریکِ جدید کے دوسرے دَور کو وہ پہلے سے بھی شاندار بنا دے۔ میرا خیال تھاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تازیانہ آپ میں سے سُست رفتاروں کو تیز قدم کرنے کیلئے مارا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اِس کے پیچھے ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہے جو اسلام اور احمدیت کی کامیابی میں بہت ہی مُمِدّ ہو گا۔ میں اسے ایسا باموقع فتنہ سمجھتا تھا کہ اگر دشمن کی طرف سے اِس قدر بدزبانی نہ کی جاتی تو مجھے ڈر ہوتا کہ شاید بدظنی کا شکار دشمن یہ نہ خیال کرنے لگے کہ کہیں جماعت میں تحریک جدید کے دوسرے دَور کے کامیاب کرنے کیلئے یہ جنگِ زرگری تو نہیں شروع کر دی گئی۔ غرض مَیں اسے اللہ تعالیٰ کے پاک مکروں میں سے ایک مکر اور اس کی مطہرّ تدبیروں میں سے ایک تدبیر خیال کرتا تھا اور یقینا اگر جماعت میری ہدایت کے مطابق عمل کرتی اور میری سکیم کے بیان ہونے تک کوئی شخص کوئی حرکت نہ کرتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نیکی اور تقویٰ کے مقام پر پہلے سے بہت زیادہ مضبوطی سے قائم ہو جاتی اور خداتعالیٰ کے تازہ فضلوں کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتی۔
غرض جیسا کہ الٰہی سلسلوں کے تمام وہ ابتلاء جو دشمن کی طرف سے پیدا ہوں، برکات اور ترقیات کا موجب ہوتے ہیں یہ فتنہ بھی بہت سی ترقیات اور برکات کا موجب ہوتا۔ (اور اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہو گا اگر ہم سچے طور پر اپنے دل میں اپنے ایک بھائی کی غلطی پر نادم ہوں اور اپنے نفسوں کی باگ خداتعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیں گو لازماً کچھ دیر پڑ جائے گی)
تحریک جدید کے دوسرے دَور کے سامان
یہ امر ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی سے پہلے سوتوں
کوجگایا جاتا ہے، غافلوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے، پھر صف بندی کی جاتی ہے یہ قانون جس طرح جسمانی لڑائیوں میں جاری ہے روحانی لڑائیوں میں بھی جاری ہے اور اسی قانون کے مطابق اِس روحانی جنگ کیلئے مَیں سوتوں کو جگا رہا تھا، غافلوں کو بیدار کر رہا تھا تا اس فتنہ کے پیچھے خداتعالیٰ کی جو نعمتیں پوشیدہ ہیں، اُن تک جماعت کو لے جاؤں اور تا تحریکِ جدید کا دوسرا دَور پہلے سے بھی زیادہ شاندار ہو۔ تا دنیا پر مَیں اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ایک اور حُجّت قائم کروں کہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقے ہی سب طریقوں سے زیادہ کامل اور اعلیٰ ہیں۔ مگر اے احمدیت کے سپاہیو! مجھے افسوس ہے کہ آپ میں سے بعض نے اپنے جرنیل کے حُکم کا انتظار نہ کیا بلکہ اُس کی پالیسی کے بالکل خلاف اور اپنے ربّ کی تعلیم کے بالکل خلاف ایک ایسا قدم اُٹھا لیا کہ اب کچھ عرصہ تک بجائے آگے بڑھنے کے مجھے اِس کے نقصان کے ازالہ میں اپنا وقت صرف کرنا پڑے گا۔
اطاعتِ امام کا بے مثال نمونہ دکھاؤ
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمیں دوسروں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ ہم ایک امام
کے ہاتھ پر جمع ہیں مگر میرے لئے یہ کتنا تلخ گھونٹ تھا جبکہ ایک سرکاری افسر نے مجھ سے سوال کیا کہ امن کے قیام کیلئے آپ ہماری کس حد تک مدد کر سکتے ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں سَوفیصدی احمدیوں کا ذمہ وار ہوں کہ ان کی طرف سے کوئی فساد نہیں ہو گا، ان کی طرف سے کوئی فساد نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سب میرے حُکم کے تابع ہیں، وہ سب اپنے رب کی آواز پر کان دھرے بیٹھے ہیں، مجھے یہ کہنا پڑا کہ قیامِ امن کی کوششوں میں آپ کے ارادے اور میرے ارادے ایک ہی ہیں۔ مَیں احمدیوں کو قیامِ امن کیلئے تاکید کرتا رہتا ہوں اور اب بھی تاکید کر چکا ہوں اور پھر بھی تاکید کروں گا مگر مجھے افسوس ہے کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس میں سَوفیصدی کامیابی ہو گی۔ میں اپنے جواب پر سوائے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کے اور کیا کر سکتا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جس کی سَو فیصدی لوگ اطاعت کرتے ہوں۔ مسٹر گاندھی کا کانگرسیوں پر خاص اثر ہے مگر سَو فیصدی ان کی بھی نہیں مانی جاتی، ہٹلر اپنے ملک میں جرمنی کی حیات کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے لیکن سَو فیصدی لوگ اس کی بھی نہیں مانتے۔ وہ مسولینی جس نے ایک مُردہ قوم میں جان ڈالدی ہے سَو فیصدی کی اطاعت کا وہ بھی دعویدار نہیں ہو سکتا، مصطفی کمال جس نے ترکوں کی گلی سڑی ہڈیوں میں روح پھونک دی ہے، وہ بھی سَو فیصدی اطاعت کا اعلان نہیں کر سکتا مگر کیا ان میں سے کوئی خلیفہ ہے، وہ سب دُنیوی لیڈر ہیں۔ خداتعالیٰ کی آواز ان کے ساتھ نہیں، ان کی بیعت لوگ نہیں کرتے اور نہ ان کی بیعت لیتے وقت بیعت لینے والے کے ہاتھ کو خداتعالیٰ کا ہاتھ کہا جا سکتا ہے۔ پس اگر ان کی تعلیم کی کوئی نافرمانی کر دے تو ان کیلئے افسوس کا موقع نہیں لیکن مجھے تو خلیفہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہونے کا دعویٰ ہے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعت کو خداتعالیٰ کی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے۔
ہمیں تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے جس کی مثال دنیا کے لوگوں میں بالکل ہی نہ ملتی ہو۔ پس اے دوستو!بیدار ہو اور اپنے مقام کو سمجھو اور اُس اطاعت کا نمونہ دکھاؤ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر کسی اور جگہ پر نہ ملتی ہو اور کم سے کم آئندہ کیلئے کوشش کرو کہ سَو میں سے سَو ہی کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں اور اُس ڈھال سے باہر کسی کا جسم نہ ہو جسے خداتعالیٰ نے تمہاری حفاظت کیلئے مقرر کیا ہے اور اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ پر ایسا عمل کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح تم سے خوش ہو جائے۔
دیکھو! ہم مظلوم تھے اور اب بھی مظلوم ہیں، لیکن بُہتوں کی نظروں میں اب معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے۔ ہم میں سے ایک کی غلطی نے (اللہ تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق دے کر اپنی بخشش کی چادر میں چُھپا لے) ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا دیا ہے انسانی فطرت ظلم کے خلاف ہے۔ ایک عادی ظالم بھی جب کسی دوسرے کے ظلم کو سنتا ہے تو وہ اسے ناپسند کرتا ہے حالانکہ وہ خود بھی ظالم ہوتا ہے۔ پس اس واقعہ نے میری اُس اپیل کو جو انسانی شرافت اور فطرتِ صحیحہ سے کرنے والا تھا، ایک حد تک بے اثر کر دیا ہے۔ آج مَیں اکیلا سب دشمنانِ اسلام کے مقابل پر کھڑا ہوں۔ اگر وہ قلیل گروہ جو میرے ساتھ ہے، وہ بھی میرے ساتھ پوری طرح تعاون نہ کرے تو بتاؤ کہ مجھے کس قدر کوفت اور تکلیف اُٹھانی پڑے گی؟
مَیں کیا کرتا
مصری کیا ہیں صرف چند آدمی، مگر فتنہ اُن کا تو نہیں فتنہ تو ان کا ہے جو ان کے پیچھے ہیں اور انہی لوگوں کی طاقت کو توڑنا جو ان کے پیچھے ہیں ہمارا
اصل مقصد ہونا چاہئے تھا۔ وہ طاقت معمولی نہیں، وہ بہت بڑی طاقت ہے، وہ سرمایہ دار بھی ہے، وہ کثیر التعداد بھی ہے، وہ عقل بھی رکھتی ہے، وہ کسی ایک قوم میں محصور نہیں بلکہ اُس کی فوجیں مختلف قوموں اور گروہوں سے لی گئی ہیں۔ اس نے جب ایک محاذ سے شکست کھائی تو دوسرے محاذ سے حملہ آور ہوئی ہے، میں اس کے حملہ کو بڑھتا ہؤا دیکھتا ہوں، میں اس کے لشکر کو اندھیرے میں حرکت کرتے ہوئے پاتا ہوں جو لشکروں کی روشنی میں شکست کھا چکا تھا اب رات کی تاریکی میں شب خون کی تیاری میں ہے۔ میرے پاس اس لشکر کے مقابلہ کا ایک ہی ہتھیار تھا اور وہ یہ کہ میں تمہارے دلوں میں تقویٰ پیدا کر دیتا، میں ایمان کی روح تم میں پُھونک دیتا، میں قرآنی دلائل کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دیتا، میں قربانی اور ایثار کی زِرہ تم کو پہنا دیتا اور پھر دشمن کے سامنے تم کو کھڑا کر کے خداتعالیٰ کے حضور میں گِر جاتا یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا! تیرا نور اِن چند وجودوں میں چمک رہا ہے اگر آج دہریت، الحاد اور شرک کا لشکر اِن پر غالب آگیا تو اے میرے پیارے! تیرا نام دنیا میں کون لے گا۔ میں اِسی طرح گریہ و زاری اور دعاؤں سے خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکاتا یہاں تک کہ وہ اپنے روحانی لشکر کی کمان میرے ہاتھ سے لے کر خود اپنے ہاتھ میں لے لیتا پھر کون تھا جو خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر سکتا مگر آہ! میرے لئے نئی مجبوریاں پیدا ہو گئیں اور نئے کام نکل آئے جو اگر نہ نکلتے تو اچھا ہوتا۔
توبہ کرو اور سنبھلو
اے دوستو! اب بھی وقت ہے، توبہ کرو اور سنبھلو۔ توبہ کرو اور سنبھلو پھر توبہ کرو اور سنبھلو۔ اور جو کام خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا
ہے وہ خداتعالیٰ ہی کو کرنے دو کہ وہ اُسی کو سزا وار ہے۔ اور جو کام اس نے تمہارے سپرد کیا ہے اسے پورا کرنے کی فکرمیں لگے رہو کہ وہ بھی بہت بڑا کام ہے اسی میں نیکی اور اسی میں تمہاری فلاح ہے۔ اگر تم ایسا کرو، اگر تم دعاؤں اور توبہ سے میری مدد کرو، تو شاید خداتعالیٰ کی رحمت جلد ہی ہم کو ڈھانپ لے اور وہ اُس دیر کو چھوٹا کر دے جو ہم نے خود پیدا کر لی ہے۔ اور شاید ہماری آنکھیں اپنے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی فتح کو جلد ہی دیکھ لیں جس کے دیکھنے کیلئے وہ ترس رہی ہیں اور دل بے تاب ہے اور بہت ہی بے تاب ہے وَاٰخِرُ دَعْونَا اَنِ الْحِمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الفضل ۲۰۔ اگست ۱۹۳۷ء)
۱ــ؎،۲؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۱۵۲ ۔المکتب الاسلامی بیروت (مفہوماً)
۳؎ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
۴؎ البقرۃ: ۱۹۰،۱۹۱ ۵؎ النساء: ۱۴۱ ۶؎ ھود: ۱۱۴
۷؎ الاعراف: ۲۰۲
۸؎ بخاری کتاب الجہاد باب یقاتل من وراء الامام
۹؎ بخاری کتاب الاذان باب اثم من رفع رأسہ قبل الامام
۱۰؎ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۳۷ء
۱۱؎ الانفال: ۲۱ تا۲۶
۱۲؎ بخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ اطیعوااللّٰہ……
۱۳؎ الانفال: ۳۴
۱۴؎ مسولینی (MUSSOLINI BENITO) (۱۸۸۳۔۱۹۴۵) اطالوی آمر ایک لوہا رہ کا بیٹا تھا۔ اس نے ابتدائی برسوں میں ایک اُستاد اور صحافی کی حیثیت سے کام کیا۔ سوشلسٹ تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۰۵ء میں فوج میں بھرتی ہوا۔ ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا اس نے سوشلسٹوں کے خلاف دہشت کا بازار گرم کر دیا۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہ اٹلی اور فوج نے اسے وزیراعظم کے عہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں ا س نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے۔ ۱۹۳۵ء۔۱۹۳۶ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں اسے گرفتار کیاگیا۔ ۱۵ستمبر۱۹۴۳ء میں جرمن اسے رہا کرا کے جرمنی لے گئے۔ مگراس نے جمہوریہ فسطائیہکے نام سے شمالی اٹلی میں متوازی حکومت بنا لی۔ اپریل ۱۹۴۵ء میں اپنی داشتہ کے ہمراہ گرفتار ہوادونوں کو گولی ماری گئی۔ اس کی لاش میلان لے جائی گئی جسے وہاں سڑکوںپر گھسیٹا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۵۶۵ لاہور ۱۹۸۸ء)



احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہر گز
کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہر گز کوئی
کمزوری نہیں دکھائیں گے
حُکّام کے ہاتھوں سلسلہ کی بے عزتی قطعاً گوارا نہیں کی جائے گی
(تقریر فرمودہ ۲۶۔ مئی ۱۹۳۵ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:۔
کوئی تین ماہ کا عرصہ گزرا میں ایک سفر پر جا رہا تھا کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈالا کہ تحریک جدید کے متعلق جو امور میں نے بیان کئے ہیں وہ جماعت کے سامنے اُس وقت تک کہ مشیّتِ الٰہی ہمیں کامیاب کر دے ہر چھٹے ماہ دُہرائے جانے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ اس کے لئے پہلا دن اگر وہ دن ہو جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تھے تو یہ گویا ہمارے عہدوں کی تجدید کا نہایت لطیف موقع ہوگا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہندوستان میں جلسے اچھی طرح صرف اتوار کے روز ہی ہو سکتے ہیں اور دوسرے دنوں میں بوجہ تعطیل نہ ہونے کے عُمدگی سے نہیں ہو سکتے۔ اُس وقت سواری میں میرے ساتھ برادرم سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے میں نے انہیں کہا کہ حساب لگاؤ۔ ۲۶۔ مئی کو کونسا دن ہو گا، میرا دل کہتا ہے کہ اتوار ہی ہو گا۔ انہوں نے حساب لگایا تو حساب میں کوئی غلطی ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ نہیںیہ دن اتوار کا نہیں ہو گا۔ مگر میں نے کہا کہ نہیں، پھر حساب لگائیں میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ دن ضرور اتوار کا ہو گا۔ چنانچہ پھر جب انہوں نے حساب لگایا تو ۲۶۔ مئی کو اتوار ہی تھا اور تحریک کے اعلان کے چھ ماہ بعد پہلا اتوار کا دن آتا تھا پس میں نے سمجھا کہ یہ خیال الٰہی تصرف کے ماتحت تھا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ ہم کسی بدعت کے مرتکب ہوں یا ایسی رسم کے مرتکب ہوں جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا ہم کو یہ موقع دیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اس دن جس دن کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے پاس بُلا لیا اور آپ کے کام کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈالا، ہم سے اِس اقرار کی تجدید کرائے کہ دنیا مخالفتوں، عداوتوں اور عِناد میں خواہ کتنی بڑھ جائے، ایک سچا احمدی اپنا فرض سمجھے گا کہ ہر قربانی کر کے اس مقصد کو پورا کرے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ہم اِس دن کو نہیں بھول سکتے جو ہماری خوشیوں کا آخری دن تھا جس سے پہلے دن کی شام تک ہم یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رنج و غم کا کوئی دن بھی ہم پر آ سکتا ہے۔ اُس دن جب ہم نے عشاء کی نماز پڑھی تو ہمارے دل خوش تھے کہ خدا تعالیٰ کا تازہ کلام سننے کا ہمیں ہر صبح موقع ملتا ہے جس کی ہدایت میں ہم آگے قدم اُٹھاتے ہیں۔ جس دن کہ ہم رات کو جب سوئے تو دنیا ہمارے لئے ابتدائے آفرینش کا منظر پیش کرتی تھی لیکن جب جاگے تو قیامت کا منظر ہمارے سامنے تھا۔ خدا کا مسیح اِس صورت میں ہم سے جُدا ہوا کہ ہم رات کو یہ خوشی اپنے قلوب میں لے کر سوئے تھے کہ صبح خدا کا تازہ کلام سنیں گے لیکن صبح نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ وہ پیغام جس کے سننے کے لئے تیرہ سَو سال سے بڑے بڑے بزرگ متمنّی چلے آئے تھے، اُس کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ وہ ۲۶۔ مئی کا ہی دن تھا کہ جس دن دنیا کی لذتیں ہمارے لئے کوفت کا موجب بن گئیں، جس دن کہ ہم میں سے ہر ایک حسّان بن کر مثیلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے کہہ رہا تھا کہ:۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ ۱؎
تو میری آنکھوں کی پُتلی تھا اور آج میری آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ اب تیرے بعد جو چاہے، مرے۔ مجھے تو صرف تیری ہی موت کا خطرہ تھا۔
آج وہی تاریخ اور وہی مہینہ ہے اور یہ دن ہمیں اُن مقدّس فرائض کی یاد دلاتا ہے جن کا پورا کرنا انسان کو قُربِ الٰہی کے بہترین مقام پر پہنچا دیتا ہے اور ہمارے دلوں میں پھر ایک اُمنگ پیدا کرتا ہے اور ہر احمدی اُس آواز کو جس نے بتایا تھا کہ خدا کی طرف سے تمہارے لئے ترقیات کے جو وعدے ہیں اور قدرتِ ثانیہ کا ظہور میرے بعد ہو گا، آج بھی سن رہا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح حضرت مسیح ثانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی پیغام دیا تھا کہ تمہارے لئے ترقیات کے جو وعدے ہیں وہ زیادہ تر میرے بعد پورے ہوں گے اور اُن وجودوں کے ذریعہ پورے ہونگے جنہیں اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ کا مظہر قرار دے گا۔ پس ہر احمدی پر جو منافق نہیں یہ دن نہیں گزر سکتا جب تک اسے اس کی ذمہ داری یاد نہ دلا دے اور یہ آواز اس کے کانوں میں نہ گونجے کہ اسلام کی ترقی چاہتی ہے کہ میں تم سے جُدا ہو جاؤں اور خدمتِ اسلام کا کام تمہارے کندھوں پر پڑے۔
جس دن یہ اعلان شائع ہؤا، اِس پر آج ۲۹ برس گزر چکے ہیں اور جس وقت یہ وعدہ پورا ہونا شروع ہوا اِس پر بھی ۲۷ سال گزر چکے ہیں اس عرصہ میں ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح ادا کیا؟ اس کا جواب وہ ترقی نہیں جو اس عرصہ میں سلسلہ کو حاصل ہوئی اس لئے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئی، ہم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ سلسلہ کا پھیلنا میری وجہ سے ہے اور اسے جو عظمت حاصل ہوئی ہے وہ میری تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ سلسلہ احمدیہ کو مجموعی لحاظ سے جو ترقی حاصل ہوئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ہوئی ہے اور اس میں کسی بندہ کا کوئی دخل نہیں۔ پس اس سوال کا جواب ہم میں سے ہر شخص کا دل ہی دے سکتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے دل سے پوچھے کہ سلسلہ کی اس ترقی میں اس کا کتنا دخل ہے۔ اور اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے اس نے کیا کوشش کی ہے۔ اگر تو اس کے دل کا جواب خوشکن ہو تو وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے ما ل و جان قربان کر دینے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا ہو رہا ہے لیکن اگر اس کا دل خوشکن جواب نہ دے اور اسے شرمندہ کرے کہ اس عرصہ میں اسے خدمتِ دین کا موقع نہیں ملا تو اس کے لئے حسرت ہے۔ کاش! ایسا انسان پیدا ہی نہ ہوا ہوتا اور دنیا کی زندگی اسے حاصل نہ ہوئی ہوتی۔ کچھ اوقات اِس دوران میں ایسے بھی آئے ہیں جو نہایت خطرناک تھے اور جن میں خصوصیت سے جماعت کا امتحان لیا گیا ہے اور باوجود اس اقرار کے کہ ہم میں کمزوریاں ہیں اور کہ ابھی ہمیں بہت سی مزید قربانیوں کی ضرورت ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان امتحانوں میں اکثر دوست کامیاب ہوئے ہیں۔
ایک ابتلاء تو اُس وقت آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے۔ اُس وقت کئی لوگ کہتے پھرتے تھے کہ وہ وعدے کہاں گئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے تھے، ابھی تو جماعت ابتدائی حالت میں ہے اور خدا کا مسیح ہم سے جُدا ہو گیا، وہ چہرے مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جن پر سے اس دن نور اُڑ گیا اور رونق کافور ہو گئی، اُن پر افسردگی کے بادل چھا گئے، اُن کے ہونٹ خشک تھے اور وہ گھبراہٹ میں یہ سوال کرتے تھے کہ اب کیا ہو گا؟ میرے کان ان آوازوں کو اَب بھی سن رہے ہیں غیر احمدیوں کی نہیں بلکہ احمدیوں کی آوازوں کو جو ایک دوسرے سے کہتے پھرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کیا ہوئے؟ اور وہ پیشگوئیاں کہاں گئیں؟ وہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ہمنوا ہو کر گھبراہٹ کا اظہار الفاظ میں کرتے تھے لیکن اس خطرناک ابتلاء کے باوجود اکثر حصہ محفوظ رہا اور وہ طوفان جو معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کو بہا کر لے جائے گا اور جو اِس زور سے حملہ آور ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا اس کے آگے زمین ایک چِھلکے کی طرح ٹوٹ جائے گی، جب قریب آیا تو اس میں صبح کی ٹھنڈی ہوا سے زیادہ کوئی شدّت نہ تھی اور جماعت کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے بالکل محفوظ رکھا اور وہ اس امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ پھر جماعت پر اُس وقت ابتلا آیا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد پیغامی فتنہ اُٹھا اور جماعت کے اعلیٰ کارکن علیحدہ ہو گئے، خزانہ خالی تھا اور جماعت کا بیشتر حصہ اُن کے ساتھ تھا۔ اُس وقت بھی اکثر لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اب یہ کام کس طرح چلے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس مایوسی کی حالت کو دیکھ کر مجھے بتایا کہ خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نہیں روک سکتا اور جو مقابل پر کھڑے تھے ان کے متعلق بتایا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ یعنی ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور کامیابی انہیں حاصل ہو گی جو میرے ساتھ ہیں۔ میں نے اُسی وقت اِس اعلان کو شائع کر دیا۔ ان لوگوں نے اسے پڑھا اور دیکھا اور مسکرائے اور سر ہِلا کر کہا ہم یہاں سے جاتے ہیں مگر اِسی زمین کی طرف اشاہ کرتے ہوئے جہاں اِس وقت جلسہ ہو رہا ہے کہا کہ دس سال کے عرصہ میں اِس جگہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا لیکن اب دس نہیں بیس بلکہ اکیس سال گذر چکے ہیں اور ۱۴ مارچ سے بائیسواں سال شروع ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسلمانوں کا ہی قبضہ ہے بلکہ یہ قبضہ بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اگرچہ دشمن کا یہ اعتراض صحیح نہیں اور محض ہمیں بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن وہ کہہ ضرور رہا ہے کہ قادیان میں حکومت کے اندر ایک اور حکومت ہے بلکہ یہاں تک کہہ رہا ہے کہ یہاں حکومت برطانیہ کی نہیں بلکہ احمدیوں کی ہے۔ آج سے اکیس سال پہلے مخالف میرے متعلق کہتے تھے کہ یہ بچہ ہے یہ کام کیا کر سکتا ہے؟ دس سال میں یہاں عیسائی مشنریوں کا قبضہ ہو جائے گا لیکن آج مخالف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں عیسائی حکومت ہے ہی نہیں بلکہ احمدیوں کی حکومت ہو گئی ہے۔ گوان کا یہ بیان درست نہیں ہم حکومت کے فرمانبردار ہیں لیکن اِس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ دشمن بھی اِس کو تسلیم کرتا ہے کہ ہم اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ آج کوئی جائے اور اُس دوست سے جا کر کہے جس نے اِس میدان اور اِسی خطّہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں عیسائی مشنریوں کا قبضہ ہو جائے گا کہ بندہ خدا! اب تو احراری بھی کہتے ہیں۔ کہ قادیان میں احمدیوں کی حکومت ہے۔ گویا اس سے زیادہ یہاں احمدیوں کا قبضہ ہے۔ جو ۱۹۱۴ء میں تھا۔ یہ کتنا زبردست نشان ہے اس امر کا کہ خدا کے کام کو کون روک سکتا ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ اور اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کس طرح حرف بحرف پورا ہوا ہے۔ یہ وہ کلام تھا جو خدا نے مجھ سے کیا اور میں نے اُسی وقت اسے شائع کر دیا اور آج بچہ بچہ اسے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ کون ہے جو ایسے مخالف حالات میں یہ پیشگوئیاں کر سکتا ہے۔ اور مخالفوں نے مخالفت کے طوفان اُٹھا کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں۔ بہرحال وہ طوفان آیا اور چلا گیا اور اب ایک سال سے ایک اور طوفان اُٹھا ہوا ہے۔ کچھ مخالف اِس ارادہ سے کھڑے ہوئے ہیں کہ جماعت احمدیہ کوکُچل دیا جائے۔ ان کی یہ امیدیں مجانین کے خیالات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ حُکم نہ ہوتا کہ مخالف کے مقابلہ میں تدبیر سے کام لو تو میں ان سے صاف کہہ دیتا کہ جاؤ اور اپنا پورا زور لگا لو میں تمہارے مقابلہ میں ایک قدم بھی اُٹھانا نہیں چاہتا لیکن ہمارے رب نے اِن فِتنوں میں ہماری آزمائش رکھی ہے اور کہا ہے کہ گو فتح میری طرف سے ہی ہو گی لیکن ہو گی انسانی کوشش کے نتیجہ میں۔
پس اِس قانون کے رو سے ہم مجبور ہیں کہ مقابلہ کریں اور سلسلہ کی خاطر اپنے نفوس اور اپنی جانیں اور اپنے اموال سب کچھ قربان کر دیں۔ دشمن سے بڑھ کر اپنے اندر فدائیت پیدا کریں کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے ایمانوںکا برتن چِکنا چور ہو جائے گا۔
قریباً۷ ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا کہ ۱۷۔اکتوبر ۱۹۳۴ء کی رات کو ایک مجسٹریٹ میرے پاس آیا اور ایک پروانہ لایا کہ احراری یہاں جلسہ کرنا چاہتے ہیں اس موقع پر آپ باہر سے اپنے کچھ آدمی بُلانا چاہتے ہیں۔ حکومت اپنے اختیارات کے رو سے حُکم دیتی ہے کہ اس حُکم نامہ کو منسوخ کر دو اور اس موقع پر باہر سے کسی کو نہ بُلاؤ، نہ کسی کی دعوت کرو اور نہ اپنے گھروں پر کسی کو ٹھہراؤ ۔ یہ ناپسندیدہ، سراسر ناواجب اور خلافِ قانون حُکم ایسے موقع پر دیا گیا جب اس کی ضرورت نہ تھی اور اُسے دیا گیا جس نے کوئی خط نہ لکھا تھا اور ایسی حالت میں دیا گیا کہ حکومت کے منشا ء کو پورا کرنے کیلئے جس نے یہ حُکم دیا تھا، وہ خود ہی اسے منسوخ کر چکا تھا اور ایسے ہاتھوں میں سے ہو کر آیا جنہیں معلوم تھا کہ وہ دعوت نامہ منسوخ ہو چکا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بات کھول دی کہ کسی انسان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ اور کہ جن کی جانیں بچانے کیلئے ہم اپنی جانیں پچاس سال تک قربان کرتے رہے، جن کی عزتیں بچانے کے لئے ہم پچاس سال تک اپنی عزتیں قربان کرتے رہے، اُن پر بھی ہمارا اعتماد کرنا سخت غلطی ہے۔ لوگ روشنی میں دیکھتے ہیں مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ۱۷۔اکتوبر کی رات کو یہ حقیقت دکھا دی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس رات کو ہمارے لئے نور بنا دیا اور ہمارے لئے وہ رستہ کھول دیا جو ترقی اور کامیابی کا رستہ ہے۔ یہ نوٹس گویا ایک اِفشائے راز تھا اُن کارروائیوں کا جو اندرونِ پردہ ہو رہی تھیں، وہ ایک قدم تھا جس نے ایک لمبی کارروائی کو ظاہر کر دیا۔ میں نے اُس کا وہی جواب دیا جو ایک شریف مومن کا حق ہے۔ میں نے اس پر اظہارِ نفرت کیا اور اظہارِ نفرت کرتے ہوئے مذہبی حُکم کے ماتحت فرمانبرداری کا یقین دلایا۔ نیز جماعت کو اس بات سے آگاہ کر دیا کہ وہ یہ نہ سمجھے ہمارے لئے یہ امن کا زمانہ ہے اور پُرامن حکومت ہے اس لئے ہم فِتنوں سے بچے رہیں گے۔ حکومت کے افسر بھی شریروں کے بہکانے میں آ سکتے ہیں آخر وہ بھی انسان ہیں اور بعض اچھے اچھے شریف لوگوں کو شریر بہکا لیتے ہیں اور دھوکا دے لیتے ہیں۔ ہمیں یہ جو اطمینان تھا کہ پُرامن حکومت ہے اور شریف لوگوں کی حکومت ہے، گو ہمارا یہ خیال صحیح تھا اور میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ صحیح ہے، مگر پھر بھی ہمارا یہ اطمینان صحیح نہ تھا یہ ایک الارم تھا، وارننگ تھی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ملی اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش ہوں کہ میں نے اسے قبول کیا اور جماعت کو اسے قبول کرنے کی دعوت دی اور میں اس پر بھی خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے بیشتر حصہ کو اسے قبول کرنے کی توفیق دی۔ میں نے کہا کہ یہ قربانیوں کا زمانہ ہے اور اس پُرامن زمانہ میں بھی تمہارے لئے تکلیف کے سامان ہو رہے ہیں۔ پس آؤ اور خدا کے لئے قربانیاں کرو۔ جماعت نے کہا کہ ہم تیار ہیں اور بیشتر حصہ نے لَبَّیْکَ سے جواب دیا۔ بے شک منافق بھی ہیں مگر ان کی غلطیاں جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتیں۔ یہ فتنہ کے دن گزر گئے اور اب یہ فتنہ مختلف صورتیں بدلتا ہوا کچھ اور شکل اخیتار کر چکا ہے لیکن دوستوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ فتنہ ابھی گیا نہیں اُس نے شکل بدل لی ہے مگر ابھی مٹا نہیں بلکہ مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ باوجود اس کے کہ یہ جماعت ترقی کر رہی ہے مگر بہرحال یہ مینارٹی(MINORITY) ہے۔ اور میجارٹی(MAJORITY) کا مقابلہ کب کر سکتی ہے مگر جب ہم نے مقابلہ کیا تو اب سمجھ چکے ہیں کہ یہ جماعت آسانی سے ٹوٹنے والی نہیں۔
ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ایک ذمہ دار افسر نے اس سے کہا کہ گو یہ بات ثابت کر دی گئی ہے کہ احمدی جماعت پر جو الزام لگائے جاتے تھے، وہ صحیح نہیں ہیں مگر یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اگر اس جماعت کو ڈرا یا جائے تو ڈرتی نہیں بلکہ ظلم کو ناپسند کرتی ہے۔ گویا ان کے نزدیک اطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ افسر اگربُوٹ کی ٹھوکر ماریں تو انسان اسے چاٹنے لگ جائے لیکن میں ایسے افسروں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ نے اطاعت کا یہ مفہوم کبھی سیکھا ہی نہیں۔ جماعت احمدیہ ملکِ معظّم اور ان کے نمائندوں کی وفادار ہے لیکن ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ خدا کا سپاہی ہے اور خدا کا سپاہی ناواجب طور پر کسی کے سامنے نہیں جُھک سکتا خواہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ ہر وہ شخص جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے بہادری کا امتحان پاس کرتا ہے اور کسی سے خوف نہیں کھا سکتا۔ جس کا دل خائف ہے، وہ احمدی نہیں اس لئے جماعت احمدیہ کبھی اس بات کے لئے تیار نہیں ہو گی کہ ناواجب سختیوں کو برداشت کرے اور پروٹسٹ نہ کرے کہ یہ خلافِ قانون ہیں۔ بہرحال بعض وہ افسر جن کے ارادے نیک نہ تھے، اُن کو معلوم ہو گیا کہ اُن کی کھلی کھلی دھمکیاں کام نہیں دے سکتیں، اس لئے کوئی اور ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اب انہوں نے خفیہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ایک افسر نے ہمارے ایک دوست سے کہا کہ ہم نے قادیان میں ۳۲۔ احمدیوں کو خرید لیا ہے۔ ہم تو حکومت کے خلاف کوئی خفیہ کارروائیاں کرتے ہی نہیں اسی واسطے ایک شریف انگریز افسر نے کہا تھا کہ میں تو یہ سمجھ بھی نہیں سکتا کہ قادیان میں جاسوس رکھنے کی کوئی ضرورت ہے۔ آپ لوگ تو جو کچھ کہتے ہیں، عَلی الِاْعْلَان کہتے ہیں اور پھر اسے اخباروں میں شائع کراتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے بلکہ اگر کوئی شخص ہم میں رہ کر غور کرے تو ہماری پرائیویٹ گفتگو زیادہ نرم ہوتی ہے۔ بہ نسبت اس کے جو ہم پبلک میں کرتے ہیں۔ سٹیج پر تو ہم نے چیلنج کا جواب دینا ہوتا ہے مگر پرائیویٹ گفتگو میں ہمارے پُرانے تأثرات عَود کر آتے ہیں اورپُرانی لُغات زبان پر پھر جاری ہو جاتی ہیں۔ حکومت کی طرح احرار نے بھی معلوم کر لیا ہے کہ قادیان کے قریب ایک جلسہ کر کے وہ ہمیں مرعوب نہیں کر سکتے، اس لئے انہوں نے پھر ایک جلسہ کا اعلان کیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ امسال دو لاکھ آدمی آئیں گے۔ پچھلے سال ایک لاکھ کہتے تھے اور پانچ ہزار آئے تھے۔ اس سال دو لاکھ کہہ رہے ہیں، معلوم نہیں کس قدر لوگ آتے ہیں۔ گزشتہ جلسہ کے بعد ہمیں بتایا گیا تھا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ احراریوں کا جلسہ محض فتنہ کیلئے تھا اور آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے پائے گی لیکن واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ وعدے فراموش کئے جانے والے ہیں۔ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف جماعت احمدیہ کے مرکز میں پھر گند اُچھالا جانے والا ہے لیکن ہم حکومت کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتے، اس لئے کہ وہ اپنی طاقت پر نازاں ہے لیکن اس سے اوپر ایک اور حکومت ہے اور میں آپ لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ اس کے سامنے جا کر اپیل کرو۔ اے خدا! تیرے مقدس! مامور و مُرسل کے خلاف گند اُچھالا جا رہا ہے اور جس حکومت کے ہاتھ میں انصاف کی باگ ہے وہ ہمیں انصاف دینا نہیں چاہتی تُو ہمارے لئے خود امن پیدا کر کہ تیرا وعدہ ہے اِس بستی کو امن دیا جائے گا۔ اِس بات سے مت گھبراؤ کہ تمہاری ایک سال کی دعاؤں کے باوجود یہ فتنہ ابھی تک نہیں مٹا۔ رسول کریم ﷺ مکہ میں تیرہ سال دعائیں کرتے رہے، تب مدینہ میں اُن کا نتیجہ ظاہر ہوا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی کمزوری کو دیکھ کر ہو سکتا ہے کہ جلد ہی نتیجہ نکال دے لیکن اس کی طرف سے دعاؤں کی قبولیت حکمتوں کے ماتحت ہوتی ہے۔ پس میں آج پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اکتوبر کا مہینہ نزدیک آ رہا ہے، پھر آوازیں آ رہی ہیں کہ قادیان میں لاکھوں آدمی جمع ہونگے، پھر یہاں جلسہ کیا جانے والا ہے جس میں بقول ان کے فرعونی تخت اُلٹا جائے گا، پھر ناپاک الفاظ بولے جائیں گے اور ہمارے دل گواہی دیتے ہیں کہ پھر ویسے ہی حُکّام ان پر پردہ ڈالیں گے، پھر ہمیں قید کیا جائے گا اور جلسہ میں شمولیت سے روکا جائے گا، پھر ہمیں گلیوں میں پھرنے سے روک دیا جائے گا۔ وہی کچھ جو ۱۹۳۴ء میں ہوا پھر ۱۹۳۵ء میں ہونے والا ہے اور اسے صرف وہی خدا روک سکتا ہے جس نے اصحاب الفیل کو روکا تھا۔ پس جماعت کو اسی خدا سے اپیل کرنی چاہیے کہ جس نے قرآن میں سورۃ فیل نازل کی اور اسی واسطے اس نے اسے اُتارا کہ آئندہ زمانہ میں بھی ایسے حالات پیش آنے والے تھے۔ جنگِ عظیم کے زمانہ میں جب ٹرکی لڑائی میں شامل ہوا اور بعض حکومتوں نے تجویز کیا کہ عرب پر حملہ کیا جائے تو یہ خبر سنتے ہی مَیں نے مغرب کی نماز میں سورۃ فیل اس لئے پڑھنی شروع کر دی کہ خدا تعالیٰ مکہ کو دشمنوں کے حملہ سے بچائے۔ آج اس پر بیس سال کے قریب گزر چکے ہیں اور میں بغیر ایک ناغہ کے یہ دعا کرتا رہا ہوں مگر وہ احراری جنہوں نے شاید ایک دن بھی یہ دعا نہ کی ہو اور یہ محسوس تک نہ کیا ہو، وہ کہتے ہیں کہ احمدی اگر موقع ملے تو مکہ کو بھی بیچ دیں گے۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ میں جو بیس سال سے برابر دعائیں کر رہا ہوں، ہمارے متعلق تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مکہ مدینہ کا احترام نہیں کرتے لیکن وہ لوگ جنہوں نے کبھی ایک دن بھی دعا نہیں کی بلکہ اس کا احساس بھی نہیں کیا وہ اعتراض کرنے والے ہیں۔ بہرحال اس قسم کے واقعات خواہ وہ حقیقی مکہ کے متعلق ہوں خواہ مجازی کے متعلق، ضرور ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل کی۔ تم لوگ عجز سے اسے پڑھو تا خدا تعالیٰ جس کے ہاتھوں میں سب کی جانیں ہیں ہمارے دشمنوں کو روکے اور اس فتنہ سے بچائے جس سے بچنے کی ہم میں طاقت نہیں۔ سات ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اس عرصہ میں کئی جھگڑے ہمارے ساتھ کئے گئے، ہماری عورتوں کی بے حرمتیاں کی گئیں مگر کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ ہماری فریاد سنی گئی اور اس پر کوئی توجہ کی گئی ہو۔ ہمارے مرکز میں ایک احمدی عورت کی ایک سپاہی نے بے حرمتی کی اور جب ہم نے رپورٹ کی تو سنا گیا ہے کہ افسران نے اس پر یہ لکھا کہ سپاہی کو احمدیوں نے دِق کیا تھا قانونی کارروائی سے بچنے کے لئے انہوں نے یہ کہانی بنا لی ہے۔ گویا ہم لوگ ایسے ہیں کہ ایک معمولی گرفت سے بچنے کے لئے ایسی کہانیاں بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح درجنوں واقعات ہیں مگر ایک میں بھی ہمیں سچا نہیں سمجھا گیا اور یہ سب کچھ اس عدل کی عادت کے باوجود ہو رہا ہے جو انگریزوں کی قوم میں پائی جاتی ہے۔ پس اس کا مطلب یہی ہے کہ اس قدر لوگ ہمارے خلاف ہیں کہ انگریز کو صداقت معلوم کرنے کا موقع نہیں مل سکتا اور ہمارے اور انگریزی انصاف کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے۔ جب ایک ہی قسم کی دس بیس رپورٹیں پہنچیں تو صداقت کا مشتبہ ہو جانا ناممکن نہیں۔
پس ان حالات سے یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فتنہ کمزور ہو گیا ہے، وہ غلطی پر ہیں ۔ پہلے یہ ایسی شکل میں تھا کہ ہم ثابت کر سکتے تھے کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے اور قانون شکنی کی جا رہی ہے۔ مگر اب ایسی روش اختیار کی جا رہی ہے کہ مصیبتیں تو قائم رہیں لیکن ہم بِالصراحت یہ ثابت نہ کر سکیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اب قادیان میں ایسی گالیاں نہیں دی جاتیں بلکہ باہر جا کر دی جاتی ہیں۔صرف اس لئے کہ یہاں منصوبے زیادہ مضبوطی سے کئے جاسکیں اور بَالا افسر ہمارے مخالف افسروں کے کارناموں سے واقف ہو کر دخل دینے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ ماتحت افسر اس بات سے ضرور ڈر جاتے ہیں کہ ایک حد کے بعد اوپر والے افسر ضرور پکڑیں گے کہ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اس لئے اب ہر امر کو مخفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمیں کہا گیا تھا کہ پچھلی باتوں کو بھول جاؤ مگر ہم کیا کریں ہمیں بھولنے نہیں دیا جاتا۔ ایک تازہ رپورٹ مجھے پہنچی ہے کہ ایک ضلع میں غیر مبائعین نے ہمیں مناظرہ کا چیلنج دیا جو منظور کر لیا گیا۔ حکومت کو اطلاع دی گئی کہ انتظام کیا جائے۔ جس پر یہ انتظام کیا گیا کہ ہماری جماعت کو جسے چیلنج دیا گیا تھا ،اُلٹا دفعہ ۱۴۴ کا پابند کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے مناظر جلسہ گاہ پر نہ جا سکے اور غیر مبائعین پہنچ گئے اور انہوں نے ہماری عدم موجودگی کو فرار قرار دے کر اعلان کر دیا کہ مبائع بھاگ گئے ہیں۔ ان پر دفعہ ۱۴۴ نہیں لگائی گئی اور اگر لگائی گئی تو اس کی خلاف ورزی پر ان سے کوئی باز پُرس نہ کی گئی۔ جب جماعت احمدیہ کا سیکرٹری اس ناروا سلوک کے خلاف پروٹسٹ کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا اور کہا کہ اس حُکم کی نقل دی جائے ہم اپیل کرنا چاہتے ہیں تو اس نے نقل دینے سے انکار کر دیا اور کہا I WILL SMASH YOU یعنی میں تم کو پیس ڈالوں گا۔
اسی سلسلہ میں ایک ہندوستانی افسر نے ہمارے اس دوست سے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت تمہارے خلاف ہے پس آپ وقت ضائع نہ کریں، آپ کی کوئی دادخواہی نہ ہو گی۔ یہ تازہ واقعہ ہے جو دس روز کے اندر اندر ہوا اور یہ دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو یہ کہ حکومت کی طرف سے ہی ایسی ہدایتیں ماتحت افسروں کو ملی ہوئی ہیں۔ یا پھر بعض کمزور افسروں کو ورغلا لیا گیا ہے۔ اگر یہ سب کچھ حکومت کی ہدایات کے ماتحت ہو رہا ہے تو اسے چاہئے صاف طور پر بتا دے۔ لیکن میں یہ ضرور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس طرح وہ احمدیت کو ہرگز ہرگز دبا نہیں سکتی۔ روم کی حکومت نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا دیا مگر وہ مسیحیت کو نہ مٹا سکی اسی طرح انگریز مجھے سُولی پرلٹکا سکتے ہیں، تم میں سے ہر ایک کو لٹکا سکتے ہیں، ہم کو قید کر سکتے ہیں مگر انگریزوں اور دنیا کی دوسری سب حکومتوں سے بھی یہ ممکن نہیں کہ احمدیت کو مٹا سکیں۔ اگر یہ واقعہ حکومت کے کہنے سے ہوا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خود چاہتی ہے کہ ایسی باتیں ہوں۔ اس صورت میں ہمیں کیوں کہا گیا تھا کہ گذشتہ باتوں کو بھول جاؤ اور اگر یہ حکومت کی طرف سے نہیں ہے تو ہمیں خوشی ہے کہ جس قوم سے ہم پچاس برس سے دوستی کے تعلقات رکھتے آئے ہیں، وہ انہیں توڑنے کے لئے تیار نہیں اور اس صورت میں ہمارا حق ہے کہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ ماتحت افسروں کو ہدایت کر دے کہ انصاف کریں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ انگریز منصف ہیں اور اس لئے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ خلافِ آئین سلوک ہم سے نہ کیا جائے۔ اب اس بات کے اعلان کے بعد ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا قدم اُٹھاتی ہے۔ اگر اس میں اس کا دخل نہیں تو اس کا فرض ہے کہ ان باتوں کو روک دے اور اگر دخل ہے تو اس صورت میں ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ صاف طور پر ہم سے کہہ دے کہ ہم تمہارے دشمن ہیں اور ہم سے کسی خیر کی توقع تم لوگ مت رکھو۔
ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہاں کے بعض منافق بھی تیس مار خاں بننے لگے ہیں۔ کچھ تو عَلی الْاِعْـلَان ایسی باتیں کرتے ہیں اور کچھ یہ طاقت تو نہیں رکھتے اس لئے علیحدہ علیحدہ آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو جماعت سے نکالیں تو سہی، ہم ایک جماعت ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے منافق بھی یہی پیغام بھیجتے رہتے تھے کہ جب ہم کو نکالا گیا تو ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے لیکن جب ان کو نکالا گیا تو کسی نے چوں تک نہ کی۔ اسی طرح ان منافقوں میں سے ہم جب کسی کو نکالیں گے تو دوسرے سب دَبک کر بیٹھ جائیں گے اور ان سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ نکل کر مقابلہ کریں۔ اور اگر کریں گے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ منافق کافر سے زیادہ جلدی سزا پاتا ہے اس لئے اگر وہ مقابل پر آئے تو اللہ تعالیٰ انہیں فوراً تباہ کر دے گا۔ ہمیں اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور ہم بے شک سزا نہیں دے سکتے لیکن ہمیں جس بالا حکومت نے کھڑا کیا ہے، یہ لوگ اس کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو وہ ہمارے ہاتھ باندھے اور کہے کہ تم خود دشمنوں کا مقابلہ نہ کرو اور دوسری طرف ان کو سزا نہ دے۔
انسان کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ :
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہئِ
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیارباش
مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ جب مجبوریاں پیدا کرتا ہے تو ان کا علاج بھی خود ہی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمارا خدا وہ خدا ہے جس نے اگر سنکھیا پیدا کیا ہے تو ساتھ ہی تریاق بھی پیدا کر دیا ہے۔ جس نے اگر سانپ اور بچھو پیدا کئے ہیں تو ان کے علاج بھی پیدا کئے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ منافق کھڑے کرے، ہمیں قانون کی پابندی کرنے کا حُکم دے مگر ہماری مشکلات کا کوئی علاج نہ رکھے۔ اس نے ضرور علاج بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ وہ سزا ایسے رنگ میں دیتا ہے کہ انسان یہ سمجھتا بھی نہیں کہ اسے سزا مل رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہمیشہ بٹالہ کے ریلوے سٹیشن پر آ کر لوگوں کو ورغلاتے رہتے تھے کہ قادیان نہ جاؤ۔ اُس زمانہ میں پیراں دتّا نامی ایک پہاڑی آدمی یہاں رہتا تھا۔ جس کے دماغ میں اختلال تھا۔ اسے پہلے گینٹھیا کی بیماری تھی کسی نے اسے خبر دی کہ قادیان میں مرزا صاحب بہت محبت سے علاج کرتے ہیں اور سب خرچ بھی خود اُٹھاتے ہیں اس پروہ یہاں آیا اور اچھا ہو گیا۔ بعد میں اس کے رشتہ دار وغیرہ اُسے لینے آئے تو اس نے جواب دیا کہ میں تو اب انہی کے دروازے پر رہوں گا۔ وہ اس قدر سادہ طبع تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے اسے کہا۔ پیراں دتّے! اگر تم پانچوں نمازیں پڑھو تو دو روپے ملیں گے۔ پہلی نماز اس نے عشاء کی پڑھی، اس لئے آخری نماز مغرب کی تھی۔ جب وہ مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا تو اندر سے کسی خادمہ نے آواز دی پیریا! کھانا لے جا۔ اُن دنوں مہمان تھوڑے ہوتے تھے اور سب کے لئے کھانا گھر میں ہی پکا کرتا تھا۔ پیرے نے کوئی جواب نہ دیا عورت جاہل تھی اور جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے اُسے سخت سُست کہنے لگی۔ اس پر پیرے نے چِلّا کر کہا ٹھہر جا دو رکعت رہتی ہیں، ابھی پڑھ کر آتا ہوں۔ وہ ایسا آدمی تھا کہ کہا کرتا تھا لوگ مٹی کا تیل کیوں نہیں پی سکتے اور خود اگر کوئی اُسے آٹھ آنے دے دے تو دال کے پیالہ میں آدھی بوتل تیل ڈال کر کھا جاتا تھا۔ غرضیکہ وہ بالکل موٹی سمجھ کا آدمی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی تار وغیرہ دینے کے لئے یا کوئی بِلٹی ریلوے سٹیشن سے لینے کے لئے کبھی اسے بٹالہ بھی بھیج دیتے تھے۔ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب اسے ملے اور کہا پیرے تو کیوں قادیان میں پڑا ہوا ہے؟ مگر اس عقل کے آدمی نے انہیں کہا مولوی صاحب! میں پڑھا ہوا تو ہوں نہیں کہ کوئی اور جواب آپ کو دے سکوں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ آپ کی جوتی بھی گھس گئی ہے لوگوں کے پیچھے پھرتے پھرتے، مگر پھر بھی لوگ قادیان چلے ہی جاتے ہیں اور مرزاصاحب اپنے گھر میں بیٹھے ہیں لوگ خود بخود ان کے پاس پہنچتے ہیں۔ مولوی صاحب یہ جواب سن کر کِھسیانے ہو کر بُرا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔ اسی طرح ہمارے ایک رشتہ دار تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چِڑانے کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر بنا لیا۔ اُس زمانہ میں کچھ چوہڑے بھی احمدی ہوئے جو یہاں آئے۔ ان کو جب معلوم ہوا تو ان سے کہا کہ تمہارا پِیر تو میں ہوں مرزا صاحب نہیں ان میں تم نے کیا خوبی دیکھی ہے کہ ان کے پَیرو ہو گئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چوہڑے تھے۔ مرزا صاحب کی پیروی سے لوگ اب ہمیں بھی مرزائی کہنے لگ گئے ہیں اور آپ مرزا تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننے کی وجہ سے چوہڑے بن گئے ہیں۔ بس آپ میں اور مرزا صاحب میں فرق اتنا ہی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک طاقتور نشان دکھایا ہے اور وہ بات پوری ہو کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ منافق سارا زور لگانے کے بعد کچھ نہ کر سکیں گے۔ وہ جب سچے احمدی بنے تھے تو چوہڑوں سے مرزائی بن گئے تھے مگر منافقت سے پھر چوہڑے بن جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ منافق کبھی ایسی جرأت نہیں دکھا سکتے جس سے دنیا میں کام ہو سکے۔ خدا تعالیٰ نے منافق کا دل کمزور بنایا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے متعلق بے اعتماد ہوتا ہے۔ ایک مخالفوں کے پاس جاتا اور دوسرے کے متعلق کہتا ہے وہ ان سے ملا ہوا ہے۔ اور دوسرا جاتا ہے تو پہلے کے متعلق ایسا ہی کہتا ہے حالانکہ دونوں ہمارے متعلق جھوٹی خبریں مخالفین کو دے رہے ہوتے ہیں مگر ڈر کے مارے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ بہرحال ایک عنصر ایسا موجود ہے یہ لوگ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جتھا بنا رہے ہیں حالانکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حُکم آئے تو ان کے جتھے یوں مٹ جاتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں لگتا۔ اُس وقت ان کے تمام دعوے دھر ے کے دھرے رہ جائیں گے اور مدینہ کے منافقوں کی طرح چوں بھی نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نشان دکھا کر ان کی طاقت کو توڑ دے گا۔
منافق دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو روپیہ یا عزت کی خاطر افسروں کو جا کر غلط باتیں بتاتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو احرار سے ملتے ہیں۔ یہ بے غیرت اور بے شرم کہلاتے تو احمدی ہیں مگر ملتے اُن لوگوں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینا کوئی بات ہی نہیں اور میری مخالفت کے لئے وہ اسے برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کر کے بھی وہ بچ نہیں سکتے تھے اور میری مخالفت کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ- یعنی میرے ساتھی میرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے اس لئے میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم جتنا چاہو زور لگا لو، ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگا لو، خدا تعالیٰ کی یہ بات پھر بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔ مخالفت کرنے والے خواہ غیر مبائع ہوں خواہ منافق، خواہ بڑے لوگ ہوں خواہ بڑے کہلانے والوں کی اولاد ہوں، وہ یقینا مٹا دئے جائیں گے اور ان کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔ منافقوںمیں سے کچھ لوگ تو وہ ہیں جو حکومت کے افسروں کے پاس جاتے ہیں ان سے ہمیں کوئی ایسا خطرہ نہیں کیونکہ ہم نہ تو کوئی جُرم کرتے ہیں اور نہ کوئی سیاسی سازشیں بلکہ حکومت کے بارہ میں ہماری اور احرار کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک عورت کا ایک نواسہ تھا اور ایک پوتا۔ بیٹی سے اسے چونکہ زیادہ محبت تھی، اس لئے نواسے کو اس نے اُٹھایا ہوا تھا اور پوتے کو انگلی پکڑے لئے جارہی تھی۔ وہ جب کہے دادی میں تھک گیا ہوں تو اسے ڈانٹ دے اور کہے، سیدھی طرح چلتا ہے یا نہیں لیکن نواسے کو گود میں اٹھائے ہوئے مٹھائی کھلاتی جاتی تھی اور اگر کوئی ذرہ اُس سے گر جاتا تو پوتے سے کہہ دیتی کہ اُٹھا کر کھا لو ۔ اتنے میں سامنے سے کُتّا آ گیا۔ تو نواسہ کہنے لگا کُتّے! میری نانی کی ٹانگ کاٹ لے۔ مگر پوتے نے کہا کُتّا آگے بڑھے تو سہی مَیں پتھر مار کر اُس کا سر نہ پھوڑدوں۔ یہی نظارہ یہاں نظر آ رہا ہے۔
سِلور جوبلی کا موقع آیا تو احراریوں نے کہا کہ کوئی سلور جوبلی کی تقریب میں شامل نہ ہو جو شامل ہونگے وہ غدار ہیں، دشمنانِ ملک و ملت ہیں مگر احمدیوں نے کہا اگر بعض حُکّام ہمارے ساتھ عداوت رکھتے ہیں تو رکھیں بادشاہ ہمارا ہے، ہم تو جشن جوبلی منائیں گے۔
پس ہم تو حکومت کے افسروں سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں۔ جاسوس ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ اپنی عاقبت خراب کریں۔ ہاں منافقین کا دوسرا گروہ زیادہ خطرناک ہے اور ان میں سے بھی بالخصوص وہ جو براہِ راست احرار سے نہیں ملتے بلکہ درمیان میں ایجنٹ رکھ کر ان کے ذریعہ مخالفوں سے ملتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حالتوں میں درمیان میں تین تین ایجنٹ ہیں۔ ایک شخص دوسرے سے بات کرتا ہے وہ آگے ایک اور سے کرتا ہے پھر وہ کسی غیراحمدی سے ملتا ہے اور پھر وہ آگے کسی غیراحمدی سے ملتاہے اور پھر اس کے ذریعہ احراریوں تک بات پہنچتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں کے نام بھی معلوم ہیں لیکن جیسا کہ میرا اصول ہے میں چاہتا ہوں کہ ان کو اصلاح کا کافی موقع دیا جائے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک شہادت شرعی موجود نہ ہو، میں شرعی سزا نہیں دیا کرتا۔ منافقوں کا ہونا مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں، مکہ کے کئی کافر بھی رسول کریم ﷺ کو کفار کی خبریں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر ہمارے منافق ہماری خبریں دشمنوں تک پہنچاتے ہیں تو لاہور و امرتسر وغیرہ شہروں میں ان کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جو ان کی خبریں ہم تک پہنچاتے ہیں اور وہ ان کے لیڈر بھی ہیں جو تقریریں بھی کرتے ہیں۔ مجھے ایک احراریوں کے جلسہ سے پندرہ دن پہلے اطلاع مل گئی تھی کہ تجویزیں کی جا رہی ہیں کہ قادیان میں ایک جلسہ کر کے اس میں پتھر وغیرہ پھینکے جائیں اور کہا جائے کہ احمدیوں نے ایسا کیا ہے اور اس طرح سلسلہ کو بدنام کیا جائے۔ پس یہ لوگ بہت زیادہ خطرناک ہیں جو فتنہ پیدا کر کے جماعت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔مجھے ہرگز یہ ڈر نہیں کہ حکومت ہم میں سے کسی کو قید کر دے گی یا پھانسی دیدے گی۔ اس سے ہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور مومن کو موت سے کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ ہاں مومن کو بدنامی سے ڈر لگتا ہے اس لئے میں اس بات سے ضرور ڈرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات جماعت کی طرف منسوب ہو جو جُرم اور گُناہ ہو۔
اس عرصہ میں قادیان سے باہر بھی مخالفت بہت بڑھ گئی ہے۔ حمایتِ اسلام کے جلسہ پر جو کچھ ہوا وہ آپ لوگ جانتے ہیں، لدھیانہ میں اور دوسرے مقامات پر احمدیوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔عورتوں کی بے عزتی کی جاتی ہے، بچوں کو پیٹا جاتا ہے۔ سیالکوٹ، ہوشیارپور وغیرہ مقامات پر بھی سخت تکالیف دی جا رہی ہیں، بعض جگہوں پر ہمارے مبلغوں کو ان کے اپنے مکانوں میں بھی نہیں رہنے دیا جاتا، بعض کو جوتیوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، بعض کے منہ کالے کر کے گدھوں پر سوار کرایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ برطانوی حکومت کے اندر ہو رہا ہے، مگر وہ بے بس ہے بوجہ اس کے کہ مخالفوں کی کثرت ہے اور تم اقلیت میں ہو۔ پس حق اور انصاف کی دلیل سے تم گورنمنٹ کو بھی نہیں منوا سکتے صرف ایک دلیل ہے جسے ماننے پر سب مجبور ہونگے اور وہ یہ کہ تم اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدل ڈالو، تم کل ہی ان اعداد کو بدل دو پھر دیکھو حکومت کس طرح تمہاری ہر دلیل کو مانتی ہے۔
پنجابی میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’جس دی کوٹھی دانے اُس دے کملے وی سیانے‘‘ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ان کے اندازہ کے مطابق ہماری تعداد ۵۶ ہزار ہے اور ان میں صرف اتنی خوبی ہے کہ وہ اپنی طرف پنجاب کے ایک کروڑ لوگوں کو منسوب کرتے ہیں حالانکہ یہ کسی صورت میں بھی صحیح نہیں۔ میں کبھی نہیں مان سکتا کہ زمینداروں کی اکثریت اس قدر گندی ہو گئی ہو کہ کمزور پر ظلم کو برداشت کر سکے۔ ان میں سے بہت تھوڑے احراریوں کے ساتھ ہیں باقی کو اس کا علم بھی نہیں کہ احمدیوں پر کس قدر مظالم کئے جا رہے ہیں۔ اگر ان کو اس کا علم ہو تو وہ اس ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
ان خطرات سے بچنے کیلئے میں نے بعض تجاویز کی تھیں۔ آج بعض مقررین نے ان کے متعلق تقریریں کی ہیں مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض امور کے متعلق زیادہ وضاحت سے بیان نہیں کیا جا سکا اس لئے ان امور کے متعلق میں بعض باتیں بیان کر دیتا ہوں۔ ان فتنوں سے بچنے کے لئے میں نے بتایا تھا کہ دوست سب سے پہلے یہ کریں کہ باہم لڑائی جھگڑے بند کر دیں۔ میری اس تحریک کے نتیجہ میں سینکڑوں نے صلح کی لیکن سینکڑوں ایسے ہیں جو پھر لڑنے لگ گئے اس لئے اس مطالبہ کے چھ ماہ بعد میں پھر آپ لوگوں کو اور جو یہاں موجود نہیں ان کو اخبار کے نمائندوں کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ کوئی احمق ہی اُس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق۔ ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں، وہ یقینا یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو کہتا ہوں کہ وہ توبہ کریں، توبہ کریں، توبہ کریں ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے۔ منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی۔ ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں، رسول کے دشمن ہیں، قرآن کے دشمن ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں، ایسے لوگ خون آلود گندے چِیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہے۔ اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کر لے اور پھر کبھی نہ لڑے۔ ذرا غور تو کرو تم کن باتوں کے لئے لڑتے ہو، نہایت ہی ادنیٰ اور ذلیل باتوں کے لئے ۔
پھر میں نے نصیحت کی تھی کہ اس زمانہ میں مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے اس لئے سب مرد اور عورتیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں اور اخراجات کم کر دیں۔ تا جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے لئے آواز آئے، وہ تیار ہوں۔ قربانی کے لئے صرف تمہاری نیت ہی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تمہارے پاس سامان بھی مہیا نہ ہوں۔ ایک نابینا جہاد کا کتنا ہی شوق کیوں نہ رکھتا ہو اس میں شامل نہیں ہو سکتا، ایک غریب آدمی اگر زکوٰۃ دینے کی خواہش بھی کرے تو نہیں دے سکتا، ایک مریض کی خواہش خواہ کس قدر زیادہ ہو روزے نہیں رکھ سکتا پس اگر سامان مہیا نہ ہوں تو ہم وہ قربانی کسی صورت میں بھی نہیں کر سکتے جس کی ہمیں خواہش ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سادہ زندگی اختیار کرے تا کہ وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکے اور اگر اس کا موقع نہ آئے تو بھی تم خدا تعالیٰ سے کہہ سکو کہ ہم نے جو کچھ جمع کیا تھا اگرچہ وہ ملا تو ہماری اولاد کو ہی لیکن ہم نے اسے دین کے واسطے قربانی کی نیت سے جمع کیا تھا۔ اسی لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ دوست سادہ غذا کھائیں اور ایک ہی کھانے پر اکتفاء کریں اور دعوتوں وغیرہ کے موقع پر اگرچہ یہ پابندی نہ ہو مگر کوشش کی جائے کہ ایسے مواقع پر بھی خرچ کم ہو، کھانا معمولی اور سستا ہو اور دعوتوں کے موقع پرجو لوگ پہلے چار کھانے تیار کرتے تھے وہ دو کریں اور جو آٹھ دس کرتے ہیںوہ تین چار پر اکتفاء کریں۔
جماعت کا اکثر حصہ اس تحریک کو قبول کر چکا ہے مگر پھر بھی کئی ہیں جو اس بارہ میں غفلت کرتے ہیں اور پھر کئی ہیں جو بار بار شرطیں پوچھتے ہیں۔ ایک خاتون نے مجھے کہا اور کتنا شرمندہ کیا کہ مَردوں کو کھانے کا شوق ہوتا ہے آپ نے ان کو ایک کھانے کا حُکم دیا مگر وہ اس کے متعلق کئی سوالات پوچھتے رہتے ہیں۔ عورتوں کو زیور کا شوق ہوتا ہے اور آپ نے انہیں حُکم دیا کہ زیور نہ بنواؤ۔ عورتوں نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا ہی نہیں اور فوراً اس حُکم کو مان لیا۔ میں اپنے منصب اور مقام کے لحاظ سے تو نہ مشرقی ہوں نہ مغربی نہ عورتوں کا ایجنٹ ہوں نہ مردوں کا مگر اس کے اس لطیفہ میں مجھے مزا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی جواب کا موقع دے دیا۔ ہمیں چاہئے کہ قربانی کیلئے ہر وقت تیار رہیں اور تیاری کرتے رہیں ورنہ وقت آنے پر فیل ہو جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی ایک مثال سنایا کرتے تھے کہ کسی بادشاہ نے کہا، سپاہیوں کا کیا فائدہ ہے خواہ مخواہ بیٹھے تنخواہ لیتے ہیں، سب سپاہی موقوف کر دیئے جائیں۔ جب قریبی ملک کے بادشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے جھٹ حملہ کر دیا۔ اب اس نے مقابلہ کی یہ تجویز کی کہ سب قصائیوں کو بھیجا جائے تا کہ حملہ آور فوج کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ انہیں بھیجا گیا مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ بھاگے ہوئے آئے کہ حضور بہت ظلم ہو گیا۔ وہ لوگ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا، ہم تو چار چار آدمی مل کر پہلے ایک آدمی کو لِٹاتے ہیں اور پھر قاعدہ کے ساتھ اسے ذبح کرتے ہیں مگر وہ لوگ اتنے عرصہ میں ہمارے بیس آدمی مار ڈالتے ہیں ہم فریادی ہو کر آئے ہیں کہ کوئی انتظام کیا جائے۔
پس جو قوم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں رہتی، اس کا وہی حال ہوا کرتا ہے جو ان قصائیوں کا ہوا۔ تمہارا مقابلہ بھی ان لوگوں سے ہے جو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا، اور جب تک تم بھی ان کے مقابلہ کے لئے اچھی طرح تیار نہ ہو گے کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے تکالیف کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ سادہ غذا کھاؤ اور جو اِس ہدایت سے منہ موڑے، تم اُس سے منہ موڑ لو اور اس سے صاف کہہ دو کہ آج سے میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اپنے لباس کو سادہ بناؤ اور ضرورت سے زیادہ کپڑے نہ بنواؤ۔ جن کے پاس کافی کپڑے ہوں جب تک وہ پھٹ نہ جائیں اور نہ بنائیں اور جب بنوائیں تو کم بنوائیں۔ اسی طرح عورتیں بھی محض پسندیدگی کی وجہ سے کپڑا نہ خریدیں اور جب ضرورت ہو تو سستا خریدیں۔ زیورات کے متعلق میں نے ہدایت کی تھی کہ ان کا بنوانا بند کر دیں سوائے شادی بیاہ کے اور شادی بیاہ میں بھی پہلے سے کمی کریں ہاں ٹُوٹے پُھوٹے کی معمولی مرمت ہو سکتی ہے۔ پھلوں کے متعلق میں نے کہا تھا کہ یہ چونکہ صحت کے لئے ضروری ہیں، اس لئے میں کُلّی طور پر تو ان کی ممانعت نہیں کرتا مگر حتیّٰ الوسع کم استعمال کئے جائیں۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہم نے یونہی اپنے ساتھ لگا رکھی ہیں۔ اس سال ہم برف کا استعمال نہیں کرتے اسی طرح اس سال سوڈے کی مفت تو بوتل میں نے پی ہے مگر خرید کر نہیں پی۔ مہمان نوازی کے طور پر کسی نے پلا دی تو پی لی۔ پھر میں نے کہا تھا کہ سینما، تھیٹر، سرکس وغیرہ چیزوں سے کُلّی پرہیز کیا جائے، نوجوان کثرت سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے ان کو خصوصیت سے میں نے توجہ دلائی تھی اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے اکثر نوجوانوں نے اسے چھوڑ دیا ہے اور بعض جو کثرت سے اس کے عادی تھے اب اس سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر جو اس بارہ میں غفلت کر رہے ہیں، اُن کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ سوائے آفیشل تقاریب کے باقی خواہ کیسے بھی حالات ہوں، وہ ہرگز ان تماشوں میں نہ جائیں حتیّٰ کہ مُفت بھی نہ دیکھیں۔ پھر میں نے آرائشِ مکان کے متعلق نصیحت کی تھی کہ اس پر بھی روپیہ ضائع نہیں ہونا چاہیئے۔ علاجوں کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر کم قیمت علاج کریں اور دوست بھی قیمتی اَدویہ کے پیچھے نہ پھریں تا ناواجب خرچ نہ ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ آج چھ ماہ کے بعد دوست پھر ان باتوں کو پورا کرنے کا اقرار کریں گے اور اپنی زندگیوں میں عمدہ نمونہ دکھانے کی کوشش کریں گے۔
پھر میں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہر احمدی تبلیغ کی کوشش کرے اور دو دو ماہ وقف کر دے مگر بہت کم لوگوں نے اس طرف توجہ کی ہے جن کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں اور ان میں سے بھی بہت سے قادیان کے ہیں حالانکہ اگر ہم اس حد تک بھی کوشش نہ کریں جس حد تک ہمارے اختیار میں ہے تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہو گی۔ لوگوں کے کانوں تک تبلیغ کا پہنچا دینا ہمارے ذمہ ہے ورنہ اگر ہم اس ذریعہ کو بھی استعمال نہ کریں تو ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ ایک مطالبہ زندگیاں وقف کرنے کا تھا اس کا جواب بھی اگرچہ کوئی زیادہ شاندار نہیں تاہم سینکڑوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ جہاں چاہیں بھیج دیا جائے۔ ان میں سے پانچ جا بھی چکے ہیں باقی تیار ہو رہے ہیں اور ہمت سے کام کر رہے ہیں۔ پانچ ماہ ہوئے لیکن اس عرصہ میں ان میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوا۔ اور وہ ہمت سے قائم ہیں اور اُس دن کے منتظر ہیں جب اشاعتِ دین کے لئے انہیں بھیج دیا جائے۔ یہ نوجوان مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن دوسروں کو بھی چاہئے کہ آگے آئیں اور اپنے نام پیش کریں تا دلائل کی جنگ میں وہ دوسروں سے پیچھے رہنے والے نہ ہوں۔ یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں بلکہ ہمیشہ ایسے مطالبے ہوتے رہیں گے پھر میں نے ایک تحریک امانت کے متعلق کی تھی اس میں کُل وعدے پانچ ہزار ماہوار تک کے ہیں حالانکہ ضرورت زیادہ کی ہے۔
پس ہر احمدی جو ایک پیسہ بھی بچا سکتا ہو اسے چاہئے کہ یہاں جمع کرائے۔ یاد رکھو کہ یہ غفلت اور سستی کا زمانہ نہیں ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ اگر آج نہیں تو کل ثواب کا موقع مل سکے گا۔ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۲؎ اور یہ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہی ہے۔ پس ڈرو اُس دن سے کہ جب تم کہو کہ ہم مال و جان دینا چاہتے ہیں مگر جواب ملے کہ اب قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ چندہ کی تحریک تھی۔ اس میں وعدے تو ایک لاکھ دس ہزار کے آئے ہیں مگر وصول ابھی تک باسٹھ ہزار ہوا ہے۔ حالانکہ بجٹ سترّہزار کا ہے (اِس وقت تک قریباً چھیاسٹھ ہزار کی آمد ہو چکی ہے) امید ہے کہ دوست بقیہ وعدے جلد پورے کریں گے اور اس بات کے لئے تیا رہو جائیں گے کہ اگلے سال پھر جوش سے اس تحریک میں حصہ لے سکیں۔میں آئندہ نومبر میں پھر اعلان کرنے والا ہوں مگر جو آج وعدہ پورا نہیں کرتا وہ کل کس طرح آگے آئے گا۔ ایک مطالبہ قادیان میں تعلیم کیلئے بچوں کو بھجوانے کا تھا اس کے ماتحت طلباء قادیان میں آئے ہیں اور ان کی تربیت کا کام جن لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے امید ہے وہ میری ہدایات کے ماتحت اس کیلئے پوری پوری کوشش کریں گے۔ قادیان میں مکان بنوانے کی بھی تحریک کی گئی تھی۔ اس کی طرف بہت سے دوستوں نے توجہ کی ہے۔ مگر ابھی اس کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اب تو احرار بھی کہتے ہیں کہ قادیان میں مکان بناؤ اور زمینیں خریدو۔ اس سے ہمارے دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہیں اس امر کی طرف کس قدر توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ یہاں اس کثرت سے مکان بنائیں کہ مخالفوں کیلئے کوئی زمین ہی نہ رہنے دیں۔
ایک نصیحت ترکِ بیکاری کے متعلق تھی۔ اس پر بھی بہت کم عمل کیا گیا ہے اور بہت کم ہمت دکھائی گئی ہے۔ جھوٹی نام ونمود کی قربانی بہت مشکل ہوتی ہے تعلیم یافتہ بے کار یہ ہمت نہیں کرتے کہ’’الفضل‘‘کے پرچے بغل میں دبا کر بیچتے پِھریں۔ میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان اس مرض کو دور کریں گے اور والدین بھی اپنی اولاد سے اس مرض کو دور کرانے کی کوشش کریں گے کہ یہ مرض قوم کی کام کرنے کی روح کو کُچل دیتا ہے۔ پھر میں نے ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت کی تھی، اس کی طرف بھی کم توجہ کی گئی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ اگر قادیان کی جماعت کوئی ایسے کام پیدا کرے تو میں بھی دوستوں کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہوں گا لیکن ابھی تک کوئی ایسا کام پیدا نہیں کیا گیا۔
ایک تحریک یہ تھی کہ پنشن یافتہ دوست یہاں آئیں۔ اس کے ماتحت جس قدر آدمیوں کی ضرورت تھی اتنے میسر نہیں ہوئے۔ ان سب باتوں کے علاوہ میں نے دعا کے لئے کہا تھا۔ اور نصیحت کی تھی کہ دوست یہ دعائیں کثرت سے پڑھا کریں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ اور رَبِّ کُلُّ شَیْی ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا- لیکن شاید بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دعائیں صرف روزوں کے ایام کے لئے ہی تھیں، حالانکہ یہ صحیح نہیں جب تک یہ فتنہ رہے دوستوں کو چاہئے کہ یہ دعائیںپڑھتے رہیں۔ ان کے علاوہ اپنی اپنی زبان میں زیادہ جوش کے ساتھ بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور ہمیں ایسا روحانی غلبہ عطاء کرے کہ ہم لوگوں کے خیالات میں، افکار میں، رُجحانات میں، ان کے قلوب میں، زبانوں میں، اعمال میں، تمدن میں، دین میں اصلاح کر سکیں تا جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے زمین پر بھی ہو۔ ان کے علاوہ اور بھی بعض باتیں ہیں مگر زیادہ اہم یہی ہیں، بعض کو دوسری باتوں کے ساتھ ملا کر بیان کر دیا ہے۔
بالآخر میں دوستوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنوائیں اور امانت فنڈ کو مضبوط کریں، یہ نہایت اہم کام ہے اور دشمن کے مقابلہ کے لئے آپس میں تعاون سے کام لیں۔ بغیر تعاون کے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ جو کام قوموں کے سپرد ہوتے ہیں وہ افراد نہیں کر سکتے پس چاہئے کہ جماعت احمدیہ کا ہر بچہ، ہر جوان، ہر بوڑھا، ہر مرد اور ہر عورت ایسے رنگ میں کام کرے کہ قیامت کے دن کہہ سکے اے خدا! ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اگر آپ لوگ تاویلیں اور بہانے کریں گے تو کام پھر بھی خدا تعالیٰ کر دے گا مگر یہ بہت شرم کی بات ہو گی، آپ کیلئے اور میرے لئے بھی کیونکہ شاگردوں کی ذمہ واری اُستاد پر بھی ہوتی ہے۔
جو لوگ محض رشتہ داری یا محبت کی خاطر منافقوں سے ملتے رہتے ہیں، ان پر بھی میں حجت تمام کرتا ہوں اور ان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ تم خدا کے حضور ضرور پکڑے جاؤ گے۔ تم خدا اور اس کے دین کو کھلونا بنا رہے ہو اور ہنسی کر رہے ہو لیکن خدا کے حضور تمہاری چالاکیاں، ہوشیاریاں، بڑائیاں اور تکبر کوئی چیز کام نہ دے سکے گی۔ ہر ایک جومنافقوں کے حوصلے اپنے عمل اور سلوک سے بڑھاتا ہے، وہ اچھی طرح سُن رکھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں ہمارے سامنے اور اگلی دنیا میں اپنے سامنے ذلیل کرے گا۔ پس دشمنوں اور منافقوں سے بچو اور جب وہ منافقت کی بات کریں، ان سے الگ ہو جاؤ۔ منافق ہمیشہ پُر فریب طریق پر بات کرتا ہے مثلاً وہ کہے گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تو بہت اچھے ہیں، مگر دوسرے احمدی ایسے ہیں کہ جماعت کو بدنام کر رہے ہیں۔ پس تم جس شخص کو دیکھو کہ عام لوگوں میں بیٹھ کر جماعت پر اعتراض کرتا ہے سمجھ لو کہ منافق ہے اور لَاحَوْلَ پڑھتے ہوئے اس کے پاس سے اُٹھ جاؤ۔
پھر جو شخص تمہیں سلسلہ کی خدمت سے روک رہا ہو، خواہ اسی بہانہ سے روکتا ہو کہ اس سے بہتر خدمت کا موقع تمہیں مل سکے گا اس کے متعلق بھی سمجھ لو کہ وہ منافق ہے۔ اِس وقت سلسلہ کے کام بہت پھیل رہے ہیں اور ہمیں آدمیوں کی بہت ضرورت ہے۔ جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ علوم حاصل کر یں، نائٹ سکول کھولے جائیں جہاں لیکچرار مقرر کر دیئے جائیں کہ دوستوں کو مسائل یاد کرا کے تبلیغ کے لئے تیار کریں۔
سب سے آخر میں پھر یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جب تک تم اپنے لئے موت قبول نہ کرو، زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ تم سے اگر کوئی پوچھے کہ اسلام کی زندگی کی کیا صورت ہے؟ تو تمہاری طرف سے اس کا ایک ہی جواب ہونا چاہئے کہ ہماری موت، موت، موت۔
پس تم اس کے لئے تیار ہو جاؤ۔ آج ہمیں حکومت سے بھی صاف لفظوں میں کہہ دینا چاہئے کہ ہم مذہب میں کسی قسم کی دخل اندازی گوارا نہیں کر سکتے۔ ہم ایک ایک کر کے مر جائیں گے مگر یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اور آج ہمیں احرار سے بھی یہ کہہ دینا چاہئے کہ ہم نرم طبائع رکھتے ہیں فسادی نہیں ہیں لیکن تمہاری ایک ایک قربانی کے مقابلہ میں ہم دس دس پیش کر کے بھی خوش نہیں ہونگے۔ ہم اُس وقت تک آرام کا سانس نہیں لیں گے جب تک کہ تم لوگ یا تو توبہ نہ کر لو اور یا پھر تمہارے نظام کو ہم دنیا سے فنا نہ کر دیں اور تمہاری پارٹی کو توڑ نہ دیں۔ ہمارے آرام کی اب دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ تم مومن بن جاؤ اور دوسری یہ کہ تم پراگندہ ہو جاؤ۔ اور آج ہمیں منافقوں سے بھی صاف الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہئے کہ ہم ہر اس دل کو جس میں سلسلہ کے خلاف میل ہو گی مسل دیں گے خواہ بوجہ اس کے کہ وہ ہمارا دوست یا رشتہ دار تھا، ہمارا اپنا دل بھی ساتھ ہی مسلا جائے۔ ہمیں اپنے بیوی بچوں، والدین، بہنوں بھائیوں اور دوستوں رشتہ داروں سے بھی کہہ دینا چاہیئے کہ تمہارے ساتھ ہمارے تعلقات اسی صورت میں رہ سکتے ہیں کہ تم دین کے لئے مصائب کی آگ میں ہم سے پہلے کُود جاؤ اور کہو کہ یہ آگ نہیں جنت ہے۔ لیکن اگر تم قربانیوں کے رستہ میں ہمارے لئے روک بنو گے تو تمہارے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔حکومت سے کہہ دو کہ ہم خیر خواہ اور امن پسند ضرور ہیں مگر یہ کبھی گوارا نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کی عزت کو کم کیا جائے۔ ادب سے لیکن کھول کر حکومت کو یہ سنا دو کہ ہم سے یہ امید نہ رکھی جائے کہ ہم سلسلہ کی بے عزتی حُکّام کے ہاتھوں ہوتی دیکھیں اور پھر بھی جی ہاں جی ہاں کہتے ہوئے سرجُھکائے رکھیں ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا۔ مسلمانوں سے کہہ دو کہ تمہارے لئے ہم ہمیشہ قربانیاں کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن یہ کبھی نہ ہو گا کہ احمدیت میں اس وجہ سے کوئی کمزوری آنے دیں۔ جس دن تم احمدیت کے خلاف تلوار اُٹھاؤ گے، اُس دن بس دو ہی صورتیں ہمیں مطمئن کر سکیں گی یا تو یہ کہ تم ایمان لے آؤ اور یا پھر یہ کہ پیٹھ دکھا کر بھاگ جاؤ۔ منافقوں کو اچھی طرح سن لینا چاہئے کہ ان کے بارے میں ہم کوئی نرمی یا کمزوری اختیار نہیں کریں گے۔ ان کا ہم سنگدل انسان کی طرح مقابلہ کریں گے اور ان کی تباہی ہمارے لئے عید کا دن ہو گا۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ سلسلہ کے لئے قربانیاں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اخلاص، انصاف اور عدل پیدا کرے۔ تاہم جنگ کی حالت میں کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے سلسلہ بدنام ہو۔ ایک طرف ہمیں حکومت سے وفاداری کو قائم رکھنے اور دوسری طرف سلسلہ کی عظمت و وقار کو برقرار رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ مسلمانوں سے ہمیں دوستی کرنے کی توفیق دے مگر یہ بھی توفیق دے کہ ہر اس آنکھ کو جو احمدیت کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے، پھوڑ ڈالیں۔ وہ ہماری کمزوریوں، جہالتوں اور غفلتوں کو دور کر کے نیک، خادم دین، مخلص اور سچا مومن بنائے۔ اپنے دین کے رستہ پر چلنے کی توفیق دے۔ اور ہم اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔
(الفضل ۱۲ ۔جون ۱۹۳۵ء)
۱؎ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ ۱۶۵ مطبع رحمانیہ مصر ۱۹۲۹ء
۲؎ مسند احمد بن حنبل جلد اوّل صفحہ۱۹۲ مطبوعہ دارالفکر بیروت



مصری صاحب کے خلافت سے انحراف
کے متعلق تقریر




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مصری صاحب کے خلافت سے انحراف
کے متعلق تقریر
(تقریرفرمودہ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۷ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْناًo وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِمَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَاناً وَّاِثْماً مُّبِیْنًا۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِاَّزْوَاجِکَ وَبَنٰـتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَ بِیْبِھِنََّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لاَ یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلاَّ قَلِیْلاًo مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْآ اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً oسُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاًo یَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَۃِ قُلْ اِنَّماَ عِلْمُھَا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ تَکُوْنُ قَرِیْباًo۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
میں آج اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے دوستوں کو اس اَمر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی زندگی کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ عضو اپنے جسم سے ملا رہے۔ جو چیزاپنی ذات میںاکیلی ہو وہ علیحدہ رہ سکتی ہے مثلاً ایک درخت جو اپنی جگہ پر قائم ہے اسے کسی دوسرے درخت سے ملنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر وہ اکیلا کسی جنگل میں لگا دیا جائے تو وہ اپنی زندگی قائم رکھ سکتا ہے لیکن اسی درخت کی اگر ایک شاخ کاٹ لی جائے تو وہ علیحدہ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ کُل کا جُزو ہے اور جُزو کُل سے علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ایسا قانون ہے کہ جس کے خلاف اعلیٰ مخلوق میں ہمیں کوئی مثال نظر نہیں آتی، ادنیٰ مخلوق میں بعض مثالیں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ بعض جانور ایسے ہیں کہ اگر انہیں دو ٹکڑے کر دیا جائے تو اُن کے دونوں ٹکڑے زندہ رہتے ہیں مگر یہ ادنیٰ درجہ کے کیڑے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ قسم کی مخلوق میں سے کسی کا کوئی عضو اصل سے جُدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جب کوئی افراد ایسے ہوں جو اپنے آپ کو جماعت کہتے ہوں اور ان کا ایک مقصد اور مدّعا ہو تو ان کی نسبت بھی جماعت کے ساتھ وہی ہؤا کرتی ہے جو شاخ کی درخت کے ساتھ یا انسان کے ہاتھوں اور پائوں کی اس کے بدن کے ساتھ ہؤا کرتی ہے اور یہ نسبت اُس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک وہ جماعت کاحصہ رہتے ہیں۔
پس جماعتی معاملات میں افراد کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتے جب تک اُن کا جڑ سے تعلق نہ ہو اور اس زمانہ میں یہ تعلق پیدا کرنے کابہترین ذریعہ اخبارات ہیں انسان کسی جگہ بھی بیٹھا ہؤا ہو اگر اسے سلسلہ کے اخبارات پہنچتے رہیں تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پاس بیٹھا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے مَیں اَب بول رہا ہوں گو عورتوں کا جلسہ بہت دُور ہے مگر لائوڈ سپیکر کی وجہ سے وہ بھی میری تقریر سن رہی ہیں۔ اگر لائوڈ سپیکر نہ ہوتا تو انہیں کچھ علم نہ ہوتا کہ مَیں کیا کہہ رہا ہوں۔ پس لائوڈ سپیکر نے عورتوں کو میری تقریر کے قریب کر دیا اسی طرح اخبارات دُور رہنے والوں کو قوم سے وابستہ رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ الحکم اور بدر ہمارے دو بازو ہیں۔ گو بعض دفعہ یہ اخبارات ایسی خبریں بھی شائع کر دیتے تھے جو ضرر رساں ہوتی تھیں مگر چونکہ ان کے فوائدان کے ضرر سے زیادہ تھے اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے یہ دو اخبارات ہمارے دو بازو ہیں۔ دو بازو ہونے کے یہی معنی ہیں کہ ان کے ذریعہ ہمارا جو بازو ہے یعنی جماعت وہ ہم سے ملا ہؤا ہے۔ پھر اُس زمانہ میں ہمارے اخبارات کی طرف احباب کو بہت توجہ ہؤا کرتی تھی حالانکہ جماعت اُس وقت آج سے دسواں یا بیسواں حصہ تھی۔ چنانچہ بدر کی خریداری ایک زمانہ میں چودہ پندرہ سَو رہ چکی ہے، اسی طرح الحکم کے خریداروں کی تعداد ایک ہزار تک تھی بلکہ الحکم نے تو ایک دفعہ روزانہ ہونے کی صورت بھی اختیار کر لی تھی تو جماعت کے دوست اس زمانہ میں کثرت سے اخبارات خریدتے تھے بلکہ جو پڑھے لکھے نہیں تھے بعض دفعہ وہ بھی خریدتے اور دوسروں کو پڑھنے کیلئے دے دیتے اور سمجھتے کہ یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے۔ مجھے یاد ہے میاں شیر محمد صاحب جو بنگہ کے رہنے والے تھے انہوں نے بہت سے احمدی کئے۔ ایک دفعہ جب میں ان کے علاقہ میں گیا تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ذریعہ کئی آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ میں نے جب ان سے گفتگو کی تو معلوم ہؤا کہ وہ بالکل سیدھے سادے آدمی ہیں اور عمدگی سے بات تک بھی نہیں کر سکتے۔ آخر میں نے دریافت کیا کہ یہ کس طرح تبلیغ کرتے ہیں تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ یہ یکّہ بان ہیں اور الحکم باقاعدہ منگواتے ہیں۔ جب کوئی مسافر ان کے یکّہ میں بیٹھ جاتا ہے اور یہ شکل صورت سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ لڑاکا اور بد مزاج نہیں تو اسے کہتے ہیں ایک اخبار میرے نام آیا ہے مَیں پڑھا ہؤا نہیں آپ مہربانی فرما کر مجھے پڑھ کر سنا دیں۔ اس پر انہوں نے الحکم نکال کر اس کے سامنے رکھ دینا اور اس نے سنانا شروع کر دینا۔ یہ ہاں ہاں ہُوں ہُوں کرتے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کئی لوگ یکّہ سے اُترتے اُتر تے کہتے کہ یہ اخبار کہاں سے نکلتا ہے اس میں جس مدعی ٔ مأموریت کی باتیں لکھی ہیں اس کا پتہ ہمیں بھی بتائو تا کہ ہم اس سے ملیں اور اس طرح کئی آدمی ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو گئے۔
اب وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے مگر انہوں نے اس لئے اخبار منگوانا ترک نہیں کیا کہ جب میں نہیں پڑھ سکتا تو اخبار منگوانے کا کیا فائدہ ہے بلکہ وہ برابر اخبار منگواتے رہے اور انہوں نے سمجھا کہ پڑھے ہوئے تو اخبار کے ذریعہ اپنا گھر پورا کر لیتے ہیں۔ میں اگر پڑھا ہؤا نہیں تو اسی طرح ثواب میں شامل ہو سکتا ہوں کہ اخبار منگوائوںاور غیر احمدیوں کو پڑھنے کیلئے دے دوںتو اُس زمانہ میں دوستوں کو اخبارات کی طرف بہت زیادہ توجہ تھی اور اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ باوجود اس بات کے اُس وقت چند ہزار کی جماعت تھی آج کی نسبت اخبارات کی خریداری بہت زیادہ تھی اور جماعت میں ایک عام بیداری پائی جاتی تھی۔ ہر شخص ’’الحکم‘‘ اور ’’بدر‘‘ میں شائع شُدہ ڈائری پڑھتا اور یوں محسوس کرتا کہ گویا وہ قادیان میں بیٹھا ہے اور اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صُحبت حاصل ہے لیکن اب جوںجوں جماعت بڑھ رہی ہے اخبارات کی طرف توجہ بہت کم ہو رہی ہے اور ایک خطرناک مرض ہے جس کا علاج بہت جلد ہونا چاہئے۔ اِس وقت ہماری جماعت میں جو دوست اَنْ پڑھ ہیںوہ سب کے سب میاں شیر محمد صاحب والا عرفان نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہم اَنْ پڑھ ہیں ہم اخبار منگوا کر کیا کریں اور جو پڑھے ہوئے ہیں اُن میں سے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کی توفیق ہی نہیں کہ ہم الفضل منگوائیں اور اس طرح پڑھے ہوئوں میں سے بھی ایک حصہ محروم رہ جاتا ہے۔ پھر ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطون کا بھائی سمجھتے ہیں انہیں توفیق بھی ہوتی ہے اور اخبار کی خریداری کی استطاعت بھی رکھتے ہیں مگر جب کہا جاتا ہے کہ آپ ’’الفضل‘‘ کیوں نہیں خریدتے تو کہہ دیتے ہیں اس میں کوئی ایسے مضامین نہیں ہوتے جو پڑھنے کے قابل ہوں۔ ان کے نزدیک دوسرے اخبارات میں ایسے مضامین ہوتے ہیں جو پڑھے جانے کے قابل ہوں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کہ وہ انہیں سنیں اور ان کے پڑھنے کے لئے اخبار خریدیں ایسے لوگ یقینا وہمی ہوتے ہیں اور ان میں قوتِ موازنہ نہیں پائی جاتی۔ میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اُسے خریدا جائے تو مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آ جاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہو جائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہو سکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا۔
اس سُستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اخبارات کے متعلق ہماری جماعت کی وہی حالت ہو جائے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تھی تو اخبار ’’الفضل‘‘ کے روزانہ ہونے کے باوجود کم از کم پانچ ہزار خریدار پیدا ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہمارے دوستوں کے اندر وہی روح پیدا ہو جائے کہ وہ کہیں ہم نے بہرحال اخبار خریدنا ہے چاہے ہمیں پڑھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ اور اسی روح سے کام کرنے کے نتیجے میں باقی رسائل وغیرہ کے بھی ہزار دو ہزار خریدار ہو سکتے ہیں کیونکہ اِس وقت پنجاب میں ہماری ایک لاکھ سے زیادہ معلوم جماعت ہے۔ وہ لوگ جو کمزوری کی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتے یا دل میں تو احمدی ہیں مگر ہمیں ان کی احمدیت کا عِلم نہیں وہ اس سے الگ ہیں اورا گر سارے ہندوستان کو دیکھا جائے تو اس میں جو ہماری معلوم جماعت ہے اس کو شامل کر کے یہ تعداد دو لاکھ تک ہو جاتی ہے اور اگر بیرونِ ہند کی معلوم جماعت کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد تین ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا وہ احمدی جو ہمارے ریکارڈ کے لحاظ سے ہمیں معلوم ہیں اور جو اپنے آپ کو ایک نظام میں شامل کئے ہوئے ہیں وہ تین چار لاکھ سے کم نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اندر زندگی کی حقیقی روح پیدا کریں اور عورتوں اور بچوں اور ان لوگوں کو نکال بھی دیا جائے جو انتہائی غربت کی وجہ سے کسی اخبار کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کم از کم بیس ہزار لوگ یقینا ہماری جماعت میں ایسے موجود ہیں جو سَستا یا مہنگا کوئی نہ کوئی اخبارخرید سکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ اس طرف توجہ نہیں کی جاتی اور ان کا نفس یہ عُذر تراشنے لگ جاتا ہے کہ اَور چندوں کی کثرت کی وجہ سے ہم اخبار نہیں خرید سکتے حالانکہ اس قسم کے چندے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی تھے اور گو اُس وقت عام چندہ کم تھا مگر ایسے مخلص بھی موجود تھے جو اپنا تمام اندوختہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آئی بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے اور ان کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے گھر میں حضرت اماں جان سے ذکر کیا کہ آج روپیہ کی ایسی تنگی محسوس ہو رہی ہے کہ مجھے خیال آتا ہے شاید کہیں سے قرض لینا پڑے۔ اس کے بعد آپ کسی ضرورت کیلئے باہر تشریف لائے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی گھر واپس آ گئے اُس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک رومال تھاجو غالباً ململ کا تھا اور کچھ پھٹا ہؤا بھی تھا آپ نے ہماری والدہ صاحبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ بھی کیسے عجیب سامان کرتا ہے ابھی مَیں روپوں کا ذکر کر رہا تھا اور ابھی جب کہ میں باہر گیا تو ایک غریب سے آدمی نے جس نے پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے مجھے یہ رومال دیا جس میں کچھ بندھا ہوا تھا۔ میں نے اُس کی غربت کو دیکھتے ہوئے خیال کیا کہ چونکہ بعض لوگوںکو شوق ہوتا ہے کہ ہم زیادہ رقم نذرانہ کے طور پر پیش کریں اس لئے غالباً یہ دھیلے یا دمڑیاں ہونگی مگر جب میں نے رومال کو کھولا تو وہ روپے تھے اور گِننے پر دو سَو یا دو سَو دس روپے نکلے تو گو اُس وقت آنہ فی روپیہ چندہ دینے کا طریق نہیں تھا اور بعض لوگ پیسہ اور بعض دو پیسے کے حساب سے چندہ دیتے تھے مگراپنے اخلاص کی وجہ سے وہ اور وقتوں میں بہت زیادہ چندہ بھی دے دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے منشی رستم علی صاحب مرحوم جو کورٹ سب انسپکٹر تھے ۲۵ روپے ماہوار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چندہ بھیجا کرتے تھے اُن کی تنخواہ اُس وقت ایک سَو روپیہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی دنوں چندہ کی تحریک کی تو میرے سامنے ان کا منی آرڈر آیا جس کے کوپن پر لکھا تھا کہ حضور کی دعا کی برکت سے کورٹ سب انسپکٹر کے عُہدہ کی بجائے میراعہدہ اب کورٹ انسپکٹر کا ہو گیا ہے اور تنخواہ میںبھی ۸۰ روپے کا اضافہ ہو گیا ہے لیکن چونکہ مجھے یہ ترقی اُسی وقت ملی ہے جب حضور کی طرف سے چندہ کی تحریک ہوئی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترقی محض حضور کی دعائوں کا نتیجہ ہے اور میں اس کے شکریہ میں ۲۵ روپے ماہوار جو چندہ پہلے بھیجا کرتا تھا وہ تو بھیجتا ہی رہوں گا مگر اب جو ۸۰ روپے ترقی ہوئی ہے یہ بھی بِالالتزام حضور کی خدمت میں ارسال کرتا رہوں گا کیونکہ یہ ترقی حضور کے مقاصد کی تکمیل کیلئے ہی ہوئی ہے۔ چنانچہ اِس کے بعد وہ علاوہ پچیس روپوں کے ۸۰ روپے بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماہوار بھیجتے رہے۔ اسی طرح ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جب گورداسپور میں مقدمہ دائر ہؤا تو اُس وقت آپ نے مختلف دوستوں کی طرف خطوط لکھے کہ اب خدمت کا وقت ہے جو دوست روپیہ بھیج کر مالی خدمت میں حصہ لینا چاہیں اُن کے لئے خدا نے یہ موقع پیدا کر دیا ہے اور وہ دوست جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطوط لکھے اُن میں سے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم بھی تھے۔ بعض دوست جو اُس وقت اُن کے پاس موجود تھے انہوں نے بتایا کہ جس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ خط انہیں ملا وہ تنخواہ ملنے کادن تھا چنانچہ وہ تنخواہ لے کر آئے تو ساری کی ساری تنخواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بھیج دی۔ وہ کہتے ہیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ساری تنخواہ بھیج دی ہے آپ خود کس طرح گزارہ کریں گے؟ تو وہ کہنے لگے حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی چِٹھّی آئے اور ہم اپنی ضروریات مقدم کر لیں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ اب خواہ ہم مریں یا جئیں مَیں نے تو جو کچھ کرنا تھا کر دیا۔ پھر اس کے بعد چھ مہینے تک بِالالتزام انہیں جو کچھ ملتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بھیج دیتے یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں ایک اور چِٹھی لکھی کہ آپ نے اِس چندہ کی وجہ سے اتنی خدمت کی ہے کہ مجھے اب آپ کو روکنا پڑا ہے آپ آئندہ بے شک چندہ نہ بھیجا کریں۔ آپ نے خدمت کی انتہاء کر دی ہے۔ تو بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اُس وقت چندہ پیسہ تھا یا دو پیسے تھا حالانکہ سوال یہ نہیں کہ چندہ کتنا تھا بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ دیتے کتنا تھے۔ اگر چندہ پیسہ فی روپیہ تھا اور وہ آٹھ آنے دیتے تھے تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے گا کہ اُن پر بوجھ کم تھا؟ پس جماعت کے دوستوں کو میں توجہ دلاتا ہوں اور گو پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں مگر معلوم ہوتا ہے دوست میرے الفاظ کو رسمی سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ مَیں اخبار کی امداد کا اعلان کر رہا ہوں حالانکہ میں اخبار کے فائدہ کیلئے نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ایمانوں اور آپ کی نسلوں کے ایمانوں اور آپ کے ہمسایوں کے ایمانوں کے فائدے کیلئے کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ اخبارات خریدیں اور جو لوگ نہیں پڑھ سکتے وہ بھی اخبار خرید کر اپنے غیر احمدی ہمسایوں اور دوستوں کو دیا کریں تا کہ وہ پڑھیں اور سلسلہ کے قریب ہو جائیں۔
ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو مُفت خور ہوتا ہے وہ لوگ اخبار نہایت باقاعدگی سے پڑھتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ خود خریدیں اور پڑھیں بلکہ اس طرح کہ دوسروں سے اخبار لیتے اور پڑھ کر واپس کر دیتے ہیں۔ وہ پہلے یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اخبار کس کے نام آتا ہے اور پھر ہر شام کو وہاں پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کیوں صاحب! الفضل آیا؟ چنانچہ وہ ان سے الفضل لیتے اور دو دو تین تین دن کے بعد واپس کرتے ہیں حتیّٰ کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ اس قسم کے مُفت خورے ہمیں بھی اخبار پڑھنے نہیں دیتے جونہی اخبار پہنچتا ہے وہ آ موجود ہوتے ہیں اور پھر اخبار فوراً گھر لے جاتے ہیں اور اپنی بیوی اور بچوں کو پڑھاتے ہیں اور جو شخص اپنی گِرہ سے قیمت خرچ کر کے اخبار خریدتا ہے اسے بعض دفعہ تیسرے اور بعض دفعہ چوتھے دن اخبار ملتا ہے۔ گویا اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی شخص ریل میں بیٹھا عینک لگائے اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک اور شخص جو مُفت خورہ تھا کہنے لگا ذرا عینک تو دکھائیے۔ اُس نے عینک دکھائی تو اُس نے جھٹ آنکھوں پر لگائی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد جب دیکھا کہ وہ عینک کے انتظار میں اخبار چھوڑے بیٹھا ہے تو کہنے لگا اوہو! آپ عینک کے بغیر نہیں پڑھ سکتے لائیے اتنی دیر مَیں ہی اخبار پڑھ لوں۔ تو یہ بہت ہی غلط طریق ہے جو لوگوں میں رائج ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ وہ حتَّی الوسع قربانی کر کے بھی اخباریں خریدیں۔ یہ ان کا اخبار والوں پر احسان ہوگا۔میرے نزدیک وہ شخص جس کی ڈیڑھ دو سَو یا اڑھائی سَو روپیہ تنخواہ ہو اُس کی یہ نہایت ادنیٰ قربانی ہے کہ وہ تیس پینتیس روپے سالانہ اخبارات پر خرچ کرے بلکہ میرے نزدیک تو اس کا نام قربانی رکھنا بھی قابلِ شرم بات ہے اور ایسا طبقہ جو تیس پینتیس روپے سالانہ اخبارات پر خرچ کر سکتا ہے ہماری جماعت میں کم سے کم اڑھائی تین ہزار ہے گویا اڑھائی تین ہزار یقینا ایسے لوگ ہماری جماعت میں موجود ہیں جو الفضل کو جو سلسلہ کا ڈیلی اخبار ہے خرید سکتے ہیں۔ پس اگر ایسے لوگ الفضل کی طرف توجہ کریں تو اِس کی خریداری محض اس طبقہ کی وجہ سے اڑھائی تین ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پھر وہ لوگ جو پچیس روپے سالانہ اخبارات خریدنے کیلئے خرچ کر سکتے ہیں اگر ان کو ملا لیا جائے تو الفضل کی کم از کم خریداری پانچ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ پھر اِس سے اُتر کر وہ لوگ ہوں گے جو پانچ دس روپے سالانہ خرچ کر سکتے ہیں ایسے لوگ دوسرے رسائل کی خریداری کی طرف توجہ کریں تو ان میں سے ہر رسالہ کا پانچ پانچ چھ چھ ہزار خریدار ہو سکتا ہے۔
پس مَیں دوستوں کو اِس طرف خصوصیّت سے توجہ دلاتا ہوں۔ انہیں اس غلط فہمی میں مبتلاء نہیں ہوناچاہئے کہ میں الفضل کی تائید کیلئے کہہ رہا ہوں بلکہ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تا آپ لوگوں کے ایمان مضبوط ہوں۔ مخالف جب بھی حملہ کرتا ہے اس لئے کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں بعض لوگوں کو ورغلا لُوں گا کیونکہ وہ سلسلہ کی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیںلیکن اگر جماعت پوری طرح سلسلہ سے وابستہ ہو اور جماعت کے عقائد اور تعلیمات سے اُسے واقفیت ہو تو وہ حملہ کی جرأت نہیں کر سکتا۔ پس سلسلہ سے وابستگی کیلئے بھی اخبارات کی خریداری ضروری ہے تا ایسا نہ ہو کہ کوئی بھیڑیا حملہ کر کے کسی بھیڑ کو لے جائے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعتوں کے سیکرٹری اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اوّلین کوشش یہ کریں گے کہ اخبار کے خریداروں میں اضافہ ہو تا کہ الفضل بغیر کسی تکلیف کے چل سکے لیکن اس کے ساتھ میں اخبار والوںکو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ پیشگی قیمت لئے بغیر وہ کسی کے نام اخبار جاری نہ کیا کریں کیونکہ بعض لوگ اخبار تو وصول کرتے چلے جاتے ہیں مگر بعد میں قیمت نہیں دیتے۔ اور اس طرح اخبار والوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ پس آئندہ کیلئے تمام اخبارات والوں کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جس اخبار کا خریداروں کے نام بقایا ہوگا اس سے ہمیںکوئی ہمدردی نہیں اور میں سمجھتا ہوں اگراس بات کی عادت ڈال لی جائے کہ بغیر پیشگی قیمت لئے کسی کے نام اخبار جاری نہیں کرنا تو تھوڑے ہی دنوں میں لوگوںکو بھی پیشگی قیمت دینے کی عادت ہو سکتی ہے۔ میں نے جب الفضل جاری کیا تو اُس وقت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی اکمل صاحب جو اخبارات کا پُرانا تجربہ رکھتے تھے مجھ پر زور دیتے تھے کہ اگر ایسا کیا گیا تو اخبار نہیں چل سکے گا مگر میں نے کہا میں تو اُس کے نام اخبار جاری کروں گا جو پیشگی قیمت دے گا اور اگر اس کے نتیجہ میں اخبار بند ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ کَل بند ہونے کی بجائے آج ہی بند ہو جائے۔ مگر چونکہ میں ایک عزم کے ساتھ اس پر قائم ہو گیا اس لئے مَیں نے دیکھا کہ لوگ پیشگی قیمت دے کر الفضل کے خریدار بنتے تھے حتیّٰ کہ بعض ہندو اور غیر احمدی بھی اس کے خریدار تھے بلکہ ایک انگریز بھی اُس وقت خریدار تھا اور یہ سب پیشگی قیمت دیتے تھے۔ اگر انسان ایک دفعہ ضدّ کر کے بیٹھ جائے اور کہے کہ خواہ کچھ ہو مَیں نے اِس طریق میں تبدیلی نہیں کرنی تو آہستہ آہستہ لوگ اُسی طرف آ جاتے ہیں۔ پس اخبارات والوں کو بھی مَیں سنا دیتا ہوں کہ آئندہ اُس اخبار سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہوگی جو بقائے پر چلتا ہو۔ صرف اُس اخبار سے ہمیں ہمدردی ہوگی جس کے چلانے والے لوگوں سے پیشگی قیمت لیتے ہوں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سال بھر کی بجائے چھے مہینے یا تین مہینے کی پیشگی قیمت دے کر اگر کوئی اپنے نام اخبار جاری کرانا چاہے تو اُس کے نام چھ مہینے یا تین مہینے کیلئے اخبار جاری کر دیا جائے لیکن یہ نہ ہو کہ کسی کے نام اخبار مُفت جا رہا ہو بلکہ قیمت ختم ہونے سے پندرہ دن پہلے اُسے نوٹس دے دینا چاہئے اور آئندہ کیلئے قیمت کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ انگریزی اخبارات تو صرف ایک ہفتہ کی مُہلت دیتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں کہ کسی نے توجہ نہیں کی تو فوراً اُس کے نام اخبار بند کر دیتے ہیں۔ پس یہ بھی ایک بے اصولا پن ہے کہ بغیر قیمت لئے اخبار بھیجی جائے اس سے جماعت میں سُستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے۔ پس تمام اخبارات والوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جو اخبار بقایوں پر چلے گا اس سے آئندہ ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہوگی۔
بعض دوست یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہمیں اخبار کی قیمت میں کچھ رعایت دی جائے حالانکہ ہمارے ملک میں اخبارات نفع پر نہیں بلکہ نقصان پر چل رہے ہیں اسی لئے بعض اخبارات کا طریق ہوتا ہے کہ پہلے وہ کسی رئیس یا نواب کی تعریف میں ایک نوٹ لکھ دیتے ہیں اور اخبار اسے بھجوا دیتے ہیں۔ پھر خود اس کے پاس چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں جناب نے وہ نوٹ ملاحظہ فرمایا ہے؟ ہمارا اخبار جناب کا خادم ہے اور ہمیشہ خادم رہے گا۔ اس طرح چند تعریفی کلمات کہہ کر اُس سے کچھ روپیہ بٹور لیتے ہیں اور اگر وہ کچھ نہیں دیتا تو اگلا نوٹ اُس کی مذمت میں شائع کرتے ہیں اور اُس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ فلاں رئیس یا نواب کے خلاف نہایت سخت رپورٹیں پہنچ رہی ہیں اگر وہ چاہیں اور ہمیں یقین دلا دیں کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہونگے تو ہم ان رپورٹوں کی تردید کر سکتے ہیں۔ اس پر اگر تو وہ ڈرپوک ہوتا ہے تو سَو دو سَو روپے بھجوا دیتا ہے اور معاملہ دَب جاتا ہے اور اگر وہ پھر بھی کچھ نہیں دیتا تو انہیں سخت رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں اور اُس کے خلاف وقتاً فوقتاً نوٹ شائع ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اخبار والوں کی منت و سماجت کر لیتا ہے یا مقدمہ کر کے سیدھا کر لیتا ہے لیکن ہمارے اخبار کی یہ حالت نہیں ہمارے اخبارات اگر اس طرح کریں تو ہم انہیں ایسی سزا دیں کہ ان کے لئے اخبار چلانا مشکل ہو جائے۔ پھر باقی اخبارات والوں کا یہ بھی طریق ہے کہ وہ امراء کو اپنے اخباروں کا زبردستی وی پی کر دیتے ہیں اور اپنا خط لکھ دیتے ہیں کہ آپ جیسے قوم پرور اصحاب سے توقع ہے کہ ہمارے اخبار کا وی پی وصول کر کے ہماری امداد فرمائیں گے۔ چنانچہ میرے نام بھی اِس قسم کے اخبارات والے زبردستی وی پی کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی لکھ دیتے ہیں کہ جناب کی خدمت میں اخبار آ رہا ہے جناب سے توقع ہے کہ آپ اخبار کا وی پی وصول فرما کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔ یوں وہ مجھے گالیاں دیں گے اور کافر اور جھوٹا کہیں گے مگر جب اخبار کا وی پی کریں گے تو یہ لکھ دیں گے کہ امید ہے کہ جناب وی پی وصول کر کے ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں گے غرض اسی طرح وہ اخبارات چل رہے ہیں۔ یورپ میں البتہ اور کیفیت ہے وہاں اخبارات سرمایہ پر چلتے ہیں گو کچھ طبقہ وہاں بھی اِسی قسم کے گزارے کرتا ہے۔ پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ اخبار والے پندرہ بیس روپے سالانہ قیمت لے کر کچھ کما رہے ہوتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پندرہ بیس روپے لیتے ہیں اور پچیس تیس روپے ان کے خرچ ہوتے ہیں۔ جو چھوٹے اخبار ہیں انہیں تو صرف ایک کلرک کی تنخواہ بچتی ہے جو اِس وجہ سے کہ وہ آپ ہی سب کام کرتے ہیں اور کوئی زائد کلرک نہیں رکھتے۔ خود لے لیتے ہیں اس سے زیادہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست خاص طور پر اس طرف توجہ کریں گے اور جماعتوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ صاحبان کوئی ایسا مؤثر قدم اُٹھائیں گے جس کی وجہ سے ہمارے اخبارات و رسائل کی زندگی معرضِ خطر سے نکل جائے۔
ایک بات جس کی طرف مَیں نے اِس سال جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور وہ اتنی اہم ہے کہ جتنی بار اس کی اہمیت کی طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے کم ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہ سے جمع کرائے جائیں۔ ہر شخص جسے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد ہو اُس کا اس بات کو چُھپا کر رکھنا اور دوسرے کو نہ بتانا یہ ایک قومی خیانت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر کئی چھوٹی باتیں نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہوتی ہیں۔ اب یہ کتنی چھوٹی بات ہے جو حدیثوں میں آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک دفعہ کدّو پکا تو آپ نے شوق سے شوربہ میں سے کدّو کے ٹکڑے نکال نکال کر کھانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ شوربہ میں کدّو کا کوئی ٹکڑا نہ رہا اور آپ نے فرمایا کدّو بڑی اعلیٰ چیز ہے۔۲؎ اب بظاہر یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے ممکن ہے کئی احمدی بھی سُن کر کہہ دیں کہ کدّو کے ذکر کی کیا ضرورت تھی؟ مگر اس چھوٹی سی بات سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچا ہم آج اپنے زمانہ میں ان خرابیوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو مسلمانوں میں رائج ہوئیں مگرایک زمانہ اسلام پر ایسا آیا ہے جب ہندو تمدن نے مسلمانوں پر اثر ڈالا اور اس اثر کی وجہ سے وہ اس خیال میں مبتلاء ہو گئے کہ نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو گندی چیزیں کھائیں اور جب بھی وہ کسی کو عُمدہ کھانا کھاتے دیکھتے کہتے یہ بزرگ کس طرح کہلا سکتا ہے جب یہ ایسا عمدہ کھانا کھا رہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں درس دے کر واپس اپنے گھر تشریف لے جا رہے تھے کہ جب آپ وہاں پہنچے جہاں آجکل نظارتوں کے دفاتر ہیں تو یہاں ایک ڈپٹی صاحب ہؤا کرتے تھے جو ریٹائرڈ تھے اور ہندو تھے انہوں نے کسی سے سُن لیا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پلائو کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں وہ اُس وقت اپنے مکان کے باہر بیٹھا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل کو دیکھ کر کہنے لگا مولوی صاحب! ایک بات پوچھنی ہے۔ فرمانے لگے کیا؟ وہ کہنے لگا جی بادام روغن اور پلائو کھانا جائز ہے؟ حضرت خلیفۂ اوّل نے فرمایا ہمارے مذہب میں یہ چیزیں کھانی جائز ہیں۔ وہ کہنے لگا جی فقراں نوں بھی جائز ہے؟ یعنی جو بزرگ ہوتے ہیں کیا ان کے لئے بھی ان چیزوں کا کھانا جائز ہے۔ آپ فرمانے لگے ہمارے مذہب میں فقروں کیلئے بھی یہ چیزیں جائز ہیں۔ وہ کہنے لگا اچھا جی! اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اب دیکھو اس شخص کو بڑا اعتراض یہی سُوجھا کہ حضرت مرزا صاحب مسیح اور مہدی کس طرح ہو سکتے ہیں جب وہ پلائو کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں۔ اگر صحابہ کا بھی ویسا ہی علمی مذاق ہوتا جیسے آجکل احمدیوں کا ہے اور وہ کدّو کا ذکر حدیثوں میں نہ کرتے تو کتنی اہم بات ہاتھ سے جاتی رہتی۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جمعہ کے دن اچھا سا جُبّہ پہن کر مسجد میں آئے ۳؎ اب اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو یہ کہے کہ اچھے کپڑے نہ پہننا فقروں کی علامت ہے تو ہم اُسے اِس حدیث کا حوالہ دے کر بتا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نہایت تعہّد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اورعمدہ لباس زیبِ تن فرماتے بلکہ آپ صفائی کا اتنا تعہّد رکھتے کہ بعض صوفیا نے جیسے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی گزرے ہیں یہ طریق اختیار کیا ہؤا تھا کہ وہ ہر روز نیا جوڑا کپڑوں کا پہنتے خواہ وہ دُھلا ہؤا ہوتا اور خواہ بالکل نیا ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی طبیعت میں چونکہ بہت سادگی تھی اور کام کی کثرت بھی رہتی تھی اس لئے بعض دفعہ جمعہ کے دن آپ کپڑے بدلنا یا غسل کرنا بُھول جاتے تھے اور اُنہیں کپڑوں میں جو آپ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے جمعہ پڑھنے چلے جاتے تھے۔ میں نے جب آپ سے بخاری پڑھنی شروع کی تو ایک دن جب کہ مَیں بخاری لئے آپ کی طرف جا رہا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جاتے ہو؟ میں نے عرض کیا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایک سوال میری طرف سے بھی مولوی صاحب سے کر دینا اور پوچھنا کہ کہیں بخاری میں یہ بھی آیا ہے کہ جمعہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے اور نئے کپڑے پہنتے تھے؟ لیکن اب ہمارے زمانہ میں صوفیت کے یہ معنی کر لئے گئے ہیں کہ انسان گندہ رہے گویا اگر اُس کا وزن بنایا جائے تو یوں بنے گا کہ جتنا گندہ اُتنا ہی خدا کا بندہ۔ حالانکہ انسان جتنا گندہ ہو اُتنا ہی خدا تعالیٰ سے دُور ہوتا ہے اسی لئے ہماری شریعت نے بہت سے مواقع پر غسل واجب کیا ہے اور خوشبو لگانے کی ہدایت کی ہے اور بدبودار چیزیں کھاکر مجالس میں آنے کی ممانعت کی ہے۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی سے دنیا فائدہ اُٹھاتی چلی آئی اور اٹھاتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حالات سے بھی دنیا فائدہ اُٹھائے گی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انکو جمع کر دیں۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحابی ہوں مگر مجھے سوائے اس کے اور کوئی بات یاد نہیں کہ ایک دن جبکہ مَیں چھوٹا سا تھا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ سے مصافحہ کیا اور تھوڑی دیر تک میں آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھ چُھڑا کر کسی اور کام میں مشغول ہو گئے۔ اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر بعدمیں انہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے اہم نتائج اخذ کئے جائیں گے۔ مثلاً یہی واقعہ لے لو اِس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بزرگوں کی مجالس میں لانا چاہئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنے بچوںکو بھی آپ کی مجلس میں لاتے۔ ممکن ہے آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ بچوں کو بزرگوں کی مجالس میں لانے کا کیا فائدہ ہے ان مجالس میں بڑوں کو شامل ہونا چاہئے کیونکہ جب فلسفہ آتا ہے تو ایسی بہت سی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ بچوں نے کیا کرنا ہے؟ پس جب بھی ایسا خیال پیدا ہوگا یہ روایت ان کے خیال کو باطل کر دے گی اور پھر اس کی مزید تائید اس طرح ہو جائے گی کہ حدیثوں میں لکھا ہؤا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی صحابہ اپنے بچوں کو لاتے تھے۔ اسی طرح اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی کام ہو تو اپنا ہاتھ چُھڑا کر کام میں مشغول ہو جانا چاہئے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جب اس بچے نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دیر تک پکڑے رکھا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ کر الگ کر لیا۔ آج یہ بات معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن ممکن ہے کسی زمانہ میں لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ بزرگ وہ ہوتاہے جس کا ہاتھ اگر کوئی پکڑے تو پھر وہ چُھڑائے نہیں بلکہ جب تک دوسرا اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لئے رکھے وہ خاموش کھڑا رہے۔ ایسے زمانہ میں یہ روایت لوگوںکے خیالات کی تردیدکر سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ یہ لغو کام ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کام کرنا ہو تو محبت سے دوسرے کا ہاتھ الگ کر دینا چاہئے تو اس قسم کے کئی مسائل ہیں جو ان روایات سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ آج ہم ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے مگر جب احمدی فقہ، احمدی تصوف اور احمدی فلسفہ بنے گا تو اُس وقت یہ معمولی نظر آنے والی باتیں اہم حوالے قرار پائیں گی اور بڑے بڑے فلسفی جب ان واقعات کو پڑھیں گے تو کُود پڑیں گے اور کہیں گے خدا اِس روایت کو بیان کرنے والے کو جزائے خیر دے کہ اس نے ہماری ایک پیچیدہ گُتھی سُلجھا دی۔ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسے اب ہم حدیثوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ سجدہ میں گئے تو حضرت حسنؓ جو اُس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کی گردن پر لاتیں لٹکا کر بیٹھ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک سر نہ اُٹھایا جب تک کہ وہ خود بخود الگ نہ ہو گئے۔۴؎ اب اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرے تو ممکن ہے بعض لوگ اُسے بے دین قرار دے دیں اور کہیں کہ اسے خدا کی عبادت کا خیال نہیں اپنے بچے کے احساسات کا خیال ہے؟ مگر ایسا شخص جب بھی یہ واقعہ پڑھے گا اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کاخیال غلط ہے اور وہ چُپ کر جائے گا۔ گو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پھر بھی خاموش نہ رہ سکیں۔ چنانچہ ایک پٹھان کے متعلق کہتے ہیں کہ اُس نے قدوری میں یہ پڑھا کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ حدیث پڑھنے لگا تو اس میں ایک حدیث یہ آ گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جب نماز پڑھی تو اپنے ایک بچہ کو اُٹھا لیا۔ جب رکوع اور سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے توپھر اُٹھا لیتے۔۵؎ وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا خوہ! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے۔ گویا شریعت بنانے والا کنز یا قدوری کا مصنّف تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے تو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو باوجود واضح مسئلہ کے اُسے ماننے سے انکار کر دیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ پس اس بات کی ہرگز پروا نہیںکرنی چاہئے کہ تمہیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس بات کا علم ہے وہ چھوٹی سی ہے بلکہ خواہ کس قدر چھوٹی بات ہو بتا دینی چاہئے۔ خواہ اتنی ہی بات ہو کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلتے چلتے گھاس پر بیٹھ گئے کیونکہ ان باتوں سے بھی بعد میں اہم نتائج اخذ کئے جائیں گے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ بعض دوستوں سمیت باغ میں گئے اور آپ نے فرمایا آئو بے دانہ کھائیں۔ چنانچہ بعض دوستوں نے چادر بچھائی اور آپ نے درخت جھڑوائے اور پھر سب ایک جگہ بیٹھ گئے اور انہوں نے بے دانہ کھایا۔ اب کئی لوگ بعد میں ایسے آئیں گے جو کہیں گے کہ نیکی اور تصوف یہی ہے کہ طیب چیزیں نہ کھائی جائیں۔ ایسے آدمیوں کو ہم بتا سکتے ہیں کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بے دانہ جھڑوا کر کھایا تھا۔ یا بعد میں جب بڑے بڑے متکبر حاکم آئیں گے اور وہ دوسروں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کچھ کھانے میں ہتک محسوس کریں گے تو ان کے سامنے ہم یہ پیش کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو بے تکلّفی کے ساتھ اپنے دوستوں سے مل کر کھایا پیا کرتے تھے تم کون ہو جو اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہو۔ تو بعض باتیں گو چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے آئندہ زمانوں میں بڑے اہم مذہبی سیاسی اور تمدنی مسائل حل ہوتے ہیں۔ پس جن دوستوں کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی شکل دیکھنے یا آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہؤ انہیں چاہئے کہ وہ ہر بات خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، لکھ کر محفوظ کر دیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لباس کی طرز یاد ہے تو وہ بھی لکھ کر بھیج دے اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ ننگے سر رہنا چاہئے تو ان کے خیالات کا ازالہ ہو سکے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں موجود ہیں اور آپ ہی شارع نبی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ قریب کے مأمور کی باتیں شارع نبی کی باتوں کی مُصدّق سمجھی جاتی ہیں۔ آجکل یہ کہا جاتا ہے کہ جن فقہ کی باتوں پر امام ابوحنیفہ نے عمل کیا ہے وہ زیادہ صحیح ہیں۔ اسی طرح آئندہ زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے سچا قرار دیا ہے اُنہی کو لوگ سچی حدیثیں سمجھیں گے اور جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضعی قرار دیا ہے ان حدیثوں کو لوگ بھی جھوٹا سمجھیں گے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ باتیں بھی ایسی ہی اہم ہیں جیسے حدیثیں کیونکہ یہ باتیں حدیثوں کا صِدق یا کذب معلوم کرنے کا ایک معیار ہونگی۔ پس چھوٹی سے چھوٹی روایت بھی اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو وہ اُسے بتانی چاہئے۔ اسی طرح مرکزی محکمہ کو اِس بات کا انتظام کرنا چاہئے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کہاں کہاں ہیں اور ان سے چھوٹی سے چھوٹی بات جمع کی جائے۔ ان روایات میں بے شک بعض ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں موجودہ وقت میں شائع کرنا مناسب نہ ہو مگر انہیں بھی بہرحال محفوظ کر لیا جائے اور بعد میں جب مناسب موقع ہو انہیں شائع کر دیا جائے۔ مثلاً حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہؤا تھاکہ:۔
سلطنتِ برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ایامِ ضُعف و اختلال۶؎
مگر یہ الہام اُس وقت شائع نہ کیا گیا بلکہ ایک عرصہ کے بعد شائع کیا گیا۔ ایسے واقعات کو ریکارڈ میں لے آیا جائے مگر شائع اُس وقت کیا جائے جب خطرے کا وقت گذر جائے۔ پس صحابہ کو چاہئے کہ وہ اِس قسم کے تمام واقعات اور حالات لکھ کر بھیج دیں یا اِس موضوع پر لیکچر کر کے دوسروں کو حالات بتا دیں مَیں سمجھتا ہوں اب بھی وقت ہے کہ اِس کام کو مکمل کیا جائے۔ جو دوست اس کام میں حصہ لے سکیں انہیں اس ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہئے اور جیسا کہ بتایا ہے دوست اس میں اس طرح شامل ہو سکتے ہیں کہ :۔
(۱) مرکزی محکمہ اس بات کاانتظام کرے۔
(۲) صحابہ، ناظر تعلیم کو حالات لکھ کر بھجوا دیں یا یہاں اپنے حالات پر لیکچر دیں۔
(۳) تیسرے وہ دوست جو صحابی نہیں اُن صحابہ جن کو لکھنا نہیں آتا یا جن کو فُرصت نہیں سے پوچھ پوچھ کراور کُرید کُرید کر حالات دریافت کریں اور خود وہ حالات لکھ کر مرکز میں بھجوا دیں۔ مثلاً یہ کہ آپ کا کھانا کیسا تھا؟آپ کا پینا کیسا تھا؟ آپ کا لباس کیسا تھا؟ آپ کی گفتگو کیسی تھی؟ آپ کا چلنا کیسا تھا؟ غرض یہ تمام باتیں ان سے پوچھ پوچھ کر خود لکھتے جائیں اور یہاں بھجواتے جائیں اس طرح وہ بھی راوی بن جائیں گے اور انہیں بہت کچھ ثواب حاصل ہوگا۔ امام بخاری کی آج دنیا میں کتنی بڑی عزت ہے مگر یہ عزت اسی لئے ہے کہ انہوں نے دوسروں سے روایات جمع کیں۔ پس جو صحابہ اَنْ پڑھ ہیں یا جنہیں فُرصت نہیں اُن سے مل کر اور دریافت کر کے اگر تم حالات لکھتے چلے جائو تو کسی زمانہ میں تمہاری بھی ایسی ہی عزت و عظمت ہونے لگ جائے گی جس طرح آج ثعبان ثوری وغیرہ کی ہوتی ہے اور لوگ تم پر درود اور سلام بھیجیں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ فلاں کو جزائے خیر دے کہ اس نے اتنی قیمتی بات ہم تک پہنچا دی۔
میں نے دیکھا ہے کہ قدرتی طور پر ایسے مواقع پر از خود دعا کیلئے جوش پیدا ہوتا ہے۔ کَل ہی کلیدِ قرآن سے میں ایک حوالہ نکالنے لگا تو مجھے خیال پیدا ہؤا کہ یہ آیت دیر سے ملے گی مگر اس کلیدِ قرآن سے مجھے فوراً آیت مل گئی۔ اس پر میں نے دیکھا کہ دو تین منٹ نہایت خلوص سے مَیں اس کے مرتب کیلئے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے مدارج بلند کرے کہ اُس کی محنت کی وجہ سے آج مجھے یہ آیت اتنی جلدی مل گئی۔ تو اب اگر لوگوں کیلئے صحابی بننے کا موقع نہیں تو کم از کم وہ تابعی ہی بن جائیں تا آئندہ جب لوگ ان کی روایات پڑھیں تو کہیں اللہ تعالیٰ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے ہمارے لئے ان باتوں کو محفوظ کر دیا۔
(۴) اور جو اتنا کام بھی نہ کر سکتے ہوں وہ کم از کم یہ کریں کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کبھی بھی صحبت اُٹھائی ہو اُن صحابہ کے پتوں سے دفتر کو اطلاع دے دیں ۔ اگر انہیں علم ہو کہ فلاں شخص صحابی ہے اور وہ ابھی فلاں جگہ زندہ موجود ہے ہمیں اطلاع دے دیں اور لکھ دیں کہ ہم تو سُست ہیں اور اُس کے پاس پہنچ کر حالات جمع کرنے سے قاصر، آپ اگر چاہیںتو اُن سے حالات پوچھ لیویں اس پر ہم خود اُن سے حالات دریافت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی دفتر کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو حالات اور واقعات اس کے پاس جمع ہوں وہ ضائع نہ ہوں ان کی حفاظت کا خاص انتظام ہو۔ پچھلے سالوں میں یہاں ذکرِ حبیب پر جلسے ہوتے رہے ہیں مگر ان جلسوں میں حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں غالباً وہ بھی محفوظ نہیں۔ ہمارا ہر سال تین لاکھ کا بجٹ تیار ہوتا ہے مگر تالیف و تصنیف کا محکمہ اس میں پندرہ روپیہ کا کلرک نہیں رکھ سکتا جس کا کام محض یہ ہو کہ وہ ان واقعات کو محفوظ رکھے اور جیسے پُرانے زمانہ میں کتابوں کی نقلیں کی جایا کرتی تھیں اسی طرح تمام واقعات کی پانچ سات نقلیں کر کے ہر نسخہ ایک ایک دفتر میں محفوظ کر دیا جائے اور پھر ایسے واقعات کو ساتھ ساتھ اخبارات میں بھی شائع کرانے کی کوشش کی جائے تا کہ جلد سے جلد یہ ریکارڈ میں آ جائیں اور ایک ایک واقعہ کی ہزاروں کاپیاں ہو جائیں کوئی ایک اخبار یا رسالہ اس کے لئے مخصوص نہ کیا جائے۔
ایک بات میں تحریک جدید کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اب تحریک جدید کا دوسرا دَور شروع ہے اور میں اس تحریک کے ابتدا سے ہی دوستوں کو یہ کہتا چلا آیا ہوں کہ مذہبی سلسلوں میں کوئی قربانی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ فلاں وقت رُک جائے گی۔ مؤمن کی قربانی اُس کی موت تک چلتی ہے۔ اس عرصہ میں قربانیوں کی شکل بے شک بدل سکتی ہے مگر قربانیوں کا سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔ تم اس کا نام تحریک جدید نہ سہی کوئی اور نام لکھ لو مگر بہرحال تمہیں کبھی جانی کبھی مالی اور کبھی وقّتی قربانیاں ہمیشہ کرنی پڑیں گی۔ پس یہ اَمر جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ قربانیوں کا مطالبہ موت تک ہے۔ اس عرصہ میں شکلیں بدل سکتی ہیں مگر یہ مطالبہ نہیں بدل سکتا کیونکہ قربانی کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم روٹی نہ کھائیں اور پھر بھی زندہ رہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دو مہینے روٹی کھاتے رہیں اور دو مہینے کھانا کھانا بند کر دیں اور فاقہ کرنے لگیں۔ ہم جب بھی فاقہ کریں گے اور کھانے کا سلسلہ بند کر دیں گے جو پہلے کھانا کھایا ہؤا ہوگا وہ بھی ضائع ہو جائے گا اور ہم کمزور ہونے شروع ہو جائیں گے۔ اس کے مقابلہ میں جتنا زیادہ اعلیٰ کھانا کھائیں گے اُتنی ہی زیادہ طاقت ہمارے اندر پیدا ہوگی سعدیؔ اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔
تنورِ شِکم دمبدم تافتن
مصیبت بود روزِ نایافتن
جب دنیا میں انسان بغیر غذاء کے نہیں جی سکتا تو کس طرح ممکن ہے کہ روحانی لحاظ سے وہ بغیر غذاء کے جی سکے اور روحانی دنیا میں ایک مؤمن کی غذاء صرف قربانی ہے۔ ہماری نمازیں ہماری روحانی غذاء ہیں۔ ہمارے روزے ہماری روحانی غذاء ہیں، ہمارے حج ہماری روحانی غذاء ہیں، ہماری زکوٰتیں ہماری روحانی غذاء ہیں، ہماری تبلیغیں ہماری روحانی غذاء ہیں اور جب بھی کسی کی یہ روحانی غذاء کم ہو ساتھ ہی اس میںضُعف کے آثار پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ضُعف کے بعد موت واقع ہو جاتی ہے۔ پس اچھی طرح سمجھ لو کہ قربانیاں جماعت کے لئے لازمی ہیں اور ہمیشہ کیلئے ہیں۔
ایک افسر نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ جب انہوں نے کارکنوں سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اپنی جماعت کے دوستوں کو یہ تحریک پہنچا دی تھی تو انہوں نے کہا ہمیں تو توفیق نہیں تھی اس لئے ہم نے اس میں حصہ نہیں لیا اَور کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے یہ تحریک تو ہر شخص کے کانوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک سخت کمزوری کی علامت ہے جو اُن کے کارکنوں سے ظاہر ہوئی اور میں سمجھتا ہوں یہ محض اس شرمندگی اور ندامت کو مٹانے کا بہانہ ہے جو انہیں اس وجہ سے ہوتی ہے کہ انہوں نے خود اس تحریک میں کیوں حصہ نہیں لیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم کسی کوکہیں کہ اس تحریک میں حصہ لو تو وہ دریافت کرے گا کہ آپ نے کیا دیا۔ اور چونکہ ہم نے کچھ دیا نہیں اِس لئے اِس شرمندگی کا یہی علاج ہے کہ کسی کو تحریک نہ کرو۔ حالانکہ جب کوئی عُہدہ دار مقرر ہوتا ہے تو اُس کا فرض ہوتا ہے کہ ہر تحریک خواہ وہ اس میں خود حصہ لیتا ہے یا نہیں دوسروں تک پہنچا دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں کو تحریک نہ کر کے وہ خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار بنتے ہیں۔ اگر وہ واقعہ میں معذور ہیں اور اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے تو انہیں دعائیں کرنی چاہئیں اور کم سے کم نیکی کا جو حصہ انہیں دوسروں کو تحریک کر کے مل سکتا ہے اس سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی میں اُن لوگوں کو بھی جنہوں نے گزشتہ سال یا گزشتہ سے پیوستہ سالوں میں وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک اپنے وعدہ کی رقوم ادا نہیں کیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یا تو اپنے وعدہ کو پورا کریں اور یا مجھ سے معافی لے لیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِنَّ الْعَھْدَ کَان مَسْئُوْلاً ۷ ؎ کہ ہر وہ عہدجو تم کرتے ہو اس کے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے اسے کہاں تک پورا کیا۔ پس وعدہ کرنے والے دوست یا تو اپنے وعدوںکو پورا کریں اور یا پھر مجھ سے معافی لے لیں۔ مگر بعض لوگ نہ رقم ادا کرتے ہیں اور نہ معافی لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر انہوں نے معافی کی درخواست کی تو میں تحقیقات کرائوں گا کہ آیا وہ قابلِ معافی ہیں یا نہیں۔ میں اس قسم کے شکوک کے ازالہ کے لئے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جب بھی کسی دوست کی طرف سے معافی کی درخواست آتی ہے فوراً اُس کا نام رجسٹر سے کٹوا دیا جاتا ہے اور کوئی تحقیقات نہیں کی جاتی۔ پس دوستوں کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ان کے متعلق ہرگز جماعتوں سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آیا وہ قابلِ معافی ہیں یا نہیں، بلکہ محض ان کی طرف سے اطلاع آنے پر انہیں معاف کر دیا جائے گا اور خدا کے حضور وہ گنہگار ہونے سے بچ جائیں گے۔ اور اگر وہ معافی نہیں لینا چاہتے اور نیت رکھتے ہیں کہ ادا کر دیں گے مگر ابھی انہیں طاقت نہیں تو وہ مُہلت لے لیں۔ غرض دوست گزشتہ سالوں کے وعدوں کی رقوم یا تو ادا کر دیں یا معاف کرا لیں اور یا پھر ان کی ادائیگی کیلئے مُہلت لے لیں۔
اِس وقت تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف بھی مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ یہ ایک نہایت ضروری مد ہے اور جن دوستوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا انہیں چاہئے کہ اس میں شامل ہو جائیں اپنی آمد کا ایک حصہ پس انداز کرنا ایسا ضروری ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی یہ طبیعت دیکھ کر کہ آپ کو جو کچھ ملتا ہے خرچ کر دیتے ہیں، اُس زمانہ میں جب آپ جموں میں ملازم تھے آپ کو لکھاکہ اپنی آمد کا چوتھا حصہ جمع کرتے جائیں۔ پس ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ روپیہ جمع ہونا چاہئے کیونکہ ایسے کئی مواقع پیش آتے ہیں جب کہ روپیہ کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور اگر روپیہ پاس نہ ہو تو کئی قسم کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ تحریکِ جدید کے امانت فنڈ میں حصہ لیں۔ اس فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کی وجہ سے کئی دوست ہمارے بے حد ممنون ہوئے ہیں کیونکہ اس عرصہ میں اچانک اُنہیں بعض سخت مشکلات پیش آ گئیں اور انہوں نے ہمیں لکھا کہ اگر آج ہمیں روپیہ نہ ملا تو ہماری تباہی میں کوئی شُبہ نہیں۔ چنانچہ گو امانت فنڈ کیلئے تین سال کی شرط تھی مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ اُنہیں حقیقی ضرورت در پیش ہے تو ہم نے ان کا روپیہ فوراً ادا کر دیا اور اس طرح وہ بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ گئے۔ پس دوستوں کو اس فنڈ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور جو دوست ماہوار کچھ روپیہ جمع کرا سکتے ہوں انہیں بِالالتزام روپیہ جمع کراتے رہنا چاہئے تا کہ ضرورت پر ان کے کام آ سکے۔
مصری صاحب نے میرے خلاف جو فتنہ اُٹھایا ہے، اس کے تفصیلی حالات اخبارات میں آچکے ہیں میں ان حالات کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ میں صرف ان کے ایک اشتہار کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جو انہوں نے آج ہی یعنی ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو شائع کیا ہے اور جس میں انہوں نے اپنا پُرانا مطالبہ پھر دُہرایا ہے کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو تمام الزامات کی تحقیق کرے۔
یہ امر ہر معقول آدمی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ کے تصفیہ کی طرف توجہ کی جائے تو ہمیشہ وہ طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے زیادہ سے زیادہ جھگڑے کا فیصلہ کم سے کم وقت میں ہو جائے۔ اُس طریق کو اختیار کرنا عقلمندی ہی نہیںہوتا جس پر بار بار اعتراضات ہو سکتے ہوں۔ مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے متعلق بحث ہو اور لوگ ہمیں یہ کہیں کہ آؤ ہم اس پر بحث کریں کہ حضرت مرزا صاحب کافر تھے یا مسلمان؟ تو ہم کہیں گے کہ اس کا کیا فائدہ؟ فرض کرو ہم بحث کرتے ہیں اور یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسلمان تھے تو تم کہو گے یہ تو ثابت ہو گیا کہ آپ مسلمان تھے اب یہ ثابت کرو کہ وہ بزرگ بھی تھے۔ پھر بزرگی پر بحث شروع ہو جائے گی اور جب اس کو بھی ثابت کر دیا جائے گا تو تم کہو گے یہ تو مانا کہ آپ بزرگ تھے مگر اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ آپ پر وحی بھی نازل ہوتی تھی۔ اس کے بعد اس امر پر بحث کرنا پڑے گی کہ آپ پر وحی نازل ہؤا کرتی تھی اور جب یہ بھی ثابت ہو جائے تو تم کہو گے کہ یہ تو مان لیا کہ آپ پر وحی نازل ہوتی تھی مگر یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ یہ نبیوں والی وحی ہے اولیاء والی وحی نہیں یا یہ ایسی وحی ہے جس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اور جب اس کو بھی ثابت کر دیا جائے تو تم کہو گے کہ تمام باتیں تو مان لیں مگر ابھی یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ آپ ہی مسیح موعود ہیں اور آپ پر تمام علامتیں چسپاں ہوتی ہیں۔ غرض اس طرح اگر بحث کی جائے تو یہ طریق کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس امر پر بحث کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مأمور تھے یا نہیں اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ مأمور تھے تو پھر تمام باتوں کا تصفیہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی ایسا مأمور نہیں ہو سکتا جس کا منکر کافر نہ ہو، کوئی ایسا مأمور نہیں ہو سکتا جو بزرگ نہ ہو۔ کوئی ایسا مأمور نہیں ہو سکتا جس پر وحی نازل نہ ہو اور کوئی ایسا مأمور نہیں ہو سکتا جس کی وحی کو ماننا ضروری نہ ہو۔ غرض جب ہم اس پر بحث کر لیں گے تو تمام باتوں کا خود بخود فیصلہ ہو جائے گا۔ میں نے بھی مصری صاحب کے سامنے یہی طریق پیش کیا تھا اورکہا تھا کہ آپ مجھ پر الزامات لگاتے ہیں تو ان سے آپ کی صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ میں خلافت کا اہل نہیں۔ مگر جب مَیں یہ اعلان کر چکا ہوں کہ:۔
’’ میں اسی قادر و توانا خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ باوجود ایک سخت کمزور انسان ہونے کے مجھے خدا تعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے…اگر میں اس بیان میں جھوٹاہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔‘‘۸؎
تو اس قَسم کے بعد اللہ تعالیٰ کی وہ تائیدات اور نصرتیں جو میرے شاملِ حال ہیں ثابت کرتی ہیں کہ ان کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اور میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں۔ اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو خلافت کے متعلق کم غیرت ہے مگر مصری صاحب کو زیادہ ہے۔ خدا تو کہتا ہے کہ اگر یہ خلیفہ ہے تو کوئی حرج نہیں مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ اس سے بہت بڑا فساد لازم آتا ہے۔ پھر اگر کمیشن تسلیم بھی کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ الف اُٹھے اور کہے کہ میرا فلاں اعتراض ہے اس کی تحقیق کے لئے کمیشن بیٹھنا چاہئے۔ اور جب کمیشن اس کے اعتراض کو ردّ کر دے تو ب کھڑا ہو جائے اور کہے کہ الف نے بڑی بیوقوفی کی اصل اعتراض تو یہ ہے اور جب اس کا اعتراض بھی ردّ ہو جائے تو ج کہے کہ میرا ایک اہم اعتراض ہے اور وہ پہلے دونوں اعتراضات سے زیادہ وزنی ہے‘ اس کی تحقیق کیلئے ایک اور کمیشن بیٹھنا چاہئے۔ مگر کیا اس طریق سے کبھی بھی فیصلہ ہو سکتا ہے؟ لیکن اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ میں خداتعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں تو پھر تمام اعتراضات کا ردّ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ میں قسم کھا کر یہ کہہ چکا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ نے ہی خلیفہ بنایا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ مَیں ہزاروں دفعہ قسم کھانے کیلئے تیار ہوں اس کے بعد بھی اگر خداتعالیٰ میری ہی تائید اور نصرت کرتا ہے اور مصری صاحب کی تائید نہیں کرتا تو وہ خدا سے جا کر لڑیں۔ کیا وہ خداتعالیٰ کو غیور نہیں سمجھتے اور کیا ان کا یہ خیال ہے کہ منصبِ خلافت کے متعلق ان کے دل میں زیادہ غیرت ہے مگر خدا کو غیرت نہیں۔ پس میں نے ان کے سامنے وہ طریق پیش کر دیا تھا جس کے ماتحت تمام اعتراضات کا خود بخود تصفیہ ہو جاتا ہے آخر وہ خلافت کے متعلق ہی فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ مگر جب اس فیصلہ کا آسان طریق میں نے پیش کر دیا اور اس پر عمل کر کے بھی بتا دیا تو اس کے بعد ان کا اپنے اعتراضات پیش کرنا کیا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ سے بھی زیادہ غیرت مند سمجھتے ہیں۔
یہ بات کون نہیں جانتا کہ اعتراضات کا ایسا لامتناہی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے پر بھی ہزاروں اعتراضات کئے جاتے ہیں مگر جب یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ وہی مسیح موعود ہیں جن کی رسول کریم ﷺ نے بشارت دی تھی تو تمام اعتراضات کا خود بخود حل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب میں نے ثابت کر دیا کہ میں خداتعالیٰ کا قائم کردہ خلیفہ ہوں تو ان کے وہ تمام اعتراضات بھی باطل ہو گئے جو وہ مجھ پر کرتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس کا انہوں نے خود بھی فیصلہ کیا ہؤا ہے چنانچہ انہوں نے مجھے اپنے خط میں لکھا تھا کہ آپ اپنے آپ کو قرآن کریم کا عارف سمجھتے ہیں اس لئے شاید بعض آیتیں آپ کو ایسی بھی معلوم ہوں جن کے ماتحت اس قسم کے افعال جائز ہوں‘پس آپ وہ آیتیں مجھے بھی بتا دیں۔ گویا ان کے نزدیک اس قسم کے افعال کا ارتکاب اگر انسان کرے تو وہ قرآن مجید کے احکام کی خلافت ورزی کرتا ہے۔ پھر اگر ان میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھتے کہ جب خدا اس کی تائید کر رہا ہے اور وہ اس کے افعال کو دیکھتے ہوئے اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا رہا ہے تو بہرحال اس میںخدا کا نہیں بلکہ میری سمجھ کا ہی قصور ہو گا اور بہرحال جسے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اس کا مقابلہ کر کے میں ہی نقصان اُٹھاؤں گا۔ دیکھو یہ کتنا واضح امر ہے کہ میں نے قَسم کھا کر کہہ دیا کہ میں خداتعالیٰ کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں۔ اگر میں اس میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں تو خداتعالیٰ کی مجھ پر *** ہو۔ مگر مصری صاحب ہیں کہ انہیں اس قَسم کے بعد بھی یقین نہیں آتا۔
حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اُسے کہا دیکھ چوری مت کر۔ وہ کہنے لگا خدا کی قسم! میں چوری نہیں کر رہا۔ حضرت مسیح ؑنے فرمایا میں نے اپنی آنکھوں کو جُھٹلایا مگر تیری قسم کو سچا سمجھ لیا۔ ۹؎ یہ خدا کے ایک نبی کا نمونہ ہے۔ اور ایک نمونہ مصری صاحب کا ہے کہ میں نے مؤکد بعذاب قَسم کھائی اور انہیں پھر بھی اعتبار نہیں آیا۔
مصری صاحب جب جماعت سے علیحدہ ہوئے تو ایک دوست نے افریقہ سے مجھے لکھا کہ مجھے سخت گھبراہٹ ہے جب اتنے بڑے بڑے آدمیوں کا ایمان ضائع ہو گیا تو ہمارا ایمان کیا حقیقت رکھتا ہے۔ میں نے انہیںلکھوایا کہ بڑائی کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے آپ کا نہیں۔ جب خدا نے اپنے عمل سے انہیں جماعت سے الگ کر دیا ہے اور آپ کو اُس نے رکھا ہے تو معلوم ہؤا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک وہ چھوٹے تھے اور آپ بڑے ہیں۔ پس اس شبہ کو اپنے دل سے نکال دیں کہ آپ کا ایمان کمزور ہے یہ اپنے نفس پر بدظنی ہے۔ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ بڑے ہیں پس بجائے گھبرانے اور تشویش کا اظہار کرنے کے آپ کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ کریں اور کہیں کہ اے خدا! تیراشکر ہے کہ اس امتحان میں تو نے ہم کو عزت دی اور ہمیں ایمان کے لحاظ سے بڑا ثابت کیا۔
پھر ہمارے لئے یہ امر کس قدر موجب ازدیادِ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت ان فتنوں کی ہمیں خبر دے رکھی تھی چنانچہ ۱۹۱۵ء میں جب مصری صاحب کے آئندہ حالات کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا اور یہ مصر سے واپس آئے تھے‘ اُس وقت مجھے ایک رؤیا ہؤا جس میں مجھے بتایا گیا کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس رؤیا کی بناء پر میں نے صدرانجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے۔ چنانچہ اس خواب کے گواہ بھی موجود ہیں جن میں سے ایک مولوی سید سرور شاہ صاب ہیں۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب کے متعلق بِالعموم یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ چونکہ صدرانجمن احمدیہ کے رُکن ہیں اس لئے اس قسم کی گواہی دے دیتے ہیں حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ اعتراض وارد ہو گا کہ آپ نے جو صحابہ تیار کئے وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹ بولنے والے ہیں۔ پھر مولوی سید سرور شاہ صاحب کی اکیلی گواہی نہیں کہ اسے قابل قبول نہ سمجھا جائے بلکہ اور بعض دوست بھی میرے اس رؤیا کے گواہ ہیں۔ چنانچہ جب اِس فتنہ کے خلاف جماعتوں نے ریزولیوشن (RESOLUTION) پاس کر کے میرے پاس بھیجے تو ان میں سے ایک ریزولیوشن اُڑیسہ کی جماعت کا بھی تھا اور اس میں ایک دوست کی تقریر اس طرح درج تھی کہ شیخ صاحب کا ابتلاء بھی ہمارے ایمانوں کو بڑھانے والا ہے کیونکہ خلیفۃ المسیح نے ان کے متعلق یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ مرتد ہو جائیں گے۔ میں نے جب یہ تقریر پڑھی تو فوراً اس جماعت کو خط لکھوایا کہ ان صاحب نے میری یہ خواب کہاں سے سُنی اس کا جواب وہاں سے یہ آیا کہ یہ ۱۹۱۵ء میں قادیان میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور انہوں نے خود میرے منہ سے اُس وقت یہ خواب سُنی تھی جب کہ اس کا ذکر میں نے بعض دوسرے دوستوں سے کیا۔ اب دیکھو کتنے سال کے بعد یہ بات پوری ہوئی ہے۔ ۱۹۱۵ء پر بائیس سال گزر چکے ہیں اس عرصہ میں شیخ صاحب میرے دوست رہے ہیں سلسلہ کے اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں اور انگلستان کے سفر میں بھی میرے ساتھ رہے ہیںاور اس بات کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان پر ایسا ابتلاء آئے گا مگر اس کے پورے بیس سال بعد ۱۹۳۴ء میں ان کے دل میں بیماری پیدا ہوئی اور ۱۹۳۷ء میں ظاہر ہوئی اور اگر وہ غور کریں تو یہی امر میرے اور ان کے درمیان مابہ الامتیاز ہو سکتا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ بقول ان کے بزرگ وہ ہیں‘ سلسلہ کا کام کرنے والے وہ ہیں‘ احمدیت کے حقیقی خادم وہ ہیں اور ان کے ارتداد کی خدا نے مجھے خبر دی انہیں خبر نہ دی۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ایمان کی خرابی کی تو خدا نے مجھے اطلاع دے دی مگر میرے ایمان کے خراب ہونے کی انہیں کوئی اطلاع نہ ملی حالانکہ خداتعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا مَیں تھا اور وہ احمدیت کی صحیح رنگ میں خدمت کرنے والے تھے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے جرمن کا بادشاہ آسڑیا سے جنگ کرنے کا ارادہ کرے اور آسڑیا کے کمانڈر کو اپنے اس ارادہ سے اطلاع دے دے مگر اپنے کمانڈر کو کوئی اطلاع نہ دے۔ کیا کسی معمولی عقل و فہم رکھنے والے انسان کے دماغ میں بھی یہ بات آ سکتی ہے کہ جسے خداتعالیٰ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مصری صاحب کے ذریعہ تباہ کرنا تھا اُسے تو تمام باتوں کی اطلاع دے دی مگر اپنے کمانڈر کو کچھ بھی نہ بتایا۔
پھر ۱۹۳۵ء میں مَیں نے رؤیا دیکھی جو سنا دی گئی تھی کہ کوئی شخص میرا اِ زار بند کھول کر مجھے ننگا کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ مخلص بن کر دبانے لگا ہے اور ساتھ ہی شرارتاً اُس نے میرے اِزار بند کو کھولنا چاہا لیکن میں اسے دھتکارتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے عبدالقادر بنایا ہے تم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ رؤیا بھی جس وقت میں نے بیان کی اس وقت اِس فِتنے کی کوئی بات ظاہر نہیں تھی۔ پھر آٹھ نو سال ہوئے مَیں نے رؤیا دیکھی کہ مصری صاحب پر کوئی ابتلاء آیا ہے اور ان کے دل میں بہت سے شکوک پیدا ہو گئے ہیں اور بعض دفعہ انہیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ قادیان سے چلے جائیں۔ یہ رؤیا بھی اُنہی دنوں انہیں پہنچ گئی تھی چنانچہ ماسٹر غلام حیدر صاحب جو بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ ہیں انہوں نے بتایا کہ مصری صاحب نے میرے سامنے ذکر کیا تھا کہ میرے دل میں واقع میں ایسے وساوس پیدا ہو گئے تھے اور میں چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جاؤں مگر جب سے میں نے حضرت صاحب کی خواب سنی ہے ان وساوس کو دُور کر کے اپنی اصلاح کر لی ہے۔ پھر تین چار سال ہوئے میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو اُن ہی دِنوں اخبار میں شائع ہو گیا جس میں مَیںنے خلافت کے متعلق لوگوں کو لڑتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ اس لڑائی میں ایک شخص بھی مر گیا ہے اور بعض زخمی ہوئے ہیں۔ یہ رؤیا بعینہٖ پوری ہوئی کیونکہ خلافت کے متعلق جھگڑا پیدا ہؤا۔ میاں فخرالدین صاحب ملتانی اور ایک دو اور آدمی زخمی ہوئے اور میاں فخرالدین صاحب ملتانی بعد میں فوت ہو گئے۔ یہ خبر کوئی شخص اتنے عرصہ قبل بتا سکتا تھا؟ یقینا یہ اُسی خدا کا فعل تھا جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ میں نے ان کی ہلاکت کے متعلق بعض پیشگوئیاں کی ہوئی تھیں اس لئے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے میں نے میاں فخرالدین صاحب ملتانی کو مَروا دیا۔ میں اس الزام کا جواب اپنے ایک خطبہ میں دے چکا ہوں اور بتا چکا ہوں کہ ان کے اس اعتراض کو سن کر سلسلہ کے بعض معاندین نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ مرزا صاحب نے بھی اسی طرح لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کی تھی اور پھر اپنا آدمی بھیج کر اُسے مروا دیا اور میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو یہ اعتراض کیا گیا ہے اِس کی ذمہ واری مصری پارٹی پر ہے کیونکہ اس کے اعتراض سے دشمنوں کو تقویت ہوئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی موردِ الزام قرار دے دیا۔ چنانچہ سابق ڈپٹی کمشنر صاحب نے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے مرزا صاحب نے بھی اسی طرح لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کی تھی اور پھر اُسے پورا کرنے کیلئے آدمی بھیج کر مروا دیا۔ مجھے جب یہ معلوم ہؤا تو میں نے کہا میرے سامنے اگر وہ کہتا تو میں اس کی خبر لیتا۔ میرے سامنے اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ مصری صاحب شکایت کرتے ہیں کہ پہلے انہوں نے مستریوں کے متعلق پیشگوئی کی اور ان پرحملہ ہو گیا اب ان کے متعلق پیشگوئی کی تو ان پر حملہ ہو گیا۔ اور یہ خوابیں قبل از وقت اس لئے شائع کر دی جاتی ہیں تا اپنے فعل پر پردہ پڑ سکے اور کہا جا سکے کہ ہم نے تو کچھ نہیں کیا یہ تو خواب پوری ہوئی ہے۔ میں نے ان سے کہا آپ کو ضلع کے انتظام کی خبر ہے آپ کیا جانتے ہیں کہ پیشگوئی کیا ہوتی ہے اور آپ کا کیا حق ہے کہ جس بات کا آپ کو علم نہیں اُس کے متعلق آپ گفتگو کریں۔یہ محض آپ کو دھوکا اور فریب دیا گیا ہے۔ اگر میری صرف یہی ایک دو پیشگوئیاں ہوتیں تب تو دھوکا لگ سکتا تھا کہ شاید ان ایک دو پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے مَیں نے خود حملہ کروایا ہے مگر میری تو بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو روزِ روشن کی طرح پوری ہوئیں۔ جب گورنمنٹ نے ایک دفعہ یہ اعلان کیا تھا کہ اب پنجاب اور ہندوستان سے طاعون بالکل مٹ گئی ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اگلے سال طاعون کا شدید حملہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی یہ پیشگوئی خطبہ میں بیان کی اور وہ خطبہ الفضل میں چھپ گیا جس کے عین مطابق اگلے سال اتنی سخت طاعون پھیلی اور اس سے اتنی کثیر اموات ہوئیں کہ گورنمنٹ نے تسلیم کیاکہ گزشتہ دس سال کی اموات کی مجموعی تعداد سے بھی اس دفعہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ پھر میں نے اپنی بعض اور خوابیں اُسے بتائیں اور کہا کہ کیا یہ سب کچھ میں نے کیا تھا یا خدا نے کیا تھا؟ یہ سن کر اُس نے سر نیچے ڈال دیا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے کہاجس چیز کا آپ کو علم نہیں اُس کے متعلق آپ کو یہ ہرگز حق حاصل نہیں کہ اس میں دخل دیں۔ مگر بہرحال ان کے اس پراپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی اعتراض کرنے والوں نے اعترض کردیا حالانکہ کسی کے یقینی قتل ہو جانے کی کون شخص خبر دے سکتا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی کو قتل کرے اور وہ قتل ہو جائے مگر قبل از وقت ایک خبر دینا اور پھر ویسا ہی وقوع میں آ جانا یہ انسان کے اختیار میں نہیں۔ کیا دنیا میں ہر شخص جو دوسرے پر حملہ کرتا ہے اپنے حملہ میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے لوگ ہزاروں دفعہ حملے کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں اور پھر یہ رؤیا تو ہمیں بعد میں یاد آئے۔ میری اپنی یہ حالت تھی کہ جب پہلے دن مجھے اس حملہ کی اطلاع ملی تو میں برابر یہ دعا کرتا رہا کہ یا الٰہی! اب ہمارے آدمی کا قصور اسی طرح معاف ہو سکتا ہے کہ اس کی جان بچ جائے پس تو اسے بچا لے مگر الٰہی منشاء کچھ اور تھا اور وہ واقعہ ہو گیا ورنہ میرے تو واہمہ میں بھی یہ قتل نہیں تھا۔ میں صرف یہ سمجھتا تھا کہ کسی اور طر ح اللہ تعالیٰ کا ان پر عذاب نازل ہو گا اور یہ ذلیل ہو جائیں گے لیکن کیا دنیا میں روزانہ ایسے واقعات نہیں ہوتے کہ لوگ قتل کیلئے حملے کرتے ہیں مگر ان کے حملے رائیگاں جاتے ہیں اور جن کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بچ جاتے ہیں۔ پس قتل کی خبر دینا اور پھر ویسا ہی وقوع میں آجانا یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے خدائی ہاتھ تھا انسانی ہاتھ نہیں تھا ورنہ حملہ ہوتا مگر بے کار چلا جاتا۔
باطنی فرقہ کے لوگ قتل کرنے میں بڑے ماہر تھے مگر صلاح الدین ایوبی کو انہوں نے قتل کرنے کی تین دفعہ کوشش کی اور تینوں دفعہ ناکام ہوئے۔ ایک دفعہ تو اُس نے حملہ آور کی شکل پہچان لی اور کہا کہ اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اسے پکڑ لو چنانچہ اُسے پکڑا گیا تو اُس کے پاس سے خنجر نکل آیا۔ دوسری دفعہ کسی اور شخص نے پہچان لیا اور کہا کہ یہ باطنی فرقہ میں سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ وہ واقعہ میں اس فرقہ کا آدمی نکلا اور معلوم ہؤا کہ وہ قتل کی نیت سے ہی آیا تھا۔ اور تیسری دفعہ وہ نماز پڑھ رہا تھا جب وہ سجدہ میں گیا تو ایک شخص نے خنجر سے حملہ کر دیا مگر اتفاق ایسا ہؤا کہ چٹائی کا ایک کونہ اُٹھا ہؤا تھا جس سے اُس کا پاؤں رُکا اور اچانک ایک طرف گر گیا اور خنجر بھی زمین پر آ پڑا۔ صلاح الدین نے وہیں اُس کی گردن دبا لی اور اُسے گرفتار کر لیا تو قتل کرنا بھی آسان کام نہیں۔ پھر میں اُس خدا کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے یہ کہہ چکا ہوں کہ میں نے کسی کو پٹوانا اور قتل کرانا تو الگ رہا‘ آج تک سازش سے کسی کو چپیڑ بھی نہیں لگوائی‘ کسی پر اُنگلی بھی نہیں اُٹھوائی۔ اور اگر میں اس قَسم میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی *** مجھ پر اور میری اولاد پر ہو۔ اگر وہ بھی اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو اِس قسم کا مؤکد بعذاب حلف اُٹھا لیں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر ہے۔ مجھے تو کسی کی جان لینے سے اتنی نفرت ہے اتنی نفرت ہے کہ میں بعض دفعہ یہ خیال کیا کرتا ہوں کہ اگر خداتعالیٰ مجھے اس زمانہ میں پیدا نہ کرتا اور ایسے زمانے میں پیدا کرتا جب اسلام کیلئے جہاد بِالسیف کرنا ہوتا تو مجھے اپنے نفس کو کتنا مارنا پڑتا۔
پس یہ بالکل جھوٹا الزام ہے جو وہ مجھ پر لگاتے ہیں۔ مجھے خداتعالیٰ نے جو کچھ دکھایا وہی میں نے لوگوں کو بتایا اور اگر اس کی باتیں پوری ہوں تو تقدیر پر میرا کوئی تصرف نہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سے دوستوں نے اس بارہ میں رؤیا دیکھے تھے جن میں سے بعض الفضل میں شائع ہو چکے ہیں اور بعض ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک رؤیا چوہدری محمد شریف صاحب پلیڈر منٹگمری کا ہے۔ پچھلے سال جب میں دھرم سالہ میں تھا تو مجھے ان کی چِٹھی ملی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے ایک خطرناک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے جس سے مجھے اپنی ایمانی حالت کے متعلق شُبہ پیدا ہو گیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ آپ بیٹھے ہیں‘ مجلس لگی ہوئی ہے اور آپ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ایک اور شخص کے متعلق فرماتے ہیں کہ انہوں نے نِفاق سے کام لیا ہے اور میں انہیں جماعت سے خارج کرتا ہوں۔ یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے سخت گھبراہٹ کا اظہار کیا ہؤا تھا اور لکھا تھا کہ چونکہ مصری صاحب اور دوسرے صاحب کے متعلق یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ منافق ہوں‘ اس لئے شاید میرے ایمان میں کوئی نقص ہے جسے ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ رؤیا مجھے دکھائی ہے کیونکہ رؤیا میں بعض دفعہ ایک مؤمن کو دوسرے مؤمن کا آئینہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے مگر پھر کس طرح یہ خواب لفظ بلفظ اور ہوبہو پوری ہوئی۔ غرض اس طرح اور بھی بہت سے دوستوں نے خواب دیکھے اور وہ اس فتنہ کے ظہور سے پورے ہوئے لیکن آج مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض کشوف اور الہامات بتانا چاہتا ہوں جو اِس فتنہ کیلئے مشعلِ راہ ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے تو مَیں ایک ایسا الہام پیش کرتا ہوں جس کی خبر خود مصری صاحب نے ہی ہمیں دی ہے اور جس الہام کے یاد کرانے میں ہم ان کے ممنون ہیں۔
مصری صاحب کی طرف سے جو پہلا خط مجھے پہنچا‘ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میرے مقابلہ پر قدم اُٹھاتے وقت آپ اس امر کو مدِّنظر رکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے میری بریّت کر چھوڑی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رؤیاء و کشوف اور الہامات میں ایسی خبریں موجود ہیں جن سے میری بریّت ثابت ہوتی ہے۔ اور ان خبروں اور پیشگوئیوں کی وجہ سے باوجود ان اعتراضات کے جو میرے دل میں آپ کے متعلق پیدا ہوئے ہیں‘ مجھے سلسلہ سے بدظنی نہیں ہوئی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر میرا ایمان بڑھ گیا ہے۔ چنانچہ انہوں لکھا کہ تذکرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام درج ہے کہ :۔’’لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ‘‘۱۰؎
زینب کو قتل مت کرو اور زینب میری بیوی کا نام ہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں۔ دیکھو اس سے پہلے یہ الہا م ہے کہ :۔
’’اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً‘‘ ۱۱؎
جو منافقوں کے متعلق قرآن کریم کی آیت ہے اور جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور قتل کئے جائیں گے گویا اس الہام نے بتا دیا ہے کہ منافق کی سزا قتل ہے۔ (حالانکہ یہ درست نہیں۔ یہ تو خاص منافقوں اور خاص حالات کا ذکر ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ وہ ہم پر تو قتل کا الزام لگاتے ہیں اور الہام کے معنے خود ایسے کرتے ہیں جس میں قتل کا مفہوم پایا جاتا ہے) پھر اس کے بعد کہتے ہیں کہ چونکہ پہلے الہام نے یہ بتا دیا ہے کہ منافق کو قتل کرنے کا حُکم ہے‘ اس لئے معاً دوسرا الہام اللہ تعالیٰ نے یہ نازل کر دیا کہ:
لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ
َزینب کو قتل مت کرو جس سے معلوم ہؤا کہ زینب منافق نہیں اُس کو منافقوں میں شامل کر کے اُس کے قتل کی تجویز نہ کرنا۔ حالانکہ ہمارے نزدیک انہوں نے اس الہام کے جو معنی کئے ہیں کہ منافقوں کو قتل کر دو‘ یہ بالکل غلط ہیں۔ ہمارے نزدیک اس قسم کے احکام مختلف زمانوں کے لحاظ سے مختلف مفہوم کے حامل ہوتے ہیں۔ جب یہ الہام ایسے نبی پر نازل ہو جو کسی حکومت کے ماتحت نہ ہو‘ بلکہ خود اُس کی حکومت ہو تو اس کے معنی قتل کے بھی ہو سکتے ہیں مگر جب یہ الہام ایسے نبی پر نازل ہو جو کسی اور حکومت کے ماتحت رہتا ہو‘ تو وہاں قتل کے کوئی اور معنی ہوں گے اور خود لُغت والوں نے اِس کی تصریح کی ہے اور لکھا ہے کہ جب بادشاہت حاصل ہو‘ تب اس کے معنی قتل کرنے کے ہوں گے مگر جب بادشاہت حاصل نہ ہو تو یہ معنی نہیں ہوں گے۔
بظاہر مصری صاحب نے یہ ایک اچھا حربہ نکالا۔ لیکن جب ہم ان معنوں پر تنقید کی نظر ڈالتے ہیں تو یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن بایں ہمہ اس لحاظ سے ہمیں ان کا ممنون ہونا پڑتا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی وہ وحی جو نہ معلوم کتنے عرصے کے بعد ہمارے سامنے آتی‘ خود بخود ہمارے سامنے پیش کر دی۔ ان معنوں پر اوّل تنقید یہ ہے کہ سلسلہ میں فتنہ ڈالنے والے مصری صاحب ہیں یا ان کی بیوی ؟اگر یہ تمام فساد ان کی بیوی نے ڈالا ہے‘ اگر وہ صدرانجمن احمدیہ کی ملازم تھی‘ اگر وہ اندر ہی اندر جماعت میں تفرقہ پیدا کرتی رہی‘ اگر اس نے سکول کے طالب علموں پر بُرا اثر ڈالا‘ اگر اس نے ہمارے خلاف اشتہارات شائع کئے‘ اور اگر یہ تمام شور مصری صاحب کی بیوی نے برپا کیا ہے تو یقینا لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ کے یہ معنی ہوتے کہ مصری صاحب کی بیوی زینب نیک نیتی سے ایسا کر رہی ہے‘ اسے منافقوں میں سے مت سمجھو۔ مگر تعجب یہ ہے کہ حملہ کرنے والے شیخ صاحب عالم ربانی کا دعویٰ کرنے والے‘ وہ سلسلہ کا کارکن ہوتے ہوئے اس کے خلاف کارروائیوں کا الزام ان پر‘ پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی براء ت نہ کی۔ لیکن براء ت کی تو ان کی بیوی کی جس کا درمیان میں کوئی واسطہ بھی نہ تھا‘ صرف ایک متبع کی حیثیت تھی۔ غالباً یہ طریقِ فیصلہ دنیا میں کہیں بھی نظر نہیں آئے گا کہ ایک جج کے سامنے سوال تو یہ پیش ہؤا کہ زید نے چوری کی اور وہ فیصلہ یہ کرے کہ زید کی بیوی چور نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی مجسٹریٹ ایسا فیصلہ کرے تو گورنمنٹ اُسے فوراً پاگل خانے بھیج دے۔ پس اس قِسم کی بات کسی انسان کی طرف بھی منسوب نہیں کی جا سکتی کُجا یہ کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دس بیس الہام اِس کی تائید میں ہوتے اور ایک اُن کی بیوی کے متعلق بھی ہوتا‘ تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مصری صاحب کی تائید کرتے ہوئے ان کے تابعین کی بھی تعریف کر دی مگر یہاںتو تابع کا ہی ذکر ہے متبوع کا ذکر نہیں۔
دوسرے اگر انہی معنوں میں ان کی بیوی پر یہ الہام چسپاں کیا جائے جو وہ کرتے ہیں‘ تب بھی اس کے معنے تو یہ بنیں گے کہ منافقوں کی سزا قتل ہے لیکن زینب چونکہ ایک عورت ہے اور اپنے خاوند کے اثر کے ماتحت اس غلطی میں مبتلا ء ہوئی ہے‘ اس لئے اسے قتل نہ کروکیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔ ۱۲؎ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے قتل سے مراد اس جگہ ہرگز قتل نہیں۔
الہامات کے معنے ہر زمانہ کے حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حکومت نہیں‘ اس لئے ایسے لفظوں کے معنے بھی بدل جائیں گے اور اگر ہم اس کے معنے قتل کے ہی کریں تو اس سے خدا تعالیٰ پر اعتراض وارد ہو گا کہ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ منافقوں کو قتل کرو اور دوسری طرف حُکم دے دیتا ہے کہ حکومتِ وقت کے احکام کی اطاعت کرو اور کوئی قانون شِکنی نہ کرو۔ کیا یہ متضاد حکم خداتعالیٰ دے سکتا ہے اور کیا اس الہام کے یہ معنے کرنا موجود ہ زمانہ میں دین سے ہنسی اور تمسخر نہیں؟ الہامات کے معنی ہر زمانہ کے حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے الہاموں میں جہاں کہیں جہاد کا لفظ آئے گا اس سے مراد تبلیغ ہو گی۔ یا جب آپ کو یہ الہام ہؤا کہ ’’آریوں کا بادشاہ ‘‘ ۱۳؎ تو اِس سے یہ مراد نہیں تھی کہ آپ کے پاس فوجیں ہوں گی بلکہ اس کے یہ معنی تھے کہ آپ کو روحانی بادشاہت حاصل ہے۔ اور یہ کہ آریہ اقوام کسی زمانہ میں نہایت کثرت سے احمدیت میں داخل ہوں گی۔ اسی طرح قتل کے بھی یہ معنی ہیں کہ منافقوں سے قطع تعلق کر لو۔ چنانچہ عربی زبان میں قتل کے ایک معنی قطع تعلق کے بھی ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے اور سعد بن عبادہ نے بیعت سے انکار کیا اور کہا کہ انصار کا حق زیادہ ہے ان میں سے کوئی خلیفہ ہونا چاہئے تو حضرت عمرؓ نے کہا اُقْتُلُوْاسَعْدًا قَتَلَہٗ اللّٰہُ ۱۴؎ اللہ سعدکو قتل کرے تم اُسے قتل کر دو مگر یہ کہیں ثابت نہیں کہ حضرت عمرؓ اور باقی صحابہؓ نے تلواریں لی ہوں اور انہوں نے سعد کو قتل کر دیا ہو بلکہ انہوں نے اس کا مقاطعہ کر دیا۔ سعدؓ مسجد میں آتے‘ نماز پڑھتے مگر کوئی ان سے گفتگو نہ کرتا۔ لسان العرب والا جس کی لُغت بیس ضخیم جِلدوں میں ہے اور جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نہایت معتبر اور اعلیٰ پایہ کی لُغت سمجھتے اور اِس پر اعتماد رکھتے تھے اس حدیث کا حوالہ دے کر لکھتا ہے کہ سعدؓ کو قتل نہ کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عربی میں قتل کے اور معنی بھی ہیں جن میں سے ایک قطع تعلق کے ہیں۔ اور حضرت عمرؓ کے اس قول کے معنی یہ تھے کہ :۔
اِجْعَلُوْہُ کَمَنْ قُتِلَ وَاحْسِبُوْہُ فِیْ عِدَادِمَنْ مَاتَ وَھَلَکَ وَلَاتَعْتَدُّوْا بِمَشْھَدِہٖ وَلَا تُعَرِّجُوْا عَلٰی قَوْلِہٖ ۱۵؎ یعنی اسے ایسا ہی سمجھو جیسے کوئی مقتول ہوتا ہے اور اسے ان لوگوں میں شمار کرو جو مر چکے ہیں یعنی اگر سامنے آئے تو اس کی طرف توجہ نہ کرو اور اگر بات کرے تو اسے جواب نہ دو۔
اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اِذَابُوْیِعَ لِخَلِیْفَتَیْنِ فَاقْتُلَوْاالْأخِیْرَ مِنْھُمَا۔ ۱۶؎ یعنی جب دو خلیفوں کی بیعت کر لی جائے تو دوسرے کو قتل کر دو ۔
لسان العرب والا لکھتا ہے کہ اس جگہ بھی قتل کے معنی قتل کرنے کے نہیں ہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ اَبْطِلُوْادَعْوَتَہٗ وَاجْعَلُوْہُ کَمَنْ قَدْمَاتَ ۱۷؎ کہ اس کی دعوت کو ردّ کر دو اور اسے ایسا سمجھو گویا وہ مر چکا ہے۔ غرض قتل کے ایک معنی قطع تعلق اور واسطہ نہ رکھنے کے بھی ہیں‘ اور یہی معنی اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں ورنہ جب خداتعالیٰ نے یہ کہہ دیا کہ حکومت کی اطاعت کرو اور اُس کے احکام کی پابندی کرو تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ یہ بھی کہہ دیتا کہ منافقوں کو قتل کر دینا اور حکومتِ وقت کے قوانین کو توڑ دینا۔ پس اس جگہ قتل کے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور ان الہامات کا ایک مطلب یہ ہے کہ زینب کا تعلق بعض منافقین سے ہو گا جو اِس بات کے مستحق ہوں گے کہ ان سے قطع تعلق کیا جائے مگر تم زینب کا لحاظ کر لینا کیونکہ اُس کی حیثیت محض ایک تابع کی سی ہو گی۔ چنانچہ باوجود اس بات کے کہ میں ان کے معنوں کو غلط سمجھتا ہوں میں نے اس قدر لحاظ کر لیا کہ جہاں میں نے مصری صاحب اور دوسرے منافقین سے اپنی جماعت کو قطع تعلق کا حُکم دیا وہاں مَیں نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ زینب سے قطع تعلق کا حکم نہیں ہے۔
پس ان معنوں کی رو سے زینب کا ذکر بھی ضروری تھا کیونکہ پیشگوئی اصل مصداق کے متعلق ہی رہتی ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ الزام شیخ صاحب پر ہو اور بریّت ان کی بیوی کی ہو۔ اگر شیخ صاحب یہ کہیں کہ تم اس الہام کو میری بیوی پر کیوں چسپاں کرتے ہو؟ تو ہم انہیں کہیں گے کہ آپ نے خود اپنے خط میں لکھا ہے کہ یہ الہام میری بیوی سے متعلق ہے۔ اس صورت میں ان کا یہ کہنا غلط ہو جائے گا کہ یہ پیشگوئی خواہ مخواہ ان کی بیوی پر چسپاں کی جاتی ہے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ فی الواقع یہ پیشگوئی ان کی بیوی ہی کی نسبت ہے مگر اس کے معنی وہ نہیں جووہ کرتے ہیں اصل معنوں کے بیان کرنے کیلئے میں اس تاریخ کے سارے الہامات سنا دیتا ہوں۔ اُس دن آٹھ الہامات ہوئے تھے جو یہ ہیں:۔
۱۔ اَنْتَ اِمَامٌ مُبَارَکٌ ۱۸؎ تو بڑا مبارک امام ہے۔
۲۔ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَفَرَ۱۹؎ اللہ تعالیٰ کی اس پر *** ہے جس نے انکار کیا۔
۳۔ اِنِّیْ مَعَکَ فِی السَّمَائِ وَالْاَرْضِ۲۰؎ میں تیرے ساتھ ہوں آسمان میں بھی اور زمین میں بھی۔
۴۔ اِنِّیْ مَعَکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۲۱؎ میں دنیا اور آخرت میں تیرے ساتھ ہوں۔
۵۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۲۲؎ خداتعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو محسن ہیں۔
۶۔ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً کچھ منافق گندے الزام لگائیں گے اور وہ اس قابل ہوں گے کہ وہ جہا ںکہیں ہوں ان سے قطع تعلق کر لیا جائے
۷۔ لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ زینب کو تباہ نہ کرو۔
۸۔ آسمان ایک مٹھی بھر رہ گیا ۲۳؎
یہ خدا تعالیٰ کے غضب کی طرف اشارہ ہے کہ اُس وقت منافقوں کی حرکات پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکے گا۔
ان الہامات میں دو قرآن کریم کی آیتیں ہیں۔
اوّل اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ۲۴؎
کہ اللہ تعالیٰ متقیوں اور محسنوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ آیت سورہ نحل کے سولہویں رکوع میں ہے اور دوسری آیت یہ ہے کہ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً یہ سورہ احزاب کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے اور اس کے ساتھ کی آیات یہ ہیں:۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْناً۔ وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِمَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَاناً وَّاِثْماً مُّبِیْنًا۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰـتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلاَ بِیْبِھِنََّ۔ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلاَّ قَلِیْلاًo
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا اور آخرت میں *** کی ہے اور ان کیلئے سخت ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے اور وہ لوگ جو مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو دکھ دیتے اور ان پر الزام لگاتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا‘ یقینا وہ ایک بہت بڑا بہتان باندھتے اور کُھلے کُھلے گناہ کے مرتکب بنتے ہیں۔ اے نبی! تو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادریں جُھکا کر منہ کو چُھپا لیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ پہچانی جائیں گی اور انہیں ایذاء نہیں پہنچے گی اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں گند ہے اور شہر میں بے بنیاد افواہیں اُڑاتے رہتے ہیں باز نہ آئے تو ہم تجھے ان کے مقابلہ کیلئے کھڑا کر دیں گے اور پھر وہ تیرے قریب نہیں رہ سکیں گے ہاں کچھ تھوڑا عرصہ رہ لیں تو رہ لیں۔ یہ لوگ ملعون ہیں اور خدا تعالیٰ کی *** کے نیچے ہیں جہاں کہیں یہ لوگ پائے جائیں پکڑے جائیں اور انہیں قتل کیا جائے یعنی ان سے کامل طور پر مقاطعہ کیا جائے۔
اب قطع نظر کسی اور الزام کے اگر اسی الہام کو لے لیا جائے اور دیکھا جائے کہ قرآن کریم میں یہ آیت کس مقام پر بیان کی گئی ہے تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ مصری صاحب کا قدم راستی پر ہے یا ضلالت اور گمراہی پر۔
ان آیتوں میں مضمون یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رسول کے خاندان اور مؤمن عورتوں پر بعض لوگ گندے اِتّہام لگاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور انہیں ہماری طرف سے بہت جلد سزا ملے گی۔ پس ان آیات میں دو گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک وہ جن پر گندے الزام لگائے جاتے ہیں اور ایک وہ جو گندے اِتّہام لگانے والے ہیں۔ جو لوگ گندے اِتّہامات لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو منافق قرار دیتا ہے اور جن پر یہ اِتّہامات لگائے جاتے ہیں ان کو بری قرار دیتا ہے۔ اب مصری صاحب دیکھ لیں کہ ان آیات کے مطابق وہ کس مقام پر ہیں اور ہماری جماعت کس مقام پر ہے۔ آیا مَیں اور ہماری جماعت کے دوسرے لوگ ان پر الزام لگاتے ہیں یا وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں۔ بہرحال جو بھی الزام لگانے والا ہے قرآن کریم اسے مُجرم قرار دیتا ہے اور جن پر الزام لگایا گیا ہو انہیں بری قرار دیتا ہے۔ اب اگر میں نے کہا ہے کہ مصری صاحب زانی اور بدکار ہیں تو وہ اپنے آپ کو سچا کہہ سکتے ہیں اور اگر انہوں نے مجھے زانی اور بدکار قرار دیا ہے تو پھر وہی جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور واقعہ یہی ہے کہ مصری صاحب ہم پر الزام لگاتے ہیں ہم نے ان پر کوئی الزام نہیں لگایا۔اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آیت تو یہ کہتی ہے کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے اور آیت یہ بتاتی ہے کہ نبی کے خاندان پر بعض لوگ الزام لگائیں گے او ر اس طرح خدا اور اس کے رسول کو دُکھ دیں گے اسی طرح وہ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں پر الزامات لگائیں گے حالانکہ وہ بری ہوں گے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ اس الہام سے میری بریّت ثابت ہوتی ہے حالانکہ آیت انہیں جھوٹا قرار دے رہی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان دنوں کے الہامات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہامات ایک سلسلہ کی کڑی ہیں کیونکہ ۹۔فروری ۱۹۰۸ء کو تو یہ الہام ہؤا کہ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً ۔ مگر اس سے چند دن پہلے ۲۱۔جنوری کو یہ الہام ہؤا کہ مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا۲۵؎ جو اسی آیت کا پہلا ٹکڑا ہے جو سورہ احزاب میں ہے گویا وہی آیت جو ۹۔فروری کو آپ پر الہاماً نازل ہوئی اس کا پہلا ٹکڑا ۲۱۔جنوری کو آپ پر الہاماً نازل ہو چکا تھا جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ کسی خاص مضمون کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ پھر ۱۹۔جنوری ۱۹۰۸ء کا الہام ہے کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ ۲۶؎ کہ میں تیرے ساتھ اور تیرے اس موجودہ اہل کے ساتھ ہوں۔ یہ نہیں کہ کوئی دو سَو یا تین سَو سال کے بعد اہل ہو گا جس کے ساتھ میری تائید ہو گی جیسے غیر مبائعین کہاکرتے ہیں کہ تین سَو سال کے بعد کوئی مصلح موعود پیدا ہو گا اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو خاندان ہو گا اس کے ساتھ اس کی تائید ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس الہام کے ذریعہ اِس شُبہ کا ازالہ کر دیا اور ھٰذِہٖ کا لفظ لا کر بتا دیا کہ وہ خاندان جو اَب موجود ہے اس کے ساتھ میری تائیدات ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ میں نے جو آیتیں سورۃ احزاب کی پڑھی ہیں ان میں بھی رسول کریم ﷺ کے اہل کا ذکر ہے۔ پس یہ الہام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اور اس سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۔جنوری سے ۹۔فروری ۱۹۰۸ء تک کے الہامات ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ اور چونکہ ان سب کا موجودہ فتنہ سے تعلق ہے اس لئے میں یہ تمام الہامات پڑھ دیتا ہوں۔
(۱) ۱۹۔جنوری کا الہام ہے۔
اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ میں تیرے ساتھ اور تیرے موجودہ اہل کے ساتھ ہوں۔
(۲) ۲۱۔جنوری کا الہام ہے۔
مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وہ ملعون ہیں جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے۔
(۳) اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ۲۷؎ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
پھر ۲۶۔ جنوری کے الہامات ہیں
(۴) حَرَّقَھُمَا اللّٰہُ ۲۸؎ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جلا دے گا۔
(۵) قَتَلَھُمَا اللّٰہُ ۲۹؎ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو تباہ کر دے گا۔
(۶) میری فتح ہوئی۔
(۷) اِنَّارَادُّوْہُ اِلَیْکَ۳۰؎ ہم اسے تیری طرف واپس لائیں گے۔
(۸) اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ سَمْعِیْ تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے میرا ذکر کیونکہ سمع ذکر اور شُہرت کو بھی کہتے ہیں۔
پھر ۲۸۔جنوری کے الہامات ہیں:۔
(۹) اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ ۳۱؎ اے ابراہیم میں تیرے ساتھ ہوں۔
(۱۰) ’’از خدا یا بند مرد انِ خدا‘‘۔۳۲؎ خدا کے بندے خدا سے پاتے ہیں۔
اس کے بعد ۹۔ فروری کے الہامات جو پہلے بیان ہو چکے ہیں ان الہامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سورۃ احزاب کی آیتوں میں اہلِ بیت کا ذکرہے اسی طرح یہاں بھی ہے۔ جس طرح وہاں بعض تکلیف دینے والوں کا ذکر ہے اسی طرح یہاں بھی ہے۔ جس طر ح وہاں مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا ہے اس سلسلۂ الہام میں بھی ہے۔ بلکہ یہ عجیب بات ہے کہ ۹۔فروری کے الہاموں میں دوسری آیت سورہ نحل کی ہے۔ یعنی اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ اور اس آیت سے پہلے قرآن کریم میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ ثُمَّ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْٰرہِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔۳۳؎ اور یہاں بھی ۲۸۔جنوری کا یہ الہام ہے کہ اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْرٰھِیْمُ۔ اس طرح تمام الہاموں کی کڑی مکمل ہو جاتی ہے اور پتہ لگتا ہے کہ ۱۹۔جنوری کے الہام سے ۹۔فروری کے الہامات تک آپ کو چار دفعہ الہام ہوئے ہیں یعنی ۱۹۔ جنوری کو، ۲۱۔جنوری کو، ۲۶۔جنوری کو اور ۲۸۔جنوری کو اور ان تمام الہامات کا باہم تعلق ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ۹۔فروری کے الہامات میں دو آیتیں ہیں‘ ایک سورہ نحل کی اور ایک سورہ احزاب کی۔ اور سورہ احزاب کی آیات میں رسول کریم ﷺ کی بیویوں پر الزامات لگائے جانے کا ذکر ہے۔ اس کے مقابلہ میں ۱۹۔جنوری کا الہام اس بارہ میں یہ ہے کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ۔ اس کے بعد ۲۱۔جنوری کو الہام ہوئے اور ان میں بھی ۹۔فروری والے الہام کا پہلا ٹکڑا کہ مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا بعینہٖ موجود ہے۔ پھر ۲۶۔جنوری کو جو الہام ہوئے ہیں ان میں پھر الزام لگانے والوں کے دو لیڈروں کا ذکر ہے اور ان سزاؤں کا ذکر ہے جو ۹۔فروری والی آیت میں ہیں یعنی قتل یا قطع تعلق۔ پھر ۲۸۔ جنوری کو جو الہام ہوئے ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مثیلِ ابراہیم قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح سورہ نحل کی آیتوں سے پہلے رسول کریم ﷺ کو ملتِ ابراہیم کی اتباع کا حُکم دیا گیا ہے۔ ۲۸۔ جنوری کے بعد پھر ۹۔ فروری کے یہی الہامات ہیں درمیان میں اور کوئی الہام نہیں ہے۔ اس تفصیل سے یہ امر قطعاً ثابت ہو جاتاہے کہ ۱۹۔ جنوری سے لیکر ۹۔ فروری تک کے الہامات گو الگ الگ تاریخوں میں ہوئے ہیں لیکن ایک ہی مضمون کے متعلق ہیں اور مضمون یہ ہے کہ تیرے اہل و عیال سے دشمنی کی جائے گی مگر میں تیرے اور تیرے اہل و عیال کے ساتھ ہوں گا۔ الزام لگانے والے گندے الزام لگائیں گے (جیسا کہ احزاب کی آیتوں کے مضمون سے ظاہر ہے) اور خدا تعالیٰ کی *** کے مستحق ہوں گے۔ ان کو خیال رکھنا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی ہتک ایمان کے منافی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ اس تحریک کے دو لیڈر ہوں گے اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہو گا اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو فتح دے گا۔ اس کے بعد ایک الہام ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے تیری طرف واپس لائے گا اس سے یا تو مرتدین میں سے کسی کی ہدایت مراد ہے اور یا پھر یہ مراد ہے کہ سلسلہ کا وقار جو کھویا جائے گا اُسے اللہ تعالیٰ واپس لائے گا۔ پھر فرماتا ہے تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے میرا ذکر یعنی جس طرح مجھے اپنی نیک نامی کاخیال ہے اسی طرح تیری نیک نامی کا بھی خیال ہے۔ پھر فرمایا۔ اے ابراہیم! یعنی مِلَّۃَ اِبْرہِیْم کی اتباع کرنے والے! میں تیرے ساتھ ہوں۔ یاد رکھ کہ جو خدا تعالیٰ کے بندے ہوتے ہیں گو دنیا ان کے خلاف ہو جائے مگر وہ اللہ تعالیٰ سے مدد پاتے ہیں۔ (اس میں اشارہ ہے کہ اُس وقت بہت سی اقوام سلسلہ کے خلاف ہو جائیں گی) پھر فرماتا ہے تو امام ہے مبارک۔ بَرْکَۃٌ اُس گڑھے کو کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ ۳۴؎ پس مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی برکتیں تیرے ساتھ جمع ہیں اور تیرے بعد اور لوگ تیرے کام کو چلانے والے ہونگے نہ کہ صرف تجھ پر یہ امر ختم ہو جائے گا۔ جو تیرے اس مقام کا انکار کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی *** کے نیچے ہوگا۔ میں تیری مدد کروں گا اُس وقت بھی کہ تو آسمان میں ہوگا یعنی بعد الموت اور اُس وقت بھی جب تو زمین میں ہوگا یعنی زندگی میں گویا دنیوی امور میں بھی تیری مدد کروں گا اور اُخروی امور میں بھی اور ایسا کیوں نہ ہو کہ تو ابراہیمی مقام پر ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں اور محسنوں کی امداد کرتا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ فرما کر میرے اور مصری صاحب کے باہمی اختلاف کا ایک رنگ میں فیصلہ فرما دیا ہے۔ مگر اس لئے کہ اس کے سمجھنے میں سہولت ہو مَیں ایک مثال دے دیتا ہوں۔ غیر احمدیوں سے جب مجھے مذہبی گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے مَیں ہمیشہ ان سے ایک سوال کیا کرتا ہوں مگر آج تک مجھے اُن میں سے کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ مَیں اُن سے کہا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰـتِہٖ ۳۵؎ کہ اُس سے زیادہ اور کوئی ظالم نہیں جو خداتعالیٰ پر افتراء کرے یا اُس کی آیات اور سچی تعلیم کی تکذیب کرے اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ ۳۶؎ کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا تعالیٰ کی مساجد میں لوگوں کو ذکر کرنے سے روکے۔ جب ہمارا تمہارا اختلاف ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ اَظْلَمُ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) مرزا صاحب تھے کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ پر افتراء کیا اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اَظْلَم تم ہو کیونکہ تم نے ایک سچے کی تکذیب کی تو آئو ہم قرآن کریم سے ہی پوچھیں کہ ہم دونوں میں سے اَظْلَم کون ہے۔ سو جب ہم قرآن کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ جو مساجد میں عبادت کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں وہی اَظْلَم ہیں۔ اب دیکھ لو ہم نے اپنی مساجد میں کبھی کسی کو عبادت کرنے سے نہیں روکا بشرطیکہ وہ فتنہ و فساد کی نیت نہ رکھتا ہو مگر تم اپنی مساجد میں احمدیوں کو نماز نہیں پڑھنے دیتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکتے ہو۔ پس اس آیت نے ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا اور بتا دیا کہ اَظْلَم ہم نہیں بلکہ تم ہو اور تم ہی ایک سچے مأمور کی تکذیب کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن رہے ہو۔ اسی طرح اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے دو باتیں بیان فرمائیں ہیں۔ اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ محسنوں کے ساتھ ہے۔ مصری صاحب کو میرے متقی ہونے میں شُبہ ہے اس لئے اِس جھگڑے کا فیصلہ اب اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم قرآن سے ہی دیکھیں کہ اس آیت کا جو دوسرا حصہ ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ محسنوںکے ساتھ ہے اس کے لحاظ سے وہ میرے مُحسن ہیں یا مَیں ان کا مُحسن ہوں۔ اگر وہ میرے مُحسن ہوں تو متقی بھی وہی ہو سکتے ہیں اور اگر مَیں ان کا مُحسن ہوں تو لازماً متقی بھی میںہی ہونگا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھو گے تو یہی ثابت ہوگا کہ مَیں ان کا مُحسن ہوں۔ چنانچہ مصری صاحب کو مصر صدر انجمن احمدیہ نے نہیں بھیجا بلکہ ان کے مصر جانے اور وہاں کے قیام کے اخراجات کیلئے کچھ روپیہ مَیںنے دیا تھا اور کچھ روپیہ چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم نے دیا تھا۔ اس طرح ہم دونوں نے انہیں مصر بھیجا تھا پس ان کی مصریّت کی عظمت بھی میری وجہ سے ہی قائم ہوئی کیونکہ مَیں نے اور چوہدری نصراللہ خان صاحب مرحوم نے اُن کے اخراجات برداشت کئے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ میں محسنوں کے ساتھ ہوں۔ پس جب مُحسن مَیں بنا تو لازماً متقی بھی مَیں ہی ٹھہرا اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات نے بھی ثابت کر دیا کہ مَیں ہی متقی اور مَیں ہی مُحسن ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ایک جماعت جس کے دو لیڈر ہونگے بہتان باندھے گی۔ وہ لوگ جہاں بھی ہونگے اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے اور ان سے قطع تعلق کرنے کا حُکم دیا جائے گا۔ پس اے لوگو! اس گروہ سے زینب کا تعلق پیدا کر کے اُسے بھی اس ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یاد رکھو کہ یہ فتنہ معمولی نہ ہوگا بلکہ آسمان پر بھی اس سے تہلکہ پڑ جائے گا پس اس کام کی جرأت نہ کرو۔
پہلی پیشگوئی
اوپر جو تشریح بیان کی جا چکی ہے اس سے باقی سب باتیں تو ظاہر ہیں البتہ لَاتَقْتُلُوْا زَیْنَبَکا حل رہ جاتا ہے کیا واقعہ میں اس الہام سے اسی مضمون
کی طرف اشارہ ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ زینب کی شمولیت اس فتنہ میں شیخ مصری صاحب سے شادی کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اب ہم ابتداء کی تاریخ کو دیکھتے ہیں کہ اس میں اس کا کیا حل ہے۔ سو ہمیں اس الہام کا ایک واضح شانِ نزول مل جاتا ہے جو یہ ہے کہ ۱۹۰۸ء کے شروع میں حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم کی دو لڑکیوں کی شادی کی تجویز ہوئی جن میں سے بڑی کا نام زینب اور چھوٹی کا نام کلثوم تھا۔ زینب کے متعلق اور بھی بعض لوگوں کی خواہش تھی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی شادی شیخ مصری صاحب سے ناپسند کی لیکن حسبِ عادت زیادہ زور نہیں دیا۔ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہؤا کہ لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ زینب کو ہلاک مت کرو۔ حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم نے دوسرے شخص کو کسی نہ کسی وجہ سے ناپسند کیا اور یہ خیال کیا کہ اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا مشورہ غلط ہے وہاں شادی نہ کی جائے بلکہ مصری صاحب سے شادی کی جائے اور خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے کو الہام نے ردّ کر دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات نہ مانی اور شیخ مصری صاحب سے شادی کر دی۔ چنانچہ یہ الہام ۹۔ فروری ۱۹۰۸ء کو ہؤا اور ۱۷۔ فروری ۱۹۰۸ء کو شیخ مصری صاحب کا نکاح زینب سے کر دیا گیااور یہ تاریخ اس طرح محفوظ رہی کہ مصری صاحب کا نکاح دو اَور نکاحوں سمیت اُسی دن ہؤا تھا جس دن کہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح ہؤا تھا اور وہ ۱۷۔ فروری تھی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو اور مصری صاحب سے نکاح نہ کرو ورنہ یہ نکاح اسے منافق بنانے کا نتیجہ پیدا کر دے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شاید اس زینب کے متعلق اسے سمجھا ہی نہیں اور لڑکی کے باپ نے اُلٹ نتیجہ نکالا حالانکہ خدا تعالیٰ کا منشاء اس الہام سے یہ تھا کہ اِس شخص سے ایک بھاری فتنہ پیدا ہونے والا ہے اس سے زینب کی شادی نہ کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو۔ پھر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو یہی مشورہ دیا تھا۔ چنانچہ جب مصری صاحب جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیںتو پیر منظور محمد صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو کہا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب سے شادی نہ کی جائے مگر جب حافظ صاحب نے اس بات کو نہ مانا اور اسی جگہ لڑکی کی شادی کر دی تو مجھے سخت غصہ آیا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہؤا اور میں نے کہا کہ حضور خدا تعالیٰ کے مأمور ہیں اور خدا تعالیٰ کا حُکم ہے کہ جب مأمور ایک بات کہہ دے تو تمام مؤمنوں کو چاہئے کہ اس پر عمل کریں مگر حافظ احمد اللہ صاحب نے حضور کی نافرمانی کی ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا بات تو آپ نے جو کہی ہے یہ ٹھیک ہے مگر ایسے معاملات میں مَیں دخل نہیں دیا کرتا۔ جب یہ روایت مجھے پہنچی تو گو اس روایت میں مجھے کوئی شُبہ نہیں ہو سکتا تھا مگر چونکہ یہ اکیلی روایت تھی اس لئے مجھے اس بات کا فکر ہؤا کہ کوئی اور گواہ بھی ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دوسرے دن کی ہی ڈاک میں مجھے ایک خط ملا جو منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی طرف سے تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ۱۹۱۵ء میں جب مَیں قادیان آیا تو اُس وقت مجھے کسی دوست سے قرآن پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ میں نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنی لڑکی زینب کا رشتہ کسی اور شخص سے کرنے کا کہا تھا مگر انہی دنوں آپ پر یہ الہام نازل ہؤا کہ لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ جس سے میں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رائے صحیح نہیں اور میں نے شیخ مصری صاحب سے رشتہ کر دیا مگر اب شیخ مصری مجھے سخت تنگ کرتا ہے اور اس نے مجھے بڑی بڑی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دی ہیں جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا حُکم نہ ماننے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں شیخ مصری صاحب نے بازار میں اپنے خسر کو مارا۔ جس پر حضرت خلیفہ اوّل مصری صاحب سے سخت ناراض ہو گئے اور مَیں نے کئی دن آپ کی منتیں کر کے انہیں معاف کروایا۔ پس اس الہام کے یہ معنی تھے کہ تم زینب کی شیخ مصری صاحب سے شادی مت کرو، ورنہ اس کا ایمان بھی برباد ہو جائے گا۔ چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس شادی سے اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا۔
اب دیکھو یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جس کی طرف خود مصری صاحب نے توجہ دلائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ان کی بیوی کو یہ یاد تھا کہ ایسا الہام ہؤا تھا اور میرے والد نے اسے میرے متعلق سمجھا تھا۔ اس طرح ان کا ذہن اس طرف گیا اور شاید جو کام ہم سے دیر میں ہوسکتا، وہ خود انہوں نے کر دیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بکری نے چُھری نکالی تھی۔ کہتے ہیں کہ کوئی شخص تھا جس نے بکری ذبح کرنے کیلئے چُھری نکالی مگر پھر کہیں رکھ کر بھول گیا اور اس پر بچوں نے کھیلتے ہوئے مٹی ڈال دی اور وہ مٹی کے نیچے چُھپ گئی۔ اُس نے چُھری کو بہتیرا تلاش کیا مگر نہ ملی۔ وہ حیران سا کھڑا تھا کہ بکری نے پیر مارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ مٹی ہٹ گئی اور اُسے چُھری نظر آگئی جس سے اُس نے فوراً اُسے ذبح کر دیا۔ اُس وقت سے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی ہے اور جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کرتا ہے تو کہتے ہیں اس نے بالکل ایسا ہی کیا جس طرح بکری نے چُھری نکال لی تھی۔
دوسری پیشگوئی
اب مَیں چند اور الہامات بتاتا ہوں جو اِس فتنے اور اس قسم کے اور فتن سے تعلق رکھتے ہیں۔
۱۳ ۔مارچ ۱۹۰۷ء کو چند الہامات ہوئے جو یہ ہیں۔
۱۔ وَیْلٌ لَّکَ وَلِاِ فْکِکَ ۳۷؎ افک ایک مشہور واقعہ ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگایا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ یہاں بھی افک کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اے مخالف! تُجھ پر عذاب اور *** ہو اور تیرے بدکاری وغیرہ کے جھوٹے الزامات پر بھی *** ہو۔ پھر الہام ہے۔
۲۔ ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے۔۳۸؎
پھر الہام ہے۔
۳۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً۔ ۳۹؎ کہ اے اہلِ بیت! ان الزاموں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ وہ تمہیں پاک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرے۔
اب ان الہامات میں افک کا لفظ موجود ہے۔ پھر ابتلا کا ذکر پایا جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اہلِ بیت سے خطاب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے اہلِ بیت! ان الزامات کے بعد خداتعالیٰ تمہاری تطہیر دُنیا پر ثابت کرے گا۔ اس الہام کے بعد جو اہلِ بیت کے متعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے ہیں یہ تیسری مرتبہ الہام ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ- اس کے بعد الہام ہے اَعْجَبَنِیْ مَوْتُکُمْ ۴۰؎ کہ تم لوگوں کی موت پر مجھے بڑا ہی تعجب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی الہام ہیں لیکن یہ الہام جو ایک ہی تاریخ کے ہیں آپس میں ایک گہرا ربط رکھتے ہیں۔ پہلے افک یعنی اتہامات کا ذکر ہے پھر امتحان اور آزمائش کا ذکر ہے۔ پھر اہلِ بیت کو تسلی دی ہے کہ گھبرائو نہیں۔ یہ ابتلاء تمہارے اندر کامل پاکیزگی پیدا کرنے کیلئے آئیں گے پھر معترضین پر اظہارِ تعجب کیا ہے کہ تمہاری روحانی موت پر مجھے تعجب ہوتا ہے ورنہ جسمانی موت پر تو تعجب کی کوئی وجہ نہیں ہؤا کرتی۔ کیا جب کوئی شخص نمونیہ سے مر جائے تو لوگ اسے کہا کرتے ہیں کہ تمہاری موت پر ہمیں بڑا تعجب ہے۔ اس قسم کے الفاظ ہمیشہ روحانی موت پر استعمال کئے جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں کئی لوگوں کو تعجب ہؤا اور بعض دوستوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ جب اتنے بڑے بڑے آدمی مُرتد ہو سکتے ہیں تو پھر نہ معلوم ہمارا کیا حال ہوگا۔ گویا انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور الہام میں بھی مؤمنوں کی طرف سے اسی تعجب کے اظہار کی خبر دی گئی تھی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ الہام اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَ کُمْ تَطْھِیْراً۴۱؎ بھی قرآن کریم کی آیت ہے اور اسی سورۃ کی آیت ہے جس کا ذکر پہلے الہامات میں ہے یعنی سورۃ احزاب کی۔
پھر یہ امر بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ یہ الہام جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے تین دفعہ قریب قریب زمانہ میں ہؤا ہے چنانچہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ ۱۳۔مارچ ۱۹۰۷ء کے یہ الہام پہلے دو دفعہ ہوچکا ہے اوّل یہ الہام ۲۲۔ جنوری ۱۹۰۷ء کو ہؤا اور دوسری دفعہ ۳۔ فروری ۱۹۰۷ء کو اور دونوں دفعہ ان الہامات کے ساتھ ایک فتح یا آرام کا ذکر ہے۔ چنانچہ پہلے الہام کے بعد یعنی جو ۲۲۔ جنوری کو ہؤا حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں:۔
’’اس وحی کے بعد مَیں کسی کو آواز مار کر اس طرح سے پکارتا ہوں۔ فتح۔ فتح۔ گویا اُس کا نام فتح ہے‘‘۔۴۲؎
اور دوسرے موقع پر جو الہام ہؤا اس کے ساتھ یہ الہام ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لَکُمُ الْیُسْرَ۴۳؎ کہ اے اہلِ بیت! تم نے گھبرانا نہیں کیونکہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ تمہارے لئے سہولت بہم پہنچانا چاہتا ہے گویا یہ الہام بھی فتح پر دلالت کرتا ہے اس طرح جو تیسری دفعہ الہام ہؤا ہے اس کے ساتھ بھی وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ ۴۴؎ کا الہام ہے جس کے معنی بھی کامیابی اور فضل کے ہیں اورجس کا مطلب یہ ہے کہ نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر یعنی اس کے فضل اور احسان کے پہاڑ پر ٹھہر گئی۔
تیسری پیشگوئی
تیسری پیشگوئی جو اِن فتن کے متعلق ہے یہ ہے کہ ۲۶۔ مئی ۱۹۰۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الہامات نازل ہوئے۔
۱۔ شَرُّالَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۴۵؎ کہ شرارت ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا۔
۲۔ میں ان کو سزا دوں گا۔ ۴۶؎
۳۔ میں اس عورت کو سزا دوں گا۔۴۷؎
۴۔ پھر حضرت (اماں جان) کے متعلق الہام ہؤا۔ رَدَّاِلَیْھَا رَوْحَھَا وَ رَیْحَانَھَا ۴۸؎ کہ اس فتنہ کے بعد خوشی اور راحت ان کی طرف واپس لائی جائے گی۔
اسی طرح الہام ہؤا اِنِّیْ رَدَدْتُ اِلَیْھَا رَوْحَھَا وَ رَیْحَانَھَا ۴۹؎ کہ میں نے اس کے آرام اور راحت کو اس کی طرف لوٹا دیا۔
یہ الہام اس امر کو واضح کر رہا تھا کہ یہ فتنہ حضرت (اماں جان) کی زندگی میں آئے گا اور اس کے ذریعہ آپ کو بھی دکھ دیا جائے گا مگر خدا تعالیٰ آپ کو فتح دے گا اور آپ کی خوشی اور راحت کے سامان آپ کیلئے واپس لائے گا۔
چوتھی پیشگوئی
اسی طرح ۱۹۔فروری ۱۹۰۶ء کے الہامات ہیں۔ عورت کی چال۔ ۵۰؎ ایْلِیْ ایْلِیْ لَمَا سَبَقْتَانِیْ۔۵۱؎ بریّت ۔۵۲؎
ان الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ میں اس قسم کے الزامات کی بعض وارداتیں ہونے والی تھیں جن کا قبل از وقت خداتعالیٰ نے اظہار کر دیا اور گویہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے ہر الہام اپنی پوری تفصیل کے ساتھ موجودہ فتنہ پر چسپاں ہوتا ہے مگر بہرحال اجمالاً یہ تمام الہامات اس قسم کے فتنوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ان سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ابھی اور بھی کئی قسم کے فتنے اُٹھنے والے ہیں۔
پانچویں پیشگوئی
پھر ۱۲۔اپریل ۱۹۰۶ء کا الہام ہے وَیْلٌ لِّھٰذِہِ الْأِ مْرَاَۃِ وَبَعْلِھَا۵۳؎ کہ اس عورت اور اس کے خاوند پر ***۔ گویا اس قسم کے فتنوں کے
متعلق پانچ دفعہ الہامات ہوئے ہیں۔ اور یہ پانچوں پیشگوئیاں اس فتنہ کے ظہور سے پوری ہوئی ہیں خصوصاً تیسری پیشگوئی تو ایسی ہے کہ وہ کسی اور موقع پر قطعاً چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں ان لوگوں کی شرارت کا بھی ذکر ہے جن پر انعام کیا گیا سزا کا بھی ذکر ہے اور اس امر کا بھی ذکر ہے کہ اس فتنہ سے حضرت (اماں جان) کو تکلیف پہنچے گی جس کے اندر ایک یہ پیشگوئی بھی مخفی تھی کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات ہو چکی ہو گی اور حضرت (اماں جان) زندہ ہوں گی اور ان کی زندگی میں اس فتنہ کے ذریعہ آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے خاندان کو فتح دے گا اور آپ کی خوشی اور راحت آپ کی طرف واپس لائے گا۔
چھٹی پیشگوئی
اب اس فتنہ کے متعلق ایک چھٹی پیشگوئی پیش کی جاتی ہے جو نہایت ہی زبردست پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی ہے اور جس میں اس فتنہ کی اتنی
تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور اس قدر عجیب در عجیب پیشگوئیاں اس میں کی گئی ہیں کہ انسان انہیں معلوم کر کے حیران رہ جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’۷۔دسمبر ۱۸۹۲ء کو ایک اور رؤیا دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہٗ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کر لیتا ہے۔ سو اُس وقت مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہو رہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس ہیں اور شفقت اور تَوَدُّدْ سے مجھے فرماتے ہیں کہ یَا عَلِیُّ دَعْھُمْ وَاَنْصَارَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ یعنی اے علی! ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کراور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے۔ اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کیلئے آنحضرت ﷺ مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کیلئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترکِ خطاب بہتر ہے۔ اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پیروؤں کی وہ جماعت ہے جو ان کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں۔ پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منحدر ہوئی اور الہام کے رو سے خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی یعنی مجھ کو چھوڑو تا مَیں موسٰی کو یعنی اِس عاجز کو قتل کر دوں‘‘۔۵۴؎
اس رؤیا میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آپ کو علیؓ کے مقام پر دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خوارج کا ایک گروہ آپ کی خلافت میں مزاحم ہو رہا ہے۔ گویا بتایا گیا ہے کہ خوارج کا ایک گروہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کا مخالف ہو گا اور خوارج وہی لوگ ہیں جن میں سے بعض نے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خلافت چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انہوں نے ایسا ہی مطالبہ کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ بطور جماعت ظاہر نہیںہوئے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ بطور جماعت ظاہر ہو گئے اور الگ ہو گئے۔ خوارج کا خیال یہ ہے کہ خلافت کوئی مقام اور درجہ نہیں بلکہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ۔ حُکم اللہ کا ہے اور مسلمان آپس کے مشورہ سے جو کچھ چاہیں کریں۔ گویا ان کے نزدیک خلافت جماعت کو حاصل ہے نہ کہ فرد کو۔ وہ کہتے ہیں بیعت تو ہو سکتی ہے مگر وہ نظامی بیعت ہو گی‘ خلافت والی بیعت نہیں کہ اگر کوئی شخص ایک دفعہ خلیفہ ہو تو پھر وہ معزول ہی نہ ہو سکے بلکہ جب چاہیں گے اُس کو ہٹا دیں گے۔ یہ خارجیوں کا عقیدہ ہے جو وہ رکھتے ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور الہام بھی ہے جس میںآپ کو بتایا گیا ہے کہ اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِیُّوْنَ ۵۵؎ یعنی قادیان سے ایک یزیدی جماعت نکلے گی۔ اور یزیدی وہ تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا مقابلہ کیا مگر وہ شروع سے آپ کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے۔ اور خوارج وہ تھے جو پہلے بیعت میں شامل تھے مگر بعد میں الگ ہو گئے۔ پس پہلی رئویا اور اس الہام سے ظاہر ہوتا تھا کہ میری خلافت کے مقابلہ میں ایک گروہ تو وہ ہو گا جو ابتداء سے ہی میری بیعت میں شامل نہ ہو گا اور ایک گروہ وہ ہو گا جو شامل تو ہوگا مگر بعد میں میرا مخالف ہوجائے گا اورمجھ سے خلافت چھوڑ دینے کا مطالبہ کرے گا جیسے خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا۔
یزیدی گروہ پہلے غیر مبائعین کے ذریعہ ظاہر ہؤا اور اب مصری صاحب کے ذریعہ خوارج کا گروہ ظاہر ہؤا ہے۔
چنانچہ خوارج پہلے بیعت میں تھے پھر الگ ہوئے مصری صاحب بھی پہلے میری بیعت میں تھے اور پھر الگ ہوئے۔
چونکہ یہ ایک زبردست پیشگوئی ہے اور اس میں وہ مسائل وغیرہ بھی جن میں اختلاف ہونا تھا بتائے گئے ہیں اس لئے میں اس کو تفصیل سے بیان کرتا ہوں۔
اِس رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ خوارج کا ایک گروہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کی ویسی ہی مخالفت کرے گا جیسے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مخالفت کی تھی۔ پس تم مجھے علیؓ کی جگہ سمجھ لو اور مصری صاحب کو خوارج کی جگہ اور پھر دیکھو کہ یہ پیشگوئی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ مگر چونکہ اس میں خوارج کا ذکر آتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ گروہ وہی حرکات کرے گا جو خوارج نے کیں اس لئے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ خوارج کون تھے اور ان کی ابتدا کس طرح ہوئی۔
خوارج کی ابتدا
خوارج کی ابتدا درحقیقت رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے ہی ہوئی ہے چنانچہ ایک دن خدا کا وہ مقدس رسول جو دنیا میں
امانت و دیانت قائم کرنے کیلئے آیا تھا صحابہؓ کے سامنے کھڑا تھا اور آپؐ کے سامنے وہ اموال پڑے تھے جو ایک جنگ میں فتح کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوئے اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم تھا کہ آپ انہیں تقسیم کر دیں۔ آپ وہ اموال تقسیم فرما رہے تھے کہ:۔
رُوِیَ اَنَّ رَجُلاً اَسْوَدَ مُضْطَرِبَ الْخَلْقِ غَائِرَ الْعَیْنَیْنِ نَاتِیَ الْجَبْھَۃِ مُخْدَجَ الْیَدِ شَدِیْدَ بَیَاضِ الثَّوْبِ یُقَالُ لَہٗ عَمْرٌو ذُوالْخُوَیْصِرَۃِ اَوِ الْخُنَیْصِرَۃِ وَقَفَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَقْسِمَ بَعْضَ الْغَنَائِمِ فَقَالَ لَقَدْرَأَیْتُ قِسْمَۃً مَّا اُرِیْدَ بِھَا وَجْہُ اللّٰہِ ۵۶؎
یعنی بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص جو کالے رنگ کا تھا جس کے جسم کی بناوٹ میں بعض نقص تھے جس کی آنکھوں میں گڑھے پڑے ہوئے تھے جس کے ماتھے کی ہڈی باہر نکلی ہوئی تھی اور جس کے ایک ہاتھ میں بھی نقص تھا اور جو عام طور پر سفید لباس پہننے کا عادی تھا۔ جسے عمرو ذوالخویصرہ یا خنیصرہ کہا کرتے تھے رسول کریم ﷺ کی پیٹھ کے پیچھے آ کھڑا ہو گیا۔ آپ اُس وقت غنیمت کے اموال مسلمانوں میں تقسیم فرما رہے تھے۔ جب آپ مال تقسیم کر چکے تو اُس نے گردن اُٹھائی اور کہا آج میں نے مال کی وہ تقسیم دیکھی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو ہرگز مدنظر نہیں رکھا گیا۔
فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی تَوَرَّدَ خَدَّاہُ وَقَاَل لَہٗ وَیْحَکَ فَمَنْ یَّعْدِلُ اِذَا لَمْ اُعْدِلْ ۵۷؎
یہ سن کر رسول کریم ﷺ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے یہاں تک کہ آپکے کلے سرخ ہو گئے اور آپ نے فرمایا تیرا ستیا ناس ہو اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر دنیا میں اور کون عدل کرے گا۔
ثُمَّ قَالَ أَیَأْ مَنُنِی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی اَھْلِ الْاَرْضِ وَلَاتَاْ مَنُوْنَنِیْ وَقَامَ اَبُوْبَکْرٍوَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اِلٰی الرَّجُلِ لِیَقْتُلاہُ فَوَجَدَاہُ یُصَلِّیْ فَلَمْ یَجْسُرَا عَلٰی قَتْلِہٖ ثُمَّ قَامَ عَلیٌّ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ فَلَمْ یَجِدْہُ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ لَوْ قُتِلَ ھٰذَا مَا اخْتَلَفَ اثْنَانِ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ مِنْ ضِئْضِیئِ ھٰذَا قَوْمٌ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ۵۸؎
پھر آپ نے فرمایا خدا نے تو ساری دنیا کی حفاظت و امانت کا کام میرے سپرد کر دیا ہے مگر تم مجھے اپنے تھوڑے سے مال میں بھی امین نہیں سمجھتے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس شخص کی تلاش کی تاکہ اسے قتل کر دیں مگر انہوں نے دیکھا کہ وہ بڑی لمبی نماز پڑھ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر ان کے دل میں خوف پیدا ہؤا اور اُس کے قتل کی انہوں نے جرأت نہ کی۔ پھر حضرت علیؓ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ میں اُسے ضرور قتل کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا۔ رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اگر یہ شخص آ ج مارا جاتا تو اسلام میں آئندہ کبھی فتنہ پیدا نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کے دین کے بارے میں کبھی اختلاف پیدا نہ ہوتا۔ مگر اب اس قسم کے لوگ جو اس شخص کے طریق کی اتباع کرنے والے ہوں گے امتِ محمدیہ میں پیدا ہوں گے۔ وہ بظاہر بڑے دیندار ہوں گے‘ بڑی بڑی لمبی نمازیں پڑھنے والے ہوں گے مگر وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تِیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ اگر میرے زمانہ میں یہ شخص ہلاک ہو جاتا تو آئندہ اس سے نِفاق کا سلسلہ نہ چلتا مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں اسی قسم کے لوگوں کی وجہ سے اسلام میں فتنہ پیدا ہونے والا ہے۔
خوارج کی فتنہ انگیزیوں کی تفصیل
اب ہم دیکھتے ہیں کہ خوارج کون تھے؟ خوارج کا گروہ درحقیقت انفرادی طور پر
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ظاہر ہؤا تھا اور ایک مصری شخص عبداللہ بن سبا کے اثر کے نیچے تھا (یہ شخص درحقیقت مصری نہیں بلکہ یمنی تھا لیکن چونکہ یہ یمن سے مصرمیں آباد ہو گیا تھا اس لئے مصری کہلاتا تھا۔ جیسے مصری صاحب کچھ عرصہ مصر میں ٹھہرنے کی وجہ سے مصری کہلاتے ہیں) انہوں نے بھی حضرت عثمانؓ سے خلافت سے عزل کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ گندے آدمی ہیں‘ آپ جیسا شخص خلافت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اسی گروہ کے آدمیوں نے آپ کو قتل کیا۔ مگر بعد میں جب دیکھا کہ اگر ہم اب بھی مخالف رہے تو مسلمان ہمیں تباہ کر دیں گے جھٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جا ملے اور کہنے لگے اے علی! اُٹھیے اور لوگوں کی بیعت لیجئے اور خلافت کی اس شدت سے تائید کی اور خلافت کی تائید میں اتنی پُرجوش تقریریں کیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اُن کی حقیقت مشتبہ ہو گئی اور وہ ان کو بری خیال کرنے لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت معاویہ نے مطالبہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کا ان لوگوں سے قصاص لیا جائے تو حضرت علیؓ نے کہا یہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں اور دین کا درد رکھنے والے ہیں‘ یہ کس طرح قاتل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد جب حضرت علیؓ کی حضرت معاویہ سے جنگ ہوئی جو جنگِ صَفَّین کہلاتی ہے تو اُس وقت آپ نے لشکر کے تین حصے کر دیئے۔ ایک حصہ کا افسر آپ نے اَلْاَشْتر کو بنایا دوسرے حصہ کا افسر حضرت عبداللہ بن عباس کو اور تیسرے حصہ کو اپنے ماتحت رکھا۔ جو لوگ حضرت علیؓ کے ماتحت تھے وہ کوفی تھے اور ان ہی نے حضرت عثمانؓ کو قتل کیا تھا۔ حضرت علیؓ نے سمجھا یہ لوگ سخت مزاج ہیں یہی بہتر ہے کہ میں خود اِن کی نگرانی کروں۔ مگر ہؤا کیا؟ ہؤا یہ کہ جب آپ کے سپہ سالار اَشْتر نے ایک طرف سے اور حضرت عبداللہ بن عباس نے دوسری طرف سے حملہ کیا تو یہ حملہ انہوں نے ایسی سختی سے کیا کہ شامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے اور اُس کے سپاہی میدانِ جنگ سے بے تحاشہ بھاگنے لگے اور یوں معلوم ہونے لگا کہ چند گھنٹوں میں ہی شامی لشکر کو شکستِ فاش ہو جائے گی ۔ اس کے اکثر سپاہی یا تو مارے جائیں گے یا میدانِ جنگ سے بھاگ جائیں گے اور اس طرح حضرت علیؓ تمام عالَمِ اسلام کے خلیفہ ہو جائیں گے۔ مگر جس وقت حضرت معاویہ کے لشکر کو شکست ہونے لگی تو حضرت عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ کو مشورہ دیا کہ اب مقابلہ کرنا فضول ہے۔ اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ ہمارا ہر سپاہی اپنے اپنے نیزہ پر قرآن اُٹھا لے اور کہے کہ آؤ قرآن کریم سے فیصلہ کر لو۔ جو قرآن فیصلہ کرے گا وہ ہمیں منظور ہو گا چنانچہ حضرت معاویہ نے حُکم دیا اور ہر سپاہی نے اپنے نیزہ پر قرآن کریم بلند کر کے کہنا شروع کر دیا کہ اے مسلمانو! آپس میں لڑ کر اسلام کو کیوں کمزور کرتے ہو آؤ اور قرآن کی رو سے فیصلہ کر لو جو قرآن فیصلہ کرے گا وہ ہمیں منظور ہو گا۔ یہ دیکھتے ہی وہ لشکر جس کی کمان پر حضرت علیؓ تھے اُس نے شور مچانا شروع کر دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ اب جبکہ وہ قرآن کریم سے فیصلہ پر راضی ہیں تو ہمیں نہیں لڑنا چاہئے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض شامیوں نے اِن کوفیوں کو جو حضرت علیؓ کے ماتحت تھے رشوت دی ہوئی تھی اور پہلے سے آپس میں ساز باز کر رکھی تھی کہ جب ہم قرآن بلند کریں تو تم لڑنے سے انکار کر دینا اور کہنا کہ اب لڑائی فضول ہے‘ قرآن سے اِس جھگڑے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حضرت معاویہ نے اِس قسم کا مشورہ دیا ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ حضرت معاویہ کے لشکر کے بعض سرداروں نے اپنی طرف سے اس قسم کی ضرور کوششیں کی تھیں کہ وہ حضرت علی کے لشکر سے ایک حصہ کو ساتھ ملا لیں چنانچہ جب انہوں نے قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کر دیا تو وہ لشکر جس کی کمان حضرت علیؓ کر رہے تھے اُس نے یکدم اپنی تلواریں رکھ دیں اور کہنے لگے لیجئے اب فیصلہ ہو گیا جب قرآن سے وہ اس جھگڑے کا فیصلہ ماننے کیلئے تیار ہیں تو لڑائی سے کیا فائدہ؟ حضرت علیؓ نے کہا وہ پہلے کب کہا کرتے تھے کہ ہم قرآن نہیں مانتے وہ تو پہلے بھی یہی کہا کرتے تھے جو اَب کہتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ آیا قرآن کریم کی آیتوں کے وہ وہی معنی کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں اور اگر وہ ان معنوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں جو ہم کرتے ہیں تو اس جھگڑے کا فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ غرض حضرت علیؓ نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ قرآن کے خلاف ہم کس طرح جا سکتے ہیں اس پر حضرت علیؓ نے کہا وہ دھوکا کر رہے ہیں چنانچہ فرمایا:۔
عِبَادَ اللّٰہِ امْضُوْا عَلٰی حَقِّکُمْ وَصِدْقِکُمْ وَقِتَالِ عَدُوِّکُمْ…… فَاِنِّیْ اِنَّمَا اُقَا تِلُھُمْ لِیَدِیْنُوْا لِحُکْمِ الْکِتَابِ فَأِنَّھُمْ قَدْعَصَوُا اللّٰہَ فِیْمَا اَمَرَھُمْ وَنَسُوْا عَھْدَہٗ وَنَبَذُوْا کِتَابَہٗ۵۹؎
کہ اے اللہ کے بندو! خدا نے جو تمہیں حق دیا ہے‘ خدا نے جو تمہیں سچائی دی ہے اس پر قائم رہتے ہوئے ہتھیار مت پھینکو اور دشمنوں سے لڑائی کرتے چلے جاؤ کیونکہ مَیں جو اِن سے لڑ رہا ہوں یہ اس لئے نہیں کہ وہ قرآن نہیں مانتے بلکہ اس لئے کہ وہ قرآن کے غلط معنی کرتے ہیںانہوں نے خدا تعالیٰ کے ان احکام کی نافرمانی کی ہے جو اُس نے دیئے اور انہوں نے خلافت کی اہمیت کے عہد کو بُھلا دیا اور کتاب اللہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے پس ان سے لڑو اور لڑتے چلے جاؤ۔ مگر ان لوگوں نے چونکہ رشوتیں کھائی ہوئی تھیں اور بعض ان میں سے بیوقوف تھے اس لئے انہوں نے حضرت علیؓ کی کوئی بات نہ سنی۔ حضرت علیؓ نے بہتیرا کہا کہ آخر مَیں ان کو قرآن ہی کی طرف تو بلا رہا تھا اگر وہ اس پر راضی ہوتے تو کیوں پہلے مقابلہ کرتے۔ مگر انہوں نے کہا نہیں تم صرف یہ خود غرضی سے کہتے ہو۔ تمہیں بس اپنی خلافت کا فکر ہے تمہیں اس سے کیا کہ مسلمان تباہ ہوتے ہیں یا بچتے ہیں۔ تم تو اپنی خلافت کو لئے بیٹھے ہو اور تمہیں اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہو رہا ہے۔ حضرت علیؓ نے انہیں پھر سمجھایا مگر وہ پھر بھی نہ مانے اور آخر انہوں نے حضرت علیؓ سے کہا کہ یا تو جنگ فوراً بند کر دو نہیں تو ہم ابھی تم کو عثمانؓ کی طرح قتل کر دیں گے یا پکڑ کر معاویہ کے لشکر کے سپرد کر دیں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا اچھا جس طرح چاہو کرو مگر میرے آج کے انکار کو یاد رکھنا اور اگر میرا کہنا مانتے ہو تو لڑائی جاری رکھو اور اگر میرا کہنا نہیں ماننا اور تم میرے نافرمان ہو چکے ہو تو پھر تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ جو تمہارے جی میں آتا ہے کرو۔ انہوں نے کہا بس اب فیصلہ کا طریق یہی ہے کہ اَلْاشْتر کو فوراً بُلواؤ اور اسے کہو کہ لڑنا چھوڑ دے۔ حضرت علیؓ نے اشتر کی طرف آدمی بھیجا کہ اُسے بُلا لاؤ۔ وہ کہنے لگا کچھ خدا کا خوف کرو کبھی کوئی سپہ سالار کو بھی دشمن کے مقابلہ سے بُلوایا کرتا ہے اگر میں یہاں سے تھوڑی دیر کیلئے بھی چلا گیا تو ہمیں جو فتح ہوئی ہے فوراً شکست سے بدل جاوے گی۔ پس مجھے مت بُلواؤ۔ دشمن کی شکست میں بس تھوڑی دیر ہی رہتی ہے اس کے بعد میں آ جاؤں گا۔ جب وہ آدمی یہ پیغام لے کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچا اور حضرت علیؓ نے بتایا کہ الاشتر نے یہ جواب بھجوایا ہے تو وہ حضرت علیؓ سے کہنے لگے ہم تمہاری چالاکیوں کو جانتے ہیں تم نے جو پیغامبر بھیجا تھا اسے یہ سمجھا کر بھیجا تھا کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے اشتر کی طرف سے جواب آ کر دے دینا۔ حضرت علیؓنے کہا میں تو تمہارے فائدہ کیلئے کہہ رہا ہوں۔ اشتر لڑ رہا ہے اور تھوڑی دیر میں ہی خداتعالیٰ تمہیں فتح دے دے گا۔ تم اسے میدانِ جنگ سے نہ بلاؤ۔وہ کہنے لگے بُلوانا ہے تو فوراً بلواؤ ورنہ ہم ابھی تمہیں قتل کر دیں گے۔ حضرت علیؓ نے آخر پیغامبر کو کہا تم پھر جاؤ اور اَلْاشتر کو سارا حال سنا دو۔ اشتر نے کہا تم یہ تو سوچو میں کتنا بڑھ رہا ہوں (اَلْاَشتر کوئی اچھے اخلاق کا آدمی نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے خلاف جو فتنہ اُٹھا یہ اُس میں شامل تھا مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے اس نے توبہ کر لی۔ یہ لڑائی کے وقت بڑا جوش پیدا کر دیا کرتا تھا اور اس کا طریق یہ تھا کہ یہ نیزہ لیکر دشمن کے لشکر میں گُھس جاتا اور اپنے سپاہیوں سے کہتا اگر مجھے بچانا ہے تو بچا لو چنانچہ وہ دشمن پر ٹُوٹ پڑتے اور اُسے پسپا کر دیتے۔ پھر وہ نیزہ لیکر اور آگے بڑھ جاتا اور دشمن کے لشکر میں گُھس جاتا اور پھر اپنے سپاہیوں سے کہتا اگر مجھے بچانا ہے تو بچا لو اور سپاہی پھر ٹُوٹ پڑتے۔ اس طرح وہ قلبِ لشکر میں گھستا چلا جاتا۔ حضرت علیؓ کو اس پر اتنا اعتماد تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے اگر میرے پاس دو اَشْتر ہوتے تو مجھے یہ تکلیفیں نہ پہنچتیں) پھر اشتر کہنے لگا فتح ہونے میں چند منٹوں کی دیر ہے ابھی میں ان لوگوں کو قتل کر دیتا ہوں یا قید کر کے تمہارے پاس لاتا ہوں تم مجھے چند منٹ کی مُہلت دے دو مگر اِس جواب پر وہ پھر برافروختہ ہو گئے اور انہوں نے کہا بس یا تو اشتر کو بُلواؤ نہیں تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ حضرت علیؓ نے پھر اَشْتر کی طرف پیغامبر بھیجا اور کہا کہ تمہارے سامنے اب دو باتیں ہیں یا تو دشمن پر فتح حاصل کرو اور یا اگرچاہتے ہو تو علی کا سر معاویہ کے خیمہ میں پہنچا دو۔ اشتر نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور میدانِ جنگ سے واپس آ گیا اور اُس نے ان لوگوں کو سخت ڈانٹا اور کہا تم مجھے دس منٹ کی مُہلت دے دو میں ابھی اس مصیبت کا خاتمہ کر دیتا ہوں مگر وہ کہنے لگے ہم ان باتوں کو نہیں جانتے انہوں نے نیزوں پر قرآن اُٹھایا ہؤا ہے اور اب ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی صورت نہیں کہ ہم قرآن سے اپنے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں۔ وہ کہنے لگا نالائقو! تم سے بہتر لوگ حضرت علیؓ کی طرفداری کرتے ہوئے اس جنگ میں مارے گئے ہیں کیا وہ خلافِ قرآن طریق پر چل کر مارے گئے ہیں اور کیا وہ جہنمی ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم کچھ نہیں جانتے۔ جب انہوں نے قرآن اُٹھا لیا تو اور کیا رہا۔ معلوم ہوتا ہے انہوں نے رشوتیں کھائی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ اس قدر ان کی تائید کر رہے تھے یا پھر ممکن ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت عثمانؓ کے قتل کی انہیں یہ سزا مل رہی ہو۔ بہرحال جب معاملہ طُول پکڑ گیا اور وہ اپنے اس ارادہ سے باز نہ آئے تو حضرت معاویہ کے لشکر کی طرف ایک آدمی بھیجا گیا کہ وہ جاکر پوچھ آئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جب اس نے پوچھا تو وہ کہنے لگے بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ کمیشن بیٹھ جائے اور وہ جو فیصلہ کر دے اسے منظور کر لیا جائے۔ گویا فیصلہ تحکیم پر ہؤا یعنی دونوں طرف کے حَکم جو فیصلہ کریں وہ منظور ہو۔ حضرت علیؓ نے اس سے بہت روکا اور فرمایا یہ دین کا معاملہ ہے‘ اس میں کمیشن بٹھانے کا کیا مطلب ہے؟ وہ کہنے لگے کمیشن آخر قرآن کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا قرآن کے خلاف فیصلہ تو نہیں کر سکتا۔ حضرت علیؓ نے کہا اے نالائقو! مَیں نے رسول کریم ﷺ سے قرآن سُنا ہؤا ہے اور میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میری یہ بات مان لو کہ ایسے معاملات میں کمیشن نہ بٹھایا جائے لیکن خوارج باز نہ آئے اور انہوں نے کہا بہتر تجویز یہی ہے کہ کمیشن بیٹھے۔ آخر اہلِ شام نے عمرو بن العاص کو حَکم مقرر کیا اور جب حضرت علیؓ نے ان کوفیوں سے پوچھا کہ ہماری طرف سے کون حَکم ہو گا تو انہوں نے کہا ہماری طرف سے ابوموسیٰ اشعری ہوں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا تم نے ایک بات میں میری نافرمانی کی ہے اب دوسری میں نہ کرو اور میری اس نصیحت کو مان لو کہ ابو موسیٰ اشعری کو حَکم مقرر نہ کرو ۔ وہ کہنے لگے تو پھر اور کس کو مقرر کریں؟ حضرت علیؓ نے کہا عبداللہ بن عباس کو مقرر کر لو۔ وہ کہنے لگے خُوب ابن عباس چونکہ تمہارا رشتہ دار ہے اس لئے تم چاہتے ہو کہ وہ حَکم بنے تا وہ تمہاری تائید میں فیصلہ کرے حضرت علیؓ نے کہا اچھا عبداللہ بن عباس اگر میرا رشتہ دار ہے تو اَشْتر تو رشتہ دار نہیں اسے مقرر کر لو۔ انہوں نے کہا واہ! اَشْتر نے ہی تو سارا فساد کیا ہے اسے حَکم کس طرح مقرر کریں۔ حضرت علیؓ نے کہا پھر جس طرح مرضی ہو کرو اور ابوموسیٰ اشعری تو اتنا سادہ آدمی ہے کہ وہ جاتے ہی پھنس جائے گا۔
مجھے اِس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوفیوں اور شامیوں کے درمیان ضرور کوئی سازش تھی اور رشوت چلی ہوئی تھی ورنہ جب تک سازش نہ ہو اِس قدر اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصرار کرنا ہی بتاتا ہے کہ پہلے سے آپس میں انہوں نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری کو حَکم مقرر کرائیں گے وہ چونکہ زیادہ سمجھدار نہیں اس لئے جس طرح چاہیں گے ان سے منوا لیں گے آخر حضرت علی اور حضرت معاویہ کے لشکر کے درمیان ایک معاہدہ لکھا گیا جس کے الفاظ یہ تھے کہ :۔
ھٰذَا مَاتَقَاضٰی عَلَیْہِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَّ مُعَاوِیَۃُ بْنُ اَبِیْ سُفْیَانَ- قَاضٰی عَلِیٌّ عَلٰی اَھْلِ الْکُوْفَۃِ وَمَنْ مَّعَھُمْ وَقَاضٰی مُعَاوِیَۃُ عَلٰی اَھْلِ الشَّامِ وَمَنْ مُّعَھُمْ- اِنَّنَانَنْزِلُ عِنْدَحُکْمِ اللّٰہِ وَکِتَابِہٖ و اَنْ لاَّیَجْمَعَ بَیْنَنَا غَیْرُہٗ و اَنَّ کِتَابَ اللّٰہِ بَیْنَنَا مِنْ فَاتِحَتِہٖ اِلٰی خَاتِمَتِہٖ- نُحْیِیْ مَا أحْیَا وَنُمِیْتُ مَا اَمَاتَ فَمَا وَجَدَ الْحَکَمَانِ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ وَھُمَا اَبُوْمُوْسٰی عَبْدُاللّٰہِ بْنُ قَیْسٍ وَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ عَمِلَابِہٖ وَمَا لَمْ یَجِدَاہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَالسُّنَّۃَ الْعَادِلَۃَ الْجَامِعَۃَ غَیْرَ المُفَرَّقَۃِ۔۶۰؎
یعنی یہ وہ اقرار نامہ ہے جو علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان کے درمیان لکھا گیا ہے حضرت علی نے اہلِ کوفہ اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک حَکم مقرر کیا ہے اسی طرح معاویہ نے اہلِ شام اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو اُن کے ساتھ ہیں ایک حَکم مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اُس کے حُکم کو قاضی قرار دے کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے حُکم اور خداتعالیٰ کی کتاب کے حُکم کے سِوا ہم کسی اور بات کا اس معاملہ میں دخل نہیں ہونے دیں گے اور یہ کہ ہم سورۃ فاتحہ سے لے کر والناس تک تمام قرآن شریف کو مانتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن کریم جن کاموں کے کرنے کا ہمیں حُکم دے گا ہم ان کی تعمیل کریں گے اور جن سے منع کرے گا اُن سے رُک جائیں گے۔ دونوں حَکم جو مقرر ہوئے ہیں وہ ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اور عمرو بن العاص ہیں یہ دونوں جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے اور اگر کتاب اللہ میں نہیں پائیں گے تو سنّت عادلہ جامعہ غیر مختلف فیھا پر عمل کریں گے۔
ہاں ایک تیسری بات جس سے کوفیوں اور شامیوں میں سازش کا پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ جب حضرت علیؓ نے کہا کہ یہ کمیٹی فلاں جگہ بیٹھ جائے اور معاملات پر غور و خوض کرے تو حضرت علیؓ کے ساتھی کہنے لگے ہم تو اِس کمیٹی کو شام کے قریب بٹھائیں گے تا اس پر تمہارا اثر نہ ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ درحقیقت معاویہ کے ساتھ تھے اور محض فتنہ پیدا کرنے کیلئے حضرت علیؓ سے ملے ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے اپنے لشکر سے اور حضرت معاویہ نے اپنے لشکر سے اس بات کا اقرار لیا کہ فیصلہ سنانے کے بعد حَکمین کے جان و مال اور اہل وعیال سب محفوظ رہیں گے اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی۔ چنانچہ دونوں لشکروں نے اس کا اقرار کیا مگر ابھی اس معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک فریق انہی میں سے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا دین کے معاملہ میں کمیشن کیسا؟ کیا ہم نے ان دو شخصوں کے ہاتھ میں اپنا ایمان بیچ دیا ہے کہ یہ جو کچھ کریں گے وہ ہمیں منظور ہو گا۔
حضرت علیؓ نے کہا میں نے تو تمیں پہلے کہہ دیا تھا اور اس تحکیم سے روکا تھا۔ وہ کہنے لگا تو پھر زور سے ہمیں روکا کیوں نہیں؟ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ اگر ہم جھوٹ کی تائید کریں گے تو تم بھی تائید کر دو گے؟ میں اس واقعہ سے بھی سمجھتا ہوں کہ ان دونوں لشکروں کی ضرور آپس میں سازش تھی کیونکہ پہلے انہوں نے یہ شور مچایا کہ کمیشن مقرر کرو۔ اگر کمیشن مقرر نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے راز فاش ہونے سے ڈرتے ہو اور جب ان کے اصرار پر کمیشن مقرر کر دیا گیا تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کیا ہم نے ان دونوں کے ہاتھ میں اپنے ایمان بیچ دیئے ہیں دین کے معاملہ میں تحکیم کیسی؟ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بوڑھا شخص تھا جس کی یہ عادت تھی کہ وہ شادیاں کرتا اور پھر معمولی سی بات پر عورت کو طلاق دے کر الگ کر دیتا اور اس کا جو کچھ مال ہوتا وہ اپنے قبضہ میں کر لیتا۔ وہ پہلے ہی مالدار تھا مگر اس طریق سے اس کے پاس اور بھی زیادہ مال جمع ہو گیااور لوگ بھی اس لالچ میں کہ اگر کَل یہ بُڈھا مر گیا تو مال ہمیں مل جائے گا اس سے اپنی لڑکیاں بیاہ دیتے مگر وہ تھوڑے ہی دنوں میں طلاق دے دیتا۔ آخر ایک عورت نے جو بڑی چالاک تھی اس سے شادی کی چند دن تو گزرے مگر آخر اس نے چاہا کہ اسے بھی طلاق دے دے لیکن اسے کوئی نقص معلوم نہ ہؤا اور عورت نے ایسی عمدگی سے گھر کا کام چلایا کہ وہ کوئی نقص معلوم نہ کر سکا۔ ایک دن وہ سخت تنگ آ گیا اور کہنے لگا یہ مرتی بھی نہیں اور اس کے کام میں کوئی نقص بھی نہیں ہوتا کہ اسے طلاق دوں‘ کیا کروں۔ مگر پھر تھوڑی دیر کچھ سوچ کر باورچی خانہ میں چلا گیا اور اپنی عورت سے کہنے لگا آج میں یہیں کھانا کھاؤں گا۔ اس نے کہا شوق سے بیٹھئے اور کھانا کھائیے۔ وہ وہیں بیٹھ گیا اور عورت نے پُھلکے پکانے شروع کر دیئے۔ یہ دیکھ کر وہ بُڈھا کھڑا ہو گیا اور اس نے جوتا ہاتھ میں لیکر اس کے سَر پر مارنا شروع کر دیا اور کہا یہ خباثت؟ روٹیاں تو تو ہاتھ سے پکاتی ہے کُہنیاں کیوں ہلتی ہیں؟ وہ عورت تھی بڑی ہوشیارکہنے لگی صاحب! آپ خاوند اور میں بیوی۔ جوتی جس وقت چاہیں مار لیں مگر دیکھیں غصہ سے معدہ خراب ہوتا ہے اور آپ کی عمر ایسی نہیں کہ معدہ کی کوئی تکلیف آپ برداشت کر سکیں۔ آپ کھانا کھا لیجئے۔ کھانا کھانے کے بعد جتنا چاہیں مجھے مار لیں۔ خیر یہ بات اُس کی سمجھ میں بھی آ گئی اور اس نے دل میں یہ خیال کر لیا کہ چلو ایک حق تو قائم ہو ہی گیا ہے بعد میں اسے مار لیں گے۔چنانچہ اُس نے روٹی کھانا شروع کر دی مگر ابھی اُس نے چند لُقمے ہی کھائے تھے کہ عورت نے اُچک کر جوتا اُٹھایا اور تڑاق سے اس کے سر پر مارنا شروع کر دیا اور کہا کمبخت! روٹی تو تو منہ سے کھاتا ہے تیری داڑھی کیوں ہلتی ہے؟
پس جس طرح وہ بڈھا کبھی کوئی بہانہ تلاش کرتا تھا اور کبھی کوئی۔ یہی حال خوارج کا تھا۔ جب انہوں نے کمیشن کا مطالبہ کیا اور حضرت علیؓ نے انکار کیا تو کہنا شروع کر دیا کہ دیکھا یہ قرآن نہیں مانتے۔ شامیوں نے اپنے نیزوں پر قرآن اُٹھائے ہوئے ہیںاور یہ اپنی بات پر ضد کئے ہوئے ہیں۔ اور جب کمیشن کا تقرر تسلیم کر لیا تو کہنا شروع کر دیا کہ دین کے معاملہ میں کمیشن کیسا‘ ہم کوئی کمیشن کے تابع ہیں کہ اس کی بات مان لیں؟ یہی حال مَیں سمجھتا ہوں مصری پارٹی کا بھی ہے۔ میں نے تو حضرت علی ؓکے واقعات دیکھتے ہوئے کمیشن کا تقرر تسلیم ہی نہیں کیا لیکن اگر مَیں تسلیم کر لیتا تو پھر یہی لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے کہ جب خود انہوں نے کمیشن تسلیم کر لیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی شُبہات ہیں ورنہ دین کے معاملہ میں کمیشن کیسا۔
غرض معاہدہ لکھا گیا اور لشکر ایسی حالت میں لَوٹا کہ اس میں لڑائی تھی اور بُغض ظاہر تھا۔ ایک کہتا جب انہوں نے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا تو اس کے بعد اور کیا رہا پس یہی طریق فیصلہ تھا کہ لڑائی بند کی جاتی اور ایک ایسا کمیشن مقرر کیا جاتا جو کتاب اللہ کے ماتحت ہمارے درمیان فیصلہ کرتا۔ دوسرا کہتا کہ خدا کی باتوں میں کسی انسان کا فیصلہ ماننے کے کیا معنی ہیں کیا خداتعالیٰ کے احکام کے بارے میں بھی آدمیوں میں فیصلے ہؤا کرتے ہیں۔ آخر اسی بحث و تمحیص میں جب حضرت علیؓ کوفہ میں پہنچے تو وہ لوگ جو تحکیم کے مخالف ہو گئے تھے وہ کوفہ میں داخل نہ ہوئے بلکہ حضرت علیؓ کے لشکر سے الگ ہو کر حروراء میں چلے گئے۔ وہ بارہ ہزار آدمی تھے ان سب نے کہا کہ ہم علیؓ کے ساتھ جانے کیلئے تیار نہیں جو دین کے معاملہ میں آدمیوں کا فیصلہ ماننے کیلئے تیار ہو گیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ امیرِ جنگ شبت بن ربعی التمیمی ہو گا۔ ’’اَمِیْرَ الصَّلٰوۃِ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ الْکُوَّاالْیَشْکُرِیُّ وَالْاَمْرُ شُوْرٰی بَعْدَ الْفَتْحِ وَالبَیْعَۃُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَالْاَمْرُبِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘۔ ۶۱؎ یعنی معاملات کو مشورہ سے طے کیا جائے گا۔ بیعت خدائے عَزَّوَجَلَّ کی ہو گی اور ہمارا کام نیک باتوں کاحُکم دینا اور بُری باتوں سے روکنا ہو گا۔ کوئی شبہ کر سکتا ہے کہ شاید یہ لوگ جو تحکیم کے مخالف تھے یہ کوئی اور تھے اور جنہوں نے تحکیم کی تائید کی تھی وہ کوئی اور ہوں گے۔ مگر تاریخ سے ایک اور ایک دو کی طرح ثابت ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ضرور فیصلہ اسی طرح ہونا چاہئے کہ ایک کمیشن مقرر ہو جو قرآن کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ مستقل رہے ان کی یہ حالت تھی کہ حضرت علیؓ خطبہ پڑھانے کیلئے آئے تو وہ ایک جوش کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ہم آپ کی دوبارہ بیعت کرتے ہیںاور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ جس کے آپ دوست ہوں گے اس کے ہم دوست ہوں گے اور جس کے آپ دشمن ہوں گے اس کے ہم دشمن ہوں گے۔ جب انہوں نے یہ کہا تو حروری کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اہلِ شام اور تم دونوں کافر ہو کیونکہ تم انسانوںکی فرمانبرداری کا کُلّی وعدہ کرتے ہو‘ اور یہ بے دینی اور شرک ہے۔ اس پر ایک شخص نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو تمہاری شرارت کے جواب میں کہا گیا ہے۔ ورنہ علیؓ نے تو ہم سے یہی بیعت لی ہے کہ کتاب و سنت پر عمل ہو گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ھُوَعَلَی الْحَقِّ وَالْھُدٰی وَ مَنْ خَالَفَہٗ ضَالٌّ مُضِلٌّ ۶۲؎ کہ آپ صداقت اور ہدایت پر ہیں اور جو شخص آپ کی خلافت کا مخالف ہے وہ گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے۔
جب یہ فتنہ بڑھنے لگا تو حضرت علیؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس کو خوارج کو سمجھانے کیلئے مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ بحث نہ کریں مگر حضرت عبداللہ بن عباس میں کچھ جوانی کا جوش تھا اور کچھ وہ اپنے آپ کو فقیہہ بھی سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ میں کسی سے کیا کم ہوں۔ جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں کے اعتراضوں سے کچھ پریشان سے ہو گئے اور دلیل دینے لگے۔ حضرت علیؓ کا نقطہ نگاہ تو یہ تھا کہ میں نے کمیشن مقرر نہیں کرایا بلکہ تم نے کمیشن مقرر کرایا ہے۔ اورتم ہی اس پر اصرار کرتے تھے مگر حضرت عبداللہ بن عباس کے سامنے جب انہوں نے کمیشن کا معاملہ پیش کیا اور کہا کہ ہم علیؓ کی کس طرح اتباع کر سکتے ہیں جبکہ اُس نے دین کے معاملہ میں کمیشن مقرر کر دیا حالانکہ دینی امور کا فیصلہ انسان نہیں کیا کرتے بلکہ خدا فیصلہ کیا کرتا ہے۔ تو وہ کہنے لگے بعض امور میں کمیشن بٹھانا جائز بھی ہوتا ہے۔ دیکھو قرآن کریم میں آتا ہے کہ احرام کی حالت میں اگر کوئی عمداً شکار کرے تو دو حَکم مقرر کئے جائیں اور وہ ایسا ہی جانور اس سے قربانی دلائیں یا اس شکار کی قیمت کا کھانا مساکین کو کھلایا جائے یا روزے رکھے جائیں۔ اس پر خوارج کہنے لگے اچھا اچھا خلافت کا معاملہ گویا خرگوش یا بکری کے برابر ہو گیا۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے فرمایا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ان لوگوں سے بحث نہ کرنا دیکھا بحث کا کیا نتیجہ نکلا۔
پھر حضرت علیؓ ان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا اے لوگو! سنو، کیا میں نے تم کو اس تحکیم سے منع کیا تھا یا نہیں کیا تھا اور تم اس پر اصرار کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت علیؓ نے کہا یہ سچ ہے یا نہیں کہ جب تم نے مجھے مجبور کیا تو میں نے انکار کرتے ہوئے اس کی اجازت دی مگر یہ شرط کر دی کہ وہی حُکم قابل قبول ہو گا جو قرآن کریم کے مطابق ہو گا اور اگر قرآن کریم کے خلاف ہؤا تو تم اور ہم اس سے بری ہوں گے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا۔ پھر تم میری مخالفت اب کیوںکرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم مانتے ہیں کہ تو نے ہمارے کہنے پر کمیشن مقرر کیا تھا لیکن ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے اس معاملہ میں سخت گناہ کیا اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ کر لی اور چونکہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اس لئے ہمارے گناہ معاف ہو گئے آپ بھی توبہ کر لیں۔ حضرت علی نے کہا کچھ شرم کرو۔ میں رسول کریمﷺ کے ساتھ رہاہوں اور میں جانتا ہوں کہ اسلامی مسائل کیا ہیں اور کب کوئی فعل گناہ ہوتا ہے اور کب نہیں۔ تم مجھے کیا سمجھاتے ہو انہوں نے کہا کچھ ہو آپ نے یہ کبیرہ گناہ کیا ہے کہ دین کے معاملہ میں کمیشن مقرر ہونے دیا اور چونکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب خلیفہ نہیں رہ سکتا اس لئے آپ توبہ کر لیں تب آپ کو خلیفہ مانیں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا میں تو سارے ہی گناہوں سے توبہ کرتا رہتا ہوں اس پر دو ہزار آدمی جو معلوم ہوتا ہے کچھ سمجھدار یا نیک تھے واپس آ گئے اور انہوں نے کہا کہ اب بات ہماری سمجھ میں آ گئی ہے ہم ہی غلطی پر تھے مگر باقی نے پھر بھی واپسی سے انکار کیا۔
میں نے ایک تاریخ میں پڑھا ہے مگر اب حوالہ یاد نہیںکہ خوارج یہ کہتے تھے کہ جب علیؓ نے توبہ کی تو گویا گناہ کا اقرار کیا اور چونکہ گنہگار خلیفہ نہیں ہو سکتا اس لئے اب دوبارہ ہم جسے چاہیں امیر مقرر کریں۔
حضرت علیؓ نے ان لوگوں کا نام حروریہ رکھا (جیسے آج کل کچھ لوگ احراری کہلاتے ہیں) مگر وہ اپنے آپ کو شراۃ کہتے تھے یعنی انہوں نے دنیا دے کر آخرت کو خرید لیا ہے۔ جیسے مصری صاحب بھی کہتے ہیں کہ میں نے خدا کیلئے اپنی نوکری پر لات مار دی اور ذرا بھی اس بات کی پرواہ نہ کی کہ بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے عبداللہ بن وہب کی بیعت کر لی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بیعت کے مخالف نہیں تھے بلکہ بیعتِ خلافت کے مخالف تھے اور ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ قوم خلیفہ کی نگران ہے اور جب چاہے اس پر الزام لگا کر اس سے الگ ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ کوفہ سے بصرہ کی طرف گئے اور وہاں کے خوارج کو ساتھ لیتے ہوئے نہروان چلے گئے (جو بغداد اور واسطہ کے درمیان مشرقی جانب ایک علاقہ ہے۔ اس نام کا ایک گاؤں بھی ہے جس کے درمیان نہر جاری ہے)
حضرت علیؓ نے ان سے متواتر خط و کتابت کی کہ جماعت میں داخل ہو جائیں لیکن وہ اس سے اور اِترا گئے اور سمجھنے لگے کہ ہمارے اندر بھی کوئی خوبی ہے اور پھر اس حد تک بڑھ گئے کہ حضرت خبابؓ جو اَلسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ صحابہؓ میں سے تھے اور جن کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ انہوں نے پہلے بیعت کی یا بلالؓ نے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک غلام اور ایک حُرّ نے مجھے سب سے پہلے قبول کیا۔ بعض لوگ اس سے حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکرؓ مراد لیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خبابؓ ہیں۔ بہرحال حضرت خبابؓ اور جو اوّلین صحابہؓ میں سے تھے ان کے بیٹے عبداللہ اور ان کی بیوی ایک دفعہ نہروان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کی نسبت آپ کا خیال کیا ہے؟ حضرت عبداللہ کہنے لگے میں جواب تو دیتا ہوں مگر دیکھنا ناراض نہ ہونا۔ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ ہم ناراض نہیں ہوں گے۔ حضرت عبداللہ نے کہا ابوبکر ؓاور عمرؓ بڑے اچھے آدمی تھے اور ان میں کوئی عیب نہیں تھا۔ پھر انہوں نے حضرت عثمانؓ کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ نے ان کی بھی تعریف کی۔ پھر انہوں نے حضرت علیؓ کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا آپ بھی بڑے اچھے آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں یہ بتاؤ جب فتنہ پیدا ہؤا اُس وقت کیسے تھے اور فتنہ سے پہلے کیسے تھے؟ یہ لوگ چونکہ اپنی بیعت فسخ کرنے کی بڑی وجہ یہی بیان کیا کرتے تھے کہ پہلے حضرت علیؓ بڑے اچھے تھے مگر بعد میں جب ان میں نقائص پیداہو گئے تو ان نقائص کی وجہ سے ہم ان سے الگ ہو گئے۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ بھی پہلے بڑے اچھے تھے مگر بعد میں خراب ہو گئے اور ہمیں اپنی بیعتیں فسخ کرنی پڑیں اس لئے انہوں نے سوال کیا کہ یہ بتاؤ علی فتنہ سے پہلے کیسے تھے اور فتنہ کے بعد کیسے ہیں؟ حضرت عبداللہ نے کہا پہلے بھی اچھے تھے اور اب بھی اچھے ہیں۔ غرض جب انہوں نے چاروں خلفاء کی تعریف کی تو خورارج ان سے کہنے لگے تو تو کافر ہے اور یہ کہتے ہوئے چُھری سے ان کا پیٹ پھاڑ دیا۔ پھر ان کی بیوی جو حاملہ تھیں ان کا پیٹ بھی انہوں نے پھاڑ دیا اور بچہ جو آٹھ ماہ کے قریب تھا اُس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے مگر باوجود اس وحشت اور بربریت کے ان کو تقویٰ کا بڑا دعویٰ تھا چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے گری ہوئی کھجور کھا لی تو اس سے تُھکوائی۔ ایک ذمّی نے اپنی کھجوروں کا درخت پیش کیا تو کہا کہ بغیر قیمت نہ لیں گے۔ ایک ذمّی کا کسی نے خنزیر زخمی کر دیا تو اُس سے معافی منگوائی لیکن مسلمان عورتوں تک کو ذبح کر دیتے اور اپنے اس فعل پر ذرا بھی ندامت اور شرم محسوس نہ کرتے۔ انہی لوگوں میں سے ایک شخص ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس گیا اور کہا میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہاں دریافت کرو۔ وہ کہنے لگا یہ بتائیے اگر کوئی شخص حج کیلئے جائے اور اس نے احرام باندھا ہؤا ہو اور اُس سے غلطی سے کوئی مچھر مر جائے تو اس کا کیا کفارہ ہو گا؟ بعض روایتوں میں مچھر کی بجائے یہ ذکر آتا ہے کہ اس نے کہا کہ اگر احرام کی حالت میں کسی سے مکھی مر جائے تو کیا کفارہ دے؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا میں تیرے اس سوال سے خوب سمجھتا ہوں کہ تو کون ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تو خارجیوں سے تعلق رکھتا ہے سو سنو! جب تم نے خدا تعالیٰ کے مقدس رسول کی پیاری بیٹی کی اولاد کو جس کی نسبت رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے ذبح کیا تھا تو کیا تم اس وقت مجھ سے فتویٰ پوچھنے آئے تھے کہ آج تم یہ فتویٰ پوچھنے لگے ہو کہ اگر احرام کی حالت میں تم سے مکھی مر جائے تو کیا کفارہ ہے۔ غرض ظلم اور قتل اور بے دینی کے ساتھ ان کو تقویٰ کا بھی دعویٰ تھا اور اس طرح متضاد باتیں ان میں جمع تھیں۔
حضرت علیؓ کو جب یہ خبر پہنچی کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن خبابؓ اور ان کی بیوی کو قتل کر دیا ہے تو اس کی تحقیق کے لئے انہوں نے الحارث بن مرّہ کو بھیجا مگر انہوں نے ان کو بھی قتل کر دیا۔ آخر حضرت علیؓ کو ان لوگوں کے مقابلہ کیلئے نکلنا پڑا مگر جب آپ مقابلہ کیلئے نکلے تو ایک اور واقعہ ایسا پیش آیا جس سے ان لوگوں کی سازش کا بخوبی پتہ چلتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کے بعض آدمی رشوت دے کر خریدے ہوئے تھے۔ چنانچہ جب آپ گھوڑے پر سوار ہوئے تو ایک شخص دَوڑتا ہؤا آیا اور اس نے آپ کے گھوڑے کی لُگام پکڑ لی اور کہنے لگا حضور! میں نے نجوم دیکھے ہیں اور مجھے معلوم ہؤا ہے کہ یہ سفر بڑا منحوس ہے آپ اس پر نہ جائیں حالانکہ وہ صحابہؓ کے قریب کا زمانہ تھا اور اس قسم کے توتوہمّات ابھی مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے کہا میں ان باتوں کو نہیں مانتا اور یہ کہتے ہوئے آپ مقابلہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے جب آپ وہاں پہنچے تو آپ نے قیس بن سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھجوایا کہ حضرت عبداللہ بن خبابؓ کے قاتل کو ہمارے سپرد کر دو۔ مگر انہوں نے کہا ہم سب نے ان کو قتل کیا ہے کوئی ایک شخص قاتل نہیں۔ پھر حضرت علیؓ خود گئے اور آپ نے چاہا کہ انہیں سمجھائیں کہ اسلام کی عظمت اور اس کی ترقی میں روک مت بنو اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا نہ کرو مگر انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال لیں اور شور مچا دیا کہ ان کی بات نہ سنو اور مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ آخرلڑائی ہوئی اور کثرت سے خوارج مارے گئے جن میں ان کا لیڈر عبداللہ بن وہب بھی تھا اور زید بن حصین اور حُرقوص بھی تھے۔ اس کو جنگ نہروان کہتے ہیں اور وَقْعَۃُ یَوْمِ النَّھْرِ بھی کہتے ہیں کیونکہ نہر کے کنارے یہ جنگ ہوئی تھی۔ جب لڑائی ختم ہو گئی تو حضرت علیؓ نے اپنے سپاہیوں سے کہا۔ جاؤ اور ان مُردوں میں ایک ایسے شخص کی لاش تلاش کرو جس کے ہاتھ میں نقص ہے وہ گئے اور انہوں نے تلاش کی مگر ایسی کوئی لاش نہ ملی اور انہوں نے واپس آ کر کہا کہ ہمیں کوئی ایسی لاش نہیں ملی۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور جا کر تلاش کرو کہ ایسی لاش تمہیں مل کر رہے گی اور پھر گئے اور ناکام واپس آئے آپ نے فرمایا جاؤ اور جا کر تلاش کرو۔ آخر جب تیسری بار وہ لوگ گئے تو انہیں ان مُردوں میں ایک ایسے شخص کی لاش بھی مل گئی جس کے ایک ہاتھ میں نقص تھا اور گوشت کا ایک لوتھڑا اُس پر اُٹھا ہؤا تھا۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا مجھے رسول کریم ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ اے علی! ایک دن کچھ لوگ تیرے خلاف بغاوت کریں گے اور اُس وقت تیرے مقابلہ میں جو لوگ ہوں گے ان میں ایک ایسا شخص بھی ہو گا جس کے ہاتھ میں نقص ہو گا۔ پھر آپ نے فرمایا وَاللّٰہِ مَا کَذَبْتُ وَلاَ کُذِبُتَ۔ ۶۳؎ خدا کی قسم! میں نے اس وقت جھوٹ نہیں بولا تھا جب میں نے تم سے کہا تھا کہ ایسی لاش تمہیں مل کر رہے گی اور نہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے جھوٹی بات کہی تھی یہ واقعہ ۳۷ھ میں ہؤا ۔ اور ۳۸ھ میں کوفہ میں جو لوگ مخفی طور پر خوارج کے ساتھ تھے وہ نہروان کے بچے ہوئے لوگوں سے آ ملے اور نخیلہ میں آ کر جمع ہو گئے۔ (یہ جگہ شام اور کوفہ کے درمیان کوفہ کے قریب ہے) حضرت علیؓ نے پھر عبداللہ بن عباس کو انہیں سمجھانے کیلئے بھیجا لیکن باوجود بار بار سمجھانے کے نہ مانے آخر حضرت علیؓ نے دوبارہ ان پر حملہ کیا اور ان میں سے اکثر کو قتل کر دیا۔
اس کے بعد اسی ۳۸ھ میں خریت بن راشد من بنی ناجیہ نے جو شروع سے حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور آپ کا بڑا مقرب سمجھا جاتا تھا آپ کے خلا ف خروج کیا اور آپ کی مجلس میں آ کر کہنے لگا اے علیؓ! میں آپ کی بات آئندہ نہیں مانوں گا اور نہ آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور کَل آپ سے جُدا ہو جاؤں گاکیونکہ تم کافر ہو چکے ہو حضرت علیؓ نے اسے بہتیرا سمجھایا مگر وہ نہیں مانا اور بار بار یہی کہتا رہا کہ آپ نے انسانوں سے فیصلہ کرایا ہے اس لئے آپ اب اس عہدہ کے قابل نہیں رہے۔ اس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ تیری ماں تجھ پر روئے اس صورت میں اِذَاتَعْصِیْ رَبَّکَ وَتَنْکُثُ عَھْدَکَ وَلَاتُضُرُّاِلاَّ نَفْسَکَ۔۶۴؎
تب تو اپنے ربّ کی نافرمانی کرنے والا اور اپنے عہد کو توڑنے والا ہو گا اور تو اپنی جان کے سِوا اور کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ پھر آپ نے پوچھا آخر اس علیحدگی کی وجہ کیاہے؟ تواس نے تحکیم کو بطور وجہ بیان کیا۔ حضرت علیؓ نے اسے کہا کہ آ! مجھ سے سن مَیں رسول کریم ﷺ کا شاگرد ہوں اور میں تجھ پر قرآن اور حدیث سے ثابت کر سکتا ہوں کہ تیرا یہ فعل نادرست ہے مگر اس نے کہا میں سننے کیلئے تیار نہیں۔ اور اپنی قوم کو لے کر راتوں رات نکل گیا۔ اُس وقت کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ خریت کے مقابلہ میں خاموش کیوں ہو گئے تھے؟ آپ نے فرمایا میں بُزدل نہیں ہوں اور میں کبھی لڑائی سے نہیں گھبرایا مگر جب یہ لوگ مجھے دھمکی دے رہے تھے کہ ہم تجھے قتل کر دیں گے اُس وقت میرا نفس مجھے شرمندہ کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے مقابلہ کی ضدّ میں آ کر تو ان سے لڑنا شروع کر دے اور رسول کریم ﷺ کے نواسوں کو شہید کرا دے۔
جب یہ خریت بن راشد وہاں سے نکلا تو اسے راستے میں ایک ایرانی نو مُسلم ملا اور اس نے اس سے پوچھا کہ علیؓ کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا وہ امیرالمؤمنین ہیںاور بڑے نیک آدمی ہیں۔ اس پر خریت نے اس ایرانی نو مُسلم کو یہ کہتے ہوئے قتل کر دیا کہ تو کافر ہے۔ پھر ایک کافر ملا تو اس نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں ایک کافر رعایا ہوں وہ کہنے لگا اچھا پھر تجھے مارنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔
آخر یہ لوگ رامہرمز چلے گئے جو اہواز کا شہر ہے اور وہاں ان کے ساتھ باقی خوارج بھی آ ملے۔ علاوہ ازیں ایران کے کفار اور نصاریٰ اور مرتدین اور زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کی ایک جماعت بھی ان سے آ ملی اور ایک بڑا لشکر ہو گیا۔ حضرت علیؓ نے ان کے مقابلہ کیلئے معقل بن قیس الریاحی کو بھیجا۔ انہوں نے جنگ کی اور جنگ میں خریت مارا گیا۔ کفار قید کئے گئے اور زکوٰۃ جمع کی گئی۔
اس کے بعد یہ لوگ مکہ میں مخفی جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ حضرت علیؓ کا کُھلا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے اس لئے مخفی حملہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ تین آدمی جائیں اور اکیس رمضان کو ایک ہی دن حضرت علی‘ حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ عبدالرحمن بن ملجم کو حضرت علیؓ کے قتل کرنے کیلئے اور حجاج بن عبداللہ الصُّرَیْمِیّ المعروف بالبُرَکِ کو معاویہ کے قتل کیلئے اور عمرو بن بکرالتمیمی کو عمرو بن عاص کو قتل کرنے کیلئے مقرر کیا۔
حضرت علی صبح کی نماز کے وقت لوگوں کو نماز میں شامل کرنے کیلئے محلہ میں چکر لگایا کرتے تھے۔ ۲۱۔ رمضان کو صبح کے وقت جب آپ محلہ کا چکر لگا رہے تھے تو عبدالرحمن نے ان پر حملہ کیا اور تلوار مار کر سر کو شدید زخمی کر دیا۔حضرت علیؓ کو جب یہ زخم لگا تو آپ نے فرمایا فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ یعنی زخم ایسا کاری لگا ہے کہ اب اس سے جانبر نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ نے فرمایا اس شخص کو پکڑ لو۔ اُس نے دوسرے مسلمانوں پر بھی حملہ کیا مگر مغیرہ بن نوفل نے اس پر اپنی چادر ڈال دی اور پھر اُٹھا کر زمین پر دے مارا اور دوسرے لوگوں نے باندھ لیا۔ جب حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ اے امیرالمؤمنین! اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا اگر میں زندہ رہا تو خود فیصلہ کروں گا اور اگر مر گیا تو تمہاری جس طرح مرضی۔ آخر تیسرے دن آپ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔
بُرک نے حضرت معاویہ پر اسی تاریخ کو حملہ کیا لیکن چونکہ ان کا پہر ہ مضبوط تھا اور شام میں رہنے کی وجہ سے وہ بڑے محتاط تھے اور ہمیشہ اپنے اردگرد پہرہ رکھتے اس لئے وہ آدمی اپنے حملہ میں ناکام رہا۔ انہیں صرف معمولی زخم لگا۔ یعنی آپ کے سرین کی ایک چھوٹی سی رگ کاٹی گئی۔ اس سے زیادہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوئی اور بُرک پکڑا گیا۔ (ضمناً اس جگہ میں یہ بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں نماز کے وقت جو پہرہ ہوتا ہے لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں بلکہ ان میں سے بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے جو اَب مصری پارٹی میں شامل ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں بھی ایسے ہی ناپاک ارادے تھے اور وہ یہ دیکھ دیکھ کر جلتے تھے کہ پہرہ کی وجہ سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے مگر جیسا کہ آپ لوگوں کو اس واقعہ سے معلوم ہو گیا ہو گاحضرت معاویہ بھی پہرہ رکھا کرتے تھے اور کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا تھا)
عمرو بن عاص اُس دن بیمار تھے اور وہ نماز کو گئے ہی نہیں لیکن اُن کے گھر سے اُس وقت ایک شخص خارجہ بن ابی حبیبہ نکلا جسے عمرو بن بکرالتمیمی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہی عمرو بن عاص ہیں قتل کر دیا۔ جب اسے پکڑ کر لوگ عمرو بن عاص کے پاس لے گئے اور اس نے دیکھا کہ جو شخص وہاں آتا ہے وہ کہتا ہے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ! تو وہ آنکھ اُٹھا کر کہنے لگا۔ میں نے کس کو مارا ہے کیا میں نے عمرو بن عاص کو نہیں مارا؟ جب لوگوں نے اُسے بتایا کہ نہیں بلکہ تو نے خارجہ کو مارا ہے تو بے اختیار اُس کی زبان سے یہ فقرہ نکلا کہ اَرَدْتُ عَمْرًا اَرَادَاللّٰہُ خَارِجَۃَ میں نے تو عمرو کا اردہ کیا تھا مگر خدا نے خارجہ کا ارادہ کیا اور اس کے بعد یہ فقرہ ایک ضرب المثل بن گیا۔ اب اگر کسی نے یہ کہنا ہو کہ میں نے تو فلاں کام کا ارادہ کیا تھا مگر خدا نے نہ چاہا اور فلاں کام ہو گیا تو عربی زبان میں وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اَرَدْتُ عَمْرًا اَرَادَاللّٰہُ خَارِجَۃَ
۴۲ھ میں خوارج نے پھر زور کیا اور پہلے لیڈر کے مارے جانے پر مُسْقوِردْ کی بیعت کی۔ اس کے بعد کے حالات سے ہمیں زیادہ بحث نہیں اس لئے میں اس حد تک ہی ان کے حالات بتاتا ہوں۔
اب میں ان لوگوں کے مذہبی پہلو کو لیتا ہوں اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ان لوگوں کی ابتدا تحکیم سے ہوئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شامیوں نے جو مغربی سیاست کی تعلیم پا چکے تھے‘ اندر ہی اندر رشوتوں سے حضرت علیؓ کے لشکر میں سے بعض کو اس امر کیلئے تیار کیا ہؤا تھا کہ اگر شکست ہونے کا خطرہ ہؤا تو ہم قرآن بلند کر دیں گے‘ تم اُس وقت ہماری تائید کے لئے کھڑے ہو جانا اس طرح مسلمانوں کا کمزور طبقہ ہمارے ساتھ مل جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے تائید کی اور قرآنی حکم کو ماننے کے پسندیدہ خیال نے ایک گروہ کو جو حضرت عثمانؓ کے وقت سے اعتراض کرنے کی عادت ڈال چکا تھا‘ جادۂ صواب سے پِھرا دیا اور انہوں نے ان رشوت خوروں کی تائید کرنی شروع کر دی لیکن جونہی ان کے کہنے سے کمیشن کا فیصلہ ہو گیا جو لوگ بے وقوف عابد تھے انہیں غلطی محسوس ہوئی اور وہ تحکیم کے خلاف ہو گئے اور حضرت علیؓ سے کہنے لگے کہ تم نے گناہ کیا ہے اور ایک جُرم کا ارتکاب کیا ہے اور جو لوگ شرارتی تھے انہوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر فتنہ کو ہوا دینی شروع کر دی لیکن اب حضرت علیؓ کو وعدہ کے ایفاء کے خیال نے پیچھے ہٹنے سے روکا۔ اور ان لوگوں کے دلوں میں جو یہ سمجھتے تھے کہ حضرت علیؓ نے گناہِ کبیرہ کیا ہے یہ سوال پیدا ہونا شروع ہؤا کہ جب خلیفہ گناہِ کبیرہ کر سکتا ہے تو پھر وہ خلافتِ معصوم کا اہل کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس ان لوگوں نے طے کیا کہ خلافت کا مسئلہ ہی غلط ہے۔ درحقیقت خلافت شخصی نہیں بلکہ قومی ہے اور وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۶۵؎ میں جس خلافت کا ذکر ہے وہ بھی قومی ہے نہ کہ شخصی۔ اور اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ۶۶؎ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہاں نظام کو چلانے کیلئے ایک شخص کی بیعت اور اطاعت ضروری ہے مگر جماعتِ مسلمین اس کی نگران ہو گی اور جب چاہے گی اسے علیحدہ کر دے گی کیونکہ خلافت قوم کی ہے نہ کہ شخص کی اور خلیفہ قوم کا نائب ہے۔ جب تک افراد کا تعلق رہے وہ حاکم ہو گا مگر جب قوم کا سوال آئے گا وہ ان کے مشورہ کا پابند ہو گا اور اگر نہیں مانے گا تو الگ کیا جائے گا۔
جب ایک قدم انسان غلط اُٹھاتا ہے تو اسے دوسراقدم بھی غلط اُٹھانا پڑتا ہے۔ جب خوارج کا دماغی توازن بِگڑا تو ان کے خیالات کی رَو اَب اس طرف گئی کہ رسول کریم ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ اپنے حاکم سے الگ نہیں ہونا جب تک اس سے کُفرِ بواح نہ دیکھو۔ ۶۷؎ تو پھر اگر اس طرح امیر سے الگ ہونا جائز ہے تو اس حدیث کے کیا معنی ہوں گے۔ آخر انہوں نے اس کا یہ جواب تجویز کیا کہ کفرنام ہے نافرمانی کا اور جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ نافرمانی کرتا ہے۔ پس جس شخص کی نسبت ثابت ہو کہ اس نے کوئی کام خلافِ قرآن کیا ہے وہ گنہگار ہے اور جب گنہگار ہے تو کافر ہے‘ اور جب کافر ہے تو رسول کریم ﷺ کے حکم کے مطابق اس کے خلاف خروج جائز ہے۔ اسی طرح ان میں کسی بدعملی پر کافر قرار دینے کا مسئلہ رائج ہو گیا اور اس کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے خون انہوں نے کئے۔ جیسے عبداللہ بن خبابؓ اور دھقان ایرانی کا خون صرف حضرت علیؓ کو نیک کہنے کی وجہ سے کیا گیا۔
ان لوگوں کا طریق بالکل آجکل کے احراریوں کی طرح تھا۔ حضرت علیؓ لیکچر دیتے تو یہ لوگ بیچ میں شور مچا دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ مجلس میں بیٹھے تھے تاکہ ابوموسیٰ کو بھجوائیں کہ دو خارجی زُرعہ اور حرقوص آئے اور انہوں نے نعرہ لگایا کہ لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ حضرت علیؓ نے فرمایا درست ہے۔ لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ ۔ اس پر حرقوص نے کہا اے علیؓ! اپنے گناہ سے توبہ کرو اور اپنے فیصلہ کو واپس لو اور دشمن سے لڑنے کے لئے نکلو۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ جب میں نے کہا تھا بات نہ مانی اب تو عہد ہو چکا‘ عہد توڑا نہیں جا سکتا۔ حُر قوص نے کہا یہ عہد نہیں یہ تو گناہ ہے‘ اس سے توبہ کرنی چاہئے۔ حضرت علیؓ نے کہا یہ گناہ نہیں رائے کی غلطی ہے جس سے میں نے تم کو روکا تھا مگر تم بازنہ آئے۔ اس پر زرعہ نے کہا اے علیؓ! اگر تم تحکیم الرجال سے باز نہ آئے تو میں تم سے لڑوں گا۔ حضرت علیؓ نے کہا مجھے نظر آ رہا ہے کہ تو لڑائی میں مارا جائے گا اور ہوا تیری لاش پر چلے گی۔ اس نے کہا کاش! خدا کی راہ میں ایسا ہی ہو۔ اس پر دونوں کھڑے ہوگئے اور لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔
اسی طرح حضرت علیؓ ایک دن لیکچر دے رہے تھے تو خوارج مسجد کے اندر پھیل کر بیٹھ گئے جیسے حضرت عثمانؓ کے وقت کیا کرتے تھے اور چاروں طرف سے نعرہ تحکیم بلند کرنا شروع کر دیا۔ پہلے ایک طرف سے آواز اُٹھی لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ پھر دوسری طرف سے آواز اُٹھی لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ پھر تیسری طرف سے آواز آئی لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ پھر چوتھی طرف سے آواز اُٹھی لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ ۔ حضرت علیؓ نے جواب میں کہا ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُکَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَبِھَا بَاطِلٌ بات تو جو تم کہتے ہو سچی ہے مگر دیکھو تم یہ سچی بات کیسی بُری جگہ استعمال کر رہے ہو اور کیسا غلط استدلال کر رہے ہو۔
اسی طرح ایک اور دن حضرت علیؓ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر تحکیم کی آواز بلند کی اور پھر ہر طرف سے مختلف لوگوں نے تحکیم کی آواز بلند کرنی شروع کر دی اس پر حضرت علیؓ نے کہا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُکَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَبِھَا بَاطِلٌاور پھر فرمایا تم میری خلافت پر اعتراض کرتے ہو مگر کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امارت ضروری ہے چاہے نیک کی ہو یا بد کی۔ یہ کہہ کر آپ خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے مگر انہوں نے پھر لَاحُکْمَ اِلاَّ لِلّٰہِ کا شور مچا دیا۔ جس پر آپ کو خطبہ چھوڑنا پڑا اور خطبہ بند کر کے گھر چلے گئے۔۶۸؎
خوارج جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت عثمانؓ کے زمانہ سے شروع ہوئے اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں ایک باقاعدہ جماعت بن گئے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں محبانِ علیؓ اپنے آپ کو ظاہر کرتے تھے اور بعد میں حضرت علیؓ سے جُدا ہو کر ایک علیحدہ جماعت بن گئے۔ مگر اس وقت بھی ممتاز جماعت نہ بنے تھے صرف حضرت علیؓ کی مخالفت اور ان پر ذاتی اعتراض تک ان کا اختلاف محدود تھا۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بحث مباحثہ سے ایک خاص شکل ان کے عقائد کی ہوتی گئی۔ آخر ۶۴ھ میں انہوں نے اپنے اصول باقاعدہ تجویز کئے‘ اور اس موقع پر ان میں اختلاف ہو گیا اور وہ پانچ فرقے ہوگئے۔
واقعہ اس طرح ہؤا کہ اُس وقت خوارج دو علاقوں میں پھیل گئے‘ کچھ بصرہ کی طرف اور کچھ یمامہ میں۔ جو بصرہ میں تھے ان کا لیڈر نافع بن الازرق تھا اور جو یمامہ کو گئے ان کا لیڈر نجدہ بن عویمر تھا اور ان کے ناموں کے دو فرقے بن گئے ایک ازارقہ کہلاتے تھے اور دوسرے نجدیّین۔
نافع بن ازرق نے اپنے مذہب کے اصول بنائے اور جماعت کو جمع کر کے یوں بیان کیا کہ کیا ہم شریعت کے تابع اور قرآن اور سنت کے متبع نہیں؟ ساتھیوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کیا ہمارے دشمن رسول کریم ﷺ کے دشمن نہیں اور آپ کے دشمن چونکہ مشرک تھے کیا وہ مشرک نہیں؟ انہوں نے کہاں ہاں۔ اس پر اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بَرَائَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔۶۹؎ تو معلوم ہؤا اپنے دشمنوں سے ہمیں براء ت ضروری ہے۔ پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنْفِرُوْا خِفَافاً وَّثِقَالًا وَّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۷۰؎ کہ خواہ ایک ایک نکلو خواہ دو دو بہرحال ضروری یہ کہ اپنے اموال اور اپنے نفوس سے خدا تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرو تو معلوم ہؤا جو لوگ ہم میں سے ایسے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر دشمنوں سے جنگ نہیں کرتے اور چُھپے بیٹھے ہیں ان کا حُکم مشرکوں کا حُکم ہؤا۔ وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے پھر وہ کہنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ ۷۱؎ مشرکوں سے نکاح نہ کرو تو معلوم ہؤا ان لوگوں سے نکاح بھی ناجائز ہے وہ کہنے لگے ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْافِیْمَا کُنْتُمْ قَالُوْاکُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا۷۲؎ کہ جن لوگوںکی جانیں فرشتے ایسی حالت میں نکالیں گے کہ انہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہؤا ہو گا وہ ان سے دریافت کریں گے کہ تمہاری کیسی حالت رہی ہے؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں سخت کمزور تھے اس پر وہ جواب دیں گے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہیں تھی اور کیا تم ہجرت نہیں کر سکتے؟ اس سے معلوم ہؤا کہ دشمنوں کے ملک میں رہنا حرام ہے۔ وہ کہنے لگے بالکل درست ہے۔ پھر وہ کہنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ۔ ۷۳؎ کہ تم مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو۔ پس ہمیں بھی اپنے دشمنوں کو جہاں ملیں انہیں قتل کرنا واجب ہؤا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ نوح کی زبان سے فرماتا ہے۔ رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِیْنَ دَیَّارًا- اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا۷۴؎ کہ اے رب! ان کافروں میں سے کسی کو زمین پر نہ چھوڑ نہ ان کے مردوں کو نہ عورتوں کو، نہ لڑکوں کو نہ لڑکیوں کو کیونکہ اگر ان میں سے کوئی بھی باقی رہا تو پھر اس سے کُفر شروع ہو جائے گا لیکن چونکہ یہ شُبہ ہو سکتا تھا کہ یہ صرف حضرت نوح کے دشمنوں کے متعلق حُکم ہے عام لوگوں کے دشمنوں کے متعلق نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌمِّنْ اُولٰئکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَائَ ۃٌ فِی الزُّبُرِ۷۵؎ کہ کیا تمہارے دشمن ان دشمنوں سے اچھے ہیں یا تمہیں خداتعالیٰ نے بری قرار دیا ہے پس جب نوح کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں کا حال یکساں ہؤا تو معلوم ہؤا ہمارے لئے اپنے دشمنوں کی عورتوں اور ان کے بچوں کا قتل بھی واجب ہے‘ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْاَشَدُّخَشْیَۃً۷۶؎ کہ جب قتال فرض ہؤا تو ایک فریق لوگوں سے ویسے ہی ڈرنے اور خوف کھانے لگا جیسے خدا سے ڈرا جاتا ہے پس معلوم ہؤا کہ تقیہ حرام ہے لوگوں نے کہا بالکل درست ۔ پھر کہنے لگا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعِدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ ۷۷؎ کہ وہ لوگ جو ہماری باتیں چُھپاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی *** ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ ہم پر اپنے دین کی تبلیغ واجب ہے۔ اس پر سب نے اس کی تصدیق کی اور ازارقہ کا یہ مذہب قرار پایا مگر اس کے اس دعویٰ کی خوارج کے ایک دوسرے لیڈر عبداللہ بن اباض نے تکذیب کی اور کہا کہ باقی مسلمان مشرک نہیں وہ صرف کافرِ نعمت ہیں ان کے ملک میں رہنا جائز ہے اور ان سے نکاح جائز ہے اور ورثہ جائز ہے اور ان کا ذبیحہ بھی جائز ہے مگر جب عبداللہ بن اباض اور نافع بن ازرق کا فیصلہ ایک تیسرے لیڈر عبداللہ بن صفّار نے سنا تو وہ عبداللہ بن اباض سے کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے بیزار ہے کیونکہ تو نے نرم فیصلہ کیا اور مذہب میں کمی کر دی ہے اور نافع بن ازرق سے بھی بیزار ہے کیونکہ اس نے مذہب میں زیادتی کر دی ہے اور بڑا سخت فیصلہ کیا ہے۔ اُس وقت ایک اور عالِم ان میں ابوبہتیس ہیصم بن جابر الضبعی تھا۔ اس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دشمنوں کا حال تو مشرکوں کا سا ہے لیکن ان کے ملک میں رہنا جائز ہے جس طرح مسلمان مکہ میں کفار کے تابع رہے تھے اور مشرکوں کے احکام ان پر جاری ہیں ہاں نکاح وغیرہ ان سے جائز ہے کیونکہ وہ منافق ہیں اور اسلام کا منہ سے دعویٰ کرتے ہیں اور منافق سے نکاح جائز ہوتا ہے۔نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کے پانچ فرقے ہو گئے۔
(۱) ازارقہ جن کا عقیدہ تکفیرِ مسلمین وقاعدین اور براء ت اور استعراض اور استحلال اموال اور قتلِ اطفال تھا۔
(۲) اباضہ۔ جن کا عقیدہ یہ تھا کہ دوسرے مسلمان کافر بالنعمۃ ہیں۔ باقی امور میں ان کا معاملہ مسلمانوں والا ہی سمجھا جائے گا۔
(۳) صفریہ۔ جو عبداللہ بن صفّار کے مرید تھے۔
(۴) نجدیہ جو نجدۃ بن عویمر کے مریدتھے۔
ان دونوں کا عقیدہ ایک تھا۔ صرف یہ فرق تھا کہ صفریہ کا خیال تھا کہ ان مسلمانوں سے جہاد ضروری نہیں چنانچہ آخر یہ سب مسلمانوں کی لڑائی سے باز آ گئے۔
(۵) البہییہ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ مسلمان مشرک ہیں۔ ان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قتل کرنا جائز ہے مگر ان میں رہنا ناجائز نہیں اور نہ ان سے نکاح جائز ہے اور نہ ان کا ورثہ لینا۔ اس کے بعد ان کے اور فرقے ہو گئے۔
چنانچہ ایک فرقہ العجاورۃ ہے جس کا یہ خیال ہے کہ سورہ یوسف قرآن کا حصہ نہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ یوسف میں وہ بیّن دلیل موجود ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کافر بادشا ہ کے ماتحت رہنا بھی جائز ہے مگر چونکہ ان کا عقیدہ اس کے خلاف تھا اس لئے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ پُرانا قصہ ہے قرآن کا حصہ نہیں۔ یہ لوگ اپنے بچہ کو بھی کافر کہتے ہیں جب تک بڑا نہ ہو اور اسے تبلیغ کر کے مسلمان نہ کریں۔ ان لوگوں کا سورہ یوسف کا انکار بھی اسی غلطی سے پیدا ہؤا ہے کہ کفار کے علاقہ میں نہیں رہنا۔چونکہ سورہ یوسف اس خیال کو ردّ کرتی ہے اس لئے انہوں نے اس کے قرآن کا جُزو ہونے سے بھی انکار کر دیا۔
نجدیہ فرقہ کا عقیدہ ہے کہ صغائرِ گناہ کا بہ تکرارمرتکب اگر کبائر کا بہ تکرار مرتکب نہ بھی ہو تب بھی کافر ہے۔ تقیہ جائز سمجھتے ہیں اور دشمنوں کے اموال کو جائز۔ اور جو جائز نہ مانے وہ کافر۔
ثعالبہ فرقہ کا خیال ہے کہ بچہ کی حکومت جائز ہے مگر بڑا ہو کر حق کے خلاف چلے تو اسے الگ کیا جائے۔
بہییہ کا دعویٰ ہے کہ امام کافر کے ماتحت جو رہے وہ بھی کافر ہی سمجھا جائے گا۔ یعنی دلی مرضی سے نہ کہ تقیہ سے جیسا کہ وہ خود کرتے ہیں۔
جیساکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے خوارج کا طریق عمل یہ تھا کہ: ۔
(۱) وہ مخفی رہتے۔ چنانچہ بار بار مختلف زمانوں میں وہ ظاہر ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں بھی مخفی رہے۔ حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی اور معاویہ کے زمانہ میں بھی ۔
(۲) مسلمانوں پر اور خصوصاً خلفاء پر الزام لگا کر بدنام کرتے کہ وہ بدکار تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ پر بھی ان کا یہ الزام ہے اور دوسرے مسلمانوں پر بھی۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کو محلّین کہتے تھے جس کے معنی ہیں حلال سمجھنے والے اور اس نام کی وجہ تسمیہ وہ یہ بتاتے تھے کہ یہ لوگ جس جان کو خدا نے حرام کیا ہے اسے حلال سمجھتے ہیں اور لوگوں کے مال کھا جاتے ہیں اور عورتوں کی عصمت خراب کرتے ہیں۔ اور مال جمع کرنا حرام ہے۔ یہ مال جمع کرتے ہیں اور جہاں بیت المال کا مال خرچ کرنا چاہئے وہاں خرچ نہیں کرتے نا جائز جگہ پر خرچ کرتے ہیں۔
حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب فتنہ اُٹھا تو اُ س وقت کوفہ کے گورنر سعید بن العاص تھے۔ حضرت عثمانؓ کو ان پر اتنا اعتماد تھا کہ جب آپ نے قرآن لکھوانے کا فیصلہ کیاتو آپ نے سعید بن العاص کو ہی اس کونسل کا پریذیڈنٹ بنایا جو مختلف نسخوں کا مقابلہ کرتی تھی اور فرمایا جہاں اختلاف ہو وہاں جو فیصلہ سعید بن العاص کرے گا وہی قبول کیا جائے گا۔
یہ گورنر ہو کے جب کوفہ آئے اور لوگوں کو پتہ لگا کہ سعید بن العاص آ رہے ہیں تو ان میں سے ایک شخص نے جو حمص سے کوفہ کی طرف جا رہا تھا اور جو عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں میں سے تھا کوفہ پہنچ کر ایسی حالت میں جبکہ جمعہ کی وجہ سے سب لوگ مسجد میں جمع تھے کہنا شروع کر دیا کہ میں ابھی سعید بن العاص سے جُدا ہوا ہوں اور ا سکے ساتھ ایک منزل ہم سفر رہا ہوں۔ وہ عَلَی الِاْعْلَان کہتا ہے کہ میں کوفہ کی عورتوں کی عصمتوں کو خراب کر دوں گا اور کہتا ہے کہ کوفہ کی جائیدادیں قریش کا مال ہیں اور یہ شعر فخریہ پڑھتا ہے کہ :۔
وَیْلٌ لِاّشَرَافِ النِّسَائِ مِنِّیْ
صَحِیْحٌ کَاَنَّنِیْ مِنْ جِنِّیْ
کہ کوفہ کی شریف عورتوں میں سے ایک کی عصمت بھی نہیں بچے گی اور میں ان سے اس طرح بدکاری کروں گا جس طرح پتھر سے پتھر ٹکراتا ہے تو آوازیں نکلتی ہیں کیونکہ میں ایسا مضبوط آدمی ہوں گویا جِنّات میںسے ہوں۔ عوام الناس نے جب یہ سنا تو اُن کی عقل ماری گئی اور جب سعید بن العاص آئے تو انہیں کہنے لگے ہمیں آپ کی ضرورت نہیں آپ واپس چلے جائیں حالانکہ یہ بالکل جھوٹا الزام تھا جو سعید بن العاص پر لگایا گیا غرض وہ مسلمانوں پر عموماً اور خلفاء پر خصوصاً بدکاری کے الزامات لگایا کرتے تھے۔
(۳) وہ خلفاء پر مال کو غلط طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتے خصوصاً حضرت عثمانؓ پر۔
(۴) ظلم کا الزام لگاتے کہ تم سخت ظالمانہ سزائیں دیتے ہو۔
(۵) باوجود بظاہر عبادت اور زُہد اور شدّت فی الاسلام کا دعویٰ کرنے کے کفار کے ساتھ ان کا میل جول زیادہ ہوتا۔
(۶) خلافت اور امارت کے خلاف اعتراض کرتے رہتے اور قوم کو بحیثیت مجموعی خلیفہ قرار دیتے اور اَلْاَمْرُشُوْری بَیْنَھُمْ سے استدلال کرتے تھے۔
اب دیکھو کہ کس طرح ان امور میں مصری صاحب اور خوارج کے درمیان اتحاد پایا جاتا ہے اور کیسے شاندار رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ میں علیؓ ہوں اور ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کی مزاحمت کر رہا ہے میں نے خوارج کے حالات بتائے ہیں‘ ان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خوارج کے گروہ اور مصری صاحب کے درمیان پوری موافقت ہے۔
(۱)خوارج پہلے بیعت میں تھے پھر حضرت علیؓ کو گنہگار قرار دے کر بیعت سے علیحدہ ہوئے۔ یہی حال مصری صاحب کا ہے۔ مصری صاحب بھی پہلے میری بیعت میں تھے پھر مجھ پر اخلاقی الزام عائد کر کے اور مجھے گنہگار قرار دے کر وہ بیعت سے الگ ہوئے۔
(۲) خوارج کا مطالبہ تھا کہ توبہ کر لو پھر ہماری تمہاری صلح ہو جائے گی۔ بعینہٖ یہی مصری صاحب نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے بلکہ آخر میں انہوں نے یہاں تک لکھا کہ علیحدہ کمرہ میں مَیں آپ کے پاس آ جاتا ہوں آپ صرف میرے سامنے توبہ کر لیں تو میں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپ کے ساتھ ہو جاؤں گا۔ خوارج کے متعلق بھی آتا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر علیؓ توبہ کر لیتے تو بڑا مزہ آتا کیونکہ پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ اب تو انہوں نے اپنے منہ سے گناہ کا اقرار کر لیا ہے اور جب انہوں نے گناہ کیا تو خلافت سے الگ ہو گئے۔ اب ہماری مرضی ہے جسے چاہیں خلیفہ بنائیں اور جسے چاہیں نہ بنائیں۔
(۳) خوارج نے حضرت علیؓ سے تحکیم کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے مان لیا تو پھر اس سے پھر گئے۔ اِنہوں نے بھی کمیشن کا مطالبہ کیا۔ میں نے پہلے تجربہ کی بناء پر نہیں مانا مگر جب میں نے کمیشن کی تشریح چاہی تو خاموش ہو گئے اور اب جو اب تک نہیں دیتے۔ اور اگر میں حضرت علیؓ کی طرح ان کی بات مان لیتا تو جھٹ کہتے دیکھا انہیں اپنی خلافت پر شبہ ہے۔
(۴) خوارج کا دعویٰ تھا کہ خلافت قومی ہے نہ کہ فردی اور یہ کہ امیر کی نگران قوم ہے۔ جب کوئی اُسے بِگڑا ہؤا دیکھے اس سے علیحدہ ہو جائے بعینہٖ یہی دعویٰ مصری صاحب کا ہے۔
(۵) خوارج گندے الزام خلفاء اور صحابہؓ پر لگاتے تھے۔ یہی مصری صاحب کرتے ہیں۔ مجھ پر جو الزام لگاتے ہیں وہ تو اکثر مشہور ہیں۔ جماعت پر بھی انہوں نے اس طرح اپنے خط میں الزام لگایا ہے کہ جماعت میں بدکاری بہت بڑھ گئی ہے اور پھر دہریّت کا الزام بھی انہوں نے جماعت پر لگایا۔
(۶) خوارج کہتے تھے کہ یہ لوگ اندھے ہیں کہ کہتے ہیں علیؓ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ہے اور اس قول کی وجہ سے مشرک ہو گئے ہیں یہی دعویٰ مصری صاحب کا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح لوگ اندھا دُھند خلیفہ کی اطاعت کر کے بگڑ گئے ہیں حالانکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ جب تک خلافتِ اسلامی ہو خلیفہ مذہب کے خلاف چل ہی نہیں سکتا اور جو کچھ کرے گا خدا اور رسول کے حکم کے مطابق کرے گا۔
(۷) خوارج باوجود اسلام میں دوسروں سے زیادہ تشدّد ظاہر کرنے کے دشمنانِ اسلام کے دوست تھے اور کُفّارِ ایران اور مسیحی اور مرتد اور زکوٰۃ نہ دینے والے ان کے گرد جمع ہو جاتے اور ان کی امداد کرتے تھے۔ یہی حال مصری صاحب کا ہے‘ باوجود اس دعویٰ کے کہ خلیفہ کی وجہ سے احمدیت کمزور ہو گئی ہے اب مَیں اس کو اعتراضوں سے پاک کر کے تبلیغ کو وسیع کر دوں گا اور احمدیت کو مضبوط کروں گا‘ احرار اور آریہ اور سکھ اور جماعت کے مخالف افسر سب ان کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر طرح امداد کرتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ نبوت اور کفر و اسلام کے مسائل میں اب تک اپنے آپ کو ہمارے ہم خیال ظاہر کرتے ہیں پھر بھی پیغامی ان کی مُونچھ کا بال بنے ہوئے ہیں‘ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مصری صاحب کے دعوے سب لاف و گزاف ہیں۔ اصل میں وہ احمدیت کو کمزور کر رہے ہیں۔ چنانچہ الہامِ الٰہی یَا عَلِیُّ دَعْھُمْ وَاَنْصَارَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ میں بھی پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ ان خوارج کے تین حصے ہوں گے۔ اوّل خود، دوم اندرونی منافق، سوم ۔ غیر قومیں۔
(۸) خوارج اہلِ بیت کے دشمن تھے۔ مصری صاحب بھی سب اہلِ بیت مسیح موعود پر حملہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف مجھ پر، میرے بھائیوں پر اور میری لڑکیوں پر ہی گندے الزام لگائے بلکہ حضرت (اماں جان) کوبھی الزامات میں ملوث کرنے کی کوشش کی۔
(۹) خوارج کی ابتدا خُفیہ کارروائیوں سے ہوئی ہے۔ یہی حال مصری صاحب کا ہے یہ بھی ایک عرصہ تک خُفیہ کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور اس کا انہیں خود بھی اعتراف ہے۔
(۱۰) خوارج سزاؤں میں سختی اور اخراج کا الزام لگاتے تھے۔ یہی مصری صاحب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا خلیفۂ وقت کا کوئی مخالف ہو جائے تو اُسے بڑی سخت سزا دیتے ہیں۔
(۱۱) خوارج کے گرد سزا یافتوں کا گروہ تھا۔ مصری صاحب کے ساتھ بھی ایسے ہی لوگ ملے ہوئے ہیں جنہیں سلسلہ کی طرف سے ان کے کسی قصور کی بناء پر سزا ملی۔
(۱۲) خوارج حضرت علیؓ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ یہی مصری صاحب کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مَیں نے اسی وجہ سے ایک عرصہ سے آپ کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ رکھی تھی۔
(۱۳) خوارج کو پہلے حضرت علیؓ کے کیریکٹر پر شُبہ ہؤا پھر خلافت کے مسئلہ پر۔ یہی مصری صاحب کا حال ہے۔ انہیں بھی پہلے میرے کیریکٹر کے متعلق شبہ ہؤا اور پھر انہوں نے خلافت سے معزولی کا سوال اُٹھا دیا۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی کو جب جماعت سے اخراج کی سزا دیتے ہیں تو معاً اس پر یہ انکشاف ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہ تھے۔ انہیں بھی پہلے میرے متعلق شُبہات پیدا ہوئے اور پھر خلافت کے متعلق انہیں شُبہ پیدا ہو گیا۔
ان تفصیلات پر نگاہ دَوڑاؤ اور پھر دیکھو کہ یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی مگر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ اور وہ تاریخی واقعات کی مشابہت ہے جو خوارج کے فتنہ اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے فتنہ میں پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ
۱۔ خوارج کاوہ سب سے بڑا لیڈر جس نے حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فتنہ اُٹھایا نو مُسلم تھا اور مصری کہلاتا تھا۔ گو وہ مصری نہ تھا یعنی عبداللہ بن سبا۔ شیخ عبدالرحمن صاحب بھی نو مُسلم ہیں اور مصری کہلاتے ہیں گو وہ مصری نہیں ہیں۔
۲۔پھر ایک نہایت زبردست مشابہت جو فتنہ خوارج اور مصری فتنہ میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ خوارج کا وہ بڑا لیڈر جس نے حضرت علیؓ پر حملہ کیا تھا اس کا نام بھی عبدالرحمن تھا اور ا س کا نام بھی عبدالرحمن ہے۔
(۳) تیسری مشابہت جو اِن دونوں فتنوں میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ شیخ صاحب اقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۳۴ء سے میرے خلاف واقعات سُنے اور میرے خلاف اپنے دل میں فیصلہ کیا۔ ۱۹۳۴ء اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی وفات میں ستائیں سال کا فاصلہ ہے گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے ستائیس سال بعد انہوں نے فتنہ کی بنیاد رکھی اور یہ عجیب بات ہے کہ عین اِسی سال میں خوارج نے اختلاف کا اظہار کیا تھا یعنی ہجرت کے ۳۷ ویں سال میں۔ اور چونکہ ہجرت کے دسویں سال کے بعد رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تھے اس لئے ۳۷ھ جس میں خوارج نے اختلاف کا اظہار کیا دراصل رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ستائیسواں سال تھا۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس صدی کے ساتویں سال کے بعد فوت ہوئے ہیں۔ پس ۱۹۳۴ء بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ستائیسواں سال تھا جس میں مصری صاحب نے اپنے فتنہ کی بنیاد رکھی۔ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی کہ میں علیؓ ہوں اور میرے خلاف خوارج کا ایک گروہ ظاہر ہو گا۔ یہ گروہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین اتنے سا ل بعد ظاہر ہؤا جتنے سال اس نے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد لئے تھے۔
پھر ایک اور مشابہت بھی ہے جو گو کُلّی مشابہت نہیں مگر ضمنی مشابہت ضرور ہے اور وہ یہ کہ سنہ کے لحاظ سے وہ فتنہ بھی ۳۷ھ میں ظاہر ہؤا اور یہ فتنہ بھی ۱۹۳۷ء میں ظاہر ہؤا۔
پانچویں زبردست مشابہت یہ ہے کہ حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے ۴۰ھ میں اس الزام کے ماتحت کیا کہ انہوں نے ہمارے آدمیوں کو قتل کر دیا ہے اور یہ بعد وفات رسول کریم ﷺ تیس سال ہوتے ہیں گویا تیس سال بعد دفات رسول کریم ﷺ حضرت علیؓ کی جان پر عبدالرحمن بن ملجم نے اس لئے حملہ کیا کہ اُس نے ہمارے آدمیوں کو مروایا ہے۔بعینہٖ اسی طرح ۱۹۳۷ء میں تیس سال بعد وفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شیخ عبدالرحمن مصری نے میرے خلاف عدالت میں اس بناء پر قتل کا مقدمہ دائر کیا کہ اس نے ہمارے آدمی فخرالدین کو قتل کروایا ہے اور اس لئے اسے پھانسی کی سزا ملنی چاہئے۔ پس انہوں نے بھی وہی الزام لگایا ہے جو خارجیوں نے لگایا، وہی چالیں چلی ہیں جو خارجیوں نے چلیں، انہی حرکات کا ارتکاب کیا ہے جن حرکات کا خارجیوں نے ارتکاب کیا، پس الزام ایک ہے، سنہ ایک ہے، چیز ایک ہے، وہاں قتل کرنے والا عبدالرحمن بن ملجم ہے اور یہاں حکومت سے پھانسی کا مطالبہ کرنے والا عبدالرحمن مصری ہے پھر پورے تیس سال کے بعد وہاں حملہ ہؤا تھا اور پورے تیس سال کے بعد یہاں بھی حملہ ہوتا ہے اور اسی الزام کے ماتحت ہوتا ہے جو الزام خارجیوں نے حضرت علیؓ پر لگایا۔
بیشک عبدالرحمن بن ملجم اپنے حملہ میں کامیاب ہؤا اور ا س نے حضرت علیؓ کو شہید کر دیا اور عبدالرحمن مصری اپنے حملہ میں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب نہیں ہوئے لیکن اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رؤیا میں بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت پر جو حملہ ہو گا اس میں آپ کے قائم مقام کی حیثیت صرف علیؓ کی نہیں ہو گی بلکہ موسیٰ کی بھی ہو گئی کیونکہ اس رؤیا کے ساتھ ہی الہام ہؤا کہ مخالف کہتا ہے ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی گویا بتا دیا کہ اسے علی کے ساتھ تمام مشابہتیں ہوں گی مگر جس وقت قتل کا حملہ ہو گا اُس وقت علیؓ، موسیٰ بن جائے گا اور چونکہ موسیٰ کو قتل کرنے میں فرعون ناکام رہا تھا اس لئے اس حملہ میں اس زمانہ کا عبدالرحمن ناکام رہے گا۔ صرف درمیانی تکلیف اور ایذاء پہنچانے میں کامیاب ہو گا جس طرح موسیٰ کو دُکھ اور تکلیفیں پہنچیں۔ دشمن کہتا ہے اور میدانوں میں ناچتا پھرتا ہے کہ اگر سلسلہ احمدیہ سچا ہوتا تو یہ ابتلاء کیوں آتے اور اتنے بڑے بڑے آدمی خلیفۂ وقت پر الزامات کیوں لگاتے؟ مگر میں کہتا ہوں یہ ابتلاء اس کے سچا ہونے کی دلیل ہیں۔ کس تفصیل سے خدا کے مسیح نے خبر دی تھی کہ زینب جس کی شادی آپ کے زمانہ میں ہوئی ایک ایسے شخص سے بیاہی جانے والی ہے جو حضرت مسیح موعود کے اہلِ بیت پر الزام لگا کر آپ کو دُکھ دے گا۔اس فتنہ کے دو لیڈر ہوں گے ان لوگوں کو خلافت کے بارہ میں وہی اختلاف ہو گا جو خوارج کو تھا۔ وہ پہلے بیعت کر کے پھر خلیفہ کو گنہگار قرار دے کر علیحدہ ہوں گے ان کا پہلا حملہ اندازاً ۲۷ سال بعد وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو گا۔ اور ۳۰ سال بعد مسیح وہ اس کے خلیفہ کو قتل کرنا چاہیں گے لیکن ناکام رہیں گے۔ کیا اس سے بڑھ کر‘ کیا اس سے واضح‘ کیا اس سے عیاں کوئی اور پیشگوئی ہو سکتی ہے؟ پھر یہ ابتلاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہؤا یا آپ کے جھوٹا ہونے کی دلیل۔ میں کہتا ہوں دیکھو کس طرح چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑے اس خواب کے پورے ہوئے ہیں۔ اس خواب میں بتایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ اس موقع پر تشریف لائے اور جیسا کہ میں نے اس فتنہ کے شروع میں شائع کر دیا تھا مجھے بھی ایک دن الہام ہؤا کہ :
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے‘‘۷۸؎
گویا خواب میں جو آنحضرت ﷺ کے ورودِ مبارک کی خبر تھی وہ بھی اس الہام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پوری کر دی اور بتا دیا کہ رسول کریم ﷺ آ گئے ہیں۔ پھر مجھے جو یہ الہام ہؤا تھا کہ:۔
’’میں تیری مشکلات کو دُور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا‘‘ ۸۹؎
یہ بھی اسی قول کی طرف اشارہ ہے کہ یَا عَلِیُّ دَعْھُمْ وَاَنْصَارَھُمْ وَزِرَاعَتَھُمْ۔ یعنی خود اِن کی باتوں پر صبرکرو اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لو اور خدا تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دو۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے کہا کہ میںخود اس معاملہ کا فیصلہ کروں گا اور ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی کے الہام سے بھی بتا دیا کہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں ان کی حکومت تھی انہوں نے خود سزا دی لیکن اس زمانہ میں خلیفہ موسیٰ کی طرح ایک اور حکومت کے تابع ہو گا اس لئے اس وقت کی سزا خود اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔ پس جماعت کو اس بارہ میںبہت محتاط رہنا چاہئے اور کوئی خلافِ قانون حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ ہاں قطع تعلق جو ہؤا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت ہؤا ہے جیسا کہ الہام سے ظاہر ہے اور علمی جواب دینا اس ممانعت میں شامل نہیں جیسا کہ موسیٰ کے لفظ سے ظاہر ہے۔
مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے ایک شخص نے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور وہ سلسلہ کی بدنامی کا موجب ہؤا حالانکہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے زیادہ سخت سزا دے سکتا ہے۔
پس گو مَیں پہلے بھی اعلان کر چکا ہوں لیکن آج پھر اس اعلان کو دُہرا دیتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی نے کوئی خلافِ قانون حرکت کی تو میں اُسے بِلا دریغ جماعت سے خارج کر دوں گا۔ تم اگر اس فتنہ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو اس فتنہ کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دعائیں کرو اور تبلیغ کرو، دلیلیں دواور تبلیغ کرو مگر قانون کو ہاتھ میں مت لو کیونکہ ہمارا خدا کہتا ہے کہ مَیں خود اِس فتنہ کا مقابلہ کروں گا۔ پس جب وہ خود ا س مقابلہ کیلئے تیار ہے تو کیسا گستاخ اور بے ادب وہ شخص ہے جو کہے کہ اس کے مقابلہ سے پہلے میں بھی مقابلہ کر لوں۔ ہاں قطع تعلق کا حُکم الہام سے نکلتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہؤا۔
مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلَوْا تَقْتِیْلاً
مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس جگہ قتل کے معنی قتل کرنا ہماری تعلیم کے خلاف ہیں۔ یعنی ان لوگوں میں سے کوئی سامنے آئے تو اس سے اعراض کرو، بات کرے تو خاموش رہو، وہ مجھے چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ اور ہمارا مقابلہ کرو مگر جب میرے خدا نے ان کا چیلنج قبول کر لیا ہے تو میں کون ہوں جو اس کے بعد ان کا چیلنج قبول کروں۔ اگر ایک شخص سے میں خود مباحثہ کرنے کیلئے تیار ہو جاؤں اور پھر کوئی احمدی کہے کہ مَیں مباحثہ کروں گا تو وہ احمدی یقینا گستاخ سمجھا جائے گا۔ اسی طرح جب خدا نے کہا کہ میں ان کا مقابلہ کروں گا تو میں کون ہوں جو خود ان کا مقابلہ کروں۔ ہاں تم دلائل پیش کرو، انہیں سمجھانے کی کوشش کرو، انہیں راہِ راست پر لانے کی سعی جاری رکھو مگر سزا کا معاملہ تم اپنے ہاتھ میں مت لو کیونکہ خدا کہتا ہے کہ میں خود انہیں سزا دوں گا۔ تم غور کرو اور سوچو کہ یہ کتنا زبردست نشان ہے جو ظاہر ہؤا۔تیرہ مشابہتیں وہ ہیں جو عقائد کے لحاظ سے خوارج میں اور مصری پارٹی میں پائی جاتی ہیں اور پانچ وہ مشابہتیں ہیں جو تاریخی لحاظ سے ان دونوں حملوں میں پائی جاتی ہیں۔ لوگ تو کہا کرتے ہیں تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ۔ مگر یہاں قریباً دو دہاکے جمع ہو گئے ہیں۔ اگر اب بھی کوئی سمجھنے کیلئے تیار نہیں تو میں اپنے مخالفین سے کہتا ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو تم اپنے تمام علماء کو ساتھ ملا کر کوئی ایک ہی ایسی پیشگوئی شائع کر دو اور اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو کیوں خدا کے اس عظیم الشان نشان پر ایمان نہیں لاتے جو اِس فتنہ کے ظہور کے ذریعہ پورا ہؤا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لوگ پہلے میری بیعت کریں گے اور پھر اس بیعت کو توڑ دیں گے، کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کسی زمانہ میں مجھ پر وہی الزام لگائیں گے جو خوارج نے حضرت علیؓ پر لگائے، کون کہہ سکتا تھا کہ خوارج میں اور ان لوگوں میں اتنی زبردست مشابہتیں پائی جائیں گی یقینا سمجھو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہؤا ہے۔ پس اس فتنہ کا مقابلہ بیشک ظاہری تدبیروں سے بھی کرو مگر تمہارا اصل کام یہ ہے کہ تم دعاؤں سے کام لو اور تبلیغ پر زور دو اور قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں مت لو۔ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کا ایک زبردست نشان ہے جو ظاہر ہؤا اور جس نے میری صداقت کو آفتاب نیمروز کی طرح ظاہر کر دیا۔ خدا تعالیٰ کے نشانات مختلف اقسام کے ہؤا کرتے ہیں۔ اس کا کوئی نشان جلالی ہوتا ہے اور کوئی قہری۔ میں جو اِس وقت تمہارے سامنے کھڑا ہوں خدا تعالیٰ کا ایک جلالی نشان ہوں اور مصری پارٹی اس کا ایک قہری نشان ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنی اصلاح پر زور دو اور نیکی میں ترقی کرو اور خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جاؤ تا کہ مخالف جب کبھی تم پر حملہ کرے وہ تمہیں خدا تعالیٰ کی گود میں پائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی گود میں چلا جائے اس پر کوئی حملہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہیں اَبدالآ باد تک اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور تمہارے ہر مخالف کو ناکام کرے اور تمہیں حجت اور برہان کی رو سے تمام قوموں پر غلبہ عطا فرمائے اور تمہیں نیکی اور تقویٰ اور راستی میں دوسروں کیلئے نمونہ بنائے اور خلافت سے مخلصانہ وابستگی کی تمہیں ہر زمانہ میں توفیق بخشے تا کہ تمہارا قدم ترقیات کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور دنیا کی کوئی قوم اور دنیا کا کوئی فرد تمہاری ترقی میں روک پیدا نہ کر سکے۔ اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(الفضل ۱۴،۱۶،۱۸،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳۔ اگست ۱۹۶۴ء)
۱؎ الاحزاب: ۵۷ تا ۶۴
۲؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب من ناول او قدم الی صاحبہ علی المائدہ شیئا
۳؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی الجبۃ الثامیۃ میں نمازِ جمعہ کی بجائے عام نماز میں جُبہ پہننے کا ذکر ہے۔
۴؎ نسائی کتاب الصلٰوۃ باب ادخال الصبیان المساجد (مفہوماً)
۵؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہٖ فی الصلٰوۃ
۶؎ تذکرہ صفحہ ۷۶۶۔ ایڈیشن چہارم
۷؎ بنی اسرائیل : ۳۵
۸؎ الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۳۷ء
۹؎
۱۰،۱۱؎ تذکرہ صفحہ۷۵۱۔ ایڈیشن چہارم
۱۲؎ مسلم کتاب الجہاد باب تحریم قتل النساء والصبیان فی الجہاد
۱۳؎ تذکرہ صفحہ ۳۸۱۔ ایڈیشن چہارم
۱۴،۱۵؎ لسان العرب جلد۱۱ صفحہ۳۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء۔ بیروت
۱۶؎ مسلم کتاب الامارۃ باب اذا بویع لخلیفتین
۱۷؎ لسان العرب جلد۱۱ صفحہ۳۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء بیروت
۱۸ تا۲۳؎ تذکرہ صفحہ۷۵۰، ۷۵۱۔ ایڈیشن چہارم
۲۴؎ النحل: ۱۲۹
۲۵،۲۶؎ تذکرہ صفحہ ۷۴۹۔ ایڈیشن چہارم
۲۷؎ تذکرہ صفحہ ۷۴۹، ۷۵۰۔ ایڈیشن چہارم
۲۸تا۳۲؎ تذکرہ صفحہ ۷۵۰۔ ایڈیشن چہارم
۳۳؎ النحل: ۱۲۴
۳۴؎ لسان العرب جلد۱ صفحہ ۳۸۹ مطبوعہ ۱۹۸۸ء۔ بیروت
۳۵؎ الانعام: ۲۲ ۳۶؎ البقرۃ: ۱۱۵
۳۷تا۳۹؎ تذکرہ صفحہ۷۰۴۔ ایڈیشن چہارم
۴۰؎ تذکرہ صفحہ۷۰۵۔ ایڈیشن چہارم
۴۱؎ الاحزاب: ۳۴
۴۲،۴۳؎ تذکرہ صفحہ ۶۹۲۔ ایڈیشن چہارم
۴۴؎ تذکرہ صفحہ ۷۰۵۔ ایڈیشن چہارم
۴۵تا۴۸؎ تذکرہ صفحہ ۵۵۰۔ ایڈیشن چہارم
۴۹؎ تذکرہ صفحہ ۵۵۰،۵۵۱۔ایڈیشن چہارم
۵۰تا ۵۲؎ تذکرہ صفحہ۵۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۵۳؎ تذکرہ صفحہ ۶۱۰۔ ایڈیشن چہارم
۵۴؎ تذکرہ صفحہ ۲۰۸،۲۰۹۔ ایڈیشن چہارم
۵۵؎ تذکرہ صفحہ ۱۷۶۔ ایڈیشن چہارم
۵۶تا۵۸؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام (مفہوماً)
۵۹؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ۳۱۶،۳۱۷ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۰؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ ۳۲۰ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۱،۶۲؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ ۳۲۶،۳۲۷ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۳؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ ۳۴۱تا۳۴۸ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۴؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ ۳۶۴ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۵؎ النور: ۵۶ ۶۶؎ الشوری: ۳۹
۶۷؎ بخاری کتاب الفتن باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سترون بعدی امورا تنکرونھا
۶۸؎ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۳ صفحہ۳۳۴، ۳۳۵ مطبوعہ ۱۹۶۵ء بیروت
۶۹؎ التوبۃ: ۲ ۷۰؎ التوبۃ: ۴۱ ۷۱؎ البقرۃ: ۲۲۲
۷۲؎ النساء: ۹۸ ۷۳؎ التوبۃ: ۵ ۷۴؎ نوح: ۲۷،۲۸
۷۵؎ القمر: ۴۴ ۷۶؎ النساء: ۷۸ ۷۷؎ البقرۃ: ۱۶۰
۷۸؎ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۳۷ء
۷۹؎ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء



افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۷ء





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

افتتاحی تقریرجلسہ سالانہ ۱۹۳۷ء
(تقریر فرمودہ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۳۷ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کے مختلف نام ہیں اور ان ناموں میں سے یا ان صفات میں سے جو وُہ رکھتا ہے اور جو اس نے اپنے کلامِ مجید میں بیان فرمائی ہیں دو صفتیں قابض اور باسط کی ہیں۔ یعنی وہ کسی وقت انسان یا قوم کیلئے قبض کی حالت پیدا کرتا ہے اور کسی وقت انسان یا قوم کیلئے بسط کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے اور بسا اوقات انسان کی حالت پر بہت بڑا رحم بھی ہوتا ہے۔ جب کہ قبض حالتِ ایمان اور عرفان میں ایک سکون کا نام ہو تو خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے میں منافق ہوں، آپ دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس حالت سے نکال دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں یہ خیال کیونکر پیدا ہؤا۔ اس صحابی نے کہا میں آپ کی مجلس میں آتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ہے لیکن جب مجلس سے باہر جاتا ہوں تو پھر یہ کیفیت نہیں رہتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی رحمت ہے اگر ہر وقت اسی رنگ میں جنت و دوزخ کی کیفیت سامنے رہے تو انسان مر نہ جائے۔۱؎
پس جب ایمان اور عرفان میں کمی محسوس نہ ہو بلکہ کبھی ولولہ اور جوش والا ایمان ہو اور کبھی سکون والا تو یہ دو مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں اور دونوں دُنیا میں نظر آتی ہیں مثلاً ماں باپ کے پیار کی یہی حالت ہوتی ہے۔ ماںکبھی بچہ کو گود میں لے کر نہایت سکون کی حالت میں بیٹھی ہوتی ہے اور کبھی اس کو چھیڑتی اور گدگداتی ہے۔ یہی حالت رُوحانی عشق اور محبتِ الٰہی کی ہوتی ہے کبھی محبت سکون والی ہوتی ہے اور یہ کمی ٔ محبت نہیں بلکہ محبت کی ایک قسم ہے، کبھی محبت جوش اور ولولہ والی ہوتی ہے۔ کسی وقت ماں بیمار بچہ کو بار بار جگاتی اور پوچھتی ہے کہ کیا حال ہے۔ مگر دوسرے وقت ذرا آہٹ ہو تو شور مچا دیتی ہے کہ بچہ سو رہا ہے، شور مت کرو۔ جب قبض اس رنگ کا ہو کہ ایمان کی حالت میں، ایثار کی حالت میں، قربانی کی حالت میں سکون ہو کمی نہ ہو تو یہ ایمان اور قربانی کی ایک قسم ہے لیکن جب قبض اس قسم کا ہو کہ انسان محسوس کرے شرعی احکام پر عمل کرنا اس کیلئے بوجھ اور خدا کیلئے قربانی کرنا دو بھر ہے تو یہ قبض ابتلاء والی ہوتی ہے یعنی خدا تعالیٰ امتحان لیتا ہے کہ یہ بندہ میرے ساتھ لذت کیلئے تعلق رکھتا ہے یا اسے مجھ سے حقیقی محبت ہے۔ کئی لوگ نماز اس لئے پڑھتے ہیں کہ اس میں انہیں لذت اور سرور آتا ہے اور جب اس میں کمی ہو جائے تو نماز پڑھنا چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ لیکن ایک اور انسان ہوتاہے، اس پر اگر ایسی حالت آئے تو وہ کہتا ہے کہ جب نماز میں لذت آتی تھی تو وہ خدا تعالیٰ کا فضل، انعام اور احسان تھا اور اب نہیں آتی تو مجھے اس وجہ سے عبادت نہیں چھوڑ دینی چاہئے۔ دیکھو! بعض اوقات کوئی شخص کسی گائوں میں جائے تو وہاں کے شرفاء میں سے کوئی کہتا ہے آئو رس پیؤ، گُڑ کھائو، لسّی پیؤ، کھانا کھائو۔ یہ ایک احسان ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اس لئے کسی گائوں میں جائے کہ لوگ کہیں کچھ کھا لو تو یہ کمینگی ہوگی۔ اسی طرح وہ انسان جو سمجھتا ہے کہ لذت کا حاصل ہونا محض خدا تعالیٰ کا احسان ہے میرا فرض یہ ہے کہ ہر حالت میں اس کے حضور سرِعبودیت خَم کروں۔ وہ جب اس دَور میں سے گزر جاتا ہے تو اس کی روحانیت اور زیادہ ترقی پر ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے جب میرے اس بندے نے اس حالت میں بھی مجھ سے تعلق نہیں توڑا جب کہ وہ لذت سے محروم ہو گیا تو میں کیوں نہ اسے ترقی دوں۔ پس ایسے انسان کا قبض کے بعد بسط اس کے پہلے بسط سے زیادہ اعلیٰ ہوتا ہے۔ گویا اس کا ابتلاء اور قبض ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ پتھر پانی میں پھینکا جائے بلکہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح گیند زمین پر مارا جائے جو کہ اور زیادہ اونچا جاتا ہے۔
تیسری قسم کا انسان وہ ہوتا ہے جو قبض کی حالت میں خدا تعالیٰ کو چھوڑ بیٹھتا ہے وہ کہتا ہے اب مزا نہیں آتا۔ جب کسی پر یہ حالت آتی ہے تو اس کے بعد اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کا جب قبض کُھلتا ہے تو اس میں بشاشتِ ایمانی نہیں ہوتی بلکہ بشاشتِ کفریہ پیدا ہو چکی ہوتی ہے، وہ ایمان کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے یا نفاق کے، وہ سمجھتا ہے اصل حقیقت یہی ہے پہلے میں غلطی پر رہا۔
قوموں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ ابتلاء لاتا ہے تو کئی ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقوں نے جب مؤمنوں کو ڈرایا کہ تمہارے خلاف تمام لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ اس زمانہ کے احراری، پیغامی، منافق سب اکٹھے ہو گئے اس پر بجائے اس کے کہ مؤمن ڈرتے ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور وہ کہنے لگے کیا سب لوگ ہمارے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ یہی تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا تھا، اب اس کی بات پوری ہو گئی۔۲؎ گویا جب منافقین نے مؤمنوں کو مرعوب کرنا چاہا تو انہیں وہ آیات یاد آ گئیں جن میں خدا تعالیٰ نے بتایا تھاکہ سب لوگ اکٹھے ہو کر تم پر حملہ آور ہونگے، اور کہنے لگے خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔
غرض جس چیز کو منافقین نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کا ذریعہ سمجھا وہی ان کے ایمان کی تقوّیت کا موجب ہو گئی کیونکہ وہ بُزدل نہ تھے۔ بُزدل ہی تکلیف اور مصیبت کے وقت ڈرا کرتا ہے۔ بہادر اور زیادہ ہمت اور حوصلہ کا اظہار کرتا ہے۔ ایک دوست اب تو وہ احمدی ہیں جب غیر احمدی تھے تو انہوں نے ایک دفعہ مجھ سے کہا ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ آپ بیمار ہوتے ہیں، آپ کا گلا خراب ہوتا ہے، صحت خراب ہوتی ہے مگر پھر بھی جلسہ میں جاتے اور اتنی لمبی تقریر کرتے ہیں کہ دوسرے تندرست آدمی بھی نہیں کر سکتے۔ یا تو یہ بات غلط ہے کہ آپ بیمار ہوتے ہیں یا پھر ایسی بات ہے جو میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا بیماری کے بعض حصے بالکل ظاہر ہیں جیسے کھانسی وہ خود کس طرح بنائی جا سکتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب مؤمن ایک کام کرنے کا ارادہ کر کے اپنی پوری طاقت سے کام لے تو خدا کی نُصرت اس کیلئے نازل ہوتی ہے اور اس کو اتنی طاقت عطا کرتی ہے جو دوسروںکو حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میں کیا ہوں اور مجھ میں کتنی طاقت ہے بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کس قدر قربانی کا مطالبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کیلئے پورا عزم کر لیتا ہے تو اس کے مطابق خدا تعالیٰ اس کی حالت بنا دیتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہی ہم دیکھتے ہیں۔ آپ اپنے گھر میںہیں، چاردیواری کے اندر ہیں، شہر میں ہیں اُس وقت مدینہ کے انصار آ کر باری باری آپ کے مکان پر پہرہ دیتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے بہت شور کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور پوچھا کیاہے؟ انصار نے عرض کیا ہم پہرہ دینے کیلئے آئے ہیں اور ہتھیار بند ہو کر آئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ ۳؎ اس سے قبل جو پہرہ کیلئے آتے وہ ہتھیار بند ہو کر نہ آتے پھر وہ بھی ہتھیار لانے لگے۔
اسی طرح بدر کے موقع پر صحابہ نے مجبور کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے بٹھا دیا کہ آپ دعا کریں دشمن کا مقابلہ کرنا ہمارا کام ہے اور یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لی۔۴؎ ایک اور موقع پر جب کہ ضرورت اور حاجت بہت زیادہ تھی اورحالات بدتر تھے، سپاہی کم تھے دشمن زور آور تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں نہیں بلکہ میدانِ جنگ میں تھے، مسلمان سپاہ بھاگ گئی تھی اور صرف چند آدمی آپ کے پاس رہ گئے تھے، جب کہ چار ہزار تِیر انداز آپ پر تِیر برسا رہے تھے کہ صحابہ نے آپ کا گھوڑا روک لیا اور کہا کہ آپ پیچھے چلیں۔ اُس وقت آپ نے فرمایا گھوڑا چھوڑ دو اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔۵؎ میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک وقت تو شریعت اور قانون کی رُو سے پہرہ ضروری قرار دیا جاتا ہے اور پسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے مگر دوسرے موقع پر وہی انسان اَور عمل ظاہر کرتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ میدانِ جنگ تھا اور میدانِ جنگ میں پہرہ کا کیا سوال مگر بدر بھی میدانِ جنگ ہی تھا وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا۔ لڑائی میں شریک ہونے کی بجائے الگ رہے۔ یہ کیوں؟ اِس لئے کہ مدینہ کا موقع اور وہاں کے حالات ایسے تھے جہاں مسلمانوں کا جتھہ مضبوط تھا اور مؤمن آپ کی حفاظت کرنے کیلئے تیار تھے وہاں آپ نے عام قانون استعمال کیا کہ حفاظت کیلئے انتظام اور تدابیر کرو۔ پھر بدر کے موقع پر بیشک میدانِ جنگ تھا مگر آپ کے پاس ایسے سپاہی تھے جو لڑ رہے تھے اور جنہوں نے آپ سے عرض کی تھی کہ آپ بیٹھے رہیں لیکن ہوازن کے مقابلہ پر اسلامی لشکر بھاگ چکا تھا اور صرف بارہ آدمی آپ کے پاس رہ گئے تھے۔ تب وہ وقت آ گیا جب اس بات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عملی ثبوت پیش کریں کہ مسلمانو! مجھے تمہاری امداد کی پروا نہیں اگر کوئی امداد کرتا ہے تو ثواب حاصل کرے گا ورنہ میں اکیلا ہی دشمنوں کا مقابلہ کروں گا۔ اس وقت عام قانون برتنے کا وقت نہ تھا کیونکہ امن نہ تھا اور یہ وقت خدا تعالیٰ کی نُصرت کا نظارہ دکھانے کا تھا۔ یہ قومی حالات قبض کے ہوتے ہیں اس وقت مسلمانوں کے اندر تنرلزل پیدا ہو گیا، لشکر بھاگ گیا۔ اس وقت جو لوگ آپ کے ساتھ رہے وہ کامل ایمان والے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بہت اعلیٰ رُتبے پائے۔ مثلاً حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عباسؓ اور بعض انصار بھی تھے، تو قوموںپر بھی قبض اور بسط کی دونوں حالتیں آتی ہیں اور افراد پر بھی۔ مؤمن قبض کی حالت میں اور بھی زیادہ ایمان پر پختہ ہوتا اور اخلاص میں بڑھتا ہے۔ وہ بتا دیتا ہے کہ سامان وہ اس لئے استعمال کرتا ہے کہ خدا کا حکم ہے اور پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حضور ڈال دیتا ہے۔ اس وقت اس کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور نصرت نازل ہوتی ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل قبض اور بسط کی ایک عجیب حالت کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ پہلی بیوی سے آپ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہؤا جو آپ کو بہت پیارا تھا۔ اس وقت آپ اچھے عہدہ پر تھے، آسودگی تھی، اس بچہ کی بہت خاطر کی جاتی تھی۔ جب وہ کچھ بڑا ہؤا تو ایک دن اس نے کہا گھوڑا لے دیں میں اس پر سوار ہؤا کروں گا۔ وہ کچھ بیمار تھا آپ اُسے دوائی دے کر مکان سے باہر آئے اور ایک آدمی کو بُلا کر سمجھا رہے تھے کہ اس قسم کا گھوڑا خرید لائو کہ ایک لڑکی اندرسے آئی جس نے کہا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے جو دوائی اسے دی اس سے اسے اُچّھو آ گیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی جان نکل گئی۔ آپ فرماتے، اس وقت مجھے اتنا صَدمہ ہؤا کہ دماغ کی حالت مختل سی ہو گئی اور جب نماز کا وقت آیا، غالباً مغرب کی نماز کا وقت تھا کہ اس وقت طبیعت پر بڑا بوجھ تھا کہ اتنی دعائیں کیں مگر بچہ فوت ہو گیا۔ آخر جب نماز کیلئے کھڑا ہؤا اور سورہ فاتحہ پڑھنے لگا تو سخت قبض کی حالت تھی۔ میں نے سمجھا خدا تعالیٰ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۶؎ کہو مگر میں کس منہ سے کہوں۔ ایک ہی بچہ تھا وہ بھی مر گیا ایسی حالت میں اگر میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہوں گا تو یہ منافقت ہوگی۔ اس وجہ سے میں خاموش کھڑا رہا اور مقتدی حیران کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کے بعد یکدم زور سے میں نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہہ کر سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کر دی۔ نماز کے بعد مقتدیوں نے پوچھا آج کیا ہؤا۔ پہلے تو آپ خاموش کھڑے رہے پھر جھٹکا کے ساتھ سورہ فاتحہ شروع کی۔ اس پر آپ نے ان کو وہ کیفیت بتائی جس کی وجہ سے خاموش رہے۔ پھر فرمایا آخر مجھے خیال آیا نورالدین تجھے کیا معلوم کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر چور ہوتا یا فریبی ہوتا اس طرح تیرے لئے دُکھ اور رنج کا موجب بنتا۔ یہ خیال آتے ہی بے اختیار زبان سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نکل گیا۔ تو موت بھی خداتعالیٰ کا احسان ہی ہوتا ہے۔ تو قبض کی حالت کے متعلق مؤمن جب یہ سمجھتا ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے تو وہ فی الواقع نعمت ہی بن جاتی ہے۔ میں تمہیں ایک مثال سناتا ہوں شاید کبھی نہ کبھی ہر شخص سے یہ معاملہ پیش آیا ہو، مجھ سے بھی ایسا ہؤا ہے۔ بعض دفعہ ایک شخص کو کوئی چیز دیتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ فلاں کو دے آئو۔ مگر جلد بازی سے اِدھر چیز دی جاتی ہے اور اُدھر لینے والا کہہ دیتا ہے جَزَاکَ اللّٰہُ آپ نے میرا بھی خیال رکھا۔ اس وقت کیا کسی کو جرأت ہو سکتی ہے کہ کہے یہ تمہارے لئے نہیںبلکہ کسی اور کیلئے ہے۔ نہیں بلکہ اس وقت وہ چیز اسی کو دے دی جاتی ہے۔ پھر جب یہ چھوٹی سے چھوٹی شرافت اور سخاوت جس سے تم کام لیتے ہو کہ جو شخص کسی اور کی چیز کو اپنے لئے انعام سمجھتا ہے، تم اس کے لئے وہ انعام بنا دیتے ہو، تمہارے اندر موجود ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کسی پر ابتلاء لائے اور وہ اسے انعام سمجھے مگر خدا تعالیٰ اسے انعام نہ بنا دے۔ خدا تعالیٰ یہی فیصلہ کرے گا کہ میرے اس بندے نے ابتلاء کو انعام سمجھا ہے، پھر میں کیوں نہ اسے انعام بنا دوں۔ یہی نکتہ مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں یوں بیان کیاہے کہ:۔
ہر بلاکیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است کے یہی معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مصیبت آتی ہے، اس پر جب وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتا ہے تو خدا تعالیٰ اس موقع کو بھی اس کے لئے اَلْحَمْدُ کا موقع بنا دیتا ہے۔ پس حقیقی ابتلاء بھی انعامی بن جاتا ہے بشرطیکہ اسے انعامی بنا لیا جائے اور یہی چیز قوم کی ترقی کا موجب ہوتی ہے۔ بسط تو ہے ہی ترقی، خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ روشنی میں منافق بھی چل پڑتے ہیں۔ پھر جب فتح ہوتی تو منافق بھی کہتے ہمیں حصہ دو۔ ہاں تنزّل ابتلاء کے وقت ہوتا ہے۔ اگر انسان ابتلاء کو انعام بنا لے تو قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے۔ پس ہماری روحانی اور دنیاوی ترقی خدا تعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھی ہے۔ ہم چاہیں تو اللہ تعالیٰ پر حُسن ظنی کر کے اور نیک خیال کر کے کہ جو کچھ وہ کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو (گو یہ لفظ بے ادبی کا ہے مگر چونکہ کوئی اور لفظ نہیں اس لئے یہی استعمال کیا جاتا ہے) مجبور کر دیں اور اپنے متعلق یہ یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے انعام حاصل کر سکتے ہیں تو بڑے سے بڑا ابتلاء بھی انعام بن سکتا ہے اور چاہیں تو بدظنی کریں اور سزا چھوڑ انعام کو بھی سزا سمجھ لیں اور پھر اس کے مستحق بن جائیں اور جو خدا تعالیٰ پر یا اپنے نفس پر بدظنی کرتے ہیں ان کے ساتھ سزا والا معاملہ ہی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۷؎ کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے جیسا کوئی بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے میں اس کیلئے ویسا ہی بن جاتا ہوں۔ اگر تکلیف اور ابتلاء کے وقت بھی مؤمن کہے خدا تعالیٰ کتنا بڑا مُحسن ہے اور اس نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے تو خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے اس پر احسان ہی کرو لیکن اگر انسان انعام کو سزا سمجھ لے تو پھر سزا ہی پاتا ہے کیونکہ حُسن ظنی آگے کو لے جاتی ہے اور بَدظنی پیچھے کو۔ جو قومیں خدا تعالیٰ پر اور اپنے اوپر حُسن ظنی کرتی ہیں، وہ آگے بڑھتی ہیں اور جو بَدظنی کرتی ہیں وہ پیچھے ہٹتی ہیں۔ چند ہی دن ہوئے جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر کے متعلق مَیں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس کے لکھنے والا ایک پروفیسر ہے، اس نے یہ بتایا ہے کہ جرمن قوم کو ذلّت سے نکال کر کس طرح ہٹلر ترقی کی طرف لے گیا۔ اس نے لکھا ہے کہ جرمن یہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ چونکہ ہم جنگ میں ہار گئے ہیں اس لئے ہم وہ نہیں جن کے متعلق کہا جاتاتھا کہ بڑے بہادر اور جری ہیں مگر ہٹلر نے آ کر کہا۔ میدانِ جنگ میں ہمیں کسی نے شکست نہیں دی بلکہ یہودیوں وغیرہ کے ملک میں خرابی اور بغاوت پیدا کرنے کی وجہ سے ہم ہارے، ہم اب بھی بہادر ہیں۔ اس سے نوجوانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور ان کے سینے تن گئے۔ یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ اس قوم نے سَر اٹھانا شروع کر دیا اور جب اس نے سَر اٹھانا شروع کیا تو فرانسیسی اور انگریز نے سَر جھکانا شروع کر دیا۔
جب میں نے یہ پڑھا تو کہا دیکھو کیسا اعلیٰ فلسفہ ہے مگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سَو سال پہلے بیان فرما دیا تھا کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ ۸؎ کہ جس نے قوم کے اندر یہ خیال پیدا کیا کہ قوم خراب ہو گئی اس نے قوم کو تباہ کر دیا کیوں؟ اس نے بَدظنی پیدا کی خدا تعالیٰ کے متعلق کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں چھوڑ دیا اور بَدظنی کی اپنے نفس کے متعلق کہ ہم خود خراب ہو گئے، ہماری اصلاح کی کوئی صورت نہیں۔
اس وقت میں جلسہ کا افتتاح دعا کے ساتھ کرنے کیلئے کھڑا ہؤا تھا مگر میری باتوں نے تقریر کا رنگ اختیار کر لیا۔ آپ سب صاحبان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم اس لئے یہاں آتے ہیں کہ یہ ظاہر کریں۔ اے خدا! ہم آپ پر حُسن ظنی رکھتے ہیں اور پوری طرح یقین رکھتے ہیں کہ جس مقصد کیلئے آپ نے ہمیں کھڑا کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ گویا ہم یہاں کسی قسم کی مایوسی کے اظہار کیلئے نہیں بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ یقین اور ایمان کا اظہار کریں اور خدا تعالیٰ سے کہیں کہ ہمیں تیرے وعدوں پر پورا پورا یقین ہے اور ہم تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آئے ہیں۔ یہاں جو تقریریں کی جائیں، ان میں بھی یہی بات مدنظر ہونی چاہئے اور اپنے جذبات سے بھی یہی ظاہر کرنا چاہئے۔ کوئی احمق ہی خیال کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر بَدظنی بھی کرے اور وہ اسے ترقی اورعروج کی طرف لے جائے۔ یا اپنے نفس پر بَدظنی کرے اور پھر نیک بن جائے۔ اگر کوئی پاگل اپنے آپ کو کُتّا سمجھے تو وہ تقریر کرنے کھڑا نہیں ہو جائے گابلکہ بھوں بھوں کرنے لگے گا اور اگر کوئی پاگل اپنے آپ کو نبی سمجھے تو وہ مذہب کے متعلق باتیں بیان کرے گا۔ تم لوگ اگر اپنے آپ کو انسان اور روحانی آدمی سمجھو گے اور پھر جو باتیں کرو گے وہ اگر نقلی بھی ہونگی تو خدا تعالیٰ ان کو اصلی بنا دے گا۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:
نماز کیا ہے؟ نقل ہے اپنے اندر خشوع خضوع پیدا کرنے کی۔ نماز میں انسان اس قسم کی حرکات کرتا ہے جو ایک مضطرب کرتا ہے اور اخلاص سے اگر نقل بھی کی جائے تو خدا تعالیٰ اسے اصل بنا دیتا ہے۔
پس یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اس جلسہ کے موقع پر دل کو اس یقین اور وثوق کے ساتھ پُر کیا جائے جس کے پیدا کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور جس کے لئے ہمیں یہاں جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔
دیکھو مکہ میں تمام دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا ایک بچہ چھوڑا تھا، وہاں کچھ نہ تھا بے آب و گیاہ جگہ تھی، ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک تھیلی کھجوروںکی رکھ کر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے چلے تو رِقّت کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔ حضرت ہاجرہ نے پوچھا آپ ہمیں یہاں چھوڑے جاتے ہیں تو کوئی جواب نہ دے سکے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آپ منہ مکہ کی طرف کر کے اُلٹے پائوں چلتے اور ان کی طرف دیکھتے جاتے۔ وہاں کوئی سامان نہ تھا آخر حضرت ہاجرہ نے پوچھا کیا خدا کے حکم سے چھوڑ رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تب بھی ان سے کوئی جواب نہ دیا گیا بلکہ آپ نے آسمان کی طرف سر اُٹھا دیا جس کے معنی یہ تھے کہ خدا کے حکم سے ہی چھوڑ رہا ہوں۔ تب حضرت ہاجرہ نے کہا۔ اِذًا لاَّیُضَیِّعُنَا ۹؎ اگر خدا نے یہ حکم دیا ہے تو وہ خود ہماری حفاظت کرے گا۔
دیکھوکُجا وہ جنگل بے آب و گیاہ اور کجا یہ حالت کہ سالانہ دنیا بھر کے لوگ وہاں جاتے ہیں اور لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَکہہ کر ظاہر کرتے ہیں کہ ہم حضرت اسماعیل کی جگہ حاضر ہو گئے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی خدمت کیلئے موجود ہیں۔ پھر اس مقام پر جا کر پتہ لگتا ہے کہ ہم سے کس طرح کی قربانیاں خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے سے انسان تباہ ہو جاتا ہے، خدا تعالیٰ پر کتنی بڑی بَدظنی ہے۔ کیا خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تباہ ہونے دیا اگر نہیں تو اور جو کوئی اس کی راہ میں قربانی کرے گا، وہ بھی تباہ نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہو جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ میں نے مقرر نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے اور جو شخص یہاں آ کر دیکھتا ہے کہ پہلے کیا حالت تھی اور اب کیا ہے وہ خوب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی آواز پر کھڑے ہونے والے کبھی ناکام نہیں ہو سکتے۔ کُجا وہ وقت کہ بٹالہ کے ایک مُلّا نے کہا میں نے اس (حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام) کو اُونچا کیا ہے اور میں ہی اسے گِرا دوں گا، اور کُجا یہ حالت کہ آج اس کی رُوح بھی آ کر دیکھتی ہوگی تو حیران ہوتی ہوگی کہ میں نے کیا کہا اور خدا نے کیا کِیا۔
غرض یہاں کی ہر چیز بلکہ وہ ہر ذرّہ جو ناک میں جاتا ہے کہتا ہے کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے کس شان سے اپنے وعدے پورے کئے اور خدا کس طرح اپنی راہ میں قربانی کرنے والوں کی مدد اور نصرت کرتا ہے۔ آپ لوگوں کو یہاں ہر سال جمع کرنے کی یہ غرض ہے کہ خدا تعالیٰ دکھائے کہ تم چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تسلی نہ پائو بلکہ یہ دیکھو کہ خدا کے حضور تمہارے لئے کتنے بڑے درجات ہیں۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے دیکھو میں نے غلام احمد کو اکیلا کھڑا کیا پھراسے کتنی ترقی دی۔ اگر تم بھی خدا کے فضلوںکی اُمید رکھو اس پر بَد ظنی نہ کرو، نہ اپنے نفس کے متعلق، تو خدا تم کو دوسرا غلام احمد بنا دے گا۔ خدا کے نبی دنیا میں اس لئے آتے ہیں کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں اور وہی برکات حاصل کریں۔
پس خدا تعالیٰ نے یہ جلسہ اس لئے مقرر کیا ہے کہ تا تم پر ثابت کرے کہ خدا کے وعدے ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کیلئے قربانی کرنے والے مرتے نہیں بلکہ زندہ رکھے جاتے ہیں بلکہ قربانی کے بعد بندہ اور زیادہ ترقی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے کی مثال اس بچہ کی ہوتی ہے جو ماں سے کہتا ہے میں مرتا ہوں اور ماں کہتی ہے تم نہ مرو۔ خدا تعالیٰ ماں سے بہت زیادہ محبت اپنے بندوں سے کرتا ہے اس لئے جب وہ اس کی خاطر موت قبول کرتے ہیں تو وہ انہیں زندہ رکھتاہے۔ اس رنگ میں احباب کو اس جلسہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی توفیق دے اور آپ سب لوگوں کو بھی کہ ہم خدا تعالیٰ پر کامل حُسنِ ظنی کریں، زیادہ سے زیادہ اپنے نفس پر حُسن ظنی کریں، اپنے نفوس کی حقیقت کو سمجھیں اور ان طاقتوں کو استعمال کرنے کی توفیق دے جو خدا تک پہنچا دیتی ہیں، اس اخلاص اور نیت کی توفیق دے جس کے ماتحت اس کے حضور قربانی قبول کی جاتی ہے، وہ اپنی محبت کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے، ہماری ہر گھڑی کو اخلاص اور ایمان سے وابستہ رکھے، ہمارے دلوں دماغوں اور ذہنوں میں نور پیدا کرے، ہمارے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اُوپر نیچے، اندر باہر نور ہی نور ہو۔ ہماری اولادوں کی اور ان کی اولادوں کی غفلتوںاور سستیوں کو دور کرے۔ وہ تمام نقائص جو دین کی ترقی میں روک ہوں یا دنیا کی ترقی میں، ان کو دور کرے۔ ہم کو اپنا سچا خادم بنا لے تا کہ ہم اس تعلیم کو دنیا میں قائم کر سکیں جو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہتا ہے۔
(الفضل ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۷ء)
۱؎ مسلم کتاب التوبۃ باب فضل دوام الذکروالفکر فی امور الاٰخرۃ…۔
۲؎ اٰل عمران: ۱۷۴
۳؎ بخاری کتاب الجہاد باب الحرسۃ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ
۴؎ سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ۱۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵؎ بخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ ویوم حنین…۔
۶؎ الفاتحۃ: ۲
۷؎ بخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالٰی و یحذرکم اللّٰہ نفسہ
۸؎ مسلم کتاب البروالصلۃ والاداب باب النھی عن قول ھلک الناس
۹؎ بخاری کتاب الانبیاء باب یُزفّون النسلان فی المشی



مجلسِ احرار کا مباہلہ کے متعلق
ناپسندیدہ رویہ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
مجلسِ احرار کا مباہلہ کے متعلق ناپسندیدہ رویہ
(تحریر فرمودہ ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء)
برادران! ایک عرصہ سے مجلسِ احرار کے عہدہ دار اور ان کے مبلّغ، جماعتِ احمدیہ کے خلاف طرح طرح کے بُہتان لگا رہے ہیں اور ناواقف لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مثلاً وہ لوگوں کو یہ کہہ رہے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ بانی سلسلہ احمدیہ نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے اور وہ اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ سے بڑا سمجھتے تھے، اور جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اسی طرح وہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک قادیان کو نَعُوْذَ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر فضیلت حاصل ہے اور احمدیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ بلکہ خاک بدہنِ دشمن۔ اگر ان مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جائے تو احمدی خوش ہوں گے۔ جب احرار کی اس قسم کی بُہتان تراشی حد سے بڑھ گئی اور باوجود بار بار توجہ دلانے کے وہ باز نہ آئے تو میں نے احرار کو چیلنج دیا ۱؎ کہ وہ احرار کے پانچ سَو ایسے نمائندے جنہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب کا ایک حدتک مطالعہ کیا ہو۔ پیش کریں، جو جماعت احمدیہ کے پانچ سَو نمائندوں سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا ایک حد تک مطالعہ کیا ہو گا کہ وہ ان کی تعلیم کے متعلق یقین سے قسم کھا سکیں، مباہلہ کر لیں تا کہ حق اور باطل میں امتیاز ہو سکے۔ مباہلہ اس امر پر ہو گا کہ احرار کے نمائندے اپنا الزام دُہرائیںگے کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت، رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں کرتی اور احمدیہ جماعت کے عقائد کی رو سے بانی سلسلہ احمدیہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ آنحضرت ﷺ سے افضل تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے قادیان کو جماعت احمدیہ زیادہ معزز سمجھتی ہے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی ذلّت اور تباہی کی خواہاں ہے اور جماعت احمدیہ جوابی طور پر اس امر پر قسم کھائے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہمیشہ رسول کریم ﷺ کی شاگردی اور غلامی کا رہا ہے اور یہی انہوں نے تعلیم دی ہے۔ آپ رسول کریم ﷺ کے سچے عاشق اور خادم تھے اور آپ کی تعلیم کے مطابق جماعت احمدیہ بھی بحیثیت جماعت، رسول کریم ﷺ کو افضل الرسلؐ اور سیّد وُلد ِآدم سمجھتی ہے اور بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کا شاگرد اور خلیفہ سمجھتی ہے نہ کہ مرتبہ کے لحاظ سے آپ کے برابر یا آپ سے بڑا۔ اور دوسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو دنیا کے سب مقامات سے زیادہ معزز سمجھتے تھے اور جماعت احمدیہ بھی ان مقامات کو دنیا کے سب مقامات سے اور قادیان سے زیادہ مکرم اور معزز سمجھتی ہے اور ان مقامات کی عزت واحترام پوری طرح اس کے دل میں قائم ہے اور ان کی ہتک کو وہ اپنی عزت کی ہتک سے زیادہ سمجھتی ہے اور ان کی حفاظت کے لئے ہر وہ قربانی جس کا شریعت مطالبہ کرے بفضلہ تعالیٰ کرنے کو تیار ہے۔
برادران! باوجود اس چیلنج کے شائع ہونے کے، سوائے اس کے کہ بعض اشخاص احرار کی طرف سے قادیان آ کر تقریر کر گئے کہ احرار مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، احرار نے اور کوئی قدم نہ اُٹھایا۔ تب میں نے اس خیال سے کہ شاید احرار کو یہ بُرا معلوم ہوا ہو کہ اخبار میں اعلان کر دیا گیا ہے اور ہمیں تحریراً مخاطب نہیں کیا گیا اپنے دوسرے خطبہ میں اپنی طرف سے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ، چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایم۔ایل۔سی اور مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل مبلغ جماعت احمدیہ کو نمائندہ مقرر کر دیا کہ ان سے احرار کے نمائندے ضروری امور کا تصفیہ کر لیں اور شرائط کا تصفیہ ہو جانے کے پندرہ دن بعد مباہلہ ہو، تا مباہلہ کرنے والوں کو بروقت اطلاع دی جا سکے۔ ان لوگوں نے بذریعہ خطوط تمام ذمہ وار کارکنانِ احرار کو توجہ دلائی لیکن ان کا جواب اب تک نہیں ملا۔ اس کے بعد مظہر علی صاحب اظہر کی طرف سے ۱۴۔اکتوبر کو مجھے یکدم تار ملی کہ مجلس احرار مباہلہ منظور کرتی ہے اور یہ کہ ۲۳۔نومبر کو مباہلہ ہو گا۔ مجھے اس تار کو دیکھ کر نہایت حیرت ہوئی کہ خطوط کا جواب تک نہیں دیا جاتا، شرائط کے متعلق کچھ لکھا نہیں جاتا اور ۲۳۔ نومبر یعنی ایک ماہ سے زائد عرصہ کے بعد جس کام کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اس کی اطلاع بذریعہ تار دی جاتی ہے حالانکہ ایک رجسٹری خط کے ذریعہ سے یہ اطلاع آسکتی تھی۔ ان کی اس تار اور اس امر کو دیکھ کر کہ جو نمائندے مقرر کئے گئے تھے ان کے خطوط کا جواب تک نہیں دیا گیا، خیال کیا گیا کہ مجلس احرار کے دل میں کچھ اور بات ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ شرائط طے کرنے پر تیار ہے اور نہ اپنی تحریر باقاعدہ جماعت احمدیہ کو دینے کو تیار ہے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ کی طرف سے متعدد تحریرات اس کے ممبروں کو جا چکی ہیں۔ لیکن پھر بھی حُجت پوری کرنے کے لئے میں نے مناسب سمجھا کہ ان سے دوبارہ پوچھ لیا جائے کہ شرائط کے بارہ میں آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ اور اس دفعہ اس خیال سے کہ شاید دوسرے نمائندوں سے گفتگو کرنے میں مجلس احرار کے سیکرٹری صاحب اپنی ہتک خیال کرتے ہوں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کی تار کا جواب ناظر دعوت وتبلیغ سے دلوایا گیاجو صدرانجمن احمدیہ کے سیکرٹری اور اس کے تبلیغی شعبہ کے ذمہ وار افسر ہیں۔ خیال تھا کہ اب اس خط کے بعد احرار کو کوئی اعتراض باقی نہ رہا ہو گا لیکن تعجب ہے کہ آج ۳۰۔اکتوبر ۱۹۳۵ء ہو چکی ہے لیکن اب تک کوئی جواب مجلسِ احرار کی طرف سے موصول نہیں ہوا۔ ہاں ایک اعلان چند روز سے مجاہد اخبار میں شائع ہو رہا ہے کہ ہمیں سب شرطیں منظور ہیں اور ہم مباہلہ ضرور کریں گے۔
برادران! اگر فی الواقع مجلس احرار کو یہ سب شرطیں منظور ہیں تو جواب تحریری کیوں نہیں دیا جاتا کیونکہ اخباری جواب تو ذمہ واری کا جواب نہیں کہلا سکتا۔ ابتدائی چیلنج چونکہ باقاعدہ کارروائی نہیں ہوتا اخبار میں شائع ہو سکتا ہے لیکن شرائط کا تصفیہ تو بہرحال تحریر میں آنا ضروری ہے اور دونوں فریق کے اس پر دستخط ہونے بھی ضروری ہیں۔
علاوہ ازیں اس اعلان میں اور بھی نقص ہیں۔
اوّل نقص یہ ہے کہ اس میں صرف یہ لکھا جا رہا ہے کہ ہمیں سب شرائط منظور ہیں۔ حالانکہ جو امور میری طرف سے پیش ہوئے ہیں ان میں کئی امور پر اس مجمل جواب سے روشنی پڑ ہی نہیں سکتی۔ مثلاً:۔
(۱) میں نے لکھا تھا کہ مباہلہ میں پانچ سَو یا ہزار آدمی احرار کی طرف سے علاوہ ان کے پانچ لیڈروں کے ایسے شامل ہوں جو خواہ کسی حیثیت یا اخلا ق کے ہوں لیکن احرار کے نمائندے ہوں اور انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک دو کتب ضرور پڑھی ہوں تا کہ وہ اس قَسم کے کھانے میں حق بجانب ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ رسول کریم ﷺ کے درجہ کو اپنے درجہ سے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درجہ کو قادیان کے درجہ سے گرایا ہے۔ اوّل تو اس قسم کے مباہلہ کے لئے ضروری تھا کہ میں مطالبہ کرتا کہ ایسے لوگوں نے کم سے کم چار پانچ نہایت اہم کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مطالعہ کی ہوں مگر جیسا کہ میں نے اپنے خطبہ مطبوعہ الفضل ۶۔اکتوبر ۱۹۳۵ء میں بتایا ہے اس خیال سے کہ یہ شرط پوری کرنی احرار کے لئے مشکل نہ ہو صرف یہ شرط رکھی کہ مباہلہ کرنے والوں نے سلسلہ احمدیہ کی بعض کتب کا مطالعہ کیا ہوا ہو خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ جواب کہ ہم سب شرطوں کو منظور کرتے ہیں اوپر کی بات کا پورا جواب نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے دو سوال کئے ہیں۔ یعنی یا پانچ سَو آدمی یا ہزار آدمی مباہلہ میں شامل ہوں۔ پس جب تک تعداد کا تعیّن نہ ہو کہ پانچ سَو ہو گا یا ہزار صرف یہ کہہ دینے سے کہ شرط منظور ہے، کام کس طرح چل سکتا ہے۔؟ اب ہم پانچ سَو آدمی تیار کریں یا ہزار اور ان کے پانچ سَو آدمی کی امید رکھیں یا ہزار کی؟
نیز اس شرط کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ ان پانچ سَو یا ہزار کی فہرست اور مکمل پتے ہر فریق دوسرے کو دے تا کہ مباہلہ کے بعد ہر فریق ان پر نظر رکھ سکے کہ ان سے خدا تعالیٰ کا کیا معاملہ ہوا؟ ورنہ ایک گروہ کا آ کر مباہلہ کر کے چلا جانا کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ اور یہ بات اس صورت میں طے ہو سکتی تھی اگر مجلس احرار کے بعض نمائندے جماعت احمدیہ کے بعض نمائندوں سے گفتگو کرتے اور سب باتیں تحریر میں آ جاتیں۔
(۲) دوسری بات جس پر اس گول مول جواب دینے سے روشنی نہیں پڑتی یہ ہے کہ میں نے خطبہ میں کہا تھا کہ مباہلہ لاہور یا گورداسپور میں ہو۔ بعد میں ایک خطبہ میں مَیں نے کہا کہ میں نے سنا ہے احرار کہتے ہیں کہ مباہلہ قادیان میں ہو اگر ان کا اس میں کوئی فائدہ ہو تو مجھے یہ بات بھی ان کی منظور ہو گی۔ اب ان کے اس جواب سے میں کیا سمجھوں؟ اگر ان کا یہ قول کہ میری ہر شرط انہیں منظور ہے درست ہے تو پھر مباہلہ کا مقام لاہور یا گورداسپور بنتا ہے لیکن اس صورت میں پہلے تعیین ہونی چاہئے کہ مقام لاہور ہو گا یا گورداسپور۔ اور اگر ان کے اس اعلان کا مفہوم یہ نہیں تو پھر ان کا یہ بیان کہ میری ہر شرط انہیں منظور ہے درست نہ ہوا۔ کیونکہ قادیان میں مباہلہ ہونا اُن کی شرط ہے نہ کہ میری۔ اس صورت میں انہیں یوں لکھنا چاہئے تھا کہ قادیان کی شرط امام جماعت احمدیہ نے ہماری مان لی ہے۔ باقی شرائط ہم ان کی مانتے ہیں۔ مگر اس صورت میں بھی جگہ، وقت اور مجلس مباہلہ کا انتظام اور بہت سے اور امور ہیں کہ جو بغیر نمائندوں کے باہم ملنے کے طے نہیں ہو سکتے۔
(۳) تیسری بات جو اس اعلان کو مشتبہ کرتی ہے یہ ہے کہ میری شرائط میں یہ درج ہے کہ طرفین کے نمائندے جب ضروری امور کا تصفیہ کر لیں گے تو تاریخ مباہلہ مقرر کی جائے گی جو اس تصفیہ کے پندرہ دن بعد کی ہو گی۔ اس کے دو ہی معنی بنتے ہیں یا یہ کہ تاریخ مَیں مقرر کروں گا اور یا پھر یہ کہ تاریخ طرفین کی منظوری سے مقرر ہو گی لیکن تعجب ہے کہ ایک طرف تو مسٹر مظہر علی صاحب اظہر یہ اعلان کرتے ہیں کہ سب شرائط منظور ہیں دوسری طرف آپ ہی تاریخ کی تعیین بھی کر دیتے ہیں۔ اگر واقع میں انہیں میری شرطیں منظور تھیں تو پہلے نمائندوں کی گفتگو ہونی چاہئے تھی، پھر طرفین کی رضا مندی سے تاریخ کا تعیّن ہونا چاہئے تھا کیونکہ تاریخ کی تعیین میں شامل ہونے والوں کے آرام کا خیال رکھنا بھی مدنظر ہوتا ہے۔
غرض اوپر کی مثالوں سے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ان امور کی موجودگی میں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کا یہ اعلان کہ انہیں سب شرائط منظور ہیں درست نہیں ہے اور نہ اعلان کردہ تاریخ کے شائع کرنے کا انہیںکوئی حق پہنچتا ہے۔
بے شک وہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض امور میں ان کی رائے بھی تسلیم کی جانی چاہئے میں اس بات کو ضرور وزن دوں گا لیکن یہ تو نہیں ہونا چاہئے کہ وہ شرائط کے طے ہوئے بغیر بلکہ بعض شرائط کے خلاف عمل کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے چلے جائیں کہ انہیں سب شرائط منظور ہیں۔
میں نے سنا ہے کہ تحریر دینے کے متعلق مسٹر مظہر علی صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ جماعت احمدیہ کے امام نے چونکہ ہمیں مخاطب کیا ہے، ہم انہی کو جواب دے سکتے ہیں دوسرے کو نہیں۔ یہ تو ایک بچوں کی سی بات ہے اور اگر انہوں نے ایسا کہا ہے تو تعجب کا مقام ہے کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو پہلا اعلان کرے وہ خود ہی ساری خط و کتابت کرے، اس کی طرف سے کوئی نمائندہ نہیں مقرر کیا جا سکتا۔ اگر یہ اعتراض درست ہو تو مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کی وکالت بے معنی ہو جاتی ہے۔ عدالت میں دعوی کوئی کرتا ہے، مدعاعلیہ کوئی اور ہوتا ہے اور مسٹر مظہر علی صاحب اظہر اور ان کے رفقاء جا کر بحثیں کرتے ہیں ۔ جب ایک شخص باقاعدہ نمائندہ ہو تو پھر اس کی گفتگو اصل آدمی کی گفتگو ہی سمجھی جاتی ہے۔ پھر جو نمائندے مَیں نے مقرر کئے تھے وہ ایسے نہ تھے کہ اظہر صاحب کی ان سے گفتگو کرنے میں ہتک ہو۔ ان میں سے ایک بیرسٹر ہیں اور سیالکوٹ کے معزز خاندان کے رُکن اور صاحبِ حیثیت زمیندار ہیں اور مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کی طرح پنجاب کونسل کے ممبر بھی ہیں۔
دوسرے صاحب ہائی کورٹ لاہور کے ایک کامیاب اور معزز ایڈووکیٹ جماعتِ احمدیہ لاہور کے امیر اور میرے عزیزوں میں سے ہیں۔
تیسرے صاحب مولوی فاضل اور جماعت احمدیہ کے مبلّغ ہیں۔ پس اگر میں ایسا شخص نمائندہ مقرر کرتا جو نہایت ادنیٰ اور بے حیثیت آدمی ہوتا تو مسٹر اظہر صاحب کو وجہِ اعتراض ہوتی کہ ایسے آدمی کو مقرر کر کے میری ہتک کی ہے۔ مگر مذکورہ بالا اشخاص پر اُن کو یا اُن کی مجلس کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر میں نے تو خود ہی اس خیال سے کہ سیکرٹری کی گفتگو سیکرٹری سے اچھی رہے گی، صدرانجمن احمدیہ کے سیکرٹری کو ان سے خط و کتابت جاری کرنے کو کہا مگر انہوں نے اس کو بھی جواب نہیں دیا۔
مسٹر مظہر علی صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر فی الواقع ان کو یہ اعتراض ہے کہ چونکہ مَیں نے مخاطب کیا ہے، مجھے ہی خط و کتابت کرنی چاہئے تو پھر وہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ میں نے تو مجلس احرار اور اس کے سرداروں کو چیلنج دیا ہے پھر مسٹر مظہر علی صاحب کا کیا حق ہے کہ جواب دیں اگر اظہر صاحب ان لوگوں کے نمائندہ ہو کر اعلان کر سکتے ہیں تو میری طرف سے کوئی نمائندہ کیوں گفتگو نہیں کر سکتا؟
مگر میں چاہتا ہوں کہ ان کے اس شک کا بھی مزید ازالہ کر دوں اور اَب میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اپنی ایک تحریر ناظر تبلیغ کو دے دوں کہ وہ میری طرف سے مباہلہ کی شرائط طے کرنے کے لئے نمائندہ ہونگے، جسے وہ اپنے خط کے ساتھ سیکرٹری مجلس احرار کے پاس بھجوا دیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس کے بعد مسٹر مظہر علی صاحب کو کوئی اعتراض ناظر تبلیغ سے جو صدرانجمن احمدیہ کا اسی طرح سیکرٹری ہے جس طرح اظہر صاحب مجلس احرار کے سیکرٹری ہیں، خط و کتابت کرنے پر نہ ہو گا۔ بہرحال سب شرائط کا تحریر میں آ جانا اور میدانِ مباہلہ کے انتظام کے متعلق سب تفصیلات کا طے ہو جانا ضروری ہے تا کہ اس کے بعد کسی کو ردّوبدل کا موقع نہ ہو اور کسی قسم کا فریب نہ ہو سکے۔ اور جو آدمی مباہلہ کے لئے تجویز ہوں، ان کے نام، ولدیت، مفصّل پتے دونوں فریق اپنی تصدیق کے ساتھ ایک دوسرے کو مہیا کر دیں۔ اس کے بعد رضا مندی ٔ فریقین کے ساتھ پندرہ دن بعد کی ایک تاریخ مباہلہ کے لئے مقرر ہو گی اور اُس دن مباہلہ ہو گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ سب حق پسند احباب اب معاملہ کو سمجھ گئے ہونگے اور وہ احرار پر زور دیں گے کہ مباہلہ کی تفصیلی شرائط جماعت احمدیہ کے نمائندوں سے طے کر کے تاریخ کا تعیّن کریں اور اس طرح خالی اخباری گھوڑے دوڑا کر اس نہایت اہم امر کو ہنسی مذاق میں نہ ٹلائیں۔
اے بھائیو! احرار کے مذکورہ بالا جواب کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے کے لئے مباہلہ کا انتظار کئے بغیر مَیں اُس خدائے قہار وجبّار، مالک ومختار، مُعِزّ و مُذِلّ، مُحْیٖ اور مُمِیْت کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میرا اور سب جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت یہ عقیدہ ہے (اور اگر کوئی دوسرا شخص اس کے خلاف کہتا ہے تو وہ مردود ہے اور ہم میں سے نہیں) کہ رسول کریم ﷺ افضل الرسل اور سَیِّد وُلْدِ آدم تھے۔ یہی تعلیم ہمیں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے اور اسی پر ہم قائم ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی اُمت اپنے آپ کو جانتے ہیں اور سب عزتوں سے زیادہ اس عزت کوسمجھتے ہیں۔ بے شک ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا مأمور اور مُرسل اور دنیا کے لئے ہادی سمجھتے ہیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ کو جو کچھ ملا وہ رسول کریم ﷺ کے طفیل اور آپ کی شاگردی سے ملا تھا۔ اور آپ کی بعثت کا مقصد صرف اسلام کی اشاعت اور قرآن کریم کی عظمت کا قیام اور رسول کریم ﷺ کے فیضان کو جاری کرنا تھا اور جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے ۔
ایں چشمۂ رواں کہ بخلقِ خدا دہم
یک قطرہ ز بحر کمالِ محمدؐ است
ایں آتشم ز آتشِ مہر محمدیؐ است
وایں آب من ز آب زُلالِ محمدؐ است ۲؎
آپ جو نور دنیا میں پھیلاتے تھے وہ رسول کریم ﷺ کے نور کا ایک شُعلہ تھا اور بس۔ آپ رسول کریم ﷺ سے جُدا نہ تھے اور نہ ان کے مدِّمقابل۔ اور اسی طرح یہ کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دنیا کے دوسرے سب مقامات سے جن میں قادیان بھی شامل ہے، افضل اور اعلیٰ ہیں اور ہم احمدی بحیثیت جماعت ان دونوں مقامات کی گہری عزت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ان کی عزت پر اپنی عزت کو قربان کرتے ہیں اور آئندہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور میں خدائے واحد و قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس اعلان میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہا۔ میرا دل سے یہی ایمان ہے اور اگر میں جھوٹ سے یا اخفاء یا دھوکا سے کام لے رہا ہوں تو میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ:۔
اے خدا ! ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے اس قسم کا دھوکا دینا نہایت خطرناک فساد پیدا کر سکتا ہے ۔ پس اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ، دھوکے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر *** کر۔ لیکن اگر اے خدا! میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے ربّ! یہ جھوٹ جو بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت، میری نسبت اور سب جماعت احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے، تو اس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کر اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر لگاتاہے یا تو ہدایت دے یا پھر اسے ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کا موجب ہو۔ اور جماعت احمدیہ کو اس تکلیف کے بدلہ میں جو صرف سچائی کو قبول کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے عزت، کامیابی اور غیر معمولی نصرت عطا کر کہ تو اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ہے او رمظلوموں کی فریاد کو سننے والا ہے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
اے سننے والو سنو! کہ میں نے اپنی طرف سے قَسم کھا لی ہے اور قَسم کھا کر اس عقیدہ کا اعلان کر دیا جس پر میںاوّل دن سے قائم ہوں۔ اب احرار یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں مباہلہ سے گریز کرتا ہوں۔
میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ مباہلہ ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ کی نصرت اِس میری قسم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو نصیب ہو گی اور پیش آمدہ ابتلاؤں یا آئندہ آنے والے ابتلاؤں سے اِن کو نقصان نہ پہنچے گا بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل ہو گی۔ بے شک ابتلاء خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کے لئے ضروری ہیں مگر اصل شَے نتیجہ ہے جو ہمیشہ ان کے حق میںاچھا اور ان کے دشمن کے حق میں بُرا ہوتا ہے۔ اور اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے یہی سلوک ہو گا۔وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
والسلام
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
۳۰۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء
(الفضل ۲۔نومبر ۱۹۳۵ء)
۱؎ الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۶ کالم ۲
۲؎ درّثمین فارسی صفحہ ۸۹ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ



احرار خدا تعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباہلہ کی شرائط طے کریں……





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
احرار خداتعالیٰ کے خوف سے کام لیتے ہوئے مباہلہ کی شرائط طے کریں بغیر شرائط طے کئے احرار کے قادیان آنے کی غرض مباہلہ نہیں بلکہ فساد کرنا ہو گی اور
اس کی ذمہ وار حکومت ہو گی یا احرار
(رقم فرمودہ ۷۔ نومبر ۱۹۳۵ء)
احرار کوئی معیّن فیصلہ نہیں کرنا چاہتے
۳۰۔اکتوبر ۱۹۳۵ء کو میں نے ایک پوسٹر اور ٹریکٹ شائع کیا تھا جس کا
عنوان ’’مجلسِ احرار کا مباہلہ کے متعلق ناپسندیدہ رویہ‘‘ تھا۔ مجھے امید تھی کہ اس اعلان کے بعد مجلسِ احرار اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کر کے سنجیدگی سے مباہلہ کی گفتگو کی طرف مائل ہو گی مگر افسوس کہ میری امید کے خلاف مجلس احرار نے اپنے رویہ کو اور بھی ناخوشگوار بنا لیا ہے اور بجائے صحیح طریق اختیار کرنے کے تحریف سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔
میرا مضمون بالکل واضح تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ احرار نے اعلان کیا ہے کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں اس اعلان کے مطابق انہیں میری سب باتوں کو جو اس بارہ میں شائع ہو چکی ہیں تسلیم کرنا چاہئے اور ان باتوں میں سے بعض یہ ہیں۔
۱۔ مباہلہ میں پانچ سَو یا ہزار آدمی بہ تراضی ٔ فریقین شامل ہوں۔ یعنی دونوں طرف سے یا پانچ سَو یا ہزار آدمی برابر تعداد میں شامل ہوں۔
۲۔ مقامِ مباہلہ لاہور یا گورداسپور ہو لیکن بعد میں احرار کے اس مطالبہ پر کہ مقامِ مباہلہ قادیان ہو میں نے لکھا کہ اگر احرار کو لاہور یا گورداسپور پر کوئی خاص اعتراض ہو یا وہ قادیان میں اپنی شان دکھانا چاہتے ہوں تو قادیان ہی میں مباہلہ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ ایک کمیٹی دونوں فریق کی سب شرائط کو طے کرے اور اس کے فیصلہ کے بعد۔
۴۔ ایک تاریخ جو فیصلہ کے پندرہ دن بعد ہو مباہلہ کے لئے مقرر کی جائے میں نے اس اَمر پر روشنی ڈالی تھی کہ خالی منظوری کے اعلان سے ان امور پر روشنی نہیں پڑتی اور اس اعلان کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ احرار نے میری سب شرطوں کو منظور کر لیا ہے۔
پس دونوں فریق کے نمائندے غیر معیّن شرائط کو معیّن کریں اور تفصیلات کو طے کریں اور پھر بہ تراضی ٔ فریقین مباہلہ کی تاریخ مقرر کی جائے۔ ورنہ خود ہی تاریخ مقرر کر دینا شرائط کو ماننا نہیں ان کی ہنسی اُڑانا ہے۔ اِس قدر واضح اعلان کے بعد بھی میں دیکھتا ہوں کہ احرار صحیح طریق پر نہیں آتے اور نہ جماعت احمدیہ کے نمائندوں کے خطوط کا جواب دیتے ہیں اور نہ اپنی طرف سے شرائط طے کرنے کے لئے نمائندے مقرر کرتے ہیں بلکہ صرف ’’مجاہد‘‘ اخبار میں اعلان کرتے چلے جاتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کوئی معیّن فیصلہ کرنا نہیں چاہتے۔
میرے اشتہار کے جواب میں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے جو بیان ’’مجاہد‘‘ میں شائع کیا ہے اور جو تقریریں انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے چنیوٹ میں کی ہیں ان میں جو باتیں انہوں نے بیان کی ہیں‘ وہ ذیل میں درج کر کے میں ان کا بھی جواب دے دیتا ہوں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ احرار کِن ہتھیاروں پر آ گئے ہیں۔
کیا شرائط کی منظوری اسی کا نام ہے؟
مسٹر مظہر علی صاحب نے چنیوٹ میں بیان کیا ہے کہ:۔
’’میں نے قادیان جاکر کہا تھا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے۔ اور مرزا صاحب کی صداقت پر ہونا چاہئے اور مرزا محمود نے تسلیم کر لیا ہے۔‘‘
(مجاہد ۶نومبر صفحہ۲)
اسی کے متعلق سید فیض الحسن صاحب سجادہ نشین آلو مہار نے بھی اپنی تقریر میں چنیوٹ میں کہا ہے کہ:۔
’’مرزا محمود نے مجلسِ احرار کو چیلنج دیا ہے کہ آؤ مجھ سے مرزا کی نبوت پر قادیان آ کر مباہلہ کرو۔ زعمائے احرار نے مرزا محمود کے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے۔‘‘
(مجاہد صفحہ۲)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے چیلنج اس امر کا دیا تھا کہ احرار جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ رسول کریم ﷺ سے مرزا صاحب کے درجہ کو بڑھاتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتی ہے اس پر لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کر لیں اس پر مجھے معلوم ہوا کہ احرار نے کہا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر بھی مباہلہ ہو اور قادیان میں ہو۔ اس پر میں نے لکھا کہ اگر صداقت پر بھی مباہلہ کرنا ہے تو بے شک یہ مباہلہ بھی ہو مگر یہ مباہلہ الگ ہو اور رسول کریم ﷺ سے بانی سلسلہ احمدیہ کو بڑھا کر پیش کرنے کے الزام کے متعلق الگ مباہلہ ہو اور قادیان کے متعلق لکھا کہ اگر احرار کو لاہور یا گورداسپور پر کوئی خاص اعتراض ہے تو وہ قادیان آ سکتے ہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ چنیوٹ کی تقریر میں صدر احرار کانفرنس نے قطعاً غلط بیانی سے کام لیا ہے۔
(۱) بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے متعلق مباہلہ کے چیلنج کو میری طرف منسوب کیا ہے حالانکہ یہ چیلنج احرار کی طرف سے تھا اور شاید مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کو اپنے صدر کی تقریر یاد نہ تھی کہ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ چیلنج خود اُن کی طرف سے تھا۔
(۲) صدر صاحب کہتے ہیں کہ مرزا محمود نے قادیان آ کر مباہلہ کرنے کا چیلنج دیا ہے حالانکہ میں نے لاہور یا گورداسپور کا چیلنج دیا تھا نہ کہ قادیان کا اور اظہر صاحب نے اپنی تقریر میں اس کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ تجویز خود اُن کی طرف سے تھی۔
(۳) اظہر صاحب نے جہاں اِن دو باتوں میں اپنے صدر صاحب کے بیان کی قلعی کھول دی ہے‘ وہاں اپنی طرف سے ایک غلط بیانی زائد بھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ:۔
’’میں نے کہا کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے اور مرزا غلام احمد کی صداقت پر ہونا چاہئے۔ مرزا محمود نے تسلیم کر لیا ہے کہ بے شک احرار قادیان میں ہی آ کر ہم سے مباہلہ کر لیں۔‘‘
اِس فقرہ کو پڑھ کر ہر شخص یہی سمجھے گا کہ گویا میں نے اس امر کو تسلیم کیاہے کہ مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے اور سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے متعلق ہی ہونا چاہئے نہ کہ ہتکِ آنحضرت ﷺ فِدَاہُ قَلْبِیْ وَ نَفْسِیْ کے الزام کے متعلق۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ گویا میں نے اصل بِنائے مباہلہ کو ترک کر دیا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے میں نے کبھی اصل بِنائے مباہلہ کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس میں نے تو یہ کہا تھا کہ احرار اس لئے ہتکِ آنحضرت ﷺ کے الزام کے متعلق مباہلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ طبقہ جانتا ہے کہ احرار کا یہ الزام کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے آنحضرتﷺ کی ہتک کی ہے‘ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے لیکن پھر بھی ہم احرار کے اس مطالبہ کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی مباہلہ ہو جائے بشرطیکہ یہ مباہلہ پہلے مباہلہ کے علاوہ ہو اور اس کے لئے الگ پانچ سَو آدمیوں کی تعداد دونوں فریق کی طرف سے پیش کی جائے لیکن لیڈر وہی ہوں۔ اب رہا مباہلہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد کا سوال، اس کے متعلق صدر احرار کانفرنس چنیوٹ میں بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’۲۳۔نومبر کو زعمائے احرار اور ہزاروں مسلمان قادیان کے میدانِ مباہلہ میں پہنچ جائیں گے۔‘‘ (مجاہد ۶ نومبر صفحہ۲)
جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ نہیں بلکہ ہنگامہ کرنے کی تجویز ہو رہی ہے۔ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر بھی اپنے جواب میں کہتے ہیں ’’پانچ سَو اور ہزار کی شرط خود مرزا صاحب کی عائد کردہ ہے ہمارے نمائندے ہزار سے بھی بہت زیادہ ہوں گے‘‘۔ (مجاہد ۵ نومبر صفحہ۷)
ان الفاظ سے واضح ہے کہ میری بیان کردہ شرائط کو وہ صرف میرے لئے حُجّت قرار دیتے ہیں اور خود اس پر کاربند ہونے کے لئے تیار نہیں لیکن اس کے باوجود اخبار میں اعلان کرتے چلے جاتے ہیں کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں۔ اگر شرائط کی منظوری اسی کا نام ہے تو کوئی خدا کا بندہ یہ بتائے کہ نامنظوری کسے کہتے ہیں؟
مباہلہ کرنے والوں کی فہرستیں
میں نے لکھا تھا کہ ضروری ہے کہ شرائط کے تصفیہ کے ساتھ مباہلہ کرنے والوں کی فہرستیں
بھی دی جائیں تا کہ ان کے متعلق تحقیق کر لی جائے۔ اظہر صاحب کہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی بیمار ہو گیا تو اس کا کیا علاج ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا علاج آسان ہے اور وہ یہ کہ دس یا پندرہ فیصدی نام مطلوبہ تعداد سے زیادہ دے دیئے جائیں۔ اگر پانچ سَو میں سے یا ہزار میں سے جتنی تعداد کا بھی فیصلہ ہو‘ بعض لوگ نہ پہنچ سکیں تو ان کی خالی جگہ زائد تعداد میں سے پُر کر لی جائے۔ ہاں اگر اظہر صاحب کو یہ خیال ہو کہ شاید وہ پانچ سَو کا پانچ سَو ہی نہ پہنچ سکے تو پھر کیا ہو گا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ معاملہ ہو کہ پندرہ فی صدی سے زائد آدمی ریزرو رکھ کر بھی ان کے غیر حاضروں کی کمی پوری نہ ہو سکے تو یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو مباہلہ سے بھی پہلے پکڑ لیا ہے ورنہ دس پندرہ فی صدی کی اتنی تعداد ہے کہ عام حالات میں اس قدر آدمیوں کا ایسے اہم کام کے لئے پختہ وعدہ کر کے نہ پہنچ سکنا ایک خلافِ عقل بات ہے۔ اور یا تو وہ لوگ عذابِ الٰہی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس حد تک معذور ہو جائیں گے۔ یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ دین کے لئے قربانی کرنے کا ان میں مادہ ہی نہیں۔ اور یہ خود ان کے باطل پر ہونے کا ایک ثبوت ہو گا۔ شاید اظہر صاحب کو اپنا پہلا فقرہ یاد نہیں رہا اسی لئے وہ ساتھ یہ فقرہ بھی لکھ گئے ہیں کہ ’’ہم اپنی طرف سے ان کی ہزار کی شرط کو بھی منظور کر چکے ہیں۔‘‘ (مجاہد ۵ نومبر صفحہ۷)
یہ عجیب لطیفہ ہے۔ کہ اپنی نسبت تو وہ لکھتے ہیں کہ پانچ سَو یا ہزار کی شرط مرزا محمود کی عائد کردہ ہے ہمارے نمائندے ہزار سے بھی بہت زیادہ ہوں گے اور ہماری نسبت لکھتے ہیں کہ ہم انہیں پانچ سَو یا ہزار کا پابند نہیں کرتے بلکہ جس قدر آدمی ان کو مل سکیں وہ لے آئیں۔ جب دونوں فریق کو ہی انہوں نے اس شرط سے آزاد کر دیا تو اس فقرہ کے معنی ہی کیا ہوئے کہ اپنی طرف سے ہم ان کی ہزار کی شرط کو بھی منظور کر چکے ہیں انہیں تو یہ لکھنا چاہئے تھا کہ ہم اس شرط کو دونوں فریق پر سے اُڑا چکے ہیں۔
احرار کا تاریخِ مباہلہ مقرر کرنا
میں نے اعتراض کیا تھا کہ احرار کو ۲۳۔نومبر کی تاریخ مقرر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان
کے اس اعلان کے بعد کہ انہیں میری سب شرائط منظور ہیں‘ میرے شائع کردہ اعلان کی روشنی میں یا تو تاریخ مقرر کرنے کاحق مجھے حاصل ہے یا دونوں فریق کو مجموعی طور پر۔ اس پر مسٹر مظہر علی صاحب اظہر لکھتے ہیں کہ ’’شاید مرزا صاحب کو بھول گیا ہے کہ وہ اپنے خطبہ مطبوعہ ۱۸۔اکتوبر میں کہہ چکے ہیں کہ:۔
’’خدا تعالیٰ نے ان (احرار) کی گردن پکڑی ہے‘ اس لئے کسی کو سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوئی اگر ہمت ہے تو سب کے سب آئیں۔‘‘
اوّل تو اس فقرہ میں تحریف ہے لیکن اسے درست سمجھ کر بھی میں ہر اُردو دان شخص سے پوچھتا ہوں کہ کیا اُردو سے مَس رکھنے والا شخص اس عبارت کے وہ معنی کر سکتا ہے جو اظہر صاحب نے کئے ہیں۔ میں نے یہ فقرہ اس موقع پر استعمال کیا تھا کہ احرار باقاعدہ سب لیڈروں کی طرف سے مباہلہ کو منظور کرنے کی بجائے ایک شخص کو قادیان بھیج دیتے ہیں جو اپنی طرف سے ایک اعلان کر دیتا ہے۔ کیوں نہیں سب کے سب جو میرے مخاطب ہیں اس کی منظوری کا اعلان کرتے۔ اس سے تاریخ کی تعیین کا حق احرار کو کہاں سے ملا۔
احرار کی دھینگا مشتی
لطف یہ ہے کہ میرے جس خطبہ سے یہ فقرہ چُنا گیا ہے اس کے آخر میں میرا یہ فقرہ بھی موجود ہے کہ:۔
’’جب نہ کوئی تاریخ مقرر ہوئی ہے نہ شرائط طے ہوئے ہیں تو احمدی فرار کیسے کر گئے؟ فرار تو تب ہے کہ شرائط طے ہو جائیں، وقت مقرر ہو جائے اور پھر ایک فریق نہ آئے‘‘ ۔(الفضل ۸۔اکتوبر)
اس فقرہ سے صاف ظاہر ہے کہ میرے نزدیک شرائط کا طے ہونا اور اس کے بعد وقت کا مقرر کیا جانا دونوں فریق کے اختیار میں رکھا گیا ہے نہ کہ احرار کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو چاہو شرط پیش کردو اور جو چاہو وقت مقرر کردو۔ جب میرے نزدیک اب تک شرائط ہی طے نہیں ہوئیں تو میں تاریخ سے کس طرح اتفاق کر سکتا ہوں۔
اسی طرح میرے خطبہ مطبوعہ ۶۔اکتوبر میں لکھا ہے:۔
’’جو شرائط احرار پیش کرنا چاہتے ہیں وہ پیش کریں تا کہ جلد سے جلد مباہلہ کی تاریخ اور مقام کی تعیین کا اعلان کیا جا سکے۔‘‘
ان فقرات کی موجودگی میں اور بغیر اس کے کہ زبان ان معنوں کی اجازت دیتی ہو جو میرے مذکورہ بالا فقرہ سے مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے نکالے ہیں‘ احرار کے لئے یہ حق نکال لینا کہ وہ جو تاریخ چاہیں مقرر کر دیں‘ معقولیت نہیں بلکہ دھینگا مشتی ہے۔
احرار کی ٹال مٹول کی وجہ
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ احرار کا اس قسم کی ٹال مٹول سے مطلب کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ
احرار کو اس سال قادیان میں کانفرنس کرنے سے حکومت نے روک دیا تھا۔ جب انہوں نے میرا چیلنج مباہلہ پڑھا تو انہوں نے سوچا کہ مباہلہ تو خیر دیکھا جائے گا اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر ہم حکومت سے برسرِ پیکار ہوئے بغیر قادیان میں کانفرنس کر لیں گے کیونکہ مباہلہ کا چیلنج جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے اور ان کے بُلانے پر جائیں گے‘ حکومت ہم کو روکے گی نہیں۔ چنانچہ یہ امر دل میں رکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بغیر اس کے کہ شرائط تحریر میں آئیں ہم مباہلہ کو منظور کرلیں جب شرائط طے نہ ہوئی ہونگی اور کئی باتیں عین موقع پر ایسی نکل آئیں گی جن کی بناء پر مباہلہ سے انکار کیا جا سکے گا۔ ہاں اس بہانہ سے قادیان میں کانفرنس کا موقع مل جائے گا۔
تاریخ مباہلہ کے متعلق اس قدر عرصہ پہلے اعلان کرنے سے غرض یہ تھی کہ اگر وہ میری شرط مانتے کہ شرطیں طے ہونے کے بعد تاریخ مقرر کی جائے اور پندرہ دن کی مُہلت دی جائے تو اس صورت میں اس عرصہ میں انہیں اپنا انتظام کرنا اور ہنگامہ کے لئے لوگوں کو جمع کرنا مشکل ہوتا۔ اب انہوں نے قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے آپ ہی تاریخ مقرر کر دی تا کہ اس عرصہ میں لوگوں کو آمادہ کر کے کانفرنس کی تیاری کر لیں۔
یہ باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں‘ ان کے مندرجہ ذیل ثبوت ہیں:۔
(۱) احرار اپنی تمام تقریروں میں لوگوں کو ۲۳۔نومبر کے دن قادیان پہنچنے کے لئے کہہ رہے ہیں اور عام تحریک کی جا رہی ہے کہ لوگ اس دن ہزاروں کی تعداد میں قادیان پہنچیں۔
(۲) اس خیال سے کہ شاید بہت سے لوگ مباہلہ کے نام سے قادیان جانے کے لئے تیار نہ ہوں گے اس امر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے کہ ایک جماعت ایسی ہو گی جو صرف مباہلہ کو دیکھنے آئے گی۔ چنانچہ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر اپنے جواب میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’مجلسِ مباہلہ کا انتظام جس طرح مرزا محمود فرمائیں‘ ہمیں منظور ہو گا۔ فقط یہ احتیاط چاہئے کہ مباہلین کو دیکھنے والے لوگوں کی راہ میں رُکاوٹ نہ ڈالی جائے‘‘۔
(مجاہد ۵نومبر صفحہ۷)
اس عبارت سے اور احرار کی تقریروں سے جو وہ باہر کر رہے ہیں صاف ظاہر ہے کہ پبلک کے کچھ حصہ کو یہ کہہ کر قادیان آنے کی تحریک کی جا رہی ہے کہ وہاں چل کر مباہلہ دیکھنا۔ تا کہ مباہلہ کی آڑ میں ایک بڑا اجتماع کر کے ممنوعہ کانفرنس کی جا سکے۔ بلکہ نظارہ بینوں کے لئے روک نہ ہونے کے مطالبہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت فساد کرنے کی صورت بھی مدنظر ہے۔
(۳) قادیان کے اردگرد کے دیہات میں احرار کی طرف سے لوگ جا کر لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ ۲۳۔نومبر کو مباہلہ بھی ہو گا اس دن لوگ مباہلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوں۔ اس دیدارنمائی کی تحریک کے اس کے سِوا کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ لوگ جمع ہو جائیں اور کانفرنس کی جاسکے اور ہو سکے تو کچھ فساد بھی کھڑا کر دیا جائے۔ ورنہ مباہلہ میں نہ لمبی چوڑی تقریریں ہونی ہیں کہ ان کے سننے کے لئے لوگوں کو بلایا جا رہا ہے اور نہ وہاں کوئی تماشا ہونا ہے کہ جس کے دیکھنے کے لئے علاقہ کے لوگوں کو جمع کیا جا رہا ہے۔ مباہلہ ہو کر چَھپ جائے گا اور لوگوں کو خود حالات معلوم ہو جائیں گے۔
(۴) مگر ان سب دلائل سے بڑھ کر چوتھی دلیل وہ اشتہار ہے۔ جو ’’ (مولانا) عنایت اللہ امیر مجلس احرار قادیان (ضلع گورداسپور) ‘‘ کی طرف سے قادیان کے نواحی علاقہ میں شائع ہو رہا ہے۔ اس اشتہار میں چندہ کی اپیل کی گئی ہے اور لکھا ہے کہ :۔
’’پچھلے سال قادیان میں جو کانفرنس ہوئی تھی‘ اس میں نصف لاکھ کے قریب مسلمان جمع ہوئے تھے حالانکہ کانفرنس کا پہلا سال تھا اس سال اِنْشَائَ اللّٰہُ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان قادیان میں جمع ہونے والے ہیں۔‘‘
احرار کی قادیان میں فساد پیدا کرنے کی نیت
اس اشتہار سے صاف ظاہر ہے کہ قادیان میں
مباہلہ کیلئے نہیں بلکہ کانفرنس کیلئے احرار آ رہے ہیں اور یہ حد درجہ کی گری ہوئی بات ہے کہ وہ مباہلہ اور ہماری دعوت کو اس رنگ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ غرض مذکورہ بالا باتوں سے ثابت ہے کہ احرار کی اصل غرض مباہلہ نہیں بلکہ کانفرنس کا انعقاد ہے اور قادیان میں مباہلہ ہونے پر اصرار بھی اسی وجہ سے ہے مگر قادیان ہمارا مقدس مقام ہے۔ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اس کو سب دنیا سے زیادہ عزیز جانتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے ہاتھوں سے فساد کی جگہ بنائیں۔ اسلام نے اس اصل کو تسلیم کیا ہے کہ مقدس مقامات دوسرے لوگوں کی شرارتوں سے پاک رہنے چاہئیں پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم احرار کو کانفرنس کے انعقاد میں مدد دیں اس لئے میں صاف لفظوں میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم قادیان میں مباہلہ کے لئے تیار ہیں مگر کانفرنس کے لئے نہیں۔ اگر احرار کو فی الواقع مباہلہ منظور ہے تو:
۱۔ شرائط طے کر لیں۔
۲۔ پھر ایک تاریخ بہ تراضی ٔ طرفین مقرر ہو جائے جس کی اطلاع حکومت کو بغرضِ انتظام دے دی جائے گی۔
۳۔ اگر وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو جو عام دعوت انہوں نے دی ہے‘ اس کو عام اعلان کے ذریعہ سے واپس لیں۔
۴۔ مجلس احرار ہمیں یہ تحریری وعدہ دے کہ مباہلہ کے دن اور اس سے چار دن پہلے اورچار دن بعد کوئی اور جلسہ یا کانفرنس سوائے اس مجلس کے جو مباہلہ کے دن بغرضِ مباہلہ منعقد ہو گی‘ وہ منعقد نہیں کریں گے اور نہ جلوس نکالیں گے اور نہ کوئی تقریر کریں گے۔ اور یہ تحریر ’’مجاہد‘‘ میں بھی شائع کر دی جائے۔
۵۔ یہ کہ ان کی طرف سے مباہلہ کرنے والوں کے سِواجن کی فہرست ان کو پندرہ د ن پہلے سے دینی ہو گی کوئی شخص باہر سے نہ تحریری نہ زبانی بُلایا جائے گا۔ نہ وہ (اس صورت میں کہ انہیں ہماری ضیافت منظور نہ ہو)کسی کی رہائش کا یا خوراک کا جماعتی حیثیت میں یا منفردانہ حیثیت میں مذکورہ بالا نو(۹) ایام میں انتظام کریں گے۔
۶۔ مباہلہ کی جگہ پر مباہلہ کرنے والوں اور منتظمین اور پولیس کے سِوا اور کسی کو جانے کی اجازت نہ ہو گی۔
اگر وہ مذکورہ بالا باتوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہر حق پسند شخص تسلیم کرلے گا کہ احرار کی نیت مباہلہ کی نہیں بلکہ اس بہانے سے قادیان میں کانفرنس کرنے کی ہے۔ پس میں یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں ہم قادیان میں نہیں بلکہ گورداسپور یا لاہور میں مباہلہ کریں گے وہاں وہ بے شک جس قدر آدمیوں کو چاہیں، بُلا لیں گو اس صورت میں بھی مباہلہ کرنے والوں کے علاوہ دوسرے آدمیوں کو میدانِ مباہلہ میں آنے کی اجازت نہ ہو گی۔ میرے اس اعلان کے بعد بغیر شرائط طے کئے کے اور بغیر ایسی تاریخ کے مقرر کئے کے جو دونوں فریق کی رضا مندی سے ہو اگر احرار ۲۳۔نومبر یا اور کسی تاریخ کو قادیان آئیں تو اس کی غرض محض کانفرنس ہو گی نہ کہ مباہلہ۔ اور اس صورت میں اس کی ذمہ داری یا تو حکومت پر ہو گی یا احرار پر۔ جماعت احمدیہ پر اس کی کوئی ذمہ واری نہ ہو گی۔
ایک افتراء کی تردید
مباہلہ کے متعلق تو جو کچھ میں نے لکھنا تھا لکھ دیا ہے مگر میں ایک اور افتراء کی بھی جو مظہر علی صاحب اظہر نے میری
نسبت کیا ہے تردید ضروری سمجھتا ہوں۔ مسٹر اظہر صاحب نے اپنے جواب میں میرے خطبہ سے ایک فقرہ جو ذیل میں درج ہے۔ نقل کیا ہے۔
’’تحریریں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہوں‘ کسی اور احمدی کی نہ ہوں۔ کیونکہ اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ بہرحال دوسروں کی تحریرحجت نہیں ہو سکتی۔‘‘ (الفضل مطبوعہ ۶/اکتوبر)
اس فقرہ کو نقل کر کے مسٹر مظہر علی صاحب اظہر لکھتے ہیں کہ:۔
’’اس عبارت میں مرزا صاحب نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ان کی اور ان کے بھائیوں اور متبعین کی تحریروں میں توہین رسول کریم ﷺ اور توہین مکہ معظمہ و مدینہ منورہ موجود ہے۔ چونکہ مرزا صاحب نے اقبالِ جُرم کر لیا ہے‘ اس لئے ہم نے انہیں مجبور نہیں کیا۔‘‘ (مجاہد ۵/اکتوبر صفحہ ۷ کالم ۳)
میرا پہلا جواب تو اس کے متعلق یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور یہ کہ اگر اس عبارت سے یہ مطلب نکلتا ہو یا میرے دل میں کوئی ایسی بات ہو تو اللہ تعالیٰ کا عذاب مجھ پر اور میری اولاد پر ہو۔ اگر مسٹر مظہر علی صاحب میں کوئی تُخمِ دیانت باقی ہے اور انہوں نے صحیح سمجھ کر یہ فقرات لکھے ہیں تو کیا وہ جرأت کریں گے کہ وہ بھی ایک اعلان کر دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس فقرہ کا یہی مطلب ہے کہ مرزا محمود احمد اور اس کے بھائی اور جماعت احمدیہ رسول کریم ﷺ کی ہتک کیا کرتی ہے‘ اور اس میں اقبالِ جُرم ہے۔ اور اگر میں اس بیان میں لوگوں کو دھوکا دیتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر *** نازل ہو۔ اظہر صاحب کے لئے اس قسم کی *** کا اعلان کرنا بڑی بات نہیں کیونکہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پر *** بھیجنا بھی کارِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ اگر اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے انہوں نے *** طلب کر لی جس کا طلب کرنا ان پر واجب ہو گیا ہے تو یہ انہیں زیادہ گراں نہیں گزرنا چاہئے۔
مسٹر مظہر علی صاحب نے تحریف کی
دوسرا جواب مَیں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اظہر صاحب نے اپنی سہولت کے لئے
اس فقرہ میں تحریف کی ہے۔میرا اصل فقرہ یہ ہے۔
’’اور احمدیوں سے بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ اور پھر ان کی غلطیوں کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن بہرحال دوسروں کی تحریر حجت نہیں ہو سکتی۔‘‘
(الفضل مطبوعہ ۶/اکتوبر)
ناظرین دیکھیں کہ مسٹر مظہر علی صاحب اظہر نے کس طرح تحریف سے کام لیا ہے۔ ایک نہایت ضروری فقرہ جو دو فقروں کے درمیان کاہے‘ خاموشی سے اُڑا دیا ہے۔ قرآن کریم میں تحریف ماننے والے لوگوں کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن پھر بھی اس طرح اخبار میں دوسرے کے کلام کو محرف کر کے پیش کرنا انتہا درجہ کی دلیری ہے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ میرے مندرجہ بالا فقرہ نے اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ چونکہ ہر شخص اعلیٰ پایہ کا نہیں ہوتا اگر کبھی اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً جبکہ اس کا علم ہونے پر جماعت اس سے براء ت ظاہر کر دے۔ اس سے یہ کہاں سے نکلا کہ میں نے اقبال کر لیا ہے کہ مجھ سے اور میرے بھائیوں سے اور دیگر احمدیوں سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوئی ہے۔ میں نے تو اپنے سابق اشتہار میں خدا تعالیٰ کی مؤکدبعذاب قسم کھائی تھی کہ ’’رسول کریم ﷺ افضل الرسل اور سیّد وُلْدِ آدم تھے۔‘‘ کیا آپ کی ہتک کرنے والا شخص یہ قسم اور مؤکد بعذاب قسم کھا سکتا ہے؟ یہ تو میری قسم ہے اس کے علاوہ مباہلہ کے جو الفاظ مباہلین کے لئے (جن میں مَیں، میرے بھائی اور دوسرے احمدی شامل ہوں گے میں نے تجویز کئے ہیں۔ اس عبارت پر مشتمل ہیں۔
’’ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اگر ہم رسول کریم ﷺ پر کامل یقین نہ رکھتے ہوں، آپؐ کو خاتم النبیین نہ سمجھتے ہوں، آپؐ کو افضل الرسل یقین نہ کرتے ہوں اور قرآن کریم کو تمام دنیا کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے آخری شریعت نہ سمجھتے ہوں۔‘‘ (الفضل ۶/اکتوبر)
جب اس اخبار میں جس کا فقرہ اظہر صاحب نے نقل کیا ہے۔ یہ الفاظ موجود ہیں جو مباہلہ کے وقت مَیں اور میرے بھائی اور دیگر احمدی کہیں گے تو کس طرح کوئی عقل مند اس فقرہ کے یہ معنی کر سکتا ہے کہ میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی ہے۔
دوسروں کی تحریروں میں غلطی کا امکان
میں نے جو بات کہی ہے‘ صرف یہ ہے کہ ہر جماعت میں بعض
لوگ جہالت کی وجہ سے یا بعض منافق جماعت کو بدنام کرنے کے لئے ایسے امور شائع کر دیتے ہیں یا بیان کر دیتے ہیں جو اس جماعت کے اعتقاد کے خلاف ہوتے ہیں اگر جماعت کو اطلاع ہوتی ہے تو وہ ان کی تردید کر دیتی ہے۔ پس چونکہ دوسروں کی بعض تحریروں میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے اس لئے حجت صرف بانی سلسلہ کی تحریروں سے پکڑی جا سکتی ہے اور یہ ایسی بات نہیں جو جماعت احمدیہ سے مخصوص ہو۔ ہر جماعت کا یہی حال ہے کوئی قوم بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہمارے ہر مصنف یا خطیب کی تحریر یا بات قابل قبول ہے۔
اور اس وجہ سے تمام فرقے قابلِ حجت صرف اپنے سلسلہ کے بانی کی کتب کو تسلیم کرتے ہیں یا ایسے آئمہ کو جن کو وہ خالی از خطا سمجھتے ہوں اور اس بحث میں نہیں پڑتے کہ بعض اور قابلِ اعتبار علماء بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً مسلمان غیر قوموں سے بحث کے وقت صرف قرآن کریم پر انحصار رکھتے ہیں۔ دوسری سب کتب کی نسبت کہتے ہیں کہ صحیح ہونگی تو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ مسلمانوں کے نزدیک سب بزرگوں نے جھوٹ بولا ہے۔ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) مثال کے طور پر یہ بات لے لیجئے کہ مظہر علی صاحب جس فرقہ سے یعنی شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور سُنّی بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی عیسائی ایک مسلمان پر یہ اعتراض کرے کہ تمہارے رسول کریم ﷺ تو ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) لوگوں سے ڈر کر خدا تعالیٰ کے احکام کو چُھپا لیا کرتے تھے اور اس کی تائید میں وہ اظہر صاحب کے ہم مذہبوں کی معتبر کتاب تفسیر صافی کا حوالہ صفحہ ۱۶۷ سے دے کہ آنحضرت ﷺ کو جب حضرت علیؓ کی ولایت کے اعلان کا حکم ہوا تو آپ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ لوگوں سے ڈر کر اس حکم کو چُھپایا۔ تو اب بتائیں کہ ایک مسلمان کے لئے اس کے سِوا کیا چارہ ہے کہ وہ کہے کہ اظہر صاحب یا ان کے ہم مذہبوں نے اگر غلطی کی ہو تو اسلام اس کا ذمہ وار نہیں ہمارے لئے تو قرآن کریم حجت ہے اور وہ تو رسول کریمﷺ کی نسبت فرماتا ہے کہ۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۱؎ کہ سب اعلیٰ اخلاق بہ حدِّ کمال تیرے اندر پائے جاتے ہیں۔ پس قرآن کریم کی اس شہادت کے بعد ہم ایسی خرافات کو کب تسلیم کر سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں سے خوف کھا کر احکامِ الٰہی کو چُھپا لیتے تھے خواہ یہ قول احرار کے سیکرٹری کا مذہب ہو یا اس کی جماعت کا یا مثلاً اگر کوئی کینہ وَرْ دشمن یہ اعتراض کرے کہ مسلمانوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ قرآن کریم محرف و مبدّل ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجلس احرار کے سیکرٹری مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کا جس فرقہ سے تعلق ہے ان کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ وَغَیْر ہُمْ کو قرآن کریم بطور امانت دیا گیا تھا۔ حَرَّفُوْہُ وَبَدَّ لُوْہُ انہوں نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اس میں تحریف کر دی اور اسے بدل دیا۔ جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) منافق ہو گئے تھے۔ لَقَدْ نَافَقَا قَبْلَ ذَالِکَ وَرَدَّا عَلَی اللّٰہِ ۲؎ تو اب ایک غیرت مند مسلمان سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہے کہ احرار کے سیکرٹری کا یا اس کی جماعت کا خواہ کچھ مذہب ہو۔ ہم پر قرآن کریم حجت ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔۳؎ ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ تو ایسی خرافات کو ہم غلط سمجھتے ہیں اور اسی طرح جب قرآن کریم اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کی تعریف کرتا ہے اور انہیں ہمارے لئے نمونہ قرار دیتا ہے تو جو شخص بُرا کہتا ہے وہ اسلام کے خلاف کہتا ہے۔ اور چونکہ قرآن کریم کے سِوا اور اس قول کے سِوا جو رسول کریم ﷺ سے ثابت ہو اور کوئی قول مسلمانوں پرحجت نہیں اس لئے ہم ان حوالوں کو کوئی وقعت نہیں دیتے۔ تو اب بتائیں کہ کیا اس کے یہ معنی ہونگے کہ ایسا شخص سب اَئمہ اسلام کو قرآن کریم کے خلاف چلنے والا کہتا ہے۔ بہرحال جب سلسلہ احمدیہ کی خصوصیات کا ذکر ہو گا توحجت صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتیں ہوں گی۔ باقی باتوں سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔ پس جو کچھ میں نے لکھا درست لکھا اور اظہر صاحب کا اعلان محض فساد اور لوگوں کو بھڑکانے کی نیت سے ہے۔
آخر میں مَیں پھر مسلمانوں کے فہمیدہ طبقہ سے اپیل کرتا ہوں کہ احرار کو مجبور کریں کہ وہ شرائط کا تصفیہ کر کے مسلّمہ فریقین تاریخ پر احمدیوں سے مباہلہ کریں اور اس قسم کی اشتعال انگیزی اور غلط بیانی سے پرہیز کریں جو انہوں نے اختیار کر رکھی ہے تاحق اور باطل میں فرق ہو اور خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہو۔ آمین وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
خاکسار
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ)
۷۔نومبر ۱۹۳۵ء
(الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۳۵ء)
۱؎ القلم: ۵
۲؎ فروع کافی جلد۳ کتاب الروضۃ صفحہ ۶۱،۶۲ مطبوعہ ۱۸۸۶ء
۳؎ الحجر: ۱۰



کیا احرار واقع میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں؟





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
کیا احرار واقع میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں؟
(تحریر فرمودہ ۲۱ نومبر ۱۹۳۵ء)
برادران! اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔ کچھ عرصہ سے لیڈرانِ احرار لوگوں پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا وہ تو مباہلہ کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن امام جماعت احمدیہ اس سے گریز کر رہا ہے۔ میں افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ احرار کا یہ اعلان قطعاً درست نہیں اور تقویٰ اور طہارت کے بالکل خلاف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ احرار سلسلہ احمدیہ اور اس کے بانی پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ ان کے نزدیک رسول کریم ﷺ سے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) بانی سلسلہ احمدیہ کا درجہ بالا ہے اور یہ کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نہیں کرتے بلکہ آپؐ کی ہتک کرتے ہیں۔ اور اسی طرح یہ کہ بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے قادیان کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) افضل سمجھتے ہیں اور اگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بھی بج جائے تو بھی وہ خوش ہوں گے۔ مَیں نے اس الزام کی تردید کی اور ان امور پر جماعت احرار کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور اپنی طرف سے یہ شرطیںپیش کیں کہ:
(۱) پانچ سَو یا ہزار آدمی دونوں طرف سے مباہلہ میں شامل ہوں اور یہ لوگ امام جماعت احمدیہ اور ناظرانِ سلسلہ احمدیہ اور پانچ لیڈرانِ احرار کے جن کے نام دیئے گئے تھے اور جن کی شمولیت ضروری قرار دی گئی تھی، علاوہ ہوں۔
(۲) مباہلہ لاہور یا گورداسپور میں ہو۔
(۳) دونوں طرف کے نمائندے مل کر تفصیلات طے کر لیں اور اگر میری مقرر کردہ شرائط میں تبدیلی مناسب ہو تو وہ بھی تراضی ٔ فریقین سے کی جا سکتی ہے۔
(۴) ان مراحل کے بعد مباہلہ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے جو تصفیہ شرائط کے بعد پندرہ دن کے وقفہ پر ہو۔ ان میں سے ایک بات بھی نہیں جو احرار نے تسلیم کی ہو اور باوجود اس کے وہ شور مچا رہے ہیں کہ وہ مباہلہ کے لئے تیار ہیں۔
میرے اس اعلان پر مظہر علی صاحب اظہر نے یہ کہا تھا کہ وہ قادیان میں مباہلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے۔ ’’ہم مرزا محمود کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ مباہلہ سے پہلو تہی کر سکے۔ ہاں یہ ضروری ہو گا کہ مباہلہ قادیان میں ہو۔‘‘ (مجاہد ۲۔اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ۲) چونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ کم از کم دین کے ایسے اہم معاملہ میں ہنسی مذاق سے کام نہ لیں گے‘ میں نے اعلان کر دیا کہ اگر قادیان پر انہیں اصرار ہے تو بہت اچھا ہمیں یہی منظور ہے مگر باقی شرائط کا تصفیہ ہو جانا ضروری ہے اور میں نے فیصلہ جلد کرانے کے لئے اپنی طرف سے نمائندوں کی ایک کمیٹی بھی مقرر کر دی جنہوں نے تصفیہ شرائط کے لئے زعمائے احرار کو الگ الگ رجسٹری چِٹھیاں لکھیں مگر ان میں سے کسی کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر احرار ثابت کر دیں کہ یہ رجسٹری چِٹھیاں ان کو نہیں ملیں یا یہ کہ انہوں نے ان کا جواب بذریعہ ڈاک دے دیا تھا تو میں ایک سَو روپیہ احرار کو انعام دینے کیلئے تیار ہوں اور اس غرض کیلئے مسٹر سیف الدین صاحب کچلو کو ثالث ماننے کو تیار ہوں۔ جب بھی احرار چاہیں جماعت احمدیہ کا نمائندہ ایک سَو روپیہ مسٹر کچلو کے پاس جمع کرا دے گا۔ اس کے پندرہ دن کے اندر احرار اپنا ثبوت کچلو صاحب کے سامنے پیش کر دیں اور اگر کچلو صاحب ان کے حق میں فیصلہ کریں تو روپیہ ان کو دیدیں اور اگر فیصلہ ہمارے حق میں ہو‘ یا پندرہ دن کے اندر احرار ثبوت پیش نہ کریں تو روپیہ جمع کرانے والے کو واپس مل جائے۔
الغرض احرار کی طرف سے ہمارے کسی خط کا بذریعہ خط جواب نہیں دیا گیا۔ آخر بار بار زور دینے پر اظہر صاحب نے میرے نام ۱۴۔اکتوبر کو ایک تار بھیجا۔ (یہ عجیب بات ہے کہ اس موقع پر بھی ہمیں کوئی چِٹھی نہیں بھجوائی گئی حالانکہ اس قدر پہلے تار بھجوانا بالکل بے معنی تھا۔) کہ وہ ۲۳۔نومبرکو مباہلہ کے لئے آ جائیں گے۔ اس کا جواب ناظر شعبہ تبلیغ جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۶۔اکتوبر کو دیا گیا جس میں یہ لکھا گیا کہ پہلے حسبِ اعلان شرائط کا تصفیہ ہونا ضروری ہے‘ اس کے بعد مباہلہ کی تاریخ مقرر ہو گی۔
اس کا جواب احرار کی طرف سے آج تک نہیں ملا لیکن باوجود اس کے وہ لوگوں کو یہ دھوکا دے رہے ہیں کہ وہ مباہلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن امام جماعت احمدیہ اس سے گریز کرتا ہے۔ اگر میرا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ۱۶۔اکتوبر کو ان کے نام ان کے تار کے جواب میں ایک چِٹھی ہماری جماعت کی طرف سے بھیجی گئی یا یہ غلط ہے کہ اس چِٹھی کا جواب اس وقت تک ناظر دعوۃ و تبلیغ کو بذریعہ چِٹھی احرار کی طرف سے نہیں ملا تو میں اس پر ایک سَو روپیہ کا مزید انعام مقرر کرتا ہوں اور اس کے لئے بھی مسلمانوں کے مشہور لیڈر مسٹر سیف الدین صاحب کچلو کو ثالث تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔ اگر وہ دونوں طرف کے کاغذات کو دیکھ کر اور ثبوت سن کر یہ فیصلہ کر دیں کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے احرار کو کوئی ایسی تحریر نہیں بھیجی گئی یا یہ کہ اس تحریر کا جواب احرار کی طرف سے بذریعہ خط ناظر دعوۃ و تبلیغ جماعت احمدیہ کو دے دیا گیا تھا تو ایک سَو روپیہ مجلس احرار کو ہماری طرف سے ادا کر دیں ورنہ ان کے خلاف فیصلہ ہونے پر یا اس صورت میں کہ پندرہ دن کے اندر اندر وہ اپنا ثبوت مسٹر کچلو کے پاس پیش نہ کریں‘ وہ رقم روپیہ جمع کرانے والے کو واپس کر دی جائے گی۔ جب بھی احرار چاہیں یہ روپیہ مسٹر کچلو صاحب کے پاس ہمارا کوئی نمائندہ جمع کرا دے گا۔ اگر احرار دیانت سے کام لے رہے ہیں تو یہ فیصلہ جو میں خود انہیںکے ایک ہم مذہب کے سپرد کرتا ہوں‘ وہ اس کے لئے آمادہ ہو جائیں اور مقررہ انعام ہم سے وصول کر لیں۔
یہ درست ہے کہ احرار نے ہمارے چیلنج کے جواب میں اخباروں میں یہ اعلان کرنا شروع کیا تھا کہ انہیں سب شرائط منظور ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ درست نہیں تھا کیونکہ اول اگر انہیں واقعی سب شرائط منظور تھیں تو کیوں انہیں ان شرائط کے تحریر میں لانے سے گریز تھا۔ دوسرے میری شائع کر دہ شرطوں میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ دونوں طرف کے نمائندے مل کر آخری ڈھانچہ شرائط کا طے کر لیں۔ لیکن جب وہ جماعت احمدیہ کے نمائندوں کو جواب تک نہیں دیتے تھے تو اس شرط کا پورا ہونا تو الگ رہا‘ شرطوں کے پورا ہونے کا امکان تک باقی نہ رہا تھا۔
جب معاملہ اس حد تک پہنچا اور میں نے دیکھا کہ ایک طرف تو احرار شرطوں کو تحریر میں نہیں لاتے اور دوسری طرف مباہلہ کے بہانے سے لوگوں میں کانفرنس کی تیاری کی تحریک کر رہے ہیں تو میں نے مناسب سمجھا کہ اب اس معاملہ کا دو ٹوک فیصلہ ہو جانا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اس خیال سے کہ شاید احرار میرے اخباری اعلانات کا جواب دینے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہوں۔ (گو اس میں ہتک کی کوئی بات نہ تھی) میں نے ناظر دعوۃ تبلیغ کو اپنا نمائندہ ہونے کی تحریر لکھ دی اور یہ تحریر بذریعہ رجسٹری ۱۵۔نومبر کو انہوں نے مجلس احرار کو بھجوا کر خواہش کی کہ وہ ان سے شرائط کا تصفیہ کر لیں لیکن آ ج تک اس کا بھی کوئی جواب احرار کی طرف سے نہیں دیا گیا۔ اگر میرا یہ بیان درست نہیں تو میں اس کے غلط ثابت کرنے کیلئے بھی مزید ایک سَو روپیہ کی رقم مجلس احرار کیلئے بطور انعام مقرر کرتا ہوں۔ اگر وہ یہ ثابت کر دیں کہ ایسا رجسٹری خط انہیں نہیں بھجوایا گیا یا یہ کہ اس رجسٹری کا جواب وہ میری اس تحریر سے پہلے ناظر دعوۃ و تبلیغ کو تحریراً بھجوا چکے ہیں تو ایک سَو روپیہ جو میرا کوئی نمائندہ پہلے سے مسٹر کچلو کے پاس جمع کرا دے گا مسٹر کچلو احرار کے سپرد کر دیں گے لیکن اگر وہ میری بات کو غلط ثابت نہ کر سکے یا روپیہ جمع کرانے کے بعد پندرہ دن کے اندر انہوں نے مسٹر کچلو کے پاس اپنا ثبوت پیش نہ کر دیا تو پھر یہ روپیہ جمع کرانے والے کو واپس دے دیا جائے گا۔
دوسری حرکت جس کا ارتکاب احرار کی طرف سے ہو رہا تھا یہ تھی کہ وہ اس مباہلہ کے چیلنج کو قادیان میں کانفرنس کے انعقاد کا ذریعہ بنا رہے تھے۔ میں نے اس امر کا ثبوت پیش کر کے اپنے اشتہار مؤرخہ ۷۔نومبرکے ذریعہ اعلان کر دیا کہ اگر احرار فی الواقع مباہلہ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ کانفرنس یا جلسہ تو اخباروں میں اعلان کر دیں کہ وہ زمانۂ مباہلہ میں قادیان میں علاوہ مجلسِ مباہلہ کے کوئی اور کانفرنس یا جلسہ نہیں کریں گے نہ اپنی طرف سے نہ ماتحت مجالس کی طرف سے اور نہ افراد کی طرف سے۔ اور یہ کہ وہ صرف انہیں لوگوں کو ساتھ لائیں گے جن کے نام مباہلہ کی فہرست میں آ جائیں جو فہرست کی شائع شُدہ شرائط کے مطابق پانچ سَو یا ہزار سے زائد نہیں ہونے چاہئیں، سوائے دس یا پندرہ فی صدی کے جو بطور ریزرو رکھے جائیں تا غیر حاضروں کی جگہ ان سے پُر کی جائے۔ اور میں نے لکھا تھا کہ ایسی تحریر ہمیں قبل از وقت دینے کی صورت میں ہم قادیان میں ہی مباہلہ کرنے پر تیار ہوں گے اور اگر وہ یہ تحریر نہ دیں اور ایسا اعلان نہ کریں تو اس کے یہ صاف معنی ہوں گے کہ وہ مباہلہ کو کانفرنس کا بہانہ بنانا چاہتے ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھو میرا اشتہار مطبوعہ ۷۔نومبر ۱۹۳۵ء) مگر افسوس کہ اِس وقت تک ان کی طرف سے نہ تو یہ اعلان ان الفاظ میں ہوا ہے جن الفاظ میں کہ میرا مطالبہ تھا اور نہ ہی ایسی کوئی تحریر ہمارے مطالبہ کے مطابق ہمیں دی گئی ہے۔ اگر یہ میرا بیان درست نہیں تو اس کے لئے بھی میں شرائط مذکورہ بالا کے مطابق ایک سَو روپیہ کا مزید انعام مقرر کرتا ہوں۔ جماعت احمدیہ کے نمائندے، احرار کے اشتہارات اور نیز بعض گواہوں کی گواہیوں سے یہ ثابت کریں گے کہ مباہلہ کے علاوہ احرار اس موقع پر قادیان میں ایک اور اجتماع بھی کرنا چاہتے تھے۔ اگر احرار اس کی تردید کریں کہ کانفرنس کی تحریک کا کوئی اشتہار ان کے قادیان کے کارکن اور صدر کی طرف سے شائع نہیں ہوا اور یہ کہ ان کے زعماء نے مختلف جگہوں میں مباہلہ کرنے والے کے سِوا دوسرے لوگوں کو بھی اس موقع پر قادیان میں جمع ہونے کی تحریک نہیں کی اور جلسہ اور تقریروں کی امید نہیں دلوائی تو وہ اس کا اعلان کر دیں۔ جس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک سَو روپیہ کچلو صاحب کے پاس جمع کروا دیا جائے گا جو احرار کے ثبوت کو سچا سمجھنے کی صورت میں ان کو بِلا توقف یہ رقم دے دیں گے۔ ورنہ عدِم ثبوت یا پندرہ دن تک ثبوت پیش نہ کرنے کی صورت میں یہ رقم، روپیہ جمع کرانے والے کو واپس کر دیں گے۔ ہاں یہ شرط ہو گی کہ میرے ان سب مطالبات کی جن کے متعلق میں نے انعامات مقرر کئے ہیں‘ اکٹھی تحقیق کی جائے۔ ایک ایک کو الگ الگ لینے کی اجازت نہ ہو گی تا کہ معاملہ لٹکتا نہ چلا جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ احرار ان مطالبات میں سے بعض کے متعلق اپنی غلطی تسلیم کر لیں کہ اس اس بارہ میں ہم سے غلطی ہو گئی ہے اس لئے صرف فلاں فلاں معاملے کی ہم تحقیق کراناچاہتے ہیں۔
اگر احرار کو مسٹر سیف الدین صاحب کچلو کی شخصیت پر اعتراض ہو تو میں اس امر کے لئے بھی تیار ہوں کہ مسٹر عبداللہ یوسف علی صاحب آئی۔سی ایس ریٹائرڈ۔ یا سر محمد یعقوب یا مولانا ابوالکلام صاحب آزاد میں سے کسی کو ان امور کے تصفیہ کے لئے تجویز کر دیا جائے۔ مذکورہ بالا اشخاص میں سے جس پر بھی احرار کو اعتماد ہو میں شرائطِ مذکورہ بالا کے مطابق فیصلہ ان پر چھوڑنے کے لئے تیار ہوں اور احرار کی منظوری کے بعد مقررہ روپیہ فوراً جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کے پاس جمع کرا دیا جائے گا۔
برادران! اگر احرار کو مباہلہ کرنا مطلوب ہے نہ کہ کانفرنس تو قادیان پر انہیں کیوں اصرار ہے۔ کیاشریعت کی رو سے قادیان کے باہر مباہلہ ہو نہیں سکتا؟ یا کیا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اللہ تعالیٰ کی قادیان میں حکومت ہے اور باہر اس کی حکومت نہیں ہے ہمارے لئے تو ایک وجہ موجود ہے کہ حکومت نے احرار کو قادیان میں کانفرنس سے روکا ہوا ہے مگر وہ مباہلہ کے بہانہ سے اپنا اجتماع کر کے حکومت کے حکم کو رد ّکرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے قادیان ‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد اور ان سے اُتر کر ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ایک جوش کے موقع پر وہاں لوگ جمع ہوں اور فساد کی کوئی صورت پیدا ہو مگر احرار کو قادیان میں مباہلہ کر نیکی کوئی وجہ نہیں۔ اور اگر یہاں مباہلہ کر نیکی کوئی غرض ہو بھی تو مباہلہ والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو جمع کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور ان کا اصرار کرنا کہ یا تو ہم مباہلہ قادیان میں کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ایک ایسی بات ہے جس کی نسبت ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ وہ بالکل غیر ضروری اور نامعقول ہے۔
اب میں مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کے اُس جواب کو لیتا ہوں جو انہوں نے حکومت کو بھجوایا اور اخبارات میں شائع کرایا ہے۔ آپ اس میں لکھتے ہیں ۔ ’’آپ کی چِٹھی نمبر۳۴۷ ایس۔ایس۔بی مؤرخہ ۲۔جولائی ۱۹۳۵ء کو (متن میں) گورنمنٹ کا جو فیصلہ درج کیا گیا تھا اس کے مطابق مجوزہ سالانہ تبلیغ کانفرنس ترک کر دی گئی تھی۔ مرزا محمود احمد نے اس پر مجلس احرار کو چیلنج دینا شروع کر دیا کہ وہ مباہلہ کے لئے رضا مند ہے اور انہوں نے مجلس کے لیڈروں کو اپنے معتقدوں کے ہمراہ قادیان آنے اور ان کا مہمان بننے کے لئے اخبار الفضل مطبوعہ ۶۔اکتوبر ۱۹۳۵ء میں دعوت دی تھی اس لئے مجلس کو مجبوراً یہ چیلنج قبول کرنا پڑا۔‘‘ (بندے ماترم ۲۰۔نومبر ۱۹۳۵ء) اس چِٹھی سے مسٹر مظہر علی صاحب نے چیف سیکرٹری صاحب گورنمنٹ پنجاب پر اور اس کو شائع کر کے عوام الناس پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ :۔
(۱) احرار نے چونکہ قادیان میں کانفرنس ملتوی کر دی تھی‘ اس وجہ سے امام جماعت احمدیہ نے انہیں چیلنج دینا شروع کر دیا۔ یعنی ان کی اس مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر انہیں لوگوں میں ذلیل کرنا چاہا۔
(۲) احرار قادیان آنے کا ارادہ ترک کر چکے تھے مگر چونکہ امام جماعت احمدیہ نے انہیں قادیان آنے کا چیلنج دیا‘ وہ اس چیلنج کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ احرار پر رحم کرے کہ وہ اسلام کو اس طرح بدنام نہ کریں کیونکہ یہ دونوں باتیں صریح جھوٹ ہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ چونکہ احرار کو قادیان میں کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا تھا‘ اس لئے میں نے احرار کو مباہلہ کا چیلنج دینا شروع کر دیا۔ میرا مباہلہ کا چیلنج لاہور یا گورداسپور کے لئے تھا۔ اگر میں نے اس ممانعت سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کے لئے چیلنج دیا ہوتا تو میں قادیان آنے کا چیلنج دیتا نہ کہ لاہور یا گورداسپور کا۔ دوسری بات بھی یعنی یہ کہ احرار نے قادیان آنے کا ارداہ ترک کر دیا تھا مگر جب مَیں نے ان کو چیلنج دیا کہ وہ قادیان آ کر مباہلہ کریں تو مجبوراً انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا ویسی ہی جھوٹ ہے جیسی کہ پہلی بات۔ انہوں نے ہرگزمیرے چیلنج پر مجبور ہو کر قادیان آنے کا ارادہ نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں قادیان میں مباہلہ کروں۔ چنانچہ ۲۔اکتوبر ۱۹۳۵ء کے ’’مجاہد‘‘ میں مظہر علی صاحب اظہر کی جو تقریر شائع ہوئی ہے اس کا عنوان یہ ہے ۔
’’مرزا محمود کی دعوتِ مباہلہ کا کیفیتِ موت طاری کر دینے والا جواب مباہلہ قادیان میں ہونا چاہئے۔ مرد ہو تو بال بچوں سمیت میدان میں نکل آؤ۔‘‘
پھر اصل اعلان میں یہ فقرہ درج ہے۔ ’’ہم مرزا محمود کو کوئی موقع نہیں دینگے کہ وہ مباہلہ سے پہلو تہی کر سکے ہاں یہ ضرور ہو گا کہ مباہلہ قادیان میں ہو۔‘‘ (مجاہد ۲۔اکتوبر ۱۹۳۵ء)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ میرے مجبور کرنے پر انہوں نے قادیان آنا منظور نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنی طرف سے یہ شرط لگائی کہ وہ صرف قادیان میں مباہلہ کر سکتے ہیں باہر نہیں۔ اس کے بعد احرار کا حکومت کو یہ لکھنا کہ ہم تو قادیان نہ جاتے تھے مرزا محمود نے ہمیں مجبور کر کے قادیان بلایا ہے‘ کیا کسی عقلمند انسان کے نزدیک بھی درست ہو سکتا ہے؟ اور کیا یہ فعل دیانت داری کا فعل سمجھا جا سکتا ہے؟ میں مذکورہ بالا دونوں امور کے لئے بھی سَو سَو روپیہ مزید انعام مقرر کرتا ہوں کہ :۔
(۱) اگر میرے اعلانات سے یہ نتیجہ نکل سکے کہ میں نے مباہلہ کا چیلنج اس لئے دیا تھا کہ احرار کو قادیان آنے کی ممانعت تھی یا
(۲) یہ ثابت ہو جائے کہ احرار تو قادیان آنے کو تیار نہ تھے مگر میں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ضرور قادیان آ کرہی مباہلہ کریں تو سَو سَو روپیہ مزید انعام ان دونوں باتوں کے ثابت ہونے پر مجلس احرار کو جماعت احمدیہ کی طرف سے دیا جائے گا اور اس انعام کے تصفیہ کے لئے بھی میں مذکورہ بالا شرائط اور مذکورہ بالا ثالثوں میں سے کسی ایک کو پیش کرتا ہوں۔ کیا میں امید کروں کہ مجلس احرار ان امور کے لئے مذکورہ بالا شرائط کے ماتحت مذکورہ بالا لوگوں میں سے کسی ایک سے فیصلہ کرانے کو تیار ہو گی؟ یہ لوگ سب کے سب غیر احمدی ہیں اور احرار کے ہم مذہب ہیں اور مسلمانوں کے مسلّمہ لیڈر ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی نسبت بھی یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ احرار کے مقابل پر میری رعایت کریں گے بلکہ ہر انصاف پسند تسلیم کرے گا کہ میں نے گویا خود احرار کے اپنے ہم مذہبوں کے سپرد، ان امور کا فیصلہ کر دیا ہے مگر اس فیصلہ کے لئے یہ شرط ہو گی کہ تحریری صورت میں با دلائل دیا جائے اور دونوں فریق کے دلائل کو نقل کر کے وجوہِ فیصلہ لکھی جائیں اور دونوں فریق کو ایک ایک نقل اس کی فوراً دے دی جائے تا کہ بعد میں اس فیصلہ کو شائع کیا جا سکے۔
برادران! میں اس بارہ میں جو کچھ کر سکتا تھا وہ میں نے کر دیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے خوف کو دل میں رکھ کر انصاف سے کام لیں گے اور احرار کی اس دھوکادہی کا ازالہ کریں گے کہ وہ لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے گریز کرتے ہیں جو بالکل جھوٹ اور غلط ہے۔ ہم اب بھی مباہلہ کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے دونوں فریق کے نمائندے آپس میں تحریری طور پر شرائط طے کر لیں۔ اور مجلس مباہلہ کے لئے ایک مسلّمہ فریقین صدر مقرر ہو جاوے جو اس امر کا ذمہ وار ہو کہ مسلّمہ فریقین شرائط کی پابندی کی جائے گی اور مباہلہ لاہور یا کسی ایسے مقام پر جوطَرفین کے لئے پُرامن اور مناسب ہو وقوع میں آ جائے۔ لیکن اگر اب بھی احرار کو قادیان میں مباہلہ ہونے پر اصرار ہو تو پھر اس صورت میں انہیں چاہئے کہ میری شائع کردہ شرائط کے ماتحت سمجھوتہ کر لیں۔ اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مل کر حکومت کو لکھ دیں گے کہ مباہلہ قادیان میں دونوں فریق کی ذمہ واری پر ہو گا اور کسی قسم کی بدنظمی کا خطرہ نہ ہو گا۔ اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو آؤ یوں کر لیں کہ فریقین مباہلہ کے الفاظ کی تعیین کر لیں اور دونوں فریق اپنے اپنے الفاظ پر دستخط کر کے ایک دوسرے کو دے دیںتا کہ رسالہ کی صورت میں اسے شائع کر دیا جائے۔ آخر مباہلہ کی دعا خواہ تحریر میں آئے یا زبانی کی جائے ایک سا اثر رکھتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ جس طرح منہ کی باتیں سنتا ہے قلم کی تحریر سے بھی آگاہ ہوتا ہے لیکن اگر ان سب باتوں کے باوجود احرار مباہلہ پر تیار نہ ہوں لیکن غلط بیانی سے کام لیتے چلے جاویں تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں غلط بیانیوں کا نکھار ہو کر رہے گا۔ ان کی غلط بیانیاں چند دن تک انہیں نفع دے سکتی ہیں مگر ہمیشہ کے لئے نہیں۔ بعض لوگ جوش کی حالت میں اگر ان کے فریب میں آ بھی جائیں تو بے شک آ جائیں مگر صداقت آخر غالب آ کر رہے گی۔ اور جلد یا بدیر دنیا پر کُھل جائے گا کہ یہ سب کارروائی احرار نے شہید گنج کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کی تھی۔ ایک زندہ اور خبردار خدا کے ہاتھ میں ہماری قسمتیں ہیں وہ اس جھوٹ کو کبھی سرسبز نہیں ہونے دے گا۔ وہ اس دھوکا کو قائم نہیں رہنے دے گا۔ اس مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ خدا کے پاس ہماری اپیل ہے کہ وہ احرار کے اس افتراء کی قلعی کھول دے اور مسلمانوں کو سمجھ دے کہ ان کے اس فریب میں نہ آئیں اور بے گناہوں کو بے وجہ ہدفِ ملامت نہ بنائیں کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں۔ فتح یہ نہیں کہ انسان جھوٹ سے لوگوںکو اشتعال دلاوے۔ فتح یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے سچائی پر قائم رہے۔ مکہ کے کافر بھی لوگوں کو رسول کریم ﷺ کے خلاف جھوٹ بول کر بھڑکا دیا کرتے تھے۔ پھر اگر آپؐ کے ادنیٰ خادموں اور جاں نثاروں کے خلاف احرار جھوٹ بول کر اشتعال دلانے کی کوشش کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن نہ آقا کے مقابلہ میں یہ دھوکا دیر تک قائم رہا اور نہ اب خدام کے مقابلہ میں دیر تک قائم رہے گا۔ میں نے سچائی سے اور انصاف سے فیصلہ کرنا چاہا مگر ان لوگوں نے حیلوں اور حجتوں سے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا۔ میرا خدا مجھے اسی طرح نہیں چھوڑے گا۔ وہ ان کے موجودہ اور آئندہ سب فریبوں سے مجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کا ہاتھ رُکے گا نہیں جب تک کہ وہ سچ کو سچ ثابت نہ کر دے کہ اس کی شان کے یہی مطابق ہے اور اس کی صفاتِ حسنہ اسی کی متقاضی ہیں۔وَاٰخِرُ دَعْونٰـا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
والسلام
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
۲۱۔نومبر ۱۹۳۵ء
(مطبوعہ اللہ بخش سٹیم پریس قادیان)



آل انڈیا نیشنل لیگ کی والنٹیرز کور
سے خطاب





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

آل انڈیا نیشنل لیگ کی والنٹیرز کور سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء)
تشہّد ‘ تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پچھلے چار دنوں میں ہر کام آپ لوگوں کو مرکزِ سلسلہ کی حفاظت کیلئے کرنا پڑا ہے میں اس کے متعلق سب سے پہلے اپنی خوشنودی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس نیت اورغرض کے ماتحت آپ لوگوںنے یہ کام کیا ہے اسی نیت اور غرض کے مطابق اللہ تعالیٰ آپ سے نیک سلوک فرمائے۔
میں اس موقع پر یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ انسان کے اعمال کے دو قسم کے بدلے ہوا کرتے ہیں ایک وہ بدلہ جو چاندی اور سونے کی صورت میں اسے ملتا ہے اور ایک وہ بدلہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی رضا کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور اس موقع پر کچھ اموال ہاتھ آئے اور رسول کریم انے بعض کمزور لوگوں میں انہیں تقسم کر دیا تو بعض نوجوانوں نے اعتراض کیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر رسول کریم ا نے اموال مکہ والوں کو دے دیئے کیونکہ وہ آپ کے رشتہ دار تھے۔ اس پر رسول کریم ا نے تمام انصار کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات بیان فرمائی کہ آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مکہ والوں نے محمد ( ا ) کو باوجود بھائی بند ہونے کے اپنے شہر سے نکال دیا تو مدینہ کے لوگوں نے پناہ دی، ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کی، اپنی جانیں تک دیں اور ہر رنگ میں مدد اور اعانت کی‘ لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے تمام اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے۔ آپ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! یہ ہم نہیں کہتے۔ ہم میں سے ایک بے وقوف نوجوان نے یہ بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا مگر اس بات کی ایک اور صورت بھی تھی اور اگر تم چاہتے تو اس رنگ میں بھی کہہ سکتے تھے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا ایسا نبی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کا سردار بنایا اور روئے زمین کے تمام انسانوں کیلئے اسے ہادی بنا کر مبعوث کیا‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہ انسانی کوششوں سے بلکہ محض اپنے فضل اور رحم سے اور فرشتوں کی فوج کی مدد کے ساتھ اسے فتح دی اور مکہ جو اُس کا وطن تھا اس کے قبضہ میں دے دیا‘ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکہ میں اسے فاتحانہ طور پر داخل کیا تو مکہ جہاں کا وہ رہنے والا تھا، اس کے باشندے تو اونٹوں اور بھیڑوں کے گلّے اپنے گھروں کو لے گئے لیکن مدینہ کے لوگ جہاں کا وہ رہنے والا نہ تھا اپنے گھروں میں خدا کے رسول کو لے آئے ۱؎ ۔ تو دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چاندی اور سونے کے لئے محنتیں کرتے ہیں جیسے مکہ والے تھے کہ وہ اونٹوںکے گلّے اپنے گھروں کو لے گئے۔ ان کا بھی کام کرنے سے مقصد و مدّعا یہ ہوتا ہے کہ سونا اور چاندی ان کی جیبوں میں پڑے۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیںکہ ان کے مدنظر مال و دولت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا منتہائے نظر ہوتا ہے۔ تو آپ لوگوں نے جو کام کیا ہے اگرچہ صرف آپ نے ہی یہ کام نہیں کیا گورنمنٹ کے سپاہی بھی اس کام پر متعیّن تھے اور جب وہ جائیں گے تو کسی کو رستہ کے اخراجات کیلئے روپیہ ملے گا اور کسی کو بھتہ ملے گا لیکن اس قسم کی کوئی چیز آپ لوگوںکو نہیں ملی اور گو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ آپ لوگوں کا وقت ضائع گیا لیکن جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مکہ کے لوگ تو اونٹوں کے گلّے اپنے گھروں کو لے گئے اور مدینہ کے لوگ خدا کا رسول لے آئے۔ اسی طرح اس کام کے بدلے جو چیز آپ لوگوں کو ملی ہے، وہ ان لوگوں کو نہیں ملی۔ آپ لوگوں نے سلسلہ کی حفاظت کا کام کر کے خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی ہے جس کے مقابلہ میں سونے اور چاندی کی کوئی حیثیت نہیں۔
اس کے بعد میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس اس دوران میں بعض اس قسم کی شکایتیں پہنچی ہیں کہ بعض افسروں نے اپنے ماتحتوں پر سختی کی۔ میںسمجھتا ہوں، اس قسم کے شکوے بِالعموم کام کے وقت ہو ہی جاتے ہیں لیکن میں ان شکووں کی معقولیت کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اس قسم کا نظام اسی لئے قائم کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے نفس پر قابو حاصل کرے اور محنت و مشقّت اور تکالیف برداشت کرنے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔ جو لوگ اس خیال سے نیشنل لیگ میں داخل ہوئے تھے کہ کوئی کھیل تماشہ ہوگا، وہ تو بے شک تکالیف محسوس کر سکتے اور محنت کے کاموں سے کبیدہ خاطر ہو سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس خیال کے ماتحت نیشنل لیگ میں داخل ہوئے تھے کہ انہیں محنت مشقّت اُٹھا کر سلسلہ کے لئے کام کرنے پڑیں گے، ان کے دلوں میں ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا کہ سلسلہ کی حفاظت کا کام کر کے انہیں کوئی تکلیف پہنچی اور اگر کوئی شخص ایسا خیال کرتا ہے تو یہ ناواجب اور گناہ کی بات ہے۔ سپاہیانہ زندگی جان دینے کیلئے ہوتی ہے مگر جان انسان فوراً نہیں دے سکتا بلکہ پہلے اسے تکالیف کا عادی بنانا پڑتا ہے تا کہ وقت پر اپنی جان کی قربانی بھی پیش کر سکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جان دینا بہت بڑی بات ہے لیکن خدا تعالیٰ کیلئے جان دینا کوئی بڑی بات نہیں اور اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ محنت و مشقّت اور تکالیف برداشت کرنے کا انسان اپنے آپ کو عادی بنالے۔ رسول کریم ا بھی صحابہ کو اس قسم کی پریکٹس کرایا کرتے تھے۔ چنانچہ کبھی تِیر اندازی کی مشق کراتے، کبھی گھوڑ دَوڑ کراتے اور کبھی تلوار چلانا سکھاتے۔ پھر عملی زندگی میں انہیں ایسی ایسی تکالیف اُٹھانی پڑیں جو آپ لوگوں کو ابھی اُٹھانی نہیں پڑیں۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ کے دوران میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دس دن تک کھانا نہ ملا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے درختوں کے پتے کھا کھا کر وہ گزارہ کرتے رہے۔ پتے کھانے کی وجہ سے مینگنیوں کی شکل میں پاخانہ آنا شروع ہو گیا۔۲؎ یقینا اس قسم کی تکلیف آپ لوگوں کو نہیں ہوئی۔ پس جنہیںشکایت پیدا ہوئی ہے وہ صرف اس لئے ہوئی ہے کہ وہ تکالیف برداشت کرنے کے عادی نہ تھے۔
میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں تکلیف ہوئی ہوگی مگر نیشنل لیگ اور اس کی کور کے قائم کرنے سے غرض ہی یہ ہے کہ تکالیف برداشت کرنے کا لوگوں کو عادی بنایا جائے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس قسم کا شکوہ کیا ہے وہ توبہ کریں اور سمجھ لیں کہ ان کی طرف سے یہ ایک کمزوری کا اظہار ہوا ہے جس کے بدلے انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ ندامت اور طلبِ عفو کرنا چاہئے۔ باقی میں یہ نہیں کہتا کہ افسروں سے غلطی نہیں ہوئی ہوگی۔ جس طرح آپ لوگ بھی اناڑی ہیں اسی طرح آپ کے افسر بھی اناڑی ہیں لیکن بہرحال فوجی نظام یہ چاہتا ہے کہ افسر چاہے غلطی کر رہا ہو اس کی اطاعت کی جائے اور اس حد تک اطاعت کی جائے جہاں تک شریعت اطاعت کرنے سے منع نہیں کرتی۔ باقی تمام باتوں میں خواہ وہ جائز ہوں یا آپ لوگوں کی نگاہ میں ناجائز، آپ کا فرض ہے کہ افسر کی اطاعت کریں۔ ہاں اگر اس نے کور کے قواعد کے خلاف کوئی حرکت کی ہے تو آپ لوگوں کا حق ہے کہ بعد میں بالا افسروں کے پاس باضابطہ طور پر شکایت کریں۔ اس اصل کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو اس کام کی اصل غرض بالکل فوت ہو جاتی ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کام کو جو آپ نے شروع کیا ہے، انہی چند دنوں تک محدود نہیں رکھیں گے۔ ابھی تو یہ کام صرف کھیل تک ہی محدود ہے اور آپ لوگوں نے معمولی قواعد بھی نہیں سیکھے اس لئے ضرورت ہے کہ لمبے عرصہ تک اس پریکٹس کو جاری رکھا جائے۔ بلکہ اُس وقت تک اس پریکٹس کو جاری رکھنا چاہئے جب تک کہ دنیا کی تمام کوروں کے مقابلہ میں آپ کی کور زیادہ اعلیٰ نہیں سمجھی جاتی۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ تمام محلوں کے والنٹیرز اپنے اپنے محلوں میں اس پریکٹس کو جاری رکھیں گے یہاں تک کہ دنیا کی ہر کور سے محنت، مشقّت، قربانی اور کام کی عمدگی میں بڑھ جائیں اور کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ مومن کی یہ پختہ علامت ہے کہ وہ ہر کام میں اوّل نمبر پر رہتا ہے۔ ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیلؒ صاحب شہید گذرے ہیں۔ وہ ایک جنگ پر جا رہے تھے کہ راستہ میں انہیں معلوم ہوا کہ ایک سکھ اتنا بڑا تیراک ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ سن کر انہیں اتنی غیرت آئی کہ باوجود اس کے کہ وہ ایک ضروری کام پر جا رہے تھے، وہیںٹھہر گئے اور دریائے اٹک میں انہوں نے تیرنے کی مشق شروع کر دی اور چالیس دنوں کے بعد اسے چیلنج دیا کہ میرا مقابلہ کر لو۔ چنانچہ اس سکھ سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ تو سچا مومن ایک منٹ کیلئے بھی یہ برداشت نہیںکر سکتا کہ کوئی اور اوّل درجہ پر چلا جائے اور یہ دوسرے نمبر پر رہے۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کام کو جاری رکھیں گے اور روزانہ اس کی پریکٹس کریں گے۔ کوئی کام مشق کے بغیر نہیں آ سکتا اور نہ یہ کام مشق کے بغیر آ سکتا ہے۔
پس اس کام کو مسلسل جاری رکھیں اور اس حد تک اس میں ترقی کریں کہ کسی میدان میں دنیا کی کسی کور کے سامنے بلکہ باقاعدہ نظام والی فوجوں کے سامنے بھی اگر کسی وقت کھڑا ہونا پڑے تو دیکھنے والے یہ نہ کہہ سکیں کہ احمدی نوجوان ان سے کم رہے ہیں۔ یہ امید رکھتے ہوئے کہ آپ ان باتوں کو یاد رکھیں گے، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری نسلوں میں وہی قربانی اور ایثار کی روح پیدا کرے جو صحابہؓ میں تھی اور انہیں اتنی مہتم باِلشان قربانیوں کی توفیق دے جو دنیا کو حیرت میں ڈالنے والی ہوں۔
اس کے بعد افسر جس رنگ میں منتشر کرنا چاہیں منتشر کرسکتے اور آپ لوگ اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔
(الفضل ۲۶۔ نومبر ۱۹۳۵ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

آل انڈیا نیشنل لیگ کور کے متعلق اظہارِ خوشنودی
(تقریر فرمودہ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۵ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھے اس امر سے خوشی ہوئی ہے کہ یہ ایسی تقریب پیدا ہو گئی ہے جس میں نیشنل لیگ کور کے متعلق مجھے اپنے خیالات ظاہر کرنے کا موقع ملا۔ میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں والنٹیرز کور کے فرائض کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اب مَیں چاہتا ہوں کہ کور کے کام کے متعلق اپنی رائے بیان کروں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کور کا کام قریب ترین عرصہ میں شروع ہوا ۔ اتنے قریب کے وقت میں شروع ہوا ہے کہ اتنے عرصہ میں ایک سپاہی کو بندوق پکڑنے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کُجا یہ کہ اسے کسی خدمت پر مقرر کیا جائے۔ مگر باوجود اس کے اس موقع پر جس محنت‘ جس جاں فشانی اور جس سرگرمی سے نیشنل لیگ کور کے ممبروں نے کام کیا ہے ،چھوٹوں اور بڑوں نے کیا ہے، افسروں اور ماتحتوں نے کیا ہے وہ اس قابل ہے کہ کور کو مبارکباد دی جائے اور کور اس بات کی مستحق ہے کہ جماعت اس کیلئے دعا کرے۔
میںنے دیکھا ہے کہ اس تنظیم کے ماتحت جس کی مشق کا پوری طرح کور کو ابھی موقع نہیں ملا سالانہ جلسہ کے موقع پر کور کے تھوڑے سے آدمیوں نے اتنا کام کر کے دکھایا ہے جو کہ پہلے بہت سے لوگ نہ کر سکتے تھے۔ جلسہ گاہ میں میرے جانے کے وقت رستہ کو صاف رکھنا اورہجوم کو روکنا قریباً ناقابلِ حل سوال ہو چکا تھا مگر اب کے والنٹیرز کور نے ایسی عمدگی سے اسے حل کیا ہے کہ کسی ایک موقع پر بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی اورشکایت کا پیداہونا تو الگ رہا شکایت کا امکان بھی پیدا نہیں ہوا۔ اس موقع پر جس نوعیت کا کام تھا اس کے لحاظ سے کور پر اس قدر بوجھ پڑا جو انتہائی تھا لیکن میں خوش ہوں کہ اس موقع پر کور نے ہمت، دیانت اور استقلال سے کام کیا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کور کی اس خدمت کو قبول کرے اور آئندہ اور بھی عمدگی سے کام کرنے کا موقع دے اور میں امید رکھتا ہوں کہ میرے اس خطبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کور میں شامل ہونے والے استقلال سے کام کریں گے۔ چند دن اچھے سے اچھا کام کر کے بھی چھوڑ دینا کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ فائدہ اسی کام سے ہو سکتا ہے جو مستقل طور پر کیا جائے اور اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک اس کی ضرورت ہو۔ کور کے ممبر چونکہ کور کے ملازم نہیں، اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض کو ملازمت یا کاروبار کے سلسلہ میں یہاں سے جانا پڑے۔ اگر کور کا کوئی ممبر کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں کور ہو تو جب تک وہ ایسی عمر تک نہیں پہنچ جاتا کہ کور کی خدمات سے آزاد ہو سکے اور پھر وہ کور میں شامل نہیں ہوتا تو اپنا کیا کرایا کام ضائع کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی عورت کا ذکر فرمایا ہے جو سُوت کاتتی رہتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ۳؎ ۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ کوئی اس لئے سُوت کاتے کہ کپڑا بنائے۔ لیکن جب وقت آئے تو بجائے اس کے سُوت کو کھولے، قینچی سے کاٹ دے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بے استقلالی کی مثال بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ بعض لوگ کام تو کرتے ہیں لیکن نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس طرح سارا کیا کرایا ضائع کر دیتے ہیں۔
میں کور کے ممبروں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی استقلال سے کام کریں اور اپنے ساتھیوں اور محلہ والوں کو بھی استقلال سے کام کرنے کی تحریک کریں اور اصل غرض اس کور کی جو ہے، اسے مدنظر رکھیں۔ بے شک کور کا یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے مقدس مقامات کی حفاظت کرے‘ مرکزِ احمدیت میں کسی قسم کا فتنہ نہ پیدا ہونے دے‘ جماعت کی عزت و آبرُو کی حفاظت کرے‘ پبلک کیلئے آرام اور سہولت پیدا کرے لیکن اس کے لئے سب سے بڑی چیز اچھے اخلاق پیدا کرنا، اپنے جذبات پر قابو پانے کی مشق کرنا اور اپنے اندر اطاعت کا مادہ پیدا کرنا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھنے اور اطاعت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا ایمان ضائع کر لیتے ہیں۔ پہلے کوئی چھوٹی سی شکایت پیدا ہوئی اس پر اعتراض کرنے لگ گئے‘ پھر عقائد میں فتور آنا شروع ہو گیا وہ اس طرح ایمان کھو بیٹھتے ہیں۔ کور کی تنظیم سے یہ بھی غرض ہے کہ اطاعت کا مادہ پیدا ہو اور ہر شخص اپنے افسر کی پوری پوری اطاعت کرے۔ اسلام نے افسر کی اطاعت نہایت ضروری قرار دی ہے۔ رسول کریم ا نے فرمایا ہے مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ۴؎ یعنی جو شخص میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ یہی جذبہ ہم نیشنل لیگ کور کے ذریعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں یعنی جس کو کسی کام کا اہل خیال کر کے کسی عہدہ پر مقرر کیا جائے، اس کے ماتحتوں کو اس کا پورا پورا ادب اور احترام کرنا چاہئے اور اس کا حکم ماننا چاہئے۔ کور میں اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ اگر کسی وقت کوئی بات کسی کی مرضی کے خلاف ہو تو بھی اس میں اطاعت کی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص عام حالات کے لحاظ سے ادنیٰ کام کرتا ہولیکن کور کے انتظام کے لحاظ سے ایسی قابلیت رکھتا ہو کہ اسے عہدہ دار بنا دیا جائے اس کی اطاعت ضروری ہے۔
کور کا یہ حُسنِ انتظام جس کی مَیں نے تعریف کی ہے اور جو تعریف کے قابل ہے اس میں بڑی بات یہی ہے کہ کور کے ممبروں کو محسوس کرا دیا گیا ہے کہ افسر کی اطاعت ضروری ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوا اور بعض کمزوریاں باقی ہیں۔ چنانچہ عیدگاہ سے واپس آتے وقت میں نے دیکھا کہ کور کے بعض ممبر آپس میں ایک دوسرے کو متضاد مشورے دے رہے تھے حالانکہ طریق یہ ہے کہ اس قسم کی ہدایت افسر کی طرف سے آنی چاہئے اور آپس میں نہیں بولنا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح تشتّت پیدا ہوتا ہے اور تنظیم ٹوٹ جاتی ہے۔ کام کرنے والوں کو پوری طرح اپنی یہ عادت بنا لینی چاہئے کہ جوسِسٹم اور طریق مقرر ہے اس کے مطابق چلا جائے تا کہ نیشنل لیگ کور سے جو تنظیم مقصود ہے اس میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو۔
آخر میں مَیں پھر خوشنودی کا اظہار کرتا ہوں کہ کور نے اعلیٰ درجہ کا کام کیا اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اسے اور زیادہ خوبی سے کام کرنے کی توفیق دے۔
(الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۳۶ء)
۱؎ بخاری کتاب فرض الخمس باب مَاکان النبی صلی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یعطی
المؤلفۃ قلوبھم
۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب کَیْفَ کَانَ عَیْشُ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
واصحابہ (مفہوماً)
۳؎ النحل: ۹۳
۴؎ بخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالٰی اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول …


زندہ خدا کا زندہ نشان





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰیْ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
زندہ خدا کا زندہ نشان
جماعتِ احمدیہ کے خلاف احرار کے فتنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
(رقم فرمودہ ۱۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء)
ہر ابتلاء جماعتِ احمدیہ کیلئے رحمت ہے
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَکَ یُرِیْدُوْنَ
اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ- ۱؎ لوگ چاہتے ہیں کہ تیرے نور کو بُجھا دیں، لوگ چاہتے ہیں کہ تیرے سازوسامان کو اُچک کر لے جائیں مگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔
یہ وہ کلام ہے جو آج سے تینتیس سال پہلے ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو بانی سلسلہ احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا۔ وہ دن جاتا ہے اور آج کا دن آتا ہے متواتر دنیا کے لوگوں نے خداتعالیٰ کے نور کو بُجھانے کی کوشش کی اور اس متاعِ روحانی کو لُوٹنے کی کوشش کی جو بانی سلسلہ احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا مگر ان تمام بدخواہوں اور دشمنوں کے حصہ میں صرف ناکامی اور نامرادی آئی اور ہر شورش جو دشمن نے اُٹھائی اسی کے پیچھے سے رحمتِ الٰہی کے بادل جُھومتے ہوئے آ موجود ہوئے اور ہر فتنہ جو معاندین نے برپا کیا اسی کے نیچے سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا خزانہ نمودار ہوا۔ غرض مثنوی رومیؒ کے قول کے مطابق کہ :
؎ہر بلاکیں قوم را حق دادہ اند
زیرِ آں گنجِ کرم بنہادہ اند
ہر ابتلا احمدیت کیلئے رحمت بن گیا اور ہر حملہ اس کی ترقی کیلئے کھاد بن گیا اور کوئی دن نہیں چڑھتا کہ جس میں احمدیت کا قدم پہلے کی نسبت آگے نہیں پڑتا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
احرار اور حکومت کا متفقہ حملہ
انہی حملوںمیں سے جو نصف صدی سے احمدیت پر ہوتے چلے آ رہے ہیں، ایک حملہ اکتوبر ۱۹۳۴ء
میں ہوا اور اس دفعہ ایک جماعت جتھے اور طاقت کے ساتھ خود احمدیت کے مرکز پر حملہ آور ہوئی اور اخلاق و شرافت کے معیار کو بُھلا کر ایسے ایسے گندے حملے کئے گئے کہ شرافت نے سر پیٹ لیا اور انسانیت نے شرم سے اپنا منہ دامن میں چُھپا لیا۔ مگر دشمن خوش تھا کہ اس نے بہت بڑا کام کیا ہے اور نازاں تھا کہ ہنسی، تمسخر اور گالیوں کے ذریعہ سے اس نے احمدیت کی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اِس وقت سے پہلے دشمنانِ احمدیت سلسلہ احمدیہ کے خلاف یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ سیاست سے الگ رہتے ہیں اور بُزدل اور کمزور ہیں‘ اسی دن حملہ کی شکل بدل دی گئی اور یہ کہا گیا کہ احمدی اصل میں حکومت کے مخالف ہیں اور حکومت کے مقابل پر ایک اور حکومت بنانا چاہتے ہیں اور اس مضمون پر اس قدر زور دیا گیا کہ خود حکومت جس کی آنکھوں کے سامنے احمدیت کی تاریخ موجود تھی، دھوکا میں آ گئی اور مولوی عطاء اللہ صاحب جو اس احرار کانفرنس کے صدر تھے، ان پر حکومت نے جو مقدمہ کیا وہ ہر سمجھدار انسان کی نظر میں مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف مقدمہ نہ تھا بلکہ احمدیت کے خلاف مقدمہ تھا۔ چنانچہ اس مقدمہ کے دَوران میں صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ منگوائے گئے۔ مجھے کہ امام جماعت احمدیہ کا ہوں، عدالت میں گواہی کیلئے بُلوا کر تین دن طویل جرح کا نشانہ بنایا گیا۔سلسلہ کے دوسرے کارکنوں کوبُلا کر لمبی لمبی جرحیں کی گئیں ۔ اور ہر منصف مزاج نے تسلیم کیا کہ یہ مقدمہ حکومت نے مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف نہیں کیا بلکہ احمدیت کے خلاف کیا ہے۔ آخر جب مقصد حاصل ہو گیا اور بزعمِ خود احمدیت کے راز ہائے سربستہ کو حکومت اور احرار باہم مل کر افشاء کر چکے تو مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ عدالتِ ماتحت نے مولوی صاحب کو چھ ماہ کی سزا دی لیکن فیصلہ کے ساتھ ہی بِلا توقّف ضمانت منظور کر لی گئی۔ پھر جب عدالتِ اپیل کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو اس نے فیصلہ میں مولوی عطاء اللہ صاحب کو چھوڑ کر احمدیت پر فردِجُرم لگایا اور مولوی صاحب کو اندازاً پندرہ منٹ تک اپنی صُحبت میں بیٹھنے کی سزا دی‘ یہ فیصلہ کیا تھا۔
اکتوبر ۱۹۳۴ء کی احرار کانفرنس کا زیادہ بھیانک الفاظ میں خلاصہ تھا‘ اس کی کارروائی کی صحت پر مُہر تصدیق تھا اور اس امر کا اظہار تھا کہ احمدیہ جماعت درحقیقت حکومت میں ایک حکومت ہے اور ملک کے امن کیلئے خطرہ۔ احرار نے اس فیصلہ کو پڑھا اور اپنی دی ہوئی گالیاں عدالت کی قلم سے سُن کر جامے میں پُھولے نہ سمائے۔ انہوں نے اس فیصلہ کو لاکھوں کی تعداد میں مختلف زبانوں میںدنیا میں شائع کیا اور سمجھے کہ ہم نے ایک طرف حکومت اور احمدی جماعت کے تعلقات کو بگاڑ دیا ہے تو دوسری طرف تعلیم یافتہ طبقہ کو اس فیصلہ کے ذریعہ سے احمدیت سے بدظن کر دیا ہے مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ :
تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ
انسان ایک سازش کرتا ہے مگر خدا کی تقدیر اسے مٹانے کی تیاریاں کر رہی ہوتی ہے۔ جب احرار اپنی کامیابی پر خوش ہو رہے تھے۔ وہ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کومبعوث کیا ہے‘ دشمن کے ہاتھوں ہی سے آپ کی سچائی کے ثبوت کیلئے ایک زبردست گواہی تیار کروا رہا تھا۔ سچ ہے کہ جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔
احرار کی ذلّت کیلئے خداتعالیٰ کی تدبیر
احرار اس خوشی میں پُھولے نہیں سماتے تھے کہ اچانک شہید گنج کا
واقعہ ہو گیا۔ احرار نے جمہور مسلمانوں کا اس مسئلہ میں ساتھ نہ دیا۔ اور مسلمانوں کو اپنے دفتر کے سامنے گولیاں کھاتے ہوئے دیکھ کر ان کی راہنمائی کیلئے قدم نہ اُٹھایا۔ بس پھر کیا تھا‘ ان کی حقیقت کے رُخ پر سے نقاب اُٹھ گئی اور مسلمانوں نے انہیں ان کے اصلی رُوپ میں دیکھ کر اِس قدر اظہارِ نفرت کیا کہ تاریخ شاید ایسی شدید نفرت کی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہو گی۔
احرار کا دوبارہ حملہ
جب احرار نے دیکھا کہ خداتعالیٰ نے ان کی حقیقت کو ظاہر کرکے انہیں مسلمانوں کی نظروں میں گِرا دیا ہے تو انہوں نے
ایسی راہیں تلاش کرنی شروع کیںکہ جن پر چل کر وہ اس مصیبت سے نجات حاصل کر سکیں۔ آخر یہی فیصلہ کیا کہ سب سے آسان اور سب سے نافع ترین یہی بات ہے کہ احمدیت پر پھر سے ایک حملہ کر دیا جائے۔ چنانچہ دوسرے مسلمان تو اپنے جلسوں میں احرار کی غداری پر اظہارِ نفرت کر رہے تھے اور احرار جگہ بہ جگہ جلسے کر کے یہ شور مچا رہے تھے کہ مسجد شہید گنج کا پیچھا چھوڑو‘ اصل کام احمدیت کی مخالفت ہے‘ اس کی طرف توجہ کرو اور روز نئے نئے الزام تراش کر لوگوں میں مشہور کر رہے تھے۔ اُن الزامات میں سے دو الزام یہ تھے کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں اور آپؐ کے (فِدَاہُ نَفْسِیْ وَرُوْحِیْ) درجہ کو بانی سلسلہ احمدیہ کے درجہ سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ ادنیٰ سمجھتے ہیں۔ اور قادیان کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے افضل خیال کرتے ہیں۔
احرار کو مباہلہ کا چیلنج
اس جھوٹ اور افتراء کی انہوں نے اس قدر اشاعت کی کہ میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی تردید کردوں کیونکہ گویہ دونوں
باتیں بالبداہت غلط اور احرار کے مفتریات میں سے ہیں لیکن پھر بھی بعض ناواقف لوگوں کو دھوکا لگنے کا امکان ہو سکتا تھا۔ مَیں نے جہاں ان اعتراضات کی تردید کی وہاں یہ بھی شائع کیا کہ اگر احرار کو اس الزام پر اصرار ہے تو وہ مجھ سے لاہور یا گورداسپور میں مُباہلہ کر لیں اور دونوں فریق پانچ پانچ سَو یا ہزار ہزار آدمی جیسا بھی فیصلہ ہو ہمراہ لائیں۔ اور تصفیہ شرائط کے بعد تاریخ مقرر کی جائے۔
احرار کی بہانہ سازی
احرار نے جب میرا یہ اعلان پڑھا تو سمجھے کہ اب اس ذریعہ سے ہم مسلمانوں میں جوش پیدا کرنے میں کامیاب ہو
جائیں گے مگر چونکہ حکومت نے فساد کے خوف سے احرار کیلئے اس سال قادیان میں کانفرنس منعقد کرنا ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔ انہوں نے مباہلہ کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے یہ شرط لگا دی کہ مباہلہ قادیان میں ہو۔ میں نے اس شرط پر اس امر کو بھی منظور کر لیا کہ اگر احرار کو لاہور یا گورداسپور پر کوئی خاص اعتراض ہو تو مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں لیکن باقی شرطوں کیلئے دونوں فریق کے نمائندے اکٹھے ہو کر ایک تصفیہ کر لیں۔ اس کے پندرہ دن بعد کی کوئی تاریخ مباہلہ کیلئے مقرر کی جائے۔
چونکہ احرار کی غرض مباہلہ کرنا نہ تھی بلکہ دو غرضوں میں سے ایک غرض تھی یا تو یہ کہ قادیان میں حکومت اِن کو جانے نہ دے گی اور اس طرح مباہلہ کا پیالہ ان سے ٹل جائے گا اور یا پھر یہ کہ اس بہانہ سے وہ قادیان جا کر کانفرنس کر سکیں گے اور اس طرح لوگوں میں فخر کر سکیں گے کہ دیکھو باوجود حکومت کے روکنے کے ہم کانفرنس کر آئے ہیں۔
میں نے جب بار بار تصفیہ شرائط پر زور دیا تو بجائے شرائط کا تصفیہ کرنے کے مظہر علی صاحب اظہر کی طرف سے میرے نام تار آ گئی کہ احرار مباہلہ کیلئے تیار ہیں‘ ۲۳ نومبر کو وہ قادیان مباہلہ کیلئے آ جائیں گے۔ اس پر جماعت احمدیہ کے سیکرٹری نے انہیں جواب لکھا کہ آپ نے شرائط کا تصفیہ تو کیا نہیں‘ اس اعلان سے کیا مطلب ہے؟ اس کا جواب سیکرٹری کو تو کوئی نہ دیا گیا لیکن اخبارات میں شور مچا دیا گیا کہ ہمیں سب شرائط منظور ہیں لیکن ساتھ ہی جو مضامین اس بارہ میں احرار کی طرف سے شائع ہوئے‘ ان میں قریباً ہر شرط کو رد ّکر دیا گیا۔ مثلاً میری شرط تھی کہ پانچ سَو یا ہزار آدمی مباہلہ میں شامل ہوں۔ اس کے متعلق لکھا گیا کہ آپ جتنے چاہیں آدمی لائیں ہم آپ کو مجبور نہیں کرتے۔ باقی رہا ہمارا معاملہ سو ہم آپ کی شر ط کے پابند نہیں‘ ہم تو ہزارہا آدمی ساتھ لائیں گے بلکہ مزید برآں یہ شرط بھی ہو گی کہ جو مباہلہ میں شامل نہ ہوں دیکھنے کیلئے آئیں‘ ان کو بھی مباہلہ دیکھنے سے روکا نہ جائے۔
ان اعلانات سے صاف ظاہر تھا کہ مباہلہ نہیں بلکہ احرار ایک دنگل کرنا چاہتے ہیں۔ پس میں نے اعلان کر دیا کہ یا تو احرار شرائط طے کر کے فقط پانچ سَو یا ہزار آدمی اپنے لائیں اور قادیان میں مباہلہ کر لیں ورنہ قادیان سے باہر لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کریں کیونکہ قادیان کو ہم فساد کی جگہ نہیں بنانا چاہتے۔
احرار کی طرف سے قربانی کا بکرا
اس میرے اعلان کا احرار نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اعلان پر اعلان کرنا شروع کر
دیا کہ مسلمان کثیرتعداد میں قادیان ۲۲۔نومبر کو پہنچ جائیں۔ اس پر حکومت نے کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت احرار لیڈروں کو قادیان جانے سے روک دیا اور احرار جو حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ڈینگیں ہمیشہ مارا کرتے ہیں‘ خاموش ہو کر بیٹھ رہے‘ اور آخر سوچ کر یہ عُذر تراشا کہ ہم لوگ ۶۔ دسمبر کو قادیان میں جمعہ پڑھنے کیلئے جانا چاہتے ہیں۔ چونکہ یہ محض ایک عُذر تھا‘ ورنہ قادیان میں جمعہ کی کوئی خاص وجہ احرار کیلئے نہ تھی اور پھر ایسے لیڈروں کیلئے جن میں سے بعض نماز کے ترک کیلئے مشہور ہیں اس لئے حکومت نے جمعہ سے روکنے کیلئے نہیں بلکہ فساد سے روکنے کیلئے احرار کو پھر نوٹس دے دیئے۔ باقی احرار تو خاموش ہو گئے لیکن قربانی کے بکرے کے طور پر مولوی عطاء اللہ صاحب کو انہوں نے پیش کر دیا۔ انہوں نے حکومت کے حکم کی نافرمانی کی اور قادیان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس پر حکومت نے قانون شکنی کے ارتکاب کے بعد انہیں ۶۔ دسمبر کو گرفتار کر کے گورداسپور پہنچا دیا۔ جہاں ۷۔ دسمبر کو ان کے مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ اور بقول چودھری افضل حق صاحب ’’چٹ میری منگنی پٹ میرا بیاہ ‘‘کے مقولہ کے مطابق مجسٹریٹ نے ان کو چار ماہ قید کی سزا دے دی۔ اور باقی احراری لیڈر جو شہید گنج کی شورش کے وقت یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم تو اس لئے خاموش ہیں کہ اس کام میں مسلمانوں کا نقصان ہے ورنہ جان دینے سے تو ہم نہیں ڈرتے‘ خاموشی سے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔
مولوی عطاء اللہ کی زندگی میں دو تغیر
اے دوستو! اس طرح پورے ایک سال میں مولوی عطاء اللہ صاحب
کی زندگی میں دو تغیر پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں انہوں نے قادیان آ کر بانی سلسلہ احمدیہ کی عزت پر حملہ کیا۔ اور اس حد تک کامیابی حاصل کی کہ حکومت اور جماعت کے تعلقات کو بگاڑ دیا۔ پھر ۱۹۳۵ء میں انہوں نے دوبارہ حملہ کیا لیکن اس دفعہ ان کی غرض حکومت اور احمدیہ جماعت کے تعلقات کو بگاڑنا نہ تھی کیونکہ وہ تو پہلے ہی بگڑ چکے تھے نیز اس دفعہ حکومت ان کے قادیان آنے کے خود خلاف تھی۔
احرار کے دوسرے حملہ کی غرض
پس اس دفعہ آنے کی غرض یہ تھی کہ ایسی صورتِ حالات پیدا کر دیں کہ جس سے
مسلمانوں میں احمدیت کے خلاف اشتعال پیدا ہو کر احمدیت مسلمانوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو اور شہید گنج کی وجہ سے کھویا ہوا وقار پھر احرار کو حاصل ہو جائے۔ گویا پہلے حملہ میں ان کا بڑا مقصد حُکّام کے دلوں میں اشتعال پیدا کرنا تھا اور اس دفعہ ان کا بڑا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں اشتعال پیدا کرنا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس حملہ کو ناکام کر دیا اور وہ گرفتار ہو کر عدالتِ گورداسپور میں پیش ہوئے اور وہاں انہیں جاتے ہی چار ماہ کی قید کا حکم مل گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف
دیکھنے میں یہ واقعات معمولی معلوم ہوتے ہیں
اور کوئی عجیب بات ان میں نظر نہیں آتی لیکن درحقیقت ان میں ایک بہت بڑا نشان ہے اور سوچنے والوں کیلئے بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ۔ اس نشان کو ذہن نشین کرانے کیلئے مَیں پھر احباب کو ۳۳ سال پہلے کے زمانہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ ۳۳سال ہوئے نومبر کے ہی مہینہ میں کہ جس میں مباہلہ کے نام پر جمع ہونے کیلئے احرار نے اعلان کیا تھا‘ بانی سلسلہ احمدیہ نے مندرجہ ذیل کشف دیکھا جو اخبار بدر ۱۹۰۲ء میں شائع ہو چکا ہے۔
آپ فرماتے ہیں:۔
’’ایک مقام پر مَیں کھڑا ہوں تو ایک شخص آ کر چِیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا۔ پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر مَیں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جا سکتا۔ اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیا۔ مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے۔ اتنے میں ایک اور شخص آ گیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑ لیا۔ میں جانتا تھا کہ موخرالذکر ایک مومن متقی ہے۔ پھر اسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اُسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا ۹ ماہ کی قید کا حکم دے دیا۔‘‘ ۲؎
اے دوستو! یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ اس کشف سے ظاہر ہے کہ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو حملے کرے گا۔ پہلے حملہ میں وہ کامیاب ہو جائے گا اور ٹوپی لے جائے گا۔ دوسرے حملہ میں وہ عمامہ لے جانا چاہے گا لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہو گا۔ اور پہلے اسے ایک غیرمومن دُبلا پتلا شخص پکڑنا چاہے گا مگر اس کی نیت پکڑنے کی نہ ہو گی۔ مگر پھر قادیان کا ایک شخص جو مومن متقی ہو گا اسے پکڑے گا۔ اس کے بعد وہ دوسری دفعہ حملہ کر کے آنے والا شخص عدالت میں لے جایا جائے گا اور وہاں جاتے ہی اسے ۴ یا ۶ یا ۹ ماہ کی قید کی سزا دے دی جائے گی۔
ٹوپی اور عمامہ کی تعبیر
آؤ اب ہم دیکھیں کہ تعبیر کی کتابوں میں ٹوپی اور عمامہ کی کیا تعبیر ہے تا کہ خواب کا مضمون ہمارے لئے اور بھی واضح ہو
جائے۔پہلے ہم ٹوپی کو لیتے ہیں۔ ٹوپی کی تعبیر حضرت محمد بن سیرین جو ایک اعلیٰ درجہ کے تابعی اور رسول کریم ﷺ کے مقرب صحابی حضرت ابو ہریرہؓ کے داماد تھے لکھتے ہیں۔
وَضْعُھَا عَلَی الرَّأْسِ……قُوَّۃٌ لِرَئِیْسِہٖ وَنَزْعُھَا مُفَارَقَۃٌ لِرَئِیْسِہٖ ۳؎
یعنی ٹوپی کی تعبیروں میں سے ایک تعبیر یہ ہے کہ اگر خواب میں دیکھے کہ کسی نے ٹوپی سر پر رکھی ہے تو اس کے حاکم کو قوت و طاقت حاصل ہو گی اور اگر دیکھے کہ کسی نے اس کے سر پر سے ٹوپی اُتار لی ہے تو حاکمِ وقت سے اس کی علیحدگی ہو جائے گی۔
پھر لکھتے ہیں:۔
وَاِنْ نَزَعَھَا عَنْ رَأْسِہٖ شَابٌّ مَجْھُوْلٌّ اَوْسُلْطَانٌ مَجْھُوْلٌ فَھُوَ مَوْتُ رَئِیسِہٖ وَفِرَاقٌ مَا بََیْنَھُمَا بِمَوْتٍ اَوْحَیَاۃٍ- ۴؎
یعنی اگر دیکھے کہ کسی غیر معروف نوجوان نے یا کسی غیر معروف بادشاہ نے اس کے سر پر سے ٹوپی اُتار لی ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ یا تو ا س کا بادشاہ مر جائے گا اور یا اس کے اور اس کے حاکم کے درمیان جُدائی ہو جائے گی خواہ موت کے ذریعہ سے خواہ زندگی میں ہی دوسرے اسباب کی وجہ یعنی تفرقہ وغیرہ سے۔
عمامہ کی تعبیر میں یہی امام محمد بن سیرین تابعی لکھتے ہیں۔
وَالْعَمَائِمُ تِیْجَانُ الْعَرَبِ…وَھِیَ قُوَّۃُ الرََّجُلِ وَتَاجُہٗ وَوِلَایَتُہٗ۔ ۵؎
یعنی پگڑیاں عربوں کا تاج کہلاتی ہیں اور ان سے مراد آدمی کی قوت اور اس کی بادشاہت اور حکومت ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود کے کشف کی تعبیر
ان تعبیروںکو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواب
کی تعبیریوں ہوگی کہ ایک شخص آپ پر حملہ کرے گا اور آپ کے اور حُکّام کے تعلقات کے بگاڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسکے بعد وہ دوبارہ حملہ کرے گا اور اس دفعہ اس کی غرض یہ ہوگی کہ وہ احمدیت کی طاقت کو مٹا دے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوگا۔ اس کے حملہ کے وقت پہلے ایک غیر مُسْلم شخص جو چھریرے بدن کا ہوگا، اسے روکنا چاہے گا لیکن اصل میں اس کی نیت اسکے روکنے کی نہ ہوگی بلکہ وہ دل میں کہتا ہوگا کہ اگر اس کام سے میں آزاد ہی رہوں تو اچھا ہے۔ لیکن اس موقع پر قادیان کا ایک آدمی جو مومن اور متقی ہوگا، وہ بھی اس حملہ آور کو پکڑنے کیلئے آگے بڑھے گا اور اسکے آگے بڑھنے سے اس پہلے شخص کو بھی اچھی طرح پکڑنا پڑے گا اور آخر اس حملہ آور کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا اوربجائے لمبے مقدمہ کے اور مہینوں کی پیشیوں کے عام مقدمات کے دستور کے خلاف سرسری تحقیقات کے بعد جاتے ہی اس شخص کو ۴یا ۶ یا ۹ ماہ (حضرت مسیح علیہ السلام کو رؤیا کا یہ حصہ بھول گیا کہ ان تینوں مدتوں میں سی کون سے مدت کی سزا ملی) قید کی سزا دے دی جائے گی۔
کشف نہایت صفائی سے پورا ہوا
اب دیکھو یہ تینتیس سال پہلے کا کشف اس زمانہ میں آ کر کس صفائی اور وضاحت
سے پورا ہوا ہے۔ کون کہہ سکتا تھاکہ حکومت جماعت احمدیہ کا امتحان کر لینے کے بعد اور اس امر کا یقین کر لینے کے بعد کہ یہ جماعت فتنوں اور فسادوں سے بچتی ہے ایک لسّان لیکچرار کی کوشش سے اس وہم میں دوبارہ مبتلا ہو جائے گی کہ شاید یہ جماعت اپنی حکومت قائم کر رہی ہے اور اس طرح حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ اور حکومت میںتفرقہ اور جُدائی پیدا ہو جائے گی۔ پھر کون کہہ سکتا تھا کہ ۱۹۳۴ء کے پہلے حملہ کے بعد دوبارہ حملہ پہلے حملہ سے مختلف حالات میں ہوگا اور اس دفعہ وہی شخص حکومت اور احمدیوں میں تفرقہ ڈلوانے کیلئے نہیں بلکہ احمدیوں کو مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل کرنے کیلئے اور ان کی عزت کو خاک میں ملانے کیلئے دوبارہ حملہ کرے گا۔ پھر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ دوسرا حملہ باوجود اس کے کہ احرار کے دوسرے لیڈر موجود تھے اور باوجود اس کے کہ پہلے سال کی کانفرنس کے حملہ آور یعنی صدر کی بیوی بیمار تھی، پھر اسی کے سپرد کیا جائے گا۔اور پھر کون کہہ سکتا تھا کہ اس دوسرے حملہ کے وقت حالات ایسے ہوں گے کہ وہ حملہ قانونی جُرم بھی بن جائے گا اور پھر کون کہہ سکتا تھا کہ اس وقت حکومت کا ایک نمائندہ چھریرے بدن کا ہوگا۔ پھر کون کہہ سکتا تھاکہ وہ نمائندہ اس کام میں حقیقی ہمدردی نہ رکھتا ہوگا۔ اور پھر کون کہہ سکتا تھاکہ قادیان کا ایک باشندہ اُس وقت آگے آئے گا اور ان تمام عُذرات کو جن کی وجہ سے حکومت اپنے نوٹس کو واپس لے سکتی تھی، توڑ دے گا اور گرفتاری کو ناگزیر بنا دے گا۔ پھر بتائو کہ کون کہہ سکتا تھا کہ آخر جب دوبارہ حملہ کر کے آنے والے شخص کو گرفتار کر لیا جائے گا اور وہ عدالت میں حاضر کیا جائے گا تو عدالت برخلاف عام عادت کے اس کے مقدمہ کی سرسری سماعت کرے گی اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ کون ۱۹۰۲ء میں یہ بتا سکتا تھا کہ پھر عدالت اس دوبارہ حملہ کر کے آنے والے شخص کو جاتے ہی سزا بھی دے دے گی اور وہ سزا چار ماہ کی قیدہوگی۔
ہر مذہب کے لوگوں سے اپیل
اے وہ لوگو!جو خواہ ہندو ہو،خواہ مسلمان، خواہ عیسائی، خواہ سکھ، دیکھو تمہارے زندہ خدا
نے ایک زندہ نشان دکھایا ہے۔ اس پر غور کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے ادب سے جُھک جائو کہ وہ اپنے نشانوں کے ذریعہ سے تم کو بلاتا ہے تا تم کو روحانی زندگی دے اور تمہاری روحانی موت کو حیات سے بدل دے۔ دیکھو تم نے مرنے کے بعد نہ احرار کے سامنے پیش ہونا ہے نہ اپنے مولویوں‘ پنڈتوں‘ پادریوں یا گیانیوں کے سامنے، تم نے اپنے پیدا کرنے والے قادر خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ پھر تم اسے کیا جواب دو گے کہ ہم نے نشان پر نشان دیکھے مگر پھر بھی صداقت کو قبول نہ کیا۔
بانی سلسلہ احمدیہ کو دعویٰ کئے پچاس سال سے زائد ہو گئے۔ اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے نشان پر نشان دکھایا ہے جو ایک سے ایک زیادہ شاندار تھا۔ اسی نے سورج اور چاند کو مقررہ تاریخوں میں ان کیلئے گرہن لگایا،اسی نے طاعون کو ان کی پیشگوئی کے مطابق ہندوستان میں ظاہر کیا‘ اسی نے جاپان کو ان کی خبر کے مطابق روس پر فتح دی، کوریا پر قابض کیا اور ایک زبردست مشرقی طاقت بنایا‘ اسی نے ان کی خبر کے مطابق زارِ رُوس کی حکومت کو تباہ کیا اور زار کو بحالتِ زار حکومت سے علیحدہ کیا‘ اس نے ان کی پیشگوئی کے مطابق عرب میں آزاد حکومت قائم کی اور پنجاب‘ بہار اور کوئٹہ میں زلزلوں سے ان کی صداقت پر مُہر لگا دی‘ اسی نے افغانستان کے تغیرات کو ان کی وفات کے بعد ان کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر کر کے ان کے حق میں گواہی دی اور آج وہ پھر ایک نشان تمہاری ہدایت کے لئے دکھاتا ہے تا تم میں سے وہ لوگ جو بانی سلسلہ احمدیہ کے بعد پیدا ہوئے ہیں، یہ نہ کہہ سکیں کہ خدا تعالیٰ نے پہلوں کو نشان دکھائے مگر ہمیں ان سے محروم رکھا۔ دیکھو تمہارا پیدا کرنے والا وہ محبوب جس کا جلوہ دیکھنے کیلئے تمہارے آباء و اجداد حسرت کرتے ہوئے اس دنیا سے گذر گئے، وہ آج پھر اپنی پوری شان سے ظاہر ہوا ہے تا تم کو اپنی صورت دکھائے کیونکہ وہ وراء الوراء ہستی ہے اور صرف اپنے نشانوں کے ذریعہ سے ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
دُبلے پتلے آدمی سے مراد
بعض لوگ جو حالات سے ناواقف ہیں ان کی مزید واقفیت کیلئے میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کشف
میں جو دُبلا پتلا آدمی دکھایا گیا ہے، اس سے مراد حکومتِ وقت کا کوئی نمائندہ بھی ہو سکتا ہے جو دل سے احرار کے گرفتار کرنے کی تائید میں نہ تھا۔ چنانچہ واقعات سے ثابت ہے کہ جب احرار نے قادیان میں مباہلہ کے نام سے آنا چاہا اور اس کے جواز کی یہ دلیل دی کہ چونکہ امام جماعت احمدیہ نے خود ہم کو دعوت دی ہے، اس لئے اب ہمارے قادیان جانے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے۔ تو گو ان کا یہ بیان غلط تھا کیونکہ میں نے جو شرائط مقرر کی تھیں انہوں نے ان کو پورا نہ کیا تھا مگر پھر بھی حکومت کے بعض نمائندے چاہتے تھے کہ اس عُذر کی بناء پر اپنے پائوں اس جھگڑے سے نکال لیں۔ لیکن اس موقع پر میں نے ایک تفصیلی اشتہار شائع کیا اور اس میں ثابت کر دیا کہ احرار نے میری شرائط کے مطابق ہرگز مباہلہ کو منظور نہیں کیا بلکہ خود ان کے اشتہارات سے ثابت ہے کہ وہ مباہلہ کیلئے نہیں بلکہ کانفرنس کیلئے آ رہے ہیں۔ تو اس اشتہار کے بعد حکومت کا خاموش رہنا اپنے قانون کو خود توڑنے کے مترادف ہوگیا اور وہ میری اس گرفت کی وجہ سے اپنے بنائے ہوئے قانون کے احترام پر مجبور ہو گئی اور اس طرح گویا مولوی صاحب کی گرفتاری کا باعث ایک قادیان کاشخص ہو گیا اور جو لوگ بعض عُذرات کی بناء پر قدم پیچھے ہٹانا چاہتے تھے، ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ سو دُبلے پتلے شخص سے حکومت کا کوئی ایسا نمائندہ بھی مراد ہو سکتا ہے جو احرار کی گرفتاری پر دل میں رضامند نہ تھا لیکن اس سے علمِ تعبیر کے مطابق حکومت کا وہ مذبذب رویہ بھی ہو سکتا ہے جو حکومت کی طرف سے میرے اس اعلان سے پہلے کہ جب تک شرائط طے نہ ہوں مَیں ہرگز قادیان میں مباہلہ کیلئے تیار نہیں ہوں اور یہ کہ اگر شرائط طے کئے بغیر احرار قادیان میں آئے تو وہ مباہلہ کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ اور کسی غرض کیلئے آئیں گے، ظاہر ہو رہا تھا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات پر حملہ سے مراد
شاید کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ اس رؤیا میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ذات پر حملہ دیکھا ہے اور تم جس واقعہ کا
ذکرکرتے ہو یہ آپ کی وفات کے بعد کا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کے فرستادوں کی بعض پیشگوئیاں ان کے بعد ان کے خلفاء کے ہاتھ پر پوری ہوتی ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ رؤیا میں آپ نے دیکھا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانہ کی کنجیاں آپ کے ہاتھ میں دی گئی ہیں ۶؎ لیکن یہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ مامور کبھی کشف میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے مگر مراد اُس سے اس کی جماعت ہوتی ہے۔
پیشگوئی نہایت بیّن طور پر پوری ہوئی
اب میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے پھر ان سب لوگوں سے جن
کے ہاتھ تک میرا یہ اشتہار پہنچے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس زبردست نشان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور دیکھیں کہ کیا یہ انسانی دماغ کا اختراع ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی بندہ اتنا عرصہ پہلے ایسی تفصیلی خبر دے سکتا ہے؟ بے شک دشمن سَو قسم کے اعتراض پیدا کر لیتا ہے۔ لوگوں نے ہر رسول کے متعلق شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور رسول تو الگ رہے خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق بھی لوگ شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں لیکن جتنی وضاحت اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق خدا کے فرستادوں کے کلام میں ہوتی ہے، دیدۂ بینا کیلئے اِس پیشگوئی میں موجود ہے۔ تعبیر کے علم سے چونکہ اکثر لوگ واقف نہیں ہوتے، اس لئے اس کشف کے سمجھنے میں بعض لوگوں کو دقّت ہو تو ہو ورنہ اگر علم تعبیر کی کتابوں سے اس کی تعبیر کر کے کسی ناواقف شخص کے سامنے بھی اس کشف کو رکھ کر دیکھا جائے، تو وہ فوراً اسے مولوی عطاء اللہ صاحب کے واقعہ پر چسپاں کر دے گا۔ مثلاً ایک ایسے شخص سے جو مولوی عطاء اللہ صاحب کے حالات سے واقف ہوکہو کہ ایک شخص ہے جس نے ایک مذہبی سلسلہ کے مرکز میں جا کر پُرزور تقریریں کیں اور اس سلسلہ کے خلاف حکومت کو اُکسایا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا، حکومت اس سلسلہ پر بدظنّ ہو گئی۔ پھر دوبارہ وہ اسی جگہ پر اس لئے جانے کیلئے آمادہ ہوا کہ اس سلسلہ کی مذہبی حیثیت کو بھی گرا دے مگر اس دفعہ حکومت کے ایک قانون سے اس کے ارادہ کا ٹکرائو ہو گیا۔ لیکن حکومت ابھی اپنے قانون کو استعمال کرنے سے ہچکچاتی تھی کہ اتنے میں ا س سلسلہ کے ایک شخص نے ان عُذرات کو جن کی وجہ سے حکومت ہچکچاتی تھی توڑ دیا اور حکومت نے اس باہر سے آنے والے شخص کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کردیا اور عدالت نے سرسری تحقیق کر کے جاتے ہی اسے چار ماہ کی قید کی سزا دے دی۔ اب تم بتائو کہ یہ شخص کون ہے؟ تو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ شخص بِلااختیار بول اُٹھے گا کہ یہ تو مولوی عطاء اللہ صاحب کا واقعہ ہے۔ پھر ایسی واضح اور بیّن پیشگوئی کے بعد اب آپ لوگ اور کس نشان کی انتظار میں ہیں۔
احرار کی مخالفت صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ثبوت بن گئی
ذرا غور تو کریں کہ وہی امر جسے سلسلہ احمدیہ کی ہتک کا موجب بنایا جا رہا تھا اسے اللہ تعالیٰ نے
کس طرح سلسلہ احمدیہ کی سچائی ثابت کرنے کا ذریعہ بنا دیا اور ایک بیّن نشان کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گویا بالکل اسی طرح ہوا جس طرح بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک اَور رؤیا میں دکھایا گیا تھا کہ کسی شخص نے آپ کی طرف ایک سانپ بھیجا ہے جسے آپ نے تَلا تو وہ مچھلی بن گیا۔ ۷؎ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب تحریک احرار نے سلسلہ احمدیہ کوضُعف پہنچانے کیلئے شروع کی تھی۔ گویا ایک سانپ احمدیت کو ڈسنے کیلئے بنایا گیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی سانپ مچھلی بن کر سلسلہ کی ترقی کا موجب اور اس کی صداقت کا ایک ثبوت بن گیا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
اب اس کُھلے نشان کو دیکھ کر بھی جو شخص پیچھے رہتا ہے، وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتا ہے کیونکہ معمولی حاکموں کے احکام کو ردّ کرنے والا شخص بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ تو جو شخص ربّ العٰلمین خدا کی دعوت کو ردّ کرتا ہے، اس کا کیا حشر ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک ہمیں سزا کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جب ہمارے پیدا کرنے والے نے ہاں اُس خدا نے جس کے حُسن کے مقابل پر سب حُسن ہیچ اور بے حقیقت ہیں، ہمیں اپنی جلوہ نمائی کیلئے بُلایا ہے اور ہم اس میں سُستی کرتے ہیں تو کیا اس عظیم الشان موقع کو کھو کر ہم کبھی بھی امید کر سکتے ہیں کہ پھر ہم کو یہ موقع دیا جائے گا اور ہم کبھی بھی اس کے جلال کو دیکھ سکیں گے؟
پس میں ایک طرف تو تمام دنیا کے باشندوں کو اس نشان پر غور کرنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت دیتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو خواہ مسلمان ہوں، خواہ ہندو، خواہ سکھ، خواہ عیسائی سچائی قبول کرنے کی توفیق دے اور دنیا کی محبت اور دنیا کے خوف کو لوگوں کے دلوں سے مٹا کر اپنی محبت اور اپنا خوف بخشے کہ اسی میں سب ترقی ہے اور اسی میں سب عزت ہے۔ وَاٰخِرُ دَعْونَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
۱۲۔ دسمبر ۱۹۳۵ء
(الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۳۵ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۴۳۶۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ تذکرہ صفحہ ۴۳۸۔ ایڈیشن چہارم
۳،۴؎ تعطیر الانام الجزء الاوّل صفحہ ۱۰۴ حاشیہ مطبع حجازی قاہرہ ۱۲۸۴ھ
۵؎ تعطیر الانام الجزء الاوّل صفحہ ۱۰۳ حاشیہ مطبع حجازی قاہرہ ۱۲۸۴ھ
۶؎ السیرۃ الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ ۳۳۴۔ مطبع محمد علی صبیح الازھر ۱۹۳۵ء
۷؎ تذکرہ صفحہ ۲۷۔ ایڈیشن چہارم



اسلام اور احمدیت کے متعلق
عظیم الشان پیشگوئی




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اسلام اور احمدیت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی
(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۲۵۔ دسمبر ۱۹۳۵ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سورۃفاتحہ کی ابتدا ء اللہ تعالیٰ نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۱؎سے فرمائی ہے یعنی اُس آیت کے بعد جو بطور کنجی ہر سورۃ کے پہلے خدا تعالیٰ نے نازل کی اور جو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے، تفصیلی آیات جو اس کے بعد شروع ہوتی ہیں ان میں سے پہلے آیت یہی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی بات بیان فرمائی ہے جو ہماری جماعت کیلئے اپنے اندر بہت بڑا سبق بھی رکھتی ہے اور ہمارے ایمانوں کی تازگی کا بھی موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کے منہ سے کہلاتا ہے کہ مَیں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو سارے جہانوں کا ربّ ہے۔ اس میں پیشگوئی کی گئی تھی اور کی گئی ہے اور یہ ہمیشہ جاری رہے گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آواز قرآن کریم کے ذریعہ اُٹھائی گئی ہے، اس سے کوئی قوم‘ کوئی جماعت اور کوئی ملک محروم نہیں رہے گا۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ تمام عالَموں کا ربّ ہے اور جہاں عالَموں سے مراد تمام مخلوق ہے، وہاں تمام انسانی قومیں بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا میں سوائے اسلام کے اور کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی ہو کہ تمام اقوامِ عالَم اسے قبول کر لیں گی۔ بے شک عیسائیوں نے ساری دنیا میں تبلیغ کی مگر ان کے مذہب میں یہ پیشگوئی نہیں کہ تمام قومیں عیسائیت میں جمع ہو جائیں گی۔ انہوں نے خود بخود اجتہاد کر کے اور اپنے نبی کی تعلیم کے خلاف چل کر بنی اسرائیل کے سوا دوسری قوموں میں تبلیغ کی لیکن اسلام نہ صرف یہ کہتا ہے کہ یہ تمام بنی آدم اور ساری دنیا کی طرف خدا کا پیغام ہے بلکہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ دنیا کے ہر گوشہ اور ہر ملک میں اس کو قبول کرنے والے پیدا ہوں گے۔
پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ اِذن دیا گیا ہے کہ ساری دنیا کواسلام کا پیغام پہنچائو بلکہ اس میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے گا اور اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائے گا۔
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظلّ اور خلیفہ ہیں اس لئے آپ کو بھی ابتدائی ایام میں اسی قسم کی وحی کی گئی کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ ۲؎ یعنی دنیا کا کوئی گوشہ‘ کوئی ملک اور کوئی طرف ایسی نہ رہے گی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نہ پہنچے گا اور جہاںکے لوگ آپ کو قبول نہ کریں گے۔
میں نے اسی پیشگوئی کے یاد آنے پر اِس وقت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ چار دفعہ کہا تا کہ یہ دنیا کی چاروں اطراف کے لوگوں کے متعلق ہو۔ تمام اقوام سے کوئی بات منوانا یا کسی ایک قوم سے کوئی بات منوانا بہت بڑافرق رکھتا ہے۔ بعض دفعہ دشمن اپنی توجہ کسی خاص مرکز پر مرکوز کر دیتا ہے اور جب کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو کہہ دیتا ہے میں نے تو اِدھر توجہ ہی نہ کی تھی، میری توجہ تو فلاں طرف تھی اور اسے میں نے محفوظ رکھا۔ اس طرح وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم چاروں طرف کے لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھیر دیں گے۔ یعنی ہر طرف کے لوگوں کو کھینچ کر اس کے پاس لائیں گے۔ اب جو میں یہاں کھڑا ہوا اور ان احباب کو دیکھا جو اِس وقت یہاں جمع ہیں تو میں نے اپنی ذہنی نظر سے محسوس کیا کہ کوئی مشرق سے آیا ہے اور کوئی مغرب سے‘ کوئی شمال سے آیا ہے اور کوئی جنوب سے‘ پھر کوئی کسی قوم میں سے ہے کوئی کسی مذہب سے۔ اِس وقت جو احباب یہاں موجود ہیں بعض ان میں ایسے ہیں جو سکھوںمیں سے آئے، بعض ایسے ہیں جو ہندؤوں میں سے آئے ہیں، بعض ایسے ہیں جو عیسائیوںمیں سے آئے، بعض ایسے ہیںجو مسلمانوں میں سے آئے۔ پھر ان میں سے بعض سنّیوں میں سے آئے، بعض وہابیوں میں سے آئے، بعض چکڑالویوں میں سے آئے، بعض شیعوں میں سے آئے۔ غرض کوئی مذہب کوئی قوم اور کوئی فرقہ ایسا نہیں جو ہمارے مقابل پر آیا ہو اور اس میں سے ہم نے کچھ نہ کچھ آدمی نہ لئے ہوں۔ آئندہ کے متعلق کہتے ہیں ’’ہونہار بِروا کے چِکنے چِکنے پات‘‘ اسی سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ غرض جس قوم کا بھی ہمارے ساتھ مقابلہ ہوا، اسے کوئی نہ کوئی شکار احمدیت کیلئے قربان کرنا پڑا۔ آج حنفی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے احمدیت کے حملہ سے محفوظ ہیں۔ اسی طرح آج اہلحدیث نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی جماعت کو احمدیوں کے حملہ سے محفوظ کر لیا ہے۔ آج شیعہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اہل بیت کی محبت سے شیعوں کو ایسامخمور کر دیا ہے کہ وہ احمدیت کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہندو ‘سکھ اورعیسائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ احمدیت ان میں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ ہر ملّت‘ ہر فرقہ‘ ہر دین اور ہر مذہب کے لوگ احمدیت کی طرف کھِنچے چلے آ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر رہا ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘۔
یہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ایسا ہی نشان جیسا کہ مٹھائی والا اپنی مٹھائی کا نمونہ چکھاتا ہے جس سے اُس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ اچھی چیز ہے اسے حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے رحم اور کرم سے ہر قوم‘ ہر مذہب اور ہر ملک کے کچھ کچھ لوگ ہمیں دیئے جس سے ظاہر ہے کہ احمدیت کے مقابلہ کی دنیا میں کسی کو تاب نہیں۔ احمدیت جس قوم پر بھی حملہ آور ہوتی ہے، وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ اپنے قلعوں کی کُنجیاں اِس کے حوالے کر دے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ہماری محنتیں اور ہماری کوششیں ہر گز ضائع نہ ہونگی۔ اگر ہم صحیح طور پر کوشش کریں اور صحیح رنگ میں اسلام کی تبلیغ میں لگ جائیں تو پھر ہر قوم ہمارا شکا رہے اور ہر قلب کی کھڑکیاں ہمارے لئے کُھلی ہوئی ہیں۔ پس ہماری ذمہ داری نہایت عظیم الشان ہے۔ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے نشانوں سے ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں اس کام پر لگایاہے کہ روٹھی ہوئی مخلوق کو منا کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر لے آئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ ایسا جنگل ہو جس میں سے پیدل چل کر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، جہاں پانی نہ ہو، کھانے کا کوئی سامان نہ ہو وہاں ایک ایسا شخص ہو جس کا اونٹ گُم ہو گیا ہو وہ اسے چاروں طرف تلاش کرتا پھرے لیکن آخر مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ اب سواری نہیں مل سکتی اور اب میں یہاں ہی ہلاک ہو جائوں گا‘ اُس وقت وہ دیکھے کہ سامنے اُس کا اونٹ کھڑا ہے تو بتائو وہ کتنا خوش ہوگا۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!وہ بے انتہا خوش ہوگا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ایسا شخص اونٹ کو پا کر جس قدر خوش ہوتا ہے خدا تعالیٰ اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے جب اس کا کوئی بُھولا بھٹکا بندہ اس کے پاس آتا ہے۔۳؎
قیاس کرو تم کسی جگہ کسی کا گُمشدہ بچہ پائو اُسے اُٹھا کر لے آئو۔ اس کے گھر کے پاس پہنچو تو دیکھو کہ اس کی بے تاب ماں بال بکھیرے ہوئے اور کپڑے پھاڑے ہوئے دیوانہ وار اپنا سر دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر اس لئے ہلاک ہوناچاہتی ہے کہ اس کا اکلوتا بچہ گُم ہو گیا۔ اُس وقت تم اس کا بچہ اس کی گود میں دے دو تو اس عورت کو جو خوشی ہوگی وہ تو ہو گی ہی خیال کرو، تمہارا قلب کس قدر اس لئے خوشی سے بھر جائے گا کہ تم نے اس گھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچو کہ دنیا کے کروڑوں گمراہ انسان ایسے ہی ہیں جیسے ماں سے کھوئے ہوئے بچے۔ ان کو اگر لا کر خدا تعالیٰ کے پاس حاضر کر دو تو اُس وقت خدا تعالیٰ کو جو خوشی ہوگی، اس کا تو ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے لیکن اُس وقت ہمارے دل بھی ایسی خوشی سے لبریز ہو جائیں گے کہ اس کا مقابلہ کوئی اور خوشی نہیں کر سکتی۔ ہمارا ربّ، ربّ العٰلمین ہے‘ ہمارا ایک ایک ذرہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے‘ مگر آج اسی کے فضل سے ہمیں ایسا مقام حاصل ہے جس پر ہم جتنا بھی شکر کریں تھوڑا ہے کیونکہ آج ہمیں وہ پوزیشن حاصل ہے کہ ہمارے مالک و خالق خدا کی مثال اُس عورت کی سی ہے جس کا بچہ کھویا گیا یا اُس شخص کی سی ہے جس کا اونٹ گُم ہو گیا مگر ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو گُم شُدہ بچہ واپس لا کر دیتا ہے یا گُمشدہ اونٹ ڈھونڈ کر لاتا ہے اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو خود ہدایت دے سکتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو تمام کو ہدایت دے دیں مگر وہ اپنے بندوں کو بھی اس خوشی میں شامل کرنا چاہتا ہے اور آج اس خوشی میں شامل ہونے کا موقع تیرہ سَو سال کے بعد اس نے ہم کو دیا ہے۔ یہ کتنا بڑا فضل اور رحم ہے کہ وہ کام جس سے صدیاں خالی چلی گئیں بغیر ہمارے کسی کمال یا بغیر ہماری کسی کوشش یا بغیر ہماری کسی قربانی کے اُس نے ہمارے سپرد کر دیا۔ مبارک ہیں وہ مائیں جنہوں نے صحابہ پیدا کئے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر نکل کھڑے ہوئے تا کہ خدا تعالیٰ کے بُھولے بھٹکے بندوں کو لائیں اور خدا تعالیٰ سے ملائیں۔ اسی طرح مبارک ہیں وہ مائیں جنہوں نے وہ بچے پیدا کئے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور جن کے سپرد وہی کام ہوا جو صحابہ کرام نے کیا تھا۔ اس کام کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ہماری کوششوں کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص ان نتائج کو ذہن میں نہیں لا سکتا جو ہمارے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور آج ہمارے کام کو اس لئے حقیر سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کے نزدیک اس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ آج کون مان سکتا ہے کہ یورپ دہریت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جُھک جائے گا‘ کون مان سکتا ہے کہ مشرقِ بعید مادہ پرستی سے نکل کر ایک خدا کی پرستش کرنے لگ جائے گا۔ لیکن جب یہ ہو جائے گا تو دنیا اس کی عظمت کو قبول کرلے گی۔ مگر اُس وقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ کام کیا بلکہ یہ کہیں گے کہ احمدیوں کی کیا بات ہے، وہ تو کوئی عجیب مخلوق تھی۔ جیسا کہ صحابہ کرام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی کیا بات ہے، ان کا کون مقابلہ کر سکتا تھا؟ غرض اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ عظیم الشان فضل کیا ہے اورہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کی قدر کرے۔ آج چاروں طرف سے ابراہیمی پرندے یہاں جمع ہوئے ہیں تا کہ ابراہیم کے ہاتھ پر آ کر دانہ چُگیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عقیدت کی نذر پیش کریں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس حقیر نذر کو قبول فرمائے، ہمارے اس اجتماع کو بابرکت بنائے‘ ہماری نیتوں اور ارادوں میں برکت ڈالے‘ ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں طاقت بخشے، ہماری خامیوں کو دور کر کے ہمیں قدّوسیت عطا کرے‘ ہماری بے علمی اور جہالت کو دور کر کے اور ہماری غفلتوں کو معاف کر کے ہمیں اپنے عرفان کا جام پلائے‘ اپنے فضل اور رحم سے ہماری کوششوں میں اپنی برکت ڈالے‘ ہمارے اندر سے عُجب‘کِبر رعونت اور اَنانیت نکال دے‘ ہماری سُستیاں دُور کر دے‘ ہمارے اندر ایسی آگ لگا دے جو تمام دوسرے تعلقات کو جلا دے اور سِوائے خدا تعالیٰ کے اور کچھ باقی نہ رہے۔ ہم اُس کے آئینے بن جائیں تا دنیا خدا تعالیٰ کا نور ہم میں سے دیکھے۔ ہم اُس کی قدرت کا ہاتھ بن جائیں تا ہم دنیا کی قسمتوں کو بدل دیں۔ نیکی ‘عرفان اور اسلام کے لئے دنیا میں تغیر پیدا کر دیں۔ دنیا ہمیں کمزور سمجھتی ہے لیکن ہم اس سے بھی زیادہ کمزور ہیں جتنے کہ دنیا کی نظر میں سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے کمزور وجود ایک نہایت ہی طاقتور ہستی کے قبضہ میں ہیں اورہماری نگاہیں اسی کی طرف ہیں۔ ہم اپنی طرف نگاہ نہیں کرتے کیونکہ ہم اس سے شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ مور کے پائوں بدصورت ہوتے ہیں لیکن اس کے اوپر کا دھڑ خوبصورت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جب ناچتے ناچتے اس کی نظر اپنے پائوں پر پڑتی ہے تو وہ شرمندہ ہو کر ناچنا بند کر دیتا ہے یہی حالت ہماری ہے ہمارا اوپر نہایت خوبصورت ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن نچلا دھڑ بدصورت ہے کیونکہ اس کا تعلق ہم سے ہے۔ اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اوپر کا حصہ خوبصورت ہے، اسی طرح نچلا حصہ بھی خوبصورت ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم دنیا کے چاروں اطراف میں اسلام پھیلائیں اور نہ صرف اسلام پھیلائیں بلکہ دنیا کے لئے نیک نمونہ ہوں۔ جس طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان پر اس کی تقدیس کرتے ہیں، اے خدا! میں درخواست کرتا ہوں کہ زمین پر بھی تیری تقدیس ہو۔ میں دعا کرتا ہوں دوست بھی اس میں شریک ہو جائیں کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کو زیادہ سے زیادہ بابرکت بنائے۔ یہ آخری جلسہ ہے جو رمضان میں ہو رہا ہے۔ آج کل رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور رمضان کا آخری عشرہ ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی خاص برکات کا نزول ہوتا ہے۔ اِن بابرکت ایام میں ایک کمزور اور دنیا کی نگاہ میں حقیر جماعت اس لئے جمع ہوئی ہے کہ یوسف کے خریدار کی طرح اپنے ربّ کو خریدنے کی کوشش کرے۔ بے شک یہ بہت بڑا دعویٰ ہے مگر جس کے آگے ہم ہاتھ پسار رہے ہیں وہ بھی بہت بڑا ہے پس اس مبارک موقع سے احباب خصوصیت سے فائدہ اُٹھائیں۔ اپنے اندر عزمِ مُصمم پیدا کریں، نہ بدلنے والا ارادہ کریں، نہ بُجھنے والی آگ لگائیں اور یہ برکات جو ایک موقع پر جمع ہو گئی ہیں یعنی رمضان کا مہینہ ہے، رمضان کا آخری عشرہ ہے اور وہ مبارک ایام ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی برکات حاصل کرنے کیلئے مقرر فرمائے ہیں، اِن سے فائدہ اُٹھائیں۔ پھر اس جلسہ کے ساتھ ہی عید آ گئی ہے ہم دعا کریں کہ جس طرح جسمانی عالَم میں اس جلسہ کے معاً بعد ہمارے لئے عید مہیا کر دی گئی ہے، اسی طرح روحانی عالَم میں بھی ہمارے لئے عید کا وقت پیدا کیا جائے۔ پس آئو خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اُس سے ان چیزوں کی امید رکھیں جن کی اور کسی سے امید نہیں رکھی جا سکتی اور اس سے وہ کچھ مانگیں جس کے مانگنے سے بھی دل کانپتا ہے کیونکہ ہم کمزور ہیں مگر ہمارا خدا اپنے بندوں پر فضل کرنے والا اور برکتوں والا ہے، وہ ہماری ضرور سُنے گا اور ہمیں کامیاب کرے گا۔
(الفضل۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۵ء)
۱؎ الفاتحۃ: ۲
۲؎ تذکرہ صفحہ ۳۱۲۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ بخاری کتاب الدعوات باب التوبۃ



تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مباہلہ کے چیلنج کے مقابلہ میں احرار کی قبیح حرکات
تحریکِ جدید کی اہمیت اور وہ بنیادی اصول جو اس تحریک کے اندر کام کر رہے ہیں
(تقریر فرمودہ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۳۵ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کے بعد سورۃ توبہ کا ساتواں رکوع پڑھا اور پھر فرمایا:۔
رمضان کا آخری عشرہ ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر وہ طاقت جو گلے میں شروع رمضان میں ہو سکتی ہے‘ آج کل نہیں ہو سکتی اور اس لئے شاید بغیر لاؤڈ سپیکر کے میرے لئے یہ مشکل ہوتا کہ میں تمام دوستوں تک اپنی آواز پہنچا سکوں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اشاعت کے زمانہ میں یہ نئی نعمت جو ہمارے لئے پیدا کر دی ہے‘ میں امید کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ باوجود اس بات کے کہ میری آواز بہت بھرائی ہوئی ہے پھر بھی تمام دوستوں تک پہنچ جائے گی۔
سب سے پہلے تو میں چند دوستوں کی طرف سے اس موقع پر جو پیغامات آئے ہیں اور جن میں انہوں نے آپ لوگوں کو یہاں آنے پر مبارکباد دیتے ہوئے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہا اور دعا کی درخواست کی ہے‘ سنائے دیتا ہوں۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا حیدرآباد سے پیغام آیا ہے‘ سیٹھ اسماعیل صاحب آدم کا بمبئی سے پیغام آیا ہے‘ نیروبی سے بہت سے دوستوں نے جماعت کے دوستوں کو یہاں آنے پر مبارکباد دی اور اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہوئے دعا کی درخواست کی ہے۔ ان کے نام یہ ہیں۔
سید محمود اللہ شاہ صاحب‘ عبدالرحمن صاحب‘ محمد اشرف صاحب‘ بشیر احمد صاحب‘ ڈاکٹر عمر دین صاحب‘ چودھری نثار محمد صاحب‘ شیر محمد صاحب‘ عثمان یعقوب صاحب‘ قاضی عبدالسلام صاحب‘ اور ان کے خاندان کے افراد۔ محمد اکرم صاحب‘ ڈاکٹر احمدی صاحب جن کا اصل نام عبداللہ ہے مگر وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ڈاکٹراحمدی کہتے اور لکھتے ہیں‘ محمد بشیر خان صاحب‘ غلام فرید صاحب‘ سلام علی صاحب‘ راج بیگم صاحبہ‘ عائشہ صاحبہ‘ غلام محمد صاحب‘ فقیر محمد صاحب‘ احمد دین صاحب‘ مبارک احمد صاحب‘ ملک احمد حسن صاحب اور ملک عبدالعزیز صاحب‘ اسی طرح کوٹری سے سید بشیر مبارک تار دیتے ہیں کہ ان کیلئے دعا کی جائے‘ محمد رفیق صاحب کلکتہ سے جلسہ میں شامل ہونے پر سب دوستوں کو مبارکباد دیتے اور اپنی عدمِ شمولیت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی درخواست کرتے ہیں‘ شیخ عبدالحکیم صاحب نئی دہلی سے دعا کی درخواست کرتے ہیں‘ ان کی صحت کچھ کمزور رہتی ہے‘ یوگنڈا کی جماعت تار دیتی ہے کہ اوّل تو ہماری طرف سے جلسہ اور عید کی مبارکباد دی جائے‘ اور پھر ہماری طرف سے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہوئے دعا کی درخواست کی جائے‘ ان دوستوں کے نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر لعل الدین صاحب‘ نصراللہ خان صاحب‘ محمد امین صاحب‘ نذر احمد صاحب‘ محمد حسین صاحب‘ عبدالحی صاحب‘ ابراہیم صاحب‘ احمد الدین صاحب‘ محمد شریف صاحب‘ فیض محمد صاحب‘ عبدالکریم صاحب‘ اسحاق صاحب‘ عبدالشکور صاحب‘ سکھے سے محمد فضل کریم صاحب تار دیتے ہیں کہ وہ کچھ بیمار ہیں‘ ان کیلئے دعا کی جائے اور سب کو اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْکہتے ہیں‘ شجاعت علی صاحب ناسک علاقہ بمبئی سے تمام دوستوں کو اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے اور دعا کی درخواست کرتے ہیں‘ عبدالعزیز صاحب احمد آباد سے دعا کیلئے تار دیتے ہیں۔ محمد نظیر صاحب شاہ جہان پور سے بذریعہ تار درخواستِ دعا کرتے ہیں۔ ابراہیم صاحب نودپور بمبئی سے تار دیتے ہیں کہ ان کی ترقی ٔ مدارج کیلئے دعا کی جائے نیز ان کے کاموں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے‘ اس کے ازالہ کیلئے بھی دعا کی جائے اسی طرح معظم بیگ صاحب گلگت سے اپنی بیوی کی صحت اور مشکلات کے رفع کیلئے درخواستِ دعا کرتے ہیں۔
مَیں نے گزشتہ جلسہ میں بیان کیا تھا کہ میرے اعلان اور سفارشیں کرنے کے متعلق دوست مجھے جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک کیا کرتے ہیں اور چونکہ اس قسم کے اعلان بہت سا وقت لے لیتے ہیں علاوہ ازیں یہ ایک ایسی رسم ہوتی جاتی ہے جس کے متعلق مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے اس لئے آئندہ مَیں اس قسم کے اعلان کرنے میں بہت احتیاط کروں گا اور کوشش کروں گا کہ مجمل سفارش بھی ترک کردوں مگر پھر بھی بعض باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جن کے متعلق مجبوراً اعلان کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک دوست مولوی غلام حسن صاحب جھنگ کے رہنے والے ہیں اور وہاں کی جماعت کے امام ہیں ان کی مالی حالت بہت کمزور ہے وہ سلسلہ کی اکثر خدمت کرتے رہتے ہیں۔ ان کا مکان بھی جماعت کے کام آتا ہے کیونکہ مسجد کے ساتھ وہی ایک مکان ہے مگر مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ مکان ان کے قبضہ سے نکل جائے اور قرض خواہوں کے پاس چلا جائے اور احمدیہ مسجد کی آبادی مشکل ہو جائے۔ وہ کھیسوں کی تجارت کیا کرتے ہیں۔ کھیس ہمارے ملک میں عام طور پر بستر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور بجائے چادروں یا دو تہیوں کے بہت سے لوگ بستر پر کھیس بچھایا کرتے ہیں۔ جن دوستوں کو کھیسوں کی ضرورت ہو میں چاہتا ہوں کہ ان سے خریدیں۔ ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور پھر چیز بھی اچھی ملے گی کیونکہ جھنگ کھیسوں کیلئے مشہور ہے۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کتاب ’’بیاض نورالدین‘‘ طب کی ایک نہایت ہی اعلیٰ کتاب ہے۔ گو وہ ایسی طرز پر لکھی ہوئی ہے جیسے سمندر ہوتا ہے کہ جس میں غوطہ لگا کر ہی انسان موتی نکال سکتا ہے۔ مگر بلحاظ مطالب وہ نہایت ہی مفید کتاب ہے اور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے بہت سے ایسے نُسخے ہیں جو آپ کی عمر بھر کے تجربہ سے صحیح اور مفید ثابت ہوئے ہیں۔ اطبّاء اس کتاب سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور جو طبیب نہیں وہ بھی عام معالجات میں جن میں کسی ڈاکٹر یا حکیم کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی یا جہاں ڈاکٹروں اور حکیموں کا میسر آنا مشکل ہو‘ اس سے بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ’’ بیاض نورالدین‘‘ دو چَھپی ہیں ایک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے بچوں کی طرف سے مگرابھی اس کی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے دوسری جلد چھپنی باقی ہے، اس کی چھپوائی میں زیادہ صفائی سے کام لیا گیا ہے۔ اور دوسری مکمل بیاض مفتی فضل الرحمن صاحب کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ مفتی فضل الرحمن صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے خود بیاض لکھوائی تھی بیسیوں دفعہ بلکہ اس سے بھی زیادہ میں نے اپنی موجودگی میں حضرت خلیفہ اوّل کو یہ بیاض اُنہیں لکھواتے دیکھا۔ گو اس کے چَھپنے میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں مگر اس میں جو نسخے ہیں وہ حضرت خلیفہ اوّل کے ہی ہیں اور آپ نے ہی اس کتاب میں لکھوائے۔ انہوں نے یہ بیاض مکمل چھپوائی ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ میں نے قرض لے کر اس کتاب کو چھپوایا تھا جو فروخت نہ ہونے کی وجہ سے اب تک چلا آ رہا ہے۔ طبّ ایسی چیز ہے کہ ہر ایک کے کام آتی ہے اور کوئی ایسا فرد نہیں جسے اس کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں انہیں چاہئے کہ یہ کتاب اپنے پاس رکھیں اور جہاں ڈاکٹروں یا حکیموںسے خاص طور پر مشورہ لینے کی ضرورت نہ ہو، وہاں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ علاوہ ازیں جو دوست طبّ سے دلچسپی رکھتے ہیں اگر وہ بھی اس کتاب کو خرید لیں تو یقینا یہ کتاب ان کے لئے مفید ہوگی اور مفتی صاحب کی مدد کی صورت بھی ہو جائے گی۔
ایک اعلان مَیں بُک ڈپو کی طرف سے کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے دو سالوں میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے متعلق تقریر کی تھی اور نظارت تالیف و تصنیف کو ہدایت کی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کو ایک جگہ جمع کر دے۔ یہ الہامات گو ایک صاحب کی طرف سے جو بعد میں غیر مبائعین میں شامل ہو گئے جمع تھے اور انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا تھااور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے مخالف ہیں میں سمجھتا ہوں ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ان کے کام کی داد دیں کیونکہ انہوں نے بڑی ہمت سے کام لیا اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کو جمع کیا جب دوسروں کو اس کا خیال نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے عہد میں کیا تھا مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ کتاب ختم ہو گئی۔ وہ الہامات کا مجموعہ میں نے نظارت تصنیف کی معرفت اب یہاں جمع کروایا ہے اورخدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو گیا ہے اور سات سَو صفحات کے قریب اس کا حجم ہے اور پہلے مجموعہ الہامات سے بہت زیادہ مکمل ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ یہ کتاب ضرور خریدیں۔
اسی سلسلہ میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ ناظر صاحب تعلیم و تربیت کی طرف سے میں نے اخبار میں ایک اعلان دیکھا ہے جس میں انہوں نے کسی میری تقریر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے مجموعہ کی بِالالتزام تلاوت کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں تلاوت کا لفظ قرآن کریم کیلئے ایسا مخصوص ہو چکا ہے کہ کسی اور کتاب کیلئے اس لفظ کا استعمال بہت سی غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جس سے مفہوم بھی ادا ہو جائے اور غلط فہمی بھی پیدا نہ ہو۔ تلاوت کا لفظ بھی ویسا ہی کام دے سکتا ہے جیسے مطالعہ کا لفظ اور چونکہ انسان نے آنکھوں سے دیکھ کر کسی کتاب کو پڑھنا ہوتا ہے اور آنکھوں سے کام لے کر ہی قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اس لئے تلاوت کی بجائے ہمیں مطالعہ کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تا کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور آپ کوجو رؤیاو کشوف ہوئے، وہ جماعت کے آئندہ پروگرام کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان میں قرآن اور حدیث کی اعلیٰ درجہ کی تفسیر بھی ہے اس لئے اپنے ایمانوں کے ازدیاد اور قرآن کریم کی تفہیم کے لئے ان کا مطالعہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ دیکھو کس طرح احرار کے فتنہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک لمبا عرصہ قبل وضاحت کے ساتھ خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ حکومت اس امر کا یقین کر لینے کے بعد کہ جماعت احمدیہ فتنوں اور فسادوں سے ہمیشہ بچتی ہے، ایک شخص کی کوشش سے اس وہم میں مبتلا ہو جائے گی کہ شاید یہ جماعت اپنی حکومت قائم کر رہی ہے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ سلسلہ اور حکومت میں جُدائی ہو جائے گی۔ پھر دوبارہ وہی شخص احمدیوں کو مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل کرنے کیلئے حملہ کرے گا لیکن حالات ایسے پیدا ہو جائیں گے کہ وہ حملہ قانونی جُرم بن جائے گا اور جب اسے گرفتار کیا جائے گا تو عدالت اُسے جاتے ہی چار ماہ کی قید کی سزا دے دے گی جیسا کہ مَیں اپنے ایک اشتہار میں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں۔ مگر اس قسم کی باتیں تبھی نظر آتی ہیں جب انسان الہامات کا مطالعہ رکھے۔ ورنہ اگر ہم الہامات کا مطالعہ نہ کریں اور آج کوئی پیشگوئی پوری ہو جائے تو ہمیں کس طرح معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اگر سَو سال کے بعد لوگوں کو پتہ لگے اور اُس وقت جماعت اسے پیش کرے تو اُس وقت کے لوگ گالیاں ہی دیں گے کہ یہ عجیب لوگ تھے ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی مگر انہیں پتہ تک نہ لگا اور اب عرصہ کے بعد انہیں ہوش آیا ہے۔ تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان پیشگوئیوں کو اپنے مدنظر رکھیں جس کا طریق یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو ہمیشہ زیرِ مطالعہ رکھا جائے تا جب کوئی پیشگوئی پوری ہو تو ہمیں الہامات یا رؤیا و کشوف یاد آ جائیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے قرآن کریم کا فہم پیدا ہوتا اور اس کے معارف سے واقفیت ہوتی ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ ان میں سے جس جس کو توفیق ہو وہ یہ کتاب ضرور خریدے اور اس کا مطالعہ رکھے تا اسے قرآن مجید اور حدیث کی سمجھ بھی آئے اور جماعت کا وہ پروگرام بھی مدنظر رہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ دوست حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہامات کا مطالعہ رکھیں تا انہیں قرآن کریم کی سمجھ آئے، تو میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا اس سے بھی زیادہ مطالعہ کیا جائے اور اس سے بھی زیادہ اس پر غور اور تدبر کیا جائے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام اور آپ کی احادیث بھی ایک قابلِ قدر چیز ہیں اور اعلیٰ درجہ کی تفسیر اپنے اندر رکھتی ہیں۔ مگر چونکہ ان احادیث کی ترتیب و تدوین اور انہیں ہم تک پہنچانے میں انسانی ہاتھوں کا دخل ہے اس لئے احادیث اس صفائی کے ساتھ ہمارے پاس نہیں پہنچیں جس صفائی کے ساتھ قرآن کریم پہنچا ہے اور قرآن کریم کے بعد جس چیز کے متعلق ہم قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہی ہیں۔ پس قرآن کریم اور احادیث کے علاوہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہامات کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ پہلے تمام کتاب کو بِالاستیعاب پڑھ جائیں اورپھر کبھی کبھی مطالعہ کرتے رہیں تا ذہن میں الہامات کے مضامین تازہ رہیں۔ پھر علاوہ اس کتاب کے جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض الہامات کی بناء پر ’’تذکرہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ دو میری کتابیں چھپوائی گئی ہیں جو ایک عرصہ سے نہیں ملتی تھیں۔ اب کی دفعہ ان کی قیمتیں بھی بہت کم رکھی گئی ہیں پہلے دو اور ڈیڑھ روپیہ ان کی قیمت تھی مگر اب گیارہ آنے اور نو آنے میں یہ کتابیں مل سکتی ہیں اس لئے جو دوست پہلے ان کتابوں کو نہیں خرید سکے وہ اب خرید لیں۔ ان میں سے ایک ’’دعوۃ الامیر‘‘ ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر احمدیوں کیلئے تبلیغ کا بہت بڑا مصالحہ جمع ہے اور دوسری ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ ہے جس میں غیر مسلموں کیلئے تبلیغ کا بہت بڑا مصالحہ جمع ہے۔ یہ دونوں کتابیں اِس وقت کے حالات کے لحاظ سے ایک چھوٹی انسائیکلوپیڈیا ہیں جو بہت سے مطالب پر حاوی ہیں۔ غیروں پر تو ان کتابوں کا اتنااثر ہے کہ فرانس میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے ایک رسالہ میں اسلام پر ایک مضمون چھپا ہے جس کا نوے فیصدی حصہ ’’احمدیت‘‘ سے لیا گیا ہے اور درمیان میں حوالہ دے کر مضمون لکھنے والے نے لکھا ہے کہ میں نے اسلام کے متعلق بہت سی کتابیں پڑھی ہیں مگر جتنی کتابیں گزشتہ صدیوں میں اسلام کے متعلق لکھی گئی ہیں یہ کتاب ان سب سے زیادہ اچھی ہے۔ کوئی عیسائی ہے جس نے یہ مضمون لکھا، تو اسلام کے متعلق غیروں میں تبلیغ کرنے کیلئے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ اعلیٰ کاغذ پر جو کتاب چھپی ہے، اس کی قیمت گیارہ آنے اور معمولی کاغذپر جو کتاب چھپی ہے، اس کی قیمت ۹ آنے ہے۔ یہ کتابیں اپنے گھروں میںرکھنے اورلوگوں میں تقسیم کرنے کیلئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
گزشتہ ایام میں جیسا کہ مَیں نے اعلان کرایا تھا، آج کَل جو قرآن مجید کا درس مَیں دے رہا ہوں، اس کے متعلق میرا ارادہ ہے کہ وہ مکمل اخبار میں شائع ہوتا رہے۔ تا کہ وہ اس تفسیر کا قائم مقام ہوجو کتابی صورت میں بعد میں شائع کی جائے گی بلکہ بعض حالتوں میں اس کا فائدہ زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ درس میں آیت کا ٹکڑہ ٹکڑہ لے کر اس کی تفسیر کی جاتی ہے اور اس طرح تفصیل کے ساتھ وہ باتیں بیان ہو جاتی ہیں جو اگر کتاب کی صورت میں درس لکھا جائے تو اس قدر تفصیل سے انسان بہ خوفِ طوالت اجتناب کرتا ہے۔ الفضل میں اس کے متعلق اعلان ہوتا رہا ہے اور اس کے کچھ خریدار بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ جنوری سے یہ درس اِنْشَائَ اللّٰہُ اخبار میں چھپنا شروع ہو جائے گا۔ چوہدری صادق علی صاحب ریٹائرڈ تحصیلدار جو ایک نہایت مخلص احمدی ہیں، اُنہیں میں نے اس بات پر مقرر کیا ہے کہ وہ اس کی ادارت کا فرض ادا کریں۔ دورانِ جنوری میں اِنْشَائَ اللّٰہُ تعالٰی اس درس کی پہلی اشاعت ہوگی۔ جو دوست اس کے خریدار بنیں گے انہیں ہفتہ میںایک بار چار صفحہ کا ضمیمہ اخبار میں بھیجا جائے گا۔ چھ ماہ کے لئے اس ضمیمہ کی قیمت صرف تیرہ آنے رکھی گئی ہے جو کچھ زیادہ نہیں۔ جو دوست قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے معارف کو حاصل کرنے کی اپنے دل میں خواہش رکھتے ہوں، ان کے لئے یہ درس بہت کچھ مفید ہو سکتا ہے۔ پھر ’’سٹار ہوزری ورکس‘‘ کے متعلق میں سفارش کرتا ہوں۔ ’’ہوزری‘‘ کا کارخانہ جب جاری کیا گیا تھا تو جماعت کے روپیہ سے جاری کیا گیا تھا۔ پس یہ کارخانہ جماعت کے دوستوں کے روپیہ سے بنا ہے، کسی ایک کا کارخانہ نہیں اورجو چاہے اب بھی اس کے حِصص خرید سکتا ہے لیکن مَیں نے اُسی وقت اعلان کر دیا تھا کہ جب یہ کارخانہ جماعت کے روپیہ سے جاری ہو جائے گا تو تمام دوستوں کو چاہئے کہ کارخانہ جاری ہونے کے بعد اسی ’’ہوزری‘‘ کی تیار کردہ جرابیں خریدیں سوائے اس کے کہ ان کے ناپ کی جراب تیار نہ ہو۔ لیکن اگر ان کے ناپ کی جراب تیار ہو تو پھر ان کا فرض ہے کہ یہیں سے جرابیں خریدیں اور خواہ وہ دوسری جرابوں کے مقابلہ میں خراب دکھائی دیں پھر بھی یہی جرابیں پہنیں اور ان سے تعاون کریں۔ ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ اس قسم کی قربانیاں کیا کرتی ہیں۔ جاپان نے جب ابتداء میں جرابیں بھیجنی شروع کیں تو بہت کچھ ناقص تھیں۔ انسان آٹھ انچ کی جراب پہنتا تو اُتارتے وقت سولہ انچ کی ہو جاتی اور بعض دفعہ ڈھیلی ہو کر بوٹ میں آ جاتی۔ مجھے یاد ہے مَیں نے ایک دفعہ جاپانی جراب پہنی۔ مسجد میں نماز کیلئے آیا تو معلوم ہوا وہ جراب گھسٹ کر بوٹ میں چلی گئی ہے لیکن آخر لوگ ان جرابوں کو پہنا ہی کرتے تھے۔
پس جب کوئی قوم ارادہ کر لے کہ اس نے دنیا میں ترقی کرنی ہے اور اپنی تیار کردہ چیز کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ابتداء میں اسے قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہوزری کی تیار کردہ جرابوں کے نقائص کی طرف ہر وقت نہ دیکھا کریںبلکہ انہیں خرید کر کارخانہ والوں کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ خود ان کے کام میں بھی نقائص ہیں مگر تجربہ سے آہستہ آہستہ دور ہو جائیں گے۔ ایک تاجر نے بتایا کہ اس نے بہت سی جرابوں کے متعلق آرڈر دیا مگر ان کا ایجنٹ پشاور کی طرف ہی پھرتا رہا اور اس نے چیزیں نہ بھجوائیں۔ اس قسم کے انتظامی نقائص ہو سکتے ہیں مگر ہوزری کی تیار کردہ بعض جرابیں اتنی مضبوط ہیں کہ مجھے خود حیرت ہے پچھلے سال میں نے اس جگہ سے گرم جرابیں لیں انگریزی گرم جراب اگر میرے پائوں میں ہو تو عموماً ۹ دن کے بعد اس میں سوراخ ہو جاتا ہے مگر اس میں سولہ سترہ دن کے بعد سوراخ ہوا اور پھر مرمت کرنے کے بعد وہ بہت مدت تک چلی گئیں۔ گو اس دفعہ کا تجربہ میرا اچھا نہیں ہوا۔ اگرچہ درمیان میں ایک دوست میرے لئے تحفۃً جرابیں لے آئے اور وہ میں نے پہن لیں۔ مگر ہوزری کی ایک جراب پہنی تو اس جراب میں دوسرے ہی دن سوراخ ہو گیا۔ میں نے ان کو کہہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے اس نقص کی اصلاح نہ کی تو پھر میں ان کی سوراخ والی جرابیں آئندہ سٹیج پر لٹکا دوں گا تا کہ ان کا اشتہار ہو جائے۔ مگر بعض دوستوں نے بتایا ہے کہ اتفاق سے آپ کو کوئی خراب جراب آ گئی ہوگی، ورنہ ایک دوست نے تو کہا میں حیران ہوا کرتا ہوں کہ ہوزری کی تیار کردہ جراب پَھٹتی کیوں نہیں۔ تو ممکن ہے اتفاق سے مجھے کوئی خراب جراب ملی ہو اور اس قسم کا اتفاق کوئی ناممکن نہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ انگلستان کی بنی ہوئی جرابیں ایسی ناقص نکلیں کہ چھ جرابوں میں ہفتہ عشرہ میں سوراخ ہو گئے۔ تو بعض دفعہ اتفاقاً ردّی مال آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ تیزاب زیادہ پڑ جاتا ہے اور تاگے گَل جاتے ہیں لیکن ایسا شاذ ہوتا ہے۔ پس اگر دوسرے دوست کی روایت صحیح ہے تو مجھے بہت خوشی ہے اور میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ کارخانہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔ اگر ہمارا یہ ہوزری کا کارخانہ کامیاب ہو گیا تو میرا ارادہ ہے کہ ایک کپڑوں کا کارخانہ بھی یہاں جاری کیا جائے۔ پس مَیں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ ’’سٹار ہوزری ورکس‘‘ کے حِصص خریدیں اور جب انہیں جرابیں منگوانی ہوں تو وہ یہیں سے منگوائیں اور کامل فرمانبرداری یہی ہے کہ اسی کارخانہ کی جرابیں پہنیں۔ سوائے ایسی صورت کے جیسا کہ میں نے اپنے متعلق کہا ہے کہ ایک دوست میرے لئے تحفۃً جراب لے آئے تو میں نے پہن لی۔ وہ ایک نہایت ہی مخلص دوست ہیں اور ہمیشہ میرے لئے تحفہ لانے کے عادی ہیں اس لئے ان پر بھی افسوس ہے کہ انہیں کیوںیہ خیال نہ آیا کہ اگر انہوں نے تحفہ دینا تھا تو وہ یہاں سے جرابیں خرید کر تحفۃً پیش کر دیتے تا ان کی خواہش بھی پوری ہو جاتی اور میری خواہش بھی کہ آئندہ ہم ’’سٹار ہوزری‘‘ کی تیار کردہ جرابیں استعمال کیا کریں۔ وہ دوست حیدر آباد کے ہیں اور شاید فاصلہ کی زیادتی کی وجہ سے ہماری آواز ابھی تک حیدرآباد کی جماعت کے کانوں تک نہیں پہنچی۔
اس کے بعد مَیںموجودہ سال کے ایک نہایت ہی اہم واقعہ کی طرف جو مباہلہ کا ہے‘احباب کو توجہ دلاتا ہوں۔ احرار کی طرف سے متواتر ہم پر یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہتک کرتے ہیں۔ آپ کی تحقیر و تذلیل پر خوش ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ سے درجہ میں بلند سمجھتے ہیں اور یہ کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ یہاں تک کہ اگر ان مقدس مقامات کی اینٹ سے اینٹ بھی بج جائے تو ہمیں کوئی پروا نہیں۔ یہ بات جیسی جھوٹی اور بے بنیاد ہے‘ اس کو ہر احمدی کا دل ہی جانتا ہے۔ اور ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کو محسوس نہ کرتا ہو۔ ہمیں گندی سے گندی گالیاں دی جاتی ہیں، بُرے سے بُرے نام رکھے جاتے ہیں‘ دل آزار سے دل آزار کلمات ہمارے متعلق استعمال کئے جاتے ہیں مگر ہمیں کبھی بھی ان الفاظ سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی ہمیں اس بات کے سننے سے ہوتی ہے کہ ہم نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیںاور خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانے پر بھی خوش ہیں۔ غالباً احرار نے یہ جانتے ہوئے ہی ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کیا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں دوسری گالیاں انہیں اتنا دکھ نہیں دیتیں جتنی یہ بات دکھ دیتی ہے اس لئے وہ ہمارے متعلق یہ اعتراض کر کے ہمیں انتہائی تکلیف اور دکھ دینا چاہتے ہیں لیکن دراصل اپنے اس عمل سے دشمن اقرار کر رہا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے انتہا درجہ کی محبت رکھنے والے ہیں۔
یوں تو یہ اعتراض ایسا ہے کہ ہر احمدی اس کی تردید کا کُھلا ثبوت ہے لیکن جن غیراحمدیوں اور غیرمسلموں کو بھی احمدیوں سے ملنے جلنے کا موقع ملتا ہے وہ بھی اس امر کو جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہ لیڈر کہلانے والے اوّل درجہ کے جھوٹے، دغا باز، مکّار، اور فریبی ہیں۔ اور جب وہ یہ اعتراض کرتے ہیں تو حقیقت کا نہیں بلکہ اپنے خُبثِ باطن کا ثبوت دیتے ہیں اور ہم پر الزام لگا کر رسول کریم ﷺ کی خود توہین کرتے اور آپ کو گالیاں دیتے ہیں کیونکہ جب کوئی شخص گالیاں نہ دے رہا ہو اور دوسرا کہے کہ یہ گالیاں دیتا ہے تو دراصل وہ اپنے منہ سے آپ گالیاںدیتا ہے۔ تو جہاں جہاں کے غیر احمدیوں یاغیر مسلموں کو جماعت احمدیہ کے افراد سے ملنے جُلنے کا موقع ملتا رہتا ہے وہاں کے غیراحمدی اور غیرمسلم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جھوٹ کو شائع کرنے والے لوگ اوّل درجہ کے خبیث ہیں مگر جو احمدیوں سے نہیں ملتے یا بُغض میں انتہا تک پہنچ چکے ہیں وہ اس فریب میں آسکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ رسول کریمؐ کی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہتک کرتی ہے کیونکہ یہ باتیں کہنے والے ان کے مولوی ہیں اور آدمی عام طور پر حُسن ظنی سے کام لیتا ہے۔ اور جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک جُبّہ پوش مولوی اُسے آ کر کوئی بات کہہ رہا ہے تو وہ اس کی بات کو بِلا سوچے سمجھے تسلیم کر لیتا ہے۔
جب یہ اعتراض پھیلا اور فتنہ بڑھا تو میں نے فتنہ کو دُور کرنے کیلئے دو طریق پیش کئے۔
ایک یہ کہ چونکہ احمدی عام طور پر ہندوؤں، سکھوںاورعیسائیوں سے ملتے رہتے ہیں اس لئے اگر یہ سمجھ بھی لیا جائے کہ مسلمانوں کے سامنے احمدی رسول کریم ﷺ کے متعلق جھوٹی محبت ظاہر کر دیتے اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کر دیتے ہیں، تو عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے سامنے انہیں اس قسم کی باتیں کہنے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ انہیں تو احمدی کہتے ہونگے کہ ہم رسول کریم ﷺ سے محبت نہیں رکھتے اور نہ مکہ اور مدینہ کی اپنے دلوں میں کوئی عظمت سمجھتے ہیں۔ یا کم از کم غیروں کی خوشنودی کیلئے وہ غیرمسلموں کی ہاں میں ہاں ملاتے اور ان کی مجلس میں انہی جیسی باتیں کرتے ہونگے۔ پس میں نے کہا۔ ہندوؤں‘ سکھوں اور عیسائیوں میں سے وہ لوگ جو ہمارے ساتھ ملنے جلنے والے ہوں۔ سَو دو سَو چار سَو پانچ سَو یا ہزار لے لئے جائیں اور انہیں کہا جائے کہ وہ اپنے مذہب کی مقدس مذہبی کتاب ہاتھ میں لے کر مؤکّد بعذاب قسم کھا کر بتائیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی عزت کرتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی احمدیوں کے دلوں میں عزت ہے یا ان مقامات کی اینٹ سے اینٹ بجنے پر وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خوش ہیں۔ اگر وہ تمام کے تمام یا ان کا بیشتر حصہ یہ گواہی دے کہ اس نے احمدیوں کو رسول کریم ﷺ کی عزت کرنے والا اور آپ کے نام کو دنیا میں بلند کرنے والا پایا تو اس قسم کے اعتراض کرنے والوںکو اپنے فعل پر شرمانا چاہئے۔ اور یہ جو میں نے اکثر کی شرط لگائی ہے‘ اس کی یہ وجہ ہے کہ ہر قوم میں سے بعض لوگ جھوٹ بولنے والے بھی ہوتے ہیں۔
دوسرا معیار میں نے یہ پیش کیا کہ وہ ہم سے مباہلہ کر لیں اور مباہلہ کی دعوت میں نے اس لئے دی کہ میں جانتا ہوں ہر معترض ان میں سے یقینا یہ سمجھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق یہ اعتراض کر کے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں کبھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ سوائے پاگل اور مجنون کے کوئی اور شخص یہ کہہ سکے کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی عزت نہیں کرتے۔
پاگل ممکن ہے اس قسم کا اعتراض کر دے مگر جو پاگل نہ ہو وہ ایک منٹ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی توہین کرتے اور اس بات پر نَعُوْذُ بِاللّٰہ ِ خوش ہیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے۔ مگر چونکہ احرار پاگل نہیں اس لئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ وہ اس بارہ میں ہم سے مباہلہ کر لیں۔ اور اگر وہ مباہلہ پر تیار ہوں تو لاہور یاگورداسپور میں مباہلہ کر لیں۔ پانچ سَو یا ہزار کی تعداد وہ اپنے ساتھ لے آئیں۔ اور پانچ سَو یا ہزار ہم میں سے میدانِ مباہلہ میں نکل کھڑے ہونگے۔ لیکن میں نے کہدیا اس کیلئے ضروری ہے کہ فریقین آپس میں شرائط کا تصفیہ کر لیں اور تصفیہ شرائط کے پندرہ دن بعد مباہلہ ہو جائے۔ اس کے جواب میں احرار کی طرف سے پہلے تو یہ کیا جاتا رہا کہ ہر جمعہ کو یہاں اعلان کر دیتے کہ ہم مباہلہ کیلئے تیار ہیںلیکن آخر انہوں نے کہا کہ ہم مباہلہ کیلئے تو تیار ہیں مگر اس شرط پر کہ قادیان میں ہو۔ چنانچہ ان کے اخبار ’’مجاہد‘‘ نے صاف طورپر لکھا کہ:۔
’’ہم مرزا محمود کو کوئی موقع نہیں دینگے کہ وہ مباہلہ سے پہلو تہی کر سکے۔ ہاں یہ ضرور ہو گا کہ مباہلہ قادیان میں ہو۔‘‘ (اخبار ’’مجاہد‘‘ ۲/اکتوبر ۱۹۳۵ء)
مَیں نے جب دیکھا کہ وہ متواتر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مباہلہ قادیان میں ہو تو میں نے کہا اگر باقی شرائط کو تم منظور کر لو تو میں اس کو بھی منظور کرنے کیلئے تیار ہوں۔ میں ان کی اس شرط سے ہی سمجھتا تھا کہ دراصل وہ قادیان میں کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ شہید گنج کے موقع پر ’’سول ڈس اُبیڈی انس‘‘ (CIVIL DISOBEDIENCE) سے جو انہوں نے انکار کیا اور کہا ہمیں ’’سول ڈس اُبیڈی انس‘‘ سے انکار نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں اس میں فائدہ نہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں کونسلوں کی پڑی ہوئی تھی۔ اور اس طرح مسلمانوں کی نگاہوں میں ذلیل ہونے کے بعد وہ یہ چاہتے ہیں کہ اب قادیان آ کر اور مسلمانوں کی توجہ کو اس طرف پھیر کر اپنے کھوئے ہوئے وقار کو پھر حاصل کریں۔ مگر چونکہ اس کے ساتھ ہی مجھے یقین تھا کہ وہ مباہلہ نہیں کریں گے اور شرطوں کے ہیر پھیر میں اس دعوت کو ٹال دیں گے، اس لئے میں نے ان کی اس شرط کو منظور کر لیا اور کہا وہ باقی شرائط طے کریں تو میں اس شرط کو منظور کرتا ہوں۔ مگر یہ اعلان شائع ہونے کے بعد جو کچھ میں نے ان کی طرف سے دیکھا اس کی مجھے یقینا امید نہ تھی۔ مجھے یہ تو خیال تھا کہ وہ شرائط کے نام پر کوئی بہانہ بنا کر مباہلہ سے گریز کر یں گے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ وہ اپنی کانفرنس کے انعقاد کی تیاریاں شروع کر دیں گے۔ میں صرف اتنا سمجھتا تھا کہ وہ آئیں گے اور شرائط کے متعلق جھگڑا کر کے چلے جائیں گے مگر انہوں نے اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اشتہارات تقسیم کرنے شروع کر دیئے کہ قادیان میں پہلے سے بھی زیادہ شاندار احرار کانفرنس منعقد ہو گی اور مباہلہ بھی ہو گا۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نظارہ دیکھنے کیلئے بہت بڑی تعداد میں قادیان پہنچیں۔ لیکن ایک طرف تو انہوں نے کانفرنس کا اعلان کرنا شروع کر دیا اور دوسری طرف شرائط کی طرف سے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور کوئی ایک تحریر بھی انہوں نے اس سلسلہ میں ہمارے دفتر میں نہیں بھجوائی۔ انہیں متواتر بذریعہ تحریر توجہ دلائی گئی مگر کسی چِٹھی کا جواب نہ آیا۔ آخر ایک دن مسٹر مظہر علی صاحب اظہر کا یکدم سیالکوٹ سے مجھے تار پہنچا کہ احرار کی طرف سے مباہلہ کی تاریخ ۲۳ نومبر مقرر کی گئی ہے۔ اس پر ہماری جماعت کے ایک سیکرٹری کی طرف سے انہیں پھر چِٹھی لکھی گئی کہ پہلے شرائط طے کیجئے۔ بغیر شرائط کے کس طرح مباہلہ کی تاریخ مقرر کی جا سکتی ہے؟ مگر اس کا بھی کوئی جواب نہ دیا گیا اور صرف اخباروں میں اعلان ہوتا رہا کہ ہمیں سب شرائط منظور ہیں۔ حالانکہ شرائط اُسی وقت تفصیل کے ساتھ طے ہو سکتی تھیں جب فریقین کے نمائندے بیٹھتے اور آپس میں مل کر فیصلہ کرتے۔ اعلان میں تو موٹی موٹی باتیں بیان کی جا سکتی ہیں تفصیلات کس طرح بیان کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً میں نے شرط مقرر کی تھی کہ پانچ سَو یا ہزار آدمی احرار کی طرف سے مباہلہ میں شامل ہوں۔ اگر بالفرض انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا ہوتا تو ضروری تھا کہ ان پانچ سَو یا ہزار آدمی کے نام اور مکمل پتے ہمیں دیئے جاتے۔ ورنہ پانچ سَو یا ہزار آدمی مباہلہ کر کے چلے جاتے تو ممکن تھا ان میں سے جو مرتا اس کے متعلق کہہ دیا جاتا کہ یہ مباہلہ میں شامل نہیں تھا۔ اس طرح جو مرتا جاتا وہ مباہلین سے نکلتا جاتا اور جو رہ جاتے ان کے متعلق کہہ دیا جاتا کہ یہ مباہلہ میں شامل تھے مگر مرے نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی مباہلہ کا طریق ہے۔ اس طرح ممکن ہے ایک شخص کے متعلق مجھے بتایا جائے کہ یہ میاں عبداللہ ہیں بٹالہ کے رہنے والے ہیں اور یہ بھی مباہلہ میں شامل ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام عبداللہ نہ ہو بلکہ حمید اللہ ہو اور جب سال کے بعد نتیجہ دیکھنے کیلئے انسان تلاش کرے تو کہہ دیا جائے حمید اللہ مرا ہے‘شامل تو عبداللہ ہوا تھا تو یہ ایسی حماقت کی بات ہے جسے کوئی تسلیم نہیں کر سکتا اور ہر عقلمند کو ماننا پڑتا ہے کہ شرائط کے طے کئے بغیر مباہلہ کرنا بیوقوفوں کا کام ہے۔ مگر ان کی تو یہ غرض ہی نہ تھی‘ ان کی غرض اگر تھی تو یہ کہ قادیان جمع ہونے کی صورت نکل آئے اور وقت پر مباہلہ سے انکار کر کے اپنی کانفرنس منعقد کر لی جائے۔ مثلاً اسی شرط کا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے مظہر علی صاحب اظہر نے جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ ہم قادیان پہنچ کر ایک دن پہلے مباہلین کی فہرست دے دیں گے حالانکہ اگر وہ ایک دن پہلے فہرست دیں تو مباہلین کی تحقیق کس طرح ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کے متعلق لکھا ہو کہ یہ گجرات کا رہنے والا ہے۔ مگر مجھے کیا پتہ ہو سکتا ہے کہ یہ گجرات کا ہے یا نہیں۔ اس کی مجھے تحقیق کرنی چاہئے اور اس صورت میں پندرہ بیس دن چاہئیں تا کہ گجرات کے دوستوں کو لکھ کر دریافت کیا جائے کہ آیا اس نام کا کوئی آدمی گجرات میں رہتا ہے یا نہیں اور آیا اس نے اپنا نام مباہلہ کیلئے دیا ہے یا کسی اور کو اس کے نام پر پیش کر دیا گیا ہے۔
غرض ان تمام خدشات کے ازالہ کیلئے ضروری تھا کہ پندرہ بیس دن پہلے فہرستیں مل جاتیں تاہم ہر شخص کے متعلق تحقیقات کر سکتے۔ اور پھر یہ بھی پتہ لگا لیتے کہ آیا وہ واقعی مباہلہ کیلئے تیار ہے یا نہیں۔ ممکن ہے ایک شخص کا یونہی نام لکھ دیا جائے حالانکہ وہ مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو۔ یا ایک سے زیادہ کا نام خانہ پُری کے طور پر درج کر دیا جائے مگر مباہلہ کے موقع پر وہ بھاگ جائیں اور اس طرح مقررہ تعداد میں کمی آ جائے۔
غرض ضروری تھا کہ مباہلین کے پندرہ بیس دن پہلے نام ملیں اور ان کے متعلق یہ تحقیق کر لی جائے کہ وہ فرضی نام تو نہیں اور پھر مباہلین کی شکلیں پہچان لی جائیں۔ تاجب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو کسی قسم کا اشتباہ واقعہ نہ ہو۔ اس صورت میں ممکن تھا جس جس جگہ کے غیراحمدی مباہلین ہوتے‘ وہاں کے احمدیوں کو ہم بُلوا لیتے اور کہتے ان کی شکلیں پہچانتے جاؤ اور انہیں یاد رکھو۔ غرض جہاں بھی پانچ سَو یا ہزار آدمی مباہلہ کیلئے آئے گا‘ یہ احتیاطیں کرنی پڑیں گی ورنہ مباہلہ کھیل بن جائے گا۔ یہ سب تفصیلات اور شرائط مَیں اگر خطبہ میں بیان کرتا تو اس قسم کا مضمون کئی خطبوں میں ختم ہوتااور پھر بھی احرار کی طرف سے تحریری رضا مندی اور شرائط کے تسلیم کرنے کا امر باقی رہتا اس لئے میں نے کچھ باتیں تو خطبوں میں بیان کر دیں اور کچھ باتوں کے متعلق کہہ دیا کہ فریقین کے نمائندے جمع ہو کر ان کا فیصلہ کر لیں ۔ مگر انہوں نے اس طرف کا رُخ بھی نہیں کیا اور شرائط کے متعلق لکھ دیاکہ ہمیں سب منظور ہیں حالانکہ ابھی صرف چند شرطیں پیش کی گئی تھیں اور بہت سی شرائط طے کرنی باقی تھیںجو اسی صورت میں طے ہو سکتی تھیں کہ وہ اس کیلئے تیار ہوتے۔ مگر انہوں نے شرائط کے متعلق ہمیں اپنی کوئی تحریر نہیں دی۔ متواتر انہیں توجہ دلائی گئی کہ جو کچھ وہ تسلیم کرتے ہیں اور جن شرائط کو وہ مانتے ہیں‘ انہیں تحریری رنگ میں ہمارے پاس پہنچا دیں۔ مگر انہوں نے یہ بات نہ مانی اور اخبار میں یہ اعلان ہوتا رہا کہ ہم سب شرائط منظور کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے اخبار میں شائع شُدہ بات کو وہ آسانی سے ردّ کر سکتے اور کہہ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری ہم پہ نہیں اخبار پر ہے۔
چنانچہ اس کا ایک تازہ ثبوت خداتعالیٰ نے مہیا کر دیا ہے۔ اخبار ’’مجاہد‘‘ ۱۱۔دسمبر ۱۹۳۵ء میں ایک لیڈنگ آرٹیکل ’’جزیرۃ العرب میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ کے زیر عنوان چھپا ہے۔ اس میں بعض ایسی باتیں ان کی طرف سے لکھی گئیں جو مسلمانوں کو سخت ناگوار گزریں۔ اس کے شائع ہونے کے بعد جب انہیں محسوس ہوا کہ اس کا شائع کرناغلطی تھا تو جَھٹ انہوں نے دوسرے دن اعلان کر دیا کہ یہ لیڈر نہیں تھا بلکہ دفتر ’’مجاہد‘‘ کے عملہ کے سِوا کسی اور صاحب کا مضمون آیا اور نائب ایڈیٹر نے غلطی سے یہ سمجھا کہ یہ مضمون ادارۂ تحریر کے رکنِ اعلیٰ نے منظور کر لیا ہے اور اس طرح بعض ارکانِ ادارۂ تحریر کی غلطی سے شائع ہو گیا۔
جن لوگوں نے اخبار کا ایک لیڈر کا لیڈر اُڑا دیا اور اسے اپنی طرف منسوب کرنے کی بجائے کسی نامہ نگار کی طرف منسوب کر دیا‘ اُن سے بھلا کیونکرامید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اخباری بیانات کو وقعت دیں اور وقت پر یہ کہہ کر انکار نہ کر دیں کہ یہ ہمارا بیان نہیں اور نہ ہم اس سے متفق ہیں۔ اب تک تو ہم یہ سنتے چلے آئے تھے کہ غلطی سے لفظ کچھ کا کچھ چَھپ سکتا ہے مگر یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ ایک لیڈر کے لیڈر کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ غلطی سے چھپ گیا اصل میں اسے چَھپنا نہیں چاہئے تھا۔ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص اپنے نام پر ایک کتاب شائع کرے اور جب چَھپ جائے تو کہدے نہ یہ میری کتاب ہے اور نہ میں نے لکھی بلکہ سہوِ کاتب ہے۔
جہاں اتنے بڑے بڑے سہو ہو سکتے ہوں وہاں ہمارے لئے سخت احتیاط کی ضرورت تھی۔ تا اگر وہ کسی وقت اپنی منظور کردہ شرائط سے انکار کریں تو ہم ان کے سامنے ان کا تحریری کاغذ تو پیش کر سکیں۔ گو ممکن ہے اپنی تحریر کے متعلق بھی وہ یہ کہدیں کہ ہمیں اُس وقت دورۂ جنوں ہو گیا تھا۔ مگر بہرحال چونکہ اخبار کے بیان کے متعلق سہوِ کاتب کا عُذر پیش ہونے کا ہر وقت ان کی طرف سے خطرہ تھا جیسا کہ حال کے ایک واقعہ نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ ان سے تحریر لی جاتی‘ مگر انہوں نے تحریر نہیں دی اور نہ مباہلہ کیلئے تصفیۂ شرائط کیا۔ لیکن آج بھی مجھے ایک اشتہار ملا ہے جس پر لکھا ہے۔ ’’خلیفہ قادیان کا مباہلہ سے شرمناک فرار‘‘ حالانکہ میرا چیلنج اب تک موجود ہے کہ اگر مباہلہ کرنا ہے تو لاہور یا گورداسپور میں کر لو۔ اور اگر وہ اس کیلئے تیار نہیں تو وہ یا تو یہ کہہ دیں کہ ہمارا خدا قادیان میں ہے لاہور میں نہیں اور اُس کی حکومت قادیان میں تو ہے لیکن باہر اس کی حکومت نہیں۔ اور یا پھر یہ ثابت کر دیں کہ شریعت کی رُو سے قادیان کے باہر مباہلہ ہو ہی نہیں سکتا اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر مباہلہ کرنا ہو تو قادیان میں کرو باہر نہ کرو۔ اور اگر وہ کہہ دیں کہ ہمارا خدا لاہور میں نہیں‘ صرف قادیان میں ہے تو اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ ان کا خدا ان کی روٹیاں ہیں جو انہیں قادیان کے نام پر مسلمانوں کو اُکسا کر اور انہیں فتنہ و فساد پر آمادہ کر کے زیادہ عمدگی سے مل سکتی ہیں ورنہ وجہ کیا ہے کہ جب میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ آؤ شرائط طے کر کے مباہلہ کر لو تو وہ اس طرف نہیں آتے اور یہ شور مچائے چلے جاتے ہیں کہ میں نے مباہلہ سے فرار اختیار کیا۔ مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے دس بیس فرار جب ہمارے دنیا پر ظاہر ہو جائیں گے تو اس کے ساتھ ہی احرار کی جماعت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
ایک عقلمند یورپین مصنف کا قول ہے کہ ساری دنیا کو تم کچھ مدت کیلئے دھوکا دے سکتے ہو اور کچھ لوگوں کو تم ہمیشہ کیلئے دھوکا دے سکتے ہو مگر تم ساری دنیا کو ہمیشہ کیلئے دھوکا نہیں دے سکتے۔
پس صداقت آخر دنیا پر واضح ہو گی اور یہ فرار احرار کیلئے ایسی مصیبت بن جائیں گے جن سے نکلنا ان کیلئے مشکل ہو گا۔ میں پھر اس موقع پر اعلان کرتا ہوں کہ میرے آخری اعلان میں بھی مباہلہ کا چیلنج موجود ہے۔ اگر وہ مباہلہ کرنا چاہتے ہیں تو لاہور یا گورداسپور میں مباہلہ کر لیں ہمیں مباہلہ کرنے سے ہرگز انکار نہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ مباہلہ کیلئے نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بو ل رہے اور دیدہ دانستہ لوگوں کو فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے جس طرح میں نے مؤکّدبعذاب قسم شائع کر دی تھی‘ وہ بھی مؤکّدبعذاب حلف شائع نہیں کر دیتے۔ جس دن میری طرف سے یہ قسم شائع ہوئی تھی کہ:
’’اے خدا! ایک جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے اس قسم کا دھوکا دینا نہایت خطرناک فساد پیدا کر سکتا ہے پس اگر میں نے اوپر کا اعلان کرنے میں جھوٹ، دھوکے یا چالبازی سے کام لیا ہے تو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر *** کر۔ لیکن اگر اے خدا! میں نے یہ اعلان سچے دل سے اور نیک نیتی سے کیا ہے تو پھر اے میرے رب! یہ جھوٹ جو بانی سلسلہ احمدیہ کی نسبت، میری نسبت اور سب جماعتِ احمدیہ کی نسبت بولا جاتا ہے‘ تو اس کے ازالہ کی خود ہی کوئی تدبیر کر اور اس ذلیل دشمن کو جو ایسا گندہ الزام ہم پر لگاتا ہے یا تو ہدایت دے یا پھر اسے ایسی سزا دے کہ وہ دوسروں کیلئے عبرت کا موجب ہو۔‘‘
تو اُس دن میری طرف سے مباہلہ کی ذمہ داری پوری ہو گئی اور میں آج کہتا ہوں کہ اگر احرار کیلئے جمع ہونا مصیبت ہے‘ وہ پانچ سَو یا ہزار افراد اپنے ساتھ نہیں لا سکتے تو میری قسم کے الفاظ کو اُلٹا کر اور انہیں دُہرا کر اپنے پانچ لیڈروں کی طرف سے شائع کر دیں اور لکھ دیں کہ:۔
’’ اے خدا! ہمیں یقین ہے احمدی رسول کریم ﷺ پر ایمان نہیں رکھتے‘ نہ آپ کو دل سے خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔ اور آپ کی فضیلت اور بزرگی کے قائل نہیں بلکہ آپ کی توہین کرنے والے اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانے پر بھی خوش ہونے والے ہیں۔ اے خدا! اگر ہمارا یہ یقین غلط ہے تو تُو ہم پر اور ہمارے بیوی بچوں پر اپنا عذاب نازل کر‘‘۔
جس دن وہ اپنے میں سے پانچ لیڈروں کی طرف سے اس قسم کی مؤ کّدبعذاب حلف اپنے اخبار میں شائع کر دیں گے‘ اُسی دن مَیں سمجھ لونگا کہ میرا احرار سے مباہلہ ہو گیا۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں وہ کبھی ایسا نہیںکریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
اس کے بعد میں تحریک جدید کے متعلق بعض باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا نام تحریک جدید اس لئے رکھا ہے کہ بعض لوگوں کیلئے جدید چیز لذیذ ہوتی ہے جیسا کہ کہتے ہیں۔ کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذٌ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پرانی چیز ہے اور جیسا کہ میں اپنے ایک پچھلے خطبہ جمعہ میں بیان کر چکا ہوں تحریک جدید کا ایک حکم بھی ایسا نہیں جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو اور ایک حکم بھی ایسا نہیں جو رسول کریم ﷺ کے عمل سے ثابت نہ ہو۔ گو زمانہ کے حالات کے مطابق ممکن ہے کسی حکم کی شکل تبدیل ہو گئی ہو۔ مثلاً بورڈنگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں نہیں ہوتے تھے مگر بچوں کی تربیت کے اصول وہی ہیں جو رسول کریم ﷺ نے بیان کئے۔
تو تحریک جدید جسے دراصل مَیں وہ قدیم تحریک کہتا ہوں جو آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ سے اِذن لیکر جاری کی۔ جب تک جماعت اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی میرے نزدیک اس وقت تک حقیقی طور پر جماعت کوئی کام نہیں کر سکتی۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ان کے مفہوم کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن جب اس پر جرح کی جائے اور کسی بات کی باریکیاں اس سے دریافت کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے اس نے بات کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اور اگر سمجھا بھی ہے تو محض سطحی رنگ میں۔ مجھے بھی یقین ہے کہ ابھی تک جماعت کے اکثر افراد نے اس تحریک کا مفہوم نہیں سمجھا حالانکہ اس کے متعلق میں نے اتنے خطبے پڑھے ہیں کہ اس سے پہلے کسی اور بات کے متعلق میں نے اتنے خطبے کبھی نہیں پڑھے۔ لیکن باوجود اس قدر تفصیل سے تحریک جدید کو بیان کرنے کے مجھے وہم ہے کہ جماعت کے اکثر افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس کے مفہوم اور اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا۔ اور اگر وہ سمجھ جاتے تو یقینا میں ان میں ایسا تغیر دیکھتا جو مجھے ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔ عام طور پر دوست یہ خیال کرتے ہیں کہ احراری فتنہ کو دیکھ کر اس کے استیصال کیلئے چند وقتی باتیں میں نے بیان کر دی ہیں۔ حالانکہ اس کا موجب احرار فتنہ نہیں بلکہ حقیقت یہی ہے کہ احرار کا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہانہ بنا دیا ہے کیونکہ ہر تحریک کے جاری کرنے کیلئے ایک موقع کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک وہ موقع میسر نہ ہو جاری کردہ تحریک مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔ بے شک مخلص لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب بھی ان کے سامنے بات پیش کی جائے وہ اس پر توجہ کرتے ہیں‘ مگر عام جماعت میں بیداری پیدا کرنے اور کمزوروں کو بھی متوجہ کرنے کیلئے کسی خاص موقع کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بھی سالہا سال سے یہ انتظار تھا کہ کوئی ایسی آگ لگے جب ہماری جماعت کا ہر چھوٹا بڑا بیدار ہو جائے۔ اور اس موقع پر میں وہ تحریک پیش کروں جو جماعت کو بہ حیثیت جماعت تیرہ سَو سال پیچھے لے جائے۔ چنانچہ کچھ سال ہوئے اسی غرض کیلئے میں نے انصار اللہ کی تحریک جماعت میں جاری کی تھی مگر اس میں کچھ روکیں پیدا ہو گئیں مثلاً ایک روک تو یہی واقعہ ہو گئی کہ جب مجھ سے لوگ انصار اللہ کی ضرورت دریافت کرتے میںانہیں کہتا کہ میں اس کی ضرورت اپنے خطبات میں بیان کروں گا۔ اس کے بعد میں نے خطبات دیئے مگر چونکہ جماعت میں بیداری نہیں تھی، اس لئے ان پر غور نہ کیا گیا۔ پھر انصاراللہ کی تحریک سے بعض طبائع میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ جماعت میں ایک اور جماعت بن رہی ہے چنانچہ میرے پاس اس قسم کی شکایتیں پہنچنے لگیں۔ اس کی وجہ سے میرے دل میں انقباض پیدا ہو گیا کہ ایسا نہ ہو یہ تحریک بعض کیلئے ٹھوکر کا موجب بن جائے۔ اور چونکہ کسی کی ٹھوکر کے مقابلہ میں وہ فوائد جو اس تحریک سے حاصل ہو سکتے تھے زیادہ اہم نہیں تھے‘ اس لئے میرا جوش بھی کم ہو گیا۔ پھر میں اس انتظار میں رہا کہ کوئی ایسا موقع آئے جب ساری جماعت ہی انصار اللہ بن جائے اور یہ شکایت نہ رہے کہ جماعت میں ایک اور جماعت بن رہی ہے۔ چنانچہ فتنہ احرار سے فائدہ اُٹھا کر میں نے جماعت کے سامنے تحریک جدید پیش کر دی۔ اور میں سمجھتا ہوں تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہو سکتا۔ اور خداتعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیںان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی۔ اور یقینا میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی‘ وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا۔ اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی اس وقت جماعت کے دل ایسے تھے جیسے چلتے گھوڑے کو جب روکا جائے تو اُس کے دل کی کیفیت ہوتی ہے۔ ہماری جماعت بھی اس خیال کے ماتحت نہایت آرام اور اطمینان کے ساتھ چلی جا رہی تھی کہ وہ ایک منظم اور پُرامن گورنمنٹ کے ماتحت رہتی ہے اور ا س کیلئے وہ تکالیف اور مصائب نہیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کو پہنچیں۔ اس خیال کی وجہ سے اس کی طبیعت میں ایک غلط اطمینان تھا اور وہ اپنے آپ کو بعض قسم کی قربانیوں سے آزاد سمجھتی تھی۔ ایسے حالات میں گورنمنٹ کی ایک غلطی اور احرار کی شورش نے ایسا موقع پیدا کر دیا کہ جماعت نے یہ سمجھ لیا کہ جس چیز کو وہ امن سمجھ رہی تھی وہ امن نہیں اور اسے بھی ان قربانیوں کی ضرورت ہے جو انبیائے سابقین کی جماعتوں نے کیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آسمان سے وہ موقع پیدا کیا جس کا میں ایک عرصہ سے منتظر تھا اور میں نے تحریک جدید پیش کر دی۔ اگر جماعت اس تحریک کو سمجھ لے اور اس پر عمل کرے تو جہاں اس کی ترقیات میں حیرت انگیز زیادتی ہو جائے‘ وہاں جو یہ اعتراض بالعموم کیا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو پہلے انبیاء کی جماعتوں جیسا کام نہیں کرنا پڑا دور ہو جاتا ہے۔ اور آج میں اسی وجہ سے اختصار کے ساتھ بعض وہ بنیادی اصول بیان کرنا چاہتا ہوں جو اس تحریک کے اندر کام کر رہے ہیں۔
اوّل اس تحریک کے ماتحت یہ اصل میرے مدنظر تھا کہ جماعت میں طوعی قربانی کا مادہ پیدا ہو۔ قربانیاں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں۔ایک جبری جن میں ہر فرد بشر کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ خاص قسم کی قربانی کرے۔ دوسری طوعی جنہیں لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ان قربانیوں میں حصہ لیں اور اگر نہ چاہیں تو نہ لیں۔ پھر طوعی قربانیاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں‘ ایک انفرادی اور ایک جماعتی۔ انفرادی قربانیاں گو افراد کے اندر جوش پیدا کر دیتی ہیں مگر بحیثیت مجموعی جماعت میں انفرادی طوعی قربانیوں سے جوش پیدا نہیں ہوتا۔ انفرادی طوعی قربانیوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے تہجد، کہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ اگر چاہے تو رات کو اُٹھ کر عبادت کر سکتا ہے۔ یہ نفلی قربانی ہے اور انفرادی ہے۔ مگر چونکہ نفلی قربانیوں میں انسان کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اس لئے ان قربانیوں میں جبری قربانیوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی وحی سے بتایا ہے کہ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایسا وقت آ جاتا ہے کہ اگر وہ ایک قدم میری طرف چلتا ہے تو میں دو قدم چل کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ اور اگر وہ چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچتا ہوں۔ پھر ہوتے ہوتے اِس قدر اُسے میرا قُرب حاصل ہو جاتا ہے کہ میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ کام کرتا ہے، اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۱؎ گویا بندہ خدا ہی بن جاتا ہے۔ تو نفلی قربانیاں ہی ہیں جو انسان کو خداتعالیٰ کے قریب کرتی ہیں۔ یہ قربانیاں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایک انفرادی ہوتی ہیں اور ایک جماعتی۔ انفرادی کی تو ایسی ہی مثال ہے جیسے تہجد کہ کوئی اُٹھتا ہے اور کوئی نہیں اُٹھتا۔ اور جماعتی طوعی قربانیوں کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رمضان میں تراویح۔ ہر شخص جانتا ہے کہ تراویح کیلئے کتنا جوش ہوتا ہے بلکہ اِس قدر پابندی سے لوگ تراویح پڑھتے ہیں کہ وہ تہجد کیلئے نہیں اُٹھتے مگر تراویح پڑھنے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ بلکہ تہجد پڑھ کر ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی نے مٹھائی بانٹنی شروع کر دی ہو مگر تراویح کے ختم ہونے پر میں دیکھتا ہوں لوگ مٹھائیاں تک بانٹتے ہیں۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے نماز پڑھنے والے کو نمازی کوئی نہیں کہتا لیکن اگر کوئی ایک دفعہ حج کر آئے تو اسے حاجی کہنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح جو روزہ رکھتا اور ایک مہینہ مسجد میں تراویح پڑھتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس بات کا مستحق سمجھنے لگ جاتا ہے کہ اتنا بڑا کام جب اس نے کیا ہے تو اب اس کا منہ میٹھا کرنا چاہئے۔ غرض جو نفلی قربانیاں ہوں مگر ساتھ ہی جماعتی رنگ رکھتی ہوں وہ جماعت میں عظیم الشان بیداری پیدا کر دیا کرتی ہیں۔
پس میں نے تحریک جدید میں پہلا اصل یہ مدنظر رکھا کہ طوعی اور نفلی قربانی جماعت کے سامنے رکھی جائے مگر وہ انفرادی نہ ہو بلکہ جماعتی ہو اور ایسے رنگ میں تحریک ہو کہ ہر فرد اگر چاہے تو اس میں شامل ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے کَسل کو دور کرنے کیلئے جیسے فوجی مشق ہوتی ہے‘ بعض تاریخیں مقرر کر دیں کہ اگر فلاں تاریخ تک وعدہ لکھا دو گے تو ہم تم سے چندہ لیں گے اور اگر اس کے بعد وعدہ لکھاؤ گے تو ہم اسے منظور نہیں کریں گے۔ اگر میں ایک تاریخ مقرر نہ کرتا تو کوئی کہتا میں جنوری میں لکھاؤں گا‘ کوئی کہتا میں فروری میں لکھاؤں گا اور کوئی کہتا میں مارچ یا اپریل میں لکھاؤں گا اور اگر ایسا ہوتا تو جماعتی رنگ قائم نہ رہتا۔ جماعتی رنگ قربانی میں اُسی وقت پیدا ہو سکتا تھا جب تاریخوں کی تعیین کر دی جاتی اور کہدیا جاتا کہ اِتنے دنوں کے اندر اندر وہ قربانی کا وعدہ پیش کر سکتے ہیں‘ اس کے بعد نہیں۔ ا س کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے جماعت میں جلسہ کے ایام کے قریب آ کر خاص جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ بے تابی کے ساتھ اس میں شامل ہونے کیلئے دوڑتی ہے اسی طرح جب چندہ کی خاص تاریخیں مقرر کر دی جائیں تو جماعت کے لوگوں میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اس میں شامل ہونے کی سعی کرتے ہیں۔ پس یہ قربانی جماعتی بھی ہے اور طوعی بھی۔مَیں نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کسی کو چندہ کیلئے مجبور کیا جائے۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر شخص تک تحریک جدید کی آواز پہنچا دو اور اس کے بعد اسے شمولیت کیلئے مجبور نہ کرو۔ اگر وہ شامل ہوتا ہے تو شامل کر لو اور اگر نہیں ہوتا تو اسے شرمندہ نہ کرو۔
میں نے اس چندہ میں کم سے کم پانچ روپیہ دینے کی شرط رکھی ہے۔ جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا ایک حصہ کو جماعتی قربانی سے نکال دیا گیا ہے۔ مگر اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس چندہ کا اثر جماعت کے فرضی چندوں پر پڑے۔ اگر ہر شخص کو اس چندہ کیلئے مجبور کیا جاتا اور ہر رقم قبول کر لی جاتی تو یہ چندہ تمام جماعت پر فرض ہو جاتا۔ مگر اب کم سے کم پانچ روپیہ چندہ دینے کی شرط رکھ کر میں نے اس کے دائرہ کو محدود کر دیا ہے۔ اگر کسی شخص کے ذرائع وسیع ہیں اور وہ علاوہ دوسرے چندوں کے اس میں بھی حصہ لے سکتا ہے تو وہ اس میں شامل ہو گا۔ ورنہ طبقۂ غرباء میں سے کئی ایسے ہیں جو اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پس یہ شرط عائد کر کے میں نے جماعتی قربانی سے بعض لوگوں کو نکالا نہیں بلکہ ایک طبقہ کو بچا لیا ہے کہ اس پر یہ بوجھ نہ پڑے تاکہ وہ فرضی قربانیوں سے بالکل ہی نہ رہ جائے۔ اور گو وہ غرباء کا طبقہ ہے مگر جماعت میں اسی طبقہ کی اکثریت ہے۔ چنانچہ ہماری جماعت گوخداتعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے مگر سات ہزار ایسے اشخاص تھے جنہوں نے چندہ تحریک جدید میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ نوے ہزار یا ایک لاکھ کی اور جماعت جو چندہ دینے والی ہے اس سے باہر رہی۔ پس چونکہ جماعت کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جس پر اس چندے کا بار نہیں پڑا‘ اس لئے عقلاً صدرانجمن کے کاموں پر اس کا اثر نہیں ہونا چاہئے۔تو تحریک جدید میں ایک اصل میں نے یہ مدنظر رکھا ہے کہ طوعی قربانی کی روح مَیں جماعت میں تازہ کروں۔ وہ لوگ جو صرف فرض نماز اد ا کرتے ہیں اور نفلوں میں حصہ نہیں لیتے عموماً نماز میں انہیں جوش پیدا نہیں ہوتا اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو انہیں رقّت طاری نہیں ہوتی۔ لیکن جو نفلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں انہیں نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور خاص جوش پیدا ہو جاتا ہے اسی لئے ائمہ دین ہمیشہ یہی ہدایت کیا کرتے ہیں کہ نوافل پڑھنے کبھی چھوڑنے نہیں چاہئیں۔ اور وہ کہا کرتے ہیں کہ نوافل کو اللہ تعالیٰ نے مقرر ہی اس لئے کیا ہے کہ اگر فرائض میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو نوافل اُسے پورا کر دیں۔ پس تحریک جدید سے ایک اصل میرے یہ مدنظر ہے کہ جماعت میں طوعی قربانی کی روح تازہ رہے۔
دوسرا اصل اس تحریک سے میرے یہ مدنظر ہے کہ میں غربت اور امارت کا امتیاز مٹانا چاہتا ہوں۔ مذہبی جماعتوں میں کبھی بھی غربت اور امارت کا امتیاز نہیں ہوا اور اگر ہو تو وہ مذہبی جماعت نہیں کہلا سکتی۔ جب خداتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ۲؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور تم میں سے وہی معزز ہے جو زیادہ متقی ہو۔ تو اب بتاؤ کیا کوئی مومن خیال کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور تو اور کوئی معزز ہے مگر میرے نزدیک اور۔ جو خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز ہو گا درحقیقت ہمارے نزدیک بھی وہی معزز ہونا چاہئے۔ اور جب خدا تعالیٰ کے نزدیک اَتْقٰی معزز ہے اور وہ ایک غریب بھی ہو سکتا ہے تو یقینا ہماری رَوِش اور ہمارے طریق میں غریب ہی معزز ہونا چاہئے۔ اور اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم کسی اور کو عزت دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کسی اور کو معزز کہتا ہے۔ یہ نقص تبھی دور ہو سکتا ہے جب امارت اور غربت کے ظاہری امتیاز کو ہم مٹا دیں۔ اس امتیاز کے قائم رہنے سے دوسرا نقص یہ واقعہ ہوتا ہے کہ غریب اور امیر میں ایسی وسیع خلیج حائل ہو جاتی ہے کہ وہ دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے۔ جیسے دو بیل ہوں اور دونوں کا الگ الگ رنگ ہو لیکن اگر ایک جوئے کے نیچے ان کی گردنیں رکھ دی جائیں تو وہ خوب کام کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک بھینسے کے دو بچے اگر مِیل مِیل کے فاصلہ پر کھڑے ہوں تو وہ کام نہیں کر سکتے۔ تو غربت اور امارت کے امتیاز کو جب تک ہم مٹا نہ دیں اُس وقت تک جماعت متحدہ طور پر کام نہیں کر سکتی۔ مثلاً ایک کھانا کھانے اور سادہ لباس پہننے میں یہ بھی حکمت ہے گو اَور بھی اس میں حکمتیں ہیں مگر ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس طرح امارت اور غربت کا امتیاز جاتا رہتا ہے۔ اگر ہم لباس بہت اعلیٰ قسم کا پہنیں اور اپنی شان کو خاص طور پر لوگوں پر ظاہر کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک غریب ہماری دعوت کرنے سے گھبرائے گا وہ کہے گا میں اگر فلاں امیر کی دعوت کروں تو میرے گھر میں تو بوریا بھی نہیں وہ بیٹھے گا کہاں۔ اس کے تو کپڑے میلے ہو جائیں گے۔ یا اگر دعوت کروں تو کس طرح کروں۔ یہ تو گھر میں روزچار چار کھانے کھاتا ہے۔ اگر میں صرف اس کیلئے پلاؤ بھی پکا دوں تو اس کے چاول تو اس کے گلے میں پھنسیں گے۔ پس وہ دعوت کرنے سے ہچکچاتا ہے اور اس طرح امراء و غرباء میں ایک امتیاز قائم رہتا ہے۔ لیکن اگر معلوم ہو کہ امیر آدمی بھی گھر میں ایک ہی کھانا کھانے کا عادی ہے تو غریب سمجھتا ہے ایک کھانے کا کیا ہے وہ تو میں بھی تیار کر لوں گا اور اس طرح وہ زیادہ دلیری سے ایک امیر کی دعوت کر لے گا۔ پھر اگر یہ پابندی نہ ہوتی تو بعض لوگ خود تقاضاکر کے دعوتوں میں چیزیں پکواتے۔ اور اس کا مجھے اس لئے خیال ہے کہ میں نے کئی احمدیوں کے منہ سے بھی سنا ہے‘ جب ان کی کوئی دعوت کرے تو وہ کہہ دیتے ہیں‘ کیا کیا کِھلاؤ گے؟ایک دعوت میں مَیں ایک دفعہ شامل ہوا، ایک مدعو صاحب میرے ساتھ تھے، جب دعوت کھانے بیٹھے تو بے اختیار کہنے لگے پلاؤ کے بغیر دعوت عجیب لگتی ہے۔ میزبان سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے سمجھا یہ الفاظ سن کر وہ اپنے میں کٹ ہی گیا ہو گا۔ لیکن اگر اُس وقت میری طرف سے تحریک جدید جاری ہوتی تو وہ اس قسم کے الفاظ ہرگز اپنے منہ سے نہ نکالتے لیکن اس تحریک کے جاری ہونے پر اب قدرتی طور پر لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ امیر غریب ہو گئے اور غریب امیر ہو گئے۔
ظاہری لباس میں خاص شان نہ رہنے کا بھی بہت بڑا فائدہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہماری جماعت کی کئی امیر عورتیں اس بات کو بہت تکلیف دہ سمجھتیں کہ وہ باقی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر جلسہ سنیں اور وہ شکایت کرتیں کہ ہم باقی عورتوں کے پاس کس طرح بیٹھ سکتی ہیں اور بے اعتنائی کے ساتھ تقریریں سنتیں۔ مگر چونکہ اب پہلی سی شان نہیں رہی اس لئے وہ غریب عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر تقریریں سن سکتی ہیں۔ تو اپنے ذہن بھی ٹھیک ہوئے اور غربت و امارت کا امتیاز بھی جاتا رہا۔ پہلے امیر سمجھتے کہ ہم بڑے ہیں اور غریب سمجھتے کہ ہم چھوٹے ہیں اور اس طرح درمیان میں ایک خلیج حائل رہتی۔ مگر اب بجائے بُعد اور جُدائی کے آپس میں محبت ہے۔ غریب امیر کے بُلانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا اور امیر غریب پر تکبّر نہیں کرتا‘ کیونکہ سب کے کھانوں کا معیار ایک ہے۔دال گوشت کا فرق رہے گا مگر جو چَٹ پٹی چیزیں اور زیادہ چیزیں تیار کرنے کا فرق تھا وہ اُڑ گیا۔ اور اب ایک غریب اپنی جماعت کے امیر دوستوں کی بخوشی دعوت کر سکتا ہے۔ مگر جب یہ امید کی جائے کہ پلاؤ بھی ہو‘ زردہ بھی ہو‘ کوفتہ بھی ہو‘ سبزی بھی ہو‘ مرغ بھی پکا ہوا ہو‘ کباب بھی ہوں۔ تو ایسی دعوت کو ایک غریب دُور سے ہی سلام کرتا ہے اور کہتا ہے میں اس سے باز آیا۔غرض اس تحریک کا ایک پہلو یہ تھا کہ میں غربت اور امارت کا امتیاز جماعت سے مٹاؤں اور جماعت کو مل کر کام کرنے کی عادت ڈالوں۔ اور میں سمجھتا ہوں جس دن یہ امتیاز مِٹا‘ اُس دن حقیقی رنگ میں جماعت متحد ہو گی۔ بے شک ایک حد تک اسلام نے اس امتیاز کو قائم رکھا ہے۔ مگر اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ امیر اپنی الگ گدی بنا لیں اور غریبوں سے حقارت کے ساتھ پیش آئیں۔ یہ نہایت خطرناک چیز ہے اور اس سے ایمان تک انسان کے دل سے نکل سکتا ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ایک امیر کو اگر اعلیٰ عہدہ ملتا ہے تو وہ نہ لے تجارت میں اسے منافع ہو اس کے لینے سے انکار کر دے۔ اچھے مکانات ہوں تو انہیں بیچ دے۔ جس طرح وہ یہ نہیں کہتا کہ تم پلاؤ کھانے لگو تو اس میں مٹی ڈال لو۔ مگر وہ اس بات کا حکم دیتا ہے کہ جسے روپیہ ملے‘ وہ اسے جائز کاموں میں خرچ کرے۔ اپنے نفس پر خرچ کرے خاندان کی عزت و حُرمت کیلئے خرچ کرے۔ قوم کیلئے خرچ کرے‘ ملک کیلئے خرچ کرے‘ اسلام اور احمدیت کیلئے خرچ کرے، مگر کسی صورت میں غربت وامارت میں امتیاز قائم نہ ہونے دے۔
تیسرا اصل اس تحریک میں مَیں نے یہ مدنظر رکھا ہے کہ جہاں تک ہو سکے مغربیت کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مغربی اثر اِس وقت دنیا پر غالب آیا ہوا ہے اور میری رائے میں اسلام کو اتنا نقصان عیسائیت سے نہیں پہنچا جتنا مغربیت سے پہنچ رہا ہے۔ لیکن مغربیت مذہب سے علیحدہ چیز ہے اور میرا ارادہ ہے کہ کسی خطبہ میں بتاؤں کہ مغربیت کیا چیز ہوتی ہے۔ اس وقت مَیں ایک موٹی مثال دے دیتا ہوں جس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مغربیت اور اسلام میں کیا فرق ہے۔ اسلام کی طرف دیکھو‘ وہ ایک غریب شخص سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے اے شخص! تو سوال نہ کر۔ دوسری طرف وہ امیر سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے کہتا ہے اے امیر! تو بغیر مانگے کے اس غریب کو دے۔ اسی طرح اسلام کہتا ہے اے مزدور! تو باغیانہ رنگ اختیار مت کر اور دوسری طرف وہ سرمایہ دار سے کہتا ہے اے سرمایہ دار! تو اس کا حق ادا کر۔ اسے کافی مزدوری دے۔ گویا اسلام غریب کے فرائض غریب کو مخاطب کر کے سناتا اور امیر کے فرائض امیر کو مخاطب کر کے سناتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مغربیت یہ ہے کہ مزدوروں کا ایک ایجنٹ اُٹھتا اور انہیں یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ امیر تم پر ظلم کر رہے ہیں۔ وہ تمہارے حقوق کو چھینتے اور تمہیں ترقی کرنے سے باز رکھتے ہیں‘ ان کے خلاف بغاوت کرو۔ اسی طرح ایک امیروں کا ایجنٹ اُٹھتا اور یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ تم اس قدر دولت جمع کرو کہ سب لوگ تمہارے دستِ نگر ہوں۔ یہ ایک موٹی مثال ہے جس سے مغربیت اور اسلام کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسلام دونوں طرف قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ اور مغربیت دونوں طرف لُوٹ اور بغاوت کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ مغربیت غریب سے کہتی ہے کہ امیر سے چِھین‘ اور امیر سے کہتی ہے کہ غریب سے چھین۔ اور اسلام دونوں طرف اخلاق سے کام لینے کی تاکید کرتا اور غریب کو کہتا ہے کہ سوال نہ کر اور امیر کو کہتا ہے کہ غریب کو دے۔ گویا اسلام قربانی سکھاتا ہے مگر مغربیت ایک جہنم کا نمونہ ہے جس میں ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کے سِوا اور کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اگر دنیا مغربیت کے پیچھے جائے تو اس کا سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ لڑائی اور فساد بڑھے۔ لیکن اسلام اس قسم کی تعلیم دیتا ہے جو امن کو بڑھاتی اور محبت و اخوت قائم کرتی ہے۔ پس مغربیت کے نقطۂ نگاہ اور ہمارے نقطۂ نگاہ میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اخلاق پر تعلقات کی بنیاد ہو۔ جب ہم ایک مزدور سے کہتے ہیں کہ تُو اپنے حق پر اصرار نہ کر، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ ہم اس کا حق تلف کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی ہم امیر سے اس کا حق اسے دلواتے اور اسے تاکید کرتے ہیں کہ وہ بغیر مانگے کے غریب کو دے۔ پس اسلام کسی کا حق تلف نہیں کراتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ہر چیز کی بنیاد اخلاق پر رکھتا ہے مگر مغربیت لُوٹ اور مار پر بنیاد رکھتی ہے۔ اسلام دونوں طرف سے قربانی اور ایثار پیدا کرتا ہے اور مغربیت دونوں طرف بغاوت اور ظلم کا مادہ پیدا کرتی ہے۔ غرض مغربیت کے متعلق بہت سے اصول ہیں جنہیں اِنْشَائَ اللّٰہُ کسی اور وقت میں بیان کروں گا تاکہ لوگ سمجھ جائیں کہ مغربیت اور اسلام میں کتنا بڑا فرق ہے۔ سرِدست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے ماتحت مَیں نے مغربیت کے ازالہ کی کوشش بھی کی ہے۔ چنانچہ میں نے کہا آؤ اپنی زندگیاں خدمتِ دین کیلئے وقف کرو۔ اور وقف بھی اس طرح کہ خود کماؤ مگر خدمت دین کی کرو۔ یا اسی قسم کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جیسے لباس میں سادگی‘ مکانات کی آرائش و زیبائش پر فضول اخراجات نہ کرنا‘ کفایت کو ہر کام میں ملحوظ رکھنا‘ عورتوں کا گوٹہ کناری کوترک کرنا۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو مغربیت کے ازالہ کیلئے میں نے تجویز کی ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں جس دن ہم مغربیت کو کُچل دیں گے‘ اُس دن اسلام کی دوبارہ زندگی کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔ کیونکہ مذہب ہمارے راستہ میں روک نہیں بلکہ ہمارے راستہ میں سب سے بڑی روک مغربیت ہے۔
چوتھا مقصد جو تحریکِ جدید سے میرے مدنظر تھا وہ یہ ہے کہ میں آئندہ فِتن کیلئے جماعت کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے بہت غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خالی اخلاص اس وقت تک کام نہیں آتا جب تک کسی کام کے کرنے کی مشق انسان کو نہ ہو۔ جو ماں کو اپنے بچہ سے اخلاص ہوتا ہے کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کسی ڈاکٹر کو ہو سکتا ہے۔ ان دونوں کے اخلاص میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مگر بچہ کا علاج ماں نہیں کر سکتی بلکہ ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ سِل مشہور مرض ہے، زمیندار عام طور پر اسے ’’کھنگ تاپ ‘‘کہتے ہیں، یہ سِل کا مرض ایسا ہے کہ ہزاروں ڈاکٹروں میں سے کوئی ایک ڈاکٹر اس مرض کے علاج میں مہارت رکھتا ہے لیکن بعض زمینداروں سے جب ذکر ہو تو وہ کہہ دیں گے ہمارے پاس کھنگ تاپ کی ایسی دوا ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی۔ اور واقعہ میں بعض اَدویہ عوام میں ایسی مشہور ہیں کہ ان کا اثر حیرت انگیز ہوتا ہے۔ مثلاً سنکو ناکی چھال وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو زمیندار استعمال کیا کرتے تھے۔ مگر اب ڈاکٹروں نے کونین وغیرہ دواؤں کی صورت میں ان کی شکل تبدیل کر دی۔ حال ہی میں کوڑھ کے علاج کیلئے چالمو گرائل(CHAUL MOOGRA OIL) ایک مشہور دوا نکلی ہے جسے بنگال کے لوگ کو ہڑیوں کے علاج میں آج سے کچھ عرصہ پہلے استعمال کیا کرتے تھے۔ اب اسے ڈاکٹروں نے شکل کی تبدیلی سے کوڑھ کا اعلیٰ علاج تسلیم کر لیا ہے اور ان چیزوں سے جو فائدہ ڈاکٹروں نے اُٹھایا ہے وہ زمینداروں نے نہیں اُٹھایا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ڈاکٹر اپنے فن کا ماہر ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ فلاں دوا فلاں موقع پر استعمال ہو گی اور فلاں موقع پر نہیں یا فلاں فلاں دواؤں سے مل کر اس کی یہ تاثیر ہو جاتی ہے اور اگر الگ کھلائیں تو یہ تأثیر ہوتی ہے لیکن زمیندار ان باتوں کو نہیں جانتا۔ وہ اتنا ہی جانتا ہے کہ دوائی گھوٹی اور مریض کو پلا دی۔ چاہے وہ جئے یا مرے۔ تو مشق انسان میں بہت بڑی طاقت پیدا کر دیا کرتی ہے۔ اگر ایک انسان کے ہاتھ میں لٹھ ہو مگر وہ اسے چلانا نہ جانتا ہو، تو اس لٹھ کے رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ لٹھ چلانے کی مہارت رکھتا ہو تو ایک لٹھ سے ہی وہ کئی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہماری جماعت کے ایک دوست بِنوٹ۳؎ کے ماہر ہیں۔ وہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان پر چالیس پچاس آدمیوں نے مل کر حملہ کر دیا مگر چونکہ بِنوٹ کے ماہر تھے اس لئے انہوں نے ان کا مقابلہ کیا اور ان چالیس پچاس آدمیوں کو زخمی کر دیا۔ جب مقدمہ چلا اور معاملہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو اس نے یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ ایک آدمی نے چالیس آدمیوں کو زخمی کر دیا ہے اور مقدمہ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ تو مہارت ایک ایسی چیز ہے کہ جب یہ پیدا ہو جائے تو جس چیز کی بھی مہارت ہو، اس سے انسان پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن اگر مہارت نہ ہو اور خالی اخلاص ہو تو وقت آنے پر اخلاص دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور کسی کام نہیں آ سکتا۔ مثلاً اگر کسی کے عزیز کا سر پھٹ جائے تو اس موقع پر اگر اسے فرسٹ ایڈ نہیں آتی تو چاہے اس کے غم میں سر پھوڑنے کیلئے تیار ہو جائے مگر اپنے عزیز کے سر سے خون نہیں بند کر سکے گا۔ یا مثلاً زخم پر پٹی باندھنا ہے، بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ معمولی بات ہے حالانکہ یہ کام بھی بغیر مشق کے نہیں آ سکتا۔ میرے گُھٹنے میں ایک دفعہ درد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پٹی باندھ کر جائیں تو وہ دو دو دن تک بندھی رہے لیکن ایک دن پٹی مَیں نے خود باندھ لی۔ اُس دن باہر نماز پڑھانے کیلئے جو گیا تو میں نے دیکھا کہ پٹی میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے۔ یا مثلاً دبانا ہے، لوگ اسے معمولی کام سمجھتے ہیں حالانکہ یہ کام بھی بغیر مشق کے نہیں آ سکتا۔ اب تو پہرے والے کسی کو آگے آنے نہیں دیتے لیکن اس سے پہلے دبانے کی مشق ہمیشہ مجھ پر ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں نے دیکھا ہے آپ کئی دفعہ نماز کے بعد جلدی گھر تشریف لے جاتے۔ والدہ صاحبہ نے دریافت کرنا کہ اتنی جلدی آپ کیوں آ گئے؟ تو آپ نے فرمانا ایک ایسا دبانے والا مجھے دبانے لگ گیا تھا کہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوئی مگر چونکہ مجھے منع کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی، اس لئے آپ ہی اُٹھ کر اندر چلا آیا۔ مجھے خود بھی کئی دفعہ اسی طرح کی تکلیف ہوئی ہے۔ حالانکہ یہی دبانے کا کمال جب کسی کو حاصل ہو جائے تو لوگ بڑے شوق سے اُسے دبانے کیلئے بلاتے ہیں۔ لاہور میں ایک یوروپین ڈاکٹر تھا، اب تو وہ ولایت چلا گیا ہے، وہ محض پندرہ روپیہ فیس اس بات کی لیا کرتا تھا کہ مریضوں کو دباتا اور اِس عمدگی اور خوبی سے دباتا کہ محض دبانے سے کئی بیماریوں کا علاج کر دیتا۔ تو ہر چیز مشق سے آتی ہے، اس کے بغیر نہیں آ سکتی۔ حکومتیں چونکہ ان باتوں کو جانتی ہیں، اس لئے وہ ہمیشہ اپنے سپاہیوں کو مشق کراتی رہتی ہیں۔ لیکن جو اپنے سپاہیوں کو مشق کرانا چھوڑ دیں، ان کا سوائے اس کے کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ دشمن حملہ کر کے ان کے ملک پر قابض ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ کو خیال آیا کہ بِلا ضرورت فوجوں پر جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ملک پر کبھی دشمن نے حملہ کیا تو سارے قصابوں کو بُلا کر میدان جنگ میں بھیج دیا جائے گا کہ جاؤ دشمن کا مقابلہ کرو۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور فوجیوں کو ملازمت سے برطرف کر کے گھر بھیج دیا۔ جب دشمنوں کو پتہ لگا کہ بادشاہ نے ایسا عقلمندی کا حکم دیا ہے تو جھٹ انہوں نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ فوراً قصابوں کو جمع کر کے میدانِ جنگ میں بھیج دیا جائے۔ جب قصاب میدانِ جنگ میں گئے اور دشمن نے انہیں تلواروں سے ہلاک کرنا شروع کیا، تو وہ یک دم بھاگ کر بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور کہنے لگے انصاف، انصاف، دہائی، دہائی!۔ بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا۔ حضور! وہاں کوئی انصاف نہیں ہو رہا۔ کہنے لگا کس طرح؟ انہوں نے کہا ہم باقاعدہ دو تین آدمی مل کر ان کے ایک آدمی کو پکڑتے اور اُسے لٹاتے ہیں، پھر چُھری چلا کر اسے ذبح کرتے ہیں۔ مگر وہ اتنے میں ہمارے پچاس آدمی مار دیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے۔ تو مشق اور مسلسل مشق کے بغیر کوئی کام نہیں آ سکتا اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے مشق کی ضرورت نہیں لیکن وقت پر میں کام کر لوں گاتو وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے۔
میں نے دیکھا ہے جماعت میں بہت بڑا اخلاص ہے مگر جب ہجوم میں مَیں ہوتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ دوست مجھے رَوند کر چلے جائیں گے۔ اس کے مقابلہ میں یورپ میں دیکھ لو، وہاں اس طرح قطار باندھ کر لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ہلتا نہیں۔ اور اگر کوئی راستہ کاٹ کر آگے بڑھے تو اس کے متعلق سب لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بہت بڑا بداخلاق ہے۔ پس اخلاق تمہارے اعلیٰ ہیں لیکن چونکہ انہوں نے مسلسل مشق کے بعد ایک اچھی عادت اختیار کر لی ہے، اس لئے جب کوئی آپ لوگوں کے اجتماع کو دیکھے اور پھر یورپین لوگوں کے اجتماع کو دیکھے تو وہ یہی کہے گا کہ مخلص یورپ کے رہنے والے ہیں۔ حالانکہ ان کے اندر اس اخلاص کا ہزارواں حصہ بھی نہیں جو تمہارے اندر پایا جاتا ہے۔ پس تحریکِ جدید سے ایک غرض میری یہ ہے کہ میں جماعت کو آئندہ فِتن کیلئے تیار کرنا چاہتا ہوں۔ اور اسے ایسی مشق کرانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی مشکلات آئندہ زمانہ میں اسے پیش آئیں تو وہ دلیری سے اس کا مقابلہ کر سکے۔ میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے ایک دوست ہیں۔ وہ سلسلہ کیلئے اتنی بڑی قربانی کرتے ہیں کہ اپنی آمد کا۴/ ۳حصہ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ اور ۴/ ۱ یا اس سے بھی کم حصہ وہ اپنے اخراجات کیلئے رکھتے ہیں۔ یہ بہت ہی مخلص ہیں اور ان میں خدمتِ دین کا بے انتہاء جوش ہے۔ انہوں نے تحریکِ جدید کے ماتحت اپنے بیٹے کو قادیان بھیجا اور بعد میں مجھے لکھا کہ گوہم سب خداتعالیٰ کیلئے قربانی کرتے ہیں مگر میرا بیٹا سب سے زیادہ قربانی کرتا ہے کہ وہ تحریکِ جدید کے بورڈنگ میں ہے اور اسے کھانا حسبِ عادت نہیں ملتا۔ اب چونکہ ان کے بچہ کو دال کھانے کی عادت نہ تھی، اس لئے یہ بات تو انہیں بہت بڑی قربانی نظر آئی لیکن اپنی آمد کا ۴/ ۳ حصہ دے دینا کوئی بڑی بات معلوم نہ ہوئی۔ صرف یہ سمجھا کہ میرا بچہ جو دال کھاتا ہے، یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ تو کسی چیز کی عادت یا مشق نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو بہت سی مشکلات پیش آیا کرتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل میں جس قدر اخلاص تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن انہیں تیز چلنے کی عادت نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو حضرت خلیفہ اوّل بھی ساتھ ہوتے مگر تھوڑی دور چل کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیز قدم کر لینے تو حضرت خلیفہ اوّل نے قصبہ کے مشرقی طرف قصبہ کے باہر ایک بَڑْ کا درخت ہے اس کے نیچے بیٹھ جانا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیر سے واپس آنا تو پھر آپ کے ساتھ ہو لینا۔ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ حضرت مولوی صاحب سیر کیلئے نہیں جاتے۔ آپ نے فرمایا وہ تو روز جاتے ہیں۔ اس پر آپ کو بتایا گیا کہ وہ سیر کیلئے ساتھ تو چلتے ہیں لیکن پھر بڑ کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور واپسی پر پھر ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّل کو اپنے ساتھ سیر میں رکھتے اور جب آپ نے تیز ہو جانا اور حضرت خلیفہ اوّل نے بہت پیچھے رہ جانا تو آپ نے چلتے چلتے ٹھہر جانا اور فرمانا مولوی صاحب فلاں بات کس طرح ہے۔ مولوی صاحب تیز تیز چل کر آپ کے پاس پہنچتے اور ساتھ چل پڑتے۔ تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگے نکل جاتے۔ تھوڑی دُور جا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہر جاتے اور فرماتے مولوی صاحب! فلاں بات اس اس طرح ہے۔ مولوی صاحب پھر تیزی سے آپ کے پاس پہنچتے اور تیز تیز چلنے کی وجہ سے ہاپننے لگ جاتے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو اپنے ساتھ رکھتے۔ تیس چالیس گز چل کر پھر مولوی صاحب پیچھے رہ جاتے اور آپ پھر کوئی بات کہہ کر مولوی صاحب کو مخاطب فرماتے اور وہ تیزی سے آپ سے آ کر مل جاتے۔ آپ کی غرض یہ تھی کہ اس طرح مولوی صاحب کو تیز چلنے کی عادت ہو جائے۔ یہ صرف تیز چلنے کی مشق نہ ہونے کا نتیجہ تھا کہ مولوی صاحب آہستہ چلتے۔ چونکہ طب کا پیشہ ایسا ہے کہ اس میں عموماً انسان کو بیٹھا رہنا پڑتا ہے اور اگر باہر کسی مریض کو دیکھنے کیلئے جانے کا اتفاق ہو تو سواری موجود ہوتی ہے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو تیز چلنے کی مشق نہ تھی۔ ورنہ اخلاص آپ میں جس قدر تھا، اس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
؎چہ خوش بودے اگر ہریک ز اُمت نورِدیں بودے
لیکن مشق نہ ہونے کی وجہ سے، منافق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ چل سکتے تھے حضرت مولوی صاحب نہیں چل سکتے تھے تو جب تک کسی کام کی مشق نہ کی جائے کبھی وقت پر آ کر وہ کام نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے میں نے محسوس کیا کہ اگر جماعت مختلف قسم کی قربانیوں کیلئے تیار نہیں رہے گی اور قربانیوں کا اس پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا تو مشکلات آنے پر اخلاص صرف مشغلہ بن کر رہ جائے گا، سلسلہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔پس میں نے ضروری سمجھا کہ ایسی قربانیوں کی عادت ڈالی جائے جو جسمانی آرام و آسائش پر اثر رکھنے والی ہوں۔ مثلاً میں نے کہا اپنے وطن کی قربانی کرو اور غیرممالک میں اعلائِ کلمہ اسلام کیلئے نکل جاؤ۔ اس کا علاوہ تبلیغِ اسلام کے یہ بہت بڑا فائدہ ہو گا کہ اگر کسی وقت جماعت کو اپنے وطن چھوڑنے پڑے تو وہ آسانی سے اسے چھوڑنے کیلئے تیار ہو جائے گی۔ اگر یہ مشق مَیں اب نہ کراؤں تو جب جماعت پر فتن آئیں گے اُس وقت اسے سخت مشکلات پیش آئیں گی اور فوری طور پروطنوں کی قربانی کرنا اس کیلئے مشکل ہو گا۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ نوجوان اپنے گھروں سے نکلیں اور غیرملکوں میں پھیل جائیں۔ لیکن چونکہ ابھی ہمارے ملک والوں کو غیرممالک میں جانے کی عادت نہیں، اس لئے لوگ اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہم معمولی گزارہ بھی دیتے ہیں اور معمولی ابتدائی اخراجات بھی برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اتنی سہولتوں کے باوجود تعلیم یافتہ لوگ تو جانے کیلئے تیار ہو جائیں گے لیکن باقی پھر بھی مختلف قسم کے عُذرات کرنے لگ جائیں گے۔ اس کے مقابلہ میں اہلِ عرب کی یہ حالت ہے کہ تم کسی عرب کو ذرا سی امداد کا بھی یقین دلاؤ تو وہ ہندوستان، چین، جاپان ہر جگہ جانے کیلئے تیار ہو جائے گا اور کبھی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اس کے عزیزوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عرب میں ہر گاؤں بلکہ ہر گھر میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو سیروسیاحت کیلئے چین چلے گئے یا جاپان کو نکل گئے یا ہندوستان آ گئے۔ اس وجہ سے باہر نکلنے پر وہ ذرا بھی تکلیف محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح انگریزوں کو دیکھ لو، وہ بیس بیس سال اپنے ملک سے باہر رہیں گے اور کچھ بھی پروا نہیں کریں گے۔ اس کے مقابلہ میں ہماری یہ حالت ہے کہ ہم ایک مبلّغ کو تین سال کیلئے باہر بھیجتے ہیں تو اس کی بیوی کے روتے روتے آنکھوں میں ککرے پڑ جاتے ہیں۔ ماں کُبڑی ہو جاتی ہے اور گو وہ مبلّغ شرم کے مارے کچھ نہیں لکھتا مگر اس کے دوست جو اس سے ملنے والے ہوںبیان کرتے ہیں کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر وہ بھی روتا رہتا ہے۔ یہ نقص اس وجہ سے ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کو باہر نکلنے کی عادت نہیں۔ اگر عادت ہو جائے تو غیرملکوں میں جانا انہیں کچھ بھی دوبھر محسوس نہ ہو۔ اوڑ ضلع جالندھر کا ایک گاؤں ہے جس میں راول رہتے ہیں ان کے آدمی ہمیشہ تجارت کیلئے باہر رہتے ہیں اور اس وجہ سے انہیں احساس ہی نہیں کہ غیرملکوں میں جانا بھی کوئی تکلیف کا کام ہے۔ بلکہ انہیں دیکھ دیکھ کر وہاں کے کئی راجپوت مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے پاسپورٹ کا انتظام ہو جائے تو ہم بھی باہر جانا چاہتے ہیں۔ اور جب وجہ دریافت کی جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ راول غیرملکوں سے خوب کما کر لاتے ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ باہر نکلیں اور کمائیں۔پس اگر ہماری جماعت کے افراد میں اس تحریک کے نتیجہ میں باہر جانے کی عادت ہو جائے گی تو انہیں وطن کی قربانی کا کچھ بھی احساس نہیں رہے گا۔
اسی طرح مثلاً ایک کھانا کھانے یا سادہ لباس پہننے میں یہ بھی حکمت ہے کہ جب مشکلات کا وقت آئے تو نہ کھانے کی روک ہماری جماعت کی راہ میں حائل ہو اور نہ لباس کی روک تکلیف میں مبتلا کر سکے۔ بلکہ وہ خیال کریں کہ اگر ہمیں وطن چھوڑنا پڑا ہے تو ہم پہلے بھی وطن چھوڑنے کے عادی ہیں اور اگر کھانے یا لباس میں دقّتیں حائل ہیں تو ہم پہلے ہی تھوڑا کھانے اور سادہ لباس پہننے کے عادی ہیں۔ پس وہ خوشی اور دلیری سے مشکلات کا مقابلہ کریں گے اور اپنے دل میں گھبراہٹ اور تکلیف محسوس نہیں کریں گے۔
تحریک جدید سے پانچواں امر میرے یہ مدنظر ہے کہ میں چاہتا ہوں ہمارا جو تبلیغی پروگرام ہے، اسے قریب ترین زمانہ میں انتہائی بعید علاقوں میں پہنچا دیا جائے۔ میرے نزدیک جب خداتعالیٰ کا مامور دنیا میں آئے تو اس کے قریب کے زمانہ والوں کو ضرور ایسی برکات ملتی ہیں جو بعد میں آنے والوں کو نہیں ملتیں۔ اپنی جماعت کے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے، وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ خداتعالیٰ نے انہیں کتنی بڑی دولت دی۔ وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کی توفیق دی۔ اور انہیں یہ خیال نہیںآتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں یا تابعی۔ اور صحابی اور تابعی کا درجہ اتنا بلند اور عظیم الشان ہے کہ دنیا میں اس کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہزارہا قسم کی غلطیاں ہیں جو بعد میں پیدا ہو جاتی ہیں اور بیسیوں ہلاکتیں ہیں جن میں بعد میں آنے والے مبتلا ہو جاتے ہیں۔
جنگِ جرمن و فرانس میں ایک دفعہ اس بات کا تجربہ کیا گیا کہ کس طرح بات دور پہنچتے ہوئے تبدیل ہو جاتی ہے۔ تمام سپاہیوں کو ایک لائن میں کھڑا کیا گیا۔ اور ایک سپاہی کو حکم دیا گیا کہ تم یہ کہو شہزادہ ویلز آتے ہیں۔ اس نے یہ بات کہی اور باقی سپاہیوں میں سے ہر ایک نے اس فقرہ کو دُہرانا شروع کیا لیکن جب آخری سپاہی نے وہ فقرہ دُہرایا تو فقرہ کی شکل بدلتے بدلتے اب یہ رہ گئی تھی۔ ’’مجھے دو آنے دو‘‘۔
اسی طرح جو پیغام اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں لایا کرتے ہیں، زمانہ کے بُعد کی وجہ سے اس کی شکل میں بہت بڑی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اب اس قرآن کے مقابلہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا، اس قرآن کو رکھ کر جو غیراحمدی پیش کیا کرتے ہیں دیکھو کہ کیا غیراحمدیوں کے ہاتھ میں قرآن نے آ کر اسی طرح اپنی شکل تبدیل نہیں کر لی جس طرح فرانس کے میدان میں سپاہیوں میں ’’شہزادہ ویلز آتے ہیں‘‘ کا فقرہ بدلتے بدلتے یہ بن گیا تھا کہ ’’دو آنے دے دو‘‘۔ جس قرآن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے،اسے پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ خداکہتا ہے میں تمہارے گھروں میں چل کر آ گیا۔ میں نے تمہارے لئے کامیابیاں اور کامرانیاں مقدر کر دیں اور میں نے تمہیںاس لئے پیدا کیا ہے کہ تم دنیا پر غالب آؤ۔ مگر غیراحمدیوں کے پاس جو قرآن ہے، وہ مسلمانوںکو بتاتا ہے کہ تم گر گئے، دنیا کی نگاہوں میں تم ذلیل اور رُسوا ہو گئے اور جیتے جی تم جہنم میں داخل ہو گئے۔ اب بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اور کس طرح الٰہی پیغام کے مفہوم کی شکل تبدیل ہو گئی۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے جوں جوں بُعد ہوتا چلا جائے گا بہت سی باتوں میں تغیر ہوتا جائے گا۔ میں نے دیکھا ہے وہی آیتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفات مسیح کے ثبوت میں پیش کیں، اب وہی آیتیں جب بعض لوگ پیش کرتے ہیں تو دشمن اس پر بیسیوں اعتراض کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استدلال کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک دوست تھے، وہ اچھے عالم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب تھے مگر نقص یہ تھا کہ وہ قوتِ گویائی نہیں رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ان کا ایک لطیفہ کسی نے سنایا۔ وہ وفاتِ مسیح پر کسی مخالف سے بحث کرنے لگے تو کہنے لگے وفاتِ مسیح کا مسئلہ تو صاف ہے اس کے ثبوت میں تو قرآن مجید میں تیس آیتیں پائی جاتی ہیں۔ مخالف نے کہا کہ آپ ایک آیت پیش کریں انہوں نے کوئی آیت پیش کی۔ مگر استدلال کے نقص کی وجہ سے اس آیت کا وفاتِ مسیح کے ثبوت میں جو امتیازی رنگ تھا اسے چھوڑ دیا۔ مخالف نے استدلال پر اعتراض کیا تو یہ کہنے لگے اچھا اسے چھوڑو اور دوسری آیت سنو دوسری آیت پیش کی تو اس نے پھر کوئی اعتراض کر دیا۔ وہ کہنے لگے اچھا اسے بھی چھوڑو اور تیسری آیت لو۔ بتانے والے نے بتایا کہ اسی طرح ہوتے ہوتے تیسوں آیتیں ختم ہو گئیں آخر انہوں نے یہ کہہ کر بحث بند کر دی کہ تجھ کو تو باتیں بہت بنانی آتی ہیں۔ تو زمانہ کے بُعد کی وجہ سے بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم قریب ترین عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصفّٰی تعلیم دنیا کے مختلف کونوں میں پہنچا دیں تا کہ اسے بڑھنے اور پنپنے کا موقع مل جائے۔ اور اگر خدانخواستہ بعد میں کسی ایک جگہ نقص پیدا ہو جائے تو دوسرے مقامات اسے دور کر سکیں۔ ورنہ اگر ایک مرکز پر ہی ساری دنیا کا انحصار ہو، تو اس مرکز کے بگڑ جانے کی وجہ سے صحیح تعلیم دنیا سے مفقود ہو سکتی ہے۔ جس طرح اگر کسی کتاب کا ایک ہی نسخہ ہو تو اس کے بگڑنے سے بہت زیادہ خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر بہت سے نسخے ہوں تو کسی میں اگر بگاڑ بھی پیدا ہو تو اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک ہی مرکز ہو تو اس کے بگڑنے سے صحیح تعلیم کا میسر آنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور مصفّٰی تعلیم کے بہت سے مراکز دنیا کے مختلف گوشوں میں قائم کردیئے جائیں تا جہاں خرابی پیدا ہو جائے، اس جگہ کی دوسرے مرکز اصلاح کر سکیں، تو صحیح تعلیم دنیا کو ہر وقت میسر آ سکے گی۔ جیسے آج قرآنِ مجید پر گو کفّار اور کئی اعتراض کرتے ہیں لیکن وہ اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ کے زمانہ میں ہی قرآن مجید کی تعلیم یورپ اور دنیا کے دوسر ے کونوں میں پہنچ گئی تھی۔ اور اس وجہ سے باوجود قرآن مجید کے معانی پر اعتراض کرنے کے وہ اس کی لفظی صحت اور درستی سے انکار نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی اصلی شکل میں پہنچا دیں۔
بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم وہی ہے جو آپ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ مگر کئی باتیں ایسی ہیں جو جماعت احمدیہ کے تعامل سے معلوم ہوتی ہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنت کے متعلق بتایا کہ یہ اُن عملی کارروائیوں کو کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے احکام کی تشریح کیلئے کیں۔ اسی طرح کتابوں کے علاوہ جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مکمل تعلیم موجود ہے کئی باتیں ایسی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے عمل سے معلوم ہوتی ہیں۔ اور اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں ہی مختلف ممالک میں احمدیت کی تعلیم کے مرکز قائم ہو جائیں۔پس قریب سے قریب زمانہ میں دُور سے دُور علاقوں میں مراکزِ احمدیت قائم کرنا تحریکِ جدید کا ایک مقصد ہے۔
چھٹا امر
میرے مدِّنظر یہ ہے کہ افرادِ جماعت کو ایک نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ نظام کی پابندی کی عادت ایک حد تک ہماری جماعت کے
اندر پائی جاتی ہے۔ مگر ابھی اس میں وسعت کی ضرورت ہے اور ابھی یہ عادت بعض حدود میں مقیّد ہے۔ مثلاً ہماری جماعت میں چندہ کا نظام تو ایسا ہے کہ دنیا اس پر حیران ہے۔ جس احمدی کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے معلوم ہو گا کہ وہ آنہ یا پیسہ فی روپیہ ضرور چندہ دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری جماعت میں چندہ دینے میں کمزور لوگ نہیں ہیں مگر مخلصین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دشمن بھی اس پر حیران ہے لیکن باقی شعبوں میں ابھی اس پابندی کی ضرورت ہے۔ اور اس تحریک کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ افرادِ جماعت کو ایک نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ چندوں کے لحاظ سے تو ہماری جماعت کو مشق ہے۔ گو اس میں بھی ابھی اور مشق کی ضرورت ہے لیکن باقی کاموں میں جو جسمانی اور عقلی ہوتے ہیں جماعت سے کوتاہی ہو جاتی ہے اور جب مطالبہ کیا جاتا ہے تو جماعت کے افراد اس میں رہ جاتے ہیں۔ مثلاً میں نے چندہ کے طور پر ساڑھے ستائیں ہزار روپیہ کی تحریک کی تو ایک لاکھ سات ہزار آٹھ سَو اڑتالیس روپیہ کا جماعت نے وعدہ کیااور ۹۵ہزار سے کچھ زیادہ وصول بھی ہو گیا۔ لیکن جب میں نے افراد سے مطالبہ کیا کہ دس ہزار احمدی اپنے آپ کو اس غرض کیلئے پیش کریں کہ انہیں تبلیغ کیلئے باہر بھیجا جا سکے تو بجائے دس ہزار کے صرف چار یا پانچ سَو ایسے آدمی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اب چندہ ساڑھے ستائیس ہزار مانگا گیا تو جماعت نے ایک لاکھ سے زیادہ کا وعدہ اور ۹۵ہزار نقد جمع کر دیا۔ گو یہ بھی الٰہی تصر ف کے ماتحت تھا کیونکہ ضرورت ساڑھے ستائیس ہزار سے بہت زیادہ روپیہ کی پڑ گئی بلکہ ابھی اپریل تک اسی روپیہ سے کام چلانا ہے۔ مگر بہرحال چندہ میں ایک نمایاں فرق تھا۔ اور جتنا مطالبہ کیا گیا اس سے چار گُنا زیادہ رقم جماعت نے جمع کر دی۔ لیکن جب تبلیغ کیلئے افراد کا مطالبہ کیا گیا تو بیس گُنا کم اس مطالبہ کو پورا کیا گیا، جو ثبوت ہے اس بات کا کہ ابھی جماعت کو پوری طرح ایک نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت نہیں۔ اس نقص کی وجہ سے جس بات کی انہیں عادت ہے وہ کام تو کر لیتے ہیں لیکن جس کام کی عادت نہیں، اس میں رہ جاتے ہیں۔ میری غرض تبلیغ کو اس رنگ میں وسیع کرنے سے یہ ہے کہ ملک میں ایک شور پڑ جائے اور ہر کوئی جاگ اُٹھے۔ پھر یہ بھی مقصد ہے کہ اس طرح جب ہماری جماعت کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ماتحت کام کرنا پڑے گا تو انہیں ماتحتی کی عادت ہو جائے گی۔ اور نظام کے ماتحت وہ نہایت سہولت کے ساتھ کام کرتے چلے جائیں گے۔ تحریک کے ماتحت جو تبلیغ ہو رہی ہے، اس میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو تنخواہ میں کم اور لیاقت میں بھی دوسروں سے کم ہوتا ہے پہلے تبلیغ کیلئے جاتا ہے اور اسے وہاں کاامیر مقرر کر دیا جاتا ہے اور جو لوگ زیادہ علم رکھنے والے یا زیادہ پوزیشن رکھنے والے ہوں، انہیں اس کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کے احباب کو جہاں نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادت پڑے گی، وہاں ناجائز بڑائی کی عادت بھی جاتی رہے گی۔ اور وہ اپنی برتری کے خیال کی وجہ سے دوسرے کو حقیر نہ سمجھا کریں گے۔ اس مقصد کے اور بھی بہت سے حصے ہیں مگر چونکہ میں اس پہلو کو لمبا نہیں کر سکتا، اس لئے اسے چھوڑتا ہوں۔
ساتواں مقصد
اس تحریک میں مَیں نے یہ مدنظر رکھا ہے کہ جماعت کے افراد کی علاوہ جماعتی رنگ میں تربیت کرنے کے فردی تربیت کی جائے۔ اور گوفردی
تربیت چندوں سے بھی ہوتی ہے مگر تحریکِ جدید میں مَیں نے ایسے بہت سے اصول رکھے ہیں جن پر عمل کرنے سے فردی تربیت ہوتی اور نفس کا کِبر ٹوٹتا ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس تحریک کے ماتحت کام کر کے بتایا کہ پہلے ہمیں خیال تھا کہ مسائل کے متعلق دلائل ہم جانتے ہیںمگر جب باہر جا کر کام کرنا پڑا تو ہمیں پتہ لگا کہ بہت کمی ہے۔ پہلے ہمیں یقین تھا کہ ہم وفات مسیح وغیرہ مسائل کے دلائل جانتے ہیں لیکن کام کرتے اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے وقت پتہ لگا کہ ہمیں وہ دلائل نہیں آتے۔ چنانچہ اس پر بعضوں نے دریافت کیا کہ سلسلہ کا لٹریچر مسائل کے بارے میں کون کونسا ہے تا اسے منگوا کر ہم اپنی معلومات بڑھائیں۔ اور انہوں نے لکھا کہ ہمیں بڑی شرمندگی ہوئی جب باہر جا کر ہم نے کام کیا اور ہمیں پتہ لگا کہ ہم احمدیت کے مسائل کے متعلق مکمل علم نہیں رکھتے۔ چنانچہ اب وہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح تحریکِ جدید کے ماتحت اس رنگ میں افراد کی تربیت ہوتی ہے کہ انہیں محنت و مشقّت سے کام کرنا پڑتا ہے۔ شہری آدمی جب کسی گاؤں میں رہتا اور اسے تبلیغ کرنی پڑتی ہے تو محنت و مشقّت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے نفس کی بہت کچھ اصلاح ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں بعض آدمیوں نے میرے پاس شکایت کی اور لکھا کہ شہریوں کو شہر میں اور دیہاتیوں کو دیہات میں تبلیغ کیلئے مقرر کرنا چاہئے۔ میں نے انہیں کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ اس طرح کام لینے سے میری غرض ہی یہ ہے کہ شہری بھی محنت و مشقّت سے کام کرنے کے عادی بنیں اور دیہات کی تکلیفیں برداشت کر کے اور کچھ عرصہ دیہاتی طرزِ رہائش اختیار کر کے ان میں اور دیہاتیوں میں جو جُدائی اور بُعد ہے وہ دُور ہو جائے، میں اس کو ہٹا کس طرح سکتا ہوں۔ پس اس تحریک کا ایک مقصد یہ ہے کہ فردی تربیت مکمل ہو جائے۔
آٹھواں مقصد
اس تحریک کا یہ ہے کہ سلسلہ کے مرکز قادیان کو مضبوط کیا جائے۔ تفصیلات کی میں ضرورت نہیں سمجھتا مگر اس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ
جماعت نے ا س معاملہ میں بہت کچھ کام کیا ہے۔ چنانچہ اب دو سَو مکان سالانہ خداتعالیٰ کے فضل سے قادیان میں بن رہا ہے اور بہت سے دوست زمینیں بھی خرید رہے ہیں۔ یہ اور بعض دوسرے ذرائع سے امید ہے آئندہ جماعت پوری طرح کام کر کے دشمن کو مرکزِ سلسلہ پر حملہ کرنے کی طرف سے بالکل ناامید کر دے گی۔ مگر اس کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ہے اور رہے گی۔
نویں غرض یہ ہے کہ علاوہ ایک مقررہ نظام کے ماتحت تبلیغ کرنے کے بعض علاقوں میں تبلیغ ایک خاص منظم صورت میں کی جائے۔
مَیں نے تبلیغ کے مسئلہ پر بڑا غور کیا ہے اور اس کے متعلق ویسے ہی علوم میرے دماغ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے موجود ہیں جس طرح کہ علوم کسی بڑے سے بڑے جرنیل کے دماغ میں لڑائی کو کامیاب بنانے کے متعلق ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اب تک جو تبلیغ کا طریق ہماری طرف سے اختیار کیا جاتا رہا ہے، وہ حقیقی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اس زمانہ کو اشاعت کا زمانہ قرار دیا تھا، وہاں ضروری تھاکہ ہمارے دماغ میں تبلیغ کے متعلق نئی سے نئی تدابیر پیدا ہوتی رہتیں اور ہم ان ایجادات سے کام لے کر تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا میں ہلچل مچا دیتے۔ مَیں نے سوچا ہے کہ اگر جنگی اصول کے مطابق تبلیغ کے اصول مقرر کئے جائیں تو ہمیں بہت زیادہ کامیابی کی توقع ہو سکتی ہے جیسے ملک میں فوجی ضروریات کے ماتحت بعض دفعہ فوج بڑھائی جاتی ہے اسی طرح تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع کر دیا جائے اور بہت زیادہ لوگوں کو یکدم تبلیغ پر لگا دیا جائے تو اس کے نتائج نہایت اعلیٰ نکل سکتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں قدرتی طور پر ایسے سامان میسر تھے اور وہ جِدوجُہد کو برابر جاری رکھتے چلے جاتے تھے مگر اب چونکہ اس قسم کے سامان نہیں اس لئے مَیں نے تبلیغ کو وسیع کرنے کیلئے کچھ حلقے تجویز کئے ہیں۔ اس کے متعلق سکیم میرے ذہن میں ہے اور مَیں یقین رکھتا ہوں اگر اس سکیم کے مطابق عمل کیا جائے تو جلد ہی ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ۴؎ کا نظارہ نظر آنے لگے۔ اس وقت تک اس سکیم کے ماتحت تین چار مرکز تبلیغ کے قائم کئے گئے ہیں مگر اس کے لئے مجھے ایسے والنٹیئروں کی ضرورت ہے جنہیں ان علاقوں میںکام پر لگایا جائے تا کہ کام کو مضبوط کیا جا سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعت میں ایسے لوگوں کی بہت کمی ہے جو رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو تبلیغ کیلئے پیش کریں جس قدر دوست اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں اگر ان میں سے نصف بھی اپنے آپ کو تبلیغ کیلئے پیش کردیں تو ان مرکزوں کے علاوہ اور کئی مقامات پر تبلیغ کے نئے مرکز قائم کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت ایسے مبلّغین کی ہے جو اپنے آپ کو پیش کریں اور ہم اُن سے کام لیں۔
دسواں مقصد
اس تحریک سے میرے یہ مدنظر ہے کہ تبلیغ کے جو مستقل شعبے ہوں ان کیلئے مستقل فنڈ قائم کر دیئے جائیں تا کہ ہنگامی کاموں پر ان کا روپیہ صرف
نہ ہو جائے۔ میں نے دیکھا ہے، بہت سا نقص ہمارے کاموں میں اس لئے واقع ہوتا ہے کہ مستقل شعبوں کیلئے مستقل فنڈ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری مثال بعض دفعہ ان سپاہیوں کی سی ہو جاتی ہے جن کے پاس بندوقیں بھی ہوں، مشین گنیں بھی ہوں، تلواریں بھی ہوں، مگر لڑائی کا اعلان ہو تو معلوم ہو کہ ان کے پاس گولہ بارود نہیں ہے۔ لڑائی تو آخر ہنگامی کام ہے جسے بہرحال کرنا پڑے گا۔ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پہلے سے اتنا گولہ بارود خرید کر رکھ لیا جائے جسے بعد میں ہر موقع پر استعمال کیا جائے۔ ا س لئے لازماً گولہ بارود وقت پر بنانا پڑے گا۔ لیکن اگر اس کیلئے کافی روپیہ موجود نہ ہو تو جنگ کس طرح کی جا سکتی ہے۔ پس اگر فوج موجود ہو،توپیں موجود ہوں، سپاہیوں کو فنونِ جنگ کی مشق بھی ہو،مگر گولہ بارود نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح اگر مستقل شعبوں کیلئے ہمارے پاس مستقل فنڈ نہ ہو گا اور تمام چندوں کا روپیہ انہی پر خرچ ہو جائے گا تو لازماً ہنگامی کاموں کے وقت جن کے بغیر تبلیغ کی سکیم مکمل نہیں ہو سکتی، نقصان پہنچے گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے مبلّغ جتنا کام کر سکتے ہیں، اس کا چوتھا حصہ بھی وہ کام نہیں کرتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فارغ رہتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا کرایہ نہیں ہوتا کہ انہیں تبلیغ کیلئے باہر بھیجا جا سکے۔ پس میں نے اس تحریک میں ایک مقصد یہ بھی مدنظر رکھا ہے، گو تحریک کی سکیم میں شامل اسے کچھ عرصہ بعد کیا ہے کہ مستقل کاموں کیلئے مستقل فنڈ قائم کئے جائیں اور ہنگامی کاموں کیلئے ہنگامی چندے کر لئے جائیں تا کہ مستقل شعبوں کا روپیہ ہنگامی کاموں پر خرچ ہو کر ہمارے ہاتھ بند نہ ہو جائیں۔
یہ دس بنیادی اصول ہیں جو اس تحریک میں مَیں نے مدنظر رکھے ہیں۔ اور گو اور بھی بہت سے اصول اس میں رکھے گئے ہیں مگر یہ دس بنیادی اصول ہیں۔ جن میں سے ایک تو بعد میں شامل کیا گیا ہے مگر باقی تو شروع تحریک سے شائع کردہ سکیم میں شامل تھے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ تحریکِ جدید کو ہم کتنی ہی ضروری چیز قرار دیں یہ لازمی بات ہے کہ اگر اس تحریک کا اثر پہلے کاموں کے خلاف پڑے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ہم ہر دلعزیز والا کام کریں تو سلسلہ کو بجائے فائدہ کے نقصان پہنچائیں گے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی آدمی تھا جو لوگوں کے ہر کام میں حصہ لیتا اور جب کوئی اسے کام کرنے کو کہتا تو وہ انکار نہ کرتا۔ لوگوں نے اس کا نام ہردلعزیز رکھ دیا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ دریا کے کنارے بیٹھ جاتا اور جب کسی نے دوسرے کنارے جانا ہوتا تو اسے کندھے پر بٹھا کر پہنچا دیتا۔ ایک دن ایک شخص آیا اور کہنے لگا میاں ہردلعزیز! مجھے دوسرے کنارے پہنچا دو اس نے اسے اُٹھا لیا اور چل پڑا لیکن ابھی دریا کے نصف میں ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے ایک اور شخص نے آواز دی۔ میاں ہردلعزیز! جلدی آنا مجھے نہایت ضروری کام ہے۔ اس نے پہلے شخص کو دریا میں ہی کھڑا کیا اور دوسرے کو لانے کیلئے چل پڑا۔ جب اسے لے کر تھوڑی دور ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے ایک تیسرے شخص نے آواز دیدی کہ میاں ہردلعزیز! خدا کیلئے ادھر آنا، مجھے بہت جلد دریا کے پار جانا ہے۔ اس نے دوسرے شخص کو بھی دریا میں کھڑا کیا اور تیسرے کو لینے کیلئے واپس آیا۔ جب اسے لے کر چل پڑا تو ابھی چوتھائی فاصلہ ہی اس نے طے کیا تھا کہ دریا میں زور کا بہاؤ آ گیا۔ وہ لوگ چونکہ تیرنا جانتے نہیں تھے۔ اس لئے پہلے نے آواز دی میاں ہردلعزیز! جلدی آنا، میں ڈوبا۔ وہ اسے چھوڑ کر پہلے کی طرف بھاگا۔ اتنے میں دوسرے نے آواز دیدی میاں ہردلعزیز! پہلے میری طرف آنا۔ وہ دوسرے کی طرف متوجہ ہوا تو تیسرے نے آواز دیدی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کسی کو بھی نہ بچا سکا اور تینوں ڈوب گئے۔
پس اگر تحریکِ جدید میں حصہ لے کر کسی نے میاں ہردلعزیز والا معاملہ کرنا ہے تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اسی لئے پچھلے سال میں نے اعلان کر دیا تھا کہ تحریکِ جدید میں وہی لوگ حصہ لیں جو اپنے مستقل چندوں میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں اور اگر ان کے ذمہ کوئی بقایا ہو تو اسے ادا کر دیں۔ اور اگر وہ نہ تو فرض چندوں میں کمی کرتے ہیں اور نہ بقائے رہنے دیتے ہیں تو پھر ان کا حق ہے کہ اس تحریک میں حصہ لیں۔ اس کے مطابق گزشتہ سال دوستوں نے ایسی اعلیٰ روح دکھائی کہ انجمن کے بہت سے بقائے وصول ہو گئے اور تحریک جدید میں بھی بہت سا روپیہ وصول ہوا۔ مگر اس سال پچھلے سال کے مقابلہ میں جماعت کے لوگوں پر اُلٹا اثر ہے۔چنانچہ صدرانجمن کے چندوں میں دسمبر کے مہینہ میں گذشتہ سال کے اس ماہ کے مقابلہ میں دس ہزار کی کمی واقع ہو گئی ہے ادھر تحریکِ جدید کے چندہ میں بھی زیادتی نہیں ہوئی۔ حالانکہ بظاہر خیال کیا جا سکتا ہے کہ اگر صدرانجمن کے چندوں میں کمی آئی ہے تو تحریکِ جدید کے چندہ میں زیادتی ہوئی ہوگی۔ مگر صدرانجمن کے چندوں کی تو یہ حالت ہے کہ اس میں دسمبر کے مہینہ میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں دس ہزار کی کمی ہے۔ اور ادھر تحریکِ جدید میں پچھلے سال اِس وقت تک بیس ہزار روپیہ جمع ہو گیا تھا مگر اس سال صرف ساڑھے پانچ ہزار روپیہ جمع ہوا ہے۔ یہ وہی ہردلعزیز والی بات ہے کہ ہر کام میں حصہ لیا مگر کسی کام کو بھی مکمل نہ کیا۔ پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو دوست اپنے دوسرے چندہ کو تحریکِ جدید کے چندہ میں منتقل کرتے ہیں وہ سلسلہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ یہ صدرانجمن کا حق ہے کہ وہ استثنائی حالات میں کسی خاص شخص کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے اسے مستقل چندہ دوسری طرف منتقل کرنے کی اجازت دیدے۔ مگر آپ لوگوں کو اختیار نہیں کہ خود بخود مستقل چندے ادھر منتقل کر دیں۔ اور جو لوگ اس قسم کا طریق اختیار کئے ہوئے ہیں وہ سلسلہ کو بجائے فائدہ کے نقصان پہنچاتے ہیں۔ پس دوستوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ تحریک جدید میں صرف انہی لوگوں کا چندہ لیا جائے گا جو اپنے بقائے ادا کریں گے اور مستقل چندہ بھی پوری طرح دیں گے۔ وہ لوگ جنہوں نے تحریکِ جدید کے دوسرے سال کا چندہ لکھوا دیا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بقائے ادا نہیں کر سکیں گے اور نہ مستقل چندہ ادا کر سکیں گے وہ اب بھی اپنا وعدہ واپس لے لیں۔ قربانی وہی کرے جو کر سکتا ہے اور اتنی کرے جتنی کر سکتا ہے۔ جو شخص قربانی کرنا نہیں چاہتا مگر اپنا نام پیش کر دیتا ہے، وہ منافقت سے کام لیتا ہے۔ اور جو شخص قربانی ہی نہیں کر سکتا مگر پھر بھی اپنا نام پیش کر دیتا ہے، وہ بیوقوفی سے کام لیتا ہے۔ بعض لوگ ان مختلف تحریکات کوسُن کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس قدر چندہ آئے کہاں سے جبکہ دینے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے دیا کرتے تھے۔ میرے سامنے تو کوئی نہیں کہتا لیکن پسِ پردہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کہہ دیا کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو سمجھانے کیلئے کہتا ہوں کہ تحریک جدید کا چندہ نفلی اور طوعی ہے۔ اور اس کا دینا ہر شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ پس جبکہ یہ چندہ طوعی ہے اور اس کا ادا کرنا ہر شخص کی مرضی پر موقوف ہے تو مرضی والا چندہ اس کے فرض چندہ کے راستہ میں روک کس طرح بن سکتا ہے۔ میں اعلان کر چکا ہوں کہ وہی شخص اس چندہ میں حصہ لے جو پہلے فرضی چندہ ادا کرے بلکہ فرضی چندوں کے بقائے بھی دے۔ پس جبکہ میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہی شخص تحریکِ جدید کے چندہ میں حصہ لے جو مستقل چندوں اور ان کے بقاؤں کو ادا کرے تو جو شخص سب چندے ادا کر کے اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کہاں سے دے بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔ جب میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہی شخص اس چندہ میں حصہ لے جو پہلے انجمن کے چندے ادا کرے اور آئندہ کے متعلق وعدہ کرے کہ میں اپنے شوق سے اس قدر رقم دینے کیلئے تیار ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس شرط کے بعد جو شخص تحریکِ جدید میں چندہ لکھواتا ہے، وہ کہتا ہے کہ مجھ میں یہ طاقت ہے کہ بقائے ادا کروں، مجھ میں یہ طاقت ہے کہ مستقل چندے دوں اور مجھ میں یہ طاقت ہے کہ ان تمام چندوں کے باوجود تحریک جدید میں اس قدر حصہ لوں۔ پس کیا عجیب بات نہیں کہ تحریکِ جدید میں حصہ لینے والا اپنے منہ سے تو اپنی حالت کے متعلق یہ خبر دیتا ہے کہ مجھ میں ان تمام چندوں کی ادائیگی کی طاقت ہے اور منافق کہتا ہے کہ وہ دے کہاں سے۔ یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسے ہماری پنجابی زبان میں کہتے ہیں ’’گھروں مَیں آیاںسنیہے تو دیویں‘‘۔ یعنی گھر سے تو میں آیا ہوں اور وہاں کی خبریں تم بتاتے ہو۔ پس اگر میری شرط کے باوجود چندہ لکھوانے والا سچا ہے تو منافق کا یہ کہنا کہ وہ کہاں سے دے بیوقوفی ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹے کے ہم ذمہ وار کس طرح ہو سکتے ہیں۔ پھر یاد رکھنا چاہئے کہ جو خرچ کرنے والا حکم تھا اسے تو میں نے نفلی رکھا ہے اور میں نے کہہ دیا کہ خواہ ایک شخص کی لاکھ روپے ماہوار آمد ہو اور وہ تحریک جدید میں حصہ نہ لینا چاہے تو بے شک حصہ نہ لے۔ لیکن جو آمد بڑھانے والا حکم تھا، اسے میں نے واجب کر دیا ہے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ سینما نہ دیکھو یہ جبری حکم ہے۔ اور اس طرح جو کچھ بچا وہ گویا جبری طور پر میں نے ان لوگوں کو دیا جو سینما دیکھا کرتے تھے۔ پس جو کچھ میں نے مانگا وہ نفلی ہے اور جو میں نے بچا کر دیا وہ واجب ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے تو وہ سوائے منافق کے اور کون ہو سکتا ہے۔
میرا دوسرا جواب یہ ہے کہ جو شخص یہ پوچھتا ہے کہ ایسا شخص چندہ دے گا کہاں سے۔ میں اسے کہتا ہوں کہ وہ ایمان سے دے گا۔ ایک بے ایمان انسان یہ دیکھا کرتا ہے کہ فلاں کی جیب میں کیا ہے؟ لیکن ایک ایماندار شخص یہ نہیں دیکھا کرتا کہ میری جیب میں کیا ہے بلکہ وہ اپنے دل کو دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ سے اسے ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے جب میں قربانی پر آمادہ ہوں گا تو میرا خدا مجھے دے گا۔ صحابہؓ کو دیکھو ان کی کیا حالت تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے چندے کا اعلان کیا۔ ایک صحابی نے اس اعلان کو سنا تو اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ اور ٹوکری اُٹھا کر کہنے لگے میں مزدوری کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے جو بھی کوئی شخص مزدوری دے میں وہ لینے کیلئے تیار ہوں۔ کسی نے کہا یہ کیوں؟ انہوں نے کہا میں نے یہ رقم چندہ میں دینی ہے۔ آخر انہوں نے مزدوری کی اور شام کو جو غلہ ملا، وہ رسول کریم ﷺ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ مجلس میں کچھ منافق بھی بیٹھے تھے۔ وہ تھوڑے سے غلہ کو دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے رومہ کے ملک کے ساتھ اس غلہ سے جنگ کی تیاری ہو گی۵؎۔ مگر رسول کریم ﷺ نے ان دانوں کو قبول فرمایا اور اپنے عمل سے فرما دیا کہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں ان دانوں کی بہت بڑی قیمت ہے۔ تو مومن اپنی جیبوںسے چندہ نہیں دیتا بلکہ دل سے دیتا ہے۔ البتہ منافق جیب سے دیتا ہے، اس لئے مومن کی نگاہیں اور طرف ہوتی ہیں اور منافق کی نگاہیں اور طرف۔
پس جو شخص تحریک جدید کا چندہ ایمان سے لکھوائے گا، وہ ایمان والی قربانی کر کے اسے پورا بھی کر دے گا۔ مثلاً کسی شخص نے تحریکِ جدید میں پانچ روپیہ چندہ لکھوایا ہے اور وہ اسے پورا کرنا چاہتا ہے تو اگر اس کے پاس اور کوئی ذریعہ نہ ہو، تو وہ یہی کہہ دے گا کہ میں دو وقت دال روٹی کھانے کی بجائے ایک وقت دال روٹی کھا کر دوسرے وقت کے کھانے کے پیسے جمع کرتا رہوں گا اور اس طرح چندہ ادا کر دوں گا۔ غریب شخص آخر کروڑ دو کروڑ روپیہ تو نہیں لکھوا سکتا۔ وہ اگر لکھوائے گا بھی تو پانچ دس یا بیس روپے۔ اور غریب آدمی اگر ایمان کے ساتھ وعدے کرے تو پانچ دس یا بیس روپے ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے توفیق مل جائے گی۔ وہ ایک وقت کے کھانے کو اُڑا دے گا۔کپڑوں میں زیادہ سادگی اور کمی اختیار کرے گا اور اس طرح روپیہ ادا کرے گا۔ پس میں نے اس قربانی کو نفلی رکھا ہے۔ پھر ایمانداروں کو بلایا ہے، ان لوگوں کو نہیں بلایا جن میں اس میں حصہ لینے کی طاقت نہیں۔ اور جن میں طاقت ہو گی، میں امید کرتا ہوں کہ وہ اسے ادا کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں گے۔
میں ایک دفعہ پھر اس موقع پر تاکید کر دیتا ہوں کہ تحریکِ جدید میں وہی شخص شامل ہو جو وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق رکھتا ہو اور جو سمجھتا ہو کہ پہاڑ ٹل جائیں تو ٹل جائیں مگر میں اپنے وعدہ سے نہیں ٹل سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے احباب کی کمی نہیں۔ اور اگر ہو بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ یہ کام آخر ہو کر رہے گا۔ اور کسی روک کی وجہ سے چاہے وہ کتنی بڑی ہو یہ کام رک نہیں سکتا۔ آپ کا الہام ہے کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَائِ ۶؎ یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔ پس مجھے روپے کی فکر نہیں، اللہ تعالیٰ خود ایسے آدمی لائے گا جن کے دلوں میں الہاماً وہ یہ تحریکِ پیدا کرے گا کہ جاؤ اور چندے دو اس لئے مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کا ایمان بڑھ جائے تو موجودہ چندوں سے چار گُنے زیادہ چندے وہ دے سکتی ہے۔ اور اگر آپ سب لوگ ایماندار بن کر ایمان کے ایک خاص مقام پر پہنچ جائیں تو موجودہ چندوں سے چار گُنے کیا، اس سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں۔
پس جہاں میں یہ تاکید کرتا ہوں کہ انجمن کے چندوں پر تحریکِ جدید کے چندہ کا کوئی اثر نہ پڑے، بلکہ اس کے بقائے بھی ادا کئے جائیں وہاں تحریکِ جدید کے چندہ کیلئے بھی کہتا ہوں۔ پچھلے دنوں صدرانجمن کے چندوں میں اس قدر کمی ہو گئی کہ جلسہ سالانہ کی تیاری کیلئے سامان تک بروقت خریدا نہ جا سکا بلکہ ایک واقعہ کا مجھے سخت دکھ ہے۔ ہمارے ایک مبلّغ کا لڑکا فوت ہو گیا۔ چونکہ تین تین ماہ تک کی کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں اس لئے لڑکے کی والدہ اس کے فوت ہونے سے تین دن پہلے پانچ روپیہ قرض لینے کیلئے میرے پاس آئی۔ مگر اتفاقاً میرے پاس بھی اُس وقت روپے نہیں تھے، وہ خالی چلی گئی۔ دوسرے دن گو اُسے روپے میں نے بھجوا دیئے مگر میرے دل پر اس کا نہایت ہی گہرا اثر ہے کہ بعض دفعہ جماعت کی غفلتیں کس قدر دردناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہیں۔
پس ایک طرف تو میں بقایوں کی ادائیگی اور مستقل چندوں میں حصہ لینے کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں اور دوسری طرف تحریکِ جدید میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ نفلی چندہ ہے اور ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے۔ پس جو دے سکتا ہے دے اور اپنے ایمان کی خاطر دے، مجھ پر اس کا کوئی احسان نہیں۔ مَیں تو وہ انسان ہوں کہ بچپن میں اپنی ذاتی ضرورت کیلئے میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کچھ نہیں مانگا۔
مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی، میں خاموش ہو جایا کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھ جاتے کہ اسے کوئی ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ ہماری والدہ صاحبہ سے کہتے کہ اس کو کوئی ضرورت معلوم ہوتی ہے، پتہ لو یہ کیا چاہتا ہے۔ پس جن سے مانگنے کا مجھے حق تھا‘ میں نے تو ان سے بھی کبھی نہیں مانگا کُجا یہ کہ آپ لوگوں سے اپنے لئے مانگوں۔ بعض مخلص احباب مجھ سے اکثر دریافت کرتے رہتے ہیں کہ آپ کیلئے ہم کیا تحفہ لائیں۔ میں خاموش رہتا ہوں اور کچھ نہیں کہتا۔ بعض بار بار پوچھتے ہیں کہ ہم فلاں چیز لانا چاہتے ہیں کیسی لائیں؟ تو بھی میں جواب نہیں دیتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں جب وہ مجھ سے پوچھیں کہ ہم کیسی چیز لائیں اور میں کہوں اس اس قسم کی چیز لائیں تو ان پر چٹی پڑ جائے گی اور خواہ مخواہ وہ چیز اُنہیں لانی پڑے گی۔ تو پوچھنے کے باوجود میں دوستوں کو نہیں بتاتا کہ وہ کیسی چیز لائیں۔
ایک دفعہ ایک دوست میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی موٹر کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوا کرے مَیں مُفت مہیا کیا کروں۔ میں نے بہت ردّ کیا لیکن وہ اپنے اصرار میں بڑھتے گئے۔ آخر ان کے اصرار سے مجبور ہو کر میں نے کہا کہ اچھا میں آپ کو چیزوں کا آرڈر بھجوا دیا کروں گا۔ آپ چاہیں تو مفت دے سکتے ہیں، چاہیں تو قیمت وصول کیا کریں۔ وہ دوست مجھے موٹر کے متعلق اشیاء مہیا کر دیتے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ ان کے شدید اصرار پر میں نے آرڈر بھجوانا منظور کیا تھا اور وہ پھر اپنی طرف سے بطور تحفہ چیزیں بھجوا دیتے ہیں لیکن میرے دل پر اب بھی اس کا بوجھ ہی رہتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ جس قیمت کو وہ روپیہ کی شکل میں نہیں لیتے دعائوں کی صورت میں ادا کر دوں۔ اس کے سِوا میری زندگی میں اور کوئی واقعہ نہیں کہ کسی کے کہنے پر بھی میں نے کوئی چیز طلب کی ہو۔
پس جو دوست اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ محض خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے حصہ لیں نہ کہ میری ذات کیلئے اور میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس تحریک میں ہندوستان کے اُردو بولنے والے علاقہ کا وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو پندرہ جنوری تک اپنا وعدہ لکھوا دے۔ اس کے بعد اگر کسی شخص نے وعدہ کیا یا روپیہ بھیجا تو اس کا وعدہ اور روپیہ ردّ کر دیا جائے گا۔ بعض جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بہت سُست ہوتے ہیں اور وہ اپنی جماعت کے افراد کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ چندہ لکھا دیا جائے گا۔ انہیں یہ مشکل نظر آتی ہے کہ اگر باقی لوگوںکی طرف سے چندہ کا وعدہ لکھا گیا تو انہیں بھی وعدہ کرنا پڑے گا اور اس طرح پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کی غفلت کی وجہ سے وقت گزر جاتا ہے اور باقی لوگ بھی ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ پس میں تمام دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے لوگوں کیلئے آخری تاریخ پندرہ جنوری ہے۔ اس کے بعد کا کوئی وعدہ ہندوستان والوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ دوستوں کو چاہئے کہ ہر ایک تک میرا وہ خطبہ پہنچا دیں جو مَیں نے تحریک جدید کے متعلق پڑھا تھا اور کسی پر اصرار نہ کریں کہ وہ ضرور وعدہ لکھوائے اور نہ یہ اصرار کریں کہ زیادہ لکھوائے۔ اگر کوئی شخص سَو روپیہ چندہ دے سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپے دیتا ہے تو اس سے زیادتی کا مطالبہ نہ کریں اور اگر کوئی وعدہ نہیں کرتا تو اس پر اصرار نہ کریں۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں تک خبر پہنچا دو کہ اس قسم کی تحریک ہوئی ہے اس کے بعد جو شخص وعدہ لکھانا چاہے اس کی طرف سے خط لکھوا کر بھجوا دیں اور جو زیادہ نہیں دے سکتا وہ کم سے کم پانچ روپیہ دے اور جو پانچ روپے بھی نہیں دے سکتے، ان سے میری یہ خواہش ہے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تحریک کو بابرکت کرے اور اس کے مفید اور خوشکن نتائج جلد سے جلد پیدا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے اس بات کا فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا مجھے یہ فکر ہے کہ دیانت اور امانت سے کام لینے والے کارکن میسر آتے رہیں اور ایسے لوگ سلسلہ کو ملیں جو ایک پیسہ بھی ضائع کرنے والے نہ ہوں۷؎۔ پس جو لوگ تحریک جدید کے کسی چندہ میں حصہ نہیں لے سکتے وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تحریک میں کام کرنے والوں کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ سلسلہ کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو اور ان کے کام نہایت اعلیٰ نتائج پیدا کرنے والے ہوں۔ میں ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس تحریک کو بابرکت کرے اور تمام کام کرنے والوں کو اخلاص اور دیانت و امانت سے کام لینے کی توفیق دے اور میں اپنے دوستوں سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ یہ دعا کرتے رہا کریں۔
اب میں اس تحریک کی بعض دوسری باتوں کو لیتا ہوں۔ میں نے جماعت کو سادہ زندگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور سادہ زندگی بسر کرنا فرض نہیں، نفلی ہے۔ یعنی جو چاہے اختیار کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ مگر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس کے بغیر جماعت میں قربانی کا صحیح مادہ کسی صورت میں پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ اور اگر تم سمجھو کہ اس کے بغیر تم روحانیت کا مقام حاصل کر لو گے تو یہ نفس کو دھوکا دینے والی بات ہے۔
بے شک یہ نفلی قربانی ہے مگر بعض نفلی قربانیاں بھی بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ نوافل کے ذریعہ ہی خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہو سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سادہ زندگی اختیار نہیں کرتا وہ احمدی نہیں مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ وہ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ۸؎ہے بالکل ممکن ہے، اس کا ایمان ضائع ہو جائے۔ ممکن ہے اس کا ایمان ایسا مضبوط ہو کہ اسے کوئی ٹھوکر نہ لگے۔ مگر یہ ممکن بہت شاذ ہے اور اس کے ایمان کی سلامتی کی بہت کم امید ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سادہ زندگی اختیار نہ کرنے کے نتیجہ میں نہ وہ اخوت پیدا ہو گی جس سے روحانی سلسلے ترقی کیا کرتے ہیں اور نہ غربت و امارت کا امتیاز دور ہو گا۔
یاد رکھو! انبیاء کے ابتدائی زمانہ میں پُرتکلف زندگیاں انسان کے ایمان کو تباہ کر دیا کرتی ہیں اس لئے جہاں تک ہو سکے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تمہارا روپیہ اچھے کاموں میں خرچ ہو۔ تم اپنی جائدادیں بڑھاؤ، غریبوں کی ہمدردی کرو، اشاعتِ احمدیت کرو، مگر کھانے پینے اور پہننے میں بنئے کے سے بُخل کی وجہ سے نہیں بلکہ مومن کی سی سادگی کی وجہ سے تمہارا وہی حال ہونا چاہئے جو ایک بنئے کا ہوتا ہے۔ سادہ زندگی کی وجہ سے کئی نیک تحریکات ہوتی ہیں جن میں انسان حصہ لے سکتا ہے۔
ایک طالب علم نے مجھے لکھا مَیں چونکہ غریب ہوں، اس لئے تحریکِ جدید سے پہلے میرا یہ خیال تھا، اگر میں شادی کروں تو ولیمہ نہیں کروں گا۔ مگر اب بڑی آسانی ہو گئی۔ میں نے چند سیرگوشت لے کر اس کا پتلا سا شوربہ بنا لیا اور چند دوستوں کو بُلا کر کھِلا دیا۔ اگر یہ تحریک جاری نہ ہوتی تو چونکہ پلاؤ زردہ کے بغیر کوئی ولیمہ نہیں سمجھا جاتا اس لئے مجھے بڑی مشکل پیش آتی اور ثواب سے میں محروم رہتا۔ غرض سعدیؒ کی سی دعوتِ شیراز میں نے آپ لوگوں کے لئے پیدا کر دی ہے اور میں سمجھتا ہوں، اس تحریک کے ماتحت بہت سے لوگ زائد ثواب کما سکتے ہیں۔ ایک تحریک مَیں نے بیکاری کو دور کرنے کے متعلق کی تھی۔ میں نے اس کے متعلق پچھلے ہفتہ میں ایک خطبہ بھی پڑھا ہے۔ اور اس خطبہ کے پڑھنے اور سننے کے بعد بھی اگر جماعت میں یہ تحریک پیدا نہ ہو کہ وہ بیکاری کو دور کرے تو یہ ایک موت کی علامت ہو گی۔ میں نے اس خطبہ کو دوبارہ پڑھا ہے۔ اور میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ وہ خطبہ اپنے اندر ایک الہامی رنگ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بہت اچھا بولنے کی توفیق دی ہوئی ہے۔ میں سمجھتاہوں بہت سے آدمیوں کی نسبت مَیں اچھا اور بعض سے بہت اچھا بول سکتا ہوں۔ مگر بعض باتیں اپنے اندر ایسی روحانی لہر رکھتی ہیں جو عام باتوں سے ممتاز ہوتی ہیں۔ بعض تحریرات اور تصنیفات میں میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے۔ چنانچہ احمدیت اور دعوۃ الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خداتعالیٰ کے القاء کردہ الفاظ ہو گئے ہیں۔ قرآن مجید کا تو ہر لفظ الہامی ہے مگر قرآن مجید کے ظل کے طور پر بعض دفعہ خداتعالیٰ اپنے بعض بندوں کی زبان پر بھی الہامی کلمات جاری کر دیا کرتا ہے۔ اس خطبہ کے بعض حصوں کے متعلق بھی مجھ پر یہ اثر ہے کہ ان کے پیچھے ملائکہ کام کر رہے ہیں اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدائی نصرت ان میں پائی جاتی ہے۔ اس لئے پھر میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ بیکاری ایک *** ہے اسے جس قدر جلد دور کر سکتے ہو دور کرو اور یاد رکھو جب تک بیکاری دور نہیں ہو گی، جماعت میں صحیح اخلاق کبھی پیدا نہیں ہوسکتے۔
مَیں نے قادیان کے متعلق ایک سکیم بھی بنائی تھی جس کے مطابق تحریکِ جدید کے چندہ کے ایک حصہ کو بطوررأس المال نفع مند کاموں پر لگا کر جو منافع حاصل ہو، اس سے اس قسم کے کام جاری کرنے کی تجویز ہے جن میں عورتیں، نابینا اشخاص اور غرباء بھی حصہ لے سکیں۔ مثلاً ٹوکریاں بنانا، چِکیں بنانا ، ازاربند اور پراندے وغیرہ بنانا۔ اسی طرح میرے مدنظر اس قسم کے بھی کام ہیں۔ جیسے میز کُرسیاں بنانا، لوہے کا کام اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جو دِسَاوَر۹؎ کے طور پر بھیجی جا سکتی ہیں۔ میں نے تحریک کی تھی کہ جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں وہ مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کئے جائیں۔ اس پر بعض دوستوں نے نہایت اعلیٰ مشورے دیئے ہیں۔ گو اس کے مقابلہ میں بعض تجربہ کاروں نے ایسے بھونڈے مشورے دیئے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ لیکن بعض اور دوستوں نے واقع میں ایسے لطیف مشورے دیئے ہیں کہ ان کی بنیاد پر نہایت اعلیٰ کام جاری کئے جا سکتے ہیں۔ میں پھر اس موقع پر تحریک کرتا ہوں کہ اگر کسی نے میرا وہ خطبہ نہ پڑھا ہو تو اَب جن جن دوستوں کو ایسے کام معلوم ہوں جنہیں تھوڑے سے روپیہ سے شروع کیا جا سکے اور بیکاری دُور ہو، وہ خطوط کے ذریعہ مجھے اطلاع دے دیں۔ اور جو ان کاموں میں مہارت رکھتے ہیں، وہ بھی اپنے تجربہ سے آگاہ کریں۔
ایک تحریک مَیں نے یہ کی تھی کہ تبلیغ کیلئے دوست اپنے آپکو وقف کریں تا انہیں ایک، دو یا تین ماہ کیلئے مختلف مقامات پر تبلیغ کیلئے بھیجا جا سکے۔ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ جماعت میں رُوح ہونی چاہئے کہ جس طرح وہ مالی قربانی کرتی ہے اسی طرح جسمانی قربانی میں بھی حصہ لے۔ تین ماہ یا دو ماہ یا ایک ماہ تبلیغ کیلئے دے دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ سرکاری ملازم بھی اپنی چُھٹیوں کو وقف کر سکتے ہیں بے شک بعض سرکاری ملازمتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں انسان کو چُھٹی نہیں ملتی۔ پھر بعض لوگ ایسی ڈیوٹیوں پر مقرر ہوتے ہیں جن سے انہیں لمبے عرصہ کیلئے فارغ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان استثنائی صورتوں کے علاوہ باقی جس قدر ملازم، زمیندار، تاجر اور پیشہ ور ہیں اور جنہیں چُھٹیاں مل سکتی ہیں، میں ان سب کو تحریک کرتا ہوں کہ ایک یا دو یا تین ماہ جتنا عرصہ کوئی دے سکے تبلیغ کیلئے دے۔ یہ بھی نفلی نیکی ہے اور میں اس کیلئے کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ لیکن یہ بتا دیتا ہوں کہ اگر جماعت نے اس پر عمل نہ کیا تو اس کے نتائج نہایت خطرناک نکلیں گے۔ جماعت کی ترقی کیلئے یہ چیز نہایت ضروری ہے۔ اور ہر فرد بشر کو آج نہیں تو کَل اور کَل نہیں تو پرسوں ایک نظام کے ماتحت اس میں لازمی طور پر حصہ لینا پڑے گا۔ اور اگر تمام جماعت یا اس کا بیشتر حصہ اس تحریک میں حصہ لے کر مشق نہیں کرے گا۔ توبہت لوگ وقت پر کچے دھاگے ثابت ہونگے جو ٹُوٹ جائیں گے۔ تبلیغ ایک اہم فریضہ ہے جو خداتعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسی صحیح صورت میں اسلام اور احمدیت کو ہمارے سامنے پیش کیا اور جو آپ نے تعلیم دی وہ اس قدر دلکش ہے کہ اگر ہم اس کو اصل صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی عدل اور انصاف رکھنے والا شخص اسے ردّ کر سکے بلکہ دنیا کا عقلمند اور دانا طبقہ اس بات پر مجبور ہو گا کہ اسے مانے۔ ایسی اعلیٰ اور مفید چیز کے ہوتے ہوئے بھی اگر ہم دنیا کو گمراہی میں مرنے دیں تو ہم پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی چُھٹیوں کو تبلیغ کیلئے وقف کریں تاجر اصحاب اپنی تجارتوں میں سے وقت نکالیں اور اسے احمدیت کی تبلیغ میں صرف کرنے کیلئے ہمارے سامنے پیش کریں، زمیندار اپنی زمینداری سے فارغ وقت نکالیں اور اسے احمدیت کی تبلیغ میں لگائیں، ملازم اصحاب اپنی ملازمتوں سے چُھٹی لے کر اسے تبلیغ کیلئے وقف کر دیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ کوئی احمدی ایسا نہیں جس کے مقابلہ میں اس سے کمزور شخص دنیا میں موجود نہ ہو۔ پس یہ نہ کہو کہ ہم تبلیغ کیلئے جا نہیں سکتے، ہم عالم نہیں۔ ہر احمدی سے زیادہ کمزور آدمی دنیا میں موجود ہے۔ پھر احمدی ہونے سے تو انسان کی عقل پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں تو یہ وہم کرنا بھی غلطی ہے کہ ہم تبلیغ کیونکر کریں گے۔
پانچویں تحریک یہ ہے کہ پیشہ ور لوگ اپنے آپ کو وقف کریں تا انہیں ہندوستان یا ہندوستان سے باہر ایسی جگہ بھیجا جا سکے جہاں وہ تبلیغ بھی کر سکیں اور مالی فائدہ بھی اُٹھا سکیں۔ ہمارے ملک کے پیشہ ور عموماً ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں ان کا کام نہیں چلتا۔ اگر وہ اپنے آپ کو پیش کریں تو انہیں ایسی جگہوں پر بھیجا جا سکتا ہے جہاں ان کا کام بھی چل سکے اور تبلیغ بھی ہوتی رہے۔ ہمارے ملک میں کوئی نظام نہیں، ہر بات لوگ اندھا دُھند کریں گے۔ اگر ایک گاؤں میں دو لوہاروں کی گنجائش ہے تو اس جگہ بیس لوہار کام کر رہے ہونگے۔ مگر بعض دوسری جگہوں پر جہاں دس یا بیس لوہاروں کی ضرورت ہو گی، وہاں ایک لوہار بھی نہ ملے گا۔ یہ ایک غلط طریق ہے جس کے ماتحت کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزارہا لوہار، نجار اور دوسرے پیشہ ور بیکار پھرتے ہیں انہیں کوئی کام نہیں ملتا اور جو کام کرتے ہیں وہ بھی تنزل میں گرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ان کی آمدسے بمشکل ان کا گزارہ ہوتا ہے۔ اگر ان میں تقسیمِ عمل ہوتی تو یہ حالت ہرگز نہ ہوتی۔ مثلاً باقی ملکوں میں یہ قاعدہ ہے کہ زمیندار زمین کے مناسبِ حال اجناس کی کاشت کرتے ہیں اور اگر کوئی زمین بعض اجناس کی کاشت کیلئے نامناسب ہوتی ہے تو ان چیزوں کی کاشت اس میں نہیں کرتے۔ لیکن ہمارے زمیندار کی یہ حالت ہے کہ وہ ہر چیز اپنی زمین میں بونے کی کوشش کرے گا۔ دو مرلہ میں موٹھ بودیگا، دو مرلہ میں مسور بو دیگا کچھ حصہ گندم بو دے گا کچھ حصہ میں گنّا بو دے گا اور کوشش کرے گا کہ ساری چیزیں اس کے کھیت میں ہو جائیں۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے ملکوں والے جہاں گنّا اچھا ہو گا، وہاں گنّا بوئیں گے، جہاں گندم اچھی ہو گی وہاں گندم بوئیں گے اور جہاں موٹھ اچھے ہونگے وہاں موٹھ بوئیں گے اور اس طرح زمین سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کریں گے۔ اس کے برخلاف ہمارے ملک کے زمینداروں کے طریق عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غلّہ بھی ضائع ہوتا ہے، زمین بھی ضائع ہوتی ہے، وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔مگر پھر بھی زمیندار وہی کرتے جا رہے ہیں جس کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو تقسیمِ عمل کے نہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ یہی نقص پیشہ وروں کی تقسیم میں بھی ہے اور اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں مثلاً لوہار کو دو آنے بھی روزانہ نہیں ملتے لیکن بعض علاقوں میں وہ دو دو روپیہ تک کما لیتے ہیں۔ پس کیوں ہماری جماعت کے پیشہ ور تحریکِ جدید سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور کیوں ہمارے سامنے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے۔ ہمیں ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں نجاری کا کام بہت اچھا ہو سکتا ہے، ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں معماری کا کام بہت اچھا ہو سکتا ہے اور ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں آہن گری کا کام بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ بے شک پہلے کام کے چلانے میں کچھ دقتیں واقع ہوں گی اور لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے لیکن آہستہ آہستہ جب ہم نجاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں نجار نہیں، معماروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں معمار نہیں، حکیموں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں حکیم نہیں، اور لوہاروں کو ایسی جگہ لگائیں گے جہاں لوہار نہیں تو مجبور ہو کر لوگ احمدی پیشہ وروں سے کام کرانے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اسی لئے میں نے مختلف اضلاع کی سروے کرائی ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں جن اضلاع کی سروے کرائی گئی ہے، ان میں جو لوہار، ترکھان یا پیشہ ور احمدی بیکار ہیں، انہیں پھیلا دوں۔ تمام گاؤں کے نقشے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہر مقام کی لسٹیں ہمارے پاس ہیں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ان گاؤں میں پیشہ وروں اور تاجروں کی کیا حالت ہے۔ اس ذریعہ سے میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے پیشہ ور بیکاروں کو ان علاقوں میں پھیلا دوں۔ جہاں لوہار نہیں وہاں لوہار بھجوا دیئے جائیں، جہاں معمار نہیں وہاں معمار بٹھا دیئے جائیں، جہاں حکیم نہیں وہاں حکیم بھجوا دیئے جائیں۔ اس سکیم کے ماتحت اگر ہماری جماعت مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو جہاں ہمارے بہت سے تبلیغی مرکز ان علاقوں میں قائم ہو سکتے ہیں وہاں لوگ بھی مجبور ہوں گے کہ احمدیوں سے کام لیں۔ اس طرح ان کی بیکاری بھی دورہو گی اور تبلیغی مرکز بھی قائم ہو جائیں گے۔ بلکہ لکھے پڑھے لوگ کئی گاؤں میں مدر سے بھی جاری کر سکتے ہیں چنانچہ ہمارے پاس ایسی بیسیوں لسٹیں موجود ہیں جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے یا حکیموں کی ضرورت ہے یا کمپونڈروں کی ضرورت ہے۔ مگر انہیں مدرّس، حکیم اور کمپونڈر نہیں ملتے۔ اسی طرح ہندوستان سے باہر بھی ہم بعض پیشہ وروں کو بھیجنا چاہتے ہیں جہاں بعض کام عمدگی سے کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ بعض قسم کے پیشہ ور چین میں اچھا کام کر سکتے ہیں۔ مثلاً چین کے مغربی حصہ میں پیشہ وروں کی بہت ضرورت ہے۔ اگر وہاں لوہار چلے جائیں تو اعلیٰ درجہ کا کام کر سکتے اور کافی مالی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس ذریعہ سے تبلیغ بھی ہوتی رہے گی۔
غرض دنیا کے ایسے حصے جہاں تجارتی کام اعلیٰ پیمانے پر جاری کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے معلوم کئے ہیں اور ہر جگہ کے نقشے تیار کئے ہیں۔ ان علاقوں میں تھوڑی سی ہمت کر کے ہم بیکاروں کو کام پر لگا سکتے اور بہت سے تبلیغی سنٹر قائم کر سکتے ہیں۔ اور یہ کام ایسا اعلیٰ ہوا ہے کہ جس کی اہمیت ابھی جماعت کو معلوم نہیں۔ اور گو یہ معلومات کا تمام ذخیرہ ابھی صرف چند کاپیوں میں ہے لیکن یورپ والوں کے سامنے یہ کاپیاں پیش کی جا ئیں تو وہ ان کے بدلے لاکھوں روپے دینے کیلئے تیار ہو جائیں۔ مگر افسوس ابھی ہماری جماعت نے اس کام کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ اسی طرح میںتجارتی طور پر مختلف مقامات کے نقشے بنوا رہا ہوں اور اس امر کا پتہ لے رہا ہوں کہ چین اور جاپان اور دوسرے ممالک کے کس کس حصہ میں کون کون سی صنعت ہوتی ہے تا کہ ہم اپنی جماعت کے تاجروں یا ان لوگوں کو جو تجارت پیشہ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان علاقوں میں پھیلا دیں۔ اس کے متعلق بہت سی لطیف معلومات کا ذخیرہ جمع ہو رہا ہے۔ جو دوست تجارت کے متعلق کوئی مشورہ لینا چاہیں وہ مشورہ کر لیں۔جب موقع آئے گا انہیں کسی موزوں علاقہ میں تجارت کیلئے بھیج دیا جائے گا۔ اور اگر معلوم ہو گا کہ وہ دیانتداری سے کام کرنے والے ہیں تو شروع میں ایک قلیل رقم بطور امداد بھی دی جا سکے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ جائیداد ہو جس کی ضمانت پر اسے روپیہ دیا جا سکے۔ تا اگر کوئی روپیہ کھا جائے تو اس کی واپسی کا انتظام ہو سکے اور دوسری شرط یہ ہے کہ سینکڑوں یا ہزاروں کی رقم کا مطالبہ نہ ہو۔
پس دوستوں کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ جن حالات میں سے سلسلہ اس وقت گزر رہاہے، ان کے ماتحت خاص ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا بُری بات ہے مگر چونکہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ تمام باتیں سکھائی ہیں، اس لئے میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ اگر کسی حکمران قوم کو یہ باتیں بتائی جاتیں تو اس میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سر ے تک قوتِ عملیہ کی لہر دوڑ جاتی۔ لیکن چونکہ ہمار ی قوم ایک عرصہ سے محکوم چلی آ رہی ہے اور زندگی کی روح اس میں نہیں رہی، اس لئے اس کے بہت سے افراد میں اس سکیم کی اہمیت اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے۔ اگر تمام جماعت اس سکیم کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو سمجھ جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو جائے۔
یاد رکھو جو باتیں میں نے جماعت کی ترقی کیلئے پیش کی ہیں، وہ نہ ہٹلر کی سکیموں میں ہیں نہ مسولینی کی سکیموں میں۔ میں نے ہٹلر کی سکیموں کو بھی دیکھا ہے اور مسولینی کی سکیموں کو بھی لیکن ان کی سکیمیں تباہی کے سامان اپنے اندر رکھتی ہیں۔ مگر جو سکیم میں نے تمہیں بتائی ہے وہ نہ صرف تباہی کے سامانوں سے خالی ہے بلکہ ترقی کے انتہاء تک تمہیں پہنچانے والی ہے کیونکہ میں نے ان باتوں کو خداتعالیٰ سے اور قرآن مجید کے احکام سے حاصل کیا۔ پھر میں نے اپنی سکیم کو مغربی اثر سے آزاد رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر وہ اپنی سکیموں کو مغربی اثر سے آزاد نہیں کر سکے۔ اتنے بڑے فضل کے ہونے کے باوجود کہ خداتعالیٰ نے آپ کو آپ کے امام کے ذریعہ وہ باتیں بتائیں جو دنیا میں اور کسی جگہ حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اگر پھر بھی آپ لوگ قربانیاں نہ کریں تو یہ اتنی بڑی غفلت اور کوتاہی ہو گی جس پر نہ صرف آپ بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی افسوس کریں گی۔
وہ مصائب جن میں سے سلسلہ گزر چکا یا گزر رہا ہے ایسے ہیں کہ زبان پر بھی نہیں لائے جاسکتے۔ وہی لوگ ان مصائب کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے باتیں سنیں۔ لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت اس سکیم پر عمل کرے تو اس کا دوسرا قدم پہلے سے بہت زیادہ آگے بڑھے گا۔ میں نے شکایت کی ہے کہ آپ نے اس سکیم پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ لیکن باوجود اس کے جس قدر عمل آپ لوگوں نے کیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ شدید سے شدید دشمنوں کے مرکزوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ نے موجودہ حملہ سے پوری طرح اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے۔
مجھے احرار کے ایک بہت بڑے لیڈر کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اُس نے اپنی ایک مجلس میں کہا۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ احرار نے قادیانیوں کا کیا مقابلہ کیا۔ آٹھ کروڑ مسلمان احرار کی پُشت پر تھے اور قادیانی بالکل تھوڑے تھے، مگر احرار کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ہم کیا کریں اگر ہمارا مقابلہ آدمیوں سے ہوتا تو ہم انہیں شکست دے دیتے۔ہمارا مقابلہ تو ایک غیرمعمولی دماغ سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے وہ تجویزیں بتائی ہیں کہ ان پر اگر عمل کیا جائے تو قلیل ترین جماعت کبھی بڑی سے بڑی جماعت سے بھی ہار نہیں کھا سکتی۔ پس اگر باوجود ان باتوں کے ہماری جماعت کے لوگ اس طرف توجہ نہ کریں تو اس کے صاف یہ معنی ہوں گے کہ یا تو وہ سلسلہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں یا عقل و سمجھ سے بالکل کورے ہیں۔ مگر نہ تو میں یہ امید کرتا ہوں کہ لوگ اپنے دل میں یہ خیال کرتے ہوں کہ جب فساد بڑھا ہم سلسلہ کو چھوڑ کر الگ ہو جائیںگے اور نہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ سمجھتے بھی ہیں اور منافق بھی نہیں تو میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر پہلے کسی نبی کے زمانہ میں قربانیوں کی ضرورت تھی، اگر پہلے کسی مامُور کے زمانہ میں اپنے مالوں، اپنی جانوں، اپنے وطنوں، اپنے آراموں اور اپنی آسائشوں کو قربان کر دینے کی ضرورت تھی تو آج بھی ان قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اور اگر تم کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش کر دو کہ کسی نبی اور مامور کی جماعت نے قربانیوں کے بغیر ترقی کی تو میں آج اپنی غلطی کا اقرار کرنے اور اپنی سکیم کو واپس لینے کیلئے تیار ہوں۔ لیکن اگر سب انبیاء کے وقت قربانیاں کرنی پڑیں اگر آدمؑ سے لے کر محمد ﷺ تک خواہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے یا کم یا زیادہ، ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی جماعت کو قربانیاں نہ کرنی پڑی ہوں تو پھر تمہیں ماننا پڑے گا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں، وہی صحیح ہے۔ اور اگر بغیر قربانیوں کے ہم دنیا میں پھیل جائیں تو میں سمجھتا ہوں دشمن کا یہ حق ہو گا کہ وہ کہے مرزا صاحب سچے نہیں تھے کیونکہ وہ نبیوں کے منہاج پر نہیں آئے۔ پس جب تک دنیا ہمارے خون سے رنگین نہ ہو جائے، جب تک زمین میں ہمارے جسموں کو کُچلا نہ جائے، جب تک ہمیں خداتعالیٰ کیلئے اپنے وطن نہ چھوڑنے پڑیں، جب تک دنیا میں ہم اپنی جانی اور مالی اور وقتی قربانیوں سے ایک حیرت انگیز انقلاب پیدا نہ کر دیں اور جب تک ہم وہ ساری قربانیاں نہ کریں جو محمد ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے کیں اُس وقت تک ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کامیابی حاصل ہو جائے گی وہ سلسلہ ماموریت کو سمجھتا ہی نہیں۔ یہ گھونٹ تمہیں ضرور پینا پڑے گا اگر سلسلہ میں رہو گے تو تمہیں زبردستی پینا پڑے گا۔ اور اگر سلسلہ سے نکل جاؤ گے تو پھر تم اس کے ذمہ وار نہیں۔ لیکن جس قسم کی نعمت تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے اسے ردّ کرنا کسی ناسمجھ کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قربانیوں کو نعمت قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں۔
منہ از بہرِما کُرسی کہ ماموریم خدمت را ۱۰؎
یعنی میرے اعزاز کیلئے کُرسی مت بچھاؤ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے دین کا خادم بنا کر بھیجا ہے۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دین کے خادم بن کر آئے ہیں تو ہم جو آپ کے خادم اور غلام ہیں، ہمیں اپنے متعلق یہ امید رکھنا کہ ہم آرام سے بیٹھے رہیں اور کام بھی ہو جائے، ایسی امید ہے جو سوائے پاگل کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ ہم نے خدا تعالیٰ کے ایک مامور کا زمانہ پایا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم وہی قربانیاں کریں جو ماموروں کی جماعتیں دنیا میں کیا کرتی ہیں اور یاد رکھو نبیوں اور نبیوں کے زمانہ کے قریب کی جماعتوں کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ قربانی کریں اور بعد میں آنے والوں کی خوشی اس میں ہوتی ہے کہ انہیں روپیہ ملے۔ نبیوں کے زمانہ کے قریب کی جماعتیں اس بات پر خوش ہوتی ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دیں اور بعد میں آنے والے لوگ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانیں بچائیں۔ یہ ایک ایسا کُھلا فرق ہے جو ہر شخص کو نظر آ سکتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اِذَاجَائَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔۱۱؎ تو رسول کریم ﷺ نے سمجھا اب میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے۔ حالانکہ الہام یہ ہوتا ہے ، خداتعالیٰ کی طرف سے نصرت اور فتح آ گئی لیکن بجائے اس کے کہ اس الہام کے نازل ہونے پر رسول کریم ﷺ یہ سمجھتے کہ انہیں خوشی کی خبر دی گئی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ وفات کی خبر ہے۔ تو انبیاء اور انبیاء کے زمانہ کے قریب کی جماعتوں کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ قربانیاں کریں اور اللہ تعالیٰ کے قُرب میں بڑھتے چلے جائیں۔ جب تک یہ زمانہ رہتا ہے، جب تک قربانیوں کی توفیق ملتی رہتی ہے، اُس وقت تک برکت اور رحمت کا زمانہ رہتا ہے لیکن جب کامیابیاں آجائیں، جب قربانیوں کا موقع جاتا رہے اور جب خدا تعالیٰ کا دین اکنافِ عالم میں پھیل جائے، اُس وقت ان برکات کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔ اور بعد میں آنے والوں کی خوشی اسی میں رہ جاتی ہے کہ وہ دُنیوی ترقیات حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کا ایک اور جگہ نہایت لطیف پیرایہ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ۱۲؎ فرماتا ہے ہم نے قرآن مجید لیلۃ القدر میں اُتارا ہے۔ یعنی قرآن مجید کے اُترنے کا زمانہ ایک رات کے مشابہ ہے۔ مگر وہ رات ایسی ہے کہ اس میں سب آئندہ ترقیات کے اندازے مقرر کئے جائیں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں اس آیت کا صرف یہ مفہوم ہے کہ قرآن مجید پہلے دن لیلۃ القدر میں اُترا۔ لیکن اس میں کیا کمال ہے؟ لیلۃ القدر میں بہت سے لوگ نمازیں پڑھتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرتے رہتے ہیں۔ پھر قرآن مجید کی کونسی یہ خصوصیت ہے کہ اسے لیلۃ القدر میں اُتارا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لیلۃ القدر سے نبی کا زمانہ مراد ہے۔ وہ زمانہ جب قوم کو قربانیاں کرنی پڑتیں اور مصائب و مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہم نے قرآن مجید کو اس زمانہ میں نازل کیا جو ایک رات سے مشابہ تھا۔ مگر کونسی رات؟ وہ رات جس میںاُمتِ محمدیہ کی تمام ترقیات کا فیصلہ ہونا تھا، وہ رات جو اس قابل تھی کہ اس کی قدر کی جاتی کیونکہ جتنی لمبی یہ رات ہو گی اتنی زیادہ ترقی اُمت کو ملے گی۔ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
یعنی ہماری جماعت پر ایک طویل رات کا زمانہ گزر رہا ہے جبکہ دشمن ایک دن کے لُطف اُٹھا رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گو یہ دعا کی ہے کہ سورج چڑھے۔ لیکن یہ ایک نِسبتی امر ہے کیونکہ اس سورج کے چڑھنے سے آپ کے زمانہ کے مصائب کی رات کا دن میں بدلنا مراد ہے۔ تمام مصائب کا خاتمہ مراد نہیں جیسے رسول کریم ﷺ کو جب خداتعالیٰ نے فتح و نصرت کی بشارت دے دی تو آپ کے زمانہ کی رات کا دن چڑھ گیا۔ لیکن صحابہؓ کیلئے دن نہیں چڑھا تھا بلکہ ان کیلئے پھر بھی رات قائم رہی اور آپ کے بعد انہیں اور مخالف طاقتوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ بہرحال یہ رات بڑی مبارک رات ہے اور جب یہ راتیں بالکل ختم ہو جائیں تو پھر ان راتوں کے بعد جو دن آتے ہیں وہ اس رات جیسے بابرکت نہیں ہوتے۔ اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت یہ رات ہی بابرکت ہے کیونکہ اسی رات میں آئندہ کی تمام ترقیات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اور قوم جتنی زیادہ اس رات میں قربانیاں کرتی ہے، اتنی ہی زیادہ ترقیات کو وہ دنیا کیلئے جمع کرتی اور نیکیوں کا ایک بھاری ذخیرہ خداتعالیٰ کے پاس جمع کرتی ہے۔ پس ہر قربانی جو آپ لوگ کر رہے ہیں ایک ذخیرہ جمع کر رہے ہیں اپنی اُخروی نعمتوں اور ترقیات کا اور ذخیرہ جمع کر رہے ہیں اپنی اولاد کیلئے دنیوی نعمتوں اور ترقیات کا۔ پھر جتنی زیادہ یہ رات لمبی ہو گی، اسی قدر اگلا دن روشن ہو گا اور اسی قدر زیادہ آپ کو اُخروی نعمتیں اور آپ کی اولادوں کو دنیوی نعمتیں ملیں گی۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ مَا اَدْرٰکَ مَالَیْلَۃُ الْقَدْرِ۱۳؎۔ تجھے کیا پتہ کہ لیلۃ القدر کیا شان رکھتی ہے۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ۱۴؎۔ لیلۃ القدر تو ہزار مہینوں سے بھی اچھی ہے۔ اگر اس لیلۃ القدر سے رمضان والی لیلۃ القدر مراد ہو تو اس کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے۔ کیونکہ ہزار مہینوں میں تراسی لیلۃ القدر آتی ہیں اور یہ کہنا کہ ایک لیلۃ القدر ۸۳ لیلۃ القدر سے اچھی ہے، بے معنی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لیلۃ القدر سے وہی رات مراد ہے جو اُس وقت آتی ہے جب کوئی نبی دنیا میں بھیجا جاتا ہے اور اس کے ماننے والوں کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ پھر خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ کہنے میں ایک اور حکمت بھی ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ احیائے اسلام کیلئے ایک مجدّد مبعُوث کیا کرے گا۔۱۵؎ مجدّد کا زمانہ اگر اٹھارہ بیس سال بھی فرض کر لیا جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مجدّد کا اٹھارہ بیس سال کا جو زمانہ ہوتا ہے وہ باقی تمام صدی سے بہتر ہوتا ہے اور چونکہ مجدّد کا زمانہ بھی قربانیوں کا زمانہ ہوتا ہے اس لئے جس طرح نبی کا زمانہ باقی تمام زمانوں سے بہتر ہوتا ہے، اسی طرح مجدّد کا زمانہ بھی باقی تمام صدی سے بہتر ہوتا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ۱۶؎ اس رات خداتعالیٰ کے عام ملائکہ اور اس کا کلام لانے والے فرشتے اُترتے ہیں۔ ملائکہ سے عام فرشتے مراد ہیں اور روح سے کلامِ الٰہی لانے والے فرشتے۔ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ خداتعالیٰ کا حکم لے کر وہ اُترتے ہیں۔ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ۱۷؎ اور کوئی ایسی روحانی نعمت نہیںجو اس رات میں نہ اُترتی ہو۔ دُنیوی لحاظ سے وہ بے شک مصیبتوں کا زمانہ ہوتا ہے لیکن دینی لحاظ سے اس رات سے بڑھ کر بابرکت رات اور کوئی نہیں ہوتی۔ سَلَامٌ ھِیَ۱۸؎ وہ رات سلامتی ہی سلامتی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اور جتنی زیادہ مشکلات آتی ہیں، اتنی ہی زیادہ برکات کا نزول ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ برکات اُس وقت تک جاری رہتا ہے۔ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۱۹؎ یہاں تک کہ فجر کا طلوع ہو جاتا ہے، مصائب و مشکلات کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے، قربانیوں کا دنیا کیلئے کوئی موقع باقی نہیں رہتا، آرام و آسائش کے دن آ جاتے ہیںاور خداتعالیٰ کیلئے تکلیف اٹھانے والے ایام گزر جاتے ہیں۔ تب آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جاتی ہیں اور زمین ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی۔ کس وضاحت سے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بتایا ہے کہ وہ مصائب و مشکلات جنہیں تم برداشت کرتے ہو اور وہ تکلیفیں جنہیں تم خداتعالیٰ کیلئے سہتے ہو، وہی تمہاری ترقی کا ذریعہ ہیں۔ نہ صرف دینی لحاظ سے بلکہ دنیوی لحاظ سے بھی۔ ان تکلیفوںکے بدلے ایک وقت دنیا میں تمہاری اولادوں کیلئے دن چڑھ جائے گا اور وہ دُنیوی نعمتوں سے متمتع ہوں گے۔ لیکن آخرت تمہارے لئے ہی ہو گی کیونکہ تم وہ ہو جنہوں نے ایک مامور کازمانہ پاکر اس کے پیغام کی اشاعت کیلئے اس بابرکت رات میں قربانیاں کیں جو سلامتی ہی سلامتی اپنے اندر رکھتی ہے۔
رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں۔ سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرا زمانہ پایا۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ۔ پھر وہ لوگ اچھے ہیں جنہوں نے میرے دیکھنے والوں کو دیکھا۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْپھر وہ لوگ اچھے ہیں جنہوں نے تابعین کو دیکھا۔ لیکن اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا۔۲۰؎ اور روحانیت دنیا سے اُٹھ جائے گی۔ پس انبیاء علیہم السلام کے زمانہ سے لوگ جتنا جتنا دور ہوتے چلے جائیں اتنا ہی ان کے روحانی مدارج میںکمی آتی چلی جاتی ہے اور جتنا زیادہ وہ قریب ہوتے اور قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اسی قدر زیادہ انہیں روحانی مدارج ملتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ کے بعد بھی گو روحانی ترقی کا دروازہ کُھلا رہتا ہے مگر اس وقت صرف بعض افراد ان درجات کو حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسے اُمت محمدیہ میں سیدعبدالقادر ؒصاحب جیلانی، حضرت معین الدینؒ صاحب چشتی اور دوسرے اکابر گذرے ہیں۔ لیکن انبیاء کے زمانہ میں قوم کی قوم روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتی ہے۔ چنانچہ میرا عقیدہ یہی ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ بھی ترقی کر سکتے۔ بلکہ بعض صحابہؓ سے بھی بڑھ سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ بعد میں آنے والے تمام بزرگ صحابہؓ سے کم درجہ رکھنے والے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اُمت محمدیہ میں ایسے کئی بزرگ ہوئے ہوں جو صحابہؓ سے افضل ہوں۔ بلکہ یقینا اُمت محمدیہ میں ایسے بزرگ ہوئے ہیں جو کئی صحابہؓ سے افضل تھے۔ لیکن یہ درجہ حاصل کرنے والے بعض افراد ہی ہوتے ہیں۔ عام طور پر صحابی اور تابعی آئندہ زمانہ میں آنے والے عام لوگوں سے افضل ہوتے ہیں۔ اور بحیثیت جماعت نبی کے زمانہ کی جماعت کا اور کوئی جماعت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہاں بحیثیت افراد ممکن ہے بعض ایسے قابلیت رکھنے والے پیدا ہو جائیں جو پہلوں جیسا مقام حاصل کر لیں۔
پس آپ لوگ اِس وقت جس قدر قربانیاں کریں گے، اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو آپ کے کھاتے میں لکھتا چلا جائے گا اور جس قدر ان قربانیوں میں کمی کریں گے، اسی قدر آپ کے اخروی انعامات میںکمی آتی چلی جائے گی۔ اور یہ نہ سمجھیں کہ آپ کیلئے صرف اُخروی نعمتیں ہیں، دنیوی نعمتوں میں آپ کا حصہ نہیں کیونکہ آپ کے طفیل آپ کی اولادوں کو دُنیوی ترقی ملے گی اور اپنے انعامات کو آپ اللہ تعالیٰ کے پاس پائیںگے۔
پس یہ غلط ہے جو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ترقی حاصل کرنے پر امن مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ سَلَامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ جب صج چڑھ گئی تو پھر سلامتی نہیں رہے گی۔ سلامتی اسی میں ہے کہ اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اس وقت تم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا۔ میرے بعد پہلے خلافت ہو گی، پھر بادشاہت آ جائے گی جو تمہیں نقصان بھی پہنچائے گی۔۲۱؎ پس جس زمانہ کو لوگ مصیبت کا زمانہ کہتے ہیں، ہمارا خدا اس کو سلامتی کا زمانہ کہتا ہے اور جس زمانہ کو لوگ ترقی کا زمانہ کہتے ہیں، ہمارا خدا اس کو سلامتی کے اُٹھ جانے کا زمانہ کہتا ہے۔ پس مت سمجھو کہ جن قربانیوں کا تم سے مطالبہ کیا جاتا ہے، یہ تمہارے لئے مصیبت کا موجب ہیں۔ انہیں مصیبت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھو۔ اور یقینا یاد رکھو کہ جتنی قربانیاں آپ لوگ اس وقت کریں گے، وہ اخروی زندگی میں آپ کو فائدہ پہنچائیں گی۔ اور دنیوی زندگی میں آپ کی اولادوں کو فائدہ پہنچائیں گی۔ اور یہ قربانیاں آپ کی تباہی کا باعث نہیں بلکہ بہت بڑی ترقی کے سامان ہیں۔
اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اخلاص میں برکت دے اور اسے قربانیوں میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایام بہت بابرکت ہیں ایک طرف رمضان ہے دوسری طرف جلسہ سالانہ کے ایام ہیں پھر عید اس جلسہ کے بالکل قریب آ رہی ہے۔ ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں کرو۔ میں بھی دعا کر رہاہوں اور آپ کے گھر والوں کیلئے بھی دعا کر رہا ہوں۔ جو لوگ تحریکِ جدید میں حصہ لے رہے ہیں ان کیلئے اور جو تحریکِ جدید کے ماتحت یہاں طالب علم آئے ہوئے ہیں اور بورڈنگ میں داخل ہیں، ان کیلئے قریباً روزانہ دعا کرتا ہوں۔ بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے جو تکلیف ہے، اللہ تعالیٰ اسے بھی دور فرمائے۔ اور وہ دوست جو مختلف مصیبتوں یا بیماریوں میں مبتلا ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے رہائی عطاکرے۔ میں بھی دعا کر رہا ہوں لیکن دوستوں کو بھی چاہئے کہ دعاکریں۔ یہ بہت بابرکت دن ہیں اور ان سے پوری طرح فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ مجھے تو شکایت پیدا نہیں ہوئی لیکن مجھے بتلایا گیا ہے کہ بعض دوسرے اجلاسوں میں جلسہ گاہ سے دوست اُٹھ کر باہر چلے جاتے رہے ہیں۔ اس عادت کو دور کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جلسہ سے پوری طرح فائدہ اُٹھایا جائے۔ کسی کو کیا معلوم کہ وہ اگلے سال تک زندہ بھی رہتا ہے یا نہیں۔ اس لئے ایسے موقعوں سے جو عرصہ کے بعد میسر آتے ہیں بہت فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(الفضل ۸،۱۵ فروری ۱۲،۱۴ مارچ ۱۹۳۶ء)
۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
۲؎ الحجرات: ۱۴
۳؎ بِنوٹ: فنِ سپہ گری کی ایک قسم
۴؎ النصر: ۳
۵؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ براء ۃ باب قولہ الذین یلمزون المطوعین من المومنین…
۶؎ تذکرہ صفحہ۵۰ ۔ایڈیشن چہارم
۷؎ الوصیت صفحہ۲۱ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۱۹
۸؎ اٰل عمران: ۱۰۴
۹؎ دِسَاوَرْ: (۱) غیر ملک یا غیر ممالک (۲) غیر ملک کی منڈی (۳) سوداگری کا مال جو غیر ملک سے آئے (۴) وہ جگہ جہاں ہر ایک چیز فروخت کیلئے جمع کر دیں۔
۱۰؎ درثمین فارسی صفحہ۱۳۵۔ نظارت اشاعت ربوہ
۱۱؎ النصر: ۲،۳ ۱۲؎ القدر: ۲ ۱۳؎ القدر: ۳
۱۴؎ القدر: ۴
۱۵؎ ابوداؤد کتاب الفتن والملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ
۱۶،۱۷؎ القدر: ۵ ۱۸،۱۹؎ القدر: ۶
۲۰؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب فضائل اصحاب النبی…
۲۱؎ مسند احمد بن حنبل المجلد الرابع صفحہ۲۷۳ ۔ المکتب الاسلامی بیروت



دنیا کی سیاسیات میں احمدیت کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے؟




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
دنیا کی سیاسیات میں احمدیت کیا تغیر پیدا
کرنا چاہتی ہے؟
(خلاصہ تقریر فرمودہ ۲۷۔دسمبر ۱۹۳۵ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پیغامات
پیشتر اس کے کہ میں آج کا مضمون شروع کروں جن دوستوں نے دعا کیلئے تاریں بھیجی ہیں ان کے نام سناتا ہوں تا کہ جن دوستوں کا نام یاد رہ سکے، احباب
ان کا نام لے کر ورنہ مجموعی طور پر سب کیلئے دعا کریں۔دس بارہ تاریں گھر میں رہ گئی ہیں اور اس وجہ سے ان کے نام نہیں سنائے جا سکتے لیکن دوست اپنی دعاؤں میں ان کو بھی شامل کر لیں۔ (اس کے بعد حضور نے تاریں بھیجنے والے اصحاب کے نام سنائے جنہوں نے سکندر آباد، حیدر آباد، خوردہ، شیموگہ، رنگون، میلسی، دہلی، لدھیانہ، سرینگر، امرتسر، کوٹری برج، میانوالی، گوجرہ اور پٹیالہ سے تاریںارسال کی تھیں)
احرار کی فتنہ پیدا کرنے کیلئے شرارتیں
گووقت بہت کم ہے اور جمعہ کی وجہ سے اِس وقت میں اور بھی کمی
آگئی ہے لیکن پھر بھی میں اپنا مضمون شروع کرنے سے پہلے یہ بات کہنی ضروری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں ہمارے دوستوں کو قادیان میں خصوصیت کے ساتھ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ بعض بے احتیاطیوں کی وجہ سے اس دفعہ کئی قسم کی پریشانیاں جماعت کے احباب کو اور خود ہمیں لاحق ہوئی ہیں۔ کئی چوریاں ہوئی ہیں، کچھ عرصہ سے جیب کترے یہاں نہیں آتے تھے لیکن اب احرار کی یہ تعلیم سن سن کر کہ احمدیوں کو ہر قسم کا نقصان پہنچانا ثواب کا موجب ہے انہیں بھی خیال آ گیا کہ ہم کیوں اس ثواب سے محروم رہیں۔ عورتوں کے جلسہ میں کئی عورتوں نے مستورات کے روپے چرائے ہیں اسی طرح مردوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ایک آدمی کے متعلق تو سنا ہے کہ اس کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
اسی طرح اور رنگوں میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے مثلاً بدنیتی اور بد اِرادہ سے جو لوگ آئے ہیں انہوں نے جماعتوں میں شامل ہو کر مجھ تک پہنچنے یا ان احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، اسی طرح بعض نے بچوں کو اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور بعض نے مستورات کو بھی دھوکا سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ ہوشیارپور کی ایک احمدی عورت جو رستہ بھول گئی تھی، اس نے ایک ایسی گلی میں جو احمدیوں کی نہیں کسی سے ہمارے مکان کا رستہ پوچھا، تو اسے ایک تاریک کوٹھڑی بتا کر کہا گیا اس میں داخل ہو جاؤ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کرنی تھی، ا س نے پہلے ہمارا مکان دیکھا ہوا تھا اس لئے اس نے کہا یہ تو وہ مکان نہیں جہاں میں جانا چاہتی ہوں۔ پھر ایک سقّہ اُس گلی میں سے گزرا تو اُس نے اسے صحیح راستہ بتایا۔
جب ایسے کمینہ دشمن سے واسطہ ہو جو روپے دے کر اوباشوں اور آوارہ گردوں سے شرفاء پر حملے کرائے،جب ایسے کمینہ دشمن سے واسطہ پڑ ا ہو جو عورتوں کا احترام اپنے دل میں نہ رکھتا ہو اور جب ایسے کمینہ دشمن سے واسطہ پڑا ہو جو بچہ کے دل کے صدمہ کی قیمت نہ سمجھتا ہو، تو اس وقت جماعت کو بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔چونکہ دوست اب بھی کچھ دن تک یہاں ٹھہریں گے اس لئے اپنی مستورات کو ہدایت کر دیں کہ وہ سوائے اس بڑی گلی کے جہاں پہرہ کا انتظام کر دیا گیا ہے، دوسری جگہوں میں سے نہ گزریں۔ اگر کسی اور گلی میں کسی احمدی کا گھر ہو تو اس کے گھر میں بھی مستورات سے ملنے کیلئے نہ جائیں جب تک مرد ساتھ نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی کی بغل میں کوئی ایسا بچہ دیکھو جو رو رہا ہو تو چاہے وہ شخص ہزار قسمیں کھائے کہ یہ میرا بچہ ہے یا میں اس کا فلاں رشتہ دار ہوں،اسے نہ چھوڑو جب تک کہ مرکز کے افسروں یا پولیس کے ذریعہ اس کی تحقیقات نہ کرالو۔ دشمن چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فساد کرائے اور فساد کے یہ بہت بڑے ذرائع ہیں کہ کسی عورت کی ہتک کر دی یا کوئی بچہ اُٹھا کر لے گئے۔ روپیہ چرانے سے بھی دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے مگر عورت کی ہتک یا بچہ کا اُٹھا لینا ایسا جذباتی نقصان ہے کہ ہزاروں طبائع کیلئے اس کا برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کے حملوں کو برداشت کرنا بے غیرتی میں داخل ہوتا ہے۔ دشمن کی نیت اس وقت فساد کرانا ہے اور ہماری نیت یہ ہے کہ ہم فساد سے بچیں۔ مومن فساد سے بچنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے مگر جب واقعات و حالات اسے اس مقام پر کھڑا کر دیں جہاں اس کی غیرت کا امتحان لینا مقصود ہو تو پھر وہ دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں کیا کرتا۔ پس اپنا پورا زور لگاؤ جیسا کہ دوسرے ایام میں مَیں قادیان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ کسی قسم کا فتنہ نہ پیدا ہو تاکہ ہم بجائے کسی اور تدبیر کے اپنی احتیاط سے ہی دشمن کے حملہ کو روک دیں۔
احمدیت اور سیاسیاتِ عالَم
اس کے بعد حضور نے اس مضمون پر تقریر فرمائی کہ اسلام اور احمدیت سیاسیات کے متعلق کیا تعلیم پیش
کرتی ہے۔ اس مضمون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ:۔
’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ ۱؎
اس کے مطابق ہمیں یقین ہے کہ بادشاہ احمدیت میں داخل ہوں گے لیکن جب وہ بادشاہ آئیں گے تو انہیں کون بتائے گا کہ تمہارے کیا فرائض ہیں۔ اگر آج ہم قرآنی تعلیم سے اخذ کر کے وہ فرائض اپنی کتابوں میں نہیں لکھ دیں گے جو بادشاہوں اور حکومتوں کے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دُنیوی بادشاہوں کی نقل کریں گے اور اس کا نتیجہ بجز تباہی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ پس آپ لوگوں میں سے ہر ایک کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدیت کس قسم کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے تا جب بادشاہت آئے اور اُس وقت کے بادشاہ کسی اور رنگ میں کام کرنا چاہیں تو فوراً ان کو بتا دیا جائے کہ تم یوںحکومت کرو۔ ہم تمہیں وہ باتیں قرآن مجید سے اخذ کر کے بتاتے ہیں جن کے ماتحت تمہارے لئے کام کرنا ضروری ہے۔
مندرجہ ذیل وجوہ سے اس مضمون کا بیان کرنا ضروری ہے۔
اوّل: اس لئے کہ اس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی ہے۔
دوم :اس لئے کہ جماعت کو اپنے مقاصد سے آگاہ رہنا چاہئے۔
سوم:دنیا کے ذہنوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھال کر اسلامی نظام کے مطابق چلنے کی راہ کھولنے کے لئے اس کا بیان کرنا ضروری ہے۔
چہارم: احمدیت کی تبلیغ کیلئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ قرآنی علوم دنیا سے پوشیدہ ہو چکے تھے۔ اب جب ہم انہیں پھیلائیں گے تو مسلمانوں کو معلوم ہوگا کہ قرآن کی حقیقی خدمت کرنے والے یہی ہیں۔
یہ مضمون ’’امنِ عالَم کے ذرائع‘‘ ہے۔ یعنی دنیا میں امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بعد حضور نے لیگ آف نیشنز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
جنگِ عظیم کے شروع یعنی ابتدائے ۱۹۱۵ء میں امریکہ میں ایک لیگ معرضِ وجود میں لائی گئی۔ اس نے مطالبہ کیا کہ حکومتیں جنگ نہ کریں بلکہ جب کسی بات پر جھگڑا ہو تو آپس میں مل کر فیصلہ کر لیا کریں۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے مختلف انجمنیں بنا کرہر جگہ لیکچر شروع کر دیئے۔ ۱۹۱۸ء کی ابتدا میں امریکہ کے پریذیڈنٹ ولسن نے چودہ اصول شائع کئے جن کے ذریعہ اس کے خیال کے مطابق دنیا کی جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس میں بھی یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ مختلف حکومتوں کی ایک انجمن بنائی جائے جو مختلف جھگڑوں کا مل کر تصفیہ کیا کرے۔ جنرل سمٹس نے اس کی زیادہ تشریح کی اور اسی ڈھانچے پر ۲۸۔ اپریل ۱۹۱۹ء کو لیگ آف نیشنز کی بنیاد جنیوا میں رکھی گئی۔ اس میں یہ بنیادی اصل رکھا گیا کہ فوجیں زیادہ نہ ہوں۔
حضور نے اس کے بعد تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لیگ آف نیشنز دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی اور اب نہ صرف عام لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ لیگ ایک کھلونا ہے بلکہ جو حکومتیں اس میں شامل ہیں، وہ بھی یہ محسوس کر رہی ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے ذریعہ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ چین و جاپان کی آویزش اور اطالیہ و حبش کی جنگ کے واقعات اور لیگ کی ناکامی کا حضور نے مفصّل ذکر فرمایا۔ اس کے بعد حضور نے یہ بتایا کہ اسلام نے امنِ عالَم قائم کرنے کے کیا ذرائع بتائے ہیں۔ حضور نے فرمایا:۔
اسلام کہتا ہے پہلے یہ غور کرو کہ لڑائی ہوئی کیوں ہے کیونکہ اسلام ہمیشہ بدی کی جڑ کو کاٹتا اور بُرائی کے منبع کا استیصال کرتا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی لڑائی کی تحریک حملہ کرنے والے کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی اس کی طرف سے جس پر حملہ کیا گیا ہو وہ اسباب جو حملہ کرنے والے کے لئے محرک ہوتے ہیں یہ ہیں۔
اوّل یہ تحریک لالچ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَلَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖ اَزْوَاجاً مِّنْھُمْ ۲؎ کہ جو تمہارے اِردگرد قومیں ہوں ان کی طرف لالچ کی نظر سے مت دیکھو۔ چونکہ لالچ سے نفرت اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک بَعْث بَعْدَ الْمَوْت پر یقین نہ ہو۔ اس لئے اسلام یہی نہیں کہتا کہ لالچ مت کرو بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ لالچ کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ لالچ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے یہی دنیا کی زندگی ہے اس کے بعد اور کوئی زندگی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بَعْث بَعْدَ الْمَوْت پر بڑا زور دیا اور فرمایا ہے زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۳؎ یعنی کافرکہتے ہیں کہ وہ دوبارہ اُٹھائے نہیں جائیں گے مگر یہ بالکل غلط ہے۔ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ تم ضرور اُٹھائے جائو گے۔
جنگ کا دوسرا محرک یہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم اپنا کلچر اعلیٰ سمجھ کر دوسری قوموں میں جاری کرنا چاہتی ہے۔ اسلام نے اس سے بھی روکا ہے۔ فرمایا یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ ۴؎ اے مومنو! کوئی قوم دوسری قوم کو اپنے تصرف اور دبدبہ کے نیچے اس خیال کے ماتحت نہ لائے کہ میں اس سے اعلیٰ ہوں کیونکہ ممکن ہے اس کی تہذیب کی خامیاں کَل ظاہر ہو جائیں۔
جنگ کا تیسرا سبب مذہبی برتری قائم کرنا ہوتاہے قرآن کریم نے اسے لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۵؎ کہہ کر ردّ کیا اور بتایا کہ اگر ایک مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو اسے لوگوں سے زبردستی منوانا بیوقوفی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب خدا تعالیٰ زبردستی نہیں منواتا تو کسی اور کیلئے کیونکر جائز ہے۔
جنگ کا چوتھا سبب حمیّتِ جاہلیت ہے کوئی ایک بادشاہ کی یا وزیر کی ہتک کر دیتا ہے تو لڑائی چِھڑ جاتی اور لاکھوں کی جانیں جاتی ہیں۔ یہ حمیّتِ جاہلیت اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب طبیعت میں حسد یا غصہ کے جذبات ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا ہے وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ۶؎ عداوت، بغض یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ تم دوسروں سے لڑو بلکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔
جنگ کا پانچواں سبب یہ ہوتا ہے کہ ایک حکومت دوسری حکومت کے لئے اپنے ملک کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ یہ مذہبی اغراض کے لئے گو ایک محدود علاقہ کے لئے جائز ہے۔ جیسا کہ مکہ مکرمہ کے متعلق خدا تعالیٰ کا حکم ہے مگر عام طور پر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ فرماتا ہے تِلْکَ الدَّارُا لْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۔۷؎
چھٹا موجب یہ ہوتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو کمزور کر کے اپنے لئے ناجائز فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے یہ بھی منع ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا۸؎۔ فرعون نے اپنی قوم کے ٹکڑے کر دیئے ایک کو اعلیٰ عہدے دیتا اور دوسرے کو گِراتا۔ چونکہ اس طرح باہمی تنافر پیدا ہو کر لڑائی ہو جاتی ہے اس لئے اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے۔
جنگوں کا ساتواں سبب سُود ہے اور آٹھواں سبب قوم خود پیدا کرتی ہے وہ اس کی اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ۹؎ یعنی اپنے اندر جس قدر قوت پیدا کر سکتے ہو پیدا کرو۔ لیکن چونکہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا جنگ بالکل ناجائز ہے اس لئے فرمایا نہیں جنگ جائز بھی ہے مگر قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ۱۰؎ اور قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الذِّیْنُ لِلّٰہِ۱۱؎ پھر اس حالت میں بھی جنگ جائز ہوتی ہے جب کوئی قوم معاہدات توڑ دے۔ فرمایا وَاِنْ نَّکَثُوْا اَیْمَانَھُمْ مِّنْ بَّعْدِ عَہْدِ ھِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا أَئِمَۃَ الْکُفْرِ۱۲؎ اسی طرح مذہب میں دست اندازی کرنے اور اس صورت میں جب حکومت کسی قوم کو ہجرت کی اجازت نہ دے اسلام لڑائی کی اجازت دیتا ہے۔
آخر میں حضور نے اسلام کی پیش کردہ لیگ آف نیشنز کا ذکر فرمایا اور جماعت کو نصیحت کی کہ اس کا فرض ہے کہ ان خیالات کو دنیا میں پھیلائے تا اسلام اور احمدیت کی برتری ثابت ہو تقریر کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت لمبی دعا کرائی اور پھر جلسہ ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے احباب کو اجازت دی کہ جو جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔
(الفضل ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۵ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ۱۰ ۔ایڈیشن چہارم
۲؎ طٰہٰ: ۱۳۲ ۳؎ التغابن: ۸ ۴؎ الحجرات: ۱۲
۵؎ البقرۃ: ۲۵۷ ۶؎ المائدۃ: ۹ ۷؎ القصص: ۸۴
۸؎ القصص: ۵ ۹؎ الانفال: ۶۱ ۱۰؎ البقرۃ: ۱۹۱
۱۱؎ البقرۃ: ۱۹۴ ۱۲؎ التوبۃ: ۱۲




منتظمین جلسہ سالانہ کو ہدایات
(فرمودہ ۲ جنوری ۱۹۳۶ء)





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

منتظمین جلسہ سالانہ کو ہدایات اور کارکُنان کا شکریہ۱؎
(تقریر فرمودہ ۲ جنوری ۱۹۳۶ء بمقام قادیان۲؎)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ہمارے ملک کے لوگوں کی کوتاہیوں میں سے ایک بہت بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی چیز کا کوئی معیار مقرر نہیں۔ کوئی چیز کسی جگہ سے طلب کی جائے ایک دفعہ تو اچھی مل جائے گی لیکن دوسری دفعہ اسی قسم کی نہیں مل سکے گی۔ ایک ہی دُکان سے دودفعہ سَودا خریدیں تو وہ کبھی ایک جیسا نہیں ملے گا بلکہ کبھی کسی قسم کا ہو گا اور کبھی کسی قسم کا۔ کوئی معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک کی چیزوں کی قیمت بہت کم پڑتی ہے کیونکہ تاجر کہتے ہیں یہاں سے جو چیز آئے گی ہم نہیں کہہ سکتے وہ معیار کے مطابق ہو گی یا نہیں۔ اس کے مقابلہ میں دیگر ممالک کی اشیاء لوگ مقررہ قیمت پر لینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ہندوستان کی اشیاء مقررہ قیمتوں پر لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
آج اس جلسہ کے موقع پر یہ نئی بات معلوم ہوئی ہے کہ ہمارے ملک کی گھڑیاں بھی غیر معیاری ہیں۔ چنانچہ پروگرام میں تو یہ لکھا ہوا تھا کہ ناظم اصحاب پانچ پانچ منٹ رپورٹ سنانے کیلئے لیں گے لیکن ان میں سے ہر ایک کا وقت دو منٹ سے لے کر پندرہ سولہ منٹ تک پھیلتا چلا گیا۔ یعنی کہیں تو سُکڑ گیا ہے اور کہیں پھیل گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے موقع پر یا تو جیسے مختلف مجالس میں قاعدہ ہوتا ہے صفحے مقرر کر دیئے جائیں اور کہہ دیا جائے کہ ہر شخص مضمون کے اتنے صفحے پڑھ سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ یا پھر پروگرام میں یہ لکھنے کی ضرورت نہ تھی کہ ہر شخص پانچ منٹ لے گا۔ کیونکہ میری طرف سے ایسی کوئی شرط نہ تھی کہ ہر شخص ضرور پانچ منٹ ہی لے اس سے زیادہ نہ لے۔
پس یا تو یہ لکھا نہ جاتا یا کوئی معیار مقرر کر دیا جاتا کیونکہ ہر شخص یہ نہیں جانتا کہ پانچ منٹ میں کتنا مضمون بیان ہو سکتا ہے۔ یہ غیرمعیاری وقت بھی ایسا امر ہے جو بعض لوگوں کی طبائع پر گراں گزرتا ہے کیونکہ جس چیز کی انسان امید نہ رکھتا ہو جب وہ وقوع میں آئے تو طبیعت میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
آواز تو میری بھی آج بیٹھی ہوئی ہے مگر بعض دوست شاید اس امید میں ہوں کہ پروگرام اب شروع ہو گا انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پروگرام شروع ہو کر ختم بھی ہو گیا ہے۔ گو تمام تقریریں سٹیج پر ہی رہ گئی ہیں اور لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچیں مگر بہرحال پروگرام ختم ہو چکا ہے۔
جو رپورٹیں اس وقت پڑھی گئی ہیں ان میں سے بعض کے متعلق میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ان کے مطابق ہمارے کارکن کام کرنے کی کوشش کریں گے۔
رپورٹیں سن کر ایک خیال مجھے یہ پیدا ہوا ہے، گو یہ خیال پہلے بھی میرے دل میں پیدا ہوتا رہا ہے، مگر اب رپورٹیں سن کر خصوصیت سے خیال آیا ہے کہ ایام جلسہ سالانہ پر کھانا کھانے والوں کا مجموعی لحاظ سے بھی ٹوٹل ہونا چاہئے اور گزشتہ سال سے اس ٹوٹل کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ مثلاً اب تک یہ طریق ہے کہ اندازہ لگایا جاتا ہے، ستائیس کی شام کو اتنے لوگوں نے کھانا کھایا اور سال ما سبق میں ستائیس کی شام کو کھانا کھانے والوں کی تعداد اتنی تھی۔ یہ طریق بھی اچھا ہے اور اسے جاری رکھنا چاہئے لیکن رپورٹ میں اس امر کا خصوصیت سے ذکر ہونا چاہئے کہ مثلاً ۲۲۔ دسمبر سے ۳۰۔ دسمبر تک یا جو تاریخیں مناسب سمجھی جائیں، ان تاریخوں میں کُل کھانا کھانے والوں کی تعداد اس قدر تھی اور گزشتہ سال اتنی تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مجموعی لحاظ سے بھی گزشتہ سال سے مقابلہ ہو جائے گا اور آنے والوں کے متعلق صحیح طور پر یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان کی گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں کیا نسبت تھی۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ایک وقت یا ایک دن کے ٹوٹل میں گزشتہ سال کے اسی وقت یا اسی دن کے ٹوٹل کے مقابلہ میں کمی ہو۔ لیکن اگر سارے ایام کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ جلسہ سالانہ پر آنے والوں میں کمی نہیں ہوئی بلکہ زیادتی ہوئی ہے اور چونکہ اس طریق سے کام نہ لینے کے نتیجہ میں اندازہ میں غلطی ہو سکتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ اس لحاظ سے بھی جلسہ سالانہ پر تمام کھانا کھانے والوں کا ٹوٹل کیا جائے۔ پھر اس سے یہ بھی پتہ لگتا رہے گا کہ قادیان میں زیادہ دیر رہنے کی دوستوں کو عادت ہے یا جلدی چلے جانے کی۔ پس اس تجویز پر عمل کرنے سے کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے اک دن کھانا کھانے والوں کی تعداد بائیس ہزار ہو۔ اور دوسرے دن صبح کے وقت پندرہ ہزار اور شام کو دس ہزار رہ جائے اور چونکہ آدمیوں کی تعداد ان کے ایک حصہ کے واپس چلے جانے کی وجہ سے بدلتی رہتی ہے اس لئے صرف ایک دن کا گزشتہ سال کے ایک دن سے مقابلہ کر لینے سے تعداد کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا اور نہ کمی اور زیادتی کا صحیح علم ہو سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک سال کسی ایک دن لوگوں کی خاصی تعداد واپس چلی گئی ہو لیکن دوسرے سال اسی دن لوگ موجود رہے ہوں۔ اور چونکہ اس طرح کھانے کی پرچیوں سے اندازہ لگانے میں غلطی ہو جاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ جلسہ سالانہ کے شروع سے لے کر آخر تک تمام کھانا کھانے والوں کا ٹوٹل کیا جائے اور گزشتہ سالوں سے اس کاموازنہ کیا جائے تا صحیح اندازے کا علم ہوتا رہے۔ پھر اس سے جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ دوستوں کے قادیان میں زیادہ یا کم ٹھہرنے کے متعلق ہم اندازہ لگا سکیں گے۔
سٹور روم کے متعلق مدتوں سے تحریک ہو رہی ہے لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں پہلے وقتوں میں جب اس تجویز پر غور کیا جاتا تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ چیزوں کا سٹور کرنا ہمارے لئے مُضِر ہو گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے لئے چیزوں کا سٹور کرنا مضر ہے یا نہیں لیکن جب مشورہ لیا جاتا تو بالعموم کہا جاتا کہ ہم چیزوں کی حفاظت نہیں کر سکیں گے اور اقتصادی طور پر ہمیں نقصان ہو گا کیونکہ چیزوں کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے گا، کچھ سُسریاں کھا جائیں گی، کچھ چوہے خراب کر دیں گے اور اس طرح ہمارا سٹاک ضائع ہو جائے گا۔ لیکن میرے نزدیک اگر ماہرین فن سے اس کے متعلق بِالاستقلال مشورہ کر لیا جائے تو مفید ہو گا۔ کیونکہ پہلے مختلف امور کے ساتھ یہ امر زیر بحث رہا ہے۔ لیکن اگر اسے ایک مستقل مضمون کی صورت میں اپنے سامنے رکھ کر دوسرے لوگوں سے جو غلہ وغیرہ کے تاجر ہیں، مشورہ کر لیا جائے اور ان کے مشورہ کے بعد سٹور روم بنا لیا جائے تو جس طرح دوسری چیزوں میں خرچ کی کفایت ہمارے مدنظر رہتی ہے، اس طرح اگر اس خرچ میں بھی کمی آ جائے تو میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے لئے فائدہ کا موجب ہوگا۔
عورتوں کے جلسہ کے متعلق ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے شکایت کی ہے کہ ان کے جلسہ میں بہت شور تھا اور انہوں نے کسی تقریر کو سکون کے ساتھ نہیں سنا۔ لیکن میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں تقریر کرنے والے عام طور پر اونچی آواز والے مقرر نہیں کئے جاتے۔ دوسرے ان کا پروگرام کبھی بھی صحیح طریق پر نہیں بنایا جاتا اور بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ مثلاً میں نے دیکھا ہے اس سال عورتوں کے جلسہ کیلئے جو پروگرام مقرر تھا، اس میں تقریروں کیلئے جو عنوان رکھے گئے تھے ان میں سے اسّی فیصدی ایسے تھے جو قطعاً نامناسب تھے۔ پھر وہ عنوان اس قدر مشکل تھے کہ ایک عام آدمی کیلئے فارسی کا سمجھنا آسان ہے لیکن ان عنوانوں کی اردو وہ نہیں سمجھ سکتا۔ دو عنوانوں کے متعلق تو میں نے بھی معذوری ظاہر کر کے ناظر صاحب دعوت و تبلیغ سے دریافت کیا تھا کہ ان کا کیا مطلب ہے۔ اور جب میرے ذہن میں ان کا کوئی مفہوم نہیں آ سکتا تھا تو میں نہیں سمجھ سکتا عورتوں کے ذہن میں ان عنوانوں کے متعلق تقریریں سن کر کیا آیا ہو گا۔ پھر یہ بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ تقریر کرنے والا عورتوں میں تقریر کرنے کے مناسب بھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑا نقص یہ ہے کہ مروجہ طریق کے مطابق یونہی لکھ دیا جاتا ہے، فلاں کی تقریر ایک گھنٹہ ہو گی۔ حالانکہ تقریر کرنے والی ایک لڑکی ہوتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پندرہ منٹ تقریر کرنے کے بعد بیٹھ جاتی ہے۔ اور ۴۵ منٹ عورتوں کو شور مچانے کیلئے دیئے جاتے ہیں۔ اگر مردوں میں بھی ایک شخص کی تقریر کے بعد ۴۵منٹ کا وقفہ دے دیا جائے اور وہاں شور نہ ہو تو پھر عورتوں پر الزام عائد ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہاں بھی شور ہو تو معلوم ہو گا کہ اصل نقص پروگرام میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے جلسہ کا پروگرام نہایت ہی بے توجہی سے بنایا جاتا ہے۔ نہایت بے پروائی سے بنایا جاتا ہے۔ اس میں کسی مصلحت کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور نہ کسی اصل کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے اور میرے نزدیک اس کی بہت بڑی ذمہ داری ناظر صاحب دعوت و تبلیغ پر ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو سمجھیں تو آدھے نقص فوراً دور ہو سکتے ہیں۔ پھر تقریرکرنے والی عورتوں کی آوازیں بھی اتنی اونچی نہیں ہوتیں کہ سب عورتیں بخوبی سن سکیں۔ ایک سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ پریذیڈنٹ لجنہ اماء اللہ سیالکوٹ ہیں۔ وہ نہایت اخلاص اور استقلال سے کام کرنے والی خاتون ہیں۔ ان میں تنظیم کا مادہ بھی پایا جاتا ہے چونکہ ان کی آواز اونچی ہے، اس لئے زنانہ جلسہ گاہ میں جب شور زیادہ ہو تو وہ تقریرکرنے کھڑی ہو جاتی ہیں اور فوراً شور بند ہو جاتا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ عورتوں میں شور اس لئے ہوتا ہے کہ ان تک آواز نہیں پہنچتی۔ اس لئے آئندہ زنانہ جلسہ گاہ کے افسر تقریر کرنے والی لڑکیوں کی آوازوں کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ میں متواتر دس بارہ سال سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی آوازیں اونچی ہونی چاہئیں اور اگر وہ کوشش کریں تو ان کی آوازیں اونچی ہو سکتی ہیں۔ فوجوں میں اونچی آواز کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ پچاس گز سے شروع کر کے کئی گز تک لے جاتے اور بلند آواز سے بولنا سکھاتے ہیں۔ سکھوںکو دیکھ لو وہ ست سری اکال کا نعرہ لگانے کے چونکہ عرصہ سے عادی ہیں اس لئے ان کا سَو ڈیڑھ سَو آدمی بھی جب ست سری اکال کا نعرہ لگاتا ہے تو ہمارے جلسہ سالانہ کے ہزاروں احمدیوں کے نعرہ تکبیر سے ان کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ حدیثوںسے نعرہ تکبیر کا پتہ ملتا ہے۔ چنانچہ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نعرہ لگایا اور باقی صحابہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا۔۳؎ بہرحال نعرہ تکبیر کا احادیث سے نشان ملتا ہے اور یہ نعرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے جائز حدود کے اندر رکھا جائے۔ پھر عیدوں کے متعلق بھی آتا ہے کہ اس موقع پر ایک دوسرے کو دیکھ کر صحابہ بلند آواز سے تکبیر و تسبیح کہتے۔۴؎ پس نعرہ تکبیر جائز ہے لیکن ہمارے ہاں جو نعرے لگائے جاتے ہیں انہیں سن کر طبیعت میں ایک انقباض پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا نعرہ تکبیر ہمارے جسموں کی کمزوری اور ہمارے دماغوں کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے اور بعض لوگ تو جب نعرہ لگاتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ رو پڑے ہیں۔ اِس وقت جو یہاں نعرہ لگایا گیا ہے چونکہ اس کے لگانے میں زیادہ تر طالبعلم شامل ہیں، اس لئے اس کی آواز بھی اونچی تھی لیکن اگر آواز اور زیادہ اونچی کرنے کی کوشش کی جائے تو اپنی تعداد کی نسبت سے کئی گُنے زیادہ نعرہ کی آوازبلند پیدا کی جا سکتی ہے۔
پس آوازیں اونچی کی جا سکتی ہیں اگر آوازوں کے اونچا کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔ میں نے ہمیشہ مدرسوں کے افسروں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں۔ زنانہ مدرسہ کے جو افسر ہیں انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لڑکیوں کی آوازوں کو بلندکرنے کی کوشش کریں۔ ہماری لڑکیوںکی آوازیں بہت دھیمی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عورتیں ان کی تقریر کو نہیں سن سکتیں اور اس وجہ سے شور پڑ جاتا ہے اور یا پھر اس کے ازالہ کا یہ طریق ہے کہ آلہ نشرالصوت لگا دیا جائے۔ اس سے ان لڑکیوں کی آوازیں بھی تمام عورتوں تک پہنچ جائیں گی جو بہت دھیمی بولتی ہیں۔ لیکن مقدم بات یہ ہے کہ عورتوں کا پروگرام کسی معقول اصل پر ہونا چاہئے۔ لڑکیوں کو وقت اتنا دیا جائے جتنا وہ بولنا چاہتی ہوں۔ اور اُن لڑکیوں کو وقت دیا جائے جو بول سکتی ہوں۔ پھر لڑکیوں اور عورتوں کی آوازیں اونچی کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔
لجنہ اماء اللہ بھی اس سلسلہ میں کام کر سکتی ہے اور میں اسے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ کام کرے۔ اسی طرح مدرسوں کے افسر طالب علموں کی آواز کو اونچا کرنے کی کوشش کریں یا پھر دوسرا طریق یہ ہے کہ آلہ نشرالصوت لگا دیا جائے۔ لیکن میرے نزدیک آلہ نشرالصوت چونکہ ہر جگہ نہیں لے جایا جا سکتا اس لئے آوازیں اونچی کرنا بہرحال ضروری ہے اور بالکل ممکن ہے اگر اس طرف توجہ کی جائے تو آلہ نشرالصوت لگانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔
دعوت و تبلیغ کے ناظر صاحب نے اس بات پر بہت خوشنودی کا اظہار کیا ہے کہ نیشنل لیگ کی والنٹیرز کورنے جلسہ سالانہ کے ایام میں بہت اچھا کام کیا میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اگر کور نے اچھا کام کیا ہے اور واقعہ میں اچھا کام کیا ہے تو بہت سے مبلغ جو آج کل یہاں فارغ بیٹھے ہیں، انہیں کور کے افسروں کے ماتحت رکھ دیا جائے اور ان کی ٹریننگ کی جائے تا کہ باہر جا کر وہ مختلف مقامات کی کوروں کی نگرانی کرسکیں۔ مبلغ سرکاری ملازم نہیں کہ وہ نیشنل لیگ کی کور میں شامل نہ ہو سکتے ہوں اور اگر وہ شامل نہ ہوں تو اس کے صرف یہ معنی ہونگے کہ وہ قومی کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر مبلغ خود بخود کور میں شامل نہ ہوں تو انہیں بچہ سمجھ کر تھوڑا سا ان پر جبر کر لیا جائے اور انہیں ٹریننگ دینے کیلئے کور میں شامل کیا جائے۔ کور کے افسروں کا فرض ہے کہ وہ باقاعدہ انہیں کام سکھلائیں یہاں تک کہ ان میں یہ رُوح پیدا ہو جائے کہ وہ استقلال، پھرتی اور جلدی سے کام کر سکیں اور باہر کی کوروں کی نگرانی کر سکیں۔
رپورٹ میں جلسہ سالانہ کی کارروائی کی اشاعت کے کام کی بھی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے میں چونکہ اخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں، اس لئے جہاں تک مجھے معلوم ہے صرف ’’سٹیٹسمین‘‘ نے ہمارے جلسہ کی کارروائی کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ اور کسی اخبار نے ذکر نہیں کیا۔ پس میں نہیں سمجھ سکتا اس سلسلہ میں کونسا خاص کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے اس کے مقابلہ میں غیر مبائعین کے جلسہ کی رپورٹیں اخبارات میں ہمیشہ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مثل مشہور ہے۔ ’’ڈھائی بُوٹیاں تے فتو باغبان‘‘ وہی حالت ان کی ہے۔ مگر ان کے جلسہ کے حالات تو اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں لیکن ہمارے جلسہ کی کارروائی جس میں اتنی کثیر تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں، سوائے ’’سٹیٹسمین‘‘ کے اور کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی اور جہاں تک میں نے دیکھا ہے اس میں بھی صرف پروگرام چھپا ہے، جلسہ کی کارروائی نہیں چھپی۔ اور اگر کچھ کارروائی شائع بھی ہوئی ہو تو وہ ہمارے منتظمین کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی کیونکہ ’’سٹیٹسمین‘‘ نے خود اپنا نمائندہ جلسہ سالانہ کی کارروائی معلوم کرنے کیلئے مقرر کیا تھا۔ بہرحال وہ کام اگر کچھ ہوا بھی ہو تو منتظمینِ جلسہ یا نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ’’سٹیٹسمین‘‘ نے خود اپنے پنجاب کے نمائندہ کو لکھ کر قادیان میں اپنی طرف سے نمائندہ مقرر کرایا تھا۔ پس اس کے کام سے ہمارے منتظم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور نہ اسے اپنی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔
اس امر کی طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے متعلق رپورٹیں مجھے بہت بے قاعدہ ملیں۔ ایک دن تو ایک بجے رات تک میں بیٹھا رہا اور رپورٹوں کا انتظار کرتا رہا۔ دوسرے دن رپورٹ طلب کی گئی تو معلوم ہوا کہ دفتر بند ہو چکے ہیں اور کارکن چُھٹی کرگئے ہیں۔ میں نے کہا انہیں جگائو اور ان سے رپورٹ مانگو۔ چنانچہ انہیں جگایا گیا اور ان سے رپورٹ لی گئی۔ میں امید کرتا ہوں آئندہ کارکن زیادہ ہوشیاری کے ساتھ مجھے رپورٹیں بھجوائیں گے۔ یہ رپورٹ ایسی ضروری چیز ہے کہ میں اسی سے باقی کاموں کا اندازہ کر سکتا ہوں۔ لیکن اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ مجھ تک رپورٹ پہنچانے میں بھی سُستی سے کام لیا گیا ہے تو میرا حق ہے کہ میں یہ خیال کروں باقی کاموں میں کارکنوں نے بہت زیادہ سُستی دکھائی ہے۔
گورداسپور کی جماعت کے متعلق شکوہ کیا گیا ہے کہ اس کی تعداد کے مطابق جگہ اور آدمی مقرر نہیں کئے جاتے میرا اکیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ گورداسپور کی جماعتوں کو جو شکایتیں پیدا ہوتی ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ گورداسپور کے ضلع کی جماعتوں سے بھینیؔ اور ننگلؔ کی جماعتیں مراد ہیں اور یہ خیال نہیں آتا کہ ان جماعتوں میں سے بھی کئی جماعتیں پندرہ پندرہ بیس بیس میل کے فاصلہ پر رہتی ہیں اور ان کو بھی قادیان آنے کا اتنا ہی کم موقع ملتا ہے جتنا امرتسر اور لاہور کی جماعتوں کو۔ بلکہ امرتسر اور لاہور کی بعض جماعتیں گورداسپور کی بعض جماعتوں سے زیادہ قریب ہیں۔ مگر فرض کر لیا جاتا ہے کہ ضلع گورداسپور کی جماعتیں چونکہ ہمارے قریب ہیں اس لئے ان کا یہاں آنا کوئی ایسی چیز نہیں جسکی وجہ سے ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض جماعتیں سُست ہو جاتیں اور احمدیت سے ان کا تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ موضع شکار میں سینکڑوں کی جماعت تھی ایک دفعہ میں نے فوج میں داخل ہونے کی تحریک کی تو اس جماعت نے ستر رنگروٹ دیئے جو جماعت ستّر رنگروٹ دے سکتی ہے اس کے متعلق اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی بڑی جماعت ہوگی۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ جماعت چھ سات سَو سے کم نہ تھی لیکن اب وہ جماعت بالکل مُردہ ہے اور صرف تیس چالیس ایسے آدمی ہیں جو حقیقی معنوں میں احمدی کہلا سکتے ہیں۔ باقی یا تو مرتد ہو گئے یا آہستہ آہستہ احمدیت کی تعلیم ان کے دلوں سے نکل گئی۔ یہ نتیجہ اسی بات کا تھا کہ ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش نہ کی گئی جس کی وجہ سے ہوتے ہوتے ان میں اس قدر بددلی پیدا ہو گئی کہ وہ احمدیت سے دُور چلے گئے۔
اب ضلع گورداسپور کے احمدیوں کی ہم نے مردم شماری کرائی ہے اور گو وہ مکمل مردم شماری نہیں بلکہ اس میں بعض نقائص رہ گئے ہیں لیکن اس مردم شماری کی رُو سے ضلع گورداسپور میں پندرہ ہزار احمدی ہیں۔ گورنمنٹ کی مردم شماری کی رُو سے سات ہزار احمدی ہیں اور میرا اندازہ یہ ہے کہ ضلع گورداسپور کے احمدی بیس پچیس ہزار سے کسی طرح کم نہیں بشرطیکہ صحیح طریق پر مردم شماری کی جائے اور اگر ضلع گورداسپور میں پندرہ بیس ہزار احمدی ہوں اور ہم ان میں صحیح رُوح پیدا کریں تو میرے نزدیک بوجہ قریب ہونے کے ان میں سے پانچ چھ ہزار مہمانوں کی آمد کا ہمیں اندازہ رکھنا چاہئے۔ اگر وہ اس تعداد سے کم آتے ہیں تو یہ یا تو ان کی سُستی کا نتیجہ ہوگا یا اس بات کا ثبوت کہ ہم ان جماعتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
میرے نزدیک ضلع گورداسپور کی جماعتیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اور اگر ہم ان کو مضبوط کریں اور ان جماعتوں کو بڑھانے کی کوشش کریں تو علاوہ مذہبی فوقیت کے ہمیں سیاسی اور اقتصادی فوقیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اور ہماری آواز اتنی طاقت پکڑ لیتی ہے کہ حکومت اور ملک اس آواز کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہماری جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے تعداد میں بہت زیادہ ہے مگر چونکہ وہ پھیلی ہوئی ہے اس لئے اس کی آواز کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ اگر (ایک ضلع تو الگ رہا) ہم ایک تحصیل میں بھی اکثریت حاصل کر لیں تو ہمارے متعلق سب کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے ساتھ سلوک بے پروائی سے نہیں کیا جا سکتا۔ پس میرے نزدیک ضلع گورداسپور کی جماعتیں خاص توجہ چاہتی ہیں۔ اگر جلسہ سالانہ کے موقع پر ان کا خاص طور پر خیال رکھا جا ئے تو جہاںتبلیغ میں سہولت ہو سکتی ہے وہاں امید ہے آئندہ اچھا سلوک ہونے کے نتیجہ میں وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلسہ سالانہ میں شریک ہوں۔
مکانات کی دقّت کے متعلق قاضی صاحب (قاضی محمد عبداللہ صاحب نائب ناظم بیرون قصبہ) نے جو تجویز پیش کی ہے‘ میرے نزدیک اس پر غور کر لینا مفید ہو گا۔ دراصل بہت سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے منتظمین کے پاس مکانات کافی ہوں گے اور ہمیں اپنے مکان دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر جبر تو نہ ہو لیکن نیم جبری طریق ہو جس میں لوگوں کو محسوس نہ ہو کہ جبر ہو رہا ہے اور محلہ والوں میں سے ہر ایک سے کہا جائے کہ اپنے مکانات کا کچھ حصہ دو اور ان کے پیچھے پڑ کر اور اصرار کر کے مکانات لئے جائیں تو میں سمجھتا ہوں، مکانات کافی تعداد میں مل سکتے ہیں۔ اس طرح یہ بھی فائدہ ہو گا کہ اخلاص کی روح جماعت میںقائم رہے گی۔ ورنہ آہستہ آہستہ یہ روح مر جاتی ہے۔ بیرون قصبہ کے انتظامِ خوراک میں جو دقّت پیش آتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باہر کے محلے نہایت وسیع ہو گئے ہیں۔ بلکہ اندر کا حصہ اتنا وسیع نہیں جتنا باہر کا حصہ وسیع ہے، لیکن انتظامات کو وسیع نہیں کیا گیا۔ میرے نزدیک آئندہ اس کے نظام میں تبدیلی ہونی چاہئے اور کارکنوں کی مجلس جو انتظامات جلسہ سالانہ کے متعلق غور کیا کرتی ہے، اسے اس امر پر بھی غور کرنا چاہئے۔ میرے نزدیک اگر دارالرحمت اور دارالعلوم کو الگ اور دارالفضل اور دارالبرکات کو الگ کر دیا جائے۔ اور دارالفضل کے مشرقی یا دارالبرکات کے مغربی حصہ میں نیا باورچی خانہ بنا دیا جائے تو بہت کچھ سہولت ہو سکتی ہے۔ اس طرح امید ہے کہ ایک طرف دارالرحمت اور دارالعلوم کا انتظام عمدگی سے ہو سکے گا اور دوسری طرف دارالفضل اور دارالبرکات کا انتظام اچھا ہو جائے گا۔ ممکن ہے اس میں بعض دقّتیں بھی پیش آئیں۔ چنانچہ ہو سکتا ہے نیا انتظام کرنے میں تجربہ کار کارکن میسر نہ آئیں لیکن یہ کوئی ایسی روک نہیں جس سے یہ کام نہ ہو سکے۔ تجربہ کار کارکن دوسرے محلوں سے بھی دیئے جا سکتے ہیں اور پھر محلہ والے ایک دو سال کی مشق کے بعد اتنا تجربہ حاصل کر لیں گے کہ اپنے انتظام کو وہ خود چلا لیں گے۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام کرنے کی اتنی مشق ہو گئی ہے کہ پہلے جن کاموں میں وہ گھبراہٹ محسوس کیا کرتے تھے، اب ان کاموں کے کرنے سے نہیں گھبراتے۔ اسی طرح محلوں کا الگ الگ انتظام ہونے کی وجہ سے ممکن ہے ابتداء میں کچھ نقائص واقعہ ہوں، لیکن تجربہ ہو جانے کی وجہ سے یہ کام سہولت سے ہونے لگے گا۔ منتظمین جلسہ سالانہ کو اگر مکانوں کے حصول میں دقّت ہو تو انہیں چاہئے کہ مختلف مقامات پر زمین خرید لیں اور وہاں بیرکس تیار کریں۔ یہ عمارتیں نہایت سَستی بنائی جا سکتی ہیں۔ گورنمنٹ ہمیشہ فوجیوں کیلئے بیرکس بنایاکرتی ہے۔ اگر دارالرحمت اور دارالفضل میں اس قسم کی بیرکس بنا دی جائیں تو گو ہر سال ان پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑے گا۔ مثلاً ممکن ہے دو ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں، اس طرح خرچ میں بہت کچھ کمی ہو سکتی ہے۔ وہ مہمان جو گھروں میں ٹھہرتے ہیں، ان کیلئے بھی کام کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ لیکن اگر بیرکس بنا دی جائیں تو تھوڑے سے آدمی ایک جگہ سب مہمانوں کو کِھلا پِلا سکتے ہیں۔ میرا مدت سے خیال ہے کہ ہمیں جلسہ سالانہ کیلئے بیرکس بنانی چاہئیں۔ اس صورت میں کام کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی ضرور تخفیف ہو جائے گی۔
نانبائیوں کے متعلق اور پانی کی دقّت کے متعلق یہ بہتر تجویز ہو گی کہ جلسہ سالانہ سے چار پانچ مہینے پہلے اعلان کر کے باہر سے احمدی نانبائی اور سقّے بُلوا لئے جائیں اور اگر کوشش کی جائے تو میں سمجھتا ہوں ہمیں اپنی جماعت سے ہی اتنے نانبائی مل سکتے ہیں جو کام چلانے کیلئے کافی ہوں اور جب اپنے آدمی مل سکتے ہوں تو کوئی وجہ نہیںا نہیں فائدہ سے محروم رکھا جائے۔ میرے نزدیک اگر اچھی طرح کوشش کی جائے تو ہمیں اتنے نانبائی مل سکتے ہیں کہ ان میں سے نصف تو جلسہ سالانہ کا کام کریںاور نصف تقریر سن لیں۔ اور پھر دوسرے وقت میں تقریریں سننے والے کام پر لگ جائیں اور دوسرے تقریریں سن لیں۔ اس طرح آدھے وقت میں ایک پارٹی اور آدھے وقت میں دوسری پارٹی تقریریں سن سکتی ہے۔ صرف جلسہ سالانہ کے موقع پر نانبائیوں کا آنا اور پھر جلسہ میں ان کا شامل نہ ہو سکنا ایسا بوجھ ہے جسے طبائع برداشت نہیں کر سکتیں۔ اور اگر احمدی نانبائی کم ہوں اور وہ اپنے ساتھ غیراحمدی رشتہ داروں کو لے آئیں اور اس کی انہیں تحریک کی جائے تو ممکن ہے ضرورت سے بہت زیادہ نانبائی ہمیں میسر آ جائیں۔ اس صورت میں یہ انتظام ہو سکتا ہے کہ ایک پارٹی ایک وقت کام کرے اور دوسری پارٹی دوسرے وقت اور فارغ اوقات میں وہ جلسہ سالانہ کی تقریریں سن لیں۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے شوق کی وجہ سے احمدی نانبائی آنریری طور پر بھی کام کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس طریق کو اختیار کر لیں تو کوئی تعجب نہیں کہ دو چار سال میں ہی ہمارا کام مفت ہونے لگے۔ یا اتنی قلیل رقم خرچ ہو جس کا برداشت کرنا بوجھ نہ ہو پھر تبلیغ کا بھی یہ ایک ذریعہ ہے۔ اگر وہ اپنے غیراحمدی رشتہ داروں کو اپنے ساتھ لائیں اور آدھا وقت کام کرنے کے بعد جلسہ سالانہ میں شامل ہو جائیں تو آدھے کام کی انہیں اُجرت بھی مل جائے گی اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے سے ممکن ہے انہیں احمدیت میں داخل ہونے کی بھی توفیق مل جائے۔ اسی طرح سقّوں کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے۔
ان باتوں کے بعد میںان تمام دوستوں کا جنہوں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر خدمت کی شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو قبول فرمائے۔ میرا احساس یہ ہے کہ ہمارے دوستوں میں اب شورکم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔ پہلے ملاقاتوں سے زیادہ بوجھ مجھ پر یہ ہوتا تھا کہ میرے پاس مختلف شکایتیں آتیں اور مجھے ان پر توجہ کرنی پڑتی لیکن اب شکایتوں کا سلسلہ بہت کم ہے۔ ممکن ہے بعض اس فن کے بھی ماہر ہوں کہ شکایتیں کم پہنچنے دیں لیکن میرا ذہنی بوجھ اس طرف سے بہت کم ہو گیاہے جس سے میں اندازہ لگاتا ہوں اور میرا اندازہ صحیح ہے کہ ہمارے دوستوں کو کام کرنے کی آہستہ آہستہ مشق ہو گئی ہے اور مشق ہو جانے کی وجہ سے وہ گھبراتے نہیں اور نہ گھبرانے کی وجہ سے شور نہیں کرتے اور شور نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی کا ماحول پیدا نہیں ہوتا۔ بے شک زیادہ کام کرنے میں وہ اب بھی باہر کے لوگوں کیلئے نمونہ ہیں لیکن اگر اور زیادہ کاموں میں انہماک پیدا کریں تو میں سمجھتا ہوں لوگوں کیلئے زیادہ اچھا نمونہ بن سکتے ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کے متعلق بھی میں نے دیکھا ہے، پہلے اس کے کاموں میں گھبراہٹ ہوتی اور شکایت آتی رہتی کہ کام کرنے والی عورتیںچلی جاتی ہیں لیکن اب سوائے پہلے دن کے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور باقاعدہ کام ہوتا رہا ہے بلکہ بعض باتوں میں لجنہ کا کام مردوں کی نسبت زیادہ سمجھ اور عقل کا ہوتا ہے۔ مثلاً گھر میں پہرہ کے متعلق پہلے مَیں لجنہ کے کام کی حکمت نہیں سمجھا تھا اور میں نے خیال کیا کہ یہ عجیب سی بات ہے کہ ایک مرد کا عورتیں پہرہ دیں۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ ہماری اس سے یہ غرض ہے کہ اگر کوئی مرد بُرقعہ پہن کر عورتوں میں آ جائے تو آپ تو اس کا بُرقعہ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے لیکن ہم عورتیں اس کا پتہ لگا سکتی ہیں۔ تب میں سمجھا کہ انہوں نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا ہے۔ مگر ایک بات میں تو مَیں نے ان کا انتظام مردوں سے بھی زیادہ اچھا دیکھا۔ جب میں باہر نکلتا ہوں تو پہرہ دار مجھے اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ پتہ نہیں لگتا کہ کوئی آدمی کسی کام کیلئے جا رہا ہے بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قیدی ہے جسے عدالت سے جیل خانہ میں لے جایا جا رہا ہے لیکن عورتوں میں مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں کسی پابندی کے نیچے ہوں۔ جو عورتیں پہرہ کیلئے مقرر تھیں وہ ہمیشہ مجھ سے بیس تیس قدم کے فاصلہ پر رہتیں اور ایسی خاموشی سے رہتیں کہ ایک دو دفعہ تو مجھے خیال ہوا کہ شاید ان کا انتظام ٹوٹ گیا لیکن پھر معلوم ہوا کہ ایک عورت دور کھڑی تھی جو پہرہ کا تمام انتظام دیکھ رہی تھی۔ یہ اس خوبی کا انتظام تھا کہ میں سمجھتا ہوں مردوں سے بھی اچھا تھا۔ پھر اس میں کسی قسم کی غفلت نہیں تھی بلکہ ہوشیاری اور بیداری تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پھر بھی مردوں میں سے ایک حصہ کا کام بہت اچھا ہو رہا ہے۔
پس میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے آپ لوگوں کیلئے دعا کرتا ہوں اور اصل شکر تو خداتعالیٰ کا ہی ہے کیونکہ جس کسی کو بھی کام کرنے کی توفیق ملی اسی کے فضل اور رحم سے ملی۔ ہمارے جیسے ہی آدمی ہیں جو مسلمان کہلاتے اور خدمت اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وقت پر وہ کچے دھاگے کی طر ح ٹوٹ جاتے ہیں۔
پس یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے خدمت کی توفیق دی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے مسلمان ہونے کا ہمارے رسول پر احسان نہ جتلاؤ خداتعالیٰ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں مسلمان بنایا۔ پس فرمانبرداری کا مادہ پیدا ہونا بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کیونکہ فرمانبرداری ایسا مادہ ہے جو بظاہر فطرتِ انسانی کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں کیوں دوسرے کی اطاعت کروں۔ پس اگر کام فرمانبرداری سے ہوئے ہیں تو یہ بھی خداتعالیٰ کا ہی احسان ہے اور اگر کام اخوّت کی وجہ سے ہوئے ہیں تو اخوت کا پیدا کرنا بھی خداتعالیٰ کا ہی احسان ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا۔۵؎ پس جہاں فرمانبرداری کا ذکر تھا، وہاں بتایا کہ فرمانبرداری کا مادہ تمہارے اندر پیدا کرنا ہمارا احسان ہے اور اگر یہ نہ ہو بلکہ تعاون کا سوال ہو تو فرماتا ہے کہ تعاون بھی ہم ہی پیدا کیا کرتے ہیں اگر ہم پیدا نہ کریں تو دنیا کا کوئی کام نہ ہو۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے کام ہوا کرتا ہے۔ یا تو تعاون اور اخوّت سے کام ہوا کرتا ہے یا اطاعت سے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں انسانی طاقت سے باہر ہیں صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتی ہیں۔ پس سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اپنے فضل سے ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اگر اس کا فضل شاملِ حال نہ ہوتا تو ہم کوئی کام نہ کر سکتے۔
آخر میں مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کیلئے دعا کریں۔ کام کرنا ہر مومن کا فرض ہے اور جب کوئی مومن دین کا کام کرتا ہے تو درحقیقت وہ دوسرے مومن کے نقطہ نگاہ سے اس پر احسان کرتا ہے اور جب دوسرا کام کرتا ہے تو یہ اپنے نقطہ نگاہ سے اسے اپنے اوپر احسان سمجھتا ہے۔
پس اسلام یہ سکھاتا ہے کہ جب کوئی مومن کام کرے، دوسرے یہ سمجھیں کہ وہ ہم پر احسان کر رہا ہے اور جب اور کوئی کام کرے تو یہ اپنے لئے اسے احسان سمجھے اور کہے کہ وہ میرا کام تھا جسے میرے بھائی نے سرانجام دیا۔ اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ان بھائیوں کیلئے دعا کریں جو جلسہ سالانہ پر آئے اور ہمارے ذریعہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے پھر بھی ہماری کوتاہیوں سے چشم پوشی کی۔ وہ بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کیلئے خاص طور پر دعا کی جائے۔
(الفضل۲۲ فروری ۱۹۳۶ء)
۱؎ جلسہ سالانہ کے خاص انتظامات کے اختتام پر جناب میر محمد اسحق صاحب افسر جلسہ سالانہ کے زیر انتظام تمام کارکنان جلسہ کا جو اجتماع ہوا اور جس میں تمام شعبہ جات کے انچارج صاحبان نے اپنے اپنے کام کے متعلق رپورٹ پیش کی، رپورٹیں سُننے کے بعد حضور نے یہ تقریر ارشاد فرمائی۔
۲؎ الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۶ء
۳؎ شرح مواھب اللدنیۃ الجزء الثانی صفحہ ۱۱۰۔ مطبع ازھریہ۔ مصر۔ ۱۳۲۵ھ
۴؎ بخاری کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام التشریق
۵؎ اٰل عمران: ۱۰۴









حقیقتِ حال





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
حقیقت حال
میں نے ایک عرصہ سے اہلِ جموں و کشمیر کے نام اپنے خطوط کا سلسلہ بند کیا ہوا تھا اور یہ اِس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے اہلِ کشمیر سے ہمدردی نہ رہی تھی بلکہ اس کی وجوہ اور تھیں اور میرا ان وجوہ کی بناء پر خیال تھا کہ میری طرف سے سلسلہ خطوط کا جاری رہنا لیڈرانِ کشمیر کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ پس خود اہلِ کشمیر کے فائدہ کیلئے میں خاموش رہا۔ اس کے بعد میں دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں صدارت سے علیحدہ ہو کر امداد سے غافل نہیں رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں پسِ پردہ کوشش نہ کرتا رہتا تو یقینا موجود حالت سے بھی بدتر حالت ہوتی لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھ کر مَیں نے اس امداد کا اظہار نہیں کیا کیونکہ اس میں نقصان کا خطرہ تھا۔
سب سے اوّل میں نے یہ کام کیا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد جن کے نام اور کام سے کشمیر کا ہر عاقل بالغ واقف ہے انہیں انگلستان ہدایت بھجوائی کہ وہ انگلستان میں لوگوں کوکشمیر کے حالات سے واقف کریں تا اس سے لوگوں کو دلچسپی پیدا ہو، چنانچہ انہوں نے دو کام اس بارہ میں کئے۔
(۱) مختلف ذمہ دار لوگوں سے اور پریس سے مل کر کشمیر کے متعلق ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ کئی اخبارات میں ہمدردانہ مضامین نکلے۔ جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر ڈیلی ٹیلی گراف کا وہ مضمون ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ کشمیر کے فسادات افسروں کی نالائقی کے سبب سے ہیں لیکن اب تو انگریز افسر چلے گئے ہیں پھر بھی فساد ہو رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی گہرا نقص ہے جس کے لئے اب ہمیں ایک اور کمیشن بٹھانا چاہئے اور ان نقصوں کو دور کرنا چاہئے۔ اس پر درد صاحب نے ایک تائیدی مضمون لکھا اور وہ اس اخبار میںچھَپ گیا۔ یہ اخبار موجودہ حکمران جماعت کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
(۲) دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ پارلیمنٹ میں کشمیر کے متعلق سوال کرائے اور ذمہ دارلوگوں سے ملاقاتیں کیں چنانچہ لیڈی ندر لینڈ کے اخراج کے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرایا گیا اور بعض سوال موجودہ حالاتِ کشمیر کے متعلق کرائے گئے۔ ایک اشتہار کشمیر کے حالات کے متعلق بڑے بڑے لوگوں میں حال میں شائع کیا گیا ہے اور بہت سے پارلیمنٹ کے ممبروں نے امداد کا وعدہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میں سوال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے معمولی ممبر ہونے کی حیثیت سے درد صاحب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے اور جو کچھ وہ کر سکتے تھے اس سے انہوں نے دریغ نہیں کیا۔
میں نے ہندوستان میں جو کام کیا وہ یہ ہے۔
(۱) مقدمات میرپور کی پیروی جس پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا۔
(۲) موجودہ فسادات میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان کے متعلق بھی جدوجہد کی گئی ہے۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب سیاکھوی کے رشتہ داروں کی تحریک پر ان کیلئے ایک لائق وکیل کا انتظام کیا گیا ہے جو ان کے مقدمہ کی اپیل کرے گا۔
(۳) بعض قیدیوں کی رہائی کیلئے کوشش کی گئی۔
(۴) میر واعظ صاحب ہمدانی مجاورین خانقاہ میر مقبول شاہ صاحب اور دیگر بہت سے احباب کے متعلق جو ناواجب احکام جاری ہوئے تھے، ان کے منسوخ کرانے کی کوشش کی گئی اور کی جا رہی ہے کچھ حصہ میں ہمیں کامیابی ہوئی ہے، بقیہ کیلئے کام ہو رہا ہے۔
(۵) ہزا یکسیلینسی وائسرائے بہادر کے پرائیویٹ سیکرٹری اور پھر خود حضور وائسرائے کے پاس میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھیج کر مظالمِ کشمیر کے دور کرنے کی طرف توجہ دلوائی اور ہز ا یکسیلینسی کے کہنے پر کہ مسٹر کالون سے بھی ہمارے آدمی ملیں وہ ضرور توجہ کریں گے۔ سیدزین العابدین صاحب کو جموں دو دفعہ بھجوایا اور ایک دفعہ دہلی جہاں وہ مسٹر کالون، مسٹر وزارت حسین اور مسٹر پیل سے ملے اور موجودہ حالات کو بدلوانے کیلئے پوری سعی کی۔
(۶) اس کے بعد میں نے عزیزم چوہدری ظفراللہ خان صاحب سے کہا کہ وہ ہِزایکسیلینسی وائسرائے سے ملاقات کے موقع پر کشمیر کے متعلق بھی تذکرہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے ان امور کے متعلق وائسرائے ہند سے گفتگوکی۔
(۷) جو لوگ جلا وطن کئے گئے ہیں یا جن کو کشمیر میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، ان میں سے بعض کی مالی امداد بھی کی گئی۔
(۸) جب بھی لیڈرانِ کشمیر نے خواہش کی، انہیں مناسب مشورے دیئے گئے۔
غرض یہ کام ہے جو گذشتہ ایام میں مَیں نے کیا ہے اور آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام معمولی کام نہیں۔ ہاں اگر نتیجہ اتنا شاندار نہیں نکلا جس قدر کہ پہلے نکلا کرتا تھا تو اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہیں۔ میں نہیں۔ اوّل تو اس لئے کہ آپ نے یا آپ میں سے بعض نے سِول نافرمانی جاری کر کے میرے ہاتھ باندھ دیئے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں سِول نافرمانی کا سخت مخالف ہوں۔ میرے نزدیک سِول نافرمانی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ حکومت شرافت سے کام لے۔ جس دن حکومت کے افسر رعایا کی طرح قانون شکنی پر آمادہ ہو جائیں، اس دن رعایا کا سب زور ٹوٹ جاتا ہے۔ پس اوّل تو میرے نزدیک سِول نافرمانی کامیابی کا ذریعہ ہی نہیں۔ دوسرے میرے نزدیک سِول نافرمانی مذہباً اور اخلاقاً درست نہیں کیونکہ اس سے قانون شکنی کی روح پیدا ہوتی ہے اور جب یہ روح پیدا ہو جائے تو خواہ اپنی ہی حکومت کیوں نہ ہو، وہ چل نہیں سکتی۔ تیسرے یہ کہ اگر سِول نافرمانی کو مفید اور جائز بھی سمجھ لیا جائے تب بھی میرے نزدیک کشمیر کے لوگ اس کیلئے تیار نہ تھے۔ سِول نافرمانی کے لئے نہایت وسیع مخفی نظام اور کافی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر جس وقت سِول نافرمانی کا اعلان کیا گیا ہے اُس وقت اہلِ کشمیر کو یہ باتیں میسر نہ تھیں۔ پس اگر سِول نافرمانی کو مفید بھی سمجھ لیا جائے تب بھی موجودہ حالات میں اس میں کامیابی ممکن نہ تھی۔ سِول نافرمانی کے تجربے ہندوستان، آئر لینڈ، مصر اور فلسطین میںکئے گئے ہیں لیکن ایک جگہ بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں مل والوں کی دولت اور گاندھی جی کی شخصیت اس کی تائید میں تھی۔ مصر میں سعدزغلول جیسے شخص کی روح کام کر رہی تھی‘ آئر لینڈ کو امریکہ جیسے دولتمند ملک کی پُشت پناہی حاصل تھی اور دوسَو سال کی تنظیم ڈی ولیرا ۱؎ کی امداد پر تھی‘ فلسطین کی جدوجہد عیسائی اور مسلمانوں کی مشترکہ تھی‘ گویا اصلی باشندے اور وہ باشندے جو وہاں قریب زمانہ میں حکومت کر چکے تھے وہ مقابلہ پر آمادہ تھے۔ مگر بارہ سالہ جدوجہد کے بعد بھی ان لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ سوائے آئرلینڈ کے جس نے تجربہ کے بعد سِول نافرمانی کو ترک کر دیااور کونسلوں میں داخل ہو کر ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ سو آئرلینڈ میں ڈی ولیرا آج تبدیلی ٔ اصول کی وجہ سے حکومت کر رہا ہے اور ہندوستان، فلسطین اور مصر میں سِول نافرمانی کے مدّوجزر کے بعد حالات پھر وہی کے وہی ہیں۔ اور اس کے شَیداو مولا پھر کونسلوں کی طرف رغبت کر رہے ہیں۔
غرض سِول نافرمانی ایک مشتبہ ہتھیار ہے جو دشمن ہی کو نہیں کبھی اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیتا ہے اور اس وقت تک اس کے ذریعہ سے کسی ملک میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کامیابی یا قانونی تعاون سے ہوئی ہے جیسے کہ آئرلینڈ، ایران وغیرہ میں۔ یا لڑائی سے جیسے کہ جرمنی، اٹلی اور ٹرکی میں۔ پس اس مُضِر عمل کی موجودگی میں مَیں آپ کی کیا امداد کر سکتا تھا۔ برطانوی حُکّام کا ایک ہی جواب تھا کہ جب یہ لوگ قانون توڑ رہے ہیں تو حُکّام سوائے سزا دینے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے فسادات میں وہ یہ جواب نہیں دے سکتے تھے اور نہیں دیتے تھے کیونکہ اُس وقت ہم انہیں کہتے تھے کہ باوجود اس کے کہ ملک قانون شکنی کے مخالف ہے، حُکّام خود قانون شکنی کر کے فساد پھیلا رہے ہیں اور برطانوی حُکاّم تحقیق کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔
دوسری دقّت میرے راستہ میں وہی تھی کہ مَیں اب صدر نہ تھا۔ مَیں حُکاّم کے کان میں تو بات ڈال سکتا تھا مگر مَیں کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ مجھے اس کا اختیار نہ تھا اور اس وجہ سے کسی بات کو مَیں انتہاء تک نہیں پہنچا سکتا تھا۔ اس کے سوا کہ نتیجہ میرے اختیار میں نہ تھا،مَیں نے پورے طور پر کوشش کی اور اس میں کمی نہیں کی۔ ہاں اپنی کوشش کو شائع بھی نہیں کیا کیونکہ ڈر تھا کہ اُس وقت کے حالات کے ماتحت خود آپ کے لیڈر ہی حکومت کو تاریں دینے لگ جاتے کہ مجھے کشمیر کے متعلق کچھ کہنے کا حق نہیں اور فائدہ کی جگہ نقصان ہی ہوتا۔
مَیں یہ بھی یقین دلا دینا چاہتا ہوں کہ مَیں نے کشمیر ایسوسی ایشن کو صاف کہہ دیا ہے کہ جو عُہدہ دار بھی منتخب ہوں، مَیں اپنی پوری طاقت ان کی امداد کیلئے اِنْشَائَ اللّٰہُ خرچ کر دوں گا اور تبدیل شدہ حالات میں جو کچھ ہو سکتا ہے اس سے مجھے دریغ نہ ہو گا۔
اس کے بعد مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک کامیابی کے سرے پر پہنچے ہوئے کام میں روک پیدا ہو گئی ہے۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ اس میں کس کا قصور تھا۔ بہرحال موجودہ خرابی کو ہم نے دور کرنا ہے اور اس کیلئے میں مندرجہ ذیل مشورہ ان لوگوں کو جو مجھ پر اعتبار رکھتے، اور میری امداد کی ضرورت سمجھتے ہیں دیتا ہوں۔
۱۔ کسی قسم کی قانون شکنی نہ کی جائے بلکہ قانون کا پورا احترام کیا جائے۔ میں اس وقت اس اصل کی اخلاقی خوبیاں نہیں بیان کرنا چاہتا صرف یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم فائدہ اس کا یہ ہو گا کہ قانون شکنی کا الزام لگا کر حُکاّم کو ظلم کرنے کا موقع نہ ملے گا اور آپ لوگ اس عرصہ میں منظم ہو سکیں گے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر جنگ سے پہلے تنظیم ضروری ہے مگر ابھی تو آپ لوگوں نے تنظیم کا کام ختم کیا شروع بھی نہیں کیا پھر کتنا ظلم ہو گا اگر آپ لوگ قومی طاقت کو ضائع کر لیں۔ آپ کی جانیں اور آپ کے مال قومی امانت ہیں۔ اس امانت کو بے موقع خرچ کرنا اپنا ہی نقصان نہیں، قوم پر بھی ظلم ہے۔
۲۔ دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اگر حُکاّم ظلم بھی کریں، تب بھی آپ لوگ اس کا جواب خود نہ دیں بلکہ قانونی طور پر اس کے ازالہ کی کوشش کریں۔ قانونی کوشش لمبی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر بہت اعلیٰ پڑتا ہے اور غیر کو بھی ا س کا جواب دینے کی جرأت نہیں پڑتی۔ آخر ایک لمبے تجربہ سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ خود جواب دے کر بھی ظلم کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ ظالمِ کو ظُلم کا اور موقع ملتا ہے۔ پس کیوں نہ صبر کے ساتھ کوشش کی جائے اور ایک دفعہ ظالم حُکاّم پر اس طرح حجت کر دی جائے کہ پھر ان کیلئے منہ دکھانے کی صورت نہ رہے۔ بے شک آپ کا بہت کچھ نقصان ہوا ہے۔ لیکن آخر چوری سے، تجارتی نقصان سے، طوفان سے اور دیگر حوادث سے بھی تو نقصان ہو جاتا ہے اگر قوم کی خاطر نقصان ہو گیا تو کیوں آپ اس قدر پریشان ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ نقصان نقصان نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک تجارت ہے۔ صبر کے نتیجہ میں یہ نقصان آپ کو نفع سمیت واپس ملے گا اور وہ دن دور نہیں کہ خداتعالیٰ آپ کی مظلومیت کی فریاد کو سُنے گا اور ظالم زیر کئے جائیں گے اور آپ کو غلبہ دیا جائے گا۔ ظلم پہلے کب کامیاب ہوا ہے کہ اب کامیاب ہو گا۔ پس ظلم پر صبر کریں یعنی اس کے جواب کیلئے خود ہاتھ نہ اٹھائیں بلکہ قانون کے اندر رہ کر ظالم کو سزا دلانے کی کوشش کریں۔
۳۔ اور سب کاموں سے زیادہ تنظیم کی طرف توجہ کریں جب تک آپ کے ملک میں تنظیم نہ ہو گی، کچھ نہ ہو سکے گا۔ منظم ملک پر ڈاکے نہیں ڈالے جا سکتے۔ پس آپ اپنے آپ کو منظم کریں مگر تنظیم سے میری مراد یہ نہیں کہ ہر جگہ ایک انجمن ہو۔ یہ امر بھی ضروری ہے اور اب تک یہ کام بھی نہیں ہوا۔ لیکن میں تنظیم کے معنی اس سے زیادہ لیتا ہوں۔تنظیم کے معنی میرے نزدیک یہ ہیں کہ ایک تو سارے ملک میں ہر فرد ِبشر کو قومی تحریک کا ہمدرد بنایا جائے۔ صرف جلسوں کا ہونا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا ممبر ہونا اور ممبری کی علامت کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ میں نے بارہا سیاہ بِلاّ لگانے یا ایسا ہی کوئی اور نشان لگانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے کوئی نشان قرار نہیں دیا اور نہ اس پر عمل کیا ہے۔ حالانکہ جب تک حکومت کو یہ معلوم نہ ہو کہ کس قدر لوگ قومی تحریک میں شامل ہیں، وہ مرعُوب نہیں ہو سکتی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ شروع شروع میں جب مَیں نے کام شروع کیا تھا، آپ لوگ آج سے زیادہ کمزور تھے۔ مگر صحیح ذرائع سے کام لے کر خداتعالیٰ کی امداد سے بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گئی۔ اب بھی خداتعالیٰ کے فضل سے حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ اور اگر آپ صحیح طریق اختیار کریں گے تو اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد حالات بدل جائیں گے۔ صرف ضرورت ہمت، استقلال اور قانون کے اندر رہ کر کام کرتے ہوئے قربانی اور ایثار کی ہے۔ سو جس دن آپ لوگ پہلے کی طرح پھر کمر باندھ لیں گے، اِنْشَائَ اللّٰہُ غم کے بادل پھَٹ جائیں گے اور خوشی کا سورج نکل آئے گا۔ مگر یاد رہے کہ قومی آزادی ایک دن میں نہیں ملتی۔ ہاں آزادی کی قِسطیں صحیح جدوجہد سے یکے بعد دیگرے ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔
۴۔ حکومت کی آپ لوگ پوری نگرانی رکھیں کہ گلینسی رپورٹ پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ جہاں نقص معلوم ہو فوراً اس کی اطلاع آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کو یا مجھے دیں۔ ہم تحقیق کر کے اِنْشَائَ اللّٰہُ حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلینسی رپورٹ میں جو کچھ ملا ہے، وہ ہمارے مطالبات سے بہت کم ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس پر عمل ہو، تو مسلمانوں کی حالت موجودہ حالت سے اچھی ہو جاتی ہے۔ پس مطابق ’’مَثَل یکے رابگیرد دیگرے رادعویٰ بکُن‘‘۔ جو ملا ہے اسے تو لینے کی کوشش کرنی چاہئے اور باقی مطالبات کیلئے جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہی طریق احسن ہے اور اس میں کامیابی کا راز ہے۔ حکومت موجودہ شورش سے فائدہ اُٹھا کر گلینسی رپورٹ کو عملاً داخل دفتر کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہوشیاری سے اس پر عمل کرائیں اور اگر وہ عمل نہ کرے تو حکومت ہند اور حکومت انگلستان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کریں۔ اگر باری باری ایک ایک مسئلہ کو لیکر زور دیا گیا تو آپ دیکھیں گے کہ زور زیادہ پڑ سکے گا اور کامیابی زیادہ یقینی ہو گی۔ سب امور کو اکٹھا پیش کرنے پر حکومت برطانیہ جواب دے دیتی ہے کہ آخر ان کاموں کیلئے وقت چاہئے۔ لیکن اگر ایک امر کو لے کر کشمیر اور باہر کی طاقت اس پر خرچ کر دی جائے تو یقینا کشمیر دربار معیّن صورت میں احکام جاری کرنے پر مجبور ہو گا۔ مثلاً سب سے پہلے ملازمتوں کے سوال کو لے لیا جائے۔ اس سوال کے حل ہو جانے سے آپ کو آدھی فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ علاوہ مالی فائدہ کے حکومت میں ایک کافی تعداد ایسے لوگوں کی آ جاتی ہے جن کے دل آپ کی ہمدردی سے پُر ہوں گے۔ اسی طرح ایک ایک کر کے مختلف مسائل کو لیا جائے تو یقینا نہ تو حکومت مُہلت کا مطالبہ کر سکتی ہے اور نہ اسے اس چھوٹے سے امر کیلئے ساری اسلامی طاقت کا مقابلہ کرنے کی جرأت ہو سکتی ہے۔
۵۔ اسمبلی بھلی یا بُری جلد بننے والی ہے۔ بعض ساتھی بعض حُکاّم سے مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹروں کی فہرست ایسی بنوائیں کہ جس سے ان کی پارٹی کو طاقت حاصل ہو جائے۔ آپ کو چاہئے کہ اس کا تندہی اور عقلمندی سے مقابلہ کریں اور اپنے ووٹروں کی لسٹ مکمل کروائیں۔ تاکہ اگر اسمبلی پر قبضہ کرنے کی تجویز ہو جو میرے نزدیک ضروری ہے، تو آپ ایسا کر سکیں۔ ورنہ اگر کانفرنس نے اسمبلی پر قبضہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا تو ووٹروں کی فہرست کے نقائص کی وجہ سے آپ لوگ زیادہ ہو کر بھی کم نظر آئیں گے۔
۶۔ چھٹی بات آپ کے آئندہ پروگرام میں یہ ہونی چاہئے کہ جن حُکاّم نے قانون شکنی کر کے ظلم کیا ہے ان کے خلاف کارروائی کریں۔ میر ے نزدیک ہر جگہ تحقیقاتی کمیٹیاں مقرر ہو جانی چاہئیں جو گواہیاں لے کر ظالم حُکاّم کے خلاف مصالح جمع کریں۔ جب یہ مواد جمع ہو جائے، ہم اِنْشَائَ اللّٰہُ لائق وکلاء سے مشورہ لے کر جہاں جہاں حُکاّم پر مقدمات چلائے جا سکیں گے، مقدمات چلائیں گے۔ اگر اس طرح ہم بعض حُکاّم کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے تو ایک تو حُکاّم کے ظلم کا ثبوت مل جائے گا۔ دوسرے آئندہ ظلم کے لئے حُکاّم کو ظلم کرنے کی جرأت باقی نہ رہے گی۔
یہ تو میرے نزدیک آپ لوگوں کیلئے موجودہ حالات میں بہترین پروگرام ہے۔ جو کام ہمیں کرنا چاہئے اور ہم اِنْشَائَ اللّٰہُ اسے کریں گے، وہ یہ ہے:۔
۱۔باہمی جھگڑوں کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں کو کشمیر کے معاملہ سے دلچسپی نہیں رہی۔ ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ حکمت عملی سے اس طرف پھر لوگوں کی توجہ پھیری جائے تا اس بارے میں مسلمانوں کی متفقہ آواز اُٹھے۔
۲۔ سِول نافرمانی کی وجہ سے حکومت کی ہمدردی جاتی رہی ہے۔ حالانکہ عوام میں سے اکثر اور خواص میں سے بھی بعض اس تحریک کے مخالف تھے۔ پس چاہئے کہ حکومت کا نقطۂ نگاہ پھر درست کیا جائے۔ گو یہ کام موجودہ حالات میں بہت مشکل ہے لیکن مشکل کام بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ صبرواستقلال سے کام لیتے ہوئے اگر صدر و دیگر عہدہ داران کشمیر ایسوسی ایشن نے جدوجہد کو جاری رکھا تو وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی-
۳۔ انگلستان و دیگر ممالک میں پھر اس مسئلہ کی طرف لوگوں کی توجہ کو پھرانا۔ اس کام کو میں بآسانی کر سکتا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ پوری طرح ایسوسی ایشن سے تعاون کروں گا۔
۴۔ گلینسی رپورٹ کے خلاف جو باتیں ہوں، ان کو احسن طریق پر حکومتِ ہند اور حکومتِ برطانیہ کے سامنے رکھنا۔ اس کام میں بھی ایسوسی ایشن نہایت مفید بلکہ کامیاب مدد دے سکتی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایسا کرے گی۔
۵۔ چونکہ کانفرنس عملاً بند پڑی ہے۔ بعض طلباء جن کو کتابوں وغیرہ کی امداد دی جاتی تھی، حیران پھر رہے ہیں اسی طرح اور کئی مستحقین بے سروسامانی کی حالت میں ہیں، ان کی مالی امداد کرنا۔ اس بارہ میں بھی ایسوسی ایشن اچھا کام کر سکتی ہے اور اِنْشَائَ اللّٰہُ کرے گی۔ سرِدست طلباء کی فوری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے تین سَو کی رقم اپنی طرف سے منظور کی ہے جس سے مستحق طلباء کو امداد دی جائے گی۔ اس کیلئے مولوی عبدالاحد صاحب، مسٹر غلام نبی صاحب گلکار، مولوی عبداللہ صاحب وکیل، خواجہ صدرالدین صاحب اور میر مقبول شاہ صاحب کی سب کمیٹی مَیں تجویز کرتا ہوں۔ اگر ان میں سے کسی کو اس سب کمیٹی میں کام کرنا منظور نہ ہو، تو باقی ممبر مل کر کام کریں اور فوراً مستحق طلباء کی درخواستوں پر غور کر کے کتب وغیرہ کی امداد دیں۔ مولوی عبدالاحد صاحب ہمارے مبلّغ ہیں اور سیاسی کاموں سے الگ رہتے ہیں لیکن چونکہ یہ کام سیاسی نہیں بلکہ تعلیمی اور تمدّنی ہے میں نے اس کمیٹی میں ان کو ممبر مقرر کیا ہے۔
آخر میں مَیں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ قانون کے اندر رہ کر استقلال سے کام کریں۔ جس طرح رات ہمیشہ نہیں رہتی آپ لوگوں کی تکالیف بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی، آخر کامیابی کا دن چڑھے گا۔ اور وہ دن انہی کیلئے مبارک ہو گا جنہوں نے اِس وقت قومی کام کیلئے قربانیاں کی ہیں۔ دوسرے لوگوں کا منہ اُس دن کالا ہو گا اور اپنی شرمندگی اور ندامت کو چُھپانے کا کوئی ذریعہ انہیں نہیں ملے گا۔پس اے بھائیو! ہمت کرو اور صبر سے کام لو اور استقلال سے قانون کے اندر رہتے ہوئے کام کرتے چلے جاؤ کہ خداتعالیٰ کی مدد ظالم کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ اپنی بے بسی اور بے کسی کو نہ دیکھو، اپنے خدا کی طرف دیکھو جو بے بسوں اور بیکسوں کا یار ہے۔ وہ خود آپ کیلئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کر دے گا اور غیب سے نصرت کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔ جو بات آج ناممکن نظر آتی ہے، کل کو ممکن ہی نہیں آسان نظر آئے گی۔ آج جسے آپ قربانی خیال کرتے ہیں، کل اسے کھیل سمجھیں گے۔ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آپ کی امداد اِنْشَائَ اللّٰہُ کروں گا اور میں اس وعدہ پر قائم ہوں اور خداتعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس امداد میں برکت دے گا۔
وَاٰخِرُ دَعْونَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
خاکسار
میرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان
(ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد۶ صفحہ۴۰)
۱؎ ڈی ولیرا ایمن EAMON DE VALERA (۱۸۸۲ء۔۱۹۷۵ء) آئرلینڈ کا مدبر۔ نیویارک میں پیدا ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں بغاوت ایسٹر میں حصہ لینے پر قید ہوا۔ ۱۹۱۷ء میں سن فین کا صدر بنایا گیا۔ ۱۹۳۸ء میں وزیر اعظم بنا۔ دوسری عالمی جنگ میں آئرلینڈ کو غیر جانبدار رکھا۔ ۱۹۴۸ء میں شکست کھائی مگر ۱۹۵۱ء،۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۷ء میں پھر عہدہ سنبھالا۔ ۱۹۵۹ء میں وزارت عظمیٰ سے استعفٰی دیا اور صدر منتخب ہوا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۴۳۴ لاہور ۱۹۸۷ء)



اہالیانِ سندھ و کراچی کے نام پیغام





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اہالیانِ سندھ و کراچی کے نام پیغام
اختلافِ مذاہب کے باوجود تمدنی‘علمی اور اقتصادی امور میں اتحاد ہو سکتا ہے
(تقریر فرمودہ ۱۷ فروری ۱۹۳۶ء بمقام کلارنی ہوٹل کراچی)۱؎
مجھے سب سے پہلے ان احباب کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے جنہوں نے اپنے کاموںکا حرج کر کے یہاں آنے کی تکلیف گوارا کی ہے پھر مَیں اس بات کی معذرت کرنا چاہتا ہوںکہ میں انگریزی میں نہیں بول سکوں گا۔ اِس مجلس میں بعض احباب ایسے ہیں جو اُردو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے۔ گو مَیں انگریزی سمجھ لیتا ہوں لیکن افسوس ہے کہ بولنے میںحجاب محسوس کرتا ہوں اور یہ میرے لئے ایک مشکل ہے جس میں سے مجھے کئی دفعہ گزرنا پڑا ہے۔ چنانچہ ۱۹۲۴ء میں جب مَیں یورپ گیا تو سائز مسولینی کی ملاقات کے انتظام کے لئے جو اُن دنوں بھی خاصی شُہرت حاصل کر چکا تھا، میں نے خان ذوالفقار علی خان صاحب کو جو علی برادران کے بڑے بھائی ہیں اور اُن دنوں میرے چیف سیکرٹری تھے، سفیر برطانیہ کے پاس بھیجا۔ اُن دنوں ایک سوشلسٹ لیڈر کی لاش برآمد ہوئی تھی جو کچھ مدت سے غائب تھا اور اس کی وجہ سے ملک میں سخت شورش اور بے چینی پیدا ہو رہی تھی۔ اس لئے اُن دنوں مسولینی نے ملاقات بند کی ہوئی تھی۔ لیکن اس خیال سے کہ مَیں دُور سے آیا ہوں اور ایک جماعت کا امام ہوں انہوں نے ملاقات منظور کر لی جب مَیں اُن سے ملنے گیا تو خان ذوالفقار علی خان صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ اٹیلین میں بات کرتا تھا اور اُس کا سیکرٹری انگریزی میں ترجمہ کر کے خان صاحب کو بتاتا تھا اور پھر خان صاحب مجھے اُردو میں ترجمہ کر کے بتاتے تھے۔ مَیں اُردو میں بات کرتا تھا جس کا انگریزی ترجمہ کر کے خان صاحب مسولینی کے سیکرٹری کو بتاتے تھے وہ اٹیلین میں ترجمہ کر کے مسولینی کو سناتا تھا تھوڑی دیر کے بعد مسولینی اور اُن کا سیکرٹری دونوں ہنس پڑے۔ مجھے یہ عجیب بات معلوم ہوئی میں نے خاں صاحب سے کہا۔ ان سے پوچھئے کہ یہ کیا بات ہے۔ خان صاحب کے پوچھنے پر اُس نے کہا بتاؤ یہ جو آپ کے امام ہیں انگریزی سمجھتے ہیں؟ خان صاحب نے کہا ۔ سمجھتے تو اچھی ہیں لیکن بولنے میں حجاب محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ بس اسی لئے ہم ہنسے ہیں۔ کیونکہ آپ ان کی بات کا ترجمہ کر رہے تھے کہ فوراً انہوں نے روکا کہ آپ نے اس حصہ کا غلط ترجمہ کیا ہے اور پھر کہا کہ یہی حال مسولینی کا ہے وہ بھی انگریزی سمجھتا ہے لیکن بولنے میں حجاب محسوس کرتا ہے۔
تو آج بھی میرے راستے میں وہی مشکل حائل ہے اس لئے مَیں معذرت کرتا ہوں کہ مَیں انگریزی میں تقریر نہیں کروں گا۔
اس کے بعد میں ایک بات ایڈریس کی غلطی کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ ایڈریس میں بیان کیا گیا ہے کہ میں پہلی دفعہ حج کو جاتے ہوئے کراچی آیا تھا۔ چونکہ پنجاب کے حاجی عموماً کراچی سے گزرتے ہیں۔ اس لئے ہمارے ایڈریس پڑھنے والے دوست نے بھی فرض کر لیا کہ میں بھی کراچی سے گزرا ہوں گا۔ حالانکہ میں ایک اٹیلین جہاز میں بمبئی سے مصر گیا تھا اور وہاں سے حج کے لئے مصری جہاز پر جدہ گیا۔
اس کے بعد مَیں مختصر طور پر اپنے دوستوں کی خواہش کے مطابق اہلِ کراچی اور اہلِ سندھ کے نام ایک پیغام دیتا ہوں۔ مگر چونکہ یہ تقریب کھانے کی تھی نہ کہ تقریر کی اس لئے میں اس امر کا خیال رکھوں گا کہ شامل ہونے والے احباب کا زیادہ وقت خرچ نہ ہو۔ میرا پیغام یہ ہے کہ دنیا میں اختلاف کبھی نہیں مٹ سکتا۔ جب ایک باپ کے دو بیٹوں کی شکلوں میں اختلاف ہوتا ہے تو یہ امید رکھنا کہ تمام دنیا کی طبائع ایک ہو جائیں اور سب اختلافات مٹ جائیں ناممکن ہے۔ لیکن ایک چیز ہم کر سکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم کرتے نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اگر یقین کر لیں کہ ہمیں ایک خدا نے پیدا کیا ہے اور اس کے تعلقات ماں باپ کے تعلقات سے بھی زیادہ ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ باوجود اختلاف کے ہم ایک دوسرے سے مخلصانہ تعلقات نہ رکھ سکیں۔ چونکہ اس مجلس میں غیر مُسلم احباب بھی شامل ہیں مَیں انہیں بھی بتاناچاہتا ہوں کہ ایک دفعہ ہمارے آنحضرت ﷺ ایک جنگ میںشامل تھے۔ آپ پر مکہ والوں نے حملہ کیا تھا دورانِ جنگ میں ایک عورت جس کا بچہ کھویا گیا گھبرائی ہوئی دیوانوں کی طرح پھر رہی تھی۔ اور وہ اپنے اس غم اور جستجو میں اس بات کو بُھول گئی تھی کہ لڑائی ہو رہی ہے اُسے دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے بعض صحابہ سے جو حضور کے اِردگرد تھے۔ فرمایا دیکھو! کیسی خطرناک جنگ ہو رہی ہے یہ عورت دیکھ رہی ہے کہ مکہ والے شکست کھا کر بھاگے جا رہے ہیں اور چاروں طرف قتل و خونریزی کا میدان گرم ہے۔ مگر اِس کی نظر میں صرف ایک چیز ہے اور وہ یہ کہ اس کا بچہ مل جائے۔ چنانچہ کچھ دیر جستجو کرنے کے بعد اُسے اُس کا بچہ مل گیا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔ تو اُس وقت بھی اپنی خوشی میں اس بات کو بھول گئی کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے یہ نظارہ دیکھا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا۔ تم نے اسے دیکھا کہ یہ کیسے اطمینان سے بیٹھی ہوئی ہے پھر فرمایا جس طرح اِس عورت کے دل میں اپنے کھوئے ہوئے بچہ کے ملنے سے محبت کے جذبات موجزن ہیں اِس سے بدر جہا زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے کھوئے ہوئے بندہ کے دوبارہ رجوع سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔۲؎ اور یہ ایک عقلی بات ہے اگر چند ماہ تک پیٹ میں رکھنے والی عورت کو اپنے بچہ سے اس قدر محبت ہو سکتی ہے کہ وہ اس کی علیحدگی کو تھوڑی دیر کے لئے بھی گوارا نہیں کر سکتی تو وہ خدا جو انسان کا خالق و مالک اور ربّ ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اپنے بندوں کے لئے اس کی محبت اس عورت سے بھی کم ہو۔
پس جبکہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو ماں باپ کے رشتہ سے زیادہ قوی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے آپس کے تعلقات خراب ہوں جبکہ ایک بھائی دوسرے بھائی کا عیب دیکھ کر ذلیل نہیں کرتا بلکہ اُس کی عیب پوشی کرتا ہے اور اُس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً ایک بھائی اگر چور ہے تو دوسرا بے شک اُس کے چوری کے فعل کو تو حقارت کی نظر سے دیکھے گا لیکن بھائی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس کی اصلاح کی کوشش کرتا۔ اسی طرح بے شک ہمارا آپس میں اختلاف ہے لیکن اگر ہم خداتعالیٰ کے رشتہ کو محسوس کریں تو جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اچھے اخلاص سے عاری ہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم خداتعالیٰ کے تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش نہ آئیں۔ مَیں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ سارے مذاہب سچے ہیں۔ بے شک سارے مذاہب اپنے اصل کے لحاظ سے خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن ایک لمبا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے ان میں ایسی تبدیلیاں ہو گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے ان مذاہب کی موجودہ شکل اور ابتدائی شکل میں بُعْدَالْمَشْرِقَیْنِ ہے اور ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ موجودہ صورت میں یہ تمام عقیدے خداتعالیٰ تک پہنچاتے ہیں لیکن باوجود اِس قدر اختلاف کے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اِس اختلاف کی وجہ سے آپس میں لڑنا بے معنی ہے۔
ہمارے رسول کریم ﷺ کے حالات میں اس اصل کی ایک نہایت لطیف مثال موجود ہے۔ نجران جو یمن کا ایک حصہ ہے وہاں کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں مذہبی بحث کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ گفتگو لمبی ہو گئی۔ ایک دن (جو غالباً اتوار کا دن ہو گا کیونکہ تین دن کی گفتگو میں صرف ایک دن نماز کا ذکر آتا ہے) عصر کے وقت انہوں نے اس خیال کا اظہار کر کے بحث کو ختم کرنا چاہا کہ ہماری نماز کا وقت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ مسجد خدا کا گھر ہے تم اِسی میں عبادت کر لو۔ چنانچہ اُسی جگہ اسی مسجد میں رسول کریم ﷺ کے سامنے ان لوگوں نے اپنی عبادت کر لی۔۳؎ اگر ہمارے آنحضرت ﷺ اخلاق کا یہ نمونہ دکھاتے ہیں اور پھر ایسے موقع پر جہاں تو حید اور شرک کا اختلاف ہے تو اِس میں ہمارے لئے ایک نہایت قیمتی سبق چھوڑتے ہیں کہ ہمیں مذہبی اختلاف کی وجہ سے آپس کی رواداری کو نظرانداز نہیںکرنا چاہئے۔
میں نے خود ۱۹۲۴ء میں لنڈن کی مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے اِس واقعہ کو مدنظر رکھ کر اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص مسجد کے نظام کی پابندی کرتے ہوئے اِس مسجد میں اپنی عبادت کرے تو خواہ وہ کسی مذہب و ملّت کا ہو اِس کی اجازت ہو گی۔ مجھے یاد ہے کہ جب مَیں نے یہ اعلان کیا تو یورپین لوگ نہایت حیرت زدہ ہو کر کہنے لگے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ مسلمان دوسروں کے قتل کی فکر میں رہتا ہے اور آپ نے یہ تعلیم بیان کی ہے۔
اپنی عبادت گاہ میں نظام کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوسروں کو عبادت کی اجازت دینا ہرگز کوئی معیوب بات نہیں بلکہ یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے اس سے ہمارے دل میں خدا کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ دیکھو اگر میرے سامنے کوئی شخص میرے والدین سے محبت کا اظہار کرے تو مَیں خوش ہی ہوں گا ناراض نہیں ہوں گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا میں مذاہب کی اِس خصوصیت کو بالکل چھوڑا جارہا ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ کے احسانات میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے مُخْتَلِفُ الْخیال فِرقوں اور قوموں کے درمیان صلح کا ایک نہایت احسن طریق پیش فرمایا۔ آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کا کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّخَـلَافِیْھَانَذِیْرٌ۴؎ یعنی دنیا میں کوئی قوم نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی نہ گزرا ہو۔ اپنی متعدد کتب اور تقریروں میں ذکر فرمایا ہے۔ اِس تعلیم کے ماتحت آپ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں ہندوؤں کے نبیوں کو بھی مانتا ہوں۔ عیسائیوں کے نبیوں کو بھی مانتا ہوں کیونکہ اس میں قرآن کریم کی سچائی کا ثبوت ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کی اِس تعلیم کو اپنا اصول قرار دے لیں جس پر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے بہت زور دیاہے تو ہمارے آدھے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ اِسی سندھ میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کا ذکر مناسب نہیں مگر ان کی وجہ سے قومی لڑائیاں ہوئیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ لڑائیاں عارضی ہوتی ہیں مگر ہم عارضی لڑائی بھی کیوں ہونے دیں۔ وہ خدا جو ربّ العالمین ہے۔ ہندوؤں کا بھی ویسا ہی ربّ ہے جیسا مسلمانوں کا۔ عیسائیوں کو بھی اسی طرح روزی دیتا ہے جیسی یہودیوںکو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس نے جسمانی غذا تو تمام اقوام کو پہنچائی ہو لیکن روحانی طور پر راہنمائی کے لئے صرف کسی ایک قوم کو چُن لیا ہو۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے بزرگوں کا ادب اور احترام کریں کہ اِسی میں ہمارے بزرگوں کا ادب و احترام مخفی ہے۔
سندھ ایک نیا صوبہ بننے والا ہے نئے لوگوں کو نئی روایات قائم کرنا ہوتی ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ سندھ کے لوگوں میں باوجود شدید اختلافِ مذہب کے تمدنی، علمی اور اقتصادی تعلقات میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو اور وہ یہ سمجھیں کہ ہم سارے خدا کے بندے اور اُس کی مخلوق ہیں۔ خدا جس طرح ہندو کی بہتری چاہتا ہے عیسائی کی بھی ویسے ہی چاہتا ہے اور مسلمان کا بھی وہی مالک ہے۔ کئی چھوٹے بھائی ہوتے ہیں جو بڑے بھائیوں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح میں کہتا ہوں کہ علمی، اقتصادی اور تمدنی تعلقات کو اُس معیار تک بلند کر لوکہ یہ چھوٹا صوبہ بڑا بن جائے اور دوسروں کے لئے نمونہ ہو۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے تو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی صداقت اور ادب و احترام کے لئے صرف اسی ایک تعلیم کا پیش کرنا ہی کافی ہے۔ دیکھو! آپ وہ انسان ہیں جنہیں نبیوں کو گالیاں دینے والا کہا جاتا ہے گو آج اس عظیم الشان اور بلند پایہ تعلیم کی لوگ قدر نہ کریں لیکن ایک زمانہ کے بعد اس کی بہت قدر ہو گی۔ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ بظاہر نبی ناکامی کی صورت میں چلا جاتا ہے لیکن کچھ مدت کے بعد اس کی قدر کرنے والے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اِس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے بزرگ غلطی پر تھے اور یہ کہ ہماری بہتری اور نجات کا یہی ذریعہ تھا جسے ہمارے بزرگوں نے ردّ کر دیا۔ بے شک اس بات میں ایک رنج پایا جاتا ہے مگر ہمیشہ اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے کہ ایک مصلح کے وقت میں اُس کی تعلیم کی قدر نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اسے سخت سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حقیقی کامیابی کے لئے انسان کو ایک صلیب پر چڑھنا پڑتا ہے چنانچہ اسی صلیب پر بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو چڑھنا پڑا اور اِسی پر ہم چڑھ رہے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ اختلاف کُلّی طور پر نہیں مٹ سکتا مگر میرے دل میں کبھی کسی ہندو،سکھ یا عیسائی کیلئے نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ میں اس معاملہ میں یہاں تک تیار ہوں کہ اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ مَیں نے کبھی کسی ہندو، عیسائی یا سکھ کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ میری عمر اِس وقت ۴۷ سال ہے مگر اس میں سے ایک لحظہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں میرے دل میں کسی شخص کے متعلق دشمنی کے جذبات پیدا ہوئے ہوں۔ مگر مخالفتوں کی صلیب ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ تمام ترقیات مشکلات میں سے گزر کر حاصل ہوتی ہیں۔
پس میں اہلِ سندھ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مذہبی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی عزت کریں۔ مذہب کے متعلق بیشک غیرت رکھو لیکن عقائد کے لحاظ سے نہ کہ انسانوں کے لحاظ سے۔ عیب دار سے نفرت کرنا ظلم ہے ہاں عیب سے نفرت کرنی چاہئے۔ جب جسمانی بیمار کی ہمدردی ضروری ہے تو روحانی بیمار کا تو اور بھی زیادہ خیال ہونا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت کی رعایت کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس وقت مَیں نے کافی کہہ دیا ہے پھر کبھی اگر موقع ملا تو تفصیلی طور پر بیان کر سکتا ہوں۔
جب ہمارا اللہ جو سارے جہانوں کا مالک ہے تمام لوگوں کا ربّ بنتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان سے نفرت کا اظہار کریں۔ اگر ہم اپنے رب کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوں تو ہمارا فرض ہے کہ دوسروں کی عزت کریں اس نصیحت کے بعد مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔
(الفضل ۲۶۔فروری ۱۹۳۶ء)
۱؎ ۱۷۔فروری ۸ بجے شام کلارنی ہوٹل میں جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اعزاز میں ایک شاندار ڈنر دیا گیا۔ جس میں ہندو، مسلم اور عیسائی ہر طبقہ کے معزز اصحاب شامل تھے۔ قاضی خدا بخش صاحب میئر آف کراچی، ڈاکٹر شراف صاحب چیف آفیسر رائے بہادر،سیٹھ شورتن مہتہ، مسٹر حویلی والا ایڈیشنل جوڈیشل کمشنر، مسٹر ڈی۔پی۔دستور، مسٹر ٹکم داس دادھومل ایکس میئر، ڈاکٹر سعید، مسٹر حاتم اے علوی، مسٹر حاتم طیب بی بار ایٹ لاء، مسٹر محمد اسلم بار ایٹ لاء، ڈاکٹر ہنگورانی، ایڈیٹر ڈیلی گزٹ، ایڈیٹر سندھ آبزرور۔ ایڈیٹر آفتاب، پرنسپل رام سہائے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد حاجی عبدالکریم صاحب وائس پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کراچی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔ جس کے جواب میں حضور نے یہ تقریر فرمائی۔
۲؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقتہ
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ ۲۳۹۔ مطبع محمد علی صبیح میدان الازھر مصر ۱۹۳۵ء
۴؎ فاطر: ۲۵
 
Top